Professional Documents
Culture Documents
Documentary PTV (Final As On 10-09-2022
Documentary PTV (Final As On 10-09-2022
پاکستان کےموجودہ عدالتی نظام کے پس منظر میں صدیوں پر محیط مختلف أدوار
برصغیر
ا و رحکمرانوں کی چھاپ ہے۔آج ہم جس عدالتی نظام پر عمل پیرا ہیں اس نے ِ
میں اسالم کی آمد ،مغلیہ دور اور انگریزوں کے تسلط کے دوران مختلف منازل طے
کی ہیں۔
۱۸۵۷کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر میں برطانوی راج نے مختلف صوبوں میں
ہائی کورٹس قائم کیں جن کا بنیادی مقصد دیوانی اور فوجداری عدالتوں کے فیصلوں
کے خالف اپیلوں کی سماعت تھا۔ اِن ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خالف اپیلوں کی
سماعت پریوی کونسل کی جوڈیشل کمیٹی کرتی تھی جس کا طریقہ کار نہایت پیچیدہ
اور مشکل تھا۔انہی مشکالت کو مد نظر رکھتے ہوئے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵
میں برصغیر کے لیے وفاقی عدالت کے قیام کی تجویز دی گئی جو ۱۹۳۷میں قائم کی
گئی۔
قیام پاکستان کے بعد جب قائداعظم نے بحثییت گورنر جنرل اپنا عہدہ سنبھاال تو
وائسرائے الرڈ ماؤنٹ بیٹن نے بمبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس لیو نارڈ سٹون کو
پاکستان کا چیف جسٹس بنانے کی تجویزپیش کی جسے بانی پاکستان نے مسترد کردیا
اورالہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرعبدالرشید کو پاکستان کا پہال چیف جسٹس
1
عظمی پاکستان کا درجہ
ٰ تعینات کیا۔ ۱۹۵۶کے آئین میں اس فیڈرل کورٹ کو عدال ِ
ت
دیتے ہوئے اس کے دائرہ اختیار کوبھی وسعت دی گئی۔
بعد ازاں 1973 ،1962 ،1956کے دساتیر پاکستان میں انصاف کی فراہمی اورعدالتی
نظام کو موثر بنانے کے لیے نہ صرف اصالحات الئی گئیں بلکہ صوبوں کے لیے
علیحدہ ہائی کورٹس کا قیام بھی عمل میں الیا گیا۔ 1980میں غیر اسالمی قوانین کی
تنسیخ اور قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے وفاقی شرعی عدالت کا
قیام بھی عمل میں الیا گیا جس کے فیصلوں کے خالف اپیلیں سپریم کورٹ کے شریعت
اپیلیٹ بینچ میں دائر کی جاسکتی ہیں۔ اس وقت ملک کے عدالتی نظام میں سپریم کورٹ
آف پاکستان ٰ
اعلی ترین عدالت ہے جبکہ صوبوں میں ہائی کورٹس قائم ہیں اور اس نظام
عدل میں توسیع کی غرض سے 2010میں وفاقی دارالحکومت میں اسالم آباد ہائی
کورٹ کا قیام عمل میں الیا گیا۔ ملک میں مخصوص عدالتیں ،ٹربیونلز اور وفاقی اور
صوبائی محتسب کے ادارے بھی انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔
عظمی کی عمارات:
ٰ عدالت
قیام پاکستان کے بعد فیڈرل کورٹ آف پاکستان نے کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان
کی عمارت میں کام شروع کیا ۔ بعد ازاں کچھ عرصہ سپریم کورٹ نے الہور ہائی
کورٹ کی عمارت میں بھی عدالتی فرائض سرانجام دیے۔ 1973کے آئین کے تحت
عظمی کو اسالم آباد منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم عارضی طور پر عدالت
ٰ ت
عدال ِ
عظمی نے راولپنڈی میں ۱۹۷۴سے ۱۹۹۲تک کام جاری رکھا۔
عدالت عظمی کی موجودہ عمارت وفاقی دارالحکومت کی شاہراہ دستور پر واقع ہے۔
عمارت کا سنگ بنیاد 1976میں رکھا گیا جس کی تکمیل پر 1993میں سپریم کورٹ
موجودہ عمارت میں منتقل ہو گئی۔
2
سپریم کورٹ آف پاکستان کی موجودہ عمارت اپنے منفرد طرز تعمیر کا شاہکار ہونے
کی وجہ سے مرکز نگاہ ہے۔ جس کا سہرا مشہور جاپانی ماہر تعمیرات کینزوٹینگ کے
سر جاتا ہے ۔
سپریم کورٹ کی مرکزی عمارت میں ایک شاندار آڈیٹوریم اور وسیع الئبریری کے
عالوہ ایک میوزیم بھی موجود ہے جس میں عدلیہ سے متعلق اہم تاریخی دستاویزات و
نوادرات رکھے گئے ہیں۔
عمارت کے مرکزی بالک میں گیارہ کورٹ رومز ہیں جس میں کورٹ روم نمبر ۱سب
