You are on page 1of 21

Lecture 11

Jihad
‫جہاد‬
‫جہاد کا تعارف‪ ،‬اہمیت‪ ،‬اقسام ‪ ،‬مقاصد ‪ ،‬شرائط‬
‫جہاد کا معنی و مفہوم‬
‫جہاد عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کے لغوی معنی ہیں کسی کام کے‬
‫لیے انتہائی کوشش کرنا۔یا کسی مرغوب چیز کو حاصل کرنے یا نا‬
‫[‪]1‬‬
‫پسندیدہ چیز سے بچنے کے لیے انتہاء درجے کی جدوجہدکرنا‬
‫اورشرعی اصطالح میں جہاد سے مراد ہر وہ جدو جہد ہے جو اللہ کی‬
‫رضا کے حصول کی خاطر اس کے دین کی سربلندی کے لیے کی‬
‫جائے‪،‬خواہ وہ زبان وقلم سےہو‪،‬خواہ مال سے ہو ‪،‬خواہ جان سے ہو۔‬
‫[ ‪]2‬‬

‫[‪ ]1‬بذل اقصی ما یستطیعہ االنسان من طاقتہ لنیل محبوب او لدفع مکروہ‬
‫[‪ ]2‬ابـن حجـر عسـقالنی‪،‬فتـح الباری ‪،‬کتاب الجہاد ج‪ 6‬ص ‪، 5‬سـید قاسـم محمود‪ ،‬اسـالمی انسائیکلو‬
‫پیڈیا‪،‬ج ‪ 1‬ص‪744‬‬
‫زکوۃ وحج کو دین کے ستون قرار دیا گیاہے وہاں‬ ‫کلمہ توحید‪،‬نماز‪،‬روزہ‪ٰ ،‬‬
‫جہاد کو چھت اور ڈھال کی حیثیت دی گئی ہے [‪ ]1‬اس کی اصل وجہ یہ‬
‫ہےکہ جہاد ہی ایک ایسا عمل ہے جس سے ان عبادات کو تحفظ ملتا‬
‫ہے اور اس کے ذریعے دین کےراستے میں موجود رکاوٹوں کو در کیا جاتا‬
‫ہے۔ اور اسی کی برکت سے برایوں کا قلعہ قمع کیا جاتا ہے اور نیکیوں‬
‫کی اشاعت ہوتی ہے‪،‬داخلی و عالمی امن و امان قائم ہوتا ہے۔ یہی وجہ‬
‫ہے کہ قرآن اور سنت میں جہاد کو بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا‬
‫ہے۔جہاد کے منافع ‪ ،‬مقاصد‪ ،‬مجاہد کا مقام اور جہاد نہ کرنے یا جہاد میں‬
‫سستی کے نقصانات کو پوری تفصیل سے کھول کر بیان کیا گیاہے۔اسی‬
‫طرح جہاد کے اصول وشرائط بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫ہیں۔ جہاد پر ترغیب دیتے ہوئے اور اس کی تاکید کرتے ہوئے اللہ‬
‫فرماتے ہیں‪َ :‬و َجـ ٰ ِه ُدوا ْ ِبأَم َۡوٲلِکُمۡ َوأَن ُف ِسكُمۡ ِفى َس ِب ِ‬
‫يلٱلل ّ َ ِه‌ۚ َذٲلِكُمۡ َخي ٌۡر۬ لَّكُمۡ ِإن‬
‫ك ُنتُمۡ تَ ۡعل َُمون[‪ " ]2‬اور اللہ کےراستے میں جہاد کرو اپنے مالوں سے اور اپنی‬
‫جانوں سے‪،‬یہ بہتر ہے تمھارے حق میں اگر تم علم رکھتے ہو"‬
‫مشکوـۃ المصـابیح ‪ ،‬کتاب االیمان ‪ ،‬صـ‪،1‬بحوالہ‬
‫ٰ‬ ‫لوۃ و ذروۃ سـنامہ الجہاد ۔(‬
‫راس االمـر االسـالم‪،‬وعمودہ الصـ ٰ‬
‫[‪]1‬‬

