Professional Documents
Culture Documents
القران الحکیم
القران الحکیم
اور یہ منافق حکمران لوگ جب امن و امان قائم کرنے والے مومنوں سے ملتے ہیں تو
کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ،اور جب اپنے ملوکیتی غریب دشمن نظام چالنے
والےشیطانوں میں جاتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں اور پیروان
محمد ﷺسے تو ہم فقط ہنسی مزاق کیا کرتے ہیں)(14
حقیقت میں تو ان منافق عیاش حکمرانوں سے قدرتی مکافات عمل کے اٹل قوانین ہنسی
مزاق کرتے ہیں اور انہیں مہلت دیئے جاتے ہیں (جیسے کہ پانی کا آگ پر اُبلنے کا
ایک خاص وقت مقرر ھے ( پر یہ مفاد پرست اپنی ہی مستی میں مست ہو کر شرارت
وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں)(15
یہ وہ بد بخت مفاد پرست حاکم لوگ ہیں جنہوں نے شک سے پاک انسان دوست ہدایت
چھوڑ کر مشکُوک گمراہی خریدی ،تو نہ تو ان کی مفاد پرستی کی تجارت ہی نے انہیں
کچھ نفع دیا اور نہ ہی وہ انسانیت کے بارے میں ہدایت یاب ہو پائے)(16
ان مفاد پرستوں کی مثال اُس شخص کی سی ہے کہ جس نے کالی اندھیری رات میں
روشنی کی غرض سے آگ جالئی۔ جب آگ نے اس کے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو
تیز ہوا نے اچانک آگ کی روشنی زائل کر دی اور ان کو پھر ایسے اندھیروں میں چھوڑ
دیا کہ یہ اب کچھ دیکھ ہی نہیں سکتے)(17
تو یہ مفاد پرست حکمران اسی مثال کی طرح انسان دوست روشنی سے محروم ہو گئے
ہیں اور بہرے ،گونگے ،اندھے ہوئے پڑے ہیں کہ یہ اب کسی طرح بھی شک سے پاک
ہدائیت کے بنا سیدھے رستے کی طرف لوٹ ہی نہیں سکتے)(18
اونچائی سےیا ان مفاد پرست حکمرانوں کی مثال بارش کی سی ہے کہ ان پر بُلندی و ُ
پانی برس رہا ہو تو بہت خوش ہوتے ہیں پر یہ حق کی راہ سے بھٹکے ہوئے حکمران
لوگ اندر سے حقیقتا اتنے ڈرے ہوئے ہوتے ہیں کہ جب اس بارش میں اندھیرے
پراندھیرا چھا تا جا رہا ہو اور بادل گرج رہا ہو اور بجلی کُوند رہی ہو تو یہ بجلی کی
کڑکڑاہٹ سے ڈر کر موت کے خوف سے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں تواس مثال
سے یہ اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ قدرت کے مکافات عمل کے اٹل قوانین سالمتی و
فالح کے دین نظام کے دشمن کافر حکمرانوں یعنی سفّاک ترین سنگدل حکمرانوں کو ہر
طرف سے اسی طرح گھیرے ہوئے ہوتے ہیں)(19
یا اسے یوں سمجھا جائے کہ جب بجلی کی تیز چمک ان کی آنکھوں کی بصارت کو
عارضی طور پر ُچندھیا دے ۔ پر جب یہ بجلی لمحہ بھر کیلیئے چمکتی اور ان پر روشنی
ڈالتی ہے تو یہ اس روشنی کی دکھائی راہ میں کچھ دُور تک چل پڑتے ہیں اور جیسے ہی
دوبارہ اندھیرا ہو جاتا ہے تو وہیں کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں یہ تو حال ھے ان
مفادی حکمرانوں کا کہ اگر قدرت کے اٹل قوانین کی ُرو سے ان کے کانوں کی شنوائی
اور آنکھوں کی بینائی دونوں زائل ہو گئی ہوتیں تو پھر بھال یہ کیا کرتے ؟ کہ قدرت کے
قوانین تو ہر شے پر قادر ہیں ۔)(20
تو حکمران لوگو !تم اپنے پروردگار کے شک سے پاک احکام کی اطاعت و فرمانبرداری
کرو تا کہ سب کی سالمتی و فالح کا دین نظام قائم کر سکو کہ جس نے تم کو اور تم سے
پہلے کے حکمران لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم اسکے احکام کی نافرمانی کے باعث آنے
والی زلت بھری زندگی کے عذاب سے بچ سکو)(21
جس قدرت نے تمھارے لیے زمین کو رہائش و فصل کیلیئے بچھونا اور اوپر اونچائیوں
کو محفوظ چھت بنایا اور بلندئیوں سے مینہ برسا کر تمہارے کھانے کے لیے انواع و
اقسام کے میوے زمین سے پیدا کئے۔ پس کسی کو قدرت کا ہمسر نہ بناؤ۔ اور تم یہ بات
بخوب جانتے تو ہو)(22
اور اگر تم ،ظلم کا غریب دشمن ملوکیتی نظام چالنے والوں کو اس کتاب میں ،جو ہم نے
اپنے بندے محمد ﷺعربی پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کا سب کی
سورت یعنی باب ،چیپٹر تم بھی بنا الؤ اور قرانی ہللا کے سوا
سالمتی و فالح بھری ایک ُ
جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی باللو اگر تم سچے ہو)(23
لیکن اپنے انسانیت کو چکمے دینے والے منشور بنا کر بھی اگر ایسا نہ کر سکو اور
ہرگز نہیں کر سکو گے تو اس موجودہ جہنمی غریب دشمن نظام کی آگ سے ڈرو کہ
جس کا ایندھن سب انسانیت کے ساتھ تم پتھر دل بھی ہوجاؤ گے جو خاص کر ظلم کا نظام
چالنے والے کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے)(24
اور جو لوگ سب کی سالمتی و فالح کے قرانی دین نظام سسٹم پر ایمان الئے اور اس
نظام کے زریعے سب کی سالمتی و فالح کے نیک عمل کرتے رہے ،ان کو خوشخبری سنا
دو کہ ان کے لیے اس نظام کے نتیجے میں نعمتوں /ثمرات بھرے باغ ہیں ،جن کے
نیچے زندگی کی شادابی و سیرابی کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ جب ان سب کو اس نظام کے
زریعے سے کسی قسم کا میوہ برابری کے حقوق کے ساتھ کھانے کیلیئے دیا جائے گا تو
یہ سب کہیں گے ،یہ تو وہی ہے جو ہم کو پہلے جنتی زندگی میں دیا گیا تھا کہ جس میں
زن ،زر ،زمین کا کوئی جھگڑا نہیں تھا ۔ اور اس نظام میں ان کو ایک دوسرے کے ہم
شکل میوے پاکیزہ ساتھیوں کی صورت دیئے جائیں گے اور وہ جنتی نظام میں ہمیشہ
ساتھ رہیں گے)(25
قرانی ہللا اس بات سے ہرگز نہیں شرماتا کہ اپنی بات سمجھانے کیلیئے مچھر یا اس سے
بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے ،جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں ،وہ
انہی معمولی سی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی
طرف سے آیا ہے ،اور جو ماننے والے نہیں ہیں ،وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ
ایسی معمولی تمثیلوں سے ہللا کو کیا سروکار؟ اس طرح قرانی ہللا کی باتوں سے بہت
سے کم عقل جذباتی بیمار گمراہی میں مبتال ہو جاتے ہیں اور بہتوں کو راہ راست دکھ
جاتی ھے اور گمراہی میں وہ ہی مبتال ہوتے ہیں ،جو فاسق یعنی ایک دوسرے کو پھاڑ
دینے والے ہوتے ہیں)(26
جو حکمران لوگ سب کی سالمتی بھرے دین نظام کے اقرار ،وعدہ ،معاہدہ کو
مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز یعنی انسانیت کے رشتے کو جوڑے
رکھنے کا ہللا نے اپنے دین نظام کے تحت حکم دیا ہے اسی کو قطع کئیے ڈالتے ہیں اور
زمین میں فساد و خرابی کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں)(27
تم حکمران لوگ سالمتی و فالح کی راہ پا جانے کے بعد قرانی ہللا کے ساتھ ناشُکری بے
رویہ کیسے اختیار کرسکتے ہو ؟ توقیری کا ّ
حاالنکہ تم اس ضابطہ حیات سے پہلے " اُمت مرحوم " کی طرح بے جان تھے یعنی تم
ایک دوسرے کی جان ،مال ،عزت کے دشمن تھے ) پھر قرانی ہللا نے تم کو زندگی
بخش ضابطہ ء حیات عطا کیا کہ "کان الناس اُمۃ واحدہ " اور جان لو کہ اسکی خالف
ورزی میں پھر سے بے جان ہو جاؤ گے ،لیکن بے جان ہو جانے کے بعد جب بھی تم
اس زندگی بخش ضابطہ ء حیات کو اپنا لو گے تو پھر زندہ ہو جاؤ گے ،کہ آخر کار تمام
انسانیت کواپنی زندگی جنتی اور امر بنانے کیلیئے اسی حیات بخش قرانی قوانین کو اپنانا
ہو گا)(28
وہی تو قدرت عظیم ہے ،جس نے تمہاری بہترین زندگی بنانے کے لیے زمین سے ساری
چیزیں پید ا کیں ،پھر تمہاری حفاظت کیلیئے زمین سے اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور
سات حفاطتی بلندیاناونچائیاں استوار کیں اور جان لو کہ قدرت کے اٹل قوانین تو ہر شے
پر محیط ہیں)(29
پھر ذرا اس انتہائی غوروفکر کے قابل گہری اور خوبصورت تمثیلی بات کا تصور کرو کہ
جب تمہارے پالنے والی قدرت نے کائناتی قوتوں سے کہا کہ میں زمین میں انساں کو
حکمران بنانے واال ہوں "تو انہوں نے عرض کیا" :کیا آپ زمین میں کسی ایسی ہستی کو
مقرر کرنے والے ہیں ،جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور زمین میں خونریزیاں کرے
گا جبکہ ہم آپ کو سراہتے ہوئے فرمانبرداری کے ساتھ تعریف و تقدیس تو کر ہی رہے
ہیں
"قدرت نے جواب میں فرمایا" :میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے)" (30
اس کے بعد قدرت نے آدم کو قدرتی چیزوں میں غوروفکر سے ایجاد کرنے پھر ان کے
نام رکھنے سکھائے ( یعنی قدرت نے آدمی میں اشیاء دریافت و ایجاد کرنے اور ان کے
نام رکھنے کی صالحیت رکھ دی جو کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں ) ،پھر انہیں کائناتی
قوتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا" اگر تمہارا خیال صحیح ہے کہ کسی انسان کے
تقرر سے دنیا کا انتظام بگڑ جائے گا تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ)" (31
کائناتی قوتوں نے عرض کی ،نقص سے پاک تو قدرت ہی کی ذات ہے ،ہم تو بس اتنا ہی
علم رکھتے ہیں ،جتنا قدرت نے ہم کو دیا ہے ،حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے
واال قدرت کے سوا کوئی نہیں)" (32
پھر قدرت نے آدم سے کہا" تم انہیں ان چیزوں کے نام بتاؤ "جب اس نے ان کو اُن سب
سموات وکے نام بتا دئیے ،تو قدرت نے فرمایا" میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں ٰ
ارض کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں ،جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو،
وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو ،اُسے بھی میں جانتا ہوں "کہ
قدرت کے قوانین ہر شے پر محیط ہیں)(33
اور پھر ذرا اس انتہائی غوروفکر کے قابل گہری اور خوبصورت تمثیلی بات کا تصور کرو
کہ جب قدرت نے کائناتی قوتوں کو حکم دیا کہ تم سب اب آدم کے احکام پر عمل کرو تو
وہ سب آدم کے احکام پر عمل کرنے کیلیئے سجدے میں گر پڑے کہ اے آدم تم ہم کائناتی
قوتوں سے کام لو مگر انسان کے اندر با اختیار ،قدرتی ، Built inمایوس کُن جزبہ
ابلیس نے انکار کیا اور غرور میں آکر انسانیت کا دشمن یعنی کافر بن گیا)(34
اور قدرت نے انسانیت سے کہا کہ اے آدم تم اپنے پاکیزہ سیرت یعنی ہر قسم کے تعصب
،نفرت ،انا سے پاک ساتھیوں کے ساتھ بہشت میں رہو اور اس غیر تمدنی جنت میں
خوب انجوائے کرو اور جہاں سے چاہو جتنا چاہو بے روک ٹوک کھاؤ پیو لیکن خبردار
اُس درخت کے پاس نہ جانا کہ جس کا تنا تو ُخوب تناور ہوتا ھے پر جس کی شاخیں
پھیل کر تقسیم ہو کر نہائیت کمزور ہو جاتی ہیں تو اس طرح باہمی اختالفات و تفرقات
سے کمزور ہو کر خود پر ظلم کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے)(35
قدرت کی اس قدر واضح ہدائیت کے بعد انسان میں پیوست مفاد پرستی کے ابلیسی
جزبات نے جنت /غیر تمدنی دور کے پاکیزہ ساتھیوں کے درمیان باہمی اختالفات نفرت و
تعصب و تفرقات ڈال کر دونوں کو اُس مقام سے پھسال دیا اور وہ جس عیش ونشاط میں
تھے ،وہاں سے اُن کو نکلوا دیا ۔ تب قدرت کے مکافات عمل نے حکم دیا کہ اب بہشت
بریں کی زندگی سے چلے جاؤ۔ تم اب ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے ہو ،اور
تمہارے لیے جہنمی زمین میں اُس وقت تک ٹھکانا اور معاش مقرر کر دیا گیا ہے جب
تک کہ تم اب دوبارہ تمدنی طور پر ایک نہیں ہو جاتے ()36
جنتی زندگی سے نکلتے وقت یعنی تمدّنی زندگی میں داخل ہوتے وقت ،آدم نے قدرت کے
الزمی پیروی کے چند اٹل قوانین
( مثال زمین سے اگر فصل لینی ھے تو اب اُس میں بیج بونے کی محنت کرنا ہو گی )
سیکھ کر قدرت کے قوانین کا اعتراف کر کے توبہ کی ،جس کو اس کے رب نے قبول کر
لیا ( کہ انہیں اس طرح محنت کے صلے میں فصل دینا شروع کر دیا ) ،کیونکہ قدرت کے
قوانین بڑے معاف کرنے والے اور رحم فرمانے واال ہیں ()37
قدرت نے جب جنتی زندگی سے انسانیت کو اُتارا تو ساتھ ہی یہ آگاہی شعور بھی دے دیا
کہ اب جو بھی ہدائیت سب انسانیت کی سالمتی و فالح کی بابت ہو گی وہی کامیاب رھے
گی ،تو جو لوگ سب کی سالمتی و فالح کے قوانین و ہدایت کی پیروی کریں گے ،وہ
کبھی کسی خوف اور رنج میں مبتال نہ ہو نگے ()38
اور پھر جو حکمران سب کی سالمتی و فالح کا نظام یعنی قدرت کے دئیے رزق و وسائل
کی انسانوں میں برابری کی بنیاد پر منصفانہ تقسیم نہیں کریں گے اور اس قانون کو قبول
کرنے سے انکار کریں گے اور قدرتی فطری قوانین کو جھٹالئیں گے ،تو ایسے لوگ ہی
وہ آگ میں جانے والے یعنی جہنمی زندگی اپنانے والے لوگ ہیں ،جہاں وہ ہمیشہ رہیں
گے ()39
اے قوم بنی اسرائیل !ذرا خیال کرو قدرت کی اُس نعمت کا جو تم کو قدرت کے فطری
قوانین پرعمل سے حاصل تھیں تو تمہارے لئیے بہتری اسی میں ھے کہ فطرت پر چلنے
کے اپنے اقرار کو پورا کرو جو تم نے قدرت سے کیا ہوا ھے ۔ تو جواب میں قدرت بھی
اپنے اقرار کو پورا کرے گی اور ہمیشہ قدرت کے قوانین کی خالف ورزی سے ڈرتے رہو
)(40
اور اب سب کی سالمتی و فالح کے فطری قوانین پر مشتمل یہ کتاب قران ہے ،لہٰ ذا اپنی
زندگی کو دوبارہ سے تمدنی جنتی بنانے کیلیئے اس پرعمل کی غرض سے ایمان الؤ ،
یہ اُس کتاب کی تائید میں ہی ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی جسے تم نے
مفاد پرستی کی باتیں شامل کر کے ضائع کر دیا ،لہٰ ذا سب سے پہلے تم ہی اس کے ُمنکر
نہ بن جاؤ ،اور تھوڑی قیمت کیلیئے سب کی سالمتی کے فطری قوانین کو نہ بیچ ڈالو او
ر قدرت کے غضب سے بچو)(41
اور اب اچھی طرح جان لو کبھی حق کو باطل کے ساتھ نہ مالؤ ،اور سچی بات کو جان
بوجھ کر نہ چھپاؤ کہ اس میں انسانیت کا سخت نقصان ھے)(42
اے سرمایہ پرستی کا غریب کُش عالمی نظام چالنے والے بنی اسرائیل ،تم فطری قوانین
کی پیروی کے اپنے سابقہ اقرار کو پورا کرنے کیلیئے اب شک سے پاک کتاب قران
کے بتائے فطری قوانین میں مشاورت کے زریعے سب انسانیت کی سالمتی و فالح کیلیئے
سب کی برابری کی بنیاد پر قدرتی رزق و وسائل کی منصفانہ تقسیم کا نظام
زکوۃ دے سکو اور ٰ ٰ
الصلوۃ " قائم کرو تا کہ ساری انسانیت کو ترقی و نشو نما یعنی "
جیسے تمہارے سامنے ساری کائنات قدرت کے قوانین کے آگے سر بخم ھے تم بھی اسی
طرح فطری قوانین کے سامنے سر بخم رہو)(43
یہ کیا عقل کی بات ھے؟ کہ تم بظاہر بڑی اچھی اچھی باتیں کر کے اپنے سرمایہ پرستی
اور وطن پرستی کے غریب دشمن نظام کی پیروی کیلیئے ساری انسانیت سے تقاضہ
کرتے رہتے ہو اور اپنے تئیں فراموش کئے دیتے ہو کہ آخر اس مستحکم ابلیسی نظام کا
نتیجہ سوائے سب کی تباہی کے اور کیا نکلنے واال ھے ؟ ،حاالنکہ تم اب شک سے پاک
کتاب قران بھی پڑھتے ہو۔ کیا تم میں اتنی سمجھ نہیں؟)(44
اور جان لو کہ دنیاوی ہر مصائب و مصیبت کے حل کیلیئے نہائیت استقامت و استقالل کے
ساتھ قدرت کے رزق و وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ہی مدد لیا کرو کہ یہ نظام دنیا
کی ہر مصیبت کا جڑ سے خاتمہ کر کے رکھ دے گا
صلوۃ کا یہ نظام شاہی طرز زندگی گزارنے والوں پر بہت گراں ہے ،مگر اور بے شک ٰ
ساس لوگوں پر بالکل گراں نہیں جو عجز کرنے والے ہیں انسانیت کے بارے میں اُن ح ّ
)(45
اور جو قدرت کے مکافات عمل کے قانون پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ہر عمل کا صلہ
ضرور پائیں گے یعنی جو بوئیں گے وہ ضرور کاٹیں گے اور قدرت کے اس قانون سے
کسی صورت کوئی مفر نہیں))(46
تو اے قوم بنی اسرائیل ! قدرت کے انسان دوست فطری قوانین پر عمل پیرا ہونے کے وہ
جنتی ثمرات یاد کرو ،جو قدرت نے تم پر کیئے تھے اور اسی وجہ سے قدرت نے تم کو
سارے جہان کے لوگوں پر فضیلت بخشی تھی)(47
اور اس قرانی سالمتی و فالح کے عالمی دین نظام سسٹم طریقہ کار میں ہر کسی کی
صور تو کرو کہ جب کوئی کسی کے کچھ ناجائز کام نہ آئے اور نہ کسی نا جوابدہی کا زرا ت ّ
اہل کی سفارش منظور کی جائے اور نہ کسی سے کسی طرح کے ظلم کا بدلہ قبول کیا
جائے اور نہ لوگ کسی طرح کی شارٹ کٹ و تعلقات کے زریعے مدد حاصل کر سکیں
)(48
اور قدرتی فطری قوانین پر عمل درامد کا وہ حسین خوبصورت وقت یاد کرو جب ہم نے تم
کو ظلم کا نظام چالنے والے ظالم حکمرانوں یعنی سلسلہ " فرعون " سے نجات بخشی
وہ تم کو بڑا دکھ دیتے تھے تمہارے لڑکوں کو زلّت بھرے ُمشقتی نظام میں ڈال کر ان کی
قدرتی انمول صالحیتیں قتل کر ڈالتے تھے اور لڑکیوں کو اپنے حرم کی ذینت بنانے
کیلیئے اُنہیں سجا بنا کر زندہ رہنے دیتے تھے اور اس انسانیت کُش ماحول میں میں
تمہارے لئیے بڑی سخت آزمائش تھی)(49
یاد کرو وہ وقت ،جب قدرت کے قوانین پر عمل کر کے تم فرعونوں کے ظلم کا سمندر
پھاڑ کر مستحکم ابلیسی نظام کی گرفت سے باہر آگئے تھے ،پھر تم اپنے سالمتی و فالح
سرخ رو ہوئے اور وہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے سارے کے دین نظام کی وجہ سے ُ
فرعون صفت ظالم عیاش حکمران اپنے ہی بنائے انسان دشمن نظام سسٹم میں غرقاب
ہوگئے)(50
موسی سالمتی و فالح کی دین نظام کی بابت تھوڑے زائد عرصہ کیلیئے
ٰ یاد کرو ،جب
مصروف ہو کر تم سے دُور ہوگئے تھے تو تم چونکہ ابھی مزھب کی قید سے مکمل آزاد
نہیں ہو پائے تھے تو تم نے ان کی غیر موجودگی میں اپنے مزھبی جزبات کی تسکین کی
خاطر ایک مزھبی بچھڑے کو بنا کر اس کی وہی جہالت بھری پوجا پاٹ کرنے لگے ،اُس
وقت تم نے اپنے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی)(51
موسی نے واپس آ کر تمہیں اس مزھبی جہالت سے پھر نکال لیا کہ شاید اب تم شکر ٰ مگر
گزار بنو)(52
موسی کو کتاب پر عمل کرنے کی باعث حیرت انگیز نظام کے طور پر ٰ اور جب قدرت نے
انقالبی سالمتی و فالح کے معجزے عطا کئیے ( کہ جس نظام میں کوئی انسان تو دور
کوئی کُتا بھی بھوکا اور بے سہارا نہیں رہ سکتا تھا ) تو کیا یہ سب اس باعث نہیں کہ تم
بھی ہدایت حاصل کرو)(53
موسی نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ بھائیو ،تم نے " دین اسالم " یعنی
ٰ اور جب
سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام سسٹم چھوڑ کر پھر سے پوجا پاٹ کے مزھب کو
اپناتے ہوئے اور ایک مزھبی بچھڑے کو ( معبود )ٹھہرانے میں اپنے اوپر بڑا ہی جہالت
بھرا ظلم کیا ہے کہ خود کو انسانیت کے شرف سے نیچے گرا دیا ،تو فورا توبہ کرو یعنی
اس جاہالنہ مزھب کو چھوڑ کر واپس سب کی سالمتی و فالح کے دین اسالم کی طرف چلو
اور اسکی خاطر تو بھلے اپنے آپ کو ہالکت کے خطرے میں ڈال لو کہ یہ تمہارے خالق
کے نزدیک تمہارے حق میں بہتر ہے۔ تو اس طرح تمہارے توبہ کرنے پر پھر اس نے
تمہارا قصور معاف کر دیا۔ بے شک قدرت کے قوانین معاف کرنے والے اور رحمت بھرے
ہیں)(54
موسی ،جب تک ہم تمہارے خدا کے سالمتی و فالح ٰ موسی سے کہا کہ اے
ٰ اور جب تم نے
بھرے نظام کو فوری قائم ہوتے ہوئے اپنے سامنے نہ دیکھ لیں گے ،تم پر ایمان نہیں
الئیں گے،تو تم پر ایسی بچکانہ ضد اور جلد بازی کی باعث ابلیسی نظام کی آفتیں بہت جلد
بجلی بن کر گر پڑیں اور تم معاشی بد حالی کا اپنا ابتر حال دیکھ رہے تھے)(55
موسی تم پر غیرفطری نظام کی سب سے بڑی آفت معاشی موت آ جانے کے بعد ٰ پھر اے
قدرت کے نظام کی پیروی نے تم کو دوبارہ سالمتی و فالح کا دین نظام اپنانے کے
زریعے ازسر نو زندہ کر دیا تھا کہ قدرت کا احسان مانو)(56
پر جب قدرت نے تم کو دوبارہ سالمتی و فالح کا دین نظام اپنانے کے اجر میں ازسر نو
وسلوی یعنی تمہاری مرغوب
ٰ زندہ کر دیا ،تو اُس نے تم پر اپنی رحمت کا سایہ رکھا ،من
پسندیدہ غذائیں تمہارے لیے فراہم کیں اور تمہیں آگاہی دی کہ جو پاک صاف چیزیں قدرت
نے تمہیں دی ہیں ،اُنہیں کھاؤ ،مگر تمہارے اسالف نے جو کچھ کیا وہ قدرت کے اٹل
قانون کا نتیجہ تھا جو انہوں نے خود پر نافذ کیا تھا اور قدرت کا قانون ھے کہ جو بوؤ
گے اُسے ہی کاٹو گے)(57
پھر یاد کرو جب قدرت کے قوانین نے تمہیں یہ علم و شعور دیا تھا کہ ایک ایسی بستی
بسا کر رہا جائے کہ جس میں عمدہ ترین پیداوار پیدا کریں اور مزے سے کھائیں اور
ساتھ یہ شعور بھی دیا تھا کہ اُس بستی میں قدرتی قوانین کی پیروی کرتے ہوئے ہر دم یہ
مد نظر رکھنا ہو گا کہ " حطۃ " یعنی ہمارے سابقہ جرائم ہم سے سرزد نہ ہوں گے تو
ہی قدرت کے قوانین تمہاری سابقہ خطاؤں سے در گزر کریں گے اور نیکو کاروں کو
مزید فضل و کرم سے نوازیں گے)" (58
مگر سب کی سالمتی و فالح کی جو بات کہی گئی تھی ،مفاد پرست ظالموں نے اُسے بدل
کر کچھ اور کر دیا آخر کار قدرت نے ظلم کرنے والوں پر نتیجہ خیز عذاب نازل کیا یہ سزا
تھی ان نافرمانیوں کی جو وہ کر رہے تھے
)(59
موسی نے اپنی قوم کے لیے قدرت سے پانی چاہا تو قدرت نے آگاہی دی کہ اپنے ٰ اور جب
مظبوط اوزاروں سے چٹانوں کو کھودو اور زمین کے اندر سے پانی لے لو ۔ تو پھر اس
صول کاطرح زمین میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ،اور تمام قبیلوں نے پانی کے ح ُ
اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر لیا۔ یوں قدرت نے یہ شعور دیا کہ قدرت کے عطا کردہ رزق و
