You are on page 1of 58

‫القران‬

‫القران ۔انسانیت کی بقاء و سالمتی و فالح کیلیئے ‪ ،‬بالخصوص‬


‫مملکتوں کے حکمرانوں کیلیئے پڑھے جانے کے قابل‬
‫عالمی اصول و قوانین کی کتاب‬
‫الف الم میم ۔قرانی مخفف کے حتمی عنوان کو قائم کرنے کا حق صرف قرانی اسٹیٹ‬
‫کے سربراہ کو ہےجو کہ وہ اپنی مملکت کے دیگر بنیادی حقوق کی ادائیگی پر مقرر‬
‫انتظامی و فراہمی انصاف کے اداروں یعنی پارلیمنٹ ( جماعت مومنین ) ‪ ،‬پولیس اور‬
‫عدلیہ کی مشاورت سے موجودہ زمانے کے تقاضے کے مطابق انسانیت کی سالمتی و‬
‫فالح میں جاری کرے)‪(1‬‬
‫ساری انسانیت جان لے کہ تمام انسانیت کی سالمتی و فالح کے دین نظام سسٹم طریقہ‬
‫کار کی بابت آگاہی دینے والی‬
‫یہ کتاب ہر قسم کی عصبیت سے پاک اور مفاد پرستی کے شک و شبہ سے باال ھے ۔ یہ‬
‫دُکھی مظلوم انسانیت کے بارے میں باکردار با ضمیر حساس حکمران انسانوں کو‬
‫سالمتی و فالح کے دین ‪/‬نظام‪ /‬سسٹم ‪ /‬طریقہ کار کے قیام کے بارے میں ہدائیت و‬
‫رہنمائی دیتی ھے (‪) 2‬‬
‫جو انسانیت کی حقیقی سالمتی و فالح کا وژن یعنی غیب پر ایمان رکھتے ہوئے اس‬
‫بات پر دل کی گہرائی سے ایمان التے ہیں کہ قدرت کے عطاکردہ رزق و وسائل کے‬
‫عالمی تقسیم کا ایسا منصفانہ دین نظام قائم کیا جائے کہ جو کچھ قدرت نے بے بہا عطا‬
‫فرمایا ہے اس میں سے سب کو بال امتیاز برابری کے حقوق کی بنیاد پر تقسیم کیا‬
‫جائے)‪(3‬‬
‫اور سب کی سالمتی و فالح کے عالمی اصول و قوانین رکھنے والی جو کتاب ‪ ،‬اے‬
‫عالمی انقالبی محمد ﷺ تم پر نازل ہوئی اور ایسی ہی جو فالحی کتابیں تم سے پہلے‬
‫انقالبیوں پر نازل ہوئیں اُن سب پر ایمان التے ہیں اور اسی بنا پر سب انسانیت کی آخرت‬
‫یعنی سالمتی و فالح کے بہترین فیوچر ‪ ،‬مستقبل پر یقین رکھتے ہیں)‪(4‬‬
‫پس یہی حکمران لوگ اپنے قرانی پروردگار کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی دنیا بھر‬
‫کے مسائل و آالم ( بھوک ‪ ،‬غربت ‪ ،‬افالس ‪ ،‬بیماریاں ‪ ،‬جہالت وغیرہ ) سے نجات پانے‬
‫اور دالنے والے باشعور باہمت لوگ ہیں)‪(5‬‬
‫اور جو حکمران لوگ سب انسانیت کی سالمتی و فالح کے دین نظام سسٹم کے‬
‫قیام کے منکر ہیں وہ ہی مفاد پرست یعنی ظلم کی انتہا پر فائز سفاک کافر و‬
‫شیطان ہیں انہیں تم اس قران سے نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لیے برابر ہے۔‬
‫وہ سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام پر ایمان نہیں النے کے )‪(6‬‬
‫قدرت کے قانون مکافات عمل کے تحت ان ظالم حکمرانوں کے دلوں اور کانوں پر انسان‬
‫دشمنی کی مہر لگ چکی ہے اور ان کی آنکھوں پر مفاد پرستی کا پردہ پڑا ہوا ہے ان‬
‫کی وجہ سے ہی سب کے لیے مستقبل کی زندگی میں بڑا عذاب تیار ہے )‪(7‬‬
‫اور بعض حکمران لوگ ایسے منافق چرب زبان ہیں جو ( انسانی حقوق کی آڑ میں )‬
‫کہتے ہیں کہ ہم قدرت کے مکافات عمل پر اور انسانی بہتری کے فیوچر مستقبل پر ایمان‬
‫رکھتے ہیں حاالنکہ وہ بالکل ایمان نہیں رکھتے)‪(8‬‬
‫یہ کافر حکمران لوگ اپنے پندار میں سمجھتے ہیں کہ یہ قدرت کے اٹل قوانین اور دنیا‬
‫میں حقیقی امن و امان قائم کرنے والے انسان دوست مومنوں کو چکما دیتے ہیں مگر‬
‫حقیقت میں اپنے سوا کسی کو چکما نہیں دیتے اور خود اس سے بے خبر ہیں)‪(9‬‬
‫ان کے دلوں میں حرص و ہوس اور اپنے لئیے مال و دولت جمع کرنےکا انسان دشمن‬
‫مرض ہے ۔ قدرت کے مکافات عمل نے ان کا یہ مرض اور زیادہ کر دیا اور اسی باعث ان‬
‫منافقوں کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو مکافات عمل کے تحت دکھ دینے واال عذاب‬
‫ہوگا)‪(10‬‬
‫اور جب ان لفاظ ‪ ،‬چرب زبان مذہبی و سیاسی ظالموں سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں‬
‫فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں‪ ،‬ہم ہی تو اصالح کرنے والے ہیں )‪(11‬‬
‫دیکھو یہ بالشبہ سب سے بڑے فسادی ہیں‪ ،‬لیکن یہ اس بات سے آگاہی نہیں رکھتے‬
‫(‪)12‬‬
‫ساس باکردار لوگ‬
‫اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اور انسانیت کی بابت ح ّ‬
‫سب کی سالمتی و فالح‬
‫کے دین ‪ ،‬نظام‪ ،‬سسٹم ‪ ،‬طریقہ کار پر ایمان لے آئے ہیں ‪ ،‬تم حکمران لوگ بھی لے آؤ‬
‫تو کہتے ہیں‪ ،‬بھال جس طرح اپنا نقصان کا سودا کرنے والے بےوقوف لوگ ایمان لے‬
‫آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں؟‬
‫سن لو کہ یہی انسان دشمن حقیقی بےوقوف ہیں لیکن یہ مفاد پرست نہیں جانتے)‪(13‬‬

‫اور یہ منافق حکمران لوگ جب امن و امان قائم کرنے والے مومنوں سے ملتے ہیں تو‬
‫کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں‪ ،‬اور جب اپنے ملوکیتی غریب دشمن نظام چالنے‬
‫والےشیطانوں میں جاتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں اور پیروان‬
‫محمد ﷺسے تو ہم فقط ہنسی مزاق کیا کرتے ہیں)‪(14‬‬
‫حقیقت میں تو ان منافق عیاش حکمرانوں سے قدرتی مکافات عمل کے اٹل قوانین ہنسی‬
‫مزاق کرتے ہیں اور انہیں مہلت دیئے جاتے ہیں (جیسے کہ پانی کا آگ پر اُبلنے کا‬
‫ایک خاص وقت مقرر ھے ( پر یہ مفاد پرست اپنی ہی مستی میں مست ہو کر شرارت‬
‫وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں)‪(15‬‬
‫یہ وہ بد بخت مفاد پرست حاکم لوگ ہیں جنہوں نے شک سے پاک انسان دوست ہدایت‬
‫چھوڑ کر مشکُوک گمراہی خریدی ‪ ،‬تو نہ تو ان کی مفاد پرستی کی تجارت ہی نے انہیں‬
‫کچھ نفع دیا اور نہ ہی وہ انسانیت کے بارے میں ہدایت یاب ہو پائے)‪(16‬‬
‫ان مفاد پرستوں کی مثال اُس شخص کی سی ہے کہ جس نے کالی اندھیری رات میں‬
‫روشنی کی غرض سے آگ جالئی۔ جب آگ نے اس کے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو‬
‫تیز ہوا نے اچانک آگ کی روشنی زائل کر دی اور ان کو پھر ایسے اندھیروں میں چھوڑ‬
‫دیا کہ یہ اب کچھ دیکھ ہی نہیں سکتے)‪(17‬‬
‫تو یہ مفاد پرست حکمران اسی مثال کی طرح انسان دوست روشنی سے محروم ہو گئے‬
‫ہیں اور بہرے ‪ ،‬گونگے ‪ ،‬اندھے ہوئے پڑے ہیں کہ یہ اب کسی طرح بھی شک سے پاک‬
‫ہدائیت کے بنا سیدھے رستے کی طرف لوٹ ہی نہیں سکتے)‪(18‬‬
‫اونچائی سے‬‫یا ان مفاد پرست حکمرانوں کی مثال بارش کی سی ہے کہ ان پر بُلندی و ُ‬
‫پانی برس رہا ہو تو بہت خوش ہوتے ہیں پر یہ حق کی راہ سے بھٹکے ہوئے حکمران‬
‫لوگ اندر سے حقیقتا اتنے ڈرے ہوئے ہوتے ہیں کہ جب اس بارش میں اندھیرے‬
‫پراندھیرا چھا تا جا رہا ہو اور بادل گرج رہا ہو اور بجلی کُوند رہی ہو تو یہ بجلی کی‬
‫کڑکڑاہٹ سے ڈر کر موت کے خوف سے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں تواس مثال‬
‫سے یہ اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ قدرت کے مکافات عمل کے اٹل قوانین سالمتی و‬
‫فالح کے دین نظام کے دشمن کافر حکمرانوں یعنی سفّاک ترین سنگدل حکمرانوں کو ہر‬
‫طرف سے اسی طرح گھیرے ہوئے ہوتے ہیں)‪(19‬‬
‫یا اسے یوں سمجھا جائے کہ جب بجلی کی تیز چمک ان کی آنکھوں کی بصارت کو‬
‫عارضی طور پر ُچندھیا دے ۔ پر جب یہ بجلی لمحہ بھر کیلیئے چمکتی اور ان پر روشنی‬
‫ڈالتی ہے تو یہ اس روشنی کی دکھائی راہ میں کچھ دُور تک چل پڑتے ہیں اور جیسے ہی‬
‫دوبارہ اندھیرا ہو جاتا ہے تو وہیں کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں یہ تو حال ھے ان‬
‫مفادی حکمرانوں کا کہ اگر قدرت کے اٹل قوانین کی ُرو سے ان کے کانوں کی شنوائی‬
‫اور آنکھوں کی بینائی دونوں زائل ہو گئی ہوتیں تو پھر بھال یہ کیا کرتے ؟ کہ قدرت کے‬
‫قوانین تو ہر شے پر قادر ہیں ۔)‪(20‬‬
‫تو حکمران لوگو !تم اپنے پروردگار کے شک سے پاک احکام کی اطاعت و فرمانبرداری‬
‫کرو تا کہ سب کی سالمتی و فالح کا دین نظام قائم کر سکو کہ جس نے تم کو اور تم سے‬
‫پہلے کے حکمران لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم اسکے احکام کی نافرمانی کے باعث آنے‬
‫والی زلت بھری زندگی کے عذاب سے بچ سکو)‪(21‬‬
‫جس قدرت نے تمھارے لیے زمین کو رہائش و فصل کیلیئے بچھونا اور اوپر اونچائیوں‬
‫کو محفوظ چھت بنایا اور بلندئیوں سے مینہ برسا کر تمہارے کھانے کے لیے انواع و‬
‫اقسام کے میوے زمین سے پیدا کئے۔ پس کسی کو قدرت کا ہمسر نہ بناؤ۔ اور تم یہ بات‬
‫بخوب جانتے تو ہو)‪(22‬‬
‫اور اگر تم ‪،‬ظلم کا غریب دشمن ملوکیتی نظام چالنے والوں کو اس کتاب میں‪ ،‬جو ہم نے‬
‫اپنے بندے محمد ﷺعربی پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کا سب کی‬
‫سورت یعنی باب ‪ ،‬چیپٹر تم بھی بنا الؤ اور قرانی ہللا کے سوا‬
‫سالمتی و فالح بھری ایک ُ‬
‫جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی باللو اگر تم سچے ہو)‪(23‬‬
‫لیکن اپنے انسانیت کو چکمے دینے والے منشور بنا کر بھی اگر ایسا نہ کر سکو اور‬
‫ہرگز نہیں کر سکو گے تو اس موجودہ جہنمی غریب دشمن نظام کی آگ سے ڈرو کہ‬
‫جس کا ایندھن سب انسانیت کے ساتھ تم پتھر دل بھی ہوجاؤ گے جو خاص کر ظلم کا نظام‬
‫چالنے والے کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے)‪(24‬‬
‫اور جو لوگ سب کی سالمتی و فالح کے قرانی دین نظام سسٹم پر ایمان الئے اور اس‬
‫نظام کے زریعے سب کی سالمتی و فالح کے نیک عمل کرتے رہے‪ ،‬ان کو خوشخبری سنا‬
‫دو کہ ان کے لیے اس نظام کے نتیجے میں نعمتوں ‪ /‬ثمرات بھرے باغ ہیں‪ ،‬جن کے‬
‫نیچے زندگی کی شادابی و سیرابی کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ جب ان سب کو اس نظام کے‬
‫زریعے سے کسی قسم کا میوہ برابری کے حقوق کے ساتھ کھانے کیلیئے دیا جائے گا تو‬
‫یہ سب کہیں گے‪ ،‬یہ تو وہی ہے جو ہم کو پہلے جنتی زندگی میں دیا گیا تھا کہ جس میں‬
‫زن ‪ ،‬زر ‪ ،‬زمین کا کوئی جھگڑا نہیں تھا ۔ اور اس نظام میں ان کو ایک دوسرے کے ہم‬
‫شکل میوے پاکیزہ ساتھیوں کی صورت دیئے جائیں گے اور وہ جنتی نظام میں ہمیشہ‬
‫ساتھ رہیں گے)‪(25‬‬
‫قرانی ہللا اس بات سے ہرگز نہیں شرماتا کہ اپنی بات سمجھانے کیلیئے مچھر یا اس سے‬
‫بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے ‪ ،‬جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں‪ ،‬وہ‬
‫انہی معمولی سی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی‬
‫طرف سے آیا ہے‪ ،‬اور جو ماننے والے نہیں ہیں‪ ،‬وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ‬
‫ایسی معمولی تمثیلوں سے ہللا کو کیا سروکار؟ اس طرح قرانی ہللا کی باتوں سے بہت‬
‫سے کم عقل جذباتی بیمار گمراہی میں مبتال ہو جاتے ہیں اور بہتوں کو راہ راست دکھ‬
‫جاتی ھے اور گمراہی میں وہ ہی مبتال ہوتے ہیں ‪ ،‬جو فاسق یعنی ایک دوسرے کو پھاڑ‬
‫دینے والے ہوتے ہیں)‪(26‬‬
‫جو حکمران لوگ سب کی سالمتی بھرے دین نظام کے اقرار ‪ ،‬وعدہ ‪ ،‬معاہدہ کو‬
‫مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز یعنی انسانیت کے رشتے کو جوڑے‬
‫رکھنے کا ہللا نے اپنے دین نظام کے تحت حکم دیا ہے اسی کو قطع کئیے ڈالتے ہیں اور‬
‫زمین میں فساد و خرابی کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں)‪(27‬‬
‫تم حکمران لوگ سالمتی و فالح کی راہ پا جانے کے بعد قرانی ہللا کے ساتھ ناشُکری بے‬
‫رویہ کیسے اختیار کرسکتے ہو ؟‬ ‫توقیری کا ّ‬
‫حاالنکہ تم اس ضابطہ حیات سے پہلے " اُمت مرحوم " کی طرح بے جان تھے یعنی تم‬
‫ایک دوسرے کی جان ‪ ،‬مال ‪ ،‬عزت کے دشمن تھے ) پھر قرانی ہللا نے تم کو زندگی‬
‫بخش ضابطہ ء حیات عطا کیا کہ "کان الناس اُمۃ واحدہ " اور جان لو کہ اسکی خالف‬
‫ورزی میں پھر سے بے جان ہو جاؤ گے ‪ ،‬لیکن بے جان ہو جانے کے بعد جب بھی تم‬
‫اس زندگی بخش ضابطہ ء حیات کو اپنا لو گے تو پھر زندہ ہو جاؤ گے ‪ ،‬کہ آخر کار تمام‬
‫انسانیت کواپنی زندگی جنتی اور امر بنانے کیلیئے اسی حیات بخش قرانی قوانین کو اپنانا‬
‫ہو گا)‪(28‬‬
‫وہی تو قدرت عظیم ہے‪ ،‬جس نے تمہاری بہترین زندگی بنانے کے لیے زمین سے ساری‬
‫چیزیں پید ا کیں‪ ،‬پھر تمہاری حفاظت کیلیئے زمین سے اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور‬
‫سات حفاطتی بلندیاناونچائیاں استوار کیں اور جان لو کہ قدرت کے اٹل قوانین تو ہر شے‬
‫پر محیط ہیں)‪(29‬‬
‫پھر ذرا اس انتہائی غوروفکر کے قابل گہری اور خوبصورت تمثیلی بات کا تصور کرو کہ‬
‫جب تمہارے پالنے والی قدرت نے کائناتی قوتوں سے کہا کہ میں زمین میں انساں کو‬
‫حکمران بنانے واال ہوں "تو انہوں نے عرض کیا" ‪:‬کیا آپ زمین میں کسی ایسی ہستی کو‬
‫مقرر کرنے والے ہیں‪ ،‬جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور زمین میں خونریزیاں کرے‬
‫گا جبکہ ہم آپ کو سراہتے ہوئے فرمانبرداری کے ساتھ تعریف و تقدیس تو کر ہی رہے‬
‫ہیں‬
‫"قدرت نے جواب میں فرمایا" ‪ :‬میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے)‪" (30‬‬
‫اس کے بعد قدرت نے آدم کو قدرتی چیزوں میں غوروفکر سے ایجاد کرنے پھر ان کے‬
‫نام رکھنے سکھائے ( یعنی قدرت نے آدمی میں اشیاء دریافت و ایجاد کرنے اور ان کے‬
‫نام رکھنے کی صالحیت رکھ دی جو کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں ) ‪ ،‬پھر انہیں کائناتی‬
‫قوتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا" اگر تمہارا خیال صحیح ہے کہ کسی انسان کے‬
‫تقرر سے دنیا کا انتظام بگڑ جائے گا تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ)‪" (31‬‬
‫کائناتی قوتوں نے عرض کی ‪ ،‬نقص سے پاک تو قدرت ہی کی ذات ہے‪ ،‬ہم تو بس اتنا ہی‬
‫علم رکھتے ہیں‪ ،‬جتنا قدرت نے ہم کو دیا ہے ‪ ،‬حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے‬
‫واال قدرت کے سوا کوئی نہیں)‪" (32‬‬
‫پھر قدرت نے آدم سے کہا" تم انہیں ان چیزوں کے نام بتاؤ "جب اس نے ان کو اُن سب‬
‫سموات و‬‫کے نام بتا دئیے ‪ ،‬تو قدرت نے فرمایا" میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں ٰ‬
‫ارض کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں‪ ،‬جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو‪،‬‬
‫وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو‪ ،‬اُسے بھی میں جانتا ہوں "کہ‬
‫قدرت کے قوانین ہر شے پر محیط ہیں)‪(33‬‬
‫اور پھر ذرا اس انتہائی غوروفکر کے قابل گہری اور خوبصورت تمثیلی بات کا تصور کرو‬
‫کہ جب قدرت نے کائناتی قوتوں کو حکم دیا کہ تم سب اب آدم کے احکام پر عمل کرو تو‬
‫وہ سب آدم کے احکام پر عمل کرنے کیلیئے سجدے میں گر پڑے کہ اے آدم تم ہم کائناتی‬
‫قوتوں سے کام لو مگر انسان کے اندر با اختیار ‪ ،‬قدرتی ‪ ، Built in‬مایوس کُن جزبہ‬
‫ابلیس نے انکار کیا اور غرور میں آکر انسانیت کا دشمن یعنی کافر بن گیا)‪(34‬‬
‫اور قدرت نے انسانیت سے کہا کہ اے آدم تم اپنے پاکیزہ سیرت یعنی ہر قسم کے تعصب‬
‫‪ ،‬نفرت ‪ ،‬انا سے پاک ساتھیوں کے ساتھ بہشت میں رہو اور اس غیر تمدنی جنت میں‬
‫خوب انجوائے کرو اور جہاں سے چاہو جتنا چاہو بے روک ٹوک کھاؤ پیو لیکن خبردار‬
‫اُس درخت کے پاس نہ جانا کہ جس کا تنا تو ُخوب تناور ہوتا ھے پر جس کی شاخیں‬
‫پھیل کر تقسیم ہو کر نہائیت کمزور ہو جاتی ہیں تو اس طرح باہمی اختالفات و تفرقات‬
‫سے کمزور ہو کر خود پر ظلم کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے)‪(35‬‬
‫قدرت کی اس قدر واضح ہدائیت کے بعد انسان میں پیوست مفاد پرستی کے ابلیسی‬
‫جزبات نے جنت ‪ /‬غیر تمدنی دور کے پاکیزہ ساتھیوں کے درمیان باہمی اختالفات نفرت و‬
‫تعصب و تفرقات ڈال کر دونوں کو اُس مقام سے پھسال دیا اور وہ جس عیش ونشاط میں‬
‫تھے‪ ،‬وہاں سے اُن کو نکلوا دیا ۔ تب قدرت کے مکافات عمل نے حکم دیا کہ اب بہشت‬
‫بریں کی زندگی سے چلے جاؤ۔ تم اب ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے ہو‪ ،‬اور‬
‫تمہارے لیے جہنمی زمین میں اُس وقت تک ٹھکانا اور معاش مقرر کر دیا گیا ہے جب‬
‫تک کہ تم اب دوبارہ تمدنی طور پر ایک نہیں ہو جاتے (‪)36‬‬

‫جنتی زندگی سے نکلتے وقت یعنی تمدّنی زندگی میں داخل ہوتے وقت ‪ ،‬آدم نے قدرت کے‬
‫الزمی پیروی کے چند اٹل قوانین‬
‫( مثال زمین سے اگر فصل لینی ھے تو اب اُس میں بیج بونے کی محنت کرنا ہو گی )‬
‫سیکھ کر قدرت کے قوانین کا اعتراف کر کے توبہ کی ‪ ،‬جس کو اس کے رب نے قبول کر‬
‫لیا ( کہ انہیں اس طرح محنت کے صلے میں فصل دینا شروع کر دیا ) ‪ ،‬کیونکہ قدرت کے‬
‫قوانین بڑے معاف کرنے والے اور رحم فرمانے واال ہیں (‪)37‬‬
‫قدرت نے جب جنتی زندگی سے انسانیت کو اُتارا تو ساتھ ہی یہ آگاہی شعور بھی دے دیا‬
‫کہ اب جو بھی ہدائیت سب انسانیت کی سالمتی و فالح کی بابت ہو گی وہی کامیاب رھے‬
‫گی ‪ ،‬تو جو لوگ سب کی سالمتی و فالح کے قوانین و ہدایت کی پیروی کریں گے‪ ،‬وہ‬
‫کبھی کسی خوف اور رنج میں مبتال نہ ہو نگے (‪)38‬‬
‫اور پھر جو حکمران سب کی سالمتی و فالح کا نظام یعنی قدرت کے دئیے رزق و وسائل‬
‫کی انسانوں میں برابری کی بنیاد پر منصفانہ تقسیم نہیں کریں گے اور اس قانون کو قبول‬
‫کرنے سے انکار کریں گے اور قدرتی فطری قوانین کو جھٹالئیں گے‪ ،‬تو ایسے لوگ ہی‬
‫وہ آگ میں جانے والے یعنی جہنمی زندگی اپنانے والے لوگ ہیں‪ ،‬جہاں وہ ہمیشہ رہیں‬
‫گے (‪)39‬‬
‫اے قوم بنی اسرائیل !ذرا خیال کرو قدرت کی اُس نعمت کا جو تم کو قدرت کے فطری‬
‫قوانین پرعمل سے حاصل تھیں تو تمہارے لئیے بہتری اسی میں ھے کہ فطرت پر چلنے‬
‫کے اپنے اقرار کو پورا کرو جو تم نے قدرت سے کیا ہوا ھے ۔ تو جواب میں قدرت بھی‬
‫اپنے اقرار کو پورا کرے گی اور ہمیشہ قدرت کے قوانین کی خالف ورزی سے ڈرتے رہو‬
‫)‪(40‬‬
‫اور اب سب کی سالمتی و فالح کے فطری قوانین پر مشتمل یہ کتاب قران ہے ‪ ،‬لہٰ ذا اپنی‬
‫زندگی کو دوبارہ سے تمدنی جنتی بنانے کیلیئے اس پرعمل کی غرض سے ایمان الؤ ‪،‬‬
‫یہ اُس کتاب کی تائید میں ہی ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی جسے تم نے‬
‫مفاد پرستی کی باتیں شامل کر کے ضائع کر دیا ‪ ،‬لہٰ ذا سب سے پہلے تم ہی اس کے ُمنکر‬
‫نہ بن جاؤ ‪ ،‬اور تھوڑی قیمت کیلیئے سب کی سالمتی کے فطری قوانین کو نہ بیچ ڈالو او‬
‫ر قدرت کے غضب سے بچو)‪(41‬‬
‫اور اب اچھی طرح جان لو کبھی حق کو باطل کے ساتھ نہ مالؤ‪ ،‬اور سچی بات کو جان‬
‫بوجھ کر نہ چھپاؤ کہ اس میں انسانیت کا سخت نقصان ھے)‪(42‬‬
‫اے سرمایہ پرستی کا غریب کُش عالمی نظام چالنے والے بنی اسرائیل ‪ ،‬تم فطری قوانین‬
‫کی پیروی کے اپنے سابقہ اقرار کو پورا کرنے کیلیئے اب شک سے پاک کتاب قران‬
‫کے بتائے فطری قوانین میں مشاورت کے زریعے سب انسانیت کی سالمتی و فالح کیلیئے‬
‫سب کی برابری کی بنیاد پر قدرتی رزق و وسائل کی منصفانہ تقسیم کا نظام‬
‫زکوۃ دے سکو اور‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫الصلوۃ " قائم کرو تا کہ ساری انسانیت کو ترقی و نشو نما یعنی‬ ‫"‬
‫جیسے تمہارے سامنے ساری کائنات قدرت کے قوانین کے آگے سر بخم ھے تم بھی اسی‬
‫طرح فطری قوانین کے سامنے سر بخم رہو)‪(43‬‬
‫یہ کیا عقل کی بات ھے؟ کہ تم بظاہر بڑی اچھی اچھی باتیں کر کے اپنے سرمایہ پرستی‬
‫اور وطن پرستی کے غریب دشمن نظام کی پیروی کیلیئے ساری انسانیت سے تقاضہ‬
‫کرتے رہتے ہو اور اپنے تئیں فراموش کئے دیتے ہو کہ آخر اس مستحکم ابلیسی نظام کا‬
‫نتیجہ سوائے سب کی تباہی کے اور کیا نکلنے واال ھے ؟ ‪ ،‬حاالنکہ تم اب شک سے پاک‬
‫کتاب قران بھی پڑھتے ہو۔ کیا تم میں اتنی سمجھ نہیں؟)‪(44‬‬
‫اور جان لو کہ دنیاوی ہر مصائب و مصیبت کے حل کیلیئے نہائیت استقامت و استقالل کے‬
‫ساتھ قدرت کے رزق و وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ہی مدد لیا کرو کہ یہ نظام دنیا‬
‫کی ہر مصیبت کا جڑ سے خاتمہ کر کے رکھ دے گا‬
‫صلوۃ کا یہ نظام شاہی طرز زندگی گزارنے والوں پر بہت گراں ہے‪ ،‬مگر‬ ‫اور بے شک ٰ‬
‫ساس لوگوں پر بالکل گراں نہیں جو عجز کرنے والے ہیں‬ ‫انسانیت کے بارے میں اُن ح ّ‬
‫)‪(45‬‬
‫اور جو قدرت کے مکافات عمل کے قانون پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ہر عمل کا صلہ‬
‫ضرور پائیں گے یعنی جو بوئیں گے وہ ضرور کاٹیں گے اور قدرت کے اس قانون سے‬
‫کسی صورت کوئی مفر نہیں))‪(46‬‬
‫تو اے قوم بنی اسرائیل ! قدرت کے انسان دوست فطری قوانین پر عمل پیرا ہونے کے وہ‬
‫جنتی ثمرات یاد کرو ‪ ،‬جو قدرت نے تم پر کیئے تھے اور اسی وجہ سے قدرت نے تم کو‬
‫سارے جہان کے لوگوں پر فضیلت بخشی تھی)‪(47‬‬
‫اور اس قرانی سالمتی و فالح کے عالمی دین نظام سسٹم طریقہ کار میں ہر کسی کی‬
‫صور تو کرو کہ جب کوئی کسی کے کچھ ناجائز کام نہ آئے اور نہ کسی نا‬ ‫جوابدہی کا زرا ت ّ‬
‫اہل کی سفارش منظور کی جائے اور نہ کسی سے کسی طرح کے ظلم کا بدلہ قبول کیا‬
‫جائے اور نہ لوگ کسی طرح کی شارٹ کٹ و تعلقات کے زریعے مدد حاصل کر سکیں‬
‫)‪(48‬‬
‫اور قدرتی فطری قوانین پر عمل درامد کا وہ حسین خوبصورت وقت یاد کرو جب ہم نے تم‬
‫کو ظلم کا نظام چالنے والے ظالم حکمرانوں یعنی سلسلہ " فرعون " سے نجات بخشی‬
‫وہ تم کو بڑا دکھ دیتے تھے تمہارے لڑکوں کو زلّت بھرے ُمشقتی نظام میں ڈال کر ان کی‬
‫قدرتی انمول صالحیتیں قتل کر ڈالتے تھے اور لڑکیوں کو اپنے حرم کی ذینت بنانے‬
‫کیلیئے اُنہیں سجا بنا کر زندہ رہنے دیتے تھے اور اس انسانیت کُش ماحول میں میں‬
‫تمہارے لئیے بڑی سخت آزمائش تھی)‪(49‬‬
‫یاد کرو وہ وقت‪ ،‬جب قدرت کے قوانین پر عمل کر کے تم فرعونوں کے ظلم کا سمندر‬
‫پھاڑ کر مستحکم ابلیسی نظام کی گرفت سے باہر آگئے تھے ‪ ،‬پھر تم اپنے سالمتی و فالح‬
‫سرخ رو ہوئے اور وہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے سارے‬ ‫کے دین نظام کی وجہ سے ُ‬
‫فرعون صفت ظالم عیاش حکمران اپنے ہی بنائے انسان دشمن نظام سسٹم میں غرقاب‬
‫ہوگئے)‪(50‬‬
‫موسی سالمتی و فالح کی دین نظام کی بابت تھوڑے زائد عرصہ کیلیئے‬
‫ٰ‬ ‫یاد کرو‪ ،‬جب‬
