Professional Documents
Culture Documents
خلیل الرحمان کو شاید پاکستانی عوام کی اکثریت نے اب جانا ہے لیکن ہماری اور خلیل الرحمان کی پہچان کم و بیش 8سال پہلے سے
ہے .خلیل الرحمان کے قلم سے نکلنے والے جملے یا ڈائیالگز کا کوئی ثانی نہیں اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہللا
.تعالی نے اس کے قلم میں خاص نوعیت کی جاذبیت پیدا کی ہے کہ جو معاشرے Gکے مسائل کو بیان کرتی ہے
اب جبکہ لوگوں نے میرے پاس تم ہو ڈرامہ کی بدولت خلیل الرحمان کو جان لیا ہے اور شاید پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں
ملتی کہ کوئی ڈرامہ اس حد تک عوام کو اپنے سحر میں جکڑ لے کہ آخر کار عوام کو رونے پر مجبور کر دے .اگرچہ میں چند ان
لوگوں میں سے ہوں کہ جس نے اس ڈرامہ کی 1قسط بھی نہیں دیکھی لیکن چونکہ اس کی شہرت اس قدر ہو چکی ہے کہ مجبورا
ہمیں بھی کم سے کم اس ڈرامے کے مشہور ڈائیالگز سننے ہی پڑے باقی سٹوری اتنی کوئی خاص نہیں تھی ایک عام سی سٹوری
.بہترین اور خوبصورت ڈائیالگز کے سبب اس قدر کامیابی سے ہم کنار ہو سکتی ہے یہ بات تو خلیل صاحب نے ثابت کر دی
اب بات کرتے ہیں اس تنقید کی جو چند لبرل اور فیمنسٹ مفتیان کرام خلیل الرحمان پر کر رہے ہیں..اس تنقید سے ایک بات تو واضح
ہو گئی کہ فیمنزم اور لبرلریزم کا پرچار کرنے والے یہ لوگ ایک جاہل مگر اپنے آپ کو مذہبی راہنما کہنے والے متشدد شخص سے
.بھی دو ہاتھ آگے نکل چکے ہیں .جن کا کام بس تنقید کرنا ہی رہ گیا ہے
چونکہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں حقیقتا عورت کو اس کے رائٹس نہیں دیئے جاتے بس لنڈے کے یہ لبرل صرف اس
بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر اس بات پر تنقید کرنا اپنا حق سمجھتے Gہیں جس میں عورت کا تذکرہ آ جائے ان کی کم ظرفی ان کو یہ
سوچنے ہی نہیں دیتی کہ کیا درست ہے اور کیا غلط...ان کو تو بس اس بات کی دھن سوار ہے کہ عورت کو آزادی دے دو..آزادی
...بھی یہ وہ مانگ رہے ہیں کہ جو ان کے نظریے نے دوسری معاشرت Gسے مستعار لی ہے
بہرکیف اس میں سب سے زیادہ قصور شاید ہمارے معاشرے کا ہے کہ جو ابھی تک عورت کو وہ مقام نہیں دے سکا جو اس کا حق
تھا .کبھی کبھی میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک مذہبی اور اسالمی معاشرہ ہونے کے باوجود عورت کو اس معاشرے میں
حقوق نہ ملنا اور اس کے ساتھ ظلم و ستم روا رکھنا کیا اس کو مذہبی مصلحین کی ناکامی سمجھا جائے گا .کہ جو بالواسطہ
...خدانخواستہ مذہب پر حرف آنے کے مترادف ہے
اب ذرا اس تنقید کی بات کر لیتے ہے کہ جو ان افراد کی طرف سے خلیل صاحب پر کی جاتی ہے..سب سے زیادہ تنقید مشہور
...ڈائیالگ دو ٹکے کی عورت پر کی جا رہی ہے
چونکہ ان تنقید کرنے والوں کا مقصد صرف اپنے نظریے کی ترویج اور تنقید برائے تنقید ہے اس لیے انھوں نے یہ ڈائیالگ اس کے
.سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا اور یہی ہمیشہ سے اس طرح کے دو ٹکے کے لبرلز کا طریقہ واردات رہا ہے
..چلے اگر اس ڈائیالگ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لے بھی لیا جائے تب بھی ان کی دال گلنے والی نہیں
سالم ہے خلیل الرحمان کو کہ جس نے اس معاشرے Gمیں کہ جس میں غیرت کے نام پر آئے روز عورتوں کو موت کے گھاٹ Gاتارا
جاتا ہے وہاں یہ سبق دینے کی کوشش کی کہ اگر کبھی تمہیں لگے کہ عورت بے وفائی کر رہی ہے تو عزت کے ساتھ اس سے
.راستے جدا کر لو..یہی ہمارا مذہب بھی کہتا ہے
شکر ہے کہ دانش نے اس کو دو ٹکے کی عورت کہا میرا خیال میں تو ایسے شریک حیات سے تو دو ٹکے بھی زیادہ اہمیت والے
...ہوں گے
..ہر وہ شخص چاہیے مرد ہو یا عورت دو ٹکے کا ہی ہے کہ جو اپنے شریک حیات کی رسوائی کا باعث بنے
اس ڈرامے کا ایک منفرد پہلو یہ بھی تھا کہ اس ڈرامے میں میاں بیوی کی محبت کو دیکھایا گیا ہے وگرنہ زیادہ تر ڈراموں میں لڑکے
..اور لڑکی کی محبت کو ہی پیش کیا جاتا ہے اور میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے درد سر دیکھایا جاتا ہے
میری رائے کے مطابق محبت کے لوازمات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ محبت ملکیت یا قرب کی متقاضی ہے اور یہ تقاضا شادی
کے بعد ہی پورا ہوتا ہے اس لیے محبت اصال شادی کے بعد ہی شروع ہوتی ہے کہ جو آپ کی پریکٹیکل محبت ہوتی ہے جو آپ کو
ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے کا جذبہ سکھاتی ہے باقی شادی سے پہلے جو ہوتا ہے وہ تو دل کا دھوکا ہے..اس کو آپ محبت کا
...نام دے دیتے ہیں لیکن یہ محبت نہیں ہوتی..یہ خواہش ہوتی ہے یا حرص
..بہرحال ہللا کرے کسی کا نا تو کسی دو ٹکے کی عورت سے سامنا ہو..اور نا کسی دو ٹکے کے مرد سے