وسائل کو محنت کے زریعے سے حاصل کر کے خوب کھاؤ پیو کس نے روکا ہے بھال ؟ ،
مگر ہاں دوسروں کی محنت پر قبضہ کر نے کے لئیے زمین میں فساد نہ کرتے پھرنا
()60
اور جب تمہاری قوم نے قدرت سے کئیے اپنے اقرار کہ " ہمارے بدحالی کے سابقہ
جرائم اب ہم سے سرزد نہ ہوں گے " حطۃ " کی عملی خالف ورزی کرتے ہوئے کہا کہ
موسی !ہم سے اب محنت کے زریعے ایک ہی طرح کے عمدہ قسم کے کھانے پر صبر ٰ
نہیں ہو سکتا ت ُو ان کی جگہ عام سادہ ترکاری ،ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز
وغیرہ جو نباتات زمین سے اُگتی ہیں ،ہمارے لیے بنا محنت کے پیدا کرنے کی ترکیب
کر ۔ تو تم نے کہا کہ بھال محنت کے عوض عمدہ چیزیں چھوڑ کر بغیر محنت کے عام
گھٹیا چیزیں کیوں چاہتے ہو؟ اگر یہی مطلوب ہے تو قدرت کے قوانین پر محنت سے
عمل کرنے والی بستی سے نکل کر بغیر محنت کرنے والی غربت و افالس کی بستی میں
جا کر بسنا ہو گا پھر وہاں جو مانگتے ہو مل جائے گا۔ آخر قدرت کے قانون کی خالف
ورزی پر ذلت ورسوائی اور محتاجی ان سے چمٹ گئی اور وہ قدرت کے غضب میں
گرفتار ہو گئے۔ یہ اس لیے کہ وہ قدرت کے قانون ( لیس االنسان اال ماسع ،کہ انسان کا
بہترین حق اس کی محنت کا صلہ ہوتا ہے ) کا انکار کرتے تھے اور فطری قوانین پر
عمل پیرا کرنے والے انقالبیوں کو ناحق قتل کر دیتے تھے یعنی کھلی نافرمانی کئے
جاتے اور قدرت کے قوانین کی حد سے آگے بڑھے جاتے تھے)(61
اے سرمایہ پرستی کا غریب کُش عالمی نظام چالنے والو نافرمان بنی اسرائیل ،
یہ تمہارا باطل مزھبی عقیدہ ھے کہ تم کسی مزھبی خدا کی چہیتی اوالد ہو ،اور اوپر
کوئی مزھبی خیالی آسمانی جنت ہے جو صرف تمہاری نسل کیلیئے مخصوص ہے تو یاد
رکھو کہ یہ تمہاری انتہائی جہالت پر مبنی تمہاری خام خیالی ھے کیونکہ قدرت کا اٹل
قانون تو یہ ہے کہ دنیا میں جو بھی لوگ امن وامان قائم کرنے کے زمہ دار ہیں چاہے وہ
مذھبی پیدائشی یہودی ہیں یا مذھبی پیدائشی عیسائی ہیں یا مذھبی پیدائشی ستارہ پرست
ہیں ،یعنی کوئی شخص کسی قوم و نسل و مذہب کا ہو جو بھی قدرت کے اٹل قوانین میں
غوروفکر اور اُس پر عمل کرتے ہوئے انسانی بہتری کے فیوچر یعنی سب کی بہتری کے
مستقبل پر ایمان الئے گا ،اور پھر انسانیت کی سالمتی و فالح کیلیئے نیک عمل کرے گا،
تو ایسے لوگوں کو ان کے اعمال کا صلہ قدرت کے اٹل قانون کے تحت کہ " جو بوؤ گے
وہی کاٹو گے " ضرور ملے گا اور ان کو اپنے ایسے کسی عمل پر نہ تو کسی طرح کا
خوف ہوگا اور نہ ہی وہ کبھی غم ناک ہوں گے)(62
طور کے دامن میں اور یاد کرو جب تم قدرت کے فطری قوانین پر عمل پیرا تھے اور کوہ ُ
انسانیت کے دشمن مفاد پرست تمہارے مقابل جنگ کرنے کیلیئے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے
تو تم پر الزم تھا کہ اپنی فطری قوانین کی کتاب کی پیروی کرتے ہوئے ان کا ُخوب جم کر
مقابلہ کرتے تاکہ تم پر طاری کی گئی جنگ کے عذاب سے تم محفوظ رہتے)(63
مگر افسوس کہ تم اس عہد سے پھر گئے اور اگر تم اس جنگ کے بعد از اختتام اپنے
طور پر کچھ قدرت کے قوانین پر عمل پیرا نہیں ہوتے تو تم دنیا سے ہی ناپید ہونے کے
خسارے میں پڑے گئے ہوتے)(64
پھر اے اپنے ہی عہد سے پھرے بنی اسرائیل تمہیں اپنی قوم کے اُن لوگوں کا قصہ تو
معلوم ہی ہے جنہوں نے اپنے قومی طور پر بنائے قانون کہ ہفتہ بھر کام کرنے کے ساتھ
ایک دن آرام کرنا بھی ضروری ہے ،قانون " ثبت " توڑا تھا تو قدرت کے فطری قوانین
نے اُنہیں آگاہی دی تھی کہ اگر قومی طور پر مشاورت سے قرار دئیے گئے قوانین کی
قومی اجتماعی طور پر خالف ورزی کرو گے انکی پیروی و اطاعت نہیں کرو گے تو دنیا
کے سامنے بجائے ایک مثال بننے کے مضحکہ خیز تمس ّخر کا شکار ہو جاؤ گے اور
پھر ہر طرف دھتکارے جاؤ گے)(65
اور پھر منطقی طور پر اسی طرح ہوا کہ اپنے بنائے اجتماعی قوانین کی خالف ورزی پر
اُن کے انجام کو اُس زمانے کے لوگوں اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لیے عبرت اور
ڈرنے والوں کے لیے نصیحت بنا کر چھوڑا کہ تم دنیا بھر میں ہر طرف بکھر کر رہ گئے
تھے)(66
موسی نے بچھڑے /بیل کی پوجا پاٹ میں ٰ پھراے بنی اسرائیل وہ واقعہ یاد کرو ،جب
مست مزھبی قوم سے بطور ٹیسٹ /امتحان کہا تھا کہ ہللا تمہیں ایک بیل ذبح کرنے کا
حکم دیتا ہے تا کہ تمہارے دلوں سے مزھبی بچھڑے /بیل کی محبت کے اثر کو نفسیاتی
طورپر ختم کیا جا سکے تو مزھب کی گرفت میں جکڑے ہوئے تقلیدی کہنے لگے کیا تم
موسی نے کہا ،میں قدرت کے قوانین کی پیروی ٰ ہم مذہبی لوگوں سے مذاق کرتے ہو؟
کرنے واال اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ مذھبی جاہلوں کی سی باتیں کروں)(67
تو اس پر مذھبی مستی میں ڈوبی مست قوم نے طنزیہ انداز میں مذاق اُڑاتے ہوئے اپنے
عام مزھبی جاہالنہ انداز میں کہا کہ اچھا ،اپنے پالنے والے سے کہو کہ وہ ہمیں بیل کی
موسی نے کہا ،پالنے والے کا ارشاد ہے کہ وہ ایسا بیل ہو جو نہٰ کچھ تفصیل بتائے
بوڑھا ہو نہ بہت چھوٹا بلکہ اوسط عمر کا ہو لہٰ ذا جو حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل کرو
)(68
تو وہ پھر مذھبی انداز میں کہنے لگے کہ اپنے رب سے یہ اور پوچھ دو کہ اُس کا رنگ
کیسا ہو ؟
موسی نے اس پر برجستہ کہا کہ وہ فرماتا ہے زرد رنگ کی خوب صحت مند بیل ہونا ٰ
چاہیے ،جس کا رنگ ایسا شوخ ہو کہ دیکھنے والوں کا جی خوش ہو جائے)(69
اس پر اُس مذھبی عدم تسلی بخش قوم نے کہا :آپ ہمارے لئے اپنے رب سے درخواست
کیجئے کہ وہ ہم پر واضح فرما دے کہ وہ کون سا بیل ہے؟ کیونکہ ہم پر اب ایسا بیل
مشتبہ ہو گیا ہے ،اور یقینا اگر خدا نے چاہا تو ہم ضرور ہدایت یافتہ ہو جائیں گے)(70
پرموسی علیہ السالم نے کہا ،خدا فرماتا ہے کہ وہ کوئی گھٹیا مریل سا بیمار بیل نہ
ٰ اس
اعلی نسل صحت مند توانا بیل ہو جس سے نہ زمین میں ہل ٰ ہو بلکہ یقینی طور پر ایسا
چالنے کی محنت لی جاتی ہو اور نہ وہ کھیتی کو پانی دیتا ہو ،اس میں کسی قسم کا کوئی
نقص داغ دھبہ نہ ہو ،اس پر اُن مزہبی لوگوں نے مطمئین ہوتے ہوئے کہا :ہاں اب آپ
ٹھیک بات الئے ہیں ،پھر کہیں جا کر انہوں نے ایسا بیل تالش کر کے اسے ذبح کیا
حاالنکہ وہ بچھڑے /بیل کی مذہبی محبت کی گرفت میں جکڑے ہوئے ایسا کرتے معلوم
نہیں ہوتے تھے ،کہ مزھبی عقائد کو دل و دماغ سے نکالنا آسان کام نہیں ہوتا ()71
اور اب تم مزہبی جنونی لوگ زرا اپنی دماغی کیفیت پر غور کرو کہ ایک جانور کے
زبح کرنے کے معاملے میں کتنا تو حجت بازی سے کام لے رہے تھے لیکن جب تم
مذہبی بےعقل لوگوں نے ایک شخص کو زرا سی بات پر بےدردی سے زبح کیا اور
پھر مجرم کی پکڑ کے وقت لگے ایک دوسرے پر الزام دینے اور باہم جھگڑنے ۔ تو
جو جرم تم چھپا رہے تھے ،قدرت کے حکمتی قوانین اس کو ظاہر کرنے والے تھے
()72
وہ ایسے کہ جب تمہاری مذہبی زہنی کیفیت کے مطابق کہا گیا کہ " ابھی مجرم کا پتہ
چل جائے گا کہ اس بیل کا کوئی سا ٹکڑا مشتبہ لوگ مقتول کو مارو گے تو اس طرح
خدا کچھ وقت کیلیئے مردوں کو زندہ کر دیتا ہے اور سچ جھوٹ کا ابھی پتہ چل جائے گا
اور خدا تم کو اپنی اس طرح نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو ()73
پھر یہ سننے کے بعد تو تم مذہبی خوفزدہ لوگوں کے دل جیسے ایک دم سخت ہو
گئےکہ گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت۔ اور پتھر تو بعضے ایسے ہوتے ہیں
کہ ان میں سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں ،اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ پھٹ جاتے
ہیں ،اور ان میں سے پانی نکلنے لگتا ہے ،اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے خوف
سے گر پڑتے ہیں ،تو سمجھو قدرت تمہارے عملوں سے بے خبر نہیں)(74
تواے قرانی سالمتی و فالح کا دین نظام قائم کرنے والو زمہ دارمومنو کیا تم امید رکھتے
ہو کہ یہ مزھبی مستی میں مست لوگ تمہارے قرانی سالمتی و فالح کے دین نظام کے
قائل ہو جائیں گے ؟ حاالنکہ ان میں سے کچھ مزھبی پیشوا لوگ کالم خدا یعنی تورات کو
سنتے ،پھر اس کے سمجھ لینے کے بعد اس کو اپنے مفاد کی خاطر جان بوجھ کر مذھب
میں بدل دیتے رہے ہیں ()75
اور یہ لوگ جب سب کی سالمتی کے نظام کے زمہ دار مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے
ہیں ،ہم آپکے دین نظام پرایمان لے آئے ہیں۔ اور جب آپس میں ایک دوسرے سے ملتے
ہیں تو کہتے ہیں ،کہ ان مومنوں سے میل جول رکھنا تو بہتر ھے پران سے اپنی کتابوں
کی وہ باتیں نہ کہی جائیں کہ جنہیں یہ ہمارے خالف بطور ثبوت ال کر ہمیں ال جواب کر
دیں ،کیا تم سمجھتے نہیں؟ ()76
کیا یہ انتہائی بے وقوف عقل کے دشمن لوگ نہیں جانتے کہ جو کچھ یہ چھپاتے اور
جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ،قدرت کے اٹل قوانین کے احاطہ کار میں ہی سب ہیں ؟ ( ) 77
اور بعض ان بنی اسرائیل میں بظاہر پڑھے لکھے ہونے کے باوجود ان پڑھ جاہل ہیں کہ
اپنے مفاد پرستانہ سرمایہ پرست باطل خیاالت کے سوا سب کی سالمتی و فالح رکھنے
والی قدرتی فطری قوانین کی کتاب سے واقف ہی نہیں اور وہ صرف ظن سے کام لیتے
ہیں)(78
تو ان لوگوں پر افسوس ہے جو انسانیت کو بے وقوف بنانے کیلیئے اپنے ہاتھ سے تو
کتاب لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ خدا کے پاس سے آئی ہے ،تاکہ اس کے عوض
تھوڑی سے قیمت یعنی دنیوی منفعت حاصل کریں۔ افسوس ہے ایسے انسانیت کی سالمتی
و فالح کے دشمن جاہل لوگوں پر کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور کُھلم
کُھال دھوکہ دہی کے کام کرتے ہیں)(79
اور یہ جاہل مزھبی کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں چند روز کے سوا ُچھو ہی نہیں سکے
گی ۔ ان سے پوچھو ،کیا تم نے اپنے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ کہ تمہارا خدا اپنے
اقرار کے خالف نہیں کرے گا ؟نہیں ،بلکہ تم مزھبی تقلیدی لوگ قدرت کے بارے میں
ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تمہیں ُمطلق زرہ برابر علم نہیں)(80
ہاں جو قوم و حکمران سب کی سالمتی کے خالف سرمایہ پرستی جیسے بُرے کام کرے ،
اور جب نتیجے کے طور پر اس کے جرائم اُسے ہر طرف سے گھیر لیں تو یاد رکھیں کہ
ایسی قوم اور اس کے حکمران لوگ مستقل طور پر دوزخی نظام یعنی معاشی تنگدستی
کے نظام میں جانے والے ہیں اور وہ ہمیشہ اس نظام کی آگ میں جلتے رہیں گے)(81
اور جو قوم و حکمران سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام پر ایمان الئیں اور قدرتی
رزق و وسائل کی تقسیم کے بہترین کام کریں ،تو وہ ہی نتیجے کے طور پر جنتی نظام
یعنی معاشی خوشحالی کا نظام کے مالک ہوں گے اور وہ ہمیشہ اس میں عیش کرتے
رہیں گے)(82
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ قدرت کے قوانین کے سوا کسی کی
محکومیت اختیار نہیں کرنا اور ماں باپ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے
ساتھ بھالئی کرنے کا دین نظام اختیار کئیے رہنا اور لوگوں سے اچھی کارآمد باتیں
اختیار کرنے کا کہنا ،یعنی قدرتی رزق و وسائل کی برابری کی بنیاد پر منصفانہ تقسیم کے
نظام کو قائم کرتے ہوئے سب کو ترقی و نشو نما دینا ،تو چند شخصوں کے سوا تم سب
اس عہد سے منہ پھیر بیٹھے تھے)(83
(آئیت 83 ، 82 ، 81کا حاالت حاضرہ کے مطابق کچھ مزید وضاحتی مفہوم)
ہاں جو بھی قوم و مملکت سب انسانیت کی سالمتی و فالح کے خالف سرمایہ پرستی ،
مفاد پرستی و وی آئی پی کلچر کے طبقاتی انداز میں بُرے کام کرے ،اور اس کے یہ
انسانیت دشمن جرائم جب ہر طرف سے مکافات عمل کے قدرتی اصول کے تحت اس قوم
و مملکت کو گھیر لیں تو ایسے قوم و مملکت کے لوگ غربت و بھوک کی زلت و خواری
کے دوزخی نظام میں جلتے جاتے ہیں اور وہ جب تک سدھر نہ جائیں ہمیشہ اس مستحکم
ابلیسی نظام میں جلتے رہیں گے)(81
اور جو قوم و مملکت سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام پر ایمان الئیں اور انسانیت کی
سالمتی و فالح کے بہترین کام کریں ،وہ جنتی ماحول کے مالک ہوں گے اوروہ ہمیشہ اس
میں اپنے اعمال کی وجہ سے عیش کرتے رہیں گے)(82
اور جب قدرت نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ وہ قدرت کے فطری قوانین کے سوا
کسی کی محکومیت اختیار نہیں کریں گے اور اپنے بوڑھے ماں باپ اور رشتہ داروں اور
یتیموں ،بے سہاروں اور محتاجوں کے ساتھ حقیقی بھالئی کرتے رہیں گے اور لوگوں
سے ان کی سالمتی و فالح کی اچھی عملی باتیں کہیں گے ،اور ہر حال میں قدرت کے
رزق و وسائل کی برابری کی بنیاد پر منصفانہ تقسیم کے زریعے انسانیت کو ترقی و نشو
نما دیتے رہیں گے ،تو چند حساس شخصوں کے سوا تم سب اپنے اس عہد سے منہ
پھیر بیٹھے اور اس طرح تمام انسانیت کو زلت و خواری میں مبتال کر بیٹھے)(83
اور جب قدرت کے فطری قوانین پر عمل کرنے کا تم بنی اسرائیل نے عہد کیا کہ اب
انسانیت میں تفریق کرتے ہوئے آپس میں کشت وخون نہ کرو گے اور نہ ہی اپنے جیسے
بے سہارا لوگوں کو ان کے مادر وطن سے نکالو گے تو تم نے اس عہد کا اقرار کر لیا،
اور تم اس عمدہ بات کے گواہ ہو)(84
افسوس پھر تم وہی ہو کہ سرمایہ پرستی کے غیر فطری قوانین پر چل پڑے کہ اب
انسانیت میں تفریق کرتے ہوئے اپنے جیسے بے سہارا کمزور انسانوں کو قتل بھی کر
دیتے ہو اور ان میں سے بعض لوگوں پر ُجرم کرتے ہوئے اور ظلم سے چڑھائی کرکے
انہیں مادر وطن سے نکال بھی دیتے ہو ،اور کیا خوب کہ اگر وہ تمہارے پاس مسائل میں
قید ہو کر آئیں تو مذھبی ثواب کے حصول کیلیئے ان کو مسائل سے وقتی طور پر چھڑا
بھی لیتے ہو ،حاالنکہ ان کا نکال دینا ہی تم کو حرام تھا۔ یہ کیا بات ہے کہ تم فطری
قوانین کی کتاب کے بعض احکام کو تو مانتے ہو اور بعض سے انکار کئے دیتے ہو ،تو
جو تم میں سے ایسی حرکت کریں ،ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ
موجودہ زندگی میں بھی رسوائی ہو اور مستقبل کی زندگی میں بھی سخت سے سخت
عذاب میں ڈال دیئے جائیں اور جو کام تم کرتے ہو ،قدرت کے قوانین ان سے غافل نہیں
)(85
یہ وہ مفاد پرست لوگ ہیں جنہوں نے بہتر مستقبل کے بدلے فوری مفاد پرستی کی زندگی
خریدی۔ سو نہ تو ان سے زلت بھری زندگی کا عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو
سب کی سالمتی و فالح کے فطری قوانین کے سوا اور طرح کی مدد مل سکے گی ()86
موسی کو فطری قوانین کی کتاب ( تورات) عنایت کی اور ان کے پیچھے یکے ٰ قدرت نے
عیسی بن مریم
ٰ بعد دیگرے سب کی سالمتی و فالح کے انقالبی پیغمبر بھیجتے رہے اور
کو( انجیل ) کی صورت کُھلے پیغامات بخشے اور ُروح القُدس (یعنی بے عیب فطری
قوانین کی قوتیں ،تورات و انجیل ) سے ان کو مدد دی ۔ تو جب کوئی پیغمبر تمہارے (
بنی اسرائیل کے ) پاس سب کی سالمتی و فالح کی باتیں لے کر آئے ،جن کو تمہارا غریب
دشمن وی آئی پی کلچر چاہنے واال جی نہیں چاہتا تھا ،تو تم سرکش ہو جاتے رہے ،اور
انقالبی پیغمبروں کو تو جھٹالتے رہے اور کئی کو قتل کرتے رہے ()87
اور یہ بنی اسرائیل یہ کہتے ہیں ،ہمارے دل پر ہماری بقاء و سالمتی کے غالف چڑھے
ہیں ۔ نہیں بلکہ یہ کہو کہ قدرت نے ان کے انکار کے سبب ان پر لعنت یعنی سب کی
سالمتی و فالح کے دین نظام سے انہیں محروم کر رکھا ہے۔ پس یہ تھوڑے ہی فائدے پر
ایمان التے ہیں ()88
اور اب جو ایک پڑھنے کے قابل کتاب ( قران ) قدرت کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے،
اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے؟ باوجود یہ کہ وہ ہر اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو
ان کے پاس پہلے سے موجو د تھی ،باوجود یہ کہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار
(یعنی قدرتی فطری قوانین کا انکار کرنے والے ظالموں ) کے مقابلے میں فتح و نصرت
کی دعائیں مانگا کرتے تھے ،مگر جب وہ سب مسائل کے حل کی چیز سامنے آ گئی،
جسے وہ پہچان بھی گئے تو ،انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا تو جواب میں
قدرت کی عنایات سے محرومی ان منکرین پر الزم ہوگئی ()89
کیسا مفاد پرستی کا بُرا ذریعہ ہے جس سے یہ سرمایہ پرست اپنے نفس کی تسلی حاصل
کرتے ہیں کہ جو ہدایت قدرت نے نازل کی ہے ،اس کو قبول کرنے سے صرف اس ضد
کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ قدرت نے اپنے فضل (وحی و رسالت) سے اپنے جس
بندے (محمد ﷺ ) کو خود چاہا ،نواز دیا! لہٰ ذا اب یہ غضب باالئے غضب کے مستحق
ہوگئے ہیں اور ایسے کافروں (قدرتی فطری قوانین کا انکار کرنے والے ظالموں ) کے
لیے سخت آمیز سزا مقرر ہے ()90
اور جب ان مفاد پرست /سرمایہ پرست بنی اسرائیل جو کہ آج بھی ساری دنیا میں غریب
سودی سرمایہ پرستانہ نظام ،بین االقوامی مالیاتی فنڈ کے زریعے کُش عالمی بینکنگ کا ُ
انسانوں کو گرفت میں رکھنے کا نظام ،اوراپنے عیّارانہ پن کی انتہا پار کرتے
ہوئے ساری دنیا کے پڑھے لکھے و محنت کش اور معصوم انسانوں کو بے وقوف بناتے
ہوئے اپنے 5سرمایہ پرست ممالک کو ویٹو کا حق دیتے ہوئے اور اس طرح باقی تمام
ممالک کی کُھلی توہین کرتے ہوئے "اقوام متحدہ " کے نام سے انسانی حقوق کے نام پر
دکھاوے کا گھٹیا ناکام ترین نظام چال رھے ہیں ،جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کتاب
خدا نے سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام کی بابت نازل فرمائی ہے ،اس کو مانو۔ تو
کہتے ہیں کہ جو کتاب توریت ہم پر پہلے نازل ہو چکی ہے ،ہم تو اسی کو مانتے ہیں۔
یعنی یہ اس انسانی خیاالت کے شامل و شریک کردہ کتاب کے سوا کسی اور شک سے
پاک کتاب قران کو نہیں مانتے ،حاالنکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سراسر سچی اور ہر
قسم کے انسانی مفاد پرستی کے پلید خیاالت سے پاک کتاب ہے اور جو کہ ان کی کتاب
توریت کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ ہاں یہ بھی کبھی شک سے پاک کتاب تھی ۔ تو اے
تمام عالم کیلیئے رحمت بھری کتاب قران النے والے رحمت اللعالمین ان سے کہہ دو کہ
اگر تم سچے مخلص اور صاحب ایمان انسان دوست ہوتے تو ہللا کے سالمتی بھرے دین
،نظام ،سسٹم ،طریقہ کار النے والے انقالبی پیغمبروں کو بھال قتل ہی کیوں کرتے ( 91
)
موسی تمہارے پاس کھلے ہوئے معجزات یعنی قدرتی ٰ اور ایسے ہی جب انقالبی پیغمبر
فطری قوانین بطور دین نظام کے پیروی کیلیئے لے کر آئے تو ان کے کچھ عرصہ کیلیئے
دور ہو جانے پر تم ایک جانور /بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے اور اس طرح انسانیت کے ُ
شرف سے نیچے گر کر تم اپنے ہی حق میں ظلم کرتے تھے)(92
اور اے بنی اسرائیل یاد کرو جب قدرت نے تم قدرتی قوانین کی پیروی کرنے والوں سے
عہد واثق لیا تھا اور نتیجتا مفاد پرست اور سرمایہ پرست لوگ کوہ طور کے دامن میں تم
سے جنگ کرنے کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے تو قدرت نے تمہیں حکم دیا تھا کہ جو
قدرتی فطری قوانین پر مشتمل کتاب ہم نے تم کو دی ہے ،اس پر عمل کرنے کیلیئے اسے
اپنا سپریم الء قرار دے کر زور سے پکڑو اور اس میں جو تمہیں حکم دیا ہوا ہے اس
کوغور سے سنو سمجھو پھر ان انسان دشمن لوگوں سے مقابلہ کرو تو وہ جو تمہارے
بزرگ حاکم بڑے منافق لوگ تھے کہنے لگے کہ ہم نے سن تو لیا لیکن مانتے نہیں ۔ اور
ان کے اسی کفر یعنی انکار و ظلم کے سبب مزھبی بچھڑا گویا ان منافقوں کے دلوں میں
رچ بس گیا تھا۔ تو اے انقالبی پیغمبر ان انسانیت کے دشمنوں سے کہہ دو کہ اگر تم سب
بڑے بزرگ انسانوں کو امن و امان فراہم کرنے کے زمہ دار ( مومن ) بنتے ہو تو کیا
تمہارا ایمان تم کو ایسی انسان دشمنی پر مبنی مفاد پرستی کی بُری بات بتاتا ہے ؟)(93
کہہ دو کہ اگر تمہارے مفاد پرستی کے بنائے قوانین سے ساری انسانیت کا فیوچر /
مستقبل بننے سنورنے کے بجائے صرف تمہارا اور تمہاری آل اوالد کا فیوچر /مستقبل
بن سنور رہا ھے تو اگر یہ بات سمجھنے میں سچے ہو تو پھر انسانیت کی موت کی آرزو
کرو کہ اس طرح سب کچھ تباہ و برباد ہو جائے گا)(94
لیکن ان مفاد پرستوں کے مزھبی خود ساختہ جاہالنہ اعمال کی وجہ سے ،جو ان کے ہاتھ
آگے بھیج چکے ہیں ،یہ کبھی سب کی سالمتی و فالح کے قدرتی فطری قوانین پر مشتمل
دین نظام کے قیام کی آرزو نہیں کریں گے ،اور قدرت ان مفاد پرست ظالموں سے خوب
اچھی طرح واقف ہے)(95
اے نبی ﷺ تُم ان بنی اسرائیل انسانیت کے دشمن مزھبی جنونیوں کو دیگر عام لوگوں کی
نسبت زندگی کی عیاشیوں کے لئیے کہیں زیادہ حریص دیکھو گے ،یہاں تک کہ قران کے
ساتھ لغو باتیں شریک کرنے والے عربی ُمشرکوں سے بھی زیادہ ۔ ان میں سے ہر ایک
یہی خواہش کرتا ہے کہ کاش وہ ہزار برس ُخوب مال جمع کرنے اور اس مال کے زریعے
