Professional Documents
Culture Documents
ملکہ نوری
ملکہ نوری
ہجرت سے ایران بیگ غیاث مرزا تھی۔ لڑکی کی بیگ غیاث مرزا النسل ایرانی وہ تھا۔ النساء مہر نام اصلی کا جہاں نور
باپ ماں سے وجہ کی غربت ہوئی۔ پیدا مہرالنساء نزدیک کے قندھار کہ تھا رہا آ ہندوستان میں روزگار تالش کے کر
قافلے ایک بعدازاں لیکن دیا۔ چھوڑ پر کرم و رحم کے مقدر نیچے کے درخت ایک میں راستے کو بیٹی نوزائیدہ نے
کی مسعود ملک ہوئی۔ سپرد کے والدین ہی اپنے پرورش کی مہرالنساء سے وساطت کی مسعود ملک سردار کے
سے وجہ کی ذہانت اور لیاقت اپنی وہ جہاں گئی مل بھی مالزمت میں دربار کے اکبر کو بیگ غیاث ہی سے وساطت
کا الدولہ اعتماد اسے میں عہد کے جہانگیر گیا۔ پہنچ تک مرتبہ کے وزیر رفتہ رفتہ اور گیا بن نگران کا کارخانوں شاہی
شکار دوران کو جس تھی۔ ہوئی سے خاں قلی علی شادی کی مہرالنساء میں عمر کی سال سترہ میں ء 1595مال۔ خطاب
میں ء 1602تھا۔ فوجدار کا بردوان ضلع کے بنگال شیرافگن مال۔ خطاب کا شیرافگن پر کرنے ہالک کو شیر سے تلوار
شاہی انہیں اور ہوئیں پیش میں دربار مغلیہ بیگم الڈلی بیٹی اور مہرالنساء بیوی کی اس بعد کے موت کی شیرافگن
ء 1611گیا۔ دیا بنا خاص مقرب کی بیگم سلیمہ ماں سوتیلی کی جہانگیر بادشاہ کو مہرالنساء گیا۔ لیا لے میں سرپرستی
کی اس دیکھا۔ کو مہرالنساء اچانک نے جہانگیر ہوئے کرتے سیر کی مینابازار دوران کے روز نو جشن میں
خطاب کا محل نور لی۔ کر شادی سے اس میں ء 1611مئی کہ ہوا متاثر اتنا سے جوابی حاضر اور رعنائی خوبصورتی
النساء مہر اور سال 42عمر کی جہانگیر وقت کے شادی ہوئی۔ مشہور سے لقب تاریخی کے نورجہاں میں بعد لیکن مال
طور کے طرازی افسانہ نے مصنفین بعض میں بارے کے شادی کی جہانگیر اور نورجہاں تھی۔ سال چونتیس عمر کی
گھوم میں باغ ہوئے لیے کبوتر دو میں ہاتھوں دونوں جہانگیر شہزادہ ہے جاتا کہا ہے کیا بیان افسانہ کا محبت کی ان پر
ایک اتفاقاً تھی۔ رہی گھوم میں چمن جو دیئے پکڑا کو مہرالنساء کبوتر دونوں اپنے سے غرض کی توڑنے پھول تھا۔ رہا
نے اس تو ہوا کیا کبوتر کہ پوچھا اور ہوا متوجہ ادھر شہزادہ جب گیا۔ چھوٹ سے ہاتھ کے مہرالنساء کر پھڑک کبوتر
کہا ہوئے چھوڑتے سے ہاتھ سے بھولپن کبوتر دوسرا نے اس کیونکر؟ پوچھا نے شہزادے گیا۔ اڑ تو وہ عالم صاحب کہا
کی اس نے اکبر تو چال پتہ کا محبت اس کی شہزادے کو اکبر گیا۔ ہو فدا جہانگیر پر ادا اس کی مہرالنساء ‘‘طرح اس’’
شادی سے النساء مہر اور ڈاال مروا کو شیرافگن نے اس تو ہوا نشین تخت جہانگیر جب دی۔ کر سے خاں قلی علی شادی
بارے کے واقعہ اس نے مورخ عصر ہم کسی کہ ہیں لکھتے ہوئے کرتے ثابت غلط کو خیال اس محققین کے بعد لی۔ کر
یورپین عصر ہم کسی ملتا۔ نہیں کچھ میں بارے کے واقعہ اس بھی میں جہانگیری تزک کیا۔ نہیں ذکر بھی اشارتاً میں
قسم ہر میں بارے کے زندگی نجی کی بادشاہوں مغل لوگ یہ حاالنکہ لکھا۔ نہیں متعلق کے افسانے اس بھی نے مورخ
کا شیرافگن اسے تو ہوتا رقیب کا خاں قلی علی جہانگیر اگر تھے۔ رہتے میں ٹوہ کی افسانوں گھڑت من اور افواہوں کی
ہیں۔ دیتے قرار غلط کو داستان اس سے تحقیق اپنی مورخین کے حال زمانہ دیتا۔ نہ ترقی پر عہدے اہم کر دے خطاب
تنظیمی اور مزاج کارانہ فن اور آرائی سخن ،شائستگی ،تعلیم اعلیً تھی۔ملکہ شاہکار مثال بے کا حسن نسوانی نورجہاں