‫ترمذی وابن ماجہ)‬


‫[‪ ]2‬سورہ توبہ‪،‬آیت ‪41‬‬
‫يل ٱلل َّ ِه ِبأَم َۡوٲ ِلكُمۡ َوأَن ُف ِسكُمۡ‌[‪ " ]2‬اے ایمان والو! کیا میں تمھیں وہ تجارت بتاؤں‬ ‫ون ِفى َس ِب ِ‬ ‫جـ ٰ ِه ُد َ‬
‫َوتُ َ‬
‫جو تمھیں دردناک عذاب سے بچالے؟ وہ یہ ہے کہ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان‬
‫الؤ‪،‬اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے را ِہ خدا میں جہاد کرو"‬
‫ع َظ ُم َد َر َج ًة ِعن ْ َد الل َّ ِه ۚ َوأُول ٰ ِئ َك ُه ُم‬
‫يل الل َّ ِه ِبأ َ ْم َوالِ ِه ْم َوأَن ْ ُف ِس ِه ْم أ َ ْ‬
‫اه ُدوا ِفي َس ِب ِ‬
‫اج ُروا َو َج َ‬
‫آمنُوا َو َه َ‬
‫ين َ‬‫ال َّ ِذ َ‬
‫[‪]3‬‬
‫الْفَا ِئ ُز َ‬
‫ون‬
‫"جو لوگ ایمان آلئے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کیراہ میں مال اور جان سے جہاد کرتے‬
‫رہے‪ ،‬خدا کے ہاں ان کے درجے بہت بڑے ہیں۔ اور وہی کامیاب ہیں"‬
‫حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫[‪]4‬‬
‫لغدوۃ فی سبیل اللہ اور روحۃ خیر من الدنیا ومافیھا‬
‫"صبح کے وقت اللہ کےراستے میں نکلنا یا شام کا وقت اللہ کیراہ میں گزارنا ‪،‬دنیا‬
‫اور دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہے۔"‬
‫[‪]5‬‬
‫ما اغبرت قدما عبد فی سبیل اللہ فتمسہ النار‬
‫"اللہ کےر استے میں جہاد کے دوران جس بندے کے پیر بھی غبار آلود ہوئے اسے جھنم‬
‫کی آگ چھو نہیں پائے گی"‬
‫رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کے لیے بڑی وعید سنائی ہےجس‬
‫نے نہ توعملی طور پر جہاد کیا اور نہ جہاد کی کبھی خواہش کی‪،‬چنانچہ آپ‬
‫ﷺ کا ارشا ِد گرامی ہے‪ :‬من مات ولم یغزولم یحدث بہ نفسہ مات علی‬ ‫[‪ ]1‬سورہ االنفال‪،‬آیت ‪73‬‬
‫‪10‬۔"‪11‬جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ نہ اس نے زندگی میں عملی طور‬ ‫[‪]3‬شعبۃ من نفاق‬
‫[‪ ]2‬سورہ صف‪،‬آیت [‪]6‬‬
‫سورہ توبہ آیت ‪20‬‬
‫خواہش کی تواس نے نفاق کے کسی نہ کسی حصے پر وفات‬ ‫کی‬ ‫جہاد‬ ‫نہ‬ ‫پر جہاد کیا اور‬
‫[‪ ]4‬صحیح البخاری کتاب الجھاد‪،‬حدیث ‪2792‬‬
‫ایضا ً حدیث ‪2811‬‬ ‫[‪]5‬کی"‬
‫مشکوۃ المصابیح کتاب الجھاد ج ‪ 2‬ص ‪331‬‬
‫ٰ‬
‫[‪]6‬‬
‫یہ دنیا نیکی اور بدی کا گھر ہے۔ جہاں نیکی اور بھالئی کی‬
‫طاقتیں موجود ہیں وہاں برائی اور شر کی قوتیں بھی موجود ہیں اور‬
‫دونوں کو اپنے اپنے طور پر کام کرنے کی پوری آزادی ملی ہوئی ہے ۔ جس‬
‫کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں آپس میں ٹکراتی رہتی ہیں اور ایک دوسرے کو‬
‫زیر کرنے کےلیے برابر زور لگاتی رہتی ہیں۔لہذا یہ فطری بات ہے کہ اسالم‬
‫جو سراسر خیر اور بھالئی ہے اس کیراہ بھی روکی جائے گی۔یہی وجہ‬
‫ہے کہ اسالم اپنے پیروکاروں کویہ ہدایت دیتا ہے کہ اسالم کیراہ میں‬
‫آنے والی رکاوٹ ‪،‬پھر چاہے وہ کیسی بھی ہو‪،‬اس کے ہٹانے کے لیے بھرپور‬
‫کوشش کی جائے اور آخری حد تک کی جائے ۔نیکی کیراہ میں آنے والی‬
‫رکاوٹیں چونکہ مختلف اقسام کی ہوتی ہیں اس لیے ان کوروکنے کے لیے‬
‫بھی مختلف صورتیں ہوں گی۔‬
‫قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ میں جہاد کی مندرجہ ذیل اہم اقسام ملتی‬
‫ہیں‪:‬۔‬
‫ےاپنیذاتکی محبت‪،‬ـ مال کیمحبت ‪،‬ـعہدـہ‬ ‫ہـــ‬
‫حق کیرـاہ میں رـکاوٹ سبسےپہلےانسان کا اپنا نفـس ہـوـتا ۔‬
‫اور منصـبکی اللـچ‪،‬ـانا اور غروـر اور دوسروـں پرـ باالدستیکا جنون‪،‬ـاوردیگرـ نفـسانی خوـاہـشاتانسان کےلیـےسبسے‬
‫بڑی رـکاوٹ ہـوـتیہیں۔ جوـ شـخصـ اپنـےنفـس کی خوـاہـشاتپرـ قـابوـ نہیں پا سکتا وہ دین کیرـاہ میں آنےوـالیدوسری‬
‫رـکاوٹوں کا بھی مقـابلہ نہیں کـرسکتا۔ اس لیـےسبسےپہلےاپنـےنفـس سےجہاد کرـنــےکا حکمـ دیا گـیا۔ جس کا مطـلب یہ‬
‫۔اور ایسے شـخصـ کوـ ہـی‬ ‫ےکـہ سبسےپہلےخود دین پرـ عمل کرـنا چاہـیـےاور اپنـےنفـس کی خوـاہـشات پرقـابوـ پانا چاہـیـے‬ ‫ہـــ‬
‫ے اور بعضـ روـایاتمیں ایسےجہاد کوـ جہاد ِاکـبر کـہا گـیا‬ ‫ےجوـ اپنـےنفـس پرـ قـابوـ پائ ۔‬ ‫کاملمجاہدـ قرـار دیا گـیا ہـــ‬
‫ےجوـ اپنـےنفـس کےساتھـ جہاد‬ ‫ےلـمجاہدـ من جاھدـ نفـسہ [‪" ]1‬کامل مجاہدـ وہ ہـــ‬ ‫ﷺ کا ارشا ِد گراــمی ‪:‬ہـــا‬ ‫چنانچہ آپ‬ ‫ے‬‫ہـــ‬
‫‪،‬ـ‬
‫کـرےـ"‬
‫آپنےفرـمایا‪:‬‬ ‫ےکـہ ؐ‬ ‫ہعنہ سے روـایت ہـــ‬ ‫ہبن مسعود رضـی لاــــ‬ ‫حضـرت عبدـ لاــــ‬
‫فـما تعدـون الصـرعۃـفیکمـ قـال قـلنا الذـی الـ یصـرعہ الرجال‪،‬ـ قال لیس بذـالکولکنہ الذـییملک نفـسہ عندـ الغضـب‬
‫ےبلکہ پہلوـان توـ در‬ ‫ہـــ‬
‫ﷺ ‪،‬ـ‬ ‫ے آپ نےفرـمایا! وہ نہیں‬ ‫[‪"]2‬تمـ پہلوـان کسے کہتـےہـوـ؟ ہـمـ نےکـہا جسے کوـئیبھیپچھاڑ نہ سک ۔‬
‫ـکھے‬
‫ےجوـ غصـہ کےوقتخود کوـ قـابوـ میں ر "‬ ‫اصـل وہ ہـــ‬
‫ے‬
‫قرـآن مجیدـ میں ارشاد ‪:‬ہـــ‬
‫ْ [‪]3‬‬
‫اف َم َقا َم َر ِبّ ِه َون َ َهى الن َّ ْف َس َ‬
‫ع ِنال َْه َو ٰى‪َ ،‬ف ِإ َّن ال َْجن َّ َة ِه َي ال َْمأ َو ٰى‬ ‫َوأ َ َّما َم ْن َخ َ‬
‫"اور جوـ اپنـےپروـردـگار کے ساـمنـےکـھڑےـ ہـوـنـےسےڈرتا رہا اور اپنـےنفـس کوـ خوـاہـشوں سے روـکـتا رہا ‪،‬ـتوـ اس کا ٹھکانہ‬
‫ے‬‫بہشت ہــ"ـ‬
‫ےکہ جوـ شـخصـ خود اپنـے روـیـےاور کـردـار کی اصـالح نہیں کـرتا اس کیبات کا اثرـ بھی نہیں‬ ‫اور یہ بھیایک حقـیقـت ہـــ‬
‫تعالینےخود عملی پرـ ابھارتـے ہـوـئـےفرـمایا‪ :‬لمـ تقـولون ماالـ تفـعلون[‪ " ]4‬وہ بات کـہتـےکـیوں ہـوـ جس پرـ‬ ‫ہـوـتا ‪،‬ـاس لیـے لہاــــ ٰ‬
‫ے‬‫عملنہیں کـرت ـ"‬
‫‪ " 5 15‬لوـگوں کوـ نیکیکا کـہتـےہـوـ اور خود اپنـےآپکوـ بھال دیتـےہـوـ"‬ ‫ص ُك ْمـ‬‫االیمان ْن ُفـ َس‬
‫کتابَس ْو َن اَ‬
‫المصابیح‪َ ،‬وـ َت ْن‬ ‫مشکوۃالنّ َ ِب‬
‫َاسال ِْب ِ ّر‬ ‫ا َ َ ْتاـ ُمرْوـ َن ٰ‬
‫[‪]1‬‬

‫[‪ُ ]2‬صحیح مسلم ص‪ 1139‬حدیث ‪6643‬‬


‫النازعات‪،‬آیت ‪40‬‬ ‫[‪]3‬‬

‫سورہ الصف ‪،‬آیت ‪2‬‬ ‫[‪]4‬‬

‫سورہ بقرہ ‪،‬آیت ‪44‬‬ ‫[‪]5‬‬


‫انسان کےلیے ضروری ہے۔ اگر کسی کے پاس علم ‪ ،‬عقل ‪ ،‬پہچان اور دانائی کی‬
‫روشنی موجود ہے‪،‬تو اس کا فرض ہے کہ اس سے دوسرے تاریک دلوں کوفائدہ‬
‫پہنچآئے۔تلوار کی طاقت سے دلوں میں وہ اطمینان پیدا نہیں ہوتا‪ ،‬جو دلیل اور برہان‬
‫تعالینے فرمایا ‪ْ :‬اد ُع‬
‫ٰ‬ ‫کی قوت سے لوگوں کے سینوں میں پیدا ہوتا ہے‪ ،‬اس لیے اللہ‬
‫[‪]1‬‬
‫يل َر ِبّ َك ِبال ِْحك َْم ِة َوال َْم ْو ِع َظ ِة ال َْح َسن َ ِة َو َجا ِدل ُْه ْم ِبال َّ ِتي ِه َي أ َ ْح َس ُن‬
‫ِإل َٰى َس ِب ِ‬
‫" لوگوں کو دانش اوراچھی نصیحت سے اپنے پروردگار کےراستے کی طرف بالؤ۔ اور‬
‫بہت ہی اچھے طریقے سے ان سے مباحثہ کرو"‬
‫ایسے جہاد کو دعوتی اور فکری جہاد بھی کہا جاتا ہے۔ غیر مسلموں ‪ ،‬منافقوں‬
‫یا کمزور ایمان مسلمانوں کی طرف سے اسالم کے خالف جو شکوک و شبہات پیدا‬
‫کیے جاتے ہیں‪ ،‬یا جو اعتراضات کیے جاتے ہیں یا جو دالئل دیے جاتے ہیں ان کے‬
‫ایسےمعقول اورمناسب جواب دیناکہ کوئی شبہ ‪ ،‬کوئی اعتراض یا کوئی ایسی دلیل‬
‫باقی نہ رہے جواسالم کے چہرے پر کوئی معمولی داغ بھی بن سکے۔ نبی پاکؐ کا‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫مکی دور سرا سر ایسے دعوتی و فکری جہاد کا دور تھا ۔ اس لیے آپ ؐ کو اللہ‬
‫نے فرمایا‪:‬‬
‫ين َو َجا ِه ْد ُه ْم ِب ِه جِ َه ً‬
‫ادا ك َ ِب ًيرا‬ ‫َفل َا تُ ِط ِع الْك َا ِف ِر َ‬
‫[‪]2‬‬

