You are on page 1of 17

‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬

‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬

‫یقینا ً تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں‪ ،‬ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہیں‪ ،‬اسی سے مدد کے طلب‬
‫گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں‪ ،‬نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی‬
‫پناہ چاہتے ہیں‪ ،‬جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا‪ ،‬اور جسے وہ‬
‫گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا‪ ،‬میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبو ِد‬
‫بر حق نہیں ‪ ،‬وہ تنہا ہے اسکا کوئی شریک نہیں‪ ،‬اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ‬
‫کے بندے اور اسکے رسول ہیں‪ ،‬اللہ تعالی آپ پر ‪ ،‬آپکی آل ‪ ،‬اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و‬
‫سالمتی نازل فرمائے۔‬
‫حمد و صالۃ کے بعد‪:‬‬
‫اللہ کے بندو! تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے ‪ ،‬تقوی‬
‫نور بصیرت ہے اور اسی سے احیائے قلب و ضمیر ہوگا۔‬ ‫الہی ِ‬
‫مسلمانو!‬
‫صرف اللہ تعالی کی عبادت ہی لوگوں کو پیدا کرنے اور انہیں احکامات صادر کرنے کا‬
‫مقصد ہے‪ ،‬اسی کیلیے رسولوں کو بھیجا گیا‪ ،‬کتابیں نازل کی گئیں‪ ،‬مخلوقات کیلیے شرف‪ ،‬سعادت‬
‫مندی‪ ،‬کامیابی و کامرانی اسی میں ہے‪ ،‬بلکہ اللہ تعالی کے ہاں لوگوں کی درجہ بندی عبادت گزاری‬
‫فرمان باری تعالی ہے‪ { :‬إِنَّ أَك َْر َم ُك ْم ِع ْن َد اللَّ ِه أَتْقَا ُك ْم} یقینا ً اللہ تعالی کے ہاں‬
‫ِ‬ ‫کے مطابق ہی ہوگی‪،‬‬
‫وہی مکرم ہے جو زیادہ متقی ہے۔[الحجرات ‪]31 :‬‬
‫الله تعالی كا ایک فضل و کرم یہ ہے کہ اس نے مخلوق کیلیے عبادت میں لذت پیدا کرنے‬
‫اور عبادت کے ذریعے لوگوں کے درجات بلند کرنے کیلیے عبادات میں تنوع رکھا ہے‪،‬دین میں‬
‫ایک عبادت ایسی ہے جو دیگر تمام عبادات سے مقدم ہے‪ ،‬دیگر عبادات کی تصحیح اسی پر‬
‫محصور ہے‪ ،‬یہ عبادت بجا النے واال کامران ہوگا‪ ،‬جبکہ اس میں کوتاہی برتنے واال پشیمان ہوگا‪،‬‬
‫اللہ تعالی نے یہ عبادت سر انجام دینے والوں کی تعریف بیان کی‪ ،‬اس عبادت کی وجہ سے بہت سی‬
‫مخلوق کو فضیلت بخشی‪ ،‬یہ عبادت انسان کو اپنے رب سے مالتی ہے‪ ،‬اور زندگی کے گوشوں کو‬
‫منور کرتی ہے‪ ،‬معاملہ معیشت کا ہو یا آخرت کا اسی طرح انسان کمال و بحال اسی وقت ہوگا جب‬ ‫ّ‬
‫یہ عبادت ادا ہو‪ ،‬اللہ تعالی کی بندگی کیلیے اس جیسی کوئی عبادت نہیں‪ ،‬اسی کے ذریعے معرفت و‬
‫ت الہی ہوگی‪ ،‬حمد و ثنا اور ذکر الہی ممکن ہوگا‪ ،‬خالق و مخلوق کے حقوق معلوم ہونگے‪،‬‬ ‫عباد ِ‬
‫حالل و حرام ‪ ،‬حق و باطل‪ ،‬صحیح و غلط‪ ،‬مفید و غیر مفید ‪ ،‬اچھے اور برے میں امتیاز کیا جا‬
‫سکے گا‪ ،‬یہ عبادت تنہائی کی ساتھی اور خلوت کی رفیق ہے‪ ،‬غفلت کے وقت متنبہ کرتی ہے‪،‬‬
‫ت الہی‪ ،‬اپنے چاہنے والوں کیلیے زینت اور‬ ‫اسے حاصل کرنا خود ایک عبادت ہے‪ ،‬اسے پھیالنا قرب ِ‬
‫باعث امان ہے‪ ،‬قلب و بصیرت کو منور کرتی ہے‪ ،‬ذہن و ضمیر کو مضبوط بناتی ہے‪ ،‬اسے اپنانے‬
‫والے اہل زمین کیلیے آسمان کے تاروں کی مانند ہیں‪ ،‬چنانچہ انہی سے رہنمائی لی جاتی ہے‪ ،‬یہی‬
‫عبادت مخلوقات کیلیے باعث حسن و جمال ہے‪ ،‬امت کیلیے قلعہ اور ذرہ کی حیثیت رکھتے ہیں‪ ،‬اگر‬
‫وہ نہ ہوں تو دین کا نام و نشان ہی مٹ جائے‪ ،‬اسی عبادت میں امت کی بہتری اور ترقی ‪ ،‬لوگوں‬
‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫کیلیے استقامت و تزکیہ ‪ ،‬انسانیت کی ہدایت و سعادت مندی‪ ،‬نسلوں کا تحفظ اور سالمتی پنہاں ہے‪،‬‬
‫اس کی ضرورت تمام ضرورتوں سے زیادہ ہے‪ ،‬اس کے بغیر صرف تباہی اور بربادی ہے ‪ ،‬امام‬
‫احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں‪" :‬لوگوں کو علم کی کھانے پینے سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے؛ کیونکہ‬
‫کھانے پینے کی ضرورت دن میں ایک یا دو مرتبہ ہوتی ہے‪ ،‬لیکن علم کی ضرورت ہر وقت رہتی‬
‫ہے"‬
‫ہماری امت ہی علم کی بنیاد پر قائم ہوئی چنانچہ سب سے پہلی آیت ہی حصو ِل علم کی‬
‫س ِم َر ِبّكَ الَّذِي َخلَقَ } اپنے پروردگار کے نام سے پڑھیں جس نے‬ ‫ترغیب کیلیے نازل کی گئی‪{ :‬اِ ْق َرأْ بِا ْ‬
‫پیدا کیا ہے۔[العلق ‪]3 :‬‬
‫ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں‪" :‬سب سے پہلے قرآن کریم کی یہی مبارک آیات نازل ہوئیں‪،‬‬
‫اور یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر پہلی رحمت اور نعمت تھیں"‬
‫اللہ تعالی نے اپنا ایک نام "العلیم" بھی رکھا‪ ،‬اپنے آپ کو علم سے موصوف کیا‪ ،‬بلکہ‬
‫علَّ َم بِا ْلقَلَ ِم (‪َ )4‬‬
‫علَّ َم‬ ‫اپنی مخلوق کو اپنا تعارف بھی اسی صفت سے کرواتے ہوئے فرمایا‪{ :‬اَلَّذِي َ‬
‫سانَ َما لَ ْم یَ ْعلَ ْم } [رب وہی ہے]جس نے قلم کے ذریعے علم دیا[‪ ]4‬اور انسان کو وہ کچھ سکھایا‬ ‫اْل ْن َ‬
‫ِْ‬
‫جو اسے معلوم نہیں تھا۔[العلق ‪]5 - 4 :‬‬
‫پیغام رسالت کا نصف حصہ علم پر مشتمل ہے‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫پیغام رسالت علم و عمل کا نام ہے‪ ،‬اس لیے‬ ‫ِ‬
‫ق} وہی ذات ہے جس نے اپنے‬ ‫سولَهُ ِبا ْل ُھدَى َو ِدی ِْن ا ْل َح ّ ِ‬ ‫س َل َر ُ‬ ‫َ‬
‫فرما ِن باری تعالی ہے‪ُ { :‬ھ َو الَّذِي أ ْر َ‬
‫رسول کو ہدایت ‪-‬یعنی علم ‪-‬اور دین حق ‪-‬یعنی عمل صالح ‪-‬کیساتھ بھیجا۔[التوبہ‪]11 :‬‬
‫ب الہی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے‪ ،‬اور یہ صرف علم سے ہی‬ ‫انسان اور انسانی دل کیلیے ُح ّ ِ‬
‫حاصل ہو سکتی ہے۔‬
‫فرمان باری تعالی ہے‪:‬‬ ‫ِ‬ ‫علم ہی وہ حکمت ہے جسے اللہ تعالی جتنی چاہے عطا فرماتا ہے‪،‬‬
‫ب} وہ جسے‬ ‫یرا َو َما َیذَّك َُّر ِإ َّال أُولُو ْال َ ْل َبا ِ‬ ‫{یُ ْؤتِي ا ْل ِح ْك َمةَ َم ْن َیشَا ُء َو َم ْن یُ ْؤتَ ا ْل ِح ْك َمةَ فَقَ ْد أُوتِ َي َخی ًْرا َكثِ ً‬
‫چاہتا ہے حکمت سے نوازتا ہے‪ ،‬اور جسے حکمت دے دی جائے تو اسے بہت سی خیر نواز دی‬
‫گئی‪ ،‬اور نصیحت صرف عقل والے ہی پکڑتے ہیں[البقرۃ ‪]962 :‬‬
‫اللہ تعالی نے آدم علیہ السالم کو علم دیکر احسان جتایا اور پھر علم کے ذریعے فرشتوں‬
‫اء‬
‫س َم ِ‬‫علَى ا ْل َم َالئِ َك ِة فَقَا َل أ َ ْنبِئ ُونِي بِأ َ ْ‬ ‫ض ُھ ْم َ‬ ‫علَّ َم آ َد َم ْال َ ْ‬
‫س َما َء ُكلَّ َھا ث ُ َّم ع ََر َ‬ ‫پر ان کی برتری عیاں فرمائی‪َ { :‬و َ‬
‫صا ِد ِقینَ } اور آدم [علیہ السالم] کو تمام چیزوں کے نام بتالئے‪ ،‬پھر انہی چیزوں کو‬ ‫َھؤ َُال ِء ِإ ْن ُك ْنت ُ ْم َ‬
‫فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا‪ :‬اگر تم [اپنی بات میں]سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتالؤ‬
‫[البقرۃ ‪]13 :‬‬
‫اللہ تعالی نے انبیائے کرام‪ ،‬رسولوں اور دیگر جسے چاہا انہیں علم کیلیے مختص فرمایا‪،‬‬
‫چنانچہ فرشتوں نے ابراہیم علیہ السالم کی اہلیہ کو علم رکھنے والے بچے یعنی اسحاق علیہ السالم‬
‫کی خوشخبری دی ۔‬
‫یوسف علیہ السالم کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا‪َ { :‬ولَ َّما بَلَ َغ أ َ ُ‬
‫ش َّدہُ آت َ ْینَاہُ ُح ْك ًما َو ِع ْل ًما}‬
‫وہ جس وقت بھر پور جوان ہوئے تو ہم نے انہیں علم و حکمت سے نوازا[یوسف ‪]99 :‬‬
‫ع ِلی ٌم} میں‬ ‫ظ َ‬ ‫پھر یہی فضلیت یوسف علیہ السالم نے اپنے بارے میں بھی ذکر کی‪ِ { :‬إنِّي َح ِفی ٌ‬
‫یقینا ً حفاظت کرنے واال اور جاننے واال ہوں۔[یوسف ‪]55 :‬‬
‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫ست َ َوى آت َ ْینَاہُ ُح ْك ًما‬‫ش َّدہُ َوا ْ‬ ‫موسی علیہ السالم پر بھی علم دے کر کرم کیا گیا ‪َ { :‬ولَ َّما بَلَ َغ أ َ ُ‬
‫َو ِع ْل ًما} وہ جس وقت کڑیل جوان ہوئے تو ہم نے انہیں علم و حکمت سے نوازا [القصص ‪]34 :‬‬
‫داود اور سلیمان علیہما السالم کے بارے میں فرمایا‪َ { :‬وك اُال آت َ ْینَا ُح ْك ًما َو ِع ْل ًما} اور ہم نے‬
‫ہر ایک کو علم و حکمت سے نوازا[النبیاء ‪]92 :‬‬
