You are on page 1of 9

‫مطالعہ پاکستان (اسئنمنٹ)‬

‫اسامہ‬ ‫○‬
‫حارث عیل‬ ‫○‬
‫فاہد طاہر‬ ‫○‬
‫اوزیر خالد‬ ‫○‬
‫)‪BSCS (2nd A‬‬
‫‪Presented to : Uzma siraj‬‬
‫پاکستان ےک ٓا ن‬
‫ئی یک اہمیت و حیثیت‬

‫ٓا ن‬
‫ئی‬
‫ٓا ن‬
‫ئی فاریس زبان کا لفظ ےہ۔اس کا مطلب ےہ قانون ‪،‬ظابطہ‪،‬دستور‪،‬اصول‬
‫پاکستان کا پہال ٓا ن‬
‫ئی‬
‫ٓ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ٓ‬
‫یوم ازادی‬
‫اعالن‪۱۴‬اور‪۱۵‬اگست یک درمیان شب کو ھوا۔پاکستا ن ن ‪۱۴‬اگست کو ِ‬ ‫پاکستان اور ہندوستان یک ازادی کا‬
‫ٓ‬ ‫۔مانا۔اور ہندوستان ن‬
‫ن ‪۱۵‬اگست کو۔ازادی کا یہ رسیم اعالن برطانیہ یک پارلیمنٹ ےک ایک ایکٹ ےک تحت ھوا‬
‫جوالن ٗ‪۱۹۴۷‬ء کو ایک قانون بن گیا تھا۔جسےک مطابق ‪ ۱۵‬اگست ‪۱۹۴۷‬ء ےسبرٹش انڈ یا کو ہندوستان اور پاکستان ‪۴‬‬‫ی‬
‫ٓ‬
‫۔دو ازاد ملکوں می تقسیم ہو جا نا تھا‬
‫بنن تک‪۱۹۳۵‬ء ےک قانون ےک تحت چال ن‬
‫ن کا‬ ‫اپن ٓا ن‬
‫ئی ن‬ ‫کیس دستور یک عدم دستیبان یک وجہ ےس ملک کو اس ےک ن‬
‫ی‬
‫۔فیصلہ ہوا۔اس قانون ےک تحت ن‬
‫بان پاکستان قائداعظم کو گو رنر ن‬
‫جنل بنایا گیا۔جو تا ِج برطانیہ ےک تحت ایک عہدہ تھا‬
‫ئی ن‬
‫بنن تک جا ری رہا‬ ‫جنل کا عہدہ ‪۱۹۵۶‬ءکا ٓا ن‬
‫۔گور نر ن‬

‫ء کا ٓا ن‬
‫ئی‪۱۹۵۶‬‬
‫ٓ‬
‫جون ‪۱۹۵۵‬ء کو ینئ دستور ساز اسمبیل معر ض وجود می ا ین یہ‪ ۸۰‬ارکان پرمشتمل تیھ۔دستور سازی ےک کام تاخن یک ‪۲۳‬‬
‫ا۔نئ وز یراعظم چوہدری محمد عیل ن‬ ‫ی‬
‫نمائیندیک کا مسلئہ تھ ی‬
‫ن اکتوبر ‪۱۹۵۵‬ء می مغر ین‬ ‫اصل وجہ مختلف صوبوں می‬

‫مغرن پا کستان ےک نام ےس ایک صوبہ‬


‫ی‬ ‫پاکستان ےک چاروں صوبوں(پنجاب‪،‬سندھ‪،‬رسحد‪،‬اور بلو چستان)کو مال کر وحدت‬
‫مغرن پاکستان )یک منظوری دے دی اس ےک ساتھ یہ‬ ‫بنا دیا ۔اکتو بر ‪۱۹۵۵‬ءمی دستور سازاسمبیل ن‬
‫ن ون یونٹ (وحدت‬
‫ی‬
‫اپئ تما م تر توجہ دستور سازی ےک کاموں پر مر کو ز کر دی باال ٓاخر اختال نف مسا ئل حل ن‬
‫کرن ےک‬ ‫ن ن‬‫دستو ر ساز اسمبیل ن‬

