You are on page 1of 20

Subject: Urdu

Module: 35
Paper: Urdu Afsana
Topic: Taniseyat:Agaz-o-Irteqa
Content writer: Professer Sagheer Afraheim
Aligarh Muslim University, Aligarh (UP)
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi

‫ آغاز و ارتقا‬:‫تانیثیت‬

‫تمہید‬
‫تانیثیت کا رجحان یوروپی مفکرین کی ذہنی صالحیتوں کا نتیجہ ہے۔‬
‫عورت کی برتری کو عصر حاضر کے جدید رجحان کی حیثیت سے قبول‬
‫کیا گیا ہے۔ انگریزی زبان میں ‪ Feminism‬کے متبادل کے طور پر اردو‬
‫مروج ہے۔ تانیثیت مکمل طور پر عورت کی برتری‬ ‫میں تانیثیت کی اصطالح ّ‬
‫کو اُجاگر کرنے واال یوروپی فلسفہ ہے۔ مشرقی ممالک میں کوئی بھی دور‬
‫تانیثیت کا علمبردار نہیں رہا‪ ،‬یعنی براعظم ایشیاءمیں موجود تمام ممالک اور‬
‫ان میں بسنے والے باشندے عورت کی آزادی اور حقوق کے پاسبان رہے۔‬
‫مختلف مذاہب بھی عورت سے مساوات کے سلوک کی نشاندہی کرتے ہیں۔‬
‫اس کے باوجود بھی مرد کی باالدستی کا سماج ہی ایشیائی ممالک میں جاری‬
‫و ساری رہا۔ یوروپ میں پنپنے والی تانیثیت کی تحریک ہر دَور میں مختلف‬
‫رہی۔ بیشتر یوروپی عورتوں نے مرد بیزاری کا ثبوت دیتے ہوئے ریاڈیکل‬
‫فیمی نزم کی روایت کا آغاز کیا۔ یہ تمام تصورات یوروپی دنیا کی ذہنی‬
‫اختراع پسندی کا نتیجہ ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ عورت ہر قسم‬
‫کی آزادی کے لیے جستجو میں مصروف ہے۔‬

‫مقصد‬
‫اس سبق کا مقصد طلبا و طالبات کو تانیثیت سے متعارف کرانا ہے تاکہ‬
‫اردو افسانے میں اس تصور کو کس طرح برتا گیا ہے‪ ،‬اس سے وہ روشناس‬
‫ہوسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سبق کے ذریعے تانیثیت کا تعارف ‪ ،‬اس کی‬
‫ابتدا‪ ،‬اس کی ترقی کی وجوہات اور مشرقی و مغربی تانیثیت میں کیا بنیادی‬
‫فرق ہے‪ ،‬اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس سبق کو پڑھنے کے‬
‫بعد طلبا و طالبات بخوبی جان پائیں گے کہ‪:‬‬
‫‪۱‬۔تانیثیت کسے کہتے ہیں۔‬
‫‪۲‬۔تانیثیت کا آغاز کیسے کیوں اور کب ہوا۔‬
‫‪۳‬۔تانیثیت کی ترقی کی کیا وجوہات رہے ہیں۔‬
‫‪۴‬۔مشرقی اور مغربی ادب کی تانیثیت میں کیا بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔‬

‫تانیثیت کا تعارف‬
‫تانیثیت درحقیقت سماجی طور پر عورتوں کے حقوق اور ان کی آزادی‬
‫کے عالوہ ان میں مساوات اور بھالئی کو عام کرنے کے لیے چالئی جانے‬
‫والی یوروپی تحریک ہے۔ مختلف لغات میں تانیثیت کے لیے متبادل لفظ کی‬
‫حیثیت سے ‪ Feminism‬کی اصطالح رائج ہے۔ ویبسٹر ڈکشنری اور‬
‫انگریزی کی دیگر لغات کے مطالعہ سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ ان لغات نے‬
‫عورتوں کے حقوق کو مدد پہنچانے کے لیے چالئی جانے والی تحریک کو‬
‫‪Feminism‬کی حیثیت دی۔ اس کے عالوہ اس لفظ کو انگریزی میں اسم کی‬
‫حیثیت سے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اردو میں اس تحریک کے لیے کبھی‬
‫نسائی تحریک اور کبھی نسائی حسیت کی تحریک کے الفاظ استعمال کیے‬
‫گئے۔ طویل عرصہ تک متبادل اصطالح کے لیے مختلف رویے پیش نظر‬
‫رہے لیکن عصر حاضر میں‪ Feminism‬کے لیے اردو میں متبادل اصطالح‬
‫تانیثیت استعمال کی جاتی ہے۔ فرہنگ ِ اصطالحات اور اردو کی بیشتر لغات‬
‫میں‪ Feminism‬کا اندراج موجود نہیں ہے‪ ،‬کیوں کہ اردو لغت کی ترتیب‬
‫کے دور تک اردو میں اس اصطالح کا چلن عام نہیں ہوا تھا۔ غرض یوروپی‬
‫دنیا میں عورتوں کو مردوں کے مساوی مقام دالنے اور ان کے حقوق کی‬
‫پامالی سے روکنے کے عالوہ ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے جو‬
‫تحریک چالئی گئی اس میں عورتوں کو مردوں کی طرح آزادانہ عمل و‬
‫حرکت کی گنجائش پیدا کی گئی‪ ،‬اسے تانیثیت کا موقف حاصل ہوا‪ ،‬لیکن‬
‫رفتہ رفتہ تانیثیت کی تحریک کو ایسا عروج حاصل ہوا کہ اس کی ماننے‬
‫والی خواتین نے مرد کے وجود اور اس کی باالدستی کو نظرانداز کرتے‬
‫ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ عورت ہی کائنات کی اہم ضرورت ہے جس کے‬
‫بغیر مرد کسی قسم کے دنیوی سکون کا تصور نہیں کرسکتا‪ ،‬اس لیے عورت‬
‫کے وجود کو ہر قسم کی سہولتیں فراہم کی جانی چاہیے۔ غرض تانیثیت کے‬
‫علمبرداروں نے پدرانہ سماج کی مخالفت کرتے ہوئے مرد اساس معاشرہ کی‬
‫مخالفت اور عورتوں کی برتری کو اہمیت دے کر ساری دنیا کے معاشرے‬
‫میں عورت کے استحصال کے خالف آواز اٹھائی۔ اِس روش کو یوروپی دنیا‬
‫میں فروغ حاصل ہوا اور یوروپ کے توسط سے ہندوستان کی سرزمین میں‬
‫بھی تانثیت کے اثرات عام ہونے لگے۔ تانیثیت کی نمائندگی کرنے والی‬
‫خواتین نے عورت کی گھریلو زندگی اور اسے بقائے نسل انسانی کا ہتھیار‬
‫بناکر اس کی عصمت ‪ ،‬عفت اور پردے کی پابندی کو ضروری سمجھا لیکن‬
‫سماجی ترقی کے پس منظر میں خواتین نے اس نظریہ کی مخالفت کرتے‬
‫ہوئے عورتوں کو مردوں کے مساویانہ حقوق فراہم کرنے کا نعرہ بلند کیا‬
‫اور یہی نعرہ تانیثیت کا گہوارہ بن گیا۔‬
‫یوروپی معاشرہ میں تانیثیت کی تحریک کی شروعات کے بارے میں‬
‫غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کی آزادی کی پہلی تحریک کا‬
‫آغاز باضابطہ برطانیہ اور امریکہ میں ‪1848‬ءمیں ہوا۔ بوژوا سماج نے جو‬
‫اعلی مقام رکھتے تھے انھوں نے‬‫ٰ‬ ‫ملک کی معیشت پر حاوی اور سماج میں‬
‫پریس اور اداروں کی آزادی کے ساتھ ساتھ پارلیمانی حکومت اور عدلیہ کی‬
‫آزادی کا نظام چالتے ہوئے غریب مزدوروں اور کسانوں کی ترقی کے لیے‬
‫امداد حاصل کی اور اپنے منشور میں عورتوں کی آزادی کو اہمیت دی اور‬
‫ق نسواں کی پامالی پر تشویش کا اظہار کیا ۔ اس‬‫مردوں کی جانب سے حقو ِ‬
‫تحریک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عورتوں میں مردوں کی من مانی کے خالف‬
‫احتجاج کا جذبہ پیدا ہوا۔ اس طرح ‪1848‬ءمیں نسائی تحریک کی بنیاد پڑی۔‬
‫جرمنی میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی تھی۔ یہ‬
‫عورتیں سوت کاتنے اور کپڑا بننے کے عالوہ النڈ ری میں کام کرتی تھیں۔‬
‫‪1860‬ءمیں ان عورتوں کا اوسط ‪ 70‬فیصد تھا۔ ان کی اجرت میں کمی کی‬
‫وجہ سے بیشتر عورتوں نے جسم فروشی کا پیشہ اختیار کیا۔ صرف برطانیہ‬
‫میں ‪1909‬ءتک جسم فروشی کا پیشہ اختیار کرنے والی خواتین کی تعداد ‪40‬‬
‫ہزار ہوچکی تھی۔ اس دور میں مرد کو عیش پرستی کی آزادی حاصل تھی‪،‬‬
‫جب کہ عورت کو جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے داشتہ کا موقف حاصل‬
‫تھا۔ اس رویہ کو ختم کرنے کے لیے تانیثیت کی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس کے‬