‫علَى َوا ِل َدتِكَ‬ ‫علَ ْیكَ َو َ‬‫عیسی علیہ السالم کو اسی نعمت کی یاد دہانی بھی کروائی‪{ :‬ا ُ ْذك ُْر نِ ْع َمتِي َ‬
‫اب َوا ْل ِح ْك َمةَ َوالت َّ ْو َراۃَ َو ْ ِ‬
‫اْل ْن ِجی َل}‬ ‫علَّ ْمت ُكَ ا ْل ِكت َ َ‬‫اس فِي ا ْل َم ْھ ِد َو َكھ ًْال َوإِ ْذ َ‬ ‫ُس ت ُ َك ِلّ ُم النَّ َ‬ ‫إِ ْذ أَیَّ ْدت ُكَ بِ ُروحِ ا ْلقُد ِ‬
‫عیسی! میرے اس احسان کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیا تھا ‪ ،‬جب میں نے‬ ‫ٰ‬
‫روح القدس سے تمہاری مدد کی کہ تو گہوارے میں اور بڑی عمر میں لوگوں سے یکساں کالم کرتا‬
‫تھاو اور جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور تورات اور انجیل سکھالئی [المائدۃ ‪]331 :‬‬
‫سیدنا خضر کے پاس اللہ تعالی کا دیا ہوا ایسا علم تھا جو کسی اور کے پاس نہیں تھا اسی‬
‫فضیلت کے باعث اولو العزم پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر بھی سفر کر کے ان کے پاس جا‬
‫علَّ ْمنَاہُ ِم ْن لَ ُدنَّا ِع ْل ًما} وہاں [موسی اور‬ ‫ع ْبدًا ِم ْن ِعبَا ِدنَا آت َ ْینَاہُ َرحْ َمةً ِم ْن ِع ْن ِدنَا َو َ‬ ‫پہنچتے ہیں‪{ :‬فَ َو َجدَا َ‬
‫ان کے ساتھی]نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے [خضر]کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے‬
‫نوازا تھا‪ ،‬اور اپنے ہاں سے علم سکھایا تھا [الكھف ‪]65 :‬‬
‫سلیمان علیہ السالم کے فوجیوں میں سے جس کے پاس سب سے زیادہ علم تھا وہی‬
‫ب أَنَا آتِیكَ ِب ِه قَ ْب َل أ َ ْن یَ ْرت َ َّد ِإلَ ْیكَ َط ْرفُكَ } جس کے پاس کتاب کا‬ ‫طاقتور تھا‪{ :‬قَا َل الَّذِي ِع ْن َدہُ ِع ْل ٌم ِمنَ ا ْل ِكتَا ِ‬
‫علم تھا وہ [سلیمان علیہ السالم سے]کہنے لگا کہ آپ کے پلک جھپکانے سے بھی پہلے میں اس‬
‫ت سبا] کو آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں ۔[النمل ‪]41 :‬‬ ‫[تخ ِ‬
‫اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ پر کی ہوئی نعمتیں شمار کرواتے ہوئے علم کو سب سے‬
‫علَّ َمكَ َما لَ ْم تَك ُْن ت َ ْعلَ ُم} اللہ تعالی نے‬ ‫اب َوا ْل ِح ْك َمةَ َو َ‬ ‫اعلی و ارفع مقام عطا فرمایا‪َ { :‬وأ َ ْن َز َل اللَّهُ َ‬
‫علَ ْیكَ ا ْل ِكت َ َ‬
‫آپ پر کتاب و حکمت نازل کی اور آپ کو ان چیزوں کا علم دیا جو آپ نہیں جانتے تھے۔[النساء ‪:‬‬
‫‪]331‬‬
‫نیز اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو علم کے سوا کسی بھی چیز میں اضافے کی دعا کا حکم نہیں‬
‫ب ِز ْدنِي ِع ْل ًما} اور آپ کہہ دیں‪ :‬میرے پروردگار! مجھے مزید علم عطا‬ ‫دیا‪ ،‬فرمایا‪َ { :‬وقُ ْل َر ّ ِ‬
‫فرما۔[طہ ‪]334 :‬‬
‫وارثان علم ان کے بعد سب سے‬ ‫ِ‬ ‫علم انبیائے کرام کی وراثت ہے‪ ،‬چنانچہ انبیائے کرام کے‬
‫بہترین درجے کے مالک ہونگے‪ ،‬اور وہی ان کے قریب ترین بھی قرار پائیں گے‪ ،‬آپ ﷺ کا فرمان‬
‫ہے‪( :‬علما انبیائے کرام کے وارث ہیں‪ ،‬انبیائے کرام وراثت میں درہم و دینار چھوڑ کر نہیں جاتے‬
‫بلکہ علم چھوڑ کر جاتے ہیں‪ ،‬چنانچہ جو علم حاصل کرے تو اس نے بہت بڑا حصہ لے لیا) ترمذی‬
‫اللہ تعالی نے اہل علم کو اپنی الوہیت کیلیے گواہ بھی بنایا اور فرمایا‪{ :‬ش َِھ َد اللَّهُ أَنَّهُ َال إِلَهَ‬
‫تعالی‪ ،‬فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے‬ ‫ٰ‬ ‫س ِط} اللہ‬ ‫إِ َّال ُھ َو َوا ْل َم َالئِكَةُ َوأُولُو ا ْل ِع ْل ِم قَائِ ًما بِا ْل ِق ْ‬
‫ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے واال ہے [آل عمران ‪]31 :‬‬
‫علم کی وجہ سے اللہ تعالی کا ڈر پیدا ہوتا ہے اور اس کی اطاعت کی جاتی ہے‪{ :‬إِنَّ َما یَ ْخشَى‬
‫اللَّهَ ِم ْن ِع َبا ِد ِہ ا ْل ُعلَ َما ُء} یقینا ً بندوں میں سے اللہ تعالی سے ڈرنے والے علما ہی ہوتے ہیں۔[فاطر ‪:‬‬
‫‪]91‬‬
‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں‪ " :‬اللہ تعالی کی حصو ِل علم جیسی کوئی عبادت ہے ہی نہیں"‬
‫حصو ِل علم خیر و بھالئی ہے‪( :‬اللہ تعالی جس کے بارے میں خیر کا ارادہ فرما لے اسے‬
‫دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے) متفق علیہ‬
‫(دور جاہلیت‬‫ِ‬ ‫سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہی بہترین لوگ ہیں‪ ،‬آپ ﷺ کا فرمان ہے‪:‬‬
‫کے بہترین لوگ اسالم میں بھی بہترین ہیں بشرطیکہ دین کی سمجھ رکھتے ہوں) متفق علیہ‬
‫علم اعمال اور درجات میں درجہ بندی کا ترازو ہے‪ ،‬علم کی وجہ سے ہی اعمال میں‬
‫ت نبوی کی پیروی صرف‬ ‫بہتری اور عمدگی پیدا ہوتی ہے‪ ،‬چنانچہ انسان کا عقیدہ‪ ،‬اخالص‪ ،‬اور سن ِ‬
‫فرمان باری تعالی ہے‪{ :‬فَا ْعلَ ْم أَنَّهُ َال ِإلَهَ ِإ َّال اللَّهُ} جان لو کہ‪ :‬اللہ کے‬ ‫ِ‬ ‫علم کے ذریعے ہی ممکن ہے‪،‬‬
‫سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے[محمد ‪ ،]32 :‬اللہ تعالی نے یہاں قول و عمل سے پہلے علم کو‬
‫ذکر کیا ہے۔‬
‫جب تک روئے زمین پر علم باقی رہے گا تو لوگ ہدایت پر قائم رہیں گے‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ‬
‫علم کے بغیر اللہ تعالی کی عبادت کرنے واال فائدے کی بجائے نقصان زیادہ کرتا ہے‪ ،‬شرک و‬
‫بدعات علم کی کمی اور اہل علم سے دوری کے باعث ہی پیدا ہوئیں ‪ ،‬کیونکہ گمراہی و جہالت ؛ ال‬
‫علمی کا ہی ثمر ہوتا ہے؛ اسی لیے اللہ تعالی نے ہمیں گمراہ لوگوں کے راستے سے پناہ مانگنے‬
‫علَی ِْھ ْم َو َال الضَّا ِلّینَ }[ہمارا راستہ] ان لوگوں‬ ‫ب َ‬ ‫غی ِْر ا ْل َم ْغضُو ِ‬
‫کا ہر نماز کی ہر رکعت میں حکم دیا ہے{ َ‬
‫کا نہ ہو جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ ہی گمراہوں کا ۔[الفاتحہ‪]9 :‬‬
‫اللہ تعالی نے اہل علم اور جاہلوں میں برابری کو مسترد فرمایا‪ ،‬اس لیے ان دونوں میں‬
‫فرمان باری تعالی‬ ‫ِ‬ ‫برابری نہیں ہے جیسے کہ زندہ اور مردہ‪ ،‬بینا اور نابینا میں برابری نہیں ہے‪،‬‬
‫ست َ ِوي الَّ ِذینَ یَ ْعلَ ُمونَ َوالَّ ِذینَ َال یَ ْعلَ ُمونَ } آپ کہہ دیں‪ :‬کیا صاحب علم اور ال علم برابر‬ ‫ہے‪ { :‬قُ ْل َھ ْل یَ ْ‬
‫ہو سکتے ہیں؟[الزمر ‪]2 :‬‬
‫ورا َی ْمشِي بِ ِه‬‫علم ہی لوگوں کیلیے زندگی و روشنی ہے‪{:‬أ َ َو َم ْن كَانَ َم ْیتًا فَأَحْ َی ْینَا ُہ َو َج َع ْلنَا لَهُ نُ ً‬
‫ْس ِب َخ ِارجٍ ِم ْن َھا} بھال وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ‬ ‫ت لَی َ‬ ‫اس َك َم ْن َمثَلُهُ فِي ال ُّ‬
‫ظلُ َما ِ‬ ‫فِي النَّ ِ‬
‫کیا اور اس کو روشنی عطا کی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں زندگی بسر کر رہا ہے اس شخص‬
‫جیسا ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہو اور اس کے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہو؟ [النعام ‪:‬‬
‫‪]399‬‬
‫حسن سیرت اور دین کی سمجھ مؤمنین کی خصوصی صفات ہیں‪ ،‬اسی لیے ان کے سینے‬
‫ُور الَّ ِذینَ أُوتُوا ا ْل ِع ْل َم } بلکہ [قرآن ]تو واضح‬ ‫صد ِ‬ ‫علم سے منور ہوتے ہیں‪{ :‬بَ ْل ُھ َو آیَاتٌ بَ ِیّنَاتٌ فِي ُ‬
‫آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے[العنكبوت ‪]42 :‬‬
‫صرف اہل علم کو اللہ تعالی نے قرآن کریم کی امثال سمجھنے اور ان کے معنی و مفہوم کا‬
‫اس َو َما یَ ْع ِقلُ َھا إِ َّال ا ْلعَا ِل ُمونَ } یہ مثالیں ہم لوگوں‬ ‫ادراک رکھنے واال قرار دیا‪َ { :‬وتِ ْلكَ ْال َ ْمثَا ُل نَ ْ‬
‫ض ِربُ َھا ِللنَّ ِ‬
‫کیلیے بیان کرتے ہیں اور انہیں علما کے عالوہ کوئی نہیں سمجھتا۔[العنكبوت ‪]41 :‬‬
‫علمی مجلسوں اور وہاں کے حاضرین کو رحمت ڈھانپ لیتی ہے‪ ،‬ان پر سکینت نازل ہوتی‬
‫ہے‪ ،‬فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں‪( :‬بیشک فرشتے طالب علم کو راضی کرنے‬
‫کیلیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں) ترمذی‬
‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں‪ " :‬اگر حصول علم سے صرف قرب الہی ملے‪ ،‬عالم‬
‫مالئکہ سے تعلق بنے اور مأل االعلی کی صحبت ملے تو یہی علم کی قدر و منزلت اور شان کیلیے‬
‫کافی تھا‪ ،‬لیکن یہاں تو دنیا و آخرت کی عزت بھی حصول علم کیساتھ منسلک اور مشروط ہے"‬