دل بھر کر عیاشی کرنے کیلیئے جیتا رہے ،مگر اسے یاد رکھنا چاہئیے کہ یہ اگر اتنی
لمبی عمرجی بھی جائے تو بھی اسے قدرت اپنے اٹل قانون مکافات عمل کے عذاب سے
تو نہیں چھڑا سکتی ؟ تو جو انسانیت دشمنی کے کام یہ کرتے ہیں ،قدرت کے اٹل قوانین
ان کو دیکھ رہے ہیں)(96
اے نبی ﷺ کہہ دو کہ جو شخص جبرئیل یعنی قران کا دشمن ہو ،اُس کو قران پر اپنا
ناجائز غصہ دکھانے سے بہتر ہے کہ مر جانا چاہیئے قدرت نے تو یہ کتاب انسانیت کے
ساس عالمی مصائب ( بھوک ،غربت ،جہالت ،زلت بھری زندگی ) کے حل کیلیئے ح ّ
ہونے کی بناء پر تمہارے دل پر نازل کی ہے اور جو پہلی فالحی کتابوں کی تصدیق کرتی
ہے جو کہ انسانیت پر ایمان والوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے)(97
تو جو شخص قدرتی اٹل قوانین کا اور اپنے چاروں طرف پھیلی قدرتی قوتوں کا اور
قدرتی فطری قوانین دینے والے انقالبی پیغمبروں کا اور جبرئیل یعنی قران کا اور میکائیل
یعنی توریت کا دشمن ہو تو ایسے انسانیت کے دشمن کافروں کیلیئے تو سارا قدرتی نظام
دشمن ہے یہ اپنے کئیے کی سزا پا کر رہیں گے کہ جو بوئیں گے اُسے ہی کاٹیں
گے)(98
سلجھی ہوئی آیتیں ارسال فرمائی ہیں ،پر ان اور قدرت نے تو تمہارے پاس صاف اور ُ
سے انکار وہی کرتے ہیں جو بدکار انسان دشمن سرمایہ پرست لوگ مستحکم ابلیسی
نظام کا قیام چاہتے ہیں)(99
کیا ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا ہے کہ جب ان بنی اسرائیل نے قدرتی فطری قوانین کی
پیروی کا کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک نہ ایک مفاد پرست و سرمایہ پرست گروہ نے
اسے ضرور ہی باال ئے طاق رکھ دیا ؟ بلکہ ان میں سے اکثر گروہ ایسے ہی منافق ہیں
جو دین اسالم یعنی سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام پر سچے دل سے ایمان نہیں
التے)(100
اور جب ان کے پاس قدرت کی طرف سے کوئی نمائندہ /رسول اس عالمی فالحی کتاب کی
تصدیق و تائید کرتا ہوا آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی ،تو ان اہل کتاب میں
سے ایک گروہ نے اس قدرتی فطری قوانین پر مشتمل کتاب کو اس طرح پس پشُت ڈاال،
گویا کہ وہ اس بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں)(101
اور لگے پھراُن لغو گھٹیا تعلیمات کی پیروی کرنے ،جو مفاد پرست ،سرمایہ پرست شیا
طین ،سلیمان کی سالمتی و فالح کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے ،حاالنکہ
سلیمان نے ایسا مفاد پرست ابلیسی نظام کے قیام کا کبھی کفر نہیں کیا تھا ،سرمایہ
پرستی کے کفریہ /ظالمانہ نظام کے مرتکب تو وہ شیاطین لوگ تھے جو لوگوں کو اپنے
انسان دشمن نظام کی بابت لچھے دار باتوں پر ُمشتمل سحرانگیز تعلیم دیتے تھے تو وہ
لوگ پیچھے پڑگئے اُس لفاظیت بھری انسان دشمن تعلیم کے جو مجوسیوں کے مرکزی
شہر بابل میں وہاں کے دو عجمی ہاروت و ماروت کے ناموں پر گھڑی گئی تھیں ،
حاالنکہ وہ تو جب بھی کسی کو اپنی لچھے دار باتوں پر مشتمل سحر انگیز تعلیم دیتے
تھے ،تو پہلے اُسے صاف طور پر ُمتنبہ کر دیا کرتے تھے کہ " دیکھ بھائی ہماری
انسانیت کی دشمن باتیں تو محض ایک دھوکہ ہیں ،تو کہیں اس کُفریہ تعلیم میں ُمبتال نہ
ہوجانا " پھر بھی یہ مجوسی لوگ اُن سے وہ لچھے دار باتوں پر مشتمل ایسی سحر
انگیز تعلیم سیکھتے تھے کہ جس سے کہ شوہر اور بیوی جیسے یک جان دو قالب
رشتے میں جدائی ہو جائے تو بھال اور عام معصوم لوگوں کا کیا ہی کہنا ،اس سے ظاہر
تھا کہ قدرت کی طرف سے ہرانسان کو حاصل اپنے اعمال میں آزادی و اختیار کے بغیر
وہ اس گھٹیا تعلیم کے ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہیں پہنچا سکتے تھے ،مگراس
کے باوجود وہ ایسی دھوکے بازی پر مشتمل سحر انگیز باتیں سیکھتے تھے جو خود ان
کے لیے نفع بخش نہیں بلکہ نقصان د ہ تھی اور انہیں خوب اچھی طرح معلوم تھا کہ جو
بھی اس انسان دشمن تعلیم کا خریدار بنا ،اس کے لیے فیوچر /مستقبل میں کوئی بہتری
نہیں ،تو بتاؤ کتنی بُری متاع تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی قیمتی جانوں کو بیچ
ڈاال ،کاش انہیں معلوم ہوتا)! (102
اور اگر بنی اسرائیل اس شک سے پاک قدرتی فطری قوانین کی کتاب " قران " پر ایمان
التے اور اس کے زریعے سے ساری انسانیت کی نشوء نما کرتے اوراپنے کردار کو تمام
انسانیت کی سالمتی و فالح میں بُلند کرتے اور مشکوک گھڑی ہوئی انسانی ہدایات سے
پرہیز کرتے تو الزمی قدرتی فطری قوانین پر عمل کے نتیجے میں سب کی سالمتی و فالح
کے عالمی نظام پر مبنی یقینا بہت ہی اچھا صلہ پاتے ۔ اے کاش ،بنی اسرائیل سب کی
سالمتی و فالح کی راہ سے واقف ہوتے تو آج انسانیت مادہ پرستی کے مستحکم ابلیسی
نظام میں اس قدر جکڑی ہوئی نہ ہوتی)(103
تو اے قرانی نظام کے قیام کے زمہ دار مومنو ! تم اس مستحکم مادہ پرستی کے ابلیسی
نظام میں جکڑی ہوئی انسانیت کو ظالمانہ نظام کے شکنجے سے آزاد کرانے کیلیئے "
راعنا " یعنی ایسی کوئی بات نہ کہا کرو کہ جس میں حق اور باطل خلط ملط ہو جائے
ظرنا " کہا کرو یعنی اے قرانی سربراہ آپ ہم ماتحت زمہ داروں پر خصوصی بلکہ " ان ُ
نظر کرم رکھا کریں کہ کہیں ہم حق کی راہ سے بھٹک نہ جائیں ۔اور سب کی سالمتی کے
قدرتی فطری قوانین پر عمل درامد کرانے والے زمہ دارو خوب جان رکھوکہ انسانیت کے
دشمن کافروں کے لیے قدرت کے مکافات عمل کی صورت میں ہر حال میں دُکھ دینے واال
عذاب نازل ہونا الزم ہے)(104
تو یاد رکھو کہ انسان دشمنی پر مبنی وی آئی پی استحصالی نظام کے خواہاں ٪ 2لوگ
یقینا کافر ہیں ،چاہے وہ کوئی اہل کتاب ہوں یا قدرتی فطری قوانین میں مفاد پرستی کی
باتیں شریک کرنے والے ُمشرک ہوں ،ایسے تمام انسانیت کے دشمن انا پرست لوگ اس
بات کو پسند نہیں کرتے کہ باقی سب ٪ 98انسانیت پر سالمتی و فالح کے قدرت کے عطا
کردہ قوانین پر مشتمل قرانی دین نظام کی خیر وبرکت نازل ہو۔ جبکہ یہ شک سے پاک
قرانی قدرتی فطری قوانین تو ایسے ہیں کہ جو قوم و مملکت چاہے ان پر عمل کر
کےقدرتی رحمت کو اپنے لئیے خاص کر سکتی ھے کہ قدرت تو بڑے فضل یعنی بھالئیوں
کی کثرت کی مالک ہے)(105
قدرت کی عطا کردہ اختیار و ارادے کی آزادی کی وجہ سے مفاد پرست سرمایہ پرست
لوگ جس قدرت کی نشانی سب کی سالمتی و فالح کی کتاب کو اپنی انسان دشمن سوچ
کی وجہ سے منسوخ کر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا اُسے اپنی لفاظی ،چرب زبانی
،مزھبی و ریاستی طاقت کے زریعے ،معصوم لوگوں کو گرفت میں لے کرفراموش کرا
دیتے ہیں تو قدرت کا طریقہ کار یہ رہا ھے کہ سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام کی
آگاہی کیلیئے اس سے بہتر یا ویسی ہی اور کتاب پھرانسانیت کے سامنے آجاتی ھے ۔ کیا
نصاری نہیںٰ تم سرمایہ پرستی کا عالمی نظام چالنے والے انسانیت کے دشمن یہودو
جانتے کہ قدرت سب کی سالمتی و فالح کی ہر بات پر قادر ہے ؟؟)(106
اور کیا تمہیں معلوم نہیں کہ زمین سے اوپر بلندیوں اور زمین پر تمام قدرتی قوانین کی
ہی بادشاہت قائم ہے ؟؟ تو خوب جان لوکہ قدرتی فطری قوانین کے سوا تمہارا کوئی
دوست اور مدد گار نہیں)(107
کیا تم قرانی لوگ بھی اب سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام النے والے پیغمبر ﷺ سے
اسی طرح کے بے مقصد مزھبی سوال کروگے کہ جس کا سب کی سالمتی و فالح کے دین
موسی سےٰ نظام سے کوئی تعلق نہ ہو یعنی جس طرح کے احمقانہ مزھبی سوال پہلے
کئے گئے تھے ؟؟ اور اچھی طرح جان لو کہ جس شخص نے بھی سب کی سالمتی و فالح
کے دین نظام کو چھوڑ کر اس کے بدلے مفاد پرستی کا مزھبی و سیاسی انسان دشمن کفر
لیا ،تو سمجھ لے کہ وہ انسانیت کے سیدھے رستے سے بھٹک گیا)(108
بہت سے اہل کتاب اس سچی اور شک سے پاک ہدائیت " قران " کو پالینے کے باوجود
آج بھی سرمایہ پرستی کے مستحکم ابلیسی نظام کی باعث اپنے دل میں موجود ازلی
نفرت و تعصب کی جلن کی وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ بھی اس سچی کتاب کو
انسانیت کی آخری رہنما کتاب جان لیں اور اس پر ایمان لے آئیں تو ایسے لوگوں کو پھر
اپنے تمام حربوں کو استعمال کرتے ہوئے کافر یعنی ظالم ترین انسان بنا دیں۔ حاالنکہ
کمال بات یہ ھے کہ ان پر سب کی سالمتی و فالح کا حق ظاہر ہو چکا ہے۔ یا للعجب ،تو
سب کی سالمتی و فالح کیلیئے قرانی دین نظام قائم کرنے والے زمہ دارو ایسے ظالم و
جاہل لوگوں میں سے جو بھی اس کُھلے حق کو تسلیم کر لے اُنہیں معاف کردو اور
درگزر کرو۔ یہاں تک کہ قدرت کے حتمی قوانین کی آگاہی کسی اور طرح سے ان انسانیت
کے دشمن گمراہوں تک پہنچے ،بے شک قدرت کا نظام ہر بات پر قادر ہے)(109
اور اے امن و سالمتی کا نظام قائم کرنے والے زمہ دارمومنو تم سب انسانیت کی سالمتی
و فالح کے لیئے ،قدرت کے ال تعداد رزق و وسائل کو ،برابری کی بنیاد پر مشاورت سے
الصلوۃ قران کی پیروی کرتے ہوئے قائم کرو تا کہ ٰ منصفانہ تقسیم کیلئیے عالمی نظام
زکوۃ یعنی نشوء نما و ترقی دے سکو ۔ اور یاد رکھو اس تمام انسانیت کو برابری سے ٰ
خصوصی عالمی نظام کو تمام انسانیت کیلیئے مقدّم جانتے ہوئے جو بھی خیرو بھالئی
آگے بھیجو گے ،اُسے مکافات عمل کی صورت مستقبل قریب میں بخوب پا لو گے۔ کچھ
شک نہیں کہ قدرت کا اٹل قانون تمہارے تمام نظام ہائے زندگی کے کاموں کو دیکھ رہا
ہے)(110
اور دیکھو یہ تقلیدی مزھبی یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں
کے سوا کوئی انکی خیالی مزھبی آسمانی جنت میں نہیں جانے کا ۔ تو یہ ان جنونی
دیوانوں کے محض خیاالت باطل ہیں ۔ لہٰ ذا اے ضابطہ ء حیات النے والے انقالبی پیغمبر
ان مذہبی جنونیوں سے کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو کوئی ٹھوس دلیل پیش کرو)(111
ہاں جو بھی قدرت کے قانون کے آگے گردن جھکا دے ،یعنی ایمان لے آئے اور وہ حقیقی
نیکو کار ہو جائے تو اس کا الزمی صلہ اُسے مکافات عمل کی صورت ضرور ملے گا اور
ایسے حقیقت پر مبنی سالمتی و فالح کے نظام کو اختیار کرنے والوں کو پھر نہ کسی
طرح کا خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمناک ہوں گے)(112
اور یہ مزھبی جنونی یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں اور مزھبی جنونی
عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی رستے پر نہیں۔ حاالنکہ وہ قدرتی فطری قوانین پر مشتمل یہ
کتاب الہٰ ی قران بھی پڑھتے ہیں۔
اسی طرح بالکل انہی کی سی بات وہ مزھبی جنونی لوگ بھی کہتے ہیں جو قرانی دین
اسالم کی بابت کچھ نہیں جانتے یعنی شک سے پاک قران کے ساتھ مشکوک باتیں مالنے
والے ُمشرک ،
ہللا کے باغی لوگ تو جس بے مقصد اور خیالی باتوں میں یہ مزھبی جنونی لوگ آپس
میں اختالف کر رہے ہیں ،تو یہ سب جان لیں کہ سب کی سالمتی و فالح کے فطری
قوانین پر مشتمل کتاب کے تحت قائم ہونے والی قرانی مملکت کے دور میں ہی اس بات کا
عملی فیصلہ ہو سکے گا کہ کون درست ہے اور کون غلط)(113
اور جان لو کہ بھال اس سے بڑھ کر ظالم کون ؟ جو خدا کے نام پر بنی مسجدوں میں
قرانی ہللا کے ہی شک سے پاک قوانین و صفات کا ذکر کئے جانے کو منع کرے اور
مشکوک باتیں شامل کر کے ان مسجدوں کی ویرانی میں ساعی ہو۔ حقیقت میں ان جیسے
مزھبی جنونی لوگوں کو کچھ حق نہیں کہ ہللا کے نام پر بنی مسجدوں میں داخل ہوں،
مگر قدرت کے قوانین کی خالف ورزی سے مکافات عمل کی صورت ڈرتے ہوئے داخل ہو
سکتے ہیں ۔
اگر نہیں تو ان کے لیے موجودہ حال دنیا میں بھی ُرسوائی ہے اور ان کی آنے والی
نسلوں کے لئیے بھی آخرت یعنی فیوچر ،مستقبل میں بھی بڑا عذاب ہے)(114
رو بہ عمل ہیں۔
اور اچھی طرح جان لو کہ مشرق و مغرب ہر طرف قدرت کے قوانین ہی ُ
تو جدھر بھی تم رخ کرو اُدھر قدرتی قوانین کو ہی جلوہ نما پاؤ گے ۔ بے شک قدرت
صاحب وسعت اور اپنے تمام کاموں سے باخبر ہے)(115
اور یہ مزھبی جنونی بے عقل لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا اوالد رکھتا ہے۔ یہ نہیں
جانتے کہ قدرت کے قوانین اس مادیت سے پاک ہیں ،بلکہ ان کے سامنے جو بلندیوں
اور پستیوں میں قدرتی قوانین رواں دواں ہیں تو یہ سب اسی بات کے ہی تو مظاہر ہیں کہ
کائنات بھر میں قدرت کے قوانین کی ہر شے فرماں بردار ہے)(116
وہی قدرت کا نظام تمام بلندیوں اور پستیوں کا پیدا کرنے واال ہے۔ جب کوئی قدرتی کام
ہونا چاہتا ہے تو اس کو قرانی ہللا ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے .جیسے
کہ کسی چھوٹے سے بیج سے تناور درخت کا بننا یا ماں کے پیٹ میں بچے کی افزائش و
پرورش کا ہونا وغیرہ)(117
اور جو بےعقل لوگ قرانی ہللا کی حقیقت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے یعنی مشرک ،
قرانی ہللا کے باغی وہ کہتے ہیں کہ مزھبی خدا ہم سے کالم کیوں نہیں کرتا ؟؟؟ اور لگے
رہتے ہیں مزھبی خیالی خدا سے اپنے تعلقات قائم کرنے کی احمقانہ کوششوں میں ،جبکہ
قرانی ہللا کے فطری قانون تو ال الہ کے زریعے ایسے تمام مزھبی جھوٹے خداؤں کا
مکمل انکار کر چکے ہیں یا کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی قدرت کے قوانین کی خالف
ورزی کرنے والی ایسی معجزاتی نشانی جو ان بے عقلوں کی عقل کو حیران کر دے ،وہ
کیوں نہیں آتی ؟؟؟
اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے کے مزھبی جنونی تھے ،وہ بھی انہی کی سی دقیانوسی
باتیں کیا کرتے تھے۔ یعنی ان تمام دنیا بھر کے مزھبی جنونی احمق لوگوں کے دل آپس
میں ایک جیسے اور ملتے جلتے ہیں ۔
پرجو اولی االلباب یعنی دانشور ،ریسرچر قسم کے لوگ قدرت اور اس کے اٹل نظام پر
مکمل یقین رکھتے ہیں ،ان کے سمجھانے کے لیے اس قران میں کھول کھول کر نشانیاں
بیان کردی گئی ہیں)(118
اے محمد ﷺرحمت اللعالمین قرانی ہللا نے تم کو سچا رحمت بھرا سب کی سالمتی و فالح
کا عالمی قرانی جنتی دین نظام دے کر ساری مظلوم انسانیت کو خوشخبری سنانے واال
اور مفاد پرستی کے غلط نظام کے مکافات عمل سے ڈرانے واال بنا کر بھیجا
ہے۔ اورایسے غلط نظام میں جینے والوں کی کہ جن کی دنیا بھوک و افالس کے جہنم کا
ایک عبرت ناک نظارہ بنی ہوئی ہوتی ھے ان کے بارے میں تم سے کچھ پرسش نہیں
ہوگی کہ تمہارا کام تو یہ سالمتی و فالح کا عالمی پیغام پہنچا دینا ھے)(119
اور یہ بھی اچھی طرح جان لو کہ تم سے نہ تو یہ سرمایہ پرستی کا نظام چالنے والے
یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ ان کا ساتھ دینے والے عیسائی ،جب تک کہ تم ان کا
یہ انسان دشمن طریقہ کار نہ اختیار کر لو ۔ تم ان سے صاف کہہ دو کہ قرانی ہللا کی ہدایت
ہی سب کی سالمتی و فالح کا دین نظام سسٹم طریقہ کار انسانیت کیلیئے آخری سہارا ہے۔
اور اے پیغمبر یہ بھی جان لو کہ اگر تم اپنے پاس یہ قرانی ہللا کے سالمتی و فالح کا
حتمی منطقی علم آ جانے کے بعد بھی ان سرمایہ پرستوں کی خواہشوں پر ان کا انسان
دشمنی پر مبنی نظام کو اپنا تے ہوئے چلو گے تو تم کو قدرت کے مکافات عمل کے عذاب
سے بچانے واال نہ تو قران کے عالوہ کوئی اورعلم ہی دوست ہوگا اور نہ ہی کوئی
اوردین نظام سسٹم طریقہ کار مددگار)(120
اور جن لوگوں کو قرانی ہللا نے یہ سب کی سالمتی و فالح کے دین /نظام کی عالمی کتاب
عنایت کی ہے ،وہ اس کو ایسا غوروفکر کے ساتھ پڑھتے ہیں جیسا اس کے پڑھنے کا
حق ہےتو یہی لوگ اس پر ایمان رکھنے والے ہیں ،اور جو اس کو سب کی سالمتی و
فالح کا ضابطہ ء حیات نہیں مانتے ،وہ ہی خسارہ پانے والے ہیں)(121
اے بنی اسرائیل !قدرت کے وہ احسان یاد کرو ،جو اُس نے تم پر کئیے تھے وہ یہ کہ
قدرتی فطری قوانین کی پیروی نے تم کو تمام عالم پر فضیلت بخشی تھی)(122
اور اے بنی اسرائیل اب تم قرانی فطری قوانین کے اُس احتسابی دور سے ڈرو جب کوئی
با اثر شخص کسی مجرم شخص کے کچھ کام نہ آئے ،اور نہ اُس سے اُسکے کئیے جرم
کا کوئی بدلہ قبول کیا جائے اور نہ کسی کو کسی کی سفارش کچھ فائدہ دے سکے اور نہ
ہی مجرم لوگوں کو کسی اور طرح کی مدد مل سکے)(123
اور جب قدرتی فطری قوانین کی پیروی کے نظام کے قیام کے ابتدائی مراحل میں چند
منطقی الزمی پریشانیوں میں ابراہیم کی آزمائش ہوئی تو وہ اُن میں پورے اترے۔ تو قدرت
نے طے کیا کہ ابراہیم اس قابل ہیں کہ ان کو انسانیت کا لیڈر /امام مقرر کیا جائے کہ آگے
ساری انسانیت انہی کے نقش قدم پر چل کر کامیابی حاصل کرے ،
جس پر ابراہیم نے نہ صرف حامی بھری بلکہ ساتھ فرط جزبات میں یہ خواہش بھی کی کہ
میری آل میں سے بھی انسانیت کے لیڈر مقرر ہوں تو قدرت نے اُنہیں آگاہی دی کہ قدرتی
قوانین کی پیروی نہ کرنے والے ظالموں کیلیئے پہلے سے کوئی اقرار نہیں کئیے جا
سکتے کہ انسان اپنے عمل کے معاملے میں آزاد ہیں کہ چاہیں تو بُرا عمل کریں یا بھال
)(124
خانہ کعبہ کو دنیا بھر کے تمام انسانوں کے سربراہ نمائندوں کے
اور جب قرانی ہللا نے ٴ
لیے ساالنہ جمع ہونے اور ان سے قدرتی فطری قوانین میں مشاورت کے ساتھ تمام
انسانیت کیلئیے امن و سالمتی بھرے قوانین کو ڈھونڈ پانے کی جگہ مقرر کیا اور یہ حکم
دیا کہ جس مقام رہبری پرابراہیم تمام انسانیت کے لیڈر /امام بن کر کھڑے ہوئے تھے،
اس کو اب قدرت کے رزق و وسائل کو برابری کی بنیاد پرمنصفانہ تقسیم کی مرکزی
جگہ" یونائیٹڈ ہیومن آرگنائزیشن" بنا لو ۔ اور ابراہیم اور ٰ
اسمعیل کو کہا کہ دنیا بھر
میں طائفہ کی صورت مظلوم انسانوں کی داد رسی کیلیئے طواف کرنے والوں اور پھر ان
سے ملی رپورٹوں پر کعبہ میں رات دن مسلسل ڈیوٹی پر معموراعتکاف کرنے والوں اور
دنیا بھر میں قدرتی قوانین کے آگے سر تسلیم خم کرنے والوں اور ان قدرتی قوانین
پرعمل کرنے والوں کے لیے میرے انسانیت کیلیئے بنائے عالمی گھرکعبہ کو ہر قسم کی
مفاد پرستی کی شیطانیت سے پاک صاف رکھا کرو)(125
اور جب ابراہیم نے دعا کی یعنی قدرتی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے عملی اقدام کئیے
کہ اے کائنات کو پالنے والے قدرت و پروردگار ،اس جگہ کو تمام انسانیت کیلیئے امن
کے قوانین کا عالمی شہر بنا اور اس کعبہ کے بطور مرکزی مقام یونائیٹڈ ہیومن
آرگنائزیشن قرار دے کر رہنے والوں سربراہ نمائندوں میں سے جو قدرت کے قوانین
پرعمل کی بدولت انسانیت کے بہترین فیوچر مستقبل پر ایمان الئیں تواُن کو پھر قوانین
پر عمل کرنے کے بدلے میں کھانے کو عمدہ ترین رزق عطا کر ،اور ساتھ قدرت نے
آگاہی دی کہ جو مفاد پرست انسانیت کا دشمن نظام چالنے واال کافر سربراہ نمائندہ ہوگا،
قدرت اسے بھی کسی قدر مفاد عاجلہ کے تحت وقتی طور پر متمتع تو کرے گی ،مگر
پھر اس کو مکافات عمل کی صورت عذاب دوزخ کے بھگتنے کے لیے ناچار بھی کردے
گی ،اور وہ بہت برا مقام ہے کہ آخر کار سب کو اسی سالمتی و فالح کے عالمی نظام کو
اپنانا ہی ہو گا)(126
اور جب ابراہیم اور ٰ
اسمعیل بیت ہللا /ہللا کا گھر /خانہ کعبہ کہ جہاں قرانی ہللا کے قدرتی
فطری احکام و قوانین کے تحت تمام بنی نوع انساں کی سالمتی و فالح کے دین یعنی نظام
،سسٹم ،طریقہ کارکی بابت عالمی فیصلے کئیے جائیں ،کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے
تو وہ دلی طور پر یہی چاہتے تھے کہ اے تمام عالم کو پالنے والے قادر و پروردگار ،ہم
سے اس سب کی سالمتی و فالح کے مرکزی مقام کی تعمیر کی خدمت قبول فرما کہ یہاں
اس عظیم ترین سوچ ،وژن ،خیاالت پر ہمیشہ عمل درامد ہوتا رھے ۔ بےشک تیرے
قوانین سب سننے والے اور جاننے والے ہیں)(127
اے قادرپروردگار ،ہم کو اس سب کی سالمتی و فالح کے عالمی مرکزی مقام میں دنیا کے
تمام اقوام کے سربراہان وفود کی فطری اصول و قوانین میں مشاورت کے تحت آئین و
منشور قرار دئیے جانے والے احکام و قوانین پر عمل کے زریعے ساری دنیا کے
انسانوں کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنائے رکھیو۔ اور ہمارے بعد امت مسلم میں سے سب
کی سالمتی و فالح کا عالمی نظام کا تسلسل چاہنے والے حساس باکردار لوگوں کے ایک
زمہ دار گروپ کو اپنے اس گھر کا انتظام سنبھالنے اور چالنے والے کو اپنا مطیع بنائے
رہیو،اور اے قادر و پروردگار ہمیں ایسا طریق عبادت و بندگی بتا کہ جس کے تحت تمام
دکھی بے سہارا انسانیت کے لئیے عبادت یعنی حقوق العباد کی ادائیگی کر سکیں اور
ہمارے موجودہ سرمایہ پرستی کے ملوکیتی تباہ شُدہ حال پر توجہ فرما۔ بے شک تو توجہ
فرمانے واال مہربان ہے)(128
اے قادر وپروردگار ،اگر اس سب کے بعد انسانیت پھر کبھی گمراہی اختیار کر لے توانہی
گمراہ لوگوں میں سے سب کی سالمتی و فالح کے قدرتی اٹل قوانین کی پیروی کے عالمی
نظام کا قیام چاہنے واال نمائندہ مبعوث کرتے رہا کیجیو جو ان کو تیری قدرتی عالمی
سالمتی و فالح کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور قدرتی فطری قوانین پر مشتمل کتاب