حاضر کی اس تھا۔ حاصل کمال میں کہنے اشعار برجستہ اور البدیہہ فی تھی۔ شاہکار الثانی کا فطرت مزین سے اوصاف
کئے۔ ایجاد فیشن نئے کئی نے اس تھا۔ پایا ذہن تخلیقی نے نورجہاں ہیں۔ واقعات شمار بے کے گوئی بدیہہ اور جوابی
سخاوت طبعاً کی آرائش سے سرے نئے کی دربار مغل کیا ایجاد عطر کا گالب کیں۔ رائج طرزیں شمار بے کی لباس
کی بچیوں یتیم تھی۔ مہربان و مشفق کیلئے مسکینوں اور یتیموں مظلوموں اور غریبوں تھی۔ مائل طرف کی نیکی اور
اپنی نے نورجہاں بعد کے شادی تھا۔ اصول کا اس کرنا امداد کی کسوں بے اور کرنا اہتمام کا جہیز اور شادی اور تعلیم
کر شروع نگرانی کی سلطنت امور تمام رفتہ رفتہ لیا۔ بنا گرویدہ اپنا کو جہانگیر سے ذہانت و فراست قابلیت صالحیت
سلجھاتی طرح اس گتھیاں سیاسی اور مسائل درباری پیچیدہ تھا۔ نوازا سے فراست اور فہمی معاملہ اسے نے قدرت دی
ملکہ اور گیا ہوتا غافل سے سلطنت امور جہانگیر رفتہ رفتہ جاتے۔ رہ دنگ امراء بڑے بڑے کہ کرتی فیصلے اور
بالشرکت نے اس تھا۔ امر قدرتی ہونا پیدا کا ہوس کی اقتدار اور طلبی جاہ گئی۔ بن مالک کی سفید و سیاہ کے حکومت
گروپ بااثر ایک کا حامیوں کے اس میں دربار کے اس رہی۔ قابض پر اقتدار تک سال پندرہ اور لیا سنبھال اقتدار غیرے
میں ء 1627رہا۔ برسراقتدار تک ء 1622سے ء 1611جتھہ یہ ہے۔ جاتا کہا جتھہ نورجہانی میں تاریخ جسے گیا بن
تخت سے لقب کے شاہجہان خرم شہزادہ گیا۔ ہو پذیر زوال بھی ستارہ کا اقتدار کے ملکہ ہی ساتھ کے وفات کی جہانگیر
شاہی تک سال اٹھارہ بعد کے وفات کی جہانگیر اور لی کر اختیار کشی کنارہ سے سیاست عملی نے ملکہ تو ہوا نشین
عملی تھا۔ دیا کر مقرر وظیفہ ساالنہ روپیہ الکھ دو نے جہاں شاہ پائی وفات میں 1645اور رہی مقیم میں الہور قلعہ
فاتحہ پر قبر کی شوہر اپنے روز ہر اور کرنا اہتمام کا شادی اور تعلیم کی لڑکیوں یتیم بعد کے دستبرداری سے سیاست
نور کرایا۔ تعمیر میں نگرانی کی جہاں نور ملکہ نے جہاں شاہ مقبرہ کا جہانگیر تھا۔ معمول کا اس جانا لیے کے خوانی
٭…٭…٭ بنوایا۔ میں زندگی اپنی خود سے مصارف ذاتی اپنے مقبرہ اپنا نے جہاں
جہانگﯿﺮ نے جﺲ تھا مہﺮالﻨﺴاﺀ نام کا بﯿﻮی الڈلی کی جہانگﯿﺮ مﺤﻤﺪ الﺪیﻦ اور بﯿﭩی کی بﯿگﻢ غﯿاث مﯿﺮزا الﺪولہ عﺘﻤاد
شاہی حﺮم مﯿﮟ داخﻞ ہﻮنے چلﺘاتھا۔ سکہ کا نام کے اس مﯿﮟ ہﻨﺪوسﺘان پﻮرے کہ لﯿا کﺮ قﺒﻀہ ﻃﺮح اس پﺮ ودماغ دل کے
سﺘارﮦ کا الﻨﺴاﺀ مہﺮ بعﺪ کے
ٴ ذہانﺖ اور خﻮش اخالقی کی بﺪولﺖ ،شعاری سلﯿقہ ،لﯿاقﺖ اپﻨی گﯿا۔ اقﺒال روز بﺮوز بلﻨﺪ ہﻮتا
یہ دیا۔ بادشاﮦ نے اسے پہلے نﻮرمﺤﻞ اور پھﺮ نﻮر جہاں کا خﻄاب گﺌی۔ ہﻮتی حاوی ﻃﺮح پﻮری پﺮ مﺰاج کے جہانگﯿﺮ وﮦ
:آزاد حﺴﯿﻦ مﺤﻤﺪ مﻮالنا بقﻮل اکہ ہﻮ مﺸہﻮر ایﺴا خﻄاب
صﺮف خﻄﺒہ دئﯿے۔ کﺮ ر نﻮ بے چﺮاغ کے سﺐ نے جہاں نﻮر لﯿکﻦ تھی رانی ایک کﺮ بﮍھ سے ایک مﯿﮟ سﺮائے حﺮم ”
تھا۔ سلﻄﻨﺖ مﯿﮟ اس کا دخﻞ لﻮازمِ تﻤام باقی لﯿکﻦ تھا جاتا لﯿا نہﯿﮟ نام کا اس مﯿﻦ
(خﺒﺮ جاری ہے )
“
ہﻮا۔ جاری بھی سکہ کا نام کے جہاں نﻮر سے حکﻢ کے جہانگﯿﺮ
تعلﯿﻢ و تﺮبﯿﺖ حاصﻞ کی تھی اعلی اس نے تھا۔ سے خانﺪان ایﺮانی معﺰز ایک تعلق کا غﯿاث مﯿﺮزا والﺪ کے جہاں نﻮر
مقﺮر مﺮو حاکﻢ سے ﻃﺮف کی اول صفﻮی ﻃہﻤاسﭗ اشہ مﯿﮟ بعﺪ اور وزیﺮ کا خﺮاسان حاکﻢ تکلﻮ خان مﺤﻤﺪ پہلے اور
روزگار کے تالشِ خﺴﺘہ بﺤالِ اس خانﺪان پﺮ کﺴی وقﺖ ایﺴی افﺘاد آپﮍی کہ مﯿﺮزا غﯿاث بﯿگ کی واہﻞ وعﯿال سﻤﯿﺖ ہﻮا۔
