You are on page 1of 11

‫فہرست‬

‫صفحہ‬ ‫عنوان‬ ‫نمبر‬


‫نمبر‬
‫آئین‬ ‫‪1‬‬
‫آئیِن پاکستان‬ ‫‪2‬‬
‫ساخت‬ ‫‪3‬‬
‫دفعہ‬ ‫‪4‬‬
‫دفعہ اور شق میں فرق‬ ‫‪5‬‬
‫قرارداِد مقاصد پاکستان ‪1949‬ء‬ ‫‪6‬‬
‫قرارداِد مقاصد کا متن‬ ‫‪7‬‬
‫‪1956‬ء کا آئین‬ ‫‪8‬‬
‫‪1956‬ء کے آئین کی خصوصیات‬ ‫‪9‬‬
‫‪1956‬ء کے آئین کا متن‬ ‫‪10‬‬
‫‪1962‬ء کا آئین‬ ‫‪11‬‬
‫‪1962‬ء کے آئین کی خصوصیات‬ ‫‪12‬‬
‫‪1962‬ء کے آئین کا متن‬ ‫‪13‬‬
‫‪1973‬ء کا آئین‬ ‫‪14‬‬
‫‪1973‬ء کے آئین کی خصوصیات‬ ‫‪15‬‬
‫‪1973‬ء کے آئین کا متن‬ ‫‪16‬‬

‫‪1‬‬
‫آئین ‪:‬‬
‫دستور یا آئین کسی حکومت کیلئے قوانین اور ُاصولوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو ایک‬
‫سیاسی وجود کے اختیارات اور کارکردگیوں کو محدود اور متعّین کرنے کے ساتھ ساتھ‬
‫عدالتی اور انتظامی امور کے دائرہ کار کا بھی تعین کرتا ہے۔کچھ ملکوں میں یہ دستور‬
‫ایک تحریری دستاویز کی شکل میں ہو تا ہے جیسا کہ پاکستان‪ ،‬امریکہ اور چین وغیرہ۔‬
‫جبکہ چند ایسے ممالک بھی ہیں جن کا کوئی تحریری دستور نہیں بلکہ چند دستاویزات‪،‬‬
‫قوانین و فرمان اور روایات کے مجموعے کو دستور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے‪،‬‬
‫ایسے ملکوں میں برطانیہ شامل ہے۔ عمومی طور پرتمام ممالک کا کسی نہ کسی شکل‬
‫میں دستور الزمی ہوتا ہے۔‬

‫آئینِ پاکستان ‪:‬‬


‫آئین پاکستان کوپاکستان کادستوراوراسالمی جمہوریہ پاکستان دستور‪1973‬ءبھی کہتےہیں۔‬
‫تاریخی اعتبار سے یہ پاکستان میں بننے واال تیسرا آئین تھا۔ اس سے پہلے ‪1956‬ء اور‬
‫‪1962‬ء میں بھی پارلیمان نے علیحدہ علیحدہ مسودے تیار کیے تھے جو ملک میں آئین کے‬
‫طور پر اپنائے گئے تھے‪ ،‬جو بالترتیب ‪1958‬ء اور ‪1969‬ء میں کالعدم قرار دیے گئے۔‬
‫‪1973‬ء میں بننے والے اس آئین کے چیدہ نکات یہ تھے کہ ملک میں پارلیمانی نظامِ ‬
‫حکومت ہو گااور وذیر اعظم ملک کا سربراہ ہوگا جسے اکثریتی جماعت منتخب کرے گی۔‬
‫پاکستان کا نام اسالمی جمہوریہ پاکستان ہو گا۔ اور آئین میں ترمیم کیلئے ایوان زیریں (یعنی‬
‫نیشنل اسمبلی) میں دو تہائی اور ایوان باال (یعنی سینٹ) میں بھاری اکثریت ہونا ضروری‬
‫ہے۔‬

