You are on page 1of 453

‫کریمنل پروسیجر کوڈ کاشرعی اصولوں‬

‫کی روشنی میں تحقیقی مطالعہ‬

‫مقالہ نگار‬
‫سلطان احمد‬
‫رول نمبر ‪2‬‬
‫شعبہ علوم اسالمیہ‬
‫دی اسالمیہ یونیورسٹی آف بہاولپور‬
‫نگران مقالہ‬
‫پروفیسر ڈاکٹر شمس البصر صاحب‬

‫مقالہ برائے ‪( Ph.D‬پی ایچ ڈی)‬

‫سیشن‪2010-2007 :‬‬

‫شعبہ علوم اسالمیہ‬


‫دی اسالمیہ یونیورسٹی آف بہاولپور‬
‫اظہار تشکر‬

‫سب سے پہلے بے حد حمد وثنا اس خالق کائنات کیلئے جس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا‬
‫اور تحصیل و اشاعت علم کے راستے پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ پھر حضور اکرم ﷺ‬
‫کی بارگا ِہ میں ہدیہ درود و سالم کہ جس کریم آقا (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ اطلبوا العلم من المھد الی‬
‫اللحد اور فرمایا العلم نور جس کی بدولت انسانیت کو گمراہی کی ظلمتوں سے نکال کر کامیابی‬
‫وکامرانی کی منزل کی راہ پر جادہ پیما فرما دیا جس سے دارین میں کامیابی و سعادت اس کا مقدر‬
‫بن گئی۔‬
‫اس کے بعد سب سے پہلے اپنے مربی و محسن اور شفیق استاد گرامی جناب ڈاکٹر شمس‬
‫البصر کا سپاس گزار اور تہہ دِل سے ممنون احسان ہوں کہ جن کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کے‬
‫سائے میں‪ ،‬میں نے علم و تحقیق کا یہ سفر مکمل کیا۔ جب بھی مجھے ضرورت پڑی اور میں نے‬
‫تعالی انہیں ہمیشہ سرفراز‬
‫ٰ‬ ‫کال کی انہوں نے میرے لئے ہر لمحہ خوشی سے وقف کردیا۔ ہللا‬
‫فرمائے۔ آمین۔ میں اپنے استاد محترم جناب ڈاکٹر عبدالرئوف ظفر کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں‬
‫نے سیرت چیئر کی الئبریری سے استفادہ کی اجازت عنائت فرمائی۔ عالوہ ازیں کوئی ایسی مالقات‬
‫یا ٹیلیفون کال نہیں‪ ،‬جس مینانہوں نے مجھ سے پی۔ ایچ۔ ڈی کے سلسلے میں کی جانے والی تحقیق‬
‫کے بارے میں نہ پوچھا ہو اور مجھے کبھی پیار سے کبھی ڈانٹ کر کام جلد مکمل کرنیکی تاکید نہ‬
‫تعالی انہیں صحت و شادمانی کے ساتھ سالمت رکھے آمین۔ اپنے استا ِد محترم ڈاکٹر‬
‫ٰ‬ ‫فرمائی ہو۔ ہللا‬
‫ممنون احسان‬
‫ِ‬ ‫گجر خان غزل کاشمیری مرحوم‪ ،‬ڈاکٹر عبدالرشید رحمت کی بے پایاں عنایات کیلئے‬
‫ہوں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم طارق خان ڈین فیکلٹی آف اسالمک لرننگ کا بھی سپاس گزار ہوں‬
‫کہ جن کی قیادت مینفیکلٹی تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور تحقیق کا کام جاری و‬
‫ساری ہے۔ محترم پروفیسر ڈاکٹر حافظ افتخار احمد موجودہ صدر شعبہ کا بھی ممنون احسان ہوں کہ‬
‫جنہوں نے شعبہ میں سکالرز کیلئے ہرسہولت بہم پہنچائی ہے اور ان کی ہمیشہ حوصلہ افزائی‬
‫کرتے رہتے ہیں۔ میں اپنے مربی و مشفق استاد محترم ڈاکٹر سید محمد سلطان شاہ صاحب چیئرمین‬
‫شعبہ عربی و علوم اسالمیہ جی سی یونیورسٹی الہور کا دِل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ‬
‫انہوں نے ہر قدم پر میری رہنمائی فرمائی اور بے حوصلگی اور اکتاہٹ کے لمحات میں اپنی علم‬
‫پرور اور تحقیق افروز باتوں سے میری بھرپور سرپرستی فرمائی۔ راقم ان تمام ہستیوں کیلئے بارگاہ‬
‫رب العزت میں دست بدعا ہے کہ انہیں دارین کی ہر سعادت اور علم وعمل میں ترقی نصیب ہو۔‬
‫آمین‬
‫اسالمیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کی مرکزی الئبریری کے عملے کا شکریہ ادا کرنا نہایت‬
‫ضروری ہے۔ بالخصوص رانا نصرہللا خان اسسٹنٹ الئبریرین‪ ،‬محمد اقبال غوری‪ ،‬ملک ہللا ڈیوایا‪،‬‬
‫محمد جمیل اور محمدفیض خصوصی شکرئیے کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے مجھے الئبریری میں‬
‫ہللا الئبریری‪ ،‬ادارہ تحقیقات‬
‫ہر طرح کی سہولت مہیا کی۔ سنٹرل الئبریری بہاولپور‪ ،‬ڈاکٹر حمید ؒ‬
‫اسالمی آباد‪ ،‬مرکزی الئبریری انٹرنیشنل اسالمک یونیورسٹی اسالم آباد‪ ،‬سردار پور جھنڈیر‬
‫الئبریری میلسی‪ ،‬باغ النگے خان الئبریری ملتان‪ ،‬بہاء الدین زکریایونیورسٹی ملتان میں شعبہ علوم‬
‫اسالمیہ کی الئبریری‪ ،‬مرکزی الئبریری‪ BZU ،‬ملتان‪ ،‬شریعہ اکیڈمی الئبریری اسالم آباد‪،‬‬
‫ہائیکورٹ ملتان بنچ کی الئبریری‪ ،‬ڈسٹرکٹ بار ملتان کی الئبریری کے عملے اور افسران کا بھی‬
‫تہہ دِل سے شکر گزار ہوں۔ گورنمنٹ والیت حسین کالج الئبریری کے عملے خصوصا ً اظہر‬
‫ممنون احسان ہوں کہ انہوں‬
‫ِ‬ ‫خورشید‪ ،‬ارشد نوید‪ ،‬منیر نیازی اور مشتاق احمد اور عملے کا نہایت‬
‫نے اپنی الئبریری مینمجھے ہر ممکن سہولت مہیا کی اور جو کتب یا ان کی فوٹو کاپی درکار تھی‬
‫وہ مجھے فراہم کی۔ اسالمی نظریاتی کونسل اسالم آبادکی انتظامیہ کا خصوصی طور پر شکریہ ادا‬
‫کرتا ہوں کہ جنہوں نے مجھے اپنی ساری رپورٹس کی کاپیاں فراہم کیں اور میں نے ان سے‬
‫بھرپور استفادہ کیا۔ دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری الہور کی انتظامیہ کا بھی احسان مند ہوں کہ انہوں‬
‫برادر محترم جناب ڈاکٹر حافظ سعد ہللا خصوصی شکریے‬ ‫ِ‬ ‫نے میری بھرپور استعانت کی۔ خصوصا ً‬
‫کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے الئبریری سے استفادہ کی سہولت کے عالوہ مجلہ ’’منہاج‘‘ کے‬
‫گزشتہ شمارے عنائت فرمائے جو میری تحقیق مینخاصے ممد و معاون رہے۔ نہایت محترم شخصیت‬
‫غازی نے بھی بذریعہ مالقات‪ ،‬ٹیلیفون‪ ،‬مراسلت میری بہت زیادہ رہنمائی اور‬
‫ؒ‬ ‫ڈاکٹر محمود احمد‬
‫تعالی ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔‬
‫ٰ‬ ‫حوصلہ افزائی فرمائی۔ ہللا‬
‫برادر عزیز رائو زاہد محمود اسسٹنٹ ڈائریکٹر سول‬
‫ِ‬ ‫کتب کی فراہمی کے سلسلے میں‬
‫سیکرٹریٹ الہور‪ ،‬پروفیسر امیر عثمان انٹرنیشنل اسالمک یونیورسٹی اسالم آباد‪ ،‬مشتاق احمد‬
‫معارف اولیاء الہور‪ ،‬شیخ محمد سعید لیکچرار خاص سپاس گزاری کے مستحق ہیں کہ‬ ‫ِ‬ ‫ریسرچ فیلو‬
‫جنہوں نے بروقت کتب کی فراہمی کو یقینی بنایا اور میرے کام میں رکاوٹ کو فوری طور پر دور‬
‫تعالی انہیں ساری خوشیاں اور جملہ سعادتیں عطا فرمائے۔ آمین۔ مکتبہ الشاملہ کے حصول‬‫ٰ‬ ‫کیا۔ ہللا‬
‫اور پھر ‪ Operate‬کرنے میں غازی عبدالرحمن قاسمی لیکچرار اسالمیات نے خصوصی تعاون کیا۔‬
‫میں ان کا شکر گزار ہوں۔ میں اپنے محترم دوست پروفیسر حکیم سجاداصغر ہاشمی کا بھی شکر‬
‫گزار ہوں کہ انہوں نے نہ صرف میری حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ ہر ممکن مدد بھی بہم پہنچائی۔‬
‫برادر محترم شوکت علی غوری ایڈیشنل پبلک پراسیکیوٹر جنرل کا دِل کی گہرائیوں سے سپاس‬ ‫ِ‬
‫گزار ہوں کہ انہوں نے میری بہت زیادہ رہنمائی کی اور قانونی پیچیدگیوں کے حل کرنے میں مدد‬
‫کی۔ اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے میرے لئے وسیع القلبی سے ہر لمحہ وقف کردیا اور‬
‫ہائیکورٹ کی الئبریری میں بنفس نفیس میرے ساتھ جا کر کتب نکلوائیں اور حوالہ جات تالش کرنے‬
‫میں استعانت ورہنمائی فرمائی۔ برادرم ممتاز حسن اعوان ایڈووکیٹ اور رائو گلزار احمد ایڈووکیٹ کا‬
‫بھی شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے میری بہت زیادہ معاونت کی۔ میرے مقالے کی کمپوزنگ میں‬
‫سرفراز حسین نے بڑی جانفشانی سے ہر کام بروقت مکمل کیا اور غلطی شاذ ونادر ہی نکلتی تھی۔‬
‫راقم تہہ دِل سے ان کاممنون احسان ہے۔ ہللا انہیں ہمیشہ سالمت رکھے آمین۔‬
Certificate

This is to certify that Mr. Sultan Ahmad is a regular Ph.d Scholar


registered in the Department of Islamic Studies, The Islamia
university of Bahawalpur. He has completed his thesis entitled.
’’‫‘‘کریمنل پروسیجر کوڈ کا شرعی اصولوں کی روشنی میں تحقیقی مطالعہ‬
under my supervision for the award of Ph.D degree. Mr. Sultan
Ahmad is eligible for the submission of thesis under the rules and
regulations of the department as well as of the university regarding
Ph.D. The material used by him is original and he has shown
creativeness in his work. The Thesis represents the work done by the
candidate.

Prof. Dr. Shams-ul-Basar


Supervisor Ph.D Thesis (Islamic Studies)
The Islamia University of Bahawalpur
‫حرف تقدیم‬
‫ِ‬

‫پروسیجرل الء کا تعارف‬


‫قانون اصلی ہے جسے ‪ Substantive Law‬کہتے ہیں‪،‬‬
‫ِ‬ ‫قانون کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم‬
‫قانون اصلی وہ ہے جو حقوق‬
‫ِ‬ ‫قانون ضابطہ یعنی ‪ Procedural Law‬کہتے ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫دوسری قسم جسے‬
‫وفرائض کو طے کرتا ہے۔ دوسرا شعبہ وہ ہے جو ان حقوق وفرائض کے مطابق عملدرآمد کے‬
‫راستے یا طریقے کو تجویز کرتا ہے۔ اسے ‪ Procedural Law‬کہا جاتا ہے۔‬
‫پروسیجرل کوڈ کا تعارف‪ ،‬ضرورت واہمیت‬
‫قانون اصلی پر عملدرآمد کے ضوابط کو جب مدون کیا گیا تو اس مجموعے کو پروسیجر‬ ‫ِ‬
‫قانون اصلی کو اس کی روح کے مطابق اطالق کی ضرورت ہوتی‬ ‫ِ‬ ‫گیا۔‬ ‫دیا‬ ‫نام‬ ‫کا‬ ‫ضابطہ)‬ ‫(قانون‬
‫ِ‬ ‫کوڈ‬
‫ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے اس کی روح کے مطابق ہی طریق کار بھی وضع کرنا ضروری‬
‫ہوتا ہے تاکہ قانون پر عملدرآمد سے حقوق والونکو اپنے حقوق مل سکیں یا پھر خالف ورزی کرنے‬
‫قانون اصل کے لئے جب تک ان کی‬
‫ِ‬ ‫والوں کو سزاوار ٹھہرایا جا سکے۔ ‪ Substantive Law‬یا‬
‫طریقہ کار اختیار نہ کیا جائے تو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے کیونکہ‬
‫ٔ‬ ‫روح کے مطابق‬
‫پروسیجر کا قانون کی روح کے عین مطابق ہونا نہایت ضروری ہے۔‬
‫قانون کتنا ہی مکمل اور عمدہ کیوں نہ ہو‪ ،‬مگر اس سے برا ِہ راست فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔‬
‫جب تک اس پر عمل کرنے کیلئے ایک خاص عدالتی طریق کار (‪ )Procedure‬اختیار نہ کیا جائے۔‬
‫ایسا کرنے سے نتیجہ کے طور پر قانون کے سارے تقاضے (مثالً تیز رفتاری سے اور بروقت‬
‫مظلوم کی داد رسی‪ ،‬ظالم کو سزا اور لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی وغیرہ) پورے ہو‬
‫ق‬
‫سکیں گے اور قانون پر عمل کا یہ طریق کار عدالتوں کے ذریعے اختیار کیا جاتا ہے اسی طری ِ‬
‫کار (ضابطے) کے تحت عدالت مختلف مقدمات سنتی ہے اور پھر انصاف مہیا کرتی ہے۔‬
‫موثر ہوں گے‪ ،‬عدالتی نظام بھی اتنا ہی‬
‫ق کار کے قواعد وضوابط جتنے جامع اور ٔ‬ ‫اس طری ِ‬
‫ق کار ناقص ہوگا تو عدالتی نظام بھی غیر فعال اور سست‬‫جاندار اور مستحکم ہوگا اور اگر یہ طری ِ‬
‫ہوگا‪ ،‬جس کے نتیجے میں انصاف کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہوں گی اور افراد معاشرہ‬
‫موثر اور جاندار ہونا چاہئے تاکہ انصاف کی‬
‫ق کار کو ٔ‬
‫انصاف سے محروم رہیں گے۔ لہٰ ذا اس طری ِ‬
‫جلد فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔‬
‫ق‬‫قانون اپنی جگہ اہم سہی مگر اس سے صحیح معنوں میں استفادہ کرنے کیلئے عدالتی طری ِ‬
‫ق کار میں ہوتا‬ ‫کار اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ عموما ً نقص قانون میں نہیں ہوتا بلکہ اس کے طری ِ‬
‫ہے۔ لہٰ ذا اگر اس کے نقائص دور کر دیئے جائیں تو قانون سے صحیح طور پر استفادہ ممکن ہو‬
‫سکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل حدود آرڈیننس اور تحفظ نسواں بل کے حوالے سے قومی اسمبلی میں‬
‫بھی بحث وتمحیص ہوئی۔ نیز علماء کرام پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تاکہ وہ اپنی‬
‫سفارشات مرتب کرے۔ دانشوروں‪ ،‬صحافیوں‪ ،‬ریٹائرڈ ججوں اور پولیس افسروں نے بھی اپنے اپنے‬
‫تاثرات پیش کئے۔ جن سے یہ بات واضح ہوئی کہ حدود کے نفاذ کے عمل کو جس عدالتی نظام کے‬
‫رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے وہ بجائے خود مح ِل نظر ہے اور نیچے سے اوپر تک اس کی ہر‬
‫سطح پر مشکالت اور شکایات عملی طور پر سامنے آتی ہیں۔ ان میں سے بعض کا تعلق آرڈیننس کی‬
‫بعض شقوں سے ہو سکتا ہے لیکن ان میں سے بیشتر شکایات اور مشکالت کا تعلق موجودہ عدالتی‬
‫سسٹم اور اس کے پیچ در پیچ نظام سے ہے اور یہ شکایات صرف حدود کے حوالے سے نہیں بلکہ‬
‫ملک کا ہر قانون اس عدالتی سسٹم کی پیچیدگی اور تہ در تہ الجھنوں سے متاثر ہے۔‬
‫فوجداری مقدمات میں اسالمی عدالتی طریق کار کو جزوی طور پر اپنا کر افغانستان اور‬
‫حجاز‬
‫ِ‬ ‫سعودی عرب کسی حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں سعودی عرب کے قیام سے قبل‬
‫مقدس میں چوری‪ ،‬قتل‪ ،‬ڈاکہ اور دوسرے جرائم عام تھے لیکن جب شاہ عبدالعزیز نے شرعی قوانین‬
‫موثر نظام جو اگرچہ آئیڈیل نہیں قائم کیا تو وہاں جرائم میں‬
‫نافذ کئے اور ان پر عمل درآمد کا ایک ٔ‬
‫خاطر خواہ کمی آئی اور سعودی عرب ایک روشن مثال بن گیا‪ ،‬اسی طرح افغانستان میں قبائلی‬
‫جنگوں کا خاتمہ اور پوست کی کاشتکاری پر کنٹرول کیا گیا‪ ،‬جسے دنیا نے تسلیم کیا ہے۔ اگر یہ‬
‫موثر ہونے کی‬ ‫قوانین سعودی عرب اور افغانستان میں کامیاب ہوئے ہیں تو پاکستان میں ان کے غیر ٔ‬
‫وجہ تالش کرنی پڑے گی کیونکہ ایک بیج اگر ایک زمین میں پھل دیتا ہے‪ ،‬دوسری زمین میں بھی‬
‫پھل دیتا ہے لیکن تیسری زمین میں پھل نہیں دیتا تو قصور بیج کا نہیں بلکہ یا تو زمین ناقص ہے یا‬
‫بیج ڈال کر اس میں پانی‪ ،‬کھاد وغیرہ میں کمی ہوئی ہے۔ اسالمی قانون تو شیخ سعدی کے اس قول‬
‫کا مصداق ہے۔ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫باران کہ در لطافت طبعش خالف نیست‬
‫در باغ اللہ روید و در شور بوم و خس‬
‫’’بارش کی طبعی لطافت میں کسی قسم کا اختالف نہیں جب وہ باغیچے پر برستی ہے تو‬
‫وہاں گل اللہ اُگتے ہیں اور جب شور والی زمین پر برستی ہے تو وہاں کانٹے اُگتے ہیں‘‘۔‬
‫موضوعِ تحقیق کا بنیاد ی سوال‬
‫اس پس منظر میں ہمارے موضوعِ تحقیق کا بنیادی سوال یہ تھا کہ پاکستان میں جتنے بھی‬
‫قوانین چاہے دیوانی ہوں یا فوجداری۔ ان تمام کے عملی نفاذ کیلئے ان ماہرین کی ضرورت ہے جو‬
‫ق کار (‪ )Procedure‬بھی جانتے ہوں اور ان میں جہاں جہاں‬ ‫ان کے عملی نفاذ کا صحیح طری ِ‬
‫اسالمی روح ڈالنے کی ضرورت ہو وہ بھی اِن میں ڈال سکتے ہوں۔‬
‫اسالمی قوانین ہمارے ہاں بھی بنے‪ ،‬ان کے نفاذ کا اعالن بھی ہوا‪ ،‬مگر نہ تو یہ قوانین‬
‫صحیح طور پر نافذ ہو سکے‪ ،‬نہ ہی ان سے مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکے کیونکہ ہم نے قوانین تو‬
‫اسالم کے نافذ کئے مگر عدالتی سسٹم وہی پرانا برطانوی نوآبادیاتی دور کا باقی رکھا جس کا نتیجہ‬
‫ہمارے سامنے ہے۔‬
‫حدود الز کو ہی لیجئے۔ حدود الز کا قانون اصلی (‪ )Substantive Law‬تو وہی ہے لیکن‬
‫ان کیلئے ضابطہ (‪ )Procedure‬انگریزی قانون واال اختیار کیا گیا اور یہ زحمت گوارا ہی نہ کی‬
‫گئی کہ پرانے نظام کے ناقص ہونے کا اثر حدود الز پر کتنا پڑے گا۔ نتیجتا ً لوگ اسالمی قوانین سے‬
‫بیزار دکھائی دینے لگے۔ انگریزی پروسیجر کی وجہ سے پہلے ہی مرحلے میں پولیس لوگوں سے‬
‫پوچھتی ہے کہ حدود الز کے تحت مقدمہ درج کیا جائے یا کہ عام قوانین کے تحت؟ اور یہی وہ‬
‫بنیادی صورت ہے جہاں سے پروسیجر کے غلط ہونے کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔‬
‫ضابطہ فوجداری اسالمی قانون‬‫ٔ‬ ‫کافریضہ تحقیق یہ تھا کہ مروجہ‬
‫ٔ‬ ‫مقالے کے آغاز میں راقم‬
‫ضابطہ فوجداری اور اسالمی ضابطہ فوجداری‬ ‫ٔ‬ ‫کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟ اور موجودہ‬
‫کے بنیادی تصورات میں فرق ہے یا افراد کار اور طریق کار کا فرق ہے؟ بحث کے دوران یہ نتیجہ‬
‫ضابطہ فوجداری سے نہ تو مکمل مطابقت رکھتا ہے‬ ‫ٔ‬ ‫نکال ہے کہ مروجہ ضابطہ فوجداری اسالمی‬
‫نہ ہی کلیتہً خالف ہے بلکہ چند دفعات پر توجہ دی جائے تو اسے اسالمی تعلیمات کے مطابق بنایا‬
‫ضابطہ فوجداری کے بنیادی تصورات میں‬ ‫ٔ‬ ‫ضابطہ فوجداری اور اسالمی‬
‫ٔ‬ ‫جا سکتا ہے اور مروجہ‬
‫فرق برائے نام ہے۔ اصل فرق طریق کار اور افرادکار میں ہے۔لہٰ ذا طریق کار اور افرا ِد کار میں‬
‫تبدیلی کرکے موجودہ ضابطے کی موجودگی میں اسالمی قوانین سے مستفید ہوا جا سکتا ہے۔‬
‫موضوع کی ضرورت واہمیت‬
‫موضوع کی ہمہ گیریت اور اہمیت اس قدر ہے کہ اگر صحیح معنوں میں تحقیق ہو تو اس پر‬
‫کام کرنے سے نہ صرف مسلمانوں کو فائدہ ہوگا بلکہ غیر مسلم بھی اس سے مستفید ہو سکیں گے‬
‫کیونکہ اسالم صرف مسلمانوں کا دین نہیں بلکہ پوری انسانیت کا دین ہے۔‬
‫موجودہ دور میں موضوع کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے ۔ آج کل ہمارے ہاں مقدمات کا‬
‫بوجھ بہت زیادہ ہے‪ ،‬عدالتی پروسیجر میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں‪ ،‬جن کی وجہ سے انصاف کا‬
‫حصول نہایت مشکل ہے‪ ،‬عوام پریشان مارے مارے پھرتے ہیں‪ ،‬زائد بوجھ اور التعداد مسائل سے‬
‫عدالتوں کی استعدا ِد کار پر منفی اثر پڑتا ہے‪ ،‬حکومت کا تنخواہوں اور مراعات میں‪ ،‬عوام کا‬
‫وکیلوں کو بھاری فیسیں‪ ،‬منشیوں اور عدالتی اہلکاروں کو رشوت دینے میں بے شمار پیسہ ضائع‬
‫ہوتا ہے‪ ،‬قیمتی وقت مسلسل پیشیوں اور عدالت کے چکروں میں ضائع ہو جاتا ہے۔ اس سے نہ‬
‫صرف عوام بلکہ عدالتی عملہ بھی پریشان ہے‪ ،‬لہٰ ذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اسالمی عدالتی‬
‫موثر انداز میں پیش کیا جائے تاکہ ججز‪ ،‬وکالء‪ ،‬سکالرز اور دیگر متعلقہ‬‫طریقہ کار کو واضح اور ٔ‬
‫ٔ‬
‫افراد اس سے واقفیت حاصل کر سکیں اور جس سے استفادہ کا شوق ان میں پیدا ہو اور اس نظام‬
‫کے عملی نفاذ کی راہ ہموار ہوسکے‪ ،‬یہ پروسیجر انسانوں کے دکھوں کا مداوا‪ ،‬مسائل کا حل اور‬
‫وقت کی ضرورت ہے۔ جگہ جگہ مختصرا ً اس موضوع پر لکھا بھی گیا ہے لیکن کوئی اہم کام مقالہ‬
‫نگار کی نظر سے نہیں گزرا۔ یہ تحقیقی کام یقینا اس سلسلے میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہال‬
‫کام ہے۔ جس سے اس کی ضرورت و اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔‬
‫اہداف تحقیق‬
‫ِ‬
‫اس موضوع پر تحقیق کے سلسلے میں راقم نے درجِ ذیل اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے‪:‬‬
‫قرآن وسنت کے عالوہ کتب تفسیر‪ ،‬کتب سیرت‪ ،‬کتب فقہ‪ ،‬کتب اصول فقہ‪ ،‬اسالمی عدالتی‬ ‫(‪i‬‬
‫نظائر (‪ ،)Precedents‬کتب لغت‪ ،‬کتب تاریخ‪ ،‬کتب اسماء الرجال‪ ،‬مجالت و مضامین اور رپورٹس‬
‫وغیرہ سے ایسے احوال و واقعات کو تالش کیا گیا ہے جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کر‬
‫سکتے ہیں۔‬
‫اس موضوع سے متعلق لکھی گئی کتب کا مطالعہ کرکے ان کے فراہم کردہ اصولوں کا‬ ‫(‪ii‬‬
‫جدید حاالت کے تناظر میں ازسرنو جائزہ لیا گیا ہے۔‬
‫فقہاء کی روشنی میں ہمیں فوجداری مقدمات کا جو‬
‫ؒ‬ ‫صحابہ و اقوا ِل‬
‫ؓ‬ ‫(‪ iii‬قرآن وسنت‪ ،‬تعامل‬
‫ضابطہ فوجداری سے تقابل کرکے اسے بیان کیا گیا ہے تاکہ‬
‫ٔ‬ ‫طریقہ کار مال ہے۔ مروجہ‬
‫ٔ‬ ‫عدالتی‬
‫واضح ہو سکے کہ صحیح اسالمی عدالتی طریقہ کار کیا ہے۔‬
‫مقاص ِد تحقیق‬
‫اس موضوع پر تحقیق سے مندرجہ ذیل مقاصد پیش نظر ہیں‪:‬‬
‫مروجہ عدالتی نظام کی اصالح۔‬ ‫(‪1‬‬
‫حقوق کو زندہ کرنا‪ ،‬لوگوں کو حقوق دالنے اور حقوق وانصاف کو ان کی دہلیز تک پہنچانا۔‬ ‫(‪2‬‬
‫غلط پروسیجر سے اسالمی قوانین پر عمل نہیں ہو رہا۔ اب کونسا پروسیجر اختیار کیا جائے‬ ‫(‪3‬‬
‫تاکہ اسالمی قوانین پر عمل ہو سکے اور ان سے صحیح استفادہ ممکن ہو سکے۔‬
‫مروجہ حدود الز کے غلط نفاذ سے عام لوگوں کے اذہان پر غلط اثر پڑا ہے‪ ،‬اس کی‬ ‫(‪4‬‬
‫اصالح رسول اکرم ﷺ کے اس ارشاد کے اثرات مینتالش کرنا۔ جس مینفرمایا ہے‪:‬‬
‫عمر ان رسول اہللا ﷺ قال‪ :‬اقامۃ حد من حدود اہللا خیر من مطر اربعین لیلۃ فی بالد‬
‫عن ابن ؓ‬
‫اہللا عزوجل‬
‫عمر سے روایت ہے کہ رسول ہللا ؓﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حدود ہللا میں سے‬
‫’’عبدہللا بن ؓ‬
‫تعالی کے شہروں میں چالیس راتوں کی بارش سے بہتر ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)‬‫ٰ‬ ‫کسی حد کو قائم کرنا ہللا‬
‫مواد کی فراہمی‬
‫موضوع پر تحقیق کے سلسلے میں تمام فقہی کتب کے ذخیرے کو پیش نظر رکھاگیا ہے‪،‬‬
‫خاص طور پر ادب القاضی کے ابواب کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ متقدمین میں حنفی فقہاء کرام میں‬
‫سے قاضی شریح کی آراء وفیصلے‪ ،‬قاضی ابویوسف‪ ،‬امام محمد‪ ،‬امام ابوبکر الخصاف‪ ،‬عمر بن‬
‫عبدالعزیز ابن مازہ بخاری‪ ،‬امام وکیع‪ ،‬علی بن خلیل طرابلسی‪ ،‬محمد بن شحنہ‪ ،‬مالکی فقہاء میں سے‬
‫شہاب الدین ادریس قرافی‪ ،‬ابراہیم بن علی بن فرحون‪ ،‬ابن رشد‪ ،‬شافعی فقہاء میں سے امام الحرمین‪،‬‬
‫امام شیرازی‪ ،‬علی الماوردی‪ ،‬جالل الدین سیوطی‪ ،‬غزالی‪ ،‬حنبلی فقہاء میں سے ابن قدامہ‪ ،‬ابن تیمیہ‪،‬‬
‫قاضی شوکانی اور ابن قیم جوزی کی تصانیف پیش نظر رہیں اور ان سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ان کے‬
‫عالوہ فقہ اسالمی کی متد اول کتب وشروح سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔‬
‫جدید کتب میں سے سر عبدالرحیم‪ ،‬ڈاکٹر حمید ہللا‪ ،‬مجاہد االسالم قاسمی‪ ،‬صبحی محمصانی‪،‬‬
‫ڈاکٹر وھبہ زحیلی‪ ،‬محمد متین ہاشمی‪ ،‬جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن‪ ،‬استاد مصطفی زرقاء‪ ،‬عبدالقادر‬
‫عودہ شہیدؒ‪ ،‬ڈاکٹر عبدالعزیز عامر‪ ،‬ڈاکٹر محمود احمدغازی ودیگر سکالرز کی کتب سے استفادہ کیا‬
‫گیا ہے۔‬
‫اس کے عالوہ اسالمیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کی سنٹرل الئبریری‪ ،‬سیرت چیئر کی‬
‫الئبریری‪ ،‬مرکزی الئبریری بہاولپور‪ ،‬انٹرنیشنل اسالمک یونیورسٹی اسالم آباد کی الئبریری‪ ،‬شریعہ‬
‫اکیڈمی اسالم آباد کی الئبریری‪ ،‬ڈاکٹر حمید ہللا الئبریری اسالم آباد‪ ،‬اسالمی نظریاتی کونسل اسالم‬
‫آباد کی الئبریری اور رپورٹس‪ ،‬جامعہ پنجاب کی مرکزی الئبریری‪ ،‬جناح پبلک الئبریری الہور‪،‬‬
‫بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی الئبریری‪ ،‬شیخ زائد اسالمک سنٹر الہور کی الئبریری سردار‬
‫پور‪ ،‬جھنڈیر الئبریری میلسی اور دیگر الئبریریوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔‬
‫ب تحقیق‬
‫اسلو ِ‬
‫انداز تحقیق بیانیہ ہے۔ جس کیلئے‪:‬‬
‫ِ‬ ‫اس مقالے میں میرا‬
‫موضوع کے متعلق مطبوعہ و غیر مطبوعہ مواد سے استفادہ کیا گیا ہے۔‬ ‫(‪i‬‬
‫دور جدید کی سہولیات (مثالً انٹرنیٹ) اور آڈیو ویڈیو مواد سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔‬
‫ِ‬ ‫(‪ii‬‬
‫قانون اسالمی اور اینگلو سیکسن قانون کے ماہرین سے بذریعہ سوال و‬
‫ِ‬ ‫(‪ iii‬اہل علم‪ ،‬ماہرین‬
‫جواب بالمشافہ مالقات یا بذریعہ خط وکتابت استفادہ کیا گیا ہے۔‬

‫مقالے کو میں نے پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہال باب دفعہ نمبر ‪ 1‬تا ‪ 100‬پر مشتمل ہے۔‬
‫دوسرا باب دفعہ نمبر ‪ 101‬تا ‪ 200‬پر محیط ہے۔ تیسرے باب میں دفعہ نمبر ‪ 201‬تا ‪ 400‬شامل ہیں‬
‫کیونکہ دفعہ نمبر ‪ 206‬تا ‪ 220‬اور ‪ 266‬تا ‪ )85( 366‬دفعات حذف شدہ ہیں‪ ،‬لہٰ ذا یہ باب ‪ 115‬دفعات‬
‫پر مشتمل ہے۔ چوتھا باب دفعہ نمبر ‪ 401‬تا ‪ 475‬پر محیط ہے کیونکہ دفعہ نمبر ‪ 476‬سے نیا باب‬
‫نمبر ‪ 35‬شروع ہوتا ہے اور ہر باب کے مضامین و عنوانات علیحدہ ہیں اور دفعات پر بحث بھی نیا‬
‫پہلو اختیار کر لیتی ہے‪ ،‬لہٰ ذا یکسانیت مواد کو مدنظر رکھتے ہوئے باب کو ‪ 75‬دفعات تک مکمل کیا‬
‫ہے۔ پانچواں اور آخری باب دفعہ نمبر ‪ 476‬تا ‪ 565‬پر محیط ہے۔ اس طرح ممکنہ حد تک ابواب کو‬
‫متوازن رکھنے کی سعی کی ہے تاکہ مقالے کے حجم کا توازن و تناسب اور حسن برقرار رہے۔‬
‫خالصہ بحث‬
‫ٔ‬
‫کتابیات‬
‫باب نمبر ‪1‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ 1‬تا ‪100‬‬


‫مجموعہ ضابطہ فوجداری‬
‫(‪)V of 1898‬‬

‫قانون متعلقہ ضابطہ فوجداری کے اجتماع و ترمیم کیلئے قانون‬

‫قرین مصلحت ہے کہ قانون متعلقہ ضابطہ فوجداری کی ترمیم وتدوین کی جائے۔ یہ مندرجہ‬
‫ِ‬ ‫ہرگاہ یہ‬
‫ذیل طریقہ سے وضع کیا جاتا ہے۔‬

‫حصہ نمبر ‪1‬‬


‫ابتدائیہ‬
‫(باب نمبر ‪)1‬‬
‫دفعہ نمبر ‪ :1‬مختصر نام اور آغاز‬

‫قانون ہذا کو مجموعہ ضابطہ فوجداری بابت ‪1898‬ء کہا جائے گا اور یہ حکم‬ ‫(‪1‬‬
‫جوالئی ‪1898‬ء سے نافذ العمل ہوگا۔‬
‫وسعت‪ :‬یہ قانون سارے پاکستان پر وسعت پذیر ہوگا لیکن کسی مخصوص برعکس‬ ‫(‪2‬‬
‫حکم کی عدم موجودگی میں‪ ،‬اس میں درج کوئی امر نافذ الوقت کسی خاص یا مقامی قانون یا کسی‬
‫خاص اختیار سماعت یا تفویض کردہ اختیار یا کسی ایسے ضابطہ کی خاص صورت پر جو کسی‬
‫دیگر قانون نافذ الوقت سے مقرر کیا گیا ہو‪ ،‬اثر انداز نہ ہوگا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :2‬دفعہ ہذا کو ایکٹ ‪ X‬بابت ‪1914‬ء نے منسوخ کیا۔‬

‫ضابطہ فوجداری ودیگر وضع کردہ منسوخ قوانین کے حوالہ‬


‫ٔ‬ ‫دفعہ نمبر ‪ :3‬مجموعہ‬
‫جات‬

‫ہر وضع کردہ قانون میں جو مجموعہ ہذا کے نفاذ سے قبل منظور ہوا ہو‪ ،‬جس میں‬ ‫(‪1‬‬
‫مجموعہ ضابطہ فوجداری بابت قانون نمبر ‪1861 ،XXV‬ء یا ‪1872‬ء کے قانون نمبر ‪ X‬یا ‪1882‬ء‬
‫کے قانون نمبر ‪ X‬یا کسی ایسے دیگر قانون کا حوالہ دیا گیا ہو جو بذریعہ ہذا منسوخ ہوئے تو جہاں‬
‫مجموعہ ہذا کو یا اس سے متعلقہ باب یا دفعہ کو کیا جانا تصور ہوگا۔‬
‫ٔ‬ ‫تک ممکن العمل ہو‪ ،‬ایسا حوالہ‬
‫سابق قوانین کی عبارت‪ :‬ہر وضع کردہ قانون جو مجموعہ ہذا کے نافذ کرنے‬ ‫(‪2‬‬
‫سے قبل صادر ہوا ہو‪ ،‬میں عبارات ’’عہدہ دار جو مجسٹریٹی اختیارات زیر کار ال رہا ہو‪ ،‬یا‬
‫اختیارات یا کامل اختیارات کا حامل ہو‘‘‪ ،‬مجسٹریٹ درجہ اول اور مجسٹریٹ ماتحت درجہ دوم سے‬
‫بالترتیب مجسٹریٹ درجہ اول‪ ،‬مجسٹریٹ درجہ دوم اور مجسٹریٹ درجہ سوم مراد لئے جائیں گے۔‬
‫]ضلع کی ڈویژن کے مجسٹریٹ کو سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور ضلع میں متعین مجسٹریٹ کو‬
‫ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کیا جائیگا[۔ ’’جوائنٹ سیشن جج‘‘ کو ’’ایڈیشنل سیشن جج‘‘ کہا جائیگا۔‬
‫]یہ الفاظ بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء مورخہ ‪ 2011-8-13‬حذف ہوئے[۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مندرجہ باال دفعات ‪ 1‬اور ‪ 3‬میں کوئی ایسی عبارت یا فقرہ یا الفاظ نہیں ہیں‪ ،‬جو وضاحت‬
‫طلب ہوں اور نہ ہی ان میں اسالمی اصولوں کے خالف کوئی چیز معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ان پر‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :4‬تعریفات‬

‫مجموعہ ہذا میں درج ذیل الفاظ و اصطالحات سے مندرجہ ذیل معانی مراد لئے جائیں گے‪ ،‬بجز اس‬
‫ٔ‬
‫ق عبارت سے اس کے خالف مراد پائی جائے۔‬ ‫کے کہ مضمون یا سیا ِ‬
‫ایڈووکیٹ جنرل‪ :‬ایڈووکیٹ جنرل میں سرکاری وکیل شامل ہوتا ہے یا جہاں کوئی‬ ‫(‪a‬‬
‫ایڈووکیٹ جنرل یا سرکاری وکیل نہ ہو‪ ،‬تو ایسا عہدے دار مراد ہے جو کہ اس بارے میں صوبائی‬
‫حکومت سے وقتا ً فوقتا ً مقرر کیا جائے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬لغوی طور پر وکیل ’’وکل‘‘ سے بنا ہے‪ ،‬ابن منظور کہتے ہیں‪ :‬وکل کا معنی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫استسلم علیہ ہے۔ یعنی معاملہ کا تصرف کسی دوسرے کے سپرد کرنا۔ مثالً کہا جاتا ہے‪ :‬قد او کلت‬
‫علی اخیک العمل یعنی یہ کام میں نے تیرے بھائی کے سپرد کیا۔ اس کا ایک معنی ’’کفیل‘‘ یعنی‬
‫ضامن بھی ہے۔ (‪)1‬‬
‫اصطالح میں لفظ ’’توکل‘‘ وکالت سے مشتق ہے‪ ،‬جس کے معنی دوسرے پر اعماد کرکے‬
‫کام سپرد کرنے کے ہیں‪ ،‬جسے کام سپرد کرتے ہیں‪ ،‬اسے وکیل کہتے ہیں۔ کام سپرد کرے والے کو‬
‫موکل کہتے ہیں‪ ،‬بشرطیکہ اسے وکیل پر اطمینان نفس اور اعتماد ہو اور اسے عاجز نہ سمجھتا ہو۔‬
‫گویا توکل میں وکیل پر قلبی اعتماد ضروری ہے۔ (‪)2‬‬
‫کاسانی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫وھو تفویض التصرف والحفظ الی الوکیل (‪)3‬‬
‫’’وکیل کو اختیار اور حفاظت سپرد کردینا وکالت کہالتا ہے‘‘۔‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ وکیل ایسا شخص ہوتا ہے‪ ،‬جسے کوئی شخص اعتماد‬
‫کی بناء پر اپنے کسی معاملے کا مختار بناتا ہے تاکہ اس شخص کی طرف سے وکیل اس معاملے‬
‫کو سرانجام دے سکے۔‬
‫قرآن مجید میں لفظ وکیل کا استعمال‪’’ :‬وکیل‘ کا لفظ قرآن مجید میں بھی متعدد آیات میں وارد ہوا‬
‫ہے۔ مثالً‪:‬‬
‫ْئ َو ِکی ٌل (‪)4‬‬ ‫علَی ُک ِِّل َ‬
‫شی ٍ‬ ‫َو ُھ َو َ‬
‫تعالی) ہر چیز پر نگہبان ہے‘‘۔‬
‫ٰ‬ ‫’’اور وہ (ہللا‬
‫علَ ْی ِھم ِب َو ِکی ٍل (‪)5‬‬
‫َو َما أَنتَ َ‬
‫’’اور آپ (ﷺ) ان پر مسلط نہیں ہیں‘‘۔‬
‫اّللِ َو ِکیالً(‪)6‬‬
‫ض ط َو َکفَی بِ ِّ‬ ‫س ْب َحانَہُ أَن یَ ُکونَ لَہُ َولَدٌ ط لَّہُ َما فِی ال َّ‬
‫س َم َاوات َو َما فِی اال َْٔر ِ‬ ‫ُ‬
‫تعالی) اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو‪ ،‬جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫’’وہ (ہللا‬
‫تعالی) کافی گواہ ہے‘‘۔‬ ‫ٰ‬ ‫سب اسی کا ہے اور وہ (ہللا‬
‫علَ ْی ِہ َو ِک ً‬
‫یال (‪)7‬‬ ‫ا ََٔرأَیْتَ َم ِن ات َّ َخذَ إِلَ َھہُ ھ ََواہُ أَفَأَنتَ ت َ ُک ُ‬
‫ون َ‬
‫’’کیا آپ نے دیکھا اس (احمق) کو‪ ،‬جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنایا‪ ،‬کیا آپ ﷺ اس کے‬
‫محافظ ہیں‘‘۔‬
‫ث ُ َّم الَ ت َِجدُواْ لَ ُک ْم َو ِکیالً (‪)8‬‬
‫’’پھر تم اس وقت کوئی بچانے واال نہ پائو گے‘‘۔‬
‫مندرجہ باال آیات میں لفظ ’’وکیل‘‘ بمعنی نگہبان‪ ،‬مسلط‪ ،‬گواہ‪ ،‬محافظ اور بچانے واال‬
‫استعمال ہوا ہے۔ اس کے عالوہ بھی قرآن مجید میں یہ لفظ کئی دیگر معنوں میں استعمال ہوا ہے جو‬
‫اس کے کثیر المعنی ہونے کی دلیل ہے۔ نیز قرآن مجید سے ہمیں وکالت کے جواز کا ثبوت بھی ملتا‬
‫ہے۔‬
‫حدیث میں لفظ وکیل‪ :‬متعدد احادیث مبارکہ میں بھی ہمیں وکالت کا تصور ملتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ‬
‫ارشاد فرماتے ہیں۔‬
‫اللھم اسلمت وبک امنت وعلیک توکلت والیک انبت (‪)9‬‬
‫تعالی! میں نے تیری فرمانبرداری کی‪ ،‬تجھ پر ایمان الیا اور اپنا کام تجھے سونپا‬
‫ٰ‬ ‫’’اے ہللا‬
‫اور تیری ہی طرف رجوع کیا‘‘۔‬
‫عینی ؒ لکھتے ہیں کہ ’’توکلت‘‘ کا معنی ہے‪:‬‬
‫فوضت امری الیک (‪)10‬‬
‫’’میں نے اپنا معاملہ تجھے سونپا‘‘۔‬
‫حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫فان اہللا توکل لی بالشام واھلہ (‪)11‬‬
‫تعالی نے ملک شام اور اہل شام کو میری ذمہ داری میں کردیا ہے‘‘۔‬
‫ٰ‬ ‫’’بے شک ہللا‬
‫حضور اکرم ﷺ نے حضرت جابر ؓ کو خیبر بھیجا تو انہیں فرمایا‪:‬‬
‫اذا تیت وکیلی فخز منہ خمسۃ عشر وسقا (‪)12‬‬
‫’’جب میرے وکیل کے پاس پہنچو تو اس سے پندرہ وسق کھجوریں لے لینا‘‘۔‬
‫مندرجہ باال احادیث مبارکہ میں بھی وکیل کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جو اپنی مشروعیت پر‬
‫داللت کرتا ہے۔ قرآن وحدیث سے ایک تو وکالت کی شرعی حیثیت کا ثبوت ملتا ہے۔ دوسرے اس‬
‫لفظ کے کثیر المعنی ہونے سے اس کی اہمیت و افادیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ لہٰ ذا ثابت ہوا کہ مذکورہ‬
‫ضابطہ فوجداری میں جو وکیل اور وکالت کا تصور ہے‪ ،‬وہ نامکمل ہے۔ اس کے مقابلے میں قرآن‬
‫وحدیث اور فقہاء نے وکالت کا جامع اور مکمل تصور دیا ہے۔‬
‫’’جرم قاب ِل ضمانت‘‘‪’’ ،‬جرم ناقاب ِل ضمانت‘‘‪ :‬الفاظ ’’جرم قابل ضمانت‘‘ سے ایسا‬ ‫(‪b‬‬
‫جرم مراد ہے‪ ،‬جو ضمیمہ دوم میں قابل ضمانت قرار دیا گیا ہے۔ یا کسی اور نافذ الوقت قانون کی‬
‫رو سے قابل ضمانت قرار دیا گیا ہے اور الفاظ ’’جرم ناقابل ضمانت‘‘ سے اول الذکر جرائم کے‬
‫عالوہ دوسرے جرائم مراد ہیں۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬شریعت اسالمیہ میں ضمانت کیلئے کفالت کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے اور‬‫اسالمی ٔ‬
‫کفالت کے مختلف نام ہیں‪ :‬کفالہ‪ ،‬زعامہ‪ ،‬غرامہ‪ ،‬ضمان اور قبالہ (‪ )13‬نیز اس کیلئے حمالہ کا لفظ‬
‫بھی استعمال ہوتا ہے۔ (‪)14‬‬
‫لغت میں کفالہ کا معنی ہے‪:‬‬
‫الکفالۃ ھی الضم لغۃ ثم قیل ھی ضم الذمۃ الی الذمۃ فی المطالبہ (‪)15‬‬
‫’’لغت میں کفالت کے معنی مالنے کے ہیں‪ ،‬یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطالبہ میں ذمہ کو ذمہ‬
‫سے مالنا کفالت ہے‘‘۔‬
‫زبیدی کے نزدیک‪:‬‬
‫والزعیم الکفیل والزعامۃ الکفالۃ وانا زعیم ای الکفیل (‪)16‬‬
‫’’اور زعیم کفیل ہوتا ہے اور زعامہ کفالت کو کہتے ہیں اور میں زعیم ہوں یعنی کفیل‬
‫ہوں‘‘۔‬
‫فرہنگِ آصفیہ میں ہے‪:‬‬
‫مونث ہے‪ ،‬بمعنی ضامنی‪ ،‬ذمہ داری‪ ،‬کفالت‪ ،‬آڑ۔ (‪)A-16‬‬
‫ضمانت عربی میں اسم ٔ‬
‫اصطالح شرع میں کفالت کے معنی یہ ہیں ایک شخص اپنے ذمہ کو دوسرے کے ذمہ کے‬
‫ساتھ مطالبہ میں ضم کردے۔ یعنی مطالبہ ایک شخص کے ذمہ تھا‪ ،‬لیکن دوسرے شخص نے بھی‬
‫مطالبہ اپنے ذمہ لے لیا۔ وہ مطالبہ خواہ نفس کا ہو یا دین کا یا عین کا۔ (‪)17‬‬
‫لہٰ ذا ضم ذمتہ الی ذمہ کے معنی ادائے حق کی ذمہ داری میں ایک شخص کو دوسرے‬
‫شخص کے ساتھ شامل کردینے کے ہیں‘‘۔ (‪)18‬‬
‫تصور ضمانت ازروئے قرآن مجید‪ :‬ضمانت وکفالت کا تصور ہمیں قرآن مجید میں بھی ملتا ہے۔‬
‫ارشاد باری ہے‪:‬‬
‫َو َکفَّلَ َھا زَ ک َِریَّا (‪)19‬‬
‫’’زکریا ؒ نے مریم ؑ کو اپنے ساتھ مال لیا(ذمہ لے لیا)‘‘۔‬
‫دوسری جگہ ارشاد ہے‪:‬‬
‫یر َوأَنَا ْ بِ ِہ زَ ِعی ٌم (‪)20‬‬ ‫ع ْال َم ِل ِ‬
‫ک َو ِل َمن َجاء بِ ِہ ِح ْم ُل بَ ِع ٍ‬ ‫قَالُواْ نَ ْف ِقدُ ُ‬
‫ص َوا َ‬
‫’’(مصری کارندے) بولے کہ بادشاہ کا پیمانہ گم ہے‪ ،‬جو اسے الئیگا اس کیلئے ایک اونٹ‬
‫کا بوجھ (انعام ہے) اور میں اس کا ضامن ہوں‘‘۔‬
‫ایک اور آیت ہے‪:‬‬
‫ک ْم َک ِفیالً (‪)21‬‬
‫علَ ْی ُ‬ ‫ضواْ االَٔ ْی َمانَ بَ ْعدَ ت َْو ِکی ِدھَا َوقَ ْد َج َع ْلت ُ ُم ِّ‬
‫ّللاَ َ‬ ‫َوالَ ت َنقُ ُ‬
‫’’اور قسموں کو مضبوط کرنے کے بعد نہ توڑو اور تم ہللا کو اپنے اوپر ضامن بنا چکے‬
‫ہو‘‘۔‬
‫مندرجہ باال آیات کریمہ میں ضامن کیلئے کفیل اور زعیم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں‪ ،‬جن سے‬
‫ضمانت و کفالت کے جواز کا ثبوت ملتا ہے‪ ،‬لہٰ ذا کسی کی ضمانت دینا یا کسی کا کفیل یا ضامن بننا‬
‫قرآن مجید سے ثابت ہے‘‘۔‬
‫تصور ضمانت ازروئے حدیث‪ :‬احادیث مبارکہ میں بھی ضمانت و کفالت کا تصور ملتا ہے۔ حضور‬
‫اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫الزعیم غارم (‪ )22‬ای الکفیل ضامن (‪)23‬‬
‫زیلعی کہتے ہیں کہ حدیث الزعیم غارم کفالہ نفسی اور کفالہ بالمال کے درمیان فرق نہیں‬
‫ؒ‬
‫کرتی اور ان دونوں کی مشروعیت کا تقاضا کرتی ہے۔ (‪)24‬‬
‫حضرت حمزہ بن عمرو رضی ہللا عنہ کہتے ہیں کہ ‪:‬‬ ‫(‪1‬‬
‫اخری‪ :‬اخذ من متھم کفیال تثبتا و احتیاط (‪)25‬‬
‫ٰ‬ ‫ان النبی ﷺ حبس رجال فی تھمۃ و قال مرۃ‬
‫’’نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو تہمت میں قید کیا تھا اور ایک روایت میں بیان کیا کہ آپ ﷺ‬
‫نے متہمم سے بطور احتیاط ضامن لیا‘‘۔‬
‫اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حضور ﷺ نے تہمت زدہ شخص سے احتیاط کے طور پر‬
‫ضامن لیا۔‬
‫عمر‬
‫علی اور حضرت ؓ‬
‫علی کی ضمانت دی جبکہ حضرت ؓ‬
‫حضرت ام کلثوم ؓ نے حضرت ؓ‬ ‫(‪2‬‬
‫کے درمیان جھگڑا ہوا‪:‬‬
‫وضمنت ام کلثوم بنفس علی حین جری بینہ وبین عمر رضی اہللا عنھما خصومہ (‪)26‬‬
‫مندرجہ باال روایت سے بھی کفالہ بالنفس کا ثبوت ملتا ہے۔‬
‫ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت حمزہ بن عمرو رضی ہللا عنہ کہتے ہیں کہ انہیں‬
‫فاروق نے صدقات وصول کرنے واال بنا کر بھیجا۔ وہاں ایک شخص اپنی بیوی کی‬ ‫ؓ‬ ‫حضرت عمر‬
‫حمزہ نے اس شخص سے اس کی جان کے ضامن‬ ‫ؓ‬ ‫باندی سے مباشرت کر بیٹھا‪ ،‬جس پر حضرت‬
‫آپ‬ ‫ؓ‬
‫فاروق کے پاس پہنچ گئے (اور مقدمہ پہلے ہی ؓ‬ ‫(کفالہ بالنفس) لئے‪ ،‬یہاں تک کہ وہ حضرت عمر‬
‫آپ نے اس شخص کو سو کوڑے لگوا دیئے تھے کیونکہ اس شخص نے‬ ‫کے پاس آچکا تھا)‪ ،‬لہٰ ذا ؓ‬
‫اپنے اوپر الزام کی تصدیق کردی تھی‪ ،‬اور (فعل کی حرمت) سے العلمی کا اظہار کیا تھا۔ (‪)27‬‬
‫اس حدیث مبارکہ سے کسی کی جان کی ضمانت لینے کی صحت ثابت ہوتی ہے کہ حضرت‬
‫کرام‬
‫ؓ‬ ‫عمرو صحابی ہیں۔ انہوں نے اس شخص سے اس کی جان کا ضامن لیا اور صحابہ‬ ‫ؓ‬ ‫حمزہ بن‬
‫نے اس واقعہ پر ضمانت کے معاملہ میں کوئی نکیر نہیں کی۔ یہی جمہور کا قول ہے۔ صاحب ھدایہ‬
‫شافعی کا کفالت بالنفس‬
‫ؒ‬ ‫شافعی سے اختالف نقل کیا ہے مگر شوافع سے امام‬
‫ؒ‬ ‫نے اس بارے میں امام‬
‫کے خالف کوئی قول منقول نہیں ہے‘‘۔ (‪)28‬‬
‫اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ حارثہ کہتے ہیں میں نے صبح کی نماز حضرت عبدہللا‬ ‫(‪4‬‬
‫بن مسعودؓ کے ساتھ پڑھی‪ ،‬پھر حارثہ نے ابن نواحہ اور اس کے ساتھیوں کے ارتداد اور مسیلمہ‬
‫کے رسول ہونے کی گواہی دینے کا قصہ ذکر کیا اور کہا کہ ابن مسعودؓ نے ابن نواحہ کے قتل کا‬
‫حکم دیا۔ پھر لوگوں نے ان مرتدین کی جماعت کے بارے میں مشورہ کیا تو جریر اور اشعث نے‬
‫مرتدین کے بارے میں عبدہللا بن مسعودؓ سے کہا‪:‬‬
‫استتبھم وکفلھم عشائرھم‪ ،‬فاستتابھم فتابوا فکفلھم عشائرھم (‪)29‬‬
‫آپ نے انہیں توبہ کا‬
‫’’ان سے توبہ کرائیں اور ان کے خاندان والوں سے ضامن لیں‪ ،‬پس ؓ‬
‫آپ نے ان کے خاندان والوں سے ضامن لئے‘‘۔‬
‫کہا تو انہوں نے توبہ کرلی اور پھر ؓ‬
‫کرام سے کفالت بالنفس کا ثبوت ملتا ہے۔ وہ کہتے ہیں‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫زیلعی کہتے ہیں کہ تعامل صحابہ‬
‫ؒ‬ ‫(‪5‬‬
‫وعن الصحابۃ رضی اہللا عنہم أنھم اجازوا الکفالۃ بالنفس (‪)30‬‬
‫کرام سے ثابت ہے کہ وہ کفالہ بالنفس کو جائز قرار دیتے تھے‘‘۔‬
‫ؓ‬ ‫’’صحابہ‬
‫شریح کے پاس‬
‫ؒ‬ ‫شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے حبیب بن سلیم سے سنا جو کہ قاضی‬
‫ؒ‬ ‫سلیمان‬ ‫(‪6‬‬
‫مقدمات پیش کیا کرتے تھے‪ ،‬انہوں نے کہا کہ ایک آدمی کا دوسرے پر قرض تھا‪ ،‬اس میں قاضی‬
‫شریح کے سامنے اس کے بیٹے کا‬
‫ؒ‬ ‫شریح ؒ کا بیٹا ضامن بن گیا‪ ،‬لہٰ ذا جب قرض خواہ نے قاضی‬
‫شریح نے بیٹے کو قید کردیا‪ ،‬جب رات ہوئی تو‬
‫ؒ‬ ‫معاملہ پیش کیا تو قاضی‬
‫قال‪ :‬اذھب الی عبداہللا بفراش وطعام وکان ابنۃ یسمی عبداہللا (‪)31‬‬
‫’’عبدہللا کے پاس بستر اور کھانا لے جائو اور ان کے بیٹے کا نام عبدہللا تھا‘‘۔‬
‫اس روایت سے بھی کفالت نفسی کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ مندرجہ باال جملہ احادیث وآثار نفسی‬
‫ؒ‬
‫تابعین نے بھی اس پر‬ ‫کرام اور‬
‫ؓ‬ ‫کفالت کے جواز کی دلیل ہیں۔ خود حضور اکرم ﷺ اور پھر صحابہ‬
‫ت مختلف مقدمات میں شخصی ضمانت کو نہ صرف جائز سمجھا ہے‬ ‫عمل کیا ہے اور بوقت ضرور ِ‬
‫بلکہ اسے قبول بھی کیا ہے۔‬
‫پس کفالہ بالنفس جائز ہے اور اس سے جس چیز کی کفالت ہوتی ہے وہ مکفول بہ (جس کی‬
‫شافعی کے نزدیک کفالہ بالنفس جائز نہیں ہے کیونکہ ضامن‬
‫ؒ‬ ‫ضمانت دی جائے) کو حاضر کرنا ہے۔‬
‫ایسی چیز کا کفیل ہوا‪ ،‬جسے سپرد کرنے پر وہ قادر نہیں ہے‪ ،‬برخالف کفالہ بالمال کے‪ ،‬کیونکہ‬
‫کفیل کو اپنے مال پر والیت حاصل ہے اور ہماری دلیل یہ حدیث ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫’’الزعیم غارم‘‘ کفیل ضامن ہے اور یہ حدیث دونوں قسم کی کفالت کو مشروع قرار دیتی ہے۔ اس‬
‫لئے کہ کفیل اسے سپرد کرنے پر اس طرح قادر ہے کہ کفیل مکفول لہ کو اس کا ٹھکانہ بتا دے یا‬
‫مکفول لہ کے درمیان تخلیہ کردے یا اس بارے میں قاضی کے معاونین سے مدد لے اور کفالہ‬
‫شافعی کا کفالہ بالنفس کے عدم جواز کا قول ضعیف ہے‬
‫ؒ‬ ‫بالنفس کی ضرورت بھی پڑتی ہے اور امام‬
‫اور ان کا قول اظہر ہمارے مذہب کے مطابق ہے۔ (‪)32‬‬
‫کفالہ بالمال ازروئے قرآن‪ :‬مال کی کفالت کا تصور ہمیں قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ سے ملتا‬
‫ہے‪:‬‬
‫یر َوأَنَا ْ بِ ِہ زَ ِعی ٌم (‪)33‬‬ ‫ع ْال َم ِل ِ‬
‫ک َو ِل َمن َجاء بِ ِہ ِح ْم ُل بَ ِع ٍ‬ ‫قَالُواْ نَ ْف ِقدُ ُ‬
‫ص َوا َ‬
‫’’(مصری شاھی کارندے) بولے کہ بادشاہ کا پیمانہ گم ہو گیا ہے جو اسے الئیگا‪ ،‬اس کیلئے‬
‫ایک اونٹ کا بوجھ (انعام) ہے اور میں اس کا ضامن ہوں‘‘۔‬
‫مندرجہ باال آیت کریمہ میں کفالہ بالمال کا ذکر ہے‪ ،‬جہاں قافلہ والوں کو شاہی پیالہ کی‬
‫گمشدگی کے بعد اس کے تالش کرنے کی جزاء کے طور پر ایک اونٹ غلہ کا اعالن کیا ہے وہاں‬
‫اس انعام کا ضامن بھی شاھی نمائندہ خود بنا ہے‪ ،‬لہٰ ذا کفالہ بالمال قرآن مجید کی رو سے درست‬
‫ثابت ہوا۔‬
‫کفالہ بالمال ازروئے حدیث‪ :‬احادیث مبارکہ میں بھی کفالہ بالمال کا جواز موجود ہے‪ ،‬درج ذیل‬
‫روایات اس کی دلیل ہیں‪:‬‬
‫ابوقتادہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی آپ ﷺ کے پاس الیا گیا تاکہ آپ ﷺ اس کی‬
‫ؓ‬ ‫حضرت‬ ‫٭‬
‫نماز جنازہ پڑھیں‪ ،‬آپ ﷺ نے فرمایا اپنے ساتھی پر خود جنازہ پڑھ لو کیونکہ اس کے ذمہ قرض‬
‫ابوقتادہ نے عرض کیا‪ ،‬قرض میرے ذمہ ہو گیا‪ ،‬آپ ﷺ نے فرمایا ادا کرو گے؟ عرض‬
‫ؓ‬ ‫ہے‪ ،‬حضرت‬
‫کیا میں ادا کروں گا۔ تب آپ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ (‪)34‬‬
‫ترمذی نے بھی روایت کی ہے۔ (‪)35‬‬
‫ؒ‬ ‫ابوھریرہ سے‬
‫ؓ‬ ‫اس سے ملتی جلتی روایت حضرت‬ ‫٭‬
‫نسائی (‪ )37‬اور امام‬
‫ؒ‬ ‫بخاری (‪،)36‬‬
‫ؒ‬ ‫جابر سے‬
‫اسی مضمون کی ایک اور حدیث حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫احمدؒ (‪ )38‬نے روایت کی ہے۔‬
‫تعالی نے رسول‬
‫ٰ‬ ‫جابر سے ایک اور روایت یوں آئی ہے‪ ،‬وہ کہتے ہیں کہ جب ہللا‬
‫حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫اکرم ﷺ کو فتوحات عطا فرمائیں تو آپ ﷺ نے فرمایا‪ :‬میں ہر مومن کا اس کی جان سے بھی بڑھ کر‬
‫متولی ہوں‪ ،‬لہٰ ذا جو قرض چھوڑ جائے وہ قرض مجھ پر ہوا اور جو مال چھوڑ جائے‪ ،‬وہ ورثاء‬
‫کیلئے ہوا۔ (‪)39‬‬
‫اس حدیث پاک کی رو سے آپ ﷺ کے ضامن بننے سے کفالہ بالمال صحیح ثابت ہوئی۔‬
‫صدر اول‬
‫ِ‬ ‫کفالہ بالمال میں مذاہب فقہاء ؒ‪ :‬ابن رشد کہتے ہیں کہ کفالہ بالمال سنت سے ثابت ہے‪،‬‬
‫سے اس پر اجماع رہا ہے‪ ،‬تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے۔ البتہ ایک گروہ سے منقول ہے کہ یہ عدت‬
‫سے مشابہت رکھتا ہے اور الزم نہیں ہے۔ یہ قول شاذ ہے۔ جمہور فقہاء نے جس حدیث پاک سے اس‬
‫سیاق میں استدالل کیا ہے۔ وہ یہ ہے‪ :‬الزعیم غارم ’’کفیل تاوان ادا کرے گا‘‘۔(‪)40‬‬
‫حصکفی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬
‫واما الکفالۃ المال فتصح بہ (‪)41‬‬
‫’’اور جہاں تک کمالہ بالمال ہے تو یہ صحیح ہے‘‘۔‬
‫قدوری لکھتے ہیں کہ ’’مال کی کفالت کہ جس مال کا کسی کو کفیل بنایا جا رہا ہے وہ معلوم‬
‫ؒ‬
‫ہو یا مجہول‪ ،‬کفالہ بالمال بہرحال جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ مال دین صحیح ہو‪ ،‬مثالً کفیل بننے‬
‫واال یوں کہے کہ میں اس کی طرف سے ایک ہزار درہم کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں‪ ،‬یا کہے کہ‬
‫تیرا جو مال اس کے ذمہ ہے‪ ،‬میں اس کا ذمہ دار ہوں‪ ،‬یا کہے کہ جو کچھ تجھے اس بیع میں‬
‫حاصل ہو سکتا ہے میں اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور مکفول یعنی جس کیلئے کوئی کفیل‬
‫بنایا گیا ہے‪ ،‬اسے اس بات کا اختیار ہے کہ وہ اصل سے مطالبہ کرے یا کفیل سے طلب کرلے۔‬
‫(‪)42‬‬
‫فتاوی عالمگیری میں بھی اسی طرح ہے کہ کفالہ بالمال جائز ہے۔ خواجہ مال معلوم ہو یا‬
‫ٰ‬
‫مجہول‪ ،‬خواہ مکفول عنہ کے حکم سے ہو یا نہ ہو اور طالب مختار ہوگا کہ چاہے اصل سے مطالبہ‬
‫کرے یا کفیل سے۔ (‪)43‬‬
‫شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے اور قول‬
‫ؒ‬ ‫مالک اور امام احمدؒ کا ہے اور امام‬
‫ؒ‬ ‫یہی قول امام‬
‫جدید یہ ہے کہ اگر مکفول بہ مجہول ہو تو کفالہ جائز نہیں ہے۔ مثالً یوں کہے کہ میں فالں کی‬
‫طرف سے اس مال کا کفیل ہوں‪ ،‬جو تیرا اس پر واجب ہے۔ یا کہے کہ میں اس چیز کا کفیل ہوں‪ ،‬جو‬
‫تجھے اس بیع میں الحق ہو۔ (‪)44‬‬
‫ہماری (احناف کی) دلیل یہ آیت ہے‪ :‬ولمن جآء بہ حمل بعیر وانا بہ زعیم ‪o‬‬
‫یہاں مال مکفول بہ غلہ سے لدا اونٹ ہے لیکن اونٹ طاقتور ہو تو زیادہ غلہ الدا جائیگا اور‬
‫کمزور ہو تو کم‪ ،‬لیکن حضرت یوسف علیہ السالم کا غلہ مقدار کے اعتبار سے مجہول ہے لہٰ ذا اس‬
‫کے باوجود یہ آیت ہماری دلیل ہوگی۔ (‪)45‬‬
‫دوسری دلیل حدیث الزعیم غارم‪ ،‬کفیل ضامن ہے۔ یہ حدیث عام ہے‪ ،‬اس میں مکفول بہ نہ‬
‫معلوم ہے نہ مجہول۔ لہٰ ذا کفالہ دونوں صورتوں میں جائز ہو جائیگا۔ (‪)46‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ضمانت (کفالہ) کی دو قسمیں ہیں‪ ،‬کفالہ بالنفس‬
‫اور کفالہ بالمال۔ قرآن مجید میں ضمانت و کفالت کا واضح تصور ملتا ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے بھی‬
‫کرام سے بھی‬ ‫ؓ‬ ‫دونوں طرح کی ضمانت طلب کی اور اسے قبول بھی فرمایا ہے اور تعامل صحابہ‬
‫کرام بھی کفالہ نفسی اور کفالہ مال کے جواز پر‬
‫ؒ‬ ‫دونوں قسم کی ضمانت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ فقہاء‬
‫متفق ہیں۔ لہٰ ذا اس رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں دونوں قسم کی کفالت سے فائدہ اٹھانا چاہئے‬
‫تاکہ زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں۔ یہی دین کا مقصد ہے۔‬
‫وضاحت‪ ii( :‬مندرجہ باال ذیلی شق (ب) میں جرم کو دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ (‪ )i‬قابل‬
‫ضمانت‪ )ii( ،‬ناقابل ضمانت۔‬
‫نکتہ نگاہ یہ ہے‪ :‬قانون (شریعت) نے ایک طرف تو‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس سلسلے میں اسالمی ٔ‬‫اسالمی ٔ‬
‫سزا کو برائے زجر و تادیب قرار دیا ہے اور دوسری جانب مجرم کی شخصیت کا اعتراف کرتے‬
‫ہوئے سزا پر اس کے حاالت کے اثر کو تسلیم کیا ہے اور عدالت پر الزم کردیا ہے کہ وہ خطرناک‬
‫ت‬
‫اور سادہ جرائم دونوں میں سزا کے اجراء کے وقت ان دونوں اصولوں کو مدنظر رکھے۔ شریع ِ‬
‫اسالمیہ نے معاشرے پر اثر انداز ہونے والے خطرناک جرائم میں مجرم کی شخصیت کو نظرانداز‬
‫نہیں کیا ہے جبکہ دونوں اصولوں میں تضاد ہے کیونکہ زجر وتادیب کا تقاضا تو یہی ہے کہ سزا‬
‫میں سختی ہو اور مجرم کی شخصیت کو مدنظر رکھنے کا تقاضا یہ ہے کہ سزا میں تخفیف ہو اور‬
‫عدالت اس تضاد کو دور کرنے پر قادر نہیں ہے‪ ،‬البتہ وہ ان دونوں اصولوں میں ممکنہ حد تک‬
‫تطبیق کرتی ہے اور اس میں وہ ہمیشہ مجرم کی جانب مائل ہوتی ہے کیونکہ مجرم عدالت کے‬
‫سامنے اپنے پیکر مجسم کے ساتھ موجود ہے اور وہ عدالت سے رحم کی اپیل کر رہا ہے۔ نرمی کا‬
‫طالب ہے جبکہ معاشرے کا مفاد عدالت کے سامنے اس زور اور قوت سے موجود نہینہے‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫عدالت معاشرے کے مفاد کو اس قدر ملحوظ نہیں رکھتی‪ ،‬جس قدر وہ مجرم کے مفاد کو ملحوظ‬
‫رکھتی ہے۔(‪)47‬‬
‫اس سلسلے میں اسالمی نظریاتی کونسل پاکستان نے بھی اپنی رائے کا اظہار درج ذیل‬
‫سطور میں کیا ہے‪:‬‬
‫’’اس ذیلی دفعہ ’’ب‘‘ میں جرائم کو دو قسموں ’’قابل ضمانت‘‘ اور ’’ناقابل ضمانت‘‘ میں‬
‫تقسیم کیا گیا ہے۔ قانون ہذا میں یہ تقسیم جرم کی سنگینی کے پیش نظر کی گئی ہے‪ ،‬اس کے‬
‫معیار ضمانت نہیں ہے‪ ،‬بلکہ اس‬
‫ِ‬ ‫برعکس اسالمی شریعت میں جرم کی سنگینی کی کمی بیشی‬
‫شخص کا کردار ہے جو ضمانت کا طالب ہے‪ ،‬کونسل کی رائے میں شریعت کے تحت الزام بجائے‬
‫خود اس امر کا موجب نہیں ہوتا کہ جرم کو قابل ضمانت یا ناقابل ضمانت قرار دیا جائے بلکہ ملزم‬
‫اور دیگر پیش آمدہ حاالت (‪ )Attending Circumstances‬کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوگا‘‘۔‬
‫(‪)48‬‬
‫ان سطور میں اسالمی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملزم کی شخصیت‬
‫و کردار اور اس کے رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے کسی حد تک ضمانت کی سہولت دی جا‬
‫سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے اس کی اصالح ہو جائے کیونکہ عقوبات کا مقصد انسانیت کو‬
‫درس عبرت دینا ہے اور اصالح کرنا ہے نہ کہ محض سزا اور تشدد۔ اگر کسی شریف النفس انسان‬
‫ِ‬
‫سے غیر ارادی طور پر کوئی جرم سرزد ہو جائے اور پھر احساس ندامت اس پر طاری ہو جائے تو‬
‫نقطہ نظر‬
‫ٔ‬ ‫اسے سخت سے سخت سزا دینے کی بجائے تخفیف و سہولت سے کام لینا چاہئے‪ ،‬اسی‬
‫کی حمایت اسالمی نظریاتی کونسل نے بھی سطور باال میں کی ہے۔ جس سے اس موقف کو تقویت‬
‫ملتی ہے۔‬

‫بار الزام یا الزام لگانا‪’’ :‬الزام لگانا‘‘ میں کسی الزام کا عنوان شامل ہے جبکہ الزام‬
‫ِ‬ ‫(‪c‬‬
‫کے ایک سے زیادہ عنوان ہوں۔‬
‫‪1923‬ء کے تنسیخی و ترمیمی قانون ‪ II‬سے حذف ہوئی۔‬ ‫(‪d‬‬
‫‪1972‬ء کے قانونی اصالحات کے آرڈیننس نمبر ‪ XII‬سے حذف ہوئی۔‬ ‫(‪e‬‬
‫’’جرم قابل دست اندازی پولیس‘‘‪’’ ،‬مقدمہ قابل دست اندازی پولیس‘‘‬ ‫(‪f‬‬
‫’’جرم قابل دست اندازی پولیس‘‘ سے وہ جرم مراد ہے اور ’’مقدمہ قابل دست اندازی پولیس‘‘ سے‬
‫وہ مقدمہ مراد ہے جس میں ایک پولیس افسر ضمیمہ دوم کے مطابق یا کسی نافذ الوقت قانون کے‬
‫تحت بالوارنٹ گرفتار کر سکتا ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬مندرجہ باال ذیلی شق میں قابل دست اندزی پولیس جرم کے سلسلے میں درج ہے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کہ پولیس افسر کسی جرم کے مرتکب شخص کو بالوارنٹ گرفتار کر سکتا ہے‪ ،‬بالوارنٹ گرفتاری‬
‫کے سلسلے میں درج ذیل واقعہ سے رہنمائی ملتی ہے۔‬
‫علی کے عہد میں ایک دفعہ ایک شخص خود آلود چھری ہاتھ میں لئے ایک غیر‬ ‫حضرت ؓ‬
‫آباد مکان سے نکال‪ ،‬اتفاق سے پولیس وہاں سے جا رہی تھی‪ ،‬انہوں نے جب اس شخص کو دیکھا تو‬
‫انہیں شک ہوا‪ ،‬چنانچہ جب وہ اس مکان میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک الش خون آلود‬
‫علی کے پاس لے آئے‪ ،‬اس شخص نے اعتراف جرم کرلیا اور‬ ‫پڑی ہے‪ ،‬وہ اسے پکڑ کر حضرت ؓ‬
‫آپ نے فرمایا کہ اسے قصاص میں قتل کردو۔ ابھی پولیس والے اسے لیکر جا رہے تھے کہ ایک‬ ‫ؓ‬
‫اور شخص آگیا اور کہنے لگا کہ یہ شخص بے گناہ ہے‪ ،‬اسے میں نے قتل کیا ہے لہٰ ذا اسے چھوڑ‬
‫آپ نے پہلے‬ ‫علی کے پاس الئے گئے اور معاملہ عرض کیا۔ ؓ‬ ‫دو‪ ،‬چنانچہ وہ دونوں شخص حضرت ؓ‬
‫اعتراف جرم کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میرے ہاتھ میں خون آلود چھری تھی‬‫ِ‬ ‫شخص سے‬
‫اور جہاں سے نکال تھا وہاں الش پڑی تھی‪ ،‬پولیس موقع پر آگئی‪ ،‬اب اگر میں انکار بھی کرتا تو‬
‫میری کون سنتا۔ لہٰ ذا سوائے اقرار کے چارہ نہ تھا۔‬
‫علی نے فرمایا کہ اچھا پورا واقعہ بتائو۔‬
‫اس پر حضرت ؓ‬
‫اب اس شخص نے بتایا کہ میں قصاب ہوں‪ ،‬گائے ذبح کرکے کھال اتار رہا تھا کہ سخت‬
‫پیشاب آگیا‪ ،‬میں اس غیر آباد مکان میں چال گیا‪ ،‬باہر نکال تو پولیس آگئی جبکہ میں الش کے معاملے‬
‫آپ نے دوسرے شخص سے کہا اب تم واقعہ بتائو۔‬ ‫میں خوفزدہ تھا‪ ،‬پولیس نے مجھے گرفتار کرلیا‪ؓ ،‬‬
‫اس نے کہا کہ مال کے اللچ میں‪ ،‬میں نے اس شخص کو قتل کردیا اور فرار ہو گیا اور اسی ویرانے‬
‫میں چھپ گیا‪ ،‬جب اس شخص کو پولیس آپ کے پاس الئی تو میرے ضمیر نے مالمت کی‪ ،‬میں نے‬
‫اقرار جرم کرلیا تاکہ معصوم جان ضائع نہ ہو‘‘۔ (‪)49‬‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی رائے‪ :‬کونسل کے نزدیک حدود و قصاص کے مقدمات میں پولیس بغیر‬
‫وارنٹ گرفتار کر سکتی ہے۔ اس کے عالوہ دیگر جرائم میں وارنٹ ضروری ہوگا۔ (‪)50‬‬
‫مندرجہ باال واقعہ اور نظریاتی کونسل کی رائے سے پتہ چال کہ بوقت ضرورت بالوارنٹ‬
‫بھی گرفتاری ہو سکتی ہے تاکہ مجرم کو فورا ً کٹہر ٔہ عدالت تک الیا جا سکے۔‬

‫‪1949‬ء کے ترمیمی آرڈیننس سے حذف ہوئی۔‬ ‫(‪g‬‬


‫استغاثہ‪ :‬استغاثہ سے کسی شخص کا کسی مجسٹریٹ کے پاس تحریری یا زبانی‬ ‫(‪h‬‬
‫بیان مراد ہے تاکہ وہ مجموعہ ہذا کے تحت کارروائی کرے کہ کوئی شخص چاہے معلوم یا نامعلوم‪،‬‬
‫کسی جرم کا مرتکب ہوا ہو لیکن اس میں عہدیدار پولیس کی رپورٹ شامل نہیں ہوگی۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬استغاثہ کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬


‫اسالمی ٔ‬
‫دعوی کرنا‪ ،‬انصاف چاہنا۔ (‪)51‬‬
‫ٰ‬ ‫دعوی‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫فریاد‪،‬‬
‫ئ‬ ‫اال ِدِّ َ‬
‫عا ُ‬ ‫ان یدعی شیئا انہ‘ لہ‘ ِ‬
‫دعوی کرنا کہ وہ اس کی ہے‘‘۔‬
‫ٰ‬ ‫’’کسی چیز کے متعلق‬
‫الدعوی‪ :‬مشتقۃ من الدعا‪ ،‬وھو الطلب‪ ،‬وفی الشرع‪ :‬قول یطلب بہ االنسان اثبات حق علی‬
‫ٰ‬
‫الخیر (‪)A-51‬‬
‫دعوی کرنا کہ وہ میری ہے۔ اپنے لئے‬
‫ٰ‬ ‫دعوی سے مراد ہے اپنے لئے کسی چیز کا‬
‫ٰ‬ ‫لغت میں‬
‫کوئی چیز ثابت کرنا۔(‪)52‬‬
‫فرہنگِ آصفیہ میں ہے‪:‬‬
‫دعوی عربی زبان میں اسم مذکر ہے‪ ،‬بمعنی درخواست‪ ،‬خواہش‪ ،‬مطالبہ‪ ،‬طلبگاری‪ ،‬مانگ‪،‬‬
‫ٰ‬
‫استغاثہ‪ ،‬نالش‪ ،‬حق‪ ،‬استحقاق۔ (‪)A-52‬‬
‫(دعوی) کے بارے میں فقہاء اسالم نے درج ذیل تصریحات کی ہیں‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫استغاثہ‬
‫دعوی سے مراد وہ قول ہے جو قاضی کے ہاں قبول ہوتا ہے اور یہ کہنے واال‬
‫ٰ‬ ‫اصطالح میں‬
‫دوسرے سے متنازعہ امور میں حق کا طالب ہوتا ہے یا کسی دوسرے کی طرف سے ایسے ہی‬
‫دعوی میں اپنے حق کا دفاع کر رہا ہوتا ہے۔ (‪)53‬‬
‫ٰ‬
‫دعوی سے مراد انسان کا کسی ایسی چیز سے تعلق‬
‫ٰ‬ ‫ابن قدامہ کہتے ہیں کہ شرعی طور پر‬
‫کے استحقاق کو ظاہر کرتا ہے جو کسی دوسرے کے پاس ہو‪ ،‬یا اس کے ذمہ ہو۔ (‪)54‬‬
‫’’مجلہ‘‘ میں ہے کہ کسی شخص کا کسی دوسرے آدمی سے حاکم کے سامنے اپنا کوئی‬
‫حق طلب کرنا‪ ،‬جو طلب کرے‪ ،‬اس کو مدعی کہتے ہیں اور جس سے حق طلب کیا جائے اسے مدعا‬
‫مدعی بہ بھی‬
‫ٰ‬ ‫مدعی اور‬
‫ٰ‬ ‫علیہ کہتے ہیں اور جو چیز مدعی‪ ،‬مدعا علیہ سے طلب کرتا ہے اسے‬
‫کہتے ہیں۔ (‪)55‬‬
‫دعوی کی‬
‫ٰ‬ ‫مندرجہ باال تعریفات سے واضح ہوتا ہے کہ ضابطہ فوجداری میں درج استغاثہ یا‬
‫تعریف کے مقابلے میں فقہاء اسالم کی بیان کردہ تعریفات زیادہ واضح اور زیادہ جامع ہیں جن میں‬
‫مسئلہ کے ہر ہر پہلو کی وضاحت کی گئی ہے۔‬
‫لہٰ ذا ان تصریفات کی افادیت ضابطہ فوجداری کی تعریف کے مقابلے میں زیادہ ہے۔‬

‫ایکٹ ‪ II‬بابت ‪1950‬ء سے حذف کی گئی۔‬ ‫(‪I‬‬


‫عدالت عالیہ‪ :‬عدالت عالیہ سے کسی صوبہ کیلئے فوجداری اپیل یا نگرانی کی‬ ‫(‪J‬‬
‫اعلی ترین عدالت مراد ہے۔‬
‫ٰ‬

‫تبصرہ‪ :‬اسالمی نظام قضا میں بھی عدالت عالیہ کا تصور موجود ہے‪ ،‬جہاں مرافعہ جات کی‬
‫سماعت ہوتی ہے۔ اسے عدالت عالیہ والیت کہتے ہیں جو صوبہ کی سب سے بڑی اور آخری عدالت‬
‫اپیل ہے۔ (‪)56‬‬
‫تحقیقات‪’’ :‬تحقیقات‘‘ میں عالوہ تجویز کے ہر ایسی تحقیقات شامل ہے جو کوئی‬ ‫(‪K‬‬
‫مجسٹریٹ یا عدالت اس مجموعہ ہذا کے تحت عمل میں الئے۔‬
‫قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ سے ہمیں تحقیق کا تصور ملتا ہے۔ ارشاد باری‬
‫ِ‬ ‫نکتہ نگاہ‪:‬‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ہے‪:‬‬
‫یَا أَیُّ َھا الَّذِینَ آ َمنُوا إِن َجاء ُک ْم فَا ِس ٌق بِنَبَ ٍأ فَتَبَیَّنُوا … آالیہ (‪)57‬‬
‫’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر الئے تو اچھی طرح چھان بین کر‬
‫لیا کرو‘‘۔‬
‫درج باال آیت قرآنی میں مسلمان معاشرے کو ایک ضابطہ دیا گیا ہے کہ اگر تمہارے پاس‬
‫کوئی خبر یا اطالع پہنچے تو سب سے پہال کام یہ کرو کہ اس کی اچھی طرح تحقیق کرلو کہ آیا وہ‬
‫خبر واقعی سچی ہے یا نہیں؟ کیونکہ بعض اوقات ایک افواہ بھی پھیل جاتی ہے اور جب تحقیق کی‬
‫جائیگی تو اس کی حقیقت واضح ہو کر سامنے آجائیگی اور پھر اس کے مطابق آئندہ طرز عمل‬
‫اختیار کیا جائے گا۔‬
‫تعالی فاسق کی خبر پر احتیاط سے کام لینے اور‬‫ٰ‬ ‫کثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت میں ہللا‬
‫ابن ؒ‬
‫کارروائی سے پہلے حقیقت حال معلوم کر لینے کا حکم دے رہا ہے کیونکہ درحقیقت وہ جھوٹا یا‬
‫تعالی نے مفسدین کی اتباع‬
‫ٰ‬ ‫خطاکار ہوتا ہے اور حاکم اس کی اتباع کرنے واال ہو جائیگا حاالنکہ ہللا‬
‫سے منع کیا ہے۔ (‪)58‬‬
‫کسائی نے فبتینوا کو فتشبتوا التوقف بالحکم مالم یظھر الحال پڑھا ہے‪ ،‬یعنی جب‬
‫ؒ‬ ‫حمزہ اور‬
‫تک صورتحال واضح نہ ہو جائے تم فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرو۔ باقی قراء نے فبتینوا ہی پڑھا‬
‫ہے یعنی وضاحت طلب کرنا یا معاملے کا ظاہر ہونا۔ (‪)59‬‬
‫حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ‪:‬‬
‫ادفعوا الحدود ماوجد تم لہ مدفعا (‪)60‬‬
‫’’جہاں تک ہو سکے‪ ،‬وہاں (شبہ کی وجہ سے) حدود کو ہٹا دو‘‘۔‬
‫یعنی اچھی طرح تحقیق و جستجو کرلو کہ ملزم پر حد ثابت بھی ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر شک‬
‫ہو جائے اور معاملہ کی تحقیق پوری طرح نہ ہوسکنے کا امکان ہو تو جلدی نہ کرو بلکہ ساقط کردو‬
‫کیونکہ غلط طور پر سزا دینے سے حقوق العباد ضائع ہو جائیں گے جس کی اسالم اجازت نہیں دیتا۔‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوتا ہے کہ ضابطہ فوجداری میں درج تحقیقات کی تعریف کے‬
‫مقابلے میں تحقیقات کا اسالمی تصور زیادہ واضح اور جامع ہے۔‬

‫تفتیش‪’’ :‬تفتیش‘‘ میں مجموعہ ہذا کے تحت وہ تمام کارروائیاں شامل ہیں جو‬ ‫(‪L‬‬
‫شہادت کے حصول کیلئے کوئی عہدہ دار پولیس یا کوئی اور شخص جسے (مجسٹریٹ) نے مامور‬
‫کیا ہو‪ ،‬عمل میں الئے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مندرجہ باال سطور میں تفتیش کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کوئی جرم واقع ہو‬
‫اسالمی ٔ‬
‫جانے کے بعد اس کے ثبوت کیلئے شواہد اکٹھے کرنے کے عمل کو تفتیش کہتے ہیں‪ ،‬درج ذیل‬
‫سطور میں تفتیش کے بارے میں اسالمی تصور بیان کیا جا رہا ہے۔‬
‫ع ْن ُہ کا معنی ہے‬ ‫تفتیش عربی زبان کا لفظ ہے‪ ،‬جس کے معنی ڈھونڈنا‪ ،‬تالش کرنا ہیں۔ فَت َ‬
‫َش َ‬
‫سوال کرنا‪ ،‬بحث کرنا‪ ،‬الفتاش۔ بہت جستجو یا تالش کرنے واال۔ التفتیش۔ تحقیق۔ تالش وجستجو۔ پوچھ‬
‫تاچھ۔ (‪)61‬‬
‫فرہنگ آصفیہ میں ہے کہ تفتیش کا معنی ہے‪ :‬کھودنا‪ ،‬چھان بین‪ ،‬تحقیق و تدقیق‪ ،‬کھوج‪،‬‬
‫دریافت‪ ،‬کوشش‪ ،‬جستجو‪ ،‬سراغ‪ ،‬پوچھ گچھ‪ ،‬تفحص۔ (‪)A-61‬‬
‫مندرجہ باال معانی میں تالش کرنا‪ ،‬جستجو کرنا اور سوال کرنا مشترک ہے تاکہ کسی‬
‫ت حال کی اصل حقیقت بے نقاب کی جائے اور زیر غور معاملے کی جانچ پڑتال کی جائے کہ‬ ‫صور ِ‬
‫وہ صحیح ہے یا نہیں؟ تاکہ اس پر مزید کارروائی عمل میں الئی جا سکے۔‬
‫قرآن مجید میں درج ذیل آیت تفتیش کی بنیاد ہے‪:‬‬
‫علَی َما فَ َع ْلت ُ ْم‬ ‫یَا أَیُّ َھا الَّذِینَ آ َمنُوا ِإن َجاء ُک ْم فَا ِس ٌق ِبنَبَ ٍأ فَتَبَیَّنُوا أَن ت ُ ِ‬
‫صیبُوا قَ ْو ًما ِب َج َھالَ ٍۃ فَت ُ ْ‬
‫ص ِب ُحوا َ‬
‫نَاد ِِمینَ (‪)62‬‬
‫’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے آئے تو اس کی خوب تحقیق کر‬
‫لیا کرو‪ ،‬ایسا نہ ہو کہ تم العلمی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا دو اور پھر اپنے کئے پر پچھتانے‬
‫لگو‘‘۔‬
‫اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ان اال میر اذا ابتغی الریبۃ فی الناس افسدھم (‪)63‬‬
‫’’جب امیر اپنی رعایا میں شک کی باتیں تالش کرتا ہے‪ ،‬تو انہیں بگاڑ دیتا ہے‘‘۔‬
‫مندرجہ باال سطور میں تفتیش کا اسالمی تصور اختصار کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ مجموعہ ہذا‬
‫میں درج تفتیش کی تعریف کے مقابلے میں اسالم نے زیادہ واضح تصور پیش کیا ہے۔ اس میں‬
‫تفتیش کا انداز بھی واضح کردیا ہے اور ساتھ ہی ایسی تحقیق وتفتیش سے منع کردیا گیا ہے جس کا‬
‫واضح مقصد نہ ہو اور لوگوں کو بالوجہ پریشان کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔‬

‫(‪ m‬عدالتی کارروائی‪ :‬عدالتی کارروائی میں ہر وہ کارروائی شامل ہے جس کے دوران‬


‫حلفیہ شہادت لی جائے یا قانونی طور پر لی جا سکے۔‬
‫‪ ma-2‬مجسٹریٹ سے مراد جوڈیشل مجسٹریٹ ہے اور اس میں دفعات ‪ 14 ،12‬کے تحت مقرر شدہ‬
‫سپیشل مجسٹریٹ شامل ہے۔‬
‫ناقابل دست اندازی جرم‪ ،‬ناقابل دست اندازی مقدمہ‪’’ :‬ناقابل دست اندازی جرم‘‘‬ ‫(‪n‬‬
‫سے ایسا جرم اور ’’ناقابل دست اندازی مقدمہ‘‘ سے ایسا مقدمہ مراد ہے‪ ،‬جس کیلئے اور جس میں‬
‫عہدیدار پولیس بال وارنٹ کے گرفتاری عمل میں نہیں السکتا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مندرجہ باال ذیلی دفعات میں کوئی چیز اسالمی تعلیمات کیخالف معلوم نہیں ہوتی لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت ہے۔‬
‫ترک فعل ہے‪ ،‬جو کسی نافذ الوقت قانون کے‬
‫ِ‬ ‫جرم‪’’ :‬جرم‘‘ سے مراد ہر وہ فعل یا‬ ‫(‪o‬‬
‫مطابق قابل سزا قرار دیا گیا ہو‪ ،‬اس کے عالوہ اس میں کوئی ایسا فعل بھی شامل ہے‪ ،‬جس کی‬
‫نسبت قانون مداخلت بے جا مویشیاں بابت ‪1871‬ء کوئی نالش کی جاسکے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪’’ :‬جرم‘‘ کی تعریف سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس لفظ کا‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫معنی بیان کردیا جائے۔ َج َر َم۔ َج ْر ًما۔ گناہ کرنا۔ ا َ ْل َج َر َم و ْال ُج ْر َم۔ گناہ‪ ،‬قصور۔ جمع ُج ُر ْوم۔ مونث۔ َج ِر ْی َمۃ‬
‫(‪)64‬‬
‫مندرجہ باال سطور میں جرم کے معانی میں گناہ اور قصور مشترک ہیں‪ ،‬گویا جرم ایسا فعل‬
‫خالف قانون ہو اور سزا کا مستوجب ہو۔‬
‫ِ‬ ‫ہے جو خالف شریعت اور‬
‫تعالی نے روک‬
‫ٰ‬ ‫شرعی اصطالح میں جرائم وہ شرعی ممانعتیں ہیں‪ ،‬جن کے کرنے سے ہللا‬
‫دیا ہے اور ان کے کرنے پر حد یا تعزیر مقرر فرما دی ہے۔ (‪)65‬‬
‫تعالی نے حد یا‬
‫ٰ‬ ‫فقہاء اسالم کی تعریف کے مطابق جرم وہ شرعی ممنوع ہے‪ ،‬جس سے ہللا‬
‫تعزیر کے ذریعے روک دیا ہے۔ (‪)66‬‬
‫جرم کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ ہر اس فعل کا ارتکاب جرم ہے جسے کرنا‬
‫حرام قرار دیا گیا ہے اور اس کے کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہو اور ہر اس فعل کا چھوڑ دینا جرم‬
‫ہے جسے چھوڑنا حرام اور قابل سزا قرار دیا گیا ہو۔ (‪)67‬‬
‫کرام جرم کو جنائت کے لفظ سے بھی تعبیر کرتے ہیں‪ ،‬جنائت ہر اس فعل کا نام‬
‫ؒ‬ ‫اکثر فقہاء‬
‫ہے جو شرعا ً حرام ہے‪ ،‬فقہی اصطالح میں جنائت کا لفظ جرم کے مترادف ہے۔ شریعت اسالمیہ میں‬
‫ہر جرم جنائت ہے خواہ وہ کسی درجے کا ہو مگر جدید قانون میں جنائت سے مراد بڑے بڑے‬
‫جرائم ہیں۔ (‪)68‬‬
‫مندرجہ باال سطور میں فقہاء اسالم کی بیان کردہ تعریفات درج کی گئی ہیں۔ جن سے واضح‬
‫کرام نے جرم کا زیاد واضح اور‬
‫ؒ‬ ‫ہوتا ہے کہ ضابطہ فوجداری کی تعریف جرم کے مقابلے میں فقہاء‬
‫جامع تصور دیا ہے اور ان کی فکر زیادہ وسیع و وقیع ہے اور ان کی تعریفات جرم کے مختلف‬
‫پہلوئوں کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔‬

‫مہتمم تھانہ‪’’ :‬مہتمم تھانہ‘‘ میں وہ پولیس افسر شامل ہوگا جو تھانہ میں موجود ہو‬ ‫(‪p‬‬
‫جبکہ تھانہ کا مہتمم تھانہ سے غیر حاضر ہو یا بیماری یا دیگر وجہ سے اپنے فرائض سرانجام‬
‫دینے سے قاصر ہو جو کہ ایسے افسر سے اگلے عہدہ کا ہو اور کانسٹیبل کے عہدہ سے اوپر کا ہو‬
‫یا جب صوبائی حکومت ایسی ہدایت کرے‪ ،‬کوئی دیگر پولیس افسر جو موجود ہو۔‬
‫مقام‪’’ :‬مقام‘‘ میں ہر مکان‪ ،‬عمارت‪ ،‬خیمہ اور بحری جہاز شامل ہیں۔‬ ‫(‪q‬‬
‫پلیڈر‪’’ :‬پلیڈر‘‘ سے مراد کسی عدالتی کارروائی کی نسبت سے ایک پلیڈر یا ایک‬ ‫(‪r‬‬
‫مختار ہے‪ ،‬جسے کسی قانون نافذ الوقت کی رو سے ایسی عدالت میں وکالت کرنے کا مجاز قرار دیا‬
‫گیا ہو اور بشمول (‪ )1‬ایڈووکیٹ‪ ،‬وکیل اور عدالت عالیہ کا اٹارنی جو اس کا مجاز کیا گیا ہو اور (‪)2‬‬
‫کوئی دوسرا شخص جو ایسی کارروائی میں عدالت کی منظوری سے مقرر کیا گیا ہو۔‬
‫تھانہ‪’’ :‬تھانہ‘‘ سے ہر وہ چوکی یا جگہ مراد ہے‪ ،‬جسے صوبائی حکومت نے‬ ‫(‪s‬‬
‫عمومی طور پر یا خصوصی طور پر تھانہ قرار دیا ہو اور اس میں ہر وہ عالقہ شامل ہے جس کی‬
‫حکومت نے اس بارے میں صراحت کی ہو۔‬
‫پیروکار سرکار‪’’ :‬پیروکار سرکار‘‘ سے ہر وہ شخص مراد ہے جو دفعہ ‪ 492‬کے‬‫ِ‬ ‫(‪t‬‬
‫تحت مقرر کیا گیا ہو اور اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو پیروکار سرکار کی ہدایات کے مطابق‬
‫ت عالیہ میں اس کے‬ ‫مصروف کار ہو‪ ،‬نیز وہ شخص جو حکومت کی طرف سے کسی عدال ِ‬ ‫ِ‬
‫اختیارات ابتدائی صیغہ فوجداری کے استعمال میں استثناء کی پیروی کر رہا ہو۔‬
‫ذیلی تقسیم‪’’ :‬ذیلی تقسیم‘‘ سے مراد ضلع کا کوئی حصہ ہوتا ہے۔‬ ‫(‪u‬‬
‫مقدمہ قابل اجرائے سمن‪ :‬قانونی اصالحات کے آرڈیننس نمبر ‪ XII‬سے حذف‬ ‫(‪v‬‬
‫ہوئی۔‬
‫مقدمہ قابل اجرائے وارنٹ‪ :‬قانونی اصالحات آرڈیننس نمبر ‪ XII‬سے حذف ہوئی۔‬ ‫(‪w‬‬
‫الفاظ متعلق افعال‪ :‬جو الفاظ افعال موقوعہ سے متعلق ہوں‪ ،‬وہ ناجائز ترک پر بھی‬ ‫(‪2‬‬
‫حاوی ہیں اور ہر لفظ کے وہی معانی ہوں گے جو مجموعہ قوانین تعزیرات پاکستان میں ہیں۔‬
‫مجموعہ ہذا میں جو الفاظ اور عبارات استعمال کی گئی ہیں اور جن کی تعریف مجموعہ قوانین‬
‫ت پاکستان میں مندرج ہیں اور جن کی تعریف مجموعہ ہذا میں اس سے قبل نہیں کی گئی‪ ،‬ان‬ ‫تعزیرا ِ‬
‫کے وہی معانی لئے جائینگے جو مذکورہ مجموعہ میں ان سے بالترتیب منسوب کئے گئے ہیں۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مندرجہ باال ذیلی دفعات میں کوئی عبارت یا اصطالح اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم‬
‫نہیں ہوتی لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫ت پاکستان کے تحت جرم کی سماعت‬


‫دفعہ نمبر ‪ :5‬مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫مجموعہ تعزیرات پاکستان کے تحت تمام جرائم کی تفتیش‪ ،‬تحقیق‪ ،‬سماعت اور‬ ‫(‪1‬‬
‫بصورت دیگران کی نسبت کارروائی بعد ازیں درج احکام کے مطابق کی جائیگی۔‬

‫دیگر قوانین کے تحت جرائم کی سماعت‪ :‬کسی دیگر قانون کے تحت جملہ جرائم‬ ‫(‪2‬‬
‫کی تفتیش‪ ،‬تحقیق اور ان کی نسبت دیگر کارروائی ان ہی احکام کے مطابق کی جائینگی مگر یہ‬
‫کسی ایسے وضع کردہ نافذ الوقت قانون کے تابع ہوگی جس میں ایسے جرائم کی تفتیش‪ ،‬تحقیق اور‬
‫سماعت یا ان کی نسبت طریق کارروائی منضبط کی گئی ہو۔‬

‫مندرجہ باال ذیلی دفعہ میں کوئی چیز اسالمی تعلیمات کیخالف معلوم نہیں ہوتی لہٰ ذا تبصرہ‬ ‫٭‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫حصہ نمبر ‪2‬‬


‫فوجداری عدالتوں اور سر رشتوں کی تشکیل اور اختیارات‬

‫(باب نمبر ‪)2‬‬


‫فوجداری عدالتوں اور سررشتوں کی تشکیل کی بابت‬

‫(الف) فوجداری عدالتوں کے درجات‬

‫دفعہ نمبر ‪ :6‬فوجداری عدالتوں اور مجسٹریٹوں کے درجات‬


‫عدالت ہائے عالیہ اور ان عدالتوں کے جو کسی قانون نافذ الوقت کے تحت قائم کی‬ ‫(‪1‬‬
‫جائیں‪ ،‬پاکستان میں دو قسم کی فوجداری عدالتیں ہونگی۔‬
‫(‪ ii‬عدالت ہائے مجسٹریٹ‬ ‫(‪ i‬عدالت ہائے سیشن‬
‫مجسٹریٹوں کے مندرجہ ذیل درجات ہونگے۔‬ ‫(‪2‬‬
‫(‪ )ii‬مجسٹریٹ درجہ دوم‬ ‫(‪ )i‬مجسٹریٹ درجہ اول‬
‫(‪ )iii‬مجسٹریٹ درجہ سوم‬

‫وضاحت‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں وضاحت کی گئی ہے کہ پاکستان میں فوجداری عدالتیں کتنی قسم‬
‫کی ہونگی‪ ،‬پھر ذیلی شقوں میں اس کی مزید وضاحت کر دی گئی ہے کہ یہ دو قسم کی ہونگی۔‬
‫سیشن جج کی عدالتیں اور مجسٹریٹ کی عدالتیں پھر مجسٹریٹوں کی درجہ بندی کی گئی ہے کہ وہ‬
‫تین درجات اول‪ ،‬دوم اور سوم میں تقسیم ہونگے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬عدالتوں کی یہ تقسیم اور پھر اس کی ذیلی تقسیم اور عہدیداروں کی درجہ بندی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫اسالمی تعلیمات کے منافی نہیں ہے بلکہ اسالم اس کے حق میں ہے کہ تقسیم کار کے اصول پر‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫عمل کیا جائے اور کام کو بہتر انداز میں سرانجام دیا جائے۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ کسی بھی‬
‫عہدیدار کے کام میں مدد کیلئے نائب اور معاون ہوں۔‬
‫لہٰ ذا اسی اصول کے پیش نظر ‪1982‬ء میں جو قاضی آرڈیننس جاری کیا گیا‪ ،‬اس کے مسودہ‬
‫کے باب نمبر‪ 3‬میں قاضی عدالتوں کی اقسام‪ ،‬دائرہ کار اور اختیارات کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس‬
‫میں ہے کہ قاضی عدالتوں کی دو بڑی قسمیں ہونگی۔‬
‫‪ 1-‬ضلع قاضی عدالتیں‬
‫حاکمہ مصر کا نام دیا ہے یہ شہر کے صدر مقام میں ہوتی‬
‫ٔ‬ ‫عینی نے اسے عدالت‬
‫ؒ‬
‫ہے۔ (‪)69‬‬
‫‪ 2-‬عالقہ قاضی عدالتیں‬
‫عالقہ قاضی عدالتیں مزید دو درجات میں تقسیم کی جائینگی۔‬
‫‪ 1-‬عالقہ قاضی درجہ اول‬
‫‪ 2-‬عالقہ قاضی درجہ دوم (‪)70‬‬
‫ت حاکمہ ابتدائیہ بھی کہتے ہیں۔ یہ مقدمہ کی قانونی سماعت‬
‫عالقہ قاضی کی عدالت کو عدال ِ‬
‫کرنیوالی پہلی عدالت ہے۔ (‪ )71‬قاضی آرڈیننس ‪1982‬ء میں یہ بھی درج ہے کہ ضلع قاضی کو وہ‬
‫تمام اختیارات حاصل ہوں گے‪ ،‬جو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو حاصل ہیں۔ تمام عدالتی اور قانونی‬
‫اختیار بھی قاضی اپنی صوابدید کے مطابق بروئے کار السکیں گے۔ (‪)72‬‬
‫اور اسی طرح عالقہ قاضی وہی تمام اختیارات استعمال کر سکیں گے جو مجسٹریٹ استعمال‬
‫کرتے ہیں اور انہیں مجسٹریٹ کے علی الترتیب تمام اختیارات حاصل ہوں گے‪ ،‬وہ تمام عدالتی اور‬
‫قانونی اختیار بھی عالقہ قاضی اپنی صوابدید کے مطابق بروئے کار ال سکیں گے‘‘۔ (‪)73‬‬

‫(ب) عالقائی ڈویژن‬


‫دفعہ نمبر ‪ :7‬سیشن کی ڈویژن اور اضالع‬

‫ہر صوبہ سیشن ڈویژنوں پر مشتمل ہوگا اور ہر سیشن ڈویژن مجموعہ ہذا کی‬ ‫(‪1‬‬
‫اغراض کیلئے ایک ضلع ہوگا یا کئی اضالع پر مشتمل ہوگا۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس ذیلی دفعہ میں عالقائی تقسیم کا ذکر ہے کہ ہر عالقہ جسے سیشن ڈویژن کہا جائے‬
‫گا۔ وہ ضابطہ فوجداری کے مقاصد کیلئے ایک ضلع تصور ہوگا اور یہ سیشن ڈویژن ایسے کئی‬
‫اضالع پر مشتمل بھی ہو سکتا ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬یہ عدل وانصاف کی جلد فراہمی اور عوام و خواص کو پریشانیوں سے بچانے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کیلئے حکومت کی طرف سے ایک انتظامی اقدام ہے جس کا مقصد سہولت پیدا کرنا ہے۔ اسالمی‬
‫شریعت کا بھی یہی مزاج ہے کہ لوگوں کو فراہمی انصاف کے سلسلہ میں پریشان نہ کیا جائے بلکہ‬
‫ان کی دہلیز تک سستا اور فوری انصاف فراہم کیا جائے۔‬
‫تبصرہ‪ :‬اس شق میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کیخالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت‬
‫نہیں ہے۔‬

‫ڈویژنوں اور اضالع میں تبدیلی کا اختیار‪ :‬صوبائی حکومت کو اختیارحاصل ہے‬ ‫(‪2‬‬
‫کہ وہ ڈویژنوں اور ضلعوں کی حدود اور ان کی تعداد میں حسب ضرورت ردوبدل یا ترمیم کر‬
‫سکے‘‘۔‬
‫نکتہ نظر‪ :‬انتظامی بنیادوں پر سلطنت یا ملک کو مختلف مخصوص نام دے کر چھوٹی‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫چھوٹی وحدتوں یا اکائیوں میں تقسیم کرنا مستحسن طریقہ ہے‪ ،‬اس سے سلطنت کو سنبھالنا‪ ،‬اس میں‬
‫امن وامان قائم کرنا‪ ،‬انتظامی لحاظ سے اصالحات کرنا اور عوام کی فالح وبہبود کا احسن انتظام‬
‫کرنا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ ہر اکائی یا وحدت کیلئے علیحدہ انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جا سکتا‬
‫ہے اور اس کیلئے محدود اختیارات تفویض کرکے مختلف افراد کو درجہ بدرجہ مختلف انتظامی‬
‫مناصب پر فائز کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ سربرا ِہ مملکت کی بھرپور استعانت کر سکیں کیونکہ بیک‬
‫وقت پوری سلطنت کے تقاضے فرد واحد یا ایک شعبے کے ذریعے پورا کرنا نہایت مشکل ہے لیکن‬
‫اگر اسے مختلف شعبہ جات اور عالقائی وحدتوں میں تقسیم کردیا جائے اور ایک وفاق کے تحت‬
‫رکھا جائے تو ملکی انتظام میں بہت سہولت رہتی ہے۔ یہ بنیادی انتظامی تصور بھی ہمیں اسالم نے‬
‫دیا اور اس کی عملی مثال بھی قائم کی۔ شبلی نعمانی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫نظام حکومت کا ابتدائی سلسلہ جس پر تمام انتظامات متفرع ہیں‪ ،‬ملک کا مختلف حصوں‬ ‫’’ ِ‬
‫میں تقسیم ہونا ہے جن کو صوبہ‪ ،‬ضلع اور پرگنہ (عالقہ۔ تعلقہ) (‪ )74‬سے تعبیر کیا جاتا ہے‪ ،‬اسالم‬
‫عمر پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس کی باقاعدہ ابتداء کی اور اس زمانے کے موافق‬ ‫میں حضرت ؓ‬
‫نہایت موزونی اور تناسب سے اس کے حدود قائم کئے۔ تمام مورخین نے اس کی تصریح کی ہے کہ‬
‫انہوں نے ممالک کو آٹھ صوبوں میں تقسیم کیا‘‘۔ (‪)75‬‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس سلسلے میں اسالمی نظریاتی کونسل نے یہ تجویز دی ہے‪:‬‬
‫’’اس ذیلی دفعہ (‪ 7)2‬کے آخر میں ان الفاظ کا اضافہ کیا جائے۔‬
‫" ‪But the limits or the number of such divisions shall not be altered‬‬
‫‪)76( ."without the consent of the Chief Justice of the High Court concerned‬‬
‫ترجمہ‪’’ :‬لیکن ان ڈویژنوں کی حدود اور ان کی تعداد کو متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی‬
‫تائید کے بغیر تبدیل نہیں کیا جائے گا‘‘۔‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوتا ہے کہ آج کی دُنیا میں جو جدید نظام ہے۔ صوبہ جات‪،‬‬
‫ڈویژن‪ ،‬ضلع و تحصیل۔ اس کا تصور سب سے پہلے منظم انداز میں اور باضابطہ طور پر اسالم‬
‫نے ہی پیش کیا ہے۔ نیز اسالمی نظریاتی کونسل نے تجویز دی ہے کہ عالقائی تقسیم کے سلسلے‬
‫میں حکومت وقت کو سربراہ عدلیہ یعنی صوبائی حکومت کو متعلقہ ہائی کورٹ اور وفاقی حکومت‬
‫کو متعلقہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تائید اور منظوری کی ضرورت ہے۔ اس سے عدلیہ‬
‫باوقار و بااختیار ہوگی اور معاشرہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہوگا۔‬
‫’’عدلیہ کو باوقار اور بااختیار بنانے کا تصور سب سے پہلے ایک باقاعدہ اصول کی‬
‫صورت میں اسالم نے چودہ سو سال پیشتر عملی طور پر پیش کیا‪ ،‬عدلیہ کا انتظامیہ سے الگ ہونا‬
‫اسالمی ریاست کے بنیادی اصولوں میں سے ہے بلکہ قرآن وسنت کے قوانین کی دائمی حیثیت کا‬
‫مطلب یہ ہے کہ انتظامیہ اور مقننہ پر عدلیہ کو باالدستی حاصل ہے۔ وہ انتظامیہ کے تمام اقدامات‬
‫خالف شرع قوانین کو‬
‫ِ‬ ‫کو چیک کر سکتی ہے اور مقننہ کے بنائے ہوئے جملہ قوانین کو پرکھ کر‬
‫کالعدم قرار دے سکتی ہے‘‘۔ (‪)77‬‬
‫اسالم میں کوئی بھی شخص انصاف اور قانون سے باالتر نہیں ہے‪ ،‬اس لئے قاضی کے‬
‫اختیارات کا دائرہ رعایا کے تمام طبقات اور حکومت کے جملہ افسران حتی کہ سربرا ِہ مملکت تک‬
‫محیط ہے‪ ،‬چنانچہ قاضی کا فرض ہے کہ حکمرانوں کی سرگرمیوں کو شریعت کے معیار پر‬
‫جانچے اور ان کی کڑی نگرانی کرتے ہوئے انہیں انحراف سے روکے۔ (‪)78‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوتا ہے کہ اسالمی مملکت میں عدلیہ آزاد اور خود مختار‬
‫ہوتی ہے۔ حکومت اور حکومتی عہدیداروں کے اثر سے پاک ہوتی ہے بلکہ خود عدلیہ کا دائرہ کار‬
‫انتظامیہ پر محیط ہے اور عدلیہ کا سربراہ حکومتی عہدیداروں کے کاموں کو چیک کر سکتا ہے‬
‫اور اگر وہ قانونی حدود سے تجاوز کریں تو انہیں منع بھی کر سکتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ عدلیہ‬
‫انتظامیہ پر فوقیت رکھتی ہے۔ وہ انتظامی امور میں مداخلت کر سکتی ہے جبکہ انتظامیہ کو عدلیہ‬
‫کے امور میں دخل دینے یا اس پر دبائو ڈالنے کا اختیار نہیں ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬درجِ باال شق میں ڈویژنوں اور ضلعوں کی حدود میں تبدیلی کا اختیار صوبائی‬
‫حکومت کو دیا گیا ہے جبکہ اس بارے میں متعلقہ چیف جسٹس کی رضامندی اور مشورہ بھی‬
‫ضروری ہے۔‬
‫لہٰ ذا اس شق میں اس کے مطابق ترمیم کی جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :8‬اضالع کو سب ڈویژن میں تقسیم کرنے کا اختیار‬

‫صوبائی حکومت مجاز ہے کہ وہ کسی ضلع کو سب ڈویژن میں تقسیم کرے یا کسی‬ ‫(‪1‬‬
‫ایسے ضلع کے کسی حصہ کو ایک سب ڈویژن قرار دے اور کسی سب ڈویژن کی حدود میں‬
‫ردوبدل کرے۔‬
‫عبارت بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء پر مورخہ ‪ 2001-8-13‬کو منسوخ‬ ‫(‪2‬‬
‫کی گئی۔‬
‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬

‫(ج) عدالتیں اور سر رشتے‬

‫ت سیشن‬
‫دفعہ نمبر ‪ :9‬عدال ِ‬

‫صوبائی حکومت ہر سیشن ڈویژن کیلئے ایک عدالت سیشن قائم کرے گی اور ایسی‬ ‫(‪1‬‬
‫ہر عدالت کیلئے ایک جج کا تقرر کریگی۔‬
‫صوبائی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ سرکاری گزٹ میں بذریعہ حکم خاص یا عام‬ ‫(‪2‬‬
‫ت سیشن کا اجالس کس مقام یا مقامات پر ہوگا۔ لیکن کسی ایسے حکم کی عدم‬
‫یہ ہدایت کرے کہ عدال ِ‬
‫موجودگی میں عدالت سیشن اپنے اجالس حسب سابق کرتی رہینگی۔‬
‫صوبائی حکومت مجاز ہے کہ ایسی ایک یا زائد عدالتوں میں ایڈیشنل سیشن ججوں‬ ‫(‪3‬‬
‫اختیار سماعت عمل میں النے کیلئے مقرر کرے۔‬‫ِ‬ ‫اور اسسٹنٹ سیشن ججوں کو‬
‫صوبائی حکومت ایک سیشن ڈویژن کے جج کا تقرر کسی دوسرے ڈویژن میں‬ ‫(‪4‬‬
‫ایڈیشنل سیشن جج کی حیثیت سے کرنے کی مجاز ہے اور ایسی صورت میں وہ صوبائی حکومت‬
‫کی ہدایت کے بموجب ہر ڈویژن کے کسی مقام یا مقامات پر مقدمات کے تصفیہ کیلئے اجالس کر‬
‫سکتا ہے۔‬
‫تمام سیشن عدالتیں جو مجموعہ ہذا کے نفاذ کے وقت موجود ہیں‪ ،‬انہیں اس قانون‬ ‫(‪5‬‬
‫کے تحت قائم کردہ تصور کیا جائیگا۔‬

‫وضاحت‪ :‬مذکورہ دفعہ کی ذیلی دفعہ نمبر ‪ 1‬میں کہا گیا ہے کہ عدالت سیشن کا قیام اور اس کیلئے‬
‫جج کا تقرر صوبائی حکومت کرے گی۔‬
‫نکتہ نظر‪:‬‬
‫اسالمی ٔ‬
‫عدالتوں کا قیام اور ججوں کا تقرر حکومت کے بجائے قاضی القضاۃ کا اختیار ہے۔‬ ‫٭‬
‫فقہاء اسالم نے ادب القاضی کے تحت اُس دور اور آئندہ ادوار کیلئے عدلیہ کے اختیارات‬ ‫٭‬
‫اور حدود وقیود واضح انداز سے بیان کردیئے ہیں اور اس سلسلے میں قاضی القضاۃ کے وسیع‬
‫اختیارات کا دائرہ اختیار وضاحت سے بیان کردیئے۔‬
‫مالکی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫چنانچہ در دیر‬
‫’’اگر عدالتی کام بہت زیادہ پھیال ہوا ہو تو قاضی القضاۃ کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ ملک میں‬
‫جا بجا اپنے جانشین مقرر کردے اور ان ماتحت قاضیوں کو اتنے اتنے فاصلوں پر مقرر کیا جائے‬
‫جو ایک دوسرے سے کئی کئی میل پر واقع ہوں‪ ،‬جہاں تک پہنچنے میں مقدمہ کے فریقوں اور‬
‫گواہوں کو تکلیف نہ ہو‪ ،‬البتہ اگر کوئی عالقہ اس فاصلہ (قصر کی مسافت) سے کم ہے اور زیادہ‬
‫قریب ہے تو وہاں ماتحت عدالت مقرر کرنے کی ضرورت نہیں‘‘۔ (‪)79‬‬
‫وہ مزید لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’لیکن اگر حکومت یا سربراہ مملکت کی طرف سے قاضی کو عام اجازت دے دی جائے‬
‫کہ وہ ماتحت عدالتیں اور جانشین قاضی مقرر کر سکتا ہے تو پھر اسے مکمل اجازت ہے کہ جہاں‬
‫مناسب سمجھے ماتحت عدالت قائم کردے خواہ اس کا کام پھیال ہوا ہو یا نہ ہو اور وہ جگہ خواہ‬
‫قریب ہو یا دور‘‘ ۔ (‪)80‬‬
‫ت سیشن قائم کرکے ایسی ہر عدالت‬
‫اس ذیلی دفعہ کے دوسرے حصے میں درج ہے کہ عدال ِ‬ ‫(‪ii‬‬
‫کیلئے ایک جج کا تقرر کریگی۔‬
‫جج کی تقرری ضروری فرض ہے‪ ،‬جو بنیادی طور پر سربراہ حکومت سرانجام دے گا اور‬
‫اگر وہ چاہے تو سربرا ِہ عدلیہ یعنی قاضی القضاۃ کو بھی جج یا قاضی کے تقرر کا اختیار دے سکتا‬
‫کاسانی لکھتے ہیں۔‬
‫ؒ‬ ‫ہے۔‬
‫’’قاضی کا تقرر فرض ہے کیونکہ اسے ایک فریضے یعنی قضاء سے عہدہ برآ ہونے‬
‫تعالی نے دائود علیہ السالم کو فرمایا‪ :‬فاحکم بین الناس بالحق (لوگوں‬
‫ٰ‬ ‫کیلئے مقرر کیا جاتا ہے۔ ہللا‬
‫میں انصاف کے ساتھ فیصلے کرو) نیز نبی کریمﷺ کو فرمایا‪ :‬فاحکم بینھم بما انزل اہللا (پس ہللا‬
‫تعالی کی نازل کردہ (ہدایت) کے مطابق ان میں فیصلے کیا کرو‘‘۔ چونکہ قاضی کے تقرر کی‬ ‫ٰ‬
‫غرض وغایت ایک فرض کی بجا آوری ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس کا تقرر بھی المحالہ ایک فرض ہے‪ ،‬جس‬
‫طرح امام یا حاکم کے تقرر کے فرض ہونے میں اہل حق میں سے کسی کو اختالف نہیں اور امام‬
‫اپنے فرائض سے اکیال عہدہ برآ نہیں ہو سکتا‪ ،‬لہٰ ذا اسے ایک نائب کی ضرورت ہے اور وہ ہے‬
‫قاضی‪ ،‬جو اس کے فرائض کی ادائیگی میں امام کا نائب ہوگا۔ جس طرح رسول اکرم ﷺ نے بھی‬
‫جبل کو یمن اور عتاب بن اسیدؓ کو مکہ قاضی بنا کر بھیجا۔‬ ‫قضاۃ مقرر فرمائے مثالً حضرت معاذ بن ؓ‬
‫امام محمدؒ نے اسے فریضہ محکمہ (ضروری فرض) قرار دیا ہے۔ (‪)81‬‬
‫قدامہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫ابن‬
‫’’قاضی کے تقرر کیلئے ضروری ہے کہ وہ سربراہ مملکت کی طرف سے یا اسکے مقرر‬
‫کردہ نائب کی طرف سے ہو‘‘۔ (‪)82‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوتا ہے کہ قاضی کا تقرر اس منصب کی اہمیت کے پیش‬
‫نظر حاکم یا سربرا ِہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ وجوب کا درجہ رکھتا ہے‪ ،‬اس کی دو‬
‫وجوہات ہیں‪:‬‬
‫نظام قضاء کا قیام اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔‬
‫ِ‬ ‫بطور سربرا ِہ مملکت‬ ‫(‪1‬‬
‫قاضیوں کے تقرر کا اختیار بھی اسے حاصل ہے۔‬ ‫(‪2‬‬
‫کبری کا ایک جزو‬
‫ٰ‬ ‫ت‬
‫امام قرانی مالکی فقیہ بھی یہی کہتے ہیں کہ‪’’ :‬قضاء اور افتاء امام ِ‬
‫ہیں‘‘۔ (‪)83‬‬
‫ابن خلدون لکھتے ہیں‪:‬‬
‫امر خالفت ہے‪ ،‬کیونکہ یہ منصب لوگوں کے جھگڑوں میں‬ ‫’’قضاء بھی درحقیقت داخ ِل ِ‬
‫ت خالفت کی‬
‫ب قضا عمومی ِ‬
‫فیصلے کیلئے ہے تاکہ خصومت و نزاع کی جڑ کٹ جائے‪ ،‬لہٰ ذا منص ِ‬
‫وجہ سے وظائف خالفت میں شامل مانا گیا ہے‘‘۔(‪)84‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ امور قضاء سرانجام دینا بنیادی طور پر خلیفہ وقت ہی‬
‫کی ذمہ داری ہے لیکن سربرا ِہ حکومت کے بے شمار وظائف و امور ہوتے ہیں‪ ،‬جنہیں وہ تنہا‬
‫سرانجام نہیں دے سکتا اور اس کیلئے مختلف شعبہ جات کے لحاظ سے وہ اپنے نائبین و معاونین‬
‫مقرر کر سکتا ہے تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں تعاون حاصل کرکے انہیں بطریق احسن‬
‫امور قضاء میں سربراہ یا حاکم کا نائب ومعاون ہے۔ جو عدالتوں کے‬
‫ِ‬ ‫پورے کر سکے۔ قاضی بھی‬
‫قیام اور ججز کے تقرر میں اپنے اختیارات استعمال کریگا اور عدل وانصاف قائم کرے گا۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس سلسلے میں اسالمی نظریاتی کونسل نے تجویز دی ہے کہ‬
‫چونکہ انتظامیہ اور عدلیہ علیحدہ ہونے کے بعد سیشن ججوں کی تعینات متعلقہ ہائی کورٹ کریگی‪،‬‬
‫لہٰ ذا اس دفعہ میں اس اصول کے تابع ترمیم کی جائے۔ (‪)85‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬کونسل کی رائے کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ مذکورہ باال ذیلی دفعہ میں‬
‫صوبائی حکومت کے بجائے ہائی کورٹ کا ذکر ہونا چاہئے۔ یعنی دفعہ یوں ہونی چاہئے۔‬
‫" ‪High Court shall establish a court of session for every sessions division‬‬
‫‪."and appoint a judge for such court‬‬
‫’’ہائی کورٹ ہر سیشن ڈویژن کیلئے ایک سیشن کورٹ قائم کرے گی اور اس میں ایک جج‬
‫کا تقرر بھی کرے گی‘‘۔‬
‫صوبائی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ سرکاری گزٹ میں بذریعہ حکم عام یا خاص یہ ہدایت‬ ‫(‪ii‬‬
‫کرے کہ عدالت سیشن کا اجالس کس مقام یا مقامات پر ہوگا لیکن کسی ایسے حکم کی عدم موجودگی‬
‫ت سیشن اپنے اجالس حسب سابق کرتی رہینگی۔‬‫میں عدال ِ‬
‫ت سیشن کا مقام متعین کرنے کا اختیار صوبائی‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ ذیلی دفعہ نمبر ‪ ii‬میں عدال ِ‬
‫حکومت کو دیا گیا ہے۔ اس دفعہ سے ’’صوبائی حکومت‘‘ حذف کرکے ’’عدالت عالیہ‘‘ درج کیا‬
‫جائے‪ ،‬کیونکہ یہ عدلیہ سے متعلق ہے لہٰ ذا وہی اس کا تعین کریگی۔‬
‫وضاحت‪ :‬مندرجہ باال ذیلی دفعہ میں عدالت سیشن کے اجالس کے مقام کے تعین کا اختیار صوبائی‬
‫حکومت کو دیا گیا ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ درج ذیل ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس سلسلے میں اسالمی ٔ‬
‫اسالمی ٔ‬
‫مرغینانی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫مقام عدالت اور قاضی کی نشست کے بارے میں‬
‫ِ‬
‫ویجلس للحکم جلوسا ً ظاھرا ً فی المسجد کیال یشتبہ مکانہ علی الغرباء و بعض المقیمین المسجد‬
‫اولی النہ اشھر (‪)86‬‬
‫الجامع ٰ‬
‫’’اور قاضی فیصلہ کرنے کیلئے ظاہر طور پر مسجد میں بیٹھے تاکہ مسافروں اور بعض‬
‫مقیم لوگوں پر یہ جگہ مشتبہ نہ ہو اور جامع مسجد بہتر ہے کیونکہ وہ زیادہ مشہور جگہ ہے‘‘۔‬
‫شافعی نے اختالف کیا‬
‫ؒ‬ ‫لیکن قاضی کی مجلس عدالت کو مسجد میں قائم کرنے کے بارے میں‬
‫ہے۔ شارح ہدایہ اس اختالف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫شافعی کہتے ہیں کہ فیصلہ کیلئے مسجد میں بیٹھنا مکروہ ہے کیونکہ فیصلہ کیلئے مشرک‬ ‫ؒ‬ ‫’’‬
‫بنص قرآن نجس ہے‪ ،‬حائضہ بھی آئیگی جسے مسجد میں داخلے سے روکا‬ ‫بھی آئیگا‪ ،‬حاالنکہ وہ ِ‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫گیا ہے اور ہماری دلیل یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ انما بینت السماجد لذکر اہللا‬
‫مقام اعتکاف‬
‫والحکم۔ کہ مساجد تو ذکر ہللا اور فیصلہ کرنے کیلئے بنائی گئی ہیں اور آنحضورﷺ ِ‬
‫راشدین کا عمل رہا۔ اس لئے کہ قاضی کا‬ ‫ؓ‬ ‫میں خصومات کا فیصلہ کرتے تھے‪ ،‬اسی طرح خلفائے‬
‫فیصلہ کرنا ایک عبادت ہے لہٰ ذا نماز کی طرح اسے مسجد میں قائم کرنا جائز ہے۔ مشرک کی‬
‫نجاست اعتقادی یعنی حکمی ہے‪ ،‬حقیقی نہیں لہٰ ذا اسے مسجد آنے سے نہ روکا جائیگا اور حائضہ‬
‫اپنے بارے میں بتائے گی تو قاضی اس کی طرف یا مسجد کے دروازے کی طرف آجائیگا یا ایسے‬
‫شخص کو بھیجے گا جو فیصلہ کردے اور اگر قاضی گھر میں بیٹھے تو پھر بھی جائز ہے‘‘۔ (‪)87‬‬
‫کاسانی ؒ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’قضاء کے اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مجلس عدالت کسی مشہور ترین اور‬
‫شافعی کے‬
‫ؒ‬ ‫نمایاں ترین جگہ میں ہو تاکہ لوگوں کیلئے اس میں سہولت رہے‪ ،‬اس کے بعد امام‬
‫ؓ‬
‫راشدین‪ ،‬صحابہ‬ ‫اختالف کا ذکر کرکے اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ‪ ،‬خلفائے‬
‫عظام بھی بطور قاضی مسجد میں اجالس کیا کرتے تھے اور ان سب کی اتباع کرنا‬
‫ؒ‬ ‫کرام اور تابعین‬
‫ؓ‬
‫فرض ہے‘‘۔ (‪)88‬‬
‫مقام عدالت کے بارے میں مسجد میں بیٹھنا ہو تو اس مسجد کو نوعیت اور موقع و محل کا‬
‫ِ‬
‫فتاوی ھندیہ میں ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫تعین بھی فقہائے احناف نے کردیا ہے‪،‬‬
‫اولی ہے‪ ،‬پھر جس مسجد میں جماعت قائم ہوتی ہے اگرچہ اس میں جمعہ نہ‬ ‫’’جامع مسجد ٰ‬
‫بزدوی کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت ہے کہ جامع مسجد شہر کے وسط میں ہو اور‬‫ؒ‬ ‫پڑھا جائے۔‬
‫اگرچہ یہ مسجد شہر کے کنارے پر ہے تو قاضی کو چاہئے کہ وہ مسجد اختیار کرے‪ ،‬جو شہر کے‬
‫درمیان میں واقع ہو تاکہ بعض مقدمہ والوں کو شہر کے کنارے جانے میں مشقت نہ ہو‪ ،‬اور اگر‬
‫قاضی اپنی قوم کی مسجد میں بیٹھا تو حرج نہیں ہے اور بعض سلف سے یہی منقول ہے اور اگر‬
‫اپنے گھر میں بیٹھنا اختیار کیا تو کچھ حرج نہیں ہے۔ لوگوں کو وہاں آنے کی اجازت دے اور وہ‬
‫اولی یہ ہے کہ اگر شہر کے وسط‬‫ساتھ بیٹھیں جو لوگ ساتھ بیٹھے ہیں‪ ،‬اکیال بیٹھنے میں تہمت ہے۔ ٰ‬
‫میں ہو‪ ،‬جیسا کہ مسجد کا حکم ہے‘‘۔ (‪)89‬‬
‫شبلی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫عمر نے اسی مصلحت کے پیش نظر عدالت کیلئے خاص عمارتیں نہیں بنوائیں‪،‬‬ ‫’’حضرت ؓ‬
‫بلکہ مسجدوں پر اکتفا کیا کیونکہ مسجد کے مفہوم ہیں جو تعمیم اور اجازت عام تھی وہ کسی اور‬
‫عمارت میں پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ مقدمات کے رجوع کے سلسلے میں کوئی صرف (خرچ)‬
‫برداشت نہیں کرنا پڑتا تھا۔ نہ ہی عدالت کے دروازے پر کسی قسم کی روک ٹوک تھی‘‘۔ (‪)90‬‬
‫قدامہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫نکتہ نظر کی ترجمانی کرتے ہوئے ابن‬
‫مقام عدالت کے بارے میں حنبلی ٔ‬
‫’’قاضی کیلئے بہتر ہے کہ عدالت ایسی جگہ منعقد کرے جو لوگوں کے درمیان نمایاں ہو‪،‬‬
‫بہت زیادہ کشادہ ہو‪ ،‬مثالً بڑا ہال‪ ،‬کشادہ مکان‪ ،‬کھلی جگہ یا جامع مسجد‪ ،‬یاد رہے کہ مسجد میں‬
‫یحیی بن‬
‫ٰ‬ ‫دثار‪،‬‬
‫شعبی‪ ،‬محارب بن ؒ‬
‫ؒ‬ ‫بصری‪ ،‬امام‬
‫ؒ‬ ‫شریح‪ ،‬حسن‬
‫ؒ‬ ‫عدالت لگانا مکروہ نہیں ہے‪ ،‬قاضی‬
‫عبدالعزیز کے قاضی ابن خلدہ یہ سب لوگ مسجدوں میں عدالت‬ ‫ؓ‬ ‫لیلی اور عمر بن‬
‫یعمر‪ ،‬ابن ابی ٰؒ‬
‫ؒ‬
‫علی کے بارے میں‬ ‫غنی اور حضرت ؓ‬ ‫ؓ‬
‫لگاتے ہیں‪ ،‬اسی طرح حضرت عمر فاروق‪ ،‬حضرت عثمان ؓ‬
‫کار قضاء انجام دینا‬
‫مالک کے مطابق مسجد میں ِ‬ ‫ؒ‬ ‫ہے کہ وہ مسجد میں قضاء کا کام کرتے تھے‪ ،‬امام‬
‫راھویہ اور ابن المنذر کی ہے‘‘۔ (‪)91‬‬
‫ؒ‬ ‫لوگوں میں قدیم سے مروج ہے۔ یہی رائے اسحق بن‬
‫وہ مزید لکھتے ہیں‪:‬‬
‫عمر کو دیکھا کہ مسجد کے قبلہ کی طرف سے‬ ‫شعبی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ؓ‬ ‫ؒ‬ ‫’’امام‬
‫عمر سے اس کے‬ ‫پشت لگا کر بیٹھے لوگوں کے درمیان فیصلہ کر رہے ہیں‪ ،‬جہاں تک حضرت ؓ‬
‫برعکس ہدایات دیئے جانے کا تعلق ہے‪ ،‬ان کی صحت کی ہمیں کوئی اطالع نہیں ہے جبکہ ان سے‬
‫طرز عمل اس کے خالف منقول ہے‪ ،‬خود حضور ﷺ مسجد نبوی میں تشریف فرما ہوتے‬ ‫ِ‬ ‫ان کا اپنا‬
‫تھے حاالنکہ لوگوں کو مسائل پوچھنے‪ ،‬فیصلے کرانے اور دیگر امور میں آپ ﷺ کی ضرورت‬
‫کرام مسجد ہی میں ایک دوسرے سے مطالبہ بھی کرتے تھے‪ ،‬حضرت کعب بن‬ ‫ؓ‬ ‫رہتی تھی‪ ،‬صحابہ‬
‫مالک سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں نے مسجد میں ابن ابی حدردؓ سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا‬ ‫ؓ‬
‫حتی کہ آپ ﷺ باہر تشریف لے آئے‪ ،‬ہماری بات سن کر‬
‫اور اس میں ہماری آوازیں بلند ہو گئیں‪ٰ ،‬‬
‫فرمایا کہ تم اپنے قرض کا ایک حصہ معاف کردو۔ میں نے عرض کی ٹھیک ہے یا رسول ہللا ﷺ‪،‬‬
‫اس پر آپ ﷺ نے ابن ابی حدردؓ کو فرمایا اور ان کا قرض ادا کرو‘‘۔ (‪)92‬‬
‫شافعی کے نزدیک مسجد میں عدالت لگانا مکروہ ہے۔ (‪ )93‬لیکن وہ‬
‫ؒ‬ ‫نکتہ نظر‪ :‬امام‬
‫امام شافع ؒی کا ٔ‬
‫مزید فرماتے ہیں کہ اگر قاضی مسجد میں موجود ہو اور فریقین بھی اتفاق سے مسجد میں آجائیں‪ ،‬ان‬
‫عمر نے قاسم بن عبدالرحمن کو لکھا‬
‫کے درمیان فیصلہ کر سکتا ہے کیونکہ روایت ہے کہ حضرت ؓ‬
‫تھا کہ مسجد میں فیصلہ نہ کیا کرو۔ اس لئے کہ وہاں تمہارے پاس حائضہ عورتیں اور جنبی لوگ‬
‫بھی آئینگے‪ ،‬نیز حاکم عدالت کے روبرو غیر مسلم‪ ،‬حائضہ عورتیں اور جنبی لوگ ایک دوسرے‬
‫کو جھوٹا کہیں گے‪ ،‬ایک دوسرے کے حق کا انکار کریں گے‪ ،‬ممکن ہے گالی گلوچ کی بھی نوبت‬
‫آئے‪ ،‬یہ وہ چیزیں ہیں جن کیلئے مسجدیں نہیں بنائی گئیں۔ (‪)A-93‬‬
‫مجلس عدالت کے انعقاد اور قیام کے بارے میں مذاہب‬‫ِ‬ ‫مندرجہ باال سطور میں قاضی کی‬
‫ائمہ ذکر کئے گئے ہیں‪ ،‬ائمہ احناف کے نزدیک مسجد میں قضاء سرانجام دینا جائز ہے‪ ،‬اس میں‬ ‫ؒ‬
‫کرام‪ ،‬تابعین میں ایسا ہوتا رہا‬
‫ؓ‬ ‫کوئی حرج نہیں کیونکہ عہد نبوی اور زمانہ خلفائے راشدین‪ ،‬صحابہ‬
‫شافعی مسجد میں قاضی کا بیٹھنا مکروہ قرار دیتے ہیں‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫ہے اور ان کی پیروی الزم ہے جبکہ امام‬
‫حنبلی فقہاء کرام بھی مسجد میں عدالت قائم کرنے کو جائز کہتے ہیں اور دالئل فقہاء احناف جیسے‬
‫ہی دیتے ہیں۔‬
‫یہ بھی واضح ہوا کہ اسالم کا عدالتی مقام اور اس کی نوعیت اور محل وقوع کے بارے میں‬
‫نکتہ نظر سادہ‪ ،‬جامع اور سھل العمل ہے‪ ،‬اس کے مقابلہ میں مغربی قانون کے ماہرین نے اس‬
‫ٔ‬
‫مقام عدالت کیلئے بھاری شرائط لگا دی ہیں۔ جس‬
‫سلسلے میں بے جا تکلفات سے کام لیتے ہوئے ِ‬
‫سے انصاف کا حصول مشکل تر ہو گیا ہے اور حقوق ضائع ہو رہے ہیں‪ ،‬اس کے مقابلے میں‬
‫اسالمی تعلیمات کے مطابق قائم کردہ عدالت میں ہمہ وقت آسانی سے حقوق حاصل کرنا ممکن ہے‬
‫اور داد رسی کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ مسجد میں ہر طبقہ ہر حیثیت کے لوگوں کو آنے جانے‬
‫کی اجازت ہے اور انہیں وہیں انصاف بھی فراہم کرکے انسانیت کیلئے آسانی پیدا کر دی گئی ہے‬
‫تاکہ حقوق ضائع ہونے سے بچیں۔‬
‫صوبائی حکومت مجاز ہے کہ ایسی ایک یا زائد عدالتوں میں ایڈیشنل سیشن ججوں اور‬ ‫(‪3‬‬
‫اختیار سماعت عمل میں النے کیلئے مقرر کرے۔‬‫ِ‬ ‫اسسٹنٹ سیشن ججوں کو‬
‫وضاحت‪ :‬اس ذیلی دفعہ میں سیشن ججوں کے معاون کے طور پر ایڈیشنل سیشن ججوں اور‬
‫اسسٹنٹ سیشن ججوں کی تعیناتی کی ہدایت کی گئی ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬درجِ ذیل سطور میں اسالمی اصولوں کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیا جا‬
‫اسالمی ٔ‬
‫رہا ہے کہ اسالمی عدالتی نظام میں سیشن جج یا ضلع قاضی کے معاون جج یا قاضی متعین کرنے‬
‫کی گنجائش موجود ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں فقہاء اسالم نے تفصیلی دالئل دیئے ہیں‪ ،‬جو درج‬
‫ذیل ہیں۔‬
‫ابوبکر الخصاف لکھتے ہیں‪:‬‬
‫اگر قاضی کسی شخص کو اپنا نائب مقرر کرے تو جائز نہیں کیونکہ خلیفہ نے اسے اپنی‬
‫رائے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے‪ ،‬دوسرے کی نہیں‪ ،‬لہٰ ذا وہ نائب مقرر نہیں کر سکتا‪ ،‬جسے‬
‫بیع کا وکیل کسی کو وکیل بنائے تو جائز نہیں۔‬
‫اگر خلیفہ نے قاضی کو یہ ہدایت کی کہ وہ اپنا نائب مقرر کرے تو قاضی کیلئے یہ جائز ہے‬
‫کیونکہ قاضی کا اختیار عمومی ہے‪ ،‬مثالً ایک موکل نے اپنے وکیل سے کہا کہ آپ جس قسم کی‬
‫کارروائی کریں جائز ہے‪ ،‬یہاں وہ وکیل کسی دوسرے کو اپنا وکیل بنا سکتا ہے۔ (‪)94‬‬
‫کاسانی کہتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬
‫ولیس للقاضی ان یسختلف علی القضاء اال ان یفوض الیہ ذلک النہ قلد القضاء‪ ،‬دون التقلید بہ‬
‫فصار کتوکیل الوکیل (‪)95‬‬
‫’’اور قاضی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ قضاء پر اپنا خلیفہ مقرر کرے‪ ،‬مگر یہ کہ اس کو یہ‬
‫اختیار دیا گیا ہو‪ ،‬یہ اس لئے کہ اسے قاضی کا عہدہ دیا گیا ہے‪ ،‬قاضی بنانے کا اختیار نہیں دیا گیا۔‬
‫پس یہ ایسے ہو گیا جیسے وکیل کا وکیل بنانا‘‘۔‬
‫اشرف الہدایہ میں ہے‪:‬‬
‫’’قاضی کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ عذر کی وجہ سے یا بغیر عذر کے قضاء کے معاملے‬
‫اعلی نے پہلے یہ اختیار دے‬
‫ٰ‬ ‫میں کسی کو اپنا خلیفہ اور نائب مقرر کرے‪ ،‬ہاں اگر سلطان اور حاکم‬
‫شافعی ہیں۔ یہ اس‬
‫ؒ‬ ‫مالک‪ ،‬امام احمدؒ اور امام‬
‫ؒ‬ ‫دیا ہو تو نائب مقرر کرنا جائز ہے۔ اسی کے قائل امام‬
‫وقت ہے جب قاضی کے تقرر کے وقت حاکم نے سکوت اختیار کیا ہو‪ ،‬نہ اسے نائب مقرر کرنے‬
‫کی ہدایت کی ہو‪ ،‬نہ ہی منع کیا ہو لیکن اگر سلطان نے قاضی کو خلیفہ مقرر کرنے کی اجازت دیدی‬
‫ہو تو باالتفاق نائب مقرر کرنا جائز ہے‘‘۔ (‪)96‬‬
‫ابن رشد لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ت سفر میں؟ تو اس میں اختالف‬
‫ت مرض اور حال ِ‬
‫’’کیا قاضی اپنا جانشین بنا سکتا ہے حال ِ‬
‫ہے‪ ،‬اِالِّ یہ کہ اسے اجازت دے دی گئی ہو‘‘۔ (‪)97‬‬
‫ماوردی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬
‫’’قاضی کا تقرر سربراہ مملکت کی ذمہ داری اور اس پر فرض عین ہے‪ ،‬اس سلسلہ میں‬
‫ثانوی اور فروعی حیثیت صوبائی اور عالقائی قاضی کی ہے‪ ،‬اگر وہ اپنے ماتحت تمام عالقوں کے‬
‫عدالتی معامالت کی خود دیکھ بھال نہ کر سکے تو جن معامالت میں وہ براہ راست دیکھ بھال کرنے‬
‫پر قادر نہیں ہے‪ ،‬ان کیلئے دوسرے قاضیوں کا تقرر کرنا اس کی ذمہ داری ہے‘‘۔ (‪)98‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ قاضی کا تقرر خلیفہ یا سربراہ مملکت کی ذمہ داری‬
‫ہے۔ نیز وہی قاضی کو عذر یا غیر حاضری کی صورت میں اپنا نائب قاضی بنانے کی اجازت دینے‬
‫کا مجاز ہے‪ ،‬پس اگر وہ اجازت دیدے تو قاضی کیلئے نائب بنانا جائز ہے‪ ،‬یا اجازت صراحتا ً نہ ہو‪،‬‬
‫بلکہ عمومی طور پر قاضی کا تقرر کردے اور سکوت اختیار کرے۔ پھر بھی قاضی اپنا نائب مقرر‬
‫کر سکتا ہے لہٰ ذا نائب مقرر کرنے کے جواز کی یہی ایک صورت ہے لیکن اگر خلیفہ یا امیر‬
‫مملکت نائب مقرر کرنے سے روک دے تو پھر کسی بھی صورت قاضی کو اختیار حاصل نہیں‬
‫رہے گا۔‬
‫نیز مندرجہ باال ذیلی شق میں مذکورہ عہدہ اسسٹنٹ سیشن جج کے بارے میناسالمی نظریاتی کونسل‬
‫کی سفارش یہ ہے‪:‬‬
‫’’مذکورہ دفعہ کی ذیلی دفعہ نمبر ‪ 3‬میں سے ’’اسسٹنٹ سیشن جج‘‘ کے الفاظ حذف‬
‫کردیئے جائیں کیونکہ قیام پاکستان سے اب تک اس عہدہ پر کسی کو تعینات نہیں کیا گیا ہے‪ ،‬نہ‬
‫بجٹ میں اس کیلئے فنڈز مختص ہیں۔ یہ الفاظ غیر ضروری طور پر قانون میں موجود ہیں‪ ،‬جن سے‬
‫ابہام اور اختال ِل فہم کا امکان ہے‘‘۔ (‪)99‬‬
‫میرٹ پر تقرری‪ :‬اسالم نے اقربا نوازی کی بنیاد پر نااہل افراد کے انتخاب کی مذمت کی ہے اور‬
‫اس سلسلے میں قواعد وضوابط کی پابندی پر زور دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے‪:‬‬
‫من استعمل رجل من العصابۃ و فی تلک العصابۃ من ھوا رضی ہللا منہ فقد خان اہللا وخان‬
‫رسولہ وخان المومنین (‪)100‬‬
‫’’جس شخص نے (حاکم یا امیر) ایک جماعت میں سے کسی شخص کو حاکم مقرر کیا اور‬
‫تعالی کی نظر میں زیادہ پسندیدہ ہے تو ایسا تقرر‬
‫ٰ‬ ‫اس جماعت میں ایسا شخص موجود ہے جو ہللا‬
‫تعالی‪ ،‬اس کے رسول معظمﷺ اور ایمان والوں سے خیانت کی‘‘۔‬ ‫ٰ‬ ‫کرنیوالے شخص نے ہللا‬
‫مندرجہ باال حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اسالم نے زندگی کے ہر شعبے میں معیار اور‬
‫اصول وضوابط کی پابندی الزمی قرار دی ہے۔ جس شخص کا بھی انتخاب کسی عہدے کیلئے کیا‬
‫جائے‪ ،‬وہ میرٹ پر ہونا چاہئے۔ یہ تو عام تقرریوں کے بارے میں حکم ہے‪ ،‬عدالتی معاملہ تو نہایت‬
‫اعلی معیار اور بلند میرٹ کو‬
‫ٰ‬ ‫اہم اور نازک ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس میں کی جانے والی تقرریوں میں نہایت‬
‫ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ اہل افراد منتخب ہو سکیں اور وہ پھر اپنی خداداد صالحیتوں کو‬
‫بروئے کار الکر لوگوں کو اسالم کی روح کے مطابق صحیح عدل وانصاف مہیا کریں اور حقوق کی‬
‫حفاظت کرکے انہیں ضائع ہونے سے بچائیں تاکہ معاشرہ پرسکون ہو اور مستحکم بنیادوں پر‬
‫استوار ہو۔‬
‫صوبائی حکومت ایک سیشن ڈویژن کے سیشن جج کا تقرر کسی دوسری ڈویژن میں ایڈشنل‬ ‫(‪4‬‬
‫سیشن جج کی حیثیت سے کرنے کی مجاز ہے اور ایسی صورت میں وہ صوبائی حکومت کی ہدایت‬
‫کے بموجب ہر ڈویژن کے کسی مقام یا مقامات پر مقدمہ کے تصفیہ کیلئے اجالس کر سکتا ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مندرجہ باال سطور میں صوبائی حکومت سیشن جج کا تبادلہ کرنے کی مجاز ہے‬
‫جبکہ یہ تبادلہ عدلیہ و انتظامیہ کی علیحدگی کے بعد صرف سربرا ِہ عدلیہ یعنی چیف جسٹس‬
‫ہائیکورٹ ہی کر سکتا ہے‪ ،‬لہٰ ذا یہاں صوبائی حکومت کی بجائے عدالت عالیہ درج کیا جائے۔‬
‫نکتہ نظر‪ :‬قاضی کے تقرر کو کسی شرط کے‬ ‫قاضیوں (ججوں) کے تبادلے کے بارے میں اسالمی ٔ‬
‫ساتھ مشروط بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اس کے اختیار کو مستقبل کی کسی تاریخ سے بھی نافذ‬
‫العمل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ قاضی کے تقرر کو کسی خاص اور‬
‫متعین وقت کیلئے متعین کردیا جائے۔ مثالً اس کا تقرر یوں کیا جائے کہ تم اس شہر کے قاضی ہو‬
‫اور فالں مہینہ یا فالں دن تک کام کرو گے‪ ،‬اس طرح وہ شخص اسی مدت کیلئے وہاں کا قاضی‬
‫ہوگا۔‬
‫اسی طرح قاضی کے تقرر کو کسی جگہ اور عالقہ کے ساتھ خاص بھی کیا جا سکتا ہے‪،‬‬
‫حتی کہ اگر قاضی اپنے ماتحت قاضی کو کسی مسجد کی حدود تک محدود کردے تو یہ بھی ہو سکتا‬
‫ہے اور اس شخص کا دائرہ اختیار اس مسجد کی حدود تک ہی ہوگا۔ (‪)101‬‬
‫ماوردی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫اس سلسلے میں‬
‫’’(قاضی یا جج کو) جس عہدے پر مقرر کیا جائے‪ ،‬اس عہدے کا نام لیکر متعین کیا جائے‪،‬‬
‫اگر عہدے کا تعین ہی نہیں کیا گیا تو تقرر بھی درست نہ ہوگا‪ ،‬اسی طرح جس شہر میں متعین کیا جا‬
‫رہا ہے‪ ،‬اس کا تعین بھی ضروری ہے ورنہ تقرر صحیح نہ ہوگا‘‘۔ (‪)102‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ ایک قاضی یا جج کا تقرر دوسرے ڈویژن یا دوسرے‬
‫عالقے اور شہر میں کیا جا سکتا ہے۔ یہ قانونی اقدام ہے۔ تقرر نامے میں اس قاضی یا جج کو جو‬
‫ذمہ داری تفویض کی جا رہی ہے‪ ،‬وہ واضح طور پر درج ہو اور اس قاضی (جج) کے اختیارات کا‬
‫تعین بھی کردیا جائے اور ساتھ ہی اس کا منصب بھی واضح طور پر لکھ دیا جائے‪ ،‬نیز اسے جہاں‬
‫اور جس جگہ بھیجا جا رہا ہے‪ ،‬اس شہر کا نام بھی متعین کردیا جائے تاکہ اس قاضی یا جج کو‬
‫اپنے بارے میں اس تقرر کے حوالے سے کوئی ابہام نہ رہے۔‬
‫عظمی درج ہونا‬
‫ٰ‬ ‫ت‬
‫تجویز ترمیم‪ :‬مندرجہ باال ذیلی دفعہ میں صوبائی حکومت کے بجائے عدال ِ‬
‫چاہئے کیونکہ ایڈیشنل سیشن ججوں کا تقرر انتظامی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ عدلیہ سے متعلق ہے‬
‫عظمی (‪ )high Court‬کا سربراہ (‪ )Chief Justice‬اس امر کو سرانجام دے گا۔‬
‫ٰ‬ ‫اور عدالت‬
‫دفعہ نمبر ‪ 10‬اور ‪ ]:11‬منسوخ شدہ بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪ ،2001‬مورخہ ‪[ 2001-8-13‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ :12‬ماتحت مجسٹریٹ‬

‫صوبائی حکومت کسی ضلع میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے عالوہ مجسٹریٹ درجہ‬ ‫(‪1‬‬
‫اول‪ ،‬دوم یا سوم کے عہدوں پر جتنی تعداد میں مناسب سمجھے‪ ،‬الئق اشخاص کا تقرر کر سکتی ہے‬
‫نیز صوبائی حکومت یا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (زیر اختیار صوبائی حکومت) کو اختیار ہوگا کہ وقتا ً‬
‫فوقتا ً ان مقامی عالقوں کا تعین کریں جس کی حدود میں ایسے اشخاص اپنے کلی یا جزوی اختیارات‬
‫کو نافذ کر سکتے ہیں جو مجموعہ ہذا کے تحت بالترتیب انہیں حاصل ہوتے ہیں۔‬
‫بجز اس کے کہ مرکزی تعین کی رو سے دیگر حکم ہوا ہو‪ ،‬ایسے اشخاص کے‬ ‫(‪2‬‬
‫اختیار سماعت مذکورہ ضلع کے تمام عالقوں پر محیط ہونگے۔‬
‫ِ‬ ‫اختیارات منجملہ‬

‫تبصرہ‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں فوجداری عدالت کے قیام اور ان کے اختیارات کا ذکر کیا گیا ہے‬
‫لیکن انتظامی معامالت چونکہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس جگہ بھی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور‬
‫ان کے ماتحت درجہ اول‪ ،‬دوم اور سوم کے مجسٹریٹ صاحبان کا ذکر ہے جو انتظامی معامالت کی‬
‫نگرانی وفیصلے کریں گے۔ یہاں عدلیہ کے طریق کار اور دائرہ اختیار کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا‬
‫گیا ہے‪ ،‬اس دفعہ میں یہ ترامیم ہونی چاہئیں۔‬
‫ترمیم ‪ /‬تجویز‪ :‬عدلیہ و انتظامیہ کی علیحدگی کے بعد فوجداری اور دیوانی دونوں قسم کی عدالتیں‬
‫عدلیہ کے ماتحت آگئی ہیں‪ ،‬لہٰ ذا یہاں صوبائی حکومت کے بجائے سربرا ِہ عدلیہ یعنی چیف جسٹس‬
‫آف ہائیکورٹ کا ذکر ہونا چاہئے کہ وہ ججوں کا تقرر عمل میں الئے۔‬
‫یہاں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی تقرری کا ذکر ہے اور اس کے بعد مجسٹریٹ درجہ اول ‪ ،‬دوم‬
‫اور سوم کا ذکر ہے جبکہ ‪1994‬ء میں عدلیہ و انتظامیہ کی علیحدگی کے بعد یہ عہدہ ختم کرکے‬
‫اس کے اختیارات تقسیم کردیئے گئے تھے‪ ،‬پہلے یہ عہدہ ڈپٹی کمشنر کے پاس آتا تھا جو سیکشن‬
‫‪ 30‬کے تحت فوجداری جرائم کی سماعت کرتا تھا اور ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے ریونیو کے‬
‫مقدمات سنتا تھا۔ پھر یہ اختیارات سول ججز درجہ اول‪ ،‬دوئم اور سوئم کو دے دیئے گئے اور‬
‫سپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ کو دفعہ ‪ 30‬کے تحت مقدمات کی سماعت کے اختیارات دے دیئے گئے‪،‬‬
‫پیرول پر رہائی کے اختیارات ڈسٹرکٹ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کو دے دیئے گئے‪ ،‬سپیشل جوڈیشل‬
‫مجسٹریٹ ریگولر عہدہ ہے۔ یہ ضلع کے ساتھ ساتھ تحصیلوں میں جا کر ہی مقدمات سنتا ہے۔‬
‫ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ وہ ان حدود کا تعین کرے‪ ،‬جہاں‬ ‫(‪3‬‬
‫تک اس کے ماتحت عہدہ دار اپنے تفویض شدہ اختیارات استعمال کر سکیں۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس ذیلی دفعہ میں یہ بھی مذکور ہے کہ صوبائی حکومت یا اس کے ماتحت ڈسٹرکٹ‬
‫مجسٹریٹ کو یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ وہ اپنے ماتحت عہدیداروں کے اختیارات کے استعمال‬
‫کیلئے عالقوں کا تعین بھی کرے۔‬
‫اسالمی نکتہ نگاہ‪ :‬فقہاء اسالم نے بھی سیشن جج یا قاضی ضلع کے حوالے سے اس کے اختیارات‬
‫کی وضاحت کی ہے اور لکھا ہے کہ‪:‬‬
‫ت عام دے دی جائے کہ وہ جہاں‬ ‫’’سربراہ مملکت کی طرف سے اگر قاضی کو اجاز ِ‬
‫مناسب سمجھے عدالتیں قائم کر سکتا ہے تو پھر اس قاضی کو کامل آزادی ہے کہ وہ جہاں جہاں‬
‫مناسب سمجھے‪ ،‬ماتحت عدالت قائم کردے‘‘۔ (‪)103‬‬
‫جب قاضی ماتحت عدالت قائم کرے گا تو پھر الزمی طور پر اسے پہلے سے قائم شدہ اور‬
‫نو قائم شدہ عدالتوں کی حدود اور عالقہ بھی مقرر کرنا پڑے گا اور وہ خلیفہ وقت کی اجازت سے‬
‫ایسا کرنے کا مجاز ہے‪ ،‬لہٰ ذا وہ وقتا ً فوقتا ً حاالت و واقعات کے مطابق ان حدود میں ترمیم وتبدیلی‬
‫اور ازسر نو تعین بھی کر سکتا ہے۔‬
‫فقہاء اسالم نے اس سلسلے میں مزید وضاحت بھی کی ہے کہ مفتی یا قاضی کا تقرر کتنے‬
‫فاصلہ پر ہونا چاہئے۔ شربینی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’ایک مفتی کا تقرر کم از کم ایک قصر کے فاصلے پر ہونا چاہئے تاکہ اگر کوئی شخص‬
‫فتوی پوچھنے کیلئے جانا چاہے تو اسے قصر کی مسافت طے نہ کرنی پڑے۔ اسی طرح قاضی کا‬
‫ٰ‬
‫تقرر اتنے عالقہ میں ضرور ہونا چاہئے جہاں ایک شخص صبح پیدل جا کر شام تک واپس اپنے‬
‫گھر آسکے‪ ،‬اس عالقہ کا کسی قاضی کی موجودگی سے خالی ہونا جائز نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ‬
‫ہے کہ تنازعات بہت پیدا ہوتے ہیں اور بہت سے لوگوں کے مابین پیدا ہوتے ہیں۔ بخالف مسائل‬
‫استفسار کے (کہ اس کی نوبت بہت کم آتی ہے)‘‘۔ (‪)104‬‬
‫مندرجہ باال سطور میں جدید دور کیلئے بھی الئحہ عمل مل سکتا ہے اور آج جدید دور کے‬
‫ذرائع رسل ورسائل اور آمدورفت کی سفری سہولیات کے پیش نظر ان حدود مذکورہ میں ترمیم‬
‫وتبدیلی کی جا سکتی ہے لیکن بنیادی مقصد فاصلوں کا اور عالقے کا تعین نہیں ہے بلکہ حقوق کی‬
‫حفاظت اور ہر فرد کیلئے جلدی اور سستا انصاف فراہم کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے‬
‫طریق کار‪ ،‬معیار اور فاصلہ خود متعین کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں عوام کی بہتری اور فالح کی‬
‫روح بہرصورت موجود ہونی چاہئے۔‬
‫ترمیم ‪ /‬تجویز‪ :‬اس سلسلے میں یہ ترمیم کی جانی چاہئے کہ ضابطہ فوجداری کی یہ دفعہ فوجداری‬
‫عدالتوں کی تشکیل سے متعلق ہے اور فوجداری عدالتیں سربراہ عدلیہ کے ماتحت ہوتی ہیں۔ لہٰ ذا ان‬
‫عالقوں اور حدود کا تعین بھی عدلیہ ہی کریگی۔ صوبائی حکومت یا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو یہ‬
‫اختیار حاصل نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪] :13‬منسوخ شدہ بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪ 2001‬مورخہ ‪[ 2001-8-13‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ :14‬خصوصی عدالت‬

‫صوبائی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ ہائی کورٹ کی سفارش پر مجموعہ ہذا کی رو‬ ‫(‪1‬‬
‫سے حاصل ان کلی یا جزوی اختیارات کو جو کسی جوڈیشل مجسٹریٹ کو عطا کئے جا چکے ہوں یا‬
‫کئے جا سکتے ہوں‪ ،‬کسی خاص مقدمے یا کسی خاص قسم یا اقسام کے مقدمات یا کسی خاص مقامی‬
‫عالقے کے عمومی مقدمات کے واسطے کسی خاص شخص کو (بشمول سابق ایگزیکٹو مجسٹریٹ)‬
‫عطا کرے۔‬
‫مجوزہ ترامیم (‪ :)۱‬اس ذیلی دفعہ کے اندر عدلیہ اور انتظامیہ کے دائرہ کار کے پیش نظر پہلے ہی‬
‫ترمیم کی جا چکی ہے۔ جیسا کہ سطور باال میں درج ہے کہ عدلیہ میں تفویض اختیارات کے سلسلے‬
‫میں صوبائی حکومت متعلقہ ہائی کورٹ سے مشورہ کرے گی اور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس جو‬
‫مشورہ دے گا‪ ،‬حکومت اسی کے مطابق اختیارات کا تعین کرے گی۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس ذیلی دفعہ کے دوسرے حصے میں مذکور ہے کہ ضابطہ فوجداری کے‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫تحت کسی جوڈیشل مجسٹریٹ کو دیئے گئے اختیارات کو کسی خاص مقدمے یا خاص عالقے یا‬
‫عمومی مقدمات کیلئے کسی دوسرے خاص شخص کو تفویض کردے۔ کسی خاص مقدمے یا خاص‬
‫عالقے میں کسی قاضی کو بھیجا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اور کیا اس کیلئے کسی خاص مقدمے میں‬
‫اختیارات بھی بطور خاص متعین کئے جا سکتے ہیں یا نہیں؟‬
‫ماوردی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬
‫’’اگر کسی خاص شہر یا مخصوص لوگوں پر عام اختیارات کے ساتھ کسی کو قاضی بنایا یا‬
‫تو درست ہے اور وہ قاضی اپنے ماتحت عالقے پر نفا ِذ احکام کا مجاز ہوگا۔ وہاں کے باشندوں اور‬
‫مسافروں کے انتظامات اور ان کے مقدمات کے فیصلے کرے گا‘‘۔ (‪)105‬‬
‫ماوردی مزید لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫ؒ‬
‫’’اگر ان لوگوں کے فیصلوں کیلئے قاضی مقرر کیا گیا ہو جو اس کے مکان یا مسجد میں‬
‫داخل ہوں تو تقرر صحیح ہوگا اور قاضی کیلئے اس مکان یا مسجد کے سوا مقدمات کے فیصلے‬
‫کرنا درست نہ ہوگا‘‘۔ (‪)106‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے پتہ چال کہ کسی شخص کو کسی خاص مقدمے یا خاص عالقے‬
‫کیلئے یا عمومی مقدمات کیلئے قاضی بنا کر بھیجا جائے تو اس کا تقرر بالکل درست ہوگا۔‬
‫تجویز‪ :‬اس ذیلی دفعہ میں اسالمی تعلیمات کے خالف کوئی چیز نہیں ہے لہٰ ذا اسے جوں کا توں‬
‫رہنے دیا جائے۔‬
‫ایسے مجسٹریٹ خصوصی جوڈیشل مجسٹریٹ کہالئیں گے اور اتنی مدت کیلئے ان کا تقرر‬ ‫(‪2‬‬
‫کیا جائیگا‪ ،‬جس کے متعلق صوبائی حکومت ہائی کورٹ کے مشورے سے بذریعہ حکم عام یا خاص‬
‫ہدایت کرے۔‬
‫تجویز‪ :‬اس ذیلی دفعہ میں پہلے ہی خصوصی مجسٹریٹ کے ساتھ جوڈیشل کا اضافہ کردیا یا ہے‬
‫جس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ اس عہدہ دار کا تعلق عدلیہ سے ہے اور یہ عدلیہ کے ماتحت ہوگا‬
‫اور اس کے تقرر میں حکومت ہائی کورٹ سے مشورہ بھی کرے گی۔ لہٰ ذا یہ ذیلی دفعہ انتظامی اور‬
‫عدالتی دائرہ کار کے حوالے سے ٹھیک ہے۔ اسے جوں کا توں رہنے دیا جائے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬درج ذیل سطور میں یہ جائزہ لیا جا رہا ہے کہ فقہاء اسالم نے کہیں اس بات کی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫بھی تصریح کی ہے کہ مخصوص مدت اور مخصوص وقت کیلئے کسی قاضی کا تقرر کیا جا سکتا‬
‫ماوردی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫ہے یا نہیں؟ تو اس سلسلے میں‬
‫‘‘کسی متعین وقت اور مدت کیلئے بھی قاضی کا تقرر ہو سکتا ہے‪ ،‬مثالً یہ کہ شنبہ کے دن‬
‫کا قاضی مقرر کردیا جائے تو یہ قاضی غروب آفتاب تک ہر قسم کے مقدمات کی سماعت کا مجاز‬
‫ہوگا اور اگر تقرر میں ہر شنبہ کا قاضی مقرر کیا گیا ہو تو قاضی ہر شنبہ (ہفتہ) کو سماعت کا مجاز‬
‫ہوگا‘‘۔ (‪)107‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوتا ہے کہ اسالمی نظام عدالت میں کسی شخص کو معین‬
‫وقت یا معین مدت کیلئے بھی قاضی مقرر کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ اس وقت کے دوران فیصلے کر‬
‫سکے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :15‬مجسٹریٹوں کے بنچ‬

‫صوبائی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ کسی دو یا زائد جوڈیشل مجسٹریٹوں کو کسی‬ ‫(‪1‬‬


‫خاص مقام پر بطور بنچ یکجا اجالس کرنے کی ہدایت کرے اور ایسے بنچ کو وہ اختیارات عطا‬
‫کرے جو مجموعہ ہذا کی رو سے مجسٹریٹ درجہ اول‪ ،‬دوم یا سوم کو عطا کئے گئے ہوں یا کئے‬
‫جا سکتے ہوں اور یہ ہدایت کرے کہ بنچ مذکور ایسے اختیارات کو صرف ان مقدمات یا اقسام‬
‫مقدمات میں اور ان مقامی حدود میں زیر کار الئے‪ ،‬جنہیں صوبائی حکومت مناسب سمجھے۔‬
‫وضاحت‪ :‬تحدید اختیارات‪ :‬مندرجہ باال شق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت جوڈیشل‬
‫مجسٹریٹوں کے بنچ کو یہ ہدایت بھی کر سکتی ہے کہ وہ عطا کردہ اختیارات کو حکومت کی ہدایت‬
‫کے مطابق ہی استعمال کریں۔ گویا ان کے اختیارات کی کسی حد تک تحدید حکومت کی صوابدید پر‬
‫ہوگی۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس سلسلے میں فقہاء اسالم نے تشریح کر دی ہے کہ کسی بھی درجہ کی عدالت‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ماوردی کہتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫کے اختیارات کی تحدید کی جا سکتی ہے۔‬
‫’’یہ جائز ہے کہ کسی قاضی کے احتیارات کو محدود کردیا جائے اور یہ تحدید عالقہ کے‬
‫اعتبار سے بھی ہو سکتی ہے اور احکام کے اعتبار سے بھی ہو سکتی ہے‪ ،‬یعنی یہ درست ہوگا کہ‬
‫کسی قاضی کو مخصوص قسم کے مقدمات کی سماعت کا اختیار دیا جائے‘‘۔ (‪)108‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ قاضی یا کسی جوڈیشل بنچ کو اختیارات تفویض کرنے‬
‫کا اختیار عدلیہ کو حاصل ہے‪ ،‬نیز قاضی کے اختیارات کی تحدید باعتبار مقدمات یا باعتبار عالقہ‬
‫کرنا بھی درست ہے۔‬
‫ترمیم ‪ /‬تجویز‪ :‬جوڈیشل مجسٹریٹوں کے بنچ تشکیل دینے کا اختیار اور پھر اختیارات تفویض کرنا‬
‫صوبائی حکومت کا کام نہیں ہے بلکہ یہ عدلیہ کا کام ہے لہٰ ذا اس ذیلی دفعہ میں ’’صوبائی‬
‫حکومت‘‘ کے بجائے ’’عدلیہ‘‘ درج کیا جائے تاکہ حکومت اور عدلیہ کے دائرہ کار کا تعین ہو‬
‫سکے اور تفویض اختیارات کے سلسلے میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔‬

‫خصوصی ہدایات کی عدم موجودگی میں بنچ کے عملی اختیارات‪ :‬بجز اس کے کہ‬ ‫(‪2‬‬
‫دفعہ ہذا کے تحت اس کے برعکس مرقوم ہو‪ ،‬ایسی ہر بنچ کو وہ اختیارات حاصل ہونگے جو‬
‫ٔ‬
‫اعلی ترین درجہ کے مجسٹریٹ کو عطا ہوئے کہ جس درجہ کا‬‫ٰ‬ ‫مجموعہ ہذا کے مطابق اس‬
‫ٔ‬
‫مجسٹریٹ مذکورہ بنچ کے ممبران میں کوئی ایک ایسا ممبر ہو اور حاضر ہو کر اجالس کی‬
‫مجموعہ ہذا کی اغراض کیلئے‬
‫ٔ‬ ‫کارروائی میں شریک ہو اور جہاں تک عملی طور پر ممکن ہو‪،‬‬
‫ایسی بنچ اس درجہ کا مجسٹریٹ سمجھی جائیگی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ ذیلی شق میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے برعکس معلوم نہیں ہوتی اس پر‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :16‬بنچوں کی رہنمائی کیلئے قواعد مرتب کرنے کا اختیار‬

‫صوبائی حکومت مجاز ہوگی کہ وہ وقتا ً فوقتا ً مجموعہ ہذا کے مطابق کسی ضلع میں مجسٹریٹوں‬
‫کے بنچوں کی رہنمائی کیلئے حسب ذیل موضوعات کی نسبت قواعد وضع کرے۔‬
‫ت اجالس۔‬
‫(‪ b‬اوقات اور مقاما ِ‬ ‫اقسام مقدمات جن کی سماعت کی جائے۔‬
‫ِ‬ ‫(‪a‬‬
‫(‪ c‬بنچ کی تشکیل برائے سماعت۔‬
‫(‪ d‬مجسٹریٹ زیر اجالس کے مابین پیدا ہونے والے اختالفات رائے کو طے کرنیکا طریقہ کار‬
‫وضاحت‪ :‬مذکورہ شق میں مذکور ہے کہ مجسٹریٹوں کے بنچوں کی رہنمائی کیلئے قواعد و ضوابط‬
‫وضع کرنے کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہے جبکہ مذکورہ صدر تمام امور کے بارے میں‬
‫قواعد وضع کرنے کا اختیار عدلیہ کو ہے۔ صوبائی حکومت کو نہیں ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مندرجہ باال شق میں ’’صوبائی حکومت‘‘ کے بجائے ’’عدلیہ‘‘ کی اصطالح درج‬
‫کی جائے کیونکہ مذکورہ بنچ عدالتی مقاصد کیلئے تشکیل دیئے جاتے ہیں اور یہ ’’عدلیہ‘‘ کے‬
‫ماتحت ہوتے ہیں‪ ،‬انتظامیہ یا صوبائی حکومت کے ماتحت نہیں ہوتے‪ ،‬لہٰ ذا ان کی رہنمائی کیلئے‬
‫صوبائی حکومت قواعد وضوابط وضع نہیں کریگی بلکہ عدلیہ اس کی مجاز ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :17‬مجسٹریٹوں اور بنچوں کا سیشن جج کے ماتحت ہونا‬

‫دفعات ‪ 13 ،12‬اور ‪ 14‬کے تحت تقرر کردہ تمام مجسٹریٹ اور دفعہ ‪ 15‬کے تحت‬ ‫(‪1‬‬
‫تشکیل کردہ بنچ سیشن جج کے ماتحت ہوں گے اور سیشن جج مجاز ہوگا کہ وقتا ً فوقتا ً مجموعہ ہذا‬
‫کے مطابق ایسے قواعد وضع کرے یا خاص احکام صادر کرے اور صوبائی حکومت کے دفعہ ‪16‬‬
‫کے تحت قواعد وضع کردہ کے تحت مجسٹریٹوں اور بنچوں کے درمیان تقسیم کار ان قواعد کے‬
‫مطابق ہوں گے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مندرجہ باال ذیلی شق میں پہلے ہی ترمیم کرکے مجسٹریٹوں اور بنچوں کو سیشن جج کے‬
‫ماتحت کرکے عدلیہ کی فوقیت تسلیم کر لی گئی ہے اور عدلیہ اور انتظامیہ کے دائرہ کار کی‬
‫وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیشن جج کو ان مجسٹریٹوں اور بنچوں کے قواعد‬
‫وضع کرنے کا اختیار بھی دیدیا گیا ہے تاکہ اس بارے میں بھی عدلیہ خود مختار ہو۔‬

‫] (‪ )2‬اور (‪ )A-2‬بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء مورخہ ‪ 2011-8-13‬کو حذف کی گئیں[‬

‫اسسٹنٹ سیشن ججوں کا سیشن جج کے ماتحت ہونا‪ :‬جملہ اسسٹنٹ سیشن جج اس‬ ‫(‪3‬‬
‫سیشن جج کے ماتحت ہونگے جس کے عالقے میں وہ اختیارات عمل میں الئے ہوں اور وہ سیشن‬
‫جج مجاز ہے کہ وقتا ً فوقتا ً اسسٹنٹ سیشن ججوں کے تقسیم کار کے متعلق ایسے قواعد مرتب کرے‬
‫جو مجموعہ ہذا کے مطابق ہوں۔‬
‫تبصرہ‬
‫مذکورہ ذیلی شق (‪ )1‬میں ’’اسسٹنٹ سیشن جج‘‘ کے عہدہ کا ذکر ہے لیکن عملی‬ ‫(‪1‬‬
‫طور پر پاکستان میں سندھ کے عالوہ کہیں بھی یہ عہدہ موجود نہیں ہے۔ نہ ہی قیام پاکستان سے اب‬
‫تک کسی شخص کو اس عہدہ پر تعینات کیا گیا ہے۔ البتہ اس عہدہ پر ’’ایڈیشنل سیشن جج‘‘ فرائض‬
‫سرانجام دیتے ہیں۔ لہٰ ذا یہ الفاظ مجموعہ ہذا سے حذف کردینے چاہئیں۔ اس سلسلے میں اسالمی‬
‫نظریاتی کونسل نے بھی اپنی سفارشات میں تحریر کیا ہے‪:‬‬
‫’’اسسٹنٹ سیشن جج کے الفاظ مجموعہ ہذا سے حذف کردیئے جائیں کیونکہ قیام پاکستان‬
‫سے اب تک اس عہدہ پر کسی کو تعینات نہیں کیا گیا‪ ،‬نہ بجٹ میں اس کیلئے فنڈز مختص ہیں‪ ،‬یہ‬
‫الفاظ غیر ضروری طور پر قانون میں موجود ہیں‪ ،‬جن سے ابہام اور اختالل فہم کا امکان ہے‘‘۔‬
‫(‪)109‬‬
‫واضح رہے کہ کراچی (سندھ) کی عدالتوں میں اسسٹنٹ سیشن جج کا عہدہ موجود ہے۔‬
‫مذکورہ ذیلی شق (‪ )1‬میں پہلے ہی ترمیم کی جا چکی ہے کہ اسسٹنٹ سیشن جج ’’سیشن‬ ‫(‪2‬‬
‫جج‘‘ کے ماتحت ہوں گے جبکہ اس سے پہلے اس منصب کی جگہ ’’ایگزیکٹو مجسٹریٹ‘‘ اور‬
‫’’سیشن جج‘‘ کی جگہ ’’سب ڈویژنل مجسٹریٹ‘‘ کے الفاظ درج تھے۔ اب ان کے انتظامی‬
‫اختیارات اسسٹنٹ کمشنرز کو اور عدالتی اختیارات سول ججز کو دیئے گئے ہیں۔‬
‫مذکورہ ذیلی شق (‪ )1‬میں عدلیہ کے ماتحت عہدیداروں کیلئے قواعد وضوابط وضع کرنے‬ ‫(‪3‬‬
‫کا اختیار بھی سب ڈویژنل مجسٹریٹ کے بجائے ’’سیشن جج‘‘ کو دیا گیا ہے۔ جو یہ واضح کرتا ہے‬
‫کہ عدلیہ و انتظامیہ کے دائرہ کار بالکل علیحدہ علیحدہ ہیں۔‬

‫سیشن جج کو یہ اختیار بھی ہوگا کہ جب وہ ناگزیر وجوہ کی بناء پر غیر حاضر یا‬ ‫(‪4‬‬
‫کام کرنے سے قاصر ہو تو وہ کسی ضروری درخواست کی سماعت کیلئے عارضی طور پر کسی‬
‫ایڈیشنل یا اسسٹنٹ سیشن جج کو مقرر کر سکتا ہے اور ایسے جج کو یہ درخواست نمٹانے کا اختیار‬
‫حاصل ہوگا۔‬

‫وضاحت‪ :‬مذکورہ ذیلی شق میں پہلے ہی ترمیم کی جا چکی ہے اور ’’سب ڈویژنل مجسٹریٹ‘‘ کی‬
‫جگہ ’’سیشن جج‘‘ اور ’’ایگزیکٹو مجسٹریٹ‘‘ کی جگہ ’’ایڈیشنل یا اسسٹنٹ سیشن جج‘‘ کا اندراج‬
‫کیا جا چکا ہے۔ عالوہ ازیں مذکورہ ذیلی دفعہ میں یہ بھی مذکور ہے کہ کسی ضروری درخواست‬
‫کی سماعت کیلئے سیشن جج اپنے کسی نائب کو اختیارات تفویض کر سکتا ہے جبکہ وہ خود غیر‬
‫حاضر ہو یا کام کرنے سے قاصر ہو۔‬
‫ماوردی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس سلسلے میں‬
‫اسالمی ٔ‬
‫’’ایک مخصوص اور متعین مقدمے کی سماعت کیلئے بھی قاضی مقرر کیا جا سکتا ہے اور‬
‫اس صورت میں قاضی کسی اور مقدمے کی سماعت کا مجاز نہیں ہوگا اور اس مقدمے کا فیصلہ‬
‫کرنے کے بعد اس کا دائرہ اختیار بھی ختم ہو جائے گا‘‘۔ (‪)110‬‬
‫وضاحت‪ :‬مذکورہ ذیلی شق میں یہ بھی ہے کہ سیشن جج اگر غیر حاضر ہے یا اپنے فرائض‬
‫منصبی ادا نہیں کر سکتا تو وہ اپنے نائبین میں سے کسی کو کوئی ضروری درخواست نمٹانے یا‬
‫کسی مقدمہ کا فیصلہ کرنے کیلئے عارضی طور پر یہ اختیار تفویض کر سکتا ہے‪ ،‬اس سلسلے میں‬
‫کرام سے بھی رہنمائی ملتی ہے۔‬
‫ؓ‬ ‫ہمیں اسو ٔہ حسنہ اور تعامل صحابہ‬
‫کرام کو کسی خاص مقدمہ میں‬
‫ؓ‬ ‫احادیث مبارکہ‪ :‬حضور اکرم ﷺ نے اپنی موجودگی میں کئی صحابہ‬
‫فیصلہ کرنے کا اختیار تفویض فرمایا ہے۔ مثالً‪:‬‬
‫عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ دو فریق حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں اپنا مقدمہ لیکر‬ ‫ؓ‬ ‫(‪1‬‬
‫حاضر ہوئے۔ حضور ﷺ نے مجھے فرمایا‪ :‬عمرو! تم ان کے مقدمہ کا فیصلہ کرو۔ میں نے عرض‬
‫کی آپ ﷺ کا فیصلہ میرے مقابلہ میں زیادہ بہتر ہوگا۔ ارشاد فرمایا اگرچہ ایسا ہو (یعنی میری‬
‫موجودگی میں تم فیصلہ کرو)۔ (‪)111‬‬
‫یمامہ کا ایک مقدمہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا۔ کچے مکانات کی درمیانی دیوار کا‬ ‫(‪2‬‬
‫مسئلہ تھا۔ مقدمہ کا فیصلہ کرنے کیلئے آنحضور ﷺ نے حضرت حذیفہ بن ؓ‬
‫یمان کو حکم دیا۔ (‪)112‬‬
‫الجہنی کو حضور اکرم ﷺ نے ایک مقدمہ کا فیصلہ کرنے‬
‫ؓ‬ ‫ایک دفعہ حضرت عقبہ بن عامر‬ ‫(‪3‬‬
‫کا حکم دیا۔ (‪)113‬‬
‫تعامل صحابہ کرام ؓ‪:‬‬
‫حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنی موجودگی میں حضرت عمر فاروق ؓ کو قضاء کی ذمہ‬ ‫٭‬
‫داری تفویض کی۔ (‪)114‬‬
‫حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت زید بن ؓ‬
‫ثابت کو قضاء کی ذمہ داری اپنی موجودگی میں‬ ‫٭‬
‫تفویض کی اور انہیں مدینہ منورہ میں مقدمات فیصل کرنے کیلئے اپنا نائب بنایا۔ (‪)115‬‬
‫آپ نے یزیدؓ بن اخت النمر کو بعض معمولی مقدمات کی سماعت کیلئے اختیارات‬ ‫اسی طرح ؓ‬ ‫٭‬
‫ؓ‬
‫فاروق نے انہیں‬ ‫تفویض کئے۔ حضرت سائب بن یزیدؓ کہتے ہیں میرے والد نے مجھے بتایا کہ عمر‬
‫فرمایا کہ چھوٹے چھوٹے مقدمات کا بوجھ تم اٹھا لو‪ ،‬وہ درہم وغیرہ کے مقدمات کا فیصلہ کیا کرتے‬
‫تھے۔ (‪)116‬‬
‫طلحہ‪،‬‬
‫ؓ‬ ‫علی‪ ،‬حضرت‬‫غنی کے سامنے کوئی مقدمہ پیش ہوتا تو وہ حضرت ؓ‬
‫حضرت عثمان ؓ‬ ‫٭‬
‫ؓ‬
‫عبدالرحمن بن عوف کو بال لیتے اور ان سے مشورہ کرکے‬ ‫عوام اور حضرت‬
‫ؓ‬ ‫حضرت زبیر بن‬
‫آپ نے حضرت زید بن ؓ‬
‫ثابت کو اپنی موجودگی میں قضاء کی‬ ‫فیصلہ کرتے۔ (‪ )117‬اس کے عالوہ ؓ‬
‫علی نے قاضی شریح ؒ کو قضاء میں معاونت کیلئے‬
‫ذمہ داری سونپی ہوئی تھی۔ (‪ )118‬حضرت ؓ‬
‫آپ کی اجازت سے مقدمات کے فیصلے کرتے تھے۔ (‪)119‬‬ ‫برقرار رکھا اور وہ ؓ‬
‫کرام‬
‫ؓ‬ ‫مندرجہ باال سطور سے پتہ چلتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ بنفس نفیس اور پھر صحابہ‬
‫بھی اپنی موجودگی میں اور اپنی مرضی سے مختلف حضرات کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کا اختیار‬
‫ؓ‬
‫راشدین کی موجودگی میں فیصلے‬ ‫سونپ دیتے تھے اور وہ حضرات خود نبی اکرم ﷺ اور خلفائے‬
‫کرتے تھے۔ اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر آج بھی منصب قضاء پر فائز کوئی شخص‬
‫اپنے بعض معامالت میں کسی ماتحت عہدہ دار کو اپنا نائب اور معاون مقرر کرنا چاہے تو کر سکتا‬
‫ہے۔ اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ صدر ذیلی شق میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪،‬‬
‫لہٰ ذا ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫منسوخ شدہ بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء مورخہ ‪2001-8-13‬‬ ‫(‪5‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ 18‬تا ‪ ] 21‬بذریعہ ‪ AO 1949 Sched‬حذف ہوئیں[‬

‫(‪ )E‬جسٹس آف دی پیس‬

‫دفعہ نمبر ‪ :22‬مفصل کے لئے جسٹس آف پیس‬

‫صوبائی حکومت اپنے زیرانتظام عالقوں میں سرکار ی جریدے میں بذریعہ اعالن ایسے اشخاص‬
‫کو جو پاکستان میں رہتے ہوں اور کسی غیر ملک کی رعایا نہ ہوں اور جیسا مناسب سمجھے‪ ،‬اس‬
‫حد میں اور مقامی عالقہ کیلئے جس کا تذکرہ ایسے اشتہار میں کیا گیا ہو‪ ،‬جسٹس آف پیس مقرر کر‬
‫سکتی ہے۔‬

‫] ترمیم پنجاب‬ ‫٭‬


‫دفعہ نمبر ‪ :22‬جسٹس آف دی پیس کی تقرری‬

‫صوبائی حکومت مجاز ہے کہ سرکاری جریدے میں اشتہار کے ذریعے ایسی مدت کیلئے جس کی‬
‫اشتہار میں تصریح کی گئی ہو اور ایسے قواعد کے تابع جو اس نے وضع کئے ہوں‪ ،‬کسی شخص‬
‫کو جو پاکستان کا شہری ہو اور جس کی دیانتداری اور موزونیت کے متعلق اسے تسلی ہو‪ ،‬ایسے‬
‫مقامی عالقہ کیلئے جس کی اشتہار میں تصریح کی گئی ہو‪ ،‬جسٹس آف پیس مقرر کرے‪ ،‬نیز اسی‬
‫مقامی عالقہ کیلئے ایک سے زائد جسٹس آف پیس مقرر کئے جا سکتے ہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-22‬جسٹس آف پیس کے اختیارات‬

‫کسی مقامی عالقہ کیلئے کسی جسٹس آف پیس کو گرفتاری عمل میں النے کیلئے‬ ‫(‪1‬‬
‫اسی مقامی عالقہ کے اندر دفعہ ‪ 54‬میں محولہ پولیس افسر کے اور دفعہ ‪ 55‬میں محولہ پولیس‬
‫سٹیشن کے افسر انچارج کے جملہ اختیارات حاصل ہوں گے۔‬
‫جسٹس آف پیس جو ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت کسی اختیار کو زیر کار ال کر‬ ‫(‪2‬‬
‫گرفتاری عمل میں الئے‪ ،‬ان پر الزم ہوگا کہ گرفتار کردہ شخص کو قریب ترین پولیس سٹیشن کے‬
‫افسر انچارج کے پاس لے جائے یا لے جانے کا اہتمام کرے اور ایسے افسر کو گرفتاری پر حاالت‬
‫سے آگاہ کرنے کیلئے رپورٹ دے اور اس پر ایسا افسر اس شخص کو دوبارہ گرفتار کرے گا۔‬
‫کسی مقامی عالقہ کے جسٹس آف پیس کو ایسے عالقہ کے اندر اختیار ہوگا کہ وہ‬ ‫(‪3‬‬
‫ڈیوٹی پر مامور پولیس کی جمعیت کے کسی رکن کو اپنی مدد کیلئے طلب کرے۔‬
‫کسی شخص کو پکڑنے یا اس کے فرار کو روکنے کیلئے جو کسی‬ ‫(‪a‬‬
‫دست اندازی جرم میں شریک ہوا ہو یا جس کے متعلق معقول شکایت کی گئی ہو‪ ،‬یا بااعتبار شہادت‬
‫ملی ہو یا معقول شبہ ہو کہ اس نے اس طور پر اس میں حصہ لیا ہے۔‬
‫جرم کے عمومی سدباب کیلئے اور خاص طور پر نقض امن یا خلل عامہ کو‬ ‫(‪b‬‬
‫روکنے کیلئے۔‬
‫جب ڈیوٹی پر مامور پولیس جمعیت کے کسی رکن کو ضمنی دفعہ (‪ )3‬کے تحت‬ ‫(‪4‬‬
‫امداد دینے کیلئے طلب کیا گیا ہو تو ایسی طلبی حاکم مجاز کی طرف سے کی گئی متصور ہوگی۔‬

‫نکتہ نظر‪ :‬عدلیہ (محکمہ قضاء) کے عہدیداروں کو اپنی مدد کیلئے بوقت ضرورت پولیس‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کرام سے ملتا ہے۔ مثالً‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫طلب کرنے کا جواز اسوہ حسنہ اور تعامل صحابہ‬
‫رسول اکرم ﷺ نے حضرت قیس بن سعدؓ کو اس کام پر مامور فرمایا تھا کہ وہ کسی کو‬ ‫٭‬
‫محبوس کریں‪ ،‬کسی کو ماریں اور کسی کو پکڑیں۔ (‪)120‬‬
‫نیز نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں مجرموں کی گردن اڑانے کیلئے بھی بعض اصحاب‬ ‫٭‬
‫مسلمہ‪ ،‬حضرت‬
‫ؓ‬ ‫علی‪ ،‬حضرت مقدادؓ‪ ،‬حضرت محمد بن‬
‫زبیر‪ ،‬حضرت ؓ‬ ‫مقرر تھے‪ ،‬جن میں حضرت ؓ‬
‫کالبی شامل ہیں۔ (‪)121‬‬
‫ؓ‬ ‫عاصم بن ؓ‬
‫ثابت اور حضرت ضحاک بن سفیان‬
‫شعبہ آپ ﷺ کی حفاظت کیلئے صلح حدیبیہ کے موقع پر تلوار لئے کھڑے‬
‫ؓ‬ ‫حضرت مغیرہ بن‬ ‫٭‬
‫رہے۔ (‪)122‬‬
‫صحابہ‪ :‬عہد فاروقی میں عبدہللا بن مسعودؓ عامل مقرر ہوئے‪ ،‬ایک دن انہیں ایک جرم کی‬
‫ؓ‬ ‫تعامل‬
‫اطالع ملی‪ ،‬جس پر انہوں نے فورا ً شرطہ کو مجرمین کی گرفتاری کیلئے بھیجا۔ (‪)123‬‬
‫عمر کے پاس آیا اور ان سے‬
‫ابو شجرہ نامی ایک شخص جو مرتد ہو گیا تھا‪ ،‬حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫آپ نے اس کے سر پر کوڑے سے ضرب لگائی‪ ،‬وہ بھاگ کر اپنی قوم میں واپس‬ ‫حاجت طلب کی‪ؓ ،‬‬
‫عمر اور اس کی شرطہ سے بھاگ آیا ہوں۔ (‪)124‬‬
‫آیا اور کہا کہ میں ؓ‬
‫عمر نے فرمایا کہ قاتلوں کو گرفتار کر الئو اور کوئی انہیں پناہ نہ‬
‫ایک موقعہ پر حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫دے۔ (‪)125‬‬
‫آپ کے احکام‬
‫علی کے پاس شرطہ ہر وقت حاضر رہتا اور شب وروز میں ہر وقت ؓ‬ ‫حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫کی تنفیذ کیلئے مستعد رہتا تھا۔ (‪)126‬‬
‫عبادہ کے پاس ’’الشرطہ‘‘ کے نام سے بارہ‬
‫ؓ‬ ‫علی کے عہد میں حضرت قیس بن‬
‫حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫ہزار نفری پر مشتمل ایک نیم عسکری دستہ تھا‪ ،‬جو عسکری مہمات کے عالوہ پولیس کے فرائض‬
‫بھی سرانجام دیتا تھا۔ (‪)127‬‬
‫کرام سے واضح ہوتا ہے کہ شرطہ (پولیس)‬
‫ؓ‬ ‫آثار صحابہ‬
‫مذکورہ صدر احادیث مبارکہ اور ِ‬
‫مقدمات کے فیصلے صادر کرنے کے وقت موجود رہتی تھی‪ ،‬اگرچہ اس کی شکل ابتدائی تھی لیکن‬
‫مقصد یہی ہوتا تھا۔ پھر فیصلوں کے بعد ان کی تنفیذ بھی (پولیس) شرطہ کے ذمے ہوتی تھی اور‬
‫شرطہ کے اہلکار سزائیں بھی دیتے تھے۔ مختلف افراد کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنا‪،‬‬
‫نقص امن کرنے والوں کو پابند سالسل کرنا یہ سب شرطہ‬
‫مفرور کو روکنا‪ ،‬جرم کا سدباب کرنا‪ِ ،‬‬
‫(پولیس) کے فرائض تھے۔ آج بھی انہی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قاضی یا جسٹس آف پیس‬
‫ان مقاصد کیلئے شرطہ (پولیس) کی مدد حاصل کرنے کیلئے اسے طلب کرنے کے مجاز ہیں اور‬
‫جیسا کہ ذیلی دفعہ نمبر ‪ 4‬میں مذکور ہے‪ ،‬یہ طلبی مجاز افسر کی طرف سے کی گئی تصور ہوگی۔‬
‫جسٹس آف پیس اسی مجاز افسر کے اختیارات کو عارضی طور پر استعمال کرے گا۔‬

‫کسی مقامی عالقہ کیلئے جسٹس آف پیس ان قواعد کے تابع جو صوبائی حکومت‬ ‫(‪5‬‬
‫وضع کرے‪ ،‬مجاز ہوگا کہ‪:‬‬
‫اس عالقہ کے اندر رہنے والے کسی شخص کی شناخت کے متعلق‬ ‫(‪a‬‬
‫سرٹیفکیٹ جاری کرے یا‬
‫ایسے کسی شخص کی اس کے پاس پیش کردہ دستاویز کی تصدیق کرے۔‬ ‫(‪b‬‬
‫کسی ایسی دستاویز کی تصدیق کرے‪ ،‬جس کی کسی قانون نافذ‬ ‫(‪c‬‬
‫الوقت کی رو سے کسی مجسٹریٹ سے تصدیق ہوسکے اور ایسا جاری کردہ ہر سرٹیفکیٹ درست‬
‫سمجھا جائے گا‪ ،‬جب تک اس کے برعکس ثابت نہ ہو اور کوئی دستاویز‪ ،‬جس کی اس طور تصدیق‬
‫کی گئی ہو‪ ،‬جائز طور پر تصدیق شدہ سمجھی جائیگی اور اس مصدقہ دستاویز کو یوں سمجھا‬
‫جائیگا‪ ،‬گویا اسے مجسٹریٹ نے تصدیق کیا ہو۔‬

‫وضاحت‪ :‬مذکورہ صدر ذیلی دفعہ میں جسٹس آف پیس کو اس کے عالقہ کی حدود میں رہنے والے‬
‫شخص کی شناخت یا ایسی دستاویزات کی تصدیق کا اختیار حاصل ہے جسے مجسٹریٹ تصدیق‬
‫کرسکے۔ اس میں کوئی چیز اسالمی تعلیمات کے خالف نہیں ہے کیونکہ اس معاملہ کا تعلق عوامی‬
‫بہبود سے ہے‪ ،‬جس کی اسالم میں اجازت ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ ذیلی شق میں کوئی بات اسالمی اصولوں کیخالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫(‪ ] 6‬اعزازی جسٹس آف پیس (اعزازی عدالت) حسب ذیل شکایات پر پولیس حکام‬ ‫٭‬
‫کو مناسب ہدایات جاری کر سکتا ہے۔‬
‫فوجداری کیس کے اندراج نہ ہونے پر۔‬ ‫(‪1‬‬
‫ایک پولیس افسر سے دوسرے پولیس افسر کو تفتیش منتقل کرنا۔‬ ‫(‪2‬‬
‫پولیس حکام کی غفلت شعاری‪ ،‬پولیس کے امور و فرائض کی ادائیگی کی‬ ‫(‪3‬‬
‫سست رفتاری پر[‬

‫وضاحت‪ :‬مندرجہ باال دفعہ کی ذیلی شق نمبر ‪ 1‬میں جسٹس آف پیس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر‬
‫کہیں فوجداری جرم ہوا ہے اور متعلقہ تھانہ میں اس مقدمے کا اندراج نہیں کیا جا رہا تو مدعی‬
‫درخواست دے گا اور جسٹس آف پیس مقدمے کے اندراج نہ کرنے پر جواب طلب کر سکتا ہے یا‬
‫مقدمہ درج کرنے کا حکم صادر کر سکتا ہے۔ اس کا طریق کار درج ذیل ہے۔‬
‫ایک پولیس افسر سے اگر مدعی تفتیش تبدیل کرانا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلے‬ ‫(‪1‬‬
‫‪ SHO‬کو درخواست دے گا یا ‪ DPO‬کو تفتیش کی تبدیلی کی درخواست دے گا یا جسٹس آف پیس‬
‫کو بھی درخواست دے سکتا ہے یا پھر برا ِہ راست ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کو درخواست دے گا‪،‬‬
‫ایڈیشنل آئی جی یہ درخواست اپنے سرکاری مراسلے کے ساتھ ریذیڈنشل پولیس افسر کو بھیجے گا‬
‫اور وہ مارک کرکے ضلع بورڈ جس کے تین ممبر ہوتے ہیں کو بھیج دے گا۔ بورڈ کے ممبر دونوں‬
‫پارٹیوں کو بال کر سنیں گے اور تفتیش تبدیل کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں اپنی سفارشات مرتب‬
‫کرکے ایڈیشنل آئی جی کو بھیج دینگے‪ ،‬اب اسے اختیار ہے کہ وہ تفتیش تبدیل کرے یا نہ کرے۔‬
‫کوئی بھی درخواست دہندہ یہ موقف اختیار کرکے جسٹس آف پیس کو درخواست دے‬ ‫(‪2‬‬
‫سکتا ہے کہ تفتیشی افسر نے ابھی تک ملزم سے برآمدگی نہیں کی۔ یا وہ ملزموں کو گرفتار نہیں کر‬
‫رہا اور اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے سلسلے میں غفلت شعاری اور سستی کا مظاہرہ کر رہا‬
‫ہے۔ اس شکایت پر جسٹس آف پیس متعلقہ پولیس افسر کے خالف حسب ضابطہ کارروائی کرے گا‬
‫جس کا وہ مجاز ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :B-22‬جسٹس آف پیس کے فرائض‬

‫ان قواعد کے تحت جو صوبائی حکومت وضع کرے‪ ،‬کسی عالقہ کا ہر جسٹس آف پیس‪:‬‬
‫ایسے مقامی عالقہ کے اندر کسی ایسے واقعہ کے ظہور پذیر ہونے کی اطالع‬ ‫(‪a‬‬
‫موصول ہونے پر جس میں نقض امن یا کسی جرم کا سرزد ہونا شامل ہو‪ ،‬فوری طور پر ایسے‬
‫معاملہ میں تحقیق کرے گا اور اپنی تحقیقات کے نتیجہ کی تحریری رپورٹ نزدیکی مجسٹریٹ اور‬
‫تھانہ کے انچارج افسر کو دے گا۔‬
‫اگر ضمن (‪ )a‬میں محولہ جرم قابل دست اندازی ہے‪ ،‬جائے وقوعہ جرم سے کسی‬ ‫(‪b‬‬
‫چیز کو ہٹانے یا کسی طور سے اس میں مداخلت کرنے سے بھی روکے گا۔‬
‫جب کوئی پولیس افسر تحریری طور پر ایسا حکم دے‪ ،‬جو باب ‪ 14‬کے تحت ایسے‬ ‫(‪c‬‬
‫مقامی عالقہ کے اندر کسی جرم کی نسبت تحقیقات کر رہا ہو‪:‬‬
‫ایسی تحقیقات کرنے میں اس پولیس افسر کو تمام امداد دے گا۔‬ ‫(‪i‬‬
‫ایسا بیان قلمبند کرے جو کوئی شخص جس کی نسبت کسی جرم کا ہونا باور‬ ‫(‪ii‬‬
‫کیا جاتا ہو‪ ،‬متوقع موت کے تحت دے۔‬

‫تبصرہ‪’’ :‬جسٹس آف پیس‘‘ کا منصب پاکستان میں علیحدہ سے مستقل نوعیت کا نہیں ہے بلکہ‬
‫صوبائی حکومت پہلے سے تعینات سیشن ججز اور سیشن ججز کی نامزدگی پر ایڈیشنل سیشن ججز‬
‫کو ’’جسٹس آف پیس‘‘ کے فرائض و اختیارات اعزازی طور پر تفویض کر دیتی ہے۔ ضلع کی‬
‫سطح پر ’’سیشن ججز‘‘ اور تحصیل کی سطح پر ’’ایڈیشنل سیشن ججز‘‘ یہ فرائض سرانجام دیتے‬
‫ہیں۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ A/22‬میں ’’جسٹس آف پیس‘‘ کے اختیارات بیان کئے گئے ہیں جو کہ ذیلی‬
‫دفعات نمبر ‪ ،(b) ،(a) 3 ،2 ،1‬نمبر ‪ 4‬اور نمبر ‪ (c) ،(b) ،(a) 5‬میں مذکور ہیں اور دفعہ ‪B/22‬‬
‫کی ذیلی شقوں ‪c ،b ،a‬۔ (‪ )i‬اور (‪ )ii‬میں فرائض مذکور ہیں۔ پاکستان کے عدالتی نظام میں ان کا‬
‫عملی طور پر وجود نہیں ہے۔ کسی شخص کی شناحت کیلئے قومی ادارہ ‪ NADRA‬کی طرف سے‬
‫شناختی کارڈ جاری کیا جاتا ہے جو متعلقہ شخص کے متعلق ذاتی کوائف کی تفصیل پر مشتمل ہوتا‬
‫ہے اور ‪ NADRA‬کسی بھی گزیٹڈ آفیسر سے اپنے جاری کردہ فارم پر تصدیق کا مطالبہ کرتا ہے‬
‫اور تصدیق کے بعد کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ جاری کر دیتا ہے یہ تصدیق لوکل باڈیز کے تحت‬
‫منتخب شدہ یونین کونسل اور اس سے باال سطح کے عوامی نمائندگان بھی کر سکتے ہیں۔‬
‫اسی طرح ذیلی دفعہ (‪ )C‬میں بیان کردہ اختیار کے استعمال کی نوبت بھی نہیں آتی کیونکہ‬
‫عموما ً لوگ دستاویزات کی نقول کی تصدیق بھی گزیٹڈ آفیسران سے ہی کرا لیتے ہیں اور بعض‬
‫خاص قسم کی تصدیقات مجسٹریٹ سے کرا لیتے ہیں اور جسٹس آف پیس کے پاس جانے کی‬
‫ضرورت نہیں رہتی۔‬
‫مذکورہ دفعہ نمبر ‪ 6‬میں بیان کردہ اختیارات کا البتہ جسٹس آف پیس استعمال کرتا ہے جن کا‬
‫تعلق پولیس سے ہے جسٹس آف پیس کو مختلف پولیس سٹیشن سونپ دیئے جاتے ہیں۔ ضلع میں‬
‫موجود تعداد کو برابر حصوں میں تقسیم کرکے ہر ایک جسٹس آف پیس کو مخصوص تعداد میں‬
‫پولیس سٹیشن سپرد کردیئے جاتے ہیں اور ان پولیس سٹیشنوں کے بارے میں شکایات متعلقہ جسٹس‬
‫آف پیس سماعت کرتا ہے اور پھر ضابطے کے مطابق کارروائی کرتا ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬دفعہ نمبر ‪ )6(22‬اور ‪ B-22‬میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کیخالف معلوم نہیں‬
‫ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ 24 ،23‬بذریعہ ایکٹ ‪1923 ،XII‬ء سیکشن ‪ 4‬کے تحت حذف ہوئیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :25‬اعزازی جسٹس آف پیس‬

‫اپنے جداگانہ عہدوں کے لحاظ سے سیشن ججز اور ان کی نامزدگی پر ایڈیشنل سیشن ججز صوبہ‬
‫کے ضلع میں اور پورے ضلع کے ’’جسٹس آف پیس‘‘ ہیں۔‬
‫قضاء اور انتظامی عہدہ کا تعلق‪’’ :‬جسٹس آف پیس‘‘ ایک انتظامی منصب ہے‪ ،‬صوبائی حکومت‬
‫ضلعی سطح پر سیشن ججز اور تحصیل کی سطح پر ایڈیشنل سیشن ججز کو اس عہدہ کی ذمہ‬
‫داریاں تفویض کرتی ہے اور اس کے دائرہ کار میں عملی طور پر پولیس کے چند امور آتے ہیں‪،‬‬
‫جو دفعہ نمبر ‪ A-22‬کی ذیلی دفعہ نمبر ‪ 6‬میں مذکور ہیں۔ کیا قاضی یا جج کو انتظامی امور تفویض‬
‫کئے جا سکتے ہیں؟ اور کیا قاضی انتظامی امور میں معاونت کر سکتا ہے یا نہیں؟ نیز پولیس کے‬
‫نکتہ نظر‬
‫بارے میں قاضی کو کیا اختیارات حاصل ہیں۔ ذیل کی سطور میں اسی حوالے سے اسالمی ٔ‬
‫کی وضاحت کی جا رہی ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬حضور اکرم ﷺ کو قرآن پاک میں جامع اور اسوۃ کامل کی حامل شخصیت کے‬‫اسالمی ٔ‬
‫طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ قرآن مجید میں حضور اکرم ﷺ کی ہستی مبارکہ کی جامعیت اور ہمہ‬
‫گیریت کو اس طرح واضح فرمایا گیا ہے۔‬
‫ارشاد باری ہے‪:‬‬
‫ّللاِ أُس َْوۃ ٌ َح َ‬
‫سنَ ٌۃ (‪)128‬‬ ‫لَقَ ْد کَانَ لَ ُک ْم فِی َر ُ‬
‫سو ِل َّ‬
‫’’بے شک تمہارے لئے رسول ہللا ﷺ کی ہستی میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔‬
‫اس آیت سے واضح ہوا کہ حضور اکرم ﷺ کی شخصیت مبارکہ ایک جامع اور کامل معیار‬
‫ہے اور زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ خواہ وہ سماجی پہلو ہو یا‬
‫معاشرتی‪ ،‬دینی ہو یا اخالقی۔ آپ ﷺ کی ذات ہمارے لئے روشنی کا مینار ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں‬
‫ابن کثیر لکھتے ہیں‪ :‬تمام اقوال‪ ،‬افعال اور احوال میں رسول ہللا ﷺ کی پیروی کرنے میں یہ آیت‬
‫کریمہ بہت بڑی دلیل ہے۔ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کیلئے آپ ﷺ کا یہ اسوہ اور نمونہ قائم‬
‫رہے گا اور مشکل حاالت میں ان کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ (‪)129‬‬
‫االزھری کہتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫اس آیت کے تحت جسٹس محمد کرم شاہ‬
‫’’یہ آیت اپنے الفاظ کے اعتبار سے عام ہے‪ ،‬اسے زندگی کے کسی ایک شعبہ کیساتھ‬
‫وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ آیت غزوہ خندق کے موقع پر نازل ہوئی جبکہ دعوت حق پیش کرنے‬
‫والوں کے راستہ میں پیش آنے والی ساری مشکالت اور آالم و مصائب پوری شدت سے رونما ہو‬
‫گئے …… غرضیکہ یہ ایک ماہ کا عرصہ ایسا ہے کہ محبوب پاک ﷺ کی سیرت طیبہ کے سارے‬
‫پہلو اپنی پوری دلفریبیوں کے ساتھ اجاگر ہو جاتے ہیں۔ یہاں فرمایا گیا کہ ان مہیب خطرات میں تم‬
‫نے میرے پیارے رسول ہللا ﷺ کا طریقہ دیکھ لیا۔ یہ کتنا راستبازاہ‪ ،‬سچا اور اخالص وللہیت کے‬
‫رنگ میں رنگا ہوا ہے‪ ،‬یہی تمہاری زندگی کے ہر موڑ پر تمہارے لئے ایک خوبصورت نمونہ ہے‪،‬‬
‫اس کے نقش قدم کو خضر راہ بنا لو‪ ،‬اس کے دامن شفقت کو مضبوطی سے تھام لو‪ ،‬یقینا منزل تک‬
‫پہنچ جائو گے‘‘۔(‪)130‬‬
‫کرام کیلئے ہر قسم کے مسائل کا مرجع تھے‪ ،‬خواہ وہ مسائل‬
‫ؓ‬ ‫حضور اکرم ﷺ صحابہ‬
‫انفرادی یا اجتماعی زندگی کے کسی بھی پہلو سے متعلق ہوں۔ آپ ﷺ ہر قسم کے مقدمات و تنازعات‬
‫کے فیصلے فرماتے۔ ان کی تنفیذ کی جاتی۔ بازار میں جاکر احتساب کرتے۔ امر بالمعروف ونہی عن‬
‫المنکر کا فریضہ بھی سرانجام دیتے۔ غزوات کے سارے معامالت سرانجام دیتے۔ عائلی مسائل حل‬
‫کرتے۔ المختصر زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں جہاں آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے نہ ہو۔ اس‬
‫نبوی (علی صاحبہا‬
‫ؐ‬ ‫کار قضاء کے ساتھ انتظامی امور بھی سرانجام دیتے۔ گویا سنت‬
‫مبارک دور میں ِ‬
‫الص ٰلوۃ والسالم) سے ہمیں یہ ثبوت ملتا ہے کہ قاضی انتظامی امور بھی سرانجام دے سکتا ہے۔ پھر‬
‫ؓ‬
‫صدیق کا ہر حاکم اور والی محتسب بھی‬ ‫خلفائے راشدین نے بھی یہی روش اپنائی۔ حضرت ابوبکر‬
‫آپ کا سارا‬
‫ابوبکر نے جوں کا توں قائم رکھا۔ خود ؓ‬
‫ؓ‬ ‫تھا‪ ،‬عہد رسالت کے نظام حکومت کو حضرت‬
‫وقت مسلمانوں کی اصالح وفالح کی تدابیر میں گزرتا اور اس میں معامالت کی چھان بین اور اخالق‬
‫عامہ یعنی الحسبہ کے متعلق امور شامل تھے۔ (‪)131‬‬
‫فاروق نے قاضی ابو ادریس خوالنی کو مظالم کی روک تھام‪،‬‬ ‫ؓ‬ ‫اسی طرح حضرت عمر‬
‫مظلوموں کی داد رسی اور مجرموں کو سزا دینے کا کام سپرد کر دیا تھا۔ (‪ )132‬حاالنکہ ان کی ذمہ‬
‫آپ نے صوبوں کے عاملین کو مظالم کی سماعت کا باقاعدہ‬ ‫داری صرف قضاء تک محدود تھی۔ نیز ؓ‬
‫اشعری کو فرمایا‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫ابوموسی‬
‫ٰ‬ ‫اختیار دیا تھا۔‬
‫اقم الحدود واجلس المظالم ولو ساعۃ من النھار (‪)133‬‬
‫’’حدود قائم کرو اور مظالم کی سماعت کیلئے بیٹھو اگرچہ دن میں ایک گھنٹہ کیلئے ہو‘‘۔‬
‫آپ خود بھی امور خالفت انجام دیتے تھے اور ہر نماز کے بعد صحن مسجد میں بیٹھ کر‬ ‫ؓ‬
‫مقدمات کی سماعت کرتے‪ ،‬اگر کوئی نہ ہوتا تو تھوڑا انتظار کرکے اُٹھ جاتے۔(‪)134‬‬
‫ؓ‬
‫شیخین کی طرح امور خالفت سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ مقدمات کی‬ ‫غنی‬
‫حضرت عثمان ؓ‬
‫نبوی میں بیٹھتے‪ ،‬لوگوں سے ان‬
‫ؐ‬ ‫آپ کا یہ معمول تھا کہ نماز سے پہلے مسجد‬
‫سماعت بھی کرتے۔ ؓ‬
‫کی مشکالت سنتے اور احکام جاری کرتے۔ (‪)135‬‬
‫حج کے موقع پر یہ اعالن بھی کرتے کہ جو شخص کسی ظلم کی اطالع دے یا اچھا مشورہ‬
‫دے گا‪ ،‬حکومت سو دینار انعام دے گی۔ (‪)136‬‬
‫راشدین کی طرح دارالخالفہ کوفہ میں مقدمات سنتے‪ ،‬مظالم‬‫ؓ‬ ‫علی اپنے پیشرو خلفاء‬
‫حضرت ؓ‬
‫علی نے امور خالفت کے ساتھ ساتھ کوئی دن یا وقت معین نہیں کیا تھا‬ ‫کی سماعت کیلئے حضرت ؓ‬
‫آپ کے پاس کوئی مقدمہ آتا‪ ،‬فورا ً اس کا فیصلہ کر دیتے۔ (‪)137‬‬ ‫بلکہ جس وقت بھی ؓ‬
‫ایک دور میں قاضی ’’الحسبہ‘‘ کے عالوہ کچھ ایسے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے جن‬
‫یحیی بن اکثم‬
‫ٰ‬ ‫کا تعلق عدل کے ساتھ ساتھ انتظامیہ سے تھا۔ (‪ )138‬مامون الرشید عباسی نے قاضی‬
‫اور خلیفہ معتصم نے قاضی احمد بن ابی دائود کو یہ امور تفویض کئے اور کبھی قضاء اور والیت‬
‫ایک ہی شخص کے سپرد رہی جیسے چوتھی صدی ہجری میں احمد بن علی العنسانی یمن کے‬
‫قاضی اور حاکم تھے اور چھٹی صدی ہجری میں دجیل کی والیت اور قضا دونوں قاضی ھبۃ ہللا‬
‫کے پاس تھیں۔ (‪)139‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ قاضی کو ضرورت کے تحت انتظامی امور بھی‬
‫سونپے جا سکتے ہیں۔ نیز قاضی اور پولیس کا بھی گہرا تعلق رہا ہے۔ مثالً عبدالعزیز بن مروان نے‬
‫عبدالرحمن بن معاویہ کو مصر کا قاضی بنایا تو پولیس کا محکمہ بھی ان کے ماتحت تھا۔ (‪)140‬‬
‫اسی طرح (پولیس) شرطہ کا محکمہ قضاء سے گہرا تعلق رہا ہے کیونکہ قاضیوں کے‬
‫فیصلوں کا نفاذ ان کے ذمہ ہوتا تھا۔ عہد بنو امیہ میں یہ اجزائے احکام اور نفاذ کے ذرائع رہے‬
‫جبکہ عباسی دور میں انہیں مزید اختیارات دے دیئے گئے۔ (‪)141‬‬
‫مندرجہ باال بحث سے واضح ہوا کہ قاضی (جج) کو انتظامی امور بھی سونپے جا سکتے‬
‫ہیں اور وہ پولیس کی نگرانی بھی کر سکتا ہے۔‬
‫تجویز‪ :‬مندرجہ باال شق میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے منافی نہیں ہے‪ ،‬لہٰ ذا اسے اسی طرح‬
‫رہنے دیا جائے۔‬

‫(ف) معطلی اور برخاستگی‬


‫مندرجہ باال ذیلی دفعہ بذریعہ ‪ A.O.1937‬حذف ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ 26‬اور ‪ 27‬بذریعہ ‪ A.O.1937‬حذف ہوئیں۔‬

‫(باب نمبر ‪)3‬‬


‫عدالتوں کے اختیارات‬

‫(الف) ان جرائم کی تفصیل جن کی سماعت ہر عدالت کر سکتی ہے‬

‫ت پاکستان کے تحت جرائم‬


‫دفعہ نمبر ‪ :28‬تعزیرا ِ‬

‫ت پاکستان کے تحت ہر جرم کی سماعت درجِ‬


‫مجموعہ ہذا کے دیگر احکام کے تابع مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫ذیل عدالتیں کر سکتی ہیں۔‬
‫عدالت عالیہ‬ ‫(‪a‬‬
‫عدالت سیشن‬ ‫(‪b‬‬
‫یا کوئی دیگر عدالت‪ ،‬جس کے ذریعے جدول دوم کے خانہ ‪ 8‬میں جرم قابل‬ ‫(‪c‬‬
‫سماعت ظاہر کیا گیا ہے‬
‫فقرہ شرطیہ‪ :‬بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء مورخہ ‪-8-13‬‬ ‫٭‬
‫‪ 2001‬حذف ہوا۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬علماء اسالم نے بھی عدالتوں کے درجات کا تصور پیش کیا ہے جو مندرجہ باال‬
‫اسالمی ٔ‬
‫تقسیم سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اسالمی محققین کے مطابق عدالت کی درجہ بندی اس ترتیب سے‬
‫ہے۔‬
‫٭ عدالت حاکمہ مصر (شہر کی عدالت)‪ :‬یہ ہر ضلع کے صدر مقام میں ہوتی ہے۔‬
‫مرافعہ والیت‪ :‬یہ عدالت صوبہ کی سب سے بڑی اور آخری عدالت اپیل ہے۔‬
‫ٔ‬ ‫٭ عدالت‬
‫بری‪ :‬اسالمی ریاست کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ (‪)142‬‬
‫تک ٰ‬‫٭ عدالت عالیہ امام ِ‬
‫درجِ باال سطور میں عدالتوں کی جو درجہ بندی کی گئی ہے‪ ،‬جدید نظام بھی انہی بنیادوں پر‬
‫استوار ہے۔‬
‫تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی چیز اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :29‬دیگر قوانین کے تحت جرائم‬
‫مجموعہ ہذا کے دیگر احکام کے تابع کسی دیگر قانون کے تحت کوئی جرم جبکہ‬ ‫(‪1‬‬
‫ایسے قانون میں اس بارے میں کسی عدالت کا ذکر کیا گیا ہو‪ ،‬وہی عدالت سماعت کریگی۔‬
‫جب اس طرح کی عدالت کا ذکر نہ ہو تو ہائی کورٹ اس کی سماعت کرنے کی‬ ‫(‪2‬‬
‫مجموعہ ہذا کے تحت تشکیل کردہ کوئی سی عدالت جس کے‬
‫ٔ‬ ‫مجاز ہوگی‪ ،‬یا مذکورہ پابندی کے ساتھ‬
‫ذریعے ویسا جرم جدول دوم کے آٹھویں خانہ میں قابل سماعت ظاہر کیا گیا ہو۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬درج ذیل سطور میں یہ جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کیا اسالمی تعلیمات کی رو سے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ایسی عدالت الگ قائم کی جا سکتی ہے جو مخصوص افراد کے مقدمات سنے‪ ،‬اس بارے میں فقہاء‬
‫اسالم نے اپنا نقطہ نظر یوں پیش کیا ہے۔‬
‫جائز ہے کہ دو متعین فریقوں کے درمیان پیدا ہونے والے سبھی نزاعات یا کسی مخصوص‬
‫نزاع کے فیصلے کا اختیار کسی قاضی کو دیا جائے۔ ایسی صورت میں قاضی کے اختیارات پر وانہ‬
‫تقرری میں مذکور امور تک محدود رہینگے‪ ،‬یہ بھی درست ہے کہ کسی خاص مقدمہ یا مقدمات کی‬
‫سماعت کیلئے کوئی قاضی مقرر کیا جائے۔ (‪)143‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے یہ واضح ہوا کہ خاص قسم کے مقدمات کیلئے خصوصی عدالتیں‬
‫اور خصوصی قاضی یا جج مقرر کئے جا سکتے ہیں تاکہ حصو ِل انصاف میں تاخیر نہ ہو اور‬
‫خصوصی تجربہ کی بنیاد پر قاضی یا جج زیادہ صحیح فیصلہ صادر کرسکے جو کہ دین کا مقصد‬
‫ہے۔‬

‫فقرہ شرطیہ ] بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء مورخہ ‪ 2001-8-13‬حذف ہوا[‬

‫وضاحت‪ :‬مندرجہ باال دفعہ کی ذیلی شق میں مذکور ہے کہ عام جرائم جو پاکستان پینل کوڈ کے‬
‫تحت آتے ہیں‪ ،‬ان کی سماعت عام عدالتیں کریں گی جبکہ مخصوص جرائم کی سماعت مخصوص‬
‫عدالتیں ہی کریں گی۔ مثالً مزدوروں اور محنت کشوں سے متعلقہ جرائم کی سماعت لیبر کورٹ‪،‬‬
‫دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت‪ ،‬بینکوں سے متعلقہ جرائم کی‬
‫سماعت بینکنگ کورٹ‪ ،‬عام صارفین کے مقدمات کی سماعت کنزیومر کورٹ اور رشوت ستانی‬
‫کے مقدمات کی سماعت انٹی کرپشن کورٹ کریگی۔ بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ کئی جرائم‬
‫اکٹھے ہوتے ہیں‪ ،‬مثالً کسی نے چوری کی یا فریقین کی لڑائی ہوگئی اور پولیس موقع پر پہنچ گئی‬
‫اور پولیس مقابلہ شروع ہو گیا۔ جس میں کئی افراد بشمول پولیس اہلکار زخمی یا ہالک ہوگئے تو اس‬
‫صورت میں ایک دفعہ پی پی سی کے تحت لگے گی جبکہ دوسری دفعہ دہشت گردی کی لگے گی‬
‫کیونکہ پولیس مقابلہ ہوا ہے اور اس کی سماعت دہشت گردی کی عدالت ہی کریگی۔‬
‫مثالً ‪ 2011-8-17‬کو تھانہ فتح پور ضلع لیہ میں ایک شخص پولیس کی تحویل میں فوت ہو‬
‫گیا۔ جسے پولیس نے خودکشی قرار دیا لیکن عوام نے اسے ماورائے عدالت قتل قرار دیکر تھانہ پر‬
‫حملہ کردیا‪ ،‬جس میں ڈی ایس پی سمیت کئی اہلکار زخمی ہوئے‪ ،‬تھانہ کو آگ لگا دی گئی‪ ،‬ریکارڈ‬
‫جل گیا۔ وہاں سے ایک حواالتی کو تاال توڑ کر فرار کرایا گیا۔ حملہ آور مسلح تھے‪ ،‬فائرنگ ہوئی‪،‬‬
‫پولیس نے بھی دفاعی فائرنگ اور آنسو گیس استعمال کی۔‬
‫اس عمل کے خالف کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے متعدد افراد کو نامزد کرکے مقدمہ‬
‫درج کیا‪ ،‬جس میں ‪ PPC‬کی درجِ ذیل دفعات لگائیں۔ ‪،353/324 ،225/224 ،436/435 ،440/395‬‬
‫‪ 148/149 ،341/186‬ت پ کے عالوہ ‪( ATA 7‬انسداد دہشت گردی ایکٹ) بھی لگائی ہے‪ ،‬جس‬
‫سے یہ مقدمہ دہشت گردی کا مقدمہ بھی ہوگیا اور اسے دہشت گردی کی عدالت ہی سماعت کریگی۔‬
‫(‪)144‬‬
‫دفعہ نمبر ‪ : A-29‬بذریعہ ایکٹ ‪ II‬بابت ‪1950‬ء حذف ہوئی۔‬
‫اختیار سماعت‬
‫ِ‬ ‫دفعہ نمبر ‪ :B-29‬کمسنوں کی صورت میں‬
‫موت یا عمر قید کے قابل سزا جرم کے عالوہ کسی ایسے شخص سے سرزد شدہ کوئی جرم‪ ،‬جو اس‬
‫روز جب وہ عدالت کے سامنے پیش ہو‪ ،‬یا حاضر کیاجائے‪ ،‬پندرہ سال سے کم عمر کا ہو‪ ،‬جوڈیشل‬
‫مجسٹریٹ سماعت کرنے کا مجاز ہوگا‪ ،‬جسے صوبائی حکومت نے خاص طور پر اختیار دیا ہو یا‬
‫جو قانون تادیبی سکول ‪1897‬ء کی دفعہ ‪ 8‬کی ضمنی دفعہ (‪ )1‬کی رو سے تفویض کردہ خاص‬
‫اختیارات کا حامل ہو یا ایسے عالقوں میں جہاں مذکورہ قانون کا اطالق نہ ہوتا ہو‪ ،‬کسی دیگر قانون‬
‫کی رو سے‪ ،‬جس میں نوعمر مجرموں کی تحویل سماعت یا سزا کا اہتمام کیا گیا ہو تو کوئی ایسا‬
‫مجسٹریٹ جسے ایسے قانون کے ذریعے یا تحت اس قانون کی رو سے تفویض شدہ جملہ یا کوئی‬
‫سے اختیارات زیر کار النے کا اختیار دیا گیا ہو۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں یہ مذکور ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ جسے صوبائی‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫حکومت نے اختیار دیا ہو۔ حاالنکہ جوڈیشل مجسٹریٹ عدلیہ کے ماتحت ہوگا اور عدلیہ ہی اسے‬
‫اختیار سماعت تفویض کر سکتی ہے۔ صوبائی حکومت نہیں۔‬
‫اختیارات کی تخصیص‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں یہ بھی مذکور ہے کہ پندرہ سال سے کم عمر شخص‬
‫کے مقدمہ کا اختیار صوبائی حکومت نے کسی مجسٹریٹ کو بطور خاص دیا ہو‪ ،‬وہی مقدمے کی‬
‫نکتہ نگاہ کی رو سے کسی خاص مقدمے کی سماعت کے اختیارات‬ ‫سماعت کر سکتا ہے۔ اسالمی ٔ‬
‫ماوردی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫کی تخصیص کے بارے میں‬
‫اگر قاضی کے اختیارات محدود کردیئے گئے ہوں تو وہی اختیارات استعمال کرنے کا مجاز‬
‫ہوگا۔ (‪)145‬‬
‫فقہاء کرام نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ‪:‬‬
‫یہ تحدید عالقہ کے اعتبار سے بھی ہو سکتی ہے اور احکام کے اعتبار سے بھی۔‬ ‫٭‬
‫یعنی یہ درست ہوگا کہ قاضی کو مخصوص قسم کے مقدمات کی سماعت کا اختیار دیا‬ ‫٭‬
‫جائے۔‬
‫یہ جائز ہے کہ کسی قاضی کے اختیارات کو محدود کردیا جائے۔ (‪)146‬‬ ‫٭‬
‫مندرجہ باال سطور سے پتہ چال کہ کسی بھی عدالتی عہدہ دار کو مخصوص مقدمات سماعت‬
‫کرنے کا اختیار بطور خاص دیا جا سکتا ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں ’’صوبائی حکومت‘‘ کی جگہ ’’عدلیہ‘‘ کا لفظ درج کیا جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :30‬وہ جرائم جن میں سزائے موت نہیں دی جا سکتی‬

‫]باللحاظ اس امر کے کہ دفعات ‪28‬اور ‪ 29‬میں کوئی حکم موجود ہو‪ ،‬صوبائی حکومت کسی بھی‬
‫درجہ اول کے مجسٹریٹ کو ایسے جرائم کی سماعت جن کی سزا موت نہ ہو‪ ،‬کے اختیارات تفویض‬
‫کر سکتی ہے[‬
‫تبصرہ‪:‬‬
‫مجسٹریٹ ایک انتظامی عہدہ ہے لہٰ ذا اس کے ساتھ ’’جوڈیشل‘‘ درج کیا جائے۔‬ ‫(‪i‬‬
‫جوڈیشل مجسٹریٹ کو اختیارات صوبائی حکومت نہیں بلکہ ’’عدلیہ‘‘ تفویض کرتی‬ ‫(‪ii‬‬
‫تفویض اختیارات کا تعلق ہے‬
‫ِ‬ ‫ہے‪ ،‬لہٰ ذا صوبائی حکومت کے بجائے ’’عدلیہ‘‘ ہونا چاہئے۔ جہاں تک‬
‫تو اسالمی تعلیمات میں اس کا جواز ملتا ہے‪ ،‬لہٰ ذا تفویض اختیارات بطور خاص درست ہے اس میں‬
‫کوئی شرعی قباحت نہیں ہے جیسا کہ دفعہ نمبر ‪ B-29‬کے تحت وضاحت موجود ہے۔‬

‫(ب) وہ سزائیں جو مختلف عدالتیں صادر کر سکتی ہیں‬

‫دفعہ نمبر ‪ :31‬وہ سزائیں جو عدالت عالیہ اور سیشن جج صادر کر سکتے ہیں‬

‫عدالت عالیہ مجاز ہے کہ ازروئے قانون جائز ہر سزا صادر کرے۔‬ ‫(‪1‬‬
‫سیشن جج یا ایڈیشنل سیشن جج کوئی سزا جو ازروئے قانون جائز ہو‪ ،‬صادر کر‬ ‫(‪2‬‬
‫سکتے ہیں لیکن جب ایسا کوئی جج موت کی سزا دے تو یہ عدالت عالیہ سے توثیق کے تابع ہوگی۔‬
‫اسسٹنٹ سیشن جج مجاز ہے کہ وہ سوائے سزائے موت کے یا سات سال سے زائد‬ ‫(‪3‬‬
‫کی سزائے قید کے‪ ،‬کوئی سزا دے جو ازروئے قانون جائز ہو۔‬
‫تبصرہ‪:‬‬
‫شق نمبر ‪ 1‬میں عدالت عالیہ کے اس اختیار کا ذکر ہے کہ وہ ہر جائز قانونی سزا‬ ‫(‪1‬‬
‫صادر کر سکتی ہے۔ عدالت عالیہ باقاعدہ سماعت مقدمہ کی عدالت (‪ )Trial Court‬نہیں ہے بلکہ‬
‫سیشن کورٹ اگر کسی کو سزا دے تو اس کی اپیل کی سماعت عدالت عالیہ بطور ‪Appellant‬‬
‫‪ Court‬کرتی ہے اور اگر مجسٹریٹ کسی کو سزا دے اور سیشن جج اس کی توثیق کردے تو عدالت‬
‫عالیہ (‪ )Revisionary Court‬کے طور پر سماعت کرتی ہے۔ اس کے عالوہ اگر آئین پاکستان میں‬
‫بیان کئے گئے حقوق کی خالف ورز ی ہوئی تو پھر (‪ )Constitutional Court‬کے طور پر‬
‫سماعت کرتی ہے۔ مندرجہ باال دفعہ نمبر ‪ 30‬کی ذیلی شق نمبر ‪ 1‬میں عدالت عالیہ کے اسی اختیار‬
‫کا ذکر ہے۔‬
‫مذکورہ دفعہ کی ذیلی شق نمبر ‪ 2‬میں کہا گیا ہے کہ سیشن جج یا ایڈیشنل سیشن جج‬ ‫(‪2‬‬
‫کی صادر کردہ سزائے موت جو ازروئے قانون جائز ہو‪ ،‬اس کی عدالت عالیہ سے توثیق ضروری‬
‫ہے اور وہ سزا اس توثیق کے تابع ہوگی۔ یعنی ہائی کورٹ توثیق کردے تو نافذ ہوگی ورنہ ہائی‬
‫کورٹ اسے منسوخ یا کالعدم بھی کرسکتی ہے یاعمر قید میں بھی تبدیل کر سکتی ہے۔ اگر حکم‬
‫سابق پر عمل روک دینے کی درخواست کی گئی ہو تو قاضی مقدمہ کی نوعیت اور فریق درخواست‬
‫دہندہ کو فیصلہ پر عمل جاری رہنے کی صورت میں پہنچنے والے نقصان اور ضرر کو پیش نظر‬
‫رکھ کر حکم دے گا‪ ،‬لیکن اس سے پہلے اگر عدالت عالیہ کی نگاہ میں درخواست مرافعہ قابل‬
‫سماعت ہے تو وہ اس درخواست کو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے فریق ثانی سے جواب طلب‬
‫کرے۔ (‪)147‬‬
‫کاسانی ؒکہتے ہیں‪:‬‬
‫ت متواترہ یا اجماع سے ہو اور حکم قاضی ان‬‫منصوص قرآنی‪ ،‬سن ِ‬
‫ِ‬ ‫’’فیصلہ کا تعلق حکم‬
‫کے تقاضوں کے مطابق ہو تو اس فیصلہ کو رد نہیں کیا جا سکتا اور اگر مخالف ہو تو قطعی طور‬
‫پر باطل ہوگا اس لئے رد کردیا جائے گا‘‘۔ (‪)148‬‬
‫طرابلسی کہتے ہیں کہ مندرجہ ذیل چار صورتوں میں قاضی کا فیصلہ رد کردیا جائے گا۔‬
‫قاضی کا فیلہ نص جلی کے خالف ہو۔‬ ‫الف)‬
‫قاضی کا فیصلہ قیاس کے خالف ہو۔‬ ‫ب)‬
‫قاضی کا فیصلہ قواعد شرع کے خالف ہو۔‬ ‫ج)‬
‫قاضی کا فیصلہ اجماع کے خالف ہو۔ (‪)149‬‬ ‫د)‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ اگر پہال قاضی کسی ملزم کو سزا دے سکتا ہے اور‬
‫اس کا یہ فیصلہ اصول شرعیہ کے خالف ہے تو عدالت عالیہ اس کی توثیق نہ کرے گی اور اگر‬
‫شرعی اصولوں کے مطابق ہے تو عدالت عالیہ اس کی توثیق کردے گی اور فیصلہ نافذ ہو جائے گا‪،‬‬
‫ت عالیہ کی توثیق و تصویب کے بعد ہی قابل عمل ہوگا۔‬
‫لہٰ ذا یہ فیصلہ عدال ِ‬
‫تجویز‪ :‬مذکورہ ذیلی شق نمبر ‪ 2‬اسالمی اصولوں کے مطابق ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس میں ترمیم کی ضرورت‬
‫نہیں ہے۔‬
‫مذکورہ ذیلی شق میں اسسٹنٹ سیشن جج کے بارے میں اسالمی نظریاتی کونسل نے‬ ‫(‪3‬‬
‫درج ذیل سفارش کرتے ہوئے تجویز کیا ہے کہ چونکہ پاکستان بننے کے بعد اب تک اس عہدے‬
‫(اسسٹنٹ سیشن جج) پر کسی کو تعینات نہیں کیا گیا اور نہ بجٹ میں اس عہدے کیلئے کوئی فنڈز‬
‫مختص کئے گئے ہیں اور یہ الفاظ غیر ضروری طور پر قانون میں موجود ہیں۔‬
‫لہٰ ذا اس ذیلی دفعہ (‪ )3‬کو حذف کردیا جائے تاکہ ابہام اور اختال ِل فہم کے امکان کو دور کیا‬
‫جا سکے‘‘۔ (‪)150‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ :32‬وہ سزائیں جو مجسٹریٹ صادر کر سکتے ہیں‬