‫بعد وزیر قانون ٓا ین چند لیڈر ن‬


‫ن دستور کا مسودہ ‪ ۹‬جنوری ‪۱۹۵۶‬ءکو دستور سازاسمبیل می پیش کر دیا۔جس ن‬
‫ن ‪۲۹‬‬
‫جنل سکند ر مرزا ن‬
‫ن بیھ اس یک توثیق کر دی ۔بعد ازاں‬ ‫فروری‪۱۹۵۶‬ءکو اےس منظوکر لیا ‪۲‬مارچ کو گورنر ن‬

‫۔‪۲۳‬مارچ‪۱۹۵۶‬ءکو اس ٓا ن‬
‫ئی کو نافز کر دیا گیا‬

‫۔۔۔۔‪۱۹۵۶‬ءےک ٓا ن‬
‫ئی ےک نمایاں خد وخال‬
‫‪ :‬ہللا یک حاکمیت)‪(۱‬‬
‫قرار داد مقاصد کو ٓا ن‬
‫ئی ےک ررسوع می ابتدائیہ ےک طورپر شامل کیا گیا جس می کہا گیا کہ پو ری کائنات یک‪:‬‬

‫بنان ی‬
‫ہون حدود ےک‬ ‫کون ررسیک نہی۔پاکستان ےک عوام ہللا تعایل یک ی‬
‫تعایل کو حاصل ہ جس می اسکا ی‬
‫َ‬ ‫حا کمیت ہللا‬
‫ے‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫۔اندر ے‬
‫ہون حاکمیت ےک اختیارات کا استعمال ایک مقدس امانت ےک طور پر کریں ےک‬ ‫رہن‬

‫‪:‬مملکت کا نام)‪(۲‬‬
‫ئی ےک مطابق ملک کا نام اسالیم جمہوریہ پاکستان رکھا گیا‪۱۹۵۶‬‬‫۔ءےک ٓا ن‬
‫ن‬
‫ہون یک ررسط)‪(۳‬‬ ‫‪:‬صدر ی‬
‫ےکلئ مسلمان‬
‫گئ تیھ‬ ‫ن‬
‫ہون یک ررسط نہ رکیھ ی‬ ‫۔دستور می صدر ےک لئ مسلمان ہونا الزیم قرار دیا گیا تاہم وزیراعظم ےک لئ مسلمان‬
‫‪:‬اسالمی اصولوں کی پابندی)‪(۴‬‬
‫۔ءکے آئین کے افتتاحیہ میں کہا گیا کہ قائداعظم کے ارشادات کے مطابق پا کستان ایک جمہوری ملک ہو گا‪۱۹۵۶‬‬
‫۔جس میں انصاف‪ ،‬آزادی اور مساوات کے اسالمی اصولوں کے مطابق نظام حکومت قائم کیا جائے گا‬
‫‪:‬قرآن و سنت کی پیروی)‪(۵‬‬
‫افتتا حیہ میں مزید کہا گیا کہ پا کستان کے عوام کو اس قابل بنا یا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتمائی زند گیوں کو‬
‫۔قرآن وسنت کے مطابق ڈھال سکیں‬
‫‪:‬اسالمی قانون کا نفاذ)‪(۶‬‬
‫آئین کے ارٹیکل ‪ ۱۹۸‬میں واضح کیا گیا کہ ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہینبنا یا جائے گا جو قوانین‬
‫۔رائج ہیں ان کو بھی بتدریج قرآن وسنت کے مطابق ڈھالجائے گا‬
‫‪ :‬اسالمی اقدار کی حفاظت)‪(۷‬‬
‫آئین میں اسالمی اقدار کے تحفظ اوربرائیوں کے خاتمے کی ضمانت دی گئی۔سود‪،‬عصمت فروشی‪ ،‬جوا اور شراب کا‬
‫۔خاتمہ کیا جائے گا‬
‫‪:‬زکوۃ اور اوقاف)‪(۸‬‬
‫۔دستور میں حکومت کو زکوۃ اور اوقاف کا معقول انتظام کرنے کی ہدایت کی گئی‬
‫‪:‬فال حی ریاست)‪(۹‬‬
‫پاکستان کو ایک فالحی ریاست بنانے کے ملک سے ناخواندگی ختم کی جائے گی مزدو کے لیے کام کرنے کے اوقات‬
‫۔بہتر بنائے جائیں گے اورتمام شہریوں کوروٹی‪،‬کپڑا‪،‬مکان اور طبی سہولتیں فرا ہم کر نا حکو مت کی ذمہ داری ہوگی‬
‫‪:‬اتحاد عالم اسالم)‪(۱۰‬‬
‫۔ دستور میں حکومت پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ تمام اسالمی ممالک کےساتھ دوستانہ تعلق قائم کرے‬
‫‪:‬اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ)‪(۱۱‬‬
‫‪ 1956‬ء کے آئین میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی نیز انھیں کا مل مزہبی آزادی دینے‬

