ہے عورتوں کو انکے یکساں حقوق دالنا۔آجکل کے معاشرے میں خواتین کو بہت سے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا ریا ہے جس کی وجہ سے تحریک نسواں نامی تنظیم کی بنیاد 1947میں رکھی گئ۔اس تحریک میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کافی جدوجہد کے بعد لوگ یہ سمجھ گۓ کے خواتین کو انکے بنادی حقوقفراہم کرنا کتنا ضروری ہے۔لوگوں نے خواتین کو مختلف شعبوں میں حصہ لینے کی اجازت دی جیسے کہ تعلیم،نوکری،سیاست ،وغیرہ۔خود ہمارے ہی نبی ﷺ نے خواتین کے بارے میں فرمایا کہ: "تم میں سے بہتر وہ ہے جو عورتوں کے ساتھ بہتر ہے" ہمارا پیارا مذہب اسالم ہمیں خواتین کو انکا حق دینے کی پوری تاکید کرتا ۔اسالم کے مطابق عورت کا جائیداد میں حصہ ہے۔مگر افسوس آجکل کے معاشرے میں خواتین کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا۔انھی تمام وجوہات کی بنا پر تحریک نسواں نامی تنظیم کا قیام ہوا۔جو عورتیں ہمارے معاشرے میں مغلوب تھیں اب انکو حقوق ملنے لگے۔اور پھر ہم نے دیکھا کہ تب ہی معاشرے میں امن آیا اور ملک ترقی کی طرف گامزن ہوا۔اگر ہم مزید کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عورتوں کو انکے حقوق دینے چاہیئے اور پورے۔ مگر اب افسوس کی بات یہ ہے کہ رفتہ رفتہ یہ تنظیم ایک الگ رخ اختیار کر گئ ہے اور اسکے مقاصد کافی بدل گۓ ہیں۔اب ہر سال ہمارے ملک میں "عورت مارچ" کے نام سے جو تحریک چالئی جاتی ہے تو اسکے مقاصد ہمارے مذہب کے قوانین کے کافی مخالف ہیں۔اس تحریک میں ہمارے ملک کی مسلمان خواتین جس بے حیائی کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ بیان سے باہر ہے۔جن عورتوں کو اسالم گھر کی زینت کہتا ہے اب وہی عورتیں گھروں سے بے پردہ نکل کر گھر کی دیکھ بال کرنے سے انکار کرتی ایسی عورتیں قوم کی تباہی کا سبب بنتی ہیں۔اسالم میں ارشاد ہے: "جو قوم بے حیائی کی طرف قدم بڑھاۓ گی تو ہللا اسے مصیبتوں میں مبتال کر دے گا" جو خواتین پہلے معاشرے میں مظلوم تھیں اب وہ ہمارے معاشرے پر غالب ہو کر فساد پھیال رہی ہے۔اسالم بلکل بھی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکتا لیکن اگر اس سے بے حیائی اور فساد پھیلتا ہے تو پھر اسالم اس کی مذمت کرتا عورتوں کی حیا کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب فرمایا: حیا اور وفا جس عورت میں ہو اس عورت سے دنیا میں بڑھ کر کوئی عورت خوبصورت نہیں ہوتی عورت مارچ نے جس قدر ہمارے معاشرے میں شر پھیالیا ہوا ہے اسکا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔بہت افسوس ہوتا ہے کہ آجکل کا مسلمان کس رخ کی طرف جا رہا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ تحریک نسواں کا مقصد خواتین کو وہ بنیادی حقوق دالنا تھا جو اسالم نے انھیں دئیے ہوئے ہیں مگر معاشرہ ان پر عمل نہیں کرتا۔ایسی تحریک کو ہم بلکل داد دیتے ہیں جو ایک مثبت مقصد کے لیئے کام کرے۔اس تحریک کے باعث معاشرے میں خواتین کی قدر بڑھ گئ ہے اور ہمیں ایک کامیاب اور مکمل معاشرہ نظر آتا ہے۔خواتین کا کردار بہت اہم ہے اور اگر اس پر توجہ نہ دی جاۓ تو قوم کو بہت سی مشکالت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اسی وجہ سے ہمارا مذہب اسالم بھی انھیں انکے حقوق دینے کی بار بار تلقین کرتا ہے۔اگر تحریک نسواں اپنے وہی پرانے مقاصد کو سامنے رکھ کر چلے تو ہر کوئی انکی مدد کرے گا اور انکی اس محنت کو داد دیں گے۔خواتین کے حقوق کے متعلق حضرت علی (رضہ) نے فرمایا: "عورت کی عزت کیا کرو کیونکہ وہ قوم کی مائیں ہیں" تاریخ گواہ ہے کہ تمام جاہل اقوام اپنی خاتون عوام پر ظلم کرتے تھے۔اور اسی وجہ سے کتنی بڑی بڑی قومیں تباہ ہوئی ہیں۔جب زمانئہ جاہلیت میں خواتین پر ظلم اپنے زور پہ تھا تو تب حضور ﷺ ہی تھے جنھوں نے محنت کر کے لوگوں کو خواتین کے حقوق سے آگاہ کیا۔اس سے معلوم ہوتا کہ عورت کا اسالم میں کیا مقام ہے۔آجکل جو تحریکیں ععرتوں کے حقوق کے لیئے چالئی جا رہی ہیں،تو وہ عورتوں کو ان کے حقوق کے دائرے سے باہر کے حقوق دالنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے عورت کی عزت نیالم ہوتی ہے۔ایسی تحریکوں کی ہم پوری مذمت کرتے ہیں اور بلکل بھی انھیں داد نہیں دیتے۔ یہ فقط فساد پھیالتا ہے۔ بہرحال "عورت مارچ" کو میں جدید تحریک نسواں کہوں گا۔اسالم اسکی مکمل مذمت کرتا ہے۔جب انھیں انکے بنیادع حقوق فراہم کیئے جا رہے ہیں پھر عورت مارچ کے نام پر ملک میں انتشار پھیالنا ایک نیچ حرکت اور اس کی ہمیں بھرپور مذمت کرنی چاہیے۔ہم خواتین کے حقوق کی قدر کرتے ہیں مگر اگر تحریک نسواں سے مراد ایسی جدید تحریک ہے جو عورت کی عزت کو نیالم کرتی ہے تو ہاں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ "تحریک نسواں ہمارے معاشرے پر غالب ہے"