‫احکام سزا صادر‬


‫ِ‬ ‫صاحبان مجسٹریٹ کی عدالتوں کو اختیار ہے کہ وہ حسب ذیل‬ ‫(‪1‬‬
‫کریں یعنی۔‬
‫عدالت ہائے صاحبان مجسٹریٹ درجہ اول‪ :‬قید جو تین سال سے‬ ‫(‪c‬‬
‫زیادہ نہ ہو‪ ،‬مع اس قدر قید تنہائی کے‪ ،‬جو ازروئے قانون جائز ہو‪ ،‬جرمانہ جس کی مقدار‬
‫٭]پینتالیس ہزار روپے[ ٭٭]ارش ضمان[ سے زیادہ نہ ہو۔ سزائے بید زنی۔‬
‫عدالت ہائے صاحبان مجسٹریٹ درجہ دوم‪ :‬قید جس کی میعاد ایک‬ ‫(‪b‬‬
‫ً‬
‫سال سے زیادہ نہ ہو‪ ،‬مع اس قدر قید تنہائی کے جو قانونا جائز ہو۔ جرمانہ جس کی مقدار ٭ ]پندرہ‬
‫ہزار روپے[ سے زیادہ نہ ہو۔‬
‫عدالت ہائے صاحبان مجسٹریٹ درجہ سوم‪ :‬قید جس کی میعاد ایک‬ ‫(‪c‬‬
‫ماہ سے زائد نہ ہو‪ ،‬جرمانہ جس کی مقدار ٭]تین ہزار روپے[ سے زیادہ نہ ہو۔‬
‫ہر عدالت مجسٹریٹ کو اختیار حاصل ہے کہ ایسا جائز حکم صادر کرے‪ ،‬جس میں‬ ‫(‪2‬‬
‫ایسی چند سزائیں شامل ہوں جن کی تجویز کرنیکا اس کو قانونا ً اختیار ہو۔‬
‫]منسوخ شدہ‪ ،‬بذریعہ تازیانہ ایکٹ (‪ )IV of 1909‬سیکشن ‪ 8‬بمع شیڈول[‬ ‫(‪3‬‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ دفعہ نمبر (‪ 32)1‬ذیلی شق (الف) اور (ب) میں درج ہے کہ مجسٹریٹ‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫درجہ اول اور درجہ دوئم ازروئے قانون جائز قید تنہائی دینے کے مجاز ہیں۔ قید تنہائی یہ ہے کہ‬
‫اکر موت کے قیدی کو کسی سے نہ ملنے دیا جائے‪ ،‬البتہ ہفتہ میں صرف ایک بار اس کے اعزہ و‬
‫اقربا اور دیگر قیدیوں سے ملنے کی اجازت دی جائے۔‬
‫لیکن اسالمی تعلیمات کے مطابق یہ سزا درست نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ذکر ہے کہ‬ ‫(‪i‬‬
‫عزیز مصر نے حضرت یوسف علیہ السالم کو قید کی سزا دی تھی لیکن حضرت یوسف علیہ السالم‬
‫جیل میں دیگر قیدیوں کو ملنے جلنے کے عالوہ اسالم کی تبلیغ بھی کیا کرتے تھے۔‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ارشاد باری‬
‫َودَ َخ َل َمعَہُ ال ِسِّجْ نَ فَتَیَانَ (‪)151‬‬
‫’’اور ان کے ساتھ دو جوان شخص بھی قید خانہ میں داخل ہوئے‘‘۔‬
‫حضرت یوسف علیہ اسالم نے انہیں اسالم کی تبلیغ اس طرح کی‪:‬‬
‫احدُ ْالقَ َّھ ُ‬
‫ار (‪)152‬‬ ‫ّللاُ ْال َو ِ‬
‫احبَ ِی ال ِسِّجْ ِن أَا َْٔربَابٌ ُّمتَفَ ِ ِّرقُونَ َخی ٌْر ا َِٔم ِّ‬
‫ص ِ‬‫یَا َ‬
‫’’اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! کیا الگ الگ بہت سے معبود بہتر ہیں یا ایک ہللا‬
‫جو سب پر غالب ہے‘‘۔‬
‫مندرجہ باال آیت قرآنی سے واضح ہوا کہ جیل میں حضرت یوسف علیہ السالم نہ صرف‬
‫دوسرے قیدیوں سے ملتے جلتے تھے بلکہ انہیں اسالم کی تبلیغ بھی کرتے تھے۔‬
‫اگر کوئی ماں جرم کردے اور اسے قید کردیا جائے اور اس کی معصوم اوالد کو اس سے‬
‫جدا کردیا جائے تو اس بات کی بھی اسالم میں اجازت نہیں ہے۔‬
‫انصاری روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫حضرت ابوایوب‬
‫من فرق بین والدۃ وولدھا فرق اہللا بینہ وبین احبتہ یوم القیامہ (‪)153‬‬
‫تعالی قیادت کے دن اس کے اور‬
‫ٰ‬ ‫’’جو شخص ماں اور بیٹے کے درمیان جدائی ڈالے‪ ،‬ہللا‬
‫اس کے احباب کے درمیان جدائی ڈال دے گا‘‘۔‬
‫مندرجہ باال حدیث مبارکہ اگرچہ جنگی قیدیوں کے متعلق ہے لیکن رحمت عامہ کے متعلق‬
‫اسالمی تعلیمات کے حوالے سے اس کا اطالق تمام قیدیوں پر بھی ہو سکتا ہے۔ (‪)154‬‬
‫فقہائے کرام نے بھی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اسالم نے قیدیوں کو یہ حق دیا ہے کہ‬
‫ان کے اعزہ واقرباء اور ہمسائے دوران قید اُن سے مالقات کر سکتے ہیں۔ اس بارے میں کوئی‬
‫پابندی عائد نہیں کی گئی کہ جسے آڑ بنا کر قیدیوں کو قید تنہائی میں رکھا جائے۔ اس سلسلے میں‬
‫فتاوی عالمگیری میں ہے‪:‬‬
‫ٰ‬
‫’’قیدیوں کے پاس ان کے اہل وعیال اور ہمسایوں کو جانے سے منع نہ کیا جائے‪ ،‬لیکن وہاں‬
‫دیر تک ٹھہرنے کی اجازت نہ ہوگی‘‘۔ (‪)155‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اسالم میں قید تنہائی کی اجازت نہیں ہے۔‬
‫نہ ہی کوئی قاضی اسے نافذ کر سکتا ہے‪ ،‬لہٰ ذا مندرجہ باال ذیلی شق میں درج الفاظ ’’قید تنہائی‘‘‬
‫اسالمی تعلیمات کے برعکس ہیں۔‬
‫تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعہ کی عبارت میں سے ’’قید تنہائی‘‘ کے الفاظ ختم کئے جائیں‪ ،‬اس بارے‬
‫میں اسالمی نظریاتی کونسل نے بھی درج ذیل سفارش کی ہے۔‬
‫قید تنہائی کو شرعا ً محل نظر قرار دیتے ہوئے کونسل نے رائے دی کہ اس سزا یعنی قید‬
‫تنہائی کو ختم کیا جائے‪ ،‬اگرچہ حضرت یوسف علیہ اسالم کو قت کے آمر نے جیل میں رکھا تھا‬
‫لیکن روایات سے ثابت ہے کہ وہ جیل میں تبلیغ کرتے تھے‪ ،‬انسان فطرتا ً مدنی الطبع ہے اور اس‬
‫سے یہ فطری حق چھیننا شرعا ً جائز نہیں ہے۔ (‪)156‬‬
‫نیز مذکورہ باال دفعہ کے نمبر (‪ )1‬کے ضمن (ب) میں درج کوڑوں کی سزا کے‬ ‫(‪ii‬‬
‫بارے میں اسالمی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں درج ہے‪:‬‬
‫’’کوڑوں کی سزا کے بارے میں قانون تازیانہ ‪1979‬ء میں ترمیم ہو چکی ہے اور اب‬
‫کوڑوں کی سزا صرف جرائم حدود میں دی جاتی ہے‪ ،‬دوسرے تعزیری جرائم میں یہ سزا نہیں دی‬
‫جاتی‘‘۔ (‪)157‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ :33‬بعدم ادائیگی جرمانہ مجسٹریٹوں کا سزائے قید دینے کا اختیار‬

‫مجسٹریٹ کی عدالت مجاز ہے کہ بعدم ادائیگی جرمانہ اس مدت کی سزائے قید دے‬ ‫(‪1‬‬
‫جو ازروئے قانون ایسی عدم ادائیگی کی صورت میں جائز ہو‪ ،‬بشرطیکہ‪:‬‬

‫بعض صورتوں سے متعلق شرائط‪:‬‬


‫ایسی مدت مجموعہ ہذا کے تحت مجسٹریٹ کے اختیارات سے زائد‬ ‫الف)‬
‫نہ ہو۔‬
‫کسی مقدمہ میں مجسٹریٹ نے جو فیصلہ کیا ہو‪ ،‬جہاں تجویز کردہ‬ ‫ب)‬
‫قید سے بنیادی سزا کا حصہ ہو تو بعدم ادائیگی جرمانہ دی گئی قید کی مدت کے ایک چہارم سے‬
‫تجاوز نہیں کریگی جو ایسا مجسٹریٹ جرم کی سزا کے طور پر عالوہ بعدم ادئیگی جرمانہ قید کے‬
‫عائد کرنے کا مجاز ہو۔‬
‫اس دفعہ کے تحت تجویز کردہ سزائے قید اس سے زیادہ میعاد کی اصل سزائے قید‬ ‫(‪2‬‬
‫کے عالوہ ہوگی۔ جو ایک مجسٹریٹ حسب دفعہ ‪ 32‬صادر کر سکتا ہے۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬مالحظہ‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں اسالمی تعلیمات کے برعکس کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫ت اعلی‬
‫دفعہ نمبر ‪ :34‬بعض ‪] 8‬٭٭٭[ مجسٹریٹوں کے اختیارا ِ‬

‫ایسے مجسٹریٹ کی عدالت جسے دفعہ ‪ 3‬کے تحت خاص طور پر اختیار دیا گیا ہو‪ ،‬قانون سے‬
‫مجاز کوئی سی سزا دینے کا اختیار ہوگا‪ ،‬بجز حکم سزائے موت کے یا حکم سزائے قید کے‪ ،‬جس‬
‫کی میعاد سات سال سے زائد ہو۔‬

‫وضاحت‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ کسی مجسٹریٹ کی عدالت کو دفعہ ‪30‬‬
‫کے تحت یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ قانون کے مطابق کوئی سی سزا دے سکتا ہے جو سات‬
‫سال سے زائد نہ ہو۔ نیز وہ سزائے موت یا سزائے قید کا حکم نہیں سنا سکتا۔ گویا یہاں مجسٹریٹ کو‬
‫خاص اختیار دیکر اس کی تحدید بھی کردی گئی ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی نظام عدالت میں اس قسم کی تفویض اختیار اور تحدید درست ہے۔‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ماوردی لکھتے ہیں کہ یہ جائز ہے کہ کسی قاضی کے اختیارات کو محدود کردیا جائے۔ (‪)158‬‬
‫ؒ‬
‫یہ تحدید عالقہ کے اعتبار سے بھی ہو سکتی ہے اور احکام کے اعتبار سے بھی۔ یعنی یہ‬
‫درست ہوگا کہ کسی قاضی کو مخصوص قسم کے مقدمات کی سماعت کا اختیار دیا جائے۔ (‪)159‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ کسی خاص عالقے یا خاص قسم کے مقدمات کی‬
‫سماعت کا اختیار عدالت کو دیا جا سکتا ہے۔ گویا یہ اختیارات کی تخصیص و تحدید ہے اور اسالمی‬
‫نظام عدالت میں اس کی گنجائش ہے۔‬
‫تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی چیز اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اسے‬
‫اسی طرح رہنے دیا جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪A-34‬‬


‫یہ دفعہ ایکٹ ‪1949‬ء (‪ II‬آف ‪1950‬ء) منسوخ (حذف) ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :35‬ایک ہی تجویز میں کئی جرائم کی سزایابی کی صورت میں حکم سزا نافذ کرنا‬

‫جب کسی شخص کو ایک ہی تجویز میں دو یا دو سے زائد جرائم میں سزا دی جائے‬ ‫(‪1‬‬
‫تو عدالت مجاز ہے کہ دفعہ ‪ 71‬مجموعہ تعزیرات پاکستان کے احکام کے تابع اسے ایسے جرائم کی‬
‫پاداش میں وہ متعدد سزائیں تجویز کرے‪ ،‬جو جرائم مذکور کیلئے مقرر ہیں اور جنہیں عائد کرنے کا‬
‫ویسی عدالت کو اختیار ہے‪ ،‬جب ایسی سزائیں قید پر مشتمل ہوں تو ایک کے ختم ہونے کے بعد‬
‫دوسری اس ترتیب سے شروع کی جائیگی‪ ،‬جس کی عدالت ہدایت کرے‪ ،‬سوائے اس کے کہ عدالت‬
‫یہ ہدایت کرے کہ ویسی سزائیں ایک ساتھ شروع کی جائیں۔‬

‫تجویز‪ :‬مذکورہ باال ذیلی دفعہ نمبر ‪ 1‬میں کوئی چیز خالف اسالم نظر نہیں آتی۔ لہٰ ذااسے اسی طرح‬
‫رہنے دیا جائے۔‬

‫احکام سزا کی صورت میں عدالت کو محض‬


‫ِ‬ ‫سزا کی زیادہ سے زیادہ مدت‪ :‬مسلسل‬ ‫(‪2‬‬
‫اس وجہ سے کہ ان متعدد جرائم کی مجموعی سزا اس سزا سے زیادہ ہے‪ ،‬جسے عائد کرنے کی‬
‫ویسی عدالت بحالت ثبوت جرم واحد مجاز ہے‪ ،‬یہ ضروری نہیں ہے کہ تجویز مقدمہ کیلئے مجرم‬
‫کو عدالت باال تر میں بھیجے بشرطیکہ‪:‬‬
‫الف) کسی صورت میں ایسے مجرم کو چودہ سال سے زیادہ عرصہ کیلئے قید‬
‫کرنے کا حکم نہیں دیا جائے گا۔‬
‫اگر مقدمہ کی تجویز ایسا مجسٹریٹ کرے تو مجموعی سزا اس سزا‬ ‫ب)‬
‫کے دوگنا سے زیادہ نہ ہوگی‪ ،‬جو وہ مجسٹریٹ اپنے معمولی اختیار کی رو سے عائد کرنے کا‬
‫مجاز ہے۔‬
‫اپیل کی غرض کیلئے دفعہ ہذا کے تحت دی گئی مسلسل سزائوں کی میزان‪ ،‬جہاں‬ ‫(‪3‬‬
‫ایک ہی تجویز میں متعدد جرائم کی سزا دی گئی ہو کو واحد سزا تصور کیا جائے گا۔‬

‫مالحظہ و تجویز‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی چیز اسالمی اصولوں کے خالف نظر نہیں آتی‪ ،‬لہٰ ذا اسے‬
‫اسی طرح رہنے دیا جائے۔‬

‫پ) عام واضافی اختیارات‬

‫ت عام‬
‫دفعہ نمبر ‪ :36‬مجسٹریٹوں کے اختیارا ِ‬

‫تمام مجسٹریٹوں کو وہ اختیارات حاصل ہیں جو بعد ازیں انہیں بالترتیب عطا ہوئے ہوں اور جنگی‬
‫تصریح جدول سوم میں کی گئی ہے‪ ،‬یہ اختیارات ’’ان کے عام اختیارات‘‘ کہالتے ہیں۔‬

‫تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی چیز اسالمی تعلیمات کے برعکس نظر نہیں آتی۔ لہٰ ذا اسے اسی‬
‫طرح رہنے دیا جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ 37‬ایسے اضافی اختیارات جو مجسٹریٹوں کو تفویض کئے جا سکتے ہیں‬

‫] صوبائی حکومت ہائی کورٹ کی سفارش پر‪ ،‬ان اختیارات کے عالوہ جو کسی مجسٹریٹ کو‬
‫حاصل ہیں‪ ،‬ایسے اختیارات تفویض کر سکتی ہے‪ ،‬جن کی جدول چہارم میں تصریح کی گئی ہے۔[‬

‫ت عالیہ کی سفارش پر‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں یہ کہا گیا ہے کہ بوقت ضرورت عدال ِ‬
‫اسالمی ٔ‬
‫صوبائی حکومت کسی مجسٹریٹ کو پہلے سے عطا شدہ اختیارات کے عالوہ بھی بعض خاص‬
‫نظام عدالت سے واضح رہنمائی ملتی ہے۔‬ ‫ِ‬ ‫اختیارات تفویض کر سکتی ہے‪ ،‬اس سلسلے میں اسالمی‬
‫مثالً حضور اکرم ﷺ نے جن حضرات کو والی یا کسی صوبے کا سربراہ بنایا تو عدالت وقضاء کی‬
‫ذمہ داریاں بھی بالعموم ان کے سپرد کیں۔ گویا والی اپنے عہدہ کے لحاظ سے قاضی بھی ہوتا تھا۔‬
‫چنانچہ حضرت معاذ بن ؓ‬
‫جبل کو یمن کا حاکم بنایا اور عتاب بن اسیدؓ کو مکہ کا والی مقرر کیا۔ تو یہ‬
‫حضرات حکومت عامہ کے ساتھ ساتھ فص ِل خصومات اور عدالت کا کام بھی سرانجام دیتے۔ (‪)160‬‬
‫خوالنی کو مظالم کی روک تھام‪ ،‬مظلوموں کی‬ ‫ؓ‬ ‫فاروق نے قاضی ابو ادریس‬‫ؓ‬ ‫اسی طرح حضرت عمر‬
‫یحیی‬
‫ٰ‬ ‫داد رسی اور مجرموں کو سزا دینے کا کام سپرد کیا تھا۔ اسی طرح مامون الرشید نے قاضی‬
‫بن اکثم اور معتصم نے قاضی احمد بن ابی دائود کو یہ امور تفویض کئے۔ (‪)161‬‬
‫تاریخ اسالم کے بعد کے ادوار میں بھی قضاء اور والیت سربراہ حکومت یا سربرا ِہ عدلیہ‬
‫کی ہدایت پر ایک ہی شخص کے سپرد رہیں اور قاضی عدالتی امور کے عالوہ تفویض شدہ دیگر‬
‫ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے‪ ،‬مثالً چوتھی صدی ہجری میں احمد بن علی الغسانی یمن کے قاضی‬
‫اور حاکم تھے اور چھٹی صدی ہجری میں دجیل کی والیت اور قضا دونوں قاضی ہبۃ ہللا کو تفویض‬
‫تھیں۔ پانچویں صدی ہجری میں قاضی علی بن حسن التنوخی دارالضرب کے انچارج رہے اور‬
‫چوتھی صدی ہجری میں بغداد کا محکمہ اوقاف قاضی القضاۃ ابو العباس بن ابی شوارب کے زیر‬
‫نگرانی تھا اور پانچویں صدی ہجری میں قاضی بصرہ محمد بن عبیدہللا البصری اوقاف اور احوال‬
‫ایستامی کے محافظ بھی تھے۔ (‪)162‬‬
‫ٰ‬
‫جدید فقہاء کرام نے بھی اس مسئلے کی وضاحت کی ہے کہ یہ مسئلہ اہم اور معرکۃ االراء‬
‫ہے‪ ،‬جدید قانون میں بھی دائرہ کار اور حلقہ کار کا مسئلہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ مسئلہ بہرحال‬
‫فقہ اسالمی کے تمام مسالک اور جدید قانون کے درمیان متفق علیہ ہے کہ جس طرح عدلیہ سے‬
‫متعلق کلی اور عمومی اختیارات نیز پوری مملکت کے مقدمات کی سماعت کیلئے عمومی اختیار‬
‫کسی ایک عدالت کو تفویض کئے جا سکتے ہیں‪ ،‬اسی طرح ان اختیارات کی تحدید بھی کی جا سکتی‬
‫ہے۔ (‪)163‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ قاضی یا جج اور مجسٹریٹ کو اسے پہلے سے حاصل‬
‫شدہ اختیارات کے عالوہ بھی اضافی اور خاص قسم کے اختیارات سربراہ عدلیہ یا اس کی سفارش‬
‫پر حکومت کی طرف سے تفویض کئے جا سکتے ہیں‪ ،‬اس میں کوئی شرعی یا قانونی قباحت نہیں‬
‫ہے۔‬
‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں تفویض اختیارات کو صوبائی حکومت کی صوابدید اور ذمہ داری قرار‬
‫دیا گیا ہے حاالنکہ یہ سربراہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ افسران عدلیہ اور سول حکومت کے بجائے‬
‫صوبائی چیف جسٹس اختیارات تفویض کرتا ہے یا پھر صوبائی حکومت چیف جسٹس سے مشورہ‬
‫لیتی ہے اور پھر اختیارات تفویض ہوتے ہیں۔‬
‫تجویز‪ :‬مندرجہ باال شق میں کوئی چیز اسالمی اصولوں کے خالف نہیں ہے‪ ،‬لہٰ ذا اسے جوں کا توں‬
‫رہنے دیا جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :38‬بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء مورخہ ‪ 2001-8-13‬سے حذف ہوئی۔‬

‫(ت) اختیارات کی تفویض‪ ،‬جاری رہنا اور منسوخ ہونا‬

‫دفعہ نمبر ‪ :39‬عطائے اختیارات کا طریقہ‬


‫مجموعہ ہذا کے تحت اختیارات تفویض کرتے ہوئے صوبائی حکومت مجاز ہے کہ‬ ‫(‪1‬‬
‫بذریعہ حکم اشخاص کو بہ تخصیص ان کے ناموں کے یا باعتبار ان کے عہدوں کے یا اقسام‬
‫عہدیداران کو بالعموم ان کے عہدوں کے لقب سے اختیار بخشے۔‬
‫ایسے ہر حکم کا نفاذ اس تاریخ سے ہوگا‪ ،‬جس تاریخ کو حکم مذکور کی اطالع اس‬ ‫(‪2‬‬
‫شخص کو ملے‪ ،‬جسے اس طرح کا اختیار دیا گیا ہو۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :40‬مقرر کردہ افسران کے اختیارات‬

‫جب کبھی کوئی شخص جو حکومت کی مالزمت میں کوئی عہدیدار ہو‪ ،‬جسے مجموعہ ہذا کے تحت‬
‫کسی مقامی عالقہ کے اندر اختیارات دیئے گئے ہوں‪ ،‬اسی طرح کے مقامی عالقہ میں اسی صوبائی‬
‫حکومت کے تحت اسی نوعیت کے کسی اور عہدے پر جو سابق عہدے کے برابر یا اس سے باالتر‬
‫ہو‪ ،‬مقرر کیا جائے تو اگر صوبائی حکومت اس کے برخالف کوئی ہدایت نہ کرے یا نہ کی گئی ہو‬
‫تو ایسی صورت میں عہدیدار مذکور مجاز ہوگا کہ اس مقامی عالقہ میں کہ جس میں اس کا تقرر ہوا‬
‫ہے‪ ،‬وہی اختیارات عمل میں الئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :41‬اختیارات کی واپسی‬

‫] صوبائی حکومت‪ ،‬ہائی کورٹ کی سفارش پر ان تمام اختیارات کو واپس لے سکتی ہے جو‬
‫مجموعہ ہذا کے تحت کسی شخص یا مجسٹریٹ کو تفویض کئے گئے ہوں[‬

‫تبصرہ‪ :‬دفعہ نمبر ‪39‬اور ‪ 40‬میں مذکور ہے کہ صوبائی حکومت عدالتی امور سرانجام دینے والے‬
‫عہدیداروں کو ان کے منصب کے لحاظ سے اختیارات تفویض کرے گی جبکہ عدالتی عہدیداروں کو‬
‫اختیارات کی تفویض کا کام صوبائی چیف جسٹس کرتا ہے کیونکہ یہ عہدیدار صوبائی حکومت کے‬
‫ماتحت نہیں ہوتے بلکہ عدلیہ کے ماتحت ہوتے ہیں لہٰ ذا اہیں تفویض اختیارات بھی چیف جسٹس ہی‬
‫کرے گا۔ البتہ انتظامی امور کے سلسلے میں صوبائی حکومت ہی اختیارات تفویض کریگی۔ اس‬
‫سلسلے میں اسالمی نظریاتی کونسل نے درج ذیل سفارش کی ہے۔‬
‫مالحظات و تجاویز‪ :‬اسالم میں عدلیہ اور انتظامیہ ریاست کے دو جداگانہ شعبے ہیں‪ ،‬ماتحت‬
‫عدالتوں کے جج اور مجسٹریٹ جو عدلیہ کے اختیارات استعمال کریں وہ چیف جسٹس ہائیکورٹ‬
‫اور سیشن جج کے ماتحت ہونے چاہئیں‪ ،‬تاہم وہ مجسٹریٹ جو انتظامیہ کے فرائض سرانجام دیں‪،‬‬
‫انہیں سیشن جج کے ماتحت نہ رکھا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ چنانچہ کونسل نے اتفاق رائے سے یہ‬
‫سفارش کی‪:‬‬
‫’’ماتحت عدلیہ کے مجسٹریٹ اور جج صاحبان صوبائی حکومت کے ماتحت ہونے کے‬
‫بجائے ہائیکورٹ کے ماتحت ہونے چاہئیں‘‘۔ (‪)164‬‬
‫’’نیز بکثرت رائے یہ سفارش بھی کی کہ چیف جسٹس کو عطائے اختیارات کے سلسلے‬
‫میں اختیار تفویض کرنے‪ ،‬جاری رکھنے یا حتم کرنے کا اختیار بھی حاصل ہونا چاہئے تاکہ عدلیہ‬
‫انتظامیہ سے بالکل آزاد رہے‘‘۔ (‪)165‬‬
‫واضح رہے کہ دفعہ نمبر ‪ 41‬میں بذریعہ آڑڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء‪ ،‬مورخہ ‪-8-13‬‬
‫‪ 2001‬پہلے ہی ترمیم کی جا چکی ہے اور عدلیہ کی برتری تسلیم کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو‬
‫پابند کیا گیا کہ وہ متعلقہ صوبہ کی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے تفویض اختیارات کے سلسلہ‬
‫میں مشورہ لے۔‬

‫حصہ نمبر ‪3‬‬


‫احکام عام‬

‫(باب نمبر ‪)4‬‬

‫مجسٹریٹ‪ ،‬پولیس اور ان اشخاص کو جو گرفتاری کریں‪،‬‬


‫مدد دینے اور اطالع کرنے کی بابت‬
‫دفعہ نمبر ‪ :42‬عوام کب مجسٹریٹ اور پولیس کو مدد دیں‬

‫ہر شخص کو الزم ہے کہ وہ کسی مجسٹریٹ‪ ،‬جسٹس آف دی پیس یا پولیس افسر کی مدد کرے‪ ،‬جب‬
‫وہ اس کی مناسب معاونت طلب کریں۔‬
‫الف) کسی ایسے دیگر شخص کو پکڑنے یا اس کے فرار کے انسداد میں جسے ایسا‬
‫مجسٹریٹ یا پولیس افسر گرفتار کرنے کا مجاز ہے۔‬
‫کسی نقص امن کے انسداد یا فرو کرنے میں یا کسی ریلوے‪ ،‬نہر‪ ،‬تار برقی یا‬ ‫ب)‬
‫سرکاری جائیداد کو نقصان پہنچانے کے ارتکاب کی کوشش کے انسداد میں۔‬

‫وضاحت‪ :‬مندرجہ باال دفعہ کی شق نمبر ‪ 1‬میں مملکت کے شہریوں کو جرائم پیشہ افراد کو گرفتار‬
‫اعلی حکام اور افسران پولیس کی مدد کیلئے ان کی ذمہ داری کی یاد دہانی کرائی گئی‬
‫ٰ‬ ‫کرانے میں‬
‫ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کریں اور غلط کار لوگوں کو قانون کی گرفت میں‬
‫النے کیلئے معاونت کریں۔‬
‫اس دفعہ کی ذیلی شق نمبر ‪ 2‬میں اسالمی ریاست کے شہریوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ‬
‫فسا ِد امن کی کوشش کرنے اور سرکاری وملکی امالک کو نقصان پہنچانے والے افراد کا انسداد کیا‬
‫جائے اور کسی بھی تخریبی منصوبہ بندی کی اطالع قانون نافذ کرنے اور مجرموں کی سرکوبی‬
‫کرنے والے اداروں اور ان کے افسران کو فوری طو رپر دی جائے تاکہ بروقت اقدام کرکے تخریبی‬
‫کارروائیوں کو روکا جا سکے۔‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالم نے بھی اس سلسلے میں ہدایات دی ہیں۔ ارشاد باری‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ّللاَ یَا ْٔ ُم ُر ُک ْم أَن تُؤدُّواْ االَٔ َمانَا ِ‬
‫ت إِلَی أَ ْھ ِل َھا (‪)166‬‬ ‫إِ َّن ِّ‬
‫’’بے شک ہللا تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل لوگوں کے سپرد کردو‘‘۔‬
‫یہ آیت اگرچہ امانتوں کے بارے میں ہے لیکن اس سے مندرجہ باال امور میں بھی استدالل‬
‫کیا جا سکتا ہے۔ ہر راز ایک امانت ہوتا ہے اور اگر کسی شخص کے پاس جرائم پیشہ افراد کا کوئی‬
‫راز یا اطالع ہے تو یہ بھی امانت ہے۔ اسے وہ فورا ً متعلقہ حکام تک پہنچا دے تاکہ بروقت اقدام‬
‫کرکے نقصان سے بچا جا سکے۔‬
‫نیز نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ‪:‬‬
‫کرام نے پوچھا یا رسول ہللا! کس کیلئے؟ ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔ صحابہ‬
‫تعالی اور اس کے رسول (ﷺ) کیلئے‪ ،‬مسلمانوں کے حکام کیلئے اور عام مسلمانوں کیلئے‘‘۔‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫(‪)167‬‬
‫مندرجہ باال حدیث پاک سے بھی یہ ثبوت ملتا ہے کہ ہر مسلمان کو ایک دوسرے کی خیر‬
‫خواہی کرنی چاہئے اور شہریوں کی طرف سے ریاست کی اور حاکموں کی یہ خیر خواہی ہے کہ‬
‫اگر ریاست میں کہیں بھی کوئی سازش ہو رہی ہے۔ یا تخریبی عناصر سرگرم عمل ہوں اور ملک‬
‫وقوم کو نقصان پہنچانا چاہتے ہوں۔ ریاست میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہوں تو ایک دیانتدار‬
‫اور ذمہ دار شہری کا فرض ہے کہ وہ ملک وقوم اور افراد معاشرہ کی خیر خواہی کرتے ہوئے‬
‫انہیں تخریبی کارروائیوں سے بچانے کی کوشش کرے۔ جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ‬
‫اعلی کو اس صورتحال سے خبردار کردے اور وہ فورا ً‬
‫ٰ‬ ‫فوری طور پر متعلقہ محکمہ اور افسران‬
‫حرکت میں آکر ہر تخریبی منصوبے کو ناکام بنا دیں اور ملک امن وخوشحالی کا گہوارہ بن جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :43‬پولیس افسر کے عالوہ وارنٹ کی تعمیل کرانے والے شخص کی مدد کرنا‬

‫جب پولیس افسر کے بجائے وارنٹ کسی شخص کو دیا جائے‪ ،‬تو کوئی دیگر شخص ایسے وارنٹ‬
‫کی تعمیل میں مدد کر سکتا ہے‪ ،‬اگر وہ شخص جسے وارنٹ دیا گیا ہے‪ ،‬قریب ہو اور وارنٹ کی‬
‫تعمیل میں مصروف ہو۔‬

‫تبصرہ و تجویز‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی چیز اسالمی اصولوں کے منافی نہیں ہے۔ لہٰ ذا اسے اسی‬
‫طرح رہنے دیا جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :44‬عوام پر الزم ہے کہ بعض جرائم کی اطالع بہم پہنچائیں‬

‫ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کو ایک ایسے جرم کے ارتکاب یا ارادہ‬ ‫(‪1‬‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪،124 ،123-A ،122 ،A-121 ،121‬‬ ‫ارتکاب سے آگاہ ہو جو مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫‪،165 ،164 ،163 ،162 ،153-A ،148 ،147 ،145 ،144 ،143 ،130 ،126 ،125 ،124-A‬‬
‫‪،393 ،392 ،382 ،364-A ،304-A ،304،304 ،303 ،302 ،255 ،232 ،231 ،170 ،168‬‬
‫‪،459 ،458 ،457 ،456 ،450 ،449 ،436 ،435 ،402 ،399 ،398 ،397 ،396 ،395 ،394‬‬
‫‪ 460‬اور ‪ A-489‬میں سے کسی دفعہ کے تحت قابل سزا ہو‪ ،‬پھر الزم ہوگا کہ کوئی معقول عذر نہ‬
‫ہونے کی صورت میں جس کا ثابت کرنا خود اس شخص کی ذمہ داری ہوگی‪ ،‬جو اس امر سے آگاہ‬
‫ہے‪ ،‬ایسے ارتکاب یا اراد ٔہ ارتکاب کی اطالع قریبی مجسٹریٹ‪ ،‬جسٹس آف دی پیس یا عہدیدار‬
‫پولیس کو فورا ً پہنچائے۔‬
‫اس دفعہ کی اغراض کیلئے لفظ ’جرم‘ میں ہر ایسا فعل داخل ہے‪ ،‬جس کا ارتکاب‬ ‫(‪2‬‬
‫کسی مقام بیرون پاکستان میں ہوا ہو اور اگر اس کا ارتکاب پاکستان میں ہوتا تو وہ ایک جرم قرار دیا‬
‫جاتا۔‬

‫تبصرہ وتجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے برعکس نہیں ہے‪ ،‬لہٰ ذا اسے‬
‫اسی طرح رہنے دیا جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :45‬گائوں کے نمبردار‪ ،‬پٹواریوں‪ ،‬مالکان اراضی اور دیگران پر الزم ہے کہ بعض امور‬
‫کی رپورٹ کریں‬

‫ہر گائوں کے نمبردار‪ ،‬پٹواری‪ ،‬گائوں کے چوکیدار‪ ،‬گائوں کے عہدیدار پولیس اور‬ ‫(‪1‬‬
‫مالک یا قابض اراضی اور ایسے مالک یا قابض کا کارندہ جو اس اراضی کا انتظام کرتے ہوں اور‬
‫ہر اہلکار جو حکومت یا کورٹ آف وارڈز کی طرف سے مالگزاری یا لگان اراضی کی وصولیابی‬
‫کیلئے مامور ہو‪ ،‬پر الزم ہے کہ قریب ترین مجسٹریٹ‪ ،‬جسٹس آف دی پیس یا قریب ترین تھانہ کے‬
‫عہدیدار مہتمم کو جو کوئی زیادہ قریب ہو‪ ،‬مفصلہ ذیل کی بابت جو معلومات ہوں‪ ،‬پہنچائے۔‬
‫الف) ایسے کسی گائوں میں‪ ،‬جس کا وہ نمبردار‪ ،‬پٹواری یا چوکیداریا‬
‫عہدیدار پولیس ہو یا جہاں وہ اراضی کا مالک یا قابض ہو‪ ،‬یا کارندہ ہو‪ ،‬یا مالگزاری یا لگان وصول‬
‫کرتا ہو‪ ،‬کسی بدنام مال مسروقہ کے لین دین کرنیوالے کی مستقل یا عارضی سکونت۔‬
‫جس شخص کے بارے میں اسے علم ہو یا معقول شبہ ہو‪ ،‬کہ وہ‬ ‫ب)‬
‫ٹھگ ڈاکو‪ ،‬مفرور مجرم یا اشتہاری مجرم ہے‪ ،‬کی گائوں کے اندر کسی مقام پر موجودگی یا گزر۔‬
‫کوئی ناقابل ضمانت جرم یا کوئی جرم جو مجموعہ قوانین تعزیرات‬ ‫ج)‬
‫پاکستان کی دفعات ‪ 147 ،145 ،144 ،143‬یا ‪ 148‬کی رو سے قابل سزا ہے کے اس گائوں یا‬
‫اسکے نزدیک ارتکاب یا ارادہ ارتکاب۔‬
‫ویسے گائوں یا اس کے قریب کسی اچانک یا غیر قدرتی موت یا‬ ‫د)‬
‫کسی موت کی بابت جو مشتبہ حاالت میں واقع ہوئی ہو‪ ،‬یا کسی ایسے گائوں کے نزدیک کسی الش‬
‫یا حصہ الش کا ایسی حالت میں پایا جانا جس سے معقول شبہ پایا جائے کہ ایسی موت واقع ہوئی‬
‫ہے یا کسی ایسے گائوں میں سے کسی شخص کا ایسے حاالت میں غائب ہو جانا‪ ،‬جس سے معقول‬
‫شبہ ہوتا ہو کہ ایسے شخص کی نسبت کوئی ناقابل ضمانت جرم سرزد ہوا ہے۔‬
‫ویسے گائوں کے قریب کسی مقام جو حدو ِد پاکستان سے باہر ہو‪،‬‬ ‫ر)‬
‫کسی فعل کے ارتکاب یا ارادہ‘ ارتکاب‪ ،‬جو پاکستان کے اندر ہونے کی صورت میں مجموعہ قوانین‬
‫تعزیرات پاکستان کی دفعات ‪،382 ،304 ،302 ،238 ،237 ،236 ،235 ،234 ،233 ،232 ،231‬‬
‫‪،458 ،457 ،450 ،449 ،436 ،435 ،402 ،399 ،398 ،397 ،396 ،395 ،394 ،393 ،392‬‬
‫‪ 489-C ،489-B ،A-489 ،460 ،459‬اور ‪ D-489‬میں سے کسی کی رو سے ایک الئق تعزیر‬
‫جرم ہوتا۔‬
‫نظم وضبط قائم رکھنے یا انسداد جرم یا شخصی یا مال واسباب کی‬ ‫ز)‬
‫سالمتی پر غالبا ً اثر انداز ہونے واال کوئی امر جس کی نسبت ]کسی افسر کو صوبائی حکومت نے‬
‫اختیارات تفویض کئے ہوں[ نے بذریعہ حکم عام یا خاص‪ ،‬جو صوبائی حکومت کی پیشگی منظوری‬
‫سے صادر کیا گیا ہو۔ اطالع پہنچانے کیلئے اسے ہدایت کی ہو۔‬
‫اس دفعہ میں‪:‬‬ ‫(‪2‬‬
‫’’موضع‘‘ میں موضع کی اراضیات شامل ہیں‪ ،‬اور‬ ‫(‪i‬‬
‫عبارت ’’اشتہاری مجرم‘‘ میں ہر وہ شخص شامل ہے‪ ،‬جسے کسی‬ ‫(‪ii‬‬
‫عدالت یا حاکم مجاز نے جسے مرکزی حکومت نے پاکستان کے کسی حصہ میں مقرر کیا ہو یا قائم‬
‫رکھا ہو‪ ،‬کسی ایسے فعل کی بابت مجرم مشتہر کیا ہو‪ ،‬جس کا ارتکاب پاکستان کے اندر ہونے کی‬
‫صورت میں وہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعات ذیل ‪،394 ،393 ،382،392 ،304 ،302‬‬
‫‪ 459 ،458 ،457 ،450 ،449 ،436 ،435 ،402 ،399 ،398 ،397 ،396 ،395‬اور ‪ 460‬میں‬
‫سے کسی کے تحت قابل سزا ہوتا۔‬
‫]٭٭٭[ دفعہ ہذا کے مقاصد کیلئے گائوں کے نمبرداروں کا تقرر‪ :‬ان قواعد کے تابع‬ ‫(‪3‬‬
‫جو صوبائی حکومت وضع کرے گی ]ضلع افسر مال[ وقتا ً فوقتا ً ایک یا زیادہ اشخاص کو اپنی یا ان‬
‫کی مرضی سے زیر دفعہ ہذا موضع کے نمبردار کے فرائض ادا کرنے کیلئے مقرر کریگا‪ ،‬خواہ‬
‫اس موضع کیلئے کوئی نمبردار کسی اور قانون کے تحت مقرر کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس ذیلی شق میں ہر اس فعل کی متعلقہ حکام کو اطالع دینا ضروری ہے جو‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫معاشرے میں نظم وضبط کے قیام یا کسی جرم کے انسداد یا کسی فرد پر یا اس کے مال ودولت پر‬
‫اثرانداز ہو کر انہیں نقصان پہنچانے کا باعث ہو‪ ،‬یہ اطالع گائوں کا نمبردار‪ ،‬پٹواری یا چوکیدار‬
‫وغیرہ دے۔‬
‫اسالم معاشرے میں امن وسکون کا خواہاں ہے اور کسی فرد کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ‬
‫اپنی کسی حرکت سے معاشرے میں بدنظمی پیدا کرے۔ یا کسی کی جان یا مال کو نقصان پہنچائے یا‬
‫معاشرے میں فتنہ وفساد کا بازار گرم کرے۔ اسالم نے فتنہ کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا ہے۔‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ارشاد باری‬
‫شدُّ ِمنَ ْالقَتْ ِل (‪)168‬‬‫ْال ِفتْنَ ُۃ أَ َ‬
‫’’فساد تو قتل سے بھی زیادہ سخت ہے‘‘۔‬
‫کیونکہ جب فساد ہو تو کئی جانوں کے ضیاع کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسالم نے انسانی جان کی‬
‫حرمت پر بھی زور دیا ہے۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے اور ایک انسان کی‬
‫جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانا ہے۔ ارشاد باری ہے‪:‬‬
‫اس َج ِمیعًا ط َو َم ْن أَحْ َیاھَا فَ َکأَنَّ َما أَحْ یَا‬
‫ض فَ َکأَنَّ َما قَت َ َل النَّ َ‬ ‫سا ِبغَی ِْر نَ ْف ٍس ا َْٔو فَ َ‬
‫سا ٍد ِفی اال َْٔر ِ‬ ‫َمن قَت َ َل نَ ْف ً‬
‫اس َج ِمیعًا (‪)169‬‬ ‫النَّ َ‬
‫’’جس نے کسی جان کو بغیر جان کے بدلے قتل کیا یا زمین میں فساد کیا تو گویا اس نے‬
‫سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو بچا لیا‪ ،‬اس نے گویا پوری انسانیت کو بچا لیا‘‘۔‬
‫حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫کل المسلم علی المسلم حرام مالہ ودمہ عرضہ (‪)170‬‬
‫’’بے شک ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال‪ ،‬خون اور عزت حرام ہے‘‘۔‬
‫نصوص شرعیہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ اسالم فتنہ وفساد کا قلع‬ ‫ِ‬ ‫مندرجہ باال‬
‫قمع کرنے کا حکم دیتا ہے اور معاشرے میں سکون واطمینان کا حکم دیتا ہے اور ان تمام اسباب‬
‫ومحرکات کو ختم کرنے کی تعلیم دیتا ہے‪ ،‬جو فتنہ وفساد کو جنم دیں۔ اور پیش بندی کے طور پر‬
‫ظہور فتنہ سے پہلے ہی اس کے سدباب کا حکم دیتا ہے۔ مذکورہ ضابطہ فوجداری کی ذیلی شق میں‬
‫تو صرف نمبرداروں‪ ،‬پٹواریوں اور چوکیداروں کو ایسی اطالع دینے کا پابند کیا گیا ہے جبکہ اسالم‬
‫اپنے معاشرے کے ہر فرد کو اس ذمہ داری کو پورا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ ہر فرد کی ڈیوٹی ہے‬
‫کہ فتنہ وفساد کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔‬
‫رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے‪:‬‬
‫کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ (‪)171‬‬
‫’’تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا‬
‫جائیگا‘‘۔‬
‫تو جس شخص کے پاس ارتکاب جرم کی اطالع ہے اور وہ حکومت کے اہلکاروں کو نہیں‬
‫بتاتا تو یہ اس نے ذمہ داری میں غفلت والپرواہی سے کام لیا ہے‪ ،‬جس کے بارے میں قیامت کے دن‬
‫وہ جوابدہ ہوگا۔‬
‫ب جرم یا فسادکے بارے میں اطالع دینے کا کام‬
‫تجویز‪ :‬مندرجہ باال ذیلی دفعہ میں ارادۂ ارتکا ِ‬
‫صرف نمبرداروں اور پٹواریوں پر ہی نہ چھوڑا جائے بلکہ مملکت کے ہر شہری ہر فرد کی ذمہ‬
‫داری قرار دی جائے تاکہ فتنہ وفساد کے اسباب ومحرکات کو ختم کیا جائے۔ مذکورہ ذیلی دفعہ میں‬
‫اس لحاظ سے ترمیم کی جانی چاہئے۔‬

‫(باب نمبر ‪)5‬‬


‫گرفتاری‪ ،‬فرار اور دوبارہ گرفتاری‬

‫(الف) عام گرفتاری‬

‫دفعہ نمبر ‪ :46‬گرفتاری کس طرح کی جائے‬

‫گرفتاری کرتے وقت پولیس افسر یا دیگر شخص جو گرفتاری کر رہا ہو‪ ،‬یہ الزم‬ ‫(‪1‬‬
‫ہے کہ جس شخص کو گرفتار کرنا ہو‪ ،‬اس کے جسم کو فی الواقعہ چھوئے یا قید کرے‪ ،‬ماسوا اس‬
‫صورت میں کہ وہ شخص زبانی یا عملی طور پر خود کو حراست کیلئے پیش کرے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ ذیلی دفعہ میں کہا گیا ہے کہ جس شخص کو گرفتار کرنا مقصود ہو‪،‬‬
‫اسالمی ٔ‬
‫واقعی اس کے جسم کو چھوئے یا قید میں لے آئے‪ ،‬صرف تحریری یا زبانی طور پر‪ ،‬گرفتار کرنے‬
‫کو حراست نہیں کہا جا سکتا۔ بلکہ عملی طور پر اس متعین شخص کو قید کیا جائے۔ جس طرح‬
‫قیس بن سعد بن عبادہ کو اس کام پر مقرر فرمایا تھا کہ وہ کسی کو‬
‫حضور اکرم ﷺ نے حضرت ؓ‬
‫محبوس کریں‪ ،‬کسی کو ماریں اور کسی کو پکڑلیں۔ (‪)172‬‬
‫نیز یہ بھی روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ اسیروں کو مسجد کے ستون سے باندھنے کا حکم‬
‫فرماتے تھے۔ (‪)173‬‬
‫مندرجہ باال احادیث سے یہ واضح ہوا کہ حضور اکرم ﷺ کا بھی مجرموں کی گرفتاری میں‬
‫قیس اس پر عمل کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ کسی شخص کو محبوس‬ ‫یہی اصول تھا اور حضرت ؓ‬
‫کرنا‪ ،‬اسے مارنا اور اسے پکڑ لینا یا پھر مسجد کے ستون سے باندھ دینا اسی صورت میں ممکن‬
‫ہے کہ اسے واقعی جسمانی طور پر گرفتار کیا جائے اور اس کے جسم کو قید کیا جائے۔ باقی رہی‬
‫دوسری صورت کہ وہ شخص جسے گرفتار کیا جا رہا ہے‪ ،‬خود کو زبانی یا عملی طور پر حراست‬
‫اسلمی نے‬
‫ؓ‬ ‫کیلئے پیش کردے تو اس کی مثالیں بھی عہد رسالت میں ملتی ہیں۔ مثالً حضرت ماعز‬
‫خود کو حضور اکرم ﷺ کے سامنے زبانی اور عملی طور پر گرفتاری کیلئے پیش کردیا۔ (‪)174‬‬
‫غامدیہ نے خود کو عملی طور پر گرفتاری کیلئے پیش کردیا تھا‪ ،‬لہٰ ذا وہاں اس کارروائی‬
‫ؓ‬ ‫اسی طرح‬
‫کی ضرورت ہی پیش نہ آئی تھی۔ (‪)175‬‬
‫ؓ‬
‫فاروق نے ایک جرم‬ ‫آثار صحابہ سے بھی اس کی شہادت ملتی ہے۔ ایک دفعہ حضرت عمر‬ ‫ِ‬
‫کے سلسلے میں مفرور مجرموں کے بارے میں اعالن کیا کہ قاتلوں کو گرفتار کر الئو اور کوئی‬
‫شخص انہیں پناہ نہ دے۔‬
‫آپ نے انہیں قتل کروا کے پھانسی پر لٹکوا دیا۔ (‪)176‬‬
‫چنانچہ وہ پکڑ کر الئے گئے اور ؓ‬
‫آپ کی طرف سے بصرہ کے گورنر عبدہللا بن مسعودؓ کو ایک دفعہ ایک جرم کی‬ ‫اسی طرح ؓ‬
‫اطالع ملی۔ انہوں نے فورا ً شرطہ کو مجرمین کو گرفتار کرنے کیلئے بھیجا جو انہیں گرفتار‬
‫آپ نے ان کا فیصلہ کیا۔(‪)177‬‬
‫کرالئے اور آپ کے سامنے پیش کیا اور ؓ‬
‫آپ کے احکام کی تعمیل و‬ ‫علی کے پاس صاحب الشرطہ ہر وقت حاضر رہتا اور ؓ‬ ‫حضرت ؓ‬
‫آپ کے دور میں ’’صاحب الشرطہ‘‘‬ ‫قیس بن سعد ؓ‬
‫تنفیذ کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا۔ (‪ )178‬حضرت ؓ‬
‫بھی رہے‪ ،‬ان کے پاس بارہ ہزاری نفری تھی جو عسکری مہمات کے عالوہ ’’شرطہ‘‘ کے فرائض‬
‫لی کے صاحب‬ ‫بھی سرانجام دیتا۔ خالص بن عمرو البصری اور شریع بن ہانی بھی حضرت ع ؓ‬
‫علی سے شکایت کی میرا والد فالں فالں لوگوں کے‬ ‫الشرطہ تھے۔ (‪ )179‬ایک نوجوان نے حضرت ؓ‬
‫ساتھ تجارت پر گیا تھا‪ ،‬وہ آگئے ہیں مگر میرا والد نہیں آیا۔ پوچھنے پر کہتے ہیں وہ راستہ میں فوت‬
‫علی نے اسی وقت پولیس کا دستہ منگوایا اور انہیں‬‫ہو گیا ہے اور کوئی مال نہیں چھوڑ گیا۔ حضرت ؓ‬
‫گرفتار کرا کے ہر شخص کو دو پولیس والوں کے سپرد کردیا اور فرمایا انہیں آپس میں ملنے نہ دیا‬
‫جائے۔ پھر کاتب کو بلوایا اور فرمایا کہ وہ کارروائی لکھے۔ پھر مقدمہ کی سماعت کرکے مقتول‬
‫کی دیت اور اس کا مال وصول کرلیا۔ (‪)180‬‬
‫صحابہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ بھی عملی طور پر مجرم کو‬
‫ؓ‬ ‫مندرجہ باال آثار‬
‫گرفتار کراتے تھے۔ اسے ضرورت کے تحت محبوس بھی کرتے تھے۔ پوچھ گچھ بھی ہوتی تھی‬
‫اور یہ ساری کارروائی محکمہ شرطہ سرانجام دیتا تھا۔‬

‫گرفتاری کی کوشش میں مزاحمت‪ :‬اگر ویسا شخص اسے گرفتار کرنے کی کوشش‬ ‫(‪2‬‬
‫میں جبر سے مزاحم ہو یا گرفتاری سے بچنے کی کوشش کرے تو ویسا پولیس افسر یا دیگر شخص‬
‫گرفتاری کیلئے تمام ذرائع زیر کار ال سکتا ہے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اگر کسی صاحب حق نے کسی دوسرے شخص پر دعوی کیا ہے‪ ،‬تو مدعا علیہ‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫کو عدالت میں حاضر کرنے کے سلسلے میں مدعی تمام ذرائع بروئے کار ال سکتا ہے‪ ،‬اس سلسلے‬
‫میں اسالمی تعلیمات سے بھی ہمیں رہنمائی ملتی ہے۔ مثالً محمد بن عبدالرحمن اپنے والد سے‬
‫عفان سے (اپنے فریق مخالف کو حاضر کرنے کے‬ ‫ؓ‬ ‫روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان بن‬
‫سلسلے میں) مدد طلب کی اور ان کا گریبان پکڑ لیا تو انہوں نے میری مدد فرمائی۔ (‪)181‬‬
‫دعوی دائر‬
‫ٰ‬ ‫خصاف لکھتے ہیں کہ اگر کسی نے کسی دوسرے شخص کے خالف عدالت میں‬ ‫ؒ‬
‫کیا لیکن مدعا علیہ دوسرے شہر میں رہتا ہے تو قاضی مدعی کو اپنی طرف سے کوئی عالمت دے‬
‫دے۔ مدعی اس کے پاس جائے اور عالمت دکھائے اور کسی کو گواہ بنا لے‪ ،‬اگر مدعا علیہ حاضر‬
‫ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ قاضی اس کے پاس کسی ایسے آدمی کو بھیجے جو مدعا علیہ کو‬
‫حاضر کرے۔ (‪ )182‬وہ مزید لکھتے ہیں کہ قاضی اس سلسلے میں حاکم (عالقہ افسر) کو لکھے‪،‬‬
‫اس طرح لوگوں کو حقوق مل جائینگے‪ ،‬چونکہ حاکم (عالقہ افسر) کو لوگوں کے حقوق دلوانے‬
‫کیلئے متعین کیا گیا ہے لہٰ ذا قاضی اس کا تعاون حاصل کرے۔(‪)183‬‬
‫مامون کے دور میں طاہر بن حسین صاحب الشرطہ کے عہدہ پر فائز رہا‪ ،‬جب اسے‬
‫خراسان کا گورنر بنایا گیا تو اس کے درج ذیل فرائض تھے‪:‬‬
‫صلوۃ اور دیگر‬
‫حفظ امن‪ ،‬قیام ٰ‬‫ِ‬ ‫’’وہ خلیفہ اور امیر کے ادھر ادھر جانے میں ساتھ رہتا‪،‬‬
‫مذہبی امور کی بجا آوری میں محتسب کی مدد کرتا‪ ،‬جرمانے وصول کرتا‪ ،‬قید خانون اور قتل گاہوں‬
‫میں آئینی طور پر احکامات کا نفاذ کرتا‪ ،‬جزیہ وخراج کی وصولی میں مدد کرتا اور اگر اس بارے‬
‫میں جبر واکراہ کی نوبت آئے تو جبر واکراہ سے کام لیتا وغیرہ‘‘۔(‪)184‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوتا ہے کہ اگر عدالت کسی شخص کو طلب کرے یا کسی‬
‫حکومتی ادارے کو کوئی شخص کسی جرم کے سلسلے میں مطلوب ہو تو اسے قانون کے مطابق‬
‫گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اگر وہ زبردستی مزاحمت کرے یا گرفتاری سے بچنے کی کوشش کرے تو‬
‫متعلقہ حکام کو اجازت ہے کہ وہ اسے زبردستی اور تمام ذرائع بروئے کار التے ہوئے گرفتار‬
‫کریں۔‬
‫تجویز‪ :‬مندرجہ باال ذیلی دفعہ اسالمی تعلیمات کے مطابق ہے اسے اسی طرح رہنے دیا جائے۔‬

‫دفعہ ہذا سے ایسا کوئی استحقاق حاصل نہیں ہوتا کہ ایک شخص جس پر جرم قابل‬ ‫(‪3‬‬
‫سزائے موت یا عمر قید کا الزام نہ عائد کیا گیا ہو کو ہالک کیا جائے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالم میں نہ صرف انسانی جان بلکہ ہر مخلوق کی جان حرمت والی ہے۔ اسالم‬
‫اسالمی ٔ‬
‫نے آپس میں قتل وغارتگری سے منع کیا ہے۔ جیسا کہ درجِ ذیل آیات قرآنی سے واضح ہوتا ہے‪:‬‬
‫ّللاَ کَانَ بِ ُک ْم َر ِحی ًما (‪)185‬‬ ‫َوالَ ت َ ْقتُلُواْ أَنفُ َ‬
‫س ُ‬
‫ک ْم إِ َّن ِّ‬
‫تعالی رحم فرمانے واال ہے‘‘۔‬
‫ٰ‬ ‫’’اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو‪ ،‬بیشک ہللا‬
‫ّللاُ إِالَّ بِ ْال َح ِّ ِ‬
‫ق …… الخ (‪)186‬‬ ‫س الَّتِی َح َّر َم ِّ‬
‫َوالَ ت َ ْقتُلُواْ النَّ ْف َ‬
‫تعالی نے حرام کردیا ہے سوائے حق کے‘‘۔‬
‫ٰ‬ ‫’’اور ایسی جان کو قتل نہ کرو‪ ،‬جسے ہللا‬
‫یہ حق کیا ہے؟ جو قتل انسانی کو حالل کرتا ہے‪ ،‬اس بارے میں حضور اکرم ﷺ ارشاد‬
‫فرماتے ہیں کہ کسی بھی مسلمان کا جو ہللا کے معبود ہونے کی اور میرے رسول ہللا ہونے کی‬
‫گواہی دے خون حالل نہیں ہے۔ سوائے تین باتوں کے‪’’ :‬شادی شدہ زانی‪ ،‬قتل کا بدلہ قتل اور‬
‫مرتد‘‘۔ (‪)187‬‬
‫یہ تین صورتیں ہیں‪ ،‬جن میں کسی شخص کو قتل کیا جا سکتا ہے‪ ،‬آیت مبارکہ میں اسی کو بیان کیا‬
‫گیا ہے۔ نیز ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫َو َمن َی ْقت ُ ْل ُمؤْ ِمنًا ُّمت َ َع ِ ِّمدًا فَ َجزَ آؤُ ہُ َج َھنَّ ُم خَا ِلدًا فِی َھا …… الخ (‪)188‬‬
‫’’اور جو مومن کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے پس اس کا بدلہ جنہم ہے جس میں وہ ہمیشہ‬
‫رہے گا‘‘۔‬
‫نبی اکرم ﷺ نے متعدد احادیث مبارکہ میں انسانی جان کی حرمت بیان فرمائی ہے اور قتل‬
‫وخون ریزی سے منع فرمایا ہے۔ مثالً حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا‪:‬‬
‫ان دماء کم وامواکم علیکم حرا ٌم الی أن تلقوا ربکم لحرمۃ یومکم ھذا فی شھرکم ھذا فی بد اکم‬
‫ھذا (‪)189‬‬
‫’’بے شک تمہاری جانیں اور تمہارے اموال تم پر عزت وحرمت والے ہیں‪ ،‬یہاں تک کہ تم‬
‫اپنے رب سے مالقات کرو‪ ،‬جس طرح تمہارا آج کا دن‪ ،‬یہ مہینہ اور یہ شہر حرمت واال ہے‘‘۔‬
‫نیز ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫اال ترجعوا بعدی کفارا یغرب بعضم رقاب بعض (‪)190‬‬
‫’’خبردار میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔‬
‫نیز فرمایا‪:‬‬
‫مری مسلم دم اخیہ وال مالہ اال بطیب نفس منہ (‪)191‬‬
‫وال یحل ال ٔ‬
‫’’کسی مسلمان کیلئے اپنے بھائی کا خون اور مال حالل نہیں‪ ،‬جب تک وہ خوشی سے نہ‬
‫دے‘‘۔‬
‫عمر نے فرمایا ہے کہ‪:‬‬
‫اسی طرح حضرت ؓ‬
‫’’اگر دریائے فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی بھوک پیاس سے مر جائے تو قیامت کے‬
‫دن اس کے بارے میں مجھ سے سوال ہوگا‘‘۔ (‪)192‬‬
‫عمر کے قول سے واضح ہوتا ہے کہ انسانی جان کی‬‫مندرجہ باال آیات و احادیث اور سیدنا ؓ‬
‫بڑی حرمت ہے‪ ،‬اسے بغیر وجہ کے ضائع نہیں کیا جا سکتا‪ ،‬نہ ہی کسی فرد کو یہ حق حاصل ہے‬
‫اور نہ ہی کسی حکومتی اہلکار یا ادارے کو‪ ،‬کہ وہ کسی شخص کو بالوجہ اور بغیر کسی جرم کے‬
‫قتل کردے یا عمر قید کے طور پر ساری زندگی محبوس کرے۔‬

‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬ذیلی دفعہ (‪)3‬کے آخری الفاظ " ‪Or with Imprisonment‬‬
‫‪( "for life‬یا عمر قید) کو حذف کیا جائے کیونکہ اس سے بے گناہ لوگوں کے ماورائے عدالت قتل‬
‫کو شہہ مل سکتی ہے خصوصا ً موجودہ حاالت میں‘‘۔(‪)193‬‬

‫تجویز‪ :‬مندرجہ باال ذیلی شق میں انسانی جان کی حرمت کی حفاظت کی گئی ہے‪ ،‬اسالم بھی یہ‬
‫تعلیم دیتا ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس میں صرف نظریاتی کونسل کی سفارش کے مطابق ترمیم ہی کافی ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :47‬اس مقام کی تالش جہاں گرفتاری طلب شخص داخل ہوا ہے‬

‫اگر کوئی شخص جو وارنٹ گرفتاری کے تحت مصروف عمل ہو‪ ،‬یا کوئی پولیس افسر جو گرفتاری‬
‫کا اختیار رکھتا ہو‪ ،‬یہ باور کرے کہ وہ شخص جس کی گرفتاری مطلوب ہے‪ ،‬کسی مقام میں داخل‬
‫ہو گیا ہے یا اس کے اندر موجود ہے تو اس شخص کو جو ویسے مقام میں رہائش پذیر ہو‪ ،‬یا ایسی‬
‫جگہ کا منتظم ہو پر الزم ہے کہ مذکورہ طور پر مصروف شخص یا ایسے پولیس افسر کے مطالبہ‬
‫پر ان کو اس (جگہ) کے اندر آنے کی کھلی اجازت دے اور اس کے اندر تالشی لینے کیلئے جملہ‬
‫معقول سہولتیں بہم پہنچائے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :48‬رسائی حاصل نہ ہوسکنے کی صورت میں ضابطہ کارروائی‬

‫اگر دفعہ ‪ 47‬کے بموجب ویسے مکان کے اندر رسائی حاصل نہ ہو سکے تو کسی ایسی صورت‬
‫میں جب کوئی دوسرا شخص وارنٹ کے تحت مصروف عمل ہو اور کسی ایسی صورت میں جس‬
‫میں وارنٹ جاری کیا جا سکتا ہو مگر گرفتاری طلب شخص کو فرار کا موقع دیئے بغیر اسے‬
‫حاصل نہ کیا جا سکتا ہو‪ ،‬کسی پولیس افسر کیلئے جائز ہوگا کہ ایسی جگہ میں داخل ہو اور اس میں‬
‫تالشی لے اور اسے اختیار ہوگا کہ ویسے مقام میں داخل ہونے کیلئے کسی مکان یا مقام کے بیرونی‬
‫یا اندرونی دروازے یا کھڑکی کو جو گرفتاری طلب شخص یا کسی اور کی ملکیت ہو‪ ،‬اس صورت‬
‫میں توڑ کر داخل ہو کہ جب اس نے اپنا اختیار و مقصد پہلے ظاہر کیا ہو اور داخل ہونے کی حسب‬
‫ضابطہ درخواست کی ہو اور کسی دوسری طرح رسائی نہ پا سکتا ہو۔‬

‫زنان خانہ کو توڑ کر اس کے اندر داخل ہونا‪ :‬مگر شرط یہ ہے کہ اگر کوئی ویسا مقام ایسا خلوت‬
‫خانہ ہو‪ ،‬جس میں واقعی طور پر کوئی عورت مقیم ہو (جو گرفتار طلب شخص نہ ہو) جو رواج کے‬
‫مطابق لوگوں کے سامنے نہ آتی ہو‪ ،‬توویسے شخص یا پولیس افسر کو الزم ہے کہ ویسے خلوت‬
‫خانہ میں داخل ہونے سے قبل ویسی عورت کو اطالع دے کہ اسے باہر نکلنے کی آزادی ہے اور‬
‫اسے نکلنے کیلئے ہر طرح معقول سہولت دے اور پھر اس کا مجاز ہوگا کہ خلوت خانہ کو توڑ کر‬
‫اس کے اندر داخل ہو۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :49‬آزاد ہونے کیلئے دروازوں اور کھڑکیوں کو توڑ ڈالنے کا اختیار‬

‫پولیس افسر یا دیگر شخص جسے گرفتار کرنے کا اختیار دیا گیا ہو‪ ،‬مجاز ہے کہ وہ خود کو یا کسی‬
‫دوسرے شخص کو آزاد کرانے کیلئے‪ ،‬جو گرفتار کرنے کیلئے قانونی طو رپر داخل ہوا ہو اور‬
‫مقام مذکور کے کسی اندرونی یا بیرونی دروازے یا کھڑکی کو توڑ‬ ‫وہاں روک لیا گیا ہو‪ ،‬مکان یا ِ‬
‫دے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مندرجہ باال دفعات نمبر ‪ 48 ،47‬اور ‪ 49‬میں مذکور ہے کہ کسی شخص کو‬
‫اسالمی ٔ‬
‫گرفتار کرنا ہو اور وہ کسی مکان میں داخل ہو جائے‪ ،‬وہاں پردہ نشین خواتین بھی ہوں‪ ،‬اس مکان‬
‫میں داخل ہو کر تالشی لینا اور اسی دوران رکاوٹ بننے والے دروازے کھڑکی وغیرہ توڑنا اور‬
‫گرفتار طلب شخص کو آزد کرکے گرفتار کرنا وغیرہ۔ اس بارے میں اسالمی تعلیمات کیا ہیں۔ فقہاء‬
‫الخصاف کہتے ہیں کہ‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫اسالم نے اس کی وضاحت بھی کردی ہے۔ امام ابوبکر‬
‫’’جہاں تک (گرفتاری سے بچنے کیلئے) اپنے گھر میں چھپ جانے والے فریق کے گھر پر‬
‫چھاپہ مارنے کا تعلق ہے اور اس چھپنے کا علم قاضی کو ہو تو ہمارے ایک امام اس کے حق میں‬
‫ہیں‪ ،‬مصنف اس سے امام ابویوسف مراد لیتے ہیں جبکہ وہ قضاء کے عہدہ پر فائز تھے‪ ،‬وہ ایسا کیا‬
‫سرخسی نے بھی اس میں کوئی اختالف بیان‬
‫ؒ‬ ‫کرتے تھے اور اس کی اجازت دیتے تھے۔ شمس االئمہ‬
‫نہیں کیا۔ مگر شمس االئمہ حلوانی کہتے ہیں کہ ہمارا یہ موقف نہیں کہ قاضی کسی فریق کے گھر‬
‫پر چھاپہ مارے‘‘۔ (‪)194‬‬
‫متن میں چھاپہ مارنے کی یہ صورت بیان کی گئی ہے‪ :‬ایک شخص کے ذمہ کوئی قرضہ‬
‫ہے اور وہ اپنے گھر میں چھپ گیا ہے‪ ،‬قاضی کو بھی اس کا علم ہے تو قاضی اس کے گھر پر‬
‫اچانک چھاپہ مارنے کیلئے اپنے دو قابل اعتماد ساتھیوں‪ ،‬عورتوں اور خدام کی ایک جماعت اور‬
‫چند مددگاروں کو اس کے گھر روانہ کرے‪ ،‬یہ لوگ مدعا علیہ کے گھر پر چھاپہ ماریں‪ ،‬مددگار‬
‫اشخاص اس کے دروازے پر کھڑے ہو جائیں اور اس کے گھر کا گھیرائو کرلیں‪ ،‬اگر وہ شخص‬
‫فرار کی نیت سے باہر نکلے تو وہ اسے گرفتار کرلیں اور عورتیں بغیر اجازت لئے اندر داخل ہو‬
‫جائیں اور مدعا علیہ کی عورتوں کو آگاہ کردیں کہ ہم اندر داخل ہو رہی ہیں‪ ،‬اس کے بعد مرد داخل‬
‫ہو جائیں اور گھر کی تالشی شروع کردیں‪ ،‬انہیں اگر مدعا علیہ نظر نہ آئے تو عورتوں سے کہیں‬
‫کہ مدعا علیہ کی عورتوں کے درمیان اسے تالش کریں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان میں چھپا ہو۔ (‪)195‬‬
‫وہ مزید لکھتے ہیں کہ جن فقہاء کرام نے مدعا علیہ کے گھر پر چھاپہ مارنے کی اجازت‬
‫آپ نے فرمایا‪:‬‬
‫عمر کے اس واقعہ کو دلیل بنایا ہے کہ ؓ‬
‫دی ہے‪ ،‬انہوں نے حضرت ؓ‬
‫بلغنی ان فی بیت فالں و فالں شرابا ً ثم ھجم علی بیت القریش والثقفی … الخ(‪)196‬‬
‫’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ فالں فالں کے گھر میں شراب موجود ہے‪ ،‬جس کے گھر میں‬
‫آپ نے قریشی اور ثقفی کے گھر پر چھاپہ مارا‘‘۔‬
‫مجھے شراب ملی میں اسے آگ لگا دوں گا‪ ،‬پھر ؓ‬
‫علی نے عبدالرحمن بن مخنف کو رے کا گورنر بنایا‪ ،‬وہ مال لیکر نعیم‬
‫اسی طرح حضرت ؓ‬
‫علی نے ایک شخص کو بھیجا جو انہیں نعیم کے‬ ‫بن دجاجہ االسدی کے ہاں چھپ گئے‪ ،‬حضرت ؓ‬
‫علی نے چھاپہ‬
‫علی کے سامنے پیش کردیا۔ یہاں گویا حضرت ؓ‬ ‫گھر سے پکڑ الئے اور حضرت ؓ‬
‫مارنے کو جائز قرار دیا۔ (‪)197‬‬
‫آپ وہاں‬
‫عمر کو ایک نوحہ گر عورت کے بارے میں پتہ چال‪ ،‬چنانچہ ؓ‬ ‫’’اسی طرح حضرت ؓ‬
‫چلے گئے اور اس کے گھر پر چھاپہ مارا اور کوڑے سے اس کی پٹائی کی کہ اس کا دوپٹہ سر‬
‫آپ نے‬
‫آپ سے کہا گیا کہ اے امیر المومنین! اس کا دوپٹہ سر سے گر گیا ہے تو ؓ‬ ‫سے گر گیا‪ؓ ،‬‬
‫فرمایا‪ :‬اس عورت کی کوئی عزت وحرمت نہیں ہے۔ یعنی اس عورت نے خالف شریعت کام کرکے‬
‫اپنی عزت کو ختم کردیا اور اس کا شمار لونڈیوں میں ہو گیا‘‘۔ (‪)198‬‬
‫اس واقعہ کی بنیاد پر علماء کہتے ہیں کہ فساد کرنیوالوں کے گھر پر چھاپہ مارنے میں‬
‫کوئی حرج نہیں ہے جبکہ فساد کی آواز باہر آرہی ہو اور اس طرح اس نے اپنے گھر کی عزت کو‬
‫ختم کردیا‪ ،‬لہٰ ذا امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے پیش نظر بغیر اجازت لئے اس کے گھر داخل‬
‫عمر نے قریشی اور ثقفی کے گھر داخل ہو کر کیا‬
‫ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے‪ ،‬جیسا کہ حضرت ؓ‬
‫آپ نے چھاپہ مار ناجائز قرار دیا تھا‪ ،‬مگر ہمارے ائمہ کرام کہتے ہیں کہ چھاپہ مارنے میں‬
‫تھا اور ؓ‬
‫ایک مسلمان کی ہتک اور بے عزتی ہوتی ہے لہٰ ذا کسی مسلمان کے خالف ایسی کارروائی جائز‬
‫نہیں ہے۔ (‪)A-198‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوتا ہے کہ مجرم اور فسادیوں کے گھر پر چھاپہ مارنا جائز‬
‫خالف شرع کام کرکے اپنے گھر کے تقدس کو ختم کردیا ہے‪ ،‬لہٰ ذا ان کے‬ ‫ِ‬ ‫ہے‪ ،‬کیونکہ انہوں نے‬
‫علی نے کسی‬ ‫عمر نے کیا اور حضرت ؓ‬ ‫گھروں میں بال اجازت داخل ہونا جائز ہے۔ جیسا کہ حضرت ؓ‬
‫دوسرے شخص کے ذریعے چھاپہ مروایا۔ نیز سطور باال میں یہ وضاحت بھی ہے کہ گھر میں پہلے‬
‫عورتیں داخل ہوں اور پردہ دار عورتوں کو خبردار کردیں‪ ،‬پھر مرد داخل ہو کر تالشی لے سکتے‬
‫ہیں۔ اس دوران اگر کوئی دروازہ‪ ،‬کھڑکی وغیرہ مجرم کی گرفتاری میں مزاحمت بنیں تو انہیں بھی‬
‫توڑ سکتے ہیں اور مجرم کو بہرحال و بہرصورت گرفتار کیا جائے گا۔ یہ متفقہ مسئلہ ہے۔ البتہ‬
‫فقہاء اسالم نے یہ موقف بھی اپنایا ہے کہ عام مسلمان کی چھاپہ مارنے سے بے عزتی اور ہتک‬
‫خالف شرع کام کر کے اپنی بے‬ ‫ِ‬ ‫مستثنی ہونا چاہئے کیونکہ اس نے کوئی‬
‫ٰ‬ ‫ہوتی ہے لہٰ ذ وہ اس سے‬
‫عزتی کا سامان پیدا نہیں کیا ہے۔ لہٰ ذا اس کی حرمت پامال نہیں کی جانی چاہئے اور واقعی اسے‬
‫محفوظ رکھنا چاہئے کیونکہ وہ بالکل بے قصور ہے اور شرعی گرفت میں نہیں آتا۔‬
‫تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعات نمبر ‪ 49 ،48 ،47‬میں کوئی بات شریعت کے خالف نہیں ہے‪ ،‬لہٰ ذا انہیں‬
‫اسی طرح رہنے دیا جانا چاہئے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :50‬مزاحمت غیر ضروری نہ ہو‬

‫گرفتار کردہ شخص کی اس سے زیادہ مزاحمت نہ کی جائے جو اسے فرار سے روکنے کیلئے‬
‫ضروری ہو۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات شریعت اسالمیہ کے خالف نہیں ہے‪ ،‬لہٰ ذا اسے اسی طرح‬
‫رہنے دیا جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :51‬گرفتار کردہ اشخاص کی تالشی‬

‫جب کبھی کوئی شخص کسی پولیس افسر کے کسی وارنٹ کے تحت گرفتار کیا جائے‪ ،‬جس میں‬
‫ضمانت نہ لی جا سکتی ہو‪ ،‬یا کسی وارنٹ کے تحت جس میں ضمانت لی جا سکتی ہو مگر گرفتار‬
‫کردہ شخص ضمانت نہ فراہم کر سکتا ہو اور جب کوئی شخص بغیر وارنٹ گرفتار کیا جائے یا‬
‫بذریعہ وارنٹ کسی غیر سرکاری شخص نے اسے حراست میں لیا ہو اور اس کی قانونا ً ضمانت نہ‬
‫ہو سکتی ہو یا وہ ضمانت پیش نہ کر سکے تو پولیس افسر گرفتار کنندہ یا اگر گرفتاری ویسے‬
‫شخص نے کی ہو تو وہ پولیس افسر جس کے حوالہ وہ گرفتار کردہ شخص کو کرے‪ ،‬مجاز ہوگا کہ‬
‫ویسے شخص کی تالشی لے اور سوائے پہننے کے تمام ضروری کپڑوں کے تمام چیزیں جو اس‬
‫کے بدن پر پائی جائیں۔ محفوظ قبضہ میں رکھے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں یہ مذکور ہے کہ جب کسی شخص کو کوئی پولیس افسر‬
‫اسالمی ٔ‬
‫نکتہ نگاہ سے بھی یہ جائز ہے کہ جب کسی‬
‫گرفتار کرے تو وہ اس شخص کی تالشی لے‪ ،‬اسالمی ٔ‬
‫شخص کے بارے میں غیر قانونی اور غیر اخالقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی اطالع ہو اور‬
‫سرکاری حکام یا ان کے اہلکار اسے گرفتار کرنے پر مامور کئے جائیں تو وہ اس کی تالشی لے‬
‫زبیر اور حضرت مقدادؓ‬
‫علی‪ ،‬حضرت ؓ‬ ‫سکتے ہیں‪ ،‬جیسا کہ ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت ؓ‬
‫کو ایک عورت کے تعاقب میں بھیجا کہ اس کے پاس ایک خط ہے وہ چھین کر میرے پاس الئو۔‬
‫چنانچہ انہوں نے اس عورت کو جا لیا اور اس سے خط طلب کیا مگر اس عورت نے کہا کہ میرے‬
‫علی نے اسے ڈرایا کہ خط نکال کر دے دے‪ ،‬ورنہ ہم‬
‫پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ اس پر حضرت ؓ‬
‫تجھے ننگی کرکے تالشی لیں گے‪ ،‬اس پر اس عورت نے ڈر کر بالوں کے جوڑے سے وہ خط‬
‫نکال کر انہیں دے دیا۔ (‪)199‬‬
‫مندرجہ باال واقعہ سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ انکشاف جرم کیلئے ملزم کی تالشی بھی لی جا‬
‫دعوی کرے اور مدعی اسے جھوٹا کہے تو‬‫ٰ‬ ‫سکتی ہے۔ اسی طرح اگر مدعا علیہ دیوالیہ ہونے کا‬
‫قاضی اس کی جائیداد کی تفتیش کر سکتا ہے‪ ،‬تالشی لے سکتا ہے اور فروخت پر پابندی بھی لگا‬
‫سکتا ہے۔ (‪)200‬‬
‫تفتیش وتالشی کا کام قاضی بھی سرانجام دے سکتا ہے اور اگر قاضی کسی کو حکم دے تو‬
‫سرکاری اہلکار بھی ایسا کر سکتا ہے۔‬
‫درج باال سطور سے یہ واضح ہوا کہ قاضی یا اس کا مقرر کردہ کوئی بھی حکومتی عہدیدار‬
‫گرفتار کردہ شخص کی تالشی لے سکتا ہے‪ ،‬اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔‬
‫تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات خالف شریعت دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس میں ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں ہے‪ ،‬لہٰ ذا اسے اسی طرح رہنے دیا جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :52‬عورتوں کی تالشی لینے کا طریقہ‬

‫جب کسی عورت کی تالشی لینا مقصود ہو تو اس کی تالشی کسی اور عورت کے ذریعہ انتہائی‬
‫شائستگی کے ساتھ لی جائے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالم نے عفت وعصمت کا بے مثال نظام قائم کیا ہے‪ ،‬مرد اور عورت میں جو‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫فطری تفاوت ہے‪ ،‬زندگی کے ہر شعبے میں اس کا لحاظ کیا ہے۔ مثالً حضور اکرم ﷺ نے تعلیم دین‬
‫میں بھی اس پہلو کو مدنظر رکھا۔ ارشاد فرمایا کہ‬
‫’’میں تم میں دو پختہ چیزیں چھوڑ رہا ہوں۔ پہلی کتاب ہللا جس میں ہدایت ونور ہے‪ ،‬اسے‬
‫الزم پکڑو۔ دوسری میرے گھر والے‘‘۔ (‪)201‬‬
‫اور خاندان نبوت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی ہللا عنھا کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔‬
‫کرام اُن سے سوال کیا‬
‫ؓ‬ ‫وہ لوگوں میں سب سے زیادہ شرعی احکام جاننے والی تھیں‪ ،‬اکابر صحابہ‬
‫کرتے تھے۔ (‪)202‬‬
‫عالوہ ازیں خواتین بھی ان سے دینی مسائل میں بھرپور رہنمائی حاصل کرتیں۔ گویا انہیں‬
‫بطور خاص سپرد کیا تھا تاکہ خواتین ان سے بالتکلف ہر مسئلہ‬
‫ِ‬ ‫شعبہ خواتین کی رہنمائی کا فریضہ‬
‫ؓ‬
‫فاروق نے بھی خواتین کو دینی فرائض سونپے اور انہیں‬ ‫دریافت کر سکیں۔ اسی طرح حضرت عمر‬
‫عبدہللا کو بازار کا عامل (نگران) مقرر‬
‫ؓ‬ ‫خواتین سے متعلق خدمات سپرد کیں۔ مثالً حضرت شفاء بنت‬
‫فرمایا‪ ،‬اسی طرح ایک عمر رسیدہ صحابیہ سمراء بنت نہیک اسدیہ تھیں‪ ،‬وہ کوڑا لے کر بازار میں‬
‫گشت کرتی تھیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتیں اور اس پر لوگوں کو مارا کرتیں۔‬
‫(‪)203‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :53‬جارحانہ اسلحہ کو ضبط کرنے کا اختیار‬

‫کوئی افسر یا کوئی شخص جو مجموعہ ہذا کے تحت گرفتاری عمل میں الوے‪ ،‬مجاز ہوگا کہ گرفتار‬
‫شدہ شخص سے ایسے ہتھیار لے لے جو اس کے پاس ہوں اور اس پر الزم ہے کہ جملہ ہتھیار جو‬
‫اس طرح سے لئے گئے ہوں‪ ،‬اس عدالت یا عہدیدار کے حوالے کردے‪ ،‬جس کے روبرو گرفتار شدہ‬
‫شخص کو پیش کرنے کا حکم مجموعہ ہذا میں اس عہدیدار یا گرفتار کنندہ شخص کو دیا گیا ہے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬یہ دفعہ اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت‬
‫نہیں ہے۔‬

‫(ب) بالوارنٹ گرفتاری‬


‫دفعہ نمبر ‪ :54‬پولیس کب بالوارنٹ گرفتاری کر سکتی ہے‬

‫کوئی پولیس افسر مجاز ہے کہ بغیر مجسٹریٹ کے حکم کے اور بغیر وارنٹ کے گرفتاری کرے۔‬
‫اول‪ :‬کوئی شخص جو جرم قابل دست اندازی (پولیس) میں شریک رہا ہو یا‬
‫اس کے خالف کوئی معقول شکایت کی گئی ہو‪ ،‬یا معتبر اطالع موصول ہوئی ہو یا معقول شبہ‬
‫موجود ہو کہ وہ ویسے جرم میں شریک رہا ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ دفعہ کی ذیلی شق اول میں یہ مذکور ہے کہ کوئی شخص قابل دست‬
‫اسالمی ٔ‬
‫اندازی (پولیس) جرم میں شریک رہا ہو‪ ،‬یا کسی نے اس کے خالیف شکایت کی ہو‪ ،‬یا اس پر معقول‬
‫شبہ ہو کہ وہ ایسے جرم میں شامل رہا ہے تو پولیس افسر اسے مجسٹریٹ کے حکم اور وارنٹ کے‬
‫بغیر بھی گرفتار کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل واقعہ سے رہنمائی ملتی ہے۔‬
‫علی‬
‫ہمدانی کہتے ہیں کہ ایک بار دو شخص ایک چور پکڑ کر حضرت ؓ‬ ‫ؒ‬ ‫عامر بن شراحبیل‬
‫آپ نے ان کی شہادت پر اس چور کے‬ ‫کے پاس لے آئے اور گواہی دی کہ اس نے چوری کی ہے۔ ؓ‬
‫ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا‪ ،‬کچھ دیر بعد وہی گواہ ایک اور شخص کو لے آئے اور کہنے لگے کہ ہم نے‬
‫علی نے پہلے شخص کو ان‬ ‫پچھلی دفعہ غلطی کی تھی‪ ،‬اصل چور یہ شخص ہے۔ اس پر حضرت ؓ‬
‫گواہوں سے دیت دلوائی اور فرمایا کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا کہ تم نے یہ کام قصدا ً کیا ہے تو میں تم‬
‫دونوں کے ہاتھ کٹوا دیتا۔ (‪)204‬‬
‫علی کی عدالت میں الئے‬
‫مندرجہ باال واقعہ میں دو اشخاص ایک آدمی کو پکڑ کر حضرت ؓ‬
‫اور گواہی دی کہ یہ چور ہے۔ وہ دونوں خلیفہ یا قاضی کے حکم یا وارنٹ کے بغیر ہی اس کو‬
‫گرفتار کر الئے تھے اور دوسری دفعہ پھر ایک شخص کو پکڑ الئے‪ ،‬اس کے بارے میں بھی ان‬
‫علی نے ان سے اس معاملے میں کوئی‬‫کے پاس کوئی حکم یا وارنٹ نہ تھا اور نہ ہی حضرت ؓ‬
‫بازپرس کی کہ تم نے اپنے طور پر اس شخص کو کیوں پکڑا ہے۔ دونوں دفعہ دو اشخاص کی‬
‫گرفتاری سے بوقت ضرورت بالوارنٹ گرفتاری کا جواز ملتا ہے۔‬

‫دوم‪ :‬کوئی شخص جس کے پاس بغیر عذر کے آلہ نقب زنی موجود ہو کہ جس عذر کا ثابت‬
‫کرنا ویسے شخص کے ذمہ ہوگا۔‬
‫سوم‪ :‬کوئی شخص جسے مجموعہ ہذا کے تحت یا صوبائی حکومت کے حکم سے بطور‬
‫مجرم مشتہر کیا گیا ہو۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ دفعہ کی ذیلی شق (‪ )3‬میں یہ کہا گیا ہے کہ کسی شخص کو ضابطہ‬
‫اسالمی ٔ‬
‫فوجداری یا صوبائی حکومت کے حکم سے بطور مجرم مشتہر کیا گیا ہو‪ ،‬اسے بھی پولیس افسر‬
‫فاروقی کے اس واقعہ سے رہنمائی ملتی ہے‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫بالوارنٹ گرفتار کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں عہد‬
‫حضرت اُم ورقہ رضی ہللا عنھا ایک عظیم المرتبت صحابیہ تھیں‪ ،‬جنہیں ملنے خود حضور‬
‫روق سے جہاد میں زخمیوں کی دیکھ‬ ‫ﷺ تشریف لے جاتے تھے‪ ،‬انہوں نے ایک دفعہ حضرت عمرفا ؓ‬
‫بھال اور خدمت کی اجازت لے لی کہ شاید مجھے بھی شہادت نصیب ہو جائے۔ ان کی ایک باندی‬
‫اور ایک غالم تھا جنہیں انہوں نے مدبر کردیا تھا‪ ،‬یعنی ان کی وفات کے بعد وہ آزاد ہو جائینگے‪،‬‬
‫لیکن ان دونوں نے بغیر انتظار کے چادر سے ان کا گال گھونٹ کر مار دیا اور فرار ہوگئے‪،‬‬
‫ؓ‬
‫فاروق نے اعالن فرمایا کہ‪ :‬فال یوویھما احد ومن وجدھما فلیات بھما فصلبا فکان اول‬ ‫حضرت عمر‬
‫آپ نے ان دونوں‬
‫مصلوبین۔ کوئی شخص انہیں پناہ نہ دے‪ ،‬جسے ملیں وہ پکڑ کر لے آئے‪ ،‬چنانچہ ؓ‬
‫کو پھانسی دی اور یہ اسالم میں سب سے پہلے پھانسی پانے والے تھے‘‘۔ (‪)205‬‬
‫فاروق نے ان دونوں مجرموں کو‬‫ؓ‬ ‫درج باال روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر‬
‫اشتہاری مجرم قرار دیا تھا جسے حکومتی عہدیدار یا کوئی بھی شخص بالوارنٹ گرفتار کر سکتا‬
‫ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ان کی گرفتاری کے بعد انہیں پھانسی کی سزا دے دی گئی اور پھانسی‬
‫کی سزا بطور تعزیر دی کیونکہ انہوں نے اپنی محسنہ کو بیدردی سے قتل کیا تھا۔‬
‫مندرجہ باال روایت سے پتہ چال کہ اگر کوئی مجرم سزا کے خوف سے جان بچانے کیلئے‬
‫عدالت سے فرار ہو جائے تو اسے اشتہاری مجرم قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ شخص جسے بھی اور‬
‫جہاں بھی ملے‪ ،‬فورا پکڑ کر عدالت میں الیا جائے تاکہ اسے اس کے جرم کی سزا دی جا سکے۔‬

‫چہارم‪ :‬کوئی شخص جس کے قبضہ میں کوئی ایسی چیز پائی جائے‪ ،‬جس کی نسبت معقول‬
‫شبہ ہو کہ وہ مال مسروقہ ہے اور جس کی بابت یہ معقول شبہ ہو کہ اس نے ویسی چیز کی نسبت‬
‫کوئی جرم کیا ہے۔‬

‫وضاحت‪ :‬مندرجہ باال شق میں یہ بھی مذکور ہے کہ چوری کے مال کا شبہ ہونے پر اسے قبضے‬
‫مینر کھنے والے شخص کو پولیس گرفتار کر سکتی ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی تعلیمات کے مطابق صرف شبہ کی بنیاد پر کسی کو گرفتار یا محبوس‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ابویوسف کہتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫نہیں کیا جا سکتا۔ قاضی‬
‫’’اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ کسی شخص کو صرف اس لئے قید میں ڈال دیا جائے‬
‫کہ کسی دوسرے نے اس پر تہمت لگا دی ہے‪ ،‬رسول ہللا ﷺ تہمت کی بناء پر لوگوں سے مواخذہ‬
‫نہیں کرتے تھے‘‘۔ (‪)206‬‬
‫درج باال سطور سے پتہ چلتا ہے کہ کسی شخص کے قبضے میں مال کی موجودگی سے‬
‫اس پر مال مسروقہ کا شبہ کرکے اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک اس کے خالف کوئی‬
‫ٹھوس شہادت یا ثبوت نہ پایا جائے۔‬
‫اسی طرح اس ذیلی شق میں یہ بھی مذکور نہیں ہے کہ مال مسروقہ کی مقدار کتنی ہو‪ ،‬جس‬
‫پر کسی شخص کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ کس چیز پر مال مسروقہ کا اطالق ہوتا ہے‪ ،‬یہاں ایسی‬
‫کوئی وضاحت نہیں ہے۔ جس سے شہریوں کی آزادی سلب کرنے کے مواقع پولیس پیدا کر سکتی‬
‫ہے اور انہیں ذرا سے مال کا بہانہ بنا کر ذاتی انتقام کا نشانہ بھی بنا سکتی ہے جبکہ اسالم نے چور‬
‫اور مال مسروقہ کی وضاحت کرکے یہ ابہام ختم کردیا ہے۔ درج ذیل سطور دیکھیں۔‬
‫سرقہ کی تعریف‪ :‬سرقہ کے معنی ہیں کہ کوئی عاقل وبالغ شخص کسی ایسی محفوظ جگہ سے‬
‫کسی کے دس درہم یا اس سے زائد نقد یا اتنی مالیت کی کوئی چیز چھپ کر بغیر کسی شبہ اور‬
‫تاویل کے لے جس جگہ کی حفاظت کا انتظام کیا گیا ہو‪ ،‬بشرطیکہ وہ چیز جلد خراب ہونے والی نہ‬
‫ہو۔ (‪)207‬‬
‫دوسری تعریف یوں کی گئی ہے کہ مکلف کا کسی محفوظ جگہ سے خفیہ طور پر کسی‬
‫ایسی چیز کا لے لینا جس میں اس کا حق نہ ہو‪ ،‬بشرطیکہ اس چیز کی قیمت اتنی ہو‪ ،‬جو حد سرقہ‬
‫کو پہنچتی ہو۔ (‪)208‬‬
‫سرقہ کا ثبوت‪ :‬سرقہ کا جرم چور کے اعتراف سے ثابت ہوجاتا ہے اور گواہی سے بھی ثابت ہو‬
‫جاتا ہے۔ (‪ )209‬سرقہ کے ثبوت کے لئے کم از کم دو افراد کی شہادت ضروری ہے۔ (‪)210‬‬
‫ب سرقہ موجب حد دس درہم یا اس مالیت‬ ‫موجب حد مال مسروقہ کی مقدار‪ :‬احناف کے نزدیک نصا ِ‬
‫نخعی کا ہے۔ (‪ )211‬حنابلہ کے نزدیک‬ ‫ؒ‬ ‫شیبانی اور ابراہیم‬
‫ؒ‬ ‫کی کوئی چیز ہے۔ یہ مسلک امام محمد‬
‫مالک کے‬
‫ؒ‬ ‫چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ مالیت کی چیز نصاب سرقہ ہے۔ (‪ )212‬امام احمدؒ اور امام‬
‫شافعی کا ہے۔‬
‫ؒ‬ ‫نزدیک ربع طالئی دینار یا تین درہم کی مقدار نصاب سرقہ ہے۔ یہی مسلک امام‬
‫(‪)213‬‬
‫یہ چیزینمال مسروقہ نہیں ہوتیں‪ :‬ہر چیز مال مسروقہ نہیں بن سکتی۔ فقہاء اسالم نے ایسی چیزوں‬
‫کی طویل فہرست دی ہے جو مال مسروقہ موجب حد نہیں ہوتیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔‬
‫حقیر چیزیں جو عادۃ ً محفوظ نہ رکھی جاتی ہوں اور باعتبار اصل کے مباح ہوں۔ مثالً‬
‫معمولی لکڑی‪ ،‬گھاس‪ ،‬مچھلی‪ ،‬پرند‪ ،‬گیرو‪ ،‬چونا‪ ،‬کوئلے‪ ،‬نمک‪ ،‬مٹی کے برتن وغیرہ۔ یونہی جلد‬
‫خراب ہونے والی چیزیں جیسے دودھ‪ ،‬گوشت‪ ،‬تربوز‪ ،‬خربوزہ‪ ،‬ترکاریاں تیار کھانے بلکہ قحط میں‬
‫غلہ‪ ،‬گندم‪ ،‬چاول وغیرہ‪ ،‬تر میوے انگور‪ ،‬ناشپاتی انار وغیرہ‪ ،‬لہو ولعب کی اشیاء مثالً ڈھول‪ ،‬طبلہ‪،‬‬
‫سارنگی ‪ ،‬باجے وغیرہ۔ (‪)214‬‬
‫موجب حد مال مسروقہ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ‬ ‫مندرجہ باال سطور میں سرقہ طریق ثبوت‪ٔ ،‬‬
‫اشیاء بھی بیان کی گئی ہیں جو مال مسروقہ موجب حد نہیں بن سکتیں۔مندرجہ باال شق کے مقابلے‬
‫میں فقہاء اسالم نے بڑی تفصیل سے اس مسئلہ کے تمام پہلو بیان کئے ہیں اور کوئی ابہام باقی نہیں‬
‫چھوڑا۔‬
‫ترمیم ‪ /‬تجویز‪ :‬مندرجہ باال شق میں اسالمی تعلیمات کی روشنی میں ترمیم کی جانی چاہئے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬مالحظہ‪ :‬مذکورہ دفعہ کی ذیلی شق نمبر ‪( 1‬چہارم) میں ایسا‬
‫مال جس کے بارے میں چوری کا مال ہونے کا شبہ ہو‪ ،‬اپنے قبضہ میں رکھنے والے شہری کو‬
‫گرفتار کرنے کا اختیار پولیس کو دیا گیا ہے۔ جس سے شہری کی آزادی پولیس کے ہاتھوں مجروح‬
‫ہونے اور اس کے انتقامی کارروائی کیلئے استعمال کئے جانے کا قوی احتمال ہے۔‬
‫تجویز‪ :‬اس لئے اس شق کو حذف کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ چوری کے مشتبہ مال کے‬
‫بارے میں دفعہ ‪ 550‬مجموعہ ہذا کے تحت پولیس آفیسر کو کارروائی کے معقول اختیارات حاصل‬
‫ہیں۔ (‪)215‬‬

‫پنجم‪ :‬کوئی شخص جو کسی پولیس افسر کی مزاحمت کرے جبکہ وہ اپنے فرائض منصبی‬
‫کی تعمیل کر رہا ہو یا جو شخص قانونی حراست سے بھاگا ہوا ہو‪ ،‬یا بھاگنے کی کوشش کرے۔‬
‫ششم‪ :‬کوئی شخص جس کی نسبت یہ معقول شبہ ہو کہ وہ پاکستان کی مسلح افواج سے‬
‫بھاگا ہوا ہے۔‬
‫ہفتم‪ :‬کوئی شخص جو کسی ایسے فعل سے تعلق رکھتا ہو‪ ،‬یا جس کے خالف کوئی معقول‬
‫شکایت کی گئی ہو یا جس کی نسبت معتبر اطالع موصول ہوئی ہو یا معقول شبہ موجود ہو کہ وہ‬
‫کسی ایسے فعل سے تعلق رکھتا ہے جو پاکستان کے باہر کسی جگہ وقوع پذیر ہوا ہو اور جو‬
‫پاکستان کے اندر واقع ہونے کی صورت میں بطور جرم قابل سزا ہونا اور جس کی پاداش میں وہ‬
‫کسی ایسے قانون کے بموجب جو حوالگی مجرمان سے تعلق رکھتا ہو یا بصورت دیگر پاکستان میں‬
‫گرفتاری یا حراست میں رکھے جانے کا سزاوار ہوتا۔‬
‫ہشتم‪ :‬کوئی رہا شدہ قیدی جو کسی ایسے قاعدے کی خالف ورزی کا مرتکب ہوا ہو جو‬
‫‪ 565‬کی ضمنی دفعہ (‪ )3‬کے تحت وضع کیا گیا ہو۔‬
‫نہم‪ :‬کوئی شخص جس کی گرفتاری سے متعلق دوسرے افسر سے ہدایت موصول ہوئی ہو‪،‬‬
‫بشرطیکہ ہدایت میں گرفتاری طلب شخص کی اور اس جرم یا دیگر وجوہ جن کی بنا پر گرفتاری‬
‫مطلوب ہو تصریح کی گئی ہو اور اس سے یہ ظاہر ہو کہ شخص مذکور کو وہ افسر جس نے ہدایت‬
‫جاری کی ہے‪ ،‬قانونا ً بغیر وارنٹ کے گرفتار کرنے کا مجاز ہے۔‬
‫حذف ہوئی۔‬ ‫(‪2‬‬

‫تبصرہ‪ :‬مندرجہ باال شقوں میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی لہٰ ذا تبصرہ‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :55‬آوارہ گردوں‪ ،‬عادی ڈاکوئوں وغیرہ کی گرفتاری‬

‫پولیس سٹیشن کا کوئی افسر مجاز ہے کہ اسی طرح گرفتار کرے یا کرائے۔‬ ‫(‪1‬‬
‫الف) کسی شخص کو جو ایسے سٹیشن کی حدود کے اندر ایسے حاالت میں‬
‫اپنی موجودگی چھپانے کی احتیاط زیر عمل ال رہا ہو جس سے یہ باور کیا جا سکتا ہو کہ وہ کسی‬
‫قابل دست اندازی جرم کے ارتکاب کی خاطر ایسی احتیاط کر رہا ہے۔ یا‬
‫ایسے ہر شخص کو جو ویسے سٹیشن کی حدود کے اندر بظاہر‬ ‫ب)‬
‫کوئی ذریعہ معاش نہ رکھتا ہو‪ ،‬یا تسلی بخش وجہ نہ بتا سکتا ہو یا‬
‫ہر ایسا شخص جو شہرت سے عادی ڈاکو‪ ،‬نقب زن یا چور یا عادتا ً‬ ‫ج)‬
‫چوری کا مال یہ جانتے ہوئے کہ وہ مال مسروقہ ہے‪ ،‬لینے واال یا جس کی شہرت ہو کہ عادتا ً‬
‫استحصال بالجبر کرتا ہے‪ ،‬یا استحصال بالجبر کے ارتکاب کی خاطر بالمعموم لوگوں کو نقصان‬
‫پہنچنے یا پنچانے کے خوف میں رکھتا ہو۔‬
‫ضمنی دفعہ بذریعہ (‪ )AO-1949‬حذف ہوئی۔‬ ‫د)‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مندرجہ باال شقوں میں کچھ لوگوں کی گرفتاری کے بارے میں پولیس افسر کے‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫اختیارات بیان ہوئے ہیں۔ شق نمبر ‪( 1‬الف) اور (ج) میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے منافی معلوم‬
‫نہیں ہوتی‪ ،‬البتہ شق (ب) میں درج ہے کہ کسی پولیس سٹیشن کی حدود میں ایسے شخص کو گرفتار‬
‫کیا جا سکتا ہے جو روزگار یا ذریعہ معاش نہ رکھتا ہو یا اپنی موجودگی کی تسلی بخش وجہ نہ بتا‬
‫سکتا ہو‪ ،‬اگر پولیس کا یہ اختیار باقی رکھا جاتا ہے تو اس سے بے شمار مسائل پیدا ہو سکتے ہیں‬
‫تالش روزگار میں پھر رہا ہو‪ ،‬گرفتار‬
‫ِ‬ ‫کیونکہ ایسے میں پولیس کسی بھی بے قصور شخص کو جو‬
‫کرنے کا اختیار بے جا طور پر استعمال کر سکتی ہے اور بے گناہ لوگوں کو سالخوں کے پیچھے‬
‫قید کر سکتی ہے جس سے شہریوں کے بنیادی حق آزادی کے ضائع ہونے کا احتمال ہے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس سلسلے میں نظریاتی کونسل نے درج ذیل تجویز دی ہے‪:‬‬
‫’’غور وخوض کے بعد طے پایا کہ اس کے ضمن (ب) کو حذف کیا جائے کیونکہ جو‬
‫تالش روزگار کیلئے مختلف عالقوں میں‬
‫ِ‬ ‫شخص کوئی ذریعہ معاش نہ رکھتا ہو‪ ،‬وہ تالش رزق یا‬
‫حتی کہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے‬
‫تالش رزق کی تاکید کرتا ہے‪ٰ ،‬‬ ‫ِ‬ ‫سرگرداں پایا جاسکتا ہے۔ اسالم‬
‫ٰ‬
‫تالش رزق کی تاکید کی گئی ہے‘‘۔ (‪ )216‬ارشا ِد الہی ہے‪:‬‬‫ِ‬ ‫بعد بھی‬
‫ض ِل َّ‬
‫ّللاِ (‪)217‬‬ ‫ص َالۃ ُ فَانتَش ُِروا فِی ْاال َْٔر ِ‬
‫ض َوا ْبتَغُوا ِمن فَ ْ‬ ‫ت ال َّ‬ ‫فَإِذَا قُ ِ‬
‫ضیَ ِ‬
‫تعالی کا فضل (رزق)‬
‫ٰ‬ ‫’’پس جب نماز (جمعہ) پڑھ لی جائے تو زمین میں پھیل جائو اور ہللا‬
‫تالش کرو‘‘۔‬
‫ق آزادی ضائع ہونے کا خدشہ ہے‪ ،‬لہٰ ذا اسے حذف کیا جانا‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ سے حقو ِ‬
‫چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :56‬ضابطہ کی کارروائی جب کوئی پولیس آفیسر کسی ماتحت عہدیدار کو بغیر وارنٹ‬
‫گرفتاری کیلئے مامور کرے‬

‫جب پولیس سٹیشن کا کوئی انچارج افسر یا کوئی پولیس افسر جو زیر باب ‪ 14‬تفتیش‬ ‫(‪1‬‬
‫کر رہا ہو کو اس امر کی ضرورت ہو کہ اس کا کوئی ماتحت عہدیدار بغیر وارنٹ (اس کی‬
‫موجودگی کے عالوہ) ایسے شخص کو گرفتار کرے‪ ،‬جس کی گرفتاری قانونا ً بغیر وارنٹ ہو سکتی‬
‫ہے تو افسر پر الزم ہے کہ اس عہدیدار کو جس کی معرفت کسی شخص کی گرفتاری مقصود ہو‬
‫تحریری حکم دے‪ ،‬جس میں گرفتاری طلب شخص کی اور جرم کی یا اس سبب کی جس کے لئے‬
‫گرفتاری مطلوب ہے‪ ،‬وضاحت ہوگی‪ ،‬ایسے حکم کردہ افسر پر الزم ہے کہ گرفتاری سے قبل‬
‫گرفتاری طلب شخص کو حکمنامے کے خالصہ سے مطلع کرے اور اگر وہ شخص چاہے تو حکم‬
‫نامہ اس کو دکھائے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے منافی نہیں‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت‬
‫نہیں ہے۔‬

‫حذف ہوئی۔‬ ‫(‪2‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ :57‬نام وسکونت ظاہر کرنے سے انکار‬

‫اگر کوئی شخص جس نے کسی پولیس افسر کی موجودگی میں کسی ناقابل دست‬ ‫(‪1‬‬
‫اندازی جرم کا ارتکاب کیا ہو یا اس پر ارتکاب کا الزام ہو‪ ،‬ایسے پولیس افسر کے حکم پر اپنا نام‬
‫اور سکونت ظاہر کرنے سے انکار کرے‪ ،‬یا ایسا نام اور سکونت ظاہر کرے‪ ،‬جس کو ویسا افسر‬
‫معقول وجہ کی بنا پر غلط سمجھے تو ویسے افسر کو جائز ہے کہ وہ ایسے شخص کو گرفتار کرے‬
‫تاکہ اس کے نام اور سکونت کی دریافت اور تحقیق کی جائے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالم افراد معاشرہ کی آزادی کا خواہاں ہے اور شہریوں کو بالوجہ گرفتار یا‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کسی بھی طریقے سے ہراساں کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‬
‫کسی شہری کو اس کا جرم ثابت کئے بغیر گرفتار کرنے اور گرفتار رکھنے کی جو زیادہ‬
‫سے زیادہ گنجائش اسالمی قانون میں ہے وہ بس اس حد تک ہے کہ کسی معاملہ کی تحقیق وتفتیش‬
‫کیلئے کچھ دیر کیلئے اس کو زیر حراست رکھ لیا جائے۔ تفتیش کے بعد وجوہ موجود ہیں تو اس پر‬
‫مجاز عدالت میں باقاعدہ مقدمہ چالیا جائے۔ جہاں اسے اپنی صفائی پیش کرنے کے پورے مواقع‬
‫حاصل ہوں اور اگر وجوہ موجود نہیں تو اسے فورا ً آزاد کردینا چاہئے اس سلسلے میں امام خطابی ؒ‬
‫فرماتے ہیں‪:‬‬
‫’’حبس کی دو قسمیں ہیں‪ ،‬ایک سزا کے طور پر اور دوسرا تفتیش وتحقیق کے لئے‪ ،‬جو‬
‫سزا کے طور پر ہے وہ صرف اس حالت میں جائز ہے جب (جرم ثابت اور) سزا ازروئے قانون‬
‫واجب ہو‪ ،‬باقی اگر کسی شخص پر کوئی الزام ہو تو تحقیق حال کے لئے اسے روکا جا سکتا ہے‪،‬‬
‫کیونکہ ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے کسی شخص کو ایک الزام میں کچھ دیر کے لئے روکا پھر‬
‫اسے رہا کردیا‘‘۔ (‪)218‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے پتہ چال کہ کسی شخص کو گرفتار کرنے یا گرفتار رکھنے کی دو‬
‫ہی صورتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ اسے سزا کے طور پر گرفتار اور محبوس کیا جائے‪ ،‬دوسری صورت‬
‫یہ کہ انکشاف حال کی خاطر پوچھ گچھ کیلئے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ تیسری کوئی صورت نہیں‬
‫کہ کسی شخص کو محبوس کیا یا رکھا جائے۔‬

‫جب ویسے شخص کے صحیح نام اور سکونت کی تحقیق ہو جائے‪ ،‬تب اسے مچلکہ‬ ‫(‪2‬‬
‫ضمانت یا بالضمانت تحریر کرنے پر رہا کردیا جائیگا کہ اگر اسے حکم دیا گیا تو وہ اس مجسٹریٹ‬
‫کے روبرو حاضر ہوگا۔ جسے اختیار سماعت حاصل ہو۔ بشرطیکہ اگر ایسا شخص پاکستان کے اندر‬
‫سکونت نہ رکھتا ہو تو الزمی ہے کہ پاکستان کے اندر سکونت رکھنے والے ضامن یا ضامنوں کے‬
‫ذریعہ مچلکہ محفوظ کیا جائے۔‬

‫وضاحت‪ :‬مندرجہ باال سطور میں ہے کہ اگر کسی شخص کو گرفتار کرکے اس سے پوچھ گچھ‬
‫کرلی جائے اور اس کے کوائف معلوم ہو جائیں تو پھر اسے یہ ضمانت لیکر رہا کیا جا سکتا ہے کہ‬
‫بوقت ضرورت وہ مجسٹریٹ کے سامنے حاضر ہو جائیگا۔‬
‫نکتہ نگاہ سے بھی جائز ہے کیونکہ ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬ایسا کرنا اسالمی ٔ‬
‫اسالمی ٔ‬
‫نے بھی تہمت زدہ شخص سے اس کی حاضری یقینی بنانے اور احتیاط کے طو رپر ضامن لیا تھا۔‬
‫ابوہریرہ سے روایت ہے‪:‬‬
‫ؓ‬
‫ان النبی ﷺ اخذ من متھم کفیالً تثبتا واحتیاطا (‪)219‬‬
‫مندرجہ باال حدیث مبارکہ سے واضح ہوا کہ مچلکہ ضمانت اس شخص کی عدالت میں‬
‫حاضری کو یقینی بنانے کے لئے ہے تاکہ مقدمہ کی باقاعدہ سماعت کرکے اس پر شرعی احکام کا‬
‫اجراء کیا جا سکے۔‬

‫اگر ویسے شخص کی گرفتاری کے وقت سے ‪ 24‬گھنٹے کے اندر اس کا نام‬ ‫(‪3‬‬


‫وسکونت دریافت نہ ہو سکے یا وہ مچلکہ تحریر کرنے یا عندالطلب کافی ضامنوں کے مہیا کرنے‬
‫سے قاصر ہو تو اسے ایسے قریب ترین مجسٹریٹ کے پاس بھیجا جائیگا‪ ،‬جسے اختیار سماعت ہو۔‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :58‬مجرموں کا کسی دوسرے عالقہ کے اندر تعاقب کرنا‬
‫کوئی پولیس افسر مجاز ہے کہ کسی شخص کو بالوارنٹ گرفتار کرنے کی غرض سے جسے وہ‬
‫باب ہذا کے تحت گرفتار کرنے کے لئے مجاز کیا گیا ہے۔ ایسے شخص کا پاکستان میں کسی جگہ‬
‫میں تعاقب کرے۔‬
‫]تشریح‪ :‬دفعہ ہذا میں ’’پولیس افسر‘‘ ایسے پولیس افسر کی شمولیت ہے جو مجموعہ ضابطہ‬
‫فوجداری کے تحت قائم مقام کی حیثیت رکھتا ہو‪ ،‬جیسا کہ آزاد جموں وکشمیر میں نافذ العمل ہے۔[‬

‫خالف شریعت معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬


‫ِ‬ ‫مندرجہ باال سطور میں کوئی بات‬ ‫مالحظہ‪:‬‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :59‬غیر سرکاری اشخاص کے ذریعہ گرفتاری اور اس کا طریقہ کار‬

‫کوئی غیر سرکاری شخص کسی ایسے شخص کو گرفتار کر سکتا ہے جو اس کے‬ ‫(‪1‬‬
‫روبرو کوئی جرم ناقابل ضمانت اور قابل دست اندازی کرے‪ ،‬یا جو اشتہاری مجرم ہو اور اسے الزم‬
‫ہے کہ بال غیر ضروری تاخیر اسے گرفتار کردہ شخص کو فورا ً پولیس کے حوالے کردے‪ ،‬یا‬
‫پولیس افسر کی عدم موجودگی میں ایسے شخص کو قریب ترین پولیس سٹیشن لے جائے یا‬
‫بھجوائے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ شق میں یہ درج ہے کہ کوئی بھی شخص کسی ایسے شخص کو گرفتار‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫کر سکتا ہے جو ناقابل ضمانت یا قابل دست اندازی پولیس جرم کا ارتکاب کرے تاکہ اسے فورا ً‬
‫قانون کے حوالے کیا جا سکے اور عدالت میں مقدمہ کی سماعت کرکے سزا جاری کی جا سکے۔‬
‫جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ‪:‬‬
‫من رای منکم منکرا فلیبغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ وان لم یستظع فبقلبلہ وذلک اضعف‬
‫االیمان (‪)220‬‬
‫’’تم میں سے جو بُرائی دیکھے وہ اُسے ہاتھ سے مٹائے‪ ،‬اگر اس کی طاقت نہیں ہے تو‬
‫زبان سے روکے‪ ،‬اگر اس کی استطاعت نہیں ہے تو دِل سے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین‬
‫درجہ ہے‘‘۔‬
‫اسالم بُرائی کو ابتداء ہی میں ختم کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ معاشرے میں نہ پھیل سکے‬
‫اور معاشرہ فساد سے محفوظ رہے۔ مندرجہ باال حدیث مبارکہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ہمیں‬
‫بُرائی کے انسداد کا حکم ہے اور مرتکب جرم کو گرفتار کرکے متعلقہ حکام کے سامنے پیش کرنا‬
‫بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے‪ ،‬لہٰ ذا ہر شہری کو اس کی ہمہ وقت اجازت ہے۔ اشتہاری مجرم کے‬
‫آپ نے‬
‫فاروق کا تعامل موجود ہے کہ اسے ہر شخص گرفتار کر سکتا ہے۔ ؓ‬ ‫ؓ‬ ‫بارے میں حضرت عمر‬
‫قاتل غالم لونڈی کے بارے میں فرمایا تھا کہ انہیں کوئی پناہ نہ دے‪ ،‬جسے جہاں ملیں پکڑ کر لے‬
‫آئے تاکہ انہیں سزا دی جا سکے۔‬
‫لہٰ ذا مرتکب جرم شخص کو کوئی بھی مسلمان شہری گرفتار کر سکتا ہے۔‬
‫خالف اسالم معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫ِ‬ ‫تجویز‪ :‬اس شق میں کوئی بات‬
‫اگر یہ باور کرنے کی معقول وجہ ہے کہ ایسا شخص دفعہ ‪ 54‬کے احکام کے تحت‬ ‫(‪2‬‬
‫آتا ہے تو پولیس افسر اسے دوبارہ گرفتار کرے گا۔‬
‫اگر یہ باور کرنے کی معقول وجہ ہے کہ اس نے کسی قابل دست اندازی جرم کا‬ ‫(‪3‬‬
‫ارتکاب کیا ہے اور وہ پولیس افسر کے مطالبہ پر اپنا نام اور سکونت بتانے سے انکار کرے یا ایسا‬
‫نام وسکونت ظاہر کرے جسے ویسا عہدیدار غلط سمجھنے کی معقول وجہ رکھتا ہو تو شخص‬
‫مذکور کی نسبت حسب احکام دفعہ ‪ 57‬کارروائی کی جائیگی۔ اگر یہ باور کرنے کی معقول وجہ‬
‫موجود نہ ہو کہ وہ کسی جرم کا مرتکب ہوا ہے تو اسے فورا ً رہا کردیا جائے گا۔‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬درج باال شقوں میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :60‬گرفتار شدہ شخص کو مجسٹریٹ یا افسر انچارج پولیس سٹیشن کے روبرو پیش کرنا‬

‫ایسا پولیس افسر جو کسی شحص کو بالوارنٹ گرفتار کرے‪ ،‬پر الزم ہے کہ بال غیر ضروری تاخیر‬
‫کے اور ضمانت کی نسبت مجموعہ ہذا میں درج احکام کے تابع گرفتار شدہ شخص کو اس‬
‫مجسٹریٹ کے روبرو جو اس مقدمہ کی سماعت کا مجاز ہو یا افسر انچارج پولیس سٹیشن کے‬
‫روبرو پیش کرے یا بھیجے۔‬

‫وضاحت‪ :‬مندرجہ باال سطور میں بیان کیا گیا ہے کہ پولیس افسر اگر کسی شخص کو گرفتار کرے‬
‫تو اسے بال تاخیر سماعت مقدمہ کے مجاز مجسٹریٹ یا انچارج پولیس افسر کے سامنے پیش کرے‬
‫اور اسے بالوجہ حراست میں نہ رکھے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬حضور اکرم ﷺ نے حضرت قیس بن سعدؓ کو یہ اختیار دے رکھا تھا کہ وہ کسی‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫ً‬
‫شخص کو پکڑ لیں (‪ )221‬اور پھر اسے فورا آپ ﷺ کے سامنے پیش کردیا جاتا۔ مقدمہ کی باقاعدہ‬
‫سماعت ہوتی اور پھر فیصلہ کردیا جاتا کیونکہ اس زمانے میں باقاعد تھانے یا جیل وغیرہ نہیں بنی‬
‫تھیں۔ لہٰ ذا مجرم کو فورا ً فیصلے کیلئے آپ ﷺ کے سامنے پیش کر دیاجاتا۔ حضرت قیس مستقل طور‬
‫پر اس عہدہ پر مامور تھے۔‬
‫ان قیس بن سعد کان یکون بین یدی النبی ﷺ بمنزلۃ صاحب الشرط من االمیر (‪)222‬‬
‫کرمانی کہتے ہیں کہ لفظ ’’کون‘‘ کا تکرار اس عہدہ کے جاری رہنے کو ظاہر کرتا ہے۔‬
‫ؒ‬
‫(‪)223‬‬
‫قیس کی مستقل ڈیوٹی تھی اور وہ مسلسل اس عہدہ پر مامور رہے۔‬‫یعنی یہ حضرت ؓ‬
‫ؓ‬
‫فاروق نے باقاعدہ دیوان‬ ‫مجرموں کو پکڑنے اور فورا ً عدالت میں پیش کرنے کیلئے حضرت عمر‬
‫ابوہریرہ اور حضرت‬
‫ؓ‬ ‫آپ نے اس عہدہ پر حضرت‬‫الشرطہ قائم کیا تاکہ انصاف میں تاخیر نہ ہو۔ ؓ‬
‫علی کے دور میں صاحب الشرطہ ہر‬‫مظعون کو مامور کیا۔ (‪ )224‬اسی طرح حضرت ؓ‬ ‫ؓ‬ ‫قدامہ بن‬
‫آپ کے احکام کی تنفیذ کرتا۔ (‪)225‬‬‫آپ کے پاس رہتا اور ؓ‬ ‫وقت ؓ‬
‫علی کے دور میں ایک شخص قتل ہو گیا۔ شرطہ موقع پر پہنچ گئی وہاں پر خون‬
‫حضرت ؓ‬
‫آپ نے اسے‬
‫علی کے پاس الیا گیا۔ ؓ‬
‫آلود چھری تھامے ہوئے ایک شخص کو گرفتار کرکے حضرت ؓ‬
‫سزائے موت دی۔ اچانک دوسرے شخص نے آکر کہا اسے میں نے قتل کیا ہے۔ یہ بے گناہ ہے۔‬
‫اعتراف جرم کرنے والے شخص کو سزا دی گئی اور پہلے واال رہا ہو گیا۔ (‪)226‬‬
‫ِ‬ ‫چنانچہ‬
‫اس واقعہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ گرفتاری کے فورا ً بعد مجرم کو مجاز عدالت کے سامنے‬
‫پیش کر دینا چاہئے تاکہ مقدمہ کا فیصلہ ہو سکے۔‬
‫تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات خالف شریعت معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی ضرورت‬
‫نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :61‬گرفتار شدہ شخص کو ‪ 24‬گھنٹے سے زیادہ حراست میں نہ رکھا جائے‬

‫کسی پولیس افسر کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کو جو بغیر وارنٹ گرفتار کیا گیا‬
‫ت مقدمہ مناسب ہو اور ایسی مدت‬‫ہے‪ ،‬اس مدت سے زیادہ حراست میں رکھے‪ ،‬جو بلحاظ حاال ِ‬
‫مجسٹریٹ کے حکم خاص زیر دفعہ ‪ 157‬کے بغیر ‪ 24‬گھنٹے سے تجاوز نہ کرے گی‪ ،‬عالوہ اس‬
‫مقام گرفتاری سے مجسٹریٹ کی عدالت تک سفر کیلئے درکار ہو۔‬‫مدت کے جو ِ‬

‫دفعہ نمبر ‪ :62‬پولیس گرفتاریوں کی رپورٹ کریگی‬

‫پولیس سٹیشنوں کے افسران انچارج پر الزم ہے کہ وہ ان جملہ اشخاص کی رپورٹ ] بیک وقت‬
‫ضلع ناظم‪ ،‬سپرنٹنڈنٹ پولیس اور پولیس ایکٹ ‪ V( 1861‬بابت ‪ )1861‬کے تحت قائم کردہ ڈسٹرکٹ‬
‫پبلک سیفٹی کمیشن[ کو بھیجے‪ ،‬جو ان کے متعلقہ تھانوں کی حدود میں بالوارنٹ گرفتار کئے گئے‬
‫ہوں۔‬
‫٭] لیکن شرط یہ ہے کہ دفعہ ہذا کا اطالق ایسے اضالع پر کرتے وقت جہاں مقامی حکومت کے‬
‫انتخابات منعقد نہیں ہوئے ہیں یا جہاں ضلع ناظم نے اپنے عہدے کا چارج نہیں سنبھاال ہے‪ ،‬دفعہ ہذا‬
‫میں ضلع ناظم کے کسی حوالے کو ایسے اضالع کی بہ نسبت ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر کا حوالہ‬
‫تصور کیا جائیگا۔‬
‫موثر‬
‫مزید شرط ہے کہ متذکرہ باال طور پر مقامی حکومتوں کے قائم ہو جانے پر متذکرہ باال شرط ٔ‬
‫نہیں رہے گی اور منسوخ شدہ تصور ہوگی۔[‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫بلوچستان ترمیم‬

‫دفعہ نمبر ‪ :62‬پولیس گرفتاریوں کی رپورٹ کریگی‬

‫پولیس سٹیشنوں کے افسران انچارج پر الزم ہے کہ وہ ان جملہ اشخاص کی رپورٹ ] بیک وقت‬
‫ضلع ناظم‪ ،‬٭]ضلعی انتظامی افسر[ اور پولیس ایکٹ ‪1861‬ء (‪ V‬بابت ‪ )1861‬کے تحت قائم کردہ‬
‫ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن[ کو بھیجے جو ان کے متعلقہ تھانوں کی حدود میں بالوارنٹ گرفتار‬
‫کئے گئے ہوں۔‬
‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ کے سلسلے میں مظہر نظامی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫‪Object of Section: This section provides that where the police have by law the‬‬
‫‪power to make an arrest without a warrant, the police must report such arrest.‬‬
‫‪The object of the section is to enable the District Magistrate to prevent‬‬
‫‪)227( .illegalities in arrests by examining the reports of arrest made to him‬‬
‫’’یہ دفعہ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ جہاں پولیس ازروئے قانون کسی شخص کو‬
‫بالوارنٹ گرفتار کرنے کا اختیار رکھتی ہے تو پولیس کو ایسی گرفتاری کی رپورٹ کرنی چاہئے‪،‬‬
‫اس دفعہ کا مقصد یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو یہ اختیار دیا جائے کہ گرفتاری کی جو رپورٹس‬
‫اسے کی جاتی ہیں‪ ،‬وہ ان کا جائزہ لے کر اس سلسلے میں غیر قانونی کارروائی نہ ہونے دے‘‘۔‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوتا ہے کہ مذکورہ دفعہ میں مجسٹریٹ کو اس امر کا مختار‬
‫بنایا گیا ہے کہ اسے گرفتار کردہ شخص یا اشخاص کے بارے میں پولیس جو رپورٹ پیش کرے وہ‬
‫اس کا ہر پہلو سے جائزہ لے کر گرفتاری کی نوعیت کا تعین کرے اور بے ضابطگی کو روکے‬
‫تاکہ کسی کی بالجواز اور ناجائز گرفتاری نہ ہو اور افراد معاشرہ کی آزادی و وقار بحال رہ سکے۔‬
‫تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف نہیں ہے لہٰ ذا اس میں ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :63‬زیرحراست شخص کی رہائی‬

‫کوئی شخص جسے پولیس افسر نے گرفتار کیا ہو کو اپنے مچلکہ یا ضمانت دینے کے یا مجسٹریٹ‬
‫کے خاص حکم کے بغیر رہا نہیں کیا جائیگا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں یہ کہا گیا ہے کہ پولیس افسر کے ذریعے گرفتار شدہ شخص ضمانت یا‬
‫مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر رہا نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل غور ہے کہ‬
‫گرفتاری اور حبس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو کسی کو مشکوک سمجھ کر معقول بنیاد پر گرفتار کرنا‬
‫تاکہ اس سے پوچھ گچھ کی جا سکے۔ پوچھ گچھ سے اگر وہ بے گناہ ہے تو پولیس اسے خود بھی‬
‫رہا کر سکتی ہے کیونکہ یہ عارضی گرفتاری تھی‪ ،‬باقاعدہ گرفتاری نہیں ہوئی تھی۔ دوسری قسم‬
‫حبس کی یہ ہے کہ کسی شخص کو کسی جرم میں گرفتار کرلینا اور محبوس کرنا تاکہ اسے سزا‬
‫دلوائی جا سکے۔ ایسے شخص کی ضمانت لینا ضروری ہے تاکہ عدالت میں اس کی دوبارہ‬
‫حاضری کو یقینی بنایا جا سکے اور اس کی رہائی کیلئے مجسٹریٹ کی اجازت ضروری ہے۔‬
‫تجویز‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی نہیں ہے۔ لہٰ ذا اس میں ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :64‬وہ جرم جس کا ارتکاب مجسٹریٹ کی موجودگی میں کیا جائے‬

‫جب کوئی جرم مجسٹریٹ کی موجودگی میں اس کے عالقہ اختیار کی مقامی حدود کے اندر سرزد‬
‫ہو تو مجسٹریٹ کو اختیار ہے کہ وہ مجرم کو خود گرفتار کرے یا کسی شخص کو اس کی گرفتاری‬
‫کا حکم دے اور بعد ازاں مجموعہ ہذا میں درج ضمانت کے احکام کے تابع مجرم کو حراست میں‬
‫دے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :65‬مجسٹریٹ کے ذریعے یا اس کی موجودگی میں گرفتاری‬

‫ہر مجسٹریٹ کو اختیار ہے کہ وہ اپنے عالقہ اختیار کی مقامی حدود کے اندر کسی وقت اپنے‬
‫روبرو کسی ایسے شخص کو خود گرفتار کرے یا اس کی گرفتاری کی ہدایت کرے جس کی‬
‫گرفتاری کے لئے وہ اس وقت اور ان حاالت میں وارنٹ جاری کرنے کا مجاز ہے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مندرجہ باال دفعات ‪ 64 ,65‬میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف نہیں ہے۔ لہٰ ذا ا س پر‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :66‬فرار ہونے پر تعاقب کرکے دوبارہ گرفتار کرنے کا اختیار‬

‫اگر کوئی شخص جو جائز حراست میں ہو‪ ،‬فرار ہو جائے یا اسے چھڑا لیا جائے تو وہ شخص جس‬
‫کی حراست سے وہ فرار ہوا‪ ،‬یا چھڑایا گیا‪ ،‬مجاز ہے کہ فورا ً اس کا تعاقب کرے او رپاکستان کے‬
‫کسی عالقہ سے اسے گرفتار کرے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :67‬دفعہ نمبر ‪ 66‬کے تحت کی گئی گرفتاریوں پر دفعات ‪ 48 ،47‬اور ‪ 49‬کا اطالق‬

‫دفعات ‪ 48 ،47‬اور ‪ 49‬کے احکام کا دفعہ ‪ 66‬کے تحت گرفتاریوں پر اطالق ہوگا‪ ،‬اگرچہ وہ شخص‬
‫جو ویسی کوئی گرفتاری زیر عمل ال رہا ہو‪ ،‬زیر وارنٹ کارروائی نہ کر رہا ہو اور کوئی عہدیدار‬
‫پولیس نہ ہو جسے گرفتار کرنے کا اختیار ہو۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مندرجہ باال دفعات ‪ 66 ,67‬میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف نہیں ہے۔ لہٰ ذا ا س پر‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫(باب نمبر ‪)6‬‬


‫جبری حاضری کے حکمنامے کی بابت‬

‫(الف) سمن‬

‫دفعہ نمبر ‪ :68‬سمن کا نمونہ‬


‫کسی عدالت سے مجموعہ ہذا کے تحت جاری ہونے واال سمن تحریری‪ ،‬دو پرتہ اور ایسی عدالت‬
‫کے افسر جلیس کا یا کسی دیگر افسر کا‪ ،‬جیسا کہ عدالت عالیہ وقتا ً فوقتا ً قاعدہ کے ذریعہ ہدایت‬
‫کرے‪ ،‬دستخط شدہ اور مہر ثبت کردہ ہوگا۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں سمن کے بارے میں ذکر ہے کہ یہ کیا ہونا چاہئے؟ اور اس پر‬
‫اسالمی ٔ‬
‫قاضیان‬
‫ِ‬ ‫الخصاف نے بھی سمن کا ذکر کیا ہے کہ‬
‫ؒ‬ ‫کیا درج ہونا چاہئے۔ اس سلسلے مینامام ابوبکر‬
‫اسالم بھی سمن بھجواتے تھے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫قاضی سعید بن اشوع کی انگوٹھی پر لکھا ہوا تھا‪’’ :‬قاضی سعید بن اشوع کو جواب‬
‫دیجئے‘‘۔ اس لئے یہ رواج چل پڑا ہے کہ مدعا علیہ کو طلب کرنے کی خاطر بعض قاضی مدعا‬
‫علیہ کے پاس اپنی انگوٹھی بھیجتے ہیں‪ ،‬بعض مٹی کا برتن اور بعض کاغذ کا ایک ٹکڑا‘‘۔ (‪)228‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے پتہ چال کہ عدالت کی طرف سے سمن جاری کرنا شرعی لحاظ سے‬
‫درست ہے‪ ،‬اس میں کوئی عذر شرعی مانع نہیں ہے۔‬
‫تجویز‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫تعمیل سمن کون کرے گا‪ :‬ایسے سمنات کی تعمیل پولیس افسر یا ایسے قواعد کے‬ ‫(‪2‬‬
‫تابع جو صوبائی حکومت اس بارے میں مقرر کرے‪ ،‬عدالت اجراء کا کوئی افسر یا سرکاری مالزم‬
‫کرے گا۔بشرطیکہ عدالت مجاز ہوگی کہ نالشی یا ملزم کی استدعا پر اسے اپنے گواہان پر سمن کی‬
‫تعمیل کی اجازت دے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ شق میں یہ ذکر ہے کہ سمن کی تعمیل کون کرے گا۔ اس سلسلے میں‬
‫اسالمی ٔ‬
‫خضاف لکھتے ہیں کہ ’’مدعی جب اپنا ثبوت پیش‬
‫ؒ‬ ‫ہمیں تاریخ اسالم سے رہنمائی ملتی ہے۔ ابوبکر‬
‫کردے تو قاضی ایک آدمی کو اس کے فریق مخالف کو حاضر عدالت کرنے کی ہدایت کرے‘‘۔‬
‫(‪)229‬‬
‫مدعی بھی اس کے مدعا علیہ کے سمن کی تعمیل کرا سکتا ہے چنانچہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’قاضی مدعی کو اپنی طرف سے کوئی عالمت دیدے‪ ،‬جسے وہ مدعا علیہ کے پاس جا کر‬
‫دکھائے اور اس پر کسی کو گواہ بنائے‪ ،‬اگر وہ حاضر ہو جائے تو ٹھیک ورنہ قاضی ایسے آدمی‬
‫کو بھیجے جو اسے حاضر کردے‘‘۔ (‪)230‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ سمن کی تعمیل قاضی یا عدالت کی طرف سے مقرر‬
‫کردہ اہلکار بھی کرا سکتا ہے اور قاضی کے حکم سے مدعی بھی کرا سکتا ہے۔‬
‫تجویز‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس میں ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫یہ ضمنی دفعہ حذف کی گئی۔‬ ‫(‪3‬‬


‫دفعہ نمبر ‪ :69‬سمنوں کی تعمیل کیونکر ہوگی؟‬

‫ممکن ہو تو سمن کی تعمیل طلب کردہ شخص کی ذات پر سمن کے دو پرت میں‬ ‫(‪1‬‬
‫سے ایک اس کے حوالے کرکے یا پیش کرکے کی جائیگی۔‬
‫ہر شخص کو جس پر اس طور سے سمن کی تعمیل کی جائیگی۔ الزم ہے کہ دوسری‬ ‫(‪2‬‬
‫پرت کی پشت پر اس کی وصولیابی کے دستخط کرے۔‬
‫سمن کیلئے رسید پر دستخط‪ :‬سند یافتہ کمپنی یا کسی دیگر سند یافتہ جماعت پر‬ ‫(‪3‬‬
‫اعلی عہدیدار پر سمن کی تعمیل کرکے‬
‫ٰ‬ ‫سمن کی تعمیل جماعت کے سیکرٹری‪ ،‬مقامی منیجر یا دیگر‬
‫اعلی افسر کے نام سمن بذریعہ رجسٹری بھیج کر کی جائیگی۔‬‫ٰ‬ ‫یا پاکستان میں سند یافتہ جماعت کے‬
‫ایسی صورت میں تعمیل اس وقت سمجھی جائیگی۔ جب چٹھی ڈاک کی عام مدت میں پہنچ جائے۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬تجویز‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے برعکس نہیں ہے۔ لہٰ ذا اس میں‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :70‬تعمیل سمن جبکہ طلب کردہ شخص نہ مل سکے‬

‫جب طلب کردہ شخص ہر واجبی کوشش کے بعد دستیاب نہ ہو سکے تو سمن کی تعمیل اس طور پر‬
‫جائز ہے کہ اس کی نقل اس کیلئے اس کے خاندان کے کسی مذکر بالغ کے پاس چھوڑ دی جائے‬
‫اور جس شخص کے پاس سمن چھوڑ دیا جائے‪ ،‬اسے الزم ہے کہ دوسری نقل کی پشت پر سمن کی‬
‫وصولیابی کی بابت دستخط کرے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کہا گیا ہے کہ اگر طلب کردہ شخص کوشش کے باوجود نہ مل‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫سکے تو سمن اس کے اہل خاندان میں سے کسی عاقل بالغ شخص کو دے کر اس سے وصولی کے‬
‫دستخط لے لئے جائیں تاکہ وہ اسے حاضر کرنے میں مدد کر سکے۔ اس بارے میں اس روایت سے‬
‫حارثہ کہتے ہیں کہ ابن نواحہ اور اس کے ساتھیوں نے مسیلمہ کی رسالت کی‬
‫ؓ‬ ‫رہنمائی ملتی ہے کہ‬
‫جریر اور‬
‫ؓ‬ ‫گواہی دے کر ارتداد کیا‪ ،‬عبدہللا بن مسعودؓ نے پتہ چلنے پر لوگوں سے مشورہ کیا‪ ،‬اس پر‬
‫ؓ‬
‫اشعث نے کہا کہ‪:‬‬
‫آپ نے ایسا ہی‬
‫’’ان سے توبہ کرائیے اور ان کے خاندان والوں سے ضامن لیں‪ ،‬چنانچہ ؓ‬
‫کیا‘‘۔ (‪)231‬‬
‫مندرجہ باال روایت سے واضح ہوا کہ اگر قاضی یا حاکم ضرورت محسوس کرے تو ملزم‬
‫کے خاندان والوں سے مدد لے سکتا ہے۔‬
‫تجویز‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف نہیں ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس میں ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :71‬ضابطہ جبکہ تعمیل حسب محکومہ باال نہ ہو سکے‬


‫اگر تعمیل اس طریقے سے جو دفعات ‪ 69‬اور ‪ 70‬میں مذکور ہے۔ واجبی کوشش کے بعد دستیاب نہ‬
‫ہو سکے تو تعمیل کنندہ افسر پر الزم ہے کہ سمن کی ایک نقل اس مکان یا مسکن کی کسی نمایاں‬
‫جگہ پر چسپاں کردے‪ ،‬جس میں وہ شخص جس پر سمن جاری ہوا ہے‪ ،‬معموالً رہتا ہو‪ ،‬بعد ازاں یہ‬
‫تصور کیا جائیگا کہ سمن کی تعمیل حسب ضابطہ کر دی گئی۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬تجویز‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس پر تبصرہ‬
‫کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :72‬سرکاری مالزم یا ریلوے کمپنی پر سمن کی تعمیل‬

‫جب طلب کردہ شخص‪ ،‬مملکت یا کسی ریلوے کمپنی کا مصروف خدمت مالزم ہو‬ ‫(‪1‬‬
‫تو عدالت جاری کنندہ سمن کو الزم ہے کہ عموما ً سمن کی دو نقلیں اس دفتر کے سربراہ کو بھیجے‪،‬‬
‫جہاں ویسا شخص مالزم ہے اور ویسا سربراہ اس کے بعد سمن کی تعمیل دفعہ ‪ 69‬میں تصریح کردہ‬
‫طریقہ پر کرائیگا‪ ،‬اپنے دستخط سے مع عبارت ظہری محکومہ دفعہ مذکورہ اس عدالت میں واپس‬
‫بھیجے گا۔‬
‫ویسے دستخط تعمیل باضابطہ کی شہادت ہونگے۔‬ ‫(‪2‬‬

‫وضاحت‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کسی مالزم شخص کو حاضر کرنے کیلئے اس کے محکمہ کے سربراہ‬
‫سے مدد لینے کا ذکر ہے‪ ،‬کیونکہ طلب کردہ شخص اس کا ماتحت ہے اور وہ افسر اس کا ذمہ دار‬
‫ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ‪:‬‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کلکم راعِ و کلکم مسئول عن رعیت ٖہ (‪)232‬‬
‫’’تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا‬
‫جائیگا‘‘۔‬
‫اس سلسلے میں درج باال حدیث ہماری رہنمائی کرتی ہے اور سربراہ محکمہ کو بھی ذمہ‬
‫داری میں شریک قرار دیتی ہے۔‬
‫تبصرہ تجویز‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف نہیں ہے۔ لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :73‬مقامی حدود سے باہر سمن کی تعمیل‬

‫جب کوئی عدالت اپنے جاری کردہ سمنات کی تعمیل اپنی مقامی حدود سے باہر کرانا چاہے تو الزم‬
‫اختیار‬
‫ِ‬ ‫ہے کہ عام طور پر ایسے سمنوں کو مع نقل اس مجسٹریٹ کو ارسال کرے جس کی حدود‬
‫سماعت میں ویسا شخص رہائش پذیر ہو یا جس پر سمن کی تعمیل کرانا ہو۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ اگر مدعا علیہ دوسرے شہر میں رہائش پذیر ہے تو‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫اس کی طلبی کے سمن اس عالقے کے حاکم کو بھیجے جائیں۔ جہاں وہ شخص رہتا ہو۔ اس بارے‬
‫بخاری لکھتے ہیں‪ :‬قاضی مدعی کو اپنی کوئی عالمت دے کر بھیجے۔ مدعی یہ‬ ‫ؒ‬ ‫میں ابن مازہ‬
‫عالمت مدعا علیہ کو دکھائے اور دو گواہ بنا لے اگر وہ حاضر ہو جائے تو ٹھیک ہے (ورنہ یہ گواہ‬
‫اس کے انکار کی گواہی دے) (‪ )233‬جب مدعا علیہ کے بارے میں مدعی اس کے عدالت میں پیش‬
‫نہ ہونے کے گواہ قاضی کے ہاں عدالت میں پیش کردے تو قاضی مدعا علیہ کو عدلت میں پیش‬
‫کرنے کیلئے حاکم (افسر عالقہ) کو لکھے‪ ،‬اس سے لوگوں کو حقوق مل جائینگے‪ ،‬کیونکہ حاکم کو‬
‫لوگوں کے حقوق دلوانے کیلئے متعین کیا گیا ہے‪ ،‬لہٰ ذا قاضی اس سلسلے میں حاکم (افسر عالقہ) کا‬
‫تعاون حاصل کرے۔ (‪)234‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ قاضی یا جج اپنی مقامی حدود سے باہر رہنے والے‬
‫شخص کی گرفتاری کے سلسلے میں اس عالقے کے افسر کا تعاون حاصل کر سکتا ہے۔‬
‫تبصرہ تجویز‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف نہیں ہے۔ لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :74‬ایسی صورتوں میں تعمیل کا ثبوت جب تعمیل کنندہ شخص حاضر نہ ہو‬

‫جب کسی عدالت کی طرف سے جاری کردہ سمن کی اس کی مقامی حدود اختیار‬ ‫(‪1‬‬
‫سے باہر تعمیل کرائی گئی ہو اور ایسی صورت میں جبکہ تعمیل کنندہ شخص مقدمہ کی سماعت پر‬
‫غیر حاضر ہو تو ایک بیان حلفی جو کہ مجسٹریٹ کے روبرو دیا جائے کہ اس سمن کی تعمیل‬
‫کرائی گئی ہے اور سمن کی ایک نقل جس پر عبارت ظہری (حسب طریقہ محکومہ دفعہ ‪ 69‬یا دفعہ‬
‫‪ )70‬اس شخص کی طرف سے ہو‪ ،‬جس کے حوالہ سمن کیا گیا یا پیش کیا گیا یا جس کے پاس سمن‬
‫چھوڑا گیا‪ ،‬شہادت میں قابل قبول ہونگے اور اس میں درج بیانات درست تصور کئے جائینگے‪،‬‬
‫سوائے اس کے کہ اس کے برعکس ثابت کیا جائے۔‬
‫دفعہ ہذا میں مذکور حلفی بیان سمن کی نقل کے ساتھ لف کیا جائیگا اور عدالت کو‬ ‫(‪2‬‬
‫واپس کیا جائیگا۔‬

‫تبصرہ تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں اسالمی تعلیمات کے منافی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫(ب) وارنٹ گرفتاری‬

‫دفعہ نمبر ‪ :75‬وارنٹ گرفتاری کا نمونہ‬

‫وارنٹ گرفتاری جو مجموعہ ہذا کی رو سے کسی عدالت سے جاری ہو‪ ،‬تحریری ہونا چاہئے‪ ،‬اس‬
‫پر افسر جلیس کے دستخط یا مجسٹریٹوں کے بنچ کی صورت میں ویسے بنچ کے کس ممبر کے‬
‫دستخط ثبت ہونگے اور مہر عدالت ثبت کی جائیگی۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬کسی عدالت کی طرف سے جاری وارنٹ گرفتاری یا سمن پر قاضی یا افسر‬
‫اسالمی ٔ‬
‫عدالت کے دستخط اور مہر عدالت ثبت ہونے چاہئیں‪ ،‬اس سے ایک طرف تو یہ پتہ چلے گا کہ یہ‬
‫وارنٹ واقعی فالں عدالت نے جاری کئے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی تعمیل‬
‫کرنا بھی ذمہ دار اہلکار پر ضروری ہے جس کے نتیجے میں وہ گرفتار کر سکتا ہے۔‬
‫خصاف لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫اسالمی نظام عدالت میں بھی اس کا جواز ملتا ہے۔ چنانچہ‬
‫’’قاضی سعید بن اشوع کی انگوٹھی پر لکھا ہوا تھا ’’قاضی سعید بن اشوع کو جواب‬
‫دیجئے‘‘۔ لہٰ ذا یہ رواج چل پڑا ہے کہ مدعا علیہ کو طلب کرنے کی خاطر بعض قاضی مدعا علیہ‬
‫کے پاس اپنی انگوٹھی بھیجتے ہیں۔ بعض مٹی کا برتن اور بعض کاغذ کا ایک ٹکڑا‘‘۔ (‪)235‬‬
‫وہ مزید لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’ہم کہتے ہیں کہ قاضی مدعی کو اپنی طرف سے کوئی عالمت دے دے‪ ،‬جسے وہ مدعا‬
‫علیہ کے پاس لے جاکر اسے دکھائے اور اس پر کسی کو گواہ بنائے‘‘۔ (‪)236‬‬
‫قاضیان اسالم بھی کسی شخص کو طلب کرنے یا‬
‫ِ‬ ‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ‬
‫پکڑنے کیلئے اپنی کوئی ذاتی نشانی بھیجتے تھے۔ جسے دیکھ کر مطلوبہ شخص کو یقین ہو جاتا‬
‫تھا کہ واقعی قاضی نے اسے طلب کیا ہے اور اسے مجال انکار نہیں ہوتی تھی۔ آج کے دو رمیں‬
‫بھی اس مقصد کے حصول کیلئے کسی عدالت کی طرف سے جاری کردہ وارنٹ یا کسی دیگر‬
‫دستاویزات پر جج کے دستخط اور مہر موجود ہونے چاہئیں تاکہ مطلوبہ شخص کو تعمیل کے بغیر‬
‫چارہ نہ رہے۔‬

‫وارنٹ گرفتاری کا جاری رہنا‪ :‬ایسا ہر وارنٹ اس وقت تک نفاذ پذیر رہیگا جب تک‬ ‫(‪2‬‬
‫کہ وہ اس عدالت سے منسوخ نہ کیا جائے جس نے اسے جاری کیا ہو‪ ،‬یا اس وقت تک کہ اس کی‬
‫تعمیل نہ ہو جائے۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬تجویز‪ :‬مندرجہ باال ذیلی شق میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی معلوم نہیں ہوتی‪،‬‬
‫لہٰ ذا اس پر تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :76‬عدالت ضمانت لینے کی ہدایت کر سکتی ہے‬

‫ہر عدالت جس نے کسی شخص کی گرفتاری کیلئے وارنٹ جاری کیا ہو‪ ،‬اپنی‬ ‫(‪1‬‬
‫صوابدید پر وارنٹ پر عبارت ظہری کے ذریعہ ہدایت کر سکتی ہے کہ اگر ایسا شخص عدالت کے‬
‫روبرو تصریح کردہ وقت پر اور بعد ازاں جب تک کہ عدالت بصورت دیگر ہدایت نہ کرے‪ ،‬پیش‬
‫ہونے کا مچلکہ کافی ضمانت کے ساتھ تحریر کردے تو وہ عہدہ دار جس کے نام وارنٹ بھیجا‬
‫جائے‪ ،‬ایسی ضمانت لے گا اور ایسے شخص کو حراست سے رہا کرے گا۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ باال دفعہ کی ذیلی شق نمبر‪ 1‬میں کہا گیا ہے کہ جس شخص کی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫گرفتاری کیلئے وارنٹ جاری کیا ہو اسے ضمانت کا مچلکہ لیکر رہا کیا جا سکتا ہے تاکہ عدالت‬
‫نظام عدالت میں بھی اس کی گنجائش ہے۔‬‫ِ‬ ‫میں اس کی حاضری کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسالمی‬
‫ابوہریرہ سے روایت ہے‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫حضرت‬
‫متہم کفیالً تُثْبُّتًا‬ ‫س ُر ُجالً فِی ت ُ َھم ٍۃ وقال مرۃ ا ُ ٰ‬
‫خری‪ :‬اخذ من ِ‬ ‫ا َ َّن النبی صلی اہللا علیہ وسلم َحبَ َ‬
‫واحت َیاطا ً (‪)237‬‬
‫’’نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو تہمت میں قید کیا تھا اور ایک روایت میں بتاتے ہیں کہ‬
‫مہتمم سے بطور احتیاط ضامن لیا‘‘۔‬
‫مندرجہ باال حدیث پاک میں بیان شدہ واقعہ سے پتہ چال کہ ملزم کی عدالت میں دوبارہ‬
‫بطور احتیاط اس سے ضامن لینے کی گنجائش اسالمی نظام عدالت میں‬ ‫ِ‬ ‫حاضری کو یقینی بنانے اور‬
‫بھی موجود ہے۔‬

‫عبارت ظہری میں یہ لکھا جائیگا۔‬ ‫(‪2‬‬


‫ضامنوں کی تعداد۔‬ ‫(‪i‬‬
‫ایسی رقم کی تعداد جس میں انہیں اور جس شخص کی گرفتاری‬ ‫(‪ii‬‬
‫کیلئے وارنٹ جاری کیا ہو اسے پابند کیا گیا ہو۔‬
‫وہ تاریخ جس پر اسے عدالت کے روبرو حاضر ہونا چاہئے۔‬ ‫(‪iii‬‬

‫تبصرہ ‪ /‬تجویز‪ :‬مندرجہ باال ذیلی شقوں میں کوئی چیز اسالمی تعلیمات کے خالف نہیں ہے لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫اقرار نامہ کا بھیجا جانا‪ :‬جب بھی دفعہ ہذا کے بموجب ضمانت لی جائے تو وہ عہدہ‬ ‫(‪3‬‬
‫دار جس کے نام وارنٹ بھیجا جائے‪ ،‬ضمانت نامہ عدالت کو ارسال کرے گا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس شق میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :77‬وارنٹ کس کے نام بھیجا جائے‬

‫وارنٹ گرفتاری عموما ایک یا زائد عہدیداران پولیس کے نام لکھا جائیگا مگر ایسا‬ ‫(‪1‬‬
‫ً‬
‫وارنٹ جاری کرنے والی کوئی عدالت مجاز ہوگی کہ اگر اس کی فورا تعمیل کرانا ضروری ہو اور‬
‫کوئی عہدہ دار پولیس فوری طور پر اس کام کیلئے دستیاب نہ ہو تو کسی اور شخص یا اشخاص کے‬
‫نام پر وارنٹ تحریر کرے اور ویسا شخص یا اشخاص وارنٹ کی تعمیل کرینگے۔‬
‫کئی اشخاص کے نام وارنٹ‪ :‬جب وارنٹ ایک سے زائد عہدیداران یا اشخاص کے‬ ‫(‪2‬‬
‫نام لکھا جائے تو جائز ہے کہ اس کی تعمیل سب کے سب یا ان میں سے کوئی ایک یا زیادہ کرائیں۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مندرجہ باال دونوں ذیلی شقوں میں وارنٹ کا اجراء اور اس کی فوری تعمیل کے سلسلے‬
‫میں عدالت کے صوابدیدی اختیارات کو بیان کیا گیا ہے کہ اگر ایک شخص تعمیل وارنٹ کیلئے نہ‬
‫موثر اور یقینی ہو‬
‫سکے تو کئی اشخاص کے نام وارنٹ کا اجراء کیا جا سکتا ہے تاکہ اس کی تعمیل ٔ‬
‫سکے۔ اسالم اس سلسلے میں کوئی پابندی نہیں لگاتا۔‬
‫تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف نہیں ہے‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :78‬مالک اراضی وغیرہ کے نام وارنٹ تحریر کیا جا سکتاہے‬

‫٭] مجسٹریٹ درجہ اول[ مجاز ہے کہ اپنے ضلع یا حصہ کے اندر کسی زمیندار یا‬ ‫(‪1‬‬
‫مستاجر یا سربراہ اراضی کے نام وارنٹ گرفتاری کسی ایسے شخص کے نام تحریر کرے جو‬
‫قیدی‪ ،‬مفرور یا مجرم اشتہاری ہو یا ایسا شخص جس پر جرم غیر قابل ضمانت کا الزام لگایا گیا ہو‬
‫اور جو تعاقب سے گریز کرتا رہا ہو۔‬

‫وضاحت‪ :‬مذکورہ دفعہ میں یہ کہا گیا ہے کہ مجسٹریٹ کسی قیدی‪ ،‬مفرور یا اشتہاری مجرم کی‬
‫گرفتاری کیلئے اپنے ماتحت عالقوں میں زمینداروں یا مستاجر حضرات سے مدد لے سکتا ہے اور‬
‫ان کے نام وارنٹ جاری کر سکتا ہے کہ وہ ایسے شخص کو گرفتار کرنے میں مدد دیں۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬قاضی عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مجرم شخص کی گرفتاری کیلئے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫متعلقہ عالقہ کے دیگر عہدیداروں سے مدد لے سکتا ہے‪ ،‬اس سلسلے میں ابن مازہ بخاری لکھتے‬
‫ہیں‪ :‬قاضی مدعا علیہ کو عدالت میں پیش کرنے کے معاملے میں حاکم (افسر عالقہ) کو لکھے۔ اس‬
‫طرح لوگوں کو اپنے حقوق مل جائینگے‪ ،‬چونکہ حاکم (افسر عالقہ) کو لوگوں کے حقوق دلوانے‬
‫کیلئے متعین کیا گیا ہے۔ اس لئے قاضی مدعا علیہ کو عدالت میں حاضر کرنے کے بارے میں حاکم‬
‫(افسر عالقہ) کا تعاون حاصل کرے۔ (‪)238‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ مطلوبہ شخص کو حاضر کرنے کیلئے قاضی حاکم‬
‫(افسر عالقہ) کا تعاون حاصل کر سکتا ہے کیونکہ عالقہ میں اس کا اقتدار اور اثر ورسوخ ہوتا ہے۔‬
‫لہٰ ذا یہ بھی جائز ہے کہ وہ متعلقہ عالقہ کے زمیندار یا دیگر بااثر افراد سے اس شخص کی حاضری‬
‫یا گرفتاری میں تعاون حاصل کرے۔‬

‫ایسے زمیندار یا مستاجر یا سربرا ِہ کار کو الزم ہے کہ وارنٹ پہنچنے کی رسید لکھ‬ ‫(‪2‬‬
‫دے اور اگر وہ شخص جس کی گرفتاری کیلئے وارنٹ جاری ہوا ہو‪ ،‬اس کی زمینداری یا مستاجری‬
‫یا اراضی میں جس کا وہ سربراہ کار ہو‪ ،‬موجود ہو یا اس کے اندر آئے‪ ،‬اس پر وارنٹ کی تعمیل‬
‫کرے۔‬
‫جب وہ شخص جس کے نام ایسا وارنٹ جاری ہوا ہو‪ ،‬گرفتار کیا جائے تو چاہئے کہ‬ ‫(‪3‬‬
‫وہ مع وارنٹ قریب تر عہدہ دار پولیس کے حوالہ کیا جائے اور وہ عہدہ دار پولیس اسے اس‬
‫اختیار سماعت رکھتا ہو‪ ،‬اِال اس صورت‬
‫ِ‬ ‫مجسٹریٹ کے روبرو حاضر کرے گا جو اس مقدمہ میں‬
‫کے کہ دفعہ ‪ 76‬کے بموجب ضمانت لی جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :79‬وارنٹ جو پولیس افسر کے نام تحریر کیا جائے‬


‫کوئی وارنٹ جو کسی عہدہ دار پولیس کے نام تحریر کیا جائے کی تعمیل کوئی دوسرا عہدہ دار‬
‫پولیس بھی کر سکتا ہے جس کے نام کی تظہیر وارنٹ پر اس عہدہ دار نے کی ہو جس کے نام‬
‫وارنٹ تحریر کیا گیا ہو یا تظہیر کیا گیا ہو۔‬
‫تبصرہ ‪ /‬تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعات میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪،‬‬
‫لہٰ ذا ترمیم کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :80‬وارنٹ کے خالصہ سے مطلع کرنا‬

‫وہ عہدہ دار پولیس یا دیگر شخص جو وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کرا رہا ہو پر الزم ہے کہ وہ‬
‫وارنٹ کے خالصہ سے اس شخص کو جس کی گرفتاری مقصود ہو‪ ،‬آگاہ کرے اور اگر وہ خواہش‬
‫کرے تو اسے وارنٹ دکھا دے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کہا گیا ہے کہ جسے گرفتار کیا جا رہا ہے اس کی خواہش پر‬
‫اسالمی ٔ‬
‫اسے وارنٹ دکھایا جا سکتا ہے۔ اسالمی نظام عدالت میں بھی اس کی گنجائش موجود ہے۔ ابن مازہ‬
‫بخاری لکھتے ہیں کہ قاضی مدعی کو اپنی طرف سے کوئی عالمت دے دے‪ ،‬جسے وہ مدعا علیہ‬ ‫ؒ‬
‫(مطلوبہ شخص کو جاکر اسے دکھائے اور اس پر کسی کو گواہ بنائے۔ (‪ )239‬وہ عالمت کیسی‬
‫خصاف لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫ہونی چاہئے۔ اس سلسلے میں‬
‫’’قاضی سعید بن اشوع کی انگوٹھی پر لکھا ہوا تھا‪’’ :‬قاضی سعید بن اشوع کو جواب‬
‫دیجئے‘‘ اس لئے یہ رواج چل پڑا ہے کہ مدعا علیہ کو طلب کرنے کیلئے بعض قاضی اس کے پاس‬
‫اپنی انگوٹھی بھیجتے ہیں‪ ،‬بعض مٹی کا برتن اور بعض کاغذ کا ایک ٹکڑا‘‘۔ (‪)240‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے پتہ چال کہ مطلوبہ شخص جسے عدالت میں طلب کیا جا رہا ہے یا‬
‫گرفتار کیا جا رہا ہے۔ عدالت کی طرف سے حکمنامہ اس کی خواہش پر اسے دکھایا جا سکتا ہے۔‬
‫تبصرہ ‪ /‬تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :81‬گرفتار شدہ شخص کو کسی تاخیر کے بغیر عدالت میں پیش کیا جائے‬

‫کوئی عہدے دار پولیس یا دیگر شخص جو وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کر رہا ہو پر الزم ہے کہ‬
‫(دفعہ ‪ 76‬بابت ضمانت کے احکام کے تابع) بال غیر ضروری تاخیر گرفتار شدہ شخص کو اس‬
‫عدالت میں پیش کرے‪ ،‬جس کے روبرو ویسے ملزم کو پیش کرنے کیلئے قانون کے بموجب اسے‬
‫حکم ہو۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالم انصاف کی جلد فوری فراہمی پر زور دیتا ہے لہٰ ذا جس شخص کو گرفتار‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کیا جائے‪ ،‬اسے فورا ً عدالت کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے تاکہ قانونی تقاضے پورے کرکے‬
‫فیصلہ سنایا جا سکے اور حقدار کو اس کا حق دلوایا جا سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ مظلوم اور منصف‬
‫کا درمیانی فاصلہ جتنا قریب‪ ،‬کم اور آسان ہوگا اسی قدر جلد اور سستا انصاف مل سکے گا اور‬
‫حقوق کی ادائیگی ممکن ہو سکے گی۔‬
‫دوسری طرف جس شخص کو گرفتار کیا گیا ہے‪ ،‬عین ممکن ہے کہ کسی بے بنیاد الزام پر‬
‫اسے گرفتار کرلیا گیا ہو لہٰ ذا اسے بالوجہ محبوس نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ اس کا بھی بنیادی حق ہے‬
‫کہ اسے عدالت کے سامنے فورا ً پیش کیا جائے تاکہ اس کے گناہگار یا بے گناہ ہونے کا فیصلہ کیا‬
‫جا سکے اور اس کا بنیادی حق آزادی مجروح نہ ہونے پائے۔‬
‫نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے‪:‬‬
‫ست ََرونَ بَعدِی اَثْ َرۃ ً َوت ُ ْن ِک ُر ْونَ َھا قَالُوا فَ َما تَا ْ ُم ُرنَا یَا ُر َ‬
‫س ْول اہللا ﷺ قَالَ‪ :‬اَدُّوا الی ِھ ْم َحقَّ ُھ ْم َواسئلوا‬ ‫اِنُّ ُکم َ‬
‫اہللاُ َحقَّ ُک ْم (‪)241‬‬
‫’’میرے بعد تم دولت وثروت بہت دیکھو گے اور ایسے امور بھی دیکھو گے جنہیں تُم بُرا‬
‫کرام نے عرض کی یا رسول ہللا ﷺ! آپ ہمیں ایسے وقت میں کیا حکم دیتے‬ ‫ؓ‬ ‫سمجھو گے۔ صحابہ‬
‫تعالی سے مانگا کرو‘‘۔‬
‫ٰ‬ ‫ہیں۔ فرمایا‪ :‬لوگوں کے حقوق ادا کردیا کرو اور اپنے حقوق ہللا‬
‫ایک دفعہ والیان ملک کے ظلم وجور کی شکایت کی گئی تو ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫عا ُھم (‪)242‬‬ ‫طو ُھم فَا َِّن اہللا سائِلُ ُھ ْم َ‬
‫ع َّما ا ْست َْر َ‬ ‫حقَّھم اَغ ُ‬
‫تعالی رعیت کے حقوق کا سوال اُن سے‬
‫ٰ‬ ‫’’تم پر جو ان کا حق ہے ادا کر دیا کرو کیونکہ ہللا‬
‫کرے گا‘‘۔‬
‫اسی طرح کئی دیگر احادیث مبارکہ میں بھی انسانوں کے باہمی حقوق کی ادائیگی کا حکم‬
‫ہے‪ ،‬لہٰ ذا گرفتار شدہ شخص کو فورا ً قاضی کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے تاکہ کسی بھی فریق‬
‫سے کسی قسم کی زیادتی نہ ہو۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مندرجہ باال ذیلی شق میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪،‬‬
‫لہٰ ذا ترمیم کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :82‬وارنٹ کی تعمیل کہاں کی جا سکتی ہے‬

‫وارنٹ گرفتاری کی تعمیل پاکستان میں کسی مقام پر بھی کی جا سکتی ہے۔‬
‫٭] تشریح‪ :‬دفعہ ہذا میں ’’پروانہ گرفتاری‘‘ سے مراد ایسا پروانہ گرفتاری شامل ہے جو ضابطہ‬
‫فوجداری کے تحت جاری کیا گیا ہو‪ ،‬جیسا کہ آزاد جموں وکشمیر میں نافذ العمل ہے۔[‬

‫تبصرہ ‪ /‬تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :83‬ایسا وارنٹ جو حلقہ اختیار سے باہر تعمیل کیلئے بھیجا گیا ہو‬

‫جب کسی وارنٹ کی تعمیل جاری کنندہ عدالت کے عالقہ کی حدود کے باہر ہونا‬ ‫(‪1‬‬
‫ضروری ہو تو ویسی عدالت مجاز ہے کہ ایسے وارنٹ کو کسی عہدیدار پولیس کے نام کرنے کی‬
‫بجائے اسے بذریعہ ڈاک یا کسی اور طرح کسی مجسٹریٹ یا سپرنٹنڈنٹ پولیس ضلع کے پاس‬
‫بھیجے‪ ،‬جس کے عالقہ اختیار کی مقامی حدود کے اندر اس کی تعمیل کی جانی ہو۔‬
‫مجسٹریٹ یا سپرنٹنڈنٹ پولیس ضلع جس کے پاس ویسا وارنٹ اس طور پر بھیجا‬ ‫(‪2‬‬
‫جائے‪ ،‬اس پر اپنا نام تحریر کرے اور اگر ممکن ہو تو اپنے عالقے کی مقامی حدود کے اندر‬
‫مذکورہ باال محکوم کردہ طریقہ کے مطابق اس کی تعمیل کرائے گا۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ باال شقوں میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ اگر‬
‫اسالمی ٔ‬
‫مطلوبہ شخص اس کی حدود سے باہر ہے تو اس عالقے کے متعلقہ افسر سے اس کی گرفتاری میں‬
‫مدد لی جا سکتی ہے اور عدالت اس کے نام وارنٹ برائے تعمیل گرفتای جاری کر سکتی ہے اور‬
‫پھر اس عالقہ کا افسر اس کی تعمیل کرائے گا۔‬
‫بخاری لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫اسالمی نظام عدالت میں اس کا جواز ملتا ہے۔ ابن مازہ‬
‫’’قاضی مدعا علیہ کو عدالت میں پیش کرنے کے معاملے میں حاکم (افسر عالقہ) کو لکھے۔‬
‫اس طرح لوگوں کو اپنے حقوق مل جائینگے‪ ،‬چونکہ حاکم (افسر عالقہ) کو لوگوں کے حقوق‬
‫دلوانے کیلئے متعین کیا گیا ہے‪ ،‬اس لئے قاضی مدعا علیہ کو عدالت میں حاضر کرنے کے بارے‬
‫میں حاکم (افسر عالقہ) کا تعاون حاصل کرے‘‘۔ (‪)243‬‬
‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :84‬ایسا وارنٹ جو حلقہ اختیار سے باہر تعمیل کیلئے بھیجا گیا ہو‬
‫جب پولیس افسر کے نام جاری کردہ وارنٹ کی تعمیل عدالت جاری کنندہ وارنٹ‬ ‫(‪1‬‬
‫کے عالقہ کی مقامی حدود کے باہر کی جاتی ہو تو پولیس آفیسر پر بالعموم الزم ہوگا کہ وارنٹ پر‬
‫ت ظہری لکھانے کیلئے مجسٹریٹ یا ایسے پولیس افسر کے پاس لے جائے جس کا رتبہ افسر‬ ‫عبار ِ‬
‫انچارج پولیس سٹیشن سے کم نہ ہو اور جس کے عالقے کی مقامی حدود کے اندر وارنٹ کی تعمیل‬
‫کی جانی ہو۔‬
‫ایسا مجسٹریٹ یا پولیس افسر یا وارنٹ پر نام تحریر کرے گا اور ایسی تظہیر اس‬ ‫(‪2‬‬
‫پولیس افسر کیلئے کافی اختیار سمجھا جائے گا‪ ،‬جس کے نام وارنٹ جاری ہوا ہو کہ وہ ایسے عالقہ‬
‫میں اس کی تعمیل کرائے اور مقامی پولیس پر الزم ہوگا کہ اگر ایسی خواہش کی جائے تو ایسے‬
‫وارنٹ کی تعمیل کرنے والے افسر کی مدد کی جائے۔‬
‫جب کبھی اس امر کے باور رنے کی وجہ ہو کہ جس مجسٹریٹ یا پولیس افسر کے‬ ‫(‪3‬‬
‫عالقہ کی مقامی حدود کے اندر وارنٹ کی تعمیل کی جانتی ہو کی تحریر ظہری حاصل کرنے میں‬
‫تاخیر سے ایسی تعمیل نہ ہو سکے گی تو پولیس افسر جس کے نام وارنٹ لکھا گیا ہے‪ ،‬مجاز ہوگا‬
‫کہ ویسی تحریر ظہری کے بغیر وارنٹ کی کسی ایسے مقام پر تعمیل کرے جو اس عدالت کے‬
‫عالقہ کی مقامی حدود سے باہر ہو‪ ،‬جس نے اسے جاری کیا۔‬
‫یہ جزو حذف کیا گیا۔‬ ‫(‪4‬‬

‫تبصرہ ‪ /‬تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :85‬اس شخص کی گرفتاری پر ضابطہ جس کے خالف وارنٹ جاری ہوا ہو‬
‫جب وارنٹ گرفتاری کی تعمیل اس ضلع کے باہر کی گئی ہو‪ ،‬جہاں سے وہ جاری ہوا ہو تو الزم ہے‬
‫مقام گرفتاری سے بیس‬‫کہ گرفتار شدہ شخص کو بجز اس صورت کے کہ عدالت جاری کنندہ وارنٹ ِ‬
‫میل کے اندر واقع ہو‪ ،‬یا اس مجسٹریٹ یا سپرنٹنڈنٹ پولیس ضلع سے زیادہ قریب ہو جس کے عالقہ‬
‫کی مقامی حدود کے اندر گرفتاری عمل میں آئی ہو یا بجز اس صورت میں کہ زیر دفعہ ‪ 76‬ضمانت‬
‫لی جائے‪ ،‬ویسے مجسٹریٹ یا سپرنٹنڈنٹ ضلع کے روبرو پیش کیا جائے۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے برعکس دکھائی نہیں دیتی‪،‬‬
‫لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :86‬اس مجسٹریٹ کا ضابطہ جس کے روبرو گرفتار شدہ شخص کو الیا گیا ہو‬
‫ویسے مجسٹریٹ یا سپرنٹنڈنٹ ضلع کو الزم ہے کہ اگر گرفتار شدہ شخص وہی‬ ‫(‪1‬‬
‫معلوم ہو جو عدالت جاری کنندہ وارنٹ کو مطلوب ہے تو وہ ایسے زیر حراست اس عدالت میں لے‬
‫جانے کا حکم دے گا۔‬
‫بشرطیکہ اگر جرم قابل ضمانت ہے اور ویسا شخص مجسٹریٹ یا سپرنٹنڈنٹ ضلع کی تسلی کے‬
‫مطابق ضمانت دینے کے لئے آمادہ اور رضامند ہو۔‬
‫یا وارنٹ زیر دفعہ ‪ 76‬ہدایت درج ہو اور ویسا شخص وہ ضمانت دینے کیلئے آمادہ ہو اور رضامند‬
‫ہو جس کی ہدایت کی گئی ہے تو مجسٹریٹ یا سپرنٹنڈنٹ ضلع ویسی ضمانت لے کر جیسی کہ‬
‫صورت ہو‪ ،‬مچلکہ اور ضمانت نامہ اس عدالت کو بھیجے گا جس نے وارنٹ جاری کیا۔‬
‫مزید شرط یہ کہ دفعہ ‪ 76‬کے تحت اگر جرم ناقابل ضمانت ہے‪ ،‬وارنٹ پر کوئی عبارت وغیرہ‬
‫تحریر نہیں کی گئی تو شعبہ سیشن کے سیشن جج جہاں ہر شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بمشروط‬
‫دفعہ ‪ 497‬اور کافی وجوہات کی بنا پر مجرم کی عارضی ضمانت پر رہائی کی جائے‪ ،‬جیسا کہ‬
‫سیشن جج مناسب خیال کرے اور اسے یہ ہدایت جاری کرے کہ وہ ایک مقررہ تاریخ کو عدالت کے‬
‫روبرو حاضر ہو‪ ،‬جس نے وارنٹ جاری کیا تھا اور وہاں ضمانت نامہ پیش کرے۔‬
‫دفعہ ہذا میں کسی امر سے یہ نہ سمجھا جائیگا کہ کسی پولیس افسر کو زیر دفعہ‬ ‫(‪2‬‬
‫ضمانت لینے سے باز رکھا گیا ہے۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬تجویز‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ‬
‫کی ضرورت نہیں۔‬

‫٭ ]دفعہ نمبر ‪ :A-86‬زیر حراست شخص کو قبائلی عالقہ میں لیجانے کا ضابطہ‬

‫جب زیر دفعہ ‪ 85‬گرفتار شدہ شخص کو قبائلی عالقہ میں کسی مقام پر حراست میں منتقل کرتا ہو تو‬
‫اختیار سماعت میں‬
‫ِ‬ ‫الزم ہے اسے اس مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے جس کی مقامی حدود‬
‫گرفتاری عمل میں آئی ہو اور وہ مجسٹریٹ منتقلی کی ہدایت دینے کیلئے مقدمہ کی سماعت اسی‬
‫طرح کرے گا اور جہاں تک ہو سکے اسے وہی اختیارات سماعت حاصل ہوں گے جس میں شہادت‬
‫پیش کرنے کے حکم کا اختیار شامل ہوگا۔ گویا کہ گرفتار کردہ شخص پر ایسے مجسٹریٹ کے‬
‫عالقہ میں جرم کے ارتکاب کا الزام ہو اور ایسا مجسٹریٹ گرفتار کردہ شخص کو حراست میں لینے‬
‫کا حکم دے گا اور اگر وہ مطمئن ہو جائے کہ اس کے روبرو پیش کردہ شہادت سے قوی یا ممکنہ‬
‫قیاس پیدا ہوتا ہے کہ گرفتار کردہ شخص نے وارنٹ میں متذکرہ جرم کا ارتکاب کیا ہے۔[‬

‫تبصرہ ‪ /‬تجویز‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے برعکس معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬
‫(پ) اعالن اور قرقی‬

‫دفعہ نمبر ‪ :87‬مفرور شخص کی بابت اعالن‬

‫اگر کوئی عدالت (شہادت لینے کے بعد مطمئن ہو) کہ کوئی شخص جس کے خالف‬ ‫(‪1‬‬
‫اس عدالت کا وارنٹ جاری ہوا ہے‪ ،‬مفرور ہو گیا ہے یا روپوش ہے تاکہ ویسے وارنٹ کی تعمیل نہ‬
‫ہو سکے تو ویسی عدالت مجاز ہوگی کہ تحریری اعالن شائع کرکے اسے حکم دے کہ وہ تصریح‬
‫کردہ مقام پر اور ایسی تصریح کردہ مدت کے اندر جو ایسے اعالن کی اشاعت کی تاریخ سے تیس‬
‫یوم سے کم نہ ہو‪ ،‬حاضر ہو۔‬

‫وضاحت‪ :‬مذکورہ شق میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی عدالت کو کوئی شخص مطلوب ہے اور اس کے‬
‫خالف وارنٹ جاری کردے‪ ،‬لیکن وہ شخص مفرور یا روپوش ہو جائے تو عدالت مجاز ہے کہ اسے‬
‫حاضر کرنے کیلئے تحریری اعالن شائع کردے اور حاضری کی مدت مقرر کردے۔‬
‫بخاری لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی عدالتی نظام میں بھی اس کا جواز ملتا ہے۔ ابن مازہ‬
‫اسالمی ٔ‬
‫’’مدعی جب اپنا ثبوت پیش کردے تو قاضی ایک آدمی کو اس کے فریق مخالف کو (عدالت‬
‫میں) حاضر کرنے کی ہدایت کرے‘‘۔ (‪)244‬‬
‫وہ مزید لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’بعض کہتے ہیں کہ قاضی مدعی سے قسم لے‪ ،‬اگر وہ قسم کھا لے تو قاضی ایک شخص‬
‫کو اس کے فریق مخالف کو (عدالت میں) حاضر کرنے کا حکم دے‘‘۔ (‪)245‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ مفرور یا روپوش شخص کو حاضر عدالت کرنے‬
‫کیلئے حکم جاری کر سکتی ہے۔ یہ قاضی کی صوابدید ہے کہ وہ زبانی حکم دے یا تحریری‬
‫صورت میں یہ اعالن شائع کرے۔ بہرحال اسالمی نظام عدالت میں اس کی گنجائش ہے۔‬

‫ایسا اعالن درجِ ذیل طریقے کے مطابق شائع کیا جائے گا۔‬ ‫(‪2‬‬
‫الف) اس قصبہ یا موضع کے کسی نمایاں مقام پر اعالنیہ سنایا جائیگا‪ ،‬جہاں ویسا‬
‫شخص عموما ً سکونت رکھتا ہو۔‬
‫اس مکان یا مسکن کی کسی نمایاں جگہ پر‪ ،‬جس میں کہ ویسا‬ ‫ب)‬
‫شخص عموما ً رہتا ہو‪ ،‬یا ویسے قصبہ یا کسی نمایاں مقام پر چسپاں کیا جائے گا اور‬
‫اس کی ایک نقل کچہری کی عمارت کی کسی نمایاں جگہ پر چسپاں کی‬ ‫ج)‬
‫جائیگی۔‬
‫عدالت جاری کنندہ اعالن کا تحریری بیان اس بارے میں کہ اشتہار حسب ضابطہ‬ ‫(‪3‬‬
‫احکام دفعہ ہذا کی تعمیل‬
‫ِ‬ ‫ایک مقررہ تاریخ پر مشتہر کیا گیا‪ ،‬اس بات کی قطعی شہادت ہوگا کہ‬
‫ہوگئی اور یہ کہ ویسی تاریخ پر اعالن مشتہر کیا گیا۔‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :88‬مفرور شخص کی جائیداد کی قرقی‬

‫دفعہ ‪ 87‬کے تحت اعالن جاری کرنے والی عدالت مجاز ہے کہ کسی بھی وقت‬ ‫(‪1‬‬
‫مشتہر شخص کی جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ یا دونوں کی قرقی کا حکم صادر کرے۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ عدالت مفرور شخص کی جائیداد کی قرقی کر سکتی ہے۔‬
‫جائیداد کی قرقی پر بحث کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کی لغوی واصطالحی‬
‫وضاحت بیان کر دی جائے۔‬
‫قرق اور قرقی ترکی زبان کا لفظ ہے اور اُردو میں بھی مستعمل ہے‪ ،‬اس کے لغوی معنی‬
‫ہیں۔ ضبطی‪ ،‬ممانعت‪ ،‬بندش۔(‪)246‬‬
‫اسے انگریزی میں ‪ Attachment‬کہتے ہیں۔ شارٹر آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں ہے‪:‬‬
‫‪Attachment: "The taking of property into the actual or constructive possession‬‬
‫‪)247( ."of the judiciary power‬‬
‫ایڈوانس لرنر انسائیکلو پیڈک ڈکشنری میں ہے‪:‬‬
‫‪)248( .Attach: (Law) seizing somebody's property etc with legal authority‬‬
‫‪ Webster‬نیو کالج ڈکشنری میں ہے‪:‬‬
‫‪A seizure by legal process; also: the write or precept commanding such‬‬
‫‪)249( .seizure‬‬
‫"‪ "Wharton's Law Lexieon‬میں ہے‪:‬‬
‫"‪)250( ."To take or apprehend by commandment or a writ or precept‬‬
‫کسی شخص یا جائیداد کو قانونی تحویل یا قبضہ میں لینا قرقی یا ضبطی کہالتا ہے۔ (‪)251‬‬
‫یہ قرقی کا عمل ایسے شخص کے خالف کیا جاتا ہے جس کے خالف وارنٹ جاری کیا جا‬
‫چکا ہو اور وہ گرفتاری سے بچتا پھرے‪ ،‬یہ عمل کس لئے کیا جاتا ہے اس بارے میں مظہر نظامی‬
‫لکھتے ہیں‪:‬‬
‫" ‪This provision is devised to put additional pressure upon the absconder‬‬
‫‪)252( ."to compel him to obedience‬‬
‫وہ مزید لکھتے ہیں‪:‬‬
‫" ‪It means that the property passes under the absolute control of‬‬
‫‪Government to dispose of, or deal with it, in whatever manner might seem most‬‬
‫‪)253( ."appropriate and convenient‬‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬مندرجہ باال سطور میں قرقی کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے۔ اسالمی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫زہری کہتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫تعلیمات کی روشنی میں بھی اس کی اجازت ہے۔‬
‫ان معاذ بن ؓ‬
‫جبل کان علیہ دین فاخرجہ النبی ﷺ من مالہ لغرمائہ (‪)254‬‬
‫’’حضرت ؓ‬
‫معاذ کے ذمہ قرض تھا‪ ،‬حضور اکرم ﷺ نے قرض خواہوں کے حق میں انہیں ان‬
‫کے مال سے بے دخل کردیا‘‘۔‬
‫خصاف نے یہ حدیث ایسے ہی بیان کی ہے۔ بعض روایات میں یہ‬
‫ؒ‬ ‫بخاری کہتے ہیں کہ‬
‫ؒ‬ ‫ابن مازہ‬
‫ِ‬
‫حدیث یوں آئی ہے۔‬
‫ان النبی ﷺ باع علی ؓ‬
‫معاذ مالہ وصرف ثمنہ الی الغرماء (‪)255‬‬
‫’’نبی اکرم ﷺ نے حضرت ؓ‬
‫معاذ کا مال فروخت کرا دیا اور اس کی قیمت ان کے قرض‬
‫خواہوں کے حوالے کردی‘‘۔‬
‫ابوحنیفہ کہتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫امام‬
‫اسکی تاویل یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت ؓ‬
‫معاذ کی رضامندی اور درخواست پر‬
‫مال فروخت فرمایا تھا۔ (‪)256‬‬
‫مالک سے روایت ہے‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫کعب بن‬
‫حجر علی ؓ‬
‫معاذ و باع مالہ فی دین کان علیہ (‪)257‬‬
‫نبی کریم ﷺ نے حضرت ؓ‬
‫معاذ پر (تصرف ِمال کی) پابندی لگا دی اور ان کا مال اس قرض‬
‫میں فروخت کردیا جو ان کے ذمہ تھا‘‘۔‬
‫تصرف‬
‫ِ‬ ‫ؒ‬
‫صاحبین نے دو مسئلوں میں اس حدیث کو حجت بنایا ہے‪ ،‬پہال یہ کہ آزاد شخص پر‬
‫ابوحنیفہ‬
‫ؒ‬ ‫مال کی پابندی لگانا جائز ہے۔ دوسرا یہ کہ مقروض کا مال فروخت کیا جا سکتا ہے۔ امام‬
‫معاذ کو مال میں تصرف سے روک دیا تھا‪ ،‬یہ‬‫کہتے ہیں کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ؒ‬
‫مطلب نہیں کہ ان سے تصرف کا حق بھی ساقط کردیا تھا‪ ،‬اور بیع حضرت معا ؓذ کی رضامندی سے‬
‫ہوئی تھی۔ (‪)258‬‬
‫ؓ‬
‫فاروق نے فرمایا‪:‬‬ ‫عمر کے دو رمیں ایسفع جہینہ قرض سے مغلوب ہو گیا تو حضرت عمر‬
‫حضرت ؓ‬
‫فمن کان لہ علیہ شیئی فلیاتنا حتی نقسم مالہ بینھم (‪)259‬‬
‫’’اگر کسی شخص کی کوئی چیز اس کے ذمہ ہو تو وہ ہمارے پاس آئے تاکہ ہم اس کا مال‬
‫ان میں تقسیم کرسکیں‘‘۔‬
‫شریح کے بارے میں مروی ہے‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫قاضی‬
‫انہ کان یبیع ما فوق االزار (‪)260‬‬
‫’’وہ تہمد کو چھوڑ کر باقی سارا سامان فروخت کردیتے تھے‘‘۔‬
‫مندرجہ باال احادیث وآثار سے واضح ہوا کہ مقروض کی جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ یا اس‬
‫کا مال واسباب فروخت کرکے قرض خواہوں کا قرض ادا کیا جائے اور حقوق ضائع ہونے سے‬
‫بچائے جائیں۔‬
‫ایسے حکم کی رو سے شخص مذکور کی ملکیتی کسی جائیداد کی اس ضلع میں‬ ‫(‪2‬‬
‫قرقی جائز ہوگی‪ ،‬جہاں قرقی کی گئی ہو اس کی رو سے شخص مذکور کی مملوکہ جائیداد جو‬
‫بیرون ضلع ہو کی قرضی جائز ہوگی جب کہ اس کی تظہیر اس ٭] سیشن جج[ نے کر دی ہو‪ ،‬جس‬‫ِ‬
‫کے ضلع میں ایسی جائیداد واقع ہو۔‬
‫اگر جائیداد جس کی قرقی کا حکم دیا گیا ہو‪ ،‬کوئی قرضہ یا دیگر جائیدا ِد منقولہ ہو‬ ‫(‪3‬‬
‫تو قرقی زیر دفعہ ہذا عمل میں آئے گی‪:‬‬
‫بذریعہ قبضہ بالجبر یا‬ ‫(‪a‬‬
‫کسی تحویل دار (ریسیور) کا تقرر کرکے یا‬ ‫(‪b‬‬
‫ویسی جائیداد اشتہاری شخص کو اس کی طرف سے کسی اور کے‬ ‫(‪c‬‬
‫حوالہ کئے جانے کی ممانعت کے تحریری حکم کے ذریعہ سے یا‬
‫مندرجہ باال تمام یا ان میں سے کوئی دو طریقوں سے جو عدالت مناسب‬ ‫(‪d‬‬
‫سمجھے‬
‫اگر قرق طلب جائیداد غیر منقولہ ہو تو قرقی حسب دفعہ ہذا اس طور سے ہوگی کہ‬ ‫(‪4‬‬
‫اگر قرقی طلب شے ایسی اراضی ہے جس سے صوبائی حکومت کو مالگزاری ادا کی جاتی ہو تو‬
‫اس ضلع کے ٭] ڈسٹرکٹ افسر ریونیو[ کی معرفت ہوگی‪ ،‬جس کے ضلع میں وہ اراضی واقع ہو‬
‫اور باقی تمام صورتوں میں‪:‬‬
‫بذریعہ قبضہ لینے‪ ،‬یا‬ ‫(‪e‬‬
‫کسی تحصیل دار (ریسیور) کا تقرر کرکے‪ ،‬یا‬ ‫(‪f‬‬
‫بذریعہ حکم تحریری شخص اشتہاری کو یا اس کی طرف سے کی‬ ‫(‪g‬‬
‫اور کو لگان ادا کرنے یا جائیداد حوالہ کرنے کی ممانعت سے‪ ،‬یا‬
‫مندرجہ باال تمام یا اِن میں سے کسی دو طریقوں سے جو عدالت مناسب‬ ‫(‪h‬‬
‫سمجھے‬
‫اگر قرقی طلب جائیداد مال مویشی پر مشتمل ہو یا تلف ہونے والی قسم سے ہو تو‬ ‫(‪5‬‬
‫عدالت اگر مناسب سمجھے‪ ،‬اس کی فوری نیالمی کا حکم دے سکتی ہے اور یہ ز ِر نیالم عدالتی‬
‫حکم کے تابع ہوگا۔‬
‫زیر دفعہ ہذا مقرر شدہ تحویل دار کے اختیارات‪ ،‬فرائض اور ذمہ داریاں وہی ہونگی‬ ‫(‪6‬‬
‫جو مجموعہ ضابطہ دیوانی مجریہ ‪1908‬ء کے حکم (‪ )Xl‬کے تحت مقرر کردہ تحویل دار کی ہوتی‬
‫ہیں۔‬
‫دعوی یا اعتراض کسی شخص کی جانب سے ماسوائے شخص اشتہاری‬ ‫ٰ‬ ‫(‪ A-6‬اگر کوئی‬
‫کے ایسی قرقی کی تاریخ سے چھ ماہ کے اندر اس بنا پر کیا جائے دعوے دار یا اعتراض کنندہ کا‬
‫دعوی یا اعتراض کی تحقیقات کی جائیگی‬
‫ٰ‬ ‫ویسی جائیداد میں مفاد ہے اور وہ قابل قرقی نہ ہے تو‬
‫دعوی یا اعتراض‬
‫ٰ‬ ‫اور کلی یا جزوی منظور یا نامنظور کیا جا سکے گا مگر شرط یہ ہے کہ کوئی‬
‫دعوی دار یا معترض کی وفات کے بعد اس‬‫ٰ‬ ‫اس مدت کے اندر جس کی ضمن ہذا میں اجازت ہے‪،‬‬
‫کے قائم مقام قانونی کی طرف سے جاری رکھا جا سکتا ہے۔‬
‫(‪ B-6‬دعاوی یا اعتراضات زیر دفعہ (‪ )A-6‬قرقی کا حکم دینے والی عدالت میں کئے جا‬
‫دعوی یا اعتراض کسی ایسی جائیداد کی نسبت ہو‪ ،‬جس کی قرقی کا حکم ٭]‬
‫ٰ‬ ‫سکتے ہیں اور اگر‬
‫سیشن جج[ نے ضمنی دفعہ (‪ )2‬کے مطابق تظہیر کرکے دیا ہو تو اس مجسٹریٹ کی عدالت میں‬
‫دعوی یا اعتراض کی تحقیقات وہ عدالت ٭] یا مجسٹریٹ[ کرے گا جس‬
‫ٰ‬ ‫(‪ C-6‬ایسے ہر‬
‫دعوی یا اعتراض کیا جائے۔‬
‫ٰ‬ ‫کے روبرو‬
‫فقرہ شرطیہ‪ ] :‬حذف شدہ بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء[‬
‫دعوی یا اعتراض ضمنی دفعہ (‪ )A-6‬کے کسی حکم کے‬ ‫ٰ‬ ‫(‪ D-6‬کوئی شخص جس کا‬
‫بموجب کلی یا جزوی طور پر نامنظور کردیا گیا ہو کو اختیار ہے کہ ویسے حکم کی تاریخ سے‬
‫دعوی کر سکتا ہے جس کا وہ زیر‬
‫ٰ‬ ‫ایک سال کی مدت میں اپنے اس حق کو ثابت کرنے کیلئے‬
‫تنازعہ جائیداد پر دعویدار ہے لیکن ایسے مقدمہ کے نتیجہ کے تابع اگر کوئی ہو‪ ،‬حکم حتمی ہوگا۔‬
‫(‪ E-6‬اگر مشتہر شخص اشتہار میں مذکور مدت کے اندر حاضر نہیں ہوتا تو جائیداد کو‬
‫قرقی سے واگزار کرانے کیلئے عدالت حکم صادر کرے گیا۔‬
‫اگر مشتہر شخص اشتہار میں مذکور مدت کے اندر حاضر نہیں ہوتا تو زیر قرقی‬ ‫(‪7‬‬
‫جائیداد صوبائی حکومت کے تصرف میں رہے گی اور تاریخ قرقی سے چھ ماہ تک نیالم نہیں کیا‬
‫دعوی یا اعتراض ہوا تو جب تک اس کا فیصلہ دفعہ مذکور کے‬‫ٰ‬ ‫جا سکتا اور زیر دفعہ (‪ )A-6‬کوئی‬
‫تحت نہ ہو جائے‪ ،‬سوائے اس کے کہ یہ جلد تلف ہونے والی ہو یا عدالت کی دانست میں اس کا نیالم‬
‫مالک کے مفاد میں ہوگا‪ ،‬ان دونوں صورتوں میں کسی میں عدالت جب بھی مناسب خیال کرے‪،‬‬
‫اسے نیالم کرا سکتی ہے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مندرجہ باال ذیلی دفعات (‪ )2‬تا (‪ )7‬میں قرقی کی تفصیالت درج ہیں۔ مقروض کی جائیداد‬
‫کی قرقی یا نیالمی کرکے قرض خواہوں میں رقم تقسیم کی جا سکتی ہے۔ اسالم میں اس کی اجازت‬
‫ہے۔ اس کے طریق کار اور تفصیالت عدالت خود طے کر سکتی ہے تاکہ حقوق کی ادائیگی ممکن‬
‫ہوسکے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی رائے‪ :‬اسالمی نظریاتی کونسل نے اس دفعہ کے بارے میں درج ذیل‬
‫تجویز دی ہے‪:‬‬
‫مالحظہ‪ :‬یہ دفعہ اشتہاری مجرم کی جائیداد قرق کرنے سے متعلق ہے۔ کونسل یہ محسوس کرتی‬
‫ہے کہ اس عمل سے مفرور ملزم کے اہل وعیال نان ونفقہ سے محروم ہو جائیں گے۔‬
‫تجویز‪ :‬لہٰ ذا سفارش کی جاتی ہے کہ ذیلی دفعہ (‪ 6-‬ای) کو (‪ 6-‬الف) کردیا جائے اور (‪ 6-‬ای) کا‬
‫نیا اضافہ کیا جائے جو اس مفہوم کا حاصل ہو کہ اشتہاری مجرم کی قرق شدہ غیر منقولہ جائیداد کی‬
‫آمدنی سے ہی اگر اس کے بال بچوں کی کفالت ہو رہی ہے تو اس میں سے انہیں ماہانہ گزارہ‬
‫االئونس دیا جائے۔ تاوقتیکہ اشتہاری ملزم پیش نہ ہو‘‘۔ (‪)261‬‬
‫ترمیم‪ :‬اسالمی نظریاتی کونسل کی مذکورہ سفارش مناسب معلوم ہوتی ہے کیونکہ سزا ملزم کو دی‬
‫جا سکتی ہے‪ ،‬وہ اگر مفرور ہے تو اس کی آڑ میں اس کے اہل خانہ کو فاقہ کشی پر مجبور کرنا‬
‫اسالمی اصولوں کے منافی ہے۔ لہٰ ذا مذکورہ دفعہ میں مجوزہ ترمیم کرکے انسانی حقوق کی ادائیگی‬
‫ممکن بنانی چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :89‬قرق شدہ جائیداد کی بحالی‬

‫اگر قرقی کی تاریخ سے دو سال کے اندر کوئی شخص جس کی جائیداد دفعہ ‪ 88‬کے ضمنی دفعہ‬
‫(‪ )7‬کے مطابق صوبائی حکومت کے تصرف میں ہو یا رہی ہو‪ ،‬اس عدالت کے روبرو جس کے‬
‫ماتحت ویسی عدالت ہے‪ ،‬خود حاضر ہو یا گرفتار کرکے حاضر کیا جائے اور ویسی عدالت کے‬
‫حسب اطمینان یہ ثابت کردے کہ وہ وارنٹ کی تعمیل سے گریز کرنے کی نیت سے فرار یا روپوش‬
‫نہیں ہوا تھا اور اسے اشتہار مذکور کا علم نہ تھا کہ وہ مقررہ مدت کے اندر حاضر ہو سکتا تو‬
‫زر نیالم اور باقی ماندہ جائیداد کا حصہ اس میں سے‬
‫ویسی جائیداد یا اگر وہ نیالم ہو چکی ہے تو ِ‬
‫قرقی کے سلسلے میں ہونے والے اخراجات کو منہا کرنے کے بعد اس کے حوالے کیا جائیگا۔‬

‫وضاحت‪ :‬مندرجہ باال سطور میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو مطلوب شخص خود آکر یا بذریعہ‬
‫گرفتاری پیش ہو کر ثابت کردے کہ وہ عدالتی حکم سے گریز کرنے اور گرفتاری سے بچنے کیلئے‬
‫فرار یا روپوش نہیں ہوا تھا تو اسے اس کی جائیداد واپس کردی جائیگی یا نیالمی کی صورت میں‬
‫رقم اسے دی دی جائیگی۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالم نے بھی حق ملکیت افراد معاشرہ کو عطا کیا ہے‪ ،‬قرآن مجید کی وہ آیات‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫زکوۃ اور خیرات وصدقات کی تاکید کی گئی ہے‪ ،‬ان سے انفرادی حق ملکیت‬ ‫جن میں اہل اسالم کو ٰ‬
‫خودبخود ثابت ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی مسلمان کی جائیداد اور مال پر ناجائز طریقے‬
‫تعالی ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫سے قبضہ کرنے یا اسے اس سے محروم کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ ارشاد باری‬
‫اإلثْ ِم َوأَنت ُ ْم‬ ‫اط ِل َوت ُ ْدلُواْ بِ َھا إِلَی ْال ُح َّک ِام ِلتَا ْٔ ُکلُواْ فَ ِریقًا ِ ِّم ْن أَ ْم َوا ِل النَّ ِ‬
‫اس بِ ِ‬ ‫َوالَ تَا ْٔ ُکلُواْ ا َْٔم َوالَ ُکم بَ ْینَ ُکم بِ ْالبَ ِ‬
‫ت َ ْعلَ ُمونَ (‪)262‬‬
‫’’اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں نہ کھایا کرو اور نہ مال کو حاکموں تک (بطور‬
‫رشوت) پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم غلط طریقے سے کھا لو‪ ،‬حاالنکہ تم‬
‫جانتے ہو (کہ یہ ناجائز ہے)‘‘۔‬
‫حضور اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا‪:‬‬
‫یوم ُک ْم ھذا فی بَلَ ِد ُک ْم ھذا فی َ‬
‫ش ْھ ِر ُک ْم‬ ‫ئ ُک ْم َو ا َ ْم َوالَ ُک ْم َواَع َْرا َ‬
‫ض ُک ْم‪ ،‬علیکم حرا ٌم ک ُح ْر َم ِۃ ِ‬ ‫فَا َِّن ِد َما َ‬
‫ٰھذا (‪)263‬‬
‫’’تمہارے خون‪ ،‬تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم اس طرح حرام ہیں جیسے یہ دن یہ‬
‫شہر مکہ اور یہ مہینہ‘‘۔‬
‫مندرجہ باال آیات و احادیث سے واضح ہوا کہ کسی مسلمان کا مال وجائیداد باطل طریقہ سے‬
‫لینا حرام ہے۔ لہٰ ذا کوئی فرد یا حکومتی ادارہ کسی شہری کو بالوجہ جائیداد اور مال سے محروم‬
‫نہیں کر سکتا۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس دفعہ کے بارے میں اسالمی نظریاتی کونسل نے یہ تجویز‬
‫دی ہے‪:‬‬
‫’’اس دفعہ کے ابتدائی الفاظ (‪’’ If within two years‬قرقی کے بعد دو سال کے اندر‘‘)‬
‫کو حذف کرکے ان کی جگہ یہ الفاظ لکھ دیئے جائیں۔ (‪’’ When ever after‬قرقی کے بعد جب‬
‫کبھی‘‘) تاکہ دو سال کی قید ختم ہو جائے۔ اس لئے کہ وہ اس جائیداد کا مالک اور اس کے حق کو‬
‫خالف شرع ہے‘‘۔ (‪)264‬‬
‫ِ‬ ‫دو سال کی مدت کیلئے محدود کرنا‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں سے دو سال کی مدت کو حذف کرکے کسی کے حق جائیداد کو ہمیشہ‬
‫کیلئے قائم کردینا چاہئے تاکہ کسی فرد کی حق تلفی نہ ہو۔‬

‫(ت) حکم نامہ جات کے متعلق دیگر قواعد‬

‫دفعہ نمبر ‪ :90‬سمن کی بجائے یا سمن کے عالوہ وارنٹ کا اجراء‬


‫کوئی عدالت کسی مقدمہ میں جس میں اسے مجموعہ ہذا کی رو سے کسی شخص‬ ‫(‪1‬‬
‫کی حاضری کے لئے سمن جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہو‪ ،‬مجاز ہوگی کہ اپنے وجوہ تحریر میں‬
‫النے کے بعد اس کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کرے۔‬
‫اگر ویسا سمن جاری کرنے سے قبل یا اسے جاری کرنے کے بعد‬ ‫(‪a‬‬
‫مگر اس تاریخ سے پیشتر جو اس کی حاضری کے لئے مقرر ہو‪ ،‬عدالت یہ باور کرنے کی وجوہ‬
‫رکھتی ہو کہ وہ مفرور ہو گیا ہے یا سمن کے حکم کی تعمیل نہ کرے گا یا‬
‫اگر وہ اس تاریخ پر حاضر ہونے سے قاصر رہا ہو اور سمن کے‬ ‫(‪b‬‬
‫وقت کے اندر جائز تعمیل ثابت ہوگئی ہو کہ وہ اس کے مطابق حاضر ہو سکتا اور ایسی کوتاہی کا‬
‫کوئی معقول عذر پیش نہ کیا گیا ہو۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬عدالت مطلوب شخص کو پہلے سمن اور پھر وارنٹ جاری کر سکتی ہے‪،‬‬‫اسالمی ٔ‬
‫خصاف کہتے ہیں کہ ایک شخص قاضی کے پاس آکر کہتا ہے کہ فالں شخص کے ذمہ میرا حق ہے‬ ‫ؒ‬
‫اور وہ اپنے گھر میں چھپا ہے تو قاضی مدعی کو اپنی طرف سے کوئی عالمت دے دے جسے وہ‬
‫مدعا علیہ کو جا کر دکھائے اور اس پر کسی کو گواہ بنا لے۔ (‪)265‬‬
‫قاضی کا مدعا علیہ کو کوئی نشانی دے کر بالنا گویا سمن کا قائم مقام ہے۔ اگر اس سے‬
‫مازہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫مقصد حاصل نہ ہو تو پھر دوسرے اقدام کے بارے میں ابن‬
‫’’جب مدعی مدعا علیہ کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر قاضی کے ہاں گواہ پیش کردے تو‬
‫قاضی مدعا علیہ کو عدالت میں پیش کرنے کے معاملے میں حاکم (افسر عالقہ) کو لکھے۔ اس طرح‬
‫لوگوں کو ان کے حقوق مل جائینگے کیونکہ حاکم لوگوں کے حوق دلوانے کیلئے مقرر ہوا ہے‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫قاضی اس کا تعاون حاصل کرے‘‘۔ (‪)266‬‬
‫حاکم (افسر عالقہ) کو تحریری طور پر قاضی کا حکم دینا کہ وہ مدعا علیہ کو حاضر کرے‪،‬‬
‫یہ گویا وارنٹ کا قائم مقام ہے تاکہ ہر ممکن طریقہ سے مدعا علیہ کی عدالت میں حاضری کو یقینی‬
‫بنایا جائے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی چیز اسالمی اصولوں کے منافی دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :91‬حاضری کیلئے مچلکہ لینے کا اختیار‬

‫جب ایسا شخص جس کے حاضر یا گرفتار کرنے کیلئے حاکم اجالس کنندہ عدالت سمن یا وارنٹ‬
‫کے اجراء کا اختیار رکھتا ہو‪ ،‬ویسی عدالت میں حاضر ہو تو ویسا حاکم مجاز ہے کہ ویسے شخص‬
‫سے مچلکہ مع یا بغیر ضامنوں کے عدالت مذکور میں حاضری کیلئے تحریر کرائے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کہا گیا ہے کہ عدالت جس شخص کی گرفتاری کا وارنٹ‬
‫اسالمی ٔ‬
‫جاری کرے۔ اسے دوبارہ حاضر کرنے کیلئے اس سے ضامنوں کے ساتھ یا بغیر ضامن مچلکہ‬
‫تحریر کرائے۔ ملزم کی عدالت میں دوبارہ حاضری کو اسالمی تعلیمات کی رو سے یقینی بنانے‬
‫کیلئے مچلکہ لیا جا سکتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے۔‬
‫الزعیم غار ٌم (‪’’ )267‬ضامن تاوان ادا کرے گا‘‘۔‬ ‫٭‬
‫مطلب یہ کہ اگر عدالت میں کسی دوسرے شخص کو ملزم کی دوبارہ حاضری کیلئے ضامن‬
‫بنایا جائے یا ملزم سے اس کا مطالبہ کیا جائے تو جائز ہے تاکہ وہ فرار نہ ہو سکے اور حقدار کو‬
‫اس کا حق مل سکے اور ملزم کی دوبارہ حاضری کا ضامن ذمہ دار ہے۔‬
‫اسی طرح ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو تہمت میں قید کیا اور اس کی‬ ‫٭‬
‫دوبارہ حاضری کو یقینی بنانے کیلئے اور احتیاط کے طور پر اس سے ضامن لیا۔‬
‫اخذ من متھم کفیالً تثبتا ً و احتیاطا (‪)268‬‬
‫مندرجہ باال دونوں احادیث مبارکہ سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ مطلوبہ شخص کی‬
‫عدالت میں دوبارہ حاضری کیلئے اس سے ضامن لیا جا سکتا ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :92‬مچلکہ حاضری کی خالف ورزی پر گرفتاری‬

‫جب کوئی شخص جو مجموعہ ہذا کے تحت کسی مچلکہ سے پابند ہو کہ کسی عدالت میں حاضر‬
‫ہوگا‪ ،‬اس طور پر حاضر نہ ہو تو ایسی عدالت کا افسر جلیس یہ ہدایت کرتے ہوئے وارنٹ جاری‬
‫کرنے کا مجاز ہوگا کہ ایسے شخص کو گرفتار کیا جائے اور اس کے روبرو پیش کیا جائے۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ کی وضاحت کرتے ہوئے مظہر نظامی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫" ‪It is the duty of the person for whose appearance a bond has been given‬‬
‫‪)269( ."to appear at the time when he is bond to appear‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :93‬باب ہذا کے احکام بالعموم سمنات اور وارنٹ گرفتاری پر اطالق پذیر ہوں گے‬

‫سمن اور وارنٹ کی بابت احکام اور ان کا اجراء اور تعمیل جو باب ہذا میں درج ہیں کا جہاں تک‬
‫ممکن ہو مجموعہ ہذا کے تحت جاری کردہ سمن اور وارنٹ گرفتاری پر اطالق ہوگا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مندرجہ باال دفعہ بالکل واضح ہے‪ ،‬لہٰ ذا کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫(ٹ) خاص قواعد بابت حکمنامہ جات جو بیرون پاکستان تعمیل کیلئے بھیجے جائیں‬
‫اور بابت حکمنامہ جات جو باہر سے پاکستان میں برائے تعمیل موصول ہوں‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-93‬تعمیل کیلئے سمن کا پاکستان سے باہر بھیجنا‬


‫اگر پاکستان کی کوئی عدالت چاہے کہ کسی ملزم پر جاری کردہ سمن کو پاکستان‬ ‫(‪1‬‬
‫کے باہر وفاقی حکومت کے بیرون ملک اختیار سماعت کے بموجب حکم سے قائم کی ہوئی یا‬
‫برقرار رکھی ہوئی کسی عدالت کے احاطہ اختیار کی مقامی حدود کے اندر تعمیل ہو تو اس پر الزم‬
‫ہے کہ وہ سمن مذکور ایک نقل کے ہمراہ بذریعہ ڈاک یا کسی اور طرح اس عدالت کے اجالس کنندہ‬
‫کے پاس تعمیل کیلئے بھیجے۔‬
‫(‪ 2‬دفعہ ہذا کے تحت تعمیل کیلئے ارسال کردہ سمن کی صورت میں دفعہ ‪ 74‬کے‬
‫احکام اس طرح اطالق پذیر ہوں گے گویا جس عدالت کو وہ بھیجا گیا ہے‪ ،‬اس کا افسر اجالس کنندہ‬
‫پاکستان میں مجسٹریٹ ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :B-93‬تعمیل کیلئے وارنٹ کو پاکستان سے باہر بھیجنا‬

‫احکام دفعہ ‪ 82‬کے باوجود اگر پاکستان کی کوئی عدالت چاہے کہ کسی ملزم کی گرفتاری کیلئے اس‬
‫کے جاری کردہ وارنٹ کی پاکستان سے باہر وفاقی حکومت کے بیرون ملک اختیار سماعت کے‬
‫بموجب حکم سے قائم شدہ یا برقرار شدہ کسی عدالت کے اختیار کی مقامی حدود کے اندر تعمیل ہو‬
‫تو وہ وارنٹ بیرون پاکستان بذریعہ ڈاک یا کسی اور طرح اس عدالت کے افسر اجالس کنندہ کے‬
‫پاس تعمیل کیلئے بھیج سکتی ہے۔‬

‫بیرون پاکستان سے موصول شدہ حکمنامہ جات کی پاکستان میں تعمیل‬


‫ِ‬ ‫دفعہ نمبر ‪:C-93‬‬

‫اگر کسی عدالت کو پاکستان کے باہر وفاقی حکومت کے بیرون ملک اختیار سماعت‬ ‫(‪1‬‬
‫کے بموجب حکم سے قائم کی ہوئی یا برقرار رکھی ہوئی کسی عدالت کا جاری کردہ سمن کسی‬
‫ملزم پر تعمیل کرنے کیلئے یا وارنٹ کسی ملزم کو گرفتار کرنے کیلئے موصول ہو تو اسے الزم‬
‫ہوگا کہ وہ اس کی ویسے ہی تعمیل کروائے‪ ،‬گویا وہ ایسا سمن یا وارنٹ ہے جو اسے پاکستان میں‬
‫کسی عدالت سے اس کے احاطہ اختیار کی مقامی حدود کے اندر تعمیل کیلئے موصول ہوا ہے۔‬
‫اگر کوئی وارنٹ اس طرح تعمیل کیا جائے تو گرفتار شدہ شخص کے خالف جہاں‬ ‫(‪2‬‬
‫تک ممکن ہو‪ ،‬دفعات ‪ 85‬اور ‪ 96‬میں مقرر شدہ ضابطہ کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مندرجہ باال دفعات نمبر ‪ A, 93-B, 93-C-93‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی‬
‫معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬
‫(باب نمبر ‪)7‬‬
‫حکمنامہ جات برائے جبریہ پیشی دستاویزات ودیگر جائیداد منقولہ اور‬
‫برائے انکشاف اشخاص جو حبس بے جا میں رکھے گئے کی بابت‬

‫(الف) پیش کرنے کیلئے سمن‬


‫دفعہ نمبر ‪ :94‬دستاویز یا دیگر شے پیش کرنے کیلئے سمن‬
‫جب کوئی عدالت یا کوئی افسر انچارج پولیس سٹیشن کسی دستاویز یا دیگر شے کا‬ ‫(‪1‬‬
‫پیش کرنا بغرض تفتیش یا تحقیقات یا تجویز یا دیگر کارروائی جو مجموعہ ہذا کے بموجب ویسی‬
‫عدالت یا افسر انچارج کی معرفت یا اس کے روبرو ہو رہی ہو‪ ،‬ضروری یا مناسب خیال کرے تو‬
‫ویسی عدالت سمن یا ویسا افسر انچارج حکم تحریری اس شخص کے نام جاری کرنے کا مجاز ہے‪،‬‬
‫جس کے قبضے یا اختیار میں ویسی دستاویز یا شے کا ہونا باور کیا جائے‪ ،‬اسے حکم دیتے ہوئے‬
‫کہ وہ تاریخ اور مقام مندرجہ سمن یا حکمنامہ خود حاضر ہو کر اس دستاویز یا شے کو پیش کرے یا‬
‫اس شے یا دستاویز کو حاضر کرے۔‬
‫بشرطیکہ ویسا افسر ایسی کوئی دستاویز یا شے پیش کرنے کیلئے کوئی ایسا حکم جاری نہیں کرے‬
‫گا جو کہ کسی بینک یا بینکار کی تحویل میں ہوں‪ ،‬جیسا کہ ان کی تعریف بینک کار کی کتب کے‬
‫قانون شہادت مجریہ ‪1891‬ء (‪ )XVII of 1891‬میں کی گئی ہے اور جو کہ کسی شخص کے کھاتہ‬
‫بینک سے متعلق ہو یا جو کوئی اس کے متعلق معلومات ظاہر کرے‪ ،‬سوائے‪:‬‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪ 409 ،408 ،406 ،403‬اور‬
‫مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪a‬‬
‫دفعہ ‪ 421‬تا ‪( 424‬بشمول ہر دو) اور دفعہ ‪ 465‬تا ‪( A-477‬بشمول ہر دو) کے تحت جرم کی تفتیش‬
‫کرنے کی غرض کیلئے سیشن جج کی پیشگی تحریری اجازت کے۔‬
‫دیگر مقدمات میں ہائی کورٹ کی پیشگی تحریری اجازت کے۔‬ ‫(‪b‬‬
‫کوئی شخص جسے دفعہ ہذا کے بموجب دستاویز یا دیگر شے کو محض پیش کرنے‬ ‫(‪2‬‬
‫ت خود حاضر ہو کر پیش کرنے کی بجائے ایسی دستاویز یا شے پیش‬
‫کا حکم ہوا ہو‪ ،‬اگر وہ انہیں بذا ِ‬
‫کرا دے تو یہ سمجھا جائیگا کہ اس نے تعمیل کردی ہے۔‬
‫اس دفعہ کی کسی عبارت سے قانون شہادت ‪1984‬ء کے آرٹیکلز ‪ 6‬اور ‪ 7‬متاثر‬ ‫(‪3‬‬
‫نہیں ہونگے‪ ،‬نہ ہی کسی چٹھی‪ ،‬پوسٹ کارڈ یا تار یا دوسری دستاویز یا کسی پارسل یا شے پر اس‬
‫کا اطالق ہوگا‪ ،‬جو محکمہ ڈاک کی تحویل میں ہو۔‬
‫٭]پنجاب میں ترمیم‪ :‬بشرطیکہ کوئی افسر ایسی کوئی دستاویز یا شے پیش کرنے کیلئے‬
‫کوئی ایسا حکم جاری نہیں کرے گا جو کہ کسی بینک یا بینکار کی تحویل میں ہوں‪ ،‬جیسا کہ ان کی‬
‫تعریف بینکار کی کتب کے قانون شہادت مجریہ ‪1981‬ء (‪ )XVIII of 1891‬میں کی گئی ہے اور‬
‫جو کہ کسی شخص کے کھاتہ بینک سے متعلق ہو یا جو کوئی اس کے متعلق معلومات ظاہر کرے‪،‬‬
‫اختیار‬
‫ِ‬ ‫سوائے اس کے کہ ہائی کورٹ یا سیشن جج کی پیشگی تحریری اجازت لی گئی ہو‪ ،‬جن کے‬
‫سماعت میں ویسا بینک یا بینکار جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬واقع ہو یا کاروبار کرتا ہو۔[‬

‫تبصرہ ‪ /‬ترمیم‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے برعکس دکھائی نہیں دیتی‪،‬‬
‫لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :95‬خطوط اور تار سے متعلق ضابطہ‬

‫اگر کوئی دستاویز‪ ،‬پارسل یا شے جو ویسی تحویل میں ہو‪ ،‬کسی ]‪19‬٭٭٭[‬ ‫(‪1‬‬
‫مجسٹریٹ یا عدالت عالیہ یا عدالت سیشن کی دانست میں کسی تفتیش‪ ،‬تحقیق‪ ،‬تجویز یا مجموعہ ہذا‬
‫کے تحت دیگر کارروائی کیلئے درکار ہو تو ویسا مجسٹریٹ یا عدالت مجاز ہے کہ حکام محکمہ‬
‫ڈاک یا تار کو‪ ،‬جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬ہدایت کرے کہ ویسی دستاویز‪ ،‬پارسل یا شے ایسے شخص‬
‫کے حوالے کرے جس کی بابت ویسا مجسٹریٹ یا عدالت ہدایت کرے۔‬
‫اگر کوئی ویسی دستاویز یا پارسل یا شے کسی اور مجسٹریٹ یا ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ‬ ‫(‪2‬‬
‫پولیس کی دانست میں کسی ایسے مقصد کیلئے درکار ہو تو اسے اختیار ہے کہ وہ محکمہ ڈاک یا‬
‫تار کو جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬حکم دے کہ ویسی دستاویز یا پارسل یا شے کو تالش کرائے اور‬
‫]٭٭٭[ عدالت کے احکام ہونے تک اسے روک رکھے۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬ترمیم‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے برعکس معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫(ب) پروانہ تالشی‬

‫دفعہ نمبر ‪ :96‬پروانہ تالشی کب جاری کیا جا سکتا ہے‬

‫جب کوئی عدالت اس امر کے باور کرنے کی وجہ رکھتی ہو کہ وہ شحص جس کے‬ ‫(‪1‬‬
‫نام دفعہ ‪ 94‬کے تحت سمن یا حکم یا دفعہ ‪ 95‬کی ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت بھیجا گیا یا بھیجا‬
‫جائے‪ ،‬دستاویز یا شے کو ایسے سمن یا حکم کے مطابق پیش نہ کرے گا۔‬
‫یا جب عدالت کو اس بات کا علم نہ ہو کہ ویسی دستاویز یا شے کسی شخص کے قبضہ میں ہے۔‬
‫یا جب عدالت یہ خیال کرے کہ تحقیق‪ ،‬تجویز یا اس مجموعہ کے تحت دیگر کارروائی کے مقاصد‬
‫عام تالش یا معائنے سے حاصل ہوں گے‪ ،‬تو عدالت وارنٹ تالشی جاری کر سکتی ہے۔‬
‫اور وہ شخص جس کے نام ویسا وارنٹ لکھا جائے‪ ،‬مجاز ہوگا کہ وارنٹ اور بعد ازیں درج احکام‬
‫کے مطابق تالشی لے یا معائنہ کرے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ جب عدالت یہ یقین کرنے کی وجہ رکھتی ہو کہ‬‫اسالمی ٔ‬
‫فالں شخص دوران مقدمہ عدالت میں پیش کی جانیوالی کسی چیز یا دستاویز پیش نہ کریگا اور اس‬
‫کارروائی کے مقاصد عام تالشی سے حاصل ہوں گے تو عدالت تالشی کا وارنٹ جاری کر سکتی‬
‫ہے۔‬
‫نظام‬
‫ِ‬ ‫کسی ایسے مقام کی تالشی کے احکامات یا وارنٹ تالشی جاری کرنے کا جواز اسالمی‬
‫عدالت میں بھی ہے تاکہ مقدمے کی کارروائی ہر طرح کی شہادتوں اور دستاویز کی مدد سے مکمل‬
‫کی جائے اور کوئی ابہام باقی نہ رہے۔‬
‫مازہ لکھتے ہیں کہ ایک شخص کا کسی کے ذمہ کوئی قرضہ ہے اور وہ‬ ‫ؒ‬ ‫اس بارے میں ابن‬
‫اپنے گھر میں چھپ گیا ہے‪ ،‬قاضی کو بھی اس کا علم ہے تو قاضی اپنے دو قابل اعتماد آدمیوں‪،‬‬
‫عورتوں اور خدام کی ایک جماعت اور چند مددگاروں کو وہاں بھیجے۔ مرد دروازہ پر کھڑے ہو‬
‫جائیں اور عورتیں بغیر اجازت لئے اندر داخل ہو جائیں اور گھر کی عورتوں کو آگاہ کریں‪ ،‬پھر‬
‫مرد داخل ہو جائیں اور گھر کی تالشی شروع کردیں‪ ،‬مدعا علیہ نہ ملے تو عورتوں سے کہیں کہ‬
‫مدعا علیہ کی عورتوں کے درمیان اسے تالش کریں۔ ممکن ہے وہ ان میں چھپا ہوا ہو۔ (‪)270‬‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی رائے‪ :‬اس دفعہ کے ضمن میں نظریاتی کونسل کی یہ رائے ہے۔‬
‫تجویز‪ :‬ذیلی دفعہ (‪ )2‬میں مستعمل الفاظ ’’ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ‘‘ کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سے‬
‫بدل دیا جائے اور مجسٹریٹ کے ساتھ جوڈیشل کا اضافہ کیا جائے۔اس لئے کہ عدلیہ کو انتظامیہ‬
‫سے پہلے ہی الگ کیا جا چکا ہے‪ ،‬لہٰ ذا یہاں عدلیہ کے عہدیداران ہونے کی مناسبت سے الفاظ لکھنا‬
‫مناسب ہوگا۔ (‪)271‬‬

‫] بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء مورخہ ‪ 2001-08-13‬کو منسوخ کی‬ ‫(‪2‬‬


‫گئی۔[‬

‫دفعہ نمبر ‪ :97‬وارنٹ کو محدود کرنے کا اختیار‬

‫عدالت مجاز ہے کہ وہ اگر مناسب سمجھے تو وارنٹ میں اس خاص مقام یا حصہ مقام کی صراحت‬
‫کردے‪ ،‬جس حد تک تالشی یا معائنہ کیا جائیگا اور وہ شخص جسے ویسے وارنٹ کی تعمیل سپرد‬
‫ہوئی ہو‪ ،‬صرف اس مقام یا حصے کی تالشی یا معائنہ کریگا‪ ،‬جس کی اس طرح صراحت کی گئی‬
‫ہو۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :98‬اس مکان کی تالشی جس میں مال مسروقہ یا جعلی دستاویز ہونے کا شبہ ہو‬

‫اگر ]٭٭٭[ مجسٹریٹ درجہ اول کسی اطالع پر ایسی تحقیقات کے بعد جو وہ‬ ‫(‪1‬‬
‫ضروری سمجھے‪ ،‬اس امر کے باور کرنے کی وجہ رکھتا ہو کہ کوئی مقام مال مسروقہ رکھنے یا‬
‫فروخت کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے‪ ،‬یا جعلی دستاویز‪ ،‬نقلی مہریں یا جعلی اسٹام‪ ،‬بینک نوٹ‪،‬‬
‫کرنسی نوٹ یا سکے یا جعلی سکے‪ ،‬اسٹام‪ ،‬بینک نوٹ یا کرنسی نوٹ بنانے کیلئے اوزار یا سامان‬
‫بنایا جاتا ہے‪ ،‬رکھا جاتا ہے یا فروخت کیا جاتا ہے یا کسی جگہ میں کوئی جعلی دستاویزات‪ ،‬نقلی‬
‫مہریں یا جعلی اسٹام یا سکے یا جعلی سکے یا اسٹام بنانے کے اوزار یا سامان رکھا یا جمع کیا جاتا‬
‫ہے‪ ،‬یا کسی فحش شے جیسی کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ‪ 292‬میں محولہ ہے‪ ،‬جمع یا‬
‫فروخت کرنے‪ ،‬بڑے پیمانے پر بنانے یا تیار کرنے کیلئے یا ایسی جگہ میں کوئی فحش شے رکھی‬
‫یا جمع کرائی جاتی ہے تو اسے اختیار ہوگا کہ وہ وارنٹ کے ذریعہ کسی پولیس افسر کو جو‬
‫کانسٹیبل سے اوپر درجہ کا ہو‪ ،‬اختیار دے۔‬
‫ایسی جگہ میں ایسی مدد کے ساتھ جو ضروری ہو داخل ہو اور‬ ‫(‪a‬‬
‫وارنٹ میں درج شدہ طریقے کے مطابق اس مقام کی تالشی لے۔‬ ‫(‪b‬‬
‫ضمنی دفعہ نمبر ‪ 1‬میں مذکورہ اشیاء جو وہاں دستیاب ہوں‪ ،‬جن کے‬ ‫(‪c‬‬
‫متعلق اسے معقول شبہ ہو کہ وہ چرائی گئی ہیں‪ ،‬غیر قانونی طور سے حاصل کی گئی ہیں‪ ،‬جعلی‪،‬‬
‫نقلی یا بناوٹی ہیں‪ ،‬نیز ایسے اوزار یا سامان یا مذکورہ باال فحش مواد اپنے قبضہ میں کر لے اور‬
‫انہیں کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کردے یا مجرم کے‬ ‫(‪d‬‬
‫مجسٹریٹ کے روبرو حاضر کئے جانے تک ان کی نگرانی کرے یا محفوظ جگہ رکھوا دے اور‬
‫ہر وہ شخص جو ویسے مقام پر موجود ہو اور مذکورہ باال کو ذخیرہ‬ ‫(‪e‬‬
‫کرنے‪ ،‬فروخت کرنے یا تیار کئے جانے یا رکھنے سے واقف ہو یا اس بارے میں شبہ ہو کہ معقول‬
‫وجہ رکھتا ہو کہ یہ مال غیر قانونی طور پر حاصل کیا گیا ہے یا مذکورہ باال جعلی یا نقلی ہیں یا وہ‬
‫اوزار نقلی اور جعلی بنانے میں استعمال کئے گئے ہیں یا اس کا ارادہ تھا یا فحش مواد فرووخت کیا‬
‫یا فروخت کا ارادہ تھا‪ ،‬تقسیم کیا یا اعالنیہ دکھایا‪ ،‬گشتی طور پر مشتہر کیا گیا‪ ،‬درآمد یا برآمد کیا گیا‬
‫کو حراست میں لیکر مجسٹریٹ کے روبرو لے جائے۔‬
‫دفعہ ہذا کے احکام بابت‪:‬‬ ‫(‪2‬‬
‫جعلی سکے کے‬ ‫(‪a‬‬
‫سکہ‪ ،‬جس پر جعلی ہونے کا شبہ ہو‪ ،‬اور‬ ‫(‪b‬‬
‫ایسے اوزار یا سامان جو سکہ سازی کیلئے استعمال ہوں‬ ‫(‪c‬‬
‫مذکورہ باال جہاں تک ان کا اطالق ہو سکتا ہے‪ ،‬بالترتیب متعلق ہونگے‪:‬‬
‫ایسے دھات کے ٹکڑے جو میٹل ٹوکن ایکٹ ‪1889‬ء کی خالف‬ ‫(‪a‬‬
‫ورزی میں بنائے جائیں یا پاکستان میں زیر دفعہ ‪ 16‬کسٹم ایکٹ کے نوٹیفکیشن نافذ الوقت کی خالف‬
‫ورزی کرکے الئے گئے ہوں۔‬
‫دھات کے ٹکڑے جن کے متعلق شبہ ہو کہ وہ اس طور سے بنائے‬ ‫(‪b‬‬
‫اندرون پاکستان الیا گیا ہے یا مذکورہ قوانین میں سے اول الذکر کی‬
‫ِ‬ ‫گئے ہیں یا انہیں اس طرح‬
‫خالف ورزی میں ان کے اجراء کا ارادہ ہے۔‬
‫قانون مذکور کی خالف ورزی کرتے‬
‫ِ‬ ‫ایسے اوزار یا سامان جو‬ ‫(‪c‬‬
‫ہوئے دھات کے ٹکڑے بنانے میں مستعمل ہوں۔‬

‫وضاحت‪ :‬مذکورہ دفعہ میں فحش مواد کی فروخت‪ ،‬اس کی تیاری‪ ،‬کرائے پر دینے‪ ،‬تقسیم کرنے‪،‬‬
‫اعالنیہ دکھانے‪ ،‬مشتہر کرنے‪ ،‬درآمد یا برآمد کرنے والے کو مجرم قرار دیا گیا ہے اور حکومت‬
‫کے اہلکاروں کو اختیار دیا ہے کہ وہ ایسے شخص کو گرفتار کرکے مجسٹریٹ کے سامنے پیش‬
‫کریں تاکہ اسے سزا دی جا سکے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالم میں یہ تمام امور سخت ممنوع ہیں اور کسی بھی طرح سے اشاعت فحش‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کی مخالفت اور مذمت کی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے‪:‬‬
‫ش ُۃ فِی الَّذِینَ آ َمنُوا لَ ُھ ْم َ‬
‫عذَابٌ أَ ِلی ٌم فِی الدُّ ْنیَا َو ْاْل ِخ َرۃِ‬ ‫إِ َّن الَّذِینَ ی ُِحبُّونَ أَن تَشِی َع ْالفَ ِ‬
‫اح َ‬ ‫(‪1‬‬
‫(‪)272‬‬
‫’’بیشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے‪ ،‬ان کے لئے دُنیا‬
‫وآخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘۔‬
‫ع ِن ْالفَحْ شَاء َو ْال ُمنک َِر (‪)273‬‬
‫ص َالۃ َ ت َ ْن َھی َ‬
‫ِإ َّن ال َّ‬ ‫(‪2‬‬
‫’’بے شک نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔‬
‫ّللاِ َما الَ ت َ ْعلَ ُمونَ (‪)274‬‬ ‫سوء ِ َو ْالفَحْ شَاء َوأَن تَقُولُواْ َ‬
‫علَی ِّ‬ ‫ِإنَّ َما یَا ْٔ ُم ُر ُک ْم ِبال ُّ‬ ‫(‪3‬‬
‫’’بے شک شیطان تمہیں بُرائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے‘‘۔‬
‫ع ِلی ٌم‬ ‫ضالً َو ِّ‬
‫ّللاُ َوا ِس ٌع َ‬ ‫ان یَ ِعدُ ُک ُم ْالفَ ْق َر َویَا ْٔ ُم ُر ُکم بِ ْالفَحْ شَاء َو ِّ‬
‫ّللاُ یَ ِعدُ ُکم َّم ْغ ِف َرۃ ً ِ ِّم ْنہُ َوفَ ْ‬ ‫ط ُ‬‫ش ْی َ‬
‫ال َّ‬ ‫(‪4‬‬
‫(‪)275‬‬
‫’’بے شک شیطان تمہیں تنگدستی سے ڈراتا اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور ہللا‬
‫تعالی وسعت واال علم واال ہے‘‘۔‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی تم سے بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اور ہللا‬ ‫ٰ‬
‫ّللاِ َما الَ ت َ ْعلَ ُمونَ (‪)276‬‬
‫علَی ِّ‬ ‫ّللاَ الَ یَا ْٔ ُم ُر بِ ْالفَحْ شَاء أَتَقُولُونَ َ‬
‫قُ ْل إِ َّن ِّ‬ ‫(‪5‬‬
‫تعالی بے حیائی کا حکم نہیں دیتا کیا تم ہللا کے‬
‫ٰ‬ ‫’’آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ بے شک ہللا‬
‫بارے میں وہ بات کہتے ہو جو تم نہیں جانتے‘‘۔‬
‫احادیث مبارکہ‪ :‬حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ش ْال ُمتْفَ ِ ِّح َ‬
‫ش َوالَ ال َّ‬
‫صبَّا َح فِی االسواق (‪)277‬‬ ‫ا َِّن اہللاَ الَ ی ُِحبُّ ْالفَ ِ‬
‫اح َ‬
‫تعالی فحش گو اور فحش گوئی کرنیوالے کو اور بازاروں میں چیخنے والے کو‬
‫ٰ‬ ‫’’بیشک ہللا‬
‫پسند نہیں کرتا‘‘۔‬
‫نیز حدیث مبارکہ ہے‪:‬‬
‫الحیاء شعب ٌہ من االیمان (‪’’ )278‬حیاء ایمان کا حصہ ہے‘‘۔‬
‫اح ِش َوالَ ْالبَد ِ ِّ‬
‫ِی (‪)279‬‬ ‫ان‪َ ،‬والَ ْالفَ ِ‬
‫ان‪َ ،‬والَ اللَّعَّ ِ‬ ‫ْس ْال ُم ْو ِم ُن بِ َّ‬
‫الطعَّ ِ‬ ‫لَی َ‬
‫’’مومن طعن کرنے واال‪ ،‬لعنت بکنے واال‪ ،‬فحش گو اور بدزبان نہیں ہوتا‘‘۔‬
‫علی نے فرمایا‪:‬‬
‫حضرت ؓ‬
‫االثْ ٍم سواء (‪)280‬‬
‫ش َۃ َوالَّذِی یَ ِش ْی ُع بِ َھا فِی ْ ِ‬ ‫القائِ ُل ْالفَ ِ‬
‫اح َ‬
‫’’فحش کہنے واال اور اسے پھیالنے واال دونوں گناہ میں برابر ہیں‘‘۔‬
‫یل نے فرمایا کہ‪:‬‬ ‫حضرت ُ‬
‫ش َب ؒ‬
‫’’سلف میں یہ مشہور تھا کہ جو فحش بات سن کر اُسے پھیال دے‪ ،‬تو وہ ایسا ہے جیسا کہ‬
‫اُس نے خود ارتکاب کیا‘‘۔(‪)281‬‬
‫عطاء فرماتے ہیں کہ‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫حضرت‬
‫’’جو شخص زنا کی اشاعت کرے‪ ،‬اسے سزا دی جائے‪ ،‬اس نے فاحشہ کی اشاعت کی‘‘۔‬
‫(‪)282‬‬
‫مندرجہ باال آیات واحادیث اور آثار سے ثابت ہوا کہ اسالم نے فحاشی کی اشاعت وترویح کی‬
‫شدید مذمت کرتے ہوئے اسے شیطانی فعل قرار دیکر مومن کی شان سے بعید قرار دیا ہے۔‬
‫مذکورہ دفعہ میں یہ بھی ہے کہ غیر قانونی کاروبار میں ملوث مکان کی تالشی بھی لی جا‬
‫بلتعہ والی حدیث سے اسالم میں تالشی کا جواز بھی ثابت ہوتاہے۔‬
‫ؓ‬ ‫سکتی ہے۔ حضرت حاطب بن ابی‬
‫(‪)283‬‬
‫ؓ‬
‫فاروق نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا کہ مجھے پتہ چال‬ ‫نیز ایک دفعہ حضرت عمر‬
‫ہے کہ قبیلہ قریش اور بنو ثقیف کے دو اشخاص کے گھر میں شراب موجود ہے‪ ،‬میں آکر دونوں‬
‫گھروں کو دیکھوں گا‪ ،‬اگر صحیح ہے تو دونوں کے گھروں کو جال دوں گا‪ ،‬قریشی نے یہ سنکر‬
‫عمر جب آئے تو قریشی کے گھر کچھ نہ پایا‬‫شراب پھینک دی مگر ثقفی نے ایسا نہ کیا۔ حضرت ؓ‬
‫آپ نے گھر جال دیا۔ (‪)284‬‬
‫جبکہ ثقفی کے گھر شراب موجود تھی‪ ،‬چنانچہ ؓ‬
‫بخاری کہتے ہیں کہ ہمارے ائمہ کرام سے ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔ البتہ ان‬
‫ؒ‬ ‫ابن مازہ‬
‫آپ نے گھر منہدم کردیا اور شراب کے برتنوں کو توڑ دیا۔ (‪)285‬‬
‫سے یہ روایت ہے کہ ؓ‬
‫مندرجہ باال روایت سے ثابت ہوا کہ جرم واقع ہونے والے مکان میں داخل ہونا‪ ،‬اس کی‬
‫تالشی لینا‪ ،‬اسے گرا دینا اور شراب کے برتنوں کو توڑ دینا‪ ،‬جرم کے آالت توڑ دینا اسالمی‬
‫عمر نے بطور خلیفہ یہ کارروائی خود کی ہے‪ ،‬آج جدید‬ ‫اصولوں کے عین مطابق ہے۔ حضرت ؓ‬
‫حاالت کے تناظر میں حکومت کی طرف سے کوئی آفیسر یا اہلکار عدالت کا جاری کردہ وارنٹ لے‬
‫جا کر یہ کارروائی کر سکتا ہے تاکہ جرائم کا سدباب ہو سکے۔‬
‫مذکورہ دفعہ میں یہ بھی ذکر ہے کہ جعلی دستاویزات یا جعلی سکے بنانا بھی جرم ہے۔‬
‫ایسے تمام افعال کی اسالم نے بھی نہ صرف حوصلہ شکنی کی ہے بلکہ اسے سخت جرم قرار دیا‬
‫ہے۔ ارشاد باری ہے‪:‬‬
‫َوالَ تَا ْٔ ُکلُواْ ا َْٔم َوالَ ُکم بَ ْینَ ُکم بِ ْالبَ ِ‬
‫اط ِل (‪)286‬‬ ‫٭‬
‫’’آپس میں ایک دوسرے کے اموال غلط طریقہ سے نہ کھائو‘‘۔‬
‫نیز فرمایا‪:‬‬
‫اط ِل َوت َ ْکت ُ ُمواْ ْال َح َّق َوا َٔنت ُ ْم ت َ ْعلَ ُمونَ (‪)287‬‬
‫سواْ ْال َح َّق بِ ْالبَ ِ‬
‫َوالَ ت َْلبِ ُ‬ ‫٭‬
‫’’اور حق سے باطل کو نہ مالئو اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپائو‘‘۔‬
‫نیز اک ِل حالل کو معاشی زندگی کا بنیادی اصول قرار دیا۔ فرمایا‪:‬‬
‫ت َوا ْع َملُوا َ‬
‫صا ِل ًحا (‪)288‬‬ ‫ُکلُوا ِمنَ َّ‬
‫الطیِِّبَا ِ‬ ‫٭‬
‫’’پاکیزہ چیزیں کھائو اور اچھے کام کرو‘‘۔‬
‫نیز حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہے‪:‬‬
‫شنَا فَلَی َ‬
‫ْس منَّا (‪)289‬‬ ‫غ َّ‬
‫َم ْن َ‬ ‫٭‬
‫’’جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔‬
‫مزید فرمایا‪:‬‬
‫ال ُمؤْ ِم ُن ِغ ٌّر ک َِر ْی ٌم َو ْالفَ ِ‬
‫اج ُر َحبٌّ ِلِّئ ْی ٌم (‪)290‬‬ ‫٭‬
‫’’مومن بھوال بھاال ہوتا ہے اور بدکار دھوکے باز اور کمینہ ہوتا ہے‘‘۔‬
‫ایک اور حدیث ہے‪:‬‬
‫لی ُک ِِّل ُم ْس ِل ْم (‪)291‬‬
‫ع ٰ‬‫ب ا ْل َحالَ ِل واجبٌ َ‬
‫طلَ ُ‬
‫َ‬ ‫٭‬
‫’’رزق حالل کی طلب ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘۔‬
‫َاق َّ‬
‫شاق اہللا علیہ (‪)292‬‬ ‫ار ا َ َ‬
‫ض َّر اہللاُ بہ َو َمن ش َّ‬ ‫َم ْن َ‬
‫ض َّ‬ ‫٭‬
‫تعالی اُسے نقصان پہنچائے اور‬
‫ٰ‬ ‫’’جس نے (کسی مسلمان کو) نقصان پہنچایا‪ ،‬ہللا‬
‫تعالی اُسے مشقت میں ڈالے‘‘۔‬ ‫ٰ‬ ‫جس نے اُسے مشقت سے دوچار کیا‪ ،‬ہللا‬
‫یہاں ہر حکم عام ہے اور خطاب عام انسانوں کیلئے ہے۔ اسالم کے جملہ اقتصادی احکام‬
‫اسی معاشی اصل کے تابع ہیں‪ ،‬وہ تمام کام جن کی وجہ سے اس مقررہ بنیاد پر اثر پڑتا ہے‪ ،‬اسالمی‬
‫روح کے خالف ہیں‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ ان کے متعلق امتناعی احکام اور ہدایات موجود ہیں۔ جعلی‬
‫کرنسی نوٹ‪ ،‬دستاویزات یا مہریں بنا کر لوگوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے‪ ،‬ان کا مال غلط طریقے سے‬
‫کھایا جاتا ہے‪ ،‬سچ اور جھوٹ کی آمیزش ہے‪ ،‬رزق حرام ہے جبکہ اسالم نے ان تمام باتوں سے‬
‫سختی سے روکا ہے لہٰ ذا ایسے کاروبار حرام ہیں اور ان سے بچنا الزم ہے۔ (‪)293‬‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس دفعہ کے ذیل نظریاتی کونسل نے یہ تجویز دی ہے‪:‬‬
‫’’اس دفعہ کی ذیلی دفعہ (‪ )1‬میں مستعمل لفظ ’’مجسٹریٹ درجہ اول‘‘ کو ’’جوڈیشل‬
‫مجسٹریٹ‘‘ سے تبدیل کیا جائے کیونکہ عدلیہ کو انتظامیہ سے پہلے ہی جدا کیا جا چکا ہے‪ ،‬لہٰ ذا ان‬
‫کے بجائے عدلیہ کے عہدیدران کی مناسبت سے الفاظ لکھنا مناسب ہوگا‘‘۔ (‪)294‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں نظریاتی کونسل کی تجویز کے مطابق جزوی تبدیلی کی جانی‬
‫چاہئے۔ باقی دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے برعکس دکھائی نہیں دیتی لہٰ ذا اسے اسی‬
‫طرح رہنے دیا جانا چاہئے۔‬
‫دوران تالشی پائی جائیں‬
‫ِ‬ ‫دفعہ نمبر ‪ :99‬ان اشیاء کی بابت کارروائی جو عالقہ اختیار کے باہر‬

‫جب کسی وارنٹ تالشی کی تعمیل میں کسی ایسے مقام پر جو اس کی جاری کنندہ عدالت کے عالقہ‬
‫کی مقامی حدود سے باہر ہو‪ ،‬ان اشیاء میں سے کوئی شے پائی جائے‪ ،‬جس کیلئے تالشی لی جا رہی‬
‫احکام مندرجہ بعد ازیں تیارکی جائے‪ ،‬فورا ً عدالت‬
‫ِ‬ ‫ہو تو ویسی اشیاء مع ان فہرست کے جو بموجب‬
‫جاری کنندہ وارنٹ کے سامنے پیش کی جائینگی‪ ،‬سوائے اس کے کہ ویسا مقام اس مجسٹریٹ کے‬
‫اختیار سماعت رکھتا ہو‪ ،‬بہ نسبت ویسی عدالت اس صورت میں اشیاء اور‬
‫ِ‬ ‫قریب تر ہے جو اس میں‬
‫ان کی فہرست فورا ً ویسے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کی جائینگی اور سوائے اس کے کہ اس کے‬
‫برعکس معقول وجہ ہو‪ ،‬ایسا مجسٹریٹ یہ حکم صادر کریگا کہ انہیں ویسی عدالت میں لے جایا‬
‫جائے۔‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ‬
‫کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-99‬بعض مطبوعات کی ضبطی کے اعالن کا اختیار اور اُن کیلئے وارنٹ تالشی‬
‫جاری کرنا‬