اثﻨائے سفﺮ قﻨﺪھار کے نﺰدیک اس کی کﯿا۔ دسﻮیﮟ صﺪی ہﺠﺮی مﯿﮟ اس نے ہﻨﺪوسﺘان کا رخ پﮍا۔ نکلﻨا سے ایﺮان لﺌے
مﯿﺮازا غﯿاث بﯿگ ہﻨﺪوسﺘان پہﻨﭽا تﻮ اکﺒﺮ بادشاﮦ کے دربار گﯿا۔ رکھا الﻨﺴاﺀ مہﺮ نام جﺲ دیا جﻨﻢ کﻮ بﯿﭩی ایک ےن اہلﯿہ
بﯿﻮتات مقﺮر ہﻮ گﯿا اوربادشاﮦ دیﻮانِ تھﻮڑے ہی عﺮصے مﯿﮟ اپﻨی لﯿاقﺖ وقابلﯿﺖ کی بﺪولﺖ وﮦ ہﻮگﺌی۔ رسائی کی اس تک
وﮦ بہﺖ ذہﯿﻦ وفﻄﯿﻦ لﮍکی رکھا۔ مﯿﺮزا غﯿاث بﯿگ نے نﻮرجہاں کی تعلﯿﻢ وتﺮبﯿﺖ کا خﯿال پایا۔ خﻄاب کا الﺪولہ اعﺘﻤاد سے
اس نے قﺮآن مﺠﯿﺪ خﺘﻢ کﺮنے کے بعﺪ مﺨﺘلﻒ علﻮم مﯿﮟ بھی دسﺘﺮس حاصﻞ کﺮ لی اور فارسی زبان جﻮ اس کی تھی۔
خانہ داری اور شاہی امﻮرِ اس کے عالوﮦ لی۔ کﺮ حاصﻞ دسﺘگاﮦ ماہﺮانہ بھی مﯿﮟ وادب شعﺮ کے اس تھی زبان مادری
وﮦ شادی کی عﻤﺮ کﻮ لگی۔جﺐ آنے نﻈﺮ پلہ ہﻢ کہ شہﺰادیﻮں وﮦ مﯿﮟ سلﯿقہ اور ادب باعﺚ کے داری تعلق سے مﺤﻞ
بادشاﮦ نے علی قلی دیا۔ بﯿاﮦ سے خان قلی علی نﻮجﻮان فائق الئق ایک وابﺴﺘہ سے دربار شاہی اسے نے والﺪیﻦ تﻮ پہﻨﭽی
(ایک روایﺖ ہے کہ یہ خﻄاب جہانگﯿﺮ نے اسے اپﻨی دیا۔ ابخﻄ کا شﯿﺮافگﻦ اسے کﺮ ہﻮ خﻮش سے خﺪمات کی خان
خﺪا نے ان کﻮ تھی۔ )شﯿﺮافگﻦ اور مہﺮالﻨﺴاﺀ کی ازدواجی زنﺪگی نہایﺖ خﻮشگﻮار گﺰر رہی دیا۔ شہﺰادگی کے دور مﯿﮟ
:جہانگﯿﺮ اپﻨی تﺰک مﯿﮟ لکھﺘا ہے گﯿا۔ رکھا بﯿگﻢ الڈلی نام کا جﺲ دی بﯿﭩی ایک
مﺠﮫ ہﻤﺮاہی اکﺜﺮ مﯿﺮے کﺮ دیکﮫ رخی بے یہ کی ان لﺌے اس تھے کﺮتے ﻇاہﺮ الﺘفاتی بے سے مﺠﮫ اکﺜﺮ والﺪ مﯿﺮے ”
اس پﺮ بھی مﯿﮟ نے تھﯿﮟ۔ ان مﯿﮟ علی قلی خان بھی تھا حاالنکہ مﯿﮟ نے اس پﺮ بﮍی بﮍی عﻨایات کی گﺌے۔ ہﻮ جﺪا سے
سے آدمﯿﻮں شاہی نے اس وہاں کﻦلﯿ کی عﻄا جاگﯿﺮ مﯿﮟ بﻨگال کﻮ اس اور کﺮدیﮟ معاف تقﺼﯿﺮات کی اس کﺮ بﻦ بادشاﮦ
مﯿﮟ نے اپﻨے کﻮکا (دودھ شﺮیک بھائی )قﻄﺐ الﺪیﻦ خان کﻮ اس کی تﻨﺒﯿہ کے لﺌے بھﯿﺠا لﯿکﻦ علی دیا۔ کﺮ شﺮوع فﺴاد
اوالد کﺸﻤﯿﺮ کی والﯿانِ قﻄﺐ الﺪیﻦ کے ایک کﺸﻤﯿﺮی ساتھی رئﯿﺲ زادﮦ انﺒہ خان نے جﻮ دیا۔ کﺮ قﺘﻞ کﻮ اس نے خان قلی
اسی کی۔ لﮍائی بﺪسﺖ دسﺖ ساتﮫ کے قلی علی تھا سﺮفﺮاز سے مﻨﺼﺐ سﻮار سﻮ تﯿﻦ اور ذات ہﺰار ایک راو تھا سے مﯿﮟ
“ گﺌے۔ مارے ہاتھﻮں کے دوسﺮے ایک دونﻮں مﯿﮟ لﮍائی
سلﯿﻤہ ماں سﻮتﯿلی کی جہانگﯿﺮ اور بﯿﻮﮦ کی بادشاﮦ اکﺒﺮ کﻮ مہﺮالﻨﺴاﺀ بﯿﭩی اپﻨی نے الﺪولہ اعﺘﻤاد بعﺪ کے قﺘﻞ کے شﺮافگﻦ
وہﯿﮟ 1020ھ کے جﺸﻦ نﻮروز مﯿﮟ جہانگﯿﺮ نے اسے دیا۔ بھﯿج مﯿﮟ مﺤﻞ کے اس لﺌے کے گﺰاری خﺪمﺖ یک بﯿگﻢ
شادی سے اس معﺮفﺖ کی ماں سﻮتﯿلی اپﻨی کہ ا ہﻮ مﺘاثﺮ قﺪر اس سے واﻃﻮار اورعادات داد خﺪا حﺴﻦ کے اس اور دیکھا
مﻮرخﯿﻦ لی۔بعﺾ کﺮ نے لکھا ہے کہ جہانگﯿﺮ مہﺮالﻨﺴاﺀ کﻮ اپﻨی شہﺰادگی کے زمانے سے چاہﺘا تھا اور اس نے ٴ
شﯿﺮافگﻦ کﻮ خﻮد مﺮوادیا تاکہ نﻮر جہاں سے شادی کﺮ سکے لﯿکﻦ ی سﺐ مﻦ گھﮍت قﺼے ہﯿﮟ جﻦ کا حقﯿقﺖ سے کﻮئی
ہے۔ ملﺘا ثﺒﻮت کا ان سے تاریخ مﺴﺘﻨﺪ کﺴی نہ اور نہﯿﮟ واسﻄہ
کہ شکار پﺮ حﺘی اس لﺌے سفﺮوحﻀﺮ مﯿﮟ ہﻤﯿﺸہ اسے اپﻨے ساتﮫ رکھﺘا تھا تھا۔ رکھﺘا الفﺖ حﺪ بے سے نﻮرجہاں جہانگﯿﺮ
ھ 1619/مﯿﮟ وﮦ فﺘﺢ پﻮر سﯿکﺮی کے قﺮیﺐ شکار کھﯿﻞ رہا تھا کہ نﻮر جہاں نے 1028جاتا۔ لے ساتﮫ اپﻨے بھی
کہا جاتا ہے کی۔ بادشاﮦ بہﺖ خﻮش ہﻮا اور اس کی بہادری کی بہﺖ تعﺮیﻒ ڈاال۔ مار کﻮ شﯿﺮ سے گﻮلی ہی پہلی کی بﻨﺪوﻕ
ھ 1620/مﯿﮟ جہانگﯿﺮ نے اپﻨے بﯿﭩے شہﺮیار کی مﻨگﻨی نﻮر 1029مارے۔ شﺮ چار نے جہاں نﻮر پﺮ مﻮقع ایک کہ
