You are on page 1of 9

‫ایک چیف جسٹس کی آپ بیتی‬

‫’’ارشاد نامہ‪ :‬معاون سے چیف جسٹس پاکستان بننے تک کی داستان‘‘‬


‫‪Autobiography of a Chief Justice "Irshad Namah:‬‬
‫‪"Mu`awin say Chief Justice Pakistan Bannay ki Dastan‬‬
‫از‬
‫جسٹس (ر) ڈاکٹر منیر احمد مغل‬

‫کسی بھی شخص کے لیے منصب قضاء پر فائز ہونا ایک نہایت اعلی‬
‫مقام ہے۔ ہر کسی کو نہ تو یہ نصیب ہوتا ہے نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ ہر‬
‫معاشرے میں چند خوش نصیب ہی ہوتے ہیں جنہیں یہ خدائی منصب‬
‫عطاء ہوتا ہے۔ خدا کے بعد یہ منصب انبیاء کرام بھی نبھاتے رہے ہیں۔‬
‫انسانی معاشرت کے مختلف ادوار میں منصب قضاء ہمیشہ اہمیت کا‬
‫حامل رہا ہے۔ جب حضور اکرم (صلی ہللا علیہ وسلم) بطور آخری نبی و‬
‫پیغمبر انسانیت کی راہنمائی کے لیے ہللا کے حکم سے قرآن بنی نوع‬
‫انسانیت تک پہنچا رہے تھے تو عدل و انصاف کے متعلق قرآنی‬
‫احکامات بھی اس عمل کا حصہ تھے۔ لہذا قرآن میں آیا ہے‪:‬‬
‫عدل کرو‪ ،‬یہ تقوی کے نزدیک ترین ہے۔‬
‫اسی طرح جب اسالمی حکومت کا قیام عمل میں آیا تو انتظامی و‬
‫عدالتی امور کے لیے افراد کی تعیناتی کی گئی۔ حضرت معاذ بن جبل‬
‫(رضی ہللا عنہ) کو گورنر مقرر کرتے وقت حضور اکرم (صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم) نے پوچھا کہ اے معاذ‪ ،‬جب کوئی مقدمہ تمہارے سامنے پیش‬
‫‪1‬‬

‫‪Electronic copy available at: https://ssrn.com/abstract=3836720‬‬


‫ہوگا تو فیصلہ کس طرح کرو گے؟ انہوں نے فرمایا‪ :‬میں ہللا کی کتاب‬
‫سے فیصلہ کروں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا‪ :‬اگر کتاب ہللا میں نہ مال تو؟‬
‫کہا کہ پھر سنت رسول ہللا ﷺ سے۔ فرمایا‪ :‬اگر سنت رسول ہللا‬
‫ﷺ اور کتاب ہللا میں نہ مال تو؟ کہا کہ میں اپنی رائے استعمال‬
‫کرنے میں کمی نہیں کروں گا۔ اس پر رسول ہللا ﷺ نے انکا سینہ‬
‫تھپکایا اور فرمایا‪’’ :‬حمد ہے اس ہللا کی جس نے رسول ہللا کے پیامبر‬
‫کو اس بات کی توفیق دی جس پر ہللا کا رسول خوش ہے۔‘‘‬
‫اس حدیث کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسالم کے بطور دین‬
‫فطرت اور ضابطہ حیات میں عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت حاصل ہے‬
‫اور اس کا قرآن و حدیث سے اتنا قریبی رشتہ ہے کہ قاضی کی تعیناتی‬
‫کے وقت نہ صرف اس کی اہلیت دیکھنا ضروری خیال کیا گیا بلکہ‬
‫اسکی تربیت بھی بر موقع کر کے دکھائی گئی۔‬
‫اسالمی معاشرہ میں قاضی کی اہمیت ہمیشہ بنیادی نوعیت کی رہی ہے۔‬
‫قانون کی تشریح کا جو معیار اوپر بیان کردہ حدیث میں سمجھایا گیا‬
‫ہے وہ ہر قاضی کے لیے اختیار کرنا ایک فرض کی حیثیت رکھتا ہے‬
‫تاکہ مقاصد شریعۃ پر عمل ہو سکے اور معاشرہ درست سمت میں وقت‬
‫کی منزلیں طے کرتا چال جائے۔‬
‫پاکستان ایک اسالمی ریاست ہے۔ اسالم کو سرکاری طور پر ریاستی‬
‫مذہب کی حیثیت دی گئی ہے۔ آئین پاکستان ‪1973‬ء کا ابتدائیہ اس‬
‫بارے میں بہت واضح ہے کہ حاکمیت صرف اور صرف ہللا کی ہے اور‬
‫انسان یہاں ہللا کا نائب ہے۔ لہذا ریاست پاکستان میں اسالمی اصولوں‬
‫کے مطابق افراد کو اہم عہدہ جات پر تعینات کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس‬