‫اہل علم کی مجلسوں میں حکمت و دانائی پائی جاتی ہے‪ ،‬وہی پوری امت کیلیے بہترین‬
‫نمونہ ہیں‪ ،‬اہل علم کو ذاتی فائدہ تو ہوتا ہی ہے دوسرے بھی ان سے مستفید ہوتے ہیں‪ ،‬یہی وجہ‬
‫ہے کہ ہر کوئی انہیں اچھے لفظوں میں یاد کرتا ہے اور دعائیں دیتا ہے‪ ،‬آپ ﷺ کا فرمان ہے‪( :‬اللہ‬
‫تعالی ‪ ،‬اللہ کے فرشتے‪ ،‬آسمان و زمین کے تمام مکین حتی کہ چیونٹیاں بھی اپنے بلوں میں اور‬
‫مچھلیاں بھی لوگوں کو بھالئی سکھانے والے کیلیے دعائیں کرتی ہیں) ترمذی‬
‫حصول علم کیلیے جد و جہد بھی "فی سبیل اللہ" میں شمار ہوتی ہے‪ ،‬چنانچہ ابو درداء‬
‫رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ‪" :‬جو شخص حصو ِل علم کیلیے صبح شام آنا جانا جہاد میں شمار نہیں‬
‫کرتا اس کی عقل اور رائے دونوں ناقص ہیں"‬
‫حصول علم کیلیے مقابلہ بازی بھی قابل ستائش عمل ہے‪ ،‬چنانچہ دو لوگوں کے بارے میں‬
‫رشک کیا جا سکتا ہے علم پھیالنے واال اور مال خرچ کرنے واال‪ ،‬اس کے عالوہ کسی بھی چیز کے‬
‫بارے میں رشک نہیں کرنا چاہیے آپ ﷺ کا فرمان ہے‪( :‬رشک صرف دو لوگوں کے بارے میں کیا‬
‫جا سکتا ہے‪ :‬ایک وہ شخص جسے اللہ تعالی نے خوب مال نوازا اور پھر اسے حق کے راستے‬
‫میں خرچ کرنے کی توفیق دی‪[ ،‬دوسرا ] وہ آدمی جسے اللہ تعالی نے حکمت [علم] سے نوازا تو‬
‫وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور آگے لوگوں کو سکھاتا ہے) متفق علیہ‬
‫شرعی اور تقدیری فیصلوں کا متفقہ اصول ہے کہ "جیسا کرو گے ویسا بھرو‬
‫گے" چنانچہ علم اللہ تعالی کے بارے میں قریب ترین راستے کے ذریعے معلومات فراہم کرتا‬
‫ہے‪ ،‬چنانچہ حصو ِل علم کے راستے پر چلنے واال حقیقت میں اللہ تعالی اور جنت کے قریب ترین‬
‫راستے پر چل نکلتا ہے آپ ﷺ کا فرمان ہے‪(:‬جو شخص کسی راستے پر علم کی جستجو میں نکلے‬
‫تو اس عمل کی وجہ سے اس کیلیے اللہ تعالی جنت کا راستہ آسان بنا دیتا ہے) مسلم‬
‫شرعی علم پوری امت کیلیے فتنوں اور مصیبتوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے‪ ،‬امام مالک رحمہ‬
‫اللہ کہتے ہیں‪ " :‬کچھ لوگوں نے عبادت میں مشغول ہو کر علم حاصل نہیں کیا‪ ،‬پھر وہی لوگ امت‬
‫محمدیہ کے خالف تلوار اٹھا کر بغاوت پر اتر آئے اگر وہ علم حاصل کرتے تو اس اقدام سے باز‬
‫رہتے"‬
‫فوائ ِد علم کی وجہ سے پوری دھرتی پر علم پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے چاہے وہ معمولی‬
‫سا ہی کیوں نہ ہو‪ ،‬آپ ﷺ کا فرمان ہے‪( :‬میری طرف سے [دین]آگے پہنچاؤ چاہے ایک آیت ہی‬
‫کیوں نہ ہو) بخاری‬
‫اللہ تعالی نے اہل علم سے استفسار اور ان سے رجوع کرنے کا حکم دیا اور فرمایا‪:‬‬
‫سأَلُوا أ َ ْھ َل ال ِذّك ِْر إِ ْن ُك ْنت ُ ْم َال ت َ ْعلَ ُمونَ }تم اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے۔ [النبیاء ‪]9 :‬‬
‫{ فَا ْ‬
‫نبی کریم ﷺ نے اہل علم کیلیے تر و تازگی ‪ ،‬خوش باش زندگی ‪ ،‬روشن چہرے اور شرح‬
‫صدر کی دعا فرمائی‪( :‬اللہ تعالی ایسے شخص کے چہرے کو ہمیشہ تر و تازہ رکھے جو ہم سے‬
‫بعینہ آگے پہنچائے‪ ،‬بہت سے شاگرد اپنے اساتذہ سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں) ترمذی‬ ‫ٖ‬ ‫دین سنے اور‬
‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫نیز نبی ﷺ نے اپنے محبوب صحابی کیلیے دعا فرمائی کہ وہ بھی اہل علم میں شامل ہوں‪،‬‬
‫چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا‪( :‬یا اللہ! اسے دین کا فقیہ بنا دے) بخاری‬
‫فرمان باری تعالی‬ ‫ِ‬ ‫علم کی وجہ سے زندگی اور موت کے بعد بھی بلند درجات ملتے ہیں‪،‬‬
‫ت} اللہ تعالی تم میں سے ایمان والوں اور‬ ‫ہے‪{ :‬یَ ْرفَ ِع اللَّهُ الَّ ِذینَ آ َمنُوا ِم ْن ُك ْم َوالَّ ِذینَ أُوتُوا ا ْل ِع ْل َم د ََر َجا ٍ‬
‫اہل علم کے درجات بلند فرماتا ہے۔[المجادلۃ ‪]33 :‬‬
‫ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں‪ " :‬علم حاصل کر کے عمل کرنے والے اور پھر آگے پھیالنے‬
‫والے کو ہی آسمانوں میں "عظیم" کہہ کر پکارا جائے گا"‬
‫صاحب علم کو مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچتا رہے گا‪ ،‬آپ ﷺ کا فرمان ہے‪( :‬جس وقت‬
‫انسان فوت ہو جائے تو تین ذرائع کے عالوہ اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں‪ :‬صدقہ جاریہ‪ ،‬علم‬
‫جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں‪ ،‬نیک اوالد جو اس کیلیے دعائیں کرے) مسلم‬
‫افضل ترین علم کی کتاب و سنت میں مدح سرائی بھی کی گئی ہے اور یہ وہی علم ہے جو‬
‫ت باری تعالی اور اس کے اسما و صفات کا علم بلند‬ ‫قرآن و سنت سے ماخوذ ہو‪ ،‬تمام علوم میں ذا ِ‬
‫ت َو ِمنَ‬ ‫اوا ٍ‬
‫س َم َ‬ ‫س ْب َع َ‬ ‫ترین ہے‪ ،‬یہی حقیقت میں تخلیق و تدبیر کا مقصد بھی ہے‪{ :‬اَللَّهُ الَّذِي َخلَقَ َ‬
‫علَى ُك ِ ّل ش َْيءٍ قَدِی ٌر َوأَنَّ اللَّهَ قَ ْد أ َ َحا َط ِب ُك ِ ّل ش َْيءٍ ِع ْل ًما}‬ ‫ض ِمثْلَ ُھنَّ یَتَنَ َّز ُل ْال َ ْم ُر بَ ْینَ ُھنَّ ِلت َ ْعلَ ُموا أَنَّ اللَّهَ َ‬
‫ْال َ ْر ِ‬
‫اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اسی طرح زمینیں بھی‪ ،‬ان کے درمیان سے حکم نازل‬
‫ہوتا ہے‪ ،‬تاکہ تم جان لو کہ اللہ یقینا ہر چیز پر قادر ہے‪ ،‬اور یہ کہ اللہ نے علم سے ہر چیز کا‬
‫احاطہ کر رکھا ہے۔ [الطالق ‪]39 :‬‬
‫ہر مسلمان پر علم کی فرض مقدار حاصل کرنا واجب ہے‪ ،‬وہ اسی کی روشنی میں اپنا عقیدہ‬
‫‪ ،‬نمازیں اور روزے صحیح کر سکے گا‪ ،‬اپنے وقت میں سے کچھ علم کیلیے بھی مختص کرے‪،‬‬
‫علمی مجالس اور حلقوں میں بیٹھنا بوجھ مت سمجھے۔‬
‫طالب علم کو چاہیے کہ علم کی قدر و منزلت کا خیال کرے‪ ،‬اللہ تعالی سے علم نافع‬
‫مانگے‪ ،‬اور اللہ تعالی سے حسن ظن قائم رکھے‪ ،‬حصو ِل علم کیلیے تقوی اپنے دامن کیساتھ باندھ‬
‫لے‪ ،‬اپنی نیت خالص اللہ تعالی کیلیے بنائے‪ ،‬اپنے علم کے ذریعے بیوقوف لوگوں سے مت‬
‫جھگڑے‪ ،‬اور نہ ہی علمائے کرام سے بحث کرے‪ ،‬حاصل شدہ علم کے مطابق عمل کرنے پر غیر‬
‫حاصل شدہ علم بھی اللہ تعالی عطا کر دیتا ہے۔‬
‫مسلمانو!‬
‫اللہ تعالی نے متالشیان علم کیلیے اسے آسان بنانے‪ ،‬اور وہ کچھ دینے کا وعدہ کر لیا ہے‬
‫فرمان باری تعالی ہے‪{ :‬اِ ْق َرأْ َو َربُّكَ ْالَك َْر ُم}‬ ‫ِ‬ ‫جو ابھی طالب علم کے ذہن میں بھی نہیں ہے‪ ،‬کیونکہ‬
‫پڑھو‪ ،‬تمہارا رب کریم ترین ہے۔[العلق ‪]1 :‬‬
‫علم کا راستہ بہت آسان اور سب کی پہنچ میں ہے‪ ،‬چنانچہ قرآن مجید یاد کریں‪ ،‬نبی ﷺ کی‬
‫کچھ احادیث مبارکہ حفظ کریں‪ ،‬اہل علم کے چنیدہ علمی متن یاد کریں‪ ،‬انہیں سمجھیں اور پھر ان‬
‫پر عمل پیرا بھی ہوں‪ ،‬جتنا علم زیادہ ہوگا اتنی ہی بلندی ملے گی‪ ،‬اس طرح انسان رضائے الہی‬
‫اور بلند جنتوں کو پا سکتا ہے۔‬
‫الر ِجی ِْم‪َ { :‬و َما كَانَ ا ْل ُم ْؤ ِمنُونَ ِل َی ْن ِف ُروا كَافَّةً فَلَ ْو َال‬ ‫ان َّ‬ ‫ش ْی َط ِ‬ ‫اس تفصیل کے بعد‪ :‬أَع ُْوذُ ِبالل ِه ِمنَ ال َّ‬
‫ِین َو ِلیُ ْنذ ُِروا قَ ْو َم ُھ ْم إِذَا َر َجعُوا إِلَی ِْھ ْم لَعَلَّ ُھ ْم یَحْ ذَ ُرونَ }‬‫نَفَ َر ِم ْن ُك ِ ّل فِ ْرقَ ٍة ِم ْن ُھ ْم َطائِفَةٌ ِلیَتَفَقَّ ُھوا فِي ال ّد ِ‬
‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫مومنوں کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ سب کے سب ہی نکل کھڑے ہوں ‪ ،‬پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ‬
‫ہر گروہ میں سے کچھ لوگ دین میں سمجھ پیدا کرنے کے لئے نکلتے تاکہ جب وہ ان کی طرف‬
‫واپس جاتے تو اپنے لوگوں کو [برے انجام سے] ڈراتے‪ ،‬اسی طرح شاید وہ برے کاموں سے بچے‬
‫رہتے [التوبۃ‪]399 :‬‬
‫اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت واال بنائے‪ ،‬مجھے اور آپ‬
‫ذکر حکیم کی آیات سے مستفید ہونیکی توفیق دے‪ ،‬میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے‬‫سب کو ِ‬
‫ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں‪ ،‬تم بھی اسی سے‬
‫بخشش مانگو‪ ،‬بیشک وہی بخشنے واال اور نہایت رحم کرنے واال ہے۔‬
‫‪References:‬‬
‫‪AIOU Book 2622‬‬