الڈلی بﯿگﻢ شﯿﺮافگﻦ کے صلﺐ سے تھی اور شہﺮیار جہانگﯿﺮ کی ایک دوسﺮی دی۔ کﺮ سے بﯿگﻢ الڈلی بﯿﭩی کی جہاں
تھا۔ (یا کﻨﯿﺰ )کے بﻄﻦ سے پﯿﺪا ہﻮا بﯿﻮی
اس دیا کﺮ شﺮوع لﯿﻨا حﺼہ بھﺮپﻮر مﯿﮟ سﯿاسﺖ کﺮ رﮦ پﺮدﮦ پﺲ نے جہاں نﻮر بعﺪ کے شادی کی بﯿگﻢ الڈلی اور شہﺮیار
کی جہانگﯿﺮ نے اس ہی ساتﮫ کے اس تھا کﺮنا ہﻤﻮار راﮦ کی جانﺸﯿﻨی کی جہانگﯿﺮ لﺌے کے شہﺮیار داماد اپﻨے مقﺼﺪ کا
جہانگﯿﺮ بالنﻮش تھا لﯿکﻦ نﻮر تھی۔ وﮦ اس کی صﺤﺖ کا بے حﺪ خﯿال رکھﺘی رکھی۔ اٹھانہ کﺴﺮ کﻮئی مﯿﮟ گﺰاری خﺪمﺖ
رفﺘہ رفﺘہ وﮦ جہانگﯿﺮ کے مﺰاج مﯿﮟ اس قﺪر دخﯿﻞ ہﻮ گﺌی کہ رہے۔ مﯿﮟ اعﺘﺪال حﺪ وﮦ کہ تھی ہﻮتی کﻮشﺶ کی جہاں
:کہا نے بادشاﮦ خﻮد
“ چاہﯿے۔ ایک سﯿﺮشﺮاب اور نﺼﻒ سﯿﺮ گﻮشﺖ کے سﻮا کﭽﮫ نہﯿﮟ دی۔مﺠھے بﺨﺶ کﻮ بﯿگﻢ نﻮرجہاں سلﻄﻨﺖ نے مﯿﮟ ”
اس معاملے مﯿﮟ وﮦ نﻮر جہان کﻮ بھی دیا۔ نہ جانے سے ہاتﮫ بھی کﻮ وانﺼاف عﺪل نے جہانگﯿﺮ ساتﮫ اتﮫس کے اس لﯿکﻦ
:اس نے نﻮر جہاں سے صاف صاف کہہ دیا تھا تھا۔ بﺨﺸﺘا بہ
“ کﺲ سے بے انﺼافی نہ ہﻮنے پائے ،خﺒﺮدار مگﺮ ہے تﻤہاری شک بے سلﻄﻨﺖ ”
اور کﯿا مﺤاسﺒہ کا نﻮرجہاں سے سﺨﺘی نے جہانگﯿﺮ تﻮ ہﻮئے شکار کے زیادتی کی جہاں نﻮر لﻮگ پﺮ مﻮقعﻮں دو ایک
کﯿا۔ جہانگﯿﺮ نے اسے معاف نہ ،لﯿا کﺮ نہ راضی کﺮ دال دے کﭽﮫ کﻮ مﻈالﻤﻮں نے جہاں نﻮ تک جﺐ
کﯿا یہ صﺮف خالصہ کا ان مﯿﮟ سﻄﺮوں چﻨﺪ اور ہﯿﮟ مﺘقاضی کے تفﺼﯿﻞ بﮍی حاالت کے زنﺪگی سﯿاسی کی جہاں نﻮر
( خﺮم شہﺰادﮦ سﺘارﮦ کا تقﺪیﺮ لﯿکﻦ تھی خﻮاہﺸﻤﻨﺪ کی بﭩھانے پﺮ تﺨﺖ بعﺪ کے جہانگﯿﺮ کﻮ شہﺮیار وﮦ کہ ہے سکﺘا جا
شاہﺠہاں نے بﺮسﺮ اقﺘﺪار آکﺮ شہﺮیار ہﻮئﯿﮟ۔ نﻮر جہاں کی کﻮشﺸﯿﮟ ناکامی سے دو چار چﻤکا۔ شاہﺠہاں )کے حق مﯿﮟ
اس کے بعﺪ نﻮر جہاں نے سﯿاسﺖ مﯿﮟ حﺼہ لﯿﻨا بالکﻞ یا۔ اد کﺮ قﺘﻞ اسے پھﺮ پھﺮائی سالئی پہلے سے مﯿﮟ آنکھﻮں کی
جہانگﯿﺮ کے انﺘقال کے بعﺪ وﮦ اٹھارﮦ سال تک کﺮلی۔ نﺸﯿﻨی گﻮشہ کﺮ ہﻮ تھلک الگ سے معامالت ملکی اور دیا چھﻮڑ
تھا۔ شاہﺠہاں نے اس کا دو الکﮫ روپﯿہ ساالنہ وﻇﯿفہ مقﺮر کﺮ رکھا گﺰارا۔ یہ سارا عﺮصہ اس نے الہﻮر مﯿﮟ رہی۔ زنﺪﮦ
بﻨاو ،پﻮشاک ،زیﻮر اس نے ہے۔ داسﺘان ایک کی مﯿابﯿﻮں کا زنﺪگی کی نﻮرجہاں کﺮ ہﭧ سے سﯿاسﺖ ٴ سﻨگھار اور آرائﺶ
شعﺮ وادب مﯿﮟ اسے خاس دلﭽﺴﭙی ہے۔ گالب کے عﻄﺮ اس کی ہی ایﺠاد کﯿﮟ۔ ایﺠادات نﺌی نﺖ مﯿﮟ چﯿﺰوں دیگﺮ کی
تھی۔تاریخ بﺬلہ سﻨج اور حاضﺮ جﻮاب خاتﻮن ،وﮦ ایک خﻮش فکﺮ اور نازک خﯿال شاعﺮﮦ تھی اور نہایﺖ علﻢ دوسﺖ تھی۔
اس ہے۔ سﺨﻦ فہﻤی اور سﺨﻦ سﻨﺠی کی بہﺖ تعﺮیﻒ کی گﺌی ،علﻤی اسﺘعﺪاد ،پﺮوری معارف کی اس مﯿﮟ تﺬکﺮوں اور
ضلع جالﻨﺪھﺮ کﺮوایا۔ تعﻤﯿﺮ مقﺒﺮﮦ الﺸان عﻈﯿﻢ کا الﺪولہ اعﺘﻤاد والﺪ اپﻨے مﯿﮟ آگﺮﮦ ہی پہلے سے وفات کی جہانگﯿﺮ نے
نام اسی اور ہﻮئی مﺸہﻮر سے نام کے سﺮائے نﻮرمﺤﻞ جﻮ کﺮوائی تعﻤﯿﺮ نﻈﺮعﻤارت خﻮش اور وضع خﻮش ایک مﯿﮟ
گﯿا۔ ہﻮ آباد وہاں قﺼہ ایک سے
اپﻨے وﻇﯿفے کا بﯿﺸﺘﺮ حﺼہ وﮦ علﻢ کی اشاعﺖ لی۔ کﺮ اخﺘﯿار زنﺪگی سادﮦ حﺪ بے نے اس بعﺪ کے وفات کی جہانگﯿﺮ
مﻮرخﯿﻦ وخﯿﺮات اور یﺘﯿﻢ لﮍکﻮں لﮍکﯿﻮں کی پﺮورش پﺮ صﺮف کﺮ دیﺘی صﺪقہ، نے لکھا ہے کہ اس نے پانچ سے تھی۔ ٴ
کﺌے۔ ادا د خﻮ اخﺮاجات کے وغﯿﺮﮦ جہﯿﺰ اور کﺮوائﯿﮟ سے گﺮﮦ اپﻨی شادیاں کی لﮍکﯿﻮں غﺮیﺐ زائﺪ
اس پائی۔ وفات مﯿﮟ الہﻮر مﯿﮟ 1645مﺌی 27بﻤﻄابق ھ 1055الﺜانی ربﯿع یکﻢ یا ھ 1055شﻮال 29نے نﻮرجہاں
اس کی بﯿﭩی الڈلی بﯿگﻢ بھی وفات کے بعﺪ وہﯿﮟ دفﻦ ہﻮئی ہے۔ واقع قﺮیﺐ کے جہانگﯿﺮ مقﺒﺮﮦ مﯿﮟ الہﻮر شاہﺪرﮦ کامقﺒﺮﮦ