سے حکمت اور دانائی سکھایا کرے اور وہ ان گمراہ لوگوں کے دلوں کو تمام دُکھی
انسانیت کے لئیے پاک صاف کیا کرے ۔ بےشک قدرت ہر شے پر قادر و غالب اور صاحب
حکمت ہے)(129
اورابراہیم کے(سورت 2کی آیات 125تا ) 129کے طریقہ کار سے بھال کون بےحس
حکمران ہے جو ُرو گردانی کر سکتا ہے ؟؟ بجز اس کے کہ جس میں سب کی سالمتی و
فالح کے طریقہ کار کی بابت بالکل ہی عقل و دانائی نہ ہو۔ قدرت نے تو ان کو ترقی و
فالح کیلیئے زمانہ ء حال میں بھی منتخب کیا اور بعد میں آنے والی نسلوں کیلیئے زمانہ
ء مستقبل میں بھی اور اس کارنامہء عظیم کی بنا پر وہ تمام انسانیت وتمام زمانوں
کیلیئے صالحیت بخش مناسب و متوازن ترین طریقہء کار دینے والے صلحا میں سے ہوں
گے)(130
کیونکہ جب ان سے قادر و پروردگار نے فرمایا کہ سب کی سالمتی و فالح بھرا اسالمی
طریقہء کار بنا کر لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں کائنات کو پالنے والے رب
العالمین کے اس حکم کے آگے سر اطاعت خم کرتا ہوں)(131
اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی اپنے فرزندوں
سے یہی کہا کہ بیٹا قدرت نے تمہارے لیے یہی سب کی سالمتی و فالح کا دین نظام سسٹم
طریقہ کاراختیار کرنا پسند فرمایا ہے تو بیٹا یاد رکھنا کہ مرنا تو سب کو ہی ھے لہٰ ذا تم
مسلم یعنی سب کو سالمتی و فالح میسر کرنے والے انسان کے طور پر ہی مرنا )(132
بھال جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو کیا اے بنی اسرائیل تم اُس وقت موجود تھے ؟
جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کے احکام کی اطاعت کرو گے
؟ تو ُخوب جان لو کہ انہوں نے کہا تھا کہ آپ کے معبود قرانی ہللا اور آپ کے باپ دادا
اسمعیل اور اسحاق کے معبود قرانی ہللا کی ہی اطاعت کریں گے کہ جواطاعت ابراہیم اور ٰ
کے قابل ہے ،جس کے احکام و قوانین ایک ہیں اور ہم سب اُسی کے حکم بردار ہیں
)(133
تو اے بنی اسرائیل اب اچھی طرح سمجھ لو کہ یہ قدرتی فطری قوانین پر عمل کرنے
والے تمہارے آباء کی جماعت گزرچکی ۔ اُن کو قدرت کے اٹل قانون مکافات عمل کے
تحت اُن کے اعمال کا بدلہ مال اور تم کو تمھارے اعمال کا بدلہ ملے گا ۔ اور جو بھی عمل
تمہارے آباء کرتے تھے اُن کی پُرسش وپوچھ گچھ تم سے نہیں ہوگی)(134
اور اب یہ ابراہیم کے عالمی سالمتی و فالح کے عظیم ترین طریقہ کار کو مفاد پرستی کے
مزھب میں بدل دینے والے عقل کے دشمن یہودی عیسائی کہتے ہیں کہ مزھبی یہودی یا
مزھبی عیسائی ہوجاؤ تو سیدھے رستے پر لگ جاؤ گے ،
تو اے قرانی پیغمبر ان جاہلوں سے کہہ دوکہ نہیں ،بلکہ ہم تو وہی سب کی سالمتی و
فالح کا طریقہ ء ابراہیم اختیار کئے ہوئے ہیں جو ایک قدرت کے قوانین کے فرماں
بردارہو رہے تھے اور ان فطری قوانین میں مفاد پرستی کے قوانین شریک کرنے والے
ُمشرکوں یعنی باغیوں میں سے نہ تھے() 135
اے سب کی سالمتی و فالح کا دین نظام قائم کرنے والو ان شیطانی ملوکیتی غریب دشمن
نصاری سے کہو کہ ہم کسی مزھبی خدا ٰ مستحکم ابلیسی نظام قائم کرنے والے یہودو
پرنہیں بلکہ قرانی ہللا پر ایمان الئے اور جو کتاب ہم پر اتری ،اس پر اور جو ابراہیم اور
موسی
ٰ اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اوالد پر نازل ہوئیں اُن پر اور جو کتابیں
ٰ
عیسی کو عطا ہوئیں ،ان پر ،اور جو اور پیغمبروں کو ان کے قدرت و پروردگار کی ٰ اور
طرف سے ملیں ،ان سب پر ایمان الئے یعنی تمام پیغمبر کتاب /پیغام کے ساتھ آئے ہم
ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ زرہ برابر فرق نہیں کرتے اور ہم اسی قرانی ہللا کے
فرمانبردار ہیں)(136
نصاری
ٰ تو اگر یہ شیطانی ملوکیتی غریب دشمن مستحکم ابلیسی نظام چالنے والے یہودو
لوگ بھی اسی طرح قرانی ہللا اور اس کے سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام پر ایمان
لے آئیں کہ جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو یہ بھی ہدایت یاب ہو جائیں اور پھر اگر یہ
سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام سے منہ پھیر لیں اور نہ مانیں تو وہ انسانیت کے
مخالف اورکٹر دشمن ہیں اور ان کے مقابلے میں تمھیں انسان دوست قرانی ہللا کافی ہے۔
کہ کائنات میں صرف وہی اپنے سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام سسٹم کے تحت تمام
انسانیت کے دُکھ و مصائب و آالم کو سننے واال اور جاننے واال ہے)(137
نصاری سے کہ ہم نے قرانی ہللا کا رنگ اختیار کر لیا ہے
ٰ کہہ دو ان انسان دشمن یہودو
اور قرانی ہللا سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے ؟؟؟ اور ہم اسی قرانی ہللا کی اطاعت و
فرمانبرداری کرنے والے ہیں)(138
سرمایہ پرستی کا غریب دشمن عالمی ابلیسی مستحکم نظام چالنے والے ان مزھبی یہودو
نصاری سے کہو ،کیا تم قرانی ہللا /قادر و قدرت کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو ؟؟ٰ
حاالنکہ قدرتی قوانین کے تحت ہی تو ہمارا اور تمھارا گزارا ہے کہ قدرتی قوانین کے
تحت جیسے قدرتی بیج ،قدرتی زمین میں بو کر قدرتی دھوپ و پانی دے کر تم فصل پاتے
ہو ایسے ہی ہم بھی قدرتی قوانین کے تحت فصل پاتے ہیں اور قدرت کے مکافات عمل
کے اٹل قانون کے تحت ہی ہم کو ہمارے اعمال کا بدلہ ملے گا اور تم کو تمھارے اعمال
کااور ہم تو خاص اسی قرانی ہللا کے فطری قوانین کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے والے
ہیں)(139
اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب ونصاری کیا تم اس بات کے قائل ہو کہ ابراہیم اور ٰ
ٰ اے یہود
اور ان کی اوالد اسی طرح کے مزھبی جنونی یہودی یا عیسائی تھے جیسے کہ تم ہو ؟؟
اے محمد ﷺان مزھبی جنونیوں سے کہو کہ بھال تم زیادہ جانتے ہو یا قادر و قدرت ؟ اور
اس سے بڑھ کر ظالم کون ،جو قدرت کی اتنی واضح اور کُھلی شہادت و نشانیوں کو
چھپائے ۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو ،قدرت کا قانون مکافات اس سے غافل نہیں)(140
اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اوالدوں کی جماعت گزر چکی۔ ان یہ ابراہیم اور ٰ
کو وہ ملے گا جو انہوں نے کیا ،اور تم کو وہ ملے گا جو تم نے کیا۔ اور جو عمل وہ
کرتے تھے ،اس کی پرسش و پوچھ ُگچھ تم سے نہیں ہوگی)(141
نصاری لوگ اپنی بڑی شاطرانہ عقل استعمال کرتے ٰ احمق مفاد پرست مزھبی جنونی یہودو
ہوئے کہیں گے کہ خانہ کعبہ کو قرانی دین اسالم کا مرکز بنانے والے لوگ اس سے پہلے
جس قبلے یعنی بیت المقدس پر چلے آتے تھے اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ؟؟ تو
تم ان احمقوں سے کہہ دو کہ اول تو یہ جان لو کہ مشرق ہو یا مغرب کائنات میں ہر طرف
قدرت کے قوانین ہی عمل پیرا ہیں اب جو چاہے قدرتی فطری قوانین کے سیدھے راستے
پر چلے اُسے کوئی ُرکاوٹ نہیں کہ انسان اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں ۔)(142
اور اسی طرح قدرت نے تم کو خیر اور شر میں امتیاز کرنے والی امت معتدل بنایا ہے،
تاکہ تم قران کی پیروی کرنے والے لوگ اپنے لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر آخرالزماں تم
پر گواہ بنیں۔ اور دوم یہ کہ جس ابراہیم کے بنائے قبلہ اول /مرکز خانہ کعبہ پر تم
انسانیت پسند لوگ پہلے تھے ،اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں ،کون
تمام انسانیت کی سالمتی و فالح کے نظام کے قیام کیلیئے ہمارے پیغمبر کا تابع رہتا ہے،
اور کون اس مرکز سے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ اور یہ بات بیت المقدس کو زبر دستی
نصاری کو بہت گراں معلوم ہوئی ،مگر جن کو ٰ مرکز اول قرار دینے والے احمق یہودو
قادر متلق نے شک سے پاک ہدایت بخشی وہ اسے گراں نہیں سمجھتے اور قرانی ہللا
ایسا نہیں کہ تمہارے اس انسانیت بھرے ایمان کو یونہی کھو دے۔ قرانی ہللا تو لوگوں پر
بڑا مہربان اور صاحب رحمت ہے )(143
تو مجبورا ہجرت کر کے مدینہ میں آ کر قرانی اسٹیٹ قائم کرنے والے اے محمد ﷺہم
تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم تم کو اُسی ابراہیم
کے بنائے قبلے یعنی کیپیٹل کی طرف کہ جس کو تم بہت پسند کرتے ہو ،اپنا ُرخ کرنے کا
خانہ
حکم دے رہے ہیں کہ اب تم اپنا رخت سفر دوبارہ اپنے مرکز اول مسجد حرام یعنی ٴ
کعبہ کی طرف کر لواور اب شان سے فتح مکہ کرو ۔ اور پھر تم لوگ دنیا میں جہاں بھی
ہو ،اسی قرانی فیصلے کرنے والی عالمی مسجد کی طرف بطور مرکز کے توجہ رکھا
کروکہ عالمی فالحی مرکز یونائٹیڈ ہیومن آرگنائزیشن سے انسانیت کی سالمتی و فالح
کے لئیے کیا احکام جاری ہورھے ہیں ؟؟ اور مرکز میں جن حاکم لوگوں کو انسانیت کی
سالمتی و فالح کے فیصلے کرنے کیلیئے یہ کتاب دی گئی ہے ،وہ خوب جانتے ہیں کہ
یہی ان کے پروردگار کی طرف سے حق بات اور کرنے کا کام ہے۔ اور پھر جو سالمتی و
فالح کے کام بطور دین نظام کے یہ قرانی حکمران لوگ کرتے ہیں،قادر و قدرت ان سے
بے خبر نہیں)(144
اور اگر تم ان سرمایہ پرست اہل کتاب کے پاس انکی کتاب سے سب کی سالمتی و فالح کی
تمام متفقہ نشانیاں بھی لے کر آؤ ،تو بھی یہ تمہارے قبلے مرکز کی پیروی نہ کریں۔ اور
تم بھی ان کے سرمایہ پرستی کے قبلے کی پیروی کرنے والے نہیں ہو۔ اور ان میں سے
بھی بعض بعض کے قبلے کے پیرو نہیں۔ اور اگر تم باوجود اس کے کہ تمہارے پاس
شک سے پاک دانش یعنی وحئ آ چکی ہے ،اس کے ہوتے ہوئے ان کی مفاد پرستی کی
خواہشوں کے پیچھے چلو گے تو ظالموں میں داخل ہو جاؤ گے)(145
جن باکردار لوگوں کو ہم نے یہ کتاب دی ہے ،وہ ان پیغمبر آخرالزماں کو اس طرح
پہچانتے ہیں ،جس طرح کہ کوئی اپنے بیٹوں کو پہچانا کرتے ہیں ،مگر ایک قران دشمن
فریق ان میں سے سچی بات کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے)(146
اے پیغمبر ،یہ سب کی سالمتی و فالح کا نیا قبلہ و مرکز تمہارے پروردگار کی طرف سے
حق ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا)(147
اور ہر ایک قوم کے لیے اُنکی بنائی ایک سمت مقرر ہے( جیسے کہ دنیا بھر میں پھیلے
رشین کیلیئے ماسکو یا دنیا بھر میں پھیلے امریکی کیلیئے واشنگٹن کہ جدھر وہ احکام
کی سماعت و اطاعت کیلیئے اپنا منہ کیا کرتے ہیں) تو تم بھی اپنے سالمتی و فالح کے
عالمی قبلے کی طرف منہ کر کے انسانیت کیلیئے بھالئیوں میں سبقت حاصل کرو۔ اس
سے تم دنیا میں چاہے جہاں رہو گے یہ قدرتی فطری قانون تم سب کو جمع کرلے گا ۔ بے
شک قانون قدرت ہر چیز پر قادر ہے)(148
اے سب کی سالمتی و فالح کا عالمی قبلہ و مرکز قائم کرنے والے قرانی زمہ دارو تمہارا
عالمی طواف کرتا ہوا ڈیلیگیشنز کا گزر دنیا میں جس مقام سے بھی ہو ،وہ وہیں ضرورت
کے احکام کی سماعت و اطاعت کیلیئے اپنا ُرخ ہمہ تن گوش ہو کر مسجد محترم کی طرف
رکھے ،کیونکہ یہ تمہارے قرانی رب کا بالکل حق فیصلہ ہے اور سمجھ رکھو کہ قرانی
ہللا تم لوگوں کے سالمتی و فالح کے عالمی اعمال سے بے خبر نہیں ہے)(149
اور ایک بار پھر اسے خوب اچھی طرح زہن نشین رکھو کہ دنیا میں جہاں سے بھی
تمہارے طواف پر معمور ڈیلیگیشنزکا گزر ہو ،ا ُنہیں چاہئیے کہ وہ اپنا ُرخ سماعت و
اطاعت کیلیئے مسجد محترم کی طرف رکھا کریں ،اور دنیا میں جہاں بھی تم قرانی نظام
کے حامی زمہ دارلوگ موجود ہو ،توتمام انسانیت کی سالمتی و فالح کے لئیے اُسی
عالمی قرانی قبلہ کی طرف منہ کر کے توجہ رکھا کرو تاکہ لوگوں کو تمہارے عالمی نظام
کے خالف کوئی حجت نہ مل سکے ،ہاں جو ظالم لوگ ہیں وہ سب کی سالمتی و فالح
کے اس عالمی دین نظام کو کبھی نہیں تسلیم کریں گے ،اُن کی زبان اس نظام کے خالف
کسی حال میں بند نہ ہوگی تو اُن سے تم بالکل نہ ڈرو ،بلکہ مجھ قرانی ہللا کے احکام کی
خالف ورزی سے ڈرو تا کہ میں اپنے قرانی نظام کی بدولت تمام انسانیت پر اپنی نعمت
پوری کر دوں اس توقع پر کہ میرے اس حکم کی پیروی سے تم سب اسی طرح فالح کا
راستہ پاؤ گے)(150
جس طرح تمہیں اس چیز سے فالح نصیب ہوئی کہ میں نے تمہارے درمیان خود تم میں
سے ایک رسول بھیجا ،جو تمہیں میری عالمی سالمتی و فالح کی آیات سناتا ہے ،تمہاری
زندگیوں کو سنوارتا ہے ،تمہیں کتاب اور اس میں درج حکمت کی تعلیم دیتا ہے ،اور
تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے ،جو تم سرمایہ پرستی کے ابلیسی نظام کے خوگر اس سے
پہلے نہیں جانتے تھے)(151
لہٰ ذا تم مجھے میرے اٹل قدرتی فطری قوانین کی صورت یاد رکھو ،میں پھر تمہیں یاد
رکھوں گا کہ تمہاری زندگی جنت نظیر بنا دوں گا اور پھر تم سب میرا شکر ادا کرواور
کفران نعمت نہ کرو)(152
تو اے قرانی فالحی قبلہ کے زمہ دار لوگو جو اس ضابطہ حیات پر عمل کی غرض سے
ایمان الئے ہو ،اپنی تمام تر زمہ داری ادا کر کے صبر اور رزق و وسائل کی عالمی
منصفانہ تقسیم کے زریعے سے مدد لو ہللا ایسے زمہ دار صابرحکمران لوگوں کے ساتھ
ہے)(153
اور جو لوگ قدرت کے بنائے سالمتی و فالح کے نظام کے قیام کی راہ میں جدو جہد
کرتے ہوئے مارے جائیں ان کیلئیے یہ کہنا کہ وہ مر گئے ہیں بڑی جہالت کی بات ہے ،
نہیں وہ ُمردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں لیکن تم اس امر ہونے والی زندگی کے بارے میں نہیں
جانتے کہ جن کی کوششوں کی وجہ سے ُمردہ انسانیت میں جان پڑجاتی ہے)(154
تو قرانی فالحی نظام قائم کرنے والے زمہ دارو اچھی طرح جان لو کہ یہ عالمی سالمتی و
فالح بھرا نظام اس مستحکم ابلیسی سرمایہ پرستی کے نظام میں قائم ہو جانا اتنا آسان
نہیں لہذا قدرتی طور پر تم پر کسی قدر خوف ،بھوک ،مال ،جان اور آسائشوں کے
نقصان سے تمہاری آزمائش ہو گی کہ تم کس قدر ثابت قدم ہو ؟ توبھرپور طور پر زمہ
داری ادا کر کے صبر کرنے والوں کو قدرت کے اٹل قانون کہ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے
کے تحت بشارت سنا دو )(155
کہ ایسے انسان دوست لوگوں پر جب کوئی حق کی راہ میں مصیبت واقع ہوتی ہے تو
کہتے ہیں کہ ہم تو قدرت کے سب کی سالمتی و فالح کا نظام کا قیام چاہنے والے ہیں اور
اسی قدرتی نظام کے تحت لوٹ کر جانے والے ہیں)(156
یہی سب کی سالمتی و فالح چاہنے والے لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی مہربانی
اور رحمت ہے۔ اور یہی سب سے سیدھے رستے پر ہیں)(157
بےشک صفا اور مروہ یعنی انتہائی صاف و شفاف اور انسانیت کو سیراب کر دینے واال
حکمرانی علم قدرت کی ک ُھلی نشانیوں میں سے ہیں ۔ تو جو بھی قوم و مملکت کا سربراہ
خانہ کعبہ ( یونائٹیڈ ہیومن
و نمائندہ انسانی مسائل کے ُحجت اتمام و مشاورت کیلیئے ٴ
آرگنائزیشن ) کا ساالنہ دورہ حج کرے یا سال بھر میں کسی بھی وقت ہنگامی نوعیت
کا دورہ عُمرہ کرے اس پر الزم و ملزوم ہے کہ وہ بھی ان قدرتی شعائر صفا اور مروہ
جیسا حامل اوصاف ہو اور جو قوم و مملکت کا سربراہ و نمائندہ انسانیت کی سالمتی و
فالح کیلیئے اس طور پر منظم ہو کرعالمی فالحی کام کرے تو قدرت اس کے اوصاف بلند
کی شکر گزار و دانا ہے)(158
تو جو علم دشمن حکمران لوگ قدرتی احکام و ہدایات کوجو قدرت نے نازل کی ہیں اپنی
زاتی مفاد پرستی کی غرض سے چھپاتے ہیں باوجود یہ کہ قرانی ہللا نے ان لوگوں کے
سمجھانے کے لئے اپنی کتاب میں کھول کھول کر احکام و ہدایات کو بیان کردیا ہے۔ تو
ایسے دین نظام سے محروم رہ جانے والے بدنصیب حکمرانوں پر قدرت اور قدرتی نظام
کی پیروی کرنے والے افسوس کرتے ہیں)(159
ہاں جو حکمران لوگ اپنے انسانیت کُش بُرے نظام سے توبہ کرلیتے ہیں اور اپنی قومی
حالت کو درست کرلیتے ہیں اور قدرتی فطری احکام کو سب سے صاف صاف بیان
کردیتے ہیں تو قدرت ان کے سابقہ قصور معاف کردیتی ہے کیونکہ قدرت بڑی معاف
کرنے والی اور رحم کرنے والی ہے)(160
اور جو حکمران لوگ قدرتی قوانین کی خالف ورزی کے مرتکب کافر و ظالم ہوئے اور
کافر و ظالم ہی مرے ایسوں کی افسوس ناک محرومی پر قدرت اور قدرتی قوتوں کی اور
قدرت کے قوانین کی پیروی کرنے والے لوگوں کی طرف سے بہت بہت افسوس ھے
)(161
ان کفار حکمرانوں کے نقش قدم پر چلنے والے حکمران ہمیشہ سب کی سالمتی و فالح
کے جنتی نظام کی محرومی میں گرفتار رہیں گے۔ ان کے دور حکمرانی میں مکافات عمل
کے نظام کے تحت نہ ہی عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں اس ظلم بھرے نظام سے
کچھ مہلت ملے گی)(162
اور حکمران لوگو اچھی طرح جان لو کہ حقوق العباد کی بطور دین نظام کے ادائیگی ہی
واحد حکمرانوں کے کرنے کا کام ہے اس بڑے مہربان اور رحم کرنے والے قدرت و
قوانین کے سوا کوئی اور قدرتی قوانین اطاعت و فرمانبرداری کے الئق نہیں)(163
بےشک زمین سے بلندیوں اونچائیوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے
ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اور کشتیوں اور جہازوں میں جو دریا میں
لوگوں کے فائدے کی چیزیں لے کر رواں دواں ہیں اور بارش جس کو قدرت زمین پر
بلندی و اونچائی سے برساتی ہے اور پھر ُمردہ و بنجر زمین کو مرنے کے بعد زندہ اور
سرسبز کردیتی ہے اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیالنے میں اور ہواؤں کے
چالنےمیں اور بادلوں میں جو زمین سے اونچائیوں پر اور زمین کے درمیان گھرے
رہتے ہیں۔ صرف عقلمندوں کے لئے ہی یہ سب قدرت کی نشانیاں ہیں جو کہ کائنات میں
جاری و ساری قدرتی قوانین میں غوروفکر کرتے ہیں )(164
اور اکثر احمق مزھبی جنونی لوگ ایسے ہیں جوغیر قدرت کو شریک قدرت بناتے ہیں
اور پھر غیر قدرت سے احمقانہ محبت کرتے ہیں ۔ لیکن جو قدرت اور اس کے قوانین پر
ایمان رکھنے والے ہیں وہ تو قدرتی فطری قوانین ہی کے سب سے زیادہ دوستدار ہوتے
ہیں۔ اور اے کاش فطری قوانین کے دشمن ظالم لوگ جو بات قدرت کے مکافات عمل کے
قانون کے عذاب کے وقت دیکھیں گے کسی طرح اب دیکھ لیتے کہ کائنات میں سب طرح
کی طاقت قدرت اور اس کے قوانین ہی کو ہے۔ اور یہ کہ قدرت کا ہر عمل ایک خاص وقت
تک معین ہے پھر اسکی پکڑ سے کوئی نہیں بچ سکتا )(165
اور پھر جس دن وہ اپنے اعمال کی سبب مکافات عمل کے تحت پکڑ میں آجائیں گے اس
دن غیر قدرت کے پیشوا اپنے پیروؤں سے بیزاری ظاہر کریں گے اور نام نہاد پیشواء
اور ان کے پیرو دونوں اپنے احمق پن کا عذاب دیکھ لیں گے اور اس دن ان کے آپس کے
تعلقات منطقی طور پر منقطع ہوجائیں گے)(166
اور غیر قدرت کو شریک قدرت بنانے والے ظالم لوگوں کا تباہ حال دیکھ کر پیروی کرنے
والے احمق جس دن اپنے مکافات عمل کے تحت پکڑ میں آجائیں گے تو حسرت سے
کہیں گے کہ اے کاش ہمیں پھر سے ایک موقعہ نصیب ہو تاکہ جس طرح آج یہ جھوٹے
ظالم پیشوا ہم سے بیزار ہو رہے ہیں اسی طرح ہم بھی ان سے بیزار ہوں ۔ اس طرح
قدرت اپنے مکافات عمل کے تحت ان کے اعمال انہیں حسرت بنا کر دکھائے گی لیکن وہ
اپنے غلط اعمال کے دوزخ سے کبھی نکل نہیں سکیں گے)(167
تو لوگو جو چیزیں زمین میں حالل طیب یعنی صحت بخش پاک صاف ہیں وہ کھاؤ۔ اور
ُمضر صحت اشیاء کھا کرنفس شیطان کے قدموں پر نہ چلوکہ وہ تمہاری صحت و جان کا
کھال دشمن ہے)(168
وہ نفس شیطان تو تم کو برائی اور بےحیائی ہی کے انسانیت کے خالف گھٹیا کام کرنے
کو کہتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ قدرت کی نسبت ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں( کچھ بھی
علم نہیں)(169
نصاری لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ سب کی سالمتی و ٰ اور جب ان مزھبی جنونی یہودو
فالح کے فطری قوانین پر مشتمل مفصل شک سے پاک کتاب قرانی ہللا نے نازل فرمائی
ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں" نہیں" بلکہ ہم تو اسی چیز کی اندھی تقلید کرتے
ہوئے پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے مزھبی باپ دادا کو پایا ۔ بھال اگرچہ ان کے
مزھبی جنونی باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اورنہ سیدھے رستے پر ہوں تب بھی وہ
انہیں کی تقلید کئے جائیں گے ؟؟؟)(170
تو سمجھ لو کہ جو لوگ سب کی سالمتی و فالح کے قدرتی فطری قوانین کے دشمن یعنی
کافر ہیں ان کی مثال اس کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز
کے سوا کچھ سن ہی نہ سکے۔ یعنی یہ انسان نما حیوان ،کان ،زبان ،آنکھیں رکھنے
کے باوجود عقل کے دشمن بہرے ،گونگے ،اندھے جانور سے بھی بدتر لوگ ہیں کہ
کچھ سمجھ ہی نہیں سکتے)(171
تو اے عقل و خرد کی تقلید کرنے والواہل ایمان جو صاف ستھری پاکیزہ صحت بخش
چیزیں قدرت نے تم کو عطا فرمائیں ہیں ان کو کھاؤ اور اگر قدرت کی اطاعت کرنے والے
بندے ہو تو قدرت کی بے بہا نعمتوں کا صحت مند رہ کر شکر بھی ادا کرو)(172
قدرت کی طرف سے اگر کوئی پابندی /ممانعت تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ ُمردار نہ کھاؤ،