‫مصروف ہو کر تم سے دُور ہوگئے تھے تو تم چونکہ ابھی مزھب کی قید سے مکمل آزاد‬
‫نہیں ہو پائے تھے تو تم نے ان کی غیر موجودگی میں اپنے مزھبی جزبات کی تسکین کی‬
‫خاطر ایک مزھبی بچھڑے کو بنا کر اس کی وہی جہالت بھری پوجا پاٹ کرنے لگے ‪ ،‬اُس‬
‫وقت تم نے اپنے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی)‪(51‬‬
‫موسی نے واپس آ کر تمہیں اس مزھبی جہالت سے پھر نکال لیا کہ شاید اب تم شکر‬ ‫ٰ‬ ‫مگر‬
‫گزار بنو)‪(52‬‬
‫موسی کو کتاب پر عمل کرنے کی باعث حیرت انگیز نظام کے طور پر‬ ‫ٰ‬ ‫اور جب قدرت نے‬
‫انقالبی سالمتی و فالح کے معجزے عطا کئیے ( کہ جس نظام میں کوئی انسان تو دور‬
‫کوئی کُتا بھی بھوکا اور بے سہارا نہیں رہ سکتا تھا ) تو کیا یہ سب اس باعث نہیں کہ تم‬
‫بھی ہدایت حاصل کرو)‪(53‬‬
‫موسی نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ بھائیو‪ ،‬تم نے " دین اسالم " یعنی‬
‫ٰ‬ ‫اور جب‬
‫سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام سسٹم چھوڑ کر پھر سے پوجا پاٹ کے مزھب کو‬
‫اپناتے ہوئے اور ایک مزھبی بچھڑے کو ( معبود )ٹھہرانے میں اپنے اوپر بڑا ہی جہالت‬
‫بھرا ظلم کیا ہے کہ خود کو انسانیت کے شرف سے نیچے گرا دیا ‪ ،‬تو فورا توبہ کرو یعنی‬
‫اس جاہالنہ مزھب کو چھوڑ کر واپس سب کی سالمتی و فالح کے دین اسالم کی طرف چلو‬
‫اور اسکی خاطر تو بھلے اپنے آپ کو ہالکت کے خطرے میں ڈال لو کہ یہ تمہارے خالق‬
‫کے نزدیک تمہارے حق میں بہتر ہے۔ تو اس طرح تمہارے توبہ کرنے پر پھر اس نے‬
‫تمہارا قصور معاف کر دیا۔ بے شک قدرت کے قوانین معاف کرنے والے اور رحمت بھرے‬
‫ہیں)‪(54‬‬
‫موسی‪ ،‬جب تک ہم تمہارے خدا کے سالمتی و فالح‬ ‫ٰ‬ ‫موسی سے کہا کہ اے‬
‫ٰ‬ ‫اور جب تم نے‬
‫بھرے نظام کو فوری قائم ہوتے ہوئے اپنے سامنے نہ دیکھ لیں گے‪ ،‬تم پر ایمان نہیں‬
‫الئیں گے‪،‬تو تم پر ایسی بچکانہ ضد اور جلد بازی کی باعث ابلیسی نظام کی آفتیں بہت جلد‬
‫بجلی بن کر گر پڑیں اور تم معاشی بد حالی کا اپنا ابتر حال دیکھ رہے تھے)‪(55‬‬
‫موسی تم پر غیرفطری نظام کی سب سے بڑی آفت معاشی موت آ جانے کے بعد‬ ‫ٰ‬ ‫پھر اے‬
‫قدرت کے نظام کی پیروی نے تم کو دوبارہ سالمتی و فالح کا دین نظام اپنانے کے‬
‫زریعے ازسر نو زندہ کر دیا تھا کہ قدرت کا احسان مانو)‪(56‬‬
‫پر جب قدرت نے تم کو دوبارہ سالمتی و فالح کا دین نظام اپنانے کے اجر میں ازسر نو‬
‫وسلوی یعنی تمہاری مرغوب‬
‫ٰ‬ ‫زندہ کر دیا‪ ،‬تو اُس نے تم پر اپنی رحمت کا سایہ رکھا ‪،‬من‬
‫پسندیدہ غذائیں تمہارے لیے فراہم کیں اور تمہیں آگاہی دی کہ جو پاک صاف چیزیں قدرت‬
‫نے تمہیں دی ہیں‪ ،‬اُنہیں کھاؤ‪ ،‬مگر تمہارے اسالف نے جو کچھ کیا وہ قدرت کے اٹل‬
‫قانون کا نتیجہ تھا جو انہوں نے خود پر نافذ کیا تھا اور قدرت کا قانون ھے کہ جو بوؤ‬
‫گے اُسے ہی کاٹو گے)‪(57‬‬
‫پھر یاد کرو جب قدرت کے قوانین نے تمہیں یہ علم و شعور دیا تھا کہ ایک ایسی بستی‬
‫بسا کر رہا جائے کہ جس میں عمدہ ترین پیداوار پیدا کریں اور مزے سے کھائیں اور‬
‫ساتھ یہ شعور بھی دیا تھا کہ اُس بستی میں قدرتی قوانین کی پیروی کرتے ہوئے ہر دم یہ‬
‫مد نظر رکھنا ہو گا کہ " حطۃ " یعنی ہمارے سابقہ جرائم ہم سے سرزد نہ ہوں گے تو‬
‫ہی قدرت کے قوانین تمہاری سابقہ خطاؤں سے در گزر کریں گے اور نیکو کاروں کو‬
‫مزید فضل و کرم سے نوازیں گے)‪" (58‬‬
‫مگر سب کی سالمتی و فالح کی جو بات کہی گئی تھی ‪ ،‬مفاد پرست ظالموں نے اُسے بدل‬
‫کر کچھ اور کر دیا آخر کار قدرت نے ظلم کرنے والوں پر نتیجہ خیز عذاب نازل کیا یہ سزا‬
‫تھی ان نافرمانیوں کی جو وہ کر رہے تھے‬
‫)‪(59‬‬
‫موسی نے اپنی قوم کے لیے قدرت سے پانی چاہا تو قدرت نے آگاہی دی کہ اپنے‬ ‫ٰ‬ ‫اور جب‬
‫مظبوط اوزاروں سے چٹانوں کو کھودو اور زمین کے اندر سے پانی لے لو ۔ تو پھر اس‬
‫صول کا‬‫طرح زمین میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے‪ ،‬اور تمام قبیلوں نے پانی کے ح ُ‬
‫اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر لیا۔ یوں قدرت نے یہ شعور دیا کہ قدرت کے عطا کردہ رزق و‬
‫وسائل کو محنت کے زریعے سے حاصل کر کے خوب کھاؤ پیو کس نے روکا ہے بھال ؟ ‪،‬‬
‫مگر ہاں دوسروں کی محنت پر قبضہ کر نے کے لئیے زمین میں فساد نہ کرتے پھرنا‬
‫(‪)60‬‬
‫اور جب تمہاری قوم نے قدرت سے کئیے اپنے اقرار کہ " ہمارے بدحالی کے سابقہ‬
‫جرائم اب ہم سے سرزد نہ ہوں گے " حطۃ " کی عملی خالف ورزی کرتے ہوئے کہا کہ‬
‫موسی !ہم سے اب محنت کے زریعے ایک ہی طرح کے عمدہ قسم کے کھانے پر صبر‬ ‫ٰ‬
‫نہیں ہو سکتا ت ُو ان کی جگہ عام سادہ ترکاری ‪ ،‬ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز‬
‫وغیرہ جو نباتات زمین سے اُگتی ہیں‪ ،‬ہمارے لیے بنا محنت کے پیدا کرنے کی ترکیب‬
‫کر ۔ تو تم نے کہا کہ بھال محنت کے عوض عمدہ چیزیں چھوڑ کر بغیر محنت کے عام‬
‫گھٹیا چیزیں کیوں چاہتے ہو؟ اگر یہی مطلوب ہے تو قدرت کے قوانین پر محنت سے‬
‫عمل کرنے والی بستی سے نکل کر بغیر محنت کرنے والی غربت و افالس کی بستی میں‬
‫جا کر بسنا ہو گا پھر وہاں جو مانگتے ہو مل جائے گا۔ آخر قدرت کے قانون کی خالف‬
‫ورزی پر ذلت ورسوائی اور محتاجی ان سے چمٹ گئی اور وہ قدرت کے غضب میں‬
‫گرفتار ہو گئے۔ یہ اس لیے کہ وہ قدرت کے قانون ( لیس االنسان اال ماسع ‪ ،‬کہ انسان کا‬
‫بہترین حق اس کی محنت کا صلہ ہوتا ہے ) کا انکار کرتے تھے اور فطری قوانین پر‬
‫عمل پیرا کرنے والے انقالبیوں کو ناحق قتل کر دیتے تھے یعنی کھلی نافرمانی کئے‬
‫جاتے اور قدرت کے قوانین کی حد سے آگے بڑھے جاتے تھے)‪(61‬‬
‫اے سرمایہ پرستی کا غریب کُش عالمی نظام چالنے والو نافرمان بنی اسرائیل ‪،‬‬
‫یہ تمہارا باطل مزھبی عقیدہ ھے کہ تم کسی مزھبی خدا کی چہیتی اوالد ہو ‪ ،‬اور اوپر‬
‫کوئی مزھبی خیالی آسمانی جنت ہے جو صرف تمہاری نسل کیلیئے مخصوص ہے تو یاد‬
‫رکھو کہ یہ تمہاری انتہائی جہالت پر مبنی تمہاری خام خیالی ھے کیونکہ قدرت کا اٹل‬
‫قانون تو یہ ہے کہ دنیا میں جو بھی لوگ امن وامان قائم کرنے کے زمہ دار ہیں چاہے وہ‬
‫مذھبی پیدائشی یہودی ہیں یا مذھبی پیدائشی عیسائی ہیں یا مذھبی پیدائشی ستارہ پرست‬
‫ہیں ‪ ،‬یعنی کوئی شخص کسی قوم و نسل و مذہب کا ہو جو بھی قدرت کے اٹل قوانین میں‬
‫غوروفکر اور اُس پر عمل کرتے ہوئے انسانی بہتری کے فیوچر یعنی سب کی بہتری کے‬
‫مستقبل پر ایمان الئے گا ‪ ،‬اور پھر انسانیت کی سالمتی و فالح کیلیئے نیک عمل کرے گا‪،‬‬
‫تو ایسے لوگوں کو ان کے اعمال کا صلہ قدرت کے اٹل قانون کے تحت کہ " جو بوؤ گے‬
‫وہی کاٹو گے " ضرور ملے گا اور ان کو اپنے ایسے کسی عمل پر نہ تو کسی طرح کا‬
‫خوف ہوگا اور نہ ہی وہ کبھی غم ناک ہوں گے)‪(62‬‬
‫طور کے دامن میں‬ ‫اور یاد کرو جب تم قدرت کے فطری قوانین پر عمل پیرا تھے اور کوہ ُ‬
‫انسانیت کے دشمن مفاد پرست تمہارے مقابل جنگ کرنے کیلیئے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے‬
‫تو تم پر الزم تھا کہ اپنی فطری قوانین کی کتاب کی پیروی کرتے ہوئے ان کا ُخوب جم کر‬
‫مقابلہ کرتے تاکہ تم پر طاری کی گئی جنگ کے عذاب سے تم محفوظ رہتے)‪(63‬‬
‫مگر افسوس کہ تم اس عہد سے پھر گئے اور اگر تم اس جنگ کے بعد از اختتام اپنے‬
‫طور پر کچھ قدرت کے قوانین پر عمل پیرا نہیں ہوتے تو تم دنیا سے ہی ناپید ہونے کے‬
‫خسارے میں پڑے گئے ہوتے)‪(64‬‬
‫پھر اے اپنے ہی عہد سے پھرے بنی اسرائیل تمہیں اپنی قوم کے اُن لوگوں کا قصہ تو‬
‫معلوم ہی ہے جنہوں نے اپنے قومی طور پر بنائے قانون کہ ہفتہ بھر کام کرنے کے ساتھ‬
‫ایک دن آرام کرنا بھی ضروری ہے ‪ ،‬قانون " ثبت " توڑا تھا تو قدرت کے فطری قوانین‬
‫نے اُنہیں آگاہی دی تھی کہ اگر قومی طور پر مشاورت سے قرار دئیے گئے قوانین کی‬
‫قومی اجتماعی طور پر خالف ورزی کرو گے انکی پیروی و اطاعت نہیں کرو گے تو دنیا‬
‫کے سامنے بجائے ایک مثال بننے کے مضحکہ خیز تمس ّخر کا شکار ہو جاؤ گے اور‬
‫پھر ہر طرف دھتکارے جاؤ گے)‪(65‬‬
‫اور پھر منطقی طور پر اسی طرح ہوا کہ اپنے بنائے اجتماعی قوانین کی خالف ورزی پر‬
‫اُن کے انجام کو اُس زمانے کے لوگوں اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لیے عبرت اور‬
‫ڈرنے والوں کے لیے نصیحت بنا کر چھوڑا کہ تم دنیا بھر میں ہر طرف بکھر کر رہ گئے‬
‫تھے)‪(66‬‬
‫موسی نے بچھڑے ‪ /‬بیل کی پوجا پاٹ میں‬ ‫ٰ‬ ‫پھراے بنی اسرائیل وہ واقعہ یاد کرو‪ ،‬جب‬
‫مست مزھبی قوم سے بطور ٹیسٹ ‪ /‬امتحان کہا تھا کہ ہللا تمہیں ایک بیل ذبح کرنے کا‬
‫حکم دیتا ہے تا کہ تمہارے دلوں سے مزھبی بچھڑے‪ /‬بیل کی محبت کے اثر کو نفسیاتی‬
‫طورپر ختم کیا جا سکے تو مزھب کی گرفت میں جکڑے ہوئے تقلیدی کہنے لگے کیا تم‬
‫موسی نے کہا‪ ،‬میں قدرت کے قوانین کی پیروی‬ ‫ٰ‬ ‫ہم مذہبی لوگوں سے مذاق کرتے ہو؟‬
‫کرنے واال اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ مذھبی جاہلوں کی سی باتیں کروں)‪(67‬‬
‫تو اس پر مذھبی مستی میں ڈوبی مست قوم نے طنزیہ انداز میں مذاق اُڑاتے ہوئے اپنے‬
‫عام مزھبی جاہالنہ انداز میں کہا کہ اچھا‪ ،‬اپنے پالنے والے سے کہو کہ وہ ہمیں بیل کی‬
‫موسی نے کہا‪ ،‬پالنے والے کا ارشاد ہے کہ وہ ایسا بیل ہو جو نہ‬‫ٰ‬ ‫کچھ تفصیل بتائے‬
‫بوڑھا ہو نہ بہت چھوٹا بلکہ اوسط عمر کا ہو لہٰ ذا جو حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل کرو‬
‫)‪(68‬‬
‫تو وہ پھر مذھبی انداز میں کہنے لگے کہ اپنے رب سے یہ اور پوچھ دو کہ اُس کا رنگ‬
‫کیسا ہو ؟‬
‫موسی نے اس پر برجستہ کہا کہ وہ فرماتا ہے زرد رنگ کی خوب صحت مند بیل ہونا‬ ‫ٰ‬
‫چاہیے‪ ،‬جس کا رنگ ایسا شوخ ہو کہ دیکھنے والوں کا جی خوش ہو جائے)‪(69‬‬
‫اس پر اُس مذھبی عدم تسلی بخش قوم نے کہا ‪:‬آپ ہمارے لئے اپنے رب سے درخواست‬
‫کیجئے کہ وہ ہم پر واضح فرما دے کہ وہ کون سا بیل ہے؟ کیونکہ ہم پر اب ایسا بیل‬
‫مشتبہ ہو گیا ہے‪ ،‬اور یقینا اگر خدا نے چاہا تو ہم ضرور ہدایت یافتہ ہو جائیں گے)‪(70‬‬
‫پرموسی علیہ السالم نے کہا‪ ،‬خدا فرماتا ہے کہ وہ کوئی گھٹیا مریل سا بیمار بیل نہ‬
‫ٰ‬ ‫اس‬
‫اعلی نسل صحت مند توانا بیل ہو جس سے نہ زمین میں ہل‬ ‫ٰ‬ ‫ہو بلکہ یقینی طور پر ایسا‬
‫چالنے کی محنت لی جاتی ہو اور نہ وہ کھیتی کو پانی دیتا ہو‪ ،‬اس میں کسی قسم کا کوئی‬
‫نقص داغ دھبہ نہ ہو‪ ،‬اس پر اُن مزہبی لوگوں نے مطمئین ہوتے ہوئے کہا ‪ :‬ہاں اب آپ‬
‫ٹھیک بات الئے ہیں‪ ،‬پھر کہیں جا کر انہوں نے ایسا بیل تالش کر کے اسے ذبح کیا‬
‫حاالنکہ وہ بچھڑے‪ /‬بیل کی مذہبی محبت کی گرفت میں جکڑے ہوئے ایسا کرتے معلوم‬
‫نہیں ہوتے تھے‪ ،‬کہ مزھبی عقائد کو دل و دماغ سے نکالنا آسان کام نہیں ہوتا (‪)71‬‬
‫اور اب تم مزہبی جنونی لوگ زرا اپنی دماغی کیفیت پر غور کرو کہ ایک جانور کے‬
‫زبح کرنے کے معاملے میں کتنا تو حجت بازی سے کام لے رہے تھے لیکن جب تم‬
‫مذہبی بےعقل لوگوں نے ایک شخص کو زرا سی بات پر بےدردی سے زبح کیا اور‬
‫پھر مجرم کی پکڑ کے وقت لگے ایک دوسرے پر الزام دینے اور باہم جھگڑنے ۔ تو‬
‫جو جرم تم چھپا رہے تھے‪ ،‬قدرت کے حکمتی قوانین اس کو ظاہر کرنے والے تھے‬
‫(‪)72‬‬
‫وہ ایسے کہ جب تمہاری مذہبی زہنی کیفیت کے مطابق کہا گیا کہ " ابھی مجرم کا پتہ‬
‫چل جائے گا کہ اس بیل کا کوئی سا ٹکڑا مشتبہ لوگ مقتول کو مارو گے تو اس طرح‬
‫خدا کچھ وقت کیلیئے مردوں کو زندہ کر دیتا ہے اور سچ جھوٹ کا ابھی پتہ چل جائے گا‬
‫اور خدا تم کو اپنی اس طرح نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو (‪)73‬‬
‫پھر یہ سننے کے بعد تو تم مذہبی خوفزدہ لوگوں کے دل جیسے ایک دم سخت ہو‬
‫گئےکہ گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت۔ اور پتھر تو بعضے ایسے ہوتے ہیں‬
‫کہ ان میں سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں‪ ،‬اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ پھٹ جاتے‬
‫ہیں‪ ،‬اور ان میں سے پانی نکلنے لگتا ہے‪ ،‬اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے خوف‬
‫سے گر پڑتے ہیں‪ ،‬تو سمجھو قدرت تمہارے عملوں سے بے خبر نہیں)‪(74‬‬
‫تواے قرانی سالمتی و فالح کا دین نظام قائم کرنے والو زمہ دارمومنو کیا تم امید رکھتے‬
‫ہو کہ یہ مزھبی مستی میں مست لوگ تمہارے قرانی سالمتی و فالح کے دین نظام کے‬
‫قائل ہو جائیں گے ؟ حاالنکہ ان میں سے کچھ مزھبی پیشوا لوگ کالم خدا یعنی تورات کو‬
‫سنتے‪ ،‬پھر اس کے سمجھ لینے کے بعد اس کو اپنے مفاد کی خاطر جان بوجھ کر مذھب‬
‫میں بدل دیتے رہے ہیں (‪)75‬‬
‫اور یہ لوگ جب سب کی سالمتی کے نظام کے زمہ دار مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے‬
‫ہیں‪ ،‬ہم آپکے دین نظام پرایمان لے آئے ہیں۔ اور جب آپس میں ایک دوسرے سے ملتے‬
‫ہیں تو کہتے ہیں‪ ،‬کہ ان مومنوں سے میل جول رکھنا تو بہتر ھے پران سے اپنی کتابوں‬
‫کی وہ باتیں نہ کہی جائیں کہ جنہیں یہ ہمارے خالف بطور ثبوت ال کر ہمیں ال جواب کر‬
‫دیں ‪ ،‬کیا تم سمجھتے نہیں؟ (‪)76‬‬
‫کیا یہ انتہائی بے وقوف عقل کے دشمن لوگ نہیں جانتے کہ جو کچھ یہ چھپاتے اور‬
‫جو کچھ ظاہر کرتے ہیں‪ ،‬قدرت کے اٹل قوانین کے احاطہ کار میں ہی سب ہیں ؟ ( ‪) 77‬‬
‫اور بعض ان بنی اسرائیل میں بظاہر پڑھے لکھے ہونے کے باوجود ان پڑھ جاہل ہیں کہ‬
‫اپنے مفاد پرستانہ سرمایہ پرست باطل خیاالت کے سوا سب کی سالمتی و فالح رکھنے‬
‫والی قدرتی فطری قوانین کی کتاب سے واقف ہی نہیں اور وہ صرف ظن سے کام لیتے‬
‫ہیں)‪(78‬‬
‫تو ان لوگوں پر افسوس ہے جو انسانیت کو بے وقوف بنانے کیلیئے اپنے ہاتھ سے تو‬
‫کتاب لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ خدا کے پاس سے آئی ہے‪ ،‬تاکہ اس کے عوض‬
‫تھوڑی سے قیمت یعنی دنیوی منفعت حاصل کریں۔ افسوس ہے ایسے انسانیت کی سالمتی‬
‫و فالح کے دشمن جاہل لوگوں پر کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور کُھلم‬
‫کُھال دھوکہ دہی کے کام کرتے ہیں)‪(79‬‬
‫اور یہ جاہل مزھبی کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں چند روز کے سوا ُچھو ہی نہیں سکے‬
‫گی ۔ ان سے پوچھو‪ ،‬کیا تم نے اپنے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ کہ تمہارا خدا اپنے‬
‫اقرار کے خالف نہیں کرے گا ؟نہیں‪ ،‬بلکہ تم مزھبی تقلیدی لوگ قدرت کے بارے میں‬
‫ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تمہیں ُمطلق زرہ برابر علم نہیں)‪(80‬‬
‫ہاں جو قوم و حکمران سب کی سالمتی کے خالف سرمایہ پرستی جیسے بُرے کام کرے ‪،‬‬
‫اور جب نتیجے کے طور پر اس کے جرائم اُسے ہر طرف سے گھیر لیں تو یاد رکھیں کہ‬
‫ایسی قوم اور اس کے حکمران لوگ مستقل طور پر دوزخی نظام یعنی معاشی تنگدستی‬
‫کے نظام میں جانے والے ہیں اور وہ ہمیشہ اس نظام کی آگ میں جلتے رہیں گے)‪(81‬‬
‫اور جو قوم و حکمران سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام پر ایمان الئیں اور قدرتی‬
‫رزق و وسائل کی تقسیم کے بہترین کام کریں‪ ،‬تو وہ ہی نتیجے کے طور پر جنتی نظام‬
‫یعنی معاشی خوشحالی کا نظام کے مالک ہوں گے اور وہ ہمیشہ اس میں عیش کرتے‬
‫رہیں گے)‪(82‬‬
‫اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ قدرت کے قوانین کے سوا کسی کی‬
‫محکومیت اختیار نہیں کرنا اور ماں باپ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے‬
‫ساتھ بھالئی کرنے کا دین نظام اختیار کئیے رہنا اور لوگوں سے اچھی کارآمد باتیں‬
‫اختیار کرنے کا کہنا‪ ،‬یعنی قدرتی رزق و وسائل کی برابری کی بنیاد پر منصفانہ تقسیم کے‬
‫نظام کو قائم کرتے ہوئے سب کو ترقی و نشو نما دینا ‪ ،‬تو چند شخصوں کے سوا تم سب‬
‫اس عہد سے منہ پھیر بیٹھے تھے)‪(83‬‬
‫(آئیت ‪ 83 ، 82 ، 81‬کا حاالت حاضرہ کے مطابق کچھ مزید وضاحتی مفہوم)‬
‫ہاں جو بھی قوم و مملکت سب انسانیت کی سالمتی و فالح کے خالف سرمایہ پرستی ‪،‬‬
‫مفاد پرستی و وی آئی پی کلچر کے طبقاتی انداز میں بُرے کام کرے ‪ ،‬اور اس کے یہ‬
‫انسانیت دشمن جرائم جب ہر طرف سے مکافات عمل کے قدرتی اصول کے تحت اس قوم‬
‫و مملکت کو گھیر لیں تو ایسے قوم و مملکت کے لوگ غربت و بھوک کی زلت و خواری‬
‫کے دوزخی نظام میں جلتے جاتے ہیں اور وہ جب تک سدھر نہ جائیں ہمیشہ اس مستحکم‬
‫ابلیسی نظام میں جلتے رہیں گے)‪(81‬‬
‫اور جو قوم و مملکت سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام پر ایمان الئیں اور انسانیت کی‬
‫سالمتی و فالح کے بہترین کام کریں‪ ،‬وہ جنتی ماحول کے مالک ہوں گے اوروہ ہمیشہ اس‬
‫میں اپنے اعمال کی وجہ سے عیش کرتے رہیں گے)‪(82‬‬
‫اور جب قدرت نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ وہ قدرت کے فطری قوانین کے سوا‬
‫کسی کی محکومیت اختیار نہیں کریں گے اور اپنے بوڑھے ماں باپ اور رشتہ داروں اور‬
‫یتیموں ‪ ،‬بے سہاروں اور محتاجوں کے ساتھ حقیقی بھالئی کرتے رہیں گے اور لوگوں‬
‫سے ان کی سالمتی و فالح کی اچھی عملی باتیں کہیں گے ‪ ،‬اور ہر حال میں قدرت کے‬
‫رزق و وسائل کی برابری کی بنیاد پر منصفانہ تقسیم کے زریعے انسانیت کو ترقی و نشو‬
‫نما دیتے رہیں گے ‪ ،‬تو چند حساس شخصوں کے سوا تم سب اپنے اس عہد سے منہ‬
‫پھیر بیٹھے اور اس طرح تمام انسانیت کو زلت و خواری میں مبتال کر بیٹھے)‪(83‬‬
‫اور جب قدرت کے فطری قوانین پر عمل کرنے کا تم بنی اسرائیل نے عہد کیا کہ اب‬
‫انسانیت میں تفریق کرتے ہوئے آپس میں کشت وخون نہ کرو گے اور نہ ہی اپنے جیسے‬
‫بے سہارا لوگوں کو ان کے مادر وطن سے نکالو گے تو تم نے اس عہد کا اقرار کر لیا‪،‬‬
‫اور تم اس عمدہ بات کے گواہ ہو)‪(84‬‬
‫افسوس پھر تم وہی ہو کہ سرمایہ پرستی کے غیر فطری قوانین پر چل پڑے کہ اب‬
‫انسانیت میں تفریق کرتے ہوئے اپنے جیسے بے سہارا کمزور انسانوں کو قتل بھی کر‬
‫دیتے ہو اور ان میں سے بعض لوگوں پر ُجرم کرتے ہوئے اور ظلم سے چڑھائی کرکے‬
‫انہیں مادر وطن سے نکال بھی دیتے ہو‪ ،‬اور کیا خوب کہ اگر وہ تمہارے پاس مسائل میں‬
‫قید ہو کر آئیں تو مذھبی ثواب کے حصول کیلیئے ان کو مسائل سے وقتی طور پر چھڑا‬
‫بھی لیتے ہو‪ ،‬حاالنکہ ان کا نکال دینا ہی تم کو حرام تھا۔ یہ کیا بات ہے کہ تم فطری‬
‫قوانین کی کتاب کے بعض احکام کو تو مانتے ہو اور بعض سے انکار کئے دیتے ہو‪ ،‬تو‬
‫جو تم میں سے ایسی حرکت کریں‪ ،‬ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ‬
‫موجودہ زندگی میں بھی رسوائی ہو اور مستقبل کی زندگی میں بھی سخت سے سخت‬
‫عذاب میں ڈال دیئے جائیں اور جو کام تم کرتے ہو‪ ،‬قدرت کے قوانین ان سے غافل نہیں‬
‫)‪(85‬‬
‫یہ وہ مفاد پرست لوگ ہیں جنہوں نے بہتر مستقبل کے بدلے فوری مفاد پرستی کی زندگی‬
‫خریدی۔ سو نہ تو ان سے زلت بھری زندگی کا عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو‬
‫سب کی سالمتی و فالح کے فطری قوانین کے سوا اور طرح کی مدد مل سکے گی (‪)86‬‬
‫موسی کو فطری قوانین کی کتاب ( تورات) عنایت کی اور ان کے پیچھے یکے‬ ‫ٰ‬ ‫قدرت نے‬
‫عیسی بن مریم‬
‫ٰ‬ ‫بعد دیگرے سب کی سالمتی و فالح کے انقالبی پیغمبر بھیجتے رہے اور‬
‫کو( انجیل ) کی صورت کُھلے پیغامات بخشے اور ُروح القُدس (یعنی بے عیب فطری‬
‫قوانین کی قوتیں ‪ ،‬تورات و انجیل ) سے ان کو مدد دی ۔ تو جب کوئی پیغمبر تمہارے (‬
‫بنی اسرائیل کے ) پاس سب کی سالمتی و فالح کی باتیں لے کر آئے‪ ،‬جن کو تمہارا غریب‬
‫دشمن وی آئی پی کلچر چاہنے واال جی نہیں چاہتا تھا‪ ،‬تو تم سرکش ہو جاتے رہے‪ ،‬اور‬
‫انقالبی پیغمبروں کو تو جھٹالتے رہے اور کئی کو قتل کرتے رہے (‪)87‬‬
‫اور یہ بنی اسرائیل یہ کہتے ہیں‪ ،‬ہمارے دل پر ہماری بقاء و سالمتی کے غالف چڑھے‬
‫ہیں ۔ نہیں بلکہ یہ کہو کہ قدرت نے ان کے انکار کے سبب ان پر لعنت یعنی سب کی‬
‫سالمتی و فالح کے دین نظام سے انہیں محروم کر رکھا ہے۔ پس یہ تھوڑے ہی فائدے پر‬
‫ایمان التے ہیں (‪)88‬‬
‫اور اب جو ایک پڑھنے کے قابل کتاب ( قران ) قدرت کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے‪،‬‬
‫اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے؟ باوجود یہ کہ وہ ہر اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو‬
‫ان کے پاس پہلے سے موجو د تھی ‪ ،‬باوجود یہ کہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار‬
‫(یعنی قدرتی فطری قوانین کا انکار کرنے والے ظالموں ) کے مقابلے میں فتح و نصرت‬
‫کی دعائیں مانگا کرتے تھے‪ ،‬مگر جب وہ سب مسائل کے حل کی چیز سامنے آ گئی‪،‬‬
‫جسے وہ پہچان بھی گئے تو‪ ،‬انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا تو جواب میں‬
‫قدرت کی عنایات سے محرومی ان منکرین پر الزم ہوگئی (‪)89‬‬
‫کیسا مفاد پرستی کا بُرا ذریعہ ہے جس سے یہ سرمایہ پرست اپنے نفس کی تسلی حاصل‬
‫کرتے ہیں کہ جو ہدایت قدرت نے نازل کی ہے‪ ،‬اس کو قبول کرنے سے صرف اس ضد‬
‫کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ قدرت نے اپنے فضل (وحی و رسالت) سے اپنے جس‬
‫بندے (محمد ﷺ ) کو خود چاہا‪ ،‬نواز دیا! لہٰ ذا اب یہ غضب باالئے غضب کے مستحق‬
‫ہوگئے ہیں اور ایسے کافروں (قدرتی فطری قوانین کا انکار کرنے والے ظالموں ) کے‬
‫لیے سخت آمیز سزا مقرر ہے (‪)90‬‬
‫اور جب ان مفاد پرست ‪ /‬سرمایہ پرست بنی اسرائیل جو کہ آج بھی ساری دنیا میں غریب‬
‫سودی سرمایہ پرستانہ نظام ‪،‬بین االقوامی مالیاتی فنڈ کے زریعے‬ ‫کُش عالمی بینکنگ کا ُ‬
‫انسانوں کو گرفت میں رکھنے کا نظام ‪ ،‬اوراپنے عیّارانہ پن کی انتہا پار کرتے‬
‫ہوئے ساری دنیا کے پڑھے لکھے و محنت کش اور معصوم انسانوں کو بے وقوف بناتے‬
‫ہوئے اپنے ‪ 5‬سرمایہ پرست ممالک کو ویٹو کا حق دیتے ہوئے اور اس طرح باقی تمام‬
‫ممالک کی کُھلی توہین کرتے ہوئے "اقوام متحدہ " کے نام سے انسانی حقوق کے نام پر‬