‫ساخت ‪:‬‬
‫ساخت کے اعتبار سے آئین بارہ حصوں پر مشتمل ہے ۔ ان میں حصہ اول “ابتدائیہ”‪،‬‬
‫حصہ دوم”بنیادی حقوق اور حکمت عملی کے اصول”‪ ،‬حصہ سوم “وفاق پاکستان” ‪ ،‬حصہ‬
‫چہارم ” صوبائی نظام” ‪ ،‬حصہ پنجم ” وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلقات” حصہ ششم”‬
‫مالیات‪ ،‬جائیداد‪ ،‬معاہدات اور مقدمات” ‪ ،‬جبکہ حصہ ہفتم ” نظام عدالت ” پر مبنی ہے۔‬
‫مزید حصہ ہشتم ” انتخابات ” ‪ ،‬حصہ نہم “اسالمی احکام” ‪ ،‬حصہ دہم ” ہنگامی احکام ”‬
‫حصہ یا از دہم ( گیارہواں) ” دستور کی ترمیم” جبکہ حصہ دو از دہم(بارہواں) “متفرقات ”‬
‫پر مشتمل ہے۔‬

‫‪2‬‬
‫دفعہ ‪:‬‬
‫ف‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫َد ف‬
‫الوہ ج ز اور جمموتعے کا مق نہوم ب ھی‬ ‫کے ع ت‬ ‫ہوم‬ ‫ت‬
‫ے کے م‬ ‫عام رد ی ا دور کر ض‬‫ےنن‬ ‫پ‬‫ا‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫آ‬ ‫سے‬ ‫ی‬ ‫عر‬ ‫ظ‬ ‫ل‬ ‫کا‬ ‫عہ‬
‫ے۔ ا ون‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫عمال‬ ‫اردو می ں اسے ا گریزی ق ا و ی اص طالح م مون کا م ب ادل ب ن ا کر ا تس‬ ‫رک ت ا ے؛ ب‬
‫ھ فہ‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے ج و کسی معا ت رے کے‬ ‫دے ی ا ب د یو ج نوڑ کی ہ و ی ہ‬ ‫ے ب دھن‪ ،‬نمعاہ ت‬ ‫میف ں د عہ (‪ )article‬سے مراد ای ک ا تیس‬
‫ن‬ ‫ان کے رواب ط کو مرب توط کر ا ہ و؛‬ ‫لک کر ا ہ و۔ ع ی ت‬ ‫سے ) م س ق ن‬ ‫اداروں کو آپس می بں (اور کسیت دس ور ف‬ ‫ا راد ی ا ف‬
‫اس حریر (ی ائ ب د ‪/‬‬ ‫ں مو ود ق ن‬ ‫ج‬ ‫س‬
‫مراد دمکمور می‬ ‫وں ھی کہہ سک‬
‫ج‬
‫م‬ ‫سے ا ون تمی ں ی ن‬ ‫ب‬
‫ے ہ ی ں کہ دض عہ‬ ‫دوسرے ال اظ می ں ی ت‬
‫حث کر ا و ع ی تل ( موعی) ا فون شکا کو ی‬ ‫ہ‬ ‫ف‬ ‫ے و کسی ایف ک مو وع پر‬ ‫ج‬ ‫ف‬‫ہ‬ ‫‪ )paragraph‬کی ہ و ی‬
‫ے ی کن ی ہ ل ظ ت ق ب راہ‬ ‫ل‬ ‫اسی د عہ کے ہوم م ں ا ک اور ل ظ ب‬ ‫م‬
‫ِشق ھی پ ای ا نج ا ا تہ‬ ‫خ‬ ‫ی ی ف‬ ‫کن‬ ‫و۔ اردو می ں ف‬
‫م‬ ‫ای ک ج ز ہ ٹ‬
‫رمی‬
‫ے جس می ق نں ن م (‬ ‫ب‬
‫ے ا ن ت ت ی ار ک ی ا ج ا ا ہ ر ہ‬ ‫ےٹ کی وج ہ سے اسفد عہ کے لی‬ ‫راست ج ز ی ا کڑے کا ئہوم ر ھ‬
‫ج‬ ‫ن‬
‫‪ )amendment‬کی گ ی ہ و ی ا وہ کڑا ی ا ب د وتاس د عہ کے اج زاء ب ا ا وعربی می ں عام طور پر ا و ی ‪article‬‬
‫ہ‬
‫ے المادۃ (مادہ) ی ا ب ن د کی اص طالحات مل ی ہ ی ں‬ ‫کے لی‬