خون اور خنزیر کے گوشت یعنی سڑے ہوئے ناقص گوشت سے پرہیز کرو کہ یہ سب
انسان کیلیئے مضر صحت ہیں اور کوئی ایسی چیز نہ کھاؤ جس پر قدرت کے قوانین کی
خالف ورزی کا اندیشہ ہو ہاں جو شخص بھوک سے مرنے کی انتہائی مجبوری کی حالت
میں ہو اور پھر وہ ان میں سے کوئی چیز اپنی جان بچانے کی غرض سے کھا لے کہ نہ
وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو نہ وہ ضرورت کی حد سے تجاوز کر ے ،تو تم پر کوئی
ُجرم نہیں کہ قدرت اور اس کے قوانین بخشنے والے اور رحم کرنے والے ہیں)(173
حق یہ ہے کہ جو قران دشمن لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو قرانی ہللا نے اپنی کتاب /
ضابطہ ء حیات میں ناز ل کئیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پر اپنے مفاد کی
بھینٹ پر چڑھاتے ہیں ،دراصل وہ اپنے پیٹ ،ظلم کی آگ سے بھر رہے ہیں ،
بروزاحتساب قدرت اور اس کے قوانین ان کی ہر گز کوئی مدد نہیں کریں گے نہ اُنہیں سزا
دئیے بغیر چھوڑا جائے گا ،اُن کے لیے ہر حال میں دردناک سزا ہے)(174
یہ وہ احمق لوگ ہیں جنہوں نے سب کی سالمتی و فالح کی قدرتی ہدایت کے بدلے زاتی
مفاد و ہوس کی ُگمراہی خریدی اور اپنی بخشش کے بدلے عذاب مول لیا کیسا عجیب ہے
ان کا حوصلہ کہ مکافات عمل کے جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں)(175
یہ سب کچھ خالف انسانیت کام اس وجہ سے ہوا کہ قرانی ہللا نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے
مطابق سب کی سالمتی و فالح کی کتاب /ضابطہ ء حیات نازل کیا تھا مگر جن لوگوں نے
ضابطہ ء حیات میں انسانیت کے خالف اختالف نکالے وہ اپنے بنائے جھگڑوں میں حق
سے بہت دور نکل گئے)(176
تو قرانی مملکت کے زمہ دار لوگو تم یہ بات اچھی طرح جان لو کہ نیک اور اچھا کام یہ
قطعی نہیں ہے کہ تم مشرق یا مغرب کو مزھبی قبلہ سمجھ کران کی طرف منہ کرکے "
لپس سروس " کے لئیے کھڑے ہو جاؤ بلکہ نیک اور اچھا کام یہ ہے کہ قدرت پر اور
قدرتی قوانین کے تحت سب کے بہترین مستقبل پر اور قدرتی قوت وسائل سے کام لینے
پر اور سب کی سالمتی و فالح کے ضابطہ ء حیات پر اور سب کی سالمتی و فالح کا دین
نظام النے والے انقالبی پیغمبروں پر دل کی گہرائی سے ایمان الئیں ۔اور اپنا کمایا مال
باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں /بے سہاروں اور محتاجوں اور
مسافروں اور مانگنے والوں کو اس قرانی دین نظام کے تحت دیں اور ابلیسی مستحکم
نظام کی باعث قرض میں جکڑی گردنوں کے چھڑانے میں خرچ کریں اور اس طرح قدرت
کے رزق و وسائل کی منصفانہ تقسیم کا نظام قائم کر کے انسانیت کی ترقی و نشو نما میں
مدد دیں اور جب کسی سے کوئی عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں ۔ اور ہر قسم کی سختی
اور تکلیف میں اور معرکہ کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ بس یہی بہترین لوگ ہیں جو
اپنے ایمان میں سچے اور کھرے ہیں اور یہی ہیں جو قرانی ہللا کے احکام کی نافرمانی
سے ڈرنے والے ہیں)(177
تو اے قرانی سالمتی و فالح کے اقتداری نظام کے زمہ دار گورنر /مومنو !تم کو مقتولوں
کے بارے میں قصاص یعنی خون کے بدلے خون کے قانون کے قیام کا واضح حکم دیا
جاتا ہے ،اس طرح کہ اگر دانستہ قتل کرنے واال قاتل آزاد انسان ہے تو وہی آزاد انسان
قصاص میں مارا جائے اور اگر قاتل کوئی ماتحت غالم ہے تو وہی ماتحت غالم مارا جائے
،اور اگر قاتل کوئی عورت ہے تو وہی عورت قصاص کی سزا پائے اور
نادانستہ قتل کی صورت میں قاتل کو اس کے مقتول بھائی کے قصاص میں سے کچھ
مطالبہ
ٴ معاف کردیا جائے تو وارث مقتول کو پسندیدہ طریق سے قرار داد کی پیروی یعنی
خون بہا کرنا اور قاتل کو خوش خوئی کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے یہ قدرت و پروردگار کی
طرف سے تمہارے لئے آسانی اور مہربانی ہے تو اب جو کوئی زمہ دار گورنر /مومن
اس واضح حکم کے بعد کوئی زیادتی کرے اس کے لئے پھر قرانی سربراہ و اسٹیٹ کی
طرف سے الزمی سزا /دکھ کا عذاب ہے)(178
اوراے اہل عقل اچھی طرح جان لو کہ اس حکم قصاص میں تمہاری زندگانی و بقاء ہے کہ
تم آپس میں قتل و خونریزی سے بچو)(179
تم پر فرض ہے کہ جب تم قرانی مملکت کے ابتدائی عبوری دور یعنی قران کا ابتدائی ،
انڈر پراسز دور ( ایسا قدرتی دور ہوتا ھے جیسے کہ ایک بیج کو زمین میں بویا جائے
تو وہ فوری درخت بن کر انسان کو پھل اور سایہ دینے نہیں لگتا بلکہ پھل اور سایہ پانے
کیلیئے پہلے بیج سے قدرتی طور پر پودا نکلتا ھے جس کی انسان کو آبیاری و حفاظت
کی زمہ داری اُٹھانی پڑتی ھے) ایسے انڈر پراسز دور میں ،کسی کا موت کا وقت آجائے
تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ کر جانے واال ہو تو ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے رائج
العمل دستور کے مطابق وصیت کرجائے کہ نافذالوقت قانون کی پاسداری کرنے والوں پر
یہ ایک طرح کا حق ہے)(180
اور جو شخص ایسی رائج العمل دستوری وصیت کو سننے کے بعد اپنی مفاد پرستی
کیلیئے اُسے بدل ڈالے تو اس کے بدلنے کا ُجرم انہیں لوگوں پر ہے جو اس کو بدلیں ۔
اور بےشک قدرت کا مکافات عمل سب سنتے اور سمجھتے ہیں)(181
اگر کسی کو وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی وارث کی طرفداری یا حق تلفی کا
اندیشہ ہو تو اگر وہ وصیت کی بابت افہام و تفہیم سے وارثوں میں صلح کرادے تو اس پر
کچھ حرج نہیں ۔ بےشک قدرت اور اس کے قوانین بخشنے والے اور رحم والے ہیں
)(182
اے امن و امان پر مقرر قرانی سالمتی و فالح کی مملکت کے مرکزی زمہ دار و ( مومنو)
!تم سب پر انسانیت کے مصائب و آالم کے ُجملہ مسائل کے حل کیلیئے عالمی ساالنہ
حجت اتمام کانفرنس حج کے دنوں میں بطور ڈیوٹی مرکز میں ُرکنا فرض کیا گیا ھے ۔
جس طرح تم سے پہلے سالمتی و فالح کا نظام قائم کرنے والے زمہ دار لوگوں پر فرض
کیا گیا تھا تاکہ تم دنیا کے روبرو حقیقی طور پر معزز و باکردار عالمی یونائٹیڈ ہیومن
آرگنائزیشن کا ادارہ بن سکو )(183
یہ عالمی مرکز میں ُرکنے کے گنتی کے بس چند دن ہیں تو جو شخص تم مومنین میں
سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں یعنی عُمرہ میں ُرک کر اپنی زمہ داری کا
شمار پورا کرلے اور جو مومن لوگ مرکز میں ڈیوٹی کیلیئے ُرکنے کی طاقت رکھیں لیکن
کسی وجہ سے ُرکیں نہیں تو وہ اس کے بدلے کسی محتاج کو کھانا کھال دیں اور جو
کوئی شوق سے یہ بھالئی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے۔ اور اگر سمجھو تو
اس نیکی سے بہتر مرکز میں ُرکنا ہی تمہارے حق میں فائدہ مند ہے)(184
رمضان کا مہینہ کہ جس میں ضابطہ ء حیات قرآن نازل ہونا شروع ہوا جو ساری انسانیت
کا رہنما ہے اور جس میں سب کی سالمتی و فالح کی ہدایات کی کھلی نشانیاں ہیں اور جو
کہ حق و باطل نظام کو الگ الگ کر کے دکھانے واال ہے تو امن و امان پر مقرر جو کوئی
تم مرکزی زمہ داروں میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہیئے کہ وہ مرکز میں پورے
مہینہ ُرکا رھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں عُمرہ میں ُرک کر ان کا
شمار پورا کرلے۔ قرانی ہللا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا اور یہ
آسانی کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ تم سب مرکزی زمہ دار مرکز میں ُرکنے کے دنوں کا
شمار پورا کرلو اور اس احسان کے بدلے کہ قرانی ہللا نے تم کو سالمتی و فالح کی
عالمی ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کر واور اس کا شکر کرو )(185
اور سب کی سالمتی و فالح کا انقالبی عالمی دین نظام النے والے اے پیغمبر جب تم سے
قدرتی فطری سالمتی و فالح کے احکام پر چلنے کیلیئے مرکز میں آنے والے عالمی
حکمران و نمائندے میری یعنی قرانی ہللا کی حقیقت کے بارے میں دریافت کریں تو اُن
سے برمال کہہ دو کہ قرانی ہللا تو حقیقت میں قدرتی فطری قوانین قادر و مطلق کی
صورت تمہارے پاس ہی موجود ہے کہ جب کوئی حکمران کسی غربت و جہالت کے
عالمی مصائب و آالم سے چھٹکارا پانے کیلیئے مجھے اپنی مدد کے لئیے پکارتا ہے تو
قرانی ہللا اس کی دعا یعنی سب کی بہتری کی خواہش کو صرف اپنے قدرتی فطری قوانین
پر عمل کی صورت قبول کرتا ہے تو پھر ان عالمی حکمران نمائندوں کو چاہیئے کہ قرانی
ہللا کے فطری احکام کو عمل کرنے کیلیئے عقل و شعور کے ساتھ مانیں اور اس طور
قرانی ہللا پر ایمان الئیں تاکہ ادھر اُدھر بھٹکنے کے بجائے سب کی سالمتی و فالح کا
حقیقی نیک عملی رستہ سمجھ پائیں )(186
تو قرانی مملکت کے مرکزی وفاقی زمہ دارو اب الصیام یعنی مہینہ بھر مرکز میں ُرکنے
کے دنوں کی راتوں میں تمہارے لئے اپنی عورتوں کے پاس جانے کا حکم کردیا گیا ہے
کہ وہ تمہاری قدرتی ضروریات کی پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو قدرت کو معلوم
ہے کہ تم ان کے پاس جانے سے خود پر بے جا پابندی لگانے کی باعث اپنے زاتی
جسمانی حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات
سے درگزرفرمائی ۔ سو اب تم کو اختیار ہے کہ ان سے مباشرت کرو۔ اور قدرت
نےتمہاری چاہت کے مطابق جو چیز تمہارے لئے لکھ رکھی ہے یعنی اوالد اس کو
قدرت سے طلب کرو اور ساتھ ہی گھر میں خوب آرام و سکون سے کھاؤ پیو یہاں تک کہ
صبح کی پو پھٹنا ،ڈان ،تڑکہ نظر آنے لگے تو اپنی ڈیوٹیوں پر رپورٹ کرو پھر
مکمل یکسوئی سے صوم کی زمہ داری کو شام رات آمد تک پورا کرو اور جب تم میں
سے بعض زمہ دار مومن جو راتوں کو مسجدوں میں نائیٹ ڈیوٹی پر معمورہوں یعنی
اعتکاف پر ہوں تو وہ اپنی اہم زمہ داری کی باعث اپنے گھروں پر نہیں جا سکتے ہیں
یعنی وہ اپنی عورتوں سے مباشرت نہیں کر سکیں گے ۔ یہ قدرتی فطری حدیں ہیں
انہیں پامال نہ کرنا ۔ اس طرح قرانی ہللا اپنی آیتیں لوگوں کے سمجھانے کے لئے کھول
کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ قرانی زمہ داران حقیقی عملی باکردار انسان بن سکیں
)(187
اور سرمایہ پرستی کے مستحکم ابلیسی نظام کے تحت ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ
اورنہ اس کو رشوۃ وقت کے ابلیسی حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ اُن کے زریعے لوگوں
کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور اس رائج الوقت غلط طریقہ کار کو تم
اچھی طرح سے جانتے بھی ہو)(188
اے محمد ﷺلوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ یہ گھٹتا بڑھتا
کیوں ہے ؟ کہہ دو کہ وہ لوگوں کے کاموں کی میعادیں بزریعہ تاریخ اور حج یعنی
انسانیت کے جملہ مسائل کے حجت اتمام کی عالمی کانفرنس کے وقت معلوم ہونے کا
ذریعہ ہے اور انسانی معامالت میں جان لو کہ یہ معمولی سی بات بھی زہن نشین رھے کہ
یہ اچھی بات نہیں کہ گھروں میں پیچھے کے راستے سے داخل ہوا جائے۔ بلکہ اچھی
بات یہ ہے کہ باکردار زی وقار انسان گھروں میں سامنے کے دروازوں سے آیا کریں اور
اس طرح قدرت کے چھوٹے بڑے تمام قوانین کی خالف ورزی سے ڈرتے رہیں تاکہ ہر
قسم کے مسائل سے نجات پائیں)(189
اورجو سرمایہ پرستی کا مستحکم ابلیسی غریب دشمن نظام چالنے والے حاکم لوگ تم
سے لڑتے ہیں تو تم بھی قرانی ہللا کی سب کی سالمتی و فالح کی راہ میں خوب ڈٹ کر ان
سے جنگ کرو ،ہاں مگر یہ دیکھنا کہ جنگ کے دوران بھی تم سے کوئی زیادتی نہ
ہونے پائے کہ قرانی ہللا کسی بھی قسم کی زیادتی کرنے والوں کو کسی حال میں اپنا
دوست نہیں رکھتا)(190
اور جو سرمایہ پرست مستحکم ابلیسی غریب دشمن نظام چالنے والے دنیا بھر میں تمہیں
کہیں نظر آئیں ان سے خوب ڈٹ کر جنگ کرو اور جیسے انہوں نے تم کو سالمتی و فالح
کے نظام قائم کرنے کی پاداش میں مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا تھا ایسے ہی اب
تم بھی ان مفاد پرستی کے نظام کو چالنے والوں کو مکہ سے نکال دو۔ اور اچھی طرح
جان لو کہ( سالمتی و فالح کے دین نظام سے گمراہ کرنے اور پوجا پاٹ کے فرقہ ورانہ
مزاھب میں مبتال کرنے کا فساد قتل وخونریزی سے کہیں بڑھ کر ہے اور جب تک وہ تم
سے آگے بڑھ کر مسجد محترم یعنی خانہ کعبہ یعنی یونائیٹڈ ہیومن آرگنائزیشن کے پاس
نہ لڑیں تم بھی وہاں ان سے نہ لڑنا۔ ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم ان سے خوب ڈٹ کر
مقابلہ کرو اور انہیں شکست فاش دو کہ مستحکم ابلیسی نظام چالنے والے کافروں کی
یہی سزا ہے)(191
اور ہاں اگر وہ سالمتی و فالح کے دین نظام سے آگاہ ہو جانے کے بعد اپنی شیطانیت
سے باز آجائیں تو قرانی ہللا بخشنے واال اور رحم کرنے واال ہے)(192
اور مستحکم ابلیسی نظام چالنے والوں سے اس وقت تک جنگ لڑتے رہنا کہ زمین سے
یہ غریب دشمن فساد نابود ہوجائے اور دنیا بھر میں قرانی ہللا کا سالمتی و فالح بھرا دین
/نظام /سسٹم /طریقہ کار قائم ہوجائے اور اگر وہ اپنے شیطانی دین نظام سے باز آجائیں
تو ظالموں کے سوا کسی اور پر زیادتی نہیں کرنی چاہیئے)(193
محترم مہینہ کہ جس میں اتمام حجت کے طور پر عالمی مسائل کا حل تالش کیا جانا ھے
اس میں کبھی آگے بڑھ کر جنگ نہ لڑی جائے کہ یہی عمل محترم مہینے کا بدل ھے اور
اسی طرح انسانیت کی بابت دیگر حرمت والی چیزیں بھی ایک دوسرے کا بدل ہیں ،پس
اگر تم قرانی مملکت کے زمہ داروں سے کوئی آگے بڑھ کر زیادتی کرتے ہوئے مقابلہ
کرے تو پھر مجبورا تم بھی اپنا دفاع کرتے ہوئے اس سے مقابلہ کرو مگر اسی قدر
مقابلہ کرو کہ جتنا اس نے تم پر وار کیا ،اور ہمیشہ قرانی ا ﷲکے قوانین کی مخالفت
سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ قرانی ا ﷲاپنے قوانین کا احترام کرنے والوں کے ساتھ
ہے(194)،
اور قرانی ا ﷲکی سب کی سالمتی و فالح کی عظیم ترین راہ میں قدرت کے تمام رزق و
وسائل کو انسانوں میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی پالننگ و منصوبہ بندی کرو
اور اس عظیم راہ کی مخالفت کر کے اپنے ہی ہاتھوں خود کو یعنی انسانیت کو ہالکت میں
نہ ڈالو ،اور یہ انسانیت کی سالمتی و فالح کا نیک طریقہ کار ہر حال میں اختیار کرو،
بیشک ا ﷲنیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے(195)،
اور اس نیک طریقہ کار کو قرانی ہللا کے بتائے اتمام حجت کی عالمی ساالنہ کانفرنس /
حج اور بعد میں ہنگامی نوعیت کی مختصر کانفرنسیں /عمرہ میں دیگر حکام و نمائندوں
کے ساتھ مشاورت کے زریعے مکمل کرو ،پھر اگر تم کو اس سالمتی و فالح کی نیک راہ
پر چلنے سے بعض کفار ظالموں کی طرف سے روکا جائے تو اس عظیم سالمتی و فالح
کے نظام کی بقاء کیلیئے جو شے بھی تم کو قربان کرنی پڑے تو کردو اور یہاں تک کہ
اپنے سر کے بالوں کو فراغت کے ساتھ اس وقت تک نہ سنوارو جب تک کہ تمہاری
قربانی اس نیک طریقہ کارکا عالی مقام نہ پالے اور تم قرانی مملکت کے زمہ داروں میں
سے جو کوئی کسی وجہ سے مسجد محترم سے دُور ہونے کی باعث زیادتی کرنے والے
کفار سے اس جنگ و مقابلے میں شریک نہ تھا یا بیمار تھا یا اُسے کوئی اور مسئلہ
درپیش تھا تو اس کے بدلے میں اب مرکز میں اُسے ُرکنا ہوگا اگر وہ کسی وجہ سے نہیں
ُرک سکتا اور وہ مالی طور پر مستحکم ہو تو اُسے مرکز و اسٹیٹ کو مظبوط کرنے
کیلیئے مالی امداد یعنی صدقہ دینا ہو گا یا کوئی اور طرح سے اپنی مالی قربانی مرکز
کیلیئے پیش کرنا ہو گی ،پھر جب تم جنگ کی کیفیت سے نکل کر اطمینان و امن کی حالت
میں آجاؤ تو جو کوئی ہنگامی کانفرنس عمرہ کو عالمی اتمام حجت کانفرنس حج کے طور
فائدہ دینا چاہے تو اس سلسلے میں اُسے جو بھی مالی قربانی میّسر آئے وہ پیش کرنا
زمانہ حج میں رک کر اپنی خدمات کو
ٴ ہوگی ،پھر جو یہ بھی نہ کر سکے تو اُسے تین دن
مرکز میں پیش کرنا ہوگا اور سات دن حج کے بعد حکام و نمائندوں کو واپس لوٹتے وقت
ان کی دیکھ بھال کیلیئے دینا ہونگے ،یہ پورے دس روز ہوئے ،یہ رعایت اس کے لئے
ہے جس کے اہل و عیال مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں( یعنی جو مکہ کا رہنے واال
نہ ہو) ،اور قرانی ا ﷲکے ان قوانین کی مخالفت سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ نافرمانی
کی صورتمیں قرانی ا ﷲاپنے مکافات عمل کے قانون کے تحت سخت عذاب دینے واال
ہے(196)،
حج یعنی تمام عالمی مسائل کے حجت اتمام کا مہینہ معین و معلوم ہے تو جو عالمی امن و
امان کے قیام کا مرکزی زمہ دار مومن شخص اس عظیم ماہ میں حج کی ڈیوٹی ادا کرنے
کی نیت کرلے تو ایک بار پھر اچھی طرح جان لے کہ حج کے دوران دن اور خاص کر
راتوں میں جو ڈیوٹی پر معمور ہو وہ عورتوں سے نہ اختالط کرے نہ کوئی ایسا کام کرے
کہ جس سے حج کے عظیم ماہ کے دوران کسی جنگ کا خطرہ پیدا ہو ۔ اور پھر اس ماہ
حج میں دن رات جو تمام عالمی مسائل کے حجت اتمام کا نیک کام تم کرو گے وہ قرانی
ہللا کو تمہارے خلوص عمل سے معلوم ہوجائے گا اور اس کیلیئے اس عظیم راہ میں زاد
راہ یعنی اپنا بلند کردار ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر فائدہ مند زاد راہ بلند کرداری ہی ہے
اور اے اہل عقل ہر پل قرانی ہللا کے احکام کی خالف ورزی سے ڈرتے رہو)(197
اس کا تمہیں کوئی ُجرم نہیں کہ حج کے خصوصی دنوں میں حج کی ڈیوٹی کے عالوہ
بذریعہ تجارت اپنے پروردگار سے اپنی مملکت کیلیئے روزی بھی طلب کرو اور جب
قرانی ہللا کے سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام کی معرفت کا یقینی علم عرفات پا لینے
کے بعد حج سے واپس ہونے لگو تو مشعر حرام یعنی حجت اتمام مسائل کے حل کی بابت
محترم باریک طریقوں کا ہر طرف خوب ذکر کرو اور اس طرح ذکر کرو جس طرح اس
قرانی ہللا نے تم کو تمہارے قدرتی حواس کے زریعے ادراک کرنا سکھایا ہے ۔ اور اس
سے پیشتر تم لوگ انسانیت کی بابت ان محترم طریقوں سے محض ناواقف تھے)(198
پھر جہاں اور تمام حج پر آنے والے حکمران و نمائندے لوگ واپس ہوں وہیں سے تم
قرانی زمہ داران بھی اپنی ڈیوٹی سے واپس ہو اور قرانی ہللا سے اپنے حج کے عمل کا
نتیجہ مانگو۔ بےشک قرانی ہللا عمل کے نتیجے کے تحت بخشنے واال اور رحمت کرنے
واال ہے)(199
پھر اے عالمی حکمران و نمائندو ،جب عالمی مسائل کی ساالنہ ُحجت اتمام کانفرنس یعنی
حج میں عالمی سالمتی و فالح کے تمام پہلوؤں کی دیکھ بھال کے لوازمات و زمہ داریوں
کو پوری کرچکو تو اب عالمی سالمتی و فالح کے قرانی ہللا کے قوانین کو اس طرح اپنے
مدنظر رکھو کہ جس طرح دور جہالت میں اپنے باپ دادا کے مزھب و مسلک اور طریقہ
کار پر شدّت سے عمل پیرا ہوا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔اور بعض ابن الوقت
مفاد پرست حکمران لوگ ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہم کو تمام عیش و آرام موجودہ
وقت میں ہی حاصل ہو جائیں پر افسوس کہ ایسے ناعاقبت اندیش جاہل حکمران لوگوں کا
اپنی آل و قوم کے بہترین مستقبل میں کچھ حصہ نہیں )(200
ساس و زمہ دار حکمران ایسے ہیں کہ جو خواہش و جستجو کرتے ہیں کہ اور بعض ح ّ
اے کائنات کو چالنے والے پروردگار ہم سب کو موجودہ وقت میں بھی تمام عیش و آرام و
نعمت بھری زندگی عطا فرما اور اسی طرح مستقبل میں بھی ہماری آل و قوم کو عیش و
آرام و نعمت بھری جنتی زندگی بخش اور غربت و جہالت کی دوزخ کے عذاب سے محفوظ
رکھ)(201
ساس حکمران لوگ ہیں جن کے لئے ان کے سالمتی بھرے کاموں کا حصہ یہی باعمل ح ّ
یعنی اجر نیک تیار ہے اور قدرت کا مکافات عمل سب سے جلد حساب لینے واال اور جلد
ان کے کاموں کا اجرو صلہ دینے واال ہے)(202
اور عالمی مسائل کی ساالنہ ُحجت اتمام کانفرنس یعنی حج کے انتہائی زمہ دارانہ دنوں
میں یہ بات بھی قرانی مرکز اچھی طرح سمجھ لے کہ اگر کوئی حکمران و نمائندہ کو
کسی وجہ سے دو ہی دن /مختصر وقت میں کانفرنس چھوڑ کر جانا پڑے تو وہ جا سکتا
ہے اُس پر کوئی پابندی نہیں اور جو کانفرنس ختم ہونے کے بعد اپنی مرضی سے ٹہرا
ساس حکمران شخص کے لئے ہیں رھے تو اس پر بھی کوئی پابندی نہیں ۔ یہ باتیں اُس ح ّ
جو اپنی رعایا کے بہترین مستقبل کی بابت قدرت کے مکافات عمل کے اٹل قانون سے
ڈرے اور اسی طرح بشمول مرکز تم تمام حکمران و نمائندے لوگ قدرت کے مکافات عمل
کے قانون سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم سب کو اگلے سال اپنے تمام اعمال کی
بابت یہاں عالمی مرکز میں جواب دینا ہو گا)(203
اور اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لو کہ کوئی حاکم شخص تو ایسی مسحور کُن باتیں
بنانے واال ہوتا ہے کہ جس کی گفتگو بظاہر زمانہ ء حال کی زندگی میں تم کو نہائیت
دلکش معلوم ہوتی ہے ( جیسے کہ آج سالمتی و فالح کے علم سے بے بہرہ تمام موجودہ
حکمران لوگ اپنی اپنی عوام کی فالح و بہبود کے بارے میں محض باتیں بناتے ہیں ،