گھﺮوں کے الہﻮر شہﺮ پاکﺴﺘانی شﻤالی اور آگﺮﮦ شہﺮ ہﻨﺪوسﺘانی شﻤالی شہﺮ دوبﮍے کے دور کے نﻮرجہاں اور عہﺪ مغﻞ
سﯿاحﻮں کے گائﯿﮉ اور جﻮشﯿلے تاریخ داں نﻮرجہاں اور ،بﻮڑھﯿاں بﻮڑھے ہے۔ بھﺮمار کی کہانﯿﻮں مﺘعلق کے ان مﯿﮟ
قﺼہ کا بﭽانے کﻮ گاﺅں ایک سے شﯿﺮ خﻮر آدم ایک اور قﺼے کے ہﻮنے گﺮفﺘار مﯿﮟ مﺤﺒﺖ اور مالقات کی جہانگﯿﺮ
کﺮ ڈھﯿﺮ کﻮ شﯿﺮ سے بﻨﺪوﻕ اپﻨی کﺮ ہﻮ سﻮار پﺮ ہاتھی ایک نے انھﻮں ﻃﺮح کﺲ کہ ہﯿﮟ کﺮتے بﯿان مﯿﮟ انﺪاز اپﻨے اپﻨے
دیا۔
بلﻨﺪ حﻮصلگی اور ان ،فﺮاسﺖ سﯿاسی کی ان وﮦ لﯿکﻦ ہﯿﮟ رکھے سﻦ تﻮ قﺼے کے بہادری اور مﺤﺒﺖ کی ان نے لﻮگﻮں
وﮦ ایک دلفﺮیﻒ خاتﻮن تھﯿﮟ جﻨھﻮں نے تﻤام تﺮ نامﺴاعﺪ حاالت ہﯿﮟ۔ جانﺘے کﻢ بہﺖ مﯿﮟ بارے کے دنﯿا عﻤلی سﺮگﺮم کی
کی۔ حکﻮمﺖ پﺮ سلﻄﻨﺖ وسﯿع ایک باوجﻮد کے
اپﻨے والﺪیﻦ کے لﯿے انھﻮں نے آگﺮﮦ مﯿﮟ مقﺒﺮے کا جﻮ ڈیﺰائﻦ تﯿار کﯿا تھﯿﮟ۔ ماہﺮ شکاری اور ماہﺮ فﻦ تعﻤﯿﺮ ،شاعﺮﮦ وﮦ
ہے۔ آتی نﻈﺮ مﯿﮟ مﺤﻞ تاج مﯿﮟ بعﺪ گﺮی جلﻮﮦ کی اس تھا
تاہﻢ انھﻮں نے تھﯿﮟ۔ آتی نہﯿﮟ بھی سے خانﺪان شاہی نﻮرجہاں ملکہ والی کﺮنے ادا کﺮدار نﻤایاں مﯿﮟ دنﯿا کی مﺮدوں
ایک اور پہﻨﭽﯿﮟ پﺮ عﺮوج بام پﺮ ﻃﻮر کے بﯿﻮی پﺴﻨﺪیﺪﮦ کی جہانگﯿﺮ اور داں سﯿاسﺖ زیﺮک ایک سے محﺮ کے بادشاﮦ
کی۔ حکﻮمﺖ پﺮ سلﻄﻨﺖ مغﻞ ﻃﺮح کی سلﻄان شﺮیک
بﻨﯿﮟ؟ کﯿﺴے ﻃاقﺘﻮر اتﻨی جہاں نﻮر آخﺮ تھﯿﮟ رکھﺘی دخﻞ ہی نادر و شاذ مﯿﮟ کام کے حکﻮمﺖ خﻮاتﯿﻦ جﺒکہ مﯿﮟ ایﺴے
جہانگﯿﺮ کے ساتﮫ خاص ،ورک ان کے گﺮد ان کے حامی مﺮد و زن کے نﯿﭧ ،پﺮورش کی ان تک حﺪ بہﺖ سہﺮا کا اس
ہے۔ ان کی جاﮦ ﻃلﺒی اور ان کے وﻃﻦ اور ان کے لﻮگﻮں کے سﺮ جاتا ،تعلق
تکﺜﯿﺮت کی ہﻨﺪ اور تھے پکارتے سے نام کے ہﻨﺪ کﻮ خﻄے اس والے پار کے دریا سﻨﺪھ لﻮگ کے فارس اور عﺮب
کﯿا۔ مﺬاہﺐ اور روایات کﻮ ایک ساتﮫ قائﻢ رہﻨے کا مﻮقع فﺮاہﻢ ،حﺴﯿات ماالمال اور روادار تہﺬیﺐ نے مﺨﺘلﻒ ،پﺴﻨﺪ
(آج کے افغانﺴﺘان )کے ایک معﺰز ایﺮانی گھﺮانے مﯿﮟ پﯿﺪا ہﻮئﯿﮟ جﻨھﻮں نے صفﻮی دور قﻨﺪہار مﯿﮟ 1577جہان نﻮر
مﯿﮟ بﮍھﺘی ہﻮئی عﺪم رواداری کے نﺘﯿﺠے مﯿﮟ اپﻨا ملک چھﻮڑ کﺮ زیادﮦ روادار مغﻞ سلﻄﻨﺖ مﯿﮟ پﻨاﮦ لﯿﻨے کا فﯿﺼلہ کﯿا
تھا۔
حکﻮمﺖ مغﻞ پہلے کی جہاں نﻮر والی چﮍھﻨے پﺮوان مﯿﮟ روایﺖ مﺨلﻮط کی وﻃﻦ نﺌے اپﻨے اور ملک کے والﺪیﻦ اپﻨے
وﮦ اپﻨے شﻮہﺮ کے ساتﮫ مﺸﺮقی ہﻨﺪ کے امﯿﺮ صﻮبے بﻨگال ہﻮئی۔ شادی مﯿﮟ 1594سﻨہ سے شﯿﺮافگﻦ کار اہﻞ ایک کے
ہﻮا۔ پﯿﺪا بﭽہ واحﺪ کا ان جہاں گﺌﯿﮟ ہﻮ مﻨﺘقﻞ
اسے کﻮ گﻮرنﺮ کے بﻨگال نے بادشاﮦ تﻮ ہﻮا پﯿﺪا شﺒہ کا ہﻮنے شامﻞ مﯿﮟ سازش خالف کے جہانگﯿﺮ پﺮ شﻮہﺮ کے ان جﺐ
گﯿا۔ لﯿکﻦ نﻮر جہاں کا شﻮہﺮ گﻮرنﺮ کے آدمﯿﻮں کے ساتﮫ تﺼادم مﯿﮟ مارا دیا۔ حکﻢ کﺮنے پﯿﺶ مﯿﮟ آگﺮﮦ دربار اپﻨے
کﺮنا تعﺮیﻒ کی ان اور کﺮنا اعﺘﻤاد پﺮ ان نے خﻮاتﯿﻦ دوسﺮی جہاں ملی پﻨاﮦ مﯿﮟ حﺮم کے انگﯿﺮجہ کﻮ جہاں نﻮر بﯿﻮﮦ
ہﻮئﯿﮟ۔ نﻮر جہاں نے جہانگﯿﺮ سے سﻨہ 1611مﯿﮟ شادی کی اور وﮦ اس کی 20ویﮟ اور آخﺮی بﯿﻮی دیا۔ کﺮ شﺮوع
اپﻨے بعﺪ کے 1614سﻨہ نے ہانگﯿﺮج لﯿکﻦ تھا جاتا کﯿا درج ذکﺮ کا خﻮاتﯿﻦ کﻢ بہﺖ مﯿﮟ ریکارڈ درباری کہ چﻨﺪ ہﺮ
اور انھﻮں نے نﻮرجہاں کا تﻮصﯿفی کﯿا۔ شﺮوع کﺮنا ذکﺮ کا رشﺘے مﺨﺼﻮص اپﻨے ساتﮫ کے جہاں نﻮر مﯿﮟ روزنامﭽے
ایک اچھی ،والی ایک ماہﺮ مﺸﻮرﮦ دیﻨے ،ہﯿﮟ ایک شانﺪار خﯿال رکھﻨے والی ،ہﯿﮟ ساتھی حﺴاس وﮦ کہ کﯿا پﯿﺶ خاکہ
ہﯿﮟ۔ سفﯿﺮ اور فﻦ کی پﺮسﺘار ،شکاری