‫‪2‬‬

‫‪Electronic copy available at: https://ssrn.com/abstract=3836720‬‬


‫یا قاضی القضاۃ ریاست کے ایک ستون یعنی عدلیہ کا سربراہ ہوتا ہے‬
‫اور پوری عدلیہ کے لیے ایک راہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ نچلی‬
‫عدالتوں احکامات‪ ،‬مقننہ کے بنائے ہوئے قوانین اور انتظامی اداروں‬
‫کے فیصلہ جات عدالتی نظر ثانی کے لیے عدالت ہائے عالیہ و عظمی‬
‫کے سامنے مختلف اوقات میں پیش ہوتے رہتے ہیں جہاں انکی آئینی‬
‫حیثیت جانچی جاتی ہے۔‬
‫زیر نظر کتاب پاکستان کے ایک سابقہ چیف جسٹس ارشاد حسن خان‬
‫نے اپنی سوانح عمری کے طور پر تحریر کی ہے۔ اس خود نوشت میں‬
‫مصنف نے اپنی زندگی کے انتہائی اول ایام کی مشکالت سے لے کر کہ‬
‫جب ان کے والد گرامی وفات پاگئے اور بعد ازاں خاندان کو پاکستان‬
‫بننے کے بعد ہجرت کرکے انڈیا سے پاکستان آنا پڑا اور پھر اپنی‬
‫عملی زندگی کے مساعد ادوار سے لے کر چیف جسٹس پاکستان اور‬
‫قائم مقام صدر پاکستان بننے تک کے مختلف واقعات کو بیان کیا ہے۔‬
‫کتاب کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ کتاب پاکستان کی قومی زبان میں‬
‫موقف اپنی قومی زبان میں سمجھ‬ ‫لکھی گئی ہے تاکہ قارئین مصنف کا ٔ‬
‫سکیں۔ یہ روایت سے ہٹ کر ایک اہم قدم ہے کیونکہ زیادہ تر افراد جو‬
‫عدلیہ‪ ،‬انتظامیہ یا مقننہ میں خدمات انجام دیتے ہیں یا دیتے رہے ہیں‬
‫وہ انگریزی کو ہی اپنا ذریعہ بیان بناتے ہیں۔ مصنف کا یہ فیصلہ آنے‬
‫والے بہت سے لوگوں کو اردو زبان کے استعمال کی طرف راغب کرے‬
‫گا۔ اس طرح یہ کتاب اردو ادب میں سوانح عمری کے طور ایک نہایت‬
‫اچھا اضافہ ثابت ہوگی۔‬
‫کتاب ہذا کا پیش لفظ پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس جناب جسٹس‬
‫گلزار احمد نے تحریر کیا ہے۔ اس طرح اس کتاب کے لیے یہ ایک‬

