Professional Documents
Culture Documents
Khoon Baha by Zarish Noor
Khoon Baha by Zarish Noor
خون بہا
لق
از م زرش نور
مک م
ل ناول
ناول بینک و یب پر شا ئع ہونے والے تمام ناولز کے جملہ و حقوق تمعہ مصنفہ کے نام
محقوظ ہے۔ خالف ورزی کرنے والے خالف قانونی خارہ خونی کی خا شکتی ہے۔ اگر آپ
ایتی تحرپر ناول بینک پر شا ئع کروانا خا ہتے ہیں نو اردو میں نایپ کر کے ہمیں سینڈ
کردیں۔ آپ کی تحرپر ناول بینک و یب پر شا ئع کردی خانے گی۔
E-mail : pdfnovelbank@gmail.com
WhatsApp : 92 306 1756508
اور رونی نلکتی ماں اور بہبوں کو دنکھ کر تھی اس کی آنکھ میں سےانک آپسو تھی پہ ی نکا۔اس
نے ماں کا سر خوما اور بہبوں کے سر پر ہاتھ رکھ وہ گاٶں کے کچھ اور لوگوں کے شاتھ
ناپ کی م یت کو کندھا دنا اور ندفین کے لٸے لے گٸے۔
ندفین کے ئعد وہ ڈھیرے پرآ گنا تھا ۔چہاں اس کے ناپ کے کچھ خاص لوگ شامل
تھے۔
سردار صاچب اب آگے کنا کریں گے ۔ س نا ہے سردار شلظان مچمد نے ا یتے بیتے دراب
کو شہر تچھوا دنا ہے۔
سب نےاینات میں سرہالنا اور ایتی یندوفیں کندھوں پر ڈا لتےہوۓ ناہر ئکل گٸے۔
نور خان تم بہی رکو۔اس کی آواز پروہ انک شاٸنڈ کو مودب شا کھڑا ہو گنا۔
کافی دپر کی خاموسی کے ئعد زرغام کی آواز گوتچی ”نور خان ئفصنل سے یناٶ ۔کنا ہوا تھا
“وہاں؟
گاڑی میں سے واٸٹ کلر کے قم نض شلوار مں ملبوس ناٶں میں چنل اڑسے سردار
زرغام غلی خان اپرا ۔غالقے کی کہیں لڑکناں اس پہ مرنی تھی۔لنکن وہ کسی کی طرف آنکھ
اتھا کر تھی بہیں دنکھنا تھا۔
وہ سردار اغلی شلمان ناشا کے قریب رکھی چٸپر پر بیتھ گنا۔
اس نے ا یتے شا متے بیت ھے مچمعے پر انک ئظر ڈالی اور تھر اس کی ئظر شلظان مچمد کے
ئعل میں کھڑی ز ی یب شلظا ن پر نک گٸی۔خو نے ینازسی ایتی کالٸی میں یندھی
واچ کو کھول اور یند کر رہی تھی۔
اس نے ایتی ماں کی طرف دنکھا اور اس نے تھی بیتے کی مخیت میں ئظریں ت ھیر لیں۔
جس نے آپسو سے لیرپز اس کی آنکھوں میں دنکھا اور تھر کچھ کہتے کے لٸے لب وا
ی ھ ت
کتے لنکن کچھ سوچ کر ہویٹ یچ لٸے۔
آنا قانا وہاں مولو ی صاچب کو نالنا گنا اور ز ی یب شلظان کو تھاٸی کی خان کے غوض ییچ
دنا گنا۔
وہ زی یب شلظان سے زی یب زرغام غلی خان ین گٸی۔
ئکاح ہونے ہی زرغام غلی خان ایتی خگہ سے کھڑا ہو گنا ۔اور انک ئظر زی یب شلظان پر
ڈال کر وہ دراب خان کے پراپر آ کر کھڑا ہو گنا۔اور تھر وہ ہوا خو کسی نے سوخا تھی بہیں
تھا۔
سب نے پس دراب خان کو ییچے گرنے دنکھا تھا۔اور سب کی ئظریں زرغام غلی خان کے
ہاتھ میں موخود پسنل پر تھی۔جس میں سے جھے قاٸر ہوۓ ت ھے۔اور اس نے جھے کی
جھے گولناں دراب خان کے سیتے میں انار دیں تھی۔سب ششدر سے کھڑے ہو
گٸے۔ شلظان مچمد تیزی سے زرغام غلی خان کی طرف پڑھا اور اسے گرینان سے
نکڑنا خاہا لنکن زرغام غلی خان نے ییچ میں ہی اس کے ہاتھ نکڑ لٸے۔
شلظان مچمد خان اس نے چنا چنا کر لفظ ادا کتے۔میں سردار زرغام غلی خان ہوں خو ا یتے
ق نصلے خود کرنا ہے۔ایتی بیتی تم نے خون بہا میں دی ہے اور تمہارے بیتے کی دوسری
سزا اتھی نافی تھی خو میرے ناپ نے اور اس جرگےنے طہ کی تھی۔اس کے شاتھ ہی
شلظان مچمد کی خونلی میں انک کہرام پرنا تھا۔ اس کی ماں بین ڈال رہی تھی۔اس کا جھونا
تھاٸی ماں اور بہن کو آپسو بہانے دنکھ رہا تھا۔ زی یب شلظان نو چیران تھی کیسے سخت
دل سحص سے اس کائکاح ہوا تھا۔جس نے اس کے تھاٸی کی خان لیتے سے بہلے
انک نل کے لٸے تھی سوخا بہیں نو وہ اس کے شاتھ کناکرےگا۔ا یتے خوان
تھاٸی کو ایتی آنکھوں کے شا متے دم نوڑنے دنکھ کر اس کے دل میں اس سحص کے
لٸے نےتچاشہ ئفرت اتھر ی تھی۔
چب اس کا ناپ ا یتے خوان بیتے کے چنازے کو کندھا دے رہا تھا ،نو وہ ایتی ماں سے
لیٹ کر تھوٹ تھوٹ کر رو دی۔
وہ خونلی میں داخل ہوا نو اس کی ماں اجڑے خلتے نکھرے نالوں سے اس کے آگے
کھڑی تھی۔
زرغام یناٶ ا یتے نانا خان کے خون کا ندلہ لنا ہے کہ بہیں؟
کنا کنا ہے؟ ابہوں نے امند تھری ئظریں سے ا یتے کڑنل خوان بیتے کو دنکھا۔
اس کی ماں نے شاکی ئظروں سے اسے دنکھا اور ا یتے گھیبوں پر ر ک ھے اس کے ہاتھوں کو
جھنکے سے پرے دھکنال۔
وہ اتھ کر ماں کے پراپربیتھ گنا اور ابہیں ا یتےحصار میں لے کر ا یتے سیتے کی طرف اشارہ
“کرنے ہوۓ نوال ”ا یتے پسنل کی جھے کی جھےگولناں اشکے سیتے میں انار کر آ رہاہوں۔
ا پسے سحص کو دی نامیں رہتےکا کوٸی خق بہیں تھا ۔
امو خان !آپ کو کنا لگا آپ کا بینا پزدل ہے خو ا یتےناپ کی ئعش پہ ئکاح کر کےآۓگا۔
میں نو ا یتے دشمبوں کو دوہری سزا د ینا خاہ نا ہوں۔ وہ ا یتے بیتے کے لٸے تھی
روۓگا اور بیتی کے لٸے تھی۔
لنکن زرغام اس لڑکی کاکوٸی قصور بہیں تمہیں اس کے شاتھ اپشا بہیں کرنا خاٸنے
تھا۔
اور انکی نات پر وہ خاموش ہو گنا۔ایتی ماں کی نات کو وہ مر کر تھی رد بہیں کر شکنا تھا۔
اسےدینا مں سب سے زنادہ مخیت ایتی قتملی سے تھی۔اور ان کے لٸے وہ کسی تھی
خد نک گزر شکنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نو میرا شیر بینا ہے تچھے پڑے ہو کر ارزغام غلی خان سے ا یتے تھاٸی کا ندلہ لینا
ہے۔میں زندہ رہوں نا پہ رہوں لنکن تم نے اسے ا یتے ناپ کی آجری خواہش شمچھ کر نورا
کرنا ہے۔
پہ سب سیتی زی یب آگے پڑھی اور معداد کو ایتی نابہوں میں تھر لنا۔
ہاں تھنک کہہ رہی ہے نو سب سے بہلے نو میں تیرا ی ندوپست کرنا ہوں۔بہت خلتے لگی
ہے تیری زنان ،نو اینا شامان ینک کر لے کل صیح سورج طلوع ہونے سے بہلے نو بہاں
سے اشالم آناد ایتی تھتھو درداپہ کے ناس بہیچ خاۓ گی۔اور وہیں وہ تیرا ئکاح ا یتے بیتے
شفیر سے کروا دے گی ۔اور تیرا نوجھ نو میرے سیتے سے انارےگی۔ینیناں ناپ کے کام
آنی ہیں اور نو ناکارہ کمیخت کہیں کی میرے بیتے کو کھا گٸی۔
میں نے کنا کنا ہے نانا ؟ اور پہ آپ کنا کہہ رہے ہیں میرا ئکاح ہو حکا ہے۔آپ ئکاح پہ
ئکاح کرواٸیں گے پہ نو بہت پڑا گناہ ہے۔
چناخ ۔۔۔۔۔کی آواز کے شاتھ انک زوردار ت ھیڑ اس کے میہ پر پڑا تھا اس کا ہویٹ کا
کنارہ ت ھٹ گنا تھا ،جس میں سے خون کی یتھی یتھی نوندیں ئکل کر اس کی تھوڑی پر بہیچ
آٸی تھیں۔
شلظان مچمد نے آگے پڑھ کر اس کے نالوں کو متھی میں خکڑ لنا ،چیردار اگر اس ئکاح کا
نام تھی لنا نو میں تیرے نکڑے نکڑے کردوں گا۔
پزاکت اس لڑکی کو لے کر اتھی کہ اتھی ئکل خاٶ ناکہ صیح ہونے نک پہ اشالم آناد بہیچ
خاۓ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے تچھال بہر تھا۔ہر طرف ہو کا غالم تھا۔وہ ا یتے مخ نصر سے شامان کے شاتھ اشال م
آناد کے لٸے رواں دواں تھی۔گاڑی تیزی سے آگے پڑھ رہی تھی یتھرنلی سڑک
ہونے کی وجہ سے گاڑی ہچکولے کھانی خل رہی تھی۔
زی یب شلظا ن خاموسی سے آپسو بہانی ا یتے ئصیبوں پر ماتم کناں تھی۔
وہ ا یتے چنالوں سے اس وقت ئکلی چب انک اور گاڑی کی ہنڈ الٸپس اس کی آنکھوں پر
پڑی اور ڈراٸنور نے گاڑی انک جھنکے سے روک دی۔
کون ہے پزاکت ؟
!اشالم آناد
اور ہاں میں خاینا ہوں اپشا وقت آۓ گا ۔اسی لٸے دے رہا ہوں ۔اس نے اشکی
متھی کھول کر اس میں وہ کارڈ رکھتے ہوۓ اس کے چہرے پر انک گہری ئظر ڈالی اور دروازہ
یند کرنا ہوا ایتی گاڑی کی طرف مڑ گنا۔
گاڑی انک شاٸنڈ پہ کر کے ا ستے ان کی گاڑی کو گزرنے کی خگہ دی ۔اور گاڑی ناس سے
گزرنے پر زی یب کو ہاتھ کے اشارے سے کال کرنےکی ناد دہانی کرواٸی۔
اس کی آنکھ کھلی نو سورج اور نادلوں میں آنکھ مچولی خاری تھی۔
اس نےوقت دنکھا نو صیح کے شات تج رہے تھے۔۔وہ ئفرینا ناتچ گھیتے سوٸی تھی۔
پزاکت دل جمعی سے ڈراٸنونگ کر رہا تھا۔
پزاکت کینا راسیہ رہ گنا ہے؟
پس نی نی جی !ہم لوگ اشالم آناد کی خدود میں داخل ہو خکے ہیں ۔انک گھیتے میں ہم
لوگ بہیچ خاٸیں گے۔
انک گھر کے شا متے گاڑی روک کر ڈراٸنور ییچے اپرا اور شا متے یتےگارڈز کے کنین میں
تھوڑی دپر گفت وسیند کے ئعد لوٹ آنا اور آ کر ڈرا ٸنونگ سیٹ سیتھال لی۔
وہ مرے قدموں سے ییچے اپری نو شا متے ہی الن میں شفیر اور درداپہ ینگم بیت ھے تھے۔
وہ دونوں اسے دنکھ خکے تھے،لنکن دونوں میں سے کسی انک نے تھی کھڑے ہونے کی
صرورت محسوس بہیں کی۔
غ
اشالم لنکم تھتھو !اس کے شالم کے خواب میں درداپہ ینگم دوسری طرف میہ کر کے
بیتھ گٸی۔چنکہ شفیر نےروکھا شا خواب دنا۔
ہمم !چیر ملی تھی مچھے تم نو دشمن کے بیتے سے ئکاح کر کے آرہی ہو۔
ارے تیرے نو پڑے پر ئکل آۓ ہیں۔ میرے میہ پہ ا پسے تھ نکار کے نول رہی ہے۔
ت ت ھ ت
زی یب نے چیران ئظروں سے اس غورت کو دنکھا خو رستے میں اس کی ھی ھی۔
جی جی ینگم صاچیہ !اس لڑکی کا شامان اندر لے خاکر گیسٹ روم میں رکھ دو ۔
ب
وہ دروازے پر دسنک دے کر اندر داخل ہوا نو زاٸرہ ینگم خاۓ تماز پر یتھی تھیں۔۔وہ
م
خاموسی سے ینڈ پر بیتھ گنا اور انکی تماز کمل ہونےکا ای نظار کرنےلگا۔
ن
زرغام غلی خان نے آ یں یند کر یں۔
ل ھ ک
ک ھ کن تیب
چب وہ اس کے پراپر ھی نو وہ اس نےآ یں ھول دیں۔
زرغام ابہوں نے نے ئقیتی سے بیتے کو دنکھا۔ تم ایتی ماں اور بہبوں کو اکنلے جھوڑ کر خا
رہے ہو۔
میں آپ کے ناس اسی لٸے آنا ہوں ۔میں خاہنا ہوں آپ لوگ میرے شاتھ خلیں
۔۔۔
لنکن امو خان مچھے اس سب میں کوٸی اتیرسٹ بہیں ہے۔پہ پشل در پشل خل رہیں
دشمیناں خون جراپہ۔
ایتی طالم کبوں ین رہی ہیں آج خو نات میں سوچنا تھی بہیں خاہنا ،آپ وہ میرے میہ
سے کہلوانا خاہتی ہیں۔
!زرغام کبوں
ایتی نےعزنی کا ندلہ لینا خا ہتے ہو تم زرغام غلی خان وہ تم سے بہت جھونی ہے اور وہ
کچھ تھی بہیں خایتی۔
نو اسے خاینا ہو گا ۔۔۔۔کہ اشکی زندگی کو میں چہتم یناٶں گا۔حیسے میری زندگی چہتم یتی
ہے۔
زرغام کمزوروں سے ندلہ بہیں لیتے۔
وہ کمزور نو بہیں ہے امو خان قاٸقہ شلظان کی بہن ہے۔اس کے حیسے ہی ہو گی۔
ہاں ہیں لنکن میری بہنیں قاٸقہ شلظان حیسی بہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ت ہ ب ش گ ن ی م گ ت تیم ب
وہ اس وقت الٶ تج یں ھی ھی ،ھر یں درداپہ م اور فیر دونوں ہی یں ھے۔
تیب
اشلٸنے وہ نوری آزادی سے ھی ہاتھ یں ڈراۓ قروٹ کی پرے لٸے ل
ن یح م
سرچ کر رہی تھی۔چب انک سحصیت کو دنکھ کر اس کا ہاتھ رک گنا۔