بشمول یو این او اور وہ اپنی مانی الضمیر پر /بات بات پر اپنے مزھبی خداؤں کو بھی
گواہ بنا رہے ہوتے ہیں حاالنکہ وہ پڑھے لکھے مزھبی حکمران لوگ دراصل سب
انسانیت کی بہترین مستقبل کی عملی مخالفت کرنے والے سخت مزاج جاہل ترین لوگ
ہوتے ہے)(204
اور اچھی طرح جان لو کہ اس سب کی سالمتی و فالح کی عالمی حجت اتمام کانفرنس سے
ایسا مزھبی روائیت پسند انا پرست جاہل حکمراں جو پیٹھ پھیر کر چال جاتا ہے اور واپس
جاکر اپنی مملکت میں اپنے مفاد پرست ملوکیتی ابلیسی قوانین کو رائج رکھتا ہے تاکہ اس
طریقے سے اپنی عوام کو اپنا غالم بناتے ہوئے اُن میں بھوک و غربت کا فتنہ کھڑا
رکھے اور اُن کے بہترین خوشحال مستقبل کی کھیتی کو برباد اور انسانوں اور حیوانوں
کی نسل کو ترقی و فالح سے نابود کردے تو جان لو کہ قرانی ہللا ایسے انسان دشمن شر
انگیز فتنے کو بالکل پسندنہیں کرتا)(205
اور جب عوام پر اپنا حکم چالنے والے بدمست طاقت کے نشے میں ُچور حاکم سے کہا
جاتا ہے کہ قدرت کے قوانین کی خالف ورزی سے کچھ تو خوف کرو تو اس انا پرست و
مفاد پرست جاہل مطلق حاکم کو اپنی طاقت و حکومت کا غرور اسے مزید احساس برتری
و تکبر میں مبتال کر کے مجسم شیطان بنا دیتا ہے سو ایسے حاکم اور اسکی اطاعت گزار
عوام قدرت کے مکافات عمل کے تحت جہنم یعنی بھوک و غربت و افالس کے سزاوار
رہتے ہیں اور وہ تو واقعی بہت ہی بُرا ٹھکانہ ہے( کہ یہی دنیا کے تمام جرائم و فساد کی
جڑ بنیا د ہے)(206
سا س باشعور حاکم ایسا ہے کہ قدرت کے قوانین کی اور کوئی انسانیت سے لبریز ح ّ
اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے اپنے عوام کی فالح و بہبود و نشوء نما و ترقی کی
خاطر اپنی جان تک کو گ ُھال ڈالتا ہے اور ایسے حکمران اور اس کی عوام پر قدرت اور
اس کے قوانین اپنے مکافات عمل کے تحت بہت مہربان ہوتے ہیں (کہ اس معاشرے سے
بھوک و غربت و افالس کی جڑ بنیاد ختم ہوتی جاتی ہے)(207
تو اے امن و امان کی قرانی مملکت کے زمہ دار مومنو تم تمام انسانیت کی سالمتی و
فالح کے دین /نظام /سسٹم /طریقہ کار کو قائم کرتے ہوئے عملی طور پر پورے کے
پورے ایسے جنتی نظام میں داخل ہو جاؤ کہ جہاں کوئی کسی کی زرہ برابر بھی حق تلفی
نہ کر سکے اور اس عظیم جنت کو پانے کیلیئے شک سے پاک قرانی ہدایات کے عالوہ
کسی مشکوک شیطانی ہدایات و روایات کے پیچھے نہ چلو کہ یہ سب ہی تو انسانیت کی
سالمتی و فالح کے دین نظام کی ک ُھلی دشمن ہیں)(208
پھر اگر تم عالمی ضابطہ ء حیات کے اتنے واضح اور روشن احکام پہنچ جانے کے بعد
اپنی مفاد پرستی کی گھٹیا بشری صفات کی باعث اس سالمتی و فالح کے عظیم دین نظام
سے لڑکھڑا کر نیچے بھوک و افالس و تباہی کے جہنمی نظام میں گر جاؤ تو اسے اچھی
سی کو مظبوطی سے تھام کرہی تم نہ صرف طرح جان لو کہ قرانی ہللا کے قوانین کی ر ّ
تمام دنیاوی نظاموں پر غالب آ سکتے ہو بلکہ اس نظام کو ساری دنیا کے لئیے پُر حکمت
بناسکتے ہو)(209
تو اب سالمتی و فالح کی اس واضح ہدایات کے بعد کیا یہ انسانیت کی توہین کرنے والے
مفاد پرست حاکم اس بات کے منتظر ہیں کہ ان پر قدرت کے مکافات عمل کاعذاب اس
طرح اپنے قدرتی مقررہ وقت پر آموجود ہو جیسے کہ بادل سائبان بن کر آنازل ہو تے ہیں
؟ اور قدرت کی عظیم قوت و سیالب بن کر آنا فانا تمہارا کام تمام کردیتے ہیں ؟؟
تو اچھی طرح سمجھ لو کہ سب کی سالمتی و فالح کے حقیقی کاموں کا رجوع صرف اور
صرف قدرتی فطری قوانین کی پیروی و اطاعت کرنے میں ہی ہے)(210
اے سب کی سالمتی و فالح کا انقالبی قرانی نظام النے والے محمد ﷺ زرا اس بنی اسرائیل
قوم سے پوچھو کہ ہم نے تم سے پہلے اس قوم کو سالمتی و فالح کے علم سے بھری
کتنی کھلی ہدایات دی تھیں ؟پر جو ناعاقبت اندیش حکمران اپنے رب کی قدرتی نعمت /
علم ،ضابطہ ء حیات ( تورات ) کو اپنے پاس آنے کے بعد مفاد پرستی کی غرض سے
بدل دیں تو قدرت کے مکافات عمل کے تحت دنیا میں بھوک و غربت کا سخت عذاب تو
پھر آنا ہی ہے)(211
اور جو حکمران لوگ سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام کے منکر یعنی کافر ہوتے ہیں
یہ دنیا اُن کے لئے انکی مفاد پرستی کی وجہ سے بظاہر خوشنما تو ضرور ہو جاتی ہے
اور اسی باعث وہ دنیا کو امن و سالمتی مہیا کرنے والے مومن لوگوں سے تمسخر بھی
کرتے ہیں لیکن یہ کافر و ظالم ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو باکردار باشعور حکمران لوگ ہیں
وہ مکافات عمل کے بروز احتساب ان کافر حکمران لوگوں پر غالب ہوں گے اور یہ بھی
یاد رکھیں کہ قدرت اور اس کے قوانین پر عمل کرنے والے حکمران لوگ جتنا چاہے بے
شمار رزق قدرتی طرز پر پالیتے ہیں ( کہ اس باعث ان پر کبھی بھوک و غربت کے عزاب
نہیں آیا کرتے)(212
اور تمہارے اس نام نہاد دور تمدن سے پہلے یعنی غیر تمدنی دور میں ،سب انسانیت کا
زندگی بسر کرنے کا ایک ہی طریقہ کار تھا کہ اُس غیر تمدنی دور میں قدرت کی کسی
شے پر کسی انسان کا زاتی قبضہ قابل قبول نہیں تھا ،کیونکہ سیدھی سی بات ہے کہ
قدرت کی ہر شے آگ ،پانی ،ہوا ،زمین اور زمین کے اندر ہر قدرتی شے پر ہر انسان کا
برابری سے حق ہے ،لیکن جب تمدن کے نام پر پڑھے لکھے جاہل لوگ ان قدرتی اشیاء
خاص کر " ہللا کی زمین " کے مالک بنے تو پھر آپس میں شدید اختالف کرنے لگے تو
قدرت نے انسانیت کی طرف دور تمدن کی حیوانیت سے باہر نکالنے کیلیئے بشارت دینے
والے اور ابلیسی ملوکیتی نظام کی عالمی تباہی کا ڈر سنانے والے انقالبی پیغمبر بھیجے
اور ساتھ ہی ان پر سالمتی و فالح کے حقیقی علم سے لبریز سچی کتابیں نازل کیں تاکہ
جس قسم کے نفسا نفسی کے گھٹیا امور میں یہ حیوان سے بدتر مفاد پرست حکمران
لوگ اختالف کرتے تھے ان کا ان میں فیصلہ کردے۔اور وائے افسوس کہ اس میں اختالف
بھی انہیں بد بخت بنی اسرائیل کے حکمران لوگوں نے کیا کہ جن کو جنتی زندگی گزارنے
والی کتاب دی گئی تھی باوجود یہ کہ ان کے پاس ضابطہ ء حیات کے کُھلے احکام آچکے
تھے اور یہ اختالف ان جاہلوں نے صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی آپس کی ضد
سے کیا تو جس امر حق کے بارے میں وہ اختالف کرتے تھے ،قدرت نے اپنی مہربانی
سے امن و سالمتی چاہنے والے زمہ دار مومنوں کو اس امر حق کی راہ دکھا دی۔ اور
حقیقت یہی ہے کہ جو قوم چاہے وہ قدرت اور اس کے اٹل قوانین پر عمل کر کے اپنی
زندگی کو بھرپور جنتی زندگی ہوتا دیکھ لے)(213
پر کیا تم عالمی سالمتی و فالح کا جنتی انقالب النے والے لوگو یہ خیال کرتے ہو کہ یوں
ہی بنا کسی محنت و مقابلہ کے اس نفسا نفسی کے جہنم سے نکل کر جنت میں داخل
ہوجاؤ گے ؟ نہیں کہ ابھی تم کو اس راہ حق میں پیش آنے والی پہلے لوگوں کی سی
مصیبتیں و مشکالت تو پیش آئی ہی نہیں کہ ان کو اس جہنمی دنیا کو جنت بنانے کیلیئے
بڑی بڑی سختیاں اور تکلیفیں اُٹھانی پڑیں تھیں اور وہ ہزار قسم کی زلتوں اور صعوبتوں
میں ہال ہال دیئے گئے ۔ یہاں تک کہ انقالبی پیغمبر اور اس کے ساتھ عمل پیرا زمہ دار
مومن لوگ تک سب پکار اٹھے کہ کب قدرت کے فطری قوانین پر عمل کرنے کا نتیجہ
آئے گا ؟ یاد رکھو کہ قدرت کے ہر عمل کا ایک وقت معین ہے جس کے مکمل ہوجانے پر
نتیجہ الزمی آتا ھے ( چاہے یہ دنیا ادھر سے اُدھر ہو جائے)(214
اے سب کی سالمتی و فالح کا انقالبی دین نظام النے والے محمد ﷺقرانی مملکت کے زمہ
دار لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ یعنی سب کی سالمتی و فالح کی راہ میں کس
طرح قرانی اسٹیٹ کا رزق و مال عوام کی فالح و بہبود پر خرچ کیا جائے ۔ تو اپنے زمہ
داران مملکت سے کہہ دو کہ عبوری ابتدائی دور میں قرانی اسٹیٹ کا جو رزق و مال خرچ
کرنا چاہو وہ درجہ بدرجہ اہل استحقاق یعنی ماں باپ اور قریب کے رشتے داروں کو اور
یتیم بے سہاروں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو سب ضرورت مندوں کو دو اور جو
سب کی سالمتی و فالح کی بھالئی تم اس طور قائم کرو گے تو قرانی ہللا صرف اس عمل
کے نتیجے کو ہی جانتا ہے)(215
تو اس طرح کا امن و امان بھرا و سب کی سالمتی و فالح کا دین نظام قائم کرنے والو
حقیقی مسلمانو )تم پر خدا کے رستے یعنی سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام میں
رکاوٹ ڈالنے والے مفاد پرست و سرمایہ پرست کافر حکمران لوگوں سے جنگ کرنا
فرض کردیا گیا ہے وہ ابتدائی طور پرتمہیں ناگوار تو ہوگا کہ اس میں اپنے سگوں سے
بھی ٹکرانا پڑ جائے گا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو ابتدا میں بُری لگے پر وہ
تمہارے حق میں بھلی ہو اور اسی طرح عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ
تمہارے لئے مضر ہو۔ اور ان سالمتی و فالح کی باتوں کو صرف قرانی ہللا ہی بہتر جانتا
ہے اور تم سادہ لوح کلچر کے فالوور ان باریک بیں باتوں کو فی الحال نہیں جانتے
)(216
اے محمد ﷺ اب قرانی مملکت کے زمہ دار لوگ یہ جاننے کے بعد کہ مفاد پرست و
سرمایہ پرست انسانیت کے دشمن حکمرانوں سے جنگ لڑنا فرض ہو گئی ہے تو وہ تم
سے عالمی مسائل کی حجت اتمام کانفرنس یعنی حج کے عزت والے مہینوں کے دوران
کہ جس میں عالمی حکمرانوں و نمائندوں کا اپنے مملکتی مسائل کے حل کیلیئےیہاں
مرکز میں قیام و آمدورفت ہو گا جنگ کے بارے میں دریافت کر رہے ہیں تو کہہ دو کہ
اس دوران میں جنگ لڑنا تو بڑا انسانیت کے لئیے نقصان دہ ہےاور یہ تو خدا کی راہ
یعنی سب کی سالمتی و فالح کی راہ سے انسانیت کو روکنے کے مترادف ہے اور یہ
انسانیت پر کفر یعنی ظلم کرنے کے برابر ہے اور سیدھا سیدھا مسجد محترم یعنی خانہ
کعبہ /یونائیٹیڈ ہیومن آرگنائزیشن میں انسانیت کی سالمتی و فالح چاہنے والے حکمران
و نمائندوں کی آمد کو روکنے کے لئیے بند کرناہے ۔ اور یو ایچ او کے منتظم اہل مسجد
کو اس میں سے نکال دینا ہے جو قرانی ہللا کے نزدیک سب سے بڑھ کر جرم ہے۔ اور یہ
ہر قسم کی فتنہ انگیزی خونریزی سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور یہ مفاد پرست ملوکیتی وی
آئی پی دین نظام چالنے والے حکمران لوگ ہمیشہ تم قرانی مملکت قائم کرنے والوں سے
جنگ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے سالمتی و فالح کے
عالمی دین نظام سے ہی پھیر دیں ( اور ابھی پھیرا ہوا بھی ہے ) ۔ تو جو کوئی حکمران
تم میں سے اپنے قرانی دین نظام سے پھر کر مفاد پرستی کی شیطانیت کے سبب کافر و
ظالم حکمران ہو جائے اور کافر ہی مرے تو ایسے عیاش لوگوں کے اعمال آج کے دور
اور مستقبل دونوں میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دنیا کو دوزخ میں لے جانے
والے ہیں کہ جس غیر قرانی دور میں دنیا والے ہمیشہ جہنمی بن کر رہیں گے)(217
جو لوگ سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام پر ایمان الئے اور قرانی ہللا کے دین نظام
کے قیام کی خاطر اپنا مادر وطن تک چھوڑ گئے اور سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام
کے قیام کیلیئے ظالم کفار حاکموں سے ڈٹ کر جنگ کرتے رہے وہی قرانی ہللا کی رحمت
کے حقیقی امیدوار ہیں۔ اور قرانی ہللا بخشنے واال اور رحمت کرنے واال ہے)(218
اے سالمتی و فالح کا دین نظام النے والے انقالبی پیغمبر لوگ تم سے مستحکم ابلیسی
نظام کی باعث اپنے غموں سے نجات پانے کے لئیے نشہ کرنے اور جلد امیر بننے
کیلیئے جوا کھیلنے کی بابت حکم دریافت کرتے ہیں ؟ ۔ کہہ دو کہ ان طریقوں میں
انسانیت کیلیئے نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے اس میں بظاہر کچھ وقتی فائدے بھی
ہیں مگر ان کے نقصان وقتی فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں
کہ قرانی ہللا کے سب کی سالمتی و فالح کی راہ میں کون سا مال و دولت خرچ کریں ؟ ۔ تو
واضح طور پر کہہ دو کہ جب قرانی فالحی مملکت میں زمین پر سب انسانوں کا حق
برابری کی بنیاد پر رکھا گیا ھے اور اس نظام میں قدرت کے عطا کردہ کسی قدرتی انعام
کو خریدا بیچا نہیں جا سکتا اور اُس کا مالک نہیں بنا جا سکتا تو پھر ضرورت سے زیادہ
زمین جائداد رکھنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا تو آخر پھر جمع کس لئیے کرنا ہے ؟؟ لہٰ ذا
جو مال و دولت ضرورت سے زیادہ ہو اُسے انسانیت کی ترقی و فالح کیلیئے خرچ کردو ۔
اس طرح قرانی ہللا تمہارے لئے اپنے احکام خوب کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم
سوچو کہ دنیا خوبصورت جنت کس طرح بن سکتی ہے)(219
اور ہمیشہ اپنے آج اور اپنی نسلوں کے مستقبل پر غور کیا کرو ۔ اور تم سے غریب بے
سدھار کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان کی حالت کی سہارا لوگوں کی ُ
اصالح کرنا بہت اچھا اور الزمی کام ہے۔ اور اگر تم ان سے مل جل کر رہنا چاہو تو وہ
انسانیت کے ناطے تمہارے بھائی ہی ہیں اور قرانی ہللا خوب جانتا ہے کہ دنیا میں خرابی
کرنے واال مفاد پرست ملوکیتی نظام کا خواہاں کون شیطانی انسان ہے اور سب کی
سالمتی و فالح کے دین نظام کے تحت تمام دُکھی انسانیت کی اصالح کرنے واال کون بلند
کردار انسان ہے ۔ اور اگر پھر بھی تم قرانی ہللا کی خالف ورزی کر کے خود کو جہنمی
تکلیف میں ڈالے رکھو تو تم ایسا کرنے میں آزاد ہو ۔بےشک قدرت کے قوانین ہر حال
میں غالب اور حکمت والے ہیں)(220
اور سب کی سالمتی و فالح کے قرانی نظام کے زمہ دار مومنو ۔تم اوالد کے حصول
کیلیئے سرمایہ پرست ظالمانہ نظام کی خواہاں( مشرک ) عورتوں سے اُس وقت تک جب
تک کہ وہ عالمی سالمتی و فالح کے دین نظام پر دل کی گہرائی سے ایمان نہ الئیں اپنی
زندگی کا شریک سفر بنانے کیلیئے اُن سے نکاح نہ کرنا ۔ کیونکہ ایسے نظام کی خواہاں
مشرک عورت خواہ تم کو کیسی ہی بھلی لگے اس سے انتہائی بہتر وہ سالمتی و فالح پر
اپنا ایمان رکھنے والی ماتحت عورت ہے جو دور جہالت میں جنگ کے دوران تمہارے
قبضہ میں آئی تھی ۔اور اسی طرح سرمایہ پرست انسان دشمن ظالمانہ نظام کے خواہاں
مشرک مرد جب تک سب کی سالمتی و فالح کے عالمی دین نظام پر ایمان نہ الئیں مومن
عورتوں کو کبھی خود کو ان کو زوجیت میں نہ دینا چاہئیے کیونکہ ایسا مشرک مرد خواہ
تم کو کیسا ہی بھال لگے اس سے انتہائی بہتر وہ سالمتی و فالح کے دین نظام پر ایمان
رکھنے واال ماتحت مرد ہے جو دور جہالت میں جنگ کے دوران تمہارے قبضہ میں آیا تھا
۔ یہ سرمایہ پرست و مفاد پرست مشرک لوگ اپنی پیدا ہونے والی اوالد کو انسان دشمن
سرمایہ پرستی کےجہنمی نظام کی طرف بالتے ہیں۔ جبکہ قرانی ہللا تمہیں اور تمہاری
اوالد سب کو مہربانی سے عالمی سالمتی و فالح کے جنتی زندگی بخش نظام کی طرف
بالتا ہے۔ اور اپنے سالمتی و فالح کے حکم لوگوں سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ
نصیحت حاصل کریں)(221
اور ایسے بھی لوگ ہیں جو تم سے نکاح کے بعد اوالد کے حصول کیلیئے حیض کے
دوران مباشرت کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ وقت تو مباشرت کیلیئے
نجاست و نامناسب ہے ۔ سو ایام حیض میں عورتوں سے مباشرت کیلیئے کنارہ کش رہو۔
اور جب تک وہ حیض سے پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔ ہاں جب پاک ہوجائیں
تو جس قدرتی طریق سے قرانی ہللا اوالد دینا چاہتا ہے ان کے پاس جاؤ۔ کچھ شک نہیں
کہ قرانی ہللا غلطی کرنے سے ُرک جانے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو اپنا دوست
رکھتا ہے)(222
اور اچھی طرح سمجھ لو کہ حیض کے بعد تمہاری عورتیں مثالی طور پر تمہاری کھیتی
ہیں تو اپنی کھیتی میں بیج بونے کیلیئے جس طرح چاہو اور جب چاہو جاؤ ۔ اور اس طرح
اوالد پانے کی خواہش کو آگے بھیجو ۔ اور قدرت کے مکافات عمل کی خالف ورزی کرنے
سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ ایک خاص مقررہ وقت میں تمہیں اپنے ہر عمل کیلئیے
جوابدہ ہونا ہے اور اے انقالبی پیغمبر سب کی سالمتی و فالح پر ایمان رکھنے والوں کو
سب کی سالمتی و فالح بھری جنتی زندگی کی بشارت سنا دو)(223
اور سب کی سالمتی و فالح کی قرانی اسٹیٹ کے زمہ دارو اچھی طرح جان لو کہ قرانی
اسٹیٹ میں تم اس بات کا مزھبی حیلہ نہ بنانا کہ ہللا کے نام کی مزھبی انداز میں عیارانہ
قسمیں کھا کھا کر انسانیت سے بہترین عملی سلوک کرنے اور اُن سے بلند کردار و عمدہ
اخالق سے پیش آنے اور لوگوں میں صلح و سازگاری کرانے سے ُرک جاؤ۔ تو پھر
سمجھ لینا کہ قدرت کے مکافات عمل سے تم بچ نہیں پاؤ گے کہ قرانی اسٹیٹ اپنی مؤثر
حکمت عملیوں کی باعث سب کچھ سنتی اور جانتی ہے)(224
نیز قرانی ہللا کی عمل دار اسٹیٹ میں تمہاری بے دلی سے بے مقصد /عادتا لغو قسموں
پر تم سے کوئی مواخذہ نہ کیا جائے گا۔ لیکن ہاں جو قسمیں تم قصد دلی سے کسی مقصد
کو مدنظر رکھتے ہوئے کھاؤ گے ان پر تم سے اسٹیٹ ضرور مواخذہ کرے گی ۔ اور
سمجھ رکھو کہ قرانی اسٹیٹ تو تمہاری معمولی لغزشوں کو نظر انداز کرنے والی ہے کہ
جس کے پیش نظر ہر دم انسانیت کی حفاظت و نگہداشت ہے)(225
اب تمہید کے بعد مقصد کی بات کی طرف آؤ کہ جو لوگ کسی بھی وجہ سے اپنی عورتوں
کے پاس جانے سے قسم کھالیں تو انہیں چاہئیے کہ وہ قرانی اسٹیٹ کو مطلع کرتے
ہوئے چار مہینے تک انتظار کریں ۔ کہ اگر اس عرصے میں وہ رجوع کرلیتے ہیں تو
قرانی اسٹیٹ اُنہیں سالمتی و فالح بخشنے والی مہربان مملکت ہے)(226
اور اگر وہ طالق یعنی ایک دوسرے سے جدا ہونے کا حتمی ارادہ کرلیں تو بھی قرانی
مملکت کو اس بارے میں مطلع کریں کہ قرانی اسٹیٹ مسائل سن سمجھ کر اُن کے بہترین
حل کو جانتی ہے)(227
اور قرانی اسٹیٹ میں طالق یعنی شوہر اور بیوی کے جدا ہونے کے طریقہ کار کے تحت
عورتیں خود کو تین حیض آنے تک شوہر سے جدا ہونے سے روکے رہیں ۔ اگر وہ قرانی
اسٹیٹ کے احکام اور اپنے مستقبل پر ایمان رکھتی ہیں تو انہیں جائز نہیں ہو گا کہ قدرت
نے جو کچھ ان کے شکم میں پیدا کیا ہے وہ اس کو چھپائیں۔ اور ان کے خاوند اگر پھر
موافقت چاہیں تو اس عدت کی مدت میں وہ بیوی کی رضامندی سے ان کو اپنی زوجیت
میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں کہ قرانی اسٹیٹ میں عورتوں کا حق مردوں پر ویسا
ہی ہے جیسے دستور کے مطابق مردوں کا حق عورتوں پر ہے۔ البتہ مردوں کو عورتوں
پر یہ فضیلت ضرور ہے کہ ان کے لئیے عدت کی مدت کی قید نہیں ہے ۔
تو اچھی طرح جان رکھو کہ قرانی ہللا کے فطری احکام پر عملدار اسٹیٹ کے احکام تمام
انسانیت پر انکی سالمتی و فالح کے لئیے غالب اور صاحب حکمت ہیں)(228
طالق یعنی میاں بیوی کے جدا ہونے کے طریقہ کی آزمائش قرانی اسٹیٹ کی جانب سے
زیادہ سے زیادہ دو بار ہے ( یعنی 3حیض + 3حیض = 6حیض کی ُمدّت تک بیوی کو
شوہر کے پاس ُرکنا ہو گا کہ آیا میاں بیوی واقعی ایک دوسرے سے ُجدا ہونا چاہتے ہیں
یا وقتی طور پر جزبات ان دونوں کی عقلوں پر حاوی ہیں ؟ کہیں بعد میں انہیں ُجدا ہونے
کا پچھتاوا تو نہیں ہو گا ؟ تو جب دو طالق یعنی 6حیض کی آزمائشی ُمدّت شوہر کے
گھر میں ایک ساتھ رہتے ہوئے مکمل ہو جائے تو اس آزمائیش کے بعد اب دونوں
المحالہ کسی ایک بات پر متفق ہوں گے کہ یا تو آئندہ زندگی میں ان کا ایک ساتھ رہنا
بہتر رہے گا یا پھر ایک دوسرے سے جدا ہونا بہتر رھے گا ،تو پھر اس باہمی رضامندی
کے تحت عورتوں کو یا تو بطریق شائستہ نکاح /پُختہ معاہدہ میں رہنے دینا ہو گا یا پھر
انہیں باعزت با وقار طور پر بھالئی کے ساتھ نکاح فسخ کر کے فارغ کر دینا ہو گا ۔ اور
یہ جائز نہیں ہو گا کہ نکاح کے وقت جو مہر تم بیویوں کو انکے شوہروں سے دلوا
چکے ہو اس میں سے شوہر کے لئیے کچھ واپس لے لو۔ ہاں اگر زن و شوہر کو خوف
ہو کہ وہ خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے اور مہر و مال کی بابت آپس میں
جھگڑ پڑیں گے تو اگر عورت نکاح سے رہائی پانے کے بدلے میں شوہر کے دئیے گئے
مال میں سے افہام و تفہیم کے زریعے کچھ شوہر کو واپس دے ڈالے تو دونوں پر کوئی
ُجرم نہیں۔ اچھی طرح جان لو کہ یہ قرانی اسٹیٹ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے باہر
نہ نکلنا۔ اور جو لوگ قرانی اسٹیٹ کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے وہ اسٹیٹ کے جرم
دار ہوں گے)(229
قرانی اسٹیٹ کے قانون کے تحت اگر شوہر دو طالقوں کے بعد تیسری طالق بیوی کو دے
دے ( تیسری طالق میں عدّت کی آزمائیشی مدت نہیں ہے ) تو اس کے بعد جب تک عورت
کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اس پہلے شوہر پر حالل نہ ہوگی جب تک کہ
دوسرا خاوند بھی اُسی طرح اسٹیٹ کے مندرجہ باال مقررہ قانون طالق کے تحت اس
عورت کو طالق نہ دے دے اور عورت اور اس کا پہال خاوند پھر اگر آئندہ زندگی کیلیئے
ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں تو ان پر کوئی جرم عائد نہیں ہو گا بشرطیکہ دونوں
