Professional Documents
Culture Documents
Consitution Assigment
Consitution Assigment
1
آئین :
دستور یا آئین کسی حکومت کیلئے قوانین اور ُاصولوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو ایک
سیاسی وجود کے اختیارات اور کارکردگیوں کو محدود اور متعّین کرنے کے ساتھ ساتھ
عدالتی اور انتظامی امور کے دائرہ کار کا بھی تعین کرتا ہے۔کچھ ملکوں میں یہ دستور
ایک تحریری دستاویز کی شکل میں ہو تا ہے جیسا کہ پاکستان ،امریکہ اور چین وغیرہ۔
جبکہ چند ایسے ممالک بھی ہیں جن کا کوئی تحریری دستور نہیں بلکہ چند دستاویزات،
قوانین و فرمان اور روایات کے مجموعے کو دستور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے،
ایسے ملکوں میں برطانیہ شامل ہے۔ عمومی طور پرتمام ممالک کا کسی نہ کسی شکل
میں دستور الزمی ہوتا ہے۔
ساخت :
ساخت کے اعتبار سے آئین بارہ حصوں پر مشتمل ہے ۔ ان میں حصہ اول “ابتدائیہ”،
حصہ دوم”بنیادی حقوق اور حکمت عملی کے اصول” ،حصہ سوم “وفاق پاکستان” ،حصہ
چہارم ” صوبائی نظام” ،حصہ پنجم ” وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلقات” حصہ ششم”
مالیات ،جائیداد ،معاہدات اور مقدمات” ،جبکہ حصہ ہفتم ” نظام عدالت ” پر مبنی ہے۔
مزید حصہ ہشتم ” انتخابات ” ،حصہ نہم “اسالمی احکام” ،حصہ دہم ” ہنگامی احکام ”
حصہ یا از دہم ( گیارہواں) ” دستور کی ترمیم” جبکہ حصہ دو از دہم(بارہواں) “متفرقات ”
پر مشتمل ہے۔
2
دفعہ :
ف ف ن ن ف َد ف
الوہ ج ز اور جمموتعے کا مق نہوم ب ھی کے ع ت ہوم ت
ے کے م عام رد ی ا دور کر ضےنن پا اور ے ن ہ ا ی آ سے ی عر ظ ل کا عہ
ے۔ ا ون ہ ا ا ج ا ی ک عمال اردو می ں اسے ا گریزی ق ا و ی اص طالح م مون کا م ب ادل ب ن ا کر ا تس رک ت ا ے؛ ب
ھ فہ
ش ن ن
ے ج و کسی معا ت رے کے دے ی ا ب د یو ج نوڑ کی ہ و ی ہ ے ب دھن ،نمعاہ ت میف ں د عہ ( )articleسے مراد ای ک ا تیس
ن ان کے رواب ط کو مرب توط کر ا ہ و؛ لک کر ا ہ و۔ ع ی ت سے ) م س ق ن اداروں کو آپس می بں (اور کسیت دس ور ف ا راد ی ا ف
اس حریر (ی ائ ب د / ں مو ود ق ن ج س
مراد دمکمور می وں ھی کہہ سک
ج
م سے ا ون تمی ں ی ن ب
ے ہ ی ں کہ دض عہ دوسرے ال اظ می ں ی ت
حث کر ا و ع ی تل ( موعی) ا فون شکا کو ی ہ ف ے و کسی ایف ک مو وع پر ج فہ )paragraphکی ہ و ی
ے ی کن ی ہ ل ظ ت ق ب راہ ل اسی د عہ کے ہوم م ں ا ک اور ل ظ ب م
ِشق ھی پ ای ا نج ا ا تہ خ ی ی ف کن و۔ اردو می ں ف
م ای ک ج ز ہ ٹ
رمی
ے جس می ق نں ن م ( ب
ے ا ن ت ت ی ار ک ی ا ج ا ا ہ ر ہ ےٹ کی وج ہ سے اسفد عہ کے لی راست ج ز ی ا کڑے کا ئہوم ر ھ
ج ن
)amendmentکی گ ی ہ و ی ا وہ کڑا ی ا ب د وتاس د عہ کے اج زاء ب ا ا وعربی می ں عام طور پر ا و ی article
ہ
ے المادۃ (مادہ) ی ا ب ن د کی اص طالحات مل ی ہ ی ں کے لی
دفعہ اور شق کا بنیادی مفہوم باالئی سطور میں حوالہ جات کے ساتھ واضح کر دیا گیا ہے۔
ایک عام تاثر یہ ہے کہ دفعہ اور شق ،دونوں الفاظ ادل بدل کے articleکا متبادل استعمال
ہوتے ہیں۔ اس کے عالوہ ایک اور تاثر یہ بھی ملتا ہے کہ دفعہ کا لفظ عام طور پر
تعزیرات ( )penal codeکے اجزاء کے لیے آتا ہے۔ ایک تیسرا تاثر یہ بھی ہے کہ دفعہ کا