‫" کافروں کی اطاعت نہ کرنا اور ان سے قرآن کے ذریعے بڑا جہاد کرتے رہنا"‬
‫تعالینے جہاد کبیر (بڑا جہاد) کہا ہے‪ ،‬جس سے‬ ‫ٰ‬ ‫قرآن کے ذریعے جہاد کو اللہ‬
‫سورہ النحل‪،‬آیت ‪125‬‬ ‫[‪]1‬‬
‫تعالیکے نزدیک علمی اور فکری جہاد کی کتنی بڑی‬ ‫ٰ‬ ‫اللہ‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫سکتا‬‫جا ‪125‬‬ ‫نحل‪،‬آیت‬‫سورہلگایا‬
‫اندازہ‬
‫[‪]2‬‬
‫کی ضرورت پڑے وہاں مال خرچ کیا جائےاور اس حوالے سے کسی بھی بخل یا کنجوسی سے کام نہ لیا جائے۔‬
‫دنیا کی جو بھی اجتماعی تحریک ہوتی ہے وہ مال کی قربانی کے سوا کامیاب نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح‬
‫۔لہذا‬
‫اسالمی تحریک کو بھی کامیابی سے ہمکنار کرنے کےلیے مال کی قربانی کی سخت ضرورت ہے ٰ‬
‫اسالمی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے مسلمانوں کا اجتماعی فرض ہے کہ اس کے لیے سرمایہ فراہم کرـیں۔‬
‫اور ہر قسم کی مالی قربانی کے لیے تیار رہیں ۔اور یہ ان کے لیے مالی جہاد ہے۔‬
‫مکہ مکرمہ کے مسلمانوں نے اپنی ملکیتیں مکہ پاک میں چھوڑ کر مالی جہاد کیا‪ ،‬تو مدینہ کے انصار‬
‫نے مکہ کے مہاجرین کو اپنے گھر دے کر اور کاروبار کے لیےوسائل فراہم کر کے مالی جہاد کیا ۔ اور آئندہ دس‬
‫زمین اسالم کو جس طرح سر سبز و شاداب کیا اسالمی‬ ‫ِ‬ ‫سالہ جنگوں میں مسلمانوں نے مالی قربانیاں دے کرسر‬
‫تاریخ اسے بھال نہیں سکتی۔‬
‫تعالینے قرآن مجید میں مالی جہاد پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور ان لوگوں کی بہت بڑی اہمیت اور‬ ‫ٰ‬ ‫اللہ‬
‫تعالیہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫فضیلت بیان کی ہے جو مالی جہاد کرتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ِ باری‬
‫ِيلالل َّ ِه ۚ أُول َٰ ِئ َك ُه ُم‬
‫اه ُدوا ِبأ َ ْم َوالِ ِه ْم َوأَنْفُ ِس ِه ْم ِفي َسب ِ‬ ‫آمنُوا ِبالل َّ ِه َو َر ُسولِ ِه ث ُّمَ ل َْم يَ ْرتَ ُ‬
‫ابوا َو َج َ‬ ‫ون ال َّ ِذ َ‬
‫ين َ‬ ‫ِإن ّ ََما ال ُْم ْؤ ِمن ُ َ‬
‫[‪]1‬‬
‫الصا ِدق َ‬
‫ُون‬ ‫َّ‬
‫"مومن تو وہ ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان آلئے‪ ،‬پھر شک میں نہ پڑے اور خدا کیراہ میں مال‬
‫اور جان سے جہاد کیا۔ یہی لوگ (ایمان کے) سچے ہیں"‬
‫تعالینے اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہالک کرنے کے‬ ‫ٰ‬ ‫مال خرچ کرنے کے موقعے پر مال خرچ نہ کرنے کو اللہ‬
‫مترادف قرار دیا ہے‪،‬چنانچہ ارشا ِد ربانی ہے َو اَن ْ ِفقُ ْوا ِف ْي َس ِبيْ ِل الل ّ ٰ ِه َو ل َا تُل ْ ُق ْوا ِبا َيْ ِديْك ُْم اِل َى التّ َْهلُك َ ِة[‪ " ]2‬اللہ کے‬
‫راستے میں مال خرچ کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہالکت میں نہ ڈالو"‬
‫ایک روایت میں حضور ؐ نے فرمایا‪:‬‬
‫[‪]3‬‬
‫جاھدوا المشرکین باموالکم و انفسکم والسنتکم‬
‫"مشرکین سے جہاد کرو‪ ،‬اپنے مالوں سے ‪ ،‬اور اپنی جانوں سے اور اپنی زبانوں سے "‬
‫جنگ کے میدان میں ذاتی اور جسمانی شرکت ہر شخص کے لیے ممکن نہیں ہے‪ ،‬لیکن مالی شرکت ہر ایک‬
‫کے لیے آسان ہے ۔ جسمانی جہاد یعنی مسلح لڑائی کی ضرورت ہر وقت پیش نہیں آتی‪ ،‬لیکن مالی جہاد کی‬
‫لمحے ہوتی ہے۔ اور انسانی کمزوری یہ ہے کہ بسا اوقات اسے مال کی محبت جان‬ ‫سورہ ہر وقت اور ہر‬
‫الحجرات‪،‬آیت ‪15‬‬ ‫[‪]1‬ضرورت‬
‫زیادہ ہوتی ہے‪،‬اس لیے قرآن مجید میں زیادہ تر مالی قربانی کو جان کی قربانی سے پہلے‬ ‫‪195‬‬‫بھی‬‫‪،‬آیت‬ ‫بقرہسے‬ ‫محبت‬ ‫[‪]2‬کیسورہ‬
‫ہے۔‪،‬حدیث ‪2503‬‬ ‫گیا‪363‬‬‫اول ص‬ ‫ہوشیار کیا‬
‫‪،1999‬طبع‬ ‫کمزوری پر‬ ‫نسائیاس فطری‬
‫‪،‬ریاض‪،‬دار السالم‪،‬‬ ‫انسان کو‬ ‫[‪]3‬الکر سنن‬
‫امن بہترین چیزیں ہیں مگر مشاہدہ وتجربہ یہ بتاتا ہے کہ شر پسند افراد اور شر پسند قومیں صلح پسند افراد اور صلح‬
‫پسند قوموں کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیتیں ۔شرپسند ہمیشہ اپنے ناجائز مقاصد کی تکمیل کے لیے مجبور اورکمزور‬
‫افراد وقوموں پر ظلم ڈھاتےتے رہتے ہیں۔اور ان کے ظلم سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ اپنے اندر ایسی جنگی قوت‬
‫اور صالحیت پیدا کی جائے جس کی مدد سے ان کےشر اور فساد سے بچا جا سکے۔اور وہ قوت مسلح جہاد ہی کی‬
‫قوت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسالم چونکہ ایک ایسا دین ہے جو عالمگیر ہونے اور دنیا کے موجودہ نظاموں کے‬
‫منسوخ ہونے کا دعویدار ہے اس لیے وہ قدرتی طور پر تمام باطل قوتوں کے لیے ایک چیلینج ہے‪،‬چنانچہ وہ باطل‬
‫قوتوں کی طرف سے مقابلے کی توقع رکھتے ہوئے جہاد کی ہر صورت کے لیے اپنے پیروکاروں کو تیار رکھنا الزمی‬
‫تعالیہر وقت مسلح جہاد کے لیے تیار رہنے اور قوت اکٹھی رکھنے کا حکم دیتا‬ ‫ٰ‬ ‫سمجھتا ہے۔[‪]1‬یہی وجہ ہے کہ اللہ‬
‫تعالیہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫ہے‪ ،‬چنانچہ ارشا ِد باری‬
‫ين ِمن ُدو ِن ِهمۡ ل َا تَعۡل َُمونَ ُه ُم ٱلل ّ َ ُه يَ ۡعل َُم ُهمۡ‌ۚ‬ ‫اخ ِر َ‬ ‫ع ُد َّو ٱلل ّ َ ِه َو َ‬
‫ع ُد َّوکُمۡ َو َء َ‬ ‫ون ِبه َ‬ ‫ۡخي ِۡل تُرۡ ِهبُ َ‬ ‫اط ٱل َ‬ ‫َوأ َ ِع ُّدوا ْ ل َُهم َّما ٱسۡتَ َطعۡتُم ِ ّمن ق ّ َُوة َو ِمن ِ ّر َب ِ‬