چہاں یبوز کاشیر کہہ رہی تھی۔
آٸنے ہم آپ کو اشالم آناد لٸنے خلتے ہیں چہاں اس وقت ناکسنان سے نوبیسف
کے نورڈ آف ڈاٸرنکیرز کے شاٶتھ اپسین ہنڈ
ZAK
نلنک کلر کے تھری بیس سوٹ میں ملبوس ،ہاتھوں میں قاٸلز نکڑے وہ بہت
ک نفنڈپس سے آ کر سب کو شالم کرنا ہوا چٸپر سیتھال رہا تھا۔
زرغام غلی خان نے مشکرا کر اس شمت دنکھاجس طرف سے سوال آنا تھا ۔
جی آپ نے صیح سنا ہے ،میں ا یتے عہدے سے مسنعفی ہو رہا ہوں۔
جی کچھ تچی مشاٸل کی وجہ سے میں پہ خاب خاری بہیں رکھ شکنا۔
ن
وہ اور تھی بہت کچھ کہہ رہا تھا۔اور زی یب شلظان آ کھیں تھاڑے ،میہ کھولے پہ سب
دنکھ رہی تھی۔وہ مناپر کن اور چیران ئظروں سے اسے دنکھ رہی تھی۔خو ا یتے غالقاٸی
خلتے میں نو خوئصورت لگنا تھا لنکن آج اسے ماڈرن ڈرپس میں دنکھ کر وہ بہت ہی مناپر
ئظر آ رہی تھی۔
یتھی اس کے موناٸل پر رنگ ہوٸی۔اس نے تمیر د نکھے ئغیر کال رپسبو کی۔
زیتی پہ میں کنا سن رہی ہوں ؟ تم نے اس زرغام غلی خان سے ئکاح کر لنا ہے۔خایتی
ہو وہ بہت پڑا کمییہ ہے۔تم بہیں خایتی ز یتی اس نے میرے شاتھ کنا کنا تھا۔
زی یب نے موناٸل کان سے ہنا کر اسے گھورا حیسے موناٸل کی خگہ قاٸقہ شلظان اس
کے شا متے ہو۔
آنی کنا اس لٸے آپ نے مچھے ا یتےعرصے کے ئعد کا ل کی ہے۔
آجھا نانا نے آپ کو پہ بہیں ینانا کہ ابہوں نےپہ ئکاح خود کروانا ہے ا یتے بیتے کی خان
تچانے کے لٸے۔
زیتی نانا نے خلو خو تھی کنا لنکن دنکھو تم اسے کال کرو اور اسے کہو کہ وہ تمہیں طالق
دے دے۔ وہ خو مظالنات ر ک ھے وہ مان لینا ۔لنکن ایتی خان جھڑا لینا۔
قاٸقہ نے نو ایتی کہہ کر کال یند کر دی اور زی یب اب موناٸل ہاتھ میں لٸے
عخ یب کشمکش میں تھی ۔
کال کروں نا بہیں۔۔۔۔۔وہ ہاں اور بہیں کے درمنان میں لنکی ہوٸی تھی۔
ZAK
اس نے واپس ایپ کھوال شا متے ہی اس کے نام کا مسیج تھا۔اس نے خلدی سے مسیج
اوین کنا۔
ب
زی یب شلظان کو گنگ سی ایتی خگہ پر یت ھتی خلی گٸی۔
کنا اس کے ناس میرا تمیر بہلے سے ہے۔اسے اس سحص سے خوف محسوس ہوا اور قاٸقہ
کی نابیں سچ لگیں۔
اس نے اس سے نات پہ کرنے کا بہیہ کنا اور خادر نان کر سونے کی کوشش کرنے
لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارزغام غلی خان کا آج آفس میں آجری دن ہونے کی وجہ سے کافی دپر ہو گٸی
تھی۔اتھتے سے بہلے اخانک اسے چنال آنا کہ آج اسے زی یب نے کال کی تھی۔اور اسے
کام زنادہ ہونے کبوجہ سے موقع ہی بہیں مال ۔زی یب کو کال مالنے ہوۓ وہ آفس سے ئکال
تھا۔دوسری طرف ینل خا رہی تھی لنکن کال رپسبو بہیں ہوٸی۔اس نے وقت دنکھا نو
رات کے نارہ ہو رہے تھے ،اس نے سوخا وہ سو خکی ہو گی نو کال ڈشکنکٹ کر کے
ناکٹ میں رکھ لنا۔
تم نے میری بہن سے ئکاح کنا ہے۔انک تمیر کہ دھوکے ناز اپشان ہو تم۔”قاٸقہ نلمال
“کر نولی۔
ہاں ہوں اور پہ سب میں نے آپ سے ہی سنکھا ہے۔ مس قاٸقہ شلظان صاچیہ اب
کی نار وہ نوال نو اس کی آواز میں طیز کی آمیزش تھی۔
آجھا ۔۔۔۔۔کھنل نو اتھی سروع ہوا ہے آگے آگے دنکھو ہونا ہے کنا۔زرغام غلی خان
تھول خاٶ سب خو ہوا تھا۔
تھول خاٶں گا ۔۔۔۔آپ قکر پہ کریں ۔وہ اسے طیش دال رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زی یب کی آنکھ صیح کے خار تچے کھلی اس نےوقت دنکھتے کے لٸے موناٸل اتھانا
نو شا متے زرغام کی مشڈ کالز دنکھ کر اتھ کر بیتھ گٸی اور اسی وقت اس کا تمیر ڈاٸل
کنا ۔دو بین ینلز کے ئعد کال اتھا لی گٸی۔
مچھے آپ سے طالق خاٸنے مچھے آپ حیسے سحص سے شدند ئفرت ہے ۔آپ کے
لٸے آجھا ہو گا کہ آپ میری خان جھوڑ دیں۔
“آپ ہیں کون۔۔۔۔۔”اس کی ایتی لمتی ئفرپر کے خواب میں خوسوال کنا گنا۔
وہ سن کر وہ تھوڑی دپر کے لٸے وہ خاموش ہو گٸی۔
زی یب خاموسی سے ہویٹ کا یتے لگی اسے شمچھ بہیں آ رہی تھی کہ وہ کنا کہے۔
زی یب زرغام غلی خان میں نے آپ کو نورے انک گاٶں کے شا متے اینانا ہے۔ اب آپ
میری ملک یت ہیں،میں چب خاہونآپ کو ا یتے گھر ال شکنا ہوں۔لنکن میں آپ کو وقت د ینا
خاہنا ہوں ۔آپ کے تھاٸی نے خو کنا ،اس کی سزا نو آپ کو تھی ملے گی۔
جی اور بہن کے کتے کی تھی۔زی یب کی طرف سے فوری خواب آنا تھا۔
چنکہ دوسری طرف خاموسی جھا گٸی تھی۔اسے امند بہیں تھی کہ وہ کچھ خایتی ہو گی۔
جی ہاں ۔۔۔۔۔اس کی تھی”اس کی سرد آواز زی یب کے کانوں سے نکراٸی اور شاتھ
ہی نون نون کی آواز کے شاتھ کال کاٹ دی گٸی تھی۔
زی یب نے عصے سے موناٸل دور تھی نکا۔لنکن احیناط کے شاتھ کہ موناٸل کو کوٸی
ئفصان پہ بہیچے ۔کبونکہ وہ خایتی تھی کہ اگر پہ موناٸل جراب ہو گنا نو اسے ینا موناٸل
کسی نے بہیں ال کر د ینا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہ انک پراٸنو یٹ ہسینال کی سرچ نکل وارڈ تھی۔چہاں اس وقت اس کے شا متے انک
زندہ الش موخود تھی۔ وہ دھیرے سے خلناہوا اس کے ینڈ کے قریب ر ک ھے بییچ پر بیتھ گنا
۔اور بہت سی نلکبوں میں جھکڑ ے اس کے ہاتھ کو ا یتے ہاتھوں میں لنا۔
ھ ج
وہ گہری بیند سوٸی ہوٸی تھی ۔چب کسی نے اسے ھوڑ کر حگانا۔
چی
وہ خلدی سے اتھ کر بیتھ گٸی۔ اور جماٸی لیتے ہوۓ اس ہاتھ سےرو کتے کی ناکام
کوشش کی ۔۔
ینا تم ایتی صیح صیح بہاں کنا کر رہی ہو۔ تمہارا سوہر نامدار آج کدھر ہے۔
وہ نالوں کو خوڑے کی شکل میں ناندھتی واش روم میں گھس گٸی۔
تھوڑی دپر کے ئعد واپس آٸی نو گرین کلر کے قم نض شلوار کے شاتھ پڑاشادو ییہ
کندھوں پر تھنال رکھا تھا۔
وہ آٸ یتے کے آگے کھڑی ا یتے نال ینانے لگی۔
وہ تمہارا آری نکل کمنل یٹ ہو گنا ہے۔قاٸقہ کو نات کا آغاز کرنے کے لٸے کوٸی
موصوع خا ہتے تھا۔
بہیں۔
ک بوں؟
آپ کے اورنانا کی وجہ سے۔
ہمیشہ کی طرح زی یب نے ایتی نات پرمال کہی۔۔
لنکن میں تمہاری خگہ پر بہیں اور تم میری اور نانا کی خگہ پر بہیں۔نلکہ میں نو کہوں گی
تمہیں تھی ایتی خو پشلتم کر لیتی خاہٸے۔
نلبو کلر کے تھری نی سوٹ میں ملبوس آنکھوں پہ سن گالسز جڑھاۓ وہ وہی تھا۔
قاٸقہ کو دنکھ کر وہ ادھر ادھر دنکھتے لگا اور قاٸقہ کی شاٸنڈ سے ئکلتے لگا۔چب اس نے
زرغام کا نازو دنوچ لنا۔
زرغام نے ئفرت سے اس کا ہاتھ ا یتے نازو سے جھ نکا۔
کنا مسٸلہ ہے آ پ کے شاتھ؟بہاں کون شاتماشہ کرنا خاہتی ہیں۔اب وقت ندل گنا
ہے آپ حیسوں کو میں ان کی اوقات ناد دالنا خاینا ہوں ۔اور ایتی پہ میچوس شکل لے کر
دونارہ میرے شا متے مت آٸنے گا ۔ورپہ مچھے زرغم غلی خان سے زبییہ غلی خان کا
تھاٸی بیتے دپر بہیں لگے گی
پہ کہہ کر وہ زی یب شلظان کی طرف مڑا۔
آج نوتم مچھے بہاں ئظر آ گٸی ہو۔آٸندہ اگر اس طرف کا رخ کنا نو یناٸج کی زمہ دار
تم خود ہو گی ،زی یب شلظان خلع کے نارے میں سوچنا تھی مت۔
آنی پہ مکاقات غمل ہے ۔آپ میری قکر کرنا جھوڑ دیں ۔اگر رب نے میری فشمت میں
وہ جشاب د ینا لکھ دنا ہےنو وہ مچھے د ینا ہی ہو گا۔
آپ نے خو کنا تھا وہ غلط تھا۔ اور اب پس میری طالق کے نارے میں سوچٸے گا
تھی مت۔ میں پہ داغ سر پہ بہیں سچانا خاہتی۔
ہمم۔۔۔۔۔۔ قاٸقہ سی گہری سوچ میں تھی۔ خلو اتھی نو گھر خلتےہیں۔۔
وہ بہت رپش ڈراٸنونگ کر رہا تھا۔اس کا دماغ کھول رہا تھا۔ قاٸقہ شلظان کو روپرو دنکھ
کر آج وہ تھر سے ماضی میں بہیچ گنا۔
نانا خانی !سچ؟“ اس کی پرخوش چہکتی آوازنے مچمد غلی خان کے چہرے پر ”
مشکراہٹ نکھیردی۔
وہ خوسی سے تھاگ کر آ کر زرغام غلی خان کے گلے سے جھول گٸی تھی ،میرا ینارا اللہ
زبییہ نے ینار سے اس کے دونوں گال خوم لٸے۔
وہ چب تھی بہت خوش ہونی تھی اسے اللہ کہتی تھی ۔وہ اس سے نورے خار شال”
پڑی تھی۔
زبییہ غلی خان نے ا یتے کالج میں گرتچوپشن میں ناپ کناتھا۔اور اب وہ مزند پڑھتے کے
لٸے اشالم آناد خانا خاہتی تھی۔لنکن زاٸرہ خانون خاہتی تھی کہ پس وہ اب اس کی
شادی کر دیں۔
اور تھر امو خان کی ناں ناں کرنے کے ناوخود وہ اشالم آناد خلی گٸی۔چہاں وہ ہاسنل
میں رہ رہی تھی۔
لنکن نویبورستی میں انک مہیتے کہ ئعد ہی چب زرغام اس سے ملتے گنا نو وہ اسے بہت
پرپشان ئظر آٸی۔
“اینا کنا ہوا ہے؟آپ بہت پرپشان لگ رہی ہیں۔”
ارے بہیں !اپشاکچھ بہیں ہے ۔تم نو و پسے ہی وہم کر رہے ہو۔ ”اس نے نا لتے کی
“کوشش کی۔
اینا !آپ مچھے اتھی یناٸیں گی کہ کنا ہوا ہے؟ بہیں نو میں اتھی آپ کو ا یتے شاتھ”
“لے خاٶں گا۔
وہ جھونا ہونے کے ناوخود تھاٸی ہونے کا نورا نورا زغم دکھانا تھا۔
زرغام وہ قاٸقہ شلظان تھی میری ہی نوی بورستی میں پڑھتی ہے۔اور مچھے اس سے ڈر لگنا
ہے۔
اس نے بہت سوچ تچار کے ئعد ،بہت سی نابیں خذف کر کے انک جملے میں ایتی
پرپشانی اسے یناٸی۔
اینا کنا چیز ہیں آپ تھی ،وہ کوٸی جڑنل ہے خو آپ کو اس سے ڈر لگنا ہے ۔آپ نو
میری بہت بہادر بہن ہیں۔
اور زرغام غلی خان کے دماغ میں پس انک نام محقوظ ہو گنا تھا،جس سے اس کی بہن
خوقزدہ تھی ،قاٸقہ شلظان۔
وہ لڑکا عضب ناک ہو کر اس کی طرف پڑھا لنکن اس سے بہلے ہی لڑکوں کاانک اور گروپ
تخ ن ش ہب
وہاں یچ آنا۔ چن کا گروپ لنڈر فوزان تی ا ک لچھا ہوا لڑکا تھا۔
وہ ایتی خگہ پر ڈھے سی گٸی۔اس میں ایتی ہمت بہیں تھی کہ وہ اتھ کر وہاں سے
خا شکے۔
اس کی آواز پر زبییہ نے سر اتھا کر اسے دنکھا اور اینات میں سر ہالنا ۔جس پر وہ اس
یبولتی ئظروں سے دنکھنا وہاں ا یتے گروپ کے لڑکوں کے شاتھ خال گنا۔
گاڑی انک جھنکے سے رکی تھی اور زرغام ماضی کو ییچھے جھوڑنا خال میں لونا تھا۔۔وہ ا یتے
قل یٹ کے ناہر کھڑا تھا۔ آج سے وہ ہمیشہ کے لٸے ا یتے گاٶں خا رہا تھا۔چہاں
اس کی ماں اور بہنیں اس کی می نظر تھیں۔
وہ اندر داخل ہوا نو نورے قل یٹ میں یتم اندھیرا تھنال ہوا تھا۔ وہ دروازہ الک کر کے ا یتے
کمر ے میں آنا اور سنڈی بینل پر ڈھے شا گنا۔
پرقنکٹ امو خان !آج نو آپ کا نی نی نالکل سیٹ ہے۔ “زاٸرہ کا نی نی چنک کر”
کر زبییہ نے اسنیتھواشکوپ شم یٹ کر ا یتے ینگ یں رکھا اور مشکرا کر ماں کو دنکھا خو خاضی
قرپش لگ رہی تھی۔
انک شاٸنڈ پہ بیت ھے زرغام نے بہن کو دنکھا خو ماں کی انک انک بینلٹ کو اتھا اتھا کر دنکھ
رہی تھی،اور ابہیں ینا رہی تھی کہ کون سی دوا کون سی یتماری کے لٸے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چہاں قاٸقہ اور اس کے چند دوست بیت ھے تھے۔ قاٸقہ درداپہ ینگم کے ناس مفتم تھی۔