لفظ articleکے sectionکے لیے آتا ہے۔ اس قطعے میں اس بات کا جائزہ پیش کیا جائے
گا کہ اصل صورت حال کیا ہے؟ اور کونسا لفظ articleاور کونسا لفظ sectionکے لیے
بہتر ہے اور انگریزی میں articleکے ذیلی جز کے لیے کیا متبادل آتا ہے؟ پہلی بنیادی
بات جو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ دفعہ ،شق اور قطعہ ؛ تینوں
الفاظ عربی زبان کے ہیں اور اردو میں ان پر بحث سے قبل ان کے عربی معنی جاننا الزم
ہیں۔
دفعہ کے وہ معنی جو اردو میں بھی رائج ہیں وہ رد کرنے یا دھکیلنے کے ہیں۔ اس
کے عالوہ عربی میں دفعہ کے معنی پھوٹ جانے ( ،)spurtمجموعہ ،ادائیگی (
)installmentجماعت ( )classاور قدر ( )feeکے بھی آتے ہیں۔[]8مذکورہ باال
مفاہیم میں سے دور کرنے کا مفہوم اردو میں عام ہے جبکہ اردو لغات اور کتب
میں ،جماعت ،باری اور پھوٹ (قانون) کے مفاہیم بھی ملتے ہیں۔
3
شق کے معنی عربی میں بنیادی طور پر شگاف ( )splitکے ہوتے ہیں پھر اس
شگاف کے مفہوم سے ٹکڑے ،جز ،قطع اور قسم کے مفاہیم تک وسعت دے کر
استعمال کیا جاتا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت پاکستان کا آئین نہیں تھا آئین 1935ء میں ترامیم کرکے عبوری آئین
کے طور پر نافذ کیا گیا پاکستان اس وقت التعداد مسائل میں گھرا ہوا تھا الکھوں
مہاجرین ہندوستان سے پاکستان میں پناہ لے رہے تھے ان کی رہائش اور خوراک کا
بندوبست ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ مغربی پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد تقریبًا 3فی
صد جبکہمشرقی پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد 22فی صد تھی اس لیے بہت سے
ایسے سیاست دان تھے جو 25فی صد غیر مسلم آبادی واال ملک کہتے ہوئے ایسے آئین کا
مطالبہ کر رہے تھے جو سیکولر ہو جبکہ علمائے کرام کا ایک گروہ اس نقطہ پر زور دے
رہا تھا کہ پاکستان اسالم کے نام پر قائم ہوا لٰہ ذا پاکستان کا سرکاری مذہب اسالم ہوگا نواب
زادہ لیاقت علی خانان حاالت سے آگاہ اور باخبر تھے وہ بھی علما کے خیاالت سے متفق
تھے اس لیے انہوں نے علمائے کرام کے تعاون سے ایک قرارداد تیار کی جسے قرارداد
مقاصد کا نام دیا گیاقرارداِد مقاصد ایک قرارداد تھی جسے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی
نے 12مارچ 1949ء کو منظور کیا۔ یہ قرارداد 7مارچ 1949ء کو وزیر اعظم
پاکستان لیاقت علی خان نے اسمبلی میں پیش کی۔ اس کے مطابق مستقبل میں پاکستان کے
آئین کا ڈھانچہ یورپی طرز کا قطعی نہیں ہوگا ،بلکہ اس کی بنیاد اسالمی جمہوریت و
نظریات پر ہوگی۔
4
جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نما ئندوں
کے ذریعے استعمال کرے گی۔
جس کی رو سے اسالم کے جمہوریت،حریت،مساوات،رواداری اور عدلِ عمرانی
کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا
جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی
طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسالمی تعلیمات و مقتضیات کے
مطابق ترتیب دے سکے۔
جس کی رو سے اس امر کا قرارواقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں،اپنے مذاہب پر
