Professional Documents
Culture Documents
عورت بطور حکمرا
عورت بطور حکمرا
موجودہ دور میں اسلمی قوانین اور احکامات شدید تنقید کی زد میں ہیں اور یہ تنقید ان افراد کی طرف سے کی جاتی ہے کہ جو اسلما
پر صرف اس لیے تنقید کرتے ہیں کہ یہ ایک مذہب ہے اور ان کے نزدیک آج کی سائنسی ترقی کی حامل دنیا میں مذہب کی کوئی
گنجائش نہیں .شاید اگر وہ خود اسلما کے ان احکامات کا مطالعہ کر لیتے جن سے ان کو مسئلہ ہے تو ان کے تماما مسائل بمعہ دلیل حل
.ہو جاتے .اسلمی تعلیمات کی وسعت کا اندازہ ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا
کیا عورت اسلما کی تعلیمات کی روشنی میں سربراہ مملکت بننے کی مجاز ہے یا نہیں؟؟
..اس حوالے سے دو آراء پائی جاتی ہیں...ان آراء کو بمعہ دلئل ذکر کیا جاتا ہے
ان کے نزدیک عورت کے فرائض میں یہ چیز شامل نہیں کہ وہ مملکت کا کاروبار چل سکے .ان کے دلئل دو قسم پر مشتمل ہیں
..پہلے نقلی دلئل اور دوسرے عقلی دلئل
اس آیۃ مبارکہ سے ان کے نزدیک مراد یہ ہے کہ مرد زندگی کے معاشی معاملت میں عورت پر حاکم ہے اور اس تناظر میں مملکت
.کے فرائض کی ذمہ داری مرد ہی کے کندوں پر پڑتی ہے
..رسول ا نے ارشاد فرمایا وہ قوما ہرگز فلحا نہیں پا سکتی کہ جس کی حکمرانی ایک عورت کے ہاتھ میں ہو
.یہ دو بنیادی نقلی دلئل اس گروہ کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں..اس کے ساتھ عقلی دلئل بھی پیش کیے جاتے ہیں
پہلی دلیل یہ کہ تماما آسمانی مذاہب میں مملکت اور کاروبار حکومت کی ذمہ داری مرد پر ہی ہوتی تھی یہ مرد کے فرائض میں سے
.تھا کہ وہ مملکت کو چلئے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے فرائض میں یہ شامل نہیں
دوسری دلیل یہ کہ ا نے بنیادی طور پر مرد اور عورت کو دو مختلف جنسوں میں پیدا کیا ہے اسلما کے نزدیک ان میں سے ہر ایک
کے اپنے فرائض ہیں .اسلما مغرب کے اس نظریے کا سخت مخالف ہے کہ جو کہتا ہے کہ انسان کو دو قسموں میں تقسیم نہیں کیا جا
سکتا انسان صرف ایک ہی ہے اس میں کوئی مذکر یا مؤنث نہیں .گویا مغرب مطلقا برابری کا نعرہ لگاتے ہوئے ان دو قسموں کی
.فطرتی تقسیم کو بھول جاتا ہے .جس کے نتیجے میں ان دو صنفوں کے فرائض میں فرق نہیں کیا جاتا
اب انسان کے فرائض اور فطرتی ساخت سے یہ چیز ماوراء ہے کہ وہ حاملہ ہو کر بچہ جن سکے..یہ تو عورت کی جسمانی ساخت
ہے اسی جسمانی ساخت اور عوامل کی بنا پر ان کے فرائض کو معاشرے میں ترتیب دیا گیا ہے .اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ
.عورت کی اہمیت کم ہو گئی بلکہ یہ تو فرائض کی بات ہے
جدید دور کے علماء میں سے کچھ علماء اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ عورت مملکت کے کروبار میں حصہ لے سکتی ہے اور
.سربراہ حکومت بن سکتی ہے...ان علماء میں سے ایک ناما یوسف القرضاوی صاحب کا ہے
اس آیۃ مبارکہ اور اس طرحا کی دیگر آیات میں ا تعالی نے مرد اور عورت کی برابری کو ذکر فرمایا ہے یعنی یہ فرمایا کہ دونوں