‫جبکہ‪:‬‬ ‫(‪1‬‬
‫کوئی اخبار یا کتاب حسب تعریف مندرج مغربی پاکستان طباعت و‬ ‫(‪a‬‬
‫اشاعت آرڈیننس ‪1963‬ء یا طباعت و اشاعت سے متعلق کوئی قانون جو نافذ الوقت ہو‪ ،‬یا‬
‫کوئی دستاویز جہاں طبع ہو‪ ،‬جس میں صوبائی حکومت کی دانست‬ ‫(‪b‬‬
‫میں کوئی شر انگیز یا بغاوت انگیز مواد یا کوئی ایسا امر جو قومی یکجہتی کے خالف ہو‪ ،‬یا کوئی‬
‫ایسا مواد درج ہو جو پاکستانی شہریوں کے مختلف طبقوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کے جذبات‬
‫کو ابھارے‪ ،‬یا ایسا کرنا مقصود ہو یا جس کا منشا اس جماعت کے مذہب یا مذہبی اعتقادات کی توہین‬
‫کرکے بدنیتی سے ویسی کسی جماعت کے مذہبی احساسات کو مشتعل کرنا‪ ،‬یعنی کوئی ویسا مواد‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪ 124-A،A-123‬یا ‪ A-154‬یا ‪ A-295‬یا‬ ‫جسے شائع کرنا مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫‪ A-298‬تا ‪ B-298‬یا ‪ C-298‬کی رو سے قابل سزا ہو تو صوبائی حکومت سرکاری گزٹ میں‬
‫بذریعہ نوٹیفکیشن‪ ،‬جس میں اپنی رائے کی وجوہات دی گئی ہوں‪ ،‬حکم دے سکتی ہے کہ اخبار کی‬
‫ہر ایسی کاپی‪ ،‬ویسی کتاب یا دوسری دستاویز کی ہر کاپی جس میں ویسا مواد شامل ہو‪ ،‬بحق‬
‫حکومت ضبط کر لی جائے اور اس بنیاد پر پولیس افسر اسے پاکستان میں جہاں پائے‪ ،‬ضبط کر‬
‫سکتا ہے اور کوئی مجسٹریٹ بذریعہ وارنٹ کسی پولیس افسر کو جو سب انسپکٹر سے کم نہ ہو‪،‬‬
‫اختیار دے سکتا ہے کہ وہ کسی عمارت میں داخل ہو کر اس کی تالشی لے‪ ،‬جہاں ویسے اخبار کی‬
‫کوئی کاپی‪ ،‬کتاب یا کوئی اور دستاویز ہو یا وہاں ہونے کا معقول شبہ ہو۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )1‬میں ’’دستاویز‘‘ میں کوئی پینٹنگ‪ ،‬ڈرائنگ یا فوٹو گراف یا دیگر‬ ‫(‪2‬‬
‫ظاہری نقوش بھی شامل ہیں۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ بغاوت‪ ،‬شرانگیزی پر مبنی یا مختلف طبقوں کے درمیان‬
‫دشمنی پیدا کرنے والی ہر دستاویز کو حکومت ضبط کر سکتی ہے۔‬
‫آلوسی‬
‫ؒ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس سلسلے میں س ِد ذرائع کے اصول سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ محمود‬
‫اسالمی ٔ‬
‫عمر کو گالیاں دیں‪ ،‬اس‬
‫ابوبکر و ؓ‬
‫ؓ‬ ‫لکھتے ہیں کہ ایک جاہل آدمی کے سامنے رافضیوں نے حضرت‬
‫علی کو گالیاں شروع کردیں‪ ،‬جب اس سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا۔ میں نے‬‫نے جوابا ً حضرت ؓ‬
‫انہیں غصہ دالنے کیلئے ایسا کیا۔ (‪)295‬‬
‫اس بارے میں قرآن مجید نے ایک اصول دیا ہے‪:‬‬
‫وال تسبوا الذین یدعون من دون اہللا فیسبوا اہللا عدو بغیر علم (‪)296‬‬
‫’’اور انہیں گالیاں نہ دو جنہیں وہ ہللا کے سوا پوجتے ہیں‪ ،‬پس وہ العلمی میں ہللا کو گالیاں‬
‫دینگے‘‘۔‬
‫قتادہ کہتے ہیں کہ مسلمان کفار کے بتوں کو بُرا بھال‬ ‫سیوطی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں‪ؒ :‬‬
‫تعالی کو بُرا کہنے پر اُتر آتے‪ ،‬لہٰ ذا یہ آیت اُتری۔ (‪)297‬‬
‫ٰ‬ ‫کہتے تو وہ بھی جہالت سے ہللا‬
‫عباس سے روایت ہے کہ کفار ومشرکین نے کہا اے محمد! (ﷺ) ہمارے معبودوں کو بُرا‬ ‫ؓ‬ ‫ابن‬
‫تعالی نے مسلمانوں کو‬
‫ٰ‬ ‫کہنے سے رک جائو ورنہ ہم بھی تمہارے رب کی ہجو کریں گے۔ چنانچہ ہللا‬
‫اس سے منع کردیا۔ (‪)298‬‬
‫کثیر مزید لکھتے ہیں کہ یہاں زیادہ فساد کے مقابلہ میں مصلحت کو ترک کردیا گیا ہے۔‬
‫ابن ؒ‬
‫(‪)299‬‬
‫قرطبی لکھتے ہیں کہ علماء نے کہا ہے کہ اس آیت کا حکم اس اُمت میں ہر حال میں باقی‬‫ؒ‬
‫تعالی اور رسول کریم ﷺ کو بُرا بھال کہیں تو ہمارے‬
‫ٰ‬ ‫ہے‪ ،‬پس جب کفار کو روکا گیا ہے کہ وہ ہللا‬
‫لئے بھی حالل نہیں کہ ان کی صلیب‪ ،‬مذہب اور گرجائوں کو بُرا بھال کہیں۔ (‪)300‬‬
‫وہ مزید لکھتے ہیں کہ یہاں صلح کی ایک قسم کا بیان ہے جو کہ سد ذرائع کے حکم کے‬
‫وجوب پر دلیل ہے اور یہ کہ کبھی حقدار اپنے حق سے رک جاتا ہے‪ ،‬جب وہ اسے ایسے نقصان‬
‫تک لے جائے جو دین میں ہوتا ہے۔ (‪)301‬‬
‫درجِ باال سطور سے واضح ہوا کہ ہمیں یہ ضابطہ دیا گیا ہے کہ ہم کفار کے جھوٹے‬
‫تعالی کو گوالیاں دینا‬
‫ٰ‬ ‫معبودوں کو اس لئے بُرا بھال نہ کہیں کہ کہیں وہ جواب میں ہمارے سچے ہللا‬
‫شروع کردیں۔ یہ بھی واضح ہوا کہ ہر حق بات کہنا الزمی نہیں‪ ،‬خصوصا ً جب وہ فساد کا باعث‬
‫بنے۔‬
‫فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کیلئے سد ذرائع کے طور پر پاکستان پینل کوڈ میں دفعہ نمبر‬
‫‪ 298‬موجود ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر کسی مذہبی دل آزادری کرتا ہے اور وہ اس کیلئے کوئی‬
‫لفظ کہتا ہے یا کسی شخص کو سنانے کیلئے کوئی آواز پیدا کرتا ہے یا اس آدمی کے سامنے کوئی‬
‫معنی خیز اشارہ کرتا ہے تو ایک سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ (‪)302‬‬
‫درج باال دفعہ کی روشنی میں مختلف مکاتب فکر کے اکابرین کو بُرا بھال کہنے کی ممانعت‬
‫ہونی چاہئے‪ ،‬کیونکہ ایسا کرنے سے جوابا ً سخت طرز عمل فطری بات ہے‪ ،‬جس کا نتیجہ تشدد اور‬
‫منافرت ہے۔ اگر رائے سے احتالف ہے تو دالئل کے ساتھ مثبت انداز میں بات کی جائے اور جملہ‬
‫اختالفی مسائلہ میں تقریر و تحریر میں صرف مثبت انداز اپنانا چاہئے تاکہ کسی کے جذبات کو‬
‫ٹھیس نہیں پہنچے۔ (‪)303‬‬
‫قیم لکھتے ہیں کہ وہ کتابیں جو قرآن وسنت کے خالف لکھی گئی ہیں‪ ،‬ان کی اشاعت کی‬
‫ابن ؒ‬
‫اجازت نہیں ہونی چاہئے بلکہ انہیں تلف کردیا جائے اور وہ لٹریچر جو مسلمانوں کیلئے سخت ضرر‬
‫کرام نے محض اُمت میں اختالف کے خدشے کے پیش نظر‬ ‫ؓ‬ ‫رساں ہے‪ ،‬جال دیا جائے‪ ،‬صحابہ‬
‫مصحف عثمانی کے سوا تمام نسخے جلوا دیئے تھے۔ (‪)304‬‬‫ِ‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ شریعت اسالم کے منافی لٹریچر تلف کردینا چاہئے تاکہ‬
‫اُمت اختالف سے بچائی اس کے اور ایسے لٹریچر کی اشاعت بھی بھی روک دی جائے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضروت نہیں‪ ،‬البتہ پی پی سی کی متعلقہ دفعہ پر سختی سے عملدرآمد کیا جانا چاہئے تاکہ کسی بھی‬
‫طبقے کی بالوجہ دِل آزاری نہ ہو۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :B-99‬عدالت عالیہ سے حکم ضبطی منسوخ کرانے کی درخواست‬

‫کوئی شخص جسے کسی اخبار‪ ،‬کتاب یا دیگر دستاویز جس کی ضبطی کا حکم زیر‬ ‫(‪1‬‬
‫دفعہ ‪ A-99‬یا کوئی اور قانون نافذ الوقت صادر ہوا ہو‪ ،‬اس سے کوئی واسطہ رکھتا ہو‪ ،‬ایسے حکم‬
‫کی تاریخ سے دو ماہ کے اندر عدالت عالیہ میں ایسے حکم کو منسوخ کرنے کی درخواست کر سکتا‬
‫ہے کہ اس اخبار یا کتاب یا دیگر دستاویز میں جس کی نسبت حکم صادر ہوا ہے‪ ،‬کوئی بغاوت انگیز‬
‫یا شر انگیز یا اس نوعیت کا دیگر مواد درج نہیں ہے جس کا حوالہ ضمنی دفعہ (‪ )1‬دفعہ ‪ A-99‬میں‬
‫دیا گیا ہے۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )1‬میں کسی امر کا اطالق اس صوررت میں نہ ہوگا جبکہ حکم‬ ‫(‪2‬‬
‫ضبطی دیا گیا ہو‪:‬‬
‫کسی اخبار‪ ،‬کتاب یا دیگر دستاویز کی بابت جو بیرون پاکستان طبع ہوئے‬ ‫(‪a‬‬
‫ہیں۔‬
‫کسی اخبار‪ ،‬کتاب یا دیگر دستاویز کی بابت‪ ،‬اس کے مصنف یا‬ ‫(‪b‬‬
‫ایڈیٹر کے دفعہ ‪ A-99‬ضمنی دفعہ (‪ )1‬میں محولہ جرائم میں سے کسی ایک اخبار‪ ،‬کتاب یا دیگر‬
‫دستاویز کی نسبت سزایاب ہونے پر۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کہا گیا ہے کہ کسی اخبار‪ ،‬کتاب یا دستاویز کی ضبطی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کے حکم کے خالف عدالت عالیہ میں اپیل کی جا سکتی ہے‪ ،‬اس سے مراد وہ عدالت ہے جسے‬
‫حکومت کی طرف سے اپیل کی سماعت کا اختیار دیا گیا ہو اور جہاں فریق مخالف اپنے فیصلے‬
‫کے خالف اپیل کر سکتا ہے۔ (‪ )305‬اگر کسی قاضی سے اصل حقیقت واقعہ کو سمجھنے میں‬
‫غلطی ہو جائے تو فریق ثانی عدالت اپیل کو اس سے آگاہ کر سکتا ہے اور عدالت اپیل اس بات کے‬
‫درست ثابت ہونے پر قاضی اول کے فیصلے کو رد کردے گی۔ (‪)306‬‬
‫اگر مرافعہ میں حکم سابق پر عمل روکنے کی درخواست کی گئی ہو تو قاضی مقدمہ کی‬
‫نوعیت اور فریق درخواست دہندہ کو فیصلہ پر عمل جاری رہنے کی صورت میں پہنچنے والے‬
‫نقصان کو پیش نظر رکھ کر حکم دے گا۔ (‪)307‬‬
‫آپ نے اس کا‬
‫عمرو بن عاص کے پاس ایک مقدمہ آیا۔ ؓ‬‫ؓ‬ ‫ایک دفعہ عمان کے عامل حضرت‬
‫فیصلہ کردیا‪ ،‬جس کے خالف فیصلہ ہوا وہ حضور اکرم ﷺ کے پاس اپیل کیلئے آیا تو آپ ﷺ نے‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫’’جب قاضی اجتہاد سے درست فیصلے کرے تو اسے دس اجر اور اگر اجتہاد سے غلط‬
‫فیصلے کرے تو ایک یا دو اجر ملتے ہیں‘‘۔ (‪)308‬‬
‫علی کے فیصلے کے خالف اپیل حضور ﷺ کی عدالت میں‬
‫اسی طرح ایک دفعہ حضرت ؓ‬
‫علی کے فیصلے کو ہی‬
‫آئی جبکہ وہ عامل یمن تھے۔ آپ ﷺ نے مقدمے کی تفصیل سن کر حضرت ؓ‬
‫برقرار رکھا۔ (‪)309‬‬
‫نظام عدالت میں کسی قاضی کا فیصلہ بھی‬
‫ِ‬ ‫مندرجہ باال سطور سے پتہ چال کہ اسالم کے‬
‫حتمی نہیں ہے بلکہ فریق ثانی کو حق حاصل ہے کہ اس فیصلے کے خالف عدالت عالیہ سے رجوع‬
‫کرے۔ عین ممکن ہے کہ پہال فیصلہ غلط ہو اور فریق ثانی کو عدل مل جائے۔‬
‫تبصرہ ‪ /‬ترمیم‪ :‬مندرجہ باال شق میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫اسے اسی طرح رہنے دیا جانا چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :C-99‬بذریعہ الء ریفارم آرڈیننس ‪1972‬ء حذف ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :D-99‬حکم ضبطی منسوخ کرنیکی نسبت عدالت عالیہ کا فیصلہ‬

‫درخواست موصول ہونے پر عدالت عالیہ حکم ضبطی منسوخ کردیگی‪ ،‬اگر وہ اس‬ ‫(‪1‬‬
‫سے مطمئن نہ ہو کہ اس اخبار‪ ،‬کتاب یا دیگر دستاویز کے پرچہ میں جس کی نسبت درخواست‬
‫گزاری گئی ہے‪ ،‬دفعہ ‪ A-99‬کی ضمنی دفعہ (‪ )1‬میں محولہ بغاوت انگیز یا شر انگیز یا اس نوعیت‬
‫کا دیگر مواد درج ہے۔‬
‫حذف ہوئی۔‬ ‫(‪2‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ :E-99‬اخبار کی نوعیت اور رجحان ثابت کرنے کی شہادت‬

‫کسی اخبار کے متعلق جس کی بابت حکم ضبطی صادر ہوا ہو‪ ،‬ویسی درخواست کی سماعت پر‬
‫ایسے اخبار کی کوئی کاپی ایسے اخبار میں درج الفاظ‪ ،‬اشارات‪ ،‬ظاہری تصاویر کی نوعیت اور‬
‫رجحان کے ثبوت کی تائید میں شہادت کے طو رپر پیش کی جا سکتی ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :F-99‬ضابطہ عدالت عالیہ‬


‫ہر عدالت عالیہ جہاں تک بسہولت ہوسکے‪ ،‬ویسی درخواستوں‪ ،‬ان کے خرچے کی رقوم‪ ،‬ان پر‬
‫صادر کردہ احکام کی تعمیل کی بابت قواعد وضع کریگی اور جب تک ایسے قواعد وضع نہ ہوں‪،‬‬
‫جہاں تک قابل عمل ہو‪ ،‬ایسی درخواستوں ایسی عدالتوں کا نالشوں اور اپیلوں کی کارروائی کے‬
‫عالوہ کا طریقہ کار اطالق پذیر ہوگا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :G-99‬سماعت کا خارج ہونا‬

‫دفعہ ‪ A-99‬کے تحت صادر کردہ کسی حکم یا کی گئی کارروائی پر کسی عدالت میں سوائے دفعہ‬
‫‪ B-99‬کے احکام کی مطابقت کے اعتراض نہ کیا جائے گا۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس سلسلے میں نظریاتی کونسل نے یہ تجویز دی ہے‪:‬‬
‫’’ان دفعات میں جہاں جہاں بغاوت انگیز "‪ "Or seditious‬کے الفاظ آئے ہیں‪ ،‬وہاں اس کے‬
‫بعد فحش مواد "‪ "or obscene‬کے الفاظ کا اضافہ کیا جائے اور اگلے الفاظ "‪"or other matter‬‬
‫کے بجائے ‪ any other matter‬یا دیگر مواد لکھے جائیں‘‘۔ (‪)310‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ ذیلی دفعات ‪ D, 99-E, 99-F, 99-G-99‬میں کوئی بات اسالمی تعلیمات‬
‫کے خالف دکھائی نہیں دیتی۔ البتہ انہیں اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز کے مطابق تبدیل کیا‬
‫جائے تاکہ عبارت کا مقصد ومفہوم واضح ہوسکے۔‬

‫(پ) حبس بے جا میں رکھے گئے اشخاص کی دریافت‬

‫دفعہ نمبر ‪ :100‬ان اشخاص کی دریافت جو حبس بے جا میں رکھے گئے ہوں‬

‫اگر کوئی مجسٹریٹ درجہ اول ]٭٭٭[ یہ امر باور کرنے کی وجہ رکھتا ہے کہ کوئی شخص ایسے‬
‫حاالت میں محبوس ہے کہ اسے قید میں رکھنا جرم کے مترادف ہو تو وہ وارنٹ تالشی جاری کر‬
‫سکتا ہے اور وہ شخص جس کے نام ویسا وارنٹ تحریر ہو‪ ،‬اس شخص کو تالش کر سکتا ہے جو‬
‫اس طرح محبوس ہو اور ایسی تالشی وارنٹ کے مطابق عمل میں الئی جائیگی اور اگر وہ شخص‬
‫دستیاب ہو جائے تو اسے فورا ً مجسٹریٹ کے سامنے پیش کردیا جائیگا جو ایسا حکم صادر کرے گا‬
‫جو مقدمہ کے حاالت کے مطابق اسے مناسب معلوم ہو۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں ذکر ہے کہ اگر کسی شخص کو حبس بے جا میں رکھا گیا ہو‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ً‬
‫اور مجسٹریٹ کے علم میں آجائے تو وہ فورا وارنٹ کے ذریعہ اسے تالش کرا کے عدالت میں پیش‬
‫کرا سکتا ہے تاکہ اس کے بارے میں فیصلہ کیا جا سکے۔‬
‫قیم لکھتے ہیں کہ‬
‫ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ’’حبس‘‘ کی وضاحت کردی جائے۔ ابن ؒ‬
‫حبس سے مراد ہے‪:‬‬
‫تعویق الشخص ومنعہ من التصرف بنفسہ (‪)311‬‬
‫’’کسی آدمی کو نقل وحرکت اور ازخود تصرف سے روک دینا‘‘۔‬
‫مزید لکھتے ہیں کہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ ملزم کو فریق ثانی یا اس کے وکیل کے حوالے‬
‫کردیا جائے۔ اس حبس شرعی کو رسول اکرم ﷺ نے قید کا نام دیا ہے۔ (‪)312‬‬
‫صرف الزام کی بنیاد پر قید کرنے کے بارے میں فقہاء اسالم کے دو نظرئیے ہیں۔ فریق اول‬
‫کے نزدیک تہمت کی وجہ سے قید کیا جا سکتا ہے لیکن فریق ثانی اس کا مخالف ہے۔ فریق اول کے‬
‫دالئل کا خالصہ یہ ہے۔‬
‫ابراہیم بن خیثم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے احتیاط اور تفتیش کیلئے ایک‬ ‫٭‬
‫شخص کو ایک دن اور ایک رات کیلئے نظربند کیا۔ (‪)313‬‬
‫بہز بن حکیم سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے کسی شحص کو تہمت میں نظر‬ ‫٭‬
‫بند کیا‪ ،‬اس کا ایک ہمسایہ آیا جبکہ حضور ﷺ خطبہ دے رہے تھے‪ ،‬اس نے سوال کیا کہ میرے‬
‫پڑوسی کو کس وجہ سے قید کیا ہے۔ اس پر آپ ﷺ خاموش ہو گئے‪ ،‬وہ بحث کرتا رہا کیونکہ قیدی‬
‫کے خالف ثبوت نہ مل سکا تھا۔ لہٰ ذا اسی وقت اس کے پڑوسی کو رہا کردیا گیا۔ (‪)314‬‬
‫عراک بن مالک سے روایت ہے کہ بنی غفار کے دو شخص مدینہ آئے اور ضجنان‬ ‫٭‬
‫کے مقام پر کنویں کے پاس ٹھہرے‪ ،‬وہیں غطفان قبیلہ کے لوگ بھی ٹھہرے ہوئے تھے‪ ،‬غطفانیوں‬
‫کے دو اونٹ گم ہوگئے‪ ،‬انہوں نے معاملہ حضور اکرم ﷺ کے سامنے پیش کردیا‪ ،‬چنانچہ آپ ﷺ نے‬
‫ایک غفاری کو روک دیا‪ ،‬دوسرے کو جانے دیا کہ تم انتظار کرو۔ تھوڑی دیر بعد اونٹ مل گیا‪،‬‬
‫تعالی آپ ﷺ‬
‫ٰ‬ ‫چنانچہ آپ ﷺ نے محبوس کو فرمایا کہ میرے لئے استغفار کرو۔ اس نے عرض کی ہللا‬
‫کو معاف فرمائے۔ (‪)315‬‬
‫مندرجہ باال روایات کی بنیاد پر بعض فقہاء کرام تہمت کی وجہ سے قید کرنے کو جائز‬
‫دعوی ہے کہ بغیر ثبوت صرف تہمت کی بنا پر کسی کو‬
‫ٰ‬ ‫کہتے ہیں۔ اس موقف کے مخالفین کا‬
‫محبوس نہیں کر سکتے۔ ان کے دالئل یہ ہیں‪:‬‬
‫عبدہللا بن ابی عام کہتے ہیں کہ میں ایک قافلے کے ساتھ گیا اور راستہ میں میرا تھیال‬
‫چوری ہو گیا‪ ،‬میرے ساتھیوں نے ایک شخص پر الزام لگایا اور تھیال مانگا لیکن اس نے کہا کہ میں‬
‫آپ نے فرمایا کہ یہ اس‬‫عمر کو یہ واقعہ سنایا۔ اس پر ؓ‬
‫نے نہیں لیا‪ ،‬واپسی پر میں نے حضرت ؓ‬
‫آپ‬
‫آپ کے پاس الئوں لیکن ؓ‬ ‫شخص کا ہی کام ہے۔ میں بوال کہ میرا ارادہ تھا کہ رسی سے باندھ کر ؓ‬
‫نے فرمایا کہ کیا تم بغیر ثبوت میرے پاس باندھ کر التے اور بہت ناراض ہوئے۔ نہ حکم لکھا نہ‬
‫تفتیش کی۔ (‪)316‬‬
‫عمر بغیر ثبوت کے کسی کو باندھنے یا قید کرنے کے حق میں نہ تھے۔ جو‬
‫گویا حضرت ؓ‬
‫لوگ بغیر ثبوت کے صرف تہمت کی بناء پر کسی کو محبوس کرنے کے حق میں ہیں۔ ابن حزم ان‬
‫کے دالئل کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫قول اول کی روایات میں ان کیلئے کوئی دلیل نہیں‪ ،‬کیونکہ راوی ابراہیم بن خیثم ضعیف‬
‫ہے۔ بہز بن حکیم قوی نہیں ہے اور حدیث عراک مرسل ہے‪ ،‬اگر اسے صحیح بھی مان لیں تو اس‬
‫میں حبس کے لئے دلیل نہیں بلکہ اس کے خالف دلیل ہے کیونکہ آپ ﷺ نے حبس سے استغفار‬
‫فرمایا اور اس سے فرمایا کہ میرے لئے استغفار کرو۔‬
‫مزید لکھتے ہیں کہ اگر یہ لوگ غامدیہ خاتون کے واقعہ سے دلیل دیتے ہیں تو درحقیقت اس‬
‫خاتون نے خود عرض کی تھی کہ مجھے پاک کردیجئے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے تحقیق حال کے‬
‫بعد فرمایا کہ بچے کی پیدائش تک تمہیں رجم نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ ایک انصاری نے بچہ کی‬
‫والدت تک اس کی کفالت کی۔ بچہ پیدا ہوگیا تو وہ پھر آئی‪ ،‬آپ ﷺ نے فرمایا بچے کو بغیر نگہداشت‬
‫نہیں چھوڑ سکتے‪ ،‬اس پر ایک انصاری نے ذمہ داری لی اور اسے رجم کردیا گیا‪ ،‬نہ ہی اسے قید‬
‫انصاری نے فقط اس کی کفالت کی تھی اور رہائش کا انتظام کیا تھا۔‬
‫ؓ‬ ‫کیا گیا نہ ہی اس کا حکم دیا۔‬
‫(‪)317‬‬
‫حزم مزید لکھتے ہیں کہ جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے‪:‬‬
‫ابن ؒ‬
‫س ِبیالً (‪)318‬‬ ‫ی َیت ََوفَّا ُھ َّن ْال َم ْوتُ ا َْٔو َیجْ َع َل ِّ‬
‫ّللاُ لَ ُھ َّن َ‬ ‫فَا َْٔم ِس ُکو ُھ َّن فِی ْالبُیُو ِ‬
‫ت َحت َّ َ‬
‫’’(فحاشی کرنے والی عورتوں کو) گھروں میں محبوس رکھو‪ ،‬حتی کہ انہیں موت آجائے‪،‬‬
‫تعالی ان کیلئے کوئی سبیل نکال دے‘‘۔‬
‫ٰ‬ ‫یا ہللا‬
‫تو یہ حکم منسوخ ہے اور اس پر جماعِ اُمت ہے۔ (‪)319‬‬
‫قاضی ابویوسف لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’امیر المومنین! آپ اپنے والیوں کو ہدایت کردیں کہ صرف تہمت کی بناء پر لوگوں سے‬
‫کوئی مواخذہ نہ کریں۔ ایک آدمی دوسرے آدمی (یعنی والی) کے پاس آکر کہتا ہے کہ فالں شخص‬
‫نے مجھ پر چوری کی تہمت لگائی ہے تو لوگ اسے پکڑ لیتے ہیں اور دوسرے آدمیوں کو بھی۔ اس‬
‫دعوی تسلیم کر لینا‬
‫ٰ‬ ‫طریقہ پر عمل جائز نہیں۔ شہادت کے بغیر کسی کے خالف کسی شخص کا‬
‫درست نہیں۔ یہ بات جائز نہیں‪ ،‬نہ اس کی کوئی گنجائش ہے کہ کسی شخص کو صرف اس لئے قید‬
‫میں ڈال دیا جائے کہ دوسرے نے اس پر تہمت لگا دی ہے۔ رسول ہللا ﷺ تہمت کی بناء پر لوگوں‬
‫سے مواخذہ نہیں کرتے تھے‘‘۔ (‪)320‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ کسی شخص کو محض تہمت کی بناء پر پا بند سالسل‬
‫نہیں کیا جا سکتا اور اسالم اس کی اجازت نہیں دیتا۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪’’ :‬اس دفعہ کے ابتدائی الفاظ ’’مجسٹریٹ درجہ اول‘‘ کی‬
‫بجائے جوڈیشل مجسٹریٹ کے الفاظ درج کئے جائیں۔ اس لئے کہ عدلیہ کو انتظامیہ سے پہلے ہی‬
‫الگ کیا جا چکا ہے۔ لہٰ ذا عدلیہ کے عہدیداران ہونے کی مناسبت سے الفاظ لکھنا مناسب ہوگا‘‘۔‬
‫(‪)321‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں مجسٹریٹ درجہ اول کے بجائے محکمہ عدلیہ کے عہدیداروں کی‬
‫نسبت سے ’’جوڈیشل مجسٹریٹ‘‘ درج کیا جانا چاہئے۔‬
‫حوالہ جات‬

‫باب اول‬
‫(دفعہ نمبر ‪ 1‬تا ‪)100‬‬
‫ابن منظور‪ ،‬محمد ابن مکرم‪ ،‬جمال الدین‪( :‬م۔ ‪711‬ھ ‪1311 /‬ھ)‪ :‬لسان العرب‪ ،‬ج ‪،11‬‬ ‫(‪1‬‬
‫ص‪734‬دار صادر‪ ،‬بیروت‪ ،‬الطبعۃ الثالثۃ‪1414 ،‬ھ ‪1993 /‬ء‬
‫محمد غزالی‪ ،‬ابو حامد‪( :‬م۔ ‪505‬ھ ‪1111 /‬ء)‪ :‬احیاء علوم الدین‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪259‬مطبعۃ‬ ‫(‪2‬‬
‫العامرۃ الشریفہ‪ ،‬مصر‪1326 ،‬ھ ‪1908 /‬ء‬
‫کاسانی‪ ،‬عالء الدین ابی بکر بن مسعود‪( :‬م۔ ‪587‬ھ ‪1191 /‬ء)‪ :‬البدائع الصنائع فی ترتیب‬ ‫(‪3‬‬
‫الشرائع‪ ،‬ج ‪ ،6‬ص ‪ ،20‬دارالکتب العلمیہ‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1406 ،‬ھ ‪1986 /‬ء‬
‫قرآن کریم‪ :‬االنعام ‪102 : 6‬‬ ‫(‪4‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬االنعام ‪107: 6‬‬ ‫(‪5‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬النساء ‪171: 4‬‬ ‫(‪6‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬الفرقان ‪25:43‬‬ ‫(‪7‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬االسراء ‪17:68‬‬ ‫(‪8‬‬
‫بخاری‪ ،‬محمد بن اسماعیل‪( :‬م۔ ‪256‬ھ ‪869 /‬ء)‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب التھجد‪ ،‬رقم الحدیث‪:‬‬ ‫(‪9‬‬
‫االولی‪1422 ،‬ھ ‪2001 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫‪ ،1069‬دار طوق النجاۃ‪ ،‬طبعۃ‬
‫(‪ 10‬عینی‪ ،‬بدر الدین‪( :‬م۔ ‪855‬ھ ‪1451 /‬ء)‪ :‬عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪،224‬‬
‫دارالفکر بیروت‪1326 ،‬ھ ‪1908 /‬ء‬
‫(‪ 11‬ابودائود‪ ،‬سلیمان بن اشعث‪( :‬م ‪275‬ھ ‪888 /‬ء)‪ :‬السنن ابی دائود‪ :‬کتاب الجھاد‪ ،‬باب سکنی‬
‫الشام‪ ،‬رقم الحدیث ‪ ،2483‬المکتبۃ العصریہ‪ ،‬صیدا‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫حوالہ سابق‪ :‬رقم الحدیث‪3632 :‬‬ ‫(‪12‬‬
‫کاسانی‪ :‬بدائع الصنائع‪ :‬ج ‪ ،5‬ص ‪600‬‬ ‫(‪13‬‬
‫ابن رشد‪ ،‬محمد بن احمد‪( :‬م۔ ‪595‬ھ ‪1198 /‬ء)‪ :‬بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪،79‬‬
‫ِ‬ ‫(‪14‬‬
‫دارالحدیث‪ ،‬القاھرہ‪1425 ،‬ھ ‪2004 /‬ء‬
‫محمد یوسف تائولی‪ :‬اشرف الھدایہ‪ ،‬ج ‪ ،9‬ص ‪ ،130‬مکتبہ امدادیہ‪ ،‬ٹی بی ہسپتال روڈ ملتان‪،‬‬ ‫(‪15‬‬
‫سن‬
‫مرتضی زبیدی‪ ،‬سید‪( :‬م۔ ‪1205‬ھ ‪1790 /‬ء)‪ :‬تاج العروس شرح القاموس‪ ،‬ج ‪ ،32‬ص ‪-312‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪16‬‬
‫‪ ،313‬دارالھدایۃ‪ ،‬س ن‬
‫دہلوی‪ :‬فرہنگِ آصفیہ‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪ ،236‬مکتبہ حسن سہیل لمیٹڈ‪ ،‬راحت مارکیٹ‬
‫ؒ‬ ‫(‪ A-16‬سید احمد‬
‫اُردو بازار الہور‪ ،‬ط‪ :‬سوم‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 17‬الجزیری‪ ،‬عبدالرحمن‪( :‬م۔ ‪1360‬ھ ‪1941 /‬ء)‪ :‬الفقہ علی مذاھب االربعہ‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪،195‬‬
‫دارالکتب العلمیہ‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬الطبعۃ الثانیۃ‪1424 ،‬ھ ‪2003/‬ء‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪18‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬آل عمران ‪37: 3‬‬ ‫(‪19‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬یوسف ‪13:72‬‬ ‫(‪20‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬النحل ‪16:91‬‬ ‫(‪21‬‬
‫الزکوۃ‪ ،‬باب عالج الطعام باللیل‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 22‬صنعانی‪ ،‬عبدالرزاق‪( :‬م۔ ‪211‬ھ ‪826 /‬ء)‪ :‬المصنف کتاب‬
‫رقم الحدیث‪ ،7277 :‬المکتب االسالمی‪ ،‬بیروت‪ ،‬الطبعۃ الثانیۃ‪1403 ،‬ھ ‪1982 /‬ء‬
‫کاسانی‪ :‬بدائع الصنائع‪ :‬ج ‪ ،5‬ص ‪600‬‬ ‫(‪)i‬‬ ‫(‪23‬‬
‫یوسف تائولی‪ :‬اشرف الھدایہ‪ ،‬ج ‪ ،9‬ص ‪131‬‬ ‫(‪)ii‬‬
‫(‪ 24‬زیلعی‪ ،‬عثمان بن علی‪( :‬م۔ ‪762‬ھ ‪1360 /‬ھ)‪ :‬تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص‬
‫‪ ،147‬مکتبہ امدادیہ ملتان‪ ،‬س ن‬
‫بیہقی‪ ،‬احمد بن حسین‪ ،‬ابوبکر‪( :‬م۔ ‪451‬ھ ‪1059 /‬ء)‪ :‬السنن الکبری‪ ،‬کتاب الضمان‪،‬‬ ‫(‪)i( 25‬‬
‫باب ماجاء فی الکفالۃ‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،11414 :‬دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬طبعۃ الثالثۃ‪1424 ،‬ھ ‪/‬‬
‫‪2003‬ء‬
‫(‪ )ii‬عثمانی‪ ،‬ظفر احمد‪( :‬م۔ ‪1394‬ھ ‪1974 /‬ء) اعالء السنن‪ ،‬ابواب الکفالۃ‪ ،‬باب الکفالۃ‬
‫بالنفس‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،4836 :‬مکتبہ امدادیہ ملتان‪ ،‬س ن‬
‫زیلعی‪ :‬تبیین الحقائق‪ :‬ج ‪ ،4‬ص ‪147‬‬ ‫(‪26‬‬
‫ظفر عثمانی‪ :‬اعالء السنن‪ :‬ابواب الکفالۃ‪ ،‬باب الکفالۃ بالنفس‪ ،‬رقم الحدیث‪4833 :‬‬ ‫(‪27‬‬
‫حوالہ سابق‪( :‬حاشیہ)‪ :‬ج ‪ ،4‬ص ‪634‬‬ ‫(‪28‬‬
‫(‪ 29‬ابن حجر عسقالنی‪ ،‬احمد بن علی‪( :‬م۔ ‪852‬ھ ‪1448 /‬ء)‪ :‬فتح الباری شرح صحیح البخاری‪ ،‬ج‬
‫‪ ،4‬ص ‪ ،470‬دارالمعروفۃ بیروت ‪1379‬ھ ‪1959 /‬ء‬
‫زیلعی‪ :‬تبیین الحقائق‪ :‬ج ‪ ،4‬ص ‪147‬‬ ‫(‪30‬‬
‫الکبری‪ ،‬کتاب الضمان‪ ،‬باب ماجاء فی الکفالۃ‪ ،‬رقم الحدیث‪11418 :‬‬
‫ٰ‬ ‫بیہقی‪ :‬السنن‬ ‫(‪31‬‬
‫یوسف تائولی‪ :‬اشرف الھدایہ‪ :‬ج‪ ،9‬ص ‪131‬‬ ‫(‪32‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬یوسف ‪13:72‬‬ ‫(‪33‬‬
‫الکبری‪ ،‬کتاب الضمان‪ ،‬باب الضمان علی المیت‪ ،‬رقم الحدیث‪11404 :‬‬
‫ٰ‬ ‫البیہقی‪ :‬السنن‬ ‫(‪34‬‬
‫عیسی‪( :‬م‪279 :‬ھ ‪892 /‬ء)‪ :‬السنن‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،1070 :‬مطبعۃ‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 35‬ترمذی‪ ،‬محمد بن عیسی‪ ،‬ابو‬
‫مصطفی البابی الحلبی مصر‪ ،‬الطبعۃ الثانیہ ‪1395‬ھ ‪1975 /‬ء‬
‫بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ :‬رقم الحدیث‪2297 :‬‬ ‫(‪36‬‬
‫الصلوۃ علی من علیہ‬
‫ٰ‬ ‫شعیب‪( :‬م۔ ‪303‬ھ ‪915 /‬ء)‪ :‬السنن‪ :‬کتاب الجنائز‪ ،‬باب‬
‫ؒ‬ ‫نسائی‪ ،‬احمد بن‬
‫ؒ‬ ‫(‪37‬‬
‫اولی‪1421 ،‬ھ ‪2001 /‬ء‬‫دین‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،2098 :‬موسسۃ الرسالہ‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعہ ٰ‬
‫(‪ 38‬ابن حنبل‪ ،‬احمد‪( :‬م۔ ‪241‬ھ ‪855 /‬ء)‪ :‬المسند‪ ،‬مسند سلمہ بن اکوعؓ ‪ ،‬رقم الحدیث‪،16510 :‬‬
‫االولی‪1421 ،‬ھ ‪2001 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫موسسۃ الرسالۃ‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫حوالہ سابق‪ :‬رقم الحدیث‪2100 :‬‬ ‫(‪39‬‬
‫ابن رشد‪ :‬بدایۃ المجتھد‪ :‬ج ‪ ،4‬ص ‪79‬‬ ‫(‪40‬‬
‫حصکفی‪ ،‬عالء الدین‪( :‬م۔ ‪1088‬ھ ‪1677 /‬ء)‪ :‬الدر المختار‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،62‬ایچ ایم سعید‬
‫ؒ‬ ‫(‪41‬‬
‫کمپنی‪ ،‬کراتشی‪1331 ،‬ھ ‪1913 /‬ء‬
‫(‪ 42‬قدوری‪ ،‬احمد بن محمد‪( :‬م۔ ‪428‬ھ ‪1036 /‬ء)‪ :‬المختصر للقدوری‪ ،‬ص ‪ ،48‬مکتبہ رحمانیہ‬
‫اُردو بازار الہور‪ ،‬س ن‬
‫الفتاوی الھندیہ‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 43‬لجنۃ علماء برئاسۃ‪ ،‬نظام الدین البلخی‪( :‬م۔ ‪1161‬ھ ‪1748 /‬ء)‪:‬‬
‫‪ ،259‬دارالفکر بیروت الطبعۃ الثانیۃ‪1310 ،‬ھ ‪1892 /‬ء‬
‫یوسف تائولی‪ :‬اشرف الھدایہ‪ :‬ج ‪ ،9‬ص ‪156‬‬ ‫(‪44‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪45‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪157-156‬‬ ‫(‪46‬‬
‫عبدالقادر عودہ‪ :‬التشریع الجنائی االسالمی‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،611‬دارالکتاب العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬س‬ ‫(‪47‬‬
‫ن‬
‫(‪ 48‬رپورٹ جائزہ مجموعہ ضابطہ فوجداری (‪1898‬ء ‪1316 /‬ھ)‪ :‬مالحظات ‪ /‬مجوزہ ترامیم‪،‬‬
‫ص ‪ ،25‬اسالمی نظریاتی کونسل حکومت پاکستان اسالم آباد‪1421 ،‬ھ ‪2000 /‬ء‬
‫(‪ 49‬جسٹس تنزیل الرحمن‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬جرم وسزا کا اسالمی فلسفہ‪ ،‬ص ‪ ،40-38‬خورشید پرنٹرز لمیٹڈ‬
‫اسالم آباد‪ ،‬س ن‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪26‬‬ ‫(‪50‬‬
‫فیروز الدین‪ :‬فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪ ،91‬فیروز سنز الہور‪ ،‬س ن‬ ‫(‪51‬‬
‫(‪ A-51‬الجرجانی‪ ،‬السید الشریف‪( :‬م۔ ‪816‬ھ ‪1413 /‬ء)‪ :‬التعریفات‪ ،‬ص ‪ ،75‬دارالمنار للطباعۃ‬
‫والنشر‪ ،‬س ن‬
‫اصفہانی‪ ،‬حسین بن محمد‪( :‬م‪502 ،‬ھ ‪1108 /‬ء)‪ :‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،113‬المفردات فی‬
‫ؒ‬ ‫(‪ i( 52‬راغب‬
‫غریب القرآن‪ ،‬ص ‪ ،177‬قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی‪ ،‬س ن‬
‫(‪ ii‬کیرانوی‪ ،‬وحید الزمان‪ :‬القاموس الوحید‪ ،‬ص ‪ ،527‬ادارہ اسالمیات‪ ،‬اردو بازار کراچی‪،‬‬
‫‪1422‬ھ ‪2001 /‬ء‬
‫(‪ A-52‬سید احمد دہلوی‪ :‬فرہنگِ آصفیہ‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪250‬‬
‫حصکفی‪ :‬الدر المختار‪ :‬ج ‪ ،2‬ص ‪114‬‬ ‫(‪53‬‬
‫ابن قدامہ‪ ،‬عبدہللا بن احمد‪( :‬م۔‪620‬ھ ‪1223 /‬ء)‪ :‬المغنی‪ ،‬ج ‪ ،9‬ص ‪ ،275‬دارالفکر بیروت‪،‬‬
‫ِ‬ ‫(‪54‬‬
‫‪1405‬ھ ‪1984 /‬ء‬
‫(‪ 55‬لجنۃ مکونۃ من عدۃ علماء وفقھاء فی الخالفۃ العثمانیۃ‪ :‬مجلۃ االحکام العدلیہ‪ ،‬ص ‪ ،320‬نور‬
‫ت کتب آرام باغ کراتشی‪ ،‬س ن‬ ‫محمد کارخانہ تجار ِ‬
‫تاجران کتب‪ ،‬الہور‪،‬‬
‫ِ‬ ‫نظام حکومت‪ ،‬ص ‪ ،390‬الفیصل ناشران و‬
‫ِ‬ ‫(‪ 56‬حامد انصاری‪ :‬اسالم کا‬
‫‪1420‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫قرآن کریم‪ :‬الحجرات ‪49:6‬‬ ‫(‪57‬‬
‫(‪ 58‬ابن کثیر‪ ،‬اسماعیل بن عمر‪ ،‬ابولفداء‪( :‬م۔ ‪774‬ھ ‪1372 /‬ھ)‪ :‬تفسیر القرآن العظیم‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص‬
‫دار طیبہ للنشر و التوزیع الطبعۃ الثانیۃ‪1420 :‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫‪ِ ،370‬‬
‫(‪ 59‬ثناء ہللا پانی پتی‪ ،‬قاضی‪( :‬م۔ ‪1225‬ھ ‪1810 /‬ء)‪ :‬تفسیر مظہری‪ ،‬ج ‪ ،9‬ص ‪ ،40-39‬مکتبۃ‬
‫الرشیدیہ‪ ،‬الباکستان‪1412 ،‬ھ ‪1991 /‬ء‬
‫(‪ 60‬ابن ماجہ‪ ،‬محمد بن یزید‪( :‬م‪273 ،‬ھ ‪886 /‬ء)‪ :‬السنن‪ ،‬کتاب الحدود‪ ،‬باب الستر علی المومن‬
‫عیسی البابی الحلبی‪ ،‬س ن‬
‫ٰ‬ ‫ودفع الحدود بالشبھات‪ ،‬داراحیاء الکتب العربیہ فیصل‬
‫ابن منظور‪ :‬لسان العرب‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪115‬‬ ‫(‪61‬‬
‫(‪ A-61‬سید احمد دہلوی‪ :‬فرہنگِ آصفیہ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪613‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬الحجرات ‪49:6‬‬ ‫(‪62‬‬
‫بیہقی‪ :‬السنن الکبری‪ ،‬کتاب االشربۃ والحد فیھا‪ ،‬باب فی النھی عن التجسس‪ ،‬رقم الحدیث‪:‬‬ ‫(‪63‬‬
‫‪17624‬‬
‫ابن منظور‪ :‬لسان العرب‪ ،‬ج ‪ ،12‬ص ‪91‬‬ ‫(‪64‬‬
‫(‪ 65‬ماوردی‪ ،‬علی بن محمد‪ ،‬ابوالحسن‪( :‬م ‪450‬ھ ‪1058 /‬ء)‪ :‬االحکام السلطانیہ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪،322‬‬
‫دارالحدیث القاھرہ‪ ،‬س ن‬
‫المصطفی‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 66‬عبدالعزیز عامر‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬التعزیر فی الشریعۃ االسالمیہ‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،113‬مطبعۃ‬
‫البابی الحلبی‪ ،‬القاھرہ‪ ،‬طبعۃ الثالثۃ‪1377 ،‬ھ ‪1957 /‬ء‬
‫عبدالقادر عودہ‪ :‬التشریع الجنائی االسالمی‪ :‬ج ‪ ،1‬ص ‪81‬‬ ‫(‪67‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪83-82‬‬ ‫(‪68‬‬
‫عینی‪ :‬عمدۃ القاری‪ :‬ج ‪ ،11‬ص ‪388‬‬ ‫(‪69‬‬
‫‪Establishment of Cours of Qazis Ordinance 1982 AD / 1403 AH, P-2, )70‬‬
‫‪CMLA Order # I of 1981 / 1402, Islamabad‬‬
‫نظام حکومت‪ :‬ص ‪392‬‬
‫ِ‬ ‫حامد انصاری‪ :‬اسالم کا‬ ‫(‪71‬‬
‫‪Courts of Qazis Ordinance, 1981 AD / 1403 AH, P-5‬‬ ‫‪)72‬‬
‫‪Ibid: P-6‬‬ ‫‪)73‬‬
‫فیروز الدین‪ :‬فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪291‬‬ ‫(‪74‬‬
‫شبلی نعمانی‪ :‬الفاروق‪ ،‬ص ‪ ،194‬مکتبہ رحمانیہ اردو بازار الہور‪ ،‬س ن‬ ‫(‪75‬‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪27‬‬ ‫(‪76‬‬
‫(‪ 77‬عبدالرحمن بخاری‪ ،‬سید‪’’ :‬اسالمی ریاست میں عدل نافذ کرنے والے ادارے‘‘‪ ،‬منہاج‪،‬‬
‫’اسالمی نظام عدل نمبر‘‪ ،‬ج ‪ ،2‬شمارہ ‪ ،1‬حصہ دوم‪ ،‬جنوری ‪1414‬ھ ‪1984 /‬ء‪ ،‬ص ‪ ،27‬مرکز‬
‫تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری نسبت روڈ الہور‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪25‬‬ ‫(‪78‬‬
‫(‪ 79‬الدردیر‪ ،‬احمد بن محمد‪( :‬م۔ ‪1230‬ھ ‪1814 /‬ء)‪ :‬الشرح الصغیر علی اقرب المسالک‪ ،‬ج ‪،4‬‬
‫ص ‪ ،196-195‬دارالمعارف‪ ،‬مصر‪1348 ،‬ھ ‪1929 /‬ء‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪80‬‬
‫کاسانی‪ :‬بدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪2,3‬‬ ‫(‪81‬‬
‫ابن قدامہ‪ :‬المغنی‪ :‬ج ‪ ،5‬ص ‪226‬‬ ‫(‪82‬‬
‫الفتاوی عن االحکام‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 83‬قرافی‪ ،‬احمد بن ادریس‪( :‬م‪684 :‬ھ ‪1285 /‬ء)‪ :‬االحکام فی تمییز‬
‫وتصریفات القاضی واالمام‪ ،‬مترجم اُردو‪ :‬حافظ غالم یوسف‪ ،‬ص ‪ ،61‬شریعہ اکیڈمی بین االقوامی‬
‫اسالمی یونیورسٹی اسالم آباد‪ ،‬ط اول‪2004 / 1425 ،‬ء‬
‫(‪ 84‬ابن خلدون‪ ،‬عبدالرحمن‪( :‬م ‪808‬ھ ‪1405 /‬ء)‪ :‬مقدمہ‪ ،‬ص ‪ ،492-491‬دارالفکر بیروت‪،‬‬
‫الطبعۃ الثانیۃ‪1408 ،‬ھ ‪1988 /‬ء‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪93‬‬ ‫(‪85‬‬
‫(‪ 86‬المرغینانی‪ ،‬علی بن ابی بکر‪( :‬م‪593 :‬ھ ‪1196 /‬ء)‪ ،‬الھدایہ فی شرح البدایہ‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪،103‬‬
‫دار احیاء التراث العربی‪ ،‬لبنان‪ ،‬س ن‬
‫یوسف تائولی‪ :‬اشرف الھدایہ‪ :‬ج ‪ ،9‬ص ‪269‬‬ ‫(‪87‬‬
‫کاسانی‪ :‬بدائع الصنائع‪ :‬ج ‪ ،7‬ص ‪9‬‬ ‫(‪88‬‬
‫فتاوی الھندیہ‪ :‬ج ‪ ،3‬ص ‪320‬‬ ‫(‪89‬‬
‫شبلی‪ :‬الفاروق‪ :‬ص ‪225‬‬ ‫(‪90‬‬
‫ابن قدامہ‪ :‬المغنی‪ :‬ج ‪ ،10‬ص ‪41‬‬ ‫(‪91‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪92‬‬
‫الکبری‪ ،‬کتاب آداب القاضی‪ ،‬باب ما یستحب للقاضی من ان ال یکون قضاء ہ فی‬
‫ٰ‬ ‫بیہقی‪ :‬السنن‬ ‫(‪93‬‬
‫المسجد‬
‫(‪ A-93‬یوسف تائولی‪ :‬اشرف الھدایہ‪ ،‬ج ‪ ،10‬ص ‪143‬‬
‫(‪ 94‬خصاف‪ ،‬احمد بن عمر‪ ،‬ابوبکر‪( :‬م۔ ‪261‬ھ ‪874 /‬ء)‪ :‬ادب القاضی‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪ ،157‬مطبعۃ‬
‫اولی‪1397 ،‬ھ ‪1977 /‬ء‬‫االرشاد بغداد‪ ،‬طبعۃ ٰ‬
‫کاسانی‪ :‬بدائع الصنائع‪ :‬ج ‪ ،7‬ص ‪53‬‬
‫ؓ‬ ‫(‪95‬‬
‫یوسف تائولی‪ :‬اشرف الھدایہ‪ :‬ج ‪ ،9‬ص ‪302‬‬ ‫(‪96‬‬
‫ابن رشد‪ ،‬بدایۃ المجتھد‪ :‬ج ‪ ،4‬ص ‪243‬‬
‫ِ‬ ‫(‪97‬‬
‫(‪ 98‬الماوردی‪ ،‬علی بن محمد‪ ،‬ابوالحسن‪ :‬ادب القاضی‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،138-137‬مطبعتہ االرشاد‪،‬‬
‫بغداد‪1391 ،‬ھ ‪1971 /‬ء‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪92‬‬ ‫(‪99‬‬
‫(‪ 100‬حاکم نیشا پوری‪ ،‬محمد بن عبدہللا‪( :‬م۔ ‪405‬ھ ‪ :)1014 /‬المستدرک علی الصحیحین‪ ،‬رقم‬
‫الحدیث‪ ،7023 :‬دارالباز للنشرو والتوزیع‪ ،‬مکۃ المکرمہ‪1404 ،‬ھ ‪1983 /‬ء‬
‫طرابلسی‪ ،‬علی بن خلیل‪( :‬م۔ ‪844‬ھ ‪1440 /‬ء)‪ :‬معین الحکام فیما یتردد بین الخصمین من‬
‫ؒ‬ ‫(‪101‬‬
‫االحکام‪ ،‬ص ‪ ،14‬مکتبہ عربیہ‪ ،‬کانسی روڈ کوئٹہ‪1393 ،‬ھ ‪1973 /‬ء‬
‫(‪ 102‬ماوردی‪ :‬احکام السلطانیہ‪ :‬ص ‪134‬‬
‫(‪ 103‬مرغینانی‪ :‬ہدایہ‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪ ،117‬مکتبہ امدادیہ‪ ،‬ملتان‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 104‬الخطیب الشربینی‪ ،‬محمد بن احمد‪( :‬م۔ ‪1977‬ھ ‪1569 /‬ء)‪ :‬مغنی المحتاج الی معرفۃ معافی‬
‫االولی‪1415 ،‬ھ ‪1994 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫الفاظ المنھاج‪ ،‬ج‪ ،6‬ص ‪ ،259‬دارالکتب العلمیہ‪ ،‬بیروت‪ ،‬الطبعۃ‬
‫یہ سفر کی وہ مقدار ہے‪ ،‬جہاں آدمی تین دن میں پیدل چل کر جا سکے۔‬ ‫٭‬
‫دفعہ نمبر ‪ 14‬میں بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء مورخہ ‪2001-8-13‬ء‬ ‫٭‬
‫ان الفاظ کا اضافہ کیا گیا‬
‫(‪ 105‬ماوردی‪ :‬االحکام السطانیۃ‪ :‬ص ‪140‬‬
‫(‪ 106‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 107‬حوالہ سابق‪141 ،‬‬
‫(‪ 108‬مجاہد قاسمی‪ :‬اسالمی عدالت‪ ،‬ص ‪ ،238‬ادارۃ القرآن والعلوم االسالمیہ کراچی‪ ،‬ط‪ :‬دوم‪،‬‬
‫‪1419‬ھ ‪1998 /‬ء‬
‫(‪ 109‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪:‬ص ‪29‬‬
‫(‪ 110‬ماوردی‪ :‬االحکام السلطانیہ‪ :‬ص ‪141‬‬
‫(‪ 111‬بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب االعتصام‪ ،‬رقم الحدیث‪7354 :‬‬
‫(‪ ii‬مسلم‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب االقضیہ‪ ،‬رقم الحدیث‪1716 :‬‬
‫(‪ 112‬دارقطنی‪ ،‬علی بن عمر‪( :‬م۔ ‪385‬ھ ‪995 /‬ء)‪ :‬السنن دار قطنی‪ ،‬رقم الحدیث‪،4544 :‬‬
‫دارالمعرفہ‪ ،‬بیروت‪1386 ،‬ھ ‪1966 /‬ء‬
‫(‪ 113‬حوالہ سابق‪ :‬رقم الحدیث‪4459 :‬‬
‫(‪ 114‬وکیع‪ ،‬محمد بن خلف‪( :‬م۔ ‪306‬ھ ‪918 /‬ء)‪ :‬اخبار القضاۃ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،104‬مطبعۃ االستقامۃ‪،‬‬
‫مصر‪ ،‬ط‪ :‬اول‪1367 ،‬ھ ‪1947 /‬ء‬
‫(‪ 115‬منیر العجلونی‪ ،‬دکتور‪ :‬عبقریۃ االسالم فی عہد الحکم‪ ،‬ص ‪ ،341‬جامعہ دمشق‪ ،‬شام‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 116‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 117‬بیہقی‪ :‬السنن الکبری‪ :‬کتاب االقضیہ باب مشاورۃ الوالی والقاضی فی االمر‪ :‬رقم الحدیث‪:‬‬
‫‪20326‬‬
‫(‪ 118‬طبری‪ ،‬محمد بن جریر‪ ،‬ابوجعفر‪( :‬م۔ ‪310‬ھ ‪922 /‬ء)‪ :‬تاریخ االمم والملوک‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪،422‬‬
‫دار التراث بیروت‪ ،‬الطبعۃ الثانیۃ‪1387 ،‬ھ ‪1967 /‬ء‬
‫(‪ 119‬وکیع‪ :‬اخبار القضاۃ‪ :‬ج ‪ ،1‬ص ‪91‬‬
‫مرکز تحقیق دیال‬
‫ِ‬ ‫(‪ 120‬ساجد الرحمن صدیقی‪ :‬اسالم میں پولیس اور احتساب کا نظام‪ ،‬ص ‪،38‬‬
‫سنگھ ٹرسٹ الئبریری‪ ،‬الہور‪1409 ،‬ھ ‪1988 /‬ء‬
‫(‪ 121‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪40‬‬
‫(‪ 122‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 123‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 124‬الساعاتی‪ ،‬احمد عبدالرحمن‪ :‬الفتح الربانی‪ ،‬ج ‪ ،16‬ص ‪ ،36‬دارالحدیث قاھرہ‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 125‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 126‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 127‬حوالہ سابق‬
‫٭ ذیلی سیکشن (‪ )6‬کا اضافہ بذریعہ آرڈیننس ‪ CXXXI‬بابت ‪2002‬ء مورخہ ‪-11-21‬‬
‫‪ 2002‬کو کیا گیا‬
‫(‪ 128‬قرآن کریم‪ :‬االحزاب ‪33:21‬‬
‫(‪ 129‬ابن کثیر‪ :‬التفسیر القرآن العظیم‪ :‬ج ‪ ،6‬ص ‪391‬‬
‫(‪ 130‬االزھری‪ ،‬محمد کرم شاہ‪ ،‬جسٹس‪ :‬ضیاء القرآن‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪ ،34-33‬ضیاء القرآن پبلی کیشنز‪،‬‬
‫الہور‪1399 ،‬ھ ‪1978 /‬ء‬
‫ت اسالمی‪،‬‬
‫(‪ 131‬ایم ایس ناز‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬اسالمی ریاست میں محتسب کا کردار‪ ،‬ص ‪ ،247‬ادارہ تحقیقا ِ‬
‫اسالم آباد‪ ،‬طہ‪ :‬اول‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫(‪ 132‬محمود عرنوس‪ :‬تاریخ القضاء فی االسالم‪ ،‬مترجم ا ُردو‪ :‬شیح محمد احمد پانی پتی‪ ،‬ص ‪،47‬‬
‫مشتاق بک کارنر اُردو بازار الہور‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 133‬ابن ابی الحدید‪ ،‬عبدالحمید ابن ہبتہ ہللا‪(:‬م۔ ‪655‬ھ ‪1257 /‬ء)‪ :‬شرح نہج البالغۃ‪ ،‬ج ‪3‬‬
‫(‪ 134‬شبلی نعمانی‪ :‬الفاروق‪ :‬ص ‪302‬‬
‫(‪ 135‬ابن کثیر‪ ،‬عماد الدین اسماعیل‪ ،‬ابوالفداء‪ :‬الہدایہ والنہایہ‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪ ،215‬داراحیاء التراث‬
‫االولی‪1408 ،‬ھ ‪1988 /‬ء‬‫ٰ‬ ‫العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬الطبعۃ‬
‫ت اسالم‪ ،‬کراچی‪،‬‬
‫(‪ 136‬علی ندوی‪ ،‬ابوالحسن‪ :‬تاریخ دعوت وعزیمت‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،51‬مجلس نشریا ِ‬
‫‪1397‬ھ ‪1976 /‬ء‬
‫(‪ 137‬صبحی صالح ‪ ،‬دکتور‪ :‬النظم االسالمیہ‪ ،‬ص ‪ ،326‬دارالعلوم للمالیین بیروت‪1388 ،‬ھ ‪/‬‬
‫‪1968‬ء‬
‫(‪ 138‬ایم ایس ناز‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬اسالمی ریاست میں محتسب کا کردار‪ :‬ص ‪104-103‬‬
‫(‪ 139‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪104‬‬
‫(‪ 140‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪104‬‬
‫(‪ 141‬حوالہ سابق‬
‫نظام حکومت‪392 389 :‬‬
‫ِ‬ ‫(‪ 142‬حامد انصاری‪ :‬اسالم کا‬
‫(‪ 143‬مجاہد قاسمی‪ :‬اسالمی عدالت‪ ،‬ص ‪215-214‬‬
‫(‪ 144‬ایف آئی آر نمبر ‪ 11/384‬مورخہ ‪ 11-8-17‬تھانہ‪ ،‬فتح پور ضلع لیہ‪ ،‬پنجاب‪ ،‬پاکستان‬
‫(‪ 145‬ماوردی‪ :‬االحکام السلطانیہ‪ :‬ص ‪139‬‬
‫(‪ 146‬مجاہد قاسمی‪ :‬اسالمی عدالت‪ :‬ص ‪238‬‬
‫(‪ 147‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪356-355‬‬
‫(‪ 148‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪358-357‬‬
‫(‪ 149‬طرابلسی‪ :‬معین الحکام‪ :‬ص ‪8‬‬
‫(‪ 150‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪:‬ص ‪37-36‬‬
‫٭ متبادل عبارت بذریعہ آرڈیننس ‪ LXXXVI‬بابت ‪2002‬ء‪ ،‬مورخہ ‪2002-10-25‬‬
‫قانون فوجداری (ترمیمی) ایکٹ (‪ )II of 1997‬سے ہوا‬
‫ِ‬ ‫٭٭ ان الفاظ کا اضافہ بروئے‬
‫(‪ 151‬قرآن کریم‪ :‬یوسف ‪13:36‬‬
‫(‪ 152‬قرآن کریم‪ :‬یوسف ‪13:39‬‬
‫(‪ 153‬ترمذی‪ :‬جامع ترمذی‪ ،‬باب کراھیۃ التفریق بین السبیی‪ ،‬رقم الحدیث‪1566 :‬‬
‫(‪ 154‬لطیف ہللا‪ ،‬صوبیدار‪’’ :‬قید وجیل کے شرعی احکام‘‘‪ ،‬منہاج‪ ،‬ج ‪ ،18‬شمارہ‪ ،4 :‬اکتوبر تا‬
‫دسمبر‪1421 ،‬ھ ‪2000 /‬ء‪ ،‬ص ‪ ،162‬دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری‪ ،‬الہور‬
‫فتاوی ھندیہ‪ :‬ج ‪ ،5‬ص ‪227‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪155‬‬
‫(‪ 156‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪38‬‬
‫(‪ 157‬حوالہ سابق‬
‫]٭٭٭[ حذف شدہ بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء‪ ،‬مورخہ ‪2001-8-13‬‬
‫(‪ 158‬ماوردی‪ :‬ادب القاضی‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪172‬‬
‫(‪ 159‬مجاہد قاسمی‪ :‬اسالمی عدالت‪ :‬ص ‪238‬‬
‫٭‪ ،‬٭٭ حذف شدہ بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء‪ ،‬مورخہ ‪2001-8-13‬‬
‫٭ نئی عبارت شامل کی گئی بذریعہ آرڈیننس ‪ XXVII‬بابت ‪2001‬ء مورخہ ‪2001-8-13‬‬
‫نبوی میں ریاست کا نشور و ارتقاء‪ ،‬ص ‪ ،464‬نشریات اردو‬
‫ؐ‬ ‫(‪ 160‬نثار احمد صدیقی‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬عہد‬
‫بازار‪ ،‬الہور‪1429 ،‬ھ ‪2008 /‬ء‬
‫(‪ 161‬ایم ایس ناز‪ ،‬اسالمی ریاست میں محتسب کا کردار‪ :‬ص ‪102‬‬
‫(‪ 162‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 163‬مجاہد قاسمی‪ :‬اسالمی عدالت‪( :‬حواشی)‪ :‬ص ‪216‬‬
‫] متبادل عبارت بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء‪ ،‬مورخہ ‪2001-8-13‬‬ ‫[‬
‫(‪ 164‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪35‬‬
‫(‪ 165‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪36‬‬
‫(‪ 166‬قرآن کریم‪ :‬النساء ‪58: 4‬‬
‫] متبادل عبارت بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء مورخہ ‪ 2001-8-13‬کو‬ ‫[‬
‫شامل کی گئی‬
‫٭٭٭ الفاظ بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء مورخہ ‪ 2001-8-13‬کو حذف کئے‬
‫گئے‬
‫یحیی بن شرف‪( :‬م‪676 :‬ھ ‪1277 /‬ھ)‪ :‬ریاض الصالحین‪ ،‬کتاب المامورات‪ ،‬باب فی‬ ‫ٰ‬ ‫(‪ 167‬النووی‪،‬‬
‫النصیحۃ‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،181 :‬موسسۃ الرسالۃ بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬الطبعۃ الثالثۃ‪1419 ،‬ھ ‪1998 /‬ء‬
‫(‪ 168‬قرآن کریم‪ :‬البقرۃ ‪191: 2‬‬
‫(‪ 169‬قرآن کریم‪ :‬المائدہ ‪5:32‬‬
‫(‪ 170‬مسلم بن حجاج‪( :‬م۔ ‪261‬ھ ‪874 /‬ء)‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب البر والصلۃ واالدب‪ ،‬باب تحریم‬
‫ظلم المسلم‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،2564 :‬دار احیاء التراث العربی‪ ،‬بیروت‪1410 ،‬ھ ‪1990 /‬ء‬
‫(‪ 171‬بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب النکاح‪ ،‬باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا‪ ،‬رقم الحدیث‪5200 :‬‬
‫(‪ 172‬ساجد صدیقی‪ :‬اسالم میں پولیس اور احتساب کا نظام‪ ،‬ص ‪38‬‬
‫(‪ 173‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪36‬‬
‫(‪ 174‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪37-36‬‬
‫(‪ 175‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪44‬‬
‫(‪ 176‬احمد عبدالرحمن الساعاتی‪ :‬الفتح الربانی‪ ،‬ج ‪ ،16‬ص ‪ ،36‬دارالفکر بیروت‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 177‬ساجد صدیقی‪ :‬اسالم میں پولیس اور احتساب کا نظام‪ ،‬ص ‪49‬‬
‫(‪ 178‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 179‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 180‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪54‬‬
‫(‪ 181‬الخصاف‪ :‬ادب القاضی‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪307‬‬
‫(‪ 182‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪317-316‬‬
‫(‪ 183‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪324‬‬
‫(‪ 184‬ایم ایس ناز‪ :‬اسالمی ریاست میں محتسب کا کردار‪ :‬ص ‪123‬‬
‫(‪ 185‬قرآن کریم‪ :‬النساء ‪4:29‬‬
‫(‪ 186‬قرآن کریم‪ :‬االنعام ‪6:151‬‬
‫(‪ 187‬ابن کثیر‪ :‬التفسیر القرآن العظیم‪ :‬ج ‪ ،3‬ص ‪362‬‬
‫(‪ 188‬قرآن کریم‪ :‬النساء ‪4:93‬‬
‫(‪ 189‬االزھری‪ ،‬محمد کرم شاہ‪ ،‬جسٹس‪ :‬ضیاء النبی‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪ ،753‬ضیاء القرآن پبلی کیشنز‪،‬‬
‫الہور‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫(‪ 190‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪765‬‬
‫(‪ 191‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 192‬الکتانی‪ ،‬عبدالحئی‪( :‬م۔ ‪1382‬ھ ‪1962 /‬ء)‪ :‬التراتیب االداریۃ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،228‬داراالرقم‪،‬‬
‫بیروت‪ ،‬الطبعۃ الثانیۃ‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 193‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪42‬‬
‫(‪ 194‬الخصاف‪ :‬ادب القاضی‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪338-337‬‬
‫(‪ 195‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 196‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 197‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 198‬حوالہ سابق‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪A-198‬‬
‫(‪ 199‬بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب المغازی‪ ،‬باب من فضائل اہل بدر‪ ،‬رقم الحدیث‪3983 :‬‬
‫(‪ 200‬شمیم حسن قادری‪ ،‬جسٹس‪ :‬اسالمی ریاست‪ ،‬ص ‪ ،292‬علماء اکیڈمی‪ ،‬محکمہ اوقاف الہور‪،‬‬
‫‪1407‬ھ ‪1986 /‬ء‬
‫(‪ 201‬ترمذی‪ :‬السنن‪ ،‬کتاب المناقب‪ ،‬باب فی مناقب اھل بیت النبی ﷺ‪ ،‬رقم الحدیث‪3786 :‬‬
‫(‪ 202‬ذھبی‪ ،‬محمد شمس الدین‪( :‬م ‪748‬ھ)‪ :‬تذکرۃ الحفاظ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،28‬دار احیاء التراث العربی‬
‫بیروت‪1377 ،‬ھ ‪1957 /‬ء‬
‫(‪ 203‬ساجد صدیقی‪ :‬اسالم میں پولیس اور احتساب کا نظام‪ ،‬ص ‪47‬‬
‫(‪ 204‬علی متقی‪ ،‬عالء الدین (م ‪975‬ھ)‪ :‬کنز العمال فی سنن واالقوال واالفعال‪ ،‬رقم الحدیث‪:‬‬
‫‪ ،13930‬موسسۃ الرسالۃ بیروت‪ ،‬الطبعۃ الخامسۃ‪1401 ،‬ھ ‪1981 /‬ء‬
‫(‪ 205‬ساجد صدیقی‪ :‬اسالم میں پولیس اور احتساب کا نظام‪ :‬ص ‪44‬‬
‫(‪ 206‬ابو یوسف‪ ،‬یعقوب بن ابراہیم‪ ،‬قاضی‪( :‬م۔ ‪182‬ھ ‪798 /‬ء)‪ :‬کتاب الخراج‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪،192‬‬
‫المکتبۃ االزھریۃ للتراث‪ ،‬القاھرہ‪ ،‬طبعۃ جدیدۃ‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 207‬ابن ھمام‪ ،‬محمد بن عبدالواحد‪ ،‬کمال الدین‪( :‬م۔ ‪861‬ھ ‪ :); 1456 /‬فتح القدیر‪ ،‬ج ‪ ،5‬ص ‪،380‬‬
‫دارالفکر‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫صدیق‪ ،‬ص ‪ ،167‬مترجم اُردو‪ :‬عبدالقیوم‪ ،‬ص ‪،167‬‬
‫ؓ‬ ‫(‪ 208‬محمد رواسقلعہ جی‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬فقہ ابوبکر‬
‫معارف اسالمی منصورہ‪1410 ،‬ھ ‪1989 /‬ء‬‫ِ‬ ‫ادارہ‬
‫(‪ 209‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪169‬‬
‫(‪ 210‬سالمت علی‪ :‬کتاب االختیار‪ ،‬مترجم اردو‪ :‬دارالمصنفین‪ ،‬اعظم گڈھ‪ ،‬انڈیا‪ ،‬ص ‪ ،63‬سنگ میل‬
‫پبلی کیشنز‪ ،‬الہور‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 211‬الشیبانی‪ ،‬محمد بن حسن‪( :‬م ‪189‬ھ)‪ :‬کتاب اْلثار‪ ،‬کتاب القصاص والحدود‪ ،‬باب حد من قطع‬
‫الطریق أو سرق‪ ،‬رقم الحدیث ‪ ،629‬دارالکتب العلمیہ‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬س ن‬
‫(‪ i( 212‬ابن قدامہ‪ :‬المغنی‪ ،‬ج ‪ ،9‬ص ‪103‬‬
‫(‪ ii‬وھبہ زحیلی‪ :‬ڈاکٹر‪ :‬الفقہ االسالمی وادلتہ‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪ ،176‬دارالفکر‪ ،‬سوریۃ‪ ،‬دمشق‪،‬‬
‫الطبعۃ الرابعۃ‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 213‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 214‬ابن عابدین شامی‪ ،‬محمد امین‪( :‬م۔ ‪1252‬ھ ‪1836 /‬ء)‪ :‬رد المحتار علی الدر المختار‪ ،‬ج ‪،4‬‬
‫ص ‪ ،84‬دارلفکر بیروت‪ ،‬الطبعۃ الثانیۃ‪1412 :‬ھ ‪1992 /‬ء‬
‫(‪ 215‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ ،‬ص ‪43‬‬
‫(‪ 216‬حوالہ سابق‪ ،‬ص ‪45‬‬
‫(‪ 217‬قرآن کریم‪ :‬الجمعہ ‪62:10‬‬
‫(‪ 218‬اصالحی‪ ،‬امین احسن‪ :‬اسالمی ریاست‪ ،‬ص ‪ ،120‬مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن‪ ،‬الہور‪،‬‬
‫سن‬
‫الکبری‪ ،‬باب الضمان عن المیت‪ ،‬رقم الحدیث‪11414 :‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪ i( 219‬بیہقی‪ :‬السنن‬
‫(‪ ii‬ظفر عثمانی‪ :‬اعالء السنن‪ ،‬ابواب الکفالۃ‪ ،‬باب الکفالۃ بالنفس‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،4836 :‬مکتبہ‬
‫امدادیہ ملتان‪ ،‬س ن‬
‫کون النھی عن المنکر من االیمان‪ ،‬رقم الحدیث‪78 :‬‬
‫(‪ 220‬مسلم‪ ،‬الجامع الصحیح‪ ،‬باب بیان ِ‬
‫(‪ 221‬ساجد صدیقی‪ :‬اسالم میں پولیس اور احتساب کا نظام‪ :‬ص ‪38‬‬
‫(‪ 222‬بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب االحکام‪ ،‬باب الحاکم یحکم بالقتل علی منمن وجب علیہ‪ ،‬رقم‬
‫الحدیث‪7155 :‬‬
‫(‪ 223‬کرمانی‪ ،‬محمد بن یوسف‪( :‬م‪786 :‬ھ ‪1384 /‬ء)‪ :‬تحقیق الکواکب الدراری شرح البخاری‪ ،‬ج‬
‫‪ ،4‬ص ‪ ،236‬دارا احیاء التراث العربی‪ ،‬بیروت‪1401 ،‬ھ ‪1980 /‬ء‬
‫(‪ 224‬شبلی نعمانی‪ :‬الفاروق‪ :‬ص ‪227‬‬
‫(‪ 225‬ساجد صدیقی‪ :‬اسالم میں پولیس اور احتساب کا نظام‪ :‬ص ‪49‬‬
‫(‪ 226‬ابن قیم‪ ،‬محمد بن ابی بکر‪( :‬م‪751 :‬ھ ‪1350 /‬ء)‪ :‬الطرق الحکمیہ فی السیاسۃ الشرعیہ‪ ،‬ص‬
‫‪ ،51‬دارالبیان‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫‪Nizami, Mazhar Hassan: Commentary on Cr.PC. P-45P.L.D Publishers )227‬‬
‫‪Lahore, N.D‬‬
‫(‪ 228‬خصاف‪ :‬ادب القاضی‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪316‬‬
‫ابن مازہ بخاری‪ ،‬عمر بن عبدالعزیز‪( :‬م۔ ‪536‬ھ ‪1141 /‬ء)‪ :‬شرح ادب القاضی‪ ،‬ج ‪،2‬‬ ‫(‪A-228‬‬
‫ص ‪ ،317‬مطبعۃ االرشاد‪ ،‬بغداد‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 229‬حوالہ سابق‪ ،‬ص ‪307‬‬
‫(‪ 230‬حوالہ سابق‪ ،‬ص ‪317‬‬
‫(‪ 231‬ابن حجر عسقالنی‪ :‬فتح الباری شرح صحیح البخاری‪ ،‬ج‪ ،4‬ص ‪470‬‬
‫(‪ 232‬بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب النکاح‪ ،‬باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا‪ ،‬رقم الحدیث‪5200 :‬‬
‫(‪ ii‬ابو دائود‪ ،‬سلیمان ابن اشعث‪( :‬م‪275 :‬ھ ‪828 /‬ء)‪ :‬السنن‪ ،‬کتاب الخراج واالمارۃ والفئی‪،‬‬
‫باب ما یلزم االمام من حق الرعیۃ‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،2928 :‬المکتبۃ العصریۃ‪ ،‬صیدا‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫استرعی‪ ،‬رقم الحدیث‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫الکبری‪ ،‬کتاب عشرۃ النساء‪ ،‬مسالۃ کل راع عما‬
‫ٰ‬ ‫(‪ iii‬نسائی‪ ،‬السنن‬
‫‪9128‬‬
‫خصاف‪ :‬ادب القاضی‪ :‬ج ‪ ،2‬ص ‪317‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪233‬‬
‫(‪ 234‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪318‬‬
‫(‪ 235‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪316‬‬
‫(‪ 236‬حوالہ سابق‪ ،‬ص ‪317‬‬
‫الکبری‪ ،‬کتاب الضمان‪ ،‬باب الضمان علی المیت‪ ،‬رقم الحدیث‪11414 :‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 237‬بیہقی‪ :‬السنن‬
‫(‪ ii‬ظفر عثمانی‪ :‬اعالء السنن‪ ،‬ابواب الکفالۃ‪ ،‬باب الکفالۃ بالنفس‪ ،‬رقم الحدیث‪4837 :‬‬
‫(‪ 238‬ابن مازہ بخاری‪ :‬عمر بن عبدالعزیز‪( :‬م۔ ‪536‬ھ ‪1141 /‬ء)‪ ،‬شرح ادب القاضی‪ :‬ج ‪ ،2‬ص‬
‫‪317-318‬‬
‫(‪ 239‬حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،2‬ص ‪317‬‬
‫(‪ 240‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪317‬‬
‫(‪ 241‬بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب الفتن باب قول النبی ﷺ‪ :‬سترون بعدی امور اتنکرونھا‪ ،‬رقم‬
‫الحدیث‪7052 :‬‬
‫االنبیاء‪ ،‬باب ماذکر عن بنی اسرائیل‪ ،‬رقم الحدیث‪3455 :‬‬
‫ؐ‬ ‫(‪ 242‬حوالہ سابق‪ :‬کتاب احادیث‬
‫بخاری‪ :‬شرح ادب القاضی‪ :‬ج ‪ ،2‬ص ‪318-317‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪ 243‬ابن مازہ‬
‫(‪ 244‬حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،2‬ص‪317‬‬
‫(‪ 245‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 246‬فیروز الدین‪ ،‬مولوی‪ :‬فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪ ،954‬فیروز سنز‪ ،‬الہور‪ ،‬س ن‬
‫‪Shorter Oxford English Dictionary, P-118, Oxford At the clavendon )247‬‬
‫‪press, 1964 AD / 1384 AH, Third Eidtion‬‬
‫‪Advanced Learner`s Encyclopaedic Dictionary, P-52, Oxford university )248‬‬
‫‪press, 1994 AD / 1405 AH‬‬
‫‪Webster New Collegiate Dictionary, P-712, G & C Merrian Company, )249‬‬
‫‪Springfield Massachussets, USA‬‬
‫‪AS. Oppe: Whartion's Law Lexicon, P-92, Sweet & Maxwell Ltd, )250‬‬
‫‪London, 14th Edition, / 1976‬‬
‫(‪ 251‬تنزیل الرحمن‪ :‬قانونی لغت‪ ،‬ص ‪ ،53‬پی ایل ڈی پبلشرز‪ ،‬نابھا روڈ الہور‪ ،‬ط‪ :‬بارہویں‪،‬‬
‫‪1429‬ھ ‪2008 /‬ء‬
‫‪Mazhar Nizami: Commentary on Cr.PC. P-71 )252‬‬
‫‪Ibid )253‬‬
‫خصاف‪ :‬ادب القاضی‪ :‬ج ‪ ،2‬ص ‪378‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪254‬‬
‫(‪ 255‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 256‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪378‬‬
‫(‪ 257‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 258‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪379‬‬
‫(‪ 259‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪381‬‬
‫(‪ 260‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪380‬‬
‫(‪ 261‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ ،‬ص ‪53‬‬
‫(‪ 262‬قرآن کریم‪ :‬البقرہ ‪2:188‬‬
‫اوعی من سامع‪ :‬رقم الحدیث‪67 :‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 263‬بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب العلم‪ ،‬باب رب مبلغ‬
‫(‪ 264‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪54‬‬
‫(‪ 265‬خصاف‪ :‬ادب القاضی‪ :‬ج ‪ ،2‬ص ‪317‬‬
‫(‪ 266‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪318‬‬
‫ابودائود‪ :‬کتب االقضیۃ‪ ،‬باب فی تضمین العور‪ :‬رقم الحدیث‪3565 :‬‬ ‫(‪i( 267‬‬
‫دار قطنی‪ :‬السنن‪ ،‬کتاب البیوع‪ ،‬رقم الحدیث‪2960 :‬‬ ‫(‪ii‬‬
‫(‪ 268‬بیہقی‪ :‬السنن الکبری‪ :‬کتاب الضمان‪ ،‬باب الضمان علی المیت‪ ،‬رقم الحدیث‪11414 :‬‬
‫(‪ ii‬ظفر عثمانی‪ :‬اعالء السنن‪ :‬ابواب الکفالۃ‪ ،‬باب لکفالۃ بالنفس‪ ،‬رقم الحدیث‪4837 :‬‬
‫‪Mazhar Nizami: Commentary on Cr. PC, P:73 )269‬‬
‫بخاری‪ :‬شرح ادب القاضی‪ :‬ج ‪ ،2‬ص ‪338-337‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪ 270‬ابن مازہ‬
‫(‪ 271‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪55‬‬
‫(‪ 272‬قرآن کریم‪ :‬النور ‪24:19‬‬
‫(‪ 273‬قرآن کریم‪ :‬العنکبوت ‪29:45‬‬
‫(‪ 274‬قرآن کریم‪ :‬البقرۃ ‪2:169‬‬
‫(‪ 275‬قرآن کریم‪ :‬البقرۃ ‪2:268‬‬
‫(‪ 276‬قرآن کریم‪ :‬االعراف ‪7:28‬‬
‫(‪ 277‬بخاری‪ :‬االدب المفرد‪ ،‬باب یس المومن بالطعان‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،310 :‬دارالبشائر االسالمیہ‪،‬‬
‫بیروت‪ ،‬الطبعۃ الثالثہ‪1409 ،‬ھ ‪1989 /‬ء‬
‫بخاری‪ ،‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب االیمان‪ ،‬باب امور االیمان‪ ،‬رقم الحدیث‪9 :‬‬ ‫(‪i( 278‬‬
‫ابن ماجہ‪ ،‬محمد بن یزید‪( :‬م۔ ‪273‬ھ ‪886 /‬ء)‪ :‬السنن‪ ،‬کتاب االیمان وفضائل‬ ‫(‪ii‬‬
‫عیسی البابی الحلبی‪ ،‬س ن‪ ،‬رقم‬
‫ٰ‬ ‫الصحاب ؓہ والعلم‪ ،‬باب فی االیمان‪ ،‬داراحیاء الکتاب العربیہ‪ ،‬فیصل‬
‫الحدیث‪58 :‬‬
‫(‪ 279‬بخاری‪ :‬االدب المفرد‪ ،‬باب یس المومن بالطعان‪ ،‬رقم الحدیث‪312 :‬‬
‫س ِم َع بفاحش ٍۃ فَاَفشاھا‪ ،‬رقم الحدیث‪324 :‬‬
‫(‪ 280‬حوالہ سابق‪ :‬باب من َ‬
‫(‪ 281‬حوالہ سابق‪ :‬رقم الحدیث‪325 :‬‬
‫(‪ 282‬حوالہ سابق‪ :‬رقم الحدیث‪326 :‬‬
‫(‪ 283‬بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب المغازی‪ ،‬من فضائل اھل بدر‪ ،‬رقم الحدیث‪3983 :‬‬
‫خصاف‪ :‬ادب القاضی‪ :‬ج ‪ ،2‬ص ‪311-310‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪284‬‬
‫(‪ 285‬ابن مازہ بخاری‪ ،‬شرح ادب القاضی‪ :‬ج ‪ ،2‬ص ‪311‬‬
‫(‪ 286‬قرآن کریم‪ :‬البقرۃ ‪2:188‬‬
‫(‪ 287‬قرآن کریم‪ :‬البقرۃ ‪2:42‬‬
‫(‪ 288‬قرآن کریم‪ :‬المومنون ‪23:51‬‬
‫(‪ 289‬مسلم‪ ،‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب االیمان‪ ،‬باب قول النبی ﷺ من غشنا فلیس منا‪ ،‬رقم الحدیث‪102 :‬‬
‫(‪ 290‬بخاری‪ :‬االدب المفرد‪ ،‬باب ما ذکر فی المکر والخدیعۃ‪ ،‬رقم الحدیث‪418 :‬‬
‫(‪ 291‬طبرانی‪ ،‬سلیمان بن احمد ایوب‪( :‬م ‪360‬ھ ‪1970 /‬ء)‪ :‬المعجم االوسط‪ ،‬مرویات من اسمہ‬
‫مسعود‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،8610 :‬دارالحرمین قاھرہ‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 292‬ابودائود‪ :‬السنن‪ ،‬باب من القضاء‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،3635 :‬المکتبۃ العصریۃ صیدا‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 293‬حامد االنصاری‪ ،‬اسالم کا نظام حکومت‪ ،‬ص ‪411‬‬
‫(‪ 294‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪56‬‬
‫آلوسی‪ ،‬محمود احمد‪ ،‬سید‪( :‬م ‪1270‬ھ ‪1853 /‬ء)‪ :‬روح المعانی‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪ ،251‬مکتبہ‬
‫ؒ‬ ‫(‪295‬‬
‫امدادیہ ملتان‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 296‬قرآن کریم‪ :‬االنعام ‪6:108‬‬
‫سیوطی‪ :‬عبدالرحمن بن ابی بکر‪ ،‬جالل الدین‪( :‬م۔ ‪911‬ھ ‪1505 /‬ء)‪ :‬ج ‪ ،3‬ص ‪،291‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪297‬‬
‫الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور‪ ،‬دارالفکر بیروت‪ ،‬س ن‬
‫کثیر‪ :‬تفسیر القرآن العظیم‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪282‬‬
‫(‪ 298‬ابن ؒ‬
‫(‪ 299‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 300‬قرطبی‪ ،‬محمد بن احمد‪( :‬م‪668 :‬ھ ‪1269 /‬ء)‪ :‬الجامع الحکام القرآن‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪،60‬‬
‫دارالکتب المصریہ‪ ،‬القاھرہ‪ ،‬الطبعۃ الثانیۃ‪1384 :‬ھ ‪1964 /‬ء‬
‫(‪ 301‬حوالہ سابق‬
‫‪Pakistan Penal Code, Section # 298, Mansoor Book house, Lahore, N D )302‬‬
‫(‪ 303‬محمد ارشد‪’’ :‬عصر حاضر اور سد ذرائع‘‘‪ ،‬منہاج‪ ،‬ج ‪ ،18‬شمارہ ‪ ،4‬اکتوبر تا دسمبر‬
‫‪1421‬ھ ‪2000 /‬ء‪ ،‬ص ‪ ،5‬دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری الہور‬
‫قیم‪ ،‬الطرق الحکمیہ فی السیاسۃ الشرعیہ‪ ،‬ص ‪233‬‬
‫(‪ 304‬ابن ؒ‬
‫(‪ 305‬محفوظ احمد‪ ،‬پروفیسر‪’’ :‬حق المرافعہ‪ ،‬اسالم میں حق اپیل کا تصور‘‘‪ ،‬منہاج‪ ،‬ج ‪،12‬‬
‫شمارہ ‪ ،2‬اپریل ‪1415‬ھ ‪1994 /‬ء‪ ،‬ص ‪ ،114‬مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری‪ ،‬الہور‬
‫(‪ 306‬مجاہد قاسمی‪ :‬اسالمی عدالت‪ :‬ص ‪362‬‬
‫(‪ 307‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪356‬‬
‫(‪ i( 308‬بخاری‪ :‬الصحیح‪ ،‬کتاب االعتصام‪ ،‬باب ماجآء فی اجتھاد القضاۃ‪ ،‬رقم الحدیث‪7352 :‬‬
‫(‪ ii‬مسلم‪ :‬کتاب االقضیہ‪ ،‬باب اجر الحاکم اذا اجتھد‪ ،‬رقم الحدیث‪1716 :‬‬
‫(‪ 309‬وکیع‪ ،‬محمد بن خلف‪( :‬م۔ ‪306‬ھ ‪918 /‬ء)‪ :‬اخبار القضاۃ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،97-96‬عالم الکتب‪ ،‬س‬
‫ن‬
‫(‪ 310‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪60‬‬
‫قیم‪ :‬الطرق الحکمیہ فی السیاسۃ الشرعیۃ‪ ،‬ص ‪89‬‬
‫(‪ 311‬ابن ؒ‬
‫(‪ 312‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 313‬ابو دائود‪ :‬السنن‪ ،‬کتاب االقضیۃ‪ ،‬باب فی الحبس فی الدین‪ ،‬رقم الحدیث‪3631 :‬‬
‫المحلی باْلثار‪ ،‬ج ‪ ،12‬ص ‪ ،25‬دارالفکر‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 314‬ابن حزم‪ ،‬علی بن احمد‪( :‬م ‪456‬ھ)‪:‬‬
‫(‪ 315‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 316‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 317‬ترمذی‪ :‬السنن‪ :‬کتاب الحدود‪ ،‬باب ماجآء فی الرجم‪ ،‬رقم الحدیث‪1435 :‬‬
‫(‪ 318‬قرآن کریم‪ :‬النساء ‪4:15‬‬
‫(‪ 319‬ابن حزم‪ :‬المحلی باْلثار ‪ ،‬ج ‪ ،12‬ص ‪25‬‬
‫(‪ 320‬ابو یوسف‪ :‬کتاب الخراج‪ ،‬ص ‪192‬‬
‫(‪ 321‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ ،‬ص ‪61-60‬‬
‫باب نمبر ‪2‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ 101‬تا ‪200‬‬

‫(ت) تالشیوں کے متعلق احکام عام‬

‫دفعہ نمبر ‪ :101‬وارنٹ تالشی کی نسبت ہدایت وغیرہ‬

‫دفعات ‪ 83 ،82 ،79 ،77 ،75 ،43‬اور ‪ 84‬کے احکام جہاں تک ہو سکے‪ ،‬ان سب وارنٹ ہائے‬
‫تالشی پر اطالق پذیر ہوں گے جو دفعہ ‪ ،96‬دفعہ ‪ ،98‬دفعہ ‪ A-99‬یا دفعہ ‪ 100‬کے تحت جاری ہوں‬
‫گے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :102‬اشخاص جو بند مقام کے مہتمم ہوں‪ ،‬چاہئے کہ تالشی لینے دیں‬
‫جب کبھی کوئی مقام جو باب ہذا کے تحت قابل تالشی یا معائنہ ہو‪ ،‬بند ہو تو اس‬ ‫(‪1‬‬
‫شخص کو جو ایسے مقام میں رہتا ہو‪ ،‬یا اس کا اہتمام کرتا ہو‪ ،‬الزم ہے کہ عہدیدار یا شخص تعمیل‬
‫کنندہ وارنٹ کے مطالبہ پر اور وارنٹ کے پیش کرنے پر اسے آزادانہ اندر جانے دے اور اس میں‬
‫تالشی کیلئے اسے تمام معقول سہولتیں بہم پہنچائے۔‬
‫اگر ویسے مقام میں اس طور داخلہ نہ ہو سکتا ہو تو عہدے دار یا دیگر شخص‬ ‫(‪2‬‬
‫تعمیل کنندہ وارنٹ مجاز ہوگا کہ دفعہ ‪ 84‬میں محکوم طریقہ پر عمل کرے۔‬
‫جب ویسے مقام میں یا اس کے اردگرد کسی شخص کے متعلق یہ معقول شبہ ہو کہ‬ ‫(‪3‬‬
‫اس نے اپنے پاس کوئی شے چھپائی ہوئی ہے‪ ،‬جس کی تالشی ہونی چاہئے تو جائز ہے کہ ویسے‬
‫شخص کی تالشی لی جائے‪ ،‬اگر ویسا شخص کوئی عورت ہے تو دفعہ ‪ 52‬کی ہدایات کو ملحوظ‬
‫رکھا جائیگا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :103‬تالشی گواہوں کے سامنے لی جائے‬

‫باب ہذا کے تحت تالشی لینے سے قبل عہدیدار یا دیگر شخص جو تالشی لینے کو‬ ‫(‪1‬‬
‫ہو‪ ،‬پر الزم ہوگا کہ اس عالقہ کے‪ ،‬جس میں تالشی مطلوب مقام واقع ہے‪ ،‬دو یا دو سے زیادہ معزز‬
‫باشندوں کو حاضر آنے اور تالشی دیکھنے کیلئے طلب کرے اور ان کو یا ان میں سے کسی کو ایسا‬
‫کرنے کا تحریری حکم جاری کرے۔‬
‫تالشی ان کی موجودگی میں ہوگی اور الزم ہے کہ جملہ اشیاء کی ایک فہرست جو‬ ‫(‪2‬‬
‫تالشی کے وقت قبضہ میں لی جائیں اور ان مقامات کی کہ جہاں وہ بالترتیب پائی جائیں‪ ،‬ویسا‬
‫عہدیدار یا دیگر شخص تیار کرے گا اور ان پر ویسے گواہوں کے دستخط ہوں‪ ،‬لیکن کسی شخص‬
‫کو جس نے دفعہ ہذا کے تحت تالشی دیکھی ہو‪ ،‬عدالت میں بطور گواہ تالشی حاضر ہونے کا حکم‬
‫نہیں دیا جائے گا سوائے اس کے کہ اس کو خاص طور پر طلب کیا جائے۔‬
‫(‪ 3‬زیر تالشی مقام کا مکین موجود رہ سکتا ہے‪ :‬مقام تالشی کے مکین یا اس کی طرف‬
‫سے کسی اور شخص کو ہر صورت میں اجازت دی جائے گی کہ تالشی کے وقت حاضر رہے اور‬
‫اس فہرست کی ایک نقل جو حسب دفعہ ہذا مرتب کی جائے اور جس پر گواہان مذکور کے دستخط‬
‫ہوں‪ ،‬ویسے مکین کو یا شخص کو اس کی استدعا پر حوالہ کی جائے گی۔‬
‫جب کسی شخص کی تالشی دفعہ ‪ 102‬کی ضمنی دفعہ (‪ )3‬کے تحت لی جائے‪،‬‬ ‫(‪4‬‬
‫قبضہ میں لی گئی جملہ اشیاء کی ایک فہرست مرتب کی جائے گی اور اس کی نقل ویسے شخص‬
‫کی درخواست پر اس کے حوالہ کی جائے گی۔‬
‫کوئی شخص جو بالمعقول وجہ کے زیردفعہ ہذا حاضر ہونے‪ ،‬تالشی دیکھنے سے‬ ‫(‪5‬‬
‫انکار یا غفلت کرے گا جب کہ ایسا کرنے کیلئے اس کو تحریری حکم نامہ دیا جائے یا پیش کیا‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 187‬کے تحت جرم کا مرتکب‬ ‫جائے تو سمجھا جائے گا کہ وہ مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫ہوا ہے۔‬

‫(ٹ) متفرق‬

‫دفعہ نمبر ‪ :104‬پیش کردہ دستاویز وغیرہ کو ضبط کرنے کا اختیار‬


‫ہر عدالت مجاز ہوگی کہ اگر مناسب سمجھے تو ایسی کوئی دستاویز یا شے جو اس کے روبرو‬
‫مجموہ ہذا کے تحت پیش کی گئی ہو‪ ،‬ضبط کرلے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :105‬مجسٹریٹ اپنے روبرو تالشی لینے کی ہدایت کر سکتا ہے‬

‫کوئی مجسٹریٹ ہدایت کرنے کا مجاز ہے کہ کسی مقام کی تالشی‪ ،‬جس کی تالشی لینے کیلئے وہ‬
‫وارنٹ تالشی جاری کرنے کا مجاز ہے‪ ،‬اس کے روبرو لی جائے۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعات نمبر‪ 105 ،104 ،103 ،102 ،101‬میں کوئی بات اسالمی‬
‫تعلیمات کے منافی معلوم نہیں ہوتی ہے‪ ،‬لہٰ ذا ان میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫حصہ نمبر ‪4‬‬


‫انسداد جرائم‬
‫(باب نمبر ‪)8‬‬
‫حفظ امن اور نیک چلنی کی ضمانت کی بابت‬

‫(الف) سزا یابی پر حفظ امن کیلئے ضمانت‬

‫دفعہ نمبر ‪ :106‬سزا یابی پر حفظ امن کیلئے ضمانت‬

‫ت پاکستان کے تحت قابل سزا یابی‬


‫جب کوئی شخص جس پر باب ‪ 8‬مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪1‬‬
‫کسی ایسے جرم کا الزام ہو جو اس کی دفعہ ‪ ،143‬دفعہ ‪ ،149‬دفعہ ‪ A-153‬یا دفعہ ‪ 154‬یا جملہ‬
‫دیگر جرم جس میں نقص امن شامل ہو یا اس کی اعانت ہو‪ ،‬کے عالوہ ہو‪ ،‬یا کوئی شخص جس پر‬
‫تخویف مجرمانہ کے ارتکاب کا الزام ہو‪ ،‬ایسے جرم کیلئے ہائی کورٹ‪ ،‬عدالت سیشن جج یا عدالت‬
‫]‪22‬٭٭٭[ مجسٹریٹ درجہ اول کے سزا یاب ہو۔‬
‫اور ایسی عدالت کی رائے ہو کہ ایسے شخص کو مچلکہ حفظ امن تحریر کرنے کیلئے حکم دینا‬
‫ضروری ہے تو ایسی عدالت مجاز ہوگی کہ ویسے شخص کو سزا دیتے وقت حکم دے کہ وہ مچلکہ‬
‫برائے حفظ امن مع یا بالضامنان ایسی رقم کا تحریر کرے جو اس کے ذرائع کے مطابق ہو کہ وہ‬
‫ایسے عرصہ کے دوران پرامن رہے گا جو تین سال سے زائد نہ ہوگا اور جو عدالت مقرر کرنا‬
‫مناسب سمجھے۔‬

‫وضاحت‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کہا گیا ہے کہ یہ عدالت کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کسی شحص‬
‫کو سزا دے تو اس سے حفظ امن کا مچلکہ مع یا بغیر ضامنوں کے آپ کی حیثیت کے مطابق طلب‬
‫کر سکتی ہے‪ ،‬جس میں تحریر ہو کہ وہ پرامن رہے گا۔ یہ مچلکہ شخصی ضمانت یا مالی ضمانت‬
‫کے متعلق ہو سکتا ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی نظام عدالت میں بھی اس سلسلے میں مثالیں موجود ہیں‪:‬‬
‫اسالمی ٔ‬
‫’’حضور ﷺ نے مہتمم شخص کو قید کیا اور دوسری روایت میں ہے کہ مہتمم سے احتیاطا ً‬
‫ضامن بھی لیا‘‘۔ (‪)1‬‬
‫حارثہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے فجر کی نماز حضرت عبدہللا بن مسعودؓ کے ساتھ پڑھی۔ پھر‬
‫ان کے سامنے ابن نواحہ اور اس کے ساتھیوں کے مرتد ہونے اور مسیلمہ کے رسول ہونے کی‬
‫آپ نے ابن نواحہ کو قتل کرنے کا حکم دیا‪ ،‬پھر مرتد جماعت‬
‫گواہی دینے کا قصہ ذکر کیا‪ ،‬چنانچہ ؓ‬
‫آپ کو یہ مشورہ دیا گیا کہ ان سے توبہ کرائیے اور ان کے خاندان والوں سے ضامن‬‫کے بارے میں ؓ‬
‫آپ نے ان سے توبہ کرائی اور (احتیاطاً) ان کے قبیلے والوں سے ضامن لئے‘‘۔ (‪)2‬‬‫لیں‪ ،‬چنانچہ ؓ‬
‫نخعی سے بھی روایت ہے‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫ابراہیم‬
‫فَیَ ُج ْو ُز اخذا الکفیل فیہ (‪)3‬‬
‫’’وہ ضامن لینے کو جائز قرار دیتے تھے‘‘۔‬
‫درج باال سطور سے ثابت ہوا کہ کسی کو ضمانت پر رہا کرنے سے پہلے اس شخص سے‬
‫آئندہ احتیاط رکھنے کے بارے میں تحریری یقین دہانی لی جا سکتی ہے تاکہ ممکنہ خطرات سے‬
‫بچتے ہوئے امن وامان کو یقینی بنایا جا سکے۔‬
‫اگر حکم سزا اپیل یا کسی دوسری صورت میں مسترد کردیا جائے تو مچلکہ جو اس‬ ‫(‪2‬‬
‫طرح تحریر کیا گیا ہو‪ ،‬کالعدم ہو جائے گا۔‬
‫عدالت اپیل یا وہ عدالت جو اپنے اختیارات نگرانی بروئے کار ال رہی ہو‪ ،‬مجاز‬ ‫(‪3‬‬
‫ہوگی کہ دفعہ ہذا کے تحت حکم صادر کرے۔‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم‬
‫کی ضرورت نہیں۔‬

‫(ب) دیگر صورتوں میں حفظ امن اور نیک چلنی کی ضمانت‬

‫دفعہ نمبر ‪ :107‬دیگر صورتوں میں حفظ امن کیلئے ضمانت‬


‫جب کبھی کسی ]‪23‬مجسٹریٹ درجہ اول[ کو اطالع دی جائے کہ اغلبا ً کوئی شخص‬ ‫(‪1‬‬
‫نقص امن کا مرتکب ہوگا یا سکون عامہ میں خلل ڈالے گا یا کوئی ایسا بے جا فعل کرے گا جس سے‬
‫اغلبا ً نقص امن پیدا ہوگا یا سکون عامہ میں خلل پڑے گا تو مجسٹریٹ اگر اس کی رائے میں‬
‫کارروائی کرنے کی کافی وجہ ہو‪ ،‬مجاز ہوگا کہ حسب ذیل محکوم کردہ طریقہ سے‪ ،‬ایسے شخص‬
‫کو یہ وجہ بتانے کا حکم صادر کرے کہ اسے ایسی مدت کیلئے جو ایک سال سے زائد نہ ہو‪ ،‬جیسا‬
‫کہ مجسٹریٹ مقرر کرنا مناسب سمجھے‪ ،‬حفظ امن کیلئے مچلکہ مع یا بالضامنان تحریر کرنے کا‬
‫کیوں نہ حکم دیا جائے۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت کوئی کارروائی زیر عمل نہ الئی جائے گی جب تک کہ یا تو وہ‬ ‫(‪2‬‬
‫شخص جس کی نسبت اطالع ملی ہو یا وہ مقام جہاں نقص امن یا خلل کا اندیشہ ہو‪ ،‬ویسے مجسٹریٹ‬
‫کے عالقہ اختیار کی مقامی حدود کے اندر نہ ہو اور کسی مجسٹریٹ کے روبرو ]‪24‬بجز سیشن جج‬
‫کی منظوری کے[ کوئی کارروائی عمل میں نہ الئی جائے گی جب تک کہ وہ شخص جس کی نسبت‬
‫اطالع ملی ہو اور وہ مقام جہاں نقص امن یا خلل کا اندیشہ ہو‪ ،‬دونوں اس مجسٹریٹ کے حلقہ اختیار‬
‫کی مقامی حدود کے اندر نہ ہوں۔‬
‫ایسے مجسٹریٹ کا طریقہ کار جسے ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت کارروائی کرنے کا‬ ‫(‪3‬‬
‫اختیار نہ دیا گیا ہو‪ :‬جب کوئی مجسٹریٹ جس کو ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت عمل کرنے کا اختیار نہ‬
‫دیا گیا ہو‪ ،‬یا باور کرنے کی وجہ رکھتا ہو کہ کسی شخص کی نسبت احتمال ہے کہ وہ نقض امن‬
‫کرے گا یا سکون عامہ میں خلل ڈالے گا یا کوئی ایسا فعل بے جا کرے گا جس سے اغلبا ً نقص امن‬
‫پیدا ہو گا یا سکون عامہ میں خلل پڑے گا اور یہ کہ ایسا نقص امن یا خلل کا ایسے شخص کو‬
‫حراست میں رکھے بغیر کسی دیگر طریقہ سے انسداد نہیں ہو سکتا تو ایسا مجسٹریٹ اپنی وجوہات‬
‫قلم بند کرکے مجاز ہوگا کہ ایسے شخص کے خالف اگر وہ پہلے سے حراست میں یا عدالت میں نہ‬
‫ہو‪ ،‬گرفتاری کا وارنٹ جاری کرے اور ایسے شخص کو مع اپنی وجوہات کی نقل کے‪ ،‬ایسے‬
‫مجسٹریٹ کے پاس بھیجے جو مقدمہ کی نسبت عمل کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔‬
‫وہ مجسٹریٹ جس کے روبرو کسی شخص کو ضمنی دفعہ (‪ )5‬کے تحت بھیجا گیا‬ ‫(‪4‬‬
‫ہو‪ ،‬اپنی صوابدید پر مجاز ہوگا کہ باب ہذا کے تحت اپنی طرف سے کی جانے والی مزید کارروائی‬
‫ہونے تک ایسے شخص کو حراست میں رکھے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کے بارے میں اطالع ملے کہ‬
‫اسالمی ٔ‬
‫اس کے کسی فعل سے امن وامان میں خلل پڑے گا اور مجسٹریٹ کارروائی کرنا چاہے تو ایک سال‬
‫کا مچلکہ مع یا بال ضامنان لے سکتا ہے۔ ذیلی شق نمبر ‪ 3‬میں ہے کہ کسی شحص کے متعلق نقص‬
‫امن کا احتمال ہو اور متعلقہ شخص کو حراست میں رکھے بغیر بچنے کا کوئی اور طریقہ نہ ہو تو‬
‫اس کی گرفتاری کرکے مجاز عدالت کو بھیجے گا جو اسے مزید کارروائی تک حراست میں رکھے‬
‫گی۔‬
‫جہاں تک کسی شحص کے متعلق صرف اطالع ملنے پر کارروائی کرنے کا تعلق ہے تو‬
‫اسالم اس وقت تک اس کی اجازت نہیں دیتا جب تک تحقیق نہ کر لی جائے۔ قرآن مجید میں ہے‪:‬‬
‫یَا أَ یُّ َھا الَّذِینَ آ َمنُوا إِن َجاء ُک ْم فَا ِس ٌق بِنَبَ ٍأ فَتَبَیَّنُوا (‪)4‬‬
‫’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق‬
‫کرلو‘‘۔‬
‫نیز کسی کے متعلق محض ظن وتخمین کی بناء پر کارروائی سے بھی منع فرمایا گیا ہے۔ ارشاد‬
‫تعالی ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫باری‬
‫سوا (‪)5‬‬ ‫الظ ِِّن ِإثْ ٌم َو َال ت َ َج َّ‬
‫س ُ‬ ‫ض َّ‬ ‫یرا ِ ِّمنَ َّ‬
‫الظ ِِّن ِإ َّن َب ْع َ‬ ‫َیا أَ یُّ َھا الَّذِینَ آ َمنُوا اجْ ت َ ِنبُوا َک ِث ً‬
‫’’اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو‪ ،‬بیشک بعض گمان گناہ ہیں اور (عیبوں) کی‬
‫جستجو نہ کرو‘‘۔‬
‫مندرجہ باال آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف اطالع پر کسی کے خالف کارروائی نہ کی‬
‫جائے بلکہ پہلے اس کی اچھی طرح تحقیق کر لی جائے۔ دوسری آیت مبارکہ میں مسلمان بھائیوں‬
‫بارے میں بدگمانی سے اور تجسس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کے عیب تالش نہ کرو۔ ہاں البتہ‬
‫تحقیق کرنے کے بعد کسی شخص کے بارے میں ٹھوس ثبوت یا شہادتیں مل جائیں تو عوامی مفاد‬
‫کی خاطر اس کے خالف کارروائی کرنا جائز ہے کیونکہ کسی شخص کو مسلمانوں کی جان ومال‬
‫ضائع کرنے کا حق نہیں ہے اور کسی بھی تخریبی کارروائی کو روکنے کیلئے عدالت اپنے‬
‫ؓ‬
‫فاروق کو اطالع ملی کہ فالں دو‬ ‫صوابدیدی اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ مثالً حضرت عمر‬
‫آپ نے جا کر تالشی لی تو ایک مکان میں کچھ نہ مال جبکہ دوسرے‬ ‫گھروں میں شراب ہے‪ ،‬چنانچہ ؓ‬
‫آپ نے اس گھر کو منہدم کردیا۔ (‪)6‬‬
‫میں شراب موجود تھی۔ چنانچہ ؓ‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں صرف اطالع ملنے یا احتمال کی بنیاد پر کسی شخص کے خالف‬
‫کارروائی کی اجازت دی گئی ہے جو کہ اسالمی اصولوں کے منافی ہے۔ لہٰ ذا اس دفعہ میں اسالمی‬
‫نکتہ نگاہ کے مطابق ترمیم کی جانی چاہئے۔‬
‫ٔ‬
‫دفعہ نمبر ‪ :108‬ان اشخاص سے نیک چلنی کی ضمانت جو فتنہ انگیز مواد کی تشہیر کریں‬

‫جب کبھی]‪ 25‬مجسٹریٹ درجہ اول[ کو خبر ملے کہ اس کے عالقہ اختیار کی حدود کے اندر کوئی‬
‫ایسا شخص ہے جو ویسی حدود کے اندر یا باہر زبانی طور پر یا تحریرا ً یا کسی دیگر طریقہ سے‬
‫دانستہ تشہیر کرتا ہے یا تشہیر کرنے کی کوشش کرتا ہے یا کسی طرح تشہیر میں معاونت کرتا ہے‪:‬‬
‫ت‬
‫کوئی فتنہ انگیز مواد‪ ،‬یعنی کوئی مواد جس کی اشاعت تعزیرا ِ‬ ‫(‪a‬‬
‫پاکستان کی دفعہ ‪ A-123‬یا دفعہ ‪ A-124‬کے تحت قابل سزا ہو‪ ،‬یا‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ A-153‬کے‬
‫کوئی ایسا مواد جو مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪b‬‬
‫تحت قابل سزا ہے‪ ،‬یا‬
‫ت پاکستان‬
‫کسی جج کی نسبت کوئی ایسا مواد جو مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪c‬‬
‫کے تحت تخویف مجرمانہ یا ازالہ حیثیت عرفی کے مترادف ہو۔‬
‫تو ویسا مجسٹریٹ‪ ،‬اگر اس کی رائے میں کارروائی کرنے کی کافی وجہ ہو‪ ،‬مجاز ہوگا کہ بعد ازیں‬
‫محکوم کردہ طریقہ پر ایسے شخص پر ایسے شخص کو وجہ ظاہر کرنے کا حکم دے کہ اس سے‬
‫ایسی مدت کیلئے جو ایک سال سے زائد نہ ہوگی اور جسے مجسٹریٹ مقرر کرنا مناسب سمجھے‪،‬‬
‫نیک چلن رہنے کیلئے مچلکہ مع یا بالضامنان کے کیوں نہ لیا جائے۔‬
‫کسی ایسی اشاعت کے ایڈیٹر‪ ،‬مالک طابع یا ناشر کے خالف‪ ،‬جو رجسٹرڈ ہو اور جس کی تالیف‪،‬‬
‫چھپائی اور اشاعت مغربی پاکستان کے پریس وپبلی کیشن آرڈیننس‪1963 ،‬ء یا کسی دیگر نافذ الوقت‬
‫قانون بابت طباعت و اشاعت کے مطابق ہو‪ ،‬کسی ایسے مواد کے متعلق جو ایسی اشاعت میں درج‬
‫ہو‪ ،‬سوائے صوبائی حکومت کے حکم یا اجازت کے یا کسی دیگر افسر‪ ،‬جسے صوبائی حکومت‬
‫نے اس بارے میں اختیار دیے ہوں کی اجازت کے کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص فتنہ انگیز مواد کی تشہیر کرتا ہے تو‬
‫مجسٹریٹ اس سے ایک سال کی مد ت پرامن رہنے کا مچلکہ لے سکتا ہے۔ اس بارے میں دفعہ نمبر‬
‫‪ 106‬کے تحت بحث گزر چکی ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کیخالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس میں‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :109‬آوارہ گردوں اور مشتبہ اشخاص کی طرف سے نیک چلنی کی ضمانت‬

‫جب کسی ]‪ 25‬مجسٹریٹ درجہ اول[ کو یہ اطالع ملے‪:‬‬


‫کوئی شخص ویسے مجسٹریٹ کے عالقہ اختیار کی مقامی حدود‬ ‫(‪a‬‬
‫کے اندر اپنی موجودگی چھپانے کیلئے پیش بندی کر رہا ہے اور یہ باور کرنے کی معقول وجہ ہے‬
‫کہ وہ شخص کسی جرم کے ارتکاب کی غرض سے ایسی پیش بندی کر رہا ہے‪ ،‬یا‬
‫کہ ویسی حدود کے اندر ایک ایسا شخص ہے جو بظاہر کوئی ذریعہ‬ ‫(‪b‬‬
‫معاش نہیں رکھتا یا جو اپنی بابت کوئی معقول وجہ نہیں بتا سکتا۔‬
‫تو ایسا مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ بعد ازیں محکوم کردہ طریقہ سے ایسے شخص کو یہ وجہ بیان‬
‫کرنے کا حکم دے کہ کیوں نہ اسے مچلکہ مع ضامنان برائے نیک چلنی ایسی مدت کیلئے جو ایک‬
‫سال سے زائد نہ ہو اور جس کو مجسٹریٹ مقرر کرنا مناسب سمجھے‪ ،‬تحریر کرنے کا حکم نہ دیا‬
‫جائے۔‬

‫اسالمی نظریاتی کونسل‪ :‬اس بارے میں اسالمی نظریاتی کونسل نے درج ذیل تجویز دی ہے۔‬
‫مالحظہ‪ :‬اس دفعہ کی رو سے ایسے شخص کو پولیس گرفتار کرنے کی مجاز ہے جو کوئی ذریعہ‬
‫معاش نہیں رکھتا یا وہ ایسے عالقہ میں گھوم رہا ہے جہاں پر وہ اپنی موجودگی کا تسلی بخش جواز‬
‫پیش نہیں کر سکتا۔ اس دفعہ کے تحت پولیس بے گناہ لوگوں کو پابند سالسل کر سکتی ہے۔‬
‫تجویز‪ :‬غور وخوض کے بعد طے پایا کہ اس کے ضمن (ب) کو حذف کیا جائے کیونکہ جو شخص‬
‫کوئی ذریعہ معاش نہیں رکھتا‪ ،‬وہ تالش رزق یا تالش روزگار کیلئے مختلف عالقوں میں سرگرداں‬
‫حتی کہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد‬
‫پایا جا سکتا ہے۔ (‪ )7‬اسالم تالش رزق کی تاکید کرتا ہے‪ٰ ،‬‬
‫بھی تالش رزق کی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد ٰالہی ہے‪:‬‬
‫ض ِل َّ‬
‫ّللاِ (‪)8‬‬ ‫ص َالۃ ُ فَانتَش ُِروا فِی ْاال َْٔر ِ‬
‫ض َوا ْبتَغُوا ِمن فَ ْ‬ ‫ت ال َّ‬ ‫فَإِذَا قُ ِ‬
‫ضیَ ِ‬
‫تعالی کا فضل تالش کرو‘‘۔‬
‫ٰ‬ ‫’’پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جائو اور ہللا‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں نظریاتی کونسل کی تجویز کے مطابق ترمیم کی جانی چاہئے تاکہ اس‬
‫دفعہ کو اسالمی تعلیمات کے مطابق بنایا جا سکے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :110‬عادی مجرموں سے نیک چلنی کی ضمانت‬

‫جب کسی ]‪26‬مجسٹریٹ درجہ اول[ کو اس امر کی اطالع ملے کہ اسکے عالقہ کی حدود مقامی‬
‫کے اندر کوئی شخص‪:‬‬
‫عادتا ً سرقہ بالجبر کرنے واال نقب زنی‪ ،‬چور یا جعلساز ہے‪ ،‬یا‬ ‫(‪a‬‬
‫عادتا ً چوری کا مال لینے واال ہے‪ ،‬یہ جانتے ہوئے کہ یہ سرقہ کردہ ہے‪ ،‬یا‬ ‫(‪b‬‬
‫عادتا ً چوروں کی حفاظت کرنا یا ان کو پناہ دیتا ہے یا مال مسروقہ‬ ‫(‪c‬‬
‫کے چھپانے یا ٹھکانے لگانے میں مدد دیتا ہے‪ ،‬یا‬
‫عادتا ً بچوں‪ ،‬عورتوں کو بھگا لے جانے یا استحصال بالجبر یا دغا یا‬ ‫(‪d‬‬
‫ت پاکستان یا زیر دفعات ‪،A-480‬‬ ‫نقصان رسانی یا کوئی جرم قابل سزا زیر باب ‪ 12‬مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫‪ 489-C ،489-B‬اور ‪ D-489‬مجموعہ مذکور کرتا ہے یا ویسا جرم کرنے کا اقدام کرتا ہے‪ ،‬یا‬
‫عادتا ً ایسے جرائم میں نقص امن شامل ہو‪ ،‬کا ارتکاب کرتا یا‬ ‫(‪e‬‬
‫ارتکاب کی کوشش کرتا یا ان کے ارتکاب میں معاونت کرتا ہے‪ ،‬یا‬
‫اس قدر دیدہ دلیر اور خطرناک ہے کہ اس کا بالضمانت آزاد رہنا‬ ‫(‪f‬‬
‫عوام کیلئے خطرناک ہے۔‬
‫تو ویسا مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ بعد ازیں محکوم کردہ طریقہ پر ایسے شخص کو وجہ ظاہر کرنے‬
‫کا حکم دے کہ کیوں نہ اسے نیک چلن رہنے کی ایسی میعاد کیلئے جو تین برس سے زائد نہ ہو اور‬
‫جو مجسٹریٹ مقرر کرنا مناسب سمجھے‪ ،‬ایک مچلکہ مع ضامنان تحریر کرنے کا حکم صادر کیا‬
‫جائے۔‬

‫وضاحت‪ :‬مذکورہ دفعہ میں عادی مجرموں سے تین برس تک کی مدت کا مچلکہ لینے کے اختیار‬
‫کا ذکر ہے تاکہ مجرم کو جرم سے باز رکھا جا سکے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس سلسلے میں ’’سد ذرائع‘‘ کے فقہی اصول سے کام لیا جا سکتا ہے‪ ،‬یہاں‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس اصطالح کی مختصر وضاحت کر دی جائے‪:‬‬
‫س ّد کے لغوی معنی ہیں‪ :‬رکاوٹ‪ ،‬بند کرنا‪ ،‬الجبل (پہاڑ)‪ ،‬الحاجزبین الشیئین (دو چیزوں کے‬
‫َ‬
‫درمیان پردہ)۔‬
‫ذرائع جمع ہے ذریعہ کی‪ ،‬معنی ہے‪ :‬کسی چیز تک پہنچنے کا وسیلہ اور راستہ۔ (‪)9‬‬
‫یعنی سد الذرائع سے مراد وہ مباح امور ہیں‪ ،‬جو حرام یا ناجائز کام کا وسیلہ بنیں۔ (‪)10‬‬
‫شاطبی کے نزدیک‪:‬‬
‫ؒ‬
‫تذرع بفعل جائز الی عمل غیر جائز (‪)11‬‬
‫’’جائز فعل کو ناجائز فعل کیلئے ذریعہ بنانا‘‘۔‬
‫جدید فقہاء کرام کے نزدیک‪:‬‬
‫’’سد الذرائع سے مراد ہے جائز امور کو منع کرنا جبکہ وہ ناجائز کی طرف لیجانے والے‬
‫ہوں گے‘‘۔ (‪)12‬‬
‫اس اصول کی بنیاد یہ احادیث مبارکہ ہیں‪:‬‬
‫حضرت حسن رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا‪:‬‬ ‫٭‬
‫ِلی َماالَ ی ُِر ْیبُ َ‬
‫ک (‪)13‬‬ ‫کا ٰ‬ ‫دَ ْ‬
‫ع َما ی ُِر ْی ْب َ‬
‫’’مشکوک چیز چھوڑ کر وہ اپنائو جس میں شک نہ ہو‘‘۔‬
‫نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫٭‬
‫’’بے شک حالل بھی واضح ہے اور حرام بھی اور ان دونوں کے درمیان امور‬
‫مشتبہات ہیں‪ ،‬جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے‪ ،‬پس جو ان سے بچا اس نے اپنا دین اور عزت بچا لئے‬
‫اور جو ان میں پڑ گیا وہ حرام میں داخل ہوگیا‘‘۔(‪)14‬‬
‫حضور اکرم ﷺ نے فرمایا‪:‬‬ ‫٭‬
‫’’بندہ متقین کے درجہ کو نہیں پہنچتا‪ ،‬یہاں تک کہ وہ حرج والی چیز کے خوف‬
‫سے اس چیز کو بھی ترک کردے جس میں کوئی حرج نہ ہو‘‘۔ (‪)15‬‬
‫حضور اقدس ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫’’تم میں سے کوئی شخص کسی محرم کے ساتھ کے بغیر کسی عورت کے ساتھ‬
‫تنہائی میں نہ رہے‘‘۔ (‪)16‬‬
‫مندرجہ باال احادیث مبارکہ میں ان جائز امور کو کرنے سے منع فرمایا گیا ہے جو بظاہر‬
‫حرام نہیں‪ ،‬لیکن حرام تک پہنچنے کا وسیلہ بن سکتے ہیں‪ ،‬اس اصول کو اپناتے ہوئے عدالت کو یہ‬
‫اختیار ہے کہ وہ عادی مجرموں کو جرم سے باز رکھنے کیلئے ان سے ضمانت نامے یا مچلکے‬
‫ب جرم کے ذمہ دار‬ ‫لے لے تاکہ انہیں جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے ہی پتہ ہو کہ وہی ارتکا ِ‬
‫ہونگے اور سزا کے مستحق ہونگے۔ یہ مچلکے ان کیلئے جرم کا دروازہ بند کرنے کا کام دیں گے‬
‫اور عادی مجرم جرم سے باز رہیں گے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :111‬منسوخ ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :112‬حکم جو صادر کیا جائے گا‬


‫جب کوئی مجسٹریٹ جو دفعہ ‪ 109 ،108 ،107‬یا ‪ 110‬کے تحت کارروائی کر رہا ہو‪ ،‬ایسی دفعہ‬
‫کے تحت وجہ ظاہر کرنے کا حکم دینا ضروری سمجھے تو اس پر الزم ہوگا کہ وہ تحریری حکم‬
‫دے جس میں موصولہ اطالع کا خالصہ‪ ،‬تحریر کئے جانے والے مچلکہ کی رقم‪ ،‬مدت جب تک وہ‬
‫نافذ رہے گا اور ضامنان کی (اگر کوئی ہوں) تعداد‪ ،‬حیثیت اور قسم درج کرے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :113‬اسے شخص کی نسبت کارروائی کا طریقہ جو عدالت میں حاضر ہو‬

‫اگر وہ شخص جس کی نسبت حکم دیا گیا ہو‪ ،‬عدالت میں حاضر ہو تو اس کو حکم پڑھ کر سنا دیا‬
‫جائے گا یا اگر وہ خواہش کرے تو اس کا خالصہ اس کو سمجھا دیا جائے گا۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬تجویز‪ :‬دفعات نمبر ‪ 113 ،112‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی معلوم نہیں‬
‫ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ان پر تبصرے کی ضرورت نہیں‪ ،‬البتہ دفعہ نمبر ‪ 112‬میں مجسٹریٹ کے ساتھ‬
‫’’جوڈیشل‘‘ لکھا جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :114‬اس شخص کی صورت میں سمن یا وارنٹ جو عدالت میں حاضر نہ ہو‬

‫اگر ویسا شخص عدالت میں حاضر نہ ہو تو مجسٹریٹ اس کے نام اس حکم کا سمن جاری کرے گا‬
‫کہ وہ حاضر ہو یا جب ویسا شخص حراست میں ہو تو ایسے افسر کے نام جس کے زیر حراست وہ‬
‫ہو‪ ،‬وارنٹ اس ہدایت کا جاری کرے گا کہ اسے عدالت کے روبرو الیا جائے۔‬
‫بشرطیکہ جب کسی پولیس افسر کی رپورٹ پر ویسا مجسٹریٹ محسوس کرے یا کوئی دوسری‬
‫اطالع ملنے پر (ایسی رپورٹ کا خالصہ مجسٹریٹ قلم بند کرے گا) ویسے مجسٹریٹ کو یہ معلوم‬
‫ہو کہ نقص امن کے ارتکاب کا خدشہ ہے اور یہ کہ ایسا نقص امن ایسے شخص کی فوری گرفتاری‬
‫کے سوا روکا نہیں جا سکتا‪ ،‬تو مجسٹریٹ کسی بھی وقت اس کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کر سکتا‬
‫ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں یہ کہا گیا ہے کہ جس شخص سے فساد اور نقص امن کا خطرہ ہو‬
‫اسالمی ٔ‬
‫اور اسے بغیر گرفتاری نہ روکا جا سکتا ہو تو مجسٹریٹ اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کر سکتا‬
‫ہے۔‬
‫اس سلسلے میں سدالذرائع سے کام لیتے ہوئے عدالت کو اختیار ہے کہ ویسے شخص کو‬
‫گرفتار کرنے کا وارنٹ جاری کرے تاکہ فساد سے بچا جا سکے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم‬
‫کی ضرورت نہیں البتہ حسب سابق اس دفعہ میں بھی مجسٹریٹ کے ساتھ ’’جوڈیشل‘‘ کا لفظ درج‬
‫کیا جانا چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :115‬سمن یا وارنٹ کے ساتھ دفعہ ‪ 112‬کے تحت حکم کی نقل شامل کی جائے گی‬
‫دفعہ ‪ 114‬کے تحت جاری ہونے والے ہر سمن یا وارنٹ کے ساتھ دفعہ ‪ 112‬کے تحت صادر کردہ‬
‫حکم کی ایک نقل شامل کی جائے گی اور یہ نقل وہ افسر جو ایسے سمن یا وارنٹ کی تعمیل کروا‬
‫رہا ہو‪ ،‬اس شخص کے حوالہ کرے گا جس کی اس حکم کے تحت تعمیل کرائی گئی ہو یا اسے‬
‫گرفتار کیا گیا ہو۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬تجویز‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی کوئی بات معلوم نہیں ہوتی‪،‬‬
‫لہٰ ذا اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :116‬اصالتا ً حاضری معاف کرنے کا اختیار‬

‫اگر مجسٹریٹ کافی وجہ سمجھے تو مجاز ہوگا کہ کسی ایسے شخص کی اصالتا ً حاضری معاف‬
‫کردے جس کو یہ وجہ ظاہر کرنے کا حکم دیا گیا ہو کہ کیوں نہ اس کو حفظ امن کیلئے مچلکہ‬
‫تحریر کرنے کا حکم دیا جائے اور اس کو اجازت دے سکتا ہے کہ وہ وکیل کے ذریعہ پیش ہو۔‬

‫نکتہ نگاہ‪:‬‬
‫اسالمی ٔ‬
‫٭(‪ 1‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی شخص کی اصالتا ً حاضری‬
‫معاف کر سکتی ہے اور وکیل کے ذریعے حاضری کی اجازت دے سکتی ہے۔ اسالم میں وکالت کا‬
‫جابر کو خیبر بھیجا تو انہیں فرمایا کہ جب تم میرے‬
‫تصور موجود ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت ؓ‬
‫وکیل کے پاس پہنچو تو اس سے پندرہ وسق کھجوریں لے لینا۔(‪ )17‬گویا حضور اکرم ﷺ نے‬
‫جابر کو اپنے وکیل کے پاس بھیجا کہ میری طرف سے وکیل تمہیں کھجوریں دے دیگا‪،‬‬‫حضرت ؓ‬
‫گویا وہ میرا وہاں نمائندہ ہے۔‬
‫رافع اور ایک‬
‫میمونہ سے نکاح کیلئے حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابو ؓ‬
‫ؓ‬ ‫٭ (‪ 2‬ام المومنین حضرت‬
‫انصاری کو اپنا وکیل مقرر فرمایا۔ (‪)18‬‬
‫پیغام نکاح‬
‫ِ‬ ‫ضمری کو‬
‫ؓ‬ ‫٭ (‪ 3‬حضرت ام حبیبہ کیلئے حضور اکرم ﷺ نے حضرت عمرو بن امیہ‬
‫حبیبہ نے خالد بن سعیدؓ کو اپنا وکیل بنایا۔ لہٰ ذا چار سو‬
‫ؓ‬ ‫دیکر نجاشی کے پاس حبشہ بھیجا۔ حضرت ام‬
‫درہم میں یہ نکاح دونوں طرف کے وکالء کے ذریعے ہوا۔ (‪)19‬‬
‫علی مقدمات میں خود پیش نہ ہوتے تھے۔‬
‫جعفر کہتے ہیں کہ حضرت ؓ‬
‫ؓ‬ ‫٭ (‪ 4‬حضرت عبدہللا بن‬
‫ؓ‬
‫عقیل کو وکیل مقدمہ‬ ‫فرماتے ہر مقدمہ ایک مصیبت ہے جو شیطان پیش کرتا ہے۔ پس حضرت‬
‫بناتے‪ ،‬پھر جب بڑھاپے کی وجہ سے کافی کمزور ہ گئے تو مجھے مقدمات میں وکیل مقرر کرتے‬
‫اور فرماتے‪:‬‬
‫قضی علی وکیل فعلی (‪)20‬‬
‫ٰ‬ ‫قضی لو کیلی فلی وما‬
‫ٰ‬ ‫ما‬
‫علی کے تعامل سے وکالت کی مشروعیت اور‬ ‫مندرجہ باال احادیث مبارکہ اور حضرت ؓ‬
‫اختیار کا ثبوت ملتا ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر فریق مقدمہ خود عدالت میں حاضر نہ ہو‬
‫سکے تو اس کا وکیل حاضر ہو جائے۔ لہٰ ذا مجسٹریٹ کا یہ صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ اس شخص‬
‫مستثنی کرکے بذریعہ وکیل حاضر ہونے کا حکم دے۔‬
‫ٰ‬ ‫کو اصالتا ً حاضری سے‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫اس میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :117‬اطالع کی صداقت کے بارے میں تحقیقات‬

‫جب حاضر عدالت شخص کو کوئی حکم زیر دفعہ ‪ 112‬پڑھ کر سنایا گیا ہو یا زیر‬ ‫(‪1‬‬
‫دفعہ ‪ 113‬سمجھایا گیا ہو جب کوئی شخص سمن یا وارنٹ کی تعمیل میں یا تعمیل کرائے جانے پر‪،‬‬
‫جو دفعہ ‪ 114‬کے تحت جاری ہوا ہو‪ ،‬مجسٹریٹ کے روبرو حاضر ہو یا الیا جائے تو مجسٹریٹ اس‬
‫اطالع کی صداقت کی تحقیقات شروع کرے گا جس کی بنیاد پر کارروائی کی گئی اور ایسی مزید‬
‫شہادت لے گا جو ضروری معلوم ہو۔‬
‫ایسی تحقیقات جہاں تک عمالً ممکن ہو باب ‪ 20‬میں سماعت کرنے اور شہادت قلم‬ ‫(‪2‬‬
‫بند کرنے کے محکوم کردہ طریقہ سے کی جائے گی‪ ،‬سوائے اس کے کہ فرد جرم لگانا ضروری نہ‬
‫ہوگا۔‬
‫جب ضمنی دفعہ (‪ )2‬کے تحت تحقیقات ہو رہی ہو اور مجسٹریٹ یہ سمجھے کہ‬ ‫(‪3‬‬
‫نقص امن یا سکون عامہ میں خلل پڑنے یا کسی جرم کے ارتکاب کو روکنے یا عوام کی حفاظت‬
‫کیلئے فوری تدابیر ضروری ہیں تو وہ مجاز ہوگا کہ ان وجوہات پر جو کہ وہ قلم بند کرے گا‪ ،‬اس‬
‫شخص کو جس کی نسبت دفعہ ‪ 112‬میں حکم دیا گیا تھا‪ ،‬ہدایت کرے کہ وہ ایک مچلکہ مع یا‬
‫بالضامنان برائے حفظ امن یا نیک چلنی یا اختتام تحقیقات کرے اور اس کو اس وقت تک جب تک‬
‫مچلکہ نہ تحریر کیا جائے یا تحریر کرنے میں قاصر رہنے پر جب تک تحقیقات ختم نہ ہو جائے‪،‬‬
‫حراست میں رکھ سکتا ہے۔‬
‫بشرطیکہ‪:‬‬
‫کسی ایسے شخص کو جس کے خالف دفعہ ‪ ،108‬دفعہ ‪ 109‬یا دفعہ‬ ‫(‪a‬‬
‫‪ 110‬کے تحت کارروائی نہ کی جا رہی ہو‪ ،‬ہدایت نہ کی جائے گی کہ وہ نیک چلن رہنے کا مچلکہ‬
‫تحریر کرے‪ ،‬اور‬
‫ایسے مچلکہ کی شرائط جو خواہ اس کی رقم کے بارے میں یا‬ ‫(‪b‬‬
‫ضامنوں کی شرط کے بارے میں یا ان کی تعداد یا ان کی ذمہ داری کی مالی حدود کے بارے میں‬
‫ہوں‪ ،‬ان (شرائط) سے زیادہ سخت نہ ہوں گی جن کی صراحت دفعہ ‪ 112‬میں کی گئی ہے۔‬
‫دفعہ ہذا کی اغراض کیلئے یہ حقیقت کہ کوئی شخص عادی مجرم ہے یا ایسا دیدہ‬ ‫(‪4‬‬
‫دلیر اور خطرناک ہے کہ اس کا بالضمانت آزاد رہنا عوام کیلئے خطرے کا باعث ہوگا۔ اس کی عام‬
‫شہرت کی شہادت سے یا بصورت دیگر ثابت کیا جا سکتا ہے۔‬
‫جب دو یا دو سے زائد اشخاص کو کسی معاملہ زیر تحقیق میں باہم شریک کیا گیا ہو‬ ‫(‪5‬‬
‫تو ان سے اسی یا علیحدہ تحقیقات میں جیسا کہ مجسٹریٹ قرین انصاف سمجھے‪ ،‬نمٹایا جائے گا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعہ کی ذیلی شق نمبر‪ 3 ،2 ،1‬میں جو ضابطہ مذکور ہے‪ ،‬اس کے بارے میں‬
‫نکتہ نگاہ واضح کردیا گیا ہے‪ ،‬نیز ذیلی شقوں ‪ a,b,c‬اور‬
‫دفعات نمبر ‪ 106‬تا ‪ 110‬کے تحت اسالمی ٔ‬
‫نمبر ‪ 4,5‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے برعکس دکھائی نہیں دیتی۔ لہٰ ذا ان پر تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :118‬ضمانت داخل کرنے کا حکم‬


‫اگر ویسی تحقیقات سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حفظ امن یا نیک چلنی قائم رکھنے کیلئے جیسی کہ‬
‫صورت ہو‪ ،‬وہ شخص جس کی بابت تحقیقات کی گئی‪ ،‬مچلکہ مع یا بالضامنان کے تحریر کرے‪ ،‬تو‬
‫مجسٹریٹ اس کے مطابق حکم صادر کرے گا۔ بشرطیکہ‪:‬‬
‫اول‪ :‬کسی شخص کو دفعہ ‪ 112‬کے تحت صادر کردہ حکم میں تصریح کردہ رقم سے‬
‫مختلف یا ایسی رقم جو اس سے زائد ہو یا ایسی مدت کے لئے جو اس سے زیادہ لمبی ہو‪ ،‬ضمانت‬
‫داخل کرنے کا حکم نہ دیا جائے گا۔‬
‫ہر مچلکہ کی رقم مقدمہ کے حاالت کی مناسبت سے مقرر کی جائے گی اور بہت‬ ‫دوم‪:‬‬
‫زیادہ نہ ہوگی۔‬
‫سوم‪ :‬جب وہ شخص جس کی بابت تحقیق عمل میں الئی جائے نابالغ ہو تو مچلکہ صرف‬
‫اس کے ضامنوں سے تحریر کرایا جائے گا۔‬

‫حفظ ماتقدم کے طور پر مچلکہ لینے کا ذکر ہے‪ ،‬اس بارے میں دفعہ‬
‫ِ‬ ‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں‬
‫‪ 106‬و ‪ 107‬کے تحت بحث کی جا چکی ہے‪ ،‬باقی مچلکہ کی مدت‪ ،‬رقم وغیرہ عدالت کے‬
‫صوابدیدی اختیارات ہیں‪ ،‬وہ حاالت کے مطابق تعین کر سکتی ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :119‬اس شخص کی رہائی جس کے خالف اطالع دی گئی ہو‬

‫اگر زیر دفعہ ‪ 117‬تحقیقات کرنے پر یہ ثابت نہ ہو کہ اس شخص سے جس کی نسبت تحقیقات کی‬
‫گئی ہے‪ ،‬مچلکہ برائے حفظ امن یا نیک چلنی‪ ،‬جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬لینا ضروری ہے تو مجسٹریٹ‬
‫اس بارے میں صفحہ مسل پر اندراج کرے گا اور اگر ویسا شخص صرف بغرض تحقیقات زیر‬
‫حراست ہو تو اس کو رہا کرے گا یا اگر ویسا شخص حراست میں نہ ہو تو اس کو بری (ڈسچارج)‬
‫کردے گا۔‬
‫(پ) مابعد حکم برائے مہیا کرنے ضمانت کے تمام مقدموں کی کارروائیاں‬

‫دفعہ نمبر ‪ :120‬اس میعاد کا آغاز جس کیلئے ضمانت کا حکم دیا گیا ہو‬

‫اگر کوئی شخص جس کی نسبت طلبی ضمانت کا حکم دفعہ ‪ 106‬یا دفعہ ‪ 118‬کے‬ ‫(‪1‬‬
‫تحت صادر کیا جائے کو اس وقت جب ایسا حکم دیا جائے‪ ،‬سزائے قید دی جائے یا قید کی سزا کاٹ‬
‫رہا ہو تو وہ میعاد جس کیلئے ویسی ضمانت طلب ہوئی تھی‪ ،‬ویسی سزا کے ختم ہونے کے بعد‬
‫شروع ہوگی۔‬
‫دیگر صورتوں میں ویسی میعاد ایسے حکم کی تاریخ سے شروع ہوگی‪ ،‬سوائے اس‬ ‫(‪2‬‬
‫کے کہ مجسٹریٹ کافی وجہ سے کوئی بعد کی تاریخ مقرر کرے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :121‬مچلکہ کے مندرجات‬


‫وہ مچلکہ جو کسی ایسے شخص کو تحریر کرنا ہوگا اس کو اس امر کا پابند کرے گا کہ وہ حفظ امن‬
‫رکھے گا یا نیک چلن رہے گا‪ ،‬جیسی کہ صورت ہو اور موخر الذکر صورت میں کسی جرم کا‬
‫ارتکاب یا ارتکاب کا اقدام یا اس کی اعانت‪ ،‬جس کی سزا جہاں کہیں اس کا ارکاب کیا جائے‪ ،‬قید ہو‪،‬‬
‫مچلکہ کی خالف ورزی ہوگی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :122‬ضامنوں کو مسترد کرنے کا اختیار‬

‫مجسٹریٹ مجاز ہو کہ کسی پیش کردہ ضامن کو قبول کرنے سے انکار کردے یا‬ ‫(‪1‬‬
‫کسی ایسے ضامن کو جو اس نے یا اس کے متقدم نے باب ہذا کے تحت قبول کی ہو‪ ،‬اس بنا پر‬
‫مسترد کردے کہ ایسا ضامن مچلکہ کی اغراض کے لئے نااہل شخص ہے‪:‬‬
‫بشرطیکہ پیشتر اس کے کہ وہ کسی ایسے ضامن کو قبول کرنے سے انکار کرے یا مسترد کردے‬
‫وہ یا تو خود ضامن کی اہلیت کو متعلق حلف پر تحقیقات عمل میں الئے گا یا اپنے کسی ماتحت‬
‫مجسٹریٹ سے ایسی تحقیقات کروائے گا اور اس امر پر رپورٹ لے گا۔‬
‫ایسے مجسٹریٹ پر الزم ہوگا کہ تحقیقات کرنے سے قبل اس شخص کو معقول‬ ‫(‪2‬‬
‫نوٹس دے گا جس نے ضمانت پیش کی تھی اور تحقیقات کرتے ہوئے اس کے روبرو پیش کردہ‬
‫شہادت کا خالصہ قلم بند کرے گا۔‬
‫اگر مجسٹریٹ اس شہادت کو زیر غور ال کر جو یا تو اس کو یا ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے‬ ‫(‪3‬‬
‫تحت مقرر کردہ مجسٹریٹ کو پیش کی گئی ہو اور ایسے مجسٹریٹ کی رپورٹ‪ ،‬اگر کوئی ہو کہ‬
‫ضامن مچلکہ کی اغراض کیلئے نااہل شخص ہے‪ ،‬مطمئن ہو تو اس پر الزم ہوگا کہ وہ ایسے ضامن‬
‫کو قبول کرنے سے انکار یا مسترد کرنے کا‪ ،‬جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬حکم صادر کرے اور ایسا‬
‫کرنے کی وجہ قلمبند کرے‪:‬‬
‫بشرطیکہ کسی ایسے ضامن کو مسترد کرنے کا حکم صادر کرنے سے قبل‪ ،‬جس کو پہلے قبول کیا‬
‫گیا ہو مجسٹریٹ پر الزم ہوگا کہ اس کے سمن یا وارنٹ‪ ،‬جو وہ مناسب سمجھے جاری کرے اور‬
‫اس شخص کو جس کی نسبت ضامن حاضر ہونے کا پابند ہو اپنے روبرو الئے جانے کا حکم دے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :123‬ضمانت داخل نہ کرنے کی صورت میں قید‬

‫اگر کوئی شخص جس کو دفعہ ‪ 106‬یا دفعہ ‪ 118‬کے تحت ضمانت دینے کا حکم دیا‬ ‫(‪1‬‬
‫گیا ہو‪ ،‬ویسی ضمانت اس تاریخ کو یا اس سے قبل داخل نہ کرے جس تاریخ کو وہ میعاد شروع ہو‬
‫جس کے لئے ویسی ضمانت دینا ہو‪ ،‬تو الزم ہوگا کہ اس شخص کو ماسوا اس صورت کے جو بعد‬
‫ازیں مذکور ہے‪ ،‬جیل میں ڈال دیا جائے یا اگر وہ پہلے ہی سے جیل میں ہے تو اسے اس وقت تک‬
‫جیل میں رکھا جائے جب تک ویسی میعاد ختم نہ ہو جائے یا اس وقت تک کہ وہ مطلوبہ ضمانت‬
‫ویسی میعاد کے دوران اس عدالت یا مجسٹریٹ کو پیش کردے جس نے اس بات کی بابت حکم دیا‬
‫ہو۔‬
‫( ‪ 2‬کاغذات کارروائی عدالت عالیہ یا عدالت سیشن میں کب پیش کئے جائیں‪ :‬جب‬
‫مجسٹریٹ نے کسی ایسے شخص کو ایک سال سے زائد مدت کیلئے ضمانت دینے کا حکم دیا ہو تو‬
‫ایسے مجسٹریٹ پر الزم ہوگا کہ اگر وہ شخص ایسی ضمانت داخل نہ کرے تو اس ہدایت کا اس کے‬
‫خالف وارنٹ جاری کرے کہ سیشن جج کا حکم صادر ہونے تک اس کو جیل میں رکھا جائے اور‬
‫کاغذات کارروائی جتنی جلد ممکن ہو سکے‪ ،‬ویسے جج کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔‬
‫سیشن جج مجاز ہوگا کہ ایسے کاعذات کارروائی مالحظہ کرنے اور مجسٹریٹ سے‬ ‫(‪3‬‬
‫مزید معلومات یا شہادت طلب کرنے کے بعد مقدمہ میں ایسا حکم صادر کرے جو وہ مناسب‬
‫سمجھے‪:‬‬
‫بشرطیکہ وہ مدت‪ ،‬اگر کوئی ہو جس کیلئے کسی شخص کو ضمانت دینے سے قاصر رہنے پر قید‬
‫کیا گیا ہو‪ ،‬تین سال سے تجاوز نہ کرے گی۔‬
‫اگر ایک ہی کارروائی کے دوران دو یا دو سے زائد اشخاص سے ضمانت طلب کی‬ ‫(‪A-3‬‬
‫گئی ہو جن میں سے کسی ایک کی نسبت زیر ضمنی دفعہ (‪ )2‬کارروائی سیشن جج کے سپرد کی‬
‫گئی ہو تو ایسی سپردگی میں ایسے کسی دیگر شخص کا مقدمہ بھی شامل ہوگا جس کو ضمانت‬
‫دینے کا حکم دیا گیا ہو اور ایسی صورت میں ضمنی دفعہ (‪ )2‬و (‪ )3‬کے احکام اس شخص کے‬
‫مقدمہ پر بھی اطالق پذیر ہوں گے‪ ،‬سوائے اس کے کہ وہ مدت (اگر کوئی ہو) جس کیلئے اس کو قید‬
‫کیا جا سکتا ہو اس مدت سے تجاوز نہ کرے گی جس کیلئے اس کو ضمانت دینے کا حکم دیا گیا تھا۔‬
‫(‪ B-3‬سیشن جج اپنی صوابدیدپر کسی مقدمہ کو جو اس کے پاس ضمنی دفعہ (‪ )2‬یا ضمنی‬
‫دفعہ (‪ )A-3‬کے تحت پیش کیا گیا ہو کسی ایڈیشنل سیشن جج یا اسسٹنٹ سیشن جج کے پاس منتقل‬
‫کر سکتا ہے اور ایسی منتقلی پر ایڈیشنل سیشن جج یا اسسٹنٹ سیشن جج ایسی کارروائیوں کی بابت‬
‫زیر دفعہ ہذا سیشن جج کے اختیارات عمل میں ال سکتا ہے۔‬

‫وضاحت‪ :‬مذکورہ دفعہ کی اس شق میں کہا گیا ہے کہ سیشن جج کسی مقدمہ کو اپنی صوابدید پر‬
‫کسی ایڈیشنل یا اسسٹنٹ سیشن جج کے پاس بھیج سکتا ہے اور اسے سیشن جج کے اختیارات حاصل‬
‫ہوں گے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس سلسلے میں اسالمی تعلیمات میں بھی اس کا جواز موجود ہے۔ مدینے کی حد‬
‫اسالمی ٔ‬
‫تک آنحضور ﷺ پورا عدالتی کام خود انجام دیتے تھے لیکن جب اسالمی عملداری میں وسعت ہو کر‬
‫انتظامی کام بڑھ گیا تو آپ ﷺ نے مدینے میں چند مفتی (قاضی) مقرر فرما دیئے۔ (‪ )21‬اسی طرح‬
‫عاص کو فرمایا کہ ان دونوں کا قضیہ چکائو۔ عرض کی کیا آپ کی‬
‫ؓ‬ ‫ایک دفعہ حضرت عمرو بن‬
‫موجودگی میں؟ فرمایا کہ ہاں۔ عرض کی کیسے؟ فرمایا ایسے کہ اجتہاد کرکے صحیح فیصلہ کرو‬
‫دو دس نیکیوں کا ثواب ہوگا اور خطاء پر ایک نیکی شمار ہوگی۔ (‪)22‬‬
‫کار قضاء سونپا۔ ولما ولی ابوبکر ولی عمر‬
‫عمر کو ِ‬
‫ابوبکر نے حضرت ؓ‬
‫ؓ‬ ‫اسی طرح حضرت‬
‫القضاء (‪)23‬‬
‫کار قضاء میں آپ کیلئے کافی‬
‫عمر نے فرمایا‪ :‬انا اکفیک الجزاء۔ (‪ )24‬میں ِ‬
‫خود حضرت ؓ‬
‫ہوں۔‬
‫اشعری قاضی شریح اور‬
‫ؓ‬ ‫ابوموسی‬
‫ٰ‬ ‫ثابت‪،‬‬ ‫ؓ‬
‫فاروق نے عبدہللا بن مسعودؓ‪ ،‬زید بن ؓ‬ ‫حضرت عمر‬
‫ؓ‬
‫عثمان نے زید بن ثابت کو‬ ‫کعب بن اسود کو اپنا نائب قاضی مقرر فرمایا۔ (‪ )25‬اسی طرح حضرت‬
‫علی نے بھی انہیں‬
‫ریح بھی قضاء کے منصب پر فائز تھے اور حضرت ؓ‬ ‫باقی رکھا۔ (‪ )26‬حضرت ش ؒ‬
‫برقرار رکھا۔ (‪)27‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوتا ہے کہ کار قضاء میں معاونت کیلئے عہد نبوی اور عہد‬
‫خلفائے راشدین میں بھی قاضی مقرر کئے جاتے تھے تاکہ وہ کچھ مقدمات کے فیصلے کرکے اس‬
‫سلسلے میں تعاون کریں۔ قاضی کورٹس آرڈیننس ‪1982‬ء میں بھی درج ہے کہ ضلع قاضی کسی‬
‫بھی مقدمے یا اپیل کو اضافی ضلع قاضی یا عالقہ قاضی کو بھیج سکتا ہے تاکہ وہ اس کا فیصلہ کر‬
‫سکے۔ (‪)28‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ شق میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے برعکس معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ ’’اسسٹنٹ سیشن جج‘‘ کے الفاظ حذف کردیئے جائیں کیونکہ‬
‫عملی طور پر یہ منصب موجود نہیں ہے۔‬

‫اگر مہتمم جیل خانہ کو ضمانت پیش کی جائے تو وہ فوری طور پر اس معاملہ میں‬ ‫(‪4‬‬
‫اس عدالت یا مجسٹریٹ سے رجوع کرے گا جس نے حکم صادر کیا تھا اور ایسے مجسٹریٹ کے‬
‫احکام کا انتظار کرے گا۔‬
‫قید کی قسم‪ :‬حفظ امن کی ضمانت دینے سے قاصر رہنے پر قید سادہ ہوگی۔‬ ‫(‪5‬‬
‫نیک چلنی کی ضمانت دینے سے قاصر رہنے پر الزمی طور پر قید‪ ،‬جب کارروائی‬ ‫(‪6‬‬
‫زیر دفعہ ‪ 108‬کی گئی ہو سادہ ہوگی جیسا کہ ہر مقدمہ میں عدالت مجسٹریٹ ہدایت کرے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات نمبر ‪ 123 ،122 ،121 ،120 ،119‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے‬
‫خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ان میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :124‬ان اشخاص کو رہا کرنے کا اختیار جو ضمانت دینے سے قاضر رہنے پر قید کئے‬
‫گئے ہوں‬

‫جب بھی ]‪27‬سیشن جج[ کی یہ رائے ہو کہ کوئی شحص جس کو باب ہذا کے تحت‬ ‫(‪1‬‬
‫ضمانت دینے سے قاصر رہنے کی بنا پر قید کیا گیا ہو خالئق یا کسی دیگر شخص کو کسی خطرہ‬
‫کے بغیر رہا کیا جا سکتا ہے تو وہ مجاز ہوگا کہ ایسے شخص کو رہا کرنے کا حکم دے۔‬
‫جب کوئی شخص باب ہذا کے تحت ضمانت دینے سے قاصر رہنے کی بنا پر قید کیا‬ ‫(‪2‬‬
‫گیا ہو تو ]‪27‬سیشن جج[ مجاز ہوگا کہ (ماسوا اس کے کہ حکم کسی ایسی عدالت سے صادر ہوا ہو‬
‫جو اس کی عدالت سے باالتر ہو) ضمانت کی رقم یا ضامنان کی تعداد یا وہ مدت جس کیلئے ضمانت‬
‫طلب کی گئی ہے‪ ،‬میں تخفیف کا حکم صادر کرے۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت کسی حکم میں یہ ہدایت دی جا سکتی ہے کہ ایسے‬ ‫(‪3‬‬
‫شخص کی رہائی یا تو بالشرائط کے یا کسی ایسی شرائط پر جو ایسا شخص قبول کرتا ہو کی جائے‪:‬‬
‫بشرطیکہ کوئی عائد کردہ شرط اس وقت اثر پذیر نہ رہے گی جب وہ مدت جس کیلئے ایسے شحص‬
‫کو ضمانت دینے کا حکم دیا گیا تھا‪ ،‬ختم ہو گئی ہو۔‬
‫صوبائی حکومت ایسی شرائط مقرر کرنے کی مجاز ہے جن پر مشروط رہائی دی‬ ‫(‪4‬‬
‫جا سکے۔‬
‫اگر کوئی شرط جس پر ایسے کسی شخص کو رہا کیا گیا ہو اس ]‪27‬سیشن جج[ کہ‬ ‫(‪5‬‬
‫جس نے وہ حکم صادر کیا یا اس کے جانشین کی رائے میں پوری نہ کی گئی ہو تو وہ اس حکم کو‬
‫منسوخ کر سکتا ہے۔‬
‫جب ضمنی دفعہ (‪ )5‬کے تحت مشروط رہائی کا حکم منسوخ کردیا گیا ہو تو کوئی‬ ‫(‪6‬‬
‫پولیس افسر ایسے شخص کو بالوارنٹ گرفتار کر سکتا ہے اور اس کو اس بنا پر ]‪27‬سیشن جج[‬
‫کے روبرو پیش کیا جائے گا۔‬
‫جب ویسا شخص اس وقت اصل حکم کی شرائط کے مطابق بقایا مدت کیلئے ضمانت نہ دے جس‬
‫کیلئے پہلی بار اس کو سزا ہوئی تھی یا اس کو حراست میں رکھنے کا حکم ہوا تھا‪ ،‬ایسی مدت کو‬
‫اس مدت کے برابر تصور کیا جائے گا جو رہائی کی شرائط کی خالف ورزی ہو اور اس تاریخ کے‬
‫درمیان رہا ہو‪ ،‬جس پر سوائے ایسی مشروط رہائی کے وہ رہائی کا مستحق ہو جاتا۔ ]‪28‬سیشن جج[‬
‫ایسے شخص کو باقی ماندہ میعاد کاٹنے کیلئے جیل واپس بھیج سکتا ہے۔‬
‫ایسا شخص جس کو ضمنی دفعہ ہذا کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہو دفعہ ‪ 122‬کے احکام کے تابع‬
‫کسی بھی وقت اس عدالت یا مجسٹریٹ یا ان کے جانشین کے پاس اصل حکم کی شرائط کے مطابق‬
‫بقایا جات کیلئے ضمانت داخل کرنے پر رہا کردیا جائے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :125‬کوئی مچلکہ حفظ امن یا نیک چلنی مسنوخ کرنے کا ]‪ 28‬سیشن جج[ کو اختیار‬

‫]‪28‬سیشن جج[ مجاز ہے کہ کسی بھی وقت‪ ،‬ان وجوہات پر جو وہ قلم بند کرے گا‪ ،‬کسی مچلکہ کو‬
‫منسوخ کردے جو زیر باب ہذا برائے حفظ امن یا نیک چلنی اس کے ضلع میں کسی عدالت کے حکم‬
‫سے تحریر کیا گیا ہو‪ ،‬جو اس کی عدالت سے باالتر نہ ہو۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :126‬ضامنوں کی سبکدوشی‬

‫کسی دیگر شخص کو پرامن رویہ یا نیک چلنی کیلئے کوئی ضامن کسی بھی وقت‬ ‫(‪1‬‬
‫]‪28‬متعلقہ مجسٹریٹ درجہ اول[ کو اس کے دائرہ اختیار کے اندر باب ہذا کے تحت تحریر کردہ‬
‫مچلکہ کو منسوخ کرنے کی درخواست دے سکتا ہے۔‬
‫ایسی درخواست گزارے جانے پر مجسٹریٹ پر الزم ہوگا کہ وہ اس شخص کا جس‬ ‫(‪2‬‬
‫کیلئے ایسا ضامن حاضر ہونے کا پابند ہو‪ ،‬اس حکم کا سمن وا وارنٹ‪ ،‬جیسا کہ وہ مناسب سمجھے‬
‫جاری کرے کہ اسے اس کے روبرو الیا جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-126‬مچلکہ کی باقی ماندہ مدت کیلئے ضمانت‬

‫جب کوئی شخص جس کی حاضری کیلئے دفعہ ‪ 122‬کی ضمنی دفعہ (‪ )3‬کی عبارت شطیہ کے‬
‫تحت یا دفعہ ‪ 126‬کی ضمنی دفعہ (‪ )2‬کے تحت وارنٹ یا سمن جاری کیا گیا ہو‪ ،‬اس کے روبرو‬
‫پیش ہو یا الیا جائے تو مجسٹریٹ ایسے شخص کا تحریر کردہ مچلکہ منسوخ کردے گا اور ایسے‬
‫شخص کو ایسے مچلکہ کی مدت کے باقی ماندہ حصہ کیلئے اسی قسم کی نئی ضمانت دینے کا حکم‬
‫دے گا جیسی کہ اصل ضمانت تھی۔ ایسا ہر حکم دفعات ‪ 124 ،123 ،122 ،121‬کی اغراض کیلئے‬
‫دفعہ ‪ 106‬یا دفعہ ‪ ،118‬جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬کے تحت صادر کردہ حکم تصور ہوگا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬دفعات باال نمبر ‪ A-126 ،126 ،125 ،124‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی‬
‫معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ان پر تبصرہ اور ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫(باب نمبر ‪) 9‬‬
‫اجتماعات خالف قانون و قیام امن عامہ اور سالمتی‬

‫دفعہ نمبر ‪ :127‬مجسٹریٹ یا پولیس افسر کے حکم پر مجمع کو منتشر ہونا ہوگا‬

‫کوئی ]‪29‬٭٭٭[ تھانے کا انچارج پولیس افسر مجاز ہوگا کہ کسی مجمع خالف قانون‬ ‫(‪1‬‬
‫کو یا پانچ یا زیادہ اشخاص کے مجمع کو‪ ،‬جن کا امن عامہ میں خلل ڈالنا اغلب ہوگا‪ ،‬منتشر ہونے کا‬
‫حکم دے اور ایسے مجمع کے ارکان کا فرض ہوگا کہ وہ اس کے مطابق منتشر ہو جائیں۔‬
‫منسوخ ہوا۔‬ ‫(‪2‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ :128‬انتظامی طاقت کا استعمال‬

‫اگر ایسا حکم دیے جانے پر‪ ،‬ویسا کوئی مجمع منتشر نہ ہو یا ایسا حکم نہ دیے جانے پر وہ ایسا‬
‫عمل اختیار کرے‪ ،‬جس سے ظاہر ہو کہ وہ منتشر نہ ہونے کا عزم رکھتا ہے۔ تو ]‪29‬٭٭٭[ افسر‬
‫انچارج پولیس سٹیشن ایسے مجمع کو بذریعہ طاقت منتشر کر سکتا ہے اور ایسے مجمع کو منتشر‬
‫کرنے کیلئے کسی مرد کی جو مسلح افواج پاکستان کا کوئی افسر‪ ،‬سپاہی‪ ،‬مالح یا ہوائی عملہ نہ ہو‪،‬‬
‫کی امداد حاصل کر سکتا ہے اور اگر ضروری ہو تو ایسے مجمع کو منتشر کرنے کیلئے یا اس‬
‫کیلئے کہ ان کو قانون کے مطابق سزا دی جائے‪ ،‬ایسے مجمع کے افراد کو گرفتار کر سکتا ہے یا‬
‫حراست میں لے سکتا ہے‪:‬‬
‫]‪30‬مگر شرط یہ ہے کہ کسی مجمع کو منتشر کرنے کیلئے فائرنگ نہیں کی جائے گی تاوقتیکہ جب‬
‫تک اس قسم کی خصوصی ہدایت اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کی طرف سے‬
‫موصول نہ ہو۔[‬

‫دفعہ نمبر ‪ :129‬فوجی طاقت استعمال کرنا‬

‫ویسے مجمع کو کسی اور طرح منتشر نہ کیا جا سکے اور اگر یہ حفظ عامہ کیلئے ضروری ہو کہ‬
‫اسے منتشر کیا جائے تو اس وقت موجود ]‪ 31‬سب سے زیادہ رتبہ کا پولیس افسر جو بلحاظ عہدہ‬
‫اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سے کمتر نہ ہو[ مسلح افواج کے ذریعہ اس کو منتشر کرا‬
‫سکتا ہے۔‬

‫بلوچستان ترمیم‬
‫دفعہ نمبر ‪ :129‬فوجی طاقت استعمال کرنا‬

‫اگر ویسے مجمع کو کسی اور طرح منتشر نہ کیا جا سکے اور اگر یہ حفظ عامہ کیلئے ضروری ہو‬
‫کہ اسے منتشر کیا جائے تو اس وقت موجود ٭ ]ضلعی انتظامیہ آفیسر یا نائب ضلعی انتظامی آفیسر[‬
‫مسلح افواج کے ذریعہ اس کو منتشر کرا سکتا ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :130‬اس کمانڈنگ افسر کا فرض جس کو مجسٹریٹ مجمع منتشر کرنے کیلئے کہے‬

‫اعلی درجے کا پولیس افسر جو بلحاظ عہدہ اسسٹنٹ‬


‫ٰ‬ ‫جب کوئی ]‪31‬سب سے‬ ‫(‪1‬‬
‫سپرنٹنڈنٹ یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سے کم نہ ہو[ کسی ویسے مجمع کو فوجی طاقت سے منتشر‬
‫کرنے کا عزم کرے تو وہ اس کے کسی افسر کو جو فوجی دستے کی کمان کر رہا ہو‪ ،‬یہ حکم دے‬
‫سکتا ہے کہ وہ ویسے مجمع کو اپنی کمان میں فوجی طاقت کے ذریعے منتشر کرے اور ویسے‬
‫اشخاص کو جو اس میں شامل ہوں‪ ،‬گرفتار کرے اور حراست میں لے جیسا کہ مجسٹریٹ ]‪33‬یا ایسا‬
‫پولیس افسر[ حکم دے یا جن کو گرفتار کرنا اور حراست میں لینا یا انہیں قانون کے تحت سزایاب‬
‫کرنا مجمع کو منتشر کرنے کیلئے ضروری ہو۔‬
‫ایسا ہر افسر ایسے ہر حکم کی تعمیل ایسے طریقے سے کرے گا‪ ،‬جو وہ مناسب‬ ‫(‪2‬‬
‫سمجھے‪ ،‬لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ کم سے کم طاقت استعمال کرے گا اور جان ومال کو اس قدر کم‬
‫نقصان پہنچائے گا جو مجمع کو منتشر کرنے اور ویسے اشخاص کو گرفتار کرنے اور حراست میں‬
‫لینے کیلئے مناسب ہو۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :130‬اس کمانڈنگ افسر کا فرض جس کو مجسٹریٹ مجمع منتشر کرنے کیلئے کہے‬

‫جب کوئی ٭٭]ضلعی انتظامی آفیسر یا نائب ضلعی انتظامی آفیسر) کسی ویسے‬ ‫(‪1‬‬
‫مجمع کو فوجی طاقت سے منتشر کرنے کا عزم کرے تو وہ اس کے کسی افسر کو جو فوجی دستے‬
‫کی کمان کر رہا ہو‪ ،‬یہ حکم دے سکتا ہے کہ وہ ویسے مجمع کو اپنی کمان میں فوجی طاقت کے‬
‫ذریعے منتشر کرے اور ویسے اشخاص کو جو اس میں شامل ہوں‪ ،‬گرفتار کرے اور حراست میں‬
‫لے جیسا کہ مجسٹریٹ ٭٭٭]یا ایسا ضلعی انتظامی آفیسر یا نائب ضلعی انتظامی آفیسر[ حکم دے یا‬
‫جن کو گرفتار کرنا اور حراست میں لینا یا انہیں قانون کے تحت سزا یاب کرنا مجمع کو منتشر‬
‫کرنے کیلئے ضروری ہو۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :131‬مجمع کو منتشر کرنے کیلئے کمیشن یافتہ فوجی افسران کا اختیار‬

‫جب کسی ایسے مجمع کے باعث حفظ عامہ کو واضح طو رپر خطرہ الحق ہو جائے اور کسی‬
‫]‪32‬پولیس افسر جو بلحاظ عہدہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ یا ڈپٹی سپرٹنڈنٹ سے کمتر نہ ہو[ سے رابطہ نہ‬
‫ہو سکے تو افواج پاکستان کا کوئی کمیشن یافتہ افسر مجاز ہوگا کہ فوجی طاقت سے ایسے مجمع کو‬
‫منتشر کرے اور ایسے مجمع کو منتشر کرنے کیلئے یا ان کو قانون کے مطابق سزایاب کرنے‬
‫کیلئے اس میں شامل کسی شخص کو گرفتار کرے یا روک رکھے لیکن اگر جب کہ وہ دفعہ ہذا کے‬
‫تحت مصروف کار ہو‪ ،‬اس کیلئے قابل عمل ہو کہ وہ ]‪33‬پولیس افسر جو بلحاظ عہدہ اسسٹنٹ‬
‫سپرنٹنڈنٹ یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سے کمتر نہ ہو[ سے رابطہ قائم کرے تو وہ الزمی طور پر ایسا کرے‬
‫گااو اس کے بعد اس پر الزم ہوگا کہ ]‪33‬ایسے پولیس افسر[ کی ہدایات کی تعمیل کرے کہ آیا وہ‬
‫ایسی کارروائی جاری رکھے یا نہ رکھے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :131‬مجمع کو منتشر کرنے کیلئے کمیشن یافتہ فوجی افسران کا اختیار‬

‫جب کسی ایسے مجمع کے باعث حفظ عامہ کو واضح طو رپر خطرہ الحق ہو جائے اور کسی‬
‫٭]ضلعی انتظامی آفیسر یا نائب ضلعی انتظامی آفیسر[ سے رابطہ نہ ہو سکے تو افواج پاکستان کا‬
‫کوئی کمیشن یافتہ افسر مجاز ہوگا کہ فوجی طاقت سے ایسے مجمع کو منتشر کرے اور ایسے مجمع‬
‫کو منتشر کرنے کیلئے یا ان کو قانون کے مطابق سزایاب کرنے کیلئے اس میں شامل کسی شخص‬
‫کو گرفتار کرے یا روک رکھے لیکن اگر جب کہ وہ دفعہ ہذا کے تحت مصروف کار ہو‪ ،‬اس کیلئے‬
‫قابل عمل ہو کہ وہ ٭]ضلعی انتظامی آفیسر یا نائب ضلعی انتظامی آفیسر[ سے رابطہ قائم کرے تو‬
‫وہ الزمی طور پر ایسا کرے گااو اس کے بعد اس پر الزم ہوگا کہ ٭]ایسے ضلعی انتظامی آفیسر یا‬
‫نائب ضلعی انتظامی آفیسر[کی ہدایات کی تعمیل کرے کہ آیا وہ ایسی کارروائی جاری رکھے یا نہ‬
‫رکھے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-131‬تحفظ عامہ اور قیام امن کیلئے فوجی طاقت استعمال کرنے کا اختیار‬

‫اگر صوبائی گورنمنٹ کو اطمینان ہو جائے کہ تحفظ عامہ‪ ،‬جان ومال کی حفاظت‪،‬‬ ‫(‪1‬‬
‫امن عامہ اور امن وامان کے قیام کیلئے مسلح افواج کی مدد حاصل کرنا ضروری ہے تو صوبائی‬
‫گورنمنٹ مجاز ہے کہ وفاقی گرنمنٹ کی پیشگی منظوری سے یا وفاقی گورنمنٹ مجاز ہے کہ‬
‫صوبائی گورنمنٹ کی درخواست پر مسلح افواج کے کسی افسر کو ہدایت کرے کہ وہ اپنی زیر کمان‬
‫مسلح افواج کی مدد کے ساتھ ویسی امداد بہم پہنچائے اور ایسی مدد میں دفعات ‪ 46‬تا ‪،54 ،53 ،49‬‬
‫‪ 63 ،58 ،a,c)(55‬تا ‪ 103 ،102 ،100 ،67‬اور ‪ 156‬میں مصرحہ اختیارات کا استعمال شامل ہوگا۔‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ ایسے اختیارات میں کسی مجسٹریٹ کے اختیارات شامل نہیں ہوں گے۔‬
‫ہر ایک ایسے افسر کو الزم ہے کہ ایسے حکم یا (جیسی بھی صورت ہو) ہدایت کی‬ ‫(‪2‬‬
‫تعمیل کرے اور ایسا کرتے وقت وہ ایسی طاقت استعمال کر سکتا ہے جس کا حاالت تقاضا کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )1‬میں مصرحہ اختیارات کے استعمال کی بابت امداد بہم پہنچاتے‬ ‫(‪3‬‬
‫وقت ہر ایک افسر کو الزم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو مجموعہ ضابطہ فوجداری میں مندرجہ‬
‫پابندیوں اور شرائط کی پیروی کرے۔[‬

‫خالف قانون مجمع کو منتشر کرنے کیلئے‬


‫ِ‬ ‫وضاحت‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 129‬تا ‪ 131‬میں کہا گیا ہے کہ‬
‫پولیس اور فوج کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬تاریخ اسالم میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ مثالً حضرت عثمان ؓ‬
‫غنی کے مکان‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫آپ اجازت دیں تو‬
‫شعبہ نے عرض کیا اگر ؓ‬
‫ؓ‬ ‫آپ سے مغیرہ بن‬
‫کے باہر باغیوں کا اجتماع ہوا‪ ،‬چنانچہ ؓ‬
‫آپ نے منع فرمادیا تاکہ مدینہ طیبہ میں‬
‫فوج کو طلب کرکے انہیں منتشر کردیا جائے‪ ،‬لیکن ؓ‬
‫کرام کی پیشکش سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح‬ ‫ؓ‬ ‫خونریزی نہ ہو (‪ )29‬لیکن صحابہ‬
‫آپ کو پتہ چال کہ نہروان کے مقام پر خوارج جمع ہو‬
‫علی جنگ صفین سے فاروغ ہوئے تو ؓ‬ ‫حضرت ؓ‬
‫آپ نے ان کے خالف اقدام اٹھایا اور اسالمی فوج نے اکثریت کو قتل کرکے باقی‬ ‫گئے ہیں‪ ،‬لہٰ ذا ؓ‬
‫مجمع کو منتشر کردیا۔ (‪)30‬‬
‫خالف قانون مجمع کے خالف فوج کے استعمال کا جواز ثابت ہوتا ہے۔‬
‫ِ‬ ‫اس واقعہ سے بھی‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس بارے میں نظریاتی کونسل نے یہ تجویز دی ہے‪:‬‬
‫خالف قانون کو منتشر کرنے کیلئے طاقت کے بے محابہ استعمال کو روکنے‬
‫ِ‬ ‫تجویز‪’’ :‬مجمع‬
‫کیلئے لفظ "‪ "by‬کے بعد لفظ "‪( "reasouable‬مناسب طاقت کے ذریعے) بڑھانے کی سفارش کی‬
‫جاتی ہے‘‘۔ (‪)31‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعات میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬البتہ‬
‫نظریاتی کونسل کی تجویز کے مطابق تبدیلی کردینی چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :132‬باب ہذا کے تحت کئے گئے افعال پر قانونی کارروائی کرنے سے تحفظ‬

‫کسی شخص کے خالف کسی فعل کی نسبت جس کا باب ہذا کے تحت کیا جانا ظاہر ہو صوبائی‬
‫حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی استغاثہ کسی فوجداری عدالت میں دائر نہ کیا جائے گا اور‬
‫کوئی ]‪34‬٭٭٭[ پولیس افسر جو باب ہذا کے تحت نیک نیتی سے مصروف عمل ہو۔‬ ‫(‪a‬‬
‫کوئی افسر جو دفعہ ‪ 131‬کے تحت نیک نیتی سے مصروف عمل ہو۔‬ ‫(‪b‬‬
‫کوئی شخص جو دفعہ ‪ 128‬یا دفعہ ‪ 130‬یا دفعہ ٭٭[‪ ]A-131‬کے تحت کسی حکم‬ ‫(‪c‬‬
‫کی تعمیل میں نیک نیتی سے مصروف عمل ہو۔‬
‫ادنی افسر یا سپاہی‪ ،‬مالح یا ہوا باز جو کسی ایسے حکم کے‬
‫مسلح افواج کا کوئی ٰ‬ ‫(‪d‬‬
‫تابع مصروف عمل ہو جس کو بجا النے کا پابند تھا۔‬
‫تو اس بنا پر انہیں کسی جرم کا مرتکب نہیں سمجھا جائے گا۔‬
‫لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی ایسا مقدمہ سوائے وفاقی حکومت کی منظوری کے‪ ،‬مسلح افواج کے‬
‫کسی افسر یا سپاہی‪ ،‬مالح ہو یا ہوا باز کے خالف کسی فوجداری عدالت میں دائر نہیں کیا جائے گا۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬درجِ باال دفعہ میں مذکور ہے کہ کسی سول یا پولیس افسر کے خالف صوبائی‬‫اسالمی ٔ‬
‫حکومت اور فوجی افسر کے خالف وفاقی حکومت سے منظوری لے کر کسی فوجداری عدالت میں‬
‫مقدمہ چالیا جا سکتا ہے لیکن شریعت نے ایسی اجازت کو الزم نہیں کیا کیونکہ اسالمی قانون کی‬
‫نظر میں حاکم اور رعایا دونوں برابر ہیں اور اگر حاکم کے خالف مقدمہ دائر کرنا ہو اور حاکم سے‬
‫ہی اجازت لی جائے تو یہ خدشہ ہو سکتا ہے کہ حاکم منظوری ہی نہ دے‪ ،‬اس طرح مقدمہ دائر ہی‬
‫نہیں ہوسکے گا۔ اسالمی نظام عدل سے درج ذیل مثالیں مالحظہ کریں۔‬
‫حضور اکرم ﷺ نے خود کو احتساب کیلئے پیش فرمایا۔ (‪)32‬‬ ‫(‪1‬‬
‫ایک دفعہ فاطمہ مخزومی نامی عورت کے چوری کرنے پر اس کے ہاتھ کاٹنے کی‬ ‫(‪2‬‬
‫فاطمہ بھی ہوتی تو یہی سزا ملتی۔ (‪)33‬‬
‫ؓ‬ ‫سزا دی۔ جب سفارش کی گئی تو فرمایا میری بیٹی‬
‫ماضی میں خود اسالمی حکمرانوں کے خالف مقدمات دائر کئے گئے اور انہوں نے عام‬
‫ؓ‬
‫فاروق نے تو عمال سے شکایات‬ ‫فریق کی طرح عدالت میں حاضر ہو کر جواب دیا۔ حضرت عمر‬
‫مسلمہ کو مقرر کیا۔ خلفائے راشدین کے عہد میں قانونی‬
‫ؓ‬ ‫کی تحقیق کیلئے سب سے پہلے محمد بن‬
‫مساوات کیلئے یہ مثالیں دیکھیں۔‬
‫عمر نے اپنے بیٹے ابوشحمہ کو شراب پینے پر خود سزا دی تھی۔ (‪)34‬‬
‫حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫عمر‬
‫وقاص نے کوفہ میں مکان کی ڈیوڑھی بنوالی‪ ،‬حضرت ؓ‬
‫ؓ‬ ‫حضرت سعد بن ابی‬ ‫٭‬
‫آپ نے اسے اہل حاجت اور مظلومین کی داد رسی میں رکاوٹ سمجھا اور‬ ‫کے سامنے شکایت ہوئی‪ؓ ،‬‬
‫مسلمہ کو آگ لگانے کا حکم دیا اور اس کی تعمیل ہو گئی۔ (‪)35‬‬
‫ؓ‬ ‫محمد بن‬
‫اکثر یوں فرماتے‪ :‬میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا کہ وہ کسی پر ظلم کرے یا دست‬ ‫٭‬
‫حتی کہ میں اس کے رخسار کو زمین پر رکھ کر اپنا قدم اس کے دوسرے رخسار پر‬
‫درازی کرے‪ٰ ،‬‬
‫رکھ دوں گا‪ ،‬یہاں تک کہ وہ حق پر عمل پیرا ہو۔ (‪)36‬‬
‫عاص کے بیٹے نے ایک قبطی کو گھر دوڑ میں‬ ‫ؓ‬ ‫گورنر مصر حضرت عمرو بن‬ ‫٭‬
‫عمر نے شکایت پر تینوں کو بلوا لیا اور قبطی کو حکم دیا کہ‬
‫آگے نکلنے پر کوڑے مارے‪ ،‬حضرت ؓ‬
‫عاص کو بھی ایک کوڑا مارو‪ ،‬لیکن قبطی نے‬ ‫ؓ‬ ‫گورنر کے بیٹے کو کوڑے مارو اور عمرو بن‬
‫آپ نے فرمایا اے عمرو! تم نے کب سے لوگوں کو غالم بنا لیا ہے‪ ،‬انہیں ان کی‬ ‫درگزر کردیا۔ پھر ؓ‬
‫مائوں نے تو آزاد جنا ہے۔ (‪)37‬‬
‫العاص کے خالف شکایت ملی‬
‫ؓ‬ ‫غنی کو والی کوفہ حضرت سعید بن‬
‫حضرت عثمان ؓ‬ ‫٭‬
‫تو انہیں معزول کردیا‪ ،‬حج کے موقع پر عمال کے خالف شکایات سنتے اور تدارک فرماتے۔ (‪)38‬‬
‫آپ نے‬
‫لی کو والی اصطخر منذر بن جارود کے متعلق شکایت ملی تو ؓ‬
‫حضرت ع ؓ‬ ‫٭‬
‫اسے طلب کرکے معزول کردیا۔ (‪)39‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ اسالمی نظام حکومت میں کسی امیر یا حاکم کے‬
‫خالف نالش کیلئے کسی حکومتی اجازت کی ضرورت نہیں ہے‪ ،‬کیونکہ اسالم میں حاکم ومحکوم‬
‫بحیثیت انسان دونوں برابر ہیں‪ ،‬لہٰ ذا دونوں پر ہی قانون کا اطالق ہوگا۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬کونسل نے بکثرت رائے سفارش کی کہ شرعا ً ایسی اجازت کی‬
‫ضرورت نہیں ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس دفعہ میں اجازت کے حکم کو تبدیل کرکے یہ پابندی عائد کی جائے کہ‬
‫دعوی فوجداری عدالت میں دائر کرنا چاہے۔ تو وہ پہلے حکومت کو دو ماہ کا‬
‫ٰ‬ ‫اگر کوئی شخص ایسا‬
‫نوٹس دے۔ کونسل نے اتفاق رائے سے یہ بھی طے کیا کہ نیک نیتی سے افسر باال کے حکم کے‬
‫تحت کی گئی کارروائی پر ماتحت کو مجرم نہیں ٹھہرایا جائیگا‘‘۔ (‪)40‬‬
‫دعوی کرنے کیلئے حکومتی اجازت کی‬
‫ٰ‬ ‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اسالمی حکومت میں کسی افسر کے خالف‬
‫ضرورت نہیں ہے‪ ،‬لہٰ ذا مذکورہ دفعہ میں ترمیم ہونی چاہئے اور اس سلسلے میں نظریاتی کونسل کی‬
‫تجویز کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :A-132‬تعریفات‬

‫باب ہذا میں‪:‬‬


‫عبارت ’’مسلح افواج‘‘ سے مراد بری‪ ،‬بحری اور فضائی افواج ہیں‪ ،‬جو بطور بری‬ ‫(‪a‬‬
‫فوج کام کر رہی ہوں اور اس میں پاکستان کی کوئی دیگر افواج شامل ہیں جو مصروف کار ہوں۔‬
‫)‪’’ ](aa‬سول مسلح افواج‘‘ سے حسب ذیل مراد ہے۔ پاکستان رینجرز‪،‬‬ ‫٭‬
‫فرنٹیئر کور‪ ،‬فرنٹیئر کانسٹیبلری‪ ،‬بلوچستان کانسٹیبلری‪ ،‬پاکستان کوسٹ گارڈز یا کوئی دیگر فوج جو‬
‫وفاقی حکومت مشتہر کرے۔[‬
‫افواج پاکستان کی نسبت سے افسر سے مراد ایسا شخص ہے جو افواج پاکستان میں‬ ‫(‪b‬‬
‫بطور کمیشن یافتہ‪ ،‬گزٹیڈ یا تنخواہ دار ہو اور اس میں چھوٹا افسر‪ ،‬وارنٹ افسر‪ ،‬پیٹی افسر اور غیر‬
‫میشن یافتہ افسر بھی شامل ہے‪ ،‬اور‬
‫’’سپاہی‘‘ میں ایسی فوج کارکن شامل ہے جو جو شق (‪ )a‬میں محولہ قانون کے‬ ‫(‪c‬‬
‫تحت شکیل کی گئی ہو۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس پر تبصرہ‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫(باب نمبر ‪)10‬‬


‫امور باعث تکلیف عامہ‬

‫دفعہ نمبر ‪ :133‬امر باعث تکلیف عامہ کو رفع کرنے کیلئے مشروط حکم‬

‫جب کبھی کوئی ]‪ 35‬مجسٹریٹ درجہ اول[ پولیس رپورٹ پر یا کوئی دیگر اطالع‬ ‫(‪1‬‬
‫ملنے پر اور کوئی ایسی شہادت (اگر کوئی ہو) لینے کے بعد‪ ،‬جو وہ مناسب سمجھے‪ ،‬یہ خیال کرے‬
‫کہ کسی راستہ‪ ،‬دریا یا نالی سے جسے عوام جائز طور پر استعمال کر سکتے ہیں یا کر رہے ہیں یا‬
‫کسی جائے عامہ سے‪ ،‬کوئی ناجائز رکاوٹ یا امر باعث تکلیف عامہ کو دور کرنا چاہئے‪ ،‬یا‬
‫یہ کہ کسی تجارت یا پیشہ کا طریقہ کار یا کسی سامان یا مال تجارت کا رکھنا‪ ،‬کسی فرقہ کی صحت‬
‫یا آسائش جسمانی کیلئے مضر ہے اور اس بنا پر ایسی تجارت یا پیشہ کا قانونی طور پر ممنوع یا‬
‫منضبط کرنا چاہیے یا ایسی اشیاء یا سامان تجارت کو ہٹا دینا چاہئے یا ان کے رکھنے کو منضبط‬
‫کرنا چاہئے‪ ،‬یا‬
‫یہ کہ کسی عمارت کی تعمیر یا کسی مادہ شے کا مصرف‪ ،‬جس سے آگ لگنے یا دھماکہ سے پھٹ‬
‫جانے کا خدشہ ہو‪ ،‬کا انسداد یا اختتام کرنا چاہئے‪ ،‬یا‬
‫کوئی عمارت‪ ،‬خیمہ‪ ،‬ڈھانچہ یا کوئی درخت جو ایسی حالت میں ہیں کہ ان کا گرنا اور اس طرح‬
‫ایسے اشخاص کو مجروح کرنا اغلب ہے جو ان کے قریب رہتے ہیں یا ان کے قریب وجوار میں‬
‫کاروبار کرتے ہیں یا ان کے نزدیک سے گزرتے ہیں اور اس وجہ سے اس عمارت‪ ،‬خیمے یا‬
‫ڈھانچے کو ہٹانے‪ ،‬مرمت کرنے یا سہارا دینے کی یا ایسے درخت کو ہٹائے جانے یا اس کو سہارا‬
‫دینے کی ضرورت ہے‪ ،‬یا‬
‫کسی ایسے راستہ یا جائے عامہ سے متصل کوئی تاالب‪ ،‬کنواں یا کھدائی کے گرد اس طور سے باڑ‬
‫لگائی جانی چاہئے جس سے عوام کو درپیش خطرہ کا انسداد ہو سکے۔‬
‫یہ کہ کسی خطرناک جانور کا ختم کرنا‪ ،‬بند کرنا یا بصورت دیگر اس کا بندوبست کرنا چاہئے‪،‬‬
‫تو ایسا مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ وہ مشروط حکم صادر کرکے ایسے شخص کو جو ایسی رکاوٹ یا‬
‫امر باعث تکلیف عامہ پیدا کر رہا ہو ایسی تجارت یا پیشہ کرتا ہو یا ایسی کوئی شے یا مال تجارت‬
‫رکھتا ہو یا ایسی عمارت‪ ،‬خیمہ‪ ،‬ڈھانچہ‪ ،‬مادہ شے‪ ،‬تاالب‪ ،‬کنواں یا کھدائی شدہ جگہ کا انتظام کر‬
‫رہا ہو یا ایسے جانور یا درخت کا مالک یا قابض ہو تاکید کرے کہ وہ ایسی مدت کے اندر جو حکم‬
‫میں مقرر کی جائے گی‪:‬‬
‫ایسی رکاوٹ یا امر باعث تکلیف عامہ ہٹا دے‪ ،‬یا‬
‫ویسی تجارت یا پیشہ کو جاری رکھنے سے باز آجائے یا اسے اس طور پر ہٹائے یا منضبط کرے‪،‬‬
‫جیسی کہ ہدایت کی جائے یا ایسی اشیاء یا سامان تجارت کو ہٹا دے‪ ،‬یا اس کے رکھنے کو اس طور‬
‫پر منضبط کرے‪ ،‬جیسا کہ ہدایت کی جائے‪ ،‬یا‬
‫ایسی عمارت‪ ،‬خیمہ یا ڈھانچہ کا انسداد کرے یا اس کی تعمیر روک دے یا اسے ہٹا دے‪ ،‬مرمت‬
‫کرے یا اسے سہارا دے‪ ،‬یا‬
‫ویسے درخت کو ہٹائے یا سہارا دے‪ ،‬یا‬
‫ایسی مادہ شے کا مصرف تبدیل کرے‪ ،‬یا‬
‫ایسے تاالب‪ ،‬کنویں یا کھدائی پر‪ ،‬جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬باڑ لگائے‪ ،‬یا‬
‫حکم میں مصرحہ طریقہ پر ویسے خطرناک جانور کو مار دے‪ ،‬بند کرے یا اسے ٹھکانے لگائے یا‬
‫اگر وہ ایسا کرنے پر اعتراض کرے۔‬
‫اس کے اپنے یا کسی دیگر ]‪36‬مجسٹریٹ درجہ اول[ کے روبرو ایسے وقت اور مقام پر‪ ،‬جو حکم‬
‫کے ذریعہ مقرر کیا جائے‪ ،‬حاضر ہو کر بعد ازیں مقرر کردہ طریقہ پر حکم منسوخ یا ترمیم کرائے۔‬
‫کسی مجسٹریٹ کی طرف سے دفعہ ہذا کے تحت جائز طور پر صادر کردہ حکم پر‬ ‫(‪2‬‬
‫کسی دیوانی عدالت میں اعتراض نہیں کیا جائے گا۔‬
‫وضاحت‪ :‬جائے عامہ میں حکومت کی جائیداد‪ ،‬پڑائو کی جگہ اور ایسی زمینیں جو حفظان صحت‬
‫اور تفریحی مقاصد کیلئے بالقبضہ چھوڑ دی گئی ہوں‪ ،‬بھی شامل ہوں گی۔‬
‫وضاحت‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کہا گیا ہے کہ مضر صحت اشیاء کی تجارت‪ ،‬آتش گیر مادہ کا ذخیرہ‪،‬‬
‫کسی عمارت کا خستہ حال ہونا‪ ،‬کنویں وغیرہ پر باڑ لگانا‪ ،‬خطرناک جانور کو مارنا‪ ،‬ان تمام‬
‫معامالت میں مجسٹریٹ کو اختیار ہے کہ وہ ایسی رکاوٹ یا امر باعث تکلیف کو ہٹا دے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬دین اسالم ایک پرامن معاشرہ تشکیل دیتا ہے‪ ،‬جس میں ہر فرد پرسکون زندگی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫گزار سکے۔ اسالم کا نظریہ ہے کہ ایک طرف رعایا کیلئے سہولتیں زیادہ سے زیادہ پیدا کی جائیں‬
‫لیکن ساتھ ہی ساتھ ڈسپلن کا جذبہ بھی ہے‪ ،‬وہ یہ کہ رعایا کو آزادی ملے تو شرارتیں کرنے کی‬
‫آزادی نہ ہو۔ (‪ )41‬اس سلسلے میں درج ذیل احادیث مبارکہ موجود ہیں‪:‬‬
‫حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہے‪:‬‬ ‫٭‬
‫ال ضرر وال ضرار (‪)42‬‬
‫’’(اسالم میں) نقصان پہنچانا اور نقصان اٹھانا نہیں ہے‘‘۔‬
‫چونکہ حدیث شریف میں ضرر کی نفی ال استغراقیہ سے کی گئی ہے‪ ،‬لہٰ ذا ہر قسم کا نقصان‬
‫پہنچانا ممنوع ہے۔ (‪)43‬‬
‫المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ (‪)44‬‬ ‫٭‬
‫’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔‬
‫ط ِریق ْال ُم ْس ِلمیْن (‪)45‬‬
‫ع ْن َ‬ ‫اَع ِْز ْل ْاْلَذَ ً‬
‫ی َ‬ ‫٭‬
‫’’مسلمانوں کے راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دو‘‘۔‬
‫ِلی اہللاِ ا َ ْنفَ َع ُھ ْم للناس (‪)46‬‬ ‫ا َ َحبُّ النَّ ِ‬
‫اس ا َ‬ ‫٭‬
‫تعالی کو لوگوں میں سب سے پیارے وہ ہیں جو لوگوں کیلئے بہت زیادہ فائدہ‬
‫ٰ‬ ‫’’ہللا‬
‫پہنچانے والے ہیں‘‘۔‬
‫ت عالیہ میں پرامن اور صالح معاشرے کی جھلک موجود ہے‪ ،‬کسی فرد‬ ‫مندرجہ باال ارشادا ِ‬
‫کو اجازت نہیں کہ دوسرے کو تکلیف دے یا اس کا کوئی نقصان کرکے فساد برپا کرے۔‬
‫مثالً ایک شخص نے پھلدار درخت فروخت کیا۔ مشتری پھل توڑنے کیلئے چڑھے تو‬
‫ہمسایوں کی بے پردگی ہوتی ہے‪ ،‬اب اسے کہا جائیگا کہ آواز دیکر چڑھے تاکہ پردہ کرلیا جائے‪،‬‬
‫وہ مان جائے تو ٹھیک ورنہ حاکم اسے چڑھنے سے روک سکتا ہے (‪ )47‬اور جو دیوار عام‬
‫راستے کی طرف جھک گئی ہو‪ ،‬اس کا گرا دینا جائز ہوگا تاکہ عامۃ الناس کو نقصان نہ‬
‫پہنچے۔(‪ )48‬مفا ِد عامہ کے پیش نظر مضر صحت اشیاء کی تجارت بھی منع ہے۔ حدیث مبارکہ ہے‪:‬‬
‫فََ لَی َ‬
‫ْس ِمنَّا (‪)49‬‬ ‫َم ْن غ َّ‬
‫َش َ‬
‫’’جس نے مالوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔‬
‫یعنی تازہ کے بجائے باسی چیزیں فروخت کرنا‪ ،‬یا اچھی جنس میں ناقص شامل کردینا‬
‫وغیرہ سب منع ہے۔ معاشرے میں ہر طرح کی بے قاعدگی کو ٹھیک کرنے کیلئے احتساب کا ادارہ‬
‫بڑا مفید ثابت ہوا۔ محتسب کی درجِ ذیل ذمہ داریاں بھی تھیں‪:‬‬
‫عام معاشرتی و اخالقی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ بازاروں کے امور کی نگرانی۔ (‪)50‬‬
‫آوارہ مویشیوں کو عام طو رپر سڑکوں پر پھرنے سے روکنا‪ ،‬انہیں باندھنے کی ہدایت کرنا‪،‬‬
‫عام راستوں پر عمارات کی تعمیراور تجاوزات کو روکنا۔‬
‫تول کے ترازوئوں اور باٹوں کی پڑتال‪ ،‬کم تولنے والوں اور مالوٹ کرنیوالوں کو سزا دینا۔‬
‫موذی جانوروں اور پاگل کتوں کو شہر کے گلی کوچوں میں نہ پھرنے دینا۔ وغیرہ (‪)51‬‬
‫محتسب کا ایک بنیادی اور مستقل فرض بازار کی جانچ پڑتال کرنا اور شروع ہی سے اس‬
‫کے تقرر کے پروانوں میں یہ صراحت ملتی ہے کہ محتسب کا کام اوزان پیمانوں کی دیکھ بھال ہے۔‬
‫یہ اتنے پیچیدہ اور مختلف قسم کے ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دیا جا سکتا تھا۔‬
‫(‪)52‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوتا ہے کہ اسالم نے ہر قسم کے ضرر اور خطرات کا‬
‫انسداد کیا ہے تاکہ معاشرہ پرسکون رہے اور اسے استحکام وخوشحالی نصیب ہو۔ لہٰ ذا مجسٹریٹ کا‬
‫مذکورہ اختیار غیر اسالمی نہیں بلکہ اسالم اس اختیار کو قانونی حیثیت دیتا ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫پر تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :134‬حکم کی تعمیل یا اشتہار‬

‫ایسا حکم‪ ،‬اگر ممکن ہو‪ ،‬اس شخص پر جس کے خالف وہ صادر ہوا ہو‪ ،‬اس طریقہ‬ ‫(‪1‬‬
‫سے تعمیل کیا جائے گا جو کسی سمن کی تعمیل کیلئے اس مجموعہ میں مقرر کیا گیا ہے۔‬
‫اگر ویسے حکم کی تعمیل اس طریقہ سے نہ ہو سکے تو اس کا اعالن بذریعہ اشتہار‬ ‫(‪2‬‬
‫کیا جائے گا جس کی اشاعت اس طریقہ سے کی جائے گی جس کی کہ صوبائی حکومت بذریعہ‬
‫قاعدہ ہدایت کرے اور اس کی ایک نقل ایسے مقام یا مقامات پر چسپاں کی جائے گی جو ایسے‬
‫شخص کی اطالع یابی کیلئے موزوں ترین ہو۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :135‬وہ شخص جس کے نام حکم برائے تعمیل یا اظہار وجہ یا مطالبہ جیوری صادر ہوا‬
‫ہو‬

‫وہ شخص جس کے خالف ایسا حکم صادر ہوا ہو‪ ،‬پر الزم ہوگا کہ‪:‬‬
‫جس فعل کے کرنے کی ہدایت کی گئی ہو‪ ،‬حکم میں مصرحہ طیقہ پر اور مدت کے‬ ‫(‪a‬‬
‫اندر اسے سرانجام دے گا‪ ،‬یا‬
‫ویسے حکم کے مطابق حاضر ہو اور یا تو اس کے خالف اظہار وجہ کرے یا اس‬ ‫(‪b‬‬
‫مجسٹریٹ کو درخواست کرے جس نے حکم صادر کیا ہو کہ وہ یہ تجویز کرنے کیلئے جیوری‬
‫مقرر کرے آیا کہ یہ (حکم) مناسب اور معقول ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :136‬اس کے ایسا کرنے میں کوتاہی کا نتیجہ‬

‫اگر ویسا شخص ایسا فعل سرانجام نہ دے یا حاضر ہو کہ اظہار وجہ نہ کرے یا کسی جیوری کے‬
‫ت پاکستان‬
‫تقرر کی درخواست نہ کرے‪ ،‬جیسا کہ دفعہ ‪ 135‬سے مطلوب ہے‪ ،‬تو وہ مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫کی دفعہ ‪ 188‬میں اس بارے میں مقرر کردہ سزا کا مستوجب ہوگا اور حکم کو قطعی کردیا جائے‬
‫گا۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :137‬جب وہ اظہار وجہ کیلئے حاضر ہو تو طریقہ کار‬

‫اگر وہ عدالت میں حاضر ہو جائے اور حکم کے خالف وجہ ظاہر کرے تو‬ ‫(‪1‬‬
‫مجسٹریٹ اس معاملہ میں باب ‪ 20‬میں مقرر کردہ طریقہ سے شہادت ملے گا۔‬
‫اگر مجسٹریٹ کا اطمینان ہو جائے کہ حکم مناسب اور معقول نہ ہے تو اس مقدمہ‬ ‫(‪2‬‬
‫میں مزید کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔‬
‫اگر مجسٹریٹ کا اس طور پر اطمینان نہ ہو تو حکم کو قطعی کردیا جائے گا۔‬ ‫(‪3‬‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعات نمبر ‪ 136 ،135 ،134‬اور ‪ 137‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے‬
‫خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ان پر تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :138‬جب ایسا شخص جیوری کا مطالبہ کرے تو طریقہ کار‬

‫دفعہ ‪ 130‬کے تحت جیوری مقرر کرنے کی درخواست موصول ہونے پر مجسٹریٹ‬ ‫(‪1‬‬
‫پر الزم ہوگا کہ‪:‬‬
‫فوری طور پر تعداد میں طاق اشخاص پر مشتمل جیوری مقرر کرے‬ ‫(‪a‬‬
‫جو پانچ سے کم نہ ہو‪ ،‬جن میں سے سربراہ اور بقایا ارکان کا نصف ایسا مجسٹریٹ اور دیگر ارکان‬
‫درخواست دہندہ نامزد کرے گا۔‬
‫ایسے سربراہ اور ارکان جیوری کو ایسے مقام اور وقت پر حاضر‬ ‫(‪b‬‬
‫ہونے کیلئے طلب کرے جو وہ مناسب سمجھے۔‬
‫ایسی مدت مقرر کرے جس کے اندر انہیں رائے بھیجنا ہوگی۔‬ ‫(‪c‬‬
‫ایسی مقرر کردہ مدت میں‪ ،‬معقول وجہ بتانے پر مجسٹریٹ توسیع کر سکتا ہے۔‬ ‫(‪2‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ :139‬جب جیوری مجسٹریٹ کا حکم معقول پائے تو ضابطہ‬

‫اگر جیوری یا اہل جیوری کی اکثریت کو مجسٹریٹ کا حکم جیسا کہ وہ بنیادی طور‬ ‫(‪1‬‬
‫پر صادر ہوا یا ایسی ترمیم کے تابع جسے مجسٹریٹ نے قبول کرلیا ہو‪ ،‬معقول اور مناسب معلوم ہو‬
‫تو مجسٹریٹ ایسی ترمیم کے تابع (اگر کوئی ہو) حکم کو قطعی کردے گا۔‬
‫دیگر صورتوں میں کوئی مزید کارروائی کے تحت باب ہذا عمل میں نہیں الئے‬ ‫(‪2‬‬
‫جائے گی۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 139 ،138‬میں کہا گیا ہے کہ مجسٹریٹ کسی فریق کی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫درخواست پر جیوری مقرر کرے اور جیوری اس کے حکم کی توثیق کردے تو وہ اسے قطعی‬
‫کردے گا۔‬
‫طرز عمل سے رہنمائی ملتی ہے‪ ،‬جب ان کے‬
‫ِ‬ ‫ؓ‬
‫فاروق کے‬ ‫اس بارے میں ہمیں عمر‬ ‫(‪1‬‬
‫پاس کوئی مقدمہ الیا جاتا تو وہ فرماتے‪:‬‬
‫کعب فکان لیستشیرھم ثم یفعل بما اتفقوا علیہ‬
‫ادعو الی علیا وادعو الی زید بن ابی ؓ‬
‫(‪)53‬‬
‫کعب کو بال الئو‪ ،‬پھر ان سے مشورہ کرتے اور‬
‫علی اور زید بن ابی ؓ‬
‫’’میرے پاس ؓ‬
‫جس پر وہ متفق ہو جاتے فیصلہ کردیتے‘‘۔‬
‫غنی کے طرز عمل سے بھی رہنمائی ملتی‬ ‫اس سلسلے میں ہمیں حضرت عثمان ؓ‬ ‫(‪2‬‬
‫غنی کو مسجد میں بیٹھے ہوئے‬ ‫ہے۔ عبدالرحمن بن سعیدؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان ؓ‬
‫علی کو بال الئو‪ ،‬دوسرے کو‬ ‫آپ نے ایک سے کہا کہ حضرت ؓ‬ ‫دیکھا‪ ،‬دو آدمی ایک مقدمہ الئے‪ؓ ،‬‬
‫کرام کی ایک جماعت کو بال الئو‪ ،‬جب وہ سب آگئے تو‬ ‫ؓ‬ ‫وزبیر اور صحابہ‬
‫ؓ‬ ‫طلحہ‬
‫ؓ‬ ‫فرمایا کہ حضرت‬
‫کرام کی مجلس سے پوچھا کہ‬ ‫ؓ‬ ‫انہیں فرمایا کہ مدعا بیان کرو۔ جب دونوں بیان کر چکے تو صحابہ‬
‫آپ کے موافق تھی‪ ،‬لہٰ ذا فیصلہ کردیا اور نافذ بھی‬‫آپ کی کیا رائے ہے؟ ان حضرات کی رائے ؓ‬
‫کردیا‪ ،‬چنانچہ وہ دونوں فیصلہ مان کر واپس چلے گئے۔ (‪)54‬‬
‫ؓ‬
‫عثمان کی جیوری کا پتہ چلتا ہے‬ ‫ؓ‬
‫فاروق اور حضرت‬ ‫مندرجہ باال سطور سے حضرت عمر‬
‫کہ اسالمی نظام عدالت میں جیوری کا جواز موجود ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬ان دفعات میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم‬
‫کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-139‬ضابطہ جب حق عامہ کی موجودگی سے انکار کیا جائے‬

‫جب کسی راستہ‪ ،‬دریا‪ ،‬نالی یا مقام کے استعمال میں رکاوٹ‪ ،‬امر باعث تکلیف عامہ‬ ‫(‪1‬‬
‫یا خطرہ عامہ کے انسداد کی غرض سے زیر دفعہ ‪ 133‬کوئی حکم صادر کیاگیا ہو تو مجسٹریٹ اس‬
‫شخص کے حاضر ہونے پر جس کے خالف حکم دیا گیا تھا‪ ،‬اس سے سوال کرے گا کہ کیا وہ ایسا‬
‫کرے تو مجسٹریٹ دفعہ ‪ 137‬یا ‪ 138‬کے تحت کارروائی شروع کرنے سے قبل اس معاملہ کی‬
‫تحقیق کرے گا۔‬
‫اگر ویسی تحقیقات میں مجسٹریٹ کو معلوم ہو کہ ویسے انکار کی تائید میں کوئی‬ ‫(‪2‬‬
‫باوثوق شہادت ہے تو وہ کارروائی کو اس وقت تک روک دے گا‪ ،‬جب تک ایسے حق کے وجود کا‬
‫فیصلہ مجاز عدالت دیوانی نہ کردے اور اگر اس کو معلوم ہو کہ ویسی کوئی شہادت موجود نہیں تو‬
‫وہ دفعہ ‪ 137‬یا دفعہ ‪ 138‬کے مطابق‪ ،‬جیسی کہ صورت متقاضی ہو‪ ،‬کارروائی کرے گا۔‬
‫کوئی شخص جو ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت مجسٹریٹ کے استفسار پر اس نوعیت‬ ‫(‪3‬‬
‫کے استعمال حق عام جس کا حوالہ اس میں دیا گیا ہو‪ ،‬کی موجودگی سے انکار کرنے میں ناکام‬
‫رہے یا جو ایسا انکار کرنے پر اس کی تائید میں باوثوق شہادت پیش کرنے میں ناکام رہے تو بعد‬
‫کی کارروائی میں اسے ایسا کوئی انکار کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور نہ ہی دفعہ ‪ 138‬کے‬
‫تحت مقرر کردہ کوئی جیوری ویسے حق عام کے وجود کے بارے میں کسی سوال کی تحقیقات‬
‫کرے گی۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬ترمیم‪ :‬درج باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :140‬حکم قطعی کردینے پر ضابطہ‬

‫جب کوئی حکم زیر دفعہ ‪ 137 ،136‬یا ‪ 139‬قطعی کردیا جائے تو مجسٹریٹ پر‬ ‫(‪1‬‬
‫الزم ہوگا کہ وہ اس شخص کو جس کے نام حکم صادر ہوا تھا‪ ،‬اس بارے میں نوٹس دے اور مزید‬
‫حکم دے گا کہ وہ نوٹس میں مقر کردہ میعاد کے اندر اس فعل کی تعمیل کرے‪ ،‬جس کی نسبت اسے‬
‫حکم ہوا اور اسے مطلع کرے کہ عدم تعمیل کی صورت میں وہ اس تاوان کا مستوجب ہوگا جو‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 188‬میں مقرر ہے۔‬
‫مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫(‪ 2‬حکم کی عدم تعمیل کے نتائج‪ :‬اگر میعاد مقررہ کے اندر ویسے فعل کی تعمیل نہ کی‬
‫جائے تو مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ اس کی تعمیل کروا لے اور تعمیل کروانے کا خرچ کسی عمارت‪،‬‬
‫مال واسباب یا دیگر جائیداد جو اس کے حکم سے ہٹا لی گئی ہو یا کسی دیگر جائیداد منقولہ ملکیت‬
‫شخص مذکور جو ویسے مجسٹریٹ کے عالقہ کی حدود مقامی کے اندر یا باہر ہو بذریعہ نیالم‬
‫وصول کرے اگر وہ دیگر جائیداد ویسی حدود سے باہر ہو تو اس حکم کی رو سے قرقی اور نیالم‬
‫اس وقت کیا جائے گا جب اس پر وہ مجسٹریٹ دستخط کردے جس کے عالقہ کی حدود مقامی کے‬
‫اندر جائیداد قرض طلب واقع ہو۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت کسی امر کی نسبت‪ ،‬جو نیک نیتی سے کیا گیا ہو‪ ،‬کوئی نالش نہیں‬ ‫(‪3‬‬
‫کی جا سکے گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :141‬جیوری مقرر کرنے سے قاصر رہنے پر یا اظہار رائے نہ دینے پر ضابطہ‬

‫اگر درخواست دہندہ غفلت یا دیگر وجہ سے جیوری کے تقرر کو روکے یا اگر کسی وجہ سے‬
‫جیوری مقرر ہونے کے بعد اس میعاد مقررہ کے اندر یا اس مزید میعاد میں جس کی مجسٹریٹ نے‬
‫اپنی صوابدید پر اجازت دی ہو‪ ،‬اپنی رائے کا اظہار نہ کرے تو مجسٹریٹ کو اختیار ہوگا کہ جیسا‬
‫مناسب سمجھے‪ ،‬حکم صادر کرے اور ویسے حکم کی تعمیل دفعہ ‪ 140‬میں مقرر کردہ طریقہ پر‬
‫کرائی جائے گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :142‬تحقیقات کے دوران حکم امتناعی‬

‫اگر کوئی مجسٹریٹ جس نے دفعہ ‪ 133‬کے تحت کوئی حکم صادر کیا ہو‪ ،‬کی‬ ‫(‪1‬‬
‫رائے ہو کہ فوری خطرہ یا سنگین نوعیت کے ضرر کے انسداد کیلئے فوری اقدام لینے ضروری‬
‫ہیں تو وہ مجاز ہوگا خواہ کوئی جیوری مقرر کی جانی ہو‪ ،‬مقرر کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو‪ ،‬اس‬
‫شخص کو جس کے خالف حکم صادر ہوا تھا ایسا حکم امتناعی جاری کرے‪ ،‬جیسا کہ معاملہ کا‬
‫تصفیہ ہونے تک‪ ،‬ایسے خطرہ یا ضرر سے بچنے یا روکنے کیلئے ضروری ہو۔‬
‫ایسے شخص کے ایسے حکم امتناعی کے فوری طور پر تعمیل کرنے میں قاصر‬ ‫(‪2‬‬
‫رہنے پر مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ وہ ایسے خطرے سے بچنے کیلئے یا ایسے ضرر کو روکنے‬
‫کیلئے‪ ،‬ایسے ذرائع‪ ،‬جو وہ مناسب سمجھے‪ ،‬خود استعمال کرے یا استعمال کرائے۔‬
‫کسی ایسے امر کی نسبت جو مجسٹریٹ دفعہ ہذا کے تحت نیک نیتی سے کرے‪،‬‬ ‫(‪3‬‬
‫کوئی نالش نہیں کی جا سکے گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :143‬مجسٹریٹ امر باعث تکلیف عامہ کی تکرار یا جاری رکھنے کی ممانعت کر سکتا‬
‫ہے‬

‫]‪37‬مجسٹریٹ درجہ اول[ کسی شخص کو کسی امر باعث تکلیف عامہ جس کی تکلیف مجموعہ‬
‫تعزیرات پاکستان یا کسی خاص یا مقامی قانون میں کی گئی ہو‪ ،‬کے بار بار کرنے یا اس کے جاری‬
‫رکھنے سے باز رہنے کا حکم دے سکتا ہے۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬ترمیم‪ :‬درج باال دفعات نمبر ‪ 143 ،142 ،141 ،140‬میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے‬
‫خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ان پر تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫(باب نمبر ‪)11‬‬


‫امر باعث تکلیف یا الحق خطرہ کے جزوی مقدمات میں عارضی احکام‬

‫دفعہ نمبر ‪ :144‬ان مقدمات میں جن میں امر باعث تکلیف یا الحق خطرہ کی صورت ہنگامی ہو‪،‬‬
‫فی الفور قطعی حکم صادر کرنے کا اختیار‬

‫ان مقدمات میں جہاں ]‪38‬ضلع ناظم نے ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس یا ایگزیکٹو‬ ‫(‪1‬‬
‫ڈسٹرکٹ آفیسر کی سفارش پر رائے قائم کی ہو[ دفعہ ہذا کے تحت کارروائی کرنے کی کافی وجہ‬
‫موجود ہو اور فوری انسداد یا فوری تدارک کرنا مناسب ہو۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :144‬ان مقدمات میں جن میں امر باعث تکلیف یا الحق خطرہ کی صورت ہنگامی ہو‪،‬‬
‫فی الفور قطعی حکم صادر کرنے کا اختیار‬

‫ان مقدمات میں جہاں ]‪38‬ضلع ناظم نے ٭]ضلعی انتظامی آفیسر یا نائب ضلعی‬ ‫(‪1‬‬
‫انتظامی آفیسر[ کی سفارش پر رائے قائم کی ہو[ دفعہ ہذا کے تحت کارروائی کرنے کی کافی وجہ‬
‫موجود ہو اور فوری انسداد یا فوری تدارک کرنا مناسب ہو۔‬
‫]‪38‬ضلع ناظم[ مجاز ہوگا کہ تحریری حکم سے جس میں مقدمہ کے اہم حقائق قلمبند کئے گئے ہوں‬
‫اور جس کی تعمیل دفعہ ‪ 134‬میں محکوم طریقہ سے کرائی گئی ہو‪ ،‬کسی شخص کو ہدایت کرے کہ‬
‫وہ کسی فعل سے باز رہے یا اپنی مقبوضہ یا زیرانتظام جائیداد کی نسبت کسی فعل سے باز رہے یا‬
‫اس کا کچھ بندوبست کرے‪ ،‬اگر ]‪38‬ضلع ناظم[ کی رائے ہو کہ ایسی ہدایت اغلبا ً جائز طور پر‬
‫مصروف کار کسی شخص کو مزاحمت‪ ،‬تکلیف یا ضرر یا مزاحمت‪ ،‬تکلیف یا ضرر کے اندیشہ کا یا‬
‫انسانی جان‪ ،‬صحت یا امن عامہ میں خلل یا فساد یا ہنگامہ کا انسداد کرے گی یا انسداد کا باعث‬
‫ہوگی۔‬
‫ہنگامی صورتوں میں یا اس صورت میں جب حاالت اس بات کی اجازت نہ دیتے‬ ‫(‪2‬‬
‫ہوں کہ اس شخص پر نوٹس کی تعمیل مناسب وقت پر کرائی جا سکے جس کے خالف حکم کیا گیا‬
‫ہو تو جائز ہوگا کہ دفعہ ہذا کے تحت یکطرفہ حکم صادر کیا جائے۔‬
‫جائز ہوگا کہ دفعہ ہذا کے تحت حکم کسی خاص فرد کو یا خالئق عامہ کے خالف‬ ‫(‪3‬‬
‫ہو جو وہ کسی خاص مقام پر اکٹھے ہوئے ہوں یا آئے ہوں یا آتے ہوں‪ ،‬تحریر کیا جائے۔‬
‫]‪38‬ضلع ناظم[ مجاز ہوگا کہ اپنی تحریک پر یا مضرت رسیدہ شخص کی شکایت‬ ‫(‪4‬‬
‫پر دفعہ ہذا کے تحت صادر کردہ حکم کو جو اس نے خود یا اسکے ]‪39‬٭٭٭[ کسی متقدم نے صادر‬
‫کیا ہو‪ ،‬منسوخ کردے یا تبدیل کردے۔‬
‫جب ایسی درخواست موصول ہو تو ]‪38‬ضلع ناظم[ درخواست گزار کو اصالتا ً یا‬ ‫(‪5‬‬
‫وکالتا ً پیش ہونے اور حکم کے خالف وجہ بیان کرنے کا جلدی موقع دے گا اور اگر ]‪38‬ضلع ناظم[‬
‫درخواست کو جزوی طور پر یا کلی طو رپر مسترد کردے تو وہ ایسا کرنے کی اپنی وجوہات قلم بند‬
‫کرے گا۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت کوئی حکم‪ ،‬اس کے اجراء کے دو ]‪ 38‬مسلسل یوم اور ایک ماہ‬ ‫(‪6‬‬
‫میں سات یوم سے زیادہ نافذ نہیں رہے گا[ سوائے اس صورت کے کہ صوبائی حکومت انسانی‬
‫جان‪ ،‬صحت یا سالمتی کو خطرہ الحق ہونے یا بلوہ یا ہنگامہ کا خدشہ ہونے پر سرکاری جریدے‬
‫میں اشتہار کے ذریعہ اس کے برعکس ہدایت کرے۔‬
‫]‪)7( 40‬ان اضالع میں جہاں ابھی تک مقامی حکومتوں کے الیکشن نہیں ہوئے اور ضلع ناظم نے‬
‫ابھی تک اپنے عہدہ کا چارج نہیں سنبھاال‪ ،‬ذیلی دفعہ (‪ )1‬تا (‪ )6‬میں جہاں ناظم کا ذکر موجود ہے‬
‫اسے بطور ڈسٹرکٹ کوآرڈیننس افسر برائے اضالع مذکور پڑھایا جائے گا‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ یہ ذیلی دفعہ اس وقت غیر موثر ہو جائے گی یا اسے منسوخ باور کیا جائے گا‬
‫جب ان اضالع میں مقامی حکومت قائم ہو جائے گی۔[‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کہا گیا ہے کہ کسی ایسے فعل کو روکنے کیلئے ہنگامی‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫اقدامات کئے جا سکتے ہیں‪ ،‬جس سے تکلیف یا ضرر کا اندیشہ ہو‪ ،‬انسانی جان‪ ،‬صحت یا امن عامہ‬
‫میں فساد پر ہنگامہ کا خطرہ ہو۔ اسالم انسانیت کو امن وبقا مہیا کرتا ہے‪ ،‬لہٰ ذا فتنہ سے پہلے ہی اس‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫کے انسداد کی کارروائی کا حکم دیتا ہے۔ ارشاد باری‬
‫شدُّ ِمنَ ْالقَتْ ِل (‪)55‬‬
‫ا َ ْل ِفتْنَ ُۃ أَ َ‬
‫’’فتنہ وفساد قتل سے بڑھ کر ہے‘‘۔‬
‫اس آیت مبارکہ میں فتنہ واقع ہونے سے پہلے ہی ختم کرنے کی طرف توجہ مبذول کرائی‬
‫جا رہی ہے تاکہ امکانی فساد اور بدامنی سے بچا جا سکے۔‬
‫اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث مبارکہ بھی ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ص ْو لَ َھا فَا ُ ِم َر ا َ ْن یَّا ْ ُخذَ ِبنَ ُ‬
‫ص ْولھا الَ َی ْخد ُ‬
‫ِش ُم ْس ِل ًما (‪)56‬‬ ‫َم َّر َر ُجالً فی المسجد ِبا َ ْس ُھ ٍم قد ا َ ْبدَ ً‬
‫ی نُّ ُ‬
‫’’ایک شخص کھلے پیکانوں کے ساتھ مسجد سے گزرے اور اس کے پاس تیر ہو‪ ،‬تو اس‬
‫کے پیکان کو تھام لے تاکہ کسی مسلمان کو خراش نہ آئے‘‘۔‬
‫مذکورہ حدیث مبارکہ میں حضور اکرم ﷺ نے ممکنہ خطرے سے پہلے ہی پیش بندی فرما‬
‫دی ہے تاکہ اس کا امکان ہی نہ رہے۔ اس حدیث مبارکہ کی رو سے عصر حاضر میں دہشت گردی‬
‫اور فتنہ وفساد سے بچنے کیلئے پیشگی قدم اٹھاتے ہوئے عملی طور پر غنڈہ گردی کو رواج دینے‬
‫والے ہتھیاروں کو لیکر چلنے کی ممانعت ہونی چاہئے۔‬
‫دوسری حدیث میں ہے‪:‬‬
‫نھی رسول اہللا ﷺ عن بیع السالح فی الفتنۃ (‪)57‬‬
‫ٰ‬
‫’’آپ ﷺ نے فتنہ کے دور میں اسلحہ خریدنے اور بیچنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔‬
‫درج باال حدیث مبارکہ میں فتنہ وفساد کے ایام میں اسلحہ کی خرید وفروخت پر ہی پابندی‬
‫لگا دی گئی ہے تاکہ فساد کا امکان ہی نہ رہے۔ آج کے دور میں بھی اس اصول سے استفادہ ممکن‬
‫ہے۔‬
‫آج کے پرفتن اور دہشت گردی کے دور میں سدالذرائع کے طور پر اسلحہ کی خرید‬
‫وفروخت پر مکمل پابندی لگا دینی چاہئے تاکہ دہشت گردی کے اس اہم ذریعہ کو ختم کیا جا سکے۔‬
‫پاکستان آرمرز آرڈیننس ‪1965‬ء میں یہ شق پہلے ہی موجود ہے‪:‬‬
‫"‪)58( ."Unlicensed sale and repair prohibited‬‬
‫’’بغیر الئسنس رکھے اسلحہ کی فروخت اور اس کی مرمت ممنوع ہے‘‘۔‬
‫مندرجہ باال قانون پر سختی سے عملدرآمد ہونا چاہئے۔ اس ضمن میں یہ اقدام بھی ضروری‬
‫ہے کہ ہر قسم کا قانونی اور غیر قانونی اسلحہ حکومت واپس لے لے اور مزید خرید وفروخت پر‬
‫مکمل پابندی لگا دی جائے۔‬
‫مندرجہ باال احادیث سے سد الذرائع کے طور پر بعض اوقات مستقل اقدامات کا جواز موجود‬
‫اولی ثبوت ملتا ہے۔ ضابطہ‬
‫ہے تو متوقع خطرات سے بچنے کیلئے ہنگامی اقدامات کا بدرجہ ٰ‬
‫فوجداری میں مذکورہ دفعہ بھی متوقع خطرات سے بچنے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنے کے بارے‬
‫میں ہے۔ اس میں اختیارات کی وضاحت یوں کی گئی ہے‪:‬‬
‫‪The key-note of the power in section 144 is to free the society from‬‬
‫‪nuisance of serious disturbances of a grave character and the section is directed‬‬
‫‪against those who attempt to prevent the exercise of legal rights by others or‬‬
‫‪)59( .imperil the public safety and health‬‬
‫’’دفعہ نمبر ‪ 144‬کے اختیار کا بنیادی نکتہ سنگین کردار کی شدید گڑبڑ کے خطرے سے‬
‫معاشرے کو محفوظ کرنا ہے اور یہ دفعہ دوسرے افراد کے قانونی حقوق کے عمل کو روکنے کی‬
‫کوشش کرنے یا عوامی تحفظ اور صحت کو خطرے میں ڈالنے والوں کیخالف راست اقدام کرتا‬
‫ہے‘‘۔‬
‫مندرجہ باال اختیار کے تحت پیش آنے والے متوقع خطرات کیلئے ہنگامی اقدامات کئے جا‬
‫سکتے ہیں۔ دین‪ ،‬قانون اور اخالقیات اس کی اجازت دیتے ہیں۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪’’ :‬غور وخوض کے بعد طے پایا کہ اس دفعہ کی شق (‪ )2‬کے‬
‫آخر میں ان الفاظ کا اضافہ کیا جائے اور ایسے حکم کی ایک نقل فوری طور پر متعلقہ ضلع کے‬
‫سیشن جج کو بھیجی جائے‘‘‪:‬‬
‫اسی طرح شق (‪ )4‬کے ابتدائی الفاظ ’’ہر مجسٹریٹ‘‘ کو ’’ہر سیشن جج‘‘ سے تبدیل کیا‬
‫جائے۔ اسی طرح ’’جو خود اس نے یا اس کے ماتحت کسی مجسٹریٹ نے‘‘ کی بجائے ’’خود اس‬
‫نے یا اس کے ماتحت کسی ایڈیشنل سیشن جج نے‘‘ درج کیا جائے‪ ،‬اسی طرح شق (‪ )5‬میں‬
‫’’مجسٹریٹ‘‘ کی جگہ ’’سیشن جج‘‘ درج کیا جائے‘‘۔ (‪)60‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں نظریاتی کونسل کی تجویز کردہ ترمیم کی جائے۔ مزید کوئی بات‬
‫اسالمی اصولوں کے منافی معلوم نہیں ہوتی۔ لہٰ ذا مزید ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫(باب نمبر ‪)12‬‬


‫غیر منقولہ جائیداد کی نسبت تنازعات‬

‫دفعہ نمبر ‪ :145‬جب اراضی وغیرہ کی نسبت تنازعہ سے نقص امن کا احتمال ہو تو طریق کار‬

‫جب کبھی کسی ]‪1‬مجسٹریٹ درجہ اول[ کی پولیس رپورٹ یا دیگر اطالع سے تسلی‬ ‫(‪1‬‬
‫ہو جائے کہ اس کے اختیار کی مقامی حدود کے اندر کسی اراضی یا آب یا ان کی حدود کے متعلق‬
‫ایسا تنازعہ موجود ہے جس سے نقص امن کا خطرہ اغلب ہے‪ ،‬تو اس پر الزم ہوگا کہ وہ تحریری‬
‫طور پر ایک ایسا حکم صادر کرے جس میں اس کی تسلی ہونے کی وجوہ درج ہوں اور جس سے‬
‫ایسے تنازعہ سے متعلق فریقین کو حکم دیاگیا ہو کہ وہ اصالتا ً یا وکالتا ً ایسی مدت کے اندر جسے وہ‬
‫مجسٹریٹ مقرر کرے گا اس کی عدالت میں حاضر ہوں اور موضوع تنازعہ کی نسبت اصلی قبضہ‬
‫کی حقیقت کے بارے میں اپنے اپنے تحریری بیان داخل کریں۔‬
‫دفعہ ہذا کی اغراض کیلئے الفاظ ’’اراضی‘‘ یا ’’آب‘‘ میں عمارتیں‪ ،‬مارکیٹیں‪،‬‬ ‫(‪2‬‬
‫مچھلیوں کی شکار گاہ‪ ،‬فصل یا دیگر پیداوار اور کسی ایسی جائیداد کا لگان یا منافع شامل ہیں۔‬
‫حکم مذکور کی ایک نقل کی ایسے شخص یا اشخاص پر جن کی مجسٹریٹ ہدایت‬ ‫(‪3‬‬
‫کرے اس طور پر تعمیل کرائی جائے گی‪ ،‬جیسا کہ مجموعہ ہذا میں تعمیل سمن کا حکم ہے اور اس‬
‫کی کم از کم ایک نقل شے متنازعہ پر یا اس کے قریب کسی نمایاں جگہ پر چسپاں کرکے مشتہر کی‬
‫جائے گی۔‬
‫قبضہ کی بابت تحقیقات‪ :‬تب مجسٹریٹ پر الزم ہوگا کہ وہ کسی ایسے فریق کی‬ ‫(‪4‬‬
‫شے متنازعہ کو قبضہ میں رکھنے کے استحقاق یا دعاوی کو مدنظر رکھے بغیر ایسے داخل کردہ‬
‫تحریری بیانات مالحظہ کرے‪ ،‬فریقین کو سماعت کرے (جو بھی شہادت ہو‪ ،‬لے) جو انہوں نے‬
‫بالترتیب پیش کی ہو‪ ،‬ایسی شہادت کے اثر کو زیرغور الئے‪ ،‬کوئی مزید شہادت لے (اگر کوئی ہو)‬
‫جو وہ ضروری سمجھے اور اگر ممکن ہو‪ ،‬فیصلہ کرے آیا کوئی اور فریقین میں سے کون مذکورہ‬
‫باال حکم کی تاریخ پر مذکورہ موضوع پر اس طور پر قابض تھا‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ اگر مجسٹریٹ پر یہ ظاہر ہو کہ کسی فریق کو‪ ،‬ایسے حکم کے پچھلے دو ماہ‬
‫کے اندر جبرا ً اور ناجائز طور پر بے دخل کیا گیا ہے تو وہ اس طور پر بے دخل کردہ فریق کو اس‬
‫طرح گردان سکتا ہے گویا کہ وہ ایسی تاریخ پر قابض تھا‪:‬‬
‫مزید شرط یہ ہے کہ اگر مجسٹریٹ مقدمہ کو ہنگامی نوعیت کا سمجھے تو وہ مجاز ہوگا کہ دفعہ ہذا‬
‫کے تحت اپنے فیصلہ تک موضع تنازعہ کو کسی بھی وقت قرق کر لے۔‬
‫دفعہ ہذا میں کوئی امر کسی ایسے فریق کو جس کو اس طو رپر حاضر ہونے کا‬ ‫(‪5‬‬
‫حکم دیا گیا ہو یا کسی اور واسطہ دار شخص کو یہ ظاہر کرنے میں مانع نہ ہوگا کہ کوئی ایسا پہلے‬
‫بیان کردہ تنازعہ نہ موجود ہے یا موجود تھا اور ایسی صورت میں مجسٹریٹ اپنا مذکورہ حکم‬
‫منسوخ کردے گا اور اس پر تمام مزید کارروائیاں روک دی جائیں گی‪ ،‬لیکن ایسی منسوخی کے تابع‬
‫مجسٹریٹ کا ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت حکم قطعی ہوگا۔‬
‫فریق قابض کا قبضہ قائم رہے گا جب تک وہ قانونی طو رپر بے دخل نہ کیا جائے‪:‬‬ ‫(‪6‬‬
‫اگر مجسٹریٹ یہ تجویز کرے کہ فریقین میں سے ایک (یا ضمنی دفعہ (‪ )4‬کی پہلی شرط کے تحت‬
‫سمجھا جائے) شے موضوعہ پر قابض تھا تو اس پر الزم ہوگا کہ یہ قرار دیتے ہوئے ویسا فریق اس‬
‫وقت تک اس کے قبضہ کا مستحق ہے جب تک کہ اسے قانون کے مطابق بے دخل نہ کردیا جائے‬
‫اور ایسے قبضہ میں ایسی بے دخلی تک ہر قسم کی مداخلت کی ممانعت کرتے ہوئے حکم صادر‬
‫کرے اور جب وہ ضمنی دفعہ (‪ )4‬کی پہلی شرط کے تحت کارروئی کر رہا ہو‪ ،‬مجاز ہوگا کہ اس‬
‫فریق کے قبضہ کو بحال کرے جسے جبرا ً اور ناجائز طور پر بے دخل کیا گیا ہو۔‬
‫جب ایسی کارروائی کا کوئی فریق فوت ہو جائے تو مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ متوفی‬ ‫(‪7‬‬
‫فریق کے قانونی نمائندوں کو کارروائی میں فریق بنائے اور پھر کارروائی جاری رکھے اور جب‬
‫ایسی کارروائی کے مقاصد کیلئے کوئی سوال پیدا ہو کہ متوفی فریق کا کون قانونی نمائندہ ہے تو‬
‫متوفی فریق کا نمائندہ ہونے کے تمام دعویداران کو اس کا فریق بنا لیا جائے گا۔‬
‫اگر مجسٹریٹ کی رائے ہو کہ کوئی فصل یا جائیداد کی کوئی دیگر پیداوار جو اس‬ ‫(‪8‬‬
‫کے روبرو کارروائی میں زیر دفعہ ہذا موضوع تنازعہ ہو‪ ،‬جلد اور قدرتی طور پر خراب ہونے‬
‫والی ہے‪ ،‬تو وہ ایسی جائیداد کی مناسب حضانت یا فروخت کا حکم دینے کا مجاز ہوگا اور تحقیقات‬
‫مکمل ہونے پر ایسی جائیداد یا اس کے زرییع کے تصفیہ کیلئے ایسا حکم دے گا‪ ،‬جو وہ مناسب‬
‫سمجھے۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت کارروائیوں میں کسی مرحلہ پر اگر مجسٹریٹ مناسب سمجھے تو‬ ‫(‪9‬‬
‫وہ مجاز ہوگا کہ فریقین میں سے کسی کی درخواست پر کسی گواہ کے نام یہ ہدایت کرتے ہوئے‬
‫سمن جاری کرے کہ وہ حاضر ہو یا کوئی دستاویز یا شے پیش کرے۔‬
‫(‪ 10‬دفعہ ہذا میں کوئی امر مجسٹریٹ کے دفعہ ‪ 107‬کے تحت کارروائی کرنے کے‬
‫اختیارات میں کوئی تخفیف تصور نہ ہوگا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :146‬موضوع تنازعہ قرق کرنے کا اختیار‬

‫اگر مجسٹریٹ کا یہ فیصلہ ہو کہ اس وقت فریقین میں سے کسی کا بھی ایسا قبضہ نہ‬ ‫(‪1‬‬
‫ہے یا وہ مطمئن نہ ہو سکے کہ ان میں سے کون اس وقت موضوع تنازعہ پر قابض تھا تو وہ مجاز‬
‫ہوگاکہ وہ موضوع تنازعہ کو اس وقت تک قرق کرے جب تک کوئی عدالت مجاز اس کے متعلق‬
‫فریقین کے حقوق کا یا اس پر قبضہ کرنے کی مستحق شخص کا تعین نہ کرے۔‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ ]‪42‬٭٭٭[ وہ مجسٹریٹ جس نے شے متنازعہ قرق کی ہو اس امر کا اطمینان‬
‫ہو جانے پر کہ موضوع تنازعہ کی بابت نقص امن کا احتمال نہیں رہا‪ ،‬کسی بھی وقت قرقی واپس‬
‫لے سکتا ہے۔‬
‫جب مجسٹریٹ نے موضوع تنازعہ کو قرق کرلیا ہو تو وہ مجاز ہوگا کہ اگر وہ‬ ‫(‪2‬‬
‫مناسب سمجھے اور اگر موضوع تنازعہ کا کسی دیوانی عدالت نے کوئی تحویلدار نہ مقرر کردیا‬
‫ہو‪ ،‬اس کا تحویلدار مقرر کرے جسے مجسٹریٹ کے حکم کے تابع ضابطہ دیوانی مجریہ ‪1908‬ء‬
‫کے تحت مقرر کردہ تحویلدار کے جملہ اختیارات حاصل ہوں گے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ بعد ازاں عدالت دیوانی کی طرف سے جائیداد‪ ،‬جو موضوع تنازعہ ہے‪ ،‬کا‬
‫تحویلدار مقرر کئے جانے کی صورت میں مجسٹریٹ کا مقرر کردہ تحویلدار قبضہ اس کے حوالے‬
‫کردے گا اور اس کے بعد اس کو سبکدوش کردیا جائے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :147‬غیر منقولہ جائیداد وغیرہ کے حقوق تصرف کی نسبت تنازعات‬

‫جب کسی ]‪43‬مجسٹریٹ درجہ اول[ کو پولیس کی رپورٹ یا دیگر معلومات سے‬ ‫(‪1‬‬
‫اطمینان ہو جائے کہ اس کے عالقہ کی مقامی حدود کے اندر کسی اراضی یا آب کے تصرف کی‬
‫دعوی‬
‫ٰ‬ ‫نسبت‪ ،‬جیسا کہ دفعہ ‪ 145‬کی ضمنی دفعہ (‪ )2‬میں وضاحت کی گئی ہے (خواہ ایسے حق کا‬
‫بطور حق آسائش یا کسی اور طور کیا گیا ہو) ایسا تنازعہ موجود ہے کہ اس سے اندیشہ نقص امن‬
‫ہے‪ ،‬تو وہ اپنے اس طور پر مطمئن ہونے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے‪ ،‬تحریری حکم دینے کا‬
‫مجاز ہوگا اور ایسے تنازعہ سے متعلق فریقین کو حکم دے گا کہ وہ مجسٹریٹ کی طرف سے مقرر‬
‫کردہ مدت کے اندر اصالتا ً یا وکالتا ً پیش ہوں اور اپنے اپنے مطالبات کے تحریری بیان داخل کریں‬
‫اور بعد ازاں دفعہ ‪ 145‬میں درج طریقہ پر اس معاملہ کی تحقیقات کرے گا اور ایسی تحقیقات کی‬
‫صورت میں اس دفعہ کے احکام‪ ،‬جہاں تک ممکن ہو‪ ،‬اطالق پذیر ہوں گے۔‬
‫اگر مجسٹریٹ پر یہ ظاہر ہو کہ ویسے حق کا وجود ہے تو وہ ایسے حق کے‬ ‫(‪2‬‬
‫زیرکار النے میں کسی مداخلت کو ممنوع کرنے کی نسبت حکم صادر کرنے کا مجاز ہوگا‪:‬۔‬
‫بشرطیکہ ایسا کوئی حکم صادر نہ کیا جائے گا جبکہ حق مذکور سارا سال زیرکار الیا جا سکتا ہو‪،‬‬
‫سوائے اس کے کہ ویسے حق کو تحقیقات شروع کرنے سے فوری تین ماہ قبل کے اندر زیرکار الیا‬
‫گیا ہو یا جب حق مذکور کو خاص موسموں یا خاص موقعوں پر زیر کار الیا جاتا ہو تو بجز اس کے‬
‫کہ ایسی تحقیقات سے قبل ایسے آخری موسم میں یہ ایسے آخری موقع پر زیرکار الیا گیا ہو۔‬
‫اگر ایسے مجسٹریٹ پر ظاہر ہو کہ ویسے حق کا وجود نہیں ہے تو وہ مبینہ حق کو‬ ‫(‪3‬‬
‫زیرکار النے کو ممنوع کرنے کا حکم صادر کرنے کا مجاز ہوگا۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت کوئی حکم کسی بااختیار عدالت دیوانی کے بعد کے کسی فیصلہ‬ ‫(‪4‬‬
‫کے تابع ہوگا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬دفعات نمبر ‪ 147 ،146‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :148‬مقامی تحقیقات‬

‫جب باب ہذا کی اغراض کیلئے مقامی تحقیقات ضروری ہو تو کوئی ]‪43‬سیشن جج[‬ ‫(‪1‬‬
‫مجاز ہوگا کہ اپنے کسی ماتحت مجسٹریٹ کو تحقیقات کرنے کیلئے مقرر کرے اور اس کو ایسی‬
‫تحریری ہدایات فراہم کرے جو اس کی رہنمائی کیلئے ضروری معلوم ہوں اور اس امر کا فیصلہ‬
‫کرے کہ تحقیقات کے ضروری اخراجات کالً یا جزوا ً کون ادا کرے گا۔‬
‫اس طور پر مقرر کردہ شخص کی رپورٹ مقدمہ میں بطور شہادت پڑھی جا سکتی‬ ‫(‪2‬‬
‫ہے۔‬
‫خرچہ کی نسبت حکم‪ :‬جب باب ہذا کے تحت کسی کارروائی میں کسی فریق نے‬ ‫(‪3‬‬
‫کچھ اخراجات کئے ہوں تو دفعہ ‪ ،145‬دفعہ ‪ 146‬یا دفعہ ‪ 147‬کے تحت فیصلہ صادر کرنے واال‬
‫مجسٹریٹ ایسی ہدایات دینے کا مجاز ہوگا کہ ایسے اخراجات کون ادا کرے گا۔ آیا ایسا فریق یا‬
‫کارروائی کا کوئی دیگر فریق دے گا اور آیا کالً یا جزوا ً یا تناسب ہے۔ ایسے اخراجات میں گواہان‬
‫کی نسبت اخراجات اور فیس وکیل‪ ،‬جو عدالت مناسب سمجھے‪ ،‬شامل کئے جا سکتے ہیں۔‬

‫وضاحت‪ :‬درج باال دفعہ کی شق نمبر‪ 1‬میں مذکور ہے کہ لوکل انکوائری میں تحقیقات کیلئے سیشن‬
‫جج کسی ماتحت مجسٹریٹ کو مقرر کر سکتا ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬حضور اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے ہمیں اس بارے میں رہنمائی ملتی ہے کہ‬
‫اسالمی ٔ‬
‫سیشن جج یا قاضی مدد کیلئے اپنے نائب کو کام سونپ سکتا ہے جیسا کہ مدینے کی حد تک‬
‫آنحضرت ﷺ پورا عدالتی کام خود انجام دیتے تھے لیکن جب اسالمی عملداری میں وسعت ہوکر‬
‫انتظامی کام بڑھ گیا تو مدینے میں آپ ﷺ نے چند مفتی (قاضی) مقرر فرما دیئے تھے۔(‪ )61‬واضح‬
‫ؓ‬
‫راشدین کے‬ ‫طرز عمل خلفائے‬
‫ِ‬ ‫رہے کہ صدر اول میں قاضی کو مفتی ہی کہتے تھے۔ (‪ )62‬یہی‬
‫ادوار میں بھی رہا۔(‪)63‬‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ سیشن جج اپنی مدد آپ کیلئے کسی ماتحت کو کچھ ذمہ‬
‫داری سونپ سکتا ہے۔‬
‫تبصرہ ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کیخالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫(باب نمبر ‪)13‬‬


‫پولیس کی انسدادی کارروائی‬

‫دفعہ نمبر ‪ :149‬پولیس کا اختیار دوبارہ انسداد جرائم قابل دست اندازی کے‬

‫ہر عہدہ دار پولیس مجاز ہے کہ واسطے انسداد ارتکاب کسی جرم قابل دست اندازی کے مداخلت‬
‫کرے‪ ،‬اس کو الزم ہے کہ تاحد مقدور اپنے اس کا انسداد کرے۔‬

