Professional Documents
Culture Documents
2622 Ea PDF
2622 Ea PDF
یقینا ً تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ،ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہیں ،اسی سے مدد کے طلب
گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں ،نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی
پناہ چاہتے ہیں ،جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا ،اور جسے وہ
گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا ،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبو ِد
بر حق نہیں ،وہ تنہا ہے اسکا کوئی شریک نہیں ،اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ
کے بندے اور اسکے رسول ہیں ،اللہ تعالی آپ پر ،آپکی آل ،اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و
سالمتی نازل فرمائے۔
حمد و صالۃ کے بعد:
اللہ کے بندو! تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے ،تقوی
نور بصیرت ہے اور اسی سے احیائے قلب و ضمیر ہوگا۔ الہی ِ
مسلمانو!
صرف اللہ تعالی کی عبادت ہی لوگوں کو پیدا کرنے اور انہیں احکامات صادر کرنے کا
مقصد ہے ،اسی کیلیے رسولوں کو بھیجا گیا ،کتابیں نازل کی گئیں ،مخلوقات کیلیے شرف ،سعادت
مندی ،کامیابی و کامرانی اسی میں ہے ،بلکہ اللہ تعالی کے ہاں لوگوں کی درجہ بندی عبادت گزاری
فرمان باری تعالی ہے { :إِنَّ أَك َْر َم ُك ْم ِع ْن َد اللَّ ِه أَتْقَا ُك ْم} یقینا ً اللہ تعالی کے ہاں
ِ کے مطابق ہی ہوگی،
وہی مکرم ہے جو زیادہ متقی ہے۔[الحجرات ]31 :
الله تعالی كا ایک فضل و کرم یہ ہے کہ اس نے مخلوق کیلیے عبادت میں لذت پیدا کرنے
اور عبادت کے ذریعے لوگوں کے درجات بلند کرنے کیلیے عبادات میں تنوع رکھا ہے،دین میں
ایک عبادت ایسی ہے جو دیگر تمام عبادات سے مقدم ہے ،دیگر عبادات کی تصحیح اسی پر
محصور ہے ،یہ عبادت بجا النے واال کامران ہوگا ،جبکہ اس میں کوتاہی برتنے واال پشیمان ہوگا،
اللہ تعالی نے یہ عبادت سر انجام دینے والوں کی تعریف بیان کی ،اس عبادت کی وجہ سے بہت سی
مخلوق کو فضیلت بخشی ،یہ عبادت انسان کو اپنے رب سے مالتی ہے ،اور زندگی کے گوشوں کو
منور کرتی ہے ،معاملہ معیشت کا ہو یا آخرت کا اسی طرح انسان کمال و بحال اسی وقت ہوگا جب ّ
یہ عبادت ادا ہو ،اللہ تعالی کی بندگی کیلیے اس جیسی کوئی عبادت نہیں ،اسی کے ذریعے معرفت و
ت الہی ہوگی ،حمد و ثنا اور ذکر الہی ممکن ہوگا ،خالق و مخلوق کے حقوق معلوم ہونگے، عباد ِ
حالل و حرام ،حق و باطل ،صحیح و غلط ،مفید و غیر مفید ،اچھے اور برے میں امتیاز کیا جا
سکے گا ،یہ عبادت تنہائی کی ساتھی اور خلوت کی رفیق ہے ،غفلت کے وقت متنبہ کرتی ہے،
ت الہی ،اپنے چاہنے والوں کیلیے زینت اور اسے حاصل کرنا خود ایک عبادت ہے ،اسے پھیالنا قرب ِ
باعث امان ہے ،قلب و بصیرت کو منور کرتی ہے ،ذہن و ضمیر کو مضبوط بناتی ہے ،اسے اپنانے
والے اہل زمین کیلیے آسمان کے تاروں کی مانند ہیں ،چنانچہ انہی سے رہنمائی لی جاتی ہے ،یہی
عبادت مخلوقات کیلیے باعث حسن و جمال ہے ،امت کیلیے قلعہ اور ذرہ کی حیثیت رکھتے ہیں ،اگر
وہ نہ ہوں تو دین کا نام و نشان ہی مٹ جائے ،اسی عبادت میں امت کی بہتری اور ترقی ،لوگوں
)HISTORY AFKAAR (2622
END TERM ASSESSMENT 2019
کیلیے استقامت و تزکیہ ،انسانیت کی ہدایت و سعادت مندی ،نسلوں کا تحفظ اور سالمتی پنہاں ہے،
اس کی ضرورت تمام ضرورتوں سے زیادہ ہے ،اس کے بغیر صرف تباہی اور بربادی ہے ،امام
احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں" :لوگوں کو علم کی کھانے پینے سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے؛ کیونکہ
کھانے پینے کی ضرورت دن میں ایک یا دو مرتبہ ہوتی ہے ،لیکن علم کی ضرورت ہر وقت رہتی
ہے"
ہماری امت ہی علم کی بنیاد پر قائم ہوئی چنانچہ سب سے پہلی آیت ہی حصو ِل علم کی
س ِم َر ِبّكَ الَّذِي َخلَقَ } اپنے پروردگار کے نام سے پڑھیں جس نے ترغیب کیلیے نازل کی گئی{ :اِ ْق َرأْ بِا ْ
پیدا کیا ہے۔[العلق ]3 :
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں" :سب سے پہلے قرآن کریم کی یہی مبارک آیات نازل ہوئیں،
اور یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر پہلی رحمت اور نعمت تھیں"
اللہ تعالی نے اپنا ایک نام "العلیم" بھی رکھا ،اپنے آپ کو علم سے موصوف کیا ،بلکہ
علَّ َم بِا ْلقَلَ ِم (َ )4
علَّ َم اپنی مخلوق کو اپنا تعارف بھی اسی صفت سے کرواتے ہوئے فرمایا{ :اَلَّذِي َ
سانَ َما لَ ْم یَ ْعلَ ْم } [رب وہی ہے]جس نے قلم کے ذریعے علم دیا[ ]4اور انسان کو وہ کچھ سکھایا اْل ْن َ
ِْ
جو اسے معلوم نہیں تھا۔[العلق ]5 - 4 :
پیغام رسالت کا نصف حصہ علم پر مشتمل ہے، ِ پیغام رسالت علم و عمل کا نام ہے ،اس لیے ِ
ق} وہی ذات ہے جس نے اپنے سولَهُ ِبا ْل ُھدَى َو ِدی ِْن ا ْل َح ّ ِ س َل َر ُ َ
فرما ِن باری تعالی ہےُ { :ھ َو الَّذِي أ ْر َ
رسول کو ہدایت -یعنی علم -اور دین حق -یعنی عمل صالح -کیساتھ بھیجا۔[التوبہ]11 :
ب الہی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے ،اور یہ صرف علم سے ہی انسان اور انسانی دل کیلیے ُح ّ ِ
حاصل ہو سکتی ہے۔
فرمان باری تعالی ہے: ِ علم ہی وہ حکمت ہے جسے اللہ تعالی جتنی چاہے عطا فرماتا ہے،