‫ب فرانس اور صنعتی انقالب کی وجہ سے تحریک ِ نسواں یا‬ ‫عالوہ انقال ِ‬
‫تانیثیت کی تحریک کو استحکام حاصل ہوا۔ اُس دور تک کئی ادیبوں نے مرد‬
‫کی باالدستی اور عورتوں پر مردوں کے جابرانہ رویے کے خالف کتابیں‬
‫لکھنی شروع کردی تھیں۔ اس دور کے مشہور ادیب جان اسٹیوارٹ مل نے‬
‫اپنی تصنیف "‪ "On the subjugation of women‬لکھی تو تانیثیت کی‬
‫تحریک میں مزید اضافہ ہوا۔ ا سوقت تک عورتوں کو رائے دہی کا حق‬
‫حاصل نہیں تھا۔ اسٹیوارٹ مل نے انگلینڈ کی پارلیمنٹ میں عورتوں کو حق‬
‫رائے دہی دینے کا مطالبہ کیا۔ اس طرح سیاسی اور سماجی اعتبار سے‬
‫ق نسواں کی آواز مختلف مرحلوں سے گذرکر تحریک کی شکل اختیار‬ ‫حقو ِ‬
‫کرگئی۔ جان اسٹیوارٹ مل کی امریکی بیوی ایلزبتھ کیڈی اسٹنٹن کے‬
‫کارنامے اہمیت کے حامل ہیں‪ ،‬جو امریکہ میں تانیثی تحریک کی اہم رکن‬
‫قرار پائی اور اس نے امریکہ کی تحریک ِ آزادی پر لکھی ہوئی کتاب کے‬
‫دوران خواتین کو ووٹ کے حقوق ‪ ،‬والدین کی جائیداد میں وراثتی حقوق‪،‬‬
‫روزگار کی اجازت‪ ،‬برابر اجرت ‪ ،‬سیاسی مجالس اور گرجا گھروں میں‬
‫جانے کی اجازت جیسے مطالبات پیش کیے۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر اور‬
‫انیسویں صدی کے آغاز تک ان تمام تانیثی مطالبات کی آواز بلند ہوئی اور‬
‫برطانیہ ‪ ،‬جرمنی کے عالوہ امریکہ کی حکومت نے عورتوں کے حقوق کو‬
‫قانونی منظوری دے دی۔ اس طرح دفتروں اور عدالتوں میں خواتین کو کام‬
‫کرنے کا موقع مل گیا۔ تانیثیت کی تحریک کا سلسلہ ابتداءمیں عورتوں کو‬
‫مساویانہ حقوق فراہم کرنے کے لیے چالیا گیا۔ تانیثی تحریک سے وابستہ‬
‫دانشور خاتون لین ریچیر نے ‪1869‬ءمیں "عورتوں کے حقوق" نامی کتاب‬
‫لکھی اور بین االقوامی سطح پر کانفرنس منعقد کی‪ ،‬تاکہ عورتوں کو مردوں‬
‫کی غالمی اور تابعداری سے آزادی حاصل ہوسکے۔ اس خاتون کو‬
‫یونیورسٹی میں پہلی مرتبہ داخلہ کی اجازت ملی اور ‪1875‬ءمیں ڈاکٹری کی‬
‫ڈگری حاصل کرنے کے بعد ‪1900‬ءمیں اس خاتون کو قانون میں مہارت‬
‫حاصل ہونے کی وجہ سے قانونی پیشہ اختیار کرنے کی اجازت دی گئی۔‬
‫‪1907‬ءتک عورتوں کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنی آمدنی کو خود‬
‫استعمال کرسکیں۔ وہ بغیر شوہر کی اجازت کے بینک اکاونٹ تک نہیں کھول‬
‫سکتی تھی۔ پدرسری سماج نے عورت کو اِس حق سے بھی محروم کیا تھا۔‬
‫‪1949‬ءمیں عورتوں کو اپنی آمدنی اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنے اور‬
‫بچوں کی تعلیم و تربیت میں اپنی رائے کے اظہار کرنے کی سہولت حاصل‬
‫ہوگئی۔ اس طرح مغربی ممالک کی خواتین کی رہنمایانہ کوشش کی وجہ سے‬
‫تانیثیت کو فروغ حاصل ہوا‪ ،‬جس کی نمائندگی کرنے والی ہندوستانی مشہور‬
‫و معروف خواتین میں اینی بسنٹ اور مارگریٹ کافی اہمیت رکھتی تھیں۔‬
‫‪1903‬ءمیں لندن کی خواتین نے "ویمن سوشل اینڈ پولٹیکل یونین" کی بنیاد‬
‫رکھی ‪ ،‬جس نے جارحانہ اور باغیانہ روپ اختیار کرلیا۔ خواتین نے نہ‬
‫صرف بھوک ہڑتال کا اہتمام کیا ‪ ،‬بلکہ ‪1912‬ءمیں انھوں نے پرتشدد طریقے‬
‫اختیار کرتے ہوئے گھروں کو آگ لگانے ‪ ،‬تصویریں پھاڑنے ‪ ،‬پھولوں کو‬
‫روندنے اور پولیس پر پتھراؤ کرنے کا شدید طریقہ اختیار کیا ‪ ،‬جس کی وجہ‬
‫سے ‪1918‬ءمیں ترمیم شدہ بل کے ذریعہ انگریز خواتین کو پابندی کے ساتھ‬
‫حق رائے دہی استعمال کرنے کی سہولت حاصل ہوگئی۔ تانیثیت کی تحریک‬
‫کو ایک نئی سمت عطا کرنے والے مردوں میں فرائیڈن اور کیٹ ملیٹ کے‬
‫کردار کی ستائش کرنی چاہیے جنہوں نے عورت کی خودسپردگی اور کئی‬
‫جنسی مسائل پر توجہ دیتے ہوئے عورت پر کی جانے والی ظلم و زیادتی‬
‫کے خالف آواز اٹھائی۔ کیٹ ملیٹ کے فلسفیانہ تصور کے تحت حالت ِ حیض‬
‫میں عورت کے وجود کو ناپاک قرار دینا اور اس کے وجود سے دوری‬
‫اختیار کرنا عورت کی تحقیر اور تذلیل کے مترادف قرار دیا گیا۔ اس طرح‬
‫یوروپ میں مختلف ادوار کے ساتھ تانیثیت کو فروغ حاصل ہوا اور یہ‬
‫تانیثیت دنیا کے مختلف مقامات میں پھیلتی ہوئی مختلف موضوعات کا ذریعہ‬
‫بن گئی۔ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی نے اپنے تحقیقی مقالہ "اردو ادب میں‬
‫تانیثیت" کے ذریعہ عالمی سطح پر پھیلنے والی تانیثی فکر کو دانشوروں‬
‫کے افکار کے توسط سے ‪ 10‬اقسام میں پیش کیا ہے‪ ،‬جو حسب ِ ذیل ہیں ‪:‬‬