سے بڑا ہے جس میں عدالت عظمی کے تمام جج صاحبان بیک وقت سماعت کرسکتے
ہیں ۔ سپریم کورٹ کی مستقل نشست اسالم آباد میں ہے تاہم چاروں صوبوں میں اس کی
برانچ رجسٹریز قائم ہیں۔
عمارت میں قانون و انصاف سے متعلقہ کچھ دیگر دفاتر بھی فرائض سرانجام دیتے
ہیں جن میں قانون و انصاف کمیشن ،اٹارنی جنرل پاکستان ،پاکستان بار کونسل اور
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شامل ہیں۔
موجودہ چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیا ل نے ۲فروری ۲۰۲۲نے ملک کے 28
ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھایا جنھوں نے ہمیشہ عدلیہ کی آزادی ،قانون کی
حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کوشش کی ہے اور ان کی خدمات کی
وجہ سے مشہور جریدہ "ٹائمز" نے ان کو دنیا کی با اثر سو شخصیات میں شامل کیا
ہے۔
پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے جج صاحبان نے
بھی اہم کردارادا کیا ہے ۔ ملک کے چوتھے چیف جسٹس ،جسٹس کارنیلیئس کی قانونی
تشریحات جہاں انصاف کی فراہمی اور قانون کی حکمرانی کے قیام کے لیئے مشعل
راہ ہیں وہیں جسٹس درآب پٹیل اور جسٹس رانا بھگوان داس کے فیصلوں نے آیئن کی
پاسداری اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
3
عدلیہ میں خواتین ججز بھی انصاف کی فراہمی کے لیئے اپنا فعال کردار ادا کر نے میں
سر گرم ہیں اور 24جنوری 2022کو پہلی خاتون جج جسٹس عائشہ ملک کی سپریم
کورٹ میں تقرری نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔
مفاد ِعامہ اور انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانے کے حوالہ سے عدلیہ کا کردار
ہمیشہ شاندار اور نمایاں رہا ہےاور ریاستی اداروں کے استحکام ،مالزمتوں کے
ڈھانچوں میں بہتری ،خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ،قیدیوں کے ساتھ برتاو اور
سہولیات کی فراہمی ،تعلیم ی نظام ،ملک کے پارلیمانی نظام میں بہتری ،قدرتی وسائل
بلخصوص آبی زرائع ،بڑھتی ہوئی آبادی اور سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل پر
بھی اہم فیصلے اور احکامات جاری کیئے ۔
اس ضمن میں کچھ اہم فیصلوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے:
۱۔ ملک میں رائج اداراجارتی نظام کو مزید مستحکم کرنے میں عدالتوں کا کردار ہمیشہ
اہم رہا ہے پاکستانی عدلیہ نے اپنے اہم فیصلوں کے ذریعے اداروں کو نا صرف اپنی
مقرر کردہ حدود میں کام کرنے کی ہدایت کی بلکہ عوامی عہدیداران کو جمہوری اقدار
کی پاسداری کرتے ہوئے عوامی اختیارات کو عوام کی خدمت کےمقدس فریضے کے
طور پر استعمال کرنے کی ہدایت دی اسی طرح ملک میں رائج سول سروس کے نظام
اور اداراجاتی استحکام پر زور دیتے ہوئے عدالت نے
۱۹۹۸میں بے نظیر بھٹو کے مقدمے میں وفاقی اور پارلیمانی نطام حکومت کے
استحکام اور باالدستی پر زور دیا۔
۲۰۱۶میں مصطفی ایمپکس کیس میں وفاقی کابینہ کے حقیقی اور آئینی کردار کا
تعین کیا ۔
4
۲۰۱۳میں کراچی بدامنی کیس میں لوکل گورنمنٹ کو فعال کرنے اور فوری نفاذ کے
احکامات جاری کیئے۔
اسی طرح طارق عزیز الدین اور انیتا تراب کے مقدمات میں سرکاری مالزمین کے
حقوق کا تحفظ کیا گیا۔
معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو تحفظ دینے کے ضمن میں ۱۹۹۰میں جبری
مشقت کے سدباب کے لیئے درشن مسیح کے مقدمے میں ملک سے جبری مشقت کے
خاتمے کے لیئے قانون سازی کی ہدایت کی گئی اور آئین کے تحت انسانی تشخص اور
وقار کو یقینی بنایا ۔
اسی طرح ۱۹۹۴میں از خود نوٹس لیتے ہوئے سر عام پھانسی کے عمل کو انسانی
تذلیل اور شخصی وقار کے منافی قرار دیا ۔