‫۔کا بھی وعدہ کیا گیا‬

‫‪ :‬جداگانہ انتخابات)‪(۱۲‬‬

‫مغربی پاکستان میں جداگانہ طریق انتخاب رائج کیا جائے گا جبکہ مشرقی پا کستان میں بعض مخصوص مفادات کی خاطر‬
‫۔مخلو ط طریق انتخاب کی اجازت ہو گی‬

‫؛کے آئین کے منسوخ ہو نے کی وجوہات ‪۱۹۵۶‬‬


‫کے آئین کی منسو خی کی سب سے بڑی وجہ ما ر شال تھا ‪۱۹۵۶‬‬

‫ا یرک فروم کہتے ہیں کہ آزادی کا حصول اور اس کو قائم رکھنا ایک دشوار طلب عمل اور کشمکش ہے بعض لوگ‪،‬‬
‫بعض گروہ یا قومیں اس سے گھبرا کر اپنی آزادی اپنی رضاسے ایک شخص یا جماعت کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس‬
‫طرح انھیں فیصلہ کرنے کی زحمت سے نجات مل جاتی ہے اور وہ حکم ماننے میں ایک گو نہ سکون محسوس کرتے‬
‫ہیں۔ سات اکتوبر‪1958‬ءکو جب سکندر مرزا نے پاکستان میں عالنیہ مارشل ¿ نافذ کرکے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خاں‬
‫کو چیف مارشل ال¿ ایڈمنسٹریٹر نامزد کر دیا تو قوم نے بغیر کسی مزاحمت کے سرِ تسلیم خم کرنے میں سکون محسوس‬
‫۔ کیا اور بقول ایوب خان ملک میں مارشل الءاتنی آسانی سے جاری ہو گیا جیسے کوئی بجلی کا بٹن دبا دے‬

‫بقول مشتاق احمد یوسفی‪” ،‬لیڈر خود غرض ‪ ،‬علماءمصلحت بیں ‪ ،‬عوام خوفزدہ اور راضی بر ضائے حاکم‪ ،‬دانشور‬
‫خوشامدی اور ادارے کھوکھلے ہو جائیں تو مارشالئوں کے لےے راستہ ہموار ہوتا چال جاتا ہے ¿ پھر کوئی طالع آزما‬
‫ملک کو غضبناک نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے۔مارشل الءخود بخود نہیں آتا اسے الیا اور بُالیا جاتا ہے اور جب آجاتا ہے‬
‫۔“تو قیامت اس کے ہمرکاب آتی ہے‬
‫کے آئین کی اسالمی دفعات ‪1962‬‬

‫جنرل محمد ایوب خان پارلیمانی جمہوری نظام کی بجائے صدارتی طرز حکومت کے حق میں تھے۔ آپ نے‬
‫فروری ‪ 1960‬ء میں جسٹس شہاب الدین کی قیادت میں ایک دستوری کمیشن قائم کیا جس نے ‪ 6‬مئی ‪ 1961‬ء کو‬
‫اپنی تجاویز صدر مملکت کو پیش کیں ان تجاویز پر غور کرنے کے لئے جسٹس منظور قادر کی سرکردگی میں‬
‫ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اس کمیٹی نے آئینی کمیشن کی سفارشات میں کچھ ردوبدل کر کے پاکستان کے لیے‬
‫نیا آئین مرتب کیا جسے صدر ایوب خان نے ‪ 8‬جون ‪1962‬ء کو ملک میں نافذ کر دیا اس آئین کی اسالمی دفعات‬
‫۔مندرجہ ذیل تھیں‬