‫ف‬ ‫ف‬ ‫ش‬


‫د عہ اور ق می ں رق ‪:‬‬

‫دفعہ اور شق کا بنیادی مفہوم باالئی سطور میں حوالہ جات کے ساتھ واضح کر دیا گیا ہے۔‬
‫ایک عام تاثر یہ ہے کہ دفعہ اور شق‪ ،‬دونوں الفاظ ادل بدل کے ‪ article‬کا متبادل استعمال‬
‫ہوتے ہیں۔ اس کے عالوہ ایک اور تاثر یہ بھی ملتا ہے کہ دفعہ کا لفظ عام طور پر‬
‫تعزیرات (‪ )penal code‬کے اجزاء کے لیے آتا ہے۔ ایک تیسرا تاثر یہ بھی ہے کہ دفعہ کا‬
‫لفظ ‪ article‬کے ‪ section‬کے لیے آتا ہے۔ اس قطعے میں اس بات کا جائزہ پیش کیا جائے‬
‫گا کہ اصل صورت حال کیا ہے؟ اور کونسا لفظ ‪ article‬اور کونسا لفظ ‪ section‬کے لیے‬
‫بہتر ہے اور انگریزی میں ‪ article‬کے ذیلی جز کے لیے کیا متبادل آتا ہے؟ پہلی بنیادی‬
‫بات جو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ دفعہ‪ ،‬شق اور قطعہ ؛ تینوں‬
‫الفاظ عربی زبان کے ہیں اور اردو میں ان پر بحث سے قبل ان کے عربی معنی جاننا الزم‬
‫ہیں۔‬

‫دفعہ کے وہ معنی جو اردو میں بھی رائج ہیں وہ رد کرنے یا دھکیلنے کے ہیں۔ اس‬ ‫‪‬‬
‫کے عالوہ عربی میں دفعہ کے معنی پھوٹ جانے (‪ ،)spurt‬مجموعہ‪ ،‬ادائیگی (‬
‫‪ )installment‬جماعت (‪ )class‬اور قدر (‪ )fee‬کے بھی آتے ہیں۔[‪]8‬مذکورہ باال‬
‫مفاہیم میں سے دور کرنے کا مفہوم اردو میں عام ہے جبکہ اردو لغات اور کتب‬
‫میں‪ ،‬جماعت‪ ،‬باری اور پھوٹ (قانون) کے مفاہیم بھی ملتے ہیں۔‬

‫‪3‬‬
‫شق کے معنی عربی میں بنیادی طور پر شگاف (‪ )split‬کے ہوتے ہیں پھر اس‬ ‫‪‬‬
‫شگاف کے مفہوم سے ٹکڑے‪ ،‬جز‪ ،‬قطع اور قسم کے مفاہیم تک وسعت دے کر‬
‫استعمال کیا جاتا ہے۔‬