‫تعالی پر ایمان لے آتاہے اور کسی شریعت کا تابع ہوجاتا ہے اور یہ جان لیتا ہے کہ وہ‬
‫ٰ‬ ‫انسان جب اللہ‬
‫اللہ کا بندہ ہے اور اس کو احکام خدا وندی کو بجا ال تا ہے تو اس وقت ضروری ہے کہ اُس کی زندگی‬
‫بسر کر نے کا طریقہ شریعت اسالمیہ اور الہی کے مطابق ہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شریعت کچھ اور کہہ‬
‫رہی ہو اور‬
‫انسان کا عمال کردار اور زندگی کا طریقہ کچھ اور ہو۔ بلکہ ضروری ہے کہ انسان کا عملی طریقہ کار‬
‫اس شریعت کے مطابق ہو جس پر وہ ایمان رکھتا ہے اور جس کی وہ پیروی کرتا ہے ۔‬

‫احکام شریعت کے واضح نہ ہونے کا سبب‬

‫پس یہ ایک ضروری امر ہے کہ انسان اپنے عملی موقف کا تعُّین کر ے اور یہ جان لے کہ اس نے‬
‫زندگی کے مختلف حاالت و واقعات میں کس طرح عمل کرنا ہے ۔اب اگر احکام شریعت واضح ہو تے تو‬
‫ہر ایک کے لیے اپنا عملی موقف (زندگی گزارنے کا طریقہ )معین کر نا بہت آسان ہو جاتا اور اس قدر‬
‫وسیع و عمیق‬
‫علمی ابحاث کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ مگر احکام شریعت اس قدر واضح و بدیہی نہیں ہیں کہ ہر‬
‫انسان آسانی سے ان کو جان کر ان کے مطابق زندگی گزار سکے ۔احکا م شریعہ کے غیر واضح ہونے‬
‫کا سبب عصر تشریع سے اب تک ایک طویل زما نی فاصلہ ہے ۔‬
‫اس زمانی فاصلے کی وجہ سے اکثر احکام شرعی غیر واضح ہو گئے اور ہر انسان کے لیے ان کا‬
‫جاننا ممکن نہیں رہا اب اس حالت مینکیا کیا جائے ؟کیا کوئی طریقہ ہے جس کو اپناتے ہوتے ہم ان‬
‫احکام شریعت سے واقفیت حاصل کر سکینکہ جن سے ہمیں روزمرہ زندگی میں واسط پڑتا ہے اور‬
‫ہمارے پاس ان احکام‬
‫شریعت کے وجو د پر دلیل بھی ہو ۔‬

‫علم فقہ کی غرض وغایت‬


‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬

‫پس ان حاالت میں ضروری تھا کہ ایک ایسا علم وضع کیا جائے جو اس مشکل مینہمارے کام آسکے‬
‫اور ہم اس کے ذریعے پیچیدہ وغیرہ واضح احکام شریعت کو دلیل کے ساتھ جان سکیں اور پھر ان‬
‫احکام کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال سکیں۔ اس اہم غرض کے حصول کے لیے علم فقہ وجود میں آیا‬
‫۔جو انسان‬
‫کو روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات و حاالت سے متعلق احکام شرعیہ کو دلیل سے ثابت‬
‫کرے۔جو شخص یہ احکام قرآن وسنت اور دوسرے شرعی منابع سے استنباط کرتا ہے اُسے فقیہ کہاجا‬
‫تا ہے اور شرعی منابع میں اجتہاد کے ذریعے سعی وکوشش کو استنباط و استخراج کا نام دیا جا تا‬
‫ہے ۔اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی‬
‫کہ علم فقہ‪ ،‬احکام شرعیہ کے استخراج واستنباط کا علم ہے۔ یعنی ؛جس کے ذریعے کتاب و سنت سے‬
‫احکام شرعیہ معلوم کیے جا تے ہیں ۔‬

‫علم اُصول فقہ‬

‫احکام شرعیہ کے استنباط اور استخراج کے اس اہم کام میں کچھ قواعد وضوابط سے مدد لی جاتی‬
‫ہے‪ ،‬جو مشترک و عام قواعد ہیں ‪،‬یہ قواعد تقاضا کر تے ہیں کہ ان کے بارے میں تحقیق و تدقیق کی‬
‫جائے۔ ان کو مشخص کیاجائے کہ یہ کون کو ن سے اُصول وقواعد ہینتاکہ ان کو ایک جگہ جمع کر‬
‫کے علم فقہ‬
‫میں استعمال کے لیے آمادہ کیا جا ئے ۔اس کام کے لیے ایک خاص علم کو وضع کر نے کی ضرورت‬
‫تھی ۔ا س غرض کے لئے وضع کئے جانے والے علم کو اصول فقہ کہا جاتا ہے ۔‬