‫ہللا تعالی کی حاکمیت‪:‬قرارداد مقاصد کو آئین میں دیباچہ کے طور پر شامل کیا گیا ہللا تعالی کی ۔ ‪1‬‬
‫حاکمیت کا اقرار کیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان کے عوام قرآن و سنت کی روشنی میں حاکمیت کے اختیارات کو‬
‫۔ایک مقدس امانت سمجھ کر استعمال کریں گے‬

‫ء کے دستور میں پہلے مملکت کا نام جمہوریہ پاکستان رکھا گیا بعد میں عوام ‪:1962‬مملکت کا نام ۔ ‪2‬‬
‫۔کے مطالبے سے مجبور ہو کر اس میں ترمیم کر کے اسالمی جمہوریہ پاکستان کر دیا گیا‬

‫‪: 1956‬صدر کے لیے مسلمان ہونے کی شرط۔ ‪3‬‬ ‫ء کے آئین کی طرح ‪ 1962‬ء کے آئین میں بھی‬
‫۔صدر مملکت کے لئے مسلمان ہونا ضروری تھا‬

‫‪:‬اسالمی اصولوں کی پیروی ۔ ‪4‬‬ ‫دستور کے افتتاحیہ میں وضاحت کر دی گئی کہ ملک کا انتظام عوام‬
‫کے منتخب نمائندےجمہوریت‪ ،‬آزادی‪ ،‬مساوات ‪ ،‬رواداری اور سماجی انصاف کے اسالمی اصولوں کے مطابق‬
‫۔چالئیں گے‬

‫قرآن و سنت کی پیروی‪:‬پاکستان کے لوگوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی انفرادی اور ۔ ‪5‬‬
‫۔اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے مطابق بسر کر سکیں‬

‫‪:1956‬اسالمی قانون کا نفاذ۔ ‪6‬‬ ‫ء کے دستور کی طرح ‪ 1962‬ء کے آئین میں بھی کہا گیا کہ آئندہ کوئی‬
‫ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جو قرآن و سنت کے منافی ہو نیز پہلے سے موجود قوانین کو بتدریج قرآن و سنت‬
‫۔کے مطابق ڈھاال جائے گا‬
‫قرآن و اسالمیات کی الزمی تعلیم‪:‬رہنما اصولوں میں یہ بھی کہا گیا کہ حکومت قرآن و اسالمیات ۔ ‪7‬‬
‫کی الزمی تعلیم کے لئے مناسب اقدامات کرے گی اور مسلمانوں میں اسالمی اخالق کو فروغ دینے کی کوشش‬
‫۔کرے گا‬
‫قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان‬
‫ہللا کرے تجھ کوعطا جدت کردار‬
‫) اقبال(‬

‫اس آئین میں حکومت کو ہدایت کی گئی کہ وہ ملک سے جہالت کا خاتمہ کرے ‪ : ،‬فالحی ریاست ۔ ‪8‬‬
‫مزدوروں کے کام کے اوقات کار کو بہتر بنائے‪ ،‬عصمت فروشی‪ ،‬جوا اور شراب کے خاتمے کے لئے اقدامات‬
‫۔کرے اور عوام کے لئے روٹی ‪ ،‬کپڑا‪ ،‬مکان اور طبی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کے فرائض میں شامل ہو گا‬

‫‪ :‬اتحاد عالم اسالم ۔ ‪9‬‬ ‫آئین میں حکومت پاکستان کو اسالمی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کو‬
‫۔کہا گیا‬

‫‪ :‬محکمہ زکوۃ اور اوقاف ۔ ‪10‬‬ ‫اس آئین کے تحت زکوۃ اور اوقاف کے الگ الگ محکمے تشکیل‬
‫دیئے جائیں گے۔ محکمہ زکوۃ کا عملہ زکوۃ وصول کر کے اسے ملک و عوام کی فالح و بہبود پر خرچ کرے‬
‫۔گا۔ اسالمی ثقافت کی آئینہ دار عمارات اور جامع مساجد کی دیکھ بھال محکمہ اوقاف کی ذمہ داری ہو گی‬