ب} وہ جسے یرا َو َما َیذَّك َُّر ِإ َّال أُولُو ْال َ ْل َبا ِ {یُ ْؤتِي ا ْل ِح ْك َمةَ َم ْن َیشَا ُء َو َم ْن یُ ْؤتَ ا ْل ِح ْك َمةَ فَقَ ْد أُوتِ َي َخی ًْرا َكثِ ً
چاہتا ہے حکمت سے نوازتا ہے ،اور جسے حکمت دے دی جائے تو اسے بہت سی خیر نواز دی
گئی ،اور نصیحت صرف عقل والے ہی پکڑتے ہیں[البقرۃ ]962 :
اللہ تعالی نے آدم علیہ السالم کو علم دیکر احسان جتایا اور پھر علم کے ذریعے فرشتوں
اء
س َم ِعلَى ا ْل َم َالئِ َك ِة فَقَا َل أ َ ْنبِئ ُونِي بِأ َ ْ ض ُھ ْم َ علَّ َم آ َد َم ْال َ ْ
س َما َء ُكلَّ َھا ث ُ َّم ع ََر َ پر ان کی برتری عیاں فرمائیَ { :و َ
صا ِد ِقینَ } اور آدم [علیہ السالم] کو تمام چیزوں کے نام بتالئے ،پھر انہی چیزوں کو َھؤ َُال ِء ِإ ْن ُك ْنت ُ ْم َ
فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا :اگر تم [اپنی بات میں]سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتالؤ
[البقرۃ ]13 :
اللہ تعالی نے انبیائے کرام ،رسولوں اور دیگر جسے چاہا انہیں علم کیلیے مختص فرمایا،
چنانچہ فرشتوں نے ابراہیم علیہ السالم کی اہلیہ کو علم رکھنے والے بچے یعنی اسحاق علیہ السالم
کی خوشخبری دی ۔
یوسف علیہ السالم کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایاَ { :ولَ َّما بَلَ َغ أ َ ُ
ش َّدہُ آت َ ْینَاہُ ُح ْك ًما َو ِع ْل ًما}
وہ جس وقت بھر پور جوان ہوئے تو ہم نے انہیں علم و حکمت سے نوازا[یوسف ]99 :
ع ِلی ٌم} میں ظ َ پھر یہی فضلیت یوسف علیہ السالم نے اپنے بارے میں بھی ذکر کیِ { :إنِّي َح ِفی ٌ
یقینا ً حفاظت کرنے واال اور جاننے واال ہوں۔[یوسف ]55 :
)HISTORY AFKAAR (2622
END TERM ASSESSMENT 2019
ست َ َوى آت َ ْینَاہُ ُح ْك ًماش َّدہُ َوا ْ موسی علیہ السالم پر بھی علم دے کر کرم کیا گیا َ { :ولَ َّما بَلَ َغ أ َ ُ
َو ِع ْل ًما} وہ جس وقت کڑیل جوان ہوئے تو ہم نے انہیں علم و حکمت سے نوازا [القصص ]34 :
داود اور سلیمان علیہما السالم کے بارے میں فرمایاَ { :وك اُال آت َ ْینَا ُح ْك ًما َو ِع ْل ًما} اور ہم نے
ہر ایک کو علم و حکمت سے نوازا[النبیاء ]92 :
علَى َوا ِل َدتِكَ علَ ْیكَ َو َعیسی علیہ السالم کو اسی نعمت کی یاد دہانی بھی کروائی{ :ا ُ ْذك ُْر نِ ْع َمتِي َ
اب َوا ْل ِح ْك َمةَ َوالت َّ ْو َراۃَ َو ْ ِ
اْل ْن ِجی َل} علَّ ْمت ُكَ ا ْل ِكت َ َاس فِي ا ْل َم ْھ ِد َو َكھ ًْال َوإِ ْذ َ ُس ت ُ َك ِلّ ُم النَّ َ إِ ْذ أَیَّ ْدت ُكَ بِ ُروحِ ا ْلقُد ِ
عیسی! میرے اس احسان کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیا تھا ،جب میں نے ٰ
روح القدس سے تمہاری مدد کی کہ تو گہوارے میں اور بڑی عمر میں لوگوں سے یکساں کالم کرتا
تھاو اور جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور تورات اور انجیل سکھالئی [المائدۃ ]331 :
سیدنا خضر کے پاس اللہ تعالی کا دیا ہوا ایسا علم تھا جو کسی اور کے پاس نہیں تھا اسی
فضیلت کے باعث اولو العزم پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر بھی سفر کر کے ان کے پاس جا
علَّ ْمنَاہُ ِم ْن لَ ُدنَّا ِع ْل ًما} وہاں [موسی اور ع ْبدًا ِم ْن ِعبَا ِدنَا آت َ ْینَاہُ َرحْ َمةً ِم ْن ِع ْن ِدنَا َو َ پہنچتے ہیں{ :فَ َو َجدَا َ
ان کے ساتھی]نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے [خضر]کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے
نوازا تھا ،اور اپنے ہاں سے علم سکھایا تھا [الكھف ]65 :
سلیمان علیہ السالم کے فوجیوں میں سے جس کے پاس سب سے زیادہ علم تھا وہی
ب أَنَا آتِیكَ ِب ِه قَ ْب َل أ َ ْن یَ ْرت َ َّد ِإلَ ْیكَ َط ْرفُكَ } جس کے پاس کتاب کا طاقتور تھا{ :قَا َل الَّذِي ِع ْن َدہُ ِع ْل ٌم ِمنَ ا ْل ِكتَا ِ
علم تھا وہ [سلیمان علیہ السالم سے]کہنے لگا کہ آپ کے پلک جھپکانے سے بھی پہلے میں اس
ت سبا] کو آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں ۔[النمل ]41 : [تخ ِ
اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ پر کی ہوئی نعمتیں شمار کرواتے ہوئے علم کو سب سے
علَّ َمكَ َما لَ ْم تَك ُْن ت َ ْعلَ ُم} اللہ تعالی نے اب َوا ْل ِح ْك َمةَ َو َ اعلی و ارفع مقام عطا فرمایاَ { :وأ َ ْن َز َل اللَّهُ َ
علَ ْیكَ ا ْل ِكت َ َ
آپ پر کتاب و حکمت نازل کی اور آپ کو ان چیزوں کا علم دیا جو آپ نہیں جانتے تھے۔[النساء :
]331
نیز اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو علم کے سوا کسی بھی چیز میں اضافے کی دعا کا حکم نہیں
ب ِز ْدنِي ِع ْل ًما} اور آپ کہہ دیں :میرے پروردگار! مجھے مزید علم عطا دیا ،فرمایاَ { :وقُ ْل َر ّ ِ
فرما۔[طہ ]334 :
وارثان علم ان کے بعد سب سے ِ علم انبیائے کرام کی وراثت ہے ،چنانچہ انبیائے کرام کے
بہترین درجے کے مالک ہونگے ،اور وہی ان کے قریب ترین بھی قرار پائیں گے ،آپ ﷺ کا فرمان
ہے( :علما انبیائے کرام کے وارث ہیں ،انبیائے کرام وراثت میں درہم و دینار چھوڑ کر نہیں جاتے
بلکہ علم چھوڑ کر جاتے ہیں ،چنانچہ جو علم حاصل کرے تو اس نے بہت بڑا حصہ لے لیا) ترمذی
اللہ تعالی نے اہل علم کو اپنی الوہیت کیلیے گواہ بھی بنایا اور فرمایا{ :ش َِھ َد اللَّهُ أَنَّهُ َال إِلَهَ