زبییہ کو کافی دنوں سے محسوس ہو رہا تھا ۔حیسے کوٸی اس کا ییچھا کر رہا ہو۔ اشکی نونی میں
ش
کسی کے شاتھ دوستی نو تھی بہیں کہ حیسے وہ ینانی۔وہ پس ڈری ہمی سی ادھر ادھر
ہ ھ کن
د تی ر تی۔
انک دن اس نے قاٸقہ کو کچھ لڑکوں کے شاتھ دنکھا چنہیں وہ کچھ بیسے دے رہی تھی۔
وہ کچھ رازداری پرت رہی تھی۔ زبییہ کو دنکھ کر وہ مشکرا کراس کے ناس خلی آٸی اور تھر
دنکھتے دنکھتے ان دونوں میں آجھی خاضی دوستی ہو گٸی۔
انک نودا ہونا ہے آک۔۔۔۔۔۔۔جس کے یتے پرم ومالٸم ہونے ہیں ۔اور اس کی
بہیناں نازک سی ہونی ہیں خو ہلکے سے جھنکے سے نوٹ خانی ہیں۔اس نودے پر ئظاہر
کوٸی کا یتے بہیں ہونے۔اور اس کی شاخوں پر یت ھے یت ھے شفند تھول کھلتے ہیں ،خو اندر
سے گہرا ینال رنگ لٸے ہونے ہیں۔۔۔۔۔۔۔لنکن اس نودے کے سز یبوں کی رگوں
میں دوڑنا شفند دودھ اس قدر زہرنال ہونا ہے کہ خو کسی کی آنکھوں میں گرے نو وہ اندھا کر
دے۔اپشان نو چیر بہیں،لنکن خانور تھی اسے کھانا پسند بہیں کرنے۔۔۔۔۔۔
کچھ اپشان تھی ا پسے ہی ہونے ہیں۔ئظاہر آک کے یبوں کی طرح پرم ومالٸم اور ا یتے
اندرئفرت کا انک چہاں نالے رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخاال تھنلے کافی وقت ہو حکا تھا۔ہاسنل سے لے کر خانے وال وین جراب ہو گٸی
تھی ۔اس لٸے وہ یندل ہی نونی کے لٸے ئکل پڑی۔
قٹ ناتھ پر اس وقت اور تھی بہت سے لوگ اس کے آگے ییچھے خل رہے تھے۔چن کی
خال میں ہی بہیں انداز میں تھی عچلت تھی۔
سبو“ وہ رک گٸی۔”
“خلدی کہو۔”
سبو مچھے تمہارا انڈرپس خاٸنے۔میں ا یتے ماں ناپ کو تمہارے گھر تھیخنا خاہنا ہوں۔
تمہیں خدا کا واشطہ ہے میری خان جھوڑ دو۔اگر میرے گھر میں کسی کو ینا خل گنا نو”
اگلے دن میں نونی بہیں آ شکوں گی۔مچھے پڑھتے کا بہت سوق ہے ۔میں ا یتے خاندان کی
ب
بہلی لڑکی ہوں خو نویبورستی نک آٸی ہے۔لنکن اگرتم میرے گھر نک یچ گٸے نو
ہ
ھ بی ش ت بہ ت
تھر میرے ئعد میرے خاندان والے ایتی کسی تی کو کول ھی یں یں گے۔
جی
اس کی نات پر وہ چپ ہو گٸی۔ اس نے ا یتے ینگ میں سے بین اور نوٹ نک ئکال
کر اس پر کچھ ہندسے گھسیتے اورانک نوٹ اس کی طرف پڑھانا۔
خ ت م
میں کل آشیرنلنا خا رہا ہوں ۔چب لونوں گا یب نک تمہاری پڑھاٸی ھی ل ہو کی ہو
مک
گی۔
وہ مشکرانا ہوا وہ نوٹ ا یتے واٸلٹ میں رکھنا ایتی گاڑی کی طرف مڑ گنا۔”
قاٸقہ اور اس کی دوستی کو جھے مہیتے ہو گٸے تھے۔اور دوسرے شمسیر کے بییرز
کےئعد اب رزلٹ آنے کا ای نظار تھا۔
اور چب رزلٹ اناٶپس ہوا نو وہ زبییہ کے لٸے بہت پڑا دھحکا تھا۔کبونکہ وہ نامسکل
ناس ہوٸی تھی۔اور اس کے لٸے پہ بہت سرمندگی کی نات تھی۔
اس کی کنابیں غاٸب ہونے لگیں ۔کتھی اس کے نوپس اس کے ینگ میں سے
غاٸب ہونے لگے۔
زبییہ خاۓ بیتے کے ئعد خلدی ہی سو خانی اور اکیر اوقات اس کی آنکھ دن کےانک دو
تچے کھلتی۔وہ بہت پرپشان رہتے لگی ۔نویبورستی میں کم اینینڈپس کی وجہ سے اسے وازینگ
لییر تھی اپسو کنا گنا۔
اور تھر اسے قاٸقہ پر کچھ شک شا گزرا انک رات چب اس نے اس کے لٸے
خاۓ یناٸی نو وہ زبییہ نے چنکے سے ڈسٹ ین میں الٹ دی اور قاٸقہ کی موخودگی
میں ہی بیند کا بہاپہ کر کے سو گٸی ۔تھر وہ روز بہی کام کرنے لگی اور نونی میں اسے
دنکھ کر قاٸقہ کے ما تھے کے نل پڑھتے لگے۔
اور تھر قاٸنل رزلٹ واال دن تھی آ گنا ۔ زبییہ نے نونی میں ناپ کنا تھا۔اور قاٸقہ کے
لٸے پہ نات ناقانل پرداست تھی۔
وہ زبییہ کو سخت ئظروں سے گھورنی اس کے ناس سے گزر گٸی۔
لنکن اس نے نوپس بہیں کنا۔
وہ نونی میں مس ال نگنیس کے نام سے مشہور تھی۔سب لوگ اس کی بہت عزت کرنے
تھے۔
بہت سے لڑکوں اور لڑکبوں نے اسے منادکناد دی۔
نونی کے ستھی لڑکے اس کی بہت عزت کرنے تھے۔
تھر اس نے ضقوان کے دوسبوں کو ایتی طرف پڑھتے دنکھا۔چتھوں صرف منارک ناد بہیں
دی نلکہ اس کے لٸےتھول اور بہت شارے تچاٸف تھی الۓ تھے۔
ت ت ن ل ت خ ھ ت ب ن ہسن ب
وہ ہا ل تے ک ہت ک کی ھی۔ کن ھر ھی اس نے شارے تچاٸف خی
کھولے اور پہ دنکھ کر چیران رہ گٸی کہ اسے وہ تچاٸف دٸنے نو مخنل نف لوگوں
نے تھے۔لنکن سب پر صرف ضقوان تختی کا نام ہی لکھا تھا۔ اور بہلی نار اس نام نے
اس کے دل کے ناروں کو ج ھیڑا تھا۔خار شال گزر خکے تھے،لنکن وہ اسے بہیں تھوال تھا۔
اس کے ئعد ڈاٸر ی کے شارے ضفچے کورے تھے ان پر اس سے آگے کچھ بہیں لکھا
گنا تھا۔
اسے آج تھی وہ دن ناد تھا۔چب اسے نونی کے ہی کسی لڑکے نے کال کر کے اسے
ینانا تھا کہ زبییہ ہاسینل میں ہے۔وہ ناگلوں کی طرح وہاں گاٶں سے اشالم آناد بہیچا تھا۔
چہاں ڈاکیر سے اسے ییہ خال تھا کہ اس کی بہن کا ریپ کنا گنا ہے۔اور اشکے ی یٹ میں
خافو سے وار کتے گٸے ہیں۔
اس کی زندگی نو تچ گٸی لنکن وہ انک گہری بیند میں سو گٸی۔اور اس کے شاتھ
ہی اس کے محرموں کے نام تھی کہیں ج ھپ گٸے۔
لنکن زرغام نے خو معلومات اکتھی کی تھیں اس سے اسے بہی ییہ خال تھا۔کہ جس دن
پہ واقعہ ہوا تھا اس دن وہ قاٸقہ کے شاتھ نونی سے گٸی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے امو خان اور نانا سےریپ والی نات جھنا لی اور صرف بہی ینانا کہ کوٸی خور تھے
خو اس سے موناٸل اور بیسے جھین رہے تھے اور اس ہاتھاناٸی میں وہ زجمی ہو
گٸی ہے۔لنکن آگے کے دن زنادہ مسکل ہو گٸے تھے۔چب وہ نےہوسی سے
واپس ہوش کی دینا میں بہیں لونی۔وہ ہر روز انک نٸی امند سے اتھنا شاند آج وہ
خوئصورت دن ہو چب وہ بیند سے خاگ خاۓ گی۔ لنکن ڈکیرز کا کہنا تھا کہ وہ خود ہی
تھنک بہیں ہونا خاہتی اور چب نک وہ بہں خاہے گی وہ اس بیند سے ناہر بہیں آ شکتی۔
اور تھر زرغام نے گواہی کے لٸے ا یتے کچھ دوسبوں کو ییچاٸیت کے شا متے بیش کنا
کہ چن دنوں کی قاٸقہ شلظان نات کر رہی ہے ان دنوں وہ گاٶں میں بہیں تھا۔
لنکن اس وا قعے کے ئعدزرغام اور اس کے نانا کی شاکھ بہت مناپر ہوٸی تھی ۔
زبییہ کو کوما میں گٸے نورے بین شال گزر خکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درداپہ بینگم بہاں سے وہاں بہل رہی تھیں۔ شلظان خان ان کے شا متے بیتھا تھا۔پڑی
ہونے کی وجہ سے شارے ق نصلے ان کی ہی ہونے تھے۔
قاٸقہ کی شادی تھی درداپہ ینگم نے ا یتے ہی خا یتے والوں میں کی تھی۔ابہیں شالوں گزر
گٸے تھے ،اشالم آناد میں آۓ ہوۓ اور وہ بہاں کے ماخول میں رچ پس گٸی
شلظان خان پہ تم مچھے مسکل میں ڈال رہے ہو۔تیری اس بیتی کو میں ایتی بہو نو ینا لوں
لنکن مچھے بہیں لگنا پہ گھر پشاۓ گی۔پہ نو نالکل ماں پر گٸی پرانے چناالت کی ہے۔
خلو تھر تھنک ہے کل ہی ان دونوں کا ئکاح کروانے ہیں اور تھر ئعد میں ولتمہ کر لیں
گے۔
تم گاٶں خا کرکہنا کہ زرغا م غلی خان نےز ی یب کو طالق دے دی ہے۔
دنکھ لے شلظان خان اس لڑکی کی زنان ،میں کہتی ہوں اس کا خلدی سے کچھ کرو”
بہیں نو پہ اس زرغام کے شاتھ تھاگ خاۓ گی۔
ہاں خاٶں گی اسی کے ناس سوہر ہے وہ میرا اور اس کے ئکاح میں ہونے
ہوۓ۔۔۔۔۔۔چناخ کی آواز کے شاتھ انک زوردار ت ھیڑ زی یب کے میہ پر پڑا تھا۔
اور اس کے ئعد شلظان خان نے نےدرنے کہیں ت ھیڑ اسے رسند کتے۔اور وہ چیرت اور
نےئقیتی سے ا یتے ناپ کو دنکھتے لگی۔
نو اس کےناس خاۓگی ؟میں تچھے زندہ جھوڑوں گا نو تم کہیں خاٶ گی۔
وہ اس کا گلہ دنانے کے لٸے آگے پڑھے تھے۔چب درمنان میں شفیر آگنا۔
ماموں خانے دیں ،جھوڑ دیں اشکو۔
پہ اشکے شاتھ خاۓ گی جس کے ناپ نےمیری بہن کے لٸے ائکار کنا تھا۔
چنکہ زی یب شلظان کسی ہار ے ہوۓ خواری کی طرح اس کمرے سے ناہر ئکل
گٸی۔
وہ آج کافی دنوں کے ئعد ہاسینل آنا تھا۔ اور روم کا دروازہ کھول کر وہ تھت ھک کر رک گنا۔
زبییہ کے ینڈ کے ناس سر جھکاۓ بیت ھے سحص کو دنکھ کر وہ تیزی سے اندر آنا۔
ا یتےقریب آہٹ محسوس کر کے ضقوان نےسر اتھانا اور شا متے کھڑے سحص کو دنکھ کر
وہ ایتی خگہ سے کھڑا ہو گنا۔
جسے زرغام ئظر انداز کرنا ہوا زبییہ کی طرف پڑھا اور جھک کر اس کی بیشانی پر نوشہ دنا۔
اینا میں نے خاب جھوڑ دی ہے۔میں واپس گاٶں خا رہا ہوں ۔نانا کی خگہ اب مچھے
سیتھالتی ہے۔
اس کے ہاتھ کا نوشہ لے کر وہ ایتی خگہ سے اتھ کھڑا ہوا اور مڑ کر ضقوان کی طرف دنکھا
اور اسے اشارے سے ناہر خلتے کے لٸے کہا۔
ناہر آ کر کارنڈو میں موخود انک بییچ پر دونوں پراپر بیتھ گٸے۔
میں آشیرنلنا سے کل ہی لونا ہوں ۔کچھ تچی مشاٸل کی وجہ سے میں دو شال ل یٹ
ناکسنان آ رہا ہوں۔
مچھے آج ہی ا یتے انک دوست کے نوشط سے زبییہ کی کنڈپشن کے نارےمیں ییہ خال ہے۔
لنکن میرے والد کی آشیرنلنا میں انک پرئفک خادنے میں شدند زجمی ہو گٸے ت ھے۔
اور ان کی کولہوں کی ہڈی نو یتے کی وجہ سے ۔وہ اب وہنل چٸپر پر ہیں۔
پس اسی وجہ سے میں ل یٹ ہو گنا۔لنکن میں اس سے بہت مخیت کرنا ہوں۔
جی اب تھی۔۔۔۔۔
ن
زرغام کی اس نات پر اس نے آ کھیں میچ لیں۔
زرغام نے مشکرا کر آنکھ میں آنا واخد آپسو انگو تھے سے صاف کنا اور ضقوان کی خایب
مصچاقہ کے لٸے ہاتھ پڑھانا ،جسے اس نے خوشدلی سے تھام لنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے میں یتم اندھیرا کتے پڑی تھی۔ نےآواز آپسو بہانے وہ سوچ میں گم تھی کہ وہ
اب کنا کرے گی۔ اگر بہاں رہتی نو انک گناہ کی مرنکب ہونی اور اگر زرغام غلی خان کو
مددکے لٸے ئکارنی ہے نو یب تھی وہ خایتی ہے کہ زندگی کایبوں پرپسر کرنے حیشا
یتھی کوٸی دنے ناٶں کمرے میں داخل ہوا تھا۔ خوں ہی کمرے میں روستی ہوٸی
زی یب کو ماں کی ئکار سناٸی دی۔ان کی آواز بہت مدھم تھی۔،
زبییہ نے ج ھٹ سے میہ سے کمنل ہنانا اور تھاگ کر ماں کے گلے لگ کر رونے لگی۔
ابہوں نے ئفی میں سر ہالنا اور آگے پڑھ کر اس کی متھی میں انک جھونا شا موناٸل دنا۔
صیح سے بہلے اگر وہ تمہیں آ کر بہاں سے لے کر خا شکنا ہے نو خلی خاٶ۔
وہ گہری بیند میں سونا ہوا تھا۔چب اس کا موناٸل تختے لگا۔اس نے اتچان تمیر دنکھ کر کا
ل کاٹ دی اور تھر و ققے و ققے سے کوٸی خار نار کال آٸی۔ناتچویں نار زرغام نے کال
رپسبو کر لی۔
کھ کن
دوسری طرف سے خو آواز اس کی شماعت سے نکراٸی ،اس کی آ یں یٹ سے ل
ھ
گٸیں۔
کہاں ہو تم؟
نلنک بی یٹ پر نلنک سرٹ زیب ین کتے کوٹ نازٶں میں ڈالنا وہ تیرونی دروازے کی