‫۔ ‪11‬‬ ‫سودی کاروبار کا خاتمہ‪:‬اس آئین کی رو سے یہ طے پایا کہ ہر سطح پر سودی کاروبار کو ختم‬
‫۔کرکے اسالمی قوانین اور اصول و ضوابط مرتب کئے جائیں گے‬

‫غلطیوں سے پاک قرآن مجید کی اشاعت‪:‬اس آئین میں یہ بھی تحریر کیا کہ غلطیوں سے پاک ۔ ‪12‬‬
‫۔قرآن کریم کی اشاعت حکومت کی ذمہ داری ہو گی تاکہ کسی قسم کا ابہام پیدا نہ ہو‬

‫‪:‬غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ ۔ ‪13‬‬ ‫اس آئین میں اس بات کی ضمانت دی گئی کہ غیر مسلموں‬
‫کے حقوق کا تحفظ دیا جائے گا۔ انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گی‪ ،‬ان کی عبادت گاہوں کا احترام کی‬
‫۔جائے اور انہیں پاکستانیوں کے مساوی حقوق حاصل ہوں گے‬

‫۔ ‪14‬‬ ‫اسالمی مشاورتی کونسل ‪:‬آئین کے تحت صدر پاکستان کو پانچ سے بارہ ارکان پر مشتمل اسالمی‬
‫مشاورتی کونسل کی تشکیل کا کام سپرد کیا گیا ‪ ،‬ان ارکان کے لئے ضروری تھا کہ وہ اسالم کو اچھی طرح‬
‫سمجھتے ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سیاسی‪ ،‬معاشی‪ ،‬قانونی اور انتظامی مسائل سے بھی واقفیت‬
‫رکھتے ہوں کونسل کو یہ فرض سونپا گیا کہ وہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ایسی تجاویز پیش کرے جن‬
‫سے مسلمان اپنی زندگیوں کو اسالم کے سانچے میں ڈھال سکیں مشاورتی کونسل صدر‪ ،‬گورنر‪ ،‬مرکزی اور‬
‫صوبائی اسمبلیوں کو مشورہ دے سکتی تھی کہ آیا مجوزہ قانون اسالم کے منافی تو نہیں ۔ کونسل کو محض‬
‫مشاورتی حیثیت حاصل تھی اس کے مشورے پر عمل کرنا ضروری نہیں تھا کونسل کو ویٹو کا حق بھی حاصل‬
‫۔نہیں تھا‬

‫۔ ‪15‬‬ ‫ادارہ تحقیقات اسالمی‪:‬آئین کے تحت ادارہ تحقیقات اسالمی کا قیام عمل میں آیا تاکہ وہ اسالمی‬
‫۔تعلیمات کی روشنی میں جدید مسائل کا حل پیش کرنے کے لئے تحقیقی کام کرے‬
‫ء کے آئین کی رو سے صدر مملکت جنرل محمد ایوب خان وسیع اختیارات کے مالک بن گئے۔ قومی ‪1962‬‬
‫اسمبلی آئینی طریقے سے حکومت تبدیل کرنے کی مجاز نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان‬
‫کے سیاسی حلقوں نے اس دستور پر کڑی تنقید کی۔ ردعمل کے طور پر انہوں نے صوبائی خودمختاری کا‬
‫مطالبہ کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ صدارتی نظام ختم کرنے اور ون یونٹ کو توڑنے کے مطالبات زور پکڑ گئے‪،‬‬
‫جنرل ایوب خان کے خالف زبردست عوامی تحریک شروع ہو گئی ملک گیر ہنگاموں کے پیش نظر ‪ 25‬مارچ‬
‫‪ 1969‬ء کو صدر ایوب خاں نے صدارت سے استعفی دے دیا اور بری فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل یحی خان‬
‫نے چیف مارشل الء ایڈمنٹریٹر کی حیثیت سے عنان حکومت سنبھالی۔ ‪ 1962‬ء کا آئین منسوخ کر دیا گیا۔‬
‫مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئیں جنرل یحی خان نے اعالن کیا کہ فوج سیاسی عزائم نہیں رکھتی وہ‬
‫جلد از جلد بالغ راہے دہی کی بنیاد پر انتخابات کرا کر اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کر دے گی۔ ‪28‬‬
‫مارچ ‪ 1970‬ء کو لیگل فریم ورک جاری کیا گیا اس قانونی ڈھانچے میں آئین کے بارے میں بنیادی اصول وضع‬
‫۔کئے گئے نیز ملک میں آئندہ انتخابات کے طریق کار کا بھی اعالن کیا گیا‬