‫دکھاوے کا گھٹیا ناکام ترین نظام چال رھے ہیں‪ ،‬جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کتاب‬
‫خدا نے سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام کی بابت نازل فرمائی ہے‪ ،‬اس کو مانو۔ تو‬
‫کہتے ہیں کہ جو کتاب توریت ہم پر پہلے نازل ہو چکی ہے‪ ،‬ہم تو اسی کو مانتے ہیں۔‬
‫یعنی یہ اس انسانی خیاالت کے شامل و شریک کردہ کتاب کے سوا کسی اور شک سے‬
‫پاک کتاب قران کو نہیں مانتے‪ ،‬حاالنکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سراسر سچی اور ہر‬
‫قسم کے انسانی مفاد پرستی کے پلید خیاالت سے پاک کتاب ہے اور جو کہ ان کی کتاب‬
‫توریت کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ ہاں یہ بھی کبھی شک سے پاک کتاب تھی ۔ تو اے‬
‫تمام عالم کیلیئے رحمت بھری کتاب قران النے والے رحمت اللعالمین ان سے کہہ دو کہ‬
‫اگر تم سچے مخلص اور صاحب ایمان انسان دوست ہوتے تو ہللا کے سالمتی بھرے دین‬
‫‪ ،‬نظام ‪ ،‬سسٹم ‪ ،‬طریقہ کار النے والے انقالبی پیغمبروں کو بھال قتل ہی کیوں کرتے ( ‪91‬‬
‫)‬
‫موسی تمہارے پاس کھلے ہوئے معجزات یعنی قدرتی‬ ‫ٰ‬ ‫اور ایسے ہی جب انقالبی پیغمبر‬
‫فطری قوانین بطور دین نظام کے پیروی کیلیئے لے کر آئے تو ان کے کچھ عرصہ کیلیئے‬
‫دور ہو جانے پر تم ایک جانور ‪ /‬بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے اور اس طرح انسانیت کے‬ ‫ُ‬
‫شرف سے نیچے گر کر تم اپنے ہی حق میں ظلم کرتے تھے)‪(92‬‬
‫اور اے بنی اسرائیل یاد کرو جب قدرت نے تم قدرتی قوانین کی پیروی کرنے والوں سے‬
‫عہد واثق لیا تھا اور نتیجتا مفاد پرست اور سرمایہ پرست لوگ کوہ طور کے دامن میں تم‬
‫سے جنگ کرنے کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے تو قدرت نے تمہیں حکم دیا تھا کہ جو‬
‫قدرتی فطری قوانین پر مشتمل کتاب ہم نے تم کو دی ہے‪ ،‬اس پر عمل کرنے کیلیئے اسے‬
‫اپنا سپریم الء قرار دے کر زور سے پکڑو اور اس میں جو تمہیں حکم دیا ہوا ہے اس‬
‫کوغور سے سنو سمجھو پھر ان انسان دشمن لوگوں سے مقابلہ کرو تو وہ جو تمہارے‬
‫بزرگ حاکم بڑے منافق لوگ تھے کہنے لگے کہ ہم نے سن تو لیا لیکن مانتے نہیں ۔ اور‬
‫ان کے اسی کفر یعنی انکار و ظلم کے سبب مزھبی بچھڑا گویا ان منافقوں کے دلوں میں‬
‫رچ بس گیا تھا۔ تو اے انقالبی پیغمبر ان انسانیت کے دشمنوں سے کہہ دو کہ اگر تم سب‬
‫بڑے بزرگ انسانوں کو امن و امان فراہم کرنے کے زمہ دار ( مومن ) بنتے ہو تو کیا‬
‫تمہارا ایمان تم کو ایسی انسان دشمنی پر مبنی مفاد پرستی کی بُری بات بتاتا ہے ؟)‪(93‬‬
‫کہہ دو کہ اگر تمہارے مفاد پرستی کے بنائے قوانین سے ساری انسانیت کا فیوچر ‪/‬‬
‫مستقبل بننے سنورنے کے بجائے صرف تمہارا اور تمہاری آل اوالد کا فیوچر ‪ /‬مستقبل‬
‫بن سنور رہا ھے تو اگر یہ بات سمجھنے میں سچے ہو تو پھر انسانیت کی موت کی آرزو‬
‫کرو کہ اس طرح سب کچھ تباہ و برباد ہو جائے گا)‪(94‬‬
‫لیکن ان مفاد پرستوں کے مزھبی خود ساختہ جاہالنہ اعمال کی وجہ سے‪ ،‬جو ان کے ہاتھ‬
‫آگے بھیج چکے ہیں‪ ،‬یہ کبھی سب کی سالمتی و فالح کے قدرتی فطری قوانین پر مشتمل‬
‫دین نظام کے قیام کی آرزو نہیں کریں گے‪ ،‬اور قدرت ان مفاد پرست ظالموں سے خوب‬
‫اچھی طرح واقف ہے)‪(95‬‬
‫اے نبی ﷺ تُم ان بنی اسرائیل انسانیت کے دشمن مزھبی جنونیوں کو دیگر عام لوگوں کی‬
‫نسبت زندگی کی عیاشیوں کے لئیے کہیں زیادہ حریص دیکھو گے‪ ،‬یہاں تک کہ قران کے‬
‫ساتھ لغو باتیں شریک کرنے والے عربی ُمشرکوں سے بھی زیادہ ۔ ان میں سے ہر ایک‬
‫یہی خواہش کرتا ہے کہ کاش وہ ہزار برس ُخوب مال جمع کرنے اور اس مال کے زریعے‬
‫دل بھر کر عیاشی کرنے کیلیئے جیتا رہے‪ ،‬مگر اسے یاد رکھنا چاہئیے کہ یہ اگر اتنی‬
‫لمبی عمرجی بھی جائے تو بھی اسے قدرت اپنے اٹل قانون مکافات عمل کے عذاب سے‬
‫تو نہیں چھڑا سکتی ؟ تو جو انسانیت دشمنی کے کام یہ کرتے ہیں‪ ،‬قدرت کے اٹل قوانین‬
‫ان کو دیکھ رہے ہیں)‪(96‬‬
‫اے نبی ﷺ کہہ دو کہ جو شخص جبرئیل یعنی قران کا دشمن ہو ‪ ،‬اُس کو قران پر اپنا‬
‫ناجائز غصہ دکھانے سے بہتر ہے کہ مر جانا چاہیئے قدرت نے تو یہ کتاب انسانیت کے‬
‫ساس‬ ‫عالمی مصائب ( بھوک ‪ ،‬غربت ‪ ،‬جہالت ‪ ،‬زلت بھری زندگی ) کے حل کیلیئے ح ّ‬
‫ہونے کی بناء پر تمہارے دل پر نازل کی ہے اور جو پہلی فالحی کتابوں کی تصدیق کرتی‬
‫ہے جو کہ انسانیت پر ایمان والوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے)‪(97‬‬
‫تو جو شخص قدرتی اٹل قوانین کا اور اپنے چاروں طرف پھیلی قدرتی قوتوں کا اور‬
‫قدرتی فطری قوانین دینے والے انقالبی پیغمبروں کا اور جبرئیل یعنی قران کا اور میکائیل‬
‫یعنی توریت کا دشمن ہو تو ایسے انسانیت کے دشمن کافروں کیلیئے تو سارا قدرتی نظام‬
‫دشمن ہے یہ اپنے کئیے کی سزا پا کر رہیں گے کہ جو بوئیں گے اُسے ہی کاٹیں‬
‫گے)‪(98‬‬
‫سلجھی ہوئی آیتیں ارسال فرمائی ہیں‪ ،‬پر ان‬ ‫اور قدرت نے تو تمہارے پاس صاف اور ُ‬
‫سے انکار وہی کرتے ہیں جو بدکار انسان دشمن سرمایہ پرست لوگ مستحکم ابلیسی‬
‫نظام کا قیام چاہتے ہیں)‪(99‬‬
‫کیا ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا ہے کہ جب ان بنی اسرائیل نے قدرتی فطری قوانین کی‬
‫پیروی کا کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک نہ ایک مفاد پرست و سرمایہ پرست گروہ نے‬
‫اسے ضرور ہی باال ئے طاق رکھ دیا ؟ بلکہ ان میں سے اکثر گروہ ایسے ہی منافق ہیں‬
‫جو دین اسالم یعنی سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام پر سچے دل سے ایمان نہیں‬
‫التے)‪(100‬‬
‫اور جب ان کے پاس قدرت کی طرف سے کوئی نمائندہ ‪ /‬رسول اس عالمی فالحی کتاب کی‬
‫تصدیق و تائید کرتا ہوا آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی ‪ ،‬تو ان اہل کتاب میں‬
‫سے ایک گروہ نے اس قدرتی فطری قوانین پر مشتمل کتاب کو اس طرح پس پشُت ڈاال‪،‬‬
‫گویا کہ وہ اس بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں)‪(101‬‬
‫اور لگے پھراُن لغو گھٹیا تعلیمات کی پیروی کرنے‪ ،‬جو مفاد پرست ‪ ،‬سرمایہ پرست شیا‬
‫طین‪ ،‬سلیمان کی سالمتی و فالح کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے‪ ،‬حاالنکہ‬
‫سلیمان نے ایسا مفاد پرست ابلیسی نظام کے قیام کا کبھی کفر نہیں کیا تھا‪ ،‬سرمایہ‬
‫پرستی کے کفریہ ‪ /‬ظالمانہ نظام کے مرتکب تو وہ شیاطین لوگ تھے جو لوگوں کو اپنے‬
‫انسان دشمن نظام کی بابت لچھے دار باتوں پر ُمشتمل سحرانگیز تعلیم دیتے تھے تو وہ‬
‫لوگ پیچھے پڑگئے اُس لفاظیت بھری انسان دشمن تعلیم کے جو مجوسیوں کے مرکزی‬
‫شہر بابل میں وہاں کے دو عجمی ہاروت و ماروت کے ناموں پر گھڑی گئی تھیں ‪،‬‬
‫حاالنکہ وہ تو جب بھی کسی کو اپنی لچھے دار باتوں پر مشتمل سحر انگیز تعلیم دیتے‬
‫تھے‪ ،‬تو پہلے اُسے صاف طور پر ُمتنبہ کر دیا کرتے تھے کہ " دیکھ بھائی ہماری‬
‫انسانیت کی دشمن باتیں تو محض ایک دھوکہ ہیں‪ ،‬تو کہیں اس کُفریہ تعلیم میں ُمبتال نہ‬
‫ہوجانا " پھر بھی یہ مجوسی لوگ اُن سے وہ لچھے دار باتوں پر مشتمل ایسی سحر‬
‫انگیز تعلیم سیکھتے تھے کہ جس سے کہ شوہر اور بیوی جیسے یک جان دو قالب‬
‫رشتے میں جدائی ہو جائے تو بھال اور عام معصوم لوگوں کا کیا ہی کہنا ‪ ،‬اس سے ظاہر‬
‫تھا کہ قدرت کی طرف سے ہرانسان کو حاصل اپنے اعمال میں آزادی و اختیار کے بغیر‬
‫وہ اس گھٹیا تعلیم کے ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہیں پہنچا سکتے تھے‪ ،‬مگراس‬
‫کے باوجود وہ ایسی دھوکے بازی پر مشتمل سحر انگیز باتیں سیکھتے تھے جو خود ان‬
‫کے لیے نفع بخش نہیں بلکہ نقصان د ہ تھی اور انہیں خوب اچھی طرح معلوم تھا کہ جو‬
‫بھی اس انسان دشمن تعلیم کا خریدار بنا‪ ،‬اس کے لیے فیوچر ‪/‬مستقبل میں کوئی بہتری‬
‫نہیں ‪ ،‬تو بتاؤ کتنی بُری متاع تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی قیمتی جانوں کو بیچ‬
‫ڈاال‪ ،‬کاش انہیں معلوم ہوتا)‪! (102‬‬
‫اور اگر بنی اسرائیل اس شک سے پاک قدرتی فطری قوانین کی کتاب " قران " پر ایمان‬
‫التے اور اس کے زریعے سے ساری انسانیت کی نشوء نما کرتے اوراپنے کردار کو تمام‬
‫انسانیت کی سالمتی و فالح میں بُلند کرتے اور مشکوک گھڑی ہوئی انسانی ہدایات سے‬
‫پرہیز کرتے تو الزمی قدرتی فطری قوانین پر عمل کے نتیجے میں سب کی سالمتی و فالح‬
‫کے عالمی نظام پر مبنی یقینا بہت ہی اچھا صلہ پاتے ۔ اے کاش‪ ،‬بنی اسرائیل سب کی‬
‫سالمتی و فالح کی راہ سے واقف ہوتے تو آج انسانیت مادہ پرستی کے مستحکم ابلیسی‬
‫نظام میں اس قدر جکڑی ہوئی نہ ہوتی)‪(103‬‬
‫تو اے قرانی نظام کے قیام کے زمہ دار مومنو ! تم اس مستحکم مادہ پرستی کے ابلیسی‬
‫نظام میں جکڑی ہوئی انسانیت کو ظالمانہ نظام کے شکنجے سے آزاد کرانے کیلیئے "‬
‫راعنا " یعنی ایسی کوئی بات نہ کہا کرو کہ جس میں حق اور باطل خلط ملط ہو جائے‬
‫ظرنا " کہا کرو یعنی اے قرانی سربراہ آپ ہم ماتحت زمہ داروں پر خصوصی‬ ‫بلکہ " ان ُ‬
‫نظر کرم رکھا کریں کہ کہیں ہم حق کی راہ سے بھٹک نہ جائیں ۔اور سب کی سالمتی کے‬
‫قدرتی فطری قوانین پر عمل درامد کرانے والے زمہ دارو خوب جان رکھوکہ انسانیت کے‬
‫دشمن کافروں کے لیے قدرت کے مکافات عمل کی صورت میں ہر حال میں دُکھ دینے واال‬
‫عذاب نازل ہونا الزم ہے)‪(104‬‬
‫تو یاد رکھو کہ انسان دشمنی پر مبنی وی آئی پی استحصالی نظام کے خواہاں ‪ ٪ 2‬لوگ‬
‫یقینا کافر ہیں‪ ،‬چاہے وہ کوئی اہل کتاب ہوں یا قدرتی فطری قوانین میں مفاد پرستی کی‬
‫باتیں شریک کرنے والے ُمشرک ہوں ‪ ،‬ایسے تمام انسانیت کے دشمن انا پرست لوگ اس‬
‫بات کو پسند نہیں کرتے کہ باقی سب‪ ٪ 98‬انسانیت پر سالمتی و فالح کے قدرت کے عطا‬
‫کردہ قوانین پر مشتمل قرانی دین نظام کی خیر وبرکت نازل ہو۔ جبکہ یہ شک سے پاک‬
‫قرانی قدرتی فطری قوانین تو ایسے ہیں کہ جو قوم و مملکت چاہے ان پر عمل کر‬
‫کےقدرتی رحمت کو اپنے لئیے خاص کر سکتی ھے کہ قدرت تو بڑے فضل یعنی بھالئیوں‬
‫کی کثرت کی مالک ہے)‪(105‬‬
‫قدرت کی عطا کردہ اختیار و ارادے کی آزادی کی وجہ سے مفاد پرست سرمایہ پرست‬
‫لوگ جس قدرت کی نشانی سب کی سالمتی و فالح کی کتاب کو اپنی انسان دشمن سوچ‬
‫کی وجہ سے منسوخ کر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا اُسے اپنی لفاظی ‪ ،‬چرب زبانی‬
‫‪ ،‬مزھبی و ریاستی طاقت کے زریعے ‪ ،‬معصوم لوگوں کو گرفت میں لے کرفراموش کرا‬
‫دیتے ہیں تو قدرت کا طریقہ کار یہ رہا ھے کہ سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام کی‬
‫آگاہی کیلیئے اس سے بہتر یا ویسی ہی اور کتاب پھرانسانیت کے سامنے آجاتی ھے ۔ کیا‬
‫نصاری نہیں‬‫ٰ‬ ‫تم سرمایہ پرستی کا عالمی نظام چالنے والے انسانیت کے دشمن یہودو‬
‫جانتے کہ قدرت سب کی سالمتی و فالح کی ہر بات پر قادر ہے ؟؟)‪(106‬‬
‫اور کیا تمہیں معلوم نہیں کہ زمین سے اوپر بلندیوں اور زمین پر تمام قدرتی قوانین کی‬
‫ہی بادشاہت قائم ہے ؟؟ تو خوب جان لوکہ قدرتی فطری قوانین کے سوا تمہارا کوئی‬
‫دوست اور مدد گار نہیں)‪(107‬‬
‫کیا تم قرانی لوگ بھی اب سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام النے والے پیغمبر ﷺ سے‬
‫اسی طرح کے بے مقصد مزھبی سوال کروگے کہ جس کا سب کی سالمتی و فالح کے دین‬
‫موسی سے‬‫ٰ‬ ‫نظام سے کوئی تعلق نہ ہو یعنی جس طرح کے احمقانہ مزھبی سوال پہلے‬
‫کئے گئے تھے ؟؟ اور اچھی طرح جان لو کہ جس شخص نے بھی سب کی سالمتی و فالح‬
‫کے دین نظام کو چھوڑ کر اس کے بدلے مفاد پرستی کا مزھبی و سیاسی انسان دشمن کفر‬
‫لیا‪ ،‬تو سمجھ لے کہ وہ انسانیت کے سیدھے رستے سے بھٹک گیا)‪(108‬‬
‫بہت سے اہل کتاب اس سچی اور شک سے پاک ہدائیت " قران " کو پالینے کے باوجود‬
‫آج بھی سرمایہ پرستی کے مستحکم ابلیسی نظام کی باعث اپنے دل میں موجود ازلی‬
‫نفرت و تعصب کی جلن کی وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ بھی اس سچی کتاب کو‬
‫انسانیت کی آخری رہنما کتاب جان لیں اور اس پر ایمان لے آئیں تو ایسے لوگوں کو پھر‬
‫اپنے تمام حربوں کو استعمال کرتے ہوئے کافر یعنی ظالم ترین انسان بنا دیں۔ حاالنکہ‬
‫کمال بات یہ ھے کہ ان پر سب کی سالمتی و فالح کا حق ظاہر ہو چکا ہے۔ یا للعجب ‪ ،‬تو‬
‫سب کی سالمتی و فالح کیلیئے قرانی دین نظام قائم کرنے والے زمہ دارو ایسے ظالم و‬
‫جاہل لوگوں میں سے جو بھی اس کُھلے حق کو تسلیم کر لے اُنہیں معاف کردو اور‬
‫درگزر کرو۔ یہاں تک کہ قدرت کے حتمی قوانین کی آگاہی کسی اور طرح سے ان انسانیت‬
‫کے دشمن گمراہوں تک پہنچے ‪ ،‬بے شک قدرت کا نظام ہر بات پر قادر ہے)‪(109‬‬
‫اور اے امن و سالمتی کا نظام قائم کرنے والے زمہ دارمومنو تم سب انسانیت کی سالمتی‬
‫و فالح کے لیئے ‪ ،‬قدرت کے ال تعداد رزق و وسائل کو ‪ ،‬برابری کی بنیاد پر مشاورت سے‬
‫الصلوۃ قران کی پیروی کرتے ہوئے قائم کرو تا کہ‬ ‫ٰ‬ ‫منصفانہ تقسیم کیلئیے عالمی نظام‬
‫زکوۃ یعنی نشوء نما و ترقی دے سکو ۔ اور یاد رکھو اس‬ ‫تمام انسانیت کو برابری سے ٰ‬
‫خصوصی عالمی نظام کو تمام انسانیت کیلیئے مقدّم جانتے ہوئے جو بھی خیرو بھالئی‬
‫آگے بھیجو گے‪ ،‬اُسے مکافات عمل کی صورت مستقبل قریب میں بخوب پا لو گے۔ کچھ‬
‫شک نہیں کہ قدرت کا اٹل قانون تمہارے تمام نظام ہائے زندگی کے کاموں کو دیکھ رہا‬
‫ہے)‪(110‬‬
‫اور دیکھو یہ تقلیدی مزھبی یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں‬
‫کے سوا کوئی انکی خیالی مزھبی آسمانی جنت میں نہیں جانے کا ۔ تو یہ ان جنونی‬
‫دیوانوں کے محض خیاالت باطل ہیں ۔ لہٰ ذا اے ضابطہ ء حیات النے والے انقالبی پیغمبر‬
‫ان مذہبی جنونیوں سے کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو کوئی ٹھوس دلیل پیش کرو)‪(111‬‬
‫ہاں جو بھی قدرت کے قانون کے آگے گردن جھکا دے‪ ،‬یعنی ایمان لے آئے اور وہ حقیقی‬
‫نیکو کار ہو جائے تو اس کا الزمی صلہ اُسے مکافات عمل کی صورت ضرور ملے گا اور‬
‫ایسے حقیقت پر مبنی سالمتی و فالح کے نظام کو اختیار کرنے والوں کو پھر نہ کسی‬
‫طرح کا خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمناک ہوں گے)‪(112‬‬
‫اور یہ مزھبی جنونی یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں اور مزھبی جنونی‬
‫عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی رستے پر نہیں۔ حاالنکہ وہ قدرتی فطری قوانین پر مشتمل یہ‬
‫کتاب الہٰ ی قران بھی پڑھتے ہیں۔‬
‫اسی طرح بالکل انہی کی سی بات وہ مزھبی جنونی لوگ بھی کہتے ہیں جو قرانی دین‬
‫اسالم کی بابت کچھ نہیں جانتے یعنی شک سے پاک قران کے ساتھ مشکوک باتیں مالنے‬
‫والے ُمشرک ‪،‬‬
‫ہللا کے باغی لوگ تو جس بے مقصد اور خیالی باتوں میں یہ مزھبی جنونی لوگ آپس‬
‫میں اختالف کر رہے ہیں ‪ ،‬تو یہ سب جان لیں کہ سب کی سالمتی و فالح کے فطری‬
‫قوانین پر مشتمل کتاب کے تحت قائم ہونے والی قرانی مملکت کے دور میں ہی اس بات کا‬
‫عملی فیصلہ ہو سکے گا کہ کون درست ہے اور کون غلط)‪(113‬‬
‫اور جان لو کہ بھال اس سے بڑھ کر ظالم کون ؟ جو خدا کے نام پر بنی مسجدوں میں‬
‫قرانی ہللا کے ہی شک سے پاک قوانین و صفات کا ذکر کئے جانے کو منع کرے اور‬
‫مشکوک باتیں شامل کر کے ان مسجدوں کی ویرانی میں ساعی ہو۔ حقیقت میں ان جیسے‬
‫مزھبی جنونی لوگوں کو کچھ حق نہیں کہ ہللا کے نام پر بنی مسجدوں میں داخل ہوں‪،‬‬
‫مگر قدرت کے قوانین کی خالف ورزی سے مکافات عمل کی صورت ڈرتے ہوئے داخل ہو‬
‫سکتے ہیں ۔‬
‫اگر نہیں تو ان کے لیے موجودہ حال دنیا میں بھی ُرسوائی ہے اور ان کی آنے والی‬
‫نسلوں کے لئیے بھی آخرت یعنی فیوچر ‪ ،‬مستقبل میں بھی بڑا عذاب ہے)‪(114‬‬
‫رو بہ عمل ہیں۔‬
‫اور اچھی طرح جان لو کہ مشرق و مغرب ہر طرف قدرت کے قوانین ہی ُ‬
‫تو جدھر بھی تم رخ کرو اُدھر قدرتی قوانین کو ہی جلوہ نما پاؤ گے ۔ بے شک قدرت‬
‫صاحب وسعت اور اپنے تمام کاموں سے باخبر ہے)‪(115‬‬
‫اور یہ مزھبی جنونی بے عقل لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا اوالد رکھتا ہے۔ یہ نہیں‬
‫جانتے کہ قدرت کے قوانین اس مادیت سے پاک ہیں ‪ ،‬بلکہ ان کے سامنے جو بلندیوں‬
‫اور پستیوں میں قدرتی قوانین رواں دواں ہیں تو یہ سب اسی بات کے ہی تو مظاہر ہیں کہ‬
‫کائنات بھر میں قدرت کے قوانین کی ہر شے فرماں بردار ہے)‪(116‬‬
‫وہی قدرت کا نظام تمام بلندیوں اور پستیوں کا پیدا کرنے واال ہے۔ جب کوئی قدرتی کام‬
‫ہونا چاہتا ہے تو اس کو قرانی ہللا ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے ‪.‬جیسے‬
‫کہ کسی چھوٹے سے بیج سے تناور درخت کا بننا یا ماں کے پیٹ میں بچے کی افزائش و‬
‫پرورش کا ہونا وغیرہ)‪(117‬‬
‫اور جو بےعقل لوگ قرانی ہللا کی حقیقت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے یعنی مشرک ‪،‬‬
‫قرانی ہللا کے باغی وہ کہتے ہیں کہ مزھبی خدا ہم سے کالم کیوں نہیں کرتا ؟؟؟ اور لگے‬
‫رہتے ہیں مزھبی خیالی خدا سے اپنے تعلقات قائم کرنے کی احمقانہ کوششوں میں‪ ،‬جبکہ‬
‫قرانی ہللا کے فطری قانون تو ال الہ کے زریعے ایسے تمام مزھبی جھوٹے خداؤں کا‬
‫مکمل انکار کر چکے ہیں یا کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی قدرت کے قوانین کی خالف‬
‫ورزی کرنے والی ایسی معجزاتی نشانی جو ان بے عقلوں کی عقل کو حیران کر دے ‪ ،‬وہ‬
‫کیوں نہیں آتی ؟؟؟‬
‫اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے کے مزھبی جنونی تھے‪ ،‬وہ بھی انہی کی سی دقیانوسی‬
‫باتیں کیا کرتے تھے۔ یعنی ان تمام دنیا بھر کے مزھبی جنونی احمق لوگوں کے دل آپس‬
‫میں ایک جیسے اور ملتے جلتے ہیں ۔‬
‫پرجو اولی االلباب یعنی دانشور ‪ ،‬ریسرچر قسم کے لوگ قدرت اور اس کے اٹل نظام پر‬
‫مکمل یقین رکھتے ہیں‪ ،‬ان کے سمجھانے کے لیے اس قران میں کھول کھول کر نشانیاں‬
‫بیان کردی گئی ہیں)‪(118‬‬
‫اے محمد ﷺرحمت اللعالمین قرانی ہللا نے تم کو سچا رحمت بھرا سب کی سالمتی و فالح‬
‫کا عالمی قرانی جنتی دین نظام دے کر ساری مظلوم انسانیت کو خوشخبری سنانے واال‬
‫اور مفاد پرستی کے غلط نظام کے مکافات عمل سے ڈرانے واال بنا کر بھیجا‬
‫ہے۔ اورایسے غلط نظام میں جینے والوں کی کہ جن کی دنیا بھوک و افالس کے جہنم کا‬
‫ایک عبرت ناک نظارہ بنی ہوئی ہوتی ھے ان کے بارے میں تم سے کچھ پرسش نہیں‬
‫ہوگی کہ تمہارا کام تو یہ سالمتی و فالح کا عالمی پیغام پہنچا دینا ھے)‪(119‬‬
‫اور یہ بھی اچھی طرح جان لو کہ تم سے نہ تو یہ سرمایہ پرستی کا نظام چالنے والے‬
‫یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ ان کا ساتھ دینے والے عیسائی‪ ،‬جب تک کہ تم ان کا‬
‫یہ انسان دشمن طریقہ کار نہ اختیار کر لو ۔ تم ان سے صاف کہہ دو کہ قرانی ہللا کی ہدایت‬
‫ہی سب کی سالمتی و فالح کا دین نظام سسٹم طریقہ کار انسانیت کیلیئے آخری سہارا ہے۔‬
‫اور اے پیغمبر یہ بھی جان لو کہ اگر تم اپنے پاس یہ قرانی ہللا کے سالمتی و فالح کا‬
‫حتمی منطقی علم آ جانے کے بعد بھی ان سرمایہ پرستوں کی خواہشوں پر ان کا انسان‬
‫دشمنی پر مبنی نظام کو اپنا تے ہوئے چلو گے تو تم کو قدرت کے مکافات عمل کے عذاب‬
‫سے بچانے واال نہ تو قران کے عالوہ کوئی اورعلم ہی دوست ہوگا اور نہ ہی کوئی‬
‫اوردین نظام سسٹم طریقہ کار مددگار)‪(120‬‬
‫اور جن لوگوں کو قرانی ہللا نے یہ سب کی سالمتی و فالح کے دین ‪ /‬نظام کی عالمی کتاب‬
‫عنایت کی ہے‪ ،‬وہ اس کو ایسا غوروفکر کے ساتھ پڑھتے ہیں جیسا اس کے پڑھنے کا‬
‫حق ہےتو یہی لوگ اس پر ایمان رکھنے والے ہیں‪ ،‬اور جو اس کو سب کی سالمتی و‬
‫فالح کا ضابطہ ء حیات نہیں مانتے‪ ،‬وہ ہی خسارہ پانے والے ہیں)‪(121‬‬
‫اے بنی اسرائیل !قدرت کے وہ احسان یاد کرو‪ ،‬جو اُس نے تم پر کئیے تھے وہ یہ کہ‬
‫قدرتی فطری قوانین کی پیروی نے تم کو تمام عالم پر فضیلت بخشی تھی)‪(122‬‬
‫اور اے بنی اسرائیل اب تم قرانی فطری قوانین کے اُس احتسابی دور سے ڈرو جب کوئی‬
‫با اثر شخص کسی مجرم شخص کے کچھ کام نہ آئے‪ ،‬اور نہ اُس سے اُسکے کئیے جرم‬
‫کا کوئی بدلہ قبول کیا جائے اور نہ کسی کو کسی کی سفارش کچھ فائدہ دے سکے اور نہ‬
‫ہی مجرم لوگوں کو کسی اور طرح کی مدد مل سکے)‪(123‬‬
‫اور جب قدرتی فطری قوانین کی پیروی کے نظام کے قیام کے ابتدائی مراحل میں چند‬
‫منطقی الزمی پریشانیوں میں ابراہیم کی آزمائش ہوئی تو وہ اُن میں پورے اترے۔ تو قدرت‬
‫نے طے کیا کہ ابراہیم اس قابل ہیں کہ ان کو انسانیت کا لیڈر ‪ /‬امام مقرر کیا جائے کہ آگے‬
‫ساری انسانیت انہی کے نقش قدم پر چل کر کامیابی حاصل کرے ‪،‬‬
‫جس پر ابراہیم نے نہ صرف حامی بھری بلکہ ساتھ فرط جزبات میں یہ خواہش بھی کی کہ‬
‫میری آل میں سے بھی انسانیت کے لیڈر مقرر ہوں تو قدرت نے اُنہیں آگاہی دی کہ قدرتی‬
‫قوانین کی پیروی نہ کرنے والے ظالموں کیلیئے پہلے سے کوئی اقرار نہیں کئیے جا‬
‫سکتے کہ انسان اپنے عمل کے معاملے میں آزاد ہیں کہ چاہیں تو بُرا عمل کریں یا بھال‬
‫)‪(124‬‬
‫خانہ کعبہ کو دنیا بھر کے تمام انسانوں کے سربراہ نمائندوں کے‬
‫اور جب قرانی ہللا نے ٴ‬
‫لیے ساالنہ جمع ہونے اور ان سے قدرتی فطری قوانین میں مشاورت کے ساتھ تمام‬
‫انسانیت کیلئیے امن و سالمتی بھرے قوانین کو ڈھونڈ پانے کی جگہ مقرر کیا اور یہ حکم‬
‫دیا کہ جس مقام رہبری پرابراہیم تمام انسانیت کے لیڈر ‪ /‬امام بن کر کھڑے ہوئے تھے‪،‬‬
‫اس کو اب قدرت کے رزق و وسائل کو برابری کی بنیاد پرمنصفانہ تقسیم کی مرکزی‬
‫جگہ" یونائیٹڈ ہیومن آرگنائزیشن" بنا لو ۔ اور ابراہیم اور ٰ‬
‫اسمعیل کو کہا کہ دنیا بھر‬
‫میں طائفہ کی صورت مظلوم انسانوں کی داد رسی کیلیئے طواف کرنے والوں اور پھر ان‬
‫سے ملی رپورٹوں پر کعبہ میں رات دن مسلسل ڈیوٹی پر معموراعتکاف کرنے والوں اور‬
‫دنیا بھر میں قدرتی قوانین کے آگے سر تسلیم خم کرنے والوں اور ان قدرتی قوانین‬