‫وضاحت‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کہا گیا ہے کہ پولیس حتی المقدور کسی جرم کا انسداد کرے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس سلسلے میں ہمیں اسالمی تاریخ سے بھی رہنمائی ملتی ہے‪ ،‬تاریخ اسالم میں‬‫اسالمی ٔ‬
‫پولیس کو ’’شرطہ‘‘ کہا گیا ہے جس کے فرائض درج ذیل تھے‪ :‬عالقے میں امن وامان کا قیام‪ ،‬فتنہ‬
‫وفساد کا قلع قمع‪ ،‬بُرائیوں کا انسداد‪ ،‬قاضیوں کی مدد‪ ،‬غیر قانونی حرکات (جرائم) کے مرتکب افراد‬
‫کی گرفتاری اور جرائم سے باز نہ آنے والوں کی تادیب وغیرہ۔ (‪)64‬‬
‫بہرحال جرائم کا انسداد‪ ،‬فتنہ وفساد رفع کرنا اور امن وامان قائم رکھنا تاریخ میں شرطہ کی‬
‫مرتضی زبیدی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ذمہ داری رہی ہے۔ سید‬
‫’’شرطہ ایسی جماعت تھی جو ملکی نظم ونسق قائم رکھنے کیلئے صوبوں کے عمال کی‬
‫مدد کرتی تھی‘‘۔ (‪)65‬‬
‫گویا نظم ونسق اور امن عامہ کا قیام اسالمی ادوار میں پولیس کی بنیادی ذمہ داری تھی۔ لہٰ ذا‬
‫آج بھی پولیس ان مقاصد کیلئے اپنا کردار ادا کرے تو اس کے اوپر کوئی شرعی قدغن نہیں ہے‪،‬‬
‫اسے ہر ممکن اور جائز طریقہ سے جرائم کی روک تھام میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫میں ترمیم کی ضرور ت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :150‬ویسے جرموں کے ارتکاب کی نیت کی اطالع‬

‫اگر کسی عہدہ دار پولیس کو اطالع پہنچے کہ کوئی شخص جرم قابل دست اندازی کے ارتکاب کی‬
‫نیت رکھتا ہے تو اس کو الزم ہے کہ ویسی اطالع اس عہدہ دار پولیس کے پاس پہنچائے جس کا وہ‬
‫ماتحت ہو اور کسی دوسرے عہدہ دار کے پاس بھی جس کا یہ کام ہو کہ ویسے جرم کے ارتکاب کا‬
‫انسداد یا اس میں دست اندازی کرے۔‬

‫ب جرم کی نیت کے‬


‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ اگر پولیس کو کسی شخص کے ارتکا ِ‬
‫بارے میں اطالع ملے تو ذمہ دار پولیس افسر اس کے انسداد کیلئے کارروائی کرے گا۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی حکومتوں میں محتسب جرائم کے انسداد کیلئے کارروائی کرتا تھا لیکن‬‫اسالمی ٔ‬
‫پاکستان میں یہ اختیارات پولیس کو دے دیئے گئے ہیں۔ لہٰ ذا اب یہ کام پولیس کی ذمہ داری ہے۔‬
‫اسالمی حوالے سے اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے‪:‬‬
‫’’محتسب کو صرف شبہ کی بنیاد پر کسی کے خالف کارروائی کرنے یا کھوج لگا کر‬
‫جرائم کا پتہ لگانے کی اجازت نہیں لیکن اگر ایسی صورت ہو کہ کچھ لوگ جرم کرنے پر تلے‬
‫بیٹھے ہوں اور محتسب کے پاس یہ باور کرنے کے خاصے مضبوط وجوہ موجود ہوں کہ فالں‬
‫شخص یا اشخاص جرم کریں گے تو وہ اقدام کرکے کھوج لگا سکتا ہے اور مجرمین کو جرم کرنے‬
‫سے روک سکتا ہے‘‘۔ (‪)66‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ جرم کی اطالع ملنے پر اس کے ارکاب سے پہلے ہی‬
‫انسداد کیلئے کارروائی کی جا سکتی ہے تاکہ معاشرے سے دفعِ شر کیا جا سکے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :151‬ویسے جرموں کے انسداد کیلئے گرفتاری‬


‫جس عہدہ دار پولیس کو یہ علم ہو کہ کوئی شخص کسی جرم قابل دست اندازی کے ارتکاب کا قصد‬
‫کر رہا ہے۔ اس کو اختیار ہے کہ بال صدور حکم مجسٹریٹ اور بال وارنٹ کے اس شخص کو‬
‫گرفتار کرے جس کا ایسا کرنا مقصود ہو‪ ،‬بشرطیکہ ایسے عہدہ دار کی دانست میں اس جرم کے‬
‫ارتکاب کا انسداد اور طرح پر نہ ہو سکتا ہو۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬درجِ باال دفعہ میں مذکور ہے کہ جب کسی پولیس افسر کو کسی شخص کے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ب جرم کے ارادے کی اطالع ملے‪ ،‬وہ بغیر وارنٹ کے اسے گرفتار کر سکتا ہے۔‬ ‫ارتکا ِ‬
‫’’ماضی میں اسالمی خلفاء کے دور میں صاحب الشرطہ ماتحت عملے کی اطالعات پر‬
‫مظلوم کی فریاد کا انتظار کئے بغیر ازخود تحقیقاتی کارروائی شروع کرنے کا مجاز تھا‪ ،‬وہ مشتبہ‬
‫افراد کو قید کرکے ان سے اعتراف جرم کروانے میں سختی کا اختیار بھی رکھتا تھا۔ اس طرح‬
‫شرطہ کا حلقہ اقتدار قاضی کے حلقہ اثر ونفوذ سے وسیع تر ہوتا تھا جبکہ قاضی کو اس قسم کے‬
‫اختیارات حاصل نہ تھے‘‘۔ (‪)67‬‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ ماضی میں بھی شرطہ ازخود کارروائی کرتے ہوئے‬
‫ب جرم کا خدشہ ہوتا تھا اور اس سلسلے میں وہ کسی‬
‫مشتبہ افراد کو پکڑ لیتا تھا۔ جس سے ارتکا ِ‬
‫وارنٹ وغیرہ کا محتاج بھی نہ تھا بلکہ اس سلسلے میں اس کے اختیارات قاضی سے بھی وسیع‬
‫تھے۔ لہٰ ذا آج بھی اس ہنگامی صورتحال میں پولیس اگر نیک نیتی سے کارروائی کرتے ہوئے متوقع‬
‫خطرے کے انسداد کیلئے کسی کو گرفتار کرلے تو یہ درست ہوگا۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی چیز اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :152‬سرکاری جائیداد کو مضرت پہنچانے کا انسداد‬

‫عہدہ دار پولیس مجاز ہے کہ اس نقصان کیلئے جو کوئی شخص اس کے روبرو کسی سرکاری‬
‫جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ کو پہنچانے کا اقدام کرے یا کسی سرکاری نشان واقع زمین یا پانی پر‬
‫تیرنے والے نشان یا جہاز رانی کے اور نشان کے دور کرنے یا نقصان پہنچانے کے انسداد کیلئے‬
‫خود اپنے اختیار سے دست انداز ہو۔‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے برعکس معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس میں‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :153‬باٹوں اور پیمانوں کا معائنہ‬

‫ہر عہدہ دار مہتمم پولیس سٹیشن مجاز ہے کہ بالوارنٹ ایسے سٹیشن کی حدود کے‬ ‫(‪1‬‬
‫اندر کسی مقام میں واسطے معائنہ یا تالش کرنے باٹوں یا پیمانوں یا دیگر آالت وزن کے جو اس‬
‫میں مستعمل ہوتے ہیں یا رکھے رہتے ہیں‪ ،‬اس صورت میں داخل ہو جب اس کو بوجہ ظن غالب ہو‬
‫کہ ویسے مقام پر ایسے بانٹ یا پیمانے یا آالت وزن رکھے ہیں جو کھوٹے ہیں۔‬
‫اگر اس کو ویسے مقام میں ایسے باٹ یا پیمانے یا آالت وزن دستیاب ہوں جو‬ ‫(‪2‬‬
‫کھوٹے ہیں‪ ،‬تو اس کو اختیار ہے کہ ان کے اپنے قبضہ میں کرلے اور الزم ہے کہ فورا ً قبضہ‬
‫کرلینے کی اطالع اس مجسٹریٹ کو دے جس کو اختیار سماعت حاصل ہو۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ اگر کسی پولیس افسر کو ظن غالب ہو کہ کسی مقام‬
‫اسالمی ٔ‬
‫پر کھوٹے باٹ‪ ،‬پیمانے یا آالت رکھے ہوئے ہیں تو وہ اس میں داخل ہو کر انہیں قبضہ میں لے لے‬
‫اور مجسٹریٹ کو اطالع دیدے۔ مراد یہ ہے کہ قانونی طور پر غلط اوزان و پیمائش ایک جرم ہے‬
‫جس کا انسداد کرنا چاہئے۔‬
‫اسالم نے کم تولنے کی مذمت کی ہے‪ :‬قرآن مجید میں ہے‪:‬‬
‫اس یَ ْست َْوفُونَ ‪َ O‬و ِإذَا کَالُو ُھ ْم أَو َّوزَ نُو ُھ ْم ی ُْخس ُِرونَ‬
‫علَی النَّ ِ‬ ‫َو ْی ٌل ِلِّ ْل ُم َ‬
‫ط ِفِّفِینَ ‪ O‬الَّذِینَ ِإذَا ا ْکت َالُواْ َ‬
‫(‪)68‬‬
‫’’ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے خرابی ہے جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں‬
‫اور جب انہیں ناپ یا تول کردیں تو کم کردیں‘‘۔‬
‫حضرت شعیب علیہ السالم کے قصے میں فرمایا‪:‬‬
‫اس ْال ُم ْست َ ِق ِیم ‪َ O‬و َال ت َ ْب َخ ُ‬
‫سوا النَّ َ‬
‫اس‬ ‫ا َْٔوفُوا ْال َک ْی َل َو َال ت َ ُکونُوا ِمنَ ْال ُم ْخس ِِرینَ ‪َ O‬و ِزنُوا بِ ْال ِق ْس َ‬
‫ط ِ‬
‫ض ُم ْف ِسدِینَ (‪)69‬‬ ‫أَ ْشیَاء ُھ ْم َو َال ت َ ْعث َ ْوا فِی ْاال َْٔر ِ‬
‫’’پیمانہ پورا بھرا کرو‪ ،‬نقصان نہ کیا کرو اور ترازو سیدھی رکھ کر توال کرو اور لوگوں‬
‫کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور ملک میں فساد نہ کرتے پھرو‘‘۔‬
‫حضور نبی اکرم ﷺ نے کم تولنے سے منع فرماتے ہوئے پورا تولنے کی یوں ترغیب دی ہے‪:‬‬
‫ِز ْن َو ْ‬
‫ار ِجحْ (‪)70‬‬
‫’’پورا وزن کرو پلڑا جھکا رکھو‘‘۔‬
‫نیز فرمایا‪:‬‬
‫فََ لَی َ‬
‫ْس ِمنَّا (‪)71‬‬ ‫َم ْن غ َّ‬
‫َش َ‬
‫’’جس نے مالوٹ کی وہ مجھ میں سے نہیں‘‘۔‬
‫حموی کہتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫لہٰ ذا حکومتی اداروں کا فرض ہے کہ وہ اس عمل کو روکیں۔ یاقوت‬
‫’’کھانے پینے کی اشیاء اور دوسری استعمال کی اشیاء میں مالوٹ او ردھوکہ دہی کا سدباب‬
‫کرنا‪ ،‬اوزان اور پیمانوں کی نگرانی کرنا تاکہ دکاندار تولنے اور ناپنے میں کمی نہ کریں‪ ،‬محتسب‬
‫کے فرائض میں داخل ہے‘‘۔ (‪)72‬‬
‫ابن االخو ؒۃ نے بھی لکھا ہے کہ اوزان‪ ،‬سکوں اور پیمانوں کی جانچ پڑتال بھی محتسب کے‬
‫فرائض میں سے ہے۔(‪)73‬‬
‫النویری لکھتے ہیں کہ ناپ تول کی چیزوں میں محتسب کو مداخلت کرنے اور پیمانے اور‬
‫ؒ‬
‫باٹ کی جانچ پڑتال کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ (‪)74‬‬
‫تیمیہ لکھتے ہیں کہ محتسب کا یہ بھی فرض ہے کہ‬
‫ؒ‬ ‫ابن‬
‫’’ایسی بُرائیوں سے روکے جو جھوٹ اور خیانت میں داخل ہیں‪ ،‬مثالً ناپ تول میں کمی‪،‬‬
‫خرید وفروخت اور معامالت قرض میں مالوٹ اور دھوکہ وغیرہ‘‘۔ (‪)75‬‬
‫مندرجہ باال آیات واحادیث مبارکہ اور فقہاء کرام کی آراء سے واضح ہوا کہ کسی بھی قسم‬
‫کی مالوٹ اور دھوکہ دہی اسالم میں سخت منع ہے۔ لہٰ ذا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ہے‬
‫کہ ان چیزوں کا مکمل انسداد کریں اور اس سلسلے میں اپنے اختیارات استعمال کریں۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫حصہ نمبر ‪5‬‬
‫پولیس کو اطالع اور ان کے اختیارات تفتیش‬

‫(باب نمبر ‪)14‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ :154‬قابل دست اندازی مقدمات میں اطالع‬

‫کسی قابل دست اندازی جرم کے ارتکاب کے متعلق ہر اطالع‪ ،‬اگر کسی افسر مہتمم تھانہ کو زبانی‬
‫دی گئی ہو تو وہ اسے خود تحریر کرے گا یا اس کی ہدایت کے تحت تحریر کی جائے گی اور‬
‫اطالع دہندہ کو پڑھ کر سنائی جائے گی اور ایسی ہر اطالع چاہے تحریری دی گئی ہو یا مذکورہ باال‬
‫طور پر تحریر کی گئی ہو پر اطالع دہندہ شخص دستخط کرے گا اور اس کا خالصہ ایک کتاب میں‬
‫درج کیا جائے گا‪ ،‬جسے ویسا افسر اس طریقہ پر رکھے گا جو صوبائی حکومت اس بارے میں‬
‫مقرر کرے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :155‬ناقابل دست اندازی مقدمات میں اطالع‬

‫جب کسی مہتمم تھانہ کو ایسے تھانہ کی حدود کے اندر کسی ناقابل دست اندازی‬ ‫(‪1‬‬
‫جرم کے ارتکاب کی اطالع دی جائے تو اس پر الزم ہوگا کہ وہ ایک کتاب میں جو مذکورہ طریقہ‬
‫پر رکھی گئی ہو‪ ،‬ایسی معلومات کا خالصہ درج کرے اور اطالع دہندہ کو مجسٹریٹ سے رجوع‬
‫کرنے کی ہدایت کرے۔‬
‫مقدمات ناقابل دست اندازی کی تفتیش‪ :‬کوئی پولیس افسر کسی مجسٹریٹ درجہ اول‬ ‫(‪2‬‬
‫یا درجہ دوم جو ایسے مقدمہ کی سماعت کا اختیار رکھتا ہو‪ ،‬کے حکم کے بغیر کسی ناقابل دست‬
‫اندازی جرم کی تفتیش نہیں کرے گا یا اسے عدالت سیشن میں سماعت کیلئے بھیجے گا۔‬
‫جب کسی پولیس افسر کو ویسا حکم ملے تو وہ مجاز ہوگا کہ تحقیقات کی نسبت‬ ‫(‪3‬‬
‫(سوائے گرفتاری بال وارنٹ کے) وہی اختیارات زیرکار الئے جن کو مہتمم تھانہ مقدمہ قابل دست‬
‫اندازی میں زیر کار ال سکتا ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :156‬مقدمات قابل دست اندازی میں تفتیش‬


‫ہر مہتمم تھانہ مجاز ہے کہ حکم مجسٹریٹ کے بغیر کسی ایسے مقدمہ قابل دست‬ ‫(‪1‬‬
‫اندازی کی تفتیش کرے جس کی وہ عدالت جو ایسے تھانہ کی حدود کے مقامی عالقہ میں باب ‪15‬‬
‫کے تحت مقام تحقیق یا سماعت کی شرائط کے مطابق تحقیق یا سماعت کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔‬
‫ویسے مقدمہ میں کسی پولیس افسر کو کوئی کارروائی کسی مرحلہ پر اس وجہ سے‬ ‫(‪2‬‬
‫قابل اعتراض نہ ہوگی کہ مقدمہ ایسا تھا جس میں وہ افسر دفعہ ہذا کے تحت تفتیش کرنے کا مجاز نہ‬
‫ہوگا۔‬
‫کوئی مجسٹریٹ جسے دفعہ ‪ 190‬کے تحت اختیار دیا گیا ہو‪ ،‬ایسی تفتیش جس کا‬ ‫(‪3‬‬
‫اوپر تذکرہ کیا گیا ہے‪ ،‬کرنے کا حکم دینے کا مجاز ہوگا۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )2( ،)1‬یا (‪ )3‬میں درج کسی امر کے باوصف‪ ،‬کوئی پولیس افسر‬ ‫(‪4‬‬
‫سوائے عورت کے شوہر کی یا اس کی عدم موجودگی میں ایسے شخص کی جو اس کی طرف سے‬
‫اس وقت جب ایسے جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو‪ ،‬ایسی عورت کی دیکھ بھال کرتا ہو‪ ،‬شکایت کرنے‬
‫ت پاکستان کے کسی جرم زیر دفعہ ‪ 497‬یا دفعہ ‪ 498‬کی تفتیش نہ کرے گا۔‬ ‫کے تعزیرا ِ‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-156‬مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ‪ C295‬کے تحت جرم کی تفتیش‬

‫باللحاظ اس امر کے کہ مجموعہ ہذا (کوڈ) میں کچھ مذکور ہو‪ ،‬سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے عہدہ سے‬
‫کم درجے کا کوئی پولیس افسر کسی شخص کے خالف مجمعہ تعزیرات پاکستان (ایکٹ ‪ XLV‬بابت‬
‫‪ )1860‬کی دفعہ ‪ C295‬کے تحت مبینہ طور پر کئے گئے جرم کی تفتیش نہیں کر سکے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :B-156‬زنا کے جرم کی ملزمہ کیخالف تفتیش‬

‫باللحاظ اس امر کے مجموعہ ہذا (کوڈ) میں کچھ مذکور ہو‪ ،‬جہاں کسی شخص پر آرڈیننس جرم زنا‬
‫(نفاذ حدود) ‪1979‬ء (‪ VII‬بابت ‪1979‬ء) کے تحت زنا کے جرم کا الزام عائد کیا جاتا ہے تو‬
‫سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے عہدہ سے کم درجے کا کوئی پولیس افسر ایسے جرم کی تفتیش نہیں کرے‬
‫گا اور نہ ایسے ملزم کو عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتار کیا جا سکے گا۔‬
‫تشریح‪ :‬دفعہ ہذا میں ’’زنا‘‘ میں ’’زنا بالجبر‘‘ شامل نہیں ہے۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬تجویز‪ :‬مندرجہ باال دفعات ‪ 156-B ،A-156 ،156 ،155 ،154‬میں کوئی بات اسالمی‬
‫اصولوں کے منافی معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :157‬جب قابل دست اندازی جرم کا شبہ ہو تو ضابطہ‬

‫اگر مہتمم تھانہ کسی موصولہ اطالع سے یا بصورت دیگر کسی ایسے جرم کے‬ ‫(‪1‬‬
‫ارتکاب کے شبہ کی وجہ رکھتا ہو جس کا اسے دفعہ ‪ 156‬کے تحت تفتیش کرنے کا اختیار ہو تو‬
‫اس پر الزم ہوگا کہ فوری طور پر اس کی ایسے مجسٹریٹ کو رپورٹ بھیجے جسے ایسے جرم پر‬
‫پولیس کی رپورٹ پر سماعت کا اختیار ہو اور اصالتا ً روانہ ہوگا یا اپنے ماتحت میں سے کسی ایک‬
‫افسر کو متعین کرے جو ایسے عہدہ سے کم کا نہ ہوگا جو صوبائی حکومت کسی عام یا خاص حکم‬
‫کے ذریعہ اس بارے میں مقرر کرے کہ وہ موقع پر جائے مقدمہ کے واقعات اور حاالت کی تفتیش‬
‫کرے اور اگر ضروری ہو تو ملزم کے سراغ اور فوری گرفتاری کیلئے تدابیر اختیار کرے۔‬
‫مگر حسب ذیل شرائط ہونگی‪:‬‬
‫مستثنی کیا گیا‪ :‬جب کسی ایسے جرم کے‬
‫ٰ‬ ‫جہاں مقامی تفتیش کو‬ ‫(‪a‬‬
‫ارتکاب کی کوئی اطالع کسی شخص کے خالف اس کا نام لے کر دی گئی ہو اور مقدمہ سنگین‬
‫نوعیت کا نہ ہو تو تفتیش کرنے کیلئے مہتمم تھانہ کو ذاتی طور پر جانے یا کسی ماتحت افسر کو‬
‫مقرر کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔‬
‫جب مہتمم پولیس افسر کو تفتیش کیلئے کافی وجہ نظر نہ آئے‪ :‬جب‬ ‫(‪b‬‬
‫مہتمم تھانہ یہ سمجھے کہ تفتیش کرنے کی کافی وجہ نہیں ہے تو وہ مقدمہ کی تفتیش کرے گا۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )1‬کی شرطیہ عبارت کے تحت شق (‪ )a‬اور (‪ )b‬میں متذکرہ ہر دو‬ ‫(‪2‬‬
‫صورتوں میں مہتمم تھانہ پر الزم ہوگا کہ وہ اپنی مذکورہ رپورٹ میں‪ ،‬اس ضمنی دفعہ کے احکام‬
‫کی پورے طور پر تعمیل نہ کرنے کی وجوہ تحریر کرے اور شق (‪ )b‬میں متذکرہ صورت میں ایسا‬
‫افسر فوری طور پر اطالع دہندہ کو‪ ،‬اگر کوئی ہو‪ ،‬اس طریقہ پر جو صوبائی حکومت مقرر کرے‪،‬‬
‫اطالع دے گا کہ وہ اس مقدمہ کی نہ تفتیش کرے گا نہ اسکی تفتیش کرائے گا۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کہا گیا ہے کہ کسی جرم یا شبہ ارتکاب جرم کی اطالع ملنے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫پر مجاز مجسٹریٹ کو اطالع دے کر خود موقع پر جائے اور حاالت واقعات کی تفتیش کرکے مزید‬
‫کارروائی کرے۔ حضور اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ سے اس بارے میں رہنمائی ملتی ہے۔‬
‫ایک شخص نے عرض کی یا رسول ہللا (ﷺ)! میرے بیٹے نے اپنے مالک کی بیوی‬ ‫٭‬
‫سے زنا کیا ہے۔ لوگوں نے کہا اسے سنگسار کردیا جائے۔ میں نے بیٹے کو سنگساری سے بچانے‬
‫کیلئے سو بکریاں اور ایک غالم خون بہا دے دیا ہے۔ لیکن علماء نے کہا ہے کہ وہ سو کوڑوں اور‬
‫ایک سال کی جالوطنی کا مستوجب ہے۔ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا تمہاری بکریاں اور غالم‬
‫واپس ملیں گے۔ لڑکا سو کوڑے اور ایک سال کی جالوطنی کا مستحق ہے اور اے انیس! تم اس کی‬
‫بیوی کے پاس جا کر تفتیش کرو‪ ،‬اگر وہ اقبال جرم کرلے تو اُسے سنگسار کردو۔ (‪)76‬‬
‫عازب کہتے ہیں کہ میرے چچا ابوبردہ بن منیر‬
‫ؓ‬ ‫دوسری حدیث میں حضرت براء بن‬ ‫٭‬
‫میرے پاس سے گزرے اور وہ ایک جھنڈا لئے ہوئے تھے‪ ،‬جو انہیں آپ ﷺ نے دیا تھا۔ میں نے‬
‫پوچھا کہاں جا رہے ہیں؟ کہا کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھے ایک شخص کے پاس بھیجا ہے‪ ،‬جس نے‬
‫اپنے باپ کی وفات پر اپنی سوتیلی ماں سے شادی کرلی ہے‪ ،‬لہٰ ذا آپ ﷺ نے مجھے اس کا سرقلم‬
‫کرنے بھیجا ہے۔ (‪)77‬‬
‫انیس کے ذمہ ایک مقدمہ کی تفتیش لگائی گئی تھی کہ ملزمہ سے‬
‫پہلی حدیث میں حضرت ؓ‬
‫صورتحال کی تفتیش کریں اور اقبال جرم پر سزا دیں۔ دوسری روایت میں حضور اکرم ﷺ نے‬
‫ابوبردہ کو افسر تفتیش مقرر فرما کر بھیجا تاکہ معاملہ کی تحقیق کی‬
‫ؓ‬ ‫اطالع ملتے ہی حضرت‬
‫جائے۔‬
‫قرہ کے ذمہ ایک مقدمہ کی تفتیش لگائی گئی‬
‫اسی طرح ایک دفعہ ایک صحابی حضرت ؓ‬
‫تھی‪ ،‬جس میں ایک آدمی نے اپنے باپ کی بیوہ سے شادی کرلی تھی۔ (‪)78‬‬
‫حضور اکرم ﷺ نے محکمہ تفتیش کی بنیاد رکھ دی تھی‪ ،‬حضرت عمر فاروق ؓ نے اسے‬
‫مسلمہ انصاری کو سربراہ بنا‬
‫ؓ‬ ‫مزید ترقی دی اور مدینہ طیبہ میں مستقل دفتر تفتیش قائم کرکے محمد‬
‫دیا۔ (‪)79‬‬
‫وقاص کے متعلق شکایت ملی کہ انہوں‬ ‫ؓ‬ ‫ایک دفعہ گورنر کوفہ حضرت سعد بن ابی‬ ‫٭‬
‫نے ایک محل بنا کر اس کا نام قصر سعد رکھا ہے اور سامنے دروازہ بنوایا ہے لہٰ ذا فریادی کو ان‬
‫انصاری کو‬
‫ؓ‬ ‫عمر نے فورا ً محمد بن مسلمہ‬
‫کے پاس جانے میں دقت پیش آتی ہے‪ ،‬چنانچہ حضرت ؓ‬
‫تحقیق وتفیش کیلئے بھیجا اور فرمایا‪ :‬اگر شکایت درست ہو تو دروازہ جال دو۔ چنانچہ دروازہ جال‬
‫دیا گیا۔ (‪)80‬‬
‫عمر کو اطالع دی کہ بعض گورنر آپ کے‬‫ایک دفعہ خالد بن اسحاق نے حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫احکامات کی تعمیل نہیں کر رہے‪ ،‬چنانچہ تفتیش شروع ہوئی اور جو مجرم پائے گئے ان کی آدھی‬
‫امالک ضبط کرکے بیت المال میں جمع کردی گئیں۔(‪)81‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ اطالع موصول ہونے پر تفتیشی افسر کو موقعہ پر جا‬
‫کر مقدمہ کے واقعات اور حاالت کی تفتیش کرنی چاہئے تاکہ حقیقت حال واضح ہو سکے اور مزید‬
‫کارروائی کی جا سکے۔‬
‫تبصرہ ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ کی ذیلی شق نمبر ‪ 1‬کی )‪ (b) ،(a‬اور نمبر ‪ 2‬میں کوئی بات اسالمی‬
‫اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی۔ لہٰ ذا تبصرہ وترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :158‬دفعہ ‪ 157‬کے تحت رپورٹیں کیسے بھیجی جائیں گی‬

‫ہر رپورٹ جو دفعہ ‪ 157‬کے تحت مجسٹریٹ کو بھیجی گئی ہو‪ ،‬الزمی طو رپر‪،‬‬ ‫(‪1‬‬
‫اعلی افسر کی وساطت سے بھیجی جائے‬
‫ٰ‬ ‫اگر صوبائی حکومت ایسی ہدایت دے‪ ،‬پولیس کے ایسے‬
‫گی جس کو صوبائی حکومت عام یا خاص حکم سے اس بارے میں مقرر کرے۔‬
‫اعلی تھانہ کے مہتمم کو ایسی ہدایات دینے کا مجاز ہوگا جو وہ مناسب‬
‫ٰ‬ ‫ایسا افسر‬ ‫(‪2‬‬
‫سمجھے اور اس پر الزم ہوگا کہ ایسی رپورٹ پر ایسی ہدایات تحریر کرنے کے بعد بالتاخیر اسے‬
‫مجسٹریٹ کے پاس ارسال کرے۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬ترمیم‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫اس پر تبصرہ یا ترمیم کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :159‬تفتیش یا ابتدائی تحقیق کرنے کا اختیار‬

‫ایسا مجسٹریٹ ایسی رپورٹ ملنے پر تفتیش کی ہدایت کا مجاز ہوگا یا اگر وہ مناسب سمجھے تو‬
‫فوری طو رپر روانہ ہو سکتا ہے یا اپنے ماتحت کسی مجسٹریٹ کو روانہ ہونے کیلئے مقرر کر‬
‫سکتا ہے یا بصورت دیگر مجموعہ میں مقرر کردہ طریقہ پر مقدمہ کا تصفیہ کر سکتا ہے۔‬

‫وضاحت‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کہا گیا ہے کہ کسی جرم کے ارتکاب یا اس بارے میں شبہ کی اطالع‬
‫مجسٹریٹ کو دی جائے تو وہ خود یا کسی ماتحت مجسٹریٹ کو تفتیش کیلئے روانہ کر سکتا ہے۔‬
‫نظام عدالت میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ جیسا کہ دفعہ نمبر ‪ 157‬کے‬
‫ِ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫مر خود کسی‬‫تحت مثالوں سے واضح ہوا کہ ایسی اطالع ملنے پر حضور اکرم ﷺ اور حضرت ع ؓ‬
‫ذمہ دار شخص کو تحقیق وتفتیش کیلئے روانہ کر دیتے تھے تاکہ حقیقت حال واضح ہو اور اس کی‬
‫روشنی میں مزید قدم اٹھایا جائے۔‬

‫تجویز ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے برعکس معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫میں ترمیم کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :160‬پولیس افسر کا گواہوں کو حاضر ہونے کا حکم دینے کا اختیار‬

‫باب ہذا کے تحت تفتیش کرنے واال کوئی پولیس افسر‪ ،‬تحریری حکم کے ذریعہ اپنے یا ملحقہ تھانہ‬
‫کی حدود میں کسی شخص کو اپنے روبرو حاضر ہونے کا حکم دے سکتا ہے‪ ،‬جو دی گئی اطالع‬
‫کے مطابق یا بصورت دیگر مقدمہ کے حاالت سے واقف نظر آتا ہو اور ایسے شخص پر الزم ہوگا‬
‫کہ جب ایسا حکم دیا جائے‪ ،‬تو حاضر ہو۔‬

‫وضاحت‪ :‬مذکورہ دفعہ میں مذکور ہے کہ تفتیشی افسر مقدمہ کے حاالت سے باخبر شخص کو اپنے‬
‫روبرو بال سکتا ہے۔‬

‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالم میں بھی یہ گنجائش ہے۔ ارشاد باری‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫عواْ (‪)82‬‬
‫ش َھدَاء ِإذَا َما دُ ُ‬ ‫َوالَ یَا َ‬
‫ْٔب ال ُّ‬
‫’’اور گواہ انکار نہ کریں‪ ،‬جب وہ بالئے جائیں‘‘۔‬
‫مندرجہ باال آیت سے واضح ہوا کہ جب کسی شخص کو کسی معاملہ میں معلومات حاصل‬
‫ہیں اور اسے تفتیشی افسر یا عدالت بالئے تو اسے فورا ً جانا چاہئے تاکہ عدل کا قیام اور حقوق کی‬
‫ادائیگی ممکن ہو سکے۔‬
‫عباس فرماتے ہیں کہ جب کسی مسلمان کو گواہ بنانے کی ضرورت ہو‪،‬‬ ‫ؓ‬ ‫حضرت عبدہللا بن‬
‫یا اس کے پاس کوئی شہادت ہو تو بالنے کے وقت انکار کرنا حالل نہیں ہے۔ نیز ابی ابی حاتم نے‬
‫عباس سے بھی یہ روایت کیا ہے کہ جب ان کے پاس گواہی ہو‪ ،‬پھر‬‫ؓ‬ ‫عکرمہ حضرت ابن‬‫ؓ‬ ‫بطریق‬
‫انہیں بالیا جائے‪ ،‬تو وہ انکار نہ کریں۔ (‪)83‬‬
‫مندرجہ باال آیت اور آثار سے جہاں گواہ کی ذمہ داری کا ثبوت ملتا ہے‪ ،‬وہاں یہ بھی واضح‬
‫ہوتا ہے کہ گواہ کو بوقت ضرورت عدالت میں یا تفتیشی افسر کے پاس بالیا جا سکتا ہے تاکہ اس‬
‫کی معلومات سے عدل قائم کرنے میں مدد لی جا سکے۔‬
‫تبصرہ ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫میں ترمیم کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :161‬پولیس کا بیانات گواہان لینا‬

‫ہر پولیس افسر جو باب ہذا کے تحت تفتیش کر رہا ہو یا کوئی پولیس افسر جو اس‬ ‫(‪1‬‬
‫عہدہ سے کم نہ ہو جو اس بارے میں صوبائی حکومت نے بذریعہ حکم عام یا خاص مقرر کیا ہو جو‬
‫ایسے افسر کی ہدایت پر کام کر رہا ہو‪ ،‬مجاز ہوگا کہ کسی ایسے شخص کا زبانی بیان لے جو مقدمہ‬
‫کے حاالت و واقعات سے واقف سمجھا جائے۔‬
‫ویسا شخص ایسے مقدمہ سے متعلق ان تمام سواالت کا جواب دینے کا پابند ہوگا جو‬ ‫(‪2‬‬
‫اس سے ایسا افسر پوچھے‪ ،‬سوائے ان سواالت کے جن کے جوابات سے اس پر کوئی فوجداری‬
‫جرم بنتا ہو یا جرمانہ ضبطی مال کا احتمال ہو۔‬
‫پولیس افسر مجاز ہوگا کہ کسی ایسے بیان کو قلم بند کرے جو باب ہذا کے تحت‬ ‫(‪3‬‬
‫دوران اظہار دیا جائے اور اگر وہ ایسا کرے تو اس پر الزم ہوگا کہ وہ ایسے ہر شخص کے بیان کا‬
‫علیحدہ ریکارڈ رکھے جس کا بیان وہ قلم بند کرے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :162‬پولیس کو دیئے بیانات پر دستخط نہیں کئے جائیں گے‪ ،‬ایسے بیانات کا شہادت‬
‫میں استعمال‬

‫کسی شخص کے کسی پولیس افسر کو باب ہذا کے تحت دوران تفتیش دیئے گئے‬ ‫(‪1‬‬
‫کسی بیان پر‪ ،‬اگر ضبط تحریر میں الیا گیا ہو‪ ،‬بیان دہندہ دستخط نہیں کرے گا اور نہ ہی ویسا کوئی‬
‫بیان یا اس کا ریکارڈ خواہ پولیس رزنامچہ میں ہو یا بصورت دیگر یا ویسے بیان کا کوئی حصہ یا‬
‫ریکارڈ‪ ،‬کسی مقصد کیلئے (سوائے اس کے کہ جو بعد ازیں محکوم ہے) کسی تحقیقات یا مقدمہ میں‬
‫اس جرم کی نسبت جو اس وقت زیرتفتیش ہو جب بیان لیا گیا تھا‪ ،‬استعمال کیا جائے گا۔‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ جب ایسا گواہ استغاثہ کی طرف سے ایسے مقدمہ یا تحقیقات میں طلب کیا گیا‬
‫ہو جس کا بیان ضبط تحریر میں الیا گیا ہو‪ ،‬جیسے کہ پہلے بیان ہوا تو عدالت ملزم کی درخواست‬
‫کرنے پر ایسی تحریر کا حوالہ دے گی اور ہدایت کرے گی کہ ملزم کو اس کی نقل فراہم کی جائے‪،‬‬
‫تاکہ اگر ایسے بیان کا کوئی حصہ‪ ،‬اگر باضابطہ طور پر ثابت ہو جائے‪ ،‬قانون شہادت ‪1984‬ء میں‬
‫محکوم طریقہ پر ایسے گواہ کی تردید کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکے۔ جب ایسے بیان کا کوئی‬
‫حصہ اس طور پر استعمال کیا جائے تو صرف اس کی جرح میں محولہ کسی امر کی وضاحت کے‬
‫مقصد کیلئے‪ ،‬اس کا کوئی دیگر حصہ بھی ایسے گواہ کے مکرر اظہار میں استعمال کیا جا سکتا‬
‫ہے‪:‬‬
‫مزید شرط یہ ہے کہ اگر عدالت کی رائے ہو کہ ایسے بیان کا کوئی حصہ تحقیقات یا مقدمہ سے‬
‫متعلق نہ ہے یا ملزم پر اس کا انکشاف بغرض انصاف ضروری نہیں اور مفاد عامہ کے پیش نظر‬
‫قرین مصلحت نہیں ہے تو وہ اپنی اس رائے کو قلم بند کرے گی (لیکن اس کی وجوہ نہیں) اور‬
‫ایسے حصہ کو بیان کی اس نقل سے حذف کرے گی جو ملزم کو فراہم کی گئی ہو۔‬
‫دفعہ ہذا میں کوئی امر کسی ایسے بیان پر اطالق پذیر نہ ہوگا جو قانون شہادت‬ ‫(‪2‬‬
‫‪1984‬ء کے آرٹیکل ‪ 46‬کے احکام میں آتا ہو‪ ،‬نہ اس قانون کے آرٹیکل ‪ 40‬کے احکام پر اثر انداز‬
‫ہوگا۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 161‬اور ‪ 162‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی‬
‫نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ان پر تبصرہ اور ترمیم کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬دفعات نمبر ‪ 161 ،160 ،159 ،156‬اور ‪ 162‬کے بارے میں‬
‫نظریاتی کونسل نے تجویز دی ہے کہ ان دفعات کے مضمرات پر غور کرنے سے حسب ذیل امور‬
‫قابل لحاظ نظر آتے ہیں۔‬
‫ضابطہ فوجداری میں ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جرائم کے مقدمات میں مدعی حکومت‬
‫ہوتی ہے جبکہ شکایت کنندہ گواہ ہوتا ہے۔ اوالً تو یہی صورتحال شرعا ً محل نظر ہے‪ ،‬ثانیا ً عدالت‬
‫کے سامنے دو فریق آتے ہیں‪ ،‬جن کے بیان اور ان کی پیش کردہ شہادت کے مطابق وہ فیصلہ کرتی‬
‫ہے جبکہ شرعا ً عدالت کے فرائض میں یہ بات بھی داخل ہے کہ وہ حقائق معلوم کرنے کیلئے مزید‬
‫تجسس اور تحقیقات کرے یا کروائے۔‬
‫موجودہ نظام میں تفتیش کا شعبہ الگ ہے اور استغاثہ کا محکمہ الگ ہے۔ اس وجہ سے‬
‫صورتحال پیچیدہ ہو گئی ہے‪ ،‬ملزم کا دوران تفتیش دیا ہوا بیان اول عدالت میں جاکر ’’ال شئی‬
‫محض‘‘ ہو جاتا ہے‪ ،‬ماسوائے اس کے کہ جو وہ پہلے بیان کی تردید میں کہے‪ ،‬ان کے عالوہ بیان‬
‫کے کسی حصہ کو بطور واقعہ متعلقہ کوئی حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔‬
‫چنانچہ کونسل بکثرت رائے تجویز کرتی ہے کہ ‪:‬‬
‫’’پہال بیان پولیس کے بجائے مجسٹریٹ لے‪ ،‬جب تمام بیانات قلمبند ہو جائیں تو یہ بیانات‬
‫چاالن کے ساتھ عدالت میں پیش کئے جائیں جن پر جرح کی جا سکتی ہے‪ ،‬عدالت ضروری‬
‫سمجھے یا فریقین مزید شہادتیں پیش کرنا چاہیں تو مزید گواہوں کے بیانات لئے جا سکتے ہیں‪،‬‬
‫جہاں شرعا ً حلف کی گنجائش ہو‪ ،‬وہاں حلف بھی لیا جا سکتا ہے‪ ،‬ان سب شہادتوں کی بنیاد پر فیصلہ‬
‫کیا جائے گا‘‘۔ (‪)84‬‬
‫نویں رپورٹ میں درج باال تبصرہ کے بعد رپورٹ جائزہ ضابطہ فوجداری ‪2000‬ء میں نظریاتی‬
‫کونسل نے یہ تجویز دی ہے‪:‬‬
‫’’مذکورہ باال سابقہ رائے سے جزوی اختالف کرتے ہوئے کونسل نے رائے دی کہ موجودہ‬
‫دفعات میں پولیس کی زیادتیوں کے سدباب کیلئے کافی احتیاط موجود ہے اور جو مالحظات کونسل‬
‫کی نویں رپورٹ میں دیئے گئے ہیں‪ ،‬وہ موجودہ معاشرے میں قابل عمل معلوم نہیں ہوتے‪ ،‬لہٰ ذا ان‬
‫دفعات کو ایسے ہی رہنے دیا جائے کیونکہ موجودہ شکل میں ان میں پولیس کے ہاتھوں زیادتی کے‬
‫مواقع کا پورا بندوبست موجود ہے‘‘۔ (‪)85‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬ان دفعات میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :163‬کوئی ترغیب نہ دی جائے گی‬

‫کسی پولیس افسر یا دیگر حاکم مجاز کو اختیار نہ ہوگا کہ کوئی ایسی ترغیب یا‬ ‫(‪1‬‬
‫دھمکی دے یا کوئی ایسا وعدہ کرے یا ایسی ترغیب یا دھمکی دالئے یا وعدہ کرائے جیسا کہ قانون‬
‫شہدت ‪1984‬ء کے آرٹیکل ‪ 37‬میں مذکور ہے۔‬
‫لیکن کوئی پولیس افسر یا دیگر شخص تنبیہہ کرکے یا بصورت دیگر باب ہذا کے‬ ‫(‪2‬‬
‫تحت تفتیش کے دوران کسی شخص کو ایسا بیان دینے سے نہیں روکیں گے جو وہ اپنی مرضی سے‬
‫دینا چاہے۔‬
‫تبصرہ‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ و‬
‫ترمیم کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :164‬بیانات اور اقبال جرم قلمبند کرنے کا اختیار‬

‫کوئی مجسٹریٹ درجہ اول اور کوئی مجسٹریٹ درجہ دوم جس کو صوبائی حکومت‬ ‫(‪1‬‬
‫نے اس بارے میں خاص طور پر اختیار دیا ہو‪ ،‬مجاز ہوگا‪ ،‬اگر وہ پولیس افسر نہ ہو کہ ایسا بیان یا‬
‫اقبال قلم بند کرے جو باب ہذا کے تحت تفتیش کے دوران یا بعد ازاں کسی وقت‪ ،‬تحقیقات یا تجویز‬
‫شروع ہونے سے قبل اس کے روبرو کیا گیا ہو۔‬
‫(‪ A-1‬ایسا مجسٹریٹ ایسا کوئی بیان ملزم کی موجودگی میں قلم بند کرے گا اور ملزم کو‬
‫بیان دینے والے گواہ پر جرح کا موقع دیا جائے گا۔‬
‫ایسے بیانات ان طریقوں میں سے‪ ،‬جو بعد ازیں شہادت قلمبند کرنے کیلئے مقرر‬ ‫(‪2‬‬
‫کئے گئے ہیں اور جو اس کی رائے میں حاالت مقدمہ میں موزوں ترین ہوں‪ ،‬قلمبند کئے جائیں گے۔‬
‫ایسے اقرار دفعہ ‪ 364‬میں مقرر کردہ طریقہ پر قلم بند اور دستخط ہوں گے اور پھر ایسے بیانات یا‬
‫اقرار نامے اس مجسٹریٹ کو ارسال کئے جائیں گے جس نے مقدمہ کی تحقیق یا تجویز کرنی ہو۔‬
‫مجسٹریٹ پر الزم ہوگا کہ ایسے اقبال کو قلم بند کرنے سے قبل‪ ،‬ایسا کرنے والے‬ ‫(‪3‬‬
‫شخص پر واضح کردے کہ وہ اقبال کرنے کا پابند نہیں ہے اور یہ کہ اگر وہ ایسا کرے گا‪ ،‬تو یہ اس‬
‫کے خالف بطور شہادت استعمال کیا جا سکے گا اور کوئی مجسٹریٹ ایسا کوئی بیان قلم بند نہیں‬
‫کرے گا جب تک کہ ایسا کرنے والے شخص سے استفسار کرنے پر اسے یہ باور کرنے کی وجہ نہ‬
‫ہو کہ یہ رضاکارانہ طور پر دیا گیا تھا اور جب وہ کوئی اقبال قلم بند کرے‪ ،‬تو وہ ال زمی طور پر‬
‫ایسے ریکارڈ کے نیچے اس مضمون کی یادداشت تحریر کرے گا‪:‬‬
‫’’میں نے مسمی ……… (نام) ……… پر واضح کردیا ہے کہ وہ اقبال کرنے کا‬
‫پابند نہیں ہے اور اگر وہ ایسا کرے گا‪ ،‬تو کوئی اقبال جو وہ کرے گا اس کے خالف شہادت میں‬
‫استعمال کیا جا سکے گا اور میں باور کرتا ہوں کہ یہ اقبال رضاکارانہ طو رپر کیا گیا ہے۔ یہ میرے‬
‫روبرو اور میری سماعت میں لیا گیا اور بیان دینے والے شخص کو پڑھ کر سنایا گیا اور اس نے‬
‫اس کا درست ہونا تسلیم کیا اور اس میں اس کے دیے ہوئے بیان کی مکمل اور درست روئیداد درج‬
‫ہے۔‬

‫(دستخط) الف۔ ب‬

‫مجسٹریٹ‬
‫وضاحت‪ :‬یہ ضروری نہیں کہ جو مجسٹریٹ اقبال یا بیان لے اور قلم بند کرے‪ ،‬وہ ایسا مجسٹریٹ ہو‬
‫جو مقدمہ میں اختیار سماعت رکھتا ہو۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں مذکور ہے کہ مجسٹریٹ ملزم کا ایسا بیان یا اقبال قلمبند‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کرے‪ ،‬جو اس کے روبرو دیا جائے۔ پھر وہ بیان ملزم کو پڑھ کر سنایا اور سمجھایا جائے۔ وہ اس پر‬
‫نظام قضاء میں‬‫ِ‬ ‫دستخط کرے‪ ،‬پھر مجسٹریٹ دستخط کرکے مجاز عدالت کو ارسال کردے۔ اسالمی‬
‫بخاری لکھتے ہیں کہ مقدمہ کی کارروائی کو تحریر‬‫ؒ‬ ‫یہ طریق کار پہلے سے موجود ہے۔ ابن مازہ‬
‫دعوی اور مقدمہ کی‬‫ٰ‬ ‫کرنے کیلئے رجسٹر کے موجد ابن شبرمہ ہیں‪ ،‬انہوں نے رجسٹر میں‬
‫کارروائی لکھنا شروع کیا تاکہ معاملہ آسان ہو جائے‪ ،‬اب بھی قاضی اس پر عمل پیرا ہیں اور کسی‬
‫سرخسی لکھتے ہیں کہ فریقین مقدمہ اور گواہوں کے بیانات میں‬
‫ؒ‬ ‫نے اسے ترک نہیں کیا۔ (‪)86‬‬
‫قاضی نام‪ ،‬ولدیت‪ ،‬پورا پتہ‪ ،‬عمر اور بقدر ضرورت حلیہ بھی درج کرے تاکہ شہادت کا مکمل‬
‫ریکارڈ محفوظ رہے۔ (‪ )87‬ہر بیان علیحدہ علیحدہ سفید کاغذ پر لکھا جائے‪ ،‬بیان مکمل ہو جانے کے‬
‫بعد فرد بیان بیان دینے والے کے سامنے پیش کردیا جائے۔ وہ اسے پڑھ لے اور دستخط کردے‪ ،‬اس‬
‫کے نیچے قاضی توثیقی دستخط کردے۔ (‪)88‬‬
‫مندرجہ باال سطور میں فریق مقدمہ اور گواہوں کا بیان درج کرنے کا مکمل ضابطہ فقہائے‬
‫اسالم نے پہلے ہی بیان کردیا ہے جو ضابطہ فوجداری سے نہ صرف متقدم ہے بلکہ زیادہ جامع‬
‫بھی معلوم ہوتا ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کیخالف دکھائی نہیں دیتی۔ لہٰ ذا ترمیم‬
‫کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :165‬پولیس افسر کا تالشی لینا‬

‫جب کوئی مہتمم تھانہ یا کوئی پولیس افسر جو تفتیش کر رہا ہو‪ ،‬یہ باور کرنے کی‬ ‫(‪1‬‬
‫معقول وجہ رکھتا ہو کہ کسی جرم کی بابت تفتیش کے مقاصد کیلئے جس کی تفتیش کرنے کا وہ‬
‫مجاز ہو کوئی ضروری شے اس تھانہ کی حدود کے اندر جس کا وہ مہتمم ہے یا جس سے وہ تعلق‬
‫رکھتا ہے‪ ،‬کسی جگہ پائے جانے کا امکان ہے اور اس کی رائے میں وہ شے کسی اور طرح‬
‫بالضروری تاخیر کے حاصل نہیں ہو سکتی‪ ،‬تو ویسا افسر اپنے یقین کی وجوہ‪ ،‬اور جہاں تک‬
‫ممکن ہو‪ ،‬اس شے کی تفصیل جس کی تالشی مقصود ہے‪ ،‬قلم بند کرنے کے بعد اس تھانہ کی حدود‬
‫میں تالش کر سکتا ہے یا کرا سکتا ہے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ ویسا افسر کسی ایسے شے کی نہ خود تالشی لے گا نہ کرائے گا جو کسی‬
‫بینک یا بینکر کی تحویل میں ہو جس کی تعریف بینکرز بک قانون شہادت )‪(XVIII of 1891‬‬
‫‪ 1891‬میں کی گئی ہے اور جس کا تعلق کسی شخص کے بینک کھاتہ سے ہو یا جس سے کسی‬
‫بینک کھاتہ کا کوئی انکشاف ہو سکتا ہے‪ ،‬سوائے‪:‬‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 408 ،406 ،403‬اور ‪ 409‬اور‬
‫مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪a‬‬
‫دفعات ‪ 421‬تا ‪( 424‬بشمول دونوں) اور دفعات ‪ 465‬تا ‪(A-477‬بشمول دونوں) کے تحت کسی جرم‬
‫کی تفتیش کی غرض کیلئے سیشن جج کی پیشگی تحریری اجازت ہے۔‬
‫دیگر صورتوں میں عدالت عالیہ کی پیشگی اجازت ہے۔‬ ‫(‪b‬‬
‫کوئی پولیس افسر جو ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت کارروائی کر رہا ہو پر الزم ہے کہ‬ ‫(‪2‬‬
‫جہاں تک ممکن ہو‪ ،‬بذات خود تالشی لے۔‬
‫ت خود تالشی لینے سے قاضر ہو اور اس وقت کوئی دیگر شخص جو‬ ‫اگر وہ بذا ِ‬ ‫(‪3‬‬
‫تالشی لینے کا مجاز ہو‪ ،‬موجود نہ ہو‪ ،‬تو اسے اختیار ہوگا کہ ایسا کرنے کی وجوہ قلم بند کرنے‬
‫کے بعد اپنے کسی ماتحت افسر کو تالشی لینے کا حکم دے اور وہ ایک تحریری حکم جس میں‬
‫جائے تالشی اور جہاں تک ممکن ہو‪ ،‬وہ شے جس کیلئے تالشی لی جانی ہے‪ ،‬کی تفصیل ہوگی‪،‬‬
‫ایسے ماتحت افسر کے حوالہ کرے گا اور اس پر ایسے ماتحت افسر کو اختیار ہوگا کہ ویسی جگہ‬
‫میں اس شے کو تالش کرے۔‬
‫مجموعہ ہذا کے احکام بابت وارنٹ تالشی اور دفعہ ‪ 102‬اور ‪ 103‬میں درج تالش‬ ‫(‪4‬‬
‫کے متعلق عام احکام جہاں تک ہو سکے دفعہ ہذا کے تحت لی گئی تالشی پر اطالق پذیر ہوں گے۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )1‬اور ضمنی دفعہ (‪ )3‬کے تحت تیار کردہ کسی ریکارڈ کی نقول‪،‬‬ ‫(‪5‬‬
‫فوری طور پر‪ ،‬قریب ترین مجسٹریٹ کو جو اس جرم کی سماعت کر سکتا ہو‪ ،‬ارسال کی جائیں گی‬
‫اور جائے تالشی کے مالک یا قابض کو مجسٹریٹ اس کی درخواست پر اس کی نقل فراہم کرے گا‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ وہ اس کی ادائیگی کرے گا‪ ،‬سوائے اس کے کہ مجسٹریٹ خاص وجوہات پر‬
‫اس کا بال اجرت دینا مناسب خیال کرے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :166‬کب مہتمم تھانہ کسی دیگر افسر کو وارنٹ تالشی جاری کرنے کی درخواست کر‬
‫سکتا ہے‬
‫کوئی مہتمم تھانہ یا کوئی دیگر تفتیش کنندہ پولیس افسر جس کا عہدہ سب انسپکٹر‬ ‫(‪1‬‬
‫سے کم نہ ہو‪ ،‬مجاز ہوگا کہ کسی دیگر تھانہ کے مہتمم کو خواہ وہ اسی ضلع میں ہو یا کسی مختلف‬
‫ضلع میں کسی جگہ کی تالشی کرانے کی کسی ایسی صورت میں درخواست کرے جس میں اول‬
‫الذکر افسر اپنے تھانہ کی حدود میں تالشی کرا سکتا ہو۔‬
‫ویسے افسر پر الزم ہے کہ ایسی درخواست پر دفعہ ‪ 165‬کے احکام کے مطابق‬ ‫(‪2‬‬
‫کارروائی کرے اور پائی گئی شے اگر کوئی ہو اس افسر کو بھجوائے جس کی درخواست پر تالشی‬
‫لی گئی تھی۔‬
‫جب کبھی یہ باور کرنے کی وجہ ہو کہ کسی دوسرے تھانہ کے مہتمم سے ضمنی‬ ‫(‪3‬‬
‫دفعہ (‪ )1‬کے تحت تالشی کرانے میں تاخیر‪ ،‬کسی جرم کے ارتکاب کی شہادت کو چھپانے یا تلف‬
‫کرنے پر منتج ہو سکتی ہے تو تھانہ کے مہتمم یا باب ہذا کے تحت تفتیش کنندہ افسر کیلئے قانونی‬
‫طور پر جائز ہوگا کہ دفعہ ‪ 165‬کے احکام کے مطابق کسی دیگر تھانہ کی حدود میں واقع کسی مقام‬
‫کی تالشی اسی طرح کرے یا کرائے گویا کہ وہ مقام اس کے تھانہ کی حدود میں ہو۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )3‬کے تحت تالش لینے والے کسی افسر پر الزم ہوگا کہ وہ فوری‬ ‫(‪4‬‬
‫طور پر اس تھانہ کے مہتمم کو تالشی لینے کا نوٹس بھیجے جس کی حدود میں وہ مقام واقع ہو اور‬
‫اس نوٹس کے ساتھ دفعہ ‪ 103‬کے تحت تیار کردہ فہرست (اگر کوئی ہو) کی نقل بھی ارسال کرے‬
‫گا اور قریب ترین مجسٹریٹ کو جو اس مقدمہ اختیار سماعت رکھتا ہو‪ ،‬دفعہ ‪ 165‬کی ضمنی دفعات‬
‫(‪ )1‬اور (‪ )3‬میں محولہ ریکارڈ کی نقوالت ارسال کرے گا۔‬
‫جائے تالشی کے مالک یا قابض کی درخواست پر کی ریکارڈ کی نقل فراہم کی‬ ‫(‪5‬‬
‫جائے گی جو ضمنی دفعہ (‪ )4‬کے تحت مجسٹریٹ کو ارسال کیا گیا ہو‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ وہ اس کیلئے ادائیگی کرے گا‪ ،‬سوائے اس کہ مجسٹریٹ خاص وجہ سے اس کا‬
‫بال اجرت دینا مناسب خیال کرے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 166 ،165‬میں کہا گیا ہے کہ پولیس افسر جو تفتیش کر رہا ہو وہ بوقت‬
‫ضرورت کسی جگہ کی تالشی لے سکتا ہے‪ ،‬اس سلسلے میں تفصیلی بحث دفعہ نمبر ‪99 ،98 ،96‬‬
‫اور ‪ A99‬کے تحت کی جا چکی ہے‪ ،‬لہٰ ذا اعادہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :167‬جب تفتیش چوبیس گھنٹہ کے اندر مکمل نہ ہوسکے تو طریق کار‬

‫جب کبھی کسی شخص کو گرفتار کیا گیا ہو اور زیر حراست رکھا گیا ہو اور یہ‬ ‫(‪1‬‬
‫ظاہر ہو کہ تفتیش دفعہ ‪ 61‬کے تحت مقرر کردہ مدت میں مکمل نہیں ہو سکتی اور یہ باور کرنے‬
‫کی وجوہ موجود ہوں کہ الزام یا اطالع درست ہے تو افسر انچارج تھانہ یا تفتیش کنندہ پولیس افسر‪،‬‬
‫اگر اس کا عہدہ سب انسپکٹر سے کم نہ ہو الزمی طور پر فوری طور پر مقدمہ کے متعلق‪ ،‬اس‬
‫روزنامچہ کے مندرجات کی ایک نقل قریب ترین مجسٹریٹ کو بھیجے گا جو بعد ازیں مقرر کی‬
‫گئی ہے اور ساتھ ہی ایسے مجسٹریٹ کے پاس ملزم کو بھی بھیجے گا۔‬
‫تشریح‪] :‬حذف شدہ بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء مورخہ ‪[ 2001-8-13‬‬
‫وہ مجسٹریٹ جس کے پاس ملزم شخص کو دفعہ ہذا کے تحت بھیجا گیا ہو‪ ،‬مجاز‬ ‫(‪2‬‬
‫ہوگا خواہ اس مقدمہ میں اسے اختیار سماعت حاصل ہو یا نہ ہو ملزم کو وقتا ً فوقتا ً ایسی حراست‬
‫میں‪ ،‬ایسی مدت کیلئے جو مجموعی طور پر پندرہ یوم سے زائد نہ ہو‪ ،‬نظربند رکھنے کیلئے اجازت‬
‫دے جو ویسا مجسٹریٹ مناسب خیال کرے۔ اگر وہ مقدمہ تجویز کرنے یا تجویز کیلئے مقدمہ سپرد‬
‫کرنے کا اختیار نہ رکھتا ہو اور مزید حراست کو غیر ضروری سمجھے تو وہ ملزم کو کسی ایسے‬
‫مجسٹریٹ کے پاس بھیجنے کا حکم صادر کر سکتا ہے جو اختیار سماعت رکھتا ہو‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ کوئی مجسٹریٹ درجہ سوم اور کوئی مجسٹریٹ درجہ دوم‪ ،‬جس کو صوبائی‬
‫حکومت نے اس بارے میں اختیار خاص نہ دیا ہو پولیس کی حراست میں نظربند رکھنے کا حکم نہ‬
‫دے گا۔‬
‫ایسا مجسٹریٹ جس نے دفعہ ہذا کے تحت پولیس کی حراست میننظربندی کی اجازت‬ ‫(‪3‬‬
‫دی ہو‪ ،‬الزمی طور پر ایسا کرنے کی وجہ قلمبند کرے گا۔‬
‫ایسا حکم صادر کرنے واال مجسٹریٹ‪ ،‬الزمی طور پر اپنے حکم کی ایک نقل مع‬ ‫(‪4‬‬
‫حکم صادر کرنے کی وجہ کے‪ ،‬سیشن جج کو ارسال کرے گا۔‬
‫٭]بال لحاظ اس امر کے کہ دفعہ جات ‪ 60‬اور ‪ 61‬میں یا قبل ازیں اس کے خالف‬ ‫(‪5‬‬
‫کچھ موجود ہو جبکہ کسی مجرم کو ضمنی دفعہ (‪ )2‬کے تحت پیش کیا جائے اور وہ اگر خاتون ہو‬
‫تو مجسٹریٹ ماسوائے ایسے کیسوں کے جن کا تعلق قتل یا ڈکیتی سے ہو اور جس کے متعلق ثبوت‬
‫ریکارڈ کیا گیا ہو‪ ،‬مجرمہ کو پولیس کی تحویل ‪ /‬حراست میں رکھنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اس‬
‫بارے میں پولیس آفیسر تفتیش کرتے وقت مجرمہ سے ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت سوال جواب جیل‬
‫کے اندر کر سکتا ہے مگر تفتیش کے وقت جیل کا ایک افسر اور ایک لیڈی پولیس آفیسر کا ہونا‬
‫ضروری ہے۔‬
‫جیل کا آفیسر انچارج اس سلسلہ میں معقول انتظام کرے گا تاکہ پولیس کا تفتیشی‬ ‫(‪6‬‬
‫آفیسر جیل میں مجرمہ سے تفتیش کے بارے میں استفسار وغیرہ کر سکے۔‬
‫اگر تفتیش کیلئے اس بات کو ضروری تصور کیا جائے کہ ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے‬ ‫(‪7‬‬
‫تحت مجرمہ کو جب پیش کیا گیا تو اگر جیل سے باہر نکاال جائے تو پولیس آفیسر جو تھانہ کا‬
‫انچارج ہے اور تفتیش کر رہا ہے یا ایسا پولیس آفیسر جو سب انسپکٹر کے عہدے سے کم کا نہ ہو‬
‫مجسٹریٹ کو درخواست کرے گا جو کہ مجرمہ کو جیل سے باہر النے کے بارے میں ہو اور اس‬
‫کیلئے وجہ بھی ریکارڈ کی جائے تو مجرمہ کو جیل سے باہر النے کیلئے ایک لیڈی پولیس آفیسر‬
‫جس کو مجسٹریٹ تعینات کرے گا‪ ،‬مجرمہ کے ہمراہ ہوگی‪:‬‬
‫شرط یہ ہے کہ مجرمہ کو سورج غروب سے سورج طلوع ہونے تک جیل سے باہر نہیں رکھا‬
‫جائے گا جبکہ وہ پولیس کی تحویل میں رکھی جائے۔[‬

‫وضاحت‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں کہا گیا ہے کہ مجسٹریٹ پولیس کو اپنے روبرو پیش کردہ ملزم کو‬
‫اگر وہ ضروری سمجھے تو پندرہ یوم یا اس سے کم مدت تک زیر حراست رکھنے کی اجازت دے‬
‫سکتا ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس بارے میں فقہاء اسالم نے جامع بحثیں کرتے ہوئے اس بارے میں اپنا موقف‬
‫اسالمی ٔ‬
‫خطابی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫واضح کیا ہے کہ کسی شخص کو محبوس رکھا جا سکتا ہے یا نہیں۔ امام‬
‫حبس کی دو قسمیں ہیں‪ ،‬حبس عقوبہ اور حبس استظھار۔ یعنی ایک سزا کیلئے اور دوسرا‬
‫معاملہ کی چھان بین اور تحقیق کیلئے۔ حبس عقوبہ صرف اس حالت میں جائز ہے جب قانون کی رو‬
‫سے (جرم ثابت ہو جائے) اور سزا واجب ہو جائے اور اگر کسی شخص پر کوئی الزام لگے تو‬
‫اسے پوچھ گچھ اور تفتیش کیلئے روک سکتے ہیں۔ (‪ )89‬جیسا کہ ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے‬
‫ایک شخص کو کسی الزام میں کچھ وقت تک روکے رکھا اور پھر رہا کردیا۔ (‪)90‬‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ کسی شہری کو اس کا جرم ثابت کئے بغیر گرفتار کرنے‬
‫اور حبس میں رکھنے کی جو زیادہ سے زیادہ گنجائش اسالمی قانون میں ہے وہ بس اس حد تک ہے‬
‫کہ کسی معاملہ کی تفتیش و تحقیق کیلئے کچھ دیر تک اسے زیر حراست رکھ لیا جائے‪ ،‬تفتیش کے‬
‫بعد اگر وجوہ موجود ہیں تو اس پر مناسب عدالت میں باقاعدہ مقدمہ چالیا جائے‪ ،‬جہاں اسے اپنی‬
‫صفائی پیش کرنے کے پورے مواقع حاصل ہوں اور اگر وجوہ موجود نہیں تو اسے فورا ً رہا کردیا‬
‫جائے۔ (‪)91‬‬
‫ہللا لکھتے ہیں کہ متعدد نظیروں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ‬
‫ڈاکٹر حمید ؒ‬
‫فوجداری مقدموں میں ملزم کو تحقیقات تک اور مدیون کو قرض کی ادائی کیلئے حواالت میں‬
‫رکھتے تھے۔ (‪)92‬‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ کسی واقعہ کی چھان بین اور حقیقت حال معلوم کرنے‬
‫کیلئے ملزم کو کچھ وقت کیلئے حراست میں رکھا جا سکتا ہے اور حراست میں توسیع یا کمی مجاز‬
‫عدالت کی صوابدید پر ہے۔‬
‫درج باال دفعہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر خاتون ملزمہ سے تفتیش کرنی ہے تو لیڈی‬
‫پولیس آفیسر کا ہونا ضروری ہے۔ عورتوں کے معامالت میں خواتین پولیس کا تصور بھی اسالم نے‬
‫ؓ‬
‫سلیمان بنت ابی حثمہ‬ ‫اسدیہ (‪ )93‬اور شفا ام‬
‫ؓ‬ ‫عمر نے حضرت سمراء بنت نہیک‬ ‫دیا ہے۔ حضرت ؓ‬
‫الکتانی کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ سیدہ شف ؓا کو‬
‫ؒ‬ ‫انصاری کو بازار پر محتسب مقرر فرمایا تھا۔ (‪)94‬‬
‫ؓ‬
‫خاص عورتوں کے معامالت پر محتسب مقرر کیا گیا ہو۔ (‪)95‬‬
‫اس سلسلے میں عورتوں سے متعلقہ معامالت لیڈی پولیس کے وجود اور اس کی ضرورت‬
‫بخاری لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫کے بارے میں ابن مازہ‬
‫اگر مقروض گھر میں چھپ جائے تو قاضی دو معتمد آدمیوں‪ ،‬عورتوں اور خدام کی ایک‬
‫جماعت اور چند مددگار وہاں بھیج دے۔ عورتیں (لیڈی پولیس) بغیر اجازت اندر داخل ہوں اور گھر‬
‫کی عورتوں کو کہدیں کہ ہم داخل ہو رہی ہیں۔ پھر مرد داخل ہوں‪ ،‬اگر انہیں مدعا علیہ نہ ملے تو‬
‫عورتوں سے کہیں کہ مدعا علیہ کی عورتوں کے درمیان اسے تالش کریں۔ شاید وہ وہاں چھپا ہو۔‬
‫(‪)96‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے عورتوں کیلئے علیحدہ محتسب اور الگ لیڈی پولیس کا ثبوت ملتا‬
‫ہے تاکہ عورتوں کے معامالت کی اچھی طرح تحقیق کی جا سکے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬درج باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :168‬ماتحت پولیس افسر کی تفتیش کی نسبت رپورٹ‬

‫جب کسی ماتحت پولیس افسر نے باب ہذا کے تحت کوئی تفتیش کی ہو تو الزم ہوگا کہ وہ ایسی‬
‫تفتیش کے نتیجہ کی مہتمم تھانہ کو رپورٹ کرے۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬ترمیم‪ :‬درج باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کٍخالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ‬
‫وترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :169‬جب شہادت ناکامی ہو تو ملزم کی رہائی‬

‫اگر زیر باب ہذا تفتیش پر مہتمم تھانہ یا تفتیشی پولیس افسر پر یہ ظاہر ہو کہ ملزم کو مجسٹریٹ کے‬
‫پاس بھیجنے کے حق میں کافی شہادت یا شبہ کی معقول وجہ نہیں ہے تو ایسے افسر کیلئے الزمی‬
‫ہوگا کہ اگر ایسا شخص زیر حراست ہو تو اس کیلئے ایک مچلکہ مع یا بال ضامنان‪ ،‬جیسی کہ ایسا‬
‫افسر ہدایت کرے‪ ،‬تحریر کرنے پر اس کو رہا کردے کہ وہ اگر اور جب اسے ایسا حکم دیا جائے‬
‫ایسے مجسٹریٹ کے روبرو جو پولیس رپورٹ پر جرم کی سماعت کر سکتا ہو اور ملزم کی تجویز‬
‫کر سکتا ہو یا اسے تجویز کیلئے بھیج سکتا ہو‪ ،‬حاضر ہو جائے گا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس سلسلے میں دالئل دفعہ نمبر ‪ 106‬کے تحت بیان ہو چکے ہیں۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :170‬جب شہادت کافی ہو تو مقدمہ مجسٹریٹ کو بھیجا جائے‬

‫اگر باب ہذا کے تحت تفتیش کرنے پر مہتمم تھانہ پر یہ ظاہر ہو کہ کافی شہادت یا‬ ‫(‪1‬‬
‫معقول وجہ موجود ہے‪ ،‬جیسا کہ اوپر بتایا گیا تو ویسے افسر کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ ملزم کو‬
‫زیر حراست اس مجسٹریٹ کے پاس بھیجے جو پولیس رپورٹ پر اس جرم کی سماعت کرنے اور‬
‫ملزم کی تجویز کرنے یا اسے تجویز کے لئے بھیجنے کا اختیار رکھتا ہو اگر جرم قابل ضمانت ہے‬
‫اور ملزم ضمانت دینے کے قابل ہے‪ ،‬تو اس پر الزم ہوگا کہ اس سے مقرر کردہ تاریخ پر ایسے‬
‫مجسٹریٹ کے روبرو پیش ہونے اور جب تک کہ برعکس ہدایت نہ کی جائے‪ ،‬ایسے مجسٹریٹ کے‬
‫روبرو روزانہ پیش ہونے کی ضمانت لے۔‬
‫جب مہتمم تھانہ کسی ملزم شخص کو مجسٹریٹ کے پاس بھیجے یا باب ہذا کے‬ ‫(‪2‬‬
‫تحت ایسے مجسٹریٹ کے روبرو پیش ہونے کی ضمانت لے تو وہ ایسے مجسٹریٹ کے پاس کوئی‬
‫ہتھیار یا دیگر اشیاء جو اس کے روبرو پیش کرنا ضروری ہوں‪ ،‬الزمی طور پر بھیجے گا اور‬
‫مستغیث کو (اگر کوئی ہو) اور ان اشخاص میں اتنوں کو جو ایسے افسر کی دانست میں حاالت‬
‫مقدمہ سے واقف ہوں اور جن کو وہ ضروری سمجھے‪ ،‬اس مضمون کا مچلکہ تحریر کرنے کا حکم‬
‫دے کہ وہ حسب ہدایت مجسٹریٹ کے روبرو حاضر ہوں گے اور ملزم کے خالف الزام کے معاملہ‬
‫میں استغاثہ کی پیروی کریں گے یا شہادت دیں گے‪ ،‬جیسی کہ صورت ہو۔‬
‫منسوخ کی گئی برائے پنجاب اور اسالم آباد۔‬ ‫(‪3‬‬
‫مجموعہ ضابطہ فوجداری کے (ترمیمی) قانون نمبر ‪ 2‬بابت ‪ 1926‬ء سے منسوخ‬ ‫(‪4‬‬
‫ہوئی۔‬
‫وہ افسر جس کے روبرو مچلکہ تحریر کیا گیا ہو‪ ،‬اس کی ایک نقل ان اشخاص میں‬ ‫(‪5‬‬
‫سے کسی کے حوالہ کرے گا جنہوں نے تحریر کی ہو اور پھر اصل مع اپنی رپورٹ کے مجسٹریٹ‬
‫کو بھیجے گا۔‬
‫وضاحت‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کہا گیا ہے کہ اگر زیر حراست شخص کے خالف کافی شہادت موجود‬
‫نہ ہو تو اسے ایک مچلکہ مع یا بالضامن دینے پر اسے رہا کردیا جائے اور عدالت میں اس کی‬
‫دوبارہ حاضری یقینی بنانے کیلئے اطمینان کرلیا جائے۔‬
‫ابوہریرہ‬
‫ؓ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬حضور اکرم ﷺ بھی ملزم سے حاضری کا مچلکہ لیتے تھے۔ حضرت‬‫اسالمی ٔ‬
‫سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے تہمت زدہ شخص سے احتیاطا ً اور دوبارہ یقینی حاضری‬
‫کیلئے ضامن لیا‘‘۔‬
‫عن ابی ھریر ؓۃ قال اخذ النبی ﷺ من متھم کفیالً تثبتا واحتیاطا (‪)97‬‬
‫درج باال حدیث مبارکہ سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ زیر حراست شخص کو مچلکہ لے کر رہا‬
‫کیا جا سکتا ہے۔ مچلکے کی وجہ سے بوقت ضرورت اس کی دوبارہ طلبی وحاضری یقینی ہو‬
‫جائیگی اور وہ حبس بے جا سے بچ جائیگا۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کٍخالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس میں‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :171‬مستغیثوں اور گواہان کو پولیس افسر کے ساتھ جانے کیلئے حکم نہیں دیا جائے‬
‫گا‬

‫کسی مستغیث یا گواہ کو مجسٹریٹ کی عدالت میں جاتے وقت پولیس افسر کے ہمراہ جانے کا حکم‬
‫نہیں دیا جائے گا۔‬
‫مستغیثوں اور گواہوں کی مزاحمت نہ کی جائے گی نہ ہی غیر ضروری مزاحمت کے یا زحمت کے‬
‫تابع کیا جائے گا یا اس کے اپنے مچلکہ کے عالوہ اس کی حاضری کیلئے کوئی ضمانت طلب کی‬
‫جائے گی۔‬
‫سرکش مستغیث یا گواہ کو حراست میں بھیجا جا سکتا ہے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ اگر کوئی مستغیث یا گواہ حاضر ہونے سے انکار کرے یا دفعہ ‪ 170‬میں دی‬
‫گئی ہدایت کے بموجب مچلکہ تحریر کرنے سے انکار کرے تو مہتمم تھانہ مجاز ہوگا کہ اس کو‬
‫حراست میں مجسٹریٹ کے پاس بھیجے جو اس کو اس وقت تک حراست میں رکھے گا جب تک وہ‬
‫ویسا مچلکہ تحریر نہ کر دے یا جب تک مقدمہ کی سماعت مکمل نہ ہو جائے۔‬

‫وضاحت‪ :‬درج باال دفعہ میں مذکور ہے کہ مستغیث یا مدعی اور گواہوں کو مقدمہ کی کارروائی‬
‫کے دوران مشقت اور تنگی میں نہیں ڈاال جائیگا کیونکہ یہ دونوں کردار بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔‬
‫ؓ‬
‫صدیق نے اپنے پہلے خطبے میں فرمایا‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬مستغیث کے بارے میں تو سیدنا ابوبکر‬
‫اسالمی ٔ‬
‫تھا کہ تم میں سے کمزور شخص میرے نزدیک قوی ہے‪ ،‬جب تک میں اسے اس کا حق نہ دال دوں‬
‫اور تمہارا قوی میرے نزدیک کمزور ہے‪ ،‬جب تک میں اس سے حقدار کو حق نہ دال دوں۔ (‪)98‬‬
‫ؓ‬
‫صدیق کی نظر میں مدعی کی اہمیت واضح ہوتی ہے نیز‬ ‫درجِ باال سطور میں سیدنا ابوبکر‬
‫گواہوں کی عزت وتکریم کا حکم دیا گیا ہے اور انہیں غیر ضروری زحمت دینے سے منع کیا گیا‬
‫ہے۔‬
‫مذکورہ دفعہ کے دوسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ مستغیث اور گواہ اگر عدالت میں نہ‬
‫نظام‬
‫ِ‬ ‫آئیں تو انہیں حراست میں لے کر ان کی حاضری عدالت میں یقینی بنائی جائے لیکن اسالمی‬
‫عدالت میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ مدعی کی مرضی ہے کہ وہ فریاد رسی کیلئے عدالت میں‬
‫جائے یا نہ جائے۔ اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ ازخود اپنے حق سے دستبردار ہونا چاہتا‬
‫تعالی نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ہے‪ ،‬باقی جہاں تک گواہ کی گرفتاری کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ہللا‬
‫آر کَاتِبٌ َوالَ َ‬
‫ش ِھیدٌ (‪)99‬‬ ‫الَ یُ َ‬
‫ض َّ‬
‫’’لکھنے والے اور گواہ کو ضرر نہ پہنچایا جائے‘‘۔‬
‫تعالی نے‬
‫ٰ‬ ‫اضرار یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو کہے‪ ،‬جبکہ وہ اس سے مستغنی ہو کر ہللا‬
‫تجھے حکم دیا ہے کہ تو انکار نہ کرے‪ ،‬جب تجھے بالیا جائے‪ ،‬پس وہ اس بات کیلئے اسے ضرر‬
‫تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے۔ (‪)100‬‬
‫ٰ‬ ‫پہنچائے جبکہ اسے اس کی ضرورت نہ ہو‪ ،‬بس ہللا‬
‫قراء ت عمر کے مطابق وال یضار بالکسر اور صیغہ معروف مبنی للفاعل ہے۔ حضرت ابن‬
‫عباس کی قرات کے مطابق وال یضار بالفتح صیغہ مجہول مبنی للمفعول ہے۔ پہلی قراء ت کے‬ ‫ؓ‬
‫مطابق کاتب و گواہ کو منع کیا گیا ہے کہ وہ متعاقدین کوضرر پہنچائیں۔ مثال آنے سے انکار کریں‪،‬‬
‫گواہی نہ دیں یا لکھ کر نہ دیں جبکہ دسری قراء ت کے مطابق متعاقدین کو منع کیا گیا ہے کہ وہ‬
‫کاتب و گواہ کو ضرر نہ پہنچائیں‪ ،‬مثالً جلدی بالئیں‪ ،‬آنے جانے کا خرچ نہ دیں‪ ،‬ہر توجیہ و تقدیر‬
‫میں فرار ممنوع ہے‪ ،‬اگر تم فرار اختیار کرو گے تو یہ تمہارا گناہ ہے‪ ،‬غلطی ہے۔ (‪)101‬‬
‫کاسانی لکھتے ہیں کہ حقوق ہللا میں شہادت دینا شاہد پر الزم ہے۔ ارشاد باری ہے‪:‬‬
‫ؒ‬
‫َوأَقِی ُموا ال َّ‬
‫ش َھادَۃ َ ِ َّّللِ (‪)102‬‬
‫تعالی کیلئے گواہی قائم کرو‘‘۔‬
‫ٰ‬ ‫’’ہللا‬
‫نیز فرمایا ہے‪:‬‬
‫ُکونُواْ قَ َّو ِامینَ ِب ْال ِقس ِ‬
‫ْط ُ‬
‫ش َھدَاء ِ ِّّللِ (‪)103‬‬
‫تعالی کیلئے گواہی دو‘‘۔‬
‫ٰ‬ ‫’’انصاف پر قائم رہو اور ہللا‬
‫البتہ حقوق العباد میں مدعی طلب کرے تو گواہی واجب ہے‪،‬اگر گواہی دینے واال باز رہا تو‬
‫گنگہار ہوگا۔ (‪)104‬‬
‫کرام نے بھی لکھا ہے کہ حقوق ہللا میں ازخود اور حقوق العباد میں عندالطلب‬
‫ؒ‬ ‫دیگر علمائے‬
‫گواہی دینا واجب ہے اگر بالعذر شرعی دیر کی تو گمراہ خود فاسق اور اس کی گواہی مردود ہو‬
‫جائے گی۔ (‪)105‬‬
‫نظام عدل میں بنیادی اہمیت حاصل‬‫ِ‬ ‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ گواہی کو اسالمی‬
‫ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس سلسلے میں ہر ہر پہلو کے متعلق ہدایات موجود ہیں جو گواہ کو ادائے شہادت کی‬
‫ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ گواہی سے پہلو تہی کرنے کی حوصلہ شکنی اور مذمت کرتی ہیں۔ لہٰ ذا‬
‫اسالمی معاشرے میں گواہ گواہی سے بہت کم پہلو تہی کرتے ہیں اور ادائے شہادت کو دینی‬
‫واخالقی فریضہ سمجھتے ہوئے سرانجام دیتے ہیں‪ ،‬جس سے معاشرے میں عدل وانصاف کا‬
‫مستحکم او رپائیدار نظام معرض وجود میں آتا ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬درجِ باال دفعہ کے پہلے حصے میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی معلوم‬
‫نہیں ہوتی جبکہ دوسرے حصے میں مستغیث اور گواہ کے انکار پر انہیں گرفتار کرکے عدالت میں‬
‫پیش کرنا شرعا ً محل نظر ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس میں مناسب ترمیم کرتے ہوئے مستغیث اور گواہ کی‬
‫ت نفس اور شہرت پر حرف نہ آئے اور‬ ‫گرفتاری کو ختم کیا جانا چاہئے تاکہ مدعی اور گواہ کی عز ِ‬
‫عدل وانصاف کی فراہمی بطریق احسن کی جا سکے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :172‬تفتیش میں کارروائیوں کا روزنامچہ‬

‫ہر پولیس افسر جو باب ہذا کے تحت تفتیش کر رہا ہو‪ ،‬پر الزم ہوگا کہ اپنی تفتیش‬ ‫(‪1‬‬
‫کی کارروائیاں روزانہ ایک روزنامچہ میں تحریر کرے جس میں اس کے پاس اطالع ملنے کا وقت‪،‬‬
‫ایسا وقت جب اس نے اپنی تفتیش کا آغاز اور اختتام کیا‪ ،‬ایسے مقام یا مقامات جہاں پر وہ گیا اور ان‬
‫حاالت کی کیفیت جو اسے تفتیش پر معلوم ہوئے‪ ،‬درج کرے۔‬
‫کوئی فوجداری عدالت مجاز ہوگی کہ ایسے مقدمہ کا روزنامچہ طلب کرے جو ایسی‬ ‫(‪2‬‬
‫عدالت میں زیر تحقیق یا زیر تجویز ہو اور ایسے روزنامچوں کو‪ ،‬مقدمہ میں شہادت کے طور پر‬
‫نہیں‪ ،‬بلکہ ایسی تحقیق یا تجویز میں مدد لینے کیلئے استعمال کرنے کی مجاز ہوگی۔ ایسے‬
‫روزنامچوں کو نہ تو ملزم‪ ،‬نہ اس کے کارندے طلب کر سکتے ہیں اور نہ ہی محض اس بنا پر کہ‬
‫عدالت نے ان کا حوالہ دیا ہے‪ ،‬ملزم یا اس کے کارندے ان کا معائنہ کرنے کے مستحق ہیں‪ ،‬لیکن‬
‫اگر وہ پولیس افسر جس نے اسے قلم بند کیا ہو اپنی یاد تازہ کرنے کیلئے استعمال کرے یا اگر‬
‫عدالت ویسے پولیس افسر کی تردید کیلئے انہیں استعمال کرے تو قانون شہادت ‪1984‬ء کے آرٹیکلز‬
‫‪ 165‬یا ‪ ،140‬جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬کا الزمی طور پر اطالق ہوگا۔‬

‫تبصرہ ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس پر‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :173‬پولیس افسر کی رپورٹ‬

‫ہر تفتیش جو باب ہذا کے تحت کی جائے بال غیر ضروری تاخیر مکمل کی جائے‬ ‫(‪1‬‬
‫گی اور جونہی یہ پایہ تکمیل کو پہنچے افسر انچارج پولیس سٹیشن کو الزم ہوگا کہ وہ بذریعہ‬
‫پیروکار سرکار‪:‬‬
‫اس مجسٹریٹ کے پاس جو پولیس رپورٹ پر جرم کی سماعت کا‬ ‫(‪a‬‬
‫اختیار رکھتا ہو‪ ،‬صوبائی حکومت کے مقرر کردہ نمونہ کے مطابق ایک رپورٹ جس میں نام‬
‫فریقین‪ ،‬نوعیت اطالع‪ ،‬نام اشخاص جو مقدمہ کے حاالت سے بظاہر واقف ہوں اور اس امر کا بیان‬
‫کہ ملزم (اگر گرفتار کیا گیا ہو) حراست میں بھیجا گیا ہے یا اس کے مچلکہ پر رہا کردیا گیا ہے اور‬
‫اگر ایسا ہو‪ ،‬آیا مع یا بالضامنان کے‪ ،‬بھیجے گا‪ ،‬اور‬
‫اس شخص کو (اگر کوئی ہو) جس نے جرم کے ارتکاب کی پہلے‬ ‫(‪b‬‬
‫اطالع دی تھی‪ ،‬اپنی کارروائی کی نسبت اس طریقہ سے اطالع دے گا‪ ،‬جو صوبائی حکومت نے‬
‫مقرر کیا ہو‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ جہاں دفعہ ‪ 154‬کے تحت رپورٹ ابتدائی اطالع تحریر کرنے کی تاریخ سے‬
‫چودہ دن کے عرصہ کے اندر تفتیش مکمل نہ ہو تو افسر انچارج تھانہ کو الزم ہوگا کہ عرصہ‬
‫مذکور ختم ہونے کے بعد تین دن کے اندر پبلک پراسیکیوٹر کی معرفت صوبائی گورنمنٹ کے‬
‫مقرر کردہ نمونے کے مطابق مجسٹریٹ کے روبرو ایک ایسی عبوری رپورٹ پیش کرے جس میں‬
‫اس وقت تک عمل میں الئی گئی تفتیش کا نتیجہ بیان کیا گیا ہو اور عدالت کو الزم ہوگا کہ وہ ویسی‬
‫عبوری رپورٹ کی بنیاد پر تجویز مقدمہ شروع کردے سوائے جبکہ ان وجوہات کی بنا پر جو قلمبند‬
‫کی جائیں‪ ،‬عدالت فیصلہ کرے کہ تجویز مقدمہ یوں شروع نہیں ہونی چاہئے۔‬
‫اعلی افسر مقرر کیا گیا ہو تو ان صورتوں میں‬
‫ٰ‬ ‫جب زیر دفعہ ‪ 158‬پولیس کا کوئی‬ ‫(‪2‬‬
‫کہ جن میں صوبائی حکومت بذریعہ عام یا خاص حکم ویسی ہدایت کرے‪ ،‬رپورٹ الزمی طور پر‬
‫اس افسر کی معرفت بھیجی جائے گی اور وہ مجاز ہوگا کہ مجسٹریٹ کا حکم صادر ہونے تک‬
‫مہتمم تھانہ کو ہدایت کرے کہ مزید تفتیش کرے۔‬
‫جب کبھی زیر دفعہ ہذا ارسال کردہ رپورٹ سے یہ ظاہر ہو کہ ملزم کو اس کے‬ ‫(‪3‬‬
‫مچلکہ پر رہا کردیا گیا ہے تو مجسٹریٹ الزمی طور پر ویسے مچلکہ کے سبکدوش ہونے یا نہ‬
‫ہونے کی نسبت‪ ،‬جیسا کہ وہ شخص مناسب سمجھے‪ ،‬حکم صادر کرے گا۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت ارسال کردہ کسی رپورٹ کی نقل ملزم کو تحقیق یا تجویز کے‬ ‫(‪4‬‬
‫آغاز سے قبل اس کی درخواست پر فراہم کی جائے گی‪:‬‬
‫بشرطیکہ اس کی ادائیگی کی جائے‪ ،‬سوائے اس کے کہ مجسٹریٹ خاص وجوہات پر اس کا بالقیمت‬
‫فراہم کیا جانا مناسب سمجھے۔‬
‫اگر افسر انچارج تھانہ ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت کوئی رپورٹ بھیجے تو اسے الزم‬ ‫(‪5‬‬
‫ہے کہ وہ رپورٹ کے ہمراہ (ماسوائے سرکاری مالزمین کے) مقدمے کے گواہان پیش کرے اور‬
‫مجسٹریٹ کو الزم ہے کہ وہ ویسے گواہان کو تجویز مقدمہ کیلئے مقرر کردہ تاریخ پر اپنے یا کسی‬
‫دیگر عدالت کے روبرو پیش ہونے کیلئے پابند کرے۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ اگر عدالت پولیس روزنامچوں کو بطور حوالہ استعمال کرے‬
‫تو ملزم یا اس کے ایجنٹ ان روزنامچوں کے معائنے اور نقل لینے کے مجاز نہیں۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬لیکن یہ بات شرعی طو رپر محل نظر ہے کیونکہ ملزم کو اپنے دفاع کا پورا‬
‫اسالمی ٔ‬
‫حق ہے اور اس سلسلے میں دیگر وسائل کے عالوہ وہ دستاویزات سے بھی مدد لے سکتا ہے‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫مقدمے سے متعلق دستاویزات کو بوقت ضرورت معائنہ کرنے کی اجازت ہونی چاہئے تاکہ اس کی‬
‫کسی بھی طرح حق تلفی نہ ہو‪ ،‬اس بارے میں نظریاتی کونسل نے بھی یہی تجویز دی ہے کہ ملزم یا‬
‫اس کے ایجنٹ کو یہ روزنامچہ ہائے پولیس معائنہ کرنے اور ان کی نقل حاصل کرنے کا حق‬
‫حاصل ہے۔(‪)106‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬درج باال دفعہ میں نظریاتی کونسل کی تجویز کے مطابق ترمیم کی جائے تاکہ‬
‫انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :174‬پولیس خودکشی وغیرہ کی تحقیقات اور رپورٹ کرے گی‬

‫جب مہتمم تھانہ یا کسی دیگر پولیس افسر کو جس کو صوبائی حکومت نے اس‬ ‫(‪1‬‬
‫بارے میں خاص طور پر اختیار دیا ہو‪ ،‬اطالع ملے کہ کوئی شخص‪:‬‬
‫خودکشی کا مرتکب ہوا ہے‪ ،‬یا‬ ‫(‪a‬‬
‫کسی دیگر شخص یا جانور یا مشین یا کسی حادثہ سے مارا گیا ہے‪ ،‬یا‬ ‫(‪b‬‬
‫ایسے حاالت میں مارا گیا ہے کہ اس سے معقول شبہ پیدا ہوتا ہو کہ‬ ‫(‪c‬‬
‫کسی دیگر شخص نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے‪،‬‬
‫تو اس پر الزم ہوگا کہ اس کی اطالع ایسے قریب ترین مجسٹریٹ کو دے جو مرگ ناگہانی کی‬
‫تحقیقات کرنے کا مجاز ہو اور سوائے اس کے کہ صوبائی حکومت سے مقرر کردہ کسی قاعدہ سے‬
‫]‪44‬٭٭٭[ اس کے برعکس ہدایت کی گئی ہو‪ ،‬وہ الزمی طور پر اس مقام پر جائے گا جہاں متوفی‬
‫شخص کی الش ہو اور اس کے قرب وجوار میں رہائش پذیر دو یا دو سے زائد معززین کی‬
‫موجودگی میں تفتیش عمل میں الئے گا اور بظاہر وجہ موت کی نسبت رپورٹ مرتب کرے گا جس‬
‫میں جسم پر پائے جانے والے زخم‪ ،‬شکستہ ہڈیاں‪ ،‬خراشیں اور دیگر نشانات ضرب کی تفصیل دے‬
‫گا اور یہ بیان کرے گا کہ کس طریقہ سے یا کس ہتھیار سے یا آلہ سے (اگر کوئی ہوں) ایسے‬
‫نشانات کا لگایا جانا ضروری ہوتا ہے۔‬
‫رپورٹ مذکور پر ایسا پولیس افسر اور دیگر اشخاص یا ان میں اتنے جو اس پر‬ ‫(‪2‬‬
‫اتفاق کرتے ہوں‪ ،‬دستخط کریں گے اور اسے فوری طور پر ]‪45‬متعلقہ مجسٹریٹ[ کو ارسال کیا‬
‫جائے گا۔‬
‫اگر موت کے سبب کے بارے میں کچھ شبہ ہو یا جب کسی دیگر وجہ سے پولیس‬ ‫(‪3‬‬
‫افسر ایسا کرنا قرین مصلحت سمجھے تو اس پر الزم ہوگا کہ ان قواعد کے تابع جو صوبائی‬
‫حکومت اس بارے میں مقرر کرے‪ ،‬اس الش کو قریب ترین سول سرجن یا کسی دوسرے سند یافتہ‬
‫طبیب کو‪ ،‬جسے صوبائی حکومت نے اس بارے میں مقرر کیا ہو‪ ،‬معائنہ کیلئے بھیج دے‪ ،‬اگر‬
‫موسمی حاالت اور فاصلہ اس طرح بھیجنے کی اجازت دے کہ راستہ میں اس کے اس قدر گل‬
‫سڑجانے کا احتمال نہ ہو جس کی بنا پر ویسا معائنہ بیکار ہو جائے۔‬
‫ایکٹ ‪1949‬ء سے حذف ہوئی۔‬ ‫(‪4‬‬
‫]‪ 46‬مجسٹریٹ درجہ اول مرگ ناگہانی کے بارے میں تحقیقات کرنے کا مجاز‬ ‫(‪5‬‬
‫ہوگا۔[‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ جب متعلقہ پولیس افسر کو کسی شخص کو خودکشی یا قتل‬
‫کی اطالع ملے تو وہ فورا ً موقعہ واردات کا معائنہ کرے اور وجہ قتل کی تحقیق کرے۔‬
‫نظام عدل میں بھی اس بارے میں بکثرت مثالیں ملتی ہیں۔ مثالً‪:‬‬
‫ِ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫حضور اکرم ﷺ کو جب کسی معاملے کا پتہ چلتا تو خود جائے وقوعہ کا معائنہ‬ ‫(‪1‬‬
‫عوام اور ایک انصاری صحابی کے درمیان پانی کے تنازعہ میں‬‫ؓ‬ ‫ً‬
‫فرماتے‪ ،‬مثال حضرت زبیر بن‬
‫موقع کا خود معائنہ فرمایا۔ (‪)107‬‬
‫حضور اکرم ﷺ کے مبارک عہد میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ جونہی کسی جرم کی‬ ‫(‪2‬‬
‫ً‬
‫اطالع دی جاتی‪ ،‬آپ ﷺ فورا اس کی تفتیش کی ذمہ دار شخص کے سپرد فرماتے‪ ،‬تاریخی مواد سے‬
‫پتہ چلتا ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے بعض لوگوں کو مقرر کیا ہوا تھا جو حسب ضرورت پولیس افسروں‬
‫محیصہ خیبر گئے‪ ،‬وہاں کسی‬
‫ؓ‬ ‫کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ (‪ )108‬ایک دفعہ عبدہللا بن ؓ‬
‫سہل اور‬
‫محیصہ کو پتہ چال تو وہ یہودیوں کے پاس گئے اور کہا‬‫ؓ‬ ‫عبدہللا کو قتل کرکے ندی میں ڈال دیا‪،‬‬
‫ؓ‬ ‫نے‬
‫حویصہ اور عبدالرحمن بن‬
‫ؓ‬ ‫کہ تم نے اسے مار ڈاال لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ لہٰ ذا وہ اپنے بھائی‬
‫سہل کے ساتھ مقدمہ کی رپورٹ کرنے حضور اکرم ﷺ کے پاس پہنچ گئے۔ حویصہ نے رپورٹ‬ ‫ؓ‬
‫پیش کی۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ یہودی خوں بہا دیں یا جنگ کیلئے تیار ہو جائیں (‪ )109‬لیکن‬
‫یہودیوں نے قتل سے انکار کردیا۔ حضور اکرم ﷺ نے مدعیان سے پوچھا کہ حلف دیتے ہو؟ لیکن‬
‫انہوں نے انکار کردیا۔ پھر پوچھا کہ کیا یہودی حلف دیں گے؟ وہ کہنے لگے کہ وہ مسلمان نہیں۔‬
‫لہٰ ذا حضور اکرم ﷺ نے خود سو اونٹ دیت ادا کردی۔(‪)110‬‬
‫مندرجہ باال واقعات میں ہمارے لئے مکمل رہنمائی موجود ہے۔‬
‫پہلے واقعہ میں حضور ﷺ نے خود موقع مالحظہ فرمایا۔‬ ‫(‪1‬‬
‫قتل کی اطالع ملنے پر چند مسلمانوں نے مقدمہ کی ابتدائی تفتیش کی۔ انہوں نے‬ ‫(‪2‬‬
‫واردات کا معائنہ بھی کیا اور تفصیلی رپورٹ مدینہ کی عدالت میں پیش کی اور باضابطہ سماعت‬
‫ہوئی۔ اس سے پتہ چال کہ عہد رسالت مآب میں بھی اس ابتدائی رپورٹ پر قتل کی تحقیقات کی جاتی‬
‫اور سب سے پہلے موقعہ واردات کا معائنہ کیا جاتا تاکہ اصل صورتحال واضح ہو سکے اور پھر‬
‫باضابطہ کارروائی کی جاتی۔‬
‫نظام عدل سے بھی جائے واردات کے معائنے‬
‫ِ‬ ‫درجِ باال سطور سے واضح ہوا کہ اسالمی‬
‫اور تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا ثبوت ملتا ہے‪ ،‬اس رپورٹ میں مقتول کے تفصیلی حاالت اور‬
‫فوری دستیاب شہادتوں کی روشنی میں وجوہات قتل اور دیگر ضروری تفصیالت درج ہوتی تھیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-174‬جالنے سے ایذاء انسانی‬

‫جب کوئی شخص جسے آگے کے ذریعہ سے‪ ،‬میٹ کے تیل‪ ،‬تیزاب‪ ،‬کیمیاوی مادہ یا‬ ‫(‪1‬‬
‫کسی اور ذریعے سے ضرب شدید پہنچی ہو کسی میڈیکل افسر کے روبرو الیا جائے جب کہ وہ‬
‫فرض کی ادائیگی میں مشغول ہو اور اسے یہ فرائض منصبی اس غرض کیلئے صوبائی حکومت‬
‫نے سونپے ہوں یا ایسا واقعہ پولیس سٹیشن کے افسر انچارج کو رپورٹ کیا گیا ہو تو فرض کی‬
‫ادائیگی پر موجود میڈیکل افسر یا پولیس سٹیشن کا افسر انچارج اس موقعہ کی اطالع فی الفور قریب‬
‫ترین مجسٹریٹ کو دے گا اس کے ساتھ ہی میڈیکل افسر جو ڈیوٹی پر موجود ہو‪ ،‬اس مضروب‬
‫شخص کا فوری طور پر بیان قلمبند کرے گا تاکہ آگ سے جلنے کے حاالت و واقعات کا جائزہ لیا‬
‫جا سکے۔ مجسٹریٹ بھی اس شخص کا بیان قلمبند کرے گا بشرطیکہ وہ ابھی تک بیان دینے کے‬
‫قابل ہو۔‬
‫ڈیوٹی پر موجود میڈیکل افسر یا بصورت دیگر مجسٹریٹ بیان قلمبند کرنے سے قبل‬ ‫(‪2‬‬
‫اس امر کا اطمینان کرے گا کہ مضروب شخص کسی دھمکی یا خوف کے تابع نہیں ہے۔ اس طرح‬
‫قلمبند کیا گیا بیان سیشن جج کو ارسال کیا جائے گا‪ ،‬اس کے عالوہ ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس‬
‫اور افسر انچارج پولیس سٹیشن کو بھی ضروری کارروائی کیلئے بھیجا جائے تاکہ وہ ضابطہ ہذا‬
‫کے تحت کارروائی عمل میں الئے۔‬
‫اگر مضروب شخص کسی وجہ سے مجسٹریٹ کے روبرو بیان دینے کے قابل نہ ہو‬ ‫(‪3‬‬
‫تو ڈیوٹی پر موجود میڈیکل افسر کا ریکارڈ شدہ بیان جو اس نے ذیلی دفعہ (‪ )1‬کے تحت لیا ہو‬
‫سربمہر کرکے مجسٹریٹ یا متعلقہ زونل مجسٹریٹ کے پاس بھیج دیا جائے گا (اگر مقدمہ کی‬
‫سماعت کرنے واال مجسٹریٹ مختلف ہو) اور اس بیان کو مضروب شخص کی وفات کی صورت‬
‫میں بیان المرگ باور کیا جائے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :175‬اشخاص کی طلبی کا اختیار‬

‫کوئی پولیس افسر جو زیر دفعہ ‪ 174‬کارروائی کر رہا ہو‪ ،‬مجاز ہوگا کہ تحریری‬ ‫(‪1‬‬
‫حکم کے ذریعہ دو یا زائد اشخاص کو تفتیش کیلئے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اور کسی دیگر‬
‫شخص کو جو مقدمہ کے حاالت سے واقف معلوم ہو‪ ،‬طلب کرے‪ ،‬ہر شخص جسے اس طور پر‬
‫طلب کیا جائے‪ ،‬پر الزم ہے کہ حاضر ہو اور جملہ سواالت کے‪ ،‬سوائے ایسے سواالت کے جن کے‬
‫جوابات سے اس پر کسی فوجداری جرم کا الزام یا جرمانہ یا ضبطی کا احتمال ہو‪ ،‬جواب دے۔‬
‫اگر واقعات سے کوئی ایسا قابل دست اندازی جرم نہ بنتا ہو جس پر دفعہ ‪ 170‬کا‬ ‫(‪2‬‬
‫اطالق ہو‪ ،‬تو پولیس افسر ایسے اشخاص کو مجسٹریٹ کی عداالت میں حاضر ہونے کا حکم نہ دے‬
‫گا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ان دفعات ‪ A-174‬اور ‪ 175‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪،‬‬
‫لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :176‬مجسٹریٹ کی طرف سے وجہ مرگ کی تحقیقات‬

‫جب کوئی شخص اس وقت مر جائے جب وہ پولیس کی حراست میں ہو‪ ،‬تو قریب‬ ‫(‪1‬‬
‫ترین مجسٹریٹ جو وجہ مرگ کی تحقیقات کرنے کا اختیار رکھتا ہو‪ ،‬پر الزم ہوگا اور دفعہ ‪174‬‬
‫ضمنی دفعہ ‪ )91‬کی شق ہائے )‪ (c) ،(b) ،(a‬میں متذکرہ کسی دیگر صورت میں ہر مجسٹریٹ‬
‫جسے ایسا اختیار حاصل ہو‪ ،‬مجاز ہوگا کہ پولیس کی طرف سے کی گئی تفتیش کی بجائے یا عالوہ‬
‫وجہ مرگ کی تحقیقات عمل میں الئے اور اگر وہ ایسا کرے تو اسے ایسا کرنے کیلئے وہ تمام‬
‫اختیارات حاصل ہوں گے جو اسے کسی جرم کے متعلق تحقیقات عمل میں النے کیلئے حاصل‬
‫ہوتے۔ مجسٹریٹ پر جو ایسی تحقیقات کر رہا ہو‪ ،‬پر الزم ہوگا کہ اس سلسلہ میں لی گئی شہادت کو‬
‫ان طریقوں میں سے کسی پر قلمبند کرے جو مقدمہ کے حاالت کے مطابق بعد ازیں مقرر کئے گئے‬
‫ہیں۔‬
‫زمین کھود کر الش نکالنے کا اختیار‪ :‬جب ویسا مجسٹریٹ کسی شخص کی الش کا‬ ‫(‪2‬‬
‫معائنہ کرے‪ ،‬جسے دفن کیا جا چکا ہو‪ ،‬اس کی وجہ مرگ معلوم کرنے کیلئے معائنہ کرانا قرین‬
‫مصلحت سمجھے‪ ،‬تو وہ مجاز ہوگا کہ دفن شدہ الش کو نکلوا کر اس کا معائنہ کرائے۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر ‪ 2‬میں کہا گیا ہے کہ دفن شدہ الش کی وجہ مرگ معلوم کرنے‬
‫کیلئے مجاز مجسٹریٹ اس کا معائنہ کرا سکتا ہے لیکن یہ وضاحت نہیں ہے کہ معائنہ کی جانیوالی‬
‫الش اگر مرد کی ہے تو معائنہ مرد ڈاکٹر کرے اور اگر عورت کی ہے تو لیڈی ڈاکٹر معائنہ کرے‬
‫تاکہ شرعی اور اخالقی قباحتوں سے بچا جا سکے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالم نے اس بارے میں تفصیلی ہدایات دی ہیں جو درجِ ذیل ہیں‪:‬‬
‫اسالمی ٔ‬
‫سلمہ نے‬
‫ؓ‬ ‫جابر سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے ام المومنین حضرت ام‬ ‫حضرت ؓ‬
‫ٰؓ‬
‫سلمی کو سینی لگا‬ ‫ابوطیبہ کو حکم دیا کہ ام‬
‫ؓ‬ ‫سینگی لگوانے کی اجازت مانگی۔ پس حضور ﷺ نے‬
‫ٰؓ‬
‫سلمی کے دودھ‬ ‫ابوطیبہ حضرت ام‬
‫ؓ‬ ‫جابر کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ‬
‫دیں۔ ؓ‬
‫شریک بھائی تھے‪ ،‬یا نابالغ لڑکے تھے۔ (‪)111‬‬
‫اس حدیث مبارکہ سے پتہ چال کہ عالج کے سلسلے میں بھی پردے کا خیال رکھنا ضروی‬
‫جابر کو یہ نہ‬
‫ہے‪ ،‬اگر معالج کے سامنے بے پردہ ہو کر آجانے میں کچھ حرج نہ ہوتا تو حضرت ؓ‬
‫طیبہ حضرت ام سل ٰؓ‬
‫می کے دودھ شریک بھائی یا نابالغ لڑکے تھے۔ (‪)112‬‬ ‫ؓ‬ ‫کہنا پڑتا کہ ابو‬
‫ت نماز کیلئے چہرہ‪ ،‬ہتھیلیاں اور پائوں ڈھانپنا ضروری نہیں۔‬
‫حصکفی نے لکھا ہے کہ صح ِ‬
‫ؒ‬
‫اور‪:‬‬
‫وتمنع المرأہ الشابۃ من کشف الوجہ بین رجال ال النہ عورۃ بل الخو من الفتنۃ (‪)113‬‬
‫’’اور جوان عورت کو مردوں میں چہرہ کھولنے سے منع کیا جائیگا‪ ،‬اس وجہ سے نہیں کہ‬
‫چہرہ (نماز کے) ستر میں داخل ہے بلکہ اس لئے کہ فتنہ کا خوف ہے‘‘۔‬
‫ثناء ہللا پانی پتی لکھتے ہیں کہ آیت مبارکہ َو َال یُ ْبدِینَ ِزینَت َ ُھ َّن ِإ َّال َما َ‬
‫ظ َھ َر ِم ْن َھا (‪ )114‬میں‬
‫عموم حم سے االما ظھر کے ذریعہ ایک استثناء کیا ہے۔ (‪ )115‬ابن مسعودؓ کہتے‬ ‫ِ‬ ‫اخفائ زینت کے‬
‫ِ‬
‫ہیں کہ اس سے ثیاب اور ُجلباب یعنی اوپر کے وہ کپڑے مراد ہیں جو اہتمام پردہ کیلئے کپڑوں کے‬
‫اوپر ہوتے ہیں۔ (‪)116‬‬
‫مفسر مذکور کہتے ہیں کہ یہ استثناء حالت نماز کے متعلق ہے‪ ،‬یعنی نماز میں اگر چہرہ اور‬
‫گٹوں تک دونوں ہاتھ کھلے رہ جائیں تو نماز ہو جائے گی اور غیر محرم کے سامنے مواقع زینت‬
‫کھولنے کا یہاں ذکر نہیں ہے۔ اگر َما َ‬
‫ظ َھ َر ِم ْن َھا سے مواقع زینت مراد ہوں تو ضرورۃ ً مجبوری‬
‫کیلئے اس کا استثناء کیا گیا ہے۔ بشرطیکہ اظہار زینت کے ارادے سے نہ ہو۔ (‪)117‬‬
‫البتہ اضطرار حالت میں کچھ نرمی ہے کہ اگر کوئی معالج محرم نہ ملے تو غیر محرم سے‬
‫بھی عالج کرا سکتے ہیں لیکن اس میں شریعت کے ایک اہم اصول الضرورۃ تبیح‪ ،‬بقدر الضرورۃ‬
‫(‪’’ )118‬ضرورت کیلئے ممنوع بقدر ضرورت مباح ہوتا ہے) کا خیال رکھنا الزمی ہے‪ ،‬یعنی‬
‫جتنے بدن کا دیکھنا ضروری ہو‪ ،‬معالج بس اسی قدر دیکھ سکتا ہے۔‬
‫والطبیب انما ینظر من العورۃ بقدر الحاجہ (‪)119‬‬
‫بیضاوی لکھتے ہیں کہ آزاد عورت کا پورا جسم ستر ہے‪ ،‬خاوند اور محرم کے عالوہ کسی‬
‫ؒ‬
‫ً‬
‫بقدر ضرورت جائز ہے۔ مثال عالج‬
‫کیلئے اس کے جسم کے کسی حصہ کو دیکھنا حالل نہیں‪ ،‬لیکن ِ‬
‫اور گواہی کیلئے دیکھنا جائز ہے۔ (‪)120‬‬
‫جصاص لکھتے ہیں کہ اضطرار یہ ہے کہ اندیشہ ضرر ہو اور مردار کی اباحت صرف اس‬
‫ؒ‬
‫حالت کے ساتھ خالص ہے۔(‪)121‬‬
‫کاسانی اضطرار کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ جس حالت میں جان جانے یا عضو تباہ ہو‬
‫ؒ‬
‫جانے کا خوف ہو۔ ضرورت اسی حالت میں متحقق ہوتی ہے۔ (‪)122‬‬
‫اعظم کا مذہب وہی ہے جو‬
‫ؒ‬ ‫کرام کے درمیان مختلف فیہ ہے لیکن امام‬
‫ؒ‬ ‫ویسے یہ مسئلہ ائمہ‬
‫اشباہ والنظائر میں ہے۔(‪)123‬‬
‫اسالمی فقہ اکیڈمی نے اطباء کیلئے اسالمی ضابطہ اخالق مرتب کیا ہے‪ ،‬جس میں مذکور‬
‫ہے کہ طبیب کو چاہئے کہ جنس مخالف کے عالج میں اسالمی تعلیمات کا خیال رکھے‪ ،‬اسالم میں‬
‫مرد کا اجنبی عورت کو دیکھنا اور اس کا عالج کرنا (اسی طرح اس کے برعکس) جائز نہیں‪ ،‬لیکن‬
‫مستثنی ہیں‪ ،‬مثالً کوئی ایسی طبیبہ نہ ہو جس پر مریضہ یا اس کے گھر والے اعتماد‬
‫ٰ‬ ‫بعض صورتیں‬
‫کر سکیں‪ ،‬یا وہ اس مرض کی ماہر نہ ہو جس میں وہ مریضہ مبتال ہے جبکہ اس مرض کا ماہر‬
‫طبیب موجود ہے‪ ،‬البتہ ضروری ہے کہ دوران عالج کوئی تیسرا بھی موجود ہو تاکہ خلوت میں فتنہ‬
‫کا اندیشہ نہ رہے۔ (‪)124‬‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس بارے میں نظریاتی کونسل نے یہ تجویز دی ہے‪:‬‬
‫’’ذیلی دفعہ نمبر ‪ 2‬کے بعد دفعہ نمبر ‪ 3‬کا اضافہ تجویز کیا جاتا ہے‪:‬‬
‫میت کی الش کا معائنہ حتی الوسع اسی صنف کا میڈیکل سپیشلسٹ کرے گا۔‬
‫اس لئے کہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ کسی خاتون میت پر کسی غیر محرم مرد کی نظر نہ‬
‫پڑے اور غیر محرم کا ہاتھ اس کے بدن کو نہ چھوئے‘‘۔ (‪)125‬‬
‫درجِ باال سطور سے واضح ہوتا ہے کہ عورت کسی غیر محرم کے سامنے نہ اپنا چہرہ‬
‫کھول سکتی ہے‪ ،‬نہ اسے جسم کا کوئی حصہ دکھاسکتی ہے‪ ،‬لہٰ ذا حتی الوسع کوشش یہ کرنی‬
‫چاہئے کہ مریض اگر عورت ہے تو طبیب عورت ہی اس کا عالج کرے اور تمام معامالت کو‬
‫دیکھے تاکہ اس کی عفت وعصمت کی حفاظت ہو سکے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬یہ دفعہ اسالمی تعلیمات کے منافی معلوم ہوتی ہے‪ ،‬اس میں یہ ترمیم کی جانی‬
‫چاہئے کہ عورتوں کے معامالت کی دیکھ بھال اور انجام دہی کیلئے عورت ڈاکٹر ہی مقرر کی‬
‫جائے۔‬

‫حصہ نمبر ‪6‬‬


‫استغاثہ جات میں کارروائیاں‬
‫(باب نمبر ‪)15‬‬

‫تحقیقات اور تجویز میں فوجداری عدالتوں کے اختیارات کے بارے میں‬

‫(الف) تحقیق یا تجویز کا مقام‬

‫دفعہ نمبر ‪ :177‬تحقیق اور تجویز کا عام مقام‬

‫ہر جرم کی تحقیقات اور تجویز وہ عدالت کرے گی جس کے اختیارات کی مقامی حدود کے اندر اس‬
‫کا ارتکاب کیا گیا ہو۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس پر تبصرہ‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :178‬مختلف سیشن ڈویژن میں مقدمات کی سماعت کرنے کا حکم دینے کا اختیار‬

‫دفعہ ‪ 177‬میں درج کسی امر کے باوصف صوبائی حکومت یہ ہدایت کرنے کی مجاز ہوگی کہ کسی‬
‫ضلع میں کوئی مقدمات یا اقسام مقدمات جو بغرض تجویز عدالت سیشن کو بھیجے گئے ہوں‪ ،‬کسی‬
‫ڈویژن میں سماعت کئے جائیں‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ ایسی ہدایت کسی ایسے حکم کے متضاد نہ ہو جو مجموعہ ہذا کی دفعہ ‪ 526‬یا‬
‫کسی دیگر قانون نافذ الوقت کے تحت عدالت عالیہ نے صادر کیا ہو۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ ضلع میں عدالت سیشن میں سماعت کیلئے بھیجے گئے‬
‫مقدمات کے بارے میں صوبائی حکومت ہدایت کریگی کہ کس ڈویژن میں سماعت کئے جائیں۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالم نے عدلیہ کو انتظامیہ کے اثر سے آزاد رکھا ہے اور قانون کی باالدستی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کعب فریقین مقدمہ کے طور پر عدالت‬
‫فاروق اور حضرت ابی بن ؓ‬‫ؓ‬ ‫قائم کی ہے‪ ،‬چنانچہ حضرت عمر‬
‫علی‬
‫میں پیش ہوئے اور عام آدمی کی طرح مقدمہ کی کارروائی ہوئی۔ (‪ )126‬اسی طرح حضرت ؓ‬
‫اپنی زرہ چوری ہونے کے مقدمہ میں مدعی بنکر عدالت میں پیش ہوئے (‪ )127‬اور قانون وعدلیہ‬
‫کی باالدستی اور آزادی کی روشن مثالیں قائم کیں۔ ان واقعات سے یہ بھی واضح ہوا کہ عدلیہ‬
‫انتظامیہ سے فائق ہے اور عدلیہ کے معامالت کو سرانجام دینے کیلئے قاضی ہی کو جملہ اختیارات‬
‫حاصل تھے۔ اس سلسلے میں اسالمی نظریاتی کونسل نے یہ تجاویز دی ہیں۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪’’ :‬دفعہ ہذا کے تحت صوبائی حکومت یہ ہدایت کر سکتی ہے کہ‬
‫کوئی مقدمہ یا کسی خاص قسم کے مقدمات جو بفرض تجویز سیشن کورٹ میں بھیجے جائیں‪ ،‬کون‬
‫سے سیشن ڈویژن میں سماعت کئے جائینگے‪ ،‬دفعہ ‪ 526‬کے تحت زیر سماعت مقدمات کے انتقال‬
‫کا اختیار ہائی کورٹ کو حاصل ہے جبکہ دفعہ ہذا میں ابتدائی چاالن پیش کرنے کیلئے عدالت کے‬
‫انتخاب کا اختیار صوبائی حکومت کو دیا گیا ہے۔ کونسل کی رائے ہے کہ یہ اختیار صوبائی‬
‫حکومت کے بجائے ہائی کورٹ کو حاصل ہونا چاہئے‪ ،‬لہٰ ذا کونسل متفقہ طور پر سفارش کرتی ہے‬
‫کہ عدالت ہائے سیشن کے اختیارات سماعت بلحاظ حدود ارضی اور نوعیت مقدمات مقرر کرنے کا‬
‫اختیار عدالت عالیہ کو ہونا چاہئے نہ کہ صوبائی حکومت کو‘‘۔‬
‫کونسل کی مذکورہ سفارش کے تابع تجویز کیا گیا ہے کہ اس دفعہ کے الفاظ ’’صوبائی‬
‫حکومت‘‘ کو حذف کرکے ان کی جگہ ’’عدالت عالیہ‘‘ کے الفاظ لکھے جائیں۔ (‪)128‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬نظریاتی کونسل کی تجاویز کے مطابق اس دفعہ میں ترمیم کی جائے تاکہ عدلیہ اور‬
‫انتظامیہ کے دائرہ کار کا واضح تعین ہو سکے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :179‬ملزم کی سماعت اس ضلع میں ہو سکے گی جہاں فعل سرزد ہوا یا جہاں نتیجہ‬
‫برآمد ہوا‬

‫جب کسی شخص کو کسی جرم کے ارتکاب کا ملزم گردانا گیا ہو‪ ،‬کسی ایسے امر کی بنا پر جو‬
‫سرزد ہوا ہو اور کسی نتیجہ کی بنا پر جو برآمد ہوا ہو‪ ،‬تو ایسے جرم کی تحقیقات یا تجویز ایسی‬
‫عدالت کرنے کی مجاز ہوگی جس کے اختیار سماعت کی مقامی حدود میں ایسا کوئی فعل سرزد ہوا‬
‫ہو یا کوئی ایسا نتیجہ برآمد ہوا ہو۔‬
‫تمثیالت‬
‫الف عدالت ب کے اختیار سماعت کی مقامی حدود کے اندر زخمی ہوا ہے اور‬ ‫(‪a‬‬
‫عدالت پ کے اختیار سماعت کی مقامی حدود کے اندر فوت ہوا۔‬
‫الف کے قتل کے جرم کی تحقیقات یا تجویز عدالت ب یا عدالت پ کر سکتی ہے۔‬
‫الف عدالت ب کے اختیار سماعت کی مقامی حدود میں زخمی ہوا اور دس دن کے‬ ‫(‪b‬‬
‫دوران عدالت پ کے اختیار سماعت کی مقامی حدود میں رہا اور مزید دس دن کے دوران عدالت ت‬
‫کے اختیار سماعت کی مقامی حدود میں رہا۔ عدالت پ یا عدالت ت کے اختیار سماعت کی مقامی‬
‫حدود میں اپنا روزمرہ کا کام کاج کرنے سے قاصر رہا۔ الف کو ضرب شدید پہنچانے کے جرم کی‬
‫تحقیقات یا تجویز عدالت ب‪ ،‬پ یا ت میں ہو سکتی ہے۔‬
‫الف کو عدالت ب کے اختیار سماعت کی مقامی حدود میں ضرر رسانی کا خوف‬ ‫(‪c‬‬
‫دالیا گیا اور اس بنا پر اسے عدالت پ کے اختیار سماعت کی مقامی حدود میں ترغیب ہوئی کہ وہ‬
‫مال خوف دالنے والے شخص کے حوالے کردے۔ الف پر جس جرم استحصال بالجبر کا ارتکاب کیا‬
‫گیا‪ ،‬اس کی تحقیقات یا تجویز عدالت ب یا پ میں ہو سکتی ہے۔‬
‫الف ریاست جونا گڑھ میں زخمی ہوا اور زخموں کی وجہ سے کراچی میں مر گیا۔‬ ‫(‪d‬‬
‫الف کی موت کے ارتکاب کے جرم کی کراچی میں تحقیق وتجویز ہو سکتی ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :180‬جب کوئی فعل کسی دیگر جرم سے تعلق کی بنا پر جرم ہو تو مقام تجویز‬

‫جب کوئی فعل اس کے کسی دیگر فعل سے تعلق کی بنا پر جرم ہو جب کہ وہ فعل جرم بھی ہو یا جو‬
‫جرم ہوتا اگر فعل کنندہ جرم کے ارتکاب کا اہل ہوتا تو اول الذکر جرم کے الزام کی تحقیق یا تجویز‬
‫ایسی عدالت کر سکے گی جس کے اختیار سماعت کی مقامی حدود کے اندر دونوں افعال میں سے‬
‫کوئی فعل سرزد کیا گیا۔‬
‫تمثیالت‬
‫اعانت کے الزام کی تحقیقات یا تجویز یا تو وہ عدالت کرے گی جس کے اختیار‬ ‫(‪a‬‬
‫سماعت کی مقامی حدود کے اندر اعانت کا ارتکاب کیا گیا ہو یا جس کے اختیار سماعت کی مقامی‬
‫حدود کے اندر اعانت کردہ جرم کا ارتکاب ہوا ہو۔‬
‫مال مسروقہ کے وصول کرنے یا اسے پاس رکھنے کے الزام کی تحقیق و تجویز یا‬ ‫(‪b‬‬
‫وہ عدالت کر سکتی ہے جس کے اختیار سماعت کی مقامی حدود میں مال چوری ہوا ہو یا وہ عدالت‬
‫جس کے اختیار سماعت کی مقامی حدود میں مال کا کوئی حصہ یا شے بددیانتی سے وصول کی‬
‫گئی ہو یا پاس رکھی گئی ہو۔‬
‫کسی ایسے شخص کو بے جا طو رپر چھپانے کے الزام‪ ،‬جس کا اغوا ہونا معلوم ہو‪،‬‬ ‫(‪c‬‬
‫کی تحقیق وتجویز وہ عدالت جس کے اختیار سماعت کی مقامی حدود کے اندر بے جا طور پر چھپانا‬
‫یا وہ عدالت جس کے اختیار سماعت کی مقامی حدود کے اندر اغوا ہوا ہو‪ ،‬کر سکتی ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :181‬ٹھگ ہونا یا ڈاکوئوں کے گروہ سے تعلق رکھنا‪ ،‬حراست سے فرار وغیرہ‬

‫ٹھگ ہونے اور قتل کا ارتکاب کرنے‪ ،‬ڈاکہ زنی‪ ،‬ڈاکہ زنی مع قتل‪ ،‬ڈاکوئوں کے‬ ‫(‪1‬‬
‫گروہ سے تعلق رکھنا یا حراست سے فرار کے جرم کی تحقیق و تجویز وہ عدالت کرنے کی مجاز‬
‫ہوگی جس کے اختیار سماعت کی مقامی حدود کے اندر ویسا شخص موجود ہے۔‬
‫مجرمانہ تصرف بے جا اور مجرمانہ خیانت‪ :‬تصرف بے جا مجرمانہ یا مجرمانہ‬ ‫(‪2‬‬
‫خیانت کے جرم کی تحقیق و تجویز وہ عدالت کرے گی جس کے اختیار سماعت کی مقامی حدود کے‬
‫اندر اس مال کا کوئی حصہ‪ ،‬جس کی نسبت جرم کا ارتکاب ہوا ہو‪ ،‬ملزم نے حاصل کیا ہو یا اسے‬
‫تحویل میں رکھا ہو جہاں جرم کا ارتکاب ہوا ہو۔‬
‫چوری‪ :‬چوری کا جرم یا کوئی جرم جس میں چوری یا چوری کے مال کا قبضہ‬ ‫(‪3‬‬
‫شامل ہو‪ ،‬کی تحقیق و تجویز ایسی عدالت کر سکتی ہے جس کے اختیار سماعت کی مقامی حدود‬
‫میں ایسا جرم سرزد ہوا ہو یا مال مسروقہ چور کے یا کسی ایسے شخص کے قبضہ میں ہو‪ ،‬جس‬
‫نے اسے وصول کیا ہو یا قبضہ میں رکھا ہو یہ جانتے ہوئے یا باور کرنے کی وجہ رکھتے ہوئے‬
‫کہ یہ چوری کا ہے۔‬
‫اغوا کرنا یا بھگا لے جانا‪ :‬اغوا کرنے یا بھگا لے جانے کے جرم کی تحقیق و‬ ‫(‪4‬‬
‫تجویز و عدالت کر سکتی ہے جس کے اختیار سماعت کی مقامی حدود میں اغوا کردہ یا بھگا لے‬
‫جائے گئے شخص کو اغوا کیا گیا یا بھگا لے جایا گیا یا پہنچایا گیا یا چھپایا گیا یا اسے رکھا گیا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :182‬اس صورت میں مقام تحقیق یا تجویز جب موقع واردات غیر یقینی ہو یا صرف‬
‫ایک ضلع میں نہ ہو یا جب جرم مسلسل ہو یا کئی افعال پر مشتمل ہو‬

‫جب یہ غیر یقینی ہو کہ کئی مقامی عالقوں میں کس میں کسی جرم کا ارتکاب ہوا ہوا ہے یا جب‬
‫کسی جرم کا ارتکاب جزوی طور پر ایک مقامی عالقہ میں اور جزوی طور پر کسی دیگر عالقہ‬
‫میں کیا گیا ہو‪ ،‬یا جب کوئی جرم مسلسل ہو اور اس کا ارتکاب ایک سے زائد مقامی عالقوں میں‬
‫جاری ہو‪ ،‬یا جب یہ مختلف عالقوں میں سرزد متعدد افعال پر مشتمل ہو تو اس کی تحقیق و تجویز‬
‫کوئی ایسی عدالت کر سکتی ہے جس کو ایسے عالقوں میں کسی میں اختیار سماعت حاصل ہو۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :183‬دوران سفر ارتکاب کردہ جرم‬

‫ایسا جرم جس کا ارتکاب اس صورت میں ہوا ہو‪ ،‬جب کہ مجرم کوئی بری یا بحری سفر کر رہا ہو‬
‫تو اس کی تحقیق و تجویز وہ عدالت کرنے کی مجاز ہوگی جس کے عالقہ اختیار کی مقامی حدود‬
‫کے اندر یااس میں سے ہو کہ مجرم یا وہ شخص جس کے خالف یا وہ مال جس کی نسبت جرم کا‬
‫ارتکاب ہوا ہو‪ ،‬ویسے بری یا بحری سفر کے دوران گزرا ہو۔‬

‫تبصرہ‪ :‬دفعات نمبر ‪ 179‬تا ‪ 183‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :184‬ایکٹ ‪ XXVI‬آف ‪ 1951‬سے منسوخ ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :185‬شک و شبہ کی صورت میں عدالت عالیہ فیصلہ کرے گی کہ کس ضلع میں تحقیق‬
‫یا تجویز ہوگی‬

‫جب کبھی یہ سوال پیدا ہو کہ ایک ہی عدالت عالیہ کے ماتحت دو یا زائد عدالتوں‬ ‫(‪1‬‬
‫میں سے کسی عدالت کو جرم کی تحقیق یا تجویز کرنی چاہئے تو اس کا فیصلہ وہ عدالت عالیہ‬
‫کرے گی۔‬
‫جب دو یا زائد عدالتوں نے‪ ،‬جو ایک عدالت عالیہ کے ماتحت نہ ہوں‪ ،‬اسی جرم کی‬ ‫(‪2‬‬
‫سماعت کی ہو تو وہ عدالت عالیہ جس کے اختیار سماعت فوجداری اپیل کی حدود مقامی کے اندر‬
‫کارروائی شروع کی گئی ہو‪ ،‬ہدایت کرنے کی مجاز ہوگی کہ ایسے مجرم کی تحقیق اس کی ماتحت‬
‫کسی عدالت میں کی جائے اور اگر وہ فیصلہ کرتی ہے تو ایسے شخص کیخالف ویسے جرم کی‬
‫بابت جملہ دیگر کارروائیاں بند کر دی جائیں گی۔ اگر ایسی عدالت عالیہ اس معاملہ کو اس کے علم‬
‫میں الئے جانے پر ایسا فیصلہ نہیں کرتی تو کوئی دوسری عدالت عالیہ جس کے اختیار سماعت‬
‫فوجداری اپیل کی حدود مقامی میں ویسی کارروائیاں تصفیہ طلب ہوں‪ ،‬اس نوعیت کی ہدایت کرنے‬
‫کی مجاز ہوگی اور اس کے ایسا کرنے پر ویسی جملہ کارروائیاں بند کردی جائیں گی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس پر تبصرہ‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :186‬اختیار سماعت کی مقامی حدود سے باہر ارتکاب کردہ جرم کی نسبت سمن یا‬
‫وارنٹ جاری کرنے کا اختیار‬

‫جب [‪ 47]...‬کوئی مجسٹریٹ درجہ اول یہ باور کرنے کی وجہ رکھتا ہو کہ اس کے‬ ‫(‪1‬‬
‫حلقہ اختیار کی مقامی حدود میں موجود کوئی شخص‪ ،‬ویسی حدود کے باہر (اندرون یا بیرون‬
‫پاکستان) ایسے جرم کا مرتکب ہوا ہے جس کی تحقیقات یا تجویز احکام دفعہ ‪ 177‬یا ‪( 184‬دونوں‬
‫شامل) یا کسی دیگر قانون نافذ الوقت کے ویسی حدود میں نہیں ہو سکتی لیکن کسی نافذ الوقت قانون‬
‫کے بموجب پاکستان کے اندر الئق تجویز ہو تو ویسا مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ اسی طرح جرم کی‬
‫تحقیق کرے گویا ایسا جرم اس مقامی حدود کے اندر سرزد ہوا ہو اور قبل ازیں مذکور کردہ طریقہ‬
‫کے مطابق اس شخص کو جبرا ً اپنے روبرو حاضر کرائے اور اس کو اس مجسٹریٹ کے پاس‬
‫بھیجے جو ویسے جرم کی تحقیق و تجویز کرنے کا مجاز ہو اور اگر ویسا جرم قابل ضمانت ہو تو‬
‫اس سے ویسے مجسٹریٹ کے روبرو حاضر ہونے کے اقرار کی بابت مچلکہ مع یا بالضامنوں کے‬
‫تحریر کرائے۔‬
‫گرفتاری پر مجسٹریٹ کا طریقہ کار‪ :‬جب ایسا اختیار سماعت رکھنے والے ایک‬ ‫(‪2‬‬
‫سے زائد مجسٹریٹ ہوں اور جب اس مجسٹریٹ کو‪ ،‬جو دفعہ ہذا کے تحت کارروائی کر رہا ہو‪ ،‬اس‬
‫امر کا اطمینان نہ ہو سکے کہ ویسے شخص کو کس مجسٹریٹ کے پاس بھیجا جائے یا حاضر ہونے‬
‫کیلے پابند کیا جائے تو مقدمہ کی رپورٹ عدالت عالیہ کو برائے احکام کی جائے گی۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ کے دوسرے حصہ میں کہا گیا ہے کہ جب مقدمہ کی سماعت کی مجاز عدالت‬
‫کے بارے میں کوئی ابہام یا الجھن ہو تو عدالت عالیہ سے رجوع کیا جائے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی نظام قضاء میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں کہ جب ماتحت قاضیوں یا‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ؓ‬
‫راشدین سے‬ ‫عاملوں کو کسی مقدمہ کے بارے میں اطمینان نہ ہوتا تھا تو وہ دربار رسالت یا خلفائے‬
‫رجوع کرتے تھے۔‬
‫حضور اکرم ﷺ نے بھی اس کی ہدایت فرمائی تھی‪ ،‬حضرت ؓ‬
‫معاذ فرماتے ہیں کہ یمن‬
‫بھیجتے ہوئے رسول اکرم ﷺ نے مجھے فرمایا کہ جب تک درپیش مقدمہ کو اچھی طرح نہ جان لو‪،‬‬
‫کوئی حکم یا فیصلہ جاری نہ کرنا اور فرمایا‪:‬‬
‫وان اشکل علیک امر فقف حتی تبینہ او تکتب الی فیہ (‪)129‬‬
‫’’اگر کسی امر میں مشکل ہو تو اس کے واضح ہونے تک توقف رکھنا یا اس سلسلے میں‬
‫مجھے لکھ بھیجنا‘‘۔‬
‫آپ نے اس کی تفصیل لکھ کر حضور‬ ‫علی کے پاس ایک مقدمہ پیش ہوا‪ؓ ،‬‬
‫اسی طرح حضرت ؓ‬
‫ﷺ کی خدمت اقدس میں فیصلے کیلئے بھجوا دی‪ ،‬اس پر آپ ﷺ نے اعالن فرما دیا کہ ’’میرے پاس‬
‫اس میں اضافے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور میں اس کی توثیق کرتا ہوں‘‘۔ (‪)130‬‬
‫علی ایک اہم صوبے (یمن) میں عدلیہ کے ذمہ دار تھے اور‬
‫اس سے واضح ہوا کہ حضرت ؓ‬
‫پیچیدہ اور مشکل قانونی مسائل میں آپ ﷺ سے مشورہ لیتے رہتے تھے۔‬
‫ؓ‬
‫فاروق کے دور میں یمن کے اندر ایک عورت کے ساتھ زنا بالجبر کیا گیا‪ ،‬اس‬ ‫حضرت عمر‬
‫ٰؓ‬
‫ابوموسی کا ذہن واضح نہیں تھا کہ فیصلہ کیسے کریں؟ انہوں نے تفصیل لکھ کر‬ ‫بارے میں حضرت‬
‫عمر نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے اس عورت کو‬ ‫ؓ‬
‫فاروق کو بھیج دی‪ ،‬حضرت ؓ‬ ‫حضرت عمر‬
‫اور اس کے خاندان کو حج کے موقع پر مکہ طلب کرلیا‪ ،‬عورت کا بیان سن کر اسے معاف کردیا‬
‫اور اہل خاندان کو اس سے حسن سلوک کی تاکید فرمائی۔ (‪)131‬‬
‫اس تفصیل سے پتہ چال کہ ضلعی اور صوبائی قاضی جب تردد اور تشکک محسوس کرتے‬
‫اعلی عدالت سے رہنمائی‬
‫ٰ‬ ‫تو وہ غلط فیصلہ نہیں کرتے تھے‪ ،‬بلکہ ایک دیانتدار منصف کے طور پر‬
‫طلب کرتے تھے اور یہ اصول آج بھی اس بارے میں ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس میں‬
‫ترمیم کی ضورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :187‬جب وارنٹ ماتحت مجسٹریٹ کی طرف سے جاری کیا گیا ہو تو طریقہ کار‬

‫اگر کسی شخص کو دفعہ ‪ 186‬کے تحت جاری کردہ وارنٹ پر گرفتار کیا گیا ہو‪ ،‬تو‬ ‫(‪1‬‬
‫وارنٹ جاری کرنے والے مجسٹریٹ پر الزم ہوگا کہ گرفتار شدہ شخص کو ایسے سیشن جج کے‬
‫پاس روانہ کرے جس کا وہ ماتحت ہے‪ ،‬سوائے اس کے کہ اس مجسٹریٹ نے‪ ،‬جسے ایسے جرم کی‬
‫سماعت یا تحقیق کا اختیار حاصل ہو‪ ،‬ایسے شخص کی گرفتاری کیلئے وارنٹ جاری کیا ہو‪ ،‬تو‬
‫ایسی صورت میں گرفتار شدہ شخص کو اس پولیس افسر کے حوالہ کردیا جائے گا جو ایسے وارنٹ‬
‫کی تعمیل کرا رہا ہو یا اس مجسٹریٹ کو بھیج دیا جائے گا جس نے ایسا وارنٹ جاری کیا ہو۔‬
‫اگر وہ جرم جس کا گرفتار شدہ شخص پر الزام ہو یا ارتکاب کرنے کا شک ہو ایسا‬ ‫(‪2‬‬
‫جرم ہو جس کی تحقیق یا تجویز اس مجسٹریٹ کی عدالت کے عالوہ جو دفعہ ‪ 186‬کے تحت‬
‫کارروائی کر رہا ہو‪ ،‬اس ضلع کی کوئی عدالت فوجداری کر سکتی ہو‪ ،‬تو ایسا مجسٹریٹ ایسے‬
‫شخص کو ویسی عدالت میں بھیجے گا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس پر تبصرہ‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :188‬پاکستان سے باہر سرزد کردہ جرائم کا مواخذہ‬

‫جب پاکستان کا کوئی شہری پاکستان کی حدود سے باہر کسی مقام پر کسی جرم کا ارتکاب کرے‪ ،‬یا‬
‫پاکستان سے باہر‪ :‬جب کوئی سرکاری مالزم‪ ،‬خواہ وہ پاکستان کا شہری ہو یا نہ ہو‬
‫قبائلی عالقہ میں جرم کا ارتکاب کرے یا جب کوئی شخص پاکستان میں رجسٹری شدہ کسی بحری‬
‫جہاز یا ہوائی جہاز پر جو کہیں بھی ہو‪ ،‬کسی جرم کا ارتکاب کرے۔‬
‫تو جائز ہوگا کہ ویسے جرم کی نسبت اس کے ساتھ ایسی کارروائی کی جائے گویا اس کا ارتکاب‬
‫اندرون پاکستان کسی جگہ ہوا ہو‪ ،‬جہاں پر وہ پایا گیا ہو۔‬
‫پولیٹیکل ایجنٹ الزام کی تحقیقات کی مناسبت کی تصدیق کرے گا‪ :‬مگر شرط یہ‬
‫ہے کہ باب ہذا کی گزشتہ کسی دفعات میں کسی امر کے باوجود کسی ایسے جرم کی نسبت کسی‬
‫الزام کی پاکستان میں تحقیقات نہ کی جائے گی‪ ،‬جب تک کہ اس عالقہ کا پولیٹیکل ایجنٹ‪ ،‬اگر کوئی‬
‫ہو جہاں پر جرم کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا ہو‪ ،‬اس الزام کی تصدیق نہ کرے کہ اس کی رائے‬
‫میں الزام کی پاکستان میں تحقیق ہونی چاہئے اور جہاں کوئی پولیٹیکل ایجنٹ نہ ہو تو وفاقی حکومت‬
‫کی منظوری الزمی طور پر لی جائے گی۔‬
‫یہ بھی شرط ہے کہ دفعہ ہذا کے تحت کوئی کارروائی جو ایسے شخص کے خالف اسی جرم میں‬
‫بعد میں کی جانے والی کارروائیوں میں مانع ہوں‪ ،‬اگر ایسے جرم کا ارتکاب پاکستان کے اندر کیا‬
‫جاتا‪ ،‬اس کے خالف اسی جرم کی بابت پاکستان کی حدود سے باہر کسی عالقہ میں زیر قانون‬
‫حوالگی ملزمان بابت ‪1972‬ء (‪ )XXVI of 1972‬مزید کارروائیوں میں مانع ہوں گی۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی پاکستانی شہری قبائلی عالقہ میں جرم‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کرے یا پھر بحری یا ہوائی جہاز پر جرم کرے تو اس قبائلی عالقہ کے پولیٹیکل ایجنٹ یا ایجنٹ نہ‬
‫ہو تو وفاقی حکومت سے اس شخص کیخالف کارروائی کرنے کی اجازت حاصل کی جائے گی‬
‫لیکن یہ اجازت شرعا ً محل نظر ہے کیونکہ جرم کا فوری انسداد کرنا اور مجرم پر قابو پانا عدل‬
‫وانصاف کے قیام کیلئے ناگزیر ہے اور شریعت نے قیام عدل کو فریضہ قرار دیا ہے اور مظلوم کو‬
‫ہر وقت ہر جگہ فریاد رسی کا حق ہے۔ حکومت سے ہر واقعہ اور ہر شخص کے بارے میں اجازت‬
‫لیتے لیتے وقت کا ضیاع اور عدل وانصاف کی فراہمی میں تعطل کا امکان ہے۔ لہٰ ذا یہ ضروری‬
‫نہیں ہونی چاہئے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس سلسلے میں نظریاتی کونسل کی تجویز درج ذیل ہے‪:‬‬
‫’’کونسل سمجھتی ہے کہ کسی شخص کے خالف دادرسی حاصل کرنا شرعا ً کسی اجازت‬
‫پر موقوف نہیں‪ ،‬لہٰ ذا کونسل سفارش کرتی ہے کہ ایسی صورت میں کسی پولیٹیکل ایجنٹ یا مرکزی‬
‫حکومت سے تصدیق اور اجازت کی کوئی ضرورت نہیں۔ البتہ عدالتی کارروائی سے پہلے حکومت‬
‫کو نوٹس دینا کافی ہونا چاہئے۔ اس دفعہ میں اس حد تک ترمیم ضروری ہے‘‘۔ (‪)132‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مندرجہ باال دفعہ میں نظریاتی کونسل کی تجویز کردہ ترمیم کی جانی چاہئے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :189‬بیانات اور دستاویزات مظہر شدہ کی نقول شہادت میں قبول کرنے کی ہدایت کرنے‬
‫کا اختیار‬
‫جب کسی ایسے جرم کی نسبت‪ ،‬جس کا حوالہ دفعہ ‪ 188‬میں دیا گیا ہو‪ ،‬تحقیق یا تجویز ہو رہی ہو‪،‬‬
‫تو صوبائی حکومت مجاز ہوگی کہ اگر مناسب سمجھے تو ہدایت کرے کہ گواہوں کے دیئے گئے‬
‫بیانات یا دستاویزات جو اس عالقہ کے پولیٹیکل ایجنٹ یا حاکم عدالت جہاں مبینہ طور پر جرم کا‬
‫ارتکاب ہوا ہو‪ ،‬تو اس عدالت میں ایسے کسی مقدمہ میں بطور شہادت قبول کیا جائے جس میں کہ‬
‫ویسی عدالت ایسے کسی معاملہ میں جس سے ویسے بیانات و دستاویزات متعلق ہوں‪ ،‬شہادت لینے‬
‫کیلئے کمیشن جاری کرسکے۔‬
‫تبصرہ‪ :‬اسالم میں عدلیہ خود مختار اور آزاد ہے‪ ،‬صوبائی یا وفاقی حکومت کو اختیار نہیں ہے کہ‬
‫وہ عدالتوں کو ان کے معامالت میں ہدایت دے۔ بلکہ یہ سربرا ِہ عدلیہ کا منصب ہے کہ وہ ماتحت‬
‫عدالتوں کو ہدایات ورہنمائی دے تاکہ عدلیہ انتظامی اثر ونفوذ سے دور رہ کر اپنا فریضہ بطریق‬
‫احسن سرانجام دے سکے۔‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں ’’صوبائی حکومت ‘‘ کی بجائے ’’سربراہ عدلیہ‘‘ درج کیا جانا‬
‫چاہئے تاکہ عدلیہ اور انتظامیہ کے دائرہ کار کا تعین واضح ہو اور عدلیہ خود مختار اور آزاد ہوکر‬
‫اپنا فرض ادا کرے۔‬

‫(ب) کارروائیاں شروع کرنے کیلئے ضروری شرائط‬

‫دفعہ نمبر ‪ :190‬جرائم میں مجسٹریٹوں کا اختیار سماعت‬

‫]‪48‬تمام مجسٹریٹ درجہ اول یا دیگر مجسٹریٹ جنہیں صوبائی حکومت نے ہائی‬ ‫(‪1‬‬
‫کورٹ کی سفارش پر خصوصی طور پر اختیار دیا ہو کسی جرم کی سماعت کر سکتے ہیں۔‬
‫ایسے واقعات کی نالش موصول ہونے پر‪ ،‬جن پر ایسا جرم مشتمل ہو۔‬ ‫(‪a‬‬
‫ایسے واقعات کی تحریری رپورٹ پر جو کسی پولیس افسر نے کی ہو۔‬ ‫(‪b‬‬
‫پولیس افسر کے عالوہ کسی شحص کی طرف سے ملنے والی اطالع پر‪ ،‬یا‬ ‫(‪c‬‬
‫اپنے علم پر یا شک پر کہ‬
‫ایسے جرم کا ارتکاب ہو چکا ہے جس کی سماعت وہ خود کر سکتا ہے یا برائے سماعت سیشن‬
‫عدالت کو بھیج سکتا ہے‪ ،‬اور[‬
‫[ ]‪ 49‬کوئی مجسٹریٹ جو ضمنی دفعہ ‪ 1‬کے تحت کسی ایسے جرم کی سماعت کر‬ ‫(‪2‬‬
‫رہا ہو جو صرف عدالت سیشن کے قابل تجویز ہو تو اس پر الزم ہوگا کہ وہ کوئی شہادت قلم بند‬
‫کئے بغیر تجویز کیلئے مقدمہ عدالت سیشن کو ارسال کردے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس پر تبصرہ‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :191‬ملزم کی درخواست پر مقدمہ کی منتقلی‬

‫جب کوئی مجسٹریٹ سابقہ دفعہ کی ضمنی دفعہ (‪ )1‬کی شق (‪ )c‬کے تحت کسی جرم کی سماعت‬
‫کرے تو اس پر الزم ہوگا کہ قبل اس کے کہ کوئی شہادت قلمبند کی جائے‪ ،‬ملزم کو مطلع کرے کہ‬
‫وہ مقدمہ کی سماعت کسی دوسری عدالت سے کروانے کا حقدار ہے اور اگر ملزم یا ملزمان میں‬
‫سے کوئی ایک اگر ایک سے زائد ہوں‪ ،‬ایسے مجسٹریٹ کی سماعت پر اعتراض کرے تو مقدمہ‬
‫الزمی طور پر ایسے مجسٹریٹ سے سماعت کئے جانے کی بجائے ]‪50‬٭٭٭[ سیشن عدالت کو‬
‫بھیجا جائے۔]‪50‬٭٭٭[‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ مجسٹریٹ مقدمہ کی سماعت شروع کرنے سے پہلے ملزم کو‬
‫مطلع کرے کہ وہ کسی دوسری عدالت سے مقدمہ سماعت کروانے کا حقدار ہے۔ یہاں گویا صرف‬
‫ملزم کو یہ حق حاصل ہے‪ ،‬مدعی کو یہ حق نہیں ہے۔‬
‫ماوردی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس سلسلے میں‬
‫اسالمی ٔ‬
‫’’مدعی اور مدعا علیہ کے اختالفات کی صورت میں مدعی کی رائے کا اعتبار ہوگا اور‬
‫اگر دونوں میں یہ اختالف نہ ہو تو جس قاضی کی عدالت قریب ہو اس میں مقدمہ لے جائیں اور اگر‬
‫کرام کی رائے یہ ہے کہ جب تک‬
‫ؒ‬ ‫فاصلہ برابر ہو تو قرعہ اندازی کرلی جائے اور بعض فقہاء‬
‫دونوں فریق متفق الرائے نہ ہوں کسی کے پاس مقدمات نہیں لے جاسکتے‘‘۔ (‪)133‬‬
‫مجاہد قاسمی لکھتے ہیں کہ مقدمہ کی سماعت کے بارے میں اگر فریقین میں اختالف ہو تو‬
‫مدعی کا اعتبار ہوگا۔ وہ جس عدالت میں استغاثہ کرے گا‪ ،‬وہیں مقدمہ کی سماعت ہوگی۔ (‪)134‬‬
‫فقہائے مالکیہ کہتے ہیں کہ اگر متعدد قضاۃ مقرر ہوں اور فریقین کے درمیان اختالف ہو تو مدعی‬
‫نے جس قاضی کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے‪ ،‬وہی مقدمہ کی سماعت اور فیصلہ کا مجاز ہوگا۔‬
‫(‪ )135‬فقہائے احناف کے نزدیک اگر ایک شہر کے متعدد قاضی ہوں اور ہر ایک کو پورے شہر پر‬
‫اختیار حاصل ہو تو باالتفاق مدعی نے جس قاضی کے یہاں درخواست دی ہو‪ ،‬وہی قاضی مقدمہ کی‬
‫ابویوسف کے نزدیک‬
‫ؒ‬ ‫سماعت اور فیصلہ کرے گا لیکن اگر ہر قاضی کا حلقہ اختیار الگ الگ ہو تو‬
‫حلقہ مدعی کا قاضی سماعت وفیصلہ کا مجاز ہوگا اور امام محمدؒ کی رائے میں مدعا علیہ کے حلقہ‬
‫کا قاضی سماعت وفیصلہ کا مجاز ہوگا۔ (‪)136‬‬
‫حصکفی لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫ؒ‬
‫ابویوسف کے قول پر اعتماد‬
‫ؒ‬ ‫مقدسی نے صاحب بحر کے قول پر اعتراض کیا کہ‬
‫ؒ‬ ‫’’عالمہ‬
‫کرنا مناسب ہے۔ یعنی سماعت کیلئے عدالت کے انتخاب کا اختیار مدعی کو ہے۔ اس لئے کہ‬
‫ابویوسف کا قول مدعی اور مدعا علیہ کی تعریف کے مطابق ہے‘‘۔ (‪)137‬‬
‫ؒ‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ عدالت سماعت کے انتخاب کا اختیار مدعی کو حاصل ہے‬
‫نہ کہ ملزم یا مدعا علیہ کو۔ اس لئے کہ مدعی اپنا حق طلب کرتا ہے اور مدعا علیہ ثبوت کے بعد‬
‫حق ادا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ عقالً بھی یہ عجیب لگتا ہے کہ مدعا علیہ حق دینے کیلئے مدعی کو‬
‫اپنی پسندیدہ عدالت میں آنے کی تکلیف دے۔ لہٰ ذا یہی مناسب ہے کہ یہ حق مدعی کو ہی ہونا چاہئے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں عدالت سماعت کے انتخاب کا اختیار ملزم کو دیا گیا ہے جو اسالمی‬
‫اصولوں کے برعکس ہے‪ ،‬اسالم نے یہ اختیار مدعا علیہ کے بجائے مدعی کو دیا ہے۔ لہٰ ذا اس دفعہ‬
‫میں اس کے مطابق ترمیم کی جانی چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :192‬مقدمات کو منتقل کرنا‬

‫]‪48‬سیشن جج کسی ایسے جوڈیشل مجسٹریٹ جس نے کسی مقدمہ کی سماعت کی ہو‪ ،‬کسی دوسرے‬
‫جوڈیشنل مجسٹریٹ کو منتقل اسی ضلع میں کر سکتا ہے اور وہ مجسٹریٹ جسے مقدمہ منتقل کیا گیا‬
‫ہو اس کا تصفیہ کر سکتا ہے۔[‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ سیشن جج کسی مقدمہ کو سماع کرنے والے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫جوڈیشل مجسٹریٹ سے کسی دوسرے جوڈیشل مجسٹریٹ کو منتقل کر سکتا ہے تاکہ وہ اس کا‬
‫نظام عدالت میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ خود حضور اکرم ﷺ نے تفویض‬
‫ِ‬ ‫فیصلہ کرے۔ اسالمی‬
‫مقدمات فرمائی ہے۔ مثالً دو شخص ایک مقدمہ لیکر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے‬
‫عاص سے فرمایا کہ ان کے درمیان فیصلہ کرو۔ انہوں نے عرض کی یا رسول‬ ‫ؓ‬ ‫حضرت عمرو بن‬
‫ہللا ﷺ آپ کی موجودگی میں؟ فرمایا ہاں۔ عرض کی کیسے؟ ارشاد فرمایا اگر تم اجتہادی صالحیت‬
‫سے کام لو اور صحیح فیصلہ کرو تو تمہیں دگنا اجر ملے گا اور خطا کرو تو ایک اجر ملے گا۔‬
‫(‪)138‬‬
‫عامر کو حکم ارشاد فرمایا کہ‬
‫ؓ‬ ‫اسی طرح ایک مقدمے کے فیصلے کیلئے حضرت عقبہ بن‬
‫راشدین کے دور میں بھی مقدمات اسی طرح منتقل کئے‬‫ؓ‬ ‫اس مقدمہ کا فیصلہ کرو۔ (‪ )139‬خلفائے‬
‫ابوبکر نے حضرت‬‫ؓ‬ ‫جاتے رہے‪ ،‬جن میں وہ مقدمہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جو خود حضرت‬
‫عمر نے مستغیث کے بیان‪،‬‬ ‫عمر کے سپرد کیا تھا‪ ،‬اس مقدمہ کا تعلق زنا سے تھا اور حضرت ؓ‬ ‫ؓ‬
‫گواہی‪ ،‬جرح اور دیگر تحقیقاتی معلومات کی بنیاد پر اس کا فیصلہ کیا۔ (‪)140‬‬
‫ابوبکر مقدمات کے فریقین کو ہدایت فرماتے جاتے تھے کہ وہ‬
‫ؓ‬ ‫نیز حج کے موقع پر حضرت‬
‫عمر کے پاس لیجائیں‪:‬‬
‫اپنا مقدمہ تصفیہ کیلئے حضرت ؓ‬
‫عمر فالینظر (‪)141‬‬
‫اذھبوا بھما الی ؓ‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ بڑی عدالت کا قاضی یا جج چھوٹی عدالت کے قاضی‬
‫یا جج کو انتقال مقدمہ کا حکم دے سکتا ہے اور ماتحت قاضی یا مجسٹریٹ اس کی تعمیل میں مقدمہ‬
‫کا تصفیہ کر سکتا ہے۔‬
‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس میں ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :193‬سیشن عدالتوں کا جرائم کی سماعت کرنے کا اختیار بروئے کار النا‬

‫سوائے اس کہ کہ مجموعہ ہذا سے یا کسی دیگر نافذ الوقت قانون سے کسی برعکس‬ ‫(‪1‬‬
‫حکم کی خاص طور پر تصریح کی گئی ہو‪ ،‬کوئی عدالت سیشن مجاز نہ ہوگی کہ وہ بنیادی اختیار‬
‫رکھنے والی عدالت کے طور پر کسی جرم کی سماعت کرے‪ ،‬بجز اس صورت کے ]‪51‬٭٭٭[ اس‬
‫کو مقدمہ زیردفعہ ‪ 190‬شق ٭[(‪ ])2‬ارسال کیا گیا ہو۔‬
‫ایڈیشنل سیشن جج اور اسسٹنٹ سیشن جج صرف ان مقدمات کی تجویز کریں گے‬ ‫(‪2‬‬
‫جن کی تجویز کیلئے صوبائی حکومت اپنے حکم عام یا خاص کے ذریعہ انہیں ہدایت کرے یا‬
‫ڈویژنل کا سیشن جج اپنے حکم عام یا خاص کے ذریعہ برائے تجویز ان کو سپرد کرے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ کے دوسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل سیشن جج یا اسسٹنٹ‬
‫اسالمی ٔ‬
‫سیشن جج ان مقدمات کی سماعت کریں گے جو انہیں صوبائی حکومت یا سیشن جج سپرد کرے۔‬
‫درج باال سطور میں مقدمات کی سماعت کے بارے میں ہدایات یا احکامات دینے کا اختیار‬
‫صوبائی حکومت کو دیا گیا ہے جبکہ عدلیہ کو احکامات صادر کرنے کا اختیار صوبائی حکومت کو‬
‫نہیں ہے بلکہ سربراہ عدلیہ (چیف جسٹس) کو ہے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس سلسلے میں نظریاتی کونسل نے درج ذیل تجویز دی ہے‪:‬‬
‫’’اپنے سابقہ متذکرہ اصول کے مطابق کونسل تجویز کرتی ہے کہ سیشن ججوں اور ایڈیشنل‬
‫سیشن ججوں کے اختیارات سماعت کا تعین بجائے صوبائی حکومت کے ہائی کورٹ کرے‘‘۔‬
‫مذکورہ فیصلے کے تابع تجویز میں کہا گیا ہے کہ اس دفعہ کی شق (‪ )2‬میں موجود الفاظ‬
‫’’صوبائی حکومت‘‘ کو ’’عدالت عالیہ‘‘ کے الفاظ سے تبدیل کیا جائے۔ مزید یہ کہ اس شق میں‬
‫سے "‪ "Assistant Sessions Judges‬کو دفعہ نمبر ‪ 9‬اور ‪ 31‬کے ضمن میں کونسل کے فیصلہ‬
‫کے تابع حذف کیا جائے۔ (‪)142‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں نظریاتی کونسل کی تجویز کے مطابق ترمیم کی جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :194‬عدالت عالیہ میں جرائم کی سماعت کا اختیار بروئے کار النا‬

‫عدالت عالیہ ایسے طریقہ سے جو بعد ازیں محکوم کیا گیا ہے‪ ،‬کسی جرم کی‬ ‫(‪1‬‬
‫سماعت کرنے کی مجاز ہے۔‬
‫اس دفعہ میں درج کوئی امر کسی لیٹر پیٹنٹ کے احکام یا ایسا حکم جس سے کسی عدالت عالیہ کی‬
‫تشکیل کی گئی ہو یا جاری ہو یا مجموعہ ہذا کے کسی دیگر حکم پر اثرانداز تصور نہ ہوگا۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )2‬منسوخ ہوئی۔‬ ‫(‪2‬‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :195‬کوئی عدالت سماعت نہ کرے گی‬

‫سرکاری مالزمین کے اختیار قانونی کی توہین کیلئے استغاثہ‪ :‬ایسے جرم‬ ‫(‪a‬‬ ‫(‪1‬‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪ 172‬تا ‪ 180‬کی رو سے قابل سزا ہو سوائے متعلقہ‬
‫کی جو مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫سرکاری مالزم کی تحریری نالش کے یا کسی دیگر سرکاری مالزم کی طرف سے جس کا وہ‬
‫ماتحت ہو۔‬
‫عدل عامہ کے خالف بعض جرائم کی نسبت استغاثہ‪ :‬ایسے جرائم‬ ‫(‪b‬‬
‫کی جو مجموعہ مذکور کی کسی دفعہ کے بموجب یعنی دفعات ‪،199 ،196 ،195 ،194 ،193‬‬
‫‪ 211 ،210 ،209 ،208 ،207 ،206 ،205 ،200‬اور ‪ 228‬کی رو سے قابل سزا ہو‪ ،‬جبکہ ویسا‬
‫جرم کسی عدالت کی کسی کارروائی کے دوران یا اس سے متعلق سرزد ہونا بیان کیا جائے سوائے‬
‫اس عدالت کی تحریری نالش کے یا کسی دیگر عدالت کی (نالش پر) جس کے وہ ماتحت ہو‪ ،‬یا‬
‫شہادت میں پیش کردہ دستاویزات سے متعلق بعض جرائم پر‬ ‫(‪c‬‬
‫استغاثہ‪ :‬کسی ایسے جرم کی جو دفعہ ‪ 463‬میں مذکور ہے یا جو اسی مجموعہ کی دفعہ ‪ ،471‬دفعہ‬
‫‪ 475‬یا دفعہ ‪ 476‬کے تحت قابل سزا ہے‪ ،‬جب کہ ویسا جرم عدالت میں کسی کارروائی کے فریق‬
‫سے کسی ایسی دستاویز کی نسبت سرزد کیا گیا ہو‪ ،‬جو ایسی کارروائی میں بطور شہادت دی گئی‬
‫ہو‪ ،‬سوائے اس عدالت کی یا کسی دیگر عدالت کی جس کی ویسی عدالت ماتحت ہو تحریری نالش‬
‫کے۔‬
‫ضمی دفعہ (‪ )1‬کی شق ()‪ )(b ،a‬اور (‪ )c‬میں لفظ ’’عدالت‘‘ میں عدالت دیوانی‪،‬‬ ‫(‪2‬‬
‫مال یا فوجداری شامل ہیں‪ ،‬مگر قانون رجسٹری ‪1908‬ء کے تحت سب رجسٹرار یا رجسٹرار شامل‬
‫نہ ہیں۔‬
‫دفعہ ہذا کی اغراض کیلئے کوئی عدالت اس عدالت کے ماتحت سمجھی جائے گی‬ ‫(‪3‬‬
‫جس میں اول الذکر عدالت کی قابل اپیل ڈگریوں اور سزائوں کی بالعموم اپیل ہو سکی ہو یا عدالت‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫دیوانی کی صورت میں جس کی ڈگریوں کے خالف بالعموم کوئی اپیل نہ ہو سکتی ہو تو اس‬
‫عدالت کی (ماتحت ہوگی) جس کے معمولی بنیادی اختیار سماعت دیوانی کی مقامی حدود کے اندر‬
‫ایسی عدالت دیوانی واقع ہو‪ :‬بشرطیکہ‬
‫ادنی اختیار‬
‫جب اپیلیں ایک سے زائد عدالت میں کی جا سکیں‪ ،‬تو ٰ‬ ‫(‪a‬‬
‫سماعت رکھنے والی عدالت اپیل وہ عدالت ہوگی جس کی ویسی عدالت ماتحت سمجھی جائے گی‪،‬‬
‫اور‬
‫جب اپیلیں کسی دیوانی اور کسی عدالت مال کو بھی رجوع کی جا‬ ‫(‪b‬‬
‫سکیں تو کارروائی یا نوعیت مقدمہ کے مطابق جو مبینہ ارتکاب جرم سے متعلق ہوں‪ ،‬ویسی عدالت‬
‫کو دیوانی یا عدالت مال کے ماتحت سمجھا جائے گا۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے احکام بحوالہ جرائم جو اس میں درج ہیں‪ ،‬کا اطالق ایسی‬ ‫(‪4‬‬
‫مجرمانہ سازشوں پر بھی ہوتا ہے جو ویسے جرائم کے ارتکاب یا ویسے جرائم کی اعانت یا ان کے‬
‫ارتکاب کے اقدام کیلئے کی جائیں۔‬
‫جب کوئی نالش ضمنی دفعہ (‪ )1‬کی شق (‪ )a‬کے تحت کسی سرکاری مالزم کی‬ ‫(‪5‬‬
‫طرف سے کی گئی ہو تو کوئی حاکم مجاز‪ ،‬جس کا ویسا سرکاری مالزم ماتحت ہو‪ ،‬نالش واپس لینے‬
‫کا حکم دے سکتا ہے اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس پر الزم ہے کہ ویسے حکم کی ایک نقل اس‬
‫عدالت کو روانہ کرے اور عدالت میں اس کی وصولیابی کے بعد نالش کی بابت کوئی مزید‬
‫کارروائی نہیں کی جائے گی۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعات ‪ 172‬تا ‪180‬‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫کی رو سے سرزد ہونے والے جرم کی نالش اگر سرکاری مالزم عدالت میں کرے تو ایسا افسر جس‬
‫کا وہ مالزم ماتحت ہو‪ ،‬نالش واپس لینے کا حکم دے سکتا ہے اور پھر نالش پر کوئی کارروائی نہیں‬
‫کی جائیگی۔ اس دفعہ میں جرم یا زیادتی سے متاثر ہونے والے شخص کے حق فریاد رسی کو‬
‫مشروط کرکے گویا محدود کردیا گیا ہے جو کہ اسالمی تعلیمات کی رو سے ناروا ہے‪ ،‬اسالم‬
‫تعالی ارشاد فرماتا ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫حصول انصاف کو ہر فرد کا بنیادی حق قرار دیتا ہے۔ ہللا‬
‫اس أَن تَحْ ُک ُمواْ ِب ْال َع ْد ِل (‪)143‬‬
‫َو ِإذَا َحک َْمتُم بَیْنَ النَّ ِ‬
‫’’اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو‘‘۔‬
‫َوإِذَا قُ ْلت ُ ْم فَا ْع ِدلُواْ َولَ ْو کَانَ ذَا قُ ْربَی (‪)144‬‬
‫’’اور جب تم بات کرو تو عدل کرو اگرچہ وہ (تمہارا) قرابت دار ہی کیوں نہ ہو‘‘۔‬
‫قُ ْل أَ َم َر َر ِبِّی ِب ْال ِقس ِ‬
‫ْط (‪)145‬‬
‫’’فرما دیجئے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے‘‘۔‬
‫ان (‪)146‬‬
‫س ِ‬ ‫ّللاَ یَا ْٔ ُم ُر ِب ْال َع ْد ِل َو ِ‬
‫اإلحْ َ‬ ‫ِإ َّن ِّ‬
‫تعالی عدل واحسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔‬
‫ٰ‬ ‫’’بے شک ہللا‬
‫ت مبارکہ میں ہر ایک کے ساتھ ہر معاملہ میں عدل وانصاف کا حکم دیا گیا‬ ‫مندرجہ باال آیا ِ‬
‫ق مدینہ میں تحریر فرمایا‪:‬‬
‫ہے تاکہ مظلوم کی داد رسی کی جا سکے۔ حضور اکرم ﷺ نے میثا ِ‬
‫ص َر ِل ْل َم ْ‬
‫ظلُ ْو ِم (‪)147‬‬ ‫ا َِّن النَّ ْ‬
‫’’مظلوم کی دادرسی الزمی کی جائیگی‘‘۔‬
‫درج باال آیات اور حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ عدل وانصاف کا حصول ہر فرد کا‬
‫بنیادی حق ہے اور کسی کو اس سے محروم نہیں کیا جا سکتا‪ ،‬خواہ وہ شخص حاکم ہو یا محکوم۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس بارے میں نظریاتی کونسل نے درجِ ذیل تجویز دی ہے‪:‬‬
‫’’ذیلی دفعہ (‪ )2‬کے ضمن (ب) میں فقرہ ’’سوائے اس عدالت کی تحریری نالش کے‘‘ میں‬
‫موجود لفظ ’’سوائے‘‘ کو حذف کیا جائے اور اس کی جگہ یہ الفاظ تحریر کردیئے جائیں‪،‬یا مظلوم‬
‫کی طرف سے دی گئی درخواست پر‘‘۔‬
‫یہی ترمیم ضمنی سی (‪ )c‬میں بھی تجویز کی جاتی ہے‪ ،‬اس لئے کہ شخص متضرر کو داد‬
‫رسی کا حق حاصل ہے اور اس کے حق کو محدود و مشروط کرنا شریعت کے خالف ہے۔ (‪)148‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں نظریاتی کونسل کی تجویز کے مطابق ترمیم کردی جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :196‬جرائم خالف مملکت کی بابت استغاثہ‬

‫ت پاکستان کے باب‬ ‫کوئی عدالت کسی ایسے جرم کی سماعت نہ کرے گی جو مجموعہ قوانین تعزیرا ِ‬
‫‪ 6‬یا ‪( A-9‬سوائے دفعہ ‪ )127‬کے قابل سزا ہو یا جو اسی مجموعہ قوانین کی دفعہ ‪ A-108‬یا دفعہ‬
‫‪ A-153‬یا دفعہ ‪ A-294‬یا دفعہ ‪ A-295‬یا دفعہ ‪ 505‬کے تحت قابل سزا ہو‪ ،‬سوائے ایسی نالش کے‬
‫جو وفاقی حکومت یا متعلقہ صوبائی حکومت یا کسی ایسے افسر کے حکم سے یا اختیار کے تحت‬
‫دائر کی گئی ہو جس کو اس بارے میں دونوں میں سے کسی حکومت نے اختیار دیا ہو۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-196‬سازش مجرمانہ کی بعض اقسام کی بابت استغاثہ‬

‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ B-120‬کے تحت قابل سزا سازش مجرمانہ‬


‫کوئی عدالت مجموعہ قوانین تعزیرا ِ‬
‫کے جرم کی سماعت نہ کرے گی‪:‬‬
‫اس صورت میں جب کہ سازش کا مقصد کسی جرم کے عالوہ کسی غیر قانونی فعل‬ ‫(‪1‬‬
‫کا یا کسی قانونی فعل کا غیر قانونی ذرائع سے ارتکاب ہو یا ایسا جرم جس پر دفعہ ‪ 196‬کے احکام‬
‫کا اطالق ہوتا ہو‪ ،‬تو جب تک کہ مرکزی حکومت یا متعلقہ صوبائی حکومت کے حکم یا اختیار کے‬
‫تحت یا دونوں میں سے کسی حکومت کی طرف سے اس بارے میں مجاز کردہ افسر کی طرف سے‬
‫نالش دائر نہ کی جائے‪ ،‬یا‬
‫اس صورت میں جب سازش کا مقصد جرم ناقابل دست اندازی یا کسی ایسے جرم‬ ‫(‪2‬‬
‫قابل دست اندازی کا ارتکاب ہو جس کی سزا موت‪ ،‬عمر قید یا دو سال یا زیادہ کی قید سخت نہ ہو‪،‬‬
‫جب تک کہ صوبائی حکومت ]‪ 52‬ضلع کا انچارج استغاثہ[ جو صوبائی حکومت کی طرف سے اس‬
‫بارے میں اختیار یافتہ ہو‪ ،‬حکم تحریری کے ذریعہ کارروائیاں شروع کرنے کی رضامندی نہ دے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ اگر مجرمانہ سازش ایسی ہو جس پر دفعہ ‪ 195‬کی ضمنی دفعہ (‪ )4‬کا اطالق‬
‫ہوتا ہے تو ایسی کسی رضامندی کی ضرورت نہ ہوگی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :B-196‬بعض صورتوں میں ابتدائی تحقیقات‬

‫ایسے کسی جرم کی صورت میں جس پر دفعہ ‪ 196‬یا دفعہ ‪ A-196‬کے احکام کا اطالق ہوتا ہو‪،‬‬
‫]‪52‬ضلع کا افسر انچارج تفتیش[ مجاز ہوگا کہ ان دفعات اور مجموعہ قوانین ہذا کے کسی دیگر‬
‫حصہ میں درج کسی امر کے باوجود کسی پولیس افسر کے ذریعہ جو انسپکٹر کے عہدہ سے کم نہ‬
‫ہو‪ ،‬ابتدائی تحقیقات کا حکم دے۔ ایسی صورت میں ویسے پولیس افسر کو دفعہ ‪ 155‬کی ضمنی دفعہ‬
‫(‪ )3‬میں درج اختیارات حاصل ہوں گے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ان دفعات ‪ A-196 ،196‬اور ‪ B-196‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کیخالف معلوم نہیں‬
‫ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ان پر تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :197‬ججوں اور سرکاری مالزمین کی نسبت استغاثہ‬

‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 19‬کے معنوں میں ایک‬ ‫جب کوئی شخص جو مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪1‬‬
‫جج ہو یا جب کوئی مجسٹریٹ یا کوئی سرکاری مالزم‪ ،‬جسے وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت یا‬
‫اس کی منظوری کے بغیر الگ نہ کیا جا سکتا ہو‪ ،‬پر کسی ایسے جرم کا الزام ہو جس کا ارتکاب‬
‫اس نے مبینہ طور پر اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں یا اس کے قصد میں کیا ہو‪ ،‬تو کوئی‬
‫عدالت ایسے جرم کی سماعت نہ کرے گی سوائے پیشگی منظوری کے‪:‬‬
‫ایسے شخص کی صورت میں جو مرکزی امور کے سلسلہ میں مالزم ہو‪،‬‬ ‫(‪a‬‬
‫صدر کی۔‬
‫ایسے شخص کی صورت میں جو صوبائی امور کے سلسلہ میں مالزم ہو‪،‬‬ ‫(‪b‬‬
‫صوبہ کے گورنر کی‬
‫استغاثہ کی بابت یا گورنر کے اختیارات‪ :‬صدر یا گورنر اس امر کا تعین کرنے کا‬ ‫(‪2‬‬
‫مجاز ہوگا کہ ویسے جج‪ ،‬مجسٹریٹ یا سرکاری مالزم کی نسبت استغاثہ کی کارروائی کون شخص‬
‫کرے گا‪ ،‬کس طریقہ پر ہوگی‪ ،‬جرم یا جرائم جن کیلئے ہوگی اور اس عدالت کا تعین بھی کر سکے‬
‫گا جس کے روبرو سماعت کی جائے گی۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ کسی سرکاری مالزم یا حج سے اپنے فرائض‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫منصبی ادا کرتے ہوئے‪ ،‬اختیارات سے تجاوز کی بنیاد پر اگر کسی جرم کا ارتکاب ہو جائے تو‬
‫کوئی عدالت صدر مملکت یا گورنر کی اجازت کے بغیر مذکورہ الزام کی سماعت نہ کرے گی۔ یہ‬
‫بات اسالمی تعلیمات کے برعکس ہے کیونکہ اس سے سرکاری مالزمین کو بے جا تحفظ ملتا ہے‬
‫اور ان کے زیادہ غیرمحتاط ہو جانے کا خدشہ ہے‪ ،‬لہٰ ذا اسالم اس بات کی حوصلہ شکنی کرتا ہے‬
‫اور سرکاری مالزم سے واقع ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کا بھی حکم دیتا ہے۔ مثالً ایک دفعہ‬
‫عمر کو پتہ چال کہ ایک عورت کا خاوند گھر سے باہر گیا ہوا ہے اور چند آدمی آکر اس‬
‫حضرت ؓ‬
‫عمر کی ہیبت‬
‫آپ نے اسے بال بھیجا لیکن راستے میں حضرت ؓ‬ ‫سے بات چیت کرتے رہتے ہیں‪ؓ ،‬‬
‫آپ نے مشورہ کیا‪ ،‬ایک رائے یہ دی گئی کہ‬ ‫آپ کو پتہ چال تو ؓ‬
‫سے اس عورت کا حمل ساقط ہو گیا۔ ؓ‬
‫آپ حاکم بھی ہیں اور ادب سکھانے والے بھی‪ ،‬لہٰ ذا کوئی چیز آپ پر‬
‫آپ کا بالوا حق پر مبنی تھا‪ؓ ،‬‬
‫ؓ‬
‫آپ اپنی قوم کے‬
‫آپ پر تاوان آئے گا‪ؓ ،‬‬‫علی نے فرمایا کہ میری رائے میں ؓ‬
‫الزم نہیں لیکن حضرت ؓ‬
‫پاس تشریف لے جائیں‪ ،‬یہ قتل خطاء ہے جس کی دیت عاقلہ (قاتل کی برادری) کے ذمہ ہوتی ہے‬
‫عمر کی عاقلہ خاندان قریش تھا۔ (‪)149‬‬
‫اور حضرت ؓ‬
‫عمر سے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے‬ ‫مندرجہ باال واقعہ سے ثابت ہوا کہ حضرت ؓ‬
‫عورت کا اسقاط حمل ہوا اور اس کا تاوان ادا کیا گیا‪ ،‬لہٰ ذا آج بھی کوئی سرکاری اہلکار دوران ڈیوٹی‬
‫جرم کرے تو نقصان کی تالفی بہرحال ضروری ہوگی۔ بشرطیکہ ایسا فعل نادانستہ ہو گیا ہو‪ ،‬اگر‬
‫دانستہ زیادتی کی گئی ہے تو اس کی قانون کے مطابق سزا ہوگی۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس دفعہ پر کونسل کی سابقہ رائے حسب ذیل ہے‪:‬‬
‫’’یہ دفعہ ججوں اور دیگر سرکاری مالزموں کو یہ تحفظ فراہم کرتی ہے کہ اگر ان پر‬
‫فرائض منصبی کی ادائیگی میں اس منصب کے اختیارات سے تجاوز کی بنیاد پر کسی جرم کا الزام‬
‫عائد کیا جائے تو کوئی عدالت حکومت کی اجازت کے بغیر مذکور کے خالف سماعت نہیں کریگی‬
‫لیکن شرعا ً اسالمی حکومت میں اس امر کی اجازت ہونی چاہئے کہ ملک کے کسی بھی سرکاری‬
‫ت حکومت دائر اور سماعت کیا جا سکے‘‘۔ (‪)150‬‬ ‫افسر یا مالزم کے خالف مقدمہ بغیر اجاز ِ‬
‫اس سلسلے میں نظریاتی کونسل نے ایک رہنما اصول دیا ہے کہ ’’بعض قوانین کے ذریعے‬
‫سرکاری عہدیداروں کے ایسے افعال کو تحفظ دیا گیا ہے جو انہوں نے اپنے فرائض منصبی کی‬
‫بجاآوری کے دوران نیک نیتی سے کئے ہوں‪ ،‬خواہ ان افعال کے نتیجہ میں کسی شخص کی جان‪،‬‬
‫مال اور عزت وآبرو کو نقصان پہنچ جائے‪ ،‬اسالم بھی نیک نیتی سے کئے گئے افعال پر مواخذہ‬
‫نہیں کرتا‪ ،‬تاہم نیک نیتی سے کئے گئے افعال سے جو نقصان ہوگا اس کی تالفی کرنی ہوگی۔ خواہ‬
‫ایسا فعل کسی سرکاری عہدیدار سے سرزد ہوا ہو کیونکہ شریعت کا ایک معروف کلیہ ہے‪:‬‬
‫خطاء القاضی فی بیت المال‬
‫’’یعنی اگر قاضی خطا کردے تو اس کا ہرجانہ بیت المال (سرکاری خزانہ) سے دیا‬
‫جائیگا‘‘۔‬
‫کونسل نے مزید تجویز دی کہ مختلف قوانین میں شامل ایسی تمام دفعات شریعت کے منافی‬
‫ہیں اور ان میں ضروری ترامیم کرنے کی ضرورت ہے۔ (‪)151‬‬
‫لیکن شریعت میں سرکاری عہدیداروں کی بدنیتی کے ساتھ انجام دہی کی معافی نہیں ہے‬
‫کیونکہ سرکاری عمال لوگوں کی جان ومال اور آبرو کے محافظ ہیں‪ ،‬لہٰ ذا نیک نیتی سے کئے گئے‬
‫مستثنی قرار دینے کے باوجود‪ ،‬بدنیتی سے کئے گئے بعض‬‫ٰ‬ ‫بعض افعال کو قانونی کارروائی سے‬
‫افعال کی بابت کو تحفظ نہیں دیا گیا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫فان دماء کم واموالکم واعراضکم بینکم حرام‪ ،‬کحرمۃ یومکم ھذا فی شھر کم ھذا فی بلدکم ھذا‬
‫(‪)152‬‬
‫’’پس بے شک تمہارے خون‪ ،‬مال اور آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جیسے اس‬
‫دن‪ ،‬اس مہینہ اور اس شہر کی حرمت ہے‘‘۔‬
‫کل المسلم علی المسلم حرام دمہ ومالہ و عرضہ (‪)153‬‬
‫’’ہر مسلمان کا خون‪ ،‬مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے‘‘۔‬
‫نظریاتی کونسل اس سلسلے میں مزید تجویز کرتی ہے کہ فرائض منصبی کی ادائیگی کے‬
‫دوران مرتکب جرم سرکاری مالزم کے حالف مقدمہ دائر کرنے کیلئے صوبائی یا مرکزی حکومت‬
‫سے اجازت کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے بلکہ متضرر شخص متعلقہ حکومت کو دو ماہ کا نوٹس‬
‫دے اور اس عرصہ میں اگر حکومت مالزم کے خالف کسی کارروائی کا صحیح آغاز نہ کرے تو‬
‫متضرر شخص عدالت میں اس سرکاری مالزم کے خالف خود مقدمہ دائر کردے اور عدالت سماعت‬
‫کی مجاز ہوگی‪ ،‬اس سفارش کی روشنی میں اس دفعہ کی ذیلی (‪ )2‬غیر ضروری ہو جاتی ہے‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫یہ قابل حذف ہے‘‘۔ (‪)154‬‬
‫اس سلسلے میں نظریاتی کونسل کے دوسرے اجالس میں بھی یہ سفارش کی گئی ہے کہ اس‬
‫میں جج ‪ /‬مجسٹریٹ صاحبان کو مواخذے سے تحفظ دیا گیا ہے اور یہ دفعہ امتیازی ہونے کے ساتھ‬
‫ساتھ حصول انصاف میں رکاوٹ کا سبب بھی ہے۔(‪ )155‬اس دفعہ کو فیڈرل شریعت کورٹ اور‬
‫خالف اسالم قرار دے چکی ہے اور سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اگر اس دفعہ‬
‫ِ‬ ‫سپریم کورٹ‬
‫موثر ہو جائے گی‘‘۔‬
‫میں حکومت کی طرف سے ترمیم نہ کی گئی تو یہ ‪ 30‬جون ‪1992‬ء سے غیر ٔ‬
‫(‪)A-155‬‬
‫تجویز‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر ‪ 2‬اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم ہوتی ہے‪ ،‬لہٰ ذا اسے حذف کیا‬
‫جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :198‬خالف ورزی معاہدہ‪ ،‬ازالہ حیثیت عرفی اور جرائم متعلق ازدواج کی نسبت استغاثہ‬

‫ت پاکستان کے باب‬‫کوئی عدالت کسی ایسے جرم کی سماعت نہ کرے گی جو مجموعہ قوانین تعزیرا ِ‬
‫‪ 19‬یا باب ‪ 21‬یا اسی مجموعہ قوانین کی دفعات ‪ 493‬تا ‪( 496‬بشمول ہر دو) کے زمرہ میں آتا ہو‪،‬‬
‫سوائے ایسے جرم سے رنجیدہ شخص کی طرف سے کی گئی نالش کے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ جب اس طور پر رنجیدہ شخص ایک عورت ہو جس کو ملک کے رسم ورواج‬
‫کے مطابق عوام کے سامنے آنے پر مجبور نہ کرنا چاہئے یا جب کسی شخص کی عمر اٹھارہ سال‬
‫سے کم ہو یا فاتر العقل ہو یا پاگل ہو یا بوجہ بیماری یا ناتوانی اس قابل نہ ہو کہ خود نالش کر سکے‬
‫تو عدالت کی اجازت سے کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے نالش کر سکتا ہے‪:‬‬
‫مزید شرط یہ ہے کہ جب مذکورہ مجموعہ قوانین کی دفعہ ‪ 494‬کے تحت رنجیدہ شوہر پاکستان کی‬
‫کسی مسلح افواج میں ایسی صورت احوال میں‪ ،‬جس کی تصدیق کمانڈنگ افسر نے کی ہو کہ اس کو‬
‫ذاتی طو رپر نالش دائر کرنے کے لئے رخصت نہیں مل سکتی تو کوئی دیگر شخص جس کو دفعہ‬
‫‪ B-199‬کی ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے احکام کے مطابق شوہر نے اختیار دیا ہو‪ ،‬عدالت کی اجازت سے‪،‬‬
‫اس کی طرف سے نالش دائر کر سکتا ہے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ پردہ نشین عورت‪ ،‬پاگل یا بیمار شخص اگر خود‬
‫اسالمی ٔ‬
‫عدالت سے نالش نہیں کر سکتا تو اسے وکیل کے ذریعے نالش کی اجازت ہے۔ قرآن مجید کی متعدد‬
‫آیات مبارکہ سے وکالت کا تصور واضح ہوتا ہے۔‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ارشاد باری‬
‫َو ِإ ْن ِخ ْفت ُ ْم ِشقَاقَ بَ ْینِ ِھ َما فَا ْبعَثُواْ َح َک ًما ِ ِّم ْن أَ ْھ ِل ِہ َو َح َک ًما ِ ِّم ْن أَ ْھ ِل َھا (‪)156‬‬ ‫٭‬
‫’’اگر تمہیں میاں بیوی میں مخالفت کا خوف ہو تو مرد وعورت کے خاندانوں سے ایک ایک‬
‫حکم مقرر کرلو‘‘۔‬
‫جصاص نے یہاں‬
‫ؒ‬ ‫بیضاوی نے حکم سے مراد صلح کرانے واال لیا ہے (‪ )157‬جبکہ ابوبکر‬
‫حکم سے مراد وکیل لیا ہے(‪ )158‬اور قرطبی نے ترجمہ ’’دو وکیل‘‘ کیا ہے۔ (‪)159‬‬
‫دوسری آیت مقدسہ ہے‪:‬‬
‫ض ………… اْلیہ (‪)160‬‬ ‫قَا َل اجْ َع ْلنِی َ‬
‫علَی خَزَ آئِ ِن اال َْٔر ِ‬ ‫٭‬
‫’’(حضرت یوسف علیہ السالم نے) کہا مجھے ملکی خزانوں پر مامور کردو‘‘۔‬
‫ؒ‬
‫سابق (‪ )162‬نے اس آیت سے وکالت کا جواز ثابت کیا ہے۔‬ ‫شوکانی (‪ )161‬اور سید‬
‫ؒ‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫فرمان باری‬
‫اِ ْذ َھبُواْ بِقَ ِم ِ‬
‫یصی َھذَا ……… اْلیہ (‪)163‬‬ ‫٭‬
‫’’(حضرت یوسف علیہ السالم) نے فرمایا میری یہ قمیض لے جائو‘‘۔‬
‫ابن عربی (‪ )164‬اور ڈاکٹر وھبہ زحیلی (‪ )165‬نے اس آیت سے وکالت کا جواز ثابت کیا‬
‫ہے۔‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ارشاد باری‬
‫فَا ْب َعثُوا أَ َحدَ ُکم بِ َو ِر ِق ُک ْم َھ ِذ ِہ ِإلَی ْال َمدِینَ ِۃ ……… اْلیہ (‪)166‬‬ ‫٭‬
‫ب کہف نے کہا) بس کسی ایک کو یہ روپیہ دے کر شہر بھیجو‘‘۔‬
‫’’(اصحا ِ‬
‫عربی کہتے ہیں کہ یہاں صاحب عذر کی طرف سے جواز وکالت ثابت ہوتا ہے۔ (‪)167‬‬‫ؒ‬ ‫ابن‬
‫جصاص اور وھبہ زحیلی نے بھی اس آیت سے وکالت کا جواز مراد لیا ہے۔ (‪)168‬‬
‫ؒ‬
‫حضور اکرم ﷺ کے عمل سے بھی وکالت کا جائز ہونا ثابت ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے‬
‫جابر کو خیبر بھیجتے وقت فرمایا‪:‬‬
‫حضرت ؓ‬
‫اذا تیت وکیلی فخذ منہ خمسۃ عشرو سقا (‪)169‬‬ ‫٭‬
‫’’جب تم میرے وکیل کے پاس پہنچو تو اس سے پندرہ وسق کھجوریں لے لینا‘‘۔‬
‫اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے حضرت میمونہ رضی ہللا عنھا سے نکاح کے سلسلے میں‬ ‫٭‬
‫خولی کو اپنا وکیل مقرر فرمایا۔ (‪)170‬‬
‫ؓ‬ ‫رافع اور اوس بن‬
‫حضرت ابو ؓ‬
‫علی مقدمات میں‬
‫جعفر روایت کرتے ہیں کہ حضرت ؓ‬
‫ؓ‬ ‫علی کے بارے میں عبدہللا بن‬
‫حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫بذات خود حاضر نہ ہوتے اور فرماتے کہ ہر مقدمہ ایک مصیبت ہے جو شیطان پیش کرتا ہے‪ ،‬پس‬
‫طالب کو وکیل مقدمہ بناتے‪ ،‬پھر جب بڑھاپے کی وجہ سے کافی کمزور ہو‬
‫ؓ‬ ‫آپ حضرت عقیل بن ابی‬
‫ؓ‬
‫گئے تو مجھے مقدمات میں وکیل مقرر کرتے اور فرماتے‪:‬‬
‫قضی علی وکیلی فعلی (‪)171‬‬
‫ٰ‬ ‫ماقضی لوکیلی فلی وما‬
‫ٰ‬
‫’’یعنی جو فیصلہ میرے وکیل کے حق میں ہوگا وہ میرے لئے ہوگا اور جو اسکے خالف‬
‫ہوگا وہ بھی میرے لئے ہوگا‘‘۔‬
‫ؒ‬
‫فاروق کے پاس‬ ‫صدیق و حضرت عمر‬ ‫ؓ‬ ‫ؓ‬
‫عقیل کو حضرت ابوبکر‬ ‫علی نے حضرت‬
‫حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫غنی کے پاس اپنا وکیل بنا کر بھیجا۔ (‪)172‬‬
‫جعفر کو حضرت عثمان ؓ‬
‫ؓ‬ ‫اور حضرت عبدہللا بن‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ اگر آدمی کسی وجہ سے اپنے کام خود سرانجام نہ دے‬
‫غازی نے البتہ ایک استثنائی صورت بھی بیان کی ہے‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫سکے تو وکیل مقرر کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر‬
‫وہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’حقوق کی ادائیگی اور وصولیابی کیلئے بھی وکیل مقرر کیا جا سکتا ہے‪ ،‬صرف حدود اور‬
‫قصاص کے معامالت میں مستثنیات ہیں‪ ،‬اس لئے کہ اگر موکل عدالت میں موجود نہ ہو تو صرف‬
‫وکیل کافی نہیں‪ ،‬وجہ یہ ہے کہ حدود شبہ سے ساقط ہو جاتی ہیں‪ ،‬لہٰ ذا موکل کی غیر موجودگی میں‬
‫یہ شبہ بہرحال موجود رہے گا کہ اس نے معاف کردیا ہو بلکہ شریعت میں معافی کی ترغیب کے‬
‫پیش نظر یہی قرین قیاس ہے کہ معاف کر دیا ہو‘‘۔ (‪)173‬‬
‫لہٰ ذا یہ بات واضح ہے کہ تصور وکالت بہرحال اسالمی تعلیمات میں موجود ہے تاکہ حصول‬
‫انصاف و حق رسی میں کوئی خلل اندازی نہ ہو۔ اسی لئے عدالت میں حاضری سے معذوری کی‬
‫صورت میں وکیل کے ذریعے یہ کام سرانجام دیا جا سکتا ہے۔‬
‫تجویز‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے برعکس دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫طرزعمل کی‬
‫دفعہ نمبر ‪ :A-198‬سرکاری فرائض کی بجا آوری کی نسبت سرکاری مالزمین کے ِ‬
‫بابت استغاثہ‬

‫مجموعہ ہذا میں درج کسی امر کے باوصف جب کسی ایسے جرم کے ارتکاب کا‬ ‫(‪1‬‬
‫الزام جو باب ‪ 21‬مجموعہ تعزیرات پاکستان (قانون ‪ XLV‬بابت ‪1860‬ء) کے تحت آتا ہو‪ ،‬صدر‪،‬‬
‫وزیراعلی‪ ،‬صوبائی وزیر یا کسی سرکاری مالزم جو‬
‫ٰ‬ ‫وزیراعظم‪ ،‬مرکزی وزیر ریاست‪ ،‬گورنر‪،‬‬
‫وفاقی یا صوبائی امور کے سلسلہ میں مالزم ہو‪ ،‬اس کے سرکاری فرائض کی بجا آوری میں اس‬
‫کے طرز عمل کے خالف عائد کیا گیا ہو تو سرکاری پیروکار کی تحریری شکایت پر عدالت سیشن‬
‫ایسے جرم کی سماعت ملزم کے اس عدالت کے سپرد کئے جانے کے بغیر کرنے کی مجاز ہوگی۔‬
‫ایسی ہر شکایت میں الزمی طور پر وہ حقائق جن پر مبینہ الزام مشتمل ہے‪ ،‬ایسے‬ ‫(‪2‬‬
‫الزام کی نوعیت اور دیگر ایسے کوائف جو ملزم کو اس جرم کی نسبت‪ ،‬جس کا وہ مبینہ طور پر‬
‫مرتکب ہوا ہے‪ ،‬کا نوٹس دینے کے لئے مناسب طور پر کافی ہوں‪ ،‬درج کئے جائیں گے۔‬
‫سرکاری پیروکار کوئی شکایت دائر نہ کرے سوائے پیشگی منظوری کے‪:‬‬ ‫(‪3‬‬
‫بصورت صدر یا وزیراعظم یا گورنر یا حکومت کے سیکرٹری کے‬ ‫(‪a‬‬
‫جس کو انہوں نے اس بارے میں اختیار دیا ہو۔‬
‫وزیراعلی یا صوبائی وزیر یا‬
‫ٰ‬ ‫بصورت وفاقی وزیر یا ریاست‪،‬‬ ‫(‪b‬‬
‫حکومت کا کوئی سیکرٹری‪ ،‬جس کو متعلقہ حکومت نے اس بارے میں اختیار دیا ہو۔‬
‫بصورت کسی سرکاری مالزم جو وفاقی یا صوبائی حکومت کے‬ ‫(‪c‬‬
‫امور کے سلسلہ میں مالزم ہو‪ ،‬متعلقہ حکومت کی۔‬
‫کوئی عدالت سیشن ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت جرم کی سماعت نہ کرے گی‪،‬‬ ‫(‪4‬‬
‫تاوقتیکہ جرم کے ارتکاب کی تاریخ سے چھ ماہ کے اندر تحریری شکایت نہ کی گئی ہو۔‬
‫جب عدالت سیشن ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت جرم کی سماعت کرے‪ ،‬تو مجموعہ ہذا‬ ‫(‪5‬‬
‫میں درج کسی امر کے باوصف‪ ،‬عدالت سیشن پر الزم ہوگا کہ وہ جیوری یا اسیسر (‪)Assessors‬‬
‫کی اعانت کے بغیر مقدمہ کی تجویز کرے اور مقدمہ کی تجویز میں وہ ضابطہ اختیار کرے جو‬
‫مجسٹریٹ کے لئے پولیس رپورٹ کے عالوہ دیگر دائر کردہ وارنٹ مقدمات کی بابت مقرر کیا گیا‬
‫ہو۔‬
‫دفعہ ہذا کے احکامات دفعہ ‪ 198‬کے عالوہ ہیں نہ کہ اس میں تخفیف کے لئے۔‬ ‫(‪6‬‬
‫وزیراعلی وغیرہ‬
‫ٰ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں صدر‪ ،‬وزیراعظم‪ ،‬مرکزی وصوبائی وزراء اور‬‫اسالمی ٔ‬
‫کو ان کی ڈیوٹی کے دوران سرزد ہونے والے غیر قانونی افعال سے بری الذمہ قرار دیا گیا ہے‬
‫لیکن یہ تحفظ خالف شریعت ہے‪ ،‬اسالم ایسے امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا‪ ،‬وہ حکمران سے‬
‫ادنی مالزم تک اور سپہ ساالر سے لیکر ایک سپاہی تک سب کو عدالت کے کٹہرے‬ ‫لے کر ایک ٰ‬
‫میں الکھڑا کرتا ہے۔‬
‫حضور اکرم ﷺ نے بھی خود کو احتساب کیلئے پیش فرما کر قانون کی باالدستی کی عملی‬ ‫(‪1‬‬
‫مثال قائم فرمائی۔ (‪)174‬‬
‫ایک دفعہ رسول اکرم ﷺ نے ایک بدو سے گھوڑا خریدا اور فرمایا چلو رقم لے لو لیکن‬ ‫(‪2‬‬
‫راستے میں لوگوں نے گھوڑے کی زیادہ قیمت بتانا شروع کردی۔ بدو کہنے لگا کہ آپ ﷺ اس کو‬
‫خریدیں گے یا میں بیچ دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں خرید تو چکا ہوں لیکن بدو قسم کھا گیا کہ‬
‫انصاری نے‬
‫ؓ‬ ‫نہیں‪ ،‬اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کون میری گواہی دے گا۔ اس پر حضرت خزیمہ‬
‫گواہی دی‪ ،‬آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم نے دیکھا تھا‪ ،‬عرض کی نہیں فرمایا گواہی کیسے دی؟ عرض‬
‫کی آپ ﷺ کی تصدیق پر دی۔ لہٰ ذا آپ ﷺ نے ان کی گواہی کو دو گواہوں کے برابر قرار دیا۔ (‪)175‬‬
‫نظام عدالت کے متعدد اصول وضوابط واضح ہوتے ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫اس مقدمے سے اسالمی‬
‫پہال اصول یہ کہ اس نظام میں سربرا ِہ حکومت و سربرا ِہ عدلیہ کو آئین و قانون کے لحاظ‬ ‫٭‬
‫سے عام شہریوں کو کوئی امتیاز نہیں۔‬
‫دوسرا یہ کہ اسالمی ریاست کا عام شہری سربرا ِہ حکومت کے خالف مقدمہ دائر کر سکتا‬ ‫٭‬
‫ہے۔‬
‫تیسرا یہ کہ سربرا ِہ حکومت کو دفاعِ مقدمہ میں وہی طریق کار اپنانا پڑے گا‪ ،‬جو عام شہری‬ ‫٭‬
‫دوسرے شہری کے خالف اپناتا ہے۔‬
‫دعوی تسلیم نہیں کر سکتا۔‬
‫ٰ‬ ‫چوتھا یہ کہ عدلیہ کا سربراہ اپنے ذاتی علم کو بطور ثبوت‬ ‫٭‬
‫خزیمہ کی گواہی پر فرمایا۔‬
‫ؓ‬ ‫حاالنکہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ اعرابی جھوٹا ہے مگر فیصلہ حضرت‬
‫آپ ﷺ نے دُنیا کو پہال تحریری آئین دیا‪ ،‬اس کی پابندی فرمائی‪ ،‬ایک عام شہری کی طرح عدالت میں‬
‫حاکم وقت نے اپنے آپ کو آئین کا پابند بنایا ہو۔ حاکم‬
‫ِ‬ ‫پیش ہوئے۔ یہ شاید تاریخ میں نادرمثال ہے کہ‬
‫اور عاملوں کے عدالتی استثناء سے متعلق عہد رسالت میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ (‪)176‬‬
‫ؓ‬
‫صدیق نے پہلے خطبے میں ہی فرما دیا تھا‪:‬‬ ‫اسی طرح حضرت ابوبکر‬
‫فان احسنت فاعینونی وان اسأت فقوحونی (‪)177‬‬
‫’’پس اگر میں اچھا کروں تو میری مدد کرو اور اگر برا کروں تو مجھے سیدھا کردو‘‘۔‬
‫آپ کے پاس حاضر ہو‬ ‫ؓ‬
‫حصن نے ؓ‬ ‫حابس اور حضرت عینیہ بن‬‫ؓ‬ ‫ایک دفعہ حضرت اقرع بن‬
‫عمر کے پاس توثیق کیلئے آئے تو‬
‫کر بے کار زمین کا ایک قطعہ حاصل کرلیا۔ لیکن جب حضرت ؓ‬
‫ابوبکر کے پاس آئے اور پوچھا کہ یہ زمین‬
‫ؓ‬ ‫عمر نے وہ تحریر چاک کردی‪ ،‬پھر حضرت‬ ‫حضرت ؓ‬
‫آپ نے انہیں کیوں دیدی جبکہ یہ آپ کی نہیں بلکہ مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ انہوں نے اپنی رائے‬
‫ؓ‬
‫عمر کے فیصلہ کو برقرار رکھا۔ (‪)178‬‬
‫سے رجوع کرلیا اور حضرت ؓ‬
‫آپ نے منبر پر چڑھ کر کہا صاحبو! اگر میں دُنیا کی طرف جھک جائو تو تم لوگ‬ ‫ایک دفعہ ؓ‬
‫کیا کرو گے؟ ایک شخص وہیں میان سے تلوار کھینچ کر کھڑا ہوگیا اور بوال کہ تمہارا سر قلم‬
‫عمر نے آزمانے کیلئے ڈانٹ کر کہا کہ تو میری شان میں یہ الفاظ کہتا ہے۔ وہ‬
‫کردیں گے۔ حضرت ؓ‬
‫عمر نے کہا الحمدہلل! قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ میں لج‬‫بوال ہاں تمہاری شان میں۔ حضرت ؓ‬
‫ہونگا تو سیدھا کردینگے۔ (‪)179‬‬
‫غنی نے خود کو باغیوں کے سامنے احتساب کیلئے پیش کیا‪ ،‬اپنے فضائل‬ ‫حضرت عثمان ؓ‬
‫گنوائے اور ان سے حجت طلب کی مگر چونکہ وہ فتنہ چاہتے تھے لہٰ ذا جواب نہ دے سکے مگر‬
‫لی کی زرہ‬
‫آپ نے ان کے خالف کوئی کارروائی نہ کی۔ (‪ )180‬اسی طرح حضرت ع ؓ‬ ‫پھر بھی ؓ‬
‫حسن کو ساتھ لیکر ایک عام شہری کی طرح عدالت میں مقدمہ دائر‬ ‫ؓ‬ ‫آپ نے حضرت‬ ‫چوری ہوگئی۔ ؓ‬
‫ؓ‬
‫حسن کو پیش کیا مگر قاضی نے‬ ‫کیا۔ سماعت ہوئی‪ ،‬قاضی نے گواہی طلب کی۔ آپ ؓ نے حضرت‬
‫قانونی تقاضا پورا کرتے ہوئے کہا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں ازروئے شریعت قبول نہیں‬
‫آپ سچے ہیں اور یہودی جھوٹا ہے مگر یہ فیصلہ‬ ‫اور مقدمہ خارج کردیا حاالنکہ وہ جانتا تھا کہ ؓ‬
‫کرکے اس نے قانون کی باالدستی کی روشن مثال قائم کی۔ (‪)181‬‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ اسالم میں کسی بھی فرد کو قانون سے استثناء نہیں ہے۔‬
‫اسالمی قانون کی نظر میں عام افراد معاشرہ اور حکام وقت برابر ہیں جو جرم کرے گا سزا ملے‬
‫گی خواہ کوئی بھی ہو۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬دفعہ ہذا میں ازالہ حیثیت عرفی کے ایسے استغاثہ کا ذکر ہے‬
‫جو سرکاری مالزموں سے سرکاری فرائض کی انجام دہی کے دوران سرزد ہونے والے افعال کے‬
‫خالف اصول ہے‪ ،‬شریعت اسالمیہ میں تمام افرا ِد‬
‫ِ‬ ‫بارے میں پیش ہو‪ ،‬شریعت کے نزدیک ایسا تحفظ‬
‫مملکت قانون کے سامنے یکساں طور پر جوابدہ اور قابل مواخذہ ہیں‪ ،‬کسی عہدہ دار کو کوئی‬
‫امتیازی حیثیت دینا جیسا کہ اس دفعہ میں‪ ،‬صدر مملکت اور وزراء وغیرہ کو دی گئی ہے۔ شرعا ً‬
‫قابل گرفت ہے لہٰ ذا کونسل نے باالتفاق اس دفعہ کو حذف کرنے کی سفارش کی۔ (‪)182‬‬
‫تجویز‪ :‬یہ دفعہ چونکہ اسالمی اصولوں کے منافی ہے لہٰ ذا اسے حذف کیا جائے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :199‬زنا یا منکوحہ عورت کو ورغال کر لے جانے کی نسبت استغاثہ‬

‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 497‬یا دفعہ ‪ 498‬کے تحت کسی جرم کی سماعت‬


‫کوئی عدالت مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫نہ کر ے گی‪ ،‬سوائے‪:‬‬
‫کسی پولیس افسر کو تحریری رپورٹ کے‪ ،‬اس عورت کے شوہر کی نالش پر یا اس‬ ‫(‪a‬‬
‫کی عدم موجودگی میں کسی دوسرے شخص کی جو ویسے جرم کے ارتکاب کے وقت اس کی‬
‫طرف سے عورت کا نگران ہو‪ ،‬یا‬
‫عورت کے شوہر کی طرف سے کی گئی نالش پر یا اس کی عدم موجودگی میں‬ ‫(‪b‬‬
‫عدالت کی اجازت سے کسی دوسرے شخص کی طرف سے جو ایسے جرم کے ارتکاب کے وقت‬
‫اس کی طرف سے عورت کا نگران ہو‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ جب ایسے شوہر کی عمر ‪ 18‬سال سے کم ہو یا وہ فاتر العقل ہو یا پاگل ہو یا‬
‫بوجہ بیماری یا معذوری کے نالش دائر کرنے سے قاصر ہو تو عدالت کی اجازت سے کوئی دیگر‬
‫شخص اس کی طرف سے نالش کر سکتا ہے‪:‬‬
‫مزید شرط یہ ہے کہ جب ایسا شوہر پاکستان کے کسی مسلح افواج میں ایسے حاالت میں مالزمت‬
‫کر رہا ہو‪ ،‬جس کی تصدیق کمانڈنگ افسر نے کی ہو‪ ،‬جس سے اسے غیر حاضری کی اجازت نہ‬
‫مل سکتی ہو کہ وہ ذاتی طور پر شکایت کر سکے اور جب کسی وجہ سے عورت کے نگران‬
‫شخص کی طرف سے کوئی استغاثہ نہ کیا گیا ہو‪ ،‬جو کہ اوپر بیان ہوا تو کوئی دیگر شخص جس کو‬
‫شوہر نے دفعہ ‪ B-199‬کی ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے احکام کے مطابق اختیار دیا ہو‪ ،‬عدالت کی اجازت‬
‫سے اس کی طرف سے استغاثہ کر سکتا ہے۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ کوئی شخص کسی منکوحہ عورت سے زنا کرے یا اسے‬
‫ورغالء کر لے جائے تو عدالت اس عورت کے شوہر یا نگران شخص کی نالش پر سماعت کرنے‬
‫کی مجاز ہوگی۔ شوہر مذکور عدالت میں پیش نہ ہوسکے تو اس کا وکیل نالش دائر کر سکتا ہے۔‬
‫تبصرہ‪ :‬مدعی کے عدالت میں وکالتا ً پیش ہونے کے بارے میں دفعہ نمبر ‪ 116‬کے تحت تفصیلی‬
‫دالئل ذکر کئے جا چکے ہیں۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس میں‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-199‬ایسے استغاثہ پر جائز ولی کا اعتراض جو رنج رسیدہ شخص کے عالوہ کسی‬
‫نے کیا ہو‬

‫جب کسی ایسی صورت میں جو دفعہ ‪ 198‬یا ‪ 199‬کی ضمن میں آتی ہو وہ شخص کی طرف سے‬
‫استغاثہ کرنا مقصود ہو‪ 18 ،‬برس سے کم عمر کا ہو یا فاتر العقل ہو اور شخص اجازت کنندہ کو‬
‫کسی حاکم مجاز نے نابالغ یا فاتر العقل مذکور کا ولی مقرر نہ کیا ہو یا قرار نہ دیا ہو اور عدالت کو‬
‫اس امر کا اطمینان ہو کہ ویسا کوئی ولی مقرر کیا گیا ہے تو ویسے ولی کو نوٹس دیا جائے گا اور‬
‫عدالت درخواست منظور کرنے سے قبل اسے منظوری پر اعتراض کرنے کا مناسب موقع دے گی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس پر تبصرہ‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :B-199‬دفعہ ‪ 198‬یا ‪ 199‬کی دوسری شرط کے تحت اختیار دینے کا فارم‬

‫وہ اختیار نامہ جو شوہر کسی دیگر شخص کو اس غرض سے دے کہ وہ اس کی‬ ‫(‪1‬‬
‫طرف سے دفعہ ‪ 198‬یا ‪ 199‬کی دوسری شرط کے تحت نالش دائر کرے‪ ،‬تحریری ہوگا‪ ،‬شوہر کا‬
‫دستخط شدہ یا بصورت دیگر شوہر کا مصدقہ ہوگا۔ اس میں اس امر کی نسبت بیان درج ہوگا کہ‬
‫اسے ان جملہ الزامات سے آگاہ کردیا گیا ہے اور اس پر مذکورہ شرائط میں محولہ افسر کے‬
‫تصدیقی دستخط ہوں گے اور اس کے ساتھ اس بارے میں اس افسر کا دستخطی سرٹیفکیٹ شامل‬
‫ہوگا کہ فی الحال شوہر کو ذاتی طور پر استغاثہ کرنے کے لئے رخصت کی اجازت نہیں دی جا‬
‫سکتی۔‬
‫کوئی دستاویز جس سے ایسا اختیار نامہ دیا جانا مقصود ہو اور جو ضمنی دفعہ (‪)1‬‬ ‫(‪2‬‬
‫کے احکام کی تعمیل کرتی ہو اور کوئی دستاویز جس سے یہ مراد ہو کہ وہ ضمنی دفعہ مذکور کی‬
‫ررو سے مطلوبہ سرٹیفکیٹ تاوقتیکہ اس کے خالف ثابت نہ کردیا جائے‪ ،‬اصلی قیاس کی جائے گی‬
‫اور قابل ادخال شہادت ہوگی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں زنا یا نکاح شدہ عورت کو ورغال کر لے جانے کے بارے میں استغاثہ کے‬
‫احکام اور قواعد وضوابط بیان کئے گئے ہیں جو کہ تعزیرات پاکستان کی دفعات ‪ 498 ،497‬کے‬
‫تحت الگو ہوتے ہیں‪ ،‬اس بارے میں ‪1979‬ء کے حدود آرڈیننس میں تفصیلی احکام درج کردیئے‬
‫گئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں یہ دفعات غیر ضروری ہو جاتی ہیں کیونکہ حدود آرڈیننس ‪1979‬ء‬
‫میں ساری جزئیات موجود ہیں۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس بارے میں نظریاتی کونسل نے یہ تجویز دی ہے‪:‬‬
‫ت پاکستان کی دفعات‬‫’’چونکہ حدود آرڈیننس کے نفاذ کے بعد اس دفعہ میں مذکور تعزیرا ِ‬
‫ت پاکستان‘‘‬‫کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس میں الفاظ ’’زیر دفعہ ‪ 498 ،497‬تعزیرا ِ‬
‫کو حذف کیا جائے اور جرم زنا (نفا ِذ حدود آرڈیننس ‪ )1979 ،VII‬کی متعلقہ دفعات کا یہاں ذکر کیا‬
‫جائے‘‘۔ (‪)183‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مندرجہ باال دفعہ سے نظریاتی کونسل کی تجویز کے مطابق ’’دفعہ ‪498 ،497‬‬
‫تعزیرات پاکستان‘‘ کے الفاظ حذف کرکے حدود آرڈیننس ‪1979‬ء کی متعلقہ دفعات درج کی جائیں۔‬

‫(باب نمبر ‪)16‬‬


‫مجسٹریٹ کے پاس استغاثوں کی بابت‬

‫دفعہ نمبر ‪ :200‬مستغیث کا بیان لینا‬

‫کوئی مجسٹریٹ جو استغاثہ ہونے پر کسی جرم کی سماعت کر رہا ہو‪ ،‬اس پر الزم ہوگا کہ وہ فوری‬
‫طو رپر مستغیث کا بیان حلف پر لے اور ایسے بیان کا خالصہ قلم بند کیا جائے گا اور اس پر‬
‫مستغیث اور مجسٹریٹ بھی دستخط کریں گے۔‬
‫بشرط حسب ذیل‪:‬‬
‫جب استغاثہ تحریری طور پر کیا گیا ہو تو دفعہ ہذا میں درج کسی امر سے یہ نہ‬ ‫(‪a‬‬
‫تصور کیا جائے گا کہ دفعہ ‪ 192‬کے تحت مقدمہ کو تبدیل کرنے سے قبل مجسٹریٹ پر الزم ہوگا کہ‬
‫وہ مستغیث کا بیان قلم بند کرے۔‬
‫(‪ aa‬جب استغاثہ تحریری طور پر کیا گیا ہو تو دفعہ ہذا میں درج کسی امر سے یہ نہ‬
‫تصور کیا جائے گا کہ کسی ایسے مقدمہ میں جس میں استغاثہ میں جس میں استغاثہ کسی عدالت یا‬
‫سرکاری مالزم کی جانب سے کیا گیا ہو جو اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہو یا اس کا قصد رکھتا‬
‫ہو‪ ،‬مجسٹریٹ پر الزم ہوگا کہ وہ مستغیث کا بیان قلم بند کرے۔‬
‫ترمیمی قانون ‪1949‬ء سے حذف ہوئی۔‬ ‫(‪b‬‬
‫جب مقدمہ دفعہ ‪ 192‬کے تحت منتقل کیا گیا ہو اور منتقل کنندہ مجسٹریٹ پہلے ہی‬ ‫(‪c‬‬
‫مستغیث کا بیان لے چکا ہو‪ ،‬تو وہ مجسٹریٹ جس کے پاس اسے منتقل کیا گیا ہو پابند نہ ہوگا کہ‬
‫ازسرنو مستغیث کا بیان قلم بند کرے۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ کوئی مجسٹریٹ جو کسی جرم کے خالف استغاثہ کرنے‬
‫والے کا بیان حلف پر لے اس کا خالصہ لکھ کر خود بھی دستخط کرے اور مستغیث سے بھی‬
‫دستخط کرالے۔‬
‫دعوی کرتے وقت مدعی کا حلف دینا ضروری نہیں‬
‫ٰ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی نظام عدالت میں‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ہے بلکہ حلف مدعا علیہ کی ذمہ داری ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ‪:‬‬
‫ِّعی علیہ (‪)184‬‬
‫علی المد ٰ‬
‫البینہ علی المدعی والیمین ٰ‬
‫’’مدعی کے ذمہ ثبوت اور مدعا علیہ کے ذمہ قسم ہے‘‘۔‬
‫لہٰ ذا ثبوت (بینہ) کا مدعی کی دلیل اور قسم کا مدعا علیہ کی دلیل ہونا اپنی اپنی جگہ بالکل‬
‫درست ہے اور حکمت ومعقولیت کے عین مطابق ہے۔ (‪)185‬‬
‫دعوی دائر کرنے سے قبل‬
‫ٰ‬ ‫کاسانی مزید لکھتے ہیں کہ ہمارے عالقہ میں عرف یہ ہے کہ‬
‫ؒ‬
‫تحریری صورت میں مرتب کرکے عدالت میں جمع کرا دیا جائے۔ (‪)186‬‬
‫دعوی دائر کرنے کیلئے خاص عبارت یا خاص الفاظ نہیں ہیں بلکہ‬
‫ٰ‬ ‫نظام عدالت میں‬
‫ِ‬ ‫اسالمی‬
‫دعوی بن سکتی ہے‪ ،‬اس میں مدعی اور مدعا‬
‫ٰ‬ ‫دعوی کی تعریف کے تحت آتی ہو‪ ،‬وہ‬ ‫ٰ‬ ‫وہ عبارت جو‬
‫علیہ کا واضح ذکر ہونا چاہئے‪ ،‬تاکہ فریقین مقدمہ کا تعین ہو سکے اور سماعت مقدمہ کا آغاز‬
‫ہوسکے۔‬

‫دعوی دائر کرتے وقت مستغیث سے حلف لینا شرعی طور پر‬ ‫ٰ‬ ‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬درج باال دفعہ میں‬
‫دعوی حلف لینے کو حذف کیا جائے تاکہ‬ ‫ٰ‬ ‫غیر ضروری ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس دفعہ سے مدعی سے بوقت‬
‫مدعی بغیر کسی ذہنی دبائو کے عدالت آسکے اور اسے انصاف مل سکے۔ نیز موجودہ ضابطہ کے‬
‫وی سادہ اور آسان دکھائی دیتا ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس پر عمل کیا جانا چاہئے۔‬
‫مقابلہ میں اسالمی طریق دع ٰ‬
‫حوالہ جات‬