‫علم اصول کا تاریخی سفر‬

‫ابتدا ء میں علم اصول علم فقہ سے جدا علم نہیں تھا بلکہ علم اصول نے علم فقہ کے دامن میں‬
‫پرورش پائی جس طرح علم فقہ علم حدیث کی آغوش میں پروران چڑھا اور خود علم حدیث بھی علم‬
‫شریعہ سے الگ نہ تھا علم حدیث میناس وقت بنیادی کام جمع نصوص و روایات یا حفظ نصوص و‬
‫روایات تھا تاہم اس‬
‫مرحلے میں ان نصوص و روایات سے حکم شرعی کے فہم کا طریقہ کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتا‬
‫تھا بلکہ بہت سادہ طریقے سے ہی ان روایات سے استفادہ کیا جا تا تھا ۔‬
‫اس کے بعدجوں جوں وقت گذرتا گیا؛ نصوص و روایات سے حکم شرعی کافہم تدریجا ً پیچیدہ اور‬
‫عمیق ہو تا گیا اور اس کے لئے کچھ اصول وضوابط تعین کئے گئے جن سے ایک علمی اور فقہی‬
‫تفکر کی ابتدا ہو ئی اور علم فقہ وجود میں آیا۔ جب علم فقہ میں حکم شرعی کو الگ عمیق وعلمی‬
‫انداز میں‬
‫نصوص شرعیہ سے استنباط کا عمل وجود میں آیا تواس وقت کچھ قواعد عامہ سامنے آئے جن کو‬
‫حکم شرعی استنباط کر نے میں برو ئے کار ال یا جانے لگا۔یہ ایسے عام و مشترک قواعد تھے جو‬
‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫مختلف احکام شرعیہ کے استخراج میں استعمال ہو تے تھے اور علمائے فقہ نے یہ جانا کہ یہ قواعد‬
‫عام ہیں اور عملیہ استنباط مینمشترک ہیں‬
‫اور ان کے بغیراستخراج حکم شرعی ممکن نہیں ہے ۔یہیں سے اصولی تفکر کی ابتدا ہو ئی اور فقہی‬
‫ذہنیت کا رخ اصولی ذہنیت کی طرف ہو گیا یعنی اس کے بعد علم اصول کی باقاعدہ ابتداء ہو گئی ۔‬
‫اور اس بات کامطلب یہ نہیں ہے کہ اصولی فکر اس سے پہلے نہیں تھی بلکہ اصولی فکرصادقین‬
‫(امام باقرو جعفرصادق) کے زمانے مینبھی اصحاب ائمہ میں اس مرحلے تک پہنچ چکی تھی ۔ اس بات‬
‫پر تاریخ گواہ ہے کہ اصحاب ائمہ معصومین خصوصا ً امام صادق ـ کے شاگرد ایسے مشترک اور عام‬
‫عناسرکے‬
‫بارے میں سوال کرتے تھے‪ ،‬جو احکام شرعیہ کے عملی استنباط میں کام آتے ہیں اور ائمہ ان کے‬
‫سوالوں کے جوابات دیتے تھے ۔یہ سواال ت کتب احادیث مینموجود ہیں؛مثال کے طور پر بعض روایات‬
‫میننصوص متعارضہ کے عالج کے بارے پوچھا گیا اوربعض میں حجت خبرواحد اور اصالة براء ۃ‬
‫وغیرہ کے بارے سواالت کیے گئے ہیں ۔‬
‫اصحاب ائمہ کے اس قسم کے سواالت و جوابات سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ اصولی فکر ان کے‬
‫ہاں بھی موجود تھی ۔اور قواعدعامہ (اصولی قواعد)کی تحدید اور وضع کی طرف ان کابھی رحجان تھا‬
‫۔بلکہ بعض اصحاب نے تو مسائل اصولیہ پر رسالے بھی تالیف کیے ہیں۔ جیسا کہ اصحاب امام صادق ـ‬
‫میں‬
‫‪:‬سے ہشام بن حکم نے مباحث الفاظ پر رسالہ کی تالیف کیا ہے ۔مالحظہ کیجئے‬
‫فہرست نجاشی ‪٣٤٤‬رقم ‪ ،٧٧١٣‬تائیس الشعیہ لعلوم اال سالم ‪٤٧٣‬۔‪٤٧٧‬وسائل الشیعہ ‪ ٤،٣١١‬باب‬
‫‪ ٣٧‬ابواب نجاسات ‪،‬حدیث اول ‪،‬وسائل الشیعہ باب ‪،٩‬ابواب صفات قاضی ‪،‬وابواب وضو‪،‬حدیث اول ۔‬
‫تاہم اس دور میں ان عناصر مشترکہ کا علم‪ ،‬فقہی ابحاث سے کوئی الگ او رمستقل علم نہیں تھا‪،‬یوں‬
‫لگتا ہے کہ اصولی ابحاث جب تک مستقل علم کے درجہ تک پہنچنے کے قابل نہیں ہوئیں‪ ،‬علم فقہ و‬
‫علم اصول ایک دوسرے میں مدغم رہے۔ بعدمیں تدریجا یہ ابحاث ایک مستقل حیثیت اختیار کرگئیں۔‬
‫بلکہ بعض نے ان کو علم کال م و اصول میں سے الگ کیا جیسا کہ سید مرتضی نے اپنی کتاب''‬
‫‪ :‬الذریعہ'' میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے لکھا ہے‬
‫قد وجدت بعض من ا فردال صول الفقه کتابا ' ' کہ میں نے بعض ایسے افراد کو پایا جنہوں نے اصول ''‬
‫فقہ میں ایک الگ کتاب لکھی (یعنی علم کالم و اصول دین سے الگ )‬

‫اصول دین اور اُصول فقہ کی حد بندی‬

‫باوجو اس کے علم اصول فقہ علم اصول دین سے الگ علم بن گیا پھر بھی اس میں علم اصول دین کے‬
‫ساتھ مخلوط رہنے کی وجہ سے بعض ابحاث کالمی اس میں داخل ہو گئیں کیونکہ کلمہ اصول ان‬
‫دونوں میں مشترک تھا جیسے کہاجا تا ہے کہ اخبا راحاد جو ظنی ہیں ان سے اصول میں استدالل نہیں‬
‫کیا‬
‫جاسکتا ۔کیونکہ اصول میں دلیل کا قطعی ہو نا ضروری ہے ۔پس کلمہ اصول کے دونوں علموں میں‬
‫مشترک ہو نے کی وجہ سے اس فکر کو تقویت ملی کہ اخبار احاد سے اصول فقہ اور اصول دین‬
‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫دونوں میں استدالل ممکن نہیں جب کہ صحیح یہ ہے کہ اصول دین میں دلیل کا قطعی ہونا ضروری ہے‬
‫( اور اصول فقہ میں دلیل ظنی‬
‫اخباراحاد)سے بھی استدالل کیا جاسکتا ہے ۔‬
‫بہرحال تدریجا ًیہ علم یعنی قواعد عامہ کے ساتھ مشترکہ عناصر کا علم دوسرے علوم سے الگ شکل‬
‫اختیار کرتاگیا جوں جوں اس میں وسعت آتی گئی یہاں تک کہ علم اصول مرحلہ تصنیف میں داخل ہو‬
‫گیا ۔‬

‫صغری کے بعد اُصول فقہ کا ارتقائ‬


‫ٰ‬ ‫غیت‬

‫صغری کے بعد چوتھی صدی ہجری کے ابتداء کا زمانہ ہے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ‬ ‫ٰ‬ ‫یہ غیبت‬
‫کبری کے آغاز کے ساتھ ) عصر نص ختم ہوا تو امامیہ فقہا کے ہاں باقاعدہ اصولی‬ ‫ٰ‬ ‫جو نہی(غیبت‬
‫ابحاث واضح طور پر نظر آنے لگیں گویا کہ ان کی اصولی ذہنیت کھل کر سامنے آگئی ۔تاہم عصرنص‬
‫میں اس کی ضرورت پیش نہیں آئی مگر اصولی فکر اس وقت بھی پائی جاتی تھی ۔اصولی میدان میں‬
‫سب سے پہلے جن فقہا ء امامیہ‬
‫نے کردار ادا کیا ان میں سے حسن بن علی ابن ابی عقیل اور محمد بن احمد ابن جنید کے نام سہر‬
‫فہرست ہیں ۔‬
‫‪References:‬‬
‫‪AIOU Book 2622‬‬