‫‪3‬‬

‫‪Electronic copy available at: https://ssrn.com/abstract=3836720‬‬


‫منفرد اعزاز ہے۔ معزز چیف جسٹس مصنف کے تحریر کردہ فیصلہ‬
‫ظفر علی شاہ بنام فیڈریشن آف پاکستان وغیرہ (پی ایل ڈی ‪0222‬‬
‫سپریم کورٹ ‪ )968‬کا حوالہ دیتے ہوئے کتاب ہذا کی بابت لکھتے‬
‫ہیں‪’’ :‬بظاہر اس پوری سوانح حیات کو لکھنے کا مقصد اور لب لباب‬
‫اسی فیصلے کا دفاع کرنا اور اس کو منوانا بھی مقصود ہے۔۔۔یہ فیصلہ‬
‫آج بھی ہماری قانون کی کتاب میں موجود ہے اور اس میں قانون کے‬
‫طالب علم‪ ،‬وکالء اور جج صاحبان کے لیے مختلف قانونی نقاط کو‬
‫سمجھنے کے لیے بے انتہا مواد موجود ہے اور وہ اس سے راہنمائی‬
‫حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘ اسی طرح معروف قانون دان ایس ایم ظفر‬
‫لکھتے ہیں‪’’ :‬ارشاد نامہ کا قاری ارشاد حسن خان کو ایک بہت ہی پر‬
‫اعتماد شخصیت کے طور پر جانے گا۔‘‘ اور یہ کہ ’’ وکالء صاحبان‬
‫کے لیے ارشاد نامہ میں ایک کامیاب وکیل بننے کے لئے فن وکالت کا‬
‫باب قابل توجہ ہے۔‘‘ جناب وسیم سجاد لکھتے ہیں‪’’ :‬جج اپنے‬
‫فیصلوں میں بولتا ہے۔ لیکن بہت سی تنقید کا جواب دینے کے لئے یہ‬
‫مواقع کافی نہیں ہوتے۔ جب جج ریٹائر ہو جاتے ہیں تو ان پر یہ ساری‬
‫پابندیاں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔ اب وہ اپنے اوپر کی گئی تنقیدات‬
‫کا کھل کر جواب دینے میں آزاد ہوتے ہیں۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’ارشاد نامہ سادہ و سلیس زبان اور ابہام سے پاک اسلوب کے باعث‬
‫ایک ایسی تصنیف ہے جسے ایک بار پڑھنا شروع کر دیں تو ختم کئے‬
‫بغیر ہاتھ سے چھوڑنا مشکل ہوتا ہے۔‘‘ اور انہوں نے اس کتاب کو‬
‫ملک کی سیاسی و قانونی تاریخ کے ادب میں ’’نہایت قیمتی اضافہ‘‘‬
‫قرار دیا۔ جناب اعتزاز احسن‪ ،‬سینیئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ‪ ،‬کے‬
‫مطابق ’’اس سوانح عمری کی سب سے دلچسپ بات مصنف کا بے‬
‫ساختہ پن۔۔۔‘‘ ہے۔ جناب مخدوم علی خان‪ ،‬سابقہ اٹارنی جنرل پاکستان‬

‫‪4‬‬

‫‪Electronic copy available at: https://ssrn.com/abstract=3836720‬‬


‫فرماتے ہیں کہ یہ سوانح عمری ’’ہمیں ایک ایسے معاشرے کی‬
‫جھلک دکھاتی ہے جس میں اگرچہ مکمل برابری تو نہ تھی مگر سب‬
‫کے لیے ترقی کے مواقع ضرور تھے‘‘۔ جناب قیوم نظامی نے اس‬
‫سوانح عمری کو ’’وکالت نامہ‘‘‪’’ ،‬جج نامہ‘‘‪ ،‬اور ’’سیاست نامہ‘‘ کے‬
‫ناموں سے یاد کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب ’’رنگا رنک پھولوں‬
‫کا دستہ ہے‘‘ اور انہوں نے سرکاری مالزمین کے لیے اسے ایک‬
‫راہنما کتاب کا درجہ دیا ہے کہ یہ ’’کتاب ۔۔۔ وہ گر بتائے گی کہ آپ‬
‫مالزمت میں ترقی کیسے کر سکتے ہیں اور اپنے باس کی توجہ اور‬
‫ہمدردی کیسے حاصل کر سکتے ہیں‘‘‪’’ ،‬ایک کامیاب وکیل بن سکتے‬
‫ہیں‘‘‪ ،‬اور منصفین کے لیے کامیاب جج کے اوصاف بھی بیان کرتی‬
‫ہے۔ جناب حفیظ الرحمان قریشی نے ظفر علی شاہ کیس کے حوالہ‬
‫سے لکھا کہ‪’’ :‬بال شبہ مصنف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کی وجہ‬
‫سے فوجی عدالتیں قائم نہ ہوئیں۔۔۔‘‘‬
‫مصنف بنیادی طور پر ایک قانون دان ہیں۔ فیروز سنز پبلشرز مال روڈ‬
‫الہور پر ایک معاون کے طور اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے کے بعد‪،‬‬
‫کس طرح قانون کی تعلیم کی طرف رغبت ہوئی اور پھر نہ صرف قانون‬
‫دان بننے بلکہ قانون کی تعلیم دینے کے اعزاز پر گفتگو نہایت‬
‫دلچسپ‪ ،‬سبق آموز اور مصنف کی جہد مسلسل کو نہ صرف روشناس‬
‫کراتی ہے بلکہ دوسروں کے لیے مشعل راہ کے طور پر بھی سامنے‬
‫آتی ہے۔ مصنف از خود کتاب کا تعارف اس طرح کرواتے ہیں‪’’ :‬کتاب‬
‫کا ایک فکر انگیز پہلو یہ ہے کہ اپنی عملی زندگی کے حوالوں سے‬
‫بتایا گیا ہے کہ وکیل اور جج کو کیسا ہونا چاہیے؟ میرا عجیب الطبع‬
‫وکیلوں اور مشتعل مزاج ججوں سے واسطہ پڑتا رہا لیکن فطری خوش‬
‫مزاجی‪ ،‬بردباری اور معاملہ فہمی سے سرخ رو ہوتا رہا۔۔۔وکالء اور‬
‫‪5‬‬