‫قرارداِد مقاصد پاکستان ‪:1949‬‬

‫قیام پاکستان کے وقت پاکستان کا آئین نہیں تھا آئین ‪1935‬ء میں ترامیم کرکے عبوری آئین‬
‫کے طور پر نافذ کیا گیا پاکستان اس وقت التعداد مسائل میں گھرا ہوا تھا الکھوں‬
‫مہاجرین ہندوستان سے پاکستان میں پناہ لے رہے تھے ان کی رہائش اور خوراک کا‬
‫بندوبست ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ مغربی پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد تقریبًا ‪ 3‬فی‬
‫صد جبکہمشرقی پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد ‪ 22‬فی صد تھی اس لیے بہت سے‬
‫ایسے سیاست دان تھے جو ‪ 25‬فی صد غیر مسلم آبادی واال ملک کہتے ہوئے ایسے آئین کا‬
‫مطالبہ کر رہے تھے جو سیکولر ہو جبکہ علمائے کرام کا ایک گروہ اس نقطہ پر زور دے‬
‫رہا تھا کہ پاکستان اسالم کے نام پر قائم ہوا لٰہ ذا پاکستان کا سرکاری مذہب اسالم ہوگا نواب‬
‫زادہ لیاقت علی خانان حاالت سے آگاہ اور باخبر تھے وہ بھی علما کے خیاالت سے متفق‬
‫تھے اس لیے انہوں نے علمائے کرام کے تعاون سے ایک قرارداد تیار کی جسے قرارداد‬
‫مقاصد کا نام دیا گیاقرارداِد مقاصد ایک قرارداد تھی جسے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی‬
‫نے ‪ 12‬مارچ ‪1949‬ء کو منظور کیا۔ یہ قرارداد ‪ 7‬مارچ ‪1949‬ء کو وزیر اعظم‬
‫پاکستان لیاقت علی خان نے اسمبلی میں پیش کی۔ اس کے مطابق مستقبل میں پاکستان کے‬
‫آئین کا ڈھانچہ یورپی طرز کا قطعی نہیں ہوگا‪ ،‬بلکہ اس کی بنیاد اسالمی جمہوریت و‬
‫نظریات پر ہوگی۔‬

‫قرارداِد مقاصد کا متن‪:‬‬


‫ہللا تبارک و تعالٰی ہی کل کائنات کا بال شرکِت غیر ے حاکِم مطلق ہے۔ ُاس نے‬ ‫‪‬‬
‫جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو ِاختیار سونپا ہے‪ ،‬وہ ُاس کی مقررہ حدود‬
‫کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔‬
‫مجلس دستور ساز نے جو جمہور پا کستان کی نما ئندہ ہے ‪،‬آزاد و خود مختار پا‬ ‫‪‬‬
‫کستان کے لیے ایک دستور مرتب کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔‬

‫‪4‬‬
‫جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نما ئندوں‬ ‫‪‬‬
‫کے ذریعے استعمال کرے گی۔‬
‫جس کی رو سے اسالم کے جمہوریت‪،‬حریت‪،‬مساوات‪،‬رواداری اور عدلِ عمرانی‬ ‫‪‬‬
‫کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا‬
‫جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی‬ ‫‪‬‬
‫طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسالمی تعلیمات و مقتضیات کے‬
‫مطابق ترتیب دے سکے۔‬
‫جس کی رو سے اس امر کا قرارواقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں‪،‬اپنے مذاہب پر‬ ‫‪‬‬
‫عقیدہ رکھنے‪،‬عمل کر نے اور اپنی تقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔‬
‫جس کی رو سے وہ عالقے جو اب تک پا کستان میں داخل یا شامل ہو جا ئیں‪،‬ایک‬ ‫‪‬‬
‫وفاق بنا ئیں گے۔‬
‫جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات واقتدار کی حدتک خود مختاری حاصل ہو گی۔‬ ‫‪‬‬
‫جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جا ئے گی اور ان حقوق میں جہاں‬ ‫‪‬‬
‫تک قانون واخالق اجازت دیں‪ ،‬مساوات‪،‬حیثیت ومواقع کی نظر میں‬
‫برابری‪،‬عمرانی‪،‬اقتصادی اور سیاسی انساف‪ ،‬اظہاِر خیال‪ ،‬عقیدہ‪ ،‬دین‪ ،‬عبادت اور‬
‫جماعت کی آزادی شامل ہوگی۔‬
‫جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقات کے جائز حقوق کے تحفظ کا‬ ‫‪‬‬
‫قرار واقعی انتظام کیا جائے گا‬
‫جس کی رو سے نظامِ عدل گستری کی آزادی پو ری طرح محفوظ ہوگی۔‬ ‫‪‬‬
‫جس کی رو سے وفاق کے عالقوں کی صیانت‪،‬آزادی اور جملہ حقوق ‪،‬بشمول‬ ‫‪‬‬
‫خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جا ئے گا۔ تاکہ اہل‬
‫ِپاکستان فالح وبہبود کی منزل پا سکیں اور قوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز‬
‫مقام حاصل کریں اور امن عالم اور بنی نوع انسان کی تر قی و خوش حالی کے لیے‬
‫اپنا بھر پور کر دار ادا کر سکے۔‬