‫‪۱‬۔روشن خیال تانیثیت)‪(Liberal Feminism‬‬


‫‪۲‬۔شدت پسند تانیثیت )‪(Radical Feminism‬‬
‫‪۳‬۔سوشلسٹ تانیثیت )‪(Socialist Feminism‬‬
‫‪۴‬۔ترقی پسند تانیثیت)‪(Progressive Feminism‬‬
‫‪۵‬۔سیاہ فام تانیثیت )‪(Black Feminism‬‬
‫‪۶‬۔لسبین تانیثیت)‪(Lesbian Feminism‬‬
‫‪۷‬۔تحلیل نفسی پر مبنی تانیثیت)‪(Psychoanalytic Feminism‬‬
‫‪۸‬۔جدید تانیثیت )‪(Modern Feminism‬‬
‫‪۹‬۔مابعد جدید اور پس ساختیاتی تانیثیت ‪(Post Modern and Post‬‬
‫)‪Structuralism Feminism‬‬
‫‪۱۰‬۔مادّیت پرست تانیثیت )‪(Materialist Feminism‬‬
‫غرض عصر حاضر میں عالمی سطح پر موجود تانیثیت کے مختلف‬
‫افکار دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح یوروپی دنیا سے تانیثیت کا قافلہ ترقی کرتا‬
‫ہوا مشرقی دنیا پر اثرانداز ہوا اور یہ سماجی تحریک ایشیائی ممالک میں‬
‫بھی عورتوں کی بیداری کا سبب بنی۔ اس طرح تانیثیت کے آغاز نے سب‬
‫سے پہلے یوروپی دنیا کو متاثر کیا‪ ،‬جس کے نتیجہ میں مشرقی ممالک کے‬
‫باشندوں میں بھی عورتوں کی آزادی اور ان کے مساویانہ حقوق کا علمبردار‬
‫بنانے کی طرف توجہ دی گئی ۔ عالمی سطح پر عورتوں کی بیداری مہم‬
‫تانیثیت کا تعارف بن کر یورپی دنیا میں پھیلی‪ ،‬آگے بڑھ کر پھر ایشیائی‬
‫ممالک تک پہنچتے پہنچتے مختلف تبدیلیوں سے وابستہ ہوگئی اور یہ‬
‫تبدیلیاں ہندوستان کی سرزمین میں مختلف رنگ و روپ کے ساتھ اپنا اثر‬
‫دکھانے لگیں۔‬