‫کا آئین ‪1973‬‬


‫یحیی خان نے ملک میں پہلے انتخابات کروائے۔ انتخابات کے نتائج انتہائی حوصلہ شکن تھے۔‬
‫ٰ‬ ‫‪ 1970‬میں‬
‫پاکستان ایک نئے بحران میں داخل ہو گیا جس کی وجہ سے ‪ 16‬دسمبر ‪ 1971‬کو مشرقی پاکستان پاکستان سے‬
‫علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ ‪ 20‬دسمبر ‪1971‬ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے صدر پاکستان اور سول مارشل‬
‫الء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھاال تو نئی حکومت کے سامنے ملک کی تعمیر نو کے عالوہ پاکستان کے لیے ایک‬
‫مستقل آئین کی تشکیل کا چیلنج بھی موجود تھا۔ ‪ 17‬اپریل ‪1972‬ء کو قومی اسمبلی نے مسودہ آئین کی تیاری‬
‫کے لیے ایک کمیٹی تشکیل کی۔ جس نے شب و روز کام کر کے ‪ 2‬فروری ‪1973‬ء کو دستور کا مسودہ قومی‬
‫اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا۔ قومی اسمبلی نے ‪ 12‬اپریل ‪1973‬ء کو اسے متفقہ طور پر منظور کیا‬
‫اور ‪ 14‬اپریل ‪1973‬ء کو اسے نافذ کر دیا گیا۔‬
‫‪ 1973‬کے آئین کی اسالمی دفعات ‪:‬‬

‫‪ 1973‬کے آئین کی اسالمی دفعات درج ذیل ہیں‪:‬‬


‫تعالی کی حاکمیت‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫‪1‬۔ ہللا‬
‫‪ 1973‬کے آئین میں بھی قرار داد مقاصد کو دیباچہ کے طور پر شامل کیا گیا۔ اس میں اقرار کیا گیا کہ اقتدار‬
‫تعالی کی مقرر کردہ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی کے پاس ہیں اور پاکستان کے عوام جو اختیارات ہللا‬
‫ٰ‬ ‫اعلی حاکمیت کے اختیارات ہللا‬
‫ٰ‬
‫حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کریں گے۔ ان کی حثیت ایک مقدس امانت کی ہو گی۔‬
‫‪2‬۔ ملک کا نام‪:‬‬

‫دونوں سابقہ دساتیر کی طرح ‪1973‬ء کے آئین میں بھی ملک کا نام اسالمی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔‬

‫‪3‬۔ سرکاری مذہب‪:‬‬


‫دونوں سابقہ دساتیر کی طرح آئین کے مطابق اسالم کو پاکستان کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا۔‬

‫‪4‬۔ صدر اور وزیراعظم کا مسلمان ہونا‪:‬‬


‫اس دستور کے تحت صدر اور وزیراعظم دونوں کے لیے مسلمان ہونے کی شرط رکھی گئی۔ ‪1956‬ء اور‬
‫‪1962‬ء کے دساتیر میں صرف صدر کا مسلمان ہونا ضروری تھا۔‬

‫‪5‬۔ اسالمی قوانین کا نفاذ‪:‬‬


‫ملک میں قرآن وسنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گااور پہلے سے موجود تمام قوانین کو اسالمی‬
‫اصولوں کے مطابق بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں گے۔‬

‫‪6‬۔ قرآن وسنت کی پیروی‪:‬‬


‫پاکستان کے مسلمانوں کو موقع فراہم کیا جائے گا کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو قرآن وسنت کے‬
‫مطابق اسالم کے سانچے میں ڈھال سکیں۔‬