‫دراصل اسالم کا ایک مک ّمل اقتصادی نظام ہے‪ ،‬جس کی بنیاد قرآن‪ ،‬حدیث اور ]‪[1‬اسالمی اقتصادی نظام‬
‫اور اشتمالیت سے الگ ایک مک ّمل فقہی اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ سرمایہ داری نظام‪ ،‬اشتراکیت‬
‫ان کی بنیادی ستونوں ]‪[2][3‬اقتصادی نظام ہے۔ اس نظام میں باقی نظاموں کی طرح کوئی خامی نہیں۔‬
‫بطور زر (پیسہ) ‪ )4‬وادیعہ (بینک اورنقرئی درہم طالئی دینار )میں ‪ )3‬سود کی ممانعت ‪ٰ )9‬‬
‫زکوۃ ‪1‬‬ ‫ِ‬
‫]‪[4‬کامتبادل مخزن کا ادارہ ) ‪ )5‬قمار‪ ،‬غرر وغیرہ کی ممانعت ‪ )6‬آزاد بازار (سوق) وغیرہ شامل ہیں۔‬
‫وغیرہ سے یکسر مختلف ہے۔ اسالمی معاشی اور اشتراکیت اسالمی اقتصادی نظام سرمایہ داری نظام‬
‫نظام کو مختصرا َ یوں بیان کیا جا سکتا ہیں کہ اس نظام کا ‘‘دِل’’تجارت ہے۔ لہٰ ذا اسالمی اقتصادی نظام‬
‫اورنقرئی درہم‪ ،‬گندم‪ ،‬میں ‘‘زر’’یعنی پیسہ حقیقی دولت پر مبنی جنس ہوتا ہے جیسے طالئی دینار‬
‫سے پاک ہوتیں ہیں۔ یہ آزاد بازاروں پر مبنی ہوتی ہے جہاں پر ہر چاول وغیرہ۔ یہ سود‪ ،‬قمار‪ ،‬غرر‬
‫شخص اپنی تجارتی اشیاء کی فروخت کر سکتا ہے۔ جہاں تھوک فروشی تک ہر شخص کی یکساں‬
‫رسائی ہوتی ہے۔ ہر چھوٹا کاری گر و صنعت کار اپنا کارخانہ خود بنا سکے گا۔ ان اوقاف میں‬
‫وادیعہ (بینک کامتبادل) کے ]‪[5‬شرکت‪،‬مضاربت‪ ،‬مرابحہ وغیرہ کے طریقوں سے تجارت ہوتی ہے۔‬
‫ذریعے حکومت سرکاری مالزمین کی تنخواہیں ان کی حسابوں میں منتقل کرے گی اور وہاں ان کی‬
‫دولت امانت کے طور پر محفوظ رکھی جائے گی۔ ‘‘شرعی زر’’کا معیار حکومت مہیا کرتی ہے۔ ملکی‬
‫میں جمع ہوتا ہے۔ ان سب اداروں کی نگرانی حسبۃ کرتی ہے۔ غریب عوام سے کوئی خزانہ بیت المال‬
‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫محصول وصول نہیں کیا جائے گا بلکہ حکومت امیروں سے محصول‬
‫زکوۃ‪ ،‬عُشر‪ ،‬خراج‪ ،‬جزیہ)‪(Tax‬‬ ‫وغیرہ کی صورت میں لے کر غریبوں میں بانٹے گی۔ اسالمی ‪ٰ ،‬‬
‫کو محدود کیا جاتا ہے اور سرکاری اداروں کی نجکاری پر مکمل پابندی اقتصادی نظام میں نجکاری‬
‫ہوتی ہے۔ دریاؤں‪ ،‬ڈیموں‪ ،‬نہروں‪ ،‬تیل‪ ،‬گیس‪ ،‬کوئلے‪ ،‬بجلی‪ ،‬جنگالت‪ ،‬چراگاہوں وغیرہ کی نجکاری‬
‫نہیں کی جا سکتیں۔ روٹی‪ ،‬کپڑا‪ ،‬مکان اور پانی کی حکو مت کی جانب سے مفت فراہمی کی جائے گی۔‬
‫بیمہ کمپنیوں پر مکمل پابندی لگائی جائے گی۔ لہٰ ذا سونے کے دینار اور چاندی کے درہم موجودہ‬
‫کاغذی نوٹوں کی جگہ لے گی۔ وادیعہ کے مراکز قائم کرنے سے بینکوں کا کام ختم ہو جائے گا۔ اوقاف‬
‫ختم ہو جائے گی۔ بین کی بحالی سے بازاروں‪ ،‬تھوک فروشی اور صنعتی مراکز کی اجارہ داری‬
‫کے لیے مال کے بدلے مال کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور جہاں کہی یہ طریقہ االقوامی تجارت‬
‫کو بنانے کے لیے ’’شرعی زر‘‘ ممکن نہ ہو تو وہ وہاں پرسونے کو بطور زر استعمال کیا جائے گا۔‬
‫حکومت ضرب خانے (ٹکسال) بناتی ہے اور ملکی خزانہ بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔ جس‬
‫کا خاتمہ ہو جائے گا اور نفع کمانے کے لیے لوگ اوقاف کا ُرخ کریں گے جہاں سے مرکزی بینک‬
‫کی کوئی )‪ (Stock Exchange‬حقیقی معنوں میں تجارت اور کاروبار ہوگی۔ لہٰ ذا بازار حصص‬
‫شرعی زر کے دوسرے ممالک کی کرنسیوں سے باہم مبادلے کے لیے وکالہ ضرورت نہیں ہوگی۔ اور‬
‫‪ (Foreign Exchange‬کے آزاد مراکز قائم کیے جائے نگے۔ لہٰ ذا اجارہ داری پرمبنی صرافہ بازاروں‬
‫کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور ملکی بجٹ ملکی آمدنی کودیکھ کر بنایا جائے گا۔ جس کی وجہ )‪Markets‬‬
‫بین ( سے قومی اور گردشی قرضوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور نہ ہی ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ‬
‫کے قرضوں کی ضرورت ہوگی۔ مسلم ممالک کے مابین آزاد تجارت ہو گی اور ان )االقوامی مالیاتی فنڈ‬
‫ممالک کے اموال ممالک کے اموال تجارت پر کوئی محصول نہیں لگایا جائے گا جو مسلمان‬
‫تجارت میں انتہائی اضافہ ہو جائے گا۔ نہیں لگاتے۔ جس کی وجہ سے ملکی اور بین االقوامی پر ٹیکس‬
‫لہٰ ذا اسالمی معاشی نظام کی مکمل بحالی سے ہمارے سارے کام بطریق اَحسن انجام پائیں گے اور ہمیں‬
‫مغربی نظام سے کوئی چیز لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔‬
‫‪)3‬اسالمی شریعت کے بہت سارے واضح احکام عین سیاست سے متعلق ہیں ۔اسالم محض روحانی‬
‫عقیدہ ہ یا چند دینی رسم ورواج کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ عقیدہ بھی ہے اور عبادت بھی اور تمام دنیوی‬
‫معامالت کو بہ حسن و خوبی برتنے کا ایک بہترین نظام بھی یہ دنیوی مسائل خواہ سیاسی ہوں یا‬
‫معاشرتی اور اقتصادی یاان کا تعلق معامالت سے ہو۔ یہ مسائل چاہے حالت امن سے تعلق رکھتے ہوں‬
‫یا حالت جنگ سے ان تمام امور میں دین اسالم کے واضح قواعد واصول ہیں ۔ ان اصول وقواعد سے‬
‫ردگردانی اور غیروں کے نظام حیات کی پیروی دراصل اس خالق کائنات سے بغاوت ہے جس نے‬
‫انسانوں کی بھالئی کے لیے یہ اصول وقواعد وضع کیے ہوں اور جن کی حقانیت کا زبانی دعوی کیا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫غور کیا جائے توعقیدہ توحید محض ایک روحانی عقیدہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک انقالبی سیاسی نعرہ‬
‫بھی ہے جو انسان کو مساوات آزادی اور اخوت ومحبت کی دعوت دیتا ہے۔انسان کو انسان کی بندگی‬
‫سے نکال کر خالق کائنات کی بندگی میں لے جانا چاہتا ہے تاکہ کوئی بندہ بشر مطلق العنان حاکم بن کر‬
‫دوسرے بندوں کے سیاسی اور سماجی حقوق نہ چھین لے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ‬
‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫وسلم جب بادشاہوں کے نام خطوط ارسال کرتے اور انھیں اسالم کی دعوت دیتے توآخر میں یہ آیت‬
‫کریمہ ضرور نقل کرتے تھے۔‬
‫سواءٍ بَینَنا َوبَینَكُم أ َ ّال نَعبُ َد إِ َّال اللَّهَ َوال نُ ِ‬
‫شركَ ِب ِه شَیـا َوال یَت َّ ِخذَ بَعضُنا بَعضًا‬ ‫﴿قُل ی ٰـأَھ َل ال ِكت ٰـ ِ‬
‫ب تَعالَوا إِ ٰ‬
‫لى َك ِل َم ٍة َ‬
‫دون اللَّ ِه فَ ِإن ت َ َولَّوا فَقولُوا اش َھدوا بِأَنّا ُمس ِلمونَ ﴿‪ ...﴾٤٣‬سورۃ آل عمران‬ ‫أَربابًا ِمن ِ‬

‫"آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آو جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم‬
‫تعالی کو‬
‫ٰ‬ ‫تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں‪ ،‬نہ اللہ‬ ‫ٰ‬ ‫اللہ‬
‫چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں۔ پس اگر وہ منھ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو‬
‫ہم تو مسلمان ہیں"‬
‫(‪)9‬خود کو سیاسی مسائل سے الگ تھلگ کر کے کوئی مسلمان مکمل مسلمان نہیں ہو سکتا ۔کیوں کہ‬
‫اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن وحدیث میں متعدد مقامات پر ہر مسلمان پر‬
‫اس بات کی ذمہ داری عائدہ کی ہے کہ وہ"امر بالمعروف ونہی عن المنکر"کافرفریضہ انجام دے۔ اللہ‬
‫اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا الزمی تقاضا یہ ہے کہ ہر مسلم شخص‬
‫معاشرے کی جملہ برائیوں کے خاتمے کے لیے جدو جہد کرے اور بھلی باتوں کو عام کرنے کے لیے‬
‫سر گرم رہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے افضل جہاد اس عمل کو قراردیا ہے کہ ظالم و‬
‫جابرحکمراں کے روبرو حق بات کہی جائے‪" :‬أفضل الجھاد كلمة عدل عند سلطان جائر"‬
‫"سب سے افضل جہاد ظالم حکمرانوں کے سامنے حق بات کہنا ہے۔"‬
‫اسالم اس بات کا حکم دیتا ہے کہ معاشرے میں کمزوراور مظلوم انسانوں کی مدد کی جائے۔اور ان کے‬
‫حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے۔اللہ کا فرمان ہے‪:‬‬
‫ساء َوال ِولد ِن الَّذینَ یَقولونَ َربَّنا أ َ ِ‬
‫خرجنا‬ ‫سبی ِل اللَّ ِه َوال ُمستَضعَفینَ ِمنَ ِ ّ‬
‫الرجا ِل َوال ِنّ ِ‬ ‫﴿ َوما لَكُم ال تُق ٰـتِلونَ فى َ‬
‫ظا ِل ِم أَھلُھا ‪ ...﴾١٧﴿...‬سورۃ النساء‬ ‫ِمن ھ ٰـ ِذ ِہ القَر َی ِة ال ّ‬

‫"آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو‬
‫کمزور پا کردبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدا یا ہمیں اس بستی سے نکال جس کے‬
‫باشندے ظالم ہیں۔"‬
‫اور اللہ ان لوگوں کے لیے سخت نفرت کا اظہار کرتا ہے جو ظلم سہتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں اور‬
‫کم ازکم اتنا بھی نہیں کرتے کہ ظلم کی بستی سے ہجرت کر جائیں۔‬
‫﴿ إِنَّ الَّذینَ ت َ َوفّ ٰى ُھ ُم ال َمل ٰـئِكَةُ ظا ِلمى أَنفُس ِِھم قالوا فی َم كُنتُم قالوا ُكنّا ُمستَضعَفینَ فِى ال َ ِ‬
‫رض قالوا أَلَم تَكُن‬
‫صیرا ﴿‪ ...﴾٩١‬سورۃالنساء‬ ‫ھاجروا فیھا فَأُول ٰـ ِئكَ َم ٰ‬
‫أوى ُھم َج َھنَّ ُم َوسا َءت َم ً‬ ‫س َعةً فَت ُ ِ‬ ‫رض اللَّ ِه و ِ‬‫أَ ُ‬

‫"جو لوگ اپنی جانوں پرظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے‬
‫ہیں‪ ،‬تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے‬
‫تعالی کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے‬
‫ٰ‬ ‫ہیں کیا اللہ‬
‫اور وہ پہنچنے کی بری جگہ ہے"‬
‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫اللہ لعنت بھیجتا ہے ایسے لوگوں پر جو معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں پر خاموشی اختیار کیے‬
‫رہتے ہیں اور انھیں دور کرنے کی ذرہ برابر فکر نہیں کرتے۔ اللہ فرماتا ہے‪:‬‬
‫صوا َوكانوا‬ ‫ابن َمریَ َم ذ ِلكَ ِبما َ‬
‫ع َ‬ ‫سى ِ‬‫سان داود َد َوعی َ‬
‫َلى ِل ِ‬ ‫﴿لُ ِعنَ الَّذینَ َكفَروا ِمن بَنى إِسرءی َل ع ٰ‬
‫ئس ما كانوا یَفعَلونَ ﴿‪ ...﴾١٩‬سورۃ المائدۃ‬ ‫یَعت َدونَ ﴿‪ ﴾١٧‬كانوا ال یَتَناھَونَ عَن ُمنك ٍَر فَعَلوہُ لَبِ َ‬