‫پرعمل کرنے والوں کے لیے میرے انسانیت کیلیئے بنائے عالمی گھرکعبہ کو ہر قسم کی‬
‫مفاد پرستی کی شیطانیت سے پاک صاف رکھا کرو)‪(125‬‬
‫اور جب ابراہیم نے دعا کی یعنی قدرتی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے عملی اقدام کئیے‬
‫کہ اے کائنات کو پالنے والے قدرت و پروردگار‪ ،‬اس جگہ کو تمام انسانیت کیلیئے امن‬
‫کے قوانین کا عالمی شہر بنا اور اس کعبہ کے بطور مرکزی مقام یونائیٹڈ ہیومن‬
‫آرگنائزیشن قرار دے کر رہنے والوں سربراہ نمائندوں میں سے جو قدرت کے قوانین‬
‫پرعمل کی بدولت انسانیت کے بہترین فیوچر مستقبل پر ایمان الئیں تواُن کو پھر قوانین‬
‫پر عمل کرنے کے بدلے میں کھانے کو عمدہ ترین رزق عطا کر‪ ،‬اور ساتھ قدرت نے‬
‫آگاہی دی کہ جو مفاد پرست انسانیت کا دشمن نظام چالنے واال کافر سربراہ نمائندہ ہوگا‪،‬‬
‫قدرت اسے بھی کسی قدر مفاد عاجلہ کے تحت وقتی طور پر متمتع تو کرے گی ‪ ،‬مگر‬
‫پھر اس کو مکافات عمل کی صورت عذاب دوزخ کے بھگتنے کے لیے ناچار بھی کردے‬
‫گی ‪ ،‬اور وہ بہت برا مقام ہے کہ آخر کار سب کو اسی سالمتی و فالح کے عالمی نظام کو‬
‫اپنانا ہی ہو گا)‪(126‬‬
‫اور جب ابراہیم اور ٰ‬
‫اسمعیل بیت ہللا ‪ /‬ہللا کا گھر ‪ /‬خانہ کعبہ کہ جہاں قرانی ہللا کے قدرتی‬
‫فطری احکام و قوانین کے تحت تمام بنی نوع انساں کی سالمتی و فالح کے دین یعنی نظام‬
‫‪ ،‬سسٹم ‪ ،‬طریقہ کارکی بابت عالمی فیصلے کئیے جائیں ‪ ،‬کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے‬
‫تو وہ دلی طور پر یہی چاہتے تھے کہ اے تمام عالم کو پالنے والے قادر و پروردگار‪ ،‬ہم‬
‫سے اس سب کی سالمتی و فالح کے مرکزی مقام کی تعمیر کی خدمت قبول فرما کہ یہاں‬
‫اس عظیم ترین سوچ ‪ ،‬وژن ‪ ،‬خیاالت پر ہمیشہ عمل درامد ہوتا رھے ۔ بےشک تیرے‬
‫قوانین سب سننے والے اور جاننے والے ہیں)‪(127‬‬
‫اے قادرپروردگار‪ ،‬ہم کو اس سب کی سالمتی و فالح کے عالمی مرکزی مقام میں دنیا کے‬
‫تمام اقوام کے سربراہان وفود کی فطری اصول و قوانین میں مشاورت کے تحت آئین و‬
‫منشور قرار دئیے جانے والے احکام و قوانین پر عمل کے زریعے ساری دنیا کے‬
‫انسانوں کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنائے رکھیو۔ اور ہمارے بعد امت مسلم میں سے سب‬
‫کی سالمتی و فالح کا عالمی نظام کا تسلسل چاہنے والے حساس باکردار لوگوں کے ایک‬
‫زمہ دار گروپ کو اپنے اس گھر کا انتظام سنبھالنے اور چالنے والے کو اپنا مطیع بنائے‬
‫رہیو‪،‬اور اے قادر و پروردگار ہمیں ایسا طریق عبادت و بندگی بتا کہ جس کے تحت تمام‬
‫دکھی بے سہارا انسانیت کے لئیے عبادت یعنی حقوق العباد کی ادائیگی کر سکیں اور‬
‫ہمارے موجودہ سرمایہ پرستی کے ملوکیتی تباہ شُدہ حال پر توجہ فرما۔ بے شک تو توجہ‬
‫فرمانے واال مہربان ہے)‪(128‬‬
‫اے قادر وپروردگار‪ ،‬اگر اس سب کے بعد انسانیت پھر کبھی گمراہی اختیار کر لے توانہی‬
‫گمراہ لوگوں میں سے سب کی سالمتی و فالح کے قدرتی اٹل قوانین کی پیروی کے عالمی‬
‫نظام کا قیام چاہنے واال نمائندہ مبعوث کرتے رہا کیجیو جو ان کو تیری قدرتی عالمی‬
‫سالمتی و فالح کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور قدرتی فطری قوانین پر مشتمل کتاب‬
‫سے حکمت اور دانائی سکھایا کرے اور وہ ان گمراہ لوگوں کے دلوں کو تمام دُکھی‬
‫انسانیت کے لئیے پاک صاف کیا کرے ۔ بےشک قدرت ہر شے پر قادر و غالب اور صاحب‬
‫حکمت ہے)‪(129‬‬
‫اورابراہیم کے(سورت ‪ 2‬کی آیات ‪ 125‬تا ‪ ) 129‬کے طریقہ کار سے بھال کون بےحس‬
‫حکمران ہے جو ُرو گردانی کر سکتا ہے ؟؟ بجز اس کے کہ جس میں سب کی سالمتی و‬
‫فالح کے طریقہ کار کی بابت بالکل ہی عقل و دانائی نہ ہو۔ قدرت نے تو ان کو ترقی و‬
‫فالح کیلیئے زمانہ ء حال میں بھی منتخب کیا اور بعد میں آنے والی نسلوں کیلیئے زمانہ‬
‫ء مستقبل میں بھی اور اس کارنامہء عظیم کی بنا پر وہ تمام انسانیت وتمام زمانوں‬
‫کیلیئے صالحیت بخش مناسب و متوازن ترین طریقہء کار دینے والے صلحا میں سے ہوں‬
‫گے)‪(130‬‬
‫کیونکہ جب ان سے قادر و پروردگار نے فرمایا کہ سب کی سالمتی و فالح بھرا اسالمی‬
‫طریقہء کار بنا کر لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں کائنات کو پالنے والے رب‬
‫العالمین کے اس حکم کے آگے سر اطاعت خم کرتا ہوں)‪(131‬‬
‫اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی اپنے فرزندوں‬
‫سے یہی کہا کہ بیٹا قدرت نے تمہارے لیے یہی سب کی سالمتی و فالح کا دین نظام سسٹم‬
‫طریقہ کاراختیار کرنا پسند فرمایا ہے تو بیٹا یاد رکھنا کہ مرنا تو سب کو ہی ھے لہٰ ذا تم‬
‫مسلم یعنی سب کو سالمتی و فالح میسر کرنے والے انسان کے طور پر ہی مرنا )‪(132‬‬
‫بھال جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو کیا اے بنی اسرائیل تم اُس وقت موجود تھے ؟‬
‫جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کے احکام کی اطاعت کرو گے‬
‫؟ تو ُخوب جان لو کہ انہوں نے کہا تھا کہ آپ کے معبود قرانی ہللا اور آپ کے باپ دادا‬
‫اسمعیل اور اسحاق کے معبود قرانی ہللا کی ہی اطاعت کریں گے کہ جواطاعت‬ ‫ابراہیم اور ٰ‬
‫کے قابل ہے ‪ ،‬جس کے احکام و قوانین ایک ہیں اور ہم سب اُسی کے حکم بردار ہیں‬
‫)‪(133‬‬
‫تو اے بنی اسرائیل اب اچھی طرح سمجھ لو کہ یہ قدرتی فطری قوانین پر عمل کرنے‬
‫والے تمہارے آباء کی جماعت گزرچکی ۔ اُن کو قدرت کے اٹل قانون مکافات عمل کے‬
‫تحت اُن کے اعمال کا بدلہ مال اور تم کو تمھارے اعمال کا بدلہ ملے گا ۔ اور جو بھی عمل‬
‫تمہارے آباء کرتے تھے اُن کی پُرسش وپوچھ گچھ تم سے نہیں ہوگی)‪(134‬‬
‫اور اب یہ ابراہیم کے عالمی سالمتی و فالح کے عظیم ترین طریقہ کار کو مفاد پرستی کے‬
‫مزھب میں بدل دینے والے عقل کے دشمن یہودی عیسائی کہتے ہیں کہ مزھبی یہودی یا‬
‫مزھبی عیسائی ہوجاؤ تو سیدھے رستے پر لگ جاؤ گے ‪،‬‬
‫تو اے قرانی پیغمبر ان جاہلوں سے کہہ دوکہ نہیں‪ ،‬بلکہ ہم تو وہی سب کی سالمتی و‬
‫فالح کا طریقہ ء ابراہیم اختیار کئے ہوئے ہیں جو ایک قدرت کے قوانین کے فرماں‬
‫بردارہو رہے تھے اور ان فطری قوانین میں مفاد پرستی کے قوانین شریک کرنے والے‬
‫ُمشرکوں یعنی باغیوں میں سے نہ تھے(‪) 135‬‬
‫اے سب کی سالمتی و فالح کا دین نظام قائم کرنے والو ان شیطانی ملوکیتی غریب دشمن‬
‫نصاری سے کہو کہ ہم کسی مزھبی خدا‬ ‫ٰ‬ ‫مستحکم ابلیسی نظام قائم کرنے والے یہودو‬
‫پرنہیں بلکہ قرانی ہللا پر ایمان الئے اور جو کتاب ہم پر اتری‪ ،‬اس پر اور جو ابراہیم اور‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اوالد پر نازل ہوئیں اُن پر اور جو کتابیں‬
‫ٰ‬
‫عیسی کو عطا ہوئیں‪ ،‬ان پر‪ ،‬اور جو اور پیغمبروں کو ان کے قدرت و پروردگار کی‬ ‫ٰ‬ ‫اور‬
‫طرف سے ملیں ‪ ،‬ان سب پر ایمان الئے یعنی تمام پیغمبر کتاب ‪ /‬پیغام کے ساتھ آئے ہم‬
‫ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ زرہ برابر فرق نہیں کرتے اور ہم اسی قرانی ہللا کے‬
‫فرمانبردار ہیں)‪(136‬‬
‫نصاری‬
‫ٰ‬ ‫تو اگر یہ شیطانی ملوکیتی غریب دشمن مستحکم ابلیسی نظام چالنے والے یہودو‬
‫لوگ بھی اسی طرح قرانی ہللا اور اس کے سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام پر ایمان‬
‫لے آئیں کہ جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو یہ بھی ہدایت یاب ہو جائیں اور پھر اگر یہ‬
‫سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام سے منہ پھیر لیں اور نہ مانیں تو وہ انسانیت کے‬
‫مخالف اورکٹر دشمن ہیں اور ان کے مقابلے میں تمھیں انسان دوست قرانی ہللا کافی ہے۔‬
‫کہ کائنات میں صرف وہی اپنے سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام سسٹم کے تحت تمام‬
‫انسانیت کے دُکھ و مصائب و آالم کو سننے واال اور جاننے واال ہے)‪(137‬‬
‫نصاری سے کہ ہم نے قرانی ہللا کا رنگ اختیار کر لیا ہے‬
‫ٰ‬ ‫کہہ دو ان انسان دشمن یہودو‬
‫اور قرانی ہللا سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے ؟؟؟ اور ہم اسی قرانی ہللا کی اطاعت و‬
‫فرمانبرداری کرنے والے ہیں)‪(138‬‬
‫سرمایہ پرستی کا غریب دشمن عالمی ابلیسی مستحکم نظام چالنے والے ان مزھبی یہودو‬
‫نصاری سے کہو‪ ،‬کیا تم قرانی ہللا ‪ /‬قادر و قدرت کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو ؟؟‬‫ٰ‬
‫حاالنکہ قدرتی قوانین کے تحت ہی تو ہمارا اور تمھارا گزارا ہے کہ قدرتی قوانین کے‬
‫تحت جیسے قدرتی بیج ‪ ،‬قدرتی زمین میں بو کر قدرتی دھوپ و پانی دے کر تم فصل پاتے‬
‫ہو ایسے ہی ہم بھی قدرتی قوانین کے تحت فصل پاتے ہیں اور قدرت کے مکافات عمل‬
‫کے اٹل قانون کے تحت ہی ہم کو ہمارے اعمال کا بدلہ ملے گا اور تم کو تمھارے اعمال‬
‫کااور ہم تو خاص اسی قرانی ہللا کے فطری قوانین کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے والے‬
‫ہیں)‪(139‬‬
‫اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب‬ ‫ونصاری کیا تم اس بات کے قائل ہو کہ ابراہیم اور ٰ‬
‫ٰ‬ ‫اے یہود‬
‫اور ان کی اوالد اسی طرح کے مزھبی جنونی یہودی یا عیسائی تھے جیسے کہ تم ہو ؟؟‬
‫اے محمد ﷺان مزھبی جنونیوں سے کہو کہ بھال تم زیادہ جانتے ہو یا قادر و قدرت ؟ اور‬
‫اس سے بڑھ کر ظالم کون‪ ،‬جو قدرت کی اتنی واضح اور کُھلی شہادت و نشانیوں کو‬
‫چھپائے ۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو‪ ،‬قدرت کا قانون مکافات اس سے غافل نہیں)‪(140‬‬
‫اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اوالدوں کی جماعت گزر چکی۔ ان‬ ‫یہ ابراہیم اور ٰ‬
‫کو وہ ملے گا جو انہوں نے کیا‪ ،‬اور تم کو وہ ملے گا جو تم نے کیا۔ اور جو عمل وہ‬
‫کرتے تھے‪ ،‬اس کی پرسش و پوچھ ُگچھ تم سے نہیں ہوگی)‪(141‬‬
‫نصاری لوگ اپنی بڑی شاطرانہ عقل استعمال کرتے‬ ‫ٰ‬ ‫احمق مفاد پرست مزھبی جنونی یہودو‬
‫ہوئے کہیں گے کہ خانہ کعبہ کو قرانی دین اسالم کا مرکز بنانے والے لوگ اس سے پہلے‬
‫جس قبلے یعنی بیت المقدس پر چلے آتے تھے اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ؟؟ تو‬
‫تم ان احمقوں سے کہہ دو کہ اول تو یہ جان لو کہ مشرق ہو یا مغرب کائنات میں ہر طرف‬
‫قدرت کے قوانین ہی عمل پیرا ہیں اب جو چاہے قدرتی فطری قوانین کے سیدھے راستے‬
‫پر چلے اُسے کوئی ُرکاوٹ نہیں کہ انسان اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں ۔)‪(142‬‬
‫اور اسی طرح قدرت نے تم کو خیر اور شر میں امتیاز کرنے والی امت معتدل بنایا ہے‪،‬‬
‫تاکہ تم قران کی پیروی کرنے والے لوگ اپنے لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر آخرالزماں تم‬
‫پر گواہ بنیں۔ اور دوم یہ کہ جس ابراہیم کے بنائے قبلہ اول ‪ /‬مرکز خانہ کعبہ پر تم‬
‫انسانیت پسند لوگ پہلے تھے‪ ،‬اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں‪ ،‬کون‬
‫تمام انسانیت کی سالمتی و فالح کے نظام کے قیام کیلیئے ہمارے پیغمبر کا تابع رہتا ہے‪،‬‬
‫اور کون اس مرکز سے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ اور یہ بات بیت المقدس کو زبر دستی‬
‫نصاری کو بہت گراں معلوم ہوئی ‪ ،‬مگر جن کو‬ ‫ٰ‬ ‫مرکز اول قرار دینے والے احمق یہودو‬
‫قادر متلق نے شک سے پاک ہدایت بخشی وہ اسے گراں نہیں سمجھتے اور قرانی ہللا‬
‫ایسا نہیں کہ تمہارے اس انسانیت بھرے ایمان کو یونہی کھو دے۔ قرانی ہللا تو لوگوں پر‬
‫بڑا مہربان اور صاحب رحمت ہے )‪(143‬‬
‫تو مجبورا ہجرت کر کے مدینہ میں آ کر قرانی اسٹیٹ قائم کرنے والے اے محمد ﷺہم‬
‫تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم تم کو اُسی ابراہیم‬
‫کے بنائے قبلے یعنی کیپیٹل کی طرف کہ جس کو تم بہت پسند کرتے ہو‪ ،‬اپنا ُرخ کرنے کا‬
‫خانہ‬
‫حکم دے رہے ہیں کہ اب تم اپنا رخت سفر دوبارہ اپنے مرکز اول مسجد حرام یعنی ٴ‬
‫کعبہ کی طرف کر لواور اب شان سے فتح مکہ کرو ۔ اور پھر تم لوگ دنیا میں جہاں بھی‬
‫ہو‪ ،‬اسی قرانی فیصلے کرنے والی عالمی مسجد کی طرف بطور مرکز کے توجہ رکھا‬
‫کروکہ عالمی فالحی مرکز یونائٹیڈ ہیومن آرگنائزیشن سے انسانیت کی سالمتی و فالح‬
‫کے لئیے کیا احکام جاری ہورھے ہیں ؟؟ اور مرکز میں جن حاکم لوگوں کو انسانیت کی‬
‫سالمتی و فالح کے فیصلے کرنے کیلیئے یہ کتاب دی گئی ہے‪ ،‬وہ خوب جانتے ہیں کہ‬
‫یہی ان کے پروردگار کی طرف سے حق بات اور کرنے کا کام ہے۔ اور پھر جو سالمتی و‬
‫فالح کے کام بطور دین نظام کے یہ قرانی حکمران لوگ کرتے ہیں‪،‬قادر و قدرت ان سے‬
‫بے خبر نہیں)‪(144‬‬
‫اور اگر تم ان سرمایہ پرست اہل کتاب کے پاس انکی کتاب سے سب کی سالمتی و فالح کی‬
‫تمام متفقہ نشانیاں بھی لے کر آؤ‪ ،‬تو بھی یہ تمہارے قبلے مرکز کی پیروی نہ کریں۔ اور‬
‫تم بھی ان کے سرمایہ پرستی کے قبلے کی پیروی کرنے والے نہیں ہو۔ اور ان میں سے‬
‫بھی بعض بعض کے قبلے کے پیرو نہیں۔ اور اگر تم باوجود اس کے کہ تمہارے پاس‬
‫شک سے پاک دانش یعنی وحئ آ چکی ہے ‪ ،‬اس کے ہوتے ہوئے ان کی مفاد پرستی کی‬
‫خواہشوں کے پیچھے چلو گے تو ظالموں میں داخل ہو جاؤ گے)‪(145‬‬
‫جن باکردار لوگوں کو ہم نے یہ کتاب دی ہے‪ ،‬وہ ان پیغمبر آخرالزماں کو اس طرح‬
‫پہچانتے ہیں‪ ،‬جس طرح کہ کوئی اپنے بیٹوں کو پہچانا کرتے ہیں‪ ،‬مگر ایک قران دشمن‬
‫فریق ان میں سے سچی بات کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے)‪(146‬‬
‫اے پیغمبر‪ ،‬یہ سب کی سالمتی و فالح کا نیا قبلہ و مرکز تمہارے پروردگار کی طرف سے‬
‫حق ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا)‪(147‬‬
‫اور ہر ایک قوم کے لیے اُنکی بنائی ایک سمت مقرر ہے( جیسے کہ دنیا بھر میں پھیلے‬
‫رشین کیلیئے ماسکو یا دنیا بھر میں پھیلے امریکی کیلیئے واشنگٹن کہ جدھر وہ احکام‬
‫کی سماعت و اطاعت کیلیئے اپنا منہ کیا کرتے ہیں) تو تم بھی اپنے سالمتی و فالح کے‬
‫عالمی قبلے کی طرف منہ کر کے انسانیت کیلیئے بھالئیوں میں سبقت حاصل کرو۔ اس‬
‫سے تم دنیا میں چاہے جہاں رہو گے یہ قدرتی فطری قانون تم سب کو جمع کرلے گا ۔ بے‬
‫شک قانون قدرت ہر چیز پر قادر ہے)‪(148‬‬
‫اے سب کی سالمتی و فالح کا عالمی قبلہ و مرکز قائم کرنے والے قرانی زمہ دارو تمہارا‬
‫عالمی طواف کرتا ہوا ڈیلیگیشنز کا گزر دنیا میں جس مقام سے بھی ہو‪ ،‬وہ وہیں ضرورت‬
‫کے احکام کی سماعت و اطاعت کیلیئے اپنا ُرخ ہمہ تن گوش ہو کر مسجد محترم کی طرف‬
‫رکھے ‪ ،‬کیونکہ یہ تمہارے قرانی رب کا بالکل حق فیصلہ ہے اور سمجھ رکھو کہ قرانی‬
‫ہللا تم لوگوں کے سالمتی و فالح کے عالمی اعمال سے بے خبر نہیں ہے)‪(149‬‬
‫اور ایک بار پھر اسے خوب اچھی طرح زہن نشین رکھو کہ دنیا میں جہاں سے بھی‬
‫تمہارے طواف پر معمور ڈیلیگیشنزکا گزر ہو‪ ،‬ا ُنہیں چاہئیے کہ وہ اپنا ُرخ سماعت و‬
‫اطاعت کیلیئے مسجد محترم کی طرف رکھا کریں‪ ،‬اور دنیا میں جہاں بھی تم قرانی نظام‬
‫کے حامی زمہ دارلوگ موجود ہو‪ ،‬توتمام انسانیت کی سالمتی و فالح کے لئیے اُسی‬
‫عالمی قرانی قبلہ کی طرف منہ کر کے توجہ رکھا کرو تاکہ لوگوں کو تمہارے عالمی نظام‬
‫کے خالف کوئی حجت نہ مل سکے ‪ ،‬ہاں جو ظالم لوگ ہیں وہ سب کی سالمتی و فالح‬
‫کے اس عالمی دین نظام کو کبھی نہیں تسلیم کریں گے ‪ ،‬اُن کی زبان اس نظام کے خالف‬
‫کسی حال میں بند نہ ہوگی تو اُن سے تم بالکل نہ ڈرو‪ ،‬بلکہ مجھ قرانی ہللا کے احکام کی‬
‫خالف ورزی سے ڈرو تا کہ میں اپنے قرانی نظام کی بدولت تمام انسانیت پر اپنی نعمت‬
‫پوری کر دوں اس توقع پر کہ میرے اس حکم کی پیروی سے تم سب اسی طرح فالح کا‬
‫راستہ پاؤ گے)‪(150‬‬
‫جس طرح تمہیں اس چیز سے فالح نصیب ہوئی کہ میں نے تمہارے درمیان خود تم میں‬
‫سے ایک رسول بھیجا‪ ،‬جو تمہیں میری عالمی سالمتی و فالح کی آیات سناتا ہے‪ ،‬تمہاری‬
‫زندگیوں کو سنوارتا ہے‪ ،‬تمہیں کتاب اور اس میں درج حکمت کی تعلیم دیتا ہے‪ ،‬اور‬
‫تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے‪ ،‬جو تم سرمایہ پرستی کے ابلیسی نظام کے خوگر اس سے‬
‫پہلے نہیں جانتے تھے)‪(151‬‬
‫لہٰ ذا تم مجھے میرے اٹل قدرتی فطری قوانین کی صورت یاد رکھو‪ ،‬میں پھر تمہیں یاد‬
‫رکھوں گا کہ تمہاری زندگی جنت نظیر بنا دوں گا اور پھر تم سب میرا شکر ادا کرواور‬
‫کفران نعمت نہ کرو)‪(152‬‬
‫تو اے قرانی فالحی قبلہ کے زمہ دار لوگو جو اس ضابطہ حیات پر عمل کی غرض سے‬
‫ایمان الئے ہو‪ ،‬اپنی تمام تر زمہ داری ادا کر کے صبر اور رزق و وسائل کی عالمی‬
‫منصفانہ تقسیم کے زریعے سے مدد لو ہللا ایسے زمہ دار صابرحکمران لوگوں کے ساتھ‬
‫ہے)‪(153‬‬
‫اور جو لوگ قدرت کے بنائے سالمتی و فالح کے نظام کے قیام کی راہ میں جدو جہد‬
‫کرتے ہوئے مارے جائیں ان کیلئیے یہ کہنا کہ وہ مر گئے ہیں بڑی جہالت کی بات ہے ‪،‬‬
‫نہیں وہ ُمردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں لیکن تم اس امر ہونے والی زندگی کے بارے میں نہیں‬
‫جانتے کہ جن کی کوششوں کی وجہ سے ُمردہ انسانیت میں جان پڑجاتی ہے)‪(154‬‬
‫تو قرانی فالحی نظام قائم کرنے والے زمہ دارو اچھی طرح جان لو کہ یہ عالمی سالمتی و‬
‫فالح بھرا نظام اس مستحکم ابلیسی سرمایہ پرستی کے نظام میں قائم ہو جانا اتنا آسان‬
‫نہیں لہذا قدرتی طور پر تم پر کسی قدر خوف ‪ ،‬بھوک ‪ ،‬مال ‪ ،‬جان اور آسائشوں کے‬
‫نقصان سے تمہاری آزمائش ہو گی کہ تم کس قدر ثابت قدم ہو ؟ توبھرپور طور پر زمہ‬
‫داری ادا کر کے صبر کرنے والوں کو قدرت کے اٹل قانون کہ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے‬
‫کے تحت بشارت سنا دو )‪(155‬‬
‫کہ ایسے انسان دوست لوگوں پر جب کوئی حق کی راہ میں مصیبت واقع ہوتی ہے تو‬
‫کہتے ہیں کہ ہم تو قدرت کے سب کی سالمتی و فالح کا نظام کا قیام چاہنے والے ہیں اور‬
‫اسی قدرتی نظام کے تحت لوٹ کر جانے والے ہیں)‪(156‬‬
‫یہی سب کی سالمتی و فالح چاہنے والے لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی مہربانی‬
‫اور رحمت ہے۔ اور یہی سب سے سیدھے رستے پر ہیں)‪(157‬‬
‫بےشک صفا اور مروہ یعنی انتہائی صاف و شفاف اور انسانیت کو سیراب کر دینے واال‬
‫حکمرانی علم قدرت کی ک ُھلی نشانیوں میں سے ہیں ۔ تو جو بھی قوم و مملکت کا سربراہ‬
‫خانہ کعبہ ( یونائٹیڈ ہیومن‬
‫و نمائندہ انسانی مسائل کے ُحجت اتمام و مشاورت کیلیئے ٴ‬
‫آرگنائزیشن ) کا ساالنہ دورہ حج کرے یا سال بھر میں کسی بھی وقت ہنگامی نوعیت‬
‫کا دورہ عُمرہ کرے اس پر الزم و ملزوم ہے کہ وہ بھی ان قدرتی شعائر صفا اور مروہ‬
‫جیسا حامل اوصاف ہو اور جو قوم و مملکت کا سربراہ و نمائندہ انسانیت کی سالمتی و‬
‫فالح کیلیئے اس طور پر منظم ہو کرعالمی فالحی کام کرے تو قدرت اس کے اوصاف بلند‬
‫کی شکر گزار و دانا ہے)‪(158‬‬
‫تو جو علم دشمن حکمران لوگ قدرتی احکام و ہدایات کوجو قدرت نے نازل کی ہیں اپنی‬
‫زاتی مفاد پرستی کی غرض سے چھپاتے ہیں باوجود یہ کہ قرانی ہللا نے ان لوگوں کے‬
‫سمجھانے کے لئے اپنی کتاب میں کھول کھول کر احکام و ہدایات کو بیان کردیا ہے۔ تو‬
‫ایسے دین نظام سے محروم رہ جانے والے بدنصیب حکمرانوں پر قدرت اور قدرتی نظام‬
‫کی پیروی کرنے والے افسوس کرتے ہیں)‪(159‬‬
‫ہاں جو حکمران لوگ اپنے انسانیت کُش بُرے نظام سے توبہ کرلیتے ہیں اور اپنی قومی‬
‫حالت کو درست کرلیتے ہیں اور قدرتی فطری احکام کو سب سے صاف صاف بیان‬
‫کردیتے ہیں تو قدرت ان کے سابقہ قصور معاف کردیتی ہے کیونکہ قدرت بڑی معاف‬
‫کرنے والی اور رحم کرنے والی ہے)‪(160‬‬
‫اور جو حکمران لوگ قدرتی قوانین کی خالف ورزی کے مرتکب کافر و ظالم ہوئے اور‬
‫کافر و ظالم ہی مرے ایسوں کی افسوس ناک محرومی پر قدرت اور قدرتی قوتوں کی اور‬
‫قدرت کے قوانین کی پیروی کرنے والے لوگوں کی طرف سے بہت بہت افسوس ھے‬
‫)‪(161‬‬
‫ان کفار حکمرانوں کے نقش قدم پر چلنے والے حکمران ہمیشہ سب کی سالمتی و فالح‬
‫کے جنتی نظام کی محرومی میں گرفتار رہیں گے۔ ان کے دور حکمرانی میں مکافات عمل‬
‫کے نظام کے تحت نہ ہی عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں اس ظلم بھرے نظام سے‬
‫کچھ مہلت ملے گی)‪(162‬‬
‫اور حکمران لوگو اچھی طرح جان لو کہ حقوق العباد کی بطور دین نظام کے ادائیگی ہی‬
‫واحد حکمرانوں کے کرنے کا کام ہے اس بڑے مہربان اور رحم کرنے والے قدرت و‬
‫قوانین کے سوا کوئی اور قدرتی قوانین اطاعت و فرمانبرداری کے الئق نہیں)‪(163‬‬
‫بےشک زمین سے بلندیوں اونچائیوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے‬
‫ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اور کشتیوں اور جہازوں میں جو دریا میں‬
‫لوگوں کے فائدے کی چیزیں لے کر رواں دواں ہیں اور بارش جس کو قدرت زمین پر‬
‫بلندی و اونچائی سے برساتی ہے اور پھر ُمردہ و بنجر زمین کو مرنے کے بعد زندہ اور‬
‫سرسبز کردیتی ہے اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیالنے میں اور ہواؤں کے‬
‫چالنےمیں اور بادلوں میں جو زمین سے اونچائیوں پر اور زمین کے درمیان گھرے‬
‫رہتے ہیں۔ صرف عقلمندوں کے لئے ہی یہ سب قدرت کی نشانیاں ہیں جو کہ کائنات میں‬
‫جاری و ساری قدرتی قوانین میں غوروفکر کرتے ہیں )‪(164‬‬
‫اور اکثر احمق مزھبی جنونی لوگ ایسے ہیں جوغیر قدرت کو شریک قدرت بناتے ہیں‬
‫اور پھر غیر قدرت سے احمقانہ محبت کرتے ہیں ۔ لیکن جو قدرت اور اس کے قوانین پر‬
‫ایمان رکھنے والے ہیں وہ تو قدرتی فطری قوانین ہی کے سب سے زیادہ دوستدار ہوتے‬
‫ہیں۔ اور اے کاش فطری قوانین کے دشمن ظالم لوگ جو بات قدرت کے مکافات عمل کے‬
‫قانون کے عذاب کے وقت دیکھیں گے کسی طرح اب دیکھ لیتے کہ کائنات میں سب طرح‬
‫کی طاقت قدرت اور اس کے قوانین ہی کو ہے۔ اور یہ کہ قدرت کا ہر عمل ایک خاص وقت‬
‫تک معین ہے پھر اسکی پکڑ سے کوئی نہیں بچ سکتا )‪(165‬‬
‫اور پھر جس دن وہ اپنے اعمال کی سبب مکافات عمل کے تحت پکڑ میں آجائیں گے اس‬
‫دن غیر قدرت کے پیشوا اپنے پیروؤں سے بیزاری ظاہر کریں گے اور نام نہاد پیشواء‬
