You are on page 1of 2

‫عورت بطور حکمران اور اسلما‬

‫تحریر‪ :‬عبدالسلما کٹاریہ‬

‫موجودہ دور میں اسلمی قوانین اور احکامات شدید تنقید کی زد میں ہیں اور یہ تنقید ان افراد کی طرف سے کی جاتی ہے کہ جو اسلما‬
‫پر صرف اس لیے تنقید کرتے ہیں کہ یہ ایک مذہب ہے اور ان کے نزدیک آج کی سائنسی ترقی کی حامل دنیا میں مذہب کی کوئی‬
‫گنجائش نہیں‪ .‬شاید اگر وہ خود اسلما کے ان احکامات کا مطالعہ کر لیتے جن سے ان کو مسئلہ ہے تو ان کے تماما مسائل بمعہ دلیل حل‬
‫‪.‬ہو جاتے‪ .‬اسلمی تعلیمات کی وسعت کا اندازہ ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا‬

‫کیا عورت اسلما کی تعلیمات کی روشنی میں سربراہ مملکت بننے کی مجاز ہے یا نہیں؟؟‬

‫‪..‬اس حوالے سے دو آراء پائی جاتی ہیں‪...‬ان آراء کو بمعہ دلئل ذکر کیا جاتا ہے‬

‫‪...‬قدیم جمہور علماء کی رائے‬

‫ان کے نزدیک عورت کے فرائض میں یہ چیز شامل نہیں کہ وہ مملکت کا کاروبار چل سکے‪ .‬ان کے دلئل دو قسم پر مشتمل ہیں‬
‫‪..‬پہلے نقلی دلئل اور دوسرے عقلی دلئل‬

‫‪:‬ا تعالی نے ارشاد فرمایا‬

‫الرجال قوامون علی النساء‬

‫اس آیۃ مبارکہ سے ان کے نزدیک مراد یہ ہے کہ مرد زندگی کے معاشی معاملت میں عورت پر حاکم ہے اور اس تناظر میں مملکت‬
‫‪.‬کے فرائض کی ذمہ داری مرد ہی کے کندوں پر پڑتی ہے‬

‫‪..‬حدیث‪ :‬لن یفلح قوما ولوا أمرھم امرأۃ‬

‫‪..‬رسول ا نے ارشاد فرمایا وہ قوما ہرگز فلحا نہیں پا سکتی کہ جس کی حکمرانی ایک عورت کے ہاتھ میں ہو‬

‫‪.‬یہ دو بنیادی نقلی دلئل اس گروہ کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں‪..‬اس کے ساتھ عقلی دلئل بھی پیش کیے جاتے ہیں‬

‫پہلی دلیل یہ کہ تماما آسمانی مذاہب میں مملکت اور کاروبار حکومت کی ذمہ داری مرد پر ہی ہوتی تھی یہ مرد کے فرائض میں سے‬
‫‪.‬تھا کہ وہ مملکت کو چلئے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے فرائض میں یہ شامل نہیں‬

‫دوسری دلیل یہ کہ ا نے بنیادی طور پر مرد اور عورت کو دو مختلف جنسوں میں پیدا کیا ہے اسلما کے نزدیک ان میں سے ہر ایک‬
‫کے اپنے فرائض ہیں‪ .‬اسلما مغرب کے اس نظریے کا سخت مخالف ہے کہ جو کہتا ہے کہ انسان کو دو قسموں میں تقسیم نہیں کیا جا‬
‫سکتا انسان صرف ایک ہی ہے اس میں کوئی مذکر یا مؤنث نہیں‪ .‬گویا مغرب مطلقا برابری کا نعرہ لگاتے ہوئے ان دو قسموں کی‬
‫‪.‬فطرتی تقسیم کو بھول جاتا ہے‪ .‬جس کے نتیجے میں ان دو صنفوں کے فرائض میں فرق نہیں کیا جاتا‬

‫اب انسان کے فرائض اور فطرتی ساخت سے یہ چیز ماوراء ہے کہ وہ حاملہ ہو کر بچہ جن سکے‪..‬یہ تو عورت کی جسمانی ساخت‬
‫ہے اسی جسمانی ساخت اور عوامل کی بنا پر ان کے فرائض کو معاشرے میں ترتیب دیا گیا ہے‪ .‬اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ‬
‫‪.‬عورت کی اہمیت کم ہو گئی بلکہ یہ تو فرائض کی بات ہے‬

‫‪...‬جدید علماء کی رائے‬

‫جدید دور کے علماء میں سے کچھ علماء اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ عورت مملکت کے کروبار میں حصہ لے سکتی ہے اور‬
‫‪.‬سربراہ حکومت بن سکتی ہے‪...‬ان علماء میں سے ایک ناما یوسف القرضاوی صاحب کا ہے‬

‫‪...‬ان کے دلئل بھی دو قسموں پر مشتمل ہیں‬


‫‪.‬آیۃ‪...‬فاستجاب لھم ربھم أنی ل أضیع عمل عامل منکم من ذکر آو أنثی بعضکم من بعض‬