‫‪1956‬ء کا آئین ‪:‬‬


‫جون ‪ 1955‬میں دوسری دستور ساز اسمبلی منتخب ہوئی اور آئین سازی کا کام شروع ہوا‬
‫اور ایک سال سے بھی کم عرصے میں ملک کا آئین تیار کیا گیا۔جو ‪ 23‬مارچ ‪1956‬کو نافذ‬
‫ہوا۔‬

‫‪1956‬ء کے آئین کی خصوصیات ‪:‬‬

‫‪5‬‬
‫‪1956‬ء کے آئین کی اہم خصوصیات یہ تھیں‪ :‬یہ ‪ 234‬آرٹیکلز‪ 13 ،‬حصوں میں تقسیم اور‬
‫‪ 6‬شیڈول کے ساتھ ایک تحریری آئین تھا۔ یہ الزمی تصور کیا گیا تھا کہ صرف ایک مسلما‬
‫ن ہی پاکستان کا صدر بن سکتا ہے۔ اس نے تین فہرستوں کے ساتھ وفاقی طرِز حکومت‬
‫بھی متعارف کروایا یعنی وفاقی‪ ،‬صوبائی اور کنکرنٹ۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کے‬
‫خالف کوئی قانون پاس نہیں کیا جا سکے گا۔ مزید برآں‪ُ ،‬اردو اور بنگالی باضابطہ طور پر‬
‫قومی زبانیں بنا دی گئیں۔آئین پر صرف دو سال تک ہی عمل کیا گیا پھر اسے معطل کر دیا‬
‫گیا اور جنرل محمد ایوب خان نے مارشل الء عائد کر دیا‬

‫‪1956‬ء کے آئین کا متن ‪:‬‬

‫اس آئین کے ابتدائیہ میں یہ کہا گیا کہ حاکمیت اور اقتدار اعلٰی ہللا تعالٰی کے پاس‬ ‫‪‬‬
‫ہے اور پاکستان کو اسالمی جمہوریہ قرار دیا گیا۔‬
‫ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام حکومت قائم کیا گیا۔‬ ‫‪‬‬
‫صدر نے گورنر جنرل کی جگہ لے لی۔‬ ‫‪‬‬
‫حکومت کے وفاقی نظام کے تحت مرکز اور پاکستان کے دونوں صوبوں یعنی سابقہ‬ ‫‪‬‬
‫مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان برابری (‪ )Parity‬کی بنےاد پر‬
‫اختیارات کا تعین کیا گےا۔‬
‫اس بات کی ضمانت دی گئی کہ مسلمانوں کو اسالمی تعلیمات کے مطابق زندگی‬ ‫‪‬‬
‫گزارنے کے تمام مواقع مہیا کئے جائیں گے۔‬
‫حکومت پاکستان دنیا کے تمام مسلم ممالک سے قریبی او ر دوستانہ تعلقات قائم‬ ‫‪‬‬
‫کرے گی۔‬
‫سربراہ مملکت الزمًا مسلمان ہوگا۔‬ ‫‪‬‬
‫کوئی ایسا قانون نافذ نہیں کیا جائے گا جو اسالمی اصولوں یعنی قرآن و سنت کے‬ ‫‪‬‬
‫خالف ہو؛ اگر ایسا کوئی قانون موجود ہوگا تو اس میں مناسب ترمیم کی جائے گی۔‬
‫صدر پاکستان ایک کمیشن تشکیل دیں گے جو تمام موجودہ قوانین کا جائزہ لے گا‬ ‫‪‬‬
‫اور ان میں ضروری ترامیم کی سفارش کرے گا۔‬
‫غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کو مناسب تحفظ فراہم کیا گیا‬ ‫‪‬‬