طرف مڑ گنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے کال کتے ئفرینا بین گھیتے گزر خکے تھے۔صیح ہونے میں پس انک گھییہ نافی رہ گنا تھا۔
اس نے انک ینگ میں اینا مخ نصر شا شامان رکھ کر خانے کے لٸے ینار کھڑی تھی۔
وہ نار نار گھڑی دنکھ رہی تھی۔ہر گزرنے لمچے کے شاتھ اس کے خدسے پڑھتے خا رہے
تھے۔
اگلے لمچے اس کے کمرے کی کھڑکی پر دسنک ہوٸی تھی۔اور شاتھ ہی انک نار تھر سے
موناٸل پر کال آنے لگی۔اس نے آگے پڑھ کر کھڑکی کھول دی۔
نلنک کلر کے قم نض شلوار پہ نلنک پڑی سی خادر ر ک ھے وہ رات کا ہی حصہ لگ رہی تھی۔
اس کے ہاتھ میں موخو د مخ نصر سے شامان پر ئظر ڈال کر اس نے آگے پڑھ کر اس کے
ہاتھ سے ینگ لے لنا۔
خلیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
زرغام غلی خان نے چب ییچھے مڑ کر دنکھا نو وہ اتھی نک وہیں کھڑی تھی۔اس نے ای نا
ہاتھ اس کی طرف پڑھانا اور تھر اگلے ناتچ میٹ میں وہ شاتھ والے گھر کے صحن میں
تھے۔
صحن کی دنوار تھالنگ کر وہ مخنل نف گلبوں سے ہونے ہوۓ انک مین روڈ پر بہیچے ،چہاں
زرغام خان کی گاڑی کھڑی تھی۔
وہ رپش ڈراٸنونگ کرنا ہوا ہاسینل بہیچا زی یب کو زبییہ کے کمرے میں جھوڑ کر اسے کچھ
صروری ہدانات دے کر وہ وہاں سے گاٶں کی طرف ئکل آنا۔
را ستے میں اس نے ضقوان کو شاری صورتچال یناٸی اور اسے صیح ہاسینل خا کر زی یب
کی چیر گیری رکھتے کے لٸے کہا۔
اس نے ایتی گاڑی انک دوست کے گھر جھوڑی اور دوست کی گاڑی لے کر تھنک آتھ
تچے وہ ا یتے گاٶں میں تھا۔چہاں صیح صیح اغالن کنا گنا تھا کہ آج زرغام غلی خان کی
دسناریندی کی خاۓ گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چب انکسیرا کی کے شاتھ دروازہ کھوال گنا نو اندر زی یب کی عیر موخودگی پر سب کو شایپ
سونگھ گنا۔
ہب
پزاکت ا یتے یندوں کو لے کر اشالم آناد یچ آٶ۔
آج زرغام غلی خان کی زندگی کا آجری دن ہو گا ،پزاکت خلدی سے شہر بہیچو۔۔
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شلظان خان ہاتھوں میں موناٸل تھامے گم صم کھڑے ت ھے۔اگر وہ گاٶں میں ہے نو
زی یب کس کے شاتھ گٸی ہے۔
ابہوں نےایتی یبوی کو مشکوک ئظروں سے دنکھا،خو خود تھی زرغام غلی خان کی گاٶں میں
موخودگی کے نارے میں سن کر کافی پرپشان لگ رہیں تھی۔
شلظان خان نے ان کی خالت دنکھتے ہوۓ سر جھ نکا ،اور شفیر کی طرف رخ کنا۔
شفیر کو ہدانات دے کر وہ ا یتے موناٸل میں کوٸی تمیر پرپس کرنے لگے۔
پزاکت تمہاری بہن زرغام کی خونلی میں کام کرنی ہے پہ اس سے ییہ کرواٶ کنا زی یب زرغام
کی خونلی میں موخود ہے۔
جی سردار میں خلد سے خلد ییہ کروا کے آپ کو ینانا ہوں۔
ضقوان آتھ تچے کے قریب ہاسینل بہیچا کھانے بیتے کے کچھ لوازمات لٸے وہ
دروازے پر دسنک د ینا ہوا اندر داخل ہوا۔
شاری رات کے خگ رنے کے ئعد زی یب نےغم سو رہی تھی۔کھنکے کی آواز پر وہ کچی بیند
سے یندار ہوٸی اور خادر سے ا یتے چہرہ ج ھنانے ہوۓ اتھ کہ بیتھ گٸی۔
!نات سنیں
مچھے آپ کا موناٸل خاٸنے ہے۔مچھے کسی کو ایتی چیریت کی اطالع کرنی ہے۔
اس کی نات پر وہ نلمال کر رہ گٸی۔اور یند دروازے کو دنکھتے لگی ،چہاں سے وہ ناہر گنا
تھا۔
اس کا انک دل کنا وہ بہاں سے تھاگ خاۓ۔لنکن وہ خایتی تھی اگر بہاں سے وہ تھاگ
گٸی نو اس کا ناپ اسے آشانی سے ڈھونڈ لے گا۔کبونکہ اس کے ناس بہاں سے
مصبوط اور کوٸی تھکاپہ بہیں ہے۔
وہ چپ خاپ ایتی خگہ سے اتھی اور واش روم میں میہ ہاتھ دھو کر ینکٹ میں سے کھانا
ئکال کر کھانے لگی۔
کھان کھا کر وہ وصو کی ی یت سے واش روم میں گھس گٸی ۔ناہر ئکلی نو بہلی نار اس کی
ئظر اس کمرے میں موخود دوسری خاموش سحصیت پر پڑی ۔خو سونے ہوۓ تھی ایتی
ک ن
خوئصورت لگ رہی تھی کہ وہ کیتے نل اس کے چہرے پر ئظریں ئکاۓ د تی رہی۔
ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شلظان خان فون کال سیتے کے ئعد بہاں سے وہاں بہل رہا تھا۔
زرغام غلی خان نے کل جرگہ نالنا ہے۔سردار اغلی شلمان ناشا نے مچھے تھی نالنا ہے۔
درداپہ ایتی بیتی کا خون نو ہمارے غالقے میں معاف ہے پہ۔خو ینیناں ناپ کے شا متے
سر اتھانے کی ہمت کر لیں ابہیں حیتے کا کوٸی خق بہیں ہے۔
جرگے میں سب لوگ موخود تھے۔ شلظان خان کی ئگاہیں زی یب کو ڈھونڈ رہیں تھی۔ل نکن
وہ کہیں بہیں تھی۔
شلمان ناشا نے ہی نات کا آغاز کنا۔
شلظان خان تمہاری بیتی کہاں ہے ،زرغام غلی خان خاہنا ہے کہ تم زی یب کو اس کے
خوالے کر دو ۔
جی مچھے کچھ وقت خاٸنے ،میں انک ہفتے نک اسے لے آٶں گا۔
شلظان خان کی نات پر نانگ پر نانگ جماۓ زرغام غلی خان نے اسنہزاپہ ہیسی ہیشا۔
اور اس نے تیزی سے اینا پسنل ئکال کر زرغام غلی خان پر نان لنا۔چنکہ وہ اطمینان سے
اتھ کر سییہ نان کر ان کے شا متے کھڑا ہو گنا۔
لے آٶں گا امو خان !پس انک ہفیہ خو شلظان نے مائگا ہے وہ نورا ہونے دیں۔
میں خاینا خاہنا ہوں کہ وہ کنا غذر ینان کرے گا ۔ایتی بیتی کی عیر موخودگی کا۔
اتھی نو میں خاموش ہوں ،طوقان نو اس دن ا تھے گا جس دن ہوش کی دینا میں لونے گی۔
اور زاٸرہ خانون نے ا یتے خوان چہان بیتے کو دنکھا خو ا یتے دادا کی طرح دشمیناں تھی
ا پسے یتھا رہا تھا ۔حیسے وہ اس کا قتمتی رسیہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کی سناہی ا یتے پر تھنال رہی تھی۔ خونلی کی اوتچی دنواروں کے نار اس وقت شلظان
خان عضب ناک ہو رہا تھا۔اور اشکے عناب کا پشان اشکے ادنی مال زم ین رہے تھے۔
نلنک ہوڈی سے میہ جھناۓ وہ ا یتے قل یٹ سے ئکال اور لفٹ سے ئکل کر سر جھکا کر وہ
اس نلڈنگ کی خدود سے ناہر ئکل آنا۔
مین روڈ پر آ کر اس نے انک ینکسی لی اور اسے مظلوپہ خگہ کا نا م ینا کر خوکنا ہو کر بیتھ
گنا۔
ہاسینل سے تھوڑا بہلے وہ ی نکسی سے اپر آنا اور اب اس کارخ ہاسینل کی خایب تھا۔
اشکی نات پر زرغام نے اینات میں سر ہالنا اور پرمی سے اس کا ہاتھ جھوڑ دنا۔
ڈاکیرز زبییہ کا معاٸپہ کرنے لگے چنکہ وہ زی یب کے پراپر آ کر بییچ پر بیتھ گنا۔ اس کا کندھا
زی یب کے کندھے کے شاتھ مس ہوا نو خود میں شمٹ گٸی اور عیر ارادی طور پر
اس کے ا یتے درمنان تھوڑا شا قاصلہ قاٸم کر گٸی۔
زرغام غلی خان کی ئظریں شا متے تھی ۔لنکن تھر تھی اس نے اس کا خونکنا اور تھر قاصلہ
قاٸم کر نا اس کی آنکھوں سے جھنا بہیں رہ شکا تھا۔اس کے چہرے پر ناگوار سے
ناپرات تھنل گٸے اور وہ بییچ سے اتھ کر شا متے موخود ونڈو میں کھڑے ہو کر ناہر
دنکھتےلگا۔
زی یب نےاس کی طرف ئظر اتھاکر دنکھا خو انک ہاتھ ونڈو پر ر ک ھے چب دوسرا ہاتھ ناکٹ
میں ر ک ھے نوری دل جمعی سے ناہر دنکھ رہاتھا۔نلبو چییز پر نلنک ہوڈی بہتے ہلکی ہلکی
داڑھی صاف رنگت بیشانی پر تھنلے نال چنہیں وہ تھوڑی دپر کے ئعد ہاتھوں سےییچھے کرنا
تھا لنکن وہ تھر سے اشکی بیشانی کو جھونےکی خواہش میں واپس آگے آ خانے ۔
زی یب نے ا یتےدل کی عیر ہونی خالت پہ ئظریں جھکا لیں۔لنکن دل تھر سے اسے
دنکھتے کےلٸے ئصد تھا۔
اب کی نار اس نے ئظریں اتھاٸی نو وہ تیز ئظروں سے اسے ہی دنکھ رہا تھا۔وہ جی خان
سے کایپ گٸی،حیسے اس کی خوری نکڑی گٸی۔
سردار صاچب منارک ہو ،آپ کی بہن کی ک نڈپشن بہت خوصلہ آقزا ہے ۔ہمیں امند ہے کہ
وہ خلد ہی تھنک ہو خاٸیں گی۔
اور ڈاکیرز کی نات سن کر اس کے چہرے پر خوسی کی انک لہر دوڑ گٸی۔
زبییہ سب سن رہی تھی۔وہ اس سے نوجھنا خاہتی تھی۔صرف امو خان کے ناس کبوں؟
مچ ش
کنا نانا خان مچھے قصوروار ھتے یں۔
ہ
وہ کمرے مں موخود اس لڑکی کو تھی دنکھنا خاہتی تھی جس کا لمس وہ محسوس کر رہی تھی ۔
اس خاموش کمرے میں جس کی ششکناں گوتختی تھیں۔
نے پسی سے اشکےآپسو ئکل آۓ۔چنہیں ہمیشہ کی طرح زرغام غلی خان نے نوروں پر چن
لنا۔
اور وہ خاموش ئظروں سے دروازےکی طرف دنکھتے لگی چہاں سے وہ ناہر گنا تھا۔
ُ ُ ُ
چب عرنی زنان کا لفظ ہے جسکا مظلب دل کی گہرای بوں سے ہونی والی مخیت ہے اورُُ
چب کونی اینا سناہ سے سناہ ُرخ اس ڈر کے ئغیر آپ کے شا متے کھول کر رکھ دے کہ آپ
پہ نو اس کو دھ نکاریں گے اور پہ طغیہ نازی کریں گے،چب کونی تچوں کی طرح آپ کے
شا متے اوتچا اوتچا رو لے،نا تھر ناگلوں والی کونی نات کر کے ہیس لے،کہ آپ اسے دل
زی یب کا زرغام کے شاتھ ئعلق تھی پس اپشا ہی تھا۔ اسی لٸے نو چب اس کے
لٸے شارے را ستے یند ہو گٸے تھے۔اس نے اسے ئکار لنا اور وہ تھی ئغیر
کوٸی سوال کتے اس نک خال آنا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شلمان ناشا کی آواز شلظان خان کے کانوں میں گوتچی نو وہ ا یتے چنالوں کی دیناسے ناہر
ئکال۔
سرداراغلی میری بیتی زی یب کو پہ سحص زرغام غلی خان بہلے ہی اغوا کر کے پہ
چناب ِ
خانے کہاں جھنا دنا ہے ۔
اگر اپشا ہے نو اسے جرگے کے شا متےبیش کرو شلظان خان للکار کر نولے۔
اس کے لٸے اسے بہاں آنے کی صرورت بہیں ہے۔پہ ہے اس کا وڈنو ی نعام۔اس
نے موناٸل سرداراغلی کے آگے کرنے ہوۓکہا ۔
لنکن صرف پہ لڑکا بہیں کہہ رہا تمہاری بیتی تھی پہ کہہ رہی ہے۔
شلظان خان کے کندھے ڈھلک گٸے ۔وہ کسی ہارے ہوۓخواری کی طرح ایتی خگہ
پر بیتھ گٸے۔
زرغام غلی خان ا یتے کیڑے جھاڑنا ہوا اتھ کر کھڑا ہو گنا۔
اور خلنا ہوا شلظان خان کے شا متے آ کر کھڑا ہوا۔
شلظان خان مچھے تمہاری بیتی کی خان کی امان بہیں خاٸنے تھی۔
وہ نو تمہارا خون ہے اگر مرنی ہے نو مر خاۓ۔میں نو تمہیں بہاں نک اس لٸے النا
ہوں کہ اب جرگےمیں وہ شامل ہو گی نو میری یبوی کی چنی یت سے اور چب تم میری
ی بوی کا خون کرو گے نو تھر خون بہا میں کنا ایتی خان دو گے نا تھر ایتی دوسری شادی
شدہ بیتی قاٸقہ شلظان ۔
زرغام نے پسو اس کی طرف پڑھانا تھااور پڑی شان سے ایتی گاڑی میں خا بیتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اس کی ط نع یت بہت جراب ہو رہی تھی۔اس کا وخود شل ہو رہا تھا۔اسے آرام کی
صرورت تھی ،لنکن ہاسینل کے اس کمرےمیں اس کے آرام کے لٸے انک بییچ ہی
تھا۔وہ ڈاکیر سے دواٸی لے کر تھکے تھکے قدموں سے روم میں داخل ہوٸی۔دروازہ
کھو لتے ہی شا متے کھڑے سحص کو دنکھ کر وہ انک نل کے لٸے تھتھک کر رک
گٸی۔
