You are on page 1of 8

‫قانون کی حکمرانی کے ‪ 75‬سال‪ :‬تاریخ کےاوراق سے‬

‫پاکستان کےموجودہ عدالتی نظام کے پس منظر میں صدیوں پر محیط مختلف أدوار‬

‫برصغیر‬
‫ا و رحکمرانوں کی چھاپ ہے۔آج ہم جس عدالتی نظام پر عمل پیرا ہیں اس نے ِ‬
‫میں اسالم کی آمد‪ ،‬مغلیہ دور اور انگریزوں کے تسلط کے دوران مختلف منازل طے‬
‫کی ہیں۔‬

‫‪ ۱۸۵۷‬کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر میں برطانوی راج نے مختلف صوبوں میں‬
‫ہائی کورٹس قائم کیں جن کا بنیادی مقصد دیوانی اور فوجداری عدالتوں کے فیصلوں‬
‫کے خالف اپیلوں کی سماعت تھا۔ اِن ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خالف اپیلوں کی‬
‫سماعت پریوی کونسل کی جوڈیشل کمیٹی کرتی تھی جس کا طریقہ کار نہایت پیچیدہ‬
‫اور مشکل تھا۔انہی مشکالت کو مد نظر رکھتے ہوئے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ‪۱۹۳۵‬‬
‫میں برصغیر کے لیے وفاقی عدالت کے قیام کی تجویز دی گئی جو ‪ ۱۹۳۷‬میں قائم کی‬
‫گئی۔‬

‫نظام حکومت چالنے کے لیے فور ی طور پر گورنمنٹ آف انڈیا‬


‫ِ‬ ‫قیام پاکستان کے بعد‬
‫ایکٹ‪1935‬کو چند ترامیم کے ساتھ نافذ کیا گیا اور ورثے میں ملنے والے عدالتی نظام‬
‫کو ضروری اصالحات کے ساتھ جاری رکھا گیا۔ قیام پاکستان کے وقت پنجاب میں‬
‫الہور ہائی کورٹ‪ ،‬سندھ میں چیف کورٹ‪ ،‬بلوچستان اور موجودہ خیبر پختونخواہ میں‬
‫جوڈیشل چیف کمشنرز بطور اپیلیٹ کورٹس کام کررہےتھے۔ جبکہ وفاقی سطح پر‬
‫ملک کی اعلی ترین عدالت ’’فیڈرل کورٹ آف پاکستان ‘‘ کاقیام مئی‪ ۱۹۴۹‬میں پہلی‬
‫دفعہ عمل میں الیا گیا۔‬

‫قیام پاکستان کے بعد جب قائداعظم نے بحثییت گورنر جنرل اپنا عہدہ سنبھاال تو‬
‫وائسرائے الرڈ ماؤنٹ بیٹن نے بمبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس لیو نارڈ سٹون کو‬
‫پاکستان کا چیف جسٹس بنانے کی تجویزپیش کی جسے بانی پاکستان نے مسترد کردیا‬
‫اورالہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرعبدالرشید کو پاکستان کا پہال چیف جسٹس‬

‫‪1‬‬
‫عظمی پاکستان کا درجہ‬
‫ٰ‬ ‫تعینات کیا۔ ‪ ۱۹۵۶‬کے آئین میں اس فیڈرل کورٹ کو عدال ِ‬
‫ت‬
‫دیتے ہوئے اس کے دائرہ اختیار کوبھی وسعت دی گئی۔‬

‫بعد ازاں ‪ 1973 ،1962 ،1956‬کے دساتیر پاکستان میں انصاف کی فراہمی اورعدالتی‬
‫نظام کو موثر بنانے کے لیے نہ صرف اصالحات الئی گئیں بلکہ صوبوں کے لیے‬
‫علیحدہ ہائی کورٹس کا قیام بھی عمل میں الیا گیا۔‪ 1980‬میں غیر اسالمی قوانین کی‬
‫تنسیخ اور قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے وفاقی شرعی عدالت کا‬
‫قیام بھی عمل میں الیا گیا جس کے فیصلوں کے خالف اپیلیں سپریم کورٹ کے شریعت‬
‫اپیلیٹ بینچ میں دائر کی جاسکتی ہیں۔ اس وقت ملک کے عدالتی نظام میں سپریم کورٹ‬
‫آف پاکستان ٰ‬
‫اعلی ترین عدالت ہے جبکہ صوبوں میں ہائی کورٹس قائم ہیں اور اس نظام‬
‫عدل میں توسیع کی غرض سے ‪ 2010‬میں وفاقی دارالحکومت میں اسالم آباد ہائی‬
‫کورٹ کا قیام عمل میں الیا گیا۔ ملک میں مخصوص عدالتیں‪ ،‬ٹربیونلز اور وفاقی اور‬
‫صوبائی محتسب کے ادارے بھی انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔‬

‫عظمی کی عمارات‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫عدالت‬

‫قیام پاکستان کے بعد فیڈرل کورٹ آف پاکستان نے کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان‬
‫کی عمارت میں کام شروع کیا ۔ بعد ازاں کچھ عرصہ سپریم کورٹ نے الہور ہائی‬
‫کورٹ کی عمارت میں بھی عدالتی فرائض سرانجام دیے۔ ‪1973‬کے آئین کے تحت‬
‫عظمی کو اسالم آباد منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم عارضی طور پر عدالت‬
‫ٰ‬ ‫ت‬
‫عدال ِ‬
‫عظمی نے راولپنڈی میں ‪ ۱۹۷۴‬سے ‪ ۱۹۹۲‬تک کام جاری رکھا۔‬

‫عدالت عظمی کی موجودہ عمارت وفاقی دارالحکومت کی شاہراہ دستور پر واقع ہے۔‬
‫عمارت کا سنگ بنیاد ‪1976‬میں رکھا گیا جس کی تکمیل پر ‪1993‬میں سپریم کورٹ‬
‫موجودہ عمارت میں منتقل ہو گئی۔‬

‫‪2‬‬
‫سپریم کورٹ آف پاکستان کی موجودہ عمارت اپنے منفرد طرز تعمیر کا شاہکار ہونے‬
‫کی وجہ سے مرکز نگاہ ہے۔ جس کا سہرا مشہور جاپانی ماہر تعمیرات کینزوٹینگ کے‬
‫سر جاتا ہے ۔‬

‫سپریم کورٹ کی مرکزی عمارت میں ایک شاندار آڈیٹوریم اور وسیع الئبریری کے‬
‫عالوہ ایک میوزیم بھی موجود ہے جس میں عدلیہ سے متعلق اہم تاریخی دستاویزات و‬
‫نوادرات رکھے گئے ہیں۔‬

‫عمارت کے مرکزی بالک میں گیارہ کورٹ رومز ہیں جس میں کورٹ روم نمبر‪ ۱‬سب‬
‫سے بڑا ہے جس میں عدالت عظمی کے تمام جج صاحبان بیک وقت سماعت کرسکتے‬
‫ہیں ۔ سپریم کورٹ کی مستقل نشست اسالم آباد میں ہے تاہم چاروں صوبوں میں اس کی‬
‫برانچ رجسٹریز قائم ہیں۔‬

‫عمارت میں قانون و انصاف سے متعلقہ کچھ دیگر دفاتر بھی فرائض سرانجام دیتے‬
‫ہیں جن میں قانون و انصاف کمیشن ‪ ،‬اٹارنی جنرل پاکستان‪ ،‬پاکستان بار کونسل اور‬
‫سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شامل ہیں۔‬

‫موجودہ چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیا ل نے ‪ ۲‬فروری ‪ ۲۰۲۲‬نے ملک کے ‪28‬‬
‫ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھایا جنھوں نے ہمیشہ عدلیہ کی آزادی‪ ،‬قانون کی‬
‫حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کوشش کی ہے اور ان کی خدمات کی‬
‫وجہ سے مشہور جریدہ "ٹائمز" نے ان کو دنیا کی با اثر سو شخصیات میں شامل کیا‬
‫ہے۔‬

‫پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے جج صاحبان نے‬
‫بھی اہم کردارادا کیا ہے ۔ ملک کے چوتھے چیف جسٹس‪ ،‬جسٹس کارنیلیئس کی قانونی‬
‫تشریحات جہاں انصاف کی فراہمی اور قانون کی حکمرانی کے قیام کے لیئے مشعل‬
‫راہ ہیں وہیں جسٹس درآب پٹیل اور جسٹس رانا بھگوان داس کے فیصلوں نے آیئن کی‬
‫پاسداری اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔‬
‫‪3‬‬
‫عدلیہ میں خواتین ججز بھی انصاف کی فراہمی کے لیئے اپنا فعال کردار ادا کر نے میں‬
‫سر گرم ہیں اور ‪24‬جنوری ‪2022‬کو پہلی خاتون جج جسٹس عائشہ ملک کی سپریم‬
‫کورٹ میں تقرری نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔‬

‫سپریم کورٹ کے اہم فیصلے‪:‬‬

‫مفاد ِعامہ اور انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانے کے حوالہ سے عدلیہ کا کردار‬
‫ہمیشہ شاندار اور نمایاں رہا ہےاور ریاستی اداروں کے استحکام‪ ،‬مالزمتوں کے‬
‫ڈھانچوں میں بہتری‪ ،‬خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ‪ ،‬قیدیوں کے ساتھ برتاو اور‬
‫سہولیات کی فراہمی‪ ،‬تعلیم ی نظام ‪ ،‬ملک کے پارلیمانی نظام میں بہتری‪ ،‬قدرتی وسائل‬
‫بلخصوص آبی زرائع ‪ ،‬بڑھتی ہوئی آبادی اور سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل پر‬
‫بھی اہم فیصلے اور احکامات جاری کیئے ۔‬

‫اس ضمن میں کچھ اہم فیصلوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے‪:‬‬

‫‪۱‬۔ ملک میں رائج اداراجارتی نظام کو مزید مستحکم کرنے میں عدالتوں کا کردار ہمیشہ‬
‫اہم رہا ہے پاکستانی عدلیہ نے اپنے اہم فیصلوں کے ذریعے اداروں کو نا صرف اپنی‬
‫مقرر کردہ حدود میں کام کرنے کی ہدایت کی بلکہ عوامی عہدیداران کو جمہوری اقدار‬
‫کی پاسداری کرتے ہوئے عوامی اختیارات کو عوام کی خدمت کےمقدس فریضے کے‬
‫طور پر استعمال کرنے کی ہدایت دی اسی طرح ملک میں رائج سول سروس کے نظام‬
‫اور اداراجاتی استحکام پر زور دیتے ہوئے عدالت نے‬

‫‪ ۱۹۹۸‬میں بے نظیر بھٹو کے مقدمے میں وفاقی اور پارلیمانی نطام حکومت کے‬
‫استحکام اور باالدستی پر زور دیا۔‬

‫‪ ۲۰۱۶‬میں مصطفی ایمپکس کیس میں وفاقی کابینہ کے حقیقی اور آئینی کردار کا‬
‫تعین کیا ۔‬
‫‪4‬‬
‫‪ ۲۰۱۳‬میں کراچی بدامنی کیس میں لوکل گورنمنٹ کو فعال کرنے اور فوری نفاذ کے‬
‫احکامات جاری کیئے۔‬
‫اسی طرح طارق عزیز الدین اور انیتا تراب کے مقدمات میں سرکاری مالزمین کے‬
‫حقوق کا تحفظ کیا گیا۔‬
‫معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو تحفظ دینے کے ضمن میں ‪۱۹۹۰‬میں جبری‬
‫مشقت کے سدباب کے لیئے درشن مسیح کے مقدمے میں ملک سے جبری مشقت کے‬
‫خاتمے کے لیئے قانون سازی کی ہدایت کی گئی اور آئین کے تحت انسانی تشخص اور‬
‫وقار کو یقینی بنایا ۔‬

‫اسی طرح ‪ ۱۹۹۴‬میں از خود نوٹس لیتے ہوئے سر عام پھانسی کے عمل کو انسانی‬
‫تذلیل اور شخصی وقار کے منافی قرار دیا ۔‬

‫ق زندگی"کی مفصل تشریح کی اور ایک‬


‫مشہور شہال ضیاء کیس میں اس عدالت نے "ح ِ‬
‫آزاد ریاست میں کسی بھی شہری کو باعزت زندگی گزارنے کے لیئے مطلوبہ سہولتوں‬
‫کو یقینی بنانے کی ہدایات جاری کیں ۔‬

‫اسی طرح ایک اور از خود مقدمے میں ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ خواجہ سراوں کو‬
‫شناختی کارڈ کا اجرا‪،‬سرکاری مالزمتوں میں کوٹہ اور ان کے تشخص کو تسلیم کیئے‬
‫جانے کے متعلق احکامات جاری کیئے گیئے ۔‬

‫پشاور چرچ حملہ ‪ ،‬کٹاس راج مندر اورکراچی کی دھرم شاال سے متعلق مقدمات میں‬
‫اقلیتوں کے حقوق اور عبادت گاہوں کے تخفظ اور مذہبی رواداری کیلئے بھی عدلیہ‬
‫نے اپنے فیصلوں کے زریعے مؤثر احکامات جاری کیئے ۔‬

‫اسی طرح صفیہ بانو کے مقدمے میں ذہنی بیمار قیدیوں کے ساتھ بہتر سلوک اور ان‬
‫کو قانون میں درج استثنی سے مستفید ہونے کا حقدار قرار دیا۔‬

‫‪5‬‬
‫ظفر ہللا خان بنام فیڈریشن میں ملک میں آبی قلت سے نبرد آزما ہونے کی غرض سے‬
‫اقدامات کی ہدایات کی اور نئے ڈیموں کی تعمیر کے لیئے ڈیم فنڈ کا قیام بھی عمل میں‬
‫الیا گیا ۔‬

