Professional Documents
Culture Documents
ناول بینک و یب پر شا ئع ہونے والے تمام ناولز کے جملہ و حقوق تمعہ مصنفہ کے
نام محقوظ ہے۔ خالف ورزی کرنے والے کے خالف قانونی خارہ جونی کی خا شکتی
ہے۔ اگر آپ ایتی تحرپر ناول بینک پر شا ئع کروانا خا ہتے ہیں نو اردو میں نایپ کر کے
ہمیں سینڈ کردیں۔ آپ کی تحرپر ناول بینک و یب پر شا ئع کردی خانے گی۔
E-mail : pdfnovelbank@gmail.com
WhatsApp : 92 306 1756508
ح
(انتباہ :اس ناول کے کرداروں کا تغلق ق یقی دنبا سے نالکل نہیں ہے ،اس کو انک
فتنٹسی کہانی سمجھ کے ہی پڑھا جائے)
لڑکی کو نازو سے تھا منے اس ئے ا ننے ننجھے کبا اور اننی نشت سے نت نٹ کے
ہولڈر سے اننی گن تکالی ،گن گولی جالئے والی کی سمت کرئے اس ئے دو قاپر
ناندھے چب نارکبگ کی دوسری طرف سے لوگ نمودار ہوئے لگے۔
”پہ شب کبا ہو رہا ہے۔۔؟“ خوف سے سرد پڑئے اس ئے لڑکے سے بوچھا خو
انک کے تغد انک نشاپہ ناندھ رہا تھا جبکہ گولباں جلنے کی آواز سے اس کا خود کا دماغ
ماؤف ہو رہا تھا۔
”تھاگو۔۔۔“ سرد آواز میں جکم دنا جس پہ وہ لڑکی تقی میں سر ہالئے لگی۔
”میں ئے کہا تھاگو۔۔۔“ آواز میں کونی پرمی کا ناپر نہیں تھا ،موت جٹسی
تھبڈی آواز پہ اس کی نانگوں سے جان جائے لگی ،ندن لرزئے لگا ،زنان ئے بو لنے
سے اتکار کر دنا۔
خود میں جان الئے اس ئے تھا گنے کی کوشش کی ،جس سمت وہ تھاگی تھی
اسی طرف لڑکے ئے اننی نشت کرئے نشاپہ ناندھبا سروع کر دنا چب انک گولی
لڑکے کے کبدھے کو چیرنی ہونی تکلی۔
لڑکی کی نانسنت لڑکے کے ہاتھ ،نازو اور ناؤں تھی مضنوط رسنوں سے ناندھے
گنے تھے۔
لڑکی ئے اس کو تکارا لبکن کونی خواب پہ مال جبکہ چہرے کے ناپرات میں تھی
کونی اپر پہ آنا ،وہ نلک نک نہیں چھبک رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭
”اتکل مبکس ملبا جا ہنے ہیں ہم سے۔“ رنان ئے مونانل کو دنکھنے کہا۔
”اتھی میں کانیرنکٹ لتنے کے موڈ میں نہیں ،تم دنکھ لو۔۔“ دامیر ئے تھوڑا
ئےزار لہچے میں کہا۔
”وہ مجھ سے نہیں ،ہم سے ملبا جا ہنے ہیں۔ دو دن تغد وہ انلی سے نہاں آرہے
ہیں۔“ رنان ئے ا ننے القاظ پہ زور د ننے ہوئے کہا۔ دامیر ئے سر ہالنا۔
گاڑی جلنے رنان ئے محسوس کبا جٹسے ان کی گاڑی کو قالو کر رہی تھی۔ نبک وبو
مرر میں رنان ئے ننجھے آنی انک سباہ گاڑی کو دنکھا۔
”ستبڈ کم پہ کرنا۔“ رنان ئے کہا اور اننی گن تکالے ہاتھ میں تھامی۔
”لگبا ہے ان کو اننی زندگی عزپز نہیں۔ جلو ہم تھی تھوڑا کھبل لتنے ہیں۔ روکھا
شوکھا مارنا نسبد نہیں آرہا تھا مجھے۔“ دامیر ئے سیطانی مشکراہٹ ل نوں پہ سحائے ہوئے
کہا ،رنان ئے اس کو چمکنی تگاہوں سے دنکھا اور گہری مسکان لنے شانبڈ مرر سے ناہر
چھاتکا۔
”نین سے جار لوگ ہو نگے۔۔“ رنان ئے آ گاہ کبا ،دامیر ئے سر ہالنا۔ گاڑی کی
ستبڈ کو نیز رکھنے اس ئے بو پرن لبا۔ چب ان کے پرن لتنے سے ہی ننجھا کرنی گاڑی
سے انک آدمی ئے ناہر تکلنے قاپر کبا۔
دوبوں سڑکوں پہ گاڑناں تھیں ،ننجھا کرنی گاڑی ان سے کاقی قاصلے پہ تھی۔
دامیر گاڑی کو ان کی جانب ہی لے جا رہا تھا لبکن دوسری شانبڈ سے۔ مقانل کی
گاڑی سے آدمی ناہر تکلنے ان کی جانب قاپر کرئے لگے۔
”کاکروچ زنادہ اچھل رہے ہیں۔“ دامیر ئے سنئیرنگ ونل پہ اننی گرفت سحت
کی ،رنان ئے سنٹ کے ننچے سے گن تکالے دامیر کی طرف اچھالی۔
گاڑی بولٹ پروف تھی جس کی وجہ سے ان کی گاڑی پہ نشاپہ صجنح پہ لگا۔ رنان
ئے اننی شانبڈ کا دروازہ کھولے تھوڑا ناہر تکلنے قاپر ناندھا۔
انک گولی سبدھا نستنجر سنٹ پہ نتتھے آدمی کو لگی۔
”شسبلین ہیں پہ شب۔۔“ رنان ئے انک اور آدمی کو گرائے ہوئے کہا۔
دامیر ئے سنئیرنگ کو دانیں جانب گھمائے گاڑی کو دوسری سمت کبا کہ
دوبوں گاڑناں اب مقانل جا رہی تھیں۔ رنان ئے آشانی سے ڈران نو کرئے آدمی کا
نشاپہ کبا اور اس کی گردن پہ قاپر کبا۔
گ کن
”نکڑنا ہے نا مارنا۔۔؟“ دامیر ئے رنان سے کہا بو اس ئے آ یں ھمانی۔
ھ
”موڈ نہیں۔۔“ کہنے ہی اس ئے انک اور قاپر لبا اور خو تھے آدمی کے ما تھے پہ
گولی لگی۔ رنان ئے اننی شانبڈ کا دروازہ نبد کبا اور نسبل کی مبگزین جبک کرئے اس
کو دونارہ قل کبا۔
”مین روڈ پہ کجرا ہو گبا ،کلب میں جائے کا ارادہ کنٹشل کرنا پڑے گا۔“ دامیر
ئے کہا اور گاڑی دوسری سڑک پہ لے جائے شسبلین کی گاڑی کے ناپرز پہ قاپر
کبا جس سے وہ شلو ہو گنی اور درمبان میں لگے درج نوں میں سے انک سے جا نکرانی۔
دو آدم نوں کی تعسیں سڑک پہ الوارث پڑی تھیں۔
”ڈرنک! اگلے آدھے گھتنے نک شب صاف ہونا جا ہنے۔“ دامیر ئے انک کال
کرئے اننی شاتھی سے کہا جبکہ رنان ان کی ڈنڈ ناڈپز کو جبک کر رہا تھا۔
”انک بو مجھے سمجھ نہیں آنا چب کانیرنکٹ جتم ہو جانا ہے بو مرئے والے کے
کیڑے ننجھے ک نوں پڑ جائے ہیں۔“ دامیر ئے ان کی گاڑی سے کجھ چیزیں لتنے
ہوئے ندمزہ ہوئے کہا۔
اتھی جس آدمی کو وہ جتم کر کے آئے تھے پہ شب اسی کے نبدے تھے۔ رنان
ئے نس کبدھے احکائے اور وانس گاڑی میں جاکے نتتھ گبا۔
دامیر تھی اس کے ننجھے آنا اور سنئیرنگ ستتھالے وہاں سے تکلنے جلے گنے
جا ننے تھے کہ ڈرنک آدھے گھتنے نک نہاں کی شب صقانی کروا دے گا اور اس لڑانی
کا کسی کو نبا تھی نہیں جلے گا۔ سڑک پہ لگے سی سی نی وپز کی فوننج تھی ندل دے
گا۔
”انس آلرنڈی بو لنٹ ،کلب؟“ دامیر ئے وفت دنکھنے ہوئے کہا چہاں رات کے
دو نج رہے تھے۔ رنان ئے اوکے کہا بو وہ دوبوں کلب کی طرف رواپہ ہوئے۔
”مہت نوں تغد نہاں آنا صحت پہ اچھا اپر ڈالبا ہے ،پرانی کرنا۔“ رنان نہت کم اس
کے شاتھ نہاں آنا تھا نتھی دامیر ئے سرارت سے کہا جس پہ وہ نس گھور کے رہ گبا۔
”اننی زنادہ گبدرنگ ہے نہاں۔۔“ لڑک نوں اور لڑکوں کو شاتھ رنگنت نوں کے مزے
کرئے دنکھ رنان ندمزہ ہوا۔
دامیر اس کو لنے وی آنی نی سبکشن کی طرف پڑھ گبا خو اوپر والے بورشن پہ
تھا۔ وہ حصہ محصوص ہونا تھا کجھ لوگوں کے لنے ،دامیر نہاں اکیر آنا تھا بو منتنجر اس
کو نہحانبا تھا۔
کلب کی النٹس نہت ڈم ت ھیں ،نہاں شاند کسی وی آنی کبل کی نارنی ارننج تھی
نتھی وہ دوبوں سروع والے حصے سے تھوڑا دور آ گنے چہاں رتفرنشمنٹ کا ان یطام تھا۔
دامیر اور رنان وہاں صوفے پہ نبک لگائے نتتھ گنے۔ ان کے نالکل شا منے
کاؤنیر نتبل تھا چہاں سے ڈرنکس سرو کی جا رہی تھیں۔ دامیر کے اشارے پہ انک ونیر
شافٹ ڈرنکس لے آنا۔
رنان مجباط انداز میں اطراف کا جاپزہ لتنے لگا چب اس کی تظر انک وخود پہ پڑی خو
ان کے نالکل شا منے صوفے پہ دوسری جانب چہرہ ہوئے تھا۔ وہ لڑکی تھی۔
وہ لوگوں سے کٹ کے تھی ،رنان واصح دنکھ شکبا تھا اس کو۔ گولڈن رنگ کا
کاکتبل ڈرنس نہنے جس کی نشت کا گال کاقی گہرا تھا ،نالوں کو آگے کی طرف کر رکھا
تھا۔
اس کا چہرہ تظر نہیں آرہا تھا لبکن رنان کی سرد تگاہیں اسی پہ نکی تھیں۔
ت م س ن ت ف ً
چ
د عبا لڑکی ا ھی اور اس ئے انبا رخ موڑا۔ ا نی رو نی یں ھی اس کا ہرہ واصح
نہیں ہوا تھا کجھ لڑکی ئے عج نب طرح کا مبک اپ کر رکھا تھا۔
وہ وی آنی نی نارنی کا حصہ نہیں لگ رہی تھی ک نونکہ نارنی میں موخود لوگوں ئے
نلبک تھتم رکھا تھا ،اس کے ہاتھ میں فون تھا اور مشلشل مٹسج نانپ کر رہی تھی۔۔
”انیرسبد ہاں۔۔!“ دامیر ئے اس کی تگاہیں انک جگہ نائے کہا ،رنان ئے کونی
خواب پہ دنا۔ دامیر ئے اس کی بوجہ کا مرکز نہیں دنکھا تھا۔
لڑکی ئے چب ا ننے نال چہرے سے ننجھے کرئے کان میں اڑسے بو اس کے
کان میں موخود انیر نٹس شو ہوا۔ وہ وافعی نہاں کا حصہ نہیں تھی۔ رنان ئے انک لمحہ
تھی اس سے اننی تظریں نہیں ہبانی تھیں۔
لڑکی ئے کسی اجشاس کے نحت آس ناس دنکھا چب اس کی تظریں رنان سے جا
نکرانیں۔ لڑکی کے دنکھنے پہ تھی اس ئے تگاہیں نہیں ت ھیری ت ھیں۔
جٹسے شکاری ا ننے شکار کو دنکھبا۔۔ رنان انہیں پرفبلی تگاہوں سے اس کو دنکھ رہا
تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
اننی بور نت کم کرئے کے لنے وہ نہاں آ بو گنی تھی لبکن نہاں آنا تھی فصول
لگ رہا تھا۔ اننی دوشت سے نات کرئے اس کے مشلشل ہاتھ جل رہے تھے۔ فون
پہ اننی دوشت سے نات کر رہی تھی جبکہ مٹسج پہ ا ننے اتکل سے را تطے میں تھی۔
چب اس ئے انبا رخ ندال بو فصاء میں نبدنلی سی محسوس ہونی۔ کسی نیز چیز کی
خوسنو۔۔
نالوں کو شانبڈ پہ کرئے خود پہ کسی تگاہ کی نٹش محسوس ہونی بو رونگھنے کھڑے
ہوئے لگے۔ اتکل سے نات جتم کرئے اس ئے آس ناس دنکھا چب نالکل شا منے
نتتھے انک سحص پہ تگاہ پڑی۔ وہ نلونڈ نالوں واال تھا۔ اس کی گرے آنکھوں میں پرف
جٹشا سرد ین تھا۔ چہرے کے ناپرات پرفبلے سباٹ تھے۔ اس کے دنکھنے پہ تھی اس
کے ناپرات میں فرق پہ پڑا۔ سباہ لبدر کی جبکٹ نہنے ،سباہ ہی نی سرٹ اور نت نٹ نہنے
ہوئے تھا جبکہ سبدھے ہاتھ کی دوسری اتگلی میں انک انگھونی تھی۔
ت چ
شاتھ نتتھا سحص ا ننے مونانل پہ مصروف تظر آرہا تھا۔ وہ ھری لے ا ھی۔ اس
جھ
پہ تگاہیں تکائے شا منے نتتھے سحص ئے اننی ڈرنک سے انک گھونٹ تھرا۔ انداز انشا تھا
چ ھ کن
جٹسے شکاری شکار پہ تکال ہو اور موفع د نے ہی ھنٹ پڑے گا اس پہ۔
وہ انہیں نہحان جکی تھی۔ دل کی ستبڈ ئے رفبار نکڑی ،انک انحاپہ شا خوف شا
دل میں آگبا۔ اِ س ئے تظریں ت ھیرئے اننی دوشت کی نابوں کو خواب د ننے نبا راتطہ
جتم کبا اور انبا رخ رنشٹ روم کی طرف کبا۔ اس کی تگاہوں کے سرد ین کی وجہ سے
عج نب خوف سران نت کر گبا تھا۔
ان کے نارے میں سبا ضرور تھا اور آج دنکھ تھی لبا تھا۔ رنان کے بو دنکھنے سے
ہی اس کو خوف آئے لگا تھا جبکہ دامیر کو وہ تھبک سے دنکھ نہیں نانی تھی ک نونکہ
دامیر کا وخود رنان کے ننجھے تھا اور چہرہ تھی اندھیرے میں تھا لبکن اس کے ہاتھ پہ
نہنی انگوتھی وہ دنکھ جکی تھی۔
”مجھے نہاں سے جانا جا ہنے ان لوگوں کا کونی تھروسہ نہیں کب کس کو مار
دیں۔“ وہ گ ھیراہٹ سے پڑپڑانی اور ا ننے نال نشت پہ نک ھیرنی ہونی انک تظر ا ننے
ن ُ
لباس کو دنکھا۔ گہرا شانس تھر کے وہ ناہر تکلی اور نبا ان دوبوں کی جانب د ھے وہ
ک
ز ننے اپرئے لگی۔ وی آنی نی نارنی اتھی نک ا ننے عروج پہ تھی۔ لوگ ناہوں میں
ناہیں ڈالیں چھوم رہے تھے۔ ہلکا م نوزک جل رہا تھا اس کی نانسنت ننچے والے بورشن
میں زنادہ شور تھا۔
کلب سے ناہر تکلنے اس ئے گہرے شانس ت ھرے اور کنب کا ان یطار کرئے
ت تم ن
لگی۔ کنب کے آئے پہ وہ اس یں ھی ا نے ہو ل لڈ گ کی طرف رواپہ ہو نی۔
گ ن ن ن ن
ب ہ ہن ہم ن
ا ننے روم یں نے اس ئے شب سے لے نیروں کو گولڈن ل سے آزاد کبا۔
جن
اس ئے خود کو ستتھا لنے ہی اننی دوشت کا نمیر ڈانل کبا۔
”نمہیں مغلوم میں ئے آج کس کو دنکھا؟“ علتبا ئے عحلت میں کہا ،دوسری
جانب موخود لڑکی ہلکا شا ہٹس دی۔
تھوڑی دپر گزرئے کے تغد ہی وہاں پہ انک فتملی آگنی جن کی شاند بوکبگ کی
گنی تھی اسی لنے خود وہ انک صوفے پہ نک گنی۔
اتکل کا مٹسج آئے ان سے نات کرئے لگی شاتھ ہی دوشت کے شاتھ کال پہ
مصروف ہو گنی چب اس ئے خود پہ کسی کی تظروں کو محسوس کبا تھا۔
اس ئے دامیر اور رنان کے نارے میں شن رکھا تھا۔ وہ دوبوں اس وفت کے
نہیرین اشاشن )(Assassinمائے جائے تھے۔ دامیر شونبگ میں انبا رتکاڑد قاتم کر
گبا تھا جبکہ رنان سبکبڈز میں مقانل کو ڈھیر کر شکبا تھا۔ دوبوں ئےرچم قا نل تھے۔
اس ئے چب سے قانتبگ اکبڈمی خواین کی تھی نب سے وہ رنان اور دامیر کے
نارے میں ستنی آنی تھی اور کجھ تھی اچھا نہیں سبا تھا۔
رنان کو بو وہ اس وجہ سے نہحان گنی تھی ک نونکہ اکبڈمی میں کسی فبکشن میں
رنان کی تصوپر موخود تھی جبکہ دامیر اس کے لنے اتھی پردے میں ہی تھا۔
پہ نات شب جا ننے تھے کہ دامیر اور رنان انک شاتھ ہی نائے جائے تھے۔
دامیر اشاشن ہوئے کے شاتھ شاتھ رنان کا کئیر تھی تھا۔
نتبد پہ آئے کی وجہ سے وہ کاقی دپر ان کو ہی شوجنی رہی تھی۔ خود تھی وہ
انحائے میں اس دوسری دنبا کا حصہ ین گنی تھی چہاں کسی کو مارنا مشکرائے کے
پراپر سمجھا جانا تھا۔
س
اس ئے ڈ تقنٹس کا ڈ نبارنمنٹ خواین کبا تھا ،لوگوں کو مارنا ،نبا شوچے ھے ان
جم
کو کحل د نبا اس شب سے تفرت تھی اسے۔ چب سے مغلوم پڑا تھا کہ دامیر اور رنان
ئےرچم قا نل ہیں ،ان کے نام سے تھی تفرت ہوگنی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭
”مجھے انل اے میں پراپرنی کے کجھ کام ہیں وہاں جانا ضروری ہے بو اتھی کونی
کانیرنکٹ نہیں لے رہا میں۔“ اتکل مبکس ان کے شا منے نتتھے تھے چب کونی نات
سروع ہوئے سے نہلے ہی دامیر ئے سنجبدگی سے کہا۔
”کانیرنکٹ نہیں ہے لبکن انک جاب ہے۔۔!“ انہوں ئے گہرا شانس تھرئے
کہا۔
”ہماری جاب نہی ہے۔۔“ رنان ئے جٹسے ناد دالنا بو مبکس ئے انبات میں سر
ہالنا۔
”مجھے دامیر جا ہنے ،اپز آ کئیر۔۔۔“ مبکس کی نات ستنے چہاں دامیر خوتکا وہاں
رنان کے ما تھے پہ جال نبا۔
”لبکن انک وفت میں ،میں آپ دوبوں کو کٹسے دنکھوں گا؟“ دامیر ئے صوفے
سے تھوڑا آگے ہوئے کہا۔ وہ رنان کا کئیر تھا اور اس کو اکبال چھوڑئے کا مطلب تھا
ا ننے آپ سے عداری کرنا۔ انک وفت میں وہ مبکس اور رنان کے شاتھ نہیں رہ شکبا
تھا۔
”آقکورس مجھے تم جا ننے بو رنان کے کانیرنکٹ کو جتم ہونا ہو گا۔“ مبکس کی
نات پہ چہاں رنان مشکرا دنا وہاں دامیر ہٹس دنا۔ رنان ئے التف ناتم کے لنے دامیر کو
انبا کئیر رکھا تھا۔ پہ نات ان کی دنبا میں شب جا ننے تھے۔
”آپ کو نبا ہے میری فٹس کا۔۔ نہت مہ یگا نانت ہوئے واال ہوں۔“ دامیر ئے
ان کو ڈرانا جاہا۔
”کونی ئےوفوف ہی ہو گا خو نمہیں جائے تغیر تم پہ ہاتھ ڈالے۔۔“ مبکس ئے
آنکھوں میں سبانش لنے کہا۔ مطلب پہ تھا کہ وہ اس کی قانلنت سے ا چھے سے
وافف تھے۔
”بو مور ئےنی سنتبگ۔۔۔“ رنان ئے دامیر پہ طیز کبا جس پہ وہ رنان کو شاطر
مشکراہٹ سے دنکھنے لگا۔
”چہتم نک ننجھا نہیں چھوڑئے واال میں۔“ دامیر ئے جبانا۔ رنان کی آنکھوں میں
اس کے لنے انبان نت پڑھ گنی۔
”پہ لڑکی ہے۔۔۔“ مبکس ئے انک تصوپر اننی ج نب سے تکالے دامیر کے آگے
رکھی جس پہ اس ئے تظر ڈالے نبا ہی مبکس کو دنکھبا سروع کر دنا۔
”آپ جا ننے ہیں ،ونی ڈانٹ ِکل وومن۔۔“
)(We don’t kill women
دامیر کے لہچے میں سرد ین چھلک پڑا۔ اسے لگا کہ خود کی حقاظت کے لنے لڑکی
کو مارنا ہو گا۔
”اس کو اشاشن نہیں کرنا ،تم اس کو گارڈ کرو گے میری جگہ۔۔“ مبکس ئے
اننی نات پہ زور د ننے ہوئے کہا۔
”آپ مجھے انک انحان لڑکی کے لنے ہاپر کر رہے ہیں۔ ک نوں؟“ دامیر ئے الجھ
کے بوچھا۔
”تم کب سے وخوہات جا ننے لگے دامیر؟“ مبکس ئے نمسجراپہ لہچے میں بوچھا۔
”ہم وجہ دنکھ کے ہی انبا کام کرئے ہیں ورپہ وفت ہمارے لنے نٹشا ہے۔“
دامیر ئے ان کو سنجبدگی سے ناور کروانا جس پہ وہ ہاتھ سرنڈر کے انداز میں نلبد کر
گنے۔ انداز انشا تھا کہ وہ ان کا وفت پرناد پہ کریں۔
”اوکے اوکے۔۔“
تتھ
”انحان نہیں ہے ،چی ہے میری۔ یں جاہبا ہوں کہ میری غیر موخودگی یں
م م ن
ن
پہ محفوظ رہے۔“ مبکس ئے ان کو نبانا بو دوبوں کی آ کھیں چیرت سے کھل گنیں۔
لک تھ ت
س
”آپ کی نچی! کب سے؟“ رنان ئے نا ل نجبدگی سے بوچھا جبکہ دامیر کے
ہون نوں پہ مشکراہٹ رنبگ گنی۔ مبکس ئے اسے گھورا۔
”میں ئے اسے اس دنبا سے چھبا کے ہی رکھا تھا لبکن اب وہ اننی صد کی وجہ
سے شب کے شا منے آگنی ہے اور اس کی جان کا میں حظرہ مول نہیں لے شکبا۔“
ان کی وصاچت پہ دوبوں ئے انبات میں سر ہالنا۔
”کونی اور ر سنے دار بو نہیں آپ کا نبا ،نس نہی ہے؟“ رنان ئے تھر سنجبدگی سے
بوچھا۔
”ہے انک اور لبکن اس کی قکر نہیں ،دامیر میں جاہبا ہوں تم کراؤنڈ ہبڈ جلے
جاؤ چب نک اس کی پرنتبگ جتم پہ ہو اس کے ناس ہی رہو۔“ مبکس ئے صوفے
سے نبک لگانی ،دامیر کو نبائے کے تغد وہ کجھ ہلکا محسوس کر رہے تھے۔
”کراؤنڈ ہبڈ! آپ جا ننے ہیں چب نک وہ وہاں موخود ہے نب نک وہ محفوظ ہے۔
ً
اسے کسی پرونبکشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہاں آکشن کے فورا تغد یں اس کا کئیر
م
رہوں گا۔“ دامیر ئے شو جنے ہوئے کہا کہ اکبڈمی میں جاہے ہر قشم کے مجرم پرنتبگ
کے لنے جائے تھے لبکن وہاں کے اصول کے مطابق کونی کسی پہ چملہ نہیں کر
شکبا تھا۔
”وہ ہماری طرح نہیں ہے ،اس کے لنے شب نبا ہے کونی تھی اس کو
اسیعمال کر شکبا ہے۔“ مبکس کے لہچے میں قکرمبدی تھی۔
دامیر ئے انک تظر رنان کو دنکھا خو اس مغا ملے میں نہیں بوال تھا۔
چب سے وہ اکبڈمی سے تکلے تھے ،آکشن والے دن سے وہ رنان کے شاتھ تھا،
اس کا کئیر تھا۔ دامیر اس کو کتھی اکبال نہیں چھوڑئے واال تھا ،رنان جانبا تھا کہ اننی
جان سے زنادہ وہ اس کی جان کی پرواہ کرنا تھا۔ دوشت سے زنادہ تھانی مانبا تھا اس
کو۔
”میں رنان کو اکبال نہیں چھوڑ شکبا۔۔“ دامیر ئے گہرا شانس ت ھر کے کہا جس پہ
ن گ ھ کن
رنان ئے آ یں ھما یں۔
”کم آن! اب کسی اور کو ئےنی شٹ کر لو۔ نمہیں لگبا کہ کونی میری طرف قدم
اتھائے گا؟“ رنان ئے اکباہٹ تھرے لہچے میں کہا۔
”کسی میں اننی ہمت نہیں لبکن میں نمہارا رشک نہیں لے شکبا۔“ دامیر ئے
تھی دوبوک انداز میں کہا تھا۔
ت ج ش ت ت ُ
” م اس پہ ظر بو رکھ ہی کنے ہو نا ،اس کی پرنتبگ م ہوئے ہی نہاں لے آنا
میں اس کی شفتبگ کا ان یطام کر دوں گا۔“ مبکس ئے درمباپہ رشنہ تکاال جانبا تھا کہ
دامیر کسی فتمت تھی رنان سے دور نہیں جائے واال تھا۔
”گو قار اِ ٹ ،مجھ سے دور جائے کا موفع نمہیں نار نار نہیں ملبا۔“ رنان ئے
سنجبدگی سے کہا بو دامیر تقی میں سر ہالئے لگا۔
”تھبک ہے۔ تھر ہمیں تھی جائے کی نباری کرنی ہو گی۔“ دامیر آخر ان کی
نات ما ننے ہوئے بوال۔
”ہمیں سے مراد؟“ رنان ئے آنکھوں میں سرد ین لنے بوچھا۔
”میں اور تم ،تم مجھے اننی جانداد تھی دے لو نب تھی میں نمہاری شانبڈ نہیں
چھوڑئے واال۔“ دامیر سنجبدگی سے کہا اور کنچن کاؤنیر کی طرف گبا ناکہ ڈپر کی نباری کر
شکے۔
”نتمنٹ نمہیں رنسنو ہو جائے گی۔۔“ اتکل مبکس ان سے ملنے ہوئے جلے
گنے۔ نانچ منٹ میں ہی دامیر کا مونانل ن نپ کبا خو نتمنٹ پرانسفر ہوئے کا
ی
بون قبکٹشن شو کروا رہا تھا۔
”کانیرنکٹ ملنے کی خوسی میں زہر پہ مال د نبا اندر۔۔“ رنان شک نورنی کی طرف جانا
ہوا سباٹ لہچے میں بوال کہ دامیر اقسوس میں سر ہالنا رہ گبا۔
اتکل مبکس کی دی گنی اتقارمٹشن وہیں نتبل پہ پڑی تھی جس کو دوبوں ئے
دنکھبا گوارا نہیں کبا تھا نا شاند رنان دنکھ حکا تھا۔
دامیر کا مونانل تھر سے نجنے لگا۔
”دامیر آر!“ دامیر ئے مصروف انداز میں کہا ،دوسری جانب ڈرنک تھا۔
اس کی نات ستنے اس کے ما تھے پہ ناگواری کے نل واصح ہوئے۔
”ان کی لوکٹشن جبک کرئے رہو۔“ دامیر ئے جبا کے کہا اور فون نبد کرئے
کاؤنیر پہ رکھا۔
”البانین ئے نہاں قدم رکھ لنے ہیں۔“ کھائے کے دوران دامیر ئے اس کو
نبانا۔
”مجھے نس موفع جا ہنے تھا ان کو جتم کرئے کا وہ انہوں ئے خود دے دنا۔“
دامیر ئے شاطر مشکراہٹ لنے کہا کہ رنان ئے سر ہالنا۔
جت م ُ
”دنبا میں کتھی کسی سے اننی تفرت نہیں کی نی یں اس ا گرون سے کرنا
ن
ہوں۔ اگر وہ میرے شا منے آجائے خو نبا کسی دپری کے اس کا سر ین کے جدا کر
دوں۔“ رنان ئے آنکھوں میں عصہ لنے کہا۔
”دو دن تغد اگر وہ نہاں سے نہیں گنے بو جبگ کا اعالن واصح ہے۔“ دامیر
ئے کھائے سے ہاتھ روکے کہا۔ رنان سمجھ گبا تھا۔
روس ان کا تھا ،دوسرے مافبا کے لوگوں کا نہاں آنا نبد تھا۔ کسی تھی
مغاہدے کے نبا وہ نہاں قدم نہیں رکھ شکنے تھے۔ ڈرنک ئے دامیر کو نبانا کہ وہ ان
کے عالفے میں د نکھے گنے خو کالج گنٹ کے ناہر ہیروین سمگل کر رہے تھے۔
انگرون البانبا مافبا کا ہبڈ تھا خو سمگلبگ اور ہ نومن پرتقکبگ کرنا تھا۔
کونی تھی مافبا کسی دوسرے کی رناشت میں دجل اندازی نہیں کر شکبا تھا ورپہ
ان کے درمبان جبگ ہونی۔ دامیر اور رنان اس کے کام کی وجہ سے تفرت کرئے
”مانی ہالف گرل فرنبڈ۔“ رنان ئے آنکھ دنانی اور کہنے ہوئے وہ آرمری میں جال
گبا۔ جائے سے نہلے وہ شب جبک کرنا جاہبا تھا۔ انشا ممکن ہی نہیں تھا کہ دامیر اس
کو شاتھ لنے نبا تکلبا۔ مرئے پہ تھی آنا ہونا بو دامیر اس کو گھسنتنے ہوئے لے جانا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
کراؤٹڈ ہ یڈ اک یڈمی:
نین میزلہ خوتصورت انک محل کی طرح نبار کردہ انک پرنتبگ سنئیر تھا چہاں
ت
مجبلف خراتم سے خڑے لوگ اننی ننی نشل کو پرنتبگ کے لنے ھنجنے تھے۔ اس
ہ کب س ن قت
اکبڈمی میں کسی تھی ملک سے لوگ آشکنے تھے خواہ وہ انبا ڈ ٹس ھبا جا نے ہوں،
فبل کرنا ،لڑنا نا تھر سمگلبگ کرنا۔
پہ خراتم کی دنبا کا ن نوپرل گراؤنڈ تھا ،نہاں کا اصول تھا کہ خو تھی اس اکبڈمی
میں موخود ہے وہ جاہے مقانل کا کتبا تھی پرانا دسمن ک نوں پہ ہو ،اس اکبڈمی میں
موخود ہوئے انک دوسرے کو جان سے مار نہیں شکنے تھے لبکن اگر وہ لڑانی کرئے
تھے بو اس پہ کونی روک بوک نہیں تھی الننہ جان سے مار د نبا اکبڈمی سے جبگ مول
لتنے کے پراپر تھا۔
نانٹس شال کی عمر میں دامیر اور رنان ئے نہاں سے آشاشن کی پرنتبگ لی تھی،
دامیر ئے خود کو کئیر تعنی نبگران کے طور پہ رنان کے شاتھ رکھا تھا۔
نبدرہ شال کی عمر سے وہ انک دوسرے کے شاتھ تھے اور دوبوں کو اننی جان
سے زنادہ دوسرے کی جان کی پرواہ تھی۔
مبکس انلی کا مافبا ہبڈ تھا لبکن اس کا رغب ان دوبوں پہ نہیں جلبا تھا۔ ان کا
کہبا تھا کہ وہ ا ننے عالفے میں مافبا ہبڈ ہو نگے جبکہ روس میں ان کی جکومت نہیں
تھی۔
چب کتھی ان دوبوں کا کانیرنکٹ گرنس میں ہونا وہ بوگ کراؤنڈ ہبڈ میں ضرور
آئے لبکن اس نار وہ دو شال تغد نہاں آرہے تھے۔
آئے سے نہلے انہوں ئے سر جارج کو اتقارم کر دنا ناکہ ان کے لنے روم نبار
ر ہنے۔ نہاں ر ہنے کی تھی انک تھاری فتمت ادا کرنا پڑنی تھی۔
اننی انس بو وی سے تکلنے ان دوبوں ئے انکڈمی کی زمین پہ قدم رکھا۔ ناہر سے
دنکھنے پہ پہ انک وزنتبگ ہاؤس ہی لگبا تھا۔
اتھی پرنتبگ سٹشن سروع ہو حکا تھا نتھی گراؤنڈ میں ا ننے لوگ تظر نہیں آرہے
تھے۔ دامیر ئے انک گارڈ کو نبگز اندر لے جائے کو کہا اور وہ خود دوبوں سر جارج کے
آقس کی طرف پڑھ گنے۔
”امبد ہے تم دوبوں کا شفر اچھا رہا ہو گا۔“ سر جارج ان کو دنکھنے مشکرا کے
بولے۔ رنان ئے نس سر ہالنا اور دوبوں ئے اننی نسشت ستتھالی۔
”جٹسے آپ کو نبانا تھا کہ ہم نہاں انک ولتننئیر کے لنے آئے ہیں۔ اس کے
نارے میں اتقارمٹشن جا ہنے تھی۔“ دامیر ئے گال کھ یگا لنے اننی نات کہبا سروع کی بو
سر جارج ئے انبات میں سر ہالنا جبکہ رنان کا دھبان نس کھڑکی سے ناہر تھا۔
”اتقارمٹشن! آپ جا ننے ہیں کہ اتقارمٹشن انک اچھی چیز نہیں ہے۔ فتمت حکانی
پڑنی ہے۔“ سر جارج ئے کجھ معنی چیز سے کہا بو دامیر مبہم شا مشکرانا۔
”میں جانبا ہوں مغلومات بو آپ لے ہی جکے ہو نگے مبکس ل نو سے لبکن خو آپ
جانبا جا ہنے ہیں وہ بو۔۔۔“ سر جارج ئے مزند اننی نات کہی بو دامیر ئے انک تظر رنان
کو دنکھا خو خود ان کی نات پہ سرد تگاہوں سے سر جارج کو ہی دنکھ رہا تھا۔
دامیر ئے مونانل تکالے تھاری رقم اکبڈمی کے اکاؤنٹ میں پرانسفر کی ،مونانل
وانس رکھا اور ان کو دنکھا۔
”انشا کتھی نہیں ہو گا کہ تم سے انبا دھبان ہبائے کہیں اور بوجہ دوں۔“ دامیر
ئے انک عظم سے کہا جس پہ رنان کو فجر محسوس ہوا۔
کن
”تم ئے علتبا کی ربورٹ د ھی!“ رنان ئے ناد آئے پہ بوچھا جس پہ دامیر ئے
انبات میں سر ہالنا۔
”سر جارج کبا میں علتبا سے اتھی مل شکبا ہوں؟“ دامیر ئے نبڈ پہ نتتھنے
ہوئے کہا ،پرنتبگ سٹشن کا شو جنے اس ئے ہہلے اجازت جاہی۔
”علتبا آج کل اکبڈمی سے ناہر ہے۔ انک دو دبوں وانس آجائے گی شاند۔“
انہوں ئے اطالع دی بو دامیر کے ما تھے پہ نل نمودار ہوئے۔
”اتکل مبکس ئے اس نارے میں نہیں نبانا تھا۔“ دامیر کو شو جنے عصہ شا
آئے لگا کہ وہ انک لڑکی کے لنے نہاں آنا تھا اور وہ نہاں تھی ہی نہیں۔
اس ئے مونانل نبد کرئے شانبڈ پہ رکھا اور فرنش ہوئے جال گبا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
چہرے پہ ماشک خڑھائے اس ئے گہرا شانس تھرا ،ہاتھوں میں دسبائے تھبک
کنے اور نشت کے ہولڈر سے اننی گن تکالی۔ اس وفت وہ انک جار میزلہ عمارت کے
نیرس پہ موخود تھی۔
دوبوں ہاتھوں میں اننی نسنول تھامی اور نشاپہ ناندھا خو شا منے کجھ فٹ کے قاصلے
پہ موخود تھا۔ رات کی سباہی میں وہ اس کا حصہ ہی لگ رہی تھی۔
شا منے گالس دوڑ کے نار انک آدمی سراب کے نسے میں اننی نانی انار کے اننی
سرٹ کے نین کھول رہا تھا۔ ا ننے قدم اس ئے نبڈ کی جانب کنے چہاں انک نبدرہ
ن س
شالہ لڑکی ہمی ہونی تتھی تھی۔ اس نچی کو دنکھنے اس ئے دانت کحکائے اور اننی
گرفت نسنول پہ سحت کی۔
جٹسے ہی وہ آدمی گالس وال کے نالکل شا منے آنا اس کی شانلنٹسر لگی نسنول
سے گولی تکلی اور جا کے اس آدمی کی گردن پہ لگی۔ اس کو آواز تکا لنے کا تھی موفع
نہیں مال تھا اور وہ دھڑام سے زمین پہ گر پڑا۔
چنہ ئے مشکرائے ل نوں سے انک پرشکون شانس جارج کی اور جلدی سے نانپ
کی مدد سے ننچے اپرئے لگی۔
اس سے نہلے کہ نچی ڈر کے مارے وہاں سے تھاگ کے ناہر والی درندوں میں
ت ہ ہن سٹھ ت
نی چنہ اس نک نجبا جا نی ھی۔
سباہ بوٹ نہنے اس کو اپرئے میں آشانی ہونی اور دوسری میزل کی نالکنی میں
آئے اس ئے شا منے کجھ قاصلے کی نلڈنگ کی نالکنی میں چھالنگ لگانی۔ چھالنگ
لگائے سے اس کے ناؤں پہ زور پڑا کہ انک درد کی تھٹس سی اتھی لبکن اس کے
لنے پہ معمولی تھی۔
اس ئے دعا کی گالس دوڑ کو الک پہ لگا ہو۔ نسنول کو ہولڈر میں رکھنے اس ئے
دھکبلنے کی کوشش کی بو وہ کھل گبا۔
”او شکر۔۔“
آواز پہ نچی ئے سہم کے گالس دوڑ کی طرف دنکھا چہاں سے چنہ اندر داجل ہونی
تھی۔ کجھ اس آدمی کے مرئے پہ وہ شقبد پڑ جکی تھی اب چہرہ انشا تھا جٹسے اس ئے
موت کا فرشنہ دنکھ لبا ہو۔
چنہ ئے ناؤں کی مدد سے آدمی کی گردن کو دانیں نانیں ہالنا وہ مر حکا تھا۔ اس
کی اننی تھی اوقات نہیں تھی کہ چنہ اس کو چھو کے ا ننے ہاتھ مبلے کرنی۔
” ہنے لبل گرل ،تم اب سنو ہو۔۔“ اس ئے لڑکی کی طرف پڑ ھنے دوسباپہ لہچے
میں کہا اور جلدی سے اس ال ہاتھ تھاما۔
”ہمیں نہاں سے جانا ہو گا ،جلدی سے آؤ۔۔“ اس کا ہاتھ تھام کے دروازے
کی طرف آنی اور اننی گن ستتھالی۔
”کجھ تھی ہو جائے تم ئے میرے ننجھے ہی رہبا ہے۔ اور خو میں کہوں گی وہ
کہبا ہے۔“ چنہ ئے لڑکی کو سمجھانا جس پہ وہ جلدی سے انبات میں سر ہالئے لگی۔
چہاں نک وہ جاننی تھی نہاں اب نس دو گارڈ ہو نگے خو اس آدمی کے شاتھ
تھے۔ ان کو گرانا آشان ہوگا۔
گہرا شانس تھرئے اس ئے دروازہ کھوال اور نسنول نانی۔ دروازے کے ناہر کونی
نہیں تھا الننہ سیڑھ نوں سے قہقہے کی آوازیں آرہی تھیں۔
تعنی وہ ننچے والے بورشن میں تھے۔
”میرے ننجھے سے ہتبا نہیں۔“ چنہ کا چہرہ ماشک میں ڈھکا تھا ت ھر تھی نچی اس
پہ تفین کر رہی تھی۔
اس ئےآہشنہ سے قدم سیڑھ نوں کی جانب کنے ،دو گارڈز نتتھے گالس تھامے
سراب کے مزے لے رہے تھے۔
چنہ دور سے نہیں مارنا جاہنی تھی۔ سیڑھباں جکر کھانی تھیں نتھی وہ دوبوں اس
کو پہ دنکھ نائے۔ موفع کا قاندہ اتھائے چنہ ئے نہلے انک کا نشاپہ ناندھا خو سر میں
گولی لگی۔ دوسرے کا تھی ما تھے پہ نشاپہ لبا۔
آواز ضرف گالس بو ننے کی اور جٹسے کسی تھاری چیز کے گرئے کی آنی تھی۔
ن
ننچے ہنجنے چنہ ئے ہر طرف سے جاپزہ لبا کہ نچی کو کجھ پہ ہو۔ اس کو لتنے وہ
ن
مین گنٹ نک آنی اور گاڑی میں لنے تتھی۔ نبا دپری کے وہ اس نلڈنگ کی جدود سے
تکل آنی۔
وہ نچی اتھی تھی کجھ نہیں بول نارہی تھی۔ نس جاموش سی شا منے ر سنے کو دنکھ
تن
رہی تھی۔ وہ شکون میں اس لنے تھی ک نونکہ جاننی تھی کہ شاتھ ھی لڑکی اس کو
ت
تقصان نہیں نہنحائے گی ک نونکہ وہی بو اس کو دردناک چہتم سے تکال کے النی تھی۔
چنہ ئے انبا ماشک انارا اور نچی کی طرف دنکھا جس کے چہرے پہ واصح خوف کی
لکیریں ت ھیں۔
”تم اب محفوظ ہو ،کونی کجھ نہیں کہے گا نمہنیں۔ نباؤ نمہارا نام کبا ہے؟“ چنہ
ئے پرمی سے بوچھا۔
”النا۔۔“ نچی ئے نس ہلکی آواز میں متمبانا۔
”النا تم تھبک ہو۔ میں نمہیں انک اچھی جگہ لے جاؤں گی کبا نمہاری کونی فتملی
ہے؟“ چنہ ئے اس کا ڈر جتم کرئے کے لنے اس کے ہاتھ پہ انبا ہاتھ رکھا لبکن وہ
ڈر گنی۔
فتملی کے شوال پہ چنہ ئے تقی میں سر ہالنا۔
”کونی نات نہیں تم چہاں جاؤ گی اب وہ نمہاری فتملی ہو گی۔“ چنہ ئے اس کو
دکھ سے دنکھا اگر وہ تھوڑا تھی لنٹ کرنی بو شاند وہ انک معصوم نچی کو کھو د ننی۔
تھوڑی دپر میں وہ انک کھلی سی جگہ پہ موخود تھے چہاں انک چھونا شا گراؤنڈ نبا
تھا اور اس کے آخر پہ انک گیراج جتنی جگہ تھی۔
چنہ اس نچی کو ا ننے شاتھ النی اور کجھ کوڈز لگا کے دروازہ کھوال۔
وہ انک مونا شا لوہے کا گنٹ تھا۔ چنہ ئے اندر انک دو اور نین پرنس کنے چب
دوسرا دروازہ کھال اور انک نٹس شالہ لڑکا ناہر تکال۔
”شکر ہے تم آگنی۔۔۔“ لڑکے ئے آگے پڑ ھنے چنہ کو ا ننے شاتھ لگانا۔ چنہ
اس کے خزنانی ین پہ مشکرا دی۔
”لبام پہ النا ہے النا ہے۔ النا لبام نمہاری مدد کرے گا نمہیں انک اچھی جگہ لے
جائے میں۔“ لبام سے کہنے وہ النا کی جانب گھومی اور اس سے پرمی سے بولی۔
النا ئے انبات میں سر ہالنا۔ اس کے نال نکھرے ہوئے تھے چہرے پہ منے
منے آنسوؤں کے نشان تھے۔ اس نچی ئے وانٹ کلر کا فراک نہبا تھا جس کی آسنین
تھنی تھیں۔
ن
چنہ کا دل نار نار شکر ادا کر رہا تھا کہ وہ وفت پہ ہنچ گنی تھی۔
”اس کو کھائے کو کجھ دے دو شاند تھوک لگی ہو۔“ چنہ ئے لبام سے کہا
جس ئے انبات میں سر ہالنا اور خود سبک نورنی کی طرف جال گبا ناکہ گنٹ کا الک جبک
کر شکے۔
چنہ خود جتنج کرئے جلی گنی ،پراؤزر سرٹ نہنے وہ ناہر آنی اور لبام کو نبانا کہ وہ
جا رہی تھی۔
”تھوڑی دپر بو رک جانی میں کھانا لگائے واال تھا۔“ لبام ئے اس کو جائے دنکھا
لبکن اس ئے تقی میں سر ہالنا۔
”نہیں مجھے کسی اور کام سے تھی جانا ہے تم اس کا اور انبا جبال رکھبا جٹسے
اس کا کہیں ان یطام ہو مجھے اتقارم کر د نبا۔“ چنہ ئے گاڑی کی کیز ناکٹ میں ڈالی
اور نٹشمنٹ کے گیراج سے اننی گاڑی تکالی خو نہلی گاڑی سے مجبلف تھی۔
انک عام سہری کی طرح وہ اننی گاڑی میں تکلنی سڑکوں پہ ا نسے ہی تھرئے لگی،
چب لگا کہ پہ عالقہ تھبک تھا نتھی ا ننے انارنمنٹ کی طرف گنی۔
کارنل کی ڈنلتبگ میں چب گنی بو آج انک چھونی نچی کی نبالمی ہونا دنکھ اس
کے رگوں میں سرارے دوڑئے لگے۔ اس ئے غور سے اس آدمی کو دنکھا خو اس کو
خرندئے واال تھا۔
نہاں جٹسی عالموں کی نبالمی ہو رہی تھی ،شب سے کم عمر کم شن نج نوں کی
فتمنیں زنادہ لگنی تھی اور پہ شب دنکھنے چنہ کا دل کبا کہ وہ اس جگہ کو انک ہی تم
سے اڑا دے۔
”پہ شب لوگ کون ہوئے ہیں؟“ اس ئے ا ننے شاتھ نتتھے انک سحص سے
بوچھا تھا۔ خود کو اس ئے وہاں ا نسے طاہر کبا تھا کہ اس کام میں ننی تھی۔
”پہ شب پزنس مین ہوئے ہیں ا ننے پرنس پہ بور ہوئے پہ پہ شل نوز ا ننے شاتھ
رکھنے ہیں۔ وفنی رنگنتباں۔“ اس سحص سے کمتبگی سے کہا۔ چنہ ئے مشکرائے کی
ناکام کوشش کی۔
اس ئے شاور لتنے کے تغد انبا لنپ ناپ آن کبا اور ڈارک و نب پہ کارنل پہ
ہوئے والی اگلی ڈنلز کی ڈنٹس دنکھنے لگی۔
زنادہ پر بو ڈرگس اور آرمز ڈنلبگ تھی لبکن اتھی مزند کونی سبل نوری نہیں تھی۔
اس ئے اقسوس سے النا کے نارے میں شوجا۔ ان کو شکول سے کسی پرپ
کے نہائے اتھانا جانا تھا اور دوسرے ممالک میں ان کی نبالنی ہونی تھی۔
چب اس کو پہ نبا جال کہ اس شل نوری کے کاموں میں زنادہ پر پزنس مین ابوالو
ہوئے تھے اس کو پزنس کی دنبا سے تھی تفرت ہوئے لگ گنی۔
”نہاں بو انشانی روپ میں فرسنے ننے تھرنی ہیں وہ تھی سیطان سے دو ہاتھ
آگے ہیں۔“ اس ئے عصے سے شوجا اور لنپ ناپ کو نبد کرئے شانبڈ پہ رکھا۔
اس کو کل گرنس کے لنے تکلبا تھا۔ جائے سے نہلے وہ لبام سے انک نار مل
کے تھوڑی نانیں ڈشکس کرے گی ناکہ وہ پرنشان پہ ہو۔
دن میں آج وہ ماڈلبگ ہاؤس گنی تھی آڈنشن کے لنے ،انبا بو وہ کاتقبڈن نٹ تھی
کہ اس کا سبلبکشن ہو جائے گا لبکن ہوئے نا ہوئے سے اس کو فرق نہیں پڑنا تھا۔
اس کو تھی دنبا کو دکھانا تھا کہ وہ انک عام لڑکی تھی۔
اتھی نبکبگ کرئے کا تھی زرا دل نہیں تھا ،پرابو نٹ چٹ اس کو لتنے آجائے
گا وفت پہ اسی لنے قالنٹ کی تھی پرنشانی نہیں تھی ،النا کو ناد کرنی شکون سے
ش گ ھ کن
آ یں موند نی۔ انک اور پر کون نتبد۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ن
”شپ منٹ کا کبا نبا ،کب نک ہنچ رہی ہے؟“ رنان ئے دامیر سے بوچھا خو
ننجبگ نبگ کو ننچ کر رہا تھا۔ اس وفت وہ ہالف شل نوز نہلے ہوئے تھا خو نستنے سے
تھبگی اس سے جبکی تھی۔ کسرنی جشم واصح تھا۔
ن
”آج رات نک ہنچ جائے گی روس نک ،علتبا اتھی اتکل مبکس کے شاتھ ہے
ن
بو میں شوچ رہا تھا شپ منٹ کی ڈنلوری کے وفت میں وہاں ہنچ جاؤں۔“ دامیر ئے
چم ناول سے ا ننے چہرے سے نسننہ جشک کبا اور نانی کی بونل اتھائے نتنے لگا۔
”مطلب تم مجنے چھوڑ کے جائے والے ہو!“ رنان کے چہرے پہ معنی چیز
مشکراہٹ رنبگ گنی جس پہ دامیر تقی میں سر ہالئے ہٹس دنا۔
”تم نہاں موخود ہو اور نمہیں خود کے کام ہیں ،انبا وفت صا تع کرئے کے لنے
نمہارے ناس کجھ نہیں ہے۔“ دامیر ئے ناقی کا نانی ا ننے سر پہ گرا دنا اور نالوں میں
ہاتھ ت ھیرئے لگا۔
”شام کو میں تکل جاؤں گا ،نلین نبار رہے گا اور تھبک کل آدھی رات میں
نہاں وانس آجاؤں گا۔“ دامیر ئے انبا ارادہ نبانا بو رنان ئے سر ہالنا۔
انگرون اور مبکسبکو کا کارنل ہبڈ کارلوس دوبوں جٹسی عالموں کی نبالمی کرئے
تھے اور اسی کام سے شب سے زنادہ دامیر اور رنان کو تفرت تھی۔
ان کا خود کا کام آرمز کی سمگلبگ نک ہونا تھا ،انک ہبڈ مافبا سے دوسرے ہبڈ
مافبا نک کی ڈنلبکگ لبکن چہاں شل نوری کی نات آنی وہاں ان کی نبدوفیں بولنی تھیں۔
جس کسی ئے تھی اس ستمنٹ کو کنٹشل کروانا تھا رنان داد د ننے نبا پہ رہ نانا
تھا۔ اس ئے کجھ فوننج کو سرچ کرنا جاہا کہ شاند وہ کونی شوراغ مل نائے لبکن خو
کونی تھی تھا وہ نہت مجباط ہو کے کام کرنا تھا ک نونکہ ونڈبو میں نس وہ انک شانا ہی
دنکھ نانا تھا۔
ا ننے منٹشن کی انک نار شک نورنی جبک کرئے وہ ا نسے ہی اکبڈمی کے پرنتبگ اپرنا
کو نار کرئے کھلے مبدان میں آگبا چہاں اکیر ان کا شونبگ نٹشٹ لبا جانا تھا۔
رات کے دو نج رہے تھے اور اتھی گہرا اندھیرا چھانا ہوا تھا۔
کجھ ا ننے کمروں میں شوئے کو جا جکے تھے اور کجھ کو اس ئے پرنتبگ اپرناز میں
ہی دنکھا تھا۔
خونئیرز کو رات دس نچے کے تغد کمرے سے تکلنے کی اجازت نہیں تھی ک نونکہ
صنح ان کی پرنتبگ نانچ نچے سے ہی سبارٹ ہو جانی تھی۔ نانچ نچے سے چھے نچے نک
ان کو جاگبگ کروا کے وارم اپ کبا جانا تھا اور اس کے تغد ان کا ننجبگ سٹشن ہونا
تھا خو شات نچے نک جلبا تھر شب کو کمروں میں تھنحا جانا ناکہ فرنش کو جائے اور آتھ
نچے نا سنے کی نتبل پہ شب کا ہونا ضروری تھا۔
رنان جلنے ہوئے ہال والی شانبڈ پہ آگبا چہاں پرنتبگ جتم ہوئے ہی سرمنی ہونی
سٹن
تھی جن میں شب نار ٹس کو انک شال کے لنے کانیرنکٹ شاین ہوئے ھے۔
ت ن تن
رنان ئے اس جگہ پہ کاقی نبدنلی محسوس کی تھی۔ مزند ننی چیزیں نہاں مگوانی گنی
تھیں۔ ان کو گنے ہوئے تھی بو دس گبارہ شال ہوئے والے تھے۔
مونانل پہ دامیر کی کال آئے پہ اس کے کان دے لگانا چب اس کو دبوار کے
شاتھ کونی ہ نولہ گزرنا ہوا تظر آنا۔ دامیر ستمنٹ کلئیر ہوئے کے نارے میں نبا رہا تھا۔
ت چ مکم
اس سے نات جتم کوئے رنان کی ل بوجہ اس نولے پہ ہی می ھی خو دبوار
ہ
کے شاتھ شاتھ ہی جا رہا تھا۔ اس سباہ رات کا حصہ۔
رنان کو مغلوم تھا کہ کونی اننی آشانی سے کراؤنڈ ہبڈ کے اندر نہیں آشکبا تھا
ضرور پہ کونی پرنیر تھا نا کونی سننئیر۔ رنان محو نت سے نکبا گبا۔
ہ نولہ تھوڑی روسنی میں تکال جس ئے سباہ ہی ڈرنس اپ کر رکھا تھا جٹسے اتھی
کہیں ڈبونی سے وانس لونا ہو۔ رنان غور نہیں کر نانا کہ وہ لڑکا تھا نا لڑکی۔
رنان اب اس سے جبد فٹ کے قاصلے پہ موخود تھا اور نبا نلکیں چھ یکائے اسی کو
دنکھ رہا تھا چب اس وخود ئے انبا رخ رنان کی جانب کبا۔ اس کی آنکھوں کے شاتھ
شاتھ چہرے کے ناپرات تھی پرف نتھر نلے ہو گنے جس پہ مقانل خوتکا۔
ب
رنان کی آنکھوں میں ج لنج کے شاتھ انک چمک تھی ،اگلے ہی لمچے مقانل ئے
ا ننے ہولڈر سے گن تکالے رنان پہ نانی۔ رنان ئے آپرو اوپر اتھائے کہ اننی ہمت اس
ن
پہ گن نانی جا رہی تھی۔ وہ تھی اننی جگہ سے ہال نہیں تھا البا رنان کی آ کھیں چمکنے
لگیں۔
آہٹ پہ چنہ ئے ہاتھ دوسری طرف کرئے قاپر ناندھا اور نشاپہ لتنے ہی اننی گن
کو ہولڈر میں رکھنے وہ رنان کی جانب لبکی۔ انک نل کو رنان الجھا کہ وہ اس کی طرف
ک نوں آرہی تھی لبکن اس سے نہلے وہ بوچھبا چنہ ئے اننی متھی نبد کرئے اس کے
چہرے کا وار لتبا جاہا جس کو رنان ئے پروفت ا ننے سبدھے ہاتھ سے روک لبا۔
ن ت لک ن ن جم س
ک
وہ نا ھی سے مقا ل کو د ھنے لگا خو کجھ قاصلے سے بو لڑکی نا ل ھی ہیں لگ
رہی تھی۔
”لبل لبڈی! کونی مسبلہ ہے کبا؟“ چنہ ئے انبا ہاتھ وانس کھتنحا اور اس کو
سرد تگاہوں سے دنکھا۔ اس کو وہ نہحان گنی تھی اور نہحاننی تھی کٹسے نا ،اکبڈمی کا ہر
انک انشان جانبا تھا کہ پہ شا منے کھڑا گرے سرد تگاہوں واال رنان تھا۔
ل گ ھ کن
چنہ نحائے خواب د ننے کے آ یں ھمائے وہاں سے جائے گی چب انک لڑکا
ان کی طرف آنا۔
”گتم کے درمبان میں؟“
ح س
پہ لوگ شاند پرنکٹس کر رہے تھے تھنی چنہ اس کو علط س ص ھنے اس پہ وار
جم
کرئے لو دوڑی تھی۔
”میرا موڈ نہیں۔“ چنہ نگڑے موڈ سے بولی اور گن اس لڑکے کی طرف اچھالی۔
انداز صاف تھا جٹسے رنان کے آئے پہ وہ ندمزہ ہونی تھی۔
رنان کو اس کی جال کجھ الگ سی لگی ،پہ لڑکی تھی الگ تھی۔ نہلے بو وہ اس
کے انداز پہ چیران ہوا تھا وہ جس طرح جسنی دکھا رہی تھی اندھیرے میں لڑکی کہیں
سے نہیں لگی تھی۔ تھر اس کا انتنت نوڈ!
رنان کے فرنب آکے تھی وہ گ ھیرانی نہیں ،رنان کی تظروں میں انک سبانش
اتھری۔ لوگ نام شن کے تھی کا نتنے تھے نہاں محیرمہ چملہ کرئے پہ نلی تھیں۔
وہ مبکس کی فتملی تھی تعنی ان کی فتملی کا حصہ تھیں۔ انشا نہیں ہو شکبا تھا
کہ وہ کتھی ان کو تقصان نہنحائے۔
اس کو چنہ کا انداز ناد آنا جس طرح اس ئے رنان کے ردعمل کی پرواہ کنے نبا
اس پہ وار کبا تھا۔ وہ قانل تعرتف تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
خوتصورت فرنشڈ انارنمنٹ میں اس ئے قدم رکھا بو اس کو شگار کی مہک محسوس
ت ک جم س
ہونی۔ اس ئے نا ھی سے ناہر کھڑے گارڈ کو دنکھا خو شوند بوند تھا۔ نہلے بو ھی
کتھی تھی اتکل مبکس کے شاتھ گارڈ کو دنکھا تھا۔
نجھلی نار کی طرح اس نار تھی انارنمنٹ ندال تھا اور خوتصورت تھا۔
”علتبا۔۔!“ علتبا کے اندر آئے کی اطالع مل جکی تھی ،مسفق مشکراہٹ لنے
وہ اس کی جانب پڑھے۔
”ہائے اتکل۔۔!“ اس ئے آگے پڑ ھنے خوشدلی سے کہا۔
”دو دن لگا د ننے تم ئے نہاں آئے میں!“ مبکس ئے مضنوعی ناراصگی سے
کہا جبکہ علتبا ہورے انارنمنٹ کا جاپزہ لتنے میں مصروف تھی۔
”میں ئے شوجا کہ میں خود تھی اس جگہ کی تھوڑی سیر کر لوں۔“ مبکس کے
شاتھ جلنے وہ ل نونگ روم کے صوفے پہ نتتھ گنی۔
”گھومبا تھا بو مجھے کہنی میں نمہیں اس جگہ کی سیر کروانا ،کتنی نار کہا ہے کہ
اکبلی مجھے نبائے تغیر پہ جانا کرو۔“ مبکس ئے تھوڑا سنجبدگی سے کہا۔
”ارے اتکل ،اب میں پڑی ہو گنی ہوں اور خود تھی انبا ڈ تقنٹس کرنا جاننی
ہوں۔ آپ کو قکر کرئے کی ضرورت نہیں ہے اب۔“ علتبا ئے فجرپہ انداز میں کہا کہ
مبکس نس مشکرا د ننے۔
”پہ نات بو تھبک ہے لبکن نمہیں میں ئے نہت سمجھانا تھا کہ کبا ضرورت ہے
اس شب کی۔ تم میرے شاتھ رہ شکنی ہو۔“ مبکس ئے تھوڑا قکر مبد لہچے میں کہا۔
”آپ گھر میں ر ہنے کہاں ہیں ،ہر دو دن تغد آپ کو پزنس بور پہ جانا پڑ جانا
ہے۔“ علتبا ئے حقگی سے کہا۔
”مجھے پہ بو ئےقکری ہونی کہ تم میرے گھر میں محفوظ ہو۔“
”آپ ا نسے کہہ رہے ہیں جٹسے میری جان کو حظرہ ہو۔“ علتبا ئے نات کو ہوا
میں اڑانا لبکن مبکس کو وافعی اس کی قکر الخق تھی۔
”میں ئے نمہارے لنے کجھ شوجا ہے۔“ مبکس ئے نمہبد ناندھی۔ علتبا ئے
شوالنہ تظروں سے دنکھا۔
”نمہیں پہ مزاق ہی لگبا ہو گا لبکن مجھے وافعی نمہاری قکر ہے۔ میں ئے کسی کو
نمہارے لنے ہانیر کبا ہے ،انک شال نک بو وہ نمہارے شاتھ ہی ہو گا۔ اور مجھے چب
تفین ہو جائے گا کہ تم اس قانل ہو گنی ہو کہ اکبلے ہر چیز کو ستتھال لو بو اس کو
ہبا دوں گا۔“ مبکس ئے سنجبدگی سے کہا جبکہ علتبا ئے چیرت و ئےتفتنی سے اس
کی جاتط دنکھا۔
”کسی کو میرے لنے ہانیر کبا ہے اور وہ لڑکا ہے۔ آپ مجھے نبائے تغیر کٹسے کر
شکنے ہیں پہ شب۔ وہ تھی انک شال کے لنے۔“ علتبا ئے صدمے سے کہا۔ اس
کے ما تھے پہ نل واصح ہوئے۔
”اس مغا ملے میں کجھ تھی نہیں ہو شکبا اب۔ شب قانبل ہوگبا ہے وہ نمہاری
ب م ہت ن
اکبڈمی ھی نچ حکا ہو گا۔“ کس ئے انبا نازو صوفے کی نشت سے ہبائے آگے
ہوئے کہا۔ علتبا اننی جگہ سے کھڑی ہونی۔
”اور آپ مجھے اب نبا رہے ہیں۔“ علتبا کا سحت موڈ خراب ہو حکا تھا۔
”پہ بو نبانا ہی نہیں کہ کون ہے وہ جس کو میرے نلے ناندھ دنا ہے۔۔“ وہ
عصے سے پڑپڑانی اور اب پرا تھی لگنے لگا کہ اس ئے اتکل مبکس کے شاتھ ندنمیزی
کی تھی۔ ان سے آرام سے نات کرنی جا ہنے تھی۔
رات نک وہ وانس آ گنے تھے ،کجھ دپر نک بو وہ ان کا کھائے پہ ان یطار کرنی رہی
لبکن وہ نہیں آئے تھے۔ تھر اکبلے ہی کھانا کھائے ا ننے روم میں آگنی تھی ،انک نار
ناہر تکلنے کی کوشش کی بو دروازے پہ کھڑے گارڈ ئے روک لبا کہ وہ اس وفت ناہر
نہیں جا شکنی چب نک مبکس خود پہ کہہ دیں۔
نگڑے موڈ سے وہ وانس ا ننے روم آگنی اور ناتم ناس کے لنے نی وی آن کر
لبا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”آج شام کی قالنٹ سے تم وانس گرنس جا رہی ہو۔“ صنح نا سنے نک تھی اتکل
مبکس کا اس سے ناراصگی کا اظہار جاری تھا جبکہ علتبا مشلشل ان پہ حقگی تھری تگاہ
ڈال رہی تھی۔
”مجھے نبائے تغیر تم اکبڈمی سے ناہر نہیں تکلو گی۔“ شاتھ ہی انہوں ئے ننتبہہ
کی جس پہ علتبا ئے کھائے سے ہاتھ روک دنا۔
”آپ مجھے نحوں کی طرح پرنٹ کر رہے ہیں۔“ علتبا ئے شکوہ کبا جس پہ
مبکس ئے نس انک تظر اس کو دنکھا۔
”علتبا چہاں تم جلی گنی ہو وہ اچھی جگہ نہیں ہے اسی لنے مجھے پہ شب اقدام
اتھائے پڑ رہے ہیں اور میں تم سے امبد کرنا ہوں کہ تم مجھے عصہ ہرگز نہیں دالؤ
گی۔“ اس کے شکوے پہ وہ تھی دو بوک انداز میں بولے ،اس وفت وہ پرمی دکھائے
کے نالکل قانل نہیں تھے۔
”کوشش کروں گی۔“ علتبا ہلکا شا پڑپڑانی۔
”اور دامیر کو موفع پہ د نبا کہ کجھ انبہانی قدم اتھائے۔“ انہوں ئے نا سنے سے
قارغ ہوئے کہا ،علتبا حقگی سے اتھنے لگی کہ ان کی نات ستنے خونک کے رک گنی۔
جم س
”دامیر؟“ اس ئے نا ھی سے دنکھا۔
”دامیر آر؟“ دونارہ نام بو لنے پہ مبکس ئے سر انبات میں ہالنا۔
”وہ قا نل؟ آپ۔۔ آپ جا ننے تھی اس شانبکو انشان کو۔ اس قا نل کو آپ ئے
میرا کئیر نبانا؟“ علتبا ئے ئےتفتنی سے بوچھا۔
”اس میں نہت سی نانیں اچھی ہیں نتھی اس کو نمہارے لنے رکھا ہے۔“ مبکس
دامیر کے نارے میں مزند نات نہیں کرنا جا ہنے تھے نتھی جتمی انداز انبانا۔
”اچھی نانیں ،وہ اچھانی لقظ سے وافف تھی ہے۔ مجھے آپ نالکل تھی سمجھ
نہیں آرہے اس نار۔“ علتبا ئے نگڑئے لہچے میں بولی۔ جس سحص سے اس کو تفرت
تھی اتکل مبکس اسی اس کا رکھواال نبا رہے تھے ،کبا وہ نہیں جا ننے تھے کہ وہ انک
قا نل ہے نبا کسی وجہ سے وہ مقانل کی گردن اڑا دے اور اتکل مبکس اس سے بوفع
کر رہے تھے کہ وہ علتبا کی حقاظت کرے گا۔
”میں اتھی نبا رہی ہوں ،میں اس دامیر کو ا ننے شاتھ نالکل تھی نہیں رکھنے
والی۔“ علتبا نیز لہچے میں انبا ف یصلہ سبانی ہونی کمرے میں جا نبد ہونی۔
مبکس اقسوس میں سر تقی میں ہالئے لگے۔
٭٭٭٭٭٭٭
رنان پراؤزر میں نبڈ پہ لتبا تھا چب اس کا مونانل ن نپ کبا۔ دنکھا بو دامیر کے
آس ناس ہوئے کا االرم تھا۔ تعنی وہ وانس آگبا تھا۔
اس کے شاتھ واال روم ہی دامیر کا تھا لبکن وہ جانبا تھا کہ دامیر نہلے ادھر ہی
آئے گا اور دروازہ ناک کرئے کی اس ئے زچمت تھی نہیں کرنی تھی۔ انشا ہی ہوا
اگلے ہی لمچے وہ اندر تھا اور النٹ آن کر کے اس ئے دنکھا کہ رنان ا ننے نسیر پہ تھا نا
نہیں۔
”ادھر ہی ہوں میں نتنی۔۔“ اس ئے خڑائے والے انداز میں کہا۔
”شٹ اپ۔“ دامیر سنجبدگی سے بوال اور صوفے پہ نتتھ گبا ناکہ تھوڑی تھکن انار
شکے۔
”پہ النٹ نبد کر دو۔“ رنان ئے سرد لہچے میں کہا ک نونکہ وہ شونا جاہبا تھا اتھی۔
تھ ت
”مبکس ل نو کی انک اور نچی ہے۔“ رنان ئے دامیر کو چیران کرنا جاہا کن
ب ل
اس کے پرشکون خواب پہ وہ چھبکے سے اس کو دنکھنے لگا۔
”جانبا ہوں میں ،چب انہوں ئے علتبا کا نبانا میں ئے نتھی ڈھونڈ لبا تھا۔“
دامیر ئے عام لہچے میں کہا اور ن یقبدی تگاہوں سے اطراف کا جاپزہ لبا۔
”اس سے مالقات ہونی؟“ رنان ئے دلحسنی سے بوچھا وہ اتھی تھی ن نٹ کے نل
لتبا تھا۔
”نہیں لبکن نہی سے پرنبڈ ہے وہ۔“ دامیر ئے سرسری شا کہا بو رنان ئے سر
ہالنا۔
اس ئے جلنے نانی کے ننچے ا ننے گہرے تھورے نالوں میں ہاتھ ت ھیرا اور گہرا
شانس تھرا۔ تھبڈے نانی کی تھوار سے اعصاب پہ کجھ اپر پڑا۔
اگر علتبا نہاں اکبڈمی نک آنی تھی بو ان کی دنبا اور ناقی کاموں سے وافف ہو
گنی ہو گی ،جائے کب نک علتبا کی وجہ سے اس کے شاتھ رہبا ،ہو شکبا تھا کہ علتبا
کی وجہ سے مزند کونی کانیرنکٹ پہ کر نائے لبکن کام میں دپری تھی ان کے کرنیر
کے لنے اچھی نہیں تھی۔ کم از کم وہ رنان کو شاتھ تھٹشانا نہیں جاہبا تھا۔
اگر رنان کو کونی الگ سے کانیرنکٹ ملبا بو وہ اسے جائے دے گا اس ئے شوچ
تھ ت
لبا تھا اور خود وہ مبکس کی نچی کی کشڈنی کرنا رہے گا۔
لڑکوں کا اس کو نجرپہ تھا اور لڑکی ،غورت زاد بو تھی ہی نہیں زندگی میں۔ شاند
اس کے لنے صیر کرئے کا وفت آگبا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭
صنح نا سنے کی نتبل پہ نتتھے تھے ،ان کا نتبل ہال کے نالکل کوئے میں تھا
چہاں سے وہ شب کو آرام سے دنکھ شکنے تھے۔ آئے جائے والے کا تھی ان کو نبا
تھا۔
”چنہ ل نو۔۔!“ رنان ئے اندر آنی چنہ کو دنکھنے کہا۔ دامیر ئے اس کے تغافب
میں دنکھا۔ نت نٹ اور نی سرٹ نہنے ،سباہ نالوں کو ہانی بونی نبل میں کسے وہ انک نتبل
ن
پہ جا تتھی اور ا ننے نا سنے کا آرڈر د ننے لگی۔
”دنکھنے سے بو اننی سیرانگ نہیں لگنی جتنی تم ئے نبانا تھا۔“ دامیر ئے ن یصرہ
کبا۔
”اس کو پرنتبگ کے دوران دنکھبا۔“ رنان ئے نس انبا کہا بو دامیر ئے سر ہالنا۔
”لبکن پہ اکبڈمی کس شلشلے میں آنی ہے؟“ دامیر ئے شو جنے بوچھا۔
”طاہر ہے مبکس ئے کجھ کہہ کے تھنحا ہو گا۔“ رنان الپرواہی سے بوال۔
”البانین کا کبا نبا؟ کبا وہ ناز آئے ا ننے کاموں سے؟“ رنان ئے اس سے
روس میں داجل ہوئے البانین کے نارے میں بوچھا۔
چنہ ناشنہ کر کے ناہر جا جکی تھی۔ نت نٹ کی جت نوں میں ہاتھ ڈالے اس کھلے
مبدان میں جل رہی تھی۔ کل چب رنان کو ا ننے شا منے دنکھا بو انک نل کو وہ خونکی
کہ شاند تظروں کا دھوکا ہو لبکن وہ وافعی رنان تھا اور سرد تگاہوں سے اسی کو دنکھ رہا
تھا۔
س
اس کے شا منے خود کو کمزور نہیں دکھانا جاہنی تھی نتھی نبا شوچے ھے اس ئے
جم
اننی گن اس کی طرف نان دی۔ اس ئے کونی رد عمل نہیں دکھانا تھا لبکن چب وہ
”لبل لبڈی“ بوال بو خوف و ہراس کی لہریں جشم میں سران نت کر گنیں۔ وہ جتبا کولڈ
ہارنڈ تظر آنا تھا اس سے تھی زنادہ اس کا لہحہ تھا۔
اس کے کارناموں کے فصے مافبا کی دنبا میں کس ئے نہیں شن ر کھے تھے۔ مافبا
کی دنبا میں ہر نبا آئے واال ان کے نام اور کام سے جلد ہی وافف ہو جانا تھا۔
رنان اور دامیر کی موخودگی سے اس کو کونی فرق نہیں پڑئے واال تھا۔ کجھ دن
کے لنے وہ ناہر کی دنبا سے الگ رہبا جاہنی تھی نتھی مبکس ل نو کے کہنے پہ کراؤنڈ ہبڈ
جلی آنی تھی۔
اچھا تھا نہاں کہ وہ کجھ چیزیں مزند پرنکٹس کر لتنی نب نک لبام اس کو ناقی
ً
انڈنٹ د نبا رہبا۔ اگر کسی کارنل کا نبا جلبا بو وہ نہاں سے فورا رواپہ ہو جانی۔
”اکبلی کہاں گم ہو ،نانیں کرو شب سے۔“ اس لڑکے ئے دوسباپہ لہچے میں
کہا ،شاند اس کو چنہ کونی ننی آئے والی لڑکی لگی تھی۔
” میں تھبک ہوں۔“ چنہ انبا کہہ کے آگے پڑ ھنے لگی چب لڑکے کی ہمت پہ
اس کو رکبا پڑا۔ اس کا ہاتھ لڑکے کی گرفت میں تھا۔
”ہم کہیں نتتھ کے نانیں کر شکنے ہیں۔“ اس ئے آفر کی ،چنہ ئے انک تظر
ہاتھ کو دنکھا تھر اس کے معنی چیز مشکرائے چہرے کی طرف۔
نبا وارنبگ کے اس ئے دوسرے ہاتھ کی متھی نبائے انک زور دار ننچ اس کے
منہ پہ دے مارا اور انبا ہاتھ دنکھنے لگی خو اس کی گرفت میں تھا۔ ہاتھ چھوٹ حکا تھا،
وہ لڑکھڑا کے سبدھا ہوا اور ناک پہ اتگلی ر کھے جبک کبا۔ خون کی دھار۔
”آ نتبدہ لڑکی کے اتکار کا اچیرام کرنا۔“ انک انک لقظ زہرنلی مسکان سحائے اس
ئے کہا بو مقانل ئے اس کو ن یفر سے گھورا۔
”ہاں میں ئے انک دو لوگوں سے نات کی ہے جلنے ہیں۔“ دامیر ئے کہا اور وہ
دوبوں اننی گاڑی لنے اکبڈمی سے ناہر تکلے۔
رنان ئے گاڑی تکالی اور دامیر کا ان یطار کرئے لگا خو انک فون کال پہ مصروف
تھا۔ گاڑی دامیر ہی ہمٹشہ جالنا تھا۔
فون ج نب میں رکھنے جٹسے ہی وہ مڑا کہ اجانک کسی کے آئے سے وہ نکرا گبا۔
مقانل اس افباد پہ ستتھل پہ نانا اور لڑکھڑا کے گر پڑا۔
دامیر ئے شا منے گری لڑکی کو دنکھا اور اس کا شامان اتھائے میں مدد کی۔
”مانی نبڈ۔“ دامیر ئے سنجبدگی سے کہا اور نبا اس کے چہرے پہ تگاہ ڈالے اننی
گاڑی کی طرف پڑھ گبا۔
گاڑی میں نتتھنے ہی اس ئے سنئیرنگ وہبل ستتھاال کہ رنان ئے اس کو معنی
چیز تظروں سے دنکھا۔
”نا بو پہ اتقاق ہے نا تھر تم مزند ہتبڈسم ہو گنے ہو کہ لڑکباں نکرائے کے
نہائے ڈھونڈنی ہیں۔“ رنان ئے اس کو خڑانا جس پہ وہ ہٹس دنا۔
”ان کو نبا دو میں ا ننے کمرے میں ہوں۔“ اس ئے وانس کال کرئے اطالع
دی کہ تھوڑی ہی دپر میں اس کا دروازہ ناک ہوا۔
٭٭٭٭٭٭
اتکل مبکس اس سے اتھی تھی ناراض تھے جبکہ اس کا خود کا ناراصگی پڑھائے
کا ارادہ تھا۔ وہ کسی تھی قشم کی نانبدی میں نہیں آنا جاہنی تھی۔
تھر ا نسے انشان کی جس سے وہ تفرت کرنی تھی۔ کتھی نہیں!
اس کی زندگی نہلے ہی بورڈنگ شکول ،ہوسبلز میں گزری تھی۔ فتملی میں کون تھا
کہاں تھا وہ کجھ نہیں جاننی تھی شوائے اس کے کہ مبکس اس کے اتکل تھے۔
اب خوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا تھا بو خود انک آزاد زندگی گزارنا جاہنی تھی چہاں کونی
روک بوک پہ ہونی اننی مرضی کے ف یصلے لتنی۔ ا ننے شوق بورے کرنی۔ دنبا گھومنی۔
اگر کتھی موفع ملبا بو ا ننے آنانی گھر جانی چہاں سے وہ خود کو مزند جان شکنی تھی۔
لبکن اس کو لگ رہا تھا کہ اب وہ اکبڈمی میں آکے اننی زندگی کو مزند نبگ
کرئے والی تھی جبکہ نہلے بو وہ پرخوش تھی۔
دامیر نامی نال اس کی آزادی چھنتنے والی تھی۔
”میں کسی کو اننی زندگی کئیرول کرئے نہیں دوں گی۔ تھاڑ میں جائے میری
ن
طرف سے دامیر۔“ گاڑی میں تتھی وہ مشلشل دامیر کو کوس رہی تھی۔
تھر مبکس کا شو جنے ئےنس ہونی جا رہی تھی۔
اکبڈمی میں گاڑی رو کنے ہی گارڈ ئے اس کی شانبڈ کا دروازہ کھوال۔ انبا ہتبڈ نبگ
لنے وہ اندر پڑ ھنے لگی چب کونی اس سے نکرانا۔ نبگ اور ہاتھ میں نکڑی انک دو چیزیں
ننچے گر گنیں۔
اس ئے مقانل کو دنکھا خو جلدی سے مغذرت کرنا آگے پڑھ گبا تھا لبکن اس
کے ناس سے گزرئے کا اجشاس الگ تھا۔ مرداپہ کلون کی جسنو اجانک فصاء میں رچ
گنی۔
اس ئے گھوم سے اس سحص کو دنکھا خو اب گاڑی میں نتتھ رہا تھا۔ دل میں
شدند خواہش اتھری کہ وہ اس سے نات کرے۔
لبکن وہ خود تھی پہ نات نہیں جاننی تھی کہ نکرائے واال دامیر تھا ورپہ اس دل
کی خواہش آئے سے نہلے ہی زہر کھا جکی ہونی۔
ت ہن
اکبڈمی میں شب سے نہلے نجنے اس ئے فر کی تھکان اناری ھی۔ ٹسے ہی وہ
ج ش
ڈپر پہ جائے لگی بو اس کو سر جارج ئے ا ننے کنین میں نلوانا۔
وہاں مغلوم ہوا کہ دامیر اس کا دو نین دبوں سے نہاں ان یطار کر رہا ہے اور اب
کع ن
اس کو خود اس سے مل لتبا جا ہنے۔ لتبا آ یں ھمانی ہونی ان کی نات مان نی اور
گ گ ھ
دامیر کے انک گارڈ کے شاتھ اس کے نالک کی طرف جائے لگی۔
گٹشٹ نالک اور سنوڈ ننٹس کے نالک الگ تھے ،ا نسے ہی ہر قشم کی خراتم کے
لوگوں کے نالک الگ الگ نبائے گنے تھے۔
دامیر کا نالک ان کے کورنڈور کے نالکل شا منے کارنڈور میں موخود تھا۔ تعنی وہ
لوگ انک دوسرے کے کمروں کے مقانل تھے جن کے درمبان ننچے ہال کا اپرنا تظر
آنا تھا خو الؤنج کے طور پہ اسیعمال ہونا تھا۔
گارڈ ئے دروازہ ناک کبا اور علتبا کو اندر جائے کا کہا۔ خود وہ شانبڈ پہ کھڑا ہو گبا
انک روبوٹ کی طرح۔
دامیر سے اس کو ملنے کا کونی شوق نہیں تھا نا وہ اس کے شا منے آنا جاہنی تھی
لبکن اندر ہی اندر انک نحسس تھا کہ ئےرچم قا نل کٹشا دکھبا ہو گا۔
”نبا نہیں اتکل ئے کبا شوچ کے اس سحص پہ میری زمہداری ڈال دی۔“ علتبا
ئے ن یفر سے شوجا چب کمرے کا دروازہ کھلنے پہ وہ خونک اتھی۔ تھوڑی دپر نہلے والی
خوسنو۔
کن
شا منے ہی وہ کھڑا تھا۔ گہرے پراؤن نال ،ہم رنگ آ یں۔ شو نٹ نت نٹ اور
ھ
سرٹ ) (sweatpant shirtمیں مل نوس۔ چہرے پہ سنجبدگی بو نہیں الننہ سرد
سباٹ ناپرات تھے۔ انک ہاتھ دروازے پہ تکانا تھا جس میں علتبا کو وہی انگوتھی تظر
آنی جس طرز کی رنان نہتبا تھا۔
”پہ دامیر ہے؟“ اس ئے خود سے شوال کبا۔ وہ لڑک نوں کا کرش بو لگبا تھا لبکن
قا نل نہیں۔
”علتبا!“ دامیر کی گھتمیر آواز اس کو ہوش میں النی بو اس ئے ا ننے دل میں
کہی نابوں کی سرزنش کی۔
”جی۔“ اس ئے لہچے کو معرور نبائے کی کوشش کی ناکہ دامیر اس کو کسی
تھی طر تقے سے کئیرول پہ کر شکے اور پہ ہی وہ پہ شوچے کہ وہ اس کےقابو میں آئے
والی تھی۔
”اندر آؤ۔“ اس ئے اندر آئے کی دغوت دی لبکن علتبا کا دل آہشنہ جلنے لگا۔
اگر اس کو کسی نات پہ عصہ آگبا اور اس ئے مار دنا بو؟
ب ت م
خوف خواشوں میں چھائے لگا۔ اتھی بو اس ئے پرنت گ ھی ل یں لی ھی۔
ت ہن م ک
دقاع کرئے کے خو طر تقے تھے وہ بو دامیر پہ نالکل تھی نہیں جلنے والے تھے۔
”خود کی بو میں ئے نات ہی نہیں کی۔“ دامیر کے خواب پہ وہ الجھی لبکن اس
ئے نات جاری رکھی۔
” میں ئے نمہیں دنکھ لبا اب تم میری اجازت کے تغیر اس اکبڈمی سے انک
قدم تھی ناہر نہیں تکالو گی۔ ڈانتبگ روم میں خود کو میرے شاتھ رکھو گی۔ ناقی پرنتبگ
سٹشن میں کونی مداجلت نہیں کروں گا میں۔ اب تم ا نسے انشان کی تظروں میں ہو
خو مجرم ہے۔“ دامیر ئے اس کی آنکھوں میں دنکھنے انک انک نات کہنے آخر میں اس
کو جبائے ہوئے کہا اور شاتھ ہی طیزپہ مشکراہٹ اچھالی۔
”ا ننے روم میں جا شکنی ہو۔“ اس سے نہلے کہ دامیر کی اننی نانبدبوں پہ وہ کجھ
اجنحاج کرنی دامیر ئے سرد ناپرات انبائے التغلقی سے اس کو جائے کو کہا۔ علتبا کو
لگا کہ اگر اتھی وہ کجھ بولے گی بو اس کا سر ین سے جدا زمین پہ پڑا ہو گا۔
وہ جاموسی سے ا ننے روم کی طرف پڑھ گنی۔ نین قدم اتھائے اس ئے گردن
گھمانی کہ نبد دروازے کو ہی کجھ شلوانیں سبا لتنی لبکن وہ اتھی تھی اسی بوزنشن میں
دروازے کے ر سنے کے درمبان کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وجشت سی اپر آنی تھی
جس پہ وہ چھرچھری لنے ا ننے نالک کی جانب آگنی۔
کن
ا ننے کمرے میں آئے نبڈ پہ دھڑام سے گر گنی اور آ یں موند نی۔
گ ھ
دامیر کو جتبا وہ خوفباک سمجھ رہی تھی دکھنے میں وہ بو ونشا نہیں تھا لبکن نات
کرئے کا انداز اس کا دہشت لنے ہوئے ہی تھا۔
وہ انہیں شوخوں میں گم تھی چب اجانک اس کے روم کا دروازہ کھال اور کونی
اندر آنا۔ آئے والی ڈرنبا تھی خو اکبڈمی میں اس کے شاتھ ہی اکیر نانی جانی تھی۔
ن
”تم وانس آنی اور مجھ سے ملی تھی نہیں۔“ علتبا اتھ تتھی تھی۔ ڈرنبا اس کے
شاتھ ہی نبڈ پہ نتتھ گنی۔
”شفر سے تھک گنی تھی بو آرام کرئے لگی تھر کسی سے ملنے جلی گنی تھی۔“
علتبا ئے تھبڈی آہ تھرئے نالوں کو سمنتنے کہا۔
”کس سے؟“
”اتکل ئے میرے لنے انک کسنوڈین رکھا ہے اور جاننی ہو کون؟“ علتبا ئے
تھوڑا شستنٹس تھبالنا جاہا۔
”دنبا کا نہیرین کسنوڈین اور کئیر۔۔! دامیر کا نام پہ لتبا۔“ ڈرنبا ئے مزاق
اڑائے ہوئے کہا لبکن علتبا کے ہ نوز شاکت ناپرات پہ وہ خونکی۔
”وافعی! دامیر آر؟“ اس ئے ئےتفتنی سے بوچھا۔
”میں خود چیران ہوں ،اتکل ئے نبا اس کے نارے میں جائے اس کو میرا گارڈ
نبا دنا۔ وہ پزنس مین ہیں ان کو اس دنبا کے کالے دھبدوں کے نارے میں کبا
نبا۔“ علتبا ئے اقسوس سے کہا جس پہ ڈرنبا ہٹس دی۔
”نمہارے اتکل جا ننے ہیں نتھی انہوں ئے دامیر کو رکھا ہے ورپہ کونی عام انشان
بو اس سے نات کرئے سے تھی رہا۔“ ڈرنبا ئے اس کی عقل پہ ماتم کرئے کہا۔
جم س
”کبا مطلب؟“ علتبا نا ھی سے بولی۔
”دامیر کونی انبا تھی شسبا انشان نہیں ہے ،وہ اگر اشاشن ہے بو مہ یگا پرین اور
اس سے تھی مہ یگا اس کا شاتھی رنان ڈی ،اور اگر دامیر کئیر نا کسنوڈین ہے بو انشان
ن
کو اننی جانبداد بو نی ہی پڑے گی اس کو جبد ماہ کی ٹس د نے کے نے۔“ ڈرنبا ئے
ل ن ف جن
علتبا کی مغلومات میں اصاقہ کرنا جاہا جس کو ستنے اس کی آنکھوں کے شاتھ شاتھ منہ
تھی کھل گبا۔
”اننی فتمت؟ آخر د نبا کون ہے۔“ علتبا ئے چیرت میں ڈوئے شوال کبا کہ آخر
کون انبا نٹشہ لگا کے ان خراتم سے خڑے لوگوں کو دے گا۔
”قالحال بو نمہارے اتکل ئے دی ہے۔“ ڈرنبا کی نات پہ علتبا کو جبال آنا کہ
آخر مبکس ئے تھی بو فتمت ادا کی ہو گی لبکن وہ پزنس مین تھے بو کبا ان کو کاقی
تھاری پڑا ہو گا دامیر کو انانت نٹ کرنا۔
”میں جتبا اس انڈرورلڈ کو جاننی جا رہی ہو عج نب ہی انکشاف ہو رہے ہیں مجھ
پہ۔“ علتبا ئے گھو منے سر کے شاتھ کہا۔
”اتھی بو تم ئے کجھ دنکھا ہی نہیں۔ نہاں شب الگ نشل کے لوگ آئے
ہیں۔ اکبڈمی میں بو ہبلو ہانی ہو جانی ہے لبکن ناہر جائے ہی جانی دسمن ہوئے ہیں
شب۔ انک دوسرے کے لنے انحان۔“ ڈرنبا ئے مزند اس کو ڈرانا بو انک پرقی لہر رپڑھ
کی ہڈی میں سران نت کر گنی۔
”تم ئے نبانا نہیں کہ تم دامیر سے ملی۔“ ڈرنبا انک دم چہک کے بولی۔ علتبا
ئے اس کے چہرے پہ چمک دنکھنے اس کو معنی چیز تگاہوں سے گھورا۔
”ملی ہوں اس سے۔ وہ بو نات تھی ا نسے کرنا ہے جٹسے کسی فبل میں مداجلت
کر دی ہو میں۔“ علتبا ئے چھرچھری لی بو ڈرنبا ہٹس دی۔
”اچھا تم آرام کرو میں جلنی ہوں اب شوئے کا ناتم ہو گبا ہے۔“ ڈرنبا اس کو
کہنی ہونی اتھ کھڑی ہونی۔ علتبا ئے مشکرا کے اس کو دنکھا۔
وہ انک البانین تھی۔ سباہ نالوں اور شقبد جلد والی خوتصورت لڑکی۔ چب علتبا
اکبڈمی میں آنی تھی نتھی اس کی اس سے دوسنی ہوگنی تھی اور اس میں زنادہ ہاتھ ڈرنبا
کا ہی تھا۔ نہاں اس ئے دو دوشت نبائے تھے۔ انک ڈرنبا اور دوسری شوزین۔
ب
شوزین اتھی اننی ف لمی سے ملنے گنی تھی۔ شوزین فرانس کی لڑکی تھی۔ شوزین
کسنوڈین کئیر کی پرنتبگ لے رہی تھی جبکہ ڈرنبا اشاشن کی۔ ڈرنبا سے اس نارے میں
اس کی دو نین نار نحث ہونی تھی لبکن ڈرنبا اس کو پہ کہہ کے نال د ننی تھی کہ
نہاں سے ناہر جا کے وہ کونی اور کام کرے گی پہ نس وہ ا ننے نیرننٹس کی وجہ سے
کر رہی تھی۔
نہاں شب انبا نشلی کارونار آگے پڑھا رہے تھے۔
ن ن قت
شوزین نہلے ہی کاقی پرنتبگ لے کے آنی تھی بو اس کا ڈ ٹس اچھا تھا۔ لی
ہ
٭٭٭٭٭٭٭٭
ن
”لوسین کی نتنی ہے نا وہ؟“ دامیر ئے علتبا کے شاتھ تتھی البانین لڑکی کو
دنکھنے کہا۔ لوسین البانبا کے اشاشن تھے اور ان کی آگے نیڑی میں ڈرنبا تھی۔
جم س
”ہاں وہی ہے ک نوں؟“ رنان ئے نا ھی سے بوچھا اور اس کے شاتھ جلبا ہوا
ان کے نتبل کے فرنب آگبا۔
”علتبا ہے وہ!“ دامیر ئے علتبا کی جانب اشارہ کبا۔ رنان کے چہرے کے
ً
ناپرات ندلے۔ وہ اس کو نہلے دنکھ حکا تھا اور تفتبا اس کا دنکھبا علتبا تھولی نہیں ہو
گی۔
”جاننی ہے وہ مجھے۔۔“ دامیر ئے اس کو خونک کے دنکھا۔ وہ اس چملے کی بوفع
نہیں کر رہا تھا۔
دامیر نبا اجازت کے ان کے شا منے موخود کرسنوں میں سے انک پہ نتتھ گبا۔
رنان ئے تھی نبا کجھ کہے اننی تگاہیں علتبا پہ تکانی۔
”او ہانی دامیر ،رنان۔“ ڈرنبا دوبوں کی آمد پہ خونک کے بولی۔ دامیر ئے محض سر
ہالنا۔
رنان اب انبا مونانل کھولے اس پہ مٹسجز جبک کرئے لگ گبا تھا جبکہ دامیر
ئے دوبوں کے لنے آرڈر لگوانا۔
رنان ئے کسی اجشاس کے نحت گردن ہلکی سی گھمانی کہ اس کو چنہ ہال کے
اندر آنی ہونی دکھانی دی۔
رنان کے لب مبہم سی مشکراہٹ میں ڈ ھلے۔
”آ نتبدہ ہم نہاں نہیں اس کارپر والی نتبل پہ نتتھیں گے۔“دامیر ئے کھائے
سے اتصاف کرئے ہوئے کہا جبکہ رنان اتھی جاموش ہی تھا وہ ان کی نابوں میں بولبا
تھی نہیں جاہبا تھا۔
کن
لبکن علتبا چب تھی اننی تگاہیں اتھا کے رنان کی طرف د نی بو وہ اسی کو د کھ
ن ھ
رہا ہونا۔ ہر تگاہ کے شاتھ اس کا خوف پڑھبا جانا اس کے پرعکس دامیر تھوڑا پرشکون
شا تظر آنا تھا۔
”ڈرنبا لوسین! نہت جلدی دوشت نبا لتنی ہو۔“ ڈرنبا چب ان کے ناس سے
اتھ کے گنی بو دامیر ئے علتبا کو دنکھنے ن یصرہ کبا۔
”وہ انک اچھی لڑکی ہے کم از کم معصوم لوگوں کو مارنی نہیں۔“ علتبا ئے اس
کل نب
کی نات پر ننے ہوئے لہچے میں خواب دنا۔ رنان اس کے ہچے پہ ھی تگاہوں سے
اس کو دنکھنے لگا۔
علتبا ئے رنان کی تگاہیں محسوس کیں بو اننی جگہ خور سی ہوگنی۔
”اس کے نہاں سے تکلنے کی دپر ہے وہ نمہیں اشاشن تھی کر شکنی ہے۔“
دامیر ئے اس کو ناور کروانا جاہا کہ نہاں کونی کسی کا دوشت نہیں۔
”نالکل جٹسے تم تھی مجھے اشاشن کر شکنے ہو ،نا نمہیں نمہارا دوشت۔“ علتبا ئے
انک انک لقظ عصے سے جبا کے کہا۔ وہ اس کی دوشت پہ کٹسے پہ نات کہہ شکبا تھا۔
دامیر ئے اس کی نات پہ انبا اتھرئے واال عصہ پرداشت کبا جبکہ رنان نبا کونی
ناپر د ننے اس کا خواب د نبا انحوائے کر رہا تھا۔
”نا تھر!“ رنان ئے ئےشاچنہ کہا اور انک نل کو رکا۔ علتبا کی شانسیں جشک
ہونیں۔
”میں خود نمہیں اشاشن کر شکبا ہوں۔“ رنان ئے گرے آنکھوں سے علتبا کو
دنکھا۔ نہاں علتبا کا اعتماد چھاگ کی طرح نتتھ گبا۔ وہ دھمکی نہیں تھی رنان انبا ارادہ
نبا رہا تھا۔ دامیر ئے ننتبہی تگاہوں سے رنان کو دنکھا جبکہ علتبا کا خون جشک ہو حکا
تھا۔
رنان ا ننے حظرناک طر تقے سے ک نوں دنکھبا تھا اس کو جٹسے وہ اس کی شکار ہو۔
علتبا کا دل اندر سے ڈر سے کا نتنے لگا تھا۔
”میں اتھی آنا ہوں۔“ رنان کہہ کے اتھ کھڑا ہوا جبکہ جائے ہوئے اس کے
چہرے پہ انک شاطر مشکراہٹ تھی۔
”وہ نمہیں کجھ نہیں کہے گا رنلبکس۔“ دامیر ئے اس کے چہرے کی شقبد
رنگت کو دنکھنے کہا۔
”میں ڈرنی نہیں ہوں اس سے۔۔“ وہ تھاڑ کھائے والے انداز میں بولی اور انبا
ناشنہ کرئے لگی۔ دامیر اس کے انبا ڈر چھبائے پہ مشکرا دنا۔
لبکن شاند وہ نہیں جاننی تھی کہ چب وہ ڈرنی تھی بو اس کے چہرے کا انک
انک تقش نبانا تھا کہ وہ ڈر رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
چنہ نا سنے سے قارغ ہوئے پرنتبگ کے لنے گن روم میں جلی آنی چہاں وہ اننی
شونبگ نٹشٹ کرئے لگی۔
اس وفت وہ نانٹ چئیز پہ نلبک سرٹ نہنے کابوں پہ ہبڈ فوپز لگائے ہوئے تھی،
سباہ نالوں کو ہانی بونی نبل میں ناندھ رکھا تھا۔ شا منے بوڑد لگا تھا خو تفرنبا دس فٹ کے
قاصلے پہ تھا۔ انمہاک سے انک کے تغد انک شوٹ کر رہی تھی۔
ا ننے کام میں وہ مگن تھی لبکن ا ننے ننجھے کسی کی آہٹ محسوس کرئے وہ خوکبا
ہونی۔ اس کی گن پہ گرفت مضنوط ہونی۔
رنان کا ہاتھ اس کے نازو سے ہونا گن نک گبا اور اس کے ہاتھ پہ ہی انبا ہاتھ
چمائے انک قاپر کبا خو سبدھا نشائے پہ جا لگا۔
”مقانل کو کبدھے پہ شوٹ کرئے کی علطی کتھی پہ کرنا۔ مارنا ہے بو سبدھا
دل نا دماغ کا نشاپہ لو۔“ رنان کی آواز کان کے نالکل فرنب سبانی دی۔ انک ہاتھ
اس کا ر نبگبا ہوا دوسرے نازو نک آئے لگا چب چنہ چھبکے سے مڑی اور نسبل کو اس
کے سر پہ نانا ،دوسرے ہاتھ سے اس کی گردن دبوجی ،اس سے دگنی ستبڈ پہ رنان
کا ہاتھ اس کی گردن نک آنا اور گرفت مضنوط کرئے لگا۔
”مجھ سے دور رہو۔“ چنہ ئے آنکھوں میں سرجی لنے کہا۔
رنان ئے اس سے دور ہوئے نحائے گردن سے ہی دبوچے اس کو فرنب کبا۔
”جلو انک مغاہدہ کرئے ہیں۔“ اس کی آنکھوں میں انک چمک تھی۔ چنہ ئے
ت جم س
ن
نا ھی سے د کھا۔ دوبوں کے ہاتھ انک دوسرے کی گردن پہ تھے۔ چنہ ئے ا ھی
تھی نسنول اس کے سر پہ نانی تھی۔
”میرج آف االننٹس!“
)(Marriage of Alliance
اس کے کان کے فرنب چھکنے وہ سرگوسی میں بوال۔ شاتھ ہی اننی گردن پہ وہ
ناج نوں کی جتھن محسوس کرئے لگا۔
انک چھبکے سے اس ئے چنہ کو خود سے دور کبا اور اننی دانیں آنکھ دنانی۔ اس کو
شاکت چھوڑے وہ شونبگ روم سے جا حکا تھا۔
چنہ کو اس کی دماعی جالت پہ شنہ ہوا۔ وہ اس کو جانبا نک نہیں تھا اور نبہودہ
آفر سے اس کو بواز گبا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭
”فباد کے لوگ نہاں د نکھے گنے ہیں۔ مجھے پہ انک اچھا شگبل نہیں لگ رہا۔
ڈرنک کو اتقارم کر دو۔“ رنان ئے انیر نٹس سے دامیر کو محاظب کبا۔
”ان کا نہاں پہ کبا کام؟“ دامیر علتبا سے جبد قدم ننجھے جل رہا تھا۔ علتبا ئے
مڑ کے اس کو دنکھا۔ پرنتبگ کے تغد وہ ا نسے ہی الن والی شانبڈ پہ آگنی تھی۔ دامیر
ئے اتھی نک اس کے کسی کام میں دجل اندازی نہیں کی تھی۔
”فباد خود کہیں عانب ہے اور لوگوں کو مرئے تھنج رہا ہے۔“ دامیر ئے ن یفر سے
کہا کہ شاتھ جلنی علتبا ئے خونک کے اس کو دنکھا۔ دامیر ئے اس کے ناپرات بوٹ
کنے۔
”تھبک ہے میں دنکھبا ہوں۔“ دامیر ئے کہنے کال کانی اور علتبا کو دنکھا۔
”فباد! جاننی ہو اس کو؟“ دامیر ئے نبا نمہبد ناندھے بوچھا۔ علتبا انک نار تھر
خونکی۔ اس ئے تقی میں سر ہالنا۔
”تھر چیران ک نوں ہونی؟“ اس ئے جانجنی تگاہوں سے دنکھا۔
”مجھے لگا کہ شاند میں ئے اس کا نام سبا ہے۔“ علتبا ئے الپرواہی سے کہا۔
لع
”کہاں سبا ہے؟“ دامیر ئے نات کو جاری رکھا۔ علتبا ئے ال می سے کبدھے
احکائے کہا کجھ نہیں۔ وہ ا ننے لمنے نالوں کو دانیں نانیں ہالئے نس جکر لگا رہی تھی۔
دامیر ئے مزند کجھ پہ بوچھا۔ اس نارے میں وہ مبکس سے ہی نات کرئے واال تھا
اب۔
دامیر ئے بوٹ کبا تھا کہ چب سے وہ علتبا کے شاتھ تھا کونی تھی علتبا سے
نات کرئے کو نہیں آرہا تھا۔ پہ شو جنے ہی دامیر ہلکا شا ہٹس دنا۔ علتبا ئے اس کی
ہٹسی پہ اس کو سحت تظروں سے دنکھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے۔۔۔
(نبا اجازت کے کانی نٹشٹ کرنا مم نوع ہے)
”انک دن لگے گا مجھے نہاں شارا شستم سنٹ کرئے میں ،نب نک کجھ گڑپڑ
پہ ہو جائے۔“ رنان ئے شک نورنی روم کے کتمرہ میں دنکھنے ہوئے کہا۔
”ہم نہیں پہ ہیں بو قکر پہ کرو ،شب سے نہلے تم فباد کو پرنک کرئے کی
کوشش کرنا۔“ دامیر آہشنہ آواز میں بوال۔
”ڈرنک ئے کوشش کی تھی لبکن اتھی نک اس کی لوکٹشن نہیں مل رہی پہ
ہی اس کے عالفے میں کونی خرکت ہونی ہے جائے کہاں چ ھپ کے نتتھا گا کیڑا۔“
رنان شکرین پہ تظریں چمائے ہوئے بوال۔
”میں ناقی کام دنکھبا ہوں تم اکبڈمی کی انڈنٹ کرئے رہبا۔“ رنان ئے انک
کتمرہ میں خرکت ہونی دنکھ کال کاٹ دی۔
شا منے ہی اکبڈمی کے انک کتمرے کی الن نو فوننج جل رہی تھی۔ کونی وہاں سے
ناہر تکال تھا۔ رنان اندازہ نہیں لگا نانا کہ وہ لڑکی تھی نا لڑکا۔
اس ئے ہوڈی نہن رکھی خو نبگی سبانل ہوئے کے شاتھ شاتھ اس کا چہرہ تھی
ڈ ھکے ہوئے تھی۔ ہوڈی کی جت نوں میں ہاتھ تھٹشائے ہوئے تھے۔ ستبکرز نہنے لمنے
قدم اتھا رہا تھا۔ گنٹ کو ع نور کرئے ہی وہ ا نسے ہی دوسری سمت جل دنا۔
رنان ئے اکبڈمی کی دوسری شانبڈ کا کتمرہ جبک کبا لبکن وہاں سے تھی اس کا
چہرہ ڈھکا ہوا تظر آرہا تھا۔
اکبڈمی میں بو اس طرح کا جلنہ اس کو کہیں تظر نہیں آنا تھا بو پہ بووارد تھا
کون۔
اس ئے نہاں کا شستم شک نور کبا اور خود گھر سے تکل آنا۔ ا ننے خرندے ہوئے
وال کے شک نورنی روم کو وہ آج سنٹ کرئے واال تھا ناکہ چب نک ادھر ہو وہ ناقی کام
دنکھ شکے۔
اس عالفے کے کتمراز کی الن نو فوننج وہ آشانی سے جاصل کر حکا تھا جس میں
اکبڈمی کا اپرنا تھی آنا تھا۔
اننی گاڑی تکا لنے اس ئے دامیر کو انک مٹسج تھنحا۔
ہن ت ت ً
اس وفت رات کے آتھ نج رہے ھے اور فتبا کونی مغاملہ بو تھا نہاں۔ لے اس
ئے اندر جائے کا شوجا۔ کجھ دپر وہ ناہر کھڑا رہا۔ ہو شکبا تھا کہ وہ اندر جائے اور لوگ
اس کو نہحان تھی لتنے۔
کبدھے احکائے وہ کلب کے اندر داجل ہوا۔ اندر جائے ان کو انبا کارڈ دکھانا پڑنا
ت تن ن س ن گ ھ کن
تھا۔ رنان ئے آ یں ھمائے انبا کارڈ دکھانا اور نبا ر ٹشن پہ ھے آدمی کے ناپرات
د نکھے وہ اندر پڑھ گبا۔
اس آدمی کے چہرہ چیرت سے کھال ،کتھی کارڈ کو د نکھے بو کتھی رنان کو۔
وہ نہاں اس کے شا منے کھڑا تھا اور نبا کجھ کہے آگے پڑھ گبا۔
اندر نلر گالس ڈور لگے تھے جن سے نس دھبدھال ہی تظر آرہا تھا لبکن اندر کا
ماخول ا ننے عروج پہ تھا۔
لڑکا لڑکی کھلے عام ا ننے ندن کو لہرا رہے تھے۔ انک دوسرے میں سما رہے
تھے۔ رنان ان شب کو تظرانداز کرنا کاؤنیر نتبل کے ناس آگبا اور وہیں نبک لگائے کھڑا
ہو گبا۔ اس کی تگاہیں اطراف کا شکین لے رہی تھیں کہ آخر وہ کون تھا خو نہاں آنا
تھا اور کبا وجہ تھی۔
نتھی مونانل مٹسج ن نپ کبا۔
دامیر” :یہاں سب سٹوڈ ب نٹس موجود ہیں اور گارڈز نے ب ھی کسی کو یہیں
دٹکھا۔“
دامیر کا مٹسج دنکھنے اس ئے مونانل وانس ناکٹ میں رکھا اور ا ننے لنے نان
الکوجلک ڈرنک مگوائے لگا۔
انک لڑکی لہرانی ہونی اس کے فرنب آنی اور انبا پرہنہ کبدھا اس کے کبدھے
سے مالئے لگی۔
”اسیعفرہللا“
رنان دل میں بوال اور اجانک انبا کبدھا ننجھے کبا جس سے لڑکی خو انبا وزن اس پہ
ڈال رہی تھی لڑکھڑا پڑی اور گرئے گرئے نچی۔ اس ئے تفرت سے رنان کی جانب
دنکھا خو اننی ڈرنک کا گالس ہون نوں سے لگا رہا تھا۔
رنان ئے گالس کو نتبل پہ رکھا اور خود اندر کی طرف پڑھ گبا چہاں بول ڈانس
جل رہا تھا۔ اس ئے تظریں گھمانیں لبکن اس جلنے واال سحص اس کو تظر نہیں آنا۔
مزند تھوڑی دپر وہیں ر کنے کے تغد وہ کلب سے ناہر تکل آنا۔
گ ھ کٹ
دامیر” :کہاں نظارے د نے نے ہو؟“
انک نار تھر مٹسج ن نپ ہوئے اس ئے مونانل تکاال بو دامیر ئے خڑائے ہوئے
مٹسج تھنحا تھا ضرور اس ئے لوکٹشن پرنک کی تھی اس کی۔
رٹان” :ب ھاب ھی ڈھوٹڈنے نکال ب ھا۔“
رنان ئے جلے دل سے اس کو خواب دنا۔
دامیر” :میرے سا م نے گولی چالنے کی ٹاکام کوشش کر رہی ہے وہ۔“
دامیر کے خواب پہ رنان ہٹس دنا ،ضرور وہ اس وفت علتبا کے شاتھ تھا۔
پہ اس ئے مزاق میں کہا تھا نا سنجبدگی میں اس نارے میں وہ کجھ کہہ نہیں
شکبا تھا۔
تہ ہن ج ن
لبکن انبا مغلوم تھا کہ اگر وہ انشا ارادہ کر لتبا بو ھے یں نے واال تھا۔
ن
سیرنٹ کی دوسری شانبڈ پہ اس ئے اننی گاڑی نارک کی تھی۔ گاڑی میں نتتھنے
ہی اس ئے فوننج دونارہ سے آن کر لی ناکہ جائے والوں کا نبا جل شکے۔ فوننج کو اس
ن
ئے رتکارڈنگ پہ تھی لگا رکھا تھا کہ دونارہ تھی آرام سے جبک کر شکے۔ ا ننے وال نجنے
ہ
اس کی بوجہ کلب کے گنٹ سے تکلنے انک وخود پہ گنی جس ئے النگ کوٹ نہن رکھا
تھا۔
وہ لڑکی تھی ،سرخ النگ کاکتبل ڈرنس میں ،اس کا لہرانا آنحل اس کو دکھانی
دے رہا تھا۔ اس کے سرخ نال چہرے کے آگے گرے تھے۔
رنان کو وہ غیر معمولی سی محسوس ہونی ک نونکہ اس ئے کلب میں کسی کو تھی
انشا نہیں دنکھا تھا۔ کوٹ کی جت نوں میں ہاتھ ڈالے ہانی ہبل نہنے وہ سہج سہج کے قدم
اتھا رہی تھی چب دو لڑکوں کو تھی اس ئے اس کے ننجھے جائے دنکھا۔ ان کو وہ
کلب میں دنکھ حکا تھا۔ انک نار انتبڈر تھا اور دوسرا بول ڈانسبگ روم میں تھا۔
رنان ئے شا منے کا کتمرہ آن کبا ،لڑکی ئے ماشک نہن رکھا تھا۔ دوبوں لڑکے
اس کے دانیں نانیں آ گنے۔ رنان کو لگا کہ اس کو جانا جا ہنے تھا وہاں لبکن ہو شکبا تھا
کہ اس ئے خود نالنا ہو ان لڑکوں کو۔
نہاں کی لڑک نوں کا کونی تھروسہ تھی بو نہیں تھا ،خود ہی لڑکوں کو سرعام دغوت
نٹش کرنی تھیں۔ اب وہ ان کے ناس جا کے ین نالنا مہمان نہیں نتبا جاہبا تھا۔
اگلے ہی نل مغاملہ الگ تطارہ نٹش کرئے لگا چب اس نار انتبڈر ئے اس کے
نالوں کی جانب ہاتھ پڑھانا بو لڑکی ئے اس کے منہ پہ ننچ دے مارا ،دوسرے کو اس
ئے ہبل کی بوک جشاس جگہ پہ مارئے ننچے گرانا۔
”اوو۔“ رنان ئے اس لڑکے کو درد سے کرا ہنے دنکھ کہا۔
رات کے دس نجنے والے تھے چب وہ اکبڈمی نہنحا۔ نہلی تظر ہی اس کی چنہ پہ
گنی خو پرنک شوٹ نہنے سیرنجبگ کر رہی تھی۔ رنان ئے تگاہیں اس کی طرف چمانیں
اور فرصت سے دنکھنے لگا۔
٭٭٭٭٭٭٭
چنہ کی نشت اس کی جانب تھی لبکن وہ اس کو دنکھ جکی تھی۔ رنان کی
موخودگی اس کو محسوس ہو جانی تھی۔
ا ننے دانیں نازو کو وہ نانیں لے جا کے سیرنچ کر رہی تھی چب اس ئے ا نسے
ہی گردن گھمائے کبدھے سے ننجھے دنکھا۔ نلر کے شاتھ کھڑے نت نٹ کی جت نوں میں
ہاتھ ڈالے وہ انہماک سے ا نسے دنکھ رہا تھا جٹسے دنبا میں اس کو کونی اور کام نہیں
تھا۔
چیر اس کو تظرانداز کرئے میں نٹسے نہیں لگنے تھے بو وہ کرئے لگی۔
رنان اس کی موخودگی کا انک انک نل اننی تگاہوں سے نتنے لگا۔
چب اس ئے کتمرہ کی فوننج میں لڑکی کو لڑئے دنکھا بو انک نل کو اجانک چنہ کا
جبال آنا تھا لبکن دامیر کے کہنے کے مطابق کونی تھی ناہر نہیں گبا تھا اسی لنے اس
جبال کو تکال دنا۔
”مجھے کونی کمزور محلوق پہ سمجھبا۔ تم جٹسوں کے لنے شوجبا تھی میں وفت پرناد
جم س
ہونا ھنی ہوں۔“ چنہ ئے اس کو وارن کرئے ہوئے کہا جبکہ رنان نبا ا ننے ناپرات
ندلے اسی کو نس دنکھ رہا تھا۔ چنہ انک نل کو ک یق نوز ہونی کہ آخر وہ جاہبا کبا تھا۔
”کب ارادہ ہے اکست نٹ کرئے کا؟“ رنان ئے اس کی شاری نابوں کو تظر انداز
س
کرئے گھمئیر لہچے میں بوچھا کہ چنہ ئے اس کو نا ھی سے دنکھا۔
جم
رنان کا اشارہ اس کی آنکھوں میں دنکھ کر نات کرئے کا تھا۔ وہ نبا ڈرے اس
کی آنکھوں میں د نکھے پراہ راشت مارئے کی نات کبا کرنی تھی۔
ب تھ ک
”تم مجھے اننی جانب خود نجنی ہو ،ڈ نٹ قان ل کر کے نبا د نبا میں انبا سبڈول
سنٹ کر لوں گا اس اسنٹشل دن کے لنے۔“ پہ ہی اس کا لہحہ نبار لنے ہوئے تھا
اور پہ ہی وہ پہ نات پرمی سے کہہ رہا تھا۔
اس کا پروبوز کرئے کا انداز تھی انشا تھا جٹسے وہ اس کو دھمکی دے رہا تھا۔
اور انسی دھمکی کو وہ خوئے کی بوک پہ رکھنی تھی۔
”وہ تم ہی تھی۔ میں جانبا تھا۔“ رنان ئے اس کے نالوں کو چھوئے ہوئے کہا
چب چنہ ئے قاصلہ پڑھانا۔
”میں نمہاری مدد کر شکبا ہوں جٹسی تم جاہو۔“ اس ئے لگے ہاتھوں اس کو آفر
کی۔
چنہ جاننی تھی کہ جن کے ننجھے پہ دوبوں ک ھڑے ہو جانیں تھر ان کی طرف
مسکل سے ہی کونی قدم پڑھانا تھا۔ ان دوبوں کی دہشت کی وجہ سے کونی ان پہ چملہ
کرئے کی علطی نہیں کر شکے گا۔ اس نار بو رنان خود مدد کرئے کو کہہ رہا تھا۔
”خود کو مجھ سے دور رکھو۔“ چنہ انبا کہہ کے وہاں سے جلی گنی۔ مزند انبا وفت
پرناد نہیں کرنا جاہنی تھی نہلے ہی وہ تھکی آنی تھی۔
اس ئے نہاں سے اب جائے کا ارادہ کر لبا تھا ک نونکہ رنان اس کے کام میں
رکاوٹ نتنے واال تھا پہ نات وہ ا چھے سے سمجھ گنی تھی۔
م
کلب جائے ہوئے اس ئے کمل خود کو انک لڑکے کے جلنے میں ڈھاال تھا
ن
لبکن نبا نہیں کٹسے رنان کو اس کا علم ہو گبا اور ننجھا کرئے وہ اس نک ہنچ تھی
گبا۔ چب رنان کو اندر آئے دنکھا بو لبڈپز رنشٹ روم کی طرف جلی گنی۔ جاالنکہ خو وہاں
کا جال تھا وہ کسی تھی شانبڈ جا شکنی تھی لبکن جاننی تھی کہ رناں وہاں بو نہیں آئے
واال تھا۔
اس کو نہاں سے اتقارمٹشن ملی تھی کہ انک گودام میں لڑکی کو ناندھ کر رکھا گبا
تھا جس کو کل رات لوگ نہاں سے رواپہ کرئے والے تھے۔
چیر ملنے ہی چنہ ئے اس جگہ کا نبا کروانا جاہا اور ا نسے ہی نابوں نابوں میں نار
انتبڈر ئے ا ننے مسغلوں کا زکر کبا۔ وہیں اس کو قاندہ ہوا تھا۔ اس جگہ وہ دوسری
مرننہ آنی تھی اور اس دفع اس کو کامبانی جاصل ہونی تھی۔ رنان کے تکلنے ہی وہ انبا
ڈرنس کوڈ ند لنے ناہر تکل آنی۔ کسی کو مزند شک پہ ہو اس ئےوگ لگا لی۔
جٹسے وہ دوبوں لڑکے جشن کے جال میں تھٹسے اس ئے موفع کا قاندہ اتھانا۔
لڑکی کی شپ منٹ کل رواپہ ہو رہی تھی اور اس کے نارے میں اتھی چیر
تھبلی نہیں تھی نتھی وہاں کی سبک نورنی کم تھی خو چنہ کے لنے قاندہ مبد نانت ہونی
تھی۔ آدھے گ ھتنے نک وہ لڑکی کو انک سیف ہاؤس میں نہنحا آنی تھی اور نہاں وانسی پہ
رنان کی نبہودہ نانیں ستنے کو ملیں۔
اس کے علم کے مطابق رنان کو غورت زات میں دلحسنی تھی ہی نہیں ضرف
رنان کو ہی نہیں ،دامیر تھی کوشوں دور رہبا تھا لبکن اب وہ تھی انک لڑکی کا کئیر
تھا۔
اس شب میں رنان کا اجانک پروبوزل اس کی سمجھ سے ناہر تھا۔ وہ اس کو
جانبا نک نہیں تھا اور میرج آف آالننٹس کی نات کر رہا تھا۔
اگر پہ نات ان کے درمبان طے ہو جانی بو مرئے دم نک وہ اس سے ننجھے نہیں
ہتنے والے تھے۔ اس سباہ دنبا کا اصول تھا القاظ سے تھرنا تعنی کھلے عام موت کو
دغوت د نبا اور اس کی کونی انسی مج نوری تھی نہیں خو وہ رنان نامی نال کو ا ننے گلے
ل یکانی۔
صنح اس کو اکبڈمی سے جانا تھا بو اننی چیزیں نبک کرئے لگی۔ نبگ نبک کرئے
اجانک اس کے ہاتھ تھمے چب رنان کے کہے القاظ ناد آئے۔
”وہ میرے اتکل سے نات کرے گا؟“
تعنی وہ جانبا تھا کہ اس کی فتملی میں کون ہے۔ جتبا اس ئے خود کو شوسبل اور
ان لوگوں سے دور رکھا تھا وہ تھر تھی جان گبا تھا۔ اس سے نہلے کہ وہ اتکل مبکس
نک جانا اس کو خود ہی انہیں م یع کر د نبا جا ہنے تھا ناکہ وہ رنان کی کسی تھی نات
میں شامل پہ ہوئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”تم کجھ نلین کر رہے ہو؟“ دامیر اس کو روم کے فرنب آئے دنکھ بوچھا۔
نالک کے سروع پہ وہ رنان اور چنہ کو انک شاتھ دنکھ حکا تھا ،رنان کو چنہ کے ا ننے
فرنب دنکھبا اس کے چیرت زرہ تھا۔
”انک ونڈنگ آنی گٹس!“ رنان ئے سنجبدگی سے کہا جس پہ دامیر معنی چیز شا
مشکرانا۔
”ا ننے شالوں تغد کٹسے ناد آگبا؟“ دامیر ئے ہٹسنے ہوئے کہا ،رنان الپرواہی سے
کبدھے احکا گبا۔
”وہ جلبا تھرنا تم ہے اور ا نسے حظروں کو شاتھ رکھبا مجھے اچھا لگبا ہے۔“ رنان کا
اشارہ دامیر کی طرف تھی تھا جس پہ وہ تقی میں سر ہالئے ہٹس دنا۔
”اگر انشا ہے بو نمہاری زندگی میں شامل ہوئے والی لڑکی مجھے نہت عزپز ہو گی۔“
دامیر ئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے انبان نت سے کہا۔ رنان جانبا تھا کہ وہ ا ننے
لقظوں کا تکا تھا۔
”نمہارے لنے تھی میرے ا نسے ہی خزنات ہیں۔“ رنان ئے مشکرائے کہا۔
”میری زندگی میں کونی نہیں آئے والی۔ میں مزند تم سے اننی بوجہ نہیں ہبا
شکبا۔“ دامیر ئے ناگوار لہچے میں کہا۔ رنان جانبا تھا کہ اس ئے نہلے تھی کتھی کسی
لڑکی پہ اننی بوجہ نہیں دی تھی ک نونکہ غوربوں کا تصور ہی نہیں تھا۔ اتھی وہ علتبا کا
زکر کر رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی آدھی بوجہ رنان سے ہنی ہونی تھی اور انشا وہ
نہیں جاہبا تھا۔
رنان ئے خود شادی کا ف یصلہ اجانک کبا تھا اور ک نوں اننی جلدی! وہ خود اندازہ
نہیں لگا نانا تھا۔
”میری وجہ سے اننی خوسباں جتم پہ کرو۔“ رنان ئے پرا مبائے ہوئے کہا۔
”ہاں لڑکی ہی خوسی رہ گنی ہے نا میری۔ اس نارے میں نات نہیں کرنی۔ و نسے
پہ نبا د نبا کہ شادی کس دن ہے۔“ دامیر ئے چھال کے کہنے آخر میں انبا لہحہ عام شا
رکھا جس پہ رنان ہٹس دنا اور ہٹسبا ہی جال گبا۔
”سننئیرز کا آکشن ڈے ہے کل۔ نہاں موخود ہو گے تم؟“ دامیر ئے ناد آئے
پہ رنان سے بوچھا جس پہ وہ کجھ شو جنے لگ گبا۔
”قاندہ ہو گا۔ پہ بو مغلوم ہو گا کہ کون کس کی کہنے پہ جلنے واال ہے۔“ رنان
شوجبا ہوا بوال ک نونکہ آکشن پہ خو فتملیز ہونی تھیں نا مافبا ہبڈز ہوئے خو پرن نت نافنہ
participantsکوخرندئے تھے جٹسے مبکس ئے دامیر کو ہانیر کر رکھا تھا۔
نہاں سے تکلنے ہی ان کا کانیرنکٹ سروع ہو جانا تھا وہ جاہے نہاں سے تکلنے
والے انک دوسرے کو مروائے کا کانیرنکٹ ہی ک نوں پہ د ننے۔
چب وہ آکشن کے فبکشن میں ہوئے بو ان کو مغلوم ہو جانا کہ کس کو کبا
کانیرنکٹ مال تھا۔ نبالمی شب کے شا منے ہونی تھی۔
دامیر اور رنان کجھ شالوں نہلے چب نہاں سے جائے والے تھے بو دامیر ئے اننی
فتمت اننی نبانی تھی کہ ا ننے میں دو کئیر ر کھے جا شکنے تھے رنان ئے اس کو ہی خوز
کرنا تھا پہ دوبوں کا خود کا ف یصلہ تھا۔
اشاشن وہ دوبوں اننی مرضی کے تھے۔ کانیرنکٹ اگر ان کو مباشب لگبا بو وہ
جامی تھرئے تھے ورپہ رنجبکٹ کر دنا کرئے تھے۔
”شل نوری کارنل تھی ہو نگے نہاں بو علتبا ہو گی شاتھ نمہارے؟“ رنان ئے علتبا
کے نارے میں بوچھا۔ آج کی انڈنٹ کے مطابق اس ئے دامیر کی ناک میں دم
کرئے کی نہت کوشش کی لبکن اس کی انک گھوری پہ ہی وہ انبا شانس جشک کر
لتنی تھی۔
”ہاں! اس کو تھی نبا جلبا جا ہنے کہ وہ کہاں آنی ہے۔ شل نوری کی نبالمی
ہوئے ہی تم تکل جانا۔“ دامیر ئے ا ننے روم کا دروازہ کھو لنے کہا لبکن شا منے علتبا
ن ھ کن
کو د نے خو ک گبا۔
وہ اس کے روم میں کب آنی تھی۔
جبکہ رنان ئے اس کے خو نکنے پہ اندر دنکھا بو علتبا کو کھڑا نانا خو دبوار سے نبک
لگائے ہوئے تھی۔
”تم ڈنل کرو ناقی نانیں میں صنح ڈشکس کروں گا۔“ رنان انک تظر علتبا پہ
ڈالے ا ننے روم میں جال گبا جبکہ دامیر ئے جاموش مگر شوالنہ تظروں سے علتبا کو
دنکھا۔
”مجھے تم سے نات کرنی تھی ضروری لبکن تم مجھے ملے ہی نہیں۔“ علتبا ئے
گال کھبکھارئے ا ننے آئے کی وجہ نبانی۔
” اس طرح روم میں؟“ دامیر سنجبدگی سے بوال۔
”نمہارے شاتھ گارڈ تھا اس کو کہہ شکنی تھی۔ مجھے شام میں ضروری کام سے
جانا تھا۔“ دامیر ئے مزند کہا اور روم میں داجل ہوا۔
علتبا اس کے شا منے سے ہنی اور دروازہ نبد کرئے لگی چب دامیر ئے اس کے
ہاتھ کو چھبک دنا۔ وہ نہیں جاہبا تھا کہ کونی علتبا کے نارے میں علط نات کہے۔
”کہو کبا کہبا ہے؟“ دامیر ئے صوفے پہ نتتھنے اس کو تھی نتتھنے کا اشارہ کبا۔
”مجھے کل کہیں جانا ہے ،میں ئے اتکل مبکس سے کہا تھا لبکن انہوں ئے
مجھے تم سے بوچھنے کا کہا۔“ علتبا ئے ئےزار انداز میں کہا۔
”کہاں جانا ہے؟“ دامیر ئے اپرو احکائے۔
”پہ نبائے کی میں نانبد نہیں ہوں۔ مجھے نمہیں نبانا تھا نبا دنا۔ اب میرا ننجھا پہ
کرنا۔“ وہ نیز اور ندنمیز لہچے میں کہنی وہاں سے اتھی اور دروازے کی طرف پڑ ھنے لگی
چب دامیر ئے اس کی کالنی کو اننی گرفت میں لبا۔
”تم ہر چیز میں میری نانبد ہو۔ نہاں سے ناہر جائے کے لنے تھی نمہیں میری
اجازت کی ضرورت ہے۔“ دامیر ئے اس کا رخ اننی طرف کرئے سرد لہچے میں وارن
کبا کہ علتبا کی آنکھوں میں خوف اپر آنا۔
”تم میری زندگی کو فبد میں نہیں کر شکنے۔“ علتبا کو اس کی نانیں ناگوار
گزریں۔
”نہاں سے تکلو گی بو فبد ہو جاؤ گی۔“ دامیر ئے اس کو ناور کروانا۔
”تم مجھے کئیرول کرئے کی کوشش ہرگز پہ کرو۔ تفرت کرنی ہوں تم جٹسوں
سے۔“ علتبا ئے انبا ہاتھ چھبکے سے چھڑوائے ہوئے کہا۔ دامیر کے لب ہلکی سی
ت ج م ھ لب ً
مشکراہٹ یں ڈ لے کن فورا ہی اس م کراہٹ کو م کرئے اس کے ہرے کے
چ ش
تھ ت
ناپرات حظرناک جد نک سنجبدہ ہوئے۔ اس ئے سجنی سے چیڑے نچ نے۔
ل
”مجھ جٹسوں سے کبا مطلب ہے نمہارا؟“ دامیر ئے اس کی طرف قدم پڑھائے
ب ھ ت کن
انک ہاتھ سے دروازہ زور سے نبد کبا کہ علتبا کی آ یں چیرت سے یں۔ اس کا پہ
ل ھ
انداز اس کے لنے نبا تھا۔
”تم انک قا نل۔۔“ علتبا ئے کجھ کہبا جاہا چب دامیر کو ا ننے فرنب دنکھنے القاظ
منہ میں ہی رہ گنے۔
”مجھے مزند انک فبل کرئے سے کونی تفرت محسوس نہیں ہوگی۔“ اس کے لہحہ
پراسرا ہوا۔ آواز سرگوسی کی طرح محسوس ہونی۔ علتبا ئے ا ننے رونگھنے کھڑے ہوئے
محسوس کنے۔
وہ اس کو مارئے کی دھمکی دے رہا تھا۔
”دو۔۔ دور رہو مجھ سے۔“ نہت ہمت کرئے پہ تھی وہ اننی آواز کو لڑکھڑائے
سے روک پہ نانی۔
”مجھے انبا سباؤ جتبا تم پرداشت کر شکو۔“ دامیر اس کے انبا فرنب آگبا کہ علتبا
کو شانس لتبا تھی مسکل لگنے لگا۔ اجانک اس کی دھڑکن نیز ہو گنی خوف سے۔ وہ اس
کو ڈرا رہا تھا اور علتبا ڈر رہی تھی۔
”اب انک اچھی لڑکی کی طرح ا ننے روم میں جاؤ۔“ اس کے گال کو تھبکنے
ن ب چ کن
ہوئے اس ئے سنجبدگی سے کہا کہ علتبا ئے آ یں نے اس کو د کھا۔ دامیر سے
ک ھ ھ
انبا خوف نہلی نار محسوس کبا تھا۔
علتبا ئے جٹسے ہی انبا رخ موڑا انک گہرا شانس ہوا کے سیرد کبا۔ شانس لتنے میں
جٹسے دشواری ہو رہی تھی۔ کمرے کی ہوا نبگ محسوس ہوئے لگی۔ ئےشاچنہ ہی
”شام میں آکشن ہو گا بو میں نب نک آجاؤں گا ،نمہاری تھاتھی کہیں ڈ نٹ پہ
جانا جاہ رہی ہے۔“ دامیر ہال سے ناہر تکال چب انیر نٹس سے رنان کی آواز اتھری۔
”دھبان سے۔“ دامیر ئےشاچنہ بوال۔
”جی مام۔۔۔“ رنان ئے خڑئے ہوئے کہا دامیر کے ہونٹ مبہم شا مشکرائے۔
دامیر اتھی علتبا کے روم کی جانب جائے کا ارادہ کرنا تھا چب اس کے مونانل
پہ مٹسج ن نپ ہوا۔
ڈرٹک” :سر ق یاد کے آدمی اک یڈمی کے آس ٹاس نظر آرہے ہیں۔ اٹک ٹو رہیں۔“
ڈرنک ئے انبا کام جاری رکھا تھا اور خرکت ہوئے پہ ہی اس ئے آ گاہ کر دنا تھا۔
دامیر ئے اکبڈمی میں موخود ا ننے گارڈز کو اگاہ کر دنا کہ وہ خوکبا رہیں۔ چہاں کونی غیر
معمولی نات ہو وہاں ڈھیر کر دیں۔
دامیر نہلے شوچ رہا تھا کہ وہ علتبا کو روم سے ناہر الئے لبکن تھر ارادہ ندل لبا
کہ وہ ا ننے کمرے میں محفوظ بو رہے گی۔
لبکن وہ نہیں جانبا تھا کہ نہاں وہ علطی کر رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭
علتبا کے کمرے میں شب کجھ ونشا ہی معمول پہ پڑا تھا۔ نبڈ کی سنٹ پرن نب
سے سنٹ تھی۔ کمرے کی النٹس نبد تھیں نہاں کونی موخود نہیں تھا۔ الننہ میز پہ
انک فون رکھا تھا خو علتبا کا ہی تھا۔
وہ چمکنے لگا۔ چہاں اتکل مبکس کا نام لکھا جگمگا رہا تھا۔
٭٭٭٭
اکبڈمی سے کجھ کلومئیر کے قاصلے پہ انک نک سنور موخود تھا ،چہاں دو لڑکباں
کھڑی کسی کباب کو ہاتھ میں تھامے کھلکھال رہی تھیں۔ اس میں سے انک لڑکی ئے
گردن گھمائے آس ناس دنکھا جٹسے کجھ محسوس کبا ہو۔
نلونڈ نالوں والی لڑکی ئے شوال کبا جس پہ دوسری لڑکی ئے تقی میں گردن ہالنی
نتھی اجانک انک شور شا اتھا اور نک سنور کا گالس ڈور چھباکے سے بوٹ کے خور خور
ہوا چب اس میں سے انک گولی اس کو چیرنی ہونی گزری۔
شوزین ئے علتبا کو ا ننے ننجھے کرئے ہولڈر سے گن تکالے اس کو جبک کبا۔
”پہ کبا ہوا ہے؟“ علتبا گ ھیرانی۔
”گن سنٹ کرو اننی ،چملہ ہوا ہے۔“ شوزین ئے اس کو کہا اور سبلف کے
ننچے اس کے شاتھ خود کو چھبانا۔
علتبا اس کی نات پہ ہوبق ننی اسے دنکھنے لگی۔ گن! وہ بو النی نہیں تھی شاتھ۔
اس کا بو فون تھی کمرے میں موخود تھا۔
”علتبا دوسری طرف انبا نشاپہ نبار رکھو۔“ شوزین نبا اس کے ناپرات جائے اس
سے کہنی ہونی آگے پڑ ھنے لگی چب علتبا ئے اس کا نازو تھاما۔
شوزین ئے شوالنہ تگاہوں سے نہلے اس کے ہاتھ کو تھر اسے دنکھا۔
”گن نہیں ہے ناس!“ علتبا کی کانتنی ہونی آواز پہ شوزین ماتھا ننتنی رہ گنی۔
کون کہہ شکبا تھا کہ پہ لڑکی انک مافبا اکبڈمی میں پرن نت لتنے آنی تھی۔ وہاں
ن
آئے واال نحہ تھی گن جالنا جانبا تھا اور نہاں مبڈم ڈری تتھی تھی۔
” سنے نی ہانتبڈ می۔“ اس کو جکم د ننی وہ ا ننے سبل سے اکبڈمی کال مالئے
ش ت
لگی ناکہ سر جارج کجھ نتم نج یں۔
ک ھ
”دامیر۔۔۔! ہاں دامیر کو کال کرو۔“ علتبا دامیر کا جبال آئے ہی جنچی۔ شوزین
ئے سر ہالنا۔ سر جارج سے کہہ کے وہ دامیر کو اتقارم کر شکنی تھی۔
علتبا کو اب اجشاس ہوا کہ اس کو دامیر کو نبائے تغیر ناہر نہیں آنا جا ہنے تھا۔
٭٭٭٭٭٭
”اکبڈمی کے ناس فباد کے آدم نوں ئے چملہ کبا ہے۔ تم کہاں ہو اس وفت؟“
رنان ڈران نو کرئے ہوئے بوال۔ فون کو اس ئے شا منے ڈنش بورڈ پہ رکھا تھا اور کابوں
میں انیر نٹس لگا ر کھے تھے۔
”مغلوم ہوا ہے مجھے میں نس علتبا کے روم کی طرف جا رہا تھا۔“ دوسری جانب
دامیر کارنڈور میں نیز قدم اتھانا علتبا کے روم کی طرف جا رہا تھا۔
”مجھے اتقارم کرو کہ شب تھبک ہے وہاں۔“ رنان ئے کہنے کال کانی ،خود وہ
چنہ کی گاڑی کا ننجھا کر رہا تھا خو جائے کہاں جائے کا ارادہ رکھنی تھی۔
انک پرانا شا گھر تھا چہاں اس ئے گاڑی روکی تھی۔ انبا شوٹ کٹس تکالے وہ
ھ کن
اس گھر میں جلی گنی۔ رنان خود گاڑی سے ناہر آنا اور اطراف میں د نے لگا۔ اس ئے
گاڑی کاقی قاصلے پہ روکی تھی۔ لکڑی کا وہ انک چھونا شا گھر تھا۔ سر جارج سے مغلوم
ہوا تھا کہ چنہ ئے نس ا ننے دن ہی ا سنے کرنا تھا اب وہ وانس جا جکی تھی۔
رنان دھتمے قدموں سے جلبا ہوا اس گھر کے فرنب آنا اور اس کا جاپزہ لتنے لگا۔
گھر جالی تھا۔ چنہ کے عالوہ نہاں کونی نہیں تھا۔ گھر کا انک اوپر واال بورشن تھی تھا
چہاں نالکنی کا رشنہ موخود تھا۔
رنان ئے اننی سرٹ کے نازو فولڈ کنے اور سر کو ننجھے کی طرف چھ یکا د ننے ا ننے
نال ننجھے کنے۔ شورج کی روسنی اس کی آنکھوں میں پڑ رہی تھی جس سے گرے
گل مچ ھ کن
آ یں کنے یں۔
نالکنی والی جگہ کے عین ننچے سے اس ئے اوپر خڑھبا سروع کبا۔
م س
”میں ڈاپرنکٹ اندر تھی جا شکبا ہوں۔“ رنان ئے نا ھی سے خود سے کہا۔
ج
چنہ اندر آنی جس ئے خود کو آرام دہ کیڑوں میں ڈھاال تھا۔ اس کے نال کھلے
نشت پہ نکھرے تھے۔ ننچے کی الننٹس وہ نبد کر آنی تھی۔ انک تظر کمرے کو دنکھنے
اس ئے انبا شوٹ کٹس اتھائے شانبڈ پہ رکھا اور اس میں سے لنپ ناپ تکا لنے لگی۔
لنپ ناپ کو نبڈ پہ رکھنے اس ئے نالکنی کا دروازہ تھر سے الک کبا۔ وہ اب
ناتھروم کی جانب آرہی تھی۔
”او شوٹ!“ رنان نبا آواز کنے بوال اور خود کو دروازے کے نالکل ننجھے کر لبا کہ
وہ جبک تھی کرے بو اس کو تظر پہ آئے۔ چنہ نیز تظر ڈالے اس کا دروازہ کھال
چھوڑے ہی نبڈ نک آنی۔ رات کی قالن نٹ تھی اور اس سے نہلے وہ انک دو کام
کرکے جانا جاہنی تھی۔
لنپ ناپ آن کرئے اس ئے کونی کوڈنگ کی چب اجانک اس پہ ن نپ کی
شاؤنڈ ہونی۔ رنان ناتھروم کے دروازے سے ناہر چھا نکنے لگا۔ ناتھروم نبڈ کی شا منے والی
شانبڈ کے دانیں طرف تھا۔ چنہ اس کو نہیں دنکھ شکنی تھی۔
تن
وہ خو اتھی آرام کرئے کا ارادہ رکھنی تھی اجانک چھبکے سے سبدھی ہو ھی اور
ت
رنان ئے وہیں کھڑے انبا مونانل آن کبا اور دامیر کی طرف سے آنا مٹسج جبک
کبا جس میں وہ نبا رہا تھا کہ علتبا ا ننے روم میں نہیں تھی اور سر جارج کو شوزین کی
کال تھی رنسنو ہونی تھی۔
چنہ ئے ناتھروم میں آہٹ محسوس کرئے وہاں دنکھا۔ دروازے تھوڑا ننجھے تھا
مطلب وہاں کونی تھا۔
اس سے نہلے چنہ اننی گن اس کی طرف قاپر کرنی رنان خود ہی ناہر آگبا۔ چنہ
ئے شانبڈ لتمپ اتھائے اس کی جانب تھت یکا جس سے پروفت رنان ئے خود کا نحاؤ
کبا۔
وہ جاگنی آنکھوں سے خواب دنکھ رہی تھی نا وافعی وہ اس کے ناتھروم سے ناہر
تکال تھا۔
” ہنے ملٹسکا ،سی بو شون۔“ چنہ کو دنکھنے وہ انک آنکھ دنا کے بوال اور نالکنی والی
شانبڈ پہ آنا۔
”میرے لنے انک دروازہ بو کھول کے رکھا کرو۔“ وہ سنجبدگی سے پڑپڑانا ہوا ننچے اپر
گبا جبکہ چنہ اتھی تھی پہ پراشس کرئے کی کوشش میں تھی کہ وہ اس کو مشلشل
سبالک کر رہا تھا۔
اس کو اتھی رنان نامی نال کا شو جنے وفت پرناد نہیں کرنا تھا۔ اس کو ضروری کام
سے جانا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
”وہ اننی ناگل کٹسے ہو شکنی ہے ،کہا تھی تھا کہ میری اجازت کے تغیر نہیں
جانا کہیں۔“ دامیر ئے عصے سے سنئیرنگ پہ ہاتھ مارا۔ اس کی آنکھوں میں خون اپر آنا
تھا چب سے سبا تھا کہ شوزین اور علتبا چملے والی جگہ پہ تھیں۔
”میں ئے ناقی آدم نوں کو تھی کال کر دی ہے۔“ رنان اس کے شاتھ نتتھا تھا
جس کے ناپرات تھی دامیر سے الگ پہ تھے۔
اس وفت دوبوں ئے کارگو نت نٹ سرٹ نہن رکھا تھا۔ ہولڈرز میں گن نبار موخود
تھیں۔
”نہاں نارک کرو گاڑی ،میں فرنٹ سے جانا ہوں تم ننجھے سے علتبا کو کور دو۔“
رنان ئے گاڑی کا دروازہ کھو لنے ہوئے کہا۔ اس نک سنور سے کاقی دور انہوں ئے
گاڑی روکی تھی۔
ن
ان کے آدمی نہلے ہی ہنچ جکے تھے وہاں اور ان کے مطابق گولباں کہیں شا منے
نلڈنگ سے جل رہی تھیں۔
”مجھے نمہیں تھی کور د نبا ہے رنان تم میرے شاتھ رہو گے۔ اکبلے نہیں جاؤ
گے۔“ دامیر اس کی نات شن کے نگڑے لہچے میں بوال۔
”نحوں کی طرح ری انکٹ مت کرو مجھے انبا نارگنٹ قاپر کرنا ہے۔“ رنان البا اس
پہ گرجا جس پہ دامیر چھال اتھا۔
رنان نبا مزند نات سنے ،اننی سبانیر لنے آگے پڑھ گبا اور انک جگہ نال سنے لگا چہاں
سے وہ نلڈنگ کی طرف نشاپہ ناندھ شکے۔
دامیر ہولڈر سے گن تکالے نک سنور کی طرف تھاگا۔ اس کی نبک انیرنٹس کلئیر
تھی اتھی اور وہاں اس کے آدمی نہلے ہی کھڑے تھے۔
ن ت ھ چ ن ن
شوزین اور علتبا انک نک سبلف کے ھے نی یں چہاں سے لڈ گ ظر یں
ہ ت ن ن ھ ج
آنی تھی۔ شوزین ئے علتبا کو کور دے رکھا تھا۔
”دامیر۔۔۔!“
ت تن
علتبا کی تگاہ چب دامیر کی طرف گنی بو ئےشاچنہ اس کو تکار ھی۔ دامیر ئے
انک تظر اطراف میں دنکھا اور ان کی جانب پڑھا نتھی انک قاپر ہوا۔ گولی دامیر کے
ر سنے سے گزری تھی لبکن وہ نچ گبا تھا لبکن علتبا ئے گ ھیرائے ہوئے ا ننے منہ پہ
ہاتھ رکھ لبا۔
”کجھ نہیں ہو گا۔ رنان ئے ستتھال لبا ہے اور میں ہوں نمہارے شاتھ۔ پہ
گن نکڑو اور میری شانبڈ سے ہتبا نہیں ہے۔ شاتھ رہبا ہے۔“ دامیر اس کے آنسوں
گرئے دنکھ اس کو پرمی سے سمجھائے بوال اور نانگ سے نت نٹ کو تھوڑا اوپر کر کے
گھتنے کے فرنب سے انک گن تکال کے تھمانی اس کو۔ علتبا ئے کا نتنے ہاتھوں سے
تھام بو لبا لبکن وہ نہاں سے ہلنے پہ تھی ڈر رہی تھی۔
”آنی رن نٹ ڈونٹ ل نو مائے شانبڈ۔“
)!( I repeat Don’t leave my side
دامیر ئے اس کی آنکھوں میں دنکھنے کہا جس پہ علتبا ئے انبات میں سر ہالنا۔
اتھی علتبا کے دل میں پہ نات نالکل تھی نہیں تھی کہ دامیر انک قا نل تھا۔
وہ اس وفت کاقی ڈری ہونی تھی۔ ہق نوں کی پرنتبگ گنی نبل لتنے۔ اتھی بو تھبک
سے شانس تھی نہیں لبا جا رہا تھا۔ ضرف اننی جان کی قکر تھی اور دامیر کا جبال تھا
خو اس کو نہاں سے نحائے آنا تھا۔
ت ن چ
ھ جھ
”خو نمہاری طرف آئے کی کوشش کرے ال ک م ئے اسے شوٹ کر د نبا
ہے۔“ دامیر ئے اس کا ہاتھ دنائے ہوئے کہا اور اس کو لنے دروازے کی طرف
پڑ ھنے لگا لبکن وہاں سے آئے آدم نوں کو دنکھنے رک گبا۔
اس وفت اگر وہ اکبال ہونا بو مسکل پہ ہونی لبکن اتھی علتبا شاتھ تھی۔ خود کی
جان سے زنادہ ضروری علتبا کی جان تھی۔
اجانک ناہر سے دھماکا ہوئے کی آواز آنی جٹسے کجھ ت ھٹ گبا ہو۔ دو آدمی ناہر
کی جانب تھاگے جبکہ ناف نوں ئے دامیر کی طرف قدم پڑھائے۔
علتبا دامیر کے ننجھے ہی تھی چب دامیر ئے اس کی طرف سے انک آدمی کو
آئے دنکھا۔
”شوٹ ِہ ِِم!“ دامیر ئے سرد لہچے میں جکم صادر کبا۔ علتبا ئے کا نتنے ہاتھوں
سے گن کو تھاما تھا۔ انک تظر گن کو دنکھا تھر اس آدمی کو۔
شوٹ مطلب وہ اس کا فبل کرے گی۔ اس کے تغد وہ انک قا نل کہالئے
گی ،نہیں وہ انشا نہیں کر شکنی تھی۔ اس کو نہاں سے تھاگبا جا ہنے تھا۔
اس آدمی سے علتبا کی نانگوں کی طرف نشاپہ ناندھا شاند وہ اس کو مارنا نہیں
جاہبا تھا۔
دامیر ئے گردن گھمائے نیزی سے علتبا پہ تگاہ ڈالی۔
”پہ سبلف ڈ تقنٹس ہے ،شوٹ ِہم۔“ شاند وہ اس کی شوچ نک رشانی جاصل
کر حکا تھا نتھی وہ جالنا اور خود انک آدمی کو ننچے گرانا۔
علتبا ئے تقی میں گردن ہالنی اور دامیر سے دور ہونی دروازے کی سمت تھاگی۔
دامیر ئے نحلی کی نیزی سے علتبا کی طرف پڑ ھنے آدمی کا نشاپہ ناندھا خو سبدھا اس
کے سر کے نجھلے حصے پہ لگا لبکن دپر نہاں ہونی کہ اس تقاب بوش آدمی ئے پرنگر
دنا دنا تھا۔ گولی علتبا کے دانیں کبدھے کے نجھلے حصے کو چھو کے گزری اور انک
دل خراش جنخ پرآمد ہونی۔
نک سنور اننی اصلی جالت میں نہیں تھا۔ سبلف بوٹ جکی تھیں اور کبانیں
نکھری پڑی تھیں۔
”علتبا کو گولی لگی ہے اس شانبڈ پہ جلدی آؤ۔“ انیر نٹس کی ندولت وہ رنان
سے محاظب ہوا اور علتبا کی جانب تھاگا خو اس سے کجھ قاصلے پہ تھی۔
درد سے کراہ رہی تھی۔ دامیر ئے اس کے زچم کو دنکھبا جاہا چب علتبا ئے اس
کا ہاتھ چھبک دنا۔
دانیں جانب سے انک آدمی زچمی جالت میں دامیر کی جانب پڑھا چب دامیر علتبا
کے ناس سے اتھبا انک جشت میں اس نک آنا اور اس کی گردن نک ہاتھ لے جائے
انک ہی نل میں نک کی آواز سے بوڑ دی۔
علتبا انک نل اننی درد تھولے دامیر کے اس روپ کو دنکھنے لگی۔ وہ جتبا حظرناک
نبانا گبا تھا اس سے تھی زنادہ اتھی محسوس ہو رہا تھا۔
ن
رنان کے ہنجنے سے نہلے دامیر ئے انک وخود کو اندر آئے دنکھا خو علتبا کی طرف
پڑھا۔ دامیر ئے غور کبا وہ چنہ تھی لبکن قارمل ڈرنسبگ میں۔ وہ نہاں ک نوں اور کٹسے
آنی؟
”میرے شاتھ جلو۔۔“ چنہ ئے علتبا کو سہارہ د ننے اتھانا جاہا چب دامیر ئے
علتبا کا نازو تھاما۔ اس کو انک گولی لگ جکی تھی اب مزند وہ اس سے عقلت نہیں
پر ننے واال تھا۔ چنہ کے خواب اور علتبا کے ناپرات کا بونس لنے تغیر اس ئے علتبا کو
اننی گود میں اتھا لبا۔
علتبا ئے اجنحاج کے طور پہ جالنا جاہا چب دامیر کی دھمکی کار آمد نانت ہونی۔
”اگر کونی آواز تکالی بو اتھی اننی جان سے جاؤ گی۔“
علتبا جاموش ہو گنی تھی۔ اس کو نازو میں تکل یف ہو رہی تھی۔ نہاں سے تکلنے
وہ نیزی سے اننی گاڑی کی سمت تھاگا خو قاصلے پہ تھی۔ چنہ نبا دامیر کے کہنے کا
ت تم ن
ان یطار کنے اس سے مزند نیزی سے جانی گاڑی یں جا ھی اور گاڑی کو ان کی طرف
لے آنی ناکہ دامیر کو اسے اتھائے تھاگبا پہ پڑے۔
”وجہ نہیں مغلوم لبکن پہ لوگ علتبا کو اتھائے آئے تھے۔ مغلوم ہوئے ہی
میں نہاں آگنی تھی لبکن تم دوبوں نہلے موخود تھے۔“ چنہ ئے سنجبدگی سے خواب دنا،
شاتھ ہی اس ئے علتبا کے زچم کے اوپر کیڑا ناندھ رکھا تھا۔
دامیر نار نار نبک وبو مرر سے علتبا پہ تظر ڈال رہا تھا۔
ن
”نلیز اس کو ہوش میں الئے کی کوشش کرو ہم نس ہنجنے والے ہیں۔“ دامیر
ئے چنہ سے کہا جس پہ اس ئے انبات میں سر ہالنا۔
ن
خون نہنے کی وجہ سے علتبا پہ ع نودگی چھانی ہونی تھی۔ وہ نس اکبڈمی ہنجنے والے
تھے۔ رنان ئے ا ننے جا ننے والے ڈاکیر کو اتقارم کر دنا تھا خو وہاں موخود تھے۔
دامیر ئے علتبا کو ا ننے نبڈ پہ لبانا اور شانبڈ پہ ہوا ناکہ ڈاکیر اس کو جبک کر
شکیں۔ اس کی ننی وغیرہ کرئے کے تغد شکون آور انجبکشن لگا دنا تھا ناکہ وہ کجھ دپر
درد کے اجشاس سے ئےچیر رہنی۔ گولی چھو کے ہی گزری تھی لبکن زچم گہرا چھوڑ
کے گنی تھی۔
چنہ ان کے شاتھ اندر نہیں آنی تھی۔ اس کے مطابق اسے کہیں جانا تھا اور
انبا وفت پرناد نہیں کر شکنی تھی۔ رنان ئے شوجا کہ وہ مغلوم کرے کہ چنہ کہاں
جائے والی تھی لبکن وہ دامیر کو اتھی اکبال تھی نہیں چھوڑ شکبا تھا۔
رات کو آکشن کا فبکشن تھا ،دامیر ئے شوچ لبا تھا کہ نہاں سے قارغ ہوئے ہی
وہ علتبا کو لنے ا ننے وال میں شفٹ ہو جانیں گے۔ مزند اس کی جان کا رشک نہیں
لتبا جاہبا تھا۔
علتبا آرام کر رہی تھی دامیر کے کمرے میں جبکہ دامیر اور رنان ،رنان کے
کمرے میں نتتھے اس چملے کے دوران والی فوننج جبک کر رہے تھے۔
”میں نہیں کہبا تھا کہ پہ لڑکی انک دھماکا ہے۔“ چب رنان نشابوں میں
مصروف تھا نب چنہ ئے انک دو آدم نوں کو مار گرانا تھا خو اس ئے اتھی دنکھا تھا
شاتھ ہی وہ ان تقاب بوش لوگوں کی انک گاڑی تھی اڑا جکی تھی۔ نتھی فجر سے دامیر
ہ م ھ ن
سے بوال۔ دامیر ئے معنی چیز تگاہوں سے اس کو د نے نانبد یں سر النا۔
ک
تعنی نہت جلد وہ اس کی شادی کی متھانی کھائے واال تھا۔
”علتبا کجھ بو جاننی ہے فباد کے نارے میں۔ پہ اسی کے لوگ تھے۔“ دامیر ئے
شاری فوننج دنکھنے ہوئے کہا۔
ت ع
”اتکل مبکس سے نات ہونی تھی انہوں ئے ھی ال می کا اظہار کبا۔“ رنان
ل
ئے مبکس سے ہوئے والی نات کا پزکرہ کبا۔
”میں خود علتبا سے بوچھوں گا اس نارے میں۔“ دامیر ئے کہا بو رنان ئے تقی
میں سر ہالنا۔
”پہ کام مجھ پہ چھوڑو۔“ رنان ئے شاطر مسکان سحائے کہا۔ دامیر جانبا تھا وہ
اس کو انک گھوری سے بوازے گا جس پہ وہ اگر کجھ جاننی تھی ہونی بو طوطے کی
طرح نبا دے گی۔
٭٭٭٭٭
علتبا کو ہوش آگبا تھا۔ وہ دامیر کے روم میں ہی تھی۔ دامیر صوفے پہ نتم دراز
ا ننے مونانل پہ کسی نبکشٹ کا رنالنی کر رہا تھا۔ علتبا ئے تقاہت سے اتھنے اس کو
دنکھا۔
”فباد کو جاننی ہو!“ دامیر ئے نبا کونی نمہبد ناندھے سبدھا شوال کبا۔ وہ خو اس
سے جال اخوال بوچھنے کی امبد رکھنی تھی اب اس کو گھورئے لگی۔
”میں نہیں جاننی اس کو۔ نہلے تھی نبا جکی ہوں میں۔ آہ!“ عصے سے کہنے وہ
اتھنے لگی چب کبدھے پہ ہوئے والے اجانک درد سے کراہ اتھی۔
”لتنی رہو۔۔“ دامیر اتھ کے اس کے فرنب آنا۔
”میں ئے خود نمہیں لوگوں کو مارئے ہوئے دنکھا ہے ،کتھی گتنی کی ہے کہ
کتنے لوگوں کو جان سے مار جکے ہو تم۔“ علتبا کا ڈر عصے میں ندال بو وہ دامیر سے شوال
کرئے لگی۔
دامیر چہرہ ننچے کر کے ہٹس دنا۔
”وہ لوگ اسی قانل تھے ورپہ تم اتھی زندہ پہ ہونی۔“ دامیر ئے جبانا جاہا۔
”نمہارے شاتھ رہ کے بو و نسے تھی میں زندہ نہیں رہوں گی۔“ علتبا ئے ن یفر
سے سر چھ یکا۔
”میں اتکل سے نات کر کے ان کے ناس ہی شفٹ ہو جاؤں گی مجھے نمہاری
ضرورت نہیں ہے۔ تم ا ننے خراتم کو سرانحام د ننے رہو جٹسے نہلے کرئے تھے۔ میری
قکر کرئے کی ضرورت نہیں اب۔“ علتبا ئے وہی نتتھے نتتھے انبا ف یصلہ سبانا کہ اس
کا کہا گبا انک انک لقظ دامیر کو پرا لگا۔ اس کے ما تھے پہ ن نوری خڑھ آنی۔
”نمہارے اتکل میرا کانیرنکٹ کنٹشل نہیں کر شکنے کسی تھی صورت۔۔“ دامیر
سرد لہچے میں بوال۔
”مجھے اس سے کونی فرق نہیں پڑنا لبکن میں نمہیں آس ناس پرداشت تھی
نہیں کر شکنی۔“ علتبا اس کے چہرے پہ تھ یکاری کہ دامیر ضیط کر کے رہ گبا۔
”نمہارے شاتھ مسبلہ کبا ہے۔ پہ میرا کام ہے۔۔“ دامیر انک دم اتھنے اس
کی طرف پڑھا۔ علتبا کا خوف سے چہرہ زرد پڑ گبا۔
” اور خو تم پہ سبلف ڈ تقنٹس سبکھ رہی ہو وہ شب تھی۔ اکیر انک انشا وفت آنا
ہے جس میں خود کو نحائے کے لنے مارنا پڑنا ہے۔ اگر وفت پر عقل اسیعمال پہ
کریں بو وہی ہونا ہے خو نمہارے شاتھ ہوا۔ میں انبا کام کر رہا ہوں مجھے میرا کام
کرئے دو۔ اگر میں اس سے ہٹ کے کجھ کرئے پہ آنا بو نمہاری صحت کے لنے اچھا
نہیں ہو گا۔“ دامیر ئے اس کو وارن کبا۔ علتبا ئے نس تگاہیں ت ھیریں نتھی دامیر
کال آئے پہ روم سے ناہر تکل گبا۔
ش ہن کت م جم
” ھبا کبا ہے خود کو۔ یں ا ل سے نات کر کے ا یں کے ناس فٹ ہو س
جاؤں گی۔ جان چھوئے میری اس سے۔“ اس کے کمرے سے جائے کے تغد علتبا
خود سے پڑپڑانی۔
اس کے دانیں کبدھے پہ ننی تھی ،لوز سرٹ نہن رکھی تھی کبدھے کو سنورٹ
کرئے کے لنے نبلٹ تھی نہنی تھی خو اس کو انک جگہ رکھنے میں مدد دے رہی تھی۔
اس ئے آس ناس دنکھا کہ شاند نہاں اس کا مونانل موخود ہو لبکن پہ کمرہ ہی
دامیر کا تھا بو شوائے خود کے نہاں اس کا کجھ تھی نہیں تھا۔
آج آکشن فبکشن تھا اور مبکس ل نو تھی نہاں موخود ہوئے بو اس کو شام نک کا
ان یطار کرنا تھا ک نونکہ کمرے سے تکلبا اس کے لنے ممکن نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(آکشن ہال)
ن
نتبل پرن نب سے سنٹ کنے گنے تھے جس کے گرد مافبا فتملیز تتھی تھیں جن
کی نشل کے لوگ آج نہاں سے اننی ننی میزل سروع کرئے والے تھے۔ ان میں سے
ڈرنبا اور شوزین تھی تھیں۔
شوزین کسنوڈین ،کئیر نہاں سے تکلنے والی تھی اور ڈرنبا اشاشن ین کے۔ آج ہی
ان دوبوں کو ا ننے شاتھ نوں کا نبا جل جانا تھا کہ کون کس کو ہانیر کرئے واال تھا۔
ن تن تس ٹن
ٹس انک شانبڈ پہ ننے نتبلز کے گرد موخود تھے۔ شارے سننئیر نار
شا منے ستنج پہ سر جارج نمودار ہوئے۔ ان کے دانیں نانیں گارڈز موخود تھے۔ عمر
میں وہ کاقی پڑھے تھے لبکن مقانلہ اتھی تھی کر شکنے تھے۔
ان شب میں رنان تھی انک نتبل کے گرد نتتھا تھا چب اگلے ہی لمچے مبکس ل نو
اور ان کے آدمی رنان کے شاتھ ہی نتبل کے گرد نتتھے۔
”کونی رکھا ہے تظر میں۔۔؟“ مبکس ئے ڈرنک کا شپ لتنے ہوئے کہا۔ رنان کی
تگاہیں شا منے ہی تھیں چہاں جارج ڈانمبڈ پزنس کے نارے میں کانیرنکٹ نبا رہے
تھے۔
”میں ہی پہ کسی کی تظروں میں آجاؤں۔ وہ کبا ہے نا آج کل میری نتنی خود
جن ن
پزی ہے بو کونی آوارہ ھی امجھ کے فبد پہ کر لے۔“ رنان ئے نبا ا ننے چہرے کے
ناپرات ندلے ہ نوز سنجبدگی سے کہا کہ ناقی میز کے گرد نتتھے لوگ ہلکا شا ہٹس د ننے۔
”علتبا کٹسی ہے؟“
مبکس جا ننے تھے کہ چملہ ہوا ہے نتھی قکر مبدی سے بولے۔ دامیر ئے علتبا
کو آکشن میں آئے سے م یع کبا تھا ک نونکہ وہ نہیں جاہبا تھا کہ کسی اور کی تظروں میں
وہ آئے۔
”پہ بو آپ کو دامیر ہی نبائے گا ڈنتبل میں۔“ رنان ئے معنی چیز سے کہا بو
مبکس جاموش ہو گنے۔
جارج سر اب اشاشن کا زکر کر رہے تھے۔ نٹسرے نمیر پہ ڈرنبا کا زکر ہوا۔ رنان
س ن ک مکم
ل سماغت نبا شن رہا تھا۔ اس کو سی ا ین نبدے ئے ہانیر کبا تھا جس کا رنان
کو مغلوم نہیں تھا۔
”جاکم ،آپ جا ننے ہیں اس نام کے انشان کو؟“ رنان ئے مبکس سے بوچھا
جس پہ اس ئے تقی میں سر ہالنا۔
”چار م یلین ڈالر“
پہ ڈرنبا ئے اننی فتمت رکھی تھی جس پہ شاڑھے جار مبلین ڈالر میں اس کو ہانیر
کر لبا گبا تھا۔
”اس کی فتمت سے پڑھ کے اس کو ہانیر کبا گبا ہے وہ تھی ا نسے انشان ئے
جس کا انڈرورلڈ میں نام نہلی نار سبا ہے۔“ مبکس ئے تھبک کہا تھا۔ نہاں کونی گڑپڑ
تھی۔
اتھی رنان پہ شب دنکھ رہا تھا چب اس کو انک مٹسج رنسنو ہوا۔
پہ انک کانیرنکٹ مٹسج تھا ،اشاشن کرئے کا۔ کسی ئے اس کو نہاں نتتھے نتتھے
اشاسنت نٹ کانیرنکٹ تھنحا تھا۔
Name: Hannah Leo
Business: Diamond
Age: 27
Price: 3.5 Million
مٹسج ستبڈ کر دنا تھا۔ اب انک نمیر نیزی سے ڈانل کرئے وہ اننی جگہ سے اتھ
گبا تھا۔ اطراف میں تگاہیں دوڑانیں چب انک جگہ تھہر گنیں۔ وہ نہیں تھی۔ اکبڈمی
میں موخود۔ سر پہ شکارف لنتنے اور آنکھوں پہ نلبک گاگلز لگائے۔ ا ننے جلنے سی نالکل
مجبلف۔ انک نبا روپ۔
وہ نہاں کبا کر رہی تھی؟
”مٹسج قارورڈ کبا ہے میں ئے ،نمیر تھی۔ کانیرنکٹ د ننے والے کی لوکٹشن جبک
ً
کرو۔“ اس ئے دوسری جانب دامیر سے کہا جس ئے فورا عمل کرنا سروع کبا۔
سر جارج اب شل نوری کارنل کا نبا رہے تھے ،ان کے نانیں جانب انک لڑکی
تھی جس کی نبالمی کی جا رہی تھی۔ لڑکی نتم پرہنہ تھی۔ نہیں پہ رنان کا کام تھا
لبکن اس کے زہن میں چنہ کا تھی جبال آنا کہ وہ نہاں موخود ہے اگر اس ئے
رنجبکٹ کر دنا تھا بو وہ کانیرنکٹ کسی کو تھی مل شکبا تھا۔
اس لڑکی کی فتمت لگ رہی تھی۔ الطتنی گتبگ اس لڑکی کو خرند رہے تھے ،پہ
واصح تھا کہ وہ کسی نبک کام کے لنے بو نہیں تھی۔ رنان کی تگاہ دونارہ چنہ کی طرف
گنی۔ جس کی تگاہیں اسی الطتنی آدمی پہ نکی ت ھیں ،اس کے ہاتھوں کی گرفت اننی
گود میں ر کھے نبگ پہ مضنوط ہونی۔
گن جلنے والی سمت رنان ئے نشاپہ لبا ،ہال کی چ ھت سے قاپر ہوا تھا۔
”چنہ کو لے کے تکلیں نہاں سے۔“ رنان مبکس کی جانب دنکھنے جالنا خو ا ننے
گاردز کے شاتھ تکلے۔
سر جارج کو ان کے گارڈ ئے کور دنا اور م یظر عام سے ہبا دنا۔ اجانک ہوئے
والی قاپرنگ سے تھگڈر مچ گنی تھی۔
”آخر تم نہاں کر کبا رہی ہو؟“ رنان ئے چنہ کا نازو اننی گرفت میں لتنے بوچھا۔
اس کو لنے وہ اندھیرے والی شانبڈ پہ موخود تھا۔
”رشنہ چھوڑو میرا۔“ نیزی سے کہنی وہ جائے کو تھی چب رنان ئے چھ یکا د ننے
اس کو مزند فرنب کبا۔
”نہاں سے صجنح شالمت تکلو ورپہ مجھ سے پرا نہیں ہو گا۔“ رنان ئے اس ئے
ن
آنکھوں میں دنکھنے دھمکی دی جس پہ وہ آ یں ھمانی ہونی نبا پرواہ نے اس سے دور
ک گ ھ ک
ہونی۔
اننی جان نحائے سے ضروری اتھی انک اور کام تھا اس کو نہلے وہ نتبانا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دامیر قاپر کی آواز پہ مزند نیزی سے تھاگا اور آئے ہی ان آدم نوں کو چہتم واصل
ن
کبا۔ علتبا کمر کے نل گری تھی۔ اس کی آ یں نبد یں۔
ھ ت ھ ک
”اس کی شانسیں نہت دھتمی جل رہی ہیں اگر مزند تھوڑی دپر میں نہاں نہیں
نہنچے بو مجھ سے پرا نہیں ہو گا۔“ دامیر کی جبگھاڑنی ہونی آواز اندر آئے مبکس کے
کابوں سے نکرانی۔ مبکس ئے صدمے کی جالت میں شا منے نبڈ پہ پڑے وخود پہ تگاہ
دوڑانی۔
”علتبا! میری نچی۔“ مبکس پڑ ننے ہوئے اس کی جانب پڑھے خو نہت پری
جالت میں تھی۔
دامیر ئے اس کو ڈھانپ رکھا تھا۔ اس کے کبدھے پہ انک اور گولی لگی تھی
جس کو پروفت تکالبا ضروری تھا ک نونکہ نہلے واال زچم تھی اتھی تھرا نہیں تھا۔
کبدھے کے آدھے حصے کو ننی میں جکڑ رکھا تھا۔ گولی تکا لنے واال کام دامیر ئے
خود کبا تھا۔ اس کی سرٹ کی آسنین کو تھاڑئے۔ مزند اس کو کہاں کہاں خوٹ آنی
تھی وہ کجھ کہہ نہیں شکبا تھا۔ ا ننے آدم نوں کی مدد سے وہ علتبا کو اتھائے ا ننے وال
نہنحا تھا اور اب ڈاکیر کو ارج نٹ کال کر رہا تھا ک نونکہ اس کی شانسیں نہت مدھم جل
رہی تھیں۔
اس کا ارادہ بو نہاں سے سبدھا روس جائے کا تھا لبکن رنان اتھی کسی ضروری
کام کو نتبائے کے لنے تکال تھا۔ اس کے آئے ہی نہاں سے رواپہ ہو جانا تھا ان
لوگوں ئے۔
”کمر کے نل گری تھی ،اسی کی پرنشانی ہے مجھے۔ اور پہ ڈاکیر آ ک نوں نہیں
رہا۔“ دامیر چہرے پہ م یقکر انداز میں ہاتھ ت ھیرئے ہوئے بوال۔
نتھی ڈاکیر ہڑپڑی میں اندر داجل ہوا ،گارڈ کمرے کی دروازے کے ناہر کھڑا تھا۔
”مجھے نہیں مغلوم اس نارے میں۔“ مبکس ئے تظریں خرائے ہوئے کہا۔
دامیر ئے سرد ناپرات انبائے ان کی جانب قدم پڑھائے۔ رنان ئے تھی چب اتکل
مبکس سے بوچھا بو ان کا خواب نب تھی نہی تھا۔
”چھوٹ نہیں ستبا مجھے۔۔“ دامیر کا انداز اور لہحہ سرد ہوا بو مبکس ئے گہرا
شانس تھرا۔
”میں چھوٹ ک نوں بولوں گا تم سے۔۔“ مبکس ئے سر چھبک کے کہا نتھی
ڈاکیر کمرے سے ناہر آنا۔ دامیر اور مبکس کی تظریں انک شاتھ اس طرف اتھیں۔
م
”کمر پہ خوٹ آنی ہے ،دو نین مہتنے کمل رنشٹ پہ رکھبا ہے ان کو۔ کبدھے کی
ڈرنسبگ بو کر دی تھی لبکن دوسرے نازو پہ فرنکجر آنا ہے۔ سر پہ تطاہر کونی خوٹ بو
نہیں۔ انکسرے وغیرہ کرئے سے مغلوم ہو گا کہ کونی اندرونی تقصان زنادہ پہ ہو،
میں شب ان یطام کرنا ہوں نب نک آپ ان کو لے کے آجانیں۔“ ڈاکیر ئے دامیر کو
دنکھنے شاری نات کہی جس پہ وہ سر انبات میں ہال گبا۔
”پہ آپ کی کبا لگنی ہیں؟“ ڈاکیر کے بوچھنے پہ اس سے نہلے مبکس کجھ کہبا
دامیر خود بول اتھا۔
”دوشت ہے۔ اور اس کے ہوش میں آئے کے نارے میں نہیں نبانا آپ
ئے؟“ دامیر سنجبدگی سے بوچھا۔
”چہاں نک میرا جبال ہے ،خوٹ ان کو اندرونی آنی ہے جس کی وجہ سے نبہوش
ہیں۔ آکسنچن لگا دی ہے بو نہلے شکین ہو جائے تھبک رہے گا ورپہ کونی پڑا تقصان پہ
اتھانا پڑے۔“ ڈاکیر ئے انک تظر اندر پڑے وخود پہ ڈا لنے ہوئے کہا۔
”میں اس کو نہاں سے ناہر لے جائے کی علطی نہیں کر شکبا نمہیں خو تھی
کرنا ہے مگواؤ نہاں اور جتنی جلدی ہو شکے شب کرو۔“ کمرے میں جائے سے نہلے
دامیر ئے کہا کہ مبکس تھی انک نل کو جاموش ہوا۔ ڈاکیر ئے ہراشاں تگاہوں سے
مبکس کو دنکھا کہ وہ کٹسے شب نہاں منتنج کرے۔
”انک گ ھتنے کے اندر اندر۔۔۔“ مبکس ئے سرد تگاہوں سے اس کو ننتبہہ کبا کہ
ڈاکیر نس تھوک تگلبا رہ گبا۔
ان لوگوں کو وہ ا چھے سے جانبا تھا ،اکبڈمی میں انک دو نار انمرجنٹسی میں جانا ہوا
تھا نتھی وہ ڈاکیر ا نسے لوگوں کی نہحان رکھبا تھا۔ پہ تھی ا چھے سے مغلوم تھا کہ اگر انک
گھتنے میں کام پہ ہوا بو وہ نہاں سے ہمٹشہ کے لنے رحصت تھی ہو شکبا تھا۔ تعنی
زمین سے۔
انک گھننہ نہیں لبکن ڈپرھ گھتنے کے اندر اندر افرا تفری میں نہاں پہ مسئیری
النی گنی اور علتبا کا جبک اپ کبا گبا۔
اس کے سر کی نبک شانبڈ پہ خوٹ تھی لبکن شکر تھا کہ اندرونی نلبڈنگ سبارٹ
نہیں ہونی تھی۔ ڈاکیر ئے تھی پہ نبانا کہ علتبا اتھی کومے کی جالت میں تھی۔ جٹسی
اس کی کبڈنشن تھی اس کا اڑنالٹس گھت نوں میں ہوش میں آنا ضروری تھا ورپہ جان کو
حظرہ تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
آدھی رات کے سبائے میں انک نانک ہوا کو چیرنی ہونی ستبڈ میں تھاگ رہی
تھی۔ نانبکر ئے ہبلمٹ نہن رکھا تھا۔ نلبک شوٹ میں ہاتھوں میں لبدر کے دسبائے
ت مکم
گونا وہ ل قاب بوش تھا۔
نانبک انک کلب کے آگے آرکی تھی۔ ہبلمٹ انارے اس وخود ئے منہ پہ اب
ماشک خڑھا لبا۔ وہ لڑکی تھی۔ اور لڑکی چنہ ل نو تھی خو انک گاڑی کا ننجھا کرئے ہوئے
ت ہن
ن
نہاں نک چی ھی۔