‫عیسی بن مریم (علیہ السالم)‬


‫ٰ‬ ‫"بنی اسرائیل کے کافروں پر (حضرت) داؤد (علیہ السالم) اور (حضرت)‬
‫کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے‬
‫(‪ )91‬آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ‬
‫کرتے تھے یقینا ً وہ بہت برا تھا"‬
‫اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ برائیاں صرف چوری شراب اور زنا وغیرہ کانام ہے تو یہ بہت بڑی‬
‫غلطی ہے۔ برائی یہ بھی ہے کہ معصوم اور بے گناہ افراد کو جیلوں میں ڈال دیا جائےاور ان پر سختی‬
‫کی جائے۔برائی یہ بھی ہے کہ الیکشن کے موقع پر ووٹوں کی دھاندلی کی جائے۔ برائی یہ بھی ہے کہ‬
‫ووٹ ڈالنے سے پرہیز کیا جائے۔برائی یہ بھی ہے کہ عوام کے پیسوں پر ناجائز قبضہ کر لیا جائے‬
‫جیسا کہ آج کل کے سیاسی لیڈر ان کرتے ہیں اور برائی یہ بھی ہے کہ اس مالی غبن پر خاموش رہا‬
‫جائے اور اس کے خالف آواز نہ اٹھائی جائے۔برائی یہ بھی ہے۔کہ سیاسی معامالت میں دلچسپی نہ‬
‫لے کر سیاست اور حکومت کی مکمل باگ ڈور ظالموں اور کافروں کے ہاتھ میں دے دی جائے یہ اور‬
‫اس طرح کی بے شمار برائیاں ہیں جن کا تعلق سیاسی امور سے ہے اور ناممکن ہے کہ کوئی غیرت‬
‫مند دین دار مسلمان ان برائیوں پر خاموش رہے اور کچھ نہ کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا‬
‫فرمان ہے۔‬
‫"إذا رأیت أمتي تھاب أن تقول للظالم یا ظالم فقد تودّع منھم"‬
‫"جب تم میری امت کو دیکھو کہ ظالم کو ظالم کہنے سے ڈر رہی ہو تو پھر اسے الوداع کہہ دو (یعنی‬
‫ایسی امت کا خاتمہ قریب ہے)‬
‫بال شبہ یہ ایمان کا تقاضا ہے کہ مومن شخص معاشرے اور ملک میں پھیلی ہوئی برائیوں کو دور‬
‫کرنے کے لیے جدوجہد کرے۔ خواہ یہ برائیاں سماجی ہوں یا ثقافتی یا سیاسی ناممکن ہے کوئی‬
‫شخص مومن ہونے کا دعوی کرے اور ان برائیوں کو پھلتا پھولتا دیکھے اور مطمئن رہے۔ حضور‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے‪:‬‬
‫ست َ ِط ْع فَ ِبقَ ْلبِ ِه وذلك أضعف‬
‫سانِ ِه‪ ،‬فَ ِإ ْن لَ ْم یَ ْ‬ ‫" َم ْن َرأَى ِم ْن ُك ْم ُم ْنك ًَرا‪ ,‬فَ ْلیُغَیِّ ْرہُ ِبیَ ِدہِ‪ ،‬فَ ِإ ْن لَ ْم یَ ْ‬
‫ست َ ِط ْع فَ ِب ِل َ‬
‫اْلیمان" (مسلم)‬
‫"تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تو چاہیے کہ اپنی قوت و طاقت سے اسے دور کرے۔ ایسانہیں‬
‫کر سکتا تو اپنی زبان سے دور کرے۔ ایسا بھی نہیں کر سکتا تو اپنے دل سے دور کرے(یعنی دل میں‬
‫اسے برا سمجھے ) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔"‬
‫عین ممکن ہے کہ اکیال شخص برائیوں کے اس طوفان کا مقابلہ نہ کر سکے خاص کر جب کہ ملک‬
‫کے سیاست داں اور ارباب حل وعقد ہی ان برائیوں میں ملوث ہوں۔ اس صورت حال میں صحیح طریقہ‬
‫کاریہ ہوگا کہ بہت سارے افراد مل کر اجتماعی طور پر ان برائیوں کا مقابلہ کریں۔ یہ اجتماعی کوشش‬
‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫کسی آزاد تنظیم یا کسی سیاسی پارٹی کی بنیاد ڈال کر بھی کی جا سکتی ہے۔ بال شبہ یہ سارے کام‬
‫سیاسی کام ہیں اور مذکورہ حدیث کے مطابق ایمان کا عین تقاضا ہیں۔‬
‫آج کے جمہوری دور میں معاشرے میں پھیلتی ہوئی برائیوں کے خالف مزاحمت کرنا یا حکومت کی‬
‫غلط پالیسیوں پر تنقید کرنا اور ان کے خالف آواز بلند کرنا کسی بھی شخص کا جمہوری حق تصور کیا‬
‫جاتا ہے۔ جب کہ دین اسالم اس حق کو صرف حق ہی نہیں بلکہ واجب قراردیتا ہے۔ اس فریضہ کی‬
‫ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ مومن اپنے ملک کے سماجی اور سیاسی حاالت سے مکمل اور‬
‫مستقل باخبر رہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے مسائل میں دلچسپی سے اور ان مسائل کے‬
‫حل کے لیے ہمہ تن کوشاں رہے۔ ذراحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر غور کریں‪:‬‬
‫"من لم یھتم بأمر المسلمین فلیس منھم"‬
‫"جو شخص مسلمانوں کے معامالت میں دلچسپی نہیں لیتا اور ان کی فکر نہیں کرتا وہ مسلمانوں میں‬
‫سے نہیں ہے۔"‬
‫اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی موت کو جہالت کی موت قراردیا ہے جو سیاست‬
‫سے کنارہ کش ہو جائے اور کسی قائد یا حکمراں کی تائید و حمایت کے لیے کمر بستہ نہ رہے۔حضور‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے‪:‬‬
‫"من مات ولیس في عنقه بیعة مات میتة جاھلیة" (مسلم)‬
‫"جو شخص اس حالت میں وفات پائے کہ اس کی گردن میں کسی قائد کی بیعت نہ ہو(یعنی وہ کسی قائد‬
‫کا حامی نہ ہو)تو وہ جہالت کی موت مرتا ہے۔"‬
‫اس حدیث کی روشنی میں یہ بات بہ آسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ سیاسی معامالت میں کسی ایسے‬
‫حکمراں قائد یا لیڈر کی حمایت و نصرت ضروری ہے جو مسلمانوں کے معامالت میں دلچسپی لیتا ہو۔‬
‫انھیں حل کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہو اور دین اسالم کے غلبے کے لیے فکر مند رہتا ہو۔ یہ نری‬
‫جہالت و گمراہی ہے کہ انسان اپنے ارد گرد رونما ہونے والے سیاسی اور سماجی معامالت سے بے‬
‫خبر ہو کر زندگی گزارے اور اسی حالت میں مرجائے۔‬
‫جو لوگ اس بات کا دعوی کرے ہیں کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کہ دین کو‬
‫سیاست سے الگ کر کے رکھنا چاہیے وہ دراصل قرآن و حدیث کی صریح اورواضح تعلیمات سے بے‬
‫خبر ہیں۔ اگر وہ مذکورہ قرآنی آیات واحادیث پر غور کریں گے تو انھیں معلوم ہوگا کہ دین سے‬
‫سیاست کو الگ کرنا جہالت وگمراہی ہے۔ بلکہ سیاسی مسائل سے بے خبر رہنا اور سیاسی برائیوں‬
‫کو دور کرنے کے لیے کوئی کوشش نہ کرنا امت مسلمہ کے حق میں گناہ ہے۔‬
‫دین کا سیاست سے اس قدر گہراتعلق ہے کہ عین نماز کی حالت میں قرآن کی ان آیتوں کی تالوت کی‬
‫جاتی ہے جن میں سیاسی مسائل سے بحث کی گئی ہے مثالً وہ آیتیں جن میں مسلم دشمن حکمرانوں‬
‫کی تائید و نصرت کی ممانعت ہے یا جن میں دنیوی معامالت کو اللہ کے قوانین کے مطابق حل کرنے‬
‫کی ہدایت کی گئی ہے یا جن میں جنگوں کا تذکرہ ہے وغیرہ غیرہ۔اسی طرح عین نماز کی حالت میں‬
‫دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے ۔ یہ دعائے قنوت اس وقت پڑھی جاتی ہے۔‬
‫جب مسلمانوں پر کسی قسم کی دنیوی یا آسمانی مصیبت نازل ہوتی ہے مثالً جنگ کی حالت ہو یا‬
‫مسلمانوں پر کسی قسم کا سیاسی عذاب مسلط ہو جائے یا قحط اور زلزلہ جیسی ناگہانی آفتیں ہوں۔ اس‬
‫دعا میں ان مسائل کا تذکرہ کر کے ان سے عافیت کی دعا کی جاتی ہے۔‬
‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫اس پوری تفصیل اور وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ دین کا سیاست سے کوئی‬
‫تعلق نہیں ہے تو یہ سراسرہٹ دھری ہے۔‬
‫دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ دین کو سیاست سے الگ کرنے کی باتیں کرتے ہیں وقت پڑنے پر یہی‬
‫لوگ دین کا سہارا لے کر دین داراور اسالم پسند لوگوں کے خالف انتقامی کاروائیاں کرتے ہیں۔مثالً‬
‫مصر کے حکمرانوں نے جب االخوان المسلمون کے خالف انتقامی کاروائی کرنی چاہی اور یہ وہ لوگ‬
‫تھے جو دین اور سیاست کو الگ الگ شے تصورکرتے تھے ان لوگوں نے بعض گمراہ قسم کے‬
‫علماء کا سہارا لیا اور ان سے اخوانیوں کے خالف کاروائی کے لیے فتوے حاصل کیے انھی علماء‬
‫سے اس بات کے فتوے حاصل کیے گئے کہ اسرائیل سے مصلحت جائز ہے۔‬
‫‪References:‬‬
‫‪AIOU Book 2622‬‬

‫علماء کی اکثریت کا کہنا ہے کہ تاویل اور تفسیر دونوں ہم معنی ہیں۔جن میں ابوعبید‪ ،‬مجاہد اور ابن‬
‫آی ا ْلقُ ِ‬
‫رآن‬ ‫ان ِفی تَأ ِو ْی ِل ِ‬ ‫جام ُع ال َب َی ِ‬
‫جریر الطبری بھی شامل ہیں۔ ابن جریر نے تو اپنی تفسیر کا نام بھی ( ِ‬
‫ف أَہ ْ ُل التَّأ ِو ْی ِل یا ا َ ْلقَ ْو ُل فِی‬
‫اختَلَ َ‬
‫)رکھا ہے۔ اس لئے وہ ہر آیت کی تفسیر کرتے ہوئے یہی کہتے ہیں ‪ْ :‬‬
‫تَأ ِو ْی ِل اآلیَ ِۃ۔ایک اور رائے ہے‪ :‬کہ تاویل کا لفظ کئی لحاظ سے تفسیر سے بالکل ہی مختلف معنی رکھتا‬
‫ہے۔ امام راغب اصفہانی ؒ کے نزدیک تفسیر سے مراد کالم ٰالہی اور کالم انسانی دونوں کی تشریح کرنا‬
‫ہے جبکہ تاویل صرف کتب ٰالہیہ کی تشریح کا نام ہے۔امام منصور ؒ کہتے ہیں‪ :‬تفسیر ‪ ،‬قرآن کی مراد‬
‫کو قطعی طور پر متعین کرنے کانام ہے جبکہ تاویل الفاظ قرآن کے زیر احتمال معانی میں سے کسی‬
‫ایک کو غیر یقینی طور پر معین کرنے کا نام ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ مفسرین ان دونوں‬
‫الفاظ کا فرق نہ جان سکے۔وہ یہ سمجھتے رہے کہ تفسیر کا تعلق نص اور اس سے ماخوذ مفہوم سے‬
‫ہے جبکہ تاویل نص کی گہرائی میں اترنے کا نام ہے۔یا پھر لفظ قرآن کے مختلف محتمل معانی کی‬
‫وضاحت کو کہتے ہیں۔بعض نے تفسیر اسے کہا جو بذریعہ روایت ہو اور تاویل وہ جو بذریعہ درایت‬
‫ہو۔‬

