Professional Documents
Culture Documents
About Sood in Islam
About Sood in Islam
أَربیْ یعنی جس امت سے موازنہ کیا جا رہا ہے اس سے تعداد میں زیادہ جبکہ اصطالح میں
قرض پر مقروض جنس یا اس جیسی جنس کو بغیر کسی شرعی عوض کے زیادہ لینا۔ غیر
شرعی عوض سے مراد ایسا مال ہے جو بغیر کوشش کے حاصل کیا جائے۔ اسالم میں شرعی
طور پر یہ حرام ہے۔
[یہود کے ظلم اور راہ خدا سے بہت روکنے کے سبب بہت سی پاک چیزیں جو (پہلے) ان
پر حالل تھیں ہم نے ان پر حرام کر دیں۔ اور اس سبب سے بھی کہ وہ سود خوری کرتے
تھے جبکہ اس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کے سبب سے بھی
اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔]
تاریخ ہمیں اس بات سے بھی آگاہ کرتی ہے کہ اسالم سے پہلے زمانہ جہالت میں بھی سود
پوری قوت کے ساتھ موجود رہا اور ان کے ہاں رائج تھا ،یہاں تک کہ اسالم نے اسے حرام
قرار دیا تاکہ اس کے ذریعے معامالت کی روک تھام ہو اور مسلم انسان اور مسلم معاشرے
کی تباہی اور تنزلی کا سدباب کیا جا سکے۔
اور چونکہ سود کی آفت فرد اور سماج کے شخصی ڈھانچے کو مسمار کر دیتی ہے بلکہ ان
کے معاشی تعلقات کو توڑتے ہوئے اسفل السافلین کے درجے تک لے جاتی ہے ،جہاں سود
پہلے تو سرمائےکو معاشرے کے ایک چھوٹے سے طبقے کے ہاتھ میں محدود کر دیتا ہے
اور پھر یہ سرمایہ بڑھتا ہی چال جاتا ہے لہٰ ذا یہ امر بذات خود معاشرے کو مالی حوالے سے
مختلف طبقات میں تقسیم کر کے معاشرے کی اقتصادی بنیادوں میں بہت بڑا شگاف پیدا کر
لْ َوأَعت َدنَْاْ ِللكَافِ ِرينَْْ ِمن ُه ْمْ َ
عذَابًْاْ اط ِْ عن ْهُْ َوأَك ِل ِه ْمْأَم َوا َْ
لْالنَّ ِ ْ
اسْ ِبالبَ ِ ’’وأَخ ِذ ِه ُْمْ ِ
الربَْاْ َوقَ ْدْنُ ُهوْاْ َ دیتا ہےْ۔ْ َ
أ َ ِلي ًما‘‘ْ(النساءْ)161۔ [اور اس سبب سے بھی کہ وہ سود خوری کرتے تھے جبکہ اس سے
انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کے سبب سے بھی اور ان میں سے جو
کافر ہیں ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔]
یہ امر سرمائے کے پہیے کو چند محدود افراد کے ہاتھوں میں محدود کر دیتا ہے جو اس
اقتصادی پہیے کو گھماتے رہتے ہیں۔ یہ مالک اقلیت اپنی انانیت اور اپنے شخصی مفادات
کو عوامی مفادات پرترجیح دیتے ہوئے معاشرے کے اقتصاد کو مفلوج کر کے رکھ دیتی
ہے اور اسے ایک ایسی تنگ گلی میں ال کھڑا کرتی ہے جہاں اس کی ترقی کا سفر رک جاتا
ہے۔ جس سے معاشرے کی معاش سکڑ کر رہ جاتی ہے اور روزگار کے مواقع کم ہو جاتے
ہیں۔ کیونکہ سرمایہ دار افرد سود کے ذریعے بغیر کسی کوشش کے آسانی سے پیسہ اکٹھا
کرنے کی وجہ سے وہ اپنا سرمایہ ایسے منصوبوں میں کبھی بھی نہیں لگائیں گے جس میں
افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے بالخصوص جب اس میں خسارے کا امکان بھی موجود