نالکنی کے دروازے کے ہتبڈل کو گھمانا اور نبا ناچیر کنے اندر داجل ہونی۔ نحاس نچین
شالہ آدمی شقبد سرٹ میں مل نوس نبڈ کے نالکل شاتھ زمین پہ ئےشدھ پڑا تھا۔ وہ
تھب ت ف ً
پزنس مین لگ رہا تھا۔ اس کی شقبد سرٹ خون سے گی ھی۔ د عبا چنہ کو ا ننے
ننجھے آہٹ سبانی دی۔
تھرنی سے گھو منے اس ئے قاپر کبا لبکن نشاپہ خوک گبا۔
”ہبلو ملٹسکا!“ سنجبدہ چہرہ مگر مشکرانی آواز۔
کل ک جم س
م
اس کو خواب د نبا ضروری پہ ھنے چنہ ئے گن وانس ہولڈر یں ر ھی اور نا نی
کی طرف پڑھی۔
رنان نہاں تھا مطلب لڑکی محفوظ تھی۔ اس نات سے وہ تھی وافف تھی کہ آر
نہ ن
ڈی کتھی غورت سے زپردسنی نہیں کرئے تھے۔ رنان اس سے لے نچ کے لڑکی کو
ہ
لے کے جا حکا تھا جس کو الطتنی گتبگ کے آدم نوں ئے آج شام آکشن کی نبالمی
میں خرندا تھا۔ ز ننے وانس اپرنی وہ اننی نانک کی جانب آنی اور انبا ہبلمٹ نہنے رواپہ
ہونی چب کھلی سڑک پہ ا ننے پراپر انک گاڑی کو نانا۔
رنان ڈی۔
پہ اس کا فیر نک ننجھا نہیں چھوڑئے واال تھا۔ چنہ ئے ہبلمٹ کے سٹسے سے
اس کی گاڑی کی جانب تظر دوڑانی۔ وہ اکبال تھا۔
اگر وہ اکبال تھا بو لڑکی کہاں تھی۔ تکانک اس کو قکر ئے آن گ ھیرا۔
نانک کی ستبڈ شلو ہوئے ہی رنان کو اچھتبا ہوا بو اس سے آگے ہی گاڑی کو
رو کنے اپر آنا۔
چنہ ہبلمٹ انار رہی تھی۔ ماشک کو سر نک لے جائے اس ئے رنان کی جانب
قدم پڑھائے۔
”لڑکی کہاں ہے؟“
”کبا تم لڑکی نہیں؟“ نحائے خواب د ننے کے رنان ئے چیران ہوئے کی
اداکاری کرئے اس سے بوچھا۔ اس کے انداز ناپرات سے نالکل تھی نہیں لگا تھا کہ
وہ مزاق کر رہا تھا۔
ہن
”آکشن والی لڑکی کہاں ہے رنان ڈی؟ تم مجھ سے نہلے وہاں نچ گنے ھے۔“
ت
چنہ ئے لہچے میں عصہ سموئے کہا۔ اگر رنان اس نار سبدھا خواب پہ د نبا بو چنہ ئے
تھ ن مت ت
خواب نبار رکھا تھا۔ اس ئے زور سے ا نی ھی نچی۔
”وہ محفوظ ہے۔“
شا مشکرانا۔
”میرے ننجھے ہوئے بو نہاں پہ آئے۔ ان کا ناگنٹ تم تھیں۔“ رنان اس کی
نانبک سے نبک لگائے کھڑا ہوا۔ نتھی چنہ کا مونانل ن نپ کبا جس کو محسوس کرئے
اس ئے نبک بوکٹ سے تکاال۔ رنان ئے اس کو گہری تظروں سے دنکھنے ہونٹ گول
کرئے انک ستنی نحائے۔
چنہ کو اس وفت وہ لوفر شا لگا نتھی انبا رخ موڑے فون کا خواب د ننے لگی۔
”تم میرے شاتھ جاؤ گی اتھی۔۔ اکبلی کہیں نہیں جا رہی تم۔“ رنان ئے اس
کو جائے کی نباری نکڑئے دنکھ کہا۔
”مجھ سے نمہیں کجھ جاصل نہیں ہوئے واال بو ننجھا چھوڑ دو میرا۔“ ناگوار لہچے میں
کہنی وہ وہاں سے جا جکی تھی۔ جائے ہوئے رنان ئے چنہ کو تغافب کار کی گاڑی
کے ناس ر کنے دنکھا۔
وہ دو منٹ کے لنے وہاں رکی ہو گی تھر نیزی سے نانک تھگائے لے گنی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صنح کے جار نج رہے تھے۔ ڈاکیر اتھی دامیر کے گھر پہ ہی موخود تھے ک نونکہ علتبا
کو اتھی ہوش نہیں آنا تھا۔ ڈاکیر کے مطابق اس کے سر پہ خوٹ لگنے کی وجہ سے
اس کا جلدی ہوش میں آنا مسکل تھا۔
دامیر کمرے میں ہی موخود تھا۔ نبڈ کے نانیں شانبڈ پہ صوقہ موخود تھا چہاں دامیر
ڈھبلے انداز میں نتم دراز تھا۔
مبکس کو اس ئے گٹشٹ روم میں تھنج دنا تھا ک نونکہ وہ تھی رات کے اس کے
شاتھ جاگ رہے تھے۔
رنان ئے اس کو لڑکی کے م یغلق اتقارم کر دنا تھا اور اب وہ نہیں وانس آرہا
تھا۔ دامیر ئے انبا ج نٹ رنڈی کروا دنا تھا کہ جٹسے ہی رنان نہنچے گا وہ لوگ نہاں سے
تکل جانیں گے۔
علتبا کے شاتھ شاتھ چنہ پہ تھی چملہ ہو حکا تھا اب مزند وہ ان دوبوں لڑک نوں
کی جان کا رشک نہیں لے گا۔
دامیر ئے اونگھنے ا ننے منہ پہ ہاتھ رکھا چب اس کی تظر علتبا پہ گنی۔
کتنی تفرت کرنی تھی پہ لڑکی اس سے۔ اگر کتھی موفع ملبا بو وہ اس کی تفرت کو
ب
ج لنج ضرور کرنا کہ انک نا انک دن وہ اس کو انبا عادی نبا د نبا تھر جاہے جتبا مرضی
اس سے تفرت کرنی تھرنی۔
”تم سیرانگ ہو نمہیں کجھ نہیں ہو گا۔“ دامیر اس کو پرم تگاہوں سے دنکھنے
پڑپڑانا۔
اتھ کے اس کے فرنب آنا چب علتبا کی نلکوں میں جنٹش محسوس کرئے خوتکا۔
اس کے فرنب نتتھے اس کی ہارٹ ن نٹ جبک کرئے لگا۔ تھوڑی نیز ہونی تھی۔
علتبا ہوش میں آرہی تھی۔ شکر تھا کہ وہ کومہ میں نہیں گنی تھی۔
”علتبا۔۔!“ دامیر ئے پرمی سے تکارا اور اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھا۔ دامیر کے
دل ئے ئےشاچنہ شکر کا کلمہ ادا کبا۔
ت ک ت ت ک ھ کن
ن ی چ
وہ آ یں ھول رہی ھی ،ہرے پہ ل ف کے آنار ھے۔ اس ئے ا نے نازو کو
خرکت دی لبکن کراہ اتھی۔ کبدھے میں تھٹس سی اتھی۔
”علتبا تم تھبک ہو؟“
کن ح کن ن
مرداپہ آواز پہ علتبا ئے ا نی آ یں ھو یں۔ شا منے انحان ص کو د ھنے اس
س ل ک ھ
س
کے ما تھے پہ نل واصح ہوئے۔ الجھی تگاہیں ھنے کی کوشش یں یں۔
ھ ت م جم
”تم کون ہو؟“ علتبا ئے ا ننے دھکنے کبدھے کو دنکھنے ہوئے کہا۔ دامیر ئے
آپرو احکائے۔
”جس سے تم شب سے زنادہ مجنت کرنی ہو۔“ دامیر ئے طیزپہ انداز میں کہا
لبکن علتبا کی آنکھوں میں غیر سباشانی اتھری۔
”کون!“ اس ئے اتھنے کی کوشش کی۔
”اتھو نہیں ،نمہیں خوٹ آنی ہے کمر پہ درد ہو گا۔“ دامیر ئے اس کے فرنب
ہوئے کہا ،علتبا اس کے ا نسے فرنب آئے پہ الجھی۔
”پہ کس کا کمرہ ہے؟“ علتبا ئے آہشنہ آواز میں کہا کہ دامیر چیران تگاہوں
ھ کن
سے د نے لگا۔
”میں دامیر ہوں۔ دامیر آر۔“ دامیر ئے تھہرے لہچے میں کہا۔
میں نمہیں نہیں جاننی۔۔۔“ وہ ناد کرئے کی کوشش کرنی ہونی بولی۔ دامیر
سرغت سے اتھا اور ڈاکیر کو نالئے گبا۔ ڈاکیر ئے اس کا نلڈ پرنسر ،ہارٹ رنٹ جبک
کبا۔ شب نارمل تھا۔
”پہ مجھے نہحان نہیں رہی۔“ دامیر ئے ڈاکیر کو سرد لہچے میں کہا۔
”اتکل مبکس کہاں ہیں اور میں نہاں کٹسے آنی؟ ان کو نال دیں۔ وہ میرے
ً کن
اتکل ہیں۔“ علتبا ڈاکیر اور دامیر کو پرنشان تظروں سے د نی ہونی فورا ناد آئے پہ بولی۔
ھ
”مبکس کا ناد ہے لبکن میرا نہیں۔“ دامیر سمجھ پہ نانا کہ اس کو کٹسے تھول
گنی تھی وہ۔
”انشا ہونا ہے سر ،سر پہ خوٹ لگنے کی وجہ سے ان کا شارٹ پرم متمری الس
ہوا ہے قکر پہ کریں کجھ عرصے نک ان کو ناد آجائے گا۔“ ڈاکیر ئے پرمی سے
سمجھائے ہوئے کہا۔ علتبا ئے تھی تغور ان کی نات سنی۔
”علتبا نمہیں آخری نات کبا ناد ہے؟“ دامیر ئے انبا رخ اس کی جانب کرئے
کہا جس پہ علتبا انک نل کو تھہری۔
وہ شو جنے لگی کہ اگر شا منے کھڑے انشان کو اس کا نام ناد ہو گا بو ضرور وہ اس
کو جانبا تھی ہو گا نتھی آہسبگی سے کہبا سروع کبا۔
”میں شونیزرلتبڈ میں تھی اور فباد ئے ا ننے آدم نوں کو میرے ننجھے لگانا تھا لبکن
میں اب کہاں ہوں؟“ علتبا ئے شو جنے ہوئے نبانا۔ وہ تھر سے اتھنے کی کوشش
کرئے لگی جبکہ دامیر فباد کا نام ستنے خوتکا نہیں تھا۔ اس کو مغلوم تھا کہ کجھ بو تھا
خو علتبا فباد کے نارے میں جاننی تھی۔
”تم اتھی گرنس میں ہو ہمارے گھر۔ قکر کی نات نہیں اتکل مبکس تھی ادھر
ہی ہیں۔ فباد کو کٹسے جاننی ہو؟“ دامیر ئے اس کو خوصلہ د ننے ہوئے کہا اور اس
کے شا منے نتتھنے پرمی سے بوچھا۔
”شونیزرلتبڈ میں ملے تھے وہ مجھے نہلے سے جانبا تھا۔ کبا تم اتکل مبکس کو نال
ن ت ت ھ چ
شکنے ہو؟“ علتبا الہٹ کا شکار ہو رہی ھی۔ ا ھی وہ مزند نات یں کرنا جا نی
ہ ہ ھ جن
تھی ک نونکہ سر میں درد سروع ہو گبا تھا۔
دامیر ئے انک تظر ڈاکیر کو دنکھا اور اس کے اشارہ کرئے پہ وہ اتھ گبا ناکہ
مبکس کو نال شکے۔
فباد کا ضرور علتبا سے تغلق تھا لبکن نہلے وہ ک نوں اتکاری تھی اس نات سے۔
مبکس پہ اس کو عصہ شا آئے کا۔ وہ جاہے جتنے پڑے ہوں اس سے لبکن اس کے
کام میں ان کو اس سے چھوٹ نہیں بولبا جا ہنے تھا۔
دامیر مبکس کو اندر لے آنا بو علتبا آندندہ ہو گنی۔
ن
دامیر ئے ان کو وفت دنا اور خود کمرے سے ناہر جال آنا۔ رنان نہاں ہنچ گبا تھا۔
اب نس نہاں سے تکلنے کی نباری کرنی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”آفٹسبلی میری ہوئے جا رہی ہے۔“ رنان کے لب مسکائے تھے جبکہ دامیر تقی
میں سر ہالنا رہ گبا۔
”علتبا کی متمری الس ہونی ہے ،چہاں نک اس کو ناد ہے اس میں فباد شامل
ہے۔ فباد کی اس سے مالقات شونیزرلتبڈ میں ہونی تھی۔ اتھی مبکس شاتھ ہیں اس
کے جٹسے ہی ناہر آئے ہیں میں ان سے بوچھبا ہوں۔“ دامیر ئے رنان کو اطالع دی
جس پہ وہ خود شو جنے لگا۔
”علتبا کو ا ننے ناس رکھ لو!“ رنان ئے جتنی سنجبدگی سے کہا دامیر ئے اس کو
سرد تگاہوں سے گھورا۔
”کبا مطلب ہے اس نات کا؟“
”علتبا کو ا ننے ناس رکھ لو ا نسے تم اس کی حقاظت کر ناؤ گے آشانی سے۔“
رنان ئے کبدھے احکائے۔
”وہ مجھے نہحان تھی نہیں رہی بو شاتھ ر ہنے کو راضی کٹسے ہو گی؟“ دامیر ئے
رنان کو دنکھنے بوچھا ،رنان ئے نبا اس کو د نکھے کبدھے احکائے۔ نہلے بو وہ کئیر کے
طور پہ اس کے شاتھ رہ رہا تھا لبکن اب دامیر اس کے لنے انحان تھا۔ ا نسے میں وہ
اس کے شاتھ اکبلے جائے کو راضی نہیں ہو گی۔
”نین شال نہلے وہ انک معصوم عام انشان تھی خو اس کالی دنبا سے ئےچیر
تھی۔“ مبکس کے لہچے میں دکھ تھا کہ اب علتبا ئے خود کو کہاں تھٹشا لبا تھا۔
”اور نجھلے نین شالوں سے وہ فباد کو جاننی تھی لبکن چب میں ئے آپ دوبوں
ئے بوچھا آپ دوبوں ئے اتکار کبا۔ ک نوں؟“ دامیر ئے اب کی نار انبا عصہ ضیط
کرئے سرد لہچے میں بوچھا۔ چنہ ئے انک گہرا شانس تھرا جٹسے نہاں گ ھین ہو رہی ہو۔
اس ئے دامیر کو دنکھنے سے پرہیز کبا۔
”علتبا وافعی کجھ نہیں جاننی تھی۔“ مبکس کے خواب پہ دامیر الجھا۔
”کبا مطلب ہے آپ کا اس نات سے۔ اتھی میرے شا منے اس ئے فباد کا زکر
تھ ت
کبا ہے۔“ دامیر دانت نٹسنے ہوئے بوال اور چیڑے نچ نے۔
ل
”فباد سے وہ ملی ضرور تھی۔ نب وہ نہت پری طرح ڈر گنی تھی اور ڈپرنشڈ ر ہنے
لگی تھی بو مجھے اس کو شانکئیرشٹ کے ناس لے جانا پڑا اور اس کا پرنتمنٹ کروانا پڑا۔
اسی وجہ سے وہ اس وا فعے کو بوری طرح تھول جکی تھی۔“ مبکس ئے انک گہرا شانس
لبا۔
چنہ اب مزند نہاں ان کے ناس تھہرنا نہیں جاہنی تھی نتھی وہ ل نونگ روم میں
آگنی اور صوفے پہ نتتھ گنی۔ رنان و نسے ہی دامیر کی شانبڈ پہ کھڑا تھا۔
”فباد ئے اس کو کڈن نپ کرنا جاہا تھا ،علتبا تھاگ تکلی تھی وہاں سے۔۔ نب وہ
ہماری دنبا کی کسی چیز سے وافف نہیں تھی۔ وہ وافعہ بو وہ تھول گنی لبکن اس کو
اکبڈمی میں جائے کا شوق نبا نہیں کہاں سے لگ گبا اور دنکھو وہ تھر سے وہیں آرکی
ہے۔“ مبکس ئے دکھ و ناشف سے نبانا۔ دامیر جاموش ہو گبا ک نونکہ مبکس وافعی
تکل یف میں لگ رہا تھا۔
”لبکن فباد کو علتبا سے کبا مطلب ہے؟“ دامیر کے نحائے رنان ئے شوال
کبا۔
”مجھے فباد کا خود مغلوم نہیں ک نونکہ کتھی اس کا انبا نام نہیں سبا تھا وہ شاند نبا
آنا تھا مافبا میں اور اس کا علتبا سے کبا تغلق وہ تھی نہیں جانبا میں۔ نتھی میں ئے
علتبا کو اس شب سے دور رکھا ہوا تھا لبکن اب لگبا ہے کہ فباد کو دونارہ مغلوم ہو گبا
س
ہے علتبا کے نارے میں۔“ مبکس ئے مزند کہا بو دامیر ئے ھنے سر ہالنا۔
جم
”وہ ضرف علتبا کو ہی نہیں چنہ کو تھی مارنا جاہبا ہے اب اس کی کہانی بو علتبا
ہی جاننی ہو گی۔ کبا نہلے کتھی علتبا ئے فباد کے نارے میں کجھ نبانا تھا؟“ دامیر
ئے ستنے پہ نازو ناند ھنے شو جنے ہوئے بوچھا۔
”نہیں علتبا نب نہت خوفزدہ تھی۔ کجھ تھی نہیں نبانی تھی نتھی ڈاکیر کے
ناس لے جانا پڑا۔ اس کو مسیقل ا ننے شاتھ نہیں رکھ شکبا تھا۔ اسی لنے اس کا
ملک سہر شب ندلبا پڑا۔“ مبکس کی نات پہ دامیر ئے انک تظر رنان کو دنکھا۔
”چنہ کو مارئے کا کانیرنکٹ انڈنا سے آنا تھا۔“ دامیر ئے رنان کو نبانا بو وہ چیرت
سے دنکھنے لگا۔
”چنہ کا کانیرنکٹ۔ کس نارے میں؟“ مبکس ئے پرنشانی سے بوچھا۔
چنہ کو اشاشن کرئے کے کانیرنکٹ سے وہ العلم تھے۔
”شادی مبارک کانیرنکٹ بو ہمیں نہیں ملنے ،طاہر ہے مارئے کا تھا۔ رنجبکٹ
کر دنا تھا میں ئے لبکن نتھی آکشن ہال میں اس پہ چملہ ہوا تھا اور نبک وفت علتبا پہ
تھی۔“ رنان ئے سنجبدگی سے نبانا۔
پہ وفت ہٹسنے کا نہیں تھا ورپہ رنان کی نات پہ دامیر دل کھول کے ہٹسبا۔
”میں ئے آپ سے کجھ کہا تھا۔“ رنان اجانک ناد آئے پہ بوال۔
”مجھے م یظور ہے۔ میں ان کی زندگی کا اب رشک نہیں لتبا جاہبا اور چنہ بو میری
ستنی تھی نہیں۔“ مبکس ئے نبا دپر کنے رنان کو مت نت خواب دنا جس پہ اس کے
لب مشکرا ا تھے۔
دنکھا۔
”آپ ئے علتبا کو میرے نارے میں کبا نبانا؟“ دامیر ئے انک دم خو نکنے
ہوئے بوچھا جس پہ وہ تقی میں سر ہالئے لگے۔
”اس ئے کجھ نہیں بوچھا۔ وہ نس اننی طت یغت کو لنے اموسبل ہو رہی تھی۔“
مبکس کے القاظ ستنے دامیر مشکرانا اور دروازہ کھولے اندر پڑھا۔
”کٹشا فبل کر رہی ہو؟“ دامیر کے شاتھ مبکس اور رنان کو اندر آئے دنکھ علتبا
ہلکا شا اتھی۔
”تم کون ہو؟“ علتبا ئے خواب د ننے کے نحائے شوال کبا۔ اتکل مبکس سے
اس کے نارے میں بوچھبا ناد ہی نہیں رہا تھا۔
”میں دامیر ہوں نمہارا ہزنتبڈ۔ نمہیں میں ناد نہیں؟“ دامیر کی نات پہ چہاں علتبا
چیران ہونی وہیں رنان کا منہ کھل گبا جبکہ مبکس شاک کی جالت میں اس کو دنکھنے
لگے۔
”میں ئے بوائے فرنبڈ کا کہا تھا پہ بو شوہر ین گبا ہے۔ مجھ سے آگے کا شوچ
کے نتتھا تھا۔“ رنان ئے مبکس کے فرنب ہوئے سرگوسی کی۔
م س
ج
”ہزنتبڈ! مجھے انشا کجھ تھی نہیں ناد۔“ علتبا ئے نا ھی سے مبکس کو دنکھا۔
دامیر ئے تھی انبا رخ ان کی طرف کبا اور اشارہ کبا جس پہ مبکس ئے انبات میں سر
ہالنا۔
”کجھ مہتنے نہلے کی نات ہے لبکن کونی نات نہیں میں نمہیں ناد دال دوں گا
آہشنہ آہشنہ۔“ دامیر ئے ا ننے لہچے میں نبار سموئے کہا اور اس کے نکھرے نالوں کو
کان کے ننجھے اڑشا۔
”میں آرام کرنا جاہنی ہوں۔“ وہ مدھم لہچے میں بولی بو دامیر خود اتھ کھڑا ہوا اور
اننی جلد نازی پہ خود کو کوشا۔
”دو گھت نوں میں قالنٹ ہے ہماری۔ نب نک آرام کرو۔“ دامیر مشکرا کے کہبا
ہوا کمرے سے ناہر جال آنا۔
اگر وہ ا ننے تفین سے کہہ رہا تھا کہ اس کا شوہر ہے وہ تھی اتکل مبکس کے
شا منے بو ہوشکبا تھا کہ پہ سچ ہو لبکن اتھی وہ ہوش میں آنی تھی۔ نجھلے نین شال کی
نانیں وہ تھول جکی تھی۔ جائے دامیر اس کی زندگی میں کٹسے آنا اور ان میں کتنی
ً
انسنت رہی تھی لبکن وہ فورا ہی اس کو فرنب نہیں کرنا جاہنی تھی اتھی۔ خود تھی
اس نات کا اتھی تفین کرنا جاہنی تھی کہ اس کی ن نوی تھی۔
”میں اننی جلدی کسی سے شادی کٹسے کر شکنی ہوں؟“ اس ئے خود سے
شوال کبا اور انبا ہاتھ آگے کبا۔ وہاں کونی رنگ نہیں تھی۔
”شاند انار دی ہو اس ئے خود۔“ اس ئے کہا اور نبک لگا کے نتم دراز ہو گنی۔
شادی والی نات ہضم کرنا مسکل تھی اس کے لنے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”تم ئے علتبا کو انبا ہزنتبڈ ہونا ک نوں نبانا؟“ اتکل مبکس ئے اس کے ناہر
آئے اس سے عصے سے سرخ ہوئے بوچھا۔
”بو کبا کہبا کہ میں نمہارا کئیر ہوں خو نمہارا گارڈ ین کے مافبا کے لوگوں سے
حقاظت کرنا ہے۔“ دامیر البا طیزپہ انداز میں بوال کہ وہ مبکس ئے کالی گہری تگاہوں
سے اس کو گھورا۔
”وہ فباد کے نارے میں جاننی ہے مجھے اس کو اعتماد میں لے کے فباد نک نہنجبا
ہے۔ چب نک اس کی ناداشت وانس نہیں آنی ہمیں اس موفع سے قاندہ اتھانا جا ہنے
ک نونکہ فباد کے نارے میں پہ آپ جا ننے ہیں اور پہ ہی چنہ۔“ دامیر ئے رنان کے
شا منے نتتھنے اننی نات کی وصاچت کی۔ اس کی نات ستنے اتکل مبکس بو جاموش ہو
گنے جبکہ رنان اس کو معنی چیز تگاہوں سے دنکھنے لگا۔
”میرے لنے بو پہ ناقانل ف نول ہو گا کہ تم لوگ انک لڑکی کا قاندہ اتھاؤ گے۔“
چنہ ئے اس کی نات پہ اغیراض اتھانا۔ دامیر ئے خوسمگیں تگاہوں سے دنکھا۔
”میں اس کا قاندہ نہیں ،جاالت کا قاندہ اتھا رہا ہوں۔“ دامیر ئے انک انک لقظ
جبا کے ناگوار لہچے میں کہا۔
”انک ہی نات ہے۔“ چنہ اس کی نات کا اپر لنے تغیر الپرواہی سے بولی۔
”تم اس کو انبا دوشت تھی نبا شکنے تھے۔ شوہر نبانا ضروری تھا۔“ مبکس ئے
تھوڑی دپر تغد تھر کہا۔
”کبا وہ دوشت کے شاتھ اس کے گھر میں ر ہنے پہ راضی ہو جانی۔۔ دوشت کہبا
نب تھی وہ آپ کے شاتھ جائے کی صد کرنی اس طرح میں اس کو پرونبکٹ پہ
کرنانا۔“ دامیر ئے مبکس کی آنکھوں میں دنکھنے جبا کے کہا۔
”نمہارے جبال میں علتبا کا انک تکلی شوہر کے شاتھ انک کمرے میں رہبا مجھے
م
ظمین کر دے گا؟“ مبکس ئے آئے والے عصے پہ نبا قابو نائے کہا۔ پہ نات دامیر
ئے تھی نہیں شوجی تھی۔ خود تھی وہ نذنذب کا شکار ہوا۔
”شادی کروا د ننے ہیں دوبوں کی۔ علتبا کو تھی تفین ہو جائے گا کہ دامیر اس
کا ہزنتبڈ ہے۔“ رنان ئے صوفے کی نشت سے نبک لگائے اننی تگاہیں چنہ پہ رکھنے
مسورے سے بوازہ۔ مبکس اور دامیر ئے انک دوسرے کو نبک وفت دنکھا۔
پہ مسورہ قانل غور تھا لبکن رنان جانبا تھا دامیر جلدی راضی نہیں ہو گا۔
”اس نارے میں شوجا جا شکبا ہے۔“ اتکل مبکس کو پہ موزوں لگا۔ جٹسے ان
کے کبدھوں سے تھوڑا بوچھ ہلکا ہوا ہو۔
”دامیر اس طرح علتبا کے شاتھ ہر وفت رہ شکبا ہے اور میں چنہ کے شاتھ۔۔“
رنان اب گہرا شانس تھرئے شکون تھرے لہچے میں بوال۔ ان کی نحث کے دوران انبا
نام ستنے چنہ ئے اچھتنے سے اتکل مبکس کو دنکھا۔
”مجھے ضرورت نہیں نمہاری۔۔۔“ ہمٹشہ کی طرح چنہ ئے انک انک لقظ عصے
سے جبائے ہوئے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭
ن
نلین میں آرامدہ بوزنشن میں اننی چئیر کو سنٹ کنے آ کھیں موندیں ہوئے تھی۔
اس سے اتھا نہیں جا رہا تھا لبکن نبک آف کی وجہ سے آنا پڑا۔ انک نار اتکل مبکس کو
کہا تھی کہ رک جائے ہیں لبکن وہ تھی نہیں مائے تھے ،دامیر اس کے شا منے ہی
سنٹ پہ نتتھا ا ننے لنپ ناپ پہ کجھ کام کر رہا تھا۔
چنہ نجھلے کنین میں جا کے آرام کر رہی تھی جبکہ اننی نانیں جانب نتتھے سحص
کی تگاہوں سے وہ نار نار نذنذب کا شکار ہو رہی تھی خو جائے اس کو کن تگاہوں سے
دنکھ رہا تھا۔
اس کی اتھی ہی آنکھ کھلی تھی نتھی طت یغت میں خڑخڑا ین غود آنا تھا ،اتھی اتکل
مبکس شاتھ نہیں تھے۔ علتبا ئے انک نار تھر اننی نانیں جانب دنکھا چہاں رنان اس
پہ و فقے و فقے سے تظر ڈال رہا تھا۔
چب سے وہ ہوش میں آنی تھی رنان سے انک نار تھی نات نہیں ہونی تھی لبکن
اس کے دنکھنے سے ہی اس کو وجشت سی ہوئے لگی۔ اس کی تگاہوں کا سرد ین
جٹسے مزند گہرا ہو رہا تھا ،آنکھوں میں چمک انسی تھی جٹسے اتھی اس پہ چملہ کر دے
گا ،نلونڈ نالوں کو نک ھیرا ہوا تھا۔
علتبا ئے انبا دھبان اس سے ہبانا جاہا اور دامیر کو دنکھا خو مشلشل ا ننے کام
میں مصروف تھا شاند اس ئے علتبا کے اتھنے کا تھی بونس نہیں لبا تھا۔ رنان کی
نانسنت اس کی آنکھوں کا اور نالوں کا رنگ تھورا تھا۔ دوبوں تھانی تھے نا دوشت اس
کو مغلوم نہیں تھا۔
ن ع ف ً
م ن
د عبا لتبا ہلکا شا کھا سی بو دامیر خو ک کے اس کی جانب نوجہ ہوا ،اس کو اتھا
دنکھ سرغت سے اس کے ناس آنا اور طت یغت بوچھنے لگا۔
”ہمارے شاتھ خو لڑکی ہے وہ کون ہے؟“ اننی جالت کا نبائے علتبا ئے چنہ
کے نارے میں بوچھا کہ دامیر کے شاتھ شاتھ رنان تھی خونک ا تھے کہ اس کو چنہ
کے نارے میں علم ہی نہیں تھا۔
”میری فبانسی۔۔!“ خواب دامیر کے نحائے رنان ئے دنا بو علتبا جاموش رہی۔
چنہ کا اس سے خو تھی رشنہ تھا وہ چنہ نا اتکل سے ہی نبا جلبا بو نہیر تھا۔
”نمہیں کجھ جا ہنے Love۔“ دامیر ئے اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھنے نبار سے
کہا جس پہ علتبا ئے مشکرائے کی شعی کرئے ہوئے تقی میں سر ہالنا۔
”نہیں میں تھبک ہوں نس سر میں درد ہو رہا ہے۔“ اس کے ہاتھ سے
تھ ک ن ن
نامحسوس انداز میں ھے ہوئے بولی بو دامیر ئے خود ہی ہاتھ نچ لبا۔
ج
ہن
”تم شوئے کی کوشش کرو ،ہم نس نے والے یں۔“ وہ پرمی سے بوال جانبا
ہ جن
تھا کہ اتھی وہ تکل یف میں تھی اور اننی جلدی شفر کرئے کی اجازت تھی پہ تھی لبکن
گرنس سے فوری تکلبا تھی انک مج نوری تھی۔ وہ نبڈ سنٹ پہ موخود تھی ،آرام سے وہ نتم
دراز ہو شکنی تھی۔
اس کی کمر کے شاتھ شاتھ کبدھے میں شدند درد کی تھٹس اتھبا سروع ہو جکی
تھیں۔ مشلشل نتتھے ر ہنے والے انداز کی وجہ سے اس کے ناؤں میں شوزش تھی واصح
ہوئے لگی۔
نلین لتبڈ ہوئے ہی چنہ ا ننے کنین سے ناہر آنی چب دامیر کو علتبا کو اتھائے
کی کوشش کرئے دنکھا۔ چنہ ئے انک اجنی تگاہ رنان پہ ڈالی پہ تھر دامیر پہ۔
”میں اس کو لے آؤں گی۔۔۔“علتبا درد میں تھی اور اتھی نس وہ کسی پرم جگہ
پہ جانا جاہنی تھی نتھی دامیر کے پڑ ھنے ہاتھ کو چھبک پہ شکی لبکن چنہ کی آواز پہ
چہاں علتبا نذات خود خونکی وہیں دامیر ئے ناگوار تگاہوں سے اس کو دنکھا۔
”میں انبا کام کر شکبا ہوں ۔“ دامیر ئے جبائے ہوئے پہ القاظ ادا کنے کہ چنہ
ئے دانباں آپرو سبانسی انداز میں اوپر کبا
دامیر اب نہت اجتباط سے علتبا کو ا ننے نازوؤں میں اتھا رہا تھا۔ نلین کے ز ننے
اپرئے ہی شا منے گاڑی کھڑی تھی ،دامیر ئے اس کو اجتباط سے نجھلی سنٹ کی
طرف نتم دراز کبا اور خود تھی شاتھ نتتھ گبا۔
تن
چنہ ناجا ہنے ہوئے تھی ان لوگوں کے شاتھ نبدھی ھی ھی اور اکباہٹ ھرے
ت ت ت
ن
انداز میں فرنٹ سنٹ پہ تتھی۔
رنان گاڑی ڈران نو کر رہا تھا نہاں سے نانچ منٹ کا رشنہ ہی تھا بو علتبا کو زنادہ
مسکل نہیں ہونی تھی لبکن اس وفت وہ خود کو ئےنس محسوس کر نارہی تھی جس
کے ناس کونی اور جارہ نہیں تھا۔
ن
”گھر ہنجنے ہی نس آرام کرنا ہے نمہیں،نس تھوڑا شا صیر کر لو۔“ علتبا کے
چہرے پہ تکل یف کے آنار دنکھنے ہوئے دامیر ئے اس کو نبار تھرے لہچے میں کہا کہ
رنان ئے نبک وبو مرر سے اس کا عکس دنکھنے ل نوں پہ معنی چیز مشکراہٹ اچھالی۔
ن
مین گنٹ نک ہنجنے ہی ڈرنک انک وہبل چئیر کو گھسنتبا ہوا آنا ک نونکہ اس کو
اطالع مل جکی تھی شارے وا فعے کی اور پہ تھی مغلوم تھا کہ اب علتبا دامیر کی ن نوی
ہے اور انشا طاہر کرنا تھی مج نوری تھا۔
ڈرنک ئے علتبا کا جال اخوال بوچھا۔ چنہ ئے نبا کسی کی پرواہ کنے خود ہی علتبا
کو سہارہ د ننے اس کو چئیر پہ نتھانا۔
”کوشش کرو کہ دوسروں پہ بوچھ کم ہی ین ناؤ۔“ چنہ اس کے شاتھ جلنی ہونی
م س
بولی۔ وہ اس پہ طیز کر رہی تھی نا پرس کھا رہی تھی علتبا تھبک سے ھی ہیں ھی۔
ت ن ج
لبکن اس کا انداز عام شا تھا۔ آدھے سے زنادہ وزن علتبا ئے چنہ پہ ہی چھوڑا تھا الننہ
دوسری طرف دامیر تھی شاتھ تھا۔
دل ما ننے کو نبار نہیں اتھی۔ مجھے وفت جا ہنے اس شب کو ف نول کرئے میں۔ بو میں
جاہنی ہوں کہ شب کے شاتھ گھل مل جاؤں انک نانڈنگ ین جائے انک دوسرے کو
چ
جا ننے کا موفع دیں ہم اور۔۔۔ اس شب کو وفت لگے گا۔“ علتبا ئے ھجھکنے ہوئے
کجھ خزپز ہوئے اننی نات کہی جس پہ دامیر کجھ نل جاموش رہا۔ اس کے ا نسے جاموش
ہوئے پہ علتبا خوف سے دنکھنے لگی ک نونکہ اس کے چہرے پہ کونی ناپر نہیں تھا۔
”میں سمجھ شکبا ہوں نمہارے لنے پہ شب انک ننی سروعات ہے۔۔ تھبک ہے
جٹشا تم جاہو۔“ دامیر ئے پروفت عحلت دکھائے کے نحائے اس کی نات پہ رصامبدی
طاہر کی کہ کہیں وہ اس ر سنے کو لے کے شک میں پہ جلی جائے۔
انک پرشکون مشکراہٹ ئے علتبا کے ل نوں کو چھوا جس کو دامیر ئے تغور دنکھا۔
اس کا ہونٹ کا انک کبارہ تھبا تھا اور دانیں جانب رجشار پہ نبل نبا تھا۔
لبکن اس کی مشکراہٹ ئے اس چہرے کو مزند جسین نبانا تھا۔ دامیر کی
آنکھوں کی چمک ندلی بو اجشاس ہوئے ہی اس ئے گال کھبکھا لنے ہوئے علتبا کو سہارہ
دنا۔
”تم ہمارے نبڈروم کے شاتھ والے کمرے میں رہ شکنی ہو میں نمہارا شامان
وہاں سنٹ کروا د نبا ہوں کجھ۔۔“ دامیر ئے اس کا شارا وزن خود پہ لبا اور کمرے کی
جانب پڑھا۔ اس کو وہ نازوؤں میں نہیں اتھا شکبا تھا ک نونکہ اس کی نشلی میں تکل یف
اتھ جانی۔۔
کمرہ دوسرے کمروں جتبا ہی کشادہ تھا۔ دامیر ئے اس کو نبڈ پہ لنتنے میں مدد
دی اور پرمی سے اس کے نبل زدہ رجشار کو چھوا۔۔ علتبا انک نل کو گ ھیرا گنی تھر
ستتھل کے مشکرائے کی شعی کی۔
”رنشٹ کرو ،کسی چیز کی تھی ضرورت ہونی بو پہ پرنس کر د نبا اوکے۔“ پرم لہحہ
ر کھے دامیر ئے شانبڈ نتبل پہ پڑے انک پزر کی جانب اشارہ کبا۔
علتبا کے سر ہالئے پہ دامیر کمرے کی النٹ مدھم کرنا ہوا ناہر تکل آنا۔ چب وہ
الؤنج اپرنا میں آنا بو رنان نہلے سے موخود تھا ،نی سرٹ اور پراؤزر میں فرنش شا۔
”دوسرے روم میں!“ رنان ئے آپرو احکائے بوچھا۔
”ہاں! وہ اس شب کو پراشس کرئے میں وفت جاہنی ہے۔ منتبلی سنتبل ہو
جائے تھر انک روم سئیر کریں گے ہم۔“ دامیر ئے گہرا شانس لتنے ہوئے کہا۔
”نبا شادی کے۔۔۔؟“ رنان ئے مسبلہ اتھانا جس پہ دامیر جاموش ہوا۔ اگر ان
کو انک شاتھ رہبا تھا اور علتبا کو شادی کا تفین تھی دالنا تھا بو وہ انک کبل ہوئے
کے نبا کٹسے کر شکبا تھا۔ وہ اس کے شاتھ اکبلے روم میں ،اتکل مبکس اس نات پہ
پہ ہونی۔
”علتبا کو بو اتھی تفین نہیں ہے اننی شادی کا بو ک نوں نا انک ونڈنبگ رنسنٹشن
ظتک ت م
رکھا جائے۔ شادی! علتبا اور ا ل ھی ین ہو جا یں گے اور وہ اس ھر یں
م گ ن م
ہمارے شاتھ رہ تھی شکے گی۔“ دامیر ئے نیزی سے شو جنے انک جل تکاال خو قانل غور
تھا۔
”اور پہ انک کانیرنکٹ کے طور پہ ہو گی نا تم اس شادی کو نتھاؤ گے۔۔؟“
رنان ئے معنی چیز مشکراہٹ لنے دامیر سے بوچھا جس کی آنکھوں میں چمک اتھری۔
”نمہیں کبا لگبا ہے؟“ دامیر ئے شاطر مسکان لنے اس کو دنکھا۔
”تفرت کو مجنت میں ند لنے کا موفع اس سے اچھا نہیں ملے گا مجھے۔۔ پرنسس
اننی ناداشت کی وجہ سے شاری زندگی میرے شاتھ گزارئے والی ہے۔“ دامیر ئے ہ نوز
اسی مشکراہٹ سے کہا بو رنان ہلکا شا ہٹس دنا۔
”نہت جلدی شوچ لبا ہے۔۔“ رنان ئے سراہبا ضروری سمجھا ک نونکہ وہ شادی
ُ
ق ع
کبا غورت کے نام سے دور ر ہنے واال تھا کہ اس وجہ سے رنان سے لت پہ پرت لے
لبکن اس ئے اب اننی زندگی کا تھی ف یصلہ لبا تھا بو رنان خوش تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شام میں اتکل مبکس کے آئے پہ دامیر ئے اننی نات کہی۔ اتکل مبکس ئے
ناری ناری نت نوں کے چہرے د نکھے۔
”نئیر دین فبک میرج۔“ (چھونی شادی کے نانک سے بو اچھا ہی ہے)
ع ت ت م ظ ت م
چنہ ھوڑا ین ظر آنی بو اس ئے کبدھے احکائے ہوئے کہا کہ وہ ھی لتبا
کے نبا کسی ر سنے کے دامیر کے شاتھ ر ہنے پہ راضی پہ ہونی۔
”علتبا کا اس نارے میں کبا جبال ہے؟“ وہ نتم رصامبد تھے۔
”میرے اس ف یصلے کا علم نہیں اس کو لبکن وہ وفت جاہنی ہے شب ف نول
کرئے کے لنے ،گٹشٹ روم میں رہے گی ۔ میں ئے کونی اغیراض نہیں کبا۔ اس
کے لنے پہ تھبک تھی رہے گا۔“ دامیر ئے سنجبدگی سے کہا بو وہ سر ہال گنے۔
”اس نارے میں خود نات کروں گا میں علتبا سے۔۔ چنہ تم اس کو ک یفرٹ
کرئے کی کوشش کرو ناکہ وہ اکبلی محسوس پہ کرے۔“ اتکل مبکس بولے بو شب
ئے نانبدی انداز میں سر ہالنا ک نونکہ علتبا کے لنے اس وفت شب سے زنادہ تھروسے
مبد اتکل مبکس ہی تھے جن کو وہ نہحاننی تھی۔
”تم بو میری فبانسی ہو ،میرے شاتھ ر ہنے میں کونی مسبلہ بو نہیں۔“ چنہ کنچن
میں خود کے لنے کاقی نبائے گنی تھی چب رنان ئے اس کے ننجھے جائے سرگوسی
میں کہا۔
”مانی فٹ۔۔“ وہ عرانی جس پہ وہ مبہم شا مشکرانا۔
”قکر نہیں کرو ،شکون سے ہی رہ شکو گی۔۔ کونی زور زپردسنی تھوڑی ہے۔۔“
ً
اس کی زومعنی نات پہ چنہ ئے انک شلگنی تگاہ اس پہ ڈالی اور فورا سے نٹسیر کجھ شوچ
لبا۔
خو اس ئے شوجا اگلے ہی نل اس ئے وہ کہہ تھی دنا۔
”اتکل مبکس مجھے ماشکو جانا ہے۔۔۔ کجھ ضروری کام ہیں بو رک نہیں شکنی۔
اننی قالن نٹ میں آج رات نک نک کروا لوں گی۔“ چنہ ئے کاقی کا گھونٹ تھرئے
رنان کے اندر کرواہٹ مت یقل کی جس پہ وہ شلگ کے رہ گبا۔ ا ننے ناپرات سباٹ
نبائے اس ئے نبا کجھ کہے اننی تگاہیں نس چنہ پہ چمانی رکھیں۔
”میں نمہیں اتھی کسی تھی چیز کی اجازت نہیں د ننے واال۔۔ شب مغامالت
سے تم ناچیر ہو۔ چب نک تم اور رنان انک ر سنے میں خڑ نہیں جائے تم اس منٹشن
سے کہیں نہیں جاؤ گی۔“ اتکل مبکس ئے نبا اس کے ضروری کام کو جا ننے کی
کوشش کنے سرد نتھر نلے لہچے میں کہا کہ وہ نہلو ندل کے رہ گنی۔
”میں اجازت نہیں لے رہی نبا رہی ہوں۔“ علتبا ئے ناگوار لہچے میں کہا جس پہ
اتکل مبکس ئے انک سحت تگاہ اس پہ ڈالی۔
”میں نمہیں جکم دے رہا ہوں۔ چنہ کے تھبک ہوئے سے نہلے اور رنان کے
تھ نجت
تغیر کہیں نہیں جاؤ گی تم۔۔“ انہوں ئے انل لہچے میں کہا جس پہ چنہ لب نی رہ
گنی۔
پہ بو وہ جاننی تھی کہ اس کی شادی پزنس االننٹس پہ ہو گی لبکن کجھ بو اس کی
خود کی تھی مرضی شامل ہونی جا ہنے تھی اور اننی اجانک وہ کٹسے شب ہضم کرنی۔۔
رنان اور دامیر کے ناپرات میں کونی فرق نہیں آنا تھا وہ ہ نوز التغلق ہوکے سباٹ
انداز میں نتتھے تھے۔
”قاین۔۔“ اس ئے دانت نٹسنے کہا۔
چنہ متھباں تھتنچے انبا کپ اتھائے وہاں سے اتھی اور ناہر گارڈن اپرنا کی طرف
جلی آنی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کاقی دپر وہ ا نسے ہی گارڈن میں جکر لگانی ہونی ا ننے کام کے نارے میں شوچ
رہی تھی۔ ا ننے دبوں سے اس کا لبام سے راتطہ تھی نہیں تھا اور اس کی طرف اتھی
جائے سے تھی اتکل مبکس ئے م یع کر دنا تھا۔
شوئے سے نہلے اس ئے لبام سے نات کرئے کا ارادہ کبا۔
اتھی وہ اننی شوخوں میں ہی محو تھی چب اس ئے کسی کی آہٹ محسوس کی۔
غیر م نوفع طور پہ پہ دامیر تھا۔
”کٹشا لگ رہا ہے نہاں آکے؟“ دامیر ئے تگاہیں شا منے ہی رکھی تھیں۔
”طیز کر رہے ہو نا جگہ کی تعرتف ستبا جا ہنے ہو؟“ چنہ ئے تھی اس کی جانب
د نکھے تغیر کہا ،خواب کے نحائے شوال پہ دامیر ہلکا شا مشکرانا۔
”میں ئے نمہارا بوچھا ہے۔۔“ مشکراہٹ عانب تھی اب ،وہیں سرد ناپرات واصح
ہو گنے تھے۔
”فبدی شا لگ رہا ہے جس کی زندگی کو مزند گ ھین زدہ نبائے کے لنے انک عدد
انشان دنا جا رہا ہے۔“ چنہ ئے کھل کے ا ننے جباالت کا اظہار کبا جس پہ دامیر ہٹس
دنا۔ اس کی ہٹسی تھی عام نہیں تھی۔ جٹسے کونی حظرناک عزم لنے ہٹسبا ہو۔
”رنان نمہیں خوش ر کھے گا۔۔ وہ loyalہے ،دھوکا د ننے والوں میں سے
نہیں۔“ دامیر ئے سنجبدگی سے کہا۔
”اسے انشا ہونا تھی جا ہنے۔۔۔“ اب کہ چنہ کے لہچے میں دھمکی شامل تھی کہ
دامیر اننی امڈ آئے والی مشکراہٹ کو روک پہ نانا۔
”مجھے نمہاری مدد جا ہنے تھی۔۔“ کجھ بوفف کے تغد دامیر ئے گال کھبکھا لنے کہا۔
چنہ ئے اس کو تعحب سے دنکھا کہ وہ کٹسی مدد کر شکنی تھی۔
”علتبا اب نہی رہے گی ہمارے شاتھ بو مجھے اس کے لنے شارا شامان جا ہنے ہو
گا ،اس میں نمہاری مدد کی ضرورت پڑے گی مجھے۔ تم اس کو جاننی ہو شاتھ تھی رہی
ہو گی بو نمہیں اندازہ ہو گا اس کی نسبد پہ نسبد کا۔۔“ دامیر ئے اننی نات کی وصاچت
کی کہ چنہ ئے سر ہالنا۔
”نسبد بو جاننی ہوں اور نانسبد کو بو میں نہت ا چھے سے جاننی ہوں جس کی
سرقہرشت میں تم ناپ پہ ہو۔۔“ چنہ کا انداز نمسجر اڑانا ہوا تھا کہ دامیر کے ما تھے پہ
نل نمودار ہوئے۔
”وہ میرا مغاملہ ہے اسے میں ہتبڈل کر لوں گا۔“ اس کا لہحہ نل میں ندال تھا۔
”قلحال تم مجھے نبا دو کہ کب جل شکنی ناکہ میں انبا سبڈبول رنڈی رکھوں۔“
دامیر ئے سر چھبکنے ہوئے کہا۔
”چہاں نک میرا جبال ہے آر ڈی کتھی کسی غورت پہ زپردسنی نہیں کرئے
لبکن نہاں دوبوں طرف مجھے انشا ہی لگ رہا ہے۔ نا شاند میں ئے علط شن رکھا ہو۔“
دامیر وانس جائے کو تھا چب چنہ کی آواز ئے اس کے قدم روک لنے۔
” تم دوبوں غیر نہیں ہو ،ہم زپردسنی نہیں کر رہے۔ ہم نس تم دوبوں کی
سیقنی جا ہنے ہیں۔“ دامیر ئے کبدھے احکائے جس پہ چنہ نمسجراپہ ہٹس دی۔
”اور اس ڈارک ورلڈ میں جس کو انبا کہہ دنا اس کو انبا نبا لبا۔“ دامیر ئے پرفبلے
انداز میں ا ننے القاظ سے اس کو نہت کجھ جبا دنا۔
چنہ جاننی تھی پہ نات ضرف ان چملوں پر ہی نہیں تھی وہ ا نسے ہی تھے۔ مافبا
کی اس کالی دنبا میں ا ننے القاظ سے تھرنا موت کو گلے لگانا تھا۔ چہاں پہ دوبوں ر ہنے
تھے وہاں گارڈز کی تھی ضرورت نہیں تھی ک نونکہ ان کے عالفے میں کونی تھی آئے
کی علطی نہیں کرنا تھا۔ شب سے ناپ پہ ر ہنے والے اشاشن اور قانل پرین کئیر مائے
جائے تھے۔ کراؤنڈ ہبڈ اکبڈمی میں ان کے نبائے گنے رتکارڈز اتھی نک کسی ئے
نہیں بوڑے تھے۔
چنہ ئے مڑئے دامیر کو اندر جائے ہوئے دنکھا ،اس کی جال میں تھی انک
رغب تھا کجھ فنح کرئے کا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلی صنح نا سنے کے تغد علتبا کی نتبد سے آنکھ کھلی بو مبکس ئے اتھی نات کرنا
مباشب سمجھا۔ وہ مزند نہاں تھہر تھی نہیں شکنے تھے ک نونکہ ان کے ا ننے کام نہت
نتبڈنگ تھے۔
تطاہر بو علتبا ئے کونی شدند ردعمل طاہر نہیں کبا تھا لبکن اس کی آنکھوں میں
الجھن ضرور در آنی تھی۔
”چنہ اور رنان کی تھی ونڈنگ نلین ہونی ہے بو شوچ رہا ہوں اس سے نہلے نمہارا
اور دامیر کا مغاملہ جل ہو جائے ناکہ تم دوبوں اننی نارمل رونین کی طرف آؤ۔“ اتکل
مبکس ئے ننے نلے انداز میں اس کو سمجھانا جس پہ وہ جاموسی سے ستنی رہی۔
”تھبک ہے لبکن۔۔۔“ علتبا کو سمجھ پہ آنا کہ وہ کٹسے اننی الجھن نبائے۔
”نمہیں کونی تھی کسی چیز پہ زنادہ فورس نہیں کرے گا۔ انبا وفت لو اور ا چھے
س
سے صحت نباؤ اننی دامیر تھی نمہارا جبال ر کھے گا۔“ علتبا کی ادھوری نات پہ وہ ھنے
جم
ہوئے بولے کہ علتبا ئے انک پرشکون شانس جارج کی۔
”اتکل انک نات بوچھنی تھی۔۔۔“ چب مبکس وہاں سے اتھ کے جائے لگیں بو
علتبا ئے ان کو چ ھحک کے تکارا کہ اسبہقامنہ تظروں سے دنکھنے رک گنے۔
”ہاں بوچھو۔۔“
”دامیر۔۔۔ دامیر کٹشا لڑکا ہے میرا مطلب کہ میں ئے اس سے اننی جلدی
شادی کٹسے کر لی چہاں نک مجھے خود کا نبا ہے میں انسی لڑکی بو نہیں تھی خو کسی
سے تھی مباپر ہوکے جلدی شادی کا ف یصلہ کر لتنی۔“ علتبا ئے دل میں آنا ہوا
شوال بوچھ ہی لبا جس پہ اتکل مبکس ہلکا شا ہٹس د ننے اب وہ اس کو ناد کروائے کہ
جس سے وہ تفرت کرنی تھی پہ اسی نبدے کا کمال تھا بو ضرور وہ ا ننے خواس کھو
ت ھ ت تن
نی ھی۔
”دامیر اچھا لڑکا ہے ،میں اس کو نہت عرصے سے جانبا ہوں۔ میرے زر تعے
ہی تم لوگوں کی مالقات ہونی تھی۔ شادی کا ف یصلہ تم دوبوں کا تھا اور تم دوبوں انک
نہیرین کبل کی طرح ر ہنے تھے۔۔“ اتکل مبکس ئے اس کی رجشار کو پرمی سے
تھتتھبائے ہوئے کہا اور آرام کی نلفین کرئے ناہر آ گنے۔
دامیر کے اس قدم کی وجہ سے ان کو پہ قاندہ تھا وہ چنہ اور علتبا کی طرف سے
تھوڑے پرشکون ہوجائے۔ ان دوبوں پہ چملہ کرئے سے نہلے کونی دس نار بو شوجبا کہ
وہ آر ڈی کے ناس تھیں۔ ضرف ناس نہیں وہ اب اِ ن کی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
میرج نئیرز شاین کرئے کے تغد تھی دامیر کے ناپرات میں کونی فرق نہیں پڑا
تھا۔ وہ و نسے ہی سنجبدہ تھا۔
علتبا اس کے ناپرات سے اندازہ پہ لگا نانی کہ شاند وہ حقا تھا خو اِ س ئے ان کی
شادی پہ تفین نہیں کبا تھا اور دونارہ اس پروسنجر سے گزرنا پڑا۔
شب کے چہروں پہ مشکراہٹ تھی اور کونی رسمی نہیں ہوا تقاعدہ ان کو مباں
ن نوی کے ر سنے میں ناندھا گبا تھا۔
”سبلبکشن میری ہونی تھی نہلے لبکن نمیر تم لے گنے۔“ رنان ئے دامیر کو
مبارک د ننے ہوئے معنی چیز سے کہا کہ وہ ہلکا شا ہٹس دنا۔
”عزم مضنوط ہونا جا ہنے۔۔“ دامیر ئے کہنے انک آنکھ دنانی۔ آج ڈپر کے تغد
اتکل مبکس ئے نہاں سے جلے جانا تھا اور انک مہتنے کے اندر اندر رنان اور چنہ کی
شادی کی تھی نباری کرنی تھی۔ ان کا ارادہ تھا کہ نتھی ان سے مٹشلک لوگوں کو علم
ہو جائے گا کہ علتبا اب دامیر کی ن نوی تھی۔
”آنی تھبک ہمیں ننے کبل کو تھوڑی پرابوسی د ننی جا ہنے۔“ چنہ ئے انک
سرارنی تظر علتبا پہ ڈا لنے ہوئے خو محض مشکرا شکی۔
رنان دامیر کے کان میں سرگوسی سے کجھ بوال جس پہ دامیر ئے گھورنا مباشب
سمجھا اور ناری ناری ان کو مبارک د ننے وہ لوگ کمرے سے تکل گنے۔
ن
علتبا اس وفت نبڈ پہ نبک لگائے تتھی تھی اس کے ہاتھ گود میں دھرے
تھے۔ دامیر پرمی سے مشکرائے ہوئے اس کے پراپر نتتھا۔
”اب تم کٹشا فبل کر رہی ہو۔۔؟“ وہ م یقکر لہچے میں بوال علتبا ئے ہلکے سے سر
ہالنا۔ دامیر ئے اس کے گود میں دھرے ہاتھ کو ا ننے ہاتھ میں لبا۔
”کاقی نازک ہے۔۔“ دامیر میں اس کے ہاتھ تھامے دل میں شوجا۔
”نہلے سے نہیر ہے۔۔“ علتبا ئے تظریں اس کے ہاتھ پہ رکھیں تھر کہبا سروع
کبا۔
”کبا تم حقا ہو مجھ سے۔۔؟“ اس کے شوال پہ دامیر کے چہرے پہ نل واصح
ہوئے۔
”شاند میں ئے تفین پہ کر کے دونارہ شادی کرئے کو کہا اس وجہ سے۔“ اس
م
کی تگاہوں میں شوال پڑ ھنے علتبا ئے اننی نات کمل کی کہ دامیر ہٹس دنا۔
”او شو ننی۔۔ میں ک نوں ناراض ہوئے لگا اس نات پہ۔“ دامیر ئے آگے ہوئے
اس کے ما تھے کو ل نوں سے چھوا کہ اس کے طرز نحاظب کے شاتھ اس کے لمس
سے تھی وہ چھت نپ گنی۔
”اس میں میرا ہی قاندہ ہوا ہے۔“ دامیر ہلکی سی آواز میں پڑپڑانا کہ علتبا ئے
جم س
نا ھی سے دنکھا۔
”ہماری میرج التف اور اسیرانگ ہو جائے ،آنی مین مجھے نمہیں ڈنل نبار کرئے
کا سرن یقبکنٹ مل گبا ہے۔۔“ علتبا کے رجشار پہ ہاتھ رکھنے ہوئے اس ئے سرارت
سے کہا کہ اس کے چہرے پہ ہلکی سی سرجی چھائے لگی جبکہ اننی اس ج نپ سی
نات پہ دامیر خود چحل شا ہو گبا۔
”پہ نمہاری ونڈنگ رنگ تھی اب دونارہ نہبا رہا ہوں اس موفع پہ۔ نہلے ہی د ننے
کا ارادہ تھا تھر شوجا کہ چب انک نار تھر ہم ر سنے میں نبدھ رہے ہیں بو نب ہی دوں
گا۔“ دامیر ئے ناکٹ سے انک ناکس تکالے اس میں سے پرنسس کٹ ڈانمبڈ رنگ لتنے
اس کی اتگلی میں نہبانی۔
علتبا کے تھی زہن میں پہ شوال تھا کہ اگر وہ شادی شدہ تھی بو اس کی رنگ
کہاں تھی۔ اب ہاتھ میں نہنی انگھونی کو دنکھنے وہ سبانسی انداز میں مشکرانی تھی۔
”میں کھانا نبار کرنا ہوں نب نک تم آرام کرو۔“ اتھنے سے نہلے دامیر ئے چھک
کے اس کی گردن پہ بوسہ دنا کہ علتبا شاکت ہو گنی۔
گہرا شانس تھرئے اس ئے خود کو رنلبکس کبا کہ وہ اس کا ہزنتبڈ تھا اور
ناداشت جائے سے نہلے ضرور وہ کلوز ہو نگے انک دوسرے سے۔
دامیر ئے اس کے لنے رنگ اتھی لی تھی ،چنہ کے شاتھ جائے ناقی کا تھی
ضروری شامان لے آنا تھا کجھ اس کی اسیعمال میں موخود چیزیں نہلے سے ہی نبگ
میں موخود تھیں بو دامیر کو اننی مسکل کا شامبا نہیں کرنا پڑا تھا۔
دامیر کے جائے کے تغد علتبا ہاتھ میں نہنے پرنسس کٹ ڈانمبڈ کو دنکھنے لگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
”آج رات کا کونی نلین ہے؟“ دامیر کنچن کاؤنیر پہ چیزیں تکال کے رکھ رہا تھا
چب رنان ئے کاؤنیر کی دوسری جانب موخود سنول پہ نتتھنے عام سے انداز میں بوچھا۔
ب ت تم ن
چنہ کو نہاں کام کرئے کو ملبا نہیں تھا بو لو نبگ اپرنا یں ھی ل سرچ
تج
ن
کرنی رہنی تھی۔ رنان کا شوال اس کی سماغت نک تھی ہنچ حکا تھا۔
”نہیں ک نوں؟“ دامیر ئے انک تظر اس کو دنکھا تھر انبا کام کرئے لگا۔ کھانا
دامیر خود ہی نبانا تھا ،کسی دوسرے کے ہاتھ کے ننے کھائے کا وہ عادی نہیں تھا
اور پہ ہی رنان۔۔ کہیں جائے پہ تھی دامیر اس نات کا جبال رکھبا تھا کہ وہ اننی
نگرانی میں شب کام د نکھے۔
”شادی کی نہلی رات ہے نا۔۔“ رنان کی معنی چیز پہ نات پہ دامیر ئے سرد
ن
تگاہوں سے اس کو گھورا جبکہ چنہ ئے آ کھیں گھمانیں وہ اسی طرح کی گھتبا نات کی
امبد رکھنی تھی اس سے۔ رنان ہٹسبا ہوا سبکورنی روم کی طرف پڑھ گبا چہاں اس کو انبا
کام دنکھبا تھا۔
کن
جائے سے نہلے اس ئے چنہ کو د نے اسے ھیڑا۔
چ ھ
” ہنے ملٹسکا!“
ش ہب م َ
”شٹ اپ۔۔“ وہ ناگواری سے اس کو بولی جس پہ وہ م شا م کرانا وہاں سے
جال گبا۔
کھانا نبار کرئے چنہ تھی کنچن میں آگنی کہ وہ تھوڑی سی ہبلپ کر دے ،دامیر
ئے اغیراض نہیں کبا تھا الننہ اس کا دھبان رنان کی نات سے ہونا علتبا کی طرف
جال گبا تھا۔
انک ر سنے میں نبد ھنے کے ناوخود اتھی علتبا کو وفت جا ہنے تھا انبا مانتبڈ نبائے
میں اسی لنے دامیر اس کو انک کمرے میں ر ہنے پہ مج نور نہیں کرئے واال تھا۔ اور اگر
وہ تھبک اور خواس میں ہونی نب تھی وہ شادی کے تغد کسی صورت دامیر کے شاتھ
انک کمرے میں پہ رہنی۔
اتھی دامیر پہ امبد کنے ہوئے تھا کہ اس کا علتبا کو اننی زندگی میں شامل
کرئے کا ف یصل علط پہ ہو اور پہ ہی اس کا کونی رنان پہ فرق پڑے۔
پہ بو ان کو نب نبا جال جلبا چب وہ لوگ انبا پرنک جتم کرئے۔۔
٭٭٭٭٭٭
دروازہ کھولے چب روم میں داجل ہونی بو وہ سمٹ کے پڑی تھی۔ کمرے کی
الننٹس جل رہی ت ھیں اس کو دنکھنے ہی وہ اتھنے کی کوشش کرئے لگی۔
”رنلبکس ،اتھو نہیں۔“ چنہ ئے پرم لہچے میں کہا۔ اس وفت وہ خود تھی نی
سرٹ اور پراؤزر میں مل نوس تھی۔ رات کے دو نج رہے تھے اور اتھی نک علتبا شونی
نہیں تھی۔
”شونی نہیں اتھی نک۔۔۔“ چنہ کہنے ہوئے شا منے کاؤچ پہ نتتھ گنی خو نبڈ کے
شانبڈ پہ دبوار کے شاتھ سنٹ تھا۔
”شاند دن میں شو گنی تھی نتھی۔“ علتبا ئے مشکرائے کی شعی کی۔ دامیر ڈپر
کے تغد اس کے ناس تھوڑی دپر نتتھا تھا تھر کسی کام کا کہہ جال گبا تھا۔ اس کو لگا
کہ شاند وہ شوئے سے نہلے آج تھر اس کو جبک کر کے جائے گا لبکن وہ نہیں آنا
تھا۔
”کل تھی تم نہیں شونی تھیں کبا کونی تکل یف ہو رہی ہے۔ اگر کونی مسبلہ
ہے بو نباؤ۔“ چنہ کی آنکھوں میں انبان نت تھی۔ انک لمحہ چنہ شوچ میں پڑ گنی۔
”نہیں نس ا نسے ہی ننی جگہ ہے شاند۔۔“ اتھی تھی اس ئے نا لنے کی
کوشش کی خو چنہ جاننی تھی۔
”کٹشا فبل کر رہی ہو انک فتملی کے شاتھ ہو کے۔۔“ چنہ ئے تھی اس کا
دھبان ہبا دنا لبکن علتبا وہیں کی وہیں تھی خو وہ شوچ رہی تھی۔
”فتملی! نہلے ضرف اتکل تھے جن سے مہتنے میں انک نار مالقات ہونی تھی اور
اب انک ہزنتبڈ ہے ،تم ہو اور نمہارا فبانسی تھی ہے بو شاند اب نہیر محسوس کروں۔“
علتبا ئے ہلکی مشکراہٹ سے کہا۔
”کبا شوچ رہی تھی۔ نتبد ک نوں ڈسیرب ہے نمہاری؟“ چنہ اس کے فرنب جلی
آنی۔ علتبا شانبڈ کروٹ لنے لتنی تھی۔ چنہ کے نتتھنے پہ وہ سبدھی چت لنٹ گنی۔
”مجھے کجھ تھی ناد نہیں ،کونی ہمارا اچھا مومت نٹ۔۔ نس انبا ناد ہے کہ میں
شوپزرلتبڈ میں تھی اور کجھ آدمی میرے ننجھے تھے۔ دونارہ چب آنکھ کھلی بو دنبا ہی الٹ
گنی ہے ا نسے میں کبا کروں میں۔“ علتبا ئے گہرا شانس تھر کے کہا۔ چنہ ئے اس
کے ستنے پہ دھرے ہاتھ پہ انبا ہاتھ رکھا۔
”تم اب تھبک ہو اور ا چھے لوگوں کے شاتھ ہو ،خو تھی پرانی ناد ہے تھول
جاؤ۔“ چنہ ئے اس کو پرشکون رکھبا جاہا ک نونکہ اس فباد والے نانک پہ دامیر خود نات
کرنا جاہبا تھا۔
”کبا تم میرے شاتھ شو شکنی ہو؟“ چنہ چب اس کا شب چیر کہہ کے جائے
لگی بو علتبا ئے چ ھحک کے تکارا۔
”مجھے اکبلے میں نتبد نہیں آرہی انک دو نار آنکھ لگی ہے بو ڈر سے اتھ جانی
ہوں۔“ چنہ ئے ناآلخر ا ننے پہ شوئے کی وجہ نبانی بو چنہ اس کو جاموش تگاہوں سے
دنکھنے لگی۔
کجھ شال اس کے شاتھ خو ہوا تھا وہ نہت کم جاننی تھی لبکن اس کو ک یفرم
نہیں تھا کہ علتبا کو کتنی نانیں ناد تھیں اور کتنی نہیں جس پہ وہ لوگ فباد کو جان
شکنے تھے اور وہ نانیں خو اتھی اس کو نبگ تھی کر رہی تھیں۔
جم س
”کونی نات نہیں اگر تم۔۔“ اس کی طونل جاموسی پہ علتبا ھی کہ وہ ہیں
ن
”میں تھبک ہوں ،مجھے خوصلہ ہو گا کہ میرے ناس کونی ہے تم ادھر ناس ہی
رہو۔“ علتبا مشکور ہونی بولی۔
جس وا فعے کو مبکس ئے اس کے زہن سے تکلوا دنا تھا وہ اب تھی نازہ تھا اور
شاند اس کو ہانٹ کرنا تھا جس کی وجہ سے وہ پرے خوابوں کے ننچ تھٹس گنی تھی۔
شو رہی ہونی بو انشا لگبا کہ آدم نوں کا گروہ اس کے ننجھے ہے ،ڈر سے جاگنی بو مغلوم
ہونا کہ وہ ننے لوگوں میں آگنی ہے خو نالکل انحان تھے۔
وہ دو صورنحال کا شکار تھی ا نسے میں دماغ تھی شکون سے کجھ شوچ نہیں نا رہا
تھا۔
کش ہن ت تل ھ کع ن
لتبا آ یں نبد کر کے نی رہی ،ا ھی وہ چنہ کی جانب کروٹ یں کر نی
تھی ک نونکہ اسی شانبڈ پہ کبدھے پہ خوٹ تھی۔ زچم کو ت ھرئے میں وفت لگبا تھا۔
چب نک اس کے گہرے شانسوں کی مدھم آواز کمرے میں پہ گونچی نب نک چنہ
ئے خود تھی شوئے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ان کو نہاں آئے دو دن ہی ہوئے
تھے اور علتبا نس دن میں تھبک سے شو نانی تھی ورپہ رات کی ئےخوانی چنہ ئے خود
گ م ن ت ن ش ت کن
ک
د ھی ھی ا کی ھی آج نبا الئے اس کے مرے یں آ نی۔
٭٭٭٭٭٭٭
رات کا جائے کون شا نہر تھا چب چنہ کی آنکھ دروازہ کھلنے کی آواز پہ کھلی،
ن ت ہن ن جم س
اس ئے نبا شوچے ھے ا نی گن تکالی خو لے ہی وہ شاتھ النی ھی اور آ کھ نحا کے
اننی شانبڈ پہ رکھ دی تھی۔
گن کو نکڑئے چب اس ئے شا منے دنکھبا بو دامیر الجھی تظروں سے چنہ کو دنکھ
رہا تھا۔ علتبا کے کمرے میں چنہ کا ہونا اس کے لنے غیر م نوفع تھا۔
وہ اتھی اتھی انک کام نتبا کے آنا تھا اور شب سے نہلے علتبا کو ہی دنکھبا جاہبا
تھا۔
”مجھے لگا کونی اور ہے۔۔“ چنہ ڈھبلے اعصاب سے بولی اور وانس گن کو شانبڈ
نتبل کے ننچے رکھا۔
”میں نس علتبا کوجبک کرئے آنا تھا۔۔ تھتبکس۔“ وہ جلبا ہوا علتبا کی شانبڈ پہ
آنا چہاں وہ شو رہی تھی۔ دامیر کا انبا جلنہ نبا رہا تھا کہ وہ کس کام سے وانس آنا تھا۔
اس کی نت نٹ پہ منی لگی تھی اور سرٹ کے نازوؤں پہ تھی جٹسے وہ کسی جگہ ن نٹ
کے نل لتبا تھا۔
”میں جلبا ہوں۔۔“ ارادہ بو اس کا ر کنے کا ہی تھا لبکن چنہ کو اب وہ جائے کا
تھی نہیں کہہ شکبا تھا نتھی وانس مڑ گبا۔
”میں انک جگہ نہیں رہ شکنی اور اس کے شاتھ بو نالکل تھی نہیں۔“ آواز میں
عصہ چھلکبا سروع ہوا۔ نبڈ کے کبارے پہ نتتھے اس کے نحلے لب کو کانا۔
دوسری جانب کجھ اور تھی کہا جا رہا تھا چب اس ئے پرداشت سے ناہر ہوئے
مونانل ہی نبد کر دنا۔ چہرے پہ دوبوں ہاتھ رکھنے اس ئے شا منے دبوار کو کاقی دپر
گھورا۔ اصظرانی جالت میں انبا نیر ہالئے جا رہی تھی۔
لبام سے رات کو نات ہونی تھی وہ تھبک تھا اور کونی گڑپڑ نہیں ہونی تھی۔
م
اس کی طرف سے بو ظمین تھی کسی کو اس کے نارے میں جاص علم نہیں تھا وہ
نس ضرورت کے نحت اننی جگہ سے تکلبا تھا۔
لبکن اننی دپر وہ اننی جگہ سے دور تھی نہیں رہ شکنی تھی۔ سیرنس ل نول پڑھبا
سروع ہوا بو اتھ کے کنچن میں آگنی۔ صنح شاور لے کے اس ئے چئیز اور نی سرٹ
نہن لی تھی اور اوپر انک جبکٹ نہن رکھی تھی۔
دامیر اور رنان اتھی گھر تظر نہیں آرہے تھے بو کنچن میں فرنج کھولے اس میں
سے کجھ کھائے کو دنکھنے لگی۔ پہ اس عج نب عادت تھی کہ سیرنس اور اووتھبکبگ
میں اس کو شوگر کربونگ ہونی تھی۔
اتھی تھی وہ کجھ متتھا کھائے کو ڈھونڈ رہی تھی چب فرنج کی شانبڈ ناکٹ میں
چ م کن
اس کو جاکلنٹ سیرپ تظر آنا۔ انک نار آ یں نچے اس ئے تکال لبا اور مچ کڑا ،انک
ن ھ
چمچ جٹسے ہی اس ئے منہ میں رکھا تھا ننجھے سے ا ننے نام کی تکار شن کے انک دم گ ھیرا
گنی۔
”چنہ۔۔۔!“ دامیر ئے اس کو تکارا تھا ،رنان تھی اس کی نشت دنکھ رہا تھا چب
کن
اس ئے چنہ کا نام تکارے جائے پہ انک دم چنہ کے ہاتھ میں لرزش د ھی۔
ً
وہ فورا مڑی نہیں تھی ،سیرپ کو شانبڈ پہ رکھنے اس ئے گہرا شانس تھرا اور
سنجبدگی سے ان کی طرف گھومی۔
”کجھ جا ہنے کبا؟“ دامیر ئے بوچھا جس پہ چنہ کی تگاہ انک نار سیرپ پہ اتھی تھر
انبات میں سر ہالنا۔
”ہاں! ا ننے اس دوشت کو کہو کہ میری جان چھوڑ دے اور مجھے اجازت دے
کہ میں دنبا کے کسی دوسرے کوئے میں جلی جاؤں لبکن اس کے ناس نہیں۔“
اس ئے اننی شلگنی تگاہیں رنان پہ تکانیں اور انک انک لقظ جبا کے کہا ک نونکہ اس
کے کہنے پہ اتکل مبکس اس کی شادی انک ہقنے کے اندر کور کرنا جاہ رہے تھے۔
”پہ بو نہیں ہو شکبا کجھ اور ہے بو نباؤ۔۔“ دامیر ئے ا ننے ہی پرشکون لہچے میں
کہہ کے چنہ کے اندر جلنی آگ کو تھڑکا دنا جس پہ وہ شغلہ ناز تگاہوں سے دنکھنے لگی۔
نبا مزند کونی اور نات کنے جاکلنٹ سیرپ اتھائے وہ ان دوبوں کے فرنب سے
گزر گنی اور علتبا کے کمرے کی جانب پڑھ گنی۔
”تم ئے اجانک اسے تکار کے ڈرا دنا تھا۔“ رنان ئے اس کے عانب ہونی ہی
دامیر سے کہا جس کے آپرو چیرت سے اوپر ا تھے۔
”ہاں وہ ڈر گنی تھی۔“ رنان ئے ا نسے کہا جٹسے پہ مغلومات ان کو نٹسوں سے
تھی کہیں پہ ملنی۔
”چیرت ہے۔۔“ دامیر ئے کہا۔ دوبوں کے ردعمل ا نسے ہی تھے جٹسے اس شال
کی شب سے ابوکھی نات ہو۔
”مبڈے کو ستمنٹ آرہی ہے ،اور اگلے دن ونڈنگ ہے بو ارنجمنٹ شب نہلے ہی
ت ن
دنکھنے ہو نگے اور گٹشٹ لشٹ ھی د نی ہے۔“ دامیر ئے صوفے پہ نسشت تھا لنے
تس ھ ک
ہوئے کہا۔
”گٹشٹ کا تم مجھ پہ چھوڑ دو ،ڈرنسز نہیں مگوا لتنے ہیں ناکہ چنہ کو جانا پہ پڑے
علتبا تھی ا نسے نسبد کر لے گی۔“ رنان ئے پرشوچ ہوئے کہا۔ دامیر اجانک ہٹس دنا۔
”کتھی شوجا تھا کہ ا نسے شادی کی نانیں تھی کریں گے ،کیڑے ،ان یطامات
وغیرہ۔۔“ رنان کے الجھ کے دنکھنے پہ دامیر ئے کہا بو وہ ہلکا مشکرا دنا۔
”شو جنے بو کجھ تھی نہیں ہم نس خو ہونا ہے اسی سہنے جائے ہیں اور زندگی جلنی
ہ جم س
جانی ہے۔“ رنان ئے نبک لگائے کہا ،دامیر اس کی نات ھنے ہوئے سر ال گبا۔
رنان کے چہرے پہ سنجبدہ ناپرات اتھرے تھے۔ اس ئے مزند کونی نات نہیں کی
تھی۔ نتھی چنہ علتبا کو وہبل چئیر پہ نتھائے ناہر النی ہونی دکھانی دی۔
ً
”کونی پرانلم ہونی ہے کبا؟“ دامیر علتبا کو دنکھنے فورا اس کے ناس نہنجبا م یقکر
ہوا۔
ھ کن
”نہیں ہم نس الن نک جا رہے تھے۔“ علتبا ئے اس کی عحلت د نے کہا۔
”بو مجھ سے کہہ د ننی میں لے جانا۔“ دامیر ئے چنہ سے وہبل چئیر لتنی جاہی
لبکن چنہ ئے انبا ہاتھ آگے کر لبا۔
”ضرورت نہیں ،میں لے جا رہی ہوں۔“ چنہ کا لہحہ جبانا ہوا تھا کہ دامیر کے
ن ن ً
ما تھے پہ فورا ل مودار ہوئے۔
دامیر نبا کجھ کہے شانبڈ پہ ہو گبا ناکہ وہ جاشکے چب اس کی تظر چنہ کے جبکٹ
ناکٹ میں جاکلنٹ سیرپ کی طرف گنی۔ اس ئے اچھتنے سے وانس چنہ کو دنکھا بو سر
چھبکنی ہونی علتبا کو ناہر لے آنی۔
کن
”پہ جگہ کاقی خوتصورت ہے۔۔“ علتبا آس ناس ست نٹ د نی ہونی بولی۔ چنہ
ھ
اس کو سہارہ د ننے والک کروا رہی تھی۔ نازو کا فرنحکر تھبک ہو رہا تھا لبکن درد کتھی
کتھی جاگ جانا تھا۔
”خوتصورت بو ہے۔۔“ چنہ الپرواہی سے بولی۔
”انک نات بوچھوں؟“ چنہ ئے شوالنہ تگاہوں سے انبات میں سر ہالنا۔
”تم انبا روڈ ک نوں ہو جانی ہو ان دوبوں سے؟ دامیر کی نات الگ ہے لبکن رنان
کن جم س
بو نمہارا فبانسی ہے نا۔“ علتبا ئے نا ھی سے اس کو کہا ،چنہ آ ھیں گھمانی رہ گنی
زپردسنی کا فبانسی۔۔
”نس ا نسے ہی کسی نات پہ ناراض ہوں میں۔۔“ چنہ ئے الپرواہی سے کہا نہت
کوشش کے تغد تھی وہ ا ننے ناپرات سے ئےزارنت پہ ہبا نانی خو ان کے زکر سے
آگنی تھی۔
”کس نات پہ ناراض ہو؟“ علتبا ئے شادہ شا شوال کبا۔
کم م
”زنادہ پڑی نات نہیں ہے۔۔“ چنہ ئے نات کو ہوا یں ھی کی طرح اڑانا۔
”میں نس شادی نہیں کرنا جاہنی۔“ علتبا اس کی نہلی نات پہ سر ہالنی ہونی شا منے
ن
دنکھنے لگی چب اس کے ناقی کے القاظ سے اس کی آ یں پڑی ہو یں اور اس کو
ن ھ ک
”اور کون کون گبا تھا نمہارے شاتھ؟“ چنہ نس تھوڑا نہت جانبا جاہنی تھی ناکہ
ن
وہ خود تھی فباد نک ہنچ نانی جبکہ اس کے شوال پہ علتبا اس کو جالی تگاہوں سے
دنکھنے لگی۔
”میرے شاتھ! میری دوشت۔۔۔“ علتبا کے منہ سے پہ القاظ سرگوسی میں تکلے
تھے۔ چنہ اس کے القاظ سمجھ گنی تھی لبکن اس کے ناپرات نہیں۔
”میری دوشت کہاں ہے؟“ وہ خود تھی پرنشان اور الجھی تظر آنی چب اس ئے
چنہ سے بوچھا۔
”کبا نام ہے نمہاری دوشت کا؟“ چنہ ئے دھتمے سے بوچھا۔
”فروا۔ ہم شاتھ گنی تھیں شوپزرلتبڈ۔ کبا وہ اب تھی میرے شاتھ ہے؟“ علتبا
ت
کی آنکھوں میں امبد اتھری ا ننے کسی کو ناد کر کے۔ چنہ نہاں خود سی ھی نونکہ
ک ت ٹھ
وہ فروا کو نہیں جاننی تھی پہ ہی کتھی اتکل مبکس سے زکر سبا تھا۔
”فروا کا بو مجھے نہیں مغلوم ،شاند دامیر کو نبا ہو ک نونکہ مجھے کجھ ہی دپر ہونی ہے
نہاں آئے ہوئے۔“ چنہ ئے پروفت دماغ جالئے قلحال کے لنے خود کو اس صورنحال
سے تکاال۔
”میں اس سے بوچھنی ہوں۔۔“ وہ اتھی اندر جائے کو پڑ ھنے لگی چب چنہ ئے
روک لبا۔
”تھوڑی دپر میں اندر جانیں گے بو کر لتبا نات وہ اتھی کام سے وانس آنا ہے بو
تھکا ہوگا۔“ اس سے نہلے علتبا دامیر سے بوچھنی چنہ خود اس کو اتقارم کرئے والی تھی
ناکہ وہ کونی کہانی کور کر شکبا۔
علتبا کا دھبان وہ دوسری طرف کرئے میں کامباب ہونی تھی اور اسی دوران
اس ئے دامیر کو مٹسج کر دنا تھا۔
”علتبا اننی کسی دوشت فروا کا بوچھ رہی ہے اس کے نارے میں مغلوم
کرواؤ۔“
تن
تھوک کا اجشاس ہوئے پہ وہ دوبوں کنچن کی طرف آ نیں۔ علتبا اسنول پہ ھی
ت
و فقے و فقے سے خود چنہ سے کجھ پہ کجھ بوچھنی جس کا وہ خواب دے رہی تھی چب
اجانک علتبا کو گردن پہ پرم شا لمس محسوس ہوا۔ دامیر مشکرائے ہوئے اس سے ننجھے
ہوئے شاتھ والے اسنول پہ نتتھ گبا۔
علتبا اس کی خرکت سے جاتف ہونی چنہ کو دنکھنے لگی خو ئےنباز سی انبا کام
کرئے میں مگن تھی جٹسے اس ئے کجھ دنکھا پہ ہو۔
”کمرے سے ناہر تکل کے کٹشا لگ رہا ہے؟“ دامیر ئے پرم مشکراہٹ اس کی
طرف اچھالی۔ علتبا کو لگا کہ وہ اس وفت زپردسنی مشکرانا تھا۔
”اچھا محسوس ہورہا ہے۔ جگہ تھی نہت خوتصورت ہے۔“ علتبا تعرتف کنے نبا پہ
رہ شکی ،دامیر ئے سر کو چم دنا۔
علتبا ئے محسوس کبا تھا دامیر سے اس کی زنادہ نات انک ہی محصوص چملے پہ
ہونی ہے کہ ”وہ کٹشا محسوس کر رہی ہے۔“
پہ شوچ آئے ہی وہ ہلکا شا ہٹس دی۔ دامیر ئے شوالنہ انداز میں اس کی جانب
دنکھا۔
چنہ کے کھانا نبار کرئے علتبا کے شا منے انک نلنٹ رکھی اور انک خود کی نلنٹ
لنے وہ دوسری طرف ہی نتتھ گنی۔ دامیر ئے چنہ کو دنکھا گونا بوچھبا جاہ رہا ہو کہ اس
کا کھانا۔
”میں بوکر نہیں ہوں تم دوبوں کی۔ خود نباؤ۔“ وہ پڑخ کے بولی کہ دامیر چھکے
سر سے مشکرا دنا جبکہ علتبا کے چہرے پہ الگ ناپرات تھے ،چنہ کے اس لہچے پہ وہ
خوش نہیں تھی۔
”میں رنان کی خوانس سے انمرنس ہوں کاقی۔“ دامیر ہلکا شا پڑپڑانا جس پہ چنہ
ن گ ھ کن
ئے آ یں ھما یں۔
دامیر ئے نحائے کجھ نبائے کے علتبا کے ناس نتتھبا ہی نہیر سمجھا۔ چب نک
وہ کھانا کھانی رہی وہ نس اس کو دنکھبا رہا۔
”دامیر!“ کھانا جتم ہوئے ہی علتبا ئے تکارا۔
”نس واتف!“ اس ئے سرگوسی میں کہا کہ ئےشاچنہ پرم مشکراہٹ علتبا کے
ل نوں پہ آنی۔
”میری دوشت فروا کو جا ننے ہو؟ وہ میرے شاتھ ہی ہونی تھی۔ چب ہماری
شادی ہونی کبا وہ میرے شاتھ تھی؟“ علتبا ئے م یقکر ہوئے بوچھا۔ پرنشانی ضرف
لہچے میں ہی نہیں اس کی آنکھوں میں تھی تھی۔
”وہ ہماری شادی ہوئے سے نہلے ہی وانس جلی گنی تھی ناکسبان۔“دامیر ئے
اس کا ہاتھ تھام ئے شادہ سے لہچے میں کہا۔
”ناکسبان لبکن ک نوں ،وہ پڑ ھنے کے لنے آنی تھی اور اتھی نہت وفت تھا۔“
علتبا کے دل میں نہت سے شوال اتھنے لگے ک نونکہ فروا سے اس کی مالقات اتھی نین
ماہ نہلے ہی ہونی تھی اور وہ نہت اچھی دوشت نانت ہونی تھی۔
”کبا کہہ شکنے ہیں ،ارادے ند لنے میں وفت بو نہیں لگبا۔“ دامیر ئے کبدھے
ت ن ت ظ م
احکائے لبکن علتبا اس کی نات پہ ین ھی یں ہونی ھی۔
ہ م
”میرا مونانل کہاں ہے؟“
”چب نمہیں خوٹ لگی بو مونانل تھی وہیں گم گبا تھا۔ تھوڑی دپر نک نمہیں نبا
مونانل مل جائے گا۔“ دامیر کے زہن سے تکل گبا تھا کہ اس کو مونانل کی ضرورت
تھی ہو شکنی تھی ک نونکہ چملے کے دوران اس کا فون بوٹ حکا تھا۔
”کبا فروا ئے کونی راتطہ تھی نہیں کبا اس کے تغد؟“ علتبا اس کی طرف گھوم
کے بوچھنے لگی۔
دامیر ئے انک نل کو اس کے جسین چہرے کو دنکھا چہاں پرنشانی واصح تھی۔
تھر اس ئے ہولے سے تقی میں سر ہالنا۔
”نہیں کونی راتطہ نہیں کبا۔۔“
”انشا کٹسے کر شکنی ہے وہ۔ ہم خود تھی بو راتطہ کر شکنے ہیں نا۔۔ اس ئے کجھ
بو نبانا ہو گا جائے ہوئے۔ نمہیں ناد ہے۔“ علتبا ئے آنکھوں میں امبد لنے اس سے
بوچھا کہ شاند دامیر کجھ بو جانبا ہو۔
”ندقشمنی سے نہیں۔ کونی کانتبکٹ تھی نہیں ہے ناس۔“ دامیر ئے تقی میں
گردن ہالئے ہوئے اس کے خوتصورت چہرے کو دنکھنے کہا۔
”میری وہی دوشت تھی نس۔“ علتبا اقسردگی سے بولی۔ چنہ التغلق سی انبا کھانا
جتم کرکے اتھی چیزیں سمنتنے لگی۔
”آپ انبا کھانا نبا شکنے ہیں اب دبور جی۔“ چنہ ئے کام جتم کرئے دامیر کو
طیزپہ انداز میں کہا اور علتبا کو شاتھ لنے وہاں سے روم کی طرف پڑھ گنی۔
دامیر ئے وہاں آئے رنان کو دنکھنے ا ننے نازو ہوا میں لہرائے جٹسے بوچھ رہا ہو کہ
پہ کبا نٹس جبا ہے تم ئے۔ رنان ئے فجرپہ سر کو چم دنا۔
”فروا کا کجھ نبا جال؟“ دامیر ئے ا ننے شل نوز فولڈ کرئے بوچھا۔ وہ ڈپر کی نباری
کرئے لگا تھا۔
”نین شال نہلے وہ شوپزرلتبڈ گنی تھی اننی دوشت علتبا کے شاتھ ،اجانک انک
دن عانب ہو گنی۔ اس کے ہونل سے تھی مغلوم کبا ،پرانی نات ہے لبکن فروا کے
پہ آئے پہ وہ لوگ اس کی چیزیں کمرے سے ہبا جکے تھے اس کے ڈاکومتنٹس ،آنی
ڈی کارڈز شب عانب اسی کی طرح۔ وہ انک مسبگ پرشن ہے۔۔“ رنان ئے اس کو
شاری مغلومات دی خو اسے مغلوم ہونی تھی۔
”ناکسبان سے کجھ نبا جل شکبا ہے؟“ دامیر ئے ہاتھ جالئے ہوئے اس سے
بوچھا۔
”ہاں جل شکبا ہے اگر علتبا تھی کجھ جاننی ہو اس نارے میں ورپہ اس لڑکی کا
آگے ننجھے کا شارا رتکارڈ جتم ہے۔۔“ رنان ئے جتمی انداز میں ہاتھ اوپر کنے۔ دامیر
ئے محض سر ہالنا۔
”ڈرنک نبا رہا تھا کہ پرابوا) (Bratvaمیں کجھ گڑپڑ جل رہی ہے لبکن مبکس
ئے زکر نہیں کبا اس نارے میں۔“ رنان آہشنہ آواز میں بوچھنے لگا۔
”عمر ہو گنی ہے پرن نوا کے ناس کی ،شل نو ) (Slavesرکھبا سروع کر د ننے
ہیں اس عمر میں حظرناک شوق نالے ہیں۔“ نات کرئے ہوئے دامیر کی آواز کے
شاتھ لہحہ تھی سرد ہو گبا تھا۔
”اس کی صحت کے لنے اچھا نہیں ہو گا پہ شب۔“ رنان ئے پرفبلے لہچے میں
کہا۔ آنکھوں میں گہری چمک اتھری۔
دامیر اور رنان روس میں ر ہنے تھے ،ان کا تغلق انڈرورلڈ گتبگسیر سے تھا۔
Bratvaروس (رسبا) کی انک شب سے طاف نور کراتم ن یظتم تھی خو ہر طرح کے
کراتم کو سرانحام د ننے تھے۔ مبکس ل نو چب انلی مافبا کے ہبڈ ننے تھے نتھی پرابوا کا
نبا ہبڈ اپرشا نبا تھا جس کے تغلقات مبکس ل نو کے شاتھ نہیر تھے۔ ان میں طے نانا
گبا تھا کہ پہ لوگ ناقی کراتم کریں گے لبکن غوربوں کو اس میں شامل نہیں کبا
جائے گا۔ چب سے اپرشا کی موت ہونی تھی اس کا شونبال نتبا شاشا پرابوا کا ہبڈ نبا دنا
گبا تھا جس کے آئے سے مغلوم ہو گبا تھا کہ اس کے لنے پہ شب پزنس ضرف انبا
دل نہالنا ہی تھا۔ اس کے آئے سے نہاں و نمن شل نوری تھی سروع ہو گنی تھی لبکن
دامیر اور رنان نبا کسی ہبڈ کی مداجلت کے شاشا کو جتم نہیں کر شکنے تھے انہیں ننجھے
سے سنورٹ جا ہنے تھی ک نونکہ پرابوا کا ہبڈ جاہے جٹشا تھی ہو اس کی آرمی اس سے
وقادار رہنی تھی۔
شاشا عمر میں نچٹس سے نٹس کے درمبان تھا اس کا مقصد ضرف کئیرول لتبا
ہی تھا خو وہ لے حکا تھا۔
البانین کا فصہ اتھی تھوڑی دپر کے لنے رکا تھا ک نونکہ شاند ان کو اطالع مل
جکی تھی کہ دامیر اور رنان نہلے ہی کسی کی وجہ سے انک نو ہیں۔ بو اگر ا نسے میں البانین
ان سے الجھنے بو شارا پزلہ انہیں پہ گرنا۔
”آنی تھبک ہمیں ڈرنبا اور شوزین سے بوچھا جا ہنے وہ دوبوں علتبا کی دوشت
تھیں شاند کتھی علتبا ئے فروا کا زکر کبا ہو ان سے۔“ رنان ئے کجھ دپر شو جنے کے
تغد کہا۔
”میں سر جارج سے کانتبکٹ اتقارمٹشن لتبا ہوں۔“ دامیر کو اس کی نات کجھ
تھبک لگی نتھی نانبد میں کہا۔
”شاند نمہاری واتف بوٹ پہ کرے لبکن کھانا نبائے تم نہت ہاٹ لگنے ہو۔۔“
رنان ئے اننی سنجبدگی سے نات کہہ کے انک آنکھ دنانی تھر شاطر مشکراہٹ لنے اس
کو دنکھا۔
”گرل فیرنڈ سمجھ رکھا ہے نا تم ئے مجھے نمہیں بو لگوں گا ہی۔“ دامیر تھی شلگنے
ہوئے بوال کہ رنان ہلکا شا ہٹس دنا۔
”اگر علتبا کی ناداشت وانس آگنی!“ رنان کی اجانک کہی نات پہ دامیر کے ہاتھ
انک نل کو شاکت ہوئے تھر الپرواہی سے کبدھے چھبکے۔
”بو۔۔۔!“
”تم تھول رہے ہو ،اس سے نہلے تم اس کے لنے انک قا نل اور تفرت کے
قانل انشان رہے ہو۔“ رنان ئے ناددہانی کروانی۔
”تفرت ندل تھی جانی ہے۔“ دامیر ئےشاچنہ بوال تھر اجشاس ہوئے پہ رنان کو
دنکھا جس کی آنکھوں میں معنی چیز چمک تھی۔
”اس کی ناداشت وانس آئے سے نہلے ہی میں اس کو خود سے مجنت کرئے پہ
مج نور کر دوں گا۔“ انک دم ہی دامیر کی آواز میں دہشت لوٹ آنی اس ئے سرد لہچے
میں کہا۔ آنکھوں میں انک ناپر اتھرا خو اننی ملکنت طاہر کرئے کا تھا۔ رنان ئے بوٹ
کبا وہ جبد دن میں ہی علتبا کو لنے جشاس ہو رہا تھا۔
”علتبا خود تھی جاہے بو دامیر آر سے اب دور نہیں جا شکے گی۔ اس کی زندگی مجھ
سے خڑ جکی ہے ،جاہے اب نا تغد میں اس کو ف نول کرنا ہو گا۔“ دامیر انل لہچے میں
بوال۔ سرد سباٹ لہحہ ستنے رنان ئے سبانسی انداز میں سر ہالنا۔
”اور اگر وہ پہ مانی بو۔۔“ رنان ئے فرضی نات کہی لبکن دامیر کے ناپرات سے
واصح تھا کہ اس کو پہ نات نالکل نسبد نہیں آنی تھی۔
”چنہ پہ مانی بو۔“ دامیر کے ل نوں پہ انک مسکان نمودار ہونی ،اس کی آنکھوں میں
ھ کن
آ یں گاڑھے بوچھا۔
رنان ئے گہرا شانس لبا تھر چب بوال بو القاظ میں پرفبال ین تھا۔
ً
”وانس جائے کا کونی رشنہ نہیں۔“ خواب فورا آنا۔
”اس کے ناس کونی خوانس نہیں ہو گی میرے عالوہ۔“ دامیر ئے پرشکون انداز
میں کہا اور کھانا سرو کرئے لگا۔
”مجھے ڈانمبڈز کی ڈنلتبگ میں جانا ہے ،مبکس ئے کہا کہ چنہ کو نبائے تغیر میں
پہ کام کروں۔ اس کو وہ ڈنلتبگ کے لنے نہیں تھنج شکنے اتھی۔“ رنان ئے کھائے
سے قارغ ہوئے کہا۔
”گڈ قار بو!“ )(Good for you
”اب نک کی وہ نین ڈنل کر جکی ہے اور میرے لنے شاکبگ تھا کہ وہ شاؤتھ
افرنکہ تھی جا جکی ہے ڈنلتبگ کرئے۔“ رنان ئے سبانش تھرے انداز میں کہا۔ نات
کرئے اس کے لہچے میں چنہ کے لنے فجر نمانا تھا۔
”سی از سچ آ ڈانبامانٹ۔“ )(She’s such a Dynamite
رنان کی مشکراہٹ گہری ہونی تھی چنہ کو شو جنے۔
ت نب س
”نب نک مجھے لگبا ہے کہ ہمیں شاشا پہ تظر رکھنی جا ہنے،کار ل اور ٹس
ن تم
کا تھی ہمیں نبا ہونا جا ہنے۔“ دامیر ئے شو جنے ہوئے کہا ک نونکہ نہاں ان کے ہوئے
ہوئے وہ و نمن شل نوری نہیں ہوئے د ننے والے تھے۔
کر لتنی بو دروازے نک کون آنا تھا۔ علتبا کا اتھی تصور نہیں آنا تھا ک نونکہ اس کے
مطابق وہ آرام کر رہی ہو گی۔
دامیر ئے وفت دنکھا چہاں بوئے دو ہو رہے تھے۔ ما تھے پہ نل لنے اس ئے
دروازہ کھوال بو شا منے علتبا کھڑی تھی۔ اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ ڈری
تھی۔
دامیر کو دنکھنے علتبا ئے رکی شانس نحال کی۔
ً
”علتبا! کبا ہوا شب تھبک ہے؟“ دامیر ئے فورا اس کے گرد نازو رکھنے ناہر
راہداری میں چھاتکا۔
”وہ میں۔۔۔ میں۔۔“ اس کی آواز تھی کانپ رہی تھی۔ دامیر کو اندر النا اور خود
انک نار ناہر ہو کے جبک کبا شب۔ شب نارمل تھا۔
”کجھ تھی نہیں ہے ناہر رنلبکس۔“ اسے لگا کہ شاند کسی آہٹ سے ڈر گنی ہو
لبکن علتبا ئے تقی میں سر ہالنا۔
”مجھے نتبد نہیں آرہی تھی اور اکبلی تھی میں۔“ علتبا ئے تھوڑا سرم شار ہوئے
کہا جٹسے اس ئے کونی علطی کی ہو۔
دامیر جانبا تھا کہ دو نین دبوں سے چنہ اس کے شاتھ شو رہی تھی بو کبا آج چنہ
نہیں تھی۔
”آدھر نتتھ جاؤ گ ھیرائے کی نات نہیں ہے شب تھبک ہے۔“ دامیر ئے اس
کا ہاتھ تھامے خوصلہ دنا ک نونکہ وہ جانبا تھا کہ چب تھی وہ خوف کے زپر اپر آنی تھی
اس کی شانس ئےپرن نب ہو جانی تھی ،کجھ منٹس نہلے وہ انسی ہی جالت میں تھی۔
کن ُ
”چنہ کہاں ہے؟“ علتبا ئے کمرے میں ادھر ادھر د ھنے بوچھا جٹسے وہ نہاں
رہنی ہو۔
”چنہ میرے کمرے میں نہیں رہنی۔“ دامیر ئے مبہم مشکراہٹ لنے کہا وہ
خوامحوا ہی سرمبدہ ہو گنی ا ننے شوال پہ۔
”میرا مطلب وہ آج آنی ہی نہیں روم میں۔“ علتبا ئے اننی نات اور آئے کا
مقصد واصح کبا۔
”شاند رنان کے شاتھ کہیں گنی ہو۔ تم نہاں آرام سے رہ شکنی ہو۔ لنٹ
جاؤ۔“ دامیر اس کا ہاتھ تھامے نبڈ نک لےجائے لگا لبکن علتبا ئے قدم آگے پہ
پڑھائے۔
”مجھے میرے روم میں جانا ہے۔۔“ علتبا ئے چ ھحک کے کہا لبکن دامیر ئے
شوالنہ تگاہوں سے دنکھا کہ تھر نہاں ک نوں آنی تھی۔
”کبا تم میرے کمرے میں آشکنے ہو چب نک چنہ نہیں آجانی؟“ علتبا اس کی
جانب نہیں دنکھ رہی تھی لبکن کمرے کا بورا جاپزہ لے رہی تھی۔
”ہاں سنور۔“ دامیر نبا دپری کے راضی ہوا بو پرم مشکراہٹ علتبا کے ل نوں پہ
تھبل گنی۔
انک نات کی سروعات بو ہونی وہ اس پہ تفین کرنی تھی اور اس سے نحقظ جاہنی
تھی۔ دامیر پہ شوچ آئے ہی اندر نک سرشار ہو گبا۔ اس کے فرنب ر ہنے کا موفع وہ
چھوڑ نہیں شکبا تھا۔
علتبا کو لنے وہ اس کے روم میں آنا اور دروازہ نبد کبا۔
”تم رنلبکس رہو میرے ہوئے ہوئے کجھ نہیں ہو گا۔“ دامیر ئے سنجبدگی کہا۔
ت تن
علتبا نبڈ پہ ھی چب دامیر ئے مزند کہا۔
”شوئے سے نہلے مجھے شاور لتنے کی عادت ہے بو میں شاور لے لوں۔“ دامیر
ئے کہنے ہی نبا علتبا کی موخودگی کی پرواہ کنے اننی سرٹ انارے اس کو شانبڈ پہ رکھا
اور ناتھ میں جال گبا۔
اس کے کبدھے کا زچم مبدمل ہو رہا تھا جبکہ نازو اور کمر میں اکیر درد سروع ہو
جانی تھی۔ وہ دوسری طرف کروٹ لنے لتنی تھی۔
نہلے وہ اکبلے ہوئے کا شو جنے شو نہیں نانی تھی اور اب دامیر کے شاتھ ہوئے
کی وجہ سے شو نہیں نارہی تھی۔
”چنہ کب آئے گی وانس؟“ چب کوشش کے ناوخود اس کو نتبد پہ آنی بو اس
ئے کمزور آواز میں بوچھا کہ دامیر نبد آنکھوں شاتھ مشکرا دنا۔
”میرا فرنب رہبا اچھا نہیں لگ رہا کبا ،ہم بو اس سے تھی زنادہ فرنب تھے۔۔
ا ننے کے میری فرنت میں نمہیں شانس لتنے میں تھی دفت ہونی تھی۔“ دامیر سرگوسی
میں کہہ رہا تھا اور اس کے کہے جائے والے القاظ سے علتبا کی نچی کچی ہمت تھی
خواب دے رہی تھی۔ دل کے انک کوئے میں وہ نجھبا رہی تھی کہ ک نوں دامیر کو کہا
اس کے روم میں آئے۔
دامیر کے ل نوں پہ شاطر مسکان تھی ،خود کو اس ئے پہ نات کہنے پہ داد دی،
علتبا کے چہرے کا رنگ شو جنے اس ئے مزند ا ننے نازو کا حصار نبگ کبا اور اس کے
نالوں کی خوسنو کو ناک کے نتھ نوں کے زر تعے خود میں سمانا۔
”دامیر۔۔۔!“ علتبا ہلکا شا متمبانی۔
ا نسے میں وہ نج نوں نک آنی سرخ رنگ کی ڈرنس نہنے ہوئے تھی۔ گہرے
تھورے نالوں کو ہلکا شا کرل ڈالے کمر پہ نک ھیرا تھا۔ انک ہاتھ میں فنٹسی کلچ نکڑ رکھا
تھا۔ خوتصورت جال جلنے لوگوں کی ننچ سے گزرنی وہ پراعتمادی کا محشمہ لگ رہی تھی۔
اس ئے آس ناس لوگوں پہ تظریں دوڑانی ہر کونی ا ننے آپ میں مصروف تھا۔ انک
جگہ پہ ر کنے اس ئے انبا مونانل تکاال۔ چہرے پہ ئےزانت کے ناپرات ات ھرے۔
”ناٹ اگین۔۔!“ وہ پڑپڑانی اور مونانل وانس رکھنے تھر سے جلبا سروع ہونی۔
اس ئے انک کنب نک کروانی اور ک یقے میں انئیر ہونی۔ نانچ منٹ تغد ہی کنب
ن ن
ہنچ گنی۔ سر پہ نلبک ہ نٹ نہتنے کنب کا دروازہ کھولے نجھلی سنٹ پہ تتھی۔ نتتھنے
ن جن ن
اس ئے ا ننے ہاتھوں پہ سباہ دسبائے نہتبا سروع کنے۔ انک تظر مڑ کے ھے د کھا
ت تن
تھر انک ہلکی مسکان ل نوں پہ سمانی اور نبک لگائے ھی۔
نبدرہ منٹ کی ڈران نو کے تغد وہ انک نلڈنگ کے ناہر رکی اور نتمنٹ کرئے وہ ناہر
آنی۔ چب وہ ناہر تکلی بو اس کے ناس انک درمباپہ شوٹ کٹس موخود تھا۔
ا ننے نالوں کو چہرے کے اطراف میں سنٹ کرئے اس ئے آس ناس دنکھا۔
تھر نلڈنگ کے رسنٹشن نک آنی۔
”نس انک رات کی ہی بو نات ہے ،میں ئے ربورٹ کروا دی ہے مجھے انک دو
دن نک شامان مل جائے گا میں نتمنٹ کر دوں گی لبکن نلیز مجھے آج کی رات نہاں
ر کنے دیں۔ میں اس عالفے میں کسی کو جاننی تھی نہیں اور رات تھی کاقی ہو گنی
ہے۔“ اس ئے اننی ئےنسی طاہر کی بو رسنٹسٹشٹ جاموش ہو گنی۔
منتنجر کا نمیر ڈانل کرئے اس ئے ان یطار کرئے کو کہا ناکہ وہ خود پہ مغاملہ دنکھ
لیں۔ اس لڑکی کو پرس شا آگبا تھا نتھی وہاں النی میں نتتھنے کا اشارہ کبا۔ سہج کے
ن
جلنی ہونی وہ نانگ پہ نانگ خڑھائے صوفے پہ تتھی کہ اس انداز سے اس کی نبڈلباں
واصح ہوئے لگیں۔
النی کی دوسری شانبڈ پہ نین شونڈ بوند لوگ موخود تھے جن کے ہاتھ سے لے کر
گردن نک نت نو تظر آئے تھے۔ نالکل چھوئے نال اور کابوں میں نالی وہ اس کو تغور دنکھ
رہے تھے۔ نامحسوس انداز میں اس ئے انبا رخ نبدنل کبا کہ ان کی طرف نشت ہو
گنی۔
”جی محیرمہ!“ انک درمبانی عمر کا آدمی اس کے شانبڈ پہ آکے رسین میں بوال
جم س
کہ وہ نا ھی سے کھڑی ہو گنی۔
”شوری؟“ چہرے پہ الجھن کے ناپرات اتھرے۔
”آپ کو کبا مدد جا ہنے؟“ اب کہ اس ئے اتگلش میں نات کرنا سروع بو مقانل
ئے سمانل ناس کی۔
م
”مجھے آج رات کا سنے جا ہنے،میں آپ کو نتمنٹ کمل دوں گی لبکن ڈاکومتنٹس
میرے ناس نہیں ہیں۔“ وہ کھڑے ہوئے ہوئے ئےنسی سے بولی بو منتنجر ئے سر
انبات میں ہالنا۔
”آپ کے ناس آپ کا مونانل وغیرہ!“ متنجر ئے اس کی نباری دنکھنے بوچھا۔
”نہیں! وہ تھی چیزوں میں گم گبا۔ میں نہاں انک آفٹشل نارنی کے شلشلے میں
آنی تھی ،پہ شب انہوں ئے ارننج کبا تھا ،میں بولٹس سنٹشن سے سبدھا نہی آنی
ہوں۔“ ان کو تفین دلوائے کے لنے وہ جلدی سے بولی اور ا ننے کیڑوں کی جانب
اشارہ کبا۔
”اگر رات پہ ہونی بو میں نہاں ہرگز پہ آنی مجھے۔۔۔“ اتھی وہ نات کر ہی رہی
تھی کہ ان نت نوں لوگوں میں انک ان کے فرنب جال آنا۔
”کونی مسبلہ ہوا ہے کبا؟“ وہ مشکرا کے بوچھنے لگا بو منتنجر ئے اس کو شب
نبانا۔
”پہ کونی انسو نہیں ہے وہ تھی انک خوتصورت لڑکی کے لنے ،آپ ان کی نکبگ
ہماری طرف سے کر دیں۔“ لڑکے ئے منتنجر سے سنجبدگی سے کہا اور نتمنٹ کے لنے
ً
انک کارڈ ان کو تھمانا جس کو لتنے وہ فورا تھام گنے اور انک کی کارڈ لڑکی کو ال ھمانا۔
ت
”آپ کا نہت شکرپہ اگر آپ پہ ہوئے بو میں کہاں جانی۔“ کارڈ تھا منے وہ
مشکور ہونی بولی۔
”پہ تھتبکس آپ ہمارے ناس سے کنجنے گا انہوں ئے ہی آپ کے لنے روم
ارننج کبا ہے۔“ لڑکا انبا کہہ کے اس کو جلنے کا اشارہ کرئے لگا۔ اس ئے چھک کے
انبا شوٹ کٹس تھامبا جاہا جس کو وہ لڑکا تھام گبا۔
لفٹ میں انئیر ہوئے اس کے ناپرات سنجبدہ ہوئے تھے۔
انبا قلور آئے ہی اس ئے ان کا شکرپہ ادا کبا خو اس کے تھانی ین کے اس
کے روم نک چھوڑئے آئے تھے۔
کی کارڈ شوانپ کرئے اس ئے انبا شوٹ کٹس تھاما ،سبدھے ہاتھ کے دسبائے
کو منہ میں لنے اس ئے انارا اور اندر پڑھ گنی۔
آج رات اس کا نہاں آنا ضروری تھا ،دامیر اور رنان کو نبا نبائے وہ گھر سے تکلی
تھی۔ ڈارک و نب کھولے مزند ڈنتبلز دنکھنے لگی شاتھ ہی لبام کو شکانپ پہ کانتبکٹ
کبا۔
”مونانل بو آن کرو کتھی تھی راتطہ کرئے کی ضرورت پڑ جانی ہے۔“ لبام ئے
مغلومات د ننے کے تغد ناراصگی سے کہا۔
”کردوں گی کجھ دپر نک۔“ الپرواہی سے بولی۔
”نالوں کو کلر کروانا ہے؟“ لبام ئے اس کو سنجبدہ دنکھنے کہا ،اس کے نال
سباہ تھے اور اتھی گہرے تھورے وہ تھی ہلکے کرلز کے شاتھ۔ اس سے نہلے کہ چنہ
خواب د ننی اس کے دروازہ پہ ناک ہوا۔
جلدی سے ا ننے گلوز وانس نہتنے انبا لنپ ناپ شوٹ کٹس میں رکھنے دروازے
نک آنی اور ہلکا شا کھوال۔
وہی نت نو واال آدمی ہاتھ ناندھے کھڑا تھا ،چنہ ئے زپردسنی کی مسکان سحائے اس
کو دنکھا۔
”ہمارے ناس آپ سے ملبا جا ہنے ہیں۔“ اس ئے ن یغام دنا۔
”مجھ سے ک نوں؟“ چہرے پہ چیرانگی الئے بوچھنے لگی۔
”سبا ہے نہاں پہ مہمان ہیں آپ؟“ وہ اس کے شا منے ہی نتتھ گبا تھا اور اننی
تظریں اس پہ تکائے بوچھا۔ چنہ ئے انبات میں سر ہالنا۔
”نبانا تھا مجھے منتنجر ئے کہ کبا مسبلہ نٹش آنا تھا۔ تم مجھے نال چ ھحک نبا شکنی
ہو۔ تھوڑی دپر میں ہی جل ہو گا شب۔“ شاشا اس پہ مہرنان تھا بو اس کا مطلب
تھی چنہ کو سمجھ آرہا تھا۔
شاشا اسے نہحانبا نہیں تھا ک نونکہ دنبا والوں کے لنے وہ انک شوسنولنٹ تھی۔
”کہاں سے آنی ہو تم؟“ شاشا کی تظروں میں جبانت چمک رہی تھی۔ چنہ ئے
نہاں انبا آپ کور کر رکھا تھا۔
”میں فرانس سے ہوں ،نارنی انتبڈ کرئے آنی تھی۔“ چنہ ئے کہا بو شاشا ئے
انبات میں سر ہالنا۔
س
”نارنی ،اب بو روز ہوا کرے گی۔“ وہ زومعنی بوال کہ چنہ ئے نا ھی سے دنکھا۔
جم
ہن ہ ھ ت م ح کن
”ا لی یں کی ہوں بو آرام کرنا جا نی ہوں۔“ اس سے لے کہ شاشا مزند
کونی نات کہبا چنہ کھڑی ہوئے بولی۔ شاشا تھی ک ھڑا ہوا۔
”اور آپ ئے میرے لنے روم ارننج کبا اس کے لنے تھتبکس۔“
”اس کی کونی نات نہیں تم چب نک جاہو نہاں رہ شکنی ہو۔ کونی کجھ تھی
نہیں بو چھے گا تم سے۔“ شاشا جلدی سے بوال کہ چنہ محض سر ہال گنی۔
”جاؤ متم کو چھوڑ آؤ روم میں۔“ ا ننے اسی گارڈ سے بوال خو چنہ کو لنے لفٹ نک
آنا۔
چنہ کی اپر فبلبگس اس سے کہہ رہی تھیں کہ وہ تھٹس جکی ہے اب۔
”دل کو آگ لگا کے جلی گنی ،نالؤ اس لڑکی کو انبا آپ نجھاور کرئے کو نبار
ن
تتھی ہے۔ اس کی قشمت جاگ گنی ہے۔“ چنہ کو جانا ہوا دنکھ وہ جبانت سے ا ننے
انک گارڈ کو بوال اور خود ا ننے کمرے کو جل دنا۔
ل جن ھ ت
چنہ اس پہ نین خرف نی ہونی ا ننے شو نٹ کو جائے گی چب گارڈ ئے اس
کو محاظب کبا۔
”ہمارے ناس کو تم نسبد آگنی ہو۔۔“ وہ بونی تھونی انگرپزی مار رہا تھا جس پہ چنہ
ن ج م ل ن گ گ ھ کن
لب
آ یں ھما کے رہ نی۔ اگر وہ ن ک ٹس یں پہ ہونی بو ضرور اس کو مزا کھا د نی۔
”لبکن مجھے بو تم زنادہ ا چھے لگے ہو۔۔“ لفٹ کا دروازہ کھلنے ہی چنہ ئے اس کو
انک آنکھ ماری اور ناہر تکلی جبکہ اس کی نات ستنے وہ گارڈ بو جٹسے صدمے میں ہی جال
گبا تھا۔ چنہ ئے جان بوچھ کے انبا انک دسباپہ انارا جس سے اس کی کہنی کے ناس
نبا نت نو واصح ہوا۔
تغیر دسبائے والے ہاتھ کو وہ ہون نوں نک لے کے گنی اور انک قالنبگ کس
اس نک اچھالی۔ نمسجر اڑانی مشکراہٹ لنے وہ اننی شو نٹ میں داجل ہونی۔
جٹسے ہی چنہ شو نٹ میں داجل ہونی وہیں اس گارڈ ئے اس کے نازو کی طرف
دنکھا۔ وہ نت نو اب واصح تھا۔ انک جنجر۔
”لڑکباں تھی عج نب نت نو ن نوانی ہیں۔“ جبانت سے مشکرائے ہوئے وہ وانس
جائے لگا۔
لبکن اگر وہ جان لتبا کہ انشا نت نو کس ئے ن نوانا تھا بو اس کے نارے میں ا ننے
نبک جباالت کو زہن میں شو جنے کی علطی پہ کرنا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
النٹس نبد تھیں جبکہ وہ جائے سے نہلے ا نسے ہی چھوڑ گنی تھی روم تھر نبد کٹسے
ہونیں۔ انک بو سیرنس ہو رہا تھا تھر الجھن الگ سے ہو رہی تھی۔ اس ئے النٹس آن
کیں اور ا ننے کمرے کی طرف پڑھی وہاں تھی اندھیرا تھا۔
النٹ کو جالئے ہی اس کی تظر شا منے نبڈ پہ گنی چہاں وہ انبا شوٹ کٹس رکھ
م ن
کے گنی تھی لبکن اب انک جنخ پرآمد ہونی اور اس ئے سجنی سے آ یں یں خود کو
چ ن ھ ک
سے دور کرئے وہ نتم دراز ہوا۔ اشارہ اس کے نازو کی طرف تھا۔ رنان ڈی کے لنے
مسکل نہیں تھا نہاں آنا اسی لنے چنہ ئے اس نارے شو جنے میں وفت صا تع نہیں
کبا۔ وہ نہلے ہی اس کا ننجھا کر رہا تھا۔
چنہ اس کو جاموسی سے گھورئے لگی چب رنان انک جشت میں اتھبا اس نک آنا
اور اس کی گردن کو اننی گرفت میں لبا۔
”مجھے اننی نات دہرائے کی عادت نہیں ہے ملٹسکا ،لبکن میں اننی ملکنت پہ
کسی دوسرے کی تگاہ پرداشت نہیں کرشکبا۔ میں ہرگز نہیں جاہوں گا کہ مجھ سے خڑا
کونی سحص خود کو مضت نت میں ڈالے۔۔“ اس کی گہری آنکھوں میں د نکھے پرفبلے لہچے
میں بوال کہ اس کا سرد ین چنہ کو چھرچھری لتنے پہ مج نور کرگبا۔
چنہ ئے انبا ہاتھ اس کے ہاتھ پہ رکھا ،گرفت سحت نہیں تھی بو اس ئے ہاتھ
چھبک دنا۔
”میں تم خڑی نہیں ہوں پہ مت تھولو کہ میرا تم سے کونی تغلق نہیں ہے۔“
چنہ ئے ا ننے درمبان موخود انک قدم کا قاصلہ تھی جتم کبا کہ اب وہ دوبوں نالکل
فرنب کھڑے تھے انبا کہ انک دوسرے کی شانس نک محسوس کر شکنے تھے۔
چنہ کا قد رنان سے تھوڑا ہی چھونا تھا۔
اس کی اتھی ہونی تھوڑی کو دنکھنے رنان کے چہرے پہ معنی چیز مشکراہٹ در
آنی کہ ئےشاچنہ ہی تظر اس کے ل نوں نک گنی۔ سرخ رنگ میں لتنے ہونٹ۔
”تغلق ہونا بو پہ قاصلہ تھی کب کا مبا حکا ہونا میں ،وہ وفت تھی دور نہیں۔“
گھمئیر القاظ میں چھبا مطلب چنہ کے اندر انک اسیغال تھرنا کر گبا جبکہ اس کی
تگاہوں کا سرد ین انک وجشت تھبال رہا تھا۔
چنہ ئے اس سے قاصلہ پڑھائے اس کے ستنے پہ ہاتھ رکھنے اس کو دھکا شا دنا
اور خود اننی چیزیں دنکھنے لگی۔ رنان کی مشکراہٹ گہری ہونی۔
رنان دونارہ سے نتم دراز اور اس کی نشت کو گہری تگاہوں سے دنکھ رہا تھا۔
”نلبک زنادہ ا چھے لگنے ہیں!“ مشکرانا لہحہ۔ پہ سحص نل میں ا ننے ناپرات ندلبا
تھا۔ چنہ جاننی تھی وہ اس کے نالوں پہ ن یصرہ کر رہا تھا۔
لم مط ل کن
وہ لنپ ناپ کھولے کجھ د نے گی چب لوپہ اشارہ نے ہی اس ئے شب
ھ
وانبڈ اپ کبا اور انبا شوٹ کٹس نہیں پہ چھوڑا جس میں پراؤزر سرٹ موخود تھی کہ اگر
وہ لوگ اس کے ننجھے کمرے نک آئے تھی بو نس کیڑے ہی ملنے۔ لنپ ناپ کا نبگ
نکڑے اور انبا کلچ نکڑے وہ ناہر جائے کی نباری کرئے لگی۔ رنان اس کی نباری
دنکھنے ئےنباز شا لتبا رہا۔
”ان یطار کرنا ہو شکبا ہے کونی کالے نالوں والی راہ جلنی رشنہ تھول کے آ ہی
جائے گی نہاں ،نمہاری رات رنگین کرئے۔“ اننی ہ نٹ اور دسبائے خڑھائے چنہ اس
کو نبا د نکھے کہنی مڑی ہی تھی کہ اس کی نات پہ شلگنے رنان ئے اس کا نازو اننی آہنی
گرفت میں لبا۔
”اننی ہی قکر ہو رہی ہے بو تم ک نوں نہیں رک جانی میری رات رنگین کرئے۔“
انک انک لقظ جبا کے کہبا وہ چنہ کو سہما گبا تھا ک نونکہ اس کا لہحہ نہلے کی نسنت
حظرناک تھا۔
س
”خود کی طرح گھتبا مت مجھو مجھے۔“ چنہ ئے نبا ڈرے کہا اور انبا نازو چھڑوانا۔
رنان جانبا تھا کہ اس ئے وہ نات جان بوچھ کے کہی تھی ،جاموش وہ تھی نہیں
رہا پراپر کا خواب د ننے اس ئے آگ لگانی تھی۔ دوبوں آگ لگائے میں ماہر تھے۔
”اگر اس ئے دونارہ نمہاری طرف دنکھا تھی نا تم اس کے شا منے گنی بو وہ بو اننی
جان سے جائے گا ہی لبکن تم خود کو مجھ سے نہیں نحا ناؤ گی۔“ اس کے نازو کو تھر
سے اننی گرفت میں لتنے فرنب کرئے سرگوسی میں القاظ کہے کہ چنہ ئے اس کی
آنکھوں میں دنکھا خو گرے رنگ میں ہی گہرانی دکھا رہی تھی۔ موت کی گہرانی۔ وہ
ضرف القاظ ادا نہیں کر رہا تھا انبا ارادہ نبا رہا تھا۔
چنہ سمجھ گنی تھی کہ رنان جان گبا تھا کہ شاشا ئے اس کو دنکھ لبا ہے ،اس
سے مالقات ہونی تھی نتھی وہ دھمکی دے رہا تھا لبکن اتھی اس کو دھمکی کا نہیں
شوجبا تھا۔ اس کو جانا تھا۔ نبا خواب د ننے اس کی گرفت ڈھبلے نائے وہ شو نٹ سے
تکل آنی۔
رنسنٹشن پہ لڑکی ندل جکی تھی کہ اس کو کسی مسکل کا شامبا نہیں کرنا پڑا تھا۔
نبدل تھوڑا آگے جائے اس ئے پرن لبا اور نانچ منٹ کی والک پہ اس کو انک گاڑی
تظر آگنی۔ وہ مشکرانی لبکن مشکراہٹ سمٹ گنی چب اس کے ناس ہی اس ئے رنان
کو دنکھا۔
وہ اس سے نہلے نہاں نہنحا تھا۔ جن تھا نا انشان۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
ن کن
انک گھننہ وہ اننی گاڑی کے بونٹ پہ خڑھا آ یں موندیں م دراز تھا۔ اس
ت ھ
وفت وہ انک گودام کے ناہر موخود تھا۔ بوفع کے مطابق اس کو چنہ سے وہی چملہ
ستنے کو مال تھا خو وہ کہنی آنی تھی۔
”میرے کام میں دجل اندازی پہ کرو اور مجھ سے دور رہو۔“
اس کی نات کا اچیرام کرئے ہوئے اب وہ ناہر مزے کر رہا تھا جبکہ گودام
کے اندر سے وہ گن قاپر کی آوازیں شن شکبا تھا مگر اس کا شکون نال کا تھا۔ گودام
ت ت ً
کے دروازے کے فرنب سے شور سبانی د نبا سروع ہوا تھا۔ فتبا وہ اب ناس ھی۔
سر کے ننچے نازو تکائے رنان ئے گن تکا لنے ا ننے ستنے پہ رکھی اور چنہ کے ناہر
آئے کا ان یطار کرئے لگا۔ ان یطار کرنا اس کے نس کی نات نہیں تھی نتھی چھالنگ لگا
کے اتھبا اننی سرٹ سہی کرئے لگا۔ گودام کا دروازہ کھو لنے اس ئے اننی گن
ستتھالی۔
چنہ کجھ ہی قاصلے پہ موخود تھی اور اس کے ننجھے دو لڑکباں تھیں۔ رنان نیزی
سے آگے پڑھا اور چنہ کو کور دنا۔
دامیر کو اگر مغلوم ہونا کہ رنان اس کے تغیر لڑئے آنا بو وہ خود اس کا گال ا ننے
ہاتھوں سے دنانا۔
نہاں اب نس دو آدمی ہی نچے تھے ،چنہ کی گن اس کے ناس نہیں تھی۔
رنان ئے ان آدم نوں کی طرف انبا رخ کرئے نشاپہ ناندھا اور اس کی جانب گھوما۔
”شوری لبکن نہاں میری مداجلت نتنی تھی۔“ انک آنکھ دنائے اس ئے کہا اور
چنہ کو ناہر کی طرف جائے کا اشارہ کبا۔ اس پہ انک تظر ڈا لنے وہ لڑک نوں کو دنکھنے
لگی جن کو وہ اتھی نازناب کروا کے آنی تھی۔
”تھتبکس۔“ وہ تھولی شانسوں کے درمبان بولی بو رنان ئے محض سر ہالنا۔
”ہمیں نہاں سے جلدی تکلبا جا ہنے ،ان کے لوگ کتھی تھی نہاں آشکنے ہیں۔“
اننی گن کو ہولڈر میں رکھنے نیزی سے بوال۔ چنہ ان دو لڑک نوں کو آگے جلنے کا کہنی انک
تظر ننجھے دنکھا۔
انک کے تغد انک تعسیں گری تھیں۔ نہاں آئے سے نہلے ہی رنان ناہر کے
گارڈز کا صقانا کر حکا تھا۔ وہ اس کے ہر قدم پہ تظر ر کھے ہوئے تھا۔
لڑک نوں کو گاڑی کی نجھلی سنٹ پہ نتھائے خود نستنجر سنٹ پہ نتتھ گنی۔ رنان
ڈران نو کر رہا تھا اور کہاں جانا تھا پہ چنہ کو مغلوم نہیں تھا ک نونکہ روس میں اس کا خود
کا آنا کم ہی ہونا تھا۔
لبام کے زر تعے اس کو چیر ملی تھی کہ انک اور نبالمی ہونی ہے جس میں پرابوا
کے ہبڈ کو دو لڑکباں دی گنی ہیں خو نٹس سے نچٹس شال کی عمر نک تھیں۔ شاتھ
ً
میں اس کو پہ تھی نبانا تھا کہ شاشا آج کی رات اسی سہر میں ر کنے واال تھا بو عالبا
لڑکباں تھی نہاں تھیں لبکن کسی اور جگہ۔ اس کو جگہ کا مغلوم کرنا تھا نتھی انبا
جلنہ ند لنے اس نلڈنگ میں آنی چہاں شاشا آج ُرکا تھا۔ وہ حظرناک ن یظتم کا ناس تھا اور
اس کے ستبکڑوں وقادار نہاں اس وفت اس سہر میں گھوم رہے تھے۔ اس نک نہنجبا
بو آشان تھا۔ چنہ جاننی تھی کہ شاشا کو دو نسوں کی لت تھی۔ کاال نٹشا اور غورت۔
نتھی اس ئے شاشا کے شا منے جائے کا ف یصلہ لبا۔ خود کو اس ئے روز نبانا تھا اننی
م
تقلی سباچت میں اس کے شا منے جائے کی تھی کمل نباری تھی۔ چب نک چنہ نک
ن
وہ ہنجنے نب نک دپر ہو جکی ہو گی۔ شاشا کے کمرے سے جائے اس ئے گارڈز کو
کہنے سبا تھا کہ لڑکباں کہاں رکھی ت ھیں۔ اس سے ملنے کا اس کو انک قاندہ بو ہوا تھا۔
انہیں جبالوں میں کھونی تھی چب رنان ئے چھبکے سے گاڑی روکی اور انک نمیر
ڈانل کبا۔ کجھ سبکبڈز میں ہی انک آدمی ناہر آنا ہوا دکھانی دنا۔ گاڑی کسی شوشاننی
میں آکے رکی تھی۔
”تم دوبوں کو کل صنح پہ نمہارے گھروں نک نہنحا دے گا۔“ رنان ئے انک تظر
ھ ت ہت ت س ک ت تننج ن
ھے ھی لڑ نوں پہ ڈالی خو ا ھی ھی می ہونی یں۔
”پہ میرا نمیر ہے۔ اگر کونی تھی گڑ پڑ ہونی بو نالچ ھحک مجھے انک مٹسج چھوڑ د نبا
ہے ،وفت نہیں دنکھبا نس مجھے مٹسج کرنا ہے۔“ ان دوبوں کے لنے رنان کی نات کا
تفین کرنا مسکل تھا لبکن کارڈ کو تھام لبا۔
”قکر نہیں کرو اس کے شاتھ اِ س کی ن نوی تھی رہنی ہے۔“ وہ دوبوں شاند انک
لڑکے کے شاتھ نہیں جانا جاہ رہی تھیں۔
چنہ تھی ان کے شاتھ گاڑی سے اپر آنی۔ دوبوں لڑک نوں کو دنکھنے اس کے
چہرے پہ ہلکی سی مشکراہٹ تھی۔
انک خوتصورت مشکراہٹ کے شاتھ روسی غورت آنی ہونی دکھانی دی بو رنان ئے
اس کا تھی تغارف کروانا۔ چنہ اس نارے میں ئےقکر تھی ک نونکہ رنان دنکھ تھال کے
ہی شب کرنا تھا۔
وہ دوبوں چب گھر کے اندر گنیں بو رنان ڈران نونگ سنٹ پہ نتتھا۔ چنہ کے نتتھنے
ہی اس کی گاڑی سبارٹ کی۔
اس کے ہاتھ میں جافو تھا جس پہ خون لگا تھا۔ اننی رنڈ ڈرنس سے اس کو صاف
کرئے اننی نانگ سے کیڑا ہبانا چہاں اس ئے شارٹ نانٹس نہن رکھا گھا اور اس میں
ہولڈر موخود تھے۔ جافو کو اس میں سنٹ کبا اور ناہر دنکھنے لگی۔ اب وہ سیرنس فری
ن
تھی۔ لڑکباں آزاد تھیں۔ انک پرشکون شانس جارج کرئے اس ئے آ یں موند یں۔
ل ھ ک
”مجھے وانس ہونل چھور دو۔“ ناد آئے پہ چنہ ئے کہا لبکن رنان ئے ان سبا کر
دنا اور الپرواہ نبا ڈران نو کرنا رہا۔
”تم ئے سبا نہیں مجھے وانس ہونل ڈراپ کرو۔“ چنہ اس کی جانب گھومی نیز
لہچے میں بولی کہ رنان ئے اجانک پرنک لگانی جس پہ چنہ کو چھ یکا شا لگا۔ سنٹ نبلٹ
کی وجہ سے وہ نچ گنی ورپہ تقصان ہو جانا۔ چنہ ئے اس کو ا نسے دنکھا جٹسے وہ ناگل
ہو۔
”ڈونٹ بو ڈنیر ،اگر نمہاری اس چمافت کی وجہ سے نمہیں کونی تھی تقصان نہنحا بو
آنی شونیر تم نہت نجھباؤ گی۔“ اس کی گردن کو دبوچے وہ انک نار تھر وہ تھڑک اتھا
تھا۔
”رنان دہاب۔“ اس ئے بورا نام لبا کہ رنان تھ یکا۔
”مجھ پہ اننی دھونس چمانا نبد کرو۔ نمہارا پہ زور مجھ پہ نالکل تھی نہیں جلنے
واال۔“ چنہ اس کی گرفت میں محلنی ہونی بولی وہ اس کے آگے کمزور نالکل نہیں تھی
لبکن رنان کی نازو پہ نکڑ سحت تھی۔
”تم ا چھے سے جاننی ہو کہ میں کبا کر شکبا ہوں۔“ رنان ئے اس کو وارن کبا،
آنکھوں میں شغلے تھڑک ا تھے تھے۔
”انک غورت کی مرضی کے تغیر اس کو ا ننے ناس رکھو گے؟“ اس کا لہحہ نمسجر
اڑانا ہوا تھا جبکہ چہرے پہ وہی مسکان اتھری۔
رنان ئے ہلکے سے تقی میں سر ہالنا اور اس کو مزند ا ننے فرنب کبا۔
”ہماری شادی م نوفع ہے ،اس سے تھاگبا کونی رشنہ نہیں نمہارے لنے۔ اس کو
ف نول کرو ورپہ دوسری صورت نمہیں نبا ہے کہ کبا ہو گا۔“ رنان ئے اس کے کان
میں سرگوسی کرئے کہا تھر اس کی گردن اور نازو کو اننی گرفت سے آزاد کرئے اس
کی آنکھوں میں چھاتکا چہاں عصے کی لہریں موخود تھیں۔
”میں دوسرے را سنے کو نحوسی ج نوں گی۔“ انک انک لقظ جبا کے کہنی وہ رنان
کے اندر کی آگ کو شلگا گنی۔ حظرناک ناپرات چہرے پہ سحائے وہ اس کو گھورئے
میں مصروف تھا خو الپرواہی سے کبدھے احکا گنی۔
رنان ئے گاڑی سبدھا گھر کی ہی راہ لی تھی۔
”لنٹس قانٹ ،ڈو اور ڈانی۔“ )(let’s Fight, Do or Die
گھر میں داجل ہوئے ہی چنہ اس کے مقانل آنی بولی۔ اس کے تھورے نالوں
کی وگ اپر جکی تھی ،ہاتھوں کے دسبائے تھی عانب تھے۔ چہرے پہ انک خراش کی
لکیرتھی۔
چنہ کا انداز جبلنجبگ تھا۔ وہ اس کو لڑئے کی دغوت دے رہی تھی۔ شادی کے
مغاہدے سے تھرنا تھی موت تھا بو اس ئے شوجا ک نوں پہ نہیر طر تقے سے کبا جائے
شب۔
اس کی نات سے واصح تھا کہ وہ کسی تھی صورت پہ شادی نہیں کرئے والی
تھی۔
رنان ئےشاچنہ ہٹس دنا جٹسے کسی نچے ئے لظ یفہ سبانا ہو۔ چنہ کے ما تھے پہ نل
واصح ہوئے۔
”جلو شاتھ مرئے ہیں۔“ وہ آنکھ دنا کے بوال کہ چنہ کا چہرہ سرخ پڑ گبا۔
”نئیر لک نبکشٹ ناتم ئےنی۔“ رنان ہٹسنے ہوئے اس سے بوال ،وہ اس سے
ج نت نہیں شکنی تھی جاہے وہ کتنی اچھی پرنتبگ لے کے آنی ہو۔
روم کی طرف جائے لگا چب اس ئے علتبا کے کمرے کے دروازہ کھلنے دنکھا۔
وہ چیران ہوا تھر معنی چیز شا مشکرانا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رات کا جائے کون شا نہر تھا چب اس کی آنکھ کھلی۔ علتبا غیر آرامدہ تھی۔ وہ
انک ہی کروٹ میں لتنی تھک جکی تھی شاند۔ دامیر اس کے گرد سے نازو ہبائے
سبدھا ہوا۔
” ہنے علتبا ،تم تھبک ہو؟“ علتبا کی ما تھے پہ نل نتنے د نکھے ،چہرے پہ خوف زدہ
ناپرات اتھرے۔ دامیر ئے اس کا گال تھتتھبانا۔ شاند وہ کونی خواب دنکھ رہی تھی
جس کی وجہ سے اس کے چہرے کے ناپرات ا نسے تھے ،وہ اتھی رو د ننے کو تھی۔
کن ن ع َ
”پرنسس۔۔“ دامیر ئے زور سے تکارا کہ لتبا ئے ا نی آ ھیں کھولیں اور انک دو
گہرے شانس تھرے۔ ناس نتتھے دامیر کو دنکھا خو م یقکر تھا۔
”دامیر۔۔“ انک لمحہ کو علتبا تھول گنی کہ دامیر اس کے شاتھ ہی تھا۔
”کبا ہوا؟ کونی پرا خواب دنکھا ہے۔“ دامیر ئے پرمی سے بوچھا۔ انک ہاتھ اتھی
تن
تھی اس کے رجشار پہ تھا۔ علتبا اتھ ھی اور انبات یں سر النا۔
ہ م ت
”میں۔۔ میں تھاگ رہی تھی کونی تھا میرے ننجھے۔۔“ اس کی آنکھوں سے
آنسوں تکلنے کو نبار تھے ،کاقی خوف زدہ تظر آرہی تھی۔
”میں ادھر ہی ہوں نمہارے ناس ،کونی نہیں ہے نمہارے ننجھے۔ نمہیں تقصان
نہنحائے کا شو جنے سے نہلے ہی وہ انشان اننی جان سے جائے گا۔“ دامیر ئے پرمی
سے اس کو ا ننے شاتھ لگانا۔ علتبا ئے انبا انک نازو اس کے گرد لنتبا۔
”مجھے نہت ڈر لگ رہا ہے۔“ وہ روئے کے درمبان بولی۔ دامیر سمجھ گبا تھا کہ
وہ انبا ماضی جاننی تھی لبکن اس کا زکر نہیں کرنا جاہنی تھی اتھی۔
”میں ہوں نا۔ چب نک میں ہوں ڈرئے کی ضرورت نہیں۔“ اس ئے پرمی سے
اس کے نال سہالئے۔ نبڈ کراؤن سے نبک لگائے ا نسے ہی علتبا کو خود سے لگائے
نتم دراز ہوا۔ تھوڑی دپر وہ ئےآواز رونی رہی تھر نتبد میں جائے لگی۔
اس کے نتبد میں جائے ہی دامیر ئے پرمی سے اس کا سر نکنے پہ رکھا اور خود
دوسری طرف آگبا۔
خود لنتنے اس ئے جٹسے ہی علتبا کو فرنب کرنا جاہا اس کی آنکھ کھل گنی۔
چ
ھ
”نہاں آجاؤ۔“ دامیر ئے اس کو نازو پہ سر رکھنے کا کہا ،وہ جھکی ت ھر اس کی
آنکھوں میں دنکھا ،پہ چمک وہ دامیر کی آنکھوں میں نہلی نار دنکھ رہی تھی۔ اس کا
کسرنی وخود دنکھنے وہ کیرانی ت ھر خود کو اس کے فرنب لے آنی۔ اس کے کبدھے پہ انبا
سر رکھنے تھر جلد ہی نتبد میں جا جکی تھی۔ دامیر دونارہ شونا نہیں تھا اس کے نالوں
میں اتگلباں جالنا رہا تھا۔
شاند ہی کتھی اس ئے کسی سے نات کرئے ہوئے اننی نبار تھرا لہحہ نا پرمی
دکھانی ہو خو وہ علتبا سے نات کرئے وفت دکھائے کی کوشش کرنا تھا۔
ع س
پہ سچ تھا ،وہ ا ننے لہچے میں نبار الئے کی کوشش کرنا تھا کہ لتبا ھے وہ
جم
وافعی اس سے نبار کرنا تھا۔ خواب میں ڈرنا شاند نہلی نار نہیں تھا نتھی چنہ اس کے
شاتھ رکنی تھی۔ چنہ جاننی تھی کہ وہ تھبک سے شو نہیں نا رہی۔ لبکن اب دامیر ئے
ف یصلہ کبا تھا کہ علتبا اسی کے شاتھ اِ س کے کمرے میں رہے گی۔ وہ اسے اب خود
سے دور نہیں کرنا جاہبا تھا۔
”کبا میں وافعی اس کو خود سے دور نہیں ر ہنے دوں گا؟“ ان شوخوں میں اس
ئے خود سے اسیقشار کبا۔ ہلکا شا سرچھکائے علتبا کے شوئے چہرے کو۔ کتنی
َ
معصوم تھی وہ۔ انک پرنسس۔
آخر وہ کٹسی ان کی دنبا میں آگنی۔ اس کو بو کہیں فیری نبل میں ہونا جا ننے تھا
نہاں سیطابوں کی دنبا میں نہیں چہاں نات تھی نٹشا اور گولی کے دم پہ کی جانی
تھی۔ کبا اس خوتصورت محشمے کو اس کے لنے نبانا گبا تھا۔ نتھی بو وہ اس کے نہلو
میں تھی۔ دامیر ئے ا ننے دوسرے ہاتھ سے اس کا چہرہ تھام کے نلبد کبا اور ہولے
سے اس کے ل نوں کو چھوا۔
کجھ ہی ہق نوں میں اس کی زندگی ندل گنی تھی اور اب علتبا کی تھی ند لنے والی
تھی۔
شوخوں کا محور چنہ کی طرف جال گبا۔ وہ آج علتبا کے کمرے میں تھہرئے ک نوں
نہیں آنی تھی۔ مونانل اس کا دوسری شانبڈ پہ موخود تھا۔ اس شانبڈ پہ علتبا کا فون
پڑا تھا۔ انک نار چھوئے ہی اس کی شکرین روشن ہونی بو وفت دنکھا۔ صنح کے نانچ نج
رہے تھے۔
غ م ت ہن ھ کن
وہ انک نار تھی علتبا کو د نے یں آنی ھی ،شاند اس کو لوم ہو گبا ہو کہ
دامیر علتبا کے ناس ہی تھا۔
نہی شو جنے دامیر ئے علتبا کو وانس نکنے پہ مت یقل کبا اور خود اننی سرٹ نکڑئے
روم سے ناہر تکال۔ کمروں کی راہداری کے نالکل شا منے لونگ اپرنا تھا چہاں رنان اور چنہ
کی نابوں کی آوازیں سبانی دیں۔
دامیر اس طرف پڑھا چب رنان کی تگاہ اس کی طرف اتھی اور تکلحت اس کے
چہرے پہ زومعنی مشکراہٹ اتھری۔
”ضرور کجھ گھتبا شوجا ہو گا اس ئے۔“ وہ پڑپڑانا ہوا اننی سرٹ نہتنے لگا اور رنان
کے فرنب جال آنا۔چنہ رنان کو صلوانیں سبانی ہونی ا ننے کمرے کی جانب جا جکی تھی۔
”میں بوچھ شکبا ہوں کہ تم دوبوں کہاں تھے؟“ دامیر ئے اس کے چہرے کو
دنکھنے بوچھا۔ رنان ئے ا ننے نالوں میں ہاتھ ت ھیرا اور چنہ کی نشت کو دنکھا۔ تھر پرمی
سے مشکرانا اور تقی میں سر ہالنا۔
”نہیں تم نہیں بوچھ شکنے۔“ رنان ئے نبانا۔
”ہم چہاں تھی تھے لبکن نمہیں بو قاندہ ہوا نا۔ رات بو اچھی گزری نا میرے
تغیر؟“ رنان سنجبدگی سے اس کو دنکھبا ہوا بوال اشارہ اس کا علتبا کے روم سے تکلبا تھا
وہ تھی انسی جالت میں۔
”وہ ڈر رہی تھی اکبلے۔۔“ دامیر کو خود تھی سمجھ پہ آنی کہ وہ اس کو وصاچت
ک نوں دے رہا تھا۔
ً
”میں کجھ نہیں کہہ رہا۔“ رنان اس کی صقانی پہ فورا ہاتھ لبد کرنا ہوا بوال کہ
ن
دامیر ئے سر چھ یکا۔
”چنہ شاشا سے ملی تھی آج۔“ دامیر کجھ اور بوچھبا رنان ئے خود سنجبدگی سے نبانا
کہ اس کو چیرت کا چھ یکا لگا۔
”شاشا سے! ک نوں؟“ پہ نات شن کا چھ یکا ہی لگبا تھا کہ چنہ کی جان کو نہلے
ہی حظرہ تھا اوپر سے وہ ننی مضت نت میں پہ پڑ جائے۔
”شاشا کو آکشن میں دو لڑکباں ملی تھی اسی کی چیر شن کے جلی گنی وہ۔“ رنان
اس کو نبانا ہوا خود تھی مضظرب تظر آنا اور کاؤچ پہ نتتھ گبا۔
”مبکس اس نات کو جا ننے کے تغد ہ یگامہ کریں گے۔ کبا شاشا جانبا ہے کہ
چنہ کون ہے؟“ دامیر اس کے پراپر نتتھنے ہوئے بوال ،رنان ئے تقی میں گردن ہالنی۔
”اننی بو وہ عقل مبد ہے اننی سباچت چھبا کے گنی تھی۔“
”شاشا جٹسے جت نث انشان سے کجھ تھی بوفع کی جا شکنی ہے بو ستتھل کے رہبا
ہو گا۔“ دامیر ئے کہا بو رنان ئے نانبدی انداز میں سر ہالنا۔
”اس کی لڑکباں عانب ہونی ہیں اس نات پہ وہ جاموش نہیں ر ہنے واال۔ ہ یگامہ
ضرور محائے گا۔“ رنان اتھنے ہوئے بوال ،تھوڑا آرام کرنا جاہبا تھا۔
”تم تھی جاؤ آرام کرو ،کجھ دپر تغد مالقات ہو گی۔“ جائے ہوئے تھی وہ دامیر
کو چ ھیڑنا نا تھوال تھا جس پہ وہ نس سرد آہ تھر کے رہ گبا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چنہ ناشنہ کرئے تھی نہیں آنی تھی ،علتبا کو اس کی قکر سبائے لگی۔ صنح چب
وہ اتھی تھی بو دامیر نہیں تھا کمرے میں لبکن نا سنے کے وفت تھی اِ س ئے دامیر کو
دنکھنے سے پرہیز ہی کبا۔ کل رات کو خواب دنکھنے پری طرح ڈری تھی جس میں اس
کے ننجھے فباد کے آدمی تھے جبہوں ئے اس کی دوشت کو نکڑ رکھا تھا۔
اس کی دوشت! ہاں فروا۔ فروا کے نارے میں جائے دامیر ئے کجھ مغلوم کبا
تھی تھا نا نہیں۔ وہ اس نارے میں چنہ سے نات کرنا جاہنی تھی لبکن وہ تھی کہاں۔
اس کا الن میں جائے کو دل کر رہا تھا پہ نتھی ممکن تھا چب چنہ اس کو لے جانی۔
اتھی وہ چنہ کا نمیر مالئے کا شوچ ہی رہی تھی چب دامیر کمرے میں داجل ہوا۔ وہ
ع ھ کن
پراؤزر سرٹ میں مل نوس تھا۔ اس کو د نے لتبا کا دھبان ئےشاچنہ ہی اس کے کام
کی طرف گبا۔ وہ کام کبا کرنا تھا پہ بو اسے مغلوم ہی نہیں تھا چب سے وہ ہوش میں
آنی تھی دامیر کو نس پہ کہنے سبا تھا کہ وہ ناہر جا رہا تھا لبکن وہ کام کبا کرنا تھا پہ
اس ئے نبانا ہی نہیں تھا۔
ئےشاچنہ ہی تظر ہاتھ میں نہنے ڈانمبڈ پہ گنی۔ وہ فتمنی تھا بو ضرور دامیر اچھا کمانا
تھا۔
ت کمش ش ن
علتبا کو اندازہ ہی نہیں ہوا تھا کہ وہ دامیر کو ل ل د ھی جا رہی ھی۔
اجشاس نب ہوا بو دامیر ئے مشکرائے اس کے شا منے ہاتھ لہرانا اور وہ ہوش میں آنی۔
”تم کبا کام کرئے ہو؟“ پہ شوال ئےشاچنہ تھا کہ چب وہ کہہ جکی تھی نب
اجشاس ہوا کہ وہ کتنی ئےاجتبار ہونی تھی۔ تکلحت ہی اس کے رجشار سرخ ہوئے۔
دامیر کو بوفع نہیں تھی ،وہ نہلے الجھا تھر اس کے ناپرات دنکھنے ہٹس دنا۔
”نمہیں کبا لگبا ہے کہ میں کبا جاب کرنا ہوں؟“ دامیر ئے البا اس سے بوچھا
اور اس کے مقانل نتتھ گبا۔ اس کی پرشوق تگاہیں علتبا کے چہرے پہ نکی تھیں جس
ع
ئے ال لمی سے کبدھے احکائے۔
”نبا نہیں ،شاند بولٹس میں۔“ علتبا کے خواب پہ دامیر تھ یکا۔
”نمہیں انشا ک نوں لگا؟“ اس ئے تھر البا شوال کبا۔ آنکھوں میں سرد لہر واصح
ہونی۔ اس کا لہحہ تھی سنجبدہ ہوا تھا۔
”شاند ،تم کاقی صحت مبد ہو میرا مطلب تم انک بوانا مرد ہو۔ نمہاری ناڈی کاقی
اپرنک نو ہے۔“ علتبا ئے اس کے نازو کے تھولے مشلز کو دنکھنے کہا۔ دامیر ئے ا ننے
نازو د نکھے تھر علتبا کو خو شاند اننی نات پہ سرمبدہ تظر آرہی تھی۔
”نمہیں میری ناڈی اپرنک نو لگنی ہے تعنی تم میری طرف اپرنکٹ ہونی ہو۔“ اس
کی آنکھوں کی چمک ندلی ،چہرے پہ انک مدھم مشکراہٹ نمودار ہونی۔ زرا شا اس کی
جانب چھکا۔
”میں ئے انشا نہیں کہا۔ میرا کہنے کا مطلب تھا کہ تم انک اچھی جشامت کے
مالک ہو بو نہت سے لوگوں کو تم نسبد ہوگے۔“ علتبا تھوڑا شا ننجھے ہٹ کے بولی کہ
دامیر کی مشکراہٹ مزند گہری ہونی۔ اس کی دھڑکن پڑ ھنے لگی تھی۔ جائے وہ کس
کام سے آنا تھا اور اب علتبا کے شوال ئے اس کو خود تھٹشا دنا تھا۔
”لوگوں کی مجھے پرواہ نہیں انبا نباؤ۔ نمہیں نسبد ہوں میں۔“ اب وہ اس کو اننی
تگاہوں سے پزل کر رہا تھا۔ علتبا کے لنے اس کی جانب دنکھبا دوتھر ہوا چب دامیر
جن ن
ئے ہاتھ پڑھائے اس کے نالوں کو پرمی سے کان کے ھے اڑشا۔
”چپ پہ رہو ،نباؤ۔ کبا میں نمہیں نسبد ہوں؟“ اس کے کان کے جانب چھکنے
وہ سرگوسی میں بوال کہ علتبا ئے چہرہ ت ھیرئے گہرا شانس ت ھرا۔ تھر ہلکے سے انبات میں
سر ہالنا۔ دامیر اس کو کام والے شوال سے نتھکانا جاہبا تھا نتھی دوسری نابوں میں لگا
دنا۔
”ہہ۔۔ ہاں ا چھے ہو تم۔“ وہ نس انبا ہی کہہ نانی تھی جس پہ دامیر دور ہوئے
ہلکا شا مشکرانا۔
”پہ وہ خواب نہیں تھا جس کی میں بوفع کر رہا تھا لبکن پہ تھی تھبک ہے۔ تم
آج سے میرے شاتھ ہمارے روم میں رہو گی۔“ دامیر کا لہحہ نل میں سنجبدہ ہوا اور
اتھ ک ھڑا ہوا جبکہ علتبا شاک کی ک یق نت میں اس کو دکھنے لگی۔
”انک روم میں؟“ علتبا ئے جٹسے تصدبق جاہی ،دامیر ئے محض سر ہالنا۔
”جٹسے آج رہے و نسے ہی۔“ دامیر مشکراہٹ دنا کے بوال۔
”لبکن میں ئے کہا تھا کہ اتھی نہیں ک نونکہ میں۔۔ میں تھبک تھی نہیں ہونی
اتھی خوامحوا انک زمہ داری ین جاؤں گی۔“ علتبا ئے اننی طرف سے اس کو نا لنے کی
کوشش کی۔
”ہمارے کمرے میں تھی تم تھبک ہو شکنی ہو ،پرامس میں کجھ تھی نہیں
کروں گا۔“ دامیر ئے اس کی آنکھوں میں دنکھنے کہا کہ علتبا اس کی نات ستنے چحل
سی ہو گنی۔
”میں نمہیں اننی تظروں کے شا منے دنکھبا جاہبا ہوں۔“
”لبکن میں اتھی نہیں جانا جاہنی نہاں سے۔“ علتبا ئے تظریں خرا کے کہا۔
اصل میں وہ اس کے فرنب آئے کی وجہ سے گ ھیرا رہی تھی۔
”تم کل رات تھبک سے شونی نہیں تھی بو اب سے تم میرے شاتھ ہی رہو
ن
گی۔“ اس کے لہچے کی گھمئیرنا پہ علتبا محو نت اس کو د نی گی۔
ل ھ ک
”شاتھ والے کمرے میں تھی نہی کجھ ہے اتقبکٹ وہ زنادہ خوتصورت ہے
ک نونکہ وہاں میں ہوں ،نمہارا شامان نہلے سے ہی روم میں سنٹ ہے اور خو نہاں موخود
ہے وہ ر ہنے دو۔“ دامیر اس کے پراپر سے اتھنے لگا چب علتبا بول اتھی۔
”دامیر ،فروا کا کجھ مغلوم ہوا اور چنہ کہاں ہے؟“ اس ئے دوبوں لڑک نوں کا
بوچھا۔
”چنہ رنان کے شاتھ کہیں گنی تھی ناہر گھو منے اور اب وہ دوبوں آرام کر رہے
ہیں۔ رہی نات فروا کی بو آنی اتم شوری اس کا مغلوم نہیں ہو شکا۔ وہ ناکسبان میں
ہی ہے لبکن کونی راتطہ نمیر نہیں مال۔“ دامیر ئے کبدھے احکا کے کہا جس پہ علتبا
کے چہرے پہ مابوسی سی چھا گنی۔
”کبا ہم ناکسبان نہیں جا شکنے؟“ علتبا ئے امبد لنے بوچھا بو دامیر ئے گہرا
شانس تھرا۔
”ہم ضرور جانیں گے لبکن ہمارا نہاں کام ہے اتھی۔“ علتبا اس کا نالبا سمجھ
گنی تھی نتھی مزند کجھ پہ کہا ماشوائے سر ہالئے کے اس کے ناس کونی جارہ نہیں
تھا۔
”ڈپر کے تغد تم ہمارے کمرے میں آرہی ہو اور اس نارے میں کونی تھی نحث
کن
نہیں ہو گی۔“ دامیر انبا کہہ کے کمرے سے جال گبا ،علتبا نبک لگائے آ یں موند
ھ
گنی جبال نار نار فروا کی جانب جا رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دامیر اور رنان اتھی سبک نورنی روم میں نتتھے تھے چب چنہ دندنانی ہونی وہاں آنی اور
نبا ان دوبوں کی پرواہ کنے عصے سے انبا ہاتھ نتبل پہ مارا۔ دامیر ئے ناگوار تظر اس پہ
ڈالی۔
”گارڈ کو تم ئے کہا ہے مجھے ناہر جائے سے رو کنے کا؟“ اس ئے رنان کی
آنکھوں میں دنکھنے مسیغل ہوئے کہا۔
”آقکورس ملٹسکا ،میرے عالوہ نمہاری تھالنی کون شوچ شکبا ہے۔“ رنان ئے
اس کو دنکھنے کہا جس پہ وہ گھورئے لگی۔
”رنان ،مجھے مج نور پہ کرو کہ میں نہاں سے تھاگ جاؤں۔ مجھے میری زندگی جتنے
دو۔ اننی نانبدناں کسی ہونی شونی کے لنے رکھبا۔“ چنہ ئے اتگلی اتھائے اس کو وارن
کبا کہ رنان ہون نوں پہ مسکان لنے اتھا۔
”میری ہوئے والی تھی تم ہو ،شاتھ شوئے والی تھی تم ہو ،کبا آپ نبانا نسبد
کریں گی کہ آپ ئے کہاں جانا ہے؟“ رنان ئے اس کے فرنب آئے سنجبدگی سے
بوچھا۔
َ
”جشٹ شٹ اپ اور میری گاڑی کی جانی دو۔“ اس کی نہلی نات پہ وہ شلگ
اتھی تھی۔ دامیر جاموسی سے انبا کام سرانحام دے رہا تھا۔
”وہ بو نہیں ملنے والی کم از کم نب نک چب نمہاری شادی پہ ہو جائے مجھ
سے۔“ رنان اس کی آنکھوں میں دنکھبا ہوا سرگوسی میں بوال کہ چنہ ئے سر چھ یکا۔
چب تھی اس سے نات کرنی ہمٹشہ پرسی تگاہوں سے اس کو دنکھبا تھا۔
”اس جانی کو ناس رکھو اور اسی سے شادی کرو۔۔“ جبا کے انک انک لقظ کہنی
ہونی مڑی ہی تھی کہ رنان کا چملہ سبانی دنا۔
”میری جانی بو نمہی ہو۔ نمہیں دنکھنے ہی میں جالو ہو جانا ہوں۔“ رنان پڑپڑانا ہوا
وانس اننی جگہ پہ نتتھا اور ا ننے ناپرات نل میں ند لنے دامیر سے کونی نات کرئے لگا۔
”ہاں اچھا گبا ،انکحولی بو بو واٹ۔۔ آؤ ہم پرانبڈل ڈرنسز سبلبکٹ کریں۔ رنان ئے
نبانا کہ انک سبانلشٹ آئے والی ہے۔۔“ چنہ ئے نل میں انبا موڈ ند لنے ہوئے کہا
جس پہ علتبا چیران ہونی۔
”کب ہے تم دوبوں کی شادی؟“ علتبا فراپز کی پرے شانبڈ پہ رکھنی ہونی بولی۔
”تم ان سے کجھ تھی بوفع لگا شکنی ہو ،مجھے آج رات نتبد سے اتھا کے تھی کہہ
ن ب ن ک َ
شکنے ہیں کہ میری شادی ہے۔۔۔ ان پرڈ ل!“ چنہ ئے ہنے اس کو چیرا گی یں
م ک ت
چھوڑا اور خود مونانل تکالے اس میں کجھ دنکھنے جکر کا ننے لگی۔
علتبا اس کو کتھی دانیں اور کتھی نانیں جانا دنکھ رہی تھی۔ وہ انک دم رکی چب
ن ن ن
علتبا کی تغافب کرنی تگاہوں ئے تھی پرنک لگانا۔ چنہ ئے اس کو د کھا ،ا نی آ یں
ھ ک
شکیڑیں تھر آپرو اتھائے جٹسے شوال کبا ہو کہ “کبا دنکھ رہی ہو” علتبا اس کے انداز پہ
سنتبا اتھی اور تقی میں سر ہالئے لگی۔
چ
”چنہ انک نات بوچھوں۔“ علتبا ئے ناد آئے پہ ک کے تکارا۔ چنہ ئے
ھ جھ
اسبہقامنہ تگاہوں سے دنکھا۔
”دامیر اور رنان کبا کام کرئے ہیں؟“ اس ئے دامیر سے بوچھا تھا لبکن وہ
ن
نات کو گھما گبا تھا نتھی ناد آئے پہ چنہ سے بوچھ تتھی۔ وہ تھی بو شاتھ رہنی تھی بو
اس کو مغلوم ہو گا کہ وہ دوبوں کبا کام کرئے تھے خو ا ننے خوتصورت پڑے منٹشن
میں ر ہنے تھے۔
”ن یکائے کا۔۔“ اس کے شوال پہ چنہ ئے الپرواہی سے خواب دنا کہ علتبا کے
ن جم س
اعصاب الجھے۔ ما تھے پہ نا ھی کے ل واصح ہوئے۔
ُ
”مطلب۔۔۔؟“ وہ سمجھ نہیں نانی تھی جبکہ چنہ نبا ان دوبوں کی پرواہ کنے
آرام سے کہہ گنی تھی۔
ن
”مطلب تم ا ننے شوہر سے بوچھبا وہ ا کسبلین کرے گا۔“ چنہ ئے نبار تھری
تظروں سے اس کو دنکھا۔ علتبا کی الجھن کم پہ ہونی تھال پہ کٹشا خواب تھا۔
”تم رات میں تھبک شونی تھی۔ آنی اتم شوری میں آ نہیں شکی۔ آج رات
آجاؤں گی۔“ علتبا اس کے د ننے گنے خواب “ن یکائے” پہ شش و ننج میں متبال تھی
ھ ت تن
چب چنہ اس کے فرنب نی ہونی بولی۔
”نہیں اس کی ضرورت نہیں اب۔ دامیر ئے کہا کہ مجھے اب اس کے شاتھ
ھ کن
روم میں شفٹ ہو جانا جا ہنے۔“ علتبا اس کی طرف د نی ہونی بولی چب چنہ کے
چہرے پہ معنی چیز مشکراہٹ اتھری۔
”اوہ! مطلب رات وہ نمہارے شاتھ تھا ،گڈ اچھی نات ہے۔“ وہ اس کو دنکھ
کے کہہ رہی تھی چب علتبا اس کی تظروں سے جاتف ہونی۔
”ا نسے نہیں دنکھو مجھے۔۔“
چنہ ہٹس دی۔ ”تم نہت ک نوٹ ہو۔“ چنہ ئے اس سے کہا چب اسبانلشٹ اندر
آنی ہونی دکھانی دی جس کے ننجھے گارڈز موخود تھے خو انک سنتبڈ کو تھامے آرہے تھے۔
”جلو ڈرنس ڈنشانبڈ کرئے ہیں۔“ علتبا کو ہاتھ د ننے ہوئے کھڑا کبا اور ڈرنسز
دنکھنے لگیں۔ علتبا جلدی رنکور کر رہی تھی ،والک تھی اب کر لبا کرنی تھی۔
٭٭٭٭٭٭
اسے نہاں آئے کاقی دپر ہو گنی تھی لبکن دامیر نہیں آنا تھا۔ چنہ کے شاتھ
چب وہ ڈپر سے قارغ ہو کے ا ننے روم میں آنی بو اس کی مبڈنشن وہاں موخود نہیں
تھیں۔ بوچھنے پہ نبا جال کہ دامیر شب اس کے روم میں رکھوا حکا تھا۔
چب سے وہ نہاں آنی تھی ا ننے کمرے کے عالوہ نہلی نار وہ کسی اور کمرے
میں گنی تھی اور اب اس کو نہی رہبا تھا۔ اس گھر کے الن ،ل نونگ اپرنا اور کنچن سے
ہی وافف تھی۔ دامیر کی طرح پہ کمرہ تھی ڈارک تھتم ہی تھا لبکن اس کے کمرے
سے کاقی کشادہ۔
خود وہ اس وفت لوز نی سرٹ اور پراؤزر میں مل نوس کمرے کا جاپزہ لتنے میں
مصروف تھی۔ اس ئے غور کبا کہ دامیر اور اس کی انک شاتھ کونی تھی تصوپر نہیں
تھی۔ چب اس کو ہوش آنا بو دامیر ئے نبانا تھا کہ وہ لوگ ہنی مون پہ تھے بو نب کی
تصاوپر بو موخود ہونگی۔ گھر میں تھی ان کی انک شاتھ کونی تھی تصوپر آوپزاں نہیں
تھی۔
”شاند وہ نکجر پرشن نا ہو۔“ علتبا ئے خود سے کہا۔ اس ئے شولڈر نبلٹ اتھی
انار رکھا تھا۔
اتھی انبا وفت نہیں ہوا تھا کہ وہ شو جانی۔ چنہ تھی ا ننے روم میں جا جکی تھی۔
آج ان دوبوں ئے مل کے کجھ کیڑے قانبل کنے تھے۔
چب چنہ کیڑے نہن کے جبک کر رہی تھی بو دنکھنے سے نہلے ہی اس میں سے
شو جامباں تکال د ننی ،اسبانلشٹ کجھ بولبا جاہنی بو چنہ کی گھوری پہ وہ جاموش ہو جانی
تھی۔ انک دو دفع بو وہ انبا سرد انداز میں بولی کہ علتبا خود شانبڈ پہ کھڑی چیرانگی سے
اس کو دنکھنے لگنی۔
آ جا کے اس کو کجھ نسبد آہی گبا تھا جس کو اس ئے نالکل نبا نبار کرئے کو
کہا تھا۔ خو اس کو نسبد آنا تھا نالکل ونشا نبا نبانا جائے وہ پہ پرانبڈ ڈرنس نہیں نہتبا
جاہنی تھی۔ اس نات پہ علتبا ہٹس دی۔
صوفے پہ نتتھے چب وہ ئےزار ہوئے لگی بو ڈرنسبگ روم میں وارڈ روب کے
فرنب جلی آنی ناکہ اننی شانبڈ دنکھ شکے۔ اب چب نہاں رہبا تھا بو شاری سنتبگ تھی
کھ کھ ہ ن ت ھ کن
د نی ھی۔ اس سے لے وہ کیرڈ کا نٹ وا کرنی دروازہ لنے کی آواز آنی۔ آدھ ال
کیرڈ کا دروازہ ا نسے ہی چھوڑے وانس کمرے میں آنی کہ دامیر اسی طرف آئے رک
گبا۔
”نہاں کبا کر رہی تھی؟“
”کجھ نہیں نس ا نسے ہی اننی چیزیں دنکھنے آنی تھی۔“ علتبا ئے سرسری شا کہا۔
”اگر کمرے میں کونی نبدنلی کرنی ہے بو شوق سے کرشکنی ہو۔“ دامیر ئے اس
کا ہاتھ تھامے کمرے کی جانب اشارہ کرئے ہوئے کہا۔
علتبا ئے تقی میں سر ہالنا۔
”نہیں شب تھبک ہے کجھ تھی ند لنے کی ضرورت نہیں۔“ علتبا مشکرانی چب
دامیر ئے اس کی آنکھوں میں چھاتکا۔
”مجھے تھی نہیں۔۔!“ وہ بوچھ رہا تھا کہ علتبا الجھ کے ہٹس دی۔ پہ کٹشا شوال
تھا۔
”نہیں ،نمہیں ک نوں ند لنے کی ضرورت ہے۔“ علتبا دھتمے لہچے میں بولی کہ دامیر
سر ہال گبا۔
”قاتم رہبا اننی نات پہ۔۔“ دامیر ئے زور دنا جس پہ علتبا کھلکھالنی۔
”میں شاور لے لوں ،تم رنشٹ کرو۔ مجھے کام ہیں تھوڑے۔“ اس کے رجشار
پہ ہاتھ رکھنے ہوئے دامیر پرمی سے بوال۔
”تم کمرے میں نہیں رہو گے؟“ علتبا کو لگا کہ شاند اس کو اتھی نہاں اکبلے
ن
رہبا پڑے گا نتھی بوچھ ھی۔
ت ت
”ئےنی میں نہیں ہوتگا نمہارے ناس اسی روم میں ،نمہارے فرنب۔ نس انک
چیز کا فرق ہو گا۔“ دامیر اس کے چہرے پہ اجانک چھانی پرنشانی کو تھا نتنے ہوئے
بوال۔
”کبا۔۔؟“ علتبا اس کی ادھوری نات پہ ئےشاچنہ بولی۔ دامیر معنی چیز
مشکراہٹ لنے اس کے فرنب ہوا۔
”میری آغوش میں نمہارے نحائے لنپ ناپ ہو گا۔“ کان کے فرنب اس کی
سرگوسی ستنے علتبا چحل سی ہو گنی۔
َ
”شو گو انبڈ گنٹ سم شلنپ پرنسس۔“
”“So go and get some sleep
اس کا چہرہ تھامے رجشار پہ ہونٹ رکھنے بوال بو علتبا نبڈ کی جانب پڑھ گنی۔
دامیر ئے پرم تگاہوں سے اس کو دنکھا ،کبا وہ اس سے مجنت کرئے لگے گی؟
اگر مجنت ہو تھی گنی بو کبا شب وانس ناد آئے پہ اسی طرح نارمل رہے گی زندگی؟ پہ
نات پرنشانی کی تھی۔
دامیر جاہبا تھا کہ اس کی ناداشت وانس آجائے لبکن اتھی نہیں۔ وہ فباد ،جاکم
کے نارے میں جانبا جاہبا تھا اور شو ف یصد اس نات کا تفین تھا کہ علتبا جاننی تھی۔
وہ نہلے اس سے مغلومات لتبا جاہبا تھا نتھی کجھ ہو شکبا تھا ورپہ فباد نامی کیڑا اتھی
نک انک نل میں موخود تھا خو دوسروں کو انبا مہرہ نبا کے اننی نہحان چھبا رہا تھا۔
شاور لتنے کے تغد چب وہ کمرے میں آنا بو علتبا نبڈ کراؤن سے نبک لگائے نتم
دراز تھی اور ہاتھ میں مونانل تھا۔ دامیر کو دنکھنے اس ئے مونانل شانبڈ پہ رکھ دنا۔
انبا لنپ ناپ اور انک دو ڈبوانس نکڑے دامیر اننی جگہ پہ آنا ،ک یفرپر میں گھسنے
اس ئے انبا نازو وا کبا اور علتبا کو اشارہ کبا۔
”میں تھبک ہوں تم انبا کام آرام سے کر شکنے ہو۔“ علتبا ئے کیرائے کہا۔
دامیر کی تگاہیں ا ننے لنپ ناپ پہ تھیں خو آن ہو رہا تھا۔ چنہ کی نات کو ان سبا
کرئے اس ئے تھر سے ناس آئے کا اشارہ کبا۔ علتبا ئے گہرا شانس تھرا اور پراپر
آگنی۔
اس کے ا نسے نبا سرٹ نتتھنے سے علتبا چحل ہو رہی تھی۔ دامیر کے کہے کے
ت ب ن ت ن ُ
مطابق اس کو عادت ہیں ھی سرٹ رات کو ہتنے کی کن اِ س کو ھی عادت
ل
ف ھ کن
نہیں تھی ا نسے کسی کو د نے کی بو ظری جبا الزم ھی۔
ت
دل کو الکھ نشلباں د ننی پڑنیں کہ وہ کاقی عرصے سے انک شاتھ رہے ہیں ،ان
کے ر سنے میں تکلف نہیں تھا بو ان شب کی عادت ڈالنی پڑے گی۔ جا ہنے کے ناوخود
اس کو دامیر کے م یغلق کجھ تھی ناد نہیں آنا تھا۔ اس کے لمس سے کونی سباشانی
نہیں تھی لبکن اجتنی تھی نہیں لگبا تھا پہ ہی الجھن ہونی تھی۔
”کبا شوچ رہی ہو؟“ دامیر کے اجانک شوال پہ وہ خونکی۔
دامیر نبک لگائے نانگیں سبدھے کنے ہوئے تھا جبکہ وہ اس کے پراپر فرنب
میں دراز تھی۔
ن
”کجھ نہیں۔“ علتبا ئے تقی میں سر ہالنا اور آ یں موند نی۔ اب وہ اس کو پہ
گ ھ ک
نہیں نبا شکنی تھی کہ نمہارے لمس کا شوچ رہی ہوں۔ اس ئے کروٹ لی تھی۔ دامیر
تغور اس کے چہرے کو دنکھنے لگا۔
اس کی جانب چھکا اور پرمی سے گردن پہ ہونٹ ر کھے کہ علتبا ئے ہڑپڑا کے
ن
آ کھیں کھولیں۔
”تم نہت معصوم ہو۔“ اس کے زچمی کبدھے پہ ہونٹ رکھنے وہ سبدھا ہوا۔
علتبا گ ھیرا گنی تھی کہ اس ئے انک دو گہرے شانس تھرے۔
”رنلبکس۔“ اس کی طرف مشکراہٹ اچھالبا انبا کام کرئے لگا۔ علتبا کو اس کی
اجانک کی گنی خرکت کی سمجھ پہ آنی۔ جائے آج وہ کٹسے شوئے والی تھی۔ اتھی نک
بو وہ اس کے مزاج کو تھی تھبک سے سمجھ نہیں نانی تھی۔ اس سے نات بو وہ
نہت پرمی سے کرنا تھا لبکن چب رنان اور وہ آنس میں نات کرئے نب جائے انشا
ک نوں لگبا تھا کہ ماخول میں انک وجشت سی طاری ہو گنی تھی ،وہ دوبوں ازجد سنجبدہ
ہوئے تھے۔ رنان کی انک تگاہ الگ خوف میں متبال کرنی تھی۔ انہیں شوخوں میں وہ
نتبد میں جا جکی تھی پہ دعا کر کے کہ آج اس کو کونی تھی پرا خواب پہ آئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صنح اس کی آنکھ عج نب سی آوازوں سے کھلی جٹسے کونی نحث کر رہا ہو۔ نبڈ کی
دوسری شانبڈ جالی تھی ،دامیر نہاں موخود نہیں تھا۔ کمرے کا دروازہ کھال تھا۔ اننی
ن م
آ کھیں کمل کھولے چت لتنی بو سمجھ آنا کہ رنان اور چنہ کی کسی نات پہ نحث ہو رہی
تھی۔
”کبا پہ دوبوں ا نسے ہی لڑئے ہیں؟“ پڑپڑا کے وہ اتھی اور فرنش ہوئے گنی۔
گ ن ھ ت تس
نتبد سے اتھنے کی وجہ سے ہلکا شا جکر شا آنا تھا لبکن ل کے وہ ناتھ روم ک نی۔
فرنش ہو کے چب وہ کمرے سے ناہر آنی بو اب کی نحث ہ نوز جل رہی تھی۔
”میری مرضی میں خو مرضی نہ نوں۔“ رنان شکون سے صوفے پہ نتتھا تھا جس
کے شا منے چنہ کھڑی پرس رہی تھی۔
ان دوبوں سے الپرواہ نبا دامیر کنچن میں ناشنہ نبار کرئے میں مصروف تھا۔
”مجھے انبا مج نور پہ کرو کہ میں نمہارے شا منے پرفع نہن کے ت ِھروں اور شاری
زندگی اسی میں رہوں۔“ چنہ ئے اس کو درشگنی سے کہا کہ رنان ئے شاچنہ ہٹس دنا۔
ان کی نحث شاند شادی کے خوڑے کو لے کر ہو رہی تھی ک نونکہ اس وفت چنہ
معمول کے مطابق چئیز اور نی سرٹ میں تھی جبکہ نال ہانی بونی نبل میں نبدھے
تھے۔
ن
علتبا دامیر کو کنچن میں د نی اس کی طرف ہی آ نی۔ گرے ڈرنس سرٹ اور
گ ھ ک
نت نٹ نہنے نبار کھڑا تھا شاند کہیں جانا تھا۔ سرٹ کے کف کھولے فولڈ کنے ہوئے
تھے۔
”مارنبگ ئےنی!“ دامیر ئے آگے پڑ ھنے اس کو شاتھ لگائے گردن کو چھوا کہ
علتبا سنتبانی۔
”مارنبگ!“ وہ نامسکل بولی اور انبا دھبان ان دوبوں کی طرف کبا خو اب الگ
موصوع پہ نحث کر رہے تھے ،رنان کے اس نار ناپرات سرد تھے جبکہ چنہ کے چہرے
پہ سرپر مشکراہٹ۔ وہ اس کو اب صد دال رہی تھی۔
”اگ نور کرو ،وہ دوبوں ا نسے ہی ہیں۔“ دامیر ئے علتبا سے کہا۔ وہ ناشنہ نبا حکا
تھا۔
انبا اور علتبا کا ناشنہ نکڑے اس کو ڈانتبگ نتبل نک النا ،نلنٹس وغیرہ نتبل پہ
رکھنے علتبا کے لنے کرسی ننجھے کی ناکہ وہ نتتھ شکے لبکن اس کا دھبان ان دوبوں کی
طرف تھا خو اب انک دوسرے کے نالکل آ منے شا منے کھڑے ا نسے تھے کہ انک
دوسری کی جان لتنے کے در پہ تھے۔
”رات نتبد کٹسی آنی۔ شکون سے رہی تم؟“ دامیر ئے کا ننے سے انڈے کا
ن ُ
نٹس بوڑئے ہوئے کہا۔ علتبا ئے ان دوبوں سے ظریں ہبائے ہوئے دامیر کو د کھا۔
ت
ن جن ن ت ف ً
د عبا وہ خود ھی خو کی۔ دامیر ئے جا نی تگاہوں سے اس کو د کھا۔ نتبد!