‫ون[‪ "]2‬اور جہاں تک تمھارا بس چلے‪،‬زیادہ سے زیادہ طاقت‬ ‫فلَيۡكُمۡ َوأَنتُمۡ ل َا تُظۡل َُم َ‬ ‫يل ٱلل َّ ِه يُ َو َّ ِإ‬ ‫َو َما تُن ِفقُوا ْ ِمن َشىۡ ٍ ۬ء ِفى َس ِب ِ‬
‫اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان( دشمنوں کے) مقابلے کے لیے مہیا رکھو‪،‬تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ اور اپنے‬
‫دشمنوں کو اور ان دوسرے دشمنوں کو خوف زدہ کردو‪،‬جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے‪،‬اللہ کیراہ میں جو کچھ‬
‫تم خرچ کروگے‪،‬اس کا پورا بدل تمھاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہیں کیا جائے گا"‬
‫تعالیجانتے تھے کہ مسلمان طبعی طور پر لڑنا پسند نہیں کریں گے لہذا انھیں اس طبعی کراہت پر متنبہ کرتے‬ ‫ٰ‬ ‫اللہ‬
‫ہوئے فرمایا‪:‬‬
‫ع َس ٰى أ َ ْن تَك َْر ُهوا َشيْئًا َو ُه َو َخي ْ ٌرـلَك ُْم "(مسلمانو) تم پر (خدا کےراستے میں) لڑنا فرض‬ ‫[‪]3‬‬
‫ال َو ُه َو ك ُْرهٌ لَك ُْم َو َ‬ ‫عل َيْك ُُم ال ْ ِقتَ ُ‬ ‫بَ‬ ‫ك ُ ِت َ‬
‫کردیا گیا ہے۔ وہ تمہیں ناگوار تو ہوگا مگر کیا عجب کہ ایک چیز تم کو ناگوارلگے اور وہ ہی تمہارے حق میں بہتر ہو "‬
‫پھر ان مخلص مجاہدین کی تعریف کی جو صف بستہ ہو کر خدا کیراہ میں لڑتے ہیں‪:‬‬
‫وص‬
‫[‪]4‬‬
‫ان َم ْر ُص ٌ‬ ‫ُون ِفي َسبِيلِ ِه َص ّفًا ك َأَن ّ َُه ْم بُنْي َ ٌ‬ ‫ين ي ُ َقا ِتل َ‬ ‫ب ال َّ ِذ َ‬‫ِإ َّن الل َّ َه يُ ِح ُّ‬
‫"بیشک اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے جو را ِہ خدا میں ایسے مل کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پالئی ہوئی‬
‫دیوار ہیں"‬
‫[‪ ]1‬اور مومنوں کو یہ بات بھی سمجھادی کہ جب تم نے ایمان کو قبول کیا تو تم نے مجھ سے ایک سودا کرلیا ہے‪:‬‬
‫سید قاسم محمود‪،‬اسالمی انسـائیکلو پیڈیا‪،‬الفیصل‪،‬اردو بازار الہور‪،‬ج‪ 1‬ص‪745‬‬
‫‪ 60‬ال ُْم ْؤ ِم ِني ْ َن اَن ْ ُف َس ُه ْم َو ا َ ْم َوال َُه ْم ِبا َ َّن ل َُه ُم ال َْجن َّ َةؕ‪ ١‬يُقَا ِتل ُْو َن ِف ْي َسبِي ْ ِل الل ّ ٰ ِه فَي َ ْقتُل ُْو َن َو ي ُ ْقتَل ُْو َن‬
‫[‪] 5‬‬
‫االنفال‪،‬آیت ِم َن‬
‫اشتَ ٰرى‬ ‫سورہل ّ ٰ َه ْ‬
‫[‪ ]2‬اِ َّن ال‬
‫‪216‬نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کو خرید کر لیا ہے‪،‬ان کے عوض انھیں جنت ملے گی‪،‬یہ لوگ اللہ‬ ‫آیتاللہ‬ ‫بیشک‬ ‫[‪" ]3‬بقرہ‪،‬‬
‫لڑتے‪4‬ہیں‪،‬پھر کبھی مارڈالتے ہیں اور کبھی مارے جاتے ہیں"‬ ‫میں ‪،‬آیت‬ ‫کیراہالصف‬ ‫[‪ ]4‬سورہ‬
‫سورہ توبہ آیت ‪111‬‬ ‫[‪]5‬‬
‫رشتوں‪،‬ـناتوں کیمحبتکی وـجہ سے ‪،‬ـیا دنیا وـ ی چیزوـں کی محبتکی وـجہ سے مسلـحجہاد میں کوـتاہـیکےبرےـ انجام‬
‫يرتُكُمۡ َوأَم َۡوٲ ٌل‬‫ع ِش َ‬ ‫َان َءابَٓا ُؤكُمۡ َوأَبۡنَٓا ُؤکُمۡ َو ِإخ َۡوٲ نُكُمۡ َوأَز َۡوٲ ُجكُمۡ َو َ‬ ‫تعالینے فـرـمایا‪ُ :‬قلۡ ِإن ك َ‬ ‫سے خبردـار کـرتـے ہـوـئـے لہاــــ ٰ‬
‫ب ِإلَيۡک ُم ِ ّم َن ٱلل َّ ِه َو َر ُسولِ ِه َوجِ َها ٍ ۬د ِفى َس ِبيلِ ِه‬ ‫اد َها َو َم َسـ ٰ ِك ُن تَر َۡضوۡن َ َهٓا أ َ َح َّ‬ ‫جـ ٰ َر ٌة تَخ َۡشو َۡن ك ََس َ‬ ‫وها َو ِت َ‬‫ٱ ۡقتَ َر ۡفتُ ُم َ‬
‫[‪]1‬‬
‫َفتَ َربَّ ُصوا ْ َحتَّ ٰى يَأۡ ِت َى ٱلل َّ ُه ِبأَم ِۡره‌ۗ َوٱلل َّ ُه ل َا يَہۡ ِدى ٱلۡ َقوۡ َم ٱلۡ َفـ ٰ ِس ِق َ‬
‫ين‬
‫یـبیویاں‪،‬ـرشتہ دـار‪،‬ـاور وہ مال جوـ تمـ نےکـمآئےہیں اور وہ تجارتجس‬ ‫بھائ ‪،‬‬‫بیٹـے‬
‫پـ ‪،‬ـ‬‫" ان سےکہ دوـ کـہ اگـرـ تمھیں اپنـے با ‪،‬‬
‫اور اس کےرسول اور اس کیرـاہ‬ ‫ےاور وہ گـھرـ بار جنھیں تمـ پسندـ کـرتـے ہـو‪،‬ـلہاــــ‬ ‫کےمندـےـ پڑجانےکا تمھیں ڈر لگا ہـوـا ہـــ‬
‫اپنا حکمـ(تمھاریبربادیکا) بھیج دـےـ ۔یقـین‬ ‫میں جہاد کرـنــےسےزیادہ عزیزـ ہیں توـ پھرـ انتظـار کـروـ یہاں تک کـہ لہاــــ‬
‫رکـھوـ کـہ لہاــــفـاسقـوں کوـ کبھی ہدـایتنہیں بخشتا"‬
‫تعالیمردہ کا لفـظـ سننا بھیپسندـ‬ ‫ےکہ ایسے بندـوں کےلیـے لہاــــ ٰ‬ ‫اــــوـ اتنا محبوب ہـــ‬ ‫اور اس رـاہ میں جان دـےـ دینا لہک‬
‫ے‬
‫تعالی ‪:‬ہـــ‬ ‫ـماتےچنانچہ ارشا ِد باری ٰ‬ ‫نہیں فر ‪،‬ـ‬
‫ون[‪ " ]2‬اور جولوـگ رـ ِاہ خدـا میں مارےـ‬ ‫ٓاءٌ َول َـ ٰ ِكن لَّا تَش ُۡع ُر َ‬ ‫ٲتۢ‌ۚ بَلۡ أَحۡيَ ۬‬ ‫يل ٱلل َّ ِه أَم َۡو ُ‬
‫َول َا تَ ُقول ُوا ْ لِ َمن يُقۡتَ ُل ِفى َس ِب ِ‬
‫جانتـے‬
‫"‬ ‫جاتےہیں انھیں مردہ مت کـہوـ۔وہ زندـہ ہیں مگرـ تمـ (ان کیزندـگیکوـ) نہیں‬
‫اه ُم الل َّ ُه ِم ْن َف ْضلِ ِه‬
‫ين ِب َما آتَ ُ‬‫ُون‪َ ،‬ف ِر ِح َ‬ ‫يل الل َّ ِه أ َ ْم َواتًا ۚ بَ ْلأ َ ْحيَاءٌ ِعن ْ َد َر ِبّ ِه ْم ي ُ ْر َزق َ‬ ‫ين ُق ِتل ُوا ِفي َس ِب ِ‬ ‫ح َسبَ َّن ال َّ ِذ َ‬‫َول َا تَ ْ‬
‫[‪]3‬‬
‫ون۔‬ ‫ح َزن ُ َ‬ ‫عل َيْ ِه ْم َول َا ُه ْم يَ ْ‬ ‫خ ْو ٌف َ‬ ‫خل ْ ِف ِه ْم أَلَّا َ‬ ‫ين ل َْم يَل َْح ُقوا ِب ِه ْم ِم ْن َ‬ ‫ون ِبال َّ ِذ َ‬ ‫َويَ ْستَبْ ِش ُر َ‬
‫ہکیرـاہ میں مارےـ گئےانھیں ہـرـ گـزـ مردہ متخیال کـرو‪،‬ـبلکہ وہ لوـگ اپنـےپروـردـگار کےپاس‬ ‫"اور جولوـگ لاــــ‬
‫اــــےانھیں اپنـےفـضـلسے عطـا کیہیں۔اور جوـ لوـگان کے‬ ‫زندـہ ہیں‪،‬ـرزق پاتے رہـتـےہیں‪،‬ـان نعمتوں پرـ بہتخوش ہیں جوـ لہن‬
‫بعدـ وـالوں سےابھیان سےنہیں جا ملےہیں ان کیبھیاس حالتسےخوش ہیں کہ ان پرـ نہ کـچھـ خوف ہـوـگا اور نہ‬
‫گے‬
‫غمگین ہـوں "‬
‫سورہ توبہ آیت ‪24‬‬ ‫[‪]1‬‬