‫اور ان کے پیرو دونوں اپنے احمق پن کا عذاب دیکھ لیں گے اور اس دن ان کے آپس کے‬
‫تعلقات منطقی طور پر منقطع ہوجائیں گے)‪(166‬‬
‫اور غیر قدرت کو شریک قدرت بنانے والے ظالم لوگوں کا تباہ حال دیکھ کر پیروی کرنے‬
‫والے احمق جس دن اپنے مکافات عمل کے تحت پکڑ میں آجائیں گے تو حسرت سے‬
‫کہیں گے کہ اے کاش ہمیں پھر سے ایک موقعہ نصیب ہو تاکہ جس طرح آج یہ جھوٹے‬
‫ظالم پیشوا ہم سے بیزار ہو رہے ہیں اسی طرح ہم بھی ان سے بیزار ہوں ۔ اس طرح‬
‫قدرت اپنے مکافات عمل کے تحت ان کے اعمال انہیں حسرت بنا کر دکھائے گی لیکن وہ‬
‫اپنے غلط اعمال کے دوزخ سے کبھی نکل نہیں سکیں گے)‪(167‬‬
‫تو لوگو جو چیزیں زمین میں حالل طیب یعنی صحت بخش پاک صاف ہیں وہ کھاؤ۔ اور‬
‫ُمضر صحت اشیاء کھا کرنفس شیطان کے قدموں پر نہ چلوکہ وہ تمہاری صحت و جان کا‬
‫کھال دشمن ہے)‪(168‬‬
‫وہ نفس شیطان تو تم کو برائی اور بےحیائی ہی کے انسانیت کے خالف گھٹیا کام کرنے‬
‫کو کہتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ قدرت کی نسبت ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں( کچھ بھی‬
‫علم نہیں)‪(169‬‬
‫نصاری لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ سب کی سالمتی و‬ ‫ٰ‬ ‫اور جب ان مزھبی جنونی یہودو‬
‫فالح کے فطری قوانین پر مشتمل مفصل شک سے پاک کتاب قرانی ہللا نے نازل فرمائی‬
‫ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں" نہیں" بلکہ ہم تو اسی چیز کی اندھی تقلید کرتے‬
‫ہوئے پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے مزھبی باپ دادا کو پایا ۔ بھال اگرچہ ان کے‬
‫مزھبی جنونی باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اورنہ سیدھے رستے پر ہوں تب بھی وہ‬
‫انہیں کی تقلید کئے جائیں گے ؟؟؟)‪(170‬‬
‫تو سمجھ لو کہ جو لوگ سب کی سالمتی و فالح کے قدرتی فطری قوانین کے دشمن یعنی‬
‫کافر ہیں ان کی مثال اس کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز‬
‫کے سوا کچھ سن ہی نہ سکے۔ یعنی یہ انسان نما حیوان ‪ ،‬کان ‪ ،‬زبان ‪ ،‬آنکھیں رکھنے‬
‫کے باوجود عقل کے دشمن بہرے ‪ ،‬گونگے ‪ ،‬اندھے جانور سے بھی بدتر لوگ ہیں کہ‬
‫کچھ سمجھ ہی نہیں سکتے)‪(171‬‬
‫تو اے عقل و خرد کی تقلید کرنے والواہل ایمان جو صاف ستھری پاکیزہ صحت بخش‬
‫چیزیں قدرت نے تم کو عطا فرمائیں ہیں ان کو کھاؤ اور اگر قدرت کی اطاعت کرنے والے‬
‫بندے ہو تو قدرت کی بے بہا نعمتوں کا صحت مند رہ کر شکر بھی ادا کرو)‪(172‬‬
‫قدرت کی طرف سے اگر کوئی پابندی ‪ /‬ممانعت تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ ُمردار نہ کھاؤ‪،‬‬
‫خون اور خنزیر کے گوشت یعنی سڑے ہوئے ناقص گوشت سے پرہیز کرو کہ یہ سب‬
‫انسان کیلیئے مضر صحت ہیں اور کوئی ایسی چیز نہ کھاؤ جس پر قدرت کے قوانین کی‬
‫خالف ورزی کا اندیشہ ہو ہاں جو شخص بھوک سے مرنے کی انتہائی مجبوری کی حالت‬
‫میں ہو اور پھر وہ ان میں سے کوئی چیز اپنی جان بچانے کی غرض سے کھا لے کہ نہ‬
‫وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو نہ وہ ضرورت کی حد سے تجاوز کر ے‪ ،‬تو تم پر کوئی‬
‫ُجرم نہیں کہ قدرت اور اس کے قوانین بخشنے والے اور رحم کرنے والے ہیں)‪(173‬‬
‫حق یہ ہے کہ جو قران دشمن لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو قرانی ہللا نے اپنی کتاب ‪/‬‬
‫ضابطہ ء حیات میں ناز ل کئیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پر اپنے مفاد کی‬
‫بھینٹ پر چڑھاتے ہیں‪ ،‬دراصل وہ اپنے پیٹ ‪ ،‬ظلم کی آگ سے بھر رہے ہیں ‪،‬‬
‫بروزاحتساب قدرت اور اس کے قوانین ان کی ہر گز کوئی مدد نہیں کریں گے نہ اُنہیں سزا‬
‫دئیے بغیر چھوڑا جائے گا‪ ،‬اُن کے لیے ہر حال میں دردناک سزا ہے)‪(174‬‬
‫یہ وہ احمق لوگ ہیں جنہوں نے سب کی سالمتی و فالح کی قدرتی ہدایت کے بدلے زاتی‬
‫مفاد و ہوس کی ُگمراہی خریدی اور اپنی بخشش کے بدلے عذاب مول لیا کیسا عجیب ہے‬
‫ان کا حوصلہ کہ مکافات عمل کے جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں)‪(175‬‬
‫یہ سب کچھ خالف انسانیت کام اس وجہ سے ہوا کہ قرانی ہللا نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے‬
‫مطابق سب کی سالمتی و فالح کی کتاب ‪ /‬ضابطہ ء حیات نازل کیا تھا مگر جن لوگوں نے‬
‫ضابطہ ء حیات میں انسانیت کے خالف اختالف نکالے وہ اپنے بنائے جھگڑوں میں حق‬
‫سے بہت دور نکل گئے)‪(176‬‬
‫تو قرانی مملکت کے زمہ دار لوگو تم یہ بات اچھی طرح جان لو کہ نیک اور اچھا کام یہ‬
‫قطعی نہیں ہے کہ تم مشرق یا مغرب کو مزھبی قبلہ سمجھ کران کی طرف منہ کرکے "‬
‫لپس سروس " کے لئیے کھڑے ہو جاؤ بلکہ نیک اور اچھا کام یہ ہے کہ قدرت پر اور‬
‫قدرتی قوانین کے تحت سب کے بہترین مستقبل پر اور قدرتی قوت وسائل سے کام لینے‬
‫پر اور سب کی سالمتی و فالح کے ضابطہ ء حیات پر اور سب کی سالمتی و فالح کا دین‬
‫نظام النے والے انقالبی پیغمبروں پر دل کی گہرائی سے ایمان الئیں ۔اور اپنا کمایا مال‬
‫باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں ‪ /‬بے سہاروں اور محتاجوں اور‬
‫مسافروں اور مانگنے والوں کو اس قرانی دین نظام کے تحت دیں اور ابلیسی مستحکم‬
‫نظام کی باعث قرض میں جکڑی گردنوں کے چھڑانے میں خرچ کریں اور اس طرح قدرت‬
‫کے رزق و وسائل کی منصفانہ تقسیم کا نظام قائم کر کے انسانیت کی ترقی و نشو نما میں‬
‫مدد دیں اور جب کسی سے کوئی عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں ۔ اور ہر قسم کی سختی‬
‫اور تکلیف میں اور معرکہ کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ بس یہی بہترین لوگ ہیں جو‬
‫اپنے ایمان میں سچے اور کھرے ہیں اور یہی ہیں جو قرانی ہللا کے احکام کی نافرمانی‬
‫سے ڈرنے والے ہیں)‪(177‬‬
‫تو اے قرانی سالمتی و فالح کے اقتداری نظام کے زمہ دار گورنر ‪ /‬مومنو !تم کو مقتولوں‬
‫کے بارے میں قصاص یعنی خون کے بدلے خون کے قانون کے قیام کا واضح حکم دیا‬
‫جاتا ہے ‪ ،‬اس طرح کہ اگر دانستہ قتل کرنے واال قاتل آزاد انسان ہے تو وہی آزاد انسان‬
‫قصاص میں مارا جائے اور اگر قاتل کوئی ماتحت غالم ہے تو وہی ماتحت غالم مارا جائے‬
‫‪ ،‬اور اگر قاتل کوئی عورت ہے تو وہی عورت قصاص کی سزا پائے اور‬
‫نادانستہ قتل کی صورت میں قاتل کو اس کے مقتول بھائی کے قصاص میں سے کچھ‬
‫مطالبہ‬
‫ٴ‬ ‫معاف کردیا جائے تو وارث مقتول کو پسندیدہ طریق سے قرار داد کی پیروی یعنی‬
‫خون بہا کرنا اور قاتل کو خوش خوئی کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے یہ قدرت و پروردگار کی‬
‫طرف سے تمہارے لئے آسانی اور مہربانی ہے تو اب جو کوئی زمہ دار گورنر ‪ /‬مومن‬
‫اس واضح حکم کے بعد کوئی زیادتی کرے اس کے لئے پھر قرانی سربراہ و اسٹیٹ کی‬
‫طرف سے الزمی سزا ‪ /‬دکھ کا عذاب ہے)‪(178‬‬
‫اوراے اہل عقل اچھی طرح جان لو کہ اس حکم قصاص میں تمہاری زندگانی و بقاء ہے کہ‬
‫تم آپس میں قتل و خونریزی سے بچو)‪(179‬‬
‫تم پر فرض ہے کہ جب تم قرانی مملکت کے ابتدائی عبوری دور یعنی قران کا ابتدائی ‪،‬‬
‫انڈر پراسز دور ( ایسا قدرتی دور ہوتا ھے جیسے کہ ایک بیج کو زمین میں بویا جائے‬
‫تو وہ فوری درخت بن کر انسان کو پھل اور سایہ دینے نہیں لگتا بلکہ پھل اور سایہ پانے‬
‫کیلیئے پہلے بیج سے قدرتی طور پر پودا نکلتا ھے جس کی انسان کو آبیاری و حفاظت‬
‫کی زمہ داری اُٹھانی پڑتی ھے) ایسے انڈر پراسز دور میں ‪،‬کسی کا موت کا وقت آجائے‬
‫تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ کر جانے واال ہو تو ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے رائج‬
‫العمل دستور کے مطابق وصیت کرجائے کہ نافذالوقت قانون کی پاسداری کرنے والوں پر‬
‫یہ ایک طرح کا حق ہے)‪(180‬‬
‫اور جو شخص ایسی رائج العمل دستوری وصیت کو سننے کے بعد اپنی مفاد پرستی‬
‫کیلیئے اُسے بدل ڈالے تو اس کے بدلنے کا ُجرم انہیں لوگوں پر ہے جو اس کو بدلیں ۔‬
‫اور بےشک قدرت کا مکافات عمل سب سنتے اور سمجھتے ہیں)‪(181‬‬
‫اگر کسی کو وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی وارث کی طرفداری یا حق تلفی کا‬
‫اندیشہ ہو تو اگر وہ وصیت کی بابت افہام و تفہیم سے وارثوں میں صلح کرادے تو اس پر‬
‫کچھ حرج نہیں ۔ بےشک قدرت اور اس کے قوانین بخشنے والے اور رحم والے ہیں‬
‫)‪(182‬‬
‫اے امن و امان پر مقرر قرانی سالمتی و فالح کی مملکت کے مرکزی زمہ دار و ( مومنو)‬
‫!تم سب پر انسانیت کے مصائب و آالم کے ُجملہ مسائل کے حل کیلیئے عالمی ساالنہ‬
‫حجت اتمام کانفرنس حج کے دنوں میں بطور ڈیوٹی مرکز میں ُرکنا فرض کیا گیا ھے ۔‬
‫جس طرح تم سے پہلے سالمتی و فالح کا نظام قائم کرنے والے زمہ دار لوگوں پر فرض‬
‫کیا گیا تھا تاکہ تم دنیا کے روبرو حقیقی طور پر معزز و باکردار عالمی یونائٹیڈ ہیومن‬
‫آرگنائزیشن کا ادارہ بن سکو )‪(183‬‬
‫یہ عالمی مرکز میں ُرکنے کے گنتی کے بس چند دن ہیں تو جو شخص تم مومنین میں‬
‫سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں یعنی عُمرہ میں ُرک کر اپنی زمہ داری کا‬
‫شمار پورا کرلے اور جو مومن لوگ مرکز میں ڈیوٹی کیلیئے ُرکنے کی طاقت رکھیں لیکن‬
‫کسی وجہ سے ُرکیں نہیں تو وہ اس کے بدلے کسی محتاج کو کھانا کھال دیں اور جو‬
‫کوئی شوق سے یہ بھالئی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے۔ اور اگر سمجھو تو‬
‫اس نیکی سے بہتر مرکز میں ُرکنا ہی تمہارے حق میں فائدہ مند ہے)‪(184‬‬
‫رمضان کا مہینہ کہ جس میں ضابطہ ء حیات قرآن نازل ہونا شروع ہوا جو ساری انسانیت‬
‫کا رہنما ہے اور جس میں سب کی سالمتی و فالح کی ہدایات کی کھلی نشانیاں ہیں اور جو‬
‫کہ حق و باطل نظام کو الگ الگ کر کے دکھانے واال ہے تو امن و امان پر مقرر جو کوئی‬
‫تم مرکزی زمہ داروں میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہیئے کہ وہ مرکز میں پورے‬
‫مہینہ ُرکا رھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں عُمرہ میں ُرک کر ان کا‬
‫شمار پورا کرلے۔ قرانی ہللا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا اور یہ‬
‫آسانی کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ تم سب مرکزی زمہ دار مرکز میں ُرکنے کے دنوں کا‬
‫شمار پورا کرلو اور اس احسان کے بدلے کہ قرانی ہللا نے تم کو سالمتی و فالح کی‬
‫عالمی ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کر واور اس کا شکر کرو )‪(185‬‬
‫اور سب کی سالمتی و فالح کا انقالبی عالمی دین نظام النے والے اے پیغمبر جب تم سے‬
‫قدرتی فطری سالمتی و فالح کے احکام پر چلنے کیلیئے مرکز میں آنے والے عالمی‬
‫حکمران و نمائندے میری یعنی قرانی ہللا کی حقیقت کے بارے میں دریافت کریں تو اُن‬
‫سے برمال کہہ دو کہ قرانی ہللا تو حقیقت میں قدرتی فطری قوانین قادر و مطلق کی‬
‫صورت تمہارے پاس ہی موجود ہے کہ جب کوئی حکمران کسی غربت و جہالت کے‬
‫عالمی مصائب و آالم سے چھٹکارا پانے کیلیئے مجھے اپنی مدد کے لئیے پکارتا ہے تو‬
‫قرانی ہللا اس کی دعا یعنی سب کی بہتری کی خواہش کو صرف اپنے قدرتی فطری قوانین‬
‫پر عمل کی صورت قبول کرتا ہے تو پھر ان عالمی حکمران نمائندوں کو چاہیئے کہ قرانی‬
‫ہللا کے فطری احکام کو عمل کرنے کیلیئے عقل و شعور کے ساتھ مانیں اور اس طور‬
‫قرانی ہللا پر ایمان الئیں تاکہ ادھر اُدھر بھٹکنے کے بجائے سب کی سالمتی و فالح کا‬
‫حقیقی نیک عملی رستہ سمجھ پائیں )‪(186‬‬
‫تو قرانی مملکت کے مرکزی وفاقی زمہ دارو اب الصیام یعنی مہینہ بھر مرکز میں ُرکنے‬
‫کے دنوں کی راتوں میں تمہارے لئے اپنی عورتوں کے پاس جانے کا حکم کردیا گیا ہے‬
‫کہ وہ تمہاری قدرتی ضروریات کی پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو قدرت کو معلوم‬
‫ہے کہ تم ان کے پاس جانے سے خود پر بے جا پابندی لگانے کی باعث اپنے زاتی‬
‫جسمانی حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات‬
‫سے درگزرفرمائی ۔ سو اب تم کو اختیار ہے کہ ان سے مباشرت کرو۔ اور قدرت‬
‫نےتمہاری چاہت کے مطابق جو چیز تمہارے لئے لکھ رکھی ہے یعنی اوالد اس کو‬
‫قدرت سے طلب کرو اور ساتھ ہی گھر میں خوب آرام و سکون سے کھاؤ پیو یہاں تک کہ‬
‫صبح کی پو پھٹنا ‪ ،‬ڈان ‪ ،‬تڑکہ نظر آنے لگے تو اپنی ڈیوٹیوں پر رپورٹ کرو پھر‬
‫مکمل یکسوئی سے صوم کی زمہ داری کو شام رات آمد تک پورا کرو اور جب تم میں‬
‫سے بعض زمہ دار مومن جو راتوں کو مسجدوں میں نائیٹ ڈیوٹی پر معمورہوں یعنی‬
‫اعتکاف پر ہوں تو وہ اپنی اہم زمہ داری کی باعث اپنے گھروں پر نہیں جا سکتے ہیں‬
‫یعنی وہ اپنی عورتوں سے مباشرت نہیں کر سکیں گے ۔ یہ قدرتی فطری حدیں ہیں‬
‫انہیں پامال نہ کرنا ۔ اس طرح قرانی ہللا اپنی آیتیں لوگوں کے سمجھانے کے لئے کھول‬
‫کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ قرانی زمہ داران حقیقی عملی باکردار انسان بن سکیں‬
‫)‪(187‬‬
‫اور سرمایہ پرستی کے مستحکم ابلیسی نظام کے تحت ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ‬
‫اورنہ اس کو رشوۃ وقت کے ابلیسی حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ اُن کے زریعے لوگوں‬
‫کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور اس رائج الوقت غلط طریقہ کار کو تم‬
‫اچھی طرح سے جانتے بھی ہو)‪(188‬‬
‫اے محمد ﷺلوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ یہ گھٹتا بڑھتا‬
‫کیوں ہے ؟ کہہ دو کہ وہ لوگوں کے کاموں کی میعادیں بزریعہ تاریخ اور حج یعنی‬
‫انسانیت کے جملہ مسائل کے حجت اتمام کی عالمی کانفرنس کے وقت معلوم ہونے کا‬
‫ذریعہ ہے اور انسانی معامالت میں جان لو کہ یہ معمولی سی بات بھی زہن نشین رھے کہ‬
‫یہ اچھی بات نہیں کہ گھروں میں پیچھے کے راستے سے داخل ہوا جائے۔ بلکہ اچھی‬
‫بات یہ ہے کہ باکردار زی وقار انسان گھروں میں سامنے کے دروازوں سے آیا کریں اور‬
‫اس طرح قدرت کے چھوٹے بڑے تمام قوانین کی خالف ورزی سے ڈرتے رہیں تاکہ ہر‬
‫قسم کے مسائل سے نجات پائیں)‪(189‬‬
‫اورجو سرمایہ پرستی کا مستحکم ابلیسی غریب دشمن نظام چالنے والے حاکم لوگ تم‬
‫سے لڑتے ہیں تو تم بھی قرانی ہللا کی سب کی سالمتی و فالح کی راہ میں خوب ڈٹ کر ان‬
‫سے جنگ کرو ‪ ،‬ہاں مگر یہ دیکھنا کہ جنگ کے دوران بھی تم سے کوئی زیادتی نہ‬
‫ہونے پائے کہ قرانی ہللا کسی بھی قسم کی زیادتی کرنے والوں کو کسی حال میں اپنا‬
‫دوست نہیں رکھتا)‪(190‬‬
‫اور جو سرمایہ پرست مستحکم ابلیسی غریب دشمن نظام چالنے والے دنیا بھر میں تمہیں‬
‫کہیں نظر آئیں ان سے خوب ڈٹ کر جنگ کرو اور جیسے انہوں نے تم کو سالمتی و فالح‬
‫کے نظام قائم کرنے کی پاداش میں مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا تھا ایسے ہی اب‬
‫تم بھی ان مفاد پرستی کے نظام کو چالنے والوں کو مکہ سے نکال دو۔ اور اچھی طرح‬
‫جان لو کہ( سالمتی و فالح کے دین نظام سے گمراہ کرنے اور پوجا پاٹ کے فرقہ ورانہ‬
‫مزاھب میں مبتال کرنے کا فساد قتل وخونریزی سے کہیں بڑھ کر ہے اور جب تک وہ تم‬
‫سے آگے بڑھ کر مسجد محترم یعنی خانہ کعبہ یعنی یونائیٹڈ ہیومن آرگنائزیشن کے پاس‬
‫نہ لڑیں تم بھی وہاں ان سے نہ لڑنا۔ ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم ان سے خوب ڈٹ کر‬
‫مقابلہ کرو اور انہیں شکست فاش دو کہ مستحکم ابلیسی نظام چالنے والے کافروں کی‬
‫یہی سزا ہے)‪(191‬‬
‫اور ہاں اگر وہ سالمتی و فالح کے دین نظام سے آگاہ ہو جانے کے بعد اپنی شیطانیت‬
‫سے باز آجائیں تو قرانی ہللا بخشنے واال اور رحم کرنے واال ہے)‪(192‬‬
‫اور مستحکم ابلیسی نظام چالنے والوں سے اس وقت تک جنگ لڑتے رہنا کہ زمین سے‬
‫یہ غریب دشمن فساد نابود ہوجائے اور دنیا بھر میں قرانی ہللا کا سالمتی و فالح بھرا دین‬
‫‪/‬نظام ‪ /‬سسٹم ‪ /‬طریقہ کار قائم ہوجائے اور اگر وہ اپنے شیطانی دین نظام سے باز آجائیں‬
‫تو ظالموں کے سوا کسی اور پر زیادتی نہیں کرنی چاہیئے)‪(193‬‬
‫محترم مہینہ کہ جس میں اتمام حجت کے طور پر عالمی مسائل کا حل تالش کیا جانا ھے‬
‫اس میں کبھی آگے بڑھ کر جنگ نہ لڑی جائے کہ یہی عمل محترم مہینے کا بدل ھے اور‬
‫اسی طرح انسانیت کی بابت دیگر حرمت والی چیزیں بھی ایک دوسرے کا بدل ہیں‪ ،‬پس‬
‫اگر تم قرانی مملکت کے زمہ داروں سے کوئی آگے بڑھ کر زیادتی کرتے ہوئے مقابلہ‬
‫کرے تو پھر مجبورا تم بھی اپنا دفاع کرتے ہوئے اس سے مقابلہ کرو مگر اسی قدر‬
‫مقابلہ کرو کہ جتنا اس نے تم پر وار کیا‪ ،‬اور ہمیشہ قرانی ا ﷲکے قوانین کی مخالفت‬
‫سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ قرانی ا ﷲاپنے قوانین کا احترام کرنے والوں کے ساتھ‬
‫ہے‪(194)،‬‬
‫اور قرانی ا ﷲکی سب کی سالمتی و فالح کی عظیم ترین راہ میں قدرت کے تمام رزق و‬
‫وسائل کو انسانوں میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی پالننگ و منصوبہ بندی کرو‬
‫اور اس عظیم راہ کی مخالفت کر کے اپنے ہی ہاتھوں خود کو یعنی انسانیت کو ہالکت میں‬
‫نہ ڈالو‪ ،‬اور یہ انسانیت کی سالمتی و فالح کا نیک طریقہ کار ہر حال میں اختیار کرو‪،‬‬
‫بیشک ا ﷲنیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے‪(195)،‬‬
‫اور اس نیک طریقہ کار کو قرانی ہللا کے بتائے اتمام حجت کی عالمی ساالنہ کانفرنس ‪/‬‬
‫حج اور بعد میں ہنگامی نوعیت کی مختصر کانفرنسیں ‪ /‬عمرہ میں دیگر حکام و نمائندوں‬
‫کے ساتھ مشاورت کے زریعے مکمل کرو‪ ،‬پھر اگر تم کو اس سالمتی و فالح کی نیک راہ‬
‫پر چلنے سے بعض کفار ظالموں کی طرف سے روکا جائے تو اس عظیم سالمتی و فالح‬
‫کے نظام کی بقاء کیلیئے جو شے بھی تم کو قربان کرنی پڑے تو کردو اور یہاں تک کہ‬
‫اپنے سر کے بالوں کو فراغت کے ساتھ اس وقت تک نہ سنوارو جب تک کہ تمہاری‬
‫قربانی اس نیک طریقہ کارکا عالی مقام نہ پالے اور تم قرانی مملکت کے زمہ داروں میں‬
‫سے جو کوئی کسی وجہ سے مسجد محترم سے دُور ہونے کی باعث زیادتی کرنے والے‬
‫کفار سے اس جنگ و مقابلے میں شریک نہ تھا یا بیمار تھا یا اُسے کوئی اور مسئلہ‬
‫درپیش تھا تو اس کے بدلے میں اب مرکز میں اُسے ُرکنا ہوگا اگر وہ کسی وجہ سے نہیں‬
‫ُرک سکتا اور وہ مالی طور پر مستحکم ہو تو اُسے مرکز و اسٹیٹ کو مظبوط کرنے‬
‫کیلیئے مالی امداد یعنی صدقہ دینا ہو گا یا کوئی اور طرح سے اپنی مالی قربانی مرکز‬
‫کیلیئے پیش کرنا ہو گی ‪ ،‬پھر جب تم جنگ کی کیفیت سے نکل کر اطمینان و امن کی حالت‬
‫میں آجاؤ تو جو کوئی ہنگامی کانفرنس عمرہ کو عالمی اتمام حجت کانفرنس حج کے طور‬
‫فائدہ دینا چاہے تو اس سلسلے میں اُسے جو بھی مالی قربانی میّسر آئے وہ پیش کرنا‬
‫زمانہ حج میں رک کر اپنی خدمات کو‬
‫ٴ‬ ‫ہوگی ‪،‬پھر جو یہ بھی نہ کر سکے تو اُسے تین دن‬
‫مرکز میں پیش کرنا ہوگا اور سات دن حج کے بعد حکام و نمائندوں کو واپس لوٹتے وقت‬
‫ان کی دیکھ بھال کیلیئے دینا ہونگے ‪ ،‬یہ پورے دس روز ہوئے‪ ،‬یہ رعایت اس کے لئے‬
‫ہے جس کے اہل و عیال مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں( یعنی جو مکہ کا رہنے واال‬
‫نہ ہو)‪ ،‬اور قرانی ا ﷲکے ان قوانین کی مخالفت سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ نافرمانی‬
‫کی صورتمیں قرانی ا ﷲاپنے مکافات عمل کے قانون کے تحت سخت عذاب دینے واال‬
‫ہے‪(196)،‬‬
‫حج یعنی تمام عالمی مسائل کے حجت اتمام کا مہینہ معین و معلوم ہے تو جو عالمی امن و‬
‫امان کے قیام کا مرکزی زمہ دار مومن شخص اس عظیم ماہ میں حج کی ڈیوٹی ادا کرنے‬
‫کی نیت کرلے تو ایک بار پھر اچھی طرح جان لے کہ حج کے دوران دن اور خاص کر‬
‫راتوں میں جو ڈیوٹی پر معمور ہو وہ عورتوں سے نہ اختالط کرے نہ کوئی ایسا کام کرے‬
‫کہ جس سے حج کے عظیم ماہ کے دوران کسی جنگ کا خطرہ پیدا ہو ۔ اور پھر اس ماہ‬
‫حج میں دن رات جو تمام عالمی مسائل کے حجت اتمام کا نیک کام تم کرو گے وہ قرانی‬
‫ہللا کو تمہارے خلوص عمل سے معلوم ہوجائے گا اور اس کیلیئے اس عظیم راہ میں زاد‬
‫راہ یعنی اپنا بلند کردار ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر فائدہ مند زاد راہ بلند کرداری ہی ہے‬
‫اور اے اہل عقل ہر پل قرانی ہللا کے احکام کی خالف ورزی سے ڈرتے رہو)‪(197‬‬
‫اس کا تمہیں کوئی ُجرم نہیں کہ حج کے خصوصی دنوں میں حج کی ڈیوٹی کے عالوہ‬
‫بذریعہ تجارت اپنے پروردگار سے اپنی مملکت کیلیئے روزی بھی طلب کرو اور جب‬
‫قرانی ہللا کے سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام کی معرفت کا یقینی علم عرفات پا لینے‬
‫کے بعد حج سے واپس ہونے لگو تو مشعر حرام یعنی حجت اتمام مسائل کے حل کی بابت‬
‫محترم باریک طریقوں کا ہر طرف خوب ذکر کرو اور اس طرح ذکر کرو جس طرح اس‬
‫قرانی ہللا نے تم کو تمہارے قدرتی حواس کے زریعے ادراک کرنا سکھایا ہے ۔ اور اس‬
‫سے پیشتر تم لوگ انسانیت کی بابت ان محترم طریقوں سے محض ناواقف تھے)‪(198‬‬
‫پھر جہاں اور تمام حج پر آنے والے حکمران و نمائندے لوگ واپس ہوں وہیں سے تم‬
‫قرانی زمہ داران بھی اپنی ڈیوٹی سے واپس ہو اور قرانی ہللا سے اپنے حج کے عمل کا‬
‫نتیجہ مانگو۔ بےشک قرانی ہللا عمل کے نتیجے کے تحت بخشنے واال اور رحمت کرنے‬
‫واال ہے)‪(199‬‬
‫پھر اے عالمی حکمران و نمائندو ‪ ،‬جب عالمی مسائل کی ساالنہ ُحجت اتمام کانفرنس یعنی‬
‫حج میں عالمی سالمتی و فالح کے تمام پہلوؤں کی دیکھ بھال کے لوازمات و زمہ داریوں‬
‫کو پوری کرچکو تو اب عالمی سالمتی و فالح کے قرانی ہللا کے قوانین کو اس طرح اپنے‬
‫مدنظر رکھو کہ جس طرح دور جہالت میں اپنے باپ دادا کے مزھب و مسلک اور طریقہ‬
‫کار پر شدّت سے عمل پیرا ہوا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔اور بعض ابن الوقت‬
‫مفاد پرست حکمران لوگ ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہم کو تمام عیش و آرام موجودہ‬