وہ پرشکون تھی رات میں۔ اس ئے آج کونی پرا خواب نہیں دنکھا تھا۔ کونی پرا
جبال اس کو ئےشکون نہیں کر نانا تھا۔ چہرے پہ خودنحود مشکراہٹ در آنی۔
م
”میں شکون میں تھی۔“ اس کے چہرے کی خوسی دنکھنے دامیر ظمین ہوا۔
”اچھی نات ہے ،اب جلدی سے ناشنہ جتم کرو۔ مجھے اور رنان کو کسی ضروری
کام سے جانا ہے چنہ گھر پہ ہی ہو گی اور اگر کونی انسو ہوا بو مجھے کال کر شکنی ہو۔“
ہن ع ب ل مکم
انبا ناشنہ وہ ل کر حکا تھا کن لتبا شاند اس کی نات پہ دھبان یں دے رہی
تھی وہ آج شکون سے شونی تھی اس کو شو جنے وہ بوخوش تھی۔
”ناشنہ مکمل کرو پرن َسس۔“ اس ئے م نوجہ کرنا جاہا جس پہ وہ مشکرا کے سر الہ
گنی۔
”کبا کونی انسی نات ہے خو تم مجھ سے سئیر کرنا جاہنی ہو۔“ نا سنے کے دوران
دامیر ئے سرسری شا کہا۔ علتبا ئے جاموش تگاہوں سے اس کو دنکھا گونا وہ اس کے
شوال کو سمجھبا جاہ رہی ہو۔
دامیر اس کو انک ک یفرٹ زون میں النا جاہبا تھا چہاں وہ خود ا ننے دل کی نانیں
ہ ت ھ کن
م ت
اس سے کہہ نائے۔ کجھ سبکبڈز بو وہ دامیر کو د نی رہی ھر قی یں سر الئے ا ننے
نا سنے پہ م نوجہ ہونی۔
ت ہ َ
”لو پرڈز لڑانی ہوگنی ہو بو زرا اطالع دے دیں تھر میں جانا ھی ہے۔“ دامیر
ئےرنان اور چنہ کی جانب سنجبدگی سے دنکھنے ہوئے کہا۔ اس کی آواز پہ وہ دوبوں
تھبکے۔
ل َ
ک
”زنان ستتھال کے۔“ دامیر کے لو پرڈز ہنے پہ چنہ پڑخ ہچے میں بولی کہ دامیر
نبا پرواہ کنے اندر گبا اور اننی نبلٹ اور اوپر کوٹ نہنے وانس آنا۔
ت کن ہن ع مکم
ن
وہ ل ڈرنس اپ تھا ،ا سی نباری لتبا ئے لی نار د ھی ھی۔ اس وفت
علتبا کو وہ انک جسین مرد لگا تھا خو ا ننے چہرے پہ سرد ناپرات سحائے ہوئے تھا۔
اس کی آنکھوں میں پرفبال ناپر ،سجنی سے چیڑے کو تھتنچے ہوئے اننی ونشٹ نبلٹ
سنٹ کر رہا تھا۔ اس کے لب ا ننے آپ ہی مشکراہٹ میں د ھلے۔
”میں نہیں جاننی ،ہم خوش تھیں وہاں۔ میری دوشت فروا تھی شاتھ میرے۔
دن ا چھے گزر رہے تھے تھر اجانک جٹسے کونی طوقان شا آگبا تھا۔ فروا نبا نہیں کہاں
جلی گنی۔“ علتبا ئے دھتمے لہچے میں کہبا سروع کبا۔
”کبا فروا کی کسی سے دسمنی تھی؟“ چنہ کے بوچھنے پہ علتبا ئے تقی میں سر
ہالنا۔
”انشا کجھ نہیں تھا۔ وہ نہت اچھی لڑکی تھی ،ہماری دوسنی کو اتھی نہت کم
وفت ہوا تھا۔ انشا لگبا ہے کہ اتھی کل ہی کی نات ہو۔ پر دنکھو کتبا کجھ ندل گبا۔“
عمگین لہچے کے شاتھ اس ئے گھر کی طرف اشارہ کبا کہ زندگی کہاں لے آنی تھی۔
چنہ کے ناپرات ہ نوز تھے۔ جاموسی کا انک اور دوراننہ۔
”تم رنان کو کب سے جاننی ہو؟“ علتبا ئے ستتھلنے کہا۔
”کجھ ہی دپر ہونی ہے۔“ سنجبدگی سے خواب دنا گبا۔
”بو تم نہاں کب سے ہو؟ میرا مطلب فتملی وغیرہ میں اور کونی۔۔“ علتبا ئے
چ
ک کے بوچھا۔ ھ جھ
ٹھ ت ن ُ
”چب سے اسے جا نی ہوں نب سے نہاں سی ہوں۔“ دوسرا چملہ وہ نس
پڑپڑا کے رہ گنی۔
” میری فتملی میں مبکس ل نو کے عالوہ تم ہو۔“ چنہ کی نات پہ علتبا خونکی۔
آنکھوں میں ئےتفتنی در آنی وہ اس کی فتملی تھی اور پہ نات اس ئے نہلے ک نوں نہیں
نبانی۔
”اتکل ئے کتھی مجھ سے نمہارا زکر نہیں کبا ،کبا تم میری نہن ہو؟“ علتبا
خوشگوار چیرت لنے بولی ،پہ شوال کرئے اس کی دھڑکن انک دم رک کے جلی۔
آنکھوں میں چمک اتھر آنی۔ چنہ ہلکا شا مشکرانی اور اس کی جانب دنکھا۔
”تم نہن سے پڑھ کے ہو ،میں سروع سے نمہارے نارے میں جاننی تھی۔
اتکل ئے نمہیں شوپزرلتبڈ کے پرپ کے تغد نبانا تھا میرے نارے میں نتھی نمہیں کجھ
ناد نہیں۔“ چنہ پرمی سے بولی۔
”کبا تم تھی میری طرح ہوسبلز میں رہی ہو؟“ علتبا کے لہچے میں اداسی سما
گنی۔ اکبلے ر ہنے کی اداسی۔ اس ئے انبا رخ چنہ کی جانب کبا کہ وہ خزنانی ہو رہی
تھی۔
چنہ ئے تقی میں سر ہالنا۔
”میں سروع سے ان کے شاتھ ہی رہی ہوں ،لبکن چب تم آنی بو نمہیں وہ اچھی
زندگی د نبا جا ہنے تھے نتھی انہوں ئے انک گورنس رکھی تھی نمہارے لنے خو نمہارے
شاتھ ہی رہنی تھی۔“ چنہ اس کو مزند نبائے لگی خو وہ خود تھی جاننی تھی۔ اس کا
نچین کا کجھ حصہ ناکسبان میں اور کجھ گورنس کے شاتھ گزرا تھا اور تھر ہاسبل میں
رہبا۔
”لبکن تم مجھ سے ا ننے شال ک نوں چھنی رہی؟“ علتبا ئے زہن میں اتھرنا ہوا
ْ
شوال فورا زنان پہ النا۔
”پہ شب تم جاننی ہو لبکن ناداشت کے اِ س حصے کو کھو جکی ہو۔ چب نمہاری
ناداشت وانس آئے گی بو شب سمجھ جاؤ گی۔“ چنہ ئے اس کی طرف انک مشکراہٹ
اچھالی۔
”تم نہت خوتصورت ہو۔ کبا تم رنان سے مج نت کرنی ہو؟“ چنہ اس کی اجانک
کی گنی تعرتف پہ سنتبانی تھر شوال پہ الجھی۔
”رنان چب نمہیں دنکھبا ہے بو اس کی آنکھوں میں جاہت تظر آنی ہے۔“ علتبا
ئے مزند کہا کہ چنہ اس کو گھورئے لگی۔ تعنی وہ ان دوبوں کو کاقی بوٹ کرنی تھی۔
”دامیر تھی نمہیں والہاپہ تظروں سے دنکھبا ہے جٹسے شب کجھ اتھی تم پہ وار
دے گا۔“ چنہ ئے البا اس سے کہا جس پہ علتبا جاموش ہونی تھر سرما سی گنی۔
”کبا وافعی انشا ہے؟“ علتبا ئے ہولے سے بوچھا جس پہ چنہ سر چھبکنے ہٹس
دی۔
”اس سے خود بوچھبا وہ نمہیں ا چھے طر تقے سے واصح کرے گا۔“ چنہ ئے اس
کے چہرے پہ جبا کے رنگ دنکھنے کہا۔
”کبا رنان ئے کتھی اظہارکبا؟“ علتبا ئے استباق سے بوچھا ،چنہ گہرا شانس تھر
کے رہ گنی۔ علتبا کو نالبا آشان تھا لبکن شاند وہ انبا شوال دہرانا نہیں تھولنی تھی
جس کا خواب پہ مال ہو۔
”مجھے انبان نت نہیں نسبد۔“ اس کے خواب پہ علتبا ہونٹ تھنچے ا ننے آپرو
شکیڑے۔ پہ کٹشا عج نب خواب تھا۔
جم س
”کبا مطلب۔۔!“ علتبا نا ھی سے بولی۔
”خو چیز مجھے وفت پہ نہیں ملنی تھر وہ چیز میرے لنے معنی نہیں رکھنی۔ میں
ئے خو زندگی گزاری ہے اس میں انبان نت ،اظہار ،مجنت انشا کجھ تھی نہیں تھا اسی
لنے مجھے پہ شب اب جا ہتنے تھی نہیں۔“ اس کا لہحہ سنجبدہ ہوا ،چہرے پہ سجنی در
آنی۔
شا منے گارڈن میں اب دھوپ کی چمک کاقی زنادہ تھی۔ علتبا اس کی نات کو
س گ ت جم س
ک م
ھنے کی کوشش یں ھی چب چنہ ھڑی ہو نی۔ اس وفت وہ انک نجبدگی کا
محشمہ لگ رہی تھی خو مشکرانا پہ جاننی ہو۔ لبکن اگلے ہی لمچے وہ ندل گنی۔ اس ئے
چہرے پہ مسکان سحانی۔
”جلو اندر جلنے ہیں۔“ انبا ہاتھ پڑھائے علتبا کو کھڑا کبا۔ وہ اس کی نات کے
شاک میں تھی۔
وہ انک عام لڑکی نہیں تھی خو مجنت کے نارے میں شوجنی۔ وہ اس کالی دنبا
میں نلی انک ڈبول کا روپ تھی جسے اس ئے چھبا کے رکھا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دونہر میں چنہ ئے کجھ ہلکا تھلکا شا نبا لبا تھا اور اب وہ ڈپر کا نلین کر رہی
تھی۔ دامیر وانسی پہ شاند رنان اور ا ننے لنے خود کجھ نبانا لبکن علتبا کو دوانی د ننی تھی
نتھی چنہ خود نبار کرئے لگی۔
دودھ لتنے کے لنے گالس تھامے چب علتبا فرنج کا دروازہ کھولے کھڑی تھی
نتھی اننی گردن پہ لمس محسوس کرئے وہ ہڑپڑا اتھی۔
ان کی طرف نہیں تھا۔ دامیر ئے علتبا سے نہلے فون پہ راتطہ کبا تھا جس میں اس
ئے نبانا کہ وہ کھانا کھا جکی تھی۔
دامیر فرنش ہوئے کے تغد کنچن میں وانس آنا۔
علتبا اس کو کھانا نبانا دنکھ رہی تھی خو انبا کوٹ اور ونشٹ نبلٹ انارے ماہر
سیف کی طرح ہاتھ جال رہا تھا۔ گرے سرٹ کے کف کہت نوں نک فولڈ کر ر کھے تھے۔
علتبا کے دل ئے اغیراف کبا تھا کہ اتھی کھانا نبائے وہ مزند پرکسش اور جازب
لگ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ کی تھولی نسیں واصح تھیں ،نانٹ سرٹ میں اس کے نازو
کے مشلز تظر آرہے تھے۔ ا ننے دوبوں ہاتھ سبلف پہ ر کھے آہشنہ سے ناؤں چھالنی
ہونی وہ دامیر کو پرشوق تگاہوں سے دنکھ رہی تھی خو انمہاک سے کھانا نبار کرئے میں
مصروف تھا۔
دامیر ئے انک تظر اس کو دنکھنے ا ننے اپرو احکائے۔
”تم نہت ہتبڈسم لگ رہے ہو اس وفت۔۔“ علتبا خود کو پہ کہنے سے روک پہ
نانی تھی ،اننی نات کا اجشاس ہوئے ہی وہ تظریں خرا گنی۔ شاالد نبار کرئے دامیر ئے
لتموں کا رس نحوڑا اور نماپر کا انک نکرا اتھائے علتبا کے ہون نوں کے فرنب کبا ،اس
ئے ہون نوں کو تھوڑا کھو لنے آدھا نکرانا کھانا کہ کھبا ین محسوس کرئے چھرچھری لی ،اس
کی خرکت پہ مشکرائے نحا ہوا نکرا خود کھا لبا۔ ا نسے ہی اس کو انک انک سیزی کا نکرا
کھالنا اور نحا ہوا خود کھا لتبا۔
کھانا نتنے پہ رنان خود اننی پرے نتبل نک لے گبا ک نونکہ جانبا تھا کہ دامیر اتھی
علتبا کے ناس ہی رہے گا ،اور نہیں کھانا کھا لے گا۔
”تم ئے نبانا نہیں دن کٹشا گزرا؟“ کھانا کھائے دامیر ئے اس سے بوچھا۔ وہ
ن
اتھی تھی سبلف پہ تتھی تھی جبکہ دامیر اس سے قاصلے پہ۔
”اچھا گزرا ،چنہ کے شاتھ وفت اچھا گزرا ہے۔ تم جا ننے تھے کہ وہ میری کزن
شسیر ہے۔“ علتبا نات کرئے پرخوسی سے بولی بو دامیر ئے دھیرے سے انبات میں
سر ہالنا۔
”لبکن تم ئے مجھے نبانا ک نوں نہیں؟“ وہ جاتف ہونی۔
”چنہ ئے خود نبانا بو نمہیں زنادہ خوسی ہونی اسی لنے۔“ دامیر کبدھے احکائے
بوال۔
”ہاں پہ تھی ہے لبکن۔۔۔ مجھے لگبا ہے کہ وہ شادی نہیں کرنا جاہنی۔“ علتبا
ئے گردن گھمائے چنہ کو دنکھا خو رنان کو تظرانداز کنے اتھی تھی نی وی دنکھنے میں
مصروف تھی۔
شام ہوئے کو آنی تھی۔ اعصاب کو پرشکون کرئے کے لنے نتبد کی تھوڑی ضرورت
تھی۔
علتبا کو شاتھ لنے روم میں آنا چب علتبا ئے اس کی ونشٹ نبلٹ کو صوفے پہ
پڑا دنکھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف ،ئےتفتنی نبک وفت سمانی۔
دامیر ئے اس کو انک جگہ سبل دنکھنے تظروں کے تغافب میں دنکھا تھر اننی
الپرواہی کو کوشا۔
”دامیر پہ گن۔“ اس ئے گن کی جانب اشارہ کبا۔ وہ ونشٹ نبلٹ میں موخود
تھی۔
” سیقنی کے لنے رکھی ہے۔ ڈرئے کی ضرورت نہیں۔“ دامیر ئے ہلکے تھلکے
لہچے میں کہنے صوفے سے نبلٹ اتھائے کیرڈ میں رکھا۔
”رنلبکس ،پہ سبلف ڈ تقنٹس کے لنے ہے۔“ وہ اتھی تھی ئےتفتنی تگاہوں
سے دامیر کو دنکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے کو ہاتھوں کے نبالے میں تھامے وہ
پرمی سے بوال۔
س
”سبلف ڈ تقنٹس؟“ نا ھی سے بوچھا۔
جم
”ہمارا کام انشا ہے نا بو ہم شاتھ رکھنے ہیں ،ضرف ضرورت پڑئے پہ جال
شکیں۔۔ نمہیں ڈرئے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے گارڈز کے ناس تھی موخود ہیں۔“
ً
دامیر ئے پرمی سے سمجھانا جاہا ناکہ وہ فورا ان کے نارے یں پہ جان جائے۔
م
”لبکن وہ بو گارڈز ہیں نا۔۔“
”بو سمجھ لو میں نمہارا اور خود کا گارڈ ہی ہوں خو ہم دوبوں کی حقاظت کرے گا،
اوکے اب شکون سے لنٹ جاؤ اور آرام کرو۔“ ا ننے کیڑے لنے وہ ناتھ روم جال گبا،
علتبا نبڈ پہ نتتھ گنی۔
کجھ دپر تغد وہ شاور لنے وانس آنا بو اس ئے نلبک ونشٹ نہنے رکھی تھی۔ دامیر
چ
اس کا کیرانا بوٹ کر حکا تھا نتھی نہن لی کہ وہ ک یفرنتبل رہے۔ ک حسوس پہ
م ھ جھ
کرے۔ علتبا ئے پہ بو بوٹ پہ کبا البا اس کے کسرنی نازو پہ ننے انک زچم کی جانب
دھبان جال گبا۔
”دامیر پہ کبا ہوا ہے؟“ پرنشانی سے وہ اتھ کھڑی ہونی۔ دامیر ئے نازو دنکھا
چہاں انک گہرا زچم نبا تھا خو اس کو آج انک لوہے کی چیز لگنے کی وجہ سے مال تھا۔
”ہم انک منتبگ پہ گنے تھے چہاں لوہے کا شامان پڑا تھا کاقی۔ شانٹ وزنبگ
تھی تھی نا شاتھ بو نس گزرئے کونی کبل لگ گبا اسی لنے نبا نہیں جال۔“ اس ئے
الپرواہی سے نات نبانی لبکن علتبا اس کے زچم کو پرنشانی سے دنکھ رہی تھی۔
”کہاں جا رہی ہو؟“ اس کو انک منٹ کا کہنی وہ ڈرنسبگ روم میں جائے لگی
چب دامیر ئے کہا۔
”نانی کی وجہ سے وہ زنادہ خراب پہ ہو جائے میں کجھ لگائے کو النی ہوں۔ ننی
کر د ننی ہوں میں۔“ چہرے پہ آئے نالوں کو ہبائے نبائے تھر سے جائے لگی۔
”میں النا ہوں و نٹ۔“ وہ جانبا تھا کہ اس کی مرہم ننی کنے تغیر شکون سے
نہیں نتتھے گی نتھی خود لتنے جال گبا۔
فرشٹ انڈ ناکس الئے اس کو تھمانا اور خود اس کے پراپر نبڈ پہ نتتھ گبا۔
”درد بو نہیں ہو رہا۔۔؟“ وہ نسونش زدہ لہچے سے بولی ،تقی میں سر ہالئے وہ مزند
اس کے فرنب سرک کے نتتھا۔ علتبا اس کی خرکت پہ انک تظر اس کو دنکھنے رونی
سے اس کا زچم صاف کرئے لگی۔
”تم کبا کام کرئے ہو دامیر؟“ اس کے شوال پہ وہ ہٹس دنا۔ وہ وافعی ا ننے
شوال دہرانا نہیں تھولنی تھی۔
”میں نمہارے لنے کام کرنا ہوں۔“ دامیر ئے اس کے چہرے پہ تظریں تکائے
کہا۔ علتبا ئے اسبہقامنہ تظروں سے اس کو دنکھا۔
”خو تم کہو میں وہ کرئے کو نبار ہوں۔“ وہ مجمور لہچے میں بوال۔ وہ اس کے ا ننے
فرنب نتتھا تھا کہ علتبا کو گ ھیراہٹ ہوئے لگی۔ شوال سنجبدہ تھا ،خواب رومابوی۔
”میں ننی کر دوں!“ علتبا ئے اس کا دھبان تھ یکائے کو کہا۔ دامیر اس کی
کیرانی تگاہوں کو محسوس کرئے انبا ہاتھ اس کے چہرے نک النا۔
اس کی گہری بولنی تگاہوں کو تظرانداز کرئے کی نگ و دو میں فرشٹ انڈ ناکس
سے ننی تکالے ناند ھنے لگی۔
”لو ہو گنی ننی۔۔“ علتبا انبا کام جتم کرئے اس کے ناس سے اتھنے لگی چب
دامیر ئے اس کی کالنی تھامی۔
”تم ئے انبا ڈرنس قانبل کر لبا؟“ اس کا ہاتھ تھامے پرمی سے انگو تھے سے
سہالئے ہوئے بوچھا۔ علتبا ئے انبات میں سر ہالنا۔ وہ اس کے ناس سے اتھبا
جاہنی تھی۔
”کبا تم مجھے کجھ نبانا جاہنی ہو؟“ دامیر ئے صنح واال شوال دہرانا۔
”نہیں انشا کجھ نہیں ہے۔“ علتبا کے کہنے پہ دامیر ئے اس کو جانجنی تگاہوں
سے دنکھا۔ علتبا کو اس نل انشا محسوس ہوا جٹسے وہ اس کے اندر نک چھانک رہا تھا۔
”تم جتنج کر لو۔ مجھے آج تھی زرا کام کرنا ہے۔“ اس کا نات چھوڑئے وہ
سنجبدگی سے بوال بو علتبا شکھ کا شانس تھرئے اس کے ناس سے اتھی اور جتنج کرئے
جلی گنی۔
دامیر اور رنان آج ماشکو گنے تھے چہاں شاشا ئے ان کو نالنا تھا۔
شاشا کو ان پہ شک نہیں تھا لبکن وہ ان دوبوں کی مدد جاہبا تھا ناکہ وہ اس
سحص کو ڈھونڈ شکے جس ئے اس کے ف یصے سے لڑک نوں کو نازناب کروانا تھا لبکن وہ
دوبوں صاف اتکار کر آئے تھے کہ وہ اس کے مغا ملے میں نہیں پڑنا جا ہنے خونکہ وہ
لوگ کرائے کے قا نل (اشاشن) تھے بو ا نسے کسی کے انڈر کام نہیں کر شکنے تھے پہ
ہی انہوں ئے شاشا سے کونی واشطہ رکھبا تھا۔
وہ دوبوں پہ نبائے سے تھی رہے تھے کہ انہی کی نبدی ئے پہ کام کبا تھا۔
جبکہ وہاں شاشا کی انک نات پہ دامیر کا دماغ انک گبا تھا۔ اس کے مطابق پہ کام
ڈنگر Daggerکا تھا ک نونکہ مرے ہوئے لوگوں پہ جافو سے وار کبا گبا تھا خو ڈنگر
کی ہی جاضنت تھی۔
ڈنگر! Dagger
چہاں نک دامیر جانبا تھا ،ڈنگر کی سحضنت انلی میں مشہور تھی بو وہ نہاں کٹسے۔
شاند اس نارے میں رنان جانبا ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭
م
چنہ انبا لنپ ناپ لنے کجھ کام کمل کر رہی تھی جبکہ علتبا اس سے تھوڑے
قاصلے پہ کسرت کرئے میں مصروف تھی خو چنہ ئے کجھ نبانی تھیں۔ دامیر اور رنان
صنح کے گنے تھے کسی کام اور اتھی نک وانس نہیں لوئے تھے۔ علتبا کو نیزی سے
اتھنے نتتھنے میں تکل یف ہونی تھی ،کمر کی خوٹ کی وجہ سے وہ تھرنی نہیں دکھا نانی تھی
اور اسی لنے چنہ اس کو تھوڑی کسرت کروا دنا کرنی تھی۔ دوبوں آرامدہ پراؤزر سرٹ
میں مل نوس تھیں۔
الن میں موخود چئیر پہ نتتھے چنہ ئے ا ننے ناؤں شا منے میز پہ ر کھے تھے۔ چب
اس کے مونانل پہ کال آئے لگی۔ مین گنٹ کا گارڈ اس کو کال کر رہا تھا۔
”ڈرنبا مس آنی ہیں۔“ گارڈ ئے اتقارم کبا کہ ئےشاچنہ ہی چنہ کی تظر علتبا کی
طرف اتھی۔
”اندر نہیں آئے د نبا۔“ چنہ ئے انبا کہنے کال کاٹ دی۔ دامیر کی غیر موخودگی
میں وہ پہ رشک نہیں لے شکنی تھی۔ ڈرنبا علتبا کی ناداشت میں کہیں تھی نہیں
تھی۔ دامیر کی اجازت کے تغیر علتبا کسی اور سے نہیں مل شکنی تھی۔ دامیر پہ تھی
کہبا بو چنہ اکبڈمی کے کسی تھی سنوڈ ن نٹ پہ تھروسہ نہیں کرنی تھی اور پہ ہی کسی کو
علتبا سے ملنے دے شکنی تھی۔
چنہ” :ڈرنبا نہاں شوشاننی میں موخود ہے۔“ اس ئے پروفت دامیر کو مٹسج تھنج دنا
ناکہ اس کے علم میں ہو۔
دامیر”:دوبوں اسی وفت اندر جاؤ۔“
دامیر کے رنالنی آنا بو چنہ نبا کسی نحث کے علتبا کی طرف پڑھی اور اس کو اندر
لے آنی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
”نمہاری نات بو آشانی سے مان گنی ہے ،میری دفع کون شا دورہ پڑنا ہے۔“
ً جک ن
شا منے شکرین کو دنکھنے رنان جلے دل سے پڑپڑانا چب چنہ کو فورا م کی ل کرئے
ب م ک
دنکھا۔
”ک نونکہ پہ کام کی نات تھی کونی فصول نکواس نہیں۔“ دامیر ئے نمسجر اڑائے
ہوئے کہا رنان ئے ا ننے ناپرات ندلے۔
”جاکم نامی نبدے ئے اس کو ہانیر کبا تھا ا ننے لنے۔ چھتباں بو مبائے نہیں
آنی ہونی پہ ،ضرور اس کا مالک تھی نہیں ہو گا۔“ رنان ئے مین گنٹ کے کتمرہ فوننج
کو آن کرئے کہا چہاں وہ گارڈ سے نحث کرئے میں مصروف تھی۔ اس کو اندر جانا
تھا لبکن ان کی اجازت کے تغیر نہیں جا شکنی تھی جاہے وہ علتبا کی دوشت ہی
ک نوں پہ ہو۔
”سر آپ کو کجھ جا ہنے؟“ وہ دوبوں کارگو نت نٹ سرٹ میں مل نوس انک آقس
میں موخود تھے چب انک آدمی مؤدب شا ان کے شا منے آنا ،رنان ئے ہاتھ کی اشارے
سے جائے کا کہا۔
وہ دوبوں شکرین پہ تظریں چمائے ہوئے تھے چب مزند اشلحہ لٹس دو گارڈ اندر
داجل ہوئے ،ان کے ننجھے ہی نلبک شوند بوند مافبا ہبڈ تھی داجل ہوا۔ شاشا۔۔ پرابوا
ہبڈ۔
دامیر ئے انبا لنپ ناپ شا منے نتبل پہ رکھا لبکن کھڑے ہوئے کی زچمت دوبوں
ئے نہیں کی تھی۔
وہ ہبڈ تھا بو پہ اشاشن تھے ،ڈبول۔ خو شا منے موخود ہسنی کو مارئے سے نہلے اس
کا رننہ نہیں دنکھنے تھے نس انبا کام کرئے تھے۔
دامیر ئے ا ننے ہاتھوں کی اتگلباں ناہم ن نوشت کیں۔ رنان ئے چئیر سے نبک
لگائے انک ہاتھ ا ننے گال کے ننچے رکھا۔ اس ہقنے میں پہ شاشا کے شاتھ دوسری
مالقات تھی اور رنان ڈی کے لنے سحت کوفت تھرا وفت تھی۔
”ان یطار کی عادت نہیں ہمیں ،ناتم از منی) ،(Moneyان یطار کی فتمت
وصول کریں گے۔“ دامیر ئے سباٹ ناپر لنے کہا۔ شاشا ہٹس دنا۔
”مجھے تم دوبوں کا انتنت نوڈ نہت نسبد ہے ،وفت پرناد ہوا ہے بو اس کا ہرجاپہ
ضرور بورا ہو گا۔“ شاشا ئے مشکرائے ہوئے کہا۔
”میں تم دوبوں کا انک کانیرنکٹ د نبا جاہبا ہوں۔“ شاشا ئے نمہبد سے پرہیز کبا
اور سبدھا مدعے کی نات کی اور ا ننے آدمی کو اشارہ کبا جس پہ اس ئے انک پرتف
کٹس اتھائے ان کے شا منے میز پہ رکھا۔ نٹسوں سے تھرا پرتف کٹس۔
”ڈنگر کو مارئے کا کانیرنکٹ۔“ شاشا کے کہنے پہ رنان ئے انک اپرو احکانا۔
”ڈنگر! جا ننے تھی ہو اسے۔“ رنان اننی گرے آنکھوں میں سرد وجشت لنے بوال
جبکہ ہون نوں پہ معنی چیز مشکراہٹ تھی۔
”وہ انک چھبا ہوا مہرا ہے جسے ڈھونڈنا تم دوبوں کے لنے مسکل نہیں اور پہ کام
تم دوبوں سے نہیر کونی کرے گا نہیں۔“ شاشا ہلکا شا ہٹس کے بوال۔
”تھبک کہا پہ کام ہم سے نہیر کونی نہیں کرے گا لبکن ہم نمہارے کہنے پہ
ہی ک نوں کریں؟“ رنان آگے کو ہوا۔ دامیر کے ہون نوں پہ نٹشم نکھرا تعنی اس کا شک
تھبک تھا۔ رنان جانبا ہے کہ ڈنگر کون ہے۔
”ک نونکہ میں نمہیں اس کی فتمت دے رہا ہوں۔“ شاشا کا انداز سنجبدہ ہوا۔
”میری مانگی فتمت تم سے ادا نہیں ہو نائے گی۔“ رنان ئے پرشکون لہچے میں
کہنے نانگ پہ نانگ خڑھانی۔ انداز معروراپہ تھا۔ اس کے خوئے کا رخ شاشا کی طرف
تھا۔ شاشا اننی کی گنی بوہین پہ جاموش رہا۔
”زنادہ سے زنادہ کتنی ،مبلئیز ڈالر ،نا نبلئیز۔۔“ شاشا اننی جگہ سے کھڑا ہو گبا۔
دامیر ئے انک تظر رنان کو دنکھا خو اس کی نبانی فتمت پہ سر چھبکبا اتھ کھڑا ہوا۔
”کہا نا تم سے ادا نہیں ہو نائے گی۔“ رنان جلبا ہوا اس کے فرنب آنا۔ اس کی
ک ھ کنک م ن
آ ھوں یں آ یں ڈالے ھڑا رہا۔ شاشا ئے انبا رخ موڑا۔
”تم نال چھحک اننی فتمت نبا شکنے ہو۔“ اس ئے جت نوں میں ہاتھ ڈالے۔ اس
کی گردن پہ نت نو واصح تھے۔ سر پہ نالکل چھوئے نال اور کابوں میں نالی۔ وہ انک مجرم
کا جاکہ نٹش کرنا تھا۔
”میری فتمت! نمہاری جان ہے۔“ رنان ئے اس کے کان کے فرنب ہوئے
حظرناک لہچے میں سرگوسی کی کہ شاشا ئے عصے سرخ ہونی آنکھوں سم نت اس کو
دنکھا۔
”جس دن پہ فتمت ادا کرئے کو نبار ہو جاؤ بو نبانا ڈنگر کی طرف سے خوش چیری
دوں گا۔“ انک آنکھ دنائے ہوئے رنان ئے کہا جبکہ دامیر سبانسی انداز میں کھڑا ہوا۔
”رنان ڈی دا سبانیر! تم شاند تھول رہے ہو کہ تم کس کے شا منے کھڑے
ہو۔“ اس کی نات پہ شاشا کے چہرے پہ عصے کی اللی آنی بو رنان کو اس کے نام
سے تکارئے ہوئے کہا۔
انبا نام ستنے رنان کی آنکھوں میں وجشت اپر آنی۔ اس ئے سجنی سے انبا چیڑا
نک م ن
تھتنحا۔ اس کے مقانل ک ھڑے اس کی آ ھوں یں آ یں گاڑھے اس ئے ماخول
ھ ک
” ننے ہو اس دنبا میں ،جس دن پراپری پہ آؤ نب میرا نام تکارنا وہ تھی نبا ڈرے،
پہ ہاتھوں کا کانتبا مجھ سے چ ھپ نہیں شکبا۔“ نبا نلک چھبکے رنان ئے مدھم آواز میں
کہا کہ ضرف شاشا ہی شن شکبا تھا۔ اگر اس کا کونی آدمی شن لتبا بو اس کی عزت کی
دھجبا اڑنی تھی۔ وہ پرابوا کا ہبڈ تھا اور اس کے شا منے کھڑا کونی اس کو دھمکی دے رہا
تھا۔
دھمکی د ننے واال کونی اور نہیں سبانیر خود تھا۔ شاشا اس سے دو قدم ننجھے ہوا اور
تظریں ت ھیرئے آس ناس دنکھنے لگا۔
”تم لوگ خود اس کانیرنکٹ سے اتکار کر رہے ہو جبکہ میں اس کی تھاری فتمت
دے رہا تھا۔“ اس ئے ا ننے آدم نوں کو نٹسوں سے تھرا نبگ وانس لے جائے کا
اشارہ کبا اور خود وہ ہبڈ چئیر پہ نتتھ گبا۔
”ہمارے لنے ہمارا وفت فتمنی ہے خو تم ئے پرناد کبا۔“ دامیر رنان کے پراپر
کھڑا ہونا بوال۔
”مت تھولو تم دوبوں میرے عالفے میں ر ہنے ہو۔ اگر میں اس وفت جاہوں بو
تم دوبوں کا نام و نشان مٹ جائے اس صفحۂ ہسنی سے۔“ دامیر کی نات پہ شاشا انبا
عصہ دنانا ہوا بوال۔
”نہی القاظ ہماری طرف سے لے لو۔“ دامیر سرد لہچے میں بوال۔
”اور ہاں انبا پہ نتھا دماغ کسی کھبلنے کودئے والی چیزوں میں لگاؤ ،پہ ڈنگر اور
سبانیر سے نبگے لتبا اتھی نمہاری عمر کے لنے تھبک نہیں ہے۔“ اس کا کبدھا تھبکنے
ہوئے رنان ئے سرد نتھر نلے لہچے میں کہا اور نبا کسی کی پرواہ کنے وہ دوبوں وہاں سے
تکل پڑے۔
ماشکو کی اس پڑی خوتصورت نلڈنگ سے تکلنے وہ لوگ اننی گاڑی میں نتتھے۔ رنان
ئے سنئیرنگ ستتھاال چب دامیر ئے اننی گود میں لنپ ناپ ر کھے اس کو آن کبا۔
گھر کے آس ناس کی سبک نورنی کو جبک کرئے لگا ،ڈرنبا وانس جا جکی تھی اور
اتھی کے لنے اچھا تھا ک نونکہ پروفت ڈرنبا کا علتبا سے ملبا اچھا نانت نہیں ہو شکبا تھا۔
اس سے نہلے چب وہ کسی دوسرے سہر نا ملک کے لنے تکلنے بو گھر کی
سبک نورنی اننی جبک نہیں کرئے تھے اور پہ ہی ضرورت پڑنی تھی لبکن اس نار ان کے
ننجھے دو غورنیں تھیں خو ان کی زمہدارناں تھیں نتھی ان کی قکر میں وہ نار نار کتمرے
جبک کر رہا تھا۔
”اس سے اچھا میں اننی ن نوی کے شاتھ وفت گزار لتبا۔“ دامیر تظریں شا منے
شکرین پہ تکانا ہوا بوال چہاں گھر کے الؤنج اپرنا کی فوننج دکھانی جا رہی تھی۔ علتبا اننی گود
میں انک ناپ کارن کا ناؤل ر کھے شاند کونی مووی دنکھنے میں مصروف تھی جبکہ چنہ
اس کے آس ناس نہیں تھی۔
”ن نوی ،آں ہاں! اب بو ر ہنے تھی انک ہی کمرے میں ہو۔“ رنان ئے اس کو
چ ھیڑا جس پہ وہ گھورئے لگا۔
”میں ئے نہلے نمہارا پہ انداز نہیں دنکھا تھا ،میرے لنے نمہارا انک کئیرنگ انداز
تھا ہی لبکن علتبا کے لنے کجھ الگ ہے ناس۔۔“ رنان ئے صاف گونی سے انبا
مشاہدہ نٹش کبا کہ دامیر کبدھے احکا گبا۔
”ہو شکبا ہے ،میں بوری کوشش کرنا ہوں کہ اس کو تفین آجائے میں اس
سے مجنت کرنا ہوں ،لبکن شاند میرے چہرے کے ناپرات میرا شاتھ نہیں د ننے۔“
گ کن
دامیر ہلکا شا ہٹس کے بوال۔ جبکہ رنان اس کی نات پہ آ یں ھما کے رہ گبا وہ اس
ھ
سے علتبا سے نبار کے م یغلق نات کر رہا تھا اور وہ جباب اننی انکتبگ کا زکر رہے
تھے۔
”تم انشا نتنے کی کوشش ک نوں کرئے ہو چب تم اصل میں اس سے نبار
کرئے لگے ہو۔ انبا اصل دکھاؤ اس کو۔“ رنان ئے اس کو سنجبدگی سے کہا کہ دامیر
لن
چ
ئے چی سے سر ھ یکا۔
”ڈرنبا اس وفت نہاں تھر موخود ہے۔ وہ ک نوں آرہی ہے۔“ رنان دوسرے سہر
میں موخود ا ننے منٹشن کی فوننج جبک کر رہا نب اس کو مین گنٹ پہ تھر ڈرنبا دکھانی
دی۔
”علتبا سے ملنے آنی ہو گی لبکن پہ نات تھی وہ ا چھے سے جاننی ہو گی کہ اتھی
ہم دوبوں موخود نہیں ہیں وہاں۔“ دامیر ئے شکرین کو زوم اِ ن کرئے کہا۔ وہ آس
ناس تظریں دوڑا رہی تھی جبکہ گارڈ اس کو نہاں سے جائے کا کہہ رہا تھا۔
”چنہ کو کال کرکے کہو کہ کسی تھی صورت وہ علتبا کو ناہر پہ الئے اور خود
تھی خوکس رہے۔“ دامیر ئے منٹشن کی گرد موخود گارڈز کو کال مالئے ہوئے رنان
سے کہا جس ئے نانبد میں سر ہالئے ہوئے انبا مونانل تکاال۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چب سے دامیر ئے کال کر کے نبانا تھا کہ وہ آج رات گھر نہیں آئے گا اور
علتبا نبا اس کا ان یطار کنے شو جائے نب سے علتبا ئےجین تھی۔
وہ جبد دن ہی اس کے شاتھ رہے گی اور اس کو موخودگی کو وہ محسوس کرنی
تھی جاہے نتبد میں تھی ہونی لبکن انک نحقظ کا اجشاس ہونا تھا۔ جس دن سے وہ
دامیر کے کمرے میں شفٹ ہونی تھی دامیر انک نار تھی رات کو شونا نہیں تھا ،وہ انبا
م
کام کمل کرنا رہبا تھا۔ اسی کی غیر موخودگی اب اس کو غیر آرام دہ کر رہی تھی۔
چنہ مونانل پہ کال آئے ہی روم سے ناہر تکل گنی تھی۔ اس ئے مابوسی سے
انک تظر بورے کمرے میں ت ھیری۔ ہر چیز و نسے کی و نسے تھی نس دامیر موخود نہیں
تھا۔
”کہاں گنی تھی؟“ چنہ کے روم میں آئے ہی علتبا ئے ئےشاچنہ بوچھا۔
”کال شن رہی تھی تم انشا کرو کہ فرنش ہو جاؤ نب نک میں آنی ہوں۔“ چنہ
س
اننی جبکٹ نی سرٹ کے اوپر نہتنی ہونی بولی۔ علتبا ئے نا ھی سے دنکھا کہ اس
جم
وفت کہاں جا رہی تھی۔ وہ بوچھ تھی پہ نانی کہ چنہ عحلت میں جا جکی تھی۔
اننی جبکٹ نہنے ،کھلے نال لنے جاند کی جاندنی میں ،گردن اتھائے مین گنٹ کی
جانب پڑھ رہی تھی چہاں ڈرنبا اتھی تھی گارڈ سے نحث میں مصروف تھی۔
”ڈرنبا ،نہاں کٹسے آنا ہوا؟“ چنہ ئے نبا کونی جال اخوال بو چھے ڈاپرنکٹ اسی کو
محاظب کبا کہ گارڈ جاموسی سے تھوڑا ہٹ کے کھڑا ہو گبا۔
ڈرنبا اس کو نہاں دنکھ کے خونکی تھی ،اس ئے انک دو نار اسے اکبڈمی میں دنکھا
تھا لبکن اس کے نارے میں انبا جاننی نہیں تھی ک نونکہ چنہ ئے کتھی اکبڈمی میں
کسی سے نبانی نہیں تھی۔
”تم۔۔! نہاں کبا کر رہی ہو؟“ اس کے شوال کے خواب میں اس ئے البا
شوال ہی نٹش کبا کہ چنہ ئے اپرو احکائے اور اننی جبکٹ کا نین کھو لنے کجھ قدم
آگے کو ہونی کہ اس کی آنکھوں کا سرد ین واصح ہوا۔ جبکٹ تھوڑی ننجھے ہونی بو ہولڈر
میں لگا جاکو واصح ہوا۔
”تم نہاں کٹسے آنی؟“ اس کے چہرے پہ پرفبلی ناپرات تھے جبکہ ہون نوں کو
انک مشکراہٹ میں ڈھاال تھا۔
”علتبا سے ملنے آنی ہوں وہ نہیں رہنی ہے۔۔“ ڈرنبا کو اس کا انداز ناگوار گزار
نتھی سنجبدگی سے خواب دنا۔
”وہ نہاں نہیں ہے ،ا ننے ہزنتبڈ کے ناس ہونی ہے آج کل۔“ چنہ ئے ناکٹ
میں ہاتھ ڈالے الپرواہی سے کہا کہ ڈرنبا ئے اچھتنے سے اس کو دنکھا۔
”ہزنتبڈ؟“ اس ئے اسبہقامنہ تگاہوں سے دنکھا۔
”تم ہونی کون ہو مجھے مارئے کی دھمکی د ننے والی۔“ ڈرنبا اس کے نالکل
پزدنک آنی عرانی کہ چنہ کے ناپرات میں کونی فرق پہ پڑا۔
”مجھے جانبا تم پرداشت نہیں کر ناؤ گی ،نس انبا جان لو کہ میں چنہ رنان
ہوں۔“
”چنہ۔۔۔ رنان۔“
چنہ ئے آنکھوں میں دنکھنے سرد لہچے میں بولی کہ ڈرنبا کی رپڑھ کی ہڈی میں
سٹسباہٹ سی تھبل گنی۔
اس کے انداز میں کجھ بو تھا خو ڈرنبا کو کجھ تھی کرئے سے روکے ہوئے تھا،
تھر اس کا رنان کا نام لتبا ،اس کا نام ستنے ہی وجشت طاری ہو گنی تھی۔ چنہ
مشلشل نبا نلک چھ یکائے اس کی آنکھوں میں دنکھ رہی تھی کہ ڈرنبا ئے خود ہی ا ننے
چہرے کا رخ موڑ لبا۔
ت ن ل ت تم ن
نبا مزند کونی نات کنے ڈرنبا اننی گاڑی یں ھی وانس جائے گی ھی چنہ کی
آواز گونچی۔
”اس گاڑی کا نمیر بوٹ کرئے ہی اتقارمٹشن تکال کے الؤ۔“ چنہ ئے گارڈ کو
دنکھا خو اس کے اشارے پہ سر ہال گبا۔ چب نک اس کی گاڑی تظروں سے اوچھل پہ
ہو گنی چنہ وہیں ک ھڑی رہی۔
گارڈز کو اننی ڈبونی پہ انک نو ر ہنے کا کہنی گھر میں داجل ہونی۔ علتبا الؤنج میں نہل
رہی تھی۔
”نہاں کبا کررہی ہو ،میں ئے کہا تھا کہ آرام کرو۔“ چنہ چہرے پہ پرمی الئے
اس سے بولی۔
”تم اجانک جلی گنی بو مجھے قکر ہوئے لگی تھی۔“ علتبا اننی جشاسنت پہ ہٹس
دی۔
”اننی جلدی پرنشانی نہیں لتنے ،تھوڑا مضنوط ن نو۔ میں گارڈز کو دنکھنے گنی تھی۔“
چنہ نامحسوس انداز میں اننی جبکٹ کے شاتھ انبا گن ہولڈر اسی میں انارئے لگی۔ وہ
دوبوں آج علتبا کے پرائے کمرے میں موخود تھیں۔ دامیر والے کمرے میں چنہ کے
شاتھ رہبا اس کو عج نب لگبا تھا نتھی اسی کمرے میں وانس آگنی۔
”نمہیں نتبد آجائے گی میرے شاتھ؟“ چنہ انبا نکنہ درشت کرئے ہوئے علتبا
ھ کن
کو د نی بولی۔
”میرا مطلب کہ ہو شکبا ہے دامیر کی طرح میں نمہیں اننی ناہوں میں پہ لے
شکوں۔“ چنہ کی سنجبدگی میں کہی غیر سنجبدہ نات پہ علتبا پری طرح گڑپڑانی۔
”انسی نات نہیں ہے ،مجھے آجائے گی نتبد۔“ علتبا چھت نپ کے سرخ پڑنی ہونی
بولی کہ چنہ نس مشکرا دی۔
”نمہیں کتھی محسوس ہوا کہ تم لڑنا جاننی ہو؟“ وہ دوبوں جاموسی سے چت لتنی
تھیں چب چنہ کی آواز کمرے میں گونچی۔
”کبا مطلب؟“ علتبا الجھی۔
”تعنی کتھی شدت سے دل کبا ہو کہ ہاتھ نیر جالؤ ،کسی کی ہڈی نشلی انک کر
دو۔“ چنہ ئے اس کے چہرے پہ تظریں چمائے کہا کہ علتبا کے چہرے پہ الجھن
کے ناپرات مزند اتھرے ،جبکہ ما تھے پہ نل نتبا سروع ہوئے۔
”نہیں کتھی تھی نہیں۔“ علتبا ئے تھوڑا کیرائے کہا کہ جائے چنہ اس سے
کبا ستبا جاہ رہی تھی۔
”میں نمہیں کل شکھاؤں گی کجھ تھبک ہے ،تم ئے سبلف ڈ تقنٹس تھوڑا
نہت سبکھا ہے شاند اتھی ناد پہ ہو لبکن میں نمہیں تھوڑی سی پرنکٹس کروا دنا کروں
ن ت ً
گی۔“ چنہ ئے سر ہالئے ہوئے کہا فتبا ا نی ناداشت کے شاتھ ھوڑی ہت ا ننے
ن ت
اندر نبدا ہونی ہمت تھی کھو جکی تھی وہ۔
جم س
”اس کی کبا ضرورت ہے؟“ علتبا نا ھی سے بولی۔
”ضرورت ہر انک کو ہے ضرف نمہیں نہیں ،کتھی اونچ ننچ تھی ہو شکنی ہے بو
نمہیں نبار رہبا جا ہنے۔“ چنہ عام سے انداز میں بولی۔
”ہللا نا کرے۔“ علتبا اونچ ننچ والی نات پہ ئےشاچنہ بولی کہ چنہ ہلکا شا
مشکرانی۔
”ہللا پہ ہی کرے لبکن ہمیں ناہمت بو رہبا جا ہنے نا۔“ چنہ ئے تھر تھی اننی
نات پہ زور دنا کہ علتبا جاموش ہو گنی۔
ن قت
”تم ئے کہا میں ئے پرنتبگ لی ہونی ہے بو کبا نمہیں تھی سبلف ڈ ٹس آنا
ہے؟“ علتبا اس کی طرف کروٹ لتنے ہونی استباق سے بولی۔
”ضرف سبلف ڈ تقنٹس نہیں اور تھی نہت کجھ آنا ہے مجھے۔“ چنہ معنی چیز شا
مشکرانی۔
”اور کبا مطلب۔۔؟“ علتبا کی دلحسنی اور پڑھی کہ چنہ ئے اس کے چمکنے
چہرے کو دنکھا جس کو پہ موصوع گقبگو مزے کا لگ رہا تھا۔
کل م ن
” جان لے لتنی ہوں۔“ چنہ پراسرار ہچے یں آ یں پڑی کرنی اس کو ڈرائے
ھ
ہوئے بولی کہ علتبا ہٹس دی۔
”ہاں جٹسے رنان اننی جان لبانا تھر رہا ہے تم پہ۔“ علتبا اس کی نات مزاح میں
کن
لتنی ہونی بولی کہ رنان کا زکر آئے چنہ ئے آ یں ھما یں۔
ن گ ھ
کک ن
”شو جاؤ علتبا۔۔“ چنہ ئے مزند کجھ ہے نبا آ یں موند یں کہ لتبا ئے منہ
ع ل ھ
نبانا۔
”مجھے اتھی نتبد نہیں آرہی۔“ علتبا تھوڑا مدھم لہچے میں بولی کہ چنہ ئے مڑ کے
اس کو گھورا۔
”کال کر لو دامیر کو۔“ چنہ ئے مفت کا مسورہ دنا لبکن علتبا کیرانی رہی ،وہ اگر
جم س
دامیر کو اس وفت کل کرنی بو جائے کبا ھبا وہ۔
وہ ا نسے ہی کاقی دپر کرونیں ندلنی رہی لبکن نتبد آئے کا نام نہیں لے رہی
تھی۔ دامیر کے شاتھ جاہے جبد انک دن ہی رہی تھی لبکن اس کی موخودگی میں وہ
شکون سے نتبد کی وادی میں جلی جانی تھی۔
اتھی وہ د ھنے قدموں سے اتھنی ہونی کمرے سے ناہر آنی تھی۔ الؤنج اپرنا میں
تھی نالکل ہلکی سی روسنی جل رہی تھی جبکہ گالس وال سے ناہر سے تظر آنا الن
نالکل سٹشان پڑا تھا چہاں جبد انک روستباں جل رہی ت ھیں۔
جبکی پڑھ رہی تھی ،اس کا ارادہ اتھی الن میں جائے کا تھا کہ تھوڑا نہل شکے۔
اتھی اس کا ہاتھ گالس ڈور پہ تھا ہی کہ الؤنج میں رکھا فون نجنے لگا۔ اجانک آنی آواز پہ
وہ انک دم گ ھیرا اتھی۔ الؤنج میں کونی فون تھی تھا اس نارے میں وہ نہیں جاننی
تھی۔
صوفے کی دوسری شانبڈ پہ ہی واپر لٹس فون نج رہا تھا۔
آگے پڑھ کے اس ئے فون ہاتھ میں نکڑا۔ اس کو اتھانا جا ہنے تھی تھا نا نہیں
وہ اسی کشمش میں پڑ گنی۔ فون نجنے نجنے نبد ہو گبا۔ وہ نہاں سے اتھ کے وانس
جائے ہی والی تھی کہ انک نار تھر گ ھتنی نجبا سروع ہو گنی۔
اس ئے انک نل شوجا اور فون کان سے لگانا۔
ع ھ گ ب َ
ن
”ہ لو پرنسس!“ دوسری جانب سے دامیر کی ئیر آواز گو چی بو لتبا ئے
م
ئےشاچنہ اطراف میں دنکھا جٹسے وہ اس کو دنکھ رہا تھا۔
”دامیر۔۔“ وہ گہرا شانس ت ھر کے بولی۔
”کہاں جا رہی ہو؟“ چنہ کو کمرے سے ناہر جانا دنکھ علتبا ئےشاچنہ بول اتھی۔
دامیر اتھی تھی کال پہ تھا۔
”تم آرام سے نات کر لو میں نہیں ناہر صوفے پہ موخود ہوں۔“ چنہ ئے اس
کو پرسبل اسنٹس د نبا جاہی۔
ً
”نہیں ناہر سردی ہے تم نہیں رہو ،نات نس جتم ہو گنی تھی۔“ علتبا ئے فورا
کہا ک نونکہ چنہ کا ا نسے ناہر جانا اس کو نالکل تھی اچھا نہیں لگا تھا اور اگلے ہی نل اس
ئے کال تھی ڈشکتبکٹ کر دی پہ جائے تغیر کہ دامیر کو اس کی خرکت کتنی ناگوار
گزری تھی۔
چنہ ئے کجھ نا ننے اس کو ا نسے ہی دنکھا تھر کبدھے احکا د ننے۔ وہ معمولی سے
نابوں کی تھی کاقی پرواہ کر رہی تھی۔
ن
علتبا اس کو اننی نتبد کا تفین دالئے ہوئے نسیر میں گھس گنی اور آ یں موند
ھ ک
گنی۔
چب علتبا کمرے سے ناہر تکلی تھی چنہ نتھی نتبد سے جاگ گنی تھی۔ چب وہ
دو منٹ تغد تھی کمرے میں پہ آنی بو خود دنکھنے کو اتھ گنی ،اس کو ا نسے ہی دروازے
کے ناس کھڑے دنکھ رہی تھی چب فون کو نجبا دنکھا۔ چنہ سرد آہ تھرئے رہ گنی کہ
وہ جاننی تھی کہ اس وفت کس کی کال ہو گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ کاقی دپر مونانل کو گھورنا رہا ،اس سے اتھی نات تھی نہیں ہونی تھی کہ اس
ئے فون کاٹ دنا تھا۔ جائے ک نوں اس وفت اسے عصہ آرہا تھا۔ اس کی بوری نات
سنے تغیر وہ فون کٹسے نبد کر شکنی تھی۔ اس ئے دونارہ کال نہیں کی لبکن آدھا
گھننہ نتتھے وہ اس مونانل کو گھورنا رہا تھا۔
م
ا ننے کام کمل کرئے چب وہ خود نبڈ پہ نتم دراز ہوا بو لنپ ناپ تھامے گھر کی
فوننج جبک کرئے لگا ،علتبا ا ننے روم میں نہیں تھی ،دوسرے روم کا جبک کبا بو وہ
وہاں موخود چنہ سے نابوں میں مصروف تھی۔
تھوڑی دپر تغد چب اس ئے دنکھا کہ وہ کمرے سے ناہر گنی ہے اور الن میں
جائے والی تھی نتھی اس ئے گھر کے نمیر پہ کال مالنی۔
اس وفت اس کا ناہر جانا نالکل تھی تھبک نہیں تھا وہ تھی رنان اور دامیر کی
غیر موخودگی میں۔
ڈرنبا کا آنا نہلے ہی شک میں متبال کر گبا تھا ک نونکہ وہ ا نسے نبدے کے لنے ہانیر
کی گنی تھی جس کا اس کالی دنبا میں کتھی نام نہیں سبا تھا۔ جاکم! پہ جاکم تھا کون؟
ش
اور فباد کا کبا کنتبکشن تھا علتبا سے۔ اس شب کو جلد از جلد لجھانا تھا۔
لبکن اس وفت بو وہ علتبا سے نات کرنا جاہ رہا تھا خو اس پہ نبا دھبان د ننے فون
کاٹ گنی تھی وہ تھی اس وجہ سے کہ چنہ ناہر پہ جلی جائے۔
”اس نات کا ندلہ بو میں تم سے لوں گا ،کسی اور کی جاطر تم ئے مجھے اگ نور
کبا۔۔“ پڑپڑائے ہوئے اس ئے مونانل کو شانبڈ پہ رکھا اور انک آخری تظر شکرین پہ
ڈالی چہاں وہ دوبوں نسیر پہ نتم دراز تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اننی سبانیر کو نبک کرئے رنان ئے گہرا شانس تھرا اور دامیر کو دنکھا خو اننی گن
ن م
کو ری لوڈ کر رہا تھا۔ اتھی انہوں ئے انک کانیر کٹ ل کبا تھا۔ جاہ کے ھی وہ
ت مک
اس کام سے زنادہ دپر نک الپرواہی نہیں پرت شکنے تھے۔
م
ماشکو سے وہ لوگ اتھی پرکی میں تھے ،نہاں کام ل ہو گبا تھا بو وا سی کے
ن م ک
لنے تکلبا تھا ،ننجھے بولٹس آنی ہے نا نہیں پہ ان کا سر درد نہیں تھا ک نونکہ ا نسے
مغامالت میں آدھا ہاتھ بولٹس کا ہی ہونا تھا ،لوکل اور انیرننٹشل قالننٹس کا تھی ان
کو کونی حظرہ نہیں تھا ک نونکہ وہ پرابو نٹ شفر کرئے تھے اور اس کے لنے ان کے
ناس پزنس پرمٹشن تھی۔
”آج نمہاری شادی تھی ہے بو وفت پہ نہنجبا ضروری ہے ہمارا۔“ دامیر ئے
نلڈنگ کی سیڑھ نوں سے ننچے اپرئے ہوئے کہا۔ رنان ئے اننی سبانیر کو کبدھے پہ
ڈال رکھا تھا جبکہ دامیر ئے انبا شفری نبگ تھاما تھا۔
ن
” ہنچ جانیں گے ،نہلی میری دلہن کو نہنحا د نبا۔“ رنان ئے سر چھبکنے کہا کہ
چنہ کہیں آج ہی پہ تھاگ جائے۔
”نمہیں تھی جا ہنے تھا کہ انبا کونی فبکشن ارننج کرئے ،علتبا تھی خوش ہو
جانی۔“ رنان ئے سنئیرنگ ستتھا لنے ہوئے کہا۔ دامیرخو انبا مونانل شا منے کنے علتبا
کی طرف سے آئے گڈ مارنبگ کے مٹسج کو دنکھ رہا تھا اس کی نات کو تظر انداز کر گبا۔
اس ئے علتبا کے مٹسج کو اگ نور کبا جٹسے وہ دو دن سے اگ نور کر رہا تھا۔ اگر دامیر
ئے اس کو کال نہیں کی تھی بو علتبا ئے انک نار تھی کوشش نہیں کی تھی اس
سے خود سے راتطہ کرئے کی البا اس کو گڈمارنبگ اور گڈ نانٹ وسز تھنج رہی تھی۔
”اتکل مبکس کی قالنٹ کب کی ہے؟“ دامیر ئے مونانل کو ناکٹ میں رکھنے
ہوئے کہا۔
”تم جلدی سے نلین میں خڑھو ،پہ دو ہی لوگ ہیں نس۔“ دامیر ئے ز ننے کی
اوتھ میں ہوئے رنان سے کہا جس ئے سر ہالنا۔ دامیر اس کو کور د نبا ہوا نبا کسی
مسکل کے ان دو آدم نوں کو گرا حکا تھا۔ کجھ سبکبڈز ان یطار کے تغد تھی چب مزند
کونی قاپر پہ ہوا بو دامیر انیر فبلد چھوڑے ان دوبوں آدم نوں کی تعسوں کے ناس نہنحا۔
بوٹ کی مدد سے اس ئے ان کے چہرے دانیں نانیں کنے۔
خو دو گارڈ ان کے آئے سے نہلے نہاں موخود تھے ان میں سے انک زچمی ہوا
تھا ،دامیر ئے دوسرے کو ناس آئے کا اشارہ دنا ناکہ ان کی نالسی لے شکیں۔ کجھ
تھی پرآمد نہیں ہوا تھا۔ ان کو الوارث چھوڑے وہ وانس نلین کی جانب گنے۔
”پہ خو کونی تھی تھے مارئے کی ن نت سے نہیں آئے تھے۔ ان کو مرئے کے
لنے ہی تھنحا گبا تھا۔“ دامیر ئے اننی گن کو ونشٹ ہولڈر میں رکھنے ہوئے کہا۔ رنان
ئے اس کے نازو کی جانب دنکھا۔
”اس کی ڈرنسبگ کر لو وفت پہ۔“ رنان سباہ سرٹ کو تم دنکھنے ہوئے بوال چہاں
سرٹ پہ انک کٹ تھی موخود تھا۔ گولی اس کے نازو کو چیرئے ہونی گنی تھی۔
دامیر ئے فرشٹ انڈ ناکس مگوانا ،رنان ئے اس کے ہاتھ سے کاین لتنے خود اس
کا زچم صاف کبا۔۔ انک ہاتھ سے کام کرنا مسکل ہونا بو ننی تھی اسی ئے کر دی۔
”اگر پہ شاشا کا کام ہوا بو قشم کھانا ہوں اس کو ا ننے ہاتھوں سے ماروں گا۔“
رنان لہچے میں نتھرنال ین گھولبا ہوا بوال ،آنکھوں میں سرخ جبگھاری واصح تھی۔
”انک تھی کام شکون سے نہیں کرئے د ننے پہ مجھر۔۔“ دامیر سنٹ سے
نبک لگائے ہوئے پڑپڑانا۔
”کونی نات نہیں ،آج کی رات شکون سے نتبد بوری کر لتبا میری طرف سے
ئےقکر ہو کے۔“ رنان ا ننے مونانل پہ مصروف سنجبدگی سے بوال کہ اس کی نات کا
ن ت جم س
ش
مطلب ھنے دامیر ناجا ہنے ہوئے ھی ا نی م کراہٹ پہ روک نانا۔
ن
”ئےسرم انشان۔“ اس ئے القاب سے بوازہ اور آ کھیں موند گبا۔
”آج نمہاری طرف سے زنادہ ہی قکر ہو گی پہ نا ہو کہ صنح اتھ کے ستبا پڑے
ننے بو نلے د لہے کو دلہن سہبد کر کے تھاگ گنی۔“ دامیر ئے نمسجر اڑائے ہوئے کہا
کہ رنان ئے شلگنی تگاہوں سے اس کو دنکھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چنہ انبا مونانل تھامے الن میں ہونی نبارناں دنکھ رہی تھی۔ شب الن میں ارننج
کبا جا رہا تھا اور جس کی شادی تھی وہ نانگ پہ نانگ خڑھائے ،چئیر پہ کہنی تکائے ہاتھ
کی متھی نبا کے چہرے کے ننچے رکھی ہونی تھی۔ و فقے و فقے سے وہ تھا گنے لوگوں پہ تظر
مار لتنی تھی۔ شلئیر نہنے ،پراؤزر سرٹ میں مل نوس الپرواہ شا انداز تھا۔
”متم آپ کا ناتم ہو رہا ہے آ نیں آپ کو رنڈی کر دیں۔“ اسبانلشٹ چنہ سے
آکے بولی جس ئے مقانل لڑکی کو گھورا۔
ن کن
”چب سر آ نیں گے نب د یں گے کہ شادی کرنی ہے نا یں۔“ وہ الپرواہی
ہ ھ
سے اس کو نہاں سے رواپہ ہوئے کا اشارہ کرئے ہونی بولی۔
”سر کی کال آنی تھی وہ را سنے میں ہیں۔۔“ اس کی نات شن کے بو
اسبانلشٹ گڑپڑا گنی تھی تھر ستتھل کے مشکرانی۔
”کہا نا کہ سر کو آئے دو۔“ لڑکی کے دونارہ بو لنے پہ چنہ کے لہچے میں سرد ین در
آنا بو تھوک تگلنی ہونی وہ لڑکی اس کے ناس سے ہٹ گنی۔
علتبا ہر چیز میں پڑھ خڑھ کے حصہ لے رہی تھی چب چنہ ئے اس کی چہرے
پہ تھکن کی آنار دنکھنے ہوئے اس کو آرام کرئے کا کہا۔ پہ جا ہنے کے ناوخود وہ اتھی
کمرے میں آرام کر رہی اور نہاں چنہ نیزارنت سے شب کجھ دنکھنے میں مگن تھی۔
تھولوں سے شب کجھ مزین کبا جا رہا تھا جٹسے کتنی ہی مجنت تھری شادی ہو
رہی تھی ان کی۔ اس سے مزند پرداشت پہ ہوا بو اتھ کے اندر آگنی۔ اندر آنی بو ضیط
”اننی جان عزپز ہے نا خوسی خوسی گ نوانا جاہو گی۔“ وہ آنکھوں میں سرد ین لنے
بولی کہ لڑکی چ ھٹ سے تقی میں سر ہال گنی اور اس سے دور ہوگنی۔ دوسری لڑکی بو نہلے
ہی الن میں اس سے شن کے آنی تھی نتھی جاموش مورت ننی کھڑی تھی۔
شاور لتنے کے تغد چب چنہ تم نال لنے ناہر آنی بو دوبوں لڑکباں انک نو ہونیں۔
ڈرنسبگ نتبل کے آگے چئیر پہ نتتھنے چنہ ئے ان کو اشارہ کبا۔
”مجھے کونی خور نہیں لگبا ،زرا سی قارمبلنی بوری کرو اور میرے نال نبا کے تکلو
نہاں سے۔“ چنہ ئے نانگ پہ نانگ خڑھائے جبکی نحائے ان کو کام سروع کرئے کا
کہا۔ اس وفت اس ئے ناتھ روب نہن رکھا تھا۔
م ن
اتکل مبکس سے صنح نات ہونی تھی وہ نس کجھ ہی دپر یں نے والے ھے،
ت جن ہ
دامیر اور رنان تھی۔۔ علتبا کے آرام میں وہ محل نہیں ہونا جاہنی تھی ورپہ اتھی وہ ہی
اس کے ناس موخود ہونی۔
”ڈرنس کدھر ہے میرا؟“ انک لڑکی اس کے نالوں کی طرف آنی بو چنہ ئے
بوچھا۔
”آپ کے ڈرنسبگ روم میں ہتبگ کبا ہے ،آپ کے نال ین جانیں بو تھر آپ
نہن شکنی ہیں۔“ لڑکی ئے نیزی سے خواب دنا بو چنہ ئے محض سر ہالنا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مبڈنشن کھائے کے تغد اس کو نتبد سی آئے لگی جسے دنکھنے چنہ ئے زپردسنی
اس کو آرام کرئے تھنج دنا۔ اس کا ڈرنس اور ناقی چیزیں تھی دامیر اور اس کے مسیرکہ
کمرے میں ہی موخود تھیں بو ادھر ہی آگنی تھی۔
آرام کے عرض سے وہ نتم دراز ہونی اور مونانل کو دنکھنے لگی۔
مونانل دنکھنے ہی اس کی اجانک آنکھ لگ گنی۔ جائے کتبا وفت گزرا ہو گا چب
ن
نتبد میں ہی ا ننے گرد نازوؤں کا حصار محسوس کرئے وہ ہلکا شا کشمشانی۔ آ کھیں
کھو لنے کی کوشش کی لبکن وہ کھلنے سے ہی اتکاری تھیں کہ تکلحت اس کو اننی
گردن پر شانسوں کی گرمانش محسوس ہونی ،تھر گردن پہ ل نوں کا لمس۔ ما تھے پہ نل
ن ھ چ گ لہ ک ھ کنت ن
لنے م وا آ یں ھولے گردن کی سی ھما کے خود پہ کے دامیر کو د کھا۔ اس کے
گرد لتبا نازو اننی گرفت سحت کرئے لگا بو ئے شاچنہ ہی اس ئے نازو کو تھام لبا۔
”مجھ سے نات ک نوں نہیں کی؟“ وہ شکوہ کرئے لگا۔
”دامیر۔۔۔“ اس کا نام سرگوسی میں ادا ہوا۔ اس کو پہ انک خواب لگا تھا۔
دامیر ئے اسے سبدھا کبا اور ما تھے پہ ہونٹ ر کھے۔
علتبا ئے گہرا شانس تھرئے کی کوشش کی ،جٹسے نہاں کی ہوا نبگ ہو گنی
ک ھ کچ ع مکم ن
ہو۔ دامیر ئے اس کے رجشار کو ھوا بو لتبا ل آ یں ھولے اس سے دور ہوئے
لگی۔
”رنلبکس میں ہوں۔۔۔۔“ وہ لمنے شانس تھرئے لگی تھی ،دامیر ئے اس کا
ن
ہاتھ تھامے سہالنا۔ علتبا انبات میں سر ہالئے ہوئے اتھ تتھی۔
”تم کب آئے۔۔؟“ علتبا ا ننے نال سنوارنی ہونی بولی ،نامحسوس انداز میں وہ اس
سے قاصلے پہ ہونی تھی جسے بوٹ کرئے دامیر کے ما تھے پہ ہلکے سے نل واصح ہوئے۔
”چب تم میرے خواب دنکھ رہی تھی۔“ دامیر ئے تگاہ اس کی گردن پہ تکانی
چہاں سے وہ ا ننے نال سمنٹ کے آگے کی طرف کر رہی تھی۔
اس کی نات شن کی ئےشاچنہ ہی علتبا ئے اس کی طرف دنکھا جس کے
چہرے کے ناپرات سنجبدہ تھے۔
ل ھ ت تس
”ا ننے دن کہاں تھے؟“ علتبا چب لی بو اس سے شوال کرئے گی۔
”ضروری کام تھا لبکن تم ئے مجھ سے نات نہیں کی انک نار تھی۔“ دامیر ئے
اس کا ہاتھ تھاما اور ا ننے فرنب کرنا جاہا۔
”ک نوں نمہارا دل نمہاری نات نہیں ستبا کبا؟“ دامیر ئے اس کے ہاتھ کو
تھامے ا ننے کبدھے پہ رکھنے اس کے گرد پرمی سے حصار ناندھا کہ وہ اس کے فرنب
آگنی۔
کن
”دامیر ہمیں نبار ہونا ہے۔۔“ علتبا اس کے ند لنے انداز د نی ہونی پروفت بولی۔
ھ
اس کا انداز اس کی شانسیں جشک کر رہا تھا۔
”میں ئے نمہیں نہت مس کبا۔۔“ دامیر ئے ہلکی سی سرگوسی کی۔
”میں ئے کتھی نہیں شوجا تھا کہ اس دفع گھر سے دور جائے پہ مجھے کسی کی
ناد تھی سبائے گی۔ میرا گھر جائے کو دل کرے گا ،میرا نمہارے ناس آئے کو دل
محلے گا۔“ اس کو خود سے لتبائے وہ مجمور لہچے میں کہہ رہا تھا کہ علتبا دم نحود اس کو
ج ھ ک ت کن
ت
د ھی جا رہی ھی۔ اس کی نابوں پہ دل انمان ال رہا تھا۔ دل اس کی جانب نحا ال جا
رہا تھا۔
”مجھے نمہارے تغیر نتبد نہیں آنی تھی۔“ نآلخر اس ئے اغیراف کبا جس پہ دامیر
منٹشم ہوا اور اس پرمی سے اس کی رجشار کو چھوا۔
”تعنی تم مجھے مس کر رہی تھی۔۔“ اس کی آنکھوں میں چمک اتھری۔ علتبا
ئے تظریں خرانیں۔
تھول تکائے گنے تھے۔ چنہ کے چہرے پہ کونی ناپر موخود نہیں تھا۔ وہ سباٹ انداز
میں ا ننے نالوں کی فنٹسبگ کروا رہی تھی ،اس ئے شادی کا خوڑا اتھی تھی نہیں نہبا
تھا۔
”تم ا نسے ہی نہت خوتصورت لگ رہی ہو۔۔“ علتبا ئے ئےشاچنہ اس کی
م
تعرتف کی جاالنکہ وہ اتھی کمل نبار نہیں تھی۔
”تم تھی نبار ہو کے دامیر کو پہ کہنے کا موفع دو۔“ چنہ ہلکا شا مشکرانی ،علتبا کی
خوسی دنکھنے والی تھی۔ اس کی نات پہ وہ چھت نپ گنی تھی۔
”میں اتھی ناہر دنکھ کے آرہی ہوں ،شب انبا خوتصورت لگ رہا ہے جٹسے انک
ڈرتم ونڈنگ۔ ہر چیز آف وانٹ تھتم میں ہے۔۔ تم دوبوں کا کبل نہت خوتصورت
م
لگے گا۔“ علتبا پرخوش ہونی بولی ،چنہ ا ننے نال کمل نتنے پہ اتھی اور اس کے رجشار
تھتتھبانی ہونی بولی۔
”نہلے تم نبار ہو جاؤ۔ تھبک ہے۔“ انبا کہہ کے وہ ڈرنسبگ میں جلی گنی۔
علتبا فرنش ہو کے آنی بو وہ دوبوں لڑکباں اس کو تھی نبار کرئے لگیں۔
”کبا متم اسی طرح رہنی ہیں ،عصے میں۔“ اسبانلشٹ ئے دھتمے لہچے میں علتبا
ل ن جم س
سے بوچھا جس پہ وہ نا ھی سے د کھنے گی۔
ت ت ت تم ن
لڑکی ئے نبانا کہ کٹسے وہ نالکل سباٹ انداز یں ھی ھی ،نا م کرا رہی ھی اور
ش
پہ ہی کونی خوسی والے خزنات کا اظہار کر رہی تھی۔ البا جٹسے وہ کسی کو فبل کرئے
والی تھی۔ علتبا ئے شاچنہ ان کی نانیں ستنی ہٹس دی۔
ن
مبکس ل نو تھی نہاں ہنچ جکے تھے ،اور انہی کی موخودگی میں رنان ڈی اور چنہ ل نو
خود کو انک دوسرے کے نام کر جکے تھے ،شام ڈھل رہی تھی اور مہمابوں کی آمد سے
الن پرروبق ہو گبا تھا۔
گلبارے کے گرد تھولوں کی لڑناں سحانی گنی تھیں اور دوبوں اطراف نتبل
سنٹ کنے گنے تھے۔ گولڈن النٹس سے تطارہ مزند خوتصورت نٹش ہو رہا تھا۔ اسی تھتم
کے مطابق رنان ئے نلبک تھری نٹس نہن رکھا تھا جس میں آف وانٹ سرٹ تھی
م
جبکہ دامیر ئے کمل نلبک تھری نٹس شوٹ نہن رکھا تھا۔
تھولوں سے سچی راہ داری کے آخر پہ رنان مشکرانا ہوا کھڑا تھا ،چنہ مبکس ل نو اور
علتبا کی ہمراہ چہرے کے آگے شقبد گھونگ ھٹ گرائے اس کی طرف پڑھ رہی تھی ،وہ
جا ہنے کی ناخود ا ننے چہرے پہ مشکراہٹ نہیں ال نارہی تھی۔
اس کو رہ رہ کے شا منے کھڑے انشان پہ عصہ آرہا تھا جس کی وجہ وہ آج دلہن
ننی کھڑی تھی۔ اس کے نس میں ہونا بو ا ننے جافو سے ہی اس کا گال کاٹ د ننی۔ گال
کانبا ممکن نہیں تھا کم از کم انک ہاتھ بو علنحدہ کر ہی شکنی تھی نا۔
علتبا مشکرانی ہونی اس کے شاتھ جا رہی تھی ،شب مہمان اننی نسسنوں پہ
پراچماں تھے۔ رنان کی شانبڈ پہ دامیر ہاتھ ناندھے کھڑا تھا جس کے تگاہیں اس وفت
علتبا پہ نکی ہونی ت ھیں۔
ن
رنان کے ناس ہنجنے مبکس ل نو ئے مشکرائے ہوئے چنہ کا ہاتھ رنان کے ہاتھ
ک
میں تھمانا۔ جٹسے ہی وہ اس کے پراپر کھڑی ہونی چنہ ئے نیزی سے انبا ہاتھ ھتنچ لبا۔
رنان ضیط کرنا رہ گبا۔ تکاح بو نہلے ہی ہو حکا تھا ان کا اندر مبکس کی موخودگی
میں ،اب رنگ سرمنی تھی خو شب کے شا منے تھی۔ رنان ئے انبا ہاتھ آگے پڑھانا،
گہری تگاہیں چنہ کے خوتصورت روپ کا جاپزہ لے رہی تھیں۔ چنہ ئے گہرا شانس
تھرئے انبا ہاتھ آگے کبا۔ رنان ئے تطاہر مشکرا کے اس کا ہاتھ تھاما لبکن اس کی
گرفت کتنی سحت تھی پہ چنہ جاننی تھی۔ دانت نٹسنے اس ئے ہاتھ چھڑوانا جاہا لبکن وہ
گرفت مضنوط کنے اس کی رنگ فبگر میں انگھونی نہبائے لگا۔ چھوئے گالنی نگت نوں سے
تھری جس کے درمباں میں انک خوتصورت ڈانمبڈ تصب تھا۔ رنان ئے اس کے ہاتھ
تھ ک
کو ا نسے ہی تھامے اننی جانب نجنے تنے سے لگانا کہ شب کے شا منے اس کی
س
خرکت پہ وہ شلگ کے رہ گنی۔
پہ نات دامیر ہی جانبا تھا کہ آدھے لوگوں کو انمرجنٹسی میں وہ کٹسے دھمکا کے النا
تھا رنان کی شادی کے لنے۔
اگر انہیں کے سرکل کے لوگ ہوئے بو علتبا نہلی فرصت میں نہاں اشلحہ زدہ
لوگ دنکھنے نبہوش ہونی ملنی۔
ان کے گارڈز کی فتملیز تھیں ،کجھ شوشاننی کے لوگ تھے خو ان کو جا ننے تھے۔
ہر کونی نہاں ہانی پروقانل واال سحص موخود تھا۔
رتفرنشمنٹ کے تغد ن نو کبل کے ڈانس کی فرمانش آئے لگی بو ناقی کبلز تھی قلور
پہ آ گنے۔
چنہ ئے انک شکوہ کباں تگاہ سے مبکس ل نو کو دنکھا۔ ان شب لوگوں میں اس
ھ چ
کو وجشت ہو رہی تھی۔ عج نب جھالہٹ کا شکار ہو رہی ھی وہ۔ اس کا نہاں ر کنے کا
ت ن
نالکل تھی دل نہیں جاہ رہا تھا۔ مبکس پہ شب ا چھے سے جا ننے تھے کہ اس کو
گبدرنگ سے الیرجی تھی ت ھر اوپر سے ا ننے مہمان۔
”مجھے جانا ہے نہاں سے۔“ م نوزک کی ہلکی سی دھن پہ شب لوگ اننی مست نوں
میں تھے چب چنہ ئے رنان سے کہا۔
”ا نسے کٹسے ،اتھی بو رات سروع ہونی ہے۔۔“ رنان ئے تگاہیں اس کے چہرے
پہ تکائے معنی چیز سے کہا۔
”میرے شاتھ پہ نکواس نہیں کرو اور چھوڑو مجھے ،ہو گنی شادی دنکھ لبا شب
ئے ۔۔ اب جان چھوڑو میری۔“ نہلے وہ نالکل مدھم لہچے میں بولی تھی لبکن جٹسے ہی
رنان ئے کہا بو وہ شلگ اتھی۔ پرزور مزاچمت کرئے اس ئے انبا آپ چھڑوانا۔
”شادی ہونی ہے اتھی۔۔ اس کا مطلب پہ نہیں کہ جان چھوڑ دوں نمہاری۔“
رنان ئے انک جشت میں اس کو تھامے ا ننے فرنب کبا کہ چنہ ئے عصہ ضیط کبا۔
”نمہیں نمیز نہیں ہے نات کرئے کی ،ہاتھ مت لگاؤ مجھے۔“ اس کے نار نار
ناس کرئے پہ اسے خڑ سی ہو رہی تھی جس پہ وہ تھبا کے رہ گنی۔
”نمیز ملٹسکا ،تم موفع دو بو نمہیں عسق کی میزلیں طے کرواؤں۔“ اس کو زپردسنی
ا ننے شاتھ لگائے ہلکا شا موو کرئے لگا ا نسے کہ شب کو لگبا وہ دوبوں ہتنی کبل ا ننے
اہم موفع پہ ڈانس کر رہے تھے۔ ناقی شب تھی ان کے فرنب ہی انحوائے کر رہے
تھے چب رنان ئے ہلکی آواز میں اس سے کہبا سروع کبا۔
ب ت ت ً
”شاشا نمہاری نالش میں ہے۔ فرنبا شب جان گنے یں کہ م میری ہو کن خو
ل ہ
اننی نہحان تم شاشا سے کہہ کے آنی تھی وہ اتھی تھی اس کی نالش میں ہے بو کجھ
دن اس گھر سے ناہر نہیں تکلو گی۔“ انبا انک ہاتھ اس کے رجشار پہ تکائے وہ پرمی
سے بوال۔
ل م ھ کنک م ن
”اس کی بو آ ھوں یں آ یں ڈال کے یں انبا نام لوں گی۔“ چنہ سرد ہچے
میں بولی کہ رنان کے ہونٹ کے کبارے تھبلے۔
”نہلے تھی کہا تھا ،تم پہ کسی اور کی تگاہ پرداشت نہیں کروں گا۔“ اس کی
تھوڑی کو تھامے چہرہ نلبد کرئے ا ننے القاظ پہ زور دنا کہ چنہ ئے اس کی آنکھوں میں
دنکھا۔
”نہاں شب مجھے ہی دنکھ رہے ہیں۔“ چنہ ئے سر چھبک کے کہا۔
”نہاں کسی کی ہمت نہیں کہ تم پہ پری تگاہ ڈالے ،ورپہ وہ نہاں موخود نہیں
ہونا۔“ رنان کی گرے آنکھوں میں چمک تھی ،وہ اس وفت قل نباری میں چنہ کو
شب سے ہتبڈسم لگا تھا لبکن اس کا اغیراف وہ اس سے ک نوں کرنی۔ کرنی تھی بو
ہتبڈسم کی جگہ وہ زہر کا لقظ اسیعمال کرنی۔
”مجھے اب جائے دو۔“ چنہ ئے اس کا ہاتھ چہرے سے ہبانا جاہا۔ رنان ئے
انک نل کو اسے دنکھا۔
کر رہی ہو۔ علتبا اس شب سے ئےچیر ڈرنک کی کسی نات پہ مشکرائے ہوئے سر ہال
رہی تھی۔
”مجھے علتبا سے ملبا ہے ،اس کی کاقی قکر ہو رہی تھی مجھے۔ انک دفع اس کو نال
ت ن ھ کن
م
دیں۔“ ڈرنبا دامیر کو د نی ہونی بولی۔ وہ جا نی ھی کہ ا ننے لوگوں یں دامیر اس کا
ن
کجھ تگاڑ نہیں شکے گا نتھی لوگوں کو د نی وہ نڈر ننے اندر آ نی ھی۔
ت گ ھ ک
”اس کی طت یغت تھبک نہیں ہے ،نہاں سے جاؤ۔۔ اور آ نتبدہ اس طرف کا رخ
اجتبار نہیں کرنا۔“ دامیر انک انک لقظ جبا کے بوال ،ڈرنبا جاموش ننی کھڑی رہی۔
”وہ میری دوشت ،آپ مجھے اس سے ملنے سے روک نہیں شکنے۔“ وہ ہمت کرنی
بولی چب اسے علتبا اِ دھر ہی آنی ہونی دکھانی دی۔
”ہم نالکل تھی پرداشت نہیں کرئے کہ کونی ہماری پراپرنی میں نبا اجازت اننی
نانگ اڑائے ،اور اگر کونی انشا کرنا تھی ہے بو اننی اگلی شانس نہیں لے نانا۔۔۔“
دامیر شلگنے ہوئے لہچے میں بوال کہ ڈرنبا موفع دنکھنے نیزی سے علتبا کی جانب پڑھی۔
دامیر ضیط کرنا رہ گبا۔ اس کے لڑکی ہوئے کا لحاظ کر گبا ورپہ اتھی نک وہ الوارث
تعش پڑی ہونی نہاں۔
مبکس ل نو ا ننے گارڈز کے شاتھ انک نتبل کے گرد موخود اس صورت جال سے
ناوافف تھے لبکن جٹسے ہی ان کی تظر ڈرنبا پہ پڑی وہ تھی خونک ا تھے۔
”علتبا! کٹسی ہو تم؟“ ڈرنبا اس کو گلے لگانی ہونی بولی کہ وہ گ ھیرا اتھی۔ انحان
چہرے کو دنکھنے اس ئے دو قدم ننجھے لنے اور ئےشاچنہ دامیر کو دنکھا۔
”علتبا رنلبکس! ادھر آجاؤ۔“ مبکس کی آواز ستنے وہ ڈرنبا سے دور ہونی ا ننے اتکل
ہن
کی جانب جل دی۔ چنہ انبا ڈرنس تھامے نبا کسی کا لحاظ کنے ڈرنبا کے شا منے چی۔
ن
من بو تھا کہ انک سبدھا وار اس کے گردن پہ کرے لبکن دلہن کسی کو مارنی ہونی
اچھی تھوڑی لگنی تھی۔
”کہا تھا کہ نہاں نہیں آنا ،ڈرنبا اننی جلدی وانسی۔۔“ نہال چملہ آہشنہ آواز میں
کہنے اس کے نازو کو سجنی سے تھامے دوسرا چملہ نلبد آواز میں کہا۔
”کبا ہو گبا ہے آپ کو میری دوشت ہے وہ۔“ ڈرنبا الجھن لنے دکھ سے بولی جبکہ
ت جم س
علتبا شب ھنے کی کوشش کر رہی ھی نونکہ نوں کے ناپرات سرد ھے۔ رنان کی
ت تن ک
تگاہیں ڈرنبا کے نحائے علتبا پہ نکی تھیں جٹسے وہ اس کو جانچ رہا تھا۔
”تم جتنی دوشت ہو جا ننے ہیں ہم۔ اس سے نہلے کہ میں نمہارا سر ین سے جدا
کردوں نہاں سے دفع ہو جاؤ۔“ چنہ اس کو شاتھ لنے انک انک لقظ جبا کے بولی ،ڈرنبا
ئے عصے سے سرخ چہرہ لنے چنہ کو دنکھا خو دلہن ننی اس کو دھمکباں دے رہی تھی۔
”ملٹسکا! آج کے دن تم پہ عصہ شوٹ نہیں کرنا ،کم آن تم رنشٹ کرو جا
کے۔“ رنان ڈرنبا کو اس کی گرفت سے آزاد کرنا ہوا بوال۔
ان شب کو علتبا کی طرف سے قکر تھی کہ کہیں ڈرنبا کی کہی نات سے شک
میں پہ جلی جائے اور اگر اس کی وجہ سے علتبا کی ناداشت وانس آجانی بو عین ممکن
تھا کہ پہ تھوڑا عرصہ خو ان کے شاتھ گزارا تھا وہ تھول جانی۔ ا نسے میں وہ دامیر کے
شاتھ انبا رشنہ تھال د ننی۔
”تم لوگ تھول رہے ہو اگر اس دنبا میں نمہارا نام ہے بو میں تھی نہیں نلی
ہوں۔ اس شب کا ندلہ میں ضرور لوں گی۔ وہ میری دوشت ہے اور تم لوگ اس سے
ملنے سے روک رہے ہو۔“ ڈرنبا لہچے میں عصہ سموئے بولی اور نیزی سے نہاں سے تکل
گنی۔
ن
علتبا الجھن کا شکار کتھی دامیر کو بو کتھی چنہ کو د نی کہ آخر پہ کبا ماخرہ تھا اور
ھ ک
”تم پرنشان پہ ہونا۔ وہ کونی تھی نہیں تھی تم انحوائے کرو۔“ مبکس اس کو
نشلی د ننے ہوئے بولے جس ئے محض سر ہالنا۔
”اگر نمہارا ارادہ رنشٹ کرئے کا نہیں بو ہم انک اور ڈانس کر شکنے ہیں۔“ چنہ
اتھی تھی شلگنی تگاہوں سے اس راہ کو نک رہی تھی چہاں سے اتھی ڈرنبا گنی تھی
نتھی رنان اس کے فرنب آنا اس کے نازو کو تھا منے لگا چب اس ئے انبا نازو چھبکے
سے ننجھے کرئے اس پہ تگاہ علط ڈالے نبا وہاں سے جلی گنی۔
اس کو اندر جانا دنکھ مبکس ئے علتبا کو تھی کہا کہ وہ آرام کر لے۔ وہ اتھی
تھی خزپز سی تھی نتھی م یکانکی انداز میں سر ہالئے ہوئے چنہ کے شاتھ اندر ہی جلی
گنی۔
”مجھے اس کا نان نو ڈ نبا جا ہنے ڈرنک ،پہ دوسنی کی جاطر نہاں نہیں آنی تھی۔“
رنان ڈرنک سے بوال اور انبا کوٹ انارئے لگا ،ڈرنک ئے مؤدب سر ہالنا۔
مبکس کو رات میں شاشا سے متنتبگ کے لنے تکلبا تھا بو وہ نہاں زنادہ دپر رکے
نہیں تھے۔ مہمابوں کے جائے کے تغد رنان اور دامیر کجھ دپر کے لنے سبک نورنی روم
میں رہے تھے۔
انبا کوٹ کبدھے پہ ر کھے رنان چب کمرے میں داجل ہوا بو وہاں کونی نہیں
تھا ،نہاں نک کہ نبڈ سنٹ تھی نبا شلوٹ کے ونسی ہی تھی۔ اسے اچھتبا ہوا کہ چنہ
کہاں تھی۔
اس ئے ڈرنسبگ اور ناتھ روم جبک کنے وہاں تھی شب نارمل تھا۔
انبا کوٹ ہتبگ کرئے وہ کمرے سے ناہر آنا ،تگاہیں اس راہ داری پہ گنیں
چہاں چنہ کا شاتفہ کمرہ تھا۔
اس کا ا ننے روم میں ر ہنے کے جبال پہ اسیغال کی لہر جشم میں سران نت کر
گنی۔ لمنے لمنے ڈگ تھرنا وہ اس کے کمرے کے ناہر رکا ،نبا دسبک د ننے وہ اندر داجل
ہوا۔ رات کے نارہ نج رہے تھے اور کمرہ نتم نارنکی میں ڈونا ہوا تھا۔ شا منے نبڈ پہ کمفرپر
کے اندر چھنے وخود کو وہ شلگنی تگاہوں سے دنکھنے لگا۔ اسے تفین پہ آنا کہ شادی کے
دن اس کی پرانڈ نحائے اس کے شاتھ روم میں ر ہنے کے ا ننے شاتفہ کمرے میں
موخود تھی۔
اس کا اندر آنا بو وہ محسوس کر جکی تھی۔ ا ننے کف لبکس فولڈ کرئے ،شوز
انارے وہ نبڈ نک آنا۔ سنجبدگی سے اس ئے چنہ کے سباہ نالوں کو دنکھا خو کروٹ لنے
لتنی تھی۔ اس کے کہنے کے ناوخود وہ کیڑے پہ ضرف نبدنل کر جکی تھی نلکہ اس
کے ارمابوں پہ نانی ت ھیر جکی تھی۔
اس پہ زرا شا چھکنے کمفرپر کو ننجھے کبا اور انک چھبکے سے اس کا رخ اننی جانب
َ
کرئے اس کی گردن کو گرفت میں لبا خو النٹ نبک نانٹ پراؤزر سرٹ میں مبک اپ
سے ناک چہرہ لنے ہوئے تھی۔
”ملٹسکا! نبانا نسبد کریں گی کہ آپ نہاں کبا کر رہی ہیں۔“ گردن کے گرد ہاتھ
لنتنے ،اس کی کھلی آنکھوں میں چھانکبا وہ سرد لہچے میں بوال۔
”نین ہیں خو تظر نہیں آنا ،مجھلباں ننچ رہی ہوں۔“ اس کے ہاتھ کی گرفت کو
ئےدردی سے چھبکنے وہ دانت نٹسنے ہوئے بولی۔
رنان ئے کجھ کہنے میں وفت صا تع کنے نبا ،اس کو کمر سے تھامے ا ننے
کبدھے پہ تھت یکا کہ چنہ کو بو اجانک ہونی واردات کی سمجھ ہی نہیں آنی۔
”میں نمہاری جان تکال لوں گی رنان۔۔“ اس کی نانگوں کو قابو کنے ہوئے تھا
چب وہ جال اتھی۔
”اس کمرے کی عالوہ تم مجھے کسی دوسرے کمرے میں تظر پہ آؤ۔“ اس کو
نبڈ پہ انارئے ہوئے اس کے اطراف میں دوبوں ہاتھ چمائے اور سرد لہچے میں کہا۔
”میرج آف االننٹس میں پہ کون شا ُرخ ہے مجھے نبانا زرا۔“ چنہ تھوڑا ننجھے کو
ہونی ہونی آپرو احکائے اسیقشار کرئے لگی۔
”کبا تم نہیں جاننیں مافبا پرنسٹس کہ ہماری شادبوں میں اس کو نتھانا تھی
ضروری ہونا ہے۔“ انک گھتبا نبڈ پہ تکائے مزند اس پہ چھکنے معنی چیز لہچے میں بوال کہ
چنہ ئے ن یفر سے رخ موڑا۔
”اور آج بو تھر ہماری رات نمہارے نجرے کے نام۔۔“ اس کے ل نوں کا انک
کونا تھبال ،گونا وہ جاالکی سے مشکرانا تھا۔ رنان ئے انبا ہاتھ اس کے چہرے کی طرف
پڑھانا چب انک جتھن ا ننے ن نٹ پہ محسوس کرئے اس کی مشکراہٹ گہری ہونی
تھی۔
”آنی ڈانٹ النک بو نی نحڈ ،کنپ بور ہتبڈز آف می۔“
(I don’t like to be Touched,
)keep.Your.Hands.off.Me.
وہ انک انک لقظ جبا کے بولی ،رنان ئے تظریں ننچے کرئے ا ننے ن نٹ پہ دنکھا
چہاں وہ جاکو ر کھے ہوئے تھی۔
”لبکن ا نسے بو رات گزرئے سے رہی۔۔“ وہ ئےناک سرگوسی کرئے بوال ،اشارہ
اس کی نات کی طرف تھا جس پہ وہ ضیط کرنی رہ گنی۔
”میں ئے شادی کر لی ہے لبکن اس کا پہ مطلب نہیں کہ چب تم جاہو میں
نمہارے جکم پہ سر چم کروں۔ االننٹس تھی بو پزنس نک ہی رکھو۔ مجھ سے کونی تغلق
نبائے کی ضرورت نہیں ہے اور پہ میں جاہنی ہوں۔“ جاکو کی بوک پہ دناؤ ڈا لنے
ن
ہوئے وہ سرد لہچے میں بولی اور اس کے نازو کو ہبائے ہوئے سبدھی تتھی۔
”تغلق بو ین حکا ہے ،جاہے نمہاری دلی رصامبدی تھی نا نہیں۔ اس کو جتم
کرئے کا شوجا تھی بو اگلے ہی لمچے نمہاری جان انہیں ہاتھوں سے تکالوں گا۔“ اس
کے جافو تھامے ہاتھ کو ا ننے ہاتھ میں لتنے ہوئے وہ بوال۔ اس کی آنکھوں میں تھی
سرد ین در آنا تھا۔
”شوچ لبا ،اب تکالو جان۔۔“ وہ ہاتھ میں تھامے جافو کو چھوڑنی ہونی نمسجراپہ
انداز میں بولی۔ جافو ننچے کارن نٹ پہ جا گرا کہ رنان کی آنکھوں کی چمک ندلی۔ چنہ سمجھ
پہ نانی تھی اور اگلے ہی لمچے اس کے اوشان حطا ہوئے چب وہ قاصلے جتم کر گبا۔
اس کے دوبوں ہاتھ رنان کی گرفت میں تھے ،وہ چھڑوا پہ نانی۔ کجھ سمجھ پہ آنی بو اس
ئے انبا ناؤں رنان کے ناؤں پہ دے مارا۔۔
”واتف کا ہونا تھی الگ ہی شکون ہے و نسے۔۔“ رنان اس کی طرف کروٹ لتبا
اس کے گرد نازو تھبالئے بوال کہ چنہ ئے شانس روک لبا۔ وہ جان بوچھ کے اس کے
صیر کا امنحان لے رہا تھا۔
”اگر نہلے نبا ہونا بو دس شال نہلے تم سے شادی کر حکا ہونا۔۔“ اس کے نالوں
کی خوسنو میں گہرا شانس تھر کے بوال ،اس کے کہنے کی دپر تھی۔ چنہ چھبکے سے اتھ
ن
تتھی۔
دونارہ سبدھے ہوئے سر کے ننچے دوبوں نازو ر کھے وہ مزے سے چنہ کو دنکھنے
لگا۔
”کبا ہوا ،ڈر لگ رہا ہے۔۔“ اس ئے مضنوعی قکرمبدی کا مطاہرہ کبا کہ چنہ
ئے اشعبال انگیز تگاہوں سے اس کو دنکھا۔ نبا کجھ کہے وہ نبڈ سے ہی اپر گنی۔
نہاں اس کے شاتھ رات گزارئے کا مطلب تھا فصوروار ہوئے تھی مقانل کی
جان پہ لتبا اور انشا اس کو پرداشت نہیں ہو نا رہا تھا۔
چنہ کو چب دروازے کی جانب جانا دنکھا بو رنان نیزی سے نبڈ سے اتھنے اس
کے فرنب آنا اور اس کے نازو کو اننی گرفت میں لبا۔
تم ن
دامیر روم میں آنا بو وہ اتھی تھی اسی بوزنشن یں ھی ھی ٹسے وہ نانچ منٹ
ج ت ت
نہلے چھوڑ کے گبا تھا۔ وہ اتھی تھی نبار تھی اس ئے جتنج نہیں کبا تھا۔
”کبا شوچ رہی ہو؟“ دامیر اس کے ناس قاصلے پہ نتتھنے ہوئے بوچھنے لگا۔
”وہ لڑکی کون تھی خو مجھے جاننی تھی؟“ اس ئے نبا کونی نمہبد ناندھے شوال
ت ھ ت
کبا ،دامیر کے اندازے کے مطابق وہ ڈرنبا پہ ہی می ھی۔
”کجھ انشان ہوئے ہیں خو آپ کی زندگی کے لنے نہیر نہیں ہوئے بو ان سے دور
رہبا ہی تھبک ہے۔“ دامیر ئے پرمی سے اس کا ہاتھ تھام کے سمجھانا۔
”لبکن وہ کہہ رہی تھی کہ دوشت ہے میری۔ مجھ سے ملبا جاہنی تھی۔“ علتبا
الجھن لنے بولی۔ ڈرنبا کا شو جنے علتبا کے چہرے پہ اداسی چھا گنی تھی۔
”وہ اننی ضروری نہیں ہے کہ تم اس کو شوچ کے انبا وفت پرناد کرو۔“ دامیر
کو اس کا ڈرنبا کے نارے میں شوجبا نالکل نسبد نہیں آنا تھا۔
”میری نبک نین ہو رہی ہے۔“ اس کے ہاتھ کو تھامے سہال رہا تھا چب علتبا
ئے آہشنہ آواز میں کہا۔
”م یع کبا تھا میں ئے کہ ہبل نہیں نہتنی۔“ غیر ارادی طور پہ دامیر کی تگاہ
اس کے نیروں کی جانب گنی خو اب ہبل سے ندارد تھے۔
”ہبل بو میں ئے ا ننے دبوں تغد نہنی تھی اور نس تھوڑی دپر کے لنے۔“ علتبا
ئے ناؤں کو اوپر کرئے ہوئے کہا۔
”زنادہ درد ہو رہی ہے۔“ دامیر ئے کمر پہ نازو تکائے ہوئے بوچھا۔
”اننی زنادہ نہیں لبکن اتھی تھی ہو رہی ہے۔ اتکل مبکس کب آ نیں گے؟“
درد کا نبائے اجانک ناد آئے پہ مبکس کے نارے میں اسیقشار کبا۔ اس کے شوال کو
جٹسے وہ سرے سے اگ نور کر گبا۔
”جتنج کر لو۔“ دامیر ئے اس کا ہاتھ تھامے اتھانا۔ وہ گہرا شانس تھر کے سر ہال
گنی۔
اس کے جتنج کرئے نک دامیر انک ڈاکیر کو نال حکا تھا۔
”نٹس منٹ نک اگر اس کی کمر درد نہیں گنی بو تم اس دنبا سے جلے جاؤ
گے۔“ دامیر ئے تطاہر مشکرائے مگر سرد لہچے میں وارن کبا کہ علتبا کے شاتھ شاتھ
ڈاکیر ئے تھی ہراشاں تگاہوں سے اس کو دنکھا۔ اس وفت وہ لوگ الؤنج میں موخود
تھے۔ رات کے اس نہر شوشاننی جاموش سی ہو گنی تھی۔
”دامیر۔۔!“ علتبا ئے ئےتفتنی تگاہوں سے اس کو دنکھا۔
”رنلبکس ،اس طرح ڈاکیر جلدی کام کرے گا انبا۔“ اس ئے علتبا کو بو نشلی
دے دی لبکن ڈاکیر چیران پرنشان تگاہوں سے دنکھنے لگا۔
”سر میں جبک کر رہا ہوں آپ نلیز تھوڑا صیر کریں۔“ ڈاکیر تفین دہانی کرئے
بوال ،علتبا کی مبڈنشن جبک کرئے اس سے درد کی بوعنت بوچھنے لگا۔
مغا ننے کے تغد اس ئے تھوڑا پروگرنس کی جانب اشارہ کبا کہ وہ جلدی رنکور کر
رہی تھی اور آج نس تھکن کی وجہ سے اس کی کمر میں درد تھی۔
”کل ہم ان کے نازو کا انکسرے کریں گے اور اس کو تھی جبک کر لیں
گے۔“ ڈاکیر اس کے نازو کی موومت نٹ دنکھبا ہوا بوال۔
”ہاں میں زنادہ اس کو موو نہیں کرنی پہ ہی اس پہ وزن ڈالنی ہوں۔“ علتبا سر
ہالنی ہونی بولی۔
دامیر ہاتھ ناندھے کھڑا ڈاکیر کو نئیر پہ لکھبا دنکھ رہا تھا۔
”اس نانمبگ پہ کل آپ لوگ آجا ننے گا۔۔“ ڈاکیر نئیر پہ لکھے ناتم کی جانب
اشارہ کبا۔
ن من ہت ن
”ہم چب ھی یں یں وہاں ہونا جا ہنے۔۔ دپر سی صورت پرداشت یں
ہ ک ہ چ ن
کروں گا میں۔“ دامیر ئے وہ وفت دنکھنے کی زچمت تھی نا کی تھی اور البا ڈاکیر کو جکم
د ننے لگا۔
”جی سر آپ چب مرضی آجا ننے گا۔“ ندفت مشکرائے ہوئے ڈاکیر ئے کہا۔
”نبکشٹ ناتم ا ننے شاتھ انک قی مبل کو تھی رکھبا۔“ رنان علتبا کا ہاتھ تھام
کے اس کو صوفے سے کھڑا کرئے ڈاکیر سے بوال جس پہ وہ سر ہال گبا۔
ڈرنک ڈاکیر کو وانس چھوڑئے گبا تھا چب دامیر اس کو روم میں لنے وانس آنا۔
”میں دو دن گھر سے دور تھا کہیں تم ئے کونی انکت نونی بو سبارٹ نہیں کی خو
مجھے مغلوم نہیں۔“ دامیر اس کے فرنب نتتھنے ہوئے بوال۔
”کٹسی نانیں کر رہے ہو۔ انسی کونی نات نہیں ہے۔ میں نس تھک گنی
ہوں۔“ وہ جاتف ہونی بولی۔ دامیر اس کو دنکھ کے گہرا شانس ت ھر کے رہ گبا۔
”آرام کرو۔۔“ انبا کوٹ انارے اس ئے شانبڈ پہ رکھا اور سرٹ کا اوپری نین
کھوال۔ علتبا کی تگاہیں اسی پہ چمیں ت ھیں۔
وہ اس سے قد میں کتنی چھونی تھی ،اس کے کبدھے سے تھوڑی ننچے آنی
ہیں۔
اننی نات شو جنے وہ ہلکا شا ہٹس دی۔
”کبا ہوا۔۔۔“ اننی گھڑی انارئے ہوئے ،کف لبکس کو فولڈ کر رہا تھا چب علتبا
کو ا ننے آپ میں مشکرائے دنکھا۔
”کجھ نہیں! میں نس شوچ رہی تھی کہ میں کتنی چھونی ہوں تم سے۔۔“ علتبا
تھوڑا مشکرائے ہوئے بولی۔ دامیر کے ل نوں پہ نٹشم نکھرا۔
”نہی کونی نارہ نیرا شال۔۔!“ دامیر ئے عام سے انداز میں کہنے اننی سرٹ اناری
ن
ناکہ جتنج کر شکے اس کے پرعکس علتبا کی آ یں چیرت سے ناہر آئے کو ہو یں۔ نارہ
ن ھ ک
نیرا شال۔۔ مطلب وہ تھرنیز میں تھا جبکہ وہ ہان نٹ کی نات کر رہی تھی۔
”نارہ شال۔۔! میں بو قد کی نات کر رہی تھی۔“ علتبا ستتھل کے بولی بو دامیر
خوتکا۔
”او ہاں! تھوڑی سی چھونی ہو ،ک نوٹ لگنی ہو میرے شاتھ۔“ نانٹ سرٹ نہتنے
دامیر عام سے انداز میں بوال۔
”تم وافعی تھرنی بو کے ہو۔۔!“ چب وہ پراؤزر جتنج کر آنا بو علتبا اس کے نبڈ پہ
نتتھنے بوچھنے لگی۔
”تھرنی فور۔۔“ وہ اننی نٹس شال کی عمر سے اندازہ لگا رہی تھی جس پہ دامیر
جصت
ئے نح کی۔
”تم مجھے مل کٹسے گنے۔۔“ علتبا چیران ہونی بولی جس پہ دامیر ہٹس دنا۔
”نباؤں گا کسی دن ،خوتصورت نانیں ہیں شب۔“ دامیر اس کو فرنب کرئے بوال
چب علتبا کی تگاہ اس کے کبدھے پہ گنی چہاں شل نولٹس سرٹ سے اس کا سبار نت نو
تظر آرہا تھا۔
”نت نو شوٹ کر رہا ہے تم پہ۔“ علتبا اس کے کبدھے پہ اننی مجروطی اتگلی
ت ھیرئے ہوئے بولی جس پہ دامیر ئے آپرو احکائے۔
”تم آج نہت خوتصورت لگ رہی تھی۔“ اس کے چہرے کو دنکھنے ہوئے بوال اور
اس کے ننجھے نکنہ تھبک سے سنٹ کرئے لگا ناکہ وہ تھکے نا۔
”تم تھی نہت ہتبڈسم لگ رہے تھے ،تم کوکبگ کرئے نہت اپرنک نو لگنے ہو۔“
علتبا اغیراف کر رہی تھی جبکہ دامیر سبانسی تگاہوں سے اس کو دنکھ رہا تھا۔
”نمہاری طت یغت تھبک نہیں ورپہ نمہیں اتھی نبا شکبا تھا کہ تم اس وفت مجھے
کتنی اپرنک نو لگ رہی ہو۔“ اس کی زومعنی نات پہ علتبا سنتبا اتھی کہ اس کے رجشار
سرخ پڑ گنے۔
”علتبا۔۔“
شوجا نہیں تھا کہ ا ننے نبار سے تھی کتھی کسی کو تکارے گا۔ اس کے تکارئے
پہ وہ اسبہقامنہ تگاہوں سے دنکھا۔
”تم کل رات تھر ڈری تھی۔۔“ وہ بوچھ نہیں رہا تھا ،وہ عام انداز میں اسے نبا
رہا تھا ،علتبا ئے تگاہیں خرانیں۔
”نمہیں کٹسے مغلوم؟“ وہ مدھم لہچے میں بولی۔
”میں ئے دنکھا تھا۔۔“ دامیر ئے پرشکون لہچے میں کہا۔
”دنکھا ،کٹسے؟“ علتبا الجھی کہ وہ کبدھے احکا گبا۔ تھر اس ئے کمرے میں
لگے دانیں جانب کتمرے کا اشارہ کبا ،علتبا ئے دنکھا بو وہاں وافعی کتمرہ موخود تھا۔
اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گبا ،کبا اس ئے کجھ انشا ونشا بو نہیں کبا تھا روم
میں؟ نہیں! شکر ،نل میں گ ھیرانی اور نل میں پرشکون ہونی۔
س ح چ
”ہمارے روم میں تھی ہے؟“ وہ نی ہونی بولی کہ دامیر نات کو ھنے ٹس
ہ جم ک ھ
دنا۔
”قلحال نبد ہے ،میرے ہوئے ہوئے نبد ہونا ہے لبکن غیر موخودگی میں آن
ر ہنے ہیں۔“ اس ئے نشلی دی کہ وہ سر ہال گنی۔
”بو اس دن ہمارے روم واال آن تھا؟“ وہ ناد آئے پہ بوچھنے لگی۔
”ہاں نب تھی آن تھے ،رنان تھی جبک کرنا رہبا ہے شاتھ شاتھ۔ اس گ ھر میں
ہر جگہ موخود ہیں۔ سبک نورنی کے لنے۔“ دامیر ئے تھوڑی وصاچت کی۔
”سرم کرو ،چب تم دوبوں نہاں نہیں ہو گے بو کبا ا ننے ننجھے کتمرے آن کر
دنا کرو گے۔“ علتبا ئے مضنوعی ڈ نتنے کہنے جٹسے اس کو سرم دالنی جاہی جس پہ
دامیر گہری تگاہوں سے اس کو دنکھنے لگا۔
کن کن
”اننی ن نوبوں کو ہی د یں گے م۔۔“ وہ کبدھے احکانا بوال کہ لتبا ئے آ یں
ھ ع ہ ھ
گھمانیں۔
”علتبا۔۔!“ دامیر ئے انک نار تھر تکارا۔
”کبا ہوا تھا نمہارے شاتھ اور فروا کے شاتھ؟“ دامیر جاہبا تھا کہ وہ خود اس سے
نات کرے اس نارے میں ک نونکہ وہ رات کو اکیر ڈرنی تھی اور ڈرئے کی وجہ وہی
وافعہ تھا خو شوپزرلتبڈ میں نٹش آنا تھا لبکن وہ خود نبائے سے کیرانی تھی۔
”کبا مطلب۔۔!“ اس شوال سے علتبا کے چہرے کی مشکراہٹ ماند پڑ گنی۔
”شوپزرلتبڈ! کبا ہوا تھا مجھے نباؤ کبا نبگ کرنا ہے نمہیں آج تھی؟“ اس کا ہاتھ
تھامے دامیر ئے انبان نت تھرے لہچے میں بوچھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
”شوپزرلتبڈ! کبا ہوا تھا مجھے نباؤ کبا نبگ کرنا ہے نمہیں آج تھی؟“ اس کا ہاتھ
تھامے دامیر ئے انبان نت تھرے لہچے میں بوچھا۔
کو چہرے سے ننجھے کرئے ہوئے بولی خو ہوا کی دوش سے نار نار چہرے سے نکرا رہے
تھے۔
”پہ بو اچھا ہے کہ ہمیں کالج سے تھی آف مل گبا ،آؤ کجھ کھائے جلنے ہیں۔“
علتبا ئے اس کا ہاتھ تھاما اور رنسنورن نٹ کی جانب جل دی۔ فروا سے دوسنی اس کی
کالج میں ہونی تھی خو ناکسبان سے آنی تھی۔ کم عرصے میں علتبا اس کو دوشت مان
جکی تھی خو نہت سبدھی شادھی سی پرم مزاج لڑکی تھی۔
رنسنورن نٹ میں داجل ہونیں بو وہاں نہلے کی نانسنت آج رش زنادہ تھا۔ انک
حصے میں انہوں ئے جار نانچ مرد د نکھے خو انک ہی طرح کی ڈرنسبگ میں موخود تھے۔
آنکھوں پہ شن گالسز نہن ر کھے تھے جٹسے وہ لوگ گارڈ ہوں کسی کے۔ وہ دوبوں
انہیں تظرانداز کرنیں انبا آرڈر د ننی لگیں چب انک آدمی ان کے ناس آئے رک گبا۔
فروا کے شاتھ علتبا ئے تھی خونک کے دنکھا۔
”ہمارے ناس ئے آج نارنی رکھی ہے بو لنچ ہماری طرف سے۔“ اس آدمی کی
نات پہ دوبوں کے چہروں پہ خوشگوار چیرت سمٹ آنی اور کھلکھال دیں۔
”ہمارا گڈ لک۔۔“ وہ مشکرانی ہونی بولیں۔
ان دوبوں ئے خو ہلکا تھلکا کھانا تھا ،فری کے کھائے کا ستنے ان دوبوں ا چھے
سے کھانا کھانا لبکن پہ نات نہیں جاننی تھیں کہ پہ شب ان کو مہ یگا پڑئے واال تھا۔
”آپ کو ہمارے رنسنورن نٹ کا سباف اور شب کٹشا لگا نلیز اس کی سبار رنتبگ
کر دیں۔“ وہ دوبوں چب فری ہونیں اور جائے کا ارادہ کرئے ات ھیں بو وہی آدمی ان
کے فرنب آنا ہاتھ ناندھ کے کھڑا ہوا۔
اس آدمی کی نات پہ تظروں کا نبادلہ ہوا تھر کبدھے احکانی اس کے شاتھ ہو
لیں کہ وہ ربوبو دے شکنیں۔ وہ کاونیر نک گنیں چہاں پہ انک ناشکٹ سچی تھی اور
اس میں جاکلنٹ کے مجبلف قل نورز تھے شاتھ انک نئیر نین رکھا گبا تھا۔
ت کش ل
علتبا ئے نہلے اس پہ انک دو ظریں یں ھر فروا ئے ھی دہرانا۔ کاؤنیر پہ
ت ھ
کھڑی لڑکی ئے ان دوبوں کو انک انک جاکلنٹ تھمانی اور الگ الگ کارڈز د ننے جس
کو وہ تھام گنیں ،وہ کونی شانبگ واؤخرز تھے ،ضرف ان کو ہی نہیں ناف نوں میں تھی
م ھ چ ت ت سقت
چ ل م ت
م کنے جا رہے ھے۔ نوں یں پہ شب ان کو لبا ا گ تھا اور خوسی ہرے پہ
تظر آرہی تھی۔
”آپ ا ننے ناس کو ہماری طرف سے شکرپہ کہہ دنجنے گا۔“ فروا مشکرانی ہونی بولی
اور دوبوں رنسنورن نٹ سے ناہر تکلنے کو تھیں چب علتبا وانس کو مڑی۔
”و نسے پہ نارنی کس خوسی میں تھی؟“ علتبا ئے فروا کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔
”ہمارے ناس کو انک چیز جا ہنے تھی اور ان کو خوسی کی چیر مل جکی ہے کہ وہ
چیز نہی موخود ہے۔“ اس آدمی ئے مشکرائے ہوئے کہا جس پہ وہ دوبوں محض سر ہال
گنیں۔ عج نب نات تھی۔ فروا کے اشارے پہ علتبا اس کے شاتھ ناہر آگنی۔
”کتبا اچھا کھانا تھا نا۔۔“ فروا اس کے شاتھ جلنی ہونی سبانسی انداز میں بولی۔
وہ دوبوں اننی دھن میں مگن جا رہی ت ھیں چب اجانک سے کونی دانیں جانب
سے تھاگبا ہوا آنا اور ان کا زور شا تصادم ہوا۔
علتبا بو شانبڈ پہ ہونی لڑکھڑا دی جبکہ فروا انبا بوازن پرفرار پہ رکھ نانی اور ننجھے کو جا
گری۔
ت تن
”فروا۔۔“ علتبا ئےشاچنہ تکار ھی۔
نکرائے واال ا ننے کبدھے کو چھبکنے فروا کی جانب پڑھا۔
”آنی اتم شوری ،مانی مستبک۔۔“ فروا کی جانب ہاتھ پڑھائے اس کو اتھانا جاہا۔
فروا اس کا ہاتھ تھام کے کھڑی ہونی بو علتبا نیزی سے اس کے فرنب آنی۔
”میری علطی ہے میں جلدی میں آرہا تھا نس۔“ مقانل پرم مشکراہٹ لنے بوال۔
علتبا اور فروا ئے نبک وفت اس کو دنکھا۔ فروا بو خونک اتھی جبکہ علتبا فروا کے لنے
قکرمبدی ہونی اس سے بوچھنے لگی۔
”زنادہ بو نہیں لگی ،تم تھبک ہو۔۔“ علتبا کی شاری بوجہ فروا پہ تھی جبکہ فروا
اس انحان سحص کو الجھی تگاہوں سے دنکھ رہی تھی۔
وہ دوبوں نبا کجھ کہے وہاں سے جائے لگیں چب نکرائے والے ئے انک
مشکراہٹ اچھا لنے انبا ہاتھ ہوا میں لہرانا۔
”علتبا ،تم ئے اس سحص کو دنکھا؟“ فروا ئے مدھم لہچے میں کہا۔
جم س
”کس کو۔۔؟“ وہ نا ھی سے بولی۔
”ارے خو اتھی نکرانا تھا۔۔“ فروا ئے اشارہ کرئے کہا بو علتبا ئے انبات میں
سر ہالنا۔
”نمہیں نہیں لگبا کہ وہ نہنحانا شا لگ رہا تھا جٹسے ہم اس کو جا ننے ہوں۔“ فروا
ن جم س
ح
ئے کہا کہ علتبا کے ما تھے پہ نا ھی سے ل نمودار ہوئے۔ علتبا ئے اس س ص کو
غور سے نہیں دنکھا تھا نتھی کجھ کہہ پہ نانی۔
”جلو ہونل جلنے ہیں ،اگر کونی خوٹ ہونی بو اس پہ دوانی لگا لیں گے۔“اس کی
نات کو تظرانداز کرئے ہوئے کہا ،فروا تھی نانبد میں سر ہال گنی کہ ہو شکبا تھا اس کو
ق
علط ہمی ہونی ہو۔
تصادم کے تغد آج ان دوبوں کو نہاں آئے مہننہ ہو گبا تھا اور شب تھبک جا رہا
تھا لبکن انک نات فروا کو کھبکنی تھی جٹسے کونی ان کو ہر وفت دنکھ رہا ہونا تھا۔ کجھ
تھا خو فروا کو غیر آرامدہ محسوس کروانا تھا۔ جٹسے کونی ان کا ننجھا کر رہا ہونا۔
”علتبا ،میں شوچ رہی تھی کہ ہمیں اب وانس جانا جا ہنے نہت دن گزار لنے ہم
ئے نہاں پہ۔“ وہ دوبوں آج تھی اسی رنسنورن نٹ میں موخود تھیں چب فروا ئے دھتمے
لہچے میں کہا۔ سرٹ پہ النگ کوٹ نہن ر کھے تھے دوبوں ئے اور گلے کے گرد مقلر
لت نٹ ر کھے تھے۔
”ارے ک نوں اتھی بو نہت دن ناقی ہیں۔“ علتبا الپرواہی سے بولی اس کا پہ جگہ
نہت نسبد آنی تھی۔
ت ُ
”نبا نہیں مجھے نہاں کجھ اچھا نہیں لگ رہا ،اس دن والے گارڈز آج ھی یں
ہن
ُ ہ کہ ہم ن
موخود یں خو یں د ھی جا رہے یں۔“ فروا ئے کاؤنیر کی جانب اشارہ کبا چہاں اسی
دن والے گارڈز موخود تھے۔ چب چب فروا کی تگاہ اس طرف اتھنی بو ان کی تگاہوں کا
مرکز پہ دوبوں ہی ہونیں۔
”جلو ہونل جلیں جلدی اور تم ا ننے اتکل کو فون کرو آج ہی۔“ فروا کو چب
نہاں نتتھے کسی انحائے سے ڈر ئے گ ھیرا بو انبا ہتبڈ نبگ نکڑنی اتھ کھڑی ہونی۔ علتبا
ھ کن
اس کی عحلت د نی چیران ہونی۔
فروا کے اتھنے پہ اسے تھی اتھبا پڑا ،جٹسے ہی وہ دوبوں دروازہ دھکبل کے ناہر
گنیں نتھی ان میں سے انک گارڈ ئے انبا مونانل تکالے کسی کو کال مالنی۔
”مجھے نمہیں کجھ ضروری نبانا ہے۔۔۔“ فروا کنب میں نتتھے علتبا سے بولی،
چہرے پہ خوف کے آنار چھائے ہوئے تھے۔
”نمہیں نہیں لگبا کہ نہاں کونی ہمارا ننجھا کر رہا ہے ،کونی ہم پہ تظر ر کھے ہوئے
ہے۔۔“ فروا نالکل اس کے فرنب ہونی بولی۔ علتبا ئے سنجبدہ تظروں سے اس کو
دنکھا۔
”خو گارڈز ہم ئے رنسنورن نٹ میں د نکھے میں ان کو اور تھی نہت جگہوں پہ دنکھا
ہے ،مجھے لگبا ہے کہ وہی ہمارا ننجھا کر رہے ہیں۔“ فروا ئے ناقاعدہ اس کو ناد دالئے
ہوئے کہا کہ علتبا کے اعصاب کو چھ یکا لگا ک نونکہ اس ئے تھی اسی آدمی کو انک دو
نار دنکھا تھا۔
”تم وہم نال رہی ہو انشا ک نوں ہو گا تھال۔۔“ علتبا اس کو نشلی د ننے کے لنے
بولی۔
”تم آج ہی اتکل کو کال کرو اور ان سے کہو کہ ہم وانس آرہے ہیں۔“ فروا
اس کی نات کی تقی کرئے ہوئے بولی۔
”اچھا ہم انشا کرئے ہیں کہ کسی دوسری جگہ جلنے ہیں اگر وہاں تھی انشا کجھ
ً
لگا بو ہم وانس جلے جانیں گے۔“ فورا سے وانس جائے کا شن کے علتبا ندمزہ ہونی
نتھی درمباپہ رشنہ نبائے لگی۔
علتبا ئے کہہ بو دنا تھا کہ وہ لوگ جلیں جانیں گے لبکن ر سنے میں ہی ان کی
کنب کو رکبا پڑا۔۔ علتبا خونک اتھی جبکہ فروا کے چہرے پہ خوف کے آنار واصح ہوئے۔
”ناہر پہ تکلبا۔۔“ فروا سرگوسی میں بولی لبکن اس سے نہلے ان کی کنب سے
آگے کھری گاڑی میں سے دو آدمی ناہر آئے اور ان کی طرف پڑ ھنے لگے۔
اس سے نہلے کہ ڈران نور کجھ کرنا اجانک سٹسے کو چیرنی ہونی گولی اس کے ما تھے
کے نالکل درمبان لگی جس سے وہ موفع پہ ہی مر گبا۔
ن کن
فروا اور علتبا کی آ یں ا ل کے ناہر کو آ یں ،چہرے خوف سے زرد پڑ گنے
ن ھ
تھے۔ ان کو اننی تھی مہلت پہ ملی کہ وہ کسی کو کال کر شکنیں۔
دوبوں شانبڈ کا دروازہ کھوال گبا اور دوبوں طرف انک آدمی کھڑا تھا جس ئے ان کو
نازو سے دبو جنے ناہر تکاال۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
ان کی آنکھوں ،ہاتھوں پہ ننی ناندھے ان کو انک جگہ النا گبا تھا۔
دوبوں لڑکباں انک جالی کمرے میں نتم اندھیرے میں کھڑی تھیں چہاں کونی
روسنی کا کونی ان یطام نہیں تھا۔ ان کے نبگز ،مونانل ان سے چھین لنے گنے تھے۔
علتبا پہ جٹسے شانس نبگ ہو رہا تھا اور گہرے شانس تھر رہی تھی ،دوبوں کی آنکھوں
میں نمی نیر رہی تھی۔
”میرا دل نہت گ ھیرا رہا ہے۔ کونی ہمارے شاتھ انشا ک نوں کرے گا؟“ علتبا
فروا کے فرنب ہونی بولی چب اجانک اس نتم اندھیرے میں ڈوئے کمرے کا دروازہ
کھال۔
دوبوں کی تگاہیں نبک وفت بووارد کی جانب گنیں جس کو دنکھنے فروا کی آنکھوں
میں ئے تفتنی در آنی۔
”نکواس کہاں ،ا ننے شالوں تغد کونی ملے بو ہم اس کو ا نسے ہی جائے دیں اور
شاتھ چب بونس موخود ہو۔۔“ علتبا کو انک تظر دنکھنے اب اس کا دھبان فروا کی
جانب تھا ،آنکھوں سے جٹسے خوس نبک رہی تھی۔
فروا کو اس نل انشا لگ رہا تھا جٹسے پہ اس کی زندگی کا آخری وفت تھا ،کونی
راشنہ امبد کی کرن تظر نہیں آرہی تھی کہ وہ نہاں سے ناہر جا نانیں اور اس آدمی کا
انہیں نکڑنا تھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔
”ملنے آؤں گا تم سے جلد ہی۔“ فروا کے رجشار کو چھوئے ہوئے وہ جبانت سے
بوال اور قہقہہ لگائے اس جالی وجشت زدہ کمرے میں ان کو اکبال چھوڑے جال گبا۔
ش ھ ت تس
فروا ئے آگے پڑ ھنے علتبا کے کمر پہ ہاتھ ت ھیرنا سروع کبا کہ وہ ل کے
جبکہ آنسوں دوبوں کے رجشار پہ بواپر نہہ رہے تھے۔
اجانک کبا ہوا تھا سمجھ سے ناہر تھا ،دماغ ئے کام کرنا چھوڑ دنا تھا۔ نہاں وہ
ک نوں تھیں ،کبا فصور تھا ان کا وہ نہیں جاننی تھیں۔
دوبوں عام سی زندگی گزار رہی تھیں اس پرائے ملک میں کسی سے کبا دسمنی
ہونی چب وہ نہاں کسی کو جاننی نک پہ تھیں۔
اس اندھیرے میں وہ دوبوں انک دوسرے کا سہارہ تھیں ،عم گشار تھیں۔
نہاں کمرے میں انہیں جائے کتبا وفت ہو گبا تھا ،تھوک کا اجشاس تھی شدند
تھا۔ وہ لوگ شاند تھوکا مار د ننے لبکن انک نبدے کا کھانا ان نک نہنحا دنا گبا۔
انشا لگ رہا تھا کہ وہ جبل میں فبدی ہوں خو کسی خرم کی آڑ میں نہاں
اندھیرے میں نبد کر د ننے گنے تھے۔ علتبا کا ن یقس نار نار نگڑنا تھا اس کے پرعکس
فروا تھوڑی ہمت دکھانی اس کو نشلباں دے رہی تھی۔
گھت نوں گزرئے کے تغد ان کو اندازہ ہو حکا تھا کہ رات ہو گنی تھی ،انک نسیرا ال
کے تھتبک دنا گبا تھا ،جٹسے نٹسے کرئے وہ دوبوں انک دوسرے کا ہاتھ تھامے اسی
کو عتتمت جائے شوئے کی کوشش کرئے لگیں لبکن شکون کی نتبد کہاں آنی تھی۔
کجھ گھت نوں نہلے وہ دوبوں انک نارمل زندگی ہٹسی خوسی جی رہی تھیں اور اب انک
ت ت تن
اندھیرے میں لتنیں اننی قشم نوں کو ن نول رہی تھیں خو جائے کبا شوچے ھی ھی۔
مسکل سے آنکھ لگے اتھی تھوڑی ہی دپر ہونی ہو گی چب فروا کو خود پہ کسی کی
گرفت محسوس ہونی ،اس کو انجبکشن لگانا جا رہا تھا جبکہ منہ پہ زپردسنی ہاتھ تکانا تھا کہ
آواز پہ کرے۔۔ اس ئے ہاتھ نیر مارنا سروع کر د ننے ،علتبا تھی ہوش میں آگنی ،اس
سے نہلے علتبا کو صورت جال سمجھ میں آنی وہ لوگ فروا کو اتھائے وہاں سے لے
جائے لگے ،وہ رونی ہانتنی اس کو نحائے کو لبکی کہ انک ت ھیڑ سے ہی زمین پہ ڈھے
سی گنی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
دونارہ چب اس کی آنکھ کھلی بو سر نہت تھاری ہو رہا تھا ،کجھ دپر خواس کام پہ
کنے ،جکرائے سر کو تھامے چب اطراف میں دنکھا بو وہی نبد کمرہ تھا۔ انک نسیر اتھی
تھی موخود تھا ،روشن دان کو مزند کھول دنا تھا کہ شورج کا اجاال اندر آرہا تھا۔
ن
فروا نہیں تھی نہاں ،وہ چھبکے سے اتھ تتھی۔ دل کی دھڑکن اجانک نیز ہونی
تھی۔
”فروا۔۔۔“ کھڑے ہوئے اس ئے انک تکار لگانی خواب کے ندلے اس کو نس
جاموسی ہی ملی تھی۔
”فروا۔۔۔ کہاں لے گنے ہو اس کو؟“ وہ ہزنانی انداز میں جالنی ہونی بولی لبکن
خواب ندارد۔ آنکھوں سے آنسوں بواپر نہبا سروع ہو گنے تھے۔ کجھ سمجھ نہیں آرہا تھا
کہ وہ نہاں ک نوں تھیں اور کبا ہوئے جا رہا تھا ان کے شاتھ۔ وا ہمے سبا رہے تھے۔
اس لمچے کجھ تھی علط شوچ آشکنی تھی۔
گھت نوں کے گرد نازو لتنتنے وہ انک کوئے میں نتتھ گنی۔ خوف اس کے وخود نک
سما گبا تھا۔ شانس لتنے میں نبگی ہو رہی تھی۔ ہراشاں تگاہوں سے آس ناس دنکھ رہی
تھی۔ فروا کی قکر سبا رہی تھی جائے وہ کہاں تھی۔
پہ شب اس ئے قلموں نک محدود ہی سمجھا تھا لبکن آج اصل زندگی میں ہونا دنکھ
وہ پری طرح گ ھیرانی ہونی تھی۔ قلموں میں بو کونی نحا لتبا تھا لبکن نہاں اس اندھیری
جبل میں شاند کسی کو مغلوم تھی پہ ہونا کہ پہ دوبوں عانب تھیں۔
تھوڑی دپر تغد وہ تھر اتھی اور نبد دروازے کو ننتبا سروع ہونی اور فروا کا
بوچھنی۔ جائے اس کو کہاں لے گنے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
انبا وخود کسی پرم جگہ پہ نائے انشا محسوس ہوا جٹسے وہ کسی خواب سے جاگی
تھی۔ انک پرا تھبانک خواب خو اس کی زندگی کا ندپرین لمحہ تھا۔ وہ شکر کا شانس لتنی
کن
لبکن چب اس ئے آ یں ھو یں بو خود کو انحان مرے یں نائے اس ہڑپڑا کے
م ک ل ک ھ
ت ت ن ت تن
اتھ ھی۔ نبڈ پہ م دراز ھی۔
کمرہ ونل فرنشڈ تھا لبکن اس کا نہیں تھا۔ مطلب وہ اتھی تھی تھبانک خواب
سے نہیں جاگی تھی۔ وہ خواب اتھی تھی جل رہا تھا۔ نہاں کجھ تھی تھبک نہیں تھا۔
دل اس نات کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ علط جگہ پہ تھی۔
”علتبا!“ علتبا کا جبال آئے ہی وہ پڑپڑانی۔ نبڈ سے ننچے اپری ہی تھی اجانک
ہی سر جکرا کے رہ گبا۔ انجبکشن کا اپر جٹسے اتھی تھی موخود تھا۔
ن
زور سے آ کھیں منچ کے کھو لنے وہ دروازے کی جانب پڑھی ،ڈور ناب گھمانا جاہا
لبکن وہ نبد تھا۔
”دروازہ کھولو۔۔ کونی ہے؟ میں کہاں ہوں۔“ اس کی آواز رند ھنے لگی۔ جلق
میں آنسوؤں کا گولہ شا تھٹس گبا۔
اس کے گھر والوں کو چیر تھی پہ ہو گی کہ وہ کہاں تھی اس وفت اور کس
چہتم میں تھٹس جکی تھی۔
”دروازہ کھولو۔۔ علتبا! تم کہاں ہو؟“ زور زور سے دروازہ نحائے ہوئے وہ جالنی
ناکہ آواز کہیں نک بو نہنچے۔ ناہر سے نس قدموں کے جاپ سبانی دے رہی تھی جٹسے
کونی جکر لگا رہا تھا۔
”دروازہ کھولو خو تھی ناہر ہے۔ مجھ۔۔۔ مجھے تکالو نہاں سے۔“ اس کی آواز کے
شاتھ ہاتھ نیر تھی کا نتنے لگے تھے۔
وہ کہاں تھی اس وفت؟ علتبا کہاں تھی؟ نہاں وہ لوگ سیر کرئے آنی تھیں
لبکن پہ کبا ہو گبا تھا نہاں۔
ن
آنکھوں سے آنسوں نہنے لگے بو بوں ہی روئے روئے وہ ننچے تتھنی جلی گنی۔ علتبا
کا شوچ شوچ کے تھی دل گ ھیرا رہا تھا۔
وہ دوبوں اغوا ہونی تھیں اور کسی نبک کام کے لنے بو کسی ئے نہیں رکھا تھا
ان کو نہاں۔ نہی شو جنے اس کو اس دن پہ اقسوس ہو رہا تھا چب اس ئے نہاں
آئے کا شوجا تھا۔
نہاں نتتھے جائے کتبا وفت گزرا تھا چب دروازہ کھلنے کی آواز پہ فروا نیزی سے
اتھی۔ اس کا مقلر کوٹ جائے کہاں تھتبک دنا گبا تھا۔
اس سے نہلے کہ دروازہ کھلبا وہ نیزی سے نبڈ کی جانب گنی اور شانبڈ لتمپ کو
ل کھ م تھ ک
ت
نچ کے ا ننے ہاتھ یں لبا۔ دروازہ ال ہی تھا کہ اس آئے والے پہ وہ مپ زور سے
دے مارا ،نبا اس کی جانب د نکھے وہ تھاگنی ہونی دروازے کی جانب لبکی لبکن مقانل
ئے اس کا نازو دبو جنے ہوئے اس ئے فروا کو ناہر جائے سے روکا۔ مقانل ئے اس
لتمپ سے خود کو نحا لبا تھا۔
”کہاں جانا ہے اتھی تم ئے ،اتھی بو میں آنا ہوں دندار تھی پہ کروں۔“ فروا کو
ا ننے مقانل کرئے ہوئے وہ زومعنی لہچے میں بوال۔ فروا تقی میں سر ہالئے لگی۔ جتنی
وہ ہمت دکھائے کا شوچ رہی تھی اب اس کی جگہ خوف ئے لے لی تھی۔
”مجھے جائے دو ،میں اس دن جان بوچھ کے نہیں نکرانی تھی۔“ فروا روئے
ہوئے بولی اور انبا آپ چھڑوائے لگی ،اسے لگا کہ وہ ندلہ لے رہا تھا اس سے لبکن
مقانل کا ارادہ کجھ اور ہی تھا۔
”ارے تم ک نوں نکرانی ،نکرانا بو میں تھا تم سے وہ تھی اننی مرضی سے۔ تظر
نمہاری دوشت پہ رکھنی تھی لبکن نسبد تم آگنی کبا کرنا۔ اسی لنے لے آنا نمہیں تھی۔“
اس کو جبانت سے دنکھنے ہوئے اس کے چہرے پہ انبا ہاتھ تکانا اور اس کا چہرہ دبوچ
لبا۔
جن چ ت نت ج
”چھوڑو۔۔۔“ اس کی گرفت ئےر م ھی ھی وہ نی ہونی بولی۔
”چھوڑ دوں ،ا ننے عرصے تغد کجھ نسبد آنا ہے نبا انحوائے کنے ہی چھوڑ دوں۔“
اس کو اننی جارجاپہ گرفت سے چھوڑئے ننجھے کی جانب دھکا دنا اور ا ننے کف لبکس
کھو لنے لگا۔
فروا کا دل ڈو ننے لگا ،ناسمجھ نہیں تھی خو اس کی نات کا مطلب پہ جاننی۔
ہ نومن پرتقبکبگ ،سمگلبگ ،شل نوز ) (Slavesشب شن رکھا تھا بو کبا وہ دوبوں
اسی کا شکار ہو گنی تھیں۔
”مجھے نہاں ک نوں رکھا ہے ،میری دوشت کدھر ہے۔“ فروا ہمت کرنی ہونی
شوال کرئے لگی۔ نحائے خواب د ننے کے وہ اس کے فرنب پڑ ھنے لگا۔
”مجھ پہ دھبان دو،ا ننے عاشق پہ خو نمہاری خوتصورنی کو سرا ہنے کا شوچ رہا
ہے۔۔“ اننی سنو کو سہالئے ہوئے وہ اس گہری تگاہوں سے دنکھنے لگا۔ فروا کو اس
نل اس کی تظریں ا ننے آر نار جانی محسوس ہونیں۔ زلت و اہانت کا اجشاس پڑ ھنے لگا۔
اس کی عزت حظرے میں تھی۔
”مجھ سے شادی کر لو۔۔“ اس ئے نٹشکش کی۔ گباہ سے نہیر تھا کہ جالل
ر سنے میں ہی آجانی لبکن مقانل ئے جٹسے اس کی نات کو ان سبا کر دنا۔
”خو میرے نانپ چیز ہے وہ نمہیں کجھ دپر نک مغلوم ہو جائے۔“ آنکھ دنائے
ہوئے اس ئے اجانک فروا کو دبوجا۔
خوف و ہراس سے وہ ہزنانی انداز میں جنجبا سروع ہو گنی۔ عزت گ نوائے سے
اچھا تھا وہ مر جانی ،نہلی نار موت کی شدت سے خواہش کی تھی لبکن موت تھی
نکروں میں آنی تھی۔
”فباد نام تم ہمٹشہ ناد رکھو گی۔“ اس کے کابوں میں شور تھونکبا ہوا اس کی
زندگی کو وہ نباہی کی جد نک لے گبا تھا چہاں وہ ا ننے آپ کو انک موت کی کھانی میں
گرنا دنکھ رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس جشنہ جال کمرے میں ر ہنے اس کو جائے کتنے دن ہو گنے تھے ،آنسوں
تھی اب آنکھوں میں جشک ہو گنے تھے۔ دن میں انک وفت کا کھانا دنا جا رہا تھا جس
کو وہ زہر مار کر لتنی تھی۔ چب تھی کونی کھانا د ننے آنا بو ہمٹشہ فروا کا بوچھنی لبکن نبا
کونی خواب د ننے تکل جانا تھا۔ اب بو خود تھی جاموش ہوئے اس کو کاقی دن ہو گنے
تھے۔ کابوں ئے جٹسے کتھی کجھ سبا ہی نہیں تھا۔
ضرف دروازہ کھلنے کی آواز سبانی د ننی تھی۔ انہیں نہاں رکھنے کا مقصد تھی
مغلوم نہیں تھا۔ اتھی نک اس کے اتکل تھی نہاں نہیں نہنچے تھے۔ زندگی کی امبد
ہی چھوڑ دی تھی۔
روشن دان سے آنی روسنی سے نس اندازہ ہوجانا تھا کہ اب رات کا وفت نا دن
کا۔ رات کے اندھیرے میں اس کو آنکھوں پہ ننی نہبائے واش روم لے کے جانا جانا
تھا۔ جائے ہوئے تھی نس جاموسی ہی ملنی تھی جٹسے کونی زی روح موخود ہی پہ ہو اور
وہ کہیں دنبا سے دور النی گنی تھی۔
مغلوم نہیں کہ اس کی دوشت زندہ تھی تھی نا نہیں۔ روز انک ہی جگہ نتتھ کے
وہ دل میں دعانیں پڑھنی کہ جائے کس وفت کونی عتنی مدد آجائے اور انک تھبانک
خواب سے وہ جاگ جانیں۔ شوئے سے نہلے وہ ہمٹشہ نہی دعا کرنی کہ چب صنح ا تھے
بو زندگی ندلی ہو ،اس سحت نسیر کے نحائے پرم نسیر پہ موخود ہو۔ رات میں پڑئے والی
سردی کو کم کرئے کے لنے ہئیر موخود ہو۔ کھائے کو دو وفت کا کھانا ہو۔
اب بو خود سے تھی بو آنا سروع ہو گنی تھی ،اس ئے طت یغت کا نگڑنا محسوس کبا
تھا کہ ن نٹ میں درد سروع ہو گبا تھا۔ اننی ئےنسی پہ آج تھر رونا آئے لگا۔ گھت نوں
میں سر د ننے وہ ا ننے اس درد کے کم ہوئے کی دعانیں ما نگنے لگی۔
نسیر کو ا چھے سے ا ننے گرد لت نٹ لبا تھا ناکہ جشم کو تھوڑی گرمانش محسوس ہو۔
نین ہق نوں سے زنادہ وہ اس وجشت زدہ کمرے میں فبد تھی۔ اب شاند اس کو
موت کا فرشنہ ہی تظر آنا چب اجانک اس ئے دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔
آج اس کو دن میں ہی واش روم لے جائے آئے تھے ،اس نات پہ وہ خود تھی
خونک اتھی ک نونکہ روشن دان سے روسنی اندر آرہی تھی۔
خو آدمی روز نہاں موخود ہونا تھا آج وہ نہیں تھا ،شاند کسی ننے کو نہاں رکھا گبا
تھا ک نونکہ اس کی آنکھوں پہ ننی تھی نہیں ناندھی گنی تھی۔
نہلی نار اس ئے کمرے سے ناہر تکلنے دنکھبا تھا۔ انک لمنی راہداری ننی تھی اور
دوبوں اطراف کمرے موخود تھے۔ اس راہداری کے آخر اور سروع پہ ہی روسنی کے لنے
انک انک نلب لگے تھے۔ بو کمرے میں آئے والی روسنی شورج کی نہیں ،انہیں نلب
کی ہونی تھی۔ خو دل میں جبال تھا کہ اس وفت دن تھا وہ تھی تکل گبا۔ جائے کون
شا نہر تھا پہ اور کتنے دن نہاں گزارے ہو گنے تھے۔
اس ئے نہلی نار رشنہ دنکھا اور جاموسی سے جانی گنی۔ ا ننے ہی قدم لگے تھے
ج م ہن
واش روم نک نجنے یں تنے روز۔ رشنہ آشان تھا۔ چہاں سے مڑنا تھا وہاں اس ئے
نب نک وہ کمرے میں موخود نتھر کو زمین پہ رگڑئے لگی۔ انشا وہ روز کر رہی تھی
جس سے نتھر فرش پہ رگڑ کھائے سے اس جگہ منی نتنی جانی۔
ن
چب وفت ہوا بو وہ ا نسے ہی اننی بوزنشن میں تتھی رہی۔ آدمی ئے چب اس کا
نازو نکڑا بو علتبا کھڑی ہو گنی۔
واش روم جائے اس ئے وہ کانبا مضنوطی سے اننی سرٹ کی آسنین میں
چھبائے رکھا تھا اور انک ہاتھ کی متھی کو تھتنحا ہوا تھا۔ اس ئے پرچھی تگاہوں سے
جبک کبا کونی تھی موخود نہیں تھا نہاں۔ اسی نات کا قاندہ اتھانا تھا۔ آدمی اس کو
واسروم کے ناہر چھوڑنا تھا۔ علتبا جار منٹ اندر رہی اور نانحویں منٹ وہ جال دی۔ آدمی
ہڑپڑا کے اندر آنا چب علتبا ئے اننی متھی کھو لنے اس کی آنکھوں کی طرف کی۔ ہاتھ
میں موخود منی کا عبار اس ئے منہ اور آنکھوں میں جال گبا۔ اننی ہمت جائے کہاں
سے آنی کہ آسنین میں چھبانا کانبا تکا لنے اس ئے اس کی آنکھ میں دے مارا ،وہاں
م م ت تھ ک
سے نچ کے تکا لنے ھر گردن یں مارا۔۔ وہ آدمی نی کے وار سے ہڑپڑانا ہی تھا کہ
علتبا ئے اس کو ستتھلنے کا موفع تھی نہیں دنا تھا۔ آنکھ میں وار ہوئے پہ وہ درد سے
نلبال اتھا۔ گردن پہ وار کرئے کے تغد چب اس ئے کانبا وانس کھتنحا وہ اس کا بوکبال
حصہ اس کی گردن میں ہی بوٹ گبا۔ اس کی آنکھ تھوٹ جکی تھی اور وہ درد سے کراہ
رہا تھا۔ علتبا ئے پہ بونا کانبا تھی وار سے جالی پہ ر ہنے دنا۔ وہ خو انک ہاتھ اننی گردن
اور آنکھ پہ ر کھے ہوئے تھا ،علتبا ئے اس کی گردن کے شا منے والے حصے ،شاہ رگ
میں گھشا دنا۔ اس کا نچتبا اب ممکن نہیں تھا۔ وہ ننچے گرنا جال گبا۔ علتبا خوف سے
دور ہونی۔
آنکھوں سے آنسوں مشلشل نہہ رہے تھے ہاتھ خوف سے لرز رہے تھے۔ دل کی
دھڑکن اجانک پڑھ گنی تھی۔ اس کے ہاتھوں انک فبل ہوا تھا۔
اس کے ئےشدھ پڑے وخود کو دنکھنے وہ کانتنی ہونی ننجھے ہتنے کو تھی چب تظر
اس آدمی کی گن کی طرف گنی۔ اننی ہمت دکھا کے اس وفت پہ گن انبا سہارہ لگی بو
اس کو اتھا لبا۔ زندگی میں نہلی نار انسی چیز کو ہاتھ میں لبا تھا۔
پہ شب تھی نہلی نار ہی ہو رہا تھا۔
ناہر تکلنے وانس اس راہداری کی جانب آنی اور گن کو دوبوں ہاتھوں سے مضنوطی
سے تھامے آہشنہ سےجلنے لگی۔ اس کے ناؤں خوئے سے ندارد تھے بو آواز نبدا نہیں
ہوشکنی تھی۔
دوبوں ہاتھ سبدھے کنے وہ ڈرئے ڈرئے زن نوں کی جانب آنی چہاں پہ ہلکی سی
ً
روسنی تھی عالبا انک ھونا لب لگانا گبا تھا۔
ن چ
ہللا کا نام لتنے وہ خڑ ھنے لگی اور ہر قدم پہ اننی زندگی کی دعا کرئے لگی کہ اگر پہ
ہمت آنی تھی بو ہللا نہاں سے تکلنے کی تھی ہمت عطا کرے۔ نانچ چھے ز ننے خڑ ھنے
کے تغد وہی لفٹ تھی۔ ہو شکبا تھا کہ اگر وہ کونی نین پرنس کرنی ،لفٹ ننچے آئے
لگنی بو مغلوم ہو جانا کہ کونی نٹشمنٹ سے تکلنے واال تھا۔ اس کو اب نہاں خوف
سبائے لگا۔
اننی جان کا رشک لتنے اس ئے نین پرنس کبا بو تھر سے آنکھوں سے آنسوں نہبا
سروع ہوئے۔ لفٹ ننچے ہی تھی ،نحائے کونی نین پرنس کرئے کے وہ ا نسے ہی اندر
ن
تتھی رہی کہ کونی خود اس لفٹ کو اوپر نالئے گا۔ گن میں گولباں موخود تھی تھوڑا شا
بو لڑ ہی شکنی تھی وہ۔
آج کا دن شاند اس کے خق میں تھا۔ نتھی لفٹ نبد ہونی اور اوپر جائے لگی۔
کسی ئے تھرڈ قلور پہ مگوانی تھی لفٹ۔۔ انک نار تھر خوف عالب آئے لگا۔ علتبا ئے
نیزی سے گراؤنڈ قلور کا نین پرنس کر دنا کہ اوپر جائے وہ انک نار رک جانی اور اگر
ن
وافعی وفت اس کے خق میں تھا بو وہ تکل جانی نہاں سے۔ وہاں نجنے اس کو فروا کو
ہ
لفٹ رک گنی اور کھلی۔۔ علتبا کا دل ناہر آئے کو تھا۔ پہ کٹسی جگہ تھی۔
نالکل جاموش وجشت ناک۔۔ لفٹ سے ناہر تکلی بو دنکھا ہر شوں جاموسی اور نتم اندھیرا
تھا۔ گراؤنڈ قلور تعنی نہاں سے ناہر تکلنے کا رشنہ تھی ہو گا۔ لفٹ وانس اوپر جائے
لگی۔ علتبا ئے لفٹ کی آواز پہ گ ھیرا کے دنکھا۔
نبگے ناؤں آگے پڑ ھنے اس کو اجانک کسی کی آواز سبانی دی۔ کونی نہاں موخود
تھا۔ انک نہیں دو نین لوگ تھے۔ اس راہداری سے دانیں طرف موخود کمرے میں نین
لوگوں کی آوازیں سبانی دے رہی تھی۔
”ہاں وہ نہی نبا رہا تھا کہ فباد انالین مافبا کی لڑکباں ننجنے واال ہے اور اس کی
ڈنلتبگ میں نس نین دن ناقی ہیں۔“ وہ لوگ آنس میں نات کر رہے تھے نا شاند
کسی سے فون پہ۔
َ
گ نٹش م َ
”انک منٹ یں ان نچ پڑی ہے ،دوسری شاند فباد کو زنادہ ہی نسبد آ نی بو
اسی کے ناس ہونی ہے۔“ فون پہ نات کرنا سحص انہیں کا زکر کر رہا تھا لبکن خو وہ
کہہ رہا تھا وہ ناقانل تفین تھا۔ مافبا! ننجبا!