‫پاکستان بار کونسل کے مقدمے میں ملک میں قانون کی پیشہ وارانہ تعلیم کے معیار کو‬
‫بہتر بنانے کے لئے بلخصوص تیزی سے بڑھتی ہوئی غیر معیاری درسگاہوں پر قابو‬
‫پانے کے لیئے پاکستان بار کونسل اور ہائیر ایجوکیشن کمشن اہم ذمہ داری سونپی ۔‬

‫قانون وانصاف کمیشن کا کردار‪:‬‬

‫فراہمی انصاف کے عمل کو یقینی بنانے اور ملک میں رائج قوانین کو جدید تقاضوں‬
‫سے ہم آہنگ کرنے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراھی میں قانون و‬
‫انصاف کمیشن اور قومی عدالتی (پالیسی ساز) کمیٹی کا نمایاں کردارہے۔‬

‫قانون و انصاف کمیشن کی انتظامی سربراہی سیکریٹری کے ذمے ہے اور موجودہ‬


‫سیکرٹری رفعت انعام بٹ کو ادارے کی پہلی خاتون سیکرٹری ہونے کا اعزاز حاصل‬
‫ہے۔‬

‫کمیشن کی بنیادی ذمہ داری قوانین میں اصالحات تجویز کرنا اورعوام میں قوانین کی‬
‫آگاہی پیدا کرنا ہے جبکہ قومی عدالتی (پالیسی ساز)کمیٹی کی ذمہ داریوں میں عدالتوں‬
‫کی کارکردگی کو جانچنا اور اس حوالے سے حکمت عملی وضع کرنا ہے۔ کمیٹی نے‬
‫عوام کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنانےکے لیئے ‪ 2009‬میں قومی‬
‫عدالتی پالیسی نافذ کی ۔‬

‫عالوہ ازیں‪ ،‬عدالتی نظام میں اصالحات متعارف کرانے کے لیے حکومت پاکستان نے‬
‫کمیشن کے زیر انتظام انصاف تک رسائی کا خصوصی فنڈ قائم کیا ہے جس کے تحت‬
‫ضلعی عدالتوں میں سائلین کے لیے بہتر سہولتوں کی فراہمی اور قانون کی آگاہی کے‬
‫لیے رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔ عالہ ازیں مستحق سائلین کو مفت قانونی امداد کے لیے‬
‫ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج کی سربراہی میں ضلعی سطح پر‪ ۱۲۴‬کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔‬
‫‪6‬‬
‫مزید برآں عدالتی کارکردگی میں بہتری اور انصاف سے متعلقہ اداروں کو مربوط‬
‫کرنے اور معلومات کے تبادلے کے لیئے عدالتی قیادت نے یہ فیصلہ کیا کہ ہرسطح پر‬
‫انفارمیشن ٹیکنالوجی کو متعارف کرایا جائے اور اس حوالے سے نیشنل جوڈیشل‬
‫آٹومیشن یونٹ کا قیام عمل میں الیا جائے گا۔ اس پراجیکٹ کا آغاز قانون و انصاف‬
‫کمیشن کی سربراہی میں اس منصوبے کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔‬

‫‪7‬‬
‫ملک میں نظام انصاف کی بہتری کیلئے تمام متعلقہ اداروں یعنی عدلیہ‪ ،‬پولیس‪،‬‬
‫پراسیکیوشن‪ ،‬جیل خانہ جات اور عوام کو مشترکہ طور پر کوششیں کرنا ہوں گی۔اس‬
‫ضمن میں موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس عمر عطا بندیال نےنظام عدل‬
‫میں بہتری کیلئے مختلف سطحوں پر خاطر خواہ اقدامات اٹھائے ہیں جن میں کیس‬
‫مینجمنٹ سسٹم اور فوری انصاف کی فراہمی کے اقدامات کے عالوہ تنازعات کے‬
‫تصفیے کے غیر رسمی طریقوں کو فروغ دینے کی کوششیں اہمیت کی حامل ہیں۔ اس‬
‫وقت اعدادوشمار کے مطابق ملک میں ‪ 230‬ملین آبادی کو انصاف کی فراہمی کیلئے‬
‫صرف ‪ 3000‬جج صاحبان ہیں جبکہ ججز کی بہت سی آسامیاں خالی ہیں جن کو پر‬
‫کرنے سے عدلیہ کی کارکردگی میں مزید بہتری آ سکتی ہے۔ تاہم ان تمام مشکالت کے‬
‫با وجود عدلیہ نہایت مستعدی کے ساتھ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا رہی ہےجو الئق‬
‫تحسین ہے ۔‬

‫‪8‬‬

You might also like