‫وقت میں ہی حاصل ہو جائیں پر افسوس کہ ایسے ناعاقبت اندیش جاہل حکمران لوگوں کا‬
‫اپنی آل و قوم کے بہترین مستقبل میں کچھ حصہ نہیں )‪(200‬‬
‫ساس و زمہ دار حکمران ایسے ہیں کہ جو خواہش و جستجو کرتے ہیں کہ‬ ‫اور بعض ح ّ‬
‫اے کائنات کو چالنے والے پروردگار ہم سب کو موجودہ وقت میں بھی تمام عیش و آرام و‬
‫نعمت بھری زندگی عطا فرما اور اسی طرح مستقبل میں بھی ہماری آل و قوم کو عیش و‬
‫آرام و نعمت بھری جنتی زندگی بخش اور غربت و جہالت کی دوزخ کے عذاب سے محفوظ‬
‫رکھ)‪(201‬‬
‫ساس حکمران لوگ ہیں جن کے لئے ان کے سالمتی بھرے کاموں کا حصہ‬ ‫یہی باعمل ح ّ‬
‫یعنی اجر نیک تیار ہے اور قدرت کا مکافات عمل سب سے جلد حساب لینے واال اور جلد‬
‫ان کے کاموں کا اجرو صلہ دینے واال ہے)‪(202‬‬
‫اور عالمی مسائل کی ساالنہ ُحجت اتمام کانفرنس یعنی حج کے انتہائی زمہ دارانہ دنوں‬
‫میں یہ بات بھی قرانی مرکز اچھی طرح سمجھ لے کہ اگر کوئی حکمران و نمائندہ کو‬
‫کسی وجہ سے دو ہی دن ‪ /‬مختصر وقت میں کانفرنس چھوڑ کر جانا پڑے تو وہ جا سکتا‬
‫ہے اُس پر کوئی پابندی نہیں اور جو کانفرنس ختم ہونے کے بعد اپنی مرضی سے ٹہرا‬
‫ساس حکمران شخص کے لئے ہیں‬ ‫رھے تو اس پر بھی کوئی پابندی نہیں ۔ یہ باتیں اُس ح ّ‬
‫جو اپنی رعایا کے بہترین مستقبل کی بابت قدرت کے مکافات عمل کے اٹل قانون سے‬
‫ڈرے اور اسی طرح بشمول مرکز تم تمام حکمران و نمائندے لوگ قدرت کے مکافات عمل‬
‫کے قانون سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم سب کو اگلے سال اپنے تمام اعمال کی‬
‫بابت یہاں عالمی مرکز میں جواب دینا ہو گا)‪(203‬‬
‫اور اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لو کہ کوئی حاکم شخص تو ایسی مسحور کُن باتیں‬
‫بنانے واال ہوتا ہے کہ جس کی گفتگو بظاہر زمانہ ء حال کی زندگی میں تم کو نہائیت‬
‫دلکش معلوم ہوتی ہے ( جیسے کہ آج سالمتی و فالح کے علم سے بے بہرہ تمام موجودہ‬
‫حکمران لوگ اپنی اپنی عوام کی فالح و بہبود کے بارے میں محض باتیں بناتے ہیں ‪،‬‬
‫بشمول یو این او اور وہ اپنی مانی الضمیر پر ‪ /‬بات بات پر اپنے مزھبی خداؤں کو بھی‬
‫گواہ بنا رہے ہوتے ہیں حاالنکہ وہ پڑھے لکھے مزھبی حکمران لوگ دراصل سب‬
‫انسانیت کی بہترین مستقبل کی عملی مخالفت کرنے والے سخت مزاج جاہل ترین لوگ‬
‫ہوتے ہے)‪(204‬‬
‫اور اچھی طرح جان لو کہ اس سب کی سالمتی و فالح کی عالمی حجت اتمام کانفرنس سے‬
‫ایسا مزھبی روائیت پسند انا پرست جاہل حکمراں جو پیٹھ پھیر کر چال جاتا ہے اور واپس‬
‫جاکر اپنی مملکت میں اپنے مفاد پرست ملوکیتی ابلیسی قوانین کو رائج رکھتا ہے تاکہ اس‬
‫طریقے سے اپنی عوام کو اپنا غالم بناتے ہوئے اُن میں بھوک و غربت کا فتنہ کھڑا‬
‫رکھے اور اُن کے بہترین خوشحال مستقبل کی کھیتی کو برباد اور انسانوں اور حیوانوں‬
‫کی نسل کو ترقی و فالح سے نابود کردے تو جان لو کہ قرانی ہللا ایسے انسان دشمن شر‬
‫انگیز فتنے کو بالکل پسندنہیں کرتا)‪(205‬‬
‫اور جب عوام پر اپنا حکم چالنے والے بدمست طاقت کے نشے میں ُچور حاکم سے کہا‬
‫جاتا ہے کہ قدرت کے قوانین کی خالف ورزی سے کچھ تو خوف کرو تو اس انا پرست و‬
‫مفاد پرست جاہل مطلق حاکم کو اپنی طاقت و حکومت کا غرور اسے مزید احساس برتری‬
‫و تکبر میں مبتال کر کے مجسم شیطان بنا دیتا ہے سو ایسے حاکم اور اسکی اطاعت گزار‬
‫عوام قدرت کے مکافات عمل کے تحت جہنم یعنی بھوک و غربت و افالس کے سزاوار‬
‫رہتے ہیں اور وہ تو واقعی بہت ہی بُرا ٹھکانہ ہے( کہ یہی دنیا کے تمام جرائم و فساد کی‬
‫جڑ بنیا د ہے)‪(206‬‬
‫سا س باشعور حاکم ایسا ہے کہ قدرت کے قوانین کی‬ ‫اور کوئی انسانیت سے لبریز ح ّ‬
‫اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے اپنے عوام کی فالح و بہبود و نشوء نما و ترقی کی‬
‫خاطر اپنی جان تک کو گ ُھال ڈالتا ہے اور ایسے حکمران اور اس کی عوام پر قدرت اور‬
‫اس کے قوانین اپنے مکافات عمل کے تحت بہت مہربان ہوتے ہیں (کہ اس معاشرے سے‬
‫بھوک و غربت و افالس کی جڑ بنیاد ختم ہوتی جاتی ہے)‪(207‬‬
‫تو اے امن و امان کی قرانی مملکت کے زمہ دار مومنو تم تمام انسانیت کی سالمتی و‬
‫فالح کے دین ‪ /‬نظام ‪ /‬سسٹم ‪ /‬طریقہ کار کو قائم کرتے ہوئے عملی طور پر پورے کے‬
‫پورے ایسے جنتی نظام میں داخل ہو جاؤ کہ جہاں کوئی کسی کی زرہ برابر بھی حق تلفی‬
‫نہ کر سکے اور اس عظیم جنت کو پانے کیلیئے شک سے پاک قرانی ہدایات کے عالوہ‬
‫کسی مشکوک شیطانی ہدایات و روایات کے پیچھے نہ چلو کہ یہ سب ہی تو انسانیت کی‬
‫سالمتی و فالح کے دین نظام کی ک ُھلی دشمن ہیں)‪(208‬‬
‫پھر اگر تم عالمی ضابطہ ء حیات کے اتنے واضح اور روشن احکام پہنچ جانے کے بعد‬
‫اپنی مفاد پرستی کی گھٹیا بشری صفات کی باعث اس سالمتی و فالح کے عظیم دین نظام‬
‫سے لڑکھڑا کر نیچے بھوک و افالس و تباہی کے جہنمی نظام میں گر جاؤ تو اسے اچھی‬
‫سی کو مظبوطی سے تھام کرہی تم نہ صرف‬ ‫طرح جان لو کہ قرانی ہللا کے قوانین کی ر ّ‬
‫تمام دنیاوی نظاموں پر غالب آ سکتے ہو بلکہ اس نظام کو ساری دنیا کے لئیے پُر حکمت‬
‫بناسکتے ہو)‪(209‬‬
‫تو اب سالمتی و فالح کی اس واضح ہدایات کے بعد کیا یہ انسانیت کی توہین کرنے والے‬
‫مفاد پرست حاکم اس بات کے منتظر ہیں کہ ان پر قدرت کے مکافات عمل کاعذاب اس‬
‫طرح اپنے قدرتی مقررہ وقت پر آموجود ہو جیسے کہ بادل سائبان بن کر آنازل ہو تے ہیں‬
‫؟ اور قدرت کی عظیم قوت و سیالب بن کر آنا فانا تمہارا کام تمام کردیتے ہیں ؟؟‬
‫تو اچھی طرح سمجھ لو کہ سب کی سالمتی و فالح کے حقیقی کاموں کا رجوع صرف اور‬
‫صرف قدرتی فطری قوانین کی پیروی و اطاعت کرنے میں ہی ہے)‪(210‬‬
‫اے سب کی سالمتی و فالح کا انقالبی قرانی نظام النے والے محمد ﷺ زرا اس بنی اسرائیل‬
‫قوم سے پوچھو کہ ہم نے تم سے پہلے اس قوم کو سالمتی و فالح کے علم سے بھری‬
‫کتنی کھلی ہدایات دی تھیں ؟پر جو ناعاقبت اندیش حکمران اپنے رب کی قدرتی نعمت ‪/‬‬
‫علم ‪ ،‬ضابطہ ء حیات ( تورات ) کو اپنے پاس آنے کے بعد مفاد پرستی کی غرض سے‬
‫بدل دیں تو قدرت کے مکافات عمل کے تحت دنیا میں بھوک و غربت کا سخت عذاب تو‬
‫پھر آنا ہی ہے)‪(211‬‬
‫اور جو حکمران لوگ سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام کے منکر یعنی کافر ہوتے ہیں‬
‫یہ دنیا اُن کے لئے انکی مفاد پرستی کی وجہ سے بظاہر خوشنما تو ضرور ہو جاتی ہے‬
‫اور اسی باعث وہ دنیا کو امن و سالمتی مہیا کرنے والے مومن لوگوں سے تمسخر بھی‬
‫کرتے ہیں لیکن یہ کافر و ظالم ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو باکردار باشعور حکمران لوگ ہیں‬
‫وہ مکافات عمل کے بروز احتساب ان کافر حکمران لوگوں پر غالب ہوں گے اور یہ بھی‬
‫یاد رکھیں کہ قدرت اور اس کے قوانین پر عمل کرنے والے حکمران لوگ جتنا چاہے بے‬
‫شمار رزق قدرتی طرز پر پالیتے ہیں ( کہ اس باعث ان پر کبھی بھوک و غربت کے عزاب‬
‫نہیں آیا کرتے)‪(212‬‬
‫اور تمہارے اس نام نہاد دور تمدن سے پہلے یعنی غیر تمدنی دور میں‪ ،‬سب انسانیت کا‬
‫زندگی بسر کرنے کا ایک ہی طریقہ کار تھا کہ اُس غیر تمدنی دور میں قدرت کی کسی‬
‫شے پر کسی انسان کا زاتی قبضہ قابل قبول نہیں تھا ‪ ،‬کیونکہ سیدھی سی بات ہے کہ‬
‫قدرت کی ہر شے آگ ‪ ،‬پانی ‪ ،‬ہوا ‪ ،‬زمین اور زمین کے اندر ہر قدرتی شے پر ہر انسان کا‬
‫برابری سے حق ہے‪ ،‬لیکن جب تمدن کے نام پر پڑھے لکھے جاہل لوگ ان قدرتی اشیاء‬
‫خاص کر " ہللا کی زمین " کے مالک بنے تو پھر آپس میں شدید اختالف کرنے لگے تو‬
‫قدرت نے انسانیت کی طرف دور تمدن کی حیوانیت سے باہر نکالنے کیلیئے بشارت دینے‬
‫والے اور ابلیسی ملوکیتی نظام کی عالمی تباہی کا ڈر سنانے والے انقالبی پیغمبر بھیجے‬
‫اور ساتھ ہی ان پر سالمتی و فالح کے حقیقی علم سے لبریز سچی کتابیں نازل کیں تاکہ‬
‫جس قسم کے نفسا نفسی کے گھٹیا امور میں یہ حیوان سے بدتر مفاد پرست حکمران‬
‫لوگ اختالف کرتے تھے ان کا ان میں فیصلہ کردے۔اور وائے افسوس کہ اس میں اختالف‬
‫بھی انہیں بد بخت بنی اسرائیل کے حکمران لوگوں نے کیا کہ جن کو جنتی زندگی گزارنے‬
‫والی کتاب دی گئی تھی باوجود یہ کہ ان کے پاس ضابطہ ء حیات کے کُھلے احکام آچکے‬
‫تھے اور یہ اختالف ان جاہلوں نے صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی آپس کی ضد‬
‫سے کیا تو جس امر حق کے بارے میں وہ اختالف کرتے تھے ‪ ،‬قدرت نے اپنی مہربانی‬
‫سے امن و سالمتی چاہنے والے زمہ دار مومنوں کو اس امر حق کی راہ دکھا دی۔ اور‬
‫حقیقت یہی ہے کہ جو قوم چاہے وہ قدرت اور اس کے اٹل قوانین پر عمل کر کے اپنی‬
‫زندگی کو بھرپور جنتی زندگی ہوتا دیکھ لے)‪(213‬‬
‫پر کیا تم عالمی سالمتی و فالح کا جنتی انقالب النے والے لوگو یہ خیال کرتے ہو کہ یوں‬
‫ہی بنا کسی محنت و مقابلہ کے اس نفسا نفسی کے جہنم سے نکل کر جنت میں داخل‬
‫ہوجاؤ گے ؟ نہیں کہ ابھی تم کو اس راہ حق میں پیش آنے والی پہلے لوگوں کی سی‬
‫مصیبتیں و مشکالت تو پیش آئی ہی نہیں کہ ان کو اس جہنمی دنیا کو جنت بنانے کیلیئے‬
‫بڑی بڑی سختیاں اور تکلیفیں اُٹھانی پڑیں تھیں اور وہ ہزار قسم کی زلتوں اور صعوبتوں‬
‫میں ہال ہال دیئے گئے ۔ یہاں تک کہ انقالبی پیغمبر اور اس کے ساتھ عمل پیرا زمہ دار‬
‫مومن لوگ تک سب پکار اٹھے کہ کب قدرت کے فطری قوانین پر عمل کرنے کا نتیجہ‬
‫آئے گا ؟ یاد رکھو کہ قدرت کے ہر عمل کا ایک وقت معین ہے جس کے مکمل ہوجانے پر‬
‫نتیجہ الزمی آتا ھے ( چاہے یہ دنیا ادھر سے اُدھر ہو جائے)‪(214‬‬
‫اے سب کی سالمتی و فالح کا انقالبی دین نظام النے والے محمد ﷺقرانی مملکت کے زمہ‬
‫دار لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ یعنی سب کی سالمتی و فالح کی راہ میں کس‬
‫طرح قرانی اسٹیٹ کا رزق و مال عوام کی فالح و بہبود پر خرچ کیا جائے ۔ تو اپنے زمہ‬
‫داران مملکت سے کہہ دو کہ عبوری ابتدائی دور میں قرانی اسٹیٹ کا جو رزق و مال خرچ‬
‫کرنا چاہو وہ درجہ بدرجہ اہل استحقاق یعنی ماں باپ اور قریب کے رشتے داروں کو اور‬
‫یتیم بے سہاروں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو سب ضرورت مندوں کو دو اور جو‬
‫سب کی سالمتی و فالح کی بھالئی تم اس طور قائم کرو گے تو قرانی ہللا صرف اس عمل‬
‫کے نتیجے کو ہی جانتا ہے)‪(215‬‬
‫تو اس طرح کا امن و امان بھرا و سب کی سالمتی و فالح کا دین نظام قائم کرنے والو‬
‫حقیقی مسلمانو )تم پر خدا کے رستے یعنی سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام میں‬
‫رکاوٹ ڈالنے والے مفاد پرست و سرمایہ پرست کافر حکمران لوگوں سے جنگ کرنا‬
‫فرض کردیا گیا ہے وہ ابتدائی طور پرتمہیں ناگوار تو ہوگا کہ اس میں اپنے سگوں سے‬
‫بھی ٹکرانا پڑ جائے گا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو ابتدا میں بُری لگے پر وہ‬
‫تمہارے حق میں بھلی ہو اور اسی طرح عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ‬
‫تمہارے لئے مضر ہو۔ اور ان سالمتی و فالح کی باتوں کو صرف قرانی ہللا ہی بہتر جانتا‬
‫ہے اور تم سادہ لوح کلچر کے فالوور ان باریک بیں باتوں کو فی الحال نہیں جانتے‬
‫)‪(216‬‬
‫اے محمد ﷺ اب قرانی مملکت کے زمہ دار لوگ یہ جاننے کے بعد کہ مفاد پرست و‬
‫سرمایہ پرست انسانیت کے دشمن حکمرانوں سے جنگ لڑنا فرض ہو گئی ہے تو وہ تم‬
‫سے عالمی مسائل کی حجت اتمام کانفرنس یعنی حج کے عزت والے مہینوں کے دوران‬
‫کہ جس میں عالمی حکمرانوں و نمائندوں کا اپنے مملکتی مسائل کے حل کیلیئےیہاں‬
‫مرکز میں قیام و آمدورفت ہو گا جنگ کے بارے میں دریافت کر رہے ہیں تو کہہ دو کہ‬
‫اس دوران میں جنگ لڑنا تو بڑا انسانیت کے لئیے نقصان دہ ہےاور یہ تو خدا کی راہ‬
‫یعنی سب کی سالمتی و فالح کی راہ سے انسانیت کو روکنے کے مترادف ہے اور یہ‬
‫انسانیت پر کفر یعنی ظلم کرنے کے برابر ہے اور سیدھا سیدھا مسجد محترم یعنی خانہ‬
‫کعبہ ‪ /‬یونائیٹیڈ ہیومن آرگنائزیشن میں انسانیت کی سالمتی و فالح چاہنے والے حکمران‬
‫و نمائندوں کی آمد کو روکنے کے لئیے بند کرناہے ۔ اور یو ایچ او کے منتظم اہل مسجد‬
‫کو اس میں سے نکال دینا ہے جو قرانی ہللا کے نزدیک سب سے بڑھ کر جرم ہے۔ اور یہ‬
‫ہر قسم کی فتنہ انگیزی خونریزی سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور یہ مفاد پرست ملوکیتی وی‬
‫آئی پی دین نظام چالنے والے حکمران لوگ ہمیشہ تم قرانی مملکت قائم کرنے والوں سے‬
‫جنگ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے سالمتی و فالح کے‬
‫عالمی دین نظام سے ہی پھیر دیں ( اور ابھی پھیرا ہوا بھی ہے ) ۔ تو جو کوئی حکمران‬
‫تم میں سے اپنے قرانی دین نظام سے پھر کر مفاد پرستی کی شیطانیت کے سبب کافر و‬
‫ظالم حکمران ہو جائے اور کافر ہی مرے تو ایسے عیاش لوگوں کے اعمال آج کے دور‬
‫اور مستقبل دونوں میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دنیا کو دوزخ میں لے جانے‬
‫والے ہیں کہ جس غیر قرانی دور میں دنیا والے ہمیشہ جہنمی بن کر رہیں گے)‪(217‬‬
‫جو لوگ سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام پر ایمان الئے اور قرانی ہللا کے دین نظام‬
‫کے قیام کی خاطر اپنا مادر وطن تک چھوڑ گئے اور سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام‬
‫کے قیام کیلیئے ظالم کفار حاکموں سے ڈٹ کر جنگ کرتے رہے وہی قرانی ہللا کی رحمت‬
‫کے حقیقی امیدوار ہیں۔ اور قرانی ہللا بخشنے واال اور رحمت کرنے واال ہے)‪(218‬‬
‫اے سالمتی و فالح کا دین نظام النے والے انقالبی پیغمبر لوگ تم سے مستحکم ابلیسی‬
‫نظام کی باعث اپنے غموں سے نجات پانے کے لئیے نشہ کرنے اور جلد امیر بننے‬
‫کیلیئے جوا کھیلنے کی بابت حکم دریافت کرتے ہیں ؟ ۔ کہہ دو کہ ان طریقوں میں‬
‫انسانیت کیلیئے نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے اس میں بظاہر کچھ وقتی فائدے بھی‬
‫ہیں مگر ان کے نقصان وقتی فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں‬
‫کہ قرانی ہللا کے سب کی سالمتی و فالح کی راہ میں کون سا مال و دولت خرچ کریں ؟ ۔ تو‬
‫واضح طور پر کہہ دو کہ جب قرانی فالحی مملکت میں زمین پر سب انسانوں کا حق‬
‫برابری کی بنیاد پر رکھا گیا ھے اور اس نظام میں قدرت کے عطا کردہ کسی قدرتی انعام‬
‫کو خریدا بیچا نہیں جا سکتا اور اُس کا مالک نہیں بنا جا سکتا تو پھر ضرورت سے زیادہ‬
‫زمین جائداد رکھنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا تو آخر پھر جمع کس لئیے کرنا ہے ؟؟ لہٰ ذا‬
‫جو مال و دولت ضرورت سے زیادہ ہو اُسے انسانیت کی ترقی و فالح کیلیئے خرچ کردو ۔‬
‫اس طرح قرانی ہللا تمہارے لئے اپنے احکام خوب کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم‬
‫سوچو کہ دنیا خوبصورت جنت کس طرح بن سکتی ہے)‪(219‬‬
‫اور ہمیشہ اپنے آج اور اپنی نسلوں کے مستقبل پر غور کیا کرو ۔ اور تم سے غریب بے‬
‫سدھار کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان کی حالت کی‬ ‫سہارا لوگوں کی ُ‬
‫اصالح کرنا بہت اچھا اور الزمی کام ہے۔ اور اگر تم ان سے مل جل کر رہنا چاہو تو وہ‬
‫انسانیت کے ناطے تمہارے بھائی ہی ہیں اور قرانی ہللا خوب جانتا ہے کہ دنیا میں خرابی‬
‫کرنے واال مفاد پرست ملوکیتی نظام کا خواہاں کون شیطانی انسان ہے اور سب کی‬
‫سالمتی و فالح کے دین نظام کے تحت تمام دُکھی انسانیت کی اصالح کرنے واال کون بلند‬
‫کردار انسان ہے ۔ اور اگر پھر بھی تم قرانی ہللا کی خالف ورزی کر کے خود کو جہنمی‬
‫تکلیف میں ڈالے رکھو تو تم ایسا کرنے میں آزاد ہو ۔بےشک قدرت کے قوانین ہر حال‬
‫میں غالب اور حکمت والے ہیں)‪(220‬‬
‫اور سب کی سالمتی و فالح کے قرانی نظام کے زمہ دار مومنو ۔تم اوالد کے حصول‬
‫کیلیئے سرمایہ پرست ظالمانہ نظام کی خواہاں( مشرک ) عورتوں سے اُس وقت تک جب‬
‫تک کہ وہ عالمی سالمتی و فالح کے دین نظام پر دل کی گہرائی سے ایمان نہ الئیں اپنی‬
‫زندگی کا شریک سفر بنانے کیلیئے اُن سے نکاح نہ کرنا ۔ کیونکہ ایسے نظام کی خواہاں‬
‫مشرک عورت خواہ تم کو کیسی ہی بھلی لگے اس سے انتہائی بہتر وہ سالمتی و فالح پر‬
‫اپنا ایمان رکھنے والی ماتحت عورت ہے جو دور جہالت میں جنگ کے دوران تمہارے‬
‫قبضہ میں آئی تھی ۔اور اسی طرح سرمایہ پرست انسان دشمن ظالمانہ نظام کے خواہاں‬
‫مشرک مرد جب تک سب کی سالمتی و فالح کے عالمی دین نظام پر ایمان نہ الئیں مومن‬
‫عورتوں کو کبھی خود کو ان کو زوجیت میں نہ دینا چاہئیے کیونکہ ایسا مشرک مرد خواہ‬
‫تم کو کیسا ہی بھال لگے اس سے انتہائی بہتر وہ سالمتی و فالح کے دین نظام پر ایمان‬
‫رکھنے واال ماتحت مرد ہے جو دور جہالت میں جنگ کے دوران تمہارے قبضہ میں آیا تھا‬
‫۔ یہ سرمایہ پرست و مفاد پرست مشرک لوگ اپنی پیدا ہونے والی اوالد کو انسان دشمن‬
‫سرمایہ پرستی کےجہنمی نظام کی طرف بالتے ہیں۔ جبکہ قرانی ہللا تمہیں اور تمہاری‬
‫اوالد سب کو مہربانی سے عالمی سالمتی و فالح کے جنتی زندگی بخش نظام کی طرف‬
‫بالتا ہے۔ اور اپنے سالمتی و فالح کے حکم لوگوں سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ‬
‫نصیحت حاصل کریں)‪(221‬‬
‫اور ایسے بھی لوگ ہیں جو تم سے نکاح کے بعد اوالد کے حصول کیلیئے حیض کے‬
‫دوران مباشرت کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ وقت تو مباشرت کیلیئے‬
‫نجاست و نامناسب ہے ۔ سو ایام حیض میں عورتوں سے مباشرت کیلیئے کنارہ کش رہو۔‬
‫اور جب تک وہ حیض سے پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔ ہاں جب پاک ہوجائیں‬
‫تو جس قدرتی طریق سے قرانی ہللا اوالد دینا چاہتا ہے ان کے پاس جاؤ۔ کچھ شک نہیں‬
‫کہ قرانی ہللا غلطی کرنے سے ُرک جانے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو اپنا دوست‬
‫رکھتا ہے)‪(222‬‬
‫اور اچھی طرح سمجھ لو کہ حیض کے بعد تمہاری عورتیں مثالی طور پر تمہاری کھیتی‬
‫ہیں تو اپنی کھیتی میں بیج بونے کیلیئے جس طرح چاہو اور جب چاہو جاؤ ۔ اور اس طرح‬
‫اوالد پانے کی خواہش کو آگے بھیجو ۔ اور قدرت کے مکافات عمل کی خالف ورزی کرنے‬
‫سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ ایک خاص مقررہ وقت میں تمہیں اپنے ہر عمل کیلئیے‬
‫جوابدہ ہونا ہے اور اے انقالبی پیغمبر سب کی سالمتی و فالح پر ایمان رکھنے والوں کو‬
‫سب کی سالمتی و فالح بھری جنتی زندگی کی بشارت سنا دو)‪(223‬‬
‫اور سب کی سالمتی و فالح کی قرانی اسٹیٹ کے زمہ دارو اچھی طرح جان لو کہ قرانی‬
‫اسٹیٹ میں تم اس بات کا مزھبی حیلہ نہ بنانا کہ ہللا کے نام کی مزھبی انداز میں عیارانہ‬
‫قسمیں کھا کھا کر انسانیت سے بہترین عملی سلوک کرنے اور اُن سے بلند کردار و عمدہ‬
‫اخالق سے پیش آنے اور لوگوں میں صلح و سازگاری کرانے سے ُرک جاؤ۔ تو پھر‬
‫سمجھ لینا کہ قدرت کے مکافات عمل سے تم بچ نہیں پاؤ گے کہ قرانی اسٹیٹ اپنی مؤثر‬
‫حکمت عملیوں کی باعث سب کچھ سنتی اور جانتی ہے)‪(224‬‬
‫نیز قرانی ہللا کی عمل دار اسٹیٹ میں تمہاری بے دلی سے بے مقصد ‪ /‬عادتا لغو قسموں‬
‫پر تم سے کوئی مواخذہ نہ کیا جائے گا۔ لیکن ہاں جو قسمیں تم قصد دلی سے کسی مقصد‬
‫کو مدنظر رکھتے ہوئے کھاؤ گے ان پر تم سے اسٹیٹ ضرور مواخذہ کرے گی ۔ اور‬
‫سمجھ رکھو کہ قرانی اسٹیٹ تو تمہاری معمولی لغزشوں کو نظر انداز کرنے والی ہے کہ‬
‫جس کے پیش نظر ہر دم انسانیت کی حفاظت و نگہداشت ہے)‪(225‬‬
‫اب تمہید کے بعد مقصد کی بات کی طرف آؤ کہ جو لوگ کسی بھی وجہ سے اپنی عورتوں‬
‫کے پاس جانے سے قسم کھالیں تو انہیں چاہئیے کہ وہ قرانی اسٹیٹ کو مطلع کرتے‬
‫ہوئے چار مہینے تک انتظار کریں ۔ کہ اگر اس عرصے میں وہ رجوع کرلیتے ہیں تو‬
‫قرانی اسٹیٹ اُنہیں سالمتی و فالح بخشنے والی مہربان مملکت ہے)‪(226‬‬
‫اور اگر وہ طالق یعنی ایک دوسرے سے جدا ہونے کا حتمی ارادہ کرلیں تو بھی قرانی‬
‫مملکت کو اس بارے میں مطلع کریں کہ قرانی اسٹیٹ مسائل سن سمجھ کر اُن کے بہترین‬
‫حل کو جانتی ہے)‪(227‬‬
‫اور قرانی اسٹیٹ میں طالق یعنی شوہر اور بیوی کے جدا ہونے کے طریقہ کار کے تحت‬
‫عورتیں خود کو تین حیض آنے تک شوہر سے جدا ہونے سے روکے رہیں ۔ اگر وہ قرانی‬
‫اسٹیٹ کے احکام اور اپنے مستقبل پر ایمان رکھتی ہیں تو انہیں جائز نہیں ہو گا کہ قدرت‬
‫نے جو کچھ ان کے شکم میں پیدا کیا ہے وہ اس کو چھپائیں۔ اور ان کے خاوند اگر پھر‬
‫موافقت چاہیں تو اس عدت کی مدت میں وہ بیوی کی رضامندی سے ان کو اپنی زوجیت‬
‫میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں کہ قرانی اسٹیٹ میں عورتوں کا حق مردوں پر ویسا‬
‫ہی ہے جیسے دستور کے مطابق مردوں کا حق عورتوں پر ہے۔ البتہ مردوں کو عورتوں‬
‫پر یہ فضیلت ضرور ہے کہ ان کے لئیے عدت کی مدت کی قید نہیں ہے ۔‬
‫تو اچھی طرح جان رکھو کہ قرانی ہللا کے فطری احکام پر عملدار اسٹیٹ کے احکام تمام‬
‫انسانیت پر انکی سالمتی و فالح کے لئیے غالب اور صاحب حکمت ہیں)‪(228‬‬
‫طالق یعنی میاں بیوی کے جدا ہونے کے طریقہ کی آزمائش قرانی اسٹیٹ کی جانب سے‬
‫زیادہ سے زیادہ دو بار ہے ( یعنی ‪ 3‬حیض ‪ + 3‬حیض ‪ = 6‬حیض کی ُمدّت تک بیوی کو‬
‫شوہر کے پاس ُرکنا ہو گا کہ آیا میاں بیوی واقعی ایک دوسرے سے ُجدا ہونا چاہتے ہیں‬
‫یا وقتی طور پر جزبات ان دونوں کی عقلوں پر حاوی ہیں ؟ کہیں بعد میں انہیں ُجدا ہونے‬
‫کا پچھتاوا تو نہیں ہو گا ؟ تو جب دو طالق یعنی ‪ 6‬حیض کی آزمائشی ُمدّت شوہر کے‬
‫گھر میں ایک ساتھ رہتے ہوئے مکمل ہو جائے تو اس آزمائیش کے بعد اب دونوں‬
‫المحالہ کسی ایک بات پر متفق ہوں گے کہ یا تو آئندہ زندگی میں ان کا ایک ساتھ رہنا‬
‫بہتر رہے گا یا پھر ایک دوسرے سے جدا ہونا بہتر رھے گا ‪ ،‬تو پھر اس باہمی رضامندی‬
‫کے تحت عورتوں کو یا تو بطریق شائستہ نکاح ‪ /‬پُختہ معاہدہ میں رہنے دینا ہو گا یا پھر‬
‫انہیں باعزت با وقار طور پر بھالئی کے ساتھ نکاح فسخ کر کے فارغ کر دینا ہو گا ۔ اور‬