‫تانثیت کی شروعات‬
‫عورتوں کی آزادی کی پہلی آواز ‪1848‬ءمیں باقاعدہ طور پر برطانیہ‬
‫اور امریکہ میں شروع ہوئی جب کہ عورتوں کی آزادی کا دوسرا اعالنیہ‬
‫‪1880‬ءتا ‪1920‬ءکے عرصہ پر محیط ہے۔ اس پورے دور میں تاریخی‬
‫اعتبار سے عورت نے صلح کے نسوانی طریقہ کو مسترد کرتے ہوئے یہ‬
‫مطالبہ پیش کیا کہ عورت کو مکمل آزادی دی جانی چاہیے۔ اس سے پہلے‬
‫یوروپ کی سرزمین میں خواتین کی تحریک ِ نسواں کے دوران جو مطالبات‬
‫پیش کیے گئے تھے وہ سیاسی اور معاشرتی برابری سے متعلق تھے۔‬
‫انیسویں صدی کی آٹھویں دہائی سے عورت کی آزادی کا ایک نیا قومی رخ‬
‫جنس کی حیثیت سے نمایاں ہوا۔ یہ ایک ایسا نظریہ تھا جو مردوں اور‬
‫عورتوں کے جنسی وجود سے متعلق سوالیہ نشان کھڑا کرتا تھا۔ اس دور‬
‫میں سیاسی اور معاشی برابری کے بجائے عورت کے جنسی مطالبات پر‬
‫توجہ دی گئی اور یہ سوال اٹھایا گیا کہ جنسی مطالبات کے نام پر عورتوں‬
‫کے ساتھ بڑی ناانصافیاں ہوری ہیں جس کی روک تھام کے لیے طویل مدت‬
‫کے بعد خواتین نے بھی ایک سیاسی جماعت "ویمن سوشل پولٹیکل یونین"‬
‫قائم کی۔ عورتوں کی مساوات کی یہ جنگ ایسے گروہ سے شروع ہوتی ہے‬
‫جس نے سب سے پہلے “‪ ”Liberal Feminism‬کے طریقہ کو اپنایا اور‬
‫‪Civil Right‬کی تحریک کو تقویت پہنچائی۔ اس طرح خواتین سیاسی اور‬
‫سماجی سطح پر ہی نہیں بلکہ جنسی سطح پر بھی برابری کے حقوق کی‬
‫وکالت کرنے لگیں۔ یوروپ میں ‪1888‬ءکے دوران خواتین کی مزید کئی‬
‫اعلی تعلیمی حقوق کی بحالی کے‬‫ٰ‬ ‫انجمنوں نے عورتوں کی مکمل آزادی اور‬
‫مطالبات پیش کیے۔ ‪1890‬ءکے بعد ٹریڈ یونینوں میں خواتین کی تعداد بڑھنے‬
‫لگی۔ حکومتی سطح پر عورتوں کو رکن بنانے اور اپنی باضابطہ مجلسیں‬
‫منعقد کرنے کے لیے خواتین کو طویل جدوجہد کرنی پڑی۔ غرض پندرہ‬
‫برس کی جدوجہد کے بعد ‪1912‬ءمیں حکومت کے روبرو خواتین کے‬
‫مطالبات کا ایجنڈا پیش ہوا‪ ،‬جس کے تحت عورتوں کو مکمل آزادی کا حق‬
‫حاصل ہوگیا۔ اردو کی بیشتر نسائی حسیت کی نمائندہ خواتین نے تحریک ِ‬
‫آزاد پارسی ال اسوسی ایشن ‪ ،‬فیڈریشن آف یونیورسٹی ویمن ‪ ،‬نیشنل کونسل‬
‫آف ویمنس اِن انڈیا ‪ ،‬آل انڈیا ویمنس کانفرنس ‪ ،‬آل انڈیا ڈومسٹک ویمنس‬
‫اسوسی ایشن اور مختلف عالقوں میں مختلف انجمنوں کا قیام عمل میں الیا‬
‫گیا‪ ،‬جو نہ صرف عورتوں کے حقوق کی حفاظت کرنے میں مشغول ہیں‪،‬‬
‫بلکہ ان کی رہنمائی کا حق بھی ادا کرتی رہیں۔ ایسی اہم انجمنوں میں ‪ ،‬دہلی‬
‫‪ ،‬حیدرآباد ‪ ،‬ٹاملناڈ ‪ ،‬اترپردیش اور بنگلور میں خواتین کی کئی خودمختار‬
‫تنظیمیں موجود ہیں جو زناکاری کو روکنے اور مرد کی زیادتی سے متاثر‬
‫خواتین کو فالح و بہبود کے کاموں سے وابستہ کرنے کے کام انجام دیتی‬
‫رہیں‪ ،‬جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تانیثیت کی شروعات گو کہ یوروپی دنیا‬
‫کی دین ہے‪ ،‬لیکن اس کے اثرات ہندوستان کی سرزمین پر بھی مرتب ہوئے۔‬