وہ خا کر بییچ پر بیتھ گٸی۔لنکن اسے لگ رہا تھا اس کا جشم نوٹ رہا ہے۔
زرغام غلی خان نے زی یب کے ناس رکھا اینا کوٹ اتھا کر نازو میں ڈاال اور گاڑی کی خانی
لے کر ا نک نار زبییہ کے ناس اس کےسر پر ہاتھ رکھنا ہوا تیرونی دروازے کی طرف مڑ
گنا۔
زی یب نے شدت سے خدا سے دغا کی کہ پس وہ انک نار گاڑی کی سیٹ نک بہیچ خاۓ
۔لنکن ہر گھڑی قبول یت کی بہیں ہونی۔
وہ گاڑی سے ئفرینا انک اتچ کے قاصلے پر تھی۔چب اس کی آنکھوں کے آگے اندھیر ا جھا
ی غ ہ ب ھ کلن ن
گنا۔ کن آ یں یند ہونے سے لے اس نے زرغام لی خان کو تیزی سے ا تی طرف
پڑھتے دنکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے جس وقت اسے تھاما نو اشکاجشم تھتی کی طرح خل رہا تھا۔
اسے ینڈ پر لینا کر اس پر نلینکٹ ڈال کر وہ ا یتے پڑوس میں ہی موخود فحری صاچب کو
تھال النا خو انک ڈاکیر تھے۔اسے اس قل یٹ میں رہتے ہوۓ ئفرینا بین شال ہو گٸے
تھے۔اس لٸے آس ناس کافی لوگوں سے اس کی خان بہچان تھی۔
ابہوں نے چنک اپ کے ئعد کچھ دواٸیں لکھ کر دیں۔زرغام دنکھو اسے بہت تیز تچار
ہے تھنڈے نانی کی بیناں رک ھتے رہواور کوشش کرو کہ پہ کچھ کھا لے۔
جی !اس نے اینات میں سر ہالنا اور ابہیں جھوڑنے ڈور نک انا۔
زی یب نالکل خاموسی سے پڑی رہی۔وہ بہلے سے بہیر محسوس کر رہی تھی۔
دو دن سے خالی ی یٹ ہونے کی وجہ سے اس میں اتھ کر بیت ھتے کی تھی شکت پہ تھی۔
کچھ ہی دپر کے ئعد وہ دودھ اور پرنڈ لے کر کمرے میں داخل ہوا ۔اور شاٸنڈ بینل پر
دونوں چیزیں رکھ کر وہ اس کےقریب آنا۔
تھوڑی سی ہمت کر کے وہ اتھ کر بیتھ گٸی ۔اور دودھ کے جھونے جھونے سپ
لیتے لگی۔
وہ شا متے چٸپر پر نانگ پہ نانگ جماۓ اس کی کارواٸی مالحطہ کر رہا تھا۔
آج بہلی زرغام غلی خان نے اسے ئغیر خادر ے کے دنکھا تھا۔
اس کی خادر گلے میں پڑی تھی۔
ڈارک پراٶن نال گرنے کی وجہ سے کھل کر کندھوں پر نکھرے ہوۓ تھے۔
جی ہم کافی ل یٹ ہو خکے ہیں ۔اب آپ آرام کریں ،ہم صیح ہی گاٶں کے لٸے
ئکلیں گے۔
اسے می نظر نا کر وہ کمرے سے ئکل گنا۔اور زی یب ا یتے دنوں کے ئعد پرم پسیر میسر ہونے
سے کچھ ہی نل میں بیند کی وادی میں گم ہو گٸی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کہیں نار کمرے کا خکر لگا حکا تھا۔لنکن وہ گھوڑے گدھے ییچ کر سو رہی تھی۔ وہ ا یتے
لٸے کافی لے کر نی وی کے آگے بیتھ گنا اور کافی کے جھونے جھونے سپ لیتے
لگا۔
زرغام نے رتموٹ اتھا کر آواز کم کی ۔اور خلنا ہوا اس کے قریب آنا۔اشکی بیشانی کو ہاتھ
سے جھو کر تچار چنک کنا۔
وہ شا متے کحن ہے ،ناسیہ کحن میں رکھا ہے ۔ ناسیہ کر لو تھر ئکلتے ہیں یب نک میں حییج
کر لینا ہوں۔
وہ ناسیہ کر کے قارغ ہوٸی نو شا متے ہی وہ کوٹ بہینا ہوا روم سے ناہر ئکال ۔
تھوڑی دپر کے ئعد نلنک مرشڈپز ہواٶں سے نابیں کرنی ہوٸی تیزی سے آگے پڑھ رہی
تھی۔
ناتچ گھیتے کے تھکاد یتے والے شفر کے ئعد جس وقت وہ لوگ گاٶں کی خدود میں داخل
ہوۓ ۔ نو بہلے سے ا نکے ای نظار میں دو گاڑنا ں کھڑی تھیں۔انک زرغام کی گاڑی کے
آگے چنکہ انک ییچھے خل دی۔
ان کی گاڑی جس وقت خونلی میں داخل ہوٸی دوبہر ڈھل رہی تھی۔
زی یب نے خاروں اطراف کا خاٸزہ لنا۔انک شاٸنڈ پہ گیراج تھا چہاں بہلے سےہی دوبین
گاڑناں کھڑی تھی۔
وہ شست قدموں سے آگے پڑھی اور لکڑی کا دروازہ دھکنلتی ہوٸی اندر داخل ہوٸی۔
چنکہ زاٸرہ خانون الچھی ئظروں سے شا متے کھڑی سرخ وشفند رنگت اور خوئصورت ئقوش
ش
کی مالک لڑکی کو دنکھ رہی تھیں ۔خو ڈری ہمی سی کھڑی تھی۔
جی میں۔۔۔۔۔۔
زاٸرہ ینگم اتھ کر زی یب کے ناس خانےلگی ،چب زرغام نے ائکا ہاتھ نکڑ لنا اور ئفی میں
سر ہالنا۔
وہ انک ئظر زی یب پر ڈال کر اس کےناس بیتھ گٸی۔
زی یب نے انک درزندہ ئظر زرغام غلی خان پر ڈالی خو چہرے پر یتھر نلے ناپرات لٸے
اسے ہی دنکھ رہا تھا۔
وہ مالزمہ کی مع یت میں آگے پڑھ گٸی۔زرغام کی ئظروں نے دور نک اس کا ییچھا کنا۔
امو خان وہ بہت بہلے کی نات تھی۔اب سب کچھ ندل گنا ہے۔
اور ہاں !وہ پہ سب بہیں خایتی ۔آپ میری نات شمچھ رہی ہیں پہ اسے اس نات کی چیر
بہیں ہونا خاٸنے۔
خلنل چیران کی ایتی مخبوپہ میزنادہ سے مخیت ئغیر کسی مالقات اور دندار کے بیس شال نک
.خلتی رہی .چیران یبونارک میں تھا اور میزنادہ قاہرہ میں
دینا کے دو کونوں سے دونوں ناہم حظوط کا ینادلہ کنا کرنے تھے.انک حط میں چیران نے
:میزنادہ کی ئصوپر مانگی نو میزنادہ نے اس کو لکھا
! سوخو !ئصور کرو "
میں کیسی دکھتی ہوں گی؟
زرغام غلی خان کی آنکھوں کے شا متے وہ م نظرنوری جزٸنات کے شاتھ لہرا گنا۔
پہ تمہاری منڈپشن ہیں۔میں مالزمہ کو کہنا ہوں تمہارا کھانا تمہارے کمرے میں بہیچا دے
گی۔کھانے کے ئعد منڈپشن لے لینا۔
ا یتے دنوں میں بہلی نار زرغام غلی خان نے اس سے ایتی طونل گفنگو کی تھی خو بین
جملوں پر مستمل تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تھی اپشا ہی کرنا خاہتی تھی۔کبونکہ مخیت اس کی ہو کے تھی اس کی بہیں تھی۔”ل نکن
“مخیت کو کھرچ د ینا ممکن بہیں ہونا۔
اسے ییہ ہی بہیں خال کب اس ان خاہے رستے میں جڑے وہ مخیت کے اس مفام پر
بہیچ آٸی چہاں سے واپسی ممکن بہیں تھی۔
زی یب شلظان کو جس چیز نے سب سے زنادہ مناپر کنا تھا۔وہ تھی غورت کو عزت د ینا
اور زرغام غلی خان ا یتے سے جڑی غورنوں کی بہت عزت کرنا تھا۔
پہ خانے ئغیر کے آگ نو پراپر لگی ہے دونوں طرف۔ وہ بہیں خایتی تھی کہ اس کے دل
میں خو مخیت کی کوینل تھونی ہے ۔پہ اسی آگ کی آتچ ہے خو اس کے دل نک تھی
ہب
چی ہے۔ ی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حییج کر کے لینا نو جھم سے اس کا صیح واال روپ آنکھوں میں اپر آنا۔ گالنی کیڑوں پر شفند
خادر سے خودکو جھناۓ ۔
جس میں اس کی دودھ نا رنگت جمک رہی تھی۔
اس کے ناپ اور بہن پر بہت عصہ ہونے کے ناوخود چب وہ شا متے آنی تھی نو اسے
دنکھ کر اس کے اندر اس کے لٸے مخیت کے غالوہ اور کوٸی خذپہ نافی بہیں رہنا
تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ صیح اتھ کر معمول کے مظانق زاٸرہ خانون کے کمرے میں آنا۔نو شا متے ہی ینڈ پر ان
ب
کے قریب زی یب یتھی ئظر آٸی۔
زرغام کو دروازے میں اپسنادہ دنکھ کر اس نے نلکوں کی جھالر گرا دی۔
وہ خلنا ہوا زی یب والی شاٸنڈ پہ آنا اور ماں کے آگے جھک گنا۔جھکتے ہوۓ اس کا ک ندھا
زی یب کے سر سے نکرانا۔
وہ اس کی ئظریں خود پر محسو س کرنی ہوٸی ہڑپڑاہٹ میں آگے پڑھی اور اسی کی چٸپر
کے شاتھ انک کر اس کےاوپرہی گرنے والی تھی،زرغام نے انک ہاتھ اشکے نازو پر چنکہ
دوسرا اس کی کمر کے گرد رکھ کر اسے گرنے سے تچانا۔
وہ سرم سے نانی نانی ہو گٸی اور خود کو اس کی کی گرقت سے جھڑانی ہوٸی”
“وہاں سے تھاگ کھڑی ہوٸی۔،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرغام غلی خان اس وقت بیتھک میں موخود تھا۔چہاں گاٶں کے چند معزز پزرگ موخود
تھے۔
بینا چب سردار صاچب زندہ تھے نو یب ہم نے ابہیں تھی ینانا تھا کہ گاٶں میں نانی کا
بہت مسٸلہ ہے۔
آپ لوگ نے قکر رہیں میں خلد سے خلد کوٸی خل ئکا لتے کی کوشش کرنا ہوں۔ میں
اس کے لٸے نوبیسنف اور گورتمیٹ کے اہلکاروں سے تھی نات کرنا ہوں۔
امو خان !مچھے اشالم آناد خانا پڑے گا۔ کبونکہ بہاں رہ کر میں کچھ بہیں کر شکنا،وہاں میں
ا یتے ئعلفات اسنعمال کر کے اس مسٸلے کاکوٸی خل ئکالنا ہوں۔
مچ ح ت ب ش
تھنک ہے بینا یسے م ہیر ھو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اشالم آناد آنا نوبہت پرامند تھا لنکن وقت گزرنے کے شاتھ اسے ییہ خال کہ پہ کوٸی
اینا آشان کام بہیں ہے۔
اس نے واپر اینڈ ڈونلتمیٹ والوں سے مذاکرات کتے لنکن وہ ناکام رہا۔
لنکن ان کا کہنا تھا کہ اول نو اینا پڑا پروچنکٹ نارلمی یٹ اور سی یٹ کی م نظوری کے ئغیر
ممکن بہیں اور اگر پہ م نظور کر تھی لنا خاۓ نو اس کے لٸے آجھی خاضی رقم
خاٸنے ہے۔چنکہ گورتمیٹ اتھی اپشا کوٸی پروچنکٹ سروع کرنے کے قانل بہیں
ہے۔
تھر نوبیسنف کے ئعاون سے اس نے ڈتم کا آدھا جرخا خود اتھانے کا ق نصلہ کنا۔
مخنل نف نی وی سوز میں کہیں دن نک ڈبی یٹ خاری رہی۔زرغام نے انک دن می کہیں
کہیں پرگرامز میں سرکت کی اور تھر پہ چیر انوان ناال اور انوان زپریں کے یند دروازوں سے
نکراٸی اور آج زرغام غلی خان کے لٸے پڑا دن تھا۔اس نے نارلتمیٹ کے مسیرکہ
سیشن میں ا یتے غالقے کے لٸے اس پروگرام کی اقاد یت اور ناکسنان کے لٸے
اس کے فواٸد پر انک مخ نصر سی ئفرپر کی جس کے مین نواٸیٹ بہی تھا کہ اگر ہم
زاٸرہ خانون ز ی یب اور گھر کے تمام مالزمیں تھی اس وقت نی وی کے آگے پراجمان
تھے اور زرغام غلی خان کی نارلمی یٹ میں ئفرپر سن رہے تھے۔
زی یب کو زاٸرہ خانون پر رشک آنا۔کہ وہ ا یتے قانل بیتے کی ماں ہیں۔
اسے خود پرتھی ناز ہوا کہ نام کا ہی شہی لنکن اس کے نام کے شاتھ اس سحص کا نام نو
جڑا ہے پہ۔
ت کن
سب کے چہروں پر انک ان د ھی خوسی ھی۔ ان کا سردار ان کے لٸے ،ان ک
خق کے لٸے انک مفدمہ لڑ رہا تھ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جس وقت پہ پروچنکٹ م نظور ہوا تھا اور قرچت ومسرت سے ایتی خگہ سے کھڑا
ہوا۔عین اسی وقت اس کے موناٸل پر ضقوان تختی کی کال آٸی تھی۔۔
اس نے کال رپسبو کر کےکان کے شاتھ موناٸل لگانا اور دوسری طرف کی نات سن کر
وہ تیزی سے تیرونی دروازے کی طرف تھاگا تھا۔
ب
وہ بہت رپش ڈراٸنونگ کر رہا تھا۔ضقوان نے اسے پس ہاسینل ہیختے کے لٸے کہا
تھا۔اور زرغام کی خان پر ین آٸی تھی۔
ہاسینل کی نارکنگ میں گاڑی نارک کرکے وہ ناگلوں کی طرح اندر کی طرف تھاگا۔
زبییہ کے روم کے ناہر بہیچ کر ڈور کے ہینڈل پر ہاتھ رکھتے ہوۓ ،اس کے ہاتھ کنکنا رہے
تھے۔
وہ اندر داخل ہوا نو اس کے ینڈ کے ناس بہت سے ڈاکیرز کھڑے تھے۔ وہ اسے ئظر بہیں
آ رہی تھی۔
ضقوان کی آواز اسے بہت دور سے آنی سناٸی دی۔وہ اس سے الگ ہونا ہوا کسی پراپس
کی ک نف یت میں آگے پڑھا اور ڈاکیرز کوانک طرف کرنا ہوا اس کے شا متے خاکھڑاہوا۔
زبییہ کی ئظر چب اس پر پڑی وہ ئفاہت سے مشکراٸی۔
زرغام کے ناس نوجھتےکے لٸے بہت سے سوال تھے لنکن وہ اتھی کوٸی تھی