‫‪7‬۔ مسلمان کی تعریف‪:‬‬


‫ّٰللا‬
‫‪1973‬ء کے دستور میں پہلی مرتبہ مسلمان کی تعریف بڑی وضاحت کے ساتھ کی گئی جس کی رو سے ہ‬
‫تعالی کی کتابوں پر ایمان النے کے ساتھ ساتھ ختم نبوت پر ایمان‬
‫ٰ‬ ‫تعالی کی وحدانیت ‪ ،‬رسالت ‪ ،‬آخرت اور ہللا‬
‫ٰ‬
‫النا بھی الزمی ہے۔‬

‫‪8‬۔ قرآن پاک اور اسالمیات کی الزمی تعلیم‪:‬‬


‫‪1973‬ء کے آئین کے مطابق ملک میں قرآن مجید اور اسالمیات کی تعلیم کو الزمی قرار دینے کے لیے اقدامات‬
‫کیے جائیں گے۔‬

‫‪9‬۔ اسالمی معاشرے کا قیام‪:‬‬


‫دستور میں کہا گیا کہ پاکستان کے عوام کی خواہشات کے مطابق جمہوریت ‪ ،‬آزادی ‪ ،‬مساوات ‪ ،‬رواداری اور‬
‫معاشرتی انصاف کے اصولوں پر مبنی نظام حکومت قائم کیا جائے۔‬

‫‪10‬۔ اسالمی اقدار کا تحفظ‪:‬‬


‫‪ 1973‬ء میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ حکومت ملک سے جہالت کے خاتمے کی کوششں کرے گی۔ مزدوروں‬
‫کے کام کرنے کے اوقات کو بہتر بنائے گی۔ پاکستان کے شہریوں کو بنیادی ضرورتیں اور طبی سہولتیں فراہم‬
‫کرنے کے لیے اقدامات کرے گی۔ عصمت فروشی‪ ،‬شراب اور جوئے پر پابندی لگائی جائے گی‬

‫‪11‬۔ عربی زبان کی تعلیم‪:‬‬


‫‪ 1973‬ء کے آئین کے مطابق حکومت ملک میں عربی زبان کے فروغ کے لیے مناسب سہولتیں فراہم کرے گی۔‬

‫‪12‬۔ سود کا خاتمہ ‪:‬‬


‫‪ 1973‬ء کے دستور کے تحت ملک کے ملک کے معاشی نظام کو سود کی لعنت سے پاک کرنے کے لیے‬
‫اقدامات کیے جائیں گے۔‬

‫زکوۃ اور اوقات کا نظام‪:‬‬


‫‪13‬۔ ٰ‬
‫زکوۃ‪ ،‬اوقاف اور مساجد کے نظام کو مناسب انداز میں چالنے کا وعدہ کیا گیا۔‬
‫‪1973‬ء کے دستور میں ٰ‬

‫‪14‬۔ اسالمی ممالک سے خوش گوار تعلقات‪:‬‬


‫‪ 1973‬ء کے آئین کے مطابق حکومت پاکستان اسالمی ممالک کے ساتھ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات قائم کرے‬
‫گی۔‬

‫‪15‬۔ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت‪:‬‬


‫‪ 1973‬ء کے آئین کی رو سے اقلیتوں کو کامل مذہبی آزادی حاصل ہو گی ۔ ان کے حقوق و مفادات کی نگہداشت‬
‫حکومت کی ذمہ داری ہو گی ۔ صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کے لیے اضافی نشستیں بھی مخصوص کی جائے‬
‫گی۔‬

‫‪16‬۔ قومی زبان‪:‬‬


‫‪ 1973‬ء کا آئین مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کا ترجمان تھا۔ اس لیے پاکستان کی قومی زبان اردو قرار‬
‫دی گئی۔ ویسے بھی اردو برصغیر کا عظیم ورثہ تھی۔ اس میں مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ تہذیب و ثقافت کے‬
‫عالوہ دینی سرمایہ محفوظ تھا۔‬

‫‪17‬۔ فالحی ریاست کا قیام‪:‬‬


‫‪1973‬ء ک ے آئین میں اس بات کی گئی ملک بیماری‪ ،‬جہالت اور بے روزگاری کا خاتمہ کیا گیا۔ پسماندہ عالقوں‬
‫کی ترقی کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔ شہریوں کو بنیادی ضروریات روٹی‪ ،‬کپڑا‪ ،‬مکان اور صحت‬
‫کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔‬

You might also like