‫ان تمام آراء میں سب سے بہتر رائے امام ابو عبیدؒ کی ہے کیونکہ قرآن و سنت میں تفسیر کی جگہ‬
‫۔۔۔و َما یَ ْعلَ ُم تَا ْٔ ِو ْیلَہُ إِالَّ اللّ ُہ۔۔۔ } (ال‬
‫تاویل کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ مثالً‪ :‬ارشاد باری ہے { ‪َ :‬‬
‫ب۔‬ ‫ع ِلّ ْم ُہ تَأ ِو ْی َل ا ْل ِکتَا ِ‬
‫عمران‪ )١:‬اور دعائے رسول بھی ہم پڑھ آئے ہیں ‪:‬اللہم َ‬

‫فقہ وعقائد کے صحیح احکام تک رسائی کا نام بھی تاویل ہے تاکہ عام مسلمان کو ان احکام کی تمام‬
‫حدود وقیود کا علم ہوسکے۔رسائی اگر برعکس ہو تو نتیجہ غلط ہوسکتا ہے جسے تاویل فاسد کہا‬
‫جاتا ہے جیسے { َوات َّ َخذَ اللّہُ إِب َْراہ ِ ْی َم َخ ِلی ًْال } (النساء‪)٧۲۱:‬میں خلیل سے مراد فقیر لینا اور اصلی معنی‬
‫نامناسب کہنا‪ ،‬تاویل فاسد ہے۔‬

‫تعالی نے یوسف علیہ السالم کو تاویل االٔحادیث کا علم‬


‫ٰ‬ ‫نوٹ‪ :‬تاویل کا علم ایک بیش بہا علم ہے۔ اللہ‬
‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫عطا کیا تھا۔ابن عباس ؓ کے لئے حضور ﷺ نے دعا فرمائی کہ قرآن مجید کی تفسیر و تأویل کا علم‬
‫انہیں عطا ہو۔ آپﷺ کی اسی دعا کا نتیجہ ہے کہ ابن عباس ؓ کے تفسیری اقوال میں قرآنی الفاظ کی‬
‫وضاحت و معانی کا تعین بہت سادہ اور عام فہم انداز میں کیا گیا ہے۔تفسیر میں جزمی طور پر مراد‬
‫ٰالہی تک نہیں پہنچا جاسکتا إال یہ کہ صحیح روایت میں رسول اللہ ﷺ سے اس کی تفسیر منقول ہو یا‬
‫صحابہ کرام سے جو نزول وحی کے وقت موجود تھے اور انہوں نے حوادث و واقعات کا مکمل احاطہ‬
‫کیا ہو یا اشکال کے وقت انہوں نے آپ ﷺ کی طرف اس کے مفہوم کے لئے رجوع کیا ہو۔قرآن کا لفظ‬
‫یا عبارت ایک سے زائد مفہوم کے اگر متحمل ہوں تو پھر ان کی تفسیر یا تاویل انتہائی احتیاط‬
‫اورٹھوس دالئل کی محتاج ہے۔ بصورت دیگر خود ساختہ نظریہ و تخیل کی ترجمانی ہو گی نہ کہ خدمت‬
‫قرآن۔اس میں مفسر کی اپنی اجتہادی کوشش جو لفظ قرآن کی بذریعہ لغت عرب صحیح معرفت ہو ‪،‬‬
‫سیاق وسباق کے مطابق اس کا استعمال وہ کرے اور اسالیب عرب کی معرفت کے بعد معانی کا استنباط‬
‫وغیرہ بھی۔امام زرکشی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫سی ِْر َوالتَّأ ْ ِو ْی ِل‪ ،‬اَلت َّ ْمیِی ُْز بَ ْینَ ا ْل َم ْنقُ ْو ِل َوا ْل ُم ْ‬
‫ست َ ْنبَ ِط‪ِ ،‬لیُ ِح ْی َل‬ ‫علَی الت َّ ْف ِرقَ ِۃ بَ ْینَ الت َّ ْف ِ‬
‫ب فِی اص ِْطالَحِ َکثِی ٍْر َ‬ ‫سبَ ُ‬ ‫َوکَانَ ال َّ‬
‫ست َ ْنبَ ِط۔(البرہان ‪۲‬؍‪ )٧١۲‬بہت سے علماء کے ہاں تفسیر‬ ‫علَی النَّ َظ ِر فِی ا ْل ُم ْ‬ ‫علَی ا ِال ْعتِ َما ِد فِی ا ْل َم ْنقُو ِل‪َ ،‬و َ‬
‫َ‬
‫وتاویل کی اصطالح میں اختالف کا‬
‫سبب منقول ومستنبظ کے درمیان امتیاز کرنا تھا تاکہ منقول پر اعتماد ہواور مستنبط پر غور ۔‬
‫‪:‬معتزلہ نے تأویل سے مراد‬
‫لفظ کو اس کے اصل معنی سے پھیر کر دوسرے معنی کی طرف لے جانا لیا ہے ۔یہ اس صورت میں تو‬
‫جائز ہے جب کوئی ایسی دلیل یا قرینہ موجود ہو جو ظاہری معنی مراد لینے سے روکتا ہو۔تاویل کی یہ‬
‫اجازت عام الفاظ میں تو دی جاسکتی تھی۔ مگر قرآن مجید میں وارد صفات ٰالہی کے مرادی معنی لینے‬
‫کی کوئی دلیل نہیں۔اس سے تو مخلوق خدا سے تشبیہ ہوجاتی ہے جو رب کریم کی ذات اقدس کے حق‬
‫میں تنقیص ہے۔اس کی تنزیہ وتقدیس کے بارے میں صحیح نکتہ نظر یہی ہے کہ جس طرح اس نے‬
‫اپنا تعارف کرایا ہے اسے ویسا ہی لیا جائے کوئی تأویل مشابہت اور کیفیت والی نہ کی جائے۔اس لئے‬
‫کہ لیس کمثلہ شئ۔ اس جیسی کوئی شے ہے ہی نہیں۔ اور{ فال تضربوا للہ المثال}۔ اللہ کو متعارف‬
‫کرانے کے لئے مثالیں مت دیا کرو۔ ایسا کرنا اصل معنی کو دوسرے معنی کی طرف پھیرنا ہے۔‬

‫یہی تاویلی اورمرادی معنی آج متعدد تراجم قرآن اور تفاسیر میں بخوبی نوٹ کیا جاسکتا ہے ۔جن سے‬
‫مترجمین اور مفسرین کے رجحانات کا بھی علم ہوتا ہے اور قرآن کریم سے دشمنی رکھنے والوں کا‬
‫بھی۔ یہ منہج فتنہ ابھارنے کا اگر نہ بھی ہوتو کم از کم اپنی من مانی تأویل اور سلف صالحین کے منہج‬
‫‪:‬سے ہٹا ہوا ہے۔ جیسے‬

‫{ استوی علی العرش} سے مراد جلوہ افروز ہونا ۔ یا {جاء ربک والملک} سے مرادتمہارا رب جلوہ‬
‫فرما ہوگا یابعض صحیح احادیث جن میں اللہ تعالی کی صفات بیان ہوئی ہیں ان کا محض عقلی معنی‬
‫لینا نہ کہ اصل۔ سوال یہ ہے کہ پھر اس سے مراد کیا ہے ؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہی ہے کہ ہمیں‬
‫اس کا معاملہ اللہ تعالی پر چھوڑ دیناچاہئے۔اسالف امت نے ان سب آیات واحادیث کا ایساظاہری معنی‬
‫لیا ہے جو اس کی ذات جلیل کو زیبا ہے‪ ،‬تاکہ مشابہت وکیفیت کے بغیر خالق ومخلوق کی صفات میں‬
‫)‪HISTORY AFKAAR (2622‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫فرق ہوسکے۔ اس لئے کہ یہ سب صفات باری تعالی ہیں جنہیں بالتمثیل ماننا اور اللہ تعالی کو منزہ‬
‫شافعی فرماتے ہیں‬ ‫ؒ‬ ‫‪:‬وپاک سمجھنا ضروری ہے۔امام‬
‫ْس۔لوگ دین سے جاہل‬ ‫ان أ َ ْر َ‬
‫س َطا َطا ِلی َ‬ ‫س ِ‬‫ب‪َ ،‬و َمی ِل ِہ ْم إِ ٰلی ِل َ‬
‫سانَ ا ْلعَ َر ِ‬‫اختَلَفُوا ِإالَّ ِلت َ ْر ِک ِہ ْم ِل َ‬
‫اس َوالَ ْ‬
‫َما َج ِہ َل النَّ ُ‬
‫تبھی ہوئے اور اختالف میں تبھی پڑے جب انہوں نے عربی زبان ترک کردی اور ارسطو فلسفی کی‬
‫زبان کے شوقین بنے۔‬

‫سیوطی لکھتے ہیں‬ ‫ؒ‬ ‫‪:‬امام‬


‫ب َوا ِالحْ تِ َجاجِ‬
‫ط ِ‬ ‫ب َو َمذَاہ ِ ِب ِہ ْم فِی ا ْل ُم َح َ‬
‫او َر ِۃ َوالت َّ َخا ُ‬ ‫ص َطلَحِ ا ْلعَ َر ِ‬
‫علَی ُم ْ‬ ‫سنَّۃ ُ ِإالَّ َ‬
‫ت ال ُّ‬ ‫َ‬
‫َولَ ْم یَ ْن ِز ِل ا ْلقُ ْرآنُ َو َال أت َ ِ‬
‫ک ِ ّل قَ ْو ٍم لُغَ ٌۃ َواص ِْطالَحٌ‪َ ،‬وقَا َل اللّٰ ُہ تَعَا ْلی‬ ‫ص َطلَحِ ا ْلیُ ْونَ ِ‬
‫ان‪َ ،‬و ِل ُ‬ ‫علَی ُم ْ‬ ‫ستِ ْدالَ ِل‪ ،‬الَ َ‬
‫{وما أرسلنا من رسول إال ‪َ :‬وا ِال ْ‬
‫بلسان قومہ لیبین لہم}۔ (صون المنطق والکالم‪)٧۱ :‬‬
‫قرآن اترا اور سنت رسول گویا ہوئی تو اہل عرب کی اصطالحات میں‪ ،‬ان کی طرزگفتگو اور انداز‬
‫تخاطب میں‪،‬ان کے طریقہ احتجاج اور استدالل میں۔نہ کہ یونانی فلسفہ واصطالحات میں۔ ہر قوم کی‬
‫اپنی لغت اور اصطالحات ہوا کرتی ہیں انہی میں ان کی کتب کو سمجھنا چاہئے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ہم نے کسی بھی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ ان کے لئے کھول کر بیان‬
‫کرسکے۔‬
‫‪References:‬‬
‫‪AIOU Book 2622‬‬

You might also like