ہو۔ خسارے کا امکان ہی ایک ایسا امر ہے جس سے وہ اپنے معامالت میں ڈرتے ہیں۔ اس
سے معاشرے میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے جو لوگوں کو جوری،
جرائم اور جسم فروشی جیسے غیر شرعی اور غیر قانونی طریقوں سے مال اکٹھا کرنے پر
مجبور کر دیتا ہے۔ کیونکہ لوگ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے اپنی ضرورتوں کی تکمیل
2
کے لیے ایسے کاموں کی طرف مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ چیز بذات خود عوامی مزاج اور
مذہب کی تعلیمات بالخصوص اخالقیات کے منافی ان حرام اور غیر قانونی راستوں کے
ذریعے معاشرے کے اخالقی اور نفسیاتی ڈھانچے کو منہدم کر دیتی ہے۔ اور یہ امر
خصوصی طور پر ان اخالقی اقدار کے منافی ہے جو لوگوں کو مسلسل اسی بات پر ابھارتی
ہیں کہ وہ اپنی معاش کے حصول کے لیے دوسرے کے رزق پر حملہ نہ کریں۔
۱۔ لوگوں میں نیکیوں کا ختم ہو جانا :جہاں سود صدقات کی جگہ لے لیتا ہے کیونکہ لوگوں
کے سماجی تعلقات پر مادیت اور نفع خوری کا جذبہ حاکم ہوتا ہے۔ یہ چیز قرآن مجید کی
اس دعوت کے بالکل برخالف ہے جس میں وہ لوگوں کے درمیان بھائی چارے ،محبت اور
حقوق کے تحفظ کا تعارف کرواتا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے سود کو حرام جبکہ صدقات کو
حالل قرار دیا ہے:
لْ َكفَّارْْأَثِيم‘‘ْ(بقرۃ)276ْ:۔
بْكُ َّْ
يح ْ ّللاْ َْ
لْ ِ ص َدقَا ِْ
تْ َو َُّْ الربَاْ َويربِيْال َّ
ّللاْ ِ ’’يم َح ُْ
قْ َُّْ
[ہللا سود کو ناپائیدار اور خیرات کو بابرکت بنا دیتا ہے اور ہللا کسی ناشکرے گنہگار کو
پسند نہیں کرتا۔] یہ آیت سود کے مٹائے جانے کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ وہ ایک ایسا
باطل ہے جو حق اور ٰالہی سنتوں کی مخالفت کرتا ہے۔
تعالی نے سود کھانے والوں کو مال حرام کی طلب میں مخبوط الحواس قرار دیا ہے۔
ٰ ۲۔ ہللا
اور وہ ہے مال کا عدم توازن اور ایک جگہ ٹھہرنا۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے اندر شیطانی
جنون پایا جاتا ہے۔ اور اس جنون کی عالمت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش
کرتے ہیں اور حرام سود کو حالل تجارت کے ساتھ تشبیہ دے کر لوگوں کی آنکھوں میں
دعوی
ٰ دھول جھونکتے اور ان کی عقلوں پر پردہ ڈالتے ہیں ،جبکہ حقیقت حال ان کے اس
کو جھٹالتی ہے:
3
[جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ بس اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر
حواس باختہ کیا ہو ،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں :تجارت بھی تو سود ہی کی طرح
ہے ،حاالنکہ ہللا نے تجارت کو حالل اور سود کو حرام قرار دیا ہے ،پس جس شخص تک
اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ سود لینے سے باز آ گیا تو جو پہلے
لے چکا وہ اسی کا ہو گا اور اس کا معاملہ ہللا کے سپرد ہے اور جس نے اعادہ کیا تو ایسے