‫سورہ بقرہ آیت ‪154‬‬ ‫[‪]2‬‬

‫سورہ آل عمران‪،‬آیت ‪69‬۔‪70‬‬ ‫[‪]3‬‬


‫تعالینے فرمایا‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫مسلح جہاد کی حکمت بیان کرتے ہوئے اللہ‬
‫َاسع َۡض ُهم ِببَع ٍۡضلَّفَ َس َد ِت ٱلۡأَر ُۡض َول َـ ٰ ِک َّن ٱلل َّ َه ُذو َفض ٍۡل َ‬
‫عل َى ٱل َۡعـٰل َِم َ‬
‫ين‬ ‫َولَوۡل َا َدف ُۡع ٱلل َّ ِه ٱلن ّ َ بَ‬
‫[‪]1‬‬

‫"اور اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض لوگوں کے ذریعے دفع نہ کرتا رہتا تو رولیے زمین پر‬
‫فساد برپا ہوجاتا لیکن اللہ جہان والوں پر بڑا فضل رکھنے واال ہے"‬
‫ِ‬ ‫َاسع َۡضہم ِببَع ٍ ل َّ‬
‫ۡض ُه ِ ّد َمتۡ َص َوٲ ِم ُع َو ِبيَ ٌع َو َصل ََوٲ ٌ‬ ‫َِ‬
‫ت َو َم َسـٰجِ ُد يُذۡک َُر ف َ‬
‫يہا‬ ‫َولَوۡل َا َدف ُۡع ٱلل ّه [‪]2‬ٱلن ّ َ بَ ُ‬
‫ٱس ُۡم ٱلل َّ ِه ک َ ِث ًيرا‬
‫" اور اگر اللہ لوگوں کا زور ایک دوسرے کے ذریعے نہ گھٹاتا رہتا تو عیسائیوں‬
‫کےراہب خانے وعبادت گاہیں‪،‬اور یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مسلمانوں کی‬
‫مسجدیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے سب منہدم ہو چکے ہوتے"‬
‫[‪]3‬‬
‫حضور اکرم ﷺ نے فرمایا‪:‬ان الجنۃ تحت ظالل السیوف‬ ‫ِ‬
‫"بے شک جنت تلواروں کے چھاؤں میں ہے"‬
‫مسلح جہاد کی دین میں جو اہمیت ہے اس کا اندازہ نبی کریم ؐ کی اس‬
‫خواہش سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا‪ ":‬میں پسند کرتا ہوں کہ اللہ کے‬
‫راستے میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاﺅں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں‬
‫[‪]4‬‬
‫پھر قتل کیا جاؤ ں‪ ،‬پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤ ں"‬
‫سورہ بقرہ آیت ‪251‬‬ ‫[‪]1‬‬

‫سورہ الحج ‪،‬آیت ‪40‬‬ ‫[‪]2‬‬

‫صحیح بخاری‪،‬کتاب الجھاد حدیث ‪2818‬‬ ‫[‪]3‬‬

‫ایضا ً ص ‪ ،463‬حدیث ‪2797‬‬ ‫[‪]4‬‬


‫‪1‬۔دفاعی جہاد‬
‫جب مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل نہ کرنے دیا جائے یا ان کے ملک پر جارحانہ حملہ کیا‬
‫جائے یا ان پر غیر مسلم تہذیب کو طاقت کے زور پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایسی‬
‫تعالینے مسلمانوں کو‬ ‫ٰ‬ ‫صورت میں مسلمان جو لڑائی لڑیں گے وہ دفاعی لڑائی ہوگی۔اللہ‬
‫پہلے اسی دفاعی لڑائی کا حکم دیا تھا ۔ اس لیے کہ مسلمانوں کو سب سے پہلے ایسی ہی‬
‫صورت حال پیش آئی تھی۔ اس سلسلے میں مدینہ شریف میں جو ابتدائی آیات نازل ہوئیں‬
‫وہ یہ تھیں‪:‬‬
‫ينأ ُ ْخ ِر ُجوا ِم ْن ِديَ ِار ِه ْم ِب َغيْ ِر َح ٍ ّق‬ ‫ير‪،‬ال َّ ِذ َ‬ ‫ُون ِبأَن ّ َُه ْم ُظ ِل ُموا ۚ َو ِإ َّن الل َّ َه َ‬
‫عل َٰىن َ ْص ِر ِه ْم ل َ َق ِد ٌ‬ ‫ين يُ َقاتَل َ‬ ‫أ ُ ِذ َن لِل َّ ِذ َ‬
‫ِإلَّا أ َ ْن يَ ُقول ُوا َربُّنَا الل ّ ُه‬
‫َ [‪]1‬‬

‫" اب انھیں لڑائی کی اجازت دی جاتی ہے جن کے ساتھ لڑائی کی جارہی ہے‪،‬اس لیے کہ‬
‫ان پر ظلم کیا گیا ہے۔بیشک اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھتا ہے‪ ،‬جو اپنے گھروں سے ناحق‬
‫نکالے گئے۔ان کا قصور صرف اتنا تھا کہہ وہ کہ رہے تھے کہ ان کا پروردگار اللہ ہے"‬
‫ُون َربَّنَٓا‬
‫ين يَقُول َ‬ ‫ال َوٱل ِن ّ َسٓا ِء َوٱل ِۡول َۡدٲ ِن ٱل َّ ِذ َ‬
‫ٱلر َج ِ‬ ‫ين ِم َن ِ ّ‬ ‫ستَض َۡع ِف َ‬‫يل ٱلل َّ ِه َوٱل ُۡم ۡ‬‫ُون ِفى َس ِب ِ‬ ‫َو َما لَكُمۡ ل َا تُ َقـ ٰ ِتل َ‬
‫نكن َ ِص ًيرا [‪ " ]2‬آخر‬ ‫نك َولِيًّ۬ا َوٱج َۡعل لَّنَا ِمن ل َّ ُد َ‬ ‫ٱلظالِ ِم أَهۡل َُها َوٱج َۡعل لَّنَا ِمن ل َّ ُد َ‬ ‫أَخ ِۡرجۡنَا ِمنۡ َهـ ٰ ِذ ِه ٱلۡ َقرۡيَ ِة َّ‬
‫کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کیراہ میں ان بے بس مردوں‪،‬عورتوں‪،‬اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو‬
‫کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور وہ فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس‬
‫کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی ومددگار پیدا کردے"‬
‫ان آیات کے نزول کے بعد مسلمانوں نے یہ دفاعی جنگیں شروع کیں اور پھر اس‬
‫جب تک کہ مشرکوں کی آزادانہ حیثیت ختم نہ ہوگئی۔‬ ‫لڑیں‪39‬۔‪40‬‬ ‫حج‪،‬آیت‬ ‫سورہتک‬ ‫[‪]2‬وقت‬
‫[‪]1‬‬

‫سورہ نساء‪ ،‬آیت ‪75‬‬


‫‪2‬۔اقدامی جہاد‬
‫اسالم پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ہدایت بن کر آیا ہے۔ اوریہی انسانی نجات کا واحدراستہ ہے۔ اس کے‬
‫عالوہ جو کچھ ہے وہ باطل ہے یا اللہ کے ہاں غیر مقبول ہےچنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے‪:‬‬
‫ين ِعن ْ َد الل َّ ِه ال ْ ِإ ْسل َا ُم ۔[‪ "]1‬اللہ کے نزدیک مقبول دین صرف اسالم ہے "‬ ‫الد َ‬‫ِإ َّن ِ ّ‬
‫ين‪"]2‬اور جو شخص اسالم کے سوا کسی اور‬ ‫[‬ ‫خ ِ‬
‫اس ِر َ‬ ‫ْآخ َر ِة ِم َن ال ْ َ‬
‫غيْ َر ال ْ ِإ ْسل َا ِم ِدينًا َفل َْن يُقْ َب َل ِمن ْ ُه َو ُه َو ِفي ال ِ‬
‫َو َم ْن يَبْتَ ِغ َ‬
‫دین کا طالب ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا"‬
‫مسلم امت اس بات کی ذمہ دار ہے کہ اسالم کی اس حیثیت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اسے پوری دنیا‬
‫تک پہنچآئے ‪ ،‬اور اس کے حق ہونے کی گواہی دے۔ اور ہر ممکن طریقے سے کوشش کرے کہ خدا کے بندے واقعی‬
‫خدا کے بندے اور اس کے فرمانبردار بن کر رہیں ۔اس کی نافرمانی کر کے اپنی دنیا اور آخرت برباد نہ کریں ۔ ان‬
‫باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ امت مسلمہ اپنے دائرے میں محدود نہ رہے۔ بلکہ آگے بڑھ کر ‪ ،‬خدا کا دین لے کر دنیا کے‬
‫[ ‪]3‬‬
‫کونے کونے تک پہنچآئے اور اپنی اسراہ میں کسی کو مزاحمت کرنے نہ دے۔‬
‫اسالم کسی کو مجبور تو نہیں کرتا کہ وہ اپنا دین چھوڑ کر دین اسالم کو قبول کرے لیکن وہ کسی کو یہ‬
‫حق بھی نہیں دیتا کہ اسالم کی طرف آنے والوں کیراہ روک لے یا ایسی فضا پیدا کردےجو لوگوں کو اسالم کے‬
‫قریب آنے سے روکے۔ نبی اکرم ؐ نے اس قتال اور جہاد کو کبھی نہ ختم ہونے والی ضرورت اور ذمہ داری بتالتے‬
‫ہوئے امت کو خبر دار کیا ہے‪:‬‬
‫و الجھاد ماض منذ بعثنی اللہ الی ان یقاتل ٓاخر امتی الدجال‪ ،‬ال یبطلہ جور جائر‪ ،‬و ال عدل عادل[‪" ]4‬جہاد میرے‬
‫نبوت والے زمانے سے لے کر اس وقت تک جاری رہے گا جب تک میری امت کا آخری فرد دجال سے نہ لڑے ۔ یہ‬
‫جہاد نہ کسی ظالم امیر کے ہاتھوں ختم ہوگا اور نہ کسی عادل امیر کے عدل کی وجہ سے ختم ہوگا"‬
‫نبی کریم ؐ نےاپنے آخری دور میں اور خلفا ءراشدین نے اپنے اپنے دور میں عرب سے باہر حکمرانوں کو جو‬
‫دعوت دی اور ان کے نہ ماننے پر جس طاقت کے ذریعے انہیں اپنے اقتدار کے ماتحت بنایا وہ اس"اقدامی جہاد"‬
‫والی ضـرورت کے تحت اور اس مقصد کی خاطر تھا۔‬
‫آل عمران‪،‬آیت ‪19‬‬ ‫[‪]1‬‬

