Professional Documents
Culture Documents
گوہر خان خٹک
گوہر خان خٹک
مفکّر،شاعر اور حریت پسند انسان ،خوشحال ؒ گوہر خان خٹک پشتو کے عظیم ُ
خان خٹک کے فرزند تھے.خوشحال خان خٹک کے ایک شعر کے مطابق گوہر خان
خٹک اور اس کے ایک ب ھائی نصرت خان کی پیدائش ۱۰۷۰ھھ بمطابق ۱۶۵۹ء
ہے.وہ شعر یہ ہے
۱بہ شیرزادن نصرت خان س
عین و غین است از جمل نیک بدان)(۱
ترجمہ جان لو ک ھ نیک خصلت نصرت خان کی
تاریخ پیدائش ۱۰۷۰ھ ہے.
۲اس شعر میں گوہر خان کا نام تو نہیں،لیکن افضل خان خٹک کی’’تاریخ
مرصع‘‘ کے مطابق گوہر خان خٹک کی پیدائش کا سال بھی یہی ہے(۲).
جب کابل کے صوبہ دار سیدَامیر خان خوافی نے محض پشاور میں مقیم اپنے
نائب مرزا عبدالرحیم اور خوشحال خان خٹک کے درمیان ناراضگی کی بنا پر
سازش کرکے خوشحال خان خٹک کو گرفتار کرکے دہلی لے جایا گیا اور پھر وہاں
تقریبا ً اڑ ھائی سال قید میں رکھنے کے بعد قلعہرنتھمب ھورب ھیجا) ،(۳تو وہاں قید
کے دوران ’’فراق نامہ‘‘) (۴کے نام سے جو منظوم کتاب لکھیُ ،اس میں اپنے
دیگر فرزندوں کے ہمراہ گوہر خان کو بھی یاد کیا ہے.
۴ھغہ ملک واڑھ سرأ زر دے
چی پکہی زما گوھر دے
کؤ سکندر وي کؤ گوھر وي
راتہ واڑ ھ جلو ھ گر وي)(۵
ترجمہ وہ ملک جہان میراگوہر رہتا ہے،دولت سے مال مال ہے.
سکندر ہو یا گوہر دونوں ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں.
خوشحال خان ایک اور جگہ لکھتے ہیں.ترجمہ’’جلل خان،سکندر
خان،گوہرخان،عجب خان میرے ہمراہ تھے،کھ تیراہ روانہ ہوا‘‘
۵ایک اور جگہ گوہر خان کا ذکر یوں کرتے ہیں’’ میں خیر آباد سے رخصت
ہوا.گھر آیا اور فرزندوں کے ساتھ......کچھ حسن خیل اور سینی کے عوام کے
سات ھ نظام پور آیا(۶)‘‘.
گوہر خان خٹک کے بڑے بھائی اشرف خان ھجری) ۱۰۴۴ھ۔ ۱۱۰۶ھ(بیجاپور
دکن)ہندوستان(کے قیدخانے میں چودہ سال قید گزارنے کے بعد سال ۱۱۰۶ھھ میں
فوت ہوئے.اشرف خان ھجری نے بھی اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ گوہر خان
کو یاد کیا ہے
۶صدر خان،عجب گو ھر سخن شناس دي
رحمان ل پہ دا ُھنر دُتورو غر دے)(۷
ترجمہ صدر خان،عجب اور گوہر تینوں سخن شناس ہیں.لیکن رحمان تو اس
ضمن میں د ُتورو غر)ایک پہاڑ کا نام(جیسا سب پر بھاری ہے.
اس طرح اپنے ایک اور بھائی سکندر خان خٹک نے بھی اشرف خان ھجری کو
ایک منظوم خط میں گوہر خان کا ذکر کیا ہے.
۷گوھر ُدر دے د اخلص پہ ہھ صدف کہی
ھرہ چار َدافضل خان پہ حکم وک کا
پہ تحقیق لرَوبر کا حئنی غارہ
افضل خان ئی پہ مریکئکز لک کا )(۸
ترجمہ گوہر خان کی مثال در صدف کی ہے
وہ سب کام کاج افضل خان کی مرضی پر کرتا ہے.
وہ افضل خان کی حکم عدولی نہیں کرتا
چاہیے وہ ُاس سے سخت سلوک کیوں نہ کرے.
۸یادرہے کھ گوہر خان خوشحال خان سے بہرام خان کی ُدشمنی میں اپنے باپ
کے ساتھ تھا.ایک موقعہ پر جب بہرام خان نے اپنے بیٹے مکرم خان کو ایک گروہ
کے سات ھ خوشحال خان خٹک کو گرفتار کرنے کیلئے بیڑیاں دے کر بھیجا،تو ُاس
وقت گوہر خان اور نصرت خان دونوں اپنے والد خوشحال خان کے ساتھ بیٹھے
تھے.مکرم خان اور ُاس کے ساتھیوں کی ن ِّیت تاڑ کر دونوں نے بندوقیں ُاٹھائیں
اور پہاڑ کا ُرخ کیا اور وہاں مورچہ زن ہوکرمکرم خان اور اس کے ساتھیوں کو
للکارا،کھ اگر مرد ہو تو سامنے آؤ.لیکن یہ سن کر مکرم خان اپنے ساتھیوں کے
سات ھ واپس لوٹا(۹).