نٹشمنٹ میں بو پہ خود تھی اور جس دوسری کا وہ نبا رہا تھا وہ فروا ہو شکنی تھی۔
وہ زندہ تھی لبکن کس جال میں۔
”نہیں کونی اشاشن ابوالو نہیں اس میں۔ انالین مافبا خود ہتبڈل کر رہا ہے شب
ن
نتھی بو شسنی دکھا رہا ہے۔۔ اس کی جان کا انک ھی خو ہمارے نجرے میں ہے۔“
ن جن
علتبا کو کجھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کبا نانیں ہو رہی تھیں لبکن انک نات وہ
سمجھ جکی تھی کہ وہ کسی مافبا کے نبدے کے ہاتھ لگ گنی تھی اور پہ کونی مووی
نہیں تھی ،حق یفت تھی۔
ق
مافبا ،گتبگ پہ شب لمی نانیں لگنی تھیں لبکن آج ا ننے کابوں سے ستنے جٹسے
تفین کرنا مسکل تھا کہ وہ ان میں تھٹس جکی تھی۔
م ُ
”البانین سے کاقی تغلقات پڑھا رہا ہے فباد۔۔ ادھر سے ہی قاندہ لے گا اسے۔“
علتبا ئے قدموں کی جاپ سنی ،اندھیرے والی جگہ پہ آئے وہ زمین پہ نتتھ گنی
اور اننی شانس روک لی۔
”ہماری شپ منٹ کسی ئے رکوا دی ر سنے میں ہی۔ لڑک نوں کو نازناب کروا لبا
کسی ئے۔۔ فباد کے لڑکباں سمگلبگ کے دھبدے میں کونی آرہا ہے۔“ آواز اب
آہشنہ ہونی جا رہی جٹسے جٹسے وہ ان سے قاصلے پہ ہونی گنی۔ ان نابوں کو ستنے کا کونی
مطلب نہیں تھا ،اس کو مغلوم ہو گبا تھا کہ دوسری لڑکی کا زکر کبا گبا تھا وہ فروا ہی
تھی اور فباد کے ناس تھی لبکن جائے کس جال میں۔
”مجھے راشنہ مغلوم ہے۔۔“ فروا ئے اس کا ہاتھ تھاما اور اس کو لنے ا ننے
شاتھ اسی بورشن کی دوسری شانبڈ پہ جائے لگی۔ اس وفت کونی تھی نات کرنا فصول
تھی۔ انہیں نیزی دکھانی تھی۔
”گن جالنی آنی ہے؟“ فروا ئے اس کا ہاتھ مضنوطی سے تھام رکھا تھا چب علتبا
ئے تم آواز میں “نہیں” کہا۔
”اچھی نات ہے بو چب تھی کونی شا منے آئے مار د نبا۔“ فروا نڈر لہچے میں بولی۔
اس بورشن کے حصے میں ان کو آوازیں سبانی د نبا سروع ہونیں۔
”پہ وہی رنسنورن نٹ ہے چہاں ہم ئے لنچ کبا تھا ،اسی کا ہونل۔۔“ فروا ئے
علتبا سے کہا۔ اس نل بو وہ خونک تھی پہ نانی تھی جتبا وہ سہہ کے آنی تھیں اب شاند
ہی کونی نات ان کو چیران کرنی۔
”اس طرف سیڑھباں ہیں خو ننچے گراؤنڈ قلور کے رنشٹ رومز کی طرف جانی ہیں،
وہاں نک جائے ہم رنشٹ روم کے نجھلے دروازے سے تھاگ جانیں گی۔“ فروا ئے
اس سے کہا بو علتبا ئے انبات میں سر ہالنا۔ علتبا کو کانتبا دنکھ اس ئے گن ا ننے
ہاتھ میں لے لی ،علتبا کی تگاہیں نار نار اس کے چہرے کی طرف جا رہی تھیں چہاں
نشان تھے۔
”تم کہاں تھی؟“ علتبا ئے خود کو کہنے سبا ،نات کرئے فروا اجانک رک گنی،
ُ ت کت ً
اس کے ناپرات فورا ندلے ،چہرے پہ ل یف ا ھر آنی ،اس ئے خود کو روئے سے ناز
رہا۔
”اتھی نہیں۔“ وہ رندھے لہچے میں بولی کہ اس وفت ان کو نس نہاں سے تکلبا
تھا۔
سیڑھ نوں کی جانب پڑ ھنے وہ دھبان سے ننچے جا رہی تھیں ،انک انک قدم تھونک
تھونک کے رکھ رہی تھیں۔
”چہرے کے آگے نال کر لو۔“ فروا ئے کہنے خود کے نال تھی آگے کنے اور
اس کے تھی نال تھبالئے لگی خو گبدے ہو رہے تھے ،ہر گزرئے لمچے آنکھوں سے
آنسو زنادہ نہہ رہے تھے۔
”نارمل رہو ،گہرے شانس لو۔۔“
علتبا ئے سر ہالئے آنسوؤں کو روکا اور لمبا شانس کھتنحا۔
”مشکراؤ۔۔“ فروا ئے تم آنکھوں سے کہا علتبا ئے تقی میں سر ہالنا۔
”ہم ئے نہاں سے رنشٹ روم میں نیزی سے انئیر ہونا ہے ،ہاتھ دھوئے کے
نہائے دو سبکبڈ کھڑے رہ کے تھاگ جانا ،ننجھے مڑ کے نہیں دنکھبا ورپہ نتھر کے ہو
جانیں گے۔۔ تھا گنے رہبا ہے۔ اگر ہم ئے ننجھے پہ دنکھا بو ہم نچ جانیں گے۔“ فروا
اس کو خوصلہ دے رہی تھی۔ علتبا نحوں کی طرح سر ہالنی جا رہی تھی۔ فروا ئے گن
اننی کمر پہ تکا لی ،اس کے کیڑے تھی ندلے تھے۔
”گہرا شانس لو۔۔“ دوبوں ئے شانس تھرا۔
”ہم آزاد ہیں۔“ انبا کہہ کے وہ دوبوں نیزی سے آخری جبد ز ننے تھی تھالنگنی
ہونی رنشٹ روم میں داجل ہونیں کہ ا ننے سے ہی ان کا ن یقس نگڑا تھا۔
سیڑھ نوں کے نالکل دانیں جانب واش روم ننے تھے اور پہ حصہ رنسنورن نٹ کے
اندر جا کے تھا ،نہاں زنادہ لوگ موخود نہیں تھے نتھی اس نات کا قاندہ اتھانا تھا۔
فروا ئے اس کا ہاتھ اتھی نک نہیں چھوڑا تھا۔ ناس سے گزرنی انک لڑکی ئے
نحوت سے علتبا کو سر نا نا دنکھا جس کا جلنہ انشا تھا جٹسے کونی تھبک ما نگنے والی ہو،
خوئے سے ندارد ناؤں ،نالوں کو کاقی دن سے دھونا نہیں تھا ،ا ننے ناس سے اتھنی
ُ
بو۔۔
فروا ئے جنی االمکان سباٹ ناپرات کرئے انبا رخ ناہر کے دروازے کی طرف
کبا۔ دروازہ دکھبلنے ہی وہ دوبوں ناہر تھیں۔ رات کا وفت تھا لبکن آس ناس روستباں
اجاال کر رہی تھیں۔
”تھاگو۔۔“ جبد قدم نبدل جلنے ہوئے فروا اجانک جالنی کہ دوبوں ئے اندھا دھبد
تھاگبا سروع کر دنا۔
اس شانبڈ کی طرف رش نہیں تھا ،آج شاند کونی نہوار تھا جس کی وجہ سے ہونل
کی انئیرنٹس کی طرف لوگوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ ان کو ننجھے نہیں دنکھبا تھا اور وہ
نس تھاگی جا رہی ت ھیں۔
لوگوں والی جگہ میں آئے وہ دوبوں انک نتنچ کے ناس نتتھ گنیں۔ کونی لوکل
شاپ تھی جس کے ننجھے کی طرف نتنچ لگے تھے ،نتم اندھیرے والی جگہ کہ شاند ہی
کونی انہیں نہحان نانا۔
گل ت ن گ ھ ت تن
چب وہ وہاں یں اور تھا نے کی وجہ سے ا نی ھولی شانس نحال کرئے یں
بو انک دوسرے کو دنکھا۔
ا ننے دبوں کے تغد انک دوسرے کو زندہ دنکھبا ،خوسی و عم سے وہ دوبوں انک
دوسرے سے لنٹ کے رو دیں۔
”کہاں تھی تم؟ پہ۔۔ پہ کبا ہوا ہے شب؟“ علتبا ئے اس کے چہرے کو
تھامے روئے ہوئے بوچھا چہاں الگ الگ نشان تھے ،اس کی گردن پہ تھی ،چیڑے
پہ آنکھ کی انک شانبڈ پہ کٹ۔۔ خو زہن میں آرہا تھا وہ شب دل کو بور رہا تھا۔ دل
نتتھا جا رہا تھا۔
”فباد نمہارے ننجھے ہے علتبا ،اسے تم جا ہنے وہ نمہیں اسیعمال کر رہا ہے۔“ انبا
خواب د ننے کے نحائے اس ئے علتبا سے کہا۔
”وہ نمہیں ا ننے ناس رکھ کے اسیعمال کر رہا ہے۔ اسے کجھ جا ہنے۔“ فروا ئے
اس کا ہاتھ تھامے کہا۔
ن ت ُ ل جم س
”کون فباد؟“ علتبا نا ھی سے بوچھنے گی۔ وہ دوبوں ا ھی اس ہو ل سے کاقی
دور موخود تھیں۔
”وہی جس ئے ہمیں نہاں رکھا۔“ فروا ئے نبانا۔
”پہ شب تھی اسی ئے کبا ،تم کہاں تھی؟ تم تھبک ہو۔۔؟“ علتبا کے روئے
میں اصاقہ ہوا چب نات کا ادراک ہوئے لگا۔ فروا ئے تقی میں سر ہالنا کہ وہ تھبک
نہیں تھی۔
”میں زندہ ہوں۔۔۔ تم تھبک ہو۔“ فروا کی آواز میں تکل یف تھی جسے محسوس
کرئے علتبا تھر سے اس سے لنٹ گنی۔
کونی اِ س کو اسیعمال کر رہا تھا لبکن اس کی دوشت کی زندگی پرناد ہو گنی تھی
اس کی وجہ سے۔
”میں روز مرنی تھی وہاں علتبا۔ اس کی متنیں کرنی تھی۔۔“ اس کے گرد زور
سے نازو ناندھے وہ آہشنہ آواز میں بولی۔
”مجھے مغاف کر دو فروا۔ میں ئے نمہاری نات نہیں سنی تھی اور میری وجہ سے
تم تھی تھٹس گنی۔“
وہ دوبوں انک دوسرے سے تگاہیں نہیں مال نا رہی تھیں۔ فروا کی جالت قانل
رچم تھی۔
”ہمیں نہلے کسی سے راتطہ کرنا جا ہنے۔“ فروا ئے ستتھلنے ہوئے کہا علتبا ئے
انبات میں سر ہالنا۔ علتبا سے زنادہ فروا ہمت دکھا رہی تھی۔
اب ان کو کونی انشا انشان جا ہنے تھا خو ان کی مدد کر شکبا لبکن خو ان کے
شاتھ ہو حکا تھا وہ اننی آشانی سے کسی پہ تھروسہ نہیں کر شکنی ت ھیں۔ اس ہونل
میں وانس نہیں جا شکنی تھیں چہاں وہ نہلے تھہری تھیں ،وہاں جائے سے ہو شکبا تھا
کہ فباد کے آدم نوں کو ان کی چیر مل جانی۔
فون لتنے ناقی نات خود کہہ دی۔ علتبا کو مغلوم پہ ہوا کہ اس ئے کبا کہا تھا لبکن
فون اس جابون کو وانس کرئے انہوں ئے شکرپہ ادا کبا اور کجھ کھائے کو ماتگا۔
اس غورت کو ان دوبوں پہ پرس شا آنا بو پرنڈ کے نٹس ان کو دے د ننے۔
ن
وہ دوبوں کہیں دور جائے کے نحائے اسی گھر کے ناس تتھی رہیں کہ اتکل
مبکس مٹسج ملنے ہی ہو شکبا تھا کہ نہی پہ ان کو لتنے آجانیں۔ وہ خود پہ تھی آئے بو ان
کے جا ننے والے نہت تھے۔
”تم کٹسے وہاں سے تکلی۔۔؟“ فروا اس کبدھے پہ سر ر کھے ہوئے تھی چب
علتبا ئے بوچھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”تم کٹسے وہاں سے تکلی۔۔؟“ فروا اس کبدھے پہ سر ر کھے ہوئے تھی چب
علتبا ئے بوچھا۔ اس ئے سر نہیں اتھانا تھا ،وہ انک فبامت سے گزر کے آنی تھی۔
فباد نامی سحص انک درندہ تھا جسے ضرف بوجبا آنا تھا۔ وہ جتبا تھی پرے القاظ اس
کے لنے اسیعمال کر لتنی کم تھا۔ ج نوان ،وجسی ،درندہ ،انشان کے تھٹس میں چھبا ہوا
سیطان تھا وہ۔
اس کو انک کمرے میں بو رکھا تھا لبکن زہنی تکل یف کے شاتھ شاتھ جشمانی
تکل یف سے تھی دوجار کرنا تھا۔ انک دو دن کے لنے عانب ہونا بو فروا کو موفع ملبا وہ
کھل کے آنسوں نہائے اننی تقدپر پہ ماتم کر شکنی۔
کھانا دن میں انک وفت کا ہی دنا جانا تھا ،کمرہ جاروں طرف سے نبد تھا۔ ہر چیز
موخود تھی کمرے میں ،کرسی ،میز،ڈرنسبگ نتبل ،واش روم الماری لبکن انسی کونی
تھی چیز موخود نہیں تھی جس کو وہ ا ننے نحاؤ کے لنے اسیعمال کرنی ،ردی کے پرائے
کاعذ کی طرح اس کو پڑوڑ مڑوڑ کے ت ھتبک جانا تھا۔ کجھ ہی دبوں میں اس کا وخود
نج یف شا ہو گبا تھا۔
ہقنے میں انک نار لباس نبدنل کرئے کے لنے دنا جانا تھا۔ اس کے وخود کو نس
وہ دل نہالئے کے لنے نہاں النا تھا۔ زندگی میں انبا آپ فروا کو نہلی نار حفیر ،ئےکار
محسوس ہوا تھا ،انبا آپ دنبا میں بوچھ لگا تھا جس کو مر جانا جا ہنے تھا۔
کمرے کے انک کوئے میں پڑی نس رونی رہنی تھی اور جائے کتنی دفع وہ فباد
کی موت کی دعا کر جکی تھی۔ اگر اس کو موت پہ آنی بو اننی موت کی دعانیں کرنی
رہنی۔
دنائے کو فروا ئے نیزی سے منہ پہ ہاتھ رکھا لبکن وہ پروا کنے نبا انبا وجسی ین دکھائے
لگا۔
”اب ا چھے سے ڈھانپ لو خود کو۔۔“ نمسجر اڑائے لہچے میں کہنے انک حقارت
تھری تظر اس پہ ڈالے کوٹ اس کے اوپر تھتبکنے اننی سرٹ نکڑی اور جان نوں کا گجھا
نکڑے دروازے کو دھڑام سے نبد کرنا جال گبا۔ اس کا ئےجان وخود ا نسے ہی اجشاس
سے عاری پڑا تھا جس کو وہ آج تھر نکروں میں کاٹ گبا تھا۔ چہاں پرائے نشان اتھی
مبدمل نہیں ہوئے تھے وہاں وہ ننی درندگی کی نشانباں دے گبا تھا۔
اننی ششکباں آہیں دنائے جائے کب وہ نتبد میں جلی گنی اجشاس پہ ہوا۔ آنکھ
کھلی بو سر تھاری ہو رہا تھا ،رو رو کے آنکھوں کے ن نوئے شوج جکے تھے۔ وہ اتھنے لگی
چب اس کی تظر کوٹ پہ گنی۔
اس ئے نیزی سے اس کو تھاما اور کوٹ کو ن نو لنے لگی کہ شاند جانباں اتھی
تھی موخود ہوں اس میں۔
اندر سے ضرف انک کارڈ مال تھا اور کجھ تھی نہیں تھا۔ کارڈ کو تھکے ہارے انداز
میں نبڈ پہ رکھنے ہزنانی انداز میں جنجنے لگی۔
”کب میری ازنت جتم ہو گی۔۔؟“ وہ کرب سے جالنی اور رونی جلی گنی۔ جس
دن فباد پہ آنا اس کو نبا خوف ا ننے حصار میں رکھبا کہ کہیں وہ کسی اور کو اس طرف
پہ تھنج دے۔ کہیں کونی ناہر سے اجانک نہاں پہ آجائے۔
اس ئے کوٹ کو تفرت سے خود سے دور تھت یکا اور جالنی رہی۔
ناتھ روم میں کونی آ نننہ نہیں تھا ،پہ کمرے میں ،نس انک ڈرنسبگ نتبل تھا
وہاں تھی کجھ نہیں تھا۔ سٹشہ بورے کمرے میں موخود نہیں تھا۔ فروا خود کو تھی
ہاتھ لگائے سے کیرانی تھی کہ وہ خود ناناک بو جکی تھی اور خود کو دنکھنے سے تھی
کراہ نت محسوس ہونی تھی۔
اس ئے چب ناتھ روم کے دروازے پہ ہاتھ رکھا بو ہاتھ دروازے کی ناب پہ گبا،
ہاتھ کی اتگلباں بولٹ کو چھو رہی تھیں خو انک وشل ) (Wistleکی سنپ میں
تھی ،تعنی اوپر سے ننچے انک شالنڈ کی طرح۔
اتگلی کا دناؤ پڑھانا بو بولٹ اندر کی طرف ہوا۔ اس ئے ناب کو انک ہاتھ سے نکڑا
اور تھر بولٹ پہ ہلکا شا زور دنا اور اندر جال گبا۔ ناب کو گھمائے تغیر بولٹ اندر جال جانا
ھ کن
تھا ،ا ننے ہی دھبان میں وہ اس کو نار نار چ ھیڑنی رہی۔ جالی تگاہوں سے شا منے د نی
دروازہ کھل گبا تھا اور چہرے پہ ا ننے دبوں تغد انک خوشگوار لہر آنی تھی جٹسے وہ
اس عزاب سے تکل گنی تھی۔ عذاب سے نہیں تکلی تھی لبکن اس عذاب سے تکلنے
کی امبد کی کرن دکھانی دی گنی تھی۔
اس کو اب وفت کا ان یطار کرنا تھا کہ کب وہ کمرے کا الک کھو لنے کی
کوشش کرے ،اس سے نہلے اگر اس ئے الک کھو لنے کی کوشش کی اور تھاگا پہ
گبا بو نکڑی جانا تھا۔ اتھی نک بو فباد کو تفین تھا کہ فروا نہاں سے تھاگ نہیں شکنی
تھی اور نہی تفین اتھی کجھ دن نک قاتم رکھبا تھا۔
اس کو اب دروازہ کھو لنے کی پرنکٹس کرئے رہبا تھا نتھی اس ئے بوتھ نٹشٹ
کو وانس اس کی جگہ پہ نارمل کر کے رکھ دنا ناکہ کجھ تھی ندلہ ہوا پہ لگے۔
اس کے دل ئے دعا کی کہ کجھ دن نک فباد نہاں پہ آئے نلکہ اس کی شکل
کتھی پہ د نکھے۔ نس نہاں سے تھاگ جائے۔
ہر چیز نہاں اس کو محدود دی گنی تھی۔ نانی کا سبالنی تھی دن میں دو وفت کا
ت تل م ن
ہونا تھا۔ انبا منہ دھوئے وہ ناہر آنی اور انک موہوم سی امبد نے ز ین پہ ھی نبڈ سے
نبک لگا گنی۔ آج ندن نپ رہا تھا اور طت یغت تھی عج نب تھی۔ اس کو نحار ہو رہا تھا۔
زندگی میں جائے کون شا گباہ کبا تھا جس کی سزا اس کو فباد کی صورت میں مل رہی
تھی۔ ان کو نکڑئے کا مقصد بوچھنے پہ فباد ہمٹشہ پر اسرار ہٹس دنا کرنا اور ضرف پہ
کہبا کہ اس کو علتبا کے شاتھ جانی لڑکی نسبد آگنی تھی بو لے آنا۔
علتبا کے نارے میں بوچھنے پہ تھی وہ کجھ پہ نبانا تھا بو شوال کرنا چھوڑ دنا۔ ادھر
نتتھے نتتھے اس کی آنکھ لگ گنی تھی ،کمزوری اننی ہو رہی تھی کہ اتھا نہیں گبا بو وہیں
شو گنی۔
دونارہ چب آنکھ کھلی بو دنکھا فباد اس کو نبڈ پہ لبا رہا تھا۔
”میں بو اچھا وفت گزارئے آنا تھا اور تم نہاں مر رہی ہو ،پرس کھا لبا ورپہ پہ نا ہو
کہ تم مجھے پرداشت ہی پہ کر ناؤ اور نبک جاؤ۔۔“ اس کا چہرہ تھوڑی سے تھامے ا ننے
چہرے کے فرنب کرئے ہوئے سرد لہچے میں بو لنے قہقہہ لگا اتھا۔
”جلو کبا ناد کرو گی آج نمہاری جدمت کر لتبا ہوں۔“ انبا کہہ کے فباد اس پہ
جاوی ہوئے لگا۔ آنسوں بوٹ بوٹ کے گر رہے تھے۔
”مجھے جائے نہیں دو گے؟“ تقاہت و کمزوری کے ناغث اس سے بوال نہیں جا
رہا تھا۔
”کجھ دن میری ناہوں میں ہو گی تھر کسی اور کی ناہوں میں۔“ وہ شقاکی کی جد
نار کرئے ہوئے بوال کہ اس لمچے کا انک انک نل چہتم کی آگ لگ رہا تھا۔
اس کی فبد میں تھی ،نہاں سے اگر زندہ نچ کے تکل تھی جانی بو علتبا کو کٹسے
ڈھونڈے گی وہ۔۔۔ کبا اس کے شاتھ تھی نہی شب ہو رہا تھا؟
دکھ ،عم ،تکل یف ،عصہ شب محسوس ہو تھا تھا کہ ہزنانی انداز میں جنجبا سروع کر
دنا۔
”ک نوں۔۔۔ ک نوں ہو رہا ہے میرے شاتھ پہ شب؟“ ا ننے نال بو جنے وہ جٹسے
ناگل ہوئے کو تھی۔ کتنی نار وہ انک نسو نئیر کی طرح اسیعمال کر کے ت ھتبک دی جا
جکی تھی ،اس ئے دونارہ خود کو خوڑئے کی کوشش تھی نہیں کی تھی۔ کرنی تھی
کٹسے وہ دونارہ اس کو ننے سرے بوڑئے آجانا تھا۔
”مجھے موت ک نوں نہیں آرہی۔۔۔؟“ جلق کے نل جالنی ہونی وہ زار و فطار
روئے لگی۔
فباد ئے فون پہ زکر کبا تھا کہ وہ کل نہاں نہیں ہو گا مطلب وہ کل نہاں
سے تکل شکنی تھی۔
لبکن اس سے نہلے اس کو ک یفرم کرنا تھا کہ دروازے کے ناہر کون اور کتنے
لوگ تھے۔ فباد کو گنے کاقی دپر ہو گنی تھی اس کا کھانا اب کل ہی آنا تھا بو
دروازے کے نالکل ناس نبک لگائے نتتھ گنی ناکہ ناہر لوگوں کے آئے جائے کی
آوازیں شن شکنی۔
دروازے سے کان لگائے کاقی دپر نک وہ محسوس کرنی رہی تھی لبکن کسی کی
تھی آہٹ سبانی نہیں دی گنی تھی۔
کبا اس کو کل صنح نک کا ان یطار کرنا جا ہنے تھا ،دل ئے اتکار کبا۔ اگر اتھی موفع
مل رہا تھا بو اس کو رات کے اسی اندھیرے میں قاندہ اتھانا جا ہنے تھا۔
جتم ہوئے والی بوتھ نٹشٹ کو نکڑے نحلے حصے سے نٹشٹ کو دنا کے اوپر کبا
ناکہ وہ اس کو مڑوڑ کے دروازے کی جال میں ڈال شکے۔۔
اس ئے کنی نار ناتھ روم کا دروازہ کھو لنے کی پرنکٹس کی تھی بو نٹشٹ کا رنیر
ہن
کاقی ڈھبال ہو گبا تھا لبکن اس کو نار نار تھبک کرئے وہ دروازے نک نچی۔
وہی زنڈ کی سنپ دے کے اس ئے الک کے اوپر جال میں وہ نارنک رنیر گھشانا
اور اس کو ننچے کرئے لگی لبکن وہ ننچے کی طرف نہیں آرہا تھا۔۔ نین سے جار نار
کوشش کرئے پہ تھی وہ تھبک سے الک کے فرنب نہیں نہنحا بو ناتھ روم جا کے
اس ئے جتبا تھی تھوڑا شا نٹشٹ نحا تھا اس کو تکال لبا اور ن نوب کو دہرا کر دنا ناکہ
تھوڑا سحت شا ہو گبا۔ اس ئے اب دروازے کی جال میں ڈاال اور کوشش کی لبکن وہ
مڑ جانا تھا۔ نحائے الک کے بولٹ کے ناس آئے کے وہ وہی سے مڑ جانا۔
ئےنسی سے اس کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہوئے لگے۔
”ک نوں نہیں کھل رہا پہ۔“ رندھے ہوئے لہچے میں بولی اور نپ نپ آنسوں پرسنے
رہے۔
ناامبدی سے وہ نبڈ پہ نتتھ گنی ،کاقی دپر وہ ا نسے ہی آنسوں نہانی رہی تھی چب
اس کی تظر کرسنوں کے فرنب گرے انک کارڈ پہ پڑی۔ ناس ہی فباد کا کوٹ پڑا تھا
خو وہ کمرے میں ہی چھوڑ گبا تھا۔ اس ئے آگے پڑ ھنے وہ کارڈ اتھانا۔ اس کو جبک
کبا۔ وہ ہارڈ تھا کاقی۔
اس ئے کارڈ کو موڑنا جاہا بو وہ ہلکا شا ہوا مطلب وہ اس سے کھول شکنی تھی۔
خوسی کی چمک اس کے آشودہ چہرے پہ سما گنی۔ نیزی سے اتھی اور تھوڑی دپر
ہن ت تن
وانس دروازے سے کان لگائے ھی رہی۔ کونی آہٹ سبانی یں دی۔
اس ئے ہللا کا نام لبا ،آج آر نا نار۔۔
کارڈ کو اسی نارنک جال میں ڈاال اور الک کے بولٹ نک لے آنی۔ زرا شا ننچے کبا،
دل کی دھڑکن جد سے زنادہ نیز ہونی۔ نہاں سے ناہر تکلنے وہ نکڑی گنی بو اس کا
آخری دن ہو گا۔
”جلو اسی نہائے مر بو جاؤں گی۔“ خود سے پڑپڑانی۔ دل انبا مابوس ہو گبا تھا کہ
زندگی کی اب جاہ ہی نہیں رہی تھی۔
ن
سجنی سے آ کھیں منجنے اس ئے ڈور ناب کو چھوا ،دروازہ ڈھبال شا لگا اننی جانب
کھتنحا بو وہ کھل گبا۔ دل کی دھڑکن ڈوب کے اتھری ،ہون نوں پہ سجنی سے ہاتھ رکھنے
ا سنے اننی ششکباں روکیں۔ وہ اس کمرے سے ناہر جا شکے گی۔
کن
لبکن اتھی اننی ہمت نہیں ہو نا رہی تھی کہ وہ دروازہ بورا کھول کے د نی
ھ
ناہر۔۔ کتنے ہی گہرے شانس تھر لنے تھر دروازہ کھوال۔ کمرے کے ناہر اندھیرا چھانا
ہوا تھا۔ کسی زی روح کا نام و نشان موخود پہ تھا۔ نہلے دانیں تھر نانیں جانب۔ جالی
وپران سی راہ داری۔ کمرے میں وانس مڑ کے دنکھنے کی زچمت تھی نہیں کی تھی۔
چہاں سے ضرف از نت کے نحنہ نشان وہ ا ننے ندن پہ لنے جا رہی ،تفرت کے عالوہ
کجھ نہیں تھا دل میں۔
اس ئے ناہر قدم رکھا ،تھبڈا فرش ناؤں کو محسوس ہوا کہ انک سرد لہر جشم میں
نیر گنی۔ اجانک اننی ہمت آنی تھی کہ اگر اس وفت فباد شا منے ہونا بو اس کے منہ پہ
شو گالباں د ننی ،اس کے منہ پہ تھوکنی خو انک گبدی ناناک جگہ کا چیزپر تھا۔
اس ئے اب کسی چیز کی پروا پہ کی اور خو رشنہ سمجھ آنا وہاں جل دی۔ انبا بو
اس کو مغلوم ہو گبا تھا کہ نہاں شوائے کھانا د ننے کے کونی نہیں آنا تھا اور کھانا
اب اگلی صنح ہی نہاں آئے گا۔
کسی نلڈنگ کے انڈر کٹسیرکشن والے بورشن میں تھی۔ لفٹ تظر آنی اس کو لبکن
اس میں جائے کا رشک نہیں لبا تھا۔ سیڑھ نوں کی طرف پڑ ھنے اس ئے دئے قدموں
ننچے اپرنا سروع کبا۔ اب جبال سبدھا علتبا کی طرف گبا۔ وہ کہاں ہوگی ،صنح نک اس
کو نہاں سے تکلبا تھا ورپہ اس کی غیر موخودگی محسوس کر لی جانی۔ سیڑھ نوں سے ا نسے
ہی ننچے کی طرف چھاتکا بو نالکل ننچے روستباں دکھانی دی۔ ضرور وہ نلڈنگ کا دوسرا حصہ
تھا خو اسیعمال میں تھا۔ اب وہ اسی بورشن کے اندھیرے حصے سے پرے اس روسنی
والے حصے کی شانبڈ پہ ہونی ناکہ اگر کہیں کونی روشن دان ،سٹشہ موخود تھا بو ننچے دنکھ
شکنی اور ناہر جائے کا رشنہ مل جانا۔
دوسری طرف اس کو انک جگہ سے اوپر آنی روسنی دکھانی دی۔ پہ انک اوین کنچن
کی طرح کا اپرنا تھا چہاں سبلف ننی ہونی تھیں اور انہیں سبلف کے اوپر انک چھونا شا
و ننتبلئیر کا شستم لگا تھا خو انک شانبڈ سے بونا تھا اور اسی جگہ سے روسنی کی شغانیں
ادھر آرہی تھی۔
ہمت کرئے وہ اس سبلف پہ خڑھی اور نبا آواز کنے اس بوئے نکرے کو الگ
کرئے کی کوشش کرئے لگی لبکن ستبل کا ہوئے کی وجہ سے وہ کامباب پہ ہونی،
نالکل چھونا شا شوراخ تھا۔ انک آنکھ نبد کر کے اس ئے دنکھبا جاہا۔
شا منے دو بورشن تظر آرہے تھے خو روست نوں میں نہائے ہوئے تھے۔ مسکل سے
دانیں جانب اس کو انک رنلتبگ تظر آنی۔ اس ئے اندازہ لگانا بو وہ وہیں سیڑھ نوں کی
رنلتبگ تھی لبکن اسیعمال میں نہیں تھیں۔ اور اس کے نالکل شاتھ اس ئے
لڑک نوں کو اس طرف جائے دنکھا۔ انبا چہرہ زرا شا دوسری طرف کرئے اس ئے دنکھبا
جاہا بو رنشٹ روم کا لوگو تظر آنا۔ وہ ہے تھی نالکل اندر کی طرف تھا مطلب وہ نیزی دکھا
کے وہاں سے تکل شکنی تھی۔ انبا بو وہ جان گنی تھی کہ پہ وہی رنسنورن نٹ تھا چہاں
وہ آنی تھیں۔
خوف ہراس دنکھنے فروا ئے اس کو ا ننے شاتھ لگانا۔ ان کا نہاں سے ناہر تکلبا طے تھا
نتھی وہ انک ہی جگہ پہ کھڑی تھیں وہ تھی انک ہی دن۔
قشمت اچھی تھی کہ وہ دوبوں انک دوسرے کو مل گنی تھیں ،فروا ئے خو رشنہ
دنکھا تھا اسی طرف جائے وہ لوگ اس وجسنوں سے تھرے ہونل سے ناہر تکل آ نیں
ن
تھیں۔ فروا کی آ یں جشک یں یں ہر سبکبڈ گزرئے کے تغد وہ پرس رہی یں
ھ ت ھ ت ہن ھ ک
اب وہ علتبا کو کبا نبانی کہ ان دبوں میں اس کو کبا کبا مغلوم ہو گبا تھا۔
اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ علتبا کو نبانی کہ فباد کون تھا اور پہ شب ک نوں
م
کر رہا تھا۔ وہ آزاد ت ھیں لبکن کمل نہیں۔
علتبا کے شوالوں پہ وہ منجمبد تھی وہ کبا نبائے اس کو۔ اننی ازنت ناک رابوں
کا کٹسے زکر کرے اس سے۔ ان کے کبدھے پہ سر ر کھے ہوئے تھی اور دوبوں ئے
انک دوسرے کے گرد نازو لت نٹ ر کھے تھے جٹسے اتھی کونی ان کو نہاں سے جدا کر
دے گا اور وانس اسی اندھیری جگہوں پہ لے جائے گا۔ دوبوں ئے ازننیں سہی
تھیں۔
”نمہارے شاتھ کسی ئے پرا بو نہیں کبا؟“ فروا ئے نبا اس کو دنکھنے شوال کبا،
لہحہ تم تھا ،آنکھوں سے نانی آج جتم نہیں ہو نا رہا تھا۔
ان کو نہاں ا نسے ہی نتتھے جائے کتبا وفت ہو گبا تھا چب اجانک ہی ان کو
آوازیں سبانی د نبا سروع ہونیں ،گاڑبوں کے آئے کا شور آس ناس ہی تھا۔ فروا ئے
اتھ کے گھر کی آڑ میں آگے ہوئے چھاتکا بو اشلحہ لٹس لوگ دکھانی د ننے۔ کبا وہ دوبوں
وانس اسی جبہم میں جائے والی تھیں اور تھر ان کو آگے ننچ دنا جائے گا۔ فروا ئے
خوف سے شوجا لبکن علتبا سے کجھ تھی پہ کہا۔
ن
دوبوں ا نسے ہی تتھی رہیں جبکہ فروا ڈر سے لرزنا سروع ہو گنی تھی چب اجانک
کونی ان کے شا منے آنا ،اس ئے فورا ناف نوں کو تھی ا ننے ناس آئے کا اشارہ کبا۔ علتبا
ئے خوف سے فروا کا ہاتھ تھاما اور دوبوں اتھی تھا گنے کا شوچ رہی تھیں چب اس
آدمی کو کہنے سبا۔
”متم مل گنی ہیں۔“ وہ انالین میں بوال ،علتبا کو سمجھ آگنی۔
”مبکس ل نو کے آدمی ہیں ہم آپ کو ڈرئے کی ضرورت نہیں۔“ اس ئے نشلی
ب ت ت ً
د ننے کہا علتبا بو فورا خوش ہوئے ا ھنے کو ھی کن فروا ئے اس کا ہاتھ تھامے رکھا۔
ل
”کبا ن نوت ہے تم انہیں کے آدمی ہو۔“ فروا ئے اتگلش میں اس سے سجنی
سے کہا بو علتبا کو اننی عحلت کا اجشاس ہوا۔ اس آدمی ئے نبا کونی مزند نات کنے
انبا فون تکالے ان کے شا منے کبا چہاں ونڈبو کال تھی۔
علتبا اس کی دسیرس میں تھی اور فروا اس کا مغلوم پہ ہو شکا وہ کہاں ہے
ک نونکہ اس کے نارے میں کونی تھی اتقارمٹشن نہیں مل نا رہی تھی۔ کتنے پرے وفت
ھ م ت
سے وہ گزری تھیں دامیر ئے ئےشاچنہ اس کو خود یں نچ لبا۔ اس کے نالوں پہ
ت
جا ہنے تھا ک نونکہ اس عرصے کی نانیں اسے ناد تھیں۔ لبکن علتبا کے مطابق چب وہ
ت کھ ن چ ہن م صج ش ن
ن
لوگ ہو ل یں نح المت یں بو اس کی دونارہ آ کھ نب ہی لی ھی چب دامیر
شا منے تھا۔ مطلب نین شال نہلے ہونل جائے کے تغد کی نانیں تھی وہ تھول جکی
تھی اور اگر اس کو وہ حصہ ناد تھی کروانا جانا بو دامیر کے لنے پہ مسکل ہونی کہ وہ
اس سے دور ہو جانی ،وہ جاہبا تھا کہ اس کی کھونی ناداشت خود وانس آئے پہ کے ان
کے زپردسنی کجھ ناد دالئے پہ۔
ہاتھ کی متھی نبائے اس ئے ہون نوں پہ رکھا تھا اور لمنے شانس لتبا کہ عصہ تھوڑا
کئیرول میں آجائے لبکن وہ کم ہوئے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
علتبا کے فرنب آئے اس کا چہرہ دنکھا چہاں معصومنت آناد تھی ،وہ اس
معصومنت کو جتم نہیں ہوئے د نبا جاہبا تھا۔ اس کے نس میں ہونا بو علتبا کو اس
مافبا ،ڈارک ورلڈ سے کہیں دور لے جانا چہاں وہ اننی فیری نبل کہان نوں والی زندگی
گزارنی انک سہزادے کے شاتھ خو اس کی شاری زندگی حقاظت کرنا۔ اس ئے چھک
کے اس کے ما تھے پہ ہونٹ ر کھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صنح کی روسنی کمرے میں آرہی تھی ،اسے مسکل سے ہی نہاں نتبد آنی تھی اور
اب چب آنکھ کھلی بو ما تھے پہ الجھن کے نل واصح ہوئے ،رنان نتم دراز اننی گود میں
لنپ ناپ ر کھے کجھ کر رہا تھا چب اس ئے خود کو اس کے نالکل فرنب نانا۔ اس کی
ن
کلون کی مہک خواشوں پہ چھانی بو ہڑپڑا کے اتھ تتھی۔ اتھنے ہی خون آشام تگاہوں
سے اس کو گھورا۔
ف جم ن س
”مارنبگ ملٹسکا۔۔“ اس کو اتھبا د کھ نبا ھنے کا مو ع د ننے چہرہ فرنب الئے
چ
سرارت کر گبا کہ چنہ کے خواس ھنجھبا ا تھے۔ اس کو دھکا د ننے ننجھے کبا اور انک
ناگوار تظر ڈا لنے نبڈ سے اپر آنی۔
کمرے کی سحاوٹ ہ نوز ونسی ہی تھی ،شقبد گالبوں سے کمرے کو تھوڑا سحانا گبا
کن
تھا۔ انک ہاتھ کمر پہ اور دوسرے ہاتھ سے ما تھے کو مشلنے اس ئے زور سے آ یں
ھ
منچیں۔
رنان پہ نہلے ہی طٹش تھا شوئے پہ سہاگا اس کی جشارنیں منی کے نبل کی
طرح کام کر رہی تھیں خو اس کے عصے کو ہوا د ننے جا رہا تھا۔
گہرا شانس تھرئے اس ئے خود کو کم نوز کبا اور رنان کو دنکھا جس کی معنی چیز
تگاہیں اسی کی طرف تھیں۔
”پہ آخری نار تھا۔“ وہ ننتبہی انداز میں کہنی ہونی اس کمرے سے ہی واک آؤٹ
کر دی ،رنان مشکرانا ہوا لنپ ناپ دنکھنے لگا ،تھوڑی سی نتبد بوری کرئے کے تغد وہ
انبا کام دنکھنے لگ گبا تھا رات میں۔
چنہ کی موخودگی سرشاری کا اجشاس نحش رہی تھی۔
پہ سچ تھا کہ انہوں ئے کتھی تھی نہیں شوجا تھا کہ وہ زندگی میں شادی تھی
کریں گے نا کسی غورت کو انبانیں گے تھی لبکن اب چب انشا ہوا تھا بو کجھ زنادہ ہی
زور کا ہوا تھا کہ ان سے دوری نبانا ناممکن سی نات ہو گنی تھی۔
رنان کے لنے پہ کہبا نہیر ہو گا کہ اس کی چب تگاہ ملی بو شاری زندگی اس کے
نام کر دی۔
گردن کو دانیں نانیں کرئے اس ئے گہرا شانس تھرا اور اتھ کھڑا ہوا ،دامیر ئے
ت ک ب ت ھ م ت
رات میں کجھ اتقار ٹشن چی ھی جس کو وہ ج ک کر رہا تھا کجھ نورنی مراز ھی
ت ک س ب ن
جبک کرئے تھے۔ لنپ ناپ کو شانبڈ پہ رکھنے وہ اتھا ،ارادہ اس کا نہائے کا تھا۔
مبکس ل نو ئے کل رات سے انڈنٹ نہیں کبا تھا کہ اس کی شاشا سے متنتبگ کٹسی
رہی تھی۔ شاشا سے ہونی مالقانیں جبگ کی جانب ہی اشارہ کر رہی تھیں۔
چب وہ فرنش ہو کے کمرے میں آنا نتھی چنہ نہاں موخود تھی خو خود ا ننے
ت ت ً
کیڑے دنکھ رہی ھی فتبا اس کے ناتفہ کمرے کی شاری وارڈ روب کو جالی کر دنا گبا
ہن ً
تھا اور مج نورا یں آنا پڑا تھا۔
”اگر کجھ نہتنے کو پہ ملے بو تم میرے کیڑے پرانی کر شکنی ہو میں نالکل تھی
مانتبڈ نہیں کروں گا۔“ اس کے عفب میں کھڑے ہوئے کان میں سرگوسی کرئے
ن
بوال کہ چنہ ئے ضیط سے آ کھیں منچیں ،انک ہاتھ کیرڈ کا دروازہ نکڑے ہوئے تھا جس
پہ اس کی گرفت مزند سحت ہونی تھی۔
”نلبک شونس بو وپری ونل۔“ اس کے کبدھے پہ تھوڑی تکائے ہوئے گھمئیر
لہچے میں بوال کہ چنہ ئے سجنی سے کیرڈ کا دروازہ نبد کبا جس پہ رنان کے لب منٹشم
ہوئے۔
”نمہاری زندگی میں اندھیرا کر د نبا ہے میں ئے۔“ انک چھبکے سے مڑنی رنان کی
گردن پہ ا ننے ہاتھ کی گرفت چمانی ہونی بولی کہ رنان کی مشکراہٹ گہری ہونی گنی۔
چنہ ئے ا ننے ناجن اس کی گردن میں جتھوئے لبکن اس پہ البا اپر پڑ رہا تھا خو
وہ انک قدم کا قاصلہ تھی مبانا اس کے مقانل فرنب پرین آگبا کہ دوبوں انک
دوسرے کی آنکھوں میں موخود سرد ین محسوس کر شکنے تھے۔
تھوڑی دپر میں وہ اتھ کے آرمری کی جانب آگنی خو اس گھر کے نجھلے شانبڈ پہ
موخود تھا۔ دامیر اور رنان ئے پہ انک چھونا شا پرنتبگ اپرنا نبا کے رکھا تھا کہ چب کتھی
موڈ ہونا بو وہ لوگ نہی جلے آئے۔
چنہ انک کے تغد انک نشاپہ لے رہی تھی ،ہبڈ فوپز لگائے اور آنکھوں پہ سیقنی
گالسز نہن ر کھے تھے جٹسے رنان کا عصہ نہاں انار رہی ہو۔
”نین شال نہلے کی شاری کتمرہ ہسیری تکالبا مسکل ہو گا ،اگر وہ ہونل فباد کا
تھا بو ضرور اس ئے وہ کانیز ڈ نمج کروا دی ہونگی۔ ناقی اس کا اوپر اتھی ندال ہے بو ہو
شکبا ہے وہ کجھ پہ کجھ بو نبا ہی دے فباد کے نارے میں نا اس سحص کے نارے
میں جس ئے پہ ہونل سبل کبا تھا۔“ رنان اس کے شا منے کاؤنیر کے نار اسنول پہ
نتتھنے ہوئے بوال۔
”فروا میرے زہن سے نہیں جا رہی کل رات کی ،مبکس نہت کجھ چھبا رہے
ہیں ہم سے۔“ دامیر اس کے شا منے نلنٹ رکھنے ہوئے بوال۔
”اگر انشا ہے بو مبکس نہت پڑی علطی کر رہے ہیں۔ علتبا کی زندگی ا نسے
مسکل میں ڈال رہے ہیں۔“ رنان سنجبدگی سے بوال اور دامیر کو کھانا پہ کھائے دنکھ آپرو
احکائے۔
”میں علتبا کے شاتھ ناشنہ کروں گا ،شو رہی ہے اتھی۔“ دامیر ئے ا ننے لنے
کاقی نبانی تھی جس کا گھونٹ تھرئے ہوئے بوال۔
”میری واتف کا ناشنہ۔۔!“ رنان کے ناپرات نل میں ندلے تھے کہ چنہ کا
ناشنہ تھی نبار کرے۔
”تھتبکس دامیر میں ناشنہ خود نبار کر لوں گی۔“ اس سے نہلے دامیر کجھ کہبا چنہ
کی آواز پہ رنان خو نکنے ہوئے اس کی جانب دنکھنے لگا جس کے چہرے پہ نستنے کی
نتھی بوندیں تظر آرہی تھیں۔
”ن نور مانتبڈ ،آج کا ناشنہ نبار ہے۔۔“ دامیر ئے اطالع د نبا ضروری سمجھا جبکہ
رنان مشلشل چنہ کو گھور رہا تھا جس کے مطابق آج کا کھانا ان کو شاتھ کھانا جا ہنے
تھا۔
”میں علتبا کو جبک کر آنا ہوں۔“ رنان کی مشلشل تگاہ چنہ پہ نائے دامیر گال
کھ یگا لنے ہوئے بوال اور ان کو پرابو نٹ ناتم د ننے نہاں سے جال گبا جٹسے وہ اسی پرابو نٹ
ناتم کے پرسے ہوئے تھے۔
چنہ ناکٹ ناول سے ا ننے چہرے پہ آنا نسننہ جشک کرئے لگی چب ناس سے
گزرنی چنہ کا نازو اننی گرفت میں لتنے اجانک اس کو اننی جانب کھتنحا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
علتبا اتھی تھی شو رہی تھی اور دامیر اس کی نتبد پہ چیران ہوا ک نونکہ آج کجھ
زنادہ ہی گہری نتبد تھی۔
”پرنسٹس۔۔۔“ اس کے ناس نتتھنے دامیر ئے پرمی سے تکارا ،اس کے نالوں کو
سہالئے لگا۔
آج ا ننے زچمی کبدھے کی طرف کروٹ لی تھی اور کبدھے کے ننچے انک پرم
کشن رکھا تھا۔ نتبد میں شونی انسی لگ رہی تھی جٹسے اس کا اتھنے کا ارادہ ہی نہیں تھا،
اننی گہری اور پرشکون نتبد ،چہرے پہ طمان نت کا اجشاس تھا جس کو دنکھنے انک نل
دامیر کا دل ہی پہ کبا کہ اس کو اتھائے لبکن تھر ناشنہ لنٹ ہو جانا اس کا بو اتھانا
پڑا۔
”علتبا۔۔“ اس ئے چھک کے سرگوسی کی اور شاطر مسکان ہون نوں پہ لنے اس
کت لب ن
کے ہون نوں کو ہلکا شا چھوا۔ وہ محسوس کر حکا تھا کہ علتبا اتھ رہی ھی کن آ یں
ھ
نہیں کھولی تھیں نتھی سرارت کر گزرا جبکہ اس اجانک ہونی واردات پہ علتبا کی صجنح
تن
مع نوں میں نتبد اڑ گنی تھی ،سرخ چہرہ لنے وہ ہڑپڑا کے اتھ ھی۔
ت
”گڈ مارنبگ۔۔“ دامیر ا نسے بوال جٹسے اتھی کجھ ہوا ہی نہیں تھا ،علتبا ئے تگاہیں
خرانیں۔
”مارنبگ۔۔“
”آج بو اتھنے کا ارارہ ہی نہیں لگ رہا تھا تھر اجانک کبا ہوا؟“ وہ جان بوچھ کے
انحان ین رہا تھا علتبا سے خواب پہ ین نانا بو فرنش ہوئے کا کہنی اتھ کھڑی ہونی۔
دامیر ئے سرارت جان بوچھ کے کی تھی صنح اتھنے ہی اس کے زہن میں گزشنہ
رات کی اتھی کونی نات پہ آئے ،اس کو نارمل رکھبا جاہبا تھا ناکہ وہ ا ننے پراما سے تکل
شکنی اور پہ لوگ اس مغا ملے میں آگے پڑ ھنے۔
ڈانتبگ نتبل نک نہنچے بو دامیر کی نہلی تگاہ زمین پہ بوئے کانچ کی جانب گنی۔
تھر اس ئے کنچن کی طرف دنکھا چہاں رنان مصروف شا کھائے میں مصروف تھا اور
ت م
چنہ ڈانتبگ نتبل پہ اننی نلنٹ پہ چھکی انبا ناشنہ ل کر رہی ھی۔
م ک
ن
رنان کی گرے سرٹ کی آسنین تھنی تھی۔ دامیر آ یں ھمانا رہ گبا کہ ا ننے
گ ھ ک
”کجھ نہیں ن نولی ونڈ کبل انبا کوالنی ناتم سنتبڈ کر رہے تھے۔“ دامیر پڑپڑانا ہوا
ڈرنک کو آواز د ننے لگا ناکہ وہ نہاں کی صقانی کروا دے۔
انبا اور علتبا کا ناشنہ لنے دامیر ڈانتبگ نتبل کی طرف آنا اور علتبا کے لنے کرسی
کھسکانی جبکہ رنان دامیر کی جاموسی پہ شلگ کے رہ گبا۔
”آسنین کے نانپ تکلے تم۔“ رنان پڑپڑانا ہوا انبا ناشنہ جتم کر کے اتھ گبا کہ
دامیر کے ہون نوں پہ مشکراہٹ رنبگ گنی۔ وہ چنہ کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہا تھا
ت جم س
جبکہ علتبا شب ھنے کی کوشش یں ھی۔
م
وہ بو شوچ رہی تھی کہ آج ان کی نہلی صنح ہو گی بو دوبوں مشکرائے خوشگوار لہچے
میں نانیں کرئے تظر آ نیں گے لبکن نہاں بو ماخرہ ہی کجھ اور تھا۔
ع ج ت ت تم ن
چنہ اس شب سے انحان گن ھی ھی ٹسے نہاں اس کے الوہ کونی اور
موخود ہی پہ تھا۔
علتبا نذنذب کا شکار نتتھ گنی اور چنہ کو دنکھنے لگی جس ئے اس کے نتتھنے ہی
اس کو ہلکی سی مشکراہٹ ناس کی۔ علتبا کی تظر نتھی اس کے کان کے نالکل ننچے
گ کن
نشان پہ گنی جسے محسوس کرئے چنہ آ یں ھما نی۔
گ ھ
”وجسی کہیں کا۔۔“ چنہ دل میں رنان کو صلوانیں سبائے لگی۔
”ہم ئے آج ڈاکیر کے ناس جانا تھا۔“ کھانا کھائے اجانک ناد آئے پہ علتبا ئے
دامیر کو دنکھا بو دامیر ئے انبات میں سر ہالنا لبکن بوال کجھ نہیں۔ علتبا کے فرنش
ہوئے نک وہ خوش تھی جتنج کر حکا تھا ،نلبک کارگو نت نٹ کے شاتھ نلبک ہی سرٹ
نہن رکھی تھی۔
علتبا ناہر جائے کا شو جنے خوش ہونی اور جٹسے ہی اس کی تظر رنان کی طرف
اتھی بو مشکرائے ہونٹ سمٹ گنے۔ وہ اننی محصوص سرد سباٹ تگاہوں سے اس کو
دنکھ رہا تھا۔ آسنین سے سرٹ تھنی تھی جبکہ ستبد جلد والی گردن پہ سرخ نشان
تھے۔ علتبا ئے گڑپڑا کے تگاہیں ت ھیر لیں۔
اس نبدے کی پرسبالنی ہی انسی تھی کہ وہ زنادہ دپر نک اس کو دنکھ پہ نانی،
انک سرد لہر سی رپڑھ کی ہڈی میں سران نت کر جانی تھی۔
”کبا پہ دوبوں لڑے تھے؟“ علتبا ئے تھر چنہ کو دنکھنے دل میں شوجا۔
نا سنے سے قارغ ہو کے چنہ ا ننے کمرے کی جانب جل دی۔ رنان پرشکون شا
الؤنج اپرنا میں ا ننے مونانل میں مگن تھا۔
”تم فرنش ہو جاؤ تھر ہم جلنے ہیں ڈاکیر کی طرف ،نمہارے لنے کجھ ڈرنسز لنے
تھے ان میں سے دنکھ لتبا۔“ اس کے رجشار کو چھوئے ہوئے دامیر اتھنے ہوئے بوال
اور رنان کو اشارہ کرئے گالس ڈور کی جانب پڑھ گبا۔
وہ دوبوں گھر کے نجھلے حصے میں ننی آرمری میں گنے تھے ناکہ کجھ نانیں ڈشکس
کر شکیں۔
”سبلز مین میں بو کسی کا نام فباد ہو گا نا ،علتبا ئے زکر کبا تھا کہ فروا کو وہ
کجھ سباشا شا لگا تھا تعنی کہیں بو دنکھا ہو گا اسے۔“ دامیر ئے شوپزرلتبڈ کے اس ہونل
کی تصوپر تکالے شا منے کی۔
”بو علتبا تھی جاننی ہو گی اس کو؟“ رنان نالوں میں ناتھ ت ھیرے آگے کی طرف
ہوا۔
”علتبا کا کہبا تھا کہ اس ئے فباد کو نس دو نار دنکھا اور مجھے نہیں لگبا کہ وہ
اسے نہحاننی ہو گی۔“ دامیر ئے اننی نات کہی۔
”ہمیں شوپزرلتبڈ کے لنے تکلبا جا ہنے لبکن اس سے نہلے مبکس سے نات کرنی
ہو گی۔“ رنان فون پہ آئے مٹسج کو دنکھنے لگا۔
”لگبا ہے اس نار کاقی لوگوں سے ننتبا پڑے گا۔“ رنان نمسجراپہ ہٹس کے بوال۔
”شسبلین بو ڈرے نتتھے ہیں اتھی ،البانیں! جاص کر کے ڈرنبا۔ تھر پہ فباد۔۔“
دامیر ئے نین تصوپریں شا منے رکھیں۔
ڈرنبا،
لوسین( ڈرنبا کا ناپ)،
انگرون (البانبا کا مافبا)
پہ نین لوگ البانبا کے تھے ،ڈرنبا کی اشاشن فتملی تھی۔ اس کا ناپ البانبا کا
نہیرین اشاشن مانا جانا تھا اور ضرور وہ انگرون کے لنے کام تھی کر حکا تھا۔
ان نین تصوپروں کے شاتھ انک جالی سباہ تصوپر تھی جس پہ انگرپزی میں فباد
لکھا تظر آرہا تھا۔
”انگرون سے بو نہلے ہی ہمارے پرمز ا چھے نہیں ہیں تھر اسی کے عالفے سے
ڈرنبا کا نہاں آنا۔ مجھے وہ علتبا کی دوشت نہیں لگنی۔ اشاشن کسی کے ا ننے جلدی
دوشت نہیں نتنے۔“ رنان ڈرنبا اور انگرون کی تصاوپر کو انک شاتھ رکھنے ہوئے بوال۔
لوسین اب رنباپرڈ تھا بو اس کا انبا عمل دجل نہیں تھا ا نسے کاموں میں۔
”شاشا کے نارے میں کبا جبال ہے۔“ دامیر ئے معنی چیز شا کہا جس پہ رنان
کمچ ھ کن
کی آ یں یں۔
”میری واتف کاقی اچھی طرح اننی چھاپ چھوڑ کے آنی ہے ،ناگل کبا نبا تھر رہا
ہے۔“ رنان کہنے ہوئے ہٹس دنا۔
”ڈرنک۔۔!“ دامیر ئے ڈرنک کو محاظب کبا خو ہاتھ ناندھے ناس کھڑا تھا۔
ً
”جی سر۔“ وہ فورا م نوجہ ہوا۔
”فری ہو آج کل؟“ دامیر ئے کرسی سے نبک لگائے ہوئے کہا۔
”جی سر۔۔۔!“ اس ئے انبات میں سر ہالنا۔
”گرل فرنبڈز لفٹ نہیں کروا رہیں کبا؟“ دامیر ئے سرپر لہچے میں کہا کہ ڈرنک
ہٹس دنا۔
”نہیں سر ،انبا ناتم نہیں کہ لڑک نوں کا شوجا جائے۔“ ڈرنک اننی مشکراہٹ
روکبا ہوا بوال۔
”پہ ا ننے رنان سر سے بوچھو کہ کتبا ناتم تکالبا پڑنا ہے۔“ دامیر ئے رنان کی
جانب اشارہ کبا خو اتھی مونانل کو کھولے اس کو گھور رہا تھا۔ رنان کے چہرے کے
ناپرات سے تھبک اندازہ لگانا جا شکبا تھا کہ وہ اس وفت عصے میں تھا۔
”رنان سر کا ل نول ہی اور ہے ،آپ انبا بو ر ہنے دیں سر۔ مجھے اس دن کا ڈر ہے
چب متم تھبک ہونگی۔“ ڈرنک ئے انبا جدسہ نٹش کبا جس پہ دامیر ئے گھورا۔
”اننی متم کی قکر پہ کرو ،اننی گرل فرنبڈ سے تھوڑی بوجہ ہباؤ اور ادھر شک نورنی پہ
ً
دھبان دو۔“ دامیر ئے انبا لہحہ ند لنے سنجبدگی سے کہا ،ڈرنک فورا سبدھا ھڑا ہوا اور
ک
انبات میں سر ہالنا۔
”جی سر۔۔!“
”مجھے اتھی علتبا کو لے کے ڈاکیر کی طرف جانا ہے ،اس کا جبک اپ ہے نب
نک تم اتکل مبکس سے راتطہ کرئے کی کوشش کرو۔“ دامیر کھڑے ہوئے بوال بو
رنان ئے نبا د نکھے سر ہالنا۔
اس وفت وہ چنہ کو مٹسج کر رہا تھا خو اسے جلے کنے خواب تھنج رہی تھی جس
سے اس کا مئیر ہانی ہو رہا تھا۔
دامیر انبا کہہ کے ڈرنک کو ا ننے شاتھ لنے آرمری سے جال گبا۔
”ملٹسکا! پہ خو دھمکباں مجھے دی رہی ہو اس وفت د نبا چب تم میری گرفت میں
موخود ہو ،تھر دنکھوں گا کٹسے جلبا ہے نمہارا رغب اور ڈنگر کا جافو۔۔“ چنہ کی مشلشل
نبگ کرئے والی دھمک نوں پہ شلگنے اس ئے سرد لہچے میں چنہ کو وانس بوٹ تھنحا۔
”تھاڑ میں جاؤ رنان دہاب دی سبانیر۔۔“ چنہ ئے نہت نجمل سے انک انک لقظ
ب م
پر زور د ننے ہوئے کہا۔ اس کا کمل نام لتنے جٹسے وہ اس کو خڑا رہی تھی ،ج لنج کر
رہی تھی۔ اس ئے مونانل کو متھی میں زور سے تھتنحا۔ پہ لڑکی اس کا صیر آزمائے
والی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دامیر چب روم میں آنا بو علتبا ا ننے شوز نہن رہی تھی جس میں اسے دفت
محسوس ہو رہی تھی ک نونکہ اس کو چھکبا پڑ رہا تھا اور ا نسے کبدھے پہ تھی زور لگبا۔ دامیر
نبا کجھ کہے اس کے ناس گھت نوں کے نل نتتھا اور اس کو شوز نہبائے لگا۔
”چب تکل یف ہونی ہے بو ا نسے کاموں سے پرہیز کبا کرو۔“ اس کا لہحہ تھوڑا
ڈ نتنے واال تھا ،ڈرنک دروازے پہ کھڑا تھا وہ اندر نہیں آنا تھا لبکن دامیر کو ا نسے علتبا
کے آگے چھکے دنکھ اس ئے آپرو سبانسی انداز میں نلبد کنے۔
اگر ان کی دنبا میں نبا جل جانا کہ دامیر آر کسی کے شا منے چھکا تھا بو انک نہلکا
ہی مچ جانا۔ علتبا ئے لوز سرٹ کے شاتھ چئیز نہن رکھی تھیں اور اس پہ النگ کوٹ
نہبا تھا۔
”جلیں۔۔“ علتبا پرخوش سی اتھی اور مشکرانی ہونی دامیر سے بولی۔
”نہال انشان دنکھا ہے خو استبال جائے ہوئے خوش لگ رہا ہے۔“ دامیر پڑپڑانا۔
”کتبا اچھا لگ رہا ہے نا۔“ ا ننے عرصے میں نہلی نار ناہر آنی تھی بو دل نحوں کی
کن
طرح خوسی سے محل رہا تھا۔ دامیر کا نازو تھامے وہ آس ناس د نی ہونی بولی۔
ھ
”تم کتھی تھی مجھے نارک نک نہیں الئے۔“ گھر کے فرنب ہی نارک دنکھنے اس
ئے شکوہ کبا۔
”چب تھبک ہو جاؤ گی نب جانا کرنا۔“ ہاتھ کو ہون نوں نک لے جائے ہوئے
بوال۔ علتبا کی تظر اس کے ونشٹ نبلٹ کی طرف گنی چہاں گن موخود تھی۔
اس ئے اننی محیرطی اتگل نوں کو اس پہ ت ھیرا۔
”لوڈڈ ہے؟“ علتبا ئے شوال کبا دامیر ئے اس کے چہرے پہ تظریں چمائے
ہوئے انبات میں سر ہالنا۔
”کبا چب میں تم سے نہلی نار ملی تھی نب تھی تم ا نسے ہی تھے۔“ علتبا ئے
مدھم لہچے میں بوچھا۔ دامیر ئے اس کی آنکھوں میں پراہ راشت چھاتکا۔ اس کا بوچھنے کا
مقصد اننی سبک نورنی اور بوزنسو ننجر کی طرف تھا۔
”چب میں تم سے مال نب نالکل انک مجبلف انشان تھا۔“ دامیر ئے چھوٹ
نہیں کہا تھا نب زندگی میں کونی لڑکی اننی اہم نہیں تھی ،لبکن علتبا اس کو ا ننے
مطابق لے گنی تھی کہ شاند اب اننی سبک نورنی کی ضرورت پہ پڑنی ہو۔
”تم گن جال شکنے ہو؟“ علتبا ئے اننی تگاہیں وانس گن کی طرف کیں وہ اننی
اتگل نوں سے اتھی تھی ونشٹ نبلٹ کو چھو رہی تھی ،دامیر ئے انبات میں سر ہالنا۔
”تم ئے کتھی کسی کو مارا۔۔؟“ انک اور شوال اور نہاں دامیر اس کے چہرے
کے ناپرات جانجنے لگا۔
”نمہیں کبا لگبا ہے؟“ دامیر ئے البا شوال کبا کہ علتبا ئے کبدھے احکا د ننے۔
”مجھے تفرت ہے ا نسے لوگوں سے ،کسی معصوم کو مارئے ہوئے دل نہیں کانتبا
کبا؟“ علتبا چھرچھری لے اتھی ،اس کا خواب شن کے دامیر ئے گہرا شانس تھرا
ک نونکہ نہاں اس کو مسکل آنی تھی۔
ن ت ُ
”تم ئے ھی اس آدمی کو مارا تھا نا کا نے سے۔“ دامیر اس وفت پہ ہبا یں
ہ ک ن
جاہبا تھا لبکن اس کو کسی نات کا اجشاس دالنا جاہبا تھا ،علتبا جاموش ہو گنی اس
کے چہرے کی خوسی ماند پڑ گنی۔
”وہ سبلف ڈ تقنٹس تھا۔۔“ کجھ نا ننے تغد چب وہ بولی بو دامیر کے لب کھل
کے مشکرائے۔
ت َ
”انگزنکبلی مانی لو ،سبلف ڈ نٹس ،انبڈ آنی اتم پراؤڈ آف بو۔“
ق
”آپ کی لوور نبک کے مشلز تھی کاقی ہارڈ ہو گنے ہیں اور سیرنچ نہیں کر رہے
نتھی آپ کو نبک نین رہنی ہے۔ کمر کو تھوڑی ہ نٹ دنا کریں اس سے رنل یف ملے
ت ُ
گا۔“ ڈاکیر اس کو مشکرانی ہونی نبا رہی تھی علتبا بو نہیں لبکن دامیر غور ان کی نات
شن رہا تھا۔ علتبا کی تظریں ڈاکیر کو دنکھنے کے نحائے نار نار تھبک کے دامیر کی طرف
جانیں خو ا نسے ہی نہت اپرنک نو لگ رہا تھا۔ اس کے چہرے کے ناپرات سنجبدہ تھے۔
علتبا ئے جانجنی تگاہوں سے ڈاکیر اور تھر دامیر کو دنکھا کہ کہیں ڈاکیر دامیر سے مباپر
پہ ہو جائے نتھی انبا انک ہاتھ دامیر کے نازو پہ تکانا۔
”شاند کاقی دپر نبڈ پہ لتنے ر ہنے کی وجہ سے انشا ہو رہا ہے۔“ دامیر ئے انک تظر
کن
علتبا کو تھر ڈاکیر کو د نے کہا۔
ھ
”آپ کوشش کریں کہ زنادہ شوفٹ مئیرس پہ ہو اور پہ ہی زنادہ فرم ،اِ ن ن نوین
ناکہ سباین تھی تھبک رہے۔“ ڈاکیر ئے ہلکے تھلکے سے مسورے سے بوازا بو دامیر ئے
انبات میں سر ہالنا۔
”لیزر پرنتمنٹ کی وجہ سے آپ کے کبدھے کے زچم تھبک ہیں اتھی ،تھوڑا شا
ناتم اور تھر آپ قلی رنکور کر جانیں گی۔“ ڈاکیر ئے اس کا نارمل نلڈ پرنسر جبک کبا
ناکہ اتھی کی کبڈنشن دنکھ شکے۔
”ناقی شب بو نارمل ہے ،سیرنس والی کونی نات نہیں ہے۔ رنکوری نبکس ناتم۔“
وہ پروفٹسبل انداز میں بولیں اور اس کی مبڈنشن میں انک دو نتبلٹ لکھ دیں۔
”اگر کتھی نین زنادہ ہونی بو لنجنے گا ورپہ آپ اننی ڈانٹ پراپر لیں نس۔“ ڈاکیر
ئے کہا اور انک ڈاننٹشن کو نالنا ناکہ وہ تھوڑا گانبڈ کر شکے و نسے اس کی ضرورت نہیں
تھی لبکن علتبا ونک تھی کاقی ہو گنی تھی بو ڈاکیر ئے ان کو سحشٹ کر دنا تھا۔
دامیر ئے ان کی انک انک نات غور سے سنی تھی ،خو غیر ضروری تھی ہونی وہ
تھی بوری بوجہ سے شن رہا تھا۔
”میں اننی تھی نتمار نہیں جتنی اس ڈاکیر ئے نمہیں لبکجر دے دنا تھا میری
صحت کا۔“ علتبا وانسی پہ منہ نبائے ہوئے بولی کہ وہ ہٹس دنا۔
”اگر فٹ رہبا ہے بو ڈانٹ کا بو جبال رکھبا ہی ہے۔“ وہ کبدھے احکانا ہوا بوال اور
لفٹ کا نین پرنس کبا۔
”اننی کھائے نتنے پہ نانبدناں لگ جانیں بو انشان کا دل اداس ہو جانا ہے۔“
علتبا ئے اننی طرف سے الجک نٹش کبا۔
”سر کو چب نبا جال بو میری انک تھی سنے تغیر جلے گنے۔“ ڈرنک نیزی سے
تھاگبا ہوا اس سے بوال۔
”کتنی دپر ہونی ہے؟“ دامیر ئے اننی رشٹ واچ میں وفت دنکھا ،دن کے
شاڑھے نارہ ہو رہے تھے۔
”متم کو گنے آدھا گھتبا ہوگبا ہے اور سر کو نبدرہ منٹ ہی ہوئے ہیں۔“ ڈرنک
جم س ع ن ً
ئے نبانا بو دامیر ئے فورا رنان کا نمیر ڈا ل کبا جبکہ لتبا شب ھنے کی کوشش کر
رہی تھی کہ آخر ہوا کبا تھا۔ رنان کہاں گبا تھا اور چنہ ،وہ کہاں تھی؟
”علتبا تم اندر جاؤ آرام کرو۔۔“ دامیر ئے اس کے چہرے پہ پرنشانی دنکھنے
ہوئے کہا خو نذنذب کا شکار وہیں کھڑی ان کو دنکھ رہی تھی۔ اتکل مبکس ئے آج
وانس آنا تھا وہ تھی اتھی نک نہیں آئے تھے۔
”چہاں ہو وہی رہو میں آرہا ہوں۔“ دامیر ئے نبا دوسری جانب کی نات سنے
سباٹ لہچے میں کہا بو علتبا مزند پزل ہونی۔
”ہو کبا رہا ہے مجھے تھی نباؤ۔“ وہ الجھن لنے بولی۔
”چنہ! کہاں ہے وہ؟ وہ کہاں جلی گنی۔“ وہ نتبک ہوئے والی تھی چب دامیر
ئے اس کو رنلبکس ہوئے کا کہا۔
”رنان شاتھ ہے ،تم آرام کرو۔“ دامیر پرمی سے بوال۔
”مجھے رنان کے ننجھے ہی جانا ہو گا ،تھوڑی دپر نک ہم آجانیں گے پرنشان نہیں
ہونا۔“ کمرے کی طرف پڑ ھنے دامیر اننی سرٹ کے نین کھو لنے لگا ناکہ جتنج کر شکے۔
پہ گھر علتبا کے لنے سیف تھا نتھی علتبا کو نہاں وہ چھوڑ کے جا شکبا تھا اور ڈرنک
تھی نہی موخود ہو گا۔
اس ئے اتھی سرٹ اناری ہی تھی کہ علتبا کی تگاہ اس کے کبدھے پہ گنی
چہاں نہال زچم اتھی تھبک نہیں ہوا تھا کہ انک اور موخود تھا۔
”دامیر پہ انک اور خوٹ کٹسے آنی؟“ وہ پرنشانی سے اس کی جانب پڑھی خو اننی
سرٹ تکال رہا تھا ،دامیر کا دھبان زچم پہ گبا خو پرکی سے وانسی چملے پہ گولی کے
چھوئے سے آنا تھا۔
”نبا نہیں شاند فبکشن میں کجھ لگ گبا ہو۔“ وہ انحان نبا ،سرٹ نہتنے لگا چب
علتبا ئے اس کے نازو کو تھامے سرٹ ننچے کی۔
”پہ بو نہلے والے سے گہرا ہے ،ہم آج ہوستبل گنے تھے تم ئے جبک کروانا
جا ہنے تھا۔“ وہ نسونش زدہ لہچے میں بولی دامیر اس کی قکر پہ مشکرا دنا۔
ن
”نس ا نسے ہی مجنت کر تتھی گی پہ مجھ سے۔“ اس ئے دل میں شوجا اور
ہولے سے اس کے رجشار کو چھوا کہ اجانک لمس پہ وہ سنتبا اتھی۔
”میں تھبک ہوں ،معمولی شا زچم ہے تھبک ہو جائے گا۔“ سرٹ تھبک
کرئے اس ئے نین نبد کرنا سروع کنے۔ علتبا جاتف ہونی۔ اس کو جلدی سے اب
جن ن
رنان کے ناس نہنجبا تھا خو چنہ کے ھے گبا تھا۔
ع جن ن جن ن جن ن
چنہ ا ننے کاموں کے ھے ،رنان چنہ کے ھے ،دامیر رنان کے ھے ،لتبا دامیر
کے ننجھے اور ڈرنک پرنشانی سے ان شب کے ننجھے۔۔ آج کا دن گھن شب ہی جکر
ننے تھے۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پہ انک شاجل سمبدر کا م یظر تھا چہاں لوگ دھوپ کے مزے لوٹ رہے تھے۔
نتم پرہنہ لباس میں شب ا ننے ا ننے مسغلوں میں مصروف تھے کہ ا نسے میں انک لڑکی
شوتم شوٹ نہنے ،آنکھوں پہ شن گالسز لگائے سر پہ ہ نٹ نہنے وہاں آنی ہونی دکھانی
دی۔
ہن
لوگوں میں پراعتمادی سے جلنی ہونی وہ نتنچ کے فرنب چی چہاں انک ٹس سے
ن ن
ننتنٹس شال کے درمبان سحص نتم دراز تھا۔ آس ناس کجھ لوگ مؤدب ہاتھ ناندھے
کھڑے تھے۔
”ڈارلبگ تم ئے آئے میں دپر کر دی میں کب سے و نٹ کر رہا تھا۔“ لڑکی
کے ناس نتتھنے پہ وہ مشکرانا ہوا بوال اور اس کا ہاتھ تھامے قدرے خود پہ چھکانا کہ وہ
ادا سے مشکرا دی۔
”کام نہیں ہوا نا اتھی نک۔“ اگلے ہی لمچے مقانل کا لہحہ سرد ہوا کہ اس ئے
جاتف تظروں سے اس کو دنکھا۔
”آشان کام ہے کبا مبکس ل نو کی نتنی کو آشاشن کرنا؟“ وہ کہنی ہونی اس پر
ل س ت تن
سے اتھ ھی اور ا ننے نالوں کو ادا سے نوارئے گی۔
”نمہارے لنے مسکل تھی نہیں۔۔“ اس کی گردن کو پرمی سے اننی گرفت میں
لتنے ہوئے بوال۔
”دامیر آر کی ن نوی ہے وہ۔۔“ ڈرنبا ئے اسی انداز میں اس کو خواب دنا کہ فباد
کا ماتھا تھ یکا تھر ہٹسنے لگ گبا اور ہٹسبا جال گبا۔
”نمہاری دوسنی کب کام آئے گی!“ اس ئے معنی چیز تگاہوں سے ڈرنبا کو
دنکھنے ہوئے کہا۔
”وہ مجھے نہحا ننے سے اتکار کر رہی ہے۔۔“ ڈرنبا کہنے ہوئے وانس نتنچ پہ نتتھ
گنی جٹسے اس نارے میں کجھ نہیں کر شکنی تھی۔
”نین شال میں ئے نمہیں اس لنے نہیں ہاپر کبا ڈرنبا کہ تم فباد جاکم کو اتکار
م
سباؤ ،مجھے میرا کام کمل جا ہنے۔“ ڈرنبا کی نات اس کوعصہ ہی دال گنی تھی جس پہ وہ
دھمکانا ہوا بوال۔
”چنہ کو نارگنٹ کرنا نہت مسکل ہے اور تھر رنان ڈی اس کے شاتھ رہبا ہے
اب۔ ا چھے لڑکے تھٹشائے ہے دوبوں ئے۔“ ڈرنبا نحوت سے بولی۔
”بو نہلے دوبوں لڑکوں کو نارگنٹ کرو۔“ فباد اس کا رخ چھبکنے سے اننی جانب
کرئے ہوئے بوال۔
”جس لمحہ ان کو مغلوم ہو گا کہ کونی ان کو نارگنٹ کر رہا ہے بو اگلے ہی لمحہ وہ
مجھے ڈھونڈ کے مار دیں گے ،ا نسے کاموں میں وہ وجہ نہیں دنکھنے انبا کام دنکھنے
ہیں۔“ ڈرنبا اس کو سمجھانی ہونی بولی کہ خو اسے جبک نوں کا کھبل لگ رہا تھا وہ اصل
میں خود اس کے لنے موت کا ک نواں تھا۔
و نسے تھی چنہ ل نو کو اس ئے نہت نار پرنک کرئے کی کوشش کی تھی لبکن وہ
ہر نار کسی پہ کسی طرح آنکھوں میں دھول چھونک جانی تھی۔
”اتھی کے لنے تھول جاؤ شب اور مجھ پہ فوکس کرو۔“ فباد اس کے چہرے پہ
چھکنے ہوئے زومعت نت سے بوال کہ ڈرنبا مشکرانی ہونی اس کا شاتھ د ننے لگی۔
”کاقی مہ یگا پڑ رہا ہے نمہیں علتبا نک نہنجبا۔“ وہ ننجھے ہبا بو ڈرنبا اس کے چہرے
پہ ہاتھ رکھنی ہونی بولی خو نسبلی آنکھوں سے اس کو دنکھ رہا تھا۔
ت م ہنہ ت ن ن
” لے م ک بو نچ جاؤں۔“ اس کو ناوؤں یں ھر کے بوال اور گاڑی کی طرف
لے جائے لگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سباہ نت نٹ پہ وانٹ سرٹ اور اس پہ جبکٹ نہنے۔ ہبلمٹ کا سٹشہ اوپر تھا جس
میں تظر آنا کہ وہ نلبک ماشک تھی لگائے ہوئے تھی۔ نانک سے اپرئے اس
ئےہبلمٹ انارا کہ نال خوڑے میں نبدھے کھل گنے۔ ماشک کو انارے تغیر اس
ئے نانک کے شاتھ انبا ہبلمٹ ل یکانا اور جبکٹ کو نبد کرئے شا منے نلبد عمارت کی
طرف پڑ ھنے لگی۔
شکر تھا کہ آج ہبل کی جگہ سباہ بوٹ نہن ر کھے تھے ورپہ ہبل آواز نبدا کرنی۔
اتھی دونہر کا ہی وفت تھا اور اسی نلڈنگ میں آنی تھی چہاں وہ نہلی نار شاشا سے ملی
تھی لبکن اس نار الگ جلنے میں۔
رنسنٹشن پہ آئے اس ئے ا ننے لنے روم نک کبا اور انبا آنی ڈی کارڈ شو کروانا۔
چنہ کو مافبا میں زنادہ پر لوگ اس نام سے نہیں جا ننے تھے ،اگر کونی جانبا تھی بو نس
کجھ ہی خو اس کے شاتھ اکبڈمی سے ناس آؤٹ ہوئے تھے۔
”تھتبک بو۔۔“ انبا کی کارڈ لتنے وہ لفٹ کی جانب گنی اور مطلوپہ قلور کا نین
پرنس کبا۔
اس ئے آج رات نہاں موخود کلب میں جانا تھا چہاں آج تھر شاشا آئے واال
تھا۔ زنادہ کجھ نہیں نس موفع دنکھ کے اس کو جان سے مارئے کا ارادہ تھا ک نونکہ
شاشا نہاں سے تھر انک نبالمی میں لڑکباں خرندئے واال تھا۔ لبام ئے اس کو اطالع
دی تھی کہ بو انس میں انک نبالمی ہوئے جا رہی تھی جس میں پرابوا کے ہبڈ کو مدغو
کبا گبا تھا ک نونکہ اس وفت شب سے طافت ور ن یظتم مافبا پرابوا کی تھی جس کے اندر
روس کے شارے مافباز آئے تھے۔ روس میں خو تھی شپ منٹس آنی تھی وہ شب
پرابوا کے ہبڈ کے علم میں ہونی تھیں اور وہ جس کی ستمنٹ جاہے روک شکبا تھا نا
اس پہ ف یصہ چما شکبا تھا اور اتکار نا اجبالف کی صورت میں پرابوا اس مافبا گتبگ کا
جانمہ آشانی سے کروا شکبا تھا۔
چنہ کو کسی طرح شاشا کو روکبا تھا اور وہ دو صوربوں میں ہونا انک صورت بو پہ
تھی کہ وہ مر جانا اور دوسری صورت پہ کہ ڈنگر اس کو مار د ننی۔ چنہ کو دوسری
صورت دلحشپ لگی۔
مبکس ئے اس کو اننی کسی تھی منتبگ کے نارے میں اطالع نہیں دی تھی
جبکہ وہ مشلشل ان سے بوچھ رہی تھی۔ چنہ ل نو چب سے اس دنبا سے وافف ہونی
ک جم س
تھی اس کو انک چیز سے تفرت تھی۔ غوربوں کو انبا عالم ھبا ،ان پہ مرانی کرنا خو
ج
اس کالی دنبا کے کالے دل والے شوق سے کرئے تھے اور ان میں شب سے زنادہ
ہاتھ مشہور و معروف پزنس مین کا ہونا تھا خو ا ننے شفر کو رنگین نبائے کے لنے غورت
جم کھ س
ت
زات کو لونا ھنے ھے۔
کمرے سے ملحفہ نالکنی میں کھڑی ا ننے جافو کو مشلشل رنلتبگ پہ ت ھیر رہی تھی
جس پہ نشان پڑ رہے تھے۔ سباہ جبکٹ کے ننچے سے دو نین نبد تھے کہ شقبد سرٹ
تظر آرہی تھی۔ چہرہ اتھائے شا منے جلنی گاڑبوں کو دنکھنے لگی ،وہ کتنے دن الپرواہ ننی
رہی تھی۔ انک گھر میں نبد رہبا اب مسکل تھا۔ لبام سے ملے تھی انک مہننہ ہوئے
واال تھا ،اس سے زنادہ دن دور نہیں رہنی تھی لبکن اس نار مبکس ل نو کے سجنی سے
بو کنے پہ رکبا پڑا تھا۔
دو دن نہلے اس کو ماڈلبگ ہاؤس سے مبل رنسنو ہونی تھی جس میں وہ سبلبکٹ
م
ہو گنی تھی۔ وہ ماڈل کے روپ میں نہت آشانی سے ا ننے نارگنٹ کمل کر شکنی تھی
لبکن رنان ڈی کی اس شادی کی آفر ئے نہت رکاوٹ ڈال دی تھی۔ شادی نلین
میں کہیں تھی نہیں تھی ،شادی کا شو جنے اس کو انبا آپ وافعی انک جگہ نک محدود
ہونا محسوس ہوا لبکن وہ انشا نالکل تھی نہیں جاہنی تھی۔
ڈنگر نام تھی اس ئے خود شوجا تھا ا ننے لنے ک نونکہ جافو کا اسیعمال کرنا اس کو
اچھا لگبا تھا ،کراؤنڈ ہبڈ اکبڈمی کا اننحاب اس ئے اجانک اور چ ھپ کے کبا تھا ،مبکس
ل نو سے گھو منے کی نات کرئے وہ گرنس میں جلی آنی تھی اور نہاں پرنتبگ سبارٹ کر
دی ،مہت نوں تغد مبکس کو علم ہوا بو انہوں ئے سحت ناراصگی کا اظہار کرئے کاقی
عرصہ اس سے نات نہیں کی تھی ،ان کے مطابق وہ خزنانی ہو کے وانس آجائے گی
لبکن انشا نہیں ہوا تھا وہ اننی جگہ اننی صد پہ قاتم تھی۔ نہیں سے اس ئے جافو سے
وار کرنا سبکھا۔ نب تھی اس ئے دامیر اور رنان کے نارے میں شن رکھا تھا لبکن کتھی
ان کو وہاں آنا دنکھا نہیں تھا اور وہ پہ نات تھی جاننی تھی کہ رنان ڈی اور دامیر آر
مبکس کو ا چھے سے جا ننے تھے اور مبکس ان کا گارڈین رہ حکا تھا۔
شوجیں کہاں سے کہاں جلی گنیں اس کو اندازہ نہیں ہوا تھا۔ وہ پہ نات جاننی
ن
تھی کہ رنان کسی تھی وفت اس کا ننجھا کرنا نہاں ہنچ جائے گا اوراس ئے چھبانا
تھی نہیں جاہا تھا نس وہ خود کو انک ہی جگہ فبد کر کے نہیں رکھبا جاہنی تھی۔
کمرے میں وانس آئے اس ئے انبا لنپ ناپ آن کبا اور نہاں کے کلب کی
فوننج آن کی۔ اتھی کلب نالکل جالی تھا ،شور و عل نہاں رات کی سباہی میں چمکبا
تھا۔
ن ن
نب نک وہ و نسے ہی انک اجتنی تگاہ ڈال رہی تھی۔ شاشا ک نے سے لے اگر
ہ ن جن ہ
وہ کونی وارنبگ د ننی نا چ ھپ چھبا کے جانی بو ہو شکبا تھا کونی اس پہ شک کر لتبا
نتھی وہ عام جلنے میں ہی جائے والی تھی۔
رات میں علتبا ئے فباد کے نارے میں دامیر کو نبا دنا اور کجھ انسی نانیں تھی
تھیں خو اتھی نک شا منے نہیں آنی ت ھیں۔ چنہ ان شب نابوں سے نہلے ہی وافف تھی
لبکن کسی ئے اس سے بوچھنے کی زچمت نہیں کی بو وہ ک نوں نبانی و نسے تھی مداجلت
کرئے سے اس کو سحت خڑ تھی۔
کونی غیر معمولی خرکت تظر میں پہ آنی بو لنپ ناپ نبد کرئے وہ اتھ گنی۔ آج
رات کے لنے اس کو انک ڈرنس تھی جا ہنے تھا۔ رنان ئے نہت سے خوڑے رکھوائے
تھے اس کی کیرڈ میں لبکن ان کو دنکھبا تھی اس کے گوارا نہیں کبا تھا۔
ننچے آئے اس ئے نانک پہ جائے کے نحائے انک کنب نک کروانی تھی ناکہ
ناس ہی کسی شانبگ مال میں جا شکے۔
انک شاپ میں کھڑے وہ مجبلف لباس دنکھ رہی تھی خو نہتنے کے لنے قانل
اغیراض ہی تھے اور کاقی عرناں تھی تھے۔
کاقی دپر کیڑوں کی چھان مارئے اس ئے سباہ رنگ کی شلک النگ گاؤن نسبد
کر لی۔۔ کلب کی نارنی کے جشاب سے اچھا تھا۔
اکبلے رہبا اس کے لنے بور نت کا کام نہیں تھا۔ وہ گھت نوں جاموش رہ کے گزار
ش تم ن
شکنی تھی ،اتھی تھی وہ انک فوڈ اپرنا یں ھی ل آئے جائے لوگوں کو د کھ رہی
ن ش ل م ت
چنہ کو مال سے وانس جانا دنکھ رنان کا ضیط سے پرا جال ہو رہا تھا۔ شادی کے
دوسرے دن ا نسے ا ننے شوہر کو چھوڑ کے کون تھاگبا تھا اور تھر نہاں وہ کہیں
جائے کے لنے شانبگ تھی کر رہی تھی۔
دامیر ئے اس کو کال کر کے کہا تھا کہ وہ اس کے ناس آئے واال تھا لبکن وہ
نہیں جاہبا تھا کہ اتھی آئے نتھی انبا مونانل تکالے دامیر کا نمیر ڈانل کرئے لگا۔
”دامیر نہاں آئے کی ضرورت نہیں ہے ،میں اور چنہ ہونل میں موخود ہیں۔
شب تھبک ہے۔۔“ رنان ئے ا ننے چہرے پہ ہاتھ ت ھیرئے ہوئے انبا انداز عام شا
رکھنے کہا ناکہ دامیر نات کی کھال پہ ادھیڑے۔
”تم دوبوں ہونل میں؟“ دامیر کو وافعی اس کی نات کا تفین نہیں آنا تھا نتھی
ھ چ تف ت
وہ ئے نی سے بو نے لگا۔
”ہاں ننی شادی ہونی ہے نا مجنت تھرے نل گزارئے ہیں۔“ رنان دانت نٹسنے
ہوئے بوال۔
”نہاں شب تھبک ہے ،کجھ ہوا بو کال کر دوں گا۔“ رنان ئے انبا کہہ کے
کال کاٹ دی اور سر پہ کنپ نہنے وہ چہرہ چھکائے وہ خود تھی اننی گاڑی کی طرف
جائے لگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دامیر اتھی گنٹ کے ناس نہنحا ہی تھا کہ رنان ئے اس کو کال کرئے م یع کر
دنا۔ وہ گہرا شانس تھر کے رہ گبا۔ نہلے ضرف رنان تھا سر تھرا اور اب اس کے شاتھ
والی تھی ونسی ہی تھی۔
علتبا اس کو منٹشن کے مین گنٹ پہ ہی کھڑے جانا دنکھ رہی تھی چب وہ
وانس آئے کو مڑا۔ ڈرنک تھی اسی کے شاتھ موخود تھا دوبوں نبک وفت خو نکے۔
”کبا ہوا۔۔ شب تھبک ہے؟“ دامیر کے ناس آئے ہی علتبا ئے نسونش سے
بوچھا ،اس کی قکر پہ دامیر مشکرا دنا ،ڈرنک کو اشارہ کرئے وہ علتبا کی طرف م نوجہ ہوا۔
ڈرنک وہاں سے جال گبا مطلب دامیر اب نہیں جائے واال تھا۔
”اننی قکر ک نوں کرنی ہو پرنسٹس!“ آنکھوں میں چمک لنے وہ ہلکا شا ہٹشا۔
”چنہ اور رنان کہاں ہیں ،تم نہیں جا رہے ان کے ناس؟“ اس کی نات کو
تظرانداز کرئے علتبا ئے انبا شوال دہرانا۔
”جٹشا کے نہلے تھی کہا تھا وہ انبا کوالنی ناتم سنتبڈ کرنا جا ہنے ہیں نتھی نس
تکل گنے سیر کرئے۔“ دامیر ئے ہلکے تھلکے انداز میں کہا کہ علتبا کے اعصاب
پرشکون ہوئے۔
”نمہیں آرام کرنا جا ہنے تھا۔“ دامیر اس کے رجشار پہ ہاتھ رکھنے ہوئے بوال۔
”میں دن میں شو کے کبا کروں گی ،تھوڑی دپر نہلے ہی بو اتھی ہوں۔“ اس کا
ہاتھ ا ننے رجشار سے ہبائے ہوئے وہ خزپز سی ہونی تھی کہ دامیر اس کو والہاپہ ین
سے دنکھ رہا تھا۔
نتھی سڑک پہ آنی گاڑی ئے علتبا کی بوجہ اننی جانب میزول کی جس پہ کونی
کاقی پڑا نارشل لگ رہا تھا۔
”پہ کبا ہے۔۔۔؟“ علتبا ئے اچھتنے سے بوچھا۔ ڈرنک نیزی سے آگے پڑھا اور
اس نارشل کو انارئے میں مدد د ننے لگا۔
”پہ مئیرس ہے ہمارے روم کے لنے۔“ دامیر عام سے انداز میں بوال۔
”ک نوں؟ کبا تم الگ شونا کرو گے؟“ علتبا کو نالکل تھی وجہ سمجھ پہ آنی تھی
ل جم نت س
مئیرس مبگوائے کی ھی نا ھی سے بوچھنے گی۔ دامیر ئے چیرت سے تھ نویں شکیڑیں
کہ کبا اس کے دماغ میں نہلی نات نہی آنی کہ وہ اس سے الگ شوئے گا۔
”پہ اس لنے ہے ناکہ ہم ک یفرنتبل شونا کریں۔“ دامیر سنجبدگی سے”ہم” پہ زور
د نبا ہوا بوال کہ علتبا چھت نپ گنی۔
”تم ئے کھانا نبانا کہاں سے سبکھا۔۔؟“ علتبا ئے استباق سے بوچھا ک نونکہ خود
اس کو کجھ تھی نبانا نہیں آنا تھا۔
”سروع سے ہی کرنا ہوں بو اب ناد نہیں۔“ دامیر چمچ انک شاس میں ڈبونا اس
کے ہون نوں نک النا۔
”ہاں کاقی پرانی نات ہو گنی ہو گی چب تم ئے سبکھا۔۔“ علتبا چہرے کے
زاوئے چیران کن کرئے ہونی بولی ،وہ اس عمر کا اندازہ لگا رہی تھی دامیر ئے اس کو
ن ت کنب
ھی ظروں سے د کھا۔
”روم رنڈی ہو جائے بو آرام کر لتبا۔۔“ اس کے شا منے کھائے کی نلنٹ رکھنے
ہوئے بوال ،خود اس کا ارادہ آرمری میں جائے کا تھا شاتھ و فقے و فقے سے وہ مونانل پہ
رنان سے راتطہ کر رہا تھا۔
”نار نار ک نوں کہہ رہے ہو آرام کرئے کا۔“ علتبا تھوڑا چھالنی ہونی بولی دامیر
ہٹس دنا اور اس کے ما تھے کو ل نوں سے چھوئے ہوئے آرمری میں جال گبا ،علتبا اننی
نلنٹ تھامے ناہر الن میں ہی آگنی ناکہ وہیں پہ نتتھ کے دھوپ ستبک شکنی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈرنک ئے اننی نگرانی میں میڑس سنٹ کروا د ننے تھے ،دامیر آرمری میں ہی
ن
موخود تھا جبکہ علتبا الن میں تتھی کسی گہری شوچ میں ڈونی تھی۔ دامیر کو اس ئے
فروا اور ا ننے نارے میں شب نبا دنا تھا لبکن آگے کا کجھ تھی ناد نہیں آرہا تھا کہ وہ
چ ہن ن
ن
اس دن ہو ل یں بو کبا ہوا تھا۔
ت چ م ف ً
د عبا اس کے زہن یں انک ھماکا شا ہوا ،چب سے ہوش آنی ھی اس ئے
انک نار تھی جا ننے کی کوشش نہیں کی تھی کہ اس کو خوٹ کٹسے لگیں کبا ہوا تھا
اس کے شاتھ۔ اتکل مبکس کو دنکھ کے شب نابوں پہ تفین کر لبا تھا کہ وہ دامیر
کے شاتھ رہنی تھی لبکن ان شب نابوں کا کونی نہلے سے ن نوت موخود نہیں تھا۔
شاند وہ زنادہ شوچ رہی تھی نتھی سر چھبکے اس کاقی پہ دھبان د ننے لگی خو اتھی
نبا کے النی تھی۔ دامیر اس کا نہت جبال رکھبا تھا۔ زہن کے پردوں میں وہ لمحات
لہرائے لگے چب چب وہ فرنب ہونا تھا ،اس ئے محسوس کبا تھا کہ چب سے وہ انک
ہی کمرے میں تھے دامیر کو کتھی شونا نہیں نانا تھا۔ اگر وہ شو تھی جانا بو اس سے
نہلے اتھ جانا تھا نا اس کے پراپر میں نتم دراز کام میں مصروف تظر آنا تھا۔ کاقی دپر
اکبلے نتتھنے کی وجہ سے شسنی سی شوار ہوئے لگی اور وہ اونگھنے لگی۔
”تم لوگ نہیں جا ننے اسے ،خو نانیں نمہیں تغد میں مغلوم ہونی ہیں وہ ان
نابوں کی کھال نک اڈھیر جکی ہونی ہے۔ میں نہیں جاہبا کہ وہ اس وجہ سے اننی جان
کو کونی تقصان نہنحائے۔“ مبکس ئے تھکے لہچے میں کہا کہ وہ وافعی علتبا سے زنادہ
چنہ کے ردعمل سے پرنشان ر ہنے تھے۔
”رنان شاتھ ہے اس کے آپ قکر پہ کبا کریں۔ ہم اننی فتملی کو پرونبکٹ کرنا
ا چھے سے جا ننے ہیں۔“ دامیر ئے کہنے گونا نات ہی جتم کر دی۔
”اچھا آپ ئے نبانا کہ شاشا منتبگ کرئے واال ہے بو انڈر ورلڈ کے ہبڈ موخود
ہو نگے وہاں۔“ دامیر ئے شو جنے ہوئے کہا۔
”طاہر سی نات ہے مجھے تھی وہاں ہونا ہے لبکن چہاں نک میرا جبال ہے کجھ
لوگ کاقی اغیراض اتھانیں گے شاشا کے پرابوا ہبڈ ہوئے پہ۔“ مبکس ئے انبا جدسہ
تھی نٹش کبا۔
”اور اگر انشا ہوا بو آپ کی کبا رائے ہو گی؟“ دامیر ئے سرسری کا جانبا جاہا۔
”میں انک وفت میں زنادہ ن یظتم نہیں ستتھال شکبا ،مجھے انبا پزنس تھی دنکھبا
ہے۔ اگر کسی ئے اغیراض اتھانا بو اس سے بوچھا تھی جائے گا کہ اگال کون ننے اور
دامیر کبدھے احکانا سبک نورنی کتمراز جبک کرئے لگا چب اس ئے الؤنج کتمرہ پہ
تظر ڈالی ،انک خوتصورت مشکراہٹ اس کے ہون نوں پہ نمودار ہونی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جٹسے جٹسے شام ڈھل رہی تھی و نسے ہی چنہ ئے انبا نلین لبام سے ڈشکس کر لبا
تھا اور اب وہ کلب میں جائے کی نباری کر رہی تھی۔
نلبک گاؤن نہنے اس ئے نالوں کو ا نسے ہی کھال چھوڑ دنا اور اننی سباہ نانٹس پہ
لگے نبلٹ میں جافو اور گن کو سنٹ کرئے لگی۔ نازوؤں پہ اس پہ آج ت ھر لمنے
دسبائے نہن ر کھے تھے۔ ہون نوں پہ سرخ رنگ سحائے انہیں ناہم ن نوشت کرئے رنگ
کو سنٹ کرئے لگی۔
ل ک ک
انبا لچ تھامے وہ مرے سے ناہر آنی اور مرے کو الک کرئے فٹ کی جانب ک
پڑھی۔ اس وفت آنکھوں پہ گالسز تھی لگا لی تھیں۔ آج وہ نلڈنگ میں ر ہنے آنی تھی بو
اسے نہاں کلب میں انئیری دی گنی تھی اور نہی آج آئے کا قاندہ تھا۔
شک نورنی جبکبگ پہ وہاں گارڈز موخود تھے ،چنہ جاننی تھی کہ جبکبگ نہیں ہو گی
ک نونکہ رسبا میں نسنول لے کے گھومبا عام نات ہونی تھی اور نہاں بو تھر مشہور پزنس
مین آئے تھے اور ان کے شاتھ اشلحہ لٹس گارڈز ہمٹشہ ہوئے تھے بو وہ تھی آشانی
سے اندر پڑھ شکنی تھی۔ سہج سہج کے قدم رکھنی وہ اندر آنی چہاں ماخول کاقی گرم تھا۔
اونچی آواز میں موسیقی کی آوازیں اور لوگوں کا شور ،نار کاؤنیر پہ اکا دکا لوگ ہی
موخود تھے ناقی ڈانس اور ا ننے ا ننے مسغلوں میں مصروف تھے۔ چنہ سباہ نالوں اور سباہ
لباس میں مونی جٹسی چمک رکھنی نار کاؤنیر کے پزدنک آنی۔ انبا کلچ کاؤنیر پہ رکھنے اس
ئے شوفٹ ڈرنک کا آرڈر دنا اور اطراف میں دنکھنے لگی۔ چہرے پہ نباری سی مسکان
ن
سحائے تتھی وہ خور لگ رہی تھی خو تھبکی ہونی تھی انسی جگہ پہ جٹسے کسی کی نالش
میں تھی۔
ت گ ل گت ن ف ً
م ل
د عبا اس کو ا نی نشت پہ ا نوں کا مس حسوس ہوا ،اس کی نشت کا ال ھوڑا
گہرا تھا بو کونی اس کے نالوں کو شانبڈ پہ کرے اس کی نشت پہ اننی اتگلی سے لکیر
تھ ک
نچ رہا تھا۔
”ہبلو ملٹسکا!“ کان کے نالکل فرنب سے سرگوسی سبانی دی کہ چنہ ئے سجنی
ہن ہن ت لک ت ہن چ ن م ھ کن
سے آ یں یں۔ “ یں ا ھی نا ل ھی یں۔ اس کو نہاں یں آنا جا ہنے تھا۔”
وہ دل ہی دل میں رنان کو صلوانیں سبائے لگی۔
چنہ ئے ا ننے ناپرات نارمل رکھنے اس کی طرف انبا رخ کبا اور اس کی آنکھوں
میں چھا نکنے لگی۔
”ا ننے ہاتھوں کو لگام دو۔“ اس کے ہاتھ کو اتھی تھی نشت پہ محسوس کرئے
وہ سرد لہچے میں عرانی۔
”انشا جشن کتھی ہمیں اکبلے میں تھی تضنب کروا دو۔“ اس کے کان کے
فرنب ا ننے ہونٹ النا وہ گھمئیر لہچے میں بوال کہ چنہ ئے ا ننے رونگھنے کھڑے ہوئے
محسوس کنے۔
”آج رات نمہیں اننی دھڑک نوں کا شور ستبا جا ننے تھا نا کہ نہاں ناچ گابوں
کا۔“ اس کی کمر پہ ا نسے ہی انبا ہاتھ رکھنے شاتھ والے اسنول پہ نالکل فرنب نتتھ گبا
ن
کہ چنہ اس کے چہرے کو ا ننے مقانل دنکھنے لگی جس کی گرے آ یں اس پہ ہی
ھ ک
نکیں تھیں۔
چب نار نتبڈر ئے اس کی شافٹ ڈرنک چنہ کے شا منے رکھی بو رنان ہون نوں پہ
معنی چیز مشکراہٹ لنے اسی گالس کو تھامے ا ننے ل نوں نک لے آنا۔
”نانس خوانس۔۔“ انک گھونٹ تھرئے اس ئے آنکھ دنانی ،چنہ ئے نلک نہیں
چھبکی تھی اس کی آنکھوں کا سرد ین اتھی تھی موخود تھا۔ رنان کو دنکھ کے خو سروع
میں اس کو خوف محسوس ہونا تھا وہ اب کہیں نہیں تھا۔ وہ جاننی تھی کہ اس کو بو وہ
مارئے سے رہا۔
”تم ئے نہاں آکے علطی کر دی۔۔“ اس کا گالس وانس رکھنے وہ مزند اس کی
جانب چھکا کہ چنہ کو اس کی گرم پرجدت شانسیں اننی گردن پہ محسوس ہونیں۔
”انبا ہاتھ مجھ سے دور کرو رنان۔۔“ تطاہر وہ ادا سے اس کی گردن پہ انبا ہاتھ
رکھنی ہونی بولی جبکہ اس کے ناج نوں کی چھین محسوس کرئے رنان مشکرا دنا۔
”میں تم سے انبا آپ دور پہ کروں تم ہاتھ کی نات کر رہی ہو۔“ وہ زومعت نت
سے بوال کہ چنہ کے چہرے پہ سرجی چھائے لگی ،وہ انک چھبکے سے اتھی اور اس کا
نازو خود سے دور کرنی کھڑی ہونی اور اس پہ چھک آنی۔ رنان کاؤنیر سے نبک لگا نتتھا۔
”ا ننے پہ ج نپ ڈانالگز سے کسی اور کو انمیرنس کرو۔“ وہ نحوت سے انک انک
لقظ جبا کے بولی اور اس سے دور جانی ت ھیڑ میں شامل ہو گنی۔
”نہلے تم بو قابو میں آجاؤ۔“ رنان کی تظروں ئے اس کا تغافب کبا خو اب لڑک نوں
میں شامل ہوئے ہلکے سے ہل رہی تھی گونا وہ نارنی کا انک حصہ لگبا جاہنی تھی۔ سباہ
نت نٹ سرٹ پہ سباہ ہی جبکٹ نہنے اننی دوبوں نازو اور نشت کاؤنیر سے تکائے وہ چنہ
کو گہری تگاہوں سے دنکھ رہا تھا۔
پہ لڑکی عام جلنے میں نہاں جلی آنی تھی پہ نات تھول کے کہ کل ہی وہ رنان
ڈی کی ن نوی ننی تھی بو الزمی تھا کہ اس کی ن نوی کی تصاوپر تھبل جکی ت ھیں اور پہ
نات تھی مغلوم ہو گنی ہو گی کہ وہ مبکس ل نو سے تغلق رکھنی تھی۔
انئیرنس پہ لوگوں کے ہحوم کو دنکھنے رنان اور چنہ کی نبک وفت تگاہ اس جانب
ن
اتھی ،شاشا نہاں ہنچ حکا تھا۔ رنان کو اس سے کونی سرو کار نہیں تھا کہ وہ نہاں
تھا نا وہ اس کو نہاں نہحان لے گا۔ وہ نس اننی ملٹسکا کے لنے نہاں موخود تھا۔
چنہ کے چہرے کے ناپرات رنان ئے بوٹ کنے جس کی آنکھوں میں ج یگاری
چمکی تھی۔
شاشا کی تظر چب انک خوتصورت سباہ لباس میں لڑکی پہ گنی بو اس کو ناس
ت ھ ک تھ ک
آئے کا اشارہ کرئے لگا خو اس نارنی میں انک الگ ہی نچ ر نی ھی۔
اننی نالوں کو چھ یکا د ننی چنہ شاشا کی جانب جل دی چہاں وہ نتم پرہنہ لڑک نوں کو
ناہوں میں لنے آئے ہی چھو منے لگ گبا تھا۔ اس کے گارڈز انئیرنس پہ ہاتھ ناندھے
کھڑے تھے۔ آنکھوں پہ سباہ جشمے موخود تھے لبکن رنان جانبا تھا کہ کتنی خوس نبک
ن
رہی ہوگی انہیں آنکھوں میں خو لڑکباں ناڑئے آ یں ستبک رہے ھے۔
ت ھ ک
رنان تغور چنہ کے انک انک قدم کو دنکھنے لگا خو شاشا کی جانب پڑھ رہا تھا۔ اس
ئے ہاتھ میں شافٹ ڈرنک کا گالس تھام رکھا تھا خو اجانک چھباکے سے بوٹ گبا کہ
اس کے ہاتھ کی گرفت اس پہ سحت ہونی تھی۔ دوسری جانب چنہ اجانک لڑکھڑائے
شاشا سے نکرانی تھی۔ نکرائے وہ اجانک انبا کلچ ننچے سے تھا منے کے لنے اجتباط سے
چھکی۔ رنان ضیط سے نتتھا اس کی پہ کاروانی دنکھ رہا تھا۔
”اتم شو شوری۔۔“ چنہ انک ادا سے اتھنی ہونی بولی اور چہرے پہ معصومنت
تھری مسکان الئے بولی۔ رنان کے ناپرات ا نسے تھے جٹسے وہ اتھی ا تھے گا اور اس
شاشا نامی نبدے کو چہتم نک چھوڑ کے آئے گا۔
ب کن
شاشا اننی شا منے اننی خوتصورت لڑکی د نے قدا ہوا اور اس کو تھامبا جاہا کن وہ
ل ھ
پروفت ننچے چھکی ،اور اس سے تھوڑا قاصلے پہ ہونی مغذرت کرئے لگی۔ وہ نسے میں
تھا ،اس کے وخود کا لڑکھڑاپہ واصح تھا نتھی چنہ اس سے قاصلے پہ ہی کھڑی تھی۔
ً
”انس اوکے ن نون یقل۔۔“ وہ مشکرانا ہوا بوال اور چنہ کا ہاتھ تھامبا جاہا ،چنہ فورا
کجھ کہبا سروع ہونی۔
”انکحولی میں نہاں انحوائے کرئے آنی تھی نتھی مسنی میں آپ تظر نہیں آئے
اور میں نکرا گنی۔“ چنہ خوتصورت ہون نوں کو مشکراہٹ میں ڈھا لنے ہوئے بولی بو شاشا
جی جان سے قدا ہوا۔
”بو آؤ نا مسنی کریں ہم۔۔۔“ وہ اس کی جانب پڑھا کہ وہ کھلکھال دی۔ شاشا ئے
اس کو نکڑنا جاہا لبکن چنہ ئے ہاتھ کی اشارے سے روکا۔
”اوں ہوں ،اتھی نچ نہیں۔“ وہ آنکھ دنا کے بولی بو شاشا جبانت تھری
مشکراہٹ لنے اس کے شاتھ جل دنا۔ وہ اوپر والے بورشن میں جائے والے تھے خو
وی آنی نی الؤنج ہونا تھا چہاں کونی تھی رات تھہر شکبا تھا۔ شاشا کل سے نہیں پہ
موخود تھا۔ اس نلڈنگ کا نت نٹ ہاؤس تھی اسی کے نام پہ نک رہبا تھا اور وی آنی نی
بورشن تھی۔ چنہ چب سے آنی تھی اس کو مغلوم تھا کہ شاشا نہیں ہوگا۔
شاشا کے شاتھ اس کے گارڈز جائے لگے بو شاشا ئے روک دنا۔
”آج نمہارا ناس مزے کرے گا بو تم لوگ تھی کھل کے عباسی کرو۔“ شاشا
ان کو بوال بو شب کے چہروں پہ گمتبگی تھری مشکراہٹ آگنی اور خود تھی وہ نہاں کے
چھو منے ہوئے ہحوم میں مگن ہو گنے۔
چنہ پزاکت سے قدم اتھانی انک انک سیڑھی خڑھ رہی تھی جس کے ننجھے رال
نکبانا شاشا آرہا تھا۔ چنہ پہ تھی جاننی تھی کہ اس وفت رنان کا خون کھول رہا ہو گا وہ
شب مباطر دنکھنے لبکن شاشا کو اس کے گارڈز سے علنحدہ کرنا ہی تھا نتھی اس ئے
انشا کبا۔
”کبا میں ئے نمہیں کہیں دنکھا ہے؟“ وہ چنہ کو دنکھنے ہوئے بوال ،نشہ اس پہ
جاوی ہو رہا تھا۔
”ہاں نا نمہاری زندگی کی ندپرین رات ہوں میں۔“ چنہ معنی چیز سے بولی کہ شاشا
ہٹس دنا۔ وہ دوبوں انک کمرے کے نہنچے خو شاشا کا ہی روم تھا۔ اس کا اصل مقصد
ت ج ہن
نہاں آنا تھا اور وہ نچ کی ھی نس۔
”نہیں! تم بو سبانیر کی ن نوی ہو۔۔“ وہ نہحان گبا تھا کہ چنہ کے ہون نوں پہ
طیزپہ مشکراہٹ آنی۔
”تظر رکھی ہونی ہے۔۔“ چنہ تھوڑا رازداری سے بولی ،شاشا کمرے میں آگبا اس
کے ننجھے ہی چنہ اندر آنی۔
انگھوئے پہ لگانا۔ اس کا فبگر پرنٹ لتنے جلدی وہ ڈرنسبگ اپرنا کی طرف گنی اور کیرڈ
کھولے وہاں سے ناکس دنکھنے لگی جس کو الک لگا تھا۔ وہ فبگر پرنٹ الک تھا ،چنہ ئے
نیزی سے اس کو پرنٹ والی جگہ پہ لگانا بو کھل گبا۔
”ڈنگر ہمٹشہ اننی نباری سے تکلبا ہے۔۔“ اس ئے الکر کھوال اور اس میں سے
نئیر تکالے اننی نانٹس کی نبلٹ میں ر کھے۔
نئیر ملنے ہی وہ شاشا کی جانب آنی خو اب نک نتم نبہوسی میں جا حکا تھا۔
”چچ چچ تم بو نہت کمزور تکلے۔۔“ وہ نمسجراپہ لہچے میں بولی۔ دل بو کبا کہ اس کی
گردن میں انبا جافو گھشا دے لبکن اس کو مارئے سے اتھی اس کا شب کو مغلوم ہو
جانا تھا کہ چنہ ہی اس کے شاتھ اوپر آنی تھی۔
”کبا مجھے فرق پڑے گا؟“ اس ئے خود سے کہا تھر تقی میں سر ہالئے ہوئے
ا ننے جافو کو اس کے گردن پہ رکھا۔ وہ جال تھی د ننی اگر کونی کمرے کا دروازہ کھولے
اندر داجل پہ ہونا۔
دروازہ کھلنے کی آہٹ پہ چنہ ئے چھبکے سے اننی گردن گھمانی جس کے نتنچے میں
ہاتھ کے خرکت کرئے پہ شاشا کی گردن پہ انک کٹ لگ گبا۔
ت ھ کن
رنان کو دروازے پہ د نے چنہ جی ھر کے ندمزہ ہونی۔
”کسی کی عزت لو ننے سرم نہیں آنی۔“ رنان اندر کا ماخول دنکھنے پرشکون ہوا
ورپہ بو آج پہ کلب دھماکے میں اڑئے واال تھا۔
”کسی کی پرابونسی ڈسیرب کرئے نمہیں سرم نہیں آنی۔۔“ چنہ شاشا کے چہرے
کو ہاتھ سے ننجھے کرنی گردن پہ کٹ دنکھنے لگی۔
”اقسوس نچ جائے گا۔“ وہ نحوت سے بولی اور کھڑی ہونی۔
”کونی میری ن نوی کو ا ننے کمرے میں لے جائے اور میں خوڑناں نہن لوں۔“
رنان اس کو نازو سے دبوجبا ا ننے فرنب کرنا ہوا بوال کہ اس کے نال چہرے کے آگے
گر آئے۔
”جابوروں کی طرح ضرور ک ھتنجبا ہونا ہے تم ئے۔“ اس کی گرفت میں وہ سجنی
سے بولی۔
”کبا جبال ہے نہی پہ ہنی مون مبا لیں۔“ اس وی آنی نی شو نٹ کو دنکھنے
ہوئے وہ زومعت نت سے بوال۔
”ا ننے واہبات آ نبڈناز نمہیں آئے کہاں سے ہیں۔“ اس سے دور ہونی وہ نحوت
سے بولی اور نال سنٹ کرئے دروازے کی طرف پڑھی۔ رنان ئے انک ن یقبدی تگاہ
شاشا کے نبہوش وخود پہ ڈالی اور اننی گن تکالی۔
اگر اس کا خون ا نسے ہی گردن سے تکلبا رہا بو زنادہ خون صا تع ہوئے کی وجہ سے
وہ مر تھی شکبا تھا اور اننی آشانی سے اس کو نہیں مارنا تھا نتھی اس کی نانگ کی طرف
نسبل کا ُرخ کرئے انک قاپر کبا کہ اس کی آواز سے ہی اس کے گارڈ نہاں آجانیں
گے۔ گولی کا کبا ہے چہاں انبا خون تکال وہاں تھوڑا اور تکل جائے گا بو کجھ نہیں ہو
گا۔
”کبا نحوں کو آج کل ناس نتنے کی پڑی ہے۔“ اننی نبلٹ میں گن کو تکائے وہ
چنہ کے ننجھے ہی کمرے سے تکال۔ چنہ ا ننے گلورز تھبک کرنی سیڑھ نوں کی جانب جا
رہی تھی چب رنان ئے اس کا نازو تھامے راہداری سے گزرئے انک کمرے کا دروازہ
کھولے اس کو اندر دھکبال اور خود تھی اندر آنا۔ گولی کی آواز ستنے شاشا کے گارڈز نہاں
کی طرف تھاگے آرہے تھے بو اس جانب جائے کے نحائے رنان ئے اجتباط پرنی۔
”رنان میرے شاتھ نمیز سے نٹش آنا کرو۔۔۔“ رنان کے اس طرح دھکبلنے پہ
چنہ انبا جافو انک جشت میں تکالے اس پہ نائے کھڑی ہونی۔
”رنلبکس ملٹسکا! نمہیں اغوا نہیں کر رہا میں۔“ اس کے جافو کی بوک کو تظر انداز
کرئے رنان انبا مونانل تکا لنے ہوئے بوال۔
مکم
”جلو آؤ۔۔۔“ اس ئے ناہر چھاتکا چب راہداری ل جالی ہونی بو اس کا ہاتھ
تھامے ناہر تکال۔
رنان کی ستبڈ نیز تھی ،اگرجہ چنہ تھی نیزی دکھا رہی تھی لبکن ہبل نہتنے کی وجہ
سے وہ اس سے قدم نہیں مال نا رہی تھی۔
”انشابوں کی طرح جلو گے تم؟“ چنہ ئے ا ننے ہاتھ کو چھ یکا د ننے ہوئے کہا
کہ سیڑھباں ننچے اپرئے رنان ئے اس کو گھورا تھر تظر اس کے ناؤں کی طرف گنی
چہاں سباہ ہبل میں ستبد نیر مقبد تھے۔
رنان ئے اس کو نبا سمجنے کا موفع د ننے انک جشت میں ا ننے کبدھے پہ ڈاال کہ
وہ بوکھال اتھی۔
اس سحص ئے قشم کھانی تھی کہ جس کام سے وہ م یع کرنی وہ کام وہ صد میں
آکے ضرور کرنا تھا۔ اس ئے تھبک کہا تھا وہ جتبا اس سے دور تھاگنی تھی وہ انبا ہی
خود کو اس پہ نبگ کر رہا تھا۔
”مضنوط بو تم نہت ہو لبکن تھوڑا وزن تھی پڑھا لو۔“ اس کو چ ھیڑئے کے انداز
میں بوال اور کلب کی انئیرس پہ الکے کبدھے سے انارا۔
شاشا پہ چملہ ہوا تھا پہ شب جان گنے تھے اور کلب میں تھگدڑ سی مچ گنی
تھی۔
”اس طرح تھا گنے سے شب کا شک مجھ پہ جائے گا بو انڈنٹ۔“ چنہ اس کو
دھکا د ننی ہونی بولی اور وانس اندر جائے لگی۔
”تغلق بو میرے مرئے پہ ہی جتم ہو گا۔۔“ وہ نل میں انبا لہحہ ندلے گ ھئیرنا
سے بوال کہ چنہ ئے سحت تگاہوں سے اس کو گھورا۔ ڈھنٹ پرین انشان اس کی
قشمت میں لکھ دنا تھا۔
”بو تھر مرو کہیں جا کے۔“ وہ کہنے ہوئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ ر کھے دھکا
د ننی ہونی وہاں سے ہنی۔ شاشا کے گارڈز اب کلب میں تھبل جکے تھے ،شب سے
نہلے وہ اس کی شک نورنی کو پڑھائے اور اس کو استبال لے جائے۔
رنان کو تظر انداز کرنی ہونی وہ وانس نلڈنگ نک آنی اور لفٹ کا نین پرنس کرئے
لگی۔ ا ننے دسبائے انارے اس ئے گہرا شانس تھرا۔ کل انک منتبگ تھی شاشا کی
مافبا آرگباپزنشن ہبڈز سے بو اس کا ارادہ وہاں تھی جائے کا تھا اس سے نہلے اس کو
نئیرز جا ہنے تھے جن کو وہ خرا النی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ا ننے کاموں سے قارغ ہوئے چب وہ الؤنج میں آنا بو وہ ئے شدھ شو رہی تھی
اور نی وی رنمورٹ اس کے ہاتھ سے تھشال تھا۔ دوبوں نانگیں فولڈ کنے صوفے کے
ش ت ت ت تن
نازو سے نبک لگائے ھی ھی ،اس سے اس کی گردن ھی تھک جانی۔ دامیر م کرانا
ہوا اس کے فرنب آنا اور اسے گود میں اتھانا ناکہ روم میں لے جا شکے۔
خود کو پرم نسیر پہ محسوس کرئے علتبا کی آنکھ کھلی بو دنکھا کہ دامیر اس کو
تھبک سے لبا رہا تھا۔
”میں شو گنی تھی؟“ اس ئے اتھنے ہوئے کہا ،نبک لگائے نتتھ گنی۔
”لگ بو رہا تھا۔۔“ دامیر گہری تگاہوں سے دنکھبا ہوا بوال۔
کن
”نمہارا کام جتم ہو گبا۔۔؟“ وہ آ یں لنے ہوئے بولی۔ ئےوفت کی نتبد لے لی
م ھ
تھی اس ئے۔ دامیر ئے انبات میں سر ہالنا۔ علتبا اس کی تظروں سے جاتف ہونی
ہونی تظریں خرا گنی۔
”رنان اور چنہ آ گنے؟“ اس ئے انک اور شوال داعا۔
”وہ نہیں آرہے اتھی وانس ،کجھ جا ہنے؟“ دامیر ئے اس کا ہاتھ تھام کے
بوچھا۔ علتبا ئے ہاتھ اس کی گرفت سے تکالبا جاہا لبکن اس ئے گرفت ہلکی پہ کی۔
”دامیر ہماری کونی تصوپر نہیں شاتھ؟“ علتبا کے اجانک زہن میں جائے کبا آنا
ت تن
خو وہ بوچھ ھی۔
”مجھے شوق نہیں اسی لنے لبکن اگر تم جاہو بو اب سے ہونگی۔“ دامیر اس کے
ناس سے اتھبا ہوا بوال ک نونکہ وہ نہت ک یق نوز ہو رہی تھی۔
”میں جتنج کر لوں تھر نات کرئے ہیں۔“ آگے چھکنے اس کی گردن پہ ہونٹ
رکھنے ہوئے بوال اور جتنج کرئے جال گبا۔ علتبا کی چھنی جس جٹسے کونی االرم دے رہی
تھی ک نونکہ چب وہ شونی دامیر انبا لنپ ناپ لنے کام رہا ہونا۔
کل رات اس ئے ا ننے نارے میں شب نانیں کی تھیں ،فروا کا نبانا تھا اور صنح
ہوئے ہی اس ئے انک نار تھی زکر نہیں کبا تھا اس نارے میں۔ شارا دن پرشکون
گزرا تھا جٹسے وہ انک خواب کو گزار آنی تھی۔
اس ئے اتھی کہا کہ وہ نات کرے گا ،کبا نات کرنی تھی اب اس کو۔
انہیں شوخوں کا ارتکاز بونا چب وہ ڈرنسبگ روم سے ناہر آنا۔
”کبا کجھ انشا ہے خو تم مجھے نبانا جاہنی ہو؟“ دامیر ئے خود پہ پرف نوم سیرے
کرئے کہا ،علتبا ئے ہلکی مشکراہٹ لنے تقی میں سر ہالنا۔
اس ئے ہمٹشہ کی نانسنت آج سرٹ نہیں نہنی تھی ضرف پراؤزر میں مل نوس تھا
جس سے علتبا کو تھوڑی جبا سی محسوس ہونی۔
کمرے کی النٹ ڈم کرئے وہ نبڈ نک آنا۔ علتبا کو اب جلدی نتبد نہیں آئے
م
والی تھی ک نونکہ اتھی اتھی نتبد بونی تھی اور وہ ل خواشوں یں ھی۔
ت م مک
”کبا کجھ انشا ہے خو تم مجھے نبانا جا ہنے ہو؟“ دامیر کے نتتھنے ہی علتبا ئے اس
سے اسی کے انداز میں بوچھا کہ دامیر کے ل نوں پہ گہری مسکان چھا گنی۔ وہ کجھ کہنے
کے نحائے اس کے فرنب ہوا ،اس نتم اندھیرے میں علتبا ئے اس کے چہرے کو
تغور دنکھا۔
”میں جاہبا ہوں کہ چب نمہاری ناداشت وانس آئے بو تم ان لمحات کو کتھی پہ
تھولو۔۔“ اس کے کان کے فرنب ا ننے ہونٹ الئے نالکل مدھم لہچے میں بوال کہ علتبا
کو اننی دھڑکن کابوں میں سبانی دی۔
”کٹسے لمحات۔۔؟“ اس ئے پہ شوال شوجا تھا لبکن تھر ئےشاچنہ خود کو کہنے
سبا۔ وہ اس قدر ک یق نوز تھی کہ ان جشاس لمحات کو جان پہ نانی۔
”جن میں دامیر آر تم سے اغیراف مجنت کرے گا۔“ علتبا ئے ا ننے رجشار پہ
اس کا لمس محسوس کبا کہ وہ جبا سے سمٹ گنی۔
ن جم س
م
”ہاں۔۔!؟“ وہ نا ھی سے بولی جٹسے دامیر ئے اس ل انک سحور کن حصار
ناندھ دنا تھا ،علتبا نہیں جاننی تھی کہ وہ کب سے اس کے شاتھ تھی ،کب سے وہ
ع ن ب ل ت ت تن
اس سے مجنت کر ھی ھی کن اس ل لتبا کو انبا دل ئے انمان ہونا محسوس ہوا
خو اس نل دامیر کی مجنت کی گواہی دے رہا تھا۔ دامیر کا اسنحقاق تھرا لمس دامیر کے
مجنت تھرے خزنات پہ مہر لگا رہا تھا۔
”تغد میں جاہیں جٹسے تھی جاالت ہوں ،جاہے خو تھی ہو لبکن میں جاہبا ہوں کہ
تم کتھی پہ تھولو دامیر تم سے مجنت کرنا ہے۔ دامیر نمہارے لنے جان لے شکبا ہے۔
دامیر آر خود کو نمہاری مجنت میں گرفبار کرنا ہے۔۔“ اس کی مجروطی اتگل نوں کو ل نوں
ت س
سے لگائے وہ مجمور لہچے میں بوال جبکہ علتبا پہ ھنے کی کوشش یں ھی کہ اجانک
م جم
دامیر کو ہوا کبا تھا۔ اس کا ن یقس نگڑ رہا تھا۔
”دامیر۔۔۔“ اس ئے جبا سے کیرائے ہوئے دامیر کو تکارا۔ دامیر ئے خواب
د ننے کے نحائے اس کا ہاتھ ا ننے ستنے پہ رکھا کہ اس کی دل کی دھڑکن سبانی دی
جس سے انک پرقی لہر جشم میں سران نت کر گنی۔ اس ئے دامیر کی آنکھوں میں دنکھا
چہاں مجنت کا چہاں آناد تھا۔ دامیر ئے اس کی جانب چھکنے اس کی گردن پہ پرمی
سے بوسہ دنا۔
دامیر ا ننے اس ر سنے کو آگے پڑھانا جاہبا تھا ک نونکہ وہ اس سے وافعی مجنت
کرئے لگا تھا۔ پہ شب وفنی نہیں تھا اگر اس ئے کہا تھا کہ وہ اس کی مجنت میں
گرفبار تھا بو انشا ہی تھا۔
علتبا کی اگر ناداشت انک دن ،دو دن نا مہتنے تغد تھی وانس آنی بو وہ اس کو
کسی تھی فتمت پہ خود سے دور نہیں کرئے واال تھا۔ مجنت کرنا نہلے ناممکن تھا اس
کے لنے لبکن اب زندگی میں علتبا شامل تھی۔ اس کی زندگی علتبا کے تغیر ادھوری
تھی بو اس سے دوری نبائے رکھبا تھی ممکن نہیں تھا۔ آئے والے وفت کو نالکل
فراموش کرئے وہ ان لمحات کو محسوس کرئے لگا۔ دل کے کسی کوئے میں انک
خواہش تھی کہ علتبا کی ناداشت وانس پہ آئے اور وہ اس کو ا نسے ہی جاہے ،علتبا کی
آنکھوں میں مجنت بو وہ خود تھی محسوس کر حکا تھا۔ جن آنکھوں میں انک نار مجنت دنکھ
لی جائے اس جگہ تفرت جگہ نبا لے بو وہ نہت تکل یف دہ ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مافبا کی اس دنبا میں کسی کی زندگی کو خود کے شاتھ خوڑنا تھر اس کی حقاظت
کرنا مسکل تھا ،دسمن آپ کے گھر کے ناہر آپ کی موت کے ان یطار میں ناک لگائے
نتتھے ر ہنے ہیں۔ آپ کے شاتھ خڑے لوگوں کو اسیعمال کر کے وہ زہنی و جشمانی
نارخر کرئے تھے۔
دامیر نہلے انہیں نابوں کی وجہ سے کسی رنلٹشن سے دور رہبا تھا اور خود کو رنان
نک محدود رکھا تھا لبکن چب سے علتبا زندگی میں آنی تھی اس کو فراموش کرنا مسکل ہی
تھا۔ تھر اجانک اس کو اننی سرنک جبات نبانا ،اس ئے شاری نابوں کو ن ِس نشت
ڈال دنا تھا۔ اس کے لنے ضرف علتبا ہی نہیں چنہ تھی اہم تھی ک نونکہ وہ رنان سے
خڑی تھی۔ وہ شب انک فتملی تھے اور رنان ،دامیر اننی فتملی کی حقاظت کرنا جا ننے
تھے۔
ا ننے نہلو میں شونی اس خوتصورت معصوم دل والی لڑکی کو دنکھا ،دامیر کو اس
نل لگا جٹسے اس کا شارا چہان اس لڑکی میں سمٹ گبا تھا۔ اس کی دنبا اس کے گرد
گھوم رہی تھی۔
”پرنسٹس۔۔!“ اس کے چہرے پہ آئے نالوں کو پرمی سے ننجھے کرئے ہوئے
وہ سرگوسی میں بوال۔
”امبد ہے چب نمہاری ناداشت وانس آئے بو میں نمہارے لنے تفرت نہیں
مجنت ہی رہوں۔۔ نس تم پہ ناد رکھبا کہ دامیر ئے تم سے مجنت کی ہے۔۔“ اس کے
چہرے کو مجنت کے حصار میں لتنے وہ سرگوسی میں بوال۔
”گڈ نانٹ۔۔“ اس کے ل نوں کو پرمی سے چھوئے ہوئے ننجھے ہبا کہ وہ ہلکا شا
کشمکانی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”نمہیں کبا ضرورت تھی وہاں جائے کی؟“ لبام جاتف ہوا ک نونکہ وہ نکڑی جانی بو
اس کے شاتھ نہت پرا شلوک ہونا۔
”لبام پہ خزنانی ین مجھے پہ دکھانا کرو ،مجھے ک نوں ضرورت تھی اس سے اچھی طرح
وافف ہو تم۔“ چنہ اس کو سجنی سے بولی بو دوسری جانب اس کی ڈانٹ ستبا وہ
جاموش ہو گبا۔
”میں نمہیں نہت مس کر رہا ہوں۔“ لبام کی اداس آواز فون سے گونچی ،اس
ئے ناد کرنا ہی تھا ک نونکہ انبا عرصہ وہ کتھی تھی لبام سے دور نہیں رہی تھی۔
ُ
”اتکل مبکس کے ناس نجھوا دوں کجھ دن ادھر گزار آؤ۔“
وہ نہیں جاننی تھی کہ کب اس کا لبام کے ناس جانا ہو نتھی لبام کو نہالئے
کے لنے بولی۔
”میں نمہارے تغیر وہاں کٹسے جاؤں گا ،اور تھر نہاں شارا شستم موخود ہے۔“ وہ
سرد آہ تھر کے شا منے جلنی شکرنیز کو دنکھبا ہوا بوال چہاں مجبلف جگہوں کی فوننج جل
رہی تھی۔
”میں کوشش کروں گی جلد آئے کی نب نک تم ان نئیرز کو دنکھ لو۔“ چنہ
اتھی کے لنے نالنی ہونی بولی بو لبام ئے سر ہالئے فون نبد کر دنا۔
”نمہاری کل ہی شادی ہونی ہے نمہیں کام سے تھوڑا رنشٹ لتبا جا ہنے۔“ رنان
م
اس کے کمرے میں آنا جاپزہ لتنے ہوئے بوال۔ چنہ ئے کمل طور پہ اس کو تظرانداز کبا
جس سے رنان کے چہرے کے ناپرات نل میں ندلے۔ اس کو چنہ تظر انداز کرے
پرداشت کہاں ہونا تھا۔
”میں ئے تم سے کجھ کہا ہے۔۔“ چنہ اتھ کے کنچن کی جانب جائے لگی
چب رنان اس کے ر سنے میں رکاوٹ نتبا کھڑا ہوا اور انک انک لقظ جبا کے بوال۔
”مغذرت میرے کان آپ کی آواز ستنے سے قاضر ہیں۔“ انک دم وہ چہرے پہ
معصومنت سحائے بولی کہ رنان کے ما تھے پہ نل نمودار ہوئے۔
ف ً
ن
”کاقی بوپ چیز لگ رہی ہو اس وفت۔۔“ د عبا وہ ہو نوں پہ شاطر مسکان نے
ل
بوال کہ چنہ ئے حظرناک ن نور لنے اس کو دنکھا۔
”زنان کو لگام دو۔“ وہ عرانی تھی۔
”سبانی د ننے لگ گبا اب۔۔!“ وہ چیران ہوئے کی اداکاری کرنا ہوا بوال کہ وہ
گ ج تج ن گ گ ھ کن
آ یں ھما کے رہ نی اور دوسرے کیڑے کڑے نج کرئے لی نی۔
فرنش ہو کے وانس آنی بو رنان شکون سے نبڈ پہ نانگیں سبدھے کنے نتم دراز
اس کے لنپ ناپ کو تھامے کجھ دنکھ رہا تھا۔
انبا الگ ہی مطلب تکالبا ہوا معنی چیزی سے بوال کہ چنہ سنتبا اتھی۔
”شٹ اپ۔۔“ رکھانی سے کہنی ہونی وہ اتھ کھڑی ہونی۔
”کہاں جا رہی ہو؟“ اس کو جانا دنکھ وہ ئےشاچنہ تکار نتتھا۔
”الؤنج میں جا رہی ہوں تم رہو نہاں۔“ چنہ انبا کہہ کے جائے کو تھی چب رنان
انک جشت میں اتھبا ہوا دروازہ نبد کر کے اس کے مقانل ک ھڑا ہوا۔
”مجھ سے نات ک نوں نہیں کرنی۔“ وہ سنجبدگی سے بوچھنے لگا۔
”ک نونکہ مجھے نات کرئے کا شوق نہیں۔“ وہ اسی انداز میں بولی۔
”نس دنکھنے سے ہی کام جالنی ہو ک نونکہ نمہارے مطابق نمہیں میری آواز تھی
سبانی نہیں د ننی۔“ اس کے ہاتھ سے لنپ ناپ نکڑے وہ آنکھوں میں چمک لنے بوال
کہ چنہ کا دل انک دم زوروں سے دھڑکا۔
”مجھے دنکھنے کا تھی شوق نہیں ،جاص طور پہ جابور۔“ چنہ اس کو شلگنی آگ
میں ڈالے مزے سے بولی کہ رنان ئے سرد تگاہوں سے گھورا۔
رنان اس کو مزند کجھ کہبا چب چنہ کا فون نجنے لگا۔ لبام کال کر رہا تھا۔
”ادھر ہی رہ کے انبا کام کرو ،میں ڈسیرب نہیں کروں گا۔“ رنان روم الک کرنا
ہوا بوال اور نبڈ پہ دونارہ نتم دراز ہوا۔
چنہ نبا کونی خواب د ننے لبام کی کال رنسنو کرنی اس سے نات کرئے لگی خو
اس کو نئیرز میں موخود مزند اتقارمٹشن دے رہا تھا۔
ل ت تن
چنہ سنجبدگی سے کمرے میں موخود صوفے پہ ھی ا نے کام سرانحام د نے گی
ن ن
اور اننی نات کے مطابق رنان ئے اس کو ڈسیرب نہیں کبا تھا نلکہ مونانل میں خود
مصروف رہا تھا۔
اس ئے شاشا سے وہ نئیر خرانا تھا جس میں شپ منٹس کی ڈنتبل موخود تھیں،
اس پہ کوڈز تھے جن کو لبام جل کر شکبا تھا۔ ان نئیرز میں اشلحہ ،ڈرگز ،پرتقبکبگ کی
شاری ڈنتبلز تھیں خو وہ کل منتبگ میں سئیر کرئے واال تھا۔ مشہور و معروف پزنس
مین خو ناہر سے سرافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے ان کی نمام مغلومات موخود تھیں
نہاں نک کہ ان کے گھر کے ننے اور نانمبگ ،لوکٹشن شب کہ کون سی ڈنل کب
اور کہاں ہوئے والی تھی۔ ڈارک و نب پہ نہت سی مغلومات نہلے موخود ہونی تھیں
لبکن کنی قانلز وہاں کرنبڈ اور کوڈنگ کے شاتھ تھیں ،لبام کمت نوپر شستم میں ماہر تھا
بو چنہ کو اس کی وجہ سے کاقی مدد مل جانی تھی۔
اب ان شب ڈنٹس اور جگہ کے جشاب سے چنہ کو کام کرنا تھا۔ لبام اس کو
شاری تقصبالت تھنج حکا تھا۔
”کبا تم اس کو جا ننے ہو؟“ چنہ نام پڑ ھنے پڑ ھنے رکی بو رنان کو محاظب کرکے
بوچھنے لگی۔
”ہاں پہ جانان کی آرگباپزنشن ہے۔۔“ رنان نام دنکھبا ہوا بوال بو چنہ وانس صوفے
پہ جائے کے نحائے اس کے ناس ہی نتتھ گنی۔
”ناکوزا! پرتقکبگ میں زنادہ ہاتھ ان کا ہونا ہے ،ان کو ہتبڈل کرنا مسکل ہو گا۔“
رنان اس کی رنسرچ دنکھبا ہوا بوال۔
”لبکن ناممکن بو نہیں ہے نا۔“ چنہ تھی سنجبدگی سے بولی ،رنان کو اس کی ول
ناور نہت اپرنکٹ کرنی تھی ،وہ تغور اس کا چہرہ دنکھنے لگا۔
”میں ئے اکبڈمی میں دنکھا تھا انک دو کو لبکن ان کے نارے میں زنادہ جاننی
نہیں تھی۔“ چنہ ا ننے نالوں کو چہرے سے ننجھے کرنی ہونی بولی۔
”ان کے پرائے ناس کو ہم ئے اشاشن کبا تھا۔“ رنان شکون سے بوال کہ چنہ
ئے اچھتنے سے اس کو دنکھا۔
”کس کے کہنے پہ۔۔؟“ اس شوال پہ رنان کے ہون نوں پہ مدھم سی مشکراہٹ
آنی۔
”اتقارمٹشن از منی۔۔“ )(Information is money
ن کن
وہ آنکھ دنا کے بوال جس پہ چنہ آ یں ھما نی۔ ا نی آشانی سے یں نبانا جانا
ہ ن گ گ ھ
تھا کہ انہوں ئے کس کے کہنے پہ اشاشن کبا تھا ،نہت کم ہونا تھا کہ کونی ڈاپرنکٹ
ان کو اشاشن کا کانیرنکٹ دنا کرنا زنادہ پر پرابو نٹ نمیرز سے کانتبکٹ کبا جانا تھا۔
”چیرت ہے مجھے ان کے نارے میں مغلومات نہیں تھی۔“ وہ خود سے پڑپڑانی۔
”حظرناک ن یظتموں میں سے انک ہے ،ان کو دنکھنے سے ہی مغلوم ہوجانا ہے
کہ پہ کس گتبگ سے ہیں ،ناکوزا کے متمیرز کی پہ چھونی اتگلی کنی ہونی ہے۔“ رنان
ئے اس کو اننی چھونی اتگلی دکھائے کہا۔ لبکن اس کے چہرے کے ناپرات میں کونی
فرق نہیں پڑا تھا۔
”ان کا مین کام کبا ہے؟“ چنہ خود چیران تھی کہ وہ اننی مغلومات رکھنی تھی
اور ان کو ناکوزا کے نارے میں علم نہیں تھا۔
”ڈرگز ،پرتقکبگ ،جاص طور پہ لڑک نوں کی۔“ رنان سبدھا لنتنے ہوئے اس کو
نبائے لگا۔
”بو تم لوگوں کو ہی ک نوں اشاشن کا کانیرنکٹ مال تھا ،جانان کے اشاشن کو
ک نوں نہیں؟“ چنہ ئے اس کی طرف دنکھنے بوچھا خو نہلے ہی اس کو جائے کن تگاہوں
سے گھور رہا تھا۔
”رسبا اور انلی میں نٹشٹ اشاشن پرین ہو کے آئے ہیں اور و نسے تھی وہ جانان
کی آرگباپزنشن ہے لبکن ضرف جانان کی جد نک محدود نہیں ،بو انس ،کورنا اور تھی نہت
سی ممالک میں پہ ہونیں ہیں ،جانان سے زنادہ پر شپ منٹس بو انس نک جانی ہیں بو
ہمیں بو انس کا کانیرنکٹ مال تھا۔“ رنان ئے تقصبل نبانی بو چنہ ئے انبات میں سر
ہالنا۔
”رنبلز کو جاننی ہو؟“ رنان ئے اس کے سنجبدہ چہرے پہ تظر ڈا لنے ہوئے کہا،
چنہ ئے انبات میں سر ہالنا۔
”میں ڈانمبڈ پزنس جالنی ہوں اور مجھے رنبل کا مغلوم نہیں ہو گا!“ چنہ نمسجراپہ
مشکراہٹ لنے بولی۔
”مجھے لگا نمہارا اب نک ان سے شامبا نہیں ہوا۔“ رنان سرسری شا بوال چنہ ئے
تظرانداز کبا ک نونکہ اس کا شامبا وافعی نہیں ہوا تھا ان سے۔ وہ نس جاننی تھی ان کو
اور جلد ہی وہ ان سے ڈنل کرئے والی تھی۔
َ
آدھی رات کے تغد جا کے چنہ پہ نتبد کا علنہ چھانا بو اس ئے انبا کام وانبڈ اپ
کبا جبکہ رنان اتھی تھی اسی انداز میں لتبا مونانل میں مصروف تھا۔
”تم ادھر شکون سے شو شکنی ہو۔۔“ اس کو دونارہ اتھبا دنکھ رنان سنجبدگی سے
بوال۔ چنہ چیزیں شانبڈ پہ رکھنی ہونی نتم دراز ہونی ک نونکہ شاند رنان کا شوئے کا نلین
نہیں تھا۔ دامیر اور رنان نہت کم شوئے تھے۔
”کل منتبگ سے نہلے تم وانس جلی جانا نمہیں خو جا ہنے تھا وہ مل گبا ہے۔“
ل ک ب چ ھ ت ھ کت ن
ھ
اس ئے ا ھی آ یں نبد کی ہی یں کہ رنان کی آواز پہ کے سے دونارہ ھو یں اور
ل ن جم س
نا ھی سے اس کو د کھنے گی۔
”ک نوں۔۔۔؟“
من ن ن ت ً
”مبکس نہاں ہو گے اور فتبا م یں جاہو گی کہ وہ یں خود نہاں سے جائے
ہ ہ ت
کو کہیں۔“ رنان ئے سنجبدگی سے کہا کہ چنہ ئے انبا ُرخ اس کی جانب کبا۔
”ان کو نبائے گا کون؟“ انداز ننتبہی تھا کہ رنان ئےشاچنہ قہقہہ لگا اتھا۔
”نمہیں لگبا ہے کہ میں نمہیں نہاں ر کنے دوں گا؟“ رنان کا انداز جبلنجبگ تھا
کہ اب کی نار چنہ ہلکا شا ہٹسی۔
”دنکھنے ہیں۔۔“ رنان انبا بوال اور دامیر کی کال آئے پہ اس کو ستنے لگا۔ چنہ
نالکل تھی نہاں سے نہیں جائے والی تھی۔ انک دو کو بو وہ کل ہی ن یکائے والی تھی
اور تھر شاشا کا کام تھی نمام کرنا تھا وہ تھی مبکس کے شا منے ہی ناکہ ان کو مغلوم
ہونا کہ چنہ کبا کر شکنی تھی۔
کل پرابوا کا ہبڈ نتنے سے نہلے ہی فیر میں جائے واال تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رات کا وفت نتبا اور صنح کا شورج مبڈالئے لگا۔
ہن ک ھ کن
مبدی مبدی آ یں ھولے اس کی شب سے لے تگاہ ہی دامیر کی نشت پہ
گنی خو فون پہ کسی سے نات کر رہا تھا۔ کمرے میں اتھی تھی نتم اندھیرا شا تھا۔ صنح
ہو جکی تھی اور شاند وہ دپر سے اتھی تھی۔ روم میں کالک نہیں تھا بو شانبڈ نتبل پہ
موخود انبا مونانل اتھائے دنکھا بو صنح کے بو نج رہے تھے۔ وہ معمول سے ہٹ کے
لنٹ اتھی تھی۔
آنٹ پہ دامیر ئے ننجھے مڑ کے دنکھا ،علتبا کو جا گنے دنکھ فون پہ الوداعی کلمات
کہنے مونانل وہیں شانبڈ پہ رکھا اور اس کی جانب پڑھ گبا۔
”مارنبگ پرنسٹس۔۔“ وہ مشکرانا ہوا بوال اور اس کے ما تھے کو چھوا۔ اس کے
چہرے پہ سرجی چھانی تھی اور تگاہیں چھکا رکھی تھیں۔
وہ نہت کجھ کہبا جاہنی تھی لبکن اتھی کجھ تھی کہنے کی ہمت نہیں تھی اس
میں۔ اتھی وہ دماعی طور پہ اس ر سنے کو مزند آگے پڑھائے کو نبار نہیں تھی پہ نات
وہ نہلے تھی کر جکی تھی لبکن دامیر کی نٹش قدمی سے شب ن ِس نشت ڈل گبا تھا۔ وہ
جاتف تھی اس سے لبکن اس کا تھی قاندہ نہیں تھا کل رات اس ئے نہت نار
اغیراف مجنت کبا تھا کہ علتبا اس کی مجنت کے آگے ہار مان جکی تھی۔ اس کی
کن
نابوں سے ہی نہیں اس کی آ یں ،اس کا انداز واصح کرنا تھا کہ وہ لتبا کی پروا کرنا
ع ھ
تھا۔ وہ جاہ کے تھی چھبال نہیں نارہی تھی۔
وہ ہر چیز پہ آنکھ نبد کر کے سروع میں ہی تفین کر لتنی اگر کتھی دل میں
دامیر کو دنکھنے ہی کونی خزپہ نبدا ہونا لبکن انشا نہیں ہوا تھا۔ اس کے پرعکس اب وہ
دامیر کو دل کے فرنب محسوس کرئے لگی تھی۔ دامیر کے شاتھ وفت گزارنا اچھا لگنے
لگا تھا۔
”فرنش ہو جاؤ تھر ناشنہ کرئے ہیں۔“ اس کے ناک کو ل نوں سے چھوئے
ہوئے بوال بو نبا کجھ کہے وہ نبڈ سے اپرنی ناتھ روم کی طرف پڑھ گنی۔
دامیر فرنش ہو حکا تھا نتھی اننی نی سرٹ تکالے نہتنے لگا۔ نا سنے کے تغد اس کو
رنان کے ناس جانا تھا۔
وہ اتھی ناہر آنی ہی تھی کہ ناک کے نتھ نوں سے مرداپہ جسنو نکرانی لبکن دامیر
کمرے میں موخود نہیں تھا۔ نالوں میں پرش ت ھیرے وہ کنچن نک آنی چہاں وہ ہمٹشہ
کی طرح جارمبگ پرستبلنی لنے ناشنہ نبائے میں مصروف تھا۔ علتبا کیرانی ہونی ا نسے
ہی الؤنج کے صوفے پہ نتتھ گنی۔ چنہ کی شادی پہ اتکل مبکس ئے کہا تھا کہ وہ اس
کے ناس رکیں گے لبکن انہوں ئے دونارہ اس سے راتطہ ہی نہیں کبا تھا۔