یقین دالئیں کہ اب قرانی اسٹیٹ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ اسٹیٹ کے قوانین
کی حدیں ہیں ان کو اُن باوقار لوگوں کے لئے بیان فرمایا گیا ہے جو انسانیت کی سالمتی
و فالح کی بابت عقل و دانش رکھتے ہیں)(230
اور سالمتی و فالح کے دین نظام کے زمہ دارو جب تم عورتوں کو دو دفعہ طالق کا حکم
دے کر ان کے درمیان علیحدہ ہونے کیلیئے عدت کی آزمائیشی مدت پوری کروا چکو تو
تمہیں حتمی طور پر معلوم ہو جائے گا کہ آیا آئندہ زندگی میں یہ دونوں واقعی مل کر رہ
سکتے ہیں یا ایک دوسرے سے ُجدا ہونا ہی ان کے حق میں بہتر ہے تو قرانی طالق کے
طریقہ کار کی سبب اچھی طرح باور ہونے پر اب یا تو انہیں حسن سلوک سے نکاح
معاہدہ میں رہنے دو یا نکاح کو فسق کر کے بطریق شائستہ ایک دوسرے سے رخصت
کردو اور خیال رہے کہ اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہئے کہ انہیں
زبردستی ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور کر کے انہیں زہنی و جسمانی تکلیف دو
اور اس طرح ان پر جبر و زیادتی کی حکومت کرو۔ تو جو ایسا کرے گا وہ اپنا ہی نقصان
کرے گا اور حکومت کرتے ہوئےکبھی سب کی سالمتی و فالح کے قرانی ہللا کے احکام
کو ہنسی اور کھیل نہ بناؤ جیسا کہ دین سے ہٹ کر مزھبی جنونی جزباتی لوگ بناتے ہیں
اور قرانی ہللا نے تم زمہ داران کو جو قدرتی فطری قوانین پر مشتمل نعمتیں بطور کتاب
بخشی ہیں جس میں کہ عقل و دانائی کی عمدہ ترین باتیں نازل کی گئی ہیں جن سے وہ
تمہیں نصیحت فرماتا ہے ان کو فیصلے کرتے وقت ہر دم اپنے پیش نظر رکھو ۔ اور قدرت
کے قوانین کی خالف ورزی سے ڈرتے رہو اور جان رکھوکہ قدرت کا مکافات عمل ہر چیز
سے واقف ہے)(231
اور جب تم عورتوں کو طالق دلوا چکو اور ان کی آزمائیشی مدت /عدت پوری ہوجائے تو
اب ان کو ان کی پسند کے دوسرے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر
راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے مت روکو۔ اس حکم سے ہر اس زمہ دار شخص کو
نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں قدرت کے اٹل قوانین پر عمل کے زریعے فالح و سالمتی
کی حکومت کےبہترین مستقبل پر یقین رکھتا ہے۔ یہ تم زمہ داروں کے لئے نہایت خوب
اور بہت پاکیزگی کی بات ہے اور قدرت ہر عمل کے نتیجے کو جانتی ہے اور تم نہیں
جانتے)(232
اور قدرت کے قانون کے طور پر مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پالئیں یہ حکم
اس شخص کے لئے بھی ہے جو طالق /علیحدگی ہو جانے کے بعد پوری دو سال کی
مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پالنے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا فی الحال دستور
کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا ۔ کوئی بھی شخص اپنی برداشت کی طاقت سے زیادہ
تکلیف نہیں اُٹھا سکتا تو یاد رکھو کہ نہ تو ماں کے مستقبل کو اس کے بچے کے سبب
نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اوالد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور
اسی طرح دستور کے مطابق نان نفقہ بچے کے وارث کے ذمے ہے۔ اور اگر دونوں ماں
باپ آپس کی رضامندی اور صالح سے بچے کا دودھ ماں سے چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ
جرم نہیں۔ اور اگر تم زمہ داران اپنی مملکت میں ایسے بچے کو کہ جس کا دودھ چھڑایا
جا چکا ہو کسی دوسری ماں عورت سے دودھ پلوانا چاہو تو تم پر بھی کچھ جرم نہیں
بشرطیکہ تم زمہ داران دودھ پالنے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے
دینے کا وعدہ کرو انہیں دے دو اور تم زمہ داران ہر وقت قدرت کے قوانین کی مخالفت
سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم انسانیت کی سالمتی و فالح کے نام پر کرتے
ہو قدرت کا مکافات عمل اس کو دیکھ رہا ہے)(233
اور تمہاری سالمتی و فالح کی قرانی اسٹیٹ میں جو شوہر لوگ کسی وجہ سے مرجائیں
اور اپنی بیوہ عورتیں چھوڑ جائیں تو ایسی بیوہ عورتیں چار مہینے دس دن اپنے آپ کو
دوسرے نکاح سے روکے رہیں تا کہ یہ آزمائشی مدت /عدت پوری ہونے پر معلوم ہو
سکے کہ پیٹ میں پہلے شوہر کا نطفہ ہے یا نہیں ،تو پھر اس کے بعد اپنے حق میں
پسندیدہ کام یعنی نکاح کرلیں تو ان پر بعد میں پیدا ہونے والی اوالد کی نسبت کوئی ُجرم
نہیں ہو گا ۔ اور قدرتی قوانین کو فالو کرنےوالی اسٹیٹ سب انسانی قدرتی جزبات سے
واقف ہے)(234
نیز تم قدرتی قوانین پر عمل درامد کرنے والی اسٹیٹ کے زمہ داران انسانی قدرتی جزبات
سے واقفیت کی بنا پر معاشرے میں ایسی بیواؤں کے نکاح کرانے کی زمہ داری اُٹھاتے
ہوئے اُنہیں نہائیت باوقار انداز میں ان کی شخصیت کے مطابق مناسب مرد سے نکاح کا
پیغام بھیجیں یا اُن سے اپنے نکاح کی بھی خواہش کو مناسب وقت پر ظاہر کرنے تک
چھپائے رکھیں تو تم زمہ داران پر کوئی ُجرم نہیں۔اور قدرتی قوانین کو فالو کرنے والی
اسٹیٹ کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ بیواؤں سے اُن کے نکاح کرنے کی خواہش کی بابت
مکمل معلومات رکھیں ۔ مگر ایام عدت میں معاشرتی چلن کے مطابق تم زمہ داران اُن
سے نکاح کی بابت کوئی بات ازراہ اطالع کہہ دو تو کوئی حرج نہیں لیکن اس دوران
اسٹیٹ کی جانب سے بیواؤں سے پس پردہ کسی سے نکاح کرنے کے بارے میں کوئی
قول واقرار طے نہ کرنا ۔ مختصر یہ کہ جب تک پیٹ میں نطفے کی بابت عدت پوری نہ
ہولے ان سے کسی نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا۔ اور جان رکھو کہ انسانیت کی سالمتی و
فالح کے بارے میں جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے قدرت کو سب معلوم ہے تو قدرتی
قوانین کی خالف ورزی سے ڈرتے رہو کہ قدرت انجانے میں معمولی غلطیوں کو بخشنے
والی اور برداشت کرنے والی ہے)(235
اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم سالمتی و فالح کی اسٹیٹ کے زمہ داران ،نکاح معاہدہ ہونے
کے بعد عورتوں کو رخصتی سے پہلے یا ان کا مقرر کردہ مہر دینے سے پہلےان فریقین
کے درمیان کوئی مسئلہ ہونے کے سبب نکاح فسخ کر کے طالق دلوا دو تو تم زمہ داران
پر کوئی ُجرم نہیں۔ ہاں اس طرح کی مطلقہ عورتوں کو دستور کے مطابق ( نکاح کے
دوران مالی اخراجات ہونے کی باعث ) اُنہیں کچھ خرچ ضرور دلوا دو یعنی حیثیت کے
مطابق مقدور واال اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپنی حیثیت کے مطابق۔ خیال
رہے کہ نیک باکردار لوگوں پر اس خرچ کا ادا کرنا ایک طرح کا حق ہے)(236
اور اگر صورتحال ایسی ہو کہ ان فریقین کے درمیان کوئی مسئلہ ہونے کے سبب تم زمہ
داران ،نکاح معاہدہ ہونے کے بعد عورتوں کو رخصتی سے پہلے نکاح فسخ کر کے
طالق دلوا دو لیکن عورتوں کو مقرر کردہ مہر ادا کروا چکے ہو تو اب آدھا مہر واپس
مردوں کو دلوانا ہوگا۔ ہاں اگر عورتیں اپنا لیا ہوا پورا مہر واپس کر دیں یا مرد جن کے
ہاتھ میں عقد نکاح ہے اپنا آدھے مہر کا حق چھوڑ دیں تو کوئی مزائقہ نہیں اور پورا مہر
دے دیں تو ان کو اختیار ہے ،اور اگر تم زمہ داران ،مرد لوگوں سے ان مطلقہ عورتوں
اعلی کردار کی بات
ٰ اعلی ظرفی و
ٰ کیلیئے اپنا حق ُچھڑوا دو تو یہ اُن مردوں کیلیئے بڑے
ہے۔ یاد رکھو کہ کبھی افہام و تفہیم سے معامالت حل کرنے میں آپس میں ایک دوسرے
سے احسان و بھالئی کرنے کو فراموش نہ کرنا۔ کچھ شک نہیں کہ قدرت مکافات عمل
کے قانون کے تحت تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہی ہے)(237
قرانی مملکت کے زمہ دارو ہر حال میں قدرتی رزق و وسائل کی برابری سےتقسیم کاکا
نظام جاری رکھو خصوصا سب کی سالمتی و فالح کے بنیادی دین نظام کے قیام کا حق
پورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو۔ اور اس مقصد کیلیئے ہمیشہ قدرت کے زیل قوانین
کے آگے پیروی کی غرض سے مستعد کھڑے رہا کرو)(238
اگر تم دشمنوں سے جنگ کی باعث قرانی نظام پر بھرپور عمل نہ کر سکنے کے خوف
کی حالت میں مبتال ہو جاؤ تو پیادے یا سوار جس حال میں جتنا بھی ہو سکے قدرتی رزق
و وسائل کی تقسیم کا عمل جاری رکھو پھر جنگ ختم ہونے کے بعد جب امن واطمینان
ہوجائے تو جس طریق سے قرانی ہللا نے تم کو سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام کے
مستحکم قیام کی بابت سکھایا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے اُسی قدرتی طریقے سے
کام کرو)(239
اور جو لوگ تم میں سے جنگ کے دوران کام آجائیں اور اپنے پیچھے عورتیں چھوڑ
جائیں تو ایسی عورتوں کے حق میں وصیت کی جاتی ہے کہ کم از کم ایک سال تک قرانی
مملکت ان کی دیکھ بھال کرےاور اس سے پہلے انہیں شوہروں کے گھر وں سے نہ نکاال
جائے ۔ ہاں اگر وہ( عدت کی مدت پوری کر کے )خود گھر سے نکل جائیں اور اپنے حق
میں پسندیدہ کام یعنی کسی سے باہمی رضامندی سے نکاح کرلیں تو تم زمہ داران پر کچھ
گناہ نہیں۔ اور قرانی ہللا زبردست حکمت واال ہے)(240
اور قرانی مملکت کو مطلقہ عورتوں کو بھی وقت کے تقاضے کے مطابق نان و نفقہ دینا
چاہیئے ،باکردار زمہ دار
لوگوں پر یہ بھی حق ہے)(241
اسی طرح قرانی ہللا اپنے احکام تمہارے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو)(242
بھال تم قرانی حکمرانوں نے بنی اسرائیل کے ان حکمران لوگوں کو نہیں دیکھا جو شمار
میں بظاہر ہزاروں ہی تھے اور وہ اپنے باطل انسان دشمن نظام کی وجہ سے اپنی موت
سامنے دیکھ کر اپنے بنائے مظبوط و محفوظ ترین قلعہ نما گھروں سے ڈر کر نکل
بھاگے تھے۔ تو زہنی طور پر ُمردہ لوگوں کیلیئے قدرت کا قانون ہے کہ اگر موت کا مقابلہ
کرو گے تو ہی زندہ رہو گے ورنہ موت تمہارا مقدر تو ہے ہی اور پھر اس ُمردہ قوم کو
ضابطہ ء حیات پر عمل کی سبب زندہ قوم بھی کردیا۔ کچھ شک نہیں کہ سب کی سالمتی و
فالح پر مشتمل قدرت کے قوانین پر عمل ہی انسانیت کی بقاء کی ضمانت ہیں ۔ لیکن دنیا
کے اکثر لوگ ان انمول قوانین پر عمل کر کے قدرت کا شکر ادا نہیں کرتے)(243
تو قرانی مملکت کے زمہ دارو اب تم قران عظیم /ضابطہ ء حیات کے زریعے خدا کی راہ
یعنی سب انسانیت کی سالمتی و فالح کی راہ کے قیام کی جدو جہد کا آغاز کرو اور اچھی
طرح جان رکھو کہ قدرت تمہارے ہر عمل کے اجر کو اچھی طرح جانتی ہے کہ تمہارے
کسی بھی عمل کا نتیجہ کیا ہو گا)(244
اب کوئی ہے کہ قدرت کو اپنے خلوص عمل کا قرض حسنہ دے تا کہ وہ اس کے بدلے
اس کو کئی حصے زیادہ اجر و صلہ دے سکے ؟ جان رکھو کہ قدرت کے مکافات عمل
کے اٹل قوانین کے تحت ہی تمہاری زندگی کی ابتری اور بہتری کا دارومدار ہے ۔ اور آخر
کارتمام انسانیت کو انہی قوانین فطرت کی طرف لوٹ کر آنا ہو گا)(245
بھال تم قرانی سالمتی و فالح کے زمہ داران کیا بنی اسرائیل کی جماعت سے واقف نہیں
موسی سے جزباتیت کی رو میں بہتےٰ ہو کہ جس نے انقالبی پیغام النے والے پیغمبر
ہوئے کہا تھا کہ آپ ہمارے لئے ہر مقام پر ایک رہنما مقرر کردیں تاکہ ہم سالمتی و فالح
کی راہ میں ہر انسان دشمن رہنما کے خالف ہر ممکن جدوجہد جاری رکھ سکیں ۔ پیغمبر
نے کہا کہ اگر تم کو اُن سے جہاد کا حکم دیا جائے تو عجب نہیں کہ تم اس کوشش کے
آخری مرحلہ یعنی انسانیت کے دشمن رہنماؤں ( جالوت ) سے جنگ کی حد تک آنے سے
پہلو تہی کرو۔ تو وہ اپنے انقالبی پیغمبر سے کہنے لگے کہ ہم سب کی سالمتی و فالح کی
راہ خدا میں کیوں ان انسان دشمن رہنماؤں سے نہ لڑیں گے جب کہ ہم انہی انسان دشمن
رہنماؤں کی وجہ سے ہی تو امن و سالمتی رکھنے والے وطن سے خارج ہو کر طاغوتی
نظام کی گرفت میں جکڑے پڑے ہوئے ہیں اور اسی باعث اپنے بال بچوں کی انسانیت
سے لبریز شاندار اجتماعی تربیت سے جدا ہوئے پڑے ہیں ۔
لیکن جب ان کو طاغوتی نظام کے رہنماؤں ( جالوت ) کے خالف بھرپور کوششوں کا حکم
دیا گیا تو چند اشخاص کے سوا سب اپنے قول و قرار سے پھر گئے۔ اور قدرت تو ظالموں
سے خوب واقف ہی ہے کہ ظلم کا نظام خاموشی سے سہنے والے بھی حقیقت میں ظالم
ہی ہوتے ہیں)(246
اور پیغمبر نے ان سے کہا کہ قدرت تو تم پر انسان دوست رہنما طالوت کو مقرر دیکھنا
چاہتی ہے۔ وہ بولے کہ اُسے ہماری رہنمائی کا حق کیونکر ہوسکتا ہے ؟ اس کے مستحق
تو ہم دولت مند رہنما لوگ ہیں اُس کے پاس تو بہت سی دولت بھی نہیں۔ پیغمبر نے کہا کہ
قدرت نےاُس انسان دوست رہنما کو تم دولت مندوں پر فضیلت دی ہے اور رہنمائی کے
لئیے منتخب فرمایا ہے یعنی اس نے اسے بہت سا انسان دوست علم بخشا ہے اور ساتھ
قدرتی صحت سے ماال مال تن و توش بھی ۔ اور قدرت کے قوانین پر جو رہنما چاہے چل
کر انسانیت کی رہنمائی کر لے کہ قدرت کے قوانین بڑا کشائش والے اور حکمت والے
ہیں)(247
اور انقالبی پیغمبر نے ان سے کہا کہ ان رہنماؤں کی رہنمائی کی تمثیلی نشانی یہ ہے کہ
وہ تمہارے پاس قدرت کے عطا کردہ آئین و سپریم الء رکھے جانے کا حامل ایک
خوبصورت باکس الئیں گے جس کو فرشتہ صفت بے ضرر انسان اٹھائے ہوئے ہوں گے
اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے انسانیت کو تمام مسائل سے نکالنے والی تسلی
موسی اور ہارون پہلے
ٰ بخش ہدائیت ہوگی اور کچھ سابقہ تصدیقات بھی ہوں گی جو
ہدائیت کی صورت چھوڑ گئے تھے۔ اگر تم قدرتی فطری قوانین کے مکافات عمل پر ایمان
رکھتے ہو تو یہ آئین و سپریم الء اور اس کا شاندار باکس تمہارے لئے ایک بڑی نشانی
ہے)(248
غرض جب رحمانی قوت کا رہنما طالوت اپنی فوج لے کر طاغوتی قوت کے رہنما جالوت
سے جنگ کیلیئے روانہ ہوا تو اس نے لشکر میں اپنے حکم کی اطاعت اور نظم و ضبط
جاننے کیلیئے کہا کہ قدرت تم سے بطورعسکری قوت ایک آزمائش چاہتی ہے۔ کہ جو
شخص اس نہر میں سے پانی پی لے گا وہ میرا نہیں۔ اور جو نہ پئے گا وہ میرا ہے۔ ہاں
اگر کوئی ہاتھ سے چلو بھر پانی پی لے تو خیر جب لشکر نہر پر پہنچا تو اُن میں سے
چند مطیع مومنوں کے سوا سب نے پانی پی لیا ۔ پھر جب طالوت اور مومن لوگ جو اس
کے ساتھ تھے نہر کے پار ہوگئے ۔ تو اپنی قیادت کے حکم کی پامالی کرنے والے یعنی
نہر سے پانی پینے والے لوگ کہنے لگے کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر سے
مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ۔ تو قدرت کے قوانین پر ایمان رکھنے والے مومن لوگ جو
یقین رکھتے تھے کہ ان کو قدرت کے مکافات عمل کے تحت اپنے ہر عمل کا جواب دینا
ہے وہ کہنے لگے کہ بسااوقات تھوڑی سی جماعت بھی نظم و ضبط پر عمل کرتے ہوئے
قدرت کے قانون کے تحت بڑی جماعت پر فتح حاصل کر سکتی ہے کیونکہ قدرت مستقل
مزاج لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے)(249
پھر جب وہ تھوڑی سی جماعت پر مشتمل لوگ جالوت کے مہا لشکر کے مقابل آئے تو
اُنہوں نے دل سے چاہا کہ اے قادر و پروردگار ہم پر صبر یعنی انتہائی حد تک استقامت
کے ساتھ عمل کے بعد اپنا منطقی نتیجہ دکھا دے اور ہمیں طاغوتی رہنما جالوت سے
لڑائی میں ثابت قدم رکھ اور اس لشکر کفار پر فتحیاب کر)(250
آخر کار طالوت کی فوج نے صبر کی باعث جالوت کو جنگ میں ہزیمت دی۔
اور داؤد نے جالوت کو ختم کر دیا اور یوں قدرت کے قانون پر عمل کے زریعے حقیقی
حکمرانی اور سب کی سالمتی و فالح کی عظیم دانائی پائی اور قدرت کے قانون پرعمل
سے جو چاہا وہ سیکھا ۔ اور قدرت کے قانون پر عمل کرنے سے ظالم حکمران لوگ
ہٹتے نہ رہتے تو یہ زمین تباہ ہوجاتی کہ قدرت واقعی اہل عالم پر عمل کی نسبت بڑی
مہربان ہے)(251
یہ قرانی ہللا کی آیتیں ہیں جو قرانی مملکت چالنے والے سچائی کے ساتھ پڑھ کر سناتے
ہیں اور اے محمد ﷺتم بالشبہ انقالبی پیغمبروں میں سے ہو)(252
یہ انقالبی پیغمبر جو قدرت کی طرف سے وقتا فوقتا آتے رہے ہیں ان میں سے قدرت کی
عطا کردہ عقل کے استعمال کی بنا پر بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے۔ یعنی بعض
ایسے عقل کا زیادہ استعمال کرنے والے ہیں کہ جن سے مثالی طور پرسمجھو کہ جیسے
قدرت نے گفتگو فرمائی اور بعض کے عقل کے استعمال کی باعث دوسرے امور میں
عیسی بن مریم کو قدرت نے عقل کے استعمال کی بنا پر کھلی
ٰ مرتبے بلند ہوئے ۔ اور
ہوئی نشانیاں عطا کیں اور روح القدس یعنی مقدس توانائی رکھنے والی ہر قسم کے
نقائص سے پاک کتاب انجیل سے ان کو مدد دی۔ اور اگر قدرت کے قوانین کو عقل کے
استعمال کی بنا پر اچھی طرح سمجھا ہوتا تو ان سے پچھلے لوگ اپنے پاس کھلی
نشانیاں آنے کے بعد آپس میں نہ لڑتے لیکن انہوں نے اختالف کیا تو ان میں سے بعض
تو سب کی سالمتی و فالح کے فطری قوانین پر ایمان لے آئے اور بعض کافر یعنی منکر
ہی رہے۔ اگر انہوں نے قدرت کو سمجھا ہوتا تو یہ لوگ باہم جنگ و قتال نہ کرتے۔
کیونکہ قدرت کے قوانین مکافات کی باعث ویسا ہی صلہ ملتا ہے جیسا انسان عمل کرتا
ہے)(253
تو اے عقل کے استعمال پر ایمان النے والو جو مال قدرت نے تم کو مفاد پرست عقل کے
استعمال کی باعث دیا ہے اس میں سے اس احتسابی دن کے آنے سے پہلے پہلے لوگوں
کی سالمتی و فالح پر بطور دین یعنی نظام قائم کر کے خرچ کرلو کہ جس نظام سسٹم میں
نہ اعمال کا سودا ہو اور نہ دوستی اور سفارش ہو سکے اور اس نظام کے مخالف کفر
کرنے والے منکر لوگ ہی ظالم ہیں)(254
قدرت کے قوانین ہی وہ معبود برحق ہیں کہ اس کے سوا کوئی قانون بندوں کی خدمت کے
الئق نہیں کہ وہ قوانین ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں انہیں نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند ،جو
کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہیں سب اسی قدرت کا ہے ،کون ہے جو قدرت
کی اجازت کے بغیر اس سے کسی ناجائز عمل کی سفارش کر سکے جو کچھ لوگوں کے
روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے قدرت کو سب معلوم ہے اور وہ
اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ہاں جس قدر کوئی
قدرت کے قوانین میں غوروفکر سے نئی دریافتیں چاہتا ہے اسی قدر قدرت اُسے معلوم
کرا دیتی ہے کہ قدرت کی بادشاہی اور علم آسمان و زمین سب پر حاوی ہے اور اسے ان
کی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے)(255
دین اسالم یعنی سب کی سالمتی و فالح کے نظام میں کسی قسم کی کوئی زبردستی نہیں
ہے یہ سالمتی و فالح کی ہدایت صاف طور پر ظاہر اور ہر قسم کی گمراہی سے الگ ہو
چکی ہے تو جو شخص انسان دشمن نظام یعنی دماغ میں بسے دیگر مفاد پرستانہ نظام
کے بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور قدرت کے عالمی سالمتی رکھنے والے قوانین پر
ایمان الئے تو سمجھو کہ اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی
ٹوٹنے والی نہیں اور قدرت کا مکافات عمل کا اٹل قانون سب کچھ سنتا اور سب کچھ جانتا
ہے)(256
جو لوگ سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام پر ایمان التے ہیں ان کا حقیقی دوست تو
قدرت کا مکافات عمل کا نظام ہوتا ہے کہ جو اُن کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں
لے جاتا ہے اور جو مفاد پرست کافر ہوتے ہیں ان کے دوست شیطان ہوتے ہیں جو اُن کو
روشنی سے نکال کر اندھیرے میں لے جاتے ہیں یہی عقل کے دشمن،سرمایہ پرستی کے
نظام میں جینے والے دوزخی لوگ ہیں کہ اس جہنمی نظام کی باعث اس میں ہمیشہ رہیں
گے)(257
بھال تم نے اس مفاد پرست ملوکیتی حکمران شخص کو نہیں دیکھا ؟ جو اس غرورمیں
مبتال تھا کہ اُس کے مزھبی خدا نے اسکی تقدیر میں اس کو سلطنت و بادشاہت بخشی ہے
اور وہ ابراہیم سے اپنے پیدائشی ثقافتی جھوٹے مزھبی خدا کے بارے میں جھگڑنے لگا
کہ جسے قرانی ہللا 2الفاظ " ال الہ " سے ہی رد کر کے رکھ دیتا ہے
جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ قدرت کے اٹل قوانین پر مشتمل ہے جو اپنے
قدرتی قوانین کے تحت ہر نفس کو جالتا اور مارتا ہے۔ وہ ملوکیتی حکمران بوال کہ جال
اور مار تو میں بھی سکتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا کہ اچھا قدرت کا قانون تو سورج کو مشرق
سے نکالتا ہے آپ اسے زرا مغرب سے نکال دیجیئے یہ سن کر وہ ملوکیتی کافر حیران
رہ گیا ،کہ قدرت کا مکافات عمل کا قانون بےانصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا)(258
یا پھر مثال کے طور پر اُس شخص کو دیکھو ،جس کا گزر ایک ایسی زہنی طورپر
پسماندہ مفلوج و ُمردہ " اُمت مرحوم " قوم پر ہوا ،جو سمجھو اپنی چھتوں پر اوندھی
گری پڑی تھی اُس شخص نے کہا" :یہ عقل کا استعمال نہ کرنے والی ُمردہ جہنمی قوم
جو اپنی مزھبی مستی میں ہالک ہوئی پڑی ہے ،اسے بھال قدرت اور اُس کے قوانین کس
طرح دوبارہ جنتی زندگی بخشیں گے ؟"اس پر قدرت نے اُسے اس مثال کے زریعے
شعور و آگاہی دی کہ اگر کسی شخص کی سوچنے سمجھنے کی قوت سلب کر لی جائے