‫ایضاً‪ ،‬آیت ‪85‬‬ ‫[‪]2‬‬

‫فلیبلغ منکم الشاھد الغائب (صحیح بخاری ص ‪،281‬حدیث ‪)1741‬‬ ‫[‪]3‬‬

‫ابو داؤد‪،‬کتاب الجہاد ص ‪،367‬حدیث ‪2532‬‬ ‫[‪]4‬‬


‫قرـآن وـ سنتسے مندـرجہ ذیل مقـاصـدـِجہاد وـاضـح ہـوـتـےہیں‪:‬‬
‫جائےان کےجائزـ حقـوق غصـب کـیـےجائیں‪،‬ـانھیں‬ ‫‪،‬ـ‬ ‫ےکـہ کـمزوـروـں پرـ ظلمـ وستمـ کـیا‬ ‫‪1‬۔فتنہ کا خاتمہ۔ [‪ ]1‬فـتنہ یہ ہـــ‬
‫جائےاور ناـجائزـ مقـاصـدـ کےلیـےقـتل وـخوـنریزی کا بازـار‬ ‫‪،‬ـ‬ ‫جائےان پرـ جبر وـاکرـاہ کـیا‬ ‫‪،‬ـ‬ ‫ضـمیر کی آوـاز کےمطـابق چلنـےسے روـکا‬
‫گـرم کـیا جائے‬
‫[‪]2‬‬

‫جائےاور اس رـاہ میں رـکاوٹیں کـھڑی‬ ‫‪،‬ـ‬ ‫خلقخدـا کوـ خدـا کےدین کیطرفآنےسے روـکا‬ ‫‪2‬۔ را ِہ حق کی حفاظت۔ جب ِ‬
‫ے‬
‫کیجائیں توـ ان رـکاوٹوں کوـ توڑـنا جہاد کا ایک مقـصـدـ ہـــ‬
‫[‪]3‬‬

‫‪3‬۔ عہد شکنی کی سزا۔ جوـ اسالمی ریاستکےساتھـ معاہدـہ کـرـ کےپھرـ عہدـ شکنی کـریں انھیں سبق سکھانا بھی‬
‫ے‬‫ہکا ایک مقـصـدـ ہـــ‬
‫[‪]4‬‬
‫جہاد فیسبیل لاــــ‬
‫جائےانھیں‬
‫ےکہ کـمزوـروـں کی مدـد کی ‪،‬ـ‬ ‫‪4‬۔ کمزوروں کی مدد۔ اسالمیجہاد کے مقـاصـدـ میں سےایک مقـصـدـ یہ بھی ہـــ‬
‫ظالـموں کےپنجےسے آزـاد کرـایا جائے‬
‫[‪]5‬‬

‫‪5‬۔ اسالمی ریاست کا دفاع ۔ جباسالمیریاستکوـ دشمن کےحملہ کا خطـرہ در پیش ہـوـ توـ پھرـ اسالمی‬
‫[‪]6‬‬
‫ےاپنا دفاـع کرـنا ۔‬ ‫ریاستپرـ الزم ہـوـجاتا ہـــ‬
‫ےجوـ مسلمانوں کیریاستمیں اندـر رہ کـرـ یا باہـرـ سے‬ ‫‪6‬۔ داخلی امن وامان کا قیام۔دشمنوں کیایکقسمـ وہ ہـــ‬
‫ـمت‬‫ےاور حکو ِ‬ ‫ےـاکے ڈـالتـی اور قـتل وـ غارتگریکا بازـار گـرم کـرتی ہـــ‬ ‫ہــڈ‬
‫آکرـاس میں دہـشت ‪،‬ـفـساد وـانتہاپسندـی پھیالتی ۔‬
‫۔ایسے شریروـں اور فسادیوں کا قـلعقمع کرـنا بھیاسالمیجہاد کا ایک مقـصـدـ‬ ‫ے‬
‫اسالمیکےاـمن واــمان میں خلل ڈـالتی ہـــ‬
‫ے‬‫ہـــ‬
‫[‪]7‬‬
‫۔‬
‫وقاتلوھم حتی التکون فتنہ ویکون الدین کلہ للہ ( بقرہ‪)193،‬‬ ‫[ ‪]1‬‬

‫تحفـظـ یا د افـعکیتعلیمـ نہیں دیتا بلکہ وہ عالـمگیر اصـالح چاہـتا‬ ‫رفمسلمانوں کیریاست کے‬ ‫صـ‪82‬‬
‫ص ‪80‬۔‬‫اسالم‬‫فی۔االسالم‬
‫اسالم‬ ‫‪7‬۔غلبۂ‬
‫مودودی‪،‬الجہاد‬ ‫[ ‪]2‬‬

‫ان الذیـن کفروا ینفقون اموالھـم لیصـدوا عـن سـبیل اللـہ۔ ( سـورـہ انفال‪،‬آیت‪) 4‬اشتروا بآیات اللـہ ثمنا ً قلیال ً فصـدوا عـن سـبیلہ( سـورہ توبـہ‪ )2 :‬الذیـن کفروا وصـدوا عن‬
‫آیت ‪) 1‬اپنی جمعکردہ طاقـتوقوت کےذریعےتماـم دنیا سے فتنـےوفساد کوـ مٹادیں۔ اور‬ ‫مسلمان‬ ‫ےکـہ‬
‫۔وہ چاہـتا ہـــ‬ ‫ے‬‫ہـــ‬
‫[ ‪]3‬‬

‫سبیل اللہ اضل اعمالھم (سورہ محمد‬


‫تابعبنادیں۔[الل‪8‬ـہ] الذیـن کفروا فھـم الیؤمنون الذیـن عاھدت منھـم ثم ینقضون‬
‫نیکیکاان شرالدواب عنـد‬
‫انھیں( توبـہ‪) 13 :‬‬
‫رـ اول مرۃ‬
‫چھینبدؤکـکـم‬
‫کیقوتسـول وھـم‬ ‫ایمانھفـمـساد‬
‫وھموا باخراج الر‬ ‫عنامـاصـرـنکثواسے‬ ‫فسادی‬
‫تقاتلون قو‬ ‫اال‬ ‫[ ‪]4‬‬