اتھی وہ انہی کو شوچ رہی تھی چب دامیر کی آواز پہ خونک اتھی ،وہ اس کو
ڈانتبگ نتبل پہ نال رہا تھا۔ علتبا گہرا شانس تھر کے اتھی۔
”نا سنے کے تغد مجھے کسی ضروری کام سے جانا ہے بو شام نک وانس آجاؤں گا۔
ڈرنک نہی ہو گا گھر میں۔ میں نمہیں کال کرنا رہوں گا تھبک ہے ،گ ھیرانا نہیں۔“
دامیر نا سنے کے دوران اس سے پرمی سے بوال جس پہ علتبا ئے محض سر ہالنا۔ دامیر
محسوس کر حکا تھا کہ وہ اس سے زنادہ نات نہیں کر رہی تھی شاند وجہ گزری شب
وصل تھی۔
”علتبا کجھ انشا ہے خو تم مجھے کہبا جاہنی ہو؟“ دامیر کے پرمی سے اس کو
محاظب کرئے بوچھا کہ وہ تقی میں سر ہال گنی۔
دامیر ئے کجھ پہ کہا نس جاموش تظروں سے اس کو دنکھنے لگا جس سے وہ
پروس ہوئے لگی۔
”دامیر۔۔“ علتبا ئے مدھم شا تکارا کہ دامیر کے ہون نوں پہ ہلکی مشکراہٹ در
آنی۔
َ
”نس مانی لو!“
”ہماری شادی کو کاقی عرصہ ہوگبا ہے نا اور تم ئے نبانا تھا کہ ہم ہنی مون پہ
تھی گنے تھے بو کبا تم نہلے تھی مجھ سے اننی مجنت کرئے تھے؟“ وہ سمجھ نہیں نا
رہی تھی کہ کبا کہے اور کبا پہ ،عج نب کشمکش کا شکار تھی۔ نہلی نات پہ اس ئے
انبات میں سر ہالنا جبکہ دوسری نات پہ دامیر ئے نبا کونی پردد کنے تقی میں سر ہالنا۔
”نہیں ،نہلے میں تم سے اننی مجنت نہیں کرنا تھا ک نونکہ مجھے اب تم سے عسق
ہوئے لگا ہے۔۔“ وہ انک خزب کے عالم میں بوال کہ علتبا اننی تگاہیں چھکا گنی۔
”نہلے تم تھی مجھے نہیں جاہنی تھی وہ بو اب نمہیں میری قدر ہوئے لگی
ہے۔۔۔“ دامیر کی شکوہ کباں آواز پہ علتبا ئے سر اتھا کے اس کو دنکھا۔ اس کی
آنکھوں میں سرارت ناچ رہی تھی۔
”علتبا میں جانبا ہوں تم کبا شوچ رہی ہو ،ہم ہزنتبڈ واتف ہیں تم کھل کے مجھ
سے نات کر شکنی ہو۔ تم اتھی منتبلی پرننئیر نہیں تھی اس شادی کو لے کے ک نونکہ
نمہارے لنے شب نبا ہے ،انحانا ہے لبکن میں تم سے سٹسئیر ہوں اور بوں ا ننے ر سنے
کو ل یکانا نہیں جاہبا تھا۔ میں تم سے مجنت کرنا ہوں اور چب سے نمہیں دنکھا ہے نب
سے لبکن اب کم از کم میں نمہیں الگ کمرے میں شوئے کی اجازت نہیں دے
شکبا۔۔۔“ دامیر ئے رشان سے اس کو سمجھانا جاہا ناکہ وہ ان دوبوں کے ر سنے کو
جم س
ھے۔
”انک اور نات۔ ہاں نہلے ہم کتھی انبا فرنب نہیں آئے تھے اس نات کو لے
کے زنادہ پہ شوخو۔ نہلے کی نات اور تھی لبکن اب میں جاہبا ہوں ہماری زندگی تھر سے
نارمل ہو جائے۔“ اس ئے اننی نات کو جاری رکھنے ننے نلے انداز میں کہا ناکہ وہ ان
ع چ
کے ر سنے کو لے کے کجھ علط پہ شوچے۔ ھجھک و جبا کے مارے لتبا کے نا کردہ
شوال کا خواب دامیر نحونی دے حکا تھا۔
وہ کوما سے تکلی تھی اور منتبلی سیرنس تھی تھا بو اس کے زہن میں عج نب
جباالت آشکنے تھے جٹسے ”اگر پہ مجنت کی شادی تھی بو ان میں دوری ک نوں تھی“،
”ہو شکبا ہے کہ کوما سے تھبک ہوئے کے تغد دامیر اس سے شب ڈرامہ کر رہا ہو
جن ن
اور اسی لنے مبکس اس کو وفت نہیں د ننے شاند کہ اس کی زمہداری سے ھے ہتبا
جا ہنے ہوں۔“ ان شب الجھ نوں میں وہ تھٹس شکنی تھی لبکن دامیر کی نات پہ وہ
کجھ ہلکا تھلکا محسوس کرئے لگی۔ وہ اس کے چہرے کے ناپرات سے کجھ اجذ پہ کر
نانا نتھی بوال۔
”کبا نمہیں پرا لگا میرا فرنب آنا؟“ اس کے پراہ راشت ا نسے شوال کرئے پہ علتبا
چھت نپ گنی ،اسے پری طرح سرم کا دورہ پڑا کہ وہ انبا سر دونارہ پہ اتھا شکی۔
”تم ا چھے ہو دامیر ،تم میرا نہت جبال رکھنے ہو۔“ ا ننے چہرے پہ موخود اس کے
ہاتھ پہ انبا ہاتھ رکھنے علتبا اغیراف کرنی ہونی بولی کہ دامیر ئے مشکرائے اس کے
ہون نوں کو چھوا۔
دامیر کے ئےناک اظہار پہ علتبا گلبار ہونی اور دونارہ نا سنے کی طرف اننی بوجہ
مرکوز کی۔
”چنہ کب نک وانس آئے گی؟“ اس کے اتھنے پہ وہ ئےشاچنہ بولی۔
”میرے شاتھ ہی آجانیں گے دوبوں ،انبا جبال رکھبا ،میں جتنج کر کے آنا
ہوں۔“ انبا کہہ کے دامیر وانس کمرے کی جانب جل دنا ،علتبا کے ہون نوں پہ خودنحود
انک سرمگین مشکراہٹ آگنی ،دامیر ئے تھبک کہا تھا اب وہ تھی اس کو نسبد کرئے
لگی تھی۔
اور دامیر نہی بو جاہبا تھا کہ وہ اس کو اننی مجنت ،دبوانگی کا عادی نبائے ناکہ وہ
اس سے جاہ کے تھی دور پہ جانائے۔
ڈارک گرے نت نٹ سرٹ میں دامیر جلبا ہوا آنا جس کی ونشٹ پہ گن ہولڈر موخود
تھا ،علتبا گن کو دنکھنے کتھی کتھی سہم جانی تھی کہ جائے ان کو گن ،شک نورنی کی
کبا ضرورت تھی۔
”میں جا رہا ہوں ،مٹسج کرنی رہبا۔“ اس کا ہاتھ تھامے ا ننے مقانل کرئے ستنے
سے لگانا اور ما تھے کو خوما ،علتبا مشکرانی ہونی علنحدہ ہونی۔
م
وہ جا حکا تھا ،گھر اب کمل جاموسی میں ڈونا ہوا تھا اور ا نسے میں علتبا اطراف
میں دنکھنے لگی جٹسے کجھ کرئے کو انک نونی مل جائے لبکن شوائے ا ننے نا سنے کی
نلنٹس کنچن میں رکھنے کے اس کو کونی کام پہ مال۔
جالی گھر میں کجھ کرئے کو نہیں تھا ،دامیر کے ہوئے ہوئے کام پہ تھی ہو بو
نس اسی کو دنکھنے سے کام جال شکنی تھی۔ ڈرنک سے وہ کبا نات کرنی ،اسے بو رنان
سے خوف آنا تھا وہ بو تھر ان کا گارڈ تھا۔
کجھ پہ شو جنے ہوئے وہ کمرے میں ہی آگنی اور کمرے میں تھر وہی خوسنو کا
اجشاس ہوا خو دامیر سے آنی تھی ،اور کل اس خوسنو کو اس ئے نالکل فرنب سے
محسوس کبا تھا جٹسے وہ اس میں ہی سما گنی ہو۔
”میں شوئے لگی ہوں۔“ اس ئے دامیر کو مٹسج نانپ کر کے تھنحا خو اتھی شاند
ڈران نو کر رہا ہو۔
ً َ
”شو نت ڈرنمز لو۔“ اس کا فورا خواب موصول ہوا کہ انک خوتصورت مشکراہٹ
لنے اس ئے خود کو آ نتنے میں دنکھا چہاں اس کی تظر اننی گردن پہ گنی۔ دامیر کو
گردن کا بوسہ لتبا کتبا نسبد تھا۔ اس ئے ہلکے سرخ نشان پہ اننی اتگلی ت ھیری کہ سرم
سے رجشار اللی چھلکھائے لگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس کی چب آنکھ کھلی بو انک نار تھر خود کو رنان کے پزدنک نانا جبکہ وہ جاگ رہا
تھا اور خود وہ اس کے نازو کے حصار میں موخود تھی۔ اننی بوزنشن سمجھ آئے پہ وہ ہڑپڑا
کے اس سے دور ہونی۔ نتبد میں وہ کٹسے اننی ئے اجتبار ہو شکنی تھی۔
ن
رنان اتھی تھی ا ننے مونانل میں مصروف شا تظر آنا ،آ کھیں مشلنی ہونی اتھی اور
فرنش ہوئے جلی گنی۔ رنان سباہ نتبان میں مل نوس تھا تعنی وہ رات کو شونا تھا۔ نالوں
کا خوڑا نبائے ہوئے وہ ناہر تکلی اور شانبڈ نتبل پہ موخود کرنڈل اتھائے رنسنٹشن پہ
کال کرئے لگی ناکہ ناشنہ مبگوا شکے۔
”تم پہ ئےوفوقی وافعی کرو گی۔۔“ رنان ناگوار لہچے میں بوال جس کو چنہ ئے
تظرانداز کبا اور آرڈر د ننے لگی ،آرڈر کرئے وفت اس ئے ا ننے ہزنتبڈ کا زکر الزمی کبا
کہ ان کو مغلوم ہوجائے کہ وہ ہزنتبڈ کے شاتھ موخود ہے اور خود کنچن میں جلی آنی
کہ کجھ اچھا شا نبا شکے۔ تھوڑا نہت نا سنے کا شامان موخود تھا جس سے وہ دوبوں اچھا
ناشنہ کر شکنے تھے۔
رنسنٹش پہ کال کرئے کا مقصد پہ تھا کہ وہ جبا شکنی کہ رات کو وہ نارنی میں
موخود نہیں تھی اور نہاں ا ننے ہزنتبڈ کے شاتھ تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
رنان کے نارہا کہنے پہ چب چنہ نا مانی بو وہ مزند کجھ پہ بوال لبکن اس ئے چنہ کو
ننتبہہ کی کہ وہ وہاں اننی سباچت چھبا کے جائے گی ،اور چہرے پہ ماشک ر کھے گی
ناکہ کسی کو علم پہ ہو کہ وہ اس کی ن نوی تھی۔ چنہ نبار تھی و نسے تھی اس ئے تظر
ہی رکھنی تھی شب پہ۔۔
”مجھ سے زنادہ دور نہیں لبکن تھوڑی قاصلے پہ موخود رہبا ناکہ تم میری تظروں
کے شا منے رہو۔“ اس کی جبکٹ کو آگے سے صجنح کرئے ہوئے ا ننے القاظ پہ زور
د ننے بوال۔
”میں جاننی ہوں انبا آپ ستتھالبا۔۔“ وہ تھی اس کو جبانی ہونی بولی کہ رنان
ً
ئے چھکنے انک سرارت کی کہ چنہ ئے فورا اس سے قاصلہ نبانا۔
”مجھ سے فری پہ ہوا کرو۔“ وہ ناگواری سے بولی اور انبا نبگ نکڑنی ہونی لفٹ کی
جانب پڑھی ناکہ منتبگ میں جائے سے نہلے وہ اننی چیزیں رنان کی گاڑی میں رکھ
شکنی۔
رنان اس کے ننجھے ہی دامیر سے نات کرنا ہوا آرہا تھا۔ چنہ جبک آؤٹ کرنی ناہر
کی جانب پڑھی چہاں اس کی نانبک تھی موخود تھی۔ انبا ہبلمٹ نکڑئے اس کو نہبا
نب نک رنان تھی ناہر آحکا تھا۔ نانبک پہ شوار ہوئے اس ئے رنان کو اشارہ کبا اور
وہاں سے رواپہ ہونی۔
رنان گاڑی کی ستبڈ نیز کرنا اس سے آگے تھا۔ عین وفت پہ منتبگ کی لوکٹشن
ندل دی گنی تھی وجہ شاشا پہ کل رات کو چملہ ہونا تھا۔
لوکٹشن کا مٹسج ان کو مل گبا تھا۔ چنہ رنان کے ننجھے ہی نانبک جال رہی تھی
چب انک موڑ پہ رنان کی گاڑی مڑئے ہی چنہ کی نانبک کو چھ یکا شا محسوس ہوا جٹسے
ن ً
ناپر نبکجر ہوا ہو۔۔ اس ئے فورا نان ک روکی اور ھے گردن ھمائے ج ک کرئے گی،
ل ب گ جن ب
ن ل ھ کن کھ چ ت
ھے کا ناپر ھ ک تھا ھر آگے کو نے د نے گی شاتھ ہی اس ئے خوکبا ہوئے ا کب ت جن ن
ہاتھ اننی نانگ کی طرف پڑھانا ناکہ گن تکال شکے ک نونکہ ننچ ر سنے میں اجانک نانبک میں
خرانی اتقاق نہیں تھا۔ اتھی اس ئے گن ہاتھ میں لی اور سبدھی ہونی تھی کہ اجانک
گردن پہ جتھن ہونی۔ وہ انک پرنپ میں تھٹس جکی تھی۔ گردن نک ہاتھ لے کے
گنی بو وہاں انک ڈاٹ جتھا تھا جس کے آگے انجبکشن کی نبڈل موخود تھی ،اس ئے
چ ت ب جن ن ً تھ ک
نچ کے تکاال اور آس ناس فورا د کھا۔ ا کشن خو ھی تھا وہ اپر ھوڑنا سروع کر حکا تھا۔
آگے گبا اور نبک وبو مرر سے دنکھا لبکن چنہ نہیں تھی ننجھے۔ الجھن لنے اس ئے نبا
کونی دپر کنے گاڑی کا بوپرن لبا خو آگے ہی تھا۔
رنان وہاں نہنحا چہاں اس ئے چنہ کو دنکھا تھا ا ننے ننجھے لبکن وہ نہیں تھی۔
ً
”ہو گبا کام ،اتھا لے گنے میری ن نوی کو۔“ وہ پڑپڑانا اور فورا مونانل تکالے اس
کی لوکٹشن پرنس کرئے لگا۔
”جلنے ہیں اننی لوکٹشن پہ۔“ انبا کہہ کے وہ اننی گاڑی میں نتتھا اور چہاں جانا
ہہ ن
تھا وہیں کی راہ گاڑی دوڑانی۔ دامیر و یں نے واال تھا۔
جن
پہ انک کاقی وسیع نلڈنگ تھی اور قان نو سبار ہونل۔ رنسنٹشن پہ انہوں ئے نہیں
جانا تھا ،ڈاپرنکٹ ان کو نٹشمنٹ کی طرف پڑھبا تھا۔
ن م ہن
نٹشمنٹ میں نجنے اس کو دامیر ل گبا خو ہرے پہ ھر لی ناپرات سحائے شب
ت ن چ
دنکھ رہا تھا۔ پہ انک آکشن جال کی طرح ہی لگ رہا تھا ،شا منے انک چھونا شا ستنج نبانا
گبا تھا اور اس پہ انک پروجبکیر سنٹ تھا۔ جال میں تھوڑے تھوڑے قاصلے پہ نتبل
سنٹ کنے گنے تھے جن کے گرد کرسباں موخود ت ھیں۔
شونڈ بوند ہر مافبا کے لوگ نہاں موخود تھے۔ انک عج نب وجشت تھرا ماخول نبا تھا،
ہر کونی اشلحہ لٹس تھا ،ہر مافبا کا آدمی ا ننے شاتھ گارڈز کے شاتھ موخود تھا۔ دامیر
اور رنان تھی انک کوئے میں لگے نتبل پہ نتتھ گنے ،مبکس ان کے شاتھ نہیں تھے
وہ ان سے الگ ہی تظر آئے۔
”چنہ۔۔۔؟“ دامیر ئے رنان سے بوچھا جس پہ اس ئے شاشا کی جانب اشارہ
کبا۔ ”اتھا کے لے گنے۔“ وہ الپرواہ انداز میں بوال۔ دامیر جانبا تھا کہ اب وہ کبا کرئے
واال ہے ک نونکہ رنان کو مغلوم تھا کہ چنہ نہیں تھی۔
شب نتتھے تھے لبگڑانا ہوا شاشا وہاں ا ننے گارڈز کا سہارہ لتنے ہوئے ستنج پہ خڑھا،
اس کی گردن کے گرد ننی د نکھے شب کے ہون نوں پہ انک معنی چیز مشکراہٹ تھی۔
”پہ پربوا کا ہبڈ ننے گا۔۔“ انک مرداپہ آواز پہ جال میں دنی دنی ہٹسی گونج
اتھی۔
”تم نتتھو میرے جائے کا وفت ہو گبا ،مجھے گانبڈ کرئے رہبا۔“ رنان دامیر کے
کبدھے پہ ہاتھ رکھبا ہوا بوال بو دامیر ئے انبات میں سر ہالنا ،رنان کے اتھنے ہی دامیر
ئے انبا مونانل شا منے کبا اور نہاں کا تقشہ کھوال جس میں اسے رنان کی لوکٹشن شو ہو
رہی تھی۔ اس ئے چنہ کی لوکٹشن کا کوڈ لگانا بو اس اسی نلڈنگ میں شو ہونی۔
”نٹشمنٹ میں ہی نا اس سے ناہر۔۔؟“ رنان کی آواز انیر نٹس میں سے گونچی۔
رنان نجھلے گنٹ سے ناہر تکال تھا اور نہاں موخود آدم نوں کو ن یکائے بوچھنے لگا۔
”نٹشمنٹ اپرنا میں ہی ،،آگے جا کے ل یفٹ ہونا وہاں نین رومز ہیں ،درمبان
والے میں چنہ موخود ہے۔“ رنان اس کی نات ستبا ہوا سر ہالئے اس کے نبائے
ہوئے ر سنے کی طرف پڑھا۔
”میری جالت پہ ہٹسنے کی ضرورت نہیں ہے ،پہ جس تھی (گالی) ئے کبا ہے
اس کو بو میں نہاں شب کے شا منے مزا جکھائے واال ہوں۔ جس کا نماشا تم شب
تھی انحوائے کرو گے۔“ شب کی ہٹسی کی آواز پہ شاشا ئے زچمی سیر کی طرح
ت ھیرئے ہوئے کہا کہ شب کے چہروں پہ چمک اتھر آنی۔
شاشا نہاں شب کے شا منے ندلہ لتنے واال تھا اس کا مطلب شب جا ننے تھے۔
”نہاں پہ آئے کی وجہ تم شب کو مغلوم ہے کہ میں پرابوا کو نبک اوور کرئے
واال ہوں ،جس کی خو ڈنلتبگ ہے مجھ سے وہ دونارہ ہو گی اور اس کی دگنی فتمت پہ۔
میرے ناپ کے مرئے کے تغد پہ شب میرا خق ہے کہ میں پرابوا کو نبک اوور
کروں۔ کبا کسی کو کونی اغیراض ہے؟“ شاشا ئے کرسی پہ نتتھنے ہوئے اننی نات
سروع کی اور جال میں انک تظر دوڑانی۔
ً
” مجھے ہے۔۔۔“ کبل یفورنبا کے انک ڈان ئے فورا انبا ہاتھ نلبد کرئے کون
ش
سے کہا کہ شب کی تگاہ اس کی جانب اتھی۔
”انک نچٹس شالہ لڑکا اب مافبا جالئے گا جس کو نس عباسی کرنی ہے۔۔۔“ وہ
انبا مدعا نبان کر رہا تھا ،اس کی نات پہ کنی لوگوں ئے نانبد کی اور ناری ناری انبا ہاتھ
نلبد کرئے لگے جن میں مبکس تھی شامل تھے۔ دامیر پرشکون انداز میں اس کی
نکواس کو شن رہا تھا جبکہ دوسری طرف رنان انیرنٹس سے شاشا کی آواز ستنے گال نوں
سے اس کو بواز رہا تھا۔
” کنے کا انک دن آنا ہے وہ آج ہے ،تھونک لے نس تھر آنا ہوں نیرے
ک ہ ن ت ک ن ہج ن
ناس۔۔“رنان پڑپڑانا ہوا اس گہ نچ گبا تھا چہاں ین مرے موخود ھے ،لے مرے
کو چھوڑے وہ دوسرے کمرے کی طرف پڑھا بو وہ جالی تھا۔۔۔
”دامیر چنہ نہاں نہیں ہے۔۔“ رنان کی سرد آواز اس کے کابوں سے نکرانی بو
دامیر ہلکا شا مشکرانا۔
”ہاں وہ نہاں شا منے موخود ہے۔“ دامیر کے شکون سے کہی جائے والی نات پہ
رنان دامیر کو گالی سے بوازنا ہوا وانس پڑ ھنے لگا۔ اگر وہ نہلے ہی نبا د نبا بو نہاں ا ننے
نبدوں سے لڑنا پہ پڑنا خو نہاں گارڈز موخود تھے۔
”کس جالت میں ہے وہ؟“ رنان گن وانس ہولڈر میں ڈالبا ہوا بوال۔
”فرنش ،ہونٹ کا کبارہ تھبا ہے نس ،اس کی چیر ہے وہ ندلہ لتنے والی ہے،
ہوش میں ہے۔۔“ دامیر اس کو تقصبل سے بوازنا ہوا بوال رنان وانس نٹشمنٹ میں جال
آنا چہاں شاشا کی اس کی طرف تظر اتھی۔
رنان کی تظر دانیں جانب کے دروازے کی طرف اتھی چہاں سے دو لوگ چنہ کو
کرسی پہ ناندھے ال رہے تھے ،تطاہر وہ نبہوش تظر آرہی تھی اور نال تھی نکھر گنے تھے۔
رنان ئے سجنی سے انبا چیڑہ تھتنحا ،اس کی ن نوی کو ہاتھ لگائے کا مطلب انہوں ئے
موت کو دغوت دی تھی۔ شاشا کی تظر رنان پہ ہی تھی ک نونکہ شاشا کو اب تفین ہوا
تھا کہ چنہ رنان کی ہی ن نوی تھی لبکن ڈنگر کا اس کو مغلوم نہیں تھا کہ پہ وہی تھی،
اس کا ارادہ چنہ کو شب کے شا منے پزلبل کرئے کا تھا نتھی اس کی اوپری جبکٹ
اپری تھی ،نس سباہ نی سرٹ نہن رکھی تھی۔
”میرے ہبڈ ہوئے پہ اگر اغیراض ہے بو وہ شب تغد میں کرنا اتھی تم لوگ میرا
ارننج کبا ہوا شو بو انحوائے کر لو ک نوں مبکس ل نو۔۔“ شاشا جبانت سے چنہ کو دنکھبا ہوا
بوال اور آخر میں مبکس کو دنکھا اور اننی گردن پہ ہاتھ ت ھیرا چہاں ننی نبدھی تھی۔ چنہ کو
نالکل شا منے ال کے رکھا گبا۔ کجھ لوگوں کی و نسے ہی رال نبکنے لگی تھی انک خوتصورت
لڑکی کو دنکھنے مبکس ضیط سے نتتھے رہے۔ شاشا جانبا تھا کہ رنان انک اشاشن تھا
کسی کراتم آرگباپزنشن کا ہبڈ نہیں خو شب اس کی نات ستنے اور اس کے شاتھ
کھڑے ہو کے شاشا کے جالف آواز کسنے۔
”ڈارک ورلڈ کا انک رول ہے۔“ اس سے نہلے کہ کونی اور خرکت ہونی رنان کی
سرد آواز جال میں گونچی۔
”سبا ہے کہ مافبا ہبڈ کو مارئے کا تغد مارئے واال اس کی جگہ لتنے کا دغوی
کرے بو اسی کا اننحاب کبا جانا ہے۔“ رنان ئے آہشنہ سے قدم اس کی طرف
پڑھائے ہوئے کہا ،شب کی تظریں رنان پہ چمی تھیں۔ دامیر کے ہون نوں پہ مدھم
مشکراہٹ اتھری تعنی وکیری کا وفت تھا۔
اس سے نہلے کونی شاشا کو کور د ننے کے لنے آگے پڑھبا گولی کی آواز پہ شب
کی تگاہ ستنج کی جانب گنی چہاں شاشا زمین بوس ہوا اور کرسی پہ نبدھا وخود گن تھامے
ا ننے نیروں پہ کھڑا تھا۔
ہر انک ہبڈ کو اس کا گارڈ کوور د ننے لگا ،دامیر ئے چھبکے سے اتھنے شاشا کے
ارد گرد موخود گارڈز کا نشاپہ ناندھا۔
ن
رنان کے ہون نوں پہ مشکراہٹ نمودار ہونی ،گرے آ کھیں تفجر سے چمکیں۔
٭٭٭٭٭٭
ہر انک کو اننی جان کی قکر الخق ہو گنی تھی ،دامیر اور رنان ہبڈ نہیں تھے لبکن
انک اچھی آرمی رکھنے تھے ،وہ ا ننے کانیرنکٹ پہ کام کرئے تھے لبکن خود کے لنے ان
کو کانیرنکٹ کی تھی ضرورت پہ تھی جٹسے اتھی شاشا ان کے شا منے موخود تھا اور ان
کا شکار تھا۔
کونی ان کے درمبان بو لنے واال نہیں تھا کہ چب وہ شب کے شا منے شاشا پہ وار
کر شکنے تھے بو نبا پرواہ کنے ان کا نشاپہ دوسروں کی جانب تھی ہو شکبا تھا۔ دنکھنے ہی
ت ً
دنکھنے اس جال کے گرد ماشک نہنے لوگ چمع ہو گنے خو فتبا دامیر اور رنان کے ہی ھے
ت
خو شاشا کے آئے گارڈز سے لڑ رہے تھے۔ وہاں موخود ناف نوں ئے تھی قاپرنگ سروع
کر دی۔
رنان کا شاشا پہ چملہ کرئے کی وجہ سے انک تھگڈر سی مچ گنی تھی چب کجھ
مافبا ڈان وہاں سے جائے لگے ،اس لڑانی جبگ میں ان کا کونی مطلب نہیں تھا۔
جبکہ دوسری طرف ہر عالفے کا مافبا ا ننے گارڈ کے شاتھ خوکبا موخود تھا۔ وہ لوگ
نماسنین کا کام کر رہے تھے جٹسے ان کو شاشا اور رنان کے درمبان ہوئے والی جبگ
کا مزا آرہا ہو۔
چنہ کو شالمت دنکھنے مبکس ئے شکون کا شانس جارج کبا ورپہ اس کو ا نسے
ن ت کن
نبہوش ئےشدھ د نے دل کو جھ ہوا تھا ،وہ خود ا ھی قانیر یں کر رہے ج کہ ان
ب ہ ک ھ
کے گارڈز ان کی حقاظت کر رہے تھے۔
چنہ ا ننے گرد موخود آدم نوں سے ن نٹ رہی تھی جبکہ دامیر رنان کو کور د ننے وہاں
نشائے ناندھ رہا تھا
رنان کی گرے سرد آنکھوں میں انک وجشت اپر آنی جٹسے وہ آج نہاں قہر محا
دے گا۔
گولی لگنے کی وجہ سے شاشا کا کبدھا زچمی ہوا تھا ،اس ئے مڑئے چنہ پہ وار کبا،
اس کے آئے وار کو رو کنے چنہ ئے زور دار انک مکہ رسبد کبا۔ رنان کی تظر چب چنہ
کی جانب گنی بو اس ئے ناس گری نسبل اتھائے شاشا کی طرف تھتبکی جس پہ وہ
پروفت انبا نحاؤ کر گبا۔ نہاں کونی کحا کھالڑی نہیں ہونا تھا خو آشانی سے انک چیز کی
زد میں آجانا۔
چنہ لڑکی تھی لبکن اننی تھی کمزور نہیں کہ شاشا کی نکڑ میں تھڑتھڑانی رہنی۔
”نیری اننی ہمت۔۔“ شاشا رسین میں اس کو گالی د نبا ہوا گردن دبو جنے لگا ،چنہ
ئے انبا دقاع کرئے نیزی سے اس کے پڑ ھنے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے روکا اور اس
کو مروڑ دنا۔ خو نجھلی درد سے نحات نائے تغیر اب انک اور گولی کھا حکا تھا ،کبدھے پہ
درد کا اجشاس پڑ ھنے سے وہ پڑ ننے لگا۔ درد سے نلبالئے اس کی کراہ گونچی ،چنہ البا
اس کی گردن کو ا ننے شکنچے میں لتنی بورا زور لگائے اس خو ننچے نتتھانی جلی گنی چب
م کن
انک چیرنی ہونی چیز اس کو نانگ میں ن نوشت ہونی جس سے وہ ضیط سے آ یں نچ
ھ
کے رہ گنی۔ شاشا ئے ناس نکڑی بونی کرسی کی لکڑی کا نکرا اتھائے اس کے نانگ
کے اوپری حصے میں دے مارا تھا۔
اس کی گردن چھوڑے بوری فوت سے چنہ ئے چہرے پہ وار کبا اور ئے در ئے
ن
مکے مارئے لگی۔ اننی تکل یف وہ تھوڑی دپر کے لنے تھال تتھی۔ شاشا کے وخود میں
تھ ن ک
چب شکت ناقی پہ رہی بو چنہ ئے اننی نانگ سے وہ کرا نچ تکاال کو گہرا ز م کر گبا
چ
تھا۔
مبکس ل نو کے گارڈز مبکس کے انک اشارے کے ان یطار میں کھڑے تھے جبکہ
دامیر اننی گن کی گولباں جبک کرنا اب نٹشمنٹ کی مین انئیرنس کو جبک کرئے لگا۔
چنہ کو آئے سے ناہر جانا دنکھ رنان اس کی طرف پڑھا ،چنہ کو ننجھے کرئے اس
ئے شاشا کا گرنبان نکڑئے اس کو کھڑا کبا خو لڑکھڑا گبا۔ اس کو ا ننے مقانل کرئے
رنان ئے زور دار نمانحہ رسبد کبا کہ شاشا کے نچے کچے اعصاب تھی گم گنے۔
”اس کے فرنب سے گزرنی ہوا تھی مجھے رف نب لگنی ہے تم بو تھر انک گبدی
نالی کے کیڑے ہو۔۔“ اس کے شا منے چھکبا اس کے منہ کے اندر نسنول کا نیرل
کرئے بوال۔
”میری ن نوی پہ بو تظر رکھنے ہوئے میرے شا منے اننی ہمت دکھانی“ رنان ئے اس
کے ہاتھ پہ انک قاپر کبا کہ شاشا کی جنخ گونج اتھی۔
”انک اور تظر اور تم ا ننے مرد ہوئے پہ نجھباؤ گے۔“ اس کی لگانی آگ کا خواب
وہ اس جال میں اننی وجشت تھبالئے دے رہا تھا۔ شب اگلے لمچے کا ان یطار کر رہے
تھے کہ کب رنان شاشا کو مارے گا ک نونکہ اب اس کی نجنے کی جالت نہیں تھی۔
شاشا ئے اس کی غورت پہ تگاہ علط ڈالی تھی۔ رنان کی جگہ کونی اور ہبڈ تھی
ہونا بو وہ ا نسے ہی جبگ کا اعالن کر د نبا۔
”رنان۔۔۔“ مکے کھائے کے تغد اس میں بو لنے کی شکت ناقی پہ رہی بو پڑوڑ
مڑوڑ کے اس کا نام لتنے لگا۔
”آں ہاں! دی سبانیر۔۔۔“ اس کا بورا نام لتنے سے نہلے رنان ئے سرد لہچے میں
کہا اور اس کے چہرے کو دبوجا۔
”پرابوا کو نبک اوور کرئے واال دی سبانیر۔۔“ وہ سرگوسی میں بوال اور نبا کسی پردد
کنے نسبل کی گولی اس کے منہ میں انار دی کہ گولی کی آواز سے انک شکنہ شا چھا
ن
گبا کمرے میں۔ شاشا کا ئےجان وخود ننجھے کو جا گرا جس کی آ یں لی یں۔
ھ ت کھ ھ ک
دامیر اس کی شانبڈ پہ کھڑا چنہ کو دنکھ رہا تھا جس کے چہرے پہ تکل یف کے آنار
موخود تھے۔ وہ اننی نانگ پہ اتھی وزن نہیں ڈال نا رہی تھی بو دامیر ئے آگے پڑ ھنے
اس کے نازو کو ا ننے کبدھے پہ رکھنے سہارا دنا۔
”میں پرابوا کو نبک اوور کرئے کا دغوی کرنا ہوں کبا ہے کسی کو اغیراض۔۔“
رنان کی سرد آواز گونجنے کے تغد دو سبکبڈز جاموسی رہی چب اگلے ہی نل انک آواز
اتھری۔
”مجھے ہے۔۔“ جس طرف سے آواز آنی تھی رنان ئے نبا دپر کنے اننی گن اس
طرف کرئے اس سحص کو بو چہتم واصل کبا خو اغیراض کر رہا تھا۔ نہاں جتنے تھی
لوگ موخود تھے وہ ان شب کو ناور کروانا جاہبا تھا کہ شاشا کو مار کے وہ پرابوا کا خق دار
ہے اور اتھی انک ہی موت سے وہ پہ تھی جبا گبا کہ اس کو شاشا پہ سمجھا جائے خو
شکون سے اغیراصات پرداشت کر لے گا۔ چب مزند دو سبکبڈز نک کونی پہ بوال بو رنان
ئے انک فجرپہ تظر جال میں دوڑانی چہاں جگہ جگہ گرے ئےجان وخود پڑے تھے۔
”کسی کو نہیں گڈ۔۔“ رنان کے چہرے پہ انک قانحاپہ مشکراہٹ آنی۔
”لوگ پہ ک نوں تھول جائے ہیں میں ناپ اشاشن ہوں۔“ وہ مضنوعی اقسوس
کرنا ہوا بوال اور شا منے ستنج کی طرف پڑھا۔
”ہمیں کونی اغیراض نہیں۔“ شب سے نہلی آواز مبکس کی طرف سے آنی۔
”لبکن پہ شب انک منتبگ میں طے ہو گا سبانیر ،ہم انک اور منتبگ ارننج
کروانیں گے چہاں شب کے علم میں اس نات کو النا جائے گا کہ شاشا کی پراپرنی
شاری ونلتھ اب رنان سبانیر کی ہو گی۔“ مبکس ئے ناف نوں کی نانبد جاہی بو شب ئے
انبات میں سر ہالنا۔
گن کو ہولڈر میں رکھنے اس کی بوجہ چنہ پہ گنی خو دامیر کے سہارے کھڑی تھی۔
دامیر کو نبا کسی لحاظ کے شانبڈ پہ کرئے اس ئے چنہ کو نازؤں میں اتھانا اور نٹشمنٹ
سے ناہر تکلنے گاڑی کی نجھلی سنٹ پہ نتھانا۔
”انارو اس کو۔۔۔“رنان ئے گاڑی کا دروازہ نبد کرئے ہی کہا کہ چنہ ئے
جم س
نا ھی سے اس کو دنکھا خو اننی جبکٹ انار رہا تھا۔
”کبا۔۔؟“ وہ اسبہقامنہ لہچے میں بولی چب رنان ئے اس کی کارگو نت نٹ کی
جانب اشارہ کبا وہ اس کا زچم دنکھبا جاہبا تھا خو لکڑی کا نکرا اس کی تھانی میں لگا
تھا۔ اننی جبکٹ کو اس ئے چنہ کے کبدھے کے گرد تھبال دنا ک نونکہ اس کی خود کی
جبکٹ وہ جابور انار جکے تھے اور اس وفت وہ ہالف شل نوز سرٹ میں تھی ضرور اس کا
نت نو تھی شب دنکھ جکے تھے۔
جم س
”نمہارا دماغ تھبک ہے پہ کبا نکواس کر رہے ہو۔“ چنہ اس کا اشارہ ھنے
ن گ ھ کن
ہوئے آئے سے ناہر ہونی اس پہ عرانی کہ رنان ئے آ یں ھما یں۔
”زچم جبک کرنا ہے میں ئے فرشٹ انڈ دوں نمہیں۔“ رنان اس کی ونشٹ کی
جانب ہاتھ پڑھانا ہوا بوال کہ چنہ ئے اس کے پڑ ھنے ہاتھ کو چھ یکا۔
تھ ت
”میں کر لوں گی جاؤ نہاں سے۔۔“ وہ رکھانی سے بولی کہ رنان لب نج کے رہ
گبا۔
”خود کٹسے کرو گی تم زچم شاند شانبڈ پہ ہے بو مسکل ہو گی۔“ رنان انک نار تھر
سمجھائے والے انداز میں بوال ک نونکہ خون مشلشل نہہ رہا تھا اور زنادہ خون کا نہبا تھی
اس کے اچھا نہیں تھا۔
”بو کبا گاڑی میں نتتھ کے نمہیں کرئے دوں شب؟“ چنہ اسی لہچے میں اس
م ن مچ ھ کن
سے بولی کہ رنان کی آ یں کی۔ ان دو ین دبوں یں جتبا وہ رنان کو فرنب سے
دنکھ جکی تھی اس کی آنکھوں کا جکمبا ہمٹشہ کجھ زومعت نت ہی لنے ہونا تھا۔ ہون نوں پہ
مبہم سی مشکراہٹ لنے وہ اس کے فرنب ہوا۔ چنہ دوسری شانبڈ کے دروازے کے
ت ب ل ن چ ت ت تن
شاتھ نبک لگائے ھی ھی۔ اس کی ز می نا گ نچے کی ھی جبکہ دوسری کو وہ فولڈ
ن
ت ت تن
کر کے ھی ھی۔
”شب کجھ بو نہیں کرئے واال میں ،نس جبک کروں گا۔۔“ رنان ئے گھمئیر
لہچے میں کہا کہ چنہ کے چہرے کے ناپرات نگڑے۔ وہ اسی طرح کے ڈانالگ کی
ن
امبد لگائے تتھی تھی۔
”ناہر جاؤ میں کر لتنی ہوں ،ضرورت پڑی بو نمہیں نال لوں گی۔۔“ قالحال کے
لنے وہ اس کو خود سے دور کرنی ہونی بولی۔ رنان ئے انک نل اس کے چہرے کی
ن
طرف دنکھا خو چہرہ دوسری جانب کر کے تتھی تھی۔
ً
”میں ادھر ہی ہوں ،تکل یف زنادہ ہونی بو مجھے فورا نالنا۔“ رنان اس سے دور ہونا
بوال اور ناہر تکال ،فرنٹ ڈور کھو لنے اس ئے ڈنش بورڈ کے جائے سے فرشٹ انکڈ ناکس
تکاال اور اس کو تھمانا۔
چنہ ئے زچم والی جگہ سے کیڑا اجتباط سے ہبانا بو دل جٹسے خود گ ھیرا اتھا۔ زچم
آئے ر ہنے تھے لبکن اس بوعنت کا نہلی نار تھا۔ وہ لکڑی کا کاقی خوڑا اور بوکبال نکرا تھا
خو گہرا زچم کر گبا تھا۔ اس کے کبارے پہ خون چمبا سروع ہوا تھا۔ زچم ڈھانی سے
نین انچ کا لمبا زچم تھا۔ زچم کو دنکھنے اس کا ہاتھ کا نتنے لگا۔ رنان ئے تھبک کہا تھا
کہ اس کو تکل یف ہو گی۔
”نہلے ڈاکیر کی طرف جلنے ہیں ،تم ک یفرنتبل ہو چنہ؟“ دامیر ئے ننجھے مڑئے
کہا ،رنان ڈران نونگ سنٹ ستتھال حکا تھا۔
”میں تھبک ہوں نس شلو جالنا۔۔“ وہ تکل یف ضیط کرنی ہونی بولی۔ رنان ئے
انبات میں سر ہالنا۔
”دامیر تم ڈران نو کر لو میں چنہ کے ناس نتتھ جانا ہوں۔“ رنان نل میں ڈران نونگ
سنٹ سے اتھبا ہوا بوال ،دامیر کے خواب کا ان یطار کنے تغیر وہ چنہ کے شاتھ نتتھ گبا
تھا۔
”میری گود میں نتتھ شکنی ہو ناکہ نمہاری نانگ کو تکل یف پہ ہو۔“ رنان ئے انبا
نازو اس کے شائے کے گرد تھبالئے ہوئے کہا ،چنہ ئے ہوبق ننے اس کو دنکھا تھر
آگے نتتھے دامیر کو۔
”نمہیں ا ننے تھانی کی موخودگی میں انسی نبہودہ نابوں سے پرہیز کرنی جا ہنے۔“ چنہ
اس کو سرم دالئے ہوئے بولی لبکن اننی تکل یف کا جبال کرنی ہونی وہ رنان سے حصار
میں آرام دہ بوزنشن میں نتتھ گنی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ نہلے استبال گنے تھے چہاں چنہ کی تھبک سے ننی کروا دی گنی تھی اور
شاتھ اس ئے نین کلر لے لی تھی ناکہ اتھی خو درد تھی اس میں آقاقہ ہونا۔
”اتھی گ ھر جائے ہیں ،علتبا گھر میں اکبلی ہے اور رات تھی ہو رہی ہے بو ڈر پہ
ن
جائے۔“ گاڑی میں نتتھنے ہوئے دامیر ئے کہا ،چنہ اب شکون سے تتھی تھی۔ دامیر
کی نات کی چنہ ئے تھی نانبد کی بو رنان ئے کجھ پہ کہا ک نونکہ اتھی چنہ کے لنے تھی
گھر جانا ہی تھبک رہبا۔
چنہ ئے گاڑی کے ڈور سے نبک لگا لی تھی ک نونکہ اس کو اب نتبد آنا سروع ہو
گنی تھی۔
ت کت ن
”نمہیں میں تظر نہیں آنا؟“ اس ئے ا ھی آ یں موندیں ہی یں کہ رنان کی
ھ ھ
ل ن جم س
سنجبدہ آواز پہ اس کو نا ھی سے د کھنے گی۔
”چب میں ادھر نتتھا ہوں بو وہاں نبک ک نوں لگانی ہے ،ادھر آؤ۔۔“ رنان کو
جٹسے اس کا دروازے سے نبک لگانا ناگوار گزرا تھا جبکہ چنہ اس کو عج نب تگاہوں سے
دنکھنے لگی جس کے سبہرے نال ما تھے پہ نکھرے تھے اور گرے آنکھوں میں تھی
سجنی در آنی تھی۔
کن
اس کی نات پہ کونی ردعمل طاہر پہ کرئے وہ تھر سے آ یں موند نی۔
گ ھ
”میرا نس نہیں جل رہا کہ میں نمہیں ہاتھ لگائے والے شاشا کو زندہ کر کے
دونارہ موت کے منہ اناروں۔“ شاشا کا شو جنے اس کا خون کھول رہا تھا کہ کٹسے اس
ئے چنہ کو ہاتھ لگانا ،اس پہ وار کبا اور گردن نکڑی۔
”میں تھبک ہوں رنان۔“ رنان کے چہرے پہ نتھر نلے ناپرات دنکھنے وہ پرم لہچے
میں بولی۔
”نمہیں تھبک رہبا ہے۔۔“ اس کی جانب چھکنے اس کے چہرے پہ انبان نت
سے ہاتھ رکھنے ہوئے بوال کہ چنہ سنجبدگی سے اس کو دنکھنے لگی۔ تظریں ت ھیرے اس
ئے مدھم لہچے میں کہا۔
”مجھے آرام کرنا ہے۔“ اس سے نہلے رنان دامیر کا جبال کنے نبا کونی نٹش قدمی
کرنا چنہ ئے اجشاس دالنا۔
”نمہیں نہاں ضرور ہونا تھا۔“ اگلے ہی لمچے رنان دامیر کو کو سنے لگا۔
جص ت تن ل گ ن ہن
ان کو وانس نجنے ا ک ھننہ مزند گ جانا تھا ،چنہ کے لنے ھنے کا نح ان یطام
تھا بو وہ انبا وفت گزار شکنی تھی۔ و نسے تھی درد اب پرداشت کے قانل تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شارا دن گھر میں ا نسے ہی ن یکار تھرئے وہ خود تھی نیزار ہوئے لگی تھی۔ ڈرنک
ہر گھتنے تغد اس سے بوچھنے آجانا کہ اگر اس کو کجھ جا ہنے ہونا بو لبکن وہ تقی میں سر
ہال د ننی۔ دامیر سے تھی مٹسج پہ نس تھوڑی سی کی نات ہونی تھی۔ بورنت کا اجشاس
مزند ہوا بو نی وی آن کنے نتتھ گنی۔ نی وی کونی ڈاک نومنئیری جل رہی تھی جس کو
دنکھنے میں وہ مگن ہو گنی۔ ڈاک نومنئیری جتم ہونی بو کونی مووی کلپ جلنے لگا۔
جٹسے جٹسے وہ کلپ جلنے لگا علتبا کے ناپرات ند لنے لگے ،چہرہ خوف سے شقبد
ہوئے لگا۔ آنکھوں کی نبلباں تھبل گنیں۔
وہ کونی کلپ تھی جس میں انک لڑکی کے ننجھے کجھ آدمی لگے تھے اور اب وہ
اس لڑکی کو نبد جگہ لے جارہے تھے چہاں اندھیرا تھا۔ وہ کونی کراتم شو تھا۔ جٹسے
جٹسے وہ کلپ جل رہی تھی علتبا کو انبا آپ اس لڑکی میں تظر آنا رہا تھا۔ وہ تھی ا نسے
ہی کمرے میں نبد تھی چہاں دن رات کا کجھ اندازہ نہیں ہونا تھا۔
اس کے وہ ازنت ناک لمحات نہیں نک تھے کہ وہ انک اندھیرے نبد کمرے
میں فبد تھی لبکن کلپ آگے پڑھنی گنی۔ اس لڑکی کے شاتھ پرا ہو رہا تھا خو اننی جان
ن ً ت ا
عزت نحائے کو جال رہی ھی۔ علتبا ئے فورا نی وی نبد کر دنا اس سے اب د کھا پہ
گبا۔
اگر وہ اننی فتملی کے ناس جلی تھی گنی تھی بو کبا اس کی فتملی ئے اس کو
انسی جالت میں ف نول کبا ہو گا۔ نہی شوچ شوچ کے مزند اداسی کا شکار ہو رہی تھی
اور خود پہ قابو نہیں نا رہی تھی ،نہت کم عرصے میں وہ اس کے دل کے فرنب آگنی
تھی اور اس کی اخڑی جالت کی ناجا ہنے ہوئے تھی وہ زمہ دار ین گنی تھی۔
”کاش تم میری دوشت ہی پہ ہونی بو پہ شب پہ ہونا ،تم خوش رہنی اب۔۔“ وہ
خود کو زمہ دار تھہرانی ہونی بولی۔ وہ زار و فطار روئے جا رہی تھی ،رات کا اندھیرا چھا گبا
تھا اتھی نک دامیر وانس نہیں آنا تھا۔
وہ خود کو اب انک نبد کمرے میں محسوس کرئے لگی تھی ،پہ منٹشن ندل کر
اب وہی جشنہ جال کمرہ تظر آرہا تھا۔ روسنی کا جٹسے دروازہ نبد ہو گبا تھا۔ گ ھیراہٹ کے
مارے اس کی شانس اکھڑئے لگی۔ آہٹ پہ اس ئے خود کے گرد سجنی سے نازو لت نٹ
لنے۔ آس ناس کجھ محسوس نہیں ہو رہا تھا چب گالس ڈور کھلنے کی آواز پہ وہ
ئےشاچنہ جنخ اتھی۔
”علتبا۔۔۔“ مرداپہ آواز پہ اس کی آواز نہلے سے نلبد تھی،وہ اننی گ ھیرا گنی تھی
کہ نہاں سے اتھنے کی تھی ہمت نہیں نچی تھی۔
”علتبا۔۔۔“ آواز ندل گنی تھی ،انبان نت تھری آواز پہ اس ئے سر نہیں اتھانا
تھا۔
”علتبا گ ھیراؤ نہیں میں آگبا ہوں۔“ پہ آواز! وہ وانس آگبا تھا ،نبد کمرہ اب ندل
حکا تھا وہ وانس اسی منٹشن کے الؤنج میں موخود تھی۔ اندھیرا اب جتم ہو حکا تھا۔ کمرہ
انک نار تھر روشن ہو حکا تھا۔
ا ننے گرد پرم حصار محسوس ہوا۔ کنتنی پہ ہون نوں کا لمس۔۔ وہ اس کی خوسنو
ن
نہحان گنی تھی لبکن آ کھیں نہیں کھولیں تھی ،اس کے گرد نازو ناندھے اس کے
ستنے میں منہ چھبائے لگی۔ دامیر ئے اس کو اننی نباہ میں لتنے نحقظ کا اجشاس نحشا۔
پرمی سے اس کے نال سہالئے اس کو اننی موخودگی کا اجشاس دالنا۔
وہ نت نوں اتھی نہنچے تھے نہاں ،اندر آئے چب دامیر کی تظر اس پہ پڑی خو سمٹ
ت ھ ت ھ ت ت ت تن
کے ھی ھی بو ک گبا۔ وہ ڈری ھی اور اس کا وخود لرز رہا تھا۔ دامیر نیزی سے
آگے پڑھا اور گالس ڈور کھوال چب وہ اجانک ڈر سے جنخ پڑی۔ چنہ اور رنان تھی شاتھ
آرہے تھے ،رنان ئے اس کو سہارہ دے رکھا تھا۔ اندر آئے اس کو پرمی سے دوسرے
صوفے پہ نتھانا ناکہ زنادہ دپر کھڑے ر ہنے سے وہ تھکے نا۔
”آنی اتم شوری سر۔۔۔“ وہ نامسکل بول نانا کہ رنان ئے انک چھبکے سے اس
کی گردن چھوڑی۔
”نمہیں نہاں رکھا تھا کہ متم کا دھبان رکھبا بو کہاں تھے تم۔۔“ اس پہ ڈھارنا ہوا
بوال ڈرنک سرمبدہ شا سر چھکا گبا۔ اب اننی متم کی جالت کی وجہ وہ خود نہیں جانبا
تھا۔
”آ نتبدہ کتھی الپرواہی پرنی بو میں نمہیں شوٹ کرئے سے نہلے انک نل تھی
نہیں شوخوں گا۔“ رنان ئے اس کو ننتبہہ کی جس پہ وہ تگاہیں چھکا کے انبات میں
سر ہال گبا۔
”دفع ہو جاؤ نہاں سے۔۔“ اس کی گرج دار آواز ستنے ڈرنک وہاں سے جا حکا
تھا۔
”دامیر اسے روم میں لے جاؤ ،وہ ڈری ہے نہت۔“ رنان ئے علتبا کو دنکھنے
ہوئے کہا جس پہ دامیر ئے انبات میں سر ہالنا۔
دامیر ئے علتبا کا چہرہ شا منے کرنا جاہا لبکن وہ ہ نوز اس کے شاتھ لتنی رہی۔
دامیر ئے اس کو نازوؤں میں تھرا اور کمرے میں لے جائے لگا۔ اس کو گ ھر اکبال چھوڑ
کے وہ علطی کر نتتھا تھا اس کو اجشاس ہو رہا تھا کہ اسے اکبال نہیں چھوڑنا جا ہنے تھا۔
”آؤ نمہیں تھی روم میں لے جاؤں۔“ دامیر کے جائے کے تغد رنان ئے چنہ
سے کہا جس پہ وہ کھڑی ہوئے کو تھی چب اس ئے آگے پڑ ھنے اس کو اتھا لبا کہ
چنہ سنتبا اتھی ،اجانک دل کی دھڑکن پڑھی۔ وہ اس سے پہ امبد نہیں کرنی تھی۔
”پہ کبا ندنمیزی ہے۔۔۔“ اس کی خرکت پہ وہ نلمال اتھی تھی۔
”کتنی دفع م یع کبا ہے کہ مجھے ہاتھ مت لگاؤ۔“ اس کو نبڈ پہ نتھائے ہوئے
چب ننجھے ہبا نب چنہ عصے سے بولی۔
”چھوڑ آؤں وانس۔۔“ اس کی نات پہ وہ خڑانا ہوا بوال جس پہ وہ سر چھبک گنی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چب چنہ کو وہ لوگ اتھائے انک گاڑی میں نتھائے لگے بو اس کے خواس اتھی
تھوڑے قاتم تھے وہ شب دنکھ رہی تھی لبکن کجھ تھی کرئے کی جالت میں نہیں
تھی۔ اس کو اسی نٹشمنٹ والے اپرنا میں ہی النا گبا تھا۔ وہ اس ر سنے کو نہحاننی تھی۔
اس کو الئے ہی انک کرسی پہ نتھانا گبا ،شا منے کھڑے وخود کو وہ نہحان گنی
تھی۔ اس کو کرسی پہ دھکبلنے ہی اس کے چہرے پہ زور دار انک مکہ مارا گبا جس سے
ت کن
وہ نامسکل ہی ا ننے ہوش نحال کر نانی۔ اس ئے آ یں یں ھو یں ھی نا ہی
ل ک ہ ن ھ
کونی ردعمل طاہر کبا تھا کہ ان کو مغلوم ہونا وہ خواس میں تھی۔ خو اس کو شونی
جتھونی گنی تھی وہ انبا اپر بورا بو نہیں لبکن تھوڑا دکھا گنی تھی۔ چب مقانل کا انک
مکے سے دل پہ تھرا بو دو نین مکے اور مارے جس سے اس کا ہونٹ کا کبارہ ت ھٹ
گبا تھا۔ ڈرنبا! وہ اس پہ انبا عصہ تکال رہی تھی۔
”نیری اننی ہمت تھری محقل میں میری انشلٹ کرے۔“ اس کے منہ کو
دبو جنے ہوئے وہ عرانی اور چھبکے سے اس کا چہرہ چھوڑا۔ اس کی نہنی جبکٹ کو انارے
وہ کجھ اور ہی کرئے کا ارادہ رکھنی تھی چب کسی ہ یگامے کی وجہ سے وہ نیزی سے
نلنی۔ اس کو عحلت میں ناند ھنے لگے۔ چنہ اتھی تھی ئے جس و خرکت پڑی تھی۔
”منحوس لوگ۔۔۔“ انک ن یفر تھری تظر اس پہ ڈا لنے ہوئے وہ نیزی سے وہاں
سے تکلی۔
ڈرنبا اس کو نہاں اغوا کر کے النی تھی اور اب اس کی موت بو نکی تھی لبکن
آج ڈرنبا کی قشمت اچھی تھی بو اس کو نہاں النی چھوڑ کے جلی گنی تھی۔
اس کے ناس دو نبدے کھڑے تھے خو اس پہ تظر ر کھے کھڑے تھے۔
چنہ ئے زرا کی زرا نلکوں کو جنٹش دی۔ اس کی گردن لڑکھی تھی بو ہلکی سی
چ ل کن ھ کن
ک
آ یں وا کرنی ہونی آس ناس د ھنے گی۔ ھونا شا مرہ اور دو آدمی۔
اس کے ہاتھ ننجھے نبدھے اور ان نکموں کی صالجنت وہ ہاتھ ناند ھنے سے ہی
جان جکی تھی۔ زنادہ نگ و دو نہیں کرنا پڑی تھی ،انک نار کوشش کرئے پہ ہی اس
ئے ہاتھ کھول لنے تھے لبکن رسی کو اس ئے تھام کے رکھا تھا۔ گول نوں کی آواز ناہر
سے آنی بو چنہ کو اندازہ ہو حکا تھا کہ رنان نہاں آرہا تھا اور نتھی اس کی کرسی اتھائے
وہ لوگ اس جگہ لے جائے لگے چہاں شب موخود تھے۔
ہاتھ بو اس ئے کھول ر کھے تھے اب نس موفع کا ان یطار تھا۔ ڈرنبا بو اس کے
ہاتھوں ہی اننی جان گ نوائے گی۔ پزدل کہیں کی ،جٹسے ہی رنان ئے ناف نوں کا دھبان
انبا جانب میزول کبا وہیں موفع کے قاندہ اتھائے اس ئے اننی گن شوز شانبڈ سے
چ ل ً
ت
تکالے فورا شاشا پہ قاپر کبا۔ جس کا ندلہ نے وہ اس کو ز می کر حکا تھا۔
ہن ل ت چ ت ت تک ن
اور اب وہ نبڈ پہ نانگ سبدھے نے ھی ھی۔ ز م انبا ھی جان نوہ یں تھا
ب ن ج ت ً
کہ وہ کجھ دبوں نک اسی کا ماتم کرنی رہنی۔ درد اب فرنبا م تھا۔ وہ ر کس انداز یں
م ل ت
ت ب ن ت ب ن ت تن
ھی انبا مونا ل ج ک کر رہی ھی۔ اس جال کی فو نج ج ک کر رہی ھی چہاں پہ شب
موخود تھے۔
کمرے سے شادی کی وہ سحاوٹ جتم کر دی گنی تھی خو ہلکا شا انبا سجر تھو نکنے
میں تھی کامباب پہ ہو شکی۔
رنان شاور لے رہا تھا ،چنہ اننی دپر میں انبا لباس ندل جکی تھی اور آرام دہ پراؤزر
ن
سرٹ میں مل نوس نبک لگائے تتھی تھی۔
”کہاں نک گبا کام نمہارا۔۔؟“ رنان شاور لنے تکال بو نالوں میں بولنہ رگڑئے تظر
آنا ،سرٹ سے ندارد رنان’ اس کو انک تظر دنکھنے ڈرنسبگ مرر کے آگے کھڑا ہوا۔
چنہ ئے ئےدھبانی میں اس کو دنکھا کہ سنتبا اتھی تھر اننی تگاہ وانس مونانل
کی طرف کی۔ رنان اس کا کیرانا سمجھ گبا تھا نتھی ہون نوں پہ شاطر مسکان آسمانی۔
اب اس کے زہن سے نالکل تکل گبا کہ رنان ئے اس سے کبا بوچھا تھا۔
”تم ئے کبا کہا؟“ چنہ ئے ستتھلنے ہوئے کہا۔
”میں بوچھ رہا تھا کہ کبا تم آج رات میرے نالکل فرنب شونا نسبد کرو گی؟“ انبا
لہحہ جنی االمکان سنجبدہ رکھنے اس ئے آ نتنے میں چنہ کا عکس دنکھا خو اس کی نات پہ
انک نل کو تھم گنی لبکن تگاہ پہ اتھانی۔
”میں اس کمرے میں موخود ہوں پہ کاقی ہے۔۔“ اس ئے جبانا جاہا۔
”دوسرے کمرے میں تھی ہونی بو میں وہاں تھی آجانا ،مسبلہ کمرے میں رہبا
نہیں ،مسبلہ پہ دوری ہے خو مجھ سے بو پرداشت نہیں ہونی۔۔“ رنان جلبا ہوا ا نسے
ہی اس کے فرنب آنا اور دوبوں ہاتھ اس کے دانیں نانیں رکھنے اس پہ چھکا۔۔ چنہ اس
کے اجانک اس جالت میں فرنب آئے پہ بوکھال اتھی۔ مار ڈھار میں جاہے جتنی تھی بولڈ
ہو لبکن ا نسے جاالت کا اس ئے کتھی گمان ہی نہیں کبا تھا۔
”تم قاصلے پہ رہ کے مجھ سے گقبگو کر شکنے ہو۔۔“ چنہ ئے اس کی آنکھوں میں
دنکھنے کہا۔
”تم تھر قاصلے کی نات کر رہی ہو۔۔ ہماری شادی جس نتباد پہ ہونی ہے اس
ن
کو قاتم رکھبا ہمارا فرض ہے۔۔“ رنان اس کی آنکھوں میں اننی گرے آ کھیں گاڑنا ہوا
بوال۔
”میرج آف االننٹس! میں قاتم ہوں اس ر سنے پہ لبکن زپردسنی خود کو مجھ پہ
مشلط نہیں کر شکنے۔۔“ چنہ ئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے خود سے دور کبا خو
مزند اس پہ چھک رہا تھا۔
رنان ئے اس کا مونانل نبد کرئے شانبڈ پہ رکھا اور اننی گہری تگاہیں اسی پہ
تکائے ہوئے اس کی تھوڑی کو تھامے اجانک اس کا چہرہ ا ننے چہرے کے مقانل
کبا۔ رنان کی اس ئےناک خرکت پہ وہ بوکھال اتھی ،اس ئے ا ننے ناجن اس کی
کبدھے پہ جتھوئے۔
رنان کے ننجھے ہتنے خود کا ن یقس ستتھا لنے اس ئے ئےتفتنی تگاہوں سے اس
کو دنکھا۔ اس کے ہاتھ کانتبا سروع ہو گنے تھے ،رنان ئے واصح محسوس کبا کہ وہ
نتبک ہو گنی تھی اور اس کی غیر ہونی جالت اس کی سمجھ سے ناہر تھی۔
”رنان نس اب۔۔ ننجھے ہ نو۔“ اس کی مزند نٹش قدمی پہ وہ ہکالئے ہوئے بولی
اور نبڈ سے ہی اتھ گنی ،دھڑکن جد سے شوا تھی۔
” ہنے ہنے۔۔۔“ رنان اس کے ا نسے اتھنے پہ اس کو تھا منے کے لنے آگے پڑھا
لبکن اس ئے ہاتھ کے اشارے سے روک دنا۔ وہ کاقی زنادہ نتبک ہو گنی تھی رنان
کی سمجھ سے ناہر تھا کہ اس ئے انشا تھی کبا کر دنا خو وہ ا نسے ری انکٹ کر رہی
تھی۔
ہ جن ن
چب رنان ئے اس کو شائے سے تھامبا جاہا بو وہ ندک کے ھے نی۔
”نلیز۔۔۔ مجھے اکبال رہبا ہے۔“ اس ئے تگاہیں مالئے تغیر کہا بو رنان تھتھک
کے رک گبا۔ کجھ بو تھا خو چنہ کو پرگر کبا تھا جس کی وجہ سے وہ اجانک بوکھال اتھی
تھی۔
گ ن ن جم س
م ک ج
رنان اس کی کبڈنشن ھنے ہوئے ھے ہٹ گبا ،چنہ مرے یں موخود الس
ڈور کو دھکبلنی ہونی ناہر کھڑی ہونی خو الن کی طرف تھی۔ وہاں کھڑے لمنے گہرے
شانس لتنے لگی۔ رنان کے فرنب آئے سے کونی کراہ نت محسوس نہیں ہونی تھی لبکن
ت س
انک عج نب سی جالت ہو جانی تھی اس کی خو وہ خود ھی ھنے سے قاضر ھی۔
ت جم
دنبا میں لوگ ا ننے افئیرز تھی جالئے اور اننی رات رنگین کرئے کو چب دل کرنا
کسی پہ کسی کے شاتھ وفت گزار لتنے وہ خود تھی انسی ہی دنبا سے تھی لبکن اننی جدود
کو ا چھے سے جاننی تھی۔
اور شادی! وہ بو کتھی شوجا ہی نہیں تھا کہ کتھی شادی تھی کرنی اور انک مرد
اس کی زندگی میں رہبا۔ رنان فرنب آئے واال نہال مرد تھا لبکن اننی جلدی تھی اس کے
شاتھ ک یفرنتبل نہیں ہو نانی تھی۔ اس کو الرجی تھی ا نسے چھوئے جائے سے۔ اس
کا دل گ ھیرائے لگبا تھا۔ پہ عادت اس کی اب سے نہیں تھی ،نچین سے تھی نتھی وہ
کسی سے انبا اننحڈ نہیں ہونی تھی۔ وفنی طور کے لنے وہ کسی کے شاتھ نتتھ شکنی تھی
نانیں کر شکنی تھی ہاتھ مال شکنی تھی لبکن خو رنان جاہبا تھا اس سے وہ گ ھیرا جانی
تھی۔
رنان کو اگر اس کی عادت نبا جلنی بو ضرور اس کا مزاق نبانا ،وہ کتنی دپر وہیں
جاموسی میں کھڑی خود کو سمجھانی رہی۔ جائے ک نوں اس نل اننی ماں کی ناد آئے
لگی۔ چہرے کے ناپرات سباٹ ہو گنے جبکہ آنکھوں میں نمی آئے لگی۔ وہ اننی ماں
کے عالوہ کسی سے تھی اننی اننحڈ نہیں تھی اور اننی ماں کے شاتھ اس ئے وفت
تھی نہت کم گزارا تھا اور اجانک ماں کی ناد آرہی تھی۔ اس کو اجشاس ہوا کہ ا نسے
اوور ری انکٹ نہیں کرنا جا ہنے تھا۔
اتھی وہ اندر جائے کو تھی چب ا ننے شابوں کے گرد نازو محسوس ہوئے۔ نازو کو
دنکھنے اس ئے گردن گھمانی رنان پرم تگاہوں سے اس کو دنکھ رہا تھا۔
”پہ نس میری انک خرکت کی وجہ سے نمہیں نتبک انبک آنا تھا؟“ وہ نہت پرمی
سے اس کو کہہ رہا تھا۔
”آنی اتم شوری ،میں زنادہ ری انکٹ کر گنی تھی۔“ چنہ ئے سنجبدگی سے کہا
جم س
جائے وہ کبا ھبا اس کو۔
”جبکہ نمہیں نس سرمانا جا ہنے تھا۔“ رنان ئے سنجبدگی سے کہا جس پہ چنہ اس
کو گھورئے لگی کہ اب پہ کام بو اس سے نہیں ہونا تھا۔
”اس شب کے ننجھے انک وجہ ہے خو مجھے جاننی ہے۔“ شائے سے تھامے اس
ئے چنہ کو ا ننے مقانل کبا ،چنہ ئے اننی گہری تگاہ اتھا کے اس کو دنکھا خو نالکل
سنجبدہ تھا۔
”مجھے اننی واتف کے نارے میں شب جانبا ہے۔“ اس کے چہرے پہ انبا ہاتھ
رکھنے ہوئے بوال اور اس کو آہسبگی سے ا ننے ناس کرئے ستنے سے لگانا۔
”ک یفرنتبل پہ ہو بو نبا شکنی ہو۔“ رنان اس کو ک یفرٹ زون د نبا جاہبا تھا نتھی
اس کو ا ننے پرم حصار میں رکھا۔ چنہ جاموش سی اس کے حصار میں تھی ،دل کی
دھڑکن انک نار ڈوب کے اتھری لبکن اس ئے گہرا شانس ت ھرئے خود کو ستتھاال۔ اس
ئے خود کے نازو اس کے گرد نہیں ناندھے تھے نس کھڑی رہی۔
”نبکشٹ ڈانمبڈ ڈنل میں کرئے جاؤں گا تم نہیں۔“ انک دم ہی رنان ئے
س
نات کا ُرخ نلبا کہ چنہ اس سے دور ہونی نا ھی سے د کھنے گی۔
ل ن جم
ل جم س
”اور اس کی وجہ؟“ وہ نا ھی سے بوچھنے گی۔
ن م ت َ
”اب آالننٹس میں میں ھی شا ل ہوں بو پہ ڈ ل میں کروں گا پہ نات میں
مبکس سے کر حکا ہوں اور نمہارا کونی اغیراض نہیں جا ہنے مجھے۔“ رنان ئے سنجبدگی
سے اننی نات اس کے شا منے رکھی کہ چنہ کے ما تھے پہ نل نمودار ہوئے۔
”ڈانمبڈز کی ڈنل ہمٹشہ میں کرنی ہوں اور پہ میرا پزنس ہے تم ئے خو آالننٹس
اننی سنٹ کی ہیں انہیں پہ دھبان دو۔“ چنہ ئے اس کو جٹسے ا ننے پزنس سے دور
ر ہنے کو کہا جس پہ وہ ہٹس دنا۔
”لبکن پہ ڈنل میں کروں گا ملٹسکا اور تم شاتھ جائے کی صد تھی نہیں کرو
گی۔“ اس کے رجشار کو چھوئے ہوئے وہ مشکرا کے بوال اور کمرے کی طرف پڑ ھنے لگا
قلحال کے لنے چنہ جاموش رہی۔
کمرے میں وانس آنی بو وہ سرٹ نہن رہا تھا چب چنہ کی تگاہ اس کے نشت پہ
گنی چہاں کبدھے پہ انک سبانیر کا نت نو تھا۔ اس کے نام کی طرح نت نو تھی ،جٹسے چنہ
کے نازو پہ تھا۔
”میری عادت ڈال لو ک نونکہ ہر نار نمہارے نتبک ہوئے سے میں دور نہیں
جائے واال۔۔“ وہ نبڈ کی جانب پڑھی کہ رنان کی آواز ستنے رک گنی۔
”اننی مبڈنشن کھا کے شونا۔“ رنان ئے ناد دالنا الزمی سمجھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دامیر ئے اس کو پرمی سے نبڈ پہ لبانا جاہا جس ئے اس کی گردن کے گرد نازو
چمانل کر ر کھے تھے لبکن اس کو چھوڑئے کی روادار پہ تھی۔
”رنلبکس پرنسٹس۔۔ میں ادھر ہی ہوں نمہارے ناس۔“ اس ئے پرمی سے اس
کی کمر سہالئے ہوئے کہا۔
”تم ک نوں نہیں اس کو ڈھ نوڈ رہے ،نمہارے ناس ا ننے گارڈز ہیں ان کو کہو کہ
فروا کو ڈھونڈ کے النیں۔“ دامیر کے کہنے وہ ننجھے ہتنی شکوہ کرنی ہونی بولی ،مشلشل
ت کن
روئے کی وجہ سے اس کی ناک اور رجشار سرخ ہو جکے تھے جبکہ آ یں ھی شوج رہی
ھ
تھیں۔
”علتبا ،اس نات کو نین شال ہو گنے ہیں ہو شکبا ہے وہ اننی زندگی میں خوش
ہو۔۔ اس نات کو عرصہ ہو گبا ہے کبا نبا نمہیں مغلوم ہو لبکن اتھی نمہیں ناقی نابوں
کے شاتھ ناد پہ ہو۔۔“ دامیر ئے اس کے ہاتھ تھامے اس کو سمجھانا جاہا۔
”نمہیں لگبا ہے عرصہ ہو گبا ہے لبکن مجھے نہیں ،مجھے اتھی تھی انشا محسوس
ن ت ک ہ جن ن
ہونا ہے کہ وہ شب آدمی اتھی تھی ہمارے ھے یں ،سی ھی وفت وہ نہاں آ یں
گے اور مجھے لے جانیں گے اور فروا تھر اسی عذاب میں چھونک دی جائے گی۔“ اس
ن م ج ً
کی سرٹ کو متھی میں تھرے وہ دھتمے مگر اس کی کڑ یں ا نحاجا رونی ہونی بولی۔ دامیر
ئے اس کے نال سنوارئے اس کے چہرے کو تھاما۔
”میں ڈھونڈوں گا اس کو ،کل ہی میں شب مغلوم کرنا ہوں لبکن میری جان
اتھی کے لنے ہم دوبوں کو تکل یف پہ دو۔۔“ اس کو زپردسنی خود سے لگائے ہوئے
بوال۔ دامیر کو اس کو اکبال چھوڑ کے جائے پہ اقسوس ہو رہا تھا۔
گنی۔
”اتکل نہیں آئے آپ لوگوں کے شاتھ؟ میں چنہ سے ملی تھی نہیں کبا شوچ
رہی ہو گی وہ۔“ اس کے خواس کجھ ستتھلے بو نادم سی بولی شاتھ ہی مبکس کا بوچھنے
لگی خو وافعی اب جٹسے اس سے عاقل ہو جکے تھے۔
”اتکل پزی ہیں آج کل ،صنح نا سنے پہ مل لتبا چنہ سے۔۔“ اس کے نالوں پہ
ہونٹ ر کھے کہنے لگا۔
”کھانا کھا لبا تھا؟“ اس کے ہاتھ کو ا ننے ہاتھ میں لتنے وہ بوچھنے لگا کہ علتبا ئے
انبات میں سر ہالنا۔
”تم ئے کھانا۔۔؟“ علتبا کو اجشاس ہوا کہ وہ لوگ تھکے آئے تھے اور اس کی
وجہ سے اجانک پرنشان ہو گنے ہو نگے۔
”نہیں اور کونی جاص طلب تھی نہیں ہے۔“ دامیر ئے کبدھے احکائے۔
علتبا اب نہلے کی نانسنت کجھ پرشکون تھی۔ دامیر ئے اس کے ہاتھ کو ل نوں
سے لگانا وہ کتنی ندل جکی تھی نا جاالت ئے اس کو کتبا ندال تھا۔ چب نہلی نار ان کی
مالقات ہونی تھی وہ کتنی پراعتماد تھی۔ جادنات ئے اس کو کتبا کمزور نبا دنا تھا۔ نین
شال نہلے تھی مبکس کو اس کی جالت دنکھنے ڈاکیر کے ناس لے جانا پڑا تھا ناکہ ان
وافغات کو وہ زہن سے تکال نائے۔ اب تھر وہ انہیں وافغات کو شوچ رہی تھی۔
م
فروا! اس کے نارے میں اس کو کمل مغلوم کروانا تھا اب۔۔
چنہ ئے نبانا کہ ڈرنبا ئے اس پہ چملہ کبا تھا تعنی اس کا کانیرنکٹ اتھی تھی
جل رہا تھا لبکن اس نار ڈرنبا ئے اننی مرضی سے کام کبا تھا تعنی نس وار کبا تھا جان
ل نوا چملہ نہیں۔ وہ اتھی تھی چنہ کے ننجھے تھی ،انہوں ئے صجنح شوجا تھا کہ ڈرنبا کتھی
علتبا کی دوشت تھی ہی نہیں۔
علتبا اس کے ہاتھ کی اتگل نوں کو کتھی الجھانی بو کتھی کھول د ننی ،دامیر ئے
اس کا نہی ہاتھ تھامے اس کے چہرے کو اوپر کبا اور گردن کو پرمی سے چھوا،
اجانک ہونی کاروانی پہ وہ گڑپڑا گنی۔
”مجھے نہت نتبد آرہی ہے۔۔“ وہ ہلکا شا متمبانی کہ انک مبہم سی مشکراہٹ
دامیر کے ل نوں پہ آسمانی۔
”شو جاؤ۔۔۔“ ہٹس کے اس کے ہاتھ کو خومبا ہوا بوال کہ اس کے حصار میں
گ ھ کن
آ یں موند نی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صنح نا سنے کے تغد ڈرنک ،رنان اور دامیر نت نوں شک نورنی روم میں موخود تھے۔ چنہ
علتبا کو لنے ناہر الن میں تھوڑی کسرت کروا رہی تھی۔
”اگر کسی گتبگ ئے اننی جان نحانی ہو بو شب سے نہلے وہ کراؤنڈ ہبڈ میں
جائے گا ن نوپرل گراؤنڈ ہے چہاں کونی جان سے نہیں مار شکبا البا اس کو گارڈ کبا جانا
ہے۔“ رنان ئے ستنے پہ نازو ناندھے شا منے نئیرز کا نکھراوا دنکھنے ہوئے بوال۔
”ہم سر جارج سے مغلوم کر لیں گے اگر فباد وہاں رکا تھی بو۔۔“ دامیر ئے کہا
بو رنان ئے اس کو آپرو احکائے دنکھا۔
”اننی آشانی سے بو وہ نبائے والے نہیں ہمیں۔“ ڈرنک کے کہنے پہ دوبوں ئے
نانبد انداز میں سر ہالنا۔
”نٹشا ہر چیز کو خرند لتبا ہے۔“ دامیر ئے الپرواہی سے کہا کہ انک معنی چیز
مسکان رنان کے ہون نوں پہ آنی۔
”فباد کو شب سے نہلے شوپزرلتبڈ میں ہی دنکھبا ہو گا کجھ پہ کجھ بو مل ہی جائے
گا اور میں تفین سے کہہ شکبا ہوں مبکس اس سے تھی زنادہ جا ننے ہیں کجھ۔۔“
دامیر کے کہنے پہ رنان ئے تھی انبات میں سر ہالنا۔
” ہلکے میں لے رہے ہیں ہمیں وہ ،کڈن نپ کر کے ان سے اگلوا نا لیں ہم
شب۔۔“ رنان کے مسورے پہ دامیر اس کو گھورئے لگا۔
”علتبا کو نس انبا ناد تھا کہ وہ نچ گنی تھی لبکن اس کے تغد وہ کہاں رکیں پہ
شب مبکس جا ننے ہیں۔ کال کرو ان کو۔۔“ دامیر ئے اننی ہلکی پڑھی سنو ک ھحائے
ہوئے کہا۔ ڈرنک ئے سر ہالئے مونانل تکاال۔
”اس وفت کہاں ہیں آپ ،ضروری نات کرنی ہے۔“ دامیر ئے مبکس کے فون
اتھائے ہی نبا نمہبد کے کہا۔
”ضروری نات کے تغیر تم لوگوں ئے کتھی کال تھی نہیں کی۔“ مبکس کے
طیزپہ انداز پہ رنان سر چھبک کے رہ گبا۔
”مبکس! فروا کہاں ہے؟“ دامیر کے بوچھنے پہ دوسری جانب جبد نل جاموسی
چھانی رہی۔
”ان نابوں کو نین شال ن نت گنے ہیں دامیر۔۔ اب چب شب تھبک ہے بو
دونارہ ک نوں انہیں نابوں کی کھال ادھیڑ رہے ہو۔ نمہیں نس علتبا کی حقاظت کرنی
ہے۔“ مبکس ئے سحت لہچے میں کہا کہ نات کو گھمائے پہ دامیر کے چہرے پہ سرد
ناپرات واصح ہوئے۔
”علتبا انہیں نابوں کو تھولی ہونی ہے شکر ہے ،ان کو چب رنشک نو کبا تھا نب
فباد ئے انک نار تھر چملہ کبا تھا جس پہ علتبا کو نحا لبا تھا لبکن وہ فروا کو لے گنے
تھے۔“ مبکس کی نات پہ دامیر اور رنان ئے انک دوسرے کی جانب دنکھا چب ڈرنک
نیزی سے لنپ ناپ ان کے شا منے النا۔
”آپ کی جانب سے ان ئےوفوف نوں کی امبد نہیں تھی۔ پہ نانیں چھبا کے
جائے آپ ئے کون شا قاندہ نہنحانا ہے علتبا کو۔“ دامیر ئے ناگوار لہچے میں کہنے کال
کاٹ دی۔
”فباد نامی کبا ،ڈرنبا کا کبا نبا۔“ رنان ئے ڈرنک کو دنکھا جس ئے لنپ ناپ
آگے کبا۔
”ڈرنبا البانبا سے چب اکبڈمی آنی تھی بو اشاشن کی پرنتبگ لے رہی تھی اور جال
ہی میں اس کو چنہ متم کو اشاشن کرئے کا کانیرنکٹ مال ہے لبکن دو نار ناکام ہونی
ہے۔ پہ نات تھی نبا جلی ہے کہ وہ جاکم کی فبانسی ہے۔۔“ ڈرنک ئے اتھی اتھی ملی
مغلومات ان کے گوش گزاری کہ دوبوں کو چیرت ہونی۔
”آکشن پہ جاکم ئے ہی ڈرنبا کو لبا تھا اور دوگنی فتمت پہ ،تھر وہ شاشا کے
نٹشمنٹ میں تھی تھی شب چھوڑو اس کو اتھاؤ۔۔“ رنان ئے شو جنے ہوئے کہا کہ
شاشا کے شاتھ تھی اس کی کڑی خڑ رہی تھی اور جاکم تھی اتھی م یظر عام پہ نہیں آنا
تھا۔
”ڈرنبا کے ناپ لوسین کو تھی اتھاؤ ،مار ڈھار جانبا ہوگا وہ اتھی تھی لبکن نڈھے
کی ہڈبوں میں وہ جان نہیں ہو گی خو تم میں ہے ڈرنک ،شام نک نہاں ہونا جا ہنے
لوسین۔“ رنان ئے ڈرنک کو دنکھنے کہا جس ئے سر انبات میں ہالنا اور انبا فون
تکالے ا ننے آدم نوں کو کال کرئے لگا ناکہ وہ جلد از جلد تکل شکیں۔
”سر میں ئے متم کے کالج سے تھی اتقارمٹشن تکلوانی ہے وہاں تھی فروا متم کا
مزند کونی رتکارڈ نہیں چب سے وہ وکٹشن پہ گنی تھیں ،ان کے گھر کا انڈرنس مغلوم
ہوا ہے لبکن وہاں کجھ تھی نہیں مال۔“ ڈرنک ئے مزند کہا بو دامیر شوچ میں ڈوب
گبا۔
”مبکس کے مطابق وہ فباد کے ناس تھی اور فباد کا مین مقصد علتبا کو جاصل
کرنا تھا ک نوں؟ تھر چنہ کو اشاشن کرنا ،چنہ اور علتبا کزپز ہیں لبکن فباد ئے انک نار
تھی مبکس کو دھمکی نہیں دی۔۔۔ وہ ان دوبوں لڑک نوں سے کبا جاہبا ہے۔“ رنان
ئے بوری نات دہرانی۔
”مبکس سے کہو کہ وہ نہاں آ نیں۔“ دامیر ئے نس انبا کہا۔
”دامیر ،علتبا کجھ اور تھی جاننی ہے ،اگر کہو بو میں بوچھ کے دنکھوں۔“ رنان
ئے پراعتماد لہچے میں کہا۔
”وہ ڈرنی ہے تم سے۔۔“ دامیر ہٹشا تھا۔
”اسی کا قاندہ اتھاؤں گا میں۔۔“ رنان کے چہرے پہ شاطر مسکان دنکھنے وہ
سجنی سے گھورئے لگا۔
”علتبا کو میں دنکھ لوں گا تم چنہ سے بوچھو ،بوری نات بو نا نبائے کی اس ل نو
فتملی ئے قشم کھانی ہے۔“ دامیر پڑپڑانا ہوا شک نورنی روم سے تکال۔۔
اصل نات اتھی تھی شب چھبا رہے تھے۔ رنان تھبک کہہ رہا تھا علتبا ئے تھی
کجھ چھبانا تھا جس پہ وہ خود تھی پروس تھی۔ اور مبکس انہوں ئے بو آدھی نات ہی
اتھی نبانی تھی۔
تچ ن
علتبا اتھی سیرنجبگ کر رہی تھی جبکہ چنہ ناس ہی ئیر پہ ھی لنپ ناپ آن
ت
ن لہ ع ن ن ت ت تک ن
نے ھی ھی۔ دامیر کو ا نی طرف آنا د کھ لتبا ئے کی سی سما ل ناس کی۔ اس
چ ہن
کے ناس نجنے دامیر ئے اس کے رجشار کو ھوا۔
”پہ اچھی انک نونی ڈھونڈی ہے تم ئے۔۔“ دامیر ئے اس کو سراہبا جاہا۔
”چنہ ئے کہا وہ مجھے تھوڑا نہت سبلف ڈ تقنٹس شکھائے گی۔“ وہ خوسی سے
اس کو نبائے لگی۔
”اچھی نات ہے۔۔“
”فروا کا کجھ مغلوم ہوا؟“ علتبا جاننی تھی کہ وہ شب نہی کجھ ڈشکس کر رہے
تھے نتھی آنکھوں میں امبد الئے بوچھنے لگی دامیر ئے نبا کجھ کہے سر ہالنا۔
”ہم ڈھونڈ رہے ہیں۔۔“ اس ئے پرمی سے اس کے نالوں کو شانبڈ پہ کرئے
کہا کہ چہرے پہ امبد چھانی ہلکی سی ماند پڑی۔
”تم اتکل مبکس کو کٹسے جاننی ہو؟“ وہ اس کو لے کے اندر کی طرف پڑھا چب
الؤنج کے صوفے پہ نتتھنے دامیر ئے بوچھا۔
”میرے نانا کے دوشت تھے ،نہت چھونی تھی چب ان کے ناس آگنی تھی۔“
”کبا نمہیں نہیں مغلوم پہ شب؟“ علتبا ئے چیرانگی سے کہا۔
”پہ بو مغلوم ہے مجھے ،بو کونی دوسرا رنلت نو تھی نہیں ہے؟“ دامیر ئے سرسری
شا بوچھا۔
”انک آنانی گھر ہے ناکسبان میں لبکن میں کسی اور کو نہیں جاننی۔“ علتبا ناد
کرنی ہونی بولی۔
”علتبا اگر کجھ انشا ہے خو مجھے جانبا جا ہنے بو پرنسٹس چھبانا نہیں۔۔۔ نمہاری
زندگی سے زنادہ میرے لنے اب کجھ تھی ضروری نہیں ہے۔“ دامیر ئے اس کو
انبان نت تھرے لہچے میں کہا کہ علتبا نس سر ہال گنی۔
”تم لوگ چب تھی ناہر جائے ہو کونی پہ کونی خوٹ لگوا آئے ہو اس نار چنہ کی
نانگ پہ زچم ہے ،کبا کرئے تھرئے ہو ناہر۔۔“ علتبا انک دم ناد آئے پہ دامیر سے
حقگی تھرے لہچے میں بولی جس پہ وہ ہٹس دنا۔
”مرڈر کر کے آئے ہیں۔“ وہ پراسرار لہچے میں بوال کہ علتبا ئے اس کو ناراض
تگاہوں سے دنکھا۔
گ کن
”وپری فنی۔۔۔“ وہ آ یں ھما نی۔
گ ھ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”وہ زندہ نہیں ہے۔۔۔ اس کی نالش میں وفت صا تع پہ کرو۔“ رنان چب اس
کے شا منے نتتھا بو لنپ ناپ سے تظریں ہبائے تغیر چنہ ئے کہا ،رنان ئے خونک کے
اس کو دنکھا۔ وہ کس کی نات کر رہی تھی فباد نا تھر فروا۔۔۔؟
”فروا!“ انک نام لتنے چنہ ئے اس کی الجھن دور کی۔
”اگر تم جاننی تھی بو ہمیں نبانا ک نوں نہیں؟“ رنان آنکھوں میں شغلے تھرے
اس سے بوال۔
”مجھ سے بوچھنے بو نبا د ننی ،علتبا کو اس نات کا علم پہ نہلے تھا اور پہ ہی
اب۔“ وہ سنجبدگی سے بولی کہ رنان کرسی سے نشت تکائے نتتھ گبا۔ چنہ ئے تھبک
کہا کہ اس سے بو فروا کا زکر ہی نہیں کبا تھا۔
اور مبکس ئے تھی تھبک کہا تھا خو نات وہ اتھی جا ننے نک نہیں چنہ اس کی
کھال اڈھیر جکی ہونی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
”پہ نات میں اس کو کٹسے نباؤں گا ،نمہیں مغلوم ہے وہ رابوں کو اتھ کے رونی
م ص ن ُ
تس ل
ہے ضرف ا نی اس دوشت کے نے۔“ رنان کی نات نے وہ ا ل یں پرنشان ہو گبا
تھا۔ فروا کی موت کی چیر انسی تھی کہ وہ خود کتنی دپر نک شاکت رہا تھا۔
”دامیر پہ وافعی مسکل ہے اس کو نبانا لبکن اس سے پہ نات اب چھبانی نہیں
جا شکنی۔“ چنہ ئے سنجبدگی سے کہا کہ دامیر ئے چہرے پہ ہاتھ ت ھیرئے انبات میں
سر ہالنا۔
پہ نات علتبا سے چھبائے والی تھی تھی نہیں ،انشا کرنا اس کو دھوکے میں رکھبا
ہونا خو تغد میں اس کے لنے نہت تکل یف دہ تھا۔
”رنلبکس پردر۔“ رنان ئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے خوصلہ دنا۔ علتبا اتھی
روم میں تھی ،آج کل وہ دن میں انک دپڑھ گھتنے کے لنے شو جانا کرنی تھی نتھی
نت نوں الؤنج میں موخود تھے۔
”مبکس ئے تھر چھوٹ بوال ہم سے۔۔“ دامیر ئے اقسوس سے کہا کہ جتنی نار
ان سے بوچھا وہ ہمٹشہ آدھی ادھوری نات ہی نبائے۔
”ان سے بوفع تھی کبا لگا شکنے ہو ،ان کو انبا کام عزپز ہے نس۔“ چنہ ئے گہرا
شانس ت ھرئے کہا کہ رنان ئے گہری تگاہوں سے چنہ کو دنکھا جٹسے اس کی نات کہنے
کا مقصد سمجھ رہا ہو۔
ُ
”ارادہ بو نہیں تھا میرا نبائے کا لبکن نبا دوں ،اس کا بورا نام فباد جا م ہے۔“
ک
چنہ ئے انک نل ان دوبوں کو جاموسی سے دنکھا تھر الپرواہی سے کبدھے احکائے
ہوئے جٹسے تم تھوڑا۔ دامیر ئے بو چیرانگی سے اس کو دنکھا جبکہ رنان ئے سجنی سے
چیڑے تھتنچے ،پہ لڑکی جان بوچھ کے انحان نتنی رہی تھی۔
”فباد ،جاکم انک ہی سحص ہے اور ڈرنبا فباد جاکم کی فبانسی ہے۔۔“ دامیر کے
کہنے پہ چنہ ئے سر ہالنا جبکہ رنان مشلشل چنہ کو سرد پرفبلی تگاہوں سے گھور رہا تھا۔
”ڈرنبا نہیں ہے بو فباد تھی نہیں پہ ہے۔۔۔“ دامیر ئے کہا جس پہ چنہ ئے
نانبدی انداز میں سر ہالنا۔
”تم فباد کے نارے میں مزند کبا جاننی ہو چنہ۔۔۔؟“ کجھ دپر تغد دامیر ئے
سنجبدہ لہچے میں چنہ سے بوچھا جس پہ وہ کبدھے احکا گنی۔
”میں زنادہ نہیں جاننی ،اتقبکٹ زنادہ نانیں مجھے تم سے ہی مغلوم ہونی ہیں خو
تھی علتبا اور فروا کے شاتھ ہوا ،مزند مجھے پہ مغلوم ہے کہ اس کا کتبکشن اتکل سے
زنادہ ہم سے ہے لبکن مجھ سے زنادہ علتبا اس کی تظروں میں ہے۔۔“ چنہ ئے دامیر
کو دنکھنے ہوئے کہا۔
”فروا جاننی تھی شب۔۔“ چنہ ئے دھتمے لہچے میں کہا۔
دامیر کا دھبان انک نار تھر علتبا کی طرف گبا کہ وہ اس کو فروا کے نارے میں
کٹسے نبائے گا۔ اننی مصنت نوں کے تغد اس ننحاری کو موت ئے جا لبا۔ وہ ئےموت
ماری گنی تھی۔
”کٹشا ندلہ۔۔۔؟“ رنان کے سباٹ انداز میں دو القاظ پہ مستمل شوال پہ مبکس
ئے اس کی جانب انک تظر دنکھا تھر کبدھے احکا گنے جٹسے کہا ہو کہ مغلوم نہیں۔
”چب سے ہم آپ کو جا ننے ہیں نب بو علتبا کے قادر کا کتھی زکر نہیں سبا تھا
ہم ئے۔“ رنان نبک چھوڑ کے آگے کی طرف ہوا اور دوبوں ہاتھوں کی اتگل نوں کو ناہم
تھٹشانا۔ اس کے شوال پہ مبکس ئے اس کو سنجبدگی سے دنکھا۔
”میری نہت سی نابوں سے تم لوگ انحان تھے اسی لنے۔ کبا کتھی علتبا نا چنہ
ن
کا مغلوم ہوا تم لوگوں کو؟“ انہوں ئے جٹسے سحت لہچے میں کہا کہ رنان ئے آ کھیں
گھمانیں۔
دامیر نا رنان اتھی کجھ کہنے کہ انک خوشگوار آواز ستنے شب کی تظر علتبا پہ گنی۔
”اتکل آپ آ گنے۔۔۔“ وہ مبکس کو د نکھے انہیں کی جانب جلی آنی تھی۔
”کٹسی ہے میری نچی۔۔“ کھڑے ہوئے انہوں ئے نبار سے بوچھا جس پہ وہ انبا
جال اخوال نبائے لگی شاتھ ہی ان کے جلدی پہ آئے پہ شکوہ تھی کرئے لگی۔
وہ دوبوں کجھ دپر نک نانیں کرئے چب رنان اور چنہ تھی تھوڑی دپر تغد ہی
وہاں سے اتھ گنے۔
علتبا کو مبکس کے شاتھ اکبال چھوڑے دامیر کنچن میں آگبا ناکہ ڈپر کی نباری کر
شکے۔
”ڈپر بو کر کے جانیں گے آپ۔۔“ دامیر ئے کنچن سے ہی بوچھا۔ اوین کنچن
تھا چہاں سے وہ علتبا اور مبکس کو نانیں کرنا دنکھ رہا تھا۔
”نہیں ،مجھے ہونل جانا ہے رات نک اور تھر کل انک اور منتبگ ہے جس کے
تغد میں وانس انلی تکل جاؤں گا۔“ مبکس ئے اس کو دنکھنے ہوئے کہا ،دامیر ئے
انک تظر ان کو دنک ھا۔ منتبگ تعنی کل تھر سے ہبڈ چمع ہوئے والے تھے۔
”آپ نہیں رکیں گے میرے ناس؟“ علتبا کے بو لنے پہ دامیر ئےشاچنہ الجھا۔
میرے ناس سے کبا مراد تھا۔ اگر وہ نہاں ر کنے بو کبا علتبا ان کے ناس رہنی۔
ئےشاجبگی میں ہی اس کے ما تھے پہ نل ننے۔
”نہیں میں دامیر کو کہوں گا نمہیں میرے ناس لے آئے کجھ دبوں کے لنے،
اتھی پربولبگ نہیں کرو گی تم۔“ مبکس اس کو پرمی سے بولے بو علتبا کی چمک ماند
پڑی اور نس سر ہال گنی۔ اس ئے دامیر کو دنکھا خو وانٹ سرٹ کے کف فولڈ کنے
کجھ خوپ کر رہا تھا ،اس کے گہرے تھورے نال ما تھے پہ نکھرے تھے ،نازو اور
ہاتھوں کی نسیں تھولی تھیں۔ چہرے پہ کونی ناپر موخود نہیں تھا۔ وہ آج تھی انبا ہی
ہتبڈسم لگا تھا جتبا علتبا کو نہلے دن لگا تھا۔
ھ کن
وہ اس کو کاقی دپر نک د نی رہی چب دامیر ئے اس کی جانب تگاہ اتھانی ،خود
کو دنکھبا نا کے اس ئے آنکھ دنانی کہ وہ سنتبا اتھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”تھوڑی پرنکٹس کرنا جاہنی ہو؟“ چنہ مبکس کے ناس سے اتھنے آرمری میں
جائے لگی تھی چب ننجھے سے رنان کی آواز ستنے نلنی۔ اس کو چیرت ہونی کہ وہ اس
کو پرنکٹس کی دغوت دے رہا تھا۔ اس ئے کبدھے احکائے۔
”سنور۔۔!“ وہ اس سے نٹس انبڈ پرکس سبکھے گی اس سے اچھا کبا موفع تھا۔
وہ لوگ شونبگ اپرنا میں آئے چہاں گلوز ،ہبڈ سنٹ اور گیز رکھی تھی۔ چنہ ئے
وہاں سے انک نسبل ہ یکلر انبڈ کوچ اتھانی اور اس کی مگزین جبک کرئے لگی۔
”میں گالک کو پرجنح دوں گا۔۔“ رنان گالک نسبل اتھانا ہوا اس کو جبک
کرئے لگا۔ اننی جبکٹ انارے اس ئے شانبڈ پہ ر کھے نتبل پہ رکھی ،اب وہ انک سباہ
نتبان میں موخود تھا جس میں سے اس کے تھولے مشلز تظر آرہے تھے۔
رنان کے آدمی شا منے لگے ستنحو کو انک جگہ پہ سنٹ کرئے لگے ،رنان ئے اس
کو تھوڑا ننجھے سنٹ کرئے کو کہا۔
شانبڈ کی شاری النٹس کم کر دی گنی تھیں اور نس نارگنٹ سے ان نک کی انک
الین میں النٹس سنٹ تھیں۔ آنکھوں پہ گالسز نہنے چنہ ئے انبا نارگنٹ سنٹ کبا اور
انک کے تغد انک قاپر کرنا سروع کنے۔
”اگر کونی اجانک نمہارے ننجھے سے چملہ کرنا جاہے بو۔۔۔“ رنان ئے ننجھے سے
اس کے کان کے فرنب ہوئے کہا کہ اس کی آواز ا ننے فرنب سے ستنے چنہ کو ا ننے
رونگھنے ک ھڑے ہوئے محسوس ہوئے۔ اس ئے ا ننے ناپرات کو سباٹ رکھا چب اجانک
اس ئے انک ہاتھ سے گن چھوڑے ا ننے نانگ اجانک گھمائے رنان کے نانگ کے
ننچ اتکانی اور ا ننے ہاتھ سے اس کو کبدھے کو چھ یکا د ننے نتتھ کے نل گرانا ،اس کا
انک گھتبا اس کے ن نٹ پہ رکھنے اس پہ گن نانی۔
”بو۔۔۔ میں اننی تھی ئےچیر نہیں۔“ اس کے چہرے پہ انک قانحاپہ
مشکراہٹ اتھری کہ رنان ئے سبانسی انداز میں اپرو احکائے۔
”نانس نٹ۔۔۔“ انبا کہہ کے رنان ئے اننی نانگ موڑئے اس کی نشت پہ ہلکی
سی ماری کہ چنہ کا نبلٹس خراب ہوا اور اسی کا قاندہ اتھائے ئے اس کی گردن کو
گرفت میں لتنے دوسرے ہاتھ سے گن چھتنی اور نازی نلنی۔ اب صورت جال پہ تھی
کہ چنہ کی نشت زمین پہ اور رنان اس اس کے اوپر چھکا ما تھے پہ گن نائے ہوئے
تھا۔
”وار تھاری پڑ جائے گا۔۔“ رنان ئے ہلکی طیزپہ مشکراہٹ لنے کہا۔ چنہ ئے
رنان کا طرتفہ اسی پہ آزماپہ جاہا لبکن وہ رنان اس کی دوبوں نانگوں پہ انبا گھتبا فولڈ کنے
اس پہ وزن ڈالے ہوئے تھا۔
ن
”میرے اوپر سے ہ نو اب۔۔“ چنہ ئے آ کھیں اوپر کرئے ما تھے پہ رکھی گن
کن
د ھی تھر رنان سے کہا۔
”اگر کتھی کسی کو ننچے گرانا ہو بو شاتھ ہی نانگ پہ قاپر کر دو ،چب نک وہ
ستتھلے دوسرا وار کبدھے پہ تھر آگے نمہاری مرضی چہاں وار کرنا جاہو جٹسے اتھی تم
ئے میرے دل پہ وار کر دنا۔۔“ اس پر سے ہتنے رنان ئے اتھائے کے لنے چنہ کے
آگے ہاتھ کبا جس کو تھامے وہ کھڑی ہونی ،اس کے کھڑے ہوئے ہی رنان ئے اننی
ن
جانب کرئے آخری نات زومعت نت سے کہی کہ وہ آ یں ھما کے رہ نی۔
گ گ ھ ک
ح ح ھ کن
”و نسے ہی قانتبگ ہو نبا گن کے بو آ یں اور ن نٹ کے ن لے صے پہ وار کرنا
نہیر ہو گا۔“ رنان ئے مزند کہا بو چنہ ئے انبات میں سر ہالنا۔
”اب مجھ پہ وار کرنا ہے۔۔“ رنان اس سے قاصلے پہ ہونا بوال بو چنہ ئے بوزنشن
سنٹ کی ،رنان ئے اس کے نیروں کی جانب دنکھا چہاں اس ئے نجھلے ناؤں کو
مضنوطی سے زمین پہ چمانا اور دوسرا ناؤں اس سے آگے رکھا ،ہاتھوں کی متھباں
نبانیں۔ تھر وہ رنان کی جانب لبکی اور ہاتھ سے چہرے پہ وار کبا جس کو اس ئے
آشانی سے روک لبا۔ چنہ کو خود سے دور دھکبلنے اس ئے تھر اشارہ کبا بو چنہ ئے
بوزنشن لی کہ رنان ئے تقی میں سر ہالنا۔
”علطی۔۔۔ چب وار کرنا ہو بو انک سبکبڈ تھی پہ لو خود کی بوزنشن سنٹ کرئے
میں ،مقانل نمہارا وار نہحان لے گا۔“ رنان ئے اس کی نانگ اور ہاتھوں کی جانب
اشارہ کرئے کہا۔
”اب رنلبکس سبدھی کھڑی ہو جاؤ۔“ اس ئے تھر موفع دنا۔ چنہ ڈھبلے انداز میں
کھڑی ہونی۔
”انبک۔۔۔“ رنان کے لقظ ادا کرئے کی دپر تھی کہ چنہ نبا سبکبڈ صا تع کنے
اس کی طرف لبکی اس نار ہاتھ نہیں اس ئے نازو کا اسیعمال کبا اور اس کی نتتھ کی
طرف ہوئے گردن پہ وار کبا۔
رنان تفجراپہ مشکرانا ،اس ئے نہت جلدی نک کبا تھا اور ا ننے کرئے والے وار
کی ہ نٹ تھی نہیں دی تھی۔ اس کے نازو پہ دو نار ہاتھ سے اشارہ کبا بو چنہ ئے
گرفت ڈھبلی کرئے چھوڑا۔
”قاننتبگ میں ہمیں سبکبڈ سے تھی کم وفت نہیں ملبا کہ خود کو قاننتبگ
ستنٹس میں النیں۔ دکھاؤ کجھ اور کرو کجھ اور۔۔“ رنان ئے اب خود کا نشاپہ سنٹ کبا
اور شا منے زنادہ قاصلے پہ لگے ستنحو پہ گولباں جالئے لگا۔
”ا ننے نارے میں نباؤ کجھ۔۔“ اننی شونبگ سے قارغ ہوئے رنان ئے چنہ سے
بوچھا خو ننجبگ نبگ پہ پرنکٹس کر رہی تھی۔
”مجھے اکبلے رہبا نسبد ہے۔“ چنہ ئے نبا کسی ناپر کے پرجشنہ کہا کہ رنان ئے
تگاہ اتھائے اس کو دنکھا۔
”پہ بو میں جان گبا ہوں اس کے عالوہ۔“
”مجھے دوسروں کو خود کے نارے میں نبائے کا نالکل تھی شوق نہیں۔“ اس
کے اسی انداز میں خواب پہ رنان کے ہاتھ نل تھر کے لنے تھمے خو ا ننے ہاتھ پہ کیڑا
لت نٹ رہا تھا۔
”دوسروں کو چھوڑو مجھے نباؤ۔۔“ رنان ئے الپرواہی سے کہنے دونارہ کیڑا ہاتھ میں
گ ت ن کنب
چ
لتنتبا سروع کبا کہ چنہ ئے اس کو ھی تگاہوں سے د کھا۔ ھر سر ھبک نی۔
چنہ گن کو رکھنی وہاں سے جائے لگی کہ رنان ئے اس کو جا لبا اور اس کا نازو
کو تھامے ا ننے شا منے کبا۔
”اننی مام کے نارے میں نباؤ۔“ رنان ئے اس کی آنکھوں میں دنکھا چہاں کونی
تھی نبا ناپر نہیں اتھرا تھا۔ وہ نالکل سنجبدگی سے اس کو دنکھ رہی تھی۔
”میری ماں مر گنی ہے اور اس نات کو کاقی شال ن نت گنے ہیں۔“ چنہ کہنے
آخر میں ہلکا شا مشکرانی۔
”مبکس میرا ناپ ہے اور علتبا ان کے فرننی دوشت کی نتنی ،خونکہ وہ میرے
ناپ کو انبا اتکل کہنی ہے بو میں اس کی کزن ہونی ،اب نک میں اکبلے زندگی گزار رہی
تھی لبکن اب میرا انک عدد شوہر ہے خو میرے شا منے ہے۔۔ نس نہی شب ہے
میرے نارے میں۔ خوش!۔“ چنہ ئے جٹسے اجشان کرئے والے انداز میں ا ننے
نارے میں اس کو نبانا جس پہ وہ مدھم شا مشکرانا۔
”ننچ کا حصہ کون نبائے گا۔۔۔؟“ دو قدم کا قاصلہ تھی جتم کرئے وہ اس
کے فرنب نالکل مدھم لہچے میں بوال۔
”نمہیں اس نارے میں پرنشان نہیں ہونا جا ہنے۔“ چنہ نمسجراپہ مشکراہٹ لنے
اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھنی ہونی بولی۔
ُ
”مجھے میری ن نوی سے خڑی ہر پرنشانی کو شکون میں ندلبا ہے۔“ اس کے اسی
ہاتھ کو ا ننے ل نوں سے لگائے ہوئے بوال ،چنہ کا پہ انداز ہی اس کے لنے دل موہ لتنے
واال تھا۔
”اور اگر شوہر ہی ن نوی کی پرنشانی ہو بو۔“ چنہ ئے خوتصورت لہچے میں کہا کہ
رنان کا قہقہہ ئےشاچنہ تھا۔
”شوہر شکون د نبا تھی جانبا ہے ملٹسکا!“ رنان اس کے کان کے فرنب ہونٹ
ن
النا زومعنی لہچے میں بوال کہ چنہ آ یں ھما نی۔
گ گ ھ ک
نبا خواب د ننے اس کے ستنے پہ ہاتھ ر کھے خود سے دور کبا اور آرمری سے تکل
آنی۔
”چنہ نمہاری مام کو کبا ہوا تھا؟“ اس ئے اتھی قدم ناہر تھی نہیں تکاال تھا کہ
رنان کی آواز پہ رک گنی۔ چہرے پہ انک شانا شا لہرانا لبکن ستتھل کے مڑی۔
”ان کو انک مرض تھا جان ل نوا۔“ اس ئے عام سے انداز میں کہا اور وہاں سے
جلی گنی۔ اس کا خواب رنان کو تھ یکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جال نما کمرہ چہاں اندھیرا تھا اور اس کمرے کے وشط میں انک لمنی سی میز موخود
تھی جس کے گرد لوگ کرسنوں پہ پراچمان تھے۔ کمرے میں ضرف انک وفت میں
انک سحص ہی نات کرنا اور اس کی آواز گونج اتھنی۔
کمرے کی جاروں دبواروں پہ گارڈز ہاتھ ناندھے کھڑے تھے۔ ہبڈ چئیر پہ رنان
دی سبانیر چہرے پہ حظرناک جد نک سرد ناپرات سحائے نتتھا تھا۔ آج وہی منتبگ تھی
چب شب کی موخودگی میں رنان پرابوا کو نبک اوور کرے گا۔
”شاشا کی شاری پراپرنی رنان ڈی کے ناس جائے گی اب ،شاشا کی خو تھی لین
دین تھی وہ نہیں جتم ہے۔ خو تھی ڈنلز ہیں وہ ننے سرے سے ہونگیں۔“ بو انس
اے کے انک ڈان ئے شب کو دنکھنے ہوئے کہا خو انک میز کے گرد نتتھے تھے۔
”ہمیں خوسی ہونی جان کر کے ڈنگر سبانیر کی واتف ہیں۔“ ان میں سے انک
ن ت ت تن
مافبا ڈان بوال جس کی تظر رنان کی دانیں جانب ھی چنہ پہ ھی اور آج اس ئے ا نی
سباچت نہیں چھبانی تھی۔ سباہ چئیز سرٹ پہ رنان کی طرح جبکٹ نہنے ہونی تھی۔
دوسری جانب نانیں طرف دامیر نتتھا تھا۔ مبکس دامیر کے شاتھ والی کرسی پہ موخود
تھے۔
”ڈنگر۔۔۔ انالین ڈان۔“ انک دو سراہنی ہونی آواز گونچی۔ رنان ہلکا شا ہٹشا۔
”ڈنگر کو سراہبا اچھا ہے لبکن میری ن نوی پہ تگاہ ڈالبا مجھے ناگوار گزرنا ہے ،آج
نبانا ہے آ نتبدہ القاظ نہیں میری نبدوق نبائے گی۔“ رنان ئے دوبوں ہاتھوں کو ناہم
مالئے میز پہ رکھنے آگے ہوئے اننی سرد وجشت گرے آنکھوں سے گھورا۔ شب کے
چہروں پہ سنجبدگی چھا گنی کہ انک نمسجر تھری آواز اتھری ،شب کی تگاہ اس جانب
اتھی۔
”اگر انشا ہے بو نہاں نہیں النا جا ہنے تھا ڈنگرکو اونس!“ کہنے والے ئے ہٹس
کے ہاتھ نلبد کنے جٹسے ڈنگر کہنے کی علطی کی ہو۔
ن ج ت
”اننی واتف کو۔۔“ وہ ہٹس کے ص نح کرنا ہوا بوال اور رنان کو طیزپہ تگاہ سے د کھنے
لگا۔ چنہ کے چہرے پہ مدھم سی مشکراہٹ اتھری۔
ل نوں پہ زنان ت ھیرئے رنان ئے نس اس کو گھورئے پہ اک یقا کبا اور آہشنہ سے
ُ
اننی گن تکا لنے میز پہ رکھی۔ دامیر کرسی پہ نبک لگائے نتتھا تھا خو آرام سے اس
تھو نکنے والے کنے کو دنکھ شکبا تھا۔
ت ہن
مزند تھوڑی دپر تغد ان کی منتبگ اجتبام کو چی بو رنان کے ا ھنے ہی ناقی
ن
شب تھی اننی نسسنوں سے اتھ کھڑے ہوئے۔ کجھ ڈان رنان سے مصافحہ کرئے
آگے آئے جن کے لنے رنان کے شاتھ تغلق اسنوار رکھبا نہیر تھا اور کجھ لوگ ا نسے ہی
کھڑے رہے۔ رنان کو ان شب سے کونی فرق نہیں پڑنا تھا۔ چب وہی ڈان اس کے
شا منے آنا اور ہاتھ مالئے کو آگے پڑھانا جس ئے کجھ دپر نہلے طیز کبا تھا۔
رنان ئے نہلے اس کو تھر اس کے ہاتھ کو دنکھا ،میز پہ پڑی گن اتھی تھی
و نسے ہی تھی۔
”امبد ہے پرابوا نمہارے لنے اچھا رہے گا۔“ وہ مشکرانا ہوا دوسباپہ لہچے میں بوال
کہ اجانک میز سے کسی ئے گن اتھانی اور گولی کی آواز جلی۔ شب کی تگاہ چنہ کی
جانب گنی جس ئے اس گن کو دنکھنے وانس میز پہ رکھا اور چہرے پہ مشکراہٹ
آسمانی۔
”ڈنگر خود تھی بولبا جاننی ہے۔۔“ اس ئے رنان کو دنکھنے کہا خو اس کی خرکت پہ
سبانسی انداز میں دنکھ رہا تھا۔
”وارنبگ میں انک نار ہی د نبا ہوں۔۔“ رنان ئے اننی گن تھامے دو مزند قاپر
اس سحص پہ کنے خو زمین پہ ئےشدھ پڑا تھا جبکہ بورے جال میں سبانا شا چھا گبا
تھا۔
”میری واتف وارنبگ د ننے میں تھی وفت صا تع نہیں کرنی۔“ اس کی آنکھوں
میں چمک اتھری تھی۔
کجھ لوگوں کی تگاہوں میں ئےتفتنی تھی کہ وافعی ان کی موخودگی میں چنہ ئے
جائے مائے ڈان کو مار دنا تھا ضرف اس لنے کہ اس ئے انک کمنٹ ناس کبا تھا ،وہ
کمنٹ چنہ پہ نہیں رنان سبانیر کی واتف پہ تھا۔
شب کے جائے سے نہلے چنہ ،رنان اور دامیر وہاں سے تکلے تھے اور ان کے
شاتھ گارڈز تھی موخود تھے۔
رنان ئے گارڈز کو شاتھ جائے سے م یع کر دنا تھا ک نونکہ وہ اتھی ہونل میں
تھہرے تھے خو ناس ہی تھا اور علتبا کو دامیر وہیں چھوڑ آنا تھا۔ ہر دو منٹ تغد وہ اس
روم کا کتمرہ جبک کر رہا تھا خو اس ئے وہاں تکلنے سے نہلے سنٹ کبا تھا۔
”وہ تھبک ہے تم ک نوں ہلکان ہو رہے ہو۔۔؟“ رنان ئے سنئیرنگ وہبل
ستتھا لنے ہوئے کہا ،دامیر اتھی تھی مونانل آن کنے نتتھا تھا۔ چنہ نجھلی سنٹ پہ
ت ت تن
ئےنباز سی ھی ھی۔
”مجھے اس کو اکبال چھوڑ کے نہیں آنا جا ننے تھا وہ تھی نتبد کی جالت میں۔“
دامیر پڑپڑانا جٹسے وہ نجھبا رہا تھا۔
”آدھی فوج اس کی نگرانی کر رہی ہے قکر نہیں کرو نانچ منٹ میں تم اس کے
ناس ہو گے۔“ رنان ئے تقی میں سر ہالئے ہوئے کہا کٹسے مج نوؤں کی طرح پڑپ رہا
تھا۔
”نمہیں اب اجتباط کرنی پڑے گی۔“ رنان کا اشارہ اس ڈان کے لوگوں کی
س
طرف تھا خو ضرور اس کی موت پہ جاموش نہیں ر ہنے والے تھے۔ دامیر ئے ھنے
جم
سر ہالنا۔
”اس کی قکر نہیں کرو۔“ وہ سنجبدگی سے بوال۔
ل ن ھ چ
”جلدی جالؤ نار۔۔“ دو سبکبڈ تغد پہ وہ الہٹ زدہ ہچے میں بوال۔
ھ ج
ن ن ن
”روم نو کہیں کا۔“ رنان پڑپڑانا اور تھوڑی ہی دپر میں وہ لوگ ہو ل ک نچ نے
گ ہ
تھے۔
دامیر عحلت دکھانا ہوا لفٹ میں انئیر ہوا اور جلدی سے قلور نین پرنس کبا۔
چنہ اننی دھن میں ان کے شاتھ آرہی تھی۔ دامیر ان کے آگے کھڑا تھا چب
رنان ئے چنہ کی کمر میں نازو چمانل کرئے اننی جانب کھتنحا۔
”وہ بو اننی واتف کے ناس جائے کے لنے پڑپ رہا ہے اور میں ناس ہو کے
تھی پڑبوں۔ کہاں کا اتصاف ہے۔“ چنہ کے گھورئے پہ وہ سنجبدگی سے بوال جس پہ وہ
گہرا شانس تھر کے رہ گنی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کمرے میں داجل ہوا بو انک تھبڈک کا اجشاس دل میں سران نت کرنا گبا ،وہ
اتھی تھی اسی بوزنشن میں شو رہی تھی جٹسے وہ چھوڑ کے گبا تھا اور شکر تھا کہ ان کو
آئے جائے میں زنادہ وفت نہیں لگا تھا۔ ہونل کے انارنمنٹ میں وہ اس وفت موخود
َ
تھے۔ علتبا کو پہ نبانا تھا کہ وہ لوگ چنہ کا جبک اپ کروائے دوسری جگہ جا رہے
تھے اور علتبا کو وہ اب کی نار اکبال نہیں چھوڑ شکنے تھے بو وہ تھی شاتھ تھی ،ا نسے
منتبگ میں اس کو شاتھ تھی نہیں لے کے جا شکنے تھے بو اننی مبڈنشن کھانی چب
نک وہ شو پہ گنی وہ لوگ تکلے نہیں تھے۔
دامیر اس کی رونین سے وافف تھا وہ دونہر کو شو جانی تھی اور منتبگ ناتم تھی
دونہر کا ہی تھا بو علتبا کا شونا قاندہ مبد ہوا تھا۔
رنان ئے انارنمنٹ میں داجل ہوئے سے نہلے ناہر کھڑے درج نوں گارڈز کو
جائے کا اشارہ کبا۔ دامیر کی خزنانی طت یغت کجھ زنادہ ہی پڑھ گنی تھی علتبا کے آئے
سے۔ اندر آئے اس ئے انک تظر دامیر کے روم میں ڈالی خو روم نمیرنجر اڈجشٹ کر رہا
تھا۔
”کجھ کھاؤ گے۔۔؟“ چنہ اننی جبکٹ انارنی ہونی بولی کہ رنان ئے تقی میں سر
ہالنا اور چھوئے سے ل نونگ اپرنا کے صوفے پہ نتتھے انبا سر ننجھے تکانا۔
”نمہیں اسے شوٹ نہیں کرنا جا ہنے تھا۔“ چب چنہ تھی اس سے کجھ قاصلے پہ
ن
تتھی بو وہ سنجبدگی سے بوال۔
”تم تھی نہی کرئے والے تھے۔“ وہ جبانی ہونی بولی کہ رنان جاموش رہا ،وہ
تھبک کہہ رہی تھی ک نونکہ رنان خود تھی اس کو مارئے واال تھا۔
کونی اس کی پراپرنی پہ تظر ڈالے اور وہ پرداشت کر لے انشا ہو ہی نہیں شکبا
تھا۔ چنہ اس کی تھی ،اس کی پراپرنی اس کی ملکنت۔۔
ن ن
وہ جاموسی سے انبا مونانل دنکھ رہی تھی جبکہ رنان ئے ا نی آ یں اس پہ تکانی
ھ ک
تھیں چہاں سرد ین نالکل نہیں تھا نلکہ انک الگ ہی خزپہ تھا جٹسے وہ اس کو د نکھے
اسی میں کھو رہا تھا۔ انالین پرنسٹس! خوتصورت تفوش والی لڑکی لمنے سباہ نال۔ وہ اس
سے نبار نہیں کرنا تھا چنہ کا انداز اس کو خود اننی جانب مانل کرنا تھا۔
اس کے لنے بوزنسنو تھا ،کسی تھی جد نک جا شکبا تھا ،جان لے شکبا تھا۔
”میں نمہیں اکبال جائے نہیں دے شکبا۔۔“ رنان گہرا شانس ت ھر کے بوال اور
انک تظر دامیر کے کمرے کے نبد دروازے کو دنکھا۔ دامیر اس کو ا ننے نبا جائے
نہیں دے گا۔ علتبا کو وہ اکبال نہیں چھوڑئے واال تھا۔
”ہم جاروں کی زندگباں آنس میں خڑی ہیں اور ا نسے تم اکبلے کہیں نہیں جائے
والی وہ تھی نب چب نمہاری سباچت انڈر ورلڈ جان گبا ہو۔“ رنان ئے سنجبدگی سے
جٹسے اس کو نالبا جاہا۔
”مجھے اکبلے جائے میں کونی مسبلہ نہیں ،میں نہلے تھی اکبلی ہی رہنی تھی۔“
چنہ تھوڑا نیز لہچے میں بولی کہ اس کے گھما تھرا کے اتکار کرئے پہ اس کو عصہ شا
آئے لگا تھا۔
”تم شاتھ جل شکنے ہو۔۔“ ئےشاچنہ ہی وہ اس کو آفر د ننی بولی کہ رنان ئے
جاموش تگاہوں سے اس کو دنکھا۔ وہ وافعی اس کو شاتھ جائے کی آفر کر رہی تھی۔
”ضرور۔۔“ رنان نبا کونی اغیراض کنے مان گبا کہ چنہ خونک گنی۔ پہ کام آشان
تھا۔
رنان ئے شوجا کہ وہ دامیر اور علتبا کو تھوڑا وفت دے دیں گے اکبلے میں اور
اتھی کونی کانیرنکٹ تھی نہیں تھا بو چنہ کے شاتھ جائے سے کونی مسبلہ نہیں
ہوئے واال تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
خود پہ اتگل نوں کا لمس محسوس کرئے اس کی نتبد بونی بو دامیر کو ا ننے شا منے
نکنے پہ کہنی تکائے نانا خو اسی کو مشکرانی پرم تگاہوں سے دنکھ رہا تھا جبکہ اس کا
دوسرا ہاتھ پرمی سے اس کے چہرے پہ آئے نادندہ نالوں کو کان کے ننجھے اڑس رہا
تھا۔
”زنادہ شوئے لگ گنی ہو آج کل دن میں۔“ دامیر اس کے رجشار پہ لب رکھنے
سرگوسی میں بوال کہ علتبا اس کی نات پہ جبا سے چھت نپ گنی۔
”تم کہیں گنے تھے ناہر۔۔“ وہ لہچے میں ناراصگی سموئے بولی۔
”انک چھونا شا کام تھا۔“ اس ئے اتکار نہیں کبا تھا۔ ہو شکبا تھا کہ وہ نتبد
میں انک نار جاگی ہو اور اس کو کمرے میں موخود نا نانا ہو۔
”تم مجھے ا ننے کام کے نارے میں نہیں نبائے۔“ وہ حق یف سی ہونی شکوہ
کرئے لگی اور اتھ کے نتتھبا جاہا چب دامیر ئے اس کو روکا اور نکنے سے کہنی ہبائے
قدرے اس چھکا۔
”تم نحونی وافف ہو میرے کاموں سے ۔۔“ اس کی گردن پہ ا ننے لب مس
کرنا ہوا وہ زومعنی بوال کہ علتبا کے رجشار نتنے لگے۔
ک ہن م م ُ
” یں اس نارے یں نات یں کر رہی۔۔“ اس کے کبدھے پہ ہاتھ ر ھنے اس
ئے حقگی جبانی کہ دامیر ”اس نارے“ کا ستنے سرپر شا مشکرانا۔
”کس نارے میں؟“ اس ئے اس کی نات اجک لی تھی کہ علتبا کو ا ننے بولے
گنے القاظ کا اندازہ ہوا اور نلکوں پہ بوچھ شا آگبا۔
”تم مجھے نبگ کر رہے ہو اب۔۔“ وہ آہشنہ آواز میں متمبانی اور دامیر کے
گسباجی کرئے ہاتھوں کو تھام لبا۔
دامیرے ئے آہسبگی سے اس کے کبدھے پہ لب ر کھے اور ننجھے ہٹ گبا ،اس
کے کبدھے کے زچم اب نہیر تھے۔ نازو کو وہ موومت نٹ د نبا سروع ہو گنی تھی۔
اس کو ننجھے ہتبا دنکھ علتبا ک یفرپر خود پر سے اتھانی نبڈ سے ننچے اپرئے کو تھی
کہ دامیر ئے پرجشنہ اس کی کالنی کو تھامے ا ننے فرنب کبا اور ئےناک جشارت کر
نتتھا۔ علتبا کو چب نک سمجھ آنی دامیر کا لمس محسوس کرئے وہ بوکھال اتھی۔
نیز ہونی دھڑکن پہ قابو نائے اس ئے دامیر کے خزنانی انداز کو دنکھا۔
”نمہارا دور جانا پرداشت نہیں ہوا مجھ سے۔“ دامیر ا ننے کنے کی وصاچت د نبا بوال
کہ علتبا کو ا ننے رجشار نتنے محسوس ہوئے۔ ئےتفتنی و چیرت سے وہ اس کو د نکھے
گنی۔
”میں نس فرنش ہوئے جا رہی تھی۔۔“ وہ نامسکل بول نانی۔
”ہاں میں سمجھا دوں گا۔۔“ وہ اننی ئے شاجبگی پہ خود تھی چیران تھا لبکن اس
جم س
کی نات پہ علتبا ئے نا ھی سے اس کو دنکھا۔
”کس کو۔۔؟“ وہ بو چھے نبا پہ رہ نانی۔
”ا ننے دل کو۔۔“ دامیر کے فوری خواب پہ علتبا پری طرح نلش کر گنی کہ انک
سرمگیں مشکراہٹ اس کے ہون نوں پہ آسمانی جس کو چھبائے کی جاطر وہ انبا رخ موڑ
گنی اور الخواب ہونی ناتھ روم کی طرف پڑھ گنی۔ دامیر اس کا دبواپہ تھا اس نات کا
اندازہ علتبا کو دن ندن ہو رہا تھا۔
علتبا کے جائے ہی دامیر ئے کمرے میں لگے کتمرہ کو تکال دنا خو وہ جائے
ہوئے سنٹ کر کے گبا تھا۔
”تھوک ہے اتھی؟“ اس کے ناہر آئے پہ دامیر ئے بوچھا خو اب جتنج کر کے
آرامدہ کیڑوں میں موخود تھا۔ علتبا ئے انبات میں سر ہالنا اور وفت دنکھا۔ دونہر کے
نین نج رہے تھے۔ اس کو اب دن کی نتبد جتم کرنی جا ہنے تھی۔ دل میں شوجنی ہونی
وہ کمرے کا دروازہ کھولے ناہر آنی کہ چنہ سے اس کے زچم کے نارے میں بوچھ
شکے خو اتھی ڈاکیر سے جبک کروا کے آنی تھی۔
دامیر کنچن میں آنا چہاں رنان نہلے سے موخود تھا اور کجھ کھائے کو نبائے کی
کوشش کر رہا تھا ،دوبوں مل کے کوکبگ کرئے لگیں جبکہ چنہ اور علتبا ل نونگ اپرنا
ل ب گ ت
میں یں آنس یں گو کرئے یں۔
گ ق م ھ تن
رنان ئے دامیر سے چنہ کے اور ا ننے جائے کا زکر کبا ،نہلے بو دامیر ئے اتکار کبا
لبکن تھر جاموش ہوگبا کہ علتبا کی تظر میں وہ دوبوں وکٹسیز پہ جلے جانیں گے اور اگر
دامیر شاتھ جائے کی نات کرے بو علتبا انک ننے شادی شدہ خوڑے کے ننچ کباب
میں ہڈی نہیں نتبا جاہے گی نتھی مان گبا۔
”افرتفہ نارڈر شانبڈ پہ زنادہ شک نورنی نہیں ہے بو وہ تھی آشان ہو گا۔“ دامیر اننی
ہلکی پڑھی سنو کو ک ھحانا ہوا بوال۔
”ڈانمبڈز لے جائے والے رونس کا چنہ کو علم ہو گا بو ہم اس سے ڈشکس کر
لیں گے۔۔“ شا منے کھلے تقسے کے کاعزات کو دنکھنے رنان بوال بو دامیر ئے نانبد میں
سر ہالنا۔
ت ن ُ
”اس کی ڈ ل م کب کرو گے؟“ دامیر ئے سرسری شا بوچھا۔
”انک دو لوگوں ئے کانتبکٹ کبا ہے اس نارے میں ،جٹسے ہی نانیرز کا ارننج ہو
گا بو ڈنلتبگ سبارٹ ہو جائے گی اس سے نہلے ر نبلز کے شاتھ ڈنل ہے انک۔“ میز
کے ناس رکھی کرسی پہ نتتھنے رنان ئے کہا۔
”چنہ جائے گی؟“ دامیر ئے اس کے چہرے کی طرف دنکھا بو رنان ئے تقی
میں سر ہالنا۔
”اس کا جانا تھبک نہیں۔ ڈانمبڈ ڈنلز اب میں دنکھا کروں گا۔“
”ڈرنبا کے نارے میں رنسرچ جاری رکھو لبکن تطاہر فباد کے نارے میں شب
ابونستبگٹشن چھوڑ دو۔۔ کجھ دبوں کے لنے انہیں اکبال چھوڑ د ننے ہیں۔“ دامیر ئے
ڈرنک کو دنکھنے کہا جس ئے انبات میں سر ہالنا۔
”تھاتھی جاننی ہے نمہاری میں بو اس کے جکم کا عالم ہوں۔“ رنان ئے آنکھ دنا
کے کہا کہ دامیر کا قہقہہ ئےشاچنہ تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چنہ ئے مبکسبکو میں لبام سے ملبا تھا ک نونکہ وہ اس کے کاقی عرصے سے نا ملنے
پہ اداس ہو رہا تھا ،چنہ کے عالوہ اس کا کونی نہیں تھا۔
نحائے کسی ہونل جائے کے چنہ رنان کو اسی جگہ لے آنی چہاں لبام رہبا تھا۔
باہ النگ شکرٹ نہنے اس ئے گردن کے گرد مقلر لت نٹ رکھا تھا اور آنکھوں پہ گالسز س
تھے۔ رنان ہمٹشہ کی طرح اننی چئیز سرٹ اور جبکٹ نہنے ہوئے تھا۔ نلونڈ سبہرے نال
ما تھے پہ ا نسے ہی نکھرے تھے اور آنکھوں میں سرد ناپر موخود تھا۔
کوڈنگ ان الک کرئے چنہ اندر کی جانب پڑھی چہاں پڑا شا لوہے کا گنٹ تھا۔
لوہے کا گنٹ کھال اور ہمٹشہ کی طرح لبام اس کے نار مشکرانا کھڑا تھا خو اس
کے اندر آئے ہی اس کو گلے ملنے لگا لبکن رنان ئے پروفت چنہ کے آگے ہاتھ کر دنا
ن جم س
ک
جس سے وہ خونک کے رکبا نہلے چنہ کو تھر رنان کو نا ھی سے د ھنے لگا۔
”رنان۔۔۔“ چنہ ئے ننتبہی انداز میں کہنے اس کا ہاتھ آگے سے ہبانا اور پرم
مشکراہٹ لنے لبام کی طرف پڑھی خو اتھی الجھی تگاہوں سے رنان کو دنکھ رہا تھا۔
”نس انبا ہی۔۔۔“ لبام ئے اتھی دو سبکبڈ کے لنے چنہ کو گلے لگانا تھا کہ رنان
کی آواز پہ وہ دور ہوا۔
”لبام پہ رنان ہے ۔۔۔“ چنہ رنان کا تغارف لبام سے مزند کروانی کہ لبام کی
ناگوار آواز ئے اس کی نات کانی۔
”جانبا ہوں ،نمہیں کبا ضرورت پڑ گنی تھی اس سے شادی کرئے کی۔“ لبام
چنہ کے شاتھ جلنے آہشنہ آواز میں اننی نانسبدندگی کو چھبائے نبا بوال کہ ننجھے جلنے رنان
ئے دانت نٹسے۔
”رنان پہ لبام ہے۔۔۔ ہونہار لڑکا کمت نوپر ماسیر۔“ چنہ ئے رک کے مشکرائے
ہوئے لبام کو م یغارف کروانا۔
س س
”ہبلو لبام! مجھے انبا تھانی ہی ھو۔۔“ رنان جھ گبا تھا کہ لبام چنہ کے نے
ل م جم
جاص ہو گا نتھی نارمل لہچے میں بوال ،لبام ئے سنجبدگی سے اس کے پڑھے ہاتھ کو تھام
لبا۔
”بو کتنی دپر ہو گنی ہے نمہیں نہاں لبام؟“ رنان اطراف کو دنکھبا ہوا بوال چہاں
کمت نوپر شستم سنٹ کنے تھے۔ انک چھوئے سے انارنمنٹ کی شکل کا تھا نٹشمنٹ واال
حصہ۔
”کاقی عرصہ ہو گبا ہے شاند نبدرہ شال۔۔“ وہ کبدھے احکانا بوال کہ رنان ئے
سبانسی انداز میں آپرو احکائے۔
”لبام نہت جاص ہے میرے لنے۔۔ نہت نبلتبڈ ہے۔۔“ چنہ ئے مشکرائے
ہوئے لبام کے شائے پہ ہاتھ رکھا نبانا ،اس کے لہچے میں انک انبان نت تھرا ع یصر
شامل تھا ،اس کی آنکھوں میں لبام کے لنے پرمی اور مجنت تھی لبکن لبام شاند رنان
کو انبا نسبد نہیں کرنا تھا نتھی وہ سنجبدہ چہرہ لنے ہوئے تھا۔
”تم ئے اس نار تھر آئے میں نہت وفت لگانا ہے۔۔“ لبام کنچن میں کھڑا اس
سے شکوہ کرنا ہوا بوال ،وہ ان دوبوں کے لنے کجھ ستبکس نبار کر رہا تھا جبکہ رنان جال
میں ر کھے صوفے پہ نتتھا تھا۔
”مج نوری تھی۔۔۔۔“ چنہ ئے رنان کی جانب اشارہ کرئے کہا۔
”تم ئے کتھی رنان کا زکر نہیں کبا تھا تھر شادی ک نوں کر لی؟“ لبام ئے
الجھن تھرا شوال کبا ک نونکہ چنہ ئے پہ تھی طاہر نہیں کبا تھا کہ وہ کسی کو نسبد کرنی
تھی اور تھر اجانک رنان سے شادی۔
”آالننٹس! کرنی پڑی مبکس کے کہنے پہ۔“ وہ سرد آہ تھر کے رہ گنی بو لبام
ہ جم س
ئے ھنے سر النا۔
”اس کی ضرورت نہیں تھی ،میں ناہر کھانا نہیں کھانا۔“ شا منے پڑے ستبکس
کو دنکھنے رنان ئے سنجبدگی سے کہا کہ لبام ئے آپرو احکائے چنہ کو دنکھا۔
”نمہیں انبا روڈ ہوئے کی ضرورت نہیں رنان۔“ چنہ ئے نبا کسی لگی لتنی کے
ت ً
اس کو سرم دالنی جاہی جس پہ وہ کبدھے احکا گبا۔ لبام کے نارے میں وہ قصبال
اس سے بو چھے گا۔
”تم آج نہیں پہ رکو گی۔“ رنان کو تظرانداز کرئے لبام ئے چنہ کو دنکھنے کہا۔
”نہیں میں ئے ان یطام کر رکھا ہے ر کنے کا ہم جلیں جانیں گے۔“ اس سے
تھ ک
نہلے کہ چنہ خواب د ننی کی رنان کی آواز ئے ان دوبوں کی بوجہ اننی جانب نچی۔
”بو تم جلے جاؤ ،چنہ نہی رکے گی۔“ لبام کا انبا ہی کہبا تھا کہ رنان کی آنکھوں
میں سرد ین در آنا ،اس کے چہرے کے ناپرات سباٹ ہوئے۔
چنہ ئے دوبوں کے چہرے ناری ناری د نکھے۔
”میں آج نہیں رک شکنی لبام ،کل رک جاؤں گی۔“ چنہ ئے خود ہی مداچت کی
کہ جال میں جاموسی چھا گنی جبکہ رنان اس نچے کو دنکھ کے کڑھ رہا تھا خو چنہ پہ انبا
جائے کون شا خق جبا رہا تھا۔ اگر چنہ کو پہ عزپز پہ ہونا بو ا چھے سے نبانا اس کو۔
چنہ کجھ وفت لبام کے شاتھ گزارئے کے تغد اتھی کہ لبام اس سے ملنے کو
آگے پڑھا چب رنان ئے تھر بوکا۔
”تم اس کے تغیر تھی اس کو نائے بول شکنے ہو۔۔“ رنان کی آواز میں وارنبگ
تھی کہ لبام نبا نحث کنے ننجھے ہٹ گبا۔ لبام کو انک دو چیزوں کی ہدانت کرئے وہ
ن
وہاں سے تکلی اور گاڑی میں تتھی ،رات کاقی گہری ہو گنی تھی آس ناس کا عالقہ
سٹشان تھا۔
”نمہیں اس سے روڈ ہوئے کی ضرورت نہیں رنان ،وہ ضرف نہاں مجھے جانبا ہے
اور میں نمہیں ہرگز اجازت نہیں دوں گی کہ تم اس کے شا منے پہ نماسے کرو۔“
گاڑی میں نتتھنے ہی چنہ ئے رنان کی طرف رخ کرئے اس کو سجنی سے کہا۔
”اب نمہیں الرجی نہیں ہونی نچ سے۔۔“ رنان جان بوچھ کے طیزپہ انداز میں بوال
کہ چنہ کا چہرہ دھواں دار ہوا ،اس کی آنکھوں میں عصہ غود آنا۔
”ہی از کلوز بو می۔“
)(He is close to me
چنہ اس کی نات پہ ضیط کرنی ہونی دانت نٹسنے بولی۔
اس وفت وہ لوگ رنان کے خرندے گنے انک چھوئے سے مگر پراشانش گھر میں
موخود تھے ،ہر جگہ پراپرنی خرندئے کا ان کو پہ قاندہ ہونا تھا کہ چب وہ کہیں جائے بو
وہ لوگ اننی جگہ پہ شکون سے رہ نائے تھے۔
”میں ئے کونی پرا انشان نہیں سمجھا اس کو ،مجھے اس کا نمہارے فرنب آنا پرا
لگا اور پہ نات تم ا چھے سے جاننی ہو کہ مجھے پہ نالکل تھی پرداشت نہیں کہ کونی
نمہارے فرنب آئے۔“ رنان اس کی نات پہ سنجبدگی سے جبانا ہوا بوال اور اننی سرٹ
انارئے لگا۔
”میں اس سے مہت نوں تغد ملنی ہوں اور وہ اننی خوسی کا اظہار کرنا ہے نمہیں اننی
پرانلم ہے اس سے بو نہیر ہے کہ اگلی نار تم شاتھ پہ جاؤ۔“ رنان کی نات پہ وہ
شلگ کے رہ گنی تھی چب وہ اس کو نبا رہی تھی کہ وہ اس کو کتبا عزپز ہے تھر
تھی انبا رغب چھاڑ رہا تھا۔
”مجھے نمہارے ملنے سے کونی مسبلہ نہیں ہے اور کبا پہ گلے ملبا شاتھ جبکبا
ھ چ
ضروری ہے۔۔۔“ رنان اس کی طرف انبا رخ کرنا ہوا نجھالہٹ میں بوال کہ چنہ کے
ما تھے پہ نل واصح ہوئے۔
”واچ بور ورڈز۔۔“
”میں نبار نہیں کرنا تم سے۔۔“ رنان ئے اسی انداز میں کہا۔
”نمہارا ج نون ہے مجھے۔“
”“I’m obsessed with you
اس ئے انک جذب کے عالم میں کہا کہ چنہ کو انبا دل کابوں میں دھڑکبا ہوا
محسوس ہوا اور اسی دھڑکن کو اس ئے اننی ہتھبلی پہ محسوس کبا چب رنان ئے اس
کا ہاتھ تھامے ا ننے پرہنہ ستنے پہ رکھا۔ وہ اب تھی اس کی آنکھوں میں دنکھ رہی تھی
چہاں کجھ دپر نہلے کا عصہ اب جتم تھا۔
رنان ئے جبد انچ کا قاصلہ تھی مبائے دھڑک نوں کا شور مزند نلبد کبا کہ چنہ ئے
دوسرے ہاتھ کو سجنی سے ت ھتنحا۔
”تم نس میرے شاتھ ک یفرنتبل رہو۔۔ نس میرے لمس کو محسوس کرو۔ مجھے
ا ننے فرنب محسوس کرو۔“ اس کے ما تھے سے ماتھا تکائے ہوئے وہ مدھم گھمئیر لہچے
میں بوال۔
اس ئے ہمٹشہ کی طرح رنان کو ننجھے ہوئے کو نہیں کہا تھا نلکہ اس کے حصار
میں کھڑی رہی تھی۔
”میں پہ نہیں ستبا جاہبا کہ تم میرے فرنب آئے سے اچھا محسوس نہیں
کرنی۔“ اس کے کان کے فرنب ہونٹ لے جائے وہ سرگوسی میں بوال۔
”جبکہ میرا دل نمہارے فرنب آئے کے لنے محلبا ہے۔۔“ اس کے رجشار کو
چھوئے ہوئے وہ مجمور تگاہوں سے اس کو دنکھنے لگا خو انچ تھر کے قاصلے پہ موخود
تھی۔
انک نل میں ہی انک قسوں شا کمرے میں تھبل گبا تھا خو ان کو ا ننے سجر میں
جکڑنا جاہ رہا تھا۔
رنان مزند کونی گسباجی کرنا کہ مونانل کی چیرنی ہونی آواز پہ اس کا ارتکاز بونا اور
ا ننے حصار میں فبد اس ماہ نارا کو دنکھا جس کی آنکھوں کا جبا سے چھکبا اس کو نہت
تھانا تھا ،اس کے رجشار کی سرجی اس کے دل نار اور چ ھیڑ گنی تھی لبکن مونانل کی
مشلشل دجل اندازی وہ سحت ندمزہ ہوا اور سرد آہ تھرنا شانبڈ نتبل سے فون اتھائے
کان سے لگا گبا۔
قسوں بوٹ حکا تھا ،فرنت کا سجر جتم ہو حکا بو چنہ تھی ستتھل کے ناتھ روم کی
جانب پڑھ گنی۔ چب نک وہ فون پہ راتطہ جتم کر کے قارغ ہوا نب نک وہ جتنج کر
کے آجکی تھی۔
ان کے کیڑے نہاں سنٹ کر د ننے گنے تھے کہ چب نک نہاں موخود ہیں
ان کو آشانی ہو۔ نانگ کا زچم اب درد نہیں کرنا تھا ،جتنی سحت ان کو نارخر پرنتبگ
دی جانی ہے اس کے آگے پہ کجھ نہیں تھا۔
نالوں کا رف شا خوڑا نبا کے وہ نبڈ پہ نتم دراز ہونی تھی کہ رنان کی آواز پہ خونک
کے اس کی جانب دنکھنے لگی۔
طرح نتم پرہنہ کھڑی کر دی گنی تھی۔“ چنہ کے چہرے پہ کرب کے آنار تظر آئے،
م کن
ان کی تکل یف کا شو جنے اس ئے سجنی سے آ یں نچ یں۔
ل ھ
”دس نارہ شال کی تھی میں زنادہ کجھ کرنا نہیں جاننی تھی لبکن اس دن دو
فبل کنے تھے میں ئے ان ہاتھوں سے۔۔“ اس ئے ا ننے ہاتھوں کو شا منے کبا اور
رنان کی طرف دنکھا۔
وہ تغور اسی کو دنکھ رہا تھا۔ پہ ضرف لبام کی نات نہیں تھی کجھ اور تھی تھا۔
”نہت ج نوان ہیں نہاں عام زندگی گزارئے والوں کو کبا نبا ان کے شاتھ اتھبا
نتتھبا جلبا تھرنا انشان کبا ہے۔۔ دنکھنے میں خوش اجالق لبکن اندر سے انک سیطان
ج نوان۔۔“ وہ نحوت سے بولی کہ اس دنبا کے لوگوں سے وہ عاخز آگنی تھی۔
ن ن ت ن ُ
ل ج جن
”اس نانچ شال کے نچے کو وہ نے والے ھے ا نی نوا گی کے نے۔۔ خرندئے
والے کو مار دنا۔“ چنہ الپرواہی سے بولی ،اس کے لہچے میں شقاکنت تھی جٹسے وہ رچم
نہیں کرے گی آگے تھی ،ان کا زکر آئے جٹسے وہ لمحات وانس آ گنے تھے اور عصہ
اس کی رگوں میں سرارے مارئے لگا تھا۔
”نہی زندگی ہے ملٹسکا۔۔۔“ رنان اس کے پراپر نتتھبا ہوا بوال۔ چنہ ئے گردن
گھمائے اس کو دنکھا۔
”ہم چہاں نبدا ہوئے ہیں وہاں ہمارا ف نوخر لکھ دنا جانا ہے ،مارے جاؤ نا مار دو اور
مارے جائے سے نہیر ہے مار دو۔“ اس ئے کمرے کی النٹ ہلکی کر دی ،چنہ ئے
کمرے میں تظر دوڑانی۔
”مجھے تم پہ فجر ہے کہ تم ئے پہ راشنہ جبا ا ننے لنے۔۔۔“ وہ اس کے فرنب
ن
ہوا اور ما تھے پہ ہونٹ ر کھے۔۔ اسے وافعی فجر تھا۔ اس کی آ یں م کرا رہی یں کہ
ھ ت ش ھ ک
”لبام کے شاتھ میرا خو تھی نبہ نو ہے مجھے کونی سرم نہیں اور اگر آ نتبدہ تھی
ف ً
نہارے فرنب آنا بو میں ا نسے ہی ری انکٹ کروں گا۔۔“ د عبا وہ لبام کا زکر کرنا
سنجبدگی سے بوال کہ چنہ اس کو گھورئے لگی۔
”میں جانبا ہوں تم نہاں انبا نارگنٹ بورا کرئے آنی ہو۔“ تگاہیں اتھی تھی اس
کے چہرے پہ مرکوز ت ھیں اور اس کا ہاتھ نالوں کی ل نوں سے اتھکبلباں کر رہا تھا۔
چنہ کو اس کی فرنت سے کونی عج نب شا اجشاس نہیں ہو رہا تھا۔
”دو دن تغد نہاں سے انک شپ منٹ بو انس اے جائے والی ہے لڑک نوں
کی۔۔ مجھے اسے نازناب کروانا ہے۔“ چنہ ئے سنجبدگی سے کہا رنان ئے آہشنہ سے سر
ہالنا۔
مج ُ
”تم ئے خو کرنا ہے کرو نسرظنہ ھے ہر اس کام کی ا الع دو۔۔“ اس کی
ط
تھوڑی کو تھامے اس ئے وارنبگ دی۔ چنہ اس کا ہاتھ دور کرنی جاموش رہی۔ لبام
کو رنان نسبد نہیں تھا سروع سے ہی اور پہ کتھی انہوں ئے رنان کا زکر کبا تھا۔
پرتقکبگ کے م یغلق اتھی رنان کی نات شن کے اس کو خوشگوار چیرت ہونی تھی۔ وہ
اس کا شاتھ دے گا پہ جا ننے ہوئے تھی بوابوا مشہور ہی پرتقکبگ کی وجہ سے ہے۔
دل میں رنان کے لنے انک پرم گوشا نتبا سروع ہو گبا تھا۔ اس ئے لبام کے
م یغلق بو نبا دنا لبکن وہ اس کو پہ پہ کہہ نانی کہ وہ اِ س کی ماں تھی جسے ناقانل
پرداشت جالت میں ا ننے ج نوابوں کے شا منے ال کھڑا کر دنا تھا ،وہ اس کی ماں تھی خو
ن
اننی رہانی کے ان یطار میں تتھی ان ج نوابوں کے ہاتھوں بوجی گنی لبکن امبد پہ بو ننے
دی۔
اس کی ماں انک جٹسی عالم تھی ،معصوم تھی ان شب کی طرح جن کو وہ
نازناب کروانی تھی لبکن انہیں زانی دو کوڑی کی نشکین کے لنے اسیعمال کبا جانا
تھا۔
وہ نہت چھونی تھی لبکن اننی چھونی عمر میں نہت کجھ سمجھ گنی تھی ،زندگی کا
نہت تھبانک ناب کھوال گبا تھا نب۔
انک عام زندگی گزارئے اجانک قہر شا تھرنا ہو گبا تھا خو ان کو اس اندھیری کال
کوتھری میں نبد کر دنا گبا تھا چہاں دن کا شورج تھا نا رات کی جاندنی ،نس آہوں اور
ششک نوں کا چہان آناد تھا اور انہیں ششکنی آہوں میں ضرف پہ دو وخود ہی نہیں نلکہ
نٹسوں ا نسے وخود تظر آئے خو ئےنار و مدد گار پڑ ننے تھے۔
مبکس ئے کتھی شادی نہیں کی تھی لبکن وہ اس کی اوالد تھی ناجاپز اوالد!
