Professional Documents
Culture Documents
تانیثیت
تانیثیت
Module: 35
Paper: Urdu Afsana
Topic: Taniseyat:Agaz-o-Irteqa
Content writer: Professer Sagheer Afraheim
Aligarh Muslim University, Aligarh (UP)
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi
آغاز و ارتقا:تانیثیت
تمہید
تانیثیت کا رجحان یوروپی مفکرین کی ذہنی صالحیتوں کا نتیجہ ہے۔
عورت کی برتری کو عصر حاضر کے جدید رجحان کی حیثیت سے قبول
کیا گیا ہے۔ انگریزی زبان میں Feminismکے متبادل کے طور پر اردو
مروج ہے۔ تانیثیت مکمل طور پر عورت کی برتری میں تانیثیت کی اصطالح ّ
کو اُجاگر کرنے واال یوروپی فلسفہ ہے۔ مشرقی ممالک میں کوئی بھی دور
تانیثیت کا علمبردار نہیں رہا ،یعنی براعظم ایشیاءمیں موجود تمام ممالک اور
ان میں بسنے والے باشندے عورت کی آزادی اور حقوق کے پاسبان رہے۔
مختلف مذاہب بھی عورت سے مساوات کے سلوک کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اس کے باوجود بھی مرد کی باالدستی کا سماج ہی ایشیائی ممالک میں جاری
و ساری رہا۔ یوروپ میں پنپنے والی تانیثیت کی تحریک ہر دَور میں مختلف
رہی۔ بیشتر یوروپی عورتوں نے مرد بیزاری کا ثبوت دیتے ہوئے ریاڈیکل
فیمی نزم کی روایت کا آغاز کیا۔ یہ تمام تصورات یوروپی دنیا کی ذہنی
اختراع پسندی کا نتیجہ ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ عورت ہر قسم
کی آزادی کے لیے جستجو میں مصروف ہے۔
مقصد
اس سبق کا مقصد طلبا و طالبات کو تانیثیت سے متعارف کرانا ہے تاکہ
اردو افسانے میں اس تصور کو کس طرح برتا گیا ہے ،اس سے وہ روشناس
ہوسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سبق کے ذریعے تانیثیت کا تعارف ،اس کی
ابتدا ،اس کی ترقی کی وجوہات اور مشرقی و مغربی تانیثیت میں کیا بنیادی
فرق ہے ،اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس سبق کو پڑھنے کے
بعد طلبا و طالبات بخوبی جان پائیں گے کہ:
۱۔تانیثیت کسے کہتے ہیں۔
۲۔تانیثیت کا آغاز کیسے کیوں اور کب ہوا۔
۳۔تانیثیت کی ترقی کی کیا وجوہات رہے ہیں۔
۴۔مشرقی اور مغربی ادب کی تانیثیت میں کیا بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔
تانیثیت کا تعارف
تانیثیت درحقیقت سماجی طور پر عورتوں کے حقوق اور ان کی آزادی
کے عالوہ ان میں مساوات اور بھالئی کو عام کرنے کے لیے چالئی جانے
والی یوروپی تحریک ہے۔ مختلف لغات میں تانیثیت کے لیے متبادل لفظ کی
حیثیت سے Feminismکی اصطالح رائج ہے۔ ویبسٹر ڈکشنری اور
انگریزی کی دیگر لغات کے مطالعہ سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ ان لغات نے
عورتوں کے حقوق کو مدد پہنچانے کے لیے چالئی جانے والی تحریک کو
Feminismکی حیثیت دی۔ اس کے عالوہ اس لفظ کو انگریزی میں اسم کی
حیثیت سے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اردو میں اس تحریک کے لیے کبھی
نسائی تحریک اور کبھی نسائی حسیت کی تحریک کے الفاظ استعمال کیے
گئے۔ طویل عرصہ تک متبادل اصطالح کے لیے مختلف رویے پیش نظر
رہے لیکن عصر حاضر میں Feminismکے لیے اردو میں متبادل اصطالح
تانیثیت استعمال کی جاتی ہے۔ فرہنگ ِ اصطالحات اور اردو کی بیشتر لغات