‫یہ جائز نہیں ہو گا کہ نکاح کے وقت جو مہر تم بیویوں کو انکے شوہروں سے دلوا‬
‫چکے ہو اس میں سے شوہر کے لئیے کچھ واپس لے لو۔ ہاں اگر زن و شوہر کو خوف‬
‫ہو کہ وہ خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے اور مہر و مال کی بابت آپس میں‬
‫جھگڑ پڑیں گے تو اگر عورت نکاح سے رہائی پانے کے بدلے میں شوہر کے دئیے گئے‬
‫مال میں سے افہام و تفہیم کے زریعے کچھ شوہر کو واپس دے ڈالے تو دونوں پر کوئی‬
‫ُجرم نہیں۔ اچھی طرح جان لو کہ یہ قرانی اسٹیٹ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے باہر‬
‫نہ نکلنا۔ اور جو لوگ قرانی اسٹیٹ کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے وہ اسٹیٹ کے جرم‬
‫دار ہوں گے)‪(229‬‬
‫قرانی اسٹیٹ کے قانون کے تحت اگر شوہر دو طالقوں کے بعد تیسری طالق بیوی کو دے‬
‫دے ( تیسری طالق میں عدّت کی آزمائیشی مدت نہیں ہے ) تو اس کے بعد جب تک عورت‬
‫کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اس پہلے شوہر پر حالل نہ ہوگی جب تک کہ‬
‫دوسرا خاوند بھی اُسی طرح اسٹیٹ کے مندرجہ باال مقررہ قانون طالق کے تحت اس‬
‫عورت کو طالق نہ دے دے اور عورت اور اس کا پہال خاوند پھر اگر آئندہ زندگی کیلیئے‬
‫ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں تو ان پر کوئی جرم عائد نہیں ہو گا بشرطیکہ دونوں‬
‫یقین دالئیں کہ اب قرانی اسٹیٹ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ اسٹیٹ کے قوانین‬
‫کی حدیں ہیں ان کو اُن باوقار لوگوں کے لئے بیان فرمایا گیا ہے جو انسانیت کی سالمتی‬
‫و فالح کی بابت عقل و دانش رکھتے ہیں)‪(230‬‬
‫اور سالمتی و فالح کے دین نظام کے زمہ دارو جب تم عورتوں کو دو دفعہ طالق کا حکم‬
‫دے کر ان کے درمیان علیحدہ ہونے کیلیئے عدت کی آزمائیشی مدت پوری کروا چکو تو‬
‫تمہیں حتمی طور پر معلوم ہو جائے گا کہ آیا آئندہ زندگی میں یہ دونوں واقعی مل کر رہ‬
‫سکتے ہیں یا ایک دوسرے سے ُجدا ہونا ہی ان کے حق میں بہتر ہے تو قرانی طالق کے‬
‫طریقہ کار کی سبب اچھی طرح باور ہونے پر اب یا تو انہیں حسن سلوک سے نکاح‬
‫معاہدہ میں رہنے دو یا نکاح کو فسق کر کے بطریق شائستہ ایک دوسرے سے رخصت‬
‫کردو اور خیال رہے کہ اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہئے کہ انہیں‬
‫زبردستی ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور کر کے انہیں زہنی و جسمانی تکلیف دو‬
‫اور اس طرح ان پر جبر و زیادتی کی حکومت کرو۔ تو جو ایسا کرے گا وہ اپنا ہی نقصان‬
‫کرے گا اور حکومت کرتے ہوئےکبھی سب کی سالمتی و فالح کے قرانی ہللا کے احکام‬
‫کو ہنسی اور کھیل نہ بناؤ جیسا کہ دین سے ہٹ کر مزھبی جنونی جزباتی لوگ بناتے ہیں‬
‫اور قرانی ہللا نے تم زمہ داران کو جو قدرتی فطری قوانین پر مشتمل نعمتیں بطور کتاب‬
‫بخشی ہیں جس میں کہ عقل و دانائی کی عمدہ ترین باتیں نازل کی گئی ہیں جن سے وہ‬
‫تمہیں نصیحت فرماتا ہے ان کو فیصلے کرتے وقت ہر دم اپنے پیش نظر رکھو ۔ اور قدرت‬
‫کے قوانین کی خالف ورزی سے ڈرتے رہو اور جان رکھوکہ قدرت کا مکافات عمل ہر چیز‬
‫سے واقف ہے)‪(231‬‬
‫اور جب تم عورتوں کو طالق دلوا چکو اور ان کی آزمائیشی مدت ‪ /‬عدت پوری ہوجائے تو‬
‫اب ان کو ان کی پسند کے دوسرے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر‬
‫راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے مت روکو۔ اس حکم سے ہر اس زمہ دار شخص کو‬
‫نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں قدرت کے اٹل قوانین پر عمل کے زریعے فالح و سالمتی‬
‫کی حکومت کےبہترین مستقبل پر یقین رکھتا ہے۔ یہ تم زمہ داروں کے لئے نہایت خوب‬
‫اور بہت پاکیزگی کی بات ہے اور قدرت ہر عمل کے نتیجے کو جانتی ہے اور تم نہیں‬
‫جانتے)‪(232‬‬
‫اور قدرت کے قانون کے طور پر مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پالئیں یہ حکم‬
‫اس شخص کے لئے بھی ہے جو طالق ‪ /‬علیحدگی ہو جانے کے بعد پوری دو سال کی‬
‫مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پالنے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا فی الحال دستور‬
‫کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا ۔ کوئی بھی شخص اپنی برداشت کی طاقت سے زیادہ‬
‫تکلیف نہیں اُٹھا سکتا تو یاد رکھو کہ نہ تو ماں کے مستقبل کو اس کے بچے کے سبب‬
‫نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اوالد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور‬
‫اسی طرح دستور کے مطابق نان نفقہ بچے کے وارث کے ذمے ہے۔ اور اگر دونوں ماں‬
‫باپ آپس کی رضامندی اور صالح سے بچے کا دودھ ماں سے چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ‬
‫جرم نہیں۔ اور اگر تم زمہ داران اپنی مملکت میں ایسے بچے کو کہ جس کا دودھ چھڑایا‬
‫جا چکا ہو کسی دوسری ماں عورت سے دودھ پلوانا چاہو تو تم پر بھی کچھ جرم نہیں‬
‫بشرطیکہ تم زمہ داران دودھ پالنے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے‬
‫دینے کا وعدہ کرو انہیں دے دو اور تم زمہ داران ہر وقت قدرت کے قوانین کی مخالفت‬
‫سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم انسانیت کی سالمتی و فالح کے نام پر کرتے‬
‫ہو قدرت کا مکافات عمل اس کو دیکھ رہا ہے)‪(233‬‬
‫اور تمہاری سالمتی و فالح کی قرانی اسٹیٹ میں جو شوہر لوگ کسی وجہ سے مرجائیں‬
‫اور اپنی بیوہ عورتیں چھوڑ جائیں تو ایسی بیوہ عورتیں چار مہینے دس دن اپنے آپ کو‬
‫دوسرے نکاح سے روکے رہیں تا کہ یہ آزمائشی مدت ‪ /‬عدت پوری ہونے پر معلوم ہو‬
‫سکے کہ پیٹ میں پہلے شوہر کا نطفہ ہے یا نہیں ‪ ،‬تو پھر اس کے بعد اپنے حق میں‬
‫پسندیدہ کام یعنی نکاح کرلیں تو ان پر بعد میں پیدا ہونے والی اوالد کی نسبت کوئی ُجرم‬
‫نہیں ہو گا ۔ اور قدرتی قوانین کو فالو کرنےوالی اسٹیٹ سب انسانی قدرتی جزبات سے‬
‫واقف ہے)‪(234‬‬
‫نیز تم قدرتی قوانین پر عمل درامد کرنے والی اسٹیٹ کے زمہ داران انسانی قدرتی جزبات‬
‫سے واقفیت کی بنا پر معاشرے میں ایسی بیواؤں کے نکاح کرانے کی زمہ داری اُٹھاتے‬
‫ہوئے اُنہیں نہائیت باوقار انداز میں ان کی شخصیت کے مطابق مناسب مرد سے نکاح کا‬
‫پیغام بھیجیں یا اُن سے اپنے نکاح کی بھی خواہش کو مناسب وقت پر ظاہر کرنے تک‬
‫چھپائے رکھیں تو تم زمہ داران پر کوئی ُجرم نہیں۔اور قدرتی قوانین کو فالو کرنے والی‬
‫اسٹیٹ کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ بیواؤں سے اُن کے نکاح کرنے کی خواہش کی بابت‬
‫مکمل معلومات رکھیں ۔ مگر ایام عدت میں معاشرتی چلن کے مطابق تم زمہ داران اُن‬
‫سے نکاح کی بابت کوئی بات ازراہ اطالع کہہ دو تو کوئی حرج نہیں لیکن اس دوران‬
‫اسٹیٹ کی جانب سے بیواؤں سے پس پردہ کسی سے نکاح کرنے کے بارے میں کوئی‬
‫قول واقرار طے نہ کرنا ۔ مختصر یہ کہ جب تک پیٹ میں نطفے کی بابت عدت پوری نہ‬
‫ہولے ان سے کسی نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا۔ اور جان رکھو کہ انسانیت کی سالمتی و‬
‫فالح کے بارے میں جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے قدرت کو سب معلوم ہے تو قدرتی‬
‫قوانین کی خالف ورزی سے ڈرتے رہو کہ قدرت انجانے میں معمولی غلطیوں کو بخشنے‬
‫والی اور برداشت کرنے والی ہے)‪(235‬‬
‫اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم سالمتی و فالح کی اسٹیٹ کے زمہ داران ‪ ،‬نکاح معاہدہ ہونے‬
‫کے بعد عورتوں کو رخصتی سے پہلے یا ان کا مقرر کردہ مہر دینے سے پہلےان فریقین‬
‫کے درمیان کوئی مسئلہ ہونے کے سبب نکاح فسخ کر کے طالق دلوا دو تو تم زمہ داران‬
‫پر کوئی ُجرم نہیں۔ ہاں اس طرح کی مطلقہ عورتوں کو دستور کے مطابق ( نکاح کے‬
‫دوران مالی اخراجات ہونے کی باعث ) اُنہیں کچھ خرچ ضرور دلوا دو یعنی حیثیت کے‬
‫مطابق مقدور واال اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپنی حیثیت کے مطابق۔ خیال‬
‫رہے کہ نیک باکردار لوگوں پر اس خرچ کا ادا کرنا ایک طرح کا حق ہے)‪(236‬‬
‫اور اگر صورتحال ایسی ہو کہ ان فریقین کے درمیان کوئی مسئلہ ہونے کے سبب تم زمہ‬
‫داران ‪ ،‬نکاح معاہدہ ہونے کے بعد عورتوں کو رخصتی سے پہلے نکاح فسخ کر کے‬
‫طالق دلوا دو لیکن عورتوں کو مقرر کردہ مہر ادا کروا چکے ہو تو اب آدھا مہر واپس‬
‫مردوں کو دلوانا ہوگا۔ ہاں اگر عورتیں اپنا لیا ہوا پورا مہر واپس کر دیں یا مرد جن کے‬
‫ہاتھ میں عقد نکاح ہے اپنا آدھے مہر کا حق چھوڑ دیں تو کوئی مزائقہ نہیں اور پورا مہر‬
‫دے دیں تو ان کو اختیار ہے ‪ ،‬اور اگر تم زمہ داران ‪ ،‬مرد لوگوں سے ان مطلقہ عورتوں‬
‫اعلی کردار کی بات‬
‫ٰ‬ ‫اعلی ظرفی و‬
‫ٰ‬ ‫کیلیئے اپنا حق ُچھڑوا دو تو یہ اُن مردوں کیلیئے بڑے‬
‫ہے۔ یاد رکھو کہ کبھی افہام و تفہیم سے معامالت حل کرنے میں آپس میں ایک دوسرے‬
‫سے احسان و بھالئی کرنے کو فراموش نہ کرنا۔ کچھ شک نہیں کہ قدرت مکافات عمل‬
‫کے قانون کے تحت تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہی ہے)‪(237‬‬
‫قرانی مملکت کے زمہ دارو ہر حال میں قدرتی رزق و وسائل کی برابری سےتقسیم کاکا‬
‫نظام جاری رکھو خصوصا سب کی سالمتی و فالح کے بنیادی دین نظام کے قیام کا حق‬
‫پورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو۔ اور اس مقصد کیلیئے ہمیشہ قدرت کے زیل قوانین‬
‫کے آگے پیروی کی غرض سے مستعد کھڑے رہا کرو)‪(238‬‬
‫اگر تم دشمنوں سے جنگ کی باعث قرانی نظام پر بھرپور عمل نہ کر سکنے کے خوف‬
‫کی حالت میں مبتال ہو جاؤ تو پیادے یا سوار جس حال میں جتنا بھی ہو سکے قدرتی رزق‬
‫و وسائل کی تقسیم کا عمل جاری رکھو پھر جنگ ختم ہونے کے بعد جب امن واطمینان‬
‫ہوجائے تو جس طریق سے قرانی ہللا نے تم کو سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام کے‬
‫مستحکم قیام کی بابت سکھایا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے اُسی قدرتی طریقے سے‬
‫کام کرو)‪(239‬‬
‫اور جو لوگ تم میں سے جنگ کے دوران کام آجائیں اور اپنے پیچھے عورتیں چھوڑ‬
‫جائیں تو ایسی عورتوں کے حق میں وصیت کی جاتی ہے کہ کم از کم ایک سال تک قرانی‬
‫مملکت ان کی دیکھ بھال کرےاور اس سے پہلے انہیں شوہروں کے گھر وں سے نہ نکاال‬
‫جائے ۔ ہاں اگر وہ( عدت کی مدت پوری کر کے )خود گھر سے نکل جائیں اور اپنے حق‬
‫میں پسندیدہ کام یعنی کسی سے باہمی رضامندی سے نکاح کرلیں تو تم زمہ داران پر کچھ‬
‫گناہ نہیں۔ اور قرانی ہللا زبردست حکمت واال ہے)‪(240‬‬
‫اور قرانی مملکت کو مطلقہ عورتوں کو بھی وقت کے تقاضے کے مطابق نان و نفقہ دینا‬
‫چاہیئے ‪ ،‬باکردار زمہ دار‬
‫لوگوں پر یہ بھی حق ہے)‪(241‬‬
‫اسی طرح قرانی ہللا اپنے احکام تمہارے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو)‪(242‬‬
‫بھال تم قرانی حکمرانوں نے بنی اسرائیل کے ان حکمران لوگوں کو نہیں دیکھا جو شمار‬
‫میں بظاہر ہزاروں ہی تھے اور وہ اپنے باطل انسان دشمن نظام کی وجہ سے اپنی موت‬
‫سامنے دیکھ کر اپنے بنائے مظبوط و محفوظ ترین قلعہ نما گھروں سے ڈر کر نکل‬
‫بھاگے تھے۔ تو زہنی طور پر ُمردہ لوگوں کیلیئے قدرت کا قانون ہے کہ اگر موت کا مقابلہ‬
‫کرو گے تو ہی زندہ رہو گے ورنہ موت تمہارا مقدر تو ہے ہی اور پھر اس ُمردہ قوم کو‬
‫ضابطہ ء حیات پر عمل کی سبب زندہ قوم بھی کردیا۔ کچھ شک نہیں کہ سب کی سالمتی و‬
‫فالح پر مشتمل قدرت کے قوانین پر عمل ہی انسانیت کی بقاء کی ضمانت ہیں ۔ لیکن دنیا‬
‫کے اکثر لوگ ان انمول قوانین پر عمل کر کے قدرت کا شکر ادا نہیں کرتے)‪(243‬‬
‫تو قرانی مملکت کے زمہ دارو اب تم قران عظیم ‪ /‬ضابطہ ء حیات کے زریعے خدا کی راہ‬
‫یعنی سب انسانیت کی سالمتی و فالح کی راہ کے قیام کی جدو جہد کا آغاز کرو اور اچھی‬
‫طرح جان رکھو کہ قدرت تمہارے ہر عمل کے اجر کو اچھی طرح جانتی ہے کہ تمہارے‬
‫کسی بھی عمل کا نتیجہ کیا ہو گا)‪(244‬‬
‫اب کوئی ہے کہ قدرت کو اپنے خلوص عمل کا قرض حسنہ دے تا کہ وہ اس کے بدلے‬
‫اس کو کئی حصے زیادہ اجر و صلہ دے سکے ؟ جان رکھو کہ قدرت کے مکافات عمل‬
‫کے اٹل قوانین کے تحت ہی تمہاری زندگی کی ابتری اور بہتری کا دارومدار ہے ۔ اور آخر‬
‫کارتمام انسانیت کو انہی قوانین فطرت کی طرف لوٹ کر آنا ہو گا)‪(245‬‬
‫بھال تم قرانی سالمتی و فالح کے زمہ داران کیا بنی اسرائیل کی جماعت سے واقف نہیں‬
‫موسی سے جزباتیت کی رو میں بہتے‬‫ٰ‬ ‫ہو کہ جس نے انقالبی پیغام النے والے پیغمبر‬
‫ہوئے کہا تھا کہ آپ ہمارے لئے ہر مقام پر ایک رہنما مقرر کردیں تاکہ ہم سالمتی و فالح‬
‫کی راہ میں ہر انسان دشمن رہنما کے خالف ہر ممکن جدوجہد جاری رکھ سکیں ۔ پیغمبر‬
‫نے کہا کہ اگر تم کو اُن سے جہاد کا حکم دیا جائے تو عجب نہیں کہ تم اس کوشش کے‬
‫آخری مرحلہ یعنی انسانیت کے دشمن رہنماؤں ( جالوت ) سے جنگ کی حد تک آنے سے‬
‫پہلو تہی کرو۔ تو وہ اپنے انقالبی پیغمبر سے کہنے لگے کہ ہم سب کی سالمتی و فالح کی‬
‫راہ خدا میں کیوں ان انسان دشمن رہنماؤں سے نہ لڑیں گے جب کہ ہم انہی انسان دشمن‬
‫رہنماؤں کی وجہ سے ہی تو امن و سالمتی رکھنے والے وطن سے خارج ہو کر طاغوتی‬
‫نظام کی گرفت میں جکڑے پڑے ہوئے ہیں اور اسی باعث اپنے بال بچوں کی انسانیت‬
‫سے لبریز شاندار اجتماعی تربیت سے جدا ہوئے پڑے ہیں ۔‬
‫لیکن جب ان کو طاغوتی نظام کے رہنماؤں ( جالوت ) کے خالف بھرپور کوششوں کا حکم‬
‫دیا گیا تو چند اشخاص کے سوا سب اپنے قول و قرار سے پھر گئے۔ اور قدرت تو ظالموں‬
‫سے خوب واقف ہی ہے کہ ظلم کا نظام خاموشی سے سہنے والے بھی حقیقت میں ظالم‬
‫ہی ہوتے ہیں)‪(246‬‬
‫اور پیغمبر نے ان سے کہا کہ قدرت تو تم پر انسان دوست رہنما طالوت کو مقرر دیکھنا‬
‫چاہتی ہے۔ وہ بولے کہ اُسے ہماری رہنمائی کا حق کیونکر ہوسکتا ہے ؟ اس کے مستحق‬
‫تو ہم دولت مند رہنما لوگ ہیں اُس کے پاس تو بہت سی دولت بھی نہیں۔ پیغمبر نے کہا کہ‬
‫قدرت نےاُس انسان دوست رہنما کو تم دولت مندوں پر فضیلت دی ہے اور رہنمائی کے‬
‫لئیے منتخب فرمایا ہے یعنی اس نے اسے بہت سا انسان دوست علم بخشا ہے اور ساتھ‬
‫قدرتی صحت سے ماال مال تن و توش بھی ۔ اور قدرت کے قوانین پر جو رہنما چاہے چل‬
‫کر انسانیت کی رہنمائی کر لے کہ قدرت کے قوانین بڑا کشائش والے اور حکمت والے‬
‫ہیں)‪(247‬‬
‫اور انقالبی پیغمبر نے ان سے کہا کہ ان رہنماؤں کی رہنمائی کی تمثیلی نشانی یہ ہے کہ‬
‫وہ تمہارے پاس قدرت کے عطا کردہ آئین و سپریم الء رکھے جانے کا حامل ایک‬
‫خوبصورت باکس الئیں گے جس کو فرشتہ صفت بے ضرر انسان اٹھائے ہوئے ہوں گے‬
‫اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے انسانیت کو تمام مسائل سے نکالنے والی تسلی‬
‫موسی اور ہارون پہلے‬
‫ٰ‬ ‫بخش ہدائیت ہوگی اور کچھ سابقہ تصدیقات بھی ہوں گی جو‬
‫ہدائیت کی صورت چھوڑ گئے تھے۔ اگر تم قدرتی فطری قوانین کے مکافات عمل پر ایمان‬
‫رکھتے ہو تو یہ آئین و سپریم الء اور اس کا شاندار باکس تمہارے لئے ایک بڑی نشانی‬
‫ہے)‪(248‬‬
‫غرض جب رحمانی قوت کا رہنما طالوت اپنی فوج لے کر طاغوتی قوت کے رہنما جالوت‬
‫سے جنگ کیلیئے روانہ ہوا تو اس نے لشکر میں اپنے حکم کی اطاعت اور نظم و ضبط‬
‫جاننے کیلیئے کہا کہ قدرت تم سے بطورعسکری قوت ایک آزمائش چاہتی ہے۔ کہ جو‬
‫شخص اس نہر میں سے پانی پی لے گا وہ میرا نہیں۔ اور جو نہ پئے گا وہ میرا ہے۔ ہاں‬
‫اگر کوئی ہاتھ سے چلو بھر پانی پی لے تو خیر جب لشکر نہر پر پہنچا تو اُن میں سے‬
‫چند مطیع مومنوں کے سوا سب نے پانی پی لیا ۔ پھر جب طالوت اور مومن لوگ جو اس‬
‫کے ساتھ تھے نہر کے پار ہوگئے ۔ تو اپنی قیادت کے حکم کی پامالی کرنے والے یعنی‬
‫نہر سے پانی پینے والے لوگ کہنے لگے کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر سے‬
‫مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ۔ تو قدرت کے قوانین پر ایمان رکھنے والے مومن لوگ جو‬
‫یقین رکھتے تھے کہ ان کو قدرت کے مکافات عمل کے تحت اپنے ہر عمل کا جواب دینا‬
‫ہے وہ کہنے لگے کہ بسااوقات تھوڑی سی جماعت بھی نظم و ضبط پر عمل کرتے ہوئے‬
‫قدرت کے قانون کے تحت بڑی جماعت پر فتح حاصل کر سکتی ہے کیونکہ قدرت مستقل‬
‫مزاج لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے)‪(249‬‬
‫پھر جب وہ تھوڑی سی جماعت پر مشتمل لوگ جالوت کے مہا لشکر کے مقابل آئے تو‬
‫اُنہوں نے دل سے چاہا کہ اے قادر و پروردگار ہم پر صبر یعنی انتہائی حد تک استقامت‬
‫کے ساتھ عمل کے بعد اپنا منطقی نتیجہ دکھا دے اور ہمیں طاغوتی رہنما جالوت سے‬
‫لڑائی میں ثابت قدم رکھ اور اس لشکر کفار پر فتحیاب کر)‪(250‬‬
‫آخر کار طالوت کی فوج نے صبر کی باعث جالوت کو جنگ میں ہزیمت دی۔‬
‫اور داؤد نے جالوت کو ختم کر دیا اور یوں قدرت کے قانون پر عمل کے زریعے حقیقی‬
‫حکمرانی اور سب کی سالمتی و فالح کی عظیم دانائی پائی اور قدرت کے قانون پرعمل‬
‫سے جو چاہا وہ سیکھا ۔ اور قدرت کے قانون پر عمل کرنے سے ظالم حکمران لوگ‬
‫ہٹتے نہ رہتے تو یہ زمین تباہ ہوجاتی کہ قدرت واقعی اہل عالم پر عمل کی نسبت بڑی‬
‫مہربان ہے)‪(251‬‬
‫یہ قرانی ہللا کی آیتیں ہیں جو قرانی مملکت چالنے والے سچائی کے ساتھ پڑھ کر سناتے‬
‫ہیں اور اے محمد ﷺتم بالشبہ انقالبی پیغمبروں میں سے ہو)‪(252‬‬
‫یہ انقالبی پیغمبر جو قدرت کی طرف سے وقتا فوقتا آتے رہے ہیں ان میں سے قدرت کی‬
‫عطا کردہ عقل کے استعمال کی بنا پر بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے۔ یعنی بعض‬
‫ایسے عقل کا زیادہ استعمال کرنے والے ہیں کہ جن سے مثالی طور پرسمجھو کہ جیسے‬
‫قدرت نے گفتگو فرمائی اور بعض کے عقل کے استعمال کی باعث دوسرے امور میں‬
‫عیسی بن مریم کو قدرت نے عقل کے استعمال کی بنا پر کھلی‬
‫ٰ‬ ‫مرتبے بلند ہوئے ۔ اور‬
‫ہوئی نشانیاں عطا کیں اور روح القدس یعنی مقدس توانائی رکھنے والی ہر قسم کے‬
‫نقائص سے پاک کتاب انجیل سے ان کو مدد دی۔ اور اگر قدرت کے قوانین کو عقل کے‬
‫استعمال کی بنا پر اچھی طرح سمجھا ہوتا تو ان سے پچھلے لوگ اپنے پاس کھلی‬
‫نشانیاں آنے کے بعد آپس میں نہ لڑتے لیکن انہوں نے اختالف کیا تو ان میں سے بعض‬
‫تو سب کی سالمتی و فالح کے فطری قوانین پر ایمان لے آئے اور بعض کافر یعنی منکر‬
‫ہی رہے۔ اگر انہوں نے قدرت کو سمجھا ہوتا تو یہ لوگ باہم جنگ و قتال نہ کرتے۔‬
‫کیونکہ قدرت کے قوانین مکافات کی باعث ویسا ہی صلہ ملتا ہے جیسا انسان عمل کرتا‬
‫ہے)‪(253‬‬
‫تو اے عقل کے استعمال پر ایمان النے والو جو مال قدرت نے تم کو مفاد پرست عقل کے‬
‫استعمال کی باعث دیا ہے اس میں سے اس احتسابی دن کے آنے سے پہلے پہلے لوگوں‬
‫کی سالمتی و فالح پر بطور دین یعنی نظام قائم کر کے خرچ کرلو کہ جس نظام سسٹم میں‬
‫نہ اعمال کا سودا ہو اور نہ دوستی اور سفارش ہو سکے اور اس نظام کے مخالف کفر‬
‫کرنے والے منکر لوگ ہی ظالم ہیں)‪(254‬‬
‫قدرت کے قوانین ہی وہ معبود برحق ہیں کہ اس کے سوا کوئی قانون بندوں کی خدمت کے‬
‫الئق نہیں کہ وہ قوانین ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں انہیں نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند ‪ ،‬جو‬
‫کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہیں سب اسی قدرت کا ہے ‪ ،‬کون ہے جو قدرت‬
‫کی اجازت کے بغیر اس سے کسی ناجائز عمل کی سفارش کر سکے جو کچھ لوگوں کے‬
‫روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے قدرت کو سب معلوم ہے اور وہ‬
‫اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ہاں جس قدر کوئی‬
‫قدرت کے قوانین میں غوروفکر سے نئی دریافتیں چاہتا ہے اسی قدر قدرت اُسے معلوم‬
‫کرا دیتی ہے کہ قدرت کی بادشاہی اور علم آسمان و زمین سب پر حاوی ہے اور اسے ان‬
‫کی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے)‪(255‬‬
‫دین اسالم یعنی سب کی سالمتی و فالح کے نظام میں کسی قسم کی کوئی زبردستی نہیں‬
‫ہے یہ سالمتی و فالح کی ہدایت صاف طور پر ظاہر اور ہر قسم کی گمراہی سے الگ ہو‬
‫چکی ہے تو جو شخص انسان دشمن نظام یعنی دماغ میں بسے دیگر مفاد پرستانہ نظام‬
‫کے بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور قدرت کے عالمی سالمتی رکھنے والے قوانین پر‬
‫ایمان الئے تو سمجھو کہ اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی‬
‫ٹوٹنے والی نہیں اور قدرت کا مکافات عمل کا اٹل قانون سب کچھ سنتا اور سب کچھ جانتا‬
‫ہے)‪(256‬‬
‫جو لوگ سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام پر ایمان التے ہیں ان کا حقیقی دوست تو‬
‫قدرت کا مکافات عمل کا نظام ہوتا ہے کہ جو اُن کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں‬
‫لے جاتا ہے اور جو مفاد پرست کافر ہوتے ہیں ان کے دوست شیطان ہوتے ہیں جو اُن کو‬
‫روشنی سے نکال کر اندھیرے میں لے جاتے ہیں یہی عقل کے دشمن‪،‬سرمایہ پرستی کے‬
‫نظام میں جینے والے دوزخی لوگ ہیں کہ اس جہنمی نظام کی باعث اس میں ہمیشہ رہیں‬
‫گے)‪(257‬‬
‫بھال تم نے اس مفاد پرست ملوکیتی حکمران شخص کو نہیں دیکھا ؟ جو اس غرورمیں‬
‫مبتال تھا کہ اُس کے مزھبی خدا نے اسکی تقدیر میں اس کو سلطنت و بادشاہت بخشی ہے‬
‫اور وہ ابراہیم سے اپنے پیدائشی ثقافتی جھوٹے مزھبی خدا کے بارے میں جھگڑنے لگا‬
‫کہ جسے قرانی ہللا ‪ 2‬الفاظ " ال الہ " سے ہی رد کر کے رکھ دیتا ہے‬
‫جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ قدرت کے اٹل قوانین پر مشتمل ہے جو اپنے‬
‫قدرتی قوانین کے تحت ہر نفس کو جالتا اور مارتا ہے۔ وہ ملوکیتی حکمران بوال کہ جال‬
‫اور مار تو میں بھی سکتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا کہ اچھا قدرت کا قانون تو سورج کو مشرق‬
‫سے نکالتا ہے آپ اسے زرا مغرب سے نکال دیجیئے یہ سن کر وہ ملوکیتی کافر حیران‬