عقیدہ رکھنے،عمل کر نے اور اپنی تقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔
جس کی رو سے وہ عالقے جو اب تک پا کستان میں داخل یا شامل ہو جا ئیں،ایک
وفاق بنا ئیں گے۔
جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات واقتدار کی حدتک خود مختاری حاصل ہو گی۔
جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جا ئے گی اور ان حقوق میں جہاں
تک قانون واخالق اجازت دیں ،مساوات،حیثیت ومواقع کی نظر میں
برابری،عمرانی،اقتصادی اور سیاسی انساف ،اظہاِر خیال ،عقیدہ ،دین ،عبادت اور
جماعت کی آزادی شامل ہوگی۔
جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقات کے جائز حقوق کے تحفظ کا
قرار واقعی انتظام کیا جائے گا
جس کی رو سے نظامِ عدل گستری کی آزادی پو ری طرح محفوظ ہوگی۔
جس کی رو سے وفاق کے عالقوں کی صیانت،آزادی اور جملہ حقوق ،بشمول
خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جا ئے گا۔ تاکہ اہل
ِپاکستان فالح وبہبود کی منزل پا سکیں اور قوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز
مقام حاصل کریں اور امن عالم اور بنی نوع انسان کی تر قی و خوش حالی کے لیے
اپنا بھر پور کر دار ادا کر سکے۔
5
1956ء کے آئین کی اہم خصوصیات یہ تھیں :یہ 234آرٹیکلز 13 ،حصوں میں تقسیم اور
6شیڈول کے ساتھ ایک تحریری آئین تھا۔ یہ الزمی تصور کیا گیا تھا کہ صرف ایک مسلما
ن ہی پاکستان کا صدر بن سکتا ہے۔ اس نے تین فہرستوں کے ساتھ وفاقی طرِز حکومت
بھی متعارف کروایا یعنی وفاقی ،صوبائی اور کنکرنٹ۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کے
خالف کوئی قانون پاس نہیں کیا جا سکے گا۔ مزید برآںُ ،اردو اور بنگالی باضابطہ طور پر
قومی زبانیں بنا دی گئیں۔آئین پر صرف دو سال تک ہی عمل کیا گیا پھر اسے معطل کر دیا
گیا اور جنرل محمد ایوب خان نے مارشل الء عائد کر دیا
اس آئین کے ابتدائیہ میں یہ کہا گیا کہ حاکمیت اور اقتدار اعلٰی ہللا تعالٰی کے پاس
ہے اور پاکستان کو اسالمی جمہوریہ قرار دیا گیا۔
ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام حکومت قائم کیا گیا۔
صدر نے گورنر جنرل کی جگہ لے لی۔
حکومت کے وفاقی نظام کے تحت مرکز اور پاکستان کے دونوں صوبوں یعنی سابقہ
مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان برابری ( )Parityکی بنےاد پر
اختیارات کا تعین کیا گےا۔
اس بات کی ضمانت دی گئی کہ مسلمانوں کو اسالمی تعلیمات کے مطابق زندگی
گزارنے کے تمام مواقع مہیا کئے جائیں گے۔
حکومت پاکستان دنیا کے تمام مسلم ممالک سے قریبی او ر دوستانہ تعلقات قائم
کرے گی۔
سربراہ مملکت الزمًا مسلمان ہوگا۔
کوئی ایسا قانون نافذ نہیں کیا جائے گا جو اسالمی اصولوں یعنی قرآن و سنت کے
خالف ہو؛ اگر ایسا کوئی قانون موجود ہوگا تو اس میں مناسب ترمیم کی جائے گی۔
صدر پاکستان ایک کمیشن تشکیل دیں گے جو تمام موجودہ قوانین کا جائزہ لے گا
اور ان میں ضروری ترامیم کی سفارش کرے گا۔
غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کو مناسب تحفظ فراہم کیا گیا
6
17فروری کو 1960ء میں ایوب خان نے ملک کے مستقبل کے سیاسی فریم ورک پر