مبکس کو ناپ کہنے کی کتھی خود میں ہمت نبدا ہی نہیں کی نتھی ناف نوں کی طرح نام
سے نا اتکل کہہ کے نال لتنی۔
مبکس انہی کالے دل والے مافبا سرداروں میں سے تھا خو اننی رات رنگین
کرئے لنے کسی نبلی کی ناہوں میں اننی نباہ ڈھونڈئے جن کے پر کاٹ د ننے جائے۔
ت ُ
انہیں میں اس کی ماں ھی۔ اس ئے انبا بو لبا تھا کن شب کے شا منے یں اور پہ
ہن ب ل
م
ہی انک سبدھے طر تقے سے لبکن گ ھر نار اور کھائے نتنے کی ضرورنات کمل کرنا رہبا۔
مبکس کے ہی ندلے کی تھت نٹ خڑھی تھی اس کی ماں کی زندگی چب اجانک
مبکس پہ چملہ کرئے وہاں موخود شب غوربوں کو عالم نبا لبا گبا اور ان کو نبالمی کے
لنے نبار کر دنا گبا۔
انک ک نواری اور کم شن لڑکی ڈارک ورلڈ کے لنے فتمنی خزاپہ ہونی تھی اور شقبد
چمڑی واال جشن جس پہ معصومنت رجی ہو اس کو نائے لنے نہاں کے لوگوں کی
رالیں نبکنی تھیں جاہے جان ہی ک نوں پہ جلی جائے۔ اندھیروں سے لوگوں کے
تھبانک روپ سے ڈری وہ اننی ماں کے نلو سے لتنی رہی۔ ماں کے شاتھ آنسوں نہانی
آہ و زار کرنی ،حق یفت سے وافف تھی اِ س کی نتھی دل میں امبد حگائے رکھنی کہ
خود کے گرد سے رنان کا نازو ہبائے وہ اتھبا جاہنی تھی لبکن وہ کچی نتبد میں تھا
خو ہلکی سی تھی جنٹش سے اتھ گبا۔
”کبا ہوا؟“ کچی نتبد کا چمار آنکھوں کے پردوں پہ لہرا رہا تھا۔
”کجھ نہیں نس نالکنی نک جا رہی تھی۔۔“ وہ اننی آواز کی کبکباہٹ پہ چھبا نانی
ً
تھی نتھی رنان فورا سبدھا ہو تتھا۔
ن
”اِ دھر دنکھو۔۔“ رنان ئے اس کا نازو تھامے اننی جانب اس کا رخ موڑا بو
ن
آ کھیں ضیط سے سرخ ہو رہی تھیں۔
”آنکھوں میں جلن سی ہو رہی ہے شاند نتھی نانی کے چھنتنے مارئے جارہی
تھی۔“ چنہ تگاہیں خرانی ہونی بولی۔ اس وفت تھوڑا اکبلے وفت جا ہنے تھا۔
”خو نانیں ستنے میں جلن نبدا کریں ان کا عبار تھی تکال د نبا جا ہنے۔“ رنان اس
کا تگاہیں خرانا دنکھنے بوال۔
”انہیں کا عصہ ،عبار تکالنی ہوں میں لبکن اکیر کجھ لوگوں پہ جاہ کے تھی انبا
نس نہیں جال شکنی۔“ وہ سرد آہ تھرئے ہوئے بولی۔ رنان ئے اس کا نازو چھوڑ دنا۔
ج ن
وہ اتھ کھڑی ہونی اور جلنے نالکنی نک آگنی چہاں نجنے ناہر کی نی ہوا ئے اس کا
ل ہ
کن
اسیقبال کبا جس پہ اس ئے گہرا شانس تھر کے آ یں موند یں۔
ل ھ
آج وہ تھی انہیں ئےزنابوں مطلوموں میں شامل ہونی خو ا ننے انشان ہوئے کا چمبازہ
ن
دن رات گھتنے تھے۔
ت کن
نہاں کھڑے کاقی نل ن نت گنے اور آ یں اب جشک ہو نی یں۔ ا ننے گرد
ھ گ ھ
نازو محسوس کرئے نبا اس کی جانب د نکھے اس ئے رنان کے کبدھے پہ سر تکانا۔
”میری ماں معصوم تھیں ،وہ ان یطار کرنی رہنی تھیں لبکن مبکس ئے ان کو
نہیں نحانا۔۔ وہ ان یطار طونل ہونا گبا اور تھر اسی ان یطار کو انہوں اننی جان کے شاتھ
جتم کر دنا تھا رنان۔ وہ جا ہنے بو جلدی آشکنے تھے ،ان کے ہاتھ میں تھا شب لبکن وہ
نتتھے رہے۔ جن وفت ماں ئے آخری شانس لبا اس نل وہ ہمیں نحائے آ گنے۔ جد
عرضی کی جد تھی وہ۔۔“ وہ اس کے کبدھے سے خڑی بولی کہ القاطوں میں چھنی
ئےنسی پہ رنان ئے اس کے چہرے کو دنکھا۔
”میں وہ شب دونارہ نہیں دنکھبا جاہنی ،زندگی نہت فتمنی ہے اور معصومنت اس
سے تھی زنادہ۔“ چنہ مدھم لہچے میں بولی ،رنان ئے دوسرا ہاتھ تھی اس کے گرد ناندھ
دنا۔ ”میرے ہوئے ہوئے تم کتھی تھی وہ شب نہیں دنکھ شکو گی پہ وعدہ ہے۔“
”اتھی خو ناس ہے اس سے تھی خوش ہو جاؤ۔“ دامیر ہلکی گھوری سے بوازنا ہوا
اس کی کمر کے گرد نازو چمانل کرنا ہوا بوال اور چہل قدمی کرئے لگا۔
رنڈ شکوانیر! ماشکو کی خوتصورت جگہ جس کے اطراف میں خوتصورت نارنچی عمارات
ننی تھیں اور سباح نہاں ا ننے جسین نل جی رہے تھے۔
دامیر آج علتبا کو لنے تھوڑی آؤنبگ پہ آنا تھا ک نونکہ دو دبوں سے وہ اس سے
شکوہ کر رہی تھی کہ گھر میں رہ کے وہ دامیر کی طرح ئےزار سحضنت نہیں نتبا جاہنی
تھی جس پہ وہ پری طرح خوتکا۔
انک ہاتھ ناکٹ میں جبکہ دوسرا علتبا کی کمر کے گرد نبدھا تھا ،علتبا خوسی سے
اس کی کمر سے لتنی ہونی نانیں کر رہی تھی۔
”تم مجھے شن نہیں رہے نا۔۔“ دامیر کے خواب پہ د ننے پہ علتبا ئے اس سے
حقگی تھرے انداز میں کہا۔
”شن رہا ہوں۔۔“ دامیر ئے شا منے دنکھنے کہا۔
”ادھر میری طرف دنکھو۔“ علتبا ئے ا ننے ہاتھ سے اس کا چہرہ اننی جانب کبا۔
”دنکھوں گا بو سر عام حطا ہو جائے گی۔“ اس کو گہری تگاہوں سے دنکھنے وہ
ع ن
گھمئیر لہچے میں بوال کہ لتبا آ یں ھ الئے اس کی نات پہ ھت نپ سی نی۔
گ چ ب ت ھ ک
”تم شا منے ہی دنکھو اور سنو۔۔“ اس کا چہرہ وانس شا منے کی طرف کرئے وہ
ستتھلنے ہوئے بولی کہ دامیر کے ہون نوں پہ ہلکی سی مشکراہٹ آنی ،وہ تھر سے اننی
تھ ک
خوسی کا اظہارکرئے لگی۔ چب دامیر ئے اجانک نازو سے اس کو نجنے دوسری جانب
کبا۔۔
ل کن ھ ت تس گ کھ تھ ک
اس کے ا نسے اجانک نجنے پہ وہ بو ال سی نی اور لنے اس کو د ھنے گی
جس کا ہاتھ اننی ونشٹ کی جانب تھا۔ اس کا سر اجانک جکرا شا گبا چب آنکھوں کے
شا منے جٹسے انک قلم سی لہرانی۔
انک نک سنور چہاں کبانیں نکھری پڑی تھیں۔ دھواں اتھ رہا تھا۔ وہ ا نسے ہی
ن ن ت گ لب ت ک
دامیر کے ھے ھڑی ھی ،س ف بوٹ نی ھی اور ا ک آواز کابوں سے کرانی۔ جن ن
”تم تھبک ہو؟“ دامیر کے چہرے کے ناپرات نالکل سباٹ تھے چب وہ اس
آدمی کو گھور رہا تھا کو ئےدھبانی میں ادھر آتکال تھا لبکن اس کی طرف مڑئے اس
کے چہرے کو ہاتھوں میں تھرئے پرمی سے بوچھنے لگا۔ علتبا ئے انبات میں سر ہالنا۔
دامیر مزند عصے سے پڑپڑانا ہوا اس کو شاتھ لنے آگے پڑھا۔ وہ جبال سمجھ کے
زہن سے چھبک جکی تھی کہ شاند کتھی پرانا شاتھ گزارا وفت ہو۔ لبکن نک سنور نکھرا
ک نوں پڑا تھا؟
اس وفت وہ دوبوں شانبگ اپرنا کی طرف پڑھ آئے تھے چہاں نس ا نسے ہی وہ
دوبوں جا رہے تھے۔ ان سے کجھ ہی قاصلے پہ موخود دامیر کے گارڈز جل رہے تھے۔
”ڈرنس لتبا جاہو گی۔۔“ دامیر ئے شا منے شو کٹس میں لگے گالس وال کے نار
سرخ ڈرنس کی طرف اشارہ کبا خو شل نو لٹس ہوئے کے شاتھ گ ھت نوں نک آنا تھا۔
”کس لنے۔۔؟“علتبا ئے نہلے اس ڈرنس کو دنکھا تھر دامیر کو نبکھے انداز میں۔
”میرے لنے۔۔۔“ وہ اس کو گھورئے میں مصروف تھی چب دامیر ئے ہلکا شا
اس کی جانب چھکنے مشکرا کے کہا۔ علتبا اس کی سرارت پہ اس کے کبدھے پہ ہلکی
سی ج نت رسبد کرنی ہونی وانس اس سرخ ڈرنس کو دنکھنے لگی۔
اس کے کیڑوں پہ منی کے داغ تھی موخود تھے۔ نبا جل رہا تھا کہ وہ کسی ”ضروری“
کام سے وانس آنا تھا۔
”وہ روم میں ہے شاند اس کو خوٹ آنی ہے بو زچم جبک کر رہی ہے اس ئے
پہ تھی کہا کہ کونی اندر ۔۔۔“ لبام جٹسے جٹسے بولبا گبا و نسے ہی رنان کی تگاہ نہلے
کمرے کی طرف اتھی تھر اسی طرف پڑھبا سروع ہو گبا اور چب نک لبام اننی نات
م
کمل کرنا وہ اندر جا حکا تھا۔
”میں کبا کہہ شکبا ہوں سبکی شوہر ہے اس کا۔۔“ نبا بوری نات سنے رنان کو
اندر جانا دنکھ وہ جلنے دل سے پڑپڑائے لگا اور کبدھے احکا کے اب اس کے تھی
کھائے کا ان یطام کرئے لگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کن
دروازہ کھلنے کی آواز پہ اس ئے ہڑپڑا کے دنکھا کہ رنان کی آمد اس کی آ یں
ھ
پڑی ہونیں۔ نیزی سے اس ئے جبکٹ کو اننی نانگوں پہ تھبال دنا ک نونکہ اتھی وہ انک
شارنس نہنے ہونی تھی اور نانگ کے سنجز دنکھ رہی تھی خو انک دو کھل جکے تھے۔
”رنان نمہیں کسی لڑکی کے کمرے میں جائے کی نمیز نہیں ہے۔“ چنہ اس کو
ع ھ کن
ت
د نی ہونی صے سے ھ یکاری کہ رنان ئے آس ناس تگاہ دوڑانی۔
”مجھے کبا مغلوم تھا کہ لڑکی کا کمرہ ہے۔۔“ وہ الپرواہی سے بوال کہ تگاہ اس کی
نانگوں کی جانب گنی ،آنکھوں میں نسونش اپر آنی۔
”دکھاؤ مجھے زنادہ بو نہیں خون نہہ گبا۔“ چب وہ سنجبدگی سے دروازہ الک کرنا اس
کی طرف پڑھا بو چنہ ئے نبا کسی نحث کے اننی جبکٹ شانبڈ پہ کی اور اننی شارنس کو
زرا شا اوپر کی جانب کبا کہ اس کی تھانی پہ نبا ہوا وہ زچم تظر آنا جس کی وجہ سے
نانگ کے اِ س حصے میں شوزش تھی آگنی تھی۔
ن
وہ نبڈ پہ تتھی تھی اور نبڈ سنٹ پہ خون تھی لگ حکا تھا۔
”میں ڈاکیر کا ارننج کروا رہا ہوں۔“ رنان زچم کو دنکھبا ہوا انبا فون تکا لنے لگا۔ چنہ
ئے سر ہالنا اور اننی جبکٹ کو نامحسوس انداز میں وانس اننی نانگوں پہ رکھ دنا۔
”کل کی خو تھی ڈنلتبگ ہے میں دنکھ لوں گا تم انک دن رنشٹ کرو ورپہ پہ
ناقانل پرداشت ہو جائے گا۔“ فون وانس ناکٹ میں رکھنے اس کے ناس نتتھنے ہوئے
پرمی سے بوال۔
”نہیں میرا جانا ضروری ہے۔۔“ وہ انل لہچے میں بولی کہ رنان ئے اس کو گھورا۔
”چب میں کہہ رہا ہوں کہ ہو جائے گا شب تھبک بو نبا نحث کنے انک دن
گزارنا نمہارے لنے مسکل نہیں ہے۔“ رنان تھوڑا سنجبدگی سے سمجھانا ہوا بوال۔
”میں نبا نحث کنے دن گزار شکنی ہوں لبکن نبا کام کنے نہیں۔“ وہ تھی دوندو
بولی کہ رنان سرد آہ تھر کے رہ گبا ،وفت آئے پہ اس سے ن نٹ لے گا وہ۔
”وزن نہیں ڈالو اس پہ ،کروٹ لے کے لنٹ جاؤ۔۔۔“ چنہ اتھی اتھنے کا ارادہ
رکھنی تھی کہ وہ کجھ نہن شکے اب اس جالت میں وہ اس کے شا منے اننی دپر نہیں رہ
شکنی تھی۔
”میں انبا پراؤزر تکال لوں۔“ وہ تگاہیں ت ھیرنی ہونی بولی۔
”لنٹ جاؤ اتھی۔۔“ رنان ئے القاطوں پہ زور دنا چنہ کو اس وفت اس سے
نحث کرنا فصول لگا نتھی جاموسی سے ا ننے خوڑے میں نبدھے نالوں کو کھو لنے لگی۔
جبکٹ بو وہ نہلے سے ہی انار جکی تھی اب نس انک سرٹ نہن رکھی تھی۔
م جن ن
”تم کبا کر رہے ہو؟“ چب وہ کروٹ لنے لتنی بو ا ننے ھے رنان کو حسوس
کرئے گڑپڑا سی گنی۔ وہ اس کے نالکل فرنب نشت پہ تھا کہ رنان کا ستبا اس سے
نچ ہو رہا تھا۔ رنان ئے نبڈ پہ پڑا ک یفرپر تھی دوبوں پہ اوڑھ دنا۔
”میں تھی تھکا آنا ہوں نار رنلبکس ہونا جاہبا ہوں۔“ اس کے گرد نازو تھبالنا ہوا
وہ عام سے انداز میں بوال۔
”بو انبا پڑا نبڈ نمہیں تظر نہیں آرہا نہی انک نبگ سی جگہ پہ لنتبا تھا۔“ اس کے
ہاتھوں کے لمس کی خرارت سے وہ سنتبا اتھی تھی نتھی اس پہ خڑھانی کرنی بولی جس
پہ رنان کے ہون نوں پہ نٹشم نکھرا۔
”اب مجھے پہ پہ کہبا کہ نمہیں الجھن ہو رہی ہے میرے شاتھ لنتنے سے تھی۔“
وہ اس کو خڑانا ہوا بوال جس پہ چنہ ئے دانت نٹسے۔
”جس طرح کی نمہاری خرکنیں ہیں دل جاہ رہا ہے اتھا کے ناہر تھتبکوں۔“ چنہ
پڑپڑانی اور اننی گردن سبدھی کی۔
”جٹسی نمہاری جالت ہے مجھے اتھائے سے بو رہی تم۔“ وہ اس کو مزند نبگ کرنا
ب ھ ت ھ کن
ہوا بوال اور اس کو ا ننے شاتھ لتبا لبا کہ چنہ کی آ یں لی اور دل کی دھڑکن نیز
ہونی۔
”رنان انبا ہاتھ ننجھے کرو۔۔“ ک یفرپر کے اندر اس کی رنبگنے ہاتھ کو محسوس کرئے
ہوئے وہ اجانک سے جنچی خو اس کی پرہنہ نانگ کی طرف جا رہا تھا کہ رنان اجانک
قہقہہ لگا اتھا۔
”اب چھونی مونی سرارت بو کر ہی شکبا ہوں نمہیں انبا عادی نبائے کے
لنے۔۔“ وہ اس کو مشلشل زچ کر رہا تھا اور اس کی ئےنسی کا قاندہ اتھا رہا تھا ورپہ
ت ن ً
فورا اتھ کے ا ننے ڈ گر سے انک دو کٹ بو لگا ہی د ننے ھے اس ئے۔۔
”تم پہ شب نبہودہ خرکنیں کر کے مجھے مزند کوفت میں متبال کر رہے ہو۔۔“ چنہ
اس کو جبانی ہونی بولی کہ رنان ئے اس کے کبدھے پہ انبا لمس چھوڑا۔
”اسی کوفت کو تم اننی عادت نباؤ گی کسی دن۔۔“ وہ سرگوسی میں بوال اس کے
کھلے نالوں کو کبدھے سے شانبڈ پہ کرئے انک جانب کر دنا۔
دروازے پہ ہوئے والی دسبک سے رنان کو دھبان تھ یکا اور ندمزا ہوا۔
ت ُ
”چنہ میں ئے لنچ رنڈی کر دنا ہے آجاؤ اور اس رنان کو ھی کہہ دو۔“ لبام کی
آواز ناہر سے آنی اور آخر پہ وہ رک کے جٹسے نانسبدندگی سے بوال کہ رنان کو اس کے
عصہ آئے لگا۔
ت ش ہ ن ُ
ن ن
”پہ اس رنان کو ،کبا ہونا ہے۔۔ میز یں کھانی م ئے ا ننے دور کے تنے
کو۔۔“ رنان ناگوار لہچے میں چنہ سے بوال لبکن اتھنے کی علطی اس ئے اتھی تھی نہیں
کی تھی۔
”لبام اتھی ضرورت نہیں ،ہم تھوڑی دپر تغد کھا لیں گے۔۔“ چنہ ئے اس کو
پرمی سے ناال کہ نبا کجھ بولے وہ نبد دروازے سے ہی وانس جال گبا۔
رنان ڈھنٹ سے وہ ننجھے ہوئے کی امبد کو گولی مارے گہرا شانس تھر کے
ت ہ ش گ ھ کن
آ یں موند نی۔ چب نک ڈاکیر آنا وہ کجھ دپر نک خود کو پر کون کرنا جا نی ھی۔
اِ س کی اننی پزدنکی سے اس کی دھڑکن نیز ہونی جا رہی تھی لبکن وہ ننجھے ہتنے کا
متمنی نہیں تھا۔
قسوں چیز لمحات میں کجھ دپر جاموسی جانل رہی چب رنان کی سنجبدہ مگر گھمئیر
آواز اس کو نالکل فرنب سے سبانی دی کہ اس کے بو لنے سے ہی انک پرقی لہر رپڑھ
کی ہڈی میں سران نت کر گنی۔
”نمہیں نہیں لگبا ہمیں اننی شادی کو آگے پڑھانا جا ہنے۔“
” پہ نالکل تھی مباشب وفت نہیں انسی نات کرئے کا۔۔“ چنہ ئے سنجبدگی
سے کہا اور اس کے چمار کو تھک سے اڑانا۔
”نمہاری جگہ لبام کو ا ننے سے لتبا کے کونی مباشب وفت دنکھ کے نات
کروں؟“ چنہ کی نات پہ وہ شلگ کے رہ گبا تعنی جد ہو گنی۔
جائے گا۔“ رنان کی نات پہ اس کی آنکھوں میں سجنی در آنی اور رنان سے نیز لہچے میں
ً
بولی۔ رنان کو اننی علطی کا اجشاس ہوا اور فورا اس ئے کال النی۔
م
”چنہ۔۔!“ دروازے پہ انک نار تھر دسبک ہونی۔
”دپر ہو گنی۔۔!“ چنہ اقسوس سے پڑپڑانی اور اتھنی نبڈ سے ننچے اپری۔
”ناہر انک لبڈی ہے خو شاند ڈاکیر تھی ہے۔“ لبام کی آواز پہ رنان ئے نیزی
سے دروازہ کھوال۔
”و نٹ ،دروازہ پہ کھولبا۔“ رنان انبا بوال اور کمت نوپر شستم کی جانب گبا۔
”میرے آدمی آرہے ہیں وہ اس کو نہاں سے لے جانیں گے۔“ رنان ئے انبا
کہا نب نک چنہ تھی ناہر آگنی۔
”آنی اتم شوری۔۔“ وہ نس انبا ہی بوال چہرے پہ ندامت چھلک رہی تھی ،رنان
ئے ماتھا مشال نب نک کجھ لوگ آئے اور اس لبڈی ڈاکیر کی آنکھوں پہ ننی ناندھے
اجانک اس کو گھستنے وہاں سے لے گنے۔
ھ کن ک ُ
ی م ت تم
”پہ کہاں لے گنے اب اس کو؟“ چنہ نوپر پہ ظر آئے واال ظر د نی ہونی
بولی۔
”کہیں نہیں ،نس انک دو سڑکوں کا جکر لگوا کے وانس لے آ نیں گے نہیں
پہ۔ اس کی آنکھوں پہ ننی نبدھی ہو گی بو اسے مغلوم نہیں ہو گا۔“ رنان کے مونانل
شا منے کرئے شکرین کو دنکھا چہاں اس کے آدمی کا مٹسج آنا تھا۔
”قکر نہیں کرو میں پہ شب ستتھال لوں گا ،لبام کا کسی کو مغلوم نہیں ہو
گا۔“ رنان ئے ان کو نشلی دی۔
”اننی دپر سے کبا کر رہے تھے اندر کھانا تھی تھبڈا ہو گبا۔“ لبام ئے چنہ سے
بوچھا کہ ئےشاچنہ ہی چنہ کی تگاہ رنان کی جانب گنی۔
”رنشٹ کر رہے تھے ،میں آج ادھر ہی رکوں گی۔“ چنہ ئے رنان سے تگاہیں
ت ھیرئے لبام سے کہا کہ چنہ کی نات شن کے اس کے چہرے پہ روبق سی آگنی جبکہ
گ ھ کن
رنان آ یں ھما گبا۔
”چب مباں ن نوی اکبلے کمرے میں موخود ہوں بو شوال نہیں بوچھنے جا ہنے۔“
لہ ت تن
چنہ وہیں موخود انک صوفے پہ ھی چب رنان ئے لبام کے ناس سے گزرئے کی
سی پڑپڑاہٹ کی جس پہ وہ خود تھی گڑپڑا گبا۔ عج نب ئےناک انشان تھا۔ انشان تھی
کہاں تھا وہ۔
تھا۔ جشب عادت وہ آسنین کہت نوں نک فولڈ کنے ہوئے تھا ،ہاتھ کی اگلی میں انت نق
سی انگوتھی کہ علتبا اس انگوتھی کو تغور دنکھنے لگی۔ چب سے دامیر سے ملی تھی پہ
انگوتھی نب سے اس کی اتگلی میں تھی لبکن اب ا نسے محسوس ہو رہا تھا جٹسے نہلے تھی
ت کن
ک
د ھی ھی اس ئے۔۔ سی اور جگہ۔
”نکس سے قارغ ہو گنی۔۔؟“ دامیر اس کا آنا بوٹ کر حکا نتھی حقگی سے بوال
کہ آج وہ کبابوں میں ہی مگن رہی تھی۔
”مجھے نبا ہی نہیں جال کہ میں انبا وفت نکس کے شاتھ ہی تھی۔۔“ علتبا تھوڑا
حق یف سی ہونی بولی۔
”میں چیران ہوں تم مجھے فراموش کر جکی تھی۔۔“ دامیر اسی انداز میں بوال کہ
علتبا جلنی ہونی اس کے فرنب آنی اور اس کی نشت پہ انبا سر تکا دنا۔
”تم ناراض ہو؟“ وہ نبار تھرے لہچے میں بولی کہ اس کی آواز میں معصومنت
تھی ،دامیر مشکرا دنا۔
”اب نہیں ہوں۔۔“ اس کے ہاتھ ا ننے ستنے پہ محسوس کرئے وہ سنجبدگی سے
بوال۔ علتبا اس کی نشت سے ہتنی آگے کی طرف آنی خو اب انک ناؤل میں انڈے
تھت نٹ رہا تھا۔
”میں تھی۔ نسرظنہ تم میرے فرنب ہو۔۔“ اس کا چہرہ تھامے ا ننے مقانل
کرئے شوخ سی جشارت کرنا ہوا بوال کہ علتبا مشکرا دی۔
الن میں ہلکی سی روسنی تھبلی تھی ،گالس ڈور کھال تھا اور اس کے نالکل شا منے
کرسنوں پہ دوبوں نتتھے ہاتھ میں کاقی کے مگ تھام ر کھے تھے۔ کاقی کے مگ سے
تھاپ اڑ رہی تھی ،کرسباں نالکل فرنب تھیں کہ علتبا ئے اس کے کبدھے پہ سر
تکانا تھا۔
”کتنی خوتصورت اور بون نق سی ہے نا پہ۔۔“ اس کے ہاتھ میں نہنی انگونی کو
گھمائے ہوئے علتبا بولی۔
”ہوں۔۔۔“ دامیر ئے نس سر ہالنا۔
علتبا کی تگاہ اسی انگوتھی پہ چمی تھی خو آج اس کی بوجہ اننی جانب زنادہ کھ نچت
رہی تھی۔
دامیر ئے اس کے شائے کے گرد انبا نازو رکھا اور کنتنی کو ل نوں سے چھوا۔ کاقی
کا مگ وہ جتم کر کے ننچے رکھ حکا تھا۔
اس کو کھوئے کا وہ شوچ تھی نہیں شکبا تھا ،اگر اس کی ناداشت پہ تھی جانی
بو ہو شکبا تھا وہ اس کا ناڈی گارڈ ننے ہی اس کو انبا لتبا لبکن خود سے دور کتھی پہ
کرنا۔ اس کو تگاہوں کے حصار میں رکھنے جٹسے وہ اس کو حقظ کر رہا تھا۔ اس کو
سرا ہنے کا دل کر رہا تھا کہ اس کا دل کتنی عقبدت سے اس کو جاہبا تھا اس کو ہر
وفت محسوس کرئے کی جاہ کرنا تھا۔
اس کا ملبا کونی معجزہ ہی تھا۔ کتنی ہی لڑکباں تھیں خو تگاہ میں آجانی لبکن دل
ضرف اس کے لنے محال تھا ،اس کی طرف ہی مانل ہوا تھا۔ اس کی مجنت میں وہ پری
طرح گرفبار تھا کہ رہانی کسی صورت ممکن نہیں تھی۔ اس کی خوسنو کا وہ دبواپہ تھا۔
چہرے سے نال ننجھے ہبائے وہ پرمی سے اس کی گردن کو چھوئے لگا ،اس کی مہک
کو محسوس کرئے لگا۔
”دامیر ڈرنک نہی پر ہے۔“ دامیر کی جشارت پہ وہ سنتبانی اور اس کو ناز رکھنے
کی جاطر بولی۔
”وہ جانبا ہے جس نل اس کی تظر نہاں ا تھے گی اگلے ہی نل وہ آنکھوں سے
مجروم ہو گا۔“ اس کی آواز سرگوسباپہ کان کے فرنب سبانی دی۔ اس کی عام انداز
میں حظرناک عزاتم ستنے وہ چیران ہونی۔
”میں نمہارے ننجھے خوار ہوئے واال ہوں۔“
اس کے چہرے کو اننی طرف کرئے وہ گہرا شانس تھر کے بوال۔ اس کے
ناپرات سنجبدہ تھے لبکن آنکھوں میں مجنت کا تھا تھے مارنا سمبدر آناد تھا۔
”جاہے کجھ تھی ہو جائے تم پہ نات کتھی نہیں تھولو گی کہ دامیر تم سے
ئےانبہا مجنت کرنا ہے ،نمہیں پہ تھی ف نول ہو نب تھی تم ضرف میری ہو۔۔“ اس
کے ما تھے سے ماتھا تکائے ہوئے وہ جٹسے اننی ئےنسی طاہر کر رہا تھا ،علتبا کی
آنکھوں میں الجھن در آنی۔ اس کے ہاتھ پہ انبا ہاتھ رکھنی ہونی وہ دامیر کی آنکھوں میں
دنکھنے لگی۔
”دامیر انشا ک نوں کہہ رہے ہو؟“ وہ پرمی سے بولی ،دامیر کا انداز انشا تھا جٹسے
علتبا اتھی اس سے چھین جائے گی۔
”وعدہ کرو مجھ سے کہ تم کسی تھی صورت مجھ سے دور نہیں ہو گی۔“ اس کے
ہاتھ کی گرفت سحت ہونی اور وہ انک جذب کے عالم میں کہنے لگا جٹسے پہ لمحہ دونارہ
مٹسر نہیں ہونا۔
”میں وعدہ کرنی ہوں۔۔“ وہ اس کو تفین دالنی ہونی بولی اور تھوڑا آگے پڑ ھنے
دامیر کے رجشار پہ ہونٹ ر کھے۔۔
”دامیر اس تھوڑے عرصے میں نمہیں جا ہنے لگی ہوں۔ میری دنبا نہت محدود
سی ہے اور تم میرے لنے نہت ضروری ہو۔ میں تم سے دور کتھی نہیں جاؤں گی۔“
دامیر کی ک یق نت وہ نہیں سمجھ نا رہی تھی ،اس کی آنکھوں میں دنکھنے وہ مضنوط
ع ت م
لہچے میں بولی دامیر کے ہون نوں پہ مشکراہٹ آنی کہ لتبا ھی ین ہونی م کرا دی۔
ش م ظ
چ
اس کا ہاتھ تھامے اس کو کھڑا کرئے دامیر ئے ا ننے ناس کبا۔ علتبا ھجھکنے ہوئے
اس کی گود میں نتتھ گنی اور انبا سر اس کے ستنے پہ تکا دنا۔
”تم نہت ہتبڈسم ہو دامیر اور نہت ا چھے تھی۔۔“ اس کے نازو پہ اتگلی ت ھیرنی
ہونی جبا سے بولی۔
”جس دن تم ئے مجھے چھوڑئے کی نات کی اس دن میں سیطان ین جاؤں
گا۔۔“ وہ آہشنہ آواز میں پڑپڑانا اور اس کے نالوں کی مہک کو ا ننے اندر انارئے لگا۔
”تم کٹسی نانیں کر رہے ہو آج؟“ علتبا اس کے انداز سے تھوڑا گ ھیرا گنی
تھی۔ وہ اس کو ک نوں چھوڑ کے جائے گی۔
”میں نس نمہیں محسوس کرنا جاہبا ہوں کہ تم میرے ناس ہو اور میری ہو۔۔“
اس کے ہاتھوں کو ل نوں سے لگانا ہوا بوال اور اجانک علتبا کے چہرے پہ بوشوں کی
پرشات کر دی کہ وہ چھت نپ کے کھلکھال دی۔
کن
”دامیر۔۔“ اس کے خزنانی ین کو روکنی وہ اس سے دور ہونی ہونی بولی اور آ یں
ھ
دکھائے لگی۔
”نمہارے گارڈز نہاں شب موخود ہیں۔۔“ اس ئے جگہ کا اجشاس دالنا جبکہ
دامیر کے ناپرات سے لگ رہا تھا کہ وہ اس کے دور جائے سے خوش نہیں تھا۔
”تم ئے کہا تھا کہ تم دور نہیں جاؤ گی۔“ وہ سنجبدگی سے بوال اور خود تھی اتھ
کھڑا ہوا۔
”میں نہیں گنی لبکن۔۔“ وہ کجھ کہنی کہ دامیر ئے اس کو ا ننے ناس کبا۔
”تم نہت بوزنسسو ہو رہے ہو۔۔“ اس ئے دامیر کے گرد نازو ناندھے ناکہ وہ خو
تھی شوچ رہا تھا اس سے نحات نائے۔ علتبا ئے محسوس کبا تھا کہ وہ انشک نور ہو رہا تھا
نتھی اس کو پرشکون کرنا جاہا۔۔
”نمہارے مغا ملے میں ہوں۔“ دامیر کو خود تھی اجشاس ہوا کہ وہ زنادہ ہی خزنانی
ین دکھا رہا تھا۔ خود کے اعصاب پہ قابو نائے ہوئے دو نین گہرے شانس تھرے۔۔
”آنی لو بو دامیر۔۔ تم ا ننے انشک نور پہ ہو نلیز ،نمہارا انداز مجھے ڈرا رہا ہے۔۔“ اس
ئے مدھم لہچے میں کہا۔
وہ اس کو تفین دال رہی تھی ناکہ دامیر اچھا محسوس کر نائے اور اس کے نہلی
دفع ا نسے اظہار پہ دامیر کے ستنے پہ جٹسے تھبڈک سی پڑی اور اس کو مزند خود میں
تھتنحا۔
کن َ
”لو بو مور پرنسٹس۔۔“ اس کے نالوں پہ ہونٹ رکھنے اس ئے آ ھیں موندیں۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
خوتصورت شا جدند طرز سے مزین شو نٹ) (suiteجس کی کھڑک نوں کی آگے
پردے لہرا رہے تھے اور نتم اندھیرے میں ڈونا ہوا تھا۔
ا نسے میں شلنپ گاؤن نہنے وہ کمرے میں دانیں نانیں جکر لگانی ہونی مشلشل
کسی سے راتطہ کرئے کی کوشش میں تھی لبکن ہر نار مابوسی اس کا منہ خڑھا رہی
تھی۔
ھ ت
”فباد۔۔۔ کہاں ہیں نمہارے آدمی نحو ان کو۔“ اوندھے منہ نے فباد کے
تل
ھ چ
بدھے کو نجھوڑئے ہوئے عصے سے بولی۔ ک
”مرئے تھنج دوں ان کو۔۔“ وہ ندمزا ہوئے سبدھا ہوا اور شا منے عصے سے
تھری ڈرنبا کو دنکھنے لگا۔
”نمہیں مزاق لگ رہا ہے میرے ناپ کو اتھا کے لے گنے ہیں۔“ ڈرنبا دانت
نٹسنے ہوئے بولی کہ چب سے اس کو نبا جال تھا شکون سے نہیں نتتھ رہی تھی اور اس
کو ا ننے آدم نوں کی پڑی تھی۔
”خو تھی اتھا کے لے گبا ہے چھوڑ جائے گا نار پرنشان ہوئے والی کبا نات
ہے۔“ وہ الپرواہ انداز میں بوال اور اتھ کے اننی سرٹ نہتنے لگا۔
”پرنشان کٹسے نا ہوں فباد ،کسی کو تھی ان کے نارے میں نہیں نبا اور نا ہی
ان کا نمیر لگ رہا ہے۔۔“ وہ پرنشانی سے بولی اور انک نار تھر نمیر ڈانل کرئے لگی۔
”اکبڈمی راتطہ کرو اور ان سے کہو کہ لوسین کا نبا لگوائے ،نتمنٹ کی قکر پہ
کریں شام نک پرانسفر ہو جائے گی۔“ اس کو کمر سے تھامے ا ننے فرنب کبا اور
ہون نوں کو خوم کے فرنش ہوئے جال گبا۔
ڈرنبا اس کے د ننے مسورے پہ عمل کرنی نیزی سے سر جارج سے راتطہ کرئے
لگے۔ ان کے زر تعے وافعی پہ کام جلدی ہو شکبا تھا۔
”میں ئے کہہ دنا ہے انہوں ئے کہا نتمنٹ ہوئے ہی وہ آدم نوں کو لگا دیں
گے اس کام پہ۔“ چب نک وہ فرنش ہو کے آنا ڈرنبا ئے اس کو نبانا۔۔
”اننی کسی مج نوپہ کے شاتھ ہو نگے وہ۔۔“ فباد سر چھبک کے بوال۔
اس وفت دوبوں کے وہم و گمان میں تھی نہیں تھا کہ پہ کام رنان اور دامیر کا
ہو گا ک نونکہ ان دوبوں کو اتھی تھی نہی شک تھا کہ وہ ڈرنبا اور فباد جاکم کے تغلق کے
نارے میں نہیں جا ننے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آرمری میں اس وفت شا منے جلنی شکرنیز کی روسنی ہی تھی اور ان کے شا منے
راکبگ چئیر پہ نتتھا وخود ا ننے ہاتھ میں مونانل تھامے کسی چیز کی ڈنتبلز جبک کر رہا
تھا۔
”سر اکبڈمی کال کی گنی ہے لوسین کے عانب ہوئے کے نارے میں۔“
ڈرنک کی آواز پہ دامیر ئے سر اتھا کے اس کو دنکھا۔
”ان کی مزند کالز کی ہسیری جبک کرئے رہبا اور لوکٹشن کا مغلوم ہوا؟“
”نہیں سر پران نو نٹ نمیر! سر جارج ئے نتمنٹ کا مطالنہ کبا ہے۔ ہو شکبا ہے
نتمنٹ سے مغلوم ہو جائے۔“ ڈرنک ئے مزند کہا بو دامیر چئیر سے کھڑا ہوا۔
”انشا ہی ہو گا ڈرنک۔۔“ وہ تفتنی لہچے میں بوال اور مونانل پہ تظریں کرئے نانپ
کرئے لگا۔
دامیر” :کانیرٹکٹ ریج یک یڈ!“
”کبا ہوا نہاں ک نوں جلی آنی؟“ علتبا چہل قدمی کرئے چب مٹشن کی نجھلی
شانبڈ آنی بو دامیر اس کے فرنب جانا ہوا بوچھنے لگا خو خود شونبگ اپرنا میں شونبگ
پرنکٹس کر رہا تھا۔
”اکبال اکبال محسوس ہو رہا ہے۔۔“ وہ اداس لہچے میں بولی کہ دامیر ئے اس کے
چہرے کو غور سے دنکھا جٹسے اندر کا جال جانبا جاہ رہا ہو۔
”تم نہیں تھہرو میں اتھی آنا ہوں۔“ اس ئے ہبڈ فوپز لگا ر کھے تھے اور دسبائے
تھی نہنے تھے ،وہ نہیں جاہبا تھا کہ علتبا شونبگ اپرنا میں جا کے ابواع و اقشام کی گیز
اور راتقل دنکھ کے گ ھیرانی نتھی اس سے کہبا ہوا وہ چیزیں رکھنے جال گبا۔ وانس آنا بو
ہالف شل نوز سرٹ نہن رکھی تھی اور کارگو نت نٹ میں مل نوس اس کے فرنب جال آرہا تھا۔
”ہم آج کہیں ناہر جلنے ہیں۔۔“ علتبا کے کہنے پہ دامیر ئے کجھ نل شوجا تھر
جائے کے لنے نبار ہو گبا کہ ا ننے دن وہ گھر میں تھی رہ کے کبا کرے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭
اس وفت وہ دوبوں انک نارک میں موخود تھے جبکہ دامیر کو مشلشل انک اجشاس
کھبک رہا تھا کہ کونی ان کو دنکھ رہا ہے نا ان پہ تظر ر کھے ہوئے ہے۔
وہ خوکبا تھا اور ا ننے گارڈز کو تھی اشارہ کر دنا تھا کہ کسی تھی صورت جال
کے لنے نبار رہیں۔
دامیر کی تظر ئےشاچنہ ہی علتبا کے ہاتھ کی طرف گنی چہاں اس ئے ڈانمبڈ
رنگ نہن رکھی تھی ،کجھ شکون شا محسوس ہوا۔ اس کی ہاتھ کی اتگل نوں کو ا ننے ہاتھ
میں الجھائے وہ دھیرے سے قدم اتھا رہے تھے۔
لکت ت ھ کن
علتبا آس ناس د نی م کرا رہی ھی کہ ا ننے دبوں یں انک نار بو وہ ناہر نی
م ش
تھی اور خود کو مزند فرنش محسوس کرنی تھی۔
وہ دوبوں انک نتنچ پہ نتتھے تھے چہاں سے نارک کا انک اچھا شا وبو مل رہا تھا ،کجھ
لوگ ان کی طرح ہی والک پہ تکلے تھے اور کجھ غورنیں ا ننے نحوں کو لنے اس نارک
میں آنی تھیں خو نلے اپرنا میں کھبل کود کر رہے تھے۔
علتبا اس کے ہاتھ میں ہاتھ د ننے کبدھے پہ سر تکائے ہوئے تھی چب دامیر
کی آواز پہ خونک کے اس کو دنکھنے لگی۔
”گھر جلیں؟“
”اتھی بو ہم آئے تھے۔۔“ وہ منہ نسورے بولی۔
”کھانا تھی رنڈی کرنا ہے نمہیں تھوک لگ جائے گی۔“ وہ نات نبانا ہوا بوال ک نونکہ
اس کی چھنی جس کہہ رہی تھی نہاں مزند رکبا تھبک نہیں تھا۔
”مجھے تھوک نہیں لگی اور ہم ناہر کھانا کھانیں گے ناں آج۔“ وہ الڈ سے بولی کہ
دامیر گہرا شانس ت ھر کے رہ گبا اور اطراف میں انک تظر دوڑانی۔
”نس تھوڑی دپر اور رکیں گے ،کھانا ہم گھر ہی کھانیں گے۔“ دامیر ر کنے والی
نات مانبا ہوا بوال کہ وہ خوش ہو گنی۔
”ہم ئے کتھی ناہر ڈپر نہیں کبا دامیر۔“ وہ شکوہ کرنی ہونی بولی۔ دامیر ئے
خواب د ننے کے نحائے نس اس کی کنتنی کو ہون نوں سے چھوا۔
”ڈرنک گاڑی نہیں ناس لے آؤ۔۔“ اس ئے ڈرنک کو مٹسج کر دنا جس پہ اگلے
ہی نل “اوکے” کا مٹسج آنا۔۔
”شو ننی اب گھر جلنے ہیں ،موسم تھبڈا ہو رہا ہے تم ئے اوپر کجھ نہبا تھی نہیں
ہے۔“ دامیر نتنچ سے کھڑا ہوئے بوال کہ علتبا کا چہرہ اپر گبا ،وہ مزند نہاں وفت گزارنا
جاہنی تھی لبکن دامیر کو جائے کبا عحلت تھی۔
”دامیر۔۔“
علتبا کے کہنے پہ تھی دامیر رکا نہیں تھا ،اس کا نازو تھامے اس کو کھڑا کر حکا
تھا جس پہ وہ شکوہ کباں تگاہوں سے اس کو دنکھنے لگی۔
”انبا نبارا نام ہے نمہارا لبکن تم زرا ا ننے نام کی طرح نبارے اور شو نٹ نہیں
ہو۔“
اس پرے موڈ میں اس سے ناراصگی تھرے لہچے میں بولی کہ دامیر مشکرا کے
تقی میں سر ہالئے لگا۔
”اسے نبارے نام والے آدمی کی تم کنی نار تعرتف کر جکی ہو۔“ وہ شاتھ جلبا
ن
ہوا جبا کے بوال کہ علتبا ئے آ کھیں گھمانیں۔
ت ع ت ککت کت م
” ھی ھی ھن لگانا ھی پڑنا ہے۔۔“ لتبا اپرانی ھی۔
ع ت م گھمک م ن
”اور اسی ھن یں ل جانا ہوں یں۔“ وہ ھوڑا ہٹشا تھا کہ لتبا اس کے
ہٹسنے پہ کھل کے مشکرانی تھی۔
گاڑی میں اس کو نتھائے اس کا دروازہ نبد کرئے اننی سنٹ نک آنا ہی تھا کہ
اجانک انک بولٹ اس کے فرنب سے گزرنی شانبڈ مرر سے نکرانی۔
آواز پہ علتبا خونکی اور دامیر کو دنکھنے لگی خو نیزی سے گاڑی میں نتتھا۔
”پہ کبا تھا۔۔“ اس کے چہرہ اجانک زرد ہونا سروع ہوا کہ وہ انک گولی کی آواز
سے گ ھیرا جکی تھی۔
”کجھ نہیں سنٹ نبلٹ ناندھ لو۔۔“ اس ئے جلدی سے گاڑی سبارٹ کی اور
مین روڈ پہ لے آنا۔
ً
”اننی ڈاپرنکشن جتنج کر لو فورا۔“
ً
اس ئے ڈرنک کو مٹسج کبا جس ئے فورا ل کبا ،دامیر ئے شانبڈ وبو مرر سے
مع
ننجھے جبک کبا ڈرنک دوسرے روڈ پہ محالف سمت گاڑی تھگائے لگا تھا۔
انک اور بولٹ نجھلے سٹسے سے نکرانی تھی کہ علتبا خوف زدہ سی اس کے نازو کو
تھام گنی ،آنکھوں میں ڈر سما گبا۔
گ ن
شکر تھا کہ گاڑی بولٹ پروف تھی وہ آرام سے ھر نچ نے ھے اگر کونی ان
ت کش ہ
گن ہاتھ لگنے اس ئے دامیر کو دنکھا ،دامیر ئے شوالنہ تگاہ اس پہ تکانی لبکن
علتبا کے ناپر ا نسے تھے جٹسے اس ئے کونی حظرناک نانپ ہاتھ میں نکڑ لبا تھا۔
”ئےنی قاشٹ۔۔“ وہ زور د نبا ہوا بوال کہ قاپرنگ اب مشلشل ہو رہی تھی۔ علتبا
ً
ئے ہڑپڑی میں گن تکالی اور فورا دامیر کی طرف انبا رخ کبا۔
”نکڑ کے رکھو کام آئے گی۔۔“ وہ گاڑی نہت ستبڈ سے دوڑا رہا تھا اور اس کو
نہت عام سے انداز میں اس کا رجشار تھبک کے کہہ رہا تھا کہ گن تھامے ر کھے۔۔
گن کو ہاتھ میں لنے اس کو ہول اتھ رہے تھے۔
”پہ کبا ہو رہا ہے؟“ وہ کانتنی ہونی آواز میں بولی کہ دامیر ئے اننی گن تکال
لی۔۔
وہ ا ننے گھر کے اپرنا میں داجل ہوا نب تھی ان کا ننجھا جاری رہا تھا۔
”ڈتم اِ ٹ پہ نہاں کٹسے آئے؟“ مین انئیرنٹس پہ گارڈ موخود نہیں تھے۔ وہ عصے
سے سنئیرنگ وہبل پہ ہاتھ مارنا ہوا گرجا۔ اس ئے انبا فون تکاال اور کسی کا نمیر ڈانل
کبا۔
”ہمت کٹسے ہونی ان شب کی نہاں نک آئے کی ،صنح ہوئے سے نہلے اگر مجھے
پہ لوگ نہاں پہ ملے بو تم خود کو نبار رکھبا میری گولی کھائے کے لنے۔۔“ منٹشن کے
”نمہاری زمہ داری تھی نا گارڈز ارننج کروائے کی بو کٹسے تم ئے پہ کوناہی کی۔۔
کٹسے وہ ہمارے مین گنٹ کو نار کرکے نہاں آئے خواب دو۔۔“
ڈرنک سر چھکائے کھڑا تھا ک نونکہ جانبا تھا اس سے علطی ہونی تھی اور اس کے
سر اس سے تھی مزند پرا شلوک کر شکنے تھے لبکن علتبا متم کی موخودگی میں نس انک
ت ھیڑ سے ہی کام جال تھا۔
”گن کہاں ہے نمہاری؟“ ڈرنک کے آگے کھڑے ہوئے وہ سرد لہچے میں بوچھنے
لگا۔ ڈرنک ئے اننی نتتھ سے اننی گن تکال کے شا منے کی۔ دامیر ئے وہ گن تھامی
اور اس کو الٹ نلٹ کر کے دنکھنے لگا۔
”کتنی دپر ہو گنی اس کو جالئے ڈرنک؟“
وہ سنجبدگی سے بوچھنے لگا ،ڈرنک ئے انک تظر اس کو دنکھا تھر دامیر کی نشت پہ
قاصلے پہ کھڑی علتبا کو خو چیرت و ئےتفتنی سے ان دوبوں کو دنکھ رہی تھی۔
”سر آج ہی پرنکٹس کی ہے۔۔“ اس ئے سر چھکائے کہا۔
”جل رہی ہے اتھی تھی؟“ وہ سر ہالنا ہوا بوال کہ ڈرنک ئے انبات میں سر
ہالنا۔ دامیر ئے نبا کسی مزند نات کے اجانک گن جالنی کہ علتبا کی جنخ ہال میں گونج
م ن
اتھی ،ڈرنک ئے تکل یف سے آ یں یں۔
چ ن ھ ک
نہاں پہ گارڈ نہرہ د ننے تھے ،اسی گارڈ کی الپرواہی اور عداری کی وجہ سے آج لوگ ان
ن
کے منٹشن نک ہنچ جکے تھے۔
”نمہیں ڈرنک کو دنکھبا جا ہنے دامیر اس کا خون نہہ رہا تھا۔“ علتبا کے چہرے
کی ہوانباں اڑی تھیں اور اب تھی اسے ڈرنک کی قکر ہو رہی تھی جس پہ دامیر ئے
ن م کن
سجنی سے آ یں یں وہ اس وفت لتبا پہ عصہ یں کرنا جاہبا تھا۔
ہ ع چ ن ھ
”اننی بوجہ مجھ نک رکھا کرو ،اندر جلو۔۔“ سرد لہچے میں ننتبہی انداز پہ علتبا ئے
ناراض تظروں سے اس کو دنکھا۔
”تم ئے ا ننے فرننی آدمی کو مارئے کی کوشش کی ہے دامیر وہ مر تھی شکبا
ہے۔“ علتبا ئے اس کو اجشاس دالنا جاہا۔
”مرا نہیں اتھی اور چیردار دونارہ ڈرنک کا نام لبا نا اس کے نارے میں شوجا۔“
انک نار تھر اس کے منہ سے ڈرنک کا نام ستنے وہ سجنی سے بوال کہ علتبا ئے سہم
کے اس کو دنکھا ،کجھ نل نہلے وہ جس دامیر کے شاتھ تھی پہ اس سے نالکل مجبلف
تھا۔ اس کی آنکھوں میں نبار نہیں تھا ،عج نب سی وجشت تھی انک ج نون تھا جٹسے وہ
جاک میں مال دے گا شب۔
”تم انبہانی خود عرض اور پرے سحص ہو دامیر ،آنی ہ نٹ بو۔۔“ روہا نسے لہچے میں
کہنے ،آنکھوں میں نمی لنے وہ ا ننے کمرے کی جانب تھاگ گنی۔ دامیر سرد آہ تھر کے
اس کی نشت کو دنکھبا رہ گبا ،مضظرب انداز میں اس ئے اننی سنو ک ھحانی۔
دامیر کا اس طرح نات کرنا اس کو نہت پرا لگا تھا ،وہ ڈری تھی اور تھر اس کا
پہ انداز اس کو مزند سہمائے کے لنے کاقی تھا۔
نبڈ پہ اوندھے منہ لتنے وہ آنسوں نہا رہی تھی ،کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز پہ
تھی وہ سبدھی نہیں ہونی تھی نلکہ انبا رونا جاری رکھا تھا۔
دامیر اس کے فرنب نتتھا اور اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھا۔
”پرنسٹس۔۔“ اس ئے پرمی سے تکارا مگر علتبا ئے انبا کبدھا چھبکے اس کے
ہاتھ کو خود سے دور کبا۔
”تم کٹسے کسی کے شاتھ پہ شب کر شکنے ہو ،تم ئے اس پہ گولی جالنی۔۔“
وہ روئے کے درمبان تم آواز لنے بولی ،دامیر ئے اس کے سر کو گھورا تعنی وہ تھر
ڈرنک کی نات کر رہی تھی۔
اگر دامیر اور ڈرنک اکبلے ہوئے بو کونی مسبلہ پہ تھا لبکن نات علتبا کی حقاظت
کی تھی اور آج دامیر سچ میں ڈر گبا تھا اس کے خوالے سے کہ اگر اس کو کجھ ہو جانا
بو وہ خود کو کتھی مغاف پہ کرنا۔
اس کا شاتھ ہونا ہی اسے خوف میں ڈال رہا تھا وہ کٹسے اس کی حقاظت کرے
گا۔
سبک نورنی روم میں آنا بو ڈرنک کتمرہ سنٹ اپ کے شا منے کھڑا تھا ،اس کے نازو
پہ خون کے نشان اتھی تھی تھے ،گولی چھو کے گزری تھی نازو میں ن نوشت نہیں ہونی
تھی۔
”سروع کے دن وہ نانٹ ڈبونیز میں تھا جبکہ اس کو دن کی ڈبونی دی گنی تھی
اور تغد میں اس ئے انبا ناتم تھر ندل لبا۔۔ آقکورس دن میں اس کا ارادہ پہ عداری
کرئے کا خو تھا۔۔“ دامیر نشلی سے فوننج جبک کرنا ہوا بوال اور ڈرنک کو ناد ننی تگاہوں
سے گھورا خو سرمبدہ شا سر چھکا گبا۔
رنان کی کال آئے لگی ضرور اس کو اطالع مل جکی ہو گی آج کے نارے میں۔
”سر جارج کے آدمی پہ ہوں؟“ رنان ئے انبا نجزپہ نٹش کبا کہ دامیر ئے تقی
میں سر ہالنا۔
”نہیں سر جارج کے آدم نوں کی انک نشانی ہونی ہے پہ کونی اور ہی لوگ
تھے۔۔ دسمن انک تھوڑی نال رکھا ہے ہم ئے۔“ دامیر مزند فوننج جبک کرنا ہوا رنان
سے بوال۔
”صنح ہوئے سے نہلے مجھے پہ آدمی جا ہنے ڈرنک۔۔۔“ دامیر ئے انبا رخ ڈرنک کی
ہ م ً
جانب کبا جس ئے فورا انبات یں سر النا۔
”خو بولٹس تھیں ان کا ستمبل لبا؟“ رنان ئے ناد آئے پہ کہا۔
”جی سر وہ ناس ہیں ،جبک ہوئے ہی ڈنتبلز مل جانیں گی۔“
”علتبا کٹسی ہے؟“ رنان کی آواز ستبکر سے اتھری بو دامیر ئے فون ستبکر سے
ہبا کے کان سے لگانا۔
”ڈر گنی ہے۔۔ جائے لگا ہوں اس کے ناس۔“ دامیر علتبا کے ردعمل کو شوچ
کے گہرا شانس ت ھر کے بوال اور سبک نورنی سے تکلنے لگا تھر رک گبا۔
ت تن
”زچم کو ناندھو ا ننے ،ن نوی ناراض ھی ہے میری نمہاری وجہ سے اور چب ک پہ
ن
ت چ ت ہن ُ
تھبک نا ہو اس کے شا منے یں آنا ورپہ ا ھی بو گولی ھو کے گزری ھی آ نتبدہ نشاپہ
سبدھا بوان نٹ پہ ہوگا۔“ ڈرنک کو دنکھنے ہوئے وہ سرد لہچے میں بوال کہ ناجا ہنے ہوئے
”دامیر ک نوں۔۔ نمہیں مارئے سے بو قاندہ تھی ہو گا اگلے کو ،دامیر ننحارے کو بو
اننی ن نوی کے شاتھ شکون سے ر ہنے دیں۔“ چنہ ناشف سے سر ہالئے ہونی اس کے
ن
شا منے تتھی کہ رنان اس کی نات پہ گھورئے لگا۔
”بو میری ن نوی نہیں ہے کبا جس کے شاتھ میں شکون سے رہ شکوں؟“ وہ
شلگبا ہوا اس سے بوچھنے لگا خو عام سے انداز میں اس کو مارئے کی نات کررہی تھی۔
”اس کی ن نوی اس کے شاتھ رہبا جاہنی ہے نمہاری نہیں۔“ وہ کبدھے احکا
کے بولی چب کہ پزاکت سے نلنٹ سے انک سنب کا نکرا اتھائے منہ میں رکھا۔
”سروع سے ہی اننی کڑوی ہو نا کسی جابور کو مار کے کھانا پڑنا ہے نمہیں۔“
رنان جلے دل سے پڑپڑانا۔ اس ئے ہمٹشہ نہبا کر رکھا تھا کہ اس کے رومنتبک موڈ کا
ستباناس کرنا ہے۔
”تم سے ننتنے کے لنے بو جابور کا خون تھی کم پڑ جائے۔۔“ وہ دوندو بولی اور
رنان ئے دانت نٹسے ،چیڑہ سجنی سے ت ھتنحا۔
”کسی دن بو لگو گی نا ہاتھ ،پرلے متنیں تھی کرو گی بو جان نہیں چھوڑوں گا
م کن ت گ ت تن
نمہاری۔۔“ شا منے ھی چنہ کو ہری ظروں سے د ھنے وہ من ہی من یں پڑپڑانا۔
”ہمیں کب تکلبا ہے۔۔؟“ رنان ئے آج کے کام کے نارے میں بوچھا۔
”رات کے دو نچے گارڈز مدہوش ہوئے ہیں وہاں کے بو اچھا وفت رہے گا پہ۔“
چنہ ئے سنجبدگی سے کہا۔ چب کام کی نات ہونی تھی بو دوبوں سنجبدگی اجتبار کر لتنے۔
چنہ کا زچم اب نہلے سے نہیر تھا ،نہلے بو اس ئے ارادہ کبا کہ لیزر سنجز ہو
جائے بو زنادہ نہیر رہبا لبکن اس کے لنے اس کو بورا دن صا تع کرنا پڑنا۔
رنان کا مونانل ن نپ ہوا ،کونی مبل تھی ڈارک و نب سے۔ کسی کانیرنکٹ کا
اگرنمت نٹ تھا اور نتمنٹ فوری طور پہ ادا کرئے کی نات تھی۔۔ رنان ئے ڈنتبلز جبک
کیں۔
رسبا میں ہی تھا کانیرنکٹ۔ اس کے لب مشکرا د ننے ،جس ڈان کو چنہ ئے
منتبگ روم میں مارا تھا اس کے تھانی کو مارئے کا کانیرنکٹ دنا گبا تھا۔ رنان ف نول
کر لتبا لبکن اتھی وہ کجھ دبوں کے لنے پرنک پہ تھا۔ کجھ دبوں نک ان کو وانس جلے
جانا تھا رسبا اور کانیرنکٹ کا وفت نس نین دن نک کا تھا اسے بورا کرنا اتھی ممکن
نہیں تھا۔
”ریج یک یڈ!“
پہ مٹسج لکھنے اس ئے تھنج دنا تھا۔
ڈارک و نب پہ لوگ کسی کو تھی اشاشن کرئے کے لنے ہانیر کر لبا کرئے تھے
لبکن اس کی تھاری فتمت د نبا پڑنی تھی اور کونی تھی انبا پرسبل ڈ نبا انئیر نہیں
کرئے تھے لبکن خو ہبکبگ میں ماہر ہوئے تھے وہ انک منٹ میں ڈ نبا نک رشانی
جاصل کر لتنے تھے۔ رنان کانیرنکٹ ملنے ہی شب سے نہلے نبدے کا ڈ نبا ہی ہبک
کرنا تھا ت ھر دل کرنا بو کام کرنا ورپہ م یع کر د نبا۔۔ اس وفت اس کا موڈ چنہ کی جلی
کنی نابوں ئے خراب کر دنا تھا۔
”ڈپر پہ جلیں۔۔“ چنہ نبڈ سے اتھنے لگی چب رنان کی آواز پہ ئےشاچنہ رک
ل ن جم س
کے اس کو نا ھی سے د کھنے گی۔
”ک نوں؟“
”ک نوں کبا مطلب ،آؤنبگ ہو جائے گی۔۔“ رنان کبدھے احکانا ہوا بوال ،اس کے
ھ ت ت ھ کن
ہونٹ کے شاتھ آ یں ھی مسکانی یں۔
”اوکے۔۔۔“ چنہ نبا کسی فباچت محسوس کرئے کے مان گنی۔
ہن
”لبام کو تھی رنڈی ر ہنے کا کہہ د نبا۔۔“ وہ اتھی دروازے نک چی ھی کہ ھر
ت ت ن
رک گنی۔ اس ئے جانجنی تگاہوں سے رنان کو دنکھا ،وہ لبام کو دوبوں کے درمبان
پرداشت کر لے گا؟ پہ شو جنے وہ اسبہزاننہ مشکرانی اور سر ہالئے ناہر تکل گنی۔
رنان جانبا تھا کہ لبام جائے سے اتکار کرے گا نتھی نس جسکا لتنے کو کہہ دنا،
نانگ پہ نانگ ر کھے ،سر کے ننچے دوبوں نازو ر کھے مزے سے ا ننے اور چنہ کے نارے
میں شو جنے لگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کمرے میں داجل ہوئے اس کو علتبا دکھانی پہ دی ،ناتھروم کی النٹ آن تھی۔
اب علتبا کو مبانا تھا خو اس کو محاز سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ اننی گن ،گھڑی وغیرہ
ُ
انارے اس ئے شانبڈ نتبل پہ رکھی اور اس کا ان یطار کرئے لگا ،آ نین ہت نوں نک
ک س
فولڈ کر رہا تھا چب ناتھ روم کا دروازہ کھال اور سنجبدہ چہرے کے شاتھ وہ ناہر آنی۔ دامیر
ت مکم
کو اس ئے ل طور پہ ظرانداز کبا کہ وہ چیران ہوا۔
جلنی ہونی وہ آ نتنے کے شا منے آنی اور مونٹسجراپزر/لوشن تکالے اس کو ہاتھوں پہ
ن م ن ن
لگائے لگی۔ علتبا ئے چہرہ اتھائے خود کو آ تنے یں د کھا ،آ یں روئے کی وجہ سے
ھ ک
علتبا ئے اب تھی تظرانداز کبا۔ کروٹ لنے وہ لنٹ گنی اور کبدھے نک کمفرپر
گ ھ کن
اوڑھے آ یں موند نی۔
دامیر تھوڑی سی جگہ دنکھبا اس کے ننجھے کھشک کے نتتھ گبا کہ علتبا ئے
گردن گھمائے اس کو خونحوار تظروں سے دنکھا۔
کت ن
”جاؤ نہاں سے مجھے شونا ہے۔“ وہ بولنی ہونی ھر آ یں موند نی۔ دامیر خوتکا
گ ھ
کہ اب وہ اس کو کمرے سے تکالے گی۔
”میں شوری کر بو رہا ہوں۔“ وہ مبائے والے انداز میں بوال۔
”مجھے نہیں جا ہنے۔۔“ وہ نبک کے بولی۔
”کتھی پہ چھکنے والے دامیر کو ا چھے سے ناکوں جنے ج نوا رہی ہے ،پہ دن تھی
جن ن جن ن
آئے تھے دامیر کہ تم انک لڑکی سے مغاقی ما نگنے تھرو گے اور اس کے ھے ھے تھاگو
گے۔ چیر لڑکی بو نہیں ن نوی ہے میری۔“ دامیر اس کے سر کو دنکھبا گہرا شانس
تھرے دل میں شوجبا رہ گبا۔
اس کی نبد آنکھوں کو د نکھے دامیر کھڑا ہوا اور انبا ڈرنس نکڑے جتنج کرئے جال
گبا۔
گاڑی پہ ہونی قاپرنگ سے وہ نہلے ہی خواس ناچنہ ہونی تھی لبکن دامیر کے اس
عمل سے اس کی خو جان نچی تھی وہ تھی شوکھ جکی تھی۔ اس کو ڈرنک پہ پرس شا آنا
جس ئے گولی کھائے انک لقظ تھی نہیں کہا تھا۔
دامیر ئے گردن پرچھی کرئے علتبا کو دنکھا جس کی چمدار نلکیں آنکھوں پہ شانا
قگن تھیں۔ تھر بوڑا شا آگے ہوئے اس کے نال چہرے سے ہبائے گردن پہ بوسہ
دنا۔
”گڈ نانٹ۔۔۔“
وہ ننجھے ہبا اور انبا دھبان لنپ ناپ کی طرف کبا۔
”گٹ نانٹ ا نسے کہہ رہا ہے جٹسے مجنت تھرے لمچے گزاریں ہیں اتھی۔۔“ علتبا
جلے دل سے شوجنی ہونی شوئے کی کوشش کرئے لگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”لبام کہاں ہے؟“ چنہ کو نبار دنکھنے رنان ئے بوچھا۔ خواب وہ جانبا تھا لبکن
جان بوچھ کے بوچھا تھا۔ اتھی وہ دوبوں نٹشمنٹ کے ناہر موخود تھے۔
”وہ نہیں جارہا ،نس ہم دوبوں جانیں گے۔“ چنہ سنجبدگی سے بولی اور ا ننے نالوں
کو آگے کی طرف کبا۔
”تم کونی لڑک نوں واال ڈرنس نہتنی ،ہم ڈ نٹ پہ جا رہے ہیں نار۔“ رنان ئے اس
کی نباری دنکھنے کہا خو جشب معمول سباہ چئیز پہ سرٹ نہنے اس پہ جبکٹ نہنے ہوئے
تھی۔
”نمہارے نارے میں کبا جبال ہے!“ وہ اس کی نباری پہ خوٹ کرنی ہونی بولی
م ت س ت ت ً
خو خود ھی فرنبا م ڈرنسبگ یں تھا۔
ن
”میری پرستبلنی ہے انک۔“ وہ جبانا ہوا بوال کہ وہ آ کھیں گھما گنی۔
”اور ڈ نٹ پہ کون جا رہا ہے؟ تم ئے ڈپر کا کہا تھا۔۔“ چنہ اس کو گھورئے
ہوئے بولی خو گاڑی کی جانی تھامے گاڑی کی طرف پڑھ رہا تھا۔
”لبام شاتھ ہونا بو ڈپر کہبا ،ہم دوبوں ڈ نٹ پہ ہی جا شکنے ہیں۔“ کبدھے احکا
کے کہنے اس ئے گاڑی کا دروازہ کھوال اور چنہ کے نتتھنے ہی وہ لوگ انک رنسنورن نٹ
کی جانب گنے۔
انک اچھی جگہ پہ ڈپر کرئے وہ دوبوں والک کرئے تکل گنے تھر تھوڑی دپر
وانس ان کو لبام کی طرف جائے کے نحائے ان کو نارگنٹ بورا کرنا تھا۔
چنہ ا ننے ہی دھبان میں تھی چب رنان ئے اجانک اس کے گرد حصار ناندھا۔
چنہ کا مونانل رنگ ہوا ،دنکھا بو مبکس کی کال تھی۔ چنہ کے چہرے پہ
ئےزانت چھانی اور کال رنسنو کی۔
”جی۔۔!“
”کہاں ہو اس وفت۔۔؟“ انہوں ئے شوال کبا۔ رنان نک ہلکی سی آواز آنی بو
اس ئے چنہ کی جانب چھک کے سرگوسی کی۔
”کہو ہزنتبڈ کی ناہوں میں۔“ چنہ ئے اس کو گھورا۔
”مبکسبکو میں ہوں۔“ اس ئے سنجبدگی سے خواب دنا جس پہ وہ رنان کے نارے
میں بوچھنے لگے۔
”شاتھ ہے وہ تھی۔“
”میرا شک تھبک تھا ،تم نجھلے دبوں سے شپ منٹس رکوا رہی ہو۔“ وہ عصے میں
لگ رہے تھے جس کی چنہ کو نالکل تھی پرواہ نہیں تھی۔
”میرا کام ہے پہ۔“ وہ الہرواہی سے بولی اور رنان کا نازو اننی کمر سے ہبائے
اس سے زرا قاصلے پہ ہونی۔
صنح اس کی آنکھ کھلی بو کمرے کو جالی نانا جبکہ کمرے میں نتم اندھیرا ہ نوز تھا،
دامیر ئے اتھ کے پردے نہیں ہبائے تھے اور پہ ہی کونی النٹ آن کی تھی۔
”کبا کونی انسی صنح ہو شکنی ہے چب میں جلدی اتھ جاؤں اور دامیر کو شونا دنکھ
شکوں۔“ پڑپڑانی ہونی اتھی اور نیروں میں خونا نہنے ناتھ روم فرنش ہوئے جلی گنی۔
آج سردی پڑھنی ہونی محسوس ہونی نتھی وارڈ روب سے انک ہڈی تکال کے نہن
لی۔
اس ئے غور کبا کہ سردبوں کے کیڑے زنادہ موخود نہیں تھے ،درمبائے موسم
کی ڈرنسبگ موخود تھی۔ روم کی النٹ آن کرئے اس ئے نال نبائے اور نبڈ سنٹ
سنوارئے ناہر آنی چہاں جشب معمول دامیر کو کنچن میں نانا۔ ئےشاچنہ ہی علتبا کے
دماغ میں انک چملہ آنا۔
”گھر کی زمہ دار نہو۔۔“
سر چھبکنی ہونی وہ کنچن نک آنی اور مشکرانی اس کی نشت پہ سر رکھنے ا ننے ہاتھ
آگے لےجائے اس کے ستنے پہ دھرے۔
”گڈ مارنبگ۔۔“ وہ نتبد سے تھری آواز میں بولی۔ دامیر خوتکا مطلب وہ ناراصگی
جتم کر جکی تھی۔
”آواز سے نہیں لگ رہا کہ نتبد بوری ہونی ہے۔“ دامیر کی نات پہ علتبا ئے
کن جم س
نا ھی سے آ ھیں کھولیں۔
نتبد بوری ک نوں نا ہونی علتبا شو جنے لگی چب اس کا دھبان گزری شب کی طرف
گبا ،کبا وہ دپر نک جاگے تھے؟ نہیں! زہن میں اجانک انک چھماکا شا ہوا… .الجھن
دور ہونی نیزی سے ا ننے ہاتھ اس کے ستنے سے ہبائے وہ اس سے قاصلے پہ ہونی۔
چہرہ چحالت کے مارے سرخ ہو رہا تھا کہ وہ اس سے ناراض تھی اور کٹسے اس
کو صنح شوپرے مارنبگ وش کر رہی تھی۔
اس کے اجانک ننجھے ہتنے پہ دامیر الجھا اور گردن گھمانی خو خود پہ اقسوس کرنی
ہونی نانی گنی۔ دامیر ئے گہرا شانس تھرا اور اس کو نازو سے نکڑئے ا ننے فرنب کبا۔
ل ج ن گ ی ج ت ع ً
ل
لتبا فورا ھرنی دکھائے ا ننے ہاتھ لی نوں کی طرح الئے گی۔
”کھائے بو نہیں لگا میں نمہیں خو انبا نحاؤ کر رہی ہو۔“ وہ زومعت نت سے اس کو
جبانا ہوا بوال کہ علتبا سنتبا اتھی۔
”ناشنہ رنڈی ہے۔۔“ دامیر سنجبدگی سے بوال۔
”نہیں جا ہنے۔۔ خود ہی کھاؤ۔“ وہ اس پہ چ ھتنی۔۔
”میں بو کھا ہی لوں گا۔۔“ اس ئے علتبا کو گہری تگاہوں سے دنکھنے خواب دنا۔
ُ
علتبا کے رجشار پہ سرجی نیرئے لگی۔ وہ اس سے ناراض تھی جس کی اسے کونی پرواہ
نہیں تھی۔
”تم مجھے دنکھ کے نات ک نوں کہہ رہے ہو؟“ علتبا حقگی سے اس کو دنکھنے آپرو
احکائے بوچھنے لگی۔
”تم میرا کھانا تھوڑی خو مجھ سے ڈر رہی ہو۔“ دامیر اس کی جالت سے محظوظ ہو
رہا تھا اور آہشنہ سے اس کی جانب قدم پڑھائے۔
”بو مجھے ا نسے ک نوں دنکھ رہے ہو؟“ خود کو مضنوط نانت کرئے وہ گردن اکڑا
کے بولی۔
”کٹسے؟“ دامیر ئے گھمئیر لہچے میں شوال کبا۔
علتبا کو اس کا انداز ندال شا لگا۔
”جٹسے انک شکاری دنکھبا ہے۔۔“ وہ تھوک تگل کے بولی اور اس کی فرنت سے
گ ھیرائے ہوئے تظریں ت ھیر گنی۔ اس کی نشت اب فرنج سے لگ جکی تھی جبکہ دامیر
فرنب آنا جا رہا تھا۔ وہ اس کے کان کے فرنب انبا چہرہ النا۔ علتبا کو ا ننے چہرے کی
شانبڈ پہ اس کی شانسیں محسوس ہونیں۔
”ک نونکہ تم میرا شکار ہو۔۔“ گھمئیر آواز پہ علتبا کی شانس ستنے میں انکی ،اس ئے
نلکیں اتھائے دامیر کو دنکھا خو اننی نات کہہ کے مسکانا تھا۔
”نمہیں پہ نات نہیں تھولنی جا ہنے دامیر کہ میں تم سے ناراض ہوں۔“ اس
کے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے ننجھے ہبانا جاہا اور تھوڑا مضنوط لہچے میں کہا۔
”شکاری انبا شکار کرئے سے نہلے پہ بو نالکل تھی نہیں دنکھبا کہ وہ اس سے
ع جن ن
ناراض ہے نا نہیں۔“ دامیر اس کے ہاتھ تھامے کمر کے ھے لے گبا ،لتبا ئے
ج ت ن ہس
می تگاہوں سے اس کو د کھا۔ اس کا انداز وہی تھا سرد وجشت سے ھرا ٹسے اس کو
کل دنکھا تھا۔
دل کی دھڑکن کابوں میں گونجنے لگی۔ دامیر مشکرانا ہوا اس کی گردن پہ ہلکا شا
بوسہ د ننے ننجھے ہبا۔
”قکر پہ کرو اتھی کجھ نہیں کرئے لگا۔“ اس کی غیر ہونی جالت دنکھنے وہ
اسبہزاننہ مشکرانا اور وانس گھوم گبا۔
”تم کجھ کر کے تھی دکھاؤ زرا۔۔“ دامیر کے ننجھے ہتنے سے اس کو تھوڑا خوصلہ
مال کہ وہ اننی خون میں وانس آنی اس کے ننجھے نیز لہچے میں بولی۔
”دک ھاؤں۔۔“ اسی نیزی سے وہ اننی گردن گھمائے آپرو احکا کے بوال کہ علتبا
سنتبا اتھی۔ پڑپڑانی ہونی وہ الؤنج میں ر کھے صوفے کی جانب پڑھی۔
دامیر محظوظ ہونا ناشنہ نتبل پہ لگائے لگا۔
”نبا کونی نحث کنے ناشنہ کرئے آجاؤ۔۔“ وہ اننی سنجبدگی سے بوال علتبا کو ناجار آنا
ہی پڑا۔ لہچے میں پرمی نہیں تھی پہ ہی کونی سجنی لنے ہوئے تھا۔
”پہ کلر کٹشا ہے؟“ کھائے کے دوران اجانک علتبا کی تگاہ اس کی سرٹ کی
آسنین پہ گنی چہاں سرخ رنگ کے د ھنے موخود تھے۔ اس ئے آپرو شکیڑے اور ہاتھ
لگانا جاہا چب دامیر ئے روک دنا۔
”اوں ہوں ہاتھ گبدے ہو جانیں گے۔“ اس کے بو کنے پہ علتبا ئے تگاہیں
اتھائے دامیر کو دنکھا۔
”پہ خون ہے۔۔!“ وہ نسونش زدہ لہچے میں بولی۔
”فوڈ کلر ہے۔“ نین لقظ کہنے جٹسے دامیر ئے نات جتم کی۔ علتبا کجھ لمچے اس
کن ھ کن
کے چہرے کو د نی رہی چب دامیر کے د ھنے پہ دوبوں کی تگاہوں کا تصادم ہوا۔
وہ پرمی سے مشکرا دنا ،اب کی نار اس کی مشکراہٹ انبان نت تھری تھی جٹسے وہ
ت م کن م ظنک م
اس کو د ھے ین تھا۔ آ ھوں یں مجنت اور جاہت ھی۔
علتبا کو تھول گبا کہ اس ئے کل دامیر کا دوسرا روپ تھی دنکھا تھا خو نبار کرنا
نہیں جانبا تھا جسے ضرف انبا خوف تھبالنا آنا تھا۔
وہ پرکسش جازب مرد تھا ،خو اننی ن نوی کی حقاظت کرنا جانبا تھا۔ علتبا ئے جٹسے
نبار کرنا ہی اس سے سبکھا تھا ،چب سے وہ ہوش میں آنی شب سے زنادہ اس کو ا ننے
فرنب نانا ۔ دامیر کا انداز انشا ہونا جٹسے دنبا میں نس علتبا کا وخود ہے اس کے لنے
ناقی تھا۔ اس کا مجنت تھرا انداز ،اس کا لمس ،اس کی وارفبگی وہ شب لمحات ناد آئے
علتبا کے چہرے پہ سرجی چھائے لگی۔
”آنی لو بو۔۔“ وہ ئےشاچنہ ہی بول اتھی۔
دامیر اننی جگہ سے تھوڑا اتھا اور اس کے ما تھے پہ ہونٹ ن نت کنے۔
َ
”لو بو مور۔۔“
ن
وہ اننی ناراصگی کو اس نل فراموش کنے تتھی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دامیر صنح اتھنے ہی نہلے آرمری گبا چہاں ڈرنک ئے اس کو اطالع دی کہ جس
ب ف ہ ن ت ُ
گارڈ ئے ان چملہ آوروں کو نہاں نک کی رشانی دی ھی اس کو لے ہی ل کر دنا
گبا تھا اور اس کے ناقی نچے شاتھ نوں کو نکڑ لبا گبا تھا جن کو ڈرنک ئے گودام میں رکھا
تھا۔
شک نورنی روم جبک کر کے وہ انک راؤنڈ لگائے گودام کی طرف پڑھا۔
نین لوگ تھے جن کو کرسنوں پہ نتتھائے ناندھا گبا تھا۔ دامیر نہحان گبا تھا ان
میں سے دو وہی تھے جبہوں ئے قاپرنگ کی تھی اور انک کو وہ نہیں نہحانبا تھا نتھی
کن
ڈرنک کو شوالنہ تظروں سے د نے لگا۔
ھ
”سر چب میں ان کو ال رہا تھا بو خوانی کاروانی سروع کر دی بو اتھا النا۔۔“ ڈرنک
ئے معصومنت سے خواب دنا دامیر ئے اسبہزاننہ مشکرائے سر ہالنا۔ ہالف شل نو سرٹ
نہنے ڈرنک ئے نازو پہ ننی ناندھ رکھی تھی۔
نتم اندھیرے میں ڈونا کمرہ چہاں ڈرنبا کے ناپ لوسین کو تھی رکھا تھا۔ دامیر اننی
س
آسنین فولڈ کرنا ہوا انک آدمی کے شا منے آنا اور نبا اس کو کجھ تھی جا ننے اور ھنے کا
جم
موفع د ننے انک مکا رسبد کبا کہ مقانل کی کراہ گونج اتھی جبکہ ناف نوں کی ہوانباں اڑ
گنیں۔ ان شب کی آنکھوں پہ ننی نبدھی ہونی تھی بو وہ دامیر کو دنکھ نہیں نائے تھے۔
ک
”ڈرنک نمہیں اجازت ہے چب تھی نمہیں محسوس ہو کہ ہاتھوں میں لی ہو
ح ھ
رہی ہے بو تم اس کا اسیعمال کر شکنے ہو۔“ دامیر ئے ڈرنک کو اسی آدمی کی طرف
اشارہ کبا جس ئے خوانی کاروانی کی تھی۔
”ان سے میں ن نٹ لتبا ہوں۔“ خو دو مین آدمی تھے شب سے نہلے دامیر ئے
ت ت ن ُ
ان دوبوں کی نا گوں پہ ناری ناری قاپر کبا ھر زنائے دار ھیڑوں سے ان کے چہرے
سرخ کنے۔
”ضرف انک نار شوال کروں گا ک نونکہ وفت نہت فتمنی ہے میرا۔۔“ انک آدمی
کے نالوں کو متھی میں لنے دامیر سرد لہچے میں بوال جبکہ دوسرا ہاتھ گردن کو دبوچے
ھ ت س ن ُ
ب
ہوئے تھا جس سے اس کی شا یں ن گ ہو رہی یں۔
”کس وجہ سے تم نہاں نک نہنچے تھے؟“ دامیر عرانا اور گردن پہ محسوس جگہ پہ
دناؤ ڈا لنے لگا جس سے وہ پڑپ اتھا۔
اس ئے کونی خواب نہیں دنا کہ دامیر ئے گردن اور نال چھوڑے اس کے
ما تھے پہ قاپر کبا۔ وہ اسی لمچے ڈھیر ہو گبا۔
لوسین نہلے ہی نہاں ا ننے ہوئے کی وجہ نہیں جانبا تھا گول نوں کی آواز سے وہ
خود گ ھیرا اتھا تھا۔ جانا مانا اشاشن رہا تھا اور کرائے کے قا نلوں کے نہت سے دسمن
ہوا کرئے تھے وہ تھی اسی شوچ میں ئےنس تھا کہ کونی پرانا دسمن ہو گا۔
”انک صا تع ہو گبا ہے تم نبا دو۔“ دوسرے کے گال پہ گن کی بوزل رکھنے
ہوئے وہ سنجبدگی سے بوال اور اس آدمی کی نانگ پہ انبا انک نیر رکھنے آگے کو چھکا۔
نحائے کجھ نبائے کے مقانل ئے مزاچمت سروع کر دی۔
”ہم سے نمہیں کجھ تھی جاصل نہیں ہوئے واال جاہے ہمیں مار ہی ک نوں نا
دو۔“ وہ دامیر پہ پرشا جس پہ دامیر ئے ئےزار انداز میں گولی اس کے ما تھے کے آر نار
کی۔۔
”لو مار دنا۔“ اس ئے گن کو ہاتھ میں گھمانا۔
”اتگلش نتبلز!“ آدمی کے بو لنے کی انداز سے دامیر پڑپڑانا۔
”بو انس اے نک چیر نہنحا دو۔“
دامیر گن اچھالبا لوسین کی طرف آنا۔
”چیرت ہے لوسین۔۔ ا ننے کامباب ہوئے ہوئے تھی تم ئے اننی نتنی کو
پرین نہیں کبا۔ جن سے قاندہ ہو ان سے دسمنی مول نہیں لتنے۔۔“ لوسین کی
آنکھوں سے ننی ہبائے دامیر ئے ناشف سے کہا۔
ننی ہتنے سے تھی آنکھوں کے آگے اندھیرا ہی رہا تھا۔ آنکھوں کو نار نار چھبکنے وہ
دنکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کہاں ہے۔
”ڈرنبا سے نمہارا کبا تغلق؟“
م
لوسین دامیر کو جانبا تھا لبکن اس کی آواز نہیں نہحانبا تھا نتھی کمل اندازہ پہ لگا
نانا۔
ُ
”نمہاری وہ ’انک علطی‘ فصول میں اننی جان گ نوائے پہ نلی ہونی ہے۔۔ اس
سے اچھا تم کونی کبا نال لتنے لوسین ،چچ جس کی وجہ سے تم تھی مرئے والے ہو۔“
دامیر اس سے ہمدردی جبانا ہوا بوال۔
”منہ تھی ناندھو اس کا۔“ ڈرنک کو کہبا ہوا وہ وانس اس نٹسرے نبدے کے
ناس آنا اور اس کے چیڑے پہ زور سے مکا رسبد کبا کہ اس کے منہ سے خون نہنی
لگا۔
”روز کا انک شوال ،کہاں سے آئے ہو؟“ دامیر ئے نہت پرمی سے اس سے
ت گ ھ کن
شوال کبا تھا جبکہ وہ جاموش رہا۔ آ یں ھمائے دامیر ئے انک اور ھیڑ مارا اور ڈرنک
کی طرف انبا رخ موڑا۔
”ناقی زمہ داری نمہاری۔“ اس کو کہبا ہوا وہ گودام سے تکل آنا اور منٹشن وانس
جائے لگا ناکہ علتبا کے اتھنے سے نہلے ناشنہ نبار کر شکبا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”میں شوچ رہا تھا کہ انک اور ہفنہ رک جائے نہاں ،کام سے ہٹ کے تھوڑا
ح ک
ہنی مون ہو جانا۔“ رنان ڈران نو کر رہا تھا چب اس کی زنان ئے ھ لی کی۔
”نمہاری نابوں سے لگبا ہے کہ تم کاقی پرسے ہوئے ہو رنان۔۔ پرابوا ہبڈ ہو
کونی تھی لڑکی مل جائے گی نمہیں ہنی مون کے لنے۔“ چنہ اسبہزاننہ ہٹسنی ہونی بولی کہ
رنان ئے سجنی سے چیڑے تھتنچے اور ناپرات نتھر نلے ہوئے۔
تن
”تم اتھی نہاں زندہ ھی ہو نونکہ یں ئے جاہا ورپہ میرے کردار پہ نات
م ک ت
کرئے واال اتھی زندہ پہ نجبا۔“ کجھ نل جاموسی کے تغد وہ سرد لہچے میں بوال کہ چنہ ئے
”رنان کو کہہ د ننی کہ تھوڑے دن مزند رکبا تھا۔“ کاقی کا گھونٹ تھرئے لبام
ئے کہا کہ چنہ ئے تقی میں سر ہالنا۔
”نہت سے کام نتبڈنگ ہیں اس کے وہاں پہ ،دامیر اس کے نہاں اکبلے ہوئے
پہ تھی کاقی ننٹس ہے۔“ چنہ ئے سنجبدگی سے کہا کہ لبام کا چہرہ اپر شا گبا۔
”بو اس کو جائے دو اکبلے۔“ لبام ئے مسورہ دنا….چنہ ہلکا شا ہٹسی۔
”نمہیں لگبا ہے وہ اکبال وانس جائے گا ،نہاں ضرف میرا کام تھا اور وہ دو ہقنے
نہاں رہا ہے نبا ا ننے کام کی پرواہ کنے۔“ چنہ ئے لبام کو دنکھنے ہلکی مشکراہٹ سے
کہا۔
”تم اس کی نات کنے مشکرا رہی ہو۔“ لبام کے کہنے پہ چنہ کے چہرے کی
مشکراہٹ سمٹ گنی۔
”نہیں میں نس نمہیں نبا رہی تھی۔“ وہ اتکار کرنی بولی اور کاقی کا گھونٹ تھرا۔
”نمہیں کٹشا لگبا ہے وہ۔۔ نمہارے شاتھ کٹشا ہے؟“ لبام ئے کجھ بوفف کے
تغد شوال کبا۔
”تھبک ہے جٹسے ہونا جا ہنے۔“ وہ الپرواہی سے بولی۔
”میرا مطلب وہ نمہاری پرواہ کرنا ہے ،نمہیں نسبد کرنا ہے۔“ لبام عام سے انداز
میں بوال کہ چنہ اس کو خونک کے دنکھنے لگی۔
”ا نسے کبا دنکھ رہی ہو؟ سچ کہہ رہا ہوں ،مجھے نمہارا نہیں مغلوم لبکن وہ کاقی
اننحڈ اور obsessedہے تم سے۔“ لبام ئے کبدھے احکا کے کہا چنہ کاقی کا
انک اور گھونٹ تھرئے لگی۔
”مغلوم نہیں!“ وہ نس انبا ہی کہہ نانی۔ کاقی نتنے کا اب دل نہیں کبا تھا
نس ہاتھ میں مگ تھامے رکھا تھا۔
رنان وافعی اس کی پرواہ کرنا تھا اور اس کی عمل سے تھی لگبا تھا کہ چنہ اس
کے لنے کبا معنی رکھنی تھی۔
”شادی میرے نانپ چیز نہیں ہے۔“ چنہ کجھ دپر جاموسی کے تغد مدھم آواز
میں بولی۔
”میرے ماں ناپ کی شادی نہیں ہونی تھی اور پہ میں ئے کتھی ا ننے پزدنک
کسی کو شادی کو اننی ام نورننٹس د ننے دنکھا ہے۔۔ آج میں ہوں کل اس کی زندگی
میں کونی اور ہو گی تھر شادی کرنا مجھے سمجھ نہیں آنا۔“ وہ شا منے دنکھنے سنجبدگی سے
کہہ رہی تھی۔ چنہ کی نات ستنے لبام کو اقسوس شا ہوئے لگا۔
” میں ان یطام کرنی ہوں نمہارا وہیں ا ننے ناس ناکہ شاتھ رہ شکو۔“ خود کو کسی
تھی خزنانی لمچے کی فبد میں جائے سے نہلے وہ گہرا شانس تھر کے بولی۔۔
”رنان اچھا لڑکا ہے۔۔ وہ اننی فتملی کو پرونبکٹ کرنا جا ننے تھے۔ آر ڈی
اشاشن۔۔“ لبام ئے چنہ سے زنادہ جٹسے خود کو تفین دالنا۔ چنہ سنجبدگی سے سر ہال گنی
اور کمرے میں جلی گنی۔
لبام کی نابوں ئے اس کو ناجا ہنے ہوئے تھی شو جنے پہ مج نور کر دنا تھا۔ رنان
چ
کے فرنب آئے سے شوائے ھجھک کے وہ کجھ تھی محسوس نہیں کرنی تھی نا کرنا
ُ
جاہنی تھی۔ پہ دن خو شاتھ گزارے تھے اس میں رنان ئے نہت مدد کی ھی اس کی
ت
کہ شاند پڑی شپ منٹس کو وہ اکبلی روک پہ نانی۔ اس کے کام میں بورا بورا شاتھ تھا
پہ جا ننے ہوئے تھی کہ اگر لوگوں کو مغلوم ہو جانا اس میں رنان کا تھی ہاتھ ہے بو
کنی لوگ اس سے جبگ کا اعالن تھی کر د ننے لبکن اسے اِ س نات کی قکر نہیں
ت گ ع م ت ت ُ
ھی ھر ان شب نازناب ہوئے صوم لوگوں کے لنے ھروں کا ان یطام ھی اس ئے
اور دامیر ئے کروانا تھا۔
ھ چ
مشلشل رنان کی طرف دھبان سے وہ نجھال ا ھی اور فرنش ہوئے لی گنی۔
ج ت
ا ننے کمرے میں آئے اس ئے چنہ کو ننچے انارا ،چنہ نبا کونی مزند نات کنے
جاموسی سے نبڈ کی جانب پڑھی اور ک یفرپر کھولے خود پہ اوڑھ کے لنٹ گنی۔ جافو گن
کو شانبڈ نتبل پہ رکھ جکی تھی۔
”میں ا ننے دبوں تغد گھر آنا ہوں کونی خوسی نہیں۔“ رنان اس کے انداز پہ شلگبا
ہوا شکوہ کرئے لگا ،کونی گرم خوسی نہیں تھی پہ کونی خوشگوار چیرت۔۔
”صنح اتھ کے اظہار کر لوں گی۔“ چنہ نتبد سے بوچھل آواز میں بولی کہ رنان
ت ُ
اقسوس سے اس کے سر کو دنکھبا ہوا فرنش ہوئے جال گبا ورپہ ارادہ بو اس کو ھی
”فرنش“ کرئے کا تھا۔ پہ کام صنح پہ چھوڑے وہ پراؤزر تھامے ناتھ لتنے جال گبا۔
ہ ت ن ن ُ
وہ لوگ ا ک کانیر کٹ سے قارغ ہو کے آئے ھے جس کی وجہ سے وہ بورا فنہ
گھر سے عانب رہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چنہ کے ناس سے اتھ کے جائے پہ تھی علتبا کی نتبد میں زرا جلل نہیں پڑا
تھا۔ رنان اور چنہ کے جائے ہی دامیر کمرے میں داجل ہوا۔ پہ وہی کمرہ تھا چہاں
علتبا سروع کے دبوں میں رہا کرنی تھی۔ رنان اور دامیر کے نہاں موخود پہ ہوئے پہ
چنہ علتبا کے ناس شو جانا کرنی تھی۔
ا ننے شوز انارنا ہوا ،گھڑی ،مونانل گن شب شانبڈ نتبل پہ رکھ کے وہ کمفرپر میں
گھشا۔
دامیر کی محصوص خوسنو کمرے میں تھبل گنی تھی۔ ا ننے دبوں تغد علتبا کو ا ننے
شا منے دنکھنے وہ سرشار ہوا تھا دل میں تھبڈک سی پڑی تھی۔ پرمی سے اس کا رجشار
سہالئے وہ کھشک کے فرنب ہوا اور رجشار کو ہون نوں سے چھوئے لگا۔ اس کو محسوس
کرئے وہ گہرا مسکانا۔ وہ ئےخود ہوئے لگا۔ اس کی گردن سے نال ہبائے اس ئے
گردن کو ہون نوں سے چھوا۔ ہلکی سنو کی جتھن اور اس کا لمس نتبد میں محسوس کرئے
علتبا کے ہون نوں مشکرائے۔
ن کل ن
”انک ہقنے تغد آئے ہو۔“ وہ نتبد میں پڑپڑانی اور شکوہ کرئے گی ،آ یں م وا
ت ھ
ہونیں ،شاند وہ اس کو خواب سمجھ رہی ہو۔
”مجھے مس کبا؟“ اس کی خوسنو میں گہرا شانس تھرئے بوال ،علتبا محض سر ہال
گنی۔ ا ننے دبوں کے ہجر کے تغد دامیر علتبا کو ا ننے حصار میں لنے ئےنس کر رہا
تھا۔ علتبا ئے انبا ہاتھ اتھائے مجروطی اتگل نوں سے اس کے تفوش کو چھوا کہ اس
کے ہونٹ گہری مسکان سحائے دامیر کو ئےناک جشارت کرئے پہ اکشا گنے جس
ن کھ کن
سے علتبا کی آ یں بوری یں ،پہ خواب یں تھا وہ اس کے فرنب تھا۔
ہ ل ھ
”ضروری تھا۔۔“ نس انبا ہی بوال اور اس کے ما تھے کو انک نار تھر چھوئے نسیر
سے اتھ گبا ،اننی سرٹ نہتنے فرنش ہوئے جال گبا چب علتبا کی تگاہ کمرے میں لگے
کتمرے پہ گنی۔
مشکراہٹ میں ڈ ھلے لب سمٹ گنے چب گزری شب کا جبال آنا ،پہ کتمراز
دامیر ئے انک نو کر ر کھے تھے جائے سے نہلے۔ چہرے کا رنگ نبدنل ہوئے سرخ ہوئے
لگا ک نونکہ اس کا accessرنان کے ناس تھی تھا۔
ُ م
دامیر چب جتنج کر کے کمل ڈرنسبگ میں ناہر آنا بو علتبا کو اسی طرح نبڈ پہ
د نکھے شوالنہ تظروں سے دنکھنے لگا۔
”دامیر وہ پہ کتمرہ۔۔“ اس ئے کوئے میں لگے کتمرہ کی طرف اشارہ کبا۔
”ہوں۔۔“ وہ اسبہقامنہ انداز لنے آ نتنے کے شا منے آنا اور پرف نوم خود پہ سیرے
کرئے لگا۔
ھ چ
”دامیر۔۔۔“ وہ نجھالہٹ سے اس کے ناس آنی ،دامیر ئے آپرو احکائے اس
کی کمر پہ ا ننے دوبوں ہاتھ تکائے اور مسکان لنے دنکھنے لگا۔
”کہہ تھی دو اب ،نبار آرہا ہے مجھ پہ؟“ دامیر آنکھوں میں سرارت سموئے بوال،
ا ننے دبوں تغد اس کو دنکھنے کی خوسی ہی الگ تھی۔
”تم جا ننے ہو تم انک نہت ہی ندنمیز انشان کو۔۔“ علتبا اس سے دور ہونی
حقگی سے بولی کہ دامیر قہقہہ لگا اتھا۔
”مجھے ِمس کبا؟“ انک نار تھر اس کو تھامے ا ننے ستنے سے لگانا۔ علتبا اس
گ ہ ھ کن
کے گرد نازو ناندھے آ یں موند کے سر ال نی۔
”نمہارے نبائے نا سنے کو نہت زنادہ۔۔“
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”ہو گنی ہے صنح اب اظہار کرو میرے آئے کا۔۔“ وہ اتھی تھی مِحو خواب تھی
چب رنان ئے اس کا چہرہ تھامے زپردسنی ا ننے مقانل کرئے کہا۔ نتبد میں چنہ کے
ل کن
ما تھے پہ نل ننے اور ما تھے پہ نل لنے آ یں ھولے رنان کو ھورئے گی خو اس پہ
گ ک ھ
چھکا ہوا تھا۔
”نمہیں شکون نہیں۔۔“ وہ گھورئے ہوئے بولی اور کروٹ لتنے لگی چب رنان
ن ھ کن
ئے آ یں دکھا یں۔
”خوسی ہونی مجھے نمہارے زندہ ر ہنے کی۔“ ہون نوں پہ خوتصورت مشکراہٹ لنے
اس ئے رنان کے چہرے پہ ہاتھ رکھنے کہا۔ کبا جسین اظہار تھا!!
”مجھے تھی کہ تم میری ناد میں اڑ پہ گنی ہو۔ خوسی ہونی نمہیں شالمت دنکھ
کے۔۔“ رنان اس کے ہاتھ کو خومبا ہوا بوال۔
”میں بو کھل کے اظہار کرئے والوں میں سے ہوں۔“
ت ف جم س
انبا کہہ کے وہ چنہ کو ھنے کا مو ع د ننے غیر انک شوخ سی جشارت کر گبا کہ
چنہ سنتبا اتھی۔۔
”مجھے ڈانتمبڈ ڈنل کرئے جانا ہے اب اور جائے سے نہلے میں جاہبا ہوں کہ ہم
۔۔۔۔“ رنان اس کے نالوں کی ل نوں کو ہاتھ پہ لتنتنے ہوئے معنی چیز سے بوال۔
”میں تھی جاہنی ہوں کہ ہم میں شب تھبک ہو جائے ،پہ خوہے نلی کی طرح
ن
کب نک رہیں گے ہم۔۔“ جالف معمول آج چنہ کی نات ستنے رنان کی آ یں
ھ ک
چمکیں۔
”بو اجازت ہے۔۔“ وہ سرشاری کی ک یق نت میں بوال کہ چنہ بوکھال اتھی۔
”مجھے فرنش ہونا ہے۔۔“ اس کی نٹش رفت سے گ ھیرانی ہونی وہ بو کنے لگی۔
رنان سر ہال کے ننجھے ہبا۔
اس کے ما ننے پہ ہی وہ خوشگوار چیرت میں متبال ہو گبا تھا کہاں وہ اس کو سڑا
ہوا کرنال چھوڑ کے گبا تھا اور کہاں آج گاخر کا جلوہ لگ رہی تھی۔
”شوزین آئے گی آج۔۔“ دامیر ئے رنان کو اطالع دی ،علتبا ئے خونک کے
دنکھا جٹسے نام سبا ہو۔
”شوزین؟“ علتبا ئے شوالنہ تگاہوں سے دنکھا۔
”میری فرنبڈ ہے انک ،کاقی پرانی اس کو کام تھا ان دوبوں سے۔“
دامیر کے خواب د ننے سے نہلے ہی چنہ ئے نات ستتھالی۔
وہ لوگ کھائے سے قارغ ہوئے تھے دوبوں لڑکے انبا کام دنکھنے سبک نورنی روم
میں جلے گنے۔ تھوڑی دپر میں وہاں شوزین جلی آنی تھی جس کی اطالع گارڈ ئے دی
بو ڈرنک اس کو لتنے گبا۔
شوزین سے انہوں ئے ڈرنبا کے نارے میں انک دو نات مغلوم کرنی تھی۔ وہ
کسنوڈین کئیر تھی اور مغلومات لتنے کے لنے دامیر ئے اس کو فتمت ادا کی تھی۔
سبک نورنی جبک کرئے دامیر اور رنان آرمری میں پڑھ گنے چہاں ڈرنک شوزین کو
لے آنا تھا۔
”مجھے چیرت کے شاتھ خوسی تھی ہونی کہ ناپ اشاشن اور پرابوا ہبڈ کو مجھ سے
ہ ت تن
کبا کام ہو شکبا ہے۔“ وہ ان کے شا منے کرسی پہ ھی بولی۔ رنان کے ناپرات مٹشہ
کی طرح سباٹ تھے۔ جبکہ دامیر کے چہرے پہ مدھم مشکراہٹ نمودار ہونی۔
”شوزین اکبڈمی میں کتھی علتبا ئے تم سے فباد نامی سحص کے نارے میں زکر
کبا؟“ دامیر ئے نہال شوال کبا۔
”علتبا ہی ک نوں کرے گی ،ڈرنبا کا فبانسی ہے وہ اور سمگبگ میں نہت لمبا ہاتھ
ہے اس کا۔۔“ شوزین سنجبدگی سے بولی۔
”ڈرنبا اس کے لنے کام کرنی ہے اور دو نار وہ میری واتف پہ انبک تھی کر جکی
ہے۔“ دامیر سنجبدگی سے بوال۔
ع جم س
”واتف!“ شوزین نا ھی سے بولی چہاں نک اس کو لم تھا رنان ئے شادی کی
تھی دامیر ئے نہیں اور پہ نات تھی ا چھے سے جاننی تھی کہ علتبا کو گارڈ دامیر کر رہا
تھا۔
”علتبا ،سی از مانی واتف۔“ دامیر کے نبائے پہ اس کو شاک لگا۔
”انیرستبگ۔۔“ انک لقطی اظہار کبا گبا۔
”چہاں نک اکبڈمی کی نات ہے دامیر صاچب ،ہر کونی انبا قاندہ دنکھ کے دوسنی
کا ہاتھ پڑہانا ہے۔ علتبا انک ننی انشان تھی وہاں اور زپرو نالج۔۔ ڈرنبا کی بوری کوشش
ہونی کہ وہ اس کو جتبا ہو شکے نہاں کی گہری نابوں کو اس کے علم میں ال شکے۔ مجھے
اس سے کونی سروکار نہیں تھا۔ وہ اچھی تھی میرے شاتھ مجھے اس سے تقصان تھا نا
قاندہ۔۔ اور علتبا آپ کی واتف ہے خوسی ہونی جان کے۔“ شوزین کبدھے احکا کے
بولی ،رنان جاموسی سے شا منے نتتھے تھوڑی پہ ہاتھ تکائے اس کو شن رہا تھا۔
ن
”دو نار اس پہ چملہ اکبڈمی میں ہی ہو حکا تھا اس کے تغد تھی علتبا نک ہنجنے
کی کوشش کی گنی ہے۔“ دامیر ئے شو جنے ہوئے کہا۔
ہ ن ت ع م م ُ
”ان دوبوں چ لوں کے نارے یں لتبا نحونی وافف ھی اس ئے نبانا یں وہ
جاننی تھی کہ کونی اس کے ننجھے ہے۔“ شوزین ئے چیران ہوئے کہا کہ دامیر خونک
اتھا۔
”علتبا سے میں ئے چب تھی بوچھا وہ اتکار کرنی آنی۔۔“ دامیر ئے دل میں شوجا
لبکن وہ کہہ پہ نانا۔
ت تک ن
”آکشن پہ ہوئے چملے سے اننی ناداشت ھو ھی ہے ،اسی نے شاند وہ پہ نات
ل
تھی تھول جکی تھی۔“ دامیر کے کہنے پہ شوزین ئے سر ہالنا۔
دامیر کا دماغ اتھی انک جگہ رک گبا تھا کہ علتبا جاننی تھی اس کے ننجھے کونی
چ ب ل ت ن ہن ت ً
ہے اور فتبا وہ فباد کو لے سے ہی جا نی ھی کن اس کے نارہا بو ھنے پہ اتکار کرنی
گنی ک نوں؟ اب تھی کجھ تھا خو وہ چھبا رہی تھی۔ ضرف وہی نہیں مبکس تھی۔۔ اور
پہ شوچ آئے ہی دامیر ئے سجنی سے چیڑہ تھتنحا۔۔
”آؤٹ آف دا وے کونسچن! علتبا مان کٹسے گنی شادی کے لنے؟“ شوزین کی
آواز میں نحسس تھا جا ننے کا ،دامیر ہلکا شا ہٹس دنا۔
”وہ اشاشن سے تفرت کرنی ہے اور وپری سیرننج آپ کے شاتھ رہ رہی ہے۔۔“
شوزین اننی چیرانگی کا اظہار کرنی ہونی بولی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چنہ انبا ل نپ ناپ لنے انبا کام دنکھ رہی تھی جبکہ علتبا بوگا سے تھی بورنت
محسوس کرئے اب چہل قدمی کرنا سروع ہونی۔
اس کا آج ا نسے ہی دل کبا کہ وہ نجھلی شانبڈ پہ جائے اور شک نورنی روم جبک کر
ن کن
لے۔ آس ناس دلحسنی سے د نی وہ س ک نورنی نک بو ہیں ل کن اس سے لے آئے
ہ ن ب ب ھ
ن ت ن گ ہک ن ن
والے مرے ک نچ نی ،اس کا دروازہ سباہ ر گ کا تھا اور ھوڑا نچے کی جانب نبا
تھا چہاں نک نین ز ننے ننے تھے۔
کونی گارڈ موخود نہیں تھا اسی کا قاندہ اتھانی علتبا مشکراہٹ دنائے دروازہ
کھولے اندر کی جانب پڑھی۔ اندر ہلکی روسنی تھی اور ہال نما کمرہ چہاں شانبڈ پہ مزند دو
روم تھی موخود تھے۔ ڈرنک تھی نہاں نہیں تھا۔
اس ئے ہاتھ پڑھائے شونچ بورڈ ڈھونڈا اور النٹ آن کی۔
”سمگلر۔۔“
ناری ناری القاظ گونجنے لگے۔
اس ک دل زوروں سے دھڑ کنے لگا ،میز پہ پڑی انک گن کو چھوا۔ اس کو ہاتھ
میں لبا۔۔
دو شال کا گزرا وفت زہن میں جلنے لگا۔
گن کو شا منے کنے نارگنٹ پہ سنٹ کبا ،ہاتھ نہیں کا ننے تھے۔ اس کو گن
نکڑنی آنی تھی۔ گن لوڈڈ تھی اجانک اس ئے پرگر دنانا اور تھا کی آواز ہال میں گونج
اتھی نہاں نک کہ علتبا کے کابوں میں مزند آوازیں گونجنے لگی تھیں۔۔ ا نسے ہی
قاپرنگ کی۔
جن ن
اجانک انک دروازہ کھال اور انک غورت ناہر تکلی ،اس کے ھے ہی دامیر اور
رنان۔ شوزین علتبا کو د نکھے رک گنی اور دامیر کو دنکھا۔
علتبا کے ہاتھوں میں گن د نکھے دامیر خونک گبا جبکہ علتبا ہ نوز گن تھامے
کھڑی رہی۔
رنان تغور اس کے چہرے کو دنکھ رہا تھا۔ وہ خوتکا نہیں تھا اس کی تگاہ ہاتھ سے
ہونی نارگنٹ کی طرف اتھی۔ تھر تغور علتبا کے ہاتھوں کو دنکھا۔
”دی ناپ اشاسیز دامیر آر ،رنان ڈی۔۔“ رنان اور دامیر کو دنکھنے زہن میں آواز
گونچی۔ دل کی دھڑکن ڈوب کے اتھری۔ ڈر ،خوف ،گ ھیراہٹ اس کو محسوس ہوئے
لگا۔
”شوزین۔۔“ علتبا کی تگاہ شوزین پہ گنی اور ہونٹ ہلے۔
”ہبلو مسز دامیر۔۔“ شوزین دوسباپہ لہچے میں بولی جٹسے وہ نہلی نار اس سے مل
رہی تھی ،علتبا نس سر ہال گنی۔ وہ جاننی تھی اس کو۔ اکبڈمی۔۔
کراؤنڈ ہبڈ اکبڈمی!
”نہاں کبا کر رہی ہو پرنسٹس؟“ دامیر آگے پڑھا اور اس کے ہاتھ سے پرمی
سے گن لی۔
”نس جکر لگائے ادھر آگنی۔۔ پرنتبگ روم ہے؟“ ستتھلنے ہوئے بولی اور آس
ناس تگاہ دوڑانی۔
”ہاں گارڈز ہوئے ہیں نہاں۔“ دامیر سر ہال گبا اور ڈرنک کو آواز د ننے علتبا کو
نہاں سے لے جائے کو کہا۔
”میں نس آرہا ہوں ان کو سی آف کرئے۔“ دامیر ئے شوزین کی جانب اشارہ
کبا۔ علتبا ہلکی مشکراہٹ لنے ڈرنک کے شاتھ ہو لی۔
”کجھ جا ہنے کبا؟“ دامیر خود کو نارمل رکھبا مشکرا کے بوچھنے لگا۔ علتبا ئے اس
کے چہرے کو دنکھا۔ وہ تھی ہلکا شا مسکانی۔
”نہیں میں نس خوس نتنے آنی تھی ،نباس لگ رہی تھی۔“ وہ شادہ شا خواب
د ننی ہونی اس کو مشکراہٹ اچھا لنے صوفے کی طرف پڑھی اور شانبڈ پہ موخود نتبل
سے اننی نک اتھائے پڑ ھنے لگی۔
دامیر کو اس کے روئے میں کونی نبدنلی محسوس نہیں ہونی تھی ،وہ و نسے ہی
اننی کباب میں مگن تھی جٹسے نہلے ہوا کرنی تھی۔
ناقی کا دن تھی نارمل ہی گزر تھا جبکہ دامیر ئے جس ئےجتنی سے گزارا تھا وہ
وہی جانبا تھا اور اسی وجہ سے وہ تھبک سے کام پہ فوکس تھی نہیں کر نا رہا تھا۔
اگر اس کی ناداشت وانس آگنی تھی بو وہ اس کا زکر ک نوں نہیں کر رہی تھی نا
شاند وہ پہ شب ف نول کر جکی تھی پہ نات دامیر کی سمجھ سے ناہر تھی۔ اس کا دھبان
نار نار تھبک کے علتبا کی جانب جانا خو کھائے سے قارغ اب چنہ سے نابوں میں
مصروف تھی۔
وہ چب اس کو دنکھبا ،علتبا کی تگاہ دامیر پہ پڑئے پہ وہ مشکرا د ننی۔۔ وہ انبا
ردعمل طاہر نہیں کر رہی تھی پہ نات اس کو اصظراب میں ڈال رہی تھی۔
اس کا ارادہ آج شام ڈپر پہ جائے کا تھا لبکن وہ ڈسیرب ہو گبا تھا اور اس
جبال کو چھبک گبا۔
”امبد ہے میری مجنت نمہیں تفین دالئے کے لنے کاقی ہو کہ تم میری ہو۔۔“
آ نتنے کے شا منے کھڑے ہوئے اس ئے گہرا شانس ت ھر کے کہا۔
کبا جاک وہ مافبا کی دنبا میں انبا دہشت تھبالئے گا چب اننی ن نوی کے انک رد
عمل کا شو جنے اس کا شکون پرناد ہوا تھا۔
ناتھ روم سے چب ناہر آنا بو علتبا ا ننے نالوں میں پرش کر رہی تھی۔ وہ جلبا ہوا
اس کی نشت پہ کھڑا ہوا۔
کس ت م ن
علتبا ئے اس کو اننی نشت پہ دنکھا جس کے ناپرات نجبدہ ھے گر آ یں جھ
ک ھ
کہنے کی جاہ لنے ہوئے تھیں۔
جتبا خود کو اس ئے نارمل طاہر کرئے کی کوشش کی تھی اننی ہی اس کے اندر
بوڑ تھوڑ جاری تھی۔ وہ سحص سے شادی کر جکی تھی جس سے وہ تفرت کرنی تھی۔ اور
ئےنسی کی انبہا پہ تھی کہ آج صنح ہی وہ اس سے نبار کا اظہار کر رہی تھی۔
ھ ت ھ کن
کباب پڑ ھنے کے دوران اس کی آ یں کباب پہ مرکوز یں جبکہ دھبان اس کا
دامیر پہ تھا ،اب نک شاند وہ جان گبا ہو اس کی ناداشت وانس آئے کا۔ وہ انک
اشاشن کے شاتھ رہ رہی تھی نجھلے دو مہت نوں سے ،انک کرائے کا قا نل جس ئے
انگنت فبل کنے تھے وہ تھی نبا کسی خوف کے۔ جس چیز سے وہ تھاگنی تھی آج شاند
وہ اسی کے مرکز پہ کھڑی تھی۔
”پرنسٹس۔۔۔!“
دامیر ئے عفب سے اس کے شائے کو تھاما اور پرمی سے ہونٹ ن نت کنے۔
اس سحص کی تکار اتھی تھی ونسی تھی مجنت تھری ،وہ اتھی نک مجنت کا نانک
ن
کر رہا تھا۔ علتبا ئے آ کھیں منچ لیں۔
”ہوں۔۔“ جاہ کے تھی وہ کجھ کہہ پہ نانی۔
”تم جاننی ہو نا میں تم سے مجنت کرنا ہوں۔“ وہ اس کے نالکل فرنب کھڑا تھا
انبا کہ اس کی شانسیں ا ننے شائے پہ محسوس کر نا رہی تھی۔ اس کے نال شانبڈ پہ
کرئے اس کا رخ اننی طرف کبا۔
علتبا ئے اس کی آنکھوں میں دنکھا۔
اس کی اداکاری کمال کی تھی ،علتبا کے دل میں تھٹس سی اتھی۔ وہ اس کا
اسیعمال کر رہا تھا۔ مجنت کا ڈھونگ رجا رہا تھا۔ انک دن کے لنے وہ تھی اداکاری کر
ہی شکنی تھی۔
وانس آئے پہ ئےشاچنہ ہی تظر دامیر کی شانبڈ نتبل نک گنی۔ گن موخود تھی۔
دل میں گلٹ پڑ ھنے لگا کہ وہ کس کے شاتھ رہ رہی تھی۔ کٹسے وہ نارمل نبہ نو کر شکبا
تھا اس کے شاتھ۔
س
اس کو کجھ دن نہلے کا وافع ناد آنا چب ڈرنک کو اس ئے نبا شوچے ھے گولی
جم
ت ً
ماری تھی۔ اگر علتبا نہاں سے جائے کی نات کرنی بو فتبا دامیر اس پہ ھی پرسبا۔
ت
انک قا نل سے وہ کتنی ا چھے کی امبد لگا شکنی تھی۔۔ شاند پڑنا کے مارئے کے
نحائے انک نار میں ہی گولی آر نار کر دے۔۔
اس کو صنح اتھنے ہی اتکل مبکس کو کال کرنی تھی ناکہ نہاں سے جا شکے اور
چنہ۔۔ وہ کٹسے رہ رہی تھی رنان کے شاتھ۔
اس کو ناد تھا کہ وہ تھی اس شادی سے خوش نہیں تھی بو اِ ن دوبوں کی مرضی
کے تغیر پہ زپردسنی شادی ہونی تھی۔
اننی شانبڈ پہ لنتنے علتبا ئے لتمپ آف کبا اور کمفرپر اوڑھ لبا۔ دامیر کی جانب
ن ھ ت ھ کت ن
ک
نشت ھی۔ آ یں موندیں ہی یں کہ دامیر کا نازو ا نی مر سے آگے کی طرف آنا
محسوس ہوا۔
وہ مجنت کا دکھاوا کرئے میں ماہر تھا!! اس ئے کرب سے شوجا اور وہ خود کو
ن
اس مجنت میں نانتبا کر تتھی تھی۔
(وہ چان گ یا ہو گ یا کہ میری ٹاداست وانس آگئی ہے بی ھی ابئی سدت دکھا رہا ہے
ا ب نے ب یار میں مجھے نقین دالنے کے ل نے)
علتبا ئے زرا کی زرا گردن گھمائے دامیر کو دنکھا جس ئے اس کے ما تھے پہ
ہونٹ ر کھے ،تھر رجشار پہ۔
اس ئے گردن وانس گھما لی۔
زہن کے پردوں میں جسین لمحات لہرائے لگے۔
(تم کیئی ٹاگل ب ھی کوئی تم سے کہے کہ تم سادی سدہ ہو اور تم مان چاؤ گی)
وہ خود کو اندر ہی اندر کو سنے لگی۔
شادی؟ کبا اس کی اصل میں شادی ہونی تھی؟ پہ جبال آئے ہی وہ چھبکے سے
ن ت تن
اتھ ھی۔ دامیر خو ک گبا۔
”یہیں انکل م یکس کی موجودگی میں سائن ک نے بھے ٹو سب نکلی یہیں ہو گا۔“
نئیرز اور تکاح کا دن ناد کرئے وہ زہن پہ زور د ننے لگی۔
”شب تھبک ہے؟“ دامیر اس کے اجانک اتھنے پہ م یقکر ہوا۔
رنان منٹشن کی جار دبواری کا جکر لگا کے اتھی وانس آنا تھا۔ سبک نورنی کتمراز
جبک کرئے چب کمرے میں وانس آنا کہ اس کو اندھیرے میں ڈونا دنکھ وہ خونک
گبا۔ اس کو دو دن تغد نانیرز سے ملبا تھا ڈانتمبڈ کی ڈنل کے لنے تھی نباری کرنی
تھی۔
دامیر آج کاقی ڈسیرب لگ رہا تھا ،اسی وفت سے وہ جار کھانا تھا اور وہی ہوا جس
کا ڈر تھا۔ دامیر کے لنے تھی کجھ شوجبا تھا۔ اس کا دھبان زرا کام میں نہیں لگ رہا
تھا جس سے رنان کو خڑ تھی ہو رہی تھی۔
چنہ کمرے میں نہیں نہی شو جنے وہ منٹشم ہوا اور اہنی چیزیں انار کے اننی شانبڈ
نتبل پہ رکھنے لگا۔ ڈرنسبگ روم کا نلر گالس ڈور چمک رہا تھا۔ وہ اس وفت وہاں تھی۔
”اسنٹشل نانٹ کی نبارناں ہو رہی ہیں۔“ وہ ناآواز پڑپڑانا کہ اندر موخود چنہ واصح
شن شکے۔
”کجھ زنادہ ہی اسنٹشل کرنا۔“ وہ تھر بوال اور ڈرنسبگ روم کے دروازے کے
ً ہن
فرنب نجنے سرارنا ناک کرئے لگا۔
”ان یطار کرو ناہر۔۔“ وہ تھاڑ کھائے والے انداز میں بولی کہ رنان سبانسی انداز میں
آپرو احکانا ہوا وانس نبڈ کی طرف آنا۔
”اوو شغلہ تھڑک رہا ہے۔۔“ کہنے ہوئے اس ئے انبا مونانل تکاال اور ہبڈ کراؤن
سے نبک لگائے اس میں مگن ہو کے چنہ کے ناہر آئے کا ان یطار کرئے لگا۔
ڈرنسبگ روم میں کھڑی چنہ کاقی دپر سے خود کا جاپزہ لتنے میں مصروف تھی۔
آج وہ رنان کو زپر کرئے کا اہتمام کر رہی تھی۔
َ
نالوں کو سیرنٹ کر رکھا تھا اور مبک اپ کے نام پہ سرخ رنگ ہون نوں پہ لگا رکھا
تھا۔
”لڑکباں جائے شوئے وفت انبا مبک اپ کٹسے تھوپ لتنی ہیں۔“ وہ انک
سرجی لگائے پہ چھال اتھی تھی۔
ت گ ل مکم
انک نار خود کا ل جاپزہ نے اس ئے ہرہ شانس ھرا۔
ت
سباہ النگ نانٹ گاؤن نہن رکھا تھا۔ انبا بو جاننی تھی کہ رنان کو اس پہ سباہ
رنگ نسبد تھا۔
”انک بو اس کی عادات مفت میں جا ننے کو مل رہی ہیں مجھے۔۔“ پڑپڑانی ہونی
اس ئے آخری تظر خود پہ ڈالی اور گالس ڈور دکھبلنے ہوئے ناہر تکلی۔ رنان النٹ آن
کر حکا تھا جس سے چنہ ندمزہ ہونی کم از کم وہ اس جالت میں روسنی میں شا منے نہیں
آنا جاہنی تھی۔
آواز میں اس سے اسیقشار کرئے لگا۔ چنہ ئے کیرائے اس کی گسباجی کرئے ہاتھ
کو تھاما۔
”راضی کر لبا میں ئے دل کو پہ کاقی نہیں ،نمہیں ہی بو پرداشت کرنا ہے اب
شاری زندگی۔۔“ اس کے ہاتھ میں اننی اتگلباں الجھائے ہوئے وہ مشکرانی ہونی بولی۔
”اننی اجانک۔۔“ رنان ئے چیران ہوئے کی اداکاری کرئے بوچھا۔
”اجانک کب ہے ،ہر تھوڑی دپر تغد بو نمہیں ناد آنا تھا کہ انک عدد ن نوی ہے
نمہاری۔ تھوڑی نہت عادت بو ہو ہی گنی ہے نمہاری۔۔“ رنان پزدنکی پڑھانا ہوا اس
کے چہرے پہ بوشوں کی پرشات کر رہا تھا جس سے وہ گہرا شانس تھر کے رہ گنی۔
پرقی لہر رپڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ نبدا کر گنی۔
رنان ئے اجانک اس کا ہاتھ گرفت میں لتنے سر کے اوپر ین کبا کہ چنہ
بوکھالنی۔
”اور میں پہ مان لوں کہ پہ نمہارا پرنپ نہیں کونی۔۔؟“ رنان کی آواز اجانک
ندلی ،چنہ تھبک گنی۔
”میں پہ مان لوں کہ ا ننے کبل کان نوں سے لٹس ہو کے تم مجھ سے کونی
فرمانش نہیں کرو گی؟“ اس کے دوبوں ہاتھ رنان کی گرفت میں تھے ،اور اس پہ
قاتض ہورہا تھا۔
”تھول ہے نمہاری کہ میں نمہیں شاتھ لے جاؤں گا۔“ وہ سرد لہحہ لنے اس
کے کان میں بوال کہ چنہ ئے محلنے ا ننے ہاتھ چھڑوائے جاہے۔
انبا ندنمیز تھا چب مطلب جان گبا تھا بو ک نوں ئےنس کر رہا تھا۔
”ہاتھ چھوڑو میرے۔۔“ اس کی آواز کانپ اتھی ک نونکہ اب وہ اس کی شانس
نک محسوس کر نا رہی تھی۔
”نباری کی ہے ،داد وصول کرو اب۔۔“ اس کے کبدھے کو خو منے ہوئے بوال
کہ چنہ کا روئے کو دل کرئے لگ گبا۔
وہ وافعی اس سے نانیر نک جائے کا پرنک بوچھنے والی تھی کہ وہ کس ر سنے سے
جائے واال تھا لبکن اس کے بوچھنے سے نہلے ہی وہ جان گبا تھا۔ اور نحائے ننجھے ہتنے
کے اس ئے چنہ کو ا ننے حصار میں قابو کر رکھا تھا
”ہاتھ کبا اب خود کو تھی چھڑوا لو بو مان لوں میں۔“ اس کی مزاچمت کو تظر
انداز کرئے وہ سرگوسی میں بوال۔ ”ڈنگر کو ضرف سبانیر ہی ڈھیر کر شکبا ہے وہ تھی
نبار سے۔۔“
وہ اس کی ن نوی تھی اور انک شوہر ہوئے کی جنت نت سے اس کا دل تھی چنہ
کی فرنت کو محلبا تھا۔ وہ انسی مجھلی تھی خو نبا کسی جال نجھائے کے تھٹس جکی
تھی۔ نا انشا شکاری خو ا ننے نجھائے جال میں تھڑتھڑا رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج اس کی آنکھ کھلی بو کجھ نل خواس میں آئے کو لگے تھے۔ وہ چت لتنی
تھی۔ اس کا جبال تھا کہ دامیر اس سے نہلے اتھ گبا ہو گا ہمٹشہ کی طرح لبکن ا ننے
ہاتھ کو اس کے ہاتھ کی گرفت میں دنکھنے وہ خونکی۔
آج نہلی نار ہوا تھا کہ وہ اتھی ہو اور دامیر اتھی تھی نسیر پہ موخود ہو۔
اس ئے انبا ہاتھ تکاال ،دامیر کی آنکھ کھلی بو اجشاس ہوا کہ وہ جاگ رہا تھا۔
”میں فرنش ہو جاؤں۔“ انبا کہہ کے وہ اتھی اور انبا مونانل نامحسوس انداز میں
تھامے ناتھ روم کی طرف پڑھی۔
اس کا ن یگاپہ شا انداز اور مونانل چھبائے کی خرکت وہ بوٹ کر حکا تھا۔ دامیر
ئے نہلی نار ا ننے اندر خوف نلبا ہوا محسوس ہوا۔ علتبا کے دور جائے کا۔
ناتھ روم میں جا کے علتبا ئے شب سے نہلے مبکس کو کال کی لبکن وہ فون
نہیں اتھا رہے تھے۔ علتبا ئے ئےشاچنہ تظر ناتھ روم کی دبواروں پہ دوڑانی دامیر کا
کونی تھروسہ نہیں تھا کہ نہاں تھی کتمرہ فٹ کروانا ہو۔
دو نار مزند کال کرئے کے تغد اس ئے انک لمبا شا مٹسج تھنج دنا جس میں واصح
القاطوں میں اِ س ئے کہا کہ اسے دامیر کے شاتھ نہیں رہبا جس ئے دھوکے سے
م ش ہ ُ
اس سے شادی کی اور وہ وانس ان کے ناس آنا جا نی ہے ہو کے بو وہ جلد ہی لنے
والی قالنٹ سے انلی آجائے گی۔
مبکس کو نبائے کے تغد وہ خود کو ہلکا محسوس کر رہی تھی۔ اب اس کو نانک
کرئے کی کونی ضرورت نہیں تھی۔ فرنش ہو کے ناہر آنی بو دامیر روم سے ناہر نہیں
گبا تھا۔ اسی کا ان یطار کر رہا تھا۔
علتبا اس کو تظرانداز کرنی ہونی آ نتنے کے شا منے کھڑی ہونی چب دامیر کی آواز
سبانی دی۔
”میں جانبا ہوں کہ نمہاری ناداشت وانس آگنی ہے لبکن میری نات سنو۔“ دامیر
اس کے ناس آنا ہاتھ تھا منے لگا چب علتبا ئے نحوت سے ہاتھ چھبک دنا۔
”مجھے کجھ نہیں ستبا اور ہاتھ پہ لگاؤ مجھے۔“
وہ سباٹ انداز میں بولی اور شانبڈ سے تکلبا جاہا چب دامیر ئے نازو گرفت میں
لبا۔
”تم میری نات سنے تغیر کجھ تھی علط نہیں کہہ شکنی۔“ دامیر کی نات پہ علتبا
شلگ اتھی۔
”کون سی نات۔ تم انک دھوکے ناز سحص ہو۔ میں جا رہی ہوں نہاں سے۔۔“
چھبکے سے انبا نازو چھڑوائے وہ روہا نسے لہچے میں بولی۔
”مجھے شب ناد آگبا ہے شب کجھ۔۔ کٹسے تم ئے چھوٹ کا سہارہ لتنے مجھے اننی
زندگی میں شامل کبا۔“ علتبا اس کے ستنے پہ اتگلی رکھنے عصے سے بولی۔ دامیر کو
تکل یف ہونی کہ وہ اس کی شب نابوں کو چھوٹ سمجھ رہی تھی۔
”میں ئے تم سے شادی کی لبکن میرا مقصد علط نہیں تھا“ وہ اننی وصاچت
کرئے لگا کہ علتبا ئے نیزی سے اس کی نات کانی۔
”مقصد کبا تھا دامیر۔ دھوکا ،چھوٹ ،فرنب دکھا کے تم ئے مجھے جاصل کبا پہ
جا ننے ہوئے تھی میں تم سے تفرت کرنی ہوں۔“ وہ انک انک لقظ جبا کے بولی۔
”میں ئے شب نمہارے لنے کبا پرنسٹس۔۔“ دامیر دھیرے سے بوال۔
”مجھے اس نام سے مت تکارو۔۔“ وہ جال اتھی۔ دامیر کو ناگوار گزرا لبکن وہ گہرا
شانس ت ھر کے ضیط کر گبا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چنہ کمرے میں نہیں تھی ،شاند فرنش ہو رہی تھی۔ انک معنی چیز مشکراہٹ
اس کے ل نوں پہ آسمانی۔ اس کی مار ڈھار کہاں کام آنی تھی ،تھی بو وہ تھی نازک سی
جسننہ۔۔ لبکن پہ خوتصورت صنح کا آعاز وہ اس کو دنکھ کے ہی کرنا جاہبا تھا خو کل
رات اس کا ا ننے جشن کے جال میں پرنپ کرئے جلی تھی لبکن انبا جال البا پڑ گبا
تھا۔
اس کا ارادہ اتھ کے اتھی راؤنڈ پہ جائے کا تھا چب نک چنہ فرنش ہو جانی۔
اتھنے سے نہلے اس ئے چنہ کے نکنے کو سجنی سے نازوؤں میں تھتنحا جٹسے وہ چنہ ہی
ہو۔
”ملٹسکا اگر اندر ہی ہو بو میں نمہیں خواین کر لوں؟“ سرٹ نہتنے اس ئے ناتھ
روم کے ناہر سے ہانک لگانی کہ اندر پرش کرنی چنہ دانت نٹسنے رہ گنی۔
”نبہودہ انشان۔۔“ خود سے پڑپڑانی اور اس کی تکار کو تظرانداز ہی کبا لبکن تکلحت
ہی اس کا دھبان ناتھ روم کے الک کی طرف گبا ،کبا تھروسہ وہ اندر ہی آجانا۔
”میں نانچ منٹ میں خواین کرنا ہوں نمہیں۔۔“ فصول کی ہا نکنے سے وہ ناز پہ آنا
،مزند ئےناک سی نات کہنے وہ ہٹسبا ہوا کمرے سے ناہر آنا۔
ارادہ ناہر جائے کا تھا لبکن دامیر کے کمرے کی طرف پڑھ گبا کہ اس کو شاتھ
لے جائے ناکہ وہ تھی فرنش فبل کر شکے۔ وہ اتھی راہداری میں ہی تھا چب اس کو
علتبا کے جالئے کی آواز سبانی دی۔
”ئےجارے کا پرا وفت سروع ۔۔“
رنان ناشف سے تقی میں سر ہال کے رہ گبا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”ہم اس نارے میں آرام سے نات کر شکنے ہیں ،نہلے ناشنہ کر لو۔۔“ دامیر پرم
لہچے میں بوال اور اس کے شائے کے گرد نازو تھبالئے جاہے چب علتبا چھتنی۔
”مجھے اننی ملکنت سمجھبا چھوڑ دو ،ا ننے پہ ہاتھ دور رکھو مجھ سے ،پہ پرم لہحہ ،
مجنت کا نانک جتم کرو شب۔“ کمرے سے تکلنے ہوئے وہ پڑپڑانی۔
”تم میری ملکنت ہو۔ اس نات کو تم مابو نا نہیں لبکن تم کسی صورت دور
نہیں جائے والی مجھ سے۔ “ اس کی پڑپڑاہت ستنے دامیر زپردسنی اس کو دبوار کے
شاتھ لگائے انک انک لقظ جبانا ہوا بوال۔ اس کی آنکھوں میں وہی سرد ناپر موخود تھا۔
جس سے وہ خوف کھانی تھی۔ ئےشاچنہ ہی اس کی شانس نبگ ہوئے لگی ،دامیر کی
آنکھوں سے تگاہ ہبائے وہ گہرے شانس تھرئے لگی۔ خوف عالب آئے لگا تھا۔
دامیر ئے اطراف سے ہاتھ ہبائے چہرے پہ پرنشانی در آنی۔ اس کی پہ ک یق نت
اننی وجہ سے ہونا دنکھ دامیر کو ندامت ئے گ ھیر لبا ،اننی چمافت کا اجشاس ہوئے لگا
کہ وہ اس کو خود سے ندظن کررہا تھا۔
”علتبا۔۔“ اس ئے اس کو ک یفرٹ د نبا جاہا چب وہ اس سے دور ہونی۔
”دور رہو مجھ سے۔۔“ وہ نتبک ہو رہی تھی۔
”دھوکے ناز ،قا نل ،تم ئے میری پزلبل کی۔“ علتبا ئے تفرت سے جنجنے ہوئے
کہا کہ وہ ا ننے خوف کے زپ ِر اپر اس کو ا ننے ناس رکھبا جاہبا تھا۔
ئے دامیر۔۔“ اس کے ستنے پہ ہاتھ رکھنے دھکا دنا اور جنچی کہ رنان خو ناہر دروازے
کے ناس تھا اندر داجل ہوا۔
”دامیر۔۔۔“ رنان ئے سرد لہچے میں اس کو وارن کبا۔
”میں نات کر رہا ہوں اس سے۔۔۔“ دامیر البا رنان پہ جنحا جس سے رنان کے
ما تھے پہ نل نمودار ہوئے۔
”اس سے نہلے کہ تم نہاں ہوئے پہ نجھباؤ ناہر تکلو ،وہ نات نہیں کرنا
جاہنی۔۔“ وہ قدم تقدم جلبا ہوا اس کے مقانل آئے سرد سباٹ لہچے میں بوال کہ دامیر
ئے اس کو ئےنسی سے دنکھا۔
دو نل وہ دکھ و ناشف سے علتبا کو دنکھبا رہا تھر گہرا شانس تھر کے کمرے سے
ناہر تکال۔
”تم خو جاہو گی وہی ہو گا۔۔“ رنان ئے اس کو تفین دہانی کروانی جاہی جس کا
علتبا کو زرا تھی تھروسہ نہیں تھا۔ رنان تھی دامیر کے ننجھے ناہر تکال لبکن وہ دامیر کو
زپردسنی تھی نہیں کرئے دے گا۔ علتبا کو کجھ وفت کی ضرورت تھی بو اس کو وفت
ملبا جا ہنے تھے۔
رنان کے ناہر آئے ہی دامیر سجنی سے عرانا۔
”انک نار پہ مسبلہ جتم ہو جائے بو میں تم سے دونارہ ا نسے ہی اسنٹشل سرپراپز
کی امبد رکھبا ہوں۔“ وہ معنی چیزی سے بوال۔
”میرا جافو د نبا ہے نمہیں سرپراپز۔“ وہ ننے ہوئے انداز میں بولی۔
دامیر اس کو ناہر الن میں مضظرب شا جکر کا ننے ہوئے تظر آنا۔ چنہ اس کے
کمرے میں گنی چہاں علتبا نبڈ پہ اوندھے منہ لتنی روئے کا شغل فرما رہی تھی۔
”علتبا۔۔۔۔“ چنہ کی آواز پہ اس ئے سر اتھانا۔
”نمہیں شب مغلوم تھا لبکن تم ئے اِ ن کو روکا نہیں تم تھی شامل تھی ان
ل ش ھ کن
میں۔۔“ چنہ کو د نی ہونی وہ کوہ کرئے گی۔
چنہ گہرہ شانس ت ھر کے رہ گنی۔
جم س
”وہ دوبوں ہی انک نمیر کے گدھے ہیں۔“ چنہ پڑپڑانی علتبا نا ھی سے اس کو
دنکھنے لگی۔
ُ
”تم اس سے نبار کرنی ہو۔۔“ شب نانیں چھوڑ کے چنہ ئےعلتبا کو اس کے
ا ننے اجشاس کی طرف بوجہ دالنی۔
”اس ئے میرے نبار کا تھی مزاق نبانا۔۔“ کہنے وہ چنہ سے لنٹ کے روئے
لگی۔ اس کو انبا آپ نہت چھونا محسوس ہو رہا تھا کہ کٹسے کونی آشانی سے اس کا
اسیعمال کر گبا تھا۔ اس کی انک نتماری اسے کمزور نبا گنی تھی جبکہ وہ مضنوط نتنے
تکلی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
رجشاروں سے نہنے آنسوؤں کو بونجھنے ہوئے اس ئے تقی میں سر ہالئے دو بوک انداز
میں کہا۔
ت ف کن
چنہ ئے اس کی شقاکی د ھی کہ وہ وا عی دامیر کی دی جائے والی مجنت کو ظر
انداز کر کے دور جائے کی نات کر رہی تھی۔
”علتبا نمہارا ری انکشن م نوفع تھا لبکن تم اس طرح اجانک دور جائے کی نات پہ
کرو۔ دامیر انشا کتھی نہیں ہوئے دے گا۔“ چنہ اس کو سمجھانی ہونی بولی۔
”مجھے دامیر سے کونی فرق نہیں پڑنا اب۔ اس ئے مجھے نہت ہڑٹ کبا ہے۔“
وہ تم لہچے میں بولی اور نبڈ سے اتھنے اننی وارڈ روب کی جانب لبکی۔ چنہ اتھ کے اس
کے ننجھے ہی ڈرنسبگ نک گنی خو ا ننے کیڑے تکال رہی تھی۔
”نمہیں کبا تکل یف دے رہا ہے علتبا؟“ چنہ ستنے پہ نازو ناند ھنے اس سے پرمی
سے شوال کرئے لگی۔ علتبا ئے تھبگی تگاہوں سے اس کو دنکھا جس کے چہرے پہ
سنجبدگی چھانی تھی۔
”نمہیں کٹشا لگے گا چب نمہیں مغلوم ہو کہ کونی نمہیں مجنت کے نام پہ
اسیعمال کررہا اور وہ تھی انشا سحص جس سے تم تفرت کرنی ہو؟“ ا ننے کیڑے ننچے
ل م ل کب تھ ت
کارن نٹ پہ نی ہونی روہا نسے ہچے یں شوال کرئے گی۔
”پہ نمہارا نس خزنانی ین ہے اور کجھ نہیں۔“ چنہ سنجبدگی سے بولی لبکن اس کی
کسی تھی نات کو ستنے کے کونی موڈ میں نہیں تھی۔
”میں ا نسے لوگوں میں نہیں رہ شکنی خو نبا شوچے لوگوں کو فبل کرئے ہوں
اور۔۔۔ اور۔۔۔“ اس کی آواز کا نتنے لگی۔
”وہ نمہیں دنکھبا تھی نہیں جاہ رہی دامیر۔۔ شکون سے نتتھے رہو زنادہ نمہیں
مج نوں نتنے کی ضرورت نہیں۔“ دامیر کی نات شن کے چنہ اس کو ننتبہی انداز میں بولی
کہ مج نوں لقظ شن کے دامیر کے ناپرات ندلے ،اس ئے ناگوار تگاہوں سے اس کو
دنکھا۔
”مجھ سے زنادہ نمہیں رنان مج نوں کی طرح ملے گا۔“ دامیر ننے ہوئے لہچے میں
ن
پڑپڑانا اور وانس آ کھیں موند گبا۔
رنان نبا نہیں اس کو مبائے میں کامباب ہونا تھی نا نہیں۔
اس کا ان یطار طونل ہوئے لگا چب دامیر ضیط کی طبانیں کھونا خود اتھ کھڑا ہوا۔
ا ننے روم کی جانب پڑ ھنے واال تھا چب اس کو رنان وہاں سے تکلبا ہوا دکھانی دنا۔ اس
ت ع جن
کے ھے ہی لتبا ھی آنی ہونی دکھانی دی۔ن
علتبا کی جالت دنکھنے اس کے دل کو جٹسے کسی ئے متھی میں جکڑا ،وہ کتبا
رونی تھی۔ کمرے سے ناہر آئے پہ دامیر کے چہرے پہ مشکراہٹ سی در آنی کہ شاند
رنان اس کو مبا النا تھا۔
چنہ کی تگاہیں دامیر کے چہرے کا ہی طواف کر رہی ت ھیں جس کی آنکھوں اور
چہرے پہ چمک اپری تھی لبکن اگلے ہی نل اس ئے اسی چمک کو ماند پڑئے اور
مابوسی کو چھائے دنکھا۔ وہ ئےتفتنی سے اب رنان کو دنکھ رہا تھا جبکہ علتبا کا وخود
ک م جن ن ت ً
فرنبا اس کے ھے چھبا ہوا تھا جس کے ہاتھ یں شوٹ ٹس تھا۔
”دامیر علتبا کی دو گھتنے میں قالنٹ ہے انلی کی۔“ رنان ئے گال کھ یکا لنے
ہوئے دامیر کو دنکھا خو ئےتفتنی و ہوبق نبا اس کو دنکھ رہا تھا۔
تھ مت ت ت ت ُ
” م اس کو مبائے گنے ھے!!“ دامیر ضیط کرنا ہوا ھی نج گبا۔
”ہاں وہ مان گنی ہے جائے کے لنے۔“ رنان کی نات ستنے دامیر کا دل کبا کہ
وہ اِ س کا منہ بوڑ دے۔
”جائے کے لنے؟“ دامیر ئے القاظ دہرائے جٹسے ستنے میں علطی ہو۔
”ہاں وہ مبکس کے ناس جانا جاہ رہی ہے بو دو گ ھتنے میں قالنی کر جائے گی۔“
رنان ئے شکون سے کہا اور علتبا کو شا منے آئے کا اشارہ کبا۔ وہ جلنی ہونی چنہ کی
طرف پڑ ھنے لگی۔ تگاہیں چھکی تھیں جٹسے وہ دامیر سے تظریں خرا رہی ہو۔ دامیر کو اس
کا پہ انداز دنکھ کے تکل یف ہونی۔
”میں شاتھ جاؤں گا۔۔“
اگلے ہی نل وہ انبا ف یصلہ سبائے ہوئے بوال کہ علتبا ئے چھبکے سے سر اتھا کے
انک نل کو دامیر کو دنکھا تھر اسبہقامنہ تگاہوں سے رنان کو دنکھا جٹسے کہبا جاہ رہی کہ
”رنان تم ا ننے وعدے سے تھر نہیں شکنے۔“
”دامیر۔۔!“ رنان کی ننتبہی آواز الؤنج اپرنا میں گونچی۔
”اس کو جائے دو۔۔“
رنان کی آواز پہ علتبا کا دل ڈوب شا گبا کہ کہیں ان دوبوں کی آنس میں
چھڑپ پہ ہو جائے اس کی وجہ سے۔
”جائے دوں ،نمہیں مغلوم تھی ہے تم کبا کہہ رہے ہو؟“ دامیر متھی تھتنجبا ہوا
اس کے مقانل ک ھڑا ہوا۔ دوبوں کی آنکھوں میں اس وفت سرد نتھرنال ناپر تھا۔
”میں ا ننے القاظ کا نانبد ہوں دامیر اور علتبا نہاں سے جائے گی۔“ رنان کی
گرے نبلباں شکڑیں ان میں گہرا ین واصح ہوا جٹسے وہ دھمکی دے رہا تھا۔
چ ہن ہ من م ت ک ُ
”اسے اگر ا ک ھروچ ھی آنی بو یں یں یں ھوڑوں گا۔“ دامیر اس کے ن
مزند فرنب ہوئے انک انک لقظ جبا کے بوال کہ رنان ئے انک تظر علتبا کو دنکھا۔
”ہم اس پہ زپردسنی نہیں کر شکنے دامیر ،اسے نہلے ہم پہ تھروسہ کرنا پڑے
گا۔“ رنان ئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھا جبکہ دامیر کے ناپرات میں کونی فرق
نہیں پڑ رہا تھا۔
وہ نس سر ہال کے نبا علتبا کو د نکھے لمنے ڈگ تھرنا ناہر کی طرف پڑھ گبا۔ علتبا
ل کن
ئے نس اس کو جائے ہوئے دنکھا کہ آ یں م ہوئے یں۔
گ ت ھ
”نمہیں جائے کی اجازت دے رہا ہوں لبکن ہمٹشہ کے لنے نہیں۔ تم دامیر کی
ن نوی ہو اور دامیر مجھے نہت عزپز ہے۔“ رنان نبا کسی لحاظ کے اس کو ناور کروانا ہوا
بوال۔ آگے پڑ ھنے اس ئے علتبا کا شوٹ کٹس تھام لبا۔ رنان کی نات ستنے خو نہلے ہی
دل دھڑک رہا تھا اب ڈھول کی مانبد کان میں سبانی د ننے لگا۔ اس کا انداز عام شا
نالکل تھی نہیں تھا۔
جم س
”میں امبد کرنا ہوں کہ تم ئے خو وفت ماتگا ہے دامیر کو ھنے کے لنے کاقی
ہو گا۔“ وہ اس کے شا منے آ رکا اور اس کی آنکھوں میں دنکھ کر بوال۔ علتبا ئے نیزی
سے انبات میں سر ہالنا۔
چنہ سنجبدگی سے پہ شب دنکھ رہی تھی۔ اس ئے ہی علتبا کی نکٹ نک کی تھی
مبکس کے کہنے پہ۔
شاند وہ دنبا کی ئےوفوف لڑکی تھی خو انسی نات پہ ا ننے شوہر کو چھوڑ آنی تھی۔
”تم ئے میری تفرت کو ندل دنا۔۔“
اس کے آنسوں عارصوں پہ نہہ رہے تھے جن کو وہ روک نہیں نا رہی تھی۔ خو
نانیں وہ نہلے کتھی تھولی تھی وہ شب ناد آجکی ت ھیں۔
فروا ناکسبان تھی۔ مبکس ئے اس کو نبانا تھا کہ فروا کو ناکسبان تھنج دنا گبا تھا
ن ُ ہ ن ت ُ
اور اس کی حقاظت کے لنے ہی کونی ھی راتطہ یں رکھا تھا ناکہ اس کا کونی نجھا پہ
کر نائے۔
شوپزرلتبڈ سے وانسی پہ وہ کتنے مہتنے گھر میں فبد ہو کے رہ گنی تھی ضرف فباد
کے ڈر سے ،اس کا حظرہ کم ہوا بو وہ پڑ ھنے کی طرف آنی۔
نلین سے اپرئے وہ لوگ انیربورٹ والے حصے کی طرف پڑھ رہے تھے ،شب
لوگ ا ننے نبگ اکھبا کر رہے تھے۔ م یکانکی انداز میں وہ تھی انبا شامان تھامے نیرونی
گ ت ً
طرف پڑھی چہاں اس کے نام کا بورڈ دنکھ وہ ان شونڈ بونڈ آدم نوں کی طرف نی خو فتبا
مبکس ئے تھنچے تھے۔
”دور جائے کے لنے مغاقی نہیں ملے گی نمہیں پرنسٹس۔ میری مجنت کا انبا
تھی مان پہ رکھا تم ئے۔۔“ سجنی سے چیڑے تھتنچے اس ئے جبالوں میں علتبا کو
محاظب کبا۔ ہاتھ کی نشت پہ چھونی چھونی خراش تھیں جس سے خون نہہ رہا تھا۔
اس ئے زور لگا کے ہاتھ کھوال اور نبد کبا۔ گردن کو دانیں نانیں گھمانا تھر خود کو
آ نتنے میں دنکھا۔ کبدھے پہ نبا آتھ کوبوں واال سبارہ چمک رہا تھا۔
آنکھوں کی نبلباں شکڑیں اور اس کو چھوا۔ ئےشاچنہ ہی علتبا کی مسکان ناد
م
کرئے وہ منٹشم ہوا۔ اس سبارے کو چھوئے وہ نہت نحسس ہونی تھی۔ اس ئے
ن
آ کھیں نبد کیں ،علتبا کی اتگل نوں کے بوروں کا لمس محسوس ہوا۔
)(Addiction, moya malen'kaya printsessa
”عادت لگ گنی مجھے نمہاری ،مانی لبل پرنسٹس۔“
اس ئے گہرا شانس تھرا اور گبلے پراؤزر سمنت کمرے میں آنا اور انبا لنپ ناپ
نکڑے اس کو آن کرئے نبڈ پہ رکھا۔
گزرے دبوں کی فوننج تکالے اس ئے نلے کر دیں جس میں علتبا کمرے میں
موخود تھی اور اننی انک نونی کرنی نانی گنی۔
اس وفت دامیر انشا محسوس کر رہا تھا کہ وہ گھر موخود نہیں اور گھر سی دور رہ
کے وہ علتبا کو شکرین پہ دنکھ رہا تھا۔
مونانل پہ اس ئے علتبا کی لوکٹشن جبک کی ،انلی میں مبکس کے گھر موخود وہ
ا ننے کمرے میں تھی۔ انک ہی جگہ سبل۔۔
اس ئے رنگ نہن رکھی تھی۔ الکھ ناراض سہی لبکن اس ئے دامیر کی نہبانی
انگوتھی نہیں ا ناری تھی جس میں پرنکر موخود تھا۔ اگر وہ رنگ اناری ہونی بو دامیر کا
س
دماغ مزند گھمائے کو کاقی تھا جس پہ وہ نبا شوچے مجھے اگلی قالنٹ لنے ہی اس کے
ن
ناس ہنچ جانا۔
کیرڈ سے پراؤزر سرٹ کا نئیر تکا لنے جتنج کرئے لگا۔ علتبا کی چہچہانی ہونی آواز
کابوں سے نکرانی ئےشاچنہ ہی تظر اس کی لنپ ناپ پہ گنی۔ وہ کونی کباب پڑ ھنے
ہوئے کھلکھال رہی تھی۔
فوننج میں ہی علتبا ئے مونانل پہ آئے والی کال اتھانی اور مشکرا کے نات
ت ُ
کرئے لگی۔ دامیر جانبا تھا کہ وہ اس وفت اِ سی سے نات کر رہی ھی۔ اس کے
چہرے کی روبق اور ہون نوں پہ سرمگیں مشکراہٹ۔
”میں نمہاری ادانیں کب نک مس کرئے واال ہوں۔“ نبڈ پہ نتم دراز ہوئے
لنپ ناپ ا ننے شا منے رکھا اور اس کو دنکھنے لگا۔
کمرے کا ماخول نبگ شا لگ رہا تھا۔ وپرانی سی تھبلی تھی۔ ا ننے دبوں جس کی
خوسنو میں وہ گہرے شانس تھرنا تھا وہ اداس گنت نبا مبلوں دور تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”زندگی میں نہال کام تم ئے اچھا کبا خو علتبا کو وفت دنا ورپہ مجھے لگا تھا کہ اس
کو تھی زپردسنی شاتھ رکھنے۔“ رنان کھڑکی کے ناس کھڑا مونانل پہ کجھ جبک کر رہا تھا
چب چنہ کی آواز پہ اس کا دھبان نتھکا۔ اس کا طیزپہ انداز ہون نوں پہ مشکراہٹ الئے
کا ناغث نبا۔
”اس کو تھی سے کبا مراد ،کبا کونی اور تھی ہے خو نہاں زپردسنی رہ رہا ہے؟“
رنان اسبہقامنہ تگاہوں سے اس کو دنکھبا بوچھنے لگا ،چنہ کا اندر نک شلگ کے رہ گبا۔
ب ع ً
”ہاں تم ہو نا ،موما جابوروں کو خڑنا ھر رکھا جانا ہے کن اقسوس دامیر کے
ل گ
ت س ً
ب
شاتھ نہاں رہبا پڑ رہا ہے مج نورا نا زپرد نی خو ھی کہہ لو۔“ چنہ اس ہزاننہ انداز انبانی ہونی
اس کے ناس سے گزرنی ہونی آ نتنے کے شا منے آنی ،ا ننے نال کھولے فجرپہ مشکرانی
ک نونکہ دوسری جانب وہی شلگنی آگ لگا جکی تھی۔
جشارت کرئے پہ آمادہ ہوا ،چنہ ئے سنتبائے اس سے قاصلہ پڑھانا۔ اس کا دور ہونا
رنان کو ناگوار گزرا جس پہ وہ انک جشت میں اس کو فرنب کرنا ہوا حصار میں فبد کر
گبا کہ چنہ کی جبا آڑے آگنی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”نمہیں کونی انک نونی ڈھونڈنی جا ہنے علتبا ،اس طرح قارغ رہ کے بو بور ہو جاؤ گی۔
گھر میں ہی کجھ دنکھ لو۔“ آج کاقی دن تغد وہ دوبوں نا سنے پہ انک شاتھ نتتھے تھے۔
مبکس ئے اس کو جاموش دنکھنے کہا۔ چب سے وہ آنی تھی ا نسے ہی اداس اور بوالنی
بوالنی تھرنی تھی۔
مبکس خود تھی کاقی مصروف تھے لبکن دن میں جتبا وفت ہو شکے اس کے
شاتھ گزار لتنے تھے مگر کھائے کے وفت کوناہی ہو جانی تھی۔
”میں شوچ رہی تھی کہیں کسی ناس کے ہی نک شاپ پہ جلی جانا کروں۔“ انبا
بوالہ جتم کرئے وہ شوجنی ہونی بولی کہ مبکس شوچ میں پڑ گنے کہ اس کو ناہر جائے
د نبا جا ہنے نا نہیں۔
ُ
”نلیز اب آپ پہ پہ کہنے گا کہ مجھے حظرہ ہے۔۔“ ان کے شو جنے پہ لتبا خود
ع
سے اجذ کرنی ہونی ئےزار انداز میں بولی۔
نہاں اکبلے رہ کے طت یغت میں خڑخڑا ین شامل ہو رہا تھا جس سے وہ خود تھی
عاخر آجکی تھی۔
”جائے کون شا گباہ کر دنا میں ئے خو ا نسے لوگوں سے ناال پڑ گبا میرا۔“ ما تھے
پہ نل لنے وہ شدند کوفت تھرے لہچے میں بولی۔ کبا اس کی زندگی انک عام زندگی نہیں
ین شکنی تھی۔
پہ مارنا مرانا ،دسمن ،اشاشن ،گارڈز ،مافبا۔۔ پہ شب ک نوں آگبا تھا اس کی زندگی
میں۔
”نبگ آگنی ہوں میں اننی زندگی سے۔۔“ اس ئے کھائے سے ہی ہاتھ روک لنے،
اب رونا آئے لگا۔
”شوہر تھی میرا وہ ہے جس سے میں دور تھاگنی تھی شوئے پہ سہاگا میں نبار کر
ن ب تن چ م ت تن
ھی ہوں اس سے۔۔“ ہاتھ یں تھامے مچ کانبا اس ئے زور سے ل پہ نحا اور
رونا سروع کر دنا۔
”علتبا تم دامیر کے مغا ملے میں اننی خزنانی ک نوں ہو رہی ہو وہ انک اچھا لڑکا
ہے۔۔“ مبکس اس کو رونا دنکھ پرنشان ہوئے اور سمجھائے والے انداز میں بولے۔ خود
وہ سمجھ نہیں نا رہے تھے کہ اس کو کٹسے ستتھالیں وہ۔ اتھی آدھا سچ شا منے آنا تھا۔
چنہ اور اِ ن کے نارے میں وہ جاننی ہی نہیں تھی۔
س
ا ننے رجشار سے آنسوں صاف کرئے وہ تتھلی اور مغذرت کرئے اتھ گنی۔
اس کو دامیر پری طرح سے ناد آرہا تھا۔ سروع کی رانیں نہت مسکل سے گزری
تھیں ک نونکہ دامیر کی عادت تھی۔ اس کے ہاتھ کا کھانا ناد آرہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭
اگلے دن وہ مبکس سے بوچھ کے ناس کے ہی کونی نک شاپ آگنی تھی۔ اس کا
دل جاہا کہ کجھ کبانیں لے کے نہی نتتھ کے ناتم ناس کر لبا کرے اور آئے جائے
لوگوں کو د نکھے گی بو دل نہل جانا کرے گا۔
نک سبلف جبک کرنی ہونی اس ئے دو نین کبانیں تکالیں۔ سر پہ شکارف
لنتنے ،آنکھوں پہ گالسز لگائے ہوئے تھی اور کبدھے پہ انک نبگ لبک رہا تھا۔
النیرپری کی طرح نہاں ُنک رنک سنٹ کنے گنے تھے۔ ہر زوق کے مطابق
نہاں کبابوں کی پرن نب سنٹ تھی۔ وہ شاننٹس قکشن والی شانبڈ پہ تھی۔
اننی نسبد کی آخری کباب تھی نکڑے جٹسے ہی وہ مڑی کہ اجانک دل زور سے
دھڑکا۔
رنک کے آخری کوئے پہ وہ ستنے پہ ہاتھ ناندھے نبک لگا کے کھڑا تھا۔ علتبا
ئے کجھ گہرے شانس تھر کے خود کے ناپرات پہ قابو نانا۔
”ہبلو لبل پرنسٹس۔“ اس کے ناس آئے ہی مشکرانی دوسباپہ آواز گونچی۔ علتبا
ت ُ
ئے م یکانکی انداز میں آس ناس تظر دوڑانی جٹسے اس کو ھی د کھبا جاہا ہو خو ہر وفت
ن
اِ س کے شاتھ رہبا تھا لبکن شاند وہ اکبال ہی آنا تھا۔ سباہ جبکٹ ،سباہ چئیز۔ الپرواہ سے
ن
ما تھے پہ نکھرے نال اور گالسز کے ننجھے چھنی گرے سرد آ کھیں۔
ُ
”قکر نہیں کرو وہ نہیں آنا ،میں ا ننے القاظ کا تکا ہوں تم دو ماہ نک اس کو
نہیں دنکھ ناؤ گی۔“ رنان ستنے سے نازو ہبائے اس کی طرف آنا خو کاؤنیر کی طرف جا
رہی تھی ناکہ کبابوں کی نتمنٹ کر شکے۔
رنان کی نات ستنے اس کے دل میں انک تھانس سی جتھی ،جلش سی نبدا ہونی
کہ وہ تھی شاتھ آجانا کم از کم اس کو دنکھ بو شکنی تھی نا۔
ت ہ ت ُ
ف
اور دو ماہ۔۔ ا ف ا ھی کتبا وفت پڑا تھا۔ ضرف دو قنے گزرے ھے اور مزند
کتنے ہقنے ناقی تھے۔
”کبا وہ پہ وفت گزرئے کا شدت سے ان یطار کر رہی تھی ناکہ دامیر کے ناس جا
شکے؟“ اس ئے خود سے شوال کبا تھر جبال کو چھبک گنی۔
ت ہن ن
ن
جس دن وہ ا لی چی ھی رنان ئے اس سے وعدہ کبا تھا کہ وہ جتبا وفت
س
جاہے لے شکنی ہے شب ھنے یں کن دامیر اس کو سی صورت یں ھوڑئے
چ ہن ک ب ل م جم
واال تھا جتھی علتبا ئے دو ماہ نک کا وفت لبا تھا کہ وہ نہاں سے جانا جاہنی تھی ،اس
کی شاری نادیں نازہ تھیں۔ وہ فباد نامی انک انشا کانبا جتھ گبا تھا خو جشم میں آدھا
ن نوشت تھا۔ ناہر تکا لنے میں تھی تکل یف اور اس کو چھوئے سے تھی تکل یف۔
کن ل ُ
فباد کے فصے کو ناد کرنا ان شب از نت ناک محات کو ا ننے شا منے د ھنے کے
ُ
میرادف تھا۔ دامیر کا اس سے شادی کرئے کا مقصد ہی فباد نک نہنجبا تھا۔ اس کے
شادی کرئے کا انک مقصد تھا اور پہ نات کتنی تکل یف دہ تھی۔
”کٹشا جا رہا ہے نہاں شب؟“ ڈران نو کرئے رنان ئے پرم لہچے میں بوچھا۔
علتبا ئے اس کی پہ پرمی نہلے کتھی محسوس نہیں کی تھی پہ ہی پہ انداز اس
کے مزاج کو حصہ تھا۔ جاننی تھی کہ وہ اس کو غیر آرامدہ محسوس نہیں کروانا جاہبا
تھا۔
”تھبک ہے شب۔“ وہ نس انبا ہی کہہ نانی۔
من ت م ُ
”کم رونا کرو اس کی ناد یں ،اسے لوم ہوا بو نہاں مزند انک ھی دن یں
ہ غ م
پرداشت نہیں کرے گا۔“ وہ شا منے دنکھ رہا تھا لبکن علتبا اس کی نات پہ خونک
گنی۔ اس ئے نامحسوس انداز میں انبا مونانل تکاال اور چھولی میں تھوڑا شا آگے کرئے انبا
چہرہ دنکھنے لگی کہ رنان کو کٹسے مغلوم ہوا وہ رونی تھی۔ ئےشاچنہ ہاتھ ا ننے چہرے
نک گبا۔ شوجا ہوا تھا۔ آنکھوں کے ن نوئے تھی سرخ تھے۔
”تم نہاں ک نوں آئے ہو؟“ مونانل وانس رکھنے اس ئے اننی بوجہ رنان کی طرف
کی۔ رنان ئے انک مشکرانی تظر اس پہ ڈالی۔
”زنادہ نہیں مشکراؤ ،نمہارے مشکرائے سے مجھے مزند ڈر لگے گا۔“ علتبا تگاہیں
ت ھیرنی ہونی بولی کہ اب کی نار وہ انبا قہقہہ ضیط کر گبا۔
”کجھ زنادہ ہی وجشت تھبال رکھی ہے میری ان آنکھوں ئے۔۔“ وہ فجرپہ بوال۔
”میں نس تم سے ملنے آنا تھا ،نمہیں کجھ تھی جا ہنے ہو نالچھحک نبا شکنی ہو۔ اگر
وانس جائے کا دل کرے نب تھی۔“ رنان کا لہحہ اب سنجبدگی اجتبار کر گبا تھا ،اس
کی مشکرائے والی نات پہ وہ فوری عمل کر گبا تھا۔
”مجھ سے ملنے۔۔۔!“ علتبا چیران ہونی ،ئےتفتنی سی تھی۔
”تم فتملی ہو۔“ وہ کبدھے احکا کے بوال کہ علتبا اس کے تغد کجھ کہہ نا نانی
ن
نس رنان کو دنکھنے لگی۔ نلونڈ نال ،گرے آ یں وہ ر ین خو صورت مرد تھا۔۔ ئے
ت س ھ ک
انبہا خوتصورت۔ مرد خوتصورت نہیں ہتبڈسم ہوئے ہیں لبکن رنان کے لنے خوتصورت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”سبا ہے کہ اشاشن کی ن نوی روتھ کے گنی ہونی ہے۔“
نئیر فولڈ کرئے فباد ئے نتبل پہ ر کھے اور کمرے میں آنی ڈرنبا کو دنکھنے بوال۔
”اچھا موفع ہے تم اسے اشاشن کر شکنی ہو اتھی۔۔“ چئیر پہ نتتھنے اس ئے
نانگ پہ نانگ چمانی۔
”فباد تم میرے نانا کے لنے کجھ تھی نہیں کر رہے۔۔“ ڈرنبا ئے انک شکوہ
کباں تگاہ اس پہ ڈالی ،اس کے ناپ کو عانب ہوئے کاقی دن ہو گنے تھے۔
”دسمن نالبا آشان نہیں ہونا ئےنی۔۔ ان کے وار کا ان یطار تھی کرنا ہونا ہے کہ
کب وہ کمزوری نکڑیں اور ہمیں طافت ور ہوئے کا موفع تھی دیں۔“ فباد سنجبدگی سے
بوال کہ ڈرنبا ئے نحوت سے سر چھ یکا۔
”لبکن تم طاف نور ہوئے کے نحائے البا مزند کمزور پڑ رہی ہو۔“ وہ مابوسی سے تقی
میں سر ہال کے بوال۔
”مجھے میرے دسمن کی کمزوری مل گنی ہے ،بو تم انک اچھی اشاشن کی طرح
اس کو مارئے جاؤ گی اب۔۔“ فباد اس کے فرنب آنا ہوا بوال اور اس کا رجشار تھ یکا۔
”مجھے انک ڈنل کے لنے جانا ہے۔ نب نک امبد ہے تم میرا کام کر لو گی۔
ورپہ میری رنگتنی کا شامان بو میں و نسے تھی ال رہا ہوں۔“ جبانت سے آنکھ دنانا ہوا وہ
بوال۔
ڈرنبا کا چہرہ عصے سے سرخ ہوئے لگا وہ اس کو دوسری لڑکباں الئے کی دھمکی
دے رہا تھا۔
ڈرنبا کو اب انلی کے لنے تکلبا تھا ناکہ وہ علتبا سے انک نار مالقات کر لتنی۔ وہ
وہاں مبکس کے ناس تھی بو ضرور علتبا کی ناداشت وانس آجکی تھی عین ممکن تھا کہ
وہ ڈرنبا کو انبا دوشت ہی ماننی ہو گی۔
انبا نبگ تکالنی وہ انلی جائے کی نباری کرئے لگی۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رنان ئے گاڑی نتھرنلی روش پہ نارک کی ،خود ناہر آنا اور علتبا کی شانبڈ کا دروازہ
کھوال ،کبابوں کا نبگ اس ئے نجھلی سنٹ پہ رکھا تھا۔
”ہم نہاں ک نوں آئے ہیں؟“
ت کن
علتبا نتھرنلی جگہ د نی ہونی بو ھنے گی۔۔ ھروں کی ڈ لوان نی ھی چہاں نچے
ن ن ھ ت ن ل چ ھ
سمبدر کا نانی نکرا رہا تھا۔
”و نسے ہی کجھ نازی ہوا ہو جائے گی اور کجھ نانیں تھی۔“ رنان جلبا ہوا انک
ن ن
نتھر پہ نتتھ گبا۔ علتبا تھی اس کی د کھا د ھی شانبڈ پہ تھ نی۔ ہوا کاقی ا ھی ل
ج چ گ تن ک
رہی تھی اور دھوپ تھی کاقی تھلی لگ رہی تھی۔ علتبا کو نہاں آنا اچھا لگ رہا تھا۔
ا ننے دبوں تغد اس آب و ہوا ئے زہن پہ اچھا اپر ڈاال تھا۔
رنان تھی اس وفت زہر نہیں لگ رہا تھا۔
”تم ئے کبا شوجا دامیر کے نارے میں؟“ رنان ئے نات سروع کی۔ وہ دوبوں
انک دوسرے کو نہیں دنکھ رہے تھے۔ تگاہیں شا منے لہرانی لہروں پہ تھیں۔
”مجھے نہیں مغلوم۔۔“ وہ مدھم شا بولی۔
”اچھی نات ہے۔۔ مطلب تم اس کے مغا ملے میں ئےنس ہو۔“ رنان سمجھ
کے سر ہالنا ہوا بوال ،علتبا ئے خونک کے اس کو دنکھا۔ وہ ئےنس تھی۔ چھوڑئے کا
شوجنی بو دل دہل جانا تھا کحا کے شاری عمر اس سے دور رہبا۔
”علتبا ہم لوگ اِ س ڈارک ورلڈ سے ہٹ کے اننی فتملی کی کئیر کرئے ہیں۔
نہت سی فتملیز ہیں خو خوش ہیں۔ ہم ناہر حظرناک ہو شکنے ہیں لبکن گھر میں
نہیں۔۔ ک نونکہ اب تم ،چنہ ہماری فتملی ہو۔ مرد ہمٹشہ دو شانبڈ رکھبا ہے ،نلخ ،سنجبدہ
خو وہ ا ننے کام میں دکھانا ہے لبکن چب وہ گھر آنا ہے بو اس کا انداز ندل جانا ہے،
وہ انک نبار کرئے واال شوہر ،ناپ ،تھانی ہونا ہے۔۔ تم ہمارے شاتھ رہ کے نارمل
زندگی گزار شکنی۔“
رنان تھہرے لہچے میں نات کرنا رشان سے اس کو سمجھا رہا تھا۔ علتبا اس کو
دنکھ رہی تھی۔
”میں انسی جگہ نہیں رہ شکنی چہاں ہر وفت مجھے مرئے مرائے کا خوف ہو۔“
علتبا گہرہ شانس ت ھر کے بولی۔
”مجھے سروع سے ہی تفرت ہے اس شب سے۔ کس کو نہیں ہو گی؟ ہر عام
انشان نہی جاہے گا کہ وہ انک عام زندگی گزارے۔ شوہر ہو فتملی ہو جس کے مرئے
کا خوف سر پہ مبڈالنا پہ رہے۔“ علتبا ا ننے ہاتھوں پہ تظریں چمائے بولی ،اننی ونڈنگ
رنگ کو وہ مشلشل گھما رہی تھی۔
”موت کا کبا ہے۔۔ خوف پہ تھی ہو بو مرنا ہی ہے۔۔ اور ہمیں اننی انسی زندگی
سے تفرت نہیں ک نونکہ ہم نبدا ہی نہی ہوئے ہیں۔ پہ زندگی ہم ئے نہیں جنی۔ اور
تم۔۔!“ رنان ئے کہنے وففہ لبا اور اس کی جانب دنکھا۔
”عام نہیں ہو ،پہ شب نمہارے نس میں نہیں ہے ک نونکہ پہ زندگی تم ئے خود
ا ننے لنے نہیں لی۔۔ تم خود انک مافبا پرنسٹس ہو علتبا۔ تم جاہ کے تھی اس شب
سے دور نہیں جا شکنی۔“ رنان ئے اس کی آنکھوں میں دنکھنے تھہر کے کہا کہ رنان
ن
ئے اننی کہی نات کا ادراک ہوئے علتبا کی آنکھوں میں شاک کی ک یق نت د ھی،
ک
”انلی کا ڈان۔۔“
القاظ دہرائے علتبا کو اننی رپڑھ کی ہڑی میں سٹسباہٹ سی محسوس ہونی۔
”کتھی مبکس سے بوچھا کہ نمہارا ناپ کون تھا؟“ رنان اب نہنے نانی کو دنکھنے لگا
جبکہ علتبا کا دماغ انلی کے ڈان پہ رک گبا وہ مبکس تھے۔۔ اتکل مبکس!!