تعالی ،فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ٰ س ِط} اللہ إِ َّال ُھ َو َوا ْل َم َالئِكَةُ َوأُولُو ا ْل ِع ْل ِم قَائِ ًما بِا ْل ِق ْ
ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے واال ہے [آل عمران ]31 :
علم کی وجہ سے اللہ تعالی کا ڈر پیدا ہوتا ہے اور اس کی اطاعت کی جاتی ہے{ :إِنَّ َما یَ ْخشَى
اللَّهَ ِم ْن ِع َبا ِد ِہ ا ْل ُعلَ َما ُء} یقینا ً بندوں میں سے اللہ تعالی سے ڈرنے والے علما ہی ہوتے ہیں۔[فاطر :
]91
)HISTORY AFKAAR (2622
END TERM ASSESSMENT 2019
زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں " :اللہ تعالی کی حصو ِل علم جیسی کوئی عبادت ہے ہی نہیں"
حصو ِل علم خیر و بھالئی ہے( :اللہ تعالی جس کے بارے میں خیر کا ارادہ فرما لے اسے
دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے) متفق علیہ
(دور جاہلیتِ سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہی بہترین لوگ ہیں ،آپ ﷺ کا فرمان ہے:
کے بہترین لوگ اسالم میں بھی بہترین ہیں بشرطیکہ دین کی سمجھ رکھتے ہوں) متفق علیہ
علم اعمال اور درجات میں درجہ بندی کا ترازو ہے ،علم کی وجہ سے ہی اعمال میں
ت نبوی کی پیروی صرف بہتری اور عمدگی پیدا ہوتی ہے ،چنانچہ انسان کا عقیدہ ،اخالص ،اور سن ِ
فرمان باری تعالی ہے{ :فَا ْعلَ ْم أَنَّهُ َال ِإلَهَ ِإ َّال اللَّهُ} جان لو کہ :اللہ کے ِ علم کے ذریعے ہی ممکن ہے،
سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے[محمد ،]32 :اللہ تعالی نے یہاں قول و عمل سے پہلے علم کو
ذکر کیا ہے۔
جب تک روئے زمین پر علم باقی رہے گا تو لوگ ہدایت پر قائم رہیں گے ،یہی وجہ ہے کہ
علم کے بغیر اللہ تعالی کی عبادت کرنے واال فائدے کی بجائے نقصان زیادہ کرتا ہے ،شرک و
بدعات علم کی کمی اور اہل علم سے دوری کے باعث ہی پیدا ہوئیں ،کیونکہ گمراہی و جہالت ؛ ال
علمی کا ہی ثمر ہوتا ہے؛ اسی لیے اللہ تعالی نے ہمیں گمراہ لوگوں کے راستے سے پناہ مانگنے
علَی ِْھ ْم َو َال الضَّا ِلّینَ }[ہمارا راستہ] ان لوگوں ب َ غی ِْر ا ْل َم ْغضُو ِ
کا ہر نماز کی ہر رکعت میں حکم دیا ہے{ َ
کا نہ ہو جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ ہی گمراہوں کا ۔[الفاتحہ]9 :
اللہ تعالی نے اہل علم اور جاہلوں میں برابری کو مسترد فرمایا ،اس لیے ان دونوں میں
فرمان باری تعالی ِ برابری نہیں ہے جیسے کہ زندہ اور مردہ ،بینا اور نابینا میں برابری نہیں ہے،
ست َ ِوي الَّ ِذینَ یَ ْعلَ ُمونَ َوالَّ ِذینَ َال یَ ْعلَ ُمونَ } آپ کہہ دیں :کیا صاحب علم اور ال علم برابر ہے { :قُ ْل َھ ْل یَ ْ
ہو سکتے ہیں؟[الزمر ]2 :
ورا َی ْمشِي بِ ِهعلم ہی لوگوں کیلیے زندگی و روشنی ہے{:أ َ َو َم ْن كَانَ َم ْیتًا فَأَحْ َی ْینَا ُہ َو َج َع ْلنَا لَهُ نُ ً
ْس ِب َخ ِارجٍ ِم ْن َھا} بھال وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ ت لَی َ اس َك َم ْن َمثَلُهُ فِي ال ُّ
ظلُ َما ِ فِي النَّ ِ
کیا اور اس کو روشنی عطا کی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں زندگی بسر کر رہا ہے اس شخص
جیسا ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہو اور اس کے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہو؟ [النعام :
]399
حسن سیرت اور دین کی سمجھ مؤمنین کی خصوصی صفات ہیں ،اسی لیے ان کے سینے
ُور الَّ ِذینَ أُوتُوا ا ْل ِع ْل َم } بلکہ [قرآن ]تو واضح صد ِ علم سے منور ہوتے ہیں{ :بَ ْل ُھ َو آیَاتٌ بَ ِیّنَاتٌ فِي ُ
آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے[العنكبوت ]42 :
صرف اہل علم کو اللہ تعالی نے قرآن کریم کی امثال سمجھنے اور ان کے معنی و مفہوم کا
اس َو َما یَ ْع ِقلُ َھا إِ َّال ا ْلعَا ِل ُمونَ } یہ مثالیں ہم لوگوں ادراک رکھنے واال قرار دیاَ { :وتِ ْلكَ ْال َ ْمثَا ُل نَ ْ
ض ِربُ َھا ِللنَّ ِ
کیلیے بیان کرتے ہیں اور انہیں علما کے عالوہ کوئی نہیں سمجھتا۔[العنكبوت ]41 :
علمی مجلسوں اور وہاں کے حاضرین کو رحمت ڈھانپ لیتی ہے ،ان پر سکینت نازل ہوتی
ہے ،فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں( :بیشک فرشتے طالب علم کو راضی کرنے
کیلیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں) ترمذی
)HISTORY AFKAAR (2622
END TERM ASSESSMENT 2019
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں " :اگر حصول علم سے صرف قرب الہی ملے ،عالم
مالئکہ سے تعلق بنے اور مأل االعلی کی صحبت ملے تو یہی علم کی قدر و منزلت اور شان کیلیے
کافی تھا ،لیکن یہاں تو دنیا و آخرت کی عزت بھی حصول علم کیساتھ منسلک اور مشروط ہے"
اہل علم کی مجلسوں میں حکمت و دانائی پائی جاتی ہے ،وہی پوری امت کیلیے بہترین
نمونہ ہیں ،اہل علم کو ذاتی فائدہ تو ہوتا ہی ہے دوسرے بھی ان سے مستفید ہوتے ہیں ،یہی وجہ
ہے کہ ہر کوئی انہیں اچھے لفظوں میں یاد کرتا ہے اور دعائیں دیتا ہے ،آپ ﷺ کا فرمان ہے( :اللہ
تعالی ،اللہ کے فرشتے ،آسمان و زمین کے تمام مکین حتی کہ چیونٹیاں بھی اپنے بلوں میں اور
مچھلیاں بھی لوگوں کو بھالئی سکھانے والے کیلیے دعائیں کرتی ہیں) ترمذی
حصول علم کیلیے جد و جہد بھی "فی سبیل اللہ" میں شمار ہوتی ہے ،چنانچہ ابو درداء
رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ " :جو شخص حصو ِل علم کیلیے صبح شام آنا جانا جہاد میں شمار نہیں
کرتا اس کی عقل اور رائے دونوں ناقص ہیں"
حصول علم کیلیے مقابلہ بازی بھی قابل ستائش عمل ہے ،چنانچہ دو لوگوں کے بارے میں
رشک کیا جا سکتا ہے علم پھیالنے واال اور مال خرچ کرنے واال ،اس کے عالوہ کسی بھی چیز کے
بارے میں رشک نہیں کرنا چاہیے آپ ﷺ کا فرمان ہے( :رشک صرف دو لوگوں کے بارے میں کیا
جا سکتا ہے :ایک وہ شخص جسے اللہ تعالی نے خوب مال نوازا اور پھر اسے حق کے راستے
میں خرچ کرنے کی توفیق دی[ ،دوسرا ] وہ آدمی جسے اللہ تعالی نے حکمت [علم] سے نوازا تو
وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور آگے لوگوں کو سکھاتا ہے) متفق علیہ
شرعی اور تقدیری فیصلوں کا متفقہ اصول ہے کہ "جیسا کرو گے ویسا بھرو
گے" چنانچہ علم اللہ تعالی کے بارے میں قریب ترین راستے کے ذریعے معلومات فراہم کرتا
ہے ،چنانچہ حصو ِل علم کے راستے پر چلنے واال حقیقت میں اللہ تعالی اور جنت کے قریب ترین
راستے پر چل نکلتا ہے آپ ﷺ کا فرمان ہے(:جو شخص کسی راستے پر علم کی جستجو میں نکلے
تو اس عمل کی وجہ سے اس کیلیے اللہ تعالی جنت کا راستہ آسان بنا دیتا ہے) مسلم
شرعی علم پوری امت کیلیے فتنوں اور مصیبتوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے ،امام مالک رحمہ
اللہ کہتے ہیں " :کچھ لوگوں نے عبادت میں مشغول ہو کر علم حاصل نہیں کیا ،پھر وہی لوگ امت
محمدیہ کے خالف تلوار اٹھا کر بغاوت پر اتر آئے اگر وہ علم حاصل کرتے تو اس اقدام سے باز
رہتے"
فوائ ِد علم کی وجہ سے پوری دھرتی پر علم پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے چاہے وہ معمولی
سا ہی کیوں نہ ہو ،آپ ﷺ کا فرمان ہے( :میری طرف سے [دین]آگے پہنچاؤ چاہے ایک آیت ہی
کیوں نہ ہو) بخاری
اللہ تعالی نے اہل علم سے استفسار اور ان سے رجوع کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:
سأَلُوا أ َ ْھ َل ال ِذّك ِْر إِ ْن ُك ْنت ُ ْم َال ت َ ْعلَ ُمونَ }تم اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے۔ [النبیاء ]9 :
{ فَا ْ
نبی کریم ﷺ نے اہل علم کیلیے تر و تازگی ،خوش باش زندگی ،روشن چہرے اور شرح
صدر کی دعا فرمائی( :اللہ تعالی ایسے شخص کے چہرے کو ہمیشہ تر و تازہ رکھے جو ہم سے
بعینہ آگے پہنچائے ،بہت سے شاگرد اپنے اساتذہ سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں) ترمذی ٖ دین سنے اور
)HISTORY AFKAAR (2622
END TERM ASSESSMENT 2019
نیز نبی ﷺ نے اپنے محبوب صحابی کیلیے دعا فرمائی کہ وہ بھی اہل علم میں شامل ہوں،
چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا( :یا اللہ! اسے دین کا فقیہ بنا دے) بخاری
فرمان باری تعالی ِ علم کی وجہ سے زندگی اور موت کے بعد بھی بلند درجات ملتے ہیں،
ت} اللہ تعالی تم میں سے ایمان والوں اور ہے{ :یَ ْرفَ ِع اللَّهُ الَّ ِذینَ آ َمنُوا ِم ْن ُك ْم َوالَّ ِذینَ أُوتُوا ا ْل ِع ْل َم د ََر َجا ٍ
اہل علم کے درجات بلند فرماتا ہے۔[المجادلۃ ]33 :
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں " :علم حاصل کر کے عمل کرنے والے اور پھر آگے پھیالنے
والے کو ہی آسمانوں میں "عظیم" کہہ کر پکارا جائے گا"
صاحب علم کو مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچتا رہے گا ،آپ ﷺ کا فرمان ہے( :جس وقت
انسان فوت ہو جائے تو تین ذرائع کے عالوہ اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں :صدقہ جاریہ ،علم
جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں ،نیک اوالد جو اس کیلیے دعائیں کرے) مسلم
افضل ترین علم کی کتاب و سنت میں مدح سرائی بھی کی گئی ہے اور یہ وہی علم ہے جو
ت باری تعالی اور اس کے اسما و صفات کا علم بلند قرآن و سنت سے ماخوذ ہو ،تمام علوم میں ذا ِ
ت َو ِمنَ اوا ٍ
س َم َ س ْب َع َ ترین ہے ،یہی حقیقت میں تخلیق و تدبیر کا مقصد بھی ہے{ :اَللَّهُ الَّذِي َخلَقَ َ
علَى ُك ِ ّل ش َْيءٍ قَدِی ٌر َوأَنَّ اللَّهَ قَ ْد أ َ َحا َط ِب ُك ِ ّل ش َْيءٍ ِع ْل ًما} ض ِمثْلَ ُھنَّ یَتَنَ َّز ُل ْال َ ْم ُر بَ ْینَ ُھنَّ ِلت َ ْعلَ ُموا أَنَّ اللَّهَ َ
ْال َ ْر ِ
اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اسی طرح زمینیں بھی ،ان کے درمیان سے حکم نازل
ہوتا ہے ،تاکہ تم جان لو کہ اللہ یقینا ہر چیز پر قادر ہے ،اور یہ کہ اللہ نے علم سے ہر چیز کا
احاطہ کر رکھا ہے۔ [الطالق ]39 :
ہر مسلمان پر علم کی فرض مقدار حاصل کرنا واجب ہے ،وہ اسی کی روشنی میں اپنا عقیدہ
،نمازیں اور روزے صحیح کر سکے گا ،اپنے وقت میں سے کچھ علم کیلیے بھی مختص کرے،
علمی مجالس اور حلقوں میں بیٹھنا بوجھ مت سمجھے۔
طالب علم کو چاہیے کہ علم کی قدر و منزلت کا خیال کرے ،اللہ تعالی سے علم نافع
مانگے ،اور اللہ تعالی سے حسن ظن قائم رکھے ،حصو ِل علم کیلیے تقوی اپنے دامن کیساتھ باندھ
لے ،اپنی نیت خالص اللہ تعالی کیلیے بنائے ،اپنے علم کے ذریعے بیوقوف لوگوں سے مت
جھگڑے ،اور نہ ہی علمائے کرام سے بحث کرے ،حاصل شدہ علم کے مطابق عمل کرنے پر غیر
حاصل شدہ علم بھی اللہ تعالی عطا کر دیتا ہے۔
مسلمانو!