‫تانیثیت کی ترقی کے وجوہات‬


‫یوروپی دنیا میں شروع کی گئی تانیثیت ایک سماجی تحریک رہی‪ ،‬جس‬
‫کا مقصد عورتوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کو مرد کے برابر کا درجہ‬
‫اعلی مقام دالنا رہا‪ ،‬لیکن اس تانیثیت کے‬
‫ٰ‬ ‫دے کر سماج میں عورتوں کو‬
‫توسط سے جنسی بے راہ روی اور خواتین کی آزادی کی وجہ سے معاشرہ‬
‫میں پھیلنے والے جنسی برائیاں اور مرد و خواتین کے فرق کو مٹاکر ہم‬
‫جنسیت کے فروغ کو مواقع حاصل ہوگئے۔ تانیثیت کے یہی برے اثرات رہے‬
‫‪ ،‬جنھوں نے یوروپی دنیا کی اخالقی اور تہذیبی خصوصیات کو تباہ و تاراج‬
‫کردیا۔ تانیثیت کے ان اصولوں کی نمائندگی یوروپ کی سرزمین میں حد‬
‫درجہ ترقی یافتہ نظر آتی ہے‪ ،‬لیکن تانیثیت کے جس رویے کو ایشیائی‬
‫ممالک میں ترقی حاصل ہوئی وہ درحقیقت عورتوں کے ساتھ مساویانہ‬
‫سلوک اور ان پر ظلم و زیادتی کے خاتمہ کے عالوہ مرد کے مقابل عورتوں‬
‫کی ترقی ہیں۔ یہ ایسے بنیادی افکار رہے‪ ،‬جو مغربی تانیثیت کی ترقی کے‬
‫توسط سے ہندوستان کی سرزمین میں عام ہونے لگے۔ صرف ہندوستان ہی‬
‫نہیں بلکہ تمام مشرقی ممالک میں تانیثیت کے مثبت رویے کی گونج سنائی‬
‫دینے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ عورتوں کی حمایت ‪ ،‬انہیں ووٹ دینے کا حق ‪،‬‬
‫مرد کے برابر ترقی ‪ ،‬جنسی معامالت میں عورت کو کمتر تصور کرنا ‪ ،‬مرد‬
‫کے حقوق کی برتری کے خاتمے اور عورت کے حقوق کو پامالی سے بچانا‬
‫تانیثیت کا ایک بہترین وسیلہ تصور کیا گیا۔ اس تحریک کے ذریعہ چوں کہ‬
‫خواتین کے حقوق کی بھرپور حمایت کی گئی تھی اس لیے تیزرفتاری کے‬
‫ساتھ یوروپی تانیثیت کے مثبت اثرات ایشیائی ممالک میں عام ہوتے گئے۔‬
‫ایشیاءکے تمام ممالک میں بسنے والے انسان گو کہ بے شمار مذاہب‪ ،‬فرقے‬
‫اور ذاتوں میں بٹے ہوئے تھے ‪ ،‬لیکن ان کا مذہبی اور سماجی رجحان یہی‬
‫تھا کہ عورت کو بھی مساویانہ ترقی کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔ یہی ایک‬
‫ایسا بنیادی وصف تھا جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایشیائی ممالک میں‬
‫بھی تانیثیت کو ترقی کے مواقع فراہم کیے گئے۔ غرض ایشیائی ممالک میں‬
‫تانیثیت کی ترقی کے کئی وجوہات میں سب سے اہم وجہ یہ بھی ہے کہ‬
‫براعظم ایشیاءمیں بسنے والی قوموں نے عورت کو مساویانہ حقوق فراہم‬
‫کرنے کی بھرپور تائید کی ‪ ،‬اسی لیے تانیثیت کو مشرقی ممالک میں ترقی کا‬
‫موقع فراہم ہوا۔‬