نہاں کی تھلی لگنے والی دھوپ اب آنکھوں میں جتھنے لگی تھی ،ہوا خو شکون دے
رہی تھی اب سرد ہو گنی تھی۔ پہ شب انک مزاق تھا اس کے شاتھ۔۔
خو تھی ہونا آنا تھا وہ اتقاق نہیں تھا۔ رنان ئے تھبک کہا تھا اس ئے نہیں جنی
تھی پہ زندگی ،وہ شب اسی ڈارک دنبا میں نبدا ہوئے تھے جس سے وہ تھاگ نہیں
شکنے تھے۔
”کون تھا میرا ناپ؟“ علتبا ئے ا ننے آپ کو پہ کہنے سبا۔ ہوا اب سرد سے نبگ
ہو رہی تھی۔
”تم انک انلی کے ڈان کی نتنی ہو جس کی جگہ اب مبکس ئے ستتھالی ہے۔“
رنان ئے اس کی طرف ہوئے تھوڑا سرگوسی میں کہا کہ علتبا کے چہرے پہ ئےتفتنی
ہی ئےتفتنی تھبلی تھر صدمہ ،صدمے سے تھر خوف۔۔ اس کی آنکھوں کی نبلباں
تھبل گنیں۔
”انلی کے ڈان کی نتنی ،ڈنٹس وانی بو آر اے مافبا پرنسٹس۔۔ لبل علتبا۔“ رنان
کی کہی نات کا انکشاف ہوئے علتبا ئے ئےشاچنہ اننی گردن کو چھوا۔۔ شانس مزند
نبگ ہوا۔
”تم پہ شب ک نوں نبا رہے ہو؟“ علتبا ئے مدھم لہچے میں بوچھا ،رنان جانبا تھا
ُ
اس کے لنے پہ شب شاک ہو گا۔ علتبا کے لنے پہ شب جانبا ضروری تھا اگر اس کو
ان کے شاتھ زندگی گزارنی ہی تھی بو آدھا سچ اور آدھا چھوٹ ک نوں۔
”ناکہ نمہیں شب مغلوم ہو تم کون ہو۔ تم سے نہت سی نانیں چھبانی گنی
تھیں۔ ہم سمجھ شکنے ہیں کہ مبکس نمہیں اس شب سے دور رکھبا جا ہنے تھے لبکن
نمہارا اکبڈمی جائے کا ف یصلہ ان کے لنے نہت شاکبگ تھا علتبا۔۔ وہ نہیں جان نائے
کہ نمہیں اکبڈمی کا کٹسے مغلوم ہوا۔ نہی سے شب دونارہ سروع ہوا تھا۔۔“ رنان ئے
ن
اس کو دنکھنے کہا۔ تعنی کجھ اور تھی تھا چھبا ہوا۔ اس کی آ یں م ہوئے یں۔
گل ت ھ ک
”اور تم پہ جاننی ہو کہ ڈرنبا فباد کی فبانسی ہے۔۔۔؟“ رنان کی نات پہ علتبا کا
سر انبات میں ہال ،وہ جاننی تھی لبکن تھولی ہونی تھی۔ اس شب میں اِ س ئے خود کو
تھٹشانا تھا۔
ع جم ت ت ن ُ
ہ
”فباد! ڈرنبا کو مجھ نک اسی ئے نحانا۔ وہ ا ھی ھی ھے مارنا جاہبا ہے۔“ لتبا
ہولے سے بولی رنان سر ہالگبا وہ اس کی نابوں کی نانبد کر رہا تھا۔
س ُ
”وہ نمہیں ک نوں مارنا جاہبا ہے؟ مبکس سے اس کی د نی تغد یں ہے لتبا،
ع م م
م
نہلے وہ تم نک نہنجبا جاہبا ہے۔۔“ رنان ئے انبا کمل ُرخ اس نک کبا۔
”فروا ئے نبانا تھا۔۔ تھر میں شب تھول گنی۔ مبکس ئے میرا پرنتمنٹ کروانا
تھا۔ میں شانبکئیرشٹ کے ناس جانی رہی۔۔“ علتبا خود تھی شب نانیں اب خوڑ جکی
تھی۔ فروا ئے اس کو نبانا تھا ،ان لوگوں پہ چب دونارہ چملہ ہوا تھا فروا ئے نبانا تھا۔
فباد ک نوں اس کو مارنا جاہبا تھا اور اسی چملے کے دوران فروا عانب ہونی تھی۔ وہ عانب
نہیں ہونی تھی۔
”فروا کہاں ہے رنان؟“ علتبا ئے ڈرئے ہوئے بوچھا۔ اس کا دل زوروں سے
دھڑکا تھا اگر کونی بورا سچ جانبا تھا بو وہ فروا کے تغد علتبا تھی۔ مبکس ئے نبانا کہ فروا
ناکسبان تھی لبکن نہیں… .وہ وہاں کٹسے ہو شکنی تھی۔۔ رنان جانبا تھا کہ وہ فروا کا
ضرور بو چھے گی اور فروا کا مزند چھبا کے رکھبا تھی اس کو دھوکا د نبا تھا۔
”وہ نہیں ہے علتبا!“ رنان ئے اس کی آنکھوں سے نہنے آنسوں د نکھے۔
”وہ مار دی گنی تھی۔“ علتبا کو اب لگا کہ اس کا شانس چھین لبا گبا تھا۔ اس
کے ہاتھ پری طرح کا نتنے لگے۔ رنان نبا کسی چھحک کے اس کے فرنب ہوا اور اس
کے گرد نازو ناندھے۔
”نمہیں مضنوط نتبا ہے۔۔ پہ شب آشان نہیں تھا سہبا۔“ علتبا کو وافعی سہارہ
جا ہنے تھا۔ رنان جاہے جتبا تھی اس کو حظرناک لگبا تھا لبکن اس وفت وہ واجد سہارہ
تھا خو اتھی اس کو کمفرٹ دے شکبا تھا۔
وہ نتبک ہو رہی تھی۔ اس کی شانسیں گہری اور نبگ ہو رہی تھیں۔ رنان ئے
اس کی کمر سہالنی اور گردن کے نجھلے حصے پہ انگوتھا ت ھیرئے لگا۔
”وہ میری وجہ سے ماری گنی۔۔“ اس کی رندھی آواز رنان کے کابوں سے نکرانی۔
اس کے ہاتھوں کی لرزش پڑھ گنی تھی۔
علتبا تھی جائے کو اتھی۔ رنان ئے گاڑی کا دروازہ کھوال۔ آس ناس انک طاپراپہ
تگاہ دوڑانی۔
ڈران نونگ سنٹ ستتھا لنے اس ئے گاڑی ربورس لی۔ خو آج حق یفت مغلوم ہونی
تھی وہ نہت نلخ تھی۔ صنح نک وہ کتنی نابوں سے انحان تھی اور خود کو انک عام
ت ص ت ت ت جم س
ن
انشان ھنی ھی خو اس دنبا میں ھٹس گنی ھی۔ آ ل میں وہ ا ہیں کا حصہ ھی
خو عام زندگی گزارنی آنی تھی اور شاند اب شب نہلے جٹشا کتھی پہ ہو۔
”پہ شب مجھے تم ئے ہی ک نوں نبانا؟“ گاڑی مین روڈ پہ آنی چب علتبا ئے
آہشنہ آواز میں رنان کو دنکھنے بوچھا۔
”ک نونکہ دامیر نمہیں تکل یف میں نہیں دنکھ شکبا ،نمہیں رونا دنکھ وہ خود نتبک ہو
جانا اور میں ۔۔۔اس کو نتبک نہیں دنکھ شکبا۔ ان شارٹ میں ئے دامیر کی مسکل
آشان کر دی۔“ رنان الپرواہی سے کبدھے احکا کے بوال۔
دامیر میں وافعی خوصلہ نہیں تھا کہ وہ فروا کے نارے میں اس کو کجھ تھی
نبانا۔ علتبا کو رونا دنکھ وہ خود ہڑپڑا شا جانا۔
علتبا کو آج نہلی نار رنان اچھا لگا تھا۔ وہ تھبک کہبا تھا ان کی دو شانبڈ تھیں۔
ت کن
انک خو وہ ا ننے کام میں دکھائے دوسری وہ خو آج علتبا ئے رنان کی د ھی ھی۔ وہ
پروا کرنا تھا۔
ُ
”فروا۔۔۔“ اس کی موت انک دھحکا تھی علتبا کے لنے۔ اگر اس یں زرا ھی
ت م
ہمت نبدا ہونی بو وہ فباد کو مار د ننی نارہا مارنی۔۔ پڑنا کے مارنی۔
جس ئے اس کا تھانی ہوئے ہوئے اس کی دوشت کو اننی ہوس کا نشاپہ نبانا
تھا۔ وہ پہ نات زنان پہ النی ہونی تھی رنان کو پہ نبا نانی۔ اس میں خوصلہ نہیں تھا۔
وہ اس شب کی زمہ دار تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”علتبا متم کا انک تھانی ہے سر…..اور وہ فباد جاکم ہے۔“ ڈرنک ئے نات کہی
تھی نا کونی تم تھوڑا تھا ،دامیر کے اعصاب پہ جٹسے انک چھ یکا تھا۔ اس کے ما تھے پہ
نل ننے اور اننی جگہ سے کھڑا ہوا۔
”شوزین اور ڈرنبا کی کال رتکارڈ ہے سر۔۔ ڈرنبا ئے جال ہی میں شوزین سے
راتطہ کبا تھا جس میں وہ ا ننے ناپ کی گمشدگی کا نبا رہی تھی۔ آپ کے شک کے
مطابق شوزین ئے ڈرنبا سے آپ کا زکر کبا۔۔“ ڈرنک ئے انک نتبلٹ دامیر کے آگے
کرئے کہا جس میں وانس رتکارڈنگ شو ہو رہی تھی۔
”شوزین ئے زکر بو الزمی کرنا ہی تھا۔۔“ دامیر کی چیرت اتھی تھی کم نہیں ہو
رہی تھی۔ نتبلٹ کو ہاتھ میں تھامے اس ئے انک رتکارڈنگ نلے کی۔
ڈرنبا کی پرنشان آواز اتھری ،وہ ا ننے ناپ کا نبا رہی تھی اصل مقصد ڈرنبا کا
کال کرئے کا علتبا کے نارے میں نات کرنا ہی تھا کہ شوزین کو اس کی اور دامیر
کی شادی کا علم تھا تھی نا نہیں۔
شوزین ئے اس کو مت نت خواب دنا پہ تھی نبانا کہ وہ فباد کے نارے میں کاقی
م ل ت گ ت ن
ح م
سس ھے۔ ا لی نات دامیر کو خوتکائے والی ھی۔ ڈرنبا شوزین سے ناگوار ہچے یں فباد
اور علتبا کا زکر کر رہی تھی۔
”میں خوامحوا تھٹس گنی ہو۔ فباد انک نمیر کا مطلنی انشان ہے۔ مجھے اننی نہن کو
مارئے کے لنے شاتھ رکھا ہے انبا کونی ندلہ لتنے کے لنے۔ میں مج نور ہوں آالننٹس کی
وجہ سے ورپہ شب سے نہلے بو اسی کو اڑانی۔۔“
جائے وہ کن اجشاشات کے زپر شوزین سے تھڑاس تکال رہی تھی پہ شوچے
تغیر کہ شوزین پہ نات ضرف ا ننے نک نہیں رکھنے والی تھی۔
”ہم ڈرنبا کو اسیعمال کر شکنے ہیں ونل۔۔۔“ دامیر کو نلس بوان نٹ مال ڈرنک
جم س
ئے نا ھی سے اس کو دنکھا۔
”کٹسے سر؟“
”وہ انبا ناپ جاہنی ہے خو عانب ہے اور فباد اس میں ڈھبل دکھا رہا ہے۔۔ ہم
اس کا ناپ ڈھونڈ کے النیں گے خو نہلے سے ہی ہمارے ناس ہے اور تھر اس پہ
ہمارا اجشاس ہو گا جس کی فتمت وہ ادا کرے گی۔“ دامیر نتبلٹ اس کو وانس تھمانا
ہوا بوال۔ ڈرنک سبانسی انداز میں دامیر کو دنکھنے لگا۔
”وفت بو پرناد ہم کرئے نہیں جاہے وہ کسی کو کڈن نپ ہی ک نوں نا کرنا ہو۔“
دامیر سباٹ انداز میں بوال۔
لوسین کو اغوا کرئے کا قاندہ تھا اور اس کا اب وفت آنا تھا۔
”رنان کو اس کال کے نارے میں اتقارم کر دو۔۔ اور ڈرنبا نک چیر نہنحاؤ کہ
اسے صجنح لوگوں سے مدد لتنی جا ہنے۔“ دامیر انبا کہہ کے انبا مونانل نکڑے سبک نورنی
روم سے ناہر تکال۔ اس کا ُرخ گودام کی طرف ہوا۔
”فباد علتبا کا تھانی تھا۔۔۔“
ت
اس کی رگیں تھو لنے لگیں ،آنکھوں میں اسیغال نبدا ہوا ،چیڑے سجنی سے ھتنچ
چ ت ُ
لنے۔ اس کے نارہا بو ھنے پہ ھی اس ئے پہ نات دامیر سے چھبانی۔
اس ئے گودام کے لوہے کے گنٹ پہ ہاتھ رکھا چب مونانل ن نپ ہوا۔
کانیرنکٹ مٹسج۔۔
سجنی سے دانت نٹسنے اس ئے وہ کانیرنکٹ انکست نٹ کر لبا۔۔ گودام میں داجل
ہوئے اس ئے سرٹ انارے تھتبکی۔ وہاں موخود نتبل کے فرنب گبا اور شقبد کیڑا
اتھائے اس کو ہاتھ پہ لتنتنے لگا۔ اندر انک آگ سی لگی تھی۔ آئے ہی اس ئے انک
ُ
زپردشت مکا اس آدمی کے منہ پہ رسبد کبا خو روز نہاں ہوئے کی سزا کاٹ رہا تھا۔
ئے در ئے وہ اس پہ نار کرنا گبا چب نک وہ ادھ موا پہ ہو گبا۔ اس کی آنکھوں پہ ننی
نبدھی تھی جبکہ منہ لہو لہان ہو حکا تھا۔ دامیر کی مشلشل مار سے اس کا شانس
اکھڑئے لگا تھا۔ اس کا دھبان لوسین کی طرف گبا جس کی جالت کمزور تھی اب۔
چب سے وہ نہاں تھا اس کی صحت گرنی جا رہی تھی۔
”نمہاری نتنی میری ن نوی کو مارئے تکلی ہے لوسین۔ پہ جا ننے ہوئے تھی کہ
دامیر آر کی واتف ہے۔۔“ لوسین کی گردن دبوچے اس ئے سرد لہچے میں کہا۔
”دامیر آر۔۔۔“ لوسین کے ہونٹ ہلے چب دامیر ئے اس کے چیڑے پہ وار
کبا۔ عصے سے اس کا شانس تھول رہا تھا۔ کرسی کو تھوکر مارئے وہ عصے سے دھاڑا۔
”اگر نمہاری نتنی ئے میری ن نوی کا انک نال تھی ناکا کبا بو وہ بو جائے گی اننی
جان سے تم اگال شانس نہیں لے ناؤ گے۔۔“
اس کے نالوں کو متھی میں تھرئے ہوئے اس کے چہرے پہ عرانا اور چھبکے
سے اس کا سر چھوڑا جس سے لوسین کراہ اتھا۔
نہاں سے تکلنے وہ دوسرے روم میں گبا چہاں محل یف اوزار موخود تھے۔ نارخر
کرئے والے ،چھوئے سے پڑا ہر اوزار خو نارخر کرنا۔
اس ئے انک نبلٹ نکڑی اور زور سے اس کو نتبل پہ دے مارا۔
”تم ئے مجھ سے چھبانا فباد کے نارے میں سروع دن سے۔۔“
کہنے ہی اس ئے انک زور دار ضرب لگانی جس سے کمرے میں تھاہ کی آواز گونج
اتھی۔
”تم ئے مجھ پہ تھروسہ نہیں کبا۔ مشلشل چھوٹ بوال اور میری انک علطی پہ
سزا دے رہی ہو مجھے۔۔“
وہ انبا عصہ انار رہا تھا۔ زور دار کاری وار کبا۔ ہاتھ میں نبلٹ لنتنی اور تھر وار
کبا۔
اس سے تھی عصہ کم نہیں ہو رہا تھا کہ اس ئے نتبل کو انک تھوکر ماری اور
بوری فوت سے جالنا۔
”اگر اس نار فباد ئے تم پہ چملہ کبا بو پرنسٹس میں نمہیں مغاف نہیں کروں گا
ک نونکہ اس کو موفع تم ئے دنا پہ شب کرئے کا۔۔“ ا ننے دوبوں ہاتھ نتبل پہ رکھنے
اس تھولے شانس کو نحال کرئے شوجا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آنسر کرئے ونڈبو کا آنشن نبد کر دنا اور مونانل شا منے رکھا۔ رنان کی تصوپر دکھانی
دے رہی تھی لبکن چنہ کی طرف سے شکرین نلبک تھی۔
”تم تظر نہیں آرہیں؟“
رنان ئے الجھ کے کہا۔
”اندھیرا ہی دنکھو۔۔“ وہ سنجبدگی سے بولی اور پرف نوم اتھائے خود پہ سیرے کبا۔
”رات تھی تم اندھیرے میں ہی رکھنی ہو اب تھی پہ دنکھوں۔ کتمرہ آن کرو۔“
رنان ئے سنجبدگی سے غیر سنجبدہ نات کہی کہ چنہ سنتبا اتھی۔
م ش ن ف ن ہمن َ
م
”شٹ اپ رنان! یں ا نی صول کی کواس کرئے لبا کبا ہے۔“ کرین یں
اس کو دنکھنے ہوئے وہ سحت لہچے میں بولی۔
”میں فصول کی نکواس ہی نہیں کرنا ،تفول نمہارے فصول کی خرکات تھی کرنا
ہوں۔ و نسے وانٹ انبا شوٹ نہیں کرنا۔ نلبک ناتھ روب تھی موخود تھا وہاں۔“ رنان
الپرواہی سے بوال کہ چنہ اس کی دوسری نات شن کے خونکی۔ اس کی تگاہیں ا ننے
مونانل شکرین پہ نہیں تھیں وہ کمرے میں موخود کتمرہ دنکھ رہا تھا۔ چنہ ئے
ئےزار نت سے مونانل کتمرہ آن کبا۔
”ہاں اب تھبک ہے وہاں سے ان یگل اچھا نہیں تھا۔“
رنان شکون سے بو لنے ہوئے ا ننے نبڈ پہ نبک لگا گبا۔ چنہ کو اس سے کسی قشم
کی تعبد نہیں تھی۔ وہ ئےناک قشم کا انشان تھا۔
”کبا کر رہی ہو؟“ پرشوق تگاہیں اس پہ تکائے ہوئے بوچھنے لگا ،چنہ نبا اس کو
د نکھے ا ننے نازوؤں پہ کجھ لگا رہی تھی۔
”نتھی اننی شوفٹ ہو۔“
کن
اس کے لوشن لگائے پہ وہ ن یصرہ کرئے بوال کہ چنہ ئےنسی سے آ یں نبد کر
ھ
گنی۔ وہ اننی انک انک نات میں زومعت نت النا تھا۔ چنہ اس کو تظرانداز کرنی ا ننے
ہونٹ کا ننے لگی جٹسے مشکراہٹ روک رہی ہو۔
”ملٹسکا!“ کجھ نل جاموسی کے تغد رنان ئے آواز میں مجنت سموئے کہا کہ چنہ
کا ئےشاچنہ ہی دل زور سے دھڑکا۔
”ہوں۔۔!“ چنہ ئے نس سر ہالنا۔
”آرہا ہوں میں آج۔۔“ چنہ ئے تظریں اتھا کے اس کو دنکھا جس کی گہری تگاہ
اسی پہ نکی تھیں۔
”بو۔۔۔!“ اس ئے خواب میں آپرو احکائے۔
”نبار رہبا۔۔“
ہ م َ
”شٹ اپ۔۔۔“ اس ئے جس انداز یں کہا چنہ ئے ہڑپڑا کے کہا اور ٹسنے لگ
گنی۔ تھر ہٹسنی جلی گنی۔ رنان کے ہون نوں پہ مشکراہٹ در آنی ،چیرت تھری
مشکراہٹ۔۔ وہ اس کی کھبکنی ہٹسی کو دنکھ رہا تھا۔
”ندنمیز۔۔“ انبا کہہ کے اس ئے کال ہی کاٹ دی۔
”آنی النک بور الف! چب تم ہٹسی مجھے نبلباں سی محسوس ہونیں۔“ اگلے ہی نل
اس کو مٹسج موصول ہوا۔ چنہ کے رجشار سرخ ہوئے لگے۔ اس کے ہون نوں پہ
مشکراہٹ اتھی تھی تھی۔
”اس کو اب میری ہٹسی ستنے کا دورہ پڑے گا۔“ وہ گہرہ شانس ت ھر کے رہ
گنی۔
”کبا انشان مال ہے۔“ وہ پڑپڑانی اور کاقی دپر اس مٹسج کو د نکھے گنی۔
وہ نس انک دن کے لنے انلی گبا تھا ،کل رات کی اس کی قالنٹ تھی اور آج
رات وانس آجانا تھا۔
نجھلے دبوں میں وہ اس سے کاقی لڑی تھی ضرف اس نات پہ کہ وہ اس کو
ُ
ڈنلبگ پہ شاتھ نہیں لے گبا تھا۔ اب کی نار اس ئے وعدہ کبا تھا کہ اِ س کو لے
جائے گا نتھی وہ نات کرئے پہ آمادہ ہونی تھی۔
جتنج کر کے وہ کمرے سے ناہر آنی بو دامیر کو اندر آئے دنکھا ،اس کے ہاتھ پہ
ننی نبدھی تھی۔ اصل صدمے میں بو دامیر تھا جس کا دماغ ضرف علتبا میں الجھا ہوا
تھا۔
کبابوں میں تھبک لکھا ہونا تھا کہ مج نوب کے دور جائے سے آپ کی دنبا سے
رنگ جتم ہو جائے ہیں۔۔ دامیر جلنی تھرنی مبال تھی اس کے لنے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ت تھ ک
”کجھ جا ننے دامیر؟“ چنہ کی آواز ئے دامیر کی بوجہ نچی۔ اس ئے قی میں
سر ہالنا۔ اور وہیں الؤنج کے صوقہ پہ نتتھ گبا۔
”انکحولی انک کپ کاقی!“
ما تھے کو مشلنے ہوئے اس ئے چنہ سے کہا خو سر ہالنی ہونی کنچن میں گنی۔
اس کو اتھی تھوڑا شکون جا ہنے تھا۔ وہ شکون خو علتبا کے ہوئے سے ملبا لبکن شارا
مسبلہ ہی نہی تھا کہ وہ نہاں تھی ہی نہیں۔ ناس ہونی بو ئےشکونی کٹسی ہونی۔
رنان کی کال اتھائے اس ئے نلوبوتھ کان سے لگائے۔
چنہ ئے کنچن سے انک تظر اس کو دنکھا۔ جاننی تھی کہ رنان کا فون تھا۔ وہ
دوبوں آنس میں نات کرئے لگے۔ چنہ کاقی کا کپ اس کے شا منے رکھنے ناہر کی
جانب اشارہ کرئے جلی گنی ناکہ وہ دوبوں نات کر شکیں۔
”اسی لنے وہ آخر پہ مجھ سے تظریں خرا گنی تھی ک نونکہ وہ جاننی تھی کہ فباد اس
کا تھانی ہے۔“ رنان ئے سنجبدگی سے کہا ،دامیر ئے کاقی کا گھونٹ تھرا۔
ت م ُ
”مجھ سے دور جا کے نتتھ کے کبا لے گا اسے۔۔۔“ دامیر کا صہ اب ھی
ع
ڈھبڈا نہیں ہوا تھا۔
”نمہیں اس کو گلے لگائے کی کبا ضرورت تھی تم دور رہ کے تھی اس کو نشلی
دے شکنے تھے۔“ رنان کی شاری روداد ستنے دامیر کا ماتھا اسی نات پہ تھ یکا تھا کہ
رنان ئے اس کو گلے لگانا تھا۔ وہ خو سنجبدگی سے اس کی نات شن رہا تھا دامیر کے
جلنے پہ اجانک ہی قہقہہ لگا اتھا۔
”اسے انک ہمدرد جا ہنے تھا دامیر ،تم اونلتبل نہیں تھے بو مجھے نتبا پڑا “ رنان
رشان سے اس کو سمجھانا ہوا بوال جبکہ لہچے میں سرارت چھلک رہی تھی۔
”نتھی میں ئے شاتھ جلنے کو کہا تھا لبکن تم مائے نہیں۔“ دامیر کی آواز میں
شکوہ تھا۔
”دامیر وہ اتھی تھی نمہارے ناس آئے کو نبار نہیں ہے بو نہیر ہے دور ہی
رہو۔“ رنان سرد لہچے میں بوال کہ دامیر سر چھبک کے رہ گبا۔
”میں اس کو مج نور کر دوں گا خود نک آئے کے لنے۔۔“ اس کی پڑپڑاہٹ ستنے
رنان ئے ناشف سے تقی میں سر ہالنا۔
”میرے تھانی اس سے نبار کرنا ہے ڈرانا نہیں نہلے ہی وہ تم سے ڈری ہے۔“
ل ل ُ
”تم بو جٹسے اسے فرشنہ نے ہو نا۔“ دامیر نے ہوئے ہچے یں بوال۔
م ن گ
”انبا کہ میری نات مان لتنی ہے وہ “.رنان کا لہحہ نمسجر اڑانا ہوا کہ دامیر ئے
دانت نٹسے۔
”کانیرنکٹ انکست نٹ کبا ہے میں ئے ،نمہارے آئے ہی تکل جاؤں گا۔“ دامیر
ئے ناد آئے پہ رنان کو اطالع د نبا ضروری سمجھا۔ دوسری جانب رنان کے ما تھے پہ
ناگوارنت کے نل ننے۔
”میرے تغیر۔۔۔! مسورہ تھی نہیں کبا۔“ وہ سباٹ لہچے میں بوال۔
”نس عصے میں تھا ناد نہیں رہا۔ چیر تم وانس آجاؤ۔“ دامیر الپرواہی سے بوال۔
ت
”کہاں جانا ہے ،مجھے ڈنتبل ھنحو۔“
”انلی۔۔۔“ دامیرے کاقی کا مگ شا منے نتبل پہ رکھنے بوال کہ رنان ئے دوسری
جانب آپرو احکائے۔
”اسی لنے نبا نبائے انکست نٹ کر لبا۔۔“ وہ طیز کر رہا تھا۔ دامیر ئے کبدھے
احکائے۔
”لوکٹشن میں ئے تغد میں جبک کی۔“ دامیر ئے چھوٹ نہیں کہا تھا ،اسیغال
م ن
میں آکے اس ئے کانیرنکٹ لبا تھا لوکٹشن وافعی تغد یں د ھی ھی۔
ت ک
”میں قالنٹ ڈلے کر د نبا ہوں آجاؤ ،چنہ تھی آجائے گی نہیں۔“ رنان ئے
مسورہ دنا۔
”چنہ سے بوچھ لو۔“ دامیر کی نات پہ رنان انک نل کو شو جنے لگا ،تھر ہون نوں پہ
مشکراہٹ در آنی۔
”میں وانس آرہا ہوں۔“ وہ انبا ہی بوال اور کال کٹ گنی ،دامیر نمسجراپہ مشکرانا۔
زپ ِر لب کونی گالی دی اور ہلکا شا ہٹس دنا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ان دوبوں کی مالقات آنیر فبلڈ پہ ہونی تھی چہاں ج نٹ اتھی لتبڈ کبا تھا۔ دامیر
ا ننے شاتھ چنہ کو تھی لے آنا تھا۔
رنان ئے آئے ہی دامیر کو زور سے ستنے میں ت ھتنحا۔
”نمہاری پرنسٹس کی طرف سے۔۔“ رنان کے کہنے ئےناکی سے آنکھ دنانی اور
اس سے علنحدہ ہوئے چنہ کی جانب پڑھا۔
”ہبلو ملٹسکا۔۔!“ وہ جبکٹ کی ناکٹس میں ہاتھ ڈالے کھڑی تھی رنان کے
تکارئے پہ اس کی طرف دنکھنے لگی۔
شکر تھا کہ وہ ناف نوں کا لحاظ کر گبا تھا اور نس کنتنی کو ہون نوں سے چھوا۔
دامیر کے جائے ہی وہ دوبوں وانس منٹشن کی طرف پڑھے۔
”مجھے نمہاری مدد کی ضرورت ہے۔“ چنہ ئے نمہبد ناندھی ،ڈرنک ڈران نو کر رہا تھا
جبکہ رنان اور چنہ ننجھے نتتھے تھے۔ چنہ کا ہاتھ اس کی گرفت میں تھا کہ اس کی نات
پہ وہ اسبہقامنہ تگاہوں سے دنکھنے لگا۔
”انک مہتنے کے اندر اندر شپ منٹ جائے والی ہے تھانی لتبڈ نک۔ دس لڑکباں
ہونگی۔“ اس ئے رنان کو دنکھا جس ئے انبات میں سر ہالنا۔
”تھروسے مبد آدمی۔۔“ چنہ کے بو لنے پہ رنان ئے اس کو ا نسے دنکھا جٹسے اس
کی نات نسبد پہ آنی ہو۔
”نمہیں مجھ پہ تھروسہ ہے نا۔“ اس کے تھامے ہاتھ پہ رنان ئے زور دے کے
بوچھا۔
”ہاں۔۔“ وہ دل میں بولی جبکہ سر تقی میں ہالنا۔ وہ خو اس کے مت نت خواب پہ
پرتفین تھا ،تقی میں سر ہالئے پہ صدمہ شا ہوا۔ چنہ اس سے نہلے ہلکا شا تھی
مشکرانی….رنان ئے اس کو فرنب کرئے انک جشارت کی کہ وہ بوکھال اتھی۔
”ہونا جا ہنے ملٹسکا! مجھ پہ تھروسہ ہونا جا ہنے۔“ وہ سرد لہچے میں اس کو وارن
کرئے بوال۔
ڈرنک کی موخودگی میں اس کی ئےناک خرکت اس کو عصہ دال گنی ،انبا ہاتھ
چھڑوائے وہ آنکھوں میں سجنی لنے گھورئے لگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مکم م
اس کو نہاں آئے ہفنہ ہوئے واال تھا انبا نارگنٹ وہ دو دبوں یں ل کر حکا
تھا جس کی نتمنٹ تھی اس کو رنسنو ہو گنی تھی۔
وہ وانس جال جانا لبکن علتبا کی موخودگی اس کو ئےجین کر رہی تھی وہ اس سے
تھوڑا ہی دور تھی۔ اور ملے تغیر جانا اس کا دل نہیں مان رہا تھا۔ کتنی دفع اس کو اننی
آنکھوں کے شا منے دنکھا تھا۔ وہ نک شاپ نک جانی تھی اور روز وہاں دو گھتنے گزار کے
آنی۔ وہ کمزور ہو گنی تھی۔
”چب دوری پرداشت نہیں ہو رہی بو ک نوں خود کے شاتھ مجھے تھی تکل یف دے
رہی ہو۔“ ہونل روم میں موخود شا منے جلنی فوننج کو دنکھ رہا تھا۔ نک شاپ کے ناہر
کتمرہ موخود تھا اور وہاں وال گالس لگے تھے چہاں سے اندر نتتھے تفوس کا عکس تظر آنا
تھا۔
ش ن ف ت تع ن
چہاں لتبا ھی وہاں سے دامیر اس کا شانبڈ ٹس واصح د کھ کبا تھا۔
خو روبق کباب پڑ ھنے اس کے چہرے پہ ہونی تھی ہو اس وفت نہیں تھی۔ شاند
وہ زپردسنی انبا دھبان تھ یکا رہی تھی۔ کباب میں اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔
اس کا جائے کا ناتم ہوئے واال تھا لبکن آج وہ ا ننے وفت پہ اتھی نہیں تھی۔
علتبا ئے کباب نبد کر دی تھی اور گالس وال کے نار ناہر دنکھنے لگی۔
دامیر کو کجھ علط شا محسوس ہوا۔ علتبا کا گارڈ ناہر کھڑا تھا خو وہاں سے ہبا اور
وانس نہیں آنا تھا۔ نک شاپ کی دوسری شانبڈ گبا تھا۔ دامیر ئے اسی ر سنے لگے
نجھلے کتمرہ کو جبک کبا کہ شاند دوسری شانبڈ پہ موخود ہو لبکن وہاں تھی نہیں تھا۔
اس ئے ضرف فوننج نک رشانی جاصل کی تھی اس کی گزری رتکارڈنگ نہیں
دنکھ شکبا تھا۔
ن
اس ئے علتبا کا کتمرہ جبک کبا وہ اب تھی ا نسے ہی تتھی تھی تھر انبا سر میز
پہ تکا دنا۔ انبا مونانل نکڑے وہ نیزی سے کمرے سے تکال۔
کونی تھا خو علتبا کے ارد گرد تھا۔ اس وفت دامیر ئے نشکر کا شانس تھرا تھا کہ
وہ وانس نہیں گبا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس کو نہاں نتتھے کاقی دپر ہو گنی تھی اور نہاں سے جائے کا دل تھی نہیں
کر رہا تھا۔ گھر وانس جانی بو وہیں جالی دبواروں کو گھورنی رہنی نہاں لوگ بو تھے نا دنکھنے
کو۔
دو دن نہلے اس ئے دامیر کو دنکھا تھا۔ وہ جاننی تھی کہ اتھی تھی وہ اِ دھر ہی
موخود تھا اس پہ تظر ر کھے ہوئے۔ انشا ہو ہی نہیں شکبا تھا کہ وہ اس کو اکبال چھوڑنا۔
”نمہاری پہ کمزور مزاچمت میرے آگے کجھ تھی نہیں ہے بو مجھے زپردسنی
کرئے پہ مج نور پہ کرو۔“ دامیر ئے علتبا کا نازو تھاما۔
”تم مجھ پہ انبا آپ مشلط نہیں کر شکنے دامیر ،انشا ہر نار نہیں ہوگا کہ میں
نمہاری نابوں میں آجاؤں۔۔“ چھبکے سے انبا نازو چھڑوائے علتبا سجنی سے بولی ،دامیر
ُ
کے لہچے میں زرا پرمی نہیں تھی جس کا اسے دکھ ہوئے لگا۔
ت
دامیر اس کی لمنی تفرپر پہ چیڑہ ھتنچ گبا اور انبا رخ گارڈ کی جانب کبا۔ اس ئے
ڈران نونگ سنٹ کا دروازہ کھولے گارڈ کو گرنبان سے نکڑ کے ناہر تکاال۔
”دوسرا کدھر ہے۔۔؟“ اس ئے سرد لہچے میں دوسرے گارڈ کا بوچھا ،وہ دامیر
کے آئے سے ہی گ ھیرا اتھا تھا نتھی نیزی سے بو لنے لگا کہ وہ گھر گبا ہے دامیر ئے
اس کو کال مالئے کا کہا جس پہ وہ فوری عمل کرئے لگا۔
علتبا سنجبدگی سے دامیر کو دنکھ رہی تھی خو گارڈ سے نات کر کے نشلی کر رہا تھا۔
ہگ ن
”اس کو لے کے سبدھا ھر نحو ،دس منٹ کا رشنہ ہے اگر گبارواں منٹ ہوا
بو تم فیر میں ہو گے آج رات۔۔“ دامیر ئے اس گارڈ کا گرنبان چھبکے سے چھوڑئے
کہا کہ علتبا ئے ئےتفتنی تگاہوں سے اس کو دنکھا۔ وہ آج دوسری نار کسی کو اس
کے شا منے مارئے کی دھمکی دے رہا تھا۔
”گھر جا کے کال کروں گا پرنسٹس۔۔“ دامیر کا لہحہ نل میں ندال۔۔ آنکھوں میں
پرم ناپر اتھرا کہ علتبا ہوبق ننی اس کو دنکھنے لگی۔ وہ نل میں ناپرات ندل شکبا تھا۔
”مجھے نہیں کرنی تم سے نات۔“
انبا کہہ کے علتبا ئے اننی شانبڈ کا دروازہ نبد کبا اور گارڈ کو جلدی سے گاڑی
جالئے کا کہا۔
دامیر ئے اس کی گاڑی کو جائے ہوئے دنکھا چب نک وہ آنکھوں سے اوچھل
پہ ہو گنی۔
م
عانب ہوئے والے گارڈ سے وہ نات بو کر حکا تھا لبکن وہ ظمین نہیں ہوا تھا۔
چھنی جس اتھی تھی کونی گڑپڑ ہوئے کا اشارہ دے رہی تھی۔
وہ نک شاپ میں داجل ہوا اور آس ناس دنکھنے جاپزہ لتنے لگا۔ وہ روز نہاں آنی
تھی اور گھت نوں گزار کے جانی تھی۔
دامیر اس کا عصہ جتم کر دے گا اگر وہ نات کرئے کا موفع د ننی۔ موفع کبا
دامیر اس کو اتھا کے لے جا شکبا تھا لبکن وہ مزند حقا ہونی بو اس ئے تھوڑا شا وفت
دنا تھا۔
اس ئے رنان کو کال کر کے وہاں کا جال اخوال جانا اور اننی گاڑی میں نتتھے
علتبا کی لوکٹشن جبک کرئے لگا۔
وہ گھر کی راہ پہ تھی۔ اور مزند دو منٹ میں گھر ہونی ،دامیر چب ہونل نہنحا نب
ُ ن
نک علتبا تھی ہنچ جکی تھی۔ اس کی لوکٹشن گھر کی ہی شو ہو رہی تھی۔ وہ اس گارڈ
کے ناس جانا جاہ رہا تھا خو نک شاپ کی شانبڈ سے تطاہر اسی لنے عانب ہوا کہ اس
کو انمرجنٹسی آنی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آرمری میں اس وفت النٹس آن تھیں ،اشلحہ تظر آرہا تھا۔ دبواروں کے شاتھ
رنکس ننے تھے جس میں پرن نب سے شب سنٹ تھا۔ پہ سمگلبگ واال اشلحہ تھا خو دامیر
اور رنان ڈنل کرئے تھے۔
چنہ معمول کے پرعکس آج عام جلنے میں تھی۔ النٹ گرے پراؤزر سرٹ نہن
رکھا تھا اور نالوں کو رف سے خوڑے میں ناندھا تھا جبکہ رنان اننی محصوص کارگو ڈرنسبگ
میں تھا۔
انک گول میز تھی۔ نئیر نکھرے پڑے تھے۔ چنہ ستنے پہ نازو ناندھے کھڑی
سنجبدگی سے شب دنکھ رہی تھی۔
”اس جگہ انک شاتھ ہو نگے ،دامیر اِ س والے روٹ کو دنکھ لے گا آرام سے۔
نہاں سے کتنے کننئیرز جانیں گے؟“ دوسرے روٹ کو دنکھنے رنان ئے اسبہقامنہ
تگاہوں سے چنہ کو دنکھا۔
”ہو شکبا ہے دو اور… .پہ راشنہ چھونا ہو گا بو آشانی سے نہلے نہاں انبک کبا جا
شکبا ہے۔“ چنہ ئے نارڈر اپرنا کی طرف اشارہ کبا۔
”دامیر کے شاتھ نین آدمی ،اور نہاں ڈرنک۔۔۔!“ رنان ئے کہنے ڈرنک کو دنکھا
جس ئے سر ہالنا۔ آخری روٹ وہ دنکھ لے گا۔
”تم جتنے جاہو ا ننے شاتھ آدمی لے جا شکنے ہو لبکن مجھے ہر انک کی شالمنی
جا ہنے۔۔ وہ چھونی نجباں ہونگی اور نہت ڈری ہونی تھی۔۔“ رنان ئے سرد لہچے میں
ڈرنک سے کہا۔
”ا ننے آدم نوں میں سے دنکھو خو راضی ہو جائے کو ،کسی پہ کونی زور زپردسنی
نہیں۔“ شاتھ ہی اس ئے اگال جکم دنا جس پہ ڈرنک ئے مؤدب سر ہالنا۔
”سر اکبڈمی کے نہت سے لوگوں ئے کانتبکٹ کرنا جاہا آپ سے؟“ شاتھ ہی
ڈرنک انک لشٹ لے کے آنا اور اس کو تھمانی جس پہ رنان ئے سرسری سی تگاہ
دوڑانی۔
”کس لنے؟“
”جاب کے لنے سر ،پرابوا کے ن نو ہبڈ کا ستنے نہاں سے شوپرز ئے کانتبکٹ کبا
ہے۔“ ڈرنک ئے مزند کہا کہ وہ سنجبدگی سے سر ہال گبا جبکہ چنہ اب نئیرز پہ نانمبگ
دنکھ رہی تھی۔
ہر مافبا ہبڈ کو ا ننے شوپرز ،کڈننتبگ ،نارخر ،سمگلبگ نتم جا ہنے ہونی تھی۔ اکبڈمی
کے مجبلف ڈ نبارنمنٹ سے پرین شدہ ا ننے عالفوں کی مافبا کے مانحت ہوئے تھے۔ اگر
رسبا سے کونی پرنتبگ لتنے کراؤنڈ ہبڈ گبا ہے بو وہ پرابوا کے انڈر ہی کام کرے گا اور
پرابوا کے جکم کا مجباج ہوگا ک نونکہ رسبا کی پڑی ن یظتم پرابوا ہی تھی اسی طرح ہر ملک
اور عالفے کے ا ننے ہی لوگ ہو نگے۔
خو پرنتبگ سے فری ہو نگے ان کو نٹشٹ کر کے رنان ا ننے شاتھ رکھ شکبا تھا۔
”کڈننتبگ تم نٹشٹ کرو گے ڈرنک ،نتم رنڈی کرواؤ۔۔“ رنان کے ہون نوں پہ
معنی چیز مشکراہٹ در آنی۔
”کس کو کڈن نپ کروانا ہے سر؟“ ڈرنک تھوڑا گڑپڑانا کہ اگر تھبک سے کام پہ
ہوا بو رنان موت کا تطارہ کروا شکبا تھا۔
”فباد جاکم کو۔۔۔“
وہ نمسجر اڑانی مشکراہٹ لنے بوال کہ ڈرنک اننی جگہ شاکت ہوا۔ خو سحص ان کی
تظروں میں نہیں آرہا تھا وہ تھال پہ کڈن نپ کروا شکبا تھا۔ اس کے بو نستنے چھوٹ
گنے ،ئےشاچنہ ہی ڈرنک ئے تھوک تگال۔
فباد کی کڈننتبگ کا ستنے بو چنہ تھی خونکی۔ وہ انک نتم نٹشٹ میں فباد کو کڈن نپ
کروائے گا۔
”ناپ participantsکو ن یغام نہنحا دو ،نبا کونی وجہ نبائے نس نارگنٹ
نباؤ ان کو۔۔ تھر ہم تھی دنکھنے ہیں کہ اکبڈمی ئے اس شال کبا پرین کبا ہے۔۔“
رنان ئے وہ لشٹ ڈرنک کی طرف اچھالی جس کو وہ پروفت کنچ کر گبا۔ پہ کونی الگ
اور ابوکھی جال تھی خو رنان اتھی جلنے واال تھا۔
ت ن
”گیز کی ننی سبالنی کل نک نہاں نچ جائے گی بو اس کی ھی کر کرئے کی
ق ہ
”کڈنئیرز کو ا نسے ہی پرین نہیں کبا جانا۔۔ ان کو انک شو انک طر تقے نبائے
جائے ہیں۔“ رنان شاطر مشکرانا۔
”اب میں جاہبا ہوں کہ اس شب سے نہلے۔۔۔“ رنان ئے چنہ کا ہاتھ تھامے
ت ہن ن گ ھ کن
آ یں گول ھما یں (اس شب سے لے ،القاظ پہ) اور ھہرئے چنہ کو فرنب کبا ،وہ
اس کی کرسی کے نالکل شا منے نانگوں کے ناس کھڑی ہونی۔
”تم مجھے سرپراپز دے کے مبہوت کر دو۔“ اجانک اس کو اننی جانب چھکائے
وہ سرپر لہچے میں بوال کہ چنہ کھتنچے جائے پہ بوکھال اتھی۔
”نتتھ جاؤ نمہارا ہی ہوں۔“
اس کی فرمانش پہ وہ گھورئے لگی کہ وہ تھر ئےناک ہونا اننی گود کی جانب
اشارہ کر رہا تھا۔ انبا ہاتھ چ ھڑوائے وہ سبدھی کھڑی ہونی۔
”تم کتھی سیرنس ہو گے؟“
وہ چھال کے بولی۔
”اتھی ہو جانا ہوں ،پہ کل رات سے میری سرٹ نہنی ہے وانس کرو۔“ اس
ن
کے ننجھے ہتنے پہ وہ تھی کھڑا ہوا اور سنجبدگی سے بوال ،گرے آ یں سرٹ پہ کی یں
ھ ت ن ھ ک
”میں اگر کجھ کہنی نہیں بو اس کا پہ مطلب نہیں کہ انحوائے کرنی ہوں
نمہاری فصولبات کو۔“ عصے کی سرجی آنکھوں میں لنے وہ اس کے فرنب آنی۔ چنہ کا
ُ
ہاتھ رنان کی گردن نک آنا کہ اس کے ہون نوں کی مسکان گہری ہونی۔ وہ انبا جافو
تھامے ہوئے تھی۔
اس کا جافو واال ہاتھ کالنی سے تھامے ننچے النا اور ستنے پہ رکھا۔
ن
”اس کو چیر کے دکھاؤ بو نمہاری خرأت کو مابوں۔“ رنان کی آ کھیں چمکیں ،شورج
کی روسنی سبدھا آنکھوں سے نکرا رہی تھی۔ رنان ئے جافو کی بوک ستنے پہ دل کے مقام
پہ رکھی۔
سباہ شقبد نال والے محشمے جٹسے دھوپ میں کھڑے تھے۔
چنہ ئے نبا کجھ کہے ا ننے جافو پہ زور دنا وہ اس کی سرٹ کو چیرنا کٹ لگا گبا۔
م ل کھت
خون کی بوند نبکی۔ دناؤ ہلکا کرئے چنہ جافو کو ننچے الئے لگی کہ سرٹ یں کیر نی
جن
گنی۔
”کبا چیز ہو تم رنان۔۔“
اس کے ڈھنٹ ین پہ وہ شلگ اتھی۔
”تم پرابوا کے ہبڈ ہو اب مجھے شاتھ لے جائے میں کونی مسبلہ نہیں ہونا
جا ہنے۔“ چنہ جبانی ہونی بولی۔
”پرابوا کو نبک اوور کبا ہے بوری دنبا کی مافبا کو نہیں ،ا چھے سے جاننی ہو کہ
ڈانتمبڈ کے نانیرز سبدھے نہیں ہوئے ،لڑکی کو دنکھنے تغد میں ہیں نہلے اس کا قاندہ
اتھانیں گے۔ میں رشک نہیں لے شکبا۔“ رنان سنجبدگی سے بوال۔ چنہ ئے کمر سے
اس کے نازو ہبائے اور ما تھے پہ نل لنے اس کو دنکھنے لگی۔
”انشا ک نوں رنان۔۔ پہ میرا کام ہے۔ میں کرنی آرہی ہوں پہ کام۔“ چنہ نیز لہچے
میں بولی۔
”نمہارا خو کام ہے میں اس میں سنورٹ کر رہا ہوں لبکن پہ نات نہیں مابوں
گا۔“ وہ دو بوک لہچے میں بوال کہ چنہ ضیط کر کے رہ گنی۔
”نمہیں مجھ پہ تفین نہیں؟“ اس کی آنکھوں میں دنکھنے سنجبدگی سے بولی۔ رنان
دو قدم کا قاصلہ تھر سے طے کرنا اس کے فرنب آنا ،خو مجنت کے رنگ آنکھوں میں
کجھ نل فبل تھے اب وہ سرد ناپرات میں ندل گنے تھے۔
کشلمبدی سے اتھنے اس ئے شلئیر نہنے اور ناتھ روم فرنش ہوئے گنی۔ ناتھ لے
کے وانس آنی بو کجھ اعصاب پرشکون ہوئے۔ نالوں کو کنجر میں مقبد کبا اور خود کو
انک تظر آ نتنے میں دنکھا۔ چہرے پہ تکان تھی۔
ل ک م ھ کن
انک دو نار آ یں زور سے نچے ھو یں اور چہرے پہ ہاتھ رکھا۔ شاند ہلکا شا نحار
تھا۔
وفت دنکھا۔ ناشنہ نہیں کبا تھا اتھی وہ تھوک کاقی محسوس ہو رہی تھی۔
اس ئے کمرے میں موخود دبوار گیر الماری کا انک نٹ وا کبا۔ شا منے انک قانل
موخود تھی۔ آنکھوں میں نمی گھلنے لگی۔ دامیر کی شدت سے ناد سبانی۔
وہ ک نوں کر رہی تھی انشا؟ اسے وانس جلے جانا جا ہنے اس کے ناس۔
جبالوں کو چھبک کے وہ ڈاننتبگ نک آنی اور ناشنہ لگائے کو کہا۔
مبکس ئے ہمہ وفت اس کے لنے گارڈز ر کھے تھے۔
”مجھے آج انک جگہ جانا ہے ،پہ لوکٹشن دنکھ لو۔۔“ انبا نبگ تھامے وہ نارکبگ
اپرنا نک آنی اور ا ننے گارڈ کو کارڈ تھمانا۔
علتبا کو کجھ تھی کہے تغیر اس ئے مونانل تکاال اور کال کرئے لگا۔
”شاند میں ئے ناشنہ آنلی کر لبا تھا۔“ ستنے پہ ہاتھ رکھنے وہ پڑپڑانی اور آدھ میں
ہی لفٹ کو روک دنا۔ اور ز ننے ا نسے ہی اپرئے لگی۔ لفٹ کے اندر گھین سی محسوس
ہو رہی تھی۔
ہونل کی نارکبگ نک نبدل جائے میں اس کو جار سے نانچ منٹ لگ جائے
تھے ،اتھی اس کو شدند تھکن محسوس ہو رہی تھی۔ ز ننے اپرئے ہی اس کا شانس
تھول گبا تھا ،شانس نحال کرئے کو اس ئے ستنے پہ ہاتھ رکھا اور ا ننے نالوں کو
چہرے سے ہبانا۔
گاڑدز کو نہیں پہ ہونا جا ہنے تھا گاڑی موخود تھی لبکن اس کے گارڈز نہیں۔ کجھ
گڑپڑ کا اجشاس ہوا۔ دماغ ئے حظرے کا االرم نحانا۔
ہن
اتھی اننی گاڑی نک نچی ھی ہیں ھی کہ کسی ئے اس کے نازو کو ا نی
ن ت ن ت
گرفت میں لبا جس پہ وہ سہم سی گنی لبکن مقانل کا چہرہ دنکھنے ہی اس کے اعصاب
کجھ پرشکون ہوئے۔
وہ دامیر تھا لبکن عحلت میں ،اس کو نہاں سے جائے کا کہہ رہا تھا
”ہمیں نہاں سے جلبا ہے ،جلدی کرو۔“ اس کی نات ستنے ما تھے پہ ناگوار
لکیریں اتھریں اور مقانل کی گرفت سے انبا ہاتھ چھڑوانا۔ وہ اس کو ا ننے شاتھ لے
جائے کے لنے آنا تھا شوچ کے انا آڑے آگنی۔
”مجھے کہیں نہیں جانا ،اکبال چھوڑ دو مجھے۔“ وہ سنجبدگی سے بولی اور اننی گاڑی کی
طرف پڑھی۔
”پہ نحث کرئے کا وفت نہیں ہے میرے شاتھ جلو۔“ دامیر ئے تھر سے نازو
کو اننی گرفت میں لبا کہ اجانک کونی چیز ہوا کو چیرنی ہونی ان کے درمبان سے گزری
ً
جس پہ دامیر فورا الرٹ ہوا جبکہ اس کے دل میں خوف کی لہر دوڑ گنی۔ علتبا شاتھ
تھی ،نہیں ہونا جا ہنے تھا۔
ن ن ن
علتبا کو نازو سے تھا منے اس ئے ا ننے ھے کبا اور ا نی نشت سے ت نٹ کے
ن ج
ہولڈر سے اننی گن تکالی ،گن گولی جالئے والی کی سمت کرئے اس ئے دو قاپر
ناندھے چب نارکبگ کی دوسری طرف سے لوگ نمودار ہوئے لگے۔
”پہ شب کبا ہو رہا ہے۔۔؟“ خوف سے سرد پڑئے اس ئے دامیر سے بوچھا خو
انک کے تغد انک نشاپہ ناندھ رہا تھا جبکہ گولباں جلنے کی آواز سے اس کا خود کا دماغ
ماؤف ہو رہا تھا۔
”تھاگو۔۔۔“ سرد آواز میں جکم دنا جس پہ وہ علتبا تقی میں سر ہالئے لگی۔
”میں ئے کہا تھاگو۔۔۔“ آواز میں کونی پرمی کا ناپر نہیں تھا ،موت جٹسی
تھبڈی آواز پہ اس کی نانگوں سے جان جائے لگی ،ندن لرزئے لگا ،زنان ئے بو لنے
سے اتکار کر دنا۔
خود میں جان الئے اس ئے تھا گنے کی کوشش کی ،جس سمت وہ تھاگی تھی
اسی طرف دامیر ئے اننی نشت کرئے نشاپہ ناندھبا سروع کر دنا اور علتبا کو کور دنا
چب انک گولی دامیر کے کبدھے کو چیرنی ہونی تکلی۔ وہ زنادہ آدمی تھے۔
علتبا ئے ننجھے مڑ کے دنکھا خو اس کے ناؤں مڑئے کا سنب نبا اور وہ لڑکھڑا
پڑی۔ ناس گاڑی کا سہارا لتنے اس ئے شانس لتنی جاہی نب نک ماشک لگے آدمی
ت ج ہن ن
اس ک نچ کے ھے۔
”شٹ ،شٹ ،شٹ۔۔ علتبا کو نہاں نہیں ہونا جا ہنے تھا۔“ دامیر کا دل خوف
سے دھڑکا۔ کھوئے کا ڈر۔
جٹسے ہی انک آدمی ئے علتبا کا نازو دبوجا اس کے جلق سے انک جنخ پرآمد ہونی،
دامیر ئے ننجھے مڑ کے دنکھا اور علتبا کے ناس کھڑے آدمی کا نال چ ھحک نشاپہ ناندھا،
نہاں آدمی ننچے گرا اور دوسری جانب دامیر کے سر پہ کسی زوردار چیز سے وار کبا گبا۔
”لڑکی بو وہی ہے ،لڑکا علط پہ ہو۔ پرابوا کا آدمی لگ رہا ہے۔“ انک کمزور آواز
میں بوال شاند وہ دامیر سے وافف نہیں تھا جبکہ علتبا کا تفین تھا۔
پرابوا! علتبا کے زہن میں لقظ گونحا۔
رسین مافبا کی کرمبل آرگباپزنشن!
لبکن دامیر کو پرابوا کا نہیں تھا۔ وہ انک اشاشن تھا خو اننی مرضی سے کام کرنا
تھا۔
”پرابوا کا ہوا بو تھوڑی دپر میں موت کو ہبلو کہہ د نبا۔“ ان میں سے انک آدمی
پرابوا کا ستنے ناگوار لہچے میں اس کو چ ھڑکبا بوال۔
علتبا ئے چھبکے سے سر موڑے دامیر کو دنکھا وہ اب تھی و نسے ہی دنکھا،
ئےجس و خرکت انک محشمہ۔ جٹسے ہلے گا بو ر نت کی مانبد نکھر جائے گا۔
نتھی دو لوگ اندر آئے ،علتبا ئے سہم کے دامیر کو دنکھا ،وہ کجھ کر ک نوں نہیں
رہا تھا۔
ُ تھ ت
”بو مبکس کی نچی ہے نا۔۔“ ان میں سے انک آدمی اس کے شا منے کھڑا
ہوئے بوچھنے لگا۔
ت ک ن
علتبا ئے خوف سے زرد پڑئے آ یں اتھا یں اور قی یں سر النا۔
ہ م ن ھ
”چھوٹ بولنی ہے۔۔“ اگلے ہی نل ا ننے رجشار پہ پڑئے والے ہاتھ ئے اس کے
خواس معطل کنے۔ رجشار پہ جلن ہوئے لگی ،تظریں دامیر پہ گنیں۔ کونی خرکت
نہیں۔
”خود دنکھا ہے نجھے وہاں سے تکلنے ،اور پہ کون ہے؟ جاننی ہے نا اس کو؟“
اس کے نالوں کو متھی میں تھرا کہ وہ کراہ اتھی۔ آنسوں آنکھوں سے زار و زار نہنے
لگے۔
علتبا ئے دامیر کو دنکھا ،نانی نبک رہا تھا اس ئے تھر تقی میں سر ہالنا۔
”میں نہیں جاننی اس کو۔۔“ وہ کا نتنے لہچے میں بولی کہ انک اور ہاتھ پڑئے
سے اس کا سر پری طرح جکرانا۔
”بوائے فرنبڈ بو نہیں کہیں۔۔ تھوڑی دپر رکھنے ہیں ان کو۔ کبا نبا لڑکی کو پڑنبا
دنکھ پہ ڈھنٹ نشلی تھی ہل جائے۔“ انک چھبکے سے علتبا کے نال چھوڑے …..ان
دوبوں ئے انبا رخ دامیر کی طرف کبا۔
”مجھے پہ پرابوا کا نبدہ لگبا ہے ،اس کے ہاتھ میں انگوتھی تھی۔“ دوسرا آدمی تھر
اس کو ننتبہی انداز میں بوال جٹسے کہہ رہا ہو کہ تھٹس پہ جانیں اس کو نکڑ کے۔
”اور کجھ نہیں تھا؟“ بوچھنے پہ دوسرے ئے تقی میں گردن ہالنی۔
”کس کے کہنے پہ تم ئے مارا انیزو کو؟“ انک سحص وانس اندر آنا ہوا دامیر کو
مکا مارئے ہوئے بوال۔ پہ وہی تھا جس ئے علتبا پہ ہاتھ اتھانا تھا۔
دامیر کی طرف لبکنے انشان کو دنکھنے علتبا کی ئےشاچنہ جنخ تکل گنی۔
”کجھ بو لگنی ہے بو اِ س کی۔۔۔“ وہ وانس علتبا کی جانب مڑا ،اس کے جنجنے پہ
معنی چیز مشکرانا۔
”ا ننے اِ س نار سے بول کہ ہمیں نبا دے کہ اِ س ئے کس کے کہنے پہ
ہمارے ناس کو مارا بو ہم نمہیں چھوڑ دیں گے۔“ وہ اب آہشنہ پرم آواز میں علتبا کے
شا منے چھکبا ہوا بوال کہ علتبا ئے سہم کے دامیر کو دنکھا۔
”مم۔۔۔ میں نہیں جاننی اس کو ،مجھے چھوڑ دو۔“
وہ ہکالنی اور تقی میں سر ہالئے لگی۔
”تھر اس کے شاتھ کبا کر رہی تھی تم؟“ علتبا کے شا منے سے ہٹ کے وہ
زرا شانبڈ پہ کھڑا ہوا کہ علتبا دامیر کو واصح دکھانی دے لبکن وہ د نکھے بو سہی۔
”اس کا نام مغلوم ہے؟“ ا ننے ہاتھ کی اتگلباں علتبا کے چہرے پہ مس
کرئے ہوئے بوال کہ انبا منہ دوسری طرف کرنی وہ ششکی دنا گنی۔
”میں کسی کو نہیں جاننی ،مجھے جائے دو نہاں سے۔۔“ وہ اب کی نار جالنی
تھی۔
”اس سے نس کہہ دو کہ ہمیں نبائے کہ کس کے کہنے پہ اِ س ئے انیزو کو مارا
ہے نمہیں جائے دیں گے۔“ وہ پرمی سے علتبا کو نحکارئے ہوئے بوال اور کمرے سے
ناہر گبا چہاں ناقی شب تھی کھڑے تھے۔
”تم انہیں نبا دو کہ تم کون ہو اور کس کے کہنے پہ تم ئے اِ ن کے آدمی کو
مارا تھا۔ مجھے نہاں سے جانا ہے۔۔“
علتبا ئے جنجنے ہوئے دامیر سے کہا لبکن اس کو انشا محسوس ہوا جٹسے وہ دبواروں
سے نات کر رہی تھی۔
”اِ س کی گرل فرنبڈ ہو گی نتھی بو نحائے آگبا تھا۔ ان کا دھبان رکھبا لڑکا کجھ بو
بولے گا ،انک نار مغلوم بو ہو کہ پہ لڑکی اسی کی ہے بو نارخر کرئے میں مزا تھی
آئے۔“ وہ آدمی ا ننے ناقی کھڑے شاتھ نوں سے بوال۔
”تھنی مجھے بو پہ اس آدمی کی نہیں لگ رہی دنکھا نہیں تھا کٹسے نُت نبا نتتھا
تھا۔ ہال نک نہیں اگر کجھ جکر وکر ہونا بو پڑنبا بو سہی۔۔“
وہ مین آدمی نہاں سے جا حکا تھا۔ اب نس گنٹ پہ کھڑے دو شاتھ نوں کی
آوازیں ت ھیں خو اندازے لگا رہے تھے۔
”اس ئے انک تھی تظر اس لڑکی پہ ڈالی بو سمجھ جانا کہ جکر ہے تھر دنکھبا
پڑ ننے اور پڑنائے کا مزا۔۔“ ان دوبوں ئے انک نار گردن اندر کی طرف کرئے علتبا
اور دامیر کو دنکھا ت ھر قہقہہ لگا ا تھے۔
گنٹ نبد ہوئے لگا۔
ت ت ن ُ
کسی ئے ان کو النا تھا۔ قدموں کی آواز آنی ھی خو دور جا رہی ھی۔
آوازیں اب نبد ہو گنی ت ھیں۔ وہ جا جکے تھے۔
آواز تھی بو نس علتبا کے روئے کی ،اسے تکل یف ہو رہی تھی جشمانی تھی اور اندر
تھی۔ دامیر کی ئےجسی پہ تکل یف ہو رہی تھی۔
ان آدم نوں ئے علتبا کو نارخر کبا تھا اور دامیر ہال نک پہ تھا نہاں نک کے کونی
ل ن
عصہ تھی نہیں تھا۔ وہ رو رو کے تھک گنی بو خواس گم ہوئے گے ،آ یں ا ک نار
ن ھ ک
وہ دامیر سے ناراض تھی ،حقا تھی عصہ تھی۔ اب شکوے تھے۔ شکانات تھیں۔
اس ئے انک نار تھی اسے نہیں دنکھا تھا۔ وہ ڈھنٹ تھا۔
ت ُ ت ن ُ
کبا وہ اسے ہحا ننے سے اتکار کر کے ھبک کر رہی ھی؟ اس آدمی ئے کہا تھا
کہ اگر وہ نبا دے اِ س کو چھوڑ دیں گے لبکن کبا وافعی چھوڑ دیں گے۔
اس ئے تھبگی نلکیں اتھا کے شا منے دنکھا۔ آنکھوں میں نمی کی وجہ سے م یظر
دھبدال شا دکھانی دے رہا تھا۔
”دامیر۔۔۔“ اس کی تکار میں صدبوں کی تکان تھی ،انک آس ،امبد لبکن وہ کجھ
پہ بوال۔ اس کی نلکوں نک ئے جنٹش پہ کی۔ وہ سباٹ چہرہ چھکائے نتتھا رہا۔
”آنی اتم انکستبکتبگ دامیر۔“
اس نبد کمرے کی وجشت ناک جاموسی میں علتبا کی سرگوسی گونچی لبکن دامیر
کی تگاہ پہ اتھی۔ علتبا کے دل کو تکل یف ہونی۔
”مجھے جانا ہے نہاں سے۔۔“ علتبا ہزنانی انداز میں جنچی تھیں۔
”اِ ن کو نام ک نوں نہیں نبا رہے تم؟“ وہ جالنی ہونی بولی۔
دامیر کا ضیط کمال تھا کہ وہ علتبا کے شا منے ہوئے تھی نتھر نبا نتتھا تھا جٹسے
ہن م ُ
اس یں دل یں تھا۔ وہ انک ئےجان روبورٹ نبا ہوا تھا۔
علتبا کی نات ستنے دامیر کا دل زوروں سے دھڑکا۔ پہ وہ خود جانبا تھا کہ اس
وفت کٹسے ضیط کنے نتتھا تھا اور دوبوں کی جان نحائے کی جاطر اس کو شاکت رہبا تھا
کونی تھی ناپر نہیں دکھانا تھا اور نا پہ طاہر کرنا تھا کہ علتبا اس کی ن نوی تھی۔
اگر اِ ن لوگوں کو مغلوم ہو جانا کہ وافعی علتبا اِ س کی ن نوی تھی بو وہ اس کے
شا منے اس کی عزت پہ ہاتھ ڈا لنے ،دامیر سے نام اگلوائے کے لنے وہ علتبا کو نارخر
کرئے نتھی اس کو انحان ئےجس نتبا تھا۔
کونی ناپر نہیں د نبا تھا۔ علتبا سے ن یگانگی دکھانی تھی۔ وہ trainedتھا
ئےجسی دکھائے کے لنے ،نارخر سہنے کے لنے لبکن علتبا نہیں۔ اس کے دل ئے
شکر ادا کبا کہ علتبا تھولی نہیں تھی اِ س کی نات۔ وہ اس کو نہحا ننے سے اتکاری تھی
لبکن اگر مان جانی بو۔
اسے کجھ دپر اور ان یطار کرنا تھا نس کجھ دپر۔۔ شگبل ملنے ہی وہ انبا ضیط بوڑے
گا۔ اس سے نہلے وہ علتبا کی جان کا رشک نہیں لے شکبا تھا۔ علتبا کی جان ،وہ
ضرف انک جان نہیں تھی اب۔۔
اس کو محسوس ہو رہا تھا کہ علتبا کی تگاہیں اس پہ تھیں۔ مالمنی ،شکوے سے
تھری۔
”آنی اتم شوری پرنسٹس لبکن پہ الزمی تھا ورپہ میری انک نار تھی قکر کرئے پہ
وہ نمہیں مار د ننے۔۔ تم نس ا نسے ہی اتکار کرنی رہو۔“ وہ ا ننے دل میں کہہ رہا تھا۔
شاند علتبا سمجھ نانی۔
”قشم ہے نمہاری ،جس ئے نمہیں ہاتھ لگانا اس کو پڑناؤں گا۔ نس تھوڑی سی
اور آزمانش ،تھوڑا شا وفت اور۔۔۔“ زمین کو گھورئے ہوئے اس کا زہن الجھا ہوا تھا۔
علتبا خود کو چھڑوائے کی کوشش میں تھی۔
نہاں اندر الئے ہی اس ئے کمرہ دنکھ لبا تھا ،کونی کتمرہ نہیں تھا ورپہ علتبا کی
غ م ُ
سرگوسی سے ان کو لوم ہو جانا شب۔۔
ن ی ً
مج صرا دامیر کو ان یطار تھا۔ اور کڑئے والوں کو دامیر کو نارخر کرئے کی وجہ جا نے
ہ
ُ
تھی خو علتبا تھی ناکہ وہ دامیر سے نام اگلوائے کے لنے اسے ا عمال کرئے۔ اس
ی س
ُ
کی قکر کرنا ،پڑنبا علتبا کو آشانی سے مروا شکبا تھا۔ علتبا کے اتکار ئے ان لوگوں کو الجھا
دنا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نحائے کسی لوکل قالنٹ کے انہوں ئے نیزی دکھانی ،ا ننے آدم نوں کو نبار کر
کے اور اشلحہ لوڈ کر کے وہ لوگ پرابو نٹ چٹ میں انلی کے لنے رواپہ ہوئے۔ دامیر
ُ
کے نتبک نین سے رنان کو فوری الرٹ مل گبا تھا تھر انہوں ئے اس کی لو ٹشن
ک
جبک کی خو انک جگہ پہ رکی تھی۔
دامیر اکبال ہونا بو کتھی رنان کو نتبک الرٹ پہ تھنجبا اسی کو ِمد تظر رکھنے رنان ئے
علتبا کی لوکٹشن جبک کی۔ ڈاؤن ناؤن کی نہت پرانی عمارت کی جگہ تھی۔ آس ناس
کونی آنادی نہیں تھی۔ وہ لوگ حظرے میں تھے۔
نبا دپر کنے رنان ئے چنہ کو کہا خو اجانک ہڑپڑی پہ خونک اتھی۔
”شسرال جانا ہے نبار ہو جاؤ۔“
چنہ کے نار نار بوچھنے پہ وہ دانت نٹسنے بوال۔
ن
نین گھتنے کی قالنٹ تھی۔۔ نس آدھا گھننہ مزند وہ لوگ نجنے والے ھے ،کس
ب م ت ہ
کو اطالع تھی آدھا فصور بو اس مبکس کا ہی ہونا تھا خو علتبا تھٹس جانی تھی۔
چ ن ت م ب م ہن
وہاں نجنے اس ئے کس کے آد نوں کو ھی شاتھ لبا۔ ٹس کے فرنب آدمی
تھے۔ مبکس کے گھر کی نٹشمنٹ میں شب چمع تھے ،ان کو انک شاتھ چملہ کرنا تھا۔
سباہ کارگو ڈرنسبگ ،ونشٹ نبلٹ میں لوڈڈ گیز موخود تھیں۔ سباہ بوٹ نہن ر کھے
تھے۔ ہاتھوں پہ دسبائے تھے۔ وہ اس طرح نبار تھے جٹسے انڈر کور آرمی ہو۔
”دس لوگ اس کی نجھلی شانبڈ سے جانیں گے۔ ڈرنک تم نمانبدگی کر لو گے؟“
رنان ئے انک تقشہ شا منے رکھا تھا جس پہ اتگلی سے نشاندہی کرنا بوال۔ ڈرنک ئے انانت
میں سر ہالنا۔
”میں اس شانبڈ جاؤں گی۔“ چنہ اوپری حصے کی جانب اشارہ کبا کہ رنان ئے
اس کا ہاتھ تھاما۔
”تم میرے شاتھ رہو گی ،انک انک منٹ۔۔“ وہ سنجبدگی سے دو بوک انداز میں
بوال کہ چنہ ئے صدمے سے اس کو دنکھا۔
”میں کسی جاطے میں آنی تھی ہوں نا نہیں۔۔؟“ اس کے لہچے میں عصہ تھا۔
اب رنان جاہبا تھا کہ وہ ہر وفت ہی اس کے شاتھ رہے۔
”آنی رنت نٹ ،تم میرے شاتھ رہو گی۔“ اس کے عصے کو تظر انداز کرئے بوال۔
اس وفت دامیر ضروری تھا۔
”مبکس پہ جگہ تھی جالی ہے نہاں سے اندر جانا آشان ہے۔“ رنان ئے اس
عمارت کی دانیں جانب اشارہ کبا خو نتھروں کی وجہ سے تھوڑا اونحانی کی طرف تھی۔
ان کو پہ نہیں نبانا تھا کہ دامیر اور علتبا کا کبا تغلق تھا۔اس ئے دامیر کا نبانا اور
ندلے میں اِ س ئے علتبا کو کڈن نپ کروانا تھا۔۔
گاڑناں اس عمارت سے کاقی قاصلے پہ کھڑی کر دی گنی تھیں ناکہ وہاں موخود
لوگوں کو دکھانی پہ دے۔
”ڈرنک نہلے تم نجھلی شانبڈ کی طرف تکلو۔۔“ رنان کی آواز انیر نٹس سے نکرانی بو
ڈرنک نس سر کہبا ہوا ا ننے آدم نوں کو لے کے تکال۔۔ ان کی بوزنسیز نبائے اس ئے
ڈانبامانبڈ سنٹ کنے۔
رنان چنہ کا ہاتھ تھامے ناہر تکال۔۔ اس کے ننجھے ہی نانچ آدمی تھے۔
”رنان ہاتھ چھوڑ دو۔۔“ چنہ شاتھ جلنے ہوئے بولی۔
”نمہیں شاتھ نہیں آنا جا ہنے تھا۔۔“ وہ ئےنسی سے بوال کہ چنہ کو اچھتبا ہوا۔
اسے شاتھ الئے کبا وہ نجھبا رہا تھا؟
”مجھے دامیر کی قکر ہے لبکن تم شاتھ ہو ،میرا فوکس نہیں پڑھ رہا۔۔“ وہ
ئےنسی سے بوال۔
”قار گاڈ سبک رنان! میں کونی کم عقل نہیں خو تم انبا سیرنس لے رہے ہو۔“
چنہ اس کے فرنب ہونی بولی۔
”تم ئے دنکھا ہے نا میں کر شکنی ہوں۔ میری قکر نہیں کرو۔ ہمیں دامیر اور
علتبا کو دنکھبا ہے۔۔“ چنہ ئے اس کے چہرے پہ دوبوں ہاتھ رکھنے تفتنی لہچے میں کہا
کہ وہ سر ہال گبا۔
”خود کو کجھ پہ ہوئے د نبا۔ مجھے تم شالمت جا ننے۔۔“ وہ وارن کرنا ہوا بوال چنہ
ئے انبات میں سر ہالنا۔
”میری تظروں سے انک نل کے لنے تھی اوچھل نہیں ہونا۔“ اس کے ہاتھوں
پہ ہاتھ رکھنے وہ سرد لہچے میں بوال اور ئےاجتباری میں اس کے فرنب ہوئے جشارت کر
نتتھا۔
”نی مانی شانبڈ۔“
انبا کہہ کے وہ آگے پڑ ھنے لگا۔ کبدھے پہ ہ نوی مسین گن تھی۔ جبکہ اس
موفع پہ اجانک ہونی واردات پہ چنہ بوکھال اتھی۔ اس ئے ننجھے مڑ کے دنکھا ،ناقی لوگ
ُ
اجانک دنکھنے پہ تگاہیں خرا گنے اور ادھر ادھر د ھنے گے ٹسے کجھ ہوا ہی یں۔
ہ ن ج ل کن
”انبا تھی کبا ڈرنا۔۔“ وہ عصے سے پڑپڑانی کہ نبدہ لوگوں کا لحاظ کر لتبا ہے۔
رنان انئیرنٹس کے فرنب نہنحا اور مسین گن کو نبار رکھا۔ چنہ اس کے نالکل
فرنب کھڑی تھی۔ سباہ نبد جبکٹ سباہ ہی چئیز ،نالوں کو ناندھ رکھا تھا۔
کمرے میں ہ نوز جاموسی تھی۔ علتبا اب رو رو کے جاموش ہو جکی تھی۔ دامیر کی
بوزنشن میں کونی جاطر خواہ نبدنلی نہیں آنی تھی۔ وہ جانبا تھا کہ نس تھوڑا اور ان یطار۔۔
کمرے کا گنٹ کھال ،اندر دو آدمی آئے۔ انک کے ہاتھ میں گن تھی ہو شکبا تھا
دوسرے کے ہاتھ میں تھی ہونی۔
”انشا کرئے ہیں کہ پرنلر دکھائے ہیں ان صاچب کو کہ کمزوری ہاتھ لگنے سے
کبا ہونا ہے۔۔“ وہ دوبوں وہی تھے خو گنٹ پہ کھڑے تھے ،علتبا کی طرف دنکھنے
جبانت سے مشکرائے تھر دامیر کو دنکھا۔
ن
ان کی نات ستنے علتبا کی ہراشاں آ کھیں تھر سے تھبگنے لگیں اور دامیر کو
ئےنسی سے دنکھا۔
اور پہ نہلی نار تھا چب دامیر ئے انبا سر اتھانا تھا ،اس کی آنکھوں میں وہی سرد
ین تھا۔ مار د ننے کا ج نون۔ آنکھوں میں وارنبگ تھی کہ ہاتھ لگا کے دکھاؤ۔ دامیر کے
سر اتھائے پہ علتبا کو مزند رونا آئے لگا کہ کم از کم وہ کجھ ہال بو ورپہ اس کی جاموسی
مار رہی تھی۔
نک ُ
دامیر کو اننی دپر میں نہلی مرننہ خرکت کرنا دنکھ اور آنکھوں میں وجشت د ھنے ان
تھ ت
دوبوں آدم نوں ئے تھوک تگال۔ اس ئے چیڑے زور سے نچ ر ھے ھے۔ ہا ھوں کی
ت ت ک
متھی نبائے نبد کبا۔
”آنی اتم شوری پرنسٹس۔۔“ اس کے ہاتھ رسی سے کھو لنے ہوئے وہ نادم لہچے
میں بوال۔ علتبا ہاتھ آزاد ہوئے پہ فورا اس کی گردن کے گرد نازو لت نٹ کے روئے لگ
گنی۔ پرنسٹس! وہ پہ ستبا جاہنی تھی لبکن ا نسے جاالت میں نہیں۔
”آنی ہ نٹ بو دامیر۔۔ تم نہت پرے ہو۔“ اس ئے سجنی سے دامیر کے گرد
نازو ناندھے تھے۔
”جانبا ہوں۔“ ا ننے دبوں تغد اس ئے علتبا کے وخود کو محسوس کبا تھا۔ انک
شکون شا سران نت کر گبا تھا۔ ئےشاچنہ ہی اس ئے علتبا کی گردن کو ل نوں سے
چھوا۔ دل پہ پڑئے والی تھبڈک تھی خو علتبا کے وخود سے ملی تھی۔
تھ س م ت
”آنی اتم شوری کہ انہوں ئے نمہیں ہاتھ لگانا۔۔“ شدت سے تنے یں نے
جن
ہوئے وہ سرگوسی میں بوال کہ شاند وہ تھر سے دور پہ ہو جائے۔
”مجھے نمہارے شاتھ نالکل نہیں رہبا۔ تم ئےرچم ،طالم انشان ہو۔۔“ اس کی
گردن میں چہرہ چھبانی وہ روئے کے درمبان بولی۔ اس کے نہنے آنسوؤں سے دامیر کو
اننی گردن تم ہونی محسوس ہونی۔ وہ نحوں کی طرح روئے انبا ڈر کم کر رہی تھی خو اس
تھوڑے سے وفت میں محسوس کبا تھا۔ دامیر اس کی نیز دھڑکن کو محسوس کر شکبا
تھا۔
دل اس کا تھی زوروں سے دھڑک رہا تھا۔ اس کو کھوئے کا شوچ تھی نہیں
شکبا تھا وہ۔
ن
اتھی تھی کرسی پہ تتھی تھی ،دامیر اس کے آگے زمین پہ ننحوں کے نل نتتھا
اس کے گرد نازو ناندھے ہوئے تھے۔
”مجھے لگا کہ آج میں شب کھو دو گی دامیر ،میں مر جانی۔“ اس کا وخود لرزئے
لگا تھا۔ اس کا رونا دامیر کو تکل یف میں متبال کر رہا تھا۔
”شش۔۔“ اس ئے علتبا کو خود سے الگ کبا۔
”ہمیں نہاں سے تکلبا ہے۔۔“ اس کے چہرے کو ہاتھوں میں تھامے پرمی
سے بوال۔
علتبا ئے تھبگی آنکھوں سے دامیر کو دنکھا۔ دامیر کے زہن میں چھماکا ہوا ،علتبا
س
کا کہا گبا چملہ۔ اِ س کی کبا ک یق نت تھی وہ ھنے سے قاضر تھا۔ علتبا کے نال
جم
چہرے سے ننجھے کرئے اس ئے تغور اس کا چہرہ دنکھا۔
دامیر کو تکل یف ہونی۔ اس کی آنکھوں میں جتھن ہوئے لگی۔ پرمی سے اس کے
رجشار پہ ہاتھ ت ھیرا۔ ت ھیڑ کا نشان تھا۔ عصہ رگوں میں الوا ین کے نیرئے لگا۔ سجنی
سے چیڑے تھتنچے۔
ہی اس ئے دوبوں آدم نوں کو مار دنا تھا۔ ممکن تھا کہ کسی ئے نٹشمنٹ سے گول نوں
کی آواز پہ سنی ہو۔
دامیر اجانک گنٹ سے ناہر تکال ،علتبا ئے پڑ ننے اس کو دنکھا چب گول نوں کی
آوازیں آ نیں ،وہ ئےشاچنہ کابوں پہ ہاتھ رکھ گنی دل کی دھڑکن کابوں میں سبانی
د ننے لگی ،وہ نہت زنادہ خوف زدہ ہو گنی تھی۔
گول نوں کی آواز میں وففہ آنا تھر نین قاپر انک شاتھ جلے۔ وہ کا نتنے ہوئے دبوار
سے جبک گنی۔ اس کے نالکل شا منے دو وخود مردہ جالت میں موخود تھے ،انک کا منہ
چیر دنا تھا گبا تھا اور دوسرے کی گردن نیڑھی ہو جکی تھی۔
آوازیں نبد ہو جکی تھیں۔ علتبا کی نانگوں میں اننی ہمت نہیں تھی کہ وہ خود
آگے پڑھ کے دامیر کو دنکھ نانی۔
خو تھوڑا نہت خوصلہ اور پراعتمادی تھی وہ شب ہوا میں زانل ہو حکا تھا۔ ماضی
آسنب کی طرح چمتنے شاری طافنیں ضیط کر حکا تھا۔
شا منے موخود دو تعسوں کو دنکھنے خوف اننی لت نٹ میں لتنے لگا جٹسے وہ اتھی اتھ
کے اس کو جکڑ لیں گی۔
علتبا کے کان کے فرنب ہوئے دامیر نالکل مدھم سرگوسی کرئے بوال ،علتبا گ ھیرا
کے سر ہالئے ہوئے اس کے ننجھے چ ھپ سی گنی۔ دامیر ئے آگے قدم پڑھائے۔
علتبا کا شاتھ ہونا نہلی نار خوف میں متبال کر رہا تھا۔ اس کی وجہ سے علتبا کو
کجھ ہو پہ جائے۔ نبا قدموں کی جاپ نبدا کنے دامیر ئے دو قدم آگے لنے۔
وہ نہاں تھرنی دکھا شکبا تھا ،نبا ڈرے آگے پڑھ جانا لبکن نہاں نات علتبا کی
حقاظت کی تھی جس کا حظرہ مول نہیں لتبا تھا۔ انک ہاتھ ننجھے علتبا کو تھامے
ہوئے تھا۔ چب اجانک دوسری طرف سے دو وخود شا منے آئے اور اجانک قاپر ہوا۔ گولی
دامیر کی نالکل شاتھ دبوار سے جا نکرانی۔
”رنان انس می۔۔“ دامیر کی آواز گونچی کہ اگلے ہی لمچے رنان ئے گالی دی۔
ل کن چ کت ن ن
علتبا اس کے ھے سے لی اور پر ھی تگاہوں سے د نے گی۔ وہاں رنان اور چنہ
ھ ج
تھے۔
دامیر کا نسنول تھاما ہاتھ ننچے ہوا اور اس ئے گہرا شانس تھرا ،کبدھے شکون
سے ڈھبلے پڑے۔ دامیر اننی جگہ کھڑا رہا چب رنان اس نک آنا اور اسے ستنے میں
تھتنحا۔
”شکر ہے مرے نہیں ورپہ فٹس صا تع ہو جانی میری۔“ اس وفت رنان کو کتبا
شکون مال تھا دامیر کو شالمت دنکھنے پہ وہی جانبا تھا۔ ہون نوں پہ مشکراہٹ نمودار ہونی۔
”علتبا تھبک ہے؟“ اس کا دھبان علتبا کی طرف گبا۔ دامیر ئے علتبا کو دنکھنے
انبات میں سر ہالنا تھر وہ چنہ کی طرف تھاگی۔
چنہ ہڑپڑا اتھی ،وہ اِ س سے لنٹ کے روئے لگی۔ اور ئےنحاسہ رونی گنی۔
”مجھے لگا اس نار تھی دپر ہو جائے گی۔۔“ وہ خوف کے زپر اپر بولی۔
”ہمیں آنا تھا نہاں علتبا۔“ چنہ نس انبا ہی کہہ نانی۔ وہ اموسبل لمحات سے
ئےچیر تھی ،اسے نشلی د نبا نہیں آنا تھا۔
”آؤ کام نمام کریں۔“ رنان ئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھا اور اننی انک گن
اس کو تھمانی۔ دامیر ئے سر ہالنا اور انک تظر علتبا کو دنکھا جس ئے چہرے پہ
گ ھیراہٹ واصح تظر آرہی تھی۔
”علتبا کو نہلے سیف جگہ پر نہنحانا ہے؟“ دامیر ئے اس کو تظروں سے حصار
میں کرئے کہا ،وہ اننی وجشت زدہ جگہ پہ تھبک نہیں تھی۔
”اِ س کو نہاں سے لبکر تکلو دامیر۔“
رنان ئے انک نل تھی دپر پہ کی کہنے میں ،وہ اسی کے شاتھ محفوظ تھی۔ جبکہ
علتبا تقی میں سر ہالئے لگی۔ دامیر کو اچھتبا ہوا۔
”مجھے نمہارے شاتھ رہبا ہے۔“ وہ چنہ سے بولی اور پہ نات دامیر ،رنان ئے تھی
سنی۔
دامیر کو نکھرنا ہوا محسوس ہوا ،وہ اس کے شاتھ نہیں جانا جاہ رہی تھی۔
”ئےنی ،اس کو لے جاؤ نہاں سے۔“ رنان ئے دامیر کو دنکھنے چنہ کو اشارہ
کبا۔ وہ سر ہال کے علتبا کا ہاتھ تھامے وانس مڑئے لگی کہ دامیر نیزی سے علتبا کی
جانب پڑھا۔
”میں جانا ہوں اس کے شاتھ۔“ وہ سنجبدگی سے بوال ،چنہ الپرواہی سے کبدھے
ن ن ہ جن ن
احکا کے ھے نی چب ا ک اور دھماکے کی آواز گو چی۔
َ
”ہری اپ۔۔“
رنان عرانا۔ علتبا کی مزاچمت کو تظر انداز کرئے دامیر اس کا نازو تھامے آگے
ت س گ
پڑھا۔ وہ م یکانکی انداز میں اس کے شاتھ نی جا رہی ھی۔
تن ھ
ہر نار دامیر رنان کو کور د نبا تھا ،آج رنان اس کے آگے تھا کہ دامیر محفوظ
رہے۔
”پہ انیر نٹس لگا لو۔۔“ دامیر دوسری شانبڈ کی طرف جائے لگا چب چنہ ئے
ا ننے کان سے آلہ تکالے اس کو تھمانا ،رنان ئے رک کے گردن گھمانی۔ دامیر آلہ
ا ننے کان میں فٹ کرئے لگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ن
چملے کی چیر ہنجنے ہی وہ لوگ نہاں آتکلے تھے چہاں ان کو عمارت کی نجھلی اور
دانیں شانبڈ سے دھواں اتھبا دکھانی دے رہا تھا۔
ن
آ کھیں شاک کی ک یق نت میں پڑی ہونیں چب ڈرنبا آگے پڑھی۔
علتبا کو نہاں سے لے جانا تھا۔ وہ نیزی سے اندر کی طرف لبکی چب انک آدمی
ئے اس کا نازو تھاما۔ پہ وہی سحص تھا جن کا ناس دامیر کے ہاتھوں مارا گبا تھا۔
”ئےوفوقی مت کرو۔۔ نہاں سے تھاگو۔“ اس کی عقل پہ ماتم کرئے اس ئے
ڈرنبا کو کوشا جس ئے چھبکے سے انبا نازو چھڑوانا۔
”ئےوفوقی پہ ہے کہ میں انبا شکار اندر نہیں چھوڑ شکنی۔ مجھے وہ ہر جال میں
جا ہنے۔۔۔“ وہ عرانی ہونی آگے پڑھی۔
ُ ُ
”تم ئے ان دوبوں کو الگ روم یں رکھا تھا نا؟“ وہ رکی اور اس آدمی سے
م
اسیقشار کرئے لگی کہ اجانک وہ گڑپڑا اتھا۔
”ہا۔۔ ہاں مجھے لگا کہ وہ دوبوں کبل ہیں بو انک ہی روم میں رکھا ناکہ کجھ اگل
شکے وہ لڑکا۔“ ڈرنبا کے چہرے پہ سجنی دنکھنے ہوئے وہ وصاچت کرئے لگا۔
”وہ کبل ہی تھا اور جا ننے ہو کہ لڑکا کون تھا؟“ وہ دانت نٹسنے ہوئے اس کے
شا منے آرکی کہ مقانل کی آنکھوں میں الجھن در آنی۔
”پرابوا کا رانٹ ہتبڈ ،دامیر آر تھا وہ۔ دی ناپ کسنوڈنین کئیر۔۔“وہ انک انک
لقظ جبا کے بولی کہ شا منے موخود سحص ئے اِ س کا کام تھی مسکل میں ڈال دنا تھا۔
علتبا کو نہاں سے لے جانی اور فباد کے شا منے نٹش کر د ننی ت ھر وہ جانبا اور
علتبا۔ اس کو ا ننے ناپ سے مطلب تھا خو کسی کی فبد میں تھا اور اگر فباد جاہبا بو وہ
انک دن کے اندر اس کو نحا شکبا تھا لبکن وہ مطلنی اور خود عرض تھا۔ اسے نہلے علتبا
ُ
جا ہنے تھی تھر چنہ۔۔ اس کے غد کس۔۔۔
ب م ت
مقانل ڈرنبا کی نات ستنے کے تغد شکنے میں آگبا تعنی نہاں پرابوا کے ہبڈ ئے
چملہ کبا تھا۔۔ چہرہ خوف سے شقبد ہوئے لگا۔
”تم ئے چھوٹ بوال ہم سے ،دھوکا دنا۔“ اجانک ہی وہ عصے میں آگبا اور ڈرنبا پہ
پرسنے اننی گن تکالے اس پہ نان دی۔
”میں ئے کونی دھوکا نہیں دنا ،مجھے میرے کام سے مطلب تھا۔ تم لوگوں کی
مدد کی میں ئے اور تم مجھے ہی دھمکی دے رہے ہو۔“ ڈرنبا عصے سے تھری اس کی
ن
آنکھوں میں د نی ہونی بولی۔ اس کے زہن پہ بوچھ شا تھا۔ لتبا کو جلد از جلد نہاں
ع ھ ک
سے لے جانا تھا اور سحص اننی نکواس لنے نتتھا تھا۔
”اگر تم ہمیں نبا د ننی بو ہمارا کام آشان ہوجانا۔“ وہ دانت پہ دانت چمائے بوال
اور گن کو اس کے ستنے پہ رکھنے زور دنا۔
”ناکہ تم لوگ اس لڑکی کو مار د ننے۔۔“ وہ تھ یکاری اور اس کا ہاتھ انک چھبکے
میں ہبائے اس سے گن چھین لی۔ اگلے ہی لمچے اس کی نانگ پہ قاپر کرئے ہوئے
وہ سرد آواز میں بولی۔
”پہ مت تھولو کہ میں کون ہوں۔“ اگال قاپر اس ئے نبا شوچے اس کے ما تھے
پہ کبا اور گہرا شانس تھرا۔
”و نسے تھی اس کے زندہ ر ہنے سے کسی کو کونی قاندہ نہیں تھا۔“ وہ پڑپڑانی اور
نیزی سے عمارت کے اندرونی حصے کی طرف لبکی چہاں انک کے تغد انک آدمی گرا
تھا۔
اس ئے ا ننے قدم نٹشمنٹ کی قدم پڑھائے چب وہاں سے تکلنے رنان کو دنک ھا۔
وہ انک نل کو رکا۔
ڈرنبا کو شا منے دنکھ رنان ئے سبانسی انداز میں تھ نویں احکانیں جبکہ ڈرنبا کے
دل میں خوف آسمانا۔ ضرور ان کو مغلوم تھا کہ ڈرنبا تھی شامل تھی اس شب میں۔
اس کے ننجھے ہی چنہ موخود تھی۔ دامیر نٹشمنٹ سے تکل حکا تھا۔ ڈرنبا قاپر
کرئے کا شو جنے لگی چب رنان کی نات پہ خونکی۔ چیرت آنکھوں میں در آنی۔
”ونل ونل ،نمہاری قشمت اچھی ہے میں غوربوں کو نہیں مارنا۔“ رنان ناشف
تھرے انداز میں کہبا اننی گن ننچے کر گبا۔ رنان کی نات شن کے ڈرنبا شکنے میں آنی
لبکن شو جنے لگی کہ وہ البا ان پہ وار کر شکنی تھی لبکن چنہ عفب سے نمودار ہونی۔
”اونس لبکن میں انشا نہیں کرنی۔۔“ ڈرنبا کی تظر چنہ کی طرف اتھی چب
اجانک قاپر کی آواز پہ اس کے ن نٹ میں درد کی لہر اتھی۔
”آ و نمن قار و نمن۔“
)(A woman for woman
چنہ نمسجر اڑانی مشکراہٹ لنے اس کے پزدنک آنی۔
وہ م یظر انشا تھا کہ نلک چھبکنے ہی اس ئے جار آدم نوں کو ڈھیر کبا تھا ،خود اس
کے ہاتھ پہ گہرا کٹ آنا تھا۔
پہ لوگ موت سے ئےخوف تھے۔ نا موت پہ انبا تفین تھا کہ ڈرنا ہی چھوڑ دنا
تھا۔
”میں ان جٹسی نہیں ہوں۔“ اندر سے انک آواز آنی۔ وہ اتھی تھی انبا ن یقس
ستتھا لنے کی کوشش میں تھی کہ آنکھوں کے گوسے تھبگنے لگے۔ ئےنسی سے رونا
آئے لگا۔
دامیر الجھا کہ شاند وہ اتھی تھی گ ھیرا رہی تھی کہ ان پہ چملہ پہ ہو جائے۔
”کبا ہوا۔۔؟“ وہ نسونش زدہ لہچے میں بوال کہ علتبا کے اس کے ہاتھ چھبکے۔
”پہ ک نوں ہو رہا ہے شب میرے شاتھ؟“
وہ ئےنسی سے دامیر پہ جالنی ،دامیر ئے زپردسنی اس کو تھامے خود سے لتبانا
کہ انک نار تھر ضیط کی طبانیں بوڑنی وہ آغوش میں شکون کا لہحہ مٹسر ناکے رو پڑی۔
”شب تھبک ہے۔“ وہ پرمی سے بوال اور اس کے نالوں میں اننی اتگلباں جالئے
لگا۔
”کجھ تھی تھبک نہیں ہے اور پہ ہی ہو گا۔“ وہ پرزور مزاچمت کرنی ہونی جنچی۔
دامیر ئے اننی گرفت اس پہ سحت کر دی چب انک دھماکے کی آواز پہ خوف سے
علتبا ندن لرزا۔
چہاں وہ لوگ کھڑے تھے عمارت دکھانی نہیں دے رہی تھی لبکن دامیر جانبا تھا
کہ وہ لوگ وانس آرہے تھے۔
”دامیر کہاں ہو؟“ انیر نٹس سے رنان کی آواز گونچی۔
”میں گاڑبوں کے ناس موخود ہوں۔ ہمیں نہاں سے تکلبا ہے جلدی آؤ۔۔“
دامیر سنجبدگی سے بوال نتھی رنان کی نیز جبگھارنی ہونی آواز تھر سبانی دی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”ملٹسکا۔ کہاں ہو؟“ آواز سے صاف نبا جال کہ چنہ دکھانی پہ د ننے کی وجہ سے
عصے سے دھاڑا تھا۔ اجانک دھواں ہوئے کی وجہ سے تصارنیں دھبدال گنی تھیں۔
”تم تھبک ہو۔۔ چنہ! کجھ کہو میرا دل رک رہا ہے۔“ وہ بوری فوت سے جال رہا
ب ل ت ن ت ت ً
تھا فتبا ناقی شب ھی انیر ٹس سے اس کی آواز شن نا رہے ھے کن جس کو وہ
محاظب کر رہا تھا اس ئے انبا انیر نٹس دامیر کو دے دنا تھا۔
جن ن م َ
”شٹ اپ رنان ،یں نمہارے ھے ہوں۔“
چنہ چحل ہونی ہونی اس کو بو کنے لگی ،اننی ئےنانباں شب کے شا منے دکھا رہا تھا
کہ اس کا دل کبا اسی دھونیں میں رنان کو عانب کر دے۔
وہ نیزی سے مڑا اور دھوئے میں ڈھونڈنا دو قدم جال بو اسے چنہ دکھانی دی۔ اس
ئے شکھ کا شانس لبا کہیں لڑاکا ن نوی سہبد پہ ہو گنی ہو۔
ن
”کہاں ت ھیں؟ کہا تھا کہ میرے ناس سے ہتبا نہیں تم ئے۔“ چنہ نک ہنجنے وہ
سجنی سے بوال کہ وہ مشکرا دی۔
ن
”نمہاری آ کھیں کتھی کتھی کام کرنا چھوڑ د ننی ہیں رنان۔ انبا مج نوؤں کی طرح
جنجنے کی ضرورت نہیں تھی۔“ وہ ناس آنی ہونی بولی اور گہرا شانس لبا۔ دھواں گلے میں
خراش نبدا کر رہا تھا۔
ن ہمن ہن ہ ہ ن ہم ن ھ کن
ج
”آ یں یں ہر وفت الش کرنی ر نی یں۔ لے ہی یں شاتھ ال کے ھبا رہا
ہوں۔“ اس کو شابوں سے تھامے ا ننے شا منے کبا اور لہچے میں پرمی سموئے بوال۔
”رنان ،نمہارے نانیں شب شن رہے ہیں بو جاموش رہو۔“ چنہ دانت نٹسنی ہونی
اس کو اجشاس دالنی بولی کہ رنان ئے اطراف میں دنکھا چہاں ان کے آدمی دور جا
ن ً
رہے تھے عالبا ا نی گاڑبوں کی طرف۔
”میرا ن نوی سے رومنٹس کرئے پہ کسی کو اغیراض ہے بو اتھی خود کو گولی مار
لے۔“ چنہ کی نات کو تظر انداز کرئے اس کی کمر پہ ہاتھ تکانا اور شب کو محاظب
کرئے بوچھا۔ دوسری جانب سے شب ئے رنان کی نات ستنے آہشنہ آواز میں ”بو سر“
کہا۔
”کسی کو اغیراض نہیں۔“ رنان مشکرانا اور جبانی تظر سے چنہ کو دنکھا خو ہٹس
کے اس کے چہرے پہ ہلکی سی ج نت لگائے دور ہنی اور ناف نوں کی طرف پڑھی۔
”مجھے ہے۔“ وہ پڑپڑانی۔
گاڑبوں نک نہنچے بو رنان ئے انک طاپراپہ تگاہ دوڑانی۔ دامیر علتبا کو لنے اس کی
گاڑی میں نتتھا تھا۔ رنان صاف اس کے چہرے پہ خوف دنکھ شکبا تھا۔
کجھ شاتھی زچمی تھے۔ ان میں سے دو مارے گنے تھے جبکہ ناقی شب شالمت
تھے۔
”آپ کے آدم نوں کا شکرپہ۔“ رنان مبکس کی طرف پڑ ھنے ہوئے بوال۔ مبکس
نس سر ہال گنے۔ وہ علتبا کی طرف پڑ ھنے لگے چب رہان ئے ہاتھ کے اشارے سے
روک دنا۔
”وہ ہمارے شاتھ جائے گی اتھی ڈری ہونی ہے۔“ اس ئے سنجبدگی سے کہا کہ
وہ سر ہال گنے۔
چنہ کو گاڑی میں نتتھنے کا کہنے خود تھی ڈرابونگ سنٹ کی طرف آنا۔
”چنہ تم ننجھے آجاؤ۔“ چنہ اتھی دروازہ کھو لنے کو تھی چب علتبا کی گھنی سی آواز
پہ نت نوں تفوس خو نکے۔
رنان ئے گال کھ یگاال اور دامیر کو محاظب کبا خو صدمے سے علتبا کو دنکھ رہا تھا۔
”دامیر تم آگے آجاؤ مجھے انبا کئیر وانس جا ننے۔“ وہ الپرواہی سے بوال اور گاڑی
سبارٹ کرئے لگا جبکہ علتبا کی دامیر سے ن یگانگی شب ئے محسوس کی۔
گاڑی جلنے لگی ،علتبا کی تگاہ ناہر چم کے رہ گنی۔ اس ئے شارے ر سنے کسی
سے نات نہیں کی تھی ،الکھ رو کنے کے تغد تھی وہ ا ننے آنسو پہ روک نانی تھی۔
طت یغت میں خڑخڑاہٹ سی گھلنے اور ا ننے مشلشل روئے پہ تھی عصہ آئے لگا۔
ع ت ن ُ
نبک وبو مرر میں دامیر کی تگاہ اسی پہ کی ھی جس یں وہ نار نار لتبا کو آنسوں
م
صاف کرنا دنکھ رہا تھا۔
وہ ئےدردی سے ا ننے ہاتھ رگڑنی تھی کہ رجشار سرخ ہو رہے تھے۔
وہ لوگ وانس رسبا جائے والے تھے ،ان کا ج نٹ انیر فبلڈ پہ ک ھڑا تھا۔ اس نار
علتبا ئے نا جائے کا کونی زکر نہیں کبا تھا وہ جاموسی سے ان کے شاتھ جٹسے
ئےجان وخود گھسنتبا جا رہا تھا۔
م کن
”پرنسٹس۔۔“ ا ننے فرنب آواز ستنے علتبا ئے کرب سے آ یں یں۔ اِ س تکار
چ ن ھ
کو ستنے کے لنے دل کتبا پڑنا تھا لبکن وہ اتھی تھی کسی سے نات نہیں کرنا جاہنی
تھی۔
تظریں اتھا کے دامیر کو دنکھا جس کی آنکھوں میں اِ س کے لنے قکر تھی وہ اس
کے پرنشان ہو رہا تھا۔
”مجھ سے نات کرو مگر جاموسی کی مار پہ مارو۔“ وہ تظرانداز کرنی ج نٹ کے ز ننے
خڑ ھنے کو تھی کہ دامیر ئے اس کا نازو تھامے ئےنسی سے کہا۔
علتبا کس کو فصور وار تھہرانی اب۔ وہ دوبوں تھٹسے تھے مگر فصور وار کون تھا۔ وہ
خود کو سمجھ رہی تھی۔
وہ نہیں بولی۔ وہ جاموش رہی اور دامیر کو مزند تکل یف میں چھوڑ گنی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
ان کی قالنٹ جاری تھی۔ چنہ علتبا کو پرابو نٹ سبکیر میں لے گنی تھی چہاں وہ
تھکے اعصاب لنے شو گنی تھی۔
”سر نلیز۔۔“ ڈرنک کی کراہنی آواز پہ دامیر ہوش میں آنا اور اس کے نازو کو
دنکھا۔ اسے گولی لگی تھی اور دامیر اس کو سنجز لگا رہا تھا۔ دھبان نار نار تھبک رہا تھا
نتنچے میں ڈرنک کے زچم پہ طلم ہو رہا تھا۔
”تھتبک دوں نہاں سے ننچے۔۔ مرد ن نو کبا لڑک نوں کی طرح روگ لگا کے نتتھے
ت ُ
ہو۔“ رنان ناگواری سے بوال جس کے لبکے چہرے سے ہی اسے ئےزارنت ہو رہی ھی۔
چنہ جاموسی سے آکے ان کے ناس ہی نتتھ گنی تھی۔
گ ش گ ھ کن
رنان کی نات پہ وہ آ یں ھمائے م کراہٹ دنا نی۔
وہ کجھ پہ بوال اور جاموسی سے ڈرنک کی ننی ناند ھنے اس سے قارغ ہوا۔ اتھ کے
وہ نجھلے حصے میں آنا پردہ گرانا گبا تھا دوسری طرف علتبا شو رہی تھی۔
وہ اس کے ناس کاقی دپر نک نتتھا رہا جبکہ وہ ئےچیر اننی تھکن انار رہی تھی۔
کت ُ
دامیر ئے خود کو اتھی اس جد نک ئےنس محسوس نہیں کبا تھا پہ ہی ھی اس ئے
شوجا تھا کہ اس کی دنبا کسی اور کے گرد تھی گھومے گی۔
پرمی سے اس کے نالوں پہ ہونٹ رکھنے ہوئے وانس جال آنا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
انہیں وانس آئے کجھ ہی دپر ہونی تھی کہ رنان کو ڈرنک کی کال رنسنو ہونی۔
”خوش چیری ہے سر ،آپ کا طرتفہ کام کر گبا۔ فباد جاکم کو گودام نک کی
دغوت دے دی گنی ہے۔“ ڈرنک کی نات ستنے رنان کے چہرے پہ مشکراہٹ دوڑ
گنی۔
دامیر رنان مزند نہاں نہیں رکے تھے۔ چنہ اور علتبا کو وہ ناحقاظت چھوڑ گنے
تھے۔
”مبکس کو کہو کہ پرابوا کا ہبڈ انہیں ناد کر رہا ہے۔“ اس کی سرد آواز ستنے
ڈرنک کے کال کانی۔
اب فباد جاکم کا تھی فصہ جتم کرنا تھا اور اب وفت فرنب تھا۔
٭٭٭٭٭٭
ب وصل کا سرورش ِ
ازقلم ماہم مغل
وشط نمیر ۳۲
نجھلے دبوں کی نانسنت آج دھوپ نہیں تھی ،نادل آسمان پہ چھائے تھے ،ہر
تھوڑی دپر گزرئے کے تغد شورج اننی کرنیں تھبال کے تھر عانب ہو جانا تھا۔ سبک نورنی
مزند پڑھا دی گنی تھی۔ چہاں نہلے دو گارڈ تظر آئے اب وہاں نانچ کھڑے کر د ننے
گنے تھے۔ بورش میں گاڑناں کھڑی ت ھیں۔
علتبا چب سے آنی تھی کسی سے جاطر خواہ نات نہیں کی تھی نس چپ کا روزہ
ر کھے ہوئے تھی۔ دامیر اور رنان جا جکے تھے۔
کجھ شوجنی ہونی وہ آج اوپر والے ننے بورشن کی جانب جل دی۔ کٹسی عج نب
ن ت ل ب کت م
نات تھی وہ نہاں دو مہتنے نک رہی ھی کن ھی ل شن د نے کا ا قاق یں
ہن ت ھ ک ٹن م مک
ہوا تھا۔ ننچے والے اندرونی بورشن اور الن میں ہی گھوما کرنی تھی۔ اوپر جانی تھی کٹسے
انجری کی وجہ سے دامیر کاقی اجتباط کرنا تھا ز ننے اپرئے خڑ ھنے سے۔
خوئے سے ندارد ناؤں جن کے ننچے فرش تھبڈا محسوس ہو رہا تھا۔ تھبڈے فرش پر
جلنے سے تھی اس کو شکون مل رہا تھا۔ دوبوں لڑکوں کے عحلت میں جائے کی وجہ
سے چنہ اس وفت علتبا کے لنے کجھ کھائے کو نبار کر رہی تھی۔
گالس ڈور دھکبل کے اندر آؤ بو ہال نما اپرنا جس کے دانیں جانب الؤنج اپرنا اور
نالکل شا منے ہی اوین کنچن۔ ہال اور الؤنج اپرنا کے درمبان اوپر جائے کو سیڑھباں
تھیں (نالکل ننچے آئے کے لنے تھی)
وہ گول گھوم کے جانی تھیں۔ شقبد مارنل لگا تھا جبکہ ڈارک پراؤن ہانی النٹ کبا
گبا تھا۔ نالشنہ پہ انک خوتصورت اور فیری نبل ہاؤس تھا۔
چنہ اس کو اوپر جانا دنکھ رہی تھی۔
اس کے نال کھلے تھے ،شکرٹ نلیزر اتھی تھی وہی تھا۔ ہاتھ میں دامیر کی دی
ہونی ڈانتمبڈ رنگ چمک رہی تھی۔
ن ن ہن
اوپر نچی بو نچے والے بورشن سے زنادہ مجبلف ہیں تھا پہ۔ اسی انداز میں دو
حصے تھے ،دانیں نانیں جبکہ درمبان میں رنلتبگ لگانی گنی تھی اور ننچ میں قابوس لبک
رہا تھا۔
اوپر واال حصہ زنادہ اسیعمال میں نہیں تھا ک نونکہ نہاں کی النٹس نبد تھیں اور
خوسنو تھی وہ نہیں تھی خو ننچے آنی تھی۔ ر ہنے والی جگہ کی خوسنو ہی الگ ہونی تھی۔
مابوس سی۔
ننچے گالس دوڑ کی طرح نہاں تھی موخود تھا خو الن کی طرف ہی کھلبا تھا لبکن
نہاں انک نیرس تھا چہاں کرسباں میز سنٹ تھیں۔
کونی اور وفت ہونا بو علتبا کا دل اس وفت خوسی سے چھوم جائے کو کرنا۔ پہ
ً
انک ڈرتم ہاؤس تھا اور عالبا ال ھوں کروڑوں ڈالر کی مالنت کا۔
ک
”ان دوبوں کے لنے مسکل بو نہیں ہو گا پہ لتبا۔“ رنلتبگ پہ انبا ہاتھ ت ھیرنی
ہونی شو جنے لگی۔ نہاں سے اچھا وبو آنا تھا۔ چہاں وہ ر ہنے تھے وہاں کا تطارہ و نسے تھی
خوتصورت تھا۔
تھولی تھبکی مشکراہٹ ل نوں پہ آ تھہری۔ اس کو پہ جگہ نسبد آنی تھی۔ وہاں
موخود کرسی پہ نتتھنے اس ئے گھتنے ستنے نک الئے ان کے گرد نازو لت نٹ لنے۔
رنلبگ تھی گالس تھی بو آر نار واصح دکھانی دے رہا تھا۔
کجھ ہی دپر میں اس کو آہٹ سبانی دی۔ گھت نوں سے سر اتھا کے گردن گھمانی
بو چنہ ہاتھ میں پرے لنے اس نک آرہی تھی۔
”کٹشا فبل کر رہی ہو؟“
پرے کو شا منے نتبل پہ رکھا اور پرمی سے بوچھا۔ چنہ جتنج کر جکی تھی اور فرنش
تھی لگ رہی تھی۔
”نہاں نتتھ کے اچھا لگ رہا ہے۔“ علتبا ئے شا منے دنکھنے خواب دنا۔
”کھانا کھا لو تھوڑی ہمت آجائے گی۔“ نلنٹ اس کے شا منے رکھنی ہونی بولی کہ
علتبا ئے نبا کسی پردد کے آہشنہ سے تھام لی۔ تھوک کو تظرانداز کرئے سے خود کو
ازنت ہی ملنی بو نہیر تھا کھانا کھا لتنی۔
اسے وافعی ہمت جا ہنے تھی۔ جاموسی درمبان میں جانل ہونی۔ چنہ کرسی کے
نازو پہ ہاتھ تکائے آسمان کو دنکھنے لگی۔
”میں نمہیں ا ننے عرصے سے جاننی ہوں لبکن کتھی تم ئے زکر نہیں کبا تھا۔“
نا سنے سے قارغ ہوکے علتبا ئے نات سروع کی۔ چنہ ئے خو نکنے اس کی جانب دنکھا
اور مشکرا دی۔ وہ اِ س کے تھی مافبا میں ابوالو ہوئے کا زکر کر رہی تھی۔
”میں ئے نمہیں نبانا بو تھا کہ اتکل مبکس نمہیں انک نارمل التف د نبا جا ہنے
تھے اسی لنے نمہیں ان شب سے دور رکھا۔“ چنہ الپرواہی سے بولی۔
”لبکن میں خود ہی دور نا رہ نانی۔“
وہ گہرا شانس تھر کے بولی۔
”تم ک نوں کرنی ہو شب؟ تم انک عام زندگی گزار شکنی ہو۔ رچم نہیں آنا
نمہیں؟“ علتبا جٹسے اب چنہ کو سنجھائے کی کوشش کرئے لگی کہ کونی بو سبدھے
ر سنے پہ آئے۔
”میں رچم کرئے کے لنے نہیں ننی۔ چہاں میں نہیں بولنی وہاں میرا وار بولبا
ہے۔۔ پہ شب کرنا شوق ہے میرا۔“ چنہ سباٹ انداز میں کہنے آخر میں آنکھ دنا گنی کہ
علتبا ئے شاچنہ چھرچھری لے اتھی۔ لہچے میں شقاکنت چھلک رہی تھی۔
”لبکن میں انسی نہیں ہوں۔“ علتبا ئے کمزور سے لہچے میں کہا۔
”تم تھاگ نہیں شکنی اس شب سے ،تھا گنے کا نتنحہ تم دنکھ جکی ہو۔“ چنہ کا
انداز نالکل جبانا نا طیزپہ نہیں تھا وہ شادہ سے لہچے میں بولی اور آگے ہوئے پرے سے
انبا کاقی کا مگ تھاما۔
”تم طیز کر رہی ہو؟“ علتبا پرا مبائے بولی۔
”طیز نہیں حق یفت نبا رہی ہوں۔“ چنہ الپرواہی سے کبدھے احکا گنی۔
”اس حق یفت کو نشلتم کرو۔ کب نک ہم دوسروں کو فصور وار تھہرانیں گے۔
میں ئے ا ننے لنے اس زندگی کا خود ف یصلہ کبا تھا اور اسے جی رہی ہوں اگر کونی
م ت م ُ
تقصان ہونا ہے بو اس کا زمہ دار یں خود کو ہی ھہراؤں گی ک نونکہ یں ئے جاالت
کے مطابق جتبا سبکھ لبا ہے۔“ چنہ کاقی کا گھونٹ تھرئے پرمی و رشان سے اس کو
سمجھائے لگی۔
”نمہیں تھی انشا ہی کرنا جا ہنے۔ ک نونکہ نہاں سے وانسی ممکن نہیں ہے۔“ علتبا
کے دنکھنے پہ اس ئے مزند کہا کہ وہ خونکی۔ ”نہاں سے وانسی“ سے کبا مراد تھا کبا
وہ جان گنی تھی شب۔
نہ ُ
”نمہارا نام دامیر سے خڑ حکا ہے اور دامیر کونی عام انشان یں۔ اس کے ا ننے
دوشت نہیں جتنے دسمن ہیں۔“ چنہ لقظوں کا ہیر ت ھیر کرنی اس کو نہت کجھ جبا
گنی۔ وہ تھبک کہہ رہی تھی جٹسے اتھی وہ لوگ زندہ نچے تھے اگر کتھی انشا دونارہ ہوا بو
کونی تعبد نہیں تھی۔
وہاں کڈنئیر نہی نات کہہ رہے تھے کہ اگر وہ دامیر کی ن نوی تھی بو دامیر کو نارخر
کرئے کے لنے اس کا اسیعمال کر شکنے تھے۔
ت ع جم س
چنہ کی نات کا مطلب ھنے لتبا کا کجھ ھی بو لنے کو دل پہ کبا۔ وہ جاموسی
سے وانس گھت نوں کے گرد نازو ناندھے سر رکھ گنی۔ چنہ اننی کرسی کھسکائے تھوڑا اس
کے فرنب ہونی۔
”ہم نمہارے شاتھ ہیں۔ نمہیں نہاں نالکل تھی عج نب نہیں لگے گا۔ نہاں ہم
شب انک عام فتملی کی طرح رہیں گے۔“ اس کے شائے پہ ہاتھ رکھنے انبان نت
تھرے لہچے میں کہا۔
”میرے لنے شب نہت مسکل ہو رہا ہے ف نول کرنا۔“ وہ گھنی سی آواز میں
بولی۔
”آشان کر لو اس کو۔“ چنہ کی آواز پہ خونک کے اس کو دنکھا۔
”ضرف انک کام کرنا ہے۔ ہمیں فتملی سمجھبا ہے زنادہ مسکل کام بو نہیں۔“
اس کے چہرے پہ پرم مشکراہٹ تھی۔ علتبا کو آج وہ اننی ماں کی جگہ محسوس ہونی۔
وہ اتھ کھڑی ہونی۔ نا سنے کی پرے نتبل سے اتھانی۔
” ننچے جانا ہے؟“ وہ جائے ہوئے مڑی۔
”نہیں۔“ انک لقطی خواب۔
وہ نہاں کجھ دپر اور نتتھبا جاہ رہی تھی۔ چنہ سر ہال کے ننچے جلی گنی۔ پرے
نتبل پہ رکھنے اس ئے انبا لنپ ناپ اور علتبا کا خونا نکڑا اور وانس اوپر آگنی۔ وہ نبگے نیر
تھی۔
ن
علتبا اسی بوزنشن میں تتھی تھی ،خونا اس کی کرسی کے ناس رکھا۔
اننی نانگیں سبدھی کرئے میز پہ رکھیں اور نبک لگا کے لنپ ناپ گود میں کھول
لبا۔
فباد کا جنئیر کلوز ہو جانا تھا اب اس کو ا ننے کام پہ فوکس کرنا تھا۔ کجھ ہی
دبوں میں انہوں ئے چملہ کرنا تھا۔
لبام کر مٹسج نانپ کرئے ستبڈ کبا۔
ً ُ
”رنان نمہیں کب آزاد کر رہا ہے؟“ چنہ کا مٹسج ملنے ہی اس ئے فورا نانپ کبا۔
چنہ مشکرا دی۔
ُ
”نہیر ہے پہ شوال اسی سے کرو۔“
اس ئے مشکراہٹ دنائے نانپ کبا۔ اگر لبام رنان سے پہ شوال کرنا بو لبام کی
اچھی جاطر بوازع ہونی تھی۔
وہ خود تھی شفر کی وجہ سے تھک گنی رنلبکس ہونا جاہنی تھی لبکن علتبا کو اکبال
تھی نہیں چھوڑنا تھا نتھی نہیں پہ آکے نتتھ گنی۔ اگر علتبا ننچے بورشن میں آجانی بو وہ
ت ن م ُ
الؤنج یں اسی کے ناس م دراز ہو جانی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ دوبوں گودام نہنچے چہاں نین خوان لڑکے کھڑے تھے۔ سروں کے نال
مبڈوائے ہوئے تھے ،کابوں میں نالباں تھیں۔ سباہ شوٹ نہنے ہوئے دوبوں ہاتھوں
کو ناہم مالئے سنجبدہ چہرہ لنے کھڑے تھے جبکہ نبدھے ہاتھوں پہ نت نو کے نشان تھی
واصح تھے۔
پہ نت نوں وہ لڑکے تھے جبہیں فباد جاکم کو اغوا کرئے کا ناشک دنا گبا تھا اور
انک ہقنے سے نہلے ہی وہ کامباب ہو جکے تھے۔
رنان کے شاتھ جلبا دامیر مباپر ہوا ک نونکہ رنان کے اِ س قدم کے نارے میں
اسے مغلوم نہیں تھا۔
فباد انبا آشان نارگنٹ تھا۔
وہ نت نوں رنان اور دامیر کو دنکھنے ہوئے ہلکا شا مشکرائے۔ جٹسے کونی پرانی خواہش
بوری ہو گنی ہو۔
”ہبلو سر۔۔“ وہ انک جگہ پہ فطار میں کھڑے تھے اور نبک وفت بولے۔
”سر جارج سے مغلوم ہوا ہے کہ کاقی زپردشت پرنتبگ رہی ہے تم لوگوں کی۔
اور نٹشٹ تھی ناس ہے۔ تم نت نوں اب سے پرابوا کے لنے کام کرو گے اور علطی کی
گنحانش نالکل تھی نہیں ہے۔“ رنان ان کے شا منے کھڑے ہوئے سباٹ لہچے میں
بوال۔
ت م ح غ م ُ
س
اسے لوم تھا کس ص سے کس وفت کس انداز یں نات کرنی ھی۔ وہ ہر
انک سے پرمی نہیں پرنبا تھا۔ سباٹ انداز اس کی جاضنت تھی۔ دامیر جاموش ہی رہا
ک نونکہ اس وفت اس کا دوشت نہیں پرابوا کا ہبڈ نات کر رہا تھا۔
”منٹشن کے فرنب ہی کوارپر موخود ہیں جتنی جلدی ہو شکے شفٹ ہو جاؤ اور
ڈرنک۔۔“ رنان ئے کہنے انبا رخ ڈرنک کی جانب کبا خو انک قدم جل کے آگے آنا۔
”سبڈول وغیرہ سمجھا دو شب۔ سمگلبگ شپ منٹس کا ان یطام تھی سمجھاؤ ان
کو۔“ اس کے کہنے پہ ڈرنک ئے ”نس سر“ کہا۔
م ت ت مکم
”نارگنٹ ل ہوئے پہ م لوگوں کو ا غام ضرور لے گا۔“ رنان کے لب اب
کے طیزپہ مسکان میں ڈ ھلے۔ تفجراپہ انداز تھا۔ اِ س کی نات ستنے نت نوں کے چہروں پہ
مشکراہٹ چمکی۔
”تھتبک بو سر ،ہمیں خوسی ہو گی آپ کے شاتھ کام کر کے۔“ ان میں سے
انک لڑکا بوال بو رنان محض سر ہال گبا۔
ان کو جائے کا اشارہ کبا بو ڈرنک رنان کو انک روم میں لے آنا چہاں فباد کو رکھا
گبا تھا۔
”منہ دکھانی ہو جائے آج۔۔“ وہ سرپر ہوا اور دامیر سے کہا خو جاموش کھڑا تھا۔
اس کی جاموسی رنان شلگ اتھا۔
”دھبان کہاں ہے نمہارا؟“ دامیر کے خواب پہ د ننے پہ وہ تھڑکا کہ وہ ہوش
میں آنا اس کو شوالنہ تگاہوں سے دنکھنے لگا۔
دامیر ئے خود کو کوشا کہ انشا ک نوں ہو رہا تھا وہ۔ اننی الجھن کس نات کی تھی
علتبا وانس آ گنی تھی بو تھر کبا ئےجتنی تھی۔
”دفع ہو جاؤ اننی ن نوی کو شاتھ الؤ نہاں۔ سرمبلی لڑک نوں کی طرح روگ لگا کے
نتتھے ہو۔“ وہ سرد انداز میں دامیر سے بوال خو اس کو سحت تظروں سے گھورئے لگا۔ انبا
تھی وہ عاشق نہیں ین گبا تھا خو رنان مشلشل طیز کے نیر جال رہا تھا۔ وہ علتبا کو لتنے
ت ُ
گبا ک نونکہ خو تھی نات تھی وہ علتبا کے شا منے ہی کرنا جا ہنے ھے۔ اس کے جاموسی
سے جائے پہ رنان شلگ کے رہ گبا اور ڈرنک سے محاظب ہوا۔
”اگر کتھی مجنت کرنی ہو بو دامیر سر کی طرح نالکل پہ کرنا۔ دنکھ رہے ہو نا جال
ٹج ت ُ
اس کا۔ انک ن نوی ہلکا شا ناراض ہے پڑنبا ھر رہا ہے۔ مجنت کرنی ہے بو مجھ سی
کرنا ڈ نکے کی خوٹ پہ۔“ رنان سنجبدگی سے ڈرنک کو مجنت کا ناٹ پڑھائے بوال جس ئے
مشکراہٹ دنائے سر ہالنا۔
”لبکن سر دامیر سر کاقی نبار کرئے ہیں متم سے نتھی بو الجھے ہوئے ہیں۔“
ڈرنک دامیر کی تھوڑی طرف داری کرئے بوال۔
”میری طرح ہونا بو انک تظر ہی گھور کے دنکھبا نیر کی طرح سبدھی ہو جانی
ن نوی۔“ رنان اقسوس کرنا ہوا بوال کہ کبا زماپہ آگبا تھا اب دامیر آر کی ن نوی کے شا منے
نہیں جلنی تھی۔
”لبکن سر چنہ متم بو۔۔“ ڈرنک ئے کجھ کہبا جاہا کہ رنان کی سرد تگاہ پہ
جاموش ہو گبا۔
”ہر انک کی ن نوی کا الگ جشاب ہونا ہے۔“ وہ عصہ دکھانا بوال کہ ڈرنک کو فقل
لگ گبا اور نانبدی انداز میں سر ہال گبا ک نونکہ رنان سر کی ن نوی کا انداز تھی دنکھ جکے
تھے۔
”خود کی جلنی نہیں ن نوی کے شا منے اور دامیر سر کو شکھا رہے۔ انبا نبارا کبل
ہے وہ۔“ ڈرنک من ہی من میں پڑپڑا کے رہ گبا۔
”آپ کو چنہ متم ہی ملنی جا ہنے تھی۔“ وہ تھی دانت نٹسنے ہوئے شو جنے لگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گارڈ سے مغلوم ہوا تھا کہ چنہ اور علتبا اوپر والے بورشن کے نیرس پہ موخود
تھیں۔ وہ وہیں جال آنا۔ چنہ کا رخ علتبا کی طرف تھا بو وہ دامیر کو آنا ہوا دنکھ اتھ
کھڑی ہونی۔
”شاتھ جلبا ہے علتبا کو لے آؤ۔“ وہ انبا ہی بوال۔ چنہ سمجھ کے سر ہالنی ہونی
علتبا کے شائے پہ ہاتھ رکھنے اس کو اننی جانب م نوجہ کبا۔ وہ خو انک ہی غیر مرنی
تقطے کو غور سے دنکھ رہی تھی اجانک خونک اتھی۔
”جلو ہمیں جانا ہے کہیں۔“
ن ل ن جم س
وہ نا ھی سے چنہ کو د کھنے گی۔ تھر گردن نجھے گھمانی چہاں نیرس کے
دروازے پہ دامیر کھڑا تھا۔ وہ سمجھ گنی۔ اتھ کے انبا خونا نہبا اور چنہ کے شاتھ ننچے
آگنی۔ دامیر ان کے آگے تھا۔
چنہ ئے کوشش کی تھی کہ وہ تھوڑا شانبڈ پہ ہو جانی ناکہ علتبا اور دامیر آنس
میں کونی نات کر لتنے لبکن علتبا بو جٹسے اس سے جبک کے رہ گنی تھی۔
منٹشن کے نالکل شا منے دوسری طرف جانا تھا۔ پرابو نٹ پراپرنی ہوئے کی وجہ
سے نہاں پرتقک نہیں ہونا تھا۔ نین سے جار منٹ کی والک پہ گودام موخود تھا۔ وہاں
ن
ہنجنے ہوئے دامیر ئے گنٹ کھوال بو وہ دوبوں اندر پڑھیں۔
”نہلے سبک نورنی ،تھر آرمری روم اور اب پہ ونیر ہاؤس۔“ علتبا دل میں شو جنے
لگی۔ اس کی دھڑکن نیز ہو رہی تھی۔ مارے گ ھیراہٹ کے ہتھبلباں نستنے سے تم ہونا
سروع ہو گنی ت ھیں۔
وہ اندر کی طرف پڑھیں۔ لکڑی کے ناکسز ،پڑے میز موخود تھے اور نارود ،لوہے کا
زنگ ،لکڑی کی بو اجانک علتبا کو نیز سی محسوس ہونی۔ اس ئے چہرے پہ ہاتھ رکھ لبا۔
دامیر ان کو لنے انک کمرے کی طرف پڑھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کمرے میں داجل ہوئے بو رنان انک شانبڈ پہ کھڑا ہاتھ پہ شقبد ننی ناندھ رہا تھا
جبکہ دوسرے ہاتھ پہ نبدھی ننی پہ خون کے د ھنے موخود تھے۔
کرسی سے نبدھا وخود ہانپ رہا تھا۔ اس کا چہرہ چھکا تھا ضرور رنان ئے ان کے
آئے سے نہلے انبا ہاتھ صاف کبا تھا۔
”نار ہم سے چھتنے کی کبا ضرورت تھی نمہاری نہن کا شسرال ہے پہ۔ اب
نمہیں ا نسے بو نہیں نا رکھ شکنے تھوڑی جاطر داری بو کرنی نتنی تھی۔“ رنان فباد کے
م کن
شائے پہ ہاتھ رکھنے دناؤ ڈالبا بوال جس سے وہ کراہ اتھا اور تکل یف سے آ یں نچ یں۔
ل ھ
جبکہ علتبا اس کے انک نار تھر تھانی کہنے پہ اس کو دنکھنے لگی۔ اس کو ندامت
ئے آن گ ھیرا تھا۔ وہ جان جکے تھے کہ فباد اس کا تھانی تھا۔
”جاطر داری تھر نہ نونی سے کروائے نا۔۔“ تکلحت ہی دامیر آگے پڑھا اور ئے در
ئے فباد جاکم کے منہ پہ مکوں کی پرشات کر دی۔ اس کے ہاتھ نبدھے تھے شوائے
مار کھائے کے اس کے ناس اور کونی ”منت نو“ Menuمیں آنشن نہیں تھا۔
علتبا ئے ششکی تھرئے ا ننے منہ پہ ہاتھ رکھ لبا ک نونکہ دامیر نبا کجھ د نکھے نس
اس کو مارے جا رہا تھا۔
”ری لبکس نڈی ،شالے پہ کجھ رچم کھائے ہیں۔“ رنان اس کو آئے سے ناہر
ہونا دنکھ اسے کبدھے سے تھام کے ننجھے کر گبا جس کا انبا ن یقس تھول گبا تھا۔
”انک شوال انک خواب تھر وففہ۔ وفت صا تع نہیں کرئے ہم۔“ رنان فباد کے
کن کس ت ج کن
شا منے کھڑا ہوا جس کی آ یں اب شوج کی یں۔ نا ل ان کو ھولے وہ د ھنے
ک م ھ ھ
کی کوشش کرئے لگا۔
”علتبا سے کبا لتبا د نبا ہے نمہارا؟“ مشکرانا لہحہ نل میں نبدنل ہوا تھا ،اس کی
سرد آواز اس نبد کمرے میں گونچی۔ چنہ ستنے پہ نازو ناندھے کھڑی تغور فباد کو دنکھ
رہی تھی جبکہ علتبا دم شادھے شب مباطر دنکھ رہی تھی۔
”شاال نہ نونی کہنے ہو تھر تھی بوچھنے ہو۔“ وہ اسبہزاننہ انداز میں بوال کہ رنان ئے
ونشٹ سے گن تکال کے اس کو دنکھا۔
”انک شوال انک خواب تھر وففہ۔۔“ رنان ئے کہنے ہی انک گولی اس کی نانگ
کی طرف قاپر کی کہ وہ جال اتھا۔
”اگال شوال۔“
”علتبا کو ک نوں مارنا جا ہنے تھے؟“ رنان ئے گہری تگاہوں سے اس کو دنکھا جس
میں سرد ناپر کے شاتھ مار د ننے کا ج نون تھا۔
”انک مافبا میں ہبڈ کی کبا اوقات ہے تم ا چھے سے جا ننے ہو اور تھر مرئے
والے کی آالنٹس۔۔“ فباد ئے اب کی نار سبدھا خواب دنا۔
وہ علتبا کی طرح مافبا ہبڈ کا نتبا تھا خو اب اس دنبا میں نہیں تھا۔ اسے ہبڈ نتبا
تھا اور شاری االننٹس سے مطلب تھا خو مبکس کے ناس تھی۔
مافبا ورلڈ میں چب کونی ہبڈ مرنا بو اس کی شاری االننٹس اس کے تغد نحوں کو
ہی ملنی۔ ان کے ناپ کے مرئے کے تغد شب علتبا کو مال تھا ک نونکہ فباد گم نام تھا۔
علتبا کو مارئے کا مقصد اس شاری آالننٹس کو وانس لتبا تھا خو اب مبکس کے
ناس تھی۔ اس کا ہدف ضرف علتبا ہی نہیں ،چنہ اور مبکس ل نو تھی تھے۔
”خو شب تم کہہ رہے ہو مجھے بو اس نات کا علم نک نہیں تھا۔“ اس شب
میں علتبا نہلی نار بولی۔ فباد کی تگاہ اس طرف اتھی اور ن یفر سے سر چھ یکا۔
”نتھی بو زندہ ر ہنے کا کونی قاندہ نہیں تھا نا مانی ڈنیر شسیر۔۔“ وہ انک انک لقظ
جبا کے بوال کہ دامیر علتبا نام ستنے انک نار تھر آئے سے ناہر ہوا۔
”فر۔۔۔ فروا کا کبا فصور تھا؟“ علتبا اب کی نار جنچی۔ رنان ئے علتبا کی جانب
دنکھا خو عصے میں لگ رہی تھی۔ جلو شکر تھا کہ نہاں عصہ دکھا دنا ورپہ اسے اب تھی
آنسو کی امبد تھی۔
”مطلب بو نمہی سے تھا لبکن وہ نسبد آگنی۔“ وہ جبانت سے مشکرانا۔ دامیر ئے
ج تھ ک
رنان سے گن نجنے اس کے نازو پہ گولی النی۔
”کہاں ہے وہ۔۔؟“ اس کا گرنبان نکڑئے دامیر جبائے ہوئے بوال۔
”مر گنی۔۔“ کہنے ہی ہٹس دنا۔
”نہت ا چھے سے۔۔ اس کو مجھ پہ چھوڑ دو نس۔“ فباد پہ اننی تظریں تکانا ہوا وہ
دانت نٹس کے بوال۔
”شکر ہے اس کا روگ کجھ کم ہوا اور کام کی طرف دھبان آنا جلو ڈرنک سر کو
ڈسیرب نہیں کرنا۔“ رنان نالوں میں ہاتھ ت ھیرنا ہوا ڈرنک کو محاظب کرئے کمرے
سے تکلنے لگا چب دامیر کو نارخر نتبل سے انک نالس) (pliersاتھائے دنکھا۔
اس ئے انبا عصہ شارا آج فباد پہ تکالبا تھا ،نجھلے کجھ دبوں سے وہ جن الجھ نوں
کا شکار تھا آج ان کا عبار تکا لنے کا اچھا موفع تھا۔
”تم بو نہت کچے کھالڑی تکلے فباد جاکم۔ نمہیں لگا کہ ہم تم سے ئےچیر تھے۔“
دامیر ہاتھ میں نالس تھامے اس کی طرف پڑھا۔
اس شب میں نہلی نار فباد کو خوف شا محسوس ہوا۔ نالس کسی اچھی چیز کے
لنے بو اسیعمال نہیں ہوئے واال تھا۔
ک ہن
”ہم نمہارے انک انک قدم سے وافف تھے۔ اننی نچ ر ھنے والے اشاشن م سے
ت
ُ
ئےچیر ر ہنے؟“ وہ اس کے نالکل شا منے کھڑا ہوا۔ اب اس یں و نسے ہی زنادہ جان
م
نہیں نچی تھی۔ ہاتھ ،ناؤں ،نازو پہ گولباں لگی تھیں اور کان کے ننچے سے تھی خون
مشلشل نہہ رہا تھا۔ اس ئے نالس کو اس کے ہاتھ کے فرنب رکھا۔ اس کو زرا شا
کھوال۔ اس کی نارنک بوک اس کے ناجن پہ انکی۔
”ہم نس نمہیں زندہ ر ہنے کا موفع دے رہے تھے۔“ دامیر ئے کہنے ہی نالس کو
ننجھے کھتنحا۔ ناجن چمڑی سے اکھڑنا نالس پہ جبک گبا۔
اکھڑئے والی جگہ سے خون انلبا ہوا ناہر آئے لگا۔
”وہ میری ن نوی ہے۔۔“
نالس کو دوسری اتگلی پہ رکھا ،نالس کی بوک ئے ناجن کو نکڑا۔
”تم ئے دامیر آر کی ن نوی کو مارئے کا شوجا تھی کٹسے۔۔“
انک دردناک جنخ اس نبد کمرے میں گونچی ،خون نیزی سے نہہ رہا تھا۔
”گولی مار دو نس۔۔“ وہ درد سے نلبال اتھا اور کراہبا ہوا بوال کہ مارنا ہی تھا بو گولی
مارے۔۔
”نمہاری خواہش ضرور بوری کروں گا ،انبا طالم نہیں میں۔“ وہ وانس مڑا اور نتبل
سے انک چھونا جافو نکڑ آنا۔ اس کو اک ھڑے ناجن کی چمڑی پہ رکھا اور زور دنا کہ فباد کی
نہاں جد جتم تھی۔ عصب ناک سی آواز اس کے جلق سے پرآمد ہونی اور وہ ا ننے
خواس کھوئے لگا۔ دامیر کا عصہ رگوں میں سرارے مار رہا تھا کہ جافو کو اس ئے
گردن میں گھونپ دنا۔
اننی گن تکا لنے اس ئے فباد کی دوبوں آنکھوں میں قاپر کبا۔ جتنی گولباں تھیں
شاری اس کے ستنے میں انار دیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
علتبا چنہ کے شاتھ جا رہی تھی چب ننجھے رنان اور ڈرنک تھی آئے ہوئے دکھانی
د ننے۔
وہ ڈرنک سے کجھ کہہ رہا تھا۔
”لوسین کی ناڈی کو تھی تھکائے لگاؤ اننی نتنی کے شاتھ چہتم کی سیر کرے
مل کے۔“ وہ سنجبدگی سے کہہ رہا تھا۔
علتبا اب تھک جکی تھی۔
انک خونی رشنہ تھا خو اس کے خون کا نباشا تھا ضرف نٹسوں کے لنے۔ فروا کا
دکھ تھر سے سبائے لگا تھا۔ اگر اِ س کو مغلوم ہونا کہ فباد نس آالنٹس کے ننجھے تھا بو
وہ خود ہٹ جانی اس شب سے۔ اس ئے کبا کرنا تھا جانداد نٹسوں کا۔
”میں ئے کتبا کجھ خراب کر دنا نا۔“ وہ تھکے قدموں سے جل رہی تھی چب
علتبا ئے کہا۔ چنہ ئے اس کے چہرے کی طرف دنکھا چہاں ندامت چھلک رہی تھی۔
وہ ا ننے ستنے پہ نازو لنتنے ہوئے تھی جبکہ چنہ پرشکون سی ج نب میں ہاتھ ڈالے جل
رہی تھی۔
”کٹسے؟“
وہ سنجبدگی سے بوچھنے لگی۔
”مجھے فروا ئے فباد کی سحانی نبانی تھی ،مجھے نب ہی اس سے مل کے شب کجھ
ل ُ
اسی کو دے د نبا جا ننے تھا۔“ وہ نادم ہچے میں بولی کہ چنہ ئے اس کو گھورا۔
”شب کجھ کبا؟“ چنہ ئے جانبا جاہا کہ وہ کبا شوچ رہی تھی۔
”خو تھی میرے نام تھا ،کجھ پراپرنی ہو گی وہی ،میں بو و نسے تھی ہوسبل میں
ُ
رہنی آرہی تھی۔“ شا منے تظر رکھنے ہوئے کہنے لگی۔ وہ گھر جائے کے نحائے اب اسی
کشادہ سڑک پہ والک کر رہی تھیں۔ شام کے شائے چھانا سروع ہو گنے تھے۔
”نمہارے جبال میں ”کجھ پراپرنی“ ہوگی انک مافبا کے ہبڈ کے ناس؟“ چنہ آپرو
احکا کے اس سے بوچھنے لگی ،علتبا ئے گردن گھمائے اس کو دنکھا۔
”انک مافبا ہبڈ کم از کم آدھے ملک سے زنادہ منی آن کرنا ہے۔ وہ نبا شوچے
ل ل ش ن ک ک جم س
ھے انبا نٹشا نہا شکبا ہے م از م آئے والی شات یں نبا کجھ کرے انک گژری
زندگی گزار شکنے ہیں۔“ چنہ ئے معنی چیز مشکراہٹ لنے علتبا کو چھبکوں کی ذد میں
چھوڑا وہ ئےتفتنی تگاہوں سے اس کو دنکھنے لگی۔
م
”اسے ’کجھ‘ پراپرنی نہیں اس کو انک کمل آالنٹس جا ہنے تھی خو نمہاری شوچ
ن
سے تھی زنادہ ہے۔“ چنہ اس کی تھبلنی تگاہوں سے د نی ہونی مزے بولی۔
ھ ک
”مبکس ئے دامیر کو نمہاری لنے ہاپر کبا تھا کبا جبال ہے کتنی نتمنٹ ہو گی؟“
وہ اب اس کے ناپرات کو انحوائے کر رہی نتھی تھوڑی سٹسنی پڑھانی۔
”تھاؤزنبڈز ڈالر۔۔“ )(Thousands dollars
علتبا ئے نکہ لگانا کہ چنہ ہٹس دی اور ہٹسنی جلی گنی۔
”معصوم ہو نہت ،بوچھبا دامیر سے۔“ اس کے گال کو چھونی ہونی وہ مشکرائے
لہچے میں بولی کہ علتبا سر چھبک گنی ،اسے کونی دلحسنی نہیں تھی جا ننے میں۔ فباد
ہن ت ت ً
ن
فتبا اب ک مر حکا ہونا۔ اس کے مرئے کا کونی اقسوس ھی یں تھا۔ پہ ہی کونی
ہمدردی۔
علتبا اس وفت خود کو جالی محسوس کر رہی نالکل جالی ،خزنات سے عاری انشان
جس کو اس وفت کجھ تھی محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ پہ ہی کہیں خوسی تھی پہ عم۔
انبا آپ انک محشمہ لگ رہا تھا جس کی زندگی ئےمعنی سی لگ رہی تھی۔ چہرا ہر
ناپر سے ناک تھا۔
رنان اور ڈرنک ان کو ا نسے ہی چھوڑے آرمری کی طرف پڑھ گنے تھے۔
”نمہیں اب آرام کرنا جا ہنے۔“ چنہ کی آواز پہ اس ئے سر اتھانا خو کب سے
ا ننے نیروں کو گھور رہی تھی انک تھبڈی آہ تھر کے رہ گنی۔
چنہ ئے اس کو وانس جلنے کا کہا نب نک ان کو دامیر تھی آنا ہوا دکھانی دنا اور
تل م ہس ن
اس کو د نے لتبا کا دل ا ک نار م شا گبا۔ اس کے ہاتھ خون یں نے ہوئے ع ھ کن
چ ت ل ُ
تھے ،کبا اسے خوٹ گی ھی۔ وہ ز می تھا؟
علتبا ئے شوجا۔ تظر اس کی سرٹ پہ گنی جس کو وہ نہن رہا تھا۔
علتبا اور چنہ اندر کی طرف پڑھیں جبکہ دامیر ان کے شاتھ جائے کے نحائے
آرمری کی طرف ہی گبا تھا۔ چنہ ئے اس کو آرام کرئے کی نلفین کرئے خود تھی
کمرے میں جلی آنی تھی۔ وہ کاقی زنادہ تھکی تھی رات کے کھائے کا ارادہ پرک
کرئے تھکن انارنا جاہی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کاقی دپر آرمری میں ر ہنے کے تغد وہ وانس آئے تھے۔ الؤنج میں کونی تھی موخود
نہیں تھا مطلب دوبوں کمروں میں تھیں۔ دامیر چب کمرے میں داجل ہوا بو وہاں
کونی تھی موخود نہیں تھا۔ اسے اچھتبا ہوا کہ علتبا بو کمرے میں ہی آنی تھی۔
اس کا ارادہ نہلے فرنش ہوئے کا تھا ک نونکہ خون کے د ھنے موخود تھے۔
شاور لنے وہ وانس کمرے میں آنا۔ نبڈ سنٹ ونسی ہی تھی ،وہ کمرے میں نہیں
آنی۔
دامیر سرد آہ تھرنا رہ گبا۔
تک ُ
نبا سرٹ نہنے ،پراؤزر میں مل نوس وہ کمرے سے ناہر ال اور اسی مرے یں گبا
م ک
چہاں علتبا ئے نہنہ کر لبا تھا ر ہنے کا۔ علتبا کی پہ خرکت تھی اس کو شلگائے کے
لنے کاقی تھی۔ وہ اب عصہ دال رہی تھی۔
دروازہ کھوال بو ک یفرپر اوڑھے کروٹ لنے لتنی تھی۔ نبا جاپ نبدا کنے وہ نبڈ کی
دوسری طرف آنا اور آہشنہ سے ک یفرپر اتھانا۔ وہ شوئے کی کوشش کر رہی تھی لبکن
شونی نہیں تھی۔
ت کن
اس کو نازوؤں میں تھرا کہ علتبا ئے چھبکے سے آ یں ھو یں۔ وہ ہڑپڑا ا ھی
ل ک ھ
اور اس پہ چ ھتنی۔ دامیر نبا پرواہ کنے اس کو ا ننے روم میں النا اور پرمی سے نبڈ پہ
ن
لبانا۔ علتبا ئے حقگی تھری تگاہوں سے اس کو دنکھا جبکہ آ یں م ہوئے گی یں۔
ھ ت ل ت ھ ک
کمرے کی النٹس آف کرئے وہ نبڈ نک آنا۔ علتبا کی ناراصگی ہ نوز تھی ،وہ ا نسے ہی نبڈ
ُ ن
پہ تتھی رہی۔ وہ کاقی دپر اس کی نشت کو گھورنا رہا چب اس کی کمزور سی آواز کمرے
کی جاموسی میں جانل ہونی۔
”میں ا نسے زندگی نہیں گزار شکنی دامیر۔۔ خوف اور ڈر کو ا ننے شاتھ لے کے۔“
اس کا لہحہ تم تھا جٹسے وہ دامیر کو اننی نات سمجھانا جاہنی ہو۔
”میرے مرئے کا ان یطار کرو تھر علتبا۔“ دامیر کی سرد آواز پہ علتبا ئے پڑپ
کے گردن گھمانی خو اسی کو دنکھ رہا تھا۔ اس ئے نام سے تکارا تھا اور کہیں کونی
پرماہٹ نہیں تھی۔
”تم نہت ئےرچم ہو۔“ وہ جبانا پہ تھولی۔
”جانبا ہوں۔ میرے مرئے کے تغد ہی تم دوسری زندگی گزار شکنی ہو۔ میرے
جتنے جی بو ا نسے ہی رہبا ہو گا۔“ وہ سنجبدگی سے بوال اور تگاہیں ت ھیرئے ک یفرپر کھو لنے
لگا۔
”تم ئے آج کتنے لوگوں کو مارا ہے دامیر۔“ علتبا اس کی ڈھبانی پہ شلگ اتھی
مکم
اور انبا رخ ل اس کی جانب کبا۔
شانس ت ھر شکبا تھا ،کتنے دبوں سے وہ اس کے لمس سے مجروم تھا۔ چب انک انڈکٹ
پرشن کو اس کی اڈکشن پہ ملے بو وہ ج نونی ہوئے لگبا ہے نہی جال دامیر کا تھا۔
ُ
اس ئے نبا علتبا کے ردعمل کی پرواہ کنے اسے ئےجد فرنب کرئے ناہوں
ت کھ تھ م ت
یں نج لبا کہ اس کی شدت پہ وہ بو ال ا ھی۔
”تم ئے مجھے ِمس کبا؟“ چب وہ کجھ پہ بولی بو دامیر ئے اس کے ما تھے کو
ل نوں سے چھوئے ہوئے مجنت سے خور لہچے میں بوچھا۔
”کبا تم شاری ناراصگی تھالئے اتھی ہماری خوسی کو محسوس نہیں کرنا جاہو
گی؟“ اس کا چہرہ شا منے کرئے دامیر ئے اس کی آنکھوں میں دنکھا۔ علتبا کے ننے
اعصاب ڈھبلے پڑے۔ وہ طالم اشاشن دامیر سے انک پرم ،نبار کرئے واال شوہر تھا
اب۔
دامیر کے دل کی عج نب ہی ک یق نت تھی اس وفت ،علتبا کا شاتھ تفو نت نحش
رہا تھا اور ان کی زندگی میں آئے والی ننی نبدنلی دامیر کے لنے غیر م نوفع تھی۔
وہ شاری زندگی علتبا کے نام کر حکا تھا لبکن کتھی فتملی میں ہوئے والے
ت س ن ُ
اصافے کے نارے میں نہیں شوجا تھا۔ اسے اس ل مجھ یں آرہی ھی کہ وہ
ہن
کٹسے اظہار کرے ،اسے کبا کرنا جا ہنے تھا۔ وہ خوش تھا ،پروس تھی۔ اور بوکھالنا ہوا
تھی۔
”کبا وافعی انشا ہے۔۔“ دامیر کا ہاتھ آہشنہ سے اس کے ن نٹ کی جانب گبا کہ
علتبا کے چہرے پہ سرجی نیزی سے نیری اور تگاہیں چھکا گنی۔ ہولے سے انبات میں
سر ہالئے اس کے جٹسے تصدبق کی۔ فرط خزنات میں دامیر ئے اس کی گردن پہ بوسہ
دنا۔
ت کنہ ن
علتبا ئے اس کے چہرے پہ خوسی یں د ھی ھی۔ وہ الگ ہی خزنات ھے۔
ت
پرنشانی؟ نہیں ،کشمکش۔ الجھن۔ بوکھالہٹ۔ دل ئے وہم شا کبا کہ شاند دامیر کو پہ
چیر تھانی نہیں تھی۔
”تم خوش ہو؟“
علتبا ئے اس کے ہاتھ پہ انبا ہاتھ رکھا۔ لہحہ مدھم شا تھا۔
”نبا نہیں ،نبا نہیں مجھے کٹشا فبل ہو رہا ہے۔ میں ئے کتھی شوجا نہیں تھا
کہ۔۔“ وہ سچ کہہ رہا تھا اس ئے شوجا نہیں تھا کہ وہ انک ناپ ننے گا اور پہ کہنے
ہوئے اس کو جٹسے انک نہاڑ سر کرئے کے میرادف لگا تھا کہ جائے علتبا کبا مطلب
لتنی۔
”تم انشا کر شکنی ہو؟ جا شکنی ہو دور مجھ سے نباؤ۔۔ میری طرف دنکھ کے نبا
تظریں خرائے پہ نات کہو… میں نمہیں جائے دوں گا۔“ اس کا نازو تھامے اس ئے
سجنی سے کہا کہ علتبا سہم سی گنی۔
”جاموسی سے لنٹ جاؤ پرنسٹس۔۔“ وہ انک انک لقظ جبا کے بوال کہ انبا نازو
چھبکے سے اس سے چھڑوانی حقگی تگاہوں سے دنکھنے لگی۔
دامیر خود اننی جگہ لنٹ حکا تھا ،آنکھوں پہ نازو ر کھے اس ئے علتبا کو دونارہ دنکھنے
سے گرپز کبا۔
”میں تفرت کرنی ہوں تم سے۔۔ سبا تم ئے۔۔“ تھرانی آواز میں کہنی اس سے
کن
قاصلے پہ لنٹ گنی اور سجنی سے آ یں موند یں۔
ل ھ
ب ل ہ ک ن
دامیر ئے اس کی نشت کو گھورا۔ وہ اتھی کونی لخ المی یں جاہبا تھا کن
ن
علتبا کی صد ننچ میں آجانی تھی۔ اس ئے کروٹ لی اور ک یفرپر اوڑھا۔ اس کی نشت کو
تظروں کے ہالے میں رکھنے آشودگی سے مشکرا دنا۔