‫‪1962‬ء کا آئین ‪:‬‬

‫‪6‬‬
‫‪ 17‬فروری کو ‪ 1960‬ء میں ایوب خان نے ملک کے مستقبل کے سیاسی فریم ورک پر‬
‫رپورٹ کرنے کے لئے ایک کمیشن مقرر کیا‪ .‬کمیشن کی سربراہی میں سابق چیف جسٹس‬
‫آف پاکستان محمد شہاب الدین کی سربراہی کی گئی تھی‪ ،‬اور دس سال قبل مشرق وسطی‬
‫اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جسٹس‪ ،‬وکالء‪ ،‬صنعت کاروں اور زمانے‬
‫داروں سے تعلق رکھنے والے پانچ افراد تھے‪ .‬آئینی کمیشن کی رپورٹ صدر ايوب کو ‪6‬‬
‫مئی‪ 1961‬پر پیش کی گئی اور صدر اور ان کی کابینہ کی طرف سے اچھی طرح سے‬
‫جانچ پڑتال کی‪ .‬جنوری‪ 1962‬میں‪ ،‬کابینہ نے آخر میں نئے آئین کا متن منظور کیا‪ .‬یہ ‪1‬‬
‫اپریل ‪ 1962‬کو صدر ایوب کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اور آخر میں ‪ 8‬جون ‪ 1962‬کو اثر‬
‫انداز ہوا‪ .‬آئین نے ‪ 250‬مضامین کو بارہ حصوں اور تین شیڈولوں میں تقسیم کیا۔‬

‫‪1962‬ء کے آئین کی خصوصیات ‪:‬‬

‫پاکستان کو "جمہوریہ پاکستان" کے طور پر نامزد کیا گیا تھا‪ .‬آئین نے ایک وفاقی نظام‬
‫کے لئے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان برابری کے اصول کے لئے فراہم‬
‫کیئے‪ .‬دونوں صوبے اپنی الگ صوبائی حکومتیں چالہیں گے‪ .‬مرکز اور صوبوں کی ذمہ‬
‫داریوں اور اختیار کو واضح طور پر آئین میں درج کیا گیا تھا‪ .‬مرکزی اسمبلی کو قومی‬
‫اسمبلی کے طور پر جانا جاتا ہے‪ .‬نیشنل اسمبلی کے ‪ 157‬ارکان تھے‪ .‬اس دو حصوں کے‬
‫برابر مساوات برقرار رکھے تھے‪.‬‬

‫‪ 1962‬ءکے آئین کی متن ‪:‬‬

‫تحریری آئین ‪ 1962 :‬کا آئینہ ایک تحریری دستاویز تھا‪ .‬اس میں پانچ شیڈول اور‬ ‫‪‬‬
‫‪ 250‬مضامین شامل تھے‪.‬‬

‫سخت آئین ‪ :‬ایک سخت آئین صرف ایک خاص عمل کے ذریعہ ترمیم کی جاسکتی‬ ‫‪‬‬
‫ہے‪ .‬اگر آئین کے ترمیم میں کم از کم پارلیمان کی دو تہائی اکثریت کی طرف سے‬
‫منظور ہوجائے تو پھر صدر کی توثیق کے بعد یہ قانون کا حصہ بن جاتا ہے‪.‬‬
‫‪7‬‬
‫وفاقی نظام ‪ :‬ملک میں ایک وفاقی نظام متعارف کرایا گیا تھا‪ .‬اس میں ایک‬ ‫‪‬‬
‫مرکزی حکومت اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے دو صوبائی حکومت شامل‬
‫تھے‪.‬‬

‫صدارتی طرِز حکومت ‪ :‬ملک میں صدارتی طرِز حکومت نافذ کیا اور عاملہ کا‬ ‫‪‬‬
‫سربراہ صدر کو منتخب کیا گیا۔ وہ اپنے کابینہ کے وزیروں کو نامزد کرنے کے‬
‫لئے بااختیار تھے‪.‬‬

‫ایک ایوانی مقننہ ‪ :‬ملک میں ایک ایوانی مقننہ کا نظام رائج کیا گیا جسے قومی‬ ‫‪‬‬
‫اسمبلی کہا جاتا تھا۔‬