‫اس آیۃ مبارکہ اور اس طرحا کی دیگر آیات میں ا تعالی نے مرد اور عورت کی برابری کو ذکر فرمایا ہے یعنی یہ فرمایا کہ دونوں‬
‫ایک دوسرے کے محتاج ہیں مرد عورت کے بغیر اور عورت مرد کے بغیر نہیں رہ سکتی گویا دونوں کی حثیت معاشی معاملت میں‬
‫‪..‬کسی حد تک برابر ہے‬

‫‪..‬حدیث‪ ..‬انما النساء شقائق الرجال‬

‫‪..‬اس حدیث مبارکہ میں بھی عورت اور مرد کی برابری کی بات ہوئی ہے‬

‫ان دلئل کے باوجود ان کے نزدیک بہرحال عورت کے کاما کرنے پر کچھ حدود و قیود لگو ہوتی ہیں جو شریعت نے مقرر کی ہیں ان‬
‫حدود میں رہتے ہوئے عورت ہر وہ کاما کر سکتی ہے کہ جو مرد کر سکتا ہے‪...‬یعنی عوامل کے کرنے میں دونوں میں کوئی فرق‬
‫نہیں‪...‬البتہ ان کے نزدیک بھی دونوں مختلف جنسیں ہیں اور دونوں کے فرائض مختلف ہیں لیکن جو فرائض مختلف ہیں ان میں‬
‫‪.‬مملکت کی سربراہی داخل نہیں‬

‫‪..‬ان کے عقلی دلئل‬

‫یہ ایک دلیل یہ دیتے ہے کہ اصل مرد اور عورت برابر ہیں لیکن جب کوئی نص آ جائے تب دونوں میں تخصیص اور فرق ہو جاتا‬
‫‪..‬ہے‪ .‬ان کے نزدیک یہ مسألۃ نص قطعی سے ثابت نہیں بلکہ یہ ایک اجتھادی اور عرفی مسألۃ ہے‬

‫جو دلیل جمہور قرآن سے دیتے ہیں یہ اس کی تشریح جمہور کے طریقے پر نہیں کرتے بلکہ ان کے نزدیک الرجال قوامون علی‬
‫‪ ..‬النساء سے مراد صرف نجی زندگی کے معاملت ہیں‬

‫جو حدیث جمہور پیش کرتے ہیں اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ حدیث اپنے عمومی معنی میں نہیں بلکہ یہ حدیث ایک خاص واقعہ کے‬
‫‪...‬متعلق ہے اور اس حدیث میں اسی واقعہ کا حکم موجود ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں‬

‫یہی موقف اماما غزالی کا بھی ہے ان کے نزدیک لن یفلح والی حدیث خاص ہے‪..‬کیونکہ اگر اس کو عاما مان لیا جائے تو قرآن میں جو‬
‫ا تعالی نے ملکہ بلقیس کی حکمرانی کا قصہ بیان کیا ہے تو یہ حدیث اس کے متضاد آتی ہے‪..‬ملکہ بلقیس کی حکمرانی کا قصہ‬
‫سورۃ نمل میں ہے اگرچہ جمہور کے نزدیک اس کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ وہ کافر قوما کی ملکہ تھی‪..‬لیکن جدید علماء کے‬
‫نزدیک اگرچہ وہ کافر قوما کی ملکہ تھی لیکن رسول ا اس کا قصہ بیان فرماتے ہوئے اس کی حکمرانی کی تعریف فرماتے تھے یہ‬
‫‪...‬دلیل ہے کہ عورت بھی اچھی حکمران بن سکتی ہے‬

‫‪...‬اماما قرطبی نے بھی اس حدیث پر گفتگو کی ہے‪ .‬لیکن ان کی رائے جمہور کے ساتھ ہے‬

‫مذکورہ دلئل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس مسألہ میں قرآن کی کوئی واضح نص موجود نہیں اور نہ ہی واضح حدیث موجود‬
‫‪....‬ہے کہ جس میں اصولی اختلف نہ ہو‬

‫لیکن قدیم فقہاء کی رائے بطور جمہور ایک طرف ہے جن کے نزدیک یہ حدیث سے ثابت ہے اور اس پر اجماع ہے ‪...‬دوسری طرف‬
‫جدید اور کچھ قدیم علماء کی دوسری رائے ہے ان کے نزدیک یہ مسألہ اجتھادی اور عرفی نوعیت کا ہے‪..‬قدیم زمانے کے فقھاء ان‬
‫کے نزدیک اپنے عرف کے اعتبار سے صحیح تھے کیونکہ ان کے زمانے میں جدید جمہوری نظاما موجود نہیں تھا بلکہ خلفت اور‬
‫بادشاہی تھی جب کہ موجودہ دور کے جمہوری نظاما اور عرف کے مطابق ان کے نزدیک حکم بدل چکا ہے‪ ...‬ان کے نزدیک فقہی‬
‫‪..‬قاعدہ ہے‬

‫‪...‬ل ینکر تغیر الحکاما بتغیر الظروف والزمان‬

You might also like