ان کی فتملی پڑی ہوئے جا رہی تھی اور طالم دسمن جاں ئے خوسی کو تھبک
سے محسوس تھی نہیں کرئے دنا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نبڈ پہ نتتھے وہ نئیرز کو پرن نب د ننے لنپ ناپ پہ کجھ نانپ کر رہی تھی جبکہ
رنان انبا کام جتم کنے اتھی روم میں آنا تھا۔
”نمہیں آرام کرنا جا ہنے تھا۔۔“ رنان اس کی مصروف نت دنکھبا ہوا بوال۔ چنہ ئے
نس انک تظر اتھا کے اِ سے دنکھا خو اننی سرٹ کے نین کھول رہا تھا۔ ارادہ اس کا
ھ م ت
اتھی شوئے کا تھا لبکن لبام ئے کجھ اتقار ٹشن چی ھی بو اس یں ہی چت نی
گ م ت ن
تھی۔
”تھوڑی دپر میں شو جانی ہوں۔“ عام سے انداز میں بولی۔
”کھانا کھانا؟“ ا ننے کیڑے کیرڈ سے تکا لنے ڈرنسبگ سے ناہر چھانک کے بوچھا۔
آخری نار انہوں ئے نلین میں ہی کھانا تھا تھوڑا شا۔
ن ن
”نہیں میرا دل نہیں کر رہا۔ میں نس اتھی شوؤں گی۔“ اس ئے ا نی آ یں
ھ ک
”اگر اس وفت دامیر نہاں آگبا بو کبا شوچے گا۔“ وہ ناشف سے سر ہال گنی کہ
رنان سرٹ سے ندارد اور اس کی نشت پہ تھا جبکہ وہ سبلڈ نبا رہی تھی۔
”وہ نہیں آئے گا ،اس کی ن نوی شو رہی ہے بو شکون سے پڑا ہو گا۔“ رنان
مزے سے ن یصرہ کرئے بوال کہ چنہ ئے گردن گھمائے اس کو گھورا۔
”میں ئے کہاں اننی ن نوی کو شوئے دنا۔“ اس کی اگلی نات پہ چنہ کا دماغ
گھوم گبا۔ وہ اس کو نہت سبانا جاہنی تھی لبکن جاننی تھی کہ اس پہ اپر نہیں کرے
ن ھ چ
ھ ج
گا بو نس ال کے سر چھبک دنا۔
جبکو شوہر تھا اس کا۔ نالکل اس سے الٹ۔
”میں تم سے نہت جلد عاخز آئے والی ہوں۔“ انبا سبلڈ ناؤل تھامے وہ کنچن
جم س
کی دوسری طرف آئے سنول پہ نتتھ کے بولی کہ رنان ئے نا ھی سے اس کو دنکھا۔
”نمہیں عادت ہو جائے گی میری۔۔“ وہ آنکھ دنا کے بوال۔
”نہاں ک نوں نتتھ گنی آؤ روم میں جلیں۔“ نالوں میں ہاتھ ت ھیرئے رنان بوال اور
کنچن کی النٹ آف کرئے اس کی طرف آنا۔ نبا اس کو موفع د ننے کبدھے پہ الدا کہ
وہ بوکھال اتھی۔ چنہ ئےنسی سے شو جنے لگی کہ اس ئے انشا کبا ِکبا تھا خو رنان جٹشا
شوہر مال تھا۔
اس کو کمرے میں ال کے چھوڑا بو رنان خوتکا ،اس کا مونانل نج رہا تھا۔ چہرے پہ
ہاتھ ت ھیرئے رنان ئے آگے پڑ ھنے کال رنسنو کی۔ لبام کال کر رہا تھا۔
”لبام کال کر رہا ہے اس وفت۔۔“ رنان اچھتنے سے بوال کہ چنہ ئے خونک کے
ً
انبا مونانل دنکھا۔ اس کے فون پہ مشڈ کال ت ھیں۔ خو تھوک تھی وہ فورا مٹ نی۔
گ
”ہبلو۔۔“
رنان ئے دو نین نار تکارا لبکن خواب نہیں دے رہا تھا کونی شور سبانی دے رہا
تھا۔
ن ت م ُ
”اس ئے جھے ھی کالز کی ہیں ،اوفف نبا ہیں کبا ہوا ہو گا۔“ چنہ کو
گ ھیراہٹ ہوئے لگی وہ نیزی سے ا ننے لنپ ناپ کی طرف پڑھی اور مبکسبکو کی
نٹشمنٹ کی سبک نورنی جبک کرئے لگی۔
”کتمراز نہیں جل رہے۔۔“ وہ گ ھیرانی۔ رنان اس کی طرف ل یکا اس کے ہاتھ
سے لنپ ناپ لتنے کیز دنائے جبک کرئے لگا۔
”انگزنکٹ لوکٹشن نباؤ مجھے۔۔“ رنان ئے انبا لنپ ناپ لبا اور اس سے لوکٹشن
بوچھنے نٹشمنٹ کے آس ناس کی سبک نورنی جبک کرئے لگا۔ اس ئے نجھلی رتکارڈنگ
جبک کی۔
چنہ رنان کا فون کان سے لگائے کھڑی تھی چہاں کجھ شور سبانی دے رہا تھا
لبکن کسی کی آواز نہیں تھی۔
دو گھتنے نہلے اسے نٹشمنٹ کی آس ناس والی جگہ پہ دو گاڑناں تظر آنی ت ھیں خو
انک کے تغد انک وہاں سے گزری تھیں۔ پہ فوننج اس نٹشمنٹ سے نانچ منٹ کے
قاصلے پہ تھا۔
”کجھ سبانی دنا؟“ رنان ئے فوننج دنکھنے چنہ سے بوچھا خو پرنشانی سے ہونٹ کاٹ
رہی تھی۔ اس ئے تقی میں سر ہالنا اور فون رنان کو تھمانا۔
انبا فون ستبکر پہ رکھنے اس ئے چنہ کا فون تھاما اور کسی کو کال مالئے لگا۔
م ل ُ
تن ک
”اسے جھ ہو نا گبا ہو۔۔“ وہ کا نے ہوئے ہچے یں بولی اور پرنشانی سے اس
کے ناس نتتھ گنی۔ دل میں مشلشل وشوسے آرہے تھے۔
”رنلبکس۔۔ میں کر رہا ہوں راتطہ۔“ اس کے گرد نازو تھبالئے ہوئے بوال چب
دوسری طرف سے کال رنسنو ہونی۔
وہ پرابوا کا ہبڈ تھا ،نبدے کی مغلومات لتبا مسکل نہیں تھا۔ مبکسبکو میں موخود
ن ھ ت ً
ن
اس ئے فورا کانیر کٹ نحا تھا کہ لبام کو ڈھونڈا جائے۔ ا ہوں ئے لبام کی کال نک
کی تھی بو مطلب لبام کال کر کے زنادہ دور نہیں تھا۔ وہ فون کے آس ناس ہی تھا
نتھی رنان ئے اس کی لوکٹشن وہاں موخود لوگوں کو تھنج دی۔ امبد تھی کہ جلد ہی لبام
مل جانا۔
”ہم جلنے ہیں وہاں۔“ چنہ نل میں جائے کو نبار ہونی خو ا ننے مصروف دن کے
ناوخود آرام نہیں کر نانی تھی لبکن اس وفت اس کے انداز میں زرا تھی تھکن نہیں
تھی۔
”نہیں ہم نہیں جا شکنے ،کجھ ہی دپر میں لبام نہاں موخود ہو گا۔ تم آرام
کرو۔“ رنان ئے اس کو رشان سے سمجھانا جاہا جس پہ وہ عصے سے جنچی۔
”وہ مسکل میں ہے رنان۔۔ اس کو اکبال نہیں چھوڑ شکنی۔“
”تم ئے رنشٹ نہیں کبا ،بو مزند شفر نہیں کر شکو گی۔“ رنان لنپ ناپ شانبڈ
پہ رکھبا اتھ کھڑا ہوا۔
”نمہاری وجہ سے۔۔“ وہ انک انک لقظ جبا کے بولی کہ اننی سنجبدہ صورت جال
میں رنان کے ہون نوں پہ ناجا ہنے ہوئے تھی مشکراہٹ آگنی۔
”اچھا میرا فصور ہے لبکن تھوڑا شا و نٹ کر لو۔ اتھی کال آجائے گی۔ شب انک نو
ہیں وہاں۔“ چہرے پہ سنجبدگی طاری کرئے وہ اس کی طرف پڑھا کہ چنہ کو ناجار ان یطار
کرنا پڑا۔ اس کے سر میں درد اتھ رہا تھا۔ تھکن وافعی جد سے شوا تھی۔
کونی انک دسمن تھوڑی تھا ان کا خو دو نین کو مار کے کام نمام ہو جانا۔ دسمن
نہت تھے ہر ننے دن نبا دسمن اتھرنا تھا۔ لبام پہ چملے کا مطلب تھا چنہ کو وارنبگ۔
ُ
اس ئے آئے والے دبوں میں شپ منٹس کو روکبا تھا اور پہ وارنبگ تھی کہ ان
کے کام میں دجل اندازی پہ کی جائے۔ وہ جتبا لبام کے نارے میں شوچ رہی تھی
انبا ہی عصہ مزند پڑھبا جا رہا تھا کہ چنہ کو رو کنے کے لنے لبام کا اسیعمال کرنا جاہا
تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اجانک آنکھوں کے پردوں پہ پڑئے والی روسنی سے اس کی نتبد میں جلل پڑا بو
ت تن گ ک ش ھ کن
آ یں نے ھوال۔ دامیر الس وال سے پردے ہبا رہا تھا۔ وہ اتھ ھی۔ل م
ہمٹشہ کی طرح آج تھی وہ اس سے نہلے اتھ گبا تھا۔ نالوں کو سمنتنے اتھی اور
فرنش ہوئے جلی گنی۔ نہاں سے جائے سے نہلے وہ ا ننے کیڑے لے گنی تھی لبکن
ناقی اس کی شاری چیزیں ہ نوز اننی جگہ پہ موخود تھیں۔ کونی تھی چیز اننی جگہ سے
نہیں ہلی تھی۔
سر چھبکنے اس ئے شاور کا ارادہ کبا۔
ت ُ
کمرے میں آنی بو وہ نہاں نہیں تھا۔ اس ئے د کھا ھی یں تھا لتبا کو۔
ع ہن ن
”نمہیں گھر رہبا جا ہنے تھا کجھ رنشٹ کر لتنی۔“ پہ کونی نٹسری دفع تھا کہ رنان
ئے اس کو محاظب کبا تھا جس کو چنہ ئے تظر انداز کبا۔
”سباپ اِ ٹ رنان۔“ وہ ناگوارنت سے بولی۔
ن
لبام نہاں ہنجنے واال تھا۔ رنان کے آدم نوں ئے اس کو ڈھونڈ لبا تھا اور اتھی وہ
لوگ انیر فبلڈ کی جانب جا رہے تھے چہاں سے وہ لوگ ملنے والی نہلی قالنٹ سے نہاں
ن
ہنچ رہے تھے۔
رنان ئے دامیر کو تھی اتقارم کر دنا تھا۔ ان کے م یع کرئے کے ناوخود وہ شاتھ
آنا تھا۔
انیر فبلڈ پہ گاڑی نارک کی۔ شب ناہر تکلے چہاں نلین آئے واال تھا۔ دامیر کال
آئے پہ زرا شانبڈ ہوا ،ڈرنک اس کو اتقارم کر رہا تھا کہ علتبا انبا ناشنہ کر رہی تھی۔
چنہ ئے تھبک شوجا تھا وہ اس کے لنے وارنبگ تھی شپ منٹس کو نارو کنے کے
لنے لبکن اب وہ ر کنے والی کہاں تھی۔ اس کا نس جلبا وہ ان آدم نوں کی تعسیں نجھا
کے اس پر سے جلنے ہوئے شب نباہ کرنی۔ نلین کا دروازہ کھال کہ چنہ کے قدم اس
کی جانب پڑھے۔
”اس لڑکی کو آرام کرنا جا ہنے تھا کہا تھی تھا شکون سے رہے گھر ،میں لے آؤں
گا اس کو۔“ رنان چنہ کی نیزی دنکھنے پڑپڑانا کہ دامیر ئے نبکھے انداز میں اس کو دنکھا۔
دو آدمی شونڈ بوند ناہر آئے تھے اور ان کے ننجھے ہی لبام تھا۔ جس کو دنکھنے چنہ
اننی گالسز انارئے نیزی سے آگے پڑھی۔
”اب پہ گلے لگے گی اس کے۔۔“ وہ پڑپڑانا۔
ن
”کس چیز کا عصہ ہے نمہیں؟“ دامیر ئے آ کھیں چھونی کنے اس سے بوچھا۔
”خود کا شکون پرناد کر کے اس کی جاطر نہاں آنی ہے اور دنکھو۔۔۔“رنان ئے
نلین کی سیڑھ نوں کی طرف دنکھا۔ چہاں چنہ ئے لبام کو خود سے لگانا تھا۔
” لو ہو گبا کام ،پہ گلے ملبا ضروری ہے کبا۔“ ہوا میں ہاتھ لہرائے رنان ئے
جٹسے کام نمام کبا۔ دامیر ئے نہلے رنان کو تھر چنہ کو دنکھا۔
وہ ماؤں کی طرح اس کا جال جال بوچھ رہی تھی۔
” ِجل مین۔ وہ کاقی چھونا ہے اس سے۔“ دامیر ئے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے نشلی
دی جبکہ انداز صاف خڑائے واال تھا۔
”چھونا۔۔ نٹس شال کا لڑکا ہے وہ۔ چھونا نہیں ہے۔۔“ رنان دامیر کو گھورئے
ہوئے بوال۔
”چنہ ،لبام۔۔۔ ہم تھی ادھر ہیں۔“ رنان سے چب مزند پرداشت پہ ہوا بو وہ
آگے پڑھا۔ چنہ اور لبام ئے مڑ کے اس کو دنکھا۔
لبام کے چہرے پہ ہلکی سی خوٹ کا نشان تھا ،وہ لڑکھڑا کے تھی جل رہا تھا۔
چنہ اس کو سیڑھ نوں سے اپرئے میں مدد د ننے لگی کہ رنان ئے دامیر کو دنکھا اور ضیط
سے دانت نٹسے۔
جم س
”پہ لڑکی ک نوں نہیں ھنی میری فبلبگز کو۔“ ہون نوں پہ زپردسنی مشکراہٹ لنے
وہ آگے پڑھا اور چنہ کو پرمی سے شانبڈ پہ کرئے لبام کو سہارہ دنا۔
دامیر تھی آگے پڑھا۔ اسے گاڑی میں نتھائے نبا دپر کنے وہ لوگ وانس منٹشن
کی طرف پڑھے۔
ڈرنک کو اطالع کر دی تھی کہ ان کے شاتھ لبام تھی ہو گا بو کمرہ نبار رہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
گاڑی کی آواز پہ علتبا ناشنہ جتم کرئے نیزی سے اتھی اور گالس ڈور کی طرف
پڑھی۔ رنان اور دامیر ئے انک لڑکے کو سہارہ دے رکھا تھا۔ وہ چیران پرنشان تظروں
سے ان کو دنکھنے لگی۔ اس کی تظر چنہ پہ گنی خو شانبڈ پہ تھی ،تظریں گھومنی دامیر پہ
گنی۔
کبا وہ لوگ تھر کسی جبگ پہ گنے تھے؟ وہ پرنشانی سے شو جنے لگی اور ناہر آگنی۔
دامیر کی تگاہ اس پر اتھی بو خونک شا گبا۔ وہ اس کے کیڑوں میں تھی۔ اسے
دنکھنے وہ جلبا تھول گبا کہ لبام کے کرا ہنے پہ ہوش میں آنا ک نونکہ رنان آگے پڑھ رہا
تھا۔
دامیر ئے رنان کو دنکھا خو اسی کو معنی چیز تگاہوں سے دنکھ رہا جٹسے کہبا جاہ رہا
ہو ”واہ پڑی جلدی عصہ جتم کبا۔“ تھر رنان ہلکا شا ہٹس دنا۔ علتبا کو ان کی تظروں
کے نبادلے کی سمجھ پہ آنی تھر رنان کی معنی چیز ہٹسی۔
جبکہ اب علتبا کو پہ قکر تھی کہ کہیں دامیر کو خوٹ پہ آنی ہو ،دامیر ئے لبام
کو تھاما تھا اس کا دل کبا کہ وہ علتبا کے ناس جائے۔ اسے کس ئے روکبا تھا ڈرنک
کو اشارہ کبا اور خود شانبڈ پہ ہو گبا۔ لبام انک نار تھر کراہا۔
”نار نمہاری ن نوبوں کے عالوہ تھی لوگ ہیں۔“ لبام دہانی د نبا بوال۔ دامیر تظر انداز
کرئے علتبا کی طرف پڑھا۔
”ناشنہ کبا پرنسٹس۔۔“ اس کے فرنب آئے چہرے پہ دوبوں ہاتھ رکھنے پرمی
سے بوچھا کہ وہ سر ہال گنی۔
”تم تھبک ہو؟“ علتبا ئے ئےشاچنہ بوچھا دامیر مشکرا کے اس کے ما تھے پہ
ہونٹ رکھ گبا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ن
گٹشٹ روم میں اس وفت وہ جاروں موخود تھے۔ چنہ لبام کے فرنب تتھی اس
سے طت یغت کا بوچھ رہی تھی جبکہ رنان اس کو شلگنی تگاہوں سے مشلشل گھور رہا
تھا۔
”تم ئے مجھے نہلے اتقارم ک نوں نہیں کبا؟“ اس کے ما تھے کو اتگلی کے بورے
سے چھوئے ہوئے زچم دنکھنے لگی۔
”میں ئے کتنی نار کال کی تھی ،تم نک ہی نہیں کر رہی تھی ت ھر رنان کو کرنا
سروع ہوا وہ تھی کاقی دپر تغد اس ئے اتھانا شاند۔ اجانک ہی ہو گبا شب۔ مجھے بو
اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کبا ہو رہا ہے ناہر۔ وہ لوگ کاقی دبوں سے رات کے وفت
دروازہ کھو لنے کی کوشش میں تھے اور کل رات ان کو موفع مل گبا۔“
لبام چنہ کو دنکھ کے نبائے لگا۔ کال والی نات پہ چنہ کو مابوسی ہونی اور لبام کو
دنکھنے لگی۔
”میں کنچن میں تھی بو مجھے نمہاری کال کا نبا ہی پہ جال۔“ وہ ندامت تھرے
لہچے میں بولی کہ لبام مشکرا دنا۔
”تم اب نہی رہو گے ہمارے شاتھ پرنشان ہوئے کی ضرورت نہیں ہے۔“ چنہ
اس کو پرمی سے کہنی ہونی بولی۔
دامیر اور علتبا کمرے میں موخود صوفے پہ نتتھے تھے۔ علتبا ئے غیر ارادی طور پہ
دامیر کا ہاتھ تھام رکھا تھا جس کی اتگلی میں موخود انگوتھی کو وہ گھمائے جا رہی تھی۔
دامیر ئے اننی انگوتھی وہیں سے اتھانی چہاں ان لوگوں کو ناندھ کے رکھا گبا تھا۔
”اہم۔۔“ رنان ئے گال کھ یگا لنے چنہ کو اننی جانب م نوجہ کبا۔
کن
”تم سے ضروری نات کرنی ہے۔“ چنہ کی شوالنہ تگاہوں کو د نے رنان ئے
ھ
ناہر جائے کا اشارہ کبا اور خود ناہر آگبا۔
لبام کو انک تظر دنکھنے اتھی اور رنان کے ننجھے جل دی۔
”نمہیں اننی پرواہ ہے نا نہیں؟“ اس کے ناہر آئے ہی وہ عصہ دنائے سرد لہچے
جم س
ن
میں بوال کہ چنہ ئے نا ھی سے اس کو د کھا۔
”روم میں جلو اور آرام کرو۔“ اس کا نازو تھامے ا ننے کمرے کی طرف لے
جائے لگا۔
”رنان ،لبام اتھی آنا ہے اس کو کسی چیز کی ضرورت ہو شکنی ہے ا نسے میں
کٹسے میں آرام کر لوں۔“ چنہ انبا نازو اس کی گرفت سے آزاد کرنی ہونی بولی۔
”ملٹسکا!“ وہ اس کے فرنب ہوا انبا کہ چنہ کو اس کی شانسیں محسوس ہونیں۔
اس کے چہرے کو ہاتھوں کے نبالے میں تھرا ،اس کی آنکھوں میں دنکھا۔ چنہ
کو وہاں انبان نت ،قکر ،پرواہ محسوس ہونی۔
”تم دو دن سے جاگ رہی ہو۔ تھبک سے شونی نہیں۔ تھکی ہو کاقی۔ آرام کرو
ئےنی۔ ا نسے تم لبام کا دھبان نہیں رکھ ناؤ گی۔“ وہ م یقکر لہچے میں بوال۔ چنہ ئے
اس کی آنکھوں میں دنکھا وہ اس کے آرام کی کتنی پرواہ کر رہا تھا۔
”تم ئے کون شا شوئے دنا تھا۔“ وہ جان بوچھ کے جبائے لگی کہ رنان کے
ہون نوں پہ مشکراہٹ دوڑ گنی۔
”میں نمہیں سبلڈ کا ناؤل جتم کرئے کے تغد شوئے ہی د ننے واال تھا۔“ وہ
ن گ ھ کن
سرپر مسکان لنے بوال کہ چنہ ئے آ یں ھما یں اور اس کے ہاتھ ہبائے۔
”اتھی روم میں جلو۔ دامیر لبام کو دنکھ لے گا۔“ رنان ئے تھر کہا کہ وہ سر ہال
گنی۔
”میں لبام کے ناس شو جاؤں گی۔“ چنہ جان بوچھ کے بولی کہ رنان خڑ گبا اور
اس کے ما تھے پہ نل نمودار ہوئے۔
”تم نہیں جاہو گی کہ لبام کو آج کی رات میں کہیں اور شفٹ کرو دوں؟ ہے
نا۔“ وہ سرد لہچے میں بوال کہ چنہ سر چھبک کے ہلکا شا ہٹسی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”شدند قشم کی مجنت میں گرفبار ہیں نہاں کے مرد۔“ لبام سبانسی انداز میں بوال
چب دامیر ئے اس کو سرد تگاہوں سے گھورا۔
” نچے ہو نچے ین کے رہو۔“ اس کے انداز میں وارنبگ تھی۔ لبام ئے الپرواہی
سے کبدھے احکائے۔ چنہ کی وجہ سے وہ شکون میں تھا کہ رنان اور دامیر اس کو کجھ
نہیں کہہ شکنے تھے۔
”و نسے مس علتبا آپ میں اور مجھ میں زنادہ فرق بو نہیں۔“ اجانک لبام کے
تکارئے پہ علتبا ئے چیران ہوئے اس کو دنکھا ت ھر دامیر کو ،جبکہ دامیر کی سرد تگاہیں
لبام کو ہی گھور رہی تھیں اسے اب سمجھ آنا تھا کہ رنان کی تھرکی ک نوں گھوم رہی
تھی۔
جم س
”کبا مطلب؟“ علتبا ئے نا ھی سے بوچھا۔
”میں آپ سے نس دو شال ہی چھونا ہوں اور تھر ہمیں پہ مار دھاڑ نسبد تھی
نہیں ہے نا۔“ لبام معصوم نتبا علتبا سے بوال بو علتبا کو جٹسے انبا نجھڑا تھانی مل گبا۔
اس کے چہرے پہ تھی مابوسی چھا گنی۔
دامیر ئے لبام کو دنکھا تھر علتبا کو۔
”علتبا اتھو ناہر الن میں جلو ،فرنش انیر لو۔“ اس سے نہلے لبام مزند کجھ کہبا
دامیر علتبا کی طرف پڑ ھنے ہوئے بوال۔
وہ نبا کجھ کہے اتھ کھڑی ہونی لبکن جائے سے نہلے انک مشکرانی تظر لبام پہ
ڈالی۔
کمرے کا دروازہ نبد کرئے دامیر ئے علتبا کا ہاتھ تھاما کہ وہ ندک کے ننجھے
ہنی۔
”ہاتھ ک نوں نکڑ رہے ہو میرا؟“ وہ نانسبدندہ انداز میں بولی کہ اس کے نبا نبائے
جائے پہ تھی وہ عصہ تھی۔
”نمہاری مبڈنسیز کہاں ہیں؟“ دامیر ئے ضیط کرئے سنجبدگی سے بوچھا۔ خود وہ
ن ت ت تن ن
ہاتھ کڑے ھی ھی اب اس ئے کڑا بو اغیراض تھا مبڈم کو۔
”مجھے نہاں الئے سے نہلے تم ئے نبانا نہیں تھا ورپہ میں انبا شامان تھی شاتھ
لے آنی۔“ وہ نبک بولی اور اس کو تظرانداز کرنی ہونی الن میں جلی آنی۔
رات کے اور اب کے انداز میں فرق تھا۔ وہ اب ندنمیزی سے نات کر رہی تھی
جسے وہ کڑوے گھونٹ سمجھ کے نی رہا تھا لبکن پہ زنادہ دپر نک پرداشت نہیں ہونا
تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”سر ،جارج سر کا اکبڈمی سے فون ہے وہ آپ سے نات کرنا جا ہنے ہیں۔“
ڈرنک فون لنے رنان کے ناس آنا۔
اس وفت آرمری میں کھڑے وہ لوگ اگلے ہوئے والے چملے کے نارے میں
ڈشکس کر رہے تھے۔
رنان ئے فون ڈرنک کے ہاتھ سے لبا اور مصروف انداز میں کان سے لگانا۔
”رنان ڈی استبکبگ!“
دوسری جانب سے سر جارج کی آواز گونچی خو اس کو ہبڈ ہوئے کی مبارک دے
رہے تھے۔
ل ش م ہ تض ت
”نہت خوش نی کہ آپ ئے یں وفت دنا۔“ ان کا م کرانا ہحہ سبانی دنا
کہ رنان کے ہون نوں پہ اسبہزاننہ مشکراہٹ اتھری۔
”انبا مطلب ہو بو وفت صا تع کرئے میں کبا خرج ہے۔“ رنان کی نات ستنے
جٹسے جارج کی مشکراہٹ سمٹ گنی۔
”مجھے مغلوم ہوا تھا کہ آپ کو کجھ آدم نوں کی ضرورت ہے۔“ نبا نمہبد ناندھے
وہ مدعے پہ آئے تھے کہ نہاں خوش آمد کرئے کا کونی قاندہ نہیں تھا۔
”آپ کتنے آدم نوں کا ارننج کر شکنے ہیں؟“ رنان نتبل کے گرد سے اتھ گبا اور
جلبا ہوا شانبڈ پہ آنا۔
”پہ نات آپ کی کی گنی نتمنٹ پہ انحصار کرنی ہے۔“ وہ طیزپہ بولے۔
”آپ مجھے آدم نوں کی گتنی نبانیں اگلے کجھ منٹس میں نتمنٹ رنسنو ہو جائے
گی۔“ رنان ئے کہنے ڈرنک کو اشارہ کبا۔
”شات پرنبڈ آدمی آپ کو مل جانیں گے۔۔“ جارج ئے شاتھ ہی ان کی فتمت
نبانی۔
”ڈرنک نتمنٹ ڈن کرو۔۔ ہمیں اگلے خونٹس گ ھت نوں کے اندر آدمی نہاں جا ہنے۔“
سر جارج کے مت نت خواب پہ رنان ئے کال کاٹ دی۔
چنہ اس وفت نہاں موخود نہیں تھی۔
”دامیر تم سنور ہو کہ علتبا کے تغیر تم وفت گزار شکنے ہو؟“ شارے مغا ملے
طے کرئے کے تغد رنان ئے سنجبدگی سے دامیر کی طرف دنکھنے بوچھا۔ دامیر ئے اس
کو سحت تگاہوں سے گھورا۔
”نمہاری ئےنانباں تھی شب سے چھنی نہیں رنان۔۔“وہ البا اس کو جبا کے بوال
کہ دوبوں کی گھوربوں پہ ڈرنک محظوظ ہوئے لگا۔
شارا دن دامیر کا رنان کے شاتھ مصروف رہا تھا کہ دونارہ علتبا سے کونی نات ہی
پہ ہونی ۔ کھائے سے قارغ ہوئے علتبا اوپر والے بورشن میں آگنی بو اسے اندازہ ہوا کہ
دن کے مقا نلے رات میں نہاں زنادہ شکون ملبا تھا۔
وہ کرسی پہ نتتھے ناہر دنکھنے لگی چہاں رات جگمگا رہی تھی اور منٹشن کی النٹس
کی وجہ سے الن کا تطارہ اچھا لگ رہا تھا۔
ا ننے ننجھے آہٹ محسوس کرئے پہ اس ئے خونک کے گردن گھمانی ،دامیر کاقی
کا مگ ہاتھ میں تھامے نہاں آرہا تھا۔ رات کے آتھ نج رہے تھے۔
”کل میرے شاتھ ڈاکیر کے ناس جانا ہے۔۔“ وہ سنجبدگی سے کہبا ہوا اس کے
ناس رکھی کرسی پہ نتتھ گبا۔ علتبا جاموش رہی۔
”نمہاری ربورنس میں ئے مبگوا لی ہیں لبکن انک نار نہاں سے پراپر جبک اپ ہو
جائے بو مجھے نشلی ہو جائے گی۔“ کاقی کا گھونٹ تھرئے وہ تھر بوال۔
علتبا کا پہ ن یگاپہ ین اس کو جتھ رہا تھا آخر وہ ک نوں نہیں سمجھ نا رہی تھی اس
شب کو۔ جان بوچھ کے اس کو مسکل میں ڈال رہی تھی۔
”میں کونی زپردسنی نہیں جاہ رہا علتبا ،نمہیں وفت دنا ہے لبکن اس مغا ملے میں
نمہاری الپرواہی پرداشت نہیں کر شکبا۔“ وہ کجھ پہ بولی کہ دامیر انبا کاقی کا کپ
اتھائے وہاں سے جائے کے لنے کھڑا ہوا۔
”نمہیں لگبا ہے کہ مجھے پہ شب بوچھ لگ رہا ہے؟“ علتبا اس کی نات پہ
مڑئے ہوئے نبکھے انداز میں بوچھنے لگی۔
”میں وہ کہہ رہا ہوں خو مجھے تظر آرہا ہے۔“ دامیر کا سرد لہحہ نہت کجھ جبا رہا
تھا ،وہ وانس مڑ گبا۔ علتبا ئے مالمنی تگاہوں سے اس کو نشت کو دنکھا۔
شاند دامیر تھبک کہہ رہا تھا ک نونکہ اس ئے شام کا کھانا تھی تھبک سے نہیں
کھانا تھا۔ خود بو وہ دامیر کو مشلشل تظر انداز کر رہی تھی لبکن دامیر تھی اس سے اب
پرمی نہیں دکھا رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کاقی دپر نہاں نتتھنے کے علتبا کا دل چب وانس جائے کو کبا بو اتھ کھڑی
ہونی۔ نیرس سے اتھی تکلی تھی کہ اس کو اوپر والے بورشن کے ہال میں النٹ جلنی
محسوس ہونی وہ اس طرف آنی بو دنکھا کہ دامیر نیر سبدھے کنے نتبل پہ ر کھے ہوئے تھا
اور گود میں موخود لنپ ناپ پہ اتگلباں جل رہی تھیں۔
وہ وانس نہیں گبا تھا نہیں موخود تھا لبکن تھوڑا قاصلے پہ۔ علتبا کو آنا دنکھ وہ نیر
ش کن
ننچے کنے اتھ ک ھڑا ہوا۔ آ یں م لنے ہوئے اس ئے نالوں یں ہاتھ ھیرا۔
ت م ھ
دامیر اس کو نیرس پہ اکبال نہیں چھوڑنا جاہبا تھا نتھی تھوڑے قاصلے پہ رہا کہ وہ
انبا وفت اکبلے گزار شکے۔
جائے علتبا انبا روپہ کب اس سے تھبک کرنی ،اس کی ئےرجی کا خواب اب
وہ تھی ا ننے انداز میں دے گا ناکہ جلد ہی وہ الین پہ آجائے۔
علتبا آہشنہ سے ز ننے اپرئے لگی نب دامیر تھی اس کے ننجھے اپرئے لگا۔
اس کا آج تھی ارادہ تھا کہ وہ دوسرے کمرے میں شوئے لبکن ننجھے دامیر کو
گ ھ کن
وہ خور تگاہوں سے د نی ا ننے ہی کمرے کی طرف نی۔
”تم فرنش ہو جاؤ میں کھانا ال رہا ہوں۔“ دامیر نبڈ پہ انبا لنپ ناپ رکھبا اس سے
بوال۔
”مجھے تھوک نہیں ہے۔“ اس سے نہلے وہ ناہر تکلبا علتبا کی آواز پہ رک گبا۔
وہ کھڑی تھی اور دامیر جلبا ہوا اس کے فرنب آنا۔
”میں تم سے بوچھ نہیں رہا نبا رہا ہوں۔“ اس کی آنکھوں میں سرد ین اپر آنا۔
علتبا سہم سی گنی۔ اس میں کونی پرائے دامیر کی چھلک نہیں تھی۔ اس وفت علتبا
کو وہ دامیر تظر آنا تھا جس سے وہ نہلی نار ملی تھی۔
”تم مجھ پہ عصہ نہیں کر شکنے۔“ اس ئے کمزور سے لہچے میں کہا کہ دامیر
ت جم س
کے ہونٹ مشکراہٹ میں ڈ ھلے۔ اب اگر وہ اس کو اشاشن دامیر آر ہی ھنی ھی بو
تھبک۔ دامیر وہی ین کے دکھائے گا۔
”میں عصہ نہیں اس کے عالوہ تھی نہت کجھ کر شکبا ہوں۔“ درمبان میں
موخود قاصلہ تھی انک قدم فرنب آئے جتم کبا کہ علتبا ئے گردن اونچی کرئے اس کو
دنکھا۔
ک م ل س ن چ ت ُ
”اور م اس سے ا ھے سے وافف ہو پر ٹس۔۔“ اسبہزاننہ ہچے یں ہنے اس
کے رجشار کو ہلکے سے چھوا ،علتبا کی آنکھوں میں شکوہ اتھرے۔
”کھانا ال رہا ہوں ،تھبک سے نہیں کھانا تم ئے۔“ دامیر کی تگاہ اس کی گردن پہ
گنی ،دل کبا کہ وہاں انبا لمس چھوڑے لبکن ناراصگی جبانی تھی بو ننجھے ہٹ گبا۔ علتبا
ئے تھرانی آنکھوں سے اس کو دنکھا ،وہ روئے کو نس نبار تھی۔
چب وہ اننی انا کی دبوار کھڑی کنے ہوئے تھی بو دامیر ک نوں سبگ دل نبا تھا۔
اب پہ نبا دکھ تھا۔
پرے میں کھانا الئے اس کے شا منے رکھا خو دامیر کو مشلشل گھور رہی تھی۔
اس ئے کھانا سروع کر دنا ،دامیر فرنش ہوئے جال گبا۔ چب نک وہ وانس آنا وہ
م ک ت ج ت ج ت ً
ن
فرنبا کھانا م کر کی ھی۔ خود پہ سیرے کرئے اس ئے پرے اتھانی اور چن یں
رکھ کے آنا۔
اب وہ اس کو تظر انداز کر رہا تھا۔
”کٹسی مجنت ہے نمہاری ،میری جاطر تم میری نات نہیں مان شکنے۔“ اس کے
نبڈ پہ نتتھنے پہ علتبا ئے کہا۔
وہ النٹس ،دروازہ نبد کر حکا تھا۔ اب اس سے کروٹ لنے لنٹ گبا۔ علتبا
ئےتفتنی تگاہوں سے اس کی نشت کو دنکھنے لگی۔
پہ بو کونی اور ہی دامیر تھا۔
”نمہیں اب میں پری لگنے لگی ہوں نا خو میری نات کا خواب تھی نہیں دے
رہے۔“ اس کے خواب پہ د ننے پہ وہ طیزپہ انداز میں خوٹ کرنی ہونی بولی اور ک یفرپر
خود پہ لتنے لگی۔
”اننی پری کہ نمہاری موخودگی میں شکون کی نتبد شو رہا ہوں۔“ دامیر کی آواز
اتھری جس پہ علتبا ئے اس کو دنکھا۔
”دامیر تم۔۔۔“ اس سے نہلے علتبا تھر سے کونی پرانی نات دہرانی دامیر ئے
سجنی سے بوک دنا۔
”جاموسی سے نتبد بوری کرو۔“ علتبا ئے ہاتھ آگے پرھائے دامیر کے نالوں کو
متھی میں تھرا اور زور سے ک ھتنحا۔
”تم انک نمیر کے ندنمیز ،طالم اور ئےرچم شوہر ہو جسے ن نوی سے نات کرئے کی
نمیز نہیں۔“ اس کے کبدھے پہ ہاتھ مارئے وہ جنچی تھی کہ دامیر اننی امڈ آئے والی
مشکراہٹ کو ضیط کر کے رہ گبا۔
”شو رہی ہو نا میں کجھ کروں۔“ اس کے ہاتھوں کو گرفت میں لتبا ہوا سجنی
سے بوال کہ وہ تھم گنی۔
س
”نہیں شونا مجھے۔ مجھے تم۔“وہ اس پہ جنچی چب دامیر اتھا اور سرد تگاہوں سے
گھورئے لگا۔ علتبا اس کے ہاتھ چھبکی ہونی لنٹ گنی۔ اس کے اجانک اتھنے پہ وہ
گ ھیرا ہی بو گنی تھی۔
”مجھ سے ا ننے دبوں سے ئےرجی پرنی ہے چب میں ئے انشا کبا بو پرداشت
نہیں ہو رہا۔“ وہ پڑپڑانا اور اس پہ ک یفرپر تھبک کبا شاتھ ہی اس کے فرنب ہوا اور انبا
نازو اس کے گرد ناندھا۔
”اب دور رہو مجھ سے۔“ وہ البا اس پہ چ ھتنی لبکن وہ نہیں ہبا۔ نہی بو وہ شکون
کے نل تھے خو بورے دن تغد محسوس کرنا تھا اس کو ا ننے فرنب نا کے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کل ان شب کو نہاں سے تکلبا تھا۔ لبام کی طت یغت اب نہیر تھی جبکہ رنان
کے شاتھ اب دامیر تھی اس سے خڑ رہا تھا ک نونکہ ان دوبوں کی ن نوناں اس کو وفت
دے رہی تھیں۔
چیر اس سے وہ تغد میں ن نٹ لیں گے۔
اتھی رنان گودام میں موخود اننی آئے والی سبالنیز جبک کر رہا تھا خو آج ہی نہاں
نہنحا تھا۔ ان نک ونئیز(اشلحہ) نہاں نک سمگل کبا گبا تھا اور پہ ان کا کام تھا۔
رنان ہر پڑے ناکس کو اننی نگرانی میں جبک کر رہا تھا۔ چب اس کو ڈرنک ئے
جارج کی طرف سے آئے والے آدم نوں کی اطالع دی۔ وہ سر ہالنا ہوا ناہر آنا۔ دامیر
ناقی شاری ڈبواپز جبک کر رہا تھا اور چنہ انک نار شاری لوکٹشن کو مارک کر رہی تھی۔
ت مکم
ان کی نباری ل ھی۔
”انبا جبال رکھبا اور مجھ سے را تطے میں رہبا ،انک نل تھی راتطہ جتم نا کرنا مجھ
سے۔“ لبام چنہ کے ناس آئے ہوئے بوال۔ اس کی نانگ اب تھبک تھی۔ چنہ الن
میں موخود تھی۔ شارے گارڈز ،اشلحہ لٹس آدمی منٹشن کے نحائے گودام والے حصے
میں موخود تھے۔
علتبا کا نہلے کی نانسنت موڈ آج زنادہ خراب تھا۔ دامیر اس کو ڈاکیر کے ناس
لے گبا تھا اور پراپر جبک اپ کروانا تھا۔
وہ گالس ڈور کے ناس کھڑی نس شب کو کام میں مصروف دنکھ رہی تھی۔
اب اس کو دو نین دبوں کے لنے نہاں اکبلے رہبا تھا۔ خوصلہ تھا کہ لبام تھی شاتھ ہو
گا اس کے۔ وہ نہاں رہ کے شارا کمت نوپر شستم ستتھا لنے واال تھا اور نہیں سے ان کو
گانبڈ کرئے واال تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
شارے آدمی انک فطار میں کھڑے تھے ،رنان ان سے منتبگ کر رہا تھا اور
شب کو ان کی لوکٹشن کے نارے میں نبا رہا تھا۔ چنہ تھی اس کے شاتھ موخود تھی
ت ت تچ ل ن
جبکہ دامیر اندر کی طرف پڑھا چہاں علتبا اداس ہرہ نے ھی ھی۔
”تم ئے پرنشان نہیں ہونا ہم دو دن تغد نہاں موخود ہو نگے اور میں چب تھی
نمہیں مٹسج کال کروں اننی ناراصگئ تھالئے تم میری ہر کال کو رنسنو کرو گی۔“ وہ
ت تن ن ن ت ت تن
صوفے پہ ھی ھی چب دامیر اس کے شا منے نچے کے ل ھبا ہوا رشان سے
سمجھائے لگا۔ دامیر ئے اس کے ہاتھ تھامے تھے۔
علتبا کو سمجھ پہ آنی کہ اس وفت وہ کبا نات کہے اس سے ،اس کے جائے
سے دل اداس ہو رہا تھا۔ وہ نہاں اکبلی ہو گی۔ ناراصگی کہاں تھی اب۔ اس کے دور
ہوئے پہ اداس تھی۔
”تم شب کو انک شاتھ جائے کی کبا ضرورت ہے۔“ وہ آہشنہ آواز میں بولی۔
دل میں انک وہم شا تھا کہ ان کے جائے کے تغد نہاں کونی گڑپڑ پہ ہو جائے۔
”ضروری ہے جانا۔۔ نہت ضروری ہے ورپہ میں نمہارے ناس ہی رہبا۔“ اس
کے چہرے پہ ہاتھ رکھنے وہ پرمی سے بوال۔
”تم مجھے چھوڑ کے جا رہے ہو۔“ وہ روہانشا ہونی۔
”نہیں پرنسٹس۔۔“ وہ اتھ کے اس کے ناس نتتھا۔
”نمہیں چھوڑ کے مرنا ہے میں ئے؟“ وہ مشکرائے ہوئے اس کو ا ننے شاتھ لگا
گبا۔
”طالم ئےرچم ضرور ہوں لبکن اننی نات کا تکا ہوں ،تم میری ہو بو نمہیں
چھوڑئے کے لنے نہیں انبانا۔ ہم اننی جان دے دیں گے لبکن نات سے نہیں
تھریں گے۔“ اس کی آنکھوں میں دنکھبا ہوا وہ سنجبدگی سے بوال کہ ئےشاچنہ علتبا ئے
اس کے ستنے پہ سر رکھا۔
”میں نمہیں نہت مس کروں گی۔“ وہ اغیراف کرگنی۔ دامیر ئے اس نار نہیں
بوچھا تھا لبکن وہ خود مان گنی تھی۔
”ا ننے دبوں تغد نمہارا خود ناس آنا شکون بو دے گبا ہے ،نہلے جبال ک نوں نہیں
آنا۔“ وہ تھوڑا سرپر لہچے میں بوال کہ علتبا تھوڑا حقگی سے اس کو دنکھنے لگی۔
”انبا جبال رکھبا۔ تم میرے خواشوں پہ چھائے والی ہو اب۔“ دامیر اس کے
ما تھے کو چھوئے ہوئے بوال اور دوسری نات دل میں شوچ کے رہ گبا۔ اس سے دور رہ
کے کام پہ فوکس کرنا مسکل ہی تھا لبکن ان کو کرنا تھا۔
ک نونکہ پہ معصوم زندگ نوں کا شوال تھا اور انہیں اس میں کامباب ہونا تھا۔ شب
م ھ کن
سے زنادہ پرخوش چنہ تھی جس کو د نے رنان فجر حسوس کر رہا تھا۔
اس کا اننحاب اچھا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج رات نک شب ئے اننی اننی لوکٹشن کی جانب تکل جانا تھا۔ کونی تھی شپ
منٹ انک ہی جگہ سے نہیں جائے والی تھی۔ نتبکرز کا الگ الگ روٹ تھا اور رنان
ئے شب کو ان کی لوکٹشن گانبڈ کر دی تھی۔ تھوڑی دپر میں ہی وہ شب ا ننے ا ننے
آدم نوں کو لے کے تکل جائے۔
جس روٹ سے زنادہ نتبکرز جائے تھے دامیر ،رنان ،چنہ اسی طرف جائے والے
تھے۔
آج وہ لوگ نانی انیر نہیں نانی روڈ ہی شفر کرئے جا رہے تھے جس میں گھت نوں
لگ جائے۔
دامیر الگ گاڑی میں تھا جبکہ رنان اور چنہ انک ہی گاڑی میں۔ چب سے شفر
سروع ہوا تھا چنہ جاموسی سے ناہر دنکھ رہی تھی۔ اس ئے نہلے تھی نہت دفع لوگوں
کی آنکھوں میں دھول چھونکی تھی اور معصوم لوگوں کو نازناب کروانا تھا لبکن اس نار
انک شاتھ زنادہ تھے۔
انسباء سے بورنین ممالک نک انشابوں کی سمگلبگ نہت عام تھی اور کیرت سے
پہ کام جاری تھا لبکن کم عمر لڑکباں نحفوں میں دی جانی تھیں۔
چنہ سے انک نار میں ا ننے لوگوں کو چھڑوانا ناممکن شا تھا لبکن اس سے جتبا ہو
شکبا وہ اجانک انبک کر کے دوسروے لوگون کے شستم ہبک کر د ننی تھی ناکہ اسی
دوران وہ لوگوں کو چھڑوا شکے۔
س
تمنٹس واال کام مسکل تھا۔ انک جائے ہوئے نتبکر پہ چملہ کرنا نہت جبلنجبگ
تھا۔ وہ اندر ہی اندر نہت زنادہ گ ھیرانی ہونی تھی۔
رنان کے لوگوں پہ اس کو تھروسہ تھا لبکن اگر ان دس نج نوں میں سے کونی تھی
رہ جانی بو چنہ خود کو مغاف پہ کرنی۔
کھڑکی پہ کہنی تکائے وہ رات کے مباطر دنکھ رہی تھی جبکہ اندر اصظراب کی انک
جبگ چھڑی ہونی تھی۔
رنان اس کے پراپر میں نتتھا اس کو نکنے میں محو تھا۔
”ہم کامباب ہو نگے خود پہ تھروسہ رکھو۔“ رنان ئے اس کی جالت کے نٹ ِش تظر
اس کے ہاتھ پہ انبا ہاتھ رکھا۔ چنہ ئے خونک کے اس کو دنکھا۔
”میں جاننی ہوں…“ وہ مضنوط لہچے میں بولی اور رنان کو انک مشکراہٹ ناس
کی۔
”نمہیں ا ننے آدم نوں پہ بورا تھروسہ ہے نا کہ وہ کر لیں گے۔“ تھوڑی دپر کی
ھ کن
جاموسی کے تغد چنہ اس کی طرف د نی ہونی بولی۔
”ہاں وہ شب قانل ہیں۔ شب تھبک ہو گا اور ہر لڑکی محفوظ رہے گی۔“ رنان
پرتفین لہچے میں بوال۔ چنہ تھر سے ناہر دنکھنے لگی۔
پہ اس کی زندگی کی شب سے پڑی شپ منٹس تھیں خو روکنی تھیں جتھی اسے
ناف نوں کے شاتھ خود کو تھی پرامبد رکھبا تھا۔
اس کا دل اندر سے کانپ رہا تھا لبکن تطاہر وہ الپرواہ سی دکھانی دے رہی تھی۔
چب سے وہ اکبڈمی سے قارغ ہونی تھی اس کا نہی زندگی کا مقصد رہ گبا تھا اور اس
کو بورا کرئے کو وہ ہر جد نک جا شکنی تھی۔
رات کی گہرانی ہر طرف تھبلنی جا رہی تھی۔ چنہ کی آنکھوں سے نتبد کوشوں دور
تھی ،اس کی جاموسی رنان کو مشلشل کھل رہی تھی۔
جبکہ دوسری جانب ان کی گاڑی کے ننجھے آنی گاڑی میں نتتھے دامیر کے
چہرے پہ سرد ناپر چھانا تھا۔
اس کے دل کو پہ شکون تھا کہ آئے ہوئے علتبا کے روئے میں کجھ فرق پڑا
تھا۔ اس کا دل تھوڑا نگھال تھا وہ موم ہونی تھی اس کے نبار کے آگے۔ اس کے
ت گ گھن
جائے کا ستنے وہ لی اور جھ بو ا نے نبار کا اغیراف کر نی ھی کہ اسے دامیر کی
ن ک
قکر ہو گی….وہ اس کو ناد کرے گی۔
گاڑی کی نجھلی سنٹ پہ نتتھے اس ئے مونانل تکاال اور علتبا کی تصوپر کو دنکھنے
لگا۔ وہ مشکرا رہی تھی کسی نات پہ۔
اس کے ہون نوں پہ مشکراہٹ سی نکھر گنی ،گہرا شانس تھرا اور مونانل کو وانس
ناکٹ میں رکھا۔ جلد ہی اس مشن سے کامباب ہو کے وہ وانس علتبا کے ناس جائے
گا۔ شاری ناراصگی دور ہو جائے گی وہ تھر سے نارمل اس کے شاتھ رہے گی ہر چیز کو
ف نول کر کے۔
اجانک انیر نٹس پہ ن نپ ہوا اور ڈرنک کی آواز اتھری۔
ن
”سر ہم اننی لوکٹشن پہ ہنچ جکے ہیں۔“
اس ئے اطالع دی بو شب خرکت میں آئے۔
ً
”کبا وہاں کونی غیر معمولی لگا؟“ رنان ئے فورا بوچھا۔
”سر اتھی نک بو جاموسی ہی چھانی ہونی ہے۔ ہمارے نالکل شا منے دو پڑی
گاڑناں دکھانی دے رہی ہیں۔“ ڈرنک ئے آس ناس دنکھنے ہوئے اتقارم کبا۔
ً
”تم اننی بوزنشن لے لو اور چب محسوس ہو کہ نارگنٹ آشان ہے فورا ان ک کرنا
ب
ہے۔“ ڈرنک کی نات ستنے وہ سر ہالئے ہوئے بوال اور لنپ ناپ انک نو کرئے نیزی
سے لوکٹشن کو اناالپز کرئے لگا۔ اسے واصح ڈرنک اور نین آدم نوں کی لوکٹشن دکھانی
دے رہی تھی۔ شکرین پہ جار گرین ڈانس تظر آرہے تھے۔
”پہ سٹشان جگہ بو نالکل نہیں ہے بو نمہیں نہاں قاپرنگ کرئے وفت اجتباط
کرنا پڑے گی۔“ رنان ئے لنپ ناپ پہ تگاہیں چما کے کہا۔
دامیر ئے وہ عالقہ شارا نہلے ہی ا ننے انڈر کور کر لبا تھا ناکہ وہاں کے چھنے را سنے
تھی اس کو مغلوم ہوئے۔ ا ننے شاتھ وہ دو آدم نوں کو لنے جا رہا تھا۔ ضرورت بو اس
کو کسی کی نہیں تھی لبکن رنان کے اضرار پہ وہ ناجار مان گبا۔
دامیر کی انک گاڑی پہ تھی جس میں وہ خود موخود تھا اور آگے سنٹ پہ انک
آدمی ڈران نو کر رہا تھا۔
اس کے شاتھ ہی انک اور گاڑی تھی جس میں دو ہی آدمی موخود تھے۔ وہ ا چھے
جاصے اشلچے کے شاتھ نہاں آئے تھے۔
م
”میں تم لوگوں سے علنحدہ ہوئے لگا ہوں ،انبا کام کمل کرئے ہی تم لوگوں کو
خواین کروں گا۔“ وہ لوگ پرن لے رہے تھے چب دامیر ئے ان کو اطالع دی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کاقی دپر ڈران نو کرئے تغد وہ لوگ انک جگہ پہ نہنچے چہاں سے کجھ دور ہی شاجل
تظر آرہا تھا۔ انہوں ئے اننی گاڑناں نارک کیں اور چہرے پہ ماشک خڑھا لبا۔
رات کی نارنکی میں وہ اسی کا نارنک حصہ تھے۔ اننی اننی گن ستتھالے انہوں
ئے آس ناس جاپزہ لبا۔
شاجل سمبدر کے انک طرف انہیں ہلکی سی روسنی دکھانی دی۔ رنان ئے
ئےشاچنہ ہاتھ پہ نہنی رشٹ واچ پہ وفت دنکھا۔
شاڑھے نین کے فرنب کا وفت تھا ،اسی وفت وہ لوگ نہاں سے تکلبا جا ہنے
تھے۔ وہ کھلم کھال انبک نہیں کرئے والے تھے۔ انہیں چ ھپ کے وار کرنا تھا ناکہ
کونی تھی ہڑپڑی پہ ہونی اور کننئیر شفٹ ہوئے سے نہلے ہی ہاتھ لگ جائے۔
”وہ نمہیں فیری تظر آرہی ہے؟“ چنہ ئے رنان کی بوجہ سمبدر میں نہت آگے
جلنی انک کسنی کی جانب م نوجہ کبا۔
م ُ
”نہیں آرہی ہے۔ یں اس طرف پڑ نی ہوں م لوگ نہاں کی صورت جال کو
ت ھ
قابو کرو۔“ چنہ ماشک کو تھوڑی نک کرنی ہونی بولی اور چھاڑبوں کی طرف پڑ ھنے لگی
لبکن رنان ئے اس کا ہاتھ تھام لبا۔
”اکبلی نہیں جاؤ گی تم اور اس فیری کو پزدنک آئے دو نشاپہ آشان رہے گا۔“
رنان سنجبدگی سے بوال۔
اس ئے گلے میں لبکنی دور نین اتھانی اور چہاں سے روسنی آرہی تھی وہاں دنکھنے
لگا۔
”انک دو ،جار اور… .نانچ۔ نس نانچ آدمی۔“
چھونیڑی کی طرف جا رہی تھی۔ اسے عصہ شا آئے لگا کہ اس کا ان یطار کرنا جا ہنے تھا۔
نبا نبائے وہ آگے ک نوں پڑھی۔
ُ
چنہ اب چھک کے نہیں نلکہ سبدھا تھاگ رہی تھی۔ اس کی سمت اس فیری
ن
کی طرف تھی خو اب شاجل کے فرنب ہنچ جکی تھی۔
وہ انک نل کو رکی اور فیری میں موخود لوگوں کے نشائے ناندھے۔ دو آدمی گر
گنے۔
”ان کا نلین جتنج ہے نہاں کجھ تھی نہیں ہے۔۔“ چنہ کی آواز عصے سے
اتھری۔
”دامیر۔۔۔“ چنہ ئے اس کو تکارا۔
رنان اس چھونیڑی نک نہنحا بو وہاں اشلحہ اور کوکین کی نبکٹس نبار کنے جا رہے
تھے لبکن وہ نتبکرز موخود پہ تھے جن کا انہیں علم تھا۔
”تم لوگوں کی دانیں جانب دنکھو۔۔ پہ کجھ تھی نہیں تھا۔ وہاں اندھیرے میں
ً
سٹس جائے والی ہیں۔ دوسری طرف پڑھو۔“ دامیر ئے فورا کہا بو چنہ ئے سر ھ یکا۔
چ
وہ نہاں انبا کاقی وفت پرناد کر جکے تھے۔
ان کو فوری نہاں سے دوسرے کبارے کی طرف پڑھبا تھا۔
”اتقارمٹشن علط تھی۔“ رنان عصے سے تھ یکارا اور ا ننے آدم نوں کے شاتھ وہ لوگ
انک نو ہوئے اور صجنح جگہ کی طرف لبکے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نہاں دامیر ئے ا ننے شاتھ موخود آدم نوں کو نشاپہ ناند ھنے کو کہا تھا ،انہیں
دوسرے لوگوں کو نہیں ڈاپرنکٹ ڈران نور کو نارگٹ کرنا تھا ناکہ تھا گنے واال کونی پہ ننے۔
وہ لوگ نلڈنگز کے اندر چھنے تھے اور شارپ شوپرز تھے۔ ان پڑے نتبکرز کے
ڈران نور جٹسے ہی نتتھے انہوں ئے گتنی گتنے انبا انبا قاپر کبا۔ پہ نارگنٹ آشان تھے لبکن
ان کو پہ مغلوم نہیں تھا کہ کس نتبکر میں لڑکباں موخود تھیں۔
”تم لوگ انبا نشاپہ ناندھ رکھو ،میں آگے جا رہا ہوں۔“ دامیر انبا کہہ کے نلڈنگ
سے تکلنے اس سڑک پہ آگبا چہاں پڑے لوڈر کنتبکیرز کھڑے تھے۔ ناس ہی ونیر ہاؤس
تھا ضرور وہاں مزند آدمی موخود ہو نگے۔
دامیر انک گاڑی کے فرنب گبا اس کا نجھال دروازہ الک کبا گبا تھا۔ اس ئے
آدم نوں کو انک نو ر ہنے کا کہا ک نونکہ وہ الک کو قاپر کر کے بوڑئے واال تھا ا نسے میں
گودام سے لوگ ضرور ناہر تکلنے بو پروفت ان کا نشاپہ لبا جانا۔
انشا ہی ہوا… اس ئے قاپر کبا اور ناال بونا۔ لوہے کا پڑا شا بولٹ لگا تھا اس کو
زور لگائے کھوال بو اندر سے انک آدمی تکال۔ دامیر خوکبا ہوا اور پروفت شانبڈ ہوئے اس
انشان کے ہاتھ پہ قاپر کرئے ما تھے پہ نشاپہ لبا۔
دامیر شانبڈ ہو گبا تھا کہ اگر کونی اور تھی اندر ہوا بو وہ ناہر آجائے گا۔
”کونی ہے اس میں؟“ دامیر ئے نلڈنگ میں چھنے ا ننے آدمی سے بوچھا۔
”نہیں سر دروازے نک کونی نہیں آنا۔۔“
پہ ستنے ہی دامیر اس کھلے لوہے کے دروازے کے شا منے آنا اور اننی گن نانی۔
اندر مجبلف شانیز کے لوہے اور لکڑی کے ناکس موخود تھے اور انہیں میں انک اور
لوہے کا نکشہ تھا جس پہ ناال لگا تھا۔ وہ ناف نوں سے شانیز میں پڑا اور مضنوط لگ رہا تھا۔
وہ نیزی سے اوپر خڑھا اور اس نالے پر گولی جالئے اس کو کھوال۔ اندر دو لڑکباں
تھیں۔ بو سے نارہ شال کے درمبان۔ شقبد نیروں نک آنی نارنک سی فراک میں۔ نال
نکھرے۔ ان کا جلنہ ونشا ہی جٹسے جشمانی عالموں کو رکھا جانا تھا۔
وہ آگے پڑھا بو مارے خوف کے وہ جال اتھیں۔ خوف اندر نک سما گبا تھا انہیں
چیر پہ تھی کجھ تھی۔ اس کے مطابق انک درندے سے دوسرا درندہ بو جنے آنا تھا۔
آواز پہ دامیر نہلے ننچے اپرا اور اس کے ننجھے ہی دوبوں ناری ناری نانگیں نچے کنے
کبارے پہ نتتھیں۔ کنتبکیر کاقی اونحا تھا دامیر ئے ناری ناری دوبوں کو تھام کے ننچے
انارا۔
ان کو ر کنے کا اشارہ کرئے دامیر ئے شانبڈز کو جبک کبا۔ اتھی نک جاموسی
چھانی تھی۔ موفع کا قاندہ اتھائے دامیر آہشنہ سے بوال۔
”تھاگو۔۔۔“
دامیر کے کہنے پہ وہ تھاگبا سروع ہونیں۔ اس سباہ رات میں وہ دو نجباں کسی
آسنب شگ تھاگنی ہونی دکھانی دیں۔
انک شکون تھری شانس دامیر ئے جارج کی۔ شکر تھا کہ نہلے ہی کننئیر میں
اس کو لڑکباں مل گنی ت ھیں۔
”لڑکباں آرہی ہیں گاڑی کی طرف۔“ دامیر ئے گاڑی میں موخود آدمی کو کہا۔
دامیر وانس مڑا اور نلڈنگز کی جانب دنکھنے لگا۔
”انک نو رہبا۔“ وہ سنجبدگی سے بوال۔
اس کا رخ اب دوسرے کننئیر کی طرف تھا۔ اس کو الک نہیں لگانا گبا تھا اور
بولٹ کھول کے وہ اندر گھشا۔ اندر تھلوں کی ننتباں رکھی گنیں تھیں جن میں تھل بو
نہیں تھے الننہ ”نشہ“ ضرور تھا۔
اس ئے ناری ناری شب جبک کبا اور ننچے اپرا۔ وہ نٹسرے کی طرف پڑ ھنے لگا
تھا کہ اجانک قاپر کی آواز گونچی۔
گودام سے لوگ ناہر تکلبا سروع ہو گنے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
م
پہ جگہ کمل اندھیرے میں ڈونی تھی۔ روسنی کے نام پہ انک نارچ تھی لوگوں
کے ناس۔ وہ لوگ عحلت میں دکھانی دے رہے تھے۔
رنان ئے دور نین کے زر تعے دنکھبا جاہا لبکن نارنکی نہت زنادہ تھی وہ زنادہ لوگوں
کو پرنک نہیں کر نانا تھا۔
”رنان پہ وفت نہیں ہے نلین کا ہمیں سبدھا انبک کرنا ہے۔“ چنہ دانت نٹسنی
ہونی بولی اور اس ئے اننی گن کو انک نار تھر لوڈ کبا۔
وہ آگے پڑھی چب اطراف سے ان کے لوگ تھی آہشنہ سے آگے پڑ ھنے لگے۔
اندھیرا تھا لبکن جٹسے جٹسے وہ پڑ ھنے گنے ان کو آدمی دکھانی د ننے۔ چنہ ئے نبا
ن م ً
کسی ان یطار کے فورا قاپر کرنا سروع کبا۔ اس ئے انک منٹ یں ین آدمی گرا د ننے۔
وہ تھاگی اور کبارے پہ موخود پڑی شپ کے اندر جائے کی کوشش کی۔ اس کا راشنہ
اتھی کھال تھا اور وہ شب لوڈ کر جکے تھے۔ ان کی قشمت اچھی تھی کہ پہ لوگ وفت پہ
نہنچے تھے ورپہ وہ شپ کی رسباں چھوڑئے والے تھے۔
رنان ئے چنہ کو اندر جائے دنکھا بو ناقی آدم نوں کو ناہر کی صورت جال ستتھا لنے
کو کہا۔ وہ اس کی طرف ل یکا ک نونکہ انک آدمی شپ کی رسباں چھوڑ حکا تھا۔
اس سے نہلے شپ آگے نانی میں پڑھنی رنان کو چنہ وانس النی تھی۔
چنہ اندر پڑھی بو شپ کے نحلے حصے میں کاقی پڑے پڑے کننئیرز تھے اب وہ
کشمش میں پڑ گنی کہ کہاں سے د نکھے۔ اس کا دل پری طرح دھڑک رہا تھا کہ اگر
کونی رہ گبا بو۔ وہ کسی کو کھو نہیں شکنی تھی۔ اس ئے اننی ماں کو ا نسے ہی کھونا
تھا۔
تم ج
گہرا شانس تھرا اور اجانک اونچی آواز یں چی کہ کونی اندر تھا بو وہ تکار کا خواب
ن
دے ناکہ وہ اسے طرف پڑھے۔
”اس کا وفت نہیں ملٹسکا! ہمیں ناس جا کے دنکھبا پڑے گا۔“ رنان کی آواز
ستنے اس ئے ننجھے دنکھا۔ کجھ کہنے کا وافعی وفت نہیں تھا ک نونکہ شپ ہلکی سی آگے
پڑھی تھی کہ اس کا لوہے کا گنٹ خو زمین پہ تھا اب نانی میں اپر حکا تھا۔
ناکسز نبد تھے ،ان پہ بوٹ لگے تھے لبکن نالے نہیں۔ پہ ان کے خق میں تھا
نتھی وہ نیزی دکھائے لگی۔
ن
”ا ننے زنادہ ہیں کٹسے د کھیں گے۔“ اس کی آواز تھرا گنی۔ وہ کمزور نہیں پڑنا
جاہ رہی تھی۔ اسے ہمت جا ہنے تھی۔
زور لگائے وہ کھولبا سروع ہونی۔ نہاں ہر کننئیر میں الگ چیزیں رکھی گنی تھیں
کہیں اشلحہ کہیں کوکین ،کہیں تھلوں میں کجھ تھرا تھا۔
رنان انک کننئیر نک نہنحا بو وہ جالی تھا اور اس میں ونشا ہی انک پڑا شا لوہے کا
الگ ناکس تھا۔ اس ئے نبا دپری کنے اس پہ لگا ناال بوڑا اور گھت نوں کے نل چھکا۔
”چنہ۔۔۔“ وہ جالنا۔ نہاں انک نبہوش نچی تھی۔ نبدرہ شال کے فرنب۔
چنہ شب چھوڑنی اس نک آنی۔
”اس کو ناہر تکالو۔ نہاں سے ہی نہیں۔۔ شپ سے تکالو۔۔ میں دنکھبا ہوں
ناقی۔“ وہ کہہ کے رکا نہیں۔ ناقی کے تھی جبک کرئے لگا۔
چہاں رنان اور چنہ گنے تھے ان کا نلین جتنج تھا بو دامیر لڑک نوں کو تھبک جگہ پہ
چھوڑے فوری طور پہ ان نک نہنجبا جاہبا تھا۔
اس ئے ستبڈ نیز کی۔ وہ نجباں اب تھوڑا اچھا محسوس کر رہی تھیں کہ وافعی وہ
اب آزاد تھیں۔ وہ جشمانی عالم نہیں نتنے والی تھیں۔ ان کو نحا لبا گبا تھا۔ اب وہ
ا ننے گھر والوں کے ناس وانس جانیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ن
”رنلبکس۔۔ ہم دور نہیں ہیں۔ ہنچ جانیں گے۔“ رنان ئے چنہ کو نشلی دی۔ وہ
دو لڑک نوں کو کبارے نک چھوڑ آنی تھی چہاں اس کے آدمی تھے۔ اس ئے آدم نوں کو
ر کنے کا نہیں کہا تھا۔ ان کو ہدانت کی تھی کہ وہ فوری طور پر نہاں سے تکل جانیں
گ ہن م ہن
اور گاڑبوں نک نچیں ک نونکہ چ لے کی چیر نچ نی ہو گی۔
شپ آگے نک تکل آنی تھی۔ چنہ اکبلی ہونی بو نانی سے گزر جانی لبکن شاتھ
اس کے دو مزند اور لڑکباں تھیں خو نہت چھونی اور گ ھیرانی ہونی ت ھیں۔
ت ن ت غ م جن ہس
چنہ کی آواز سے ان می نوں کو لوم ہوا تھا کہ وہ لڑکی ھی ھی اس کا
ہاتھ تھائے کھڑی تھیں۔
”ان کو لے کے نانی میں چھالنگ لگاؤ ،ہاتھ نیر جالئے رہبا ا نسے کبارے نک
ن
ہنچ جاؤ گے۔ نانی زنادہ گہرہ نہیں ہے۔“ رنان ئے چنہ کا چہرہ تھامے اس کو پرمی
سے کہا۔
ن
نانی اندر نک ہنچ حکا تھا۔ چنہ ئے انبات میں سر ہالنا اور ا ننے ناس کھڑی
لڑک نوں کو دنکھا۔ رات کے اس نہر نانی میں نبا کونی حقاطنی اقدام کے اپرنا حظرناک ہو
شکبا تھا۔
رنان ئے نہاں ڈانبامانڈ سنٹ کرئے تھے ناکہ پہ شپ کہیں جائے سے نہلے ہی
نباہ ہو جانی۔
اس ئے چنہ کو جائے ہوئے دنکھا۔ چب دامیر کی آواز سبانی دی۔
”میں آرہا ہوں ادھر۔۔۔“ وہ جنحا تھا۔
”دامیر دوسری طرف آؤ چہاں نمہیں شپ جانی تظر آرہی ہے۔“ رنان بوال اور نبگ
سے ڈانبامانڈ تکالے ان کا ناتم سنٹ کرئے لگا۔
دس منٹ کا ناتم سنٹ کرئے وہ الگ الگ کننئیرز کے شاتھ خوڑ رہا تھا۔
گردن موڑی۔ چنہ نانی میں کود جکی تھی۔
رنان انبا کام جتم کرئے نیزی سے آگے پڑھا اور نیرئے لگا۔ وہ چنہ کے پراپر ہوا
چب اس کو وہی فیری تظر آنی خو نہاں آئے ہونی دکھی تھی۔ اس میں دو آدمی تھے اور
وہ اسی ناکس کو کھو لنے کی کوشش میں تھے۔
ن
وہ دوبوں نانی کے کبارے نک ہنچ جکے تھے۔ رنان کو کجھ علط ہوئے کا
اجشاس ہوا۔ وہ دو آدمی فیری کو لنے اس پڑی شپ نک لے آئے تھے اور نیزی
دکھائے اس ناکس کو کھو لنے لگے۔
انک چھ یکا تھا خو اسے لگا تھا۔
اگلے جبد منٹ میں پہ شپ دھماکے کا شکار ہو جانی لبکن۔
ک ہن
دامیر نچ حکا تھا۔ اس ئے نیزی سے چنہ کو نانی سے تکاال اور شاتھ ہی لڑ نوں
کو تھی۔ چنہ کے آنسوں نہنے لگے۔ دامیر ئے مشکرائے انبات میں سر ہالنا وہ کامباب
ہوئے تھے۔ انہوں ئے نازناب کروا لبا۔
لبکن رنان کی تگاہیں انک جگہ منجمبد تھیں دامیر ئے تغافب میں دنکھا۔
اس فیری کے ناکس میں لڑکی تھی جس کو اب وہ لوگ شپ میں پرانسفر کر
رہے تھے۔
”اوبو۔۔“ چنہ کا دل ڈوب کے اتھرا۔
وہ کھونا نہیں جاہنی تھی۔ تھر سے کسی کو کھونا نہیں جاہنی تھی۔
لبکن وہ دور جا رہی تھی۔ شپ کا دروازہ اتھی تھی کھال تھا۔ وہ نباہ ہوئے والی
تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فیری اور شپ کے درمبان ان دو آدم نوں ئے نیزی دکھائے انک راشنہ نبانا اور
اس لڑکی کو نازو سے گھسنتنے ہوئے شپ کی طرف لے جائے لگے۔ وہ نتم نبہوسی کی
جالت میں تھی۔
چب انک آدمی اندر کی طرف پڑھا بو اسے نک نک کی آواز سبانی د ننے لگی۔
”نہاں تم لگا ہے ہمیں وانس جانا ہے جلدی کرو۔۔ اس کو اتھاؤ چھوڑ کے
ُ
نہیں جا شکنے۔“ وہ آدمی نیزی سے بوال اور دوسرے آدمی ئے اس لڑکی کو کبدھے پہ
ڈاال اور وانس فیری کی طرف پڑھے۔
ان کا ارادہ تھا کہ مین شپ سے نہاں سے رواپہ ہو جانیں گے لبکن وہ بو نباہ
ہوئے والی تھی۔
نہاں سے شب لڑکباں نازناب کروا لی گنی تھیں اگر پہ آخری تھی جلی جانی بو
ان کی تھی موت نکی تھی ،ان کے جبال میں ناقی شپ منٹس کامباب گنی تھیں
لبکن وہ ان کا جبال ہی تھا ک نونکہ اصلنت میں بو دامیر ،ڈرنک انبا کام کر جکے تھے۔
وہ لوگ فیری کو لنے اب دوسری طرف جائے کبارے کو پڑ ھنے والے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
”میں جارہی ہوں وہاں ہم اس کو چھوڑ نہیں شکنے۔۔“ چنہ عحلت میں کہنے
ہوئے نانی کی جانب پڑ ھنے لگی لبکن فیری دور جائے لگی۔ وہ شپ کے پراپر جا رہی
تھی۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔
”نہیں تم نہیں جا شکنی وہاں ،شپ کاقی پڑی ہے کتھی تھی ت ھٹ شکنی
ہے۔ نمہاری جان کو حظرہ ہو گا۔“ رنان ئے اس کو سجنی سے تھاما۔ فیری اندھیرے
میں عانب ہوئے والی تھی اور چنہ کا دل خوف سے کانپ اتھا۔
”مجھے دنکھبا جا ہنے تھا وہاں۔ مجھے اس ناکس کو جبک کرنا جا ہنے تھا۔ وہ چھونی
سی نچی ہے۔“ چنہ کا نتنے لہچے میں بولی۔ انبا فرنب آکے وہ تقصان نہیں کرنا جاہنی
تھی۔
”مجھے جائے دو رنان۔۔ ہم کجھ کر شکنے ہیں۔“ وہ رنان کی سحت گرفت میں
جنچی تھی۔
”وہ اس کو لے گنے۔ تم جائے دے رہے ہو رنان۔۔ وہ مر جائے گی۔“ اس
ئے رنان کو دھکا د نبا جاہا ک نونکہ وہ نانی کی طرف پڑھ رہی تھی۔ اس کا ندن نہلے ہی
گبال تھا۔
”وہ لے گنے اس کو۔۔ میں اس کو۔۔۔“
ن
چنہ کی نات ننچ میں رہ گنی۔ آنسو تھری آ کھیں صدمے سے تھبلیں چب اجانک
انک دھماکا ہوا اور نہت نیز ہوا نہاں سے گزری ،دھواں اتھا انک روسنی کا پڑا شا چھ یکا
لگا تھا۔ اس ئے نانی میں دھماکا دنکھا۔ آگ لگے پڑے نکرے کاقی دور نک تھبلے
گل ن ھ کن
تھے۔ کجھ دپر نک تصارت دھبدالنی رہی۔ آ یں ئےشاچنہ نے یں۔ فیری شپ کے
ہ
فرنب تھی۔
اس کے کتنے خزنات خڑے تھے اس شب سے۔
ن
اگر وہ وفت پہ ہنچ جائے اور وہ فیری کو انک نار دنکھ لتنی بو لڑکی کو نحا شکنی
ج گ ت ُ
تھی۔ شاند فیری دور لی نی ھی نا اسی یں نباہ ہو نی۔
گ م
اس کا دل ت ھٹ رہا تھا۔
اس ئے دنکھا تھا اس لڑکی کو ،وہ نامسکل دس شال سے اوپر ہو گی۔ اننی چھونی
نچی تھی وہ ِجسے وہ آدمی لے گنے۔
آنکھوں کے شا منے اننی ماں دکھانی د ننے لگی خو نتم پرہنہ جالت میں نمانش کے
ت گ ت ُ
لنے ک ھڑی کی نی ھی۔ اس کے شاتھ ھی انشا ہو گا۔
ک م ن ُ
اس چی کو سر نازار یں پرہنہ ھڑا کبا جائے گا اسے بوجا جائے گا۔
ن ن
وہ گ ھتنے کے نل زمین پہ تتھنی جلی گنی۔ اسے نہاں ہنجنے علطی ہونی تھی اور
شب جٹسے نکھر گبا تھا۔ دنبا جٹسے اس کی آنکھوں کے شا منے جتم ہو گنی تھی۔
آنسوؤں کا گولہ جلق میں تھٹس شا گبا۔ اس درد کو اندر سمائے کی کوشش
کی۔ ماشک انار کے تھتبک دنا۔
”چنہ اتھو نہاں سے۔۔“ رنان ئے اس کو اتھانا جاہا کہ کسی تھی وفت نہاں
مزند لوگ آشکنے تھے ک نونکہ نہاں اتھی مزند شامان موخود تھا اور خو تھاری تقصان انہوں
ن
ئے کبا تھا اس کی تھی چیر نچ نی ہو گی بو کونی چپ یں ر ہنے واال تھا۔
ہ ن گ ہ
”دور رہو مجھ سے ،دور ہو جاؤ شب۔۔“ وہ جال اتھی ،اس وپران و سٹشان عالفے
میں اس کی درد ناک جنخ گونج اتھی۔ اننی لڑکباں نازناب کروائے کا شکون ماند پڑ گبا
تھا اس نچی کے عم کے ننجھے جسے وہ نحا نہیں نانی تھی۔
”وہ مجھ سے انبا دور تھی اور میں کجھ پہ کر نانی۔۔ میں ئے ا ننے ہاتھ گبدے
ج
کر لنے۔۔“ ا ننے نالوں کو تھامے وہ ہزنانی انداز نجنی ہونی بولی۔
ش کن
”وہ نچی تھی ،پہ مجھ سے کبا ہو گبا۔“ ا ننے ہاتھوں کو د نی وہ ل ل یف
کت ش ل م ھ
سے پڑپڑا رہی تھی ،آنکھوں سے آنسوں بواپر نہہ رہے تھے۔ اس کا لہحہ کانپ رہا تھا۔
رنان ئے نبا کجھ کہے اس کے ناس نتتھنے اسے ستنے سے لگانا ،وہ پری طرح لرز
رہی تھی۔
”اسے کجھ نہیں ہو گا۔۔“ اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھامے رنان ئے نشلی دی،
ت ہن ت ن کن
اس کی پہ جالت د ھی ہیں جا رہی ھی۔ وہ لی نار اس کے شا منے بونی ھی اور
رنان انشا نالکل نہیں جاہبا تھا۔
”میں ئے کھو دنا اس کو ،میں نحا نہیں نانی اس کو۔میرے لنے کجھ تھی
مسکل نہیں تھا تھر کٹسے ہو گبا پہ شب۔“ تقی میں سرہالئے ہوئے وہ درد سے بولی۔
آنسوؤں کے درمبان بوال نہیں جا رہا تھا۔
”مجھے تکل یف ہو رہی ہے ا نسے پہ رو۔۔“ رنان مدھم لہچے میں بوال ،چنہ مشلشل
تقی کرنی رہی۔
”اننی ماں کی طرح کھو دنا میں ئے اس کو ،وہ درندوں کے ہاتھ لگ گنی۔“ وہ
بوئے لہچے میں بولی کہ شاتھ ہی دل خراش جنخ مارئے وہ اونچی آواز میں روئے لگی۔
ج
نجنی وہ جٹسے ا ننے دل کی تھڑاس تکال رہی تھی۔
کنہ ن
”میں ئے ک نوں یں د ھی وہ۔۔“ اس کی آواز یں نجھباوا تھا۔ لقظ ”کاش“
م
زہن میں گونج رہا تھا۔ کاش وہ اس کسنی کے ناس جلی جانی۔ اس میں موخود ناکس
کو کھول کے دنکھ لتنی۔
”میں ئے تھر سے شب کھو دنا ،میں ئے اننی ماں کھو دی آج تھی۔۔ میں ئے
ُ
کھو دنا مجھے انشا لگ رہا ہے کونی میری اوالد کو مجھ سے چ ھین کے لے گبا۔ اسے بو جنے
کت م ً
ی
کے لنے۔“ دو زا ہوئے اس ئے انبا سر ز ین کی طرف چھکا لبا۔ دل کی ل ف پڑھ
رہی تھی۔ اس ئے اننی ماں سے وعدہ کبا تھا کہ چہاں نک ممکن ہوا وہ انسی نج نوں کی
زندگی پرناد نہیں ہوئے دے گی۔
رنان ئے اس کو زپردسنی ستنے سے لگانا اور تھام کے رکھا ناکہ وہ دل ہلکا کر شکے
لبکن خو تکل یف وہ محسوس کر نارہی تھی شاند کم ہوئے کے نحائے پڑھنی جانی۔
رنان ئے آس ناس دنکھا۔ دامیر!
”دامیر!“ اس ئے تکارا۔ وہ نہیں تھا۔ تھوڑی دپر نہلے وہ نہی آنا تھا۔ چنہ کو
زپردسنی شاتھ لگائے اس ئے گردن گھمائے آس ناس جاپزہ لبا وہ کہیں نہیں تھا۔
شاند وہ نج نوں کو گاڑی نک چھوڑئے گبا ہو۔
”وہ زنادہ دور نہیں گنے ہو نگے تم ناقی نج نوں کے ناس جاؤ میں ُاس لڑکی کو ص نحج
شالمت وانس الؤں گا۔“ چنہ کا چہرہ شا منے کرنا وہ سنجبدگی سے بوال کہ چنہ ئے سرخ
ہونی آنکھوں سے اس کو دنکھا۔
اس کا روپ رنان کے لنے نالکل مجبلف اور نبا تھا۔ تھی بو وہ تھی انک غورت۔
خزنابوں سے لیرپز۔
ہن ُ
ن ک
”اسے جھ یں ہونا جا نے۔۔“ وہ سرگوسی کرنی ہونی بولی ،رنان ئے اس کو
اتھانا۔ اس کا انیر نٹس نانی میں گر گبا تھا۔
”کجھ نہیں ہو گا۔ خود کو کمزور نہیں کرو۔“ رنان ئے اس کو نازوؤں سے تھام
کے کھڑا کبا۔ چنہ ئے انبات میں سر ہالئے رجشار پہ نہنے آنسوں صاف کنے۔
وہ دوبوں نیزی دکھائے ہوئے اننی گاڑبوں کی طرف تھاگے چہاں ناقی شب تھی
موخود تھے۔
وہ کس وفت نانی کی طرف گبا تھا ،اس کو اندازہ ک نوں نہیں ہوا۔
”دامیر۔۔۔“ رنان نانی میں کاقی آگے آگبا تھا نہاں نک کہ اس کا آدھے سے
زنادہ دھڑ نانی میں ڈونا تھا۔ وہ بوری فوت سے جالنا۔
”سر نہاں انک بوٹ ہے۔۔“ انک آدمی کی آواز سبانی دی۔ رنان نیزی سے ناہر
تکال۔
فیری اب کاقی دور جا جکی ہو گی۔ دامیر کو دنکھبا تھی ضروری تھا۔ مغلوم نہیں
وہ کسنی شالمت تھی تھی نا نہیں۔
رنان نانی سے تکلنے تھا گنے ہوئے اس آواز کی جانب تھاگا۔
”اس کو نانی میں انارو۔“ وہ البکیرک بوٹ تھی۔
”اننی گیز نبار رکھو۔ ہو شکبا ہے کہ وہ فیری اتھی تھی نانی میں ہو اور کونی ہم پہ
انبک کر دے۔ نانی میں دھبان رکھبا ہے دامیر کی لوکٹشن ادھر ہی ہے۔“ وہ ہدانت
کرنا بوال اور گھستنے ہوئے اس کسنی کو نانی میں انارا۔
انک آدمی نیزی دکھائے ہوئے اس کو جالئے لگا۔ النٹس ان کے ہاتھ میں
تھیں۔ رنان دامیر کی لوکٹشن انڈنٹ کرنا رہا۔
”اِ س طرف۔۔“ رنان ئے کسنی جالئے والے کو دانیں جانب جلنے کا کہا چہاں
آگ جل رہی تھی۔
”نمہیں نہاں نہیں ہونا جا ہنے دامیر۔۔“ رنان گ ھیرائے ہوئے شو جنے لگا۔
م س
”سر وہاں۔“ آدمی جالنا۔ رنان نبا کجھ شوچے ھے نانی یں غوطہ لگائے کودا۔
م ج
تھوڑے قاصلے پہ انک لکڑی کا پڑا شا نکرا جل رہا تھا اور اس پہ دو وخود تھے۔
ن
رنان نیزی سے نیرئے اس نکرے کی طرف پڑھا۔ وہاں ہنجنے کبارے پہ ہاتھ رکھا۔ وہ
گبال ہوئے کی وجہ سے آگ نجھا گبا تھا۔ چہرے پہ ہاتھ ت ھیرئے اس ئے شا منے م یظر
کو دنکھا۔ وہ وہی نچی تھی جس کو وہ دوبوں لے جا رہے تھے۔ نبہوش جالت میں۔ تم
وخود۔ دامیر ئے اننی نہنی جبکٹ انارے اس پہ دی۔ وہ قانل اغیراض جالت میں
تھی۔
ھ ت ھ کن ُ
چ
”دامیر۔۔۔“ رنان اس کی طرف ل یکا۔ اس کی آ یں نبد یں۔ ہرے پہ خون
تھا۔ ما تھے پہ کجھ چھبا ہوا تھا۔ رنان کی دھڑکن پڑھی۔
جا ننے ہو کٹسے؟ نالکل و نسے ہی چب آپ کسی کے مرئے کی چیر ستنے ہو۔
جس کی موت کا کتھی تصور پہ کبا ہو اور وہ آپ کے شا منے ئےجس و خرکت پڑا ہو۔
چب ضیط کے ناوخود آنکھوں سے آنسوں نہنے لگیں۔ آپ تفین پہ کرنا جاہ رہے ہوں
لبکن حق یفت شا منے ہو۔ دل کی دھڑکن کابوں میں سبانی دے۔ آپ کا دل و دماغ
کہے کہ اتھی آنکھ کھل جائے گی اور پہ خواب بوٹ جائے گا۔ آپ دنبا میں ہر چیز
کھوئے کا شوچ شکنے ہیں لبکن انک وہ سحص نہیں جس میں آپ کی جان نسی ہو،
جس کے جائے سے آپ کی زندگی موت ہو۔
رنان ڈی کا دل اس کے کابوں میں دھڑک رہا تھا وہ ا ننے خوف سے دھڑ کنے
دل کی آواز شن شکبا تھا۔ دامیر کو دنکھنے اس کا شانس لتبا دشوار ہو رہا تھا۔ اس کی
ُ
گردن پہ کجھ کرجباں سی ت ھیں۔ نازو کا حصہ جال ہوا تھا۔ رنان کا ہاتھ اس کے ستنے
پہ گبا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسے شوئے اتھی تھوڑی دپر ہی ہونی تھی کہ چہرے کے ناپرات نتبد میں ند لنے
لگے۔ نتبد میں وہ ڈر رہی تھی۔ کمرے کا درجہ خرارت پڑھبا ہوا محسوس ہوا۔
نتبد میں ہی خود سے کمفرپر دور کبا کہ وخود نستنے سے تم شا ہوئے لگا۔ وہ
ل کن ت تن
گ ھیراہٹ سے اتھ ھی اور آ یں ھولے خواس نحال کرئے گی۔ ہاتھ گردن نک
ک ھ
گبا۔ گھین ہو رہی تھی۔
اجانک طت یغت نگڑئے کا اجشاس ہوا بو ناتھ روم کی طرف لبکی۔ دل مبال رہا تھا۔
واش نٹشن پہ چھکی۔
کاقی دپر نک وہ ناتھ روم میں رہی ،نیروں سے جان تکل گنی تھی۔ نانگیں کانتبا
سروع ہونیں کہ اب کھڑا نہیں رہا تھا۔
چہرے پہ نانی کی چھنتنے مارئے اس ئے انبا منہ صاف کبا۔ کلی کرئے ناس
ر کھے فٹس ناول سے انبا چہرہ صاف کبا اور ناہر آنی۔ دبوار کا سہارہ لتنے کھڑی رہی اور
گہرے شانس تھرئے لگی ناکہ کجھ ہمت آئے۔
کجھ سبکبڈز کھڑے ر ہنے کے تغد وہ نبڈ کی طرف آنی اور نتتھ گنی۔ کمرے میں
لگے کتمرے کو دنکھا۔ آنکھوں میں شکوہ در آنا کہ دامیر اس کو دنکھ رہا ہو گا۔
اس کی گ ھیراہٹ کم نہیں ہونی تھی۔ پڑھنی جا رہی تھی۔ شاند نبد کمرے میں
گھین ہو رہی تھی۔ وفت دنکھا۔۔ صنح کے شاڑھے نانچ ہو رہے تھے۔ تھوڑی دپر میں
ہی دن کا اجاال ہو جانا۔
وہ الن میں جائے کو اتھی کہ ہو شکبا تھا صنح کی نازی ہوا لتنے گ ھیراہٹ کجھ کم
ہو جانی۔
دامیر ئے کہا تھا وہ اس کو کال کرنا رہے گا ،مٹسج کرنا رہے گا۔ رات نک بو
اس کے مٹسج ملنے رہے لبکن اتھی نک کونی مزند مٹسج نہیں آنا تھا۔ اس ئے مونانل
تھاما اور انک مونی شال لنے کمرے سے ناہر آنی۔ ملگحا شا اندھیرے منٹشن میں تھبال
تھا۔
ت ع ن ُ
ان ت نوں کے جائے کے تغد نہاں لتبا کے شاتھ انک لڑکی رہ رہی ھی خو
ڈرنک کی جا ننے والی تھی۔ شاند فرننی جا ننے والی۔
دامیر کی جاص ہدانت پہ وہ اس کے شاتھ تھی اور اس کا جبال رکھ رہی تھی۔
لبام تھی نہیں تھا اور ا ننے کمرے میں شو رہا تھا۔
ت ت تن ن
گالس ڈور کے نار وہ ز نے پہ ھی ھی۔ شال کو کبدھے ک لبا ہوا تھا۔
ن
تھوڑی دپر نہلے مبلی کی وجہ سے رجشار سرخ ہوئے پڑے تھے۔
صنح کی ہلکی سی لکیر واصح ہو رہی تھی۔ اس ئے دامیر کا نمیر کھوال۔ نانتبگ
سروع کی۔
”مسبگ بو!“
لکھنے اس ئے ستبڈ کبا اور مونانل کو اننی گود میں دھرا۔ ن نٹ میں گرہیں اتھی
ت ن
تھی پڑ رہی تھیں۔ جائے اس وفت گ ھیراہٹ ک نوں ہو رہی ھی۔ آ یں موندیں وہ
ھ ک
”پہ شب جا ننے کے ناوخود؟“ علتبا چیران ہونی بولی ،اس کا اشارہ اس ڈارک
ورلڈ کی طرف تھا۔
”اس ئے مجھ سے کتھی نہیں چھبانا۔ سروع میں وہ جاہبا تھا کہ میں اس کی
طرف نا آؤں لبکن میں نہیں مانی۔ میں اس سے نبار کرنی ہوں بو کٹسے ننجھے ہٹ
جانی۔“ وہ لڑکی مشکرا کے اس کو نبا رہی تھی جبکہ علتبا چیران تگاہوں سے د نکھے کونی
کٹسے شب کجھ جا ننے ہوئے خود کو اِ س دلدل میں النا جاہے گا۔
َ
”پہ فرشٹ شانٹ لو تھا۔۔“ وہ کہنے ہوئے سرمانی۔
”سروع میں ڈرنی تھی لبکن مجھے تھر عادت ہوئے لگی۔“
علتبا نس شن رہی تھی ڈرنی بو وہ تھی تھی اور اتھی نک۔
ح ہن ب ف ت ک جم ُ
ن
”اس ئے ھے ھی ل ہی یں ہوئے دنا کہ وہ ا نے ظرناک لوگوں کے
شاتھ رہبا ہے اور اب بو پرابوا کا تھی حصہ ہے۔“ وہ مزند بولی کہ علتبا پرابوا کے نام پہ
خونکی۔
”نہیں ،پہ لوگ رسبا کے ضرور ہیں لبکن پرابوا سے ان کا تغلق نہیں۔“ علتبا کو
ن ل ت ن ھ ت غ م ُ
لگا کہ شاند اس لڑکی کو علط لومات یں ھی اس کو بوک کے نبائے گی کہ ا نی
حظرناک ن یظتم سے اِ ن شب کا تغلق کٹسے ہو گا۔
”مجھے مغلوم نہیں۔“ وہ نس انبا ہی کہہ نانی۔ گ ھیراہٹ اتھی تھی تھی۔ نتھی
دل نات کرئے کو نہیں جاہ رہا تھا۔
”ڈرنک اکیر آپ دوبوں کا زکر کرنا رہبا ہے۔ انکحولی آپ کا کبل اس کے لنے
آ نبڈنل ہے۔ دامیر سر آپ سے نہت مجنت کرئے ہیں۔“ وہ نہت انبان نت سے اس
ت ھ کن
کو د نی ہونی کہہ رہی ھی۔
”ہاں شاند۔۔“
ت ُ
”شاند کبا۔ نتھی بو آپ نہاں اننی صنح آگنیں۔ انک رات ھی ان کے غیر یں
ہن ت
گزار نانیں آپ۔“ علتبا کا خواب جٹسے اس کو نسبد نہیں آنا نتھی جبانی ہونی بولی۔
ت ت ہ ن ت ت ُ
وہ تھبک کہہ رہی ھی اس کے غیر نتبد یں آرہی ھی اگر شونی ھی بو
گ ھیراہٹ سے اتھ گنی تھی۔ نجھلے دبوں چب وہ انلی میں تھی نب تھی وہ مسکل سے
شونا کرنی تھی۔
اسے عصہ شا آئے لگا کہ دامیر ئے اسے اننی عادت لگا دی تھی۔
”ڈرنک مجھے وانس آکے پروبوز کرئے واال ہے۔ وہ جاہبا ہے کہ شب کجھ
پرفبکٹ ہو۔ کبا آپ مجھے نٹس دے شکنی ہیں۔“ وہ اس کے ہاتھوں پہ ہاتھ رکھنی
ہونی چہکنی ہونی بولی کہ علتبا کو اچھتبا ہوا۔
”ا ننے حظرناک لوگوں میں آئے کا اسے کتبا شوق ہو رہا ہے۔“ علتبا نس شوچ
کے رہ گنی اور ہلکا شا ہٹس دی۔
”میں کبا نباؤں نمہیں۔ مجھے بو آ نبڈنا ہی نہیں۔ میری شادی نہت جلدی میں
ہونی تھی۔۔“ علتبا اس کی خوسی ماند نہیں کرنا جاہنی تھی نتھی آہسبگی سے بولی۔
”ڈرنک ئے نبانا تھا کہ کٹسے آپ کی شادی ہونی۔ مجھے بو صجنح فتنٹسی سنوری
والی فبلتبگز آ نیں کہ دامیر سر آپ کو دور نہیں دنکھ شکنے آپ کے تھبک ہوئے کا
ان یطار کنے تغیر چ ھٹ سے شادی کر لی۔۔ ہاؤ رومنتبک۔۔“ ڈرنک ئے لگبا تھا کہ
شب ہی نبا رکھا تھا اسے نتھی بو انداز میں کاقی خوسی تھی۔ وہ کاقی نابونی مغلوم ہونی
تھی۔
”رومنتبک۔۔ مجھ سے بوچھو۔“ علتبا پڑپڑانی۔ گود میں دھرے مونانل کو
سرسری شا دنکھا۔ اس کا رنالنی نہیں آنا تھا۔ نہلے بو وہ سبکبڈ نہیں لگانا تھا رنالنی
کرئے میں اب اننی دپر ک نوں۔ اس ئے گہرا شانس تھرا۔
”دامیر سر ئے بو انک نار ڈرنک پہ گولی تھی جالنی تھی چب آپ اجانک نتمار ہو
گنی تھیں۔ اوفف کبا عصہ ہے ان میں۔ مجھے بو نہت نسبد ہیں وہ۔“ وہ اتھی تھی
فصبدے پڑ رہی تھی۔
”تعنی اننی ن نوی کے ڈرئے پہ انہوں ئے انک نل تھی نہیں شوجا۔۔ واؤ۔۔“ وہ
دامیر کی مجنت کا دم تھر رہی تھی کہ علتبا ئے خونک کے اس کو دنکھا۔
”شوری ،وہ آپ کے شوہر ہیں۔۔۔ میں نس انہیں اڈماپر کرنی ہوں۔“ وہ
وصاچت کرنی ہونی بولی کہ کہیں علتبا اس کو علط پہ سمجھ لے۔
”دامیر ئے نمہارے فبانسی پہ گولی جالنی تھی۔ عصے کے نحائے نمہیں وہ
رومنتبک لگ رہا ہے۔“ علتبا اس کو عج نب تگاہوں سے دنکھنے ہونی بولی۔
”مجنت کے آگے کون کجھ دنکھبا ہے جاہے وہ وقادار مالزم ہی ک نوں پہ ہو۔“ وہ
بو دامیر کی نانبد کرنی ہونی بولی کہ ا ننے فبانسی کی تکل یف تھی تظر پہ آنی۔
”آپ نجھی نجھی ک نوں لگ رہی ہیں کجھ نبا کے الؤں؟“ اننی نابوں کے تغد تھی
چب علتبا ئے کونی جاطر خواہ رد عمل طاہر پہ کبا بو وہ م یقکر لہچے میں بوچھنے لگی۔
”نہیں میرا دل نہیں جاہ رہا۔“ وہ مشکرائے کی شعی کرنی بولی۔
”دل پہ تھی کرے بو لے آ نیں کجھ کھائے کو نلیز۔۔ میری تھوک سے آنکھ
کھل گنی ہے۔“ علتبا کجھ کہنی کہ لبام کی آواز ستنے دوبوں خوانین ئے ننجھے دنکھا۔ وہ
چھوئے نحوں کی طرح جلبا ہوا انہیں کے ناس آرہا تھا۔
ک ت ع ت ُ
اس لڑکی کے ا ھنے پہ لتبا ھی اتھ ھڑی ہونی۔
”متم کو اتقارم کرو کہ ہمیں نچی مل گنی ہے۔“ رنان ئے دامیر کا نازو خود کے
کبدھے پہ رکھا تھا ،بوٹ میں اننی جگہ نہیں تھی کہ دامیر کو نہاں لبا د ننے نتھی رنان
ئے اس کے وخود کو آدھا ا ننے اوپر گرا دنا۔
ہن
ن
بوٹ کبارے نک چی کہ رنان ئے انک آدمی کی مدد لتنے نیزی سے دامیر کو
ننچے انارا۔ وہ اتھی تھی ہوش سے ن یگاپہ تھا۔
دوسرا آدمی نیزی دکھائے انک گاڑی نہاں الئے کو دوڑا ک نونکہ دامیر کو وہ ا نسے
اتھا کے اننی دور نہیں لے جا شکنے تھے۔
نانچ منٹ تغد ہی گاڑی نہاں موخود تھی۔
ہ م ہ ہن
”سر ڈاکیر انیر بورٹ پہ نچ حکا ہے یں و یں جانا ہے۔“
”اس کو ر سنے میں نالئے۔ اننی دپر دامیر تکل یف میں رہے گا۔“ رنان اس کی
نات پہ تھڑکا۔
”شوری سر ہمارے ناس وفت کم ہے قالن نٹ میں۔ نتھی ڈاکیر وہیں نال لبا۔“ وہ
آدمی وصاچت کرنا ہوا بوال۔
رنان جاموش ہو گبا۔ وہ لوگ اب گاڑناں لنے فبلڈ کی جانب پڑھ رہے تھے۔ چنہ
ھ ت ت تن ت م ُ
اس گاڑی یں ھی چہاں لڑکباں ھی یں۔
جٹسے وہ لوگ انیر بورٹ نہنچے رنان ئے وہاں انک ڈاکیر کو ان یطار کرنا نانا۔ پہ
پرابو نٹ ج نٹ ہی تھا۔ دامیر کو نیزی سے سیرنجر پہ شفٹ کرئے اسے اندر لے جانا گبا
اور آرامدہ نبڈ پہ لبانا۔
دامیر کی جالت دنکھنے چنہ شکنے کی جالت میں آنی۔ اس کی جالت کٹسے ہونی۔
رنان کی جانب پڑ ھنے اس ئے دامیر کے نارے میں درنافت کبا۔
”ہمیں مغلوم ہی پہ ہو شکا وہ نانی میں جال گبا تھا اس لڑکی کو نحائے کے لنے
نتھی شاند دھماکا ہوا اور فرنب ہوئے کی وجہ سے وہ اِ س جال میں۔۔۔“ رنان ئے
چہرے پہ پرنشانی سے ہاتھ ت ھیرئے ہوئے کہا۔ چنہ ئے ا ننے چہرے پہ ہاتھ رکھا۔ اننی
ت گل ہن ُ
جان کی پرواہ کنے نبا وہ لڑکی کو نحائے گبا تھا خو اس کی جھ یں نی ھی۔
ک
ب چ ت م ڈن ن ُ
”اِ ن کی کب شن ہت پری ہے۔۔ یں ا ھی ان ز موں کی ڈرنس گ سروع کرنا
ہوں۔“ ڈاکیر دامیر کی گردن دنکھبا ہوا بوال چہاں جگہ جگہ کٹ آئے تھے۔ صد شکر کہ
اس کی کونی نس کو تقصان نہیں ہوا تھا۔
”ہمیں ان کی شاری ناڈی کا مغاننہ کرنا ہو گا ناکہ زچموں کو جبک کر شکیں۔“
س
ڈاکیر ئے رنان کی جانب دنکھنے ہوئے کہا بو چنہ ھنی ہونی سر ہال کے ناہر جائے
جم
”وہ تھبک ہو جائے گا ،اس ئے نہت پڑی فرنانی دی ہے۔ مجھے فجر ہے اس
پہ۔“ چنہ رنان کے نازو پہ ہاتھ رکھنی ہونی بولی کہ رنان نس گہرا شانس تھر کے رہ گبا۔
ُ
رنان ئے پردہ آگے لہرا دنا اور دامیر کی سرٹ انارئے میں مدد کی۔ اس کی جالت
نہت پری تھی کہ رنان کو تکل یف سی ہوئے لگی۔ وہ ضیط سے نتتھا رہا کہ کہیں کمزور
پہ پڑ جائے۔
دامیر وہ سحص تھا جسے وہ کتھی مرنا ہوا نہیں دنکھ شکبا تھا۔
نلین ہوا میں اڑ رہا تھا ،ڈاکیر ئے شاتھ ہی دامیر کو آکسنچن لگا دی تھی کہ قالنٹ
ی ُ
کی وجہ سے اس کی ط عنت پہ نگڑ جائے۔
انک انک کر کے ڈاکیر دامیر کی گردن سے لوہے کے نٹس تکال رہا تھا۔ انہوں
ت ج ب جن ً
ئے نہلے اسے اجتباط ا کشن لگا دنا کہ لوہے کے ھنے سے ز م مزند پہ نگڑ پہ جانیں۔
چ
”انہیں گولی تھی لگی ہونی ہے۔۔“ ڈاکیر چب شارے زچموں سے ر سنے واال خون
صاف کرئے قارغ ہوا بو نشلی کے فرنب لگی گولی کو دنکھبا ہوا بوال۔
”اسے تکالو جلدی!“ رنان سباٹ انداز میں بوال۔
”سر نہاں آپرنشن ناممکن ہے ،ہوا میں و نسے ہی آکسچن ل نول کم ہے۔“ وہ ڈاکیر
دھتمے لہچے میں بوال۔
”ہوا میں کم ہے نا نہاں بو نارمل ہی ہے۔۔“ رنان اس کی نات پہ نگڑ گبا کہ
ڈاکیر اس کے سرد لہچے پہ ہڑپڑا اتھا۔
”لبکن سر ان کا نلڈ نہیں رک رہا۔ ہمیں نلڈ تھی ارننج کرنا ہو گا نہلے ہی کاقی
نلبڈنگ ہو جکی ہے۔ ہو شکبا ہے سر کوما میں۔۔۔“
اس سے نہلے کجھ تقصبل نبانا کوما میں جائے والی نات کو بو کنے رنان اس کو
سرد لہچے میں وارن کرئے لگا۔
”اننی نکواس نبد کرو اور اس کا اعالج کرو۔ اگر اس کا انک تھی شانس اکھڑا بو
میں قشم کھانا ہوں تم اگال شانس نہیں لو گے۔“ گرے آنکھوں میں اسیغال تھرنا تھا،
ڈاکیر کی سنی گم ہونی ک نونکہ رنان سے اب ڈر لگبا سروع ہو گبا تھا۔
وہ آہشنہ سے انبات میں سر ہالئے ہوئے اس کی گردن کی نتبڈج کرئے لگا۔
”ہم جٹسے ہی لتبڈ ہو نگے ہمیں انہیں استبال شفٹ کرنا ہو گا ناکہ وہاں ان نہیر
پرنتمنٹ ہو اور فوری آپرنشن سے گولی تکال شکیں۔“ ڈاکیر اب کی نار زرا نیزی سے بوال
کہ رنان جاموش رہا۔
ڈاکیر اس کو مزند کجھ گانبڈ کر رہا تھا دامیر کے نارے میں کہ اسے و ننتبلٹشن
ک ہن ھ کن
پہ رکھبا پڑے گا۔ وہ آ یں یں ھول رہا تھا۔
دامیر کا نحال دھڑ کور تھا لبکن اوپری ندن پہ سرٹ نہیں تھی۔
”کٹشا ہے دامیر؟“ چنہ ئے نسونش زدہ لہچے میں بوچھا ،اس ئے رنان کی آنکھوں
کن
میں سرجی د ھی۔
”گولی لگی ہے اس کو ،کاقی نلبڈ کر حکا ہے۔۔“ انک تظر ننجھے مڑ کے دنکھا۔
”آنی اتم شوری۔۔“ وہ تھرائے لہچے میں بولی کہ اگر وہ شب نہاں پہ ہوئے بو
ت ُ
دامیر کی پہ جالت پہ ہونی۔ نجھباوا پڑھ گبا تھا کہ اسے وہ فیری جبک کرنی جا ہنے ھی۔
جم س
اس کے کہنے پہ رنان ئے نا ھی سے دنکھا۔
”انشا ک نوں کہہ رہی ہو؟“ رنان سنجبدگی سے بوال۔
کننج ن
”اگر میں وہ جبک کر لتنی بو۔۔“ دامیرکو رنان کے ھے آ یں موندیں د کھ وہ
ن ھ
ناشف سے بولی۔ اس کے لہچے میں ندامت محسوس کرئے رنان سرد آہ تھر کے رہ گبا۔
نبا کجھ کہے پردے سے ہی ناہر آگبا اور چنہ کو ا ننے نازو کے حصار میں تھرا۔
”نمہاری وجہ سے کجھ نہیں ہوا۔ آ نتبدہ انشا کہا بو مجھ سے پرا نہیں ہو گا۔“ اس
کے انداز میں پرمی نہیں تھی۔ وہ دھمکا ہی رہا تھا۔
کس تھ ت
چنہ سجنی سے لب نج کے رہ نی ورپہ وہ رو پڑنی۔ آج کا دن کاقی ل
م گ
نانت ہوا تھا۔ ہر کونی اننی جگہ بونا تھا اور بوٹ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”نمہارا چنہ سے راتطہ ہوا کبا؟“ نا سنے سے قارغ ہوئے اس ئے لبام سے بوچھا خو
انبا شستم لنے نتتھا تھا۔
”ہاں تھوڑی دپر نہلے ہوا تھا۔ وہ لوگ کامباب ہوئے۔“ لبام نبائے ہوئے
مشکرانا۔ علتبا کو اس نات کی خوسی ہونی تھی کہ جس چیز کے لنے وہ گنے تھے اس
میں کامباب بو ہوئے لبکن اندر دل میں اقسردگی چھا گنی کہ اگر وہ لوگ قارغ ہو گنے
تھے بو دامیر اس سے راتطہ ک نوں نہیں کر رہا تھا۔
”دامیر سے اتھی تھی ناراض ہو؟“ لبام ئے شستم سے تگاہیں اتھائے علتبا کو
دنکھا خو مضظرب جالت میں اننی اتگلباں آنس میں الجھا رہی تھی۔
”نہیں بو۔۔“ وہ سنجبدگی سے بولی۔ وہ وافعی ناراض نہیں تھی۔ ناراصگی پہ اب
قکر ئے جگہ لے لی تھی۔
ت تک ن
”بو ا نسے نوں ھی ہو۔ وہ لوگ شاند آئے والے ہوں بو کجھ نباری کر لو۔“
لبام اس کو مسورے سے بوازنا ہوا بوال۔ علتبا ئے خونک کے اس کو دنکھا۔
جم س
”کٹسی نباری۔۔؟“ وہ نا ھی سے بولی۔
”ارے اننی جالت دنکھو۔کہیں سے نہیں لگ رہا کہ آپ کا شوہر وانس آئے واال
ہے۔“ لبام اس کے جلنے پہ اقسوس کرنا ہوا بوال خو آج تھی پراؤزر سرٹ میں مل نوس
تھی۔
ل ن جم ت ت س
وہ ا ھی ھی نا ھی سے اس کو د کھنے گی۔
”جاؤ زرا فرنش ہو جاؤ تھوڑا خوسنوؤں میں نہاؤ۔“ لبام تھوڑا ہاتھ نحا کے بوال کہ
علتبا ئے اس کو ناد ننی تگاہوں سے اس کو گھورا۔ نات بو وہ تھبک کر رہا تھا۔
”ا نسے دنکھنے سے کجھ نہیں ہوئے واال۔ اگر ناراصگی جتم ہے بو دکھاؤ بو سہی۔“
لبام اس کی گھوربوں کا اپر لنے تغیر زور د نبا بوال۔
ڈرنک کی گرل فرنبڈ نبال(اتھی نک وہ گرل فرنبڈ ہی تھی) اس وفت کنچن میں
ہی مصروف تھی خو نا سنے کے تغد چیزیں سمنٹ رہی تھی اور کاقی کے مگ نبار کر رہی
تھی جس کی فرمانش لبام ئے کی تھی۔
وہ کجھ زنادہ ہی تھبل گبا تھا نہاں ،انداز انشا تھا جٹسے امی ابو اس کو پڑی نہ نوں
کے ناس چھوڑ کے گنے تھے اور وہ نہاں جکم جالئے نتتھا تھا۔
گ ت تن ن
علتبا کجھ دپر بو ہی ھی رہی ھر لبام کی نات کا ہی اپر تھا خو وہ اتھ نی اور
ت
روم میں جلی آنی۔
چب وہ ڈرنک کے شاتھ زندگی گزارئے کے لنے خوسی خوسی راضی ہو شکنی تھی بو
علتبا ک نوں نہیں۔ رنان اور دامیر ئے وعدہ کبا تھا کہ وہ انک فتملی ہیں… .اور فتملی بو
خوش رہنی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”کبا علتبا کو نبانا اس نارے میں۔“ چنہ ئے رنان کے شاتھ جلنے بوچھا۔ رنان
ئے تقی میں سر ہالنا۔
دامیر کو دونارہ سیرنجر پہ شفٹ کبا جا رہا تھا ناکہ اس کو استبال لے جانا جائے،
ُ ن
وہ منٹشن نہیں گنے تھے۔ ڈرنک اتھی ہنجنے واال تھا نہیں پہ۔ اسے ا ھی لوم ہوا تھا
غ م ت
وہ روم میں جا رہے تھے۔ دامیر کا انمرجنٹسی آپرنٹ تھا ،نلٹ لگے دو گھتنے
ہوئے والے تھے اور اس سے مزند دپر نہیں کر شکنے تھے ک نونکہ گولی کا لوہا اندر کاقی
تقصان کر شکبا تھا۔ پہ تھی ہو شکبا تھا کہ وفت کے شاتھ وہ اندر گھلبا تھی سروع کر
دے ک نونکہ کجھ گول نوں کی شاچت اس طرح نبانی جانی تھی کہ وہ زہر کی طرح گھل
جانی تھی اور انشان دھیرے سے موت کے منہ میں جانا تھا۔
رنان ئے انک تظر چنہ کو دنکھا وہ دوبوں روم کے ناہر کھڑے تھے۔ رنان تطاہر بو
سباٹ چہرہ لنے ہوئے تھا جبکہ اندر دل گ ھیرا رہا تھا۔ تکلحت اس ئے انبا مونانل تکاال اور
نمیر ڈانل کبا۔
”ڈرنک آئے ہوئے گھر سے متم کو شاتھ لے آنا۔“ انبا کہہ کے اس ئے
مونانل وانس ناکٹ میں رکھا۔ چنہ نس ہلکا شا مشکرا دی۔
رنان کے تھروسے مبد آدمی نازناب ہونی لڑک نوں کو انک سبلیر ہوم لے جا رہے
تھے کہ اتھی وہ تھوڑی عرصہ وہاں رکنیں تھر چنہ اور رنان ان کے نارے میں تقصبل
سے کجھ شو جنے ناکہ ان کا مسیقل تھکاپہ ہونا۔ خو وانس جانا جاہے اسے جائے دیں
گے لبکن جس کا کونی آگے ننجھے پہ ہو گا ان کا ان یطام پہ لوگ کر لیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مزند نبدرہ منٹ سرکیں ہو نگے کہ ڈرنک نہاں آنا ہوا دکھانی دنا۔ اس کے ننجھے
علتبا دکھانی دی جس کا چہرہ گ ھیراہٹ سے زرد ہو رہا تھا۔
”شب تھبک ہے دامیر کہاں ہے؟ وہ آپ لوگوں کے شاتھ تھا نا۔ ڈرنک ئے
کجھ نبانا ہی نہیں مجھے۔“ وہ چنہ اور رنان کے فرنب آئے نیزی سے شوال کرئے لگی۔
گ ھیراہٹ ئےمعنی نہیں تھی۔
”دامیر زچمی ہے بو ڈاکیر جبک کر رہے ہیں۔“ چنہ ئے اس کو کبدھے سے
تھا منے ہوئے کہا۔ علتبا کی تگاہ آپرنشن روم کے لتبل پہ گنی چہاں آپرنشن کی النٹ
آن تھی۔
ت تف ت
”بو پہ آپرنشن ک نوں؟“ وہ بوکھالئے ہوئے بولی۔ آنکھوں میں ئے نی سی ھی۔
ع ل ت ُ
”اسے گولی ھی گی ہے“ چنہ آہشنہ سے بولی کہ لتبا ئے منہ پہ ہاتھ رکھ لبا۔
آنسو نہنے لگے۔
”لبکن تم لوگوں ئے بو کہا تھا کہ وانس آؤ گے اور شب تھبک ہو جائے گا بو پہ
ج ع ج ً
کٹسے؟“ وہ ا نحاجا صے سے النی۔
”ہم نٹسنٹ کو شفٹ کر رہے ہیں آپ ان کے ناس جا شکنے ہیں۔“ روم سے
انک دو اور ڈاکیر تکلے خو انہیں اطالع کرئے دامیر کا سیرنجر دوسرے روم میں لے جا
رہے تھے۔
جس ڈاکیر کو پہ شاتھ الئے تھے وہ اِ ن لوگوں کو ا چھے سے جانبا تھا نتھی فوری مدد
کر گبا اور نہاں کے انک پرابو نٹ استبال میں موخود تھے۔ چہاں ان کے ناقی آدمی
تھی اکیر انڈمٹ ہوئے تھے۔
دامیر کے شفٹ ہوئے ہی رنان نیزی سے کمرے میں داجل ہوا۔ اس کی
ڈرنسبگ کر دی گنی تھی۔ چہاں کجھ فبل خون رس رہا تھا اب وہاں شقبد نتباں تھی۔
”نار میں نمہیں نہیں دنکھ شکبا ا نسے۔“ رنان جلبا ہوا اس کے فرنب آنا۔
علتبا اور چنہ تھی نہیں موخود تھیں۔ علتبا کے آنسو نہیں تھم رہے تھے دامیر کو
ا نسے دنکھنے۔ چنہ ئے رنان کے کبدھے پہ ہاتھ رکھا۔
”ڈاکیر کو نالؤ۔۔“ وہ جد درجہ سنجبدگی سے بوال۔ چنہ ئے ڈرنک کو اشارہ کبا۔
”نمہیں میں ئے کہا تھی تھا کہ اس کو کجھ نہیں ہونا جا ہنے۔ اس کو البکیرک
ہن لک م ک ھ کن
سیروک دو نا کجھ کرو۔ وہ آ یں ھولے ورپہ یں نا ل نمہارا لحاظ یں کروں گا۔“
رنان ڈاکیر کی گردن کو دبوجبا ہوا سرد لہچے میں بوال کہ ڈاکیر بوکھال اتھا۔ علتبا تھی وجشت
ن
کے مارے اتھ کھڑی ہونی خو دامیر کے ناس اسنول پہ تتھی تھی۔
”ڈرنک خو تھی اِ س سے نہیر ڈاکیر ملے اس کو نہاں نلواؤ آج۔“ ڈاکیر کی گردن
کو چھبکے سے چھوڑے وہ ڈرنک سے بوال خو انبات میں سر ہال گبا۔
دامیر سر کی جاطر رنان کا پہ انداز ڈرنک کے لنے نبا نہیں تھا جبکہ چنہ اور علتبا
اس کے انداز پہ شاکت تھیں۔ رنان کو دنکھنے انشا لگ رہا تھا جٹسے وہ نل میں پہ
ہوستبل فبا کر دے گا۔
ُ
”سر۔۔۔“ ڈرنک کی آواز ئے رنان کو م نوجہ کبا۔ اس کے اشارے پہ وہ دامیر
ن ج م لن ھ
کو د نے لگا۔ کوں یں ٹش ہونی۔ کن
”دنکھو اسے جلدی۔“ کمرے میں رنان کی دھاڑ گونچی بو ڈاکیر خرکت میں آنا۔
علتبا ئے دامیر کا ہاتھ تھامے رکھا۔ وہ ہوش میں آرہا تھا۔
”سر آپ ہمیں دس منٹ دے شکنے ہیں ان کے شاتھ۔“ ڈاکیر ڈرئے ہوئے
رنان سے محاظب ہوا جس کی ئےناب تگاہ دامیر پہ نکی تھی۔ رنان کے ناپرات ا نسے
تھے جٹسے وہ اتھی رو دے گا۔ دامیر ہوش میں آرہا تھا۔ اس کی اننی دھڑکن پڑھ رہی
تھی۔
وہ ئےرچم رنان ا ننے دامیر کے لنے جد سے زنادہ خزنانی تھا۔ وہ دنبا کھو شکبا تھا
لبکن دامیر نہیں۔ چنہ ئے آگے پڑ ھنے رنان کا نازو تھاما ناکہ وہ ناہر و نٹ کر شکنے۔
ب ُ ن لم
علتبا ئے چی تگاہوں سے ڈاکیر کو د کھا کہ اسے دامیر کے ناس ر ہنےدیں کن
ل ن
انہوں ئے م یع کر دنا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گالس ڈور کے نار دامیر کا وخود دکھانی دے رہا تھا۔
اسے انک اور خون کی ڈرپ لگی تھی۔ ڈاکیر کے مطابق وہ حظرے سے ناہر تھا
لبکن انتنی اتقبکشن مبڈنسیز کی وجہ سے وہ اتھی ع نودگی میں رہے گا۔ علتبا کا رونا اب
ت ت م ن ت تنت ن
نبد ہو حکا تھا۔ وہ نچ پہ ھی ا نی زندگی کے نارے یں شوچ رہی ھی۔ زندگی کبا ھی
ُ
اور کبا ہو گنی ،تگاہیں شا منے ر کھے وہ غیر مرنی تقطے کو گھوری جا رہی تھی۔ آج اس
ئے انک چیز محسوس کی تھی۔
دامیر کو اِ س سے زنادہ تھی کونی جاہبا تھا ،علتبا سے زنادہ کونی اور تھی اس کی
ت ُ
زندگی جاہبا تھا خو اس کے لنے رونا ھی تھا۔
چنہ روم سے ناہر آنی ،وہ انبا نازو مشل رہی تھی۔ اس ئے دامیر کو نلڈ دنا تھا۔
کن
”تم دامیر کو مج نوں کہنے ہو ،خود کی جالت د ھی م ئے۔“ چنہ اسبہزاننہ انداز
ت
ن ن
میں رنان کو جبانی ہونی بولی کہ ماخول چھانی جبکی کو کم کر شکے۔ رنان ئے ا نی آ یں
ھ ک
صاف کیں۔ وہ مشکرانا نہیں تھا۔ سبل کھڑا رہا۔ نت نٹ کی ناکٹس میں ہاتھ ڈالے۔
ُ
”وہ سحص نبدرہ شال سے اننی زندگی کی پرواہ کنے نبا میری حقاظت کرنا رہا۔ اسے
مج ُ
اننی جان سے زنادہ میری جان عزپز ہے۔ اور ھے اس کی۔ رنان ڈی ئے اگر زندگی یں
م
ن ت م ُ
آنکھ نبد کے تھروسہ کبا بو وہ دامیر ہے۔ یں اسے ھوئے کا شوچ ھی یں شکبا۔
ہ ک
م ُ
میری زندگی اس سے خڑی ہے۔۔ اس کی ہر آنی جانی شانس سے یں شانس لتبا
ہوں۔“ رنان سنجبدگی سے کہبا جا رہا تھا۔ وہ انبا دل چیر کے تھی دکھانا بو دامیر کے لنے
وہ القاظ پہ کہہ نانا خو وہ محسوس کرنا تھا۔ اس کی آنکھوں اتھی تھی نمکین نانی تھا
جبہیں وہ روک نہیں رہا تھا۔
ت ُ ع ت تننج نت ن
ھے نچ پہ ھی لتبا محو نت سے اسے شن رہی ھی۔
”وہ تھبک ہے اب۔“ چنہ پرمی سے اس کے حصار میں آنی۔ رنان وافعی نہت
ڈسیرب ہوا تھا۔ وہ جاننی تھی۔
علتبا کو تھر سے رونا آئے لگا۔
وہ ان لوگوں سے دور جانا جاہنی تھی خو انک دوسرے پہ جان لبائے تھے۔
س ت ہ ل ھ کن
آ یں پرسنے گی کہ وہ شدت سے دامیر کے ناس جانا جا نی ھی ناکہ وہ اس سے تنے
ُ ہ ہ ن چ ت ک ُ
سے لگ کے نبانی …وہ اسے ھی ھوڑنا یں جا نی۔ وہ شاری زندگی اس کے شاتھ
ت ُ
رہے گی جاہے خود وہ کتنی تفرت دکھانی اور جبانی لبکن وہ اس سے مجنت کرنی ھی۔
روئے کی آواز پہ چنہ ئے خونک کے ننجھے دنکھا۔ رنان ئے اس کے گرد سے نازو
ہبائے۔
”تم علتبا کے ناس جاؤ میں دامیر کو جبک کر لوں۔“ رنان کہبا ہوا گالس ڈور
دھکبل کے اندر پڑھا۔
چنہ جلنی ہونی اس نک آنی اور شاتھ نتتھ گنی۔
چنہ ئے دامیر کو خون دنا تھا۔ وہ اس کی مشکور تھی ک نونکہ ان ئے تھی دامیر کی
جان نحانی تھی۔
”رنان دامیر کے لنے نہت جشاس ہے نا۔“ علتبا ئے اداسی سے اس کے
کبدھے پہ سر تکائے کہا۔
”ہوں۔“ اس ئے سر ہالنا۔ ا ننے مسکل دن کے تغد کجھ شکون کے لمحات
مٹسر آئے تھے۔
”نہت زنادہ۔ میں ئے نہلی نار اس کی آنکھوں میں آنسو د نکھے۔ وہ زندگی میں
دوسری نار رونا ہے۔“ چنہ ئے تگاہیں شا منے کرئے ہوئے سنجبدگی سے کہا۔ علتبا
ل ن جم س
نا ھی سے د کھنے گی۔
”دوسری نار!“
ُ
”نہلی نار ا ننے ماں ناپ کی موت پہ۔“ چنہ ئے اسی انداز یں کہا۔ لتبا جٹسے
ع م
سمجھ کے سر ہال گنی۔
”نہت نبار کرئے ہو نگے نا۔“ علتبا تھرائے لہچے میں بولی۔
”نہیں۔۔“ چنہ ئے تقی میں سر ہالنا وہ تھر خونکی۔
”تھر۔۔“
ت ُ
”رنان نہلی نار اننی ماں کی موت پہ رونا تھا ھر اس ئے ماں کو مارئے والے
ناپ کو مار دنا۔“ چنہ نالکل سنجبدگی سے بولی کہ علتبا کا دماغ اس کی نات کو پروسٹس
کرئے لگا کہ آنا چنہ ئے کبا کہا تھا۔
”علتبا آجاؤ۔۔“ اس سے نہلے وہ کجھ کہنی ،رنان ئے دروازہ کھولے علتبا کو اندر
آئے کا کہا۔ علتبا کا دل محل اتھا۔ وہ دامیر کے ناس جانا جاہنی تھی ،اس کے حصار
میں جانا جاہنی تھی لبکن اس وفت ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ اس کے قدم نتھر ہو
گنے تھے۔ کجھ دپر فبل چب وہ دامیر کے ناس تھی نب دامیر کی جالت دنکھنے وہ مزند
نکھر گنی تھی۔
وہ علتبا کو کہہ کے گبا تھا کہ اگر علتبا دور جانا جاہنی تھی بو دامیر کے مرئے کا
ان یطار کرے۔ اور دامیر ئے کس انداز میں علتبا کو مجنت کا سنق شکھانا تھا۔
ہر انک کی ک یق نت الگ تھی۔ شب کے خزنات دامیر سے خڑے تھے۔ چنہ پہ
دامیر کا فرض تھا کہ اس ئے اننی جان کی فرنانی د ننے انک معصوم کی جان نحانی
تھی۔
ُ
رنان ڈی کے بو نام میں دامیر شامل تھا۔ وہ کٹسے اسے ا نی زندگی سے جائے
ن
د نبا۔
اور علتبا ،جس زندگی سے وہ تھاگبا جاہنی تھی اب وہی زندگی وہ دامیر کے شاتھ
گزارنا جاہنی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اندر کا ماخول عج نب ہی وجشت ناک تھا۔ علتبا کو نہاں رکبا نالکل نسبد نا آنا۔
لج ہن ُ
اسے دامیر کا نہاں ا نسے لنتبا نسبد یں آنا تھا۔ وہ نی ہونی دامیر کے نبڈ کی جانب
پڑھی۔ پران نو نٹ روم تھا جس کی وجہ سے روم کاقی کشادہ تھا۔
رنان جاموسی سے دانیں جانب موخود صوقہ سنٹ پہ نتتھ حکا تھا۔ علتبا کے شاتھ
داجل ہونی چنہ تھی جلنی ہونی رنان کے ناس ہی نتتھ گنی۔
علتبا ئے انک تظر رنان کو دنکھا خو اسی کو دنکھ رہا تھا۔ رنان کے اشارے پہ
علتبا دامیر کے شاتھ ہی نبڈ پہ نتتھ گنی۔
”تم شوئے ہوئے نالکل ا چھے نہیں لگنے۔۔“ دامیر کے ہاتھ پہ انبا ہاتھ رکھنی وہ
ن
ئےشاچنہ کہہ اتھی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ دامیر کو کتھی شوئے ہوئے د نی
ھ ک
ک نونکہ ہمٹشہ وہ اس سے نہلے اتھ جانا تھا۔ لبکن آج چب وہ نتبد میں تھا بو علتبا کو
نالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
فظرہ فظرہ الل محلول نارنک نالی سے گزرنا ہوا دامیر کی نس میں جا رہا تھا۔ اس کا
کبدھے پہ ہلکی ننی کر رکھی تھی۔ مرہم لگنے کی وجہ جلنے والی جگہ کو نانٹ ننی سے
نہیں نبدھا تھا۔
چہرے اور گردن پہ تھی نتبڈج کی گنی تھی۔
وہ علتبا کا طالم ئےرچم سہزادہ اس وفت ئےچیر شو رہا تھا جس سے علتبا کی
تکل یف میں نل نل اصاقہ ہو رہا تھا۔
اس کا ہاتھ تھامے وہ مشلشل اتگل نوں پہ تگاہ چمائے ہونی تھی۔
جٹسے انک معصوم نحہ اننی چیز کھو جائے پہ اداس شا نتتھا رہبا ہے و نسے ہی علتبا
کے چہرے کے ناپرات تھے۔
پرائے شکوے تھالئے اس وفت ننے شکووں کا انبار سج رہا تھا کہ وہ ک نوں اس
سے روتھا تھا۔ ک نوں ا نسے ن یگاپہ اور التغلق شا پڑا تھا۔
علتبا ئے کن اکھ نوں سے رنان کو دنکھا خو نہلے کی نانسنت پرشکون انداز میں
صوفے سے نبک لگائے نتتھا تھا۔ جبکہ چنہ کے چہرے پہ تھوڑی تھکن دکھانی دے
رہی تھی۔
ڈرنک ان کے لنے گھر سے کجھ کھائے کو لے آنا ناکہ وہ فرنش ہو شکیں لبکن
علتبا ئے اتکار کر دنا ک نونکہ اس کا دل نہیں کر رہا تھا۔ دامیر کو و نسے ہوش آگبا تھا۔
اس کا دل اب نارمل ستبڈ پہ دھڑک رہا تھا لبکن شکون آور دوان نوں کے زپر وہ ع نودگی
میں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
انہیں نہاں رکے رات ہوگنی تھی۔ رنان چب سے نہاں تھا انک نل تھی دامیر
ت تم ن ن
سے خود کو اوچھل نہیں ہوئے دنا تھا۔ نہی جال علتبا کا تھا۔ وہ بو حشمہ نے ھی
تھی دامیر کے ناس۔ اِ سی کی تھکن کا جبال کرئے رنان ئے چنہ کو تکارا۔
رنان ئے چنہ کا تھامے اس کو کھڑا کبا۔ چب سے آئے تھے ،جتنج تھی نہیں
کبا تھا۔
وہ جائے لگے نب تھی علتبا ئے بوٹ نہیں کبا تھا۔
”علتبا!“ چنہ ئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھا۔ وہ خونکی۔ اسبہقامنہ تگاہوں سے
اس کو دنکھنے لگی۔
”لنٹ جاؤ۔۔ تھک جاؤ گی۔“ وہ پرمی سے دامیر کے شاتھ ہی اس کو اشارہ کرنی
بولی۔
”میں دوسرے روم میں ہوں۔ کجھ جا ہنے ہوا بو۔۔“ چنہ اتھی کہہ رہی تھی چب
رنان بول اتھا۔
”میں ناہر ہی ہوں۔ تم دوبوں آرام کرو۔ میں شب دنکھ لوں گا۔“ وہ سنجبدگی
سے بوال۔ علتبا انبات میں سر ہال گنی۔
وہ رنان کے شاتھ ناہر تکل گنی اور علتبا نبڈ سے کھڑی ہونی لبکن اس کا ہاتھ
دامیر کے ہاتھ میں تھا۔
اننی دپر سے اس کو اندازہ ہی نہیں ہوا تھا دامیر کے ہاتھ ئے گرفت نبانی تھی۔
تعنی وہ انبا تھی عاقل نہیں تھا نبہوسی میں تھی۔
ہلنے سے علتبا کو اننی کمر میں درد محسوس ہوا۔ وہ کاقی دپر سے انک ہی بوزنشن
میں تھی بو درد جاگ گبا تھا۔
نبڈ کشادہ تھا۔ علتبا آرام سے لنٹ شکنی تھی۔ انبا ہاتھ اس کی گرفت سے
ً
تکالے تغیر خونا انارئے علتبا دامیر کے پراپر لنٹ گنی۔ وہ چت لتبا تھا۔ علتبا اجتباط
ت ت تل ُ
اسی طرف نی ھی جس شانبڈ دامیر کا کبدھا ھبک تھا۔
ت ت ج ت ج ُ
اس کی ڈرپ کب کی م ہو کی ھی اب وہاں انک ن نپ لگانی ھی۔ ڈنڈنانی
تگاہوں سے اس کا چہرہ فرنب سے دنکھنے علتبا ئے آہشنہ سے اتگل نوں کے بوروں سے
اس کے چہرے کو چھوا۔
”آنی اتم شوری دامیر ،میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔ مجھے انشا نہیں کرنا جا ہنے
تھا۔“ وہ خود کو روئے سے پہ روک نانی۔ آج کے دن علتبا جتبا رو جکی تھی شاند ہی
کتھی ا ننے آنسوں نہائے ہوں اس ئے۔
”تم مجھ سے نات کرو نا۔۔ مجھے تکارو جٹسے ہر نار تکارئے تھے۔ جاہے عصے میں
تھی۔“ وہ اننی عمر سے کاقی چھونی لگ رہی تھی خو نحوں کی طرح روئے اس سے
شکوے کر رہی تھی۔
اجانک دروازہ کھلنے کی آواز پہ علتبا خونک کے اتھنے لگی کہ رک گنی۔
”کجھ جا ہنے اتھی؟“ رنان جلبا ہوا نبڈ کے فرنب آنا۔ چنہ ئے خون دنا تھا بو اس
کو فرنش خوس نتنے رہبا جا ہنے تھا نتھی بوچھنے لگا۔
اچھی سنٹس تھی نہاں وہ دوبوں نہاں لنٹ شکنے تھے لبکن چنہ جاننی تھی کہ وہ
شوئے گا نہیں۔
”نہیں مجھے نس الجھن ہو رہی ہے ان کیڑوں میں۔“ وہ دھیرے سے بولی اور
اس سے کجھ قاصلے پہ نتتھ گنی۔
”تھتبکس ملٹسکا!“ رنان گہرا شانس ت ھرئے اس کی طرف ُرخ کرنا ہوا مم نون لہچے
میں بوال کہ چنہ ئے الجھ کے اس کو دنکھا۔
م جم س
”ک نوں؟“ وہ نا ھی و الع لی سے بولی۔
”تم ئے دامیر کی جان نحانی۔ تھتبک بو شو مچ۔“ رنان وافعی مشکور تھا۔ چنہ
ئے نہلی نار دنکھا ہو گا کہ رنان شکرپہ ادا کر رہا تھا وہ تھی ا ننے ا چھے طر تقے سے۔
ئےشاچنہ وہ ہلکا شا کھلکھالنی۔
”رنان تم ان نل نو نبل ہو۔“ وہ تقی میں سر ہالنی ہونی بولی۔
”دامیر ئے میرے لنے نہت کجھ کبا ہے اس کے مقا نلے میں میرا عمل نہت
ت تمظم ن
چھونا ہے رنان۔ اگر تم دوبوں پہ ہوئے بو شاند میں اس وفت ین پہ ھی ہونی۔“
چنہ ئے انبان نت سے اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھا۔ رنان کی ہلکی سنو کی چھین ہتھبلی
پہ محسوس ہونی۔
رنان مشکرانا۔ وہ اس کو چھو رہی تھی۔ لمس کی عادت ہو جلی تھی۔ جس لڑکی کو
چھوئے جائے سے الرجی تھی وہ اب خود اس کو محسوس کرنی تھی۔
اس کی آنکھوں کی چمک پڑھی۔ پزدنکی و فرنت کا اجشاس پڑھا۔
”انک شوال کروں!“ چنہ ئے اجانک کہا۔ تگاہوں کا تصادم ہوا ،رنان ئے
چہرے پہ ر کھے اِ س کے ہاتھ کو ل نوں سے لگانا اور سر ہلنے گونا اجازت دی۔
”اگر کتھی میں اور دامیر انک ہی سحونشن میں تھٹسے ہوں بو تم کس کو نحاؤ
ک چ
گے؟“ وہ اس کی آنکھوں میں د نکھے’ نبا سی ک کے شوال کر نی ،دامیر کے
گ ھ جھ
ُ
م ش
لنے خو روپ رنان کا شا منے آنا تھا اس سے چنہ کاقی مباپر اور ر ک حسوس کرئے
لگی۔
دامیر سے کونی مقانلہ نہیں تھا وہ نس رنان سے جانبا جاہنی تھی کہ کبا وہ دامیر
پہ اِ س کو جنے گا۔ نا شاند وہ خواب جاننی تھی۔
لج ُ
”دامیر نمہیں نحا لے گا۔“ چنہ کی بوفع کے پرعکس خواب ملنے پہ وہ ا ھی۔ اسے
تکا تفین تھا کہ وہ دامیر کا نام لے گا۔
”میں نہاں آرام کرئے کو رکا بو تم سے آرام نہیں ہو نائے گا تھر۔۔“ آنکھوں
میں چمک لنے وہ زومعت نت سے بوال کہ چنہ چہرے پہ امڈ آئے والی مشکراہٹ کو روک
گنی۔ آپرو اتھائے اسے دنکھا۔
”ج نپ ڈانالگز۔۔“ وہ طیزپہ بولی کہ رنان منٹشم ہوئے اس کی جانب پڑھا۔ دوبوں
اطراف میں ہاتھ تکائے۔
چ ن
”رک جاؤں؟“ آنکھوں میں آ کھیں ڈالے گھمئیر لہچے میں بوچھا۔ وہ کی۔ تھوڑا
ھ جھ
کھلکھالنی تھر چہرہ موڑے اس کے ستنے پہ ہاتھ دھرے۔ اس سحص کا ناس آنا اب
دل کو تھانا تھا۔
اس ئے رنان سے کجھ کہا نہیں تھا نس رخ ت ھیر گنی تھی۔ اس کو جائے کا
کہنے کے لنے دل نہیں تھا اتھی لبکن وہ رکے گا تھی نہیں۔ پہ تھی جاننی تھی۔ دامیر
کے دروازے کے نار نتتھا رہے گا۔ اس کو دنکھبا رہے گا۔
ت ل تن ک ھ کن
چنہ ئے آ یں موندیں کہ نی پہ مس محسوس ہوا۔ ھر ا ننے کبدھے پہ۔
وہ ننجھے ہبا اور النٹ آف کرئے ناہر آگبا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کارنڈور میں النٹ اب مدھم تھیں ک نونکہ خو نٹسنٹس انڈمنٹ تھے ان کے لنے
راہداری ڈم النٹ سے روشن کی گنی تھی۔ سباف کی شفٹ جتنج ہونی تھی۔ اتھی تھی
شب انک نو تھے۔
اس ئے انک تظر دامیر کے روم کو دنکھا۔ دامیر کے روم سے ناہر آئے سے نہلے
وہ گالس ونڈو کے نالنتبڈز گرا آنا تھا ناکہ علتبا تظر پہ آئے۔
جن ن ت م ن تن م ظم
وہ ین تھا اب۔ ناہر موخود نچ پہ تتھ گبا۔ نالوں یں ہاتھ ھیرے سر ھے
ن
دبوار سے تکانا۔ گہرا شانس تھرا چہرے پہ ہاتھ ت ھیرئے ا نسے ہی آ کھیں موندیں رکھیں۔
اس نار حقاظت کرئے کی ناری رنان کی تھی۔
اکبڈمی سے چب وہ لوگ فری ہوئے تھے نب سے دامیر اس کو گارڈ کرنا تھا۔ وہ
انک نہیرین کئیر تھا۔ آج تھی اکبڈمی میں ننے اس کے رتکارڈ کو کونی بوڑ نہیں نانا
ن ت ن ت ک ت ن تس ُ
ن ب
تھا۔ اس ئے اشا ٹشن کی ھی پرنت گ لے ر ھی ھی ھی کانیر کٹ شا ین کر لتبا
تھا۔
چب ان لوگوں کا کسی دسمن سے ناال پڑنا بو دامیر انک نل تھی شوچے نبا اس
کے شا منے دبوار ین کے کھڑے ہونا کہ رنان کے حصے کی گولی تھی اس کو چھو کے
پرابوا میں آئے کے تغد اہمنت زنادہ پڑھ گنی تھی اور لوگ خود اس کی طرف
رخوع کر رہے تھے ناکہ وہ قاندہ میں رہیں ورپہ پرابوا کے جالف جائے پہ رنان مقانل کی
شاری آرگباپزنشن نباہ کروا شکبا تھا۔
ان کا کام جلبا رہبا تھا ،دسمن کتھی جتم نہیں ہوئے وہ پڑ ھنے جائے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دامیر کا ہاتھ تھامے وہ گہری نتبد میں تھی۔ انک ہاتھ دامیر کے ہاتھ کی گرفت
میں تھا جبکہ دوسرا ئےدھبانی میں دامیر کے ستنے پہ دھرا تھا۔
اس کے چہرے پہ اطمبان تھا وہ شکون تھری نتبد شو رہی تھی۔
کجھ دپر فبل کی اس کی آنکھ کھلی تھی اور ستنے پہ ہلکی سی تھٹس اتھنے پہ دنکھا بو
علتبا کا ہاتھ اس کے ستنے پہ آگبا تھا۔ دامیر ئے تھوڑا اتھبا جاہا لبکن کبدھے پہ
م ن م
اجانک جلن سی ہونی۔ اس ئے ا ک نار ل خود کا جاپزہ لبا۔
ک
”اوفف ا ننے زچم ،لگبا وہبل چئیر پہ الئے کا ارادہ ہے۔۔“ وہ ندمزہ ہوا کہ ا نسے
تھی کبا زچم کہ بورا ندن ہی نت نوں میں جکڑ دنا اس کو۔
ناس شونی علتبا پہ تگاہ گنی۔ وہ آج تھی اسی کی نی سرٹ اور پراؤزر میں موخود
تھی لبکن کجھ کمزور سی۔
دامیر ئے کروٹ لتنی جا ہنے کہ انک اور تھٹس۔ نشلی کے ناس۔ گولی کا زچم
تھا اس کے زنادہ ہلنے سے خون ر سنے لگبا۔
لتبا رہا۔ ا ننے ہاتھ میں موخود علتبا کے ہاتھ کو محسوس کرئے لگا۔ اس کی مدھم
شانسیں کبدھے پہ پڑ رہی ت ھیں۔
نبا نہیں کتنی دپر نبہوش رہا تھا ،شو جنے ہوئے وہ اس ئے علتبا کا ہاتھ اوپر اتھانا
کہ ل نوں نک الشکے۔
ہاتھ کے ہلنے پہ علتبا کی نتبد بونی اور ہڑپڑا سی گنی۔
ن
”دامیر تم تھبک ہو۔۔“ وہ بوکھالنی ہونی بولی اور نیزی سے اتھ تتھی لبکن دماغ
گھوم شا گبا ک نونکہ اس ئے کل صنح کا کھانا کھانا تھا۔ کمزوری پڑھ گنی تھی۔
”تم اتھ گنے۔۔ “ اس کی کھلی آنکھوں کو د نکھے وہ فرط خزنات سے بولی۔
”درد بو نہیں ہو رہا کہیں۔ جلن بو نہیں ہو رہی نہاں۔۔؟“ پرمی سے اس سے
ہاتھ چھڑوانی ہونی م یقکر لہچے میں بولی کہ دامیر مشکرا دنا۔
”مجھے کجھ نہیں ہوا پرنسٹس ،میں تھبک ہوں۔“ اس ئے پرمی سے کہا جبکہ
دامیر کے نات کرئے پہ وہ روہانشا ہونی۔
”تم کتنے پرے ہو دامیر۔۔“ علتبا تھوڑا آگے ہونی کہ اس کے ستنے سے لگ
شکنی لبکن تھر رک گنی اور آنکھوں سے سبالب جاری کر دنا۔
”ادھر آؤ۔۔“ دامیر ئے خود انبا نازو وا کبا کہ وہ اس کی شانبڈ پہ آجائے۔ وہ نبا
کسی دپر کے اس کے کبدھے سے لگ گنی۔
”نمہیں درد بو نہیں ہو رہا نا!“ تھر بوچھنے لگی۔ دامیر ئے تقی میں سر ہالنا اور اس
کی کنتنی کو چھوا۔
”پرنشانی کی نات نہیں ہے۔ میں تھبک ہوں اب۔ تم ئے انبا جبال رکھا؟“
کمرے میں اتھی تھی ملگحا شا اندھیرا تھا۔ علتبا ئے خواب د ننے کے نحائے البا
ل کن
اس کو شکوہ کباں تگاہوں سے د نے گی۔
ھ
”مجھے مس کبا؟“ تکل یف کے ناوخود دامیر ئے تھوڑی کروٹ لی کہ اب علتبا
اس کے حصار میں فبد ہونی۔
”میں ئے نمہیں مس کبا دامیر ،نہت زنادہ لبکن تم ئے مجھے ہرٹ کبا۔ تم ئے
مجھے کجھ نہیں نبانا نا مجھے مٹسج کبا اور نا کال۔“ وہ تھرائے لہچے میں اس سے انک نار
میں ہی شکوے کر گنی۔
وہ اندر آنا۔ علتبا چھت نپ کے ننجھے ہنی ،تھبگے رجشار کو ہاتھ کی ہتھبلی سے صاف
ن
کبا۔ کل سے مشلشل روئے کی وجہ سے آ یں اور ناک سرخ ہو کے ھے۔
ت ج ھ ک
رنان کے چہرے پہ زندگی سے تھر بور مشکراہٹ اتھری۔ دامیر کے فرنب آنا اور
نبا کسی زچم درد کی پرواہ کنے اس پہ چھکنے ستنے میں تھتنحا۔ دامیر کو بو نہیں الننہ
علتبا کو رنان کے اس اظہار پہ درد ہونی۔
ُ
”اگر تم اتھی تھی ہوش میں پہ آئے بو میں نمہیں خود اڑا د نبا۔۔“ اس سے دور
ہوئے ہوئے وہ بوال کہ دامیر مشکرا دنا۔
”آشانی سے نہیں جائے واال میں ،اتھی بو ا ننے نتنے کو نمہارے شاتھ کھبلنے
دنکھبا ہے۔“ دامیر مشکرائے لہچے میں بوال کہ اس کی اجانک کہی نات پہ علتبا سنتبا
ن م س
اتھی جبکہ رنان نا ھی سے اس کو د کھنے لگا۔
ج
”نتبا! میرا تھتنحا۔۔“ رنان دامیر کے نالکل شاتھ نتتھا تھا اور تصدبق جاہی کہ
دامیر ہٹس دنا۔
”تم ئے نبانا نہیں؟“ دامیر ئے علتبا سے پراہ راشت بوچھا جس پہ وہ مزند
گڑپڑانی۔
”چنہ کہاں ہے؟“ علتبا کو خود ہی نہاں سے بو دو گبارہ ہونا تھا نتھی رنان سے
بوچھنے لگی۔
”وہ شاتھ والے روم میں ہے تم اس کے ناس جا شکنی ہو۔“ رنان پرمی سے بوال
کہ علتبا عاف نت جاننی ہونی نبڈ سے ننچے اپر آنی۔ فرنش ہوکے وہ کمرے سے جائے لگی
لبکن جائے سے نہلے اس ئے رنان اور دامیر اور شاتھ نتتھے دنکھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
علتبا چنہ والے کمرے میں آنی بو وہ اتھی تھی مِحو خواب تھی۔ وہ جاموسی سے
اس کے ناس ہی نتتھ گنی۔ اسے تھوک کا اجشاس ہو رہا تھا۔ آنکھوں کی شوزش اور
سر میں درد تھی اتھ رہی تھی۔
اتھی نہاں نتتھے اس کو تھوڑی دپر ہی ہونی تھی کہ دروازہ ناک ہوا۔ چنہ کا
جبال کرنی ہونی وہ اتھی اور دروازے نک گنی۔
انک آدمی کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں پرے تھی۔
”سر ئے ناشنہ تھنحا ہے آپ کے لنے۔“ اس ئے مؤدب انداز میں کہا۔ علتبا
ئے پرے تھام لی اور اندر آگنی۔
”دامیر کٹشا ہے؟“ علتبا اتھی مڑی ہی تھی کہ آواز پہ خونک گنی۔ چنہ اتھ
ن
تتھی تھی۔
”تم ئے مجھے ڈرا دنا۔۔“ وہ آہشنہ سے بولنی ہونی پرے اس نک لی آنی۔
”دامیر تھبک ہے۔ فرنش تھی لگ رہا تھا۔ رنان اس کے ناس ہے۔“ علتبا
مشکرانی ہونی بولی۔
”تم نتتھو میں فرنش ہو کے آنی ہوں۔“ چنہ سر ہالنی ہونی اتھی اور فرنش ہوئے
گنی۔ علتبا اس کے ناہر آئے کا ان یطار کرئے لگی۔
ان دوبوں ئے مل کے ناشنہ کبا اور وانس دامیر کے روم میں آ گنے۔
چہاں وہ رنان سے منٹشن میں وانس جائے کا زکر کر رہا تھا ک نونکہ نہاں مزند رکبا
اس کو کوفت میں متبال کر رہا تھا۔
رنان ئے تقصبل میں ڈاکیر سے نات کر لی۔ دامیر کی انک نار ڈرنسبگ جبک کی
ت تن
گنی اور وانس جائے کی نباری کرئے لگے۔ علتبا نب سے اس سے قاصلے پہ ہی ھی
تھی جبکہ دامیر کی تظریں مشلشل اس کا طواف کر رہی ت ھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اننی جبکٹ اور انک دو چیزیں لتنے وہ دوسرے کمرے میں آنی۔ تھوڑی دپر میں
وہ تکلنے والے تھے۔ ڈرنک ان کا ننچے ان یطار کر رہا تھا۔ اننی جبکٹ نہن کے اس ئے
نال ناہر تکالے اور ان کو رف سے خوڑے میں ناند ھنے لگی چب کمر سے رنبگنے ہاتھ
آگے نبدھے۔
”دامیر اور علتبا بو اننی فتملی سبارٹ کر جکے ہیں تم تھی کجھ شوخو۔۔“ اس کے
کبدھے پہ ہونٹ رکھنے ہوئے وہ مجمور لہچے میں بوال۔
جم س
”کبا مطلب۔۔؟“ وہ نا ھی سے بولی۔
”نمہیں علتبا ئے نہیں نبانا!“
رنان کے بوچھنے پہ چنہ ئے تقی میں سر ہالنا کہ کس