‫انتخاب کا طریقہ ‪ :‬صدر ایک انتخابی کالج کی طرف سے منتخب کیا گیا جس میں‬ ‫‪‬‬
‫‪ 80،000‬بنیادی ڈیموکریٹس شامل تھے‪ ،‬دونوں صوبوں کے درمیان مساوات تقسیم‬
‫کیے گئے تھے‪.‬‬

‫صوبائی حکومتیں ‪ :‬دو صوبائی حکومتیں موجود تھیں‪ .‬ان میں سے ہر ایک کا‬ ‫‪‬‬
‫گورنر سربراہ تھے‪ .‬انہوں نے صوبے میں صدر سے لطف اندوز کیا جس میں‬
‫صدر کا مرکز تھا‪ .‬گورنر پنجاب پاکستان کے صدر کی منظوری کے ساتھ صوبائی‬
‫وزراء مقرر کرنے کے لئے بااختیار تھے‪.‬‬

‫صوبائی قانون سازی ‪ :‬ہر صوبے کو قانون سازی کے لئے قانون ساز ادارہ‬ ‫‪‬‬
‫فراہم کیا گیا۔ یہ اصل میں ‪ 150‬ارکان تھے‪ .‬تاہم‪ ،‬اس نمبر پر ‪ 218‬تک اضافہ ہوا‪.‬‬

‫‪8‬‬
‫صدر کے اختیارات ‪ :‬آئین کے مطابق صدر ‪ 5‬سال کے لیے منتخب ہوگا اور‬ ‫‪‬‬
‫مسلمان ہونا الزمی ہوگا تاہم‪ ،‬صدر اسمبلی کو تحلیل کرنے کی طاقتور نہیں تھی‬
‫جبکہ وہ خود بھی مستعفی نہ ہو۔‬

‫صدر پر پابندی ‪ :‬صدر کو مالزمت کے دوران کسی بھی منافع بخش کاروبار‬ ‫‪‬‬
‫کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن نجی پراپرٹی کا انتظام کرنے سے روکنے سے‬
‫منع نہیں کیا گیا‪.‬‬

‫اسالمی قانون ‪ :‬قرآن کریم اور سنت کی تدریس کے خالف کوئی قانون منظور‬ ‫‪‬‬
‫نہیں کیا جائے گا اور موجودہ قوانین کو اسالم میں کردار ادا کیا جائے گا۔‬

‫بنیادی حقوق ‪ 1962 :‬کے آئین نے اظہاِر رائے کے بنیادی حقوق کو بنیاد بنایا‪،‬‬ ‫‪‬‬
‫آزادِی انتخاب اور آزادِی حق اور شہری حقوق کے حوالے سے اصول واضع کئے۔‬

‫عدلیہ کا کردار ‪ :‬عدلیہ کو قانون کی وضاحت اور آئین کے مطابق قانون پر‬ ‫‪‬‬
‫عملدرامد کروانے کے ذمہداری دی گئی۔‬

‫‪1973‬ء کا آئین ‪:‬‬

‫‪ 1970‬میں جب مارشل الء اٹھایا گیا تو یکم اپریل ‪ 1972‬میں ‪ 1970‬ء کے انتخابات کے‬
‫نتائج کے مطابق اسمبلی وجود میں آئی ۔ایک کمیٹی مختلف جماعتوں سے پارلیمنٹ‬
‫کےتعلقات کے لئے قائم کی گئی تھی‪ .‬اس کمیٹی کے اندر اختالفات تھے کہ آیا نیا آئین‬
‫کے سوال پر بھی‬ ‫پارلیمانی طرز کا ہو یا صدارتی نظام النا چاہئے‪ .‬صوبائی خود مختاری ئ‬
‫مختلف نظریات موجود تھے‪ 10 .‬اپریل ‪ 1973‬کو اس کی رپورٹ جمع ہ و ی‪ .‬آئین کا مسودہ‬
‫وفاقی اسمبلی کی طرف سے ‪ 135‬ووٹ کی طرف سے منظور کیا گیا تھا‪ .‬یہ ‪ 14‬اگست‬

‫‪9‬‬
‫‪ 1973‬کو اقتدار میں الیا گیا تھا‪ ،‬اور بھٹو کو وزیر اعظم نے ‪ 12‬اگست کو قومی اسمبلی‬
‫نے منتخب کیا‪.‬‬