خواب د یتے کی نوزپشن میں بہیں تھی۔
زرغام ڈاکیرز سے اسے گھر لے خانے کی پرمیشن لیتے کے لٸے روم سے ئکل گنا۔
اس کے خانے کے ئعد ضقوان خلنا ہوا اس کے قریب آنا ،اور بییچ پر بیتھ گنا۔
زبییہ نے الچھن تھری ئظروں سے اسے دنکھتے لگی ۔حیسے اسے بہچانے کی کوشش کر رہی
ہو۔ لنکن بہت کوشش کے ئعد تھی اسے وہ ناد بہیں آ رہا تھا۔
ضقوان کو ڈاکیرز نے بہلے ہی ینا دنا کہ کچھ لوگ اس کنڈپشن سے ناہر آنے کے ئعد ایتی
ناداست کاانک حصہ تھول خانے ہیں لنکن وقت کے شاتھ ابہیں ناد آ خانا ہے۔
ش
“آپ کون ؟ وہ ڈری ہمی سی آواز میں نولی۔”
ضقوان شمچھ گنا کہ اسے اس کااینا قریب بیت ھنا آجھا بہیں لگ رہا۔
وہ انک آہ تھر کر اس سے دور ہٹ کر دنوار کے شاتھ ینک لگا کر کھڑا ہو گنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موشم بہت خوشگوار ہو رہا تھا۔زرغام نے وہنل چٸپر سے اسے نازٶں میں اتھا کر
احیناط سے گاڑی میں بیتھانا۔
اور ضقوان سے گلے مال۔ ”چب وہ تھنک ہو خاۓ گی نو میں تم آ خانا ضقوان لنکن اتھی
اسے کچھ وقت لگے گا۔
بہیں میں تمہیں کسی آزماٸش میں بہیں ڈالنا خاہنا۔فی الچال وہ میری زمہ داری ہے۔
وہ اس کا کندھا دنانا ہوا ڈراٸنونگ سیٹ کی طرف پڑھ گنا۔
ضقوان نے ا یتے موناٸل میں چنکے سے اس کی انک ئصوپر لی ۔
تھوڑی دپر کے ئعد اسے ناہر سے زاٸرہ ی نگم کی رونے کی آواز آٸی ۔نو وہ تحسس کی وجہ
سے ناہر ئکل آٸی ۔
ت
اور شا متے کا م نظر دنکھ کر وہ تھتھک گٸی ۔چہاں زاٸرہ خانون زبییہ کو سیتے میں ھییچ
کر زاروقظار رو رہیں تھیں۔
چی ی
وہ اسے دنکھتے کے لٸے تھوڑا اور آگے پڑھ آٸی اور زاٸرہ خانون کے ھے آ کر
کھڑی ہو گٸی۔
کاہی کلر کے قم نض شلوار میں ہم۔رنگ دو ییہ ر ک ھے ،وہ بہت ہی یناری لگ رہی تھی۔
زرغام غلی خان کی ئظر خو اتھی نو نلینا تھول گٸی۔وہ آج نورے انک ماہ کے ئعد
اسے دنکھ رہا تھا۔
ہ کن
زرغام نے اس کے چہرے پر انک الگ جمک د ھی اور اینات میں سر النا۔
ت ج
زبییہ نے اس کے لٸے ایتی نابہیں تھنالٸی نو وہ ھوڑا ک کے عد اس کے
ئ ھ چھ
گلے لگ گٸی۔
زبییہ کے شاتھ شہر سے انک کل وقتی پرس تھی آٸی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صیح بہت خوشگوار تھی۔
زبییہ کو رات تھر بیند بہیں آٸی تھی اور زرغام تھی اس کے شاتھ خاگنا رہا تھا۔اسے ڈر
لگ رہا تھا کہ پہ پہ ہو کہ انک نار تھر سے وہ سوۓ اور واپس پہ ا تھے۔۔
زرغام اسے مشکرا کر دنکھنا ہوا شیڑھبوں سے ییچے اپر رہا تھا ۔چب اس نے زبییہ کی رنگت
م نغیر ہونے دنکھا۔
وہ آجری شیڑھی پر بہیچا نو دوسری طرف سے آنی زی یب سے نکرانے نکرانے تچا اور شاتھ
ہی وہ زی یب کی پرپشانی تھی تھایپ گنا۔
! گڈ مارینگ
گڈ مارینگ ” !تم اوپر والے نورسن سے آ رہے ہو اور زی یب ییچے سے آ رہی ہے۔ “پہ کنا
ہے؟
ہم۔اس سے کہتے تھے کہ وہ ہماری تھی تھاتھی ہو گی ۔اور ہم اس کے خوب کان تھریں
گے ناکہ تم دونوں کی روز لڑاٸی اور ہم اس لڑاٸی میں ایتی تھاتھی کا شاتھ دیں گے۔
زی یب مشکرا کر اسے دنکھتےلگی۔وہ بہت نانونی تھی ،اور سرارنی تھی۔۔۔
زی یب کے لٸے آج کا دن بہت مسکل تھا کبونکہ زرغام غلی خان شارا دن گھر میں
موخود رہاتھا۔
پہ خانے زرغام نے ناپ کے نار ے میں زبییہ کو کنا ینانا تھا خو اس نے انک نار تھی ان
کے نارے میں بہیں نوجھا تھا۔
رات کو چب زرغام نے سونے کے لٸے ا یتے کمرے میں گنا نو زبییہ۔اور زاٸرہ ینگم
د ونوں اتھی خال میں بیتھیں تھیں۔
زرغام کے خانے کے ئعد زبییہ نے زپردستی اسے اوپر روم میں تھیج دنا۔اس نے بہت
بہانے یناۓ لنکن کوٸی تھی اس کے کام پہ آنا۔
وہ اینا نے زپردستی تھیچا ہے ،اس کی زنان زرغام غلی خان کےیبور دنکھ کر لڑکھڑاٸی۔
اس کے وخود کونازٶں میں تھرکر اس نے ینڈپر ڈاال،اور اس کے میہ پر نانی کے جھنیتے
مار کر اسے ہوش میں آنے دنکھ کر خود خا کر صوقےپر بیتھ گنا۔
م
اسے ڈتم کے لٸے بییرورک کرنا تھا۔دودن کے اندر اسے تمام کاغذی کارواٸی کمل
کرنی تھی۔ناکہ خلد سے خلد ڈتم کی ئعمیر سروع کی خا شکے۔
ہوش میں آنی زی یب نے گردن موڑ کر انک شاٸنڈ پہ بیت ھے زرغام غلی خان کو دنکھا۔خو
لبوں میں سنگریٹ دناۓ کسی قاٸل میں سر دٸنے بیتھا تھا۔
زی یب کے دنکھتے پر اس نے انک احیتی ئظر اس پر ڈالی اور اتھ کر الٸٹ آف کر کے
روم سے ناہر ئکل گنا۔
زی یب کی آنکھوں میں آپسو جمع ہونے لگے،وہ خود پرسی کا شکار ہو رہی تھی۔اس کا چنال
تھاکہ زرغام غلی خان نے صرف بہن کی مخیت میں اسے اس کمر ے میں خگہ دی ہے۔
زی یب کی بیند کی پروا کرنے ہوۓوہ دوسرے کمر ے میں نو آ گنا ۔لنکن وہ کوٸی کام
ڈھنگ سے پہ کر شکا ۔اسے نار نار اسی کا چ نال رہا تھا ،کہ وہ آج اس کےروم میں موخود
ہے۔ جسے وہ چنالوں میں کہیں نار ا یتے روم میں دنکھ حکا تھا۔
ایتی سوخوں سے لڑنے لڑنے اس نےقاٸل یند کر دی اور نافی کام کل پر اتھا کر وہ روم
میں آگنا۔
ئغیر کوٸی آواز کتے وہ روم میں داخل ہوا اور اشکی مچالف شمت سے آ کر اس کے پرار
ل یٹ گنا۔
اس کی طرف کروٹ لے کر انک ہاتھ سر کے ییچے رکھتےہوۓ ،وہ اسے دنکھتےلگا۔
اس کے لمس پر وہ تھوڑا شا کشمشاٸی اور اینا نازٶں اس کے گلے میں ڈالتی تھر سے
سو گٸی۔
ن
زرغام غلی خان نے اس کے نازٶں پر ای نا لمس جھوڑا اور آ یں موند یں۔
ل ھ ک
فحر کے وقت زی یب کی آنکھ کھل نو خود کو زرغام کے حصار میں دنکھ کر وہ تیزی سےییچھے
ہوٸی،لنکن اس کی گرقت مصبوط تھی۔
زرغام غلی خان نے اسے مزأجمت پرک کرنے دنکھ کر ایتی گرقت ڈھ نلی کی اور رخ موڑ کر
ل یٹ گنا۔
وہ تیزی سے اس سے ییچھے ہوٸی اور ایتی اتھل یتھل ہونی شاپسوں کو سیتھالتی اتھ کر
روم سے ناہر ئکل گٸی۔
وہ زبییہ اور ز أٸرہ خانون ناسیہ کر رہی تھیں۔چب وہ تیزی سےشیڑناں اپرنا ییچےآنا ۔اور
سب کو شالم کرنا ہوا زی یب کے جھکے سر پر انک ئظر ڈال کر اس کے عین شا متے والی
چٸپر سیتھال لی۔
زی یب کے لٸے نوالہ خلق سے اپرانا مسکل ہو گنا۔ صیح واال واقعہ ناد کر کے اس کی
ہتھلناں تھنگتے لگی۔ اس نے انک خور ئظرزرغام غلی خان پر ڈالی وہ جشمگیں ئظروں سے
اسے ہی گھور رہا تھا۔
بہیں تھوک بہیں ہے،وہ زی یب کو انک ئظر دنکھنا تیرونی دروازے کی طرف مڑ گنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرغا م اس وقت نالکل خاموش بیت ھا تھا۔کبونکہ لوگوں نے اسے ینانا تھا کہ جس خگہ پر ڈتم
بینا ہے وہاں کی کچھ زمین شفیر خان کی ہے خو کے شلظان خان کا تھاتچا ہے۔
اس نےوہیں بیت ھے بیت ھے اشالم آناد میں موخود ا یتے دوست سے رائطہ کنا۔اور اسے شفیر
خان سے شہراب ڈتم میں اس کی آ رہی زمین کا سودا کرنے کے لٸے کہا۔
زرغام میں کوشش کرنا ہوں لنکن مچھے پہ ممکن بہیں لگ رہا وہ بہت نگڑا ہوا نواب زادہ
ہے۔
اور پہ کہ تم اس کےشاتھ انک پرپس کائفرپس کر کے کہو کہ شفیر نے تمہیں وہ زمیں ڈتم
کے لٸے عطیہ کی ہے۔
کیتی رقم ما نگی ہے اس نے؟
دس کروڑ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھ ت
زرغام غلی خان نے ہویٹ یچ لٸے ۔
ی
میں تمہیں بہلے ہہ کہہ رہا تھا زرغام وہ انک تمیر کا کمییہ ہے۔دوکروڑ کی زمیں کا وہ دس کروڑ
ما نگ رہا ہے۔
اس لٸے ہللا کے لٸے سودا کرنے وقت ئفع وئفصان بہیں دنکھتے،ہللا اس کا
ندلہ دس گناہ پڑ ھا کر د ینا ہے۔
اسے رقم ادا کر دو اور میری طرف سےضقوان کو کہو اس کے شاتھ پرپس کائفرپس رکھ
لے۔
اوکے سردار صاچب حیشا آپ کا خکم وہ سرارنا نوال ،اس کی نات پر زرغام کے ہویبوں پر
مشکراہٹ دوڑ گٸی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“نوں سییچو ین کر رات بہیں گزرے گی۔حییج کرو اور آرام سے سو خاٶ۔”
گنلے نالوں میں پرش خالنا وہ نے ناپر لہچے میں کہہ رہا تھا۔اور ینا اس کی طرف د نکھے شاٸنڈ
ب
بینل سے سنگریٹ کا ینکٹ اور الٸپر اتھا کر ناہر ئکل گنا۔زی یب چہاں کی بہاں یتھی رہ
گٸی۔اس کی کلون کی خوسبو خاروں اور تھنل گٸی تھی۔
اور آپ ؟آپ اس سب میں کہاں کھڑے ہوں گے؟؟ الفاظ اس کے میہ سے رک رک
کر ئکلے۔
پ م ت م ت ک ہ ب م ہم تمہ ک غ ق
یں یں سی لط می یں یں ر ھنا خاہنا۔ا ھی وقت تمہاری ھی یں ہے۔وا سی
کے دروازے کھلے ہیں۔خو خاہے ق نصلہ کرو میں رکاوٹ بہیں یبوں گا۔”کبونکہ مچھے
“زپردستی اور نے اتمانی سے ئفرت ہے۔
انک ئظر اس کے یتھراۓ ہوۓ چہرے پر ڈالنا ہواوہ ناہر ئکل گنا۔
اس نے زرغام کو ئکارا ۔خو خانے خانے ایتی خگہ پر ئغیر مڑے اس کی سیتے کے
لٸے رک گنا۔
ت
وہ نے خود شا اس کے چہرے پر ھشلتی نوندوں کو دنکھنا رہا۔
ب
اور وہ سن کر بہلی قرصت میں ماں اور ناپ کو لے کر خونلی یچ آنا۔
ہ
زرغام نے زبییہ کو ینا دنا تھا اس کے ہاتھ میں خو ہیرے کی انگوتھی ہے وہ ہاسینل میں
اسے ضقوان نے بہناٸی تھی۔اور وہ چیرت سے میہ کھولے ضقوان کو دنکھتے لگی۔
خو آنکھوں میں خوسبوں کا انک چہان لٸے اسے دنکھ رہا تھا۔
ک بونکہ وہ بہلے ہی کمرے میں اس کا ئکاال گنا گرین ڈرپس دنکھ آنا تھا۔
زرغام کو اس کا پہ انداز بہت تھانا تھا۔اور اس کی گھتی موتچھوں نلے لب ا یتے آپ
مشکراہٹ میں ڈھل گٸے
۔شکھ حین کی گھتی شاخوں میں پرسوں سے یناہ لیتی جڑناں اخانک انک شاتھ سور مچانے
ت تیم ب
لگی۔زی یب نے سر اتھا کر دنکھانو انک نلی ان کی ناک یں ھی ھی۔زی یب تیزی سے
اتھ کر اس طرف تھاگی لنکن اسے دنکھتے ہی نلی انک جست میں وہاں سے تھاگ
گٸی۔نک زنان چہچانی جڑناں انک دم سے پرشکون ہو گٸیں۔
رات کے قنکشن کے اپرات اتھی تھی بہاں وہاں نکھرے پڑے تھے۔جشک تھولوں کی
بیناں،متھاٸی کے خالی ڈنے ،کسی نونی خوڑنوں کہ کاتچ زی یب کو انک دم سے قصا
حیس آلود لگی ۔اس نے سر اتھا کر اوپر دنکھا نو آشمان میں اس کے سر پر تیرنی خار ناتچ
چنلیں!اس کا دل انک دم سے گتھرا گنا۔حیسے کچھ پرا ہونےواال ہے۔
وہ دل کے مفام پر ہاتھ رکھتی ییچے کی طرف تھاگی،زرغام ،اور زاٸرہ خانون نےانک شاتھ
ئظر اتھا کر اسی کی طرف دنکھا تھا۔اسے ان کی ئظروں سے کچھ عخ یب شا اجشاس ہوا
تھا۔اس نےا لتے قدموں ناہر ئکلنا خاہا،لنکن اس سے بہلے ہی زبییہ کی آواز نے اس کے
ناٶں جھکڑ لیتے۔
زرغام غلی خان !اس کی آواز انک نار تھر گوتچی ۔۔زی یب کا دل زور زور سے دھڑ کتے لگا۔
“اگر تم میرے تھاٸی ہو ،نو اس لڑکی کو اتھی اور اسی وقت طالق دے دو ۔”