کی دیﻨے تﻮجہ پﺮ حکﻮمﺖ جﺴے تھا شکار کا لﺖ مﺮیﻀانہ کی شﺮاب جہانگﯿﺮ کہ ہے خﯿال کا دانﻮں تاریخ سے بہﺖ
لﯿکﻦ اس مﯿﮟ تھی۔ دی سﻮنﭗ مﯿﮟ ہاتھﻮں کے جہاں نﻮر عﻨان کی حکﻮمﺖ اپﻨی نے اس لﯿے اسی اور تھی نہﯿﮟ ﻃاقﺖ
ہے۔ نہﯿﮟ صﺪاقﺖ مکﻤﻞ
تھا۔ یہ بھی درسﺖ ہے کہ وﮦ اپﻨی بﯿگﻢ سے بہﺖ مﺤﺒﺖ کﺮتا تھا۔ اڑاتا دھﻮاں کا افﯿﻢ اور تھا بالنﻮش بادشاﮦ کہ ہے سچ یہ
در اصﻞ نﻮر جہاں اور جہانگﯿﺮ ایک دوسﺮے کﻮ ہﯿﮟ۔ نہﯿﮟ وجﻮہات کی بﻨﻨے حکﻤﺮاں اہﻢ ایک کے جہاں نﻮر یہ لﯿکﻦ
ہﻮا۔ نہﯿﮟ مﻄﻤﺌﻦ ﺮغﯿ کﺒھی سے بﻮجﮫ کے ہﻮنے حکﻤﺮاں شﺮیک کے بﯿگﻢ اپﻨی بادشاﮦ اور تھے کﺮتے مکﻤﻞ
ان کے کﯿا۔ جاری فﺮمان شاہی ایک لﯿے کے تﺤفﻆ کے زمﯿﻦ کی مالزم ایک اپﻨے نے جہاں نﻮر بعﺪ فﻮرا کے شادی
تھا۔ اور یہ ان کی مﻄلق العﻨانی اور ان کے اخﺘﯿارات مﯿﮟ تﺮقی کی عالمﺖ تھا۔ لکھا ' بﯿگﻢ پادشاﮦ نﻮرجہاں ' مﯿﮟ فﺮمان
دربار کے لگا۔ ہﻮنے کﻨﺪﮦ بھی نام کا ان ساتﮫ کے نام کے جہانگﯿﺮ پﺮ سکﻮں کے چانﺪی اور سﻮنے مﯿﮟ 1617سﻨہ
لگے۔ تﺠار اور درباری جلﺪ ہی ان کی اہﻤﯿﺖ کﻮ مﺤﺴﻮس کﺮنے ،سفﯿﺮ غﯿﺮملکی ،نﻮیﺲ واقعہ
لﻮگﻮں آکﺮ پﺮ باالخانے شاہی مﺨﺼﻮص لﯿے کے مﺮدوں نے انھﻮں ﻃﺮح کﺲ کہ کﯿا بﯿان واقعہ ایک نے درباری ایک
نہﯿﮟ۔ یہ ان کی حکﻢ عﺪولی کی واحﺪ مﺜال دیا۔ کﺮ حﯿﺮان کﻮ
سﺮکاری عﻤارات ڈیﺰائﻦ کﺮنا ہﻮ یا غﺮیﺐ خﻮاتﯿﻦ کی امﺪاد کے ،ہﻮ یا شاہی فﺮمان اور سکے جاری کﺮنا ،ہﻮ کﺮنا شکار
ﺮغﯿ لﯿے لﯿے کے خﻮاتﯿﻦ کی وقﺖ اس جﻮ گﺰاری زنﺪگی ایﺴی نے جہاں نﻮر ہﻮ اٹھانا آواز کی پﺴﻤانﺪوں یا ہﻮ کﺮنا کام
تھی۔ معﻤﻮلی
تھا کام واال ہﻤﺖ ایﺴا کہ جﻮ کی بھی قﯿادت کی فﻮج لﯿے کے بﭽانے کﻮ ان بعﺪ کے جانے کﯿے قﯿﺪ کے بادشاﮦ نے انھﻮں
گﯿا رﮦ کﺮ ہﻮ نقﺶ مﯿﮟ تاریخ اور یادداشﺖ کی عﻮام نام کا ان سے جﺲ
اردو ایکسپریس
Toggle navigation
نورجہاں ملکہ مقبرہ
2015اگست 30اتوار بشیر مدثر
فائل :فوٹو ہیں۔ ملتے کو دیکھنے جات نمونہ کے کاری کاشی کہیں کہیں میں دیواروں بیرونی کی مقبرے
فائل :فوٹو ہیں۔ ملتے کو دیکھنے جات نمونہ کے کاری کاشی کہیں کہیں میں دیواروں بیرونی کی مقبرے
تاریخ جہاں نور ملکہ کا۔ جہاں نور ملکہ طاقتور انتہائی کی سلطنت مغل تھا کہنا یہ ‘‘ہے لیا خرید الہور سارا نے میں’’
جاتی جانی سے حیثیت الگ ایک میں خواتین کی دور ہر اور ممالک کے بھر دنیا بلکہ ہندوستان صرف نہ پر اوراﻕ کے
ہیں۔
بھی سے سکے اپنے کے بادشاہ قیمت کی سکے اس گیا۔ کیا جاری بھی سکہ کا نام کے ان میں عہد کے جہانگیر شہنشاہ
کا شہرت کی جہاں نور تھا۔ ہوتا ہاتھ کا ہی جہاں نور پیچھے کے فیصلے اہم ہر کے بادشاہ میں جہانگیری عہد تھی۔ زائد
۔ ہے ہونا بھی کردار مرکزی کا عشق افسانوی کے زندگی کی جہانگیر سبب ایک
تھے فائز پر عہدوں اہم انتہائی دار رشتے قریبی کے ملکہ باعث کے رسوخ اثرو کے جہاں نور میں سیاست کی دربار
گورنری کی بنگال اور ساالری سپہ ،عظمیً وزارت رہا۔ جاری دخل عمل زیادہ بہت میں دربار مغلیہ کا ایران اہل اور
عطا خطاب کا النساء صدر کو دائی کی ملکہ کہ تک یہاں تھی۔ میں قبضے کے داروں رشتے قریبی کے جہاں نور تک
۔ گیا کیا
۔ ہے دیتی دکھائی مانند کی کہانی کی فلم ہندوستانی بھی کسی وہ تو جائے دوڑائی نظر پر زندگی ابتدائی کی جہاں نور
تعلق سے خاندان معزز انتہائی ایک کے تہران شہر کے ایران جوکہ تھا بیگ غیاث مرزا نام کا والد کے جہاں نور
تھے۔ جاتے کیے شمار میں شخصیات معزز کی شہر جوکہ تھا شریف محمد خواجہ نام کا والد کے ان ۔ تھے رکھتے