‫باب دوم‬
‫(دفعہ نمبر ‪ 101‬تا ‪)200‬‬
‫عثمانی‪ ،‬ظفر احمد‪( :‬م۔ ‪1394‬ھ ‪1974 /‬ء)‪ :‬اعالء السنن‪ ،‬ابواب الکفالۃ‪ ،‬باب الکفالۃ بالنفس‪،‬‬ ‫(‪1‬‬
‫رقم الحدیث‪ ،4836 :‬مکتبہ امدادیہ ملتان‪ ،‬س ن‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪2‬‬
‫ابن حجر عسقالنی‪ ،‬احمد بن علی‪( :‬م۔ ‪852‬ھ ‪1448 /‬ء)‪ :‬فتح الباری شرح بخاری‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص‬ ‫(‪3‬‬
‫‪ ،433‬دارالمعرفۃ‪ ،‬بیروت‪1379 ،‬ھ ‪1959 /‬ء‬
‫قرآن کریم‪ :‬الحجرات ‪49:6‬‬ ‫(‪4‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬الحجرات ‪49:12‬‬ ‫(‪5‬‬
‫خصاف‪ ،‬احمد بن عمر‪ ،‬ابوبکر‪( :‬م۔ ‪261‬ھ ‪874 /‬ء)‪ :‬ادب القاضی‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،311‬مطبعۃ‬ ‫(‪6‬‬
‫االولی‪1397 ،‬ھ ‪1977 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫االرشاد‪ ،‬بغداد‪ ،‬طبعۃ‬
‫رپورٹ جائزہ مجموعہ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪1898‬ء ‪1316 /‬ھ‪ ،‬مالحظات ‪ /‬مجوزہ ترامیم‪،‬‬ ‫(‪7‬‬
‫ص ‪ ،45‬اسالمی نظریاتی کونسل‪ ،‬حکومت پاکستان‪ ،‬اسالم آباد‪1421 ،‬ھ ‪2000 /‬ء‬
‫قرآن کریم‪ :‬الجمعہ ‪62:10‬‬ ‫(‪8‬‬
‫الجوھری‪ ،‬اسماعیل بن حماد‪( :‬م۔ ‪398‬ھ ‪1007 /‬ء)‪ :‬الصحاح‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،575‬دارالمضاربۃ‬ ‫(‪9‬‬
‫العربیہ‪ ،‬بیروت‪1404 ،‬ھ ‪1983 /‬ء‬
‫(‪ 10‬ابن عربی‪ ،‬محمد بن عبدہللا‪ ،‬ابوبکر‪( :‬م۔ ‪543‬ھ ‪148 /‬ء)‪ :‬احکام القرآن‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪،748‬‬
‫دارالمعرفۃ بیروت‪1398 ،‬ھ ‪1977 /‬ء‬
‫موسی‪( :‬م۔ ‪790‬ھ ‪1388 /‬ء)‪ :‬الموافقات فی اصول الشریعۃ‪ ،‬ج ‪ ،5‬ص‬
‫ٰ‬ ‫شاطبی‪ ،‬ابراہیم بن‬
‫ؒ‬ ‫(‪11‬‬
‫‪ ،182‬دار ابن عفان‪ ،‬الطبعۃ االولی ‪1417‬ھ ‪1996 /‬ء‬
‫علی حسب ہللا‪ :‬اصول التشریع االسالمی‪ ،‬ص ‪ ،238‬ادارۃ القرآن والعلوم االسالمیہ‪ ،‬کراچی‪،‬‬ ‫(‪12‬‬
‫سن‬
‫یحیی بن شرف‪( :‬م۔ ‪676‬ھ ‪1277 /‬ء)‪ :‬ریاض الصالحین‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،592 :‬دار ابن‬ ‫ٰ‬ ‫(‪ 13‬نووی‪،‬‬
‫کثیر للطباعۃ والنشر والتوزیع‪ ،‬التوزیع‪ ،‬دمشق‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ االولی‪1428 ،‬ھ ‪2007 /‬ء‪ ،‬طبعۃ الثالثہ‬
‫‪1419‬ھ ‪1998 /‬ء‬
‫عیسی‪( :‬م۔ ‪279‬ھ ‪892 /‬ء)‪ :‬جامع ترمذی‪ ،‬ابواب البیوع باب ما جاء فی‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 14‬ترمذی‪ :‬محمد بن‬
‫ترک الشبھات‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،1208 :‬مطبعۃ البابی حلبی مصر‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ ‪1975 / 1395‬ء‬
‫نووی‪ :‬ریاض الصالحین‪ :‬باب الورع و ترک الشبھات‪ ،‬رقم الحدیث‪58 :‬‬ ‫(‪15‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬باب تحریم الخلوۃ باالجنبیۃ‪ ،‬رقم الحدیث‪1629 :‬‬ ‫(‪16‬‬
‫(‪ 17‬ابودائود‪ :‬سلیمان بن اشعث‪( :‬م۔ ‪275‬ھ ‪888 /‬ء)‪ :‬السنن‪ ،‬کتاب االقضیۃ‪ ،‬باب فی الوکالۃ‪ ،‬رقم‬
‫الحدیث‪ ،3632 :‬المکتبۃ العصریہ صیدا‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫الکبری‪ ،‬ج ‪ ،4‬جزء ‪ ،8‬ص ‪ ،411‬مکتبۃ‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 18‬ابن سعد‪ ،‬محمد‪( :‬م‪230 :‬ھ ‪1884 /‬ء)‪ :‬طبقات‬
‫الصدیق طائف طبعۃ االولی‪1414 ،‬ھ ‪1993 /‬ء‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪388‬‬ ‫(‪19‬‬
‫الکبری‪ ،‬کتاب الضمان‪ ،‬باب‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 20‬بیہقی‪ :‬احمد بن حسین‪ ،‬ابوبکر‪( :‬م۔ ‪458‬ھ ‪1065 /‬ء)‪ :‬السنن‬
‫التوکیل فی الخصومات‪ ،‬دارالکتب العلمیہ‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ الثالثۃ‪1424 ،‬ھ ‪2003 /‬ء‪ ،‬رقم الحدیث‪:‬‬
‫‪11437‬‬
‫(‪ 21‬الکتانی‪ ،‬عبدالحی‪( :‬م۔ ‪1382‬ھ ‪1962 /‬ء)‪ :‬التراتیب االداریہ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،222‬داراالرقم‬
‫بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪ ،‬س ن‬
‫ہللا‪ ،‬مرتبہ‪ :‬محمد عالم مختا ِر‬
‫ت ڈاکٹر محمد حمید ؒ‬
‫حمید ہللا‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬نگارشا ِ‬ ‫(‪ii‬‬
‫حق‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،279‬بیکس بک‪ ،‬گلگشت‪ ،‬ملتان ‪1428‬ھ ‪2007 /‬ء‬
‫بخاری‪ ،‬محمد بن اسماعیل‪( :‬م۔ ‪256‬ھ ‪869 /‬ء)‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬رقم‬ ‫(‪i‬‬ ‫(‪22‬‬
‫االولی‪1422 :‬ھ ‪2001 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫الحدیث‪ ،7352 :‬دارطوق النجاۃ مصر‪ ،‬الطبعۃ‬
‫مسلم بن حجاج‪( :‬م۔ ‪261‬ھ ‪874/‬ء)‪ :‬الجامع الصحیح‪ :‬کتاب االقضیۃ‪ ،‬باب‬ ‫(‪ii‬‬
‫اجرا الحاکم اذا اجتھد‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،1716 :‬دارا احیاء‪ ،‬التراث العربی بیروت‪1410 ،‬ھ ‪1990 /‬ء‬
‫(‪ iii‬سرخسی‪ ،‬محمد بن احمد‪( :‬م۔ ‪483‬ھ ‪1090 /‬ء)‪ :‬المبسوط‪ ،‬ج ‪ ،16‬ص ‪،79‬‬
‫مکتبہ رشیدیہ‪ ،‬سرکی روڈ کوئٹہ‪ ،‬س ن‬
‫الکبری‪ :‬کتاب االقضیۃ‪ ،‬رقم الحدیث‪20156 :‬‬
‫ٰ‬ ‫البیہقی‪ ،‬السنن‬ ‫(‪i‬‬ ‫(‪23‬‬
‫الکتانی‪ :‬التراتیب االداریہ‪ ،‬ص ‪222‬‬ ‫(‪ii‬‬
‫(‪ 24‬ابن اثیر جزری‪ ،‬علی بن محمد‪( :‬م‪630 :‬ھ ‪1232 /‬ء)‪ :‬الکامل فی التاریخ‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪،161‬‬
‫االولی ‪1417‬ھ ‪1997 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫دارالکتاب العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫الکتانی‪ :‬التراتیب االداریہ‪ :‬ص ‪222‬‬ ‫(‪25‬‬
‫الکبری‪ ،‬کتاب قسم الفئی والغنیمۃ‪ ،‬باب لیس للممالیک فی العطاء حق‪ ،‬رقم‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 26‬البیہقی‪ :‬السنن‬
‫الحدیث‪12984 :‬‬
‫حوالہ سابق‪ ،‬کتاب آداب القاضی‪ :‬رقم الحدیث‪20158 :‬‬ ‫(‪27‬‬
‫‪Establishment of Courts of Qazis Ordinance 1982 AD / 1403 AH,‬‬ ‫‪)28‬‬
‫‪(Section # 18, P-7, CMLA order # I of 1981 AD / 1402 AH, Islambad, Pakistan‬‬
‫(‪ 29‬سیوطی‪ ،‬عبدالرحمن بن ابی بکر‪ ،‬جالل الدین‪( :‬م‪911 :‬ھ ‪1505 /‬ء)‪ :‬تاریخ الخلفاء‪ ،‬ص‬
‫اولی‪1425 :‬ھ ‪2004 /‬ء‬
‫‪ ،125-124‬مکتبہ نزار مصطفی الباز‪ ،‬طبعہ ٰ‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪135-134‬‬ ‫(‪30‬‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪63‬‬ ‫(‪31‬‬
‫دیار بکری‪ ،‬حسین بن محمد‪( :‬م۔ ‪966‬ھ ‪1558 /‬ء)‪ ،‬تاریخ الخمیس فی احوال‬ ‫(‪i‬‬ ‫(‪32‬‬
‫انفس النفیس‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،161‬موسسۃ شعبان‪ ،‬بیروت‪1283 ،‬ھ ‪1866 /‬ء‬
‫االزھری‪ ،‬محمد کرم شاہ‪ :‬ضیاء النبی ﷺ‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪ ،802-801‬ضیاء القرآن‬ ‫(‪ii‬‬
‫پبلی کیشنز‪ ،‬الہور‪ ،‬ط دوم‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب الحدود‪ ،‬باب اقامۃ الحدود علی الشریف‬ ‫(‪i‬‬ ‫(‪33‬‬
‫والوضیع‪ ،‬رقم الحدیث‪6787 :‬‬
‫مسلم‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب الحدود‪ ،‬باب النھی عن الشفاعۃ فی الحدود‪ ،‬رقم‬ ‫(‪ii‬‬
‫الحدیث‪1688 :‬‬
‫(‪ 34‬ابن قتیبہ‪ ،‬عبدہللا بن مسلم‪( :‬م۔ ‪276‬ھ ‪889 /‬ء)‪ :‬المعارف‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،188‬الھئیۃ المصریۃ‬
‫العامۃ للکتاب‪ ،‬القاھرہ‪ ،‬طبعہ الثانیہ‪1413 ،‬ھ‪1992 /‬ء‬
‫شبلی نعمانی‪ :‬الفاروق‪ :‬ص ‪ ،203‬مکتبہ رحمانیہ‪ ،‬اردو بازار الہور‬ ‫(‪35‬‬
‫شاہ ولی ہللا‪ :‬ازالۃ الخفاء‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪ ،227‬قدیمی کتب خانہ‪ ،‬کراچی‪ ،‬س ن‬ ‫(‪36‬‬
‫خطاب‪ ،‬مترجم اُردو‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫جوزی‪ ،‬عبدالرحمن بن علی‪( :‬م۔ ‪597‬ھ ‪1200 /‬ء)‪ :‬تاریخ عمر بن‬
‫ؒ‬ ‫(‪ 37‬ابن‬
‫شاہ حسن عطاء‪ ،‬ص ‪ ،194-193‬نفیس اکیڈمی کراچی‪1404 ،‬ھ ‪1983 /‬ء‬
‫ابن اثیر‪ :‬الکامل فی التاریخ‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪456‬‬ ‫(‪38‬‬
‫(‪ 39‬یعقوبی‪ ،‬احمد بن ابی یعقوب‪( :‬م۔ ‪287‬ھ ‪900 /‬ء)‪ :‬تاریخ یعقوبی‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،240‬مرکز‬
‫انتشارات علمی ایران‪ ،‬س ن‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪65‬‬ ‫(‪40‬‬
‫ہللا‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص‬
‫ت ڈاکٹر حمید ؒ‬
‫ہللا‪ ،‬ڈاکٹر‪’’ :‬اسالمی فالحی ریاست کا قیام‘‘‪ ،‬نگارشا ِ‬
‫(‪ 41‬حمید ؒ‬
‫‪ ،221‬مرتب‪ :‬محمد عالم مختار حق‪ ،‬بیکن بکس ملتان‪1428 ،‬ھ ‪2007 /‬ء‬
‫(‪ 42‬ابن ماجہ‪ ،‬محمد بن یزید‪( :‬م۔ ‪273‬ھ ‪886 /‬ء)‪ :‬السنن‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،2340 :‬داراحیاء الکتب‬
‫عیسی البابی الحلبی‪ ،‬س ن‬
‫ٰ‬ ‫العربیہ‪ ،‬فیصل‬
‫(‪ 43‬اتاسی‪ ،‬محمد خالد‪ :‬شرحِ مجلہ احکام العدلیہ‪ ،‬مترجم‪ :‬مفتی امجد العلی‪ ،‬ص ‪ ،28‬ادارہ تحقیقات‬
‫اسالمی پاکستان‪ ،‬ط اول‪1406 ،‬ھ ‪1986 /‬ء‬
‫(‪ 44‬بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب االیمان‪ ،‬باب المسلم من سلم المسلمون‪ ،‬الجامع الصحیح‪ :‬رقم‬
‫الحدیث‪10 ،‬‬
‫االذی‪ ،‬رقم الحدیث‪2618 :‬‬
‫ٰ‬ ‫مسلم‪ :‬الجامع الصحیح‪ :‬کتاب البروالصلۃ‪ ،‬باب فضل ازالۃ‬ ‫(‪45‬‬
‫(‪ 46‬البانی‪ ،‬ناصر الدین‪ :‬سلسلۃ االحادیث الصحیحہ‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،906 :‬مکتبۃ المعارف للنشر‬
‫اولی‪1415 ،‬ھ ‪1995 /‬ء‬
‫والتوزیع‪ ،‬ریاض‪ ،‬طبعہ ٰ‬
‫خالد اتاسی‪ :‬شرحِ مجلہ‪ :‬ص ‪69‬‬ ‫(‪47‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪71‬‬ ‫(‪48‬‬
‫ترمذی‪ :‬السنن‪ ،‬ابوب االحکام‪ ،‬باب ماجآء فی ھدایا االمراء‪ ،‬رقم الحدیث‪1335 :‬‬ ‫(‪49‬‬
‫نظام احتساب‪ ،‬ص ‪،105‬‬
‫ِ‬ ‫(‪ 50‬محمد متین ہاشمی‪ ،‬سید‪ :‬اسالمی حدود اور ان کا فلسفہ مع اسالم کا‬
‫دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری‪ ،‬الہور‪ ،‬ط سوم‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫معارف اسالمیہ‪ ،‬ج ‪ ،8‬ص ‪ ،191‬دانش گاہ پنجاب‪ ،‬الہور‪1392 ،‬ھ ‪1972 /‬ء‬
‫ِ‬ ‫اُردو دائرہ‬ ‫(‪51‬‬
‫یعلی‪( :‬م۔ ‪458‬ھ ‪1065 /‬ء)‪ :‬االحکام السلطانیہ‪ ،‬ص ‪ ،283‬دار‬
‫(‪ 52‬الفراء‪ ،‬محمد بن الحسین‪ ،‬ابی ٰ‬
‫نشر الکتب االسالمیہ‪ ،‬شارع شیش محل‪ ،‬الہور‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 53‬سرخسی‪ ،‬محمد بن احمد‪( :‬م۔ ‪490‬ھ ‪1096/‬ء)‪ :‬المبسوط‪ ،‬ج ‪ ،16‬ص ‪ ،81‬مکتبہ رشیدیہ‪،‬‬
‫کوئٹہ‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 54‬خصاف‪ ،‬احمدبن عمر‪ ،‬ابوبکر‪( :‬م۔ ‪261‬ھ ‪874 /‬ء)‪ :‬ادب القاضی‪ :‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،355‬مطبعۃ‬
‫االولی‪1397 ،‬ھ ‪1977 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫االرشاد‪ ،‬بغداد‪ ،‬طبعۃ‬
‫قرآن کریم‪ :‬البقرہ ‪2:191‬‬ ‫(‪55‬‬
‫بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب الفتن‪ ،‬باب قول النبی ﷺ من حمل علینا السالح‪ ،‬رقم الحدیث‪:‬‬ ‫(‪56‬‬
‫‪7074‬‬
‫(‪ 57‬الھیثمی‪ ،‬علی بن ابی بکر‪( :‬م‪807 :‬ھ ‪1404 /‬ء)‪ :‬مجمع الزوائد ومنبع الفوائد‪ ،‬رقم الحدیث‪:‬‬
‫‪ ،6395‬مکتبۃ القدسی‪ ،‬القاھرہ‪1414 ،‬ھ ‪1994 /‬ء‬
‫‪Local and Special Laws: P:386, Pakistan Law Times Publications, Urdu )58‬‬
‫‪Bazar, Lahore‬‬
‫‪Shaukat Mahmood:Criminal Procedure Code,P:370,Legal Research‬‬ ‫‪)59‬‬
‫‪Centre,Lahore,ND‬‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ ،‬ص ‪68‬‬ ‫(‪60‬‬
‫ت ڈاکٹر حمید ہللا ؒ‪ :‬ج ‪ ،2‬ص ‪279‬‬
‫ڈاکٹر حمید ہللا‪ :‬نگارشا ِ‬ ‫(‪61‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪295‬‬ ‫(‪62‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪63‬‬
‫ابن خلدون‪ ،‬عبدالرحمن‪( :‬م۔ ‪808‬ھ ‪1405 /‬ء)‪ :‬مقدمہ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪،277‬‬ ‫(‪i‬‬ ‫(‪64‬‬
‫دارالفکر بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1408 ،‬ھ‪1988/‬ء‬
‫ایم ایس ناز‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬اسالمی ریاست میں محتسب کا کردار‪ ،‬ص ‪ ،123‬ادارہ‬ ‫(‪ii‬‬
‫تحقیقات اسالمی‪ ،‬بین االقوامی اسالمی یونیورسٹی‪ ،‬اسالم آباد‪ ،‬ط اول‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫مرتضی‪ ،‬سید‪( :‬م۔ ‪1205‬ھ ‪1790 /‬ء)‪ :‬تاج العروس من جواھر القاموس‪ ،‬ج‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 65‬زبیدی‪ ،‬محمد‬
‫‪ ،19‬ص ‪ ،407‬دارالھدایہ‪ ،‬س ن‬
‫غزالی‪ ،‬ابو حامد‪( :‬م۔ ‪505‬ھ ‪1111 /‬ء)‪ :‬احیاء علوم الدین‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،324‬دارالمعرفۃ‬
‫ؒ‬ ‫(‪ 66‬محمد‬
‫بیروت‪ ،‬س ن‬
‫ت اسالمی‪ ،‬اسالم آباد‪ ،‬ط‬
‫(‪ ii‬محمود احمد غازی‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬ادب القاضی‪ ،‬ص ‪ ،386‬ادارہ تحقیقا ِ‬
‫سوم‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫ایم ایس ناز‪ :‬اسالمی ریاست میں محتسب کا کردار‪ :‬ص ‪125‬‬ ‫(‪67‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬مصطففین ‪3-83:1‬‬ ‫(‪68‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬الشعراء ‪183-181: 26‬‬ ‫(‪69‬‬
‫ابودائود‪ :‬السنن‪ ،‬کتاب البیوع‪ ،‬باب فی الرجحان فی الوزن‪ ،‬رقم الحدیث‪3336 :‬‬ ‫(‪70‬‬
‫مسلم‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب االیمان‪ ،‬باب قول النبی ﷺ من غشنا فلیس منا‪ ،‬رقم الحدیث‪102 :‬‬ ‫(‪71‬‬
‫(‪ 72‬الحموی‪ ،‬یاقوت ابن عبدہللا‪( :‬م۔ ‪626‬ھ ‪1228 /‬ء)‪ :‬معجم االدباء‪ ،‬ج ‪ ،14‬ص ‪ ،114‬طبعۃ‬
‫مرجلیوت‪ ،‬القاھرہ‪1442 ،‬ھ‪1923/‬ء‬
‫(‪ 73‬محمد ابن االخوۃ‪( :‬م۔ ‪729‬ھ ‪1328 /‬ھ)‪ :‬معالم القربہ فی طلب الحسبہ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪،86‬‬
‫دارالفنون کیمبرج‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 74‬النویری‪ ،‬احمد بن عبدالوہاب‪ :‬نہایۃ االرب فی فنون االدب‪ ،‬ص ‪ ،293‬دارالکتب مصریہ‪،‬‬
‫قاہرہ‪1342 ،‬ھ ‪1923 /‬ء‬
‫(‪ 75‬ابن تیمیہ‪ ،‬احمد بن عبدالحلیم‪ ،‬تقی الدین‪( :‬م ‪728‬ھ ‪1327 /‬ء)‪ :‬الحسبہ فی االسالم‪ ،‬ص ‪،17‬‬
‫اولی‪ ،‬س ن‬
‫دارالکتب العلمیہ‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعہ ٰ‬
‫بخاری‪ ،‬الجامع الصحیح‪ :‬کتاب الحدود‪ ،‬باب االعتراف بالزناء‪ ،‬رقم الحدیث‪6827 :‬‬ ‫(‪76‬‬
‫ترمذی‪ :‬کتاب االحکام‪ ،‬باب فیمن تزوج امرأۃ ابیہ‪ ،‬رقم الحدیث‪1362 :‬‬ ‫(‪77‬‬
‫ابن ماجہ‪ ،‬السنن‪ ،‬کتاب الدیات‪ ،‬باب من تزوج امرأۃ ابیہ بعدہ‪ ،‬رقم الحدیث‪2608 :‬‬ ‫(‪78‬‬
‫عمر) کے عہد میں عدلیہ اور‬
‫(ابوبکر و ؓ‬
‫ؓ‬ ‫(‪ 79‬محمد یوسف گورایہ‪ ،‬ڈاکٹر‪’’ :‬خلفاء محمد ﷺ‬
‫انتظامیہ‘‘‪ ،‬مترجم‪ :‬محمود عالم قریشی‪ ،‬شمارہ نمبر ‪ ،136‬نقوش ُرسول نمبر‪ ،‬ج ‪ ،13‬ص ‪ ،569‬ادارہ‬
‫فروغِ اُردو‪ ،‬الہور‪1406 ،‬ھ ‪1985 /‬ء‬
‫یحیی‪( :‬م۔ ‪279‬ھ ‪892 /‬ء)‪ :‬فتوح البلدان‪ ،‬ص ‪ ،273‬دار المکتبہ الھالل‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 80‬البالذری‪ ،‬احمد بن‬
‫بیروت‪1409 ،‬ھ ‪1988 /‬ء‬
‫(‪ ii‬شبلی نعمانی‪ :‬الفاروق‪ ،‬ص ‪203‬‬
‫(‪ i‬البالذری‪ :‬فتوح البلدان‪ ،‬ص ‪105‬‬ ‫(‪81‬‬
‫عمر کے عہد میں عدلیہ اور انتظامیہ‘‘‪،‬‬
‫ابوبکر و ؓ‬
‫ؓ‬ ‫(‪ ii‬ڈاکٹر یوسف گورایہ‪’’ :‬خلفاء محمد ﷺ‬
‫نقوش‪ُ ،‬رسول نمبر‪ ،‬ج ‪ ،13‬ص ‪598‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬البقرہ ‪2:282‬‬ ‫(‪82‬‬
‫سیوطی‪ :‬الدر المنثور‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،122‬دارالفکر بیروت‪ ،‬س ن‬ ‫(‪83‬‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ ،‬ص ‪76-77‬‬ ‫(‪84‬‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل‪ ،‬نویں رپورٹ‪ ،‬ص ‪4,3‬‬ ‫(‪85‬‬
‫ابن مازہ بخاری‪ ،‬شرح ادب القاضی‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪73‬‬ ‫(‪86‬‬
‫سرخسی‪ :‬المبسوط‪ ،‬ج ‪ ،16‬ص ‪107‬‬ ‫(‪87‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪106‬‬ ‫(‪88‬‬
‫اصالحی‪ ،‬امین احسن‪ :‬اسالمی ریاست‪ ،‬ص ‪ ،120‬مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن‪ ،‬الہور‬ ‫(‪89‬‬
‫ترمذی‪ :‬السنن‪ ،‬الدیات‪ ،‬باب ماجآء فی الحبس فی التھمۃ‪ ،‬رقم الحدیث‪1417 :‬‬ ‫(‪90‬‬
‫(‪ 91‬لطیف ہللا‪ ،‬صوبیدار‪’’ :‬قیدوجیل کے شرعی احکام‘‘‪ ،‬منہاج‪ ،‬ج ‪ ،18‬شمارہ ‪ ،4‬اکتوبر تا‬
‫دسمبر ‪1421‬ھ ‪2000 /‬ء‪ ،‬ص ‪ ،147‬دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری‪ ،‬نسبت روڈ‪ ،‬الہور‬
‫ہللا‪ ،‬ج دوم‪ ،‬ص ‪287‬‬
‫ت ڈاکٹر حمید ؒ‬
‫نظام عدل گستری‘‘‪ ،‬نگارشا ِ‬
‫ِ‬ ‫ڈاکٹر حمید ہللا‪’’ :‬اسالمی کا‬ ‫(‪92‬‬
‫(‪ 93‬ابن عبدالبر‪ ،‬یوسف بن عبدہللا‪ ،‬ابو عمر‪( :‬م۔ ‪463‬ھ ‪1070 /‬ء)‪ :‬االستیعاب فی معرفۃ‬
‫االولی‪1412 ،‬ھ ‪1992 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫االصحاب‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪ ،1869‬دارالجیل بیروت‪ ،‬طبعہ‬
‫(‪ i‬حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،4‬ص ‪1863‬‬ ‫(‪94‬‬
‫عمر‪ ،‬مترجم اُردو‪ :‬ساجد الرحمن صدیقی‪ ،‬ص‬
‫(‪ ii‬محمد رواس قلعہ جی‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬فقہ حضرت ؓ‬
‫عارف اسالمی‪ ،‬منصورہ‪ ،‬الہور‪ ،‬ط سوم‪1423 ،‬ھ ‪2002 /‬ء‬
‫ِ‬ ‫‪ ،118‬ادارہ م‬
‫الکتانی‪ :‬التراتیب االداریہ‪ ،‬ص ‪240‬‬ ‫(‪95‬‬
‫بخاری‪ :‬شرح ادب القاضی‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪338-337‬‬
‫ؒ‬ ‫ابن مازہ‬ ‫(‪96‬‬
‫ظفر عثمانی‪ :‬اعالء السنن‪ ،‬ابواب الکفالۃ بالنفس‪ ،‬رقم الحدیث‪4836 :‬‬ ‫(‪97‬‬
‫(‪ 98‬ابن کثیر‪ ،‬اسماعیل‪ ،‬ابوالفداء‪( :‬م ‪774‬ھ ‪1372 /‬ء)‪ :‬البدایہ والنہایہ‪ ،‬ج ‪ ،6‬ص ‪ ،301‬دارالفکر‬
‫بیروت‪1407 ،‬ھ ‪1986 /‬ء‬
‫(‪ ii‬سیوطی‪ :‬تاریخ الخلفاء‪ ،‬ص ‪60-59‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬البقرہ ‪2:282‬‬ ‫(‪99‬‬
‫(‪ 100‬سیوطی‪ :‬تفسیر در منثور‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪118‬‬
‫(‪ 101‬امیٹھوی‪ ،‬احمد جیون‪ ،‬مال‪( :‬م۔ ‪1130‬ھ ‪1717 /‬ء)‪ :‬تفسیرات احمدیہ فی بیان اْلیات الشرعیہ‪،‬‬
‫ص ‪ ،84‬قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 102‬قرآن کریم‪ :‬طالق ‪2:65‬‬
‫(‪ 103‬قرآن کریم‪ :‬النساء ‪135: 4‬‬
‫(‪ 104‬کاسانی‪ ،‬عالء الدین ابی بکر ابن مسعود‪( :‬م۔ ‪587‬ھ ‪1191 /‬ء)‪ :‬بدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،6‬ص‬
‫‪ ،277‬دارالکتب العلمیہ‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1406 ،‬ھ ‪1986 /‬ء‬
‫(‪ 105‬کاندھلوی‪ ،‬محمد علی صدیقی‪ :‬معالم القرآن‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪ ،412-411‬دارالعلوم الشھابیہ‬
‫سیالکوٹ‪1396 ،‬ھ ‪1976 /‬ء‬
‫(‪ 106‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪79‬‬
‫(‪ 107‬ڈاکٹر یوسف گورایہ‪’’ :‬قرآنی دستور کے تحت نظام عدالت‘‘‪ ،‬نقوش‪ُ ،‬رسول نمبر‪ ،‬ج ‪،11‬‬
‫ص ‪696‬‬
‫الکتانی‪ :‬التراتیب االداریہ‪ ،‬ص ‪320‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪108‬‬
‫(‪ i( 109‬ابن حجر عسقالنی‪ :‬فتح الباری ج ‪ ،16‬ص ‪308‬‬
‫(‪ ii‬قرطبی‪ ،‬محمد بن فرج‪ ،‬ابوعبدہللا‪( :‬م۔‪497‬ھ ‪1103 /‬ء ) اقضیۃ رسول ﷺ‪ ،‬دارالکتاب‬
‫العربی بیروت‪1426 ،‬ھ ‪2005 /‬ء‬
‫(‪ 110‬الکرمانی‪ ،‬محمد بن یوسف‪( :‬م۔ ‪786‬ھ ‪1384 /‬ء)‪ :‬تحقیق الکواکب الدراری شرح البخاری‪،‬‬
‫کتب رسول ہللا ﷺ الیہم یعنی اہل خیبر‪ ،‬ج ‪ ،24‬ص ‪ ،231‬دار احیاء التراث العربی‪ ،‬بیروت‪1401 ،‬ھ ‪/‬‬
‫‪1979‬ء‬
‫(‪ 111‬مسلم‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب السالم‪ ،‬باب لکل داء دواء واستحباب التداوی‪ ،‬رقم الحدیث‪:‬‬
‫‪2206‬‬
‫(‪ 112‬بلند شہری‪ ،‬عاشق ٰالہی‪ :‬شرعی پردہ‪ ،‬ص ‪ ،71‬مکتبہ رحمانیہ‪ ،‬اُردو بازار الہور‪1418 ،‬ھ ‪/‬‬
‫‪1997‬‬
‫حصکفی‪ ،‬عالء الدین‪( :‬م۔ ‪1088‬ھ ‪1677 /‬ء)‪ :‬درالمختار‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،406‬دارالفکر بیروت‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪113‬‬
‫طبعۃ الثانیہ‪1412 ،‬ھ ‪1992 /‬ء‬
‫(‪ 114‬قرآن کریم‪ :‬النور‪24:31 ،‬‬
‫(‪ 115‬ثناء ہللا پانی پتی‪ ،‬قاضی‪( :‬م ‪1225‬ھ ‪1810 /‬ء)‪ :‬تفسیر المظہری‪ ،‬ج ‪ ،6‬ص ‪ ،495‬مکتبۃ‬
‫الرشیدیہ‪ ،‬الباکستان‪ ،‬طبع‪1412‬ھ‪1991/‬ء‬
‫(‪ 116‬الفراء بغوی‪ ،‬حسین بن مسعود‪( :‬م۔ ‪510‬ھ ‪1116 /‬ء)‪ :‬معالم التنزیل‪ ،‬ج ‪ ،5‬ص ‪،649‬‬
‫اولی‪1416 ،‬ھ ‪1995 /‬ء‬
‫دارالسالم للنشر و التوزیع‪ ،‬الریاض‪ ،‬طبعۃ ٰ‬
‫ہللا‪ :‬تفسیر المظھری‪ ،‬ج ‪ ،6‬ص ‪494‬‬
‫(‪ 117‬قاضی ثناء ؒ‬
‫نجیم‪ ،‬زین الدین بن ابراہیم‪( :‬م۔ ‪970‬ھ ‪1562 /‬ء)‪ :‬االشباہ والنظائر‪ ،‬ص ‪ ،73‬دارالکتب‬
‫(‪ 118‬ابن ؒ‬
‫اولی‪1419 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬ ‫العلمیہ بیروت‪ ،‬طبعہ ٰ‬
‫(‪ 119‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪74‬‬
‫بیضاوی‪ ،‬عبدہللا بن عمر‪( :‬م۔ ‪685‬ھ ‪1285 /‬ء)‪ :‬انوار التنزیل و اسرار التاویل‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص‬
‫ؒ‬ ‫(‪120‬‬
‫اولی‪1418 ،‬ھ ‪1997 /‬ء‬ ‫‪ ،104-105‬داراحیاء التراث العربی‪،‬بیروت‪ ،‬طبعہ ٰ‬
‫ص‪ ،‬احمد بن علی‪ ،‬ابوبکر‪( :‬م‪370 :‬ھ ‪1980 /‬ء)‪ :‬احکام القرآن‪ ،‬باب فی مقدار مایاکل‬
‫(‪ 121‬جصا ؒ‬
‫المضطر‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،161‬سہیل اکیڈمی الہور‪1400 ،‬ھ ‪1979 /‬ء‬
‫کاسانی‪ :‬بدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪176‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪122‬‬
‫(‪ 123‬محمد نظام الدین‪ ،‬مفتی‪ :‬فقہ اسالمی کے سات بنیادی اصول‪ ،‬ص ‪ ،96‬دارالنعمان‪ ،‬یونیورسٹی‬
‫روڈ کراچی‪ ،‬ط دوئم‪1431 ،‬ھ‪2010/‬ء‬
‫(‪ 124‬مجاہد االسالم قاسمی‪ :‬طبی اخالقیات‪ ،‬ص ‪ ،408‬ادارۃ القرآن والعلوم االسالمیہ‪ ،‬کراچی‪،‬‬
‫‪1419‬ھ ‪1998 /‬ء‬
‫(‪ 125‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ ،‬ص ‪80‬‬
‫عمر‪ ،‬ص ‪691‬‬
‫(‪ 126‬محمد رواس قلعہ جی‪ :‬موسوعہ فقہ ؓ‬
‫(‪ 127‬متقی‪ ،‬علی بن حسام الدین‪( :‬م۔ ‪975‬ھ ‪1567/‬ء)‪ :‬کنز العمال فی سنن االقوال واالفعال‪ ،‬رقم‬
‫الحدیث‪ ،17789 :‬موسسۃ الرسالۃ‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ الخامسۃ‪1401 ،‬ھ ‪1981 /‬ء‬
‫(‪ 128‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪81‬‬
‫(‪ 129‬ابن قیم جوزی‪ ،‬محمد بن ابی بکر‪( :‬م۔ ‪751‬ھ ‪1350 /‬ء)‪ :‬تہذیب االمام‪ ،‬حاشیہ مختصر سنن‬
‫ابی دائود للمنذری‪ ،‬ج ‪ ،5‬ص ‪ ،212‬دارالفکر‪ :‬بیروت‪1405 ،‬ھ ‪1984 /‬ء‬
‫(‪ 130‬وکیع‪ ،‬محمد بن خلف‪( :‬م۔ ‪306‬ھ ‪918 /‬ء)‪ :‬اخبار القضاۃ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،94‬المکتبۃ التجاریۃ‬
‫الکبری‪ ،‬مصر‪1366 ،‬ھ ‪1947 /‬ء‬
‫ٰ‬
‫(‪ 131‬حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،1‬ص ‪102-101‬‬
‫(‪ 132‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ ،‬ص ‪84‬‬
‫الماوردی‪ ،‬علی بن محمد‪ ،‬ابوالحسن‪( ،‬م‪450 :‬ھ ‪1058 /‬ء)‪ :‬االحکام السلطانیہ‪ ،‬ص ‪،125‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪133‬‬
‫دارالحدیث‪ ،‬القاھرہ‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 134‬مجاہد قاسمی‪ :‬اسالمی عدالت‪ ،‬ص ‪217‬‬
‫(‪ 135‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪218‬‬
‫(‪ 136‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪219‬‬
‫الدعوی‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪397‬‬
‫ٰ‬ ‫حصکفی‪ :‬د ُِر مختار‪ ،‬کتاب‬
‫ؒ‬ ‫(‪137‬‬
‫(‪ 138‬دار قطنی‪ ،‬علی بن عمر‪( :‬م۔ ‪385‬ھ ‪995 /‬ء)‪ :‬السنن‪ ،‬کتاب االقضیۃ‪ ،‬رقم الحدیث‪،4457 :‬‬
‫اولی‪1424 ،‬ھ ‪2004 /‬ء‬
‫موسسۃ الرسالۃ‪ ،‬بیروت طبعہ ٰ‬
‫(‪ 139‬حوالہ سابق‪ ،‬رقم الحدیث‪4459 :‬‬
‫(‪ 140‬طبری‪ ،‬محمد بن جریر‪ ،‬ابوجعفر‪( :‬م‪310 :‬ھ ‪922 /‬ء)‪ :‬تاریخ االمم والملوک‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪،386‬‬
‫دارالتراث‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1387 ،‬ھ ‪1967 /‬ء‬
‫(‪ 141‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 142‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪85‬‬
‫(‪ 143‬قرآن کریم‪ :‬النساء ‪58: 4‬‬
‫(‪ 144‬قرآن کریم‪ :‬االنعام ‪6:152‬‬
‫(‪ 145‬قرآن کریم‪ :‬االعراف ‪29: 7‬‬
‫(‪ 146‬قرآن کریم‪ :‬النحل ‪16:90‬‬
‫(‪ 147‬ابن ھشام‪ ،‬عبدالملک بن ایوب‪( :‬م‪213 :‬ھ ‪828 /‬ء)‪ :‬السیرۃ النبویہ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،504‬شرکۃ‬
‫مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی و اوالدہ بمصر‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1375 ،‬ھ ‪1955 /‬ء‬
‫(‪ 148‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪87‬‬
‫خصاف‪ :‬ادب القاضی‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪312-311‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪149‬‬
‫(‪ 150‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪89‬‬
‫(‪ 151‬قوانین کی اسالمی تشکیل‪ ،‬سلسلہ دوم‪ ،‬ج اول‪ ،‬رہنما اصول نمبر ‪ ،11‬ص ‪ ،28‬اسالمی‬
‫نظریاتی کونسل‪ ،‬اسالم آباد‪1421 ،‬ھ‪2000/‬ء‬
‫اوعی من سامع‪ ،‬رقم‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 152‬بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب العلم‪ ،‬باب قول النبی ﷺ‪ :‬رب مبلغ‬
‫الحدیث‪67 :‬‬
‫مسلم‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب البروالصلۃ واْلداب‪ ،‬باب تحریم ظلم المسلم‪ ،‬حدیث رقم‪:‬‬ ‫(‪i( 153‬‬
‫‪2564‬‬
‫دیلمی‪ ،‬شیرویہ بن شہردار‪( :‬م‪509 :‬ھ ‪1115 /‬ء)‪ :‬فردوس االخبار‪ ،‬رقم‬ ‫(‪ii‬‬
‫الحدیث‪ ،4002 :‬دارالکتاب العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 154‬نویں رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪ ،6-5‬اسالمی نظریاتی کونسل‪ ،‬اسالم آباد‪1403 ،‬ھ ‪/‬‬
‫‪1983‬ء‬
‫‪PLD, SCI, PLD Publishers, Urdu Bazar Lahore, ND ,1990 )155‬‬
‫نویں رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪90‬‬ ‫(‪A-155‬‬
‫(‪ 156‬قرآن کریم‪ :‬النساء ‪35: 4‬‬
‫بیضاوی‪ :‬انوار التنزیل واسرار التایل‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪73‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪157‬‬
‫جصاص‪ :‬احکام القرآن‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪191‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪158‬‬
‫قرطبی‪ ،‬محمد بن احمد‪ ،‬ابو عبدہللا‪( :‬م۔ ‪668‬ھ ‪1269 /‬ء)‪ :‬الجامع الحکام القرآن‪ ،‬ج ‪ ،5‬ص‬
‫ؒ‬ ‫(‪159‬‬
‫‪ ،175‬دارالکتب المصریۃ‪ ،‬القاھرہ‪ ،‬طبعۃ الثانیہ‪1384 ،‬ھ ‪1964 /‬ء‬
‫(‪ 160‬قرآن کریم‪ :‬یوسف ‪13:55‬‬
‫(‪ 161‬شوکانی‪ ،‬محمد بن علی‪( :‬م‪1250 :‬ھ ‪1834 /‬ء)‪ :‬نیل االوطار‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪ ،9‬مطبع مصطفی‬
‫الحلبی‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1372 ،‬ھ ‪1952 /‬ء‬
‫(‪ 162‬سید سابق‪ :‬فقہ السنہ‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪ ،229‬موسسۃ الرسالہ‪ ،‬بیروت‪1401 ،‬ھ ‪1980 /‬ء‬
‫(‪ 163‬قرآن کریم‪ :‬یوسف ‪13:93‬‬
‫عربی‪ :‬احکام القرآن‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪1228‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪ 164‬ابن‬
‫(‪ 165‬وھبہ زحیلی‪ ،‬الدکتور‪ :‬التفسیر المنیر فی العقیدہ والشریعۃ والمنہج‪ ،‬ج ‪ ،15‬ص ‪ ،234‬دارالفکر‬
‫المعاصر‪ ،‬بیروت‪1418 ،‬ھ ‪1998 /‬ء‬
‫(‪ 166‬قرآن کریم‪ :‬کہف ‪19: 18‬‬
‫عربی‪ :‬احکام القرآن‪ :‬ج ‪ ،3‬ص ‪213‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪ 167‬ابن‬
‫(‪ 168‬زحیلی‪ :‬التفسیر المنیر‪ :‬ج ‪ ،5 1‬ص ‪234‬‬
‫(‪ 169‬ابودائودو‪ :‬السنن‪ ،‬کتاب االقضیہ‪ ،‬باب الوکالہ‪ ،‬رقم الحدیث‪3632 :‬‬
‫(‪ 170‬ابن سعد‪ :‬طبقات‪ ،‬ج ‪ ،4‬جزء ‪ ،8‬ص ‪411‬‬
‫الکبری‪ ،‬کتاب الوکالۃ‪ ،‬باب التوکیل فی الخصومات‪ ،‬رقم الحدیث‪11437 :‬‬
‫ٰ‬ ‫بیہقی‪ :‬السنن‬
‫ؒ‬ ‫(‪171‬‬
‫شیبہ‪ ،‬عبدہللا بن محمد‪ ،‬ابوبکر‪( :‬م۔ ‪235‬ھ ‪849 /‬ء)‪ :‬المنصف‪ ،‬کتاب الوکالۃ‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪ ii‬ابن ابی‬
‫االولی‪1409 ،‬ھ ‪1988 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫الوکالۃ فی الخصومۃ‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،23177 :‬مکتبۃ الرشد‪ ،‬ریاض‪ ،‬طبعۃ‬
‫السبکی‪ ،‬تقی الدین‪( :‬م‪756 :‬ھ ‪1355 /‬ء)‪ :‬تکملہ شرح المھذب‪ ،‬ج ‪ ،14‬ص ‪ ،98‬دارالفکر‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪172‬‬
‫بیروت‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 173‬محمود احمد غازی‪ :‬ادب القاضی‪ ،‬ص ‪301‬‬
‫(‪ 174‬تاریخ یعقوبی‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪266‬‬
‫(‪ ii‬االزھری‪ ،‬محمد کرم شاہ‪ ،‬جسٹس‪ :‬ضیاء النبی ﷺ‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪ ،801-800‬ضیاء القرآن‬
‫پبلی کیشنز‪ ،‬الہور‪ ،‬ط دوم‪1402 ،‬ھ‪1981 /‬ء‬
‫الکبری‪ ،‬کتاب البیوع‪ ،‬باب التسھیل فی‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 175‬نسائی‪ ،‬احمد بن شعیب‪( :‬م‪303:‬ھ ‪915 /‬ء)‪ :‬السنن‬
‫االولی‪1421 ،‬ھ ‪2001 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫ترک االشھاد علی البیع‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،6198 :‬موسسۃ الرسالہ بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫(‪ ii‬المنذری‪ ،‬عبدالعظیم‪( :‬م‪656 :‬ھ ‪1258 /‬ء )‪ :‬مختصر سنن ابی دائود‪ ،‬رقم الحدیث‪:‬‬
‫‪ ،3607‬مطبع السنۃ المحمدیہ‪1368 ،‬ھ ‪1949 /‬ء‬
‫نظام عدالت‪ ،‬قرآن کے بنیادی دستوری‬
‫ِ‬ ‫(‪ 176‬ڈاکٹر یوسف گورایہ‪‘‘ :‬قرآنی دستور کے تحت‬
‫اصول‘‘‪ ،‬نقوش‪ُ ،‬رسول نمبر‪ ،‬شمارہ نمبر ‪ ،130‬ج ‪ ،11‬ص ‪659‬‬
‫سہیلی‪ ،‬عبدالرحمن بن عبدہللا‪( :‬م‪581 :‬ھ ‪1185 /‬ء)‪ :‬الروض االنف شرح السیرۃ البن ھشام‪،‬‬
‫(‪ُ 177‬‬
‫االولی‪1421 ،‬ھ ‪2000 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫ج ‪ ،7‬ص ‪ ،591‬دار احیاء التراث العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫(‪ ii‬ابن کثیر‪ :‬البدایہ والنھایہ‪ ،‬ج ‪ ،5‬ص ‪248‬‬
‫الصحابہ‪ ،‬ج ‪،3‬‬
‫ؓ‬ ‫(‪ 178‬ابن حجر عسقالنی‪ ،‬احمد بن علی‪( :‬م‪852 :‬ھ ‪1448 /‬ء)‪ :‬االصابہ فی تمییز‬
‫اولی‪1415 ،‬ھ ‪1994 /‬ء‬‫ص ‪ ،56‬تذکرہ عینیہ بن حصن الفزاری‪ ،‬دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬طبعہ ٰ‬
‫اکبر‪ :‬ص ‪ ،327‬مکتبہ رشیدیہ‪ ،‬پاکستان چوک کراچی‪ ،‬ط‬
‫(‪ ii‬اکبر آبادی‪ ،‬سعید احمد‪ :‬صدیق ؓ‬
‫دوم‪ ،‬س ن‬
‫الفاروق‪ ،‬ص ‪ ،329‬مکتبہ رحمانیہ‪ ،‬اُردو بازار‪ ،‬الہور‪ ،‬س ن‬
‫ؓ‬ ‫(‪ 179‬شبلی نعمانی‪:‬‬
‫الصحابہ‪ ،‬ج ‪،1‬‬
‫ؓ‬ ‫(‪ 180‬ابن اثیر الجزری‪ ،‬علی بن محمد‪( :‬م‪630 :‬ھ ‪1232 /‬ء)‪ :‬ا ُ ُ‬
‫سد الغابہ فی معرفۃ‬
‫االولی‪1415 ،‬ھ ‪1994 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫ص ‪ ،178‬دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫راشدین‪ ،‬ص ‪ ،177‬اسالمی کتب خانہ‪ ،‬اُردو بازار الہور‬‫ؓ‬ ‫(‪ ii‬ندوی‪ ،‬معین الدین‪ :‬خلفائے‬
‫(‪ 181‬بیہقی‪ :‬السنن الکبری‪ ،‬کتاب آداب القاضی‪ ،‬باب انصاف الخصمین فی المدخل علیہ‪ ،‬رقم‬
‫الحدیث‪20465 :‬‬
‫(‪ 182‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ ،‬ص ‪94 ،93‬‬
‫(‪ 183‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪96‬‬
‫(‪ 184‬ترمذی‪ :‬السنن‪ ،‬کتاب االحکام‪ ،‬باب ماجآء فی ان البینۃ علی المدعی‪ ،‬رقم الحدیث‪1342 :‬‬
‫کاسانی‪ :‬بدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص‪6‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪185‬‬
‫(‪ 186‬حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،7‬ص ‪13-12‬‬
‫باب نمبر ‪3‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ 201‬تا ‪400‬‬


‫دفعہ نمبر ‪ :201‬اس مجسٹریٹ کا طریق کار جو مقدمہ کی سماعت کا مجاز نہ ہو‬

‫اگر استغاثہ تحریری طور پر کسی ایسے مجسٹریٹ کو پیش کیا جائے جو اس مقدمہ‬ ‫(‪1‬‬
‫کی سماعت کا اختیار نہ رکھتا ہو تو اس پر الزم ہوگا کہ وہ اس امر کی نسبت عبارت ظہری تحریر‬
‫کرکے استغاثہ عدالت مجاز میں پیش کرنے کے لئے واپس کردے۔‬
‫اگر استغاثہ تحریری طور پر نہ کیا گیا ہو تو ایسے مجسٹریٹ پر الزم ہوگا کہ وہ‬ ‫(‪2‬‬
‫مستغیث کو عدالت مجاز میں جانے کی ہدایت کرے گا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے برعکس دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ یا‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :202‬حکم نامہ کے اجراء کا التواء‬

‫جب کسی عدالت کو کسی ایسے جرم کا استغاثہ موصول ہو‪ ،‬جسے سماعت کرنے‬ ‫(‪1‬‬
‫کی وہ مجاز ہو یا جو اسے دفعہ ‪ 190‬کی ضمنی دفعہ (‪ 30‬کے تحت ارسال کیا گیا ہو یا اسے زیر‬
‫دفعہ ‪ 191‬یا ‪ 192‬منتقل کیا گیا ہو‪ ،‬مجاز ہوگی کہ اگر وہ مناسب سمجھے‪ ،‬ان وجوہات پر جو قلم بند‬
‫کی جائیں گی‪ ،‬اس شخص کو جبرا ً حاضر کرائے جانے کے لئے جس کے خالف استغاثہ دائر ہوا‬
‫ہو‪ ،‬حکم نامہ کا اجراء ملتوی کردے اور استغاثہ کے سچا یا جھوٹا ہونے کی تصدیق کی غرض سے‬
‫یا تو خود مقدمہ کی تحقیقات کرے یا کسی جسٹس آصف پیس یا پولیس افسر کے ذریعہ اس کی‬
‫تحقیق یا تفتیش کرنے کا حکم دے۔‬
‫بشرطیکہ سوائے اس صورت کے کہ استغاثہ کسی عدالت کی طرف سے کیا گیا ہو‪ ،‬ایسی کوئی‬
‫ہدایت نہ دی جائے گی جب تک کہ دفعہ ‪ 200‬کے احکام کے تحت مستغیث کا بیان حلف پر نہ لے لیا‬
‫گیا ہو۔‬
‫کوئی عدالت سیشن مجاز ہوگی کہ ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے احکام کے تحت تفتیش‬ ‫(‪2‬‬
‫کرنے کا حکم دینے کی بجائے استغاثہ کے سچا یا جھوٹا ہونے کی تصدیق کی غرض سے اپنے‬
‫ماتحت کسی مجسٹریٹ کو تحقیقات کرنے کا حکم دے۔‬
‫اگر دفعہ ہذا کے تحت کوئی تحقیق یا تفتیش کسی ایسے شخص کے ذریعہ عمل میں‬ ‫(‪3‬‬
‫الئی جائے جو جسٹس آف پیس یا مجسٹریٹ یا افسر پولیس نہ ہو تو ویسا شخص وہ تمام اختیارات‬
‫بروئے کار الئے گا جو مجموعہ ہذا کے تحت کسی افسر انچارج پولیس سٹیشن کو عطا ہوئے ہیں‪،‬‬
‫سوائے اس کے کہ اسے بالوارنٹ گرفتار کرنے کا اختیار حاصل نہ ہوگا۔‬
‫کوئی عدالت جو دفعہ ہذا کے تحت کسی مقدمہ کی تحقیقات کر رہی ہو‪ ،‬مجاز ہوگی‬ ‫(‪4‬‬
‫کہ اگر وہ مناسب سمجھے‪ ،‬گواہان کی شہادت حلف پر لے۔‬

‫وضاحت‪ :‬مذکورہ دفعہ کی شق نمبر ‪ 1‬و نمبر ‪ 2‬میں کہا گیا ہے کہ عدالت استغاثہ کے سچا یا جھوٹا‬
‫ہونے کی تصدیق کیلئے کسی مجاز افسر کو تحقیق وتفتیش کا حکم دے سکتی ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس بارے میں مجموعہ ہذا کی دفعات نمبر ‪ 148 ،157‬کے تحت تفصیلی دالئل‬
‫اسالمی ٔ‬
‫نظام عدل میں بھی اس کی گنجائش ہے‬
‫ِ‬ ‫ذکر کئے جا چکے ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسالمی‬
‫اور عدالت اپنے امور میں معاونت حاصل کر سکتی ہے۔ شق نمبر ‪ 3‬اور نمبر ‪ 4‬میں کوئی بات‬
‫اسالمی اصولوں کے منافی معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :203‬استغاثوں کا اخراج‬

‫وہ عدالت جس کے پاس استغاثہ دائر کیا گیا ہو یا جس کے پاس منتقل کیا گیا ہو یا بھیجا گیا ہو‪ ،‬مجاز‬
‫ہوگی کہ مستغیث کے حلفی بیان (اگر کوئی ہو) اور زیر دفعہ ‪ 202‬تحقیقات یا تفتیش (اگر کوئی ہو)‬
‫کے نتیجہ پر غور کرنے پر‪ ،‬اس کے رائے کے مطابق کارروائی کے لئے کافی وجہ نہ ہو تو‬
‫استغاثہ کو خارج کردے۔ ایسی صورت میں اس پر الزم ہوگا کہ ایسا کرنے کے وجوہات مختصر‬
‫طور پر قلم بند کرے۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی عدالت میں کوئی مقدمہ آئے اور تحقیقات و تفتیش‬
‫کے بعد اگر اس کی رائے میں کارروائی کی کافی وجہ نہ ہو تو استغاثہ کو خارج کردے۔‬
‫نظام عدالت میں بھی ملتی ہے۔‬
‫ِ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬عدالت کے مندرجہ باال اختیار کی مثال اسالمی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫علی کے پاس ایک مقدمہ الیا گیا۔‬
‫ایک دفعہ حضرت ؓ‬
‫آپ نے فرمایا کہ میں جھوٹے گواہوں کو سزا دیتا ہوں۔‬
‫ؓ‬
‫اس کے بعد جب گواہوں کو طلب کیا گیا تو وہ بھاگ کر جا چکے تھے‪ ،‬چونکہ وہ جھوٹے‬
‫آپ‬
‫تھے‪ ،‬لہٰ ذا سزا کے ڈر سے بھاگ گئے۔ اس پر مزید کارروائی کی کافی وجہ نہ ہونے کے باعث ؓ‬
‫نے وہ مقدمہ خارج کردیا۔ (‪)1‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے برعکس دکھائی نہیں دیتی لہٰ ذا ترمیم‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :A-203‬زنا کی صورت میں نالش‬

‫کوئی عدالت جرم زنا (نفاذ حدود) آرڈیننس ‪1979‬ء (‪ VII‬بابت ‪1979‬ء) کی دفعہ ‪5‬‬ ‫(‪1‬‬
‫کے تحت ایک جرم کی سماعت کو نہ لے گی ماسوائے ایک نالش پر جو کہ اختیار سماعت رکھنے‬
‫والی عدالت میں دائر کی گئی ہے۔‬
‫عدالت کا افسر صدارت کنندہ جو شکایت پر جرم کی سماعت کر رہا ہے ‪،‬فوری‬ ‫(‪2‬‬
‫طور پر نالش کنندہ اور جرم کے لئے ضروری دخول کے فعل کے کم از کم چار بالغ گواہان جن‬
‫کے بارے میں عدالت تزکیہ الشہود کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مطمئن ہے کہ وہ سچے‬
‫افراد ہیں اور گناہ کبیرہ سے بچنے والے ہیں‪ ،‬کی پڑتال کی جائے گی۔‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ اگر ملزم غیر مسلم ہے تو گواہان بھی غیر مسلم ہو سکتے ہیں۔‬
‫نالش کنندہ اور چشم دید گواہان کے معائنہ کے لب لباب کو قلمبند کیا جائے گا اور‬ ‫(‪3‬‬
‫اس پر نالش کنندہ اور چشم دید گواہان جیسی کہ صورت ہو کی جانب سے اور عدالت کے افسر‬
‫صدارت کنندہ کی جانب سے بھی دستخط کئے جائیں گے۔‬
‫اگر افسر صدارت کنندہ کی رائے میں کارروائی کی کافی وجہ موجود ہے تو عدالت‬ ‫(‪4‬‬
‫ملزم کی ذاتی حاضری کے لئے سمن جاری کرے گی۔‬
‫عدالت کا افسر صدارت کنندہ جس کے روبرو نالش کی گئی ہے جس کو اسے منتقل‬ ‫(‪5‬‬
‫کیا گیا ہے نالش کو خارج کر سکتا ہے‪ ،‬اگر نالش کنندہ اور چار یا زیادہ چشم دید گواہان کے حلف‬
‫پر بیانات پر غور کرنے کے بعد اس کی رائے میں کارروائی کے کافی وجہ موجود نہ ہے اور ایسی‬
‫صورت میں وہ ایسا کرنے کے لئے اپنی وجوہات کو قلمبند کرے گا۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر‪ 1‬میں مذکور ہے کہ کوئی عدالت نفاذ حدود آرڈیننس ‪1979‬ء (‪VII‬‬
‫(دعوی) کے بغیر نہ کرے گی۔‬
‫ٰ‬ ‫بابت ‪1979‬ء) کے تحت جرم زنا کی سماعت نالش‬
‫دعوی شرط نہیں ہے‪ :‬وہ جرائم حدود جو خالصتا ً حق‬
‫ٰ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬حد زنا اور حد خمر میں‬
‫اسالمی ٔ‬
‫دعوی یا خصومت (کسی فریق کا‬
‫ٰ‬ ‫نظام عدالت میں ان حدود کے اثبات کیلئے‬
‫ِ‬ ‫ہللا ہیں‪ ،‬اسالمی‬
‫دعویدار بنکر مقدمہ دائر کرنا) ضروری نہیں ہے بلکہ ان میں گواہ بھی مدعی بن سکتا ہے اور اسی‬
‫دعوی حسبہ یا‬
‫ٰ‬ ‫طرح حکومت کی مقررہ ایجنسی بھی مدعی بن سکتی ہے‪ ،‬فقہی اصطالح میں اسے‬
‫دعوی شہادت کہا جاتا ہے‪ ،‬چنانچہ اگر چار گواہ زنا کی گواہی دے دیں تو وہ گواہی بغیر اس بات‬
‫ٰ‬
‫دعوی موجود ہو‪ ،‬قابل سماع ہوگی‪ ،‬اسی طرح شراب نوشی کی حد میں بغیر‬ ‫ٰ‬ ‫کے کہ پہلے سے کوئی‬
‫دعوی کے گواہی قابل قبول ہوگی۔ (‪)2‬‬
‫ٰ‬ ‫کسی سابق‬
‫اس سلسلے میں کاسانی لکھتے ہیں کہ حد زنا اور حد شرب چونکہ خالصتا ً حق ہللا ہیں‪ ،‬اس‬
‫لئے ان میں خصومت شرط نہیں ہے کیونکہ حدود خالصتا ً حق ہللا ہوتی ہیں‪ ،‬ان میں خصومت شرط‬
‫تعالی کی رضا کیلئے قائم کی جاتی ہیں۔ لہٰ ذا ان کا ظہور کسی دوسرے شخص‬‫ٰ‬ ‫نہیں ہوتی بلکہ ہللا‬
‫دعوی پر موقوف نہیں ہے۔ (‪)3‬‬
‫ٰ‬ ‫کے‬
‫اس سلسلے میں الجزیری لکھتے ہیں‪:‬‬
‫دعوی ضروری نہیں‬
‫ٰ‬ ‫زنا کاری اور شراب نوشی کے اثبات کیلئے عینی شہادت کافی ہے۔‬
‫دعوی کرنا‬
‫ٰ‬ ‫ہے‪ ،‬نہ ایفاء (ادا کرنا) میں نہ استیفاء (مطالبہ کرنا) میں لیکن حد قذف اور حد سرقہ میں‬
‫ضروری ہوتا ہے۔ (‪)4‬‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ حد زنا اور حد خمر چونکہ خالصتا ً حق ہللا ہیں‪ ،‬لہٰ ذا انہیں‬
‫نافذ کرنے کیلئے خصومت شرط نہیں ہے بلکہ گواہ اور حکومتی ادارے بھی ان کے مدعی بن‬
‫سکتے ہیں اور اثبات کے بعد حد نافذ کر دی جائیگی۔‬
‫دعوی شرط ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫حد سرقہ اور حد قذف میں‬
‫دعوی ضروری ہے کیونکہ سرقہ کے ثبوت کیلئے ضروری ہے کہ جو‬ ‫ٰ‬ ‫حد سرقہ‪ :‬حد سرقہ میں‬
‫مال چوری کیا گیا ہے وہ کسی کی ملکیت ہو‪ ،‬اسے مالک کی تحویل سے لیا گیا ہو اور مالک نے‬
‫اسے لینے کی اجازت نہ دی ہو‪ ،‬ان تمام امور کی تحقیق ضروری ہے کیونکہ ان احتماالت کی‬
‫موجودگی میں حد جاری نہیں ہو سکتی کیونکہ شبہات سے حدود ساقط ہو جاتی ہیں۔ (‪)5‬‬
‫کاسانی لکھتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی اختالف نہیں کہ حد سرقہ کا اثبات‬
‫ؒ‬ ‫اس بارے میں‬
‫(دعوی) شرط ہے کیونکہ حد سرقہ اگرچہ‬
‫ٰ‬ ‫اگر بذریعہ شہادت ہو تو اس کے ثبوت کیلئے خصومت‬
‫تعالی کا حق ہے لیکن یہ اسی وقت ثابت ہو سکتا ہے جبکہ پہلے سے یہ ثابت ہو کہ‬
‫ٰ‬ ‫خالص ہللا‬
‫مسروقہ شے مسروق منہ کی ملکیت ہے اور یہ بات خصومت ہی سے ظاہر ہو سکتی ہے۔ (‪)6‬‬
‫اس بارے مینابن قدامہ کہتے ہیں کہ اگر سارق اقرار کرلے یا سرقہ پر مبینہ قائم ہو جائے تو‬
‫دعوی نہ کرے کیونکہ مال‬
‫ٰ‬ ‫حد سرقہ اس وقت تک جاری نہیں ہوگی جب تک مسروق شے کا مالک‬
‫ایسی شے ہے جو کسی کو دیا جا سکتا ہے اور اس کے استعمال کی اجازت بھی دی جا سکتی ہے یا‬
‫یہ مال اس نے عام مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا ہو‪ ،‬یا یہ مال وقف ہو اور سارق موقوف علیھم میں‬
‫سے ہو یا مالک نے سارق کو حرز میں داخل ہونے کی اجازت دے دی ہو‪ ،‬ان تمام شبہات کو دور‬
‫دعوی ضروری ہے۔ (‪)7‬‬
‫ٰ‬ ‫کرنے کیلئے‬
‫قدامہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫حد قذف‪ :‬حد قذف میں بھی خصومت ضروری ہے۔ ابن‬
‫دعوی کی اہمیت تمام حدود سے زیادہ ہے۔ اس حد تک کہ بعض‬
‫ٰ‬ ‫’’حد قذف میں مقذوف کے‬
‫دعوی کو الزمی قرار دیا ہے بلکہ اسے‬
‫ٰ‬ ‫کرام نے نہ صرف یہ کہ قذف کیلئے مقذوف کے‬
‫ؒ‬ ‫فقہاء‬
‫قصاص کے مماثل قرار دیتے ہوئے مدعی کی جانب سے استیفا کے حد کے مطالبہ کی قید بھی‬
‫لگائی ہے‘‘۔ (‪)8‬‬
‫آپ کے‬
‫امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک قذف کی حد معاف کردینے سے ساقط نہیں ہوتی اور ؒ‬
‫دعوی کے بعد حد قائم کرنے کے مطالبہ پر مقذوف کا استمرار شرط نہیں ہے۔ (‪)9‬‬
‫ٰ‬ ‫نزدیک‬
‫تعالی کا حق ہے یا یہ‬
‫ٰ‬ ‫کاسانی لکھتے ہیں کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ حد قذف خالص ہللا‬
‫ؒ‬
‫کہ اس میں حق ہللا غالب ہے تو اس میں ہمارا موقف یہ ہے کہ حد قذف میں معافی صحیح نہیں ہے‬
‫کیونکہ معاف تو صاحب حق ہی کر سکتا ہے نہ ہی اس میں صلح کرنا اور معاوضہ لینا درست ہے‬
‫کیونکہ دوسرے کے حق کا معاوضہ لینا جائز نہیں ہوتا۔ (‪)10‬‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ حد سرقہ اور حد قذف کے نفاذ کیلئے خصومت شرط ہے‬
‫کیونکہ جہاں یہ حق ہللا ہیں وہیں یہ حق العبد بھی ہیں اور حق العبد چونکہ ان حدود میں غالب ہے‬
‫دعوی کرنا ضروری ہے۔‬‫ٰ‬ ‫لہٰ ذا متاثرہ فریق کی طرف سے ان کا‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬شق نمبر ‪ 1‬اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم ہوتی ہے لہٰ ذا اسے حذف کیا جانا‬
‫چاہئے۔‬
‫مزید وضاحت‪ :‬دفعہ ‪ A-203‬میں نفاذ حدود (جرم زنا) آرڈیننس ‪1979‬ء کی دفعہ نمبر ‪ 5‬کے تحت‬
‫ہونے والے جرم زنا کی سماعت کے اختیار کا ذکر ہے کہ مدعا علیہ کی طرف سے نالش پر‬
‫سماعت کی جائے گی اور اس جرم کی تفصیل یہ ہے کہ ایک بالغ اور ہوشمند آدمی ایسی عورت‬
‫سے صحبت کرے‪ ،‬جس کی اس سے شادی نہ ہوئی ہو‪ ،‬یا یہی فعل کسی بالغ اور ہوشمند عورت کی‬
‫طرف سے کسی ایسے شخص کے ساتھ سرزد ہو جو اس کا خاوند نہ ہو۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ‬
‫پہلے لفظ زنا کی وضاحت کر دی جائے۔ مذکورہ آرڈیننس میں زنا کی تعریف یوں درج ہے‪:‬‬
‫‪Zina: A man and a woman are said to commit "Zina" if they wilfully have‬‬
‫‪.sexual intercourse without being validly married to each other‬‬
‫‪Explanation: Penetration is sufficient to constitute the sexual intercourse‬‬
‫‪."necessary to the offence of "Zina‬‬
‫زنا کے فعل میں درج ذیل شرائط ہونا ضروری ہیں‪:‬‬
‫‪ii) not validly married‬‬ ‫‪i) Should be a man and woman Zina:‬‬
‫‪iv) wilfully‬‬ ‫‪iii) committing sexual intercourse‬‬
‫‪)v) penetration (11‬‬
‫ایم محمود ایڈووکیٹ لکھتے ہیں۔ زنا یہ ہے کہ‪:‬‬
‫‪)12( .Cohibition with a girl considering her to be his wife‬‬
‫زبیدی لکھتے ہیں کہ زنا کا لغوی معنی ہے‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫عالمہ‬
‫’’کسی چیز پر چڑھنا‪ ،‬شریعت کی اصطالح میں زنا کا معنی ہے کسی ایسی مشتھی فرج‬
‫میں حشفہ کو داخل کرنا‪ ،‬جس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہ ہو یا بغیر عقد شرعی کے کسی‬
‫عورت سے وطی (مباشرت) کرنا‘‘۔ (‪)13‬‬
‫درجِ باال بحث کا خالصہ یہ ہے کہ کسی غیر منکوحہ عورت سے مباشرت زنا کہالتا ہے۔‬
‫مـزید وضاحت‪ :‬مذکورہ دفعہ کی شق نمبر ‪ 2‬میں ثبوت جرم کیلئے چار گواہوں اور ان کی جانچ‬
‫پڑتال کا ذکر ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی معاشرے میں یہ عمل سرزد ہونے کے بعد مقدمہ عدالت میں آئے تو‬‫اسالمی ٔ‬
‫عدالت چار چشم دید گواہوں کی شہادت طلب کرے گی کیونکہ اسالم نے زنا کیلئے چار مردوں کی‬
‫ب شہادت قرار دیا ہے۔ ارشاد باری ہے‪:‬‬
‫گواہی کو نصا ِ‬
‫سآئِ ُک ْم فَا ْست َ ْش ِھدُواْ َ‬
‫علَ ْی ِھ َّن ا َْٔربَع ًۃ ِ ِّمن ُک ْم (‪)14‬‬ ‫ش َۃ ِمن نِِّ َ‬ ‫َوالالَّتِی یَأْتِینَ ْالفَ ِ‬
‫اح َ‬
‫’’تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کرلیں تو یہ تہمت لگانے والے چار گواہ طلب‬
‫کرو‘‘۔‬
‫مذکورہ دفعہ میں گواہوں کے تزکیہ کا بھی ذکر ہے‪ ،‬جسے تزکیۃ الشھود کہتے ہیں۔‬
‫تشریح‪ :‬ضابطہ فوجداری میں ہے کہ اس سے مراد عدالت کی جانب سے ایک گواہ کی شہرت کے‬
‫انداز تحقیق ہے۔ (‪)15‬‬
‫ِ‬ ‫بابت خود کو مطمئن کرنے کیلئے اپنایا جانے واال‬
‫متین ہاشمی لکھتے ہیں کہ گواہوں کے چال چلن کا پتہ لگانے کو تزکیۃ الشھود کہتے ہیں۔‬
‫(‪)16‬‬
‫کاسانی کہتے ہیں کہ‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫فقہاء اسالم نے اسے زیادہ جامع انداز میں بیان کیا ہے۔‬
‫ؒ‬
‫صاحبین کے‬ ‫ب قضا میں شامل ہے جبکہ‬ ‫ابوحنیفہ کے نزدیک گواہوں کا تزکیہ آدا ِ‬
‫ؒ‬ ‫امام‬
‫اعظم کہتے ہیں کہ عام مقدمات میں مدعا علیہ قاضی کے‬
‫ؒ‬ ‫نزدیک یہ واجبات قضاء سے ہے‪ ،‬امام‬
‫سامنے گواہوں میں عیب ڈالے اور حدود وقصاص کے مقدمات میں مدعا علیہ گواہوں میں عیب‬
‫بتائے یا نہ بتائے‪ ،‬قاضی پر ان کا تزکیہ واجب ہے۔ قضاۃِ سلف تو گواہوں کے بارے میں اہل محلہ و‬
‫بازار سے نہایت متقی‪ ،‬پرہیز گار اور امانتدار لوگوں سے خود پوچھتے تھے‪ ،‬آج کل اس مقصد میں‬
‫سہولت کیلئے آدمی مقرر کردیئے جاتے ہیں۔ (‪)17‬‬
‫اعظم اور صاحبین کا یہی موقف لکھا ہے۔ (‪)18‬‬
‫ؒ‬ ‫بخاری نے بھی اس بارے میں امام‬
‫ؒ‬ ‫ابن مازہ‬
‫قیم کہتے ہیں کہ گواہوں کا تزکیہ ان سے حلف لیکر بھی کیا جا سکتا ہے۔ امام ابوعبدہللا‪،‬‬
‫ابن ؒ‬
‫مرغینانی‬
‫ؒ‬ ‫وضاح گواہوں سے حلف لیا کرتے تھے کہ وہ صحیح گواہی دے رہے ہیں۔ (‪)19‬‬ ‫ؒ‬ ‫محمد بن‬
‫ابوحنیفہ کا موقف بیان کرکے صاحبین کا نظریہ بیان کرتے ہیں کہ تمام حقوق میں خفیہ اور‬
‫ؒ‬ ‫امام‬
‫عالنیہ تزکیہ ضروری ہے کیونکہ قضا کی بنیاد حجت پر ہے اور حجت عادل کی گواہی ہے اور‬
‫شافعی کا ہے۔ (‪)20‬‬
‫ؒ‬ ‫ؒ‬
‫صاحبین کے قول پر ہے۔ یہی نظریہ امام احمد اور‬ ‫فتوی‬
‫ٰ‬
‫محمود عرنوس کہتے ہیں کہ یہ کام قاضی کا ہے کہ وہ خفیہ طور پر گواہ کے بارے میں‬
‫تحقیقات کرے اور اس کے نتیجہ میں فیصلہ کرے کہ آیا گواہ قابل اعتماد ہے کہ نہیں؟ اس مقصد‬
‫کے لئے وہ عادل‪ ،‬لوگوں کے حاالت سے واقف‪ ،‬حرص وہوا سے خالی‪ ،‬فقہ میں اہلیت‪ ،‬جرح‬
‫وتعدیل کرکے اسباب سے واقف‪ ،‬مال دار اور ذمہ داری اٹھانے کی صالحیت کے حامل لوگوں کو‬
‫مقرر کرے۔ (‪)21‬‬
‫ابن خلدون لکھتے ہیں کہ عدالت کے اوصاف سے مزین اور ہر طرح کے اتہامات سے بری‬
‫پیشہ ور گواہوں کا وجود بھی تاریخ اسالم میں ملتا ہے۔ پہلے قاضی ان کے متعلق چھان بین کرتا‬
‫اور گواہی کا سرٹیفکیٹ انہیں دیتا تھا۔ لوگ ان کے پاس جاتے اور ان سے گواہی لیتے تھے اور‬
‫انہیں ’’عدول‘‘ کہا جاتا تھا۔ (‪)22‬‬
‫ڈاکٹر مصلح الدین لکھتے ہیں‪:‬‬
‫‪It is one of the important duties of a judge to make inquiries into the‬‬
‫‪witnesses competence and particularly as to the fact of his being a man of‬‬
‫‪)23( .rectitude‬‬
‫تزکیہ کی دو قسمیں ہیں۔(‪ )i‬تزکیۃ العالنیہ (‪ )ii‬تزکیۃ السر۔‬
‫تزکیۃ العالنیہ یہ ہے کہ قاضی تعدیل کرنے والے اور گواہ دونوں کو جمع کرے اور گواہ‬
‫کی تعدیل مزکی سے پوچھے۔‬
‫اور تزکیہ السر یہ ہے کہ قاضی مزکی کے پاس گواہ کا نام‪ ،‬حلیہ‪ ،‬پتہ اور محلہ وغیرہ لکھ‬
‫کر خفیہ طریقے سے بھیج دے اور مزکی معلومات کرکے قاضی کو گواہ کی عدالت یا عیب کے‬
‫کرام میں تعدیل‬
‫ؓ‬ ‫بارے میں جواب دیدے۔ یہ خفیہ طور پر ہونا چاہئے۔ عہد رسالت اور عہد صحابہ‬
‫عالنیہ ہوتی تھی اور ضرر رسانی کا خطرہ نہ تھا مگر اس زمانہ میں خفیہ تعدیل کافی ہوگی کیونکہ‬
‫عالنیہ تزکیہ سے فساد کا اندیشہ ہے۔ (‪ )24‬جدید عدالتی نظام میں بھی تزکیۃ الشھود کی اہمیت مسلمہ‬
‫ہے۔ ایم محمود ایڈووکیٹ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫‪It is an accepted rule of Tazkiyah-tul-Shuhood that the credibility of the‬‬
‫‪witnesses shall be examined through the credible person of the same walk of‬‬
‫‪life to which the witness belongs. It means to conduct an open and confidential‬‬
‫‪)25( .enquiry to ascertain whether the witnesses are credible or other wise‬‬
‫درج باال سطور میں تزکیۃ الشہود کے بارے میں فقہاء اسالم کے نظریاتی بیان کئے گئے‬
‫ہیں جو نہایت واضح اور جامع ہیں۔ اس تناظر میں ضابطہ فوجداری میں درج تعریف نامکمل دکھائی‬
‫دیتی ہے۔ لہٰ ذا اس شق میں درجِ باال نکتہ ہائے نظر کو سامنے رکھتے ہوئے مناسب ترمیم کی جانی‬
‫چاہئے۔‬
‫اس دفعہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غیر مسلم ملزم پر گواہ غیر مسلم ہو سکتے ہیں۔‬
‫مرغینانی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬
‫وتقیل شھادۃ اھل الذمہ بعضھم علی بعض (‪)26‬‬
‫’’اور ذمیوں کی گواہی آپس میں ایک دوسرے کے خالف قبول کی جائے گی‘‘۔‬
‫وہ مزید لکھتے ہیں‪:‬‬
‫تعالی‪ :‬والکافرون ھم الفاسقون ‪ o‬ولھذا ال تقبل‬
‫ٰ‬ ‫والشافعی التقبل النہ فاسق قال ہللا‬
‫ؒ‬ ‫مالک‬
‫ؒ‬ ‫وقال‬
‫شھادتہ علی المسلم (‪)27‬‬
‫اور ہماری دلیل یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک نصرانی کی گواہی کو دوسرے نصرانی‬
‫کے خالف جائز قرار دیا ہے۔ لہٰ ذا ضابطہ فوجداری کی یہ شق درست معلوم ہوتی ہے۔ اس میں ترمیم‬
‫کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬
‫تبصرہ‪ :‬دفعہ ہذا کی شق نمبر ‪ 4 ،3‬اور نمبر ‪ 5‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے برعکس معلوم‬
‫نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :B-203‬قذف کے صورت میں نالش‬


‫جرم قذف (نافذ قذف) آرڈیننس ‪1979‬ء (‪ VIII‬بابت ‪1979‬ء) کی دفعہ ‪ 6‬کی ذیلی‬ ‫(‪1‬‬
‫دفعہ (‪ )2‬کے تابع کوئی عدالت مذکورہ آرڈیننس کی دفعہ ‪ 7‬کے تحت ایک جرم کی سماعت کو نہ‬
‫لے گی ماسوائے ایک شکایت پر جو اختیار سماع رکھنے والی عدالت میں درج کی گئی ہے۔‬
‫عدالت کا افسر صدارت کنندہ جو نالش پر جرم کی سماعت کو لے رہا ہے فوری‬ ‫(‪2‬‬
‫طور پر حلف پر نالش کنندہ اور جرم کے لئے ضروری فعل قذف کے گواہان جیسا کہ جرم قذف‬
‫(نفاذ قذف) آرڈیننس ‪1979‬ء (‪ VIII‬بابت ‪1979‬ء)۔‬
‫نالش کنندہ اور گواہان کی پڑتال کا لب لباب تحریر کیا جائے گا اور اس پر نالش‬ ‫(‪3‬‬
‫کنندہ اور گواہان جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬کی جانب سے اور عدالت کے افسر صدارت کنندہ کی جانب‬
‫سے دستخط کیا جائے گا۔‬
‫اگر عدالت کنندہ کی رائے میں کارروائی کے لئے کافی وجہ موجود ہے تو عدالت‬ ‫(‪4‬‬
‫ملزم کی ذاتی حاضری کے لئے سمن جاری کرے گی۔‬
‫عدالت کا افسر صدارت کنندہ جس کے روبرو نالش کی گئی ہے یا جس کو اسے‬ ‫(‪5‬‬
‫منتقل کیا گیا ہے۔ نالش کو خارج کر سکتا ہے اگر نالش کنندہ اور گواہان کے حلف پر بیانات کا‬
‫جائزہ لینے کے بعد اس کی رائے میں کارروائی کے لئے کافی وجہ موجود نہ ہے اور ایسی‬
‫صورت میں وہ ایسا کرنے کے لئے اپنی وجوہات درج کرے گا۔‬
‫وضاحت‪ :‬دفعہ ہذا میں جرم قذف (نفا ِذ قذف) آرڈیننس ‪1979‬ء کی دفعہ نمبر ‪ 6‬کی ذیلی شق نمبر ‪2‬‬
‫کے تابع اس آرڈیننس کی دفعہ نمبر ‪ 7‬کے تحت جرم قذف کی عدالت میں سماعت کا ذکر ہے۔‬
‫ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے لفظ قذف کی وضاحت کر دی جائے۔‬
‫مذکورہ آرڈیننس میں قذف کی یہ تعریف درج ہے‪:‬‬
‫" ‪Whoever by words either spoken or intended to be read, or by signs or‬‬
‫'‪by visible representations, makes or publishes as imputation of 'Zina‬‬
‫‪concerning any person intending to harm or having reason to believe that such‬‬
‫‪imputation will harm the reputation, or hurt the feelings of such person, is said,‬‬
‫‪)28( .'except in the cases hereinafter excepted to commit 'Qazaf‬‬
‫ایک تعریف یہ بھی ہے‪:‬‬
‫‪)29( .Imputation of Zina made against male or female‬‬
‫لغوی معنی‪’’ :‬قذف‘‘ کے لغوی معنی ہیں‪ :‬پھینکنا اور قذف بالحجارۃ کے معنی ہیں پتھر پھینکنا۔‬
‫قذف المحضہ کے معنی ہیں کسی پاکباز عورت پر زنا کا الزام لگانا۔ اس کا ایک معنی گالی دینا بھی‬
‫ہے۔ (‪ )30‬قذف‪ ،‬تہمت‪ ،‬قذف فالنا بالشئی۔ کسی پر تہمت لگانا یا کسی برائی کی طرف منسوب کرنا۔‬
‫الرجل۔ کسی شخص پر بہتان لگانا‪ ،‬قَذَفَ ْہ ِب َکذَا۔ کسی چیز کی تہمت لگانا۔ (‪)32‬‬
‫ف ُّ‬‫(‪ )31‬قَذَ َ‬
‫کرام کی اصطالح میں قذف کا مطلب ہے‪ :‬کسی پاکباز خاتون یا مرد پر زنا‬
‫ؒ‬ ‫اصطالحی معنی‪ :‬فقہاء‬
‫کی تہمت لگانا۔ (‪)33‬‬
‫قدوری کہتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬
‫قذف یہ ہے کہ کسی محصن مرد یا عورت پر واضح طور پر زنا کی تہمت لگا دینا۔ (‪)34‬‬
‫مرغینانی نے ایک اور پہلو کا ذکر کیا ہے‪:‬‬
‫ؒ‬
‫اسالمی شریعت میں کسی پاکدامن مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگانا یا کسی صحیح النسب‬
‫شخص کے نسب کا انکار بھی قذف کہالتا ہے۔ (‪)35‬‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ کسی پاکدامن مسلمان مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگانا‬
‫یا اس کے صحیح نسب کا انکار کرنا قذف کہالتا ہے جو کہ ایک جرم ہے۔ اس بارے میں دفعہ ہذا‬
‫کی شق نمبر ‪ 1‬میں مذکورہ آرڈیننس کی دفعہ نمبر‪ 6‬کی شق نمبر‪ 2‬کا ذکر ہے۔ وہ یہ ہے‪:‬‬
‫‪.(b) The accused commits 'qazf' in the presence of the court :6‬‬
‫یعنی جب ملزم عدالت کے اندر قذف کا مرتکب ہو تو آرڈیننس مذکورہ کی دفعہ نمبر ‪ 7‬کے‬
‫تحت اسے اسی کوڑوں کی سزا دی جائیگی اور وہ مردود الشہادۃ ہو جائے گا اور اس فیصلہ کے‬
‫خالف اپیل کی جائے اور عدالت اپیل سے جب تک فیصلہ نہ آئے اسے ضابطہ فوجداری کے تحت‬
‫عام قیدی کی حیثیت سے رکھا جائیگا۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬قاذف کی سزا اسی کوڑے اور اسے مردود الشہادۃ قرار دینا اسالمی احکام کے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫بالکل مطابق ہے۔ قرآن مجید میں ہے‪:‬‬
‫ش َھدَاء فَاجْ ِلدُو ُھ ْم ث َ َمانِینَ َج ْلدَۃ ً َو َال ت َ ْقبَلُوا لَ ُھ ْم‬
‫ت ث ُ َّم لَ ْم یَأْتُوا ِبا َْٔربَ َع ِۃ ُ‬ ‫َوالَّذِینَ یَ ْر ُمونَ ْال ُمحْ َ‬
‫صنَا ِ‬ ‫(‪1‬‬
‫ک ُھ ُم ْالفَا ِسقُونَ (‪)36‬‬ ‫ش َھادَۃ ً أَ َبدًا َوا ُْٔولَ ِئ َ‬
‫َ‬
‫’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں‪ ،‬پھر چار گواہ نہ ال سکیں تو‬
‫انہیں اسی کوڑے مارو اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو‪ ،‬بیشک وہ نافرمان لوگ ہیں‘‘۔‬
‫غف ُ ٌ‬
‫ور َّر ِحی ٌم (‪)37‬‬ ‫صلَ ُحوا فَإ ِ َّن َّ‬
‫ّللاَ َ‬ ‫ِإ َّال الَّذِینَ ت َابُوا ِمن َب ْع ِد ذَ ِل َ‬
‫ک َوأَ ْ‬ ‫(‪2‬‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫’’مگر جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کرلی اور اصالح کرلی تو بیشک ہللا‬
‫بخشنے واال مہربان ہے‘‘۔‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫اسی سورہ میں آگے ارشاد باری‬
‫ت ا ْل ُمؤْ ِمنَا ِ‬
‫ت لُ ِعنُوا فِی الدُّ ْنیَا َو ْاْل ِخ َرۃِ ط َولَ ُھ ْم َ‬
‫عذَابٌ‬ ‫ت ْالغَافِ َال ِ‬ ‫إِ َّن الَّذِینَ یَ ْر ُمونَ ْال ُمحْ َ‬
‫صنَا ِ‬
‫ع ِظی ٌم (‪)38‬‬
‫َ‬
‫’’بیشک جو لوگ ان عورتوں پر عیب لگاتے ہیں جو پاکباز (بُرے کاموں سے) بے‬
‫خبر اور مومن ہیں‪ ،‬ایسے لوگوں پر دُنیا وآخرت میں لعنت ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے‘‘۔‬
‫فقہائے احناف کے نزدیک محصن وہ ہے جو آزاد ہو‪ ،‬عاقل‪ ،‬بالغ‪ ،‬مسلمان اور فعل‬ ‫(‪3‬‬
‫زنا سے پاک وصاف ہو۔(‪ )39‬ابن قدامہ کہتے ہیں کہ جمہور فقہاء امت کے نزدیک محصن میں یہ‬
‫شرائط ضروری ہیں۔‬
‫(‪ 3‬آزاد ہونا‬ ‫(‪ 2‬اسالم‬ ‫(‪ 1‬عقل‬
‫(‪ 5‬زنا کی صالحیت ہونا (‪)40‬‬ ‫(‪ 4‬زنا سے پاک ہونا‬
‫حضور اکرم ﷺ نے بھی تہمت لگانے سے منع فرمایا ہے۔ حضور ﷺ نے جن سات ہالک‬
‫ہونے والی باتوں سے روکا ہے‪ ،‬ان میں قذف المحصنات المومنت الغافالت بھی ہیں۔ شاہ ولی ہللا‬
‫لکھتے ہیں‪:‬‬
‫عظیم یجب الحد علیھا (‪)41‬‬
‫ٍ‬ ‫عار‬ ‫ف معصی ٌۃ َک ِبیْرۃ ٌ وفیہ ا ِْل ُ‬
‫حاق ٍ‬ ‫ا َ ْلقَ ْذ ُ‬
‫’’قذف بھی ایک بہت بڑی مصیبت ہے اور اس میں شدید عار الحق کرنا ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس پر حد‬
‫لگانا ضروری ہے‘‘۔‬
‫مذکورہ دفعہ کی زیر بحث شق میں قاذف کی جو سزا متعین کی گئی ہے وہ شریعت کے عین‬
‫مطابق ہے۔ اس میں مزید ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰ ذا اسے اسی طرح رہنے دیا جانا چاہئے۔‬
‫تبصرہ‪ :‬دفعہ ہذا کی شق نمبر ‪ 4 ،3 ،2‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کیخالف دکھائی نہیں دیتی‬
‫لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :C-203‬زنا بالرضا کی صورت میں نالش‬

‫کوئی عدالت زیر دفعہ ‪ 496‬بی تعزیرات پاکستان ایک جرم کی سماعت نہ لے گی‬ ‫(‪1‬‬
‫ماسوائے ایک نالش پر جو یہ اختیار سماعت رکھنے والی عدالت میں درج کرائی گئی۔‬
‫عدالت کا افسر صدارت کنندہ فوری طور پر حلف پر مستغیث اور زنا بالرضا کے‬ ‫(‪2‬‬
‫فعل کے لئے کم از کم دو گواہان کی جانچ کرے گا۔‬
‫مستغیث اور چشم دید گواہان کی جانچ کا لب لباب تحریر کیا جائے گا اور اس پر‬ ‫(‪3‬‬
‫مستغیث اور گواہان جیسی کہ صورت ہو کی جانب سے اور عدالت کے افسر صدارت کنندہ کے‬
‫دستخط بھی ہوں گے۔‬
‫اگر عدالت کے افسر صدارت کنندہ کی رائے میں کارروائی کے لئے کافی وجہ‬ ‫(‪4‬‬
‫موجود ہے تو عدالت ملزم کی اصالتا ً حاضری کے سمن جاری کرے گی۔‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ عدالت کا افسر صدارت کنندہ ملزم سے اس کی عدالت میں مزید حاضری کو‬
‫یقینی بنانے کے لئے کسی سکیورٹی کا تقاضا نہ کرے گا ماسوائے ذاتی مچلکہ ضامنان کے۔‬
‫عدالت کا افسر صدارت کنندہ جس کے روبرو نالش کی گئی ہے یا وہ جسے اس کو‬ ‫(‪5‬‬
‫منتقل کیا گیا نالش کو خارج کر سکتا ہے اگر حلف پر مستغیث اور گواہان کے بیانات پر غور‬
‫وخوض کرنے کے بعد اس کی رائے میں کارروائی کے لئے وجوہ موجود نہ ہے اور ایسی صورت‬
‫میں وہ ایسا کرنے کے لئے اپنی وجوہات تحریر کرے گا۔‬
‫احکامات جن کا ابھی تذکرہ کیا گیا ہے یا کسی دیگر فی الوقت نافذ العمل قانون میں‬ ‫(‪6‬‬
‫درج کسی امر کے قطع نظر کوئی نالش کسی ایسے شخص کے خالف جو جرم زنا (نفاذ حدود)‬
‫آرڈیننس ‪1979‬ء (آرڈیننس ‪ VII‬بابت ‪1979‬ء) کے تحت ملزم ہے اور جس کے خالف زیر دفعہ‬
‫‪ 203‬اے مجموعہ ہذا کوئی نالش التواء میں ہے یا خارج کر دی گئی ہے یا جسے بری کردیا گیا ہے‬
‫یا کسی شخص کے خالف جو کہ مستغیث ہے یا فریب کی صورت میں مظلوم جس کسی بھی کے‬
‫تحت‪ ،‬قبول نہیں کی جائے گی۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر‪ 1‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی دکھائی نہیں‬
‫اسالمی ٔ‬
‫دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫شق نمبر ‪ 2‬میں زنا بالرضا اور اس کے اثبات کے لئے دو گواہوں کا ذکر ہے جبکہ اسالم‬
‫ب شہادت چار مرد گواہ ہے۔‬‫میں زنا بالرضا کا نصا ِ‬
‫چنانچہ قرآن مجید میں درج ذیل آیات میں یہ حکم موجود ہے‪:‬‬
‫سآ ِئ ُک ْم فَا ْست َ ْش ِھدُواْ َ‬
‫علَ ْی ِھ َّن ا َْٔربَع ًۃ ِ ِّمن ُک ْم (‪)42‬‬ ‫ش َۃ ِمن نِِّ َ‬ ‫َوالالَّ ِتی یَأْتِینَ ْالفَ ِ‬
‫اح َ‬ ‫(‪i‬‬
‫’’اور تمہاری وہ عورتیں جو بیحائی کا ارتکاب کر بیٹھیں‪ ،‬تم ان پر چار گواہ قائم‬
‫کرو‘‘۔‬
‫علَ ْی ِہ ِبا َْٔربَ َع ِۃ ُ‬
‫ش َھدَاء (‪)43‬‬ ‫(‪ ii‬لَ ْو َال َجاؤُ وا َ‬
‫’’اس واقعہ پر چار گواہ کیوں نہیں الئے‘‘۔‬
‫ت ث ُ َّم لَ ْم یَأْتُوا بِا َْٔربَعَ ِۃ ُ‬
‫ش َھدَاء (‪)44‬‬ ‫(‪َ iii‬والَّذِینَ یَ ْر ُمونَ ْال ُمحْ َ‬
‫صنَا ِ‬
‫’’اور وہ لوگ جو پاکدامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں‪ ،‬پھر چار گواہ نہیں ال‬
‫سکتے‘‘۔‬
‫مندرجہ باال آیات قرآنیہ سے ثابت ہوا کہ زنا کے گواہوں کی تعداد چار ہونا الزمی ہے‪ ،‬اگر‬
‫تین گواہوں نے زنا کی گواہی دی اور چوتھے نے کہا کہ میں نے مرد اور عورت کو ایک لحاف‬
‫میں دیکھا ہے تو احناف کے نزدیک تین گواہوں کو حد قذف لگے گی چوتھے پر حد نہ ہوگی کیونکہ‬
‫چوتھے نے تہمت نہیں لگائی‪ ،‬اگر چار سے کم گواہوں نے عدالت میں زنا کی گواہی دی تو سب پر‬
‫باالتفاق حد قذف جاری کی جائیگی۔ جیسا کہ اس روایت سے ثابت ہے‪:‬‬
‫عمر نے ان‬
‫شعبہ پر تین گواہوں نے زنا کی گواہی دی تھی تو حضرت ؓ‬
‫ؓ‬ ‫حضرت مغیرہ بن‬
‫گواہوں پر حد قذف جاری کی تھی۔ (‪)45‬‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ شق میں زنا بالرضا کے اثبات کے لئے دو گواہوں کا ہونا الزم قرار دیا گیا‬
‫ہے جبکہ اثبات زنا کے لئے چار گواہ ضروری ہیں۔ لہٰ ذا اس شق میں دو کے بجائے چار گواہ‬
‫ضروری قرار دیتے ہوئے ضروری ترمیم کی جانی چاہئے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬دفعہ ہذا کی شق نمبر ‪ 5 ،4 ،3‬اور ‪ 6‬میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے منافی معلوم نہیں‬
‫ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫(باب نمبر ‪)17‬‬


‫عدالت کے روبرو کاروائیوں کے آغاز کی بابت‬

‫دفعہ نمبر ‪ :204‬اجرائے حکم نامہ‬

‫اگر جرم کی سماعت کرنے والی عدالت کی رائے میں کارروائی کرنے کی کافی‬ ‫(‪1‬‬
‫وجہ ہو اور مقدمہ بظاہر ایسا ہو جس میں جدول دوم کے خانہ ‪ 4‬کے مطابق اول سمن جاری ہونا‬
‫چاہئے تو عدالت پر الزم ہوگا کہ ملزم کی حاضری کے لئے سمن جاری کرے۔ اگر مقدمہ بظاہر ایسا‬
‫ہو جس میں مذکورہ خانہ کے مطابق اول وارنٹ جاری ہونا چاہئے تو ملزم کے تاریخ مقررہ پر‬
‫ویسی عدالت کے یاگر اسے خود اختیار سماعت حاصل نہ ہو تو کسی دیگر عدالت کے روبرو جس‬
‫کو اختیار سماعت حاصل ہو‪ ،‬الئے جانے یا حاضر ہونے کے لئے وارنٹ یا اگر وہ مناسب سمجھے‬
‫تو سمن جاری کرنے کی جاز ہوگی۔‬
‫دفعہ ہذا میں کوئی امر دفعہ ‪ 90‬کے احکام پر اثر انداز تصور نہ ہوگا۔‬ ‫(‪2‬‬
‫جب کسی قانون نافذ الوقت کے رو سے کسی حکم نامہ کی فیس یا دیگر فیس واجب‬ ‫(‪3‬‬
‫االدا ہو تو کوئی حکم نامہ جاری نہ کیا جائے گا جب تک کہ فیس ادا نہ کی جائے۔ اگر ایسی فیس‬
‫مناسب مدت کے اندر ادا نہ کی جائے تو عدالت استغاثہ خارج کرنے کی مجاز ہوگی۔‬

‫وضاحت‪ :‬دفعہ ہذا میں سمن اور وارنٹ کا ذکر کیا گیا ہے۔ سمن کے بارے میں مجموعہ ہذا کی دفعہ‬
‫نمبر ‪ 68‬اور وارنٹ کے بارے میں مجموعہ ہذا کی دفعہ نمبر ‪ 75‬میں بحث کی جا چکی ہے۔ لہٰ ذا‬
‫اس کے اعادہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬
‫اس دفعہ کی شق نمبر ‪ 3‬میں مدعی کے ذمہ حکمنامہ کی یا دیگر واجب االدا فیس کی عدم‬
‫ادائیگی کی صورت میں حکمنامہ روک لئے جانے کا ذکر ہے اور عدم ادائیگی فیس کی صورت‬
‫میں مقدمہ خارج کردیا جائے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی تعلیمات کی رو سے عدالت کے کسی حکمنامے کے لئے یا دیگر‬‫اسالمی ٔ‬
‫کارروائی کے لئے مدعی کے ذمہ کوئی فیس یا اخراجات وغیرہ نہیں ہیں بلکہ یہ اسالمی حکومت کا‬
‫فرض ہے کہ وہ خود اخراجات برداشت کرے اور مدعی کو مفت اور فوری انصاف فراہم کرے۔‬
‫اس سلسلے میں اسالمی نظریاتی کونسل نے بھی درج ذیل سفارش کی ہے‪:‬‬
‫’’اس سے انکار نہیں ہے کہ انصاف رسانی حکومت کا اہم فریضہ ہے‪ ،‬جس کی تائید‬
‫صوص صحیحہ سے صراحتا ً ہوتی ہے‪ ،‬قرآنی آیات‪ ،‬مستند احادیث اور ممتاز ائمہ مجتہدین کی آراء‬
‫ِ‬ ‫ن‬
‫کے مطالعہ سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ اسالمی حکومت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ نسل‪ ،‬ذات‪،‬‬
‫جنس اور رنگ کی تمیز کئے بغیر تمام باشندوں کو بال اجرت انصاف کے حصول کی ضمانت‬
‫دے‘‘۔‬
‫لہٰ ذا کونسل نے سفارش کی کہ‪:‬‬
‫’’آئینی‪ ،‬دیوانی اور فوجداری مقدمات میں جتنی جلدی ممکن ہو سکے کورٹ فیس کی‬
‫وصولی کے نظام کو ختم کیا جائے‘‘۔ (‪)46‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اسالمی نظریاتی کونسل کی سفارش کی روشنی میں مذکورہ دفعہ کی شق نمبر ‪3‬‬
‫میں ترمیم کی جانی چاہئے تاکہ یہ اسالمی تعلیمات سے ہم آہنگ ہو سکے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :205‬مجسٹریٹ ملزم کی اصالتا ً حاضری معاف کر سکتا ہے‬

‫جب کوئی مجسٹریٹ سمن جاری کرے تو اگر وہ ایسا کرنا مناسب سمجھے‪ ،‬مجاز‬ ‫(‪1‬‬
‫ہوگا کہ ملزم کی اصالتا ً حاضری معاف کردے اور اسے اپنے وکیل کے ذریعہ پیش حاضر ہونے کی‬
‫اجازت دے۔‬
‫لیکن وہ مجسٹریٹ جو مقدمہ کی تحقیق یا سماعت کر رہا ہو‪ ،‬اپنی صوابدید پر مجاز‬ ‫(‪2‬‬
‫ہوگا کہ کارروائی کے کسی بھی مرحلہ پر ملزم کی اصالتا ً حاضری کا حکم دے اور بشرط‬
‫ضرورت‪ ،‬ایسی حاضری مذکورہ باال محکوم طریقہ سے جبرا ً کرائے۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر ‪ 1‬میں کہا گیا ہے کہ عدالت اگر چاہئے تو اسے اختیار ہے کہ ملزم‬
‫کو اصالتا ً کے بجائے وکالتا ً حاضر ہونے کی اجازت دیدے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬عدالت میں ملزم کی وکیل کے ذریعے حاضری کی اجازت اسالمی عدالت کے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫اختیارات میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں ضابطہ ہذا کی دفعہ نمبر ‪ 116‬میں تفصیلی بحث کی جا‬
‫چکی ہے۔‬
‫دفعہ ہذا کی شق نمبر ‪ 2‬میں کہا گیا ہے کہ کسی مقدمہ کی سماعت کی مجاز عدالت کا یہ‬
‫اختیار بھی ہے کہ مقدمے کے کسی مرحلے پر ملزم کو اصالتا ً حاضری کا حکم دے اور یہ حاضری‬
‫جبرا ً بھی کرا سکتی ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬جہاں مقدمہ کی سماعت ہو رہی ہو وہ عدالت مجاز ہے کہ ملزم کو مقدمہ کے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کسی بھی مرحلہ پراصالتا ً حاضری کا حکم دے سکتی ہے۔ عہد نبوی اور دور خالفت راشدہ میں‬
‫ملزمان کو عدالت میں پیش کرنے کا عدالتی طریق کار رائج تھا‪ ،‬مقدمہ کی سماعت کے دوران ملزم‬
‫کی عدالت میں حاضری ضروری تھی۔ عدالتی کارروائی ملزم کے سامنے اور اس کی موجودگی‬
‫میں ہوتی تھی۔‬
‫صدیق کبھی بھی مدعی اور مدعا علیہ کو اپنا اپنا موقف تفصیالً پیش کرنے کا موقع‬
‫ؓ‬ ‫ابوبکر‬ ‫٭‬
‫دیئے بغیر فیصلہ نہ کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت خالد بن ولیدؓ پر قتل کا الزام لگا تو ؓ‬
‫آپ نے انہیں‬
‫اصالتا ً طلب فرماتے ہوئے مراسلہ لکھا‪:‬‬
‫اعظم خود عدالت پیش ہونے‬
‫ؓ‬ ‫الی خالدؓ ان یقدم علیہ۔ اور طلبی پر سپہ ساالر‬
‫ابوبکر ٰ‬
‫ؓ‬ ‫کتب‬
‫کیلئے مدینہ طیبہ آئے۔ (‪)47‬‬
‫نظام عدالت اتنا پختہ اور مستحکم تھا کہ الزام یا‬
‫ِ‬ ‫اس سے واضح ہوا کہ اس دور میں اسالمی‬
‫دعوی کرے اور مدعا علیہ‬
‫ٰ‬ ‫شکایت کی صورت میں مدعی اور مدعا علیہ دونوں حاضر ہوں‪ ،‬مدعی‬
‫اس کا جواب دے۔ اس اصول کو آج کل نیچرل جسٹس (‪ )Natural Justice‬کہا جاتا ہے۔ بعض لوگ‬
‫اسے دور جدید کی پیداوار سمجھتے ہیں مگر یہ طریق کار عہد رسالت اور عہد خالفت راشدہ کی‬
‫عدالتوں کا معمول بہ تھا۔ (‪)48‬‬
‫عمر کے دور میں عدالتی طریق کار مروج تھا۔ ایک دفعہ ایک شخص‬ ‫اسی طرح حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫شعبہ کے خالف شکایت دائر کی۔ اس پر حضرت‬ ‫ؓ‬ ‫ابوبکرہ نے بصرہ کے گورنر حضرت مغیرہ بن‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫عمر نے انہیں گورنری سے معزول کرکے طلب کرلیا۔ چنانچہ وہ نئے گورنر حضرت ابو‬ ‫ؓ‬
‫ً‬
‫اشعری کو عہدہ سونپ کر اپنے گواہوں کے ساتھ مدینہ روانہ ہوگئے اور عدالت میں اصالتا پیش‬
‫ؓ‬
‫ہوئے۔ (‪ )49‬شق نمبر ‪ 2‬میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افسر عدالت ملزم کو زبردستی بھی حاضر کرا‬
‫بخاری کہتے ہیں کہ‬
‫ؒ‬ ‫سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اسالمی عدالت کو بھی یہ اختیار حاصل ہے۔ ابن مازہ‬
‫اگر قاضی کی طلبی پر مدعا علیہ عدالت میں حاضر ہو کر جواب دے دے تو فبھا ورنہ قاضی اس‬
‫کے پاس ایسے آدمی کو بھیجے جو مدعا علیہ کو حاضر کرے۔ (‪)50‬‬
‫وہ مزید لکھتے ہیں کہ قاضی مدعا علیہ کو حاضر کرنے کے بارے میں حاکم (افسر عالقہ)‬
‫کا تعاون حاصل کرے کیونکہ حاکم کو لوگوں کے حقوق دلوانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ (‪)51‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ عدالت سماعت کسی بھی مرحلے پر ملزم کو اصالتا ً‬
‫طلب کر سکتی ہے اور اس سلسلے میں وہ اسے زبردستی بھی حاضر عدالت کرا سکتی ہے۔‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اور اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫(باب نمبر ‪)18‬‬

‫عدالت سیشن یا عدالت عالیہ کے قابل سماعت مقدمات میں تحقیقات کی بابت‬

‫دفعہ ‪ 206‬تا ‪ :220‬بذریعہ اصالح قانون کے آرڈیننس مجریہ ‪1972‬ء سے حذف ہوئیں۔‬

‫(باب نمبر ‪)19‬‬


‫بابت فرد الزام‬

‫نمونہ فردات الزام‬

‫دفعہ نمبر ‪ :221‬فرد الزام میں جرم بیان کیا جائے گا‬

‫مجموعہ ہذا کے تحت ہر فرد الزام میں وہ جرم بیان کیا جائے گا جس کا الزام ملزم‬ ‫(‪1‬‬
‫پر لگایا گیا ہو۔‬
‫جرم کا مخصوص نام کافی تفصیل ہوگی۔‬ ‫(‪2‬‬
‫اگر اس قانون نے جس سے جرم وجود میں آیا ہے‪ ،‬اس کو کوئی مخصوص نام دیا ہو تو الزام میں‬
‫صرف اس نام سے اسے بیان کیا جا سکتا ہے۔‬
‫جب جرم کا کوئی مخصوص نام نہ ہو تو اسے اس طرح بیان کیا جائے۔‬ ‫(‪3‬‬
‫اگر اس قانون نے جس سے جرم وجود میں آیا ہو‪ ،‬اسے کوئی مخصوص نام نہ دیا ہو تو اس جرم کی‬
‫اس قدر تعریف الزمی طور پر بیان کرنی چاہئے جس سے ملزم پر وہ امر واضح ہو جائے جس کا‬
‫اس پر الزام ہو۔‬
‫وہ قانون اور قانون کی دفعہ جس کے خالف جرم کا سرزد ہونا بیان ہوا ہو کا الزمی‬ ‫(‪4‬‬
‫طور پر الزام میں ذکر کیا جائے گا۔‬
‫فرد الزام کا لغوی مفہوم کیا ہے‪ :‬یہ حقیقت کہ فرد الزام مرتب کی گئی بمنزلہ اس‬ ‫(‪5‬‬
‫بیان کے ہے کہ ہر قانونی شرط جو قانون کے بموجب ایسے جرم کی تشکیل کے لئے ضروری ہو‬
‫جس کا الزام لگایا گیا ہو‪ ،‬اس خاص مقدمہ میں پوری کردی گئی ہے۔‬
‫فرد الزام کی زبان‪ :‬الزمی ہے کہ فرد الزام یا تو انگریزی میں یا عدالت کی زبان‬ ‫(‪6‬‬
‫میں تحریر کی جائے۔‬
‫سابقہ سزا یابی کب بیان کی جائے گی‪ :‬اگر ملزم کسی جرم میں پہلے سے سزایاب‬ ‫(‪7‬‬
‫ہونے پر ویسی سابقہ سزایابی کے باعث‪ ،‬بعد کے جرم میں مختلف قسم کی زیادہ سزا کا مستوجب ہو‬
‫اور ایسی سابقہ سزا کو اس سزا پر اثرانداز ہونے کی غرض سے ثابت کرنا مقصود ہو‪ ،‬جو مابعد‬
‫کے جرم میں عدالت عائد کرنا مناسب سمجھے تو سابقہ سزا کا واقعہ تاریخ اور مقام فرد الزام میں‬
‫بیان کئے جائیں گے۔ اگر ایسا بیان نہ لیا گیا ہو تو عدالت سزا دینے سے قبل کسی وقت اسے شامل‬
‫کرنے کی مجاز ہوگی۔‬
‫تمثیالت‬
‫الف پر ’ب‘ کے قتل کا الزام ہے تو یہ اس بیان کے مترادف ہے کہ الف کا فعل‬ ‫(‪a‬‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪ 299‬اور ‪ 300‬میں دی گئی قتل کی تعریف میں آتا ہے اور یہ‬ ‫مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫کہ یہ اسی مجموعہ کی کسی بڑی مستثنیات میں داخل نہ ہے اور نہ ہی یہ دفعہ ‪ 300‬کی پانچ‬
‫استثنائوں میں داخل ہے یا یہ کہ اگر یہ استثناء نمبر‪ 1‬میں آتا ہے تو اس استثناء کی تین شرائط میں‬
‫سے کسی ایک کا اس پر اطالق ہوتا ہے۔‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 326‬کے تحت ب کو گولی چالنے کے کسی‬ ‫الف پر تعزیرا ِ‬ ‫(‪b‬‬
‫ہتھیار کے ذریعہ عمدا ً شدید طور پر زخمی کرنے کا فرد الزام لگایا ہے۔ یہ ایسے بیان کے مترادف‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 335‬کے زمرے میں نہیں آتا اور یہ کہ استثناء عام کا اس‬‫ہے کہ مقدمہ تعزیرا ِ‬
‫پر اطالق نہیں ہوتا۔‬
‫الف پر قتل عمد‪ ،‬دھوکہ دہی‪ ،‬سرقہ‪ ،‬استحصال بالجبر یا زنا یا تخویف مجرمانہ یا‬ ‫(‪c‬‬
‫ت‬
‫چھوٹے نشان ملکیت استعمال کرنے کا الزام ہے۔ فرد الزام میں ان جرائم کی مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫پاکستان میں درج ذیل تعریفات کا حوالہ دیئے بغیر یہ بیان بھی کیا جا سکتا ہے کہ الف نے قتل عمد‪،‬‬
‫دھوکہ دہی‪ ،‬چوری یا استحصال بالجبر یا زنا یا تخویف مجرمانہ کا ارتکاب کیا ہے یا جھوٹے نشان‬
‫ملکیت کو استعمال کیا ہے لیکن وہ دفعہ جس کے تحت جرم قابل سزا ہے‪ ،‬کا ہر صورت میں الزمی‬
‫طور پر فرد الزام میں حوالہ دیا جائے گا۔‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 184‬کے تحت جائیداد کے نیالم میں جو ایک‬ ‫الف پر تعزیرا ِ‬ ‫(‪d‬‬
‫ً‬
‫سرکاری مالزم کے اختیار قانونی کی رو سے نیالم کی جا رہی تھی۔ عمدا مداخلت کا فرد الزام لگایا‬
‫گیا ہے۔ فرد الزام ان ہی الفاظ میں ہونی چاہئے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ’’فرد جرم‘‘ کی اصطالح کی وضاحت کردی جائے۔‬
‫بار الزام‪ ،‬ذمہ داری‪،‬‬
‫الزام کو انگریزی میں ‪ Charge‬کہتے ہیں‪ ،‬جس کا معنی ہے‪ :‬جائزہ‪ ،‬مواخذہ‪ِ ،‬‬
‫تحویل‪ ،‬کسی شخص کے خالف فوجداری الزام لگانا۔(‪)52‬‬
‫پی ایل ڈی میں "‪ "Charge‬کے بارے میں وضاحت ہے‪:‬‬
‫‪It should state the offence committed and mentioned specific name of the‬‬
‫‪)53( .offence‬‬
‫مظہر نظامی اس بارے میں یوں وضاحت کرتے ہیں‪:‬‬
‫‪Charge shall give the accused full notice of the offence charged against‬‬
‫‪)54(.him‬‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی نظام عدالت میں بھی فرد جرم عائد کرنے کی مثالیں ملتی ہیں‪ ،‬عہد‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫رسالت کے عدالتی نظام میں یہ چیزیں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔ مثالً ایک دفعہ دو بھائی عبدہللا‬
‫عبدہللا کو قتل کردیا گیا ہے‪،‬‬
‫ؓ‬ ‫محیصہ کو اطالع دی گئی کہ‬
‫ؓ‬ ‫محیصہ خیبر گئے‪ ،‬وہاں‬
‫ؓ‬ ‫بن ؓ‬
‫سہل اور‬
‫الزام قتل لگایا‪ ،‬مگر وہ قسم کھا گئے کہ ہم نے ایسا نہیں کیا‪ ،‬مقدمہ عدالت‬
‫ِ‬ ‫محیصہ نے یہودیوں پر‬
‫ؓ‬
‫نبوی میں پہنچا‪ ،‬بیانات سننے کے بعد حضور اکرم ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫ان تدوا صاحبکم واما أن توذنوا بحرب‬
‫’’یا تو یہود تمہارے ساتھی کا خوں بہا ادا کریں‪ ،‬یا جنگ کیلئے تیار ہو جائیں‘‘۔‬
‫یہودیوں نے لکھ بھیجا کہ ’’ہم نے انہیں قتل نہیں کیا‘‘۔ چنانچہ آپ ﷺ نے مدعی حضرات‬
‫محیصہ کہنے لگے‬
‫ؓ‬ ‫سے حلف مانگا‪ ،‬انہوں نے انکار کردیا۔ پھر پوچھا کیا یہودی حلف دیں‪ ،‬اس پر‬
‫وہ غیر مسلم ہیں‪ ،‬اس پر خود حضور اکرم ﷺ نے انہیں دیت میں سو اونٹ ادا فرما دیئے۔ (‪)55‬‬
‫مقدمہ کی درج باال تفصیل سے واضح ہوا کہ مقدمہ کی سماعت کے لئے مفصل طریقے کار‬
‫اپنایا گیا تھا‪ ،‬پہلے چند مسلمانوں نے تفتیش کی‪ ،‬پھر مقدمہ عدالت میں آیا‪ ،‬بیانات کے بعد یہودیوں پر‬
‫قتل کا الزام لگایا‪ ،‬اس طرح ملزموں پر فرد جرم عائد کرنے کا طریق کار وضع ہوا۔ یہاں ملزمان پر‬
‫مراسلہ کے ذریعے تحریری فرد جرم عائد کی گئی تاکہ انہیں اپنے خالف الزام کی صفائی کا پورا‬
‫موقع دیا جائے اور عدل کے تقاضے پورے ہوں۔ (‪)56‬‬
‫شعبہ کے خالف شکایت پیش کی‬‫ؓ‬ ‫ؓ‬
‫فاروق کے دور میں مغیرہ بن‬ ‫اسی طرح حضرت عمر‬ ‫٭‬
‫مغیرہ کو بصرہ کی گورنری سے معزول کرکے‬ ‫ؓ‬ ‫ؓ‬
‫فاروق نے حضرت‬ ‫گئی۔ چنانچہ حضرت عمر‬
‫عدالت میں طلب کرلیا اور ان پر فرد جرم عائد کرکے باقاعدہ سماعت کا آغاز کیا۔‬
‫نظام عدالت میں بھی فرد جرم فراہمی ٔعدل‬
‫ِ‬ ‫مندرجہ باال روایات سے واضح ہوا کہ اسالمی‬
‫وانصاف کے لئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر ‪ 6‬میں فرد جرم کے لئے انگریزی یا‬
‫عدالتی زبان استعمال کرنے کی وضاحت ہے جبکہ نظریاتی کونسل نے اس بارے میں درج ذیل‬
‫تجویز دی ہے۔‬
‫اس دفعہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ فرد جرم یا تو انگریزی زبان میں ہوگی یا عدالتی زبان‬
‫میں۔ کونسل بکثرت رائے سفارش کرتی ہے کہ فر ِد جرم پاکستان کی قومی زبان میں ہونی چاہئے۔‬
‫لہٰ ذا دفعہ ہذا میں حسب ذیل ترمیم کی جائے‪:‬‬
‫’’فر ِد جرم پاکستان کی قومی زبان میں ہونی چاہئے یا ایسی زبان میں جسے ملزم سمجھتا‬
‫ہو‘‘۔ (‪)57‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں نظریاتی کونسل کی سفارش کے مطابق ترمیم کی جائے۔ اس کے‬
‫عالوہ کوئی بات اسالمی اصولوں کے برعکس معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا مزید ترمیم کی ضرورت نہیں‬
‫ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :222‬کوائف متعلقہ وقت‪ ،‬مقام اور شخص‬

‫فرد الزام میں وقت اور مقام جیسی تفصیالت اور وہ شخص (اگر کوئی ہو) جس کے‬ ‫(‪1‬‬
‫خالف اور شے (اگر کوئی ہو) جس کی نسبت اس کا ارتکاب کیا گیا ہو‪ ،‬درج کی جائیں گی جو ملزم‬
‫کی معقول طور پر اس امر کی نسبت آگاہ کرنے کے لئے کافی ہوں جس کا الزام لگایا ہو۔‬
‫جب ملزم پر خیانت مجرمانہ یا بددیانتی سے رقم خوردبرد کرنے کا الزام ہو تو اس‬ ‫(‪2‬‬
‫مجموعی رقم کی‪ ،‬جس کی نسبت مبینہ جرم کا ارتکاب کیا گیا اور ان تاریخوں کی جن کے مابین‬
‫جرم کے رتکاب کرنے کا الزام ہو‪ ،‬خاص مدات اور صحیح تواریخ کی تصریح کے بغیر بیان کرنا‬
‫کافی ہوگا اور اس طور پر جو فرد الزام مرتب کی جائے گی وہ دفعہ ‪ 234‬کے مفہوم میں واحد جرم‬
‫کی فرد الزام تصور کی جائے گی۔‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ اول اور آخری ایسی تواریخ کے مابین عرصہ ایک سال سے زائد نہ ہو۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں فرد جرم کے بارے میں تفصیالت مذکور ہیں‪ ،‬یہاں کوئی بات اسالمی‬
‫اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬نظریاتی کونسل نے اس سلسلے میں یہ تجویز دی ہے کہ اس‬
‫دفعہ کے آخر میں موجود ’’پرووائزو‘‘ (شرط) کو حذف کردیا جائے کیونکہ جلد انصاف کی فراہمی‬
‫اور ملزم کی جائز سہولت کے لئے یہ ضروری ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ کے آخر میں موجود پرووائزو کو حذف کیا جانا چاہئے تاکہ ملزم کو‬
‫سہولت حاصل ہوسکے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :223‬ارتکاب جرم کا طریقہ بیان کرنا کب الزمی ہوگا‬

‫جب نوعیت مقدمہ ایسی ہو کہ دفعات ‪221‬ا ور ‪ 222‬متذکرہ تفصیالت سے ملزم کو اس امر کی‬
‫نسبت کافی طور پر آگاہی نہ ہو سکے جس کا اس پر الزام ہے تو فرد الزام میں اس طریقہ کی جس‬
‫سے جرم کا ارتکاب کیا گیا‪ ،‬ایسی تفصیالت بھی درج کی جائیں گی جو اس مقصد کے لئے کافی‬
‫ہوں۔‬
‫تمثیالت‬
‫الف پر کسی شے کو کسی خاص مقام اور وقت پر چوری کرنے کا الزام ہے۔ فرد‬ ‫(‪a‬‬
‫الزام میں وہ طریقہ جس سے چوری عمل میں الئی گئی‪ ،‬تحریر کرنا ضروری نہیں ہوگا۔‬
‫الف پر ب کو کسی خاص مقام اور وقت پر دھوکہ دینے کا الزام ہے۔ فرد الزام میں‬ ‫(‪b‬‬
‫وہ طریقہ تحریر کرنا ضروری ہوگا جس سے الف نے ب کو دھوکا دیا۔‬
‫الف پر کسی خاص مقام اور وقت پر جھوٹی شہادت دینے کا الزام ہے۔ فرد الزام میں‬ ‫(‪c‬‬
‫شہادت کا وہ حصہ تحریر کرنا ضروری ہوگا جو مبینہ طور پر جھوٹ ہے۔‬
‫الف پر کسی خاص مقام اور وقت پر کسی سرکاری مالزم کی مزاحمت کرنے کا‬ ‫(‪d‬‬
‫الزام ہے‪ ،‬فرد الزام میں وہ طریقہ تحریر کرنا ضروری ہوگاجس سے الف نے ب کو اس کے کار‬
‫سرکار میں انجام دینے میں مزاحمت کی۔‬
‫الف پر کسی خاص مقام اور وقت پر ب کے قتل عمد کا الزام ہے۔ فرد الزام میں وہ‬ ‫(‪e‬‬
‫طریقہ تحریر کرنا ضروری نہ ہوگا جس سے الف نے ب کا قتل عمد کیا۔‬
‫الف پر ب کو سزا سے بچانے کے لئے قانون کی ہدایت کی نافرمانی کا الزام ہے۔‬ ‫(‪f‬‬
‫فرد الزام میں زیرالزام نافرمانی اور وہ قانون تحریر کرنا ضروری ہوگا جس کی نافرمانی کی گئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :224‬فرد الزام کے الفاظ کا معہوم اس قانون کے مطابق لیا جائے گا جس کے تحت جرم‬
‫قابل سزا ہے‬
‫ہر فرد الزام میں کسی جرم کو بیان کرنے کے لئے استعمال کردہ الفاظ کے متعلق یہ قیاس کیا جائے‬
‫گا کہ وہ اس مفہوم میں استعمال کئے گئے ہیں جو ان کو بالترتیب اس قانون کے تحت حاصل ہے‬
‫جس کے تحت وہ جرم قابل تعزیر ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :225‬غلطیوں کا اثر‬

‫جرم یا فرد الزام میں ضروری طور پر درج کی جانے والی تفصیالت کے بیان مینکوئی غلطی یا اس‬
‫جرم کے یا ان تفصیالت کے بیان کئے جانے میں کوئی سہو مقدمہ کو کسی مرحلہ پر اہم نہیں‬
‫سمجھا جائے گا‪ ،‬سوائے اس کے کہ ملزم کو واقعی ایسی غلطی یا سہو سے مغالطہ ہوگیا اور اس‬
‫سے بے انصافی ظہور پذیر ہوئی ہو۔‬
‫تمثیالت‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 242‬کے تحت یہ الزام ہے کہ ’’نقلی سکہ اپنے‬ ‫الف پر تعزیرا ِ‬ ‫(‪a‬‬
‫قبضے میں رکھتے ہوئے‪ ،‬اسے قبضہ میں لیتے وقت یہ جانتے ہوئے کہ یہ سکہ نقلی تھا‘‘۔ لفظ‬
‫’’فریب سے‘‘ فرد الزام میں (لکھنا) رہ گیا‪ ،‬سوائے اس کے یہ ظاہر ہو کہ اس سہو سے الف کو‬
‫واقعی مغالطہ ہوا ہے‪ ،‬ایسی غلطی کو اہم تصور نہ کیا جائے گا۔‬
‫الف پر ب کو دھوکا دینے کا الزام ہے اور جس طریقے سے اس نے ب کو دھوکہ‬ ‫(‪b‬‬
‫دیا‪ ،‬فرد الزام میں تحریر نہ ہے یا غلط طور پر تحریر ہے۔ الف اپنا دفاع کرتا ہے اپنے گواہان بالتا‬
‫ہے اور اس لین دین کی اپنی تاویل دیتا ہے۔ عدالت اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی مجاز ہے کہ دھوکہ‬
‫دہی کا طریقہ کار تحریر کرنے میں سہوا‪ ،‬اہم نہیں سمجھا جائے گا۔‬
‫الف پر ب کو دھوکہ دینے کا الزام ہے اور جس طرح الف نے ب کو دھوکا دیا فرد‬ ‫(‪c‬‬
‫الزام میں تحریر نہ ہے۔ الف اور ب میں کئی لین دین ہوئے تھے اور الف کو کسی طور پر یہ معلوم‬
‫نہ ہو سکا تھا کہ ان میں سے کسی کا فرد الزام میں حوالہ دیا گیا تھا۔ لہٰ ذا اس نے کوئی صفائی نہ‬
‫دی۔ عدالت ایسے واقعات سے یہ نتیجہ نکالنے کی مجاز ہوگی کہ مقدمہ میں دھوکا دہی کا طریقہ‬
‫تحریر کرنے کا سہو ایک اہم غلطی تھا۔‬
‫الف پر خدا بخش کے ‪ 21‬جنوری ‪1882‬ء کو قتل عمد کا الزام ہے۔ درحقیقت مقتول‬ ‫(‪d‬‬
‫شخص کا نام حیدر بخش تھا اور قتل کی تاریخ ‪ 20‬جنوری ‪1882‬ء تھی۔ الف پر ایک قتل کے سوا‬
‫کسی قتل کا الزام نہ تھا اور اس نے اس مقدمہ کی سماعت کو سنا جو کالً حیدر بخش کے مقدمہ سے‬
‫متعلق تھی۔ عدالت ان واقعات سے یہ نتجہ نکالنے کی مجاز ہے کہ الف کو کوئی مغالطہ نہیں ہوا تھا‬
‫اور یہ کہ فرد الزام میں غلطی غیر اہم تھی۔‬
‫الف پر حیدر بخش کے ‪ 20‬جنوری ‪1882‬ء کو اور خدا بخش (جس نے اسے اس قتل‬ ‫(‪e‬‬
‫کے لئے گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی) کے ‪ 21‬جنوری ‪1882‬ء کو قتل عمد کا الزام تھا۔ جب‬
‫اس پر حیدر بخش کے قتل عمد کا فرد الزام لگایا گیا تو اس کی سماعت خدا بخش کے قتل کیلئے کی‬
‫گئی۔ اس کی صفائی میں حاضر گواہان حیدر بخش کے مقدمہ کے گواہان تھے۔ عدالت اس سے یہ‬
‫نتیجہ نکالنے کی مجاز ہے کہ الف کو مغالطہ ہوا تھا اور یہ کہ غلطی اہم تھی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات نمبر ‪ 224 ،223‬اور ‪ 225‬میں فرد جرم کی نسبت تفصیل ہے اور کوئی بات‬
‫اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ ‪ :226‬قانونی اصطالحات کے آرڈیننس مجریہ ‪1972‬ء سے حذف ہوئی۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :227‬عدالت فرد الزام میں ردوبدل کرنے کی مجاز ہے۔‬

‫ہر عدالت فیصلہ سنانے سے قبل کسی بھی وقت فرد الزام میں ردوبدل یا اضافہ‬ ‫(‪1‬‬
‫کرنے کی مجاز ہے۔‬
‫ایسا ہر ردوبدل یا اضافہ الزمی طور پر ملزم کو پڑھ کر سنایا جائے گا اور وضاحت‬ ‫(‪2‬‬
‫کی جائے گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :228‬ردوبدل کے فوری بعد کون سی تجویز مقدمہ شروع کی جائے گی‬

‫اگر دفعہ ‪ 227‬کے تحت مرتب کردہ‪ ،‬ردوبدل کردہ اضافہ کردہ فرد الزام ایسی ہو کہ عدالت کی‬
‫رائے میں فورا ً تجویز مقدمہ شروع کرنے سے ملزم کی اپنی صفائی میں یا پیروکار کی مقدمہ کی‬
‫پیروی میں کسی جانب داری کا امکان نہیں ہے تو عدالت مجاز ہوگی کہ اپنی صوابدید پر ایسے فرد‬
‫الزام یا ردوبدل یا اضافہ کئے جانے کے بعد تجویز مقدمہ اس طرح شروع کرے گویا کہ جدید یا‬
‫تبدیل کردہ فرد الزام ابتدائی فرد الزام تھی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 227‬اور ‪ 288‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی معلوم نہیں ہوتی‪،‬‬
‫لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :229‬کب نئی تجویز کا حکم دیا جا سکتا ہے یا معطل کی جا سکتی ہے‬

‫اگر جدید یا اضافہ شدہ یا ردوبدل کردہ فرد الزام ایسی ہو کہ عدالت کی رائے میں فوری تجویز مقدمہ‬
‫کرنے سے ملزم یا پیروکار کی جانب داری کا امکان ہے‪ ،‬جیسا کہ پہلے بیان ہوا تو عدالت مجاز‬
‫ہوگی کہ یا تو نئی تجویز مقدمہ کا حکم دے یا تجویز مقدمہ ایسی مدت کے لئے ملتوی کردے جو کہ‬
‫ضروری ہو۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ کے بارے میں اسالمی نظریاتی کونسل نے درج ذیل تجویز دی ہے۔‬

‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس دفعہ کو حسب ذیل الفاظ سے تبدیل کردیا جائے‪:‬‬
‫’’اگر نئی یا تبدیل شدہ یا اضافہ شدہ فر ِد جرم زیادہ شدید نوعیت کی ہو اور ایسی ہو کہ فوری‬
‫تجویز مقدمہ سے عدالت کی رائے میں ملزم یا پراسیکیوٹر کے ساتھ حسب باال تعصب کا احتمال ہو‬
‫تو عدالت کو اختیار ہے کہ ازسرنو مقدمہ کی سماعت کا حکم دے‘‘۔ (‪)58‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مندرجہ باال تجویز کی روشنی میں دفعہ ہذا میں ترمیم کی جانی چاہئے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :230‬اگر تبدیل کردہ فرم الزام میں جرم کی پیروی کرنے کیلئے پیشگی اجازت‬
‫کی ضرورت ہو تو کارروائیاں روکنا‬

‫اگر جدید یا ردوبدل کردہ یا اضافہ شدہ فرد الزام ایسی ہو جس کا استغاثہ کے لئے پیشگی اجازت‬
‫الزمی ہو تو مقدمہ میں اس وقت تک کارروائی شروع نہ کی جائے گی جب تک ایسی منظوری‬
‫حاصل نہ کرلی جائے‪ ،‬سوائے اس کے کہ ان ہی حقائق پر استغاثہ دائر کرنے کی پہلے ہی اجازت‬
‫لے لی گئی ہو جن پر جدید یا تبدیل شدہ فرد الزام مبنی ہے۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ کسی سرکاری مالزم کے خالف کارروائی کرنے سے پہلے‬
‫اس کے محکمہ سے اجازت لینا ضروری ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس سے سرکاری مالزمین اور عہدہ داروں کو تحفظ ملتا ہے جبکہ اسالم میں‬
‫اسالمی ٔ‬
‫اس کی گنجائش نہیں ہے۔ اس سلسلے میں دفعہ نمبر ‪ 197‬کے تحت تفصیلی بحث کی جا چکی ہے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس دفعہ کے بارے میں نظریاتی کونسل نے درج ذیل تجویز دی‬
‫ہے‪:‬‬
‫’’اس دفعہ کے ذریعہ سرکاری مالزمین کو جو تحفظ دیا گیا ہے‪ ،‬اس کی بنیاد دراصل دفعہ‬
‫نمبر ‪ 197‬میں موجود ہے‪ ،‬جس کے بارے میں کونسل یہ تجویز کر چکی ہے کہ اس دفعہ کو حذف‬
‫کیا جائے۔ لہٰ ذا کونسل کی رائے میں اس دفعہ کو بھی حذف کرنا ضروری ہے‘‘۔ (‪)59‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬یہ دفعہ اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم ہوتی ہے‪ ،‬لہٰ ذا اسے حذف کیا جانا چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :231‬فرد الزام میں ردوبدل پر گواہان کی دوبارہ طلبی‬

‫جب کبھی تجویز مقدمہ شروع ہونے کے بعد کسی فرد الزام میں عدالت اضافہ یا ردوبدل کرے تو‬
‫پیروکار اور ملزم کو اجازت دی جائے گی کہ وہ کسی گواہ کو‪ ،‬جس کا بیان لیا جا چکا ہے‪ ،‬دوبارہ‬
‫بالئیں یا دوبارہ طلب کرائیں اور ایسا ردوبدل یا اضافہ کی نسبت اس کا بیان کرائیں اور کسی مزید‬
‫گواہ کو بھی طلب کرائیں جس کو عدالت اہم خیال کرے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :232‬اہم غلطی کا اثر‬

‫اگر کسی عدالت اپیل یا عدالت عالیہ یا عدالت سیشن کی اپنے اختیارات نگرانی یا‬ ‫(‪1‬‬
‫تحت باب ‪ 27‬اپنے اختیارات زیرعمل التے ہوئے‪ ،‬یہ رائے ہو کہ کسی جرم میں سزایاب کسی‬
‫شخص کو فرد الزام کی عدم موجودگی یا فرد الزام میں کسی غلطی سے اپنی صفائی میں مغالطہ پیدا‬
‫ہوا ہے تو اس پر ال زم ہے کہ فرد الزام کو جس طرح مناسب خیال کرے‪ ،‬مرتب کرکے اس کے‬
‫مطابق نئی تجویز کا حکم دے۔‬
‫اگر عدالت کی یہ رائے ہو کہ واقعات مقدمہ ایسے ہیں کہ ثابت شدہ حقائق کے پیش‬ ‫(‪2‬‬
‫نظر ملزم پر کوئی جائز الزام عائد نہیں ہو سکتا تو عدالت الزمی طو رپر سزایابی کو منسوخ کرے‬
‫گی۔‬
‫تمثیل‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 196‬کے تحت جرم میں ایسی فرد الزام پر سزایاب کیا گیا‪ ،‬جس‬ ‫الف کو تعزیرا ِ‬
‫میں یہ تحریر کرنا رہ گیا کہ وہ جانتا تھا کہ وجہ ثبوت جس کو اس نے غلط طور سے صحیح یا‬
‫اصلی وجہ ثبوت کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی‪ ،‬جھوٹی یا خود ساختہ تھی۔ اگر عدالت‬
‫اغلب خیال کرے کہ الف کو ایسا علم تھا اور یہ کہ فرد الزام میں اس بات کے تحریر نہ ہونے سے‬
‫کہ اس کو ایسا علم تھا اس کو اپنی صفائی میں مغالطہ ہوا تو عدالت ترمیم شدہ فرد الزام پر مقدمہ کی‬
‫جدید تجویز کا حکم دے گی لیکن اگر کارروائی سے یہ اغلب معلوم ہوتا ہو کہ الف کو ایسا کوئی علم‬
‫نہ تھا تو وہ سزایابی منسوخ کردے گی۔‬

‫اشتمال الزامات‬

‫دفعہ نمبر ‪ :233‬واضح جرائم کے لئے علیحدہ علیحدہ اشتمال الزامات‬

‫ہر واضح جرم کی‪ ،‬جس کا کسی شخص پر الزام ہو الزمی طور پر ایک علیحدہ فرد الزام ہوگی اور‬
‫سوائے دفعات ‪ 236 ،235 ،234‬اور ‪ 239‬میں متذکرہ صورتوں کے علیحدہ تجویز ہوگی۔‬
‫تمثیل‬
‫الف پر ایک موقع پر چوری او ردوسرے موقع پر ضرب شدید پہنچانے کا الزام ہے۔ الزم ہے کہ‬
‫الف پر چوری اور ضرب شدید پہنچانے کے لئے فرد الزام علیحدہ اور تجویز علیحدہ ہو۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات نمبر ‪ 232 ،231‬اور ‪ 233‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم‬
‫نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :234‬ایک سال کے اندر یکساں نوعیت کے تین جرائم کا فرد الزام اکٹھا لگایا جا سکتا‬
‫ہے‬

‫جب کسی شخص پر یکساں نوعیت کے ایک سے زائد جرائم کا الزام لگایا گیا ہو‪،‬‬ ‫(‪1‬‬
‫جن کا ارتکاب اول سے آخر ایسے جرائم تک بارہ ماہ کے عرصہ کے اندر ہوا ہو‪ ،‬چاہے کسی‬
‫شخص کے خالف ہوں یا نہ ہوں‪ ،‬تو جائز ہوگا کہ اس پر کسی تعداد میں جرائم جو تین سے زائد نہ‬
‫ہوں‪ ،‬کی فرد الزام عائد کی جائے اور ایک ہی سماعت میں ان کی تجویز کی جائے۔‬
‫ت پاکستان کی‬
‫جرائم یکساں نوعیت کے ہوتے ہیں جب ان کے لئے مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪2‬‬
‫یا کسی خاص قانون یا قانون مختص المقام کی ایک ہی دفعہ کے تحت سزا کی ایک مقدار مقرر ہو‪:‬‬
‫ت پاکستان کی دفعہ‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ دفعہ ہذا کی غرض کے لئے ایسا جرم جو مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫‪ 379‬کے تحت قابل تعزیر ہو‪ ،‬اسی نوعیت کا جرم تصور ہوگا جو کہ مجموعہ مذکورہ دفعہ ‪380‬‬
‫ت پاکستان یا کسی قانون خاص یا‬ ‫کے تحت قابل تعزیر ہو اور یہ کہ کوئی جرم جو مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫قانون مختص المقام کی کسی دفعہ کے تحت قابل سزا ہو‪ ،‬اسی نوعیت کا جرم تصور کیا جائے گا‪،‬‬
‫جیسا کہ ویسے ارتکاب جرم کا اقدام جب کہ ویسا اقدام ایک ہی جرم ہو۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر‪ 1‬میں بارہ ماہ کی مدت میں ایک ہی طرح کے جرائم سرزد ہونے‬
‫کی صورت میں ملزم کے خالف ایک ہی مقدمہ چال کر ایک ہی عدالت میں سماعت کے لئے تین‬
‫جرائم کی تعداد کا ذکر ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬لیکن یہ شرط غیر ضروری دکھائی دیتی ہے‪ ،‬بہتر یہ ہوگا کہ ایک سال کے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫اندر جتنے بھی جرائم کسی ملزم سے سرزد ہوں‪ ،‬انہیں ایک ہی عدالت میں بیک وقت زیرسماعت‬
‫الیا جانا چاہئے‪ ،‬اس سے مقدمات کے فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر بھی نہ ہوگی اور عدلیہ کا‬
‫بالوجہ وقت بھی ضائع نہ ہوگا۔ انصاف میں تاخیر اور وقت کا ضیاع اسالمی روح انصاف کے‬
‫ماوردی لکھتے ہیں کہ کسی قاضی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بالوجہ مقدمات کو‬
‫ؒ‬ ‫منافی ہے۔‬
‫طول دے اور انہیں لٹکائے رکھے۔ (‪)60‬‬
‫اسالم حصو ِل انصاف کو فرد کا بنیادی حق قرار دیتا ہے اور ہر ایسا عمل یا قانونی موشگافی‬
‫جو حصول انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے یا انصاف میں تاخیر کا باعث ہو‪ ،‬اس کا مکمل سدباب‬
‫کرتا ہے اور ایک ایسا طریق کار وضع کرتا ہے جس سے انصاف میں تاخیر نہ ہونے پائے کیونکہ‬
‫انصاف کا جلد حاصل ہوجانا بھی انصاف میں شامل بلکہ انصاف کی روح ہے اور انصاف میں تاخیر‬
‫خود انصاف ہی کی نفی ہے۔ مشہور ضرب المثل ہے۔ ‪Justice delayed Justice Denied‬‬
‫مذکورہ دفعہ کے بارے میں نظریاتی کونسل کی رائے درج ذیل ہے‪:‬‬
‫’’ایک سال کے اندر ایک طرح کے جرائم کے ارتکاب کی صورت میں ملزم کے خالف‬
‫ایک ہی مقدمہ چالنے اور ایک ہی جگہ سماعت کرنے کے لئے تین جرائم کی قید لگانے کی کوئی‬
‫ضرورت موجود نہیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ ایک سال کے اندر ایک ہی نوعیت کے جرائم ایک ہی‬
‫مقدمہ شمار کرکے عدالت کا وقت بچایا جائے‘‘۔‬
‫لہٰ ذا اس دفعہ کے عنوان سے تین (‪ )Three‬اور ایک سال کے اندر (‪ )Within year‬کے‬
‫الفاظ کو اور اس شق (‪ )1‬کے الفاظ "‪ "Within the space of twelve months‬اور " ‪not‬‬
‫‪ "exeeding three‬کو حذف کیا جائے۔ (‪)61‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬نظریاتی کونسل کی تجویز کے مطابق اس دفعہ میں تبدیلی کی جانی چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :235‬ایک سے زائد جرم کی تجویز‬

‫اگر افعال کے کسی سلسلہ میں جو باہمی اس طرح متعلق ہوں کہ ایک ہی کارروائی‬ ‫(‪1‬‬
‫کی شکل اختیار کرلیں‪ ،‬ایک ہی شخص سے ایک سے زائد جرائم کا ارتکاب ہوا ہو تو جائز ہوگا کہ‬
‫ہر ایسے جرم کا الزام عائد کرکے ان کی ایک ہی تجویز کی جائے۔‬
‫دو تعریفات میں آنے واال جرم‪ :‬اگر زیر الزام افعال ایک ایسے جرم پر مشتمل ہوں‬ ‫(‪2‬‬
‫جو کسی قانون نافذ الوقت جس سے جرائم کی تعریف یا سزایابی کی جاتی ہو‪ ،‬کی دو یا زیادہ علیحدہ‬
‫علیحدہ تعریفات میں آتا ہو تو شخص الزام علیہ پر ہر ایسے جرم کی نسبت الزام عائد کرکے ایک ہی‬
‫تجویز کی جا سکتی ہے۔‬
‫افعال جو ایک جرم پر مشتمل ہوں لیکن جب مالیا جائے تو مختلف جرم پر مشتمل‬ ‫(‪3‬‬
‫ہوں‪ :‬اگر کئی افعال جن میں سے ایک یا ایک سے زائد ازخود یا سب کسی جرم پر مشتمل ہوں‪ ،‬جب‬
‫ان کو مالیا جائے مختلف جرم کی تشکیل کریں تو الزام علیہ شخص پر الزام عائد کرکے اس جرم‬
‫کی ایک ہی تجویز کی جا سکتی ہے جو ویسے افعال کو مالنے سے تشکیل پذیر ہوا ہو اور کوئی‬
‫جرم جو ایسے افعال سے کسی ایک یا زیادہ پر مشتمل ہو۔‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 71‬پر اثرانداز نہ‬
‫دفعہ ہذا میں درج کوئی امر مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪4‬‬
‫ہوگا۔‬
‫تمثیالت‬
‫متعلقہ ضمنی دفعہ (‪:)1‬‬
‫الف‪ ،‬ب کو جو شخص کہ قانونی حراست میں تھا‪ ،‬چھڑاتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے‬ ‫(‪a‬‬
‫ج کو‪ ،‬جو وہ سپاہی تھا جس کی حراست میں ب تھا‪ ،‬شدید ضربات پہنچاتا ہے۔ تو جائز ہوگا کہ الف‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪ 225‬اور ‪ 233‬کے تحت جرم کی فرد الزام عائد کی جائے‬ ‫پر مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫اور سزا یاب کیا جائے۔‬
‫الف زنا کے ارتکاب کے لئے دن دہاڑے نقب زنی کا ارتکاب کرتا ہے اور مکان‬ ‫(‪b‬‬
‫جس میں وہ اس طرح داخل ہوا‪ ،‬ب کی بیوی سے زنا کرتا ہے تو جائز ہوگا کہ الف پر مجموعہ‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪ 454‬اور ‪ 497‬کے تحت علیحدہ علیحدہ فرم جرم عائد کی جائے اور‬ ‫تعزیرا ِ‬
‫سزایاب کیا جائے۔‬
‫الف‪ ،‬ب کو جو پ کی بیوی ہے‪ ،‬پ سے دور اس نیت سے ورغال کر لے گیا کہ ب‬ ‫(‪c‬‬
‫ت‬
‫سے زنا کا ارتکاب کرے اور پھر ب سے زنا کرتا ہے‪ ،‬جائز ہوگا کہ اس پر مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫پاکستان کی دفعات ‪ 496‬اور ‪ 497‬کے تحت جرائم کی علیحدہ علیحدہ فرد جرم عائد کی جائے اور‬
‫سزایاب کیا جائے۔‬
‫الف کے قبضہ میں کئی مہریں ہیں جو اس کے علم میں ہے کہ جعلی ہیں اور ارادہ‬ ‫(‪d‬‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 466‬کے تحت قابل تعزیر‬ ‫یہ ہے کہ بہت سی جعلسازیاں جو مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫ت پاکستان کی دفعہ‬
‫ہیں‪ ،‬کرنے کے لئے ان کو استعمال کرے۔ جائز ہے کہ الف پر مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫‪ 466‬کے تحت ہر مہر قبضہ میں رکھنے کی علیحدہ علیحدہ فرد الزام عائد کی جائے اور سزایاب‬
‫کیاجائے۔‬
‫الف‪ ،‬ب کو ضرر پہنچانے کی نیت سے اس کے خالف فوجداری کارروائی کرتا‬ ‫(‪e‬‬
‫ہے‪ ،‬یہ جانتے ہوئے کہ ایسی کارروائی کے لئے کوئی جائز یا قانونی وجہ نہ ہے اور ب پر یہ الزام‬
‫بھی لگایا کہ اس نے ایک جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ باور کرتے ہوئے کہ ایسے الزامات کے لئے‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 211‬کے‬ ‫کوئی جائز یا قانونی وجہ نہ ہے۔ جائز ہوگا کہ الف پر مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫تحت در جرموں کی علیحدہ علیحدہ فرد الزام لگائی جائے اور سزایاب کیا جائے۔‬
‫الف‪ ،‬ب کو ضرر پہنچانے کی نیت سے اس پر جھوٹا الزام لگاتا ہے کہ اس نے جرم‬ ‫(‪f‬‬
‫کا ارتکاب کیا ہے‪ ،‬یہ جانتے ہوئے کہ ایسے الزام کے لئے کوئی جائز یا قانونی جواز نہ ہے۔ تجویز‬
‫کے وقت الف‪ ،‬ب کے خالف جھوٹی شہادت اس نیت سے دیتا ہے کہ ب کو قتل کے جرم کی سزا‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪ 211‬اور ‪ 194‬کے تحت جرموں میں الف‬ ‫ملے‪ ،‬جائز ہے کہ مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫پر علیحدہ علیحدہ فرد الزام عائد کی جائے اور سزایاب کیا جائے۔‬
‫ب شدید اور ایک سرکاری مالزم پر جو‬
‫الف چھ دیگر اشخاص کے ساتھ بلوہ‪ ،‬ضر ِ‬ ‫(‪g‬‬
‫اپنے فرض کی بجا آوری میں بلوہ کو فرو کرنے کی کوشش کر رہا تھا‪ ،‬حملہ کرنے کے جرموں کا‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪152 ،352 ،147‬‬‫ارتکاب کرتا ہے‪ ،‬تو جائز ہوگا کہ الف پر مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫کے تحت جرموں میں الگ الگ فرد الزام عائد کی جائے اور سزایاب کیا جائے۔‬
‫الف بیک وقت ب‪ ،‬ج اور د کو خوف دالنے کی نیت سے ضرر جسمانی پہنچانے کی‬ ‫(‪h‬‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 506‬کے تحت تینوں‬
‫دھمکی دیتا ہے۔ جائز ہوگا کہ الف پر مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫جرموں کی علیحدہ علیحدہ فرد الزام عائد کی جائے اور سزایاب کیا جائے۔ الگ الگ فرد الزام محولہ‬
‫تمثیالت (‪ )a‬تا (‪ )h‬کی ایک ہی وقت تجویز کی جا سکتی ہے۔‬
‫متعلقہ ضمنی دفعہ (‪:)2‬‬
‫الف‪ ،‬ب کو بے جا طور پر ایک چھڑی سے مارتا ہے‪ ،‬جائز ہوگا کہ الف پر‬ ‫(‪i‬‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪ 352‬اور ‪ 323‬کے تحت الگ الگ فرد الزام عائد کی جائے‬
‫مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫اور سزایاب کیا جائے۔‬
‫بہت سی چوری شدہ بوریاں الف اور ب کے حوالہ کی جاتی ہیں جو یہ جانتے ہیں‬ ‫(‪j‬‬
‫کہ وہ چوری شدہ ہیں تاکہ وہ ان کو چھپا کر رکھیں۔ اس پر الف اور ب ان بوریوں کو غلہ کے‬
‫گڑھے کی تہہ میں چھپانے کے لئے ایک دوسرے کی رضاکارانہ مدد کرتے ہیں۔ جائز ہوگا کہ الف‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪ 411‬اور ‪ 414‬کے تحت جرموں میں علیحدہ علیحدہ‬ ‫اور ب پر مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫فرد الزام عائد کی جائے اور سزایاب کیا جائے۔‬
‫الف اپنے بچے کو کھلے میں چھوڑ دیتی ہے یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس طرح اغلبا ً‬ ‫(‪k‬‬
‫اس کو ہالک کردے گی۔ بچہ کھال چھوڑ دینے کی بنا پر مر جاتا ہے۔ جائز ہوگا کہ مجموعہ‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪ 317‬اور ‪ 304‬کے تحت جرموں میں الف پر علیحدہ علیحدہ فرد الزام‬ ‫تعزیرا ِ‬
‫عائد کی جائیں اور سزایاب کیا جائے۔‬
‫الف بددیانتی ہے ایک جعلی دستاویز کو اس نیت سے کہ ایک سرکاری مالزم ب کو‬ ‫(‪l‬‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 167‬کے تحت جرم میں سزایاب کرے‪ ،‬بطور صحیح شہادت‬ ‫مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫کے استعمال کرتا ہے۔ جائز ہوگا کہ الف پر اسی مجموعہ کی دفعہ ‪( 471‬مع خواندگی ‪ )466‬اور‬
‫‪ 196‬کے تحت جرموں میں علیحدہ علیحدہ فردات الزام عائد کی جائیں اور سزایاب کیا جائے۔‬
‫متعلقہ ضمنی دفعہ (‪:)3‬‬
‫(‪ m‬الف نے ب پر سرقہ بالجبر کیا اور ایسا کرتے وقت اسے باالرادہ ضرر پہنچایا۔ جائز‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪ 392 ،323‬اور ‪ 394‬کے تحت جرموں میں‬ ‫ہوگا کہ الف پر مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫علیحدہ علیحدہ فردات الزام عائد کئے جائیں اور سزایاب کیاجائے۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ کی تمثیالت (‪ )Illustrations‬میں پاکستان پینل کوڈ کی وہ دفعات درج ہیں‪ ،‬جو‬
‫قصاص ودیت ایکٹ نافذ ہونے کے بعد منسوخ ہوگئی ہیں اور ان کی جگہ متبادل دفعات آگئی ہیں‪،‬‬
‫جنہیں متعلقہ مقام پر درج ہونا چاہئے۔ اس بارے میں نظریاتی کونسل نے یہ تجویز دی ہے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس دفعہ کی تمثیالت میں مذکور تعزیرات پاکستان کی منسوخ‬
‫شدہ دفعات کو حذف کیا جائے اور جہاں متبادل دفعات خصوصا ً قصاص ودیت ایکٹ کے نفاذ کے‬
‫بعد موجود ہیں وہ متعلقہ جگہوں میں رکھ دی جائیں۔ (‪)62‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬ضابطہ فوجداری میں مذکور تعزیرات پاکستان کی منسوخ شدہ دفعات کی جگہ‬
‫متبادل دفعات کا اندراج کیا جانا چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :236‬جہاں یہ شک ہو کہ کون سا جرم سرزد ہوا ہے‬

‫اگر کوئی واحد فعل یا سلسلہ افعال ایسی نوعیت کا ہو کہ یہ امر مشکوک ہو کہ چند جرئم میں سے‬
‫کہ جن کے واقعات ثابت ہو سکتے ہیں‪ ،‬کون سا جرم تشکیل پذیر ہوگا تو جائز ہوگا کہ ملزم پر ان‬
‫جرائم سے تمام یا کسی کے ارتکاب کی فرد الزام عائد کی جائے اور ایسی فرد الزام کی کوئی تعداد‬
‫ایک ہی وقت میں تجویز کی جائے یا اس کے متبادل کے طور پر ان جرائم میں سے کسی ایک کے‬
‫ارتکاب کرنے کی فرد الزام عائد کی جائے۔‬
‫تمثیالت‬
‫الف پر ایسے فعل کا الزام لگایا گیا ہے جو ارتکاب سرقہ‪ ،‬سرقہ کا مال لینے یا‬ ‫(‪a‬‬
‫خیانت مجرمانہ یا فریب دہی کے مترادف ہے تو جائز ہوگا کہ اس پر سرقہ‪ ،‬سرقہ کا مال لینے‪،‬‬
‫خیانت مجرمانہ یا فریب دہی کے ارتکاب کا الزام عائد کیا جائے۔‬
‫الف مجسٹریٹ کے سامنے یہ بیان حلف پر دیتا ہے کہ اس نے دیکھنا کہ ب نے پ‬ ‫(‪b‬‬
‫کو سوٹی سے مارا۔ عدالت سیشن کے سامنے الف برحلف یہ بیان دیتا ہے کہ ب نے پ کو بالکل نہ‬
‫مارا تھا۔ جائز ہوگا کہ الف پر متبادل الزام عائد کیا جائے اور ارادتا ً جھوٹی شہادت دینے کے لئے‬
‫سزایاب کیا جائے۔ اگرچہ یہ امر ثابت نہ ہو سکتا ہو کہ ان متضاد بیانات میں سے کون سا جھوٹا تھا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :237‬جب کسی شخص پر ایک جرم کا الزام عائد کیا گیا ہو تو اسے کسی دوسرے جرم‬
‫پر سزایاب کیا جا سکتا ہے‬

‫اگر دفعہ ‪ 236‬میں متذکرہ صورت میں ملزم پر ایک جرم کا الزام عائد کیا گیا ہو اور‬ ‫(‪1‬‬
‫شہادت سے یہ ظاہر ہو کہ وہ کسی مختلف جرم کا مرتکب ہوا ہے جس کا اس پر اس دفعہ کے احکام‬
‫کے تحت الزام عائد کیا جا سکتا تھا‪ ،‬تو جائز ہوگا کہ اسے اس جرم کے لئے سزایاب کیا جائے جس‬
‫کا کرنا اس پر ثابت ہو۔ اگرچہ اس کا اس پر الزام عائد نہ کیا گیا تھا۔‬
‫مجموعہ ضابطہ فوجداری کا (ترمیمی قانون (نمبر ‪ XVIII‬بابت ‪ )1923‬سے منسوخ‬ ‫(‪2‬‬
‫ہوئی۔‬
‫تمثیل‬
‫الف پر چوری کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خیانت مجرمانہ یا مال مسروقہ لینے کے‬
‫جرم کا مرتکب ہوا ہے‪ ،‬تو اسے خیانت مجرمانہ یا مال مسروقہ لینے کی (جیسی کہ صورت ہو)‬
‫سزا دی جا سکتی ہے۔ اگرچہ اس پر ایسے جرم کی فرد الزام عائد نہ کی تھی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬دفعہ نمبر ‪ 237 ،236‬کی شق نمبر ‪ 1‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی معلوم نہیں‬
‫ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ 237‬کی شق نمبر‪ 2‬مجموعہ ضابطہ فوجداری کا ترمیمی قانون (نمبر‪ XVIII‬بابت‬ ‫٭‬
‫‪1923‬ء) سے منسوخ ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :238‬جب ثابت شدہ جرم الزام عائد کردہ جرم میں شامل ہو‬

‫جب کسی شخص پر ایسے جرم کا الزام عائد کیا گیا ہو جو کثیر کوائف کا حامل ہو‪،‬‬ ‫(‪1‬‬
‫جن سے صرف چند ایک کا اتصال ایک مکمل جرم خفیف کی تشکیل کرتا ہو اور یہ اتصال ثابت‬
‫ہوگیا ہو‪ ،‬لیکن باقی ماندہ کوائف ثابت نہ ہوئے ہوں‪ ،‬تو اسے جرم خفیفہ کی سزا دی جا سکتی ہے‬
‫اگرچہ اس پر اس کی فرد الزام عائد نہ کی گئی تھی۔‬
‫جب کسی شخص پر ایک الزام عائد کیا گیا ہو اور ایسے حقائق ثابت ہوتے ہوں جو‬ ‫(‪2‬‬
‫اس کو کم کرکے جرم خفیفہ بنا دیں تو جائز ہوگا کہ اسے جرم خفیفہ پر سزایاب کیا جائے۔ اگرچہ‬
‫اس پر اس کی فرد الزام عائد نہ کی گئی تھی۔‬
‫(‪ A-2‬جب کسی شخص پر ایک جرم کا الزام عائد کیا گیا ہو تو جائز ہوگا کہ اسے ایسے‬
‫جرم کے اقدام پر سزایاب کیا جائے‪ ،‬اگرچہ اس پر اقدام کا الزام الگ سے عائد نہ کیا گیا ہو۔‬
‫دفعہ ہذا میں کوئی امر دفعہ ‪ 198‬یا دفعہ ‪ 199‬میں محولہ کسی جرم پر سزایاب‬ ‫(‪3‬‬
‫کرنے کا اختیار دینے کے مترادف نہ سمجھا جائے گا جب کہ مذکورہ دفعہ کے متقاضی استغاثہ دائر‬
‫نہ کیا گیا ہو۔‬
‫تمثیالت‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 407‬کے تحت کسی ایسے مال کی نسبت‬ ‫الف مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪a‬‬
‫خیانت مجرمانہ کا مرتکب ہوا ہے جو مال بردار کی حیثیت سے اس کے سپرد کیا گیا تھا۔ یہ معلوم‬
‫ہوتا ہے کہ اس نے واقعی دفعہ ‪ 406‬کے تحت مال کی نسبت خیانت مجرمانہ کا ارتکاب کیا ہے لیکن‬
‫یہ کہ وہ مال اس کے سپرد بطور مال بردار نہیں کیا گیا تھا۔ جائز ہوگا کہ اسے زیر دفعہ ‪406‬‬
‫خیانت مرجمانہ کے لئے سزایاب کیا جائے۔‬
‫ت پاکستان کی دفعہ‪ 325‬کے تحت ضرر شدید پہنچانے کا‬ ‫الف پر مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪b‬‬
‫الزام عائد کیا گیا ہے۔ وہ ثابت کرتا ہے کہ اس نے کسی شدید اور فوری اشتعال کے تحت ایسا کیا‪،‬‬
‫جائز ہوگا کہ اسے مجموعہ مذکور کی دفعہ ‪ 336‬کے تحت سزایاب کیا جائے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعہ کی شق نمبر‪ 1‬اور نمبر‪ 2‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم‬
‫نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس پر تبصرہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬
‫البتہ اس دفعہ کی شق نمبر‪ 3‬محل نظر ہے‪ ،‬جس میں درج ہے کہ مجموعہ ہذا کی دفعہ نمبر‬
‫‪ 198‬اور ‪ 199‬کے تحت کسی کو مجرم ٹھہرانا جائز نہیں ہے‪ ،‬جیسا کہ مقدمہ اس دفعہ کے مطابق‬
‫دائر نہ کیا گیا ہو اور یہ دفعات سرکاری شخصیتوں اور عہدیداروں کو یہ تحفظ فراہم کرتی ہیں کہ‬
‫ان کے فرائض منصبی کے دوران اگر اختیارات سے تجاوز ہو جائے تو ان کا مواخذہ نہیں کیا جا‬
‫سکتا اور ان کے خالف نالش کے لئے ان کے محکمے سے اجازت ضروری ہے۔ لیکن یہ بات‬
‫اسالمی تعلیمات کے برعکس ہے۔ اسالمی قانون کی نظر میں سب برابر ہیں‪ ،‬خواہ وہ حاکم ہو یا‬
‫رعایا۔ اگر جرم کریں گے تو دونوں کو برابر سزا ملے گی۔اس سلسلے میں دفعہ نمبر ‪ 197‬کے تحت‬
‫تفصیلی دالئل ذکر دیئے گئے ہیں۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس بارے میں اسالمی نظریاتی کونسل نے راہ نما اصول نمبر‬
‫‪ 3‬کے تحت شرعی نقطہ نظر بیان کیا ہے کہ ایسے جملہ قوانین یا دفعات جن کی رو سے متاثرہ‬
‫افراد کے لئے الزمی قرار دیا گیا ہے‪ ،‬کہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی دادرسی کیلئے چارہ جوئی‬
‫سے پہلے کسی افسر یا اہل کار سے اجازت حاصل کریں‪ ،‬منسوخ ہونے چاہئیں یا ان میں اس طرح‬
‫ترمیم کی جانی چاہئے کہ ہر متاثرہ شخص کسی اجازت لئے بغیر زیادتی کے خالف قانونی چارہ‬
‫جوئی کر سکے۔ یہاں شرعی دلیل یہ آیت مبارکہ ہے‪:‬‬
‫ع ِلی ًما (‪)63‬‬
‫س ِمیعًا َ‬
‫ّللاُ َ‬ ‫س َوء ِ ِمنَ ْالقَ ْو ِل ِإالَّ َمن ُ‬
‫ظ ِل َم ط َوکَانَ ِّ‬ ‫ّللاُ ْال َج ْھ َر ِبال ُّ‬
‫الَّ ی ُِحبُّ ِّ‬
‫تعالی اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو عالنیہ بُرا کہے مگر وہ جو مظلوم‬
‫ٰ‬ ‫’’ہللا‬
‫تعالی سب کچھ سنتا اور جاننے واال ہے‘‘۔‬
‫ٰ‬ ‫ہو اور ہللا‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬دفعہ نمبر ‪ 197‬کے تحت یہ سفارش کی جا چکی ہے کہ یہ دفعہ چونکہ اسالمی‬
‫تعلیمات کے برعکس دکھائی دیتی ہے‪ ،‬لہٰ ذا اسے حذف کیا جانا چاہئے‪ ،‬مذکورہ باال دفعہ کی شق‬
‫نمبر ‪ 3‬کو بھی حذف کرنے کی سفارش کی جاتی ہے کیونکہ یہ بھی اسالمی تعلیمات کے خالف‬
‫دکھائی دیتی ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :239‬کن اشخاص پر مشترک الزام عائد کیا جا سکتا ہے‬
‫مندرجہ ذیل اشخاص پر مشترک فرد الزام عائد کی جا سکتی ہے اور یہ تجویز مقدمہ ہو سکتی ہے‪:‬‬
‫دو اشخاص جن پر ایک ہی کارروائی کے دوران ایک ہی جرم کے ارتکاب کا الزام‬ ‫(‪a‬‬
‫ہو۔‬
‫ایسے اشخاص جن پر کسی جرم کا الزام ہو اور ایسے جرم میں اعانت کرنے یا‬ ‫(‪b‬‬
‫ارتکاب کا اقدام کرنے والے اشخاص۔‬
‫ایسے اشخاص جن پر دفعہ ‪ 234‬کے مفہوم میں ایک ہی نوعیت کے ایک جرم سے‬ ‫(‪c‬‬
‫زیادہ کا الزام ہو‪ ،‬جس کا انہوں نے مشترکا ً ‪ 12‬ماہ کے اندر ارتکاب کیا ہو۔‬
‫ایسے اشخاص جن پر ایک ہی کارروائی کے دوران مختلف جرائم کے ارتکاب‬ ‫(‪d‬‬
‫کرنے کا الزام ہو۔‬
‫ایسے اشخاص جن پر ایسے جرم کا الزام لگایا گیا ہو جس میں سرقہ‪ ،‬استحصال‬ ‫(‪e‬‬
‫بالجبر یا تصرف بے جا مجرمانہ شامل ہو اور وہ اشخاص جن پر کسی ایسے مال کے وصول کرنے‬
‫یا رکھنے یا اسے ٹھکانے لگانے یا چھپانے کی مدد کرنے کا الزام ہو‪ ،‬جس کا قبضہ اول الذکر‬
‫اشخاص کے کسی ویسے جرم کے ارتکاب سے مبینہ طور پر منتقل کیا گیا ہو یا موخر الذکر جرم‬
‫کی اعانت کا یا ارتکاب کے اقدام کا الزام ہو۔‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪ 411‬اور ‪ 414‬کے تحت‬
‫ایسے اشخاص جن پر مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪f‬‬
‫جرائم کا یا ان دفعات میں سے کسی کا ایک ایسے مال مسروقہ کے متعلق‪ ،‬جس کا قبضہ ایک جرم‬
‫کے تحت منتقل کیا گیا ہو‪ ،‬الزام لگایا گیا ہو‪ ،‬اور‬
‫ت پاکستان کے باب ‪ 12‬کے تحت کھوٹے‬ ‫ایسے اشخاص جن پر مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪g‬‬
‫سکے کے متعلق کسی جرم کا الزام ہو اور وہ اشخاص جن پر باب مذکور کے تحت اسی سکہ کی‬
‫بابت کسی دیگر جرم کا یا ایسے جرم میں اعانت یا اس کے ارتکاب کے اقدام کرنے کا الزام لگایا گیا‬
‫ہو اور باب ہذا کے ابتدائی حصہ میں درج احکام‪ ،‬جہاں تک ہو‪ ،‬ایسے تمام الزامات پر اطالق پذیر‬
‫ہوں گے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :240‬کثیر الزامات میں سے کسی ایک پر سزا یاب کرنے پر بقیہ الزامات کا واپس لینا‬

‫جب ایک سے زائد مقدمات رکھنے واال الزام ایک ہی شخص پر عائد کیا جائے اور جب ان میں سے‬
‫ایک یا زیادہ پر سزایابی کی گئی ہو تو مستغیث یا پیروی کرنے واال افسر‪ ،‬عدالت کی اجازت سے‪،‬‬
‫بقایا الزام یا الزامات واپس لینے کے مجاز ہوں گے یا عدالت اپنی صوابدید پر ایسے الزام یا الزامات‬
‫کی تحقیقات یا تجویز روکنے کی مجاز ہوگی۔ ایسی واپسی‪ ،‬ایسے الزامات سے بریت کا اثر رکھے‬
‫گی‪ ،‬سوائے اس کے کہ سزا منسوخ کردی جائے‪ ،‬ایسی صورت میں مذکورہ عدالت (اس عدالت کے‬
‫حکم کے تابع جس نے سزایابی منسوخ کی ہو) ایسے واپس کردہ الزام یا الزامات کی تحقیقات یا‬
‫تجویز پیش کرنے کی مجاز ہوگی۔‬

‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس بارے میں نظریاتی کونسل کی تجویز درج ذیل ہے۔‬
‫اس دفعہ میں سے الفاظ مستغیث یا پیروی کرنے واال افسر ( ‪Or the officer‬‬
‫‪ )conducting the prosectuion‬اور اسی طرح عدالت کی اجازت سے ( ‪with the consent of‬‬
‫‪ )the court‬کے الفاظ حذف کردیئے جائیں کیونکہ شخص متضرر کے دست بردار ہونے کی‬
‫صورت میں پراسیکیوٹنگ آفیسر یا عدالت کی مخالفت کی کوئی معقول شرعی وجہ نہیں رہتی۔ (‪)64‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں درج باال ترمیم عمل میں الئی جانی چاہئے تاکہ ضابطہ فوجداری سے‬
‫کماحقہ استعاذہ کیا جاسکے اور بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔‬

‫(باب نمبر ‪)20‬‬


‫مقدمات میں مجسٹریٹوں کی تجویز کی بابت‬

‫دفعہ نمبر ‪ :241‬مقدمات کی تجویز کا ضابطہ‬

‫مقدمات کی تجویز میں مجسٹریٹ حسب ذیل ضابطہ اختیار کریں گے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-241‬ملزم کو بیانات اور دستاویزات کی نقول کی فراہمی‬


‫ان تمام مقدمات میں جو پولیس کی رپورٹ پر دائر کئے گئے ہوں‪ ،‬ماسوائے ان کے‬ ‫(‪1‬‬
‫جن کی سرسری تجویز ہوئی ہو یا جرمانہ سے یا سزائے قید جو چھ ماہ سے زائد نہ ہو‪ ،‬قابل سزا‬
‫ہوں‪ ،‬جملہ گواہان کے بیانات جو زیر دفعات ‪ 161‬اور ‪ 164‬قلمبند کئے گئے ہوں اور تفتیش کنندہ‬
‫افسر نے جو نوٹ معائنہ جائے وقوعہ پر پہلی بار جانے پر تحریر کئے ہوں کی نقول تجویز کے‬
‫آغاز سے کم از کم سات یوم قبل بال اجرت الزمی طور پر ملزم کو فراہمی کی جائیں گی۔‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ اگر ان بیان کا کوئی حصہ جو زیر دفعہ ‪ 161‬قلم بند کیا گیا ہو‪ ،‬ایسا ہو کہ جس‬
‫کا ملزم پر انکشاف مصلحت عامہ کے خالف ہے تو بیان کا ایسا حصہ ملزم کو فراہم کردہ نقل سے‬
‫خارج کردی جائے گا۔‬
‫ان تمام صوبوں میں جس میں استغاثہ تحریری طور پر دائر کیا گیا ہو‪ ،‬مستغیث پر‬ ‫(‪2‬‬
‫الزم ہوگا کہ‪:‬‬
‫استغاثہ کی درخواست میں الزام کا خالصہ‪ ،‬اپنے گواہان کے نام اور‬ ‫(‪a‬‬
‫اس شہادت کا خالصہ جو وہ سماعت مقدمہ میں اغلبا ً پیش کرے گا‪ ،‬اور‬
‫عدالت کے زیر دفعہ ‪ 204‬ملزم کو طلبی نامہ جاری کرنے کے حکم‬ ‫(‪b‬‬
‫کے ‪ 3‬یوم کے اندر‪ ،‬ملزمان کو فراہم کرنے کے لئے‪ ،‬استغاثہ اور کسی دیگر دستاویز کی جو اس‬
‫نے استغاثہ کے ساتھ داخل کی ہوں‪ ،‬اتنی نقل جتنی کہ تعداد ملزمان ہو‪ ،‬عدالت میں داخل کرے گا‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ دفعہ ہذا کے احکام کسی ایسی صورت پر اطالق پذیر نہ ہوں گے جہاں کہ‬
‫استغاثہ کسی عدالت یا کسی سرکاری مالزم نے جو کہ سرکاری فرائض کی بجا آوری میں کام کر‬
‫رہا ہو یا اس کا ایسا منشا ہو‪ ،‬دائر ہوا ہو۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ کے بارے میں دفعہ نمبر ‪ 197‬کے تحت دالئل دیئے جا چکے ہیں‪ ،‬لہٰ ذا اعادہ کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :242‬فرد الزام مرتب کی جائے گی‬

‫جب ملزم مجسٹریٹ کے روبرو حاضر ہو یا الیا گیا ہو‪ ،‬تو الزم ہوگا کہ اس جرم کی بابت جس کا‬
‫اس پر الزام عائد کیا گیا ہو‪ ،‬باضابطہ فرد الزام مرتب کی جائے گی اور اس سے دریافت کیا جائے‬
‫گا۔ آیا وہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ اس جرم کا مرتکب ہوا ہے جس کا اس پر الزام عائد کیا گیا ہے۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ جب ملزم مجسٹریٹ کے سامنے حاضر کیا جائے گا تو اس‬
‫پر فرد جرم لگے گی اور ملزم سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ اس پر لگائے گئے الزام کا اقرار کرتا‬
‫ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس بارے میں اسالمی تعلیمات درج ذیل احادیث سے واضح ہیں۔‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ایک دفعہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور اعتراف زنا کیا۔ اس‬ ‫٭‬
‫پر آپ ﷺ نے پوچھا کیا تجھے جنون کا مرض الحق ہے؟ اس نے کہا نہیں‪ ،‬پھر پوچھا کہ تو شادی‬
‫شدہ ہے‪ ،‬عرض کی ہاں۔ چنانچہ اسے رجم کردیا گیا۔ (‪)65‬‬
‫ایک دفعہ دو شخص حضور اکرم ﷺکے پاس زنا کا مقدمہ لیکر آئے۔ جس میں ایک لڑکے‬ ‫٭‬
‫اسلمی کو اس عورت کے پاس‬
‫ؓ‬ ‫اور ایک عورت پر زنا کا الزام تھا۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے انیس‬
‫بھیجا کہ اگر وہ اعتراف کرلے تو اسے رجم کیا جائے۔ چنانچہ اس کے اعتراف پر اسے رجم کردیا‬
‫گیا۔ (‪)66‬‬
‫صدیق کے عہد میں ایک صاحب نے کسی شخص کی دعوت کی۔ مہمان نے‬ ‫ؓ‬ ‫حضرت ابوبکر‬ ‫٭‬
‫ابوبکر‬
‫ؓ‬ ‫میزبان کی بہن سے زنا کرڈاال۔ میزبان نے شکایت کرتے ہوئے مہمان پر الزام لگایا۔ حضرت‬
‫آپ نے پوچھا کہ تو شادی‬‫نے مہمان کو بالیا اور جب اس پوچھ گچھ کی تو اس نے اقرار جرم کرلیا۔ ؓ‬
‫شدہ ہے یا کنوارا؟ اس نے کہا کنوارا۔ چنانچہ اسے سو کوڑے لگوا کر جالوطن کردیا گیا۔ (‪)67‬‬
‫ایک شخص نے کسی کنواری کنیز سے زنا کرلیا اور وہ حاملہ ہوگئی‪ ،‬پھر اس شخص نے‬ ‫٭‬
‫اعتراف جرم کرلیا‪ ،‬وہ چونکہ شادی شدہ تھا‪ ،‬لہٰ ذا اسے سو کوڑے مارے گئے اور جالوطن کردیا‬
‫گیا۔ (‪)68‬‬
‫عمر کو بتایا کہ اس نے اپنی بیوی‬
‫عہد فاروقی میں ایک شخص شام سے آیا اور حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫لیثی کو اس کی بیوی کے‬ ‫آپ نے ابو واقد ؓ‬
‫کے ساتھ ایک شخص کو زنا کرتے دیکھا ہے۔ چنانچہ ؓ‬
‫پاس پوچھ گچھ کے لئے بھیجا‪ ،‬انہوں نے اس عورت سے اس بارے میں پوچھا جو کہ اس کے شوہر‬
‫نے کہا تھا‪ ،‬اور ساتھ ہی یہ بھی کہا صرف شوہر کے الزام پر اس سے مواخذہ نہیں ہوگا‪ ،‬وہ اگر‬
‫چاہے تو انکار کردے‪ ،‬کچھ دیگر عورتیں بھی اس کے پاس بیٹھی تھیں‪ ،‬وہ کچھ دیر خاموش رہی‪،‬‬
‫پھر کہنے لگی وہللا! میں اب بے حیائی کے ساتھ جھوٹ کو جمع نہیں کرونگی۔ اس لئے اعتراف‬
‫جرم کرلیا۔ اس پر اسے سنگسار کردیا گیا۔ (‪)69‬‬
‫عمر کے سامنے‬
‫ایک شخص نے رمضان میں شراب نوشی کی‪ ،‬لوگوں نے اسے حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫ب‬
‫آپ نے اسے سو کوڑے حد شر ِ‬
‫پیش کردیا‪ ،‬پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے اعتراف جرم کرلیا‪ؓ ،‬‬
‫خمر کے اور بیس تعزیرا ً لگائے کہ رمضان میں شراب کیوں پی۔ (‪)70‬‬
‫غنی کے عہد میں گورنر کوفہ ولید بن عقبہ کے خالف شکایت کی گئی کہ‬ ‫حضرت عثمان ؓ‬ ‫٭‬
‫آپ نے انہیں طلب کرلیا۔ دوران تفتیش شہادتیں پیش ہوئیں اور انہوں‬
‫انہوں نے شراب نوشی کی ہے۔ ؓ‬
‫نے اعتراف جرم بھی کرلیا‪ ،‬چنانچہ ان پر حد شراب نوشی جاری کردی گئی اور گورنری سے بھی‬
‫برطرف کردیا گیا۔ (‪)71‬‬
‫آپ کے سامنے‬ ‫علی کے زمانہ خالفت میں شراحہ نامی عورت زنا کے الزام میں ؓ‬ ‫حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫پیش کی گئی‪ ،‬جس کا شوہر شام کے عالقے میں روپوش تھا۔ شراحہ کا غالم اسے حالت حمل میں‬
‫علی کے پاس حاضر ہوا اور زنا کا الزام لگایا۔ خاتون سے دریافت کیا گیا تو اس نے‬
‫لے کر حضرت ؓ‬
‫اعتراف جرم کرلیا۔ چنانچہ اسے رجم کردیا گیا ہے۔ (‪)72‬‬
‫آپ نے‬‫علی کے روبرو خود ہی دوبار چوری کا اعتراف کیا تو ؓ‬ ‫ایک شخص نے حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫فرمایا کہ تو نے خود ہی اپنے بارے میں دو گواہیاں دے دی ہیں۔ چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔‬
‫(‪)73‬‬
‫آپ نے اس کو‬ ‫آپ کے سامنے پیش کیا گیا تو ؓ‬‫ایک شخص پر اونٹ چوری کا الزام تھا۔ جب ؓ‬ ‫٭‬
‫فرمایا‪ :‬میرے خیال میں تم نے چوری نہیں کی ہے۔ اس نے کہا‪ :‬میں نے چوری کی ہے۔ پھر فرمایا‬
‫آپ نے‬
‫شاید تمہیں شک ہو گیا ہے‪ ،‬اس نے عرض کی نہیں‪ ،‬بلکہ میں نے چوری کی ہے۔ چنانچہ ؓ‬
‫اپنے غالم قنبر کو فرمایا کہ آگ جال کر قصاب کو بال الئو تاکہ اس کا ہاتھ کاٹ دے۔ قصاب کے آنے‬
‫آپ‬
‫آپ نے اس سے ایک دفعہ پھر پوچھا اس نے چوری سے انکار کردیا۔ چنانچہ ؓ‬ ‫میں دیر ہوئی تو ؓ‬
‫نے فرمایا کہ پہلے اسی کے اقرار پر ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تھا اور اب اسی کے انکار پر چھوڑ دیا‬
‫ہے۔ (‪)74‬‬
‫ؓ‬
‫راشدین میں یہ‬ ‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ عہد رسالت مآب ﷺ اور عہد خلفائے‬
‫عدالتی طریق کار تھا کہ ملزم سے الزام کے بارے میں پوچھا جاتا تھا اور اقرار یا انکار کا پورا‬
‫اختیار دیا جاتا تھا۔ نیز ملزم کو صفائی کا بھی پورا موقع دیا جاتا تھا کہ اگر ممکن ہو سکے تو وہ‬
‫علی نے ملزم کے اقرار‬ ‫سزا سے بچ سکے اور جیسا کہ آخری روایت سے واضح ہے کہ حضرت ؓ‬
‫پر سزا سنائی مگر انکار پر اُس کی صفائی قبول کرتے ہوئے اسے رہا کردیا اور وہ سزا سے بچ‬
‫گیا۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس میں‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :243‬الزام درست ہونے کا اقبال کرنے پر سزایابی‬

‫اگر ملزم یہ اقبال کرے کہ اس نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے جس کا اس پر الزام عائد کیا گیا ہے تو‬
‫اس کا اقبال‪ ،‬جہاں تک قریب ممکن ہو‪ ،‬ان ہی الفاظ میں قلم بند کیا جائے گا جو اس نے استعمال کئے‬
‫ہوں اور اگر وہ اس امر کی کافی وجہ ظاہر نہ کر سکے کہ اس کو کیوں نہ سزا یاب کیا جائے‪ ،‬تو‬
‫مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ اسے اس کے مطابق سزایاب کرے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :244‬جب ایسا کوئی اقبال نہ کیا جائے تو ضابطہ‬

‫اگر مجسٹریٹ گزشتہ دفعہ کے تحت ملزم کو سزایاب نہ کرے یا ملزم ایسا کوئی‬ ‫(‪1‬‬
‫اقبال نہ کرلے‪ ،‬تو مجسٹریٹ پر الزم ہوگا کہ وہ مستغیث (اگر کوئی ہو) کو سماعت کرے اور ایسی‬
‫تمام شہادت لے جو استغاثہ کی تائید میں پیش ہو اور ملزم کو بھی سماعت کرے اور ایسی تمام‬
‫شہادت لے جو وہ اپنی صفائی میں پیش کرے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ کسی ایسے مقدمہ میں مجسٹریٹ کسی شخص کو بطور مستغیث کے سماعت‬
‫کرنے کا پابند نہ ہوگا جس میں استغاثہ عدالت نے کیا ہو۔‬
‫مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ اگر وہ مناسب سمجھے تو مستغیث یا ملزم کی درخواست پر‬ ‫(‪2‬‬
‫کسی گواہ کو حاضر عدالت ہونے یا کوئی دستاویز یا کوئی دیگر شے پیش کرنے کے لئے سمن‬
‫جاری کرے۔‬
‫مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ ایسی درخواست پر کسی گواہ کو طلب کرنے سے قبل یہ‬ ‫(‪3‬‬
‫حکم دے کہ تجویز کی غرض سے حاضر ہونے کے لئے ایسے مناسب اخراجات عدالت میں جمع‬
‫کرائے جائیں جو اس نے کئے ہوں‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ ملزم کے لئے ان مقدمات میں ایسے اخراجات عدالت میں جمع کرانے ضروری‬
‫نہ ہوں گے جہاں اس پر ایسے جرم کا الزام عائد کیا گیا ہو‪ ،‬جس کی سزا چھ ماہ سے زائد ہو۔‬

‫دعوی کی تائید میں شہادت لے اور‬


‫ٰ‬ ‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ مجسٹریٹ مستغیث سے‬
‫ملزم کی طرف سے بھی شہادت لے۔ اس بارے میں اسالمی نظریاتی کونسل نے تجویز دی ہے۔‬
‫’’اس دفعہ میں ملزم کی طرف سے شہادت پیش ہونے کے احکام بیان ہوئے ہیں‪ ،‬کونسل کا‬
‫دعوی کا موقف اختیار نہ کرے‪ ،‬وہ شہادت پیش نہیں کر سکتا‪ ،‬دفع‬
‫ٰ‬ ‫خیال ہے کہ ملزم جب تک دفع‬
‫دعوی کا موقف اختیار کرنے کے بعد وہ صرف اس موقف کے حق میں شہادت دے سکے گا۔ عدالت‬ ‫ٰ‬
‫ٰ‬
‫نوعیت دریافت کرکے اسے قلمبند کریگی او رپھر ملزم کو صرف اسی دفاعی امر‬ ‫دعوی کی‬
‫ٰ‬ ‫دفع‬
‫کے بارے میں شہادت پیش کرنے کا حکم دیگی‪ ،‬کونسل سفارش کرتی ہے کہ اس اصول کے مطابق‬
‫دفعہ ہذا میں مناسب ترمیم کی جائے‘‘۔ (‪)75‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬کونسل کی سفارش سے اتفاق کرتے ہوئے یہ تجویز ہے کہ اس دفعہ میں مجوزہ‬
‫ترمیم ہونی چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-244‬دفعہ ‪ 164‬کے تحت دیا گیا بیان‬

‫کسی گواہ کا بیان جو دفعہ ‪ 164‬کے تحت جائز طور پر لیا گیا ہو‪ ،‬اگر یہ بجا حاضری ملزم لیا گیا ہو‬
‫اور اگر اسے اس کا علم ہو اور گواہ پر جرح کرنے کا موقع دیا گیا ہو‪ ،‬عدالت اپنی صوابدید پر‬
‫مجاز ہوگی کہ اگر ایسے گواہ کو پیش کیا جائے اور اظہار لیا جائے تو اسے قانون شہادت ‪1984‬ء‬
‫کے احکام کے تابع ہر مقصد کے لئے شہادت تصور کیا جائے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬دفعہ ہذا میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :245‬بریت‬

‫اگر کوئی مجسٹریٹ دفعہ ‪ 244‬میں محولہ شہادت اور ویسی مزید شہادت (اگر کوئی‬ ‫(‪1‬‬
‫ہو) جو وہ اپنی تحریک پر پیش کرانا چاہئے‪ ،‬لینے پر اور (اگر وہ مناسب سمجھے) ملزم کا بیان‬
‫لینے پر‪ ،‬ملزم کو بے قصور پائے تو وہ الزمی طور پر بریت کا حکم قلم بند کرے گا۔‬
‫سزا‪ :‬جب مجسٹریٹ دفعہ ‪ 349‬کے احکام کے مطابق کارروائی نہ کرے تو اس پر‬ ‫(‪2‬‬
‫ال زم ہوگا کہ اگر ملزم کو قصور وار پائے تو قانون کے مطابق اس کے خالف سزا کا حکم صادر‬
‫کرے۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ اگر کوئی مجسٹریٹ دفعہ ‪ 244‬کے مطابق شہادت لے لے‬
‫اور ملزم کے بیان کی روشنی میں ملزم کو بے قصور پائے تو وہ اسے بری کردے گا۔ دوسری شق‬
‫میں ہے کہ اگر مجسٹریٹ دفعہ نمبر ‪ 349‬کے مطابق کارروائی نہ کرے اور ملزم کو بے قصور‬
‫پائے تو قانون کے مطابق اسے سزا دے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪’’ :‬اس دفعہ کی رو سے اگر عدالت ملزم کو قصوروار نہ سمجھے تو اسے بری‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫کر سکتی ہے‪ ،‬ملزم سے حلف لینے کا مسئلہ بھی قابل غور ہے یعنی اگر مستغیث شریعت کے‬
‫مطابق مطلوبہ گواہی پیش کرنے سے قاصر رہے تو وہ عدالت سے مطالبہ کر سکتا ہے کہ ملزم‬
‫سے احکام شریعت کے مطابق حلف لے۔ یہاں یہ بھی ذکر ہونا چاہئے کہ جس میں مدعی کے پاس‬
‫شہادت نہ ہو یا شرعا ً ناکافی ہو اور وہ مدعا علیہ سے حلف کا مطالبہ کرے تو ایسی صورت میں‬
‫فیصلہ حدیث مبارکہ البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر کے مطابق ہو‪ ،‬متعدد ایسی صورتیں‬
‫ہیں جن میں اگر شہادت نہ ہو تو ملزم سے بھی شرعا ً حلف لیا جائے گا‪ ،‬مثالً سرقہ میں‪ ،‬لیکن اگر‬
‫ملزم حلف نہ اٹھائے تو صرف مال مسروقہ ہی کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ قتل کے بارے میں‬
‫حلف سے انکار ہو جائے تو قصاص ساقط ہو جاتا ہے‪ ،‬البتہ اقرار کرنے یا حلف اٹھانے تک ملزم‬
‫کو قید رکھا جا سکتا ہے۔ تمام قابل تعزیر جرائم میں ملزم سے حلف لیا جا سکتا ہے۔ یعنی حد کے‬
‫سوا باقی تمام امور بشمول قصاص میں قسم لی جا سکتی ہے‪ ،‬لہٰ ذا کونسل نے سفارش کی کہ ملزم‬
‫سے حلف اور حلف سے انکار کے موضوع پر مجوزہ اسالمی قانون شہادت مرتبہ اسالمی نظریاتی‬
‫کونسل کے متعلقہ احکام بطور جزء دفعہ ہذا اضافہ کئے جائیں۔ مجوزہ احکام درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫حلف یا حلف سے انکار‬
‫دعوی کے اثبات سے قاصر ہوں تو اس کے مطالبہ پر مدعا علیہ کو حلف‬‫ٰ‬ ‫جب مدعی اپنے‬ ‫(‪1‬‬
‫دعوی قابل اخراج ہوگا۔‬
‫ٰ‬ ‫دعوی سے انکار کرے تو‬
‫ٰ‬ ‫دیا جائے گا۔ مدعا علیہ اگر حلفا ً‬
‫وضاحت‪ :‬حلف کا مطالبہ تو اس معاملے میں ہو سکے گا جس میں محض حلف سے انکار کی بنیاد‬
‫پر فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔‬

‫استثناء‪ :‬حدود میں حلف کا مطالبہ نہیں ہو سکتا‪ ،‬البتہ سرقہ میں حلف کا مطالبہ محض اس لئے کیا‬
‫جا سکتا ہے کہ حلف سے انکار کی صورت میں ما ِل مسروقہ کے بارے میں فیصلہ صادر کیا جا‬
‫سکے۔‬
‫تعالی کے ذاتی یا صفاتی نام کے ساتھ‬
‫ٰ‬ ‫جب کسی فریق کو حلف دینا مقصود ہو تو اسے ہللا‬ ‫(‪2‬‬
‫حلف دیا جائے گا۔ مثالً وہللا‪ ،‬باہلل‪ ،‬تاہلل یا بالرحمن یا بالرحیم جیسے الفاظ استعمال ہونگے۔‬
‫وضاحت (‪ :)1‬مسلم اور غیر مسلم سب کے لئے حلف کا طریقہ یہی ہے۔‬

‫موکد کرنے اور اس میں زیادہ شدت پیدا کرنے کا اختیار عدالت کو حاصل‬‫وضاحت (‪ :)2‬حلف کو ٔ‬
‫ہے اور فریقین کے حاالت اور نوعیت مقدمہ کے مطابق اس میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ مثالً‬
‫مسلمانوں کے لئے مقدس مقام مثالً (مسجد) اور زمان مثالً عصر کے بعد کے تعین سے بھی قسم‬
‫موکد کرنے کا اختیار عدالت کو حاصل ہے‪ ،‬اسی طرح مسلمانوں سے قرآن کریم او غیر مسلم سے‬
‫اس کی مذہبی کتاب پر حلف لیا جا سکتا ہے۔‬
‫طلب حلف میں نیابت اور قائم مقامی ہو سکتی ہے لیکن حلف اٹھانے یا حلف سے انکار میں‬ ‫(‪3‬‬
‫نہیں ہو سکتی۔‬

‫وضاحت‪ :‬مدعی کا وکیل مدعا علیہ سے حلف کا مطالبہ کر سکتا ہے لیکن مدعا علیہ کی جگہ اس‬
‫کا وکیل یا قائم مقام نہ تو حلف اٹھا سکتا ہے اور نہ اس سے انکار کا مجازہوگا۔‬

‫حلف دینا عدالت کی ذمہ داری ہے‬


‫اگر مدعا علیہ سے مدعی کی طلب پر‪ ،‬عدالت کی جانب سے حلف عائد کرنے سے قبل‬ ‫(‪4‬‬
‫ازخود حلف اٹھایا گیا تو اس کا حلف معتبر نہ ہوگا اور الزم ہوگا کہ عدالت کی طرف سے اس سے‬
‫دوبارہ حلف لیا جائے کیونکہ حلف دینا عدالت کی ذمہ داری ہے۔‬
‫وضاحت‪ :‬مناسب ہوگا کہ عدالت متعلقہ فریقن کو حلف اٹھانے کے سلسلہ میں تین بار آگاہ کرے اور‬
‫انکار حلف پر مصر رہے‬
‫ِ‬ ‫ہر بار حلف نہ اٹھانے کے نتیجہ سے باخبر کرے‪ ،‬اس کے باوجود اگر وہ‬
‫تو اس کے خالف فیصلہ صادر کیا جائیگا۔‬
‫دعوی قتل میں ملزم سے حلف‬
‫ٰ‬
‫دعوی میں ملزم سے حلف لیا‬
‫ٰ‬ ‫عدم ثبوت کی بناء پر مستغیث کے مطالبہ پر قتل کے‬ ‫الف)‬ ‫(‪5‬‬
‫جائے گا۔‬
‫دعوی میں انکار کی صورت میں ملزم سے قصاص نہیں لیا جائے گا‬‫ٰ‬ ‫قتل عمد کے‬ ‫ب)‬
‫بلکہ اسے اس وقت تک قید میں رکھا جائے گا جب تک وہ حلف نہ اٹھائے یا جرم کا اقرار نہ کرے۔‬
‫انکار حلف کی صورت‬
‫ِ‬ ‫دعوی میں ملزم کے‬
‫ٰ‬ ‫اقسام قتل کے‬
‫ِ‬ ‫قتل عمد کے عالوہ دیگر‬ ‫ج)‬
‫احکام‬
‫ِ‬ ‫ت مقدمہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے عدالت‪ ،‬حسب‬
‫میں عدالت دیت کا حکم دے گی‪ ،‬نیز حاال ِ‬
‫قانون قصاص ودیت‪ ،‬تعزیر بھی دے سکتی ہے۔‬
‫دعوی میں ملزم سے حلف‬
‫ٰ‬ ‫قطع اعضاء کے‬
‫دعوی مستوجب قصاص میں‬‫ٰ‬ ‫عدم ثبوت کی بنا پر مستغیث کے مطالبہ پر قطع اعضاء کے‬
‫ِ‬ ‫(‪6‬‬
‫ملزم سے حلف لیا جائے گا۔ ملزم کے انکار کی صورت میں اس سے قصاص لیا جائے گا۔ قطع‬
‫انکار حلف کی صورت میں اس سے ارش‬‫ِ‬ ‫دعوی میں ملزم کے‬
‫ٰ‬ ‫اعضاء غیر مستوجب قصاص کے‬
‫قانون قصاص‬
‫ِ‬ ‫لیا جائے گا۔ نیز حاالت مقدمہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے عدالت حسب احکام قصاص‬
‫ودیت تعزیر بھی دے سکتی ہے۔‬
‫دعوی تعزیر میں حلف‬
‫ٰ‬
‫دعوی میں ملزم سے‬
‫ٰ‬ ‫عدم ثبوت کی بناء پر مستغیث کے مطالبہ پر جرم مستوجب تعزیر کے‬ ‫(‪7‬‬
‫حلف لیا جائے گا اور انکار کی صورت میں وہ سزا کا مستوجب ہوگا مگر جو تعزیر محض حق ہللا‬
‫دعوی میں ملزم سے حلف نہیں لیا جائے گا۔‬
‫ٰ‬ ‫کی بناء پر واجب ہو‪ ،‬اس کے‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬کونسل اس نتیجہ پر پہنچی کہ زیر دفعہ میں بذات خود کوئی‬
‫خالف شریعت نہیں ہے لیکن چونکہ بعض حاالت میں شرعا ً مدعا علیہ سے حلف اٹھوانے کی‬
‫ِ‬ ‫امر‬
‫گنجائش موجود ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس دفعہ کو کونسل کی مذکورہ سابقہ سفارشات کی روشنی میں ازسرنو‬
‫ڈرافٹ کیا جائے۔ (‪)76‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دالئل اور نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں دفعہ ہذا میں ترمیم‬
‫کی جانی چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-245‬سابقہ سزایابیوں کی صورت میں ضابطہ‬

‫ایسی صورت میں جب دفعہ ‪ 221‬ضمنی دفعہ (‪ )7‬کے احکام کے تحت سابقہ سزایابی کی فرد الزام‬
‫نکالی گئی ہو اور ملزم تسلیم نہ کرے کہ اسے جیسا کہ فرد الزام میں بیان کیا گیا‪ ،‬پہلے سزایاب کیا‬
‫گیا تھا تو مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ جب وہ ملزم کو دفعہ ‪ 242‬یا دفعہ ‪ 245‬کی ضمنی دفعہ (‪ )2‬کے‬
‫تحت سزا یاب کرلے تو مبینہ سابقہ سزایابی کی نسبت شہادت لے اور اگر وہ ایسا کرے تو الزمی‬
‫طو رپر اس کا نتیجہ قلم بند کرے گا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس پر‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :246‬قانونی اصالحات کے قانون نمبر ‪ 12‬بابت ‪1972‬ء سے حذف ہوئی۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :247‬مستغیث کی عدم حاضری‬

‫اگر استغاثہ دائر ہونے پر سمن جاری کئے گئے ہوں اور اس روز جو ملزم کی حاضری کے لئے‬
‫مقرر کیا گیا ہو یا اس کے بعد کسی روز‪ ،‬جس پر مقدمہ کی کارروائی ملتوی کی گئی ہو‪ ،‬مستغیث‬
‫حاضر نہ ہو تو مجسٹریٹ پر الزم ہوگا کہ پیشتر ازیں درج کسی امر کے باوصف‪ ،‬ملزم کو بری‬
‫کردے‪ ،‬سوائے اس کے کہ بعض وجوہ پر وہ مقدمہ کی سماعت کسی دیگر روز کے لئے ملتوی‬
‫کرنا مناسب سمجھے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ جب مستغیث سرکاری مالزم ہو اور اس کی ذاتی حاضری کی ضرورت نہ ہو‬
‫تو مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ اس کی حاضری معاف کردے اور مقدمہ کی کارروائی جاری رکھے‪:‬‬
‫مزید شرط یہ ہے کہ جب وہ جرم جس کا ملزم پر الزام عائد کیا گیا ہو یا قابل دست اندازی ہو یا ناقابل‬
‫راضی نامہ ہو تو دفعہ ہذا میں کسی امر کا اطالق نہ ہوگا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کہا گیا ہے کہ عدالت میں مقدمہ کی کارروائی کے دوران اگر کسی‬
‫مرحلے پر خود مستغیث غیر حاضر ہو جائے تو عدالت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ملزم کے حق‬
‫میں فیصلہ کرتے ہوئے اسے بری کردے‪ ،‬مدعی کی غیر حاضری سے سرکاری مقدمات میں تو‬
‫کوئی فرق نہیں پڑے گا‪ ،‬البتہ عام مدعی مقدمہ کو نقصان پہنچے گا۔ اس لئے عدالت کو حق رسی‬
‫یقینی بناتے ہوئے کارروائی کرنی چاہئے تاکہ کسی کا حق ضائع نہ ہو اور ہر ایک کے لئے عدل‬
‫وانصاف کا حصول یقینی بنایا جا سکے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس بارے میں نظریاتی کونسل کی رائے اس طرح ہے‪:‬‬
‫اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی پیشی پر مدعی حاضر نہ ہو تو عدالت ملزم کو بری‬
‫کردے گی‪ ،‬البتہ اگر مناسب سمجھے تو سماعت ملتوی کر سکتی ہے جو مقدمات حکومت کی طرف‬
‫سے پیش ہوتے ہیں‪ ،‬ان کی پیروی کے لئے ایک افسر مستقل طور پر عدالت میں موجود رہتا ہے‬
‫اور وہ موجود نہ ہو تو بھی عدالت عموما ً اسے حاضر تصور کرکے مقدمہ کی سماعت ملتوی‬
‫کردیتی ہے۔‬
‫اس دفعہ سے نقصان صرف اس شخص کو پہنچتا ہے جس کی فریاد پولیس نے نہ سنی ہو‬
‫اور اسے خود ہی استغاثہ دائر کرنا پڑا ہو۔‬
‫کونسل سفارش کرتی ہے کہ جب کسی فریادی کا معاملہ عدالت تک پہنچ جائے تو ہر‬
‫صورت میں فریقین کی دادرسی اور انصاف رسانی عدالت کا فریضہ ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس دفعہ میں مناسب‬
‫ترمیم کی جائے۔‬
‫تاہم دوبارہ غور وخوض کے بعد کونسل نے تجویز کیا کہ اس کے الفاظ ’’فریادی حاضر‬
‫نہیں ہوتا‘‘ (‪ )does not appear‬کے بعد الفاظ عدالت کے سمن کی تعمیل کے باوجود اور بغیر‬
‫کسی معقول وجہ کے (‪ )despite service and without any reasonable cause‬بڑھا دیئے‬
‫جائیں‘‘۔ (‪)77‬‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ کے بارے میں نظریاتی کونسل کی سفارش کے مطابق ترمیم کی جانی‬
‫چاہئے تاکہ مدعی کی حاضری سے غیر حاضری اگر کسی واقعی مجبوری کی وجہ سے ہو تو‬
‫اسے انصاف کے حصول سے بالوجہ محروم نہ کیا جا سکے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :248‬استغاثہ سے دستبرداری‬

‫اگر کوئی مستغیث کسی مقدمہ میں‪ ،‬باب ہذا کے تحت آخری حکم صادر ہونے سے قبل کسی وقت‪،‬‬
‫مجسٹریٹ کی اس بارے میں تسلی کر دے کہ اسے استغاثہ سے دستبردار ہونے کی اجازت دینے‬
‫کی کافی وجوہ ہیں تو مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ اسے اس سے دستبردار ہونے کی اجازت دے اور‬
‫الزم ہوگا کہ تب ملزم کو بری کردے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :249‬کارروائی روکنے کا اختیار جب کوئی مستغیث نہ ہو‬

‫کسی مقدمہ میں جو استغاثہ کے عالوہ کسی اور بنا پر دائر کیا گیا ہو‪ ،‬مجسٹریٹ درجہ اول یا‬
‫‪] 53‬سیشن جج[ ٭ ]٭٭٭[ کی پیشگی منظوری سے کوئی دیگر مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ ان وجوہ‬
‫کی بنا پر جنہیں وہ قلم بند کرے گا‪ ،‬بریت یا سزایابی کا فیصلہ سنائے بغیر کسی مرحلہ پر مقدمہ کی‬
‫کارروائی روک دے اور اس پر ملزم کو رہا کردے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-249‬مجسٹریٹ کا ملزم کو کسی بھی مرحلہ پر بری کرنے کا اختیار‬

‫باب ہذا میں کسی امر سے کسی مجسٹریٹ کا کسی ملزم کو مقدمہ کے کسی مرحلہ پر بری کرنے‬
‫سے روکنا تصور نہ کیا جائے گا‪ ،‬اگر سرکاری پیروکار اور ملزم کو سماعت کرنے کے بعد‪ ،‬اور‬
‫اسی وجوہ پر جو قلم بند کی جائیں گی‪ ،‬وہ یہ سمجھے کہ الزام بے بنیاد ہے یا یہ کہ ملزم کا کسی‬
‫جرم میں سزایاب ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔‬

‫مجسٹریٹ کے زیرسماعت مقدمات میں بے بنیاد الزامات‬

‫دفعہ نمبر ‪ :250‬جھوٹے‪ ،‬بے بنیاد یا ناحق پریشان کن الزامات‬

‫اگر کسی مقدمہ میں جو کسی استغاثہ یا اطالع کی بنیاد پر‪ ،‬جو کسی پولیس افسر یا‬ ‫(‪1‬‬
‫مجسٹریٹ کو دی گئی ہو دائر ہوا ہو‪ ،‬ایک یا زیادہ اشخاص جن پر یا جن پر یا جس پر مجسٹریٹ‬
‫کے روبرو ایسے جرم کا الزام عائد کیا گیا ہو جو مجسٹریٹ کے الئق تجویز ہو اور وہ مجسٹریٹ‬
‫جس نے مقدمہ کی سماعت کی ہو‪ ،‬جملہ ملزمان یا ملزمان سے کسی کو بری کردے اور اس کی‬
‫رائے ہے کہ ان کے یا ان میں سے کسی کے خالف الزام جھوٹا تھا اور یا تو بے بنیاد تھا‪ ،‬یا ناحق‬
‫پریشان کن‪ ،‬تو مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ اپنے حکم بریت کے ذریعہ‪ ،‬اگر وہ شخص کے استغاثہ یا‬
‫اطالع پر وہ الزام لگایا گیا تھا‪ ،‬حاضر ہو تو فوری طور پر اسے ہدایت کرے کہ وجہ ظاہر کرے کہ‬
‫وہ ایسے ملزم کو یا اگر وہ ایک سے زائد ہوں تو ہر ایک کو یا ان میں سے چند ایک کو کیوں نہ زر‬
‫معاوضہ ادا کرے یا اگر ویسا شخص حاضر نہ ہو تو ہدایت کرے کہ اس کے نام حاضر ہونے اور‬
‫قبل الذکر وجہ ظاہر کرنے کا سمن جاری کیا جائے۔‬
‫جو وجہ ایسا مستغیث یا اطالع دہندہ ظاہر کرے‪ ،‬اس کو مجسٹریٹ الزمی طور پر‬ ‫(‪2‬‬
‫قلم بند کرے گا اور اس پر غور کرے گا اور اگر اسے اطمینان ہو کہ الزام جھوٹا تھا اور یا تو بے‬
‫بنیاد تھا یا ناحق پریشان کن تو اپنی وجوہ قلم بند کرکے ہدایت کرنے کا مجاز ہوگا کہ مستغیث یا‬
‫اطالع دہندہ اس قدر زر معاوضہ جو ‪ 25‬ہزار روپے سے زائد نہ ہو‪ ،‬یا اگر وہ مجسٹریٹ درجہ سوم‬
‫ہو تو ڈھائی ہزار روپے سے زائد نہ ہو‪ ،‬جتنا کہ وہ متعین کرے‪ ،‬ملزم کو یا ہر ملزم کو یا ان میں‬
‫سے چند کو ادا کرے۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )2‬کے تحت واجب االدا زر معاوضہ بطور بقایا مالگزاری قابل وصول‬ ‫(‪A-2‬‬
‫ہوگا۔‬
‫جب کسی شخص کو ضمنی دفعہ (‪ )A-2‬کے تحت قید کیا گیا ہو تو مجموعہ‬ ‫(‪B-2‬‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪ 68‬اور ‪ 69‬اطالق پذیر ہوں گی۔‬
‫تعزیرا ِ‬
‫کوئی شخص جس کو زیر دفعہ ہذا زر معاوضہ ادا کرنے کا حکم ہوا ہو‪ ،‬ایسے حکم‬ ‫(‪C-2‬‬
‫کی بنا پر اس کی طرف سے دائر کردہ استغاثہ یا دی گئی اطالع کی نسبت کسی دیوانی یا فوجداری‬
‫مستثنی نہ ہوگا‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫مواخذہ سے‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ اس معاملہ سے متعلق کسی بعد کے مقدمہ میں ایسے شخص کو زر معاوضہ‬
‫کی ادائیگی کا حکم دیتے وقت اس رقم کا لحاظ رکھا جائے گا جو اس نے دفعہ ہذا کے تحت ملزم کو‬
‫ادا کی ہو۔‬
‫وہ مستغیث یا اطالع دہندہ جسے ضمنی دفعہ (‪ )2‬کے تحت کسی مجسٹریٹ درجہ‬ ‫(‪3‬‬
‫دوم یا سوم نے معاوضہ کی ادائیگی کا حکم دیا ہو یا کسی اور مجسٹریٹ نے پچاس روپے سے زائد‬
‫معاوضہ ادا کرنے کا اس طرح حکم دیا ہو‪ ،‬ایسے حکم کے خالف‪ ،‬جہاں تک اس حکم کی ادائیگی‬
‫معاوضہ سے تعلق ہو‪ ،‬اس طرح اپیل دائر کر سکتا ہے گویا ویسا مستغیث یا اطالع دہندہ ویسے‬
‫مجسٹریٹ کی تجویز میں سزایاب کیا گیا ہو۔‬
‫جب کسی ایسے مقدمہ میں جو ضمنی دفعہ (‪ )3‬کے تحت قابل اپیل ہو‪ ،‬ملزم کو زر‬ ‫(‪4‬‬
‫معاوضہ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہو تو اسے زرمعاوضہ اپیل دائر کرنے کی مقررہ مدت کے‬
‫اختتام سے قبل یا اگر اپیل دائر کر دی گئی ہو تو اپیل کے فیصلہ سے قبل ادا نہیں کیا جائے گا اور‬
‫جب ایسا حکم کسی ایسے مقدمہ میں دیا گیا ہو جو اس طور پر تابع اپیل نہ ہو تو زرمعاوضہ تاریخ‬
‫حکم سے ایک ماہ گزرنے سے قبل ادا نہیں کیا جائے گا۔‬
‫مجموعہ ضابطہ فوجداری کے (ترمیمی) قانون (‪ )XVIII of 1923‬سے حذف‬ ‫(‪5‬‬
‫ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-250‬خفیف جرائم کی صورت میں خصوصی سمن‬

‫کسی مجسٹریٹ درجہ اول کو جسے اس بارے میں صوبائی گورنمنٹ کی طرف‬ ‫(‪1‬‬
‫سے اختیار مال ہو الزم ہے کہ وہ کسی ایسے جرم کی گرفت کرتے وقت جو صرف قابل سزائے‬
‫جرمانہ ہو ماسوائے ان وجوہات کے جو قلمبند کی جائیں ملزم شخص کو سمن جاری کرے کہ وہ‬
‫ایک خاص مصرحہ تاریخ پر اس کے روبرو اصالتا ً یا کسی وکیل کے ذریعے پیش ہو یا اگر وہ اقبال‬
‫جرم کرنا چاہئے تو مجسٹریٹ کے روبرو پیش ہوئے بغیر مصرحہ تاریخ سے پہلے رجسٹری شدہ‬
‫ڈاک کے ذریعے یا کسی پیغام بر کی معرفت اقبال جرم مذکور تحریری طور پر اور سمن مذکور‬
‫میں متذکرہ رقم مجسٹریٹ کے پاس بھیج دے یا اگر وہ وکیل کے ذریعے پیش ہو کر اقبال جرم کرنا‬
‫چاہتا ہو تو ویسے وکیل کو تحریری طور پر اختیار دے کہ وہ اس کی طرف سے اقبال جرم کرے‬
‫اور جرمانہ ادا کرے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ ویسے سمن میں مصرحہ جرمانے کی رقم ویسے جرم کے لئے زیادہ سے‬
‫زیادہ جرمانے کے پچیس فیصدی سے کم یا پچاس فیصدی سے زیادہ نہیں ہوگی۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )1‬کا اطالق آرڈیننس موٹر گاڑیاں ‪1995‬ء (‪ )XIV of 1965‬کے‬ ‫(‪2‬‬
‫تحت یا کسی ایسے دیگر قانون کے تحت کسی قابل سزا جرم پر نہیں ہوگا جس میں ملزم شخص کی‬
‫غیر حاضری میں اقبال جرم پر اس کے مجرم ثابت قرار پانے کے بارے میں حکم وضع کیا گیا ہو[۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات نمبر ‪ 250 ،A-249 ،249 ،248‬اور ‪ A-250‬میں کوئی بات اسالمی‬
‫تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ان پر تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫(باب نمبر ‪)21‬‬


‫مجسٹریٹوں کے مقدمات قابل اجرائے وارنٹ کی سماعت کی بابت‬

‫دفعہ ‪ 251‬تا ‪ :259‬قانونی اصالحات کے قانون نمبر ‪ 12‬بابت ‪1972‬ء سے حذف ہوئیں۔‬

‫(باب نمبر ‪)22‬‬


‫سرسری سماعت کی بابت‬

‫دفعہ نمبر ‪ :260‬سرسری سماعت کرنے کا اختیار‬

‫مجموعہ ہذا میں درج کسی امر کے باوصف‪:‬‬ ‫(‪1‬‬


‫قانونی اصالحات کے قانون نمبر ‪ 12‬بابت ‪1972‬ء سے حذف ہوئی۔‬ ‫(‪a‬‬
‫کوئی مجسٹریٹ درجہ اول جسے صوبائی حکومت نے خاص طور‬ ‫(‪b‬‬
‫پر اس بارے میں اختیار دیا ہو‪ ،‬اور‬
‫مجسٹریٹوں کا کوئی بنچ جسے مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات‬ ‫(‪c‬‬
‫تفویض کئے گئے ہوں اور جسے صوبائی حکومت نے اس بارے میں خاص طور پر اختیار دیئے‬
‫ہوں‪ ،‬مجاز ہوں گے کہ اگر وہ یا وہ سب مناسب سمجھیں تو مندرجہ ذیل تمام یا کوئی جرائم سرسری‬
‫طور پر سماعت کریں‪:‬‬
‫وہ جرائم جن کی سزا موت‪ ،‬عمر قید یا چھ ماہ سے زائد‬ ‫(‪a‬‬
‫مدت کی قید نہ ہو۔‬
‫مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعات ‪ 265 ،264‬اور ‪266‬‬ ‫(‪b‬‬
‫کے تحت جرائم جو اوزان و پیمائش سے متعلق ہوں۔‬
‫اسی مجموعہ کی دفعہ ٭[‪ ]A-337‬کے تحت ایذا رسانی۔‬ ‫(‪c‬‬
‫اسی مجموعہ کی دفعات ‪ 380 ،379‬یا ‪ 381‬کے تحت‬ ‫(‪d‬‬
‫سرقہ‪ ،‬جب سرقہ شدہ مال کی قیمت ٭]دس ہزار روپے[ سے زائد نہ ہو۔‬
‫اسی مجموعہ کی دفعہ ‪ 403‬کے تحت بددیانتی سے تصرف‬ ‫(‪e‬‬
‫بے جا مال جب تصرف بے جا کردہ مال کی قیمت ٭]دس ہزار روپے[ سے زیادہ نہ ہو۔‬
‫اسی مجموعہ کی دفعہ ‪ 411‬کے تحت مال مسروقہ وصول‬ ‫(‪f‬‬
‫کرنا یا پاس رکھنا جب ایسے مال کی مالیت ٭]دس ہزار روپے[ سے زیادہ نہ ہو۔‬
‫اسی مجموعہ کی دفعہ ‪ 411‬کے تحت مال مسروقہ کو‬ ‫(‪g‬‬
‫چھپانے یا اسے ٹھکانے لگانے میں مدد دینا‪ ،‬جب ویسے مال کی قیمت ٭]دس ہزار روپے[ سے زائد‬
‫نہ ہو۔‬
‫اسی مجموعہ کی دفعہ ‪ 427‬کے تحت ضرر رسانی۔‬ ‫(‪h‬‬
‫اسی مجموعہ کی دفعہ ‪ 448‬کے تحت مداخلت بے جا بخانہ‬ ‫(‪i‬‬
‫اور دفعات ‪ 456 ،454 ،453 ،451‬اور ‪ 457‬کے تحت جرائم۔‬
‫اسی مجموعہ کی دفعہ ‪ 504‬کے تحت امن عامہ میں خلل‬ ‫(‪j‬‬
‫پیدا کرنے کی نیت سے توہین کرنا اور دفعہ ‪ 506‬کے تحت تخویف مجرمانہ۔‬
‫اسی مجموعہ کی دفعہ ‪ F-171‬کے تحت کسی الیکشن میں‬ ‫(‪jj‬‬
‫خود کو دوسرا شخص ظاہر کرنا۔‬
‫مذکورہ باال جرائم سے کسی کی اعانت کرنا۔‬ ‫(‪k‬‬
‫مذکورہ باال جرائم کے ارتکاب کا اقدام جب ایسا اقدام جرم‬ ‫(‪l‬‬
‫ہو۔‬
‫قانون مداخلت بے جا مویشیاں ‪1871‬ء کی دفعہ ‪ 20‬کے‬ ‫(‪m‬‬
‫تحت جرائم۔‬
‫جب کسی تجویز سرسری کے دوران مجسٹریٹ یا بنچ پر یہ ظاہر ہو کہ مقدمہ کی‬ ‫(‪2‬‬
‫نوعیت ایسی ہے کہ اس میں سرسری طور پر تجویز کرنا مناسب نہیں تو مجسٹریٹ یا بنچ پر الزم‬
‫ہوگا کہ وہ ان گواہان میں سے کسی کو دوبارہ طلب کرے جن کے بیانات لئے جا چکے ہیں اور‬
‫مقدمہ کی سماعت باب ہذا میں مذکورہ طریقہ پر کرے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس پر تبصرہ‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :261‬مجسٹریٹوں کے ایسے بنچ کو اختیار دینا جن کو کم اختیار تفویض کیا گیا ہو‬

‫صوبائی حکومت مجاز ہے کہ مجسٹریٹوں کے کسی بنچ کو دوسرے درجہ یا سوم کے اختیارات‬
‫حاصل ہوں‪ ،‬مندرجہ ذیل تمام یا ان میں سے کچھ کی سرسری طور پر تجویز کرنے کا اختیار عطا‬
‫کرے‪:‬‬
‫ت پاکستان کی دفعات ‪،292 ،290 ،286 ،285 ،279 ،278 ،277‬‬
‫مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪a‬‬
‫‪ ،294 ،293‬٭‪ 447 ،426 ،352 ،[337-A 341 ،337-L(2) ،H(2)]-337‬اور ‪ 504‬کے خالف‬
‫جرائم۔‬
‫قوانین بلدیہ اور قوانین پولیس کے حفظان صحت وصفائی کے ضمن ہائے کے‬ ‫(‪b‬‬
‫خالف جرائم‪ ،‬جن کی سزا صرف جرمانہ یا قید جس کی معیاد ایک ماہ سے زائد نہ ہو‪ ،‬مع جرمانہ یا‬
‫بالجرمانہ۔‬
‫مذکورہ باال جرائم سے کسی کی اعانت۔‬ ‫(‪c‬‬
‫مذکورہ باال جرائم کے ارتکاب کا اقدام جب کہ ایسا اقدام جرم ہو۔‬ ‫(‪d‬‬

‫مذکورہ دفعہ میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کو یہ اختیار ہے کہ مجسٹریٹوں‬ ‫تبصرہ‪:‬‬
‫کے درجہ دوم و سوم کے اختیارات کے حامل کسی بنچ کو کوئی مقدمہ سرسری طو رپر سماعت‬
‫کرنے کا اختیار عطا کرے۔‬
‫عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کے بعد یہ اختیار صوبائی چیف جسٹس کو حاصل ہے‪،‬‬
‫صوبائی حکومت اس سلسلے میں کوئی اختیار نہیں رکھتی ۔ اب یہ اختیار صوبائی سربرا ِہ عدلیہ کا‬
‫ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں ’’صوبائی حکومت‘‘ کی جگہ ’’صوبائی چیف جسٹس‘‘ درج کیا‬
‫جانا چاہئے تاکہ عدلیہ اور انتظامیہ کے دائرہ ہائے کار کا تعین ہو سکے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :262‬باب ‪ 20‬میں مقرر کردہ ضابطہ‬

‫باب ہذا کے تحت کی جانے والی تجویزوں میں باب ‪ 20‬میں مقرر کردہ ضابطہ پر‬ ‫(‪1‬‬
‫عمل کیا جائے گا سوائے ان صوتوں کے جو بعد ازیں مذکور ہیں۔‬
‫قید کی حد ‪ :Limit of imprisonment‬باب ہذا کے تحت کسی سزا یابی کی‬ ‫(‪2‬‬
‫صورت میں کوئی سزائے قید جو تین ماہ کی مدت سے زائد نہ ہو نہیں دی جائے گی۔‬

‫مذکورہ دفعہ میں باب نمبر‪ 20‬کا حوالہ ہے‪ ،‬جہاں ملزم کی طرف سے شہادت پیش‬ ‫تبصرہ‪:‬‬
‫کئے جانے کے احکام درج ہیں۔ اس سلسلے میں دفعہ نمبر ‪ 244‬کے تحت وضاحت بیان ہو چکی‬
‫ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :263‬ان مقدمات کا ریکارڈ جن کی اپیل نہیں ہوتی‬

‫ایسے مقدمات جن میں اپیل نہیں ہوتی‪ ،‬مجسٹریٹ یا مجسٹریٹ کے بنچ کو شہادت قلم بند کرنے یا‬
‫باضابطہ فرد الزام مرتب کرنے کی ضرورت نہیں لیکن اسے یا ان کو الزم ہے کہ درج ذیل‬
‫تفصیالت اس نمونہ کے مطابق درج کریں جس کی صوبائی حکومت ہدایت کرے۔‬
‫نمبرشمار۔‬ ‫(‪a‬‬
‫ارتکاب جرم کی تاریخ۔‬ ‫(‪b‬‬
‫رپورٹ یا استغاثہ کی تاریخ۔‬ ‫(‪c‬‬
‫مستغیث کا نام (اگر کوئی ہو)۔‬ ‫(‪d‬‬
‫ملزم کا نام‪ ،‬ولدیت‪ ،‬سکونت۔‬ ‫(‪e‬‬
‫شکایت کردہ جرم اور وہ جرم (اگر کوئی ہو) جو ثابت ہوا‪ ،‬اور ان مقدمات کی‬ ‫(‪f‬‬
‫صورت میں جو دفعہ ‪ 260‬کی ضمنی دفعہ (‪ )1‬کی شق (‪ ،)d‬شق (‪ ،)e‬شق (‪ )f‬یا شق (‪ )g‬کے تحت‬
‫آتے ہوں‪ ،‬اس مال کی قیمت جس کی نسبت ارتکاب جرم کیا گیا ہے۔‬
‫ملزم کا عذر اور اس کا بیان (اگر کوئی ہو)۔‬ ‫(‪g‬‬
‫قائم کردہ نتیجہ اور سزایابی کی صورت میں‪ ،‬اس کے لئے وجوہ کا مختصر بیان۔‬ ‫(‪h‬‬
‫حکم سزا یا دیگر حکم قطعی‪ ،‬اور‬ ‫(‪i‬‬
‫تاریخ جس پر کارروائیاں اختتام پذیر ہوئیں۔‬ ‫(‪J‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ :264‬قابل اپیل مقدمات میں ریکارڈ‬

‫ہر اس مقدمہ کی صورت میں‪ ،‬جو قابل اپیل ہو‪ ،‬جس کی مجسٹریٹ یا مجسٹریٹوں کا‬ ‫(‪1‬‬
‫بنچ سرسری تجویز کر رہا ہو‪ ،‬ویسے مجسٹریٹ یا مجسٹریٹوں کے بنچ پر الزم ہوگا کہ وہ شہادت کا‬
‫خالصہ اور دفعہ ‪ 263‬میں متذکرہ تفصیالت قلم بند کرے اور کوئی سزا کا حکم صادر کرنے سے‬
‫قبل مقدمہ میں فیصلہ قلم بند کرے۔‬

‫مذکورہ دفعات ‪ 264 ،263‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں‬ ‫تبصرہ‪:‬‬
‫دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :265‬ریکارڈ اور فیصلہ کی زبان‬

‫ریکارڈ جو زیر دفعہ ‪ 263‬مرتب ہوں اور فیصلے جو دفعہ ‪ 264‬کے تحت تحریر‬ ‫(‪1‬‬
‫کئے جائیں‪ ،‬افسر جلیس الزمی طور پر یا تو انگریزی میں یا عدالت کی زبان میں تحریر کرے گا یا‬
‫اگر عدالت جس کے ویسا افسر براہ راست ماتحت ہے‪ ،‬ہدایت کرے تو ویسے افسر کی مادری زبان‬
‫میں تحریر ہوں گے۔‬
‫بنچ کو اہلکار مقرر کرنے کا اختیار دیا جا سکتا ہے‪ :‬صوبائی حکومت مجاز ہے کہ‬ ‫(‪2‬‬
‫مجسٹریٹوں کے کسی بنچ کو جسے جرائم کی سرسری تجویز کرنے کا اختیار ہو‪ ،‬اس امر کی‬
‫اجازت دے کہ قبل الذکر ریکارڈ یا فیصلہ اس اہلکار سے مرتب کرائے جو اس عدالت نے مقرر کیا‬
‫ہو‪ ،‬جس کا ایسا بنچ براہ راست ماتحت ہو اور ریکارڈ یا فیصلہ جو اس طرح مرتب ہوا ہو‪ ،‬پر بنچ کا‬
‫ہر ایسا رکن دستخط کرے گا جو حاضر ہو اور کارروائیوں میں حصہ لے رہا ہو۔‬
‫اگر کوئی ایسی اجازت نہ دی گئی ہو تو وہ ریکارڈ جو بنچ کے کسی رکن نے مرتب‬ ‫(‪3‬‬
‫کیا ہو اور جس پر حسب مذکورہ باال دستخط کئے گئے ہوں‪ ،‬جائز ریکارڈ ہوگا۔‬
‫اگر رائے میں بنچ کا اختالف ہو تو مختلف الرائے رکن مجاز ہوگا کہ علیحدہ فیصلہ‬ ‫(‪4‬‬
‫کرے۔‬

‫اس دفعہ میں ریکارڈ اور مقدمات کے فیصلے انگریزی زبان میں لکھنے کا ذکر ہے‬ ‫تبصرہ‪:‬‬
‫لیکن چونکہ پاکستان کی قومی او سرکاری زبان اُردو ہے‪ ،‬لہٰ ذا عدالتی زبان بھی اُردو ہی ہونی‬
‫چاہئے۔ اس سلسلے میں اسالمی نظریاتی کونسل کی سفارش اور تجویز و ترمیم دفعہ نمبر ‪6-221‬‬
‫کے تحت ذکر کی جا چکی ہے۔‬

‫(باب نمبر ‪)A-22‬‬


‫عدالت عالیہ اور عدالت سیشن کے روبرو مقدمات کی تجویز‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-265‬عدالت سیشن میں مقدمات کی تجویز میں پیروکار سرکار پیروی کریں گے‬

‫عدالت سیشن میں ہر مقدمہ کی تجویز میں‪ ،‬جو پولیس رپورٹ پر دائر ہوا ہو‪ ،‬استغاثہ کی پیروی‬
‫پیروکار سرکار کریں گے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :B-265‬عدالت عالیہ اور عدالت سیشن کے قابل تجویز مقدمات میں ضابطہ‬

‫عدالت ہائے عالیہ اور سیشن عدالتیں الزمی طور پر مذکورہ عدالتوں کے قابل تجویز مقدمات میں‬
‫حسب ذیل ضابطہ اختیار کریں گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :C-265‬ملزم کو بیانات و دستاویزات کی فراہمی‬

‫ایسے تمام مقدمات میں جو پولیس رپورٹ پر دائر کئے گئے ہوں‪ ،‬مندرجہ ذیل‬ ‫(‪1‬‬
‫دستاویزات کی نقول‪ ،‬تجویز کے آغاز سے کم از کم سات یوم قبل‪ ،‬ملزم کو بالقیمت فراہم کی جائیں‬
‫گی۔‬
‫رپورٹ ابتدائی۔‬ ‫(‪a‬‬
‫پولیس کی رپورٹ۔‬ ‫(‪b‬‬
‫جملہ گواہان کے بیانات جو دفعات ‪ 161‬اور ‪ 164‬کے تحت قلم بند کئے‬ ‫(‪c‬‬
‫گئے۔‬
‫یادداشت معائنہ جو کسی تفتیش کنندہ افسر نے جائے وقوعہ پر اول‬ ‫(‪d‬‬
‫بار جانے پر قلم بند کی ہو اور یادداشت معائنہ جو اس نے برآمدگی کئے جانے پر قلم بند کی ہو‪ ،‬اگر‬
‫کوئی ہو‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ اگر اس بیان کا کوئی حصہ جو دفعہ ‪ 161‬یا دفعہ ‪ 164‬کے تحت قلم بند کیا گیا‬
‫ہو‪ ،‬ایسا ہو کہ ملزم پر اس کا انکشاف مفاد عامہ کے مدنظر خالف مصلحت ہو تو ویسے حصہ کو‬
‫اس نقل سے خارج کردیا جائے گا جو ملزم کو مہیا کی جائے۔‬
‫ان تمام مقدمات میں جو تحریری استغاثہ پر دائر کئے جائیں‪:‬‬ ‫(‪2‬‬
‫مستغیث پر الزم ہوگا‪:‬‬ ‫(‪a‬‬
‫استغاثہ کی درخواست پر الزام کا خالصہ‪ ،‬اپنے گواہان کے‬ ‫(‪i‬‬
‫نام اور شہادت کا خالصہ جو وہ مقدمہ کی تجویز میں اغلبا ً پیش کرے‪ ،‬اور‬
‫عدالت کی طرف سے زیر دفعہ ‪ 204‬ملزم کو حکم نامہ‬ ‫(‪ii‬‬
‫جاری ہونے کے تین یوم کے اندر‪ ،‬استغاثہ کی اور کسی دیگر دستاویز کی جو اس نے استغاثہ کے‬
‫ساتھ داخل کی ہوں‪ ،‬اتنی نقول‪ ،‬جتنی کہ ملزمان کی تعداد ہو‪ ،‬ملزم کو فراہم کرنے کیلئے عدالت میں‬
‫داخل کرے اور‬
‫استغاثہ اور کوئی دیگر دستاویزات جو مستغیث نے اس کے ساتھ‬ ‫(‪b‬‬
‫داخل کی ہوں اور دفعہ ‪ 200‬یا دفعہ ‪ 202‬کے تحت بیانات کی نقول الزمی طور پر ملزم کو آغاز‬
‫تجویز سے زیادہ سے زیادہ سات یوم کے اندر فراہم کرے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :D-265‬فرد الزام کب مرتب کی جائے گی‬

‫اگر پولیس رپورٹ یا جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬استغاثہ وجملہ دیگر دستاویزات اور بیانات جو استغاثہ‬
‫نے داخل کئے ہوں‪ ،‬دیکھنے کے بعد عدالت کی یہ رائے ہو کہ ملزم کی تجویز کا آغاز کرنے کی‬
‫کافی وجوہ ہیں تو ملزم کے خالف فرد الزام تحریر کی جائے گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :E-265‬عذر‬

‫فرد الزام ملزم کو پڑھ کر سنائی و سمجھائی جائے گی اور اس سے پوچھا جائے گا‪،‬‬ ‫(‪1‬‬
‫آیا وہ مجرم ہے یا صفائی دینا چاہتا ہے۔‬
‫اگر ملزم اقبال جرم کرے تو عدالت اس کا عذر قلم بند کرے گی اور اپنی صوابدید‬ ‫(‪2‬‬
‫کے مطابق اس پر سزایاب کرے گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :F-265‬استغاثہ کی شہادت‬


‫اگر ملزم اقبال جرم نہ کرے یا عدالت اپنی صوابدید کے مطابق اس کے عذر پر‬ ‫(‪1‬‬
‫اسے سزایاب نہ کرے تو عدالت مستغیث کو (اگر کوئی ہو) سماعت کرے گی اور ایسی تمام شہادت‬
‫لے گی جو استغاثہ کی تائید میں پیش کی جائے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ عدالت اس امر کی پابند نہ ہوگی کہ کسی ایسے مقدمہ میں مستغیث کی حیثیت‬
‫سے کسی شحص کو سماعت کرے جس میں کسی عدالت نے استغاثہ دائر کیا ہو۔‬
‫عدالت پر الزام ہوگا کہ پیروکار سرکار سے یا جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬مستغیث سے‬ ‫(‪2‬‬
‫ان اشخاص کے نام دریافت کرے گی جو اغلبا ً مقدمہ کے حقائق سے واقف ہوں اور استغاثہ کی‬
‫طرف سے شہادت دے سکتے ہوں اور ایسے شخص کو اپنے روبرو شہادت دینے کیلئے طلب کرے‬
‫گی۔‬
‫عدالت مجاز ہوگی کہ کسی ایسے گواہ کو طلب کرنے سے انکار کردے‪ ،‬اگر اس‬ ‫(‪3‬‬
‫کی رائے ہو کہ ایسا گواہ پریشان کرنے یا تاخیر کرنے کیلئے یا اغراض انصاف زائل کرنے کی‬
‫غرض سے بلوایا جا رہا ہے۔ ایسی وجوہ کو عدالت قلمبند کرے گی۔‬
‫جب گواہان استغاثہ کے بیانات اور ملزم کو سواالت (اگر کوئی ہوں) ختم ہو جائیں تو‬ ‫(‪4‬‬
‫ملزم سے پوچھا جائے گا‪ ،‬آیا وہ اپنے گواہان پیش کرنا چاہتا ہے۔‬
‫اگر ملزم کوئی تحریری بیان داخل کرے تو عدالت اسے شامل مسل کرے گی۔‬ ‫(‪5‬‬
‫اگر ملزم یا بہت سے ملزمان میں سے کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ شہادت پیش کرنا چاہتا‬ ‫(‪6‬‬
‫ہے تو عدالت ملزم کو صفائی اور شہادت پیش کرنے کو کہے گی۔‬
‫اگر ملزم یابہت سے ملزمان سے کوئی‪ ،‬جبکہ وہ صفائی شروع کر چکا ہو‪ ،‬عدالت‬ ‫(‪7‬‬
‫سے درخواست کرے کہ شہادت دینے یا کسی دستاویز یا کسی دیگر شے کو پیش کرنے کیلئے کسی‬
‫گواہ کو جبرا ً حاضری کا حکم جاری کرے تو عدالت پر الزم ہوگا کہ ایسا حکم نامہ جاری کرے بجز‬
‫اس کے کہ عدالت یہ سمجھے کہ درخواست پریشان کرنے یا تاخیر کرنے یا اغراض انصاف کو‬
‫زائل کرنے کیلئے دی گئی ہے‪ ،‬ایسی وجہ عدالت قلم بند کرے گی۔‬

‫اس شق میں مستغیث کی طرف سے شہادت دیئے جانے کے احکام درج ہیں۔ اس‬ ‫تبصرہ‪:‬‬
‫بارے میں اسالمی نظریاتی کونسل کی سفارش اور تجویز وترمیم دفعہ نمبر ‪ 244‬کے تحت ذکر کی‬
‫جا چکی ہے۔‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ کی باقی شقوں میں کوئی چیز اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں‬
‫ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :G-265‬پیروکار استغاثہ اور صفائی کی طرف سے خالصہ بیان کرنا‬

‫درحالیکہ ملزم یا بہت سے ملزمان سے کوئی اپنی صفائی میں کوئی شہادت پیش نہ‬ ‫(‪1‬‬
‫کرے تو عدالت استغاثہ کے مقدمہ کی کارروائی اور ملزم کا بیان (اگر کوئی ہو) ختم ہونے پر‬
‫پیروکار استغاثہ کو حکم دے گی کہ وہ اپنے مقدمہ کا خالصہ بیان کرے جس کے بعد ملزم اس کا‬
‫جواب دے گا۔‬
‫درحالیکہ ملزم یا بہت سے ملزمان سے کوئی اپنی صفائی میں شہادت پیش کرے تو‬ ‫(‪2‬‬
‫عدالت صفائی کے مقدمہ کے اختتام پر ملزم کو حکم دے گی کہ مقدمہ کا خالصہ بیان کرے جس‬
‫کے بعد پیروکار استغاثہ جواب دے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :H-265‬بریت یا سزایابی‬

‫اگر باب ہذا کے تحت کوئی ایسا مقدمہ ہو جس میں فرد جرم لگا دی گئی ہو‪ ،‬عدالت‬ ‫(‪1‬‬
‫پر یہ ظاہر ہو کہ ملزم قصور وار نہ ہے تو وہ بریت کا حکم تحریر کرے گی۔‬
‫اگر باب ہذا کے تحت کسی مقدمہ میں عدالت ملزم کو قصور وار پائے تو عدالت‪،‬‬ ‫(‪2‬‬
‫تابع احکام دفعہ ‪ I-265‬اسے قانون کے مطابق سزا دے گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :I-265‬سابقہ سزایابی کی صورت میں ضابطہ‬

‫ایسا مقدمہ جس میں سابقہ سزایابی کی بنا پر ملزم پر زیر دفعہ ‪ 221‬ضمنی دفعہ (‪)7‬‬ ‫(‪1‬‬
‫فرد جرم عائد کی گئی ہو‪ ،‬عدالت پر الزم ہوگا کہ ملزم کو اس جرم کا قصور وار پانے پر جس کا‬
‫اس پر الزام تھا اور سزایابی قلم بند کرنے کے بعد‪ ،‬الزام کے ایسے حصہ کے متعلق ملزم کا عذر‬
‫قلم بند کرے۔‬
‫اگر ملزم اس امر کا اقبال کرے کہ وہ پہلے سزایاب ہوا تھا‪ ،‬جیسا کہ فرد جرم میں‬ ‫(‪2‬‬
‫الزام ہے‪ ،‬تو عدالت مجاز ہوگی کہ قانون کے مطابق اسے سزا دے اور اگر ملزم اس امر کا اقبال نہ‬
‫کرے کہ وہ پہلے سزایاب ہوا تھا جیسا کہ فرد جرم میں الزام ہے‪ ،‬تو عدالت مجاز ہوگی کہ الزام‬
‫کردہ سابقہ سزایابی کی نسبت شہادت لے اور اس پر الزم ہوگا کہ اس بارے میں کسی نتیجہ کو قلم‬
‫بند کرے اور تب اسے قانون کے مطابق سزا دے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :J-265‬بیان زیر دفعہ ‪ 164‬قابل سماعت ہے‬

‫کسی گواہ کا بیان جو جائز طو رپر زیر دفعہ ‪ 164‬قلم بند کیا گیا ہو اگر یہ ملزم کی حاضری میں لیا‬
‫گیا تھا اور اگر اسے اس کی اطالع تھی اور اسے گواہ پر جرح کرنے کا موقع دیا گیا تھا تو عدالت‬
‫کی صوابدید پر‪ ،‬اگر ایسے گواہ کو پیش کیا جائے اور بیان لیا جائے قانون شہادت ‪1984‬ء کے‬
‫احکام کے تابع جملہ اغراض کیلئے مقدمہ میں شہادت متصور ہوگا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :K-265‬ملزم کو کسی مرحلہ پر بری کرنے کا عدالت کا اختیار‬

‫باب ہذا میں کوئی امر کسی عدالت کے کسی ملزم کو مقدمہ کے کسی مرحلہ پر بری کرنے میں مانع‬
‫متصور نہ ہوگا‪ ،‬اگر پیروکار استغاثہ اور ملزم کو سماعت کرنے کے بعد اور ان وجوہ پر جو قلم بند‬
‫کی جائیں گی‪ ،‬عدالت یہ سمجھے کہ ملزم کے کسی جرم میں سزایاب ہونے کا کوئی امکان نہ ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :L-265‬کارروائی استغاثہ روک دینے کے بارے میں ایڈووکیٹ جنرل کا اختیار‬

‫مجموعہ ہذا کے تحت ہائی کورٹ کے روبرو کسی تجویز مقدمہ کے کسی مرحلے پر حکم سزا‬
‫صادر ہونے سے پہلے ایڈووکیٹ جنرل کو اختیار ہے کہ اگر وہ مناسب سمجھے تو عدالت کو‬
‫گورنمنٹ کی طرف سے مطلع کرے کہ وہ زیر بحث الزام پر ملزم کے خالف پیروی مقدمہ نہیں‬
‫کرے گا اور پھر ملزم کے خالف تمام کارروائی روک دی جائے گی اور اسے اس سے ڈسچارج‬
‫کردیا جائے گا‪ ،‬البتہ ایسا ڈسچارج بریت کی حد تک نہیں پہنچے گا تاوقتیکہ صدارت کنندہ جج اور‬
‫طرح ہدایت نہ کرے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :M-265‬اوقات نشست‬

‫ہر ہائی کورٹ کو الزم ہے کہ وہ اپنے ابتدائی اختیار سماعت صیغہ فوجداری کے استعمال کیلئے ان‬
‫دنوں میں اور ایسے سہولت بخش وقفہ جات پر اجالس کیا کرے جو ویسی عدالت کا چیف جسٹس‬
‫وقتا ً فوقتا ً مقرر کرے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :N-265‬مقام نشست‬

‫ہائی کورٹ کو الزم ہوگا کہ وہ اپنے اجالس اس مقام پر جس پر وہ آرڈیننس‬ ‫(‪1‬‬


‫اصالحات قانون ‪1972‬ء کے آغاز نفاذ سے عین پہلے کیا کرتی تھی یا کسی ایسے دیگر مقام پر‬
‫کرے جس کی صوبائی حکومت ہدایت کردے۔‬
‫البتہ ہائی کورٹ کو اختیار ہے کہ وہ وقتا ً فوقتا ً صوبائی حکومت کی رضامندی سے‬ ‫(‪2‬‬
‫اپنے اجالس اپنے عالقہ اختیار سماعت صیغہ اپیل کی مقامی حدود کے اندر ایسے دیگر مقامات پر‬
‫کرے جو ہائی کورٹ مقرر کردے۔‬
‫ایسا افسر جسے چیف جسٹس ہدایت کرے‪ ،‬سرکاری گزٹ میں اس اجالس کا پیشگی‬ ‫(‪3‬‬
‫نوٹس کیا کرے گا جس کا منعقد کرنا ہائی کورٹ کے ابتدائی اختیار سماعت صیغہ فوجداری کے‬
‫استعمال کیلئے مقصود ہو۔‬

‫دفعات نمبر ‪ G-265‬تا ‪ N-265‬میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم‬ ‫تبصرہ‪:‬‬
‫نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫(باب نمبر ‪)23‬‬


‫عدالت عالیہ اور سیشن عدالتوں میں تجویز کی بابت‬
‫دفعہ ‪ 266‬تا ‪ :336‬قانونی اصطالحات کے قانون نمبر ‪ 12‬بابت ‪1972‬ء سے حذف ہوئیں۔‬
‫(باب نمبر ‪)24‬‬
‫تحقیقات و تجویز کی نسبت عام احکام‬

‫دفعہ نمبر ‪ :337‬شریک جرم کو معافی کی پیشکش‬

‫کسی ایسے جرم کی صورت میں جو صرف عدالت عالیہ یا عدالت سیشن کے قابل‬ ‫(‪1‬‬
‫سماعت ہو یا کوئی جرم جو قید سے قابل سزا ہو جو دس سال تک ہو سکتی ہے یا کوئی جرم جو‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 211‬کے تحت قید سے قابل سزا ہو جو سات برس تک ہو سکتی‬ ‫مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫ت پاکستان کی مندرجہ ذیل دفعات میں سے یعنی دفعات ‪،A-216‬‬ ‫ہو‪ ،‬کوئی جرم مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫‪ 435 ،401 ،369‬اور ‪] A-447‬ضلع کا افسر انچارج استغاثہ[ جرم کی تفتیش یا تحقیقات یا سماعت‬
‫کے کسی مرحلہ پر‪ ،‬مجاز ہوگا کہ کسی ایسے شخص کی شہادت حاصل کرنے کی غرض سے جس‬
‫کی نسبت یہ گمان ہو کہ اس کا ویسے جرم میں بالواسطہ یا بالواسطہ کوئی تعلق یا مفاد رہا ہے‪،‬‬
‫ویسے شخص کو اس شرط کے ساتھ معافی کی پیشکش کرے کہ وہ جرم سے اورہر دیگر شخص‬
‫سے جو اس کے ارتکاب میں بطور اصل مجرم یا معاون کے تعلق رکھتا ہو‪ ،‬متعلقہ تمام حاالت‪ ،‬جو‬
‫اس کے علم میں ہوں‪ ،‬کا مکمل اور درست انکشاف کرے گا۔‬
‫٭ ]لیکن شرط یہ ہے کہ کسی شخص کو جو ضرر یا قتل کے جرم میں ملوث ہو ضرر رسیدہ شخص‬
‫(شکار) یا جیسی کہ صورت ہو ضرر رسیدہ شخص کے وارثان کی اجازت کے بغیر معافی کی‬
‫پیشکش نہیں کی جائے گی۔[‬
‫ہر مجسٹریٹ جو ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت معافی کی پیشکش کرے‪ ،‬ایسا کرنے کی‬ ‫(‪A-1‬‬
‫وجوہات قلم بند کرے گا اور ملزم کی طرف سے درخواست گزارے جانے پر‪ ،‬الزمی طور پر‪،‬‬
‫ایسے ریکارڈ کی نقل فراہم کرے گا‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ ملزم اس کی ادائیگی کرے گا سوائے اس کے کہ مجسٹریٹ کسی خاص وجہ‬
‫سے اسے بال اجرت فراہم کرنا مناسب سمجھے۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت پیشکش قبول کرنے والے ہر شخص کا مابعد کی سماعت میں‪ ،‬اگر‬ ‫(‪2‬‬
‫کوئی ہو‪ ،‬بطور گواہ کے بیان لیا جائے گا۔‬
‫ہر اس صورت میں جب کسی شحص نے معافی کی پیشکش قبول کرلی ہو اور‬ ‫(‪A-2‬‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )2‬کے تحت اس کا بیان لے لیا گیا ہو‪ ،‬مجسٹریٹ کے روبر و مقدمہ کی کارروائی ہو‬
‫رہی ہو‪ ،‬اگر مطمئن ہو کہ یہ باور کرنے کی معقول وجوہ موجود ہیں کہ ملزم اس جرم کا مرتکب ہوا‬
‫ہے تو اس پر الزم ہوگا کہ وہ اسے تجویز کی خاطر عدالت سیشن یا عدالت عالیہ‪ ،‬جیسی کہ صورت‬
‫ہو‪ ،‬کے سپرد کردے۔‬
‫ایسا شخص سوائے اس کے کہ پہلے ہی ضمانت پر ہو سماعت کے ختم ہونے تک‬ ‫(‪3‬‬
‫حراست میں رکھا جائے گا۔‬
‫منسوخ ہوئی۔‬ ‫(‪4‬‬
‫دفعہ نمبر ‪ :338‬معافی دینے کی اجازت دینے یا پیشکش کرنے کا اختیار‬
‫فیصلہ صادر ہونے سے قبل کسی وقت عدالت عالیہ یا عدالت سیشن جو مقدمہ کی سماعت کر رہی‬
‫ہو‪ ،‬مجاز ہوگی کہ سماعت میں ایسے شخص کی شہادت حاصل کرنے کیلئے‪ ،‬جس کی نسبت گمان‬
‫ہو کہ وہ ویسے جرم میں بالواسطہ یا بالواسطہ تعلق یا مفاد رکھتا ہے‪ ،‬معافی کی پیشکش کرے یا‬
‫]ضلع کا افسر انچارج استغاثہ[ کو حکم دے کہ ان ہی شرائط پر ایسے شخص کو معافی کی پیشکش‬
‫کرے۔‬
‫٭ ]لیکن شرط یہ ہے کہ کسی شحص کو جو ضرر رسانی یا قتل سے متعلق کسی جرم میں ملوث ہو‪،‬‬
‫ضرر رسیدہ شخص یا جیسی بھی صورت ہو ضرر رسیدہ شخص کے وارثان کی اجازت کے بغیر‬
‫معافی نہیں دی جائے گی۔[‬

‫دفعہ نمبر ‪ :339‬اس شخص کی تجویز جس کو معافی کی پیشکش کی گئی ہو‬

‫جب زیر دفعہ ‪ 337‬یا دفعہ ‪ 338‬معافی کی پیشکش کر دی گئی ہو اور سرکاری‬ ‫(‪1‬‬
‫پیروکار یہ تصدیق کردے کہ اس کی رائے میں کوئی شخص جس نے ویسی پیشکش کو قبول کیا‬
‫ہے‪ ،‬نے یا تو دانستہ کوئی ضروری امر چھپا کر یا جھوٹی شہادت دے کر اس شرط کی تعمیل نہیں‬
‫کی جس پر پیشکش کی گئی تھی تو ایسے شخص پر اس جرم کا مقدمہ چالیا جائے گا جس کی نسبت‬
‫اس طور پر معافی پیش کی گئی تھی یا کسی دیگر جرم کا جس کا وہ اسی امر کی نسبت مجرم معلوم‬
‫ہوتا ہو‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ ایسے شخص کی سماعت دیگر ملزمان میں سے کسی کے ساتھ مشترک طور‬
‫پر نہ کی جائے گی اور یہ کہ اسے حق حاصل ہوگا کہ وہ ایسی سماعت میں یہ عذر پیش کرے کہ‬
‫اس نے ان شرائط کی تعمیل کی ہے جس پر ایسی پیشکش کی گئی تھی‪ ،‬ایسی صورت میں یہ ثابت‬
‫کرنا استغاثہ کا کام ہوگا کہ ایسی شرائط کی تعمیل نہیں کی گئی ہے۔‬
‫اس شخص کا دیا ہوا بیان جس نے معافی کی پیشکش قبول کی ہو‪ ،‬ویسی سماعت‬ ‫(‪2‬‬
‫میں‪ ،‬اس کے خالف بطور شہادت دیا جا سکتا ہے۔‬
‫ایسے بیان کی بابت جھوٹی شہادت دینے کے جرم کیلئے کوئی عدالتی کارروائی‬ ‫(‪3‬‬
‫بالمنظوری عدالت عالیہ قبول نہیں کی جائے گی۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 338 ،337‬اور ‪ 339‬میں وعدہ معاف گواہ کے بارے میں بیان‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کیا گیا ہے‪ ،‬اس بارے میں نظریاتی کونسل نے تفصیلی دالئل دیئے ہیں‪ ،‬جن کا خالصہ درج ذیل ہے‪:‬‬
‫شہادت ایکٹ ‪1982‬ء کی رو سے کسی شریک جرم کا اقرار اپنے کسی دوسرے شریک‬
‫جرم کے خالف بطور شہادت استعمال ہو سکتا ہے لیکن اسالمی تعلیمات کی رو سے ایک شریک‬
‫جرم کی شہادت دوسرے شریک جرم کے خالف قبول نہیں ہوسکتی۔‬
‫اوالً‪ :‬اوالً اس وجہ سے کہ وہ خود ایک فریق مقدمہ ہے اور فریق مقدمہ کا بیان شہادت میں داخل‬
‫قدامہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫ہے۔ جیسا کہ فقہائے اسالم نے تصریح کردی ہے۔ ابن‬
‫کل من خاصم فی حق ال تقبل شھادتہ فیہ (‪)78‬‬
‫’’ہر وہ آدمی جو اپنے حق کیلئے جھگڑا کرے‪ ،‬اس مقدمہ میں اس کی گواہی قبول نہیں کی‬
‫جائے گی‘‘۔‬
‫حضور اکرم ﷺ نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ‪:‬‬
‫قضی رسول اہللا ﷺ اَن ال تقبل شھادۃ الخصم (‪)79‬‬
‫ٰ‬
‫’’رسول ہللا ﷺ نے حکم فرمایا کہ فریق مقدمہ کی شہادت فریق مخالف کے لئے قبول نہیں‬
‫کی جائیگی‘‘۔‬
‫حصکفی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬
‫کل من صار خصما فی حادثۃ ال تقبل شھادتہ فیھا (‪)80‬‬
‫’’ہر ایسا شخص جو کسی حادثہ میں فریق مخالف ہو‪ ،‬تو اس میں اس کی شہادت قبول نہیں‬
‫کی جائیگی‘‘۔‬
‫ثانیاً‪ :‬شریک جرم جب اپنے جرم یعنی گناہ کا اقرار کرتا ہے تو وہ واضح طور پر غیر عادل ہو‬
‫جاتا ہے۔ لہٰ ذا اس کی شہادت بدیہی طور پر غیر عادل کی شہادت ہے جو ازروئے قرآن کریم قابل‬
‫قبول نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں ہے‪:‬‬
‫ع ْد ٍل ِ ِّمن ُک ْم (‪)81‬‬ ‫َوأَ ْش ِھدُوا ذَ َو ْ‬
‫ی َ‬
‫’’تم میں سے دو عادل گواہ شہادت دیں‘‘۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کے دالئل‪ :‬اس سلسلے میں نظریاتی کونسل نے ‪1983‬ء میں اپنی رپورٹ‬
‫بغرض ترامیم حسب ذیل‬
‫ِ‬ ‫میں تفصیلی دالئل دیئے اور ان دفعات کو شرعی قیود میں النے کیلئے‬
‫سفارش کی‪:‬‬
‫’’وعدہ معاف گواہ کی شہادت کے سلسلے میں دو امور قابل غور ہیں‪ ،‬ایک یہ کہ حکومت‬
‫کی طرف سے سزا معاف کرنے کا وعدہ درست ہے یا نہیں۔ دوسرا یہ کہ ایسے گواہ کی شہادت‪،‬‬
‫جس نے حکومت کی وعدہ معافی پر جرم میں شرکت کا یا جرم کے ارتکاب کا خود اقرار کیا ہو‪،‬‬
‫دوسرے شرکاء کے متعلق قابل قبول ہوگی یا نہیں؟‬
‫پھر اس امر کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں‪ ،‬وعدہ معاف گواہ اگر کسی ایسے جرم کا‬
‫اقرار کرے جو موجب حد یا موجب قصاص ہے‪ ،‬تو اس صورت میں بالجبر واکراہ محض معافی‬
‫کے وعدے کی بناء پر ہے‪ ،‬تو یہ اقرار صرف اس کی اپنی حد تک معتبر ہوگا اور ثبوت جرم موجب‬
‫حدکے بعد کسی کو حد معاف کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ لہٰ ذا اگر اس سے معافی کا وعدہ بھی کیا گیا‬
‫تھا تو چونکہ یہ وعدہ خالف شریعت تھا‪ ،‬لہٰ ذا اسے پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔‬
‫اور اگر وہ اقرار موجب قصاص ہو تو قصاص مقتول کے ولی یا مجروح کا حق ہے‪ ،‬اگر‬
‫انہوں نے معافی کا وعدہ کیا تھا تو یہ معاف کر سکتے ہیں‪ ،‬لیکن قاضی کا وعدہ قابل ایفاء نہیں ہے‪،‬‬
‫لیکن اگر اقرار کے بعد بھی ولی یا مجروح معاف کردے تو درست ہے اور قصاص جاری نہیں ہوگا‬
‫لیکن اگر یہ اقرار دوسرے کے مالی حق کا ہے۔ مثالً دیت‪ ،‬ارش‪ ،‬مال مسروقہ کا ضمان وغیرہ اور‬
‫قابل تعزیر ہو تو صاحب حق کے معاف کرنے سے معاف ہوجائینگے‪ ،‬خواہ یہ معافی اقرار سے‬
‫پہلے ہو یا بعد میں ہو لیکن حکومت یا قاضی ازخود معاف نہیں کر سکتے۔ البتہ اگر حاکم یا قاضی‬
‫ب‬
‫کو ایسا کرنا سیاست شرعیہ کا تقاضا معلوم ہو تو وہ معافی تعزیر کا وعدہ کر سکتا ہے‪ ،‬لہٰ ذا موج ِ‬
‫تعزیر جرم کے اقرار پر حسب وعدہ تعزیر معاف ہو سکے گی۔‬
‫شامی لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫ؒ‬
‫والفرق بین الحدو التعزیر ان الحدال تجوز الشفاعۃ فیہ وانہ ال یجوز لالمام ترکہ وانہ یسقط‬
‫بالتقادم بخالف التعزیر (‪)82‬‬
‫حد اور تعزیر میں فرق یہ ہے کہ حد میں نہ سفارش ہے نہ امام کیلئے اس کا ترک جائز ہے‬
‫اور تعزیر کے برعکس میعا ِد سماعت گزر جانے سے یہ ساقط بھی ہو جاتی ہے۔‬
‫وہ مزید لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫’’ہم عنقریب اس بارے میں اختالف کا ذکر کرینگے کہ کیا امام کو تعزیر میں حق عفو‬
‫حاصل ہوگا یا نہیں اور قنیہ کے مصنف کے نزدیک اس میں موافقت یوں ہو سکتی ہے کہ امام کو‬
‫اس تعزیر میں حق عفو حاصل ہوتا ہے‪ ،‬جو حقوق ہللا کی خالف ورزی میں واجب ہو‪ ،‬بخالف اس‬
‫تعزیر کے جو حقوق العباد کے خالف جنایت کی صورت میں واجب ہوتی ہے کیونکہ یہاں فر ِد‬
‫متضرر کو حق عفو حاصل ہوتا ہے اور تعزیر وہ جرم جس میں حق العبد غالب ہوتا ہے لہٰ ذا اس میں‬
‫مجرم کو بری یا معاف کیا جا سکتا ہے اور تعزیر میں حق العبد غالب ہوتا ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس میں مجرم‬
‫کو بری یا معاف کیا جاسکتا ہے۔ (‪)83‬‬
‫اقرار جرم‬
‫ِ‬ ‫وعدہ معاف گواہ کی دوسری حیثیت کسی کے خالف شاہد بننے کی ہے‪ ،‬یہاں وہ‬
‫کرکے فاسق ہوگیا ہے‪ ،‬جس کی شہادت قابل قبول ہے۔ البتہ یہ اقرار حجت قاصرہ ہے جو اس کے‬
‫خالف حجت ہوگا‪ ،‬یہ اقرار حجت متعدیہ نہیں کہ دوسرے کے خالف بھی حجت ہو‪ ،‬البتہ یہ فائدہ ہو‬
‫سکتا ہے کہ تفتیش و تحقیق میں آسانی ہو جائیگی۔‬
‫چنانچہ وعدہ معاف گواہ کو حدود وقصاص کے دُعاوی میں معاف نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ‬
‫حاکم یا قاضی تعزیر معاف کر سکتے ہیں‪ ،‬اگر اس میں سیاست شرعیہ ہو‪ ،‬سوائے ان جرائم موجب‬
‫تعزیر کے‪ ،‬جن کا تعلق حقوق ہللا سے ہو‪ ،‬مثالً اجنبی عورت کا بوسہ لینا۔ (‪ )84‬اور وعدہ معاف گواہ‬
‫کے بیان کو محض قرینہ کی حیثیت دی جائے گی‪ ،‬جسے تائیدی ثبوت کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔‬
‫التبہ اس پر عائد ذمہ داری ساقط نہیں ہوگی‪ ،‬اال یہ کہ خود اس کا مالک اسے معاف کرنے پر‬
‫رضامند ہو جائے۔ (‪)85‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعات میں اسالمی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق ترامیم کی‬
‫جانی چاہئیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-339‬دفعہ ‪ 339‬کے تحت تجویز میں ضابطہ‬

‫وہ عدالت جو دفعہ ‪ 339‬کے تحت کسی شخص کی تجویز کر رہی ہو جس نے معافی‬ ‫(‪1‬‬
‫کی پیشکش قبول کرلی ہو‪ ،‬الزمی طور پر‪ ،‬قبل اس کے کہ استغاثہ کے گواہان کی شہادت لی جائے‬
‫ملزم سے استفسار کرے گی کہ آیا وہ عذر کرتا ہے کہ اس نے ان شرائط کی تعمیل کی ہے جن پر‬
‫اسے معافی کی پیشکش کی گئی تھی۔‬
‫اگر ملزم ایسا عذر کرے تو عدالت ایسے عذر کو قلم بند کرے گی اور سماعت‬ ‫(‪2‬‬
‫شروع کردے گی اور الزمی طور پر‪ ،‬قبل اس کے کہ مقدمہ میں فیصلہ صادر کیا جائے۔ یہ بھی‬
‫معلوم کرے گی کہ آیا ملزم نے معافی کی شرائط پوری کی ہیں یا نہیں اور اگر یہ پایا جائے کہ اس‬
‫نے اس طو رپر تعمیل کی ہے تو عدالت‪ ،‬مجموعہ ہذا میں درج کسی امر کے باوجود الزمی طور پر‬
‫بریت کا فیصلہ صادر کرے گی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :340‬اس شخص کا صفائی پیش کرنے اور گواہ بننے کا حق جس کیخالف کارروائی کی‬
‫گئی ہو‬
‫کوئی شخص جس پر کسی فوجداری عدالت میں کسی جرم کا الزام لگایا گیا ہو یا‬ ‫(‪1‬‬
‫جس کے خالف مجموعہ ہذا کے تحت کارروائی کی جا رہی ہو‪ ،‬استحقاقا ً مجاز ہوگا کہ کسی وکیل‬
‫کے ذریعہ دفاع کرے۔‬
‫کوئی شخص‪ ،‬جس پر کسی فوجداری عدالت میں کسی جرم کا الزام لگایا گیا ہو یا‬ ‫(‪2‬‬
‫کسی ایسی عدالت میں مجموعہ ہذا کے تحت کارروائی کی جا رہی ہو‪ ،‬اگر وہ اقبال جرم نہیں کرتا‪،‬‬
‫پر الزم ہوگا کہ اس پر یا کسی شخص پر لگائے گئے الزامات جس پر اس تجویز میں اس کے ساتھ‬
‫الزام لگائے گئے یا سماعت کیا گیا‪ ،‬کے عدم ثبوت کی نسبت حلف پر شہادت دے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ اس سے کوئی سوال جو یہ ظاہر کرے کہ اس جرم کے عالوہ جس کا اس پر‬
‫الزام عائد کیا گیا ہے یا جس کی بابت وہ زیر سماعت ہے‪ ،‬اس نے کسی اور جرم کا ارتکاب کیا ہے‬
‫یا وہ بدکردار ہے‪ ،‬دریافت نہ کیا جائے گا تو اسے جواب دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا بجز اس‬
‫کے کہ‪:‬‬
‫اس امر کا ثبوت کہ اس نے ویسے جرم کا ارتکاب کیا ہے یا اس‬ ‫(‪I‬‬
‫میں سزا یاب ہوا ہے۔ یہ ثابت کرنے کیلئے شہادت میں قابل قبول ہوگا کہ وہ اس جرم کا مرتکب ہے‬
‫جس کا اس پر الزام عائد کیا گیا ہے یا جس کی نسبت وہ زیر سماعت ہے۔‬
‫اس نے بذات خود یا اپنے وکیل کے ذریعہ استغاثہ کے کسی گواہ‬ ‫(‪II‬‬
‫سے خود کو نیک کردار ثابت کرنے کیلئے سواالت کئے ہوں یا اپنے نیک کردار کی شہادت دی ہو۔‬
‫(‪ III‬اس نے کسی دیگر شخص کے خالف جس پر اسی جرم میں الزام‬
‫عائد کیا گیا ہو یا زیر سماعت رہا ہو‪ ،‬شہادت دی ہو۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ اگر کسی شخص پر کوئی الزام لگایا جائے تو وہ اس کا جواب‬
‫نقطہ نگاہ درجِ ذیل‬
‫دینے کے لئے بطور گواہ عدالت میں پیش ہو سکتا ہے۔ اس بارے میں اسالمی ٔ‬
‫ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اگر کسی شخص پر کوئی الزام لگایا جائے اور وہ خود اپنی صفائی کیلئے بطور‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ً‬
‫گواہ عدالت میں پیش ہو تو یہ امر شریعت کے منافی ہے‪ ،‬شرعا کوئی شخص کسی مقدمے میں فریق‬
‫ہو تو اس مقدمے میں وہ گواہ کی حیثیت سے پیش نہیں ہو سکتا۔‬
‫’’المغنی‘‘ میں ہے‪:‬‬
‫کل من خاصم فی حق ال تقبل شھادتہ فیہ (‪)86‬‬
‫’’کسی حق کے بارے میں نزاع کرنیوالے کی گواہی اس کے حق میں قبول نہیں کی‬
‫جائیگی‘‘۔‬
‫جہاں تک ملزم سے حلف لینے کا تعلق ہے۔ بعض صورتوں میں حلف لیا جا سکتا ہے۔ اس‬
‫سلسلے میں دفعہ نمبر ‪ 245‬کے تحت تفصیالً بحث کی جا چکی ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :341‬جب ملزم کارروائی نہ سمجھتا ہو تو ضابطہ‬