رپورٹ کرنے کے لئے ایک کمیشن مقرر کیا .کمیشن کی سربراہی میں سابق چیف جسٹس
آف پاکستان محمد شہاب الدین کی سربراہی کی گئی تھی ،اور دس سال قبل مشرق وسطی
اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جسٹس ،وکالء ،صنعت کاروں اور زمانے
داروں سے تعلق رکھنے والے پانچ افراد تھے .آئینی کمیشن کی رپورٹ صدر ايوب کو 6
مئی 1961پر پیش کی گئی اور صدر اور ان کی کابینہ کی طرف سے اچھی طرح سے
جانچ پڑتال کی .جنوری 1962میں ،کابینہ نے آخر میں نئے آئین کا متن منظور کیا .یہ 1
اپریل 1962کو صدر ایوب کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اور آخر میں 8جون 1962کو اثر
انداز ہوا .آئین نے 250مضامین کو بارہ حصوں اور تین شیڈولوں میں تقسیم کیا۔
پاکستان کو "جمہوریہ پاکستان" کے طور پر نامزد کیا گیا تھا .آئین نے ایک وفاقی نظام
کے لئے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان برابری کے اصول کے لئے فراہم
کیئے .دونوں صوبے اپنی الگ صوبائی حکومتیں چالہیں گے .مرکز اور صوبوں کی ذمہ
داریوں اور اختیار کو واضح طور پر آئین میں درج کیا گیا تھا .مرکزی اسمبلی کو قومی
اسمبلی کے طور پر جانا جاتا ہے .نیشنل اسمبلی کے 157ارکان تھے .اس دو حصوں کے
برابر مساوات برقرار رکھے تھے.
تحریری آئین 1962 :کا آئینہ ایک تحریری دستاویز تھا .اس میں پانچ شیڈول اور
250مضامین شامل تھے.
سخت آئین :ایک سخت آئین صرف ایک خاص عمل کے ذریعہ ترمیم کی جاسکتی
ہے .اگر آئین کے ترمیم میں کم از کم پارلیمان کی دو تہائی اکثریت کی طرف سے
منظور ہوجائے تو پھر صدر کی توثیق کے بعد یہ قانون کا حصہ بن جاتا ہے.
7
وفاقی نظام :ملک میں ایک وفاقی نظام متعارف کرایا گیا تھا .اس میں ایک
مرکزی حکومت اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے دو صوبائی حکومت شامل
تھے.
صدارتی طرِز حکومت :ملک میں صدارتی طرِز حکومت نافذ کیا اور عاملہ کا
سربراہ صدر کو منتخب کیا گیا۔ وہ اپنے کابینہ کے وزیروں کو نامزد کرنے کے
لئے بااختیار تھے.
ایک ایوانی مقننہ :ملک میں ایک ایوانی مقننہ کا نظام رائج کیا گیا جسے قومی
اسمبلی کہا جاتا تھا۔
انتخاب کا طریقہ :صدر ایک انتخابی کالج کی طرف سے منتخب کیا گیا جس میں
80،000بنیادی ڈیموکریٹس شامل تھے ،دونوں صوبوں کے درمیان مساوات تقسیم
کیے گئے تھے.
صوبائی حکومتیں :دو صوبائی حکومتیں موجود تھیں .ان میں سے ہر ایک کا
گورنر سربراہ تھے .انہوں نے صوبے میں صدر سے لطف اندوز کیا جس میں
صدر کا مرکز تھا .گورنر پنجاب پاکستان کے صدر کی منظوری کے ساتھ صوبائی
وزراء مقرر کرنے کے لئے بااختیار تھے.
صوبائی قانون سازی :ہر صوبے کو قانون سازی کے لئے قانون ساز ادارہ
فراہم کیا گیا۔ یہ اصل میں 150ارکان تھے .تاہم ،اس نمبر پر 218تک اضافہ ہوا.
8
صدر کے اختیارات :آئین کے مطابق صدر 5سال کے لیے منتخب ہوگا اور
مسلمان ہونا الزمی ہوگا تاہم ،صدر اسمبلی کو تحلیل کرنے کی طاقتور نہیں تھی
جبکہ وہ خود بھی مستعفی نہ ہو۔
صدر پر پابندی :صدر کو مالزمت کے دوران کسی بھی منافع بخش کاروبار
کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن نجی پراپرٹی کا انتظام کرنے سے روکنے سے
منع نہیں کیا گیا.