اللہ تعالی نے متالشیان علم کیلیے اسے آسان بنانے ،اور وہ کچھ دینے کا وعدہ کر لیا ہے
فرمان باری تعالی ہے{ :اِ ْق َرأْ َو َربُّكَ ْالَك َْر ُم} ِ جو ابھی طالب علم کے ذہن میں بھی نہیں ہے ،کیونکہ
پڑھو ،تمہارا رب کریم ترین ہے۔[العلق ]1 :
علم کا راستہ بہت آسان اور سب کی پہنچ میں ہے ،چنانچہ قرآن مجید یاد کریں ،نبی ﷺ کی
کچھ احادیث مبارکہ حفظ کریں ،اہل علم کے چنیدہ علمی متن یاد کریں ،انہیں سمجھیں اور پھر ان
پر عمل پیرا بھی ہوں ،جتنا علم زیادہ ہوگا اتنی ہی بلندی ملے گی ،اس طرح انسان رضائے الہی
اور بلند جنتوں کو پا سکتا ہے۔
الر ِجی ِْمَ { :و َما كَانَ ا ْل ُم ْؤ ِمنُونَ ِل َی ْن ِف ُروا كَافَّةً فَلَ ْو َال ان َّ ش ْی َط ِ اس تفصیل کے بعد :أَع ُْوذُ ِبالل ِه ِمنَ ال َّ
ِین َو ِلیُ ْنذ ُِروا قَ ْو َم ُھ ْم إِذَا َر َجعُوا إِلَی ِْھ ْم لَعَلَّ ُھ ْم یَحْ ذَ ُرونَ }نَفَ َر ِم ْن ُك ِ ّل فِ ْرقَ ٍة ِم ْن ُھ ْم َطائِفَةٌ ِلیَتَفَقَّ ُھوا فِي ال ّد ِ
)HISTORY AFKAAR (2622
END TERM ASSESSMENT 2019
مومنوں کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ سب کے سب ہی نکل کھڑے ہوں ،پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ
ہر گروہ میں سے کچھ لوگ دین میں سمجھ پیدا کرنے کے لئے نکلتے تاکہ جب وہ ان کی طرف
واپس جاتے تو اپنے لوگوں کو [برے انجام سے] ڈراتے ،اسی طرح شاید وہ برے کاموں سے بچے
رہتے [التوبۃ]399 :
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت واال بنائے ،مجھے اور آپ
ذکر حکیم کی آیات سے مستفید ہونیکی توفیق دے ،میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتےسب کو ِ
ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں ،تم بھی اسی سے
بخشش مانگو ،بیشک وہی بخشنے واال اور نہایت رحم کرنے واال ہے۔
References:
AIOU Book 2622
تعالی پر ایمان لے آتاہے اور کسی شریعت کا تابع ہوجاتا ہے اور یہ جان لیتا ہے کہ وہ
ٰ انسان جب اللہ
اللہ کا بندہ ہے اور اس کو احکام خدا وندی کو بجا ال تا ہے تو اس وقت ضروری ہے کہ اُس کی زندگی
بسر کر نے کا طریقہ شریعت اسالمیہ اور الہی کے مطابق ہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شریعت کچھ اور کہہ
رہی ہو اور
انسان کا عمال کردار اور زندگی کا طریقہ کچھ اور ہو۔ بلکہ ضروری ہے کہ انسان کا عملی طریقہ کار
اس شریعت کے مطابق ہو جس پر وہ ایمان رکھتا ہے اور جس کی وہ پیروی کرتا ہے ۔
پس یہ ایک ضروری امر ہے کہ انسان اپنے عملی موقف کا تعُّین کر ے اور یہ جان لے کہ اس نے
زندگی کے مختلف حاالت و واقعات میں کس طرح عمل کرنا ہے ۔اب اگر احکام شریعت واضح ہو تے تو
ہر ایک کے لیے اپنا عملی موقف (زندگی گزارنے کا طریقہ )معین کر نا بہت آسان ہو جاتا اور اس قدر
وسیع و عمیق
علمی ابحاث کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ مگر احکام شریعت اس قدر واضح و بدیہی نہیں ہیں کہ ہر
انسان آسانی سے ان کو جان کر ان کے مطابق زندگی گزار سکے ۔احکا م شریعہ کے غیر واضح ہونے
کا سبب عصر تشریع سے اب تک ایک طویل زما نی فاصلہ ہے ۔
اس زمانی فاصلے کی وجہ سے اکثر احکام شرعی غیر واضح ہو گئے اور ہر انسان کے لیے ان کا
جاننا ممکن نہیں رہا اب اس حالت مینکیا کیا جائے ؟کیا کوئی طریقہ ہے جس کو اپناتے ہوتے ہم ان
احکام شریعت سے واقفیت حاصل کر سکینکہ جن سے ہمیں روزمرہ زندگی میں واسط پڑتا ہے اور
ہمارے پاس ان احکام
شریعت کے وجو د پر دلیل بھی ہو ۔
پس ان حاالت میں ضروری تھا کہ ایک ایسا علم وضع کیا جائے جو اس مشکل مینہمارے کام آسکے
اور ہم اس کے ذریعے پیچیدہ وغیرہ واضح احکام شریعت کو دلیل کے ساتھ جان سکیں اور پھر ان
احکام کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال سکیں۔ اس اہم غرض کے حصول کے لیے علم فقہ وجود میں آیا
۔جو انسان
کو روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات و حاالت سے متعلق احکام شرعیہ کو دلیل سے ثابت
کرے۔جو شخص یہ احکام قرآن وسنت اور دوسرے شرعی منابع سے استنباط کرتا ہے اُسے فقیہ کہاجا
تا ہے اور شرعی منابع میں اجتہاد کے ذریعے سعی وکوشش کو استنباط و استخراج کا نام دیا جا تا
ہے ۔اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی
کہ علم فقہ ،احکام شرعیہ کے استخراج واستنباط کا علم ہے۔ یعنی ؛جس کے ذریعے کتاب و سنت سے
احکام شرعیہ معلوم کیے جا تے ہیں ۔
احکام شرعیہ کے استنباط اور استخراج کے اس اہم کام میں کچھ قواعد وضوابط سے مدد لی جاتی
ہے ،جو مشترک و عام قواعد ہیں ،یہ قواعد تقاضا کر تے ہیں کہ ان کے بارے میں تحقیق و تدقیق کی
جائے۔ ان کو مشخص کیاجائے کہ یہ کون کو ن سے اُصول وقواعد ہینتاکہ ان کو ایک جگہ جمع کر
کے علم فقہ
میں استعمال کے لیے آمادہ کیا جا ئے ۔اس کام کے لیے ایک خاص علم کو وضع کر نے کی ضرورت
تھی ۔ا س غرض کے لئے وضع کئے جانے والے علم کو اصول فقہ کہا جاتا ہے ۔
ابتدا ء میں علم اصول علم فقہ سے جدا علم نہیں تھا بلکہ علم اصول نے علم فقہ کے دامن میں
پرورش پائی جس طرح علم فقہ علم حدیث کی آغوش میں پروران چڑھا اور خود علم حدیث بھی علم
شریعہ سے الگ نہ تھا علم حدیث میناس وقت بنیادی کام جمع نصوص و روایات یا حفظ نصوص و
روایات تھا تاہم اس
مرحلے میں ان نصوص و روایات سے حکم شرعی کے فہم کا طریقہ کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتا
تھا بلکہ بہت سادہ طریقے سے ہی ان روایات سے استفادہ کیا جا تا تھا ۔
اس کے بعدجوں جوں وقت گذرتا گیا؛ نصوص و روایات سے حکم شرعی کافہم تدریجا ً پیچیدہ اور
عمیق ہو تا گیا اور اس کے لئے کچھ اصول وضوابط تعین کئے گئے جن سے ایک علمی اور فقہی
تفکر کی ابتدا ہو ئی اور علم فقہ وجود میں آیا۔ جب علم فقہ میں حکم شرعی کو الگ عمیق وعلمی