‫عھدھم فی کل مرۃ وھم الیتقون( االنفال ‪55 :‬۔‪)56‬‬


‫ومـا لکـم التقاتلون فـی سـبیل اللـہ والمسـتضعفین مـن الرجال والنسـاء والولدان الذیـن یقولون ربنـا اخرجنـا مـن ٰھذہ القریـۃ الظالـم اھلھـا واجعـل لنـا مـن لدنـک ولیـا واجعـل لنا‬
‫من لدنک نصیرا ً (سورہ نساء‪ ،‬آیت ‪)75‬‬
‫ينأ ُ ْخ ِر ُجوا ِم ْن ِديَ ِار ِه ْم ِب َغيْ ِر َح ٍ ّق ِإلَّا أ َ ْن يَقُول ُوا َربُّنَا الل َّ ُه(سورہ حج‪،‬آیت ‪39‬۔‪)40‬‬ ‫ُون بِأَن ّ َُه ْم ُظلِ ُموا ۚ َو ِإ ّ َن الل َّ َه َعل َٰىن َ ْص ِر ِه ْم ل َ َق ِد ٌ‬
‫ير‪،‬ال َّ ِذ َ‬ ‫[‪ ]6‬أ ُ ِذ َن لِل َّ ِذ َ‬
‫ين يُقَاتَل َ‬
‫[‪ ]7‬انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی االرض فسادا ً ان یقتلوا او یصلبوا او تقطع ایدیھم وارجلھم من خالف او ینفوا من االرض(مائدہ ‪)5‬‬
‫[‪ ]8‬قاتلوا الذیـن الیؤمنون باللـہ وال بالیوم اآلخـر وال یحرمون مـا حرم اللـہ ورسـولہ والیدینون دیـن الحـق مـن الذیـن اوتوا الکتاب حتـی یعطوا الجزیـۃ عـن یـد وھـم صاغرون‬
‫[‪]1‬‬
‫جہاد (مسلح لڑائی)فرض کفایہ ہے ۔‬
‫فرضکفایہ۔ فرض عین ہر شخص کی الگ‬ ‫ِ‬ ‫(فرض کی دو اقسام ہیں ایک فرض عین دوسرا‬
‫الگ ذمہ داری کا نام ہے جیسے‪،‬نماز‪،‬روزہ‪،‬زکواۃ ‪،‬حج وغیرہ‪ ،‬جبکہ فرض کفایہ اجتماعی ذمہ‬
‫داری کا نام ہے یعنی ایسا فرض جو سارے مسلم معاشرے کا اجتماعی فرض ہو۔ اجتماعی ذمہ‬
‫داری کا اصول یہ ہوتا ہے کہ اگر معاشرے کے کچھ افراد اس ذمہ داری کو پورا کردیں تو سب‬
‫فرضکفایہ ہے۔اگر کچھ افراد میت‬ ‫ِ‬ ‫سے فرض اتر جائے گا‪،‬جیسے میت کی تجہیز و تدفین‪،‬یہ‬
‫کو غسل و کفن دے کر اور جنازہ نماز پڑھ کر دفن کردیں تو شہر کے تمام افراد کا فرض پورا‬
‫ہوجائے گا لیکن اگر کوئی بھی تدفین کی ذمہ داری نہ اٹھائے تو سارے شہر یا بستی کے لوگ‬
‫گنہگار ہوں گے۔یا مختلف شعبہاء زندگی میں ضرورت کی حد تک ماہرین تیار کرنا مثال ً‬
‫ضرورت کی حد تک ڈاکٹر‪،‬انجنیئر‪،‬زرعی ماہرین‪،‬سرجن‪،‬دفاعی ماہرین‪ ،‬صنعت وٹیکناالجی‬
‫ِ‬
‫فرضکفایہ ہے۔اگر‬ ‫کے ماہرین کا تیار کرنا مسلمانوں کا اجتماعی فرض ہے یعنی ان پر‬
‫ضرورت کی حد تک ان شعبوں کے ماہرین موجود ہیں تو سب کا فرض اتر جائے گا لیکن اگر‬
‫ضرورت کی حد تک نہ ہوں گے تو سارا مسلم معاشرہ گنہگار ہوگا۔اس لیے اگر کچھ مسلمان‬
‫یا مسلمانوں کی منظم فوج اس ذمہ داری کو پورا کر رہی ہوتو باقیوں سے یہ ذمہ داری اتر‬
‫جائے گی سوائے اس کے کہ مسلمانوں کی منظم فوج دفاع سے عاجز ہو ‪،‬یا جسے مسلم‬
‫حکمران لڑنے کو کہے پھراس شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ اسلحہ اٹھائے اور لڑے‪،‬یہاں تک‬
‫کہ اگر عورتوں کو بھی لڑنا پڑے تو ان کی بھی ذمہ داری ہوگی کہ لڑیں۔)‬
‫ڈاکٹر یوسف حامد العالم ‪،‬اسالمی شریعہ ‪:‬مقاصد و مصالح ص‪253‬‬ ‫[‪]1‬‬
‫‪.‬‬
‫بھی طرح جائز نہیں ہوگا‪ ،‬اور نہ صرف یہ کہ اس جہاد کی کوئی قدر و قیمت نہیں‬
‫ہوگی بلکہ یہ جہاد جہاد ہی نہیں ہوگا بلکہ فتنہ اور فساد ہوگا۔‬
‫مسلح جہاد کےلیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں‪:‬۔‬
‫پہلی شرط‪ :‬جہاد منظم ریاست کے سربراہ کی اجازت سے ہو۔‬
‫مطلب کہ مسلح جہاد کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کی اپنی ایک منظم‬
‫ریاست ہو اور ان کا ایک سربراہ یا حکمران ہو۔جس کے حکم کے تحت کوئی بھی‬
‫جنگی کارروائی ہو۔ ایسے اجتماعی سسٹم کے سوا کوئی بھی جنگی قدم نہیں‬
‫اٹھایا جاسکتا‪ ،‬چاہے وہ دفاعی نوعیت کا ہی کیوں نہ ہو۔ نبی کریم ؐ کو مکہ‬
‫مکرمہ کی مظلومانہ زندگی میں بھی اپنے دفاع کےلیے ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں‬
‫دی گئی تھی‪ ،‬بلکہ انھیں اپنے ہاتھ بند رکھنے کا حکم دے کر انہیں جنگی قدم‬
‫اٹھانے سے روکا گیا۔ [‪]1‬اس لیے کہ وہاں مسلمانوں کی کوئی بھی آزاد اور خودمختا‬
‫مشرکین‬
‫ِ‬ ‫ر حیثیت نہیں تھی ‪ ،‬اور نہ ہی ان کا کوئی اجتماعی سسٹم تھا‪،‬حاالنکہ‬
‫مکہ نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کردی تھی۔(اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی‬
‫صورت میں مسلح جہاد کرنے کا مطلب ہوگا اپنے آپ کو ہالک کرنا یا خود کشی‬
‫کرنا۔ایک چھوٹی سی جماعت ایک منظم وطاقتور ریاست سے ٹکر نہیں کھا‬
‫سکتی لہذا ایسی صورت میں مسلح جدوجہد حکمت ومصلحت کے خالف ہے۔)‬
‫مسلمانوں کوا یسی اجازت مدینہ شریف میں اس وقت ملی جب انہوں نے اپنی‬
‫ریاست" قائم کرلی اور اپنا ایک اجتماعی سسٹم قائم کرلیا‬ ‫مختار‬
‫ہاتھ بند رکھو‬ ‫خود) "اپنے‬ ‫ایدیکم (اور‬
‫النساء‪77:‬‬ ‫ایک آزاد‬
‫کفو ا‬ ‫[‪]1‬‬