انہیں باعث کے حاالت تنگئی کہ تک یہاں گئے ہوتے تبدیل سے تیزی حاالت کے بیگ غیاث مرزا بعد کے وفات کی ان
بیوی حاملہ بمعہ اور بیٹی ایک ،دوبیٹوں اپنے بیگ غیاث مرزا ۔ پڑی کرنا ہجرت جانب کی ہندوستان سے ایران مجبوراً
نام کا اس اور دیا جنم کو لڑکی ایک نے بیوی کی ان قریب کے قندھار مطابق کے روایات ہوئے۔ روانہ کو ہندوستان کے
ثابت سچ میں دنوں والے آنے معنی یہ اور ہیں کے ‘‘سورج کا عورت’’ معنی لفظی کے مہرالنساء رکھا۔ مہرالنساء
۔ ہوئے
چاہتی بنانا تخت والی کو شہریار بیٹے کے جہانگیر نورجہاں ۔ چھڑگئی جنگ کی جانشینی میں ایام آخری کے جہانگیر
جوکہ تھا چاہتا بننا خرم شہزادہ وارث کا تخت جانب دوسری تھا۔ بھی شوہر کا بیگم الڈلی بیٹی اکلوتی کی ان جوکہ تھیں
تھا۔ شوہر کا محل ممتاز بھانجی اور داماد کا جاہ آصف بھائی کے ہی جہاں نور
کا دولت بے نے جہانگیر کو اس تھا مال خطاب کا جہاں شاہ کو جس خرم شہزادہ سبب کے کوششوں کی جہاں نور
سالئیاں میں آنکھوں کی شہریار سبب کے کوششوں کی ان تھے شخص گر بادشاہ ایک جوکہ جاہ آصف اور دیا خطاب
یا انسان قسمت خوش انتہائی کے دنیا ہی ہوتے پیدا شہزادے میں عہد مغل گیا۔ کردیا قتل بعدازاں اور گئیں دی پھیر
کی سنبھالنے کو حاالت نے جاہ آصف ہوا۔ پر تختہ یا ہوا پر تخت یا انجام کا ان کیونکہ ٹھہرے انسان بدقسمت انتہائی
پانے قابو مکمل پر سلطنت امور کیا۔ نہ گریزاں بھی سے ڈالنے میں قید کو جہاں نور بہن محسن اور سگی اپنی خاطر
کردیا۔ آزاد کو ملکہ ساتھ کے احترام انتہائی نے جہاں شاہ بعد کے
کے گزارنے کرلی۔زندگی کشی کنارہ پر طور مکمل سے مملکت امور نے جہاں نور بعد کے موت کی داماد اور شوہر
الکھ دو لیے کے ان احترام بصد نے جہاں شاہ لیکن ۔ تھی کافی ہی جائیداد چھوڑی کی شوہر اور باپ کے جہاں نور لیے
تھی۔ رقم ترین کثیر ایک کی عہد اس جوکہ کیا مقرر وظیفہ ساالنہ روپیہ
لڑکیاں سینکڑوں اور کیا کام بہت لیے کے بہبود کی لڑکیوں یتیم اور غریب نے جہاں نور بعد کے امور سلطنت ترک
جہاں نور بیاہیں۔ سے ہاتھ اپنے، اور رہیں زندہ تک برس اٹھارہ بعد کے وفات کی جہانگیر72 وفات میں عمر کی برس
میں کتب کچھ کی تاریخ ۔ پائی29 شوال1055 بمطابق ھ1645شنبہ بروز الثانی ربیع ماہ میں کتب کچھ اور ہے ء
1055 بمطابق ھ28 مئی1645بیٹی اپنی کی ان گیا۔ کیا دفن میں مقبرے کردہ تیار کے انہی میں الہور انہیں ہے۔ ء
ہوئیں۔ دفن میں مقبرے ایک جگہ ہی ایک بیٹی ماں دونوں ۔ تھی انمٹ بھی محبت سے بیگم الڈلی
Feminism In India
Home History
Nur Jahan
Nur Jahan: The Unfettered Mughal Empress | #IndianWomenInHistory
By Aqsa Khan - June 15, 20171883 0
Subscribe to FII's WhatsApp
Nur Jahan was the wife of Mughal Emperor Jahangir, and the most popular Mughal
Empress. Rising from hard circumstances, she eventually became the de-facto ruler of
the Mughal empire on her own worth. Her contribution in art, literature, the societal and
cultural conventions of the time raised the Mughal empire to its peak. She is perhaps the
first, and only Mughal empress who played a more important role in governance, than
the king himself. Her life and works have deeply interested historians due to their
flamboyant nature.