‫‪Electronic copy available at: https://ssrn.com/abstract=3836720‬‬


‫۔۔۔جج صاحبان کو ان اوراق کا بہ غور مطالعہ کرنا چاہیے‪ ،‬یقینا ً درست‬
‫راہنمائی ملے گی۔۔۔ عدلیہ کے بارے ابواب کے مطالعہ سے عدلیہ کو‬
‫مثالی بنانے کے لیے کافی و شافی رہنمائی ملے گی۔۔۔‘‘۔ ظفر علی شاہ‬
‫کیس پر تنقید کے حوالہ سے مصنف لکھتے ہیں‪ 20’’ :‬اکتوبر کے‬
‫مارشل الء سے متعلق ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کو میری زندگی‬
‫کے حاالت کے ساتھ رکھ کر پڑھیں تو کوئی راست فکر یہ ماننے کو‬
‫دباو کے تحت‬‫تیار نہیں ہوگا کہ یہ ’’فیصلہ‘‘ کسی دنیاوی اللچ‪ ،‬طمع یا ٔ‬
‫کیا گیا ہوگا جو شخص جنرل ضیاء الحق اور ان کی بیوروکریسی سے‬
‫ٹکرا سکتا ہو جو جنرل مشرف کو کھری کھری سنا دیتا ہو اس کے‬
‫کسی فیصلے کو ہدف تنقید بنانا بد گمانی نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘‬
‫کتاب ہذا کا بہت تفصیلی جائزہ لینا یہاں مقصود نہ ہے بلکہ قارئین کو‬
‫اس بات سے روشناس کروانا ہے کہ اس سوانح عمری کے مطالعہ‬
‫سے ایک فاضل چیف جسٹس آف پاکستان کی زندگی کے مختلف‬
‫پہلووں کا حقیقی معنوں میں ادراک بزبان مصنف ہمارے سامنے آتا‬ ‫ٔ‬
‫ہے۔ یہ کتاب بے شک بنیادی طور پر ظفر علی شاہ کیس کے حوالہ‬
‫سے مصنف پر تنقید کے جواب میں لکھی گئی وضاحتوں پر مبنی ہے‬
‫مگر مصنف نے سوانح عمری کے ادب کا بھی لحاظ رکھا ہے اور‬
‫قارئین کی دلچسپی کا بھی۔ مزید سوانح عمریاں اکثر مصنف کی اپنی‬
‫ذاتی تعریف اور حقائق میں ذاتیات کا پہلو زیادہ اجاگر کرتی ہیں مگر‬
‫یہاں اس کتاب میں ذاتی تعریف کی بجائے مصنف نے اپنی زندگی کو‬
‫ایک کھلی کتاب کے طور پیش کیا ہے اور کئی ایسی باتوں کا کھلے‬
‫عام ذکر کیا ہے جو مصنف کے اعتماد اور سچا کھرا ہونے کی بہت‬
‫اعلی دلیل ہیں۔ مصنف اس بات سے انصاف کرنے میں کامیاب ہوئے‬
‫ہیں کہ سوانح عمری میں حقائق کو اسی طرح سامنے رکھ دیا جائے‬
‫‪6‬‬