میں Feminismکا اندراج موجود نہیں ہے ،کیوں کہ اردو لغت کی ترتیب
کے دور تک اردو میں اس اصطالح کا چلن عام نہیں ہوا تھا۔ غرض یوروپی
دنیا میں عورتوں کو مردوں کے مساوی مقام دالنے اور ان کے حقوق کی
پامالی سے روکنے کے عالوہ ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے جو
تحریک چالئی گئی اس میں عورتوں کو مردوں کی طرح آزادانہ عمل و
حرکت کی گنجائش پیدا کی گئی ،اسے تانیثیت کا موقف حاصل ہوا ،لیکن
رفتہ رفتہ تانیثیت کی تحریک کو ایسا عروج حاصل ہوا کہ اس کی ماننے
والی خواتین نے مرد کے وجود اور اس کی باالدستی کو نظرانداز کرتے
ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ عورت ہی کائنات کی اہم ضرورت ہے جس کے
بغیر مرد کسی قسم کے دنیوی سکون کا تصور نہیں کرسکتا ،اس لیے عورت
کے وجود کو ہر قسم کی سہولتیں فراہم کی جانی چاہیے۔ غرض تانیثیت کے
علمبرداروں نے پدرانہ سماج کی مخالفت کرتے ہوئے مرد اساس معاشرہ کی
مخالفت اور عورتوں کی برتری کو اہمیت دے کر ساری دنیا کے معاشرے
میں عورت کے استحصال کے خالف آواز اٹھائی۔ اِس روش کو یوروپی دنیا
میں فروغ حاصل ہوا اور یوروپ کے توسط سے ہندوستان کی سرزمین میں
بھی تانثیت کے اثرات عام ہونے لگے۔ تانیثیت کی نمائندگی کرنے والی
خواتین نے عورت کی گھریلو زندگی اور اسے بقائے نسل انسانی کا ہتھیار
بناکر اس کی عصمت ،عفت اور پردے کی پابندی کو ضروری سمجھا لیکن
سماجی ترقی کے پس منظر میں خواتین نے اس نظریہ کی مخالفت کرتے
ہوئے عورتوں کو مردوں کے مساویانہ حقوق فراہم کرنے کا نعرہ بلند کیا
اور یہی نعرہ تانیثیت کا گہوارہ بن گیا۔
یوروپی معاشرہ میں تانیثیت کی تحریک کی شروعات کے بارے میں
غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کی آزادی کی پہلی تحریک کا
آغاز باضابطہ برطانیہ اور امریکہ میں 1848ءمیں ہوا۔ بوژوا سماج نے جو
اعلی مقام رکھتے تھے انھوں نےٰ ملک کی معیشت پر حاوی اور سماج میں
پریس اور اداروں کی آزادی کے ساتھ ساتھ پارلیمانی حکومت اور عدلیہ کی
آزادی کا نظام چالتے ہوئے غریب مزدوروں اور کسانوں کی ترقی کے لیے
امداد حاصل کی اور اپنے منشور میں عورتوں کی آزادی کو اہمیت دی اور
ق نسواں کی پامالی پر تشویش کا اظہار کیا ۔ اسمردوں کی جانب سے حقو ِ
تحریک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عورتوں میں مردوں کی من مانی کے خالف
احتجاج کا جذبہ پیدا ہوا۔ اس طرح 1848ءمیں نسائی تحریک کی بنیاد پڑی۔
جرمنی میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی تھی۔ یہ
عورتیں سوت کاتنے اور کپڑا بننے کے عالوہ النڈ ری میں کام کرتی تھیں۔
1860ءمیں ان عورتوں کا اوسط 70فیصد تھا۔ ان کی اجرت میں کمی کی
وجہ سے بیشتر عورتوں نے جسم فروشی کا پیشہ اختیار کیا۔ صرف برطانیہ
میں 1909ءتک جسم فروشی کا پیشہ اختیار کرنے والی خواتین کی تعداد 40
ہزار ہوچکی تھی۔ اس دور میں مرد کو عیش پرستی کی آزادی حاصل تھی،
جب کہ عورت کو جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے داشتہ کا موقف حاصل
تھا۔ اس رویہ کو ختم کرنے کے لیے تانیثیت کی تحریک کا آغاز ہوا۔ اس کے
ب فرانس اور صنعتی انقالب کی وجہ سے تحریک ِ نسواں یا عالوہ انقال ِ