اس نے زرغام غلی خان کی طرف دنکھنا خاہا لنکن آنکھوں جمع ہو رہےنانی نے ا س کا
چہرہ دھندال دنا۔
زرغام غلی خان!نے کچھ کہتے کے لٸے میہ کھوال ۔۔۔۔۔۔۔ اور شاتھ ہی زی یب نے
انک امند تھری ئظر زبییہ پر ڈالی ۔لنکن وہ اسے بہیں دنکھ رہی تھی۔
وہ اس کی میت شماچت کرنے کے لٸے آگے پڑھی لنکن وہ اسے ایتی طرف پڑھنا
دنکھ کر بہلے ہی نول اتھی۔
ھ ت
اس نے ا یتے دونوں ہاتھوں کی مت ھبوں کو یچ کر ھوال۔
ک ی
اس نے انک ئظر نونی نکھری زی یب پر ڈالی خو انک آس اور امند سے زرغام کو دنکھ رہی
تھی۔ زاٸرہ خانون نے اس کا ہاتھ نکڑ کر ئفی میں سر ہالنا۔
نو میرا کنا قصور تھا ؟“ کنا میرا قصور پہ تھا ،کہ میں خوئصورت تھی نا میرا قصور پہ تھا”
کہ میں نے قاٸقہ شلظان حیسی لڑکی سے دوستی کی خو انک ناگن تھی۔
“میں اپسی بہیں ہوں اگر وہ آپ کا تھاٸی ہے نو میرا تھی سر کا شاٸیں ہے۔”
آٸنے ناطرین ہم آپ کو لٸے خلتے ہیں اشالم آناد چہاں اس وقت شہراب ڈتم کے
نٸے نارتیر شا متے آۓ چتھوں نے ایتی خار انکڑ زمیں ڈتم کےلٸے عطیہ کی
ہے۔
ی ھ س م ت
زرغام نے آگے پڑھ کر اسے یتے یں یچ لنا۔
ہش
دونوں ہاتھوں سے ا س کی سرٹ کو نکڑے وہ ڈری می اس کے یتے یں ھپ خانا
ج م س
خاہتی تھی۔
اینا یناٶ کنا بہی ہے وہ؟
وہ زور زور سے سرہالنے لگی ۔اور زرغام کی آنکھوں میں خون اپر آنا تھا۔
وہ زبییہ کو نازٶں میں اتھاۓ کمرے میں النا اور اسے بیند کی دوا دے کر زاٸرہ خانون کو
اس کا چنال رکھتے کا کہہ کر کمرے سے ناہرئکل آنا۔
کمرے کے ناہر کھڑی زی یب کو نازٶں سے نکڑ کر اوپ کرمر ے میں ال کر زور سے صوقے پر
ییچا۔
زی یب شلظان چب نک میں واپس پہ آٶں اس کمرے سےناہر بہیں ئکلنا اگر میرے
ئکاح میں رہنا خاہتی ہو نو۔
میں ا یتے دشمبوں کو کتھی معاف بہیں کرنا،خاہے وہ کوٸی تھی ہو۔
لنکن شفیر نے زبییہ آنی کو کبوں مارا ہو گا،ان کی ان کے شاتھ کنا دشمتی تھی؟
ک بونکہ زبییہ خان نے اس کا پرنوزل رتچکٹ کا تھا ۔ور چب اس نے اس کا ہاتھ نکڑنا خاہا
تھا یب تھری نونی میں اسے ت ھیڑمارا تھا۔اوراس ت ھیڑ کا ندلہ اس نے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی
۔۔۔۔۔۔
کنا؟؟
!کچھ بہیں
بہیں!آپ کو ینانا پڑے گا؟
بہلے آپ کو ینانا پڑے گا ،کنا کنا تھا شفیر نے زبییہ آنی کے شاتھ ؟
اس کی عزت نار نار کرنے کے ئعد اشکو خان سے مارنے کی کوشش کی تھی۔اور ئقینا وہ
اتھی نک پہ نات بہں خاینا کہ زبییہ خان زندہ ہے۔
آپ کوپہ سب کیسے ییہ خال ؟اسے ایتی ہی آواز کسی کھاٸی سے آنی ئظر آٸی۔
آج ہی ییہ خال ہے ،زبییہ اس کا نام اور چہرہ تھول خکی تھی۔لکن وہ اینا خایتی تھی کہ
قاٸقہ شلظان اسے دھوکے سےنونی سےا یتے شاتھ ا یتے گھر لے کر گٸی تھی۔
زرغام غلی خان میں ہمیشہ آپ کی وقادار رہوں گی۔آپ خاہیں نو دوسری شادی کر لیں۔
لنکن میرے نام سے اینا نام خدا پہ کیجٸنے گا۔میں مر خاٶں گی۔
ج شل
ھے زی یب ظان کو رونے گڑگڑانے ھوڑ گنا۔ چی ی
زرغام غلی خان کی ناٸیں آنکھ سے انک آپسو ئکل کر اس کی بٸپرڈ میں کہیں گم ہو
گناتھا۔
ش ک ی ن
اس نے ایتی کالٸی پر لب ر ک ھے اور نے درد ی سے ا تی آ یں لی خو شدت ضنط
م ھ
سے سرخ ائگارہ ہو رہیں تھیں۔
وہ قاٸقہ سے بہت مخیت کرنا تھا ۔لنکن ماں ناپ کاا کلونا ہونے کی وجہ سے وہ ماں کے
آگے مخبور ہو گنا اور ایتی انک بیتم کزن ستے شادی کر لی۔خو تجین سے اس سے میسوب
تھی۔لنکن خونکہ عفان کو قاٸقہ پسند آ گٸی تھی اس لٸے اس نے ا یتے ماں
ناپ کو ناراض کر کے قاٸقہ کو اینانا تھا۔
قاٸقہ کے لٸے پہ چیر کسی دہست سے کم پہ تھی۔وہ درداپہ ینگم کے گھر تھی چب
اسے عفان کے ئکاح کی نایت ییہ خال وہ رپش ڈراٸنونگ کرنی ہوٸی گھر بہیخنا خاہتی
تھی۔لنکن ہللا کو کچھ اورہی م نظور تھا۔اسے کسی مظلوم کی آہ لگ گٸی تھی۔
جس وقت وہ دونارہ ہوش میں آٸی نو عفان ا شکے ناس موخود تھا ،لنکن وہ ایتی دونوں
نانگیں کھو خکی تھی۔
ایتی پہ خالت دنکھ کر وہ چیختے خالنے لگی ۔ڈاکیر نے اسے شکون کا تچکشن لگانا ۔اور وہ
گہری بیند میں خلی گٸی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرغام جس وقت اشالم آناد بہیچا رات گہری ہو رہی تھی۔موشم اپر آلود ہو رہا تھا،کالے
نادلوں نے آشمان کو ڈھک رکھا تھا۔
زرغام کے موناٸل پر رنگ ہوٸی ،اس نے کال۔رپسبو کی نو دوسری طرف اس کا
بہیرین دوست قاران تھا۔
اوکے ،تھینک نو !اس نے کال کٹ کر کے موناٸل ڈپش نورڈپر ڈاال اور گاڑی کا رخ
مری کی طر ف موڑ دنا۔ شدند دھند تیز نار ش اور اولوں کے درمنان وہ تیز رقناری سے
گاڑی خال رہا تھا۔
ای نفام کی آگ اپشان کو ناگل ینا د یتی ہے۔۔وہ ناتچ گھیتے کا شفر طے کر کے اشالم آنا د بہیچا
ب
تھا۔اب اسے مری ہیختے کے لٸے مزند انک گھییہ اور ڈراٸنو کرنی تھی۔
وہ جس وقت مری بہیچا وہاں پرف ناری سروع ہو خکی تھی۔
سردنوں کی کالی رابیں تھی۔آشمان نادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ خاند تھی کہیں نادلوں کی اوٹ
میں جھنا بیت ھا تھا۔ہر طرف پرف کی شفند خادر تچھی ہوٸی تھی۔
اس نے ایتی گاڑی کاییج سے کافی بہلے ہی نارک کی اور ماشک سے چہرہ ڈھک لنا۔
وہ کاییج کے شا متے سے ہونا ہوا انک لمناخکر کاٹ کر اس کے عفتی حصے میں بہیچا،چہاں
ناتچ قٹ کی انک انلومنیتم کی ونڈو تھی۔ اس نے ناس پڑا انک یت ھر اتھانا اور سیسے پر دے
وہ کاتچ ہنانا ہوا اندر داخل ہوا اور شا متے کمرے کے کھلے دروازے سے اسے شفیر یتم پرہیہ
خالت میں ینڈ پر پڑا ئظر آنا۔
وہ گاڑی سے ا یتے شاتھ رسی تھی النا تھا۔
سراب کے پسے میں ڈونا وہ ہوش وجرد سے ی نگاپہ تھا۔
زرغام غلی خان نے اسے اتھا کر کندھےپر ڈاال اور ال کر دوسرے کمرے میں موخود انک
کرسی کے شاتھ اسے ناندھ دنا۔
اس کا پشہ دور کرنے کے لٸے بہلے اسے نانی میں لتموں ڈال کر اس کے میہ میں
انڈنال۔جس کے خواب میں اس کے میہ سے معلظات کا انک طوقان ئکال تھا۔
زرغام غلی خان نے اینا ماشک میں جھنا چہرہ آزاد کنا۔
💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝
وہ سناپ پر پس کا و یٹ کر رہی تھی۔وہ انک اتیربیسنل قرم میں انک انڈتیر کے طور پر
کام کر رہی تھی۔ چب کافی دپر کھڑے رہتے کے ئعد تھی اسے گاڑی بہیں ملی نو وہ یندل
ہی خل پڑی ۔کے ائف سی کے ناس سے گزرنے ہوۓ اسے شدند تھوک کا اجشاس
ہوااور وہ کچھ سوچتے ہوۓ اندر پڑھ گٸی۔
اینا آرڈر لے کر وہ چٸپر سیتھال رہی تھی ،چب اسے خانی بہچانی آواز سناٸی دی۔اس
آوا ز کو وہ الکھوں میں تھی بہچان شکتی تھی۔اس نےرخ موڑ کر دنکھا نو وہ وہی تھا۔اشکے
وہ زرغام غلی خان تھا۔۔۔۔۔نالسیہ وہ اسے نورے جھے شال کے ئعد دنکھ رہی تھی۔۔
اس نے خلدی سے رخ موڑ لنا منادا وہ اسے دنکھ پہ لے۔کسی نات پر وہ ہیشا تھا۔اس
کے شاتھ زبییہ ،ضقوان اور انک خار نا ناتچ شال کا تجہ تھی تھا۔
اس کا جی خاہا وہ نلٹ کر اسے ہیستے ہوۓ د نکھے ،کبونکہ وہ ہیستے ہوۓ بہت خوئصورت
لگا کرنا تھا۔لنکن اس نے خود کو ڈاینا ،اسے کمزور بہیں پڑنا تھا۔وہ ینگ سیتھالتی ہوٸی
ناہر ئکل آٸی ۔ قصا میں انک دم سے حیسے گھین سی تھر گٸی تھی۔دل نک دم
ہی دکھ سے تھر گنا تھا۔تھولے پسرے دکھ سو ر مچانے لگے۔ وہ مرے ہوۓ قدموں سے
خلتی ہوٸی ہاسنل میں داخل ہوٸی اور ا یتے روم میں آ کر بینل پر سر رکھا اور
مخیت کے لٸے بہانا گنا آپسو چہاں تھی گرے ،زمین کو ییحر کر د ینا ہے اور ان گزرے
جھے شالوں میں اس نے دو ہی کام شدت سے کتے تھے۔انک زرغام غلی خان سے عسق
اور دوسرا اس کو تھول خانے کا عہد ،لنکن آج چب جھے شال کے ئعد زرغام غلی خان کو
سرراہ ئظر آ گنا نو اسے لگا وہ ای نا عہد بہیں یتھا شکے گی۔
وہ نو آج تھی وہیں مفتم تھا،اول روز کی طرح اشکے دل کا خکمران ،اسے دنکھ کر اسے لگا کہ
وہ نو کتھی اسے جھوڑ کے آٸی ہی بہیں تھی۔
بہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مچھے اب اسے ناد بہیں رکھنا ہے۔ “اس نے نےدردی سے ا یتے”
آپسو صاف کتے۔
لنکن شاند خدا کو کچھ اور ہی م نظور تھا۔جس وقت وہ خونلی میں داخل ہوا،اسے وپرانی سی
محسوس ہوٸی ۔لنکن اس نے سر جھنک دنا ۔اور شست قدموں سے اندر ہال میں
داخل ہوا اور شا متے پڑے صوقے پر ہی ل یٹ گنا۔
زاٸرہ خانون سے زبییہ کی چیریت معلوم کر کہ اسے اس کا چنال آنا ۔ جسے وہ کمرے میں
ہی رہتے کا نایند کر گنا۔۔وہ زاٸرہ خانون سے اخازات لے کر ا یتے روم میں آ گنا۔
کمرا خالی اور سیشان پڑا تھا۔ وہ ا یتے کیڑے ئکا لتے کے لٸے چب وارڈروب کھولی نو
وہاں سے زی یب کے شارے کیڑے غاٸب تھے۔
وہ تیزی سے واش روم کی طرف پڑھا وہ تھی خالی تھا۔
اشکے اوشان حظا ہو گٸے اور اس نے ناگلوں کی طرح خونلی کا چیہ چیہ جھان مارا
لنکن وہ بہیں ملی۔وہ وہاں ہونی نو ملتی۔،
آجر میں وہ ناگلوں کی طرح نالوں میں ہاتھوں کی ائگلناں تھیشا کر بیتھ گنا۔
اس نے گاڑی کی خانی لی اور تیز رقناری سے گاڑی لے کر شلظان خان کی خونلی بہیچا۔
اس کا چنال تھا وہ وہیں آٸی ہو گی۔لنکن وہ وہاں بہیں تھی۔
بہیں ماں اب اسے کوٸی بہیں ڈھونڈے گا۔۔۔کوٸی تھی بہیں۔وہ ایتی مرضی سے
بہاں سے گٸی ہے۔اب خود ہی لوٹ کر آۓ گی۔
زبییہ آنی تھنک کہتی تھی ۔پہ لڑکی تمہیں ینار کے خال میں تھیشا کر مار دے گی۔
اسے شالوں لگے خود کو سیتھا لتے میں ،اس نےسرداری جھوڑ دی۔اور ماں کو لے کر شہر
آگنا۔اس نار زاٸرہ خانون نے کوٸی اعیراض بہیں کنا۔
لنکن اس نے ا یتے گاٶں کے لوگوں سے خو وغدہ کنا تھا۔ہ اسے نے وقا کنا اور بین
شال کی قلنل مدت میں ڈتم ئعمیر ہو گنا۔ اس میں بہت سے لوگوں کی کاوش شامل
زبییہ آنی کی شادی بہت دھوم دھام سے ضقوان کے شاتھ ہو گٸی تھی۔وہ ایتی زندگی
میں بہت خوش وجرم تھی۔اس کا انک خار شال کا بینا تھی تھا ۔جس کا نام زرغام نے
قلب مومن رکھا تھا۔اور اس کی شاری غادبیں زرغام غلی خان کے حیسی تھیں۔
زبییہ کی زندگی میں پس انک ہی مالل تھا ،کی اس کی وجہ سے زرغام غلی خان کی زندگی
ادھوری ہو گٸی۔
اس نےایتی پرانی خاب تھر سے سروع کر دی تھی۔اور وہ ناکسنان میں کم ہی نکنا
تھا۔کتھی کہاں اور کتھی کہاں اس کی زندگی کا مفصد پس لوگوں کی خدمت تھا۔
آج تھی اس پر بہت سی لڑکناں مرنی تھیں اور کہیں انک نے اسے پرنوز تھی کنا تھا۔