‫مشرقی و مغربی تانیثیت میں فرق‬


‫یوروپی دنیا میں تانیثیت کے لیے شروع کی گئی ابتدائی تحریکوں میں‬
‫عورت کی آزادی کا تصور عام تھا اور اسے استحصال سے دور رکھتے‬
‫ہوئے مرد کے برابر ترقی دینے کی حمایت کی گئی تھی‪ ،‬لیکن جیسے‬
‫جیسے مغربی تانیثیت کی علمبردار تحریکوں نے مختلف نظریات پیش کیے‬
‫‪ ،‬ویسے ویسے تانیثیت کے نظریات میں بھی فرق پیدا ہوتا گیا۔ مشرقی‬
‫ممالک کے بسنے والے باشندوں نے تانیثیت کو نسائی حسیت کے طور پر‬
‫قبول کیا اور اب بھی یہ انداز مشرقی ممالک میں تانیثیت کے طور پر واضح‬
‫نظر آتا ہے‪ ،‬جب کہ مغربی ممالک کے باشندوں نے تانیثیت کی خصوصیت‬
‫کو اصول ‪ ،‬ضوابط اور اقدار کے عالوہ سیاست‪ ،‬معیشت اور تجارت سے‬
‫نکال کر جنس اور جنسی برابری کے لحاظ سے مرد کے وجود کے انکار‬
‫کی صورت پیدا کردی۔ یہ ایک ایسا بنیادی فرق ہے جو یوروپی دنیا میں قبول‬
‫کیا گیا‪ ،‬لیکن ایشیائی ممالک میں اس تصور کو قبولیت حاصل نہ ہوسکی‪ ،‬گو‬
‫کہ بہت سی سماجی بیمار اور غیر اخالقی طریقوں کو یوروپ میں فروغ‬
‫حاصل ہورہا ہے‪ ،‬جو تانیثیت کے توسط سے یوروپ میں عام ہوچکی ہیں‪،‬‬
‫جیسے لسبن ازم اور لواطت کے عالوہ جانوروں سے جنسی تسکین کے‬
‫عمل کو یوروپی تانیثیت میں اہمیت حاصل ہونے لگی ہے‪ ،‬جب کہ اس قسم‬
‫کے اثرات ایشیائی ممالک کے باشندوں پراگرچہ اپنا اثر مرتب کررہے ہیں‪،‬‬
‫لیکن اس قسم کی بیماریاں مشرقی ممالک کی تانیثیت کا حصہ نہیں بن پائیں۔‬
‫مشرقی تانیثیت صرف عورت کو اس کا جائز مقام دالنے کی تائید کرتی ہے‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫اور عورت کی تعظیم و تکریم کے عالوہ پیشوں سے وابستگی اور‬
‫تعلیم کے ساتھ ساتھ اوالد کی پرورش اور گھر بار کی ذمہ داری عورت کے‬
‫سپرد کرنے کی حمایت کرتی ہے‪ ،‬جب کہ مغربی تانیثیت میں مرد بیزار‬
‫معاشرہ اور تمام حقوق عورت کو حاصل ہونے کی حمایت کرتے ہوئے‬
‫خاتون کی حمایت کی قانون سازی عمل میں الئی جاچکی ہے جس کے‬
‫ذریعے مرد کا کوئی عمل ‪ ،‬عورت کو ناپسند ہو تو وہ مرد کو طالق دے‬
‫سکتی ہے۔ یوروپی معاشرہ میں عورتوں کی طالق کے بے شمار مسائل‬
‫کھڑے ہوگئے ہیں‪ ،‬جب کہ مشرقی دنیا میں عورت کو طالق کے حق حاصل‬
‫نہیں۔ اسی طرح مشرقی تانیثیت میں ایک مرد کو چار یا اس سے زیادہ بیویاں‬
‫رکھنے کا حق حاصل ہے‪ ،‬لیکن کسی بھی عورت کو ایک وقت میں کئی‬
‫شوہر رکھنے کا ہندوستانی قانون حق نہیں دیتا۔ اس کے بجائے یوروپی‬
‫تانیثیت میں ایک عورت بیک وقت کئی شوہر رکھنے کی سہولت حاصل‬
‫کرلیتی ہے۔ یہ چند ایسے امتیازات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مشرقی و‬
‫مغربی تانیثیت میں صرف عورت کی آزادی کا تصور یکسانیت کی نمائندگی‬
‫کرتا ہے ‪ ،‬جب کہ جنسی اور عائلی معامالت میں مشرقی تانیثیت کسی حیثیت‬
‫سے بھی مغربی تانیثیت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔‬

‫خالصہ‬
‫یوروپی دنیا میں عورتوں کو مردوں کے مساوی مقام دالنے اور ان کے‬
‫حقوق کی پامالی سے روکنے کے عالوہ ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے‬
‫لیے جو تحریک چالئی گئی اس میں عورتوں کو مردوں کی طرح آزادانہ‬
‫عمل و حرکت کی گنجائش پیدا کی گئی‪ ،‬اسے تانیثیت کا موقف حاصل ہوا‪،‬‬
‫لیکن رفتہ رفتہ تانیثیت کی تحریک کو ایسا عروج حاصل ہوا کہ اس کی‬
‫ماننے والی خواتین نے مرد کے وجود اور اس کی باالدستی کو نظرانداز‬
‫کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ عورت ہی کائنات کی اہم ضرورت ہے‬
‫جس کے بغیر مرد کسی قسم کے دنیوی سکون کا تصور نہیں کرسکتا‪ ،‬اس‬
‫لیے عورت کے وجود کو ہر قسم کی سہولتیں فراہم کی جانی چاہیے۔ مغربی‬
‫ممالک کی خواتین کی رہنمایانہ کوشش کی وجہ سے تانیثیت کو فروغ حاصل‬
‫ہوا‪ ،‬جس کی نمائندگی کرنے والی ہندوستانی مشہور و معروف خواتین میں‬
‫اینی بسنٹ اور مارگریٹ کافی اہمیت رکھتی تھیں۔ ‪1903‬ءمیں لندن کی‬
‫خواتین نے "ویمن سوشل اینڈ پولٹیکل یونین" کی بنیاد رکھی ‪ ،‬جس نے‬
‫جارحانہ اور باغیانہ روپ اختیار کرلیا۔ یوروپی دنیا سے تانیثیت کا قافلہ‬
‫ترقی کرتا ہوا مشرقی دنیا پر اثرانداز ہوا اور یہ سماجی تحریک ایشیائی‬
‫ممالک میں بھی عورتوں کی بیداری کا سبب بنی۔ عورتوں کی آزادی کی‬
‫پہلی آواز ‪1848‬ءمیں باقاعدہ طور پر برطانیہ اور امریکہ میں شروع ہوئی‬
‫جب کہ عورتوں کی آزادی کا دوسرا اعالنیہ ‪1880‬ءتا ‪1920‬ءکے عرصہ پر‬
‫محیط ہے۔ ایشیاءکے تمام ممالک میں بسنے والے انسان گو کہ بے شمار‬
‫مذاہب‪ ،‬فرقے اور ذاتوں میں بٹے ہوئے تھے ‪ ،‬لیکن ان کا مذہبی اور سماجی‬
‫رجحان یہی تھا کہ عورت کو بھی مساویانہ ترقی کا موقع فراہم کیا جانا‬
‫چاہیے۔ یہی ایک ایسا بنیادی وصف تھا جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے‬
‫ایشیائی ممالک میں بھی تانیثیت کو ترقی کے مواقع فراہم کیے گئے۔ مشرقی‬
‫ممالک کے بسنے والے باشندوں نے تانیثیت کو نسائی حسیت کے طور پر‬
‫قبول کیا اور اب بھی یہ انداز مشرقی ممالک میں تانیثیت کے طور پر واضح‬
‫نظر آتا ہے‪ ،‬جب کہ مغربی ممالک کے باشندوں نے تانیثیت کی خصوصیت‬
‫کو اصول ‪ ،‬ضوابط اور اقدار کے عالوہ سیاست‪ ،‬معیشت اور تجارت سے‬
‫نکال کر جنس اور جنسی برابری کے لحاظ سے مرد کے وجود کے انکار‬
‫کی صورت پیدا کردی۔ یوروپی معاشرہ میں عورتوں کی طالق کے بے‬
‫شمار مسائل کھڑے ہوگئے ہیں‪ ،‬جب کہ مشرقی دنیا میں عورت کو طالق‬
‫کے حق حاصل نہیں۔ اسی طرح مشرقی تانیثیت میں ایک مرد کو چار یا اس‬
‫سے زیادہ بیویاں رکھنے کا حق حاصل ہے‪ ،‬لیکن کسی بھی عورت کو ایک‬
‫وقت میں کئی شوہر رکھنے کا ہندوستانی قانون حق نہیں دیتا۔ اس کے بجائے‬
‫یوروپی تانیثیت میں ایک عورت بیک وقت کئی شوہر رکھنے کی سہولت‬
‫حاصل کرلیتی ہے۔‬

You might also like