اور وہ سوبرس تک عقل استعمال کئیے بنا الشعوری کی ُمردہ جہنمی زندگی میں پڑا رہے
اور پھر قدرت کی عطا کردہ عقل کے استعمال کرنے پر اسے جنتی شعوری زندگی ملے
اور اس سے پوچھا جائے کہ" :بتاؤ ،کتنی مدت غفلت و جہالت کی جہنمی زندگی میں
پڑے رہے؟"تو وہ کہے گا کہ" :ایک دن یا چند گھنٹے ہی "حاالنکہ تم پر تو سو برس
اسی بے عقلی و بے شعوری کی حالت میں گزر چکے ہیں تو اب ذرا اپنے قدرتی کھانے
کی چیزیں اور پانی کو شعوری نگاہ سے دیکھو کہ اس عرصے میں ان میں ذرا بھی تغیر
بدالؤ نہیں آیا اور دوسری طرف اپنے بے شعوری جانور گدھے کو بھی دیکھو کہ اس کی
حالت میں بھی کوئی بدالؤ نہیں آیا( یعنی جن کی زندگی میں بدالؤ نہیں آتا ان کی زندگی
گدھے کی طرح کی بےعقلی ہوتی ہے کہ جنہیں قیمتی وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں
ہوتا جبکہ قدرت کے فطری قوانین تو عمل کے زریعے تمہیں فوری دیگر تمام مفاد پرست
اقوام کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں اور مزید اپنے انسانی قدرتی تخلیقی عمل کو
ہی دیکھ لو کہ کس طرح خون کے لوتھڑے سے ہڈیوں کا پنجر بنا کر کس طرح اس پر
گوشت پوست چڑھا کر جیتا جاگتا انسان بنا دیا جاتا ہے"
اس طرح کی مثالوں سے جب حقیقت کسی کے سامنے بالکل نمایاں ہو جائے تو وہ
باشعور ہو کر یہ کہے بنا نہیں رہ سکتا کہ :میں تمام حقیقت جان گیا ہوں کہ قدرتی اٹل
قوانین ہی کائنات میں ہر طرف ہر شے پر قادر ہیں)" (259
اور جب یونائٹیڈ ہیومن آرگنائزیشن " خانہ کعبہ " کے پہلے امام الناس ،انسانیت
کے سربراہ و لیڈر ابراہیم نے کہا کہ اے قادر و پروردگار مجھے دکھا کہ تو زہنی طور
پر مرے ہوئے ُمردوں کو کیونکر زندہ کرے گا ؟ تو قادر نے فرمایا کیا تم نے قدرت کے
اٹل قوانین کو باور نہیں کیا ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ۔ لیکن میں اسے عملی دیکھنا اس
لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلےتو قدرت نے فرمایا کہ چار پرندوں
کے بچوں کو پکڑ کر اپنے پاس خوب اچھی طرح سدھا لو پھر ان کو ایک ایک کر کے
علیحدہ علیحدہ پہاڑ پر رکھوا دو پھر ان کو آواز دے کر بالؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے
چلے آئیں گے کیونکہ اب وہ اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اور یہ جان کر زندہ ہو چکے
ہیں کہ بُالنے واال ہماری حقیقی فالح و بہبود اور نشونما دینے واال ہے ۔ جان رکھو کہ
قدرت کے اٹل قوانین ہی ہر طرف غالب اور صاحب حکمت ہیں ۔)(260
اب اس طور جو بھی حکمران لوگ اپنی مملکت میں پیدا مال خدا کی راہ یعنی سب کی
سالمتی و فالح کی راہ میں برابری کی بنیاد پر دین یعنی نظام کے تحت خرچ کرتے ہیں اُن
کے مال کی مثال اس قدرتی دانے کی سی ہے جس سے قدرتی طور پر سات بالیں اُگیں
اور ہر ایک بال میں قدرتی طور پر سو سو دانے ہوں تو قدرت کے اس اٹل قانون کے تحت
جو حکمران جس قدر مال چاہتا ہے تو قدرت اُسے خوب عطا کرتی ہے ۔ کیونکہ قدرت کا
نظام بڑی کشائش واال اور سب کچھ جاننے واال ہے)(261
اور جو منصف مزاج حاکم لوگ اپنی مملکت میں پیدا مال خدا کے رستے یعنی سب کی
سالمتی و فالح کی راہ میں بطور دین نظام کے صرف کرتے ہیں پھر اس کے بعد وہ حاکم
لوگ نہ اس خرچ کا کسی پر احسان رکھتے ہیں اور نہ کسی کو غربت و بھوک کی زلت
آمیز تکلیف دیتے ہیں۔ تو ایسے حاکم لوگوں کا صلہ ان کے قادر و پروردگار کے پاس بر
وقت تیار ہے۔کہ نہ ان کی مملکت میں کسی کو بھوک و غربت کی متعلق کچھ خوف ہوگا
اور نہ وہ ایسی مملکت میں زرہ بھر غمگین ہوں گے)(262
سب کی سالمتی و فالح کا دین نظام قائم کرنے کے بعد کہ جس میں بنا مزھب و مسلک
رنگ و نسل دیکھے بغیر انسانوں کو اُن کے بنیادی حقوق ( روٹی ،کپڑا ،مکان ،صحت
،تعلیم وغیرہ ) دینے کے بعد پھر لینے والوں کو جتا جتا کر اُن کی عزت نفس کو ٹھیس
پہنچا کر اُنہیں نفسیاتی و زہنی ایذا و تکلیف دی جائے تو اس سےبہترتو اُن سے نرم انداز
میں معزرت کی بات کہہ دینا اور اُن کے بنیادی حقوق کی ادائیگی سے درگزر کرنا ہی بہتر
ہے کہ قرانی ہللا تو صفت رب العالمینی کے تحت ہر قسم کے زہنی و جسمانی ایذا دینے
سے بےپروا اور بردبار ہے)(263
اے سالمتی و فالح کی مملکت کے زمہ دار مومنو !تم سالمتی و فالح کی راہ میں اجتماعی
بہتری کے طور پر مزید دینے والے مال یعنی اپنے صدقات کو اپنی عوام پر جتانے اور
اس طرح اُنہیں زہنی و نفسیاتی ایذا دینے سے اُس نمود و نمائش کرنے والے شخص کی
طرح برباد نہ کردینا ۔ جو لوگوں کو دکھاوے کے لئے مال خرچ کرتا ہے اور قدرت کے
اٹل قوانین اور سب کے بہترین مستقبل پر ایمان نہیں رکھتا۔
تو اس طرح دکھاوا کر کے دینے کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی
پڑی ہو اور اس پر زور کی بارش برس کر اس مٹی کو ہی صاف کر ڈالے یعنی اس مٹی
سے فصل حاصل کرنا تو درکنار وہ بیج بھی ضائع ہو گیا کہ جس سے فصل ملنے کی
توقع تھی ۔
تو اس طرح یہ نمائشی طور پر دینے والے ریاکار حاکم لوگ اپنے دکھاوے کے اعمال کا
کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اور انسانیت کو فالح دینے والے قدرت کے اٹل
قوانین سے ایسے ناشکرے حاکم کچھ بھی ہدائت نہیں لیا کرتے)(264
اور جو حکمران لوگ سب کی سالمتی و فالح کے قدرتی دین نظام کے زریعے قادر و
قدرت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خلوص نیت سے اپنی مملکت کا مال اپنی
مملکت کی ترقی و فالح بہبود پر خرچ کرتے ہیں ان کی مملکت کی مثال اُس باغ کی سی
ہے جو ایسی اونچی جگہ پر واقع ہو کہ جب اس پر بارش برسے تو فصل کی صورت اُس
میں دُگنا پھل الئے۔ اور اگر بارش نہ بھی برسے اور ابرو پھوار ہی سہی تو بھی قدرت کا
مکافات عمل تم حکمرانوں کے کاموں کو دیکھ رہا ہے)(265
بھال تم ملوکیتی حکمرانوں میں کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کا زاتی کھجوروں اور
انگوروں کا تمام نعمتوں سے بھرا ہوا باغ ہو جس میں دودھ و شہد کی مثالی نہریں بہہ
رہی ہوں اور اس میں ہر قسم کی آسائشیں موجود ہوں اور اسے پھر بڑھاپا آپکڑے اور
اس کے بچے ابھی چھوٹے ہوں کہ جن کیلیئے یہ سب باغ تیار کیا ،کہ ناگہاں اس باغ پر
آگ کا بھرا ہوا بگوال چلنے لگے اور وہ باغ جل کر راکھ کا ڈھیر ہو جائے تو کیا ایسا
کوئی حکمران چاہتا ہے ؟
( تو جان لو کہ جو غریب دشمن ملوکیتی دین نظام تم حکمران چال رہے ہو اس سے آخر
کار اس دنیا کا باغ بھسم ہو کر ہی رہے گا اس طرح قدرت کا مکافات عمل کا قانون تم
سے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ساری انسانیت کیلیئے سوچو اور
سمجھو)(266
تو اے قرانی مملکت کے زمہ دار مومنو !سب کی سالمتی و فالح کی حامل برابری کے
حقوق پر مشتمل اسٹیٹ کے زریعے جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم محنت سے کماؤ اور جو
قدرتی چیزیں (معدنیات ،دھاتی و غیر دھاتی ) قدرت تمہارے لئے زمین سے تمہاری
محنت کے بل پر نکالتی ہے ان میں سے برابری کی بنیاد پر راہ خدا یعنی سب انسانیت کی
سالمتی و فالح کی راہ میں خرچ کرو ۔ اور اچھی طرح جان لو کہ کبھی اپنی عوام کو بری
اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ اگر وہ بُری اور ناپاک چیزیں تمہیں دی جائیں
تو بجز اس کے کہ لیتے وقت اپنی آنکھیں کراہیت سے بند کرلو ،یا ان کو کبھی نہ لو
۔جان رکھو کہ قدرت اس طرح کے غیر قرانی شیطانی اعمال سے بےپروا اور قابل ستائش
ہے)(267
اور دیکھنا انسانیت پر حکمرانی کی بابت غیر قرانی مفاد پرستی کے شیطانی ملوکیتی
نظام کا کہنا نہ ماننا کہ وہ تمہیں معاشی تنگ دستی کا خوف دالتا اور غربت و افالس کے
بڑھاوے کی بےحیائی کے کام کر نے کو کہتا ہے۔ جبکہ قدرت کے مکافات عمل کا قانون
تم سے اپنے بخشش بھرے نظام اور رحمت کا وعدہ کرتا ہے۔ اور قدرت کا رحمت بھرا
نظام بڑی کشائش واال اور سب کچھ جاننے واال ہے)(268
اور جو حکمران چاہتا ہے وہ قدرت کے اٹل قوانین سے دانائی حاصل کر لیتا ہے ۔ اور پھر
جس حاکم کو ایسی رحمت بھری دانائی ملی بےشک اس کو بڑی نعمت ملی۔ اور نصیحت
تو وہی حاکم لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں)(269
اور تم حساس حاکم لوگ خدا کی راہ یعنی سب کی سالمتی و فالح کی راہ میں جس طرح
اپنی مملکت کا مال اپنی عوام پر خرچ کرتے ہو یا کوئی نذر یعنی عوام کی فالح و بہبود پر
معمول کے خرچ کے عالوہ کوئی اضافی خرچ اپنے اوپر واجب قرار دے لیتے ہو تو قدرت
تمہارے اس عمل کے ردعمل کو اچھی طرح جانتی ہے اور ظالم حکمرانوں کا تو کوئی
بھی مددگار نہیں ہوتا ()270
اگر تم حاکم لوگ خیرات یعنی بھالئی کے ثمرات اپنی عوام کو ظاہر کر کے دو تو وہ بھی
خوب ہے اور اگر پوشیدہ دو تو وہ خوب تر ہے اور پھر دو بھی اہل حاجت یعنی زیادہ
ضرورت مندوں کو تو وہ تو اور بھی خوب تر ہے
اب اس طرح سے اپنی مملکت کی عوام کو دینا تمہارے سابقہ دانستہ و نادانستہ تمام
جرائم کو دھو دے گا۔ اور قدرت کو تو تمہارے سب کاموں کے انجام کی خبر ہے ()271
اے عالمی انقالبی محمدﷺ تم ان گمراہ حاکم لوگوں کی ہدائیت کے ذمہ دار نہیں ہو بلکہ اب
تمہارے بتائے گئے قدرت کے فطری اٹل قوانین پر عمل کر کے جو حاکم چاہے ہدائیت لے
سکتا ہے ۔
اور عوام کو امن و سالمتی کی مملکت مہیا کرنے والے زمہ دار مومنو ،تم اپنی مملکت
کا جو بھی مال عوام کی فالح و بہبود پر خرچ کرو گے تو اس کا فائدہ تمہیں کو ہے
کیونکہ تم جو خرچ کرو گے وہ قادر و قدرت کی خوشنودی کے لئے کرو گے اپنی مفاد
پرستی کیلیئے نہیں ۔
تو جو بھی مال تم نیک نیتی سے خرچ کرو گے وہ ردعمل میں تمہیں پورا پورا واپس دے
دیا جائے گا اور تمہارا کچھ نقصان نہیں ہو گا)272( ،
اور ان حاجتمندوں کے لئے جو خدا کی راہ یعنی سب کی سالمتی و فالح کے نظام کے قائم
ہوتے ہوئے بھی زندگی میں آگے ترقی کی راہ میں ُرکے بیٹھے ہیں اور دنیا میں کسی
طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے اور اپنی سفید پوشی کے بھرم کی باعث مملکت سے
مانگنے سے عار رکھتے ہیں یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف حاکم شخص
ان کو غنی خیال کرتا ہے
اور تم زمہ دار مومن ،قیافے سے ایسے لوگوں کو صاف پہچان لو کہ حاجتمند ہیں اور
شرم کے سبب نہیں مانگ سکتے تو تم حکام لوگ اس طرح کے ضرورت مندوں پر ان کی
ُرکی ہوئی ترقی پر جو مال خرچ کرو گے تو کچھ شک نہیں کہ قادرو قدرت تمہارے اس
عمل کے جواب کو بخوب جانتا ہے ()273
تو جو حاکم لوگ اپنی مملکت کا مال رات اور دن اور پوشیدہ و ظاہر سب کی سالمتی و
فالح کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں ان کا اس عمل کا صلہ قادر و پروردگار کے پاس
ہے اور ان کی عوام کو قرانی مملکت کے قیام کے بعد کسی طرح کا نہ خوف ہوگا اور نہ
ہی کوئی غم ()274
جن حکمران لوگوں کا نظام معیشت ربا یعنی محنت کے زریعے کمانے کے بجائے سرمایہ
کے زریعے سرمایہ بنانے کا ہوتا ہے وہ آخر میں اپنے ُمردہ کُش نظام کے منطقی انجام
کو دیکھ کر اس طرح حواس باختہ ہو جائیں گے جیسے کسی کو انسانیت کُش شیطانی
نظام نے لپٹ کر دیوانہ حاکم بنا دیا ہو یہ اس لئے کہ وہ چغد مفاد پرست حاکم کہتے ہیں
کہ سودا بیچنا بھی تو نفع کے لحاظ سے ویسا ہی ہے جیسے سودے پر نفع لینا حاالنکہ
سودے کا باہمی لین دین تو فطری طور پر جائز ہے اور ربا بطور نظام معشیت بالکل
ناجائز ۔
تو اب جس حاکم شخص کے پاس قرانی ہللا کی یہ نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو
پہلے ہوچکا سو ہو چکا اس کا معاملہ قدرت کے مکافات عمل کے سپرد اور جو حاکم اس
فطری نظام کے جاننے کے باوجود پھر ربا کے انسانیت کُش نظام پر چلنے لگا تو ایسے
حاکم لوگ اور ان کی عوام جو مفاد پرستی کے دوزخی نظام کے حامی ہیں ہمیشہ سب کے
سب دوزخی نظام میں جلتے رہیں گے ()275
سمجھ لو کہ قدرت کا طریقہ کار تو ربا کو نابود یعنی بےبرکت کرتا اور خیرات یعنی سب
کی سالمتی و فالح کی بھالئی کے عمل کو بڑھاتا ہے اور قدرت کے اصول کسی ناشکرے
گنہگار کو اپنا دوست نہیں رکھتے ()276
تو جو حاکم لوگ ان فطری قوانین پر ایمان الئے اور اپنی مملکت میں سب کی سالمتی کے
نیک عمل کرے اور قدرت کے عطا کردہ رزق کی برابری کی بنیاد پر منصفانہ تقسیم کے
زکوۃ دیتے رہےصلوۃ کو قائم کرے اور سب انسانیت کی ترقی و نشو نما کرے یعنی ٰ نظام ٰ
اُن کو ان کے کاموں کا صلہ قدرت کے مکافات عمل کے زریعے ضرور ملے گا اور پھر
ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ()277
تو قرانی مملکت کے زمہ دارمومنو! قدرت کے مکافات عمل سے ڈرو اور اگر ایمان
رکھتے ہو تو اب جتنا ربا کا نظام تمہاری مملکت میں باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو
()278
اگر تم زمہ داران ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہوجاؤ کہ اب تم ہللا اور رسول یعنی قرانی
سربراہ مملکت سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو اور اگر اس انسانیت کُش نظام معشیت
کو اچھی طرح سمجھ کر اس سے توبہ کرلو گے یعنی باز آجاؤ گے اور خود کو درست کر
لو گے تو تم کو صرف محنت کے زریعے حاصل کمائی کو اپنا نظام معشیت بنانے کا حق
ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور نہ تمہارا نقصان ہے ()279
اور اے قرانی فالحی مملکت کے زمہ داران تم اپنی ابتدائی قرانی مملکت میں ایسا انسان
دوست عبوری قانون بناؤ کہ اگر مملکت سے قرض لینے واال تنگ دست ہو تو اسے
کشائش و سہولت کے ساتھ قرض کی ادائیگی کیلیئے مہلت دو اور اگر قرض بخش ہی دو
اُسے معاف ہی کر دو توتمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ اس فالحی بات کی گہرائی
کو اچھی طرح سمجھو ()280
اور اس دن سے ڈرو جب تم قرانی مملکت کے زمہ داران قدرت کے مکافات عمل کے اٹل
قانون کے تحت اپنے کئیے ہر عمل کا جوابدہ ہو گے کہ اس قانون کے تحت تم ہی نہیں
بلکہ ہر شخص اپنے کئیے گئے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔ اور کسی کا کچھ نقصان
نہ ہوگا ()281
تو قرانی مملکت کے زمہ دار مومنو! جب تم کسی میعاد معین کے لئے قرض کا معاملہ
طے کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور مملکت کی طرف سے لکھنے واال تم میں کسی
ان پڑھ کا نقصان نہ کرے بلکہ انصاف سے لکھے نیز لکھنے واالکہ جیسا اسے قدرت
کے قانون نے لکھنا سکھایا ہے اُسے چاہئیے کہ قدرت کے عطا کردہ اس انعام کے بدلے
نہ صرف لکھنے سے انکار نہ کرے بلکہ حق بات پر مشتمل دستاویز لکھ دے۔ اور بہتر
ہو گا کہ جو قرض لینے واال قرض لے وہی دستاویز کا مضمون بول کر لکھوائے تا کہ
بوقت ضرورت کام آئے اور وہ قدرت کے قانون مکافات عمل کی بابت خوف کرے اور زر
قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے۔ اور اگر قرض لینے واال کم عقل یا کمزور و ضعیف
ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو جو اس کا ولی قابل اطمینان دوست ہو
وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے۔ اور چاہئیے کہ عام طور پر اپنی مملکت و
معاشرے میں سے دو مردوں کو ایسے قرض کے معاملے میں گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر
کسی خاص وقت پر دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ( کہ دو عورتیں
ایک دوسرے کا پروٹوکول ہوتی ہیں ایک دوسرے کی رفاقت میں نگہبان مردوں کی نسبت
خود کو زیادہ کمفرٹ محسوس کرتی ہیں ) کہ جن کو تم قرانی زمہ داران بطورگواہ پسند
بھی کرو کافی ہیں تاکہ اگر ان میں سے ایک (گھریلو ٹائپ کی عورت ہونے کی باعث )
اگر کچھ بھول جائے گی تو دوسری اسے فوری یاد دالدے اگر نہ بھولے تو پھر ایک
عورت کی گواہی بھی مرد گواہ کی طرح کافی ہے ۔ اور چاہئیے کہ جب گواہ گواہی کے
لئے طلب کئے جائیں تو وہ انکار نہ کریں۔ اور قرض تھوڑا ہو یا بہت تم زمہ داران اس
کی دستاویز کے لکھنے میں کاہلی نہ کرنا۔ یہ بات قدرت کے نزدیک نہایت قرین انصاف
ہے اور بوقت ضرورت بطور ثبوت کے لئے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے۔ کہ اس سے
تمہیں کسی طرح کا شک و شبہ بھی نہیں پڑے گا۔ ہاں اگر کسی عام معمولی سودے کا
دست بدست لین دین ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے رہتے ہو تو اگر ایسے معاملے کی
دستاویز نہ لکھوتو تم پر کچھ جرم نہیں۔ تو اچھی طرح جان لو کہ تمہارے حق میں یہی
بہتر ہے کہ جب کوئی خاص مال کی خرید وفروخت کیا کرو تو گواہ کرلیا کرو۔ اور کاتب
دستاویز کو چاہئیے کہ وہ معاملہ کرنے والوں کا کسی طرح نقصان نہ کریں۔ اگر تم زمہ
دار لوگ اس قانون کے جاننے کے باوجود بھی ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے جرم کی بات
ہے۔ اور تم قرانی مملکت کے زمہ داران ہمیشہ قدرت کے مکافات عمل کے اٹل قانون سے
ڈرا کرو اور دیکھو کہ وہ قادر و قدرت تم کو عمدہ معاشرت کی بابت کیسی مفید باتیں
سکھاتا ہے کیونکہ قادر و قدرت ہر چیز سے واقف ہے ()282
اور اگر تم قرانی مملکتی زمہ داران سفر پر ہو اور تمہیں کسی ضرورت مند کو قرض
دینے کی بابت دستاویز لکھنے واال مل نہ سکے تو قرض خواہ کی کوئی چیز رہن یا قبضہ
میں رکھ لو اور اگر تم زمہ داران میں سے کوئی کسی قرض خواہ کو امین سمجھے اور
اُسے رہن کے بغیر قرض دیدے تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت طے
کردہ وقت پر ادا کردے اور قدرت کے قوانین جو کہ اس کے اور سب کے پالن ہار و
پروردگار ہیں سے ڈرے ۔ اور دیکھنا شہادت و سچائی کو کبھی مت چھپانا۔ جو سچائی کو
چھپائے گا وہ دل کا کاال ہوگا۔ اور قادر و قدرت تو تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
()283
سمجھ لو کہ جو کچھ اُوپر بلندیوں میں اور جو کچھ نیچے پستیوں میں ہے سب قادر و
قدرت ہی کا تو ہے۔ تم زمہ داران مومن اپنے دلوں کی بات کو ظاہر کرو گے تو بھی یا
چھپاؤ گے تو بھی ۔۔۔ قدرت کے اٹل قوانین تم زمہ داران سے اپنے قانون مکافات عمل کے
تحت تمہارے ہر عمل کا حساب لیں گے پھر وہ اپنے اٹل قانون کے تحت ہی تمہاری
مغفرت کریں گے اور جس زمہ دار کو بُرے عمل کرتے ہوئے پائیں گے اُسے ہی زلت
آمیز عذاب میں مبتال کریں گے ۔ اور قدرتی فطری قوانین تو ہر شے پر قادر ہیں تم انہیں
نہیں بدل سکتے ()284
رسول یعنی قرانی ہللا کے دین نظام کا نمائندہ جو سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام
کے قیام کیلیئے ملوکیتی سرمایہ پرستی کے نظام کے خالف انقالبی مشن چالتے ہیں وہ
اس سالمتی و فالح کے عالمی اصول رکھنے والی انقالبی کتاب پر جو ان کے پروردگار
کی طرف سے ان پر نازل ہوئی پر یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر تمام انسانیت
کی سالمتی و فالح کسی اور مفاد پرستی پر مبنی کتاب سے ممکن نہیں اور رسول کے
امن و امان مہیا کرنے والے زمہ دار مملکتی مومن ساتھی بھی یہی ایمان رکھتے ہیں ۔
سب قرانی ہللا پر اور قدرتی قوتوں پر اور اصولی انقالبی کتابوں پر اور انقالبی پیغام کو
پھیالنے والے انقالبی پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہم اس کے انقالبی
پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور عرض کرتے ہیں کہ ہم نے انقالبی
پیغام سنا اور قبول کیا۔ اور کہتے ہیں کہ اے قادر و پروردگار ہم تیرے اٹل فطری قوانین
کے تحت تجھ سے بخشش مانگتے ہیں اور تیرے قوانین کے تحت ہی ہمیں آخر اس دنیا
سے لوٹ جانا ہے ()285
جان رکھو کہ قدرتی قوانین کسی بے شعور ال علم شخص کو اس کے سہنے کی طاقت
سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ۔ اور بال تخصیص سب کو آگاہی دیتے ہیں کہ جو بھی اچھے
کام کرے گا تو اس کو ان اچھے کاموں کا فائدہ ملے گا اور جو برے کام کرے گا تو اسے
ان بُرے کاموں کا نقصان پہنچے گا ۔ تو تم زمہ داران کو اب یہ کہنا چاہئیے کہ اے قادرو
پروردگار اگر ہم سے تیرے فطری قوانین کی پیروی میں یا اُسے الگو کرنے میں کوئی
بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مؤاخذہ نہ کیجیو ۔ اے قادر و پروردگار ہم پر ایسا بوجھ
نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے نادان مفاد پرست حکمران لوگوں پر اُن کے بُرے اعمال
کی سبب ڈاال تھا۔
اے قادر و پروردگار امن و امان مہیا کرنے کی جس قدر زمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی ہم
میں طاقت نہیں اتنا ہمارے سر پر نہ رکھیو ۔
اور اے پروردگار سب کی سالمتی و فالح کا دین نظام چالتے ہوئے ہمارے نادانستہ جرائم
و کوتاہیوں سے سے درگزر فرما اور ہمیں اپنی رحمتوں سے بخش دے۔ اور ہم پر اپنے
سالمتی و فالح بھرے رحمتی قوانین کے زریعے سے رحم فرما۔ کہ تو ہی ہمارا قادر و
مالک ہے اور ہم کو انسانیت پر ظلم کا نظام چالنے والے پتھر دل کافروں پر غالب فرما
()286