جس کے خواب مں وہ ابہیں ینانا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے۔اور ا یتے موناٸل میں موخود
چند انک ئصاوپر تھیں زی یب کی خو وہ یبوت کے طور پر بیش کرنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو خا گتے رہتے ک بوجہ سے صیح اشکی آنکھ دپر سے کھلی ۔وہ خلدی سے قرپش ہو کر ئغیر
نا ستے کے ہی ئکل آٸی ۔
آج ل یٹ ہونے کی وجہ سے اس نےنواٸیٹ سے خانے کا ق نصلہ پرک کنا اور ناس سے
ب
گزرنے رکسے کو روک کر ییہ شمچھا کر یتھی ہی تھی۔چب اشکے موناٸل پر رنگ ہوٸی۔
اشالم آناد میں آ کر وہ سروع میں اس کے گھر ہی رہی تھی۔ وہ اس کے تمام خاالت سے
تچونی آ گاہ تھی۔
اس نے کال رپسبو کی نو دوسری طرف سے اس کی پسوپش میں ڈونی آواز اتھری
ہنلو زیتی کہا ں ہو۔۔۔۔۔۔کنا ہوا ہے؟“تم اتھی نک کہاں ہو ؟”
ی کن
ناٸی دا وے تم اینا ل یٹ کبوں ہو؟ اور پہ تمہاری آ یں ا تی سرخ بوں ہو رہی”
ک ھ
ہیں؟۔“وہ کھوچتی ئگاہوں سے اسے دنکھ رہی تھی۔۔وہ ئظریں جرا گٸی۔
آجھا “غلییہ نے نے ئقیتی سے اسے دنکھامگر نولی کچھ بہیں کبونکہ شا متے سے ائکا اتم”
ڈی خاور آ رہا تھا۔ان دونوں نے خلدی سے ایتی ایتی سیٹ سیتھال لی۔
لیچ پرنک میں وہ دونوں ک نقےتیرنا خا رہی تھی ۔وہ شیڑھ بوں پر تھتھک کر رک گٸی ۔کبوں
کہ وہ اتم ڈی خاور جشن سے مچو گفنگو اوپر کی طرف آ رہا تھا۔وہ خلدی سے اس سے جھینا
خاہتی تھی لنکن عین اسی لمچے اس نے نات کرنے ہوۓ اوپر کی طرف دنکھا۔وہ اس
لمچے کےلٸے ینار بہیں تھی۔زی یب شلظان کا دل کسی نے متھی میں لے لنا۔وہ
تھی کچھ لمچے تھتھکا لنکن اگلے ہی نل وہ تھر سے گفنگو میں مسغول ہو گنا تھا۔
گ یٹ آ شاٸنڈ نلیز۔ “کسی نے کہا اور وہ گونا خواسوں میں لوٹ آٸی۔اس نے”
خلدی سے زییہ عبور کرنے کی کوشش کی اور اسی خکر میں وہ دھڑام سے ییچے خا
گری۔خونے کی اپڑی نوٹ گٸی تھی۔وہ سرمندگی سے سر تھی پہ اتھا شکی۔ئکل نف
نلنک تھری بیس سوٹ ز یب ین کتے ،آ نکھوں پہ سن گالسز جڑھاۓ۔ا یتے اکھڑ اور
معروراپہ انداز لٸے۔اشکے کچھ نو لتے سے بہلے ہی وہ نول اتھا ۔
مچھے ینا تھا تم ادھر ہی آٸی ہو گی۔ کیسی ہو؟“ اس نے تم نلکیں اتھاٸی”
لنکن نولی کچھ تھی بہیں۔
وہ تھی کہنا خاہتی تھی کہ تم تھی بہیں ندلے ،وہی اکڑ اور عرور خوں کا نوں ہے۔“لنکن
زنان اس کا شاتھ بہیں دے رہی تھی۔
میں بہیں خایتی کہ آپ کون ہیں ؟“اس نے امڈ کر آنےوالے آپسو ٶں کو ییچھے”
دھکنال اور دوسری خایب مڑ گٸی۔
اور وہ تھی اس پر انک قہر پرشانی ئظر ڈال کر وہاں سے ئکل گنا۔
آپ اور اموخان خا کر نات کر لیں اس کے گھر والوں سے ،مچھے کوٸی اعیراض بہیں
ہے۔
پہ کہہ کر اس نےکال کٹ کر دی۔
زی یب شلظان اب تم خود مچھ نک آٶ گی۔میں نے ایتی انا ،عرور سب کچھ پس پست ڈال
کر تمہاری طرف پڑھا ۔۔۔
۔لنکن تم آج تھی جھے شال بہلے والی خگہ پر کھڑی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زی یب آج آفس آٸی نو غلییہ اسے نٸے ناس کے نارے میں ی نانے لگی۔
زی یب کو نو ان نانوں میں کوٸی اتیرسٹ ہی بہیں تھا۔
اس کا چنال تھا دینا میں زرغام غلی خان سے زنادہ خوئصورت مرد کوٸی ہے ہی بہیں۔
یتھی اتم ڈی خاور جسین کے شاتھ زرغام غلی خان اندر داخل ہوا۔ غلییہ نے اس کا نازو
نکڑ کر اس طرف اشارہ کنا اور شاتھ ہی زپر لب پڑ پڑاٸی ،یبو ناس۔۔۔۔۔
اور زی یب شلظان کی خو ئگاہ اتھی نو اس کی رپڑھ کی ہڈی میں سیستی دوڑ گٸی۔
زرغام غلی خان کے شاتھ انک نےخد ماڈرن لڑکی اس کے نازٶں پر ہاتھ ئکاۓ آگے
پڑھ رہی تھی۔
اور اس کے زی یب شلظان کہتے پرعصے سے زرغام غلی خان کی بیشانی شلونوں سے تھر
گٸی۔
جی میں انڈبینگ کرنی ہوں اور شاتھ کتھی کتھار کچھ لکھ تھی لیتی ہوں۔
ہمم ۔۔۔۔۔اس ہفتے کا منگز ین کور آپ نے انڈیٹ کنا تھا۔
بہاں اگر تحرپر سرخ کی تچاۓ نلنک کلر میں ہی ہونی نو پہ زنادہ آجھی دکھتی۔
آج کے ئعد آپ خو انڈیٹ ینار کریں گی ،وہ بہلے مچھے دنکھاٸیں گی تھر اس کے ئعد وہ
اپروو ہو گی۔انڈرسنینڈ۔۔۔۔
اوکے تھر اتھی آپ کے دماغ میں اس ونک کے کور کے لٸے اٸنڈناز ہیں ،وہ لے
کر آپ میرے آفس میں آ خاٸیں۔
جی سر۔
اور وہ مشکراہٹ ضنط کرنا ہوا ا یتے آفس میں خال گنا۔اور رو م میں ادھر ادھر بہلتے ہوۓ
اس کےآنے کا ای نظار کرنے لگا۔
تھوڑی دپر کے ئعد وہ ل یپ ناپ اتھا ۓ اندر خلی آٸی۔
وہ اشکے شا متے بیتھ گٸی اور ل یپ ناپ پر اسے کچھ ڈپزاٸن دکھانے لگی۔
اور ل یپ ناپ زی یب شلظان کے ہاتھ سے ییچے خا گرا جسے زرغام نے پروقت نکڑ لنا۔
کناہوا؟کچھ شمچھ بہیں آ رہا نو کنا میں شمچھا دوں؟“زرغام غلی خان کی سرارت سے”
ی ھ م ک
تھرنور آواز اسے خواسوں یں یچ الٸی۔اس نے نے شاچیہ ا یتے شا متے رکھا ل یپ ناپ
یند کر دنا۔
میں خلوں۔“اس نے خود کالمی کے انداز میں کہا اور ایتی چیزیں شمنیتے لگی۔”
“کچھ دپر رکو زی یب ۔۔۔۔۔۔مچھے تم سے کچھ نابیں کلٸپر کرنی ہیں۔”
لنکن میرے ناس کہتے کے لٸے کچھ تھی بہیں ہے۔“ہمیشہ کی طرح اس نے”
دل کی آواز پر الت ماری۔
اس رات چب میں نے تمہیں کہاتھا کہ میرے آنےنک اس کمرے سے کہیں بہیں
خانا۔تھر تم کبوں تھاگ گٸی ؟
آپ نےکہا تھا آپ آ کر میرے نارے میں ق نصلہ کریں گے۔آپ نے پہ بہیں کہا
تھاکہ،میرا ای نظار کرنا ۔میں نے آپ کو روکا تھی تھا۔ایتی انا کو روندھ کر آپ کی طرف بیش
قدمی کی تھی۔لنکن آپ انک تھی لفظ کہے ئغیر خلے گٸے۔
تھر میں نے سوخا کہ اس سے بہلے آپ میرے نام کے شاتھ سے اینا نام ہنا دیں ۔میں
آپ کی بہیچ سے دو ر خلی خاٶں۔ناکہ کم سے کم آپ کا نام میرے نام سے نو جڑا رہے گا۔
آجر میں اس کی آواز میں آپسو کی تمی سی گھل گٸی۔
چنکہ زرغام غلی خان نے آفس کی اتم نالٸز کے کواٸف والی و یب کھولی اور زی یب
شلظان کے نام پر کلک کنا۔
نام ۔زی یب شلظان
والد نا سوہر کا نام ۔۔۔زرغام غلی خان
وہ اسے مچاظب کرنے کی خگہ اس کے ناس آنا اور اس کا ہاتھ نکڑ کر عچلت میں
نوال،زی یب خلدی خلو میرے شاتھ کچھ کام ہےتم سے۔
سر اتھی آفس آورز ہیں ئعد میں آپ سے نات کرنی ہوں۔
آفس میں سب لوگوں کو شایپ سونگھ گنا۔ ا یتے دنوں میں وہ زرغام کو اینا نو خان ہی
گٸے تھے کہ وہ عصے کا بہت تیز ہے۔
ھ مت ت
زرغام غلی خان نے ھناں یچ کر زی یب پر ا ک ظر ڈالی جس کی آ کھ یں آپسو سے
م ن ئ ن ی
اس کے چہرے سے ہونے ہوۓ اس کی ئظر اس کےناٶں پر گٸی چہاں سیسے کا
انک نکڑا لگتے سے اس کا ناٶں خون سے رنگین ہو گناتھا۔
وہ جھک کر اس کے ناٶں کے قریب بیتھ گنا۔اور اس کا ناٶں اتھا کر ا یتے گھیتے پر رکھتے
ہوۓ غلییہ کو قرسٹ انڈ ناکس النے کے لٸے نوال۔
سب لوگوں کے لٸے پہ سین اب بہت دل جستی لٸے ہوأ تھا۔ان کا ینا ی نا
ناس آفس کی انک اتمنالۓ سےآجر خاہنا ک نا ہے۔
کنا۔۔۔؟۔اس کی نات وہ خلدی سے اتھی لنکن ایتی ہی تیزی سے واپس بیتھ گٸی۔
زرغام غلی خان نے ا یتے آس ناس سب کی جہ منگوٸناں ستی جس میں دنی دنی سی
ہب
ہیسی تھی شامل تھی ۔اس نے چہاں نک ئظر یختی ھی۔وہاں نک انک کڑی ئظر ڈالی۔
ت
سب ئظریں جرا کر ا یتے کام کی طرف مبوجہ ہونے لگے۔چب اس نے ہاتھ اتھا کر سب کو
مبوجہ کنا۔
ہماری شادی کو شات شال ہو خکے ہیں۔اس لٸے آپ سب کو اینا چیران ہونے کی
صرورت بہیں ہے۔
کن
آپ نے کہا تھا کہ وہ کہہ رہی ہیں میں زی یب کو لٸے ئغیر پہ آٶں۔د یں یں اسے
م ھ
لے آنا ہوں۔
زی یب نے ئظر اتھا کر زرغام غلی خان کو دنکھا اور اس کی خذنے لنانی ئظروں سے گتھراکر
سر جھکا لنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرغام نے نلبو کلر کے تھری بیس سوٹ میں ملبوس آج کی ئفریب پر جھانا ہوا تھا۔
وہ نار نار ایتی کالٸی میں یندھی گھڑی پر وقت دنکھ رہاتھا۔
اور تھر اس کا ای نظار چتم ہوا ۔ نلبو کلر کے لہنگے میں جس پر گولڈن کام کنا ہوا تھا۔ مہندی
سے سچےہاتھ،کالٸنوں میں تھر تھر کر خوڑناں ڈالی گٸیں تھی۔
ئفاست سے کنا گنا منک اپ زرغام غلی خان کے ہوش اڑانے کےلٸے کافی تھا۔ وہ
نلکیں جھنکنا تھی تھول گنا۔
ماموں کنا پہ ہماری مامی ہیں؟ ”وہ پرسوق ئظروں سے زی یب کو دنکھتے ہوۓ نوجھ رہا تھا۔
وہ نو قلب مومن سے سو ق نصد م نقق تھی۔وہ خایتی تھی وہ شہزادوں کی آن نان واال سحص
ہے۔اسے نو کوٸی تھی مل شکتی تھی۔لنکن اس کے رب نے اسے زی یب شلظان کی
فشمت میں لکھا تھا۔
و لتمے کی ئفریب سے وہ اسے لے کر سندھا ا یتے قارم ہاٶس کے لٸے ئکال تھا۔
ت تیب
زی یب شلظان سرشار سی اس کی شاتھ والی سیٹ پر ھی ھی۔
اور وہ۔۔۔وہ نو ہواٶں میں اڑ رہا تھا۔آج وہ ہر قکر ہر پرپشانی سے آزاد ہو گنا تھا۔ وہ
گزرے ہر نل کا ازالہ کرنا خاہنا تھا۔
اس نے ییچ روڈ میں گاڑی روک دی اور مڑ کر پرسوق ئظروں سے زی یب شلظان کے اس
سچےسبورے روپ کو ا یتے اندر انارنےلگا۔
میں تمہیں بہت بہلے سے خاینا ہوں۔ ئفرینا“ نارہ شال بہلے سے چب تم شاند نٸی
نٸی کالج گٸی تھی۔
میں نے انک نار شہر سے گاٶں آنے ہوۓ تمہیں را ستے میں دنکھا تھا۔
تمہاری گاڑی جراب ہو گٸی تھی ۔ اور یب میں نے تمہاری گاڑی تھنک کی
کم ت ن
تھی۔لنکن تم ہوش میں ہونی نو چھے ھی د تی۔ کن تمہارا شاند بییر تھا اور م ا تی کناب
ی ت ن ل ھ
پر جھکی تھی۔تم نےنو یتھی میرا دل جرا لنا تھا۔
چب جرگے میں ،میں نے تمہارا نام لنانو تم نے پہ بہیں سوخا کہ میں تمہارا نام کیسے خاینا
ہوں۔
“ اور زی یب شلظان سوچتے لگی ،کنا کوٸی مرد تھی اینا خوئصورت لگ شکنا ہے۔”
میں تمہیں دنکھتے کے لٸے تمہارے کا لج کے ناہر کھڑا رہنا تھا۔اور تمہاری وجہ سے میں
نے ایتی کیتی انک کالسز ینک تھی کی تھی۔
خایتی ہومیں زبییہ آنی کو تھی شاتھ لے کر آنا تھا۔ وہ تمہیں دنکھتے آٸی تھی کہ وہ کون
ہے جس کے لٸے ان کا تھاٸی دنواپہ ہو گنا ہے۔
زرغام غلی خان نے اس کے تھنڈے ہاتھوں کو ایتی پرم گرم گرقت میں لنا۔
اور اسے ایتی نابہوں کی گرقت میں لے کر ا یتےقریب کنا ۔اور ا یتے لب اس کے سر پر
رکھ دٸے۔
کن
چنکہ زی یب شلظان نے شکون سے اس کے سیتےپر سر رکھ کر آ یں موند یں۔
ل ھ
نادلوں کی اوٹ میں جھنا خاند تھی ان کے ملن پر مشکرا دنا۔
زندگی دکھ اور شکھ کا نام ہے۔خوسناں او غم نو زندگی کے شاتھ ہیں ۔اور بہادری سے ان
کا مفانلہ کرنے واال ہی زندگی کےمندان میں کامناب ہونا ہے۔
چتم شد