‫اگر ملزم کو جو اگرچہ فاتر العقل نہ ہو کارروائی نہ سمجھائی جا سکے تو عدالت سماعت کر سکتی‬
‫ہے اور عدالت عالیہ کے عالوہ کسی دیگر عدالت کی صورت میں اگر ایسی تجویز سزایابی پر منتج‬
‫ہو تو کارروائی مع رپورٹ حاالت مقدمہ عدالت عالیہ کو ارسال کی جائے گی اور اس پر عدالت‬
‫عالیہ جو حکم مناسب سمجھے‪ ،‬صادر کرے گی۔‬
‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :342‬ملزم کا بیان لینے کا اختیار‬

‫ملزم کو ان حاالت کی وضاحت کرنے کا موقع دینے کی غرض سے جو شہادت میں‬ ‫(‪1‬‬
‫اس کے خالف ظاہر ہوں‪ ،‬عدالت کو اختیار ہے کہ وہ کسی تحقیقات یا تجویز کے کسی مرحلہ پر‪،‬‬
‫ملزم کی پیشگی اطالع دئے بغیر‪ ،‬اس سے ایسے سواالت کرے جو عدالت ضروری سمجھے اور‬
‫عدالت پر الزم ہے کہ مذکورہ مقصد کیلئے استغاثہ کے گواہان کے بیانات لئے جانے کے بعد اور‬
‫اسے صفائی کیلئے کہے جانے سے قبل مقدمہ کی بابت اس سے عام سوال کرے۔‬
‫ایسے سواالت کا جواب دینے سے انکار پر یا ان کے غلط جواب دینے پر ملزم خود‬ ‫(‪2‬‬
‫کو قابل سزا نہ بنا دے مگر عدالت مجاز ہوگی کہ ایسے انکار یا جواب سے ایسا نتیجہ اخذ کرے جو‬
‫وہ قرین انصاف سمجھے۔‬
‫ملزم کے دیئے ہوئے جوابات ایسی تحقیقات یا تجویز میں زیر غور الئے جا سکتے‬ ‫(‪3‬‬
‫ہیں اور انہیں کسی ایسے جرم کی تحقیقات یا تجویز میں‪ ،‬جو ایسے جوابات ظاہر کریں کہ اس نے‬
‫ارتکاب کیا ہے‪ ،‬شہادت میں‪ ،‬اس کے حق میں یا خالف‪ ،‬پیش کیا جا سکتا ہے۔‬
‫سوائے دفعہ ‪ 340‬کی ضمنی دفعہ (‪ )2‬کے احکام کے ملز م سے کوئی حلف نہ لیا‬ ‫(‪4‬‬
‫جائے گا۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ ملزم سے بیان لینے کا طریقہ کیا ہے؟ اور شق نمبر‪ 4‬میں کہا‬
‫گیا ہے کہ ملزم سے حلف نہیں لیا جائیگا جبکہ شرعی طور پر بعض اوقات ملز سے حلف لیا جا‬
‫سکتا ہے۔ مثالً موجب قصاص اور موجب تعزیر تمام جرائم میں اگر مدعی شہادت نہ ال سکے اور وہ‬
‫مدعا علیہ سے حلف کا مطالبہ کرے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی رائے‪ :‬کونسل کی رائے ہے کہ بعض صورتوں میں ملزم سے حلف لیا‬
‫جائیگا‪ ،‬مگر اگر سرقہ میں حلف سے انکار ہو تو ما ِل مسروقہ واپس کرنا الزم کیا جائیگا‪ ،‬قتل کا‬
‫حتی کہ وہ‬‫مقدمہ ہو تونکول (انکار) کی صورت میں قصاص تو نہیں لیا جائیگا‪ ،‬مگر قید کیا جائیگا‪ٰ ،‬‬
‫اقرار کرے یا حلف اٹھائے اور موجب قصاص و تعزیر مقدمات میں مدعی گواہی نہ ال سکے اور‬
‫مدعا علیہ سے مطالبہ حلف کرے تو بھی حلف لیا جا سکتا ہے۔ لہٰ ذا کونسل نے سفارش کی کہ‪:‬‬
‫’’اس دفعہ میں ملزم سے حلف لئے جانے کے احکام درج ہونے چاہئیں‘‘۔ (‪)87‬‬
‫حلف کے بارے میں دفعہ ‪( 24‬ض۔ ف) کے تحت تفصیلی بحث کی جا چکی ہے۔‬ ‫٭‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں ملزم سے حلف لئے جانے کے احکامات درج کئے جانے چاہئیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :343‬انکشاف پر راغب کرنے کیلئے کوئی دبائو نہ ڈاال جائے گا‬
‫دفعات ‪ 337‬اور ‪ 338‬کے احکام کے سوا‪ ،‬کوئی انکشاف کرنے یا اس کے علم میں کسی امر کو‬
‫چھپانے پر راغب کرنے کیلئے ملزم شخص پر کسی وعدہ یا دھمکی کے ذریعے یا بصورت دیگر‬
‫کوئی دبائو نہ ڈاال جائے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :344‬کارروائی کو ملتوی کرنے کا اختیار‬

‫اگر کسی گواہ کی غیر حاضری یا کسی دیگر معقول وجہ سے یہ ضروری یا قرین‬ ‫(‪1‬‬
‫مصلحت ہو کہ کسی تحقیقات یا تجویز کے آغاز کو ملتوی کردیا جائے تو عدالت مجاز ہوگی کہ اگر‬
‫مناسب سمجھے تو وقتا ً فوقتا ً اپنے تحریری حکم کے ذریعہ جس میں وجوہات بیان کی جائیں گی‪،‬‬
‫ویسی تحقیقات یا تجویز ان شرائط پر جو وہ معقول سمجھے‪ ،‬ایسی مدت کیلئے زیر التوا رکھے‪،‬‬
‫جسے وہ مناسب سمجھے اور ملزم کو اگر وہ زیر حراست ہو‪ ،‬بذریعہ وارنٹ حراست میں رکھے‬
‫جانے کیلئے بھیج دے‪:‬‬
‫حراست میں لینا ‪ :Remand‬مگر شرط یہ ہے کہ کوئی مجسٹریٹ کسی ملزم شخص کو‪ ،‬زیر دفعہ‬
‫ہذا ایک وقت میں ‪ 15‬یوم سے زائد مدت کیلئے حراست میں نہ دے گا۔‬
‫ہر حکم جو عدالت عالیہ کے عالوہ کوئی دیگر عدالت دفعہ ہذا کے تحت صادر‬ ‫(‪2‬‬
‫کرے‪ ،‬تحریری اور اجالس کنندہ جج یا مجسٹریٹ کا دستخط شدہ ہوگا۔‬
‫وضاحت‪ :‬حراست میں رکھنے کی معقول وجہ‪ :‬اگر ایسی کافی شہادت حاصل ہو گئی ہو جس سے‬
‫یہ شبہ پیدا ہوتا ہو کہ ملزم نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے اور یہ ظاہر ہو کہ اسے دوبارہ حراست‬
‫میں رکھنے سے مزید شہادت ملنے کا امکان ہے تو یہ حراست میں رکھنے کی معقول وجہ ہے۔‬

‫ت کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا‬


‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 344 ،343‬میں کوئی بات اسالمی تعلیما ِ‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :345‬قابل راضی نامہ جرائم‬

‫ت پاکستان کی ان دفعات کے تحت قابل سزا ہیں‪ ،‬جن کی تصریح بعد‬


‫وہ جرائم جو مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫ازیں جدول کے اول خانوں میں کی گئی ہے‪ ،‬کی بابت‪ ،‬اس جدول کے تیسرے خانہ میں متذکرہ‬
‫اشخاص راضی نامہ کرنے کے مجاز ہوں گے۔‬

‫جرم‬
‫ت پاکستان کی قابل اطالق دفعات‬
‫تعزیرا ِ‬
‫اشخاص جن کی طرف سے راضی نامہ ہو سکتا ہے‬
‫دیدہ دانستہ مذہب کی بابت کسی شخص کا دِل دکھانے کی نیت سے منہ سے الفاظ وغیرہ نکالنا‬
‫‪298‬‬
‫وہ شخص جس کے مذہبی جذبات مجروح کرنا مقصود ہو‬
‫کسی شخص کی مزاحمت بے جا کرنا یا حبس بیجا میں رکھنا‬
‫‪341،342‬‬
‫وہ شخص جس کی مزاحمت کی جائے یا جس کو حبس کیا جائے‬
‫حملہ یا جبر مجرمانہ (‪ )Criminal force‬کا استعمال (حذف ہوا)‬
‫‪،355 ،352‬‬
‫‪358‬‬
‫وہ شخص جس پر حملہ یا جبر مجرمانہ کیا جائے‬
‫غیر قانونی جبری محنت‬
‫‪374‬‬
‫وہ شخص جسے محنت کرنے پر مجبور کیا گیا‬
‫نقصان رسانی جب کہ زیا ں (‪ )Loss‬یا مضرت (‪ )Damage‬صرف پرائیویٹ شخص کو پہنچائی‬
‫جائے‬
‫‪427 ،426‬‬
‫وہ شخص جس کو زیاں مضرت پہنچائی جائے‬
‫مداخلت بے جا مجرمانہ۔‬
‫مداخلت بے جا خانہ‬
‫‪448 ،447‬‬
‫اس جائیداد کا قابض شخص جس میں مداخلت بے جا کی جائے‬
‫]قرض کی ادائیگی یا ذمہ داری کی تکمیل کیلئے بددیانتی سے چیک کا اجراء‬
‫‪F489‬‬
‫جس شخص کے حق میں چیک کا اجرا ہوا[‬
‫معاہدہ خدمت کی مجرمانہ خالف ورزی‬
‫‪490،491،492‬‬
‫وہ شخص جس کیساتھ مجرم نے معاہدہ کیا ہو‬
‫زنا (‪)Adultery‬‬
‫‪297‬‬

‫شادی شدہ عورت کو مجرمانہ نیت سے پھسال لے جانا یا لے اڑنا یا روک رکھنا‬
‫‪498‬‬
‫عورت کا شوہر‬
‫ازالہ حیثیت عرفی (‪ )Defamation‬کوئی مضمون چھاپنا یا کندہ کرنا یہ جانتے ہوئے کہ وہ ازالہ‬
‫حیثیت عرفی کرنے واال ہے‬
‫‪501 ،500‬‬
‫وہ شخص جس کا ازالہ حیثیت عرف کیا گیا ہو‬
‫کسی چھپے ہوئے یا کندہ کئے ہوئے مادے کو یہ جانتے ہوئے کہ اس میں کوئی ازالہ حیثیت عرفی‬
‫کرنے واال مواد ہے‪ ،‬فروخت کرنا‬
‫‪502‬‬

‫توہین (‪ )Insult‬اس ارادے سے کہ وہ شخص جس کی توہین کی جائے‪ ،‬اشتعال طبع کی وجہ سے‬
‫امن عامہ میں خلل ڈالے‬
‫‪504‬‬
‫وہ شخص جس کی توہین کی گئی ہو‬
‫تخویف مجرمانہ سوائے جب کہ ایسے جرم کی سزا سات سال قید ہو‬
‫‪506‬‬
‫وہ شخص جس کو خوف دالیا گیا ہو‬
‫کوئی فعل جس سے کسی شخص کو یقین دالیا جائے کہ وہ غضب ٰالہی کا نشانہ بنے گا‬
‫‪508‬‬
‫وہ شخص جس کے خالف جرم سرزد ہوا ہو‬
‫ت پاکستان کے تحت قابل سزا جرائم جن کی صراحت آئندہ کے دو پہلے خانہ‬ ‫تعزیرا ِ‬ ‫(‪2‬‬
‫جات میں کی گئی ہے‪ ،‬کا راضی نامہ اس عدالت کی اجازت سے جن کے روبرو کوئی استغاثہ کسی‬
‫ویسے جرم کی بابت زیر سماعت ہو‪ ،‬ان اشخاص کی طرف سے ہو سکتا ہے جن کا ذکر جدول‬
‫مذکور کے تیسرے خانہ میں کیا گیا ہو۔‬
‫] بلوہ کرنا‬
‫‪147‬‬
‫وہ شخص جس کے خالف جرم کیا گیا تھا یا ایسے شخص کے وارثان جیسی صورت ہو‪ ،‬اگر جرم‬
‫کا ارتکاب کسی دیگر قابل مصالحت جرم کے ساتھ کیا گیا تھا‬
‫مہلک ہتھیاروں کے ساتھ بلوہ کرنا‬
‫‪148‬‬
‫ایضا ً [‬
‫]قتل عمد‬
‫‪302‬‬
‫متضرر شخص کے وارثان کی جانب سے ]ملزم یا سزایاب کے سوا اگر جرم اس کی طرف سے‬
‫کاروکاری‪ ،‬سیاہ کاری یا اس طرح کے دیگر روایات یا معموالت کے نام پر یا بہانے سے کیا گیا‬
‫ہے[‬
‫اکراہ تام کے تحت قتل‬
‫‪303‬‬
‫متضرر شخص کے وارثان کی جانب سے‬
‫ایسا قتل عمد جو مستوجب قصاص نہ ہو‬
‫‪308‬‬
‫متضرر شخص کے وارثان کی جانب سے‬
‫قتل شبہ العمد‬
‫‪316‬‬
‫٭]متضرر شخص کے وارثوں کی طرف سے[‬
‫قتل خطا‬
‫‪319‬‬
‫ایضا‬
‫تیز یا الپرواہی سے گاڑی چالنے کے باعث قتل خطا‬
‫‪320‬‬
‫ایضا ً‬
‫قتل بالسبب‬
‫‪322‬‬
‫ایضا ً‬
‫قتل عمد کے ارتکاب کا اقدام‬
‫‪324‬‬
‫وہ شخص جس کیخالف جرم کا ارتکاب کیاگیا‬
‫اتالف عضو‬
‫‪334‬‬
‫وہ شخص جس کو ضرر پہنچایا گیا‬
‫اتالف صالحیت عضو‬
‫‪336‬‬
‫ایضا ً‬
‫ہر قسم کا شجہ‬
‫‪A-337‬‬
‫ایضا ً‬
‫جائفہ‬
‫‪D-337‬‬
‫ایضا‬
‫ہر قسم کا غیر جائفہ‬
‫‪F-337‬‬
‫وہ شخص جس کو ضرر پہنچا‬
‫جلد بازی یا غفلت سے گاڑی چال کر ضرر پہنچانا‬
‫‪G-337‬‬
‫ایضا ً‬
‫جلد بازی یا غفلت سے کئے گئے فعل کے ذریعے غلطی سے ضرر کا باعث ہونا‬
‫‪337-I ،H-337‬‬
‫ایضا ً‬
‫جبرا ً اقبال کرانے یا جائیداد کی واپسی پر مجبور کرنے کیلئے ضرر کا باعث ہونا‬
‫‪K-337‬‬
‫ایضا ً‬
‫دیگر ضرر‬
‫‪L-337‬‬
‫ایضا ً‬
‫ضرر جو قصاص کا مستوجب نہ ہو‬
‫‪M-337‬‬
‫ایضا ً‬
‫ایسی صورتیں جن میں ضرر کیلئے قصاص نافذ نہیں کیا جائے گا‬
‫‪N-337‬‬
‫ایضا ً‬
‫اسقاط حمل‬
‫‪A-338‬‬
‫ضرر رسیدہ یا اسکے وارثان جیسی بھی صورت ہو‬
‫اسقاط جنین‬
‫‪C-338‬‬
‫ایضا ً‬
‫کسی شخص کو تین دن یا زیادہ عرصہ کیلئے حبس بے جا میں رکھنا‬
‫‪343‬‬
‫وہ شخص جس کو حبس بے جا میں رکھا جائے‬
‫کسی شخص کو خفیہ حبس بے جا میں رکھنا‬
‫‪346‬‬
‫ایضا ً‬
‫کسی شخص کو حبس بے جا میں رکھنے کے اقدام میں اس پر حملہ یا جبر مجرمانہ‬
‫‪357‬‬
‫وہ شخص جس پر حملہ یا جبر مجرمانہ کیا جائے‬
‫بددیانتی سے مال کا تصرف بے جا‬
‫‪403‬‬
‫اس مال کا مالک جسکا تصرف بے جا کیا جائے‬
‫دغا (دھوکا) (‪)Cheating‬‬
‫‪417‬‬
‫وہ شخص جس کے ساتھ دغا کیا جائے‬
‫کسی ایسے شخص کو دغا دینا جس کے حق کی حفاظت مجرم پر قانونا ً بلحاظ معاہدہ قانونی واجب‬
‫ہے‬
‫‪418‬‬
‫ایضا ً‬
‫دوسرا شخص بن کر دغا دینا‬
‫‪419‬‬
‫ایضا ً‬
‫دھوکا دینے اور بددیانتی سے کسی مال کے حوالہ کرنے کی تحریک کرنا یا کسی کفالت المال‬
‫‪ Valuable security‬کا بنانا‪ ،‬تبدیل کرنا یا تلف کرنا‬
‫‪420‬‬
‫ایضا ً‬
‫پانی کا راستہ بے جا طو رپر تبدیل کرکے آبپاشی کے کسی کام کو ضرر پہنچانے کے ذریعہ نقصان‬
‫رسانی جبکہ زیان یا مضرت محض کسی پرائیویٹ شخص کو پہنچے‬
‫‪430‬‬
‫وہ شخص جس کو زیان یا مضرت پہنچائی جائے‬
‫مداخلت بے جا بہ خانہ ایسے جرم کے ارتکاب کیلئے (ماسوا سرقہ کے) جس کیلئے قید کی سزا‬
‫مقرر ہے‬
‫‪451‬‬
‫وہ شخص جس مکان کا قابض ہو جس میں مداخلت بے جا کی گئی ہو‬
‫جھوٹا نشان تجارت یا نشان ملکیت استعمال کرنا‬
‫‪482‬‬
‫وہ شخص جس کو ویسے استعمال سے زیان یا ضرر پہنچے‬
‫کسی دوسرے نشان تجارت یا نشان ملکیت کی تلبیس کرنا‬
‫‪483‬‬
‫وہ شخص جس کے نشان تجارت یا نشان ملکیت کی تلبیس کی جائے‬
‫جان بوجھ کر ایسا مال فروخت کرنا یا فروخت کرنے کیلئے کھول کر رکھنا یا فروخت کرنے کیلئے‬
‫اپنے قبضہ میں رکھنا یا اس کی تجارت کرنا یا ساخت کرنا جس پر ملتبس نشان تجارت یا نشان‬
‫ملکیت بنا ہوا ہو‬
‫‪486‬‬
‫ایضا ً‬
‫شوہر یا بیوی کی زندگی میں دوسری شادی کرنا‬
‫‪494‬‬
‫اس طرح شادی کرنے واال شوہر یا بیوی‬
‫کسی عورت کی حیا (‪ )Modesty‬کی توہین کی نیت سے کوئی بات منہ سے نکالنا یا کوئی آواز یا‬
‫اشارہ کرنا یا کوئی شے دکھانا یا اس کی خلوت (‪ )Privacy‬میں گھس جانا‬
‫‪509‬‬
‫وہ عورت جس کی حیا کی توہین ہوئی ہو یا جس کی خلوت میں خلل ڈاال گیا ہو‬

‫جہاں مجرم مجموعہ تعزیرات پاکستان ‪1860‬ء (ایکٹ ‪ XLV‬بابت ‪1860‬ء) کے باب‬ ‫(‪)a(2‬‬
‫‪ XVI‬کے تحت کاروکاری‪ ،‬سیاہ کاری یا اسی طرح کے دیگر رواجات یا معموالت (‪)Practicles‬‬
‫کے نام سے یا بہانے سے سزایاب ہو چکا ہے‪ ،‬تو ایسے جرم کو ایسی شرائط کے تابع جیسا کہ‬
‫عدالت مقدمہ کے امور واقعہ اور حاالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے فریقین کی رضا مندی سے عائد‬
‫کرنا مناسب خیال کرے‪ ،‬معاف کیا جا سکتا ہے یا اس کے سلسلے میں مصالحت کی جا سکتی ہے۔‬
‫جب زیر دفعہ ہذا کوئی جرم قابل راضی نامہ ہو تو ویسے جرم کی اعانت کا یا‬ ‫(‪3‬‬
‫ویسے جرم کے ارتکاب کے اقدام کا (جب ایسا اقدام بذاتہ جرم ہو) اسی طرح راضی نامہ کیا جا‬
‫سکتا ہے۔‬
‫جب وہ شخص جو بصورت دیگر دفعہ ہذا کے تحت راضی نامہ کرنے کا مجاز ہو‪،‬‬ ‫(‪4‬‬
‫اٹھارہ سال سے کم عمر کا ہو یا فاتر العقل ہو یا پاگل ہو تو کوئی شخص جو اس کی طرف سے‬
‫عماہدہ کرنے کا مجاز ہو‪ ،‬عدالت کی اجازت سے‪ ،‬ویسے جرم کا راضی نامہ کر سکتا ہے۔‬
‫جب ملزم کو سزایاب کیا گیا ہو اور اس کی اپیل تصفیہ طلب ہو تو اس جرم کے‬ ‫(‪5‬‬
‫راضی نامہ کی اجازت اس عدلت کی اجازت کے بغیر نہ دی جائے گی جس نے اپیل کی سماعت‬
‫کرنی ہو۔‬
‫عدالت عالیہ دفعہ ‪ 439‬کے تحت اپنے اختیارات نگرانی کو بروئے کار التے ہوئے‬ ‫(‪A-5‬‬
‫اور عدالت سیشن اسی طرح دفعہ ‪ A-439‬کو زیرکار التے ہوئے کسی شخ کو اس جرم کے راضی‬
‫نامہ کی اجازت دے سکتی ہے جس کے راضی نامہ کا وہ زیر دفعہ ہذا مجاز ہے۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت راضی نامہ اس ملزم کی بریت کا اثر رکھے گا جس کے ساتھ‬ ‫(‪6‬‬
‫جرم کا راضی نامہ ہوا تھا۔‬
‫دفعہ ہذا میں محکوم طریقہ کے عالوہ کسی جرم کا راضی نامہ نہیں کیا جائے گا۔‬ ‫(‪7‬‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں ایک جدول دیا گیا ہے جو کہ تین خانوں پر مشتمل ہے‪ ،‬پہلے خانہ میں‬
‫ت پاکستان کی متعلقہ دفعات اور تیسرے خانے میں ان اشخاص کا ذکر‬‫جرائم‪ ،‬دوسرے میں تعزیرا ِ‬
‫ہے جو صلح کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔‬
‫’’اس دفعہ میں قابل راضی نامہ اور ناقابل راضی نامہ جرائم کی فہرست دی‬ ‫نکتہ نگاہ‪:‬‬
‫اسالمی ٔ‬
‫گئی ہے جو شرعی احکام کے مطابق نہیں ہے۔ مثالً اس دفعہ میں مستغیث کے ساتھ تصفیہ کا ذکر‬
‫جرم زنا قابل مصالحت نہیں ہے‪ ،‬نیز‬
‫خالف شریعت ہے کیونکہ ِ‬‫ِ‬ ‫ہے‪ ،‬جس میں زنا بھی شامل ہے‪ ،‬یہ‬
‫شوہر کی زندگی میں زوجہ کی دوسری شادی کرنے کے جرم کو بھی قابل مصالحت بتایا گیا ہے‪،‬‬
‫حاالنکہ شرعا ً یہ جائز نہیں ہے‪ ،‬لہٰ ذا یہ فہرست شریعت کے کافی حد تک خالف ہے‪ ،‬تفصیل حسب‬
‫ذیل ہے‪:‬‬
‫مذہبی جذبات کو مجروح کرنے پر مصالحت نہیں ہو سکتی (دفعہ نمبر ‪ 298‬ت پ) کسی‬
‫عورت کو حبس بے جا میں رکھنے (دفعہ ‪ 346 ،343‬ت پ) اور اس کے ساتھ بے حیائی کے‬
‫ارتکاب کے بعد مصالحت نہیں ہو سکتی۔ بددیانتی سے مال کھائے اور دھوکہ دہی (‪،417 ،403‬‬
‫‪ 419 ،418‬اور ‪ 420‬ت پ) کے بارے میں مصالحت نہیں ہو سکتی۔ ورنہ دھوکہ دہی ایک عادت بن‬
‫جائیگی اور فساد برپا ہو جائے گا۔‬
‫شوہر کی زندگی میں اور نکاح باقی رہنے کی صورت میں عورت اگر دوسری جگہ شادی‬
‫کرے (‪ 494‬ت پ) یہ شرعی جرم ہے‪ ،‬شوہر مصالحت نہیں کر سکتا اور تعزیر ضروری ہے۔‬
‫مختلف حرکات‪ ،‬الفاظ اور آوازوں سے کسی عورت کی عفت اور وقار کو ٹھیس پہنچانا‬
‫(دفعہ نمبر ‪ 509‬ت پ) اس جرم میں صلح نہیں ہو سکتی‪ ،‬تعزیر ضروری ہے۔ (‪)88‬‬
‫ت پاکستان کی دفعہ نمبر ‪ 509‬کے مطابق کسی عورت کی عصمت اور وقار کو ٹھیس‬‫تعزیرا ِ‬
‫پہنچانا جرم ہے جو ناقابل صلح اور واجب التعزیر ہے۔‬
‫کاسانی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬
‫اذا صالح من حد القذف وانھا ال تحتمل الصلح (‪)89‬‬
‫’’جب کوئی آدمی حد قذف کے سلسلے میں صلح کرے تو یہ صلح کا معاملہ نہیں ہے‘‘۔‬
‫شامی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬
‫بطل الصلح وسقط الحدان کان قبل ان یرفع الی القاضی وان کان بعدہ‪ ،‬ال یبطل الحد وقد سبق‬
‫انہ انما سقط العفو لعدم الطلب (‪)90‬‬
‫’’اگر قاضی کے پاس جانے سے پہلے صلح ہو جائے‪ ،‬تو باطل ہے‪ ،‬لیکن حد قذف ختم ہو‬
‫جائیگی اور اگر قاضی کے پاس جانے کے بعد صلح ہوئی تو حد باطل نہیں ہوگی۔ پہلی صورت میں‬
‫حد معافی کی وجہ سے ساقط ہوئی کیونکہ حد قذف کا مطالبہ باقی نہ رہا‘‘۔‬
‫مرغینانی کے نزدیک بھی حد قذف میں صلح نہیں ہو سکتی کیونکہ اس میں حق شریعت‬
‫ؒ‬
‫غالب ہے۔ (‪)91‬‬
‫زنا اور شراب کی حد کی نہ معافی ہو سکتی ہے نہ ہی مال کے بدلے یا بغیر مال کے صلح‬
‫ہو سکتی ہے۔‬
‫تعالی الحقہ ولیا یجوز االعتیاض من حق غیرہ‬
‫ٰ‬ ‫دعوی حدالنہ حق اہللا‬
‫ٰ‬ ‫وال یجوز الصلح عن‬
‫(‪)92‬‬
‫دعوی کیا تو اس سے صلح جائز نہیں ہے‪ ،‬اس‬
‫ٰ‬ ‫’’اگر کسی نے دوسرے پر شرعی حد کا‬
‫تعالی کا حق ہے‪ ،‬اس شخص کا حق نہیں تو دوسرے کے حق کے بدلے‬
‫ٰ‬ ‫لئے کہ شرعی حد ہللا‬
‫عوض لینا جائز نہیں ہے‘‘۔‬
‫کاسانی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬
‫والصلح عن حقوق اہللا عزوجل باطل (‪)93‬‬
‫تعالی کے حقوق کے بارے میں صلح باطل ہے‘‘۔‬
‫ٰ‬ ‫’’ہللا‬
‫وہ مزید لکھتے ہیں کہ اسی لئے‪:‬‬
‫ال صلح الصلح من حد الزنا والسرقۃ وشرب الخمر (‪)94‬‬
‫’’حد زنا‪ ،‬حد سرقہ اور حد شراب نوشی میں صلح صحیح نہیں‘‘۔‬
‫(‪ 2‬تعزیر میں صلح‪ :‬تعزیر کے معاملے میں صلح ہو سکتی ہے‪ ،‬اس لئے کہ یہ حق العبد ہے‪:‬‬
‫کاسانی کہتے ہیں‪:‬‬
‫ویجوز الصلح عن التعزیر النہ حق العبد (‪)95‬‬
‫’’تعزیر کے معاملے میں صلح جائز ہے کیونکہ یہ بندے کا حق ہے‘‘۔‬
‫چوری کے معاملے میں حد جاری کرنے کی شرائط پوری نہ ہوں اور قاضی چوری کے‬ ‫(‪3‬‬
‫جرم میں تعزیر دے اور چور کے ذمہ چوری کے مال کے مساوی ضمان قرار دے تو صلح ہو‬
‫سکتی ہے اور مال کے بارے میں بھی صلح ہو سکتی ہے کیونکہ شرائط پوری نہ ہوئیں اور یہ حق‬
‫شامی کہتے ہیں کہ صلح کا جواز ایسے حق میں ہوتا ہے جس میں مصالحت جائز ہو‪،‬‬ ‫ؒ‬ ‫العبد بن گیا۔‬
‫چاہے وہ حق غیر مالی ہو مثالً قصاص وتعزیر خواہ وہ موضوع صلح معلوم ہو یا غیر معلوم‘‘۔‬
‫(‪)96‬‬
‫شامی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ای اذا کان حقا للعبد کمال یخفی (‪)97‬‬
‫’’یعنی جب تعزیر حق العبد ہو جیسا کہ واضح ہے (تو صلح جائز ہے)‘‘۔‬
‫مزید لکھتے ہیں‪:‬‬
‫دعوی المال مطلقا ً (‪)98‬‬
‫ٰ‬ ‫وصح الصلح عن‬
‫دعوی مال میں صلح درست ہے‘‘۔‬
‫ٰ‬ ‫’’مطلق‬
‫اگر قتل عمد میں قاضی قصاص کا فیصلہ کردے تو خود تو معاف نہیں کر سکتا‪ ،‬البتہ مقتول‬ ‫(‪5‬‬
‫کے ورثاء معاف کر سکتے ہیں اور قصاص کے بدلے مال لے سکتے ہیں‪ ،‬خواہ یہ مال دیت سے کم‬
‫ہو یا برابر ہو۔‬
‫حصکفی کہتے ہیں کہ جنایت عمد میں صلح بالکل جائز ہے‪ ،‬خواہ یہ قتل نفس میں دیت یا‬
‫ؒ‬
‫ارش سے زیادہ ہو یا کم‪ ،‬کیونکہ اس میں ربا نہیں ہے۔ (‪)99‬‬
‫شامی کہتے ہیں‪:‬‬
‫الن الواجب فیہ القصاص وھو لیس بمال (‪)100‬‬
‫’’کیونکہ یہاں (اصل) واجب قصاص ہے اور وہ مال نہیں ہے‘‘۔‬
‫اگر قتل خطا ہوا ہو تو قصاص واجب نہیں ہوتا‪ ،‬دیت خطاء واجب ہوتی ہے‪ ،‬جو شرعی طور‬
‫پر مال کی خاص مقدار ہوتی ہے‪ ،‬اس دیت کی مقدار سے زیادہ پر تو صلح نہیں ہوسکتی ‪،‬البتہ کم پر‬
‫حصکفی لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫ہو سکتی ہے۔‬
‫’’اس طرح خطا کی صورت میں زیادتی درست نہیں‪ ،‬کیونکہ خطا کی صورت میں بھی دیت‬
‫مقرر ہے‪ ،‬یہاں تک کہ اگر اس کے تعین کے بغیر بھی صلح ہوگئی تو اس شرط کے ساتھ جائز‬
‫ہوگی کہ مجلس صلح میں بھی ادائیگی ہو‪ ،‬ایسا نہ ہو کہ وہ ا دھار کے بدلے ادھار بن جائے‘‘۔‬
‫(‪)101‬‬
‫حقوق ہللا میں دی گئی تعزیر میں معافی نہیں‪:‬‬ ‫(‪6‬‬
‫کسی مجرم کو حقوق ہللا میں تعزیر دی گئی ہو‪ ،‬مثالً شراب نوشی یا ارتکاب زنا کیلئے حد‬
‫جاری کرنے کی شرطیں پوری نہیں تھیں‪ ،‬مگر جرم ثابت ہو اور بطور تعزیر اسے کوڑے لگانے یا‬
‫قید کا حکم دیا گیا‪ ،‬تو صلح نہیں ہو سکتی‪ ،‬شراب نوشی کرنے والے یا زانی کو پکڑنے واال شخص‬
‫کہے کہ مجھے اتنا مال دے دو اور بدلے میں تعزیر معاف کردوں گا۔ یہ جائز نہیں ہے۔ (‪)102‬‬
‫نظریاتی کونسل کی سفارشات‪ :‬کونسل سفارش کرتی ہے دفعہ ‪ 345‬میں شرعی اصولوں کی روشنی‬
‫میں ترمیم کی جائے۔‬
‫کونسل بقیہ احکام دفعہ ہذا کے متعلق حسب ذیل سفارش کرتی ہے‪:‬‬
‫الف) ذیلی دفعہ (‪ )4‬میں اس شرعی اصول کے مطابق ترمیم ہوگی کہ نابالغ اور مجنون کی طرف‬
‫سے اس کا ولی ہی مصالحت کر سکتا ہے‪ ،‬بشرطیکہ شرعا ً مصالحت جائز ہو۔‬
‫ذیلی دفعہ (‪ )6‬میں عدالت ان امور میں مصالحت کی اجازت دے گی‪ ،‬جن میں شرعا ً‬ ‫ب)‬
‫مصالحت ہو سکتی ہے۔‬
‫ذیلی دفعہ (‪ )7‬میں مذکور ہے کہ مذکورہ جرائم کے عالوہ کسی دیگر جرم میں مصالحت‬ ‫ج)‬
‫نہیں ہو سکتی‪ ،‬یہ شرعا ً غلط ہے‪ ،‬قتل اور جنایات کی تمام صورتوں میں مصالحت ہو سکتی ہے۔‬
‫کونسل متفقہ طور پر ان اصولوں کی تائید کرتے ہوئے سفارش کرتی ہے کہ دفعہ ہذا میں‬
‫متذکرہ اصولوں کی روشنی میں ترمیم کی جائے۔ (‪)103‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں درج باال اصولوں کی روشنی میں ترمیم کی جانی چاہئے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :346‬ایسے مقدمات میں مجسٹریٹ کا ضابطہ جن کا وہ فیصلہ نہیں کر سکتا‬

‫اگر کسی ضلع میں کسی مجسٹریٹ کے روبرو تحقیقات یا سماعت کے دوران اسے‬ ‫(‪1‬‬
‫شہادت سے معلوم ہو کہ اس سے قیاس پیدا ہوتا ہے کہ مقدمہ کی نوعیت ایسی ہے کہ اس کی‬
‫سماعت عدالت سیشن یا عدالت کو کرنی چاہئے یا سماعت کیلئے ان کو ارسال کردینا چاہئے یا ایسے‬
‫ضلع میں کسی دیگر مجسٹریٹ کو کرنی چاہئے تو اس پر الزم ہوگا کہ وہ مقدمہ کی کارروائی روک‬
‫دے اور مقدمہ مع اپنی مختصر رپورٹ جو اس کی نوعیت کی وضاحت کرتی ہو‪ ،‬سیشن جج کو یا‬
‫کسی دوسرے ایسے مجسٹریٹ کو جو اختیار سماعت رکھتا ہو ارسال کرے‪ ،‬جس کی کہ سیشن جج‬
‫ہدایت کرے۔‬
‫وہ مجسٹریٹ جس کو مقدمہ بھیجا گیا ہو‪ ،‬مجاز ہوگا کہ اگر وہ ایسا اختیار رکھتا ہو‬ ‫(‪2‬‬
‫تو یا تو خود مقدمہ کی تجویز کرے یا اسے عدالت سیشن یا عدالت عالیہ کو تجویز کیلئے ارسال‬
‫کرے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :347‬جب تجویز کے آغاز کے بعد مجسٹریٹ کو معلوم ہو کہ مقدمہ کی تجویز‬
‫سیشن جج یا ہائی کورٹ کو کرنی چاہئے تو ضابطہ‬

‫اگر مجسٹریٹ کے روبرو کسی تجویز کے دوران‪ ،‬فیصلہ پر دستخط کرنے سے قبل کارروائی کے‬
‫کسی مرحلہ پر مجسٹریٹ کو یہ معلوم ہو کہ مقدمہ ایسا ہے کہ جس کی تجویز عدالت سیشن یا عدالت‬
‫عالیہ کو کرنی چاہئے تو وہ مقدمہ عدالت سیشن یا عدالت عالیہ کو تجویز کیلئے ارسال کرے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :348‬ایسے اشخاص کی تجویز جو سکہ بازی ‪ ،‬قانون اسٹام یا جائیداد کے‬
‫متعلق جرائم میں سابقہ سزا یافتہ ہوں‬

‫ت پاکستان کے‬ ‫جو کوئی کسی ایسے جرم میں سزایاب ہوا ہو‪ ،‬جو مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪1‬‬
‫باب ‪ 12‬یا ‪ 17‬کے تحت تین سال یا زائد مدت کی قید سے قابل سزا ہو‪ ،‬دوبار کسی ایسے جرم میں‬
‫ماخوذ ہو جائے جس کی سزا ابواب مذکور سے کسی کے تحت تین سال یا زائد تک دی جا سکتی ہو‪،‬‬
‫تو اگر مجسٹریٹ‪ ،‬جس کے روبرو مقدمہ زیر سماعت ہو‪ ،‬اس امر کی بابت مطمئن ہو کہ ملزم‬
‫بذریعہ عدالت سیشن یا عدالت عالیہ جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬تجویز کی کافی وجوہ ہیں‪ ،‬وہ ملزم کو‬
‫ایسی عدالت میں سماعت کیلئے بھیجے گا‪ ،‬بجز اس کے کہ وہ مقدمہ کی سماعت کا اختیار رکھتا ہو‬
‫اور اس کی رائے ہو کہ اگر ملزم کو سزا دی گئی تو وہ خود کافی سزا دے سکتا ہے۔‬
‫شرط‪ :‬قانونی اصطالحات کے قانون نمبر ‪ 12‬بابت ‪1972‬ء سے حذف ہوئی۔‬
‫جب کوئی شخص ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت عدالت سیشن یا عدالت عالیہ کو برائے‬ ‫(‪2‬‬
‫تجویز سپرد کیا جائے تو کوئی دیگر شخص جس کو تجویز میں اس کے ساتھ ملزم ٹھہرایا گیا ہو‪،‬‬
‫بھی اسی طرح تجویز کیلئے بھیجا جائے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :349‬جب مجسٹریٹ کافی سخت سزا نہ دے سکتا ہو تو ضابطہ‬


‫جب استغاثہ اور ملزم کی شہادتوں کی سماعت کے بعد کسی مجسٹریٹ درجہ دوم یا‬ ‫(‪1‬‬
‫سوم کی جو اختیار سماعت رکھتا ہو‪ ،‬یہ رائے ہو کہ ملزم قصور وار ہے اور اس کو ایسی سزا ملنی‬
‫چاہئے جو اس سزا سے مختلف قسم کی یا زیادہ سخت ہو‪ ،‬جس کو عائد کرنے کا ویسا مجسٹریٹ‬
‫مجاز ہو یا اس کو زیر دفعہ ‪ 106‬مچلکہ تحریر کرنے کا حکم دینا ضروری ہے تو اس کو اختیار‬
‫ہوگا کہ اپنی رائے قلم بند کرکے تمام کاغذات مقدمہ اور ملزم کو کسی درجہ اول کے مجسٹریٹ کے‬
‫پاس بھیج دے جس کو صوبائی حکومت نے اس بارے میں حاص طور پر مجاز کیا ہو۔‬
‫جب ایک سے زائد ملزم ایک ساتھ زیر تجویز ہوں اور مجسٹریٹ ان ملزمان میں‬ ‫(‪A-1‬‬
‫سے کسی کی نسبت ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت کارروائی کرنا ضروری سمجھے تو اس پر الزم ہوگا‬
‫کہ وہ جملہ ملزمان‪ ،‬جو اس کی رائے میں قصور وار ہوں‪ ،‬کو ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت مختار شدہ‬
‫مجسٹریٹ کے پاس بھیجے۔‬
‫وہ مجسٹریٹ جس کے پاس کاغذات مقدمہ ارسال کئے گئے ہوں‪ ،‬اگر مناسب‬ ‫(‪2‬‬
‫سمجھے‪ ،‬تو فریقین کا اظہار لے اور کسی ایسے گواہ کو دوبارہ طلب کرے اور اس کا بیان لے جو‬
‫مقدمہ میں پہلے ہی شہادت دے چکا ہو اور مجاز ہوگا کہ مزید شہادت طلب کرے اور قلم بند کرے‬
‫اور مقدمہ میں ایسا فیصلہ‪ ،‬حکم سزا یا حکم صادر کرے جو وہ مناسب سمجھے اور جو مطابق‬
‫قانون ہو‪:‬‬
‫بشرطیکہ وہ اس سے زیادہ سخت سزا عائد نہ کرے گا جس کا وہ تحت دفعات ‪ 32‬اور ‪ 33‬عائد‬
‫کرنے کا مجاز ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :350‬ایسی شہادت پر سزایابی جسے جزوی طور پر ایک افسر جلیس نے قلم بند‬
‫کیا ہو اور جزوی طور پر دوسرے نے‬

‫جب کسی سیشن جج یا مجسٹریٹ کے اختیارات مقدمہ کی تحقیقات یا تجویز کے‬ ‫(‪1‬‬
‫دوران کلی یا جزوی شہادت سننے اور قلم بند کرنے کے بعد‪ ،‬ختم ہو جائیں اور دوسرا سیشن جج یا‬
‫مجسٹریٹ جو ایسا اختیار رکھتا اور زیرکار التا ہو‪ ،‬مجسٹریٹ یا سیشن جج جو اس طور پر جانشین‬
‫بنے‪ ،‬اس شہادت پر کارروائی کر سکتا ہے جو اس کے پیشرو نے قلم بند کی ہو یا جزوی طور پر‬
‫اس کے پیشرو نے قلم بند کی ہو اور جزوی طور پر اس نے یا وہ گواہان کا اظہار دوبارہ لے سکتا‬
‫ہے اور تحقیقات یا تجویز کا ازسرنو آغاز کر سکتا ہے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ‪:‬‬
‫جب سزایابی کسی سیشن جج کے روبرو ہوئی ہو تو ہائی کورٹ‪ ،‬اور‬ ‫(‪a‬‬
‫جب سزایابی مجسٹریٹ کے روبرو ہوئی ہو تو عدالت عالیہ یا عدالت‬ ‫(‪b‬‬
‫سیشن مجاز ہوگی کہ چاہے اپیل کی گئی ہو یا نہ‪ ،‬کسی ایسی شہادت پر دی گئی سزا کو منسوخ‬
‫کردے جسے سیشن جج یا مجسٹریٹ جس کے روبرو سزایابی دی گئی‪ ،‬نے مکمل طور پر خود قلم‬
‫بند نہ کیا ہو۔ اگر ایسی عدالت کی یہ رائے ہو کہ اس سے ملزم کی بہت مضرت رسانی ہوئی ہے اور‬
‫مجاز ہوگی کہ نئی تحققات یا تجویز کا حکم دے۔‬
‫دفعہ ہذا میں کوئی امر ان مقدمات پر اطالق پذیر نہ ہوگا ‪ ،‬جن میں دفعہ ‪ 346‬کے‬ ‫(‪2‬‬
‫تحت کارروائیاں روک دی گئی ہوں یا جن کو دفعہ ‪ 349‬کے تحت مختار شدہ مجسٹریٹ کو ارسال‬
‫کر دی گئی ہو۔‬
‫جب مجموعہ ہذا کے احکام کے تحت کوئی مقدمہ ایک مجسٹریٹ سے دوسرے کو‬ ‫(‪3‬‬
‫منتقل کردیا جائے تو اول الذکر کا اس میں اختیار استعمال کرنا ختم اور موخر الذکر کا ضمنی دفعہ‬
‫(‪ )1‬کے معنوں میں جانشین ہونا‪ ،‬متصور ہوگا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-350‬بنچوں کی تشکیل میں تبدیلیاں‬


‫مجسٹریٹوں کے کسی بنچ کا کوئی حکم یا فیصلہ کسی مقدمہ میں کسی ایسے بنچ کی تشکیل میں‬
‫محض کسی تبدیلی ہو جانے کی بنا پر باطل نہ ہوگا جس میں وہ بنچ جس نے ایسا حکم یا فیصلہ دیا‬
‫ہو‪ ،‬دفعات ‪ 15‬اور ‪ 16‬کے تحت باضابطہ تشکیل کردہ ہو اور وہ مجسٹریٹ جن سے وہ تشکیل ہوا‪،‬‬
‫جملہ کارروائیوں میں بنچ پر موجود رہے ہوں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :351‬عدالت میں حاضر مجرموں کو حراست میں لینا‬

‫کسی شخص کو جو کسی فوجداری عدالت میں حاضر ہو‪ ،‬اگرچہ زیر حراست یا‬ ‫(‪1‬‬
‫طلبیدہ نہ ہو‪ ،‬ویسی عدالت اس جرم کی تحقیقات و تجویز کیلئے حراست میں رکھنے کی مجاز‬
‫ہوگی‪ ،‬جس کا ارتکاب ہونا ظاہر ہوتا ہو اور اس کے خالف اس طور سے کارروائی کی جا سکتی‬
‫ہے گویا وہ گرفتار شدہ یا طلبیدہ تھا۔‬
‫جب ایسی حراست مقدمہ کی سماعت شروع ہونے کے بعد عمل میں الئی گئی ہو تو‬ ‫(‪2‬‬
‫ایسے شخص کے خالف کارروائی ازسرنو شروع کی جائے گی اور گواہان کو دوبارہ سنا جائے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :352‬عدالت کھلی ہوگی‬


‫وہ مقام جہاں کوئی فوجداری عدالت کسی جرم کی تحقیقات یا تجویز کیلئے منعقد کی جائے‪ ،‬کھلی‬
‫عدالت تصو کی جائے‪ ،‬جہاں پر عوام الناس جہاں تک اس میں گنجائش ہو‪ ،‬آجا سکیں‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ کوئی افسر جلیس یا مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ اگر وہ مناسب سمجھے تو کسی‬
‫خاص مقدمہ کی تحقیقات یا تجویز کے کسی مرحلہ پر‪ ،‬حکم دے کہ عوام الناس عمومی طور پر یا‬
‫کوئی مخصوص شخص کسی کمرہ یا عمارت‪ ،‬جسے عدالت استعمال کر رہی ہو‪ ،‬میں نہ آئے نہ‬
‫موجود ہو یا موجود نہ رہے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 346‬تا ‪ 352‬میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے مطابق معلوم نہیں ہوتی‪،‬‬
‫لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫(باب نمبر ‪)25‬‬


‫تحقیقات اور تجویز میں شہادت لینے اور‬
‫قلم بند کرنے کے طریق کی بابت‬
‫دفعہ نمبر ‪ :353‬ملزم کی موجودگی میں شہادت لی جائے گی‬

‫سوائے اس کے کہ صریحا ً برعکس حکم دیا گیا ہو‪ ،‬باب ‪ 22 ،21 ،20‬اور ‪ A-22‬کے تحت لی گئی‬
‫شہادتیں ملزم کی موجودگی میں یا جب اسکی ذاتی حاضری معاف کر دی گئی ہو‪ ،‬اس کے وکیل کی‬
‫موجودگی میں لی جائیں گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :354‬شہادت قلم بند کرنے کا طریقہ‬

‫مجسٹریٹ یا سیشن جج کی جانب سے یا ان کے روبرو‪ ،‬مجموعہ ہذا کے تحت‪ ،‬تحقیقات و تجویز‬


‫میں (ماسو سرسری سماعت) گواہان کی شہادت درج ذیل طریقہ پر قلم بند کی جائے گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :355‬مجسٹریٹ درجہ اول او ردرجہ دوم کی طرف سے بعض مقدمات کی تجویز میں‬
‫مسلسل مقدمہ‬

‫ان مقدمات میں جن کی تجویز باب ‪ 20‬یا باب ‪ 22‬کے تحت کسی مجسٹریٹ درجہ‬ ‫(‪1‬‬
‫ایل وا درجہ دوم نے کی ہو اور دفعہ ‪ 514‬کے تحت جملہ کارروائیوں میں (اگر دوران تجویز نہ ہو)‬
‫مجسٹریٹ پر الزم ہوگا کہ ہر گواہ کی شہادت کے خالصہ کی ایک یادداشت‪ ،‬گواہ کا بیان لینے کے‬
‫ساتھ ساتھ رکھے۔‬
‫ویسی یادداشت مجسٹریٹ کے اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ اور دستخط شدہ ہوگی اور‬ ‫(‪2‬‬
‫اسے مثل کا حصہ بنایا جائے گا۔‬
‫اگر مجسٹریٹ حسب تقاضا باال یادداشت تحریر کرنے سے معذور ہو تو وہ اپنی‬ ‫(‪3‬‬
‫معذوری کی وجہ قلمبند کرے گا اور الزمی طور پر ایسی یادداشت کھلی عدالت میں اپنی زبانی‬
‫لکھوائے گا اور اس پر اپنے دستخط کرے گا اور ایسی یادداشت مثل کا حصہ بنے گی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 353‬تا ‪ 355‬میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے مطابق معلوم نہیں ہوتی‪،‬‬
‫لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :356‬دیگر مقدمات میں مسل مقدمہ‬

‫عدالت ہائے سیشن کے روبرو تجویز میں اور باب ‪ 12‬کے تحت تحقیقات میں ہر‬ ‫(‪1‬‬
‫گواہ کی شہادت بذریعہ مجسٹریٹ یا سیشن جج تحریری طور پر عدالت کی زبان میں یا اس کی‬
‫حاضری اور سماعت میں اس کی ذاتی ہدایت اور نگرانی کے تحت قلمبند کی جائے گی اور اس پر‬
‫مجسٹریٹ یا سیشن جج دستخط کریں گے۔‬
‫انگریزی میں دی گئی شہادت‪ :‬جب ویسے گواہ کی شہادت انگریزی میں دی جائے‬ ‫(‪2‬‬
‫تو مجسٹریٹ یا سیشن جج کو اختیار ہوگا کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے اس زبان میں تحریر کرے اور‬
‫سوائے اس کے کہ ملزم انگریزی سے واقف ہو یا عدالت کی زبان انگریزی ہو‪ ،‬ویسی شہادت کا‬
‫عدالت کی زبان میں مصدقہ ترجمہ مسل کا حصہ بنے گا۔‬
‫(‪ A-2‬جب ویسے گواہ کی شہادت کسی اور زبان میں دی جائے‪ ،‬جو انگریزی میں نہ ہو‪،‬‬
‫نہ ہی عدالت کی زبان ہو تو مجسٹریٹ یا سیشن جج اس کو اپنے ہاتھ سے اسی زبان میں تحریر کر‬
‫سکتا ہے یا اپنے روبرو اپنی سماعت میں اور اپنی ذاتی ہدایت اور نگرانی میں تحریر کروا سکتا ہے‬
‫اور ویسی شہادت کا عدالت کی زبان میں یا انگریزی میں مصدقہ ترجمہ مسل کا حصہ بنے گا۔‬
‫اس صورت میں یادداشت جبکہ مجسٹریٹ یا سیشن جج نے شہادت خود قلمبند نہ کی‬ ‫(‪3‬‬
‫ہو‪ :‬جس مقدمہ میں مجسٹریٹ یا سیشن جج شہادت کو تحریری طور پر قلم بند نہ کرے تو اس پر‬
‫الزم ہوگا کہ جوں جوں ہر گواہ کا بیان ہوتا جائے جو کچھ ایسا گواہ بیان کرے‪ ،‬اس کے خالصہ کی‬
‫ایک یادداشت لکھتا جائے اور ایسی یادداشت مجسٹریٹ یا سیشن جج اپنے ہاتھ سے تحریر کرے گا‬
‫اور دستخط کرے گا اور مسل کا حصہ بنے گی۔‬
‫اگر مجسٹریٹ یا سیشن جج حسب تقاضا باال یادداشت تحریر کرنے سے معذور ہو تو‬ ‫(‪4‬‬
‫اسے اپنی معذوری کی وجہ قلم بند کرنا ہوگی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :357‬شہادت کی زبان اور مسل‬

‫صوبائی حکومت ہدایت کرنے کی مجاز ہے کہ کسی ضلع یا حصہ ضلع میں یا کسی‬ ‫(‪1‬‬
‫عدالت سیشن کے روبرو یا کسی مجسٹریٹ یا کسی درجہ کے مجسٹریٹ کے روبرو کارروائی میں‬
‫ہر گواہ کی شہادت الزمی طور پر‪ ،‬ان مقدمات میں‪ ،‬جن کا حوالہ ‪ 356‬میں دیا گیا ہے‪ ،‬سیشن جج یا‬
‫مجسٹریٹ اپنے ہاتھ سے اور اپنی مادری زبان میں تحریر کرے گا‪ ،‬سوائے اس کے کہ وہ معقول‬
‫وجہ سے کسی گواہ کی شہادت خود قلم بند کرنے کے قابل نہ ہو‪ ،‬ایسی صورت میں وہ ایسا نہ‬
‫کرسکنے کی وجہ قلم بند کرے گا اور کھلی عدالت میں شہادت خود بول کر تحریر کرائے گا۔‬
‫اس طور پر قلم بند کی گئی شہادت پر سیشن جج یا مجسٹریٹ کے دستخط ثبت ہوں‬ ‫(‪2‬‬
‫گے اور مسل کا حصہ بنے گی‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ صوبائی حکومت سیشن جج یا مجسٹریٹ کو ہدایت کرنے کی مجاز ہوگی کہ‬
‫شہادت انگریزی زبان میں یا عدالت کی زبان میں‪ ،‬چاہے ویسی زبان اس کی مادری زبان نہ ہو‪ ،‬قلم‬
‫بند کی جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :358‬دفعہ ‪ 355‬کے تحت مقدمات میں مجسٹریٹ کی صوابدید‬

‫دفعہ ‪355‬میں متذکرہ قسم کے مقدمات میں مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ اگر وہ مناسب سمجھے تو کسی‬
‫گواہ کا بیان دفعہ ‪ 356‬میں محکوم طریقہ پر تحریر کرے یا اگر ویسے مجسٹریٹ کے اختیار کی‬
‫مقامی حدود کے اندر صوبائی حکومت نے دفعہ ‪ 357‬میں محولہ حکم دیا ہو تو اسی دفعہ میں‬
‫محکوم طریقہ کے مطابق۔‬
‫مذکورہ دفعات ‪ 356‬تا ‪ 358‬میں کہا گیا ہے کہ عدالت کا ریکارڈ انگریزی زبان میں‬ ‫تبصرہ‪:‬‬
‫ہوگا جبکہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے۔ لہٰ ذا ساری عدالتی کارروائی اور عدالتی ریکارڈ اُردو‬
‫میں ہونا چاہئے تاکہ تمام متعلقہ افراد کو سمجھنے میں آسانی ہو۔‬

‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬نظریاتی کونسل نے اس بارے میں درج ذیل سفارش کی ہے‪:‬‬
‫’’کونسل سفارش کرتی ہے کہ شہادت اور دیگر ریکارڈ انگریزی کی بجائے پاکستان کی‬
‫قومی زبان اُردو میں رکھنے کیلئے ان دفعات میں مناسب ترمیم کی جائے۔ (‪)104‬‬
‫‪2000‬ء میں کونسل نے اس تجویز میں مزید اضافہ کیا اور دوبارہ غور وخوض کے بعد‬
‫درج باال رائے سے جزوی اختالف کرتے ہوئے دفعہ ‪ 356‬کے ضمن (‪ )2‬کے آخر میں موجود الفاظ‬
‫"‪ "or in English‬یا ’’انگریزی میں‘‘ کے بعد الفاظ اور دفعہ ‪ 357‬کے ضمن (‪ )2‬کے آخر کے‬
‫الفاظ "‪ "in the English language or‬انگریزی زبان میں یا کے بعد کے الفاظ کو حذف کرنے‬
‫اور ان کی جگہ مندرجہ ذیل الفاظ لکھنے کی سفارش کی‪:‬‬
‫‪.Urdu or in the language understaood by the accused‬‬
‫’’اُردو یا وہ زبان جسے ملزم سمجھتا ہو‘‘۔ (‪)105‬‬
‫یہی سفارش کونسل پہلے ہی دفعہ (‪ 221)2‬کے ضمن میں کر چکی ہے۔‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪:‬‬
‫نظریاتی کونسل کی تجویز کردہ ترامیم کی جانی چاہئیں۔‬ ‫(‪i‬‬
‫دفعہ نمبر ‪ 357‬کی شق نمبر ‪ 2‬اور ‪ 358‬میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت سیشن‬ ‫(‪ii‬‬
‫جج یا مجسٹریٹ کو ہدایت کی مجاز ہوگی کہ وہ انگریزی یا عدالتی زبان میں شہادت قلمبند کرے۔‬
‫تبصرہ‪ :‬جبکہ عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کے بعد یہ اختیار صوبائی چیف جسٹس کا ہے کہ وہ‬
‫ماتحت عدالتوں اور ان کے عہدیداروں کو ہدایات دے۔ لہٰ ذا اس دفعہ میں ’’صوبائی حکومت‘‘ کے‬
‫بجائے ’’صوبائی چیف جسٹس‘‘ درج کیا جانا چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :359‬دفعہ ‪ 356‬یا دفعہ ‪ 357‬کے تحت شہادت قلم بند کرنے کا طریقہ‬

‫دفعہ ‪ 356‬یا دفعہ ‪ 357‬کے تحت لی گئی شہادت بالعموم سوال و جواب کی شکل میں‬ ‫(‪1‬‬
‫تحریر نہ ہوگی بلکہ بیانیہ انداز میں ہوگی۔‬
‫سیشن جج یا مجسٹریٹ کو اختیار ہے کہ اپنی صوابدید کے مطابق خاص سوال و‬ ‫(‪2‬‬
‫جواب قلم بند کرے یا کرائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :360‬ایسی شہادت کے مکمل ہونے پر ضابطہ‬


‫جب دفعہ ‪ 356‬یا دفعہ ‪ 357‬کے تحت لی گئی شہادت مکمل ہو جائے تو اسے الزمی‬ ‫(‪1‬‬
‫طور پر ملزم کی حاضری‪ ،‬اگر حاضر ہو یا اس کے وکیل کی‪ ،‬اگر وہ وکالتا ً حاضر ہو‪ ،‬اس کو پڑھ‬
‫کر سنایا جائے گا اور اگر ضروری ہو تو اس کی درستی کی جائے گی۔‬
‫اگر گواہ کسی حصہ کی صحت کے متعلق انکار کرے جبکہ یہ اس کو پڑھ کر سنایا‬ ‫(‪2‬‬
‫جائے‪ ،‬تو مجسٹریٹ یا سیشن جج مجاز ہوگا کہ شہادت کو درست کرنے کی بجائے گواہ کے اس پر‬
‫کئے گئے اعتراض کی یادداشت بنائے اور ایسی تصریح ایزاد کرے جو وہ ضروری سمجھے۔‬
‫اگر شہادت اس زبان سے مختلف کسی زبان میں تحریر کی گئی ہو‪ ،‬جس میں دی‬ ‫(‪3‬‬
‫گئی اور گواہ اس زبان کو نہیں سمجھتا جس میں تحریر کی گئی تو اس طرح لی گئی شہادت‪ ،‬اس‬
‫زبان میں جس میں لی گئی تھی‪ ،‬یا اس ضامن میں جسے وہ سمجھتا ہو‪ ،‬اسے ترجمہ کرکے بتائی‬
‫جائے گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :361‬ملزم یا اس کے وکیل کو شہادت کا ترجمہ سنانا‬

‫جب کبھی شہادت ایسی زبان میں دی جائے جسے ملزم نہ سمجھتا ہو اور وہ خود‬ ‫(‪1‬‬
‫حاضر ہو تو کھلی عدالت میں اس کو اس کا ترجمہ اس زبان میں سنایا جائے گا جس کو وہ سمجھتا‬
‫ہو۔‬
‫اگر وہ وکالتا ً حاضر ہو اور شہادت عدالتی زبان کے عالوہ کسی اور زبان میں دی‬ ‫(‪2‬‬
‫گئی ہو‪ ،‬جس کو وکیل نہ سمجھتا ہو تو ویسے وکیل کو اس زبان میں اس کا ترجمہ سنایاجائے گا۔‬
‫جب دستاویزات باقاعدہ ثبوت کے طور پر پیش کی جائیں‪ ،‬تو یہ عدالت کی صوابدید‬ ‫(‪3‬‬
‫پر منحصر ہوگا کہ اس میں سے اتنے کا ترجمہ سنائے جتنا کہ ضروری معلوم ہو۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ان دفعات ‪ 361 ،360 ،359‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪،‬‬
‫لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :362‬بذریعہ ترمیمی آرڈیننس بابت ‪1949‬ء حذف ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :363‬گواہ کے رویہ کے متعلق تصریح‬

‫جب کوئی سیشن جج یا مجسٹریٹ کسی گواہ کا بیان قلم بند کر چکے تو وہ ایسے زیر شہادت گواہ‬
‫کے رویہ کی نسبت ایسی تصریح بھی قلم بند کرے گا جو وہ اہم تصور کرے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :364‬ملزم کا بیان کس طور پر قلم بند کیا جائے گا‬
‫جب کبھی کوئی مجسٹریٹ یا عدالت عالوہ عدالت عالیہ کے ملزم کا بیان لے تو ایسا‬ ‫(‪1‬‬
‫تمام بیان مع ہر سوال کے جو اس سے پوچھا جائے اور جواب کے جو اس نے دیا ہو ‪ ،‬مکمل طور‬
‫پر اس زبان میں جس میں اس کا بیان لیا گیا ہو‪ ،‬قلم بند کیا جائے گا اور اگر وہ ممکن نہ ہو تو عدالت‬
‫کی زبان میں یا انگریزی میں تحریر ہوگا اور ایسی قلم بندی اس کو دکھائی جائے گی یا سنائی جائے‬
‫گی یا اگر وہ اس زبان کو سمجھتا ہو جس میں تحریر ہوا تو اس کو اس کا ترجمہ اس زبان میں سنایا‬
‫جائے گا جو وہ سمجھتا ہو اور اس کو اجازت ہوگی کہ اپنے جوابات کی وضاحت کرے یا اس میں‬
‫اضافہ کرے۔‬
‫جب تمام اس بیان کے موافق کردیا جائے جس کو وہ سچ ظاہر کرتا ہے۔ تب اس‬ ‫(‪2‬‬
‫تحریر پر ملزم اور ویسی عدالت کے مجسٹریٹ یا جج کے دستخط ثبت ہوں گے اور ویسا مجسٹریٹ‬
‫یا جج اپنے ہاتھ سے اس امر کی تصدیق کرے گا کہ بیان اس کی موجودگی اور سماعت میں دیا گیا‬
‫ہے اور یہ کہ تحریر مذکور میں ملزم کے دیئے ہوئے بیان کی درست اور مکمل کیفیت شامل ہے۔‬
‫ایسے مقدمات جن میں ملزم کا بیان مجسٹریٹ یا جج بذات خود قلم بند نہ کرے تو اس‬ ‫(‪3‬‬
‫پر الزم ہوگا کہ جوں جوں بیان لیا جائے اس کی بابت یادداشت عدالتی زبان یا انگریزی میں تحریر‬
‫کرے۔ اگر وہ موخر الذکر زبان سے کافی واقف ہو اور ویسی یادداشت مجسٹریٹ یا جج اپنے ہاتھ‬
‫سے تحریر کرے گا اور اس پر اپنے دستخط ثبت کرے گا اور اسے شامل مثل کیا جائے گا۔ اگر‬
‫مجسٹریٹ یا جج حسب تقاضا باال یادداشت تحریر کرنے سے معذور ہو تو اس پر الزم ہوگا کہ وہ‬
‫ایسی معذوری کی وجہ قلمبند کرے۔‬
‫دفعہ ہذا میں کوئی امر کسی ملزم کے بیان تحت دفعہ ‪ 263‬پر اطالق پذیر نہ ہوگا۔‬ ‫(‪4‬‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر‪ 1‬اور شق نمبر‪ 3‬میں ملزم کا بیان انگریزی زبان یا عدالتی زبان میں‬
‫ریکارڈ کرنے کی ہدایات ہیں جبکہ دفعہ نمبر ‪ 221‬اور دفعہ ‪ 357 ,256‬کے تحت یہ سفارش کی جا‬
‫چکی ہے کہ ملزم کا بیان اور عدالتی ریکارڈ پاکستان کی قومی زبان اُردو میں ہونا چاہئے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬درجِ باال تجویز کے مطابق دفعہ ہذا میں ترامیم عمل میں الئی جانی چاہئیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :365‬عدالت عالیہ میں شہادت کی مثل‬

‫الزم ہے کہ ہر عدالت عالیہ وقتا ً فوقتا ً بذریعہ قاعدہ عام ان مقدمات میں جو عدالت کے سامنے پیش‬
‫ہوں‪ ،‬شہادت لینے کا طریقہ کار مقرر کرے اور شہادت ایسے قاعدہ کے مطابق تحریر کی جائے‬
‫گی۔‬

‫اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬ ‫تبصرہ‪:‬‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫(باب نمبر ‪)26‬‬


‫فیصلہ کی بابت‬
‫دفعہ نمبر ‪ :366‬فیصلہ سنانے کا طریقہ‬

‫ابتدائی سماعت کی کسی فوجداری عدالت میں ہر تجویز مقدمہ کا فیصلہ سنایا جائے‬ ‫(‪1‬‬
‫گا یا ایسے فیصلہ کے خالصہ کی وضاحت کی جائے گی‪:‬‬
‫کھلی عدالت میں یا تو تجویز مقدمہ کے اختتام کے فوری بعد یا بعد‬ ‫(‪a‬‬
‫میں کسی وقت‪ ،‬جس کی فریقین کو یا ان کے وکیل کو اطالع دی جائے گی‪ ،‬اور‬
‫عدالت کی زبا میں یا کسی دیگر زبان میں جو ملزم یا اس کا وکیل‬ ‫(‪b‬‬
‫سمجھتا ہو‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ اجالس کنندہ جج سارا فیصلہ پڑھ کر سنائے گا‪ ،‬اگر‬
‫منجانب استغاثہ یا صفائی اس سے ایسا کرنے کی استدعا کی جائے۔‬
‫ملزم‪ ،‬اگر زیر حراست ہو‪ ،‬تو پیش کیا جائے گا اور اگر حراست میں نہ ہو تو عدالت‬ ‫(‪2‬‬
‫اسے حاضر ہونے کا حکم دے گی تاکہ صادر کردہ فیصلہ کو سنے۔ سوائے اس صورت کے جب کہ‬
‫تجویز کے دوران اس کی ذاتی حاضری معاف کر دی گئی ہو اور سزا صرف جرمانہ کی ہو یا اسے‬
‫بری کردیا گیا ہو۔ ان ہر دو صورتوں میناسے اس کے وکیل کی حاضری میں سنایا جا سکتا ہے۔‬
‫کوئی فیصلہ جو کسی فوجداری عدالت نے صادر کیا ہو‪ ،‬صرف اس بنا پر باطل‬ ‫(‪3‬‬
‫تصور نہ ہوگا کہ کوئی فریق یا اس کا وکیل اس تاریخ یا مقام پر جس کی اطالع فیصلہ سنانے کیلئے‬
‫دی گئی تھی‪ ،‬حاضر نہ تھا یا فریقین کو یا ان کے وکالء کو یا ان میں سے کسی کو اس تاریخ یا مقام‬
‫کی بابت اطالع دینے میں فروگزاشت ہوئی ہو یا اطالع یابی میں کوئی نقص رہ گیا ہو۔‬
‫دفعہ ہذا میں کسی امر سے دفعہ ‪ 537‬کے احکام کی وسعت کا کسی طور پر محدود‬ ‫(‪4‬‬
‫ہونا نہ سمجھا جائے گا۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ عدالت میں پیش ہونیوالے ہر مقدمے کا فیصلہ کیا‬
‫اسالمی ٔ‬
‫جائے گا۔‬
‫فیصلے کے بارے میں فقہاء اسالم نے درج ذیل تصریحات کی ہیں‪:‬‬
‫اگر مدعی مطالبہ کرے تو جج فیصلہ پڑھ کر سنائے گا۔ ملزم بوقت فیصلہ حاضر کیا جائے‬
‫گا‪ ،‬حراست میں نہ ہو تو عدالت اس کی حاضری کا حکم دے گی۔ عدالت ذاتی حاضری معاف کردے‬
‫حاضر عدالت نہ ہوسکا اور‬
‫ِ‬ ‫تو وکیل کی حاضری میں فیصلہ سنایا جا سکتا ہے۔ اگر دوسرا فریق‬
‫فیصلہ سنا دیا تو فیصلہ ٹھیک ہوگا۔ کسی فریق کی عدم حاضری سے باطل نہ ہوگا۔‬
‫’’جب گواہیاں سن لی گئیں اور مقدمہ کی سماعت میں سے کوئی چیز باقی نہ ہو تو قاضی پر‬
‫واجب ہے کہ وہ اپنے فیصلے کا اعالن کردے‘‘۔ (‪)106‬‬
‫فیصلہ کے بارے میں ’’مجلہ احکام عدلیہ‘‘ میں یہ تفصیالت درج ہیں‪:‬‬ ‫(‪2‬‬
‫فیصلہ کے وقت طرفین مقدمہ کا اجالس پر حاضر ہونا ضروری ہے‪ ،‬یعنی عدالتی کارروائی‬
‫کی تکمیل کے بعد جب فیصلہ سنایا جائے گا‪ ،‬اس وقت طرفین کا حاضر ہونا الزمی ہے لیکن اگر‬
‫دعوی کیا ہو اور مدعا علیہ نے اقرار کرلیا ہے‪ ،‬اس کے بعد حاکم کے حکم دینے کے وقت‬
‫ٰ‬ ‫کسی نے‬
‫اگر مدعا علیہ موجود نہ ہو تو حاکم اس کے اقرار کی بناء پر اس کی عدم موجودگی میں بھی فیصلہ‬
‫سنا سکتا ہے۔ اِسی طرح اگر مدعا علیہ نے انکار کیا ہے اور مدعی نے دالئل وشواہد پیش کردیئے‪،‬‬
‫اس کے بعد مدعا علیہ شواہد کی تنقیح اور فیصلہ سے قبل غیر حاضر ہو جائے تو حاکم اس کی عدم‬
‫موجودگی میں فیصلہ دے دے گا۔ (‪)107‬‬
‫اسی طرح مدعا علیہ کے وکیل کی موجودگی میں مدعی نے جو شواہد پیش کئے ہیں‪ ،‬ان کی‬
‫بناء پر مدعا علیہ کے خالف فیصلہ سنایا جا سکتا ہے اور اس طرح اس کے برعکس جو دالئل‬
‫وشواہد مدعا علیہ کے سامنے پیش ہو چکے ہیں‪ ،‬ان کی بناء پر مدعا علیہ کے وکیل کی موجودگی‬
‫میں حاکم فیصلہ دے سکتا ہے۔ (‪)108‬‬
‫اسی طرح حاکم کی طرف سے مدعا علیہ کو طلب کیا جائیگا‪ ،‬اگر مدعا علیہ عدالت میں‬
‫حاضری یا اپنے وکیل کے بھیجنے سے پہلو تہی اختیار کرے تو اسے جبرا ً حاضر عدالت کیا جائے‬
‫گا۔ (‪)109‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوتا ہے کہ فقہائے اسالم نے اسالم کے عدالتی نظام کی‬
‫مکمل تفصیالت پہلے ہی بیان کردی ہیں اور شریعت کے احکام کو بالکل واضح کردیا ہے تاکہ اس‬
‫نظام سے کماحقہ استفادہ کیا جا سکے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس میں‬
‫ترمیم کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :367‬فیصلہ کی زبان‪ ،‬فیصلہ کے مندرجات‬

‫الزمی ہے کہ ایسا ہر فیصلہ‪ ،‬سوائے اس کے کہ مجموعہ ہذا سے کوئی برعکس‬ ‫(‪1‬‬


‫صریح حکم کیا گیا ہو‪ ،‬عدالت کا افسر جلیس تحریر کرے گا یا ایسے افسر کے لکھوانے پر عدالت‬
‫کی زبان میں یا انگریزی میں تحریر ہوگا اور اس میں تصفیہ طلب امر یا امور‪ ،‬ان پر فیصلہ اور‬
‫فیصلہ کی وجوہ درج ہوں گی اور افسر جلیس کھلی عدالت میں اسے سناتے وقت اس پر تاریخ ڈالے‬
‫گا اور دستخط ثبت کرے گا اور جب افسر جلیس نے اسے اپنے ہاتھ سے تحریر نہ کیا ہو تو وہ‬
‫ایسے فیصلہ کے ہر صفحہ پر دستخط کرے گا۔‬
‫ت پاکستان کی یا‬
‫اس فیصلے میں اس جرم کی (اگر کوئی ہو) اور مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪2‬‬
‫دیگر قانون کی دفعہ جس کے تحت ملزم کو سزا یاب کیا گیا‪ ،‬اور سزا جو اسے دی گئی‪ ،‬کی‬
‫صراحت کی جائے گی۔‬
‫ت پاکستان کے تحت ہو اور اس امر کی‬
‫متبادل فیصلہ‪ :‬جب سزایابی مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪3‬‬
‫نسبت شبہ ہو کہ ویسا جرم اس مجموعہ کی دو دفعات میں سے کس قدر یا اسی دفعہ کے دو جزوں‬
‫میں سے کس جزو کے تحت آتا ہے تو عدالت پر الزم ہوگا کہ وہ واضح طور پر اس کو بیان کرے‬
‫اور متبادل فیصلہ صادر کرے۔‬
‫اگر وہ بریت کا فیصلہ ہو تو الزمی طور پر اس جرم کو بیان کرے جس سے ملزم‬ ‫(‪4‬‬
‫کو بری یا گیا اور یہ ہدایت کرے گا کہ ملزم کو آزاد کیا جائے۔‬
‫اگر ملزم کو کسی ایسے جرم میں سزا یاب کیا جائے جس کی سزا موت ہو اور‬ ‫(‪5‬‬
‫عدالت اسے موت کے عالوہ کوئی اور سزا دے تو عدالت اپنے فیصلہ میں الزمی طور پر وجہ‬
‫تحریر کرے گی کہ سزائے موت کیوں نہیں دی گئی۔‬
‫شرط‪ :‬قانونی اصالحات کے قانون (‪ )XII of 1972‬سے حذف ہوئی۔‬
‫دفعہ ہذا کے اغراض کیلئے دفعہ ‪ 118‬یا دفعہ ‪ 12‬ضمنی دفعہ (‪ )3‬کے تحت کوئی‬ ‫(‪6‬‬
‫حکم ایک فیصلہ متصور ہوگا۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ افسر جلیس عدالتی یا انگریزی زبان میں فیصلہ تحریر کرے‬
‫گا۔ فیصلہ میں مقدمہ کی تمام تفصیالت اور فیصلہ کی وجوہات درج ہونگی۔ افسر جلیس فیصلہ‬
‫عدالت میں پڑھ کر سنائے گا۔ اس پر دستخط کرکے تاریخ درج کرے گا۔‬
‫فتاوی عالمگیری میں ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس بارے میں‬
‫اسالمی ٔ‬
‫’’قاضی یا اس کا کاتب فیصلے کی تحریر تیار کرے گا‪ ،‬اس میں مقدمے کی تمام تفصیالت‬ ‫(‪1‬‬
‫اور سارے پہلوئوں کا ذکر کیا جائے گا‪ ،‬فریقین مقدمہ کا ذکر ہوگا‪ ،‬اس دستاویز کو فقہاء کرام نے‬
‫’’المحضر‘‘ کا نام دیا ہے اور اگر المحضر کے ساتھ فیصلہ بھی شامل ہو تو اسے ’’السجل‘‘ کہتے‬
‫ہیں۔ اس تحریر کی تیاری میں ضروری ہوگا کہ اس پر عدالت کی مہر لگائی جائے‪ ،‬اس پر تاریخ‬
‫درج کی جائے اور ساتھ ہی مقدمے کے فریقین کا نام بھی ذکر کیا جائے۔ (‪)110‬‬
‫محمود عرنوس لکھتے ہیں کہ قاضی پیش کار کو اپنے سامنے بٹھا کر مقدمے کی کارروائی‬
‫قلمبند کرائے کیونکہ احتیاط کا تقاضا یہی ہے۔ فریقین اور گواہوں کے بیانات لکھنے کے بعد وہ‬
‫انہیں بلند آواز سے پڑھ کر سنائے تاکہ غلطی کا امکان نہ رہے۔ آخر میں قاضی اپنے دستخط ثبت‬
‫کردے۔ (‪)111‬‬
‫قاضی شمس االسالم اوز جندی کہتے تھے کہ قاضی کو فیصلہ کا اعالن یوں کرنا چاہئے‪:‬‬ ‫(‪2‬‬
‫’’میں یہ فیصلہ کرتا ہوں‪ ،‬میں یہ حکم دیتا ہوں یا میں یہ فیصلہ نافذ کرتا ہوں‘‘۔ (‪)112‬‬
‫سرخسی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬
‫ثم یطویھا ویخرمھا ویختمھا بخاتمۃ للتوثق کیال یزاد فیھا (‪)113‬‬
‫’’(بیان مکمل ہو جانے کے بعد) فر ِد بیان کو بیان دینے والے کے سامنے پیش کردیا جائے‪،‬‬
‫وہ اسے پڑھ کر دستخط کردے‪ ،‬اس کے نیچے قاضی اپنے توثیقی دستخط کردے تاکہ اس میں‬
‫زیادتی نہ ہو سکے‘‘۔‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ موجودہ ضابطہ فوجداری جو باتیں درج کی گئی ہیں۔‬
‫فقہائے اسالم نے اس سے بہت پہلے اور بہت بہتر انداز میں یہ تمام تفصیالت بیان کر دی ہیں اور ہر‬
‫لحاظ سے ایک مکمل عدالتی نظام روشناس کرایا ہے۔‬
‫اس شق میں یہ بھی مذکور ہے کہ فیصلہ عدالتی زبان یا انگریزی میں لکھا جائے گا۔‬
‫اس سلسلے میں دفعہ ‪ 356 ،221‬اور ‪ 357‬کے تحت یہ تجویز دی جا چکی ہے کہ پاکستان‬
‫کی قومی زبان اُردو ہے‪ ،‬لہٰ ذا عدالتی زبان اُردو ہونی چاہئے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ کی تمام شقوں میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪،‬‬
‫لہٰ ذا ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :368‬سزائے موت‬

‫جب کسی شخص کو موت کی سزا کا حکم دیا جائے تو حکم سزا میں یہ ہدایت دی‬ ‫(‪1‬‬
‫حتی کہ اس کا دم نکل جائے۔‬
‫جائے گی کہ اس کو گردن سے لٹکایا جائے ٰ‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ جب کسی شخص کو سزائے موت دی جائے تو ہدایت کی‬
‫حتی کہ اس کا دم نکل جائے۔‬
‫جائے کہ اسے گردن سے لٹکایا جائے‪ٰ ،‬‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالم میں کسی انسان کو گردن سے لٹکا کر مار دینا انسانیت کے شرف‬
‫اسالمی ٔ‬
‫وبزرگی کے خالف ہے۔‬
‫تعالی نے فرمایا‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫َولَقَ ْد ک ََّر ْمنَا بَنِی آدَ َم (‪)114‬‬
‫’’اور م نے بنی آدم کو عزت دی ہے‘‘۔‬
‫لہٰ ذا اگر کسی کی جان لینی ہی پڑے تو احسن طریقہ سے لی جائے‪ ،‬حضور اکرم ﷺ نے‬
‫فرمایا ہے‪:‬‬
‫تعالی کتب االحسان علی کل شی فاذا قتلتم فاحسنوا القتلۃ واذا ذبحتم فاحسنوا الذبحۃ‬
‫ٰ‬ ‫ان اہللا‬
‫ولیحد احدکم شغرتہ‪ ،‬ولیرح ذبیحتہ (‪)115‬‬
‫تعالی نے ہر چیز پر احسان فرض کیا ہے‪ ،‬پس کسی کو قتل کرو تو اچھے طریقے سے‬
‫ٰ‬ ‫’’ہللا‬
‫قتل کرو اور جب جانور ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو‪ ،‬ذبح کرنیواال چھری تیز کرے اور‬
‫ذبیحہ کو راحت دے‘‘۔‬
‫اس حدیث کی روشنی میں ڈاکٹر احمد فتحی لکھتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نے سلیقہ سے قتل‬
‫کرنے اور حالل جانوروں کو بوقت ذبح راحت پہنچانے کا حکم دیا ہے تو انسان جو کہ نہایت شرف‬
‫و احترام رکھتا ہے اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ (‪)116‬‬
‫نیز حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہے‪:‬‬
‫ال قود اال بالسیف (‪)117‬‬
‫’’قصاص نہیں ہے مگر تلوار کے ذریعے‘‘۔‬
‫ایک روایت میں ہے‪:‬‬
‫ال قود اال بالحدید (‪)118‬‬
‫’’قصاص نہیں ہے مگر لوہے کے ذریعے‘‘۔‬
‫ایک روایت میں ہے‪:‬‬
‫ال قود اال بالسالح (‪)119‬‬
‫’’قصاص نہیں ہے مگر ہتھیار کے ذریعے‘‘۔‬
‫سیوطی کہتے ہیں کہ مجرم کی گردن پر تیز تلوار سے وار کیا جائے‪ ،‬کند یا زہر آلود تلوار‬
‫ؒ‬
‫استعمال نہ کی جائے۔ (‪)120‬‬
‫کرام کہتے ہیں کہ قصاص لینے کے لئے سب سے موثر آلہ تلوار ہے‪ ،‬قصاص لینے‬ ‫ؒ‬ ‫فقہائے‬
‫الصلوۃ والسالم کا مقصد‬
‫ٰ‬ ‫میں تلوار اور مہلک ہتھیار کی تخصیص سے واضح ہوتا ہے کہ شارع علیہ‬
‫جرم کرنے والے کو ایذا پہنچانا نہیں ہے بلکہ جرم کی سزا میں قتل کرکے دوسروں کو عبرت دالنا‬
‫ہے۔ (‪)121‬‬
‫نیز تلوار سے قتل کرنے میں قتل یقینی ہوتا ہے‪ ،‬ایک لمحہ میں گردن کٹی اور وح کا تعلق‬
‫جسم سے جدا ہو گیا‪ ،‬کسی دوسری چیز سے قتل کرنے میں قتل اتنا یقینی اور آسان نہیں ہوتا۔ (‪)122‬‬
‫جصاص کہتے ہیں کہ قصاص سے مراد ہر ممکن آسان طریقے سے مجرم کی جان کا‬
‫ؒ‬
‫اتالف ہے جو کہ تلوار ہی سے ممکن ہے۔(‪)123‬‬
‫غزالی اسالم کے فلسفہ جرم وسزا کے بارے میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬
‫’’حصول منفعت اور دفع مضرت مقاصد تخلیق ہیں۔ مخلوقات کی بہتری ان کے مقاصد کے‬
‫حصول میں ہے۔ مصلحت سے مراد شریعت کے پیش نظر مخلوقات کے پانچ مقاصد ہیں۔ دین‪ ،‬نفس‪،‬‬
‫عقل‪ ،‬نسل اور مال کا تحفظ۔ جو امر ان پانچ مقاصد کی حفاظت کرے وہ اور جو انہیں نقصان‬
‫پہنچائے وہ مفسدہ ہے‪ ،‬اور اس کو دور کرنا بھی مصلحت ہے‘‘۔(‪)124‬‬
‫شاطبی لکھتے ہیں کہ مندرجہ باال پانچ مصالح انسانی پر تعدی سے تحفظ فراہم کرنا اسالمی‬
‫ؒ‬
‫جرم وسزا کی اصل روح ہے۔ یعنی مسلم معاشرہ کو ان مقاصد خمسہ پر تعدی کے جرائم سے پاک‬
‫کاسانی نے تو واضح طور پر کہہ‬
‫ؒ‬ ‫نظام حدود و تعزیرات کا حقیقی مقصد ہے۔ (‪)125‬‬
‫ِ‬ ‫رکھنا اسالمی‬
‫ق خدا کو شریر‬ ‫دیا کہ اسالمی شریعت میں سزا کا مقصد لوگوں کی ایذا رسانی نہیں ہے بلکہ مخلو ِ‬
‫عناصر سے محفوظ رکھنا ہے۔‬
‫اال نزرجار عما یتضرر بہ العباد (‪)126‬‬
‫اور سزا کا دوسرا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔‬
‫کی التصیر ملکات فیفحش ویستدرج الی ماھوا قبح (‪)127‬‬
‫’’تاکہ انسان میں ایسا ملکہ راسخ نہ ہوتا چال جائے کہ وہ فحش اور قبیح حرکات کرنے‬
‫لگے‘‘۔‬
‫ق نفاذ کے بارے میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫اسالمی عقوبات کے فلسفہ اور طری ِ‬
‫بطور رحمت اور احسان جاری کی گئی ہیں‪ ،‬لہٰ ذا سزا دینے‬
‫ِ‬ ‫’’سزائیں دینے کی طرف سے‬
‫واالے کیلئے بھی ناگزیر ہے کہ وہ مجرم کو سزا دینے میں احسان اور رحمت ملحوظ رکھے‪،‬‬
‫جیسے باپ اپنے بچے کی تادیب کرتا ہے اور طبیب اپنے مریض کا عالج کرتا ہے‘‘۔ (‪)128‬‬
‫عودہ اسالمی سزائوں کا فلسفہ یوں بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫عبدالقادر‬
‫’’عقوبت وہ بدلہ ہے جو شارع (خدا اور رسول ﷺ) کی نافرمانی کرنے پر اجتماعی مفاد کی‬
‫خاطر مقرر کیا گیا ہو‪ ،‬جس کا مقصد انسانی معاشرے کی اصالح‪ ،‬انسانوں کو بُرائیوں سے نجات‬
‫دالنا‪ ،‬جہالت سے بچانا‪ ،‬گمراہی سے نکالنا‪ ،‬معاصی سے روکنا اور آمادۂ اطاعت کرنا ہے او راس‬
‫کے ذریعے اصالحِ افراد اور جماعت اور جماعتی نظام کو بحال رکھنا ہے‘‘۔ (‪)129‬‬
‫ت باال سے واضح ہوا کہ اسالم میں سزائوں کا مقصد‬ ‫جدید اور قدیم فقہائے اسالم کی تصریحا ِ‬
‫انفرادی طور پر اذیت دینا نہیں ہے بلکہ ان کے ذریعے افرا ِد معاشرہ کو عبرت دالنا ہوتا ہے اور‬
‫کسی کو لٹکا کر اس کی جان لینا اذیت ناک موت ہے‪ ،‬جس سے شریعت اسالمیہ کے مطلوبہ مقاصد‬
‫کماحقہ پورے نہیں ہوتے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی رائے‪ :‬سزائے موت بذریعہ پھانسی کے بارے میں نظریاتی کونسل کی‬
‫رائے درجِ ذیل ہے‪:‬‬
‫’’سزائے موت کے لئے ایسا طریقہ اختیار کیا جانا چاہئے‪ ،‬جس میں تکلیف کم ہو‪ ،‬زیادہ تر‬
‫اسالمی سزائیں سد ذریعہ کے طور پر دی جاتی ہیں‪ ،‬اسالم میں سزائوں کا مقصد اس شخص کو‬
‫نشان عبرت بنانا نہیں بلکہ جرم کو روکنا ہے‘‘۔‬
‫ِ‬
‫عودہ کی رائے سے کونسل اتفاق کرتی ہے جو درجِ ذیل ہے۔‬
‫ؒ‬ ‫اس بارے میں عبدالقادر‬
‫قصاص کے لئے تلوار کو ہتھیار کے طور پر اس لئے اختیار کیا گیا تھا کہ یہ مجرم کی جان‬
‫لینے میں تیز تر تھی‪ ،‬اس سے مجرم کو کم از کم تکلیف ہوتی ہے‪ ،‬اگر اس سے تیز تر آلہ پایا‬
‫جائے‪ ،‬مثالً الیکٹرک چیئر یا گلوئین‪ ،‬تو اس کے ذریعے سزائے موت دینا جائز ہے۔ (‪)130‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں مجرم کو لٹکا کر سزائے موت دینا اسالمی تعلیمات کے منافی ہے۔‬
‫اس سلسلے میں نظریاتی کونسل نے بھی یہی رائے دی ہے کہ جان لینے کے لئے تیز تر ذریعے کو‬
‫استعمال کیا جائے۔ لہٰ ذا اس دفعہ میں مناسب ترمیم کی جانی چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :369‬عدالت فیصلہ تبدیل نہ کرے‬

‫سوائے اس کے مجموعہ ہذا سے یا کسی دیگر قانون نافذ الوقت سے یا عدالت عالیہ کی صورت‬
‫میں‪ ،‬ایسی عدالت عالیہ کی سند مراعات (لیٹر پیٹنٹ) سے‪ ،‬اس کے برعکس محکوم ہو‪ ،‬کوئی‬
‫عدالت‪ ،‬جب اس نے اپنے فیصلہ پر دستخط کردیئے ہوں‪ ،‬ماسوا سہو قلم کی درستی کے‪ ،‬اس کو‬
‫تبدیل یا اس پر نظرثانی نہیں کرے گی۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ جب کوئی عدالت اپنے فیصلے پر دستخط کردے‪ ،‬تو سہو قلم‬
‫کی درستی کے سوا اس کو تبدیل یا اس پر نظرثانی نہیں کریگی۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس اصول کی روشنی میں اگر قاضی نے اجتہادی مسائل میں کوئی فیصلہ اپنے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫اجتہاد کی بناء پر دیا تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے اسی فیصلے کو اپنے نئے اجتہاد سے‬
‫کالعدم قرار دے دے یا تبدیل کردے۔ (‪)131‬‬
‫کرام‬
‫ؓ‬ ‫دور صحابہ‬‫قرافی کہتے ہیں کہ یہی وہ درست مسلک ہے‪ ،‬جس پر قاضی حضرات ِ‬ ‫ؒ‬
‫سے عمل پیرا ہیں۔ اس میں حقیقت یہ ہے کہ اجتہادی فیصلوں کو نظرثانی سے بچایا جائے۔ ایسا کرنا‬
‫فیصلوں کے استقرار اور ان پر لوگوں کے یقین کے لئے الزمی امر ہے کیونکہ ان فیصلوں سے‬
‫جھگڑے اور اختالفات ختم ہوتے ہیں‪ ،‬اگر ایک اجتہاد سے دوسرے اجتہاد کو کالعدم قرار دینا‬
‫صحیح ہو تو اس سے کافی مشکالت پیدا ہو جائینگی اور جس مصلحت کے حصول کیلئے قاضی‬
‫متعین کئے گئے تھے وہ مقصد ختم ہو جائے گا۔ (‪)132‬‬
‫دالئل شرعیہ کے خالف فیصلے کی حیثیت‪ :‬اگر کسی قاضی نے ایسا فیصلہ کیا جو قرآن وسنت اور‬
‫قرافی نے اس سلسلے‬
‫ؒ‬ ‫اجماع کے خالف ہو تو ایسا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے گا۔ مالکی فقیہ عالمہ‬
‫میں قیاس جلی اور شریعت کے قواعد عامہ کو شامل کیا ہے یعنی جو فیصلہ ان اصولوں کے خالف‬
‫صادر کیا جائے گا وہ بھی کالعدم قرار پائے گا۔ (‪)133‬‬
‫متذکرہ باال سطور سے واضح ہوا کہ قاضی کے فیصلے میں تبدیلی یا اس پر نظرثانی دو‬
‫اصولوں کی روشنی کی جائے گی‪ ،‬اگر فیصلہ اجتہادی ہے تو اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور‬
‫نصوص شرعیتہ کے خالف ہے تو وہ کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔ اس کے عالوہ چند‬
‫ِ‬ ‫اگر فیصلہ‬
‫صورتیں درج ذیل ہیں‪ ،‬جن میں قضائے قاضی کالعدم قرار دی جا سکتی ہے۔‬
‫فقہاء سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی قاضی ظالم یا غیر‬
‫ؒ‬ ‫(‪ 3‬ظلم پر مبنی فیصلہ بھی باطل ہوگا‪ :‬مالکی‬
‫عادل مشہور ہو جائے تو اس کے فیصلے بھی نظرثانی کے قابل ہونگے‪ ،‬ایسے قاضیوں کے عادالنہ‬
‫فیصلے البتہ برقرار رکھے جائیں گے لیکن انصاف کے منافی فیصلے رد کردیئے جائیں گے۔‬
‫(‪)134‬‬
‫(‪ 4‬قاضی پر تہمت بھی فیصلے کو کالعدم کر سکتی ہے‪ :‬قاضی پر اگر کوئی تہمت یا الزام ہو تو‬
‫کرام کے نزدیک‬ ‫ؒ‬ ‫اس کا فیصلہ کالعدم ہو سکتا ہے۔ مثالً قاضی اپنے حق میں فیصلہ کرے تو فقہاء‬
‫فورا ً باطل ہو جاتا ہے۔ پھر قاضی اپنے ہمسایوں یا اپنے شہر والوں کے حق میں فیصلہ کرے تو یہ‬
‫بھی کالعدم ہوگا کیونکہ حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ال تقبل شھادۃ خصم وال ظنین‪ ،‬ای منھم (‪)135‬‬
‫’’مقدمے کے فریق مخالف یا جو لوگ ان میں سے ہوں‪ ،‬ان کی گواہی قبول نہیں ہوتی‘‘۔‬
‫اسی اصول کی بناء پر قاضی کے ایسے فیصلے جن میں تہمت پائی جائے بغیر غور‬
‫وغوض اور تحقیق کے کالعدم ہوں گے۔‬
‫قرافی لکھتے ہیں کہ ایسا قاضی جو‬
‫ؒ‬ ‫(‪ 5‬قاضی کی جہالت بھی فیصلوں کو کالعدم کر سکتی ہے‪:‬‬
‫صاحب علم نہ ہو لیکن عادل ہو‪ ،‬تو اس کے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ جو فیصلے صحیح‬
‫ہونگے برقرار رہینگے اور جن میں غلطی واضح ہوگی وہ کالعدم قرار دے دیئے جائیں گے۔ (‪)136‬‬
‫ؒ‬
‫فرحون کہتے‬ ‫(‪ 6‬علماء و فقہاء سے بغیر مشورہ لئے کیا ہوا فیصلہ بھی کالعدم ہو سکتا ہے‪ :‬ابن‬
‫ہیں کہ اگر کسی قاضی کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ وہ اپنے فیصلوں میں علماء و فقہاء سے‬
‫مشاورت نہیں کرتا تو اگرچہ وہ عادل ہو‪ ،‬لیکن اس کے فیصلوں کو دیکھا جائے گا‪ ،‬ان میں سنت‬
‫کے مطابق جو فیصلے ہونگے انہیں برقرار رکھا جائے گا اور جن فیصلوں میں خطائے قاضی‬
‫واضح ہو جائے‪ ،‬کالعدم کردیئے جائیں گے۔ (‪)137‬‬
‫مندرجہ باال سطور سے واضح ہوا کہ فقہائے اسالم نے موجودہ ضابطہ فوجداری کی نسبت‬
‫زیادہ واضح موقف بیان کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ کن کن صورتوں میں اور کن کن بنیادوں پر‬
‫فیصلوں میں نظرثانی یا تبدیلی کی گنجائش ہے۔‬

‫تجویز ‪ /‬ترامیم‪ :‬اس دفعہ میں اسالمی اصولوں کے مطابق اس طرح ترمیم کی جانی چاہئے کہ اس‬
‫میں زیادہ توسیع اور گنجائش پیدا ہو سکے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :370‬پریذیڈنسی مجسٹریٹ کا فیصلہ‪ :‬یہ دفعہ اے او ‪1949‬ء سے حذف ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :371‬فیصلہ وغیرہ کی نقل ملزم کو دی جائے گی‬

‫ہر مقدمہ جس میں ملزم کو کسی جرم میں سزا دی گئی ہو‪ ،‬فیصلہ سناتے وقت‬ ‫(‪1‬‬
‫فیصلہ کی ایک نقل ملزم کو دی جائے گی یا اگر ملزم ایسی استدعا کرے‪ ،‬اس کی اپنی زبان میں‬
‫فیصلہ کا ترجمہ اگر ممکن ہو‪ ،‬یا عدالت کی زبان میں اس کو بالتاخیر دی جائے گی۔ ایسی نقل یا‬
‫ترجمہ بال اجرت دیئے جائیں گے۔‬
‫٭ ]مگر شرط یہ ہے کہ اس ذیلی دفعہ کا اطالق ان مقدمات پر نہ ہوگا جن کی سماعت سرسری طور‬
‫پر کی جانی مقصود ہو۔[‬
‫قانونی اصالحات کے قانون نمبر ‪ 12‬بابت ‪1972‬ء سے حذف ہوئی۔‬ ‫(‪2‬‬
‫اس شخص کا معاملہ جسے سزائے موت دی گئی ہو‪ :‬جب سیشن جج کسی ملزم کو‬ ‫(‪3‬‬
‫سزائے موت دے تو ایسا جج اسے‪ ،‬وہ مدت جس کے اندر‪ ،‬اگر وہ اپیل کرنا چاہے‪ ،‬اس کی اپیل‬
‫رجوع ہو جانی چاہئے‪ ،‬سے بھی مطلع کرے گا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر ‪ 3‬میں مذکور ہے کہ ملزم کو جب جج سزائے موت سنائے تو اسے‬
‫یہ بھی بتال دے کہ اپیل کرنے کی میعاد کیا ہے۔ ایسا کرنا اس کیلئے انصاف رسانی میں سہولت پیدا‬
‫کرنا ہے ورنہ ممکن ہے کہ اپیل کی میعاد کا علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ مقررہ مدت غفلت یا‬
‫الپرواہی میں گزار دے اور اپیل نہ کر سے۔ لہٰ ذا ہر سزا میں اسے اس بارے میں مطلع کیا جائے‬
‫ت اپیل میں‬
‫تاکہ انصاف رسانی کے تقاضے بطریق احسن پورے ہو سکیں اور اگر کوئی ملزم عدال ِ‬
‫اپنی صفائی پیش کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کا موقع مل سکے اور بے گناہی ثابت ہو جانے پر وہ‬
‫سزا سے بچ سکے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬کونسل سفارش کرتی ہے کہ دفعہ نمبر ‪ 371‬کی شق نمبر ‪ 3‬میں‬
‫صرف سزائے موت کی صورت میں نہیں‪ ،‬بلکہ ہر طرح کے کیس میں ملزم کو مدت اپیل کے بارے‬
‫میں مطلع کردینا چاہئے۔ لہٰ ذا اس کے ابتدائی الفاظ‪:‬‬
‫‪When the accused is sentenced to death by a sessions judge, such judge‬‬
‫‪.shall inform‬‬
‫کو الفاظ "‪ "In all cases the judge shall inform‬سے تبدیل کیا جائے۔ (‪)138‬‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ کی مذکورہ شق میں نظریاتی کونسل کی تجویز کردہ ترمیم کی جانی‬
‫چاہئے تاکہ ہر شخص کیلئے عدل وانصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :372‬فیصلہ کا ترجمہ کب کیا جائے گا‬

‫اصل فیصلہ مسل کارروائی کے ساتھ شامل کیا جائے گا اور جب اصل فیصلہ عدالت کی زبان کے‬
‫عالوہ کسی زبان میں تحریر ہوا ہو اور ملزم اس طرح چاہے تو اس کا ایک ترجمہ عدالت کی زبان‬
‫میں ایسی مسل کے ساتھ شامل کیا جائے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :373‬عدالت سیشن فیصلہ اور حکم سزا کی نقل ]ضلع کا افسر انچارج استغاثہ[ کو‬
‫ارسال کرے گی‬

‫ان مقدمات میں جن کی سماعت عدال سیشین نے کی ہو‪ ،‬عدالت اپنے فیصلہ اور سزا (اگر دی ہو)‬
‫کی ایک نقل اس ]ضلع کا افسر انچارج استغاثہ[ کو ارسال کرے گی جس کے اختیارات کی مقامی‬
‫حدود کے اندر سماعت مقدمہ کی گئی تھی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 373 ،372‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫(باب نمبر ‪)27‬‬
‫بابت ترسیل احکام بغرض توثیق‬

‫دفعہ نمبر ‪ :374‬عدالت سیشن حکم سزائے موت ارسال کرے گی‬
‫جب عدالت سیشن سزائے موت کا حکم صادر کرے تو کارروائی الزمی طو رپر عدالت عالیہ کو‬
‫ارسال کی جائے گی اور حکم سزا پر عمل اس وقت تک نہ کیا جائے گا جب تک کہ عدالت عالیہ‬
‫اس کی توثیق نہ کردے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :375‬مزید تحقیقات کرنے یا اضافی شہادت لینے کی ہدایت کرنے کا اختیار‬

‫اگر‪ ،‬جب ایسی کارروائیاں ارسال کی گئی ہوں‪ ،‬عدالت عالیہ کا خیال ہو کہ کسی امر‬ ‫(‪1‬‬
‫کی نسبت مزید تحقیقات ہونی چاہئے یا مزید شہادت لی جانی چاہئے جو ملزم کے جرم یا بے قصور‬
‫ہونے کے متعلق ہو‪ ،‬تو وہ مجاز ہوگی کہ خود ویسی تحقیقات کرے یا ویسی شہادت لے یا اسے‬
‫عدالت سیشن کے ذریعہ کرنے یالینے کی ہدایت کرے۔‬
‫بجز اس کے کہ عدالت عالیہ اس کے برعکس ہدایت کرے‪ ،‬سزایاب ملزم کی‬ ‫(‪2‬‬
‫حاضری معاف کی جا سکتی ہے جب وسی تحقیقات کی جائے یا ویسی شہادت لی جائے۔‬
‫جب عدالت عالیہ تحقیقات اور شہادت (اگر کوئی ہو) نہ کرے اور نہ لے تو ایسی‬ ‫(‪3‬‬
‫تحقیقات اور شہادت کا نتیجہ ایسی عدالت کو تصدیق کیا جائے گا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر‪ 1‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫شق نمبر ‪2‬میں کہا گیا ہے کہ سوائے اس کے عدالت عالیہ اور طرح ہدایت کرے‪ ،‬مجرم‬
‫قرار پانے واال شخص کا اس وقت موجود رہنا معاف کیا جا سکتا ہے جبکہ ویسی تحقیقات کی جائے‬
‫یا شہادت لی جائے۔‬
‫اس دفعہ میں مقدمہ کی عدالت عالیہ میں سماعت کے دوران اس سلسلے میں جب مزید‬
‫تحقیقات کی جائے یا شہادت لی جائے اور ملزم موجود نہ بھی ہو‪ ،‬تو اس سے مقدمہ کی کارروائی‬
‫پر کوئی اثر نہیں پڑتا جبکہ یہ ضروری ہے کہ عدالت عالیہ میں مقدمہ کی سماعت کے تمام مراحل‬
‫میں ملزم کو موجود ہونا چاہئے تاکہ وہ مقدمہ کے تمام مراحل سے آگاہ رہے اور اگر ضرورت‬
‫پڑے تو اپنا دفاع بھی کر سکے۔ اس کی غیر حاضری سے مقدمہ کی کارروائی ممکن ہے کہ اس‬
‫کے خالف ہو جائے اور شہادتیں یا تحقیقات اس کیخالف چلی جائیں اور وہ اپنا دفاع نہ کر سکے اور‬
‫ممکن ہے کہ اسے سزا بھی ہو جائے لہٰ ذا سماعت مقدمہ کے تمام مراحل میں اس کی حاضری‬
‫ضروری ہونی چاہئے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬کونسل سفارش کرتی ہے کہ مذکورہ شق کو حذف کیا جائے‬
‫کیونکہ ملزم کی غیر موجودگی میں اس کے خالف ریکارڈ کی گئی شہادت سے اسے نقصان‬
‫پہنچنے کا احتمال ہے۔ (‪)139‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬کونسل کی تجویز کی روشنی میں اس دفعہ کو حذف کیا جانا چاہئے تاکہ انصاف‬
‫رسانی کے تقاضوں کی تکمیل ہو سکے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :376‬سزا کے حکم کی توثیق کرنے یا منسوخ کرنے کی بابت عدالت عالیہ کا اختیار‬
‫ہر مقدمہ میں جو دفعہ ‪ 374‬کے تحت ارسال کیاگیا ہو‪ ،‬عدالت عالیہ کو اختیار ہے کہ‬
‫حکم سزا کی توثیق کرے یا کوئی اور حکم‪ ،‬جو قانونا ً جائز ہو‪ ،‬صادر کرے‪ ،‬یا‬ ‫(‪a‬‬
‫سزایابی منسوخ کرے اور ملزم کو کسی ایسے جرم میں سزایاب کرے جس کے‬ ‫(‪b‬‬
‫تحت عدالت سیشن اسے سزایاب کرتی یا اسی یا ترمیم شدہ فرد الزام کی بنا پر ازسرنو مقدمہ کی‬
‫تجویز کا حکم دے‪ ،‬یا‬
‫ملزم شخص کو بری کردے‪:‬‬ ‫(‪c‬‬
‫بشرطیکہ دفعہ ہذا کے تحت کوئی حکم توثیق صادر نہ کیا جائے گا جب تک کہ اپیل دائر کرنے کی‬
‫مقررہ میعاد گزر نہ جائے یا اگر ویسی اپیل ایسی مدت کے اندر دائر کی گئی ہو تو جب تک ویسی‬
‫اپیل کا تصفیہ نہ ہو جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :377‬نئے حکم سزا کی توثیق پر دو جج دستخط کریں گے‬

‫ہر مقدمہ میں جو اس طور پر ارسال کیا گیا ہو حکم سزاکی توثیق یا کسی نئی سزا کا حکم یا کوئی‬
‫حکم جو عدالت عالیہ نے صادر کیا ہو‪ ،‬الزمی طو پر‪ ،‬جب ایسی عدالت دو یا زیادہ جج صاحبان پر‬
‫مشتمل ہو‪ ،‬ان میں سے کم از کم دو جج دیں گے‪ ،‬صادر کریں گے اور اس پر دستخط کریں گے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :378‬اختالف رائے کی صورت میں ضابطہ‬

‫جب کوئی ایسا مقدمہ ججوں کی بنچ کے روبرو زیر سماعت ہو اور ویسے ججوں کے درمیان‬
‫مساوی طور پر اختالف رائے پیدا ہو جائے تو مقدمہ ان کی آرا کے ساتھ دوسرے ججوں کو پیش کیا‬
‫جائے گا اور ویسا جج ایسی سماعت کے بعد‪ ،‬جو وہ مناسب سمجھے‪ ،‬اپنی رائے کا اظہار کرے گا‬
‫اور فیصلہ یا حکم ویسی رائے کی پیروی کرے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :379‬ایسے مقدمات میں ضابطہ جو عدالت عالیہ کو توثیق کیلئے ارسال کئے گئے ہوں‬

‫ایسے مقدمات میں جو عدالت سیشن نے حکم سزائے موت کی توثیق کیلئے عدالت عالیہ کو ارسال‬
‫کئے ہوں‪ ،‬عدالت عالیہ کا متعلقہ افسر‪ ،‬الزمی طور پر عدالت عالیہ کے حکم توثیق یا کسی دیگر‬
‫حکم کے صادر ہونے کے بعد بال تاخیر عدالت عالیہ کے حکم کی ایک مہر ثبت شدہ نقل اپنے‬
‫دستخط سے تصدیق کرکے‪ ،‬عدالت سیشن کو ارسال کرے گا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 379 ،378 ،377 ،376‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم‬
‫نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ان پر تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :380‬بذریعہ آرڈیننس نمبر ‪ XLV‬بابت ‪1960‬ء حذف ہوئی۔‬

‫(باب نمبر ‪)28‬‬


‫تعمیل احکام سزا‬

‫دفعہ نمبر ‪ :381‬دفعہ ‪ 376‬کے تحت صادر کردہ حکم کی تعمیل‬

‫جب عدالت سیشن کا صادر کردہ حکم سزائے موت‪ ،‬عدالت عالیہ کو برائے توثیق ارسال کیا جائے‬
‫تو ویسی عدالت سیشن پر الزم ہوگا کہ حکم توثیق یا اس پر عدالت عالیہ کے کسی دیگر حکم کے‬
‫موصول ہونے پر‪ ،‬ویسے حکم کی تعمیل بذریعہ باجرائے وارنٹ یا دیگر طریقہ پر‪ ،‬جو ضروری‬
‫معلوم ہوں‪ ،‬کرائے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ حکم سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوگا اگر متوفی کے وارثان سزا کے اجراء‬
‫سے پہلے خواہ آخری لمحہ پر مجرم کو معاف کردیں یا اس سے سمجھوتہ کریں۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوگا۔ اگر متوفی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کے ورثاء مجرم سے صلح کرلیں یا اسے معاف کردیں‪ ،‬خواہ یہ سزا سے پہلے آخری لمحہ پر ہو۔‬
‫یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ لفظ صلح کی وضاحت کر دی جائے۔‬
‫دراصل صلح اس باہمی عقد کو کہتے ہیں جس کے ذریعے مخالف فریقوں کے درمیان‬
‫اصالح واقع ہونے کی طرف رسائی ہو۔‬
‫اسالم نے صلح کی حوصلہ افزائی اور تاکید کی ہے جبکہ اختالف وفساد کی بیخ کنی کی‬
‫ہے اور صلح کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اس پر زور دیا ہے۔ مثالً قرآن مجید میں ہے‪:‬‬
‫َان ِمنَ ْال ُمؤْ ِمنِینَ ا ْقتَتَلُوا فَا َٔ ْ‬
‫ص ِل ُحوا بَ ْینَ ُھ َما (‪)140‬‬ ‫َوإِن َ‬
‫طائِفَت ِ‬
‫’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو‘‘۔‬
‫إِنَّ َما ْال ُمؤْ ِمنُونَ إِ ْخ َوۃ ٌ فَا َٔ ْ‬
‫ص ِل ُحوا بَیْنَ أَخ ََو ْی ُ‬
‫ک ْم (‪)141‬‬
‫’’یقینا سب مسلمان (آپس میں) بھائی ہیں‪ ،‬پس اپنے بھائیوں میں صلح کرا دو‘‘۔‬
‫ان (‪)142‬‬
‫س ٍ‬ ‫ع ِب ْال َم ْع ُر ِ‬
‫وف َوأَدَاء ِإلَ ْی ِہ ِبإِحْ َ‬ ‫ی لَ ُہ ِم ْن ا َِٔخی ِہ ش ْ‬
‫َیء ٌ فَا ِت ِّ َبا ٌ‬ ‫فَ َم ْن ُ‬
‫ع ِف َ‬
‫’’پس جسے اس کے بھائی کی طرف سے معاف کیا جائے تو بھالئی کے ساتھ مطالبہ ہو اور‬
‫نیکی کے ساتھ اس کی طرف ادائیگی‘‘۔‬
‫حضور کرم ﷺ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫’’جب کسی شخص کو قتل کردیا جائے ‪ ،‬تو اس کے ورثاء کو دو پسندیدہ باتوں میں سے‬
‫ایک کا اختیار ہے کہ جو چاہیں اختیار کرلیں یا تو قاتل کو قصاص میں قتل کرا دیں یا اسے معاف‬
‫کردیں‘‘۔ (‪)143‬‬
‫اس حدیث میں مقتول کے ورثاء کو جو اختیار دیا گیا ہے‪ ،‬اس سے مراد ما ِل صلح ہے (جس‬
‫کا تعین قاتل و مقتول کے ورثاء کر سکتے ہیں‪ ،‬ورنہ رقم دیت تو مقرر ہے)۔ فقہی قیاس کی رو سے‬
‫یہ دلیل ہے کہ قصاص ایک ایسا حق الزم ہے جو ورثاء کیلئے ثابت ہوتا ہے اور معافی اسے ساقط‬
‫بھی کیا جا سکتا ہے۔ لہٰ ذا اس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کوئی عوض لیکر حق‬
‫قصاص ساقط کیا جا سکے‪ ،‬یہ معاوضہ لینا مقتول کے اولیاء کی طرف سے احسان ہے اور قاتل کو‬
‫زندہ رکھنے کی ایک صورت ہے لہٰ ذا باہمی رضامندی سے یہ معاوضہ دینا اور قبول کرنا جائز‬
‫ہوگا۔ (‪)144‬‬
‫نیز نبی کریم ﷺ نے صلح کی اہمیت واضح فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫کل صلح جائز فیما بین المسلمین اال صلحا احل حراما ً او حرم حالالً (‪)145‬‬
‫’’مسلمانوں میں ہر صلح جائز ہے‪ ،‬سوائے اس صلح کے جو حرام کو حالل یا حالل کو‬
‫حرام کرے‘‘۔‬
‫حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمہیں روزے نماز سے بھی زیادہ فضیلت واال‬
‫کام نہ بتائوں؟‬
‫کرام نے عرض کی ضرور ارشاد فرمائیے۔ فرمایا آپس کی اصالح۔ یاد رکھو آپس کا‬ ‫ؓ‬ ‫صحابہ‬ ‫٭‬
‫فتنہ وفساد مونڈ دینے واال ہے‪ ،‬سنو وہ بال نہیں مونڈتا‪ ،‬بلکہ دین کا صفایا کر دیتا ہے۔ ایک اثر‬
‫تعالی بھی مسلمانوں کے درمیان قیامت کے دن‬
‫ٰ‬ ‫مینہے کہ لوگوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو‪ ،‬ہللا‬
‫صلح کرائے گا۔ (‪)146‬‬
‫حضور اکرم ﷺ نے صلح کو پسند فرمایا ہے اور عملی مثالیں بھی قائم فرمائی ہیں۔ درج ذیل روایات‬
‫اس پر شاہد ہیں‪:‬‬
‫بنو عمرو بن عوف میں جب جھگڑا ہوگیا تو آپ ﷺ نے خود درمیان میں آکر ان میں صلح‬ ‫٭‬
‫کرا دی۔‬
‫ک اور ابن ابی حداد میں قرض کے بارے میں نزاع ہوا تو بھی آپ ﷺ نے صلح‬ ‫کعب بن مال ؓ‬ ‫٭‬
‫کرا دی‪ ،‬کہ آدھا تو معاف کرا دیا اور آدھے کی ادائیگی کرا دی۔‬
‫آپ ﷺ نے یہ بھی جائز رکھا کہ عمدا ً جس شخص کو مار ڈاال گیا ہو اور اس کے والی وارث‬ ‫٭‬
‫کسی رقم پر صلح کرلیں تو بہتر ہے۔‬
‫انصاری شہید ہوگئے تو حضور اکرم ﷺ نے قرض‬
‫ؓ‬ ‫جابر کے والد عبدہللا‬
‫اسی طرح حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫خواہوں کو سفارش کی کہ ان کے باغ میں جتنا پھل ہے لے لیں اور باقی قرض معاف کردیں۔‬
‫عباس فرماتے ہیں کہ میراث کے بارے میں وارث اگر متفق ہو جائیں اور آپس کی‬
‫ؓ‬ ‫عبدہللا بن‬ ‫٭‬
‫صلح سے جس طرح چاہیں تقسیم کرلیں تو کوئی حرج نہیں۔‬
‫عوف کی چار بیویوں میں سے ایک نے اپنے حصے کے اسی ہزار لیکر‬
‫ؓ‬ ‫عبدالرحمن بن‬ ‫٭‬
‫صلح کرلی۔ (‪)147‬‬
‫ؓ‬
‫فاروق فرماتے ہیں کہ جھگڑنے والوں کو یہ کہدو کہ جائو آپس میں صلح‬ ‫حضرت عمر‬ ‫٭‬
‫کرلو‪ ،‬کیونکہ فیصلہ کے بعد آپس میں بغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں مل جانے کے بعد عموما ً‬
‫دِل صاف ہو جاتے ہیں اور جب ان میں رشتہ داری بھی ہو تو ضرور انہیں آپس میں صلح کا موقع‬
‫دو اور حتی الوسع خود درمیان میں نہ آئو‪ ،‬ممکن ہے تمہارے فیصلے سے ان کے دِل پھٹ جائیں۔‬
‫(‪)148‬‬
‫اشعری کے نام اپنے مراسلہ میں لکھا‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫ابوموسی‬
‫ٰ‬ ‫ؓ‬
‫فاروق نے‬ ‫حضرت عمر‬
‫والصلح جائز بین الناس (فی بعض الروایۃ‪ :‬المسلمین) اال صلحا ً احل حراما وحرم حالل‬
‫(‪)149‬‬
‫’’اور لوگوں (بعض روایات میں مسلمانوں) کے درمیان صلح جائز ہے سوائے اس صلح‬
‫کے جو حرام کو حالل اور حرام کو حالل کردے‘‘۔‬
‫سرخسی لکھتے ہیں کہ اس میں جواز صلح کی دلیل ہے اور یہ اشارہ ہے‬
‫ؒ‬ ‫اس کی تشریح میں‬
‫کہ قاضی فریقین مقدمہ کو صلح کی طرف بالئے۔ (‪)150‬‬
‫مندرجہ باال آیات واحادیث اور آثار سے یہ ثابت ہوا کہ اسالم نے صلح کی بڑی تاکید کی‬
‫مرغینانی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫ہے۔ لہٰ ذا فقہائے اسالم نے اس مسئلے کو ہر پہلو سے بیان کیا ہے۔‬
‫والصلح جائز دعوی االموال ویصح عن جنایۃ العمد والخطاء (‪)151‬‬
‫دعوی میں اور جنایت عمد اور خطا میں صلح جائز ہے‘‘۔‬
‫ٰ‬ ‫’’اور اموال کے‬
‫باپ کو اختیار ہے کہ اپنے بیٹے کی جان تلف ہونے سے کم جنایت میں صلح کرے‪ ،‬اگر‬
‫قاتل اور اولیائے مقتول نے کسی قدر مال پر صلح کرلی تو قصاص ساقط ہو جائے گا اور مال واجب‬
‫االدا ہوگا‪ ،‬خواہ مال قلیل ہو یا کثیر ہو۔ (‪)152‬‬
‫شوہر کو اختیار ہے کہ مقتول بیوی کا قصاص معاف کردے‪ ،‬لہٰ ذا عورت کے باقی ورثاء‬
‫قصاص کا مطالبہ نہیں کرسکتے‪ ،‬قصاص کا حق ختم ہو گیا۔ (‪)153‬‬
‫اگر کسی مقتول کے کئی وارث تھے‪ ،‬ان میں سے ایک نے یا بعض نے اپنے حصہ کے‬
‫بقدر قاتل سے مال پر صلح کرلی تو باقی وارثوں کا حق ساقط ہو جائے گا‪ ،‬البتہ دیت میں سے انہیں‬
‫بقدر حصہ ملے گا ور جس نے اپنا حق بالکل معاف کردیا اسے دیت میں سے کچھ نہیں ملے گا۔‬
‫(‪ )154‬اگر کسی کے دو وارث ہیں‪ ،‬اور ایک نے اپنا حق قصاص معاف کردیا اور دوسرے وارث‬
‫کو معلوم ہوا کہ اب قاتل کو قصاص میں قتل نہیں کیا جا سکتا‪ ،‬اس کے باوجود قتل کردیا تو یہ قتل‬
‫عمد ہوگا اور اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا اور ما ِل قاتل میں سے اسے نصف دیت ملے گی۔‬
‫(‪)155‬‬
‫فقہی قیاس کی رو سے یہ دلیل ہے کہ قصاص ایک ایسا حق الزم ہے جو ورثاء کیلئے ثابت‬
‫ہوتا ہے اور معافی کی صورت میں اس حق کو ساقط کرنا بھی ممکن ہوتا ہے تو اسی طرح یہ بھی‬
‫ق قصاص کو کوئی عوض لینے کی شکل سے ساقط کردیا جائے کیونکہ یہ‬ ‫گنجائش ہوگی کہ اس ح ِ‬
‫معاوضہ لینا اولیائے مقتول کی طرف سے احسان اور بھالئی ہے اور قاتل کو زندہ رکھنے کی ایک‬
‫صورت ہے۔ لہٰ ذا باہمی رضامندی سے یہ معاوضہ دینا اور قبول کرنا جائز ہوگا۔ ما ِل صلح کی مقدار‬
‫شریعت نے مقرر نہیں کی ہے۔ یہ چیز قاتل اور مقتول کے ورثاء کے حوالے کی گئی ہے۔ جیسے‬
‫خلع میں ہے کہ زوجین رضامندی سے جتنے مال پر چاہیں خلع کرلیں۔ (‪)156‬‬
‫قانون قصاص و دیت ‪1979‬ء کی دفعہ نمبر ‪ 309‬اور ‪ 310‬میں بھی فریقین کی صلح کے‬
‫بارے میں فقہی احکام موجود ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں ایک اہم پہلو کو واضح کرنا ضروری ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ 309‬قانون قصاص ودیت کے تحت قتل عمد سے دست برداری اور دفعہ نمبر ‪310‬‬
‫(صلح) کے تحت قتل عمد میں قصاص کی صلح کرنا موثر نہ ہوگا اور عدالت اس کی پابند نہ ہوگی‬
‫جبکہ مصالحت کے فارم پر مقتول کے واحدحی القائم وارث کے دستخط نہ ہوں اور مقتول کا واحد‬
‫حی القائم وارث فاتر العقل ہو جائے اور مقتول کا ولی بننے کا اہل نہ رہے۔‬
‫ایسے ہی ایک مقدمے میں ابتدائی عدالت نے صرف اس وجہ سے ’’عفو‘‘ (معافی) کو قبول‬
‫کرلیا کہ یہ معافی اس کے سامنے ریکارڈ ہوئی تھی لیکن عدالت عالیہ نے ‪Suo-moto Action‬‬
‫لیتے ہوئے اپنے اختیار سماعت نگرانی کو زیر دفعہ ‪ 435/439‬مجموعہ ضابطہ فوجداری کو‬
‫استعمال کرتے ہوئے زیر دفعہ ‪ 302‬جرم سے بریت کے حکم کو منسوخ کردیا اور بری شدہ ملزم‬
‫کے مقدمہ کو زیر دفعہ ‪ 302‬قتل کے الزام میں دوبارہ سماعت کیلئے ابتدائی عدالت کو بھیج دیا۔‬
‫وارث چونکہ فاتر العقل ہو چکا تھا مگر اس کے حق کا دفاع (‪ )Protection‬الزمی تھا‪ ،‬عدالت نے‬
‫اسی لئے ابتدائی عدالت کو بھیج دیا۔(‪)157‬‬
‫اسی طرح قتل عمد کے سلسلے میں ایک مقدمے میں مقتول کے وارثوں نے قاتل کو عدالت‬
‫میں معاف کردیا۔ اس کے بعد ملزم کو تعزیر کی سزا دینے کیلئے بھی کوئی سبب موجود نہ تھا‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫اس بنیاد پر عدالت نے جرم کے بارے میں معافی کی اجازت دے دی اور ملزم کو بری کردیا گیا۔‬
‫(‪)158‬‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ اسالمی تعلیمات میں آپس میں اختالفات یا فساد کی‬
‫صورت میں جہاں تک ممکن ہو صلح کرلی جائے خواہ اس کے بدلے مال یا جائیداد بھی دینا پڑے۔‬
‫اس سلسلے میں فقہاء اسالم نے صلح کی ممکنہ صورتیں اور احکام بھی تفصیالً بیان کردیئے ہیں‬
‫تاکہ ان سے استفادہ کیا جا سکے۔‬
‫مذکورہ دفعہ کے بارے میں نظریاتی کونسل نے یہ تجویز دی ہے۔‬
‫غور وخوض کے بعد اس دفعہ کے پرووائزو کے الفاظ "‪ "if the heirs‬کے بعد الفاظ " ‪or‬‬
‫‪ "any of the heirs‬کا اضافہ تجویز کیا گیا‪ ،‬کیونکہ شریعت میں اگر ورثاء میں سے ایک وارث‬
‫بھی قصاص معاف کرے تو قاتل کو قصاص کی سزا نہیں دی جائے گی۔ اس طرح اس پرووائزو‬
‫کے متعلقہ الفاظ یوں ہو جائینگے۔‬
‫"‪)159( ."If the heirs or any of heirs of the deceased pardon the convict‬‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم‬
‫کی ضرورت نہیں۔ البتہ کونسل کی مجوزہ ترمیم کر دی جائے تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :382‬حاملہ عورت کو سنائی گئی سزائے موت کا التواء‬

‫اگر کوئی عورت‪ ،‬جس کو سزائے موت دی گئی ہو‪ ،‬حاملہ پائی جائے تو عدالت عالیہ سزا کی تعمیل‬
‫کو ملتوی کردے اور مجاز ہوگی ‪ ،‬اگر وہ مناسب سمجھے کہ سزا کو حبس دوام میں بدل دے۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی حاملہ عورت کو سزائے موت دی گئی ہو تو عدالت‬
‫عالیہ سزا کی تعمیل کو ملتوی کر سکتی ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی نظام عدل میں ہمیں اس کی مثال ملتی ہے۔ مثالً ایک دفعہ ایک عورت‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫رسول اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کہ وہ زنا سے حاملہ ہے‪ ،‬آپ ﷺ نے‬
‫ارشاد فرمایا‪ :‬اذھبی حتی تضعیہ۔ ’’چلی جا حتی کہ تو بچہ جن لے‘‘۔ چنانچہ وضع حمل کے بعد وہ‬
‫ت رضاعت کے‬ ‫پھر آئی‪ ،‬حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا‪ :‬اذھبی حتی ترضعیہ۔ ’’واپس جائو اور مد ِ‬
‫پوری ہونے کے بعد آنا‘‘‪ ،‬تیسری بار وہ آئی تو ارشاد فرمایا‪ :‬اذھبی فاستودعیہ ثم قال فاستودعتہ ثم‬
‫جاء ت فامر بھا فرجمت۔ ’’بچہ کسی کی کفالت میں دینا ضروری ہے جب وہ بچے کو کسی کے‬
‫سپرد کرکے آگئی تو حضور ﷺ نے رجم کا حکم دیا‪ ،‬پس اسے رجم کردیا گیا‘‘۔ (‪)160‬‬
‫اقرار جرم کے باوجود‬
‫ِ‬ ‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ حضور ﷺ نے مذکورہ عورت کے‬
‫وضع حمل اور پھر مدت رضاعت تک اس کی سزا کو ملتوی رکھا اور ان تمام مراحل کی تکمیل‬
‫کے بعد اس کی سزا کو برقرار رکھا گیا۔ اس میں ترمیم یا تخفیف نہیں کی گئی۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ کا پہال حصہ تو اسالمی تعلیمات کے مطابق ہے‪ ،‬اس میں ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں ہے لیکن دوسرے حصے میں سزا کو حبس دوام میں تبدیل کرنے کا حکم ہے‪ ،‬جو کہ‬
‫سراسر اسالمی اصولوں کے برعکس ہے‪ ،‬لہٰ ذا اسے حذف کیا جاناچاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-382‬دفعہ ‪ 476‬کے تحت یا ایک سال سے کم مدت کیلئے سزائے قید کی تعمل کا‬
‫التواء‬

‫دفعہ ‪ 383‬یا ‪ 391‬میں کسی امر کے باوصف‪ ،‬جب ملزم کو‪:‬‬


‫دفعہ ‪ 576‬کے تحت کوئی سزائے قید سنائی گئی ہو یا‬ ‫(‪a‬‬
‫ان صورتوں کے عالوہ جن کا دفعہ ‪ 381‬میں حکم دیا گیا ہے‪ ،‬دیگر مقدمات میں‬ ‫(‪b‬‬
‫ایسی مدت کی سزائے قید دی گئی ہو‪ ،‬چاہے مع یا بال جرمانہ یا تازیانہ‪ ،‬جس کی مدت ایک سال سے‬
‫کم ہو تو حکم سزاکی تعمیل‪ ،‬اگر ملزم ایسے وقت اور مقام پر جس کی عدالت ہدایت کرے‪ ،‬اپنی‬
‫حاضری کیلئے عدالت کی تسلی کے مطابق ضمانت دے‪ ،‬اس وقت تک نہ کی جائے گی جب تک کہ‬
‫وہ مدت نہ ختم ہو جائے جو ایسی سزا کے خالف اپیل کیلئے مقرر ہو یا اگر ایسی مدت میں اپیل دائر‬
‫کی گئی ہو تو جب تک عدالت اپیل اس کی توثیق نہ کردے ۔ لیکن جہاں تک ممکن ہو اس مدت کے‬
‫اختتام پر جو اپیل کیلئے مقرر ہو‪ ،‬یا اپیل کی صورت میں عدالت اپیل کی سزا کی توثیق کے حکم‬
‫کے موصول ہونے کے بعد جتنی جلد ممکن ہو سکے‪ ،‬سزا کی تعمیل کی جائے گی۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :B-382‬سزائے قید دیتے ہوئے نظربندی میں رکھے جانے کی مدت کو ملحوظ رکھا‬
‫جائیگا‬

‫جب کوئی عدالت کسی ملزم کو کسی جرم میں سزائے قید کا حکم سنانے کا فیصلہ کرے تو عدالت‬
‫پر الزم ہوگا کہ اس مدت کو ملحوظ رکھے (اگر کوئی ہو) جس کے دوران ایسا ملزم ایسے جرم میں‬
‫حراست میں نظربند رکھا گیا ہو۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :C-382‬بدنام کن یا جھوٹا اور فضول عذر سزا صادر کرتے ہوئے زیر غور الیا جائے‬
‫گا‬

‫کسی جرم کی نسبت ملزم کو سزا دیتے وقت عدالت جھوٹے‪ ،‬بدنام کن اور فضول عذر کو زیر غور‬
‫ال سکتی ہے جو اس نے یا اس کی طرف سے صفائی میں اٹھایا گیا ہو۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :383‬دیگر مقدمات میں عمر قید یا قید کی سزائوں کی تعمیل‬

‫جب ملزم کو دفعہ ‪ 381‬اور دفعہ ‪ A-381‬میں محکوم مقدمات کے عالوہ عمر قید یا قید کی سزا دی‬
‫گئی ہو تو سزا دینے والی عدالت پر الزم ہوگا کہ اس جیل کو فوری طور پر وارنٹ بھجوائے جس‬
‫میں وہ ہو یا اسے رکھا جانا ہو اور سوائے اس کے کہ ملزم پہلے ہی ایسی جیل میں رکھا گیا ہو‪،‬‬
‫وارنٹ کے ساتھ اسے جیل میں بھجوائے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :384‬تعمیل کیلئے وارنٹ کا بھجوانا‬

‫سزائے قید پر عملدرآمد کرانے کیلئے ہر وارنٹ‪ ،‬اس کی جیل یا دیگر جگہ جہاں قیدی موجود ہے یا‬
‫اسے رکھا جانا ہے‪ ،‬کے مہتمم کو بھیجا جائے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :385‬وارنٹ کس کے حوالہ کیا جائے گا‬

‫جب قیدی کو جیل میں رکھا جانا ہو تو وارنٹ جیلر کے حوالے کیا جائے گا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ باال دفعات ‪ 383 ،382-C ،382-B ،A-382‬تا ‪ 385‬میں کوئی بات اسالمی‬
‫اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :386‬جرمانہ جبری وصول کرنے کا وارنٹ‬

‫جب کبھی کسی مجرم کو جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی گئی ہو تو وہ عدالت‪ ،‬جس‬ ‫(‪1‬‬
‫نے سزا کا حکم صادر کیا ہو‪ ،‬مجاز ہوگی کہ مندرجہ ذیل طریقوں میں سے کسی ایک یا دونونسے‬
‫جرمانہ کی وصولی کیلئے کارروائی عمل میں الئے‪ ،‬یعنی کہ‪ ،‬وہ مجاز ہوگی کہ‪:‬‬
‫رقم کی جبری وصولی کیلئے مجرم کی منقولہ جائیداد کی قرقی اور فروخت‬ ‫(‪a‬‬
‫کا وارنٹ جاری کرے۔‬
‫]ضلع افسر ریونیو[ کو ایک وارنٹ جاری کرکے اسے اختیار دے‬ ‫(‪b‬‬
‫کہ وہ مجرم کی جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ سے دیوانی کارروائی کے مطابق عمل کرکے رقم‬
‫وصول کرے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ اگر حکم سزا میں یہ ہدایت دی گئی ہو کہ بعدم ادائیگی جرمانہ مجرم کو قید کیا‬
‫جائے گا اور اگر ایسے مجرم نے عدم ادائیگی پر ایسی تمام قید کاٹ لی ہو‪ ،‬تو کوئی عدالت ایسا‬
‫وارنٹ جاری نہیں کرے گی۔‬
‫صوبائی حکومت مجاز ہوگی کہ ضمنی دفعہ (‪ )1‬ضمنی (‪ )a‬کے تحت وارنٹ ہائے‬ ‫(‪2‬‬
‫کی تعمیل کے طریقہ کو منضبط کرنے اور کس شخص کی طرف سے ایسے وارنٹ کی تعمیل میں‬
‫قرق کردہ کسی جائیداد کی نسبت کسی مطالبے کی سرسری تجویز کیلئے قواعد وضع کرے۔‬
‫جب عدالتیں ضمنی دفعہ (‪ )1‬شق (‪ )b‬کے تحت ]ضلع افسر ریونیو[ کو وارنٹ‬ ‫(‪3‬‬
‫جاری کریں تو مجموعہ ضابطہ دیوانی ‪1908‬ء کے معنوں میں ایسا وارنٹ ڈگری متصور ہوگا اور‬
‫]ضلع افسر ریونیو[ ڈگریدار اور نزدیک ترین عدالت دیوانی جو ایسی رقم کی ڈگری کی تعمیل کرا‬
‫سکتی ہو‪ ،‬الزمی طور پر‪ ،‬مجموعہ مذکور کے مقاصد کیلئے وہ عدالت متصور ہوگی جس نے‬
‫ڈگری صادر کی ہو اور ڈگری کی تعمیل کیلئے مجموعہ مذکور کے تمام احکام اس کے مطابقت اس‬
‫میں اطالق پذیر ہوں گے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ ایسے کسی وارنٹ کی‪ ،‬مجرم کی گرفتاری یا جیل میننظربندی کے ذریعہ تعمیل‬
‫نہیں کرائی جائے گی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر ‪ 2‬میں مذکور ہے کہ صوبائی حکومت مجاز ہوگی کہ شق نمبر ‪1‬‬
‫ضمنی (‪ )a‬کے تحت وارنٹوں کی تعمیل کا طریقہ وضع کرے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کے بعد وارنٹوں کی تعمیل کا طریقہ وضع کرنے‬
‫کی مجاز صوبائی حکومت نہیں ہے۔ بلکہ چیف جسٹس ہائی کورٹ اس کا مجاز ہے۔ لہٰ ذا مذکورہ شق‬
‫میں صوبائی حکومت کی جگہ چیف جسٹس ہائی کورٹ درج کیا جاناچاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :387‬ایسے وارنٹ کا اثر‬

‫دفعہ ‪ 386‬ضمنی دفعہ (‪ )1‬شق (‪ )a‬کے تحت کسی عدالت نے جاری کیا ہو‪ ،‬ایسی عدالت کے اختیار‬
‫کی مقامی حدود کے اندر تعمیل کیا جا سکتا ہے اور اس سے کسی ایسی جائیداد کی قرقی اور‬
‫فروخت کا اختیار بھی دیا جائے گا جو ایسی حدود سے باہر ہو‪ ،‬جب کہ اس کی وہ مجسٹریٹ تائید‬
‫کردے جس کے اختیار کی مقامی حدود کے اندر ایسی جائیداد پائی جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :388‬حکم سزائے قید کی تعمیل کا التواء‬

‫جب کسی مجرم کو صرف سزائے جرمانہ وبعدم ادائیگی جرمانہ سزائے قید کا حکم‬ ‫(‪1‬‬
‫دیا گیا ہو اور جرمانہ فوری طو رپر ادا نہ کیا گیا ہو تو عدالت مجاز ہوگی۔‬
‫کہ حکم دے کہ جرمانہ یا تو سارا کسی ایسی تاریخ پر یا اس سے‬ ‫(‪a‬‬
‫قبل واجب االدا ہوگا جو تاریخ حکم سے تیس یوم سے زائد نہ ہو یا دو یا تین اقساط میں‪ ،‬جن میں‬
‫سے اول کسی ایسی تاریخ پر یا اس کے قبل واجب االدا ہوگی جو تاریخ حکم سے تیس یوم سے زائد‬
‫نہ ہو اور دوسری یا دیگر ایسے وقفہ یا وقفوں پر‪ ،‬جیسی کہ صورت ہو جو تیس یوم سے زائد نہ‬
‫ہوں‪ ،‬اور‬
‫کہ حکم سزائے قید کی تعمیل ملتوی کردے اور مجرم کو اس کی‬ ‫(‪b‬‬
‫طرف سے ایک مچلکہ بال یا مع ضامنان‪ ،‬جیسا کہ عدالت مناسب سمجھے‪ ،‬اس شرط کے تحت‬
‫تحریر کرنے پر رہا کردے کہ وہ ایسی عدالت کے روبرو اس تاریخ یا تاریخوں پر حاضر ہوگا جس‬
‫پر یا جس سے قبل جرمانہ یا اس کی اقساط جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬ادا کی جانی ہوں اور اگر جرمانہ‬
‫یا کسی قسط کی رقم اس آخری تاریخ پر‪ ،‬جس پر یا جس سے قبل یہ حکم کے مطابق واجب االدا‬
‫تھی‪ ،‬نہ وصول کی جا سکے تو عدالت کو اختیار ہوگا کہ سزائے قید کی فوری تعمیل کا حکم دے۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے احکام کسی ایسی صورت میں بھی اطالق پذیر ہوں گے جس‬ ‫(‪2‬‬
‫میں کسی ایسی رقم کی ادائیگی کا حکم ہوا ہو‪ ،‬جس کی عدم ادائیگی پر سزائے قید کا حکم دیا جا‬
‫سکتا ہو اور رقم فوری طور پر ادا نہ کی گئی اور اگر وہ شخص جس کے خالف حکم صادر ہوا ہو‪،‬‬
‫ایسا مچلکہ جس کا مذکورہ ضمنی دفعہ میں حوالہ دیا گیا ہے‪ ،‬داخل کرنے کا حکم ہونے پر ایسا‬
‫کرنے سے قاصر رہے تو عدالت مجاز ہوگی کہ فوری طور پر حکم سزائے قید صادر کرے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :389‬وارنٹ کون جاری کر سکتا ہے‬

‫کسی سزا کی تعمیل کیلئے ہر وارنٹ یا تو وہ جج یا مجسٹریٹ جاری کرنے کا مجاز ہے جس نے‬
‫حکم صادر کیا ہو یا ان کا جانشین عہدہ۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 389 ،388 ،387‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں‬
‫دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :390‬صرف سزائے تازیانہ کی تعمیل‬

‫جب ملزم کو صرف سزائے تازیانہ کا حکم دیا گیا ہو تو سزا دفعہ ‪ 391‬کے احکام کے تابع‪ ،‬ایسے‬
‫مقام اور وقت پر دی جائے گی جس کی عدالت ہدایت کرے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :391‬صرف سزائے قید کے ساتھ سزائے تازیانہ کی تعمیل‬

‫جب ملزم کو‪:‬‬ ‫(‪1‬‬


‫صرف سزائے تازیانہ دی گئی ہو اور وہ عدالت کے اطمینان کے‬ ‫(‪a‬‬
‫مطابق ایسے وقت اور مقام پر‪ ،‬جس کی عدالت ہدایت کرے‪ ،‬اپنی حاضری کی ضمانت داخل کردے‪،‬‬
‫یا‬
‫سزائے تازیانہ کے عالقہ قید بھی دی گئی ہو۔‬ ‫(‪b‬‬
‫تو تازیانے اس وقت تک نہ لگائے جائیں گے جب تک سزا کے حکم‬
‫سے پندرہ یوم نہ ہو جائیں اور اگر اس مدت میں اپیل رجوع کی گئی ہو تو جب تک عدالت اپیل اس‬
‫سزا کی توثیق نہ کردے‪ ،‬لیکن پندرہ یوم ختم ہونے پر‪ ،‬جہاں تک ممکن ہو سکے‪ ،‬یا اپیل کی‬
‫صورت میں‪ ،‬عدالت اپیل کے حکم توثیق سزا کے وصول ہونے کے بعد‪ ،‬جتنی جلد ممکن ہو سکے‪،‬‬
‫الزمی طور پر تازیانے لگائے جائیں گے۔‬
‫تازیانہ کی سزا‪ ،‬سوائے اس کے کہ جج یا مجسٹریٹ سزا کے اپنی موجودگی میں‬ ‫(‪2‬‬
‫دیئے جانے کا حکم دے‪ ،‬جیل کے مہتمم کی موجودگی میں دی جائے گی۔‬
‫جب اس قید کی مدت جس کی اسے سزا دی گئی ہو‪ ،‬تین ماہ سے کم ہو تو کسی ملزم‬ ‫(‪3‬‬
‫کو سزائے قید کے عالوہ سزائے تازیانہ نہ دی جائے گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :392‬سزا دینے کا طریقہ‬

‫ایسے شخص کی صورت میں جس کی عمر سولہ سا یا اس سے زیادہ ہو‪ ،‬تازیانہ‬ ‫(‪1‬‬
‫کی سزا ہلکے بید سے‪ ،‬جس کا قطر آدھ انچ سے کم نہ ہو‪ ،‬ایسے طریقہ پر اور جسم کے ایسے‬
‫حصہ پر دی جائے گی جیسا کہ صوبائی حکومت ہدایت کرے اور اس شخص کی صورت میں جس‬
‫کی عمر سولہ سال سے کم ہو‪ ،‬سزا اس طریقہ پر اور جسم کے ایسے حصہ پر اور ایسے آالت کے‬
‫ذریعہ دی جائے گی جیسا کہ صوبائی حکومت ہدایت کرے۔‬
‫تازیانے کی تعداد کی حد‪ :‬ایسی سزا کسی صورت میں ‪ 30‬کوڑوں سے زائد نہ‬ ‫(‪2‬‬
‫ہوگی اور ایسے شخص کی صورت میں جو سولہ سال سے کم عمر کا ہو‪ ،‬یہ سزا پندرہ تازیانوں‬
‫سے زائد نہ ہوگی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :393‬تعمیل اقساط میں نہ ہوگی‪ ،‬استثناء‬

‫کوئی سزائے تازیانہ اقساط میں نہ دی جائے گی اور مندرجہ ذیل اشخاص میں سے کسی کو سزائے‬
‫تازیانہ نہیں دی جائے گی یعنی‪:‬‬
‫خواتین۔‬ ‫(‪a‬‬
‫ایسے مرد جن کو موت کی سزا‪ ،‬یا عمر قید کی یا پانچ سال سے زائد قید کی سزا دی‬ ‫(‪b‬‬
‫گئی ہو۔‬
‫ایسے مرد جن کو عدالت پنتالیس سال سے زائد عمر کا سمجھے۔‬ ‫(‪c‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ :394‬اگر مجرم کی صحت ٹھیک نہ ہو تو سزائے تازیانہ نہیں دی جائے گی‬

‫کوئی سزائے تازیانہ نہیں دی جائے گی سوائے اس صوت کے کوئی میڈیکل افسر‬ ‫(‪1‬‬
‫اگر موجود ہو‪ ،‬یہ تصدیق کرے یا اگر کوئی میڈیکل افسر موجود نہ ہو تو بجز اس صورت میں کہ‬
‫مجسٹریٹ یا کسی موجود افسر کی یہ رائے ہو کہ مجرم کی صحت اس قابل ہے کہ ویسی سزا‬
‫برداشت کر سکے گا۔‬
‫تعمیل کو روکنا‪ :‬اگر کسی سزائے تازیانہ کی تعمیل کے دوران میڈیکل افسر یہ‬ ‫(‪2‬‬
‫تصدیق کرے یا مجسٹریٹ یا موجود افسر کی رائے ہو کہ مجرم کی صحت اس قابل نہ ہے کہ بقیہ‬
‫سزا برداشت کرسکے تو تازیانہ لگانا قطعی طور پر بند کردیا جائے گا۔‬

‫وضاحت‪ :‬دفعات نمبر ‪ 393 ،392 ،391 ،390‬اور ‪ 394‬میں تازیانوں کی سزا کے طریقہ نفاذ کے‬
‫احکام بیان ہوئے ہیں لیکن تازیانہ کیسا ہونا چاہئے‪ ،‬اس کی قسم‪ ،‬کیفیت‪ ،‬ضرب لگانے کا طریقہ اور‬
‫اس کی شدت اور دیگر تفصیالت کا ذکر نہیں کیا گیا۔‬
‫نظام عدالت میں یہ تمام تفصیالت موجود ہیں۔اس‬‫ِ‬ ‫اسالمی نکتہ نگاہ‪ :‬اس کے مقابلے میں اسالمی‬
‫دفعہ میں سزائے تازیانہ کا ذکر ہے لیکن یہ وضاحت نہیں ہے کہ تازیانہ کس قسم کا ہونا چاہئے۔ اس‬
‫بارے میں اسالم نے واضح ہدایات دی ہیں کہ تازیانہ کس قسم اور کس نوعیت کا ہونا چاہئے‪ ،‬اس‬
‫اسلم سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے مبارک زمانہ میں‬ ‫بارے میں حدیث مبارکہ میں زید بن ؓ‬
‫ایک آدمی نے زنا کا اعتراف کیا۔ آپ ﷺ نے اس کیلئے کوڑا منگوایا۔ چنانچہ ایک ٹوٹا ہوا کوڑا پیش‬
‫کیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس سے مضبوط الئو‪ ،‬لہٰ ذا ایک نیا کوڑا پیش کیا گیا جس کی اطراف ابھی‬
‫تک گھسی نہیں تھیں‪ ،‬فرمایا اس سے کمتر درجے کا کوڑا الئو‪ ،‬پھر ایک ایسا کوڑا الیا گیا جو نرم‬
‫تھا اور اس میں پیوند لگے ہوئے تھے‪ ،‬چنانچہ آپ ﷺ کے حکم سے اس شخص کو کوڑے لگائے‬
‫گئے۔ (‪)161‬‬
‫درجِ باال روایت میں حضور اکرم ﷺ نے واضح فرمایا ہے کہ وہ کوڑا جس سے سزا دی‬
‫جائے نہ تو بہت زیادہ سخت ہو کہ سزا پانے والے کی جان ہی لے لی جائے‪ ،‬نہ ہی بہت زیادہ نرم‬
‫ہو کہ سزا کا مقصد یعنی زجرو توسیخ اور عبرت دالنا ہی ختم ہو جائے بلکہ کوڑا درمیانی نوعیت‬
‫کا ہونا چاہئے تاکہ تمام مقاصد حاصل ہو سکیں۔‬
‫اگر سزا پانے واال معذور اور کمزور ہے‪ ،‬تو اس کو سزا کیسے دی جائیگی؟ اس بارے میں‬
‫بھی حدیث مبارکہ میں مکمل رہنمائی موجود ہے۔ سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ‬
‫کے عہد مبارک میں ایک لونڈی حاملہ ہوگئی‪ ،‬اس سے پوچھا گیا کہ تمہیں کس نے حاملہ کیا تو اس‬
‫نے کہا کہ ایک معذور شخص نے‪ ،‬جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے اعتراف کرلیا۔ حضور اکرم‬
‫ﷺ نے فرمایا کہ وہ تو اتنا کمزور ہے کہ کوڑوں کو برداشت نہیں کر سکتا‪ ،‬چنانچہ آپ ﷺ نے اسے‬
‫کھجور کے ایسے گچھے سے مارنے کا حکم دیا جس میں سو شاخیں ہوں۔ (‪)162‬‬
‫اس حدیث پاک میں وہ طریق کار بیان ہوا ہے جب سزا پانے واال کمزور ہو۔ لہٰ ذا اسے ایسے‬
‫طریقے سے سزا دی گئی کہ شریعت کا حکم بھی پورا ہو گیا اور سزا کا مکمل نفاذ بھی ہوگیا۔ اگر‬
‫آج بھی ایسی صورتحال پیش آئے تو شریعت کے اس طریق کار سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔‬
‫سزائے تازیانہ کے سلسلے میں فقہائے اسالم نے مفصل بحثیں کی ہیں اور اس سلسلے میں‬
‫ایک جامع طریق کار وضع فرمایا ہے۔ چند تفصیالت درجِ ذیل ہیں‪:‬‬
‫سزائے تازیانہ سے ہالکت کا اندیشہ نہ ہو‪ :‬درہ زنی یا سزائے تازیانہ کیلئے یہ شرط ہے کہ مجرم‬
‫کی ہالکت کا اندیشہ نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سزا ممانعت کیلئے مقرر ہوتی ہے‪ ،‬ہالک کرنے‬
‫کیلئے نہیں۔ لہٰ ذا شدید گرمی یا شدید سردی کے موسم میں یہ سزا نافذ نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس‬
‫سے مجرم کی ہالکت کا اندیشہ ہے۔ مریض پر حد تازیانہ نافذ نہیں کی جائیگی۔ جب تک وہ صحت‬
‫یاب نہ ہو جائے کیونکہ مرض کی حالت میں مرض کی تکلیف اور درہ زنی کا درد دونوں اکٹھے ہو‬
‫جائیں گے‪ ،‬جس سے ہالکت کا اندیشہ ہے۔ نفاس کی حالت میں عورت پر سزائے تازیانہ نافذ نہیں‬
‫کی جائیگی کیونکہ نفاس بھی ایک مرض ہے۔ التبہ بحالت حیض حد جاری کردی جائیگی کیونکہ‬
‫حیض کوئی بیماری نہیں ہے۔ حاملہ پر سزا نافذ نہیں کی جائیگی جب وضع حمل نہ ہو جائے کیونکہ‬
‫اس سے ماں اور بچے دونوں کی ہالکت کا اندیشہ ہے۔ البتہ سزائے سنگساری حاملہ کے عالوہ ہر‬
‫ت‬
‫حالت میں جاری کردی جائیگی کیونکہ وہ تو ہے ہی مہلک‪ ،‬لہذا احتراز کا کیا معنی ہے؟ جبکہ حال ِ‬
‫حمل میں بچے کی ناحق ہالکت ہے‪ ،‬لہٰ ذا حالت حمل میں اجرائے حد منع ہے۔ (‪)163‬‬
‫جسم کے کن اعضاء پر درے نہ مارے جائیں‪ :‬جسم کے ایک ہی عضو پر بار بار کوڑے نہ مارے‬
‫جائیں‪ ،‬اس سے عضو ضائع ہو سکتا ہے یا جلد پھٹ سکتی ہے اور یہ دونوں چیزیں ناجائز ہیں‪،‬‬
‫کندھوں‪ ،‬بازوئوں‪ ،‬کالئیوں‪ ،‬پنڈلیوں اور پائوں سب اعضاء پر باری باری درے مارے جائیں‪ ،‬سوائے‬
‫چہرہ‪ ،‬شرمگاہ اور سر کے۔ کیونکہ شرمگاہ پر کوڑا لگنے سے عموما ً موت واقع ہو جاتی ہے۔‬
‫علی سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا چہرے اور شرماگاہوں (پر درہ زنی) سے‬ ‫حضرت ؓ‬
‫بچو‪ ،‬چہرے پر مارنا مثلہ کا موجب ہے اور حضور ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ سر میں تمام‬
‫حواس جمع ہیں اور اسی میں عقل ہے۔ لہٰ ذا اس پر کوڑا لگنے سے عقل یا کوئی حصہ زائل کر سکتا‬
‫ہے اور یہ بھی ایک طرح سے مجرم کی ذات کی ہالکت ہے۔‬
‫امام ابویوسف نے تو یہ بھی کہا ہے کہ سینے اور پیٹ پر بھی درے نہ مارے جائیں کہ اس‬
‫میں ہالکت کا اندیشہ ہے۔ (‪)164‬‬
‫شدید اور خفیف درہ زنی‪ :‬حدود میں سب سے سخت درہ زنی حد زنا میں ہوتی ہے‪ ،‬پھر شراب‬
‫نوشی کی حد میں اور سب سے آخر میں حد قذف ہیں۔ (‪)165‬‬
‫کوڑے کس حالت میں مارے جائیں‪ :‬مجرم کو کھڑا کرکے کوڑے مارے جائیں نہ تو اسے ٹکٹکی‬
‫پر باندھا جائے نہ زمین پر لٹایا جائے‪ ،‬کوڑا مارنے کے بعد کوڑے کو مجرم کی جلد پر نہ گھسیٹا‬
‫جائے بلکہ اٹھا لیا جائے کیونکہ کوڑا مار کر گھسیٹنا بھی ایک ضرب ہے اور یہ مقررہ سزا پر‬
‫اضافہ ہو جائیگا۔ (‪)166‬‬
‫ضرب کی نوعیت‪ :‬جالد کوڑے کو اپنے سر سے اوپر تک نہ لے جائے کیونکہ اس طرح ضرب‬
‫شدید ہونے کی وجہ سے ہالکت یا جلد پھٹنے کا اندیشہ ہے۔ نہ ہی ایسا کوڑا جس میں گانٹھ ہو‬
‫کیونکہ اس طرح ایک ضرب دو ضربوں کے برابر ہوگی۔ اس طرح شریعت کی مقرر کردہ سزا پر‬
‫اضافہ ہو جائیگا۔ ضروری ہے کہ جالد عاقل اور اپنے کام میں ماہر ہو۔چنانچہ وہ متوسط درجے کی‬
‫ضرب لگائے نہ تو اتنی شدید ہو کہ زخم ہو جائے نہ ہی اتنی ہلکی ہو کہ محسوس ہی نہ ہو۔ (‪)167‬‬
‫مجرم کا لباس اتارنا‪ :‬حد زنا میں مرد مجرم کے تمام کپڑے اتار لئے جائیں‪ ،‬ماسوا ازار (تہمد‪،‬‬
‫پتلون‪ ،‬شلوار وغیرہ) کیونکہ اس حد میں درہ زنی شدید ترین ہوتی ہے اور شرق کا مفہوم بغیر‬
‫کپڑے اتارے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر عورت مجرم کے جملہ حدود کے ضمن میں کپڑے نہیں‬
‫اتارے جائیں گے۔ سوائے پوستین اور گدیلے وغیرے کے‪ ،‬کیونکہ وہ ضرب سے بچاتی ہیں۔ عورت‬
‫کو بٹھا کر حد لگائیں گے کیونکہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔ (‪)168‬‬
‫مسجد میں نفا ِذ حدود‪ :‬مسجد میں کوئی بھی حد نافذ نہیں کی جائیگی کیونکہ حضور اکرم ﷺ نے‬
‫فرمایا ہے کہ مسجدوں میں حدود نافذ نہیں کی جائیگی اور اس ضمن میں یہ حدیث مبارکہ نص ہے۔‬
‫(‪)169‬‬
‫حد عوام الناس کے سامنے جاری ہوگی‪ :‬ضروری ہے کہ جملہ حدود کثیر تعداد میں لوگوں کی‬
‫موجودگی میں جاری کی جائیں۔ دلیل یہ آیت مبارکہ ہے‪:‬‬
‫طائِفَ ٌۃ ِ ِّمنَ ْال ُمؤْ ِمنِینَ (‪)170‬‬ ‫َو ْلیَ ْش َھ ْد َ‬
‫عذَابَ ُھ َما َ‬
‫’’ان دونوں (زانی و زانیہ) کی سزا مومنین کی ایک جماعت مشاہدہ کرے‘‘۔‬
‫یہ آیت حد زنا کے بارے میں نص ہے لیکن معنوی طور پر یہ جملہ حدود سے متعلق ہے‬
‫کیونکہ تمام حدود کے نفاذ کا مقصد عامۃ الناس کو ارتکاب جرم سے باز رکھنا ہے اور یہ مقصد‬
‫سوائے اس کے حاصل نہیں ہو سکتا کہ حد کو عوام الناس کی آنکھوں کے سامنے نافذ کیا جائے۔‬
‫اس کے ساتھ ساتھ جالد بھی مقررہ حد سے تجاوز کرنے سے باز رہتا ہے کیونکہ ایسا کرنے پر‬
‫لوگ اسے روک دیں گے۔ لہٰ ذا وہ اس الزام اور جانبداری سے بچ جائیگا۔ (‪)171‬‬
‫درج باال سطور میں اجراء کے حد تازیانہ کی جو شرائط‪ ،‬جزئیات اور تفصیالت بیان کی‬
‫گئی ہیں وہ موجودہ ضابطے کے مقابلے میں زیادہ جامع‪ ،‬مفصل اور واضح ہیں اور اسالمی نظام‬
‫کرام اور فقہائے اسالم نے‬
‫ؒ‬ ‫عدالت کے فائق اور بہترین ہونے کی دلیل ہیں۔ اس سلسلے میں محدثین‬
‫واقعت ًہ بے مثال قابلیت اور عمدہ صالحیتوں کا بھرپور اور الزوال مظاہرہ فرمایا ہے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی رائے‪ :‬یہ دفعات سزائے تازیانہ کے طریقہ نفاذ اور ان میں استثناء کے‬
‫بارے میں ہیں‪ ،‬اس سلسلے میں نظریاتی کونسل نے درج ذیل رائے دی ہے۔‬
‫دفعات ‪ 393 ،392 ،391 ،390‬اور ‪ 394‬میں سزائے تازیانہ کے طریقہ نفاذ کے‬ ‫(‪1‬‬
‫احکام درج ہیں‪ ،‬کونسل نے محسوس کیا کہ ان پر عملدرآمد کے دوران تازیانہ آرڈیننس مجریہ‬
‫‪1979‬ء کے احکام کا پورا لحاظ نہیں رکھا جاتا‪ ،‬لہٰ ذا کونسل سفارش کرتی ہے کہ‪:‬‬
‫’’حکومت ان دفعات میں اس بات کی وضاحت کرے کہ تازیانہ کی سزا دیتے وقت‬
‫تازیانے کی نوعیت‪ ،‬قسم‪ ،‬شدت‪ ،‬طریق کار اور دیگر تفصیالت تازیانہ آرڈیننس مجریہ ‪1979‬ء کے‬
‫مطابق ہونگی‘‘۔ (‪)172‬‬
‫اس دفعہ میں سزائے تازیانہ آرڈیننس مجریہ ‪1979‬ء کے مطابق ترمیم کرنی چاہئے لہٰ ذا کونسل‬
‫سفارش کرتی ہے کہ‪:‬‬
‫ان دفعات کو سختی کے ساتھ تازیانہ آرڈیننس ‪1979‬ء کے مطابق دوبارہ مدون کیا جائے۔‬
‫(‪)173‬‬
‫اسالم کی بیان کردہ‬
‫ؒ‬ ‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬سزائے تازیانہ کے سلسلے میں احادیث مبارکہ اور فقہائے‬
‫تصریحات کو اگر موجودہ ضابطہ فوجداری کا حصہ بنا دیا جائے تو یہ ضابطہ زیادہ جامع اور مفید‬
‫ہو سکتا ہے۔ لہٰ ذا یہ تجویز ہے کہ حکومت کو اس کے مطابق ترمیم کردینی چاہئے۔‬
‫اسالمی نکتہ نگاہ‪ :‬دفعات نمبر ‪ 391 ،390‬اور ‪ 392‬میں تازیانوں کی سزا کے طریقہ نفاذ کے‬
‫احکام بیان ہوئے ہیں لیکن تازیانہ کیسا ہونا چاہئے‪ ،‬اس کی قسم‪ ،‬کیفیت‪ ،‬ضرب لگانے کا طریقہ اور‬
‫نظام عدالت میں یہ‬
‫ِ‬ ‫اس کی شدت اور دیگر تفصیالت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کے مقابلے میں اسالمی‬
‫تمام تفصیالت موجود ہیں۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :395‬اگر دفعہ ‪ 394‬کے تحت سزا عائد نہ کی جا سکے تو ضابطہ‬

‫ایسی کسی صورت میں جس میں دفعہ ‪ 394‬کے تحت سزائے تازیانہ کال یا جزوا ً‬ ‫(‪1‬‬
‫تعمیل سے روک دی گئی ہو تو مجرم کو اس وقت تک زیر حراست رکھا جائے گا جب تک کہ سزا‬
‫کا حکم صادر کرنے والی عدالت اس میں ترمیم نہ کر دے اور عدالت مذکور مجاز ہوگی کہ اپنی‬
‫صوابدید پر یا تو سزا معاف کر دے یا مجرم کو سزائے تازیانہ کی بجائے کوئی اور سزا دے‪ ،‬یا اس‬
‫قدر سزائے تازیانہ کے عوض جس کی تعمیل نہ ہوئی ہو‪ ،‬اسے اتنی میعاد کی سزائے قید جو بارہ‬
‫ماہ سے زائد نہ ہو یا سزائے جرمانہ جو پانچ سو روپے سے زائد نہ ہو کا حکم دے جو اس دیگر‬
‫سزا کے عالوہ ہو سکتی ہے جو اس کو اسی جرم کیلئے دی گئی ہو۔‬
‫دفعہ ہذا میں کسی امر سے نہ سمجھا جائے گا کہ کسی عدالت کو اس مدت میں زیادہ‬ ‫(‪2‬‬
‫سزائے قید یا اس رقم سے زائد جرمانہ عائد کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جس کا ملزم قانونا ً مستوجب‬
‫سزا ہو یا جو ایسی عدالت عائد کرنے کی مجاز ہو۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں سزائے تازیانہ آرڈیننس مجریہ ‪1979‬ء کے مطابق ترمیم کرنی چاہئے‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫کونسل سفارش کرتی ہے کہ‪:‬‬
‫’’دفعہ نمبر ‪ 395‬کو سختی کے ساتھ تازیانہ آرڈیننس ‪1979‬ء کے مطابق دوبارہ مدون کیا‬
‫جائے‘‘۔ (‪)174‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ :396‬مفرور مجرموں پر سزائوں کی تعمیل‬

‫جب کسی مفرور مجرم پر زیر مجموعہ ہذا کا حکم صادر کیا گیا ہو تو ایسی سزا‪،‬‬ ‫(‪1‬‬
‫اگر موت‪ ،‬جرمانہ یا تازیانے لگانے کی ہو تو مجموعہ ہذا میں ماقبل درج ا حکام کے تابع‪ ،‬ان کا‬
‫فوری نفاذ ہوگا اور اگر قید یا عمر قید کی ہو تو مندرجہ ذیل قواعد کے مطابق نفاذ پذیر ہوں گی‪،‬‬
‫یعنی‪:‬‬
‫اگر نئی سزا اپنی نوعیت کے لحاظ سے اس سزا سے سخت تر ہو جو وہ اس وقت‬ ‫(‪2‬‬
‫بھگت رہا تھا جب وہ فرار ہوا ہو تو نئی سزائوں کا نفاذ فوری طور پر ہوگا۔‬
‫جب نئی سزا اپنی نوعیت کے لحاظ سے اس سزا سے کم سخت ہو جو وہ اس وقت‬ ‫(‪3‬‬
‫بھگت رہا تھا جب وہ فرار ہوا تو نئی سزا کا نفاذ اس وقت سے ہوگا جب وہ اس مزید عرصہ تک کی‬
‫سزائے قید بھگت چکے جو اس کے فرار ہونے کے وقت اس کی سابق سزا میں ناتمام رہ گئی تھی۔‬
‫وضاحت‪ :‬دفعہ ہذا کے مقاصد کیلئے‪:‬‬
‫ضابطہ فوجداری کے (ترمیمی) قانون نمبر ‪ 25‬بابت ‪1974‬ء سے حذف‬ ‫(‪a‬‬
‫ہوئی۔‬
‫ایسی سزائے قید جو قید تنہائی کے ساتھ ہو‪ ،‬اسی نوعیت کی سزائے‬ ‫(‪b‬‬
‫قید‪ ،‬جو بالقید تنہائی ہو‪ ،‬سے سخت تر سمجھی جائے گی۔‬
‫قید بامشقت کی سزا قید محض کی سزا جو مع یا بال قید تنہائی ہو‪ ،‬سے سخت‬ ‫(‪c‬‬
‫تر سمجھی جائے گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :397‬اس مجرم کو سزا جو پہلے ہی دیگر جرم میں سزایاب کیا گیا ہو‬

‫جب کسی شخص پر جو پہلے سزائے قید یا عمر قید بھگت رہا ہو‪ ،‬کوئی حکم سزائے قید یا عمر قید‬
‫صادر کیا جائے تو ایسی قید یا عمر قید اس وقت شروع ہوگی جب اس کی سابقہ قید یا عمر قید جس‬
‫کی اس کو پہلے سزا دی گئی ہو‪ ،‬ختم ہو جائے‪ ،‬بجز اس کے کہ عدالت ہدایت کرے کہ بعد کی سزا‬
‫ایسی پہلے کی سزا کے ساتھ جاری رہے گی‪:‬‬
‫شرط‪ :‬حذف ہوئی‪:‬‬
‫مگر مزید شرط یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جس کو ضمانت داخل کرنے سے قاصر رہنے کی بنا پر‬
‫زیر دفعہ ‪ 123‬سزائے قید کا حکم دیا گیا ہو‪ ،‬جب وہ ایسی سزا بھگت رہا ہو‪ ،‬تو ایسے حکم کے‬
‫صادر کرنے سے قبل سرزد کردہ جرم کی پاداش میں سزائے قید دی جائے‪ ،‬تو موخر الذکر سزا کا‬
‫الزمی طور پر فوری نفاذ کیا جائے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :398‬دفعات ‪ 396‬اور ‪ 397‬کی بابت استثناء‬

‫دفعہ ‪ 396‬یا دفعہ ‪ 397‬میں کسی امر سے کسی شخص کو کسی ایسی سزا کے جزو‬ ‫(‪1‬‬
‫سے معاف نہ سمجھا جائے گا جس کا وہ سابقہ یا مابعد کی سزا کی سزایابی کی بنا پر مستوجب ہو۔‬
‫جب عدم ادائیگی جرمانہ پر عائد کردہ سزائے قید‪ ،‬اصل سزائے قید یا سزائے عمر‬ ‫(‪2‬‬
‫قید کے ساتھ شامل کی جائے اور وہ شخص جو سزا بھگت رہا ہو‪ ،‬کو اس کی تعمیل کے بعد قید یا‬
‫عمر قید کی مزید اصل سزا یا اصل سزائیں بھگتنا ہوں تو عدم ادائیگی جرمانہ کی نسبت سزائے قید‬
‫کا نفاذ اس وقت تک نہ ہوگا جب تک کہ وہ شخص مزید سزا یا سزائیں نہ بھگت لے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :399‬تادیب گاہوں میں نوعمر مجرموں کو مقید کرنا‬


‫جب پندرہ سال سے کم عمر کے کسی شخص کو فوجداری عدالت کسی جرم میں‬ ‫(‪1‬‬
‫سزائے قید دے‪ ،‬تو عدالت یہ ہدایت کرنے کی مجاز ہوگی کہ ایسے شخص کو فوجداری جیل میں‬
‫رکھنے کی بجائے کسی تادیب گاہ میں رکھا جائے جسے صوبائی حکومت نے بطور مناسب حبس‬
‫گاہ قائم کیا ہو‪ ،‬جہاں مناسب نظم وضبط اورمفید صنعت کی تعلیم کے وسائل موجود ہوتے ہیں یا جو‬
‫کسی ایسے شخص کی زیر نگرانی ہوتا ہے جو ایسے قواعد کی تعمیل پر رضامند ہوتا ہے جو‬
‫صوبائی حکومت نے اس میں مقید اشخاص کے نظم وضبط اور تربیت کیلئے وضع کئے ہوں۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت مقید کردہ جملہ اشخاص اس طور پر وضع کردہ قواعد کے تابع‬ ‫(‪2‬‬
‫ہوں گے۔‬
‫دفعہ ہذا کا اطالق کسی ایسے مقام پر نہ ہوگا جہاں تادیبی سکول کا قانون فی الوقت‬ ‫(‪3‬‬
‫نافذ العمل ہو۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :400‬حکم سزا کی تعمیل ہوجانے پر وارنٹ کی واپسی‬

‫جب سزا کے حکم کی مکمل تعمیل ہو جائے تو افسر تعمیل کنندہ‪ ،‬وہ طریقہ جس میں سزا پر عمل‬
‫درآمد کیا گیا‪ ،‬کی تصدیق‪ ،‬وارنٹ پر اپنے ہاتھ سے تحریر کرکے اس عدالت کو واپس کرے گا جس‬
‫نے اسے جاری کیا تھا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 400 ،399 ،398 ،397 ،396‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف‬
‫دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫حوالہ جات‬

‫باب سوم‬
‫(دفعہ نمبر ‪ 201‬تا ‪)400‬‬
‫ابن قیم جوزی‪ ،‬محمد بن ابی بکر‪( :‬م۔ ‪751‬ھ ‪1350/‬ء)‪ :‬الطرق الحکمیہ‪ ،‬ص ‪ ،59‬مکتبہ‬ ‫(‪1‬‬
‫دارالبیان بیروت‪ ،‬س ن‬
‫نور احمد شاھتاز‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬تاریخ نفاذ حدود‪ ،‬ص ‪ ،100-99‬فضلی سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ‪ ،‬اُردو‬ ‫(‪2‬‬
‫بازار کراچی‪ ،‬ط‪ :‬اول‪1419 ،‬ھ ‪1998 /‬ء‬
‫کاسانی‪ ،‬ابی بکر عالء الدین بن مسعود‪( :‬م‪587 :‬ھ ‪1191 /‬ء)‪ :‬البدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪،41‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪3‬‬
‫دارالکتب العلمیہ‪ ،‬بیروت‪ ،‬الطبعۃ الثانیۃ‪1406 :‬ھ ‪1986 /‬ء‬
‫الجزیری‪ ،‬عبدالرحمن بن محمد‪( :‬م‪1360 :‬ھ ‪1941 /‬ء)‪ :‬الفقہ علی المذاھب االربعۃ‪ ،‬ج ‪،3‬‬ ‫(‪4‬‬
‫ص ‪ ،152‬دارالکتب العلمیہ‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1424 ،‬ھ ‪2003 /‬ء‬
‫نور احمد شاھتاز‪ :‬تاریح نفاذ حدود‪ ،‬ص ‪100‬‬ ‫(‪5‬‬
‫کاسانی‪ :‬البدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪56‬‬ ‫(‪6‬‬
‫ابن قدامہ‪ ،‬عبدہللا بن احمد‪( :‬م‪620 :‬ھ ‪1223 /‬ء)‪ :‬المغنی‪ ،‬ج ‪ ،9‬ص ‪ ،88‬مکتبہ القاھرہ‪،‬‬ ‫(‪7‬‬
‫مصر‪1388 ،‬ھ ‪1968 /‬ء‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،9‬ص ‪142‬‬ ‫(‪8‬‬
‫(‪ i‬کاسانی‪ :‬بدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪57‬‬ ‫(‪9‬‬
‫(‪ ii‬ابوزھرہ مصری‪ ،‬محمد احمد‪ :‬الجریمۃ والعقوبۃ فی الشریعۃ االسالمیۃ‪ ،‬ادارۃ القرآن‪،‬‬
‫کراچی‪1407 ،‬ھ ‪1987 /‬ء‬
‫کاسانی‪ :‬البدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪56‬‬ ‫(‪10‬‬
‫‪M. Mahmood: The Major Acts: P: 584, Pakistan law Times Publishers, )11‬‬
‫‪Urdu Bazar, Lahore‬‬
‫‪Ibid‬‬ ‫‪)12‬‬
‫مرتضی زبیدی‪ ،‬سید‪( :‬م‪1205 :‬ھ ‪1790 /‬ء)‪ :‬تاج العروس من شرح القاموس‪ ،‬ج ‪ ،10‬ص‬
‫ٰ‬ ‫(‪13‬‬
‫‪ ،165‬دارالھدایہ‪ ،‬س ن‬
‫قرآن کریم‪ :‬النساء ‪15: 4‬‬ ‫(‪14‬‬
‫مجموعہ ضابطہ فوجداری‪ ،‬ص ‪ ،324‬منصور بک ہائوس‪ ،‬انار کلی الہور‪1435 ،‬ھ ‪/‬‬ ‫(‪15‬‬
‫‪2013‬ء‬
‫قانون شہادت‪ ،‬ص ‪ ،145‬دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری‪،‬‬
‫ِ‬ ‫(‪ 16‬محمد متین ہاشمی‪ ،‬سید‪ :‬اسالم کا‬
‫الہور‪ ،‬ط سوم‪1419 ،‬ھ ‪1998 /‬ء‬
‫(‪ 17‬کاسانی‪ :‬ابی بکر عالء الدین بن مسعود‪( :‬م۔ ‪587‬ھ ‪1191 /‬ء)‪ :‬بدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪،45‬‬
‫دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیہ‪1406 ،‬ھ ‪1986 /‬ء‬
‫(‪ 18‬ابن مازہ بخاری‪ :‬عمر بن عبدالعزیز‪( :‬م۔ ‪536‬ھ ‪1141 /‬ء)‪ :‬شرح ادب القاضی‪ ،‬ج ‪،3‬ص ‪،25‬‬
‫االولی‪1397 ،‬ھ ‪1977 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫مطبعۃ االرشاد‪ ،‬بغداد‪ ،‬طبعۃ‬
‫ابن قیم‪ :‬الطرق الحکمیہ‪ ،‬ص ‪122‬‬ ‫(‪19‬‬
‫سکروڈھوی‪ :‬جمیل احمد‪ :‬اشرف الھدایہ‪ ،‬ج ‪ ،10‬ص ‪ ،25-24‬مکتبہ امدادیہ‪ ،‬ملتان‪ ،‬س ن‬ ‫(‪20‬‬
‫(‪ 21‬محمود عرنوس‪ :‬تاریخ القضاء فی االسالم‪ ،‬مترجم اُردو‪ :‬شیخ محمد احمد پانی پتی‪ ،‬ص ‪-191‬‬
‫‪ ،192‬مشتاق بک کارنر‪ ،‬الہور‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 22‬ابن خلدون‪ ،‬عبدالرحمن‪( :‬م۔ ‪808‬ھ ‪1405 /‬ء)‪ :‬ص ‪ ،279‬دارالفکر بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪،‬‬
‫‪1408‬ھ ‪1988 /‬ء‬
‫‪Muhammad Muslehuddin, Dr: Judicial System of Islam, Its origin and )23‬‬
‫‪Dr. Muslehuddin Trust, International Isl.‬‬ ‫‪Development, P: 137,‬‬
‫‪University Islamabad, 1409 AH / 1988 AD‬‬
‫جمیل احمد‪ :‬اشرف الھدایہ‪ ،‬ج ‪ ،10‬ص ‪27 ،26‬‬ ‫(‪24‬‬
‫‪M. Mahmood: The Major Acts: P. 586‬‬ ‫‪)25‬‬
‫جمیل احمد‪ :‬اشرف الھدایہ‪ :‬ج ‪ ،10‬ص ‪71‬‬ ‫(‪26‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪27‬‬
‫‪M. Mahmood: The Major Acts: P.593‬‬ ‫‪)28‬‬
‫‪Pakistan Law Digest, 1982 AD / 1403 AH, (Federal Shariah Court), P- )29‬‬
‫‪244, PLD Publishers, Urdu Bazar, Lahore‬‬
‫مرتضی زبیدی‪ :‬تاج العروس‪ :‬ج ‪ ،24‬ص ‪241‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪30‬‬
‫کیرانوی‪ ،‬وحید الزماں‪ :‬القاموس الوحید‪ ،‬ص ‪ ،1289‬ادارہ اسالمیات‪ ،‬الہور‪1422 ،‬ھ ‪/‬‬ ‫(‪31‬‬
‫‪2000‬ء‬
‫(‪ 32‬محمد بن ابی بکر‪ ،‬زین الدین‪( :‬م ‪666‬ھ ‪1267 /‬ء)‪ :‬مختار الصحاح‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،249‬المکتبۃ‬
‫العصریۃ الدارلنموذ جیۃ‪ ،‬صیدا‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ الخامسۃ‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫نجیم‪ ،‬زین الدین‪( :‬م۔ ‪970‬ھ ‪1562 /‬ء)‪ :‬البحر الرائق شرح کنز الدقائق‪ ،‬ج ‪ ،5‬ص ‪،32‬‬
‫(‪ 33‬ابن ؒ‬
‫دارالکتاب االسالمی‪ ،‬طبعۃ الثانیہ‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 34‬قدوری‪ ،‬احمد بن محمد‪( :‬م۔ ‪428‬ھ ‪1036 /‬ء)‪ :‬المختصر القدوری‪ ،‬ص ‪ ،246‬مکتبہ رحمانیہ‬
‫اُردو بازار الہور‪ ،‬س ن‬
‫المرغینانی‪ ،‬علی بن ابی بکر‪( :‬م۔ ‪593‬ھ ‪1196 /‬ء)‪ :‬الھدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص‬
‫ؒ‬ ‫(‪35‬‬
‫‪ ،355‬داراحیاء التراث العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫قرآن کریم‪ :‬النور ‪4: 24‬‬ ‫(‪36‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬النور ‪5 : 24‬‬ ‫(‪37‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬النور ‪23 : 24‬‬ ‫(‪38‬‬
‫مرغینانی‪ :‬الھدایہ‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪356‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪39‬‬
‫(‪ 40‬ابن قدامہ‪ :‬عبدہللا بن احمد‪( :‬م۔ ‪620‬ھ ‪1223 /‬ء)‪ :‬المغنی‪ ،‬ج ‪ ،9‬ص ‪ ،40‬مکتبۃ القاھرہ مصر‪،‬‬
‫‪1388‬ھ ‪1968 /‬ء‬
‫(‪ 41‬شاہ ولی ہللا‪ :‬حجۃ اہللا البالغہ‪ ،‬مترجم اردو‪ :‬منظور الوجیدی‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،871‬شیخ غالم علی‬
‫اینڈ سنز‪ ،‬الہور‪ ،‬س ن‬
‫قرآن کریم‪ :‬النساء ‪15 : 4‬‬ ‫(‪42‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬النور ‪13:24‬‬ ‫(‪43‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬النور ‪4 :2 4‬‬ ‫(‪44‬‬
‫(‪ 45‬وھبہ زحیلی‪ :‬التفسیر المنیر فی العقیدہ والشریعۃ والمنہج‪ ،‬ج ‪ ،18‬ص ‪ ،144‬دارالفکر‬
‫المعاصر دمشق‪ ،‬طبعۃ الثانیہ‪1418 ،‬ھ ‪1997 /‬ء‬
‫(‪ 46‬رپورٹ جائزہ ضابطہ فوجداری‪1898( ،‬ء ‪1316 /‬ھ)‪ ،‬مالحظات ‪ /‬مجوزہ ترامیم‪ ،‬ص ‪،97‬‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل حکومت پاکستان‪ ،‬اسالم آباد‪1421 ،‬ھ ‪2000 /‬ء‬
‫(‪ 47‬طبری‪ ،‬محمد بن جریر‪ ،‬ابوجعفر‪( :‬م۔ ‪310‬ھ ‪922 /‬ء)‪ :‬تاریخ االمم والملوک‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪،64‬‬
‫دارالتراث بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1387 ،‬ھ ‪1967 /‬ء‬
‫عمر) کے عہد میں عدلیہ اور‬
‫(ابوبکر و ؓ‬
‫ؓ‬ ‫(‪ 48‬محمدیوسف گورایہ‪ ،‬ڈاکٹر‪’’ :‬خلفائے محمد ﷺ‬
‫انتظامیہ‘‘‪ ،‬شمارہ‪ ،130 :‬مترجم اُردو‪ :‬محمود عالم قریشی‪ ،‬ج ‪ ،13‬ص ‪ ،569‬نقوش‪ ،‬رسول نمبر‪،‬‬
‫ادارہ فروغِ اُردو‪ ،‬الہور‪1406 ،‬ھ ‪1985 /‬ء‬
‫طبری‪ :‬تاریخ االمم والملوک‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪70-69‬‬ ‫(‪49‬‬
‫بخاری‪ :‬شرح ادب القاضی‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪317-316‬‬
‫ؒ‬ ‫ابن مازہ‬ ‫(‪50‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪51‬‬
‫(‪ 52‬جسٹس تنزیل الرحمن‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬قانونی لغت‪ ،‬ص ‪ ، 103‬پی ایل ڈی پبلشرز الہور‪ ،‬بارھواں‬
‫ایڈیشن‪1429 ،‬ھ ‪2008 /‬ء‬
‫‪Pakistan Law Digest, 1967, Dacca, P-528, PLD Publishers, Urdu Bazar, )53‬‬
‫‪Lahore‬‬
‫‪Mazhar Nizami: Commentary on Cr. P.C. P-269, PLD, Publishers, )54‬‬
‫‪Nabha Road, Lahore‬‬
‫عسقالنی‪ :‬احمد بن علی‪( :‬م۔ ‪852‬ھ ‪1448 /‬ء)‪ :‬فتح الباری شرح البخاری‪ ،‬ج ‪،12‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪ 55‬ابن حجر‬
‫ص ‪ ،233‬دارالمعرفہ بیروت‪1379 ،‬ھ ‪1959 /‬ء‬
‫عمر) کے عہد میں عدلیہ اور انتظامیہ‘‘‪،‬‬
‫(ابوبکر و ؓ‬
‫ؓ‬ ‫(‪ 56‬ڈاکٹر یوسف گورایہ‪’’ :‬خلفائے محمد ﷺ‬
‫نقوش‪ ،‬رسول نمبر‪ ،‬ج ‪ ،13‬ص ‪694‬‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪97-96‬‬ ‫(‪57‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪99‬‬ ‫(‪58‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪100‬‬ ‫(‪59‬‬
‫ماوردی‪ ،‬علی بن محمد ابوالحسن‪( :‬م۔ ‪450‬ھ ‪1058 /‬ء)‪ :‬االحکام السلطانیہ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪،128‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪60‬‬
‫دارالحدیث القاھرہ‪ ،‬س ن‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪108‬‬ ‫(‪61‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪108‬‬ ‫(‪62‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬النساء ‪148 : 4‬‬ ‫(‪63‬‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪110‬‬ ‫(‪64‬‬
‫الرجْ ِم ِب ْال ُم َ‬
‫صلّٰی‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،6820 :‬دار طوق‬ ‫اب َّ‬
‫(‪ 65‬بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب الحدود بَ ُ‬
‫االولی‪1422 ،‬ھ ‪2001 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫النجاۃ‪ ،‬طبعۃ‬
‫مالک بن انس‪( :‬م۔ ‪179‬ھ ‪795 /‬ء)‪ :‬موطا کتاب الرجم والحدود‪ ،‬باب ماجاء فی الرجم‪ ،‬رقم‬
‫ؒ‬ ‫(‪66‬‬
‫االولی‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫الحدیث‪ ،3040 :‬موسسۃ زاید بن سلطان‪ ،‬آل نھیان لالعمال الخیریہ‪ ،‬ابوظبی االٔمارات طبعۃ‬
‫‪1425‬ھ ‪2004 /‬ء‬
‫الکبری‪ ،‬کتاب الحدود‪ ،‬رقم‬
‫ٰ‬ ‫بیہقی‪ :‬احمد بن حسین‪ ،‬ابوبکر (م۔ ‪458‬ھ ‪1065 /‬ء)‪ :‬السنن‬
‫ؒ‬ ‫(‪67‬‬
‫الحدیث‪ ،16974 :‬دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬الطبعۃ الثالثۃ‪1424 ،‬ھ ‪2003 /‬ء‬
‫الموطا‪ ،‬کتاب الحدود‪ ،‬باب االستکراہ فی الزنا‪،‬‬
‫حسن‪( :‬م۔ ‪189‬ھ ‪804 /‬ء)‪ٔ :‬‬ ‫ؒ‬ ‫(‪ 68‬الشیبانی‪ ،‬محمد بن‬
‫رقم الحدیث‪ ،702 :‬المکتبۃ العلمیہ‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیہ‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 69‬الصنعانی‪ ،‬عبدالرزاق‪( :‬م‪211 :‬ھ ‪826 /‬ء)‪ :‬المصنف‪ ،‬باب المرأۃ تزنی بعبد زوجھا‪ ،‬رقم‬
‫الحدیث‪ ،13441 :‬المکتب االسالمی بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1403 ،‬ھ ‪1982 /‬ء‬
‫(‪ 70‬ابن ابی شیبہ‪ ،‬عبدہللا‪ ،‬ابوبکر‪( :‬م۔ ‪235‬ھ ‪849 /‬ء)‪ :‬المصنف فی االحادیث واْلثار‪ ،‬کتاب‬
‫الحدود‪ ،‬باب فی الرجل یوجد شار بافی رمضان‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،28692 :‬مکتبۃ الرشد ریاض طبعۃ‬
‫االولی‪ ،‬س ن‬
‫ٰ‬
‫ؓ‬
‫عفان‪ ،‬رقم الحدیث‪3696 :‬‬ ‫بخاری‪ ،‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب المناقب‪ ،‬باب مناقب عثمان بن‬ ‫(‪71‬‬
‫(‪ ii‬طبری‪ :‬تاریخ االمم و الملوک‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪271‬‬
‫(‪ 72‬نور الدین‪ ،‬محمد عبدہللا‪ :‬النجم الثاقب فی اقضیۃ علی بن ابی طالب‪ ،‬ص ‪ ،168‬جہانگیر بک‬
‫ڈپو‪ ،‬نولکھا بازار‪1941 / 1360 ،‬ء‬
‫طحاوی‪ ،‬احمد بن محمد‪( :‬م۔ ‪321‬ھ ‪933 /‬ء)‪ :‬شرح معانی اْلثار‪ ،‬کتاب الحدود‪ ،‬باب االقرار‬
‫ؒ‬ ‫(‪73‬‬
‫االولی‪1414 ،‬ھ ‪1994 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫بالسرقۃ‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،4980 :‬عالم الکتب‪ ،‬طبعۃ‬
‫محمد عبدہللا‪ :‬النجم الثاقب‪ ،‬ص ‪145‬‬ ‫(‪74‬‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪112‬‬ ‫(‪75‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪117‬‬ ‫(‪76‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪119-118‬‬ ‫(‪77‬‬
‫ابن قدامہ‪ ،‬المغنی‪ ،‬ج ‪ ،10‬ص ‪ ،167‬مکتبہ القاھرہ‪1388 ،‬ھ ‪1968 /‬ء‬ ‫(‪78‬‬
‫حوالہ سابق‪ ،‬ج ‪ ،10‬ص ‪170‬‬ ‫(‪79‬‬
‫حصکفی‪ :‬عالء الدین‪( :‬م۔ ‪1088‬ھ ‪1677 /‬ء)‪ :‬الدرالمختار‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،320‬ایچ ایم سعید‬
‫ؒ‬ ‫(‪80‬‬
‫کمپنی کراتشی‪1331 ،‬ھ ‪1913 /‬ء‬
‫قرآن کریم‪ :‬الطالق ‪2:65‬‬ ‫(‪81‬‬
‫(‪ 82‬ابن عابدین شامی‪ ،‬محمد امین‪1252( :‬ھ ‪1836 /‬ء)‪ :‬ردالمحتار علی الدر المختار‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص‬
‫‪ ،194‬دارالفکر بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1412 ،‬ھ ‪1992 /‬ء‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،3‬ص ‪239‬‬ ‫(‪83‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،3‬ص ‪240‬‬ ‫(‪84‬‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪132‬‬ ‫(‪85‬‬
‫ابن قدامہ‪ :‬المغنی‪ ،‬ج ‪ ،10‬ص ‪167‬‬ ‫(‪86‬‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪137‬‬ ‫(‪87‬‬
‫‪The Pakistan Penal Code 1860 A.D, Pakistan Law Times Publication, )88‬‬
‫‪Urdu Bazar Lahore, 1994 AD / 1415 AH‬‬
‫کاسانی‪ :‬بدائع الصنائع‪ ،‬ج‪ ،6‬ص ‪48‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪99‬‬
‫شامی‪ ،‬ردالمحتار‪ :‬ج ‪ ،4‬ص ‪653‬‬ ‫(‪90‬‬
‫مرغینانی‪ :‬الھدایہ‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪357‬‬ ‫(‪91‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪92‬‬
‫کاسانی‪ :‬بدائع الصنائع‪ :‬ج ‪ ،6‬ص ‪48‬‬ ‫(‪93‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪94‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،7‬ص ‪183‬‬ ‫(‪95‬‬
‫شامی‪ :‬ردالمحتار‪ :‬ج ‪ ،5‬ص ‪633‬‬ ‫(‪96‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪97‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪98‬‬
‫حصکفی‪ :‬الدر المختار‪ :‬ج ‪ ،3‬ص ‪485‬‬ ‫(‪99‬‬
‫(‪ 100‬شامی‪ :‬ردالمحتار‪ :‬ج ‪ ،5‬ص ‪634‬‬
‫(‪ 101‬حصکفی‪ :‬درالمختار‪ :‬ج ‪ ،3‬ص ‪485‬‬
‫(‪ 102‬شامی‪ :‬ردالمحتار‪ :‬ج ‪ ،5‬ص ‪635-634‬‬
‫(‪ 103‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪158-157‬‬
‫(‪ 104‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪158-157‬‬
‫(‪ 105‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪162-161‬‬
‫(‪ 106‬زیدان‪ ،‬عبدالکریم‪ ،‬سید‪ :‬نظام القضاء فی الشریعۃ االسالمیہ‪ ،‬ص ‪ ،258‬موسسۃ الرسالۃ‬
‫بیروت‪1410 ،‬ھ ‪1989 /‬ء‬
‫(‪ 107‬لجنۃ مکونۃ من عدۃ علماء وفقھاء فی الخالفۃ العثمانیۃ‪ ،‬مجلۃ االحکام العدلیہ‪ :‬المادہ‪،1830 :‬‬
‫نور محمد کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراتشی‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 108‬حوالہ سابق‪ :‬المادہ‪1831 :‬‬
‫(‪ 109‬حوالہ سابق‪ :‬المادہ‪1833 :‬‬
‫فتاوی الھندیۃ‪ :‬ج ‪ ،6‬ص ‪ ،163‬دارالفکر بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 110‬لجنۃ علماء برئاسۃ نظام الدین البلخی‪:‬‬
‫الثانیۃ‪1310 ،‬ھ ‪1892 /‬ء‬
‫(‪ 111‬محمود عرنوس‪ :‬تاریخ القضاء فی االسالم‪ ،‬ص ‪199‬‬
‫(‪ 112‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪202‬‬
‫(‪ 113‬سرخسی‪ ،‬محمد بن احمد‪( :‬م۔ ‪490‬ھ ‪1096 /‬ء )‪ :‬المبسوط‪ ،‬ج ‪ ،16‬ص ‪ ،90‬مکتبہ رشیدیہ‪،‬‬
‫سرکی روڈ کوئٹہ‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 114‬قرآن کریم‪ :‬بنی اسرائیل ‪70 : 17‬‬
‫(‪ 115‬مسلم‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،1955 :‬دار احیاء التراث العربی بیروت‪1410 ،‬ھ ‪/‬‬
‫‪1990‬ء‬
‫(‪ 116‬احمد فتحی‪ ،‬بہنسی‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬القصاص فی الفقہ االسالمی‪ ،‬مترجم (اُردو)‪ :‬سید عبدالرحمن‬
‫بخاری‪ ،‬ص ‪ ،309‬مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری‪ ،‬نسبت روڈ الہور‪ ،‬ط‪ :‬دوم‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 117‬ابن ماجہ‪ ،‬محمد بن یزید‪( :‬م۔ ‪273‬ھ ‪886 /‬ء)‪ :‬السنن‪ ،‬کتاب الدیات‪ ،‬باب القود اال بالسیف‪ ،‬رقم‬
‫عیسی البابی الحلبی‪ ،‬س ن‬
‫ٰ‬ ‫الحدیث‪ ،2667 :‬داراحیاء الکتب العربیہ‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،3112 :‬فیصل‬
‫(‪ 118‬صنعانی‪ ،‬عبدالرزاق‪( :‬م۔ ‪211‬ھ ‪826 /‬ء)‪ :‬المنصف‪ ،‬کتاب العقول‪ ،‬باب عمدالسالح‪ ،‬رقم‬
‫الحدیث‪ ،17179 :‬المکتب االسالمی بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1403 ،‬ھ ‪/‬‬
‫(‪ 119‬دار قطنی‪ ،‬علی بن عمر‪( :‬م‪1385 ،‬ھ ‪995 /‬ء)‪ :‬سنن دار قطنی‪ ،‬کتاب الدیات والحدود‪ ،‬باب‬
‫القود اال بسالح‪ ،‬موسسۃ الرسالۃ بیروت‪ ،‬طبعۃ االولی‪1424 ،‬ھ ‪2004 /‬ء‬
‫(‪ 120‬احمد بہنسی‪ :‬القصاص فی الفقہ االسالمی‪ ،‬ص ‪308‬‬
‫(‪ 121‬محمد میاں صدیقی‪ :‬قصاص و دیت‪ ،‬ص ‪ ،195‬ادارہ تحقیقات اسالمی بین االقوامی اسالمی‬
‫یونیورسٹی اسالم آباد‪ ،‬ط‪ :‬پنجم‪1996 ،‬ء ‪1471/‬ھ‬
‫(‪ 122‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 123‬احمد بہنسی‪ :‬القصاص فی الفقہ االسالمی‪ ،‬ص ‪313‬‬
‫المستصفی‪ ،‬ص ‪ ،287‬مطبعہ امیریہ‪ ،‬مصر‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 124‬محمد غزالی‪ ،‬ابو حامد‪( :‬م۔ ‪505‬ھ ‪1111 /‬ء)‪:‬‬
‫‪1294‬ھ ‪1877 /‬ء‬
‫موسی‪ ،‬ابو اسحاق‪( :‬م۔ ‪790‬ھ ‪1388 /‬ء)‪ :‬الموافقات فی اصول الشریعۃ‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 125‬الشاطبی‪ ،‬ابراہیم بن‬
‫االولی‪1417 ،‬ھ ‪1997 /‬‬
‫ٰ‬ ‫ج ‪ ،2‬ص ‪ ،20‬دار ابن عفان‪ ،‬طبعۃ‬
‫(‪ 126‬کاسانی‪ :‬بدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪60‬‬
‫(‪ 127‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 128‬عبدالقادر عودہ‪ :‬تشریع الجنائی االسالمی‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،611‬دارالکاتب العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 129‬حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،1‬ص ‪609‬‬
‫(‪ 130‬رپورٹ اسالمی نظریاتی کونسل‪( :‬بابت سال‪ )07-2006 :‬ص ‪257‬‬
‫(‪ 131‬القرانی‪ ،‬احمد بن ادریس‪ ،‬شہاب الدین (م۔ ‪684‬ھ ‪1285 /‬ء)‪ :‬انوار البروق فی انواع الفروق فی‬
‫اصول الفقہ‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪ ،43‬دارالکتب العلمیہ بیروت‪1343 ،‬ھ ‪1924 /‬ء‬
‫(‪ 132‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 133‬حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،6‬ص ‪60‬‬
‫(‪ 134‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 135‬ابن ابی شیبہ‪ ،‬المصنف‪ ،‬رقم الحدیث‪22855 :‬‬
‫(‪ 136‬قرافی‪ :‬انوار البروق‪ :‬ج ‪ ،6‬ص ‪60‬‬
‫(‪ 137‬ابن فرحون‪ ،‬ابراہیم‪ ،‬قاضی‪( :‬م‪799 :‬ھ ‪1396 /‬ء) تبصرۃ الحکام فی اصول االقضیۃ و مناہج‬
‫االحکام‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،73‬مطبع مصطفی الحلبی‪ ،‬مصر‪1378 ،‬ھ ‪1958 /‬ء‬
‫(‪ 138‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪164‬‬
‫(‪ 139‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪165‬‬
‫(‪ 140‬قرآن کریم‪ :‬الحجرات ‪9 : 49‬‬
‫(‪ 141‬قرآن کریم‪ :‬الحجرات ‪10 : 49‬‬
‫(‪ 142‬قرآن کریم‪ :‬البقرۃ ‪178 : 2‬‬
‫عیسی‪( :‬م۔ ‪279‬ھ ‪892 /‬ء)‪ :‬جامع ترمذی‪ ،‬ابواب الدیات‪ ،‬باب ماجآء فی‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 143‬ترمذی‪ ،‬محمد بن‬
‫حکم ولی القیتل‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،1406 :‬مطبعۃ البابی الحلبی مصر‪ ،‬طبعۃ الثانی‪1395 ،‬ھ ‪1975 /‬ء‬
‫(‪ 144‬محمد میاں صدیقی‪ :‬قصاص ودیت‪ ،‬ص ‪226-225‬‬
‫(‪ 145‬السنن الکبری‪ ،‬کتاب الصلح‪ ،‬باب صلح االبراء‪ ،‬رقم الحدیث‪11352 :‬‬
‫(‪ 146‬ابن قیم جوزی‪ :‬اعالم الموقعین عن رب العالمین‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،85‬دارالکتب العلمیہ‪ ،‬بیروت‪،‬‬
‫‪1411‬ھ ‪1991 /‬ء‬
‫(‪ 147‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪86‬‬
‫الکبری‪ ،‬کتاب الصلح‪ ،‬باب ماجآء فی التحلل‪ ،‬رقم الحدیث‪11362 :‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 148‬بیہقی‪ :‬السنن‬
‫سرخسی‪ :‬المبسوط‪ :‬ج ‪ ،16‬ص ‪69‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪149‬‬
‫(‪ 150‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 151‬المرغینانی‪ :‬الھدایہ‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪451‬‬
‫وی الھندیہ‪ ،‬ج ‪ ،9‬ص ‪299‬‬
‫(‪ 152‬الفتا ٰ‬
‫(‪ 153‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 154‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 155‬المرغینانی‪ :‬الھدایہ‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪451‬‬
‫(‪ 156‬حوالہ سابق‬
‫‪National Law Reporter, 1417 AH / 1996 AD, Shariah Decision, P: 697‬‬ ‫‪)157‬‬
‫‪)(a‬‬
‫‪ii) Pakistan Criminal Law Jouurnal, P: 247, PLD Publishers, Nabha‬‬
‫‪Road, Lahore‬‬
‫‪Monthly Law Digest: 1418 AH / 1997 AD, P: 2710, PLD Publishers, )158‬‬
‫‪Nasha road Lahore‬‬
‫(‪ 159‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪166‬‬
‫(‪ 160‬مالک بن انس‪ :‬الموطا‪ :‬کتاب الحدود‪ ،‬باب ما جآء فی الرجم‪ ،‬رقم الحدیث‪3039 :‬‬
‫علی نفسہ‬
‫انس‪( :‬م۔ ‪179‬ھ ‪795 /‬ء)‪ :‬الموطا‪ ،‬کتاب الحدود‪ ،‬باب ماجآ فیمن اعترف ٰ‬
‫(‪ 161‬مالک بن ؒ‬
‫بالزنا‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،3048 :‬موسسۃ زاید بن سلطان آل نھیان‪ ،‬ابوظبی‪ ،‬االمارات‪1425 ،‬ھ ‪2004 /‬ء‬
‫(‪ 162‬البیہقی‪ ،‬احمد بن حسین‪ ،‬ابوبکر‪( :‬م۔ ‪458‬ھ ‪1068 /‬ء)‪ :‬السنن الکبری‪ ،‬کتاب الحدود‪ ،‬باب‬
‫الضریر فی خلقتہ ال من مرض یصیب الحد‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،17008 :‬دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫الثالثۃ‪1424 ،‬ھ ‪2003 /‬ء‬
‫(‪ 163‬کاسانی‪ ،‬عالء الدین ابی بکر بن مسعود‪( :‬م۔ ‪587‬ھ ‪1191 /‬ء)‪ :‬البدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪،59‬‬
‫دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1406 ،‬ھ ‪1986 /‬ء‬
‫(‪ i( 164‬حوالہ سابق‬
‫(‪ ii‬الماوردی‪ ،‬علی بن محمد‪ ،‬ابوالحسن‪( :‬م۔ ‪450‬ھ ‪1058 /‬ء)‪ :‬االحکام السلطانیۃ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص‬
‫‪ ،328‬دارالحدیث القاھرہ‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 165‬کاسانی‪ :‬بدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪59‬‬
‫(‪ 166‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪60-59‬‬
‫(‪ 167‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪60‬‬
‫(‪ 168‬حوالہ سابق‬
‫(‪ 169‬الماوردی‪ :‬االحکام السلطانیۃ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪328‬‬
‫(‪ 170‬قرآن کریم‪ :‬النور ‪2:24‬‬
‫کاسانی‪ :‬بدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪60‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪171‬‬
‫(‪ 172‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪171‬‬
‫(‪ 173‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪172‬‬
‫(‪ 174‬حوالہ سابق‬

‫باب نمبر ‪4‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ 401‬تا ‪475‬‬


‫(باب نمبر ‪)29‬‬
‫بابت معطلی‪ ،‬معافی و تبدیلی احکام سزا‬

‫دفعہ نمبر ‪ :401‬احکام سزا کے معطل یا معاف کرنے کا اختیار‬

‫جب کسی شخص کو کسی جرم میں سزایابی کا حکم ہوا ہو‪ ،‬تو صوبائی حکومت‬ ‫(‪1‬‬
‫مجاز ہے کہ کسی وقت بالشرائط یا ایسی شرائط پر جن کو سزایاب شخص قبول کرے‪ ،‬اس کی سزا‬
‫کی تعمیل معطل کردے یا جو سزا اسے دی گئی ہے‪ ،‬اس کو کلی یا جزوی طور پر معاف کردے۔‬
‫ت پاکستان کے باب ‪ XVI‬کے تحت کسی‬ ‫]لیکن شرط یہ ہے کہ صوبائی حکومت کو مجموعہ تعزیرا ِ‬
‫مجرم کو دی گئی سزا کو معطل یا معاف کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہوگا اگر اس کی طرف سے‬
‫کوئی جرم کاروکاری‪ ،‬سیاہ کاری یا اسی طرح کے دیگر رواجات یا معموالت کے نام پر بہانے سے‬
‫کیا گیا ہے۔[‬
‫جب کبھی حکم سزا کی معطلی یا معافی کیلئے صوبائی حکومت کو درخواست دی‬ ‫(‪2‬‬
‫جائے تو صوبائی حکومت مجاز ہوگی کہ وہ اس عدالت کے جج کو جس کے روبرو جرم ثابت قرار‬
‫دیا گیا یا جس نے اس کی توثیق کی ہو‪ ،‬یہ حکم دے کہ وہ اس امر کی نسبت اپنی رائے مع ویسی‬
‫رائے کی وجوہ کے ارسال کرے‪ ،‬نیز ایسی رائے کے بیان کے ساتھ تجویز مقدمہ یا اس کا ایسا‬
‫ریکارڈ موجود ہو‪ ،‬کہ مصدقہ نقل ارسال کرے۔‬
‫اگر کوئی شرط جس پر کوئی سزا ملتوی یا معاف کی گئی ہو‪ ،‬صوبائی حکومت کی‬ ‫(‪3‬‬
‫رائے میں‪ ،‬پوری نہ کی گئی ہو تو صوبائی حکومت مجاز ہے کہ التوا یا معافی کو منسوخ کردے‬
‫اور اس پر وہ شخص جس کے حق میں سزا ملتوی یا معاف کی گئی تھی‪ ،‬اگر آزاد ہو تو بذریعہ‬
‫کسی پولیس افسر بالوارنٹ گرفتار کیا جا سکتا ہے اور ناتمام میعاد کی سزا بھگتنے کیلئے دوبارہ‬
‫جیل بھیجا جا سکتا ہے۔‬
‫وہ شرط جس کے مطابق کوئی سزا حسب دفعہ ہذا معطل یا معاف کی گئی ہو‪ ،‬ایسی‬ ‫(‪4‬‬
‫ہو سکتی ہے جو اس شخص کو پوری کرنی ہو جس کے حق میں سزا معطل یا معاف کی گئی ہو یا‬
‫ایسی ہو سکتی ہے جس میں اس کی مرضی کا دخل نہ ہو۔‬
‫(‪ A-4‬مذکورہ باال ضمنی دفعات کے احکام کا عدالت فوجداری کے کسی ایسے حکم پر‬
‫بھی اطالق ہوگا جو مجموعہ ہذا کی کسی دفعہ یا کسی دیگر قانون کے تحت صادر کیا گیا ہو اور‬
‫جس سے کسی شخص کی آزادی پر کوئی پابندی یا اس پر یا اس کی جائیداد پر کوئی ذمہ داری عائد‬
‫ہوتی ہو۔‬
‫اس (دفعہ) میں درج کسی امر سے صدر یا وفاقی حکومت کے اختیار‪ ،‬جب ایسا حق‬ ‫(‪5‬‬
‫اسے تفویض کیا گیا ہو‪ ،‬بابت معافی‪ ،‬عارضی التوائے تعمیل سزا‪ ،‬مہلت یا تخفیف و منسوخی میں‬
‫مداخلت کرنے کے مترادف نہ سمجھا جائے گا۔‬
‫(‪ A-5‬جب صدر کی طرف سے یا ان اختیارات کی رو سے جو اسے وفاقی حکومت سے‬
‫تفویض ہوئے ہوں‪ ،‬کوئی مشروط معافی دی جائے تو کوئی شرط خواہ کسی نوعیت کی ہو جو اس‬
‫طور پر عائد کی گئی ہو‪ ،‬مجموعہ ہذا کے تحت عدالت مجاز کی عائد کردہ تصور ہوگی اور اس کے‬
‫مطابق قابل نفاذ ہوگی۔‬
‫صوبائی حکومت‪ ،‬بذریعہ عام قواعد یا احکام خاص‪ ،‬سزائوں کی معطلی اور ان‬ ‫(‪6‬‬
‫شرائط کی بابت ہدایت کرنے کی مجاز ہوگی‪ ،‬جن کے مطابق درخواست پیش کرنی ہوگی اور اس پر‬
‫کارروائی ہوگی۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :402‬تبدیلی سزا کا اختیار‬

‫صوبائی حکومت مجاز ہے کہ سزایاب شخص کی رضامندی کے بغیر‪ ،‬درج ذیل‬ ‫(‪1‬‬
‫سزائوں میں سے کسی ایک سزا کو کسی دیگر سزا سے جو اس کے بعد درج ہے‪ ،‬تبدیل کرے۔‬
‫موت‪ ،‬عمر قید‪ ،‬ایسی مدت کی قید بامشقت جو اس مدت سے زیادہ نہ ہو جو ازروئے قانون اسے دی‬
‫جا سکتی تھی‪ ،‬اسی مدت کی قید محض جرمانہ۔‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 54‬یا دفعہ ‪ 55‬کے‬
‫دفعہ ہذا میں درج کوئی امر مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪2‬‬
‫احکام پر اثرانداز نہ ہوگا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-402‬احکام سزائے موت‬

‫جو اختیارات دفعہ نمبر ‪ 401‬اور ‪ 402‬کے تحت صوبائی حکومت کو عطا کئے گئے ہیں‪ ،‬احکام‬
‫سزائے موت کی صورت میں صدر مملکت بھی ان کا استعمال کر سکتا ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :B-402‬صوبائی حکومت کے اختیارات پر عملدرآمد کی بابت بعض پابندیاں‬

‫دفعہ ‪ 401‬اور دفعہ ‪ 402‬میں درج کسی امر کے باوصف صوبائی حکومت‪ ،‬سوائے صدر کی‬
‫پیشگی منظوری کے‪ ،‬کسی ایسے مقدمہ میں ایسے اختیارات استعمال نہیں کرے گی جس میں صدر‬
‫نے دستور کے تحت یا دفعہ ‪ A-402‬کے تحت اپنے اختیارات کو بروئے کار التے ہوئے معافی‪،‬‬
‫عارضی التوائے سزا‪ ،‬تخفیف‪ ،‬معطلی یا تبدیلی کی بابت کوئی حکم صادر کیا ہو۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬ان دفعات ‪ 402-B ،A-402 ،402 ،401‬میں سزا کے احکام کو معطل کرنے یا‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫معاف کرنے کا اختیار حکومت کو دیا گیا ہے جبکہ حدود کی سزائوں کے بارے میں شریعت کی رو‬
‫سے حکومت کو اس طرح کا اختیار حاصل نہیں ہے‪ ،‬حدود اور ان کے متعلق قرآن وسنت کی‬
‫تعالی نے ارشاد فرمایا ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫تعلیمات درج ذیل ہیں۔ ہللا‬
‫ک ُھ ُم َّ‬
‫الظا ِل ُمونَ (‪)1‬‬ ‫ّللاِ فَا ُْٔولَئِ َ‬
‫ّللاِ فَالَ ت َ ْعتَدُوھَا َو َمن یَتَعَدَّ ُحدُودَ ِّ‬
‫ک ُحدُودُ ِّ‬‫تِ ْل َ‬
‫تعالی کی حدود ہیں‪ ،‬ان سے تجاوز نہ کرو اور جس نے حدود ہللا سے تجاویز کیا‬
‫ٰ‬ ‫’’یہ ہللا‬
‫پس وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔‬
‫ین (‪)2‬‬ ‫سولَہُ َویَتَعَدَّ ُحدُودَہُ یُد ِْخ ْلہُ ن ً‬
‫َارا خَا ِلدًا فِی َھا َولَہُ َ‬
‫عذَابٌ ُّم ِھ ٌ‬ ‫ّللاَ َو َر ُ‬
‫ص ِّ‬‫َو َمن یَ ْع ِ‬
‫’’اور جس نے ہللا اور اسکے رسول ﷺ کی نافرمانی کی اور اسکی حدود سے تجاوز کیا تو‬
‫وہ اسے آگ میں داخل کرے گا وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس کیلئے رسوا کن عذاب ہے‘‘۔‬
‫ظلَ َم نَ ْف َ‬
‫سہُ (‪)3‬‬ ‫ّللاِ فَقَ ْد َ‬
‫ّللاِ َو َمن یَتَعَدَّ ُحدُودَ َّ‬ ‫َوتِ ْل َ‬
‫ک ُحدُودُ َّ‬
‫تعالی کی حدود ہیں‪ ،‬جس نے ہللا کی حدود سے تجاوز کیا پس اس نے اپنے آپ‬
‫ٰ‬ ‫’’اور یہ ہللا‬
‫پر ظلم کیا‘‘۔‬
‫حضور اکرم ﷺ نے حدود کے بارے میں ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫تعافوا الحدود فیما بینکم فما بلغنی من حد فقد وجب (‪)4‬‬
‫’’آپس میں حدود کے بارے میں درگزر کرو‪ ،‬کیونکہ جب حد مجھ تک پہنچ جائے تو یہ‬
‫واجب ہو گئی‘‘۔‬
‫درج باال آیات و حدیث میں حدود کے بارے میں وضاحت ہے‪ ،‬جس سے واضح ہوتا ہے کہ‬
‫حدود اور ان کے متعلق قرآن وسنت کی تعلیمات واضح ہیں۔ حدود کے مقدمات میں جرائم ثابت‬
‫ہوجائیں اور ضروری شرائط پوری ہو جائیں تو مجرم کو سزا دینا واجب ہو جاتا ہے۔ پھر قاضی یا‬
‫امام کو کوئی صوابدیدی اختیار نہیں رہتا کہ وہ مجرم کو معاف کر سکے۔ اسی طرح قصاص کے‬
‫مقدمات میں بھی قاضی یا امام کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے‪ ،‬کہ وہ کسی عدالتی فیصلے کے‬
‫خالف کوئی دوسرا فیصلہ صادر کرے۔ ان مقدمات میں سزا کی معافی کا اختیار قتل کی صورت میں‬
‫مقتول کے ورثاء کو اور اعضاء کے قصاص میں خود شخص متضرر کو حاصل ہے‘‘۔‬
‫تعالی نے ارشاد فرمایا ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫س ْل َ‬
‫طانًا (‪)5‬‬ ‫ظلُو ًما فَقَ ْد َجعَ ْلنَا ِل َو ِل ِیِّ ِہ ُ‬
‫َو َمن قُتِ َل َم ْ‬

‫’’اور جو ظلم سے قتل کیا جائے‪ ،‬تو ہم نے اس کے ولی کو طاقت دے دی ہے‘‘۔‬


‫ت احمدیہ میں اس آیت کے تحت لکھا ہے‪:‬‬
‫تفسیرا ِ‬
‫’’القصہ آیت اس امر کی دلیل ہے کہ ولی کو قصاص لینے کا حق حاصل ہے‘‘۔ (‪)6‬‬
‫نبی کریم ﷺ نے بھی قصاص و دیت کا حق مقتول کے ولی کو دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫’’جب کسی کو قتل کردیا جائے‪ ،‬تو اس کے وارثوں کو دو پسندیدہ باتوں میں سے ایک کا‬
‫اختیار ہے‪ ،‬یا تو قاتل کو قصاص میں قتل کرا دیں یا اس سے دیت وصول کرلیں (یعنی معاف‬
‫کردیں)‘‘۔ (‪)7‬‬
‫مندرجہ باال آیت وحدیث سے واضح ہوا کہ قصاص کی صورت میں مقتول کا ولی ہی معاف‬
‫کر سکتا ہے۔ کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ البتہ تعزیری مقدمات میں حاکم کو بالشبہ بعض‬
‫شرائط کے ساتھ صوابدیدی اختیارات حاصل ہوتے ہیں جنہیں وہ موقع بموقع استعمال کر سکتا ہے۔‬
‫(‪ )8‬اس کی کچھ تفصیل درجِ ذیل ہے۔‬
‫تعزیر کے بارے میں حاکموں کے اختیارات پر گفتگو کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا‬
‫ہے کہ تعزیر کی مختصر وضاحت کردی جائے۔‬
‫کاسانی کہتے ہیں کہ تعزیر ایسا جرم ہے‪ ،‬جس کیلئے شریعت میں کوئی سزا مقرر نہ ہو۔ یہ‬
‫حقوق ہللا کے ضمن میں ہو مثالً ترک ٰ‬
‫صلوۃ‪ ،‬ترک صوم وغیرہ یا حقوق العباد سے متعلق ہو۔ یعنی‬
‫کوئی شخص کسی مسلمان کو اپنے قول وفعل سے ناحق ایذا پہنچائے۔ مثالً اسے خبیث‪ ،‬فاسق‪ ،‬چور‪،‬‬
‫کافر‪ ،‬سود خور‪ ،‬شرابی وغیرہ کہے۔ یہ تعزیری جرائم ہیں۔ (‪)9‬‬
‫ڈاکٹر عامر لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ع ْذر سے نکال ہے۔ یعنی روکنا‪ ،‬منع کرنا۔ اس سزا کو‬ ‫تعزیر باب تفعیل کا مصدر ہے اور ُ‬
‫ب جرم سے روکتی ہے یا اگر وہ ایک دفعہ ارتکاب‬ ‫تعزیر اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ مجرم کو ارتکا ِ‬
‫کرام لکھتے ہیں‪ :‬یہ ایک‬
‫ؒ‬ ‫کرکے سزا پاتا ہے تو دوبارہ اس جرم کا ارتکاب نہیں کرتا۔ (‪ )10‬فقہاء‬
‫بطور حق انسان اُن جرائم پر واجب ہوتی ہے‪ ،‬جن‬‫ِ‬ ‫تعالی یا‬
‫ٰ‬ ‫غیر مقرر سزا ہے جو بطور حق باری‬
‫کے بارے میں حدود اور کفارات متعین نہ ہوں‪ ،‬تادیب‪ ،‬اصالح اور جرائم سے باز رکھنے کے لحاظ‬
‫سے یہ حدود کے مماثل ہے۔ (‪)11‬‬
‫قرآن حکیم نے جن جرائم کی سزائوں کو حق ہللا کے طور پر معین کیا ہے‪ ،‬انہیں حدود‬
‫کہتے ہیں‪ ،‬جن جرائم کی سزائوں کو بطور حق العبد مقرر کیا ہے وہ قصاص (اور دیت) کہالتی ہیں‬
‫اور جن جرائم کی سزائوں کا تعین نہیں کیا‪ ،‬انہیں تعزیر کہا جاتا ہے۔ (‪)12‬‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ تعزیر وہ سزا ہے جسے شریعت نے مقرر نہیں کیا‪ ،‬بلکہ‬
‫اسے حاالت و واقعات کے مطابق حکام کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔‬
‫کاسانی کہتے ہیں کہ اگر جرم اس قبیل سے نہیں‪ ،‬جن کے ارتکاب‬
‫ؒ‬ ‫تعزیر میں حاکم وقت کا اختیار‪:‬‬
‫پر حد عائد ہوتی ہو‪ ،‬تو امام (حاکم) کو یہ اختیار ہے کہ چاہے تو مار کی سزا دے یا قید کردے یا‬
‫ؓ‬
‫صامت کو احمق کہنا۔ یہ‬ ‫ؓ‬
‫فاروق کا عبادہ بن‬ ‫پھر کوئی حقارت آمیز بات کہدے۔ جیسے سیدنا عمر‬
‫عمر کے بارے میں ایسا تصور بھی نہیں‬‫تعزیرا ً تھا۔ بُرا بھال کہنے کے طور پر نہیں کیونکہ سیدنا ؓ‬
‫کیا جا سکتا۔ (‪)13‬‬
‫قیم لکھتے ہیں کہ حسب مصلحت جرائم کی نوعیت کے مطابق تعزیر دی‬ ‫اس بارے میں ابن ؒ‬
‫جا سکتی ہے اور اس کا تعین اولواالمر کے اجتہاد اور اس کی صوابدید پر منحصر ہے ۔ (‪)14‬‬
‫اس بارے میں عبدالقادر عودہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫سزائے حد کی معافی کا ولی امر کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے جبکہ تعزیراتی سزا تمام یا‬
‫اس کا کچھ حصہ ولی امر معاف کر سکتاہے‪ ،‬اس سلسلے میں قاضی مجرم کے حاالت‪ ،‬نفسیات اور‬
‫سابقہ کردار کو سامنے رکھتے ہوئے تعزیری سزائوں میں سے کوئی سزا جاری کردے۔ اسے اس‬
‫میں تخفیف یا زیادتی کا بھی حق حاصل ہے اور قاضی حاالت کے مطابق سزا کا نفاذ بھی روک‬
‫سکتا ہے۔ (‪)15‬‬
‫ڈاکٹر عامر نے تعزیر کی دو اقسام لکھی ہیں اور انکی الگ الگ نوعیت بیان کی ہے‪،‬‬
‫لکھتے ہیں‪:‬‬
‫جو تعزیر بطور حق فرد واجب ہوتی ہے (مثالً سب وشتم۔ ہاتھا پائی وغیرہ) تو جب تک‬
‫مستغیث اپنے دعوے پر قائم رہے‪ ،‬قاضی اسے ساقط نہیں کر سکتا۔ رہی وہ تعزیر جو بطور حق ہللا‬
‫واجب ہے‪ ،‬اس میں حاکم وقت کی طرف سے معافی اور سفارش دونوں جائز ہیں‪ ،‬بشرطیکہ اس میں‬
‫مصلحت ہو اور مجرم کی اصالح سزا کے سوا دوسرے ذرائع سے ہو سکتی ہو۔ (‪)16‬‬
‫وہ مزید لکھتے ہیں‪:‬‬
‫اصولی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو تعزیر حق ہللا پر مبنی ہو‪ ،‬اسے نافذ کرنا حاکم وقت‬
‫پر واجب ہے‪ ،‬اس میں معافی‪ ،‬صلح اور برأت جائز نہیں ہے‪ ،‬البتہ حاکم کو یہ اختیار ہے کہ اگر وہ‬
‫مناسب سمجھے کہ مجرم کو معاف کردینا زیادہ مناسب ہے‪ ،‬یا سزا کے بغیر مجرم کی اصالح ہو‬
‫سکتی ہے تو سزا نافذ نہ کرے اور جو تعزیر بطور حق العبد واجب ہے‪ ،‬اسے اگر صاحب حق‬
‫معاف بھی کردے‪ ،‬یا صلح کرلے‪ ،‬تب بھی حاکم کو اختیار ہے کہ وہ مجرم کو تادیب کیلئے سزا دے۔‬
‫(‪)17‬‬
‫محمد میاں صدیقی اس بارے میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫جن جرائم کی سزا شریعت نے مقرر نہیں کی بلکہ انہیں حکام ِ وقت کی صوابدید پر چھوڑ‬
‫دیا ہے‪ ،‬انہیں شرعی اصطالح میں تعزیرات کہا جاتا ہے‪ ،‬ان کی تفصیل سنت رسول ﷺ سے ملتی‬
‫ہے‪ ،‬یہ سزائیں حاالت کے مطابق ہلکی سے ہلکی اور سخت سے سخت بھی دی جا سکتی ہیں‪ ،‬حاکم‬
‫وقت مناسب سمجھے تو معاف بھی کر سکتا ہے۔ (‪)18‬‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ تعزیر وہ سزا ہے جسے شریعت نے مقرر نہیں کیا بلکہ‬
‫حاکم وقت اور قاضی کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ مناسب سمجھیں تو کم یا زیادہ سزا دے‬
‫سکتے ہیں اور سزا کے نفاذ کو روک بھی سکتے ہیں تاکہ کسی دوسرے ذریعے سے مجرم کی‬
‫اصالح ہو سکے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی رائے‪ :‬درجِ باال دفعات کے بارے میں نظریاتی کونسل نے یہ تجویز دی‬
‫ہے‪:‬‬
‫’’ان دفعات میں حکومت کی طرف سے سزائوں کے تعطل‪ ،‬تخفیف اور معافی کے بارے‬
‫میں احکام درج ہیں‪ ،‬شریعت کے مطابق حدود کے بارے میں حکومت اس قسم کے اختیارات‬
‫استعمال نہیں کر سکتی اور قصاص کی صورت میں صرف وئی مقتول ہی معاف کر سکتا ہے۔‬
‫لیکن جہاں حکومت ولی ہو‪ ،‬وہاں وہ صلح کرتے ہوئے دیت بھی منظور کر سکتی ہے‪ ،‬البتہ‬
‫تعزیرات کے دیگر معامالت میں حکومت کو سزا کے تعطل اور معافی کے اختیارات حاصل ہیں‪،‬‬
‫بشرطیکہ حق العباد متاثر نہ ہوتے ہوں‪ ،‬ایسی معافی ان جرائم موجب تعزیر میں نہیں ہوگی‪ ،‬جو‬
‫حقوق ہللا سے متعلق ہوں‪ ،‬جیسے اجنبی عورت کا بوسہ لینا‪ ،‬کونسل نے محسوس کیا کہ یہ دفعات‬
‫شریعت کے ان متذکرہ اصولوں کے مطاق نہیں‪ ،‬لہٰ ذا کونسل سفارش کرتی ہے کہ ان دفعات میں‬
‫شریعت کے مذکورہ باال احکام کی روشنی میں مناسب ترامیم کی جائیں۔ (‪)19‬‬
‫خالف شریعت معلوم ہوتی ہیں‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫ِ‬ ‫تجویز ‪ /‬ترامیم‪ :‬مذکورہ دفعات دالئل کی روشنی میں واقعی‬
‫کونسل کی سفارش کے مطابق ان میں ترامیم کی جانی چاہئیں۔‬

‫]دفعہ نمبر ‪ :C-402‬بعض سزائوں کی معافی یا تبدیلی بغیر رضامندی نہ ہو سکے گی‬

‫دفعہ ‪ ،402 ،401‬دفعہ ‪ A-402‬یا ‪ B-402‬میں شامل کسی امر کے باوجود صوبائی حکومت‪ ،‬وفاقی‬
‫حکومت یا صدر شخص ضرر رسیدہ یا اس کے وارثان کی‪ ،‬جیسی بھی صورت ہو‪ ،‬رضامندی کے‬
‫ت پاکستان کی‬
‫بغیر کسی بھی ایسی سزا کو معطل‪ ،‬معاف یا تبدیل نہیں کر سکے گا جو کہ تعزیرا ِ‬
‫ایسی دفعات میں سے کسی دفعہ کے تحت صادر کی گئی ہو جس کی صراحت باب ‪ 16‬میں کی گئی‬
‫ہے۔[‬

‫تبصرہ‪ :‬درج باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬
‫(باب نمبر ‪)30‬‬
‫سابقہ بریت یا سزایابی کی بابت‬

‫دفعہ نمبر ‪ :403‬ایک بار سزایاب یا بری کردہ شخص کی اسی جرم میں دوبارہ تجویز نہ کی جائے‬
‫گی‬

‫کوئی شخص جس کو کسی بااختیار عدالت نے کسی جرم میں تجویز کی ہو اور‬ ‫(‪1‬‬
‫ایسے جرم میں سزایابی کی ہو یا بری کردیا ہو‪ ،‬جب تک ایسی سزایابی یا بریت زیر نفاذ ہے‪ ،‬اسی‬
‫جرم کیلئے دوبارہ تجویز کا مستوجب نہ ہوگا‪ ،‬نہ ہی ان واقعات پر کسی دیگر جرم کی نسبت‪ ،‬جس‬
‫کیلئے اس کے خالف الزام سے مختلف الزام لگایا گیا ہو جو دفعہ ‪ 236‬کے تحت اس کے خالف‬
‫لگایا جاتا یا جس کی نسبت اس کو دفعہ ‪ 237‬کے تحت سزایاب کیاجاتا۔‬
‫کوئی شخص جس کو کسی جرم میں سزایاب یا بری کیا گیا ہو‪ ،‬بعد ازاں کسی ایسے‬ ‫(‪2‬‬
‫جداگانہ جرم کیلئے‪ ،‬جس کیلئے سابقہ تجویز میں زیر دفعہ ‪ 235‬ضمنی دفعہ (‪ )1‬علیحدہ الزام عائد‬
‫کیا جا سکتا تھا‪ ،‬زیر تجویز الیا جا سکتا ہے۔‬
‫کوئی شخص جو کسی ایسے جرم میں سزایاب ہوا ہو جو اس فعل پر مبنی ہو جس‬ ‫(‪3‬‬
‫سے نتائج پیدا ہوتے ہیں جو ایسے فعل سے مل کر اس جرم سے مختلف جرم کی تشکیل کرتے ہوں‬
‫جس کیلئے اسے سزا دی گئی ہو تو جائز ہوگا کہ اگر اس وقت‪ ،‬جب اسے سزایاب کیا گیا‪ ،‬نتائج پیدا‬
‫نہ ہوئے تھے یا عدالت کے علم میں نہ تھے کہ پیدا ہو چکے ہیں تو بعد میں اس کی موخر طور پر‬
‫ذکر کردہ جرم میں تجویز کی جائے۔‬
‫جو شخص کسی ایسے جرم سے بری یا سزایاب ہوا ہو جو چند افعال پر مشتمل ہو تو‬ ‫(‪4‬‬
‫جائز ہے کہ اس پر ویسی بریت یا سزایابی کے باوجود بعد ازاں کسی اور جرم کی نسبت جو ان ہی‬
‫افعال پرمشتمل ہو‪ ،‬جن کا ارتکاب اس نے کیا ہو الزام عائد کیا جائے اور مقدمہ کی تجویز کی‬
‫جائے‪ ،‬بشرطیکہ جس عدالت نے اس کی پہلی تجویز کی ہو وہ اس جرم کی تجویز کی مجاز نہ تھی‪،‬‬
‫جس کا الزام بعد میں اس پر عائدکیا گیا۔‬
‫دفعہ ہذا میں کوئی امر قانون عبارات عامہ ‪ 1897‬کی دفعہ ‪ 26‬یا مجموعہ ہذا کی‬ ‫(‪5‬‬
‫دفعہ ‪ 188‬پر اثرانداز نہ ہوگا۔‬

‫وضاحت‪ :‬کسی نالش کا اخراج‪ ،‬دفعہ ‪ 249‬کے تحت کارروائیوں کا موقف ہونا یا ملزم کی رہائی کو‬
‫دفعہ ہذا کی اغراض کیلئے بریت نہیں سمجھا جائے گا۔‬
‫تمثیالت‬
‫الف کی بحیثیت مالزم چوری کے الزام میں تجویز عمل میں الئی گئی اور اس کو‬ ‫(‪a‬‬
‫بری کردیا گیا۔ بعد میں جب تک بریت کا حکم نافذ ہے‪ ،‬اس پر بحیثیت مالزم چوری کا الزام یا ان ہی‬
‫واقعات کی بنیاد پر صرف چوری یا خیانت مجرمانہ کا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا۔‬
‫الف پر قتل عمد کے الزام میں مقدمہ چالیا گیا اور بری کردیا گیا‪ ،‬اس پر ڈکیتی کا‬ ‫(‪b‬‬
‫الزام نہیں تھا‪ ،‬مگر واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ جب الف نے قتل عمد کا ارتکاب کیا تو اس وقت‬
‫ڈکیتی کا ارتکاب کیا‪ ،‬تو جائز ہوگا کہ بعد میں اس پر ڈکیتی کا الزام لگایا جائے اور تجویز کی‬
‫جائے۔‬
‫الف کی تجویز ضرر شدید پہنچانے کے الزام میں کی گئی اور سزایاب کیا گیا۔‬ ‫(‪c‬‬
‫مضروب شخص بعد میں مر گیا‪ ،‬جائز ہوگا کہ الف کی قتل انسان کیلئے دوبارہ تجویز کی جائے۔‬
‫الف پر عدالت سیشن میں الزم لگایا گیا اور ب کے قتل انسان کیلئے سزایاب کیا گیا۔‬ ‫(‪d‬‬
‫جائز نہ ہوگا کہ بعد میں ان ہی واقعات پر ب کے قتل عمد کیلئے الف کی تجویز کی جائے۔‬
‫الف پر ایک مجسٹریٹ درجہ اول‪ ،‬ب کو باالرادہ ضرب پہنچانے کا الزام لگاتا ہے‬ ‫(‪e‬‬
‫اور سزا دینا جائز ہے۔ جائز نہ ہوگا کہ بعد میں ان ہی واقعات پر ب الف کو بالرادہ ضرب شدید‬
‫پہنچانے کے الزام مینتجویز کی جائے بجز اس کے کہ مقدمہ دفعہ کے پیرا (‪ )3‬میں آتا ہو۔‬
‫الف پر ایک مجسٹریٹ درجہ دوم ب کے جسم سے کسی شے کی چوری کا الزام‬ ‫(‪f‬‬
‫لگاتا ہے اور سزا دیتا ہے۔ جائز ہوگا کہ بعد میں انہی واقعات پر الف کی ڈکیتی کی نسبت تجویز کی‬
‫جائے۔‬
‫الف‪ ،‬ب‪ ،‬پ پر یک مجسٹریٹ درجہ اول ت کو لوٹنے کا الزام لگاتا ہے اور سزا دیتا‬ ‫(‪g‬‬
‫ہے۔ جائز ہوگا کہ الف‪ ،‬ب‪ ،‬پ پر بعد میں ان ہی واقعات پر ڈکیتی کا الزام عائد کیا جائے اور تجویز‬
‫کی جائے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬درج باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫حصہ نمبر ‪7‬‬


‫اپیل‪ ،‬استصواب اور نگرانی کی بابت‬

‫(باب نمبر ‪)31‬‬


‫اپیلوں کی بابت‬

‫دفعہ نمبر ‪ :404‬سوائے کسی برعکس حکم کے‪ ،‬کوئی اپیل نہ کی جا سکے گی‬

‫مجموعہ ہذا یا کسی قانون نافذ الوقت میں کسی حکم کے سوا‪ ،‬کسی فوجداری عدالت کے فیصلہ یا‬
‫حکم کے خالف اپیل نہیں کی جا سکتی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :405‬قرق شدہ جائیداد کی واپسی کیلئے درخواست کو مسترد کرنے کا حکم‬

‫کوئی شخص جس کی درخواست زیر دفعہ ‪ 89‬حوالگی جائیداد یا اس کی فروخت کی رقم کیلئے‬
‫کسی عدالت نے مسترد کر دی ہو‪ ،‬اس عدالت میں اپیل دائر کر سکتا ہے جس میں عموما ً اول الذکر‬
‫عدالت کے احکام سزا کے خالف اپیل کی جا سکتی ہے۔‬

‫]دفعہ نمبر ‪ :406‬نیک چال چلن اور پرامن رہنے کی ضمانت کے حکم کیخالف اپیل‬

‫ہرگاہ ہر کس جسے کسی مجسٹریٹ نے دفعہ ‪ 118‬کے تحت نیک چلنی اور پرامن رہنے کیلئے‬
‫ضمانت کی طلبی کا حکم دیا ہوا ہو وہ شخص سیشن عدالت میں اس حکم کے خالف اپیل کر سکتا‬
‫ہے۔‬
‫بشرطیکہ ان اشخاص پر اس کا اطالق نہ ہوگا جن کیخالف دفعہ ‪ 123‬ذیلی دفعہ ‪ A-3‬یا ذیلی دفعہ ‪2‬‬
‫کے مطابق سیشن جج کی عدالت میں کارروائی زیر سماعت ہو۔[‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-406‬کسی ضامن کو قبول کرنے سے انکار یا مسترد کرنے کا حکم کیخالف اپیل‬

‫کوئی شخص جو دفعہ ‪ 122‬کے تحت کسی ضامن کو قبول کرنے سے انکار یا مسترد کرنے کا حکم‬
‫سے رنجیدہ ہو‪ ،‬ایسے حکم کیخالف سیشن عدالت کو اپیل کر سکے گی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬درجِ باال دفعات ‪ A-406 ،406 ،405 ،404‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف‬
‫دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :407‬حذف ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :408‬اسسٹنٹ سیشن جج یا عدالتی مجسٹریٹ کے حکم سزایابی کیخالف اپیل‬

‫کوئی شخص جس کو اسسٹنٹ سیشن جج‪ ،‬کسی مجسٹریٹ ضلع ]سپیشل مجسٹریٹ[ یا عدالتی‬
‫مجسٹریٹ نے سزا سنائی ہو یا کوئی ایسا شخص جس کو دفعہ ‪ 349‬کے تحت سزا ہوئی ہو‪ ،‬عدالت‬
‫سیشن میں اپیل کرنے کا مجاز ہوگا‪:‬‬
‫مگر شرط حسب ذیل ہوگی‪:‬‬
‫حذف ہوئی۔‬ ‫(‪a‬‬
‫جب کسی مقدمہ میں کوئی اسسٹنٹ سیشن جج‪ ،‬قید کی کوئی ایسی سزا دیتا ہے جو‬ ‫(‪b‬‬
‫چار سال کی مدت سے زیادہ ہو تو ایسی تجویز میں سزایاب ملزمان سے تمام کی یا کسی کی اپیل‬
‫عدالت عالیہ میں رجوع ہوگی۔‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ A-124‬کے تحت کسی‬
‫جب کسی شخص کو مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪c‬‬
‫جرم میں سزایاب کیا گیا ہو تو اپیل عدالت عالیہ میں رجوع ہوگی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :409‬عدالت سیشن میں اپیلوں کی سماعت کیسے ہوگی‬