‫رہ گیا ‪ ،‬کہ قدرت کا مکافات عمل کا قانون بےانصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا)‪(258‬‬
‫یا پھر مثال کے طور پر اُس شخص کو دیکھو‪ ،‬جس کا گزر ایک ایسی زہنی طورپر‬
‫پسماندہ مفلوج و ُمردہ " اُمت مرحوم " قوم پر ہوا‪ ،‬جو سمجھو اپنی چھتوں پر اوندھی‬
‫گری پڑی تھی اُس شخص نے کہا" ‪:‬یہ عقل کا استعمال نہ کرنے والی ُمردہ جہنمی قوم‬
‫جو اپنی مزھبی مستی میں ہالک ہوئی پڑی ہے‪ ،‬اسے بھال قدرت اور اُس کے قوانین کس‬
‫طرح دوبارہ جنتی زندگی بخشیں گے ؟"اس پر قدرت نے اُسے اس مثال کے زریعے‬
‫شعور و آگاہی دی کہ اگر کسی شخص کی سوچنے سمجھنے کی قوت سلب کر لی جائے‬
‫اور وہ سوبرس تک عقل استعمال کئیے بنا الشعوری کی ُمردہ جہنمی زندگی میں پڑا رہے‬
‫اور پھر قدرت کی عطا کردہ عقل کے استعمال کرنے پر اسے جنتی شعوری زندگی ملے‬
‫اور اس سے پوچھا جائے کہ" ‪ :‬بتاؤ‪ ،‬کتنی مدت غفلت و جہالت کی جہنمی زندگی میں‬
‫پڑے رہے؟"تو وہ کہے گا کہ" ‪ :‬ایک دن یا چند گھنٹے ہی "حاالنکہ تم پر تو سو برس‬
‫اسی بے عقلی و بے شعوری کی حالت میں گزر چکے ہیں تو اب ذرا اپنے قدرتی کھانے‬
‫کی چیزیں اور پانی کو شعوری نگاہ سے دیکھو کہ اس عرصے میں ان میں ذرا بھی تغیر‬
‫بدالؤ نہیں آیا اور دوسری طرف اپنے بے شعوری جانور گدھے کو بھی دیکھو کہ اس کی‬
‫حالت میں بھی کوئی بدالؤ نہیں آیا( یعنی جن کی زندگی میں بدالؤ نہیں آتا ان کی زندگی‬
‫گدھے کی طرح کی بےعقلی ہوتی ہے کہ جنہیں قیمتی وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں‬
‫ہوتا جبکہ قدرت کے فطری قوانین تو عمل کے زریعے تمہیں فوری دیگر تمام مفاد پرست‬
‫اقوام کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں اور مزید اپنے انسانی قدرتی تخلیقی عمل کو‬
‫ہی دیکھ لو کہ کس طرح خون کے لوتھڑے سے ہڈیوں کا پنجر بنا کر کس طرح اس پر‬
‫گوشت پوست چڑھا کر جیتا جاگتا انسان بنا دیا جاتا ہے"‬
‫اس طرح کی مثالوں سے جب حقیقت کسی کے سامنے بالکل نمایاں ہو جائے تو وہ‬
‫باشعور ہو کر یہ کہے بنا نہیں رہ سکتا کہ‪ :‬میں تمام حقیقت جان گیا ہوں کہ قدرتی اٹل‬
‫قوانین ہی کائنات میں ہر طرف ہر شے پر قادر ہیں)‪" (259‬‬
‫اور جب یونائٹیڈ ہیومن آرگنائزیشن " خانہ کعبہ " کے پہلے امام الناس ‪ ،‬انسانیت‬
‫کے سربراہ و لیڈر ابراہیم نے کہا کہ اے قادر و پروردگار مجھے دکھا کہ تو زہنی طور‬
‫پر مرے ہوئے ُمردوں کو کیونکر زندہ کرے گا ؟ تو قادر نے فرمایا کیا تم نے قدرت کے‬
‫اٹل قوانین کو باور نہیں کیا ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ۔ لیکن میں اسے عملی دیکھنا اس‬
‫لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلےتو قدرت نے فرمایا کہ چار پرندوں‬
‫کے بچوں کو پکڑ کر اپنے پاس خوب اچھی طرح سدھا لو پھر ان کو ایک ایک کر کے‬
‫علیحدہ علیحدہ پہاڑ پر رکھوا دو پھر ان کو آواز دے کر بالؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے‬
‫چلے آئیں گے کیونکہ اب وہ اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اور یہ جان کر زندہ ہو چکے‬
‫ہیں کہ بُالنے واال ہماری حقیقی فالح و بہبود اور نشونما دینے واال ہے ۔ جان رکھو کہ‬
‫قدرت کے اٹل قوانین ہی ہر طرف غالب اور صاحب حکمت ہیں ۔)‪(260‬‬
‫اب اس طور جو بھی حکمران لوگ اپنی مملکت میں پیدا مال خدا کی راہ یعنی سب کی‬
‫سالمتی و فالح کی راہ میں برابری کی بنیاد پر دین یعنی نظام کے تحت خرچ کرتے ہیں اُن‬
‫کے مال کی مثال اس قدرتی دانے کی سی ہے جس سے قدرتی طور پر سات بالیں اُگیں‬
‫اور ہر ایک بال میں قدرتی طور پر سو سو دانے ہوں تو قدرت کے اس اٹل قانون کے تحت‬
‫جو حکمران جس قدر مال چاہتا ہے تو قدرت اُسے خوب عطا کرتی ہے ۔ کیونکہ قدرت کا‬
‫نظام بڑی کشائش واال اور سب کچھ جاننے واال ہے)‪(261‬‬
‫اور جو منصف مزاج حاکم لوگ اپنی مملکت میں پیدا مال خدا کے رستے یعنی سب کی‬
‫سالمتی و فالح کی راہ میں بطور دین نظام کے صرف کرتے ہیں پھر اس کے بعد وہ حاکم‬
‫لوگ نہ اس خرچ کا کسی پر احسان رکھتے ہیں اور نہ کسی کو غربت و بھوک کی زلت‬
‫آمیز تکلیف دیتے ہیں۔ تو ایسے حاکم لوگوں کا صلہ ان کے قادر و پروردگار کے پاس بر‬
‫وقت تیار ہے۔کہ نہ ان کی مملکت میں کسی کو بھوک و غربت کی متعلق کچھ خوف ہوگا‬
‫اور نہ وہ ایسی مملکت میں زرہ بھر غمگین ہوں گے)‪(262‬‬
‫سب کی سالمتی و فالح کا دین نظام قائم کرنے کے بعد کہ جس میں بنا مزھب و مسلک‬
‫رنگ و نسل دیکھے بغیر انسانوں کو اُن کے بنیادی حقوق ( روٹی ‪ ،‬کپڑا ‪ ،‬مکان ‪ ،‬صحت‬
‫‪ ،‬تعلیم وغیرہ ) دینے کے بعد پھر لینے والوں کو جتا جتا کر اُن کی عزت نفس کو ٹھیس‬
‫پہنچا کر اُنہیں نفسیاتی و زہنی ایذا و تکلیف دی جائے تو اس سےبہترتو اُن سے نرم انداز‬
‫میں معزرت کی بات کہہ دینا اور اُن کے بنیادی حقوق کی ادائیگی سے درگزر کرنا ہی بہتر‬
‫ہے کہ قرانی ہللا تو صفت رب العالمینی کے تحت ہر قسم کے زہنی و جسمانی ایذا دینے‬
‫سے بےپروا اور بردبار ہے)‪(263‬‬
‫اے سالمتی و فالح کی مملکت کے زمہ دار مومنو !تم سالمتی و فالح کی راہ میں اجتماعی‬
‫بہتری کے طور پر مزید دینے والے مال یعنی اپنے صدقات کو اپنی عوام پر جتانے اور‬
‫اس طرح اُنہیں زہنی و نفسیاتی ایذا دینے سے اُس نمود و نمائش کرنے والے شخص کی‬
‫طرح برباد نہ کردینا ۔ جو لوگوں کو دکھاوے کے لئے مال خرچ کرتا ہے اور قدرت کے‬
‫اٹل قوانین اور سب کے بہترین مستقبل پر ایمان نہیں رکھتا۔‬
‫تو اس طرح دکھاوا کر کے دینے کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی‬
‫پڑی ہو اور اس پر زور کی بارش برس کر اس مٹی کو ہی صاف کر ڈالے یعنی اس مٹی‬
‫سے فصل حاصل کرنا تو درکنار وہ بیج بھی ضائع ہو گیا کہ جس سے فصل ملنے کی‬
‫توقع تھی ۔‬
‫تو اس طرح یہ نمائشی طور پر دینے والے ریاکار حاکم لوگ اپنے دکھاوے کے اعمال کا‬
‫کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اور انسانیت کو فالح دینے والے قدرت کے اٹل‬
‫قوانین سے ایسے ناشکرے حاکم کچھ بھی ہدائت نہیں لیا کرتے)‪(264‬‬
‫اور جو حکمران لوگ سب کی سالمتی و فالح کے قدرتی دین نظام کے زریعے قادر و‬
‫قدرت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خلوص نیت سے اپنی مملکت کا مال اپنی‬
‫مملکت کی ترقی و فالح بہبود پر خرچ کرتے ہیں ان کی مملکت کی مثال اُس باغ کی سی‬
‫ہے جو ایسی اونچی جگہ پر واقع ہو کہ جب اس پر بارش برسے تو فصل کی صورت اُس‬
‫میں دُگنا پھل الئے۔ اور اگر بارش نہ بھی برسے اور ابرو پھوار ہی سہی تو بھی قدرت کا‬
‫مکافات عمل تم حکمرانوں کے کاموں کو دیکھ رہا ہے)‪(265‬‬
‫بھال تم ملوکیتی حکمرانوں میں کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کا زاتی کھجوروں اور‬
‫انگوروں کا تمام نعمتوں سے بھرا ہوا باغ ہو جس میں دودھ و شہد کی مثالی نہریں بہہ‬
‫رہی ہوں اور اس میں ہر قسم کی آسائشیں موجود ہوں اور اسے پھر بڑھاپا آپکڑے اور‬
‫اس کے بچے ابھی چھوٹے ہوں کہ جن کیلیئے یہ سب باغ تیار کیا ‪ ،‬کہ ناگہاں اس باغ پر‬
‫آگ کا بھرا ہوا بگوال چلنے لگے اور وہ باغ جل کر راکھ کا ڈھیر ہو جائے تو کیا ایسا‬
‫کوئی حکمران چاہتا ہے ؟‬
‫( تو جان لو کہ جو غریب دشمن ملوکیتی دین نظام تم حکمران چال رہے ہو اس سے آخر‬
‫کار اس دنیا کا باغ بھسم ہو کر ہی رہے گا اس طرح قدرت کا مکافات عمل کا قانون تم‬
‫سے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ساری انسانیت کیلیئے سوچو اور‬
‫سمجھو)‪(266‬‬
‫تو اے قرانی مملکت کے زمہ دار مومنو !سب کی سالمتی و فالح کی حامل برابری کے‬
‫حقوق پر مشتمل اسٹیٹ کے زریعے جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم محنت سے کماؤ اور جو‬
‫قدرتی چیزیں (معدنیات ‪ ،‬دھاتی و غیر دھاتی ) قدرت تمہارے لئے زمین سے تمہاری‬
‫محنت کے بل پر نکالتی ہے ان میں سے برابری کی بنیاد پر راہ خدا یعنی سب انسانیت کی‬
‫سالمتی و فالح کی راہ میں خرچ کرو ۔ اور اچھی طرح جان لو کہ کبھی اپنی عوام کو بری‬
‫اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ اگر وہ بُری اور ناپاک چیزیں تمہیں دی جائیں‬
‫تو بجز اس کے کہ لیتے وقت اپنی آنکھیں کراہیت سے بند کرلو ‪ ،‬یا ان کو کبھی نہ لو‬
‫۔جان رکھو کہ قدرت اس طرح کے غیر قرانی شیطانی اعمال سے بےپروا اور قابل ستائش‬
‫ہے)‪(267‬‬
‫اور دیکھنا انسانیت پر حکمرانی کی بابت غیر قرانی مفاد پرستی کے شیطانی ملوکیتی‬
‫نظام کا کہنا نہ ماننا کہ وہ تمہیں معاشی تنگ دستی کا خوف دالتا اور غربت و افالس کے‬
‫بڑھاوے کی بےحیائی کے کام کر نے کو کہتا ہے۔ جبکہ قدرت کے مکافات عمل کا قانون‬
‫تم سے اپنے بخشش بھرے نظام اور رحمت کا وعدہ کرتا ہے۔ اور قدرت کا رحمت بھرا‬
‫نظام بڑی کشائش واال اور سب کچھ جاننے واال ہے)‪(268‬‬
‫اور جو حکمران چاہتا ہے وہ قدرت کے اٹل قوانین سے دانائی حاصل کر لیتا ہے ۔ اور پھر‬
‫جس حاکم کو ایسی رحمت بھری دانائی ملی بےشک اس کو بڑی نعمت ملی۔ اور نصیحت‬
‫تو وہی حاکم لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں)‪(269‬‬
‫اور تم حساس حاکم لوگ خدا کی راہ یعنی سب کی سالمتی و فالح کی راہ میں جس طرح‬
‫اپنی مملکت کا مال اپنی عوام پر خرچ کرتے ہو یا کوئی نذر یعنی عوام کی فالح و بہبود پر‬
‫معمول کے خرچ کے عالوہ کوئی اضافی خرچ اپنے اوپر واجب قرار دے لیتے ہو تو قدرت‬
‫تمہارے اس عمل کے ردعمل کو اچھی طرح جانتی ہے اور ظالم حکمرانوں کا تو کوئی‬
‫بھی مددگار نہیں ہوتا (‪)270‬‬
‫اگر تم حاکم لوگ خیرات یعنی بھالئی کے ثمرات اپنی عوام کو ظاہر کر کے دو تو وہ بھی‬
‫خوب ہے اور اگر پوشیدہ دو تو وہ خوب تر ہے اور پھر دو بھی اہل حاجت یعنی زیادہ‬
‫ضرورت مندوں کو تو وہ تو اور بھی خوب تر ہے‬
‫اب اس طرح سے اپنی مملکت کی عوام کو دینا تمہارے سابقہ دانستہ و نادانستہ تمام‬
‫جرائم کو دھو دے گا۔ اور قدرت کو تو تمہارے سب کاموں کے انجام کی خبر ہے (‪)271‬‬
‫اے عالمی انقالبی محمدﷺ تم ان گمراہ حاکم لوگوں کی ہدائیت کے ذمہ دار نہیں ہو بلکہ اب‬
‫تمہارے بتائے گئے قدرت کے فطری اٹل قوانین پر عمل کر کے جو حاکم چاہے ہدائیت لے‬
‫سکتا ہے ۔‬
‫اور عوام کو امن و سالمتی کی مملکت مہیا کرنے والے زمہ دار مومنو ‪ ،‬تم اپنی مملکت‬
‫کا جو بھی مال عوام کی فالح و بہبود پر خرچ کرو گے تو اس کا فائدہ تمہیں کو ہے‬
‫کیونکہ تم جو خرچ کرو گے وہ قادر و قدرت کی خوشنودی کے لئے کرو گے اپنی مفاد‬
‫پرستی کیلیئے نہیں ۔‬
‫تو جو بھی مال تم نیک نیتی سے خرچ کرو گے وہ ردعمل میں تمہیں پورا پورا واپس دے‬
‫دیا جائے گا اور تمہارا کچھ نقصان نہیں ہو گا‪)272( ،‬‬
‫اور ان حاجتمندوں کے لئے جو خدا کی راہ یعنی سب کی سالمتی و فالح کے نظام کے قائم‬
‫ہوتے ہوئے بھی زندگی میں آگے ترقی کی راہ میں ُرکے بیٹھے ہیں اور دنیا میں کسی‬
‫طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے اور اپنی سفید پوشی کے بھرم کی باعث مملکت سے‬
‫مانگنے سے عار رکھتے ہیں یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف حاکم شخص‬
‫ان کو غنی خیال کرتا ہے‬
‫اور تم زمہ دار مومن ‪ ،‬قیافے سے ایسے لوگوں کو صاف پہچان لو کہ حاجتمند ہیں اور‬
‫شرم کے سبب نہیں مانگ سکتے تو تم حکام لوگ اس طرح کے ضرورت مندوں پر ان کی‬
‫ُرکی ہوئی ترقی پر جو مال خرچ کرو گے تو کچھ شک نہیں کہ قادرو قدرت تمہارے اس‬
‫عمل کے جواب کو بخوب جانتا ہے (‪)273‬‬
‫تو جو حاکم لوگ اپنی مملکت کا مال رات اور دن اور پوشیدہ و ظاہر سب کی سالمتی و‬
‫فالح کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں ان کا اس عمل کا صلہ قادر و پروردگار کے پاس‬
‫ہے اور ان کی عوام کو قرانی مملکت کے قیام کے بعد کسی طرح کا نہ خوف ہوگا اور نہ‬
‫ہی کوئی غم (‪)274‬‬
‫جن حکمران لوگوں کا نظام معیشت ربا یعنی محنت کے زریعے کمانے کے بجائے سرمایہ‬
‫کے زریعے سرمایہ بنانے کا ہوتا ہے وہ آخر میں اپنے ُمردہ کُش نظام کے منطقی انجام‬
‫کو دیکھ کر اس طرح حواس باختہ ہو جائیں گے جیسے کسی کو انسانیت کُش شیطانی‬
‫نظام نے لپٹ کر دیوانہ حاکم بنا دیا ہو یہ اس لئے کہ وہ چغد مفاد پرست حاکم کہتے ہیں‬
‫کہ سودا بیچنا بھی تو نفع کے لحاظ سے ویسا ہی ہے جیسے سودے پر نفع لینا حاالنکہ‬
‫سودے کا باہمی لین دین تو فطری طور پر جائز ہے اور ربا بطور نظام معشیت بالکل‬
‫ناجائز ۔‬
‫تو اب جس حاکم شخص کے پاس قرانی ہللا کی یہ نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو‬
‫پہلے ہوچکا سو ہو چکا اس کا معاملہ قدرت کے مکافات عمل کے سپرد اور جو حاکم اس‬
‫فطری نظام کے جاننے کے باوجود پھر ربا کے انسانیت کُش نظام پر چلنے لگا تو ایسے‬
‫حاکم لوگ اور ان کی عوام جو مفاد پرستی کے دوزخی نظام کے حامی ہیں ہمیشہ سب کے‬
‫سب دوزخی نظام میں جلتے رہیں گے (‪)275‬‬
‫سمجھ لو کہ قدرت کا طریقہ کار تو ربا کو نابود یعنی بےبرکت کرتا اور خیرات یعنی سب‬
‫کی سالمتی و فالح کی بھالئی کے عمل کو بڑھاتا ہے اور قدرت کے اصول کسی ناشکرے‬
‫گنہگار کو اپنا دوست نہیں رکھتے (‪)276‬‬
‫تو جو حاکم لوگ ان فطری قوانین پر ایمان الئے اور اپنی مملکت میں سب کی سالمتی کے‬
‫نیک عمل کرے اور قدرت کے عطا کردہ رزق کی برابری کی بنیاد پر منصفانہ تقسیم کے‬
‫زکوۃ دیتے رہے‬‫صلوۃ کو قائم کرے اور سب انسانیت کی ترقی و نشو نما کرے یعنی ٰ‬ ‫نظام ٰ‬
‫اُن کو ان کے کاموں کا صلہ قدرت کے مکافات عمل کے زریعے ضرور ملے گا اور پھر‬
‫ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے (‪)277‬‬
‫تو قرانی مملکت کے زمہ دارمومنو! قدرت کے مکافات عمل سے ڈرو اور اگر ایمان‬
‫رکھتے ہو تو اب جتنا ربا کا نظام تمہاری مملکت میں باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو‬
‫(‪)278‬‬
‫اگر تم زمہ داران ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہوجاؤ کہ اب تم ہللا اور رسول یعنی قرانی‬
‫سربراہ مملکت سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو اور اگر اس انسانیت کُش نظام معشیت‬
‫کو اچھی طرح سمجھ کر اس سے توبہ کرلو گے یعنی باز آجاؤ گے اور خود کو درست کر‬
‫لو گے تو تم کو صرف محنت کے زریعے حاصل کمائی کو اپنا نظام معشیت بنانے کا حق‬
‫ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور نہ تمہارا نقصان ہے (‪)279‬‬
‫اور اے قرانی فالحی مملکت کے زمہ داران تم اپنی ابتدائی قرانی مملکت میں ایسا انسان‬
‫دوست عبوری قانون بناؤ کہ اگر مملکت سے قرض لینے واال تنگ دست ہو تو اسے‬
‫کشائش و سہولت کے ساتھ قرض کی ادائیگی کیلیئے مہلت دو اور اگر قرض بخش ہی دو‬
‫اُسے معاف ہی کر دو توتمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ اس فالحی بات کی گہرائی‬
‫کو اچھی طرح سمجھو (‪)280‬‬
‫اور اس دن سے ڈرو جب تم قرانی مملکت کے زمہ داران قدرت کے مکافات عمل کے اٹل‬
‫قانون کے تحت اپنے کئیے ہر عمل کا جوابدہ ہو گے کہ اس قانون کے تحت تم ہی نہیں‬
‫بلکہ ہر شخص اپنے کئیے گئے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔ اور کسی کا کچھ نقصان‬
‫نہ ہوگا (‪)281‬‬
‫تو قرانی مملکت کے زمہ دار مومنو! جب تم کسی میعاد معین کے لئے قرض کا معاملہ‬
‫طے کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور مملکت کی طرف سے لکھنے واال تم میں کسی‬
‫ان پڑھ کا نقصان نہ کرے بلکہ انصاف سے لکھے نیز لکھنے واالکہ جیسا اسے قدرت‬
‫کے قانون نے لکھنا سکھایا ہے اُسے چاہئیے کہ قدرت کے عطا کردہ اس انعام کے بدلے‬
‫نہ صرف لکھنے سے انکار نہ کرے بلکہ حق بات پر مشتمل دستاویز لکھ دے۔ اور بہتر‬
‫ہو گا کہ جو قرض لینے واال قرض لے وہی دستاویز کا مضمون بول کر لکھوائے تا کہ‬
‫بوقت ضرورت کام آئے اور وہ قدرت کے قانون مکافات عمل کی بابت خوف کرے اور زر‬
‫قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے۔ اور اگر قرض لینے واال کم عقل یا کمزور و ضعیف‬
‫ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو جو اس کا ولی قابل اطمینان دوست ہو‬
‫وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے۔ اور چاہئیے کہ عام طور پر اپنی مملکت و‬
‫معاشرے میں سے دو مردوں کو ایسے قرض کے معاملے میں گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر‬
‫کسی خاص وقت پر دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ( کہ دو عورتیں‬
‫ایک دوسرے کا پروٹوکول ہوتی ہیں ایک دوسرے کی رفاقت میں نگہبان مردوں کی نسبت‬
‫خود کو زیادہ کمفرٹ محسوس کرتی ہیں ) کہ جن کو تم قرانی زمہ داران بطورگواہ پسند‬
‫بھی کرو کافی ہیں تاکہ اگر ان میں سے ایک (گھریلو ٹائپ کی عورت ہونے کی باعث )‬
‫اگر کچھ بھول جائے گی تو دوسری اسے فوری یاد دالدے اگر نہ بھولے تو پھر ایک‬
‫عورت کی گواہی بھی مرد گواہ کی طرح کافی ہے ۔ اور چاہئیے کہ جب گواہ گواہی کے‬
‫لئے طلب کئے جائیں تو وہ انکار نہ کریں۔ اور قرض تھوڑا ہو یا بہت تم زمہ داران اس‬
‫کی دستاویز کے لکھنے میں کاہلی نہ کرنا۔ یہ بات قدرت کے نزدیک نہایت قرین انصاف‬
‫ہے اور بوقت ضرورت بطور ثبوت کے لئے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے۔ کہ اس سے‬
‫تمہیں کسی طرح کا شک و شبہ بھی نہیں پڑے گا۔ ہاں اگر کسی عام معمولی سودے کا‬
‫دست بدست لین دین ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے رہتے ہو تو اگر ایسے معاملے کی‬
‫دستاویز نہ لکھوتو تم پر کچھ جرم نہیں۔ تو اچھی طرح جان لو کہ تمہارے حق میں یہی‬
‫بہتر ہے کہ جب کوئی خاص مال کی خرید وفروخت کیا کرو تو گواہ کرلیا کرو۔ اور کاتب‬
‫دستاویز کو چاہئیے کہ وہ معاملہ کرنے والوں کا کسی طرح نقصان نہ کریں۔ اگر تم زمہ‬
‫دار لوگ اس قانون کے جاننے کے باوجود بھی ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے جرم کی بات‬
‫ہے۔ اور تم قرانی مملکت کے زمہ داران ہمیشہ قدرت کے مکافات عمل کے اٹل قانون سے‬
‫ڈرا کرو اور دیکھو کہ وہ قادر و قدرت تم کو عمدہ معاشرت کی بابت کیسی مفید باتیں‬
‫سکھاتا ہے کیونکہ قادر و قدرت ہر چیز سے واقف ہے (‪)282‬‬
‫اور اگر تم قرانی مملکتی زمہ داران سفر پر ہو اور تمہیں کسی ضرورت مند کو قرض‬
‫دینے کی بابت دستاویز لکھنے واال مل نہ سکے تو قرض خواہ کی کوئی چیز رہن یا قبضہ‬
‫میں رکھ لو اور اگر تم زمہ داران میں سے کوئی کسی قرض خواہ کو امین سمجھے اور‬
‫اُسے رہن کے بغیر قرض دیدے تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت طے‬
‫کردہ وقت پر ادا کردے اور قدرت کے قوانین جو کہ اس کے اور سب کے پالن ہار و‬
‫پروردگار ہیں سے ڈرے ۔ اور دیکھنا شہادت و سچائی کو کبھی مت چھپانا۔ جو سچائی کو‬
‫چھپائے گا وہ دل کا کاال ہوگا۔ اور قادر و قدرت تو تمہارے سب کاموں سے واقف ہے‬
‫(‪)283‬‬
‫سمجھ لو کہ جو کچھ اُوپر بلندیوں میں اور جو کچھ نیچے پستیوں میں ہے سب قادر و‬
‫قدرت ہی کا تو ہے۔ تم زمہ داران مومن اپنے دلوں کی بات کو ظاہر کرو گے تو بھی یا‬
‫چھپاؤ گے تو بھی ۔۔۔ قدرت کے اٹل قوانین تم زمہ داران سے اپنے قانون مکافات عمل کے‬
‫تحت تمہارے ہر عمل کا حساب لیں گے پھر وہ اپنے اٹل قانون کے تحت ہی تمہاری‬
‫مغفرت کریں گے اور جس زمہ دار کو بُرے عمل کرتے ہوئے پائیں گے اُسے ہی زلت‬
‫آمیز عذاب میں مبتال کریں گے ۔ اور قدرتی فطری قوانین تو ہر شے پر قادر ہیں تم انہیں‬
‫نہیں بدل سکتے (‪)284‬‬
‫رسول یعنی قرانی ہللا کے دین نظام کا نمائندہ جو سب کی سالمتی و فالح کے دین نظام‬
‫کے قیام کیلیئے ملوکیتی سرمایہ پرستی کے نظام کے خالف انقالبی مشن چالتے ہیں وہ‬
‫اس سالمتی و فالح کے عالمی اصول رکھنے والی انقالبی کتاب پر جو ان کے پروردگار‬
‫کی طرف سے ان پر نازل ہوئی پر یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر تمام انسانیت‬
‫کی سالمتی و فالح کسی اور مفاد پرستی پر مبنی کتاب سے ممکن نہیں اور رسول کے‬
‫امن و امان مہیا کرنے والے زمہ دار مملکتی مومن ساتھی بھی یہی ایمان رکھتے ہیں ۔‬
‫سب قرانی ہللا پر اور قدرتی قوتوں پر اور اصولی انقالبی کتابوں پر اور انقالبی پیغام کو‬
‫پھیالنے والے انقالبی پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہم اس کے انقالبی‬
‫پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور عرض کرتے ہیں کہ ہم نے انقالبی‬
‫پیغام سنا اور قبول کیا۔ اور کہتے ہیں کہ اے قادر و پروردگار ہم تیرے اٹل فطری قوانین‬
‫کے تحت تجھ سے بخشش مانگتے ہیں اور تیرے قوانین کے تحت ہی ہمیں آخر اس دنیا‬
‫سے لوٹ جانا ہے (‪)285‬‬
‫جان رکھو کہ قدرتی قوانین کسی بے شعور ال علم شخص کو اس کے سہنے کی طاقت‬
‫سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ۔ اور بال تخصیص سب کو آگاہی دیتے ہیں کہ جو بھی اچھے‬
‫کام کرے گا تو اس کو ان اچھے کاموں کا فائدہ ملے گا اور جو برے کام کرے گا تو اسے‬
‫ان بُرے کاموں کا نقصان پہنچے گا ۔ تو تم زمہ داران کو اب یہ کہنا چاہئیے کہ اے قادرو‬
‫پروردگار اگر ہم سے تیرے فطری قوانین کی پیروی میں یا اُسے الگو کرنے میں کوئی‬
‫بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مؤاخذہ نہ کیجیو ۔ اے قادر و پروردگار ہم پر ایسا بوجھ‬
‫نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے نادان مفاد پرست حکمران لوگوں پر اُن کے بُرے اعمال‬
‫کی سبب ڈاال تھا۔‬
‫اے قادر و پروردگار امن و امان مہیا کرنے کی جس قدر زمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی ہم‬
‫میں طاقت نہیں اتنا ہمارے سر پر نہ رکھیو ۔‬
‫اور اے پروردگار سب کی سالمتی و فالح کا دین نظام چالتے ہوئے ہمارے نادانستہ جرائم‬
‫و کوتاہیوں سے سے درگزر فرما اور ہمیں اپنی رحمتوں سے بخش دے۔ اور ہم پر اپنے‬
‫سالمتی و فالح بھرے رحمتی قوانین کے زریعے سے رحم فرما۔ کہ تو ہی ہمارا قادر و‬
‫مالک ہے اور ہم کو انسانیت پر ظلم کا نظام چالنے والے پتھر دل کافروں پر غالب فرما‬
‫(‪)286‬‬

You might also like