تانیثیت کی تحریک کو استحکام حاصل ہوا۔ اُس دور تک کئی ادیبوں نے مرد
کی باالدستی اور عورتوں پر مردوں کے جابرانہ رویے کے خالف کتابیں
لکھنی شروع کردی تھیں۔ اس دور کے مشہور ادیب جان اسٹیوارٹ مل نے
اپنی تصنیف " "On the subjugation of womenلکھی تو تانیثیت کی
تحریک میں مزید اضافہ ہوا۔ ا سوقت تک عورتوں کو رائے دہی کا حق
حاصل نہیں تھا۔ اسٹیوارٹ مل نے انگلینڈ کی پارلیمنٹ میں عورتوں کو حق
رائے دہی دینے کا مطالبہ کیا۔ اس طرح سیاسی اور سماجی اعتبار سے
ق نسواں کی آواز مختلف مرحلوں سے گذرکر تحریک کی شکل اختیار حقو ِ
کرگئی۔ جان اسٹیوارٹ مل کی امریکی بیوی ایلزبتھ کیڈی اسٹنٹن کے
کارنامے اہمیت کے حامل ہیں ،جو امریکہ میں تانیثی تحریک کی اہم رکن
قرار پائی اور اس نے امریکہ کی تحریک ِ آزادی پر لکھی ہوئی کتاب کے
دوران خواتین کو ووٹ کے حقوق ،والدین کی جائیداد میں وراثتی حقوق،
روزگار کی اجازت ،برابر اجرت ،سیاسی مجالس اور گرجا گھروں میں
جانے کی اجازت جیسے مطالبات پیش کیے۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر اور
انیسویں صدی کے آغاز تک ان تمام تانیثی مطالبات کی آواز بلند ہوئی اور
برطانیہ ،جرمنی کے عالوہ امریکہ کی حکومت نے عورتوں کے حقوق کو
قانونی منظوری دے دی۔ اس طرح دفتروں اور عدالتوں میں خواتین کو کام
کرنے کا موقع مل گیا۔ تانیثیت کی تحریک کا سلسلہ ابتداءمیں عورتوں کو
مساویانہ حقوق فراہم کرنے کے لیے چالیا گیا۔ تانیثی تحریک سے وابستہ
دانشور خاتون لین ریچیر نے 1869ءمیں "عورتوں کے حقوق" نامی کتاب
لکھی اور بین االقوامی سطح پر کانفرنس منعقد کی ،تاکہ عورتوں کو مردوں
کی غالمی اور تابعداری سے آزادی حاصل ہوسکے۔ اس خاتون کو
یونیورسٹی میں پہلی مرتبہ داخلہ کی اجازت ملی اور 1875ءمیں ڈاکٹری کی
ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1900ءمیں اس خاتون کو قانون میں مہارت
حاصل ہونے کی وجہ سے قانونی پیشہ اختیار کرنے کی اجازت دی گئی۔
1907ءتک عورتوں کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنی آمدنی کو خود
استعمال کرسکیں۔ وہ بغیر شوہر کی اجازت کے بینک اکاونٹ تک نہیں کھول
سکتی تھی۔ پدرسری سماج نے عورت کو اِس حق سے بھی محروم کیا تھا۔
1949ءمیں عورتوں کو اپنی آمدنی اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنے اور
بچوں کی تعلیم و تربیت میں اپنی رائے کے اظہار کرنے کی سہولت حاصل
ہوگئی۔ اس طرح مغربی ممالک کی خواتین کی رہنمایانہ کوشش کی وجہ سے
تانیثیت کو فروغ حاصل ہوا ،جس کی نمائندگی کرنے والی ہندوستانی مشہور
و معروف خواتین میں اینی بسنٹ اور مارگریٹ کافی اہمیت رکھتی تھیں۔
1903ءمیں لندن کی خواتین نے "ویمن سوشل اینڈ پولٹیکل یونین" کی بنیاد
رکھی ،جس نے جارحانہ اور باغیانہ روپ اختیار کرلیا۔ خواتین نے نہ
صرف بھوک ہڑتال کا اہتمام کیا ،بلکہ 1912ءمیں انھوں نے پرتشدد طریقے
اختیار کرتے ہوئے گھروں کو آگ لگانے ،تصویریں پھاڑنے ،پھولوں کو
روندنے اور پولیس پر پتھراؤ کرنے کا شدید طریقہ اختیار کیا ،جس کی وجہ
سے 1918ءمیں ترمیم شدہ بل کے ذریعہ انگریز خواتین کو پابندی کے ساتھ
حق رائے دہی استعمال کرنے کی سہولت حاصل ہوگئی۔ تانیثیت کی تحریک