‫اس دفعہ کے مطابق عدالت سیشن یا سیشن جج کو کی گئی اپیل کی سماعت سیشن جج یا ایڈیشنل‬
‫سیشن جج یا اسسٹنٹ سیشن جج کرینگے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ ایڈیشنل سیشن جج صرف ان اپیلوں کی سماعت کرے گا جن کی نسبت صوبائی‬
‫حکومت بذریعہ حکم عام یا خاص ہدایت کرے یا جو ڈویژن کا سیشن جج اس کے سپردکرے۔‬
‫مزید شرط یہ ہے کہ کوئی اسسٹنٹ سیشن جج اپیل کی سماعت نہیں کرے گا جب تک کہ پیل ایسے‬
‫شخص کی طرف سے نہ کی گئی ہو جس کی سماعت پر شخص مذکور کو سزا ہوئی ہو جو‬
‫مجسٹریٹ درجہ دوم یا درجہ سوم کی سماعت پر ہوئی ہو۔‬
‫تبصرہ‪ :‬دفعات ‪ 409 ،408‬میں اسسٹنٹ سیشن جج کا ذکر ہے جبکہ پاکستان کے عدالتی نظام میں‬
‫عمالً اس عہدے کا وجود نہیں ہے اور یہ الفاظ غیر ضروری طور پر قانون میں موجود ہیں۔ جن‬
‫سے ابہام اور اختالل فہم کا امکان ہے۔‬
‫نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬ان دفعات میں اسسٹنٹ سیشن جج کا ذکر ہے‪ ،‬ان دفعات سے اس لفظ کو‬
‫ہٹانے کی سفارش کی جاتی ہے جیسا کہ کونسل پہلے بھی دفعہ نمبر ‪ 31 ،9‬اور بعض دیگر دفعات‬
‫کے تحت اس کی سفارش کر چکی ہے۔ لہٰ ذا دفعہ ‪ 408‬اور اس لفظ کو ‪ 409‬کے دوسرے پرووائزو‬
‫کو بھی حذف کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ (‪)20‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعات سے ’’اسسٹنٹ سیشن جج‘‘ کے الفاظ کو حذف کردیا جانا چاہئے‬
‫تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :410‬عدالت سیشن کے حکم کے خالف اپیل‬

‫کوئی شخص جس کو سیشن جج یا کسی ایڈیشنل سیشن جج نے تجویز پر سزایاب کیا ہو‪ ،‬ہائی کورٹ‬
‫میں اپیل کر سکتا ہے۔‬
‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ جس شخص کو کسی سیشن جج یا ایڈیشنل سیشن جج نے سزا‬
‫سنائی ہو‪ ،‬وہ ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے۔‬
‫نظام عدالت میں بھی اپیل کا تصور ہے‪ ،‬جسے مرافعہ کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر‬
‫ِ‬ ‫اسالمی نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی‬
‫تنزیل الرحمان نے اپیل کی درجِ ذیل وضاحت کی ہے‪:‬‬
‫مرافعہ التجا‪ ،‬اپیل‬ ‫…‬ ‫ت مرافعہ ‪Court of appeal‬‬
‫عدال ِ‬
‫‪Appeal‬‬
‫اپیل ‪ /‬مرافعہ بہ ناراضگی فیصلہ ‪Appeal from or against a decision‬‬
‫اپیل ‪ /‬مرافعہ گزار‬ ‫…‬ ‫ت اپیل ‪Applellate court‬‬
‫عدال ِ‬
‫‪Appelant‬‬
‫مرافعہ علیہ‬ ‫…‬ ‫اختیار سماعت مرافعہ ‪Appelate jurisdiction‬‬
‫‪)21( Appellee‬‬
‫درجِ باال سطور میں اپیل کے بارے میں چند اصطالحات کی وضاحت کی گئی ہے تاکہ آئندہ‬
‫سطور کو سمجھنے میں آسانی ہو۔‬
‫مرافعہ کا مادہ ر۔ ف۔ ع ہے جس کے معنی بلندی ہیں‪ ،‬اس کے مقابل لفظ ’وضع‘ ہے۔ تاج‬
‫العروس میں ہے‪:‬‬
‫رافع الی الحاکم رفعا لیحاکمہ (‪)22‬‬
‫’’اس نے حاکم سے مرافعہ (اپیل) کی تاکہ اس سے فیصلہ کرائے‘‘۔‬
‫القاموس الوحید میں ہے‪:‬‬
‫َر ْفعًا َ‬
‫ورفَ ْعانا ً ا َ‬
‫ِلی الحا ِکم ’’فیصلے کیلئے حاکم کے پاس لے جانا‘‘۔‬
‫رافَعَ ٗہ الی الحاکم ’’حاکم کے پاس کسی کی شکایت کرکے حاضر کرانا‘‘۔‬
‫ترافعا الخصمان الی الحاکم ’’دو خصموں کا حاکم کے پاس اپنا مقدمہ لے جانا‘‘۔ (‪)23‬‬
‫قاموس المحیط میں ہے‪:‬‬
‫رافعہ الی الحاکم ’’اس نے حاکم سے اپیل کی‘‘۔ (‪)24‬‬
‫قاموس العصری الجدید میں ہے‪:‬‬
‫قربۃ من الحاکم وقدمہ الیہ لیحاکمہ (‪)25‬‬
‫’’حاکم کے پاس مقدمہ لے جانا تاکہ وہ اس کا فیصلہ کرے‘‘۔‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوتا ہے کہ مرافعہ کا مطلب ہے کہ اپنے کسی مقدمے کو فیصلہ‬
‫کیلئے حاکم کے پاس لے جانا۔‬
‫مرافعہ کا اصطالحی مفہوم یہ ہے کہ‪:‬‬
‫’’کسی ایسے شخص کا اپنے خالف کسی قاضی کے فیصلے کو کسی دوسرے قاضی کے‬
‫اختیار سماعت رکھتا ہو تاکہ وہ پہلے قاضی کے فیصلے کو قرآن وحدیث کی‬
‫ِ‬ ‫پاس لے کر جانا جو‬
‫خالف شرع ہے تو اس پر عملدرآمد روک دے‪ ،‬اگر وہ مطابق شرع ہے‬
‫ِ‬ ‫روشنی میں دیکھے‪ ،‬اگر وہ‬
‫تو اسے جاری کردے‘‘۔ (‪)26‬‬
‫جرجی زیدان کہتے ہیں کہ عربی زبان میں اپیل کیلئے استشہاد‪ ،‬استغاثہ‪ ،‬استیناف او رالتجا‬
‫کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں مگر مرافعہ کا لفظ ہی زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ (‪)27‬‬
‫قرآن مجید میں اپیل کا تصور‪ :‬قرآن مجید میں مروجہ اپیل کا تصور تمام جزئیات کے ساتھ تو نہیں‬
‫ملتا‪ ،‬البتہ اس طرف رہنمائی ضرور ملتی ہے‪ ،‬حضرت دائود علیہ السالم کے سامنے ایک مقدمہ آیا‬
‫جس کا ذکر ان آیات مبارکہ میں ہے‪:‬‬
‫غنَ ُم ْالقَ ْو ِم َو ُکنَّا ِل ُح ْک ِم ِھ ْم شَا ِھدِینَ ‪ O‬فَفَ َّھ ْمنَاھَا‬
‫َت فِی ِہ َ‬ ‫ان فِی ْال َح ْر ِ‬
‫ث ِإ ْذ نَفَش ْ‬ ‫سلَ ْی َمانَ ِإ ْذ َیحْ ُک َم ِ‬
‫َودَ ُاوودَ َو ُ‬
‫سلَ ْی َمانَ َو ُک اال آت َ ْینَا ُح ْک ًما َو ِع ْل ًما (‪)28‬‬
‫ُ‬
‫سلیمان جب ایک کھیتی کے جھگڑے کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے‪ ،‬جب‬ ‫ؑ‬ ‫دائود و‬
‫’’ ؑ‬
‫ایک قوم کی بکریاں رات کے وقت کھل گئیں‪ ،‬ہم ان کے فیصلے کو دیکھ رہے تھے‪ ،‬پس ہم نے‬
‫سلیمان (علیہ السالم) کو وہ معاملہ سمجھا دیا اور ہم نے ان سب کو حکم اور علم دیا تھا‘‘۔‬
‫کرام نے لکھا ہے کہ ایک رات کسی شخص کی بکریوں نے کسی کی کھیتی کو‬ ‫ؒ‬ ‫مفسرین‬
‫آپ نے حکم دیا کہ‬ ‫اجاڑ دیا‪ ،‬کھیت واال اور بکریوں کا مالک دائود علیہ السالم کے پاس آئے‪ ،‬چنانچہ ؑ‬
‫بکریاں کھیت والے کو دے دی جائیں تاکہ نقصان پورا ہو سکے۔ جب یہ دونوں واپس آئے تو‬
‫آپ نے معاملہ پوچھا‬ ‫سلیمان مل گئے‪ ،‬ان کی عمر گیارہ برس تھی۔ ؑ‬
‫ؑ‬ ‫دائود کے بیٹے حضرت‬ ‫ؑ‬ ‫حضرت‬
‫آپ نے فرمایا کہ اگر میں ہوتا تو مفید اور نفع واال فیصلہ کرتا۔‬
‫تو فریقین نے فیصلہ بتا دیا۔ اس پر ؑ‬
‫دائود نے پوچھا کہ تم کیا فیصلہ‬
‫ؑ‬ ‫دائود کے پاس آگئے‪ ،‬اس پر حضرت‬
‫ؑ‬ ‫چنانچہ وہ سب حضرت‬
‫سلیمان نے عرض کی کہ آپ کھیت والے کو ساری بکریاں دے دیں‪ ،‬وہ دودھ اور‬ ‫ؑ‬ ‫کرتے۔ چنانچہ‬
‫اون حاصل کرے اور کھیت بکریوں والے کو دے دیں‪ ،‬جب کھیتی موجودہ حالت میں آجائے تو‬
‫دائود نے فیصلہ پسند فرماتے ہوئے نافذ‬‫ؑ‬ ‫دونوں کو ان کی چیزیں واپس دلوا دیں۔ چنانچہ حضرت‬
‫کردیا۔ (‪)29‬‬
‫دائود نے خود ہی نظرثانی کرکے دوسرا‬
‫ؑ‬ ‫اس واقعہ میں باقاعدہ اپیل نہیں ہوئی البتہ حضرت‬
‫فیصلہ نافذ کردیا۔ لہٰ ذا اس واقعے سے پہلے فیصلے کی تبدیلی اور دوسرے فیصلے کا نفاذ اپیل کے‬
‫مقصد کے حصول کیلئے دلیل ہے۔‬
‫ایک دفعہ دو عورتیں سفر کر رہی تھیں‪ ،‬دونوں کے بچے بھی تھے۔ ایک بھیڑیا آیا اور ایک‬
‫بچہ لے گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ وہ تمہارا بچہ تھا۔ چنانچہ حصو ِل انصاف کیلئے یہ‬
‫آپ نے واقعات سن کر بچہ بڑی عورت کو دے دیا۔ پھر وہ‬ ‫دائود کے پاس آئیں۔ ؑ‬
‫ؑ‬ ‫دونوں حضرت‬
‫آپ نے فرمایا کہ چھری الئو میں بچے‬ ‫سلیمان کے پاس آئیں اور واقعہ بتایا۔ ؑ‬
‫ؑ‬ ‫دونوں عورتیں حضرت‬
‫کو کاٹ کر تم دونوں میں تقسیم کر دیتا ہوں۔ اس پر چھوٹی عورت نے عرض کی کہ ایسا نہ کریں‬
‫آپ نے بچہ چھوٹی عورت کو دے دیا اور فرمایا بچہ تمہارا ہی ہے۔ (‪)30‬‬ ‫اور بڑی خاموش رہی تو ؑ‬
‫دائود کی اُمت میں یہ مشہور تھا کہ وہ‬
‫ؑ‬ ‫اس واقعہ میں اپیل کا تصور ملتا ہے۔ حضرت‬
‫سلیمان کی درخواست پر اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرلیتے ہیں۔ لہٰ ذا یہ دونوں عورتیں پہلے‬
‫ؑ‬ ‫حضرت‬
‫سلیمان کے پاس حاضر ہوئیں۔‬
‫ؑ‬ ‫دائود اور پھر حضرت‬
‫ؑ‬ ‫حضرت‬
‫مدینہ منورہ میں حضور اکرم ﷺ خود ہی فیصلے فرماتے۔مرکز میں آپ ﷺ خود ہی گویا‬
‫قاضی القضاۃ اور مفتی اعظم تھے۔ تمام مقدمات آپ ﷺ ہی کی عدالت میں پیش ہوتے تھے اور‬
‫ایوان عدالت کی حیثیت حاصل تھی۔ (‪ )31‬قرآن مجید نے اس نبوی منصب‬
‫ِ‬ ‫بالعموم مسجد نبوی کو ہی‬
‫کی وضاحت یوں کی ہے‪:‬‬
‫ک فَاحْ ُ‬
‫کم بَ ْینَ ُھم (‪)32‬‬ ‫فَإِن َجآؤُو َ‬
‫’’پس اگر وہ تمہارے پاس آئیں تو آپ ﷺ ان میں فیصلہ کردیں‘‘۔‬
‫دوسری جگہ فرمایا‪:‬‬
‫ال ْع ِد َل بَ ْینَ ُ‬
‫ک ُم (‪)33‬‬ ‫َوأُ ِم ْرتُ ِ َٔ‬
‫’’اور مجھے تمہارے درمیان عدل کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘‘۔‬
‫ایک اعرابی نے حاضر خدمت ہو کر عرض کی‪:‬‬
‫یا رسول اہللا (ﷺ)! اقض بیننا (‪’’ )34‬یا رسول ہللا ﷺ ہمارے درمیان فیصلہ کردیجئے‘‘۔‬
‫سرخسی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬
‫کان رسول ہللا ﷺ یقضی والخلفاء بعدہ (‪)35‬‬
‫ؓ‬
‫راشدین بھی بذات‬ ‫’’حضور اکرم ﷺ مقدمات کے فیصلے فرماتے اور آپ ﷺ کے بعد خلفاء‬
‫خود فیصلے کرتے تھے‘‘۔‬
‫اس کے ساتھ ساتھ مرافعہ جات اور اپیلوں کے فیصلے بھی کئے جاتے تھے۔ یہ یاد رہے کہ‬
‫کم از کم قبائل انصار کی حد تک حضور ﷺ نے ہجرت سے پہلے ہی بیعت عقبہ میں ہر قبیلے کا‬
‫ایک ایک نقیب مقرر فرما دیا تھا جو اپنے قبیلے کی نمائندگی کرتا اور اندرونی نظام اور باقاعدگی‬
‫کا ذمہ دار تھا۔ اگر کسی معاملے میں نقیب کا فیصلہ ناقابل قبول ہوتا تو معاملہ آنحضرتﷺ کی‬
‫خدمت مینآتا۔ (‪)36‬‬
‫مدینہ طیبہ میں ہجوم کار کی وجہ سے چند مفتی اور قاضی مقرر فرما دیئے تھے جن کے‬
‫فیصلوں کے خالف آپ ﷺ کے پاس مرافعہ بھی ہوتا تھا۔ نیز خاص مقدمے کی سماعت کیلئے وقتی‬
‫قاضی کے تقرر کی نظیریں بھی عہد نبوی میں ملتی ہیں اور ان کے آپ ﷺ کے پاس مرافعوں کی‬
‫بھی۔ (‪ )37‬عالوہ ازیں دارالحکومت کے باہر صوبوں اور ضلعوں کے افسروں کے فیصلوں اور‬
‫کارروائیوں کے خالف بھی آنحضرت ﷺ کے پاس مرافعے آتے تھے۔ مرکز حکومت مدینہ میں‬
‫ابتدائی عدالت ہر قبیلے کے عریف اور نقیب ہوتے‪ ،‬یا مفتی اور قاضی۔ عدالت مرافعہ اور عدالت‬
‫انتہائی خود جناب رسول اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ تھی۔ ’’مرافعہ‘‘ اور بعض اوقات ’’استصواب‘‘‬
‫آنحضرت ﷺ کے پاس بعض وقت اضالع اور صوبہ جات سے بھی ہوتا۔ ’’تصحیح‘‘ کی بھی متعدد‬
‫نظیریں تاریخ نے اس عہد کے متعلق محفوظ کی ہیں۔ جب کبھی آنحضرت ﷺ کو کسی افسر کے غلط‬
‫فیصلے یا طرز عمل کا پتہ چلتا تو آپ ﷺ (بصیغہ تصحیح) دخل دہی فرما کر تالفی اور تدارک‬
‫واقعہ بنی جزیمہ اس کی ایک انتہائی مثال ہے۔ (‪)38‬اسی سلسلے‬
‫ٔ‬ ‫فرماتے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ اور‬
‫میں ڈاکٹر مصلح الدین لکھتے ہیں‪:‬‬
‫‪We have to say that the court system of Islam is no way inferior to that‬‬
‫‪of modern times. It is not confined to a single Qadi court for there exists‬‬
‫‪( provision for the court of appeal since the time of Holy Prophet‬ﷺ)‪)39( .‬‬
‫عہد نبوی کے چند مرافعہ جات درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫علی یمن کے قاضی تھے۔ وہاں چند قبائل نے شیر کو پکڑنے کیلئے ایک گڑھا‬ ‫حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫کھودا‪ ،‬ایک آدمی کا پائوں پھسال‪ ،‬اس نے گرتے ہوئے دوسرے کو پکڑا‪ ،‬دوسرے نے تیسرے کو‪،‬‬
‫اس طرح چار آدمی گڑھے میں گر گئے جنہیں شیر نے ہالک کردیا۔ ان لوگوں میں خون بہا کے‬
‫علی کو اطالع ملی‪ ،‬وہ وہاں گئے اور انہیں جھگڑے سے منع کیا‬ ‫معاملے میں جھگڑا ہوگیا۔ حضرت ؓ‬
‫اور کہا کہ میں تہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں۔ تم مطمئن ہوگئے تو نافذ ہو جائے گا ورنہ حضور ﷺ‬
‫آپ نے فیصلہ کیا‪ ،‬بعض رضامند ہوگئے مگر بعض نے ناپسند کیا۔ حج کے‬ ‫کے پاس دادرسی کرلینا۔ ؓ‬
‫موقع پر مقدمہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں یقینا تمہارے درمیان‬
‫علی پہلے ہی فیصلہ کر چکے ہیں۔‬ ‫فیصلہ کروں گا۔ اس پر ایک شخص بوال کہ اس پر حضرت ؓ‬
‫حضور ﷺ کے استفسار پر وہ فیصلہ عرض کیا گیا۔ جسے حضور ﷺ نے برقرار رکھا۔ (‪)40‬‬
‫اسی طرح ایک مقدمہ حضور اکرم ﷺ کے پاس پیش ہوا کہ ایک عورت کے ساتھ ایک ہی‬ ‫٭‬
‫طہر میں تین لوگوں نے زنا کیا۔ ملزمان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بچہ قبول نہ کیا۔ اب قرعہ‬
‫علی نے بچے کی ذمہ داری اس پر ڈال دی جس کے نام‬ ‫اندازی سے فیصلہ کیا گیا اور حضرت ؓ‬
‫قرعہ نکال تھا اور دو تہائی معاوضہ بھی اسی کے ذمہ قرار دیا۔ اس پر حضور ﷺ اتنے ہنسے کہ‬
‫داڑھ کے دانت مبارک نظر آنے لگے۔ (‪)41‬‬
‫مندرجہ باال دونوں مقدمہ جات میں حضور اکرم ﷺ نے اپیل میں پہلے سے کئے گئے فیصلوں کو‬
‫برقرار رکھا ہے۔‬
‫ایک دفعہ دو آدمیوں نے ایک تنازعہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا۔ ان میں‬ ‫٭‬
‫سے ایک نے کہا کہ میں نے اس بارے میں اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے یہ جواب دیا۔ گویا وہ ان‬
‫حاضر خدمت اقدس ہوا تھا۔ (‪)42‬‬
‫ِ‬ ‫کے پیش کردہ حل سے مطمئن نہ تھا اور مرافعہ لیکر‬
‫کتانی کہتے ہیں کہ اس سے یہ پتہ چال کہ حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں ایسے لوگ تھے‬‫ؒ‬
‫جن کے پاس افراد شکایات کے ازالہ کیلئے جاتے تھے اور اگر ان کے فیصلہ پر راضی نہ ہوتے تو‬
‫مرافعہ حضور اکرم ﷺ کے پاس پیش کرتے تھے۔(‪)43‬‬
‫اسی بناء پر ڈاکٹر مصلح الدین لکھتے ہیں‪:‬‬
‫‪Thus it is established that there was already a system of appellate court in‬‬
‫‪( the days of the Prophet‬ﷺ)‪)44( .‬‬
‫عہد نبوی کے عہد خالفت راشدہ میں بھی یہ نظام جاری و ساری رہا۔ عہد صدیقی میں یمن‬ ‫٭‬
‫میں قاضی نے ایک چور کا ایک ہاتھ اور ایک پائوں کاٹنے کا حکم دیا۔ اس نے حضرت ابوبکر‬
‫آپ نے اس کا موقف سنا اور فیصلہ کے اعالن میں ذرا تاخیر‬ ‫ؓ‬
‫صدیق کے پاس مرافعہ دائر کردیا۔ ؓ‬
‫ابوبکر کی بیوی کے زیورات چوری ہوگئے‪ ،‬صبح تالش شروع ہوئی‬ ‫ؓ‬ ‫کی۔ رات کے وقت حضرت‬
‫تو وہ شخص بھی ساتھ شامل ہو گیا‪ ،‬زیورات ایک سنار کے ہاں مل گئے‪ ،‬سنار نے بتایا کہ ایک ہاتھ‬
‫کٹا آدمی اسے یہ زیورات دے گیا تھا۔ چنانچہ اس پر مقدمہ چال اور اس نے اعتراف کرلیا۔ لہٰ ذا‬
‫ابوبکر نے اس کا بایاں ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا اور اس طرح اس کا جو مقدمہ زیر غور تھا اس کا‬
‫ؓ‬
‫بھی تصفیہ ہوگیا اور اس کا کردار کھل کر سامنے آگیا۔ (‪)45‬‬
‫عمر کے زمانہ میں ایک بہت ہی ترقی یافتہ ادارہ بن‬
‫تصحیح اور مرافعے کا نظام حضرت ؓ‬
‫گیا تھا اور انہوں نے حج کے موقع کو ایک عدالتی اور انتظامی تنضیح کا مقام بھی قرار دے دیا تھا۔‬
‫آپ ان کے خالف دعوے اور مقدمے‬ ‫حکام عدالت مکہ معظمہ آتے اور ؓ‬
‫ِ‬ ‫والیان صوبہ اور‬
‫ِ‬ ‫چنانچہ‬
‫خود سنتے اور حق رسانی کرتے۔ اگر سرکاری افسروں سے لغزش ہوئی ہوتی تو سخت داروگیر‬
‫آپ گویا قاضی القضاۃ تھے۔ سرخسی لکھتے‬ ‫کرتے۔ (‪ )46‬مدینہ طیبہ کی مرکزی عدالت کے بھی ؓ‬
‫ہیں‪:‬‬
‫کان عمر اذا رفعت الیہ الحادثۃ قال ادعوا الی علیا ً زید و ابی بن کعب (‪)47‬‬
‫علی زید اور ابی‬
‫عمر کے سامنے کوئی جھگڑا آتا تو فرماتے کہ میرے پاس ؓ‬
‫’’جب حضرت ؓ‬
‫کعب کو بال الئو‘‘۔‬
‫بن ؓ‬
‫آپ کی عدالت عالیہ مرافعہ کی (‪ )Judicial Council‬تھی‪ ،‬جن سے مشورہ‬
‫یہ اصحاب گویا ؓ‬
‫عمر نے مظالم کی روک تھام کیلئے ابو ادریس خوالنی کا‬
‫کرکے فیصلہ صادر کیا جاتا۔ حضرت ؓ‬
‫تقرر کیا۔ عرنوس لکھتے ہیں‪:‬‬
‫قد فوض عمر لقاضیہ ابی االدریس الخوالنی النظر فی المظالم (‪)48‬‬
‫غنی بھی خود مقدمات کی سماعت کرتے اور جب کوئی شخص کسی گورنر‬ ‫حضرت عثمان ؓ‬ ‫٭‬
‫قاص کو اس لئے‬
‫کے خالف شکایت کرتا تو اسے معزول کر دیتے۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی و ؓ‬
‫معزول کردیا کہ وہ بیت المال سے لیا ہوا قرضہ واپس نہ کر سکے تھے۔ (‪)49‬‬
‫العاص کے خالف شکایت ملی تو انہیں معزول کرکے‬
‫ؓ‬ ‫اسی طرح گورنر کوفہ سعید بن‬ ‫٭‬
‫اشعری کو گورنر بنا دیا۔ (‪)50‬‬
‫ؓ‬ ‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ابو‬
‫اشعری نے ایک دفعہ راہ خدا میں پیدل چلنے کے فضائل بیان کئے لیکن‬
‫ؓ‬ ‫ابوموسی‬
‫ٰ‬ ‫حضرت‬ ‫٭‬
‫خود ایک عمدہ ترکی گھوڑے پر سوار ہوئے اور سامان چالیس خچروں پر لدوایا‪ ،‬ایک شخص نے‬
‫آپ نے‬
‫غنی کے پاس اپیل کی گئی تو ؓ‬
‫اعتراض کیا تو اسے کوڑا مارا۔ اس ظلم کے خالف عثمان ؓ‬
‫عامر کو والی بنا دیا۔ (‪)51‬‬
‫ؓ‬ ‫انہیں معزول کرکے عبدہللا بن‬
‫آپ بھی حج کے موقع پر گورنروں کو طلب کرتے اور اعالن‬ ‫ؓ‬
‫فاروق کی طرح ؓ‬ ‫حضرت عمر‬
‫عام ہوتا کہ ان کیخالف کوئی شکایت ہو تو پیش کی جائے اور موقع پر ہی اس کا ازالہ کیا جاتا۔‬
‫آپ کا معمول تھا کہ مسجد نبوی میں نماز سے پہلے بیٹھتے‪ ،‬لوگوں سے‬ ‫مظالم کی سماعت کیلئے ؓ‬
‫شکایت سنتے اور احکام جاری کرتے۔ (‪)52‬‬
‫ثالثہ کی طرح دارالحکومت کوفہ میں مظالم کی سماعت کرتے‪ ،‬اپیل‬
‫ؓ‬ ‫علی خلفائے‬
‫حضرت ؓ‬
‫آپ نے کوئی دن مقرر نہ کیا تھا بلکہ جب کوئی مرافعہ یا شکایت‬‫اور شکایات کی سماعت کیلئے ؓ‬
‫ملتی فورا ً فیصلہ کردیتے‪ ،‬عمال کی نگرانی کرتے‪ ،‬ان کے معامالت کی خبر رکھتے اور شکایت‬
‫ملنے پر انہیں سخت تنبیہ کرتے۔ ایک دفعہ منذر بن جارود والئی اصطخر کو لکھا کہ مجھے معلوم‬
‫ہوا ہے کہ تم فرائض چھوڑ کر سیر وشکار پر نکل جاتے ہو۔ اگر یہ ٹھیک ہے تو میں تمہیں اس کا‬
‫نصاری کو فرمایا‬
‫ؓ‬ ‫بدلہ دوں گا اور اسے طلب کرکے معزول کردیا۔ (‪ )53‬ایک دفعہ کعب بن مالک ا‬
‫کہ ایک وفد ساتھ لیکر عراق کے حکام کی جا کر تحقیقات کرو۔(‪)54‬‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ مقدمات میں قاضیوں اور والیوں کے صادر کردہ فیصلہ‬
‫ت راشدہ میں اپیل اور مرافعہ جات کا مکمل نظام موجود‬
‫جات کے خالف عہد نبوی اور عہد خالف ِ‬
‫تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ گورنروں اور حاکموں کے خالف بھی اپیلیں اور مرافعہ جات کی سماعت کی‬
‫جاتی تھی اور تحقیقات کی روشنی میں مبنی برانصاف فیصلے کئے جاتے تھے۔ کبھی تو ماتحت‬
‫عدالت کے فیصلوں کو برقرار رکھا جاتا اور کبھی ان میں تبدیلی اور کبھی منسوخی کے احکامات‬
‫بھی جاری کئے جاتے تھے اور اس طرح تمام افراد معاشرہ کیلئے عدل وانصاف کی فراہمی کو‬
‫یقینی بنایا جاتا تھا۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس میں‬
‫ترمیم کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :411‬حذف ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-411‬عدالت عالیہ کے حکم کے خالف اپیل‬

‫سوائے ان مقدمات کے جن میں آئین کی دفعہ ‪ 185‬کے تحت اپیل رجوع ہو سکتی‬ ‫(‪1‬‬
‫ہے‪ ،‬کوئی شخص جس کو عدالت عالیہ اپنے اصل اختیارات سماعت فوجداری کو زیرکار کی تجویز‬
‫پر سزایاب کرے۔ دفعہ ‪ 418‬یا دفعہ ‪ ،423‬ضمنی دفعہ (‪ )2‬میں یا کسی عدالت عالیہ کے لیٹر پیٹنٹ‬
‫میں درج کسی امر کے باوجود‪ ،‬عدالت عالیہ میں اپیل رجوع کر سکتا ہے‪:‬‬
‫کسی سزایابی کے خالف‪ ،‬اپیل کے کسی موجب پر‪ ،‬جس میں صرف‬ ‫(‪a‬‬
‫قانونی امر پایا جاتا ہو۔‬
‫عدالت اپیل کی اجازت سے یا اس جج کے تصدیق نامہ کی بنیاد پر‬ ‫(‪b‬‬
‫جس نے مقدمہ کی تجویز کی ہو کہ مقدمہ اپیل کرنے کے قابل ہے‪ ،‬ایسی سزایابی کے خالف جس‬
‫میں اپیل صرف کسی امر واقعہ یا کسی مشترکہ امر قانون و واقعہ پر مبنی ہو یا کسی ایسی بنا پر‬
‫جسے عدالت اپیل‪ ،‬اپیل کرنے کی کافی وجہ سمجھتی ہو‪ ،‬اور‬
‫کسی صادر کردہ حکم سزا کے خالف سوائے اس کے کہ سزا ایسی‬ ‫(‪c‬‬
‫ہو جو ازروئے قانون مقرر ہو‪ ،‬جب عدالت اپیل اجازت دے۔‬
‫دفعہ ‪ 417‬میں درج کسی امر کے باوصف‪ ،‬صوبائی حکومت سرکاری پیروکار کو‬ ‫(‪2‬‬
‫ہدایت کرنے کی مجاز ہے کہ عدالت عالیہ کے اس حکم بریت کے خالف اپیل دائر کرے جو اس نے‬
‫اصل اختیار سماعت فوجداری بروئے کار ال کر صادر کیا ہو اور ویسی اپیل دفعہ ‪ 418‬یا دفعہ ‪423‬‬
‫کی ضمنی دفعہ(‪)2‬میں یا کسی عدالت عالیہ کے لیٹر پیٹنٹ میں درج کسی امر کے باوصف‪ ،‬لیکن‬
‫دفعہ ہذا کی ضمنی دفعہ (‪ )1‬کی شق (‪ )b‬اور شق (‪ )c‬کی سزایابی کیخالف پابندیوں کے تابع‪ ،‬کسی‬
‫امر واقعہ اور امر متعلقہ قانون پر بھی رجوع کی جا سکتی ہے۔‬
‫کسی قانون یا ریگولیشن میں کہیں کچھ امر درج ہونے کے باوصف‪ ،‬کسی اپیل زیر‬ ‫(‪3‬‬
‫دفعہ ہذا کی سماعت عدالت عالیہ کی ایسی ڈویژن کورٹ کرے گی جو دو ججوں سے کم پر مشتمل‬
‫نہ ہوگی جو اس جج یا ججوں کے عالوہ ہوگی جنہوں نے ابتدائی تجویز کی ہو اور اگر کسی ایسی‬
‫ڈویژن کورٹ کی تشکیل ناممکن ہو تو عدالت عالیہ الزمی طور پر صوبائی حکومت کو صورتحال‬
‫سے مطلع کرے گی جو اپیل کو کسی دوسری عدالت عالیہ میں منتقل کرنے کیلئے دفعہ ‪ 527‬کے‬
‫تحت کارروائی عمل میں الئے گی۔‬
‫عظمی اس بارے میں وقتا ً فوقتا ً وضع کرے اور ان‬
‫ٰ‬ ‫ان قواعد کے تابع جو عدالت‬ ‫(‪4‬‬
‫شرائط کے تابع جو عدالت عالیہ مقرر کرے یا حکم دے‪ ،‬کوئی اپیل کسی ایسے حکم کے خالف جو‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت کسی اپیل پر عدالت کے ڈویژن کورٹ نے صادر کیا ہو‪ ،‬سپریم کورٹ‬
‫میں دائر کی جا سکتی ہے جس کی نسبت عدالت عالیہ یہ قرار دے کہ امر مذکور ویسی اپیل کیلئے‬
‫موزوں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :412‬بعض صورتوں میں جب ملزم اقبال جرم کرے‪ ،‬کوئی اپیل نہ ہو سکے گی‬

‫باوجود یہ کہ کسی دفعہ ماقبل میں کچھ اور حکم ہو‪ ،‬اگر کوئی شخص ملزم جس نے جرم کا اقبال کیا‬
‫ہو‪ ،‬کسی ہائی کورٹ‪ ،‬سیشن کورٹ یا مجسٹریٹ درجہ اول کی تجویز سے ویسے اقبال پر مجرم‬
‫قرار پایا ہو تو اس کی اپیل نہ ہو سکے گی‪ ،‬اال نسبت تعداد معیاد یا جواز حکم سزا کے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ان دفعات ‪ A-411‬اور ‪ 412‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪،‬‬
‫لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :413‬خفیف مقدمات کی اپیل نہیں ہے‬

‫باوصف اس کے کہ کسی دفعہ ماقبل میں کوئی اور حکم ہو‪ ،‬وہ شخص جس پر جرم ثابت قرار دیا‬
‫جائے۔ ان صورتوں میں اپیل نہ کرسکے گا جن پر کسی ہائی کورٹ نے حکم سزائے قید کا‪ ،‬جس‬
‫کی میعاد صرف چھ ماہ سے زائد نہ ہو یا حکم جرمانہ کا‪ ،‬جس کی تعداد دو سو روپے سے زیادہ نہ‬
‫ہو یا جن میں عدالت سیشن نے حکم سزائے قید کا جس کی میعاد صرف ایک مہینے سے زائد نہ ہو‬
‫یا جن میں عدالت سیشن اور مجسٹریٹ درجہ اول نے صرف جرمانہ کا جو تعداد میں پچاس روپے‬
‫سے زائد نہ ہو‪ ،‬صادر کیا ہو۔‬
‫وضاحت‪ :‬جب ویسی عدالت یا مجسٹریٹ کی طرف سے حکم سزا یہ ہو کہ مجرم بالخصوص عدم‬
‫ادائے جرمانہ قید کیا جائے اور کوئی اصلی حکم سزائے قید بھی نہ ہو تو حکم اول الذکر کی‬
‫ناراضی سے اپیل نہیں ہو سکتی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :414‬بعض ایسی سرسری تجویزات کیخالف جن میں جرم ثابت ہو جائے اپیل نہیں دائر‬
‫کی جاسکے گی‬

‫اس سے قبل درج شدہ کسی امر کے باوجود مجرم قرار پانے واال شخص کسی ایسے مقدمہ قابل‬
‫تجویز سرسری میں اپیل دائر نہیں کر سکے گا جس میں دفعہ ‪ 260‬کے تحت اختیار یافتہ مجسٹریٹ‬
‫صرف سزائے جرمانہ کا‪ ،‬جس کی مقدار ]دو ہزار[ سے زیادہ نہ ہو‪ ،‬حکم صادر کرے۔‬

‫]دفعہ نمبر ‪ :A-414‬پرائس کنٹرول سے متعلقہ قانون کے تحت بعض سرسری سزائوں کی کوئی‬
‫اپیل نہیں‬

‫مجموعہ ہذا یا کسی فی الوقت نافذ العمل قانون میں درج کسی الء کے باوجود سزایاب شخص کی‬
‫جانب سے کسی ایسے مقدمہ میں کوئی اپیل نہ ہو گی جسے سرسری سماعت کیا گیا اور جس میں‬
‫دفعہ ‪ A-14‬کے تحت مقرر کردہ سپیشل مجسٹریٹ پرائس کنٹرول اینڈ پری ویسٹنگ آف پرامنٹنگ‬
‫اینڈ ہورڈنگ ایکٹ ‪1997‬ء (‪ XXXIX‬آف ‪1997‬ء) یا پرائس کنٹرول سے متعلقہ کسی دیگر وفاقی یا‬
‫صوبائی قانون کے تحت جرمانہ کی سزا جو پانچ ہزار روپوں سے زائد نہیں ہوتی صادر کرتا ہے۔[‬
‫دفعہ نمبر ‪ :415‬دفعات ‪ 413‬اور ‪ 414‬کے متعلق شرط‬

‫دفعہ ‪ 413‬یا دفعہ ‪ 414‬میں محولہ کسی حکم سزا جس کی رو سے دفعات مذکور میں متذکرہ سزا کو‬
‫کسی دیگر سزا کے ساتھ مال دیا گیا ہو‪ ،‬کے خالف اپیل دائر کی جا سکتی ہے لیکن کوئی حکم سزا‬
‫جو اور طرح قابل اپیل نہ ہو‪ ،‬محض اس بنا پر قابل اپیل نہیں ہوگا کہ مجرم قرار یافتہ شخص کو‬
‫ضمانت حفظ امن داخل کرنے کا حکم ہوا ہے۔‬
‫وضاحت‪ :‬حکم سزائے قید بعدم ادائیگی جرمانہ ایسا حکم سزا نہیں ہے جس میں دو یا زیادہ سزائیں‬
‫حسب منشائے دفعہ ہذا شامل کی گئی ہیں۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬ان دفعات ‪ A-414 ،414 ،413‬اور ‪ 415‬میں سزا یافتہ شخص سے مبنی‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫برانصاف سلوک نہیں کیا گیا بلکہ اسے اپیل کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی ہے‪،‬‬
‫حاالنکہ ظلم اور ناانصافی کے خالف اپیل کرنا اور داد رسی چاہنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور‬
‫اسے اس حق سے محروم کرنے کی شریعت بالکل اجازت نہیں دیتی۔ ہر شخص کو اپنے خالف کئے‬
‫جانے والے فیصلے کے خالف کم از کم اپیل کا حق دیا جانا چاہئے۔‬
‫اس سلسلے میں نظریاتی کونسل نے رہنما اصول بیان کیا ہے کہ‪:‬‬
‫ایسے تمام قوانین میں‪ ،‬جن کی رو سے شہریوں کو حکومت کے کسی ہر فیصلہ یا حکم کے‬
‫خالف اپیل کرنے کے حق سے محروم کیا گیا ہے‪ ،‬اس طرح ترمیم کردینی چاہئے کہ آدمی کو کم از‬
‫کم ایک اپیل کا حق الزما ً مل جائے تاکہ اگر فیصلہ میں کوئی غلطی سرزد ہوئی ہو تو اس کا ازالہ‬
‫نظام عدل کا بنیادی اصول ہے۔‬‫ِ‬ ‫کیا جا سکے۔ اس لئے کہ غلطی کا ازالہ اور حق کو قائم کرنا اسالمی‬
‫اشعری کو ان الفاظ میں تاکید فرمائی‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫ابوموسی‬
‫ٰ‬ ‫ؓ‬
‫فاروق نے حضرت‬ ‫(‪ )55‬حضرت عمر‬
‫’’اگر کل تم نے کوئی فیصلہ کیا ہو اور آج مزید غور وخوض کے بعد رشد وہدایت کو معلوم‬
‫کرلیا ہو تو پہال فیصلہ حق کی طرف رجوع کرنے میں رکاوٹ نہ بنے۔ اس لئے کہ حق ازلی ہے‬
‫اور حق کی طرف رجوع کرنا باطل پر اڑے رہنے سے بہتر ہے‘‘۔ (‪)56‬‬
‫نظریاتی کونسل کی رائے‪ :‬غوروخوض کے بعد ان دفعات کو حذف کرنے کی سفارش کی گئی ہے‬
‫کیونکہ ان دفعات میں اپیل کے حق سے انکار کیا گیا ہے جو کہ ایک امتیازی سلوک ہے اور جو‬
‫غیر شرعی اور کونسل کی سابقہ سفارشات کے خالف ہے۔ جسے سزا ملے‪ ،‬اسے ایک اپیل کا حق‬
‫ہر حالت میں ملنا چاہئے۔ (‪)57‬‬

‫خالف شرع ہیں۔‬


‫ِ‬ ‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬درج باال دفعات کو حذف کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-415‬بعض صورتوں میں خاص حق اپیل‬

‫باب ہذا میں درج شدہ کسی امر کے باوجود جب ایک تجویز مقدمہ میں ایک سے زیادہ اشخاص پر‬
‫جرم ثابت قرار پائے اور ان اشخاص میں سے کسی کی نسبت کوئی قابل اپیل فیصلہ یا حکم صادر‬
‫ہوا ہو تو ان تمام اشخاص کو یا ان میں سے کسی شخص کو جسے ویسی تجویز مقدمہ میں مجرم‬
‫قرار دیا گیا ہو‪ ،‬اپیل دائر کرنے کا حق ہوگا۔‬
‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں سزایافتہ شخص کو اپیل کا حق دے دیا گیا ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس دفعہ میں کوئی بات‬
‫اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬اس لئے اس پر تبصرہ کی ضرورت محسوس نہیں‬
‫ہوتی۔‬

‫دفعہ ‪ :416‬منسوخ ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :417‬بریت کی صورت میں اپیل‬

‫ضمنی دفعہ (‪ )4‬کے احکام کے تحت صوبائی حکومت مجاز ہے کہ کسی مقدمہ میں‬ ‫(‪1‬‬
‫پبلک پراسیکیوٹر کو ہدایت کرے وہ اس حکم ابتدائی یا اپیل پر صادر شدہ حکم بریت کے خالف ہائی‬
‫کورٹ میں اپیل دائر کرے جو ہائی کورٹ کے سوا کسی دیگر عدالت نے صادر کیا ہو۔‬
‫اگر ایسا کوئی حکم بریت کسی ایسے مقدمہ میں صادر کیا جائے جو نالش پر دائر‬ ‫(‪2‬‬
‫کیا گیا ہو اور ہائی کورٹ اس درخواست پر جو اس بارے میں اس کے روبرو نالشی کی طرف سے‬
‫دی جائے‪ ،‬حکم بریت کیخالف اپیل دائر کرنے کیلئے خصوصی اجازت دے تو نالشی ایسی اپیل ہائی‬
‫کورٹ کے روبرو پیش کر سکتا ہے۔‬
‫(‪ ]A-2‬ایسا شخص جو حکم بریت کی وجہ سے داد خواہ ہو اور عدالت مذکور عالوہ ہائی‬
‫کورٹ ہو تو ایسا شخص تیس یوم کے اندر حکم مذکور کے خالف اپیل دائر سکتا ہے۔[‬
‫حکم بریت کے خالف اپیل دائر کرنے کی بابت خصوصی اجازت عطا کرنے کیلئے‬ ‫(‪3‬‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )2‬کے تحت ہائی کورٹ کوئی درخواست حکم مذکور کی تاریخ سے ساٹھ دن گزر‬
‫جانے کے بعد قبول نہیں کرے گی۔‬
‫اگر کسی مقدمے میں حکم بریت کیخالف اپیل دائر کرنے کی بابت خصوصی اجازت‬ ‫(‪4‬‬
‫عطا کرنے کیلئے ضمنی دفعہ (‪ )2‬کے تحت درخواست مسترد کردی جائے تو ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے‬
‫تحت حکم بریت کیخالف کوئی اپیل دائر نہیں کی جا سکے گی۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر ‪ A-2‬میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپیل کرنا چاہے تو وہ‬
‫تیس دن کے اندر حکم مذکور کے خالف اپیل کر سکتا ہے۔‬
‫اسالمی نکتہ نگاہ‪ :‬مقررہ مدت کے اندر اندر بذریعہ اپیل عدالت سے رجوع کرنے کا تصور‬
‫اسالمی نظام عدالت میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ مجاہد االسالم قاسمی لکھتے ہیں کہ درخواست‬
‫مرافعہ اس مدت کے اندر داخل کرنا ہوگی جو مدت مرافعہ کی درخواست قبول کرنے کیلئے مقرر‬
‫کی گئی ہو۔ (‪)58‬‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ کی باقی شقوں میں کوئی بات اسالمی اصولوں کیخالف معلوم نہیں ہوتی‪،‬‬
‫لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :418‬اپیل کن امور میں قابل قبول ہوگی‬


‫جائز ہے کہ اپیل عالوہ امر قانونی کے نسبت امور واقعاتی کے بھی دائر کی جائے‪،‬‬ ‫(‪1‬‬
‫اال اس صورت میں کہ تجویز مقدمہ بذریعہ جیوری کے ہوئی ہو کہ اس صورت میں اپیل صرف‬
‫نسبت امر قانون کے جائز ہوگی۔‬
‫حذف ہوئی۔‬ ‫(‪2‬‬
‫تشریح‪ :‬یہ عذر کہ حکم سزا نہایت سخت ہے حسب مراد دفعہ ہذا ایک امر قانونی ہے۔‬
‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرور ت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :419‬درخواست اپیل‬

‫ہر ایک اپیل بہ طریق درخواست تحریری کے اپیالنٹ یا اس کے وکیل کی معرفت پیش کی جائے‬
‫گی اور ویسے ہر درخواست اپیل کے ساتھ نقل اس رائے یا حکم کی جس کی ناراضی سے اپیل ہو‪،‬‬
‫منسلک ہوگی‪ ،‬اال اس صورت کے کہ جب وہ عدالت جس میں درخواست مذکور گزاری جائے‪ ،‬اس‬
‫طرح پر حکم کرے اور ان مقدمات میں جن کی تجویز معرفت جیوری کے ہوئی ہو‪ ،‬نقل ان مدات‬
‫ہدایت کی جو دفعہ ‪ 367‬کے تحت قلم بند ہوئی ہوں‪ ،‬شامل کی جائے گی۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ ہر درخواست اپیل کے ساتھ اس رائے یا حکم کی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫نقل منسلک کرنا ہوگی جس کی ناراضی سے اپیل ہوئی ہو۔‬
‫اسالمی نظام عدالت میں بھی ایسی ہدایات موجود ہیں‪ ،‬چنانچہ مجاہد قاسمی لکھتے ہیں کہ‬
‫مرافعہ کی صورت میں پہلے فیصلے کی نقل باضابطہ طور پر پیش کرنا ہوگی‪ ،‬جس پر نظرثانی‬
‫مطلوب ہے۔ (‪)59‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :420‬ضابطہ جب اپیالنٹ جیل خانہ میں ہو‬

‫اگر اپیالنٹ جیل خانہ میں ہو تو اس کو اختیار ہے کہ اپنی درخواست اپیل مع نقول منسلکہ افسر‬
‫مہتمم جیل خانہ کے پاس داخل کرے اور افسر مذکور اس درخواست اور نقول کو عدالت اپیل مناسب‬
‫میں مرسل کرے گا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :421‬اپیل کا سرسری خارج ہونا‬


‫عندالحصول ایسے سوال ونقل حسب منشائے دفعہ ‪ 419‬یا دفعہ ‪ 420‬کے عدالت اپیل‬ ‫(‪1‬‬
‫کو الزم ہے کہ اس کو مالحظہ کرے اور اگر عدالت کی دانست میں کوئی وجہ کافی درست اندازی‬
‫کی نہ پائی جائے تو اس کو اختیار ہے کہ اپیل بطور سرسری ڈسمس کرے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ کوئی اپیل جو دفعہ ‪ 419‬کے مطابق رجوع کی جائے تو ڈسمس نہ کی جائے‬
‫گی‪ ،‬اال اس صورت میں کہ اپیالنٹ یا اس کے وکیل کو اپیل کی تائید میں عذرات پیش کرنے کا موقع‬
‫معقول حاصل ہوا ہو۔‬
‫کسی اپیل کو اس دفعہ کے مطابق ڈسمس کرنے سے پہلے عدالت کو اختیار ہے کہ‬ ‫(‪2‬‬
‫مقدمہ کی مثل طلب کرے‪ ،‬مگر ایسا کرنا اس پرواجب نہیں ہے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ جب عدالت اپیل کو کوئی اپیل کی جائے تو وہ اس‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کے بارے میں مدعی یا وکیل کو عذرات پیش کرنے کا معقول موقع دے گی اور پھر اگر عدالت‬
‫سمجھے کہ اپیل میں کافی دست اندازی کی کوئی وجہ نہیں ہے تو وہ اسے سرسرس ڈسمس کر‬
‫سکتی ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی عدالتی نظام میں بھی عدالت کو موصول ہونے والی کسی بھی اپیل کے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫متعلق معقول وجوہ مرافعہ نہ ہونے کی بنا پر اسے رد کرنے کا حق حاصل ہے۔ مجاہد قاسمی‬
‫لکھتے ہیں‪:‬‬
‫عدالت مرافعہ کو حق ہوگا کہ وہ درخواست مرافعہ کو سماعت کیلئے منظور نہ کرے اگر وہ‬
‫محسوس کرے کہ وجو ِہ مرافعہ معقول نہیں اور بادی النظر میں ہی قابل رد ہیں۔ (‪)60‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫میں ترمیم کی ضرورت محوس نہیں ہوتی۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :422‬اپیل کی اطالع‬

‫اگر عدالت اپیل‪ ،‬اپیل کو بطور سرسری ڈسمس نہ کرے تو اس کو چاہئے کہ اپیالنٹ یا اس کے وکیل‬
‫کو اور ایسے عہدہ دار کو جسے صوبائی حکومت اس امر کیلئے مقرر کرے اس وقت اور اس مقام‬
‫سے مطلع کرائے جو ایسی اپیل کی سماعت کیلئے مقرر کیا گیا ہو اور ویسے عہدیدار کی‬
‫درخواست پر نقل وجوہ اپیل کی اس کے حوالہ کرے‪:‬‬
‫اور ان مقدمات میں جن میں اپیل حسب دفعہ ‪ )A(411‬کی ضمنی دفعہ (‪ )2‬یا حسب دفعہ ‪ 417‬رجوع‬
‫کیا جائے‪ ،‬عدالت اپیل کو الزم ہے کہ اس قسم کی اطالع ملزم کو پہنچائے۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ عدالت اپیل حکومت کی طرف سے مقرر کئے گئے‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫عہدہ دار کو وجوہ اپیل کی نقل فراہم کرے اور اس اپیل کی اطالع ملزم کو بھی پہنچائے۔‬
‫اسالمی عدالتی نظام میں بھی ایسی ہدایات موجود ہیں مدعی کیلئے درخواست مرافعہ کے‬
‫ساتھ وجو ِہ مرافعہ داخل کرنا ضروری ہوگا جس میں ان نقائص کی نشاندہی کی گئی ہو اور ان‬
‫اسباب کو واضح کیا گیا ہو جن کی وجہ سے وہ فیصلہ فریق مرافع کی نگاہ میں قابل رد یا الئق‬
‫ترمیم ہو اور عدالت مرافعہ ملزم یا مدعا علیہ کو بھی مطلع کرے گی۔ چنانچہ اگر عدالت مرافعہ کی‬
‫نگاہ میں درخواست مرافعہ قابل سماعت ہے تو وہ اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے فریق ثانی‬
‫(مرافع علیہ‪ ،‬ملزم) سے جواب طلب کرے گی۔ (‪)61‬‬
‫اس طرح اسے اس اپیل کے بارے میں خود بخود اطالع بھی مل جائیگی۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫میں ترمیم کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :423‬انفصال اپیل میں عدالت اپیل کے اختیارات‬

‫تب عدالت اپیل مقدمہ کی مسل طلب کرے گی اگر ویسی مسل پہلے سے عدالت میں‬ ‫(‪1‬‬
‫نہ آگئی ہو اور بعد کرنے مالحظہ ویسی مسل اور بعد سماعت عذرات اپیالنٹ یا اس کے وکیل کے‬
‫اگر وکیل حاضر ہو اور پیروکار منجانب سرکار کے اگر وہ حاضر ہو اور نیز عذرات ملزم کے اگر‬
‫اپیل متذکرہ دفعہ ‪ )A(411‬کی ضمنی دفعہ (‪ )2‬یا متذکرہ دفعہ ‪ 417‬دائر ہوئی ہو اور ملزم مذکور‬
‫حاضر ہو‪ ،‬عدالت مجاز ہوگی کہ اگر اس کی دانست میں کوئی وجہ کافی درست اندازی کی نہ پائی‬
‫جائے‪ ،‬اپیل ڈسمس کرے یا مجاز ہوگی کہ‪:‬‬
‫اگر اپیل بہ ناراضی کسی حکم متضمن برات شخص ملزم کے ہو تو‬ ‫(‪a‬‬
‫ویسے حکم کو منسوخ کرکے تحقیقات مزید کرنے کی ہدایت کے یا ہدایت کرے کہ ملزم کی تجویز‬
‫مقدمہ ازسرنو ہو یا وہ تجویز مقدمہ کیلئے سپرد کیا جائے‪ ،‬جیسا موقع ہو یا ملزم پر جرم ثابت قرار‬
‫دے کہ اس کی نسبت حکم سزا منشائے قانون کے صادر کرے۔‬
‫جب اپیل بہ ناراضی حکم اثبات جرم کے دائر ہو تو‪:‬‬ ‫(‪b‬‬
‫تجویز اور حکم سزا کو منسوخ کرے اورملزم کو بری کرے‬ ‫(‪i‬‬
‫یا اس کو رہائی دے یا یہ حکم دے کہ اس کے مقدمہ کی تجویز جدید معرفت کسی عدالت مجاز‬
‫سماعت تابع حکومت عدالت اپیل مذکور کے عمل میں آئے یا واسطے تجویز مقدمہ کے سپرد‬
‫کیاجائے‪ ،‬یا‬
‫تجویز کو بدل دے او رحکم سزا کو قائم رکھے یا بعد تبدیل‬ ‫(‪ii‬‬
‫یا بال تبدیل تجویز کے سزا کو گھٹا دے‪ ،‬یا‬
‫(‪ iii‬اور بعد یا بال گھٹانے ویسی سزا کے اور بعد یا بال تبدیل‬
‫تجویز کے سزا کی حیثیت کو بدل دے مگر دفعہ ‪ 106‬کی ضمنی دفعہ (‪ )3‬کے احکام کی پابندی کے‬
‫ساتھ اس طرح پر نہیں کہ سزا بڑھ جائے۔‬
‫جب کسی اور حکم کی ناراضی سے اپیل ہو تو ویسے حکم کو تبدیل‬ ‫(‪c‬‬
‫یا منسوخ کرے۔‬
‫جب کوئی ترمیم کرے یا کوئی قرین انصاف اور مناسب حکم صادر‬ ‫(‪d‬‬
‫کرے جو واقعات پر مبنی یا ان سے متعلق ہو۔‬
‫حذف ہوئی۔‬ ‫(‪2‬‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :424‬عدالت ہائے اپیل ماتحت کی رائے‬


‫قواعد مندرجہ باب ‪ 26‬بابت رائے مصدرہ عدالت فوجداری مجاز سماعت ابتدائی کے‪ ،‬جہاں تک‬
‫ممکن ہو‪ ،‬بجز ہائی کورٹ کے باقی ہر عدالت اپیل کی رائے سے متعلق سمجھے جائیں گے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ اگر عدالت اپیل اس کے خالف حکم نہ دے تو ملزم کو رائے سنانے کیلئے‬
‫حاضر کرنا یا حاضر رکھنا ضروری نہ ہوگا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :425‬ہائی کورٹ اپیل کے حکم کا سرٹیفکیٹ عدالت ماتحت میں بھیج دے گی‬

‫جب اس باب کے مطابق ہائی کورٹ سے کوئی مقدمہ بعینہ اپیل فیصل کیا جائے تو‬ ‫(‪1‬‬
‫ہائی کورٹ کو الزم ہے کہ اپنی رائے یا حکم بذریعہ سرٹیفکیٹ اس عدالت میں بھیج دے جس نے‬
‫تجویز یا حکم سزا یا کوئی اور حکم جس کی ناراضی سے اپیل ہوئی ہو‪ ،‬قلم بند یا صادر کیا ہو اور‬
‫اگر وہ تجویز یا حکم سزا یا اور حکم سوائے مجسٹریٹ ضلع کے کسی اور مجسٹریٹ کی طرف‬
‫سے قلم بند یا صادر ہوا ہو تو سرٹیفکیٹ بہ توسط مجسٹریٹ ضلع کے مرسل کیا جائے گا۔‬
‫اس عدالت کو‪ ،‬جس کے پاس ہائی کوٹ کی رائے یا حکم بذریعہ سرٹیفکیٹ کے‬ ‫(‪2‬‬
‫پہنچے‪ ،‬الزم ہے کہ مجبر و حصول اس کا ایسے احکام صادر کرے جو ہائی کورٹ کی رائے یا‬
‫حکم کے موافق ہوں اور اگر ضرورت ہو تو مقدمہ کے کاغذات اس کے موافق صحیح کئے جائیں‬
‫گے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :426‬اپیل کے دوران میں حکم سزا کا معطل رکھنا ضمانت پر اپیالنٹ کی مخلصی‬

‫عدالت اپیل یہ حکم دے سکتی ہے اور اس کی وجوہ قلم بند کی جائیں گی کہ کسی‬ ‫(‪1‬‬
‫شخص مجرم قرار دادہ کی اپیل کے دوران میں تعمیل اس حکم سزا یا اور حکم کی معطل رہے جس‬
‫کی ناراضی سے اپیل ہوئی ہو اور یہ بھی حکم دے سکتی ہے کہ اگر شخص مجرم قرار دادہ حبس‬
‫میں ہو تو وہ ضمانت پر یا خود اپنے مچلکہ پر مخلصی پائے۔‬
‫(‪] A-1‬حذف شدہ بذریعہ آڑڈیننس ‪ LIV‬بابت ‪2001‬ء[‬
‫اختیار جو اس دفعہ کی رو سے عدالت اپیل کو حاصل ہے‪ ،‬ہائی کورٹ کی طرف‬ ‫(‪2‬‬
‫سے بھی اس وقت نافذ ہو سکتا ہے جب کسی شخص مجرم قرار یافتہ کی اپیل کسی عدالت ماتحت‬
‫ہائی کورٹ میں دائر ہو۔‬
‫(‪ A-2‬اگر کسی شخص کو عالوہ اس شخص کے جو بالضمانتی جرم کا مجرم ہو‪ ،‬کسی‬
‫عدالت سے قید کی سزا ہو اور اس سزا سے اپیل ہو سکتی ہو‪ ،‬بشرطیکہ مجرم عدالت کو مطمئن‬
‫کردے کہ وہ اپیل دائر کرنا چاہتا ہے تو عدالت کافی مدت کیلئے بغرض دائر کرنے اپیل اس کو‬
‫ضمانت پر رہا کردے گی اور زیر ضمنی دفعہ (‪ )1‬عدالت اپیل حاصل کرلے گی اور سزائے قید‬
‫دوران میعاد ضمانت ملتوی متصور ہوگی۔‬
‫(‪ B-2‬اگر کسی ہائی کورٹ کو یہ اطمینان ہو جائے کہ مجرم شخص کو سپریم کورٹ سے‬
‫خاص اجازت بہ ناراضی کسی سزا جس کو ہائی کورٹ نے عائد کیا‪ ،‬قائم رکھی ہو‪ ،‬مل گئی تو‬
‫عدالت عالیہ‪ ،‬اگر مناسب سمجھے‪ ،‬حکم صادر کرے گی کہ تافیصلہ اپیل وہ حکم سزا یا حکم جس‬
‫کیخالف اپیل کی گئی ہو ملتوی رکھا جائے اور اگر وہ شخص اندر قید خانہ ہے تو اس کو ضمانت پر‬
‫رہا کردیا جائے گا۔‬
‫جب باالخر اپیالنٹ کی نسبت حکم سزائے قید یا حبس بہ عبور دریائے شور صادر‬ ‫(‪3‬‬
‫کیا جائے تو وہ ایام جن میں اس نے حسب طریقہ متذکرہ صدر مخلصی پائی ہو‪ ،‬اس کی سزا میعاد‬
‫کے محسوب کرنے میں خارج کئے جائیں گے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :427‬حکم بریت کی اپیل کے وقت ملزم کی گرفتاری‬


‫جب کوئی اپیل مطابق دفعہ ‪ A-411‬کی ضمنی دفعہ (‪ )2‬یا مطابق دفعہ ‪ 417‬رجوع کی جائے‪،‬‬
‫عدالت ہائی کورٹ اس حکم کا وارنٹ صادر کر سکتی ہے ملزم گرفتار ہو کر اس کے روبرو یا‬
‫کسی عدالت ماتحت کے روبرو حاضر کیا جائے اور جس عدالت کے حضور وہ حاضر الیا جائے‪،‬‬
‫اسے اختیار ہے کہ روز انفصال اپیل تک اس کو قید خانہ میں بھیجے یا اس کو ضمانت پر رہا‬
‫کرے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬درج باال دفعات ‪ 426 ،425 ،424‬اور ‪ 427‬میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف‬
‫معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :428‬عدالت اپیل شہادت مزید لے سکتی ہے یا لئے جانے کی ہدایت کر سکتی ہے‬

‫اس باب کے مطابق کسی اپیل میں مصروف ہونے کے وقت عدالت اپیل کو الزم ہوگا‬ ‫(‪1‬‬
‫کہ اگر وہ شہادت مزید کا لینا ضروری سمجھے‪ ،‬تو اپنی وجوہ قلم بند کرے اور اختیار ہوگا کہ‬
‫ویسی شہادت وہ خود لے یا شہادت کے کسی مجسٹریٹ کی معرفت لئے جانے کی ہدایت کرے‪ ،‬یا‬
‫اگر عدالت اپیل ہائی کورٹ ہو تو یہ حکم دے کہ شہادت مذکور کسی عدالت سیشن یا مجسٹریٹ کی‬
‫معرفت لی جائے۔‬
‫جب شہادت مزید عدالت سیشن یا مجسٹریٹ کی معرفت لی جائے تو اسے الزم ہے‬ ‫(‪2‬‬
‫کہ ویسی شہادت کے ساتھ قطعہ سرٹیفکیٹ عدالت اپیل میں بھیج دے اس پر ویسی عدالت اپیل کے‬
‫طے کرنے میں مصروف ہوگی۔‬
‫بہ استثناء اس صورت کے کہ عدالت اپیل اور طرح پر ہدایت کرے جب شہادت مزید‬ ‫(‪3‬‬
‫لی جائے‪ ،‬الزم ہے کہ ملزم یا اس کا وکیل حاضر رہے‪ ،‬مگر ویسی شہادت ارکان جیوری کے‬
‫روبرو نہ لی جائے گی۔‬
‫شہادت تحت دفعہ ہذا باب ‪ 25‬کے احکام کی پابندی کے ساتھ اس طور پر لی جائے‬ ‫(‪4‬‬
‫گی کہ گویا وہ تحقیقات ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬مذکورہ دفعہ کی شق نمبر‪ 1‬میں کہا گیا ہے کہ عدالت اپیل کو اختیار ہے کہ وہ‬
‫اسالمی ٔ‬
‫زیر سماعت مقدمے میں مزید شہادت لینا ضروری سمجھے تو وہ ایسا کر سکتی ہے۔‬
‫ت خود زیر‬
‫نظام عدالت میں بھی اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ عدالت اپیل بذا ِ‬
‫ِ‬ ‫اسالمی‬
‫سماعت مقدمے کے سلسلے میں گواہوں سے مزید شہادت لے سکتی ہے۔ مجاہد قاسمی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’اگر عدالت مرافعہ کو شہادت کے بارے میں شک ہو تو وہ شاہدوں کو برا ِہ راست اپنے‬
‫اجالس میں طلب کرسکتی ہے‘‘۔(‪)62‬‬
‫تبصرہ‪ :‬دفعہ ہذا کی شق نمبر‪ 2‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫شق نمبر ‪ 3‬میں مذکور ہے کہ عدالت اپیل کو یہ اختیار تمیزی حاصل ہے کہ جب وہ مزید‬
‫شہادت لے تو وہ ملزم یا اس کے وکیل کی غیر موجودگی میں بھی ایسا کر سکتی ہے جبکہ اسالمی‬
‫دعوی کی سماعت اور فیصلہ مدعا علیہ کی غیر‬
‫ٰ‬ ‫نظام عدالت میں کسی بھی مقدمہ میں مدعی کے‬
‫دعوی کی شرائط میں سے ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫کاسانی لکھتے ہیں کہ یہ سماعت‬
‫ؒ‬ ‫موجودگی میں کرنا ناجائز ہے۔‬
‫الدعوی وال البینۃ االعلی خصم حاضر (‪)63‬‬
‫ٰ‬ ‫ومنھا حضرۃ الخصم فال تسمع‬
‫دعوی کی شرائط میں ہے کہ مدعا علیہ حاضر ہو‪ ،‬اس کی غیر حاضری میں نہ تو‬
‫ٰ‬ ‫’’اور‬
‫دعوی سنا جائیگا نہ دلیل‘‘۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی‪ ،‬اقامت‬
‫ٰ‬ ‫وہ مزید لکھتے ہیں کہ یہ ہمارا مسلک ہے اور امام شافعی کے نزدیک سماع‬
‫بینہ اور فیصلہ سب ہی مدعا علیہ کی غیر موجودگی میں ہو سکتے ہیں‪ ،‬اس لئے کہ ان کے نزدیک‬
‫قضاء علی الغائب جائز ہے اور ہمارے ہاں نہیں ہے‘‘۔(‪)64‬‬
‫حصکفی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬
‫الدعوی مجلس القضاء وحضور خصم فال یقضی علی غائب (‪)65‬‬
‫ٰ‬ ‫وشرطھا الی شرط جواز‬
‫دعوی کی یہ شرط ہے کہ مجلس قضا میں مدعا علیہ کی حاضری ہو‪ ،‬پس قضاء‬
‫ٰ‬ ‫جواز‬
‫ِ‬ ‫’’اور‬
‫علی غائب نہیں کی جائیگی‘‘۔‬
‫لہٰ ذا احناف کا اصل مذہب یہی ہے کہ مقدمہ کے ہر مرحلے پرمدعا علیہ کی حاضری‬
‫ہمام لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ابویوسف نے اس سلسلے میں تھوڑا سا اختالف کیا ہے۔ابن ؒ‬
‫ؒ‬ ‫ضروری ہے لیکن امام‬
‫کان ابویوسف یقول اوال ال یقضی بالبینۃ واال قرار علی الغائب جمیعا ثم رجع لما ابتلی بالقضاء‬
‫وقال یقضی فیھا جمیعا واستحسنہ حفظاالموال الناس (‪)66‬‬
‫دعوی کا اقرار کرے اور‬
‫ٰ‬ ‫ابویوسف شروع میں کہتے تھے کہ اگر مدعا علیہ مدعی کے‬
‫ؒ‬ ‫’’‬
‫بوقت فیصلہ غائب رہے تو اس کے خالف فیصلہ نہیں دیا جائے گا‪ ،‬جب قاضی بنے تو اس سے‬
‫دعوی کا اقرار کرنے کے بعد غائب ہو‬
‫ٰ‬ ‫رجو ع کرلیا اور کہا کہ مدعی مدعا علیہ شہادت گزرنے یا‬
‫جائے تو اس کیخالف فیصلہ ہوگا اور اس طرح انہوں نے لوگوں کے اموال کو بچا لیا‘‘۔‬
‫درجِ باال سطور سے واضح ہوا کہ احناف کے ہاں مقدمہ کے ہر مرحلہ پر مدعا علیہ کی‬
‫دعوی تسلیم کرلے یا شہادت ہو‬
‫ٰ‬ ‫ابویوسف کہتے ہیں کہ اگر مدعا علیہ‬
‫ؒ‬ ‫حاضری ضروری ہے جبکہ‬
‫چکے اور غائب ہو جائے تو ہر دو صور ت میں فیصلہ کردیا جائیگا۔ شافعی پہلے ہی قضا علی‬
‫الغائب کے قائل ہیں۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس سلسلے میں نظریاتی کونسل کی یہ تجویز ہے۔‬
‫اس دفعہ کی ذیلی شق نمبر‪3‬میں عدالت اپیل کو صوابدیدی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ملزم یا‬
‫اس کے وکیل کی غیر موجودگی میں اضافی شہادت لے سکتی ہے‪ ،‬دفعہ نمبر ‪ 375‬کی شق (‪ )2‬کے‬
‫تحت بھی سفارش کی جا چکی ہے کہ ملزم یا اس کے وکیل کی غیر موجودگی میں ریکارڈ کی گئی‬
‫شہادت سے ملزم کو نقصان کا احتمال ہے‪ ،‬لہٰ ذا شق نمبر‪ 3‬کو ان الفاظ سے بدلنے کی سفارش کی‬
‫جاتی ہے‪:‬‬
‫‪The additional evidence must be recorded in the presence of the accused‬‬
‫‪.or his pleader‬‬
‫(اضافی شہادت ملزم یا اس کے وکیل کی موجودگی میں ریکارڈ کی جائیگی۔) (‪)67‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬کونسل کی سفارش کے مطابق اس دفعہ کی شق نمبر‪ 3‬میں ترمیم کی جانی چاہئے‬
‫تاکہ لوگوں کے حقوق اور اموال کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :429‬ضابطہ جب کہ عدالت اپیل کے صاحبان جج بہ تعداد مساوی مختلف االرا ہوں‬

‫جب عدالت اپیل کے صاحبان جج بہ تعداد مساوی مختلف اْلرا ہوں تو مقدمہ مع آراء صاحبان‬
‫موصوف کے اسی عدالت کے کسی دیگر جج کے روبرو پیش ہوگا اور ویسا جج بعد اس قدر‬
‫سماعت کے‪ ،‬اگر کچھ ہو‪ ،‬جو اس کو مناسب معلوم ہو اپنی رائے ظاہر کرے گا اور عدلت کی تجویز‬
‫یا حکم ویسی رائے کے موافق ہوگا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :430‬اپیل میں احکام کا ناطق ہونا‬

‫فیصلے و احکام جو بہ صیغہ اپیل عدالت اپیل سے صادر ہوں‪ ،‬ناطق ہوں گے‪ ،‬مگر ان مقدمات میں‬
‫نہیں جن کی بابت دفعہ ‪ 417‬اور باب ‪ 32‬میں احکام مناسب درج ہوئے ہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :431‬اپیلوں کا ساقط ہونا‬

‫ہر اپیل جو دفعہ ‪ A-411‬کی ضمنی دفعہ (‪ )2‬یا دفعہ ‪ 417‬کے مطابق ہوا ہو‪ ،‬ملزم کی وفات پر‬
‫مطلقا ً ساقط ہو جاتی ہے اور دوسری قسم کی اپیل ازروئے باب ہذا بجز ایسی اپیل کے‪ ،‬جو حکم‬
‫سزائے جرمانہ کی ناراضی سے ہو‪ ،‬اپیالنٹ کی وفات پر مطلقا ً ساقط ہو جاتی ہے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 430 ،429‬اور ‪ 431‬میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں‬
‫دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬
‫(باب نمبر ‪)32‬‬
‫استصواب ونظرثانی کی بابت‬

‫دفعہ ‪ :434 ،433 ،432‬منسوخ ہوئیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :435‬عدالت ہائے ادنی کی مثلوں کو طلب کرنے کا اختیار‬

‫ادنی کے‬
‫ہائی کورٹ یا کسی سیشن جج کو جائز ہے کہ کسی ایسی عدالت فوجداری ٰ‬ ‫(‪1‬‬
‫کسی مقدمہ کی مسل جو اس کے عالقہ کی حدود مقامی کے اندر واقع ہو اس غرض سے طلب‬
‫کرکے اس کا معائنہ کرے کہ اس کو اس بات کا اطمینان حاصل ہو کہ جو تجویز یا حکم سزا یا اور‬
‫حکم تحریری صادر کیا گیا ہو‪ ،‬وہ صحیح یا مطابق قانون یا انصاف کے ہے یا نہیں‪ ،‬اور آیا کوئی‬
‫ادنی کے مطابق ضابطہ ہوئی ہے یا نہیں اور بروقت طلب کرنے ایسی مسل‬ ‫کارروائی ویسی عدالت ٰ‬
‫کے ہدایت کر سکتا ہے کہ حکم سزا کا عمل میں آنا معطل کردیا جائے اور اگر ملزم حراست میں ہو‬
‫تو وہ ضمانت پر یا خود اپنے مچلکہ پر رہا کردیا جائے اس وقت تک کیلئے مسل کا معائنہ ہو جائے۔‬

‫ادنی خیال کئے جائیں‬


‫وضاحت‪ :‬تمام مجسٹریٹ اس ضمنی دفعہ کی اغراض کیلئے سیشن جج سے ٰ‬
‫گے۔‬
‫(‪ )4( ،)3( ،)2‬منسوخ ہوئیں۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ یا سیشن جج کیلئے جائز ہے کہ وہ اپنے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ادنی فوجداری عدالت کے کسی مقدمہ کی مسل کا معائنہ کرے تاکہ‬‫دائرہ اختیار میں واقع کسی بھی ٰ‬
‫اسے اطمینان ہو کہ وہ فیصلہ مبنی برانصاف اور قانون کے مطابق ہے یا نہیں۔‬
‫ماتحت عدالتوں کے ججوں اور عمال کے فیصلوں کی جانچ پڑتال اور ان کے جائزے کی‬
‫صدیقی میں ایک یمنی شخص‬
‫ؓ‬ ‫ت راشدہ کے دور میں بھی نظر آتی ہیں‪ ،‬چنانچہ عہد‬ ‫مثالیں ہمیں خالف ِ‬
‫صدیق کے پاس یمن کے گورنر‬ ‫ؓ‬ ‫کہ جس کا ایک ہاتھ اور ایک پائوں کٹا ہوا تھا‪ ،‬نے حضرت ابوبکر‬
‫صدیق نے شکایت سنی اور فیصلہ محفوظ کرلیا۔ رات کے‬ ‫ؓ‬ ‫کے ظلم کی شکایت کی۔ سیدنا ابوبکر‬
‫آپ نے اس کا بایاں ہاتھ‬‫آپ کے گھر سے ہی زیورات چوری کرلئے‪ ،‬چنانچہ ؓ‬ ‫وقت اس شخص نے ؓ‬
‫کاٹنے کا حکم دیا۔‬
‫اور اس طرح یمن کے گورنر کے خالف شکایت کی تحقیق بھی ہوگئی کہ وہ جھوٹی تھی۔‬
‫(‪)68‬‬
‫مسلمہ موقع پر جا کر تحقیقات‬
‫ؓ‬ ‫ؓ‬
‫فاروق کو جب کسی عامل کی شکایت ملتی تو محمد بن‬ ‫حضرت عمر‬
‫کرتے۔ جزری لکھتے ہیں‪:‬‬
‫اول من عین شخصا ً مخصوصا ً القتصاص اخبار العمال وتحقیق الشکایات التی تصل الی‬
‫مسلمہ (‪)69‬‬
‫ؓ‬ ‫الخلیفہ من عمالہ وھو محمد بن‬
‫’’عمال کی خیروں اور انکی طرف سے خلیفہ کو ملنے والی شکایات کی تحقیق و تفتیش‬
‫مسلمہ کو مقرر کیا گیا‘‘۔‬
‫ؓ‬ ‫کیلئے سب سے پہلے محمد بن‬
‫آپ نے چند وفود‬
‫اشعری فتح ایران کی مہم سے بصرہ لوٹے تو ؓ‬
‫ؓ‬ ‫ابوموسی‬
‫ٰ‬ ‫‪23‬ھ میں حضرت‬
‫بنائے اور ما ِل غنیمت سے خمس نکاال‪ ،‬ایک شخص نے وفد میں شمولیت کا مطالبہ کیا مگر حضرت‬
‫ٰؓ‬
‫بوموسی‬ ‫آپ نے ا‬
‫عمر کے پاس شکایت کردی‪ؓ ،‬‬
‫ابوموسی نے انکار کردیا۔ اس شخص نے حضرت ؓ‬ ‫ٰؓ‬
‫کو بال کر تحقیقات کیں اور انہیں بے گناہ پایا‪ ،‬لہٰ ذا اس شخص کی شکایت رد کردی۔ (‪)70‬‬
‫آپ حج کے موقع پر اپنے تمام عمال کو بالتے اور فرماتے‪:‬‬
‫ؓ‬
‫یاایھا الناس انی بعثت عمالی ھوالء والۃ بالحق علیکم ولم استعملھم لیصیبوا من ابشارکم والمن‬
‫دماء کم وال من اموالکم فمن کانت لہ مظلمۃ عند احد منھم فلیقم (‪)71‬‬
‫’’اے لوگو! میں نے اپنے عاملوں کو تم پر حق کے ساتھ نگرانی کیلئے بھیجا ہے‪ ،‬اس لئے‬
‫نہیں کہ یہ تمہارے جان ومال اور آبرو پر دست درازی کریں‪ ،‬لہٰ ذا ان میں سے جس نے بھی کسی پر‬
‫ظلم کیا ہے تو وہ کھڑا ہوجائے‘‘۔‬
‫عمر کے اس طرز عمل کا ذکر کیا ہے۔ (‪)72‬‬
‫طبری نے بھی حضرت ؓ‬
‫ؒ‬
‫آپ اسے فورا ً‬
‫غنی کو بھی جب کسی عامل کے خالف شکایت ملتی‪ ،‬تو ؓ‬
‫حضرت عثمان ؓ‬
‫معزول کر دیتے۔‬
‫ٰؓ‬
‫ابوموسی نے کردوں کے خالف جہاد کے وقت جہاد‬ ‫آپ کے عہد میں والی بصرہ حضرت‬ ‫ؓ‬
‫کی فضیلت اور را ِہ خدا میں پیدل چلنے کے فضائل بیان کئے لیکن خود ایک عمدہ ترکی گھوڑے پر‬
‫دربار خالفت میں‬
‫ِ‬ ‫سوار ہوگئے‪ ،‬ایک شخص نے اعتراض کیا تو اسے کوڑا مارا‪ ،‬چنانچہ چند لوگ‬
‫عامر کو والی‬
‫ؓ‬ ‫ٰؓ‬
‫ابوموسی کو معزول کرکے عبدہللا بن‬ ‫ؓ‬
‫عثمان نے‬ ‫شکایت لے گئے‪ ،‬چنانچہ حضرت‬
‫بنادیا۔ (‪)73‬‬
‫غنی حج کے موقع پر تمام عاملوں کو طلب کرتے اور عام اعالن کرتے کہ‬ ‫حضرت عثمان ؓ‬
‫آپ‬
‫جسے کسی بھی عہدیدار کے خالف شکایت ہو تو پیش کرے‪ ،‬لہٰ ذا شکایتیں پیش کی جاتیں اور ؓ‬
‫انہیں سنکر فوری تدارک فرماتے۔ (‪)74‬‬
‫حج کے موقع پر یہ اعالن بھی کرایا جاتا کہ جو شحص کسی ظلم کی اطالع دے یا اچھا‬
‫مشورہ دے گا‪ ،‬حکومت اسے سو دینار انعام دے گی۔ (‪)75‬‬
‫علی بھی رعایا کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی شکایات کی خود سماعت کرتے‬
‫حضرت ؓ‬
‫اور جب بھی کوئی شکایت آتی‪ ،‬فورا ً اس کا فیصلہ کردیتے۔ (‪)76‬‬
‫آپ کمیشن مقرر کرکے عمال کے اعمال کی تحقیقات کراتے‪ ،‬ایک دفعہ کعب‬ ‫بعض اوقات ؓ‬
‫انصاری کو عراق کے عاملوں کی تحقیقات پر مقرر فرمایا اور ہدایت دی کہ تم چند‬
‫ؓ‬ ‫بن مالک‬
‫اشخاص کو ساتھ لیکر عراق جائو اور وہاں جا کرعاملوں کے بارے میں تحقیقات کرو۔ (‪)77‬‬
‫اپنے ایک عامل عمرو بن مسلمہ کو لکھا‪:‬‬
‫’’مجھے پتہ چال ہے کہ تمہارے عالقے میں غیر مسلم کسانوں کو تمہاری سخت مزاجی کی‬
‫شکایت ہے‪ ،‬اس میں کوئی اچھائی نہیں ہے‪ ،‬تمہیں سختی اور نرمی دونوں سے کام لینا چاہئے لیکن‬
‫سختی ظلم اور نرمی نقصان کی حد تک نہیں ہونی چاہئے‪ ،‬ان سے جو وصول کرنا ہو وہ وصول‬
‫کرو لیکن ان کے خون سے اپنا دامن محفوظ رکھو‘‘۔ (‪)78‬‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ ماتحت عدالتوں اور حاکموں کے فیصلوں کا جائزہ لینا‬
‫اور ان کی نگرانی کرنا اسالمی عدالتی نظام میں بھی موجود ہے اور خلفائے راشدین کے عہد سے‬
‫اس کی متعدد مثالیں اس پر شاہد عدل ہیں۔‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا اس میں‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :436‬حکم برائے مزید تحقیقات کا اختیار‬

‫دفعہ ‪ 435‬کے تحت یا دیگر طو رپر کسی مسل کا معائنہ‪:‬‬


‫ہائی کورٹ‪ ،‬سیشن جج کو ہدایت کر سکتی ہے کہ وہ اپنے ]کسی[ ماتحت مجسٹریٹ‬ ‫(‪a‬‬
‫کے ذریعہ سے اور سیشن جج ازخود اپنے کسی ماتحت جوڈیشل مجسٹریٹ کے ذریعہ سے ایسی‬
‫شکایت کی مزید تحقیقات کرائے جو دفعہ ‪ 203‬یا دفعہ ‪ 204‬کی ذیلی دفعہ (‪ )3‬کے تحت خارج کی‬
‫گئی ہو یا نسبت مقدمہ کسی شخص کے جس پر کسی جرم کا الزام لگایا گیا ہو اور جس نے رہائی‬
‫پائی ہو مزید تحقیقات کرے۔‬
‫ہائی کورٹ یا سیشن جج ]کسی مجسٹریٹ[ کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ اس‬ ‫(‪b‬‬
‫کارروائی کے بارے میں مزید تحقیقات کرے جس میں زیر دفعہ ‪ 119‬حکم ڈسچارج یا حکم بریت‬
‫صادر کیا گیا ہو‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ اس دفعہ کے تحت کوئی عدالت ہدایت جاری نہیں کرے گی کسی ایسے شخص‬
‫کے مقدمہ کے بارے میں تحقیقات کے سلسلہ میں جو دفعہ ‪ 119‬کے تحت برخاست یا واگزار ہوئی‬
‫ہو جب تک کہ اس شخص کو اظہار وجوہ کا موقع فراہم نہ کیا جائے کہ ایسی ہدایت جاری کیوں نہ‬
‫کی جائے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬
‫دفعہ ‪ :438 ،347‬منسوخ ہوئیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :439‬ہائی کورٹ کے اختیارات نگرانی‬

‫کسی ایسی کارروائی مقدمہ کی صورت میں جس کے کاغذات خود ہائی کورٹ نے‬ ‫(‪1‬‬
‫طلب کئے ہوں یا جو اور طرح اس کے علم میں آجائے‪ ،‬ہائی کورٹ مذکور مجاز ہوگی کہ اپنی‬
‫صوابدید کے مطابق اپنے ان اختیارات میں سے کوئی اختیار استعمال کرے جو دفعات ‪،426 ،423‬‬
‫‪ 427‬اور ‪ 428‬کی رو سے کسی عدالت اپیل کو یا دفعہ ‪ 338‬کی رو سے کسی عدالت کو عطا کئے‬
‫گئے ہوں اور وہ مجاز ہے کہ سزا کو بڑھا دے اور جب وہ صاحبان جج جن سے عدالت نگرانی‬
‫مرکب ہو‪ ،‬برابر کی تعداد میں مختلف اْلرا ہوں‪ ،‬تو مقدمے کا تصفیہ اس طریق کے مطابق کیا‬
‫جائے گا جو دفعہ ‪ 429‬میں مقرر کیا گیا ہے۔‬
‫اس دفعہ کے تحت ملزم کے مفاد کے خالف کوئی حکم صادر نہیں کیا جائے گا۔‬ ‫(‪2‬‬
‫جب تک کہ اسے اپنی صفائی میں اصالتا ً یا وکیل کے ذریعہ سنے جانے کا موقع نہ دیا گیا ہو۔‬
‫جب کہ وہ حکم سزا جس کی تجویز دفعہ ہذا کے تحت کی گئی ہو‪ ،‬کسی مجسٹریٹ‬ ‫(‪3‬‬
‫نے صادر کیا ہو تو عدالت اس جرم کی پاداش میں جو ویسی عدالت کی رائے میں ملزم مذکور سے‬
‫سرزد ہوا ہو‪ ،‬اس سزا سے زیادہ سزا عائد نہیں کرے گی جو ویسے جرم کی پاداش میں کوئی‬
‫مجسٹریٹ درجہ اول صادر کر سکتا ہے۔‬
‫دفعہ ہذا کے کسی مضمون سے یہ متصور نہیں ہوگا کہ وہ ہائی کورٹ کو‪:‬‬ ‫(‪4‬‬
‫کسی نتیجہ تحقیقات بریت کو حکم اثبات جرم میں بدل دینے‪ ،‬یا‬ ‫(‪a‬‬
‫کسی ایسے حکم کی نسبت جو سیشن جج نے دفعہ ‪ A-439‬کے تحت‬ ‫(‪b‬‬
‫صادر کیا ہو‪ ،‬کارروائی نگرانی قبول کرنے کا اختیار دیتا ہے۔‬
‫جب کہ مجموعہ ہذا کے تحت اپیل دائر ہو سکتی ہو اور کوئی اپیل دائر نہ کی جائے‬ ‫(‪5‬‬
‫تو کوئی کارروائی بطریق نگرانی اس فریق کے ایما پر جو اپیل کر سکتا تھا‪ ،‬قبول نہیں کی جائے‬
‫گی۔‬
‫دفعہ ہذا میں درج شدہ کسی امر کے باوجود کوئی مجرم قرار یافتہ شخص جسے‬ ‫(‪6‬‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )2‬کے تحت اس امر کی وجہ بیان کرنے کا موقع دیا جا چکا ہو کہ کیوں نہ اس کی‬
‫سزا بڑھا دی جائے‪ ،‬وجہ بیان کرتے وقت اپنے اثبات جرم کے خالف وجہ بیان کرنے کا بھی‬
‫مستحق ہوگا۔‬

‫نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ کی شق (‪ )1‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں‬ ‫اسالمی ٔ‬
‫دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور شق نمبر ‪ 2‬میں کہا گیا ہے کہ جب تک ملزم‬
‫کو صفائی کا موقع نہ دیا جائے‪ ،‬اس کیخالف کوئی فیصلہ نہیں دیا جائیگا۔‬
‫یہ اصول اسالمی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے‪:‬‬
‫البینۃ علی المدعی والیمین علی من أنکر (‪)79‬‬
‫انکار حق کرنے والے کے ذمہ ہے‘‘۔‬
‫ِ‬ ‫’’ثبوت مدعی کے ذمہ اور قسم‬
‫اشعری کے نام اپنے مراسلہ میں بیان کیا ہے۔ (‪)80‬‬
‫ؓ‬ ‫ابوموسی‬
‫ٰ‬ ‫عمر نے‬
‫یہی اصول حضرت ؓ‬
‫جس سے واضح ہوتا ہے کہ ملزم کو اپنی صفائی کا موقع دینے کو اسالم اس کا بنیادی حق قرار دیتا‬
‫ہے تاکہ قیام عدل میں آسانی ہو اور واقعی مجرم کو سزا دی جا سکے۔‬
‫اس دفعہ کی باقی شقوں میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :A-439‬سیشن جج کے اختیارات نگرانی‬

‫ایک مجسٹریٹ کے روبرو کسی ایسی کارروائی کی صورت میں جس کا ریکارڈ‬ ‫(‪1‬‬
‫سیشن جج نے طلب کرلیا ہو یا جو اور طرح اس کے علم میں آجائے‪ ،‬سیشن جج ان اختیارات میں‬
‫سے کوئی اختیار استعمال کرنے کا مجاز ہے جو دفعہ ‪ 439‬کی رو سے ہائی کورٹ کو عطا ہوئے‬
‫ہیں۔‬
‫ایک ایڈیشنل سیشن جج کو اس مقدمے کی نسبت جو اس کے پاس سیشن جج کے عام‬ ‫(‪2‬‬
‫یا خاص حکم کے ذریعے منتقل کیا جائے‪ ،‬باب ہذا کے تحت سیشن جج کے تمام اختیارات حاصل‬
‫ہوں گے اور وہ ان کو استعمال کر سکتا ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :440‬فریقین کے عذرات کی سماعت کرنا عدالت کی مرضی پر منحصر ہے‬
‫کسی فریق کو حق حاصل نہیں کہ اصالتا ً یا وکیل کے ذریعہ عدالت میں اس کی سماعت کی جائے‬
‫جب کہ عدالت اپنے اختیارات نگرانی استعمال کر رہی ہو‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ عدالت مذکور کو اختیار ہوگا کہ اگر مناسب سمجھے تو ویسے اختیارات‬
‫استعمال کرتے وقت کسی فریق کو اصالتا ً یا وکیل کے ذریعے سنے اور اس دفعہ کی کسی عبارت‬
‫سے یہ متصور نہیں ہوگا کہ وہ دفعہ ‪ 439‬کی ضمنی دفعہ (‪ )2‬پر اثرانداز ہوتی ہے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ A-439‬اور ‪ 440‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے منافی معلوم نہیں‬
‫ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ ‪ :441‬حذف ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :442‬ہائی کورٹ کے حکم کا سرٹیفکیٹ عدالت ماتحت یا مجسٹریٹ کو دیا جائے گا‬

‫جب ہائی کورٹ باب ہذا کے تحت کسی مقدمہ کی نگرانی کرے تو عدالت مذکور کو الزم ہوگا کہ‬
‫اس طریق کے مطابق جو دفعہ ‪ 425‬کی رو سے قبل ازیں مقرر کیا گیا ہے‪ ،‬اپنے فیصلہ کی تصدیق‬
‫کرکے اس عدالت میں بھیج دے جس نے تجویز (نتیجہ تحقیقات) حکم سزا یا حکم (جس کی نگرانی‬
‫ہوئی ہو) قلم بند یا صادر کیا تھا اور اس عدالت یا مجسٹریٹ کو جس کے پاس فیصلہ یا حکم اس‬
‫طرح تصدیق ہو کر پہنچے‪ ،‬الزم ہے کہ تب ایسے احکام صادر کرے جو ویسے تصدیق شدہ فیصلہ‬
‫کے مطابق ہوں اور اگر ضروری ہو تو اس کے مطابق ریکارڈ کی ترمیم کی جائے گی۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫حصہ نمبر ‪8‬‬


‫خاص کارروائیاں‬

‫(باب نمبر ‪)33‬‬


‫دفعہ ‪ 443‬تا ‪ :463‬حذف ہوئیں۔‬

‫(باب نمبر ‪)34‬‬


‫فاتر العقل اشخاص‬

‫دفعہ نمبر ‪ :464‬اس صورت میں طریقہ کار جب ملزم فاتر العقل ہو‬

‫جب کوئی مجسٹریٹ جو کسی مقدمہ کی تحقیق یا تجویز کر رہا ہو‪ ،‬یہ باور کرنے‬ ‫(‪1‬‬
‫کی وجہ رکھتا ہو کہ ملزم فاتر العقل ہے اور نتیجتا ً اپنی جوابدہی کا اہل نہ ہے‪ ،‬تو مجسٹریٹ پر الزم‬
‫ہوگا کہ ویسے فاتر العقل کی حقیقت کی نسبت تحقیقات کرنے اور ضلع کے سول سرجن یا کسی‬
‫دیگر میڈیکل افسر‪ ،‬جس کی نسبت صوبائی حکومت ہدایت کرے‪ ،‬ویسے شخص کا طبی معائنہ‬
‫کرائے اور بعد ازاں ویسے سرجن یا دیگر افسر کا بطور بیان لے اور ویسے بیان کو قلم بند کرے۔‬
‫(‪ A-1‬ایسا معائنہ اور تحقیق ہونے تک مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ دفعہ ‪ 466‬کے احکام کے‬
‫مطابق ملزم کے متعلق کارروائی کرے۔‬
‫اگر ویسے مجسٹریٹ کی یہ رائے ہو کہ ملزم فاتر العقل ہے اور نتیجتا ً اپنی صفائی‬ ‫(‪2‬‬
‫دینے کے اہل نہ ہے تو وہ اس بارے میں الزمی طور پر تجویز قلم بند کرے گا اور مقدمہ میں مزید‬
‫کارروائی ملتوی کردے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :465‬اس شخص کی نسبت طریقہ کار جس کو عدالت سیشن یا ہائی کورٹ کے‬
‫سپرد کیا گیا ہو اور فاتر العقل پایا جائے‬

‫اگر عدالت سیشن یا ہائی کورٹ کے روبرو تجویز کے وقت کسی شحص کو عدالت‬ ‫(‪1‬‬
‫فاتر العقل سمجھے اور نتیجتا ً اپنی جوابدہی کا اہل نہ پائے‪ ،‬تو عدالت پر الزم ہوگا کہ اول ویسی فاتر‬
‫العقلی اور نااہلیت کی نسبت تجویز کرے اور اگر عدالت کی اس امر کی نسبت تسلی ہو جائے تو وہ‬
‫اس بارے میں اپنی تجویز قلم بند کرے گی اور مقدمہ میں مزید کارروائی ملتوی کردے گی۔‬
‫ملزم کی فاتر العقلی اور نااہلیت کے بارے میں تجویز‪ ،‬عدالت کے روبرو اس کی‬ ‫(‪2‬‬
‫تجویز کا جزو متصور ہوگی۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :466‬تجویز یا تحقیق ہونے تک فاتر العقل کی رہائی‬

‫جب کوئی ملزم شخص فاتر العقل ہو اور اپنی جوابدہی کا اہل نہ ہو تو مجسٹریٹ یا‬ ‫(‪1‬‬
‫عدالت‪ ،‬جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬خواہ مقدمہ قابل ضمانت ہو یا نہ ہو‪ ،‬اس کو اس امر کی کہ اس کی‬
‫مناسب خبر گیری کی جائے گی اور اسے خود کو یا کسی دیگر شخص کو ضرر پہنچانے سے باز‬
‫رکھا جائے گا اور اس کی حاضری کی بابت جب مجسٹریٹ یا عدالت یا ویسے افسر کے روبرو جس‬
‫کو اس بارے میں مجسٹریٹ یا عدالت مقرر کرے‪ ،‬اسے طلب کیا جائے‪ ،‬کافی ضمانت دینے پر‬
‫رہائی دے سکتا ہے۔‬
‫تحویل فاتر العقل‪ :‬اگر مقدمہ ایسا ہے جس میں مجسٹریٹ یا عدالت کی رائے کے‬ ‫(‪2‬‬
‫مطابق ضمانت نہیں لینی چاہئے یا اگر کافی ضمانت نہ دی گئی ہو تو مجسٹریٹ یا عدالت کو‪ ،‬جیسی‬
‫کہ صورت ہو‪ ،‬الزم ہوگا کہ حکم صادر کرے کہ ملزم کو بحفاظت تحویل میں ایسے مقام پر اس‬
‫طور سے رکھا جائے جیسا کہ وہ مناسب سمجھے اور اس کارروائی کی رپورٹ صوبائی حکومت‬
‫کو بھیجے‪ ،‬جو کی گئی ہو‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ کسی ملزم کو پاگل خانہ میں قید رکھنے کا حکم نہیں دیا جائے گا سوائے ان‬
‫قواعد کے مطابق جو صوبائی حکومت نے قانون جنون بابت ‪1912‬ء کی رو سے وضع کئے ہوں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :467‬تحقیق و تجویز کا ازسرنو آغاز‬

‫جب کبھی کوئی تحقیقات یا تجویز مقدمہ زیر دفعہ ‪ 464‬یا دفعہ ‪ 465‬ملتوی کی‬ ‫(‪1‬‬
‫جائے تو مجسٹریٹ یا عدالت جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬مجاز ہے کہ کسی وقت تحقیقات یا تجویز دوبارہ‬
‫شروع کرے اور ملزم کو ویسے مجسٹریٹ یا عدالت کے روبرو حاضر ہونے یا حاضر کرانے کا‬
‫حکم صادر کرے۔‬
‫جب ملزم دفعہ ‪ 466‬کے تحت رہا کردیا گیا ہو اور اس کی حاضری کے ضامن‬ ‫(‪2‬‬
‫اشخاص اسے اس افسر کے روبرو پیش کریں جسے اس بارے میں مجسٹریٹ یا عدالت نے مقرر کیا‬
‫ہو تو ویسے افسر کا تصدیق نامہ کہ ملزم اپنی جوابدہی کرنے کے قابل ہے‪ ،‬شہادت میں قابل قبول‬
‫ہوگا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :468‬ضابطہ جبکہ ملزم مجسٹریٹ یا عدالت کے روبرو حاضر ہو‬

‫اگر اس وقت جبکہ ملزم مجسٹریٹ یا عدالت کے روبرو جیسا کہ صورت ہو‪ ،‬حاضر‬ ‫(‪1‬‬
‫ہو یا دوبارہ حاضر کیا جائے‪ ،‬مجسٹریٹ یا عدالت اسے اپنی جوابدہی کرنے کے قابل سمجھے تو‬
‫تحقیقات یا تجویز مقدمہ شروع کی جائے گی۔‬
‫اگر مجسٹریٹ یا عدالت ملزم کو اس وقت بھی اپنی جوابدہی کرنے کے ناقابل‬ ‫(‪2‬‬
‫سمجھے‪ ،‬تو مجسٹریٹ یا عدالت کو الزم ہوگا کہ احکام دفعہ ‪ 464‬یا دفعہ ‪ 365‬کے مطابق‪ ،‬جیسی‬
‫کہ صورت ہو‪ ،‬پھر عمل کرے اور اگر ملزم فاتر العقل اور اپنی جوابدہی کرنے کے ناقابل پایا جائے‬
‫تو ایسے ملزم کی نسبت دفعہ ‪ 466‬کے احکام کے مطابق کارروائی کرے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :469‬جب یہ معلوم ہو کہ ملزم فاتر العقل رہ چکا ہے‬

‫جب تحقیقات یا تجویز کے وقت ملزم صحیح العقل معلوم ہو اور مجسٹریٹ اپنے روبرو پیش کردہ‬
‫شہادت سے مطمئن ہو کہ یہ باور کرنے کی وجہ ہے کہ ملزم کسی ایسے فعل کا مرتکب ہوا ہے کہ‬
‫اگر وہ صحیح العقل ہوتا تو وہ ایک جرم ہوتا اور یہ کہ اس وقت جب کہ اس نے ایسے فعل کا‬
‫ارتکاب کیا تھا‪ ،‬یہ سبب فاتر العقلی اس فعل کی نوعیت اور یہ جاننے سے معذور تھا کہ وہ (فعل)‬
‫بیجا یا خالف قانون ہے تو مجسٹریٹ یا عدالت کو الزم ہے کہ وہ مقدمہ کی کارروائی جاری رکھے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :470‬فاتر العقلی کی بنا پر بریت کا فیصلہ‬

‫جب کوئی شخص اس بنا پر بری کیا جائے کہ اس وقت جبکہ اس نے مبینہ طو رپر کسی جرم کا‬
‫ارتکاب کیا‪ ،‬وہ بسبب فاتر العقل اس مبینہ فعل کی نوعیت جس سے جرم قرار پائے اور یہ جاننے‬
‫سے معذور تھا کہ وہ (فعل) غلط یا خالف قانون ہے تو مقدمہ کی تجویز میں خاص طور پر یہ بیان‬
‫کیا جائے گا کہ اس نے فعل مذکو رکا ارتکاب کیا ہے یا نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :471‬اس بنا پر رہا ہونے والے شخص کو محفوظ تحویل میں رکھا جائے‬

‫جب تجویز میں یہ مذکور ہو کہ ملزم شخص نے مبینہ فعل کا ارتکاب کیا ہے‪ ،‬تو‬ ‫(‪1‬‬
‫مجسٹریٹ یا عدالت کو جس کے روبرو مقدمہ کی تجویز ہوئی ہے‪ ،‬الزم ہے کہ اگر ویسا فعل عدم‬
‫معذوری کی صورت میں جرم قرار پاتا‪ ،‬تو یہ حکم صادر کرے کہ ویسے شخص کو محفوظ تحویل‬
‫میں ایسے مقام پر اس طور سے رکھا جائے‪ ،‬جیسا کہ مجسٹریٹ یا عدالت مناسب سمجھے اور اس‬
‫کارروائی کی رپورٹ صوبائی حکومت کو بھیجے‪:‬‬
‫بشرطیکہ کسی ملزم کو پاگل خانے میں مقید کرنے کا حکم نہیں دیا جائے گا‪ ،‬سوائے ان قواعد کے‬
‫مطابق جو صوبائی حکومت نے ’’قانون جنون بابت ‪ ‘‘1912‬کی رو سے وضع کئے ہوں۔‬
‫انسپکٹر جنرل کو بعض فرائض سے سبکدوش کرنے کی بابت صوبائی حکومت کا‬ ‫(‪2‬‬
‫اختیار‪ :‬صوبائی حکومت مجاز ہے کہ اس جیل کے افسر انچارج کو جس میں کہ ویسا شخص دفعہ‬
‫‪ 466‬یا دفعہ ہذا کے احکام کے مطابق مقید ہو‪ ،‬انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کے جملہ یا چند‬
‫فرائض زیر دفعہ ‪ 437‬یا دفعہ ‪ 474‬انجام دینے کا اختیار دے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :472‬منسوخ ہوئی۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :473‬ضابطہ جبکہ فاتر العقل قیدی کی بابت یہ رپورٹ دی جائے کہ وہ اپنی جواب دہی‬
‫کے قابل ہے‬

‫اگر ایسا شخص دفعہ ‪ 466‬کے احکام کے مطابق حراست میں ہو یا اس صورت میں کہ کوئی شخص‬
‫جیل میں مقید ہو تو انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات یا اس صورت میں کہ کوئی شخص پاگل خانہ میں‬
‫مقید ہو تو ویسے پاگل خانہ میں معائنہ کیلئے آنے والے یا ان میں سے کوئی دو اس امر کی تصدیق‬
‫کریں کہ اس کی یا ان کی رائے میں ویسا شخص اپنی جواب دہی کے قابل ہے تو اسے مجسٹریٹ یا‬
‫عدالت کے روبرو جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬اس وقت پیش کیا جائے گا جو مجسٹریٹ یا عدالت مقرر‬
‫کرے اور مجسٹریٹ یا عدالت اس شخص کی نسبت زیر دفعہ ‪ 468‬کارروائی کریں گے اور ویسے‬
‫انسپکٹر جنرل یا مذکورہ معائنہ کرنے والوں کا تصدیق نامہ بطور شہادت قابل قبول ہوگا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :474‬ضابطہ جبکہ فاتر العقل جو حسب دفعہ ‪ 466‬یا ‪ 471‬حراست میں ہو‪،‬‬
‫آزاد کئے جانے کے قابل قرار دیا جائے‬

‫اگر ویسا شخص حسب دفعہ ‪ 466‬یا ‪ 471‬حراست میں ہو اور ویسا انسپکٹر جنرل یا‬ ‫(‪1‬‬
‫معائنہ کرنے والے یہ تصدیق کرینکہ اس کی یا ان کی رائے میں بغیر اس خطرہ کے کہ وہ خود کو‬
‫یا کسی اور شحص کو کوئی ضرر پہنچائے‪ ،‬آزاد کیا جا سکتا ہے‪ ،‬اس پر صوبائی حکومت مجاز‬
‫ہوگی اس کو آزاد کرنے یا حراست میں رکھنے یا کسی عام پاگل خانے میں‪ ،‬اگر اسے پہلے ویسے‬
‫پاگل خانہ میں نہ بھیجا گیا ہو‪ ،‬منتقل کرنے کا حکم صادر کرے اور اس صورت میں کہ اسے پاگل‬
‫خانہ منتقل کرنے کا حکم صادر کیا جائے تو ایک کمیشن مقرر کرے جو ایک عدالتی افسر اور دو‬
‫میڈیکل افسروں پر مشتمل ہو۔‬
‫ویسا کمیشن شخص مذکور کی دماغی کیفیت کے بارے میں باضابطہ تحقیقات کرے‬ ‫(‪2‬‬
‫گا اور ویسی شہادت لے گا جو ضروری ہو اور صوبائی حکومت کو اپنی رپورٹ دے گا جو اس کی‬
‫رہائی یا حراست میں لینے کی بابت‪ ،‬جیسا وہ مناسب سمجھے‪ ،‬حکم صادر کر سکتی ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :475‬فاتر العقل کو کسی رشتہ دار یا دوست کی نگہداشت میں دینا‬

‫جو شخص دفعہ ‪ 466‬یا دفعہ ‪ 471‬کے احکام کے مطابق زیر حراست ہو اگر اس کا‬ ‫(‪1‬‬
‫کوئی رشتہ دار یا دوست یہ خواہش کرے کہ اسے اس کی نگہداشت اور تحویل میں دے دیا جائے تو‬
‫صوبائی حکومت مجاز ہے کہ ویسے رشتہ دار یا دوست کی درخواست پر اور ویسی صوبائی‬
‫حکومت کے حسب اطمینان اس کے ضمانت دینے پر اس امر کی بابت کہ اسے سپرد کئے جانے‬
‫والے شخص کو‪:‬‬
‫مناسب طور پر زیر نگرانی رکھا جائے گا اور اسے خود یا کسی‬ ‫(‪a‬‬
‫اور شخص کو ضرر پہنچانے سے باز رکھا جائے گا‪ ،‬اور‬
‫ویسے افسر کے معائنہ کیلئے ایسے اوقات اور مقامات پر پیش کیا‬ ‫(‪b‬‬
‫جائے گا جس کی بابت صوبائی حکومت ہدایت کرے‪ ،‬اور‬
‫اس شخص کی صورت میں جسے حسب دفعہ ‪ 466‬حراست میں‬ ‫(‪c‬‬
‫رکھا گیا ہو‪ ،‬ویسے مجسٹریٹ یا عدالت کے روبرو عندالطلب پیش کیا جائے گا۔‬
‫تو ویسے شخص کو ویسے رشتہ دار یا دوست کی تحویل میں دینے کا حکم‬
‫صادر کرے۔‬
‫اگر اس طرح سپرد کئے جانے والے شخص پر کسی ایسے جرم کا الزام ہو جس کی‬ ‫(‪2‬‬
‫تجویز اس بیان پر ملتوی کی گئی ہو کہ وہ بہ سبب فاتر العقلی اپنی جوابدہی کے قابل نہیں اور معائنہ‬
‫کنندہ افسر جس کا ضمنی دفعہ (‪ )1‬کی شق (‪ )b‬میں حولہ دیا گیا ہے۔ مجسٹریٹ یا عدالت کو کسی‬
‫وقت اس امر کی تصدیق کرے کہ ویسا شخص اپنی جوابدہی کے قابل ہے‪ ،‬تو الزم ہے کہ ویسا‬
‫مجسٹریٹ یا عدالت اس رشتہ دار یا دوست کو جس کی تحویل میں ویسے ملزم کو دیا گیا تھا‪ ،‬حکم‬
‫دے کہ اسے مجسٹریٹ یا عدالت کے روبرو پیش کیا جائے اور ویسی پیشی پر مجسٹریٹ یا عدالت‬
‫دفعہ ‪ 466‬کے تحت کارروائی کرے گی اور معائنہ کنندہ افسر کا تصدیق نامہ بطور شہادت قابل‬
‫قبول ہوگا۔‬

‫دفعات نمبر ‪ 464‬تا ‪475‬‬

‫وضاحت‪ :‬مندرجہ باال دفعات مجنون اور فاتر العقل شخص کے بارے میں فوجداری مقدمات کی‬
‫سماعت اور کارروائی کے بارے میں طریق کار پر مشتمل ہیں۔ ان دفعات میں درجِ ذیل نکات بیان‬
‫ہوئے ہیں‪:‬‬
‫جب کوئی مجسٹریٹ اپنے زیر سماعت مقدمہ کے ملزم کو کافی وجہ سے فاتر العقل اور‬ ‫٭‬
‫جوابدہی کا نااہل سمجھے تو کسی ڈاکٹر سے ملزم کام معائنہ کرائے اور ڈاکٹر کا بیان قلمبند کرے‪،‬‬
‫پھر اگر مجسٹریٹ ملزم کو فتور عقل کی وجہ سے نااہل سمجھے تو مقدمہ کی کارروائی ملتوی‬
‫کردے گا اسی طرح ہائی کورٹ اور سیشن کورٹ کریں گی۔‬
‫کوئی شخص فاتر العقل ہونے کی بناء پر جوابدہی کا اہل نہ ہو تو مقدمہ قال ضمانت ہے یا‬ ‫٭‬
‫نہیں ہے تو اس کے بارے میں مناسب خبر گیری‪ ،‬نقصان پہنچانے سے ممانعت اور دوبارہ حاضری‬
‫کو یقینی بنانے کی ہدایات کے ساتھ عدالت اسے ضمانت پر رہا کر سکتی ہے۔ بصورت دیگر ملزم‬
‫کو بحفاظت مناسب جگہ پر تحویل میں رکھنا الزم ہوگا اور رپورٹ صوبائی حکومت کو کردی‬
‫جائے گی مگر اسے پاگل خانے نہیں بھیجا جائے گا۔ اس طرح جو سماعت بھی ملتوی کی جائے‪،‬‬
‫کسی بھی وقت دوبارہ شروع کی جا سکتی ہے اور ملزم عدالت حاضر کیا جائے گا۔‬
‫اور عدالت کی طرف سے مقرر کردہ افسر کا تصدیق نامہ کہ ملزم قابل جوابدہی ہے شہادت‬ ‫٭‬
‫تصور ہوگا‪ ،‬اگر ملزم زیر حراست ہے یا پاگل خانہ میں ہے تو اس کے معائنہ کرنے والے اگر اسے‬
‫قابل جوابدہی قرار دیں تو اسے عدالت میں پیش کیا جائیگا اور کسی رشتہ دار یا دوست کی‬
‫درخواست پر اور مناسب نگرانی کی یقین دہانی پر اسے اس رشتہ دار یا دوست کی تحویل میں بھی‬
‫دیا جا سکتا ہے اور اسے عندالطلب عدالت کے روبرو پیش کرنا ہوگا۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬فاتر العقل اور مجنون شخص کے بارے میں اسالم کے احکام درج ذیل ہیں۔ یہاں‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے لفظ ’’فتور‘‘ کی وضاحت کر دی جائے۔‬
‫’’فاتر‘‘ فتور سے ہے جس کے معنی ہیں نقص‪ ،‬خرابی‪ ،‬ضعف‪ ،‬فتور آنا‪ ،‬خرابی پیدا ہونا‪،‬‬
‫فتور عقل‪ ،‬عقل کی خرابی۔ (‪)81‬‬
‫رخنہ پڑنا‪ ،‬بگاڑ ہونا ِ‬
‫راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ الفتور کے معنی تیزی کے بعد ٹھہرنے‪ ،‬سختی کے بعد نرم‬
‫اور قوت کے بعد کمزور پڑ جانے کے ہیں۔ قرآن میں ہے‪:‬‬
‫علی فترۃ من الرسل‬
‫قد جاء کم رسولنا یبین لکم ٰ‬
‫’’ہمارے رسول ﷺ سلسلہ رسالت کے ماند پڑ جانے کے بعد تشریف الئے‘‘۔‬
‫وقیل للباطل َج ِولَ ٌۃ ثم یضمحل وللحق دولت ٌۃ ال ت َ ِذ ُّل وال ت َ ِق ُّل‬
‫’’باطل میں پہلے جوش ہوتا ہے پھر مضمحل ہوجاتا ہے اور حق کی سلطنت کبھی ذلیل یا‬
‫کمزور نہیں ہوتی‘‘۔ (‪)82‬‬
‫لہٰ ذا فاتر العقل سے مراد ایسا شخص ہے جس کی عقل میں بگاڑ اور خرابی پیدا ہو چکی ہو۔‬
‫ورا کا معنی ہے‪( :‬سختی کے بعد) نرم ہو جانا (تیزی کے بعد) ہلکا اور ڈھیال‬ ‫عربی زبان میں فَت ََر فُت ُ ً‬
‫تار۔ نشہ یا غشی کی ابتدائی حالت۔ ا َ ْلفَتْ َرۃُ۔ کمزوری‪ ،‬ڈھیال‬
‫پڑ جانا (چستی کے بعد) سست پڑجانا۔ ا َ ْلفَ ُ‬
‫ور۔ سستی‪ ،‬اضمحالل۔ یعنی فتور ایسی کیفیت ہے جس میں عقل انسانی مضمحل اور سست پڑ‬ ‫پن۔ اَلفُت ُ ْ‬
‫جاتی ہے۔ عقل صحیح طور پر کام نہیں کرتی اور غلط امور سرزد ہوتے ہیں۔ (‪)83‬‬
‫اس بارے میں فقہائے اسالم نے مفصل بحث کرتے ہوئے دالئل سے مسئلے کو واضح کیا‬
‫ہے اور ایسے اشخاص کیلئے شرعی احکام بیان کئے ہیں۔ جن کی تفصیل درجِ ذیل ہے‪:‬‬
‫حسامی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫عالمہ‬
‫ان اھلیۃ ال تکون بدون العقل والعقل معتبر الثبات االٔھلیۃ۔ اذال یفھم الخطاب بدونہ‪ ،‬وخطاب ال‬
‫یفھم قبیح (‪)84‬‬
‫’’اہلیت بغیر عقل کے نہیں ہو سکتی اور عقل اہلیت کو ثابت کرنے کیلئے معتبر ہے کیونکہ‬
‫عقل کے بغیر خطاب سمجھ نہیں آسکتا اور جو شخص خطاب کو نہیں سمجھ سکتا وہ عیب واال‬
‫ہے‘‘۔‬
‫وہ مزید لکھتے ہیں کہ اہلیت میں کچھ اور مانع ہو سکتے ہیں جو دو قسم کے ہیں‪:‬‬
‫(‪ )2‬سماوی کی ضد (مکتسب)‬ ‫(‪ )1‬سماوی‬
‫سماوی وہ عوارض ہیں جن میں بندہ کو اختیار نہ ہو۔ مثالً صغرسنی‪ ،‬جنون‪ ،‬مرض وغیرہ‬
‫اور ان کی ضد وہ امور ہیں جو بندہ کے اختیار سے ہوں۔ مثالً نشہ‪ ،‬مذاق‪ ،‬خطاء وغیرہ۔ (‪)85‬‬
‫فتور عقل کی ایک صورت جنون بھی ہے جس کے معنی یہ ہیں‪:‬‬
‫ِ‬
‫ا َ ْل َج َّن‪ :‬کسی چیز کو اس سے پوشیدہ کرنا کہتے ہیں‪َ :‬جنَّ ُہ اللَّ ْی ِل۔ اسے رات نے چھپا لیا۔ ُج َّن‬
‫َان‪ :‬ولی‪ ،‬کیونکہ وہ جو اس سے دستور ہوتا ہے۔ (‪)86‬‬ ‫علَ ْی ِہ اسے جنون ہو گیا۔ ا َ ْل َجن ُ‬
‫َ‬
‫والجنَّۃُ۔ دیوانگی۔ جن۔ پری۔ دیو۔‬ ‫َج َّن۔ َجناا و ُجنُوناً۔ دیوانہ ہونا‪ ،‬پاگل ہونا۔ صفت‪ :‬مجنون۔ ِ‬
‫الج ُّن ِ‬
‫(‪)87‬‬
‫کسی بیماری کی وجہ سے عقل کا بالکل جاتے رہنا جنون کہالتا ہے۔ (‪)88‬‬
‫بعض علماء اصول کہتے ہیں کہ جنون عقل کی ایسی خرابی ہے جو آدمی سے افعال واقوال‬
‫کو اس طرح عمل میں آنے سے روک دے‪ ،‬جیسے وہ عقل کی حالت میں واقع ہوا کرتے تھے مگر‬
‫شاذونادر۔ (‪)89‬‬
‫نور االنوار میں ہے‪:‬‬
‫خالف عقل اعمال پر ابھارتی ہے‬
‫ِ‬ ‫جنون ایک ایسی آفت ہے جو دماغ پر آتی ہے اور اسے‬
‫حاالنکہ وہ ضعیف االعضاء نہیں ہوتا۔ اس حالت میں عبادات اس سے ساقط ہو جائینگی اور جو‬
‫چیزیں اس سے ہالک ہو جائینگی‪ ،‬ان کا ضمان اس پر نہ ہوگا۔ (‪)90‬‬
‫محمصانی لکھتے ہیں کہ حکم شرعی کیلئے تین چیزوں کا وجود ضروری ہے‪ :‬حاکم‪،‬‬
‫تعالی ہے جو شرع میں سب سے پہلے احکام‬ ‫ٰ‬ ‫محکوم فیہ‪ ،‬محکوم علیہ۔ حاکم بمعنی شارع جو ہللا‬
‫صادر کرنے واال ہے۔ محکوم فیہ وہ عمل ہے جس کے لئے وہ حکم دیا گیا ہو اور محکوم علیہ‬
‫انسان ہے جو حکم شرعی کا مکلف ہے مگر شرط یہ ہے کہ انسان عاقل وذی ہوش ہو کیونکہ بعض‬
‫عوارض اس صالحیت پر اثرانداز ہوتے ہیں‪ ،‬خواہ وہ آسمانی ہوں جیسے صغرسنی‪ ،‬دیوانگی‪ ،‬نیند‬
‫وغیرہ‪ ،‬خواہ وہ اکتسابی ہوں جیسے نشہ‪ ،‬مسخرہ پن‪ ،‬بے ہودگی‪ ،‬حماقت وغیرہ۔ (‪)91‬‬
‫جنون کی دو قسمیں ہیں‪ )1( :‬اصلی (‪ )2‬عارضی۔‬
‫ت‬
‫ت جنون میں ہو اور عارضی یہ ہے کہ انسان حال ِ‬ ‫اصلی یہ ہے کہ انسان کی بلوغت حال ِ‬
‫عقل میں بالغ ہو‪ ،‬بعد میں جنون ہو جائے اور یہ دونوں قسمیں اہلیت وجوب میں موثر نہیں۔ اس لئے‬
‫کہ اہلیت ذمہ داری کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے اور جنون ذمہ داری کے منافی نہیں بلکہ اہلیت ادا پر‬
‫موثر ہوتا ہے اور اسے ختم کر دیتا ہے۔ اس لئے کہ اہلیت ادا عقل وتمیز کے ساتھ ثابت ہوتی ہے‬
‫اور مجنون فاسد العقل اور عدیم التمیز ہوتا ہے۔ لہٰ ذا وہ اس بچہ کی طرح ہے جو اپنے افعال‬
‫وتصرفات میں تمیز نہیں کر سکتا۔‬
‫اب عبادات کا کیا حکم ہے؟ اگر جنون ممتد ہے اور زمانہ جنون طویل ہے تو عبادات ساقط‬
‫ت جنون میں اگرچہ غیر ممکن‬‫ہو جائینگی اور اگر جنون غیر ممتد ہے تو عبادات کی ادائیگی حال ِ‬
‫ہے مگر حالت صحت میں ادائیگی میں کوئی حرج نہیں ہوگا‪ ،‬لہٰ ذا عبادات کا وجوب بھی باقی رہے‬
‫گا۔ (‪)92‬‬
‫حالت جنون میں مجنوں کے کسی قول کا اعتبار نہیں‪ ،‬البتہ اگر جنون منقطع ہو یعنی مجنون‬
‫کو بسا اوقات جنون سے افاقہ ہو جاتا ہو تو حالت صحت میں اس کے تصرفات کا حکم عاقل کے‬
‫تصرفات واال ہوگا۔ (‪)93‬‬
‫فتور عقل کی ایک شکل عتاھت بھی ہے۔‬
‫ِ‬
‫زیلعی کہتے ہیں کہ عتاھت سے مراد عقل کے اندر ایسی خرابی‪ ،‬خلل یا فتور کا پیدا ہو جانا‬
‫ؒ‬
‫ہے جو آدمی کو کم سمجھ بنا دیتی ہے‪ ،‬اس کے کالم میں روانی کم ہو جاتی ہے اور امور میں‬
‫صالحیت تدبیر غور وفکر کم ہو جاتی ہے۔ (‪)94‬‬
‫ت ادراک اور قوت تمیز جاتی رہتی ہے‪ ،‬اس کی دو اقسام ہیں۔ اول‪:‬‬
‫اور اس کی وجہ سے قو ِ‬
‫ت تمیز بالکل باقی نہ رہے اور آدمی مجنون کی‬‫ت ادراک اور قو ِ‬
‫عقل میں ایسا خلل پیدا ہو کہ قو ِ‬
‫طرح ہو جائے۔‬
‫دوسری قسم یہ ہے کہ مکمل عقل وتمیز اور قوت ادراک ختم نہیں ہوتی لیکن عقالء واال‬
‫ادراک باقی نہیں رہتا۔ عقل میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں انسان بالغ اور احکامات میں‬
‫تمیز کے قابل بچے کی طرح ہوتا ہے جس کیلئے اہلیت وجوب باقی رہتی ہے مگر اہلیت اداء ناقص‬
‫ہوتی ہے‪ ،‬لہٰ ذا عبادات اس پر واجب نہیں ہوتیں‪ ،‬اور اگر وہ ادا کرے تو درست ہونگی لیکن اس کے‬
‫حق میں سزائیں اور حدود ثابت نہ ہونگی اور مالی حقوق العباد ولی ادا کرے گا۔ (‪)95‬‬
‫حسامی لکھتے ہیں کہ عتہ اگر بلوغ کے بعد ہو تو وہ تمام احکام میں عقل کے ساتھ بچپنے‬
‫کی مانند ہے اور عتہ قول وفعل کی صحت کو نہ روکے گا لیکن ذمہ داری کو روکے گا اور اس‬
‫سے ذمہ داری کو اٹھا دیا جائے گا‪ ،‬جیسا کہ بچے سے اٹھا دی جاتی ہے۔ (‪)96‬‬
‫جنون کی وجہ سے مجنون پر سے شرعی ذمہ داریاں جن کا تعلق بدن سے ہے ساقط ہو‬
‫جاتی ہیں۔ جیسے نماز‪ ،‬حج اور روزہ ہے‪ ،‬تمام جسمانی سزائیں بھی ساقط ہو جاتی ہیں۔ (‪)97‬‬
‫اس بات پر پوری اُمت کا اجماع ہے کہ جنون سے جسمانی عبادات و احکام شریعت مثالً‬
‫نماز‪ ،‬روزہ‪ ،‬حج وغیرہ بھی ساقط ہو جاتے ہیں اور مختلف جسمانی سزائیں مثالً حدود‪ ،‬قصاص‬
‫وغیرہ بھی ساقط ہو جاتی ہیں۔ (‪)98‬‬
‫حد قائم کرنے کیلئے عقلمند ہونا شرط ہے اور یہ شرط انسان کے بالغ ہونے کے ساتھ ہی‬
‫غنی نابالغ پر حد نافذ نہ کرتے تھے اور جب ایک نابالغ شخص‬
‫پوری ہوتی ہے۔ لہٰ ذا حضرت عثمان ؓ‬
‫پر محض اس لئے حد نہیں قائم کی جاتی کہ وہ ناقص العقل ہے تو پھر ایک پاگل اور مخبوط الحواس‬
‫اولی صحیح ہے۔(‪)99‬‬
‫شخص پر مکمل طو رپر جو عقل سے عاری ہوتا ہے حد نہ قائم کرنا بدرجہ ٰ‬
‫علی فرماتے ہیں‪:‬‬
‫حضرت ؓ‬
‫’’بچے اور دیوانے کا عمد بھی خطا ہوتا ہے‘‘۔ (‪)100‬‬
‫اس قول کی روشنی میں ہر وہ جرم جو کسی بچے یا دیوانے اور مجنون شخص سے صادر‬
‫ہو‪ ،‬اسے خطا تصور کیا جائیگا‪ ،‬چاہے انہوں نے جان بوجھ کر ایسا فعل سرانجام دیا ہو یا غلطی‬
‫سے۔ دونوں صورتوں میں اسے غلطی ہی سمجھا جائیگا۔ (‪)101‬‬
‫کسی شخص پر حد جاری کرنے کیلئے پہلی شرط اس کا عقلمند ہونا ہے‪ ،‬مجنون یا مخبوط‬
‫علی ایک دفعہ ایک دیوانی عورت کے پاس سے گزرے‬ ‫الحواس پر حد جاری نہیں ہوگی۔ حضرت ؓ‬
‫آپ نے اس کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں‬ ‫جسے زنا کی سزا میں سنگسار کیا جانے واال تھا۔ ؓ‬
‫عمر کے حکم سے اسے سنگسار کیا جانے واال ہے۔‬ ‫نے بتالیا کہ اس نے زنا کیا ہے اور حضرت ؓ‬
‫ؓ‬
‫فاروق کے پاس گئے اور فرمایا کہ اے‬ ‫آپ نے فرمایا اسے واپس لے چلو اور خود حضرت عمر‬ ‫ؓ‬
‫ؓ‬
‫المومنین! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ تین قسم کے انسان مرفوع القلم ہوتے ہیں‪ ،‬ایک دیوانہ جب‬ ‫امیر‬
‫تک اس کا دماغی توازن درست نہ ہو جائے۔ دوسرا سونے واال جب تک بیدار نہ ہو جائے‪ ،‬تیسرا‬
‫ؓ‬
‫فاروق نے جواب دیا کہ ہاں میں جانتا ہوں اور اس کے‬ ‫بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے‪ ،‬حضرت عمر‬
‫ساتھ ہی اس دیوانی کو چھوڑ دیا اور خوشی سے ہللا اکبر کے الفاظ بار بار کہنے لگے۔ (‪)102‬‬
‫درج باال سطور میں پہلے ضابطہ فوجداری میں دیوانوں کے بارے میں بیان کردہ اصول‬
‫وقوانین اور طریق کار کا خالصہ بیان ہوا۔ پھر فقہائے اسالم کی تصریحات بیان کی گئیں۔ آپ نے‬
‫ؒ‬
‫راشدین نے اس سلسلے میں ایک جامع طریق کار وضع کیا اور پھر فقہائے اسالم‬ ‫دیکھا کہ خلفائے‬
‫نے اس سلسلے میں مزید اصول وضوابط منضبط کئے جو مذکورہ ضابطے سے کہیں زیادہ واضح‬
‫کرام نے مسئلہ کے ہر ہر پہلو کو بیان کرتے ہوئے شرعی احکام بھی‬
‫ؒ‬ ‫ہیں اور اس بارے میں فقہاء‬
‫تفصیالً بیان کردیئے ہیں تاکہ اگر ایسا کوئی مقدمہ یا فریق عدالت میں آئے تو اسے عدل وانصاف‬
‫کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعات میں اگر اسالمی تعلیمات کے مطابق ترمیم کردی جائے تو ضابطہ‬
‫فوجداری مزید جامع اور مفید بنایا جا سکتا ہے۔ لہٰ ذا اس میں حسب موقعہ ترامیم کی جانی چاہئیں۔‬
‫حوالہ جات‬

‫باب چہارم‬
‫(دفعہ نمبر ‪ 401‬تا ‪)475‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬البقرہ ‪229: 2‬‬ ‫(‪1‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬النساء ‪4:14‬‬ ‫(‪2‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬الطالق ‪1: 65‬‬ ‫(‪3‬‬
‫ابو دائود‪ ،‬سلیمان بن اشعث‪( :‬م۔ ‪275‬ھ ‪888 /‬ء)‪ :‬السنن‪ ،‬کتاب الحدود‪ ،‬باب العفوعن الحدود‬ ‫(‪4‬‬
‫مالم تبلغ الحدود السلطان‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،4376 :‬المکتبۃ العصریہ صیدا‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫قرآن کریم‪ :‬بنی اسرائیل ‪33: 17‬‬ ‫(‪5‬‬
‫مال جیون‪ ،‬احمد بن ابو سعید (م۔ ‪1130‬ھ ‪1718 /‬ء)‪ :‬تفسیرات احمدیہ فی بیان اْلیات‬ ‫(‪6‬‬
‫الشرعیہ‪ ،‬ص ‪ ،507‬قدیمی کتب خانہ‪ ،‬آرام باغ‪ ،‬کراچی‪ ،‬س ن‬
‫عیسی‪( :‬م۔ ‪279‬ھ ‪892 /‬ء)‪ :‬السنن‪ ،‬باب ماجآ فی حکم ولی لقتیل‪ ،‬رقم‬
‫ٰ‬ ‫ترمذی‪ ،‬محمد بن‬ ‫(‪7‬‬
‫الحدیث‪ ،1406 :‬دارالغرب االسالمی بیروت‪ ،‬س ن‬
‫شہزاد اقبال شام‪’’ :‬دستور پاکستان کی اسالمی دفعات میں تضادات‪ ،‬قرآن وسنت کی روشنی‬ ‫(‪8‬‬
‫میں‘‘‪’’ ،‬فکر ونظر‘‘ ج ‪ ،44‬شمارہ ‪ ،4‬اپریل تا جون ‪1428‬ھ ‪2007 /‬ء‪ ،‬ص ‪ ،60‬ادارہ تحقیقات‬
‫اسالمی اسالم آباد‬
‫کاسانی‪ ،‬عالء الدین ابی بکر بن مسعود‪( :‬م۔ ‪587‬ھ ‪1191 /‬ء)‪ :‬بدائع الصنائع‪ ،‬کتاب الحدود‪ ،‬ج‬ ‫(‪9‬‬
‫‪ ،7‬ص ‪ ،63‬دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬طبعہ الثانیۃ‪1406 ،‬ھ ‪1986 /‬ء‬
‫(‪ 10‬عبدالعزیز عامر‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬التعزیر فی الشریعۃ االسالمیہ‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،73-72‬مطبعۃ مصطفی‬
‫البابی الحلبی‪ ،‬القاھرہ‪ ،‬مصر‪ ،‬طبعۃ الثالثۃ‪1377 ،‬ھ ‪1957 /‬ء‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪11‬‬
‫(‪ 12‬محمد میاں صدیقی‪ :‬قصاص و دیت‪ ،‬ص ‪ ،78‬ادارہ تحقیقات اسالمی‪ ،‬بین االقوامی‬
‫یونیورسٹی‪ ،‬اسالم آباد‪ ،‬ط‪ :‬پنجم‪1417 ،‬ھ ‪1996 /‬ء‬
‫کاسانی‪ ،‬بدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪64‬‬ ‫(‪13‬‬
‫(‪ 14‬ابن قیم جوزی‪ ،‬محمد بن ابی بکر‪( :‬م۔ ‪751‬ھ ‪1350 /‬ء)‪ :‬الطرق الحکمیہ فی السیاسۃ‬
‫الشرعیۃ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،94‬مکتبہ دارالبیان‪ ،‬س ن‬
‫عبدالقادر عودہ‪ :‬التشریع الجنائی االسالمی‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،687‬دارالکاتب العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬ ‫(‪15‬‬
‫عبدالعزیز عامر‪ :‬التعزیر فی الشریعۃ االسالمیہ‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪82-81‬‬ ‫(‪16‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪84‬‬ ‫(‪17‬‬
‫محمد میاں صدیقی‪ :‬قصاص ودیت‪ ،‬ص ‪78‬‬ ‫(‪18‬‬
‫(‪ 19‬رپورٹ ضابطہ فوجداری‪1316 ،‬ھ ‪1898 /‬ء‪ ،‬مالحظات ‪ /‬مجوزہ ترامیم‪ ،‬ص ‪ ،177‬اسالمی‬
‫نظریاتی کونسل حکومت پاکستان اسالم آباد‪1421 ،‬ھ ‪2000 /‬ء‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪179‬‬ ‫(‪20‬‬
‫‪Tanzeel-ur-Rehman, Justice: Law Dictionary, P. 43-44, PLD Publishers, )21‬‬
‫‪Nabha Road, Lahore, 12th Edition, 1429 AH / 2008AD‬‬
‫مرتضی‪ ،‬سید‪( :‬م۔ ‪1205‬ھ ‪1790 /‬ء)‪ :‬تاج العروس‪ ،‬ج ‪ ،5‬ص ‪ ،358‬مطبعۃ‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 22‬زبیدی‪ ،‬محمد‬
‫الخیریہ‪ ،‬مصر‪1356 ،‬ھ ‪1937 /‬ء‬
‫(‪ 23‬کیرانوی‪ ،‬وحید لزماں‪ :‬القاموس الوحید‪ ،‬ص ‪ ،650-649‬ادارہ اسالمیات‪ ،‬انار کلی الہور‪ ،‬ط‪:‬‬
‫اولی‪1422 ،‬ھ ‪2001 /‬ء‬
‫ٰ‬
‫(‪ 24‬فیروز آبادی‪ ،‬محمد بن یعقوب‪( :‬م۔ ‪817‬ھ ‪1414 /‬ھ)‪ :‬القاموس المحیط‪ :‬ج ‪ ،3‬ص ‪ ،30‬موسسۃ‬
‫الرسالۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع بیروت لبنان‪ ،‬طبعۃ الثامنۃ‪1426 :‬ھ ‪2005 /‬ء‬
‫نخبۃ من اساتذہ‪ :‬القاموس العصری الجدید‪ ،‬ص ‪33‬ص دارالفکر بیروت‪1399 ،‬ھ ‪1978 /‬ء‬ ‫(‪25‬‬
‫(‪ 26‬المرغینانی‪ ،‬علی بن ابی بکر‪( :‬م۔ ‪593‬ھ ‪1196 /‬ء)‪ :‬الھدایہ‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪ ،108‬داراحیاء التراث‬
‫العربی بیروت‪ ،‬س ن‬
‫جرجی زیدان‪ :‬تاریخ التمدن االسالمی‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،249‬دارالفکر بیروت‪ ،‬س ن‬ ‫(‪27‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬االنبیاء ‪79-78: 21‬‬ ‫(‪28‬‬
‫(‪ 29‬قرطبی‪ ،‬محمد بن احمد‪( :‬م۔ ‪671‬ھ ‪1272 /‬ء)‪ :‬الجامع الحکام القرآن‪ ،‬ج ‪ ،11‬ص ‪،308‬‬
‫دارالکتب المصریہ القاھرہ‪ ،‬طبعۃ الثانیہ‪1384 ،‬ھ ‪1964 /‬ء‬
‫سیوطی‪ ،‬جالل الدین‪( :‬م‪911 :‬ھ ‪1505 /‬ء)‪ :‬درمنثور‪ ،‬ج ‪ ،5‬ص ‪ ،646‬دارالفکر‬ ‫(‪ii‬‬
‫بیروت‪ ،‬س ن‬
‫(‪ iii‬ثناء ہللا پانی پتی‪ ،‬قاضی‪( :‬م۔ ‪1225‬ھ ‪1810 /‬ء)‪ :‬تفسیر المظہری‪ ،‬ج ‪ ،6‬ص ‪،211‬‬
‫مکتبتہ الرشیدیہ‪ ،‬الباکستان‪1412 ،‬ھ‪1991/‬ء‬
‫(‪ 30‬بخاری‪ ،‬محمد بن اسماعیل‪( :‬م۔ ‪256‬ھ ‪869 /‬ء)‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب االنبیاء‪ ،‬باب قول ہللا‬
‫االولی‪1422 ،‬ھ ‪2001 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫تعالی ودھبنا لدائود سلیمن‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،3427 :‬دار طوق النجاۃ‪ ،‬طبعۃ‬
‫ٰ‬
‫نبوی میں ریاست کا نشوو ارتقاء‪ ،‬ص ‪ ،439‬نشریات اردو بازار‬
‫ؐ‬ ‫(‪ 31‬نثار احمد‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬عہد‬
‫الہور‪1429 ،‬ھ ‪2008 /‬ء‬
‫قرآن کریم‪ :‬المائدہ ‪42: 5‬‬ ‫(‪32‬‬
‫الشوری ‪15: 42‬‬
‫ٰ‬ ‫قرآن کریم‪:‬‬ ‫(‪33‬‬
‫(‪ 34‬عینی‪ ،‬محمد بن احمد‪ ،‬بدر الدین‪( :‬م۔ ‪855‬ھ ‪1451 /‬ء)‪ :‬عمدۃ القاری شرح البخاری‪ ،‬ج ‪،11‬‬
‫ص ‪ ،419‬ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ‪ ،‬مصر‪1348 ،‬ھ ‪1929 /‬ء‬
‫(‪ 35‬سرخسی‪ ،‬محمد بن احمد‪( :‬م۔ ‪483‬ھ ‪1090 /‬ء)‪ :‬المبسوط‪ ،‬ج ‪ ،16‬ص ‪ ،100‬مکتبہ رشیدیہ‪،‬‬
‫سرکی روڈ‪ ،‬کوئٹہ‪ ،‬س ن‬
‫ہللا‪ ،‬ڈاکٹر‪’’ :‬اسالمی عدل گستری‪ ،‬اپنے آغاز میں‘‘‪ ،‬نگارشات ڈاکٹر محمد حمید ہللا‪:،‬‬
‫(‪ 36‬حمید ؒ‬
‫مختار حق‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،279-278‬بیکن بکس‪ ،‬گلگشت ملتان‪1428 ،‬ھ ‪2007 /‬ء‬ ‫ِ‬ ‫مرتب محمد عالم‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪279‬‬ ‫(‪37‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪282‬‬ ‫(‪38‬‬
‫‪Dr. Muslehuddin, Judicial System of Islam, Its Origin and Development, )39‬‬
‫‪Page: 95‬‬
‫‪Dr. Muslehuddin Islamic Trust, International Islamic University,‬‬
‫‪Islamabad, 1409AH / 1988 AD‬‬
‫طالب‪ ،‬رقم الحدیث‪،573 :‬‬
‫ؓ‬ ‫(‪ 40‬ابن حنبل‪ ،‬احمد‪( :‬م۔ ‪241‬ھ ‪855 /‬ء)‪ :‬المسند‪ ،‬مسند علی بن ابی‬
‫موسسۃ الرسالہ بیروت‪ ،‬طبعۃ االولی‪1421 ،‬ھ ‪2001 /‬ء‬
‫ذھبی‪ ،‬شمس الدین‪( :‬م۔ ‪754‬ھ ‪1353 /‬ء)‪ :‬میزان االعتدال فی نقد الرجال‪ ،‬ترجمہ‬ ‫(‪ii‬‬
‫حنش ابن المعتمر‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،619‬رقم الحدیث‪ ،2368 :‬دارالمعرفہ للطباعۃ والنشر بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫االولی‪1382 ،‬ھ ‪1963 /‬ء‬
‫ٰ‬
‫(‪ 41‬وکیع‪ ،‬محمد بن خلف‪( :‬م۔ ‪306‬ھ ‪918 /‬ء)‪ :‬اخبار القضاۃ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،91‬المکتبۃ التجاریۃ‬
‫االولی‪1366 ،‬ھ ‪1947 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫الکبری‪ ،‬مصر‪ ،‬طبعۃ‬
‫ٰ‬
‫بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب المحاربین‪ ،‬باب االعتراف بالزنا‪ ،‬رقم الحدیث‪6827 :‬‬ ‫(‪42‬‬
‫عبدالحئی‪( :‬م۔ ‪1382‬ھ ‪1962 /‬ء)‪ :‬التراتیب االداریہ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،112‬داراالرقم‬
‫ؒ‬ ‫(‪ 43‬کتانی‪ ،‬محمد‬
‫بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪ ،‬س ن‬
‫‪Muslehuddin: Judicial System of Islam: P:97‬‬ ‫‪)44‬‬
‫(‪ 45‬الشیبانی‪ ،‬محمد بن حسن‪( :‬م۔ ‪189‬ھ ‪804/‬ء)‪ :‬موطا‪ ،‬کتاب الحدود السرقۃ‪ ،‬باب السارق یسرق‪،‬‬
‫رقم الحدیث‪ ،689 :‬المکتبہ العلمیہ بیروت‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 46‬ڈاکٹر حمید ہللا‪’’ :‬اسالمی عدل گستری اپنے آغاز میں‘‘‪ ،‬نگارشات ڈاکٹر محمد حمید ہللا ؒ‪ ،‬ج‬
‫‪ ،1‬ص ‪282‬‬
‫سرخسی‪ :‬المبسوط‪ ،‬ج ‪ ،16‬ص ‪81‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪47‬‬
‫(‪ 48‬محمود عرنوس‪ :‬تاریخ القضاء فی االسالم‪ ،‬مترجم اُردو‪ :‬محمد احمد پانی پتی‪ ،‬ص ‪ ،47‬مشتاق‬
‫بک کارنر‪ ،‬اُردو بازار الہور‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 49‬طبری‪ ،‬محمد بن جریر‪ ،‬ابو جعفر‪( :‬م۔ ‪310‬ھ ‪922 /‬ء)‪ :‬تاریخ االمم والملوک‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص‬
‫‪ ،217‬دارالتراث بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1387 ،‬ھ ‪1967 /‬ء‬
‫(‪ 50‬ابن اثیر جزری‪ ،‬علی بن ابی الکرم‪( :‬م۔ ‪630‬ھ ‪1232 /‬ء)‪ :‬الکامل فی التاریخ‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص‬
‫االولی‪1417 ،‬ھ ‪1997 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫‪ ،520‬دارالکتاب العربی بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،2‬ص ‪472‬‬ ‫(‪51‬‬
‫(‪ 52‬ابن کثیر‪ ،‬عماد الدین اسماعیل‪ ،‬ابوالفداء‪( :‬م‪774 ،‬ھ ‪1372 /‬ء)‪ :‬البدایہ والنہایہ‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص‬
‫االولی‪1408 ،‬ھ ‪1988 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫‪ ،244‬داراحیاء التراث العربی‪ ،‬طبعۃ‬
‫(‪ 53‬یعقوبی‪ ،‬احمد بن ابی یعقوب‪( :‬م۔ ‪287‬ھ ‪900 /‬ء)‪ :‬تاریخ یعقوبی‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،240‬مرکز‬
‫ت علمی ایران‪ ،‬س ن‬ ‫انتشارا ِ‬
‫(‪ 54‬ابویوسف‪ ،‬یعقوب بن ابراہیم قاضی‪( :‬م‪182 :‬ھ ‪798 /‬ء)‪ :‬کتاب الخراج‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪،131‬‬
‫المکتبۃ االزھریہ للتراث‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 55‬قوانین کی اسالمی تشکیل‪ ،‬سلسلہ دوم‪ ،‬ج اول‪ ،‬راہ نما اصول نمبر ‪ ،8‬ص ‪ ،22‬اسالمی‬
‫نظریاتی کونسل‪ ،‬حکومت پاکستان‪ ،‬اسالم آباد‪1421 ،‬ھ ‪2000 /‬ء‬
‫(‪ 56‬دار قطنی‪ ،‬علی بن عمر‪( :‬م۔ ‪385‬ھ ‪995 /‬ء)‪ :‬السنن للدارقطنی‪ ،‬کتاب فی االقضیۃ و االحکام‪،‬‬
‫االولی‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫االشعری‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،4471 :‬موسسۃ الرسالۃ بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫ؓ‬ ‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫الی ابی‬
‫عمر ٰ‬
‫کتاب ؓ‬
‫‪1424‬ھ ‪2004 /‬ء‬
‫(‪ 57‬فائنل رپورٹ‪ ،‬جائزہ قوانین (تا ‪ 14‬اگست ‪1973‬ء)‪ ،‬راہ نما اصول نمبر ‪ ،8‬ص ‪ ،15‬اسالمی‬
‫نظریاتی کونسل‪ ،‬حکومت پاکستان‪ ،‬اسالم آباد‪1423 ،‬ھ ‪2002 /‬ء‬
‫(‪ 58‬مجاہد االسالم قاسمی‪ :‬اسالمی عدالت‪ ،‬دفعہ نمبر ‪ ،572‬ص ‪ ،355‬ادارۃ القرآن والعلوم‬
‫االسالمیہ‪ ،‬کراچی‪ ،‬پاکستان‪ ،‬ط‪ :‬دوم‪1419 ،‬ھ ‪1998 /‬ء‬
‫حوالہ سابق‪ :‬دفعہ نمبر ‪ ،570‬ص ‪355‬‬ ‫(‪59‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬دفعہ نمبر ‪ ،573‬ص ‪355‬‬ ‫(‪60‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬دفعہ نمبر ‪ ،574‬ص ‪355‬‬ ‫(‪61‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬دفعہ نمبر ‪ ،597‬ص ‪369‬‬ ‫(‪62‬‬
‫کاسانی‪ ،‬بدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،6‬ص ‪222‬‬ ‫(‪63‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪64‬‬
‫حصکفی‪ ،‬محمد بن علی‪ ،‬عالء الدین‪( :‬م۔ ‪1088‬ھ ‪1677 /‬ء)‪ :‬الدرالمختار وحاشیہ ابن عابدین‬
‫ؒ‬ ‫(‪65‬‬
‫شامی‪ ،‬ج ‪ ،5‬ص ‪ ،543‬دارالفکر بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیہ‪1412 ،‬ھ ‪1992 /‬ء‬
‫(‪ 66‬ابن ھمام‪ ،‬محمد بن عبدالواحد‪ ،‬کمال الدین‪( :‬م۔ ‪861‬ھ ‪1456 /‬ء)‪ :‬فتح القدیر‪ ،‬ج ‪ ،5‬ص ‪،364‬‬
‫دارالفکر بیروت‪ ،‬س ن‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪182 :‬‬ ‫(‪67‬‬
‫محمد الشیبانی‪ :‬الموطا‪ ،‬کتاب الحدود السرقۃ‪ ،‬باب السارق یسرق‪ ،‬رقم الحدیث‪689 :‬‬ ‫(‪68‬‬
‫الصحابہ‪ ،‬ج ‪ ،5‬ص ‪ ،106‬رقم‪ ،4768 :‬دارالکتب‬
‫ؓ‬ ‫(‪ 69‬ابن اثیر جزری‪ :‬اسد الغابہ فی معرفۃ‬
‫االولی‪1415 ،‬ھ ‪1994 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫العلمیہ‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫(‪ 70‬ابن اثیر‪ ،‬علی بن ابی الکرم‪( :‬م۔ ‪630‬ھ ‪1232 /‬ء)‪ :‬الکامل فی التاریخ‪ :‬ج ‪ ،2‬ص ‪،426‬‬
‫االولی‪1417 ،‬ھ ‪1997 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫دارالکتاب العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫ابو یوسف‪ :‬کتاب الخراج‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪129‬‬ ‫(‪71‬‬
‫طبری‪ :‬تاریخ االمم والملوک‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪204‬‬ ‫(‪72‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،3‬ص ‪289-288‬‬ ‫(‪73‬‬
‫ابن اثیر‪ :‬الکامل فی التاریخ‪ :‬ج ‪ ،2‬ص ‪472‬‬ ‫(‪ii‬‬
‫طبری‪ :‬تاریخ االمم والملوک‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪341‬‬ ‫(‪74‬‬
‫ت اسالم کراچی‪،‬‬
‫(‪ 75‬علی ندوی‪ ،‬ابوالحسن‪ :‬تاریخ دعوت وعزیمت‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،51‬مجلس نشریا ِ‬
‫‪1397‬ھ ‪1976 /‬ء‬
‫صبحی صالح‪ :‬النظم االسالمیۃ‪ ،‬ص ‪ ،326‬دارالعلم للمالیین‪ ،‬بیروت‪1388 ،‬ھ ‪1968 /‬ء‬ ‫(‪76‬‬
‫ابو یوسف‪ :‬کتاب الخراج‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪131‬‬ ‫(‪77‬‬
‫(‪ 78‬حمید ہللا‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬مجموعۃ الوثائق السیاسۃ رقم المراسلہ‪ ،327 ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،425‬دارالنفائس‬
‫بیروت‪ ،‬طبعۃ السادسۃ‪1407 ،‬ھ ‪1986 /‬ء‬
‫الدعوی‬
‫ٰ‬ ‫الکبری‪ ،‬کتاب‬
‫ٰ‬ ‫بیہقی‪ ،‬احمد بن حسین‪ ،‬ابوبکر‪( :‬م۔ ‪458‬ھ ‪1065 /‬ء)‪ :‬السنن‬ ‫(‪79‬‬
‫والبنیات‪ ،‬باب البنیۃ علی المدعی والیمین علی من انکر‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،21201 :‬دارالکتب العلمیہ‬
‫بیروت‪ ،‬طبعۃ الثالثۃ‪1424 ،‬ھ ‪2003 /‬ء‬
‫حوالہ سابق‪ :‬رقم الحدیث‪21208 :‬‬ ‫(‪80‬‬
‫اصفہانی‪ ،‬حسین بن محمد‪( :‬م۔ ‪502‬ھ ‪1108 /‬ء)‪ :‬المفردات فی غریب القرآن‪ ،‬ص‬
‫ؒ‬ ‫(‪ 81‬راغب‬
‫‪ ،373‬قدیمی کتب خانہ‪ ،‬مقابل آرام باغ کراچی‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 82‬کیرانوی‪ ،‬وحید الزماں‪ :‬القاموس الوحید‪ ،‬ص ‪ ،1201‬ادارہ اسالمیات انار کلی‪ ،‬الہور‪ ،‬ط‪:‬‬
‫االولی ‪1422‬ھ ‪5200 /‬ء‬
‫ٰ‬
‫فیروز الدین‪ :‬فیرز اللغات‪ ،‬ص ‪ ،924‬فیروز سنز‪ ،‬الہور‪ ،‬س ن‬ ‫(‪83‬‬
‫(‪ 84‬حسامی‪ ،‬محمد بن محمد‪( :‬م۔ ‪644‬ھ ‪1246 /‬ء)‪ :‬حسامی‪ ،‬فصل فی بیان االھلیۃ‪ ،‬ص ‪،229‬‬
‫قدیمی کتب خانہ‪ ،‬مقابل آرام باغ کراچی‪ ،‬س ن‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪234‬‬ ‫(‪85‬‬
‫راغب اصفہانی‪ :‬المفردات‪ ،‬ص ‪105‬‬ ‫(‪86‬‬
‫بلیاوی‪ ،‬عبدالحفیظ‪ :‬مصباح اللغات‪ ،‬ص ‪ ،123‬مکتبہ امدادیہ ملتان‪ ،‬س ن‬ ‫(‪87‬‬
‫عمر‪ ،‬مترجم اُردو‪ :‬ساجد الرحمن صدیقی‪ ،‬ص‬
‫(‪ 88‬محمد رواس قلعہ جی‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬الموسوعۃ فقہ ؓ‬
‫معارف اسالمی منصورہ الہور‪ ،‬ط‪ :‬سوم‪1423 ،‬ھ ‪2002 /‬ء‬‫ِ‬ ‫‪ ،276‬ادارہ‬
‫عبدالکریم زیدان‪ ،‬سید‪ :‬الوجیز فی اصول الفقہ‪ ،‬ص ‪ ،122‬مکتبہ رحمانیہ اُردو بازار الہور‪،‬‬ ‫(‪89‬‬
‫سن‬
‫(‪ 90‬مال جیون‪ ،‬احمد بن ابو سعید‪( :‬م۔ ‪1130‬ھ ‪1718 /‬ء)‪ :‬نور االنوار شرح منار االانوار‪ ،‬ص‬
‫‪ ،288‬ادارہ ضیاء السنہ‪ ،‬جامع مسجد شاہ سلطان کالونی‪ ،‬ریلوے روڈ ملتان‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 91‬صبحی محمصانی‪ :‬فلسفہ شریعت اسالم‪ ،‬مترجم اردو‪ :‬محمد احمد رضوی‪ ،‬ص ‪ ،26‬مجلس‬
‫ترقی ادب‪ ،‬کلب روڈ الہور‪ ،‬ط‪ :‬دہم‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫عبدالکریم زیدان‪ :‬الوجیز فی اصول الفقہ‪ :‬ص ‪122‬‬ ‫(‪92‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪93‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪94‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪125‬‬ ‫(‪95‬‬
‫حسام الدین‪ :‬حسامی‪ ،‬ص ‪238‬‬ ‫(‪96‬‬
‫عمر‪ ،‬ص ‪276‬‬
‫محمد رواس قلعہ جی‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬الموسوعۃ فقہ ؓ‬ ‫(‪97‬‬
‫عثمان‪ ،‬مترجم اُردو‪ :‬الیف الدین ترابی‪ ،‬ص‬
‫ؓ‬ ‫(‪ 98‬محمد رواس قلعہ جی‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬الموسوعۃ فقہ‬
‫معارف اسالمی منصورہ الہور‪ ،‬ط‪:‬دوم‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬ ‫ِ‬ ‫‪ ،153‬ادارہ‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪170-169‬‬ ‫(‪99‬‬
‫علی‪ ،‬مترجم اُردو‪ :‬عبدالقیوم‪ ،‬ص ‪ ،226‬ادارہ‬
‫(‪ 100‬محمد رواس قلعہ جی‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬الموسوعۃ فقہ ؓ‬
‫معارف اسالمی منصورہ‪ ،‬الہور‪ ،‬ط‪ :‬سوم‪1423 ،‬ھ ‪2002 /‬ء‬
‫(‪ 101‬حوالہ سابق‪ :‬ص ‪226‬‬
‫(‪ 102‬حوالہ سابق‬
‫باب نمبر ‪5‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ 476‬تا ‪565‬‬

‫(باب نمبر ‪)35‬‬


‫بعض ایسے جرائم کی صورت میں کارروائی‬
‫جو انصاف رسانی پر اثرانداز ہوتے ہیں‬

‫دفعہ نمبر ‪ :476‬دفعہ ‪ 195‬میں متذکرہ مقدمات میں طریق کار‬

‫جب کوئی جرم محولہ دفعہ ‪ 195‬ضمنی دفعہ (‪ )1‬شق (‪ )b‬یا (‪ )c‬کسی دیوانی‪ ،‬مال یا‬ ‫(‪1‬‬
‫فوجداری یا عدالت کی کارروائی کے دوران یا اس کے متعلق سرزد ہوا ہو‪ ،‬تو عدالت مجاز ہوگی کہ‬
‫اس جرم کی سماعت کرے اور اس کی تجویز باب ‪ 12‬میں سرسری تجویزوں کیلئے مقرر کردہ‬
‫ضابطہ کے مطابق کرے۔‬
‫جب کسی ایسے مقدمہ میں‪ ،‬جس کی تجویز ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت کی گئی ہو‪،‬‬ ‫(‪2‬‬
‫عدالت ملزم کو قصور وار پائے‪ ،‬تو دفعہ ‪ 262‬کی ضمنی دفعہ (‪ )2‬میں درج کسی امر کے باوصف‪،‬‬
‫مجاز ہوگی کہ‪:‬‬
‫اگر ویسی عدالت‪ ،‬عدالت عالیہ‪ ،‬عدالت سیشن یا عدالت ضلع یا کوئی‬ ‫(‪a‬‬
‫دیگر عدالت ہو جو عدالت سیشن یا عدالت ضلع کے اختیار بروئے کار ال رہی ہو تو ملزم کیخالف‬
‫کوئی حکم سزا صادر کرے‪ ،‬جو ایسے جرم کیلئے قانون کے مطابق ہو‪ ،‬سوائے سزائے موت یا‬
‫عمر قید یا پانچ سال سے زائد سزائے قید کے۔‬
‫اگر ویسی عدالت مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالت‪ ،‬عالوہ عدالت‬ ‫(‪b‬‬
‫عالیہ کے کوئی عدالت دیوانی‪ ،‬کوئی عدالت ضلع یا کوئی عدالت جو عدالت ضلع کے اختیارات زیر‬
‫کار ال رہی ہو یا کوئی عدالت مال ہو جو کلکٹر کی عدالت سے کم نہ ہو تو وہ ملزم کو ایسی مدت‬
‫کیلئے سزائے قید جو تین ماہ سے زائد نہ ہو یا جرمانہ ادا کرنے کی سزا جو ایک ہزار روپیہ سے‬
‫زائد نہ ہو یا دونوں سزائیں دے سکتی ہے۔‬
‫اگر ویسی عدالت‪ ،‬شق (‪ )a‬یا شق (‪ )b‬میں محولہ کسی عدالت کے‬ ‫(‪c‬‬
‫عالوہ کوئی فوجداری عدالت یا عدالت مال ہو تو وہ ملزم کو ایسی مدت کیلئے سزائے قید محض جو‬
‫ایک ماہ سے زائد نہ ہو یا جرمانہ ادا کرنے کی سزا جو پچاس روپے سے زائد نہ ہو یا دونوں‬
‫سزائیں دے سکتی ہے۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت جو اختیارات دیوانی‪ ،‬مال اور فوجداری عدالتوں کو عطا کئے‬ ‫(‪3‬‬
‫گئے ہیں‪ ،‬ضمنی دفعہ (‪ )1‬میں محولہ جرم کی نسبت اور جس کا مبینہ ارتکاب ایسی عدالت میں‬
‫کسی کارروائی کی نسبت ہو‪ ،‬وہ عدالت زیر کار ال سکتی ہے جس کی اول الذکر عدالت دفعہ (‪،)1‬‬
‫‪ 195‬کی ضمنی دفعہ (‪ )3‬کے مفہوم میں ماتحت ہو۔‬
‫جو شخص دفعہ ہذا کے تحت سزایاب ہوا ہو‪ ،‬قبل ازیں درج کسی امر کے باوجود‬ ‫(‪4‬‬
‫اپیل کر سکتا ہے‪:‬‬
‫عظمی میں۔‬
‫ٰ‬ ‫عدالت عالیہ کی طرف سے سزا کی صورت میں عدالت‬ ‫(‪a‬‬
‫عدالت سیشن یا عدالت ضلع یا کوئی عدالت جو عدالت سیشن یا‬ ‫(‪b‬‬
‫عدالت ضلع کے اختیارات بروئے کار ال رہی ہو‪ ،‬کی طرف سے سزا کی صورت میں عدالت عالیہ‬
‫میں۔‬
‫کسی دیگر صورت میں سیشن کو۔‬ ‫(‪c‬‬
‫باب ‪ 31‬کے احکام جہاں تک وہ قابل اطالق ہوں‪ ،‬دفعہ ہذا کے تحت اپیلوں پر اطالق‬ ‫(‪5‬‬
‫پذیر ہوں گے اور عدالت اپیل مجاز ہوگی کہ حکم سزا جس کے خالف اپیل کی گئی ہو‪ ،‬تبدیل کرد یا‬
‫ہے اس میں تخفیف یا اضافہ کردے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعہ عدالتوں میں معمول کے مطابق ہونے والے امور کے سلسلے میں معاونت‬
‫فراہم کرتی ہے تاکہ عدالتیں اپنے کام زیادہ موثر انداز میں سرانجام دے سکیں۔ عدالتوں کے ان‬
‫معموالت میں سمن کی تعمیل‪ ،‬مدعا علیہ کی جبری حاضری گواہوں کے بیانات پر دستخطوں کا‬
‫حصول اور مسل مقدمہ وغیرہ پیش کرنا شامل ہیں تاکہ عدالتیں بہتر انداز میں اپنا کام کرسکیں۔ اس‬
‫بارے میں اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز درج ذیل ہے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬یہ دفعہ بنیادی طور پر عدالت کو اپنے روزمرہ کے کام کو‬
‫زیادہ موثر بنانے کیلئے وضع کی گئی ہے‪ ،‬چنانچہ سمن کی تعمیل کرانے‪ ،‬مطلوبہ اشخاص کو‬
‫عدالت میں حاضر ہونے پر مجبور کرنے‪ ،‬بیان حاصل کرنے‪ ،‬بیان دینے والوں کے دستخط لینے‪،‬‬
‫دستاویزات پیش کرنے اور اس طرح کے امور کے بارے میں عدالت کو اپنے احکام پر عمل کرنے‬
‫اور عمل نہ کرنے والوں کو سزا دینے کے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ کونسل اس قسم کے عدالتی‬
‫اختیارات کو شریعت کے منافی نہیں سمجھتی‪ ،‬البتہ جھوٹی شہادت سے متعلقہ امور (دفعہ ‪ 195‬ذیلی‬
‫ت پاکستان کی دفعات (‪ )210 ،209 ،199 ،195 ،194 ،193‬کیلئے‬ ‫دفعہ ‪1‬ب) میں مذکور تعزیرا ِ‬
‫ق کار اور سزا تجویز کرتی ہے جو کونسل کی مرتبہ اسالمی قانون شہادت‬ ‫کونسل وہی قواعد‪ ،‬طری ِ‬
‫کی دفعات ‪ 31‬تا ‪ 34‬میں مذکور ہیں۔ یہ دفعات اگرچہ شہادت سے رجوع کے بارے میں ہیں لیکن ان‬
‫کا اطالق گواہ کی جھوٹی شہادت دینے پر بھی ہوتا ہے۔ کونسل سفارش کرتی ہے کہ جھوٹے گواہوں‬
‫ت پاکستان اور‬
‫کو سزا دینے کیلئے دفعات مذکورہ ‪ 31‬تا ‪ 34‬کو ضروری ترامیم کے ساتھ تعزیرا ِ‬
‫ضابطہ فوجداری میں مناسب مقام پر شامل کیا جائے۔ (‪)1‬‬
‫قانون شہادت کی مذکورہ باال دفعات یہ ہیں‪:‬‬
‫ِ‬ ‫اسالمی‬
‫باب ‪ :8‬رجوع عن الشھادۃ کے احکام‬

‫دفعہ نمبر ‪ :31‬شہادت سے رجوع کا اختیار‬

‫ادائے شہادت کے بعد اور فیصلہ صادر ہونے سے قبل شاہد اپنی شہادت سے عدالت کے‬
‫روبرو رجوع کرسکتا ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :32‬فیصلہ صادر ہونے سے قبل شہادت سے رجوع‬
‫ادائے شہادت کے بعد اور فیصلہ صادر ہونے سے قبل شاہد کے اپنی شہادت سے رجوع‬ ‫(‪1‬‬
‫کرلینے کے بعد اس کی شہادت کالعدم ہو جائیگی۔‬
‫وضاحت‪ :‬شہادت سے رجوع اس وقت تک مستحق نہ ہوگا جب تک کہ شاہد عدالت میں ان الفاظ یا ان‬
‫کے ہم معنی الفاظ سے یہ نہ کہے کہ ’’جس امر کی میں نے شہادت دی‪ ،‬اس سے رجوع کیا‘‘ یا‬
‫’’میں نے جھوٹی شہادت دی‘‘ یا ’’مجھ سے شہادت میں جھوٹ سرزد ہوا‘‘۔‬
‫شہادت سے رجوع کی صورت میں عدالت شاہد کو تشہیر یا دو سال قید یا اناسی (‪)79‬‬ ‫(‪2‬‬
‫کوڑوں تک سزا یا ان میں سے کوئی دو یا تینوں سزا دے سکتی ہے۔‬
‫وضاحت‪ :‬تشہیر یہ ہے کہ جھوٹے گواہ کو گدھے پر بٹھا کر اس کے سکونتی اور کاروباری‬
‫عالقوں میں پھرانا اور اعالن کرنا کہ یہ جھوٹا گواہ ہے یا ٹیلی ویژن‪ ،‬ریڈیو اور اس کے عالقے‬
‫کے اخبار کے ذریعے یہ اعالن کرنا یا جس طرح عدالت مناسب سمجھے اس طرح اس کے جھوٹے‬
‫ہونے کا اعالن کرنا۔‬
‫جرم قذف (نفا ِذ حد)‬
‫فیصلے سے قبل زنا کی شہادت سے رجوع کی صورت میں شاہد ِ‬ ‫(‪3‬‬
‫آرڈیننس ‪1979‬ء کے تحت سزا کا مستوجب ہوگا۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :33‬فیصلہ کے بعد شہادت سے رجوع‬
‫شاہد نے اگر فیصلے کے بعد رجوع کیا تو فیصلہ اس سے متاثر نہ ہوگا‪ ،‬البتہ شاہد محکوم‬ ‫(‪1‬‬
‫بر (فیصلہ شدہ شے) کا ضمان مشہود علیہ کو ادا کرے گا جو اس کی شہادت سے مشہود علیہ کو‬
‫پہنچا ہو۔‬
‫قصاص اور حد سرقہ جاری ہونے کے بعد شہادت سے رجوع کرنے کی صورت میں شاہد‬ ‫(‪2‬‬
‫پر قصاص کی جگہ دیت یا ارش واجب ہوگا اور حد سرقہ کی صورت میں ما ِل مسروقہ کی بازاری‬
‫قیمت کی ادائیگی بھی اس کے ذمہ ہوگی۔‬
‫قتل شبہ العمد‪ ،‬قتل خطاء اور قتل بالتسبیب میں شہادت سے رجوع پر شاہد کے ذمہ دیت‬ ‫(‪3‬‬
‫واجب ہوگی‪ ،‬البتہ قطع ید خطاء کی صورت میں وہ نصف دیت ادا کرے گا۔‬
‫ذیلی دفعات ‪ 2‬اور ‪ 3‬میں مذکورہ صورتوں میں واجب االدا دیت یا ارش (جیسی بھی صورت‬ ‫(‪4‬‬
‫ہو) شاہد کے ذمہ ہوگا‪ ،‬جسے وہ زیادہ سے زیادہ تین سال کے اندر ادا کرے‪ ،‬اس پر نہ تو کفارہ ہوگا‬
‫اور نہ وہ وارث ہونے کی صورت میں مشہود علیہ کے ترکہ سے محروم ہوگا۔‬
‫وضاحت‪ :1‬مذکورہ صورت میں اگر شاہد دو ہوں اور دونوں نے اپنی شہادت سے رجوع کرلیا ہو‪،‬‬
‫تو دونوں دیت‪ ،‬ارش یا ضمان (جو بھی صورت ہو) کو مساوی طور پر ادا کرینگے۔‬
‫دیت یا ارش کی مقدار کے تعین اور اس سلسلے میں دوسرے امور پر قانون قصاص‬ ‫وضاحت‪:2‬‬
‫و دیت کے احکام کا اطالق ہوگا۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :34‬دو سے زائد گواہوں کا شہادت سے رجوع‬
‫دو گواہوں میں سے اگر کسی نے رجوع کیا تو اس پر تعزیر ہوگی‪ ،‬بشرطیکہ باقی گواہوں‬
‫سے نصاب شہادت پورا ہوتا ہو‪ ،‬اگر باقی گواہ نصاب شہادت سے کم ہوں تو اگر ایک گواہ نے‬
‫رجوع کیا ہے تو وہ نصف دیت‪ ،‬ارش یا ضمان (جو بھی صورت ہو) مشہود علیہ کو ادا کرے گا اور‬
‫اگر ایک سے زائد ہوں تو سب نصف دیت‪ ،‬ارش یا ضمان (جو بھی صورت ہو) مشہود علیہ کو ادا‬
‫کریں گے جبکہ شاہد مرد ہوں اور اگر ایک مرد اور دو عورتیں شاہد ہوں تو مرد نصف اور ہر‬
‫عورت ایک چوتھائی ادا کرے گی۔‬
‫تمثیل‪ :‬دو شاہدوں نے کسی مال کے بارے میں شہادت دی‪ ،‬بعد میں ایک نے رجوع کیا تو اس پر‬
‫نصف ضمان ہوگا کیونکہ بقیہ نصف دوسرے کی شہادت سے محفوظ ہے۔ اگر شاہد چار تھے‪ ،‬ایک‬
‫یا دو نے رجوع کیا تو ان پر تعزیر ہوگی‪ ،‬تاوان نہ ہوگا کیونکہ باقی دو کی شہادت سے مشہود بہ‬
‫مال محفوظ ہے اور اگر چار میں سے تین نے رجوع کیا تو تینوں پر بحصہ مساوی نصف تاوان‬
‫ہوگا‪ ،‬یہی طریقہ قصاص‪ ،‬حد سرقہ‪ ،‬قتل خطا اور قتل بالتسبیب میں دیت یا ارش (جو بھی صورت‬
‫ہو) کی ادائیگی کیلئے اپنایا جائے گا۔ (‪)2‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ باال دفعات کو تعزیرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری میں ضروری ترامیم‬
‫کے ساتھ مناسب مقام پر شامل کیا جائے تاکہ انہیں مزید اور جامع بنایا جاسکے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-476‬ان عدالتوں کو مقدمات تجویز کیلئے منتقل کرنا جو اختیار سماعت رکھتی ہوں‬
‫اگر کسی مقدمہ میں عدالت کی یہ رائے ہو کہ ان جرائم میں سے کسی جرم کا ملزم‪،‬‬ ‫(‪1‬‬
‫جن کا حوالہ دفعہ ‪ 476‬کی ضمنی دفعہ (‪)1‬میں دیا گیا ہے اور جس کا ارتکاب اس کے روبرو ہونے‬
‫والی کارروائیوں کے دوران یا ان سے متعلق کیا گیا ہے‪ ،‬کی تجویز مذکورہ دفعہ کے تحت نہیں‬
‫ہونی چاہئے تو وہ عدالت مجاز ہوگی کہ ایسے واقعات جن سے جرم کی تشکیل ہوئی ہو اور ملزم کا‬
‫بیان‪ ،‬جیسا کہ قبل ازیں محکوم ہے‪ ،‬قلم بند کرنے کے بعد مقدمہ اس عدالت کو بھیجے جو اس کی‬
‫تجویز کا اختیار سماعت رکھتی ہو اور ایسے ملزم شخص کی ویسی عدالت میں حاضری کی نسبت‬
‫ضمانت طلب کرے یا اگر کافی نہ دی جائے تو ویسے شخص کو حراست میں ویسی عدالت کو‬
‫بھیجے۔‬
‫وہ عدالت جس کو دفعہ ہذا کے تحت کوئی مقدمہ منتقل کیا جائے‪ ،‬ملزم شخص کے‬ ‫(‪2‬‬
‫خالف استغاثہ کی سماعت اس طور پر کرے گی جو قبل ازیں محکوم کیا گیا ہے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ ‪ :479 ،478 ،477 ،B-476‬حذف ہوئیں۔‬


‫دفعہ نمبر ‪ :480‬بعض توہین کے مقدمات میں ضابطہ‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ ،178 ،175‬دفعہ ‪،179‬‬ ‫جب کوئی ایسا جرم جو مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪1‬‬
‫دفعہ ‪ 180‬یا دفعہ ‪ 228‬میں بیان کیا گیا ہے‪ ،‬کسی عدالت دیوانی‪ ،‬مال یا فوجداری کے سامنے یا‬
‫موجودگی میں سرزد ہو تو عدالت مجاز ہے کہ مجرم کو حراست میں روکنے کی ہدایت کرے اور‬
‫اسی روز عدالت برخواست ہونے سے قبل‪ ،‬اگر وہ مناسب سمجھے‪ ،‬اس جرم کی سماعت کرے اور‬
‫مجرم پر سزائے جرمانہ‪ ،‬جو دو سو روپے سے زائد نہ ہو اور بصورت عدم ادائیگی سزائے قید‬
‫محض جس کی میعاد ایک ماہ تک ہو سکتی ہے‪ ،‬بجز اس کے کہ جرمانہ اس سے قبل ادا کردیا‬
‫جائے‪ ،‬کا حکم صادر کرے۔‬
‫منسوخ ہوئی۔‬ ‫(‪2‬‬

‫ت پاکستان کی دفعات ‪،179 ،178 ،175‬‬ ‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ ایسا جرم جو تعزیرا ِ‬
‫‪ 180‬اور دفعہ نمبر ‪ 228‬میں بیان کیا گیا ہے‪ ،‬کسی دیوانی‪ ،‬فوجداری یا مالی عدالت میں سرزد ہو تو‬
‫ت‬‫مجرم کو دو سو روپے جرمانہ اور ادا نہ کرنے پر ایک ماہ تک قید دی جا سکتی ہے۔ تعزیرا ِ‬
‫پاکستان کی مذکورہ دفعات میں توہین عدالت کا ضابطہ بیان کیا گیا ہے کہ جس شخص کو کسی‬
‫عدالت ضلع میں کسی دستاویز کا پیش کرنا قانونا ً واجب ہے اور وہ اسے قصدا ً ترک کرے تو یہ‬
‫جرم ہے اور جب ایک حاکم مجاز کسی سچی اور صالح بات کی نسبت یہ حکم دے کہ اسے حلفا ً‬
‫بیان کیا جائے تو حلف سے انکار خالف قانون ہے اور اس سے حاکم یا عدالت مجاز کی توہین ہوتی‬
‫ہے۔ نیز کسی سرکاری مالزم کے کسی سوال کا جواب نہ دینا یا جواب سے انکار کرنا بھی قابل‬
‫مواخذہ ہے اور اگر کسی شخص کو کوئی سرکاری مالزم اپنے بیان پر دستخط کرنے کا حکم دے‬
‫اور وہ شخص انکار کردے تو یہ بھی جرم ہے اور جو شخص قصدا ً سرکاری مالزم کی توہین کرے‬
‫یا اس کے کام میں حارج ہونے کی کوشش کرے تو وہ بھی قابل مواخذہ ہے۔ ان تمام صورتوں میں‬
‫اس کو جرمانہ کے ساتھ ساتھ قید بھی مل سکتی ہے۔‬
‫نظام عدل میں بہت بڑا جرم ہے اور‬‫ِ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬حاکم مجاز یا کسی عدالت کی توہین اسالمی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫اس کی سزا بھی شدید ہے۔ جیسا کہ درجِ ذیل واقعہ سے ظاہر ہے۔ دو آدمی اپنا جھگڑا رسول ہللا ﷺ‬
‫کی خدمت میں الئے۔ آپ ﷺ نے فیصلہ فرما دیا جس کیخالف فیصلہ تھا اس نے کہا کہ چلو‬
‫عمر کے پاس پہنچ کر دوسرے‬ ‫ؓ‬
‫عمرفاروق کے پاس چلتے ہیں‪ ،‬دوسر ے نے کہا چلو۔ حضرت ؓ‬
‫شخص نے کہا کہ اے ابن الخطاب! ہمارے درمیان رسول ہللا ﷺ نے فیصلہ فرما دیا ہے لیکن اس‬
‫عمر نے پہلے شخص سے تصدیق چاہی اس نے ہاں‬ ‫شخص کے کہنے پر ہم یہانآگئے۔ حضرت ؓ‬
‫آپ اندر سے تلوار لے آئے اور فیصلہ تسلیم نہ کرنے والے کو قتل کردیا۔ (‪)3‬‬
‫کہدیا۔ چنانچہ ؓ‬
‫اعلی عدالت کے فیصلے کے بعد وہ شخص‬ ‫ٰ‬ ‫اس واقعہ میں یہ ضابطہ موجود ہے کہ چونکہ‬
‫عظمی‬
‫ٰ‬ ‫آپ سخت برہم ہوئے۔ کیونکہ یہ عدالت‬ ‫ادنی عدالت کے سامنے آگیا تھا‪ ،‬لہٰ ذا ؓ‬
‫عمر کی ٰ‬‫حضرت ؓ‬
‫آپ نے اسے قتل کرکے انجام تک پہنچا دیا اور فورا ً وحی نازل ہوگئی‪:‬‬ ‫کی توہین تھی اور ؓ‬
‫ش َج َر بَ ْینَ ُھ ْم …… الخ (‪)4‬‬
‫ک فِی َما َ‬ ‫ک الَ یُؤْ ِمنُونَ َحت َّ َ‬
‫ی یُ َح ِ ِّک ُمو َ‬ ‫فَالَ َو َر ِبِّ َ‬
‫جس سے ثابت ہوا کہ جو رسول اکرم ﷺ کے فیصلے کو نہ مانے وہ مومن نہیں اور آپ ﷺ‬
‫کے ہر فیصلے کو دِل وجان سے تسلیم کرنا ہی عین ایمان ہے۔‬
‫فقہائے اسالم نے اس مسئلے کی خوب وضاحت کی ہے اور ہر ایسی حرکت جو عدالت کے‬
‫قدامہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫وقار کے منافی ہو‪ ،‬اسے توہین عدالت کے زمرے میں شمار کیا ہے‪ ،‬ابن‬
‫اگر کسی مقدمے کا کوئی فریق کسی معاملہ میں مشکالت پیدا کرے تو قاضی اُسے جھڑک‬
‫سکتا ہے اور زور سے ڈانٹ ڈپٹ بھی کر سکتا ہے اور اگر کوئی شخص سزائے تعزیر کا مستوجب‬
‫ہو تو قاضی اسے مناسب جسمانی یا سزائے قید بھی دے سکتا ہے‪ ،‬اگر کوئی شخص قاضی کی‬
‫گستاخی کرے اور اسے یہ کہے کہ تم نے میرے خالف جو فیصلہ کیا ہے‪ ،‬وہ انصاف اور حق پر‬
‫مبنی نہیں ہے‪ ،‬یا تم نے رشوت لی ہے تو قاضی اُسے سزا بھی دے سکتا ہے اور معافی بھی دے‬
‫سکتا ہے۔ (‪)5‬‬
‫دوران سماعت اگر مدعی کے بیان سے پہلے مدعا علیہ خود بخود قسم کھانے لگے تو‬
‫ِ‬
‫قاضی اُسے منع کردے‪ ،‬وہ نہ مانے تو قاضی اُسے ڈانٹ دے اور پھر بھی نہ مانے تو اُسے مناسب‬
‫سزا دے۔‬
‫لہٰ ذا ہر وہ حرکت جس میں بدتمیزی پائی جائے یا عدالت کے وقار اور احترام کی خالف‬
‫ورزی پائی جائے تو اس کے بدلے مرتکب کو سزا بھی دی جا سکتی ہے اور معاف بھی کیا جا‬
‫سکتا ہے۔ (‪)6‬‬
‫مالکی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫توہین عدالت کے سلسلے میں دردیر‬
‫’’یہ جائز ہے کہ جو شخص قاضی سے بدتمیزی کرے‪ ،‬اسے مناسب سزا دی جائے‪ ،‬اگر‬
‫مجلس عدالت میں کوئی آدمی قاضی کے فیصلے کو بُرا کہے‪ ،‬مثالً یہ کہے کہ آپ کا یہ فیصلہ غلط‬
‫ہے یا آپ تو ہمیشہ غلط اور ناحق فیصلے کرتے ہیں‪ ،‬یاآپ رشوت لیتے ہیں‪ ،‬یا کہے کہ اگر میں‬
‫صاحب دولت ہوتا تو آپ کو پیسے دیتا اور آپ میرے حق میں فیصلہ کردیتے یا میری شہادت قبول‬
‫کرلیتے‪ ،‬یا اس طرح کی کوئی بات کہے‪ ،‬تو اسے مناسب سزا دی جا سکتی ہے۔ ہم نے سطور باال‬
‫میں کہا ہے کہ اگر کوئی مجلس عدالت میں قاضی کے فیصلہ کو بُرا کہے ………‬
‫یہ شرط اس لئے لگائی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص قاضی کی عدالت میں اس کے سامنے‬
‫اعلی عدالت‬
‫ٰ‬ ‫کوئی بات نہ کرے بلکہ عدالت کے باہر کچھ کہے‪ ،‬تو قاضی خود سزا نہ دے بلکہ کسی‬
‫کو معاملہ بھیج دے اور بہتر یہ ہے کہ معاف کردے۔ (‪)7‬‬
‫طرابلسی لکھتے ہیں کہ اگر عدالت میں ایک فریق نے دوسرے فریق کو گالی دی یا کوئی‬
‫ؒ‬
‫اور ایسی حرکت کی جو موجب توہین عدالت ہو توحاکم حسب صوابدید خود اسے سزائے قید دے‬
‫سکتا ہے۔ (‪)8‬‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬نظریاتی کونسل نے اس بارے میں یہ تجویز دی ہے‪:‬‬
‫’’تعزیرات پاکستان کی دفعہ ‪ 178‬کے بارے میں کونسل نے بکثرت رائے طے کیا کہ یہ‬
‫دفعہ شرعا ً درست نہیں کیونکہ شرعا ً مدعی یا ملزم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حلف سے انکار‬
‫کردے‪ ،‬لہٰ ذا اس جگہ دفعہ ‪ 178‬کا ذکر حذف ہونا چاہئے‘‘۔ (‪)9‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں دفعہ نمبر ‪ 178‬کے ذکر کے عالوہ کوئی بات اسالمی تعلیمات کے‬
‫خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس دفعہ کے ذکر کو حذف کردیا جائے۔‬
‫مزید وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں سزائے جرمانہ کا بھی ذکر ہے۔ لہٰ ذا درج ذیل سطور میں جرمانے کی‬
‫شرعی حیثیت‪ ،‬اطالق اور جدید دور میں جرمانے کی نوعیت واہمیت پر بحث ضروری معلوم ہوتی‬
‫ہے کیونکہ جدید دور میں جرمانے کی شرعی حیثیت کے تعین کا مسئلہ بہت اہم شمار کیا جاتا ہے‬
‫اور سزائوں کے نظام میں اسے جرائم کو روکنے کیلئے ایک موثر عامل کی حیثیت سے اختیار کیا‬
‫گیا ہے۔ اس سے حکومتی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو جرمانہ نہ ادا کرنے پر عدالت‬
‫سزائے قید سناتی ہے‪ ،‬بعض مجرم غربت کی وجہ سے جرمانہ نہیں دے سکتے اور قید کاٹتے ہیں‪،‬‬
‫اسی وجہ سے بعض دانشور اسے غریت کی سزا سمجھتے ہیں‪ ،‬جس سے مالدار مال ادا کرکے بچ‬
‫جاتے ہیں‪ ،‬لہٰ ذا اس کی شرعی حیثیت کاتعین ضروری ہے لیکن اس پر مزید بحث سے پہلے‬
‫ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جدیدقانون اوراسالمی شریعت میں جرمانے کی تعریفات پیش کی جائیں۔‬
‫بطور سزا کسی فرد سے جو رقم وصول کی جائے اسے جرمانہ کہتے ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫ارتکاب جرم پر‬
‫(‪)10‬‬
‫ابن منظور لکھتے ہیں کہ جرمانے کو عربی زبان میں ’غرامۃ‘ کہتے ہیں۔ یہ غ َِر َم یَ ْغ َر ُم کا‬
‫َار ٌم کہتے‬ ‫مصدر ہے یعنی قرض۔ لہٰ ذا جس فرد کی طرف قرض واجب االدا ہو عرب اسے َر ُج ٌل غ ِ‬
‫مرتضی زبیدی لکھتے ہیں کہ جرمانے کو غرامۃ کہا جاتا ہے کیونکہ جرمانے کی‬ ‫ٰ‬ ‫ہیں۔ (‪ )11‬سید‬
‫رقم مجرم کے ذمہ قرض کی طرح واجب االدا ہوتی ہے۔ (‪)12‬‬
‫انگریزی میں جرمانے کو "‪ "Fine‬کہتے ہیں جو الطینی لفظ "‪ "Finem Facere‬سے لیا گیا‬
‫ہے۔ (‪ )13‬جس کے معنی ہیں‪)14( Sum of money as penalty for offence :‬‬
‫درج باال تعریفات میں پہلی تعریف زیادہ واضح اور جامع دکھائی دیتی ہے۔ قانونی اصطالح‬
‫پاداش جرم میں کوئی عدالت داخل خزانہ سرکار‬
‫ِ‬ ‫میں جرمانہ اس رقم کو کہتے ہیں جوکسی ملزم کو‬
‫کرنے کا حکم دے۔‬
‫ممتاز ماہر قانون جندی عبدالملک کہتے ہیں‪:‬‬
‫علَ ْی ِہ َم ْبلَغٍ ِ ِّمنَ ْال َما ِل ِلخَزَ انَ ِۃ الد َّْولَ ِۃ (‪)15‬‬
‫زام ْال َمحْ ُک ْو ِم َ‬
‫ِی ْال ِ‬
‫ا َ ْلغ ََرا َم ُۃ ھ َ‬
‫’’مجرم پر ریاست کے خزانے میں جمع کرانے کیلئے ایک خاص رقم عائد کرنا جرمانہ‬
‫کہالتا ہے‘‘۔‬
‫‪ Henry Black‬جرمانہ کی یہ تعریف کرتے ہیں‪:‬‬
‫" ‪A pecniary punishment imposed by lawful tribunal upon person‬‬
‫‪)16( ."convicted of crime or misdemeamour‬‬
‫’’جرمانہ اس مالی سزا کو کہتے ہیں جو عدالت مجاز ایسے مجرم پر عائد کرے جو کسی‬
‫خالف قانون رویے کا مرتکب ہو‘‘۔‬
‫ِ‬ ‫جرم یا‬
‫رچرڈ اے گرین (‪ )Richard A. Green‬لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’کریمنل الء میں جرمانہ (‪ )Fine‬اس مالی سزا کو کہتے ہیں جس کے بارے میں عدالت‬
‫ارتکاب جرم پر مجرم کو حکم دے کہ وہ ریاست کو ادا کرے‘‘۔ (‪)17‬‬
‫جرمانہ قرآن وسنت کی روشنی میں‬
‫جو اشیاء بُرائی و فساد کی بنیاد بننے کی وجہ سے ممنوع ہیں۔ شریعت کی رو سے انہیں‬
‫تلف کردینا جائز ہے۔ مثالً حضور اکرم ﷺ کے مبارک زمانے میں عیسائی راہب کے کہنے پر‬
‫تعالی کی خوشنودی کے بجائے اسالم‬ ‫ٰ‬ ‫منافقین مدینہ نے قبا میں ایک مسجد بنائی۔ اس کا مقصد ہللا‬
‫اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا تھا۔ لہٰ ذا قرآن مجید نے اسے مسجد ضرار کہا ہے۔ منافقین نے‬
‫حضور اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ برکت کیلئے اس میں نماز ادا فرمائیں۔ اس وقت غزو ٔہ تبوک‬
‫کی تیاری زوروں پر تھی‪ ،‬آپ ﷺ نے ان سے اس درخواست پر غور فرمانے کا وعدہ کرلیا کہ غزوہ‬
‫تبوک سے واپسی پر دیکھیں گے‪ ،‬چنانچہ یہ آیات نازل ہوگئیں اور منافقین کی سازش کا پردہ چاک‬
‫کردیا گیا‪:‬‬
‫ارا َو ُک ْف ًرا َوت َ ْف ِریقًا بَیْنَ ْال ُمؤْ ِمنِینَ َو ِإ ْر َ‬
‫صادًا … االیۃ (‪)18‬‬ ‫َوالَّذِینَ ات َّ َخذُواْ َمس ِْجدًا ِ‬
‫ض َر ً‬
‫کرام کو بھیجا کہ وہ اس مسجد‬
‫ؓ‬ ‫ان آیات مبارکہ کے نزول پر حضور اکرم ﷺ نے چند صحابہ‬
‫کو مسمار کردیں اورآگ لگا دیں۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل کی گئی۔ (‪)19‬‬
‫کرام سے‬
‫ؓ‬ ‫غزوہ بدر میں ستر کفار قیدی بنے۔ حضور اکرم ﷺ نے ان کے بارے میں صحابہ‬
‫ؓ‬
‫صدیق کی رائے کے مطابق ہوا کہ‬ ‫مشورہ فرمایا۔ مختلف آراء دی گئیں مگر فیصلہ حضرت ابوبکر‬
‫یہ فدیہ ادا کردیں تو رہا کردیئے جائیں جو نادار تھے وہ دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا‬
‫دیں‪ ،‬انہیں رہا کردیا جائیگا‪ ،‬چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ (‪ )20‬اگرچہ حکم قرآنی کے ذریعے اس فیصلے کو‬
‫مرجوح فرما دیاگیا مگر اطالق باقی رکھا گیا۔ (‪)21‬‬
‫تاوان جنگ تھا‪ ،‬آج بھی مسلمہ بین االقوامی اصولوں کے مطابق اگر کوئی‬
‫ِ‬ ‫یہ فدیہ دراصل‬
‫تاوان جنگ ادا کرنے کا‬
‫ِ‬ ‫ملک جارحیت کا مرتکب ہوتو ناکامی کی صورت میں وہ متاثرہ ملک کو‬
‫پابند ہے۔ یہ جرمانہ ہی کی ایک قسم ہے جسے جدید دور میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔‬
‫جدید قانون میں جرمانے کا آغاز‬
‫اوائل اسالم میں باقاعدہ جیلوں کا وجود نہ تھا‪ ،‬لہٰ ذااسیران جنگ بدر کیلئے رہائی کیلئے فدیہ‬
‫مقرر کردیا گیا۔ اسی طرح تیرھوینصدی عیسوی میں جب انگلستان میں مختلف جرائم کی سزا کے‬
‫نتیجے میں مجرموں کی تعداد موجودہ جیلوں کی گنجائش سے بہت زیادہ ہوگئی تو وہاں کی عدالتوں‬
‫نے مجرموں کو یہ رعایت دی کہ اگر وہ ایک خاص رقم جو عدالتیں مقرر کریں‪ ،‬سرکاری خزانے‬
‫میں جمع کرا دیں تو انہیں رہائی مل جائے گی اور پہلی بار ‪1275‬ء میں برطانوی قانون میں ‪Fine‬‬
‫کی اصطالح رائج ہوئی جو اوائل اسالم میں جنگ بدر کے قیدیوں کی رہائی کیلئے مقرر کردہ فدیہ‬
‫سے مشابہت رکھتی ہے۔‬
‫فریڈی انبائو لکھتے ہیں‪:‬‬
‫" ‪The term (Fine) originated in England in 1275 A.D. When the courts‬‬
‫‪began to permit convicts to be released from priosn when they paid a required‬‬
‫‪)22( ."amount of money‬‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ عدالت کسی جرم کی پاداش میں مجرم پر جرمانہ بھی‬
‫عائد کر سکتی ہے تاکہ اسے جرم سے باز رکھا جا سکے۔‬
‫ضابطہ فوجداری کا حصہ بنا دیا جانا چاہئے تاکہ مذکورہ‬
‫ٔ‬ ‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬درج باال سطور کو‬
‫ضابطہ زیادہ جامع اور مفید بن سکے اور اس سے مزید استفادہ حاصل کیا جا سکے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :481‬ایسے مقدمات میں ریکارڈ‬

‫ایسے ہر مقدمہ میں عدالت پر الزم ہوگا کہ ایسے واقعات جن سے جرم کی تشکیل‬ ‫(‪1‬‬
‫ہوئی‪ ،‬مع بیان ملزم (اگر کوئی ہو) نیز اپنی تجویز اور حکم سزا کو قلم بند کرے۔‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ 228‬کے تحت ہو تو الزم ہوگا کہ‬
‫اگر وہ جرم مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪2‬‬
‫ریکارڈ میں اس عدالتی کارروائی کو نوعیت اور مرحلہ جس پر عدالت اجالس کر رہی تھی جب‬
‫مداخلت یا توہین کی گئی نیز مداخلت یا توہین کی نوعیت ظاہر کی جائے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :482‬ضابطہ جب کہ عدالت کی دانست میں دفعہ ‪ 480‬کے تحت کارروائی کرنا مناسب نہ‬
‫ہو‬

‫اگر کسی مقدمہ میں عدالت کی یہ رائے ہو کہ وہ شخص جس پر کسی جرم محولہ‬ ‫(‪1‬‬
‫دفعہ ‪ 480‬کا الزام ہے اور جس کاارتکاب اس کے روبرو یا پیشی میں کیا گیاہے‪ ،‬کو بصورت عدم‬
‫ادائیگی جرمانہ کے عالوہ‪ ،‬قید کیا جانا چاہئے یا اس پر دو سو روپے سے زائد سزائے جرمانہ عائد‬
‫ہونی چاہئے یا کسی اور بنا پر عدالت کی یہ رائے ہو کہ مقدمہ کا فیصلہ زیر دفعہ ‪ 480‬نہیں ہونا‬
‫چاہئے تو ویسی عدالت کو اختیار ہے کہ ان واقعات کو جن سے جرم تشکیل ہوا اور ملزم کا بیان‬
‫جیسا کہ قبل ازیں محکوم ہے‪ ،‬قلم بند کرنے کے مقدمہ کو اس مجسٹریٹ کے پاس بھیجے جو اس‬
‫کی سماعت کا اختیار رکھتا ہو اور ویسے مجسٹریٹ کے روبرو ملزم کی حاضری کیلئے ضمانت‬
‫طلب کرے یا اگر کافی ضمانت داخل نہ کی جائے تو وہ الزمی طور پر ویسے شخص کو زیر‬
‫حراست مجسٹریٹ کے پاس بھیجے۔‬
‫اس مجسٹریٹ کو‪ ،‬جس کو زیر دفعہ ہذا مقدمہ بھیجا جائے‪ ،‬الزمی ہوگا کہ ملزم‬ ‫(‪2‬‬
‫کیخالف نالش کی سماعت اس طریقہ سے کرے جس کی بابت قبل ازیں حکم میں مذکور ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :483‬رجسٹرار یا سب رجسٹرار کو دفعہ ‪ 480‬اور ‪ 482‬کیلئے کب عدالت دیوانی تصور‬
‫کیا جائیگا‬

‫جبکہ صوبائی حکومت ایسی ہدایت کرے ہر رجسٹرار یا سب رجسٹرار جو قانون رجسٹری بابت‬
‫‪1908‬ء کے تحت دفعہ ‪ 480‬اور ‪ 482‬کیلئے عدالت دیوانی تصور کیا جائے گا۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :484‬تعمیل حکم یا معذرت کرنے پر مجرم کی رہائی‬

‫اگر کسی عدالت نے دفعہ ‪ 480‬یا دفعہ ‪ 482‬کے تحت کسی جرم کی بابت اس وجہ سے سزا تجویز‬
‫کی ہو یا اس کو کسی مجسٹریٹ کے پاس بغرض تجویز بھیجا ہو کہ اس نے کسی ایسے امر کو‬
‫کرنے سے انکار کیا ہو یا اس کی ادائیگی نہ کی ہو جس کی انجام دہی کیلئے اسے قانونا ً حکم دیا گیا‬
‫تھا یا قصدا ً توہین یا مداخلت کا مرتکب ہوا ہو‪ ،‬تو عدالت مجاز ہوگی کہ اپنی صوابدید پر مجرم کو‬
‫اس شرط پر رہائی دے یا اس کی سزا معاف کرے جب وہ ویسی عدالت کے حکم یا طلبی کی تعمیل‬
‫کرے یا اس کے اطمینان کے مطابق معذرت پیش کرے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :485‬ایسے شخص کو قید کرنا یا سپرد کرنا جو جواب دینے یا دستاویز پیش کرنے‬
‫سے انکار کرے‬

‫اگر کوئی گواہ یا شخص جسے عدالت فوجداری میں کوئی دستاویز یا شے پیش کرنے کیلئے طلب‬
‫کیا جائے‪ ،‬ایسے سواالت کا جواب دینے سے جو اس سے پوچھے جائیں یا ایسی دستاویز یا شے کو‬
‫پیش کرنے سے‪ ،‬جو اس کے قبضہ میں یا اختیار میں ہو اور جس کو پیش کرنے کا عدالت نے اس‬
‫کو حکم دیا ہو‪ ،‬انکار کرے اور ایسے انکار کی کوئی معقول وجہ نہ بتائے تو ویسی عدالت کو‬
‫اختیار ہے کہ ان وجوہ کی بنا پر جن کو وہ قلم بند کرے گی‪ ،‬اس کے خالف قید محض کی سزا کا‬
‫حکم صادر کرے یا بذریعہ وارنٹ زیر دستخطی مجسٹریٹ اجالس کنندہ یا جج‪ ،‬عدالت کے کسی‬
‫عہدہ دار کی حراست میں اتنی مدت کیلئے دے جو سات یوم سے زیادہ نہ ہو‪ ،‬بجز اس صورت میں‬
‫کہ اس دوران ویسا شخص اپنی تجویز اور جواب دہی کیلئے یا دستاویز یا شے پیش کرنے کیلئے‬
‫راضی ہو جائے۔ ایسی صورت میں کہ وہ اپنے انکار پر قائم رہے تو جائز ہوگا کہ اس کی نسبت‬
‫بمطابق دفعہ ‪ 480‬یا ‪ 482‬عمل کیا جائے اور عدالت عالیہ ہونے کی صورت میں وہ توہین عدالت کا‬
‫مجرم سمجھا جائے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :486‬توہین عدالت کے مقدمات میں اپیل‬


‫کوئی شخص جسے کسی عدالت نے دفعہ ‪ 480‬یا دفعہ ‪ 485‬کے تحت سزا دی ہو‪،‬‬ ‫(‪1‬‬
‫قبل ازیں درج کسی حکم کے باوصف‪ ،‬ایسی عدالت میں اپیل کرنے کا مجاز ہوگا جس میں ویسی‬
‫عدالت کی صادر کردہ ڈگریوں اور احکام کے خالف عموما ً اپیل رجوع ہوتی ہے۔‬
‫احکام باب ‪ ،31‬جہاں تک ہو قابل اطالق ہوں دفعہ ہذا کے تحت اپیلوں پر اطالق پذیر‬ ‫(‪2‬‬
‫ہوں گے اور عدالت اپیل مجاز ہوگی کہ زیر اپیل تجویز کو تبدیل یا منسوخ کردے یا سزا تخفیف یا‬
‫منسوخ کردے۔‬
‫]حذف ہوئی۔[‬ ‫(‪3‬‬
‫عدالت خفیفہ کی طرف سے ایسی سزا کے خالف اپیل اس سیشن ڈویژن کی عدالت سیشن میں رجوع‬
‫ہوگی جس میں ویسی عدالت واقع ہو۔‬
‫جب ایسی سزا کسی افسر نے بطور رجسٹرار یا سب رجسٹرار ہو حسب باال مقرر‬ ‫(‪4‬‬
‫ہوا ہو‪ ،‬دی ہو‪ ،‬جب ایسا افسر عدالت دیوانی کا جج بھی ہو‪ ،‬تو اپیل اس عدالت کو رجوع ہوگی جس‬
‫میں دفعہ ہذا کی ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے مطابق اس صورت میں اپیل دائر ہوتی اگر ویسا حکم سزا ایک‬
‫ڈگری ہوتا جو ویسا افسر بحیثیت جج صادر کرتا اور دیگر صورتوں میں ڈسٹرکٹ جج کو‪ ،‬کی جا‬
‫سکے گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :487‬بعض جج اور مجسٹریٹ دفعہ ‪ 195‬میں محولہ جرائم کی تجویز نہیں کرینگے‬
‫جبکہ ارتکاب انکے روبرو ہوا ہو‬

‫دفعات ‪ 480 ،476‬اور ‪ 485‬میں درج احکام کے عالوہ فوجداری عدالت کا کوئی جج‬ ‫(‪1‬‬
‫یا مجسٹریٹ‪ ،‬سوائے جج ہائی کورٹ کے‪ ،‬دفعہ ‪ 195‬میں محولہ جرائم کیلئے کسی شخص کو تجویز‬
‫نہیں ک سکتا جبکہ ایسا جرم اس کے روبرو یا اس کے اختیار کی توہین میں سرزد ہوا ہو یا مقدمہ‬
‫کی کارروائی اس کے علم میں ویسے جج یا مجسٹریٹ کی حیثیت سے الیا جائے۔‬
‫حذف ہوئی۔‬ ‫(‪2‬‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 486 ،485 ،484 ،483 ،482 ،481‬اور ‪ 487‬میں کوئی بات اسالمی‬
‫اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ان پر تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫(باب نمبر ‪)36‬‬


‫دفعہ ‪ 488‬تا ‪ :490‬قانون ‪ 27‬بابت ‪1981‬ء سے حذف ہوئیں۔‬

‫(باب نمبر ‪)37‬‬


‫’’پیش کرو‘‘ نوعیت کی ہدایت‬
‫دفعہ نمبر ‪’’ :491‬پیش کرو‘‘ کی ہدایات جاری کرنے کا اختیار‬

‫کوئی ہائی کورٹ مجاز ہے کہ جب وہ مناسب سمجھے‪ ،‬یہ ہدایت کرے کہ‪:‬‬ ‫(‪1‬‬
‫کوئی شخص جو اس کے اختیار سماعت اپیل بہ صیغہ فوجداری کی‬ ‫(‪a‬‬
‫حدود کے اندر ہو‪ ،‬عدالت میں الیا جائے تاکہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔‬
‫کوئی شخص جو ویسی حدود کے اندر خالف قانون یا بے جا طور‬ ‫(‪b‬‬
‫پر کسی ذاتی یا سرکاری حراست میں ہو‪ ،‬رہا کیا جائے۔‬
‫کوئی قیدی جو ایسی حدود کے اندر واقع کسی جیل میں مقید ہو‪،‬‬ ‫(‪c‬‬
‫عدالت کے روبرو الیا جائے تاکہ ایسی عدالت میں کسی امر زیر سماعت یا زیر تحقیق میں اس کا‬
‫بیان بطور گواہ لیا جائے۔‬
‫کسی ایسے قیدی کو جو مذکورہ باال طریق پر مقید ہو‪ ،‬کسی فوجی‬ ‫(‪d‬‬
‫عدالت یا کسی کمشنر کے روبرو تجویز کیلئے یا کسی ایسے معاملہ کے متعلق جو ویسی فوجی‬
‫عدالت یا کمشنر کے روبرو تصفیہ طلب ہو‪ ،‬اس کا بیان لینے کیلئے حاضر کیا جائے۔‬
‫کوئی قیدی جو ویسی حدود میں ہو بغرض تجویز کسی ایک کی‬ ‫(‪e‬‬
‫حراست سے دوسرے کی حراست میں منتقل کیا جائے‪ ،‬اور‬
‫ویسی حدود کے ا ندر جس مدعا علیہ کا وارنٹ کی پشت پر درج‬ ‫(‪f‬‬
‫شدہ مدعا علیہ کا جسم گرفتار کرنے کی غرض سے شیرف (‪ )Sheriff‬کی کیفیت گزرنے کے وقت‬
‫پیش کرنا ضروری ہے‪ ،‬پیش کرے۔‬
‫] (‪ )A-1‬ہائی کورٹ بذریعہ حکم عام یا خاص سرکاری جریدہ میں شائع کرکے یہ‬
‫ہدایت جار کر سکتی ہے کہ شق (‪ )a‬اور (‪ )b‬ذیلی دفعہ (‪ )1‬مخصوص شدہ تمام اختیارات ان شرائط‬
‫کے تابع اگر کوئی ہوں اور ان کا ذکر حکم میں شامل ہو کا استعمال مندرجہ ذیل کر سکیں گے۔‬
‫سیشن جج‬ ‫(‪a‬‬
‫ایڈیشنل سیشن جج‬ ‫(‪b‬‬
‫اور ان کا استعمال سیشن ڈویژن کی حدود کے اندر کیا جائے گا۔[‬
‫ہائی کورٹ کو اختیار ہے کہ دفعہ ہذا کے تحت مقدمات میں ضابطہ کار منضبط‬ ‫(‪2‬‬
‫کرنے کیلئے وقتا ً فوقتا ً قواعد مرتب کرے۔‬
‫دفعہ ہذا میں کسی امر کا اطالق ان اشخاص پر نہ ہوگا جن کو کسی ایسے قانون کے‬ ‫(‪3‬‬
‫تحت‪ ،‬جس میں انسدادی حراست کا حکم ہو‪ ،‬حراست میں رکھا گیا ہو۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ ‪ :A-491‬منسوخ ہوئی۔‬


‫حصہ نمبر ‪9‬‬
‫ضمنی احکام‬
‫(باب نمبر ‪)38‬‬
‫پیروکار سرکار کی بابت‬

‫دفعہ نمبر ‪ :492‬پیروکار سرکار مقرر کرنے کا اختیار‬

‫صوبائی حکومت مجاز ہے کہ عام یا کسی ایک یا چند تصریح کردہ نوعیت کے‬ ‫(‪1‬‬
‫مقدمات کیلئے کسی مقامی عالقہ میں ایک یا زیادہ عہدیداران مقرر کرے جو پیروکار سرکار کہالئیں‬
‫گے۔‬
‫]ضلع کا افسر انچارج استغاثہ[ مجاز ہوگا کہ پیروکار منجانب سرکار کی غیر‬ ‫(‪2‬‬
‫حاضری میں یا جب کوئی پیروکار منجانب سرکار مقرر نہ کیا گیا ہو‪ ،‬ایسے کسی دیگر شخص کو‬
‫کسی مقدمہ کیلئے مقرر کرے جو اس سے کم رتبہ کا پولیس افسر نہ ہو جو صوبائی حکومت نے‬
‫اس بارے میں پیروکار سرکار کیلئے مقرر کیا ہو۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :493‬پیروکار سرکار تمام عدالتوں میں ان مقدمات میں جواب دہی کر سکتا ہے‬
‫جو اس کے سپرد ہوں‪ ،‬ذاتی طور پر مقرر کردہ وکالء اس کے زیر ہدایت ہوں گے‬

‫پیروکار منجانب سرکار مجاز ہے کہ کسی عدالت میں حاضر ہو اور بالاجازت تحریری کسی عدالت‬
‫میں‪ ،‬جس میں اس کو سپرد کردہ کسی مقدمہ کی تحقیقات‪ ،‬تجویز یا اپیل پیش ہو‪ ،‬جواب دہی کرے‬
‫اور اگر کوئی نجی شخص کسی وکیل کو اس غرض کیلئے مقرر کرے کہ ایسے کسی مقدمہ میں‬
‫کسی شخص کے خالف کسی عدالت میں استغاثہ دائر کرے‪ ،‬تو اس استغاثہ کی کارروائی پیروکار‬
‫سرکار کی معرفت ہوگی اور وکیل جو اس طور پر مقرر کیا گیا ہو (مقدمہ) میں اس کی ہدایت کے‬
‫تحت کام کرے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :494‬استغاثہ سے دستبرداری کا اثر‬

‫پیروکار سرکار مجاز ہے کہ عدالت کی رضامندی سے اور دیگر مقدمات میں فیصلہ سنائے جانے‬
‫سے قبل‪ ،‬کسی شخص کیخالف پیروی سے‪ ،‬یا تو عمومی طو رپر یا جن جرائم کیلئے اس کی‬
‫سماعت ہو رہی ہو‪ ،‬ان میں سے کسی ایک یا زیادہ کی نسبت‪ ،‬دستبردار ہو جائے اور ویسی‬
‫دستبرداری پر‪:‬‬
‫اگر فرد الزام مرتب ہونے سے قبل کی گئی ہو تو ویسے جرم یا جرائم کی نسبت‬ ‫(‪a‬‬
‫ملزم کو رہا کیا جائے گا۔‬
‫اگر یہ فرد الزام مرتب ہونے کے بعد کی گئی ہو‪ ،‬یا جب مجموعہ ہذا کے تحت کوئی‬ ‫(‪b‬‬
‫فرد الزام ضروری نہ ہو‪ ،‬تو اس کو ویسے جرم یا جرائم کی نسبت بری کیا جائے گا۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :495‬استغاثہ کی پیروی کرنے کی اجازت‬

‫کوئی مجسٹریٹ جو کسی مقدمہ کی تحقیقات یا تجویز کر رہا وہ‪ ،‬مجاز ہے کہ وہ‬ ‫(‪1‬‬
‫عالوہ اس پولیس افسر کے جس کا مرتبہ اس سے کم ہو‪ ،‬جو صوبائی حکومت نے اس بارے میں‬
‫مقرر کیا ہے‪ ،‬کسی شخص کو استغاثہ کی پیروی کی اجازت دے لیکن کوئی شخص سوائے‬
‫ایڈووکیٹ جنرل مستقل وکیل‪ ،‬سرکاری مشیر قانون‪ ،‬پیروکار منجانب سرکار یا کوئی دوسرا عہدہ دار‬
‫جسے اس بارے میں صوبائی حکومت کی جانب سے عام یا خاص اختیار دیا گیا ہو‪ ،‬ویسی اجازت‬
‫کے بغیر ایسا کرنے کا مستحق نہ ہوگا۔‬
‫ایسے کسی افسر کو استغاثہ سے دستبرداری کا ویسا ہی اختیار حاصل ہوگا جیسا کہ‬ ‫(‪2‬‬
‫دفعہ ‪ 494‬میں محکوم ہے اور ویسے کسی افسر کی دستبرداری پر اس دفعہ کے احکام کا اطالق‬
‫ہوگا۔‬
‫ت خود یا بذریعہ وکیل ایسا کرنے کا مجاز‬
‫استغاثہ کی پیروی کرنے واال شخص بذا ِ‬ ‫(‪3‬‬
‫ہے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ 494 ،493 ،492‬اور ‪ 495‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف‬
‫دکھائی نہیں دیتی‪،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫(باب نمبر ‪)39‬‬


‫بابت ضمانت‬

‫دفعہ نمبر ‪ :496‬کن صورتوں میں ضمانت لی جائے گی‬

‫جب کوئی شخص عالوہ اس شخص کے جو کسی جرم ناقابل ضمانت کا ملزم ہو‪ ،‬کسی مہتمم تھانہ‬
‫کی معرفت بالوارنٹ گرفتار ہو یا حراست میں رکھا گیا ہو یا کسی عدالت کے روبرو پیش ہو یا الیا‬
‫جائے اور ویسے افسر کی زیر حراست کسی وقت یا مقدمہ کی کارروائی کے کسی مرحلہ پر‬
‫ضمانت دینے پر تیار ہو تو ویسے شخص کو ضمانت پر رہا کیا جائے گا‪ ،‬بشرطیکہ ویسا افسر‬
‫عدالت‪ ،‬اگر مناسب سمجھے تو ویسے شخص سے ضمانت لینے کے بجائے مچلکہ بغیر ضامنان اس‬
‫کی حاضری کی بابت اس طرح تحریر کرائے جیسا کہ بعد ازیں محکوم ہے‪:‬‬
‫مزید شرط یہ ہے کہ دفعہ ہذا میں کسی امر سے دفعہ ‪ ،107‬ضمنی دفعہ (‪ )4‬یا دفعہ ‪ ،117‬ضمنی‬
‫دفعہ (‪ )3‬کے احکام متاثر نہ سمجھے جائیں گے۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ عدالت اگر مناسب سمجھے تو ایسے شخص سے جو ناقابل‬
‫ضمانت جرم کا ملزم نہ ہو‪ ،‬ضمانت پر رہا کردیا جائیگا اور اس شخص سے ضمانت کے بجائے‬
‫مچلکہ بغیر ضامنان اس کی حاضری کے بارے میں تحریر کرایا جائیگا۔‬
‫ضمانت اور مچلکہ کے بارے میں دفعہ نمبر ‪ 4‬جز (ب) اور دفعہ نمبر ‪ 107 ،106‬کے تحت‬
‫بحث کی جا چکی ہے لہٰ ذا دوبارہ وہی دالئل ذکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کیخالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :497‬ناقابل ضمانت جرم کی صورت میں ضمانت لی جا سکتی ہے‬

‫جب کسی شخص کو جس پر کسی ناقابل ضمانت جرم کا الزام ہو‪ ،‬کوئی مہتمم تھانہ‬ ‫(‪1‬‬
‫بغیر وارنٹ گرفتار کرلے یا حراست میں رکھے یا کسی عدالت کے روبرو پیش ہو الیا جائے تو اس‬
‫کو ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ باور کرنے کی معقول وجہ ہو کہ وہ کسی جرم قابل‬
‫سزائے موت یا حبس دوام یا دس سال قید کا مرتکب ہوا ہے تو اسے اس طرح رہا نہیں کیا جائے گا‪:‬‬
‫بشرطیکہ عدالت یہ ہدایت کر سکتی ہے کہ کوئی شخص جس کی عمر سولہ سال سے کم ہو یا کوئی‬
‫عورت‪ ،‬یا کوئی بیمار یا ضعیف شخص جس پر ایسے کسی جرم کا الزام ہو‪ ،‬ضمانت پر رہا کیا‬
‫جائے‪:‬‬
‫مزید شرط یہ ہے کہ مذکورہ جرم کے ملزم شخص کی ضمانت پر رہا نہیں کیا جائے گا جب تک کہ‬
‫استغاثہ کو اظہار وجوہ کا نوٹس نہ دیا گیا ہو کہ اس کو کیوں نہ اس طرح رہا کیا جائے۔‬
‫شرط‪] :‬حذف شدہ بذریعہ آرڈیننس ‪ LIV‬بابت ‪2001‬ء[‬
‫اگر مقدمہ کی تفتیش‪ ،‬تحقیقات یا تجویز کے کسی مرحلہ پر‪ ،‬جیسی کہ صورت ہو‪،‬‬ ‫(‪2‬‬
‫ویسے افسر یا عدالت کو معلوم ہو کہ یہ باور کرنے کی معقول وجوہ نہیں ہیں کہ ملزم کسی ناقابل‬
‫ضمانت جرم کا مرتکب ہوا ہے بلکہ اس کے جرم کی بابت مزید تحقیقات کرنے کی کافی وجوہ ہیں‬
‫تو ملزم ویسی تحقیقات کے دوران ضمانت پر یا ویسے افسر یا عدالت کی صوابدید کے مطابق (اپنی‬
‫حاضری کی بابت) مچلکہ بغیر ضامنان اس طرح تحریر کرنے پر‪ ،‬جیسا کہ بعد ازاں محکوم ہے‪،‬‬
‫رہا کیا جائے گا۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )1‬یا ضمنی دفعہ (‪ )2‬کے تحت کسی شخص کو ضمانت پر رہا کرنے‬ ‫(‪3‬‬
‫واال کوئی افسر یا عدالت ایسا کرنے کی اپنی وجوہات الزمی طور پر تحریر کرے گا۔‬
‫اگر کسی ایسے شخص کی تجویز کے اختتام کے بعد جس پر کسی ناقابل ضمانت‬ ‫(‪4‬‬
‫جرم کا الزام ہو اور فیصلہ دینے سے قبل کسی وقت عدالت کی یہ رائے ہو کہ یہ باور کرنے کی‬
‫معقول وجوہ ہیں کہ ملزم ویسے کسی جرم کا قصور وار نہیں ہے تو اسے الزم ہوگا کہ اگر ملزم‬
‫حراست میں ہو تو اسے مچلکہ بالضامنان اس امر کی بابت تحریر کرنے پر رہا کردے کہ وہ فیصلہ‬
‫صادر ہونے پر اسے سننے کیلئے حاضر ہوگا۔‬
‫عدالت عالیہ یا عدالت سیشن اور اس شخص کی صورت میں جسے خود اس نے رہا‬ ‫(‪5‬‬
‫کیا ہو‪ ،‬کوئی دوسری عدالت کسی ایسے شخص کو گرفتار کرا سکتی ہے اور حراست میں سپرد کر‬
‫سکتی ہے‪ ،‬جسے دفعہ ہذا کے تحت رہا کیا گیا ہو۔‬
‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں بھی ضمانت کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ جس کے بارے میں دالئل کا ذکر‬
‫دفعہ نمبر ‪ 496‬کے تحت کردیا گیا ہے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪’’ :‬دفعہ نمبر ‪ 497‬کے پہلے پرووائزو میں یہ ترمیم تجویز کی‬
‫گئی کہ اس میں مذکور الفاظ ’’سولہ سال سے کم عمر کے کسی شخص کے بجائے الفاظ ’’وہ‬
‫شخص جو ابھی شرعی طور پر بالغ نہ ہوا ہو‘‘ درج کئے جائیں‪ ،‬اسی طرح لفظ ’’بیمار‘‘ (‪)Sick‬‬
‫کو نکال دیا جائے کیونکہ اس کا غلط استعمال ہوتا ہے اور لفظ ’’ضعیف شخص‘‘ ( ‪Infirm‬‬
‫‪ )person‬کے بجائے ’’مستقل نوعیت کی ناتوانی‘‘ (‪ )Infirmity of permanent nature‬کے‬
‫الفاظ لکھے جائیں‘‘۔ (‪)23‬‬

‫دفعہ نمبر ‪ :498‬ضمانت قبول کرنے یا ضمانت میں تخفیف کرنے کی ہدایت دینے کا اختیار‬

‫الزمی ہوگا کہ باب ہذا کے تحت تحریر کردہ ہر مچلکہ کی رقم مقدمہ کے حاالت کو ملحوظ رکھتے‬
‫ہوئے مقرر کی جائے اور وہ حد سے زیادہ نہ ہو اور ہائی کورٹ یا عدالت سیشن مجاز ہے کہ کسی‬
‫مقدمہ میں خواہ اس میں اثبات جرم پر اپیل ہو یا نہ ہو‪ ،‬یہ ہدایت کرے کہ کسی شخص کی ضمانت‬
‫قبول کی جائے یا اس ضمانت میں تخفیف کردی جائے جو کسی پولیس افسر یا مجسٹریٹ نے طلب‬
‫کی ہو۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :A-498‬ایسے شخص کی ضمانت قبول نہیں کی جائیگی جو زیرحراست یا عدالت میں‬
‫نہ ہو‬
‫یا جس کیخالف کوئی مقدمہ درج نہ ہوا ہو‬

‫دفعہ ‪ 497‬یا دفعہ ‪ 498‬میں کسی امر سے یہ مفہوم نہ لیا جائے گا کہ عدالت کو یہ حکم دیا گیا ہے یا‬
‫اسے اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی شخص کو جو زیر حراست نہ ہو یا عدالت میں حاضر نہ ہو یا‬
‫جس کے خالف فی الوقت کوئی مقدمہ درج نہ ہوا ہو‪ ،‬ضمانت پر رہا کرے یا اس کی ضمانت قبول‬
‫کرنے کی ہدایت کرے۔‬
‫اور کسی شخص کی ضمانت پر رہائی کا کوئی حکم یا کسی شخص کی ضمانت قبول کرنے کی‬
‫ہدایت صرف ایسے مقدمہ کی بابت موثر ہوں گے جس کا اس طور پر اس کے خالف اندراج کیا گیا‬
‫ہو اور جس کی تصریح حکم یا ہدایت میں کی گئی ہو۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ان دفعات ‪ 498‬اور ‪ A-498‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کیخالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :499‬ملزم اور ضامنوں کا مچلکہ‬

‫قبل اس کے کہ کسی شخص کو ضمانت پر رہا کیا جائے یا اس کے اپنے مچلکے پر‬ ‫(‪1‬‬
‫رہا کیا جائے تو الزم ہوگا کہ ویسا شخص اس رقم کا مچلکہ تحریر کرے جیسا کہ پولیس افسر یا‬
‫عدالت‪ ،‬جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬کافی خیال کرے اور جب اسے ضمانت پر رہا کیا جائے تو ایک یا‬
‫زائد کافی ضامنوں کی جانب سے اس امر کی بابت تحریر کیا جائے کہ ویسا شخص اس وقت اور‬
‫مقام پر جو کہ ضمانت نامہ میں درج ہو حاضر ہوگا اور جب تک پولیس افسر یا عدالت‪ ،‬جیسی کہ‬
‫صورت ہو‪ ،‬کوئی اور ہدایت نہ کرے‪ ،‬اسی طور پر حاضر ہوتا رہے گا۔‬
‫اگر مقدمہ اس کا متقاضی ہو تو مچلکہ ضمانت پر رہا کئے جانے والے شخص کو‬ ‫(‪2‬‬
‫پابند کرے گا کہ وہ عدالت عالیہ یا عدالت سیشن یا کسی اور عدالت میں الزام کی جوابدہی کیلئے‬
‫عندالطلب حاضر ہوگا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کسی شخص کو ضمانت پر رہا کرنے کیلئے مچلکہ لینے اور ضامنوں کی‬
‫طرف سے عندالطلب ان کی عدالت میں یقینی حاضری کی ضمانت دینے کا ذکر ہے‪ ،‬اس بارے میں‬
‫دفعہ نمبر ‪ 107 ،106‬کے تحت بحث کی جا چکی ہے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :500‬حراست سے رہائی‬

‫الزم ہوگا کہ جونہی مچلکہ تحریر کیا جائے‪ ،‬اس شخص کو جس کی حاضری کی‬ ‫(‪1‬‬
‫بابت وہ تحریر کیا گیا ہے‪ ،‬رہا کردیا جائے اور جب وہ جیل میں ہو تو عدالت جس نے اس کی‬
‫ضمانت منظور کی ہو‪ ،‬مہتمم جیل خانہ کے نام حکم رہائی جاری کرے گا اور ویسا افسر حکم‬
‫موصول ہونے پر اسے رہا کرے گا۔‬
‫دفعہ ہذا یا دفعہ ‪ 496‬یا دفعہ ‪ 497‬میں کوئی امر اس بات کا متقاضی نہ ہوگا کہ کسی‬ ‫(‪2‬‬
‫ایسے شخص کو رہا کیا جائے جو اس امر کے عالوہ جس کی بابت اس سے مچلکہ تحریر کروایا‬
‫گیا ہو‪ ،‬کسی دیگر معاملہ میں حراست میں رکھے جانے کا مستوجب ہو۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :501‬کافی ضمانت کیلئے حکم دینے کا اختیار جبکہ پہلے لی ہوئی ضمانت ناکافی ہو‬

‫اگر کسی غلطی‪ ،‬فریب یا بصورت دیگر ناکافی ضمانت قبول کرلی گئی ہو یا اگر وہ بعد کو ناکافی ہو‬
‫جائے تو عدالت مجاز ہے کہ وہ اس ہدایت کے ساتھ وارنٹ گرفتاری صادر کرے کہ ضمانت پر رہا‬
‫کردہ شخص کو اس کے روبرو پیش کیا جائے اور اسے کافی ضمانت دینے کا حکم دے اور اس‬
‫کے ایسا کرنے سے قاصر رہنے پر اسے جیل بھیج دے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :502‬ضامنوں کی فارغ خطی‬

‫ضمانت پر رہا کئے جانے والے شخص کے حاضر ہونے یا پیش کئے جانے کے‬ ‫(‪1‬‬
‫تمام یا کوئی ضامنان مجاز ہوں گے کہ وہ کسی وقت مجسٹریٹ کو درخواست کریں کہ اس کا‬
‫ضمانت نامہ کلی طور پر یا جہاں تک درخواست گزاروں سے متعلق ہو‪ ،‬بے باق کردے۔‬
‫ویسی درخواست کے گزرنے پر مجسٹریٹ اپنا وارنٹ گرفتاری اس حکم سے جاری‬ ‫(‪2‬‬
‫کرے گا کہ شخص مخلصی یافتہ اسکے روبرو حاضر کیا جائے۔‬
‫جب ویسا شخص وارنٹ کے مطابق حاضر کیا جائے‪ ،‬تو مجسٹریٹ یہ حکم صادر‬ ‫(‪3‬‬
‫کرے گا کہ مچلکہ اور ضمانت نامہ کلیتا ً جہاں تک اس کو درخواست کرنے والوں سے تعلق ہے‪،‬‬
‫فسخ کیاجائے اور ویسے شخص کو ہدایت کرے گا کہ وہ ضامنان کافی بہم پہنچائے اگر وہ اس حکم‬
‫کی تعمیل میں قصور کرے‪ ،‬تو عدالت مجاز ہے کہ اس کو حراست میں بھیجے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ان دفعات ‪ 501 ،500‬اور ‪ 502‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں‬
‫دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫(باب نمبر ‪)40‬‬


‫گواہان کے بیان کیلئے کمیشن کی نسبت‬

‫دفعہ نمبر ‪ :503‬کب گواہ کی حاضری معاف کی جا سکتی ہے‬

‫جب کبھی مجموعہ ہذا کے تحت کسی تحقیقات تجویز یا کسی دیگر کارروائی کے‬ ‫(‪1‬‬
‫دوران ہائی کورٹ یا عدالت سیشن کو یہ معلوم ہو کہ بغرض انصاف کسی گواہ کا بیان لینا ضروری‬
‫ہے اور ویسے گواہ کو بغیر اس قدر تاخیر‪ ،‬خرچہ یا دشواری کے جو مقدمہ کے حاالت کے پیش‬
‫نظر نامناسب ہو‪ ،‬حاضر نہیں کرایا جا سکتا تو عدالت مجاز ہے کہ ویسی حاضری معاف کردے اور‬
‫کسی مجسٹریٹ درجہ اول کے نام‪ ،‬جس کے عالقہ اختیار کی مقامی حدود میں ویسا گواہ مقیم ہو‪،‬‬
‫ویسے گواہ کا بیان لینے کے کمیشن جاری کرے۔‬
‫حذف ہوئی۔‬ ‫(‪2‬‬
‫جب گواہ کسی الحاق شدہ ریاست میں مقیم ہو یا کسی ایسے عالقہ میں یا جس کی‬ ‫(‪A-2‬‬
‫بابت صدر کو بیرون صوبائی اختیار سماعت آرڈر ‪1949‬ء کے مفہوم کے تحت بیرون صوبہ اختیار‬
‫حاصل ہو تو کمیشن عالقہ کی ویسی عدالت یا افسر کے نام جاری کیا جائے‪ ،‬جسے صدر نے‬
‫سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعہ سے اسے ایسی عدالت یا افسر تسلیم کیا یا جسے ضمنی‬
‫دفعہ ہذا کے تحت کمیشن جاری کیا جا سکتا ہے اور جس کے عالقہ اختیار کی مقامی حدود میں گواہ‬
‫مقیم ہو۔‬
‫جب گواہ برطانیہ یا کسی دولت مشترکہ کے ملک میں یا یونین آف برما میں یا کسی‬ ‫(‪B-2‬‬
‫ایسے دوسرے ملک میں جس کے ساتھ اس بارے میں دو طرفہ انتظام ہو تو کمیشن ایسی عدالت یا‬
‫جج کے نام جاری کیا جائے جو اس ملک میں اس بارے میں اختیار رکھتا ہو اور جس کی تصریح‬
‫سرکاری گزٹ میں بذریعہ نوٹیفکیشن مرکزی حکومت نے کی ہو۔‬
‫مجسٹریٹ یا افسر جس کے نام کمیشن جاری کیا گیا ہو‪ ،‬اس مقام پر جہاں کہ وہ گواہ‬ ‫(‪3‬‬
‫مقیم ہو‪ ،‬خود جائے گا یا اسے اپنے روبرو طلب کرے گا اور اس کی شہادت ایسی طور طریقہ پر‬
‫لے گا اور اس مقصد کیلئے وہی اختیارات استعمال کرے گا جو مجموعہ ہذا کے تحت مقدمات میں‬
‫اسے حاصل ہوتے ہیں۔‬
‫جب کمیشن ایسے افسر کے نام جاری کیا جائے جو ضمنی دفعہ ‪ A-2‬میں مذکور‬ ‫(‪4‬‬
‫ہے‪ ،‬تو وہ مجاز ہوگا کہ ضمنی دفعہ (‪ )3‬میں محکوم طریقہ کے مطابق کارروائی کرنے کے بجائے‬
‫کمیشن کے تحت حاصل کردہ اپنے اختیار و فرائض اپنے کسی ایسے ماتحت افسر کو تفویض کردے‬
‫جس کے اختیارات پاکستان میں درجہ اول کے مجسٹریٹ سے کم نہ ہوں۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬
‫دفعہ ‪ :504‬بذریعہ ترمیمی ایکٹ ‪1949‬ء سے حذف ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :505‬فریقین گواہوں سے سواالت کر سکتے ہیں‬

‫مجموعہ ہذا کے تحت کسی ایسی کارروائی کے فریقین جس میں کمیشن جاری کیا‬ ‫(‪1‬‬
‫جائے‪ ،‬مجاز ہیں کہ بالترتیب بند سواالت تحریری جن کو مجسٹریٹ یا عدالت صادر کنندہ کمیشن امر‬
‫متنازعہ سے متعلق سمجھے‪ ،‬بھیجیں اور جب کمیشن دفعہ ‪ 503‬میں مذکور کسی ایسے مجسٹریٹ یا‬
‫افسر کے نام جاری کیا جائے تو ایسا مجسٹریٹ یا افسر‪ ،‬جس کو ویسے کمیشن کی تعمیل کا فرض‬
‫سپرد کیا گیا ہو‪ ،‬الزمی طور پر ایسے گواہ کا بیان ان سواالت کی بنا پر لے گا۔‬
‫ویسے ہر فریق کو یہ اختیار ہے کہ وہ مجسٹریٹ کے روبرو وکیل کی معرفت یا‬ ‫(‪2‬‬
‫ً‬
‫اگر وہ حراست میں نہ ہو‪ ،‬تو اصالتا حاضر ہو اور اگر گواہ مذکور سے سواالت‪ ،‬سواالت جرح یا‬
‫مکرر سواالت (جیسی کہ صورت ہو) کرے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :506‬مجسٹریٹ کا کمیشن کیلئے درخواست کرنے کا اختیار‬

‫جب کبھی مجموعہ ہذا کے تحت کسی تحقیقات یا تجویز مقدمہ یا دیگر کارروائی کے دوران جو‬
‫کسی مجسٹریٹ کے روبرو پیش ہو‪ ،‬یہ ظاہر ہو کہ کسی ایسے گواہ کا بیان لینے کیلئے کمیشن‬
‫جاری ہونا چاہئے تھا‪ ،‬جس کی شہادت بغرض انصاف ضروری ہے اور ویسے گواہ کو بغیر اس‬
‫قدر تاخیر‪ ،‬خرچہ اور دشواری کے جو مقدمہ کے حاالت کے پیش نظر نامناسب ہے‪ ،‬حاضر نہیں‬
‫کروایا جا سکتا‪ ،‬تو ویسا مجسٹریٹ سیشن جج کو درخواست کرے گا اور درخواست کرنے کی وجہ‬
‫بیان کرے گا اور سیشن جج کو یہ اختیار ہوگا کہ یا تو قبل ازیں مذکورہ طریقہ کے مطابق کمیشن‬
‫جاری کرے یا درخواست کو نامنظور کردے۔ (ضمیمہ بابت ترمیم مالحظہ کریں)‬

‫تبصرہ‪ :‬ان دفعات ‪ 505‬اور ‪ 506‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :507‬کمیشن کی واپسی‬


‫جب زیر دفعہ ‪ 503‬یا دفعہ ‪ 506‬جاری کردہ کسی کمیشن کی مناسب تعمیل ہو جائے‬ ‫(‪1‬‬
‫تو الزم ہوگا کہ اسے گواہ کے بیان کے ساتھ جو اس کے ساتھ لیا گیا ہو‪ ،‬اس عدالت کو واپس کیا‬
‫جائے جس نے وہ جاری کیا تھا اور کمیشن اس کا جواب اور بیان فریقین کے مالحظہ کیلئے تمام‬
‫مناسب اوقات میں کھلے عام رکھا جائے گا اور کسی فریق کو اختیار ہوگا کہ بشرط مناسب استثناء‬
‫اس کو مقدمہ کی شہادت میں پڑھے اور اسے شامل مسل کیا جائے گا۔‬
‫جو بیان کہ اس طرح لیا جائے اگر وہ قانون شہادت ایکٹ ‪1984‬ء آرٹیکل ‪ 47‬میں‬ ‫(‪2‬‬
‫مقرر کردہ شرائط کے بموجب ہو تو اسے کسی دوسری عدالت میں مقدمہ کے بعد کسی مرحلہ پر‬
‫بھی بطور شہادت لیا جا سکتا ہے۔‬
‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر ‪ 2‬میں شہادت ایکٹ ‪1872‬ء کا ذکر ہے۔ اس بارے میں نظریاتی‬
‫کونسل نے تجویز دی تھی کہ شہادت ایکٹ ‪1872‬ء کی جگہ قانون شہادت آرڈر ‪1984‬ء اور دفعہ‬
‫‪ 33‬کی جگہ آرٹیکل ‪ 47‬درج کئے جائیں۔‬

‫وضاحت‪ :‬واضح رہے کہ نظریاتی کونسل کی تجویز کے مطابق ضابطہ فوجداری مینترمیم کی جا‬
‫چکی ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :508‬تحقیقات یا تجویز مقدمہ کا التواء‬

‫ہر مقدمہ میں کہ جس میں زیر دفعہ ‪ 503‬یا دفعہ ‪ 506‬کمیشن جاری کی جائے‪ ،‬تحقیقات‪ ،‬تجویز یا‬
‫دوسری کارروائی کو ایک معینہ مدت تک جو کمیشن کی تعمیل اور واپسی کیلئے کافی ہو‪ ،‬ملتوی‬
‫رکھا جائے۔ (ضمیمہ بابت ترمیم مالحظہ کریں)‬
‫دفعہ نمبر ‪ :A-508‬باب ہذا کا اطالق ان کمیشنوں پر جو برما میں جاری کئے جائیں‬

‫دفعہ ‪ 503‬کی ضمنی دفعہ (‪ )3‬اور دفعات ‪ 505‬اور ‪ 507‬کے احکامات اس حد تک کہ جو مجسٹریٹ‬
‫یا کسی افسر جس کے نام کمیشن جاری کیا گیا ہو‪ ،‬کمیشن کی تعمیل اور واپسی سے متعلق ہوں‪ ،‬کا‬
‫اطالق ان کمیشنوں پر جو اس عدالت یا جج نے جاری کئے ہوں جسے برطانیہ یا دولت مشترکہ کے‬
‫کسی ملک میں یا یونین آف برما میں یا کسی ایسے دوسرے ملک میں کہ جہاں کمیشن برائے اظہار‬
‫گواہان کی بابت نافذ الوقت قانون کے تحت اس کیلئے دو طرفہ انتظام موجود ہو‪ ،‬اس بارے میں‬
‫اختیار حاصل ہو‪ ،‬اسی طرح ہوگا جیسے دفعہ ‪ 503‬یا دفعہ ‪ 506‬کے تحت جاری ہونے والے‬
‫کمیشنوں پر ان کا اطالق ہوتا ہے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ان دفعات ‪ 508‬اور ‪ A-508‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کیخالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫(باب نمبر ‪)41‬‬


‫شہادت کے متعلق خاص قواعد‬

‫دفعہ نمبر ‪ :509‬طبی گواہ کا بیان‬

‫کسی سول سرجن یا دیگر طبی گواہ کا بیان جس کو ملزم کی حاضری میں مجسٹریٹ‬ ‫(‪1‬‬
‫نے لیا ہو اور تصدیق کی ہو یا باب ‪ 40‬کے تحت کمیشن پر لیا گیا ہو‪ ،‬کو مجموعہ ہذا کے تحت کسی‬
‫تحقیقات‪ ،‬تجویز یا دیگر کارروائی میں شہادت میں دیا جا سکتا ہے‪ ،‬اگرچہ بیان کنندہ کو بطور گواہ‬
‫نہ طلب کیا گیا ہو۔‬
‫طبی گواہ کو طلب کرنے کا اختیار‪ :‬عدالت مجاز ہوگی‪ ،‬اگر وہ مناسب سمجھے‪ ،‬کہ‬ ‫(‪2‬‬
‫ایسے گواہ کو اس کے نفس بیان کے متعلق طلب کرے اور بیان لے۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ کسی سول سرجن یا طبی گواہ کے بیان کو مقدمہ کی کاروائی‬
‫کے کسی بھی مرحلہ پر شہادت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اسے بطور گواہ نہ بالیا گیا ہو‪،‬‬
‫اسی طرح عدالت ایسے گواہ کو طلب کرکے بیان لے سکتی ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی نظام عدل میں بوقت ضرورت اور مقدمہ کی کارروائی میں معاونت‬‫اسالمی ٔ‬
‫کیلئے ماہر طبیب یا ڈاکٹر کی خدمات لی جا سکتی ہیں‪ ،‬مجاہد قاسمی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’اسی طرح قاضی طبی معائنہ کیلئے معتمد ڈاکٹر یا طبیب کی تقرری کر سکتا ہے جس کی‬
‫فیس فریق مقدمہ سے لی جائیگی‘‘۔ (‪)24‬‬
‫ابن قیم لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’یہاں گواہی کا معاملہ ماہرین فن سے تعلق رکھتا ہے‪ ،‬لہٰ ذا ہر شخص کیلئے گواہی دینا‬
‫ممکن نہیں۔ اس گواہی کو عورت کے پوشیدہ مقامات کی گواہی پر قیاس کیا جائیگا۔ جہاں صرف‬
‫ایک عورت کی گواہی کافی ہے۔ مذکورہ صورت میں بھی ایک مرد (ماہر فن) کی گواہی قابل قبول‬
‫ہے۔ صاحب محرر رقمطراز ہیں کہ مہلک زخم اور مویشیوں کی بیماری وغیرہ میں اگر صرف‬
‫حنبل سے بھی‬
‫ؒ‬ ‫ایک ہی طبیب یا بیطار وغیرہ مل سکتا ہو تو اس کی گواہی کافی ہے۔ امام احمد بن‬
‫یہی قول منقول ہے۔ (‪)25‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬درج باال سطور کی روشنی میں ضابطہ فوجداری میں ترمیم کی جانی چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :510‬کیمیکل ایگزامینر اور سیرالوجسٹ وغیرہ کی رپورٹ‬