اسالمی قانون :قرآن کریم اور سنت کی تدریس کے خالف کوئی قانون منظور
نہیں کیا جائے گا اور موجودہ قوانین کو اسالم میں کردار ادا کیا جائے گا۔
بنیادی حقوق 1962 :کے آئین نے اظہاِر رائے کے بنیادی حقوق کو بنیاد بنایا،
آزادِی انتخاب اور آزادِی حق اور شہری حقوق کے حوالے سے اصول واضع کئے۔
عدلیہ کا کردار :عدلیہ کو قانون کی وضاحت اور آئین کے مطابق قانون پر
عملدرامد کروانے کے ذمہداری دی گئی۔
1970میں جب مارشل الء اٹھایا گیا تو یکم اپریل 1972میں 1970ء کے انتخابات کے
نتائج کے مطابق اسمبلی وجود میں آئی ۔ایک کمیٹی مختلف جماعتوں سے پارلیمنٹ
کےتعلقات کے لئے قائم کی گئی تھی .اس کمیٹی کے اندر اختالفات تھے کہ آیا نیا آئین
کے سوال پر بھی پارلیمانی طرز کا ہو یا صدارتی نظام النا چاہئے .صوبائی خود مختاری ئ
مختلف نظریات موجود تھے 10 .اپریل 1973کو اس کی رپورٹ جمع ہ و ی .آئین کا مسودہ
وفاقی اسمبلی کی طرف سے 135ووٹ کی طرف سے منظور کیا گیا تھا .یہ 14اگست
9
1973کو اقتدار میں الیا گیا تھا ،اور بھٹو کو وزیر اعظم نے 12اگست کو قومی اسمبلی
نے منتخب کیا.
آئین کو دو ایونوں کی بنیاد پر قائم کیا گیا قومی اسمبلی کو ایوان زرین اور سینیٹ کو ایوان
باال کے طور پر .اس نے حکومت کے سربراہ کے طور پر وزیر اعظم کے ساتھ پارلیمانی
شکل اختیار کی .منتخب قومی اسمبلی کو حقیقی طور پر لوگوں کی مرضی کی نمائندہ قرار
دیا گیا۔ نئے آئین میں بنیادی حقوق ،تقریر کی آزادی ،مذہب ،صحافت ،تحریک ،ایسوسی
ایشن ،سوچ ،اور دانشورانہ ،زندگی ،آزادی اور ملکیت اور ہتھیار دینے کا حق متعارف
کرایا گیا .اسالم کو پاکستان کے ریاستی مذہب کا درجہ دیا گیا۔ جغرافیائی اور سرحدی لحاظ
سے ملک کو دوبارہ متعارف کرایا گیا کہ "پاکستان کو چار صوبوں کا مجمعہ ہے".
نظاِم حکومت :پاکستان میں پارلیمانی نظام کے ساتھ وفاقی جمہوریہ ہو گی .وزیر اعظم
حکومت کے سربراہ ہوں گے ،اور اکثریت پارٹی سے منتخب ہونگے.
سرکاری مذہب :اسالمی مذہب کی حیثیت سے اسالم کی خصوصی حیثیت پر زور دیا
جائے گا اور وزیر اعظم اور صدر دونوں کو مسلمان ہونا ضروری ہے.
نام :ریاست کا مکمل نام اسالمی جمہوریہ پاکستان مقرر کیا گیا۔
ترمیم کا طریقہ :آئین میں ترمیم کرنے کے لئے بل کو ایوان زرین (قومی اسمبلی) میں
دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی اور ایواِن باال میں اکثریت کی ضرورت ہوگی۔
10
بنیادی انسانی حقوق :تمام بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی جاسکتی ہے لیکن اس
کی تقلید نے مزید کہا ہے کہ یہ قانون کی طرف سے نافذ شدہ قابل پابند پابندیوں کے تابع
تھا.
عدلیہ کا کردار :سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو بنیادی حقوق کو نافذ کرنے کی طاقت
دی جائے گی.
صدر اور وزیراعظم :صدر مملکت تمام فیصلوں میں وزیر اعظم سے مشورہ
کرنے کا پابند ہے اور صدر کے تمام احکامات وزیراعظم کی طرف منتقل کرنے کے
معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے.
ہنگامی حالت :ہنگامی حالتوں میں ،وفاقی حکومت کسی بھی چیز پر قانون سازی کر
سکتی ہے اور بنیادی آزادی بھی معطل کر سکتی ہے.
اردو :اردو ملک کی سرکاری زبان ہوگی ،جس کے ساتھ ہی پاکستانی انگریزی اگلے 15
سال تک برقرار رہیں گے.
11