کو ایک نئی سمت عطا کرنے والے مردوں میں فرائیڈن اور کیٹ ملیٹ کے
کردار کی ستائش کرنی چاہیے جنہوں نے عورت کی خودسپردگی اور کئی
جنسی مسائل پر توجہ دیتے ہوئے عورت پر کی جانے والی ظلم و زیادتی
کے خالف آواز اٹھائی۔ کیٹ ملیٹ کے فلسفیانہ تصور کے تحت حالت ِ حیض
میں عورت کے وجود کو ناپاک قرار دینا اور اس کے وجود سے دوری
اختیار کرنا عورت کی تحقیر اور تذلیل کے مترادف قرار دیا گیا۔ اس طرح
یوروپ میں مختلف ادوار کے ساتھ تانیثیت کو فروغ حاصل ہوا اور یہ
تانیثیت دنیا کے مختلف مقامات میں پھیلتی ہوئی مختلف موضوعات کا ذریعہ
بن گئی۔ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی نے اپنے تحقیقی مقالہ "اردو ادب میں
تانیثیت" کے ذریعہ عالمی سطح پر پھیلنے والی تانیثی فکر کو دانشوروں
کے افکار کے توسط سے 10اقسام میں پیش کیا ہے ،جو حسب ِ ذیل ہیں :
تانثیت کی شروعات
عورتوں کی آزادی کی پہلی آواز 1848ءمیں باقاعدہ طور پر برطانیہ
اور امریکہ میں شروع ہوئی جب کہ عورتوں کی آزادی کا دوسرا اعالنیہ
1880ءتا 1920ءکے عرصہ پر محیط ہے۔ اس پورے دور میں تاریخی
اعتبار سے عورت نے صلح کے نسوانی طریقہ کو مسترد کرتے ہوئے یہ
مطالبہ پیش کیا کہ عورت کو مکمل آزادی دی جانی چاہیے۔ اس سے پہلے
یوروپ کی سرزمین میں خواتین کی تحریک ِ نسواں کے دوران جو مطالبات
پیش کیے گئے تھے وہ سیاسی اور معاشرتی برابری سے متعلق تھے۔
انیسویں صدی کی آٹھویں دہائی سے عورت کی آزادی کا ایک نیا قومی رخ
جنس کی حیثیت سے نمایاں ہوا۔ یہ ایک ایسا نظریہ تھا جو مردوں اور
عورتوں کے جنسی وجود سے متعلق سوالیہ نشان کھڑا کرتا تھا۔ اس دور
میں سیاسی اور معاشی برابری کے بجائے عورت کے جنسی مطالبات پر
توجہ دی گئی اور یہ سوال اٹھایا گیا کہ جنسی مطالبات کے نام پر عورتوں
کے ساتھ بڑی ناانصافیاں ہوری ہیں جس کی روک تھام کے لیے طویل مدت
کے بعد خواتین نے بھی ایک سیاسی جماعت "ویمن سوشل پولٹیکل یونین"
قائم کی۔ عورتوں کی مساوات کی یہ جنگ ایسے گروہ سے شروع ہوتی ہے
جس نے سب سے پہلے “ ”Liberal Feminismکے طریقہ کو اپنایا اور
Civil Rightکی تحریک کو تقویت پہنچائی۔ اس طرح خواتین سیاسی اور
سماجی سطح پر ہی نہیں بلکہ جنسی سطح پر بھی برابری کے حقوق کی
وکالت کرنے لگیں۔ یوروپ میں 1888ءکے دوران خواتین کی مزید کئی
اعلی تعلیمی حقوق کی بحالی کےٰ انجمنوں نے عورتوں کی مکمل آزادی اور
مطالبات پیش کیے۔ 1890ءکے بعد ٹریڈ یونینوں میں خواتین کی تعداد بڑھنے
لگی۔ حکومتی سطح پر عورتوں کو رکن بنانے اور اپنی باضابطہ مجلسیں
منعقد کرنے کے لیے خواتین کو طویل جدوجہد کرنی پڑی۔ غرض پندرہ
برس کی جدوجہد کے بعد 1912ءمیں حکومت کے روبرو خواتین کے
مطالبات کا ایجنڈا پیش ہوا ،جس کے تحت عورتوں کو مکمل آزادی کا حق
حاصل ہوگیا۔ اردو کی بیشتر نسائی حسیت کی نمائندہ خواتین نے تحریک ِ
آزاد پارسی ال اسوسی ایشن ،فیڈریشن آف یونیورسٹی ویمن ،نیشنل کونسل
آف ویمنس اِن انڈیا ،آل انڈیا ویمنس کانفرنس ،آل انڈیا ڈومسٹک ویمنس
اسوسی ایشن اور مختلف عالقوں میں مختلف انجمنوں کا قیام عمل میں الیا
گیا ،جو نہ صرف عورتوں کے حقوق کی حفاظت کرنے میں مشغول ہیں،