‫‪Electronic copy available at: https://ssrn.com/abstract=3836720‬‬


‫جس طرح وہ قائم پذیر ہوئے تاکہ اس کتاب کا قاری از خود فیصلہ کر‬
‫سکے کہ مصنف کے کئے گئے فیصلہ جات کس حد تک ہمارے ملک‬
‫کے آئین اور قانون کے مطابق تھے۔ مصنف نے یہ بھی بتانے کی‬
‫کوشش کی ہے کہ وہ کیا مشکل حاالت ہیں جن میں عدلیہ اس ملک‬
‫میں ایک آزاد ادارہ کے طور پر کام کرتی ہے اور کس طرح انصاف کا‬
‫پلڑہ برابر رکھتی ہے۔ ماضی میں عدالتی آزادی کو ریاستی اداروں کے‬
‫بڑھتے ہوئے دباوء میں برقرار رکھنے کی کیا اہم کوششیں کی گئیں‪،‬‬
‫وہ بھی اس کتاب میں نہ صرف ہمیں پڑھنے کو ملتی ہیں بلکہ وہ آئندہ‬
‫آنے والے جج صاحبان کے لیے راہنمائی کا سبب بھی بنیں گی۔ امید‬
‫ہے کہ یہ سوانح عمری اردو ادب میں عام طور پر اور قانونی ادب میں‬
‫خاص طور پر ایک اہم مقام حاصل کرے گی۔‬
‫میں یہ بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مصنف نے اپنی عملی اور‬
‫ذاتی زندگی اسالم کے اصولوں کے عین مطابق بسر کی ہے۔ ان کی‬
‫زندگی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ مصنف نے اپنی سرکاری اور‬
‫ذاتی زندگی میں توازن قائم کرکے دکھایا ہے۔ یہ کسی بھی شخص کے‬
‫لیے بہت اہم عمل ہوتا ہے کہ اپنے سرکاری فرائض بھی بجا آوری‬
‫سے ادا کرے اور ساتھ ساتھ اپنے خاندان‪ ،‬بچوں اور زندگی کے‬
‫ہمسفر (میاں یا بیوی) کے حقوق بھی بہترین طریقہ سے ادا کرے۔ یہ‬
‫سنت رسول ﷺ بھی ہے اور تقاضا وقت بھی۔ لہذا مصنف اس عمل‬
‫میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے اس عمل میں آنے والے‬
‫نوجوانوں کے لئے بہت راہنمائی موجود ہے۔‬
‫انہوں نے قاضی بننے کے بعد‪’ ،‬ادب القاضی‘ کا بھی مکمل خیال رکھا‬
‫ہے اور بطور چیف جسٹس آف پاکستان (قاضی القضاۃ) پاکستانی عدلیہ‬

‫‪7‬‬

‫‪Electronic copy available at: https://ssrn.com/abstract=3836720‬‬


‫کو اسالمی اصولوں کے مطابق مزید ترقی دینے کے وہ تمام اقدامات‬
‫کئے جو ایک اسالمی ریاست میں وقت کی ضرورت تھے۔ اسی طرح‬
‫حدیث معاذ سے ہمیں جو اہم سبق ملتا ہے وہ عدالتی تعلیم کی اہمیت‬
‫ہے۔ جناب جسٹس ارشاد حسن خان‪ ،‬سابقہ فاضل چیف جسٹس پاکستان‬
‫(مصنف) نے اپنے دور میں وفاقی عدالتی اکادمی کے قیام میں جو اہم‬
‫کردار ادا کیا ہے وہ اس حدیث کا ایک عملی نمونہ ہے اور پاکستانی‬
‫عدالتی تعلیم کے میدان میں اب ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔‬
‫آخر میں کچھ پبلشرز کے بارے میں۔ کتاب پاکستان کے ایک بہت ہی‬
‫مشہور پبلشنگ ادارے فیروز سنز‪ ،‬الہور نے شائع کی ہے۔ نہ صرف‬
‫کہ اسکی جلد بہت خوبصورت ہے بلکہ کاغذ بھی اعلی قسم کا استعمال‬
‫کیا گیا ہے۔ جہاں ضروری ہوا‪ ،‬تصاویر بھی چھاپی گئی ہیں۔ لہذا میں‬
‫فیروز سنز کو بھی اس کاوش پر مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں‬
‫پہلووں پر مبنی سوانح عمری شائع کر کے‬
‫ٔ‬ ‫نے اردو زبان میں عدالتی‬
‫نہ صرف اردو ادب بلکہ ہماری قومی زبان اردو کی بھی بہت بڑی‬
‫خدمت کی ہے۔‬
‫ہللا تعالی سے دعا ہے کہ محترم جسٹس ارشاد حسن خان صاحب کو‬
‫ایک صحت مند اور ہنسی خوشی والی لمبی زندگی عطا فرمائے‪ ،‬آمین۔‬

‫‪8‬‬

‫‪Electronic copy available at: https://ssrn.com/abstract=3836720‬‬


9

Electronic copy available at: https://ssrn.com/abstract=3836720

You might also like