‫جس کے سربراہ حضور اکرم ﷺ تھے۔پھر اسی کے حکم سے ہی‬


‫جـب سـے ہـر ملـک کـی منظـم فوجیـں اور سـیکیوریٹی کـے ادارے بـن چکے‬
‫ہیـں تـب سـے دفاعـی یـا اقدامـی جہاد ان ہـی کـا کام ہـے کـہ وہ ریاسـت کے‬
‫سـر پرسـت کـی اجازت سـے ہـی مسـلح جہادی کارروائـی کریـں۔بلکـہ آـج کے‬
‫دور میـں تـو تنہـا حکمران بھـی لڑائـی کـا فیصـلہ نہیـں کـر سـکتا بلکـہ اتنـے بڑے‬
‫اجتماعـی فیصـلے پارلیامان یـا مجل ِسـشور ٰیـکـے ذریعـے کیـے جاتـے ہیـں۔‬
‫کسـی عام شہری کـو یـہ حـق حاصـل نہیـں کـہ( سـوائے اپنـے ذاتـی دفاع کے)‬
‫حکمرا ِنـوقـت یـا ریاسـت کـی اجازت کـے بغیـر وہ کسـی کـے خالف جنگی‬
‫اقدام کرے۔اگـر ایسـا شخـص کوئـی جنگـی کارروائـی کرتـا ہـے ہـے تـو وہ "غیر‬
‫ریاسـتی عناصـر کـی کارروائـی " کہـی جاتـی ہـے جسـے اسـالم ناجائـز کہتـا ہے‬
‫اور اسی طرح عالمی طور پر بھی ایسی لڑائی غیرقانونی شمار ہوتی ہے۔‬
‫لیـےمسلمانوں کےپاس ضـروـرتکے موـافـق طاقـتمیسرـ ہـوـ۔ اس لیـےکـہ اسالم اپنـے‬ ‫مخالف قوتسے لڑنــےکے‬
‫ےلاـ ُي َك ِ ّل ُفال ّلَ ُه َن ْفـ ًسا َّ ِإل ـ ُاو ْس َع َها[‪ "]1‬لہاــــ‬‫ہـــ‬
‫پیروـکاروـں کوـ طاقـتسےزیادہ تکلیف دینا نہیں چاہـتا ۔ قرـآن مجیدـ میں ارشاد ‪َ :‬‬
‫کـسـیکوـ اس کیطاقتسےزیادہ تکلیف نہیں دیتا"‬
‫اس لیـےجبتکدشمن سے لڑنـےکےلیـےضـروـریطاقتمیسرـ نہ ہـوـ تبتک مسلـحجہاد کیذمہ دـاری‬
‫ے َف ِإ ْن يَك ُْن ِمنْك ُْم‬
‫مسلمانوں پرـ عائدـ نہیں ہـوـگی‪،‬ـ قرـآن مجیدـ نے ضـروـریطاقتایکاور دوـ کینسبتسےبتائی ‪:‬ہـــ‬
‫ين‪" ]2‬پس اگـرـ تمـ‬ ‫[‬
‫الصا ِب ِر َ‬ ‫ْفَ ْغلِبُوا أَلْفَيْ ِن ِب ِإ ْذ ِنالل َّ ِه ۗ َوالل َّ ُه َم َع َّ‬
‫ِمائَ ٌة َصا ِب َرةٌ يَ ْغلِبُوا ِمائَتَيْ ِن ۚ َو ِإ ْن يَك ُْن ِمنْك ُْم أَل ٌ ي‬
‫گے اور اگـرـ ایک ہزـار ہـوں گےتوـ خدـا کےحکمـ سےدوـ‬ ‫میں ایکسوـ ثابت قدـم رہـنـے وـاـلےہـوں گےتوـ دوـ سوـ پرـ غالبرہیں ۔‬
‫ے‬
‫ہـــ‬
‫ساتھـ "‬ ‫گے اور خدـا ثابت قدـم رہـنـےوـالوں کے‬ ‫ہزـار پرـ غالبرہیں ۔‬
‫تیسری شرط‪ :‬جہاد کا مقصد اعالئے کلمۃ اللہ(اللہ کے دین کی سربلندی) ہو‬
‫اــــےدین کی‬ ‫اــــےدین کی سربلندـیکےلیـےہـوـ۔ لڑنــے وـاـلےمسلمان صـرف لہک‬ ‫مطـلب کـہ یہ جہاد مکملطور پرـلہک‬
‫ہکیرضـا‬ ‫سرـ بلندـی ‪،‬ـ بدـیاور ظلمـ کوـ مٹانے‪،‬ـ نیکیاور انصـافکوـ بڑھانےکےلیـےلڑتـےہـوں اور ان کا مقـصـدـ صـرف لاــــ‬
‫ال کـسـیکےملکپرـ قبضـہ کرـنا‪،‬ـیا انھیں جبریطور پرـ مسلمان‬ ‫حاصـل کرـنا ہـوـ۔ اس کےعالوہ اورـکوـئی مقـصـدـ نہ ہـوـ‪،‬ـمث ً‬
‫وسائلدولتپرـ قـبضـہ کرـنا‪،‬ـ یا اپنی‬ ‫ِ‬ ‫بنانا‪،‬ـ کـسـیکی آزـادیچھین کرـ انھیں اپنا غالم بنانا‪،‬ـیا کـسـیملککیدولتاور‬
‫تـشان وشوـکـتکینمائش کےلیـےلڑنا‪،‬ـیا قـوـمیوـ خاندـانی عصـبیتکی وـجہ سےلڑنا وـغیرہ ۔ کیوـنکہ ان مقـاصـدـ کےلیـے‬ ‫طاق ‪،‬‬
‫مال‬ ‫ِ‬ ‫ی چنانچہ اس حوـاـلےسےجب نبی کـریمـ ؐ سے پوـچھا گـیا کـہ‪":‬ایک شـخصـ‬ ‫کی گـئـیلڑائیاسالمیجہاد نہیں کـہآلئےگ ‪،‬ـ‬
‫ے توـکوـئیبہادریکےجوہـرـ دـکـھانےکےلیـےلڑتا‬ ‫ہـــ‬
‫ےوـئیشہرت حاصـل کرـنــےکےلیـےلڑتا ‪،‬ـ‬ ‫غنیمت حاصـل کرـنــےکےلیـےلڑتا ‪،‬ہـــکـ‬
‫ےتوـ کوـئی قوـمی وـخاندـانی عصـبیت کےلیـے‬ ‫انتقـام لینـےکےلیـےلڑتا ہـــ‬ ‫نکالنـے‬
‫وـ‬ ‫ایکاور روـایتکےالفـاظـ ہیں‪ :‬کوـئی غصـہ‬ ‫ے‬
‫ہـــ‬
‫‪،‬ـ‬
‫ہھیالعلیا فـھوـ فیسبیل‬ ‫ﷺ نے فـرـمایا‪:‬من قـاتللتکون کلمۃـ لاــــ‬ ‫ے آپ‬ ‫ےان میں سے کـس کیلڑائیفیسبیل لہاــــ ہــ؟ـ‬ ‫ہـــ‬
‫لڑتا ‪،‬ـ‬
‫[‪]3‬‬
‫ے‬
‫ہـــ‬
‫ےاس کیلڑائیفیسبیل لہاــــ "‬ ‫ہـــ‬
‫لیـےلڑتا ‪،‬ـ‬ ‫ہکیباتکوـ بلندـ کرـنـےکے‬ ‫‪،‬آیت لاــــ‬
‫‪286‬‬ ‫بقرہرف‬
‫سورہوـ صـ‬ ‫اــــج‬
‫[‪ ]1‬لہ"‬
‫سورہ االنفال‪،‬آیت ‪66‬‬ ‫[‪]2‬‬

‫صحیح بخاری ‪ ،‬کتاب العلم ح ‪ ،123‬کتاب الجہاد‪،‬حدیث ‪2810‬‬ ‫[‪]3‬‬


‫میں جہاد کرنا چاہتا ہے‪ ،‬لیکن اس کے ساتھ دنیا کا کچھ مفاد بھی اس کے پیش نظر‬
‫ہے‪ ،‬اس کے متعلق آپؐ کیا فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺنے‬
‫[‪]1‬‬
‫فرمایا‪":‬الاجرلہ"‪ ،‬اس کے لیے کوئی اجر نہیں‬
‫مسلح جہاد‪/‬قتال کے آداب‬
‫اسالم کے نزدیک مسلح جنگ ایک معصیت و ناپسندیدہ چیز ہے جس سے ممکن‬
‫حد تک انسان کو بچنا چاہیےلیکن جب دنیا میں اس سے بڑی معصیت یعنی ظلم‬
‫خلقخدا کے امن و سکون‬ ‫ِ‬ ‫وزیادتی اور فتنہ وفساد پھیل گیا ہو اور سرکش لوگوں نے‬
‫کوخطرے میں ڈال دیا ہو تو ایسی صورتحال میں جنگ ضروری ہی نہیں بلکہ فرض‬
‫ہے۔لیکن اسالم جاہلیت کے اس نعرے کو قبول نہیں کرتا کہ "محبت وجنگ میں‬
‫سب کچھ جائز ہے" بلکہ وہ اس میں بھی اصالح کرتا ہے۔اسالمی اصول کے مطابق‬
‫جنگ میں بھی دشمن کو کلی طور پر ہالک کرنا اور اس کی امالک و آبادیوں کو تباہ‬
‫وبرباد کرنا مقصود نہیں بلکہ محض اس کے شر کو دفع کرنا مقصد ہے۔ اس لیے جنگ‬
‫ضرورت کی حد تک کی جائے گی اور صرف ان سے لڑاجائے گا جو لڑ رہے ہوں۔باقی‬
‫تمام طبقات کو جنگ کے اثرات سے محفوظ رکھاجائے گا اور ان چیزوں کو بھی‬
‫محفوظ رکھا جائے گا جو برا ِہراست جنگ سے وابستہ نہ ہوں۔ اس سلسلے میں اسالم‬
‫آدابجنگ بتائے ہیں وہ یہ ہیں‪:‬‬
‫ِ‬ ‫نے جو‬

‫سنن ابی داؤد ص‪،365‬حدیث‪2516‬‬ ‫[‪]1‬‬


‫‪1‬۔ بنا اطالع دیے غفلت میں دشمن پر حملہ نہیں کیا جائے گا‬
‫‪2‬۔دشمن کو آگ میں جالیا نہیں جائے گا‬
‫‪3‬۔دشمن کو باندھ کر اور اذیتیں دے کرنہیں مارا جائے گا‬
‫‪4‬۔لوٹ مار نہیں کی جائے گی‬
‫‪5‬۔فصلوں‪،‬گھروں اور عمارتوں کو تباہ وبرباد نہیں کیا جائے گا(سوائے اس کے کہ‬
‫دشمن وہاں سے حملہ آور ہو)‬
‫‪6‬ن ۔ دشمن کے الشوں کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی (کہ ان کے جسم کے‬
‫ٹکڑے کیے جائیں یا کسی اور طرح کی بے حرمتی)‬
‫‪7‬۔ دشمن قیدی کو قتل نہیں کیا جائے گا‬
‫‪8‬۔سفیر کو قتل نہیں کیا جائے گا‬
‫‪9‬۔ عورتوں‪،‬بچوں‪،‬بوڑھوں‪،‬عبادتگزاروں‪،‬کاروباری لوگوں اور ان پر امن شہریوں کو‬
‫قتل نہیں کیا جائے گا جن کا برا ِہراست جنگ سے تعلق نہ ہو۔‬
‫‪10‬۔بد عہدی یا معاہدہ شکنی نہیں کی جائے گی۔‬
‫‪11‬۔بد نظمی وانتشار نہیں پھیالیا جائے گیا(کہ لوگوں کی معمول کی زندگی مشکل‬
‫[‪]1‬‬
‫بن جائے)‬
‫مودودی‪ ،‬الجھاد فی االسالم‪،‬ص ‪176‬۔‪196‬‬ ‫[‪]1‬‬
Q&As

You might also like