‫‪1973‬ء کے آئین کی خصوصیات ‪:‬‬

‫آئین کو دو ایونوں کی بنیاد پر قائم کیا گیا قومی اسمبلی کو ایوان زرین اور سینیٹ کو ایوان‬
‫باال کے طور پر‪ .‬اس نے حکومت کے سربراہ کے طور پر وزیر اعظم کے ساتھ پارلیمانی‬
‫شکل اختیار کی‪ .‬منتخب قومی اسمبلی کو حقیقی طور پر لوگوں کی مرضی کی نمائندہ قرار‬
‫دیا گیا۔ نئے آئین میں بنیادی حقوق‪ ،‬تقریر کی آزادی‪ ،‬مذہب‪ ،‬صحافت‪ ،‬تحریک‪ ،‬ایسوسی‬
‫ایشن‪ ،‬سوچ‪ ،‬اور دانشورانہ‪ ،‬زندگی‪ ،‬آزادی اور ملکیت اور ہتھیار دینے کا حق متعارف‬
‫کرایا گیا‪ .‬اسالم کو پاکستان کے ریاستی مذہب کا درجہ دیا گیا۔ جغرافیائی اور سرحدی لحاظ‬
‫سے ملک کو دوبارہ متعارف کرایا گیا کہ "پاکستان کو چار صوبوں کا مجمعہ ہے"‪.‬‬

‫‪1973‬ء کئ آئین کا متن‪:‬‬

‫نظاِم حکومت ‪ :‬پاکستان میں پارلیمانی نظام کے ساتھ وفاقی جمہوریہ ہو گی‪ .‬وزیر اعظم‬
‫حکومت کے سربراہ ہوں گے‪ ،‬اور اکثریت پارٹی سے منتخب ہونگے‪.‬‬

‫سرکاری مذہب ‪ :‬اسالمی مذہب کی حیثیت سے اسالم کی خصوصی حیثیت پر زور دیا‬
‫جائے گا اور وزیر اعظم اور صدر دونوں کو مسلمان ہونا ضروری ہے‪.‬‬

‫نام ‪ :‬ریاست کا مکمل نام اسالمی جمہوریہ پاکستان مقرر کیا گیا۔‬

‫ترمیم کا طریقہ ‪ :‬آئین میں ترمیم کرنے کے لئے بل کو ایوان زرین (قومی اسمبلی) میں‬
‫دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی اور ایواِن باال میں اکثریت کی ضرورت ہوگی۔‬
‫‪10‬‬
‫بنیادی انسانی حقوق ‪ :‬تمام بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی جاسکتی ہے لیکن اس‬
‫کی تقلید نے مزید کہا ہے کہ یہ قانون کی طرف سے نافذ شدہ قابل پابند پابندیوں کے تابع‬
‫تھا‪.‬‬

‫عدلیہ کا کردار‪ :‬سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو بنیادی حقوق کو نافذ کرنے کی طاقت‬
‫دی جائے گی‪.‬‬

‫صدر اور وزیراعظم ‪ :‬صدر مملکت تمام فیصلوں میں وزیر اعظم سے مشورہ‬
‫کرنے کا پابند ہے اور صدر کے تمام احکامات وزیراعظم کی طرف منتقل کرنے کے‬
‫معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے‪.‬‬

‫ہنگامی حالت ‪ :‬ہنگامی حالتوں میں‪ ،‬وفاقی حکومت کسی بھی چیز پر قانون سازی کر‬
‫سکتی ہے اور بنیادی آزادی بھی معطل کر سکتی ہے‪.‬‬

‫اردو ‪ :‬اردو ملک کی سرکاری زبان ہوگی‪ ،‬جس کے ساتھ ہی پاکستانی انگریزی اگلے ‪15‬‬
‫سال تک برقرار رہیں گے‪.‬‬

‫اسالمی تعلیم ‪ :‬مقدس قرآن اور اسالمیہ کی تعلیم الزمی ہے‪.‬‬

‫‪11‬‬

You might also like