Nur Jahan was born on the 31st of May, 1577 in a caravan near Qandahar while the
family was travelling from Afghanistan to Mughal India to seek a better fortune in King
Akbar’s court. Her parents, Mirza Ghiyas Beg and Asmat Begum, named her Mehr-un-
nissa or ‘Sun among the women’ with hopes that the new born child would bring a better
luck for the family. Her father, for his sagacious skills was appointed the diwan
(treasurer) for the province of Kabul, and soon rose amongst ranks and won the title of
Itimad-ud-Daula or ‘Pillar of the State’ by the emperor himself.
Mehr-un-nissa grow up in the women’s quarters of the courts, learning Arabic and
Persian literature, arts, music, architecture etc. Sources of the time portray her as
intelligent, vivacious, and alluring.
As was the tradition of the time, Mehr-un-nissa was married to Ali Quli at the young age
of 17. He was an adventurous Persian who served in the army under King Akbar, and
later Jahangir, and was called Sher Afghan Khan or Tiger-slayer for his sharp shooting
skills. Soon after her marriage, Mehr-un-nissa learned these skills too. She later became
the best markswoman in Jahangir’s escort.
In 1605, she had her only child with Ali Quli, a daughter named Laadli Begum, whom
she loved dearly. Two years after this, Sher Afghan Khan was killed. The circumstances
of his death are controversial. While some believe that Jahangir had fallen in love with
Mehr-un-nissa and so got her husband killed, other historians deny any such romantic
development till after Sher Afghan’s death. A tomb, still in existence in Puratan Chowk in
Burdwan district in West Bengal, says that Ali Quli met Qutubuddin Koka in battle, in
which both of them died.
In 1611, Mehr-un-nissa got married to the emperor Jahangir in a relationship that was
looked at by many as an emblem of love and affection. It was believed by many
historians that Jahangir wanted to marry her even before her marriage with Sher Afghan,
but Akbar disapproved of the match and subsequently arranged for her marriage with
her first husband. However, more modern scholarship denies any such complications
and owes it to fictional stories and gossips. What remains known though, is the affection
between Jahangir and his newly wed wife, whom he lovingly gave the title of Nur Mahal
(light of the palace) at the time of their wedding, and later the title of Nur Jahan (light of
the world).
Within the first few months of her marriage, Nur Jahan easily seized the reins of the
empire. Jahangir’s love for drinking and opium, and disinterest in administration made
the Empress responsible for administration and ruling, which Nur Jahan did without any
hesitation. Having had her family members in the administration, she was not new to the
power of the throne, and her efficiency in the imperial realm made her worthiness of
power quite clear. Her authority marked a new landmark of peace and prosperity in the
history of the Mughal Empire.
Also read: Razia Sultan: The First and Last Woman Ruler of Delhi Sultanate
Nur Jahan’s accomplishment as the empress is well-recorded. It is also agreed that she
played a conscious role in leaving a mark in history. The addition of her name as ‘Nur
Jahan, the Queen Begum’, in all letters and grants sent with the emperor’s name, and
the advent of the coins minted with her names are a few examples.
Nur Jahan took special interest in the state of women, particularly orphan girls in her
kingdom. She held informal courts where she would discuss issues and pass verdicts on
petitions from court nobles. To consolidate the power of the empire, she also appointed
her father and brother in the court positions and got her daughter (Laadli) and niece
(later, Mumtaz Mahal), to marry Jahangir’s sons from his previous wives. Though she
lent power to her family and ensured the succession of the Mughal Empire in known
hands, she never did so at the expense of the sanctity of the empire.
Coins minted in Nur Jahan's name.
Coins minted in Nur Jahan’s name [Image: Wikipedia.com]
Nur Jahan traded with European merchants, and collected taxes from foreign traders.
She even held international diplomacy with other women of different countries.
Alexander Dow, an official of the East India company is known to have said, ‘Nur Jahan
stood forth in public; she broke through all restraint and custom, and acquired power by
her own address, more than by the weakness of [her husband] Jahangir.’ Nur Jahan
was aware of her unconventional ways of ruling, and the limits to her power, and made
sure to never compromise with the integrity of the empire.
NUR JAHAN HAD UNCONVENTIONAL WAYS OF RULING AND SUCCESSFULLY
PREVENTED MANY REBELLIOUS UPRISINGS
She was also known for her adept military mind, and dealt successfully with many rebel
uprisings. When Emperor Jahangir was captured by the rebel leader Mahabat Khan, Nur
Jahan herself led the army to rescue him. When she was captured too, she skillfully
arranged for her escape and raised an army right under the scrutiny of her captive.
Along with the strong military persona of Nur Jahan, there was another side to her
marked by aesthetic values. She played a major role in reforming and developing the
arts, literature and clothing of the time period. She built her father’s mausoleum in Agra,
an exquisite marble structure that lay the precedence of the Taj Mahal. Jahangir’s tomb
in Lahore, which he set in construction during his lifetime was completed by Nur Jahan
after the Emperor’s death. She also built several mosques and gardens, like the Shah
Dara (Royal Threshold) in Lahore which surrounds her husband’s tomb. Her interest and
talents also extended to literature and paintings. Well versed in Arabic, she wrote under
the pseudonym of Makhfi (the concealed one).