اسی طرح ایک اور از خود مقدمے میں ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ خواجہ سراوں کو
شناختی کارڈ کا اجرا،سرکاری مالزمتوں میں کوٹہ اور ان کے تشخص کو تسلیم کیئے
جانے کے متعلق احکامات جاری کیئے گیئے ۔
پشاور چرچ حملہ ،کٹاس راج مندر اورکراچی کی دھرم شاال سے متعلق مقدمات میں
اقلیتوں کے حقوق اور عبادت گاہوں کے تخفظ اور مذہبی رواداری کیلئے بھی عدلیہ
نے اپنے فیصلوں کے زریعے مؤثر احکامات جاری کیئے ۔
اسی طرح صفیہ بانو کے مقدمے میں ذہنی بیمار قیدیوں کے ساتھ بہتر سلوک اور ان
کو قانون میں درج استثنی سے مستفید ہونے کا حقدار قرار دیا۔
5
ظفر ہللا خان بنام فیڈریشن میں ملک میں آبی قلت سے نبرد آزما ہونے کی غرض سے
اقدامات کی ہدایات کی اور نئے ڈیموں کی تعمیر کے لیئے ڈیم فنڈ کا قیام بھی عمل میں
الیا گیا ۔
پاکستان بار کونسل کے مقدمے میں ملک میں قانون کی پیشہ وارانہ تعلیم کے معیار کو
بہتر بنانے کے لئے بلخصوص تیزی سے بڑھتی ہوئی غیر معیاری درسگاہوں پر قابو
پانے کے لیئے پاکستان بار کونسل اور ہائیر ایجوکیشن کمشن اہم ذمہ داری سونپی ۔
فراہمی انصاف کے عمل کو یقینی بنانے اور ملک میں رائج قوانین کو جدید تقاضوں
سے ہم آہنگ کرنے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراھی میں قانون و
انصاف کمیشن اور قومی عدالتی (پالیسی ساز) کمیٹی کا نمایاں کردارہے۔
کمیشن کی بنیادی ذمہ داری قوانین میں اصالحات تجویز کرنا اورعوام میں قوانین کی
آگاہی پیدا کرنا ہے جبکہ قومی عدالتی (پالیسی ساز)کمیٹی کی ذمہ داریوں میں عدالتوں
کی کارکردگی کو جانچنا اور اس حوالے سے حکمت عملی وضع کرنا ہے۔ کمیٹی نے
عوام کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنانےکے لیئے 2009میں قومی
عدالتی پالیسی نافذ کی ۔
عالوہ ازیں ،عدالتی نظام میں اصالحات متعارف کرانے کے لیے حکومت پاکستان نے
کمیشن کے زیر انتظام انصاف تک رسائی کا خصوصی فنڈ قائم کیا ہے جس کے تحت
ضلعی عدالتوں میں سائلین کے لیے بہتر سہولتوں کی فراہمی اور قانون کی آگاہی کے
لیے رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔ عالہ ازیں مستحق سائلین کو مفت قانونی امداد کے لیے
ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج کی سربراہی میں ضلعی سطح پر ۱۲۴کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔
6
مزید برآں عدالتی کارکردگی میں بہتری اور انصاف سے متعلقہ اداروں کو مربوط
کرنے اور معلومات کے تبادلے کے لیئے عدالتی قیادت نے یہ فیصلہ کیا کہ ہرسطح پر
انفارمیشن ٹیکنالوجی کو متعارف کرایا جائے اور اس حوالے سے نیشنل جوڈیشل
آٹومیشن یونٹ کا قیام عمل میں الیا جائے گا۔ اس پراجیکٹ کا آغاز قانون و انصاف
کمیشن کی سربراہی میں اس منصوبے کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔
7
ملک میں نظام انصاف کی بہتری کیلئے تمام متعلقہ اداروں یعنی عدلیہ ،پولیس،
پراسیکیوشن ،جیل خانہ جات اور عوام کو مشترکہ طور پر کوششیں کرنا ہوں گی۔اس
ضمن میں موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس عمر عطا بندیال نےنظام عدل
میں بہتری کیلئے مختلف سطحوں پر خاطر خواہ اقدامات اٹھائے ہیں جن میں کیس
مینجمنٹ سسٹم اور فوری انصاف کی فراہمی کے اقدامات کے عالوہ تنازعات کے
تصفیے کے غیر رسمی طریقوں کو فروغ دینے کی کوششیں اہمیت کی حامل ہیں۔ اس
وقت اعدادوشمار کے مطابق ملک میں 230ملین آبادی کو انصاف کی فراہمی کیلئے
صرف 3000جج صاحبان ہیں جبکہ ججز کی بہت سی آسامیاں خالی ہیں جن کو پر
کرنے سے عدلیہ کی کارکردگی میں مزید بہتری آ سکتی ہے۔ تاہم ان تمام مشکالت کے
با وجود عدلیہ نہایت مستعدی کے ساتھ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا رہی ہےجو الئق
تحسین ہے ۔
8