ایک دوسرے کے محتاج ہیں مرد عورت کے بغیر اور عورت مرد کے بغیر نہیں رہ سکتی گویا دونوں کی حثیت معاشی معاملت میں
..کسی حد تک برابر ہے
..اس حدیث مبارکہ میں بھی عورت اور مرد کی برابری کی بات ہوئی ہے
ان دلئل کے باوجود ان کے نزدیک بہرحال عورت کے کاما کرنے پر کچھ حدود و قیود لگو ہوتی ہیں جو شریعت نے مقرر کی ہیں ان
حدود میں رہتے ہوئے عورت ہر وہ کاما کر سکتی ہے کہ جو مرد کر سکتا ہے...یعنی عوامل کے کرنے میں دونوں میں کوئی فرق
نہیں...البتہ ان کے نزدیک بھی دونوں مختلف جنسیں ہیں اور دونوں کے فرائض مختلف ہیں لیکن جو فرائض مختلف ہیں ان میں
.مملکت کی سربراہی داخل نہیں
یہ ایک دلیل یہ دیتے ہے کہ اصل مرد اور عورت برابر ہیں لیکن جب کوئی نص آ جائے تب دونوں میں تخصیص اور فرق ہو جاتا
..ہے .ان کے نزدیک یہ مسألۃ نص قطعی سے ثابت نہیں بلکہ یہ ایک اجتھادی اور عرفی مسألۃ ہے
جو دلیل جمہور قرآن سے دیتے ہیں یہ اس کی تشریح جمہور کے طریقے پر نہیں کرتے بلکہ ان کے نزدیک الرجال قوامون علی
..النساء سے مراد صرف نجی زندگی کے معاملت ہیں
جو حدیث جمہور پیش کرتے ہیں اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ حدیث اپنے عمومی معنی میں نہیں بلکہ یہ حدیث ایک خاص واقعہ کے
...متعلق ہے اور اس حدیث میں اسی واقعہ کا حکم موجود ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں
یہی موقف اماما غزالی کا بھی ہے ان کے نزدیک لن یفلح والی حدیث خاص ہے..کیونکہ اگر اس کو عاما مان لیا جائے تو قرآن میں جو
ا تعالی نے ملکہ بلقیس کی حکمرانی کا قصہ بیان کیا ہے تو یہ حدیث اس کے متضاد آتی ہے..ملکہ بلقیس کی حکمرانی کا قصہ
سورۃ نمل میں ہے اگرچہ جمہور کے نزدیک اس کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ وہ کافر قوما کی ملکہ تھی..لیکن جدید علماء کے
نزدیک اگرچہ وہ کافر قوما کی ملکہ تھی لیکن رسول ا اس کا قصہ بیان فرماتے ہوئے اس کی حکمرانی کی تعریف فرماتے تھے یہ
...دلیل ہے کہ عورت بھی اچھی حکمران بن سکتی ہے
...اماما قرطبی نے بھی اس حدیث پر گفتگو کی ہے .لیکن ان کی رائے جمہور کے ساتھ ہے
مذکورہ دلئل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس مسألہ میں قرآن کی کوئی واضح نص موجود نہیں اور نہ ہی واضح حدیث موجود
....ہے کہ جس میں اصولی اختلف نہ ہو
لیکن قدیم فقہاء کی رائے بطور جمہور ایک طرف ہے جن کے نزدیک یہ حدیث سے ثابت ہے اور اس پر اجماع ہے ...دوسری طرف
جدید اور کچھ قدیم علماء کی دوسری رائے ہے ان کے نزدیک یہ مسألہ اجتھادی اور عرفی نوعیت کا ہے..قدیم زمانے کے فقھاء ان
کے نزدیک اپنے عرف کے اعتبار سے صحیح تھے کیونکہ ان کے زمانے میں جدید جمہوری نظاما موجود نہیں تھا بلکہ خلفت اور
بادشاہی تھی جب کہ موجودہ دور کے جمہوری نظاما اور عرف کے مطابق ان کے نزدیک حکم بدل چکا ہے ...ان کے نزدیک فقہی
..قاعدہ ہے