گوہر خان کی وفات کے بارے میں وثوق سے کچھ کہا نہیں جاسکتا البتہ ایسا
مرصع کی تکمیل ۱۱۳۶ھ تک وہ زندہ تھے.اگر ۱۱۳۶ھ سے معلوم ہوتا ہیک ھ تاریخ ُ
پہلے فوت ہوئے ہوتے تو افضل خان ضرور اس کا ذکر کرتا.گوہر خان نے اپنے
بھتیجے افضل خان کا ہر مصیبت میں ساتھ دیا.قلب السّیر کے ترجمے کے بارے
میں لکھتا ہے
ن اشرف خان مرحوم ’’ ۹اس کتاب )کے ترجمے (کا سبب یہ تھا ک ھ افضل خان اب ِ
نواسا خوشحال خان خٹک کرلنڑی غفر اﷲ کی تاریخ وفات سن ِہجری ایک ہزار
ایک سو بیس )۱۱۲۰ھ(ہے .اپنے باپ دادا کی جگہ قائم مقام ہے،اورسرداری پر
فائز ہے.نیک نامی اور آبادی کو زیر نظر رکھا ہے.اس قحط الرجال میں غنیمت
ہے اللھم تزد ِاحسانہ حق تعال ٰی ُاسے شرمندگی سے بچائے ............اکثر اوقات
مجھے )فارسی یا عربی کی کسی کتاب کا پشتو میں ترجمہ کرنے کو( کہتے میں
اس قابل نہیں تھا.لیکن جب تضیع اوقات کو مدنظر رکھا تو محسوس کیا اور
اس محنت کیلئے کمر بستہ ہوا.پ ھر یہ کتاب ہات ھ آئی جو افعال قال اور حال پر
مارھھھھ پیغمبر ﷺ کے بارے میں ایک معتبر کتاب تھی جس کی پختگی کی تعریف ہ ے
مصنف نے فارسی میں بہت طویل کی ہے.پھر )میں نے( اس کا ترجمہ شروع
کیا،جو عظیم نعمت ہے.فارسی سے پشتو میں ترجمہ کیا اور نام قلب السّیر
رکھا گیا‘‘
لیکن گوہر خان نے’’ قلب السّیر‘‘ کے فارسی مترجم اور فارسی میں کتاب کا
نام نہیں لکھا ہے.اس طرح کتاب کے اصل مصنف اور عربی میں کتاب کا نام
بھی نہیں بتایا ہے.لیکن اس کے اصل مصنف محمد بن اسحاقؒ اور کتاب ’’مغاز ِ
ی
سیرۃ‘‘ہے.
گوہر خان اپنے بھائیوں اشرف خان ہجری،عبدالقادر خان ،سکندر خان اور صدر
خان کی طرح شاعر تھے.اس کے کلم کا مجموعہ تو آج تک ہاتھ نہیں آیا.لیکن
قلب السّیر میں جا بجا اس کی شاعری کے نمونے ملتے ہیں.اس سے اندازہ ہوتا
ہے کھ وہ ایک اچھے شاعر تھے’’.قلب السّیر‘‘میں اپنی مذہبی اور نعتیہ شاعری
کے علوہ اپنے دو بیٹوں محمد اور غضنفر کی وفات پر ایک مرثیہ لکھا ہے(۱۰).
گوہر خان پشتو کے علوہ فارسی کے بھی ایک قادرالکلم شاعر تھے ُانہوں نے
اپنے باپ خوشحال خٹک کی وفات کی تاریخ پر فارسی میں جو قطعہ کہا ہے.وہ
وں ہے. ی ُ
ن خانان وقدو�ۂافغان ۱۰خا ِ
سرِ خرد مندانآن حکیمے َ
چون بہ ھفتاد و ہشت سال شدہ
روزِ آدینہ بود چون ِزجھان
رفت وماندیم مابہ آہ وفغان
حوت غر ہ ما ِہ م ھر بود آن ُ
ک ِ ھ بہ لب می نہاد م ھر سکوت
بست وہشتم ربیع آخر بود
ک ِ ھ َامین جان پاک اوَبربود
چون ِزتاریخ فوت خان خبرم
شد’’زمارفت زین جہان ِپدرم‘‘)(۱۱
ن خانان اور افغان کا برگزیدہ پیشوا خا ِ
حکیم ملت اور عقلمندوں کا عقل مند
جب اٹھتر سال کی عمر تک پہنچے.
تو بروز جمعہ وفات پاگئے اور ہمیں افسردہ چھوڑ گئے
حوت شمسی سال کا آخری مہینہ۲۰،فروری شمسی سال کے حوت کا مہینہ تھا ) ُ
تا ۲۰مارچ ہے.حوت کے معنی ہے مچھلی(
کھ لبوں پر مہر سکوت رکھا یعنی فوت ہوئے
ربیع الثانی کی اٹھائیس تاریخ تھی
کھ موت کے فرشتے نے ُان کی روح قبض کی.
جب خان کی تاریخ وفات کی خبر آئی
’’ اس جہان سے میرے والد گزر گئے‘‘.
یہ شعر گوہر خان خٹک نے اپنے والد کے انتقال پر لکھا ہے.جس سے ہمیں یہ معلوم
ہوتا ہے کھسن ۱۱۰۰ھ میں گوہرخان خٹک حیات تھے.