لوگ جہنمی ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔]
۳۔ خدا نے لوگوں کو اپنے درمیان تعارف اور محبت کے لیے پیدا کیا اور ان کی طرف سے
دوسرے انسانوں پر ظلم و جارحیت سے نفرت کی ہے:
ن ْاللَّـهَْ ْ َْ
ل ْي ُِحبْ ْال ُمعتَدِينَ ۔‘‘ْْ ل ْاللَّـهُ ْلَكُمْ ْ َو َْ
ل ْت َعتَدُوا ْ ِإ َّْ ت ْ َما ْأ َ َح َّْ ’’يَا ْأَي َها ْالَّذِينَْ ْآ َمنُوا ْ َْ
ل ْت ُ َح ِر ُموا ْ َ
طيِبَا ِْ
(المائدۃ[ )87ْ:
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہللا نے تمہارے لیے حالل کر دی ہیں انہیں حرام نہ کرو
اور حد سے تجاوز بھی نہ کرو ،ہللا حد سے تجاوز کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں
رکھتا۔] سود بھی حقوق الناس کے حوالے سے ایک قسم کا ظلم ہے جو ان کی درمیان نفرت
اور بغض پیدا کرتا ہے اور بعض اوقات تو دوسروں کے مال کی اللچ کی وجہ سے ان کے
درمیان تباہ کن جنگوں کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اسالم نے اس سے
ڈرایا ہے اور سود لینے والوں کو سود کو ترک کرنے ،اس سے توبہ کرنے اور دوبارہ اس
کی طرف نہ لوٹنے کا حکم دیا ہے۔ اور اگر انہوں نے اپنی اس موقع پرست اور مفاد پرست
سیاست سے توبہ نہ کی تو گویا وہ خدا اور اس کے رسول کے خالف جنگ لڑ رہے ہیں۔
[اے ایمان والو! ہللا کا خوف کرو اور جو سود (لوگوں کے ذمے) باقی ہے اسے چھوڑ دو
اگر تم مومن ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ہللا اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ
کے لیے تیار ہو جاؤ اور اگر تم نے توبہ کر لی تو تم اپنے اصل سرمائے کے حقدار ہو ،نہ
تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا].
4
جو سودی نظام کے مقابلے میں ہے کہ جو لوگوں میں نفرت اور دشمنی ایجاد کرتا ہے جب
وہ بغیر کسی محنت کے دوسروں کو ملنے والے بے تحاشا فوائد کی وجہ سے غبن اور
مظلومیت کا احساس کرتے ہیں۔
۲۔ دولت کی مساوی تقسیم اور روزگار کے مواقع کے حصول سے قرض لینے کی ضرورت
کم ہو جاتی ہے ،جس سے سود کے بڑھتے ہوئے رجحانات میں کمی الئی جا سکتی ہے۔
۳۔ معاشرے میں سود کے تباہ کن اثرات کے حوالے سے مذہبی شعور بیدار کرنا کیونکہ
قرض خواہ بھی اپنے تیزی سے بڑھتے ہوئے مختلف جرائم کی بنا پر ان اثرات سے نہیں
بچ پائے گا۔
۴۔ سرمایہ داروں کو مختلف منصوبوں پر سرمایہ کاری کی ترغیب دالنا چاہیے جس سے
روزگار کے مواقع پیدا ہوں ،بے روزگاری کا خاتمہ ہو اور فرد کا معیار زندگی بلند ہو۔ اس
تعالی
ٰ ذریعے سے سرمایہ دار بھی حالل طریقے سے بے پناہ منافع کما سکتا ہے جسے ہللا
نے مبارک قرار دیا ہے۔ اور اس کی وجہ سے ایک مضبوط اور متوازن معاشرہ بھی وجود
میں آئے گا جس میں لوگوں کی ضروریات بھی کم ہوں اور جرائم کی بھی روک تھام ہو گی۔
Kamran Baloch
Bs IT
5