‫کوئی دستاویز جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ یہ کسی سرکاری ممتحن کیمیائی یا اسسٹنٹ ممتحن‬
‫کیمیائی یا کسی سیرالوجسٹ‪ ،‬ماہر نشان انگشت یا ماہر آتشیں اسلحہ کی‪ ،‬کسی ایسے مادہ یا شے کے‬
‫متعلق رپورٹ ہے جو کسی کارروائی مقدمہ زیر مجموعہ ہذا کے دوران اس کے پاس باضابطہ طور‬
‫پر معائنہ‪ ،‬تجزیہ اور رپورٹ کیلئے بھیجی گئی تھی‪ ،‬کو مجموعہ ہذا کے تحت کی جانے والی‬
‫تحقیقات یا دیگر کارروائی میں اس کو بطور گواہ طلب کئے بغیر بطور شہادت استعمال کی جا‬
‫سکے گی‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ اگر عدالت انصاف کیلئے ضروری سمجھے‪ ،‬تو اس شخص کو جس نے وہ‬
‫رپورٹ تحریر کی ہو‪ ،‬طلب کرکے اس کا بیان لے سکتی ہے۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ اگر مقدمہ کی کارروائی کے دوران کسی ایسی شے کی‬
‫رپورٹ جو باقاعدہ معائنہ‪ ،‬تجزیہ اور رپورٹ کیلئے سرکاری کیمیکل ایگزامینر‪ ،‬سیرالوجسٹ‪ ،‬ماہر‬
‫نشان انگشت یا آتشیں اسلحہ کے ماہر کے پاس بھیجی گئی تھی تو یہ رپورٹ گواہ طلب کئے بغیر‬
‫بطور شہادت استعمال ہوگی اور عدالت اس ماہر کو طلب کرکے بیان بھی لے سکتی ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی نظام عدالت میں بھی ماہرین کے بیانات اور تجزیاتی رپورٹوں کے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫ذریعے جرم کی تفتیش اور انکشاف کے سلسلے میں مدد لی جا سکتی ہے۔ متین ہاشمی لکھتے ہیں‬
‫کہ قتل کے مقدمات میں ایسے قرینہ کو بھی غیر معمولی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ جس سے قاتل کی‬
‫نشاندہی ہوتی ہو اور اسے بھی شہادت صحیحہ کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ (‪)26‬‬
‫مجلہ احکام عدلیہ میں ہے کہ قرینہ اس نشان اور عالمت کو کہتے ہیں جو حد یقین تک‬
‫پہنچنے واال ہو‪ ،‬مثالً ایک شخص خون آلودہ چھری لئے کسی خالی مکان سے گھبرایا ہوا نکال ہے‪،‬‬
‫عین اسی وقت ایک مقتول شخص ذبح ہوا مال ہے تو شک کی گنجائش نہیں کہ قاتل وہی چھری واال‬
‫ہے۔ یہاں وہمی باتوں کی کچھ اہمیت نہیں کہ مذبوح شخص نے خودکشی کی ہو۔ (‪)27‬‬
‫متین ہاشمی لکھتے ہیں کہ اگر قرینہ قاطعہ کو اس دفعہ کی روشنی میں ناقابل انکار شہادت‬
‫اور ثبوت کی حیثیت حاصل ہے۔ جدید دو رمیں مقدمہ قتل یا دیگر مقدمات کی تفتیش کے سلسلے میں‬
‫جو جدید طریقے اور آالت استعمال ہوتے ہیں اور جن کا انکار مشکل ہوتا ہے‪ ،‬انہیں بھی قرینہ‬
‫قاطعہ کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ مثالً پوسٹ مارٹم رپورٹ وغیرہ۔ (‪ )28‬یا جس وقت قاتل قتل کر رہا‬
‫ت جرم کیلئے اس کو قبول کرنا چاہئے‪،‬‬ ‫تھا‪ ،‬کسی نے اس کی اسی حالت میں تصویر اتارلی ہو تو ثبو ِ‬
‫موید ہوں۔ نیز یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ آجکل فوٹو سازی کی‬ ‫بشرطیکہ دیگر ذرائع بھی اس کے ٔ‬
‫تکنیک میں جعلسازی بھی ہوتی ہے یا کسی کمرے میں ٹیپ ریکارڈ لگا ہوا تھا‪ ،‬عین اسی وقت قاتل‬
‫آیا‪ ،‬اس کے اور مقتول کے درمیان تلخ کالمی ہوئی‪ ،‬قاتل نے حملہ کیا‪ ،‬مقتول چیخا اور یہ سب‬
‫ریکارڈ ہوگیا۔ اب اگر ماہرین تصدیق کردیں کہ ریکارڈ شدہ آواز ملزم کی ہی آواز ہے۔ تو میرے‬
‫خیال میں ماہرین کی رائے کو بطور شہادت تسلیم کرلینا چاہئے۔ (‪)29‬‬
‫موثر ہو سکتا ہے‬
‫خون کا تجزیہ‪ :‬اسی طرح خون کا تجزیہ بھی قتل کے مقدمات میں بطور شہادت ٔ‬
‫مثالً‪:‬‬
‫الف) اگر قاتل و مقتول کے کپڑوں پر موجود خون مقتول کا ہو اور قاتل وہیں پکڑا جائے اور گواہ‬
‫بھی ہو تو خون قرینہ‪ ،‬قاطعہ بن جائیگا۔‬
‫آلہ قتل پر موجود خون کے تجزیے کے بعد ثابت ہو کہ وہ‬
‫اگر جائے واردات پر ملنے والے ٔ‬ ‫ب)‬
‫خون مقتول کا بھی ہے اور آلہ کا مالک موقعہ پر پکڑا جائے تو اس خون کو قرینہ قاطعہ کی حیثیت‬
‫حاصل ہو جائیگی اور آلہ قتل کے مالک کو مجرم قرار دیا جائے گا۔ بشرطیکہ دیگر امور اس میں‬
‫مزاحم نہ ہوں۔ (‪)30‬‬
‫آلہ جارحہ ملے اور اس پر لگے ہاتھ کے‬
‫آلہ قتل پر نشانات‪ :‬اسی طرح اگر مقتول کے قریب کوئی ٔ‬ ‫ٔ‬
‫نشانات کے بارے میں ماہرین پورے وثوق سے تصدیق کردیں کہ یہ ملزم کے ہاتھ کے نشانات سے‬
‫قرینہ قاطعہ بن جائینگے۔ نیز اگر مقتول کے قریب بال گرے ملیں اور ماہرین کی‬
‫ٔ‬ ‫ملتے ہیں تو یہ‬
‫رائے میں یہ ملزم ہی کے بال ہیں تو یہ بھی قرینہ قاطعہ بن جائیں گے۔ (‪)31‬‬
‫ضابطہ شہادت واضح‬
‫ٔ‬ ‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬درج باال سطور میں جو شقیں مذکور ہیں‪ ،‬ان سے ایک جامع‬
‫ہوتا ہے جو موجودہ ضابطہ فوجداری سے کہیں زیادہ واضح اور مفید ہے اور یہ شقیں اسالمی قانون‬
‫قانون شہادت کا حصہ بنایا جانا چاہئے تاکہ‬
‫ِ‬ ‫شہادت کے خالف بھی معلوم نہیں ہوتیں‪ ،‬لہٰ ذا انہیں بھی‬
‫ضابطہ فوجداری زیادہ جامع اور مفید بن سکے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :511‬سابقہ سزایابی یا بریت کیسے ثابت ہوگی‬
‫مجموعہ ہذا کے تحت کسی تحقیقات‪ ،‬سماعت یا دیگر کارروائی میں سابقہ سزایابی یا بریت کسی‬
‫ٔ‬
‫دیگر طریقہ کے عالوہ جو کسی قانون نافذ الوقت میں محکوم ہو‪ ،‬ثابت کی جائے گی‪:‬‬
‫کسی ایسے اقتباس سے جس کو کسی ایسے افسر نے اپنا قلمی تصدیق کیا ہو جس‬ ‫(‪a‬‬
‫کے پاس اس عدالت کے ریکارڈ کی تحویل ہو‪ ،‬جس میں ایسی سزا یابی یا بریت کی بابت نقل سزا یا‬
‫حکم موجود ہو۔‬
‫سزایابی کی صورت میں یا تو اس جیل کے مہتمم کا سرٹیفکیٹ جس میں ایسی سزا‬ ‫(‪b‬‬
‫یا اس کا کچھ حصہ گزارا گیا یا حکم سپرد داری پیش کرکے جس کے تحت سزا کاٹی گئی۔‬
‫ایسے ہر کیس میں بشمول شہادت بابت شناحت ملزم شخص اس شخص سے جسے سزایاب یا بری‬
‫کیا گیا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :512‬ملزم کی غیر حاضری میں قلم بندی شہادت‬

‫اگر یہ ثابت کردیا گیا ہو کہ کوئی ملزم شخص مفرور ہو گیا ہے اور یہ کہ اس کی‬ ‫(‪1‬‬
‫گرفتاری کا فوری امکان نہ ہے تو وہ عدالت جو ایسے شخص کی اس جرم کیلئے جس کی شکایت‬
‫کی گئی‪ ،‬سماعت کرنے کی اہل ہو یا اسے سماعت کیلئے عدالت سیشن یا ہائی کورٹ میں بھیج‬
‫سکتی ہو‪ ،‬مجاز ہوگی کہ اس کی غیر حاضری میں ان گواہان کا اظہار لے (اگر کوئی ہوں) جو‬
‫استغاثہ کی طرف سے پیش کئے گئے ہوں اور ان کا بیان قلمبند کرے۔ ایسا کوئی بیان‪ ،‬ایسے شخص‬
‫کی گرفتاری پر‪ ،‬اس جرم میں جس کا اس پر الزام ہے‪ ،‬کسی تحقیقات یا سماعت میں اس کے خالف‬
‫شہادت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اگر بیان دہندہ فوت ہو چکا ہو یا شہادت دینے کے قابل نہ رہا ہو یا‬
‫اس کی حاضری بالخاصی‪ ،‬تاخیر‪ ،‬خرچہ یا تکلیف کے حاصل نہ کی جا سکتی ہو تو حاالت مقدمہ‬
‫میں بالجواز ہوگی۔‬
‫قلم بندی شہادت جب ملزم عدم پتہ ہو‪ :‬اگر یہ ظاہر ہو کہ کوئی جرم قابل سزائے‬ ‫(‪2‬‬
‫موت یا عمر قید کسی عدم پتہ شخص یا اشخاص نے سرزد کیا ہے تو ہائی کورٹ مجاز ہوگی کہ‬
‫کوئی مجسٹریٹ درجہ اول تحقیقات کرے اور ایسے گواہان کا بیان لے جو جرم کے متعلق شہادے‬
‫دے سکتے ہوں۔ اس طور سے لیا گیا کوئی بیان کسی ایسے شخص کے خالف شہادت میں دیا جا‬
‫سکتا ہے جس پر بعد میں اس جرم کا الزام لگایا گیا ہو اگر بیان کنندہ فوت ہو چکا ہے یا شہادت دینے‬
‫کے قابل نہ رہا ہے یا پاکستان کی حدود سے باہر ہے۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر ایک میں مذکور ہے کہ مقدمہ کی کارروائی کے کسی مرحلہ پر‬
‫اگر ملزم مفرور ہو جائے اور فوری گرفتاری کا امکان نہ ہو تو اس کی غیر حاضری میں مدعی کی‬
‫طرف سے گواہوں کا بیان عدالت لے سکتی ہے اور ان بیانات کو بطور شہادت پیش کیا جا سکتا ہے۔‬
‫ملزم کی غیر حاضری میں شہادت لینا یا کارروائی جاری رکھنا قضا علی الغائب کے مسئلے سے‬
‫تعلق رکھتا ہے۔ اس بارے میں دفعہ نمبر ‪ 428‬کی ذیلی شق نمبر‪ 3‬کے تحت تفصیالً بحث گزر چکی‬
‫ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر‪ 2‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں‬
‫دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی ضرورت نہیں۔‬

‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس دفعہ کے بارے میننظریاتی کونسل کی یہ تجویز ہے‪:‬‬
‫’’اس دفعہ پر غور وخوض کے دوران اس کی ذیلی دفعہ (‪ )2‬پر کونسل کی سابقہ رائے کو‬
‫بھی مدنظر رکھا گیا‪ ،‬جو نویں رپورٹ کے صفحات ‪ 25‬تا ‪ 27‬پر موجود ہے جس میں قسامت کا‬
‫طریقہ اختیار کرنے کی سفارش کی گئی ہے جو ایسے حاالت کیلئے شرعی حکم ہے‪ ،‬غور وخوض‬
‫ق کار کا‬
‫کے بعد طے ہوا کہ قسامت کے بارے میں اختالف ہے اور موجودہ حاالت میں اس طری ِ‬
‫قابل عمل ہونا محل نظر ہے‪ ،‬عالوہ ازیں یہ تجویز یہاں بے محل ہے کیونکہ قسامت کا ضابطے کے‬
‫ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے‪ ،‬اس لئے ذیلی دفعہ (‪ )2‬کو ایسے ہی رہنے دیا جائے جو ضروری بھی ہے‬
‫کیونکہ اس کا تعلق گواہیانمحفوظ کرنے سے ہے‪ ،‬جب بھی ملزم پکڑا جائے گا یہ اس کے خالف‬
‫استعمال ہونگی۔ (‪)32‬‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس‬
‫میں ترمیم کی ضرورت نہیں۔‬

‫(باب نمبر ‪)42‬‬


‫احکام بابت مچلکہ و ضمانت نامہ‬

‫دفعہ نمبر ‪ :513‬مچلکہ کی بجائے زرنقد جمع کرانا‬

‫جب کسی شخص کو کوئی عدالت یا افسر مچلکہ یا افسر مچلکہ مع یا بالضامنان تحریر کرنے کا‬
‫حکم دے تو ایسی عدالت یا افسر مجاز ہوں گے‪ ،‬سوائے مچلکہ برائے نیک چلنی کے‪ ،‬کہ اس کو‬
‫اجازت دیں کہ وہ ایسا مچلکہ تحریر کرنے کی بجائے ایسی رقم یا ایسی رقم کے سرکاری‬
‫پرامیسری نوٹ جمع کرائیں جو کہ عدالت یا افسر مقرر کرے۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ کوئی عدالت یا افسر کسی شخص سے ضمانت کا مچلکہ‬
‫لکھوانے کے بجائے اسے پیسے جمع کرانے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں عدالت یا افسر مجاز کے صوابدیدی اختیار کا ذکر ہے اور کوئی بات‬
‫اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس میں ترمیم کی ضرورت نہیں۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :514‬مچلکہ کی ضبطی پر طریقہ کار‬

‫جب اس عدالت کی‪ ،‬جس نے مجموعہ ہذا کے تحت کوئی مچلکہ لیا ہو یا مجسٹریٹ‬ ‫(‪1‬‬
‫درجہ اول کی عدالت کی تسلی کے مطابق‬
‫یا جب مچلکہ کسی عدالت کے روبرو پیش ہونے کیلئے ہو تو ایسی عدالت کی تسلی کے مطابق یہ‬
‫ثابت ہو جائے‬
‫کہ ایسا مچلکہ ضبط ہو چکا ہے تو عدالت ایسے ثبوت کی وجوہات قلم بند کرے گی اور کسی شخص‬
‫کو جو اس مچلکہ کا پابند تھا‪ ،‬حکم دے سکتی ہے کہ اس کا تاوان ادا کرے یا وجہ بیان کرے کہ‬
‫اسے کیوں نہ ادا کیا جائے۔‬
‫اگر کافی وجوہ ظاہر نہ کی جائے اور تاوان ادا نہ کیا جائے تو عدالت ایسے شخص‬ ‫(‪2‬‬
‫کی ملکیتی جائیداد منقولہ یا اگر وہ فوت ہو چکا ہو تو اس کی ملکیت کی قرقی اور فروخت کا وارنٹ‬
‫جاری کرکے وصولی شروع کرنے کی مجاز ہوگی۔‬
‫ایسا وارنٹ اس عدالت کے اختیارات کی مقامی حدود کے اندر جس نے اسے جاری‬ ‫(‪3‬‬
‫کیا ہو‪ ،‬تعمیل کیا جا سکتا ہے اور جب اس پر وہ ]ضلع افسر ریونیو[ عبارت ظہری تحریر کردے‬
‫جس کے اختیارات کی مقامی حدود میں ایسی جائیداد پائی جائے تو ایسے شخص کی جائیداد منقولہ‬
‫جو ان حدود سے باہر ہو‪ ،‬کی قرقی اور فروخت کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔‬
‫اگر ایسا تاوان ادا نہ کیا جائے اور ایسی قرقی و فروخت سے وصول نہ ہو سکتا ہو‬ ‫(‪4‬‬
‫تو وہ شخص جو اس طور پر پابند ہو‪ ،‬اس عدالت کے حکم پر جس نے وارنٹ جاری کیا ہو‪ ،‬جیل‬
‫دیوانی میں ایسی مدت کیلئے جو چھ ماہ تک ہو سکتی ہے‪ ،‬قید کئے جانے کا مستوجب ہوگا۔‬
‫عدالت مجاز ہوگی کہ اپنی صوابدید پر متذکرہ تاوان کا کوئی حصہ معاف کردے اور‬ ‫(‪5‬‬
‫جزوی طو پر ادائیگی پر عملدرآمد کرائے۔‬
‫جب مچلکہ کا کوئی ضامن مچلکہ ضبط ہونے سے قبل فوت ہو جائے تو اس کی‬ ‫(‪6‬‬
‫جائیداد مچلکہ کی نسبت تمام ذمہ داریوں سے آزاد کردی جائے گی۔‬
‫جب کوئی شخص جس نے دفعہ ‪ 106‬یا دفعہ ‪ 118‬کے تحت ضمانت فراہم کی ہو‬ ‫(‪7‬‬
‫کسی ایسے جرم میں سزایاب کیا جائے جو اس کے مچلکہ یا ایسے مچلکہ کی جو اس کے مچلکہ‬
‫کی بجائے دفعہ ‪ B-514‬کے تحت مچلکہ کی شرائط کی خالف ورزی بنتا ہے تو اس کے ضامن یا‬
‫ضامنان کے خالف دفعہ ہذا کی کارروائیوں میں‪ ،‬اس عدالت کے فیصلہ کی مصدقہ نقل جس سے‬
‫اسے اس جرم میں سزا دی ہو‪ ،‬بطور شہادت کے استعمال کی جا سکتی ہے اور اگر ایسی مصدقہ‬
‫نقل استعمال کی جائے تو عدالت یہ تصور کرے گی کہ ایسا جرم سرزد کیا گیا سوائے اس کے کہ‬
‫برعکس ثابت کیا جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-514‬ضامن کے دیوالیہ ہونے یا فوت ہوجانے یا ضبطی مچلکہ کی صورت میں‬
‫ضابطہ‬

‫جب مجموعہ ہذا کے تحت کسی مچلکہ کا ضامن دیوالیہ ہو جائے یا فوت ہو جائے یا جب کوئی‬
‫مچلکہ دفعہ ‪ 514‬کے احکام کے تحت ضبط کیا گیا ہو تو وہ عدالت جس کے حکم کے تحت ایسا‬
‫مچلکہ لیا گیا تھا یا کوئی مجسٹریٹ درجہ اول اس شخص کو حکم دینے کا مجاز ہوگا جس سے ایسی‬
‫ضمانت طلب کی گئی تھی کہ وہ ابتدائی حکم کے مطابق نئی ضمانت دے اور اگر ایسی ضمانت نہ‬
‫دی جائے تو ایسی عدالت یا مجسٹریٹ اس طرح کارروائی کرنے کا مجاز ہوگا کہ گویا ایسے ابتدائی‬
‫حکم کی تعمیل میں کوتاہی کی گئی ہو۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :B-514‬نابالغ کی طرف سے مچلکہ داخل کرنے کا حکم‬

‫جب وہ شخص جس کو کوئی عدالت یا افسر مچلکہ تحریر کرنے کا حکم دے‪ ،‬کوئی نابالغ ہو‪ ،‬تو‬
‫ایسی عدالت یا افسر مجاز ہوں گے کہ اس کی بجائے ایسا مچلکہ جو ضامن یا ضامنان نے تحریر‬
‫کیا ہو‪ ،‬قبول کرلیں۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ان دفعات ‪ A-514 ،514‬اور ‪ B-514‬دفعات میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف‬
‫معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫]دفعہ نمبر ‪ :515‬دفعہ ‪ 514‬کے تحت اپیل اور نگرانی‬

‫کسی مجسٹریٹ دفعہ ‪ 514‬کے تحت وہ احکامات جو جاری کئے گئے ہوں وہ سیشن جج کیلئے قابل‬
‫اپیل ہوں گے اور اگر ایسے حکم کے خالف اپیل دائر نہ کی گئی ہو تو سیشن جج اس حکم کے‬
‫خالف نگرانی کا مجاز ہوگا۔[‬

‫دفعہ نمبر ‪ :516‬بعض مچلکوں (ضمانت ناموں) پر واجب رقم کی جبریہ وصولی کا حکم دینے کا‬
‫اختیار‬

‫ہائی کورٹ یا عدالت سیشن کسی مجسٹریٹ کو ہدایت کرنے کی مجاز ہوگی کہ ایسی ہائی کورٹ یا‬
‫سیشن کورٹ میں پیش ہونے و حاضری کے کسی مچلکہ (ضمانت نامہ) پر واجب رقم جبریہ وصول‬
‫کریں۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ان دفعات ‪ 515‬اور ‪ 516‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کیخالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫(باب نمبر ‪)43‬‬


‫مال کا تصرف‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-516‬بعض مقدمات میں سماعت ہونے کے دوران جائیداد کی تحویل اور تصفیہ‬
‫کیلئے حکم‬
‫جب کوئی جائیداد جس کی نسبت کسی جرم کا ارتکاب کیا جانا معلوم ہوتا ہو یا جو کسی جرم کے‬
‫ارتکاب میں استعمال ہونی معلوم ہوتی ہو‪ ،‬کسی تحقیقات یا سماعت کے دوران کسی عدالت فوجداری‬
‫کے سامنے پیش کی جائے تو عدالت مجاز ہوگی کہ تحقیقات یا سماعت کے ختم ہونے تک‪ ،‬ایسی‬
‫جائیداد کی مناسب تحویل کا ایسا حکم دے جو وہ مناسب سمجھے اور اگر جائیداد فوری یا قدرتی‬
‫طور پر گلنے سڑنے والی ہو تو ایسی شہادت قلم بند کرکے‪ ،‬جو وہ ضروری سمجھے‪ ،‬اسے‬
‫فروخت کرنے یا بصورت دیگر ٹھکانے لگانے کا حکم دے سکتی ہے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ اگر جائیداد بھک سے اڑنے واال مادہ ہو تو عدالت اس کو فروخت کرنے کا یا‬
‫کسی شخص کے حوالہ کرنے کا حکم نہ دے گی‪ ،‬سوائے سرکاری محکمہ یا دفتر کے جو اس سے‬
‫تعلق رکھتا ہو یا کسی بااختیار ڈیلر کو یا ایسے مادہ کے بااختیار ڈیلر کو‪:‬‬
‫]مزید شرط یہ ہے کہ اگر مال مذکور کوئی ایسی خطرناک دوا‪ ،‬نشہ دار شے یا نشہ آور شراب یا‬
‫کوئی بے ہوش کرنے واال مادہ ہو جو ایکٹ خطرناک ادویات ‪1930‬ء (‪ ،)II of 1930‬ایکٹ کسٹم‬
‫ہائے ‪1969‬ء (‪ ،)IV of 1969‬آرڈر امتناع منشیات (‪1979‬ء ‪ )P.O 3 of 1979‬یا کسی دیگر نافذ‬
‫الوقت قانون کے تحت قرق کی جائے یا حراست میں لی جائے تو عدالت مجاز ہے کہ درخواست‬
‫دیئے جانے پر یا اپنی تحریک سے اور اپنی نگرانی اور کنٹرول کے تحت محفوظ حراست کیلئے‬
‫اور اس کے روبرو یا کسی دیگر عدالت کے روبرو پیشی کیلئے اس مال کے اتنی تعداد میں نمونے‬
‫حاصل اور تیار کرے جو وہ مناسب خیال کرے اور اس بارے میں اپنے جاری کردہ سرٹیفکیٹ کے‬
‫تحت مال مذکور کے بقایا حصے کو تلف کرا دے‪:‬‬
‫یہ بھی شرط ہے کہ ویسے نمونے کسی حاکم یا عدالت کے روبرو ویسے جرم کی بابت کسی‬
‫انکوائری یا کارروائی میں مذکورہ کل مال متصور ہوں گے۔[‬

‫دفعہ نمبر ‪ :517‬ایسی جائیداد کے تصفیہ کرنے کا حکم جس کی نسبت جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو‬

‫جب کسی فوجداری عدالت میں کوئی تحقیقات یا سماعت ختم ہو جائے تو عدالت‬ ‫(‪1‬‬
‫مجاز ہوگی کہ ایسی جائیداد یا دستاویز کی بابت‪ ،‬جو اس کے روبرو پیش کی گئی ہو‪ ،‬یا اس کی‬
‫تحویل میں ہو یا جس کی نسبت کسی جرم کا ارتکاب ہونا پایا جائے یا جو کسی جرم کے ارتکاب‬
‫کیلئے استعمال کی گئی ہو‪ ،‬کے تصفیہ کا ایسا حکم‪ ،‬جیسا کہ وہ مناسب سمجھے‪ ،‬بصورت تلفی‪،‬‬
‫ضبطی یا سپردگی‪ ،‬ایسے شخص کو جو اس کے قبضہ کا دعویدار ہو‪ ،‬صادر کرے۔‬
‫جب کوئی ہائی کورٹ یا عدالت سیشن ایسا حکم صادر کرے اور اپنے افسران کے‬ ‫(‪2‬‬
‫ذریعہ جائیداد اس کے حقدار شخص کے حوالہ نہ کر سکے تو ایسی عدالت یہ ہدایت کرنے کی مجاز‬
‫ہوگی کہ ویسے حکم کی تعمیل بذریعہ ]ضلع افسر ریونیو[ کرائی جائے۔‬
‫جب کوئی حکم دفعہ ہذا کے تحت صادر کیا گیا ہو‪ ،‬تو ایسے حکم پر سوائے اس‬ ‫(‪3‬‬
‫صورت کے کہ جائیداد مویشیوں پر مشتمل ہو یا قدرتی طور پر گلنے سڑنے والی ہو اور سوائے‬
‫اس صورت کے جو ضمنی دفعہ (‪ )4‬میں درج ہے‪ ،‬ایک ماہ تک عمل نہ کیا جائے گا یا جب اپیل‬
‫رجوع کی گئی ہو تو جب تک ویسی اپیل کا فیصلہ نہ ہو جائے۔‬
‫دفعہ ہذا میں کسی امر سے یہ تصور نہ کیا جائے گا کہ ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت‬ ‫(‪4‬‬
‫کسی جائیداد کو اس شخص کے حوالہ کرنے میں مانع ہے جو اس کے قبضہ کے حق کا دعویدار‬
‫ہو‪ ،‬جب وہ عدالت کے حسب اطمینان مچلکہ مع ضامنان یا بال ضامنان کے اس اقرار کے ساتھ‬
‫تحریر کردے کہ اگر دفعہ ہذا کے تحت صادر کردہ حکم میں کوئی ترمیم ہوئی یا اپیل پر منسوخ‬
‫کردیاگیا تو وہ ایسی جائیداد عدالت کو واپس کردے گا۔‬
‫وضاحت‪ :‬دفعہ ہذا میں ’’جائیداد کی اصطالح میں اس جائیداد کی صورت میں‪ ،‬جس کی نسبت کوئی‬
‫جرم سرزد کیا جانا پایا جائے‪ ،‬شامل ہوگی۔ نہ صرف وہ جائیداد جو ابتدا ً کسی فریق کے قبضہ یا‬
‫اختیار میں رہی بلکہ وہ جائیداد بھی شامل ہے جس میں یہ اس کے عوض کوئی شے تبدیل کی گئی‬
‫ہو یا اس کا تبادلہ کیا گیا ہو اور ایسی تبدیلی یا تبادلہ میں کوئی ایسی شے جو حاصل کی گئی ہو‪،‬‬
‫چاہے فوری یا بصورت دیگر۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :518‬حکم ریفرنس کی شکل اختیار کر سکتا ہے‬

‫دفعہ ‪ 517‬کے تحت بجائے خود حکم صادر کرنے کے‪ ،‬عدالت یہ اختیار کرنے کی مجاز ہوگی کہ‬
‫جائیداد کسی ]مجسٹریٹ درجہ اول[ کو دے دی جائے جو ان صورتوں میں اس کی اس طرح تدبیر‬
‫کرے گا گویا کہ اس کو پولیس نے قبضہ میں لیا تھا اور مقبوضگی کی اسے اس طریقہ سے اطالع‬
‫دی گئی تھی جس کا ذکر اس کے بعد کیا گیا ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :519‬ملزم کے پاس پائی جانے والی رقم سے بے خطا خریدار کو ادائیگی‬

‫جب کسی شخص کو کسی ایسے جرم کی سزا دی جائے جس میں سرقہ یا سرقہ شدہ مال وصول‬
‫کرنا یا شامل ہونا بنتا ہو اور یہ ثابت کیا گیا ہو کہ کسی دیگر شخص نے اس سے مسروقہ مال‪ ،‬یہ نہ‬
‫جاتے ہوئے یا باور کرنے کی وجہ رکھتے ہوئے کہ وہ سرقہ شدہ ہے‪ ،‬خریدا ہو اور یہ کہ کوئی رقم‬
‫اس کی گرفتاری پر سزایاب ملزم کے قبضہ سے لی گئی تھی تو عدالت ایسے خریدار کی درخواست‬
‫پر اور مال مسروقہ کو اس شخص کے حوالہ کرنے پر‪ ،‬جو اس کے قبضہ کا حق دار تھا‪ ،‬یہ حکم‬
‫دینے کی مجاز ہوگی کہ اس رقم سے ایک رقم‪ ،‬جو اس قیمت سے زائد نہ ہو جو ایسے خریدار نے‬
‫ادا کی ہو‪ ،‬اسے دی جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :520‬دفعہ ‪ 518 ،517‬یا ‪ 519‬کے تحت حکم کا روکنا‬

‫کوئی عدالت اپیل‪ ،‬توثیق‪ ،‬ریفرنس یا نگرانی دفعہ ‪ ،517‬دفعہ ‪ 518‬یا دفعہ ‪ 519‬کے تحت کسی حکم‬
‫کو‪ ،‬جو اس کی ماتحت عدالت نے صادر کیا ہو‪ ،‬اول الذکر عدالت کی طرف سے اس پر غور ہونے‬
‫تک‪ ،‬روکنے کی ہدایت کر سکتی ہے اور مجاز ہوگی کہ ایسے حکم کی ترمیم‪ ،‬تبدیلی یا منسوخی‬
‫کرے اور مزید ایسا حکم دے جو انصاف پر مبنی ہو۔‬
‫تبصرہ‪ :‬درجِ باال دفعات ‪ 519 ،518 ،517 ،A-516‬اور ‪ 520‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے‬
‫خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ان پر تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :521‬توہین آمیز یا دیگر مواد کی تلفی‬


‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ ،292‬دفعہ ‪ ،293‬دفعہ ‪ 501‬یا دفعہ ‪ 502‬کے‬ ‫مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪1‬‬
‫تحت سزا یابی پر عدالت اس چیز کی تمام کاپیوں کی تلفی کا حکم دے سکتی ہے جن کی نسبت‬
‫سزایابی کی گئی‪ ،‬جو عدالت کی تحویل میں ہوں یا سزایاب ملزم کے قبضہ یا اختیار میں رہ گئی‬
‫ہوں۔‬
‫ت پاکستان کی دفعہ ‪ ،272‬دفعہ ‪ ،273‬دفعہ‬
‫عدالت اسی طریقہ سے مجموعہ تعزیرا ِ‬ ‫(‪2‬‬
‫‪ 274‬یا دفعہ ‪ 275‬کے تحت سزایابی کرتے ہوئے یہ حکم دے سکتی ہے کہ خوراک‪ ،‬مشروب‪ ،‬دوا‬
‫یا طبی مرکب جس کی نسبت جرم کا ارتکاب ہوا‪ ،‬تلف کئے جائیں۔‬

‫ت پاکستان کے تحت فحش لٹریچر یا تصاویر چھاپنا‬


‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ تعزیرا ِ‬
‫اور فروخت کرنا یا کسی کی حیثیت عرفی کے خالف مضمون چھاپنا یا کوئی مطبوعہ دستاویز جو‬
‫ایسے مضمون کی حامل ہو‪ ،‬اشیائے خوردنی میں مالوٹ کرنا‪ ،‬مضر صحت اشیاء بیچنا‪ ،‬دوائوں میں‬
‫مالوٹ کرنا اور پھر بیچنا یہ سب جرائم ہیں اور عدالت سزا کے طور پر ایسی خوراک‪ ،‬مشروب‪،‬‬
‫دوا یا طبی مرکب کو تلف کرنے کا حکم دینے کی مجاز ہے۔‬

‫اسالمی نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی تعلیمات میں انسان کو عزت ووقار عطا کیا گیا ہے اور افرا ِد معاشرہ کو‬
‫ایسی کسی بھی حرکت سے منع کردیا گیا ہے جو انسانی عظمت کے منافی ہو یا منفی جذبات کو‬
‫حفظان صحت کے اصولوں کے تحت زندگی گزارنا‬ ‫ِ‬ ‫ابھارے‪ ،‬اس کے ساتھ ساتھ ہر انسان کیلئے‬
‫بنیادی حق قرار دیا گیا ہے اور ہر ایسا فعل جرم قرار دیا گیا ہے جو کسی انسان کی صحت کیلئے‬
‫مضرت رسانی کا باعث بنے لیکن اس کے باوجود اگر کوئی ادارہ یا شخص کسی بھی انداز سے‬
‫درجِ باال اصولوں کی خالف ورزی کرتا ہے تو شریعت نے ایسے تمام مواد اور اشیاء کی تلفی کا‬
‫حکم دیا ہے۔ درجِ ذیل احادیث اس کا ثبوت ہیں‪:‬‬
‫رسول اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ شراب کے مٹکے اور شراب نوشی کے تمام ظروف توڑ‬ ‫٭‬
‫دیئے جائیں۔ (‪)33‬‬
‫حضور اکرم ﷺ نے مسجد ضرار کو منہدم کرا دیا۔ (‪)34‬‬ ‫٭‬
‫ایک دفعہ آپ ﷺ نے ما ِل غنیمت میں خیانت کرنے والے کا مال و متاع جلوا دیا۔ (‪)35‬‬ ‫٭‬
‫عمرو کو حکم دیا کہے وہ عصفر میں رنگے ہوئے اپنے کپڑے جال دیں۔‬ ‫ؓ‬ ‫حضور ﷺ نے عبدہللا بن‬
‫(‪ )36‬اسی طرح آپ ﷺ نے حرم مدینہ کی حدود میں شکار کھیلنے والے کا سازوسامان چھیننا مباح‬
‫قرار دیا ہے۔ (‪)37‬‬
‫آپ نے‬
‫عمر کو پتہ چال کہ ایک شخص شراب کی تجارت سے مالدار ہو گیا ہے تو ؓ‬ ‫حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫فرمایا کہ اس کی ہر چیز جس پر تمہیں قدرت ہو توڑ ڈالو‪ ،‬اس کے جانور ہانک الئو اور کوئی‬
‫شخص اس کی کوئی بھی چیز اپنے پاس نہ رکھے۔ (‪)38‬‬
‫علی نے اس مکان کو جلوا دیا تھا جہاں شراب فروخت‬
‫عمر اور حضرت ؓ‬
‫اسی طرح حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫ہوتی تھی۔ (‪)39‬‬
‫ؓ‬
‫فاروق اسے پہلے ہی شراب نوشی کی‬ ‫ایک ثقفی کے گھر شراب پکڑی گئی‪ ،‬حضرت عمر‬ ‫٭‬
‫آپ نے اس کا گھر جالنے کا حکم دیا۔ (‪)40‬‬
‫سزا دے چکے تھے‪ ،‬چنانچہ ؓ‬
‫عمر مالوٹ واال دودھ سزا کے طور پر زمین پر بہا دیا کرتے تھے۔ (‪)41‬‬
‫حضرت ؓ‬ ‫٭‬
‫کرام نے صرف اُمت میناختالف کے خطرے کی وجہ سے اس کے سوا قرآن کریم‬
‫ؓ‬ ‫صحابہ‬ ‫٭‬
‫کے بقیہ سارے نسخے جلوا دیئے تھے۔ (‪)42‬‬
‫ابن رشدؒ لکھتے ہیں محتسب کو یہ اختیار حاصل ہے کہ مسلمانوں کی منڈی میں مالوٹ والی‬ ‫٭‬
‫سامان تجارت جس کا اہل علم نے ذکر کیا ہے‪ ،‬ضائع کردے۔ (‪)43‬‬
‫ِ‬ ‫روٹی‪ ،‬دودھ‪ ،‬شہد اور دیگر‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ ہر وہ چیز یا دستاویز یا مقام جو مسلمانوں کیلئے مضر‬
‫ہو‪ ،‬اسے تلف کرنا ازروئے شرع الزمی ہے تاکہ معاشرہ افتراق و انتشار سے بچ سکے اور ہر‬
‫کسی کی عصمت وعزت محفوظ رہ سکے۔‬
‫سو آج کے دور میں جو کتب ورسائل چھپ چکے ہیں‪ ،‬ان کیلئے حکومتی سطح پر غیر‬
‫جانبدار علماء کرام اور ماہرین کا ایک بورڈ بنایا جائے جو اسالمی عقائد و تعلیمات کے خالف‬
‫عبارات کی حامل کتب‪ ،‬رسائل وغیرہ کی نشاندہی کرے اور اس میں حسب ضرورت ترمیم‪ ،‬پابندی‬
‫یا تلف کرنے کی سفارش کرے اور اس پر عملدرآمد کرکے لوگوں کو فتنہ وفساد اور گمراہ کن‬
‫خیاالت سے بچایا جائے۔ اس سلسلے میں بنیادی ضوابط وضع کرکے پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس‬
‫‪1960‬ء کو جامع بنایا جاسکتا ہے۔ (‪)44‬‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :522‬جائیداد غیر منقولہ کا قبضہ بحال کرنے کا اختیار‬

‫جب کبھی کوئی شخص دھوکا دہی یا جعل سازی یا ایسے جرم‪ ،‬جس میں جبر‬ ‫(‪1‬‬
‫مجرمانہ یا اظہار جبر یا تخویف مجرمانہ سے کام لیا گیا ہو اور عدالت پر یہ ظاہر ہو کہ ایسے جبر‬
‫جو مجرمانہ یا اظہار جبر یا تخویف مجرمانہ کے ذریعہ کسی شخص کو کسی جائیداد غیر منقولہ‬
‫سے بے دخل کیا گیا ہے تو عدالت‪ ،‬اگر مناسب خیال کرے تو ویسے شخص کو مجرم قرار دیتے‬
‫وقت یا سزایابی کے ایک ماہ کے اندر کسی وقت یہ حکم صادر کرے کہ اس شخص کو جو بے دخل‬
‫کیا گیا ہو‪ ،‬اس کا قبضہ دوبارہ دیا جائے‪ ،‬چاہے ایسی جائیداد سزایاب شخص کے قبضہ یا اختیار میں‬
‫ہو یا کسی دیگر شخص کے‪ ،‬جس کو یہ کسی زر بدل کے عوض منتقل کر دی گئی ہو یا بصورت‬
‫دیگر۔‬
‫کوئی ایسا حکم ایسی جائیداد میں یا متعلق کسی حق یا مفاد پر اثرانداز نہ ہوگا جو‬ ‫(‪2‬‬
‫کوئی شخص دیوانی مقدمہ میں ثابت کرنے کا اہل ہو۔‬
‫کوئی عدالت اپیل‪ ،‬توثیق‪ ،‬استصواب یا نگرانی دفعہ ہذا کے تحت حکم صادر کرنے‬ ‫(‪3‬‬
‫کی مجاز ہوگی۔‬
‫]دفعہ نمبر ‪ :A-522‬جائیداد منقولہ کا قبضہ بحال کرنے کا اختیار‬

‫ت مجرمانہ یا دغا یا جعلسازی کے‬‫جب کبھی جائیداد کے تصرف بے جا‪ ،‬خیان ِ‬ ‫(‪1‬‬
‫ذریعے کسی شخص کو جائیداد منقولہ سے بے دخل کردیا گیا یا اور طرح محروم کردیا گیا ہے تو‬
‫عدالت مجاز ہے کہ اگر مناسب سمجھے تو ایسے شخص کو سزا دیتے وقت یا اثبات جرم سے ایک‬
‫ماہ کے اندر کسی وقت جائیداد سے بے دخل شدہ یا محروم کردہ شخص کو جبکہ ایسی جائیداد کی‬
‫شناخت کی جا سکتی ہو اس کا پھر قبضہ دالنے کا حکم کرے خواہ ویسی جائیداد مجرم قرار یافتہ‬
‫شخص یا کسی ایسے دیگر شخص کے قبضہ یا اختیار میں ہو جس کو وہ کسی بدل کے عوض یا‬
‫اور طرح منتقل کی جا سکتی تھی۔‬
‫جب جائیداد محولہ ضمنی دفعہ (‪ )1‬شناخت نہ کی جا سکتی ہو یا ملزم نے اسے‬ ‫(‪2‬‬
‫ٹھکانے لگا دیا ہو تاکہ اس کی شناخت نہ کی جا سکے تو عدالت کو جائز ہے کہ اس شخص کو‬
‫جسے ویسی جائیداد سے بے دخل یا محروم کیا گیا ہو اتنا معاوضہ ادا کئے جانے کا حکم صادر‬
‫کرے جس کا تعین وہ حاالت مقدمہ کے مطابق کردے۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )1‬یا ضمنی دفعہ (‪ )2‬میں محولہ کوئی حکم کسی جائیداد منقولہ میں‬ ‫(‪3‬‬
‫کسی ایسے حق یا مفاد پر برا اثر نہیں ڈالے گا جو کوئی شخص کسی نالش دیوانی میں ثابت کر سکتا‬
‫ہو۔[‬

‫دفعہ نمبر ‪ :523‬دفعہ ‪ 51‬کے تحت یا مسروقہ مال کو قبضہ میں لینے پر پولیس کا طریقہ کار‬

‫جب کوئی پولیس افسر ایے کسی مال کو ضبط کرے جسے دفعہ ‪ 51‬کے تحت قبضہ‬ ‫(‪1‬‬
‫میں لیا گیا ہو یا جس کی نسبت یہ بیان یا شبہ کیا گیا ہو کہ وہ چوری کیا گیا ہے یا ایسے حاالت میں‬
‫پایا گیا ہے جس سے کسی جرم کے ارتکاب کا شبہ ہو تو وہ الزمی طور پر اس کی بابت فورا ً‬
‫مجسٹریٹ کو رپورٹ کرے گا‪ ،‬جو ویسے مال کے تصفیہ کی بابت‪ ،‬جیسا وہ مناسب سمجھے‪ ،‬یا‬
‫ویسے مال کو اس شخص کے حوالہ کرنے کی بابت جو اس کے قبضہ کا حق دار ہو یا اگر ویسا‬
‫شخص نہ مل سکے تو ویسے مال کی تحویل اور پیش کرنے کے متعلق‪ ،‬حکم صادر کرے گا۔‬
‫جب قبضہ میں لئے گئے مال کا مالک معلوم نہ ہو‪ :‬اگر ایسے شخص کا علم ہو تو‬ ‫(‪2‬‬
‫مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ مال کو اس کے حوالہ کرنے کی بابت‪ ،‬ان شرائط پر (اگر کچھ ہوں) تحویل‬
‫میں رکھے اور ایسی صورت میں اسے الزم ہو گا کہ بذریعہ اشتہار‪ ،‬جس میں ان اشیاء کی تصریح‬
‫کی گئی ہو‪ ،‬جس پر ویسا مال مشتمل ہے‪ ،‬اس شخص کو جو اس مال پر دعویدار ہو‪ ،‬ہدایت کرے کہ‬
‫دعوی ثابت کرے۔‬
‫ٰ‬ ‫وہ اشتہار کی تاریخ سے چھ ماہ کے اندر اس کے روبرو حاضر ہو اور اپنا‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعات ‪ A-522 ،522‬اور ‪ 523‬میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم‬
‫نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :524‬جب کوئی دعویدار چھ ماہ میں حاضر نہ ہو تو طریقہ کار‬

‫دعوی ثابت نہ کرے‪،‬‬


‫ٰ‬ ‫اگر کوئی شخص ایسی مدت کے اندر ایسے مال کی نسبت اپنا‬ ‫(‪1‬‬
‫اور اگر وہ شخص جس کے قبضہ میں ویسا مال پایا گیا تھا‪ ،‬یہ ثابت کرنے سے قاصر رہے کہ اس‬
‫نے اسے قانونی طور پر حاصل کیا تھا تو ویسا مال صوبائی حکومت کے اختیار میں ہوگا اور بحکم‬
‫] مجسٹریٹ درجہ اول[ جسے اس بارے میں صوبائی حکومت نے اختیار دیئے ہوں فروخت کر‬
‫سکتا ہے۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت صادر کردہ حکم کے خالف اس عدالت میں اپیل رجوع کی جا‬ ‫(‪2‬‬
‫سکے گی جس میں ویسی عدالت کو احکام سزا کے خالف اپیلیں دائر کی جاتی ہوں۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ جب کوئی پولیس افسر کسی مال کو قبضہ میں کرے‪ ،‬وہ مال‬
‫چوری کا ہو یا اس پر کسی جرم کے ارتکاب کا شبہ ہو‪ ،‬تو وہ مجسٹریٹ کو اطالع دے گا اور‬
‫مجسٹریٹ بذریعہ اشتہار اعالن کرے کہ جس کا مال ہے وہ چھ ماہ کے اندر آکر ثابت کرے‪ ،‬اگر‬
‫کوئی شخص چھ ماہ تک نہ آئے تو حکومت اسے فروخت کر سکتی ہے۔‬
‫جرجانی‬
‫ؒ‬ ‫اسالمی نکتہ نگاہ‪ :‬جس شخص کا مال ضبط کیا گیا ہے اسے حاصل کرنا اس کا حق ہے۔‬
‫رازی کہتے ہیں‬
‫ؒ‬ ‫کہتے ہیں کہ لغوی طور پر حق ایسی ثابت شدہ چیز ہے جس کا انکار ممکن نہ ہو۔‬
‫کہ حق سے مراد ہے‪:‬‬
‫الثابت للذی ال یسوغ االنکار یقال حق االمر اذا ثبت ووجب (‪)45‬‬
‫’’ایسا ثابت شدہ معاملہ‪ ،‬جس کا انکار ممکن نہ ہو کہا جاتا ہے‪ :‬حق االمر۔ جب معاملہ ثابت‬
‫اور واجب ہوجائے‘‘۔‬
‫کوئی حق جب ثابت ہو جائے تو وہ ہمیشہ باقی رہتا ہے‪ ،‬وقت کے گزرنے کا اس پر کوئی‬
‫اثر نہیں ہوتا۔ اسالم کے نظریہ جزا وسزا سے واضح ہوتا ہے کہ جس نے دُنیا میں دوسرے کا حق‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ادا نہ کیا تو قیامت کے دن ادا کرنا پڑے گا۔ ارشاد باری‬
‫فَ َمن یَ ْع َم ْل ِمثْقَا َل ذَ َّرۃٍ َخی ًْرا یَ َرہُ ‪َ O‬و َمن یَ ْع َم ْل ِمثْقَا َل ذَ َّرۃٍ ش اَرا یَ َرہُ (‪)46‬‬
‫’’بس جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر بُرائی کی وہ‬
‫بھی اسے دیکھ لے گا‘‘۔‬
‫بُرائی میں دوسرے کا حق چھیننا اور دبانا بھی ہے جس کا حساب قیامت میں ہوگا۔ دوسری جگہ‬
‫ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ار ‪ُ O‬م ْھ ِطعِینَ‬
‫ص ُ‬‫َص فِی ِہ االَٔ ْب َ‬ ‫ع َّما یَ ْع َم ُل َّ‬
‫الظا ِل ُمونَ إِنَّ َما ی َُؤ ِ ِّخ ُر ُھ ْم ِلیَ ْو ٍم ت َ ْشخ ُ‬ ‫ّللاَ غَافِالً َ‬ ‫َوالَ تَحْ َ‬
‫سبَ َّن ِّ‬
‫ُم ْقنِ ِعی ُرء ُو ِس ِھ ْم (‪)47‬‬
‫’’(اے مومنو!) یہ نہ خیال کرنا کہ ظالم جو عمل کر رہے ہیں ہللا تعالی ان سے بے خبر ہے‬
‫وہ انہیں اس دن تک مہلت دے رہا ہے جس دن ان کی آنکھیں دہشت کے سبب کھلی رہ جائینگی‘‘۔‬
‫نیز ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫علَی َّ‬
‫الظا ِل ِمینَ (‪)48‬‬ ‫أَالَ لَ ْعنَ ُۃ ِّ‬
‫ّللاِ َ‬
‫’’خبردار! ظالموں پر ہللا کی لعنت ہے‘‘۔‬
‫عسقالنی لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫اس آیت مبارکہ کے تحت ابن حجر‬
‫ظلَ َم یَ ْ‬
‫ظ ِل ُم سے مراد کسی کا حق زیادتی سے لینا ہے اور ظلم کا معنی ہے کسی شے کو‬ ‫’’ َ‬
‫غلط جگہ پر رکھنا اور دوسرے کا حق ناحق طور پر لینا‘‘۔ (‪)49‬‬
‫قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ حقوق ہمیشہ قائم اور‬
‫فرمان نبوی ﷺ ہے‪:‬‬
‫ِ‬ ‫باقی رہتے ہیں اور قیامت کے دن حقوق کا حساب ہوگا۔‬
‫لتودن الحقوق الی اھلھا یوم القیامۃ حتی یقاد لشاۃ الجلحا من الشاۃ القرنآء (‪)50‬‬
‫’’تم لوگوں سے روز قیامت حقدار لوگوں کے حقوق کا بدلہ لیا جائیگا‪ ،‬حتی کہ سینگوں والی‬
‫بکری بغیر سینگوں والی بکری سے بدلہ لے گی‘‘۔‬
‫ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ ‪:‬‬
‫’’جب مسلمان دوزخ سے نجات پالیں گے تو انہیں جنت اور دوزخ کے درمیان پل پر روک‬
‫دیا جائے گا‪ ،‬پھر وہ ایک دوسرے سے ان ظلموں کا بدلہ لیں گے جو انہوں نے ایک دوسرے پر دُنیا‬
‫میں کئے تھے‪ ،‬حتی کہ وہ صاف ہو جائیں گے اور انہیں پھر جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے‬
‫گی‘‘۔ (‪)51‬‬
‫نبی اکرم ﷺ ایک دوسرے کی زمین دبانے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں‪:‬‬
‫من ظلم من االرض شیئا طوقہ من سبع ارضین (‪)52‬‬
‫’’جس نے زمین کے بارے میں کسی پر ظلم کیا تو اس کی گردن میں ساتوں زمینوں کا‬
‫طوق ڈاال جائیگا‘‘۔‬
‫حضور اکرم ﷺ کا ایک اور ارشاد گرامی ہے‪:‬‬
‫’’جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہو‪ ،‬اس کی عزت یا کسی اور شے کے ساتھ تو اسے‬
‫چاہئے کہ وہ اس بھائی سے آج ہی معافی مانگ لے‪ ،‬اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جب نہ دینار ہوگا‬
‫نہ درہم اور اس کے پاس جو حسنات ہونگی‪ ،‬وہ اس کے ظلم کے بدلے میں لے لی جائینگی اگر‬
‫نیکیاں نہ ہونگی تو مظلوم کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے‘‘۔ (‪)53‬‬
‫درج باال آیات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شریعت اسالمیہ میں حقوق کا تصور دائمی‬
‫اور مستقل ہے‪ ،‬وقت گزرنے سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا‪ ،‬اس لئے جب تک حق زندہ ہے داد‬
‫دعوی کی سماعت سے اعراض کرنا جائز نہیں‬
‫ٰ‬ ‫رسی ہونی چاہئے اور کسی بھی عدالت کو اس کے‬
‫ہے۔ لہٰ ذا یہ دفعہ اسالمی تعلیمات سے متصادم ہے۔‬
‫دعوی‬
‫ٰ‬ ‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬یہ دفعہ اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس میں سماعت‬
‫برائے استقرار حق کی مدت چھ ماہ مقرر کی گئی ہے جبکہ اسالمی تعلیمات میں حصول حق کیلئے‬
‫کوئی مدت کا تعین نہیں ہے‪ ،‬حقوق ہمیشہ زندہ رہتے ہیں‪ ،‬لہٰ ذا اس دفعہ کو حذف کردینا چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :525‬تلف ہونے والے مال کی فروخت کا اختیار‬


‫اگر ایسے مال کے قبضہ کا حق دار نامعلوم ہو یا غیر حاضر ہو اور مال جلدی اور قدرتی طور پر‬
‫گلنے سڑنے واال ہو یا اگر وہ مجسٹریٹ جس کے پاس اس کو قبضہ میں لئے جانے کی رپورٹ کی‬
‫گئی ہو‪ ،‬کی رائے ہو کہ اس کی فروخت مالک کے مفاد میں ہوگی یا ایسے مال کی قیمت دس روپے‬
‫سے کم ہے تو مجسٹریٹ کسی بھی وقت اسے فروخت کرنے کا حکم دے سکتا ہے اور ایسی‬
‫فروخت سے نقد حاصل ہونے والی رقم پر‪ ،‬جہاں تک ممکن ہو‪ ،‬دفعات ‪ 523‬اور ‪ 524‬کے احکام کا‬
‫اطالق ہوگا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫(باب نمبر ‪)44‬‬


‫مقدمات فوجداری کا انتقال‬

‫دفعہ نمبر ‪ :526‬ہائی کورٹ مقدمہ منتقل کر سکتی ہے یا خود اس کی سماعت کر سکتی ہے‬

‫جب کبھی ہائی کورٹ پر یہ ظاہر کرایا جائے‪:‬‬ ‫(‪1‬‬


‫کہ اس کی کسی ماتحت فوجداری عدالت میں موزوں اور غیر‬ ‫(‪a‬‬
‫جانبدار تحقیقات یا سماعت نہیں ہو سکتی۔‬
‫کہ کوئی غیر معمولی وقت کا امر متعلقہ قانون پیدا ہونے کا امکان‬ ‫(‪b‬‬
‫ہے‪ ،‬یا‬
‫کہ اس جگہ کا معائنہ‪ ،‬جس میں یا جس کے قریب کسی جرم کا‬ ‫(‪c‬‬
‫ارتکاب ہوا‪ ،‬اس کی بابت تسلی بخش تحقیقات یا سماعت کیلئے درکار ہوگا‪ ،‬یا‬
‫کہ دفعہ ہذا کے تحت کوئی حکم فریقین یا گواہوں کی عمومی‬ ‫(‪d‬‬
‫سہولت کا باعث ہوگا یا‬
‫کہ ایسا حکم انصاف کے تقاضوں کیلئے ضروری ہے یا مجموعہ‬ ‫(‪e‬‬
‫ہذا کے کسی احکام کا تقاضا ہے‪ ،‬وہ حکم کر سکتی ہے‪:‬‬
‫(‪ I‬کہ کسی جرم کی تحقیقات یا سماعت کوئی ایسی عدالت‬
‫کرے جس کو دفعات ‪ 177‬تا ‪( 184‬دونوں شامل) اختیارات نہ دیئے گئے ہوں لیکن دیگر طور پر‬
‫ایسے جرم کی تحقیقات اور سماعت کرنے کی اہل ہو۔‬
‫(‪ II‬کہ کوئی خاص مقدمہ یا اپیل یا مقدمات یا اپیلوں کی خاص‬
‫قسم اس کے اختیار کے ماتحت‪ ،‬کسی فوجداری عدالت سے کسی دیگر ایسی عدالت فوجداری کو‬
‫اعلی اختیارات کی ہو‪ ،‬منتقل کئے جائیں۔‬
‫ٰ‬ ‫برابر یا‬
‫(‪ III‬کہ کوئی خاص مقدمہ یا اپیل اس کے پاس منتقل اور سماعت‬
‫کی جائے۔‬
‫(‪ IV‬کہ کوئی ملزم شخص اس کے روبرو یا کسی عدالت سیشن‬
‫میں سماعت کیلئے بھیجا جائے۔‬
‫جب ہائی کورٹ کسی عدالت سے کوئی مقدمہ سماعت کیلئے اپنے پاس منگا لے تو‬ ‫(‪2‬‬
‫وہ ایسی سماعت کیلئے وہی طریقہ کار زیر کار الئے گی جو وہ عدالت زیر کار التی اگر مقدمہ اس‬
‫طور پر نہ منگا لیا جاتا۔‬
‫ہائی کورٹ یا تو عدالت زیریں کی رپورٹ پر یا کسی واسطہ دار فریق کی‬ ‫(‪3‬‬
‫درخواست پر یا ازخود پیش قدمی کر سکتی ہے۔‬
‫ہر درخواست جو دفعہ ہذا سے تفویض شدہ اختیار کو زیر کار النے کیلئے بذریعہ‬ ‫(‪4‬‬
‫تحریک دی جائے گی جو سوائے اس کے کہ جب درخواست گزار ایڈووکیٹ جنرل ہو‪ ،‬اس کی حلفی‬
‫بیان یا اقرار صالح سے تائید کی جائے گی۔‬
‫جب کوئی ملزم شخص دفعہ ہذا کے تحت درخواست دے تو ہائی کورٹ اسے یہ‬ ‫(‪5‬‬
‫ہدایت کرنے کی مجاز ہوگی کہ وہ ایک مچلکہ مع یا بالضامنان اس شرط کا داخل کرے کہ اگر اسے‬
‫حکم دیا جائے‪ ،‬وہ ایسی رقم ادا کرے گا جو کہ ہائی کورٹ زیر دفعہ ہذا معاوضہ کے طور پر اس‬
‫شخص کو عطا کرے جو درخواست کی مخالت کر رہا ہو۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت سرکاری وکیل کو نوٹس‪ :‬ہر ملزم شخص جو ایسی درخواست دے‬ ‫(‪6‬‬
‫رہا ہو‪ ،‬سرکاری وکیل کو درخواست کے متعلق‪ ،‬مع ان موجبات کے جن پر یہ دی گئی‪ ،‬تحریری‬
‫نوٹس دے گا اور درخواست کے استحقاق کے متعلق اس وقت تک کوئی حکم نہ دیا جائے گا جب‬
‫تک کہ ایسے نوٹس دینے اور درخواست کی سماعت کے درمیان کم از کم ‪ 24‬گھنٹے نہ گزر گئے‬
‫ہوں۔‬
‫(‪ A-6‬جب دفعہ ہذا سے تفویض شدہ اختیار کو زیر کار النے کی درخواست خارج کردی‬
‫جائے گی‪ ،‬ہائی کورٹ‪ ،‬اگر اس کی رائے ہو کہ درخواست فضول اور ایذا رساں تھی‪ ،‬درخواست‬
‫گزار کو حکم دے سکتی ہے کہ معاوضہ کے طور پر کسی شخص کو‪ ،‬جس نے درخواست کی‬
‫مخالفت کی‪ ،‬ایسی رقم جو پانچ صد روپے سے زائد نہ ہو‪ ،‬جو وہ حاالت مقدمہ میں مناسب سمجھے‪،‬‬
‫ادا کرے۔‬
‫دفعہ ہذا میں کوئی امر دفعہ ‪ 197‬کے تحت صادر کردہ کسی حکم پر اثر انداز‬ ‫(‪7‬‬
‫متصور نہ ہوگا۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت درخواست پر التواء‪ :‬باب ‪ 8‬کے تحت کسی تحقیقات میں یا کسی‬ ‫(‪8‬‬
‫سماعت میں یہ امر کہ کوئی فریق عدالت کو کسی مرحلہ پر مطلع کرے کہ وہ دفعہ ہذا کے تحت‬
‫درخواست دینا چاہتا ہے‪ ،‬عدالت کو مقدمہ کے ملتوی کرنے کیلئے تقاضا نہیں کر سکتا لیکن عدالت‬
‫اپنا آخری فیصلہ یا حکم اس وقت تک نہیں سنائے گی جب تک کہ ہائی کورٹ سے اس درخواست کا‬
‫آخری فیصلہ نہ ہو جائے اور اگر ہائی کورٹ درخواست منظور کرلے‪ ،‬تو وہ کارروائیاں جو عدالت‬
‫نے اطالع ملنے کے بعد کی تھیں‪ ،‬ملزم کی مرضی کے مطابق‪ ،‬ازسر نو کی جائیں گی۔‬
‫اگر‪ ،‬قبل اس کے کہ کسی اپیل کو سماعت کیلئے منظور کرنے کی بحث (اگر کوئی‬ ‫(‪9‬‬
‫ہو) شروع کی جائے یا کسی سماعت کیلئے منظور شدہ اپیل کی صورت میں‪ ،‬قبل اس کے کہ بحث‬
‫برائے درخواست گزار شروع ہوں‪ ،‬کوئی واسطہ دار فریق عدالت کو مطلع کرے کہ وہ دفعہ ہذا کے‬
‫تحت درخواست گزارنا چاہتا ہے تو عدالت‪ ،‬ایسے فریق کے ایک مچلکہ بالضامنان ایسی رقم کا جو‬
‫پانچ صد روپے سے زائد نہ ہو‪ ،‬تحریر کرنے پر‪ ،‬اگر ایسا حکم دیا جائے‪ ،‬کہ وہ ایسی درخواست‬
‫ایسی مناسب مدت کے اندر‪ ،‬جو عدالت مقرر کرے گی‪ ،‬دائر کرے گا‪ ،‬اپیل کو ایسی مدت کیلئے‬
‫ملتوی کردے گی جو درخواست گزارنے کیلئے اور اس پر حکم حاصل کرنے کیلئے کافی وقت‬
‫فراہم کرے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-526‬حذف ہوئی۔‬


‫دفعہ نمبر ‪ :527‬صوبائی حکومت کا مقدمات اور اپیل منتقل کرنے کا اختیار‬

‫صوبائی حکومت مجاز ہے کہ سرکاری جریدے میں اشتہار کے ذریعہ کسی خاص‬ ‫(‪1‬‬
‫مقدمہ یا اپیل کو ایک ہائی کورٹ سے کسی دیگر ہائی کورٹ کو یا ایک ہائی کورٹ کے ماتحت‬
‫اعلی تر اختیارات کی فوجداری عدالت میں جو‬
‫ٰ‬ ‫کسی فوجداری عدالت سے کسی دیگر برابر کی یا‬
‫دیگر ہائی کورٹ کے ماتحت ہو‪ ،‬منتقل کرنے کی ہدایت کرے جب بھی وہ یہ سمجھے کہ ایسی‬
‫منتقلی انصاف کے تقاضوں کو بہتر کرے گی یا فریقین یا گواہان کی عمومی سہولت کا موجب ہوگی‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ کوئی مقدمہ یا اپیل کسی ہائی کورٹ کو یا کسی دیگر صوبہ میں دیگر عدالت‬
‫کو‪ ،‬اس صوبہ کی صوبائی حکومت کی رضامندی کے بغیر‪ ،‬منتقل نہیں کی جائے گی۔‬
‫وہ عدالت جس میں ایسا مقدمہ یا اپیل منتقل کی جائے‪ ،‬اس کو اس طرح سے نمٹائے‬ ‫(‪2‬‬
‫گی گویا وہ ایسی عدالت میں ابتدائی طو رپر دائر یا پیش کی گئی۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں بیان کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کسی مقدمہ یا اپیل کو ایک ہائی کورٹ‬
‫سے دوسری ہائی کورٹ یا ایک فوجداری عدالت سے دوسری فوجداری عدالت میں منتقل کرنے کی‬
‫مجاز ہے۔‬
‫جبکہ عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کے بعد یہ اختیار صوبائی حکومت کا نہیں رہا بلکہ‬
‫عظمی کا چیف جسٹس اور بین الصوبائی‬
‫ٰ‬ ‫یہ عدلیہ کے سربراہ کا حق ہے۔ صوبائی حدود میں عدالت‬
‫حدود میں عدالت عالیہ کا سربراہ مقدمات یا اپیلوں کو ایک عدالت سے دوسری عدالت اور ایک‬
‫صوبہ سے دوسرے صوبہ میں منتقل کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬کونسل کی رائے ہے کہ انصاف کے حصول کیلئے صرف‬
‫عدالتوں سے ہی رجوع کیا جانا چاہئے‪ ،‬لہٰ ذا کونسل سفارش کرتی ہے کہ اس دفعہ کے تحت مقدمات‬
‫و اپیلوں کی منتقلی کے اختیارات ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو دیئے جائیں۔ (‪)54‬‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں ’’صوبائی حکومت‘‘ کے بجائے ’’سربرا ِہ عدلیہ‘‘ درج کیا جانا‬
‫چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :528‬سیشن جج اسسٹنٹ سیشن جج سے مقدمات واپس لینے کا مجاز ہے‬

‫کوئی سیشن جج مجاز ہے کہ کوئی مقدمہ واپس لے لے یا کوئی مقدمہ واپس منگا‬ ‫(‪1‬‬
‫لے جو اس نے اپنے ماتحت کسی اسسٹنٹ سیشن جج کے سپرد کیا ہو۔‬
‫ایڈیشنل سیشن جج کے پاس مقدمہ کی سماعت یا اپیل کی سماعت شروع ہونے سے‬ ‫(‪A-1‬‬
‫قبل‪ ،‬کوئی سیشن جج مجاز ہوگا کہ کسی مقدمہ یا اپیل کو واپس منگا لے جو اس نے کسی ایڈیشنل‬
‫سیشن جج کے سپرد کیا ہو۔‬
‫جب کوئی سیشن جج ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت کوئی مقدمہ واپس لے لے یا واپس‬ ‫(‪B-1‬‬
‫منگا لے یا دفعہ (‪ )A-1‬کے تحت کوئی مقدمہ یا اپیل واپس لے لے یا واپس منگا لے‪ ،‬تو وہ یا تو‬
‫مقدمہ اپنی عدالت میں سماعت کرے گا یا اپیل خود سنے گا یا مجموعہ ہذا کے احکام کے مطابق‬
‫کسی دیگر عدالت کو کارروائی کرنے کیلئے یا سننے کیلئے‪ ،‬جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬سپرد کرے گا۔‬
‫کوئی سیشن جج مجاز ہے کہ کوئی ایسا مقدمہ جو اس نے کسی ایسے مجسٹریٹ‬ ‫(‪C-1‬‬
‫کے سپرد کیا ہو جو اس کا ماتحت ہو‪ ،‬واپس لے لے یا واپس منگا لے اور اس کو کسی ایسے دیگر‬
‫مجسٹریٹ کے سپرد کردے جو اس کی مکمل تحقیقات کرنے یا سماعت کرنے کا اہل ہو۔‬
‫وضاحت‪ :‬منسوخ ہوئی۔‬
‫حذف ہوئیں۔‬ ‫(‪2-3‬‬
‫کوئی مجسٹریٹ مجاز ہوگا کہ کوئی مقدمہ جو اس نے دفعہ ‪ 192‬ضمنی دفعہ (‪)2‬‬ ‫(‪4‬‬
‫کے تحت کسی دیگر مجسٹریٹ کے سپرد کیا ہو‪ ،‬واپس منگا لے اور ایسے مقدمہ کی خود تحقیقات یا‬
‫سماعت کرے۔‬
‫کوئی مجسٹریٹ جو پچھلی ضمنی دفعہ کے تحت حکم صادر کرے‪ ،‬وہ ایسے حکم‬ ‫(‪5‬‬
‫کرنے کی وجوہات تحریر کرے گا۔‬
‫حذف ہوئی۔‬ ‫(‪6‬‬
‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس پر تبصرہ‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪] :A-528‬حذف شدہ بذریعہ آرڈیننس ‪ XXXVII‬بابت ‪2001‬ء‪ ،‬مورخہ ‪[ 2001- 8-13‬‬

‫(باب نمبر ‪)A-44‬‬


‫سپلیمنٹری احکام دربارہ یورپین اور پاکستانی رعایا و برطانیہ ودیگران‬

‫دفعات منسوخ ہوگئیں ‪1949‬ء‬

‫(باب نمبر ‪)45‬‬


‫کارروائی خالف ضابطہ‬

‫دفعہ نمبر ‪ :529‬بے قاعدگیاں جو کارروائیاں کالعدم نہیں کرتیں‬

‫اگر کوئی مجسٹریٹ جس کو قانونا ً مندرجہ ذیل میں سے کوئی امر کرنے کا اختیار‬ ‫(‪1‬‬
‫نہ دیا گیا ہو‪ ،‬یعنی‪:‬‬
‫دفعہ ‪ 98‬کے تحت وارنٹ تالشی جاری کرنا۔‬ ‫(‪a‬‬
‫دفعہ ‪ 155‬کے تحت پولیس کو کسی جرم کی تفتیش کیلئے حکم دینا۔‬ ‫(‪b‬‬
‫دفعہ ‪ 176‬کے تحت تحقیقات مرگ ناگہانی کرنا۔‬ ‫(‪c‬‬
‫دفعہ ‪ 186‬کے تحت اپنی مقامی حدود کے اندر کسی ایسے شخص‬ ‫(‪d‬‬
‫کی گرفتاری کا حکم جاری کرنا جس نے ایسی حدود کے باہر جرم کا ارتکاب کیا ہو۔‬
‫دفعہ ‪ 190‬کی ضمنی دفعہ (‪ )1‬شق (‪ )a‬یا شق (‪ )b‬کے تحت کسی‬ ‫(‪e‬‬
‫جرم میں دست اندازی کرنا۔‬
‫دفعہ ‪ 192‬کے تحت کسی مقدمہ کو منتقل کرنا۔‬ ‫(‪f‬‬
‫دفعہ ‪ 337‬یا ‪ 338‬کے تحت وعدہ معافی دینا۔‬ ‫(‪g‬‬
‫دفعہ ‪ 524‬یا دفعہ ‪ 525‬کے تحت جائیداد فروخت کرنا یا‬ ‫(‪h‬‬
‫کسی مقدمہ کو واپس لینا اور دفعہ ‪ 528‬کے تحت خود سماعت کرنا۔‬ ‫(‪i‬‬
‫غلطی سے‪ ،‬نیک نیتی سے ایسا امر سرانجام دے تو اس کی کارروائیاں محض اس بناء کالعدم نہ کر‬
‫دی جائیں گی کہ اسے اس کا اختیار نہ دیا گیا تھا۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں ضابطہ فوجداری کی چند دفعات کے بارے میں وضاحت ہے کہ اگر‬
‫مجسٹریٹ کو ان دفعات کے مطابق کوئی کام کرنے کا اختیار نہ دیا گیا ہو اور وہ غلطی سے مگر‬
‫نیک نیتی سے ایسا کام سرانجام دے تو اس کی کارروائیاں کالعدم نہ ہونگی۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی نظام عدالت میں ایسا نہیں ہے کہ کسی قاضی کو اپنے اختیارات سے‬
‫اسالمی ٔ‬
‫تجاوز کرنے پر قانونی تحفظ دیا جائے۔ حضور اکرم ﷺ جب کسی کو قاضی بناتے تو قضاۃ کو یہ‬
‫بات اچھی طرح سمجھا دی جاتی تھی کہ دی ہوئی ہدایتوں کے خالف وہ جو کام کریں گے‪ ،‬وہ کالعدم‬
‫سمجھا جائے گا۔ (‪ )55‬جیسا کہ درجِ ذیل احادیث مبارکہ سے ظاہر ہے۔‬
‫من عمل عمال لیس علیہ امرنا فھورد (‪)56‬‬
‫’’جس نے ایسا کام کیا‪ ،‬جس کے بارے میں ہمارا کوئی حکم نہیں تو وہ مردود ہے‘‘۔‬
‫من استعملناہ علی عمل فلیات بقلیلہ وکثیرہ فما اوتی منہ اخذ وما نھی عنہ انتھی (‪)57‬‬
‫’’جسے ہم کسی چیز پر عامل بنائیں تو اسے چاہئے کہ وہ تھوڑی یا زیادہ چیز لے آئے‪ ،‬پھر‬
‫اسے جو دیا جائے وہ لے لے اور جس سے منع کیا جائے‪ ،‬اس سے رک جائے‘‘۔‬
‫ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جس امر کا اختیار قاضی کو نہ ہو‪ ،‬وہ اسے سرانجام‬
‫نہیں دے سکتا نہ ہی اس عمل سے نیت کا کوئی تعلق ہے۔ لہٰ ذا ایسے تمام افعال کالعدم تصور کئے‬
‫جائیں گے۔ ابن نجیم لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫استثنی حوادث فالن ال یقضی فیھا ولو قضی ال ینفذ (‪)58‬‬
‫ٰ‬ ‫ولو‬
‫مستثنی کردیا جائے تو وہ ان‬
‫ٰ‬ ‫’’اگر قاضی کو کچھ امور کے بارے میں (فیصلہ کرنے سے)‬
‫کا فیصلہ نہ کرے اور اگر فیصلہ کیا تو نافذ نہیں ہوگا‘‘۔‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوتا ہے کہ اسالم کے عدالتی نظام میں قاضی اپنے اختیارات‬
‫سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا کرے گا تو اس کے فیصلے کالعدم ہوں گے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬یہ دفعہ اسالمی تعلیمات کے خالف معلوم ہوتی ہے لہٰ ذا اسے حذف کیا جانا چاہئے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :530‬ایسی بے قاعدگیاں جن سے کارروائیاں کالعدم ہو جاتی ہیں‬

‫اگر کوئی مجسٹریٹ جس کو اس بارے میں قانون کے تحت اختیار دیا گیا ہو‪ ،‬مندرجہ ذیل امور‬
‫سرانجام دے‪ ،‬یعنی‪:‬‬
‫دفعہ ‪ 88‬کے تحت جائیداد قرق اور فروخت کرتا ہے۔‬ ‫(‪a‬‬
‫ڈاک خانہ میں کسی خط‪ ،‬پارسل یا دیگر شے یا تار گھر میں کسی تار کی تالش کا‬ ‫(‪b‬‬
‫وارنٹ جاری کرتا ہے۔‬
‫امن رکھنے کیلئے ضمانت طلب کرتا ہے۔‬ ‫(‪c‬‬
‫نیک چلنی کی ضمانت طلب کرتا ہے۔‬ ‫(‪d‬‬
‫کسی ایسے شخص کو رہا کردیتا ہے جو قانونی طور پر نیک چلن رہنے کا پابند ہو۔‬ ‫(‪e‬‬
‫امن رکھنے کے مچلکہ کو منسوخ کر دیتا ہے۔‬ ‫(‪f‬‬
‫کسی مقامی امر باعث تکلیف عامہ کے متعلق دفعہ ‪ 133‬کے تحت حکم صادر کرتا‬ ‫(‪g‬‬
‫ہے۔‬
‫دفعہ ‪ 143‬کے تحت کسی امر باعث تکلیف عامہ کی تکرار یا جاری رہنے کو قانونا ً‬ ‫(‪h‬‬
‫بند کرتا ہے۔‬
‫دفعہ ‪ 144‬کے تحت حکم جاری کرتا ہے۔‬ ‫(‪i‬‬
‫دفعہ ‪ 12‬کے تحت حکم صادر کرتا ہے۔‬ ‫(‪j‬‬
‫کسی جرم زیر دفعہ ‪ ،190‬ضمنی دفعہ (‪ )1‬کی شق (‪ )c‬میں دست اندازی کرتا ہے۔‬ ‫(‪k‬‬
‫کسی دیگر مجسٹریٹ کی قلم بند کی ہوئی کارروائی مقدمہ پر دفعہ ‪ 349‬کے تحت‬ ‫(‪l‬‬
‫حکم سزا صادر کرے۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :531‬غلط جگہ پر کارروائی‬

‫کسی فوجداری عدالت کا کوئی فیصلہ‪ ،‬سزا یا حکم محض اس بناء پر منسوخ نہ کیا جائے گا کہ‬
‫تحقیق‪ ،‬سماعت اور دیگر کارروائیاں جن کے دوران ان تک پہنچا گیا یا صادر کیا گیا‪ ،‬کسی غلط‬
‫سیشن ڈویژن‪ ،‬ضلع یا حصہ ضلع یا کسی دیگر مقامی عالقہ میں کئے گئے سوائے اس کے کہ یہ‬
‫ظاہر ہو کہ ایسی غلطی سے بے انصافی ہوئی ہے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬دفعات ‪ 530‬اور ‪ 531‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ان‬
‫پر تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :532‬حذف ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :533‬دفعہ ‪ 164‬یا ‪ 364‬کے احکام کی عدم تعمیل‬

‫اگر کوئی عدالت‪ ،‬جس کے روبرو کوئی اقبال جرم یا کسی ملزم کا دیگر بیان جو‬ ‫(‪1‬‬
‫دفعہ ‪ 164‬یا دفعہ ‪ 364‬کے تحت یا منشا کے مطابق قلم بند کیا گیا ہو‪ ،‬پیش کیا جائے یا شہادت میں‬
‫لیا گیا ہو‪ ،‬یہ پائے کہ اس مجسٹریٹ نے جس نے بیان تحریر کئے ہوں‪ ،‬ان دفعات میں سے کسی کے‬
‫احکام کی تعمیل نہ کی ہے تو ایسی عدالت اس امر کی شہادت لے گی کہ ایسے شخص نے ٹھیک‬
‫طو رپر بیان قلم بند کیا تھا اور قانون شہادت ‪1984‬ء کے آرٹیکل ‪ 102‬میں درج کسی امر کے‬
‫باوصف‪ ،‬ایسا بیان قبول کیا جائے گا کہ اگر ایسی غلطی سے ملزم کو استحقاق پر اس کی صفائی‬
‫میں کوئی نقصان نہ پہنچا ہو۔‬
‫دفعہ ہذا کے احکام کا عدالت ہائے اپیل‪ ،‬استصواب اور نگرانی پر اطالق ہوگا۔‬ ‫(‪2‬‬
‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اس پر تبصرہ‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :534‬حذف ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :535‬فرد الزام تیار کرنے میں سہو‬

‫کوئی فیصلہ یا سزا جو سنائی یا صادر کی گئی ہو‪ ،‬محض اس بنا پر ناجائز تصور نہ‬ ‫(‪1‬‬
‫کی جائے گی کہ کوئی فرد جرم نہ لگایا گیا‪ ،‬سوائے اس کے کہ عدالت اپیل یا نگرانی کی رائے میں‬
‫اس کی وجہ سے واقعی انصاف نہیں ہوا۔‬
‫اگر عدالت اپیل یا نگرانی سمجھے کہ فرد جرم لگانے کی سہو کی بنا پر ناانصافی‬ ‫(‪2‬‬
‫ہوئی ہے تو وہ ہدایت کرے گی کہ فرد جرم لگایا جائے اور یہ کہ سماعت مقدمہ دوبارہ اس جگہ‬
‫سے شروع کیا جائے جو فرد جرم لگانے کے فوری بعد کی ہے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ کی شق نمبر ‪ 1‬میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی۔ لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬
‫وضاحت‪ :‬شق نمبر‪ 2‬میں کہا گیا ہے کہ اگر عدالت اپیل یا نگرانی سمجھے کہ سہو سے مقدمے میں‬
‫ناانصافی ہوئی ہے تو وہ مقدمہ کی دوبارہ سماعت کی ہدایت کر سکتی ہے۔‬
‫ت راشدہ میں بھی یہ طرز عمل نظر آتا ہے۔ اس وقت‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬عہد نبوی (ﷺ) اور خالف ِ‬
‫اسالمی ٔ‬
‫جن قاضیوں اور ججوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا وہ رہنمائی کیلئے مدینہ طیبہ بھجوا دیتے۔ اگر‬
‫خلیفہ کے علم مینآتا کہ کوئی غلط فیصلہ ماتحت عدالت نے کیا ہے تو وہ اس مقدمہ کو اپنی عدالت‬
‫میں منتقل کرنے کا حکم دیتے یا متعلقہ عدالت کو اپنی ہدایات کے مطابق مقدمہ کی سماعت کرنے‬
‫کی ہدایت کرتے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا اسمیں‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :536‬حذف ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :537‬کوئی فیصلہ یا سزا کسی غلطی یا فرد الزام یا دیگر کارروائیوں میں کسی سہو کی‬
‫بنا پر کب منسوخ ہوگی‬
‫ماقبل درج احکام کے تابع‪ ،‬کوئی فیصلہ‪ ،‬سزا یا حکم جو کسی بااختیار عدالت نے صادر کیا ہو‪ ،‬باب‬
‫‪ 27‬کے تحت یا اپیل پر یا نگرانی پر منسوخ یا تبدیل نہ کیا جائے گا‪ ،‬بوجہ‪:‬‬
‫کسی استغاثہ‪ ،‬دفعہ ‪ 173‬کے تحت پولیس افسر کی رپورٹ‪ ،‬سمن‪ ،‬وارنٹ‪ ،‬فرد الزام‪،‬‬ ‫(‪a‬‬
‫مشتہری‪ ،‬حکم‪ ،‬فیصلہ یا دیگر کارروائیاں قبل یا دوران سماعت یا مجموعہ ہذا کے تحت کسی تحقیق‬
‫یا دیگر کارروائیوں میں کسی غلطی‪ ،‬سہو یا بے قاعدگی سے۔‬
‫طریقہ سماعت‪ ،‬بشمول کوئی غلط اشتراک الزامات میں کسی غلطی‪ ،‬سہو یا بے‬ ‫(‪b‬‬
‫قاعدگی سے جب تک کہ ایسی غلطی‪ ،‬سہو یا بے قاعدگی درحقیقت ناانصافی کا باعث ہوئی ہو۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس امر کا تعین کرنے کیلئے آیا مجموعہ ہذا کے تحت کسی کارروائیوں میں کوئی‬
‫غلطی‪ ،‬سہو یا بے قاعدگی ناانصافی کا باعث ہوئے ہیں‪ ،‬عدالت اس امر کا لحاظ رکھے گی‪ ،‬آیا ایسا‬
‫اعتراض کارروائیوں میں کسی پہلے مرحلہ پر اٹھایا جا سکتا ہے اور اٹھایا جانا چاہئے تھا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :538‬کارروائیوں میں نقص یا طریقہ کار میں خامی کی بنا پر قرقی غیر قانونی نہ ہو‬
‫جائے گی‬

‫مجموعہ ہذا کے تحت کی گئی قرقی‪ ،‬سمن‪ ،‬سزائوں‪ ،‬حکم نامہ قرقی یا اس سے متعلق دیگر‬
‫کارروائیوں میں طریقہ کار میں خامی کی بنا پر غیر قانونی تصور نہ ہوگی‪ ،‬نہ ہی کوئی شخص نے‬
‫قرقی کرائی‪ ،‬کو ناجائز قابض تصور کیا جائے گا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ان دفعات ‪ ،538 ،537‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫(باب نمبر ‪)46‬‬


‫متفرقات‬

‫دفعہ نمبر ‪ :539‬ایسی عدالتیں اور اشخاص جن کے روبرو حلف لیا جا سکتا ہے‬

‫حلف نامے اور اقرار صالح پر بیان جو کسی ہائی کورٹ یا ایسی عدالت کے کسی افسر کے سامنے‬
‫استعمال ہونے ہوں‪ ،‬کا ایسی عدالت میں یا اس مقصد کیلئے ایسی عدالت سے مقرر کردہ کسی کمشنر‬
‫یا دیگر شخص کے روبرو یا کسی جج یا کمشنر جسے حلف لینے کیلئے پاکستان کی کسی عدالت‬
‫ریکارڈ میں مقرر کیا گیا ہو‪ ،‬کے سامنے حلف یا اقرار لیا جا سکتا ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-539‬سرکاری مالزم کے کردار کے ثبوت میں حلف نامہ‬

‫جب مجموعہ ہذا کے تحت کسی تحقیق‪ ،‬سماعت یا دیگر کارروائیوں کے دوران‬ ‫(‪1‬‬
‫کسی عدالت کو درخواست گزاری جائے اور اس میں کسی سرکاری مالزم کے متعلق الزام لگائے‬
‫گئے ہوں‪ ،‬تو درخواست گزار درخواست میں بیان کئے گئے حقائق کی شہادت حلفی بیان کے ذریعہ‬
‫پیش کر سکتا ہے اور عدالت‪ ،‬اگر مناسب سمجھے‪ ،‬حکم دینے کی مجاز ہوگی کہ ایسے حقائق کے‬
‫متعلق شہادت اس طو رپر دی جائے۔‬
‫ایسا حلفی بیان جو ہائی کورٹ کے عالوہ دیگر عدالت میں دفعہ ہذا کے تحت استعمال کیا جانا ہو‪ ،‬کا‬
‫دفعہ ‪ 539‬میں مقرر کردہ طریقہ سے حلف یا اقرار صالح پر کیا جا سکتا ہے یا کسی مجسٹریٹ کے‬
‫روبرو۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت حلف نامے ایسے حقائق تک محدود ہوں گے اور انہیں علیحدہ علیحدہ بیان کریں‬
‫گے جو حلف لینے واال اپنے علم کے مطابق ثابت کرنے کا اہل ہو اور ایسے حقائق جس کے متعلق‬
‫اس کے پاس یہ باور کرنے کی معقول وجہ ہے کہ درست ہیں اور موخر الذکر صورت میں‪ ،‬حلف‬
‫لینے واال اس یقین کے متعلق وجوہات بیان کرے گا۔‬
‫عدالت کو اختیار حاصل ہے کہ حلف نامہ میں کسی اور غیر متعلقہ امر کو کاٹ‬ ‫(‪2‬‬
‫دینے یا ترمیم کرنے کا حکم دے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :B-539‬معائنہ مقامی‬

‫کوئی جج یا مجسٹریٹ کسی تحقیق‪ ،‬سماعت یا دیگر کارروائی کے کسی مرحلہ پر‬ ‫(‪1‬‬
‫فریقین کو اطالع دے کہ کسی ایسی جگہ کا معائنہ کر سکتا ہے جہاں پر کسی جرم کے ارتکاب کا‬
‫الزام لگایا گیا ہو یا کوئی دیگر جگہ جو اس کی رائے میں ایسی تحقیق یا سماعت میں دی گئی‬
‫شہادت کو صحیح طور پر سمجھنے کیلئے دیکھنا ضروری ہو۔‬
‫ایسی یادداشت مقدمہ کے ریکارڈ کا حصہ بنے گی‪ ،‬اگر سرکاری وکیل‪ ،‬مستغیث یا‬ ‫(‪2‬‬
‫ملزم چاہے تو یادداشت کی نقل اس کو بال اجرت فراہم کی جائے گی۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :540‬اہم گواہ کو طلب کرنے یا حاضر شخص کا بیان لینے کا اختیار‬

‫کوئی عدالت مجاز ہوگی کہ مجموعہ ہذا کے تحت کسی تحقیقات‪ ،‬سماعت یا دیگر کارروائی کے‬
‫کسی مرحلہ پر کسی شخص کو بطور گواہ طلب کرے یا کسی حاضر شخص کا بیان لے‪ ،‬اگرچہ‬
‫اسے بطور گواہ نہ بنایا گیا ہو یا کسی ایسے شخص کو دوبارہ بلوا کر اس کا دوبارہ بیان لے‪ ،‬جس کا‬
‫بیان پہلے ہو چکا ہو اور عدالت پر الزم ہوگا کہ کسی ایسے شخص کو بلوائے اور اس کا بیان لے یا‬
‫دوبارہ بال لے اور دوبارہ بیان لے اگر عدالت کو مقدمہ کے انصاف پر مبنی فیصلہ کیلئے اس کی‬
‫شہادت ضروری معلوم ہو۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-540‬بعض مقدمات میں ملزم کی غیر حاضری میں تحقیقات اور سماعت کے احکام‬

‫مجموعہ ہذا کے تحت کسی تحقیقات‪ ،‬سماعت کے کسی مرحلہ پر‪ ،‬جب عداالت کے‬ ‫(‪1‬‬
‫روبرو دو یا زائد ملزم ہوں‪ ،‬ایسی وجوہ پر جو قلم بند کی جائیں گی‪ ،‬اگر جج یا مجسٹریٹ کی تسلی‬
‫ہو جائے کہ ان ملزمان میں سے کوئی ایک یا زائد‪ ،‬عدالت کے روبرو رہنے کے ناقابل ہے یا ہیں‪،‬‬
‫تو وہ مجاز ہوگا کہ اگر ایسے ملزم کی وکیل نمائندگی کر رہا ہو‪ ،‬اس کی حاضری معاف کردے اور‬
‫ایسی تحقیقات یا سماعت اس کی غیر حاضری میں جاری رکھے اور مجاز ہوگا کہ کسی کارروائی‬
‫میں کسی بعد کے مرحلہ پر‪ ،‬ایسے ملزم کی ذاتی حاضری کا حکم دے۔‬
‫اگر کسی ایسے مقدمہ میں ملزم کی کوئی وکیل نمائندگی نہ کر رہا ہو یا اگر جج یا‬ ‫(‪2‬‬
‫مجسٹریٹ اس کی ذاتی حاضری کو ضروری تصور کرتا ہو‪ ،‬تو وہ مجاز ہوگا کہ اگر وہ مناسب‬
‫سمجھے اور ان وجوہ پر جو وہ قلم بند کرے گا‪ ،‬یا ایسی تحقیقات یا سماعت ملتوی کردے یا یہ حکم‬
‫دے کہ ایسے ملزم کا مقدمہ علیحدہ لیا جائے یا سماعت کیا جائے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :541‬قید کی جگہ مقرر کرنے کا اختیار‬

‫سوئے اس کے کہ کسی نافذ الوقت قانون میں برعکس حکم دیا گیا ہو‪ ،‬صوبائی‬ ‫(‪1‬‬
‫حکومت مجاز ہوگی کہ ہدایت کرے کہ کوئی شخص جو مجموعہ ہذا کے تحت قید کئے جانے کا یہ‬
‫تحویل میں دیئے جاے کا مستوجب ہو‪ ،‬کسی جگہ پر قید رکھا جائے گا۔‬
‫ملزم یا سزایاب اشخاص جو دیوانی حواالت میں بند ہوں‪ ،‬کو فوجداری جیل میں لے‬ ‫(‪2‬‬
‫جانا اور ان کی دیوانی حواالت میں واپسی‪ :‬اگر کوئی شخص جو مجموعہ ہذا کے تحت قید کا یا‬
‫تحویل میں دیئے جانے کا مستوجب ہو‪ ،‬حواالت دیوانی میں بند ہو تو ایسا مجسٹریٹ جس نے اسے‬
‫قید میں ڈالنے کا یا تحویل میں لئے جانے کا حکم صادر کیا ہو‪ ،‬یہ ہدایت کرنے کا مجاز ہوگا کہ‬
‫ایسے شخص کو فوجداری عدالت میں لے جایا جائے۔‬
‫جب کسی شخص کو ضمنی دفعہ (‪ )2‬کے تحت فوجداری حواالت میں لے جایا گیا‬ ‫(‪3‬‬
‫ہو‪ ،‬تو اس کو وہاں سے رہا ہونے پر واپس حواالت دیوانی میں بھیجا جائے گا‪ ،‬سوائے اس کے کہ‬
‫یا‪:‬‬
‫اسے حواالت فوجداری میں بھیجے ہوئے تین سال گزر چکے ہوں‪،‬‬ ‫(‪a‬‬
‫ایسی صورت میں یہ تصور کیا جائے گا کہ اس کو مجموعہ ضابطہ دیوانی ‪1908‬ء کی دفعہ ‪58‬‬
‫کے تحت دیوانی حواالت سے رہا کردیا گیا ہے‪ ،‬یا‬
‫وہ عدالت جس نے اس کو دیوانی حواالت میں قید کرنے کا حکم دیا‬ ‫(‪b‬‬
‫تھا‪ ،‬نے فوجداری حواالت کے مہتمم کو اس امر کی تصدیق کی ہو کہ وہ مجموعہ ضابطہ دیوانی‬
‫‪ 1908‬کی دفعہ ‪ 58‬کے تحت رہا ہونے کا حق دار ہے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ان دفعات ‪ 540-A ،540 ،539-B ،A-539 ،539‬اور ‪ 541‬میں کوئی بات اسالمی‬
‫اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :542‬حذف ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :543‬ترجمان پر الزم ہے کہ صداقت کے ساتھ ترجمانی کرے‬

‫جب کسی فوجداری عدالت کو کسی شہادت یا بیان کی ترجمانی کیلئے کسی ترجمان کی خدمات‬
‫درکار ہوں‪ ،‬تو وہ ویسی شہادت یا بیان کی ترجمانی صداقت کے ساتھ کرنے کا پابند ہوگا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :544‬مستغیث اور گواہان کے خرچے‬

‫صوبائی حکومت کے بنائے گئے کسی قواعد کے تابع‪ ،‬فوجداری عدالت مجاز ہوگی اگر وہ مناسب‬
‫سمجھے‪ ،‬تو حکومت کی طرف سے کسی ایسے مستغیث یا گواہ کے جائز اخراجات ادا کرنے کا‬
‫حکم دے جو مجموعہ ہذا کے تحت ایسی عدالت کے روبرو کسی تحقیق‪ ،‬سماعت یا دیگر کارروائی‬
‫کے مقاصد کیلئے حاضر ہوئے ہوں۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ گواہوں کے اخراجات حکومت ادا کرنے کی مجاز ہے۔‬

‫نظام عدالت میں بھی یہ گنجائش موجود ہے کہ گواہوں کو ان کے‬


‫ِ‬ ‫اسالمی نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی‬
‫ابویوسف‬
‫ؒ‬ ‫مناسب اور جائز اخراجات مدعی کی طرف سے ادا کئے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ قاضی‬
‫کہتے ہیں کہ گواہوں کو کھانے اور کرایہ کے اخراجات فریق مدعی سے حاصل کرنا جائز ہے اور‬
‫فتوی اسی پر ہے۔ (‪)59‬‬
‫ٰ‬
‫درج باال قول کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ گواہوں کو ان کے جائز‬
‫اخراجات ادا کئے جا سکتے ہیں جو مدعی ادا کریگا‪ ،‬اگر وہ مفلس ہے تو پھر حکومت خود بھی ادا‬
‫کر سکتی ہے‪ ،‬اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔‬

‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم‬
‫کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-544‬کسی مارے گئے وغیرہ شخص کے ورثاء کو معاوضہ‬

‫جب کبھی کسی شخص کو ایسے جرم کے ارتکاب پر سزا دی جائے جس سے کسی‬ ‫(‪1‬‬
‫کی موت‪ ،‬ضرر‪ ،‬چوٹ یا دماغی اذیت یا نفسیاتی نقصان ہوا ہو یا کسی جائیداد کو نقصان پہنچایا گیا‬
‫ہو یا ضائع یا تباہ کر دی گئی ہو تو عدالت الزمی طور پر ایسے شخص کو سزا دیتے وقت‪ ،‬سوائے‬
‫اس کے کہ قلمبند کردہ وجوہ سے وہ اس کے برعکس ہدایت کرے‪ ،‬سزایاب شخص کو حکم دے گی‬
‫کہ وہ اس شخص کے ورثاء کو جس کو مار دیا گیا یا اس شخص کو جس کو ضرر یا چوٹ پہنچی یا‬
‫اس شخص کو جس کو ذہنی نقصان یا نفسیاتی تکلیف پہنچائی گئی یا اس جائیداد کے مالک کو جس‬
‫کو نقصان پہنچایا گیا‪ ،‬ضائع کی گئی یا تباہ کر دی گئی‪ ،‬جیسی کہ صورت ہو‪ ،‬اتنا معاوضہ ادا‬
‫کرے‪ ،‬جس کا عدالت مقدمہ کے حاالت کے مدنظر تعین کرے۔‬
‫معاوضہ جو ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت واجب االدا ہو‪ ،‬اس طور پر قابل وصول ہوگا‬ ‫(‪2‬‬
‫کہ گویا یہ بقائے مالگزاری تھا اور عدالت یہ مزید حکم دینے کی مجاز ہوگی کہ عدم ادائیگی یا عدم‬
‫وصولی پر‪ ،‬جیسا کہ پہلے مذکور ہوا‪ ،‬وہ شخص جس کو ایسا معاوضہ ادا کرنے کا حکم ہوا‪ ،‬ایسی‬
‫مدت کی قید کاٹے گا جو چھ ماہ سے زائد نہ ہو اور اگر یہ ایک مجسٹریٹ درجہ سوم کی عدالت ہو‬
‫تو ایسی مدت کی جو تیس یوم سے زائد نہ ہو۔‬
‫ضمنی دفعہ (‪ )1‬کے تحت واجب االدا معاوضہ کسی ایسی سزا کے عالوہ ہوگا جو‬ ‫(‪3‬‬
‫کہ عدالت اس جرم کیلئے سنائے جس کیلئے وہ شخص جس کو معاوضہ ادا کرنے کی ہدایت ہوئی‪،‬‬
‫سزایاب کیا گیا۔‬
‫دفعہ ‪ 250‬کی ضمنی دفعہ (‪ )(3 ،(2-C) ،B)-2‬اور (‪ )4‬کے احکام‪ ،‬جہاں تک‬ ‫(‪4‬‬
‫ممکن ہو‪ ،‬دفعہ ہذا کے تحت معاوضہ کی ادائیگی پر اطالق پذیر ہوں گے۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت کوئی حکم کوئی عدالت اپیل یا کوئی عدالت جب اپنے اختیارات‬ ‫(‪5‬‬
‫نگرانی زیر کار الرہی ہو‪ ،‬بھی صادر کرسکتی ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :545‬جرمانہ میں سے خرچے یا معاوضہ ادا کرنے کا عدالت کا اختیار‬

‫جب کبھی کسی نافذ الوقت قانون کے تحت کوئی فوجداری عدالت جرمانہ کرے یا‬ ‫(‪1‬‬
‫اپیل‪ ،‬نگرانی یا بصورت دیگر کسی سزائے جرمانہ کی یا کسی ایسی سزا کی توثیق کرے جس کا‬
‫جرمانہ ایک حصہ بنتا ہو‪ ،‬تو عدالت مجاز ہوگی کہ فیصلہ صادر کرتے وقت حکم دے کہ کل‬
‫جرمانہ یا اس کا کوئی وصول شدہ حصہ استعمال کیا جائے‪:‬‬
‫پیروی مقدمہ میں جائز طور پر کئے گئے اخراجات پورے کرنے‬ ‫(‪a‬‬
‫پر۔‬
‫کسی شخص کو کسی نقصان‪ ،‬چوٹ یا ذہنی اذیت یا نفسیاتی نقصان‬ ‫(‪b‬‬
‫جو اس جرم سے پہنچا ہو‪ ،‬معاوضہ ادا کرنے پر‪ ،‬جب کہ عدالت کی رائے میں ایسا شخص معقول‬
‫معاوضہ دیوانی عدالت سے وصول کر سکتا ہو۔‬
‫جب کسی شخص کو کسی ایسے جرم میں سزایاب کیا گیا ہو‪ ،‬جس‬ ‫(‪c‬‬
‫میں سرقہ‪ ،‬تصرف بے جا مجرمانہ‪ ،‬خیانت مجرمانہ یا دھوکا دہی یا مال مسروقہ کی بددیانتی سے‬
‫وصولی یا اس کا رکھنا یا ازخود اسے فروخت کرنے میں اعانت یہ جانتے ہوئے یا یہ باور کرنے‬
‫کی وجہ رکھتے ہوئے کہ وہ چوری کا مال ہے‪ ،‬شامل ہوں۔ کسی ایسی جائیداد کو دیانت داری سے‬
‫خرید کرنے والے شخص کا نقصان پورا کرنے پر جس نے اس کو کھو دیا ہو‪ ،‬اگر ایسی جائیداد اس‬
‫کے حق دار شخص کے قبضہ میں واپس دے دی گئی ہو۔‬
‫اگر جرمانہ کسی ایسے مقدمہ میں کیا گیا ہو جو تابع اپیل ہو‪ ،‬تو کوئی ایسی ادائیگی‬ ‫(‪2‬‬
‫اس وقت تک نہ کی جائے گی جب تک کہ وہ میعاد جس کی اپیل رجوع کرنے کیلئے اجازت دی‬
‫گئی ہو‪ ،‬ختم نہ ہو جائے اور اگر اپیل رجوع کی گئی ہو جب تک اپیل کا فیصلہ نہ ہو جائے۔‬

‫دعوی میں ادائیگی کو مدنظر رکھا جائے گا‬


‫ٰ‬ ‫دفعہ نمبر ‪ :546‬مابعد کے‬

‫دعوی دیوانی میں معاوضہ عطا کرتے وقت عدالت دفعہ ‪ A-544‬یا‬
‫ٰ‬ ‫اسی معاملہ میں کسی مابعد کے‬
‫دفعہ ‪ 545‬کے تحت ادا کردہ وصول کردہ رقم کو مدنظر رکھے گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-546‬ناقابل دست اندازی مقدمہ میں مستغیث کی طرف سے‬
‫ادا کردہ بعض فیسوں کی ادائیگی کا حکم‬
‫جب کبھی ایسی عدالت میں کسی ناقابل اندازی جرم کا استغاثہ کیا جائے‪ ،‬تو عدالت‬ ‫(‪1‬‬
‫اگر ملزم کو سزایاب کرے‪ ،‬مجاز ہوگی کہ اس پر تاوان ڈالنے کے عالوہ اس کو حکم دے کہ وہ‬
‫مستغیث کو ادا کرے‪:‬‬
‫فیس‪ ،‬اگر کوئی ہو‪ ،‬جو عرضی استغاثہ پر یا مستغیث کا بیان قلم بند‬ ‫(‪a‬‬
‫کرنے پر ادا کی گئی ہو۔‬
‫کوئی فیس جو مستغیث نے اپنے گواہان یا ملزم پر طلب نامے تعمیل‬ ‫(‪b‬‬
‫کرانے کیلئے ادا کی گئی ہو‬
‫اور مزید یہ حکم صادر کرنے کی مجاز ہوگی کہ عدم ادائیگی کی‬
‫صورت میں ملزم قید محض کاٹے گا جس کی مدت تیس یوم سے زائد نہ ہوگی۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت کوئی حکم عدالت اپیل یا ہائی کورٹ‪ ،‬جب وہ اپنے نگرانی کے‬ ‫(‪2‬‬
‫اختیارات زیر کار ال رہی ہو‪ ،‬صادر کرنے کی مجاز ہوں گی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :547‬رقوم جن کی ادائیگی کا حکم ہو‪ ،‬بطور جرمانہ قابل وصول ہوں گی‬

‫تمام رقوم (عالوہ جرمانہ کے) جو مجموعہ ہذا کے تحت کسی حکم کی بنا پر قابل دائیگی ہوں اور‬
‫جن کی وصولیابی کیلئے بصورت دیگر صریحا ً کوئی حکم موجود نہ ہو‪ ،‬اس طرح قابل وصول ہوں‬
‫گی گویا یہ کوئی جرمانہ تھیں۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ان دفعات ‪ 546-A ،546 ،545 ،A-544‬اور ‪ 547‬میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے‬
‫منافی دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :548‬کارروائیوں کی نقول‬

‫اگر کوئی شخص جو کسی فوجداری عدالت کے فیصلہ یا حکم سے متاثر ہو‪ ،‬کسی حکم یا بیان یا‬
‫مسل کے دیگر حصہ کی نقل حاصل کرنا چاہتا ہو تو اسے ایسی نقل کیلئے درخواست کرنے پر یہ‬
‫مہیا کی جائے گی‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ وہ اس کی ادائیگی کرے گا‪ ،‬سوائے اس کے کہ عدالت‪ ،‬خاص وجوہات پر‪،‬‬
‫اسے بالاجرت فراہم کرنا مناسب سمجھے۔‬
‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :549‬ایسے اشخاص کا فوجی حکام کے حوالہ کرنا جو کورٹ مارشل کے‬
‫ذریعہ سماعت کے مستوجب ہوں‬
‫وفاقی حکومت مجاز ہے کہ قواعد جو مجموعہ ہذا اور افواج بری پاکستان ایکٹ‬ ‫(‪1‬‬
‫‪1952‬ء‪ ،‬پاکستان نیوی آرڈیننس ‪1961‬ء (‪ )XXXV of 1961‬اور ایسا ملتا جلتا قانون جو نافذ الوقت‬
‫ہو‪ ،‬جن میں ایسے اشخاص جو فوج‪ ،‬نیوی یا ائیر فورس قانون کے تابع ہوں‪ ،‬سے مطابقت رکھنے‬
‫والے ان مقدمات کے متعلق قواعد وضع کرے کہ وہ مقدمات جن میں ایسے اشخاص جو فوج‪ ،‬نیوی‬
‫یا ائیر فورس قانون کے تابع ہوں‪ ،‬کی سماعت وہ عدالت کرے جس پر مجموعہ ہذا کا اطال ہوتا ہے‬
‫یا کورٹ مارشل سماعت کرے اور جب کسی شخص کو مجسٹریٹ کے روبرو الیا جائے اور اس پر‬
‫اس جرم کی فرد الزام لگائی جائے جس کا وہ مستوجب ہے‪ ،‬جس کی سماعت ویسی عدالت کرے‬
‫جس پر مجموعہ ہذا کا اطالق ہوتا ہے‪ ،‬یا کورٹ مارشل کرے‪ ،‬مجسٹریٹ ان قواعد کا لحاظ رکھے‬
‫گا اور مناسب مقدمات میں اسے‪ ،‬اس جرم کے بیان سمیت جس کا اس پر الزام ہے‪ ،‬رجمنٹ کور‪،‬‬
‫جہاز یا جماعت کے اس کمانڈنگ افسر کے حوالہ کرے گا جس سے اس کا تعلق ہے یا نزدیک ترین‬
‫ملٹری‪ ،‬نیوی یا ائیر فورس سٹیشن کے کمانڈگ افسر کو کورٹ مارشل کے ذریعہ سماعت کئے‬
‫جانے کے مقصد سے حوالہ کرے گا۔‬
‫ایسے اشخاص کی گرفتاری‪ :‬ہر مجسٹریٹ سپاہیوں‪ ،‬مالحوں یا ہوا بازوں کی‬ ‫(‪2‬‬
‫جماعت کے کمانڈنگ افسر کی اس مقصد کیلئے تحریری درخواست پر‪ ،‬جو ایسی کسی جگہ پر‬
‫موجود یا مالزمت کر رہا ہو‪ ،‬کسی ایسے شخص کو گرفتار کرنے اور قابو رکھنے کی پوری کوشش‬
‫کرے گا جس پر ایسے جرم کا الزام ہو۔‬
‫مجموعہ ہذا میں درج کسی امر کے باوصف اگر وہ شخص جس کو پولیس نے‬ ‫(‪3‬‬
‫گرفتار کیا ہو‪ ،‬ایسا شخص ہو جو پاکستان آرمی ایکٹ ‪1952‬ء (‪ )XXXIX of 1952‬کے تابع ہو‬
‫اور جرم ایسا ہو جو قابل سماع کورٹ مارشل ہو تو ایسے شخص کی تحویل اور جرم کی تفتیش جس‬
‫کا کہ اس پر الزام ہے‪ ،‬ایسے شخص کا کمانڈنگ افسر مذکورہ قانون کے تحت اپنے ہاتھ میں لے‬
‫سکتا ہے۔‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں بیان کیا گیا ہے کہ برمی فوج‪ ،‬ائیر فورس یا نیوی سے تعلق رکھنے والے‬
‫افراد کو ان کے متعلقہ کمانڈنگ افسروں کے حوالے کیا جائے گا تاکہ وہ کورٹ مارشل کے ذریعے‬
‫سماعت کرسکیں۔‬
‫اسالمی نکتہ نگاہ‪ :‬اس دفعہ میں ’’قاضی معسکر‘‘ یا ’’عسکری عدالت‘‘ کے بارے میں بیان کیا‬
‫نظام عدالت میں بھی فوجی عدالت اور قاضی معسکر کا تصور موجود ہے۔‬
‫ِ‬ ‫گیا ہے‪ ،‬اسالمی‬
‫ماضی میں فوج اور دفاع کی ذمہ داریاں بھی قاضیوں کے سپرد ہوتی رہیں‪ ،‬عسکری‬
‫معامالت میں عرض الجیش‪ ،‬الحرس‪ ،‬الدس اور المعس بالخصوص قاضی کے سپرد رہے۔ اس کی‬
‫ایک مثال چوتھی صدی ہجری میں قاضی ابوالحسن الہذانی ہیں‪ ،‬جنہیں وزیر اسماعیل بن عباد نے یہ‬
‫تمام مناصب سونپ رکھے تھے‪ ،‬دوسری صدی ہجری میں وہب بن وھب بن عباد نے یہ تمام مناصب‬
‫سونپ رکھے تھے‪ ،‬دوسری صدی ہجری میں وہب بن وہب بن کثیر القوی مدینہ کے قاضی تھے‬
‫لیکن اس کے ساتھ حرب اور المخزنیات کے فرائض ادا کرتے۔ چھٹی صدی ہجری میں یہی فرائض‬
‫قاضی ہبۃ ہللا کے سپرد تھے۔ (‪ )60‬درجِ باال اقتباس سے ہمیں دوسری‪ ،‬چوتھی اور چھٹی ہجری میں‬
‫بھی قاضی عساکر کا ثبوت ملتا ہے۔ محمود عرنوس لکھتے ہیں‪:‬‬
‫قلقشندی نے لکھا ہے کہ فوجی عدالتوں کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ سلطان صالح الدین بن‬
‫یوسف کے دور میں قاضی افواج بھی ’’دارالعدل‘‘ میں بیٹھ کر دوسرے قضاۃ کی طرح مقدمات سنتا‬
‫تھا۔ قاضی العسکر کو صرف اسالمی لشکروں میں رونما ہونے والے تنازعات کے تصفیے کا کام‬
‫سپرد کیا جاتا تھا۔ (‪ )61‬مصر میں قاضی العسکر کا عہدہ ترکوں کے دور تک رہا۔(‪ )62‬مجاہد‬
‫قاسمی لکھتے ہیں یہ بھی درست ہے کہ قاضی کو مثالً فوج اور اس کے نزاعات کیلئے مقرر کیا‬
‫جائے۔ جیسے قاضی العسکر۔ (‪)63‬‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬درج باال دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫ترمیم کی ضرورت نہیں۔‬
‫دفعہ نمبر ‪ :550‬مال جس پر سرقہ کا شبہ ہو پر قبضہ کرنے کا پولیس کا اختیار‬

‫کوئی پولیس افسر کسی ایسی جائیداد کو قبضہ میں لے سکتا ہے‪ ،‬جس کے متعلق الزام یا شبہ ہو کہ‬
‫سرقہ شدہ ہے یا اسے ایسی حالت میں پایا گیا ہو جس سے کسی جرم کے ارتکاب کا شبہ ہوتا ہو۔‬
‫ایسا افسر اگر مہتمم تھانہ کا ماتحت ہو تو فوری طور پر ایسے قبضہ کی اس افسر کو رپورٹ کرے‬
‫گا۔‬

‫اعلی کا اختیار‬
‫ٰ‬ ‫دفعہ نمبر ‪ :551‬پولیس کے افسران‬

‫ایسا پولیس افسر جو مہتمم تھانہ کے عہدہ سے برتر ہو‪ ،‬مجاز ہوگا کہ وہی اختیارات تمام مقامی‬
‫عالقہ میں‪ ،‬جس میں وہ تعینات ہیں‪ ،‬زیر کار الئیں جسے ایسا افسر (مہتمم) اپنے سٹیشن کی حدود‬
‫میں استعمال کر سکتا ہو۔‬

‫تبصرہ‪ :‬ان دفعات ‪ 550‬اور ‪ 551‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا‬
‫ان پر تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :552‬اغواء شدہ عورتوں کی بازیابی پر مجبور کرنے کے اختیارات‬

‫جب کسی عورت یا لڑکی بعمر کم از کم ‪ 16‬سال کے کسی غیر قانونی مقصد کے اغوا کی ]سیشن‬
‫جج[ کو حلف پر شکایت کی جائے تو وہ مجاز ہوگا کہ ایسی عورت کو فوری طور پر آزاد کئے‬
‫جانے کا یا کسی ایسی لڑکی کو اپنے شوہر‪ ،‬والدین یا ولی یا دیگر شخص جو ایسی لڑکی کا قانونی‬
‫نگران تھا‪ ،‬کے حوالہ کرنے کا حکم صادر کرے اور ایسے حکم کی تعمیل کرنے پر ایسی طاقت‬
‫کے ذریعہ جو ضروری ہو‪ ،‬مجبور کرے۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ کسی عورت یا سولہ سال کی لڑکی کے غیر قانونی اغوا کی‬
‫حلفیہ شکایت کی جائے تو سیشن جج ایسی عورت کو فورا ً آزاد کرنے یا کسی ایسی لڑکی کو اس‬
‫کے شوہر‪ ،‬والدین یا ولی یا قانونی نگران کے حوالہ کرنے کا حکم دے گا اور جبری تعمیل بھی‬
‫کرائے گا۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں اسالمی اصولوں کے خالف کوئی بات دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :553‬حذف ہوئی۔‬


‫دفعہ نمبر ‪ :554‬ماتحت عدالتوں کے ریکارڈ کے معائنہ کیلئے ہائی کورٹ کے قواعد وضع کرنے‬
‫کے اختیارات‬

‫کوئی ہائی کورٹ‪ ،‬صوبائی حکومت کی منظوری ماقبل سے‪ ،‬مجاز ہوگی کہ وقتا ً‬ ‫(‪1‬‬
‫فوقتا ً ماتحت عدالتوں کے ریکارڈ کے معائنہ کے لئے قواعد وضع کرے۔‬
‫دیگر مقاصد کیلئے قواعد وضع کرنے کا ہائی کورٹ کا اختیار‪ :‬ہر ہائی کورٹ‬ ‫(‪2‬‬
‫مجاز ہوگی کہ صوبائی حکومت کی منظوری ماقبل سے‪:‬‬
‫اپنے ماتحت تمام فوجداری عدالتوں میں کتب‪ ،‬اندراجات اور حساب‬ ‫(‪a‬‬
‫رکھنے کیلئے اور ان عدالتوں کی طرف سے کوئی گوشوارے یا نقشے تیار کرنے اور بھجوانے کی‬
‫نسبت قواعد وضع کرے۔‬
‫تمام کارروائیوں کیلئے وہ یہ سمجھے کہ فارم بنائے جانے چاہئیں‪،‬‬ ‫(‪b‬‬
‫فارم بنائے۔‬
‫اپنے طریقہ کار اور کارروائیوں اور اپنے ماتحت تمام فوجداری‬ ‫(‪c‬‬
‫عدالتوں کے طریقہ کار اور کارروائیوں کے متعلق قواعد وضع کرے۔‬
‫مجموعہ ہذا کے تحت جرمانہ وصول کرنے کیلئے وارنٹ ہائے کی‬ ‫(‪d‬‬
‫تعمیل کو منضبط کرنے کیلئے قواعد وضع کرے‪:‬‬
‫مگر شرط یہ ہے کہ ایسے قواعد اور فارم جو دفعہ ہذا کے تحت‬
‫وضع یا بنائے گئے ہوں‪ ،‬مجموعہ ہذا سے یا کسی دیگر قانون نافذ الوقت سے متضاد نہ ہوں گے۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت بنائے گئے جملہ قواعد سرکاری گزٹ میں شائع کئے جائیں گے۔‬ ‫(‪3‬‬

‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر ہائی کورٹ اپنے ماتحت تمام عدالتوں کے طریقہ کار‬
‫اور کارروائیوں کے متعلق قواعد وضع کرے۔‬
‫نظام عدالت میں بھی ہمیں اس بارے میں رہنمائی ملتی ہے۔ چنانچہ‬ ‫ِ‬ ‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی‬
‫اسالمی ٔ‬
‫حضور اکرم ﷺ جب قاضیوں کا تقرر کرکے انہیں روانہ فرماتے تو انہیں قواعد وضوابط اور مکمل‬
‫جبل کو یمن کا قاضی بنایا تو انہیں تفصیلی‬ ‫طریق کار بھی سمجھاتے تھے۔ مثالً حضرت معاذ بن ؓ‬
‫ہدایات دیں کہ کس طرح عدالت کی کارروائی چالنی ہے اور کس طرح فیصلہ کرنا ہے۔(‪ )64‬اسی‬
‫علی کو بھی یمن کا قاضی بنایا تو انہیں بھی تفصیلی رہنمائی مہیا فرمائی۔‬
‫طرح حضرت ؓ‬
‫فاروق نے عدالتی طریق کار اور کارروائی کی ہدایات پر مشتمل ایک جامع اور‬ ‫ؓ‬ ‫(‪)65‬حضرت عمر‬
‫اشعری کے نام لکھا۔(‪ )66‬اس کے عالوہ حضرت امیر‬ ‫ؓ‬ ‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫مشہور زمانہ مراسلہ حضرت ابو‬
‫ؓ‬
‫فاروق کے‬ ‫شریح (‪ )69‬کے نام حضرت عمر‬ ‫ؒ‬ ‫ابوعبیدہ (‪ )68‬اور قاضی‬
‫ؓ‬ ‫معاویہ (‪ ،)67‬حضرت‬
‫ؓ‬
‫مراسلہ جات مکمل عدالتی طریق کار اور قواعد وضوابط کا مرقع ہیں۔‬
‫درج باال سطور سے واضح ہوا کہ سربرا ِہ عدلیہ اپنی ماتحت عدالتوں کیلئے وقتا ً فوقتا ً اصول‬
‫وضوابط وضع کر سکتا ہے جو ان عدالتوں کو مکمل رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم‬
‫کی ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :555‬فارم ہائے‬


‫دفعہ ‪ 554‬اور آئین کے آرٹیکل ‪ 202‬اور ‪ 203‬سے تفویض شدہ اختیار کے تابع‪ ،‬جو فارم پانچویں‬
‫جدول میں دیئے گئے ہیں‪ ،‬ایسی تبدیلیوں کے ساتھ جو ہر مقدمہ کے حاالت کا تقاضا ہو‪ ،‬ان مقاصد‬
‫کیلئے استعمال ہوں گے جو ان میں درج ہیں اور اگر استعمال کئے جائیں‪ ،‬تو کافی ہوں گے۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :556‬مقدمہ جس میں جج یا مجسٹریٹ ذاتی طو رپر دلچسپی رکھتے ہوں‬

‫کوئی جج یا مجسٹریٹ‪ ،‬سوائے اس عدالت کی اجازت کے جس کو اس کی عدالت سے اپیل رجوع‬


‫ہوتی ہو‪ ،‬کسی ایسے مقدمہ کی سماعت نہیں کر سکتا‪ ،‬جس میں یا جس کا وہ فریق ہو یا ذاتی طور‬
‫پر دلچسپی رکھتا ہو اور کوئی جج یا مجسٹریٹ کسی ایسے فیصلہ یا حکم کے خالف اپیل نہیں سنے‬
‫گا جو اس نے خود فیصلہ کیا ہو یا دیا ہو۔‬
‫وضاحت‪ :‬دفعہ ہذا کے معنوں میں کوئی جج یا مجسٹریٹ ذاتی طور پر فریق یا دلچسپی دار نہ‬
‫متصور ہوگا‪ ،‬صرف اس بنا پر کہ وہ میونسپل کمشنر ہے یا بصورت دیگر کسی سرکاری حیثیت‬
‫سے اس میں واسطہ دار ہے یا صرف اس بنا پر کہ اس نے وہ موقع دیکھا ہے جہاں پر جرم کے‬
‫سرزد ہونے کا الزام ہے یا کوئی دیگر جگہ جہاں کوئی ایسے معاملہ کے وقوع پذیر ہونے کا الزام‬
‫ہے جو مقدمہ کیلئے اہم ہے اور مقدمہ کی نسبت تحقیقات کی ہو۔‬
‫مثال‬
‫الف بحیثیت کلکٹر خبر پا کر ب کے نام قوانین آب کاری کے خالف ورزی کی بابت پیروی استغاثہ‬
‫کی ہدایت کرتا ہے تو الف بحیثیت مجسٹریٹ اس مقدمے کی تجویز کرنے کا اہل نہیں ہے۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں مذکور ہے کہ کوئی جج ایسے مقدمہ کی سماعت نہیں کر سکتا‪ ،‬جس میں وہ‬
‫خود فریق ہو یا ذاتی دلچسپی رکھتا ہو‪ ،‬نہ ہی ایسے حکم یا فیصلہ کے خالف اپیل سنے گا جو اس‬
‫نے خود کیا ہو۔‬

‫ظام عدالت میں بھی اس سلسلے میں رہنمائی موجود ہے۔ اول یہ کہ‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬اسالمی ن ِ‬
‫اسالمی ٔ‬
‫قاضی یا جج اگر خود فریق مقدمہ ہے تو وہ اس کی سماعت نہیں کر سکتا۔‬
‫شریح‬
‫ؒ‬ ‫شریح کے سامنے مقدمہ پیش کیا۔ جب‬
‫ؒ‬ ‫خصاف لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے قاضی‬ ‫ؒ‬
‫شریح‬
‫ؒ‬ ‫نے ثبوت مانگا تو اس شخص نے کہا کہ ابو امیہ! آپ میرے حق میں گواہی دینگے تو قاضی‬
‫نے جواب دیا‪ :‬تم یہ مقدمہ امیر کے پاس لے جائو‪ ،‬میں وہیں آئوں گا اور تمہارے حق میں گواہی‬
‫خصاف کہتے ہیں کہ اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ قاضی ان ذاتی معلومات کی بنیاد پر‬ ‫ؒ‬ ‫دوں گا۔‬
‫شریح نے ذاتی معلومات‬
‫ؒ‬ ‫فیصلہ نہ کرے‪ ،‬جو فیصلے سے پہلے اسے حاصل ہوئیں‪ ،‬کیونکہ قاضی‬
‫کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا۔ (‪)70‬‬
‫کاسانی نے تفصیالً بحث کی ہے وہ کہتے ہیں کہ قاضی کے ذاتی علم کی بنیاد پر فیصلہ دو‬
‫ؒ‬
‫حالتوں سے خالی نہ ہوگا۔ یا تو وہ علم اسے اپنے زمانہ قضا اور اپنے عالقہ قضا میں حاصل ہوا‬
‫ہوگا یا اس سے قبل۔ مثالً اس نے کسی کو طالق دیتے یا غالم آزاد کرتے سنا یا کسی کو قتل کرتے‬
‫ائمہ متفق ہیں‬
‫دیکھا تو اس کا فیصلہ صحیح ہے مگر حدود میں صحیح نہیں ہوگا‪ ،‬اس پر سارے ؒ‬
‫لیکن اگر قاضی کو اپنے زمانہ قضا اور عالقہ قضا میں علم حاصل نہ ہوا ہو تو وہ کسی بھی مقدمے‬
‫ؒ‬
‫صاحبین‬ ‫ابوحنیفہ کا مسلک ہے جبکہ‬
‫ؒ‬ ‫کا فیصلہ ذاتی علم کی بنیاد پر کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ یہ امام‬
‫کے نزدیک حدود کے سوا تمام مقدمات کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر‬
‫زمانہ قضا میں حاصل ہونے والے علم پر فیصلہ جائز ہے تو زمانہ قضا سے پہلے والے علم پر بھی‬
‫ابوحنیفہ کے نزدیک دونوں‬
‫ؒ‬ ‫جائز ہے کیونکہ ہر دو حال میں علم کا درجہ تو ایک ہی ہے جبکہ امام‬
‫علموں میں فرق ہے۔ وہ یہ ہے کہ زمانہ قضا میں جو علم حاصل ہوتا ہے۔ وہ مقدمے میں شہادت‬
‫کے مشابہ ہے جبکہ زمانہ قضا سے پہلے واال علم شہادت کے مشابہ نہیں او ردونوں میں یہی فرق‬
‫مرغینانی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫ہے۔ (‪)71‬‬
‫وحکم الحاکم او القاضی ال بویہ وزوجتہ وولدہ باطل النہ ال تقبل شھادتہ لھوالء لمکان التھمۃ‬
‫فکذلک ال یصح القضاء لھم (‪)72‬‬
‫’’اور حاکم یا قاضی کا حکم اپنے والدین‪ ،‬بیوی اور اوالد کیلئے باطل ہے‪ ،‬اس لئے کہ ان‬
‫لوگوں کیلئے (حاکم وقاضی) کی گواہی تہمت کی وجہ سے قبول نہیں ہے‪ ،‬لہٰ ذا ان کیلئے حکم قضا‬
‫بھی صحیح نہ ہوگا‘‘۔‬
‫سرخسی کہتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬
‫االمام الیکون قاضیا فی حق نفسہ (‪)73‬‬
‫’’امام اپنے حق میں قاضی نہیں بن سکتا‘‘۔‬
‫مجاہد قاسمی لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫’’قاضی اپنا مقدمہ یا اپنی اوالد یا والدین کا مقدمہ نہیں سن سکتا (‪ )74‬اور امام و امیر خود‬
‫اپنے حق میں قاضی نہیں ہوسکتا‘‘۔ (‪)75‬‬
‫عالمہ افغانی نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ قاضی یا حاکم کو اگر کسی‬
‫واقعہ کے متعلق ذاتی علم ہو خواہ عہدہ قضا کے دوران میں یا قبل ازیں تو جب تک اس کے سوا‬
‫کوئی دوسرا ثبوت مہیا نہ ہو‪ ،‬نظر برتہمت حاکم یا قاضی ذاتی علم کی بنیاد پر ڈگری نہیں دے سکتا۔‬
‫(‪)76‬‬
‫وہ مزید لکھتے ہیں کہ یہ حکم صرف اس صورت میں ہے کہ واقعہ کا علم اسے عہدہ قضا‬
‫سے پہلے تھا یا واقعہ حلقہ اختیار سے باہر رونما ہوا لیکن عہدہ قضا کے دوران میں اپنے حلقہ‬
‫اختیار کے کسی واقعہ سے متعلق قاضی کا ذاتی علم حجت ہے اور اس پر فیصلہ دیا جا سکتا ہے‪،‬‬
‫سوائے حدود اور قصاص کے صاحبین کے نزدیک اس بارے میں عہدہ قضا سے پہلے یا بعد کی‬
‫بھی کچھ قید نہیں۔ (‪)77‬‬
‫صاحب بحرالرائق کہتے ہیں کہ‪:‬‬
‫فتوی اس پر ہے کہ قاضی اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر فیصلہ نہ کرے‘‘۔ (‪)78‬‬
‫’’ ٰ‬
‫ابوحنیفہ کے نزدیک قاضی کو اپنے زمانہ قضا اور‬
‫ؒ‬ ‫درجِ باال سطور سے واضح ہوا کہ امام‬
‫عالقہ قضا میں حاصل ہونے والے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا جائز ہے۔ سوائے حدود وقصاص‬
‫ؒ‬
‫صاحبین کے نزدیک ہر دو‬ ‫کے۔ اس سے پہلے والے علم کی بنیاد پر فیصلہ جائز نہیں ہے لیکن‬
‫صورتوں میں ذاتی علم کی بنیاد پر فیصلہ جائز ہوگا لیکن متاخرین فقہا نے کہا ہے قاضی تہمت سے‬
‫بچنے کیلئے اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر فیصلہ نہ کرے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کی تجویز‪ :‬اس دفعہ کے بارے میں نظریاتی کونسل نے یہ تجویز دی ہے‪:‬‬
‫’’کسی جج یا مجسٹریٹ کیلئے کسی ایسے کیس میں فیصلہ کرنا نہ صرف شرعی طو رپر‬
‫کرام نے‬
‫ؒ‬ ‫بلکہ کسی صورت میں مناسب نہیں ہے جس میں وہ خود فریق یا ملوث ہو‪ ،‬متاخرین فقہا‬
‫بھی رائے دی ہے کہ قاضی کو اپنے علم کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار نہ دیا جائے۔ (‪)79‬‬
‫تجویز‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ترمیم کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :557‬پیشہ ور وکیل بعض عدالتوں میں بطور مجسٹریٹ نہیں بیٹھ سکتے‬

‫کوئی وکیل جو کسی ضلع میں کسی مجسٹریٹ کی عدالت میں پریکٹس (پیشہ) کرتا ہو‪ ،‬ایسی عدالت‬
‫میں یا کسی عدالت میں جو ایسی عدالت کے دائرہ اختیار میں ہو‪ ،‬بطور مجسٹریٹ نہیں بیٹھے گا۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :558‬عدالتوں کی زبان کا فیصلہ کرنے کا اختیار‬


‫صوبائی حکومت مجاز ہوگی کہ اس امر کا تعین کرے کہ مجموعہ ہذا کے مقاصد کیلئے ایسی‬
‫حکومت کی انتظامی حدود میں سوائے ہائی کورٹ کے ہر عدالت کو کون سی زبان متصور ہوگی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :559‬جج اور مجسٹریٹ کے اختیارات کا ان کے جانشین کی طرف سے استعمال کے‬
‫احکام‬

‫مجموعہ ہذا کے دیگر احکام کے تابع‪ ،‬کسی جج یا مجسٹریٹ کے اختیارات اور‬ ‫(‪1‬‬
‫فرائض اس کا جانشین زیر کار ال سکتا ہے یا ادا کر سکتا ہے۔‬
‫جب یہ شک ہو کہ کسی مجسٹریٹ کا جانشین کون ہے‪ ،‬مجسٹریٹ ضلع تحریری‬ ‫(‪2‬‬
‫حکم کے ذریعہ اس امر کا تعین کرے گا کہ مجموعہ ہذا یا اس کے تحت کسی کارروائیاں یا حکم‬
‫کے مقاصد کیلئے ایسے مجسٹریٹ کا کن جانشین متصور ہوگا۔‬
‫جب یہ شک ہو کہ کسی ایڈیشنل یا اسسٹنٹ سیشن جج کا جانشین کون ہے تو سیشن‬ ‫(‪3‬‬
‫جج تحریری حکم کے ذریعہ اس امر کا تعین کرے گا کہ مجموعہ ہذا یا اس کے تحت کسی‬
‫کارروائیوں یا حکم کے مقاصد کیلئے ایسے ایڈیشنل یا اسسٹنٹ سیشن جج کا کون جانشین متصور‬
‫ہوگا۔‬

‫تبصرہ‪ :‬درج باال دفعات ‪ 559 ،558 ،557‬میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف دکھائی نہیں‬
‫دیتی‪ ،‬لہٰ ذا ان پر تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :560‬فروختگیوں سے متعلق افسران نہ جائیداد خریدیں گے نہ بولی دیں گے‬

‫کوئی سرکاری مالزم جسے مجموعہ ہذا کے تحت کسی جائیداد کی فروخت سے متعلق کوئی فرض‬
‫سرانجام دینا ہو‪ ،‬ایسی جائیداد کو نہ خریدے گا اور نہ اس کی بولی دے گا۔‬
‫وضاحت‪ :‬اس دفعہ میں کہا گیا ہے کہ جو سرکاری مالزم کسی جائیداد کی فروخت سے متعلق کوئی‬
‫فرض سرانجام دے رہا ہو وہ نہ تو اس جائیداد کو خرید سکتا ہے اور نہ ہی بولی دے سکتا ہے۔‬
‫نکتہ نگاہ‪ :‬سرکاری مناصب کی آڑ میں ناجائز فائدہ اٹھانا اپنی حیثیت ومنصب کی آڑ میں‬
‫اسالمی ٔ‬
‫کسی بھی قسم کا بے جا مفاد حاصل کرنا‪ ،‬لوگوں سے ہدیے تحفے اور رشوتیں لینا اسالمی تعلیمات‬
‫ازدی کو وصو ِل صدقات پر‬‫ؓ‬ ‫کی رو سے سخت منع ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ ابن اللتبیہ‬
‫عامل بنایا۔ انہوں نے واپس آکر مال پیش کیا اور کہنے لگے‪ :‬ھذا لکم وھذا اھدی لی۔ ’’یہ مال تمہارا‬
‫ہے اور یہ مجھے ہدیہ (‪ )Gift‬مال ہے۔ یہ بات حضور اکرم ﷺ کو ناپسند ہوئی‪ ،‬آپﷺ نے ارشاد‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫’’اس شخص کا کیا حال ہے‪ ،‬جسے ہم کام سپرد کرتے ہیں اور وہ آکر کہتا ہے‪’’ :‬یہ آپ کا‬
‫اور یہ میرا مال ہے جو مجھے ہدیہ مال ہے‘‘ وہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا‪ ،‬پھر‬
‫ت قدرت‬ ‫تعالی کی قسم! جس کے دس ِ‬‫ٰ‬ ‫دیکھتا کہ اسے یہ تحفے اور ہدیے (‪ )Gifts‬کیسے ملتے۔ ہللا‬
‫میں میری جان ہے جو چیز بھی وہ لے گا‪ ،‬قیامت کے دن اس کی گردن پر سوار ہوگی‪ ،‬اگر اونٹ‬
‫ہے تو چال رہا ہوگا‪ ،‬اگر گائے ہے تو بلبال رہی ہوگی‪ ،‬اگر بکری ہے تو میں میں کرتی ہوگی‘‘۔‬
‫(‪)80‬‬
‫ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ یہی حکم ان والیان امر کا ہے جو معامالت میں ہدیے اور تحفے‬
‫لیکر کسی کی امداد واعانت کریں۔ (‪)81‬‬
‫حضور اکرم ﷺ نے مزید ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ھدایا العمال غلول (‪)82‬‬
‫’’عمال (گورنروں‪ ،‬افسروں) کے ہدیے خیانت ہیں‘‘۔‬
‫ایک اور حدیث مبارکہ ہے‪:‬‬
‫ھدایا الالمراء غلول (‪)83‬‬
‫’’امراء (حکام اور اہل اختیار) کیلئے ہدیے خیانت بازی ہیں‘‘۔‬
‫ایک دفعہ ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫’’(سرکاری اہلکاروں کے پاس آنے والے) ہدیے سب حرام ہیں‘‘۔ (‪)84‬‬
‫دور خالفت میں بھی تجارت کرتے تھے‪ ،‬ایک دفعہ انہوں نے شام‬ ‫ؓ‬
‫فاروق ِ‬ ‫حضرت عمر‬
‫کیلئے ایک تجارتی قافلہ تیار کیا اور ایک شخص کو عبدالرحمن بن عوف کے پاس چار ہزار درہم‬
‫قرض لینے بھیجا‪ ،‬انہوں نے قاصد سے کہا کہ وہ امیر المومنین ہیں‪ ،‬بیت المال سے قرض لے لیں‪،‬‬
‫عمر نے فرمایا کہ بیت المال سے نہیں لوں گا‪ ،‬کیونکہ اگر ادا کرنے سے پہلے فوت ہو‬
‫حضرت ؓ‬
‫جائو گا تو تم میرے ورثاء سے مطالبہ نہ کروگے اور وزن میرے سر رہ جائے گا‪ ،‬لہٰ ذا میں چاہتا‬
‫ہوں کہ تم جیسے شخص سے لوں کہ اگر میں مر بھی جائو تو وہ میری وراثت سے وصول کرلے۔‬
‫(‪)85‬‬
‫عمر کو جب ضرورت ہوتی تو وہ محافظ بیت المال کے پاس آتے اور اس سے‬ ‫حضرت ؓ‬
‫قرض لے لیتے لیکن تنگدستی کی وجہ سے واپس نہ کر سکتے‪ ،‬محافظ بیت المال اس کے پاس آکر‬
‫تقاضا کرتا اور ان کے ساتھ ہو لیتا تو وہ اس سے حیلہ کرتے کہ فالں وقت دوں گا اور اکثر یوں ہوتا‬
‫کہ جب ان کی تنخواہ ملتی تو وہ اسے ادا کردیتے تھے۔ (‪)86‬‬
‫عمر باہر نکلے اور منبر کے پاس آئے وہ کچھ بیمار تھے‪ ،‬ان کے‬
‫ایک دفعہ حضرت ؓ‬
‫آپ‬
‫سامنے شہد کی تعریف کی گئی کہ اس مرض میں مفید ہے اور بیت المال میں شہد موجود ہے تو ؓ‬
‫نے فرمایا‪ :‬اے لوگو! اگر تم مجھے اجازت دو تو وہ شہد بیت المال سے لے لوں ورنہ وہ مجھ پر‬
‫حرام ہے‪ ،‬اس پر لوگوں نے انہیں اجازت دی تب کہیں جا کر وہ شہد استعمال کیا۔ (‪)87‬‬
‫حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک دفعہ بیت المال میں آنے والے سیب مسلمانوں میں تقسیم‬
‫آپ نے چھین لیا‪ ،‬جس پر وہ‬ ‫آپ کے بیٹے نے ایک سیب اٹھا لیا لیکن ؓ‬ ‫فرما رہے تھے‪ ،‬اس دوران ؓ‬
‫رونے لگا اور گھر چال گیا‪ ،‬اس کی والدہ نے ایک سیب بازار منگا دیا‪ ،‬گھر آئے تو سیب کی خوشبو‬
‫آپ‬
‫آپ نے پوچھا سرکاری سیب تو یہاں نہیں آیا‪ ،‬اس پر زوجہ محترمہ نے سارا واقعہ بتا دیا۔ ؓ‬
‫آئی‪ؓ ،‬‬
‫نے فرمایا‪ ،‬خدا کی قسم! سیب میں نے اس کے منہ سے نہیں اپنے دِل سے چھینا تھا کیونکہ میں‬
‫تعالی کے سامنے شرمندہ نہیں کرنا چاہتا۔ (‪)88‬‬
‫ٰ‬ ‫مسلمانوں کے سیب کے بدلے خود کو ہللا‬
‫آپ کی بیوی‬‫آپ کو لبنان کا شہد بہت مرغوب تھا‪ ،‬ایک دفعہ اس کی خواہش ظاہر کی تو ؓ‬ ‫ؓ‬
‫فاطمہ نے حاکم لبنان ابن معدی کرب کو لکھا۔ انہوں نے بہت سا شہد بھجوا دیا‪ ،‬زوجہ محترمہ نے‬
‫ؓ‬
‫آپ کے سامنے رکھا‪ ،‬تو فرمایا‪ :‬لگتا ہے کہ تم نے حاکم لبنان سے منگوایا ہے لہٰ ذا اسے چکھا تک‬
‫ؓ‬
‫نہیں‪ ،‬بکوا کر قیمت بیت المال میں داخل کرا دی اور ابن معدی کرب کو لکھا‪ :‬خدا کی قسم! اگر آئندہ‬
‫ایسا کیا تو اپنے عہدے پر نہیں رہ سکتے اور میں تمہارے چہرے پر نظر تک نہ ڈالوں گا۔ (‪)89‬‬
‫درجِ باال احادیث وآثار سے واضح ہوتا ہے کہ اسالم میں مناصب اور عہدوں کی بنیاد پر‬
‫ہدیے و تحفے اور رشوت وصول کرنا ناجائز ہے‪ ،‬اس کے ساتھ ساتھ اپنے عہدے اور حیثیت سے‬
‫فائدہ اٹھا کر کوئی بھی مفاد یا نفع حاصل کرنا یا مطلب براری کرنا سخت منع ہے۔‬
‫تجویز ‪ /‬ترمیم‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی تعلیمات کیخالف معلوم نہیں ہوتی لہٰ ذا اس میں ترمیم‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :561‬حذف ہوئی۔‬

‫دفعہ نمبر ‪ :A-561‬ہائی کورٹ کے اختیار خاص کا استثناء‬

‫مجموعہ ہذا میں کوئی امر ہائی کورٹ کے اختیار خاص ایسے احکام صادر کرنے کے متعلق محدود‬
‫یا متاثر متصورنہ ہوں گے جو مجموعہ ہذا کے تحت کسی حکم کی تعمیل کسی عدالتی کارروائی‬
‫کے بے جا استعمال کو روکنے یا کسی طرح حصول انصاف کیلئے ضروری ہوں۔‬

‫تبصرہ‪ :‬اس دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫دفعہ نمبر‪ : 562-563-564‬حذف ہوئیں۔‬

‫سابقہ سزا یافتہ مجرمان‬


‫دفعہ نمبر ‪ :565‬سابقہ سزا یافتہ مجرم کو پتہ کی اطالع دینے کا حکم‬

‫جب کوئی شخص سزایاب ہوا ہو‪:‬‬ ‫(‪1‬‬


‫ت‬
‫دفعہ ‪ ،215‬دفعہ ‪ ،B-489‬دفعہ ‪ ،C-489‬دفعہ ‪ D-4898‬تعزیرا ِ‬ ‫(‪a‬‬
‫پاکستان یا اس مجموعہ کے کسی جرم قابل سزایابی تحت باب ‪ 12‬یا باب ‪ 17‬کے تحت سزائے قید ہر‬
‫دو قسم برائے مدت تین سال یا زائد یا ہائی کورٹ‪ ،‬سیشن کورٹ یا مجسٹریٹ رجہ اول سے ان‬
‫دفعات یا ابواب میں سے کسی کے تحت دوبارہ برائے مدت تین سال یا زائد کیلئے سزایاب ہو‪ ،‬تو‬
‫ایسی عدالت یا مجسٹریٹ مجاز ہوں گے کہ اگر وہ مناسب سمجھیں‪ ،‬تو ایسے شخص کو قید کی سزا‬
‫دیتے وقت یہ حکم بھی دے سکتا ہے کہ رہا ہونے کے بعد اس کی سکونت یا اس میں تبدیلی یا ایسی‬
‫رہائش گاہ سے غیر حاضری کی اطالع دی جایا ۔ ایسی سزا کے ختم ہونے کی تاریخ سے ایسی‬
‫مدت تک جو پانچ سال سے زائد نہ ہو‪ ،‬جیسا کہ بعد ازیں حکم دیا گیا ہے۔‬
‫حذف ہوئی۔‬ ‫(‪b‬‬
‫اگر ایسی سزایابی اپیل پر یا بصورت دیگر منسوخ ہو جائے تو ایسا حکم کالعدم ہو‬ ‫(‪2‬‬
‫جائے گا۔‬
‫صوبائی حکومت رہا ہونے والے شخص کی طرف سے سکونت کی اطالع یا تبدیلی‬ ‫(‪3‬‬
‫یا سکونت سے غیر حاضری سے متعلق دفعہ ہذا کے احکام کی تعمیل کرنے کیلئے قواعد وضع‬
‫کرے گی۔‬
‫دفعہ ہذا کے تحت کوئی حکم کوئی عدالت اپیل یا ہائی کورٹ جبکہ وہ اپنی نگرانی‬ ‫(‪4‬‬
‫کے اختیارات زیر کار الرہی ہو‪ ،‬بھی صادر کر سکتی ہے۔‬
‫منسوخ ہوئی۔‬ ‫(‪5‬‬
‫کوئی شخص جس پر ایسے کسی قواعد کی خالف ورزی کا الزام ہو‪ ،‬کا مقدمہ‬ ‫(‪6‬‬
‫بااختیار مجسٹریٹ اس ضلع میں سماعت کرے گا جس میں وہ جگہ جس کی اس نے آخری بار بطور‬
‫اپنی جائے سکونت اطالع دی‪ ،‬واقع ہو۔‬

‫تبصرہ‪ :‬مذکورہ دفعہ میں کوئی بات اسالمی اصولوں کے خالف معلوم نہیں ہوتی‪ ،‬لہٰ ذا تبصرہ کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔‬

‫خالصہ‬

‫گزشتہ اوراق میں راقم السطور نے پاکستان میں نافذ ضابطہ فوجداری ( ‪Criminal‬‬
‫‪ )Procedure Code‬کا شرعی اصولوں کی روشنی میں دفعہ وار اور شق وارجائزہ لیا ہے جس‬
‫سے اصل مقصد اور حقیقی ہدف تو بس یہی ہے کہ ایک ایسے ضابطہ فوجداری کا مسودہ تیار کیا‬
‫ت رسول ﷺ اور اسالمی فقہ کے احکام و تعلیمات پر مشتمل ہو‪ ،‬اسالم اور‬ ‫جائے جو قرآن مجید‪ ،‬سن ِ‬
‫مسلمانوں کی چودہ سو سالہ قانونی تاریخ کی روایات کا امین اور آئینہ دار ہو‪ ،‬ہمارے موجودہ‬
‫معاشرے کے حاالت کے مطابق ہو اور فوری عدل وانصاف فراہم کرنے کے عمل میں معاون اور‬
‫مددگار ہو۔‬
‫ضابطہ فوجداری پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے استاد محترم ڈاکٹر شمس البصر کی ہدایات‬ ‫ٔ‬
‫کے مطابق ایک تو اختصار کو ملحوظ خاطر رکھا ہے کیونکہ ضابطہ مذکورہ کی (‪ )565‬دفعات ہیں‬
‫اور پھر ان کی مزید ذیلی دفعات اور شقیں ہیں‪ ،‬ان پر تفصیالً دالئل دیئے جائیں تو ضخیم مجلدات‬
‫تیار ہو سکتی ہیں لیکن یہ مقالہ اس کا متحمل نہیں ہو سکتا البتہ راقم نے اتنا ضرور کیا ہے کہ جہاں‬
‫تفصیلی دالئل کی ضرورت تھی اور فقہائے اسالم نے بھی وہاں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ وہاں‬
‫نکتہ نظر بھی‬
‫قدرے تفصیل سے بحث کی گئی ہے تاکہ نفس مسئلہ واضح ہو جائے اور اسالم کا ٔ‬
‫اچھی طرح بیان ہو جائے۔ اس سے مقالے میں بظاہر بعض جگہوں پر عدم توازن محسوس ہوتا ہے‬
‫لیکن راقم نے افراط و تفریط سے بچتے ہوئے حتی الوسع توازن قائم رکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ‬
‫مقالے کا حسن برقرار رہے۔ عالوہ ازیں استا ِد محترم نے بطور خاص یہ بھی ہدایت کی تھی کہ‬
‫مقالے میں عربی عبارات درج کرنے سے احتراز کروں کیونکہ اس سے تحریر میں ثقل پیدا ہوتا‬
‫ہے اور عبارت کی روانی و تسلسل قائم نہیں رہتا۔ البتہ اگر عبارت ایک الئن یا آدھی الئن کی ہو تو‬
‫کوئی حرج نہیں ہے۔ جہاں تک حوالہ جاتی مواد کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں راقم کی یہ کوشش‬
‫رہی ہے کہ بنیادی ماخذ سے ہی براہ راست استفادہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں راقم نے تفاسیر‪،‬‬
‫احادیث مبارکہ‪ ،‬شروحِ حدیث‪ ،‬اصول فقہ‪ ،‬متون فقہ اور سیاست شرعیہ اور قضاء سے متعلقہ کتب‬
‫کو بذریعہ انٹرنیٹ‪ ،‬ای میل اور دیگر جدید الیکٹرانک میڈیا کی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‬
‫حاصل کیا۔ بعض کتب مختلف الئبریریوں میں جا کر دیکھیں اور ان سے استفادہ کیا۔ ثانوی ماخذ سے‬
‫شاذ ونادر ہی استفادہ کی نوبت آئی ہوگی ۔ البتہ چند کتب کے اُردو تراجم سے بھی استفادہ کیا ہے جو‬
‫کوشش بسیار کے باوجود عربی متن کے ساتھ نہ مل سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید محققین کی‬
‫تصانیف سے بھی استفادہ کیا ہے تاکہ ان کے افکار و آراء سے بھی مستفیض ہوا جا سکے لیکن‬
‫مقالے کا غالب و اکثر حصہ قدیم امہات الکتب ہی کی مدد سے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے۔‬
‫ملک عزیز پاکستان میں سوء اتفاق سے آج تک وہی ضابطہ فوجداری مروج اور نافذ العمل‬
‫ہے جو کم وبیش ڈیڑھ صدی قبل برطانوی سامراج نے اپنے اقتدار کے استحکام اور اپنے مخصوص‬
‫استعماری‪ ،‬تہذیبی اور معاشی و معاشرتی مقاصد کی تکمیل کیلئے تشکیل دیا تھا‪ ،‬شاید اسی وجہ‬
‫سے گزشتہ ‪ 35‬سال کے عرصے سے بعض شرعی حدود وتعزیرات کے نظام کے نافذ ہونے کے‬
‫باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔‬
‫لہٰ ذا یہ مناسب محسوس ہوا کہ مروجہ ضابطہ فوجداری کا اسالمی تعلیمات کی روشنی میں‬
‫جائزہ لیا جائے اور اس میں جہاں جہاں ضرورت محسوس ہو‪ ،‬مناسب تجاویز و ترامیم دی جائیں‬
‫کیونکہ ضابطے کی بے جا طوالت اور پیچیدگی بھی حصول انصاف کے راستے میں مشکالت اور‬
‫تاخیر کی ذمہ دار ہے۔ قوانین و ضوابط واضح اور عام فہم انداز میں عوام و خواص کے سامنے‬
‫موجود ہوں تو اس سے مقدمات کے جلد اور صحیح فیصلہ جات کا امکان روشن ہو جاتا ہے۔‬
‫فوجداری مقدمات میں تاخیر کی چند وجوہات سامنے آئی ہیں‪ ،‬ان میں سے چند یہ ہیں‪ :‬تفتیش‬
‫میں تاخیر‪ ،‬تفتیش کرنے والے افسروں میں مطلوبہ اہلیت‪ ،‬پیشہ ورانہ لیاقت و مستعدی‪ ،‬کردار میں‬
‫دیانت و امانت کا فقدان‪ ،‬تفتیش کے دوران ہی دوسرے مختلف محکمانہ فرائض میں مصروفیت‪،‬‬
‫ماہرانہ رائے بالخصوص میڈیکل فورنزک رپورٹ اور مختلف کیمیائی تجزیاتی رپورٹس کا تاخیر‬
‫سے حصول‪ ،‬سینئر پولیس آفیسران کی طرف سے مناسب نگرانی نہ ہونا اور اس پر مستزاد عوام کا‬
‫عدم تعاون وغیرہ۔‬
‫دوران تفتیش تفتیشی اداروں کے عمل میں ملزم (‪ )Accused‬اور متضرر ( ‪Aggrieved‬‬
‫ت نفس ( ‪Self‬‬
‫‪ )Party‬کے حقوق و فرائض کی واضح نشاندہی اور ان کے احترام اور عز ِ‬
‫‪ )Respect‬کی یقین دہانی موجود نہ ہو تو اس کے نتیجہ میں سوسائٹی میں بے چینی اور اضطراب‬
‫جنم لیتا ہے‪ ،‬قانون اور قانونی اداروں اور ان سے وابستہ افراد کا وقار واحترام رخصت ہوتا چال‬
‫جاتا ہے‪ ،‬اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نقصان ہوتا ہے کہ اقتصادی و معاشی عمل مسدود ہونا شروع ہو‬
‫جاتا ہے اور ملکی خوشحالی و استحکام کا عمل متاثر ہوتا ہے‪ ،‬لہٰ ذا تفتیشی کارروائی کو جبر سے‬
‫پاک‪ ،‬کھال اور شفاف بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ فریقین مقدمہ تفتیشی اور عدالتی کارروائی‬
‫ت مقدمہ سے بخوبی آگاہ رہیں۔‬
‫کے دوران حاال ِ‬
‫چاالن پیش کرنے کا عرصہ زیادہ سے زیادہ چودہ ایام ہے‪ ،‬اس پر عمل کو یقینی بنایا جائے‪،‬‬
‫ت مقدمہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے تفتیشی افسر کے خالف توہین عدالت‬ ‫موقع و محل اور حاال ِ‬
‫کی کارروائی کی جانی چاہئے جو جان بوجھ کر یا الپرواہی اور غفلت سے چاالن پیش کرنے میں‬
‫تاخیر کا ذمہ دار ہو یا ارادۃ ً کسی فریق کی طرفداری یا مخالفت کرنے کیلئے تفتیش میں ردوبدل‬
‫خالف واقعہ پیش کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی مناسب ہوگا کہ چاالن پیش کرنے‬ ‫ِ‬ ‫کرے یا اسے‬
‫اور مقدمے کی عدالتی کارروائی میں تاخیر سے بچنے کیلئے میڈیکو لیگل یا فورنزک بیلسٹک‬
‫رپورٹ کا انتظار نہ کیا جائے اور چاالن فوری طور پر عدالت میں پیش کردیا جائے اور مذکورہ‬
‫رپورٹس مقدمے کی عدالتی کارروائی کے دوران بوقت ضرورت عدالت کے روبرو پیش کر دی‬
‫جائیں۔ نیز پہلے مقدمات کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے‪ ،‬پھر وہ سیشن کورٹ بھیجتا‬
‫ہے‪ ،‬اس عمل سے مقدمے کی کارروائی اور حصول انصاف میں تاخیر ہوتی ہے‪ ،‬لہٰ ذا یہ مناسب‬
‫رہے گا کہ جو مقدمات سیشن کورٹ میں قابل سماعت ہوں‪ ،‬انہیں پہلے مجسٹریٹ کے پاس پیش‬
‫کرنے کی بجائے براہ راست سیشن کورٹ میں ہی پیش کیا جائے تاکہ فوری سماعت کا آغاز ہو‬
‫سکے اور انصاف کا حصول جلد ممکن ہو۔‬
‫ملک عزیز میں آج اس امر کی ضرورت ہے کہ قرآن وسنت اور اسالمی نظام عدل وقضاء‬
‫سے اکتساب فیض کرتے ہوئے ایک ایسا نظام تشکیل دیا جائے جس میں ہر متاثر فریق اپنے مخالف‬
‫فریق کی طاقت اور اثر ورسوخ سے محفوظ رہ کر کم سے کم عرصے میں عدل وانصاف حاصل‬
‫کر سکے اور اس بارے میں متضرر فریق (‪ )Aggrieved Party‬کے وسائل کا کم ہونا یا اس کی‬
‫کمتر معاشرتی حیثیت قطعا ً رکاوٹ نہیں بننی چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی مدعا علیہ کو بھی اپنے دفاع‬
‫اور صفائی کا پورا پورا موقع ملنا چاہئے تاکہ وہ ریاستی ظلم وجبر کا شکار نہ ہونے پائے۔ یہ عمل‬
‫تفصیلی ریسرچ کا تقاضا کرتا ہے اور کم ترین وقت میں صحیح اور سچا انصاف مہیا کرنے کیلئے‬
‫عدل وانصاف پر مبنی ایسے نظام عدل اور فوجداری و دیوانی ضابطوں کی تشکیل بنیادی اہمیت کی‬
‫حامل ہے۔ ملک کے داخلی امن و استحکام کو برقرار رکھنے کیلئے منصفانہ انصاف کے جلد‬
‫حصول کیلئے مناسب قوانین و ضوابط کے نفاذ کی بھی بڑی ضرورت ہے اور ضابطہ فوجداری وہ‬
‫طریق کار منضبط کرتا ہے جس کی رو سے حکومتی ارکان اورقانون نافذ کرنے والے ادارے جرائم‬
‫کے واقعات پر کنٹرول کرتے ہیں‪ ،‬ریاست و قانون کے باغیوں کو پابند سالسل کرتے ہیں‪ ،‬ان پر‬
‫لگائے گئے الزامات کے بارے میں تفتیش کرتے ہیں اور پھر مقدمہ تیا رکرکے عدالت میں لے‬
‫جاتے ہیں تو عدالت ضابطہ میں بیان کردہ طریق کار کو اپنا کر مقدمہ کی سماعت کرتی ہے اور‬
‫ملزم کو بری کرتی ہے یا سزا سناتی ہے‪ ،‬لہٰ ذا ضابطہ پورے عدالتی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی‬
‫حیثیت رکھتا ہے اور اس کی توضیح وتشریح اور اصالح نہایت ضروری ہے۔ اسی پس منظر میں‬
‫اسالمی تعلیمات و احکام کے مطابق عدل وانصاف فراہم کرنے کی غرض سے ایک جدید نظام عدل‬
‫وانصاف اور جدید قانونی ضابطوں کی ازحد ضرورت ہے تاکہ وہ موجودہ دُنیا کو درپیش مسائل اور‬
‫چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کی صالحیت و استعداد مہیا کر سکے۔‬
‫موجودہ ضابطے میں عدالتی کارروائی کے دوران دی جانے والی شہادت کے سلسلے میں‬
‫کافی پیچیدگی ہے۔ نہ ہی گواہوں کا کوئی معیار ہے‪ ،‬نہ ہی جھوٹی گواہی پر کوئی سزا ہے جبکہ‬
‫اسالمی قانون شہادت میں تزکیۃ الشھود کی اصطالح موجود ہے جو گواہ کا معیار متعین کرتی ہے‬
‫اور اگر کوئی جھوٹی گواہی دے تو اسے مردود الشھادۃ قرار دیتی ہے اور پھر دوبارہ وہ شخص اس‬
‫قابل نہیں رہتا کہ عدالت میں گواہ کی حیثیت سے پیش ہو سکے۔ ضابطے کی متعلقہ دفعات کو‬
‫اسالمی ضابطہ شہادت کے مطابق نئے سرے سے مرتب کرنا بھی نہایت ضروری ہے تاکہ حصول‬
‫انصاف کے طریق کار میں اصالح ہو سکے اور جلد حصول انصاف کا خواب شرمندہ تعبیر ہو‬
‫سکے۔‬
‫اعلی عدالتوں میں مقدمات‬
‫ٰ‬ ‫اس بارے میں ایک اور امر کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔‬
‫کے فیصلہ جات آج تک انگریزی زبان میں تحریر کئے جاتے ہیں‪ ،‬جو نہ صرف غیر ملکی زبان‬
‫میں ہیں بلکہ پیچیدہ اور طویل بھی ہوتے ہیں اور عام آدمی کی سمجھ سے باالتر ہوتے ہیں‪ ،‬جس‬
‫سے یقینا حصو ِل انصاف میں تاخیر اور مشکل ہوتی ہے۔ اس کے بجائے حسب حال مختصر مگر‬
‫(‪ ،)Comprehensive‬سلیس‪ ،‬واضح اور مدلل فیصلہ جات تحریر کئے جانے چاہئیں جس سے جلد‬
‫انصاف کے حصول میں یقینا کامیابی ہوگی۔ مقدمات کے فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر بھی‬
‫حصول انصاف کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس روایت کو ترک کرکے مقدمات کی سماعت کم‬
‫سے کم وقت میں مکمل کرکے فورا ً فیصلہ سنا دینا چاہئے۔‬
‫قوانین کی اسالمی تشکیل اور قاضی کورٹس کے قیام کیلئے بنائی جانے والی کمیٹی ( ‪The‬‬
‫‪ )committee on Islamization of Laws and Establishment of Qazi Courts, 1980‬نے‬
‫نظام عدل وانصاف کی اصالح کے بارے میں جو اقدامات تجویز کئے تھے۔ ان میں‬ ‫ِ‬ ‫‪1980‬ء میں‬
‫ایک سفارش یہ بھی تھی کہ فیصلہ مقدمہ کی سماعت کی تکمیل کے فورا ً بعد سنا دیا جائے۔ لہٰ ذا اس‬
‫تجویز پر عمل کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔‬
‫درجِ باال سطور سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمیں پاکستان میں مروج سارے قانونی اور عدالتی‬
‫سسٹم کو اسالمی نظام عدل سے بدلنا پڑے گا۔ لہٰ ذا ترمیم و اصالح کے اس سارے عمل میں یہ‬
‫ملحوظ خاطر رہنا چاہئے کہ موجودہ عدالتی ادارے کلیت ًہ اور فورا ً ختم نہ ہونے پائیں‪ ،‬اس مقصد کے‬
‫حصول کیلئے ہمیں مروجہ ضابطہ فوجداری میں سے قابل اعتراض دفعات یا اسالمی تعلیمات‬
‫کیخالف مواد کو نکالنا ہوگا اور غیر ضروری ادل بدل سے نئے مسائل پیدا نہیں کرنے چاہئیں۔‬
‫راقم نے ضابطہ فوجداری کی دفعات کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ اگر‬
‫کوئی دفعہ اسالمی تعلیمات کے خالف ہے‪ ،‬تو اسے حذف کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس کے‬
‫بعد وہ دفعات ہیں جنہیں معمولی تبدیلی و ترمیم کے ذریعے قرآن وسنت کے مطابق بنایا جا سکتا‬
‫ہے۔ لہٰ ذا ان میں اس حد تک ہی ترمیم کی تجویز پیش کی ہے۔ اس کے بعد وہ دفعات ہیں جو اسالمی‬
‫تعلیمات کے خالف نہیں ہیں‪ ،‬انہیں اسی طرح رہنے دیا گیا ہے۔ حذف کی جانے والی دفعات سب‬
‫سے کم ہیں‪ ،‬پھر معمولی ترمیم کے ذریعے قابل اصالح دفعات ہیں۔ ان کی تعداد بھی اتنی زیادہ نہیں‬
‫ہے۔ راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ مروجہ ضابطہ فوجداری کا اکثر حصہ اسالمی تعلیمات کے‬
‫مطابق ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ ضابطہ اسالمی نظام ہی سے ماخوذ ہے۔ صرف نام‬
‫وشکل اور لباس تبدیل کرکے اسے برطانوی حکومت نے اپنا کارنامہ قرار دیا ہے۔دراصل یہ اسالمی‬
‫ضابطہ فوجداری کی ہی ایک شکل ہے‪ ،‬جس میں کہیں کہیں نقائص ہیں جنہیں دور کردیا جائے تو‬
‫اصل شکل سامنے آجائے گی اور راقم کی رائے کی اصابت بھی واضح ہو جائے گی۔‬
‫راقم نے اس مقالے میں یہ التزام بھی کیا ہے کہ جہاں ضروری محسوس ہوا وہاں دفعہ کا‬
‫متن لکھنے کے بعد لفظ ’’وضاحت‘‘ لکھ کر مذکورہ دفعہ کو آسان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔ بعض‬
‫دفعات پر بحث کرتے ہوئے صرف ایک یا دو حوالوں پر اکتفا کیا گیا ہے کیونکہ کوشش بسیار کے‬
‫باوجود مزید مواد دستیاب نہیں ہوسکا۔‬
‫اسالمی نظام عدالت میں فوجداری عدل فراہم کرنے کیلئے تین کام نہایت ضروری ہیں‪ ،‬ان‬
‫میں سب سے پہال کام شہادت کو ریکارڈ کرنا ہے اور پھر فیصلہ صادر کرنا ہے‪ ،‬یہ عام عدالتیں‬
‫سرانجام دیتی رہیں۔ دوسرا کام انتظامیہ کا قانونی حدود میں رہنا اور ریاست کے قانون کے مطابق‬
‫فرائض سرانجام دینا ہے تاکہ حسن انتظام (‪ )Good Administration‬کی آڑ میں قانون کی خالف‬
‫ورزی نہ کرسکے‪ ،‬اس مقصد کی تکمیل کیلئے حکومت پاکستان نے محتسب کا ادارہ قائم کیا ہے‪،‬‬
‫اسالمی نظام حکومت میں اسے ’’والئی مظالم‘‘ کہا جاتا ہے۔ تیسرا کام عدالتوں کے صادر کئے‬
‫موثر نفاذ ہے‪ ،‬اس میں امن عامہ قائم کرنے والے اور غیر قانونی‬ ‫ہوئے فیصلہ جات کا اطالق اور ٔ‬
‫موثر بنانا نہایت‬
‫امور کا سدباب کرنے والے ادارے بھی شامل ہیں۔ ان تینوں اداروں کو فعال اور ٔ‬
‫ضروری ہے۔‬
‫عدل وانصاف کے موجودہ نظام میں وکالت کی اہمیت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے‪،‬‬
‫ت‬
‫وکیل کا بنیادی کام تو موکل کو قانونی امداد فراہم کرنا‪ ،‬عدالت میں اس کی ترجمانی کرنا اور بوق ِ‬
‫ضرورت قانون کی تعبیر وتشریح میں عدالت کی مدد کرنا اور اسے بروقت اور صحیح فیصلہ تک‬
‫پہنچنے میں مدد فراہم کرنا ہے لیکن ہمارے ہاں یہ امور کسی اور ہی انداز میں سرانجام دیئے جاتے‬
‫ہیں۔ وکالء حضرات موکل کی قانونی کے بجائے غیر قانونی امداد کرتے زیادہ نظر آتے ہیں اور‬
‫اپنے حیلوں بہانوں سے انصاف کے حصول میں تاخیر کا باعث بنتے ہیں اور مجرم کو ملنے والی‬
‫سزا میں کمی کے بجائے اسے سزا سے کلیت ًہ بچانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں‬
‫جھوٹ سے بھی آزادانہ کام لیا جاتا ہے۔ اس روئیے کی اصالح اور سدباب کی بھی اشد ضرورت‬
‫ہے تاکہ جلد حصول انصاف کی منزل قریب آسکے۔‬
‫اسالم نظام عدل کے قیام کیلئے ایک اور اہم امر کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے‪ ،‬ہماری‬
‫عدلیہ کے افسر صاحبان کا احترام مدنظر رکھتے ہوئے یہ تجویز ہے کہ اسالمی قوانین کے نفاذ‬
‫کیلئے انہیں فقہ اسالمی کا نصاب پڑھایا جائے تاکہ اسالمی نظام کی برتری ان کے ذہنوں میں جم‬
‫جائے اور وہ اس نظام کو (‪ )Really Superior to All‬سمجھ کر نافذ کرنے کی پوری کوشش‬
‫کریں۔‬
‫اس کے عالوہ عدلیہ ایسے افراد منتخب کرے جو امانت و دیانت کے حامل ہوں اور اپنے‬
‫فرائض منصبی پورے احساس ذمہ داری اور اسالمی تعلیمات کی روح کے مطابق ادا کرنے کی‬
‫صالحیت سے بہرہ ور ہوں۔ نقص موجودہ ضابطے میں کم دکھائی دیتا ہے۔ اس کے اطالق اور نفاذ‬
‫کے ذمہ دار افراد کی کمی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اگر ضابطے کو نافذ کرنے والے ماہر افراد‬
‫کی ٹیم میسر آجائے تو یقینا اسالمی نظام عدل کا قیام اور جلد انصاف کا حصول بہت جلد ممکن ہو‬
‫سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی مدنظر رہے کہ عدلیہ کا محکمہ کبھی بھی حکومت کیلئے آمدنی‬
‫کا ذریعہ نہیں رہا۔ لہٰ ذا عدلیہ کے افراد کو معقول معاوضہ اور مراعات فراہم کی جانی چاہئیں‪ ،‬جو‬
‫انتظامیہ (‪ )Executive‬کے افراد کو حاصل ہیں۔ نیز ملک عزیز میں ججوں کے ساتھ ناروا سلوک‬
‫کے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں‪ ،‬ایسے واقعات کا سدباب کرکے عدلیہ کے وقار کو بہرحال‬
‫قائم کرنا چاہئے تاکہ وہ ذہنی یکسوئی اور پورے وقار واحترام کے ساتھ اپنے فرائض منصبی‬
‫سرانجام دے سکیں۔‬
‫راقم نے مقدور بھر مجموعہ ضابطہ فوجداری کا دفعہ دار اور شق وار جائزہ لیکر اپنا‬
‫فرض سرانجام دینے کی کوشش کی ہے۔ اس سے انقالبی نتائج کی توقع تو نہیں کی جا سکتی‪ ،‬البتہ‬
‫یہ امید واثق ہے کہ اگر حکومت خلوص دِل سے ان سفارشات اور تجاویز و ترامیم کو نافذ کرے تو‬
‫تعالی۔‬
‫ٰ‬ ‫جلد انصاف کے حصول کی منزل قریب تر ضرور ہو جائیگی۔ ان شاء ہللا‬
‫حوالہ جات‬

‫باب پنجم‬
‫(دفعہ نمبر ‪ 476‬تا ‪)565‬‬
‫جائزہ رپورٹ ضابطہ فوجداری‪1316 ،‬ھ ‪1898 /‬ء‪ ،‬مالحظات ‪ /‬مجوزہ ترامیم‪ ،‬ص ‪،187‬‬ ‫(‪1‬‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل‪ ،‬حکومت پاکستان‪ ،‬اسالم آباد‪1421 ،‬ھ ‪2000 /‬ء‬
‫مسودہ اسالمی قانون شہادت ‪1982‬ء ‪ /‬ص ‪ ،26-23‬اسالمی نظریاتی کونسل حکومت‬ ‫(‪2‬‬
‫پاکستان‪ ،‬اسالم آباد‪1403 ،‬ھ ‪1982 /‬ء‬
‫بغوی‪ ،‬حسین بن مسعودؒ ‪( :‬م۔ ‪510‬ھ ‪1116 /‬ء)‪ :‬معالم التنزیل فی تفسیر القرآن‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص‬ ‫(‪3‬‬
‫‪ ،658‬داراحیاء التراث العربی‪ ،‬بیروت طبعۃ االولی‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫قرآن کریم‪ :‬النساء ‪65 : 4‬‬ ‫(‪4‬‬
‫ابن قدامہ‪ ،‬عبدہللا بن احمد‪( :‬م۔ ‪620‬ھ ‪1223 /‬ء)‪ :‬المغنی‪ ،‬ج ‪ ،10‬ص ‪ ،40‬المکتبۃ القاھرہ‪،‬‬
‫ِ‬ ‫(‪5‬‬
‫‪1388‬ھ ‪1968 /‬ء‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪6‬‬
‫الصاوی‪ ،‬احمد بن محمد‪( :‬م۔ ‪1241‬ھ ‪1825 /‬ء)‪ :‬بلغۃ السالک ال قرب المسالک المعروف‬ ‫(‪7‬‬
‫المالکی‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪ ،194‬دارالمعارف‪ ،‬س ن‬
‫ؒ‬ ‫بحاشیۃ الصاوی علی الشرح الصغیر للدردیر‬
‫طرابلسی‪ ،‬علی بن خلیل‪( :‬م۔ ‪844‬ھ ‪1440 /‬ء)‪ :‬معین الحکام‪ ،‬ص ‪ ،21‬شرکۃ‬ ‫(‪i‬‬ ‫(‪8‬‬
‫مکتبۃ مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی واولددہ بمصر‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1393 ،‬ھ ‪1973 /‬ء‬
‫شمس الحق افغانی‪ :‬شرعی ضابطہ دیوانی‪ ،‬ص ‪ ،310‬مکتبہ سید شمس الحق‬ ‫(‪ii‬‬
‫افغانی‪ ،‬شاہی بازار بہاولپور‪ ،‬س ن‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪188‬‬ ‫(‪9‬‬
‫(‪ i‬مولوی عبدالحق‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬اُردو لغت‪ ،‬ج ‪ ،6‬ص ‪ ،575‬ترقی اُردو بورڈ‪ ،‬کراچی‪1405 ،‬ھ ‪/‬‬ ‫(‪10‬‬
‫‪1984‬ء‬
‫معارف اسالمیہ‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪ ،169‬دانش گاہ پنجاب‪ ،‬الہور‪ ،‬ط‪ :‬اول‪1391 ،‬ھ ‪/‬‬
‫ِ‬ ‫(‪ ii‬اُردو دائرہ‬
‫‪1971‬ء‬
‫(‪ 11‬ابن منظور‪ ،‬محمد بن مکرم‪( :‬م۔ ‪711‬ھ ‪1311/‬ء)‪ :‬لسان العرب‪ ،‬ج ‪ ،15‬ص ‪ ،59‬داراحیاء‬
‫التراث العربی بیروت‪1409 ،‬ھ ‪1988 /‬ء‬
‫مرتضی سید‪( :‬م۔ ‪1205‬ھ ‪1790 /‬ء)‪ :‬تاج العروس‪ ،‬ج ‪ ،9‬ص ‪ ،3‬المطبعۃ‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 12‬زبیدی‪ ،‬محمد‬
‫الخیریۃ المنشاۃ‪ ،‬مصر‪1306 ،‬ھ ‪1888 /‬ء‬
‫‪Fred E. Inbau: 'Fine', The World Book Encyclopedia, Vol: 7, P-103, )13‬‬
‫‪Chicago, World book, Inc. 1987 AD / 1408 AH‬‬
‫‪The Conise Oxford Dictionary, P-391, Oxford University Press, 6th )14‬‬
‫‪/ Edition, 1976 AD‬‬
‫(‪ 15‬جندی عبدالملک‪ :‬الموسوعۃ الجنائیۃ‪ ،‬ج ‪ ،5‬ص ‪ ،107‬داراحیاء التراث العربی‪ ،‬بیروت‪،‬‬
‫‪1405‬ھ ‪1976 /‬ء‬
‫‪Henry Compbell Black: Black's Law Dictionary, P-569, West Publishing )16‬‬
‫‪Company, Sanfransico, 1976 AD / 1396 AH‬‬
‫‪Richard A. Green, 'Fine', The Encylopedia Americana, Vol: 11, P-213, )17‬‬
‫‪Encyclopedia Americana Corporation, USA, 1984‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬التوبۃ ‪110-107 : 9‬‬ ‫(‪18‬‬
‫(‪ 19‬الزرقانی‪ ،‬محمد بن عبدالباقی‪( :‬م۔ ‪1122‬ھ ‪1710 /‬ء)‪ :‬شرح المواھب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ‪،‬‬
‫االولی‪1417 ،‬ھ ‪1996 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫ج ‪ ،4‬ص ‪ ،98‬دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 20‬الصالحی‪ ،‬محمد بن یوسف الشامی‪( :‬م۔ ‪942‬ھ ‪1535 /‬ء)‪ :‬سہل‬
‫العباد‪ ،‬ج ‪ ،4‬ص ‪ ،94-92‬وزارۃ االوقاف‪ ،‬القاھرہ‪1400 ،‬ھ ‪1979 /‬ء‬
‫تعالی نے اس بارے میں درج ذیل آیت قرآنی نازل فرمائی‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫(‪21‬‬
‫ی أَن یَ ُکونَ لَہُ أَس َْری َحتَّی یُثْ ِخنَ فِی اال َْٔر ِ‬
‫ض …… الخ (االنفال‪)67:8 :‬‬ ‫َما کَانَ ِلنَبِ ٍ ِّ‬
‫’’کسی نبی کی شان کے الئق نہیں کہ اس کیلئے قیدی ہوں‪ ،‬یہاں تک کہ وہ زمین میں‬
‫(کافروں کا) خون اچھی طرح بہا دے‘‘۔‬
‫‪The World Book Encyclopedia, Vol: 7, P-103‬‬ ‫‪)22‬‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪188‬‬ ‫(‪23‬‬
‫(‪ 24‬مجاہد االسالم قاسمی‪ :‬اسالمی عدالت‪ ،‬دفعہ نمبر ‪ ،721‬ص ‪ ،422‬ادارۃ القرآن والعلوم‬
‫اسالمیۃ‪ ،‬کراچی‪ ،‬ط‪ ،‬دوم‪1419 ،‬ھ ‪1998 /‬ء‬
‫(‪ 25‬ابن قیم جوزی‪ ،‬محمد بن ابی بکر‪( :‬م‪751 :‬ھ ‪1350 /‬ء)‪ :‬الطرق الحکمیہ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪،75‬‬
‫مکتبہ دارالبیان‪ ،‬س ن‬
‫قانون شہادت‪ ،‬ص ‪ ،227‬دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری‪ ،‬نسبت‬
‫ِ‬ ‫(‪ 26‬محمد متین ہاشمی‪ ،‬سید‪ :‬اسالم کا‬
‫روڈ الہور‪ ،‬ط‪ :‬سوم‪1419 ،‬ھ ‪1998 /‬ء‬
‫(‪ 27‬لجنۃ مکونۃ من عدۃ علماء و فقہاء فی الخالفۃ العثمانیۃ‪ :‬المجلۃ االحکام العدلیہ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص‬
‫‪ ،353‬المادہ‪ ،1741 :‬نور محمد کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی‪ ،‬س ن‬
‫محمد متین ہاشمی‪ ،‬اسالم کا قانون شہادت‪ ،‬ص ‪232-231‬‬ ‫(‪28‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪232‬‬ ‫(‪29‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪233-232‬‬ ‫(‪30‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪235‬‬ ‫(‪31‬‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪192‬‬ ‫(‪32‬‬
‫ابن قیم جوزی‪ ،‬الطرق الحکمیہ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪226‬‬ ‫(‪33‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪34‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،1‬ص ‪224‬‬ ‫(‪35‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،1‬ص ‪225‬‬ ‫(‪36‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪37‬‬
‫القاسم بن سالم‪ ،‬ابوعبید‪( :‬م۔ ‪224‬ھ ‪838 /‬ء)‪ :‬کتاب االموال‪ ،‬ص ‪ ،126‬دارالفکر بیروت‪ ،‬س‬ ‫(‪38‬‬
‫ن‬
‫(‪ 39‬ابن تیمیہ‪ ،‬احمد بن عبدالحلیم‪( :‬م۔ ‪728‬ھ ‪1327 /‬ء)‪ :‬الحسبۃ فی االسالم‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪،49‬‬
‫االولی‪ ،‬س ن‬
‫ٰ‬ ‫دارالکتب العلمیہ‪ ،‬طبعۃ‬
‫(‪ 40‬صنعانی‪ ،‬عبدالرزاق بن ھمام‪( :‬م۔ ‪211‬ھ ‪826 /‬ء)‪ :‬المصنف‪ ،‬کتاب االشربہ‪ ،‬باب الریح‪ ،‬رقم‬
‫الحدیث‪ ،17035 :‬المکتب االسالمی بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1403 :‬ھ ‪1982 /‬ء‬
‫ابن قیم جوزی‪ :‬الطرق الحکمیہ‪ :‬ج ‪ ،1‬ص ‪227‬‬ ‫(‪41‬‬
‫اثیر‪ ،‬علی بن ابی الکرم‪( :‬م۔ ‪630‬ھ ‪1232 /‬ء)‪ :‬اکامل فی التاریخ‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪،482‬‬
‫(‪ 42‬ابن ؒ‬
‫االولی‪1417 ،‬ھ ‪1997 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫دارالکتاب العربی بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫ابن قیم جوزی‪ :‬الطرق الحکمیہ‪ :‬ج ‪ ،1‬ص ‪227‬‬ ‫(‪43‬‬
‫(‪ 44‬محمد ارشد‪’’ :‬عصر حاضر اور سد ذرائع‘‘ منہاج‪ ،‬ج ‪ ،18‬شمارہ ‪ ،4‬اکتوبر تا دسمبر‬
‫‪1421‬ھ ‪2000 /‬ء‪ ،‬ص ‪ ،52‬دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری‪ ،‬نسبت روڈ الہور‬
‫(‪ 45‬رازی‪ ،‬محمد بن عمر‪ ،‬فخر الدین‪( :‬م۔ ‪606‬ھ ‪1209 /‬ء)‪ :‬مفاتیح الغیب‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪،364‬‬
‫داراحیاء التراث العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ الثالثۃ‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫قرآن کریم‪ :‬الزلزال ‪8-7 : 99‬‬ ‫(‪46‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬ابراہیم ‪43-42 : 14‬‬ ‫(‪47‬‬
‫قرآن کریم‪ :‬ھود ‪18 : 11‬‬ ‫(‪48‬‬
‫(‪ 49‬ابن حجر عسقالنی‪ ،‬احمد بن علی‪( :‬م۔ ‪852‬ھ ‪1448 /‬ء)‪ :‬فتح الباری شرح صحیح البخاری‪،‬‬
‫کتاب المظالم‪ ،‬ج ‪ ،5‬ص ‪ ،95‬دارالمعرفۃ بیروت‪1379 ،‬ھ ‪1959 /‬ء‬
‫(‪ 50‬بخاری‪ ،‬محمد بن اسماعیل‪( :‬م۔ ‪256‬ھ ‪869 /‬ء)‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب المساقات‪ ،‬باب اثم من‬
‫االولی‪1422 :‬ھ ‪2001 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫ظلم شیئا من االرض‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،2452 :‬دار طوق النجاۃ‪ ،‬طبعۃ‬
‫(‪ 51‬مسلم بن حجاج‪( :‬م۔ ‪261‬ھ ‪847 /‬ء)‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب البر والصلۃ واْلداب‪ ،‬باب تحریم‬
‫الظلم‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،2582 :‬داراحیاء التراث العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫بخاری‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب المظالم‪ ،‬باب قصاص المظالم‪ ،‬رقم الحدیث‪2440 :‬‬ ‫(‪52‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬کتاب المظالم‪ ،‬باب من کانت لہ‪ ،‬مظلمۃ عندالرجل فحللھالہ‪ ،‬رقم الحدیث‪2449 :‬‬ ‫(‪53‬‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪194‬‬ ‫(‪54‬‬
‫ہللا‪ ،‬مرتب‪:‬‬
‫(‪ 55‬حمید ہللا‪ ،‬ڈاکٹر‪’’ :‬اسالمی عدل گستری‪ ،‬اپنے آغاز میں‘‘‪ ،‬نگارشات ڈاکٹر حمید ؒ‬
‫مختار حق‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ ،280‬بیکن بکس گلگشت ملتان‪1428 ،‬ھ ‪2007 /‬ء‬ ‫ِ‬ ‫عالم‬
‫(‪ 56‬مسلم‪ :‬الجامع الصحیح‪،‬کتاب االقضیۃ‪ ،‬باب نقض االحکام الباطلۃ ورد محدثات االمور‪ ،‬رقم‬
‫الحدیث‪1718 :‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬کتاب االمارۃ‪ ،‬باب ھدایا العمال‪ ،‬رقم الحدیث‪1833 :‬‬ ‫(‪57‬‬
‫(‪ 58‬ابن نجیم‪ ،‬زین الدین بن ابراہیم‪( :‬م۔ ‪970‬ھ ‪1562 /‬ء)‪ :‬البحر الرائق شرح کنز الدقائق‪ ،‬ج ‪،6‬‬
‫ص ‪ ،282‬دارلکتاب االسالمی‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 59‬شمس الحق افغانی‪ :‬شرعی ضابطہ دیوانی‪ ،‬ص ‪ ،290‬مکتبہ سید شمس الحق افغانی‪ ،‬شاہی‬
‫بازار بہاولپور‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 60‬ایم ایس ناز‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬اسالمی ریاست میں محتسب کا کردار‪ ،‬ص ‪ ،103‬ادارہ تحقیقات اسالمی‪،‬‬
‫بین االقوامی اسالمی یونیورسٹی اسالم آباد‪ ،‬ط‪ :‬اول‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫(‪ 61‬محمود عرنوس‪ :‬تاریخ القضاء فی االسالم‪ ،‬مترجم اُردو‪ :‬محمد احمد پانی پتی‪ ،‬ص ‪،152‬‬
‫مشتاق بک کارنر اُردو بازار الہور‪ ،‬س ن‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ص ‪153‬‬ ‫(‪62‬‬
‫مجاہد قاسمی‪ :‬اسالمی عدالت‪ :‬ص ‪215‬‬ ‫(‪63‬‬
‫(‪ 64‬ابودائود‪ ،‬سلیمان بن اشعث‪( :‬م۔ ‪275‬ھ ‪888 /‬ء)‪ :‬السنن‪ ،‬کتاب االقضیۃ باب کیف القضاء‪ ،‬رقم‬
‫الحدیث‪ ،3592 :‬المکتبۃ العصریہ‪ ،‬صیدا بیروت‪ ،‬س ن‬
‫حوالہ سابق‪ :‬باب اجتہاد الرای فی القضاء‪ ،‬رقم الحدیث‪3582 :‬‬ ‫(‪65‬‬
‫(‪ 66‬دار قطنی‪ ،‬علی بن عمر‪( :‬م۔ ‪385‬ھ ‪995 /‬ء)‪ :‬السنن للدارقطنی‪ ،‬کتاب االقضیۃ واالحکام وغیر‬
‫االشعری‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،4417 :‬موسسۃ الرسالۃ بیروت‪ ،‬لبنان‪،‬طبعۃ‬
‫ؓ‬ ‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫عمر الی ابی‬
‫ذلک‪ ،‬کتاب ؓ‬
‫االولی‪1424 ،‬ھ ‪2004 /‬ء‬
‫ٰ‬
‫ربہ‪ ،‬احمد بن محمد‪(:‬م۔ ‪327‬ھ ‪938 /‬ء)‪ :‬العقد الفرید‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪-98‬‬
‫ابن عبد ؒ‬
‫ِ‬ ‫(‪i‬‬ ‫(‪67‬‬
‫‪ ،99‬مطبعہ الجنۃ‪ ،‬ط‪:‬دوم‪1372 ،‬ھ ‪1952 /‬ء‬
‫سرخسی‪ ،‬محمد بن احمد‪( :‬م۔ ‪490‬ھ ‪1096 /‬ء)‪ :‬المبسوط‪ ،‬ج ‪ ،16‬ص ‪،65‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪ii‬‬
‫دارالمعرفۃ بیروت‪1414 ،‬ھ ‪1993 /‬ء‬
‫ابو یوسف‪ :‬کتاب الخراج‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،126‬المکتبۃ االزھریۃ للتراث‪ ،‬س ن‬ ‫(‪68‬‬
‫(‪ 69‬احمد ذکی صفوت‪ :‬جمھرۃ رسائل العرب فی العصور العربیۃ الزاھرۃ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪،251‬‬
‫مطبوعۃالقاھرہ‪،‬مصر‪1356 ،‬ھ ‪1937 /‬ء‬
‫الخصاف‪ ،‬احمد بن عمر‪ ،‬ابوبکر‪( :‬م۔ ‪261‬ھ ‪874 /‬ء)‪ :‬ادب القاضی‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪ ،95‬مطبعۃ‬
‫ؒ‬ ‫(‪70‬‬
‫االرشاد‪ ،‬بغداد‪1398 ،‬ء ‪1978 /‬ء‬
‫کاسانی‪ ،‬عالء الدین ابی بکر بن مسعود‪( :‬م۔ ‪587‬ھ ‪1191 /‬ء)‪ :‬بدائع الصنائع‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪،7-6‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪71‬‬
‫دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1406 ،‬ھ ‪1986 /‬ء‬
‫(‪ 72‬المرغینانی‪ ،‬علی بن ابی بکر‪( :‬م۔ ‪593‬ھ ‪1196 /‬ء)‪ :‬الھدایۃ‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪ ،108‬داراحیاء التراث‬
‫العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫(‪ i‬سرخسی‪ :‬المبسوط‪ ،‬ج ‪ ،16‬ص ‪73‬‬ ‫(‪73‬‬
‫(‪ ii‬ابن نجیم‪ :‬البحر الرائق‪ :‬ج ‪ ،7‬ص ‪25‬‬
‫مجاہد قاسمی‪ :‬اسالمی عدالت‪ ،‬دفعہ نمبر ‪ ،613‬ص ‪375‬‬ ‫(‪74‬‬
‫حوالہ سابق‪ :‬دفعہ نمبر ‪614‬‬ ‫(‪75‬‬
‫افغانی‪ :‬شرعی ضابطہ دیوانی‪ ،‬ص ‪305‬‬ ‫(‪76‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪77‬‬
‫ابن نجیم‪ :‬البحر الرائق‪ ،‬ج ‪ ،7‬ص ‪26‬‬ ‫(‪78‬‬
‫رپورٹ ضابطہ فوجداری‪ :‬ص ‪196‬‬ ‫(‪79‬‬
‫بخاری‪ ،‬محمد بن اسماعیل‪( :‬م‪،‬۔ ‪256‬ھ ‪869 /‬ء)‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب‬ ‫(‪i‬‬ ‫(‪80‬‬
‫االیمان والنذور‪ ،‬باب کیف کانت یمین رسول ہللاﷺ‪ ،‬رقم الحدیث‪8636 :‬‬
‫ابی عوانہ‪ ،‬یعقوب بن اسحاق‪( :‬م۔ ‪316‬ھ ‪928 /‬ء)‪ :‬المستخرج ابی عوانہ‬ ‫(‪ii‬‬
‫االولی‪1419 ،‬ھ ‪1998 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫دارالمرفۃ بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫(‪ 81‬ابن تیمیہ‪ ،‬احمد بن عبدالحلیم‪( :‬م۔ ‪728‬ھ ‪1327 /‬ء)‪ :‬السیاسۃ الشرعیۃ فی اصالح الراعی و‬
‫الرعیۃ‪ ،‬ج ‪ ،1‬ص ‪ ،38‬وزارۃ الشئون االسالمیۃ واالوقاف والدعوۃ واالرشاد‪ ،‬المملکۃ العربیۃ‬
‫االولی‪1418 ،‬ھ ‪1997 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫السعودیۃ‪ ،‬طبعۃ‬
‫انصاری‪ ،‬رقم‬
‫ؓ‬ ‫حنبل‪ ،‬احمد‪( :‬م۔ ‪21‬ھ ‪855 /‬ء)‪ :‬المسند‪ ،‬حدیث ابی ایوب‬
‫ؒ‬ ‫ابن‬ ‫(‪i‬‬ ‫(‪82‬‬
‫لی‪1421 ،‬ھ ‪2001 /‬ء‬ ‫الحدیث‪ ،23601 :‬موسسۃ الرسالۃ‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ االو ٰ‬
‫البزار‪ ،‬احمد بن عمرو‪( :‬م۔ ‪292‬ھ ‪904 /‬ء)‪ :‬مسند البزار المنشور باسم‬ ‫(‪ii‬‬
‫البحرالزخار‪ ،‬حدیث ابی حمید المساعدی مدنی عن رسول ہللا ﷺ‪ ،‬رقم الحدیث‪ ،3723 :‬مکتبۃ العلوم‬
‫والحکم‪ ،‬المدینۃ المنورۃ‪ ،‬طبعۃ االولی‪ ،‬بدأت‪1409 ،‬ھ ‪1988 /‬ء‪ ،‬وانتھت‪1431 :‬ھ ‪2009 /‬ء‬
‫(‪ 83‬علی متقی‪( :‬م۔ ‪975‬ھ ‪1567 /‬ء)‪ :‬کنز العمال فی سنن االقوال واالفعال‪ ،‬رقم الحدیث‪،15083 ،‬‬
‫موسسۃ الرسالۃ‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ الخامسۃ‪1401 ،‬ھ ‪1981 /‬ء‬
‫علی متقی‪ ،‬عالء الدین‪ :‬کنز العمال‪ :‬رقم الحدیث‪15068 :‬‬ ‫(‪84‬‬
‫الکبری‪ ،‬ج ‪ ،3‬ص ‪ ،207‬دارالکتب العلمیہ‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 85‬ابن سعد‪ ،‬محمد‪( :‬م۔ ‪230‬ھ ‪844 /‬ء)‪ :‬طبعات‬
‫االولی‪1410 ،‬ھ ‪1990 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫حوالہ سابق‪ :‬ج ‪ ،3‬ص ‪209‬‬ ‫(‪86‬‬
‫حوالہ سابق‬ ‫(‪87‬‬
‫ؓ‬
‫عبدالعزیز‪ ،‬ص ‪،161‬‬ ‫(‪ 88‬ابن جوزی‪ ،‬عبدالرحمن بن علی‪( :‬م‪597 ،‬ھ ‪1200 /‬ء)‪:‬سیرۃ عمر بن‬
‫الموید‪1331 ،‬ھ ‪1912 /‬ء‬
‫مطبع ٔ‬
‫حوالہ سابق‪ ،‬ص ‪158‬‬ ‫(‪89‬‬
‫مصادر و مراجع‬

‫قرآن کریم‬ ‫٭‬


‫کتب تفسیر‬ ‫٭‬
‫آلوسی‪ ،‬محمود احمد‪ ،‬سید‪ :‬روح المعانی‪ ،‬مکتبہ امدادیہ ملتان‪ ،‬س ن‬ ‫(‪1‬‬
‫ابن عربی‪ ،‬محمد بن عبدہللا‪ ،‬ابوبکر‪ :‬احکام القرآن‪ ،‬دارالمعرفۃ بیروت‪1398 ،‬ھ ‪1977 /‬ء‬ ‫(‪2‬‬
‫دار طیبۃ للنشر والتوزیع‪ ،‬طبعۃ‬
‫ابن کثیر‪ ،‬عماد الدین اسمٰ عیل‪ ،‬ابوالفداء‪ :‬تفسیر القرآن العظیم‪ِ ،‬‬ ‫(‪3‬‬
‫الثانیۃ‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫االزھری‪ ،‬محمد کرم شاہ‪ :‬ضیاء القرآن‪ ،‬ضیاء القرآن پبلی کیشنز‪ ،‬اُردو بازار الہور‪1399 ،‬ھ‬ ‫(‪4‬‬
‫‪1978 /‬ء‬
‫بغوی‪ ،‬حسین بن مسعود‪ :‬معالم التنزیل فی تفسیر القرآن‪ ،‬دار احیاء التراث العربی‪ ،‬بیروت‪،‬‬ ‫(‪5‬‬
‫االولی‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫طبعۃ‬
‫بیضاوی‪ ،‬عبدہللا بن عمر‪ :‬انوار التنزیل واسرار التاویل‪ ،‬دار احیاء التراث العربی‪ ،‬بیروت‪،‬‬ ‫(‪6‬‬
‫االولی‪1418 ،‬ھ ‪1997 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫طبعۃ‬
‫ثناء ہللا پانی پتی‪ ،‬قاضی‪ :‬تفسیر المظہری‪ ،‬مکتبۃ الرشیدیۃ‪ ،‬الباکستان‪1412 ،‬ھ ‪1991 /‬ء‬ ‫(‪7‬‬
‫جصاص‪ ،‬احمد بن علی‪ ،‬ابوبکر‪ :‬احکام القرآن‪ ،‬سہیل اکیڈمی‪ ،‬الہور‪1400 ،‬ھ ‪1979 /‬ء‬ ‫(‪8‬‬
‫رازی‪ ،‬محمد بن عمر‪ ،‬فخر الدین‪ :‬مفاتیح الغیب‪ ،‬دار احیاء التراث العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ‬ ‫(‪9‬‬
‫الثالثۃ‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫(‪ 10‬سیوطی‪ ،‬عبدالرحمن بن ابی بکر‪ ،‬جالل الدین‪ :‬الدر المنثور فی التفسیر بالماثور‪ ،‬دارالفکر‪،‬‬
‫بیروت‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 11‬قرطبی‪ ،‬محمد بن احمد‪ :‬الجامع الحکام القرآن‪ ،‬دارالکتب المصریۃ‪ ،‬القاھرہ‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪،‬‬
‫‪1384‬ھ ‪1964 /‬ء‬
‫کاندھلوی‪ ،‬محمد علی صدیقی‪ :‬معالم القرآن‪ ،‬انجمن دارالعلوم الشھابیہ‪ ،‬سیالکوٹ‪1397 ،‬ھ ‪/‬‬ ‫(‪12‬‬
‫‪1976‬ء‬
‫(‪ 13‬مال جیون‪ ،‬احمد بن ابو سعید‪ :‬تفسیرات احمدیہ فی بیان اْلیات الشرعیۃ‪ ،‬قدیمی کتب خانہ‪ ،‬آرام‬
‫باغ‪ ،‬کراچی‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 14‬وھبہ زحیلی‪ ،‬دکتور‪ :‬التفسیر المنیر فی القیدہ والشریعۃ والمنہج‪ ،‬دارالفکر المعاصر‪ ،‬بیروت‪،‬‬
‫‪1418‬ھ ‪1998 /‬ء‬
‫کتب حدیث‬
‫االولی‪1421 ،‬ھ ‪2001 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫ابن حنبل‪ ،‬احمد‪ :‬المسند‪ ،‬موسسۃ الرسالۃ بیروت‪ ،‬طبعۃ‬ ‫(‪15‬‬
‫عیسی البابی الحلبی‪ ،‬س ن‬
‫ٰ‬ ‫ابن ماجہ‪ ،‬محمد بن یزید‪ :‬السنن‪ ،‬داراحیاء الکتب العربیہ‪ ،‬فیصل‬ ‫(‪16‬‬
‫االولی‪1409 ،‬ھ‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 17‬ابن ابی شیبہ‪ ،‬عبدہللا بن محمد‪ ،‬ابوبکر‪ :‬المصنف‪ ،‬مکتبۃ الرشد ریاض‪ ،‬طبعۃ‬
‫‪1988 /‬ء‬
‫ابودائود‪ ،‬سلیمان بن اشعث‪ :‬السنن‪ ،‬المکتبۃ العصریۃ صیدا‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬ ‫(‪18‬‬
‫(‪ 19‬ابی عوانہ‪ ،‬یعقوب بن اسحاق‪( :‬م۔ ‪316‬ھ ‪928 /‬ء)‪ :‬المستخرج‪ ،‬دارالمعرفۃ بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫االولی‪1419 ،‬ھ ‪1998 /‬ء‬
‫ٰ‬
‫(‪ 20‬البانی‪ ،‬ناصر الدین‪ :‬سلسلۃ االحادیث الصحیحۃ‪ ،‬مکتبۃ المعارف للنشر والتوزیع‪ ،‬ریاض‪ ،‬طبعۃ‬
‫االولی‪1415 ،‬ھ ‪1995 /‬ء‬
‫ٰ‬
‫الشیبانی‪ ،‬محمد بن حسن‪ ،‬کتاب اْلثار‪ ،‬دارالکتب العلمیۃ‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬س ن‬ ‫(‪21‬‬
‫االولی‪1422 ،‬ھ ‪2001 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫بخاری‪ ،‬محمد بن اسماعیل‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬دار طوق النجاۃ‪ ،‬طبعۃ‬ ‫(‪22‬‬
‫(‪ 23‬بخاری‪ ،‬محمد بن اسماعیل‪ :‬االدب المفرد‪ ،‬دارالبشائر االسالمیہ‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ الثالثۃ‪1409 ،‬ھ‬
‫‪1989 /‬ء‬
‫الکبری‪ ،‬دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬طبعۃ الثالثۃ‪1424 ،‬ھ‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 24‬بیہقی‪ ،‬احمد بن حسین‪ ،‬ابوبکر‪ :‬السنن‬
‫‪2003 /‬ء‬
‫ابوعیسی‪ :‬السنن‪ ،‬مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی مصر‪ ،‬الطبعۃ‬
‫ٰ‬ ‫عیسی‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 25‬ترمذی‪ ،‬محمد بن‬
‫الثانیۃ‪1395 ،‬ھ ‪1975 /‬ء‬
‫(‪ 26‬حاکم نیشا پوری‪ ،‬محمد بن عبدہللا‪ :‬المستدرک علی الصحیحین‪ ،‬دارالباز للنشر و التوزیع‪ ،‬مکۃ‬
‫المکرمۃ‪1404 ،‬ھ ‪1983 /‬ء‬
‫دار قطنی‪ ،‬علی بن عمر‪ :‬السنن‪ ،‬دار المعرفۃ‪ ،‬بیروت‪1386 ،‬ھ ‪1966 /‬ء‬ ‫(‪27‬‬
‫دیلمی‪ ،‬شیرویہ بن شہردار‪ :‬فردوس االخبار‪ ،‬دارالکتاب العربی بیروت‪ ،‬س ن‬ ‫(‪28‬‬
‫صنعانی‪ ،‬عبدالرزاق‪ :‬المصنف‪ ،‬المکتب االسالمی بیروت‪ ،‬الطبعۃ الثانیۃ‪1403 ،‬ھ ‪1982 /‬ء‬ ‫(‪29‬‬
‫طبرانی‪ ،‬سلیمان بن احمد ایوب‪ ،‬المعجم االوسط‪ ،‬دارالحرمین‪ ،‬القاھرہ‪ ،‬س ن‬ ‫(‪30‬‬
‫عثمانی‪ ،‬ظفر احمد‪ :‬اعالء السنن‪ ،‬مکتبہ امدادیہ‪ ،‬ملتان‪ ،‬س ن‬ ‫(‪31‬‬
‫(‪ 32‬علی متقی‪ ،‬عالء الدین‪ :‬کنز العمال فی السنن واالقوال واالفعال‪ ،‬موسسۃ الرسالۃ بیروت‪،‬‬
‫الطبعۃ الخامسۃ‪1401 ،‬ھ ‪1981 /‬ء‬
‫(‪ 33‬مالک بن انس‪ :‬الموطا‪ ،‬موسسۃ زاید بن سلطان‪ ،‬آل نھیان لالعمال الخیریۃ ابوظبی‪ ،‬االمارات‪،‬‬
‫االولی‪1425 ،‬ھ ‪2004 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫طبعۃ‬
‫مسلم بن حجاج‪ :‬الجامع الصحیح‪ ،‬دار احیاء التراث العربی‪ ،‬بیروت‪1410 ،‬ھ ‪1990 /‬ء‬ ‫(‪34‬‬
‫منذری‪ ،‬عبدالعظیم‪ :‬مختصر سنن ابی دائود‪ ،‬مطبع السنۃ المحمدیۃ‪1368 ،‬ھ ‪1949 /‬ء‬ ‫(‪35‬‬
‫االولی‪1421 ،‬ھ ‪2001 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫نسائی‪ ،‬احمد بن شعیب‪ :‬السنن‪ ،‬موسسۃ الرسالۃ بیروت‪ ،‬طبعۃ‬ ‫(‪36‬‬
‫یحیی بن شرف‪ :‬ریاض الصالحین‪ ،‬موسسۃ الرسالۃ بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬الطبعۃ الثالثۃ‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 37‬نووی‪،‬‬
‫‪1419‬ھ ‪1998 /‬ء‬
‫الہیثمی‪ ،‬علی بن ابی بکر‪ :‬مجمع الزوائد و منبع الفوائد‪ ،‬مکتبۃ القدسی‪ ،‬القاھرہ‪1414 ،‬ھ ‪/‬‬ ‫(‪38‬‬
‫‪1994‬ء‬
‫شروحِ حدیث‬
‫(‪ 39‬ابن حجر عسقالنی‪ ،‬احمد بن علی‪ :‬فتح الباری شرح صحیح البخاری‪ ،‬دارالمعرفۃ بیروت‪،‬‬
‫‪1379‬ھ ‪1959 /‬ء‬
‫عینی‪ ،‬بدر الدین‪ :‬عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری‪ ،‬دارالفکر بیروت‪1326 ،‬ھ ‪1908 /‬ء‬ ‫(‪40‬‬
‫(‪ 41‬کرمانی‪ ،‬محمد بن یوسف‪ :‬تحقیق الکواکب الدراری شرح صحیح البخاری‪ ،‬داراحیاء التراث‬
‫العربی‪ ،‬بیروت‪1401 ،‬ھ ‪1980 /‬ء‬
‫کتب اسماء الرجال‬
‫(‪ 42‬ابن اثیر الجزری‪ ،‬علی بن محمد‪ :‬اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃؓ ‪ ،‬دارالکتب العلمیہ بیروت‪،‬‬
‫االولی‪1415 ،‬ھ ‪1994 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫طبعۃ‬
‫(‪ 43‬ابن حجر عسقالنی‪ ،‬احمد بن علی‪ :‬االصابہ فی تمییز الصحابۃؓ ‪ ،‬دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫االولی‪1415 ،‬ھ ‪1994 /‬ء‬
‫ٰ‬
‫االصحاب‪ ،‬دارالجیل بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫ؓ‬ ‫(‪ 44‬ابن عبدالبر‪ ،‬یوسف بن عبدہللا‪ :‬االستیعاب فی معرفۃ‬
‫االولی‪1412 ،‬ھ ‪1992 /‬ء‬
‫ٰ‬
‫ذھبی‪ ،‬محمد شمس الدین‪ :‬تذکرۃ الحفاظ‪ ،‬داراحیاء التراث العربی بیروت‪1377 ،‬ھ ‪1957 /‬ء‬ ‫(‪45‬‬
‫کتب سیرت‬
‫(‪ 46‬ابن ہشام‪ ،‬عبدالمالک بن ایوب‪ ،‬السیرۃ النبویہ‪ ،‬شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی‬
‫واوالدہ بمصر‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1375 ،‬ھ ‪1955 /‬ء‬
‫(‪ 47‬سہیلی‪ ،‬عبدالرحمن بن عبدہللا‪ :‬الروض االنف شرح السیرۃ البن ھشام‪ ،‬داراحیاء التراث‬
‫االولی‪1421 ،‬ھ ‪2000 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫(‪ 48‬دیار بکری‪ ،‬حسین بن محمد‪ :‬تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس (ﷺ)‪ ،‬موسسۃ شعبان‬
‫بیروت‪1283 ،‬ھ ‪1866 /‬ء‬
‫االولی‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 49‬زرقانی‪ ،‬محمد بن عبدالباقی‪ :‬شرح المواھب اللدنیہ‪ ،‬دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫‪1417‬ھ ‪1996 /‬ء‬
‫شبلی نعمانی‪ ،‬سیرۃ النبی ﷺ‪ ،‬داراالشاعت اُردو بازار کراچی‪1405 ،‬ھ ‪1984 /‬ء‬ ‫(‪50‬‬
‫الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد (ﷺ) وزارۃ االوقاف‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 51‬الصالحی‪ ،‬محمد بن یوسف شامی‪ :‬سبل‬
‫القاھرہ‪1400 ،‬ھ ‪1979 /‬ء‬
‫االزھری‪ ،‬محمد کرم شاہ‪ :‬ضیاء النبی ﷺ‪ ،‬ضیاء القرآن پبلی کیشنز‪ ،‬اُردو بازار الہور‪،‬‬ ‫(‪52‬‬
‫کتب فقہ و اصول فقہ‬
‫المحلی باْلثار‪ ،‬دارالفکر بیروت‪ ،‬س ن‬
‫ٰ‬ ‫ابن حزم‪ ،‬علی بن احمد‪:‬‬ ‫(‪53‬‬
‫ابن رشد‪ ،‬محمد بن احمد‪ :‬بدایۃ المجتھد ونہایۃ المقتصد‪ ،‬دارالحدیث القاھرہ‪1425 ،‬ھ ‪2004 /‬ء‬
‫ِ‬ ‫(‪54‬‬
‫(‪ 55‬ابن عابدین شامی‪ ،‬محمد امین‪ :‬ردالمحتار علی درالمختار‪ ،‬دارالفکر بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪،‬‬
‫‪1412‬ھ ‪1992 /‬ء‬
‫(‪ i‬ابن قدامہ‪ ،‬عبدہللا بن احمد‪ :‬المغنی‪ ،‬دارالفکر بیروت‪1405 ،‬ھ ‪1984 /‬ء‬ ‫(‪56‬‬
‫(‪ ii‬ابن قدامہ‪ ،‬عبدہللا بن احمد‪ :‬المغنی‪ ،‬مکتبۃ القاھرہ‪1388 ،‬ھ ‪1968 /‬ء‬
‫االولی‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 57‬ابن نجیم‪ ،‬زین الدین بن ابراہیم‪ :‬االشباہ والنظائر‪ ،‬دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫‪1419‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫ابن نجیم‪ :‬البحر الرائق شرح کنز الدقائق‪ ،‬دارلکتاب االسالمی‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪ ،‬س ن‬ ‫(‪58‬‬
‫ابن ھمام‪ ،‬محمد بن عبدالواحد‪ ،‬کمال الدین‪ :‬فتح القدیر‪ ،‬دارالفکر بیروت س ن‬ ‫(‪59‬‬
‫علی مذاھب االربعۃ دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪،‬‬
‫(‪ 60‬الجزیری‪ ،‬عبدالرحمن‪ :‬الفقہ ٰ‬
‫‪1424‬ھ ‪2003 /‬ء‬
‫حسامی‪ ،‬محمد بن محمد‪ :‬حسامی‪ ،‬قدیمی کتب خانہ‪ ،‬مقابل آرام باغ کراچی‪ ،‬س ن‬ ‫(‪61‬‬
‫حصکفی‪ ،‬عالء الدین‪ :‬در مختار‪ ،‬ایچ ایم سعید کمپنی‪ ،‬کراچی‪ ،‬پاکستان‪1331 ،‬ھ ‪1913 /‬ء‬ ‫(‪62‬‬
‫علی اقرب المسالک‪ ،‬دارالمعارف مصر‪1348 ،‬ھ ‪/‬‬
‫الدردیر‪ ،‬احمد بن محمد‪ :‬الشرح الصغیر ٰ‬ ‫(‪63‬‬
‫‪1929‬ء‬
‫زیلعی‪ ،‬عثمان بن علی‪ :‬تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق‪ ،‬مکتبہ امدادیہ ملتان‪ ،‬س ن‬ ‫(‪64‬‬
‫االولی‪1417 ،‬ھ‬
‫ٰ‬ ‫موسی‪ :‬الموافقات فی اصول الشریعۃ‪ ،‬دار ابن عفان‪ ،‬طبعۃ‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 65‬شاطبی‪ ،‬ابراہیم بن‬
‫‪1996 /‬ء‬
‫شوکانی‪ ،‬محمد بن علی‪ :‬نیل االوطار‪ ،‬مطبع مصطفی الحلبی‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1372 ،‬ھ ‪1952 /‬ء‬ ‫(‪66‬‬
‫السبکی‪ ،‬تقی الدین‪ :‬تکملہ شرح المہذب‪ ،‬دارالفکر بیروت‪ ،‬س ن‬ ‫(‪67‬‬
‫سید السابق‪ :‬فقہ السنۃ‪ ،‬موسسۃ الرسالۃ بیروت‪1401 ،‬ھ ‪1980 /‬ء‬ ‫(‪68‬‬
‫سرخسی‪ ،‬محمد بن احمد‪ :‬المبسوط‪ ،‬مکتبہ رشیدیہ‪ ،‬سرکی روڈ کوئٹہ‪ ،‬س ن‬
‫ؒ‬ ‫(‪i‬‬ ‫(‪69‬‬
‫سرخسی‪ :‬المبسوط‪ ،‬دارالمعرفۃ‪ ،‬بیروت‪1414 ،‬ھ ‪1993 /‬ء‬
‫ؒ‬ ‫(‪ii‬‬
‫طرابلسی‪ ،‬علی بن خلیل‪ :‬معین الحکام‪ ،‬مکتبہ عربیہ‪ ،‬کانسی روڈ کوئٹہ‪1939 ،‬ھ ‪1973 /‬ء‬ ‫(‪70‬‬
‫عبدالکریم زیدان‪ ،‬سید‪ :‬الوجیز فی اصول الفقہ‪ ،‬مکتبہ رحمانیہ اُردو بازار الہور‪ ،‬س ن‬ ‫(‪71‬‬
‫علی حسب ہللا‪ :‬اصول التشریع االسالمی‪ ،‬ادارۃ القرآن والعلوم االسالمیۃ‪ ،‬کراچی‪ ،‬س ن‬ ‫(‪72‬‬
‫قدوری‪ ،‬احمد بن محمد‪ :‬المختصر للقدوری‪ ،‬مکتبہ رحمانیہ اُردو بازار الہور‪ ،‬س ن‬ ‫(‪73‬‬
‫(‪ 74‬قرافی‪ ،‬احمد بن ادریس‪ ،‬شہاب الدین‪ :‬انوار البروق فی انواع الفروق فی اصول الفقہ‪،‬‬
‫دارالکتب العلمیہ بیروت‪1343 ،‬ھ ‪1924 /‬ء‬
‫الفتاوی عن االحکام‪ ،‬مترجم اُردو‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 75‬قرافی‪ ،‬احمد بن ادریس‪ ،‬شہاب الدین‪ :‬االحکام فی تمییز‬
‫ڈاکٹر حافظ غالم یوسف‪ ،‬شریعہ اکیڈمی‪ ،‬بین االقوامی یونیورسٹی‪ ،‬اسالم آباد‪ ،‬پاکستان ط‪ :‬اول‪،‬‬
‫‪1425‬ھ ‪2004 /‬ء‬
‫(‪ 76‬کاسانی‪ ،‬عالء الدین ابی بکر بن مسعود‪ :‬بدائع الصنائع‪ ،‬دارالکتب العلمیۃ‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫الثانیۃ‪1406 ،‬ھ ‪1986 /‬ء‬
‫المرغینانی‪ ،‬علی بن ابی بکر‪ :‬الھدایۃ‪ ،‬داراحیاء التراث العربی‪ ،‬لبنان‪ ،‬س ن‬ ‫(‪77‬‬
‫(‪ 78‬لجنۃ مکونۃ من عدۃ علماء وفقھاء فی الخالفۃ العثمانیۃ‪ :‬المجلۃ االحکام العدلیۃ‪ ،‬نور محمد‬
‫ت کتب‪ ،‬آرام باغ کراچی‪ ،‬س ن‬ ‫کارخانہ تجار ِ‬
‫المستصفی‪ ،‬مطبعۃ امیریہ مصر‪1294 ،‬ھ ‪1877 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫محمد غزالی‪ ،‬ابو حامد‪:‬‬ ‫(‪79‬‬
‫صدیق‪ ،‬مترجم اُردو‪ :‬عبدالقیوم‪ ،‬ادارہ‬
‫ؓ‬ ‫(‪ 80‬محمد رواس قلعہ جی‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬الموسوعۃ فقہ ابوبکر‬
‫معارف اسالمی منصورہ‪ ،‬الہور‪ ،‬ط‪ :‬اول‪1415 ،‬ھ ‪1994 /‬ء‬
‫معارف‬
‫ِ‬ ‫عمر‪ ،‬مترجم اُردو‪ :‬ساجد الرحمن صدیقی‪ ،‬ادارہ‬
‫(‪ 81‬محمد رواس قلعہ جی‪ :‬الموسوعۃ فقہ ؓ‬
‫اسالمی‪ ،‬منصورہ‪ ،‬الہور‪ ،‬ط‪ :‬سوم‪1423 ،‬ھ ‪2000 /‬ء‬
‫معارف‬
‫ِ‬ ‫عثمان‪ ،‬مترحم اُردو‪ :‬الیف الدین ترابی‪ ،‬ادارہ‬
‫ؓ‬ ‫(‪ 82‬محمد رواس قلعہ جی‪ :‬الموسوعۃ فقہ‬
‫اسالمی منصورہ‪ ،‬الہور‪ ،‬ط‪ :‬دوم‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫معارف اسالمی‪،‬‬
‫ِ‬ ‫علی‪ ،‬مترجم اُردو‪ :‬عبدالقیوم‪ ،‬ادارہ‬
‫(‪ 83‬محمد رواس قلعہ جی‪ :‬الموسوعۃ فقہ ؓ‬
‫منصورہ‪ ،‬الہور‪ ،‬ط‪ :‬سوم‪1423 ،‬ھ ‪2000 /‬ء‬
‫(‪ 84‬مال جیون‪ ،‬احمد بن ابو سعید‪ :‬نور االنوار‪ ،‬ادارہ ضیاء السنۃ‪ ،‬جامع مسجد شاہ سلطان کالونی‪،‬‬
‫ریلوے روڈ ملتان‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 85‬نظام الدین‪ ،‬مفتی‪ :‬فقہ اسالمی کے سات بنیادی اصول‪ ،‬دارالنعمان‪ ،‬یونیورسٹی روڈ کراچی‪،‬‬
‫ط‪ :‬دوم‪1431 ،‬ھ ‪2010 /‬ء‬
‫وھبہ زحیلی‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬الفقہ االسالمی وادلتہ‪ ،‬دارالفکر سوریۃ‪ ،‬دمشق‪ ،‬طبعۃ الرابعۃ‪ ،‬س ن‬ ‫(‪86‬‬
‫کتب تاریخ و سوانح‬
‫االولی‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 87‬ابن اثیر جزری‪ ،‬علی بن محمد‪ :‬الکامل فی التاریخ‪ ،‬دارالکتاب العربی بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫‪1417‬ھ ‪1997 /‬ء‬
‫خطاب‪ ،‬مترجم اُردو‪ :‬شاہ حسن عطاء‪ ،‬نفیس‬
‫ؓ‬ ‫(‪ 88‬ابن جوزی‪ ،‬عبدالرحمن بن علی‪ :‬تاریخ عمر بن‬
‫اکیڈمی‪ ،‬کراچی‪1404 ،‬ھ ‪1984 /‬ء‬
‫ابن خلدون‪ ،‬عبدالرحمن‪ :‬مقدمہ‪ ،‬دارالفکر بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1408 ،‬ھ ‪1988 /‬ء‬ ‫(‪89‬‬
‫(‪ 90‬ابن کثیر‪ ،‬عماد الدین اسماعیل‪ ،‬ابوالفداء‪ :‬البدایۃ والنہایۃ‪ ،‬داراحیاء التراث العربی‪ ،‬بیروت‪،‬‬
‫االولی‪1408 ،‬ھ ‪1988 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫طبعۃ‬
‫ابن قتیبہ‪ ،‬عبدہللا بن مسلم‪ :‬المعارف‪ :‬الھیئۃ العامۃ للکتاب‪ ،‬القاھرہ‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1413 ،‬ھ ‪/‬‬ ‫(‪91‬‬
‫‪1992‬ء‬
‫جرجی زیدان‪ :‬تاریح التمدن االسالمی‪ ،‬دارالفکر بیروت‪ ،‬س ن‬ ‫(‪92‬‬
‫(‪ 93‬سیوطی‪ ،‬عبدالرحمن بن ابی بکر‪ ،‬جالل الدین‪ :‬تاریخ الخلفاء‪ ،‬مکتبہ نزار مصطفی الباز‪ ،‬طبعۃ‬
‫االولی‪1425 ،‬ھ ‪2004 /‬ء‬
‫ٰ‬
‫مکتبہ رحمانیہ اُردو بازار الہور‪ ،‬س ن‬
‫ٔ‬ ‫شبلی نعمانی‪ :‬الفاروق‪،‬‬ ‫(‪94‬‬
‫(‪ 95‬طبری‪ ،‬محمد بن جریر‪ ،‬ابوجعفر‪ :‬تاریخ االمم والملوک‪ ،‬دارالتراث بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیہ‪،‬‬
‫‪1387‬ھ ‪1967 /‬ء‬
‫ت علمی ایران‪ ،‬س ن‬
‫یعقوبی‪ ،‬احمد بن ابی یعقوب‪ :‬تاریخ یعقوبی‪ ،‬مرکز انتشارا ِ‬ ‫(‪96‬‬
‫کتب سیاسۃ شرعیۃ وقضاء‬
‫ابن االخوۃ‪ ،‬محمد‪ :‬معالم القربۃ فی طلب الحسبۃ‪ ،‬دارالفنون‪ ،‬کیمبرج‪ ،‬س ن‬ ‫(‪97‬‬
‫االولی‪ ،‬س‬
‫ٰ‬ ‫ابن تیمیہ‪ ،‬احمد بن عبدالحلیم‪ :‬الحسبۃ فی االسالم‪ ،‬دارالکتب العلمیہ‪ ،‬بیروت‪ ،‬طبعۃ‬ ‫(‪98‬‬
‫ن‬
‫(‪ 99‬ابن تیمیہ‪ :‬السیاسۃ الشرعیۃ فی اصالح الراعی و الرعیہ‪ ،‬وزارۃ الشئون االسالمیہ واالوقاف و‬
‫االولی‪1418 ،‬ھ ‪1997 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫االرشاد‪ ،‬الملکۃ العربیۃ السعودیۃ‪ ،‬طبعۃ‬
‫(‪ 100‬ابن فرحون‪ ،‬ابراہیم‪ ،‬قاضی‪ :‬تبصرۃ الحکام فی اصول االقضیۃ و مناہج االحکام‪ ،‬مطبع‬
‫مصطفی الحلبی‪ ،‬مصر‪1378 ،‬ھ ‪1958 /‬ء‬
‫(‪ 101‬ابن قیم جوزی‪ ،‬محمد بن ابی بکر‪ :‬الطرق الحکمیہ فی السیاسۃ الشرعیۃ‪ ،‬دارالبیان‪ ،‬بیروت‪ ،‬س‬
‫ن‬
‫االولی‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫(‪ 102‬ابن قیم جوزی‪ ،‬اعالم الموقعین عن رب العالمین‪ ،‬دارالکتب العلمیہ بیروت‪ ،‬طبعۃ‬
‫‪1411‬ھ ‪1991 /‬ء‬
‫للخصاف‪ ،‬مطبعۃ االرشاد بغداد‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫(‪ 103‬ابن مازہ بخاری‪ ،‬عمر بن عبدالعزیز‪ :‬شرح ادب القاضی‬
‫‪1398‬ھ ‪1978 /‬ء‬
‫(‪ 104‬ابوزھرہ مصری‪ ،‬محمد احمد‪ :‬الجریمۃ والعقوبۃ فی الشریعۃ االسالمیۃ ادارۃ القرآن کراچی‬
‫(‪ 105‬ابو یوسف‪ ،‬یعقوب بن ابراہیم‪ ،‬قاضی‪ :‬کتاب الخراج‪ ،‬المکتبۃ االزھریۃ‪ ،‬للتراث‪ ،‬س ن‬
‫یعلی‪ :‬االحکام السلطانیۃ‪ ،‬دار نشر الکتب االسالمیۃ‪ ،‬شارع شیش‬
‫(‪ 106‬الفراء‪ ،‬محمد بن حسین‪ :‬ابی ٰ‬
‫محل‪ ،‬الہور‪ ،‬س ن‬
‫ت اسالمی‪ ،‬بین االقوامی‬
‫(‪ 107‬ایم ایس ناز‪ :‬اسالمی ریاست میں محتسب کا کردار‪ ،‬ادارہ تحقیقا ِ‬
‫اسالمی یونیورسٹی اسالم آباد‪ ،‬ط‪ :‬اول‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫نظام حکومت‪ ،‬الفیصل ناشران و تاجران کتب اُردو بازار الہور‪،‬‬
‫ِ‬ ‫(‪ 108‬حامد االنصاری‪ :‬اسالم کا‬
‫‪1420‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫(‪ 109‬الخصاف‪ ،‬احمد بن عمر‪ ،‬ابوبکر‪ :‬ادب القاضی‪ ،‬مطبعۃ االرشاد بغداد‪ ،‬طبعۃ االول ٰی‪1397 ،‬ھ ‪/‬‬
‫‪1977‬ء‬
‫(‪ 110‬ساجد الرحمن صدیقی‪ :‬اسالم میں پولیس اور احتساب کا نظام‪ ،‬مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ‬
‫الئبریری‪ ،‬نسبت روڈ الہور‪1409 ،‬ھ ‪1988 /‬ء‬
‫(‪ 111‬الساعاعی‪ ،‬احمد عبدالرحمن‪ :‬الفتح الربانی‪ ،‬دارالحدیث القاھرہ‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 112‬سالمت علی‪ :‬کتاب االختیار‪ ،‬مترجم اُردو‪ :‬دارالمصنفین‪ ،‬اعظم گڈھ‪ ،‬انڈیا‪ ،‬سنگ میل پبلی‬
‫کیشنز الہور‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 113‬شمیم حسن قادری‪ ،‬جسٹس (ر)‪ :‬اسالمی ریاست‪ ،‬علماء اکیڈمی‪ ،‬محکمہ اوقاف الہور‪1407 ،‬ھ‬
‫‪1986 /‬ء‬
‫(‪ 114‬صبحی صالح‪ :‬النظم االسالمیۃ‪ ،‬دارالعلوم للمالیین‪ ،‬بیروت‪1388 ،‬ھ ‪1968 /‬ء‬
‫(‪ 115‬طرابلسی‪ ،‬علی بن خلیل‪ :‬معین الحکام فیما یتردد بین الخصمین من االحکام‪ ،‬مکتبہ عربیہ‪،‬‬
‫کانسی روڈ کوئٹہ‪1393 ،‬ھ ‪1973 /‬ء‬
‫(‪ 116‬عامر عزیز‪ ،‬الدکتور‪ :‬التعزیر فی الشریعۃ االسالمیۃ‪ ،‬مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی‪ ،‬القاھرہ‪،‬‬
‫مصر‪ ،‬طبعۃ الثالثۃ‪1377 ،‬ھ ‪1957 /‬ء‬
‫(‪ 117‬عبدالرحمن‪ ،‬سید‪’’ :‬اسالمی ریاست میں عدل نافذ کرنے والے ادارے‘‘‪ ،‬منہاج‪ ،‬اسالمی نظام‬
‫عدل نمبر‪ ،‬ج‪ ،2‬شمارہ‪ ،1 :‬حصہ دوم‪ ،‬جنوری ‪1414‬ھ ‪1984 /‬ء مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ‬
‫الئبریری نسبت روڈ الہور‬
‫(‪ 118‬عبدالکریم زیدان‪ ،‬سید‪ :‬نظام القضاء فی الشریعۃ االسالمیہ‪ ،‬موسسۃ الرسالۃ بیروت‪1410 ،‬ھ ‪/‬‬
‫‪1989‬ء‬
‫(‪ 119‬عبدالقادر عودہ‪ :‬التشریع الجنائی االسالمی‪ ،‬دارالکاتب العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 120‬لجنۃ علماء برئاسۃ نظام الدین بلخی‪ :‬فتاوی الھندیہ‪ ،‬دارالفکر بیروت‪ ،‬طبعۃ الثانیۃ‪1310 ،‬ھ ‪/‬‬
‫‪1892‬ء‬
‫(‪ 121‬الماوردی‪ ،‬علی بن محمد‪ ،‬ابوالحسن‪ :‬االحکام السلطانیہ‪ ،‬دارالحدیث القاھرہ‪ ،‬س ن‬
‫قانون شہادت‪ ،‬دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری الہور‪ ،‬ط‪:‬‬
‫ِ‬ ‫(‪ i( 122‬محمد متین ہاشمی‪ ،‬سید‪ :‬اسالم کا‬
‫سوم‪1419 ،‬ھ ‪1998 /‬ء‬
‫نظام احتساب‪ ،‬دیال سنگھ‬
‫ِ‬ ‫(‪ ii‬محمد متین ہاشمی‪ :‬اسالمی حدود اور ان کا فلسفہ مع اسالم کا‬
‫ٹرسٹ الئبریری‪ ،‬نسبت روڈ الہور‪ ،‬ط‪ :‬سوم‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫(‪ 123‬محمود عرنوس‪ :‬تاریخ القضاء فی االسالم‪ ،‬مترجم اردو‪ :‬محمد احمد پانی پتی‪ ،‬مشتاق بک‬
‫کارنر اردو بازار الہور‪ ،‬س ن‬
‫ت اسالمی‪ ،‬بین االقوامی اسالمی‬
‫غازی‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬ادب القاضی‪ ،‬ادارہ تحقیقا ِ‬
‫ؒ‬ ‫(‪ 124‬محمود احمد‬
‫یونیورسٹی‪ ،‬اسالم آباد‬
‫نبوی میں ریاست کا نشوو ارتقاء‪ ،‬ادارہ نشریات‪ ،‬اُردو بازار‬
‫ؐ‬ ‫(‪ 125‬نثار احمد صدیقی‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬عہد‬
‫الہور‪1429 ،‬ھ ‪2008 /‬ء‬
‫(‪ 126‬نور احمد شاہتاز‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬تاریخ نفا ِذ حدود‪ ،‬فضلی سنز(پرائیویٹ) لمیٹڈ‪ ،‬اُردو بازار کراچی‬
‫کتب لغت‬
‫دار صادر بیروت‪ ،‬طبعۃ الثالثۃ‪،‬‬
‫(‪ 127‬ابن منظور‪ ،‬محمد بن مکرم‪ ،‬جمال الدین‪ :‬لسان العرب‪ِ ،‬‬
‫‪1414‬ھ ‪1993 /‬ء‬
‫(‪ 128‬احمد دہلوی‪ ،‬سید‪ :‬فرہنگ آصفیہ‪ ،‬مکتبہ حسن سہیل لمیٹڈ‪ ،‬اُردو بازار الہور‪ ،‬ط‪ :‬سوم‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 129‬بلیاوی‪ ،‬عبدالحفیظ‪ :‬مصباح اللغات‪ ،‬مکتبہ امدادیہ ملتان‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 130‬تنزیل الرحمن‪ ،‬جسٹس (ر)‪ :‬قانونی لغت‪ ،‬پی ا یل ڈی پبلشرز‪ ،‬اُردو بازار الہور‪ ،‬ط‪ :‬بارہویں‪،‬‬
‫‪1429‬ھ ‪2008 /‬ء‬
‫(‪ 131‬الجوھری‪ ،‬اسماعیل بن حماد‪ :‬الصحاح‪ ،‬دارالمضاریۃ العربیۃ‪ ،‬بیروت‪1404 ،‬ھ ‪1983 /‬ء‬
‫(‪ 132‬راغب اصفہانی‪ ،‬حسین بن محمد‪ :‬المفردات فی غریب القرآن‪ ،‬قدیمی کتب خانہ‪ ،‬مقابل آرام باغ‬
‫کراچی‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 133‬عبدالحق‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬اُردو لغت‪ ،‬ترقی اُردو بورڈ‪ ،‬کراچی‪1405 ،‬ھ ‪1984 /‬ء‬
‫(‪ 134‬فیروز آبادی‪ ،‬محمد بن یعقوب‪ ،:‬القاموس المحیط‪ ،‬موسسۃ الرسالۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع‪،‬‬
‫بیروت‪ ،‬لبنان‪ ،‬طبعۃ الثامنۃ‪1426 ،‬ھ ‪2005 /‬ء‬
‫(‪ 135‬فیروز الدین‪ ،‬مولوی‪ :‬فیروز اللغات‪ ،‬فیروز سنز‪ ،‬الہور‪ ،‬س ن‬
‫(‪ 136‬کیرانوی‪ ،‬وحید الزماں‪ :‬القاموس الوحید‪ ،‬ادارہ اسالمیات‪ ،‬اُردو بازار کراچی‪1422 ،‬ھ ‪/‬‬
‫‪2001‬ء‬
‫(‪ 137‬محمد بن ابی بکر‪ ،‬زین الدین‪ :‬مختار الصحاح‪ ،‬المکتبۃ العصریۃ‪ ،‬الدار النموذجیۃ‪ ،‬صیدا‪،‬‬
‫بیروت‪ ،‬طبعۃ الخامسۃ‪1420 ،‬ھ ‪1999 /‬ء‬
‫مرتضی زبیدی‪ ،‬سید‪ :‬تاج العروس‪ ،‬مطبعۃ الخیریۃ‪ ،‬مصر‪1356 ،‬ھ ‪1937 /‬ء‬
‫ٰ‬ ‫(‪138‬‬
‫(‪ 139‬نخبۃ من اساتذہ‪ :‬القاموس العصری الجدید‪ ،‬دارالفکر بیروت‪1399 ،‬ھ ‪1978 /‬ء‬
English Books
The Shorter Oxford English Dictionary, Oxford at the Clavendon Press, )140
3rd Edition, 1964 AD / 1384 AH
APCowie: Oxford Advanced Learner's Encyclopedic Dictionary, Oxford )141
University press, 1964 AD / 1405 AH
AS. Oppe: Wharton's Law Lexicon, Sweet of Maxwell Ltd. London, )142
14th Edition, 1976AD / 1396 AH
The Concise Oxford Dictionary, Oxford University Press, Edition, 6th, )143
1976 AD / 1396 AH
Courts of Qazis Ordinance, 1982 AD / 1403 AH, Govt of Pakistan, )144
Islamabad
Shaukat Mahmood; Criminal Procedure Code, 1898 AD / 1396 AH, )145
Pakistan Law Times Publications, Lahore
M. Mahmood: The Major Acts, Pakistan Law Times Publications, Urdu )146
Bazar, Lahore
Muhammad Muslehuddin: Judicial system of Islam. Islamic Research )147
Institute, International Islamic University, Islamabad, 1988 AD / 1409 AH
PLD, PLD Publishers, Urdu Bazar, Lahore - 1967 )148
PLD, PLD Publishers, Urdu Bazar, Lahore - 1987 )149
The Pakistan Penal Code, 1860 AD / 1277 AH, Mansoor Book House )150
Lahore
Fred E. Inbau: The world Book Encyclopedia, World Book Inc. Chicago, )151
1987AD/1408AH
Henry Compbell Black: Black's Law Dictionary, West Publishing )152
Company, Sanfransisco, 1976AD / 1396AH
Richard A.Green: The Encyclopedia Americana, Encyclopedia )153
Americana Corporation, USA, 1984AD / 1405AH
Webster New Collegiate Dictionary, C Merrian Company Springfield )154
Massachusetts, USA

‫ رپورٹس‬/ ‫ مضامین‬/ ‫مجالت‬

‫اسالمی نظریاتی کونسل حکومت پاکستان اسالم آباد کی رپورٹس‬


‫مجموعہ ضابطہ فوجداری‪1316 ،‬ھ ‪1898 /‬ء‪ ،‬مالحظات ‪ /‬مجوزہ ترامیم‪،‬‬
‫ٔ‬ ‫رپورٹ جائزہ‬ ‫(‪1‬‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل حکومت پاکستان‪ ،‬اسالم آباد‪1421 ،‬ھ ‪2000 /‬ء‬
‫قوانین کی اسالمی تشکیل‪ ،‬سلسلہ دوم‪ ،‬ج اول‪1421 ،‬ھ ‪2000 /‬ء‬ ‫(‪2‬‬
‫ساالنہ رپورٹ بابت سال‪1428 ،‬ھ ‪2007 /‬ء … ‪1427‬ھ ‪2006 /‬ء‬ ‫(‪3‬‬
‫انون شہادت‪1403 ،‬ھ ‪1982 /‬ء‬
‫مسودہ اسالمی ق ِ‬ ‫(‪4‬‬
‫نویں رپورٹ جائزہ مجموعہ ضابطہ فوجداری‪1403 ،‬ھ ‪1983 /‬ء‬ ‫(‪5‬‬
‫ایف آئی آر نمبر ‪ 11/384‬مورخہ ‪ ،11-8-17‬تھانہ فتح پور ضلع لیہ‪ ،‬پنجاب‪ ،‬پاکستان‬ ‫(‪6‬‬
‫مجالت‬
‫ت اسالمی‪ ،‬بین االقوامی یونیورسٹی‪ ،‬اسالم آباد‬
‫فکر ونظر‪ ،‬ادارہ تحقیقا ِ‬ ‫(‪1‬‬
‫منہاج‪ ،‬مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری‪ ،‬نسبت روڈ الہور‬ ‫(‪2‬‬
‫نقوش‪’’ ،‬رسول نمبر‘‘‪ ،‬ادارہ فروغ اُردو‪ ،‬الہور‬ ‫(‪3‬‬
‫مضامین‬
‫بزمی انصاری‪’’ :‬حسبہ‘‘‪ ،‬اُردو دائرہ معاف اسالمیہ‪ ،‬دانش گاہ پنجاب الہور‪ ،‬ط‪ :‬اول‪،‬‬ ‫(‪1‬‬
‫‪1393‬ھ ‪1973 /‬ء‬
‫شہزاد اقبال شام‪’’ :‬دستور پاکستان کی اسالمی دفعات‪ ،‬قرآن وسنت کی روشنی میں‘‘‪ ،‬فکر‬ ‫(‪2‬‬
‫ت اسالمی‪ ،‬اسالم آباد‬
‫ونظر‪ ،‬ج ‪ ،44‬شمارہ ‪ ،4‬اپریل تا جون ‪1428‬ھ ‪2007 /‬ء‪ ،‬ادارہ تحقیقا ِ‬
‫عبدالرحمن‪ ،‬بخاری‪ ،‬سید‪’’ :‬اسالمی ریاست میں عدل نافذ کرنے والے ادارے‘‘‪ ،‬منہاج‪ ،‬ج‬ ‫(‪3‬‬
‫‪ ،2‬شمارہ ‪ ،1‬حصہ دوم‪ ،‬جنوری ‪1414‬ھ ‪1984 /‬ء‪ ،‬مرکز تحقیق‪ ،‬دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری‪ ،‬نسبت‬
‫روڈ‪ ،‬الہور‬
‫لطیف ہلل‪ ،‬صوبیدار‪’’ :‬قید و جیل کے شرعی احکام‘‘‪’ ،‬منہاج‘‪ ،‬ج ‪ ،18‬شمارہ ‪ ،4‬اکتوبر تا‬ ‫(‪4‬‬
‫دسمبر ‪1421‬ھ ‪2000 /‬ء‪ ،‬دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری‪ ،‬الہور‬
‫محفوظ احمد‪ ،‬پروفیسر‪’’ :‬حق المرافعہ‪ ،‬اسالم میں حق اپیل کا تصور‘‘‪ ،‬منہاج‪ ،‬ج ‪،12‬‬ ‫(‪5‬‬
‫شمارہ ‪ ،2‬اپریل ‪1415‬ھ ‪1994 /‬ء‪ ،‬دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری‪ ،‬الہور‬
‫محمد ارشد‪’’ :‬عصر حاضر اور سد ذرائع‘‘‪ ،‬منہاج‪ ،‬ج ‪ ،18‬شمارہ ‪ ،4‬اکتوبر دسمبر ‪1421‬ھ‬ ‫(‪6‬‬
‫‪2000 /‬ء‪ ،‬دیال سنگھ ٹرسٹ الئبریری الہور‬
‫عمر) کے عہد میں عدلیہ اور‬
‫(ابوبکر و ؓ‬
‫ؓ‬ ‫محمد یوسف گورایہ‪ ،‬ڈاکٹر‪ :‬خلفائے محمد ﷺ‬ ‫(‪7‬‬
‫انتظامیہ‘‘‪ ،‬مترجم اُردو‪ :‬محمود عالم قریشی‪ ،‬شمارہ نمبر ‪ ،136‬نقوش رسول نمبر‪ ،‬ج ‪ ،11‬ادارہ‬
‫فروغ اُردو‪ ،‬الہور‬
‫نظام عدالت‘‘‪ ،‬نقوش رسول نمبر‪ ،‬ج ‪،11‬‬
‫ِ‬ ‫محمد یوسف گورایہ‪’’ :‬قرآنی دستور کے تحت‬ ‫(‪8‬‬
‫ادارہ فروغ اُردو الہور‬

You might also like