بلکہ ان کی رہنمائی کا حق بھی ادا کرتی رہیں۔ ایسی اہم انجمنوں میں ،دہلی
،حیدرآباد ،ٹاملناڈ ،اترپردیش اور بنگلور میں خواتین کی کئی خودمختار
تنظیمیں موجود ہیں جو زناکاری کو روکنے اور مرد کی زیادتی سے متاثر
خواتین کو فالح و بہبود کے کاموں سے وابستہ کرنے کے کام انجام دیتی
رہیں ،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تانیثیت کی شروعات گو کہ یوروپی دنیا
کی دین ہے ،لیکن اس کے اثرات ہندوستان کی سرزمین پر بھی مرتب ہوئے۔
خالصہ
یوروپی دنیا میں عورتوں کو مردوں کے مساوی مقام دالنے اور ان کے
حقوق کی پامالی سے روکنے کے عالوہ ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے
لیے جو تحریک چالئی گئی اس میں عورتوں کو مردوں کی طرح آزادانہ
عمل و حرکت کی گنجائش پیدا کی گئی ،اسے تانیثیت کا موقف حاصل ہوا،
لیکن رفتہ رفتہ تانیثیت کی تحریک کو ایسا عروج حاصل ہوا کہ اس کی
ماننے والی خواتین نے مرد کے وجود اور اس کی باالدستی کو نظرانداز
کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ عورت ہی کائنات کی اہم ضرورت ہے
جس کے بغیر مرد کسی قسم کے دنیوی سکون کا تصور نہیں کرسکتا ،اس
لیے عورت کے وجود کو ہر قسم کی سہولتیں فراہم کی جانی چاہیے۔ مغربی
ممالک کی خواتین کی رہنمایانہ کوشش کی وجہ سے تانیثیت کو فروغ حاصل
ہوا ،جس کی نمائندگی کرنے والی ہندوستانی مشہور و معروف خواتین میں
اینی بسنٹ اور مارگریٹ کافی اہمیت رکھتی تھیں۔ 1903ءمیں لندن کی
خواتین نے "ویمن سوشل اینڈ پولٹیکل یونین" کی بنیاد رکھی ،جس نے
جارحانہ اور باغیانہ روپ اختیار کرلیا۔ یوروپی دنیا سے تانیثیت کا قافلہ
ترقی کرتا ہوا مشرقی دنیا پر اثرانداز ہوا اور یہ سماجی تحریک ایشیائی
ممالک میں بھی عورتوں کی بیداری کا سبب بنی۔ عورتوں کی آزادی کی
پہلی آواز 1848ءمیں باقاعدہ طور پر برطانیہ اور امریکہ میں شروع ہوئی
جب کہ عورتوں کی آزادی کا دوسرا اعالنیہ 1880ءتا 1920ءکے عرصہ پر
محیط ہے۔ ایشیاءکے تمام ممالک میں بسنے والے انسان گو کہ بے شمار
مذاہب ،فرقے اور ذاتوں میں بٹے ہوئے تھے ،لیکن ان کا مذہبی اور سماجی
رجحان یہی تھا کہ عورت کو بھی مساویانہ ترقی کا موقع فراہم کیا جانا
چاہیے۔ یہی ایک ایسا بنیادی وصف تھا جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے
ایشیائی ممالک میں بھی تانیثیت کو ترقی کے مواقع فراہم کیے گئے۔ مشرقی
ممالک کے بسنے والے باشندوں نے تانیثیت کو نسائی حسیت کے طور پر
قبول کیا اور اب بھی یہ انداز مشرقی ممالک میں تانیثیت کے طور پر واضح
نظر آتا ہے ،جب کہ مغربی ممالک کے باشندوں نے تانیثیت کی خصوصیت
کو اصول ،ضوابط اور اقدار کے عالوہ سیاست ،معیشت اور تجارت سے
نکال کر جنس اور جنسی برابری کے لحاظ سے مرد کے وجود کے انکار
کی صورت پیدا کردی۔ یوروپی معاشرہ میں عورتوں کی طالق کے بے
شمار مسائل کھڑے ہوگئے ہیں ،جب کہ مشرقی دنیا میں عورت کو طالق
کے حق حاصل نہیں۔ اسی طرح مشرقی تانیثیت میں ایک مرد کو چار یا اس
سے زیادہ بیویاں رکھنے کا حق حاصل ہے ،لیکن کسی بھی عورت کو ایک
وقت میں کئی شوہر رکھنے کا ہندوستانی قانون حق نہیں دیتا۔ اس کے بجائے
یوروپی تانیثیت میں ایک عورت بیک وقت کئی شوہر رکھنے کی سہولت
حاصل کرلیتی ہے۔