انداز میں
نصوص شرعیہ سے استنباط کا عمل وجود میں آیا تواس وقت کچھ قواعد عامہ سامنے آئے جن کو
حکم شرعی استنباط کر نے میں برو ئے کار ال یا جانے لگا۔یہ ایسے عام و مشترک قواعد تھے جو
)HISTORY AFKAAR (2622
END TERM ASSESSMENT 2019
مختلف احکام شرعیہ کے استخراج میں استعمال ہو تے تھے اور علمائے فقہ نے یہ جانا کہ یہ قواعد
عام ہیں اور عملیہ استنباط مینمشترک ہیں
اور ان کے بغیراستخراج حکم شرعی ممکن نہیں ہے ۔یہیں سے اصولی تفکر کی ابتدا ہو ئی اور فقہی
ذہنیت کا رخ اصولی ذہنیت کی طرف ہو گیا یعنی اس کے بعد علم اصول کی باقاعدہ ابتداء ہو گئی ۔
اور اس بات کامطلب یہ نہیں ہے کہ اصولی فکر اس سے پہلے نہیں تھی بلکہ اصولی فکرصادقین
(امام باقرو جعفرصادق) کے زمانے مینبھی اصحاب ائمہ میں اس مرحلے تک پہنچ چکی تھی ۔ اس بات
پر تاریخ گواہ ہے کہ اصحاب ائمہ معصومین خصوصا ً امام صادق ـ کے شاگرد ایسے مشترک اور عام
عناسرکے
بارے میں سوال کرتے تھے ،جو احکام شرعیہ کے عملی استنباط میں کام آتے ہیں اور ائمہ ان کے
سوالوں کے جوابات دیتے تھے ۔یہ سواال ت کتب احادیث مینموجود ہیں؛مثال کے طور پر بعض روایات
میننصوص متعارضہ کے عالج کے بارے پوچھا گیا اوربعض میں حجت خبرواحد اور اصالة براء ۃ
وغیرہ کے بارے سواالت کیے گئے ہیں ۔
اصحاب ائمہ کے اس قسم کے سواالت و جوابات سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ اصولی فکر ان کے
ہاں بھی موجود تھی ۔اور قواعدعامہ (اصولی قواعد)کی تحدید اور وضع کی طرف ان کابھی رحجان تھا
۔بلکہ بعض اصحاب نے تو مسائل اصولیہ پر رسالے بھی تالیف کیے ہیں۔ جیسا کہ اصحاب امام صادق ـ
میں
:سے ہشام بن حکم نے مباحث الفاظ پر رسالہ کی تالیف کیا ہے ۔مالحظہ کیجئے
فہرست نجاشی ٣٤٤رقم ،٧٧١٣تائیس الشعیہ لعلوم اال سالم ٤٧٣۔٤٧٧وسائل الشیعہ ٤،٣١١باب
٣٧ابواب نجاسات ،حدیث اول ،وسائل الشیعہ باب ،٩ابواب صفات قاضی ،وابواب وضو،حدیث اول ۔
تاہم اس دور میں ان عناصر مشترکہ کا علم ،فقہی ابحاث سے کوئی الگ او رمستقل علم نہیں تھا،یوں
لگتا ہے کہ اصولی ابحاث جب تک مستقل علم کے درجہ تک پہنچنے کے قابل نہیں ہوئیں ،علم فقہ و
علم اصول ایک دوسرے میں مدغم رہے۔ بعدمیں تدریجا یہ ابحاث ایک مستقل حیثیت اختیار کرگئیں۔
بلکہ بعض نے ان کو علم کال م و اصول میں سے الگ کیا جیسا کہ سید مرتضی نے اپنی کتاب''
:الذریعہ'' میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے لکھا ہے
قد وجدت بعض من ا فردال صول الفقه کتابا ' ' کہ میں نے بعض ایسے افراد کو پایا جنہوں نے اصول ''
فقہ میں ایک الگ کتاب لکھی (یعنی علم کالم و اصول دین سے الگ )
باوجو اس کے علم اصول فقہ علم اصول دین سے الگ علم بن گیا پھر بھی اس میں علم اصول دین کے
ساتھ مخلوط رہنے کی وجہ سے بعض ابحاث کالمی اس میں داخل ہو گئیں کیونکہ کلمہ اصول ان
دونوں میں مشترک تھا جیسے کہاجا تا ہے کہ اخبا راحاد جو ظنی ہیں ان سے اصول میں استدالل نہیں
کیا
جاسکتا ۔کیونکہ اصول میں دلیل کا قطعی ہو نا ضروری ہے ۔پس کلمہ اصول کے دونوں علموں میں
مشترک ہو نے کی وجہ سے اس فکر کو تقویت ملی کہ اخبار احاد سے اصول فقہ اور اصول دین
)HISTORY AFKAAR (2622
END TERM ASSESSMENT 2019
دونوں میں استدالل ممکن نہیں جب کہ صحیح یہ ہے کہ اصول دین میں دلیل کا قطعی ہونا ضروری ہے
( اور اصول فقہ میں دلیل ظنی
اخباراحاد)سے بھی استدالل کیا جاسکتا ہے ۔
بہرحال تدریجا ًیہ علم یعنی قواعد عامہ کے ساتھ مشترکہ عناصر کا علم دوسرے علوم سے الگ شکل
اختیار کرتاگیا جوں جوں اس میں وسعت آتی گئی یہاں تک کہ علم اصول مرحلہ تصنیف میں داخل ہو
گیا ۔
صغری کے بعد چوتھی صدی ہجری کے ابتداء کا زمانہ ہے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ٰ یہ غیبت
کبری کے آغاز کے ساتھ ) عصر نص ختم ہوا تو امامیہ فقہا کے ہاں باقاعدہ اصولی ٰ جو نہی(غیبت
ابحاث واضح طور پر نظر آنے لگیں گویا کہ ان کی اصولی ذہنیت کھل کر سامنے آگئی ۔تاہم عصرنص
میں اس کی ضرورت پیش نہیں آئی مگر اصولی فکر اس وقت بھی پائی جاتی تھی ۔اصولی میدان میں
سب سے پہلے جن فقہا ء امامیہ
نے کردار ادا کیا ان میں سے حسن بن علی ابن ابی عقیل اور محمد بن احمد ابن جنید کے نام سہر
فہرست ہیں ۔
References:
AIOU Book 2622
دراصل اسالم کا ایک مک ّمل اقتصادی نظام ہے ،جس کی بنیاد قرآن ،حدیث اور ][1اسالمی اقتصادی نظام
اور اشتمالیت سے الگ ایک مک ّمل فقہی اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ سرمایہ داری نظام ،اشتراکیت
ان کی بنیادی ستونوں ][2][3اقتصادی نظام ہے۔ اس نظام میں باقی نظاموں کی طرح کوئی خامی نہیں۔
بطور زر (پیسہ) )4وادیعہ (بینک اورنقرئی درہم طالئی دینار )میں )3سود کی ممانعت ٰ )9
زکوۃ 1 ِ
][4کامتبادل مخزن کا ادارہ ) )5قمار ،غرر وغیرہ کی ممانعت )6آزاد بازار (سوق) وغیرہ شامل ہیں۔
وغیرہ سے یکسر مختلف ہے۔ اسالمی معاشی اور اشتراکیت اسالمی اقتصادی نظام سرمایہ داری نظام
نظام کو مختصرا َ یوں بیان کیا جا سکتا ہیں کہ اس نظام کا ‘‘دِل’’تجارت ہے۔ لہٰ ذا اسالمی اقتصادی نظام
اورنقرئی درہم ،گندم ،میں ‘‘زر’’یعنی پیسہ حقیقی دولت پر مبنی جنس ہوتا ہے جیسے طالئی دینار
سے پاک ہوتیں ہیں۔ یہ آزاد بازاروں پر مبنی ہوتی ہے جہاں پر ہر چاول وغیرہ۔ یہ سود ،قمار ،غرر
شخص اپنی تجارتی اشیاء کی فروخت کر سکتا ہے۔ جہاں تھوک فروشی تک ہر شخص کی یکساں
رسائی ہوتی ہے۔ ہر چھوٹا کاری گر و صنعت کار اپنا کارخانہ خود بنا سکے گا۔ ان اوقاف میں
وادیعہ (بینک کامتبادل) کے ][5شرکت،مضاربت ،مرابحہ وغیرہ کے طریقوں سے تجارت ہوتی ہے۔
ذریعے حکومت سرکاری مالزمین کی تنخواہیں ان کی حسابوں میں منتقل کرے گی اور وہاں ان کی
دولت امانت کے طور پر محفوظ رکھی جائے گی۔ ‘‘شرعی زر’’کا معیار حکومت مہیا کرتی ہے۔ ملکی
میں جمع ہوتا ہے۔ ان سب اداروں کی نگرانی حسبۃ کرتی ہے۔ غریب عوام سے کوئی خزانہ بیت المال
)HISTORY AFKAAR (2622
END TERM ASSESSMENT 2019
محصول وصول نہیں کیا جائے گا بلکہ حکومت امیروں سے محصول
زکوۃ ،عُشر ،خراج ،جزیہ)(Tax وغیرہ کی صورت میں لے کر غریبوں میں بانٹے گی۔ اسالمی ٰ ،
کو محدود کیا جاتا ہے اور سرکاری اداروں کی نجکاری پر مکمل پابندی اقتصادی نظام میں نجکاری
ہوتی ہے۔ دریاؤں ،ڈیموں ،نہروں ،تیل ،گیس ،کوئلے ،بجلی ،جنگالت ،چراگاہوں وغیرہ کی نجکاری
نہیں کی جا سکتیں۔ روٹی ،کپڑا ،مکان اور پانی کی حکو مت کی جانب سے مفت فراہمی کی جائے گی۔
بیمہ کمپنیوں پر مکمل پابندی لگائی جائے گی۔ لہٰ ذا سونے کے دینار اور چاندی کے درہم موجودہ
کاغذی نوٹوں کی جگہ لے گی۔ وادیعہ کے مراکز قائم کرنے سے بینکوں کا کام ختم ہو جائے گا۔ اوقاف
ختم ہو جائے گی۔ بین کی بحالی سے بازاروں ،تھوک فروشی اور صنعتی مراکز کی اجارہ داری
کے لیے مال کے بدلے مال کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور جہاں کہی یہ طریقہ االقوامی تجارت
کو بنانے کے لیے ’’شرعی زر‘‘ ممکن نہ ہو تو وہ وہاں پرسونے کو بطور زر استعمال کیا جائے گا۔
حکومت ضرب خانے (ٹکسال) بناتی ہے اور ملکی خزانہ بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔ جس
کا خاتمہ ہو جائے گا اور نفع کمانے کے لیے لوگ اوقاف کا ُرخ کریں گے جہاں سے مرکزی بینک
کی کوئی ) (Stock Exchangeحقیقی معنوں میں تجارت اور کاروبار ہوگی۔ لہٰ ذا بازار حصص
شرعی زر کے دوسرے ممالک کی کرنسیوں سے باہم مبادلے کے لیے وکالہ ضرورت نہیں ہوگی۔ اور
(Foreign Exchangeکے آزاد مراکز قائم کیے جائے نگے۔ لہٰ ذا اجارہ داری پرمبنی صرافہ بازاروں
کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور ملکی بجٹ ملکی آمدنی کودیکھ کر بنایا جائے گا۔ جس کی وجہ )Markets
بین ( سے قومی اور گردشی قرضوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور نہ ہی ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ
کے قرضوں کی ضرورت ہوگی۔ مسلم ممالک کے مابین آزاد تجارت ہو گی اور ان )االقوامی مالیاتی فنڈ
ممالک کے اموال ممالک کے اموال تجارت پر کوئی محصول نہیں لگایا جائے گا جو مسلمان
تجارت میں انتہائی اضافہ ہو جائے گا۔ نہیں لگاتے۔ جس کی وجہ سے ملکی اور بین االقوامی پر ٹیکس
لہٰ ذا اسالمی معاشی نظام کی مکمل بحالی سے ہمارے سارے کام بطریق اَحسن انجام پائیں گے اور ہمیں
مغربی نظام سے کوئی چیز لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
)3اسالمی شریعت کے بہت سارے واضح احکام عین سیاست سے متعلق ہیں ۔اسالم محض روحانی
عقیدہ ہ یا چند دینی رسم ورواج کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ عقیدہ بھی ہے اور عبادت بھی اور تمام دنیوی
معامالت کو بہ حسن و خوبی برتنے کا ایک بہترین نظام بھی یہ دنیوی مسائل خواہ سیاسی ہوں یا
معاشرتی اور اقتصادی یاان کا تعلق معامالت سے ہو۔ یہ مسائل چاہے حالت امن سے تعلق رکھتے ہوں
یا حالت جنگ سے ان تمام امور میں دین اسالم کے واضح قواعد واصول ہیں ۔ ان اصول وقواعد سے
ردگردانی اور غیروں کے نظام حیات کی پیروی دراصل اس خالق کائنات سے بغاوت ہے جس نے
انسانوں کی بھالئی کے لیے یہ اصول وقواعد وضع کیے ہوں اور جن کی حقانیت کا زبانی دعوی کیا
جاتا ہے۔
غور کیا جائے توعقیدہ توحید محض ایک روحانی عقیدہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک انقالبی سیاسی نعرہ
بھی ہے جو انسان کو مساوات آزادی اور اخوت ومحبت کی دعوت دیتا ہے۔انسان کو انسان کی بندگی
سے نکال کر خالق کائنات کی بندگی میں لے جانا چاہتا ہے تاکہ کوئی بندہ بشر مطلق العنان حاکم بن کر
دوسرے بندوں کے سیاسی اور سماجی حقوق نہ چھین لے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ
)HISTORY AFKAAR (2622
END TERM ASSESSMENT 2019
وسلم جب بادشاہوں کے نام خطوط ارسال کرتے اور انھیں اسالم کی دعوت دیتے توآخر میں یہ آیت
کریمہ ضرور نقل کرتے تھے۔
سواءٍ بَینَنا َوبَینَكُم أ َ ّال نَعبُ َد إِ َّال اللَّهَ َوال نُ ِ
شركَ ِب ِه شَیـا َوال یَت َّ ِخذَ بَعضُنا بَعضًا ﴿قُل ی ٰـأَھ َل ال ِكت ٰـ ِ
ب تَعالَوا إِ ٰ
لى َك ِل َم ٍة َ
دون اللَّ ِه فَ ِإن ت َ َولَّوا فَقولُوا اش َھدوا بِأَنّا ُمس ِلمونَ ﴿ ...﴾٤٣سورۃ آل عمران أَربابًا ِمن ِ
"آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آو جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم
تعالی کو
ٰ تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں ،نہ اللہ ٰ اللہ
چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں۔ پس اگر وہ منھ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو
ہم تو مسلمان ہیں"
()9خود کو سیاسی مسائل سے الگ تھلگ کر کے کوئی مسلمان مکمل مسلمان نہیں ہو سکتا ۔کیوں کہ
اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن وحدیث میں متعدد مقامات پر ہر مسلمان پر
اس بات کی ذمہ داری عائدہ کی ہے کہ وہ"امر بالمعروف ونہی عن المنکر"کافرفریضہ انجام دے۔ اللہ
اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا الزمی تقاضا یہ ہے کہ ہر مسلم شخص
معاشرے کی جملہ برائیوں کے خاتمے کے لیے جدو جہد کرے اور بھلی باتوں کو عام کرنے کے لیے
سر گرم رہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے افضل جہاد اس عمل کو قراردیا ہے کہ ظالم و
جابرحکمراں کے روبرو حق بات کہی جائے" :أفضل الجھاد كلمة عدل عند سلطان جائر"
"سب سے افضل جہاد ظالم حکمرانوں کے سامنے حق بات کہنا ہے۔"
اسالم اس بات کا حکم دیتا ہے کہ معاشرے میں کمزوراور مظلوم انسانوں کی مدد کی جائے۔اور ان کے
حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے۔اللہ کا فرمان ہے:
ساء َوال ِولد ِن الَّذینَ یَقولونَ َربَّنا أ َ ِ
خرجنا سبی ِل اللَّ ِه َوال ُمستَضعَفینَ ِمنَ ِ ّ
الرجا ِل َوال ِنّ ِ ﴿ َوما لَكُم ال تُق ٰـتِلونَ فى َ
ظا ِل ِم أَھلُھا ...﴾١٧﴿...سورۃ النساء ِمن ھ ٰـ ِذ ِہ القَر َی ِة ال ّ
"آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو
کمزور پا کردبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدا یا ہمیں اس بستی سے نکال جس کے
باشندے ظالم ہیں۔"
اور اللہ ان لوگوں کے لیے سخت نفرت کا اظہار کرتا ہے جو ظلم سہتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں اور
کم ازکم اتنا بھی نہیں کرتے کہ ظلم کی بستی سے ہجرت کر جائیں۔
﴿ إِنَّ الَّذینَ ت َ َوفّ ٰى ُھ ُم ال َمل ٰـئِكَةُ ظا ِلمى أَنفُس ِِھم قالوا فی َم كُنتُم قالوا ُكنّا ُمستَضعَفینَ فِى ال َ ِ
رض قالوا أَلَم تَكُن
صیرا ﴿ ...﴾٩١سورۃالنساء ھاجروا فیھا فَأُول ٰـ ِئكَ َم ٰ
أوى ُھم َج َھنَّ ُم َوسا َءت َم ً س َعةً فَت ُ ِ رض اللَّ ِه و ِأَ ُ
"جو لوگ اپنی جانوں پرظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے
ہیں ،تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے
تعالی کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے
ٰ ہیں کیا اللہ
اور وہ پہنچنے کی بری جگہ ہے"
)HISTORY AFKAAR (2622
END TERM ASSESSMENT 2019
اللہ لعنت بھیجتا ہے ایسے لوگوں پر جو معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں پر خاموشی اختیار کیے
رہتے ہیں اور انھیں دور کرنے کی ذرہ برابر فکر نہیں کرتے۔ اللہ فرماتا ہے:
صوا َوكانوا ابن َمریَ َم ذ ِلكَ ِبما َ
ع َ سى ِسان داود َد َوعی َ
َلى ِل ِ ﴿لُ ِعنَ الَّذینَ َكفَروا ِمن بَنى إِسرءی َل ع ٰ
ئس ما كانوا یَفعَلونَ ﴿ ...﴾١٩سورۃ المائدۃ یَعت َدونَ ﴿ ﴾١٧كانوا ال یَتَناھَونَ عَن ُمنك ٍَر فَعَلوہُ لَبِ َ
علماء کی اکثریت کا کہنا ہے کہ تاویل اور تفسیر دونوں ہم معنی ہیں۔جن میں ابوعبید ،مجاہد اور ابن
آی ا ْلقُ ِ
رآن ان ِفی تَأ ِو ْی ِل ِ جام ُع ال َب َی ِ
جریر الطبری بھی شامل ہیں۔ ابن جریر نے تو اپنی تفسیر کا نام بھی ( ِ
ف أَہ ْ ُل التَّأ ِو ْی ِل یا ا َ ْلقَ ْو ُل فِی
اختَلَ َ
)رکھا ہے۔ اس لئے وہ ہر آیت کی تفسیر کرتے ہوئے یہی کہتے ہیں ْ :
تَأ ِو ْی ِل اآلیَ ِۃ۔ایک اور رائے ہے :کہ تاویل کا لفظ کئی لحاظ سے تفسیر سے بالکل ہی مختلف معنی رکھتا
ہے۔ امام راغب اصفہانی ؒ کے نزدیک تفسیر سے مراد کالم ٰالہی اور کالم انسانی دونوں کی تشریح کرنا
ہے جبکہ تاویل صرف کتب ٰالہیہ کی تشریح کا نام ہے۔امام منصور ؒ کہتے ہیں :تفسیر ،قرآن کی مراد
کو قطعی طور پر متعین کرنے کانام ہے جبکہ تاویل الفاظ قرآن کے زیر احتمال معانی میں سے کسی
ایک کو غیر یقینی طور پر معین کرنے کا نام ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ مفسرین ان دونوں
الفاظ کا فرق نہ جان سکے۔وہ یہ سمجھتے رہے کہ تفسیر کا تعلق نص اور اس سے ماخوذ مفہوم سے
ہے جبکہ تاویل نص کی گہرائی میں اترنے کا نام ہے۔یا پھر لفظ قرآن کے مختلف محتمل معانی کی
وضاحت کو کہتے ہیں۔بعض نے تفسیر اسے کہا جو بذریعہ روایت ہو اور تاویل وہ جو بذریعہ درایت
ہو۔
ان تمام آراء میں سب سے بہتر رائے امام ابو عبیدؒ کی ہے کیونکہ قرآن و سنت میں تفسیر کی جگہ
۔۔۔و َما یَ ْعلَ ُم تَا ْٔ ِو ْیلَہُ إِالَّ اللّ ُہ۔۔۔ } (ال
تاویل کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ مثالً :ارشاد باری ہے { َ :
ب۔ ع ِلّ ْم ُہ تَأ ِو ْی َل ا ْل ِکتَا ِ
عمران )١:اور دعائے رسول بھی ہم پڑھ آئے ہیں :اللہم َ
فقہ وعقائد کے صحیح احکام تک رسائی کا نام بھی تاویل ہے تاکہ عام مسلمان کو ان احکام کی تمام
حدود وقیود کا علم ہوسکے۔رسائی اگر برعکس ہو تو نتیجہ غلط ہوسکتا ہے جسے تاویل فاسد کہا
جاتا ہے جیسے { َوات َّ َخذَ اللّہُ إِب َْراہ ِ ْی َم َخ ِلی ًْال } (النساء)٧۲۱:میں خلیل سے مراد فقیر لینا اور اصلی معنی
نامناسب کہنا ،تاویل فاسد ہے۔
یہی تاویلی اورمرادی معنی آج متعدد تراجم قرآن اور تفاسیر میں بخوبی نوٹ کیا جاسکتا ہے ۔جن سے
مترجمین اور مفسرین کے رجحانات کا بھی علم ہوتا ہے اور قرآن کریم سے دشمنی رکھنے والوں کا
بھی۔ یہ منہج فتنہ ابھارنے کا اگر نہ بھی ہوتو کم از کم اپنی من مانی تأویل اور سلف صالحین کے منہج
:سے ہٹا ہوا ہے۔ جیسے
{ استوی علی العرش} سے مراد جلوہ افروز ہونا ۔ یا {جاء ربک والملک} سے مرادتمہارا رب جلوہ
فرما ہوگا یابعض صحیح احادیث جن میں اللہ تعالی کی صفات بیان ہوئی ہیں ان کا محض عقلی معنی
لینا نہ کہ اصل۔ سوال یہ ہے کہ پھر اس سے مراد کیا ہے ؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہی ہے کہ ہمیں
اس کا معاملہ اللہ تعالی پر چھوڑ دیناچاہئے۔اسالف امت نے ان سب آیات واحادیث کا ایساظاہری معنی
لیا ہے جو اس کی ذات جلیل کو زیبا ہے ،تاکہ مشابہت وکیفیت کے بغیر خالق ومخلوق کی صفات میں
)HISTORY AFKAAR (2622
END TERM ASSESSMENT 2019
فرق ہوسکے۔ اس لئے کہ یہ سب صفات باری تعالی ہیں جنہیں بالتمثیل ماننا اور اللہ تعالی کو منزہ
شافعی فرماتے ہیں ؒ :وپاک سمجھنا ضروری ہے۔امام
ْس۔لوگ دین سے جاہل ان أ َ ْر َ
س َطا َطا ِلی َ س ِبَ ،و َمی ِل ِہ ْم إِ ٰلی ِل َ
سانَ ا ْلعَ َر ِاختَلَفُوا ِإالَّ ِلت َ ْر ِک ِہ ْم ِل َ
اس َوالَ ْ
َما َج ِہ َل النَّ ُ
تبھی ہوئے اور اختالف میں تبھی پڑے جب انہوں نے عربی زبان ترک کردی اور ارسطو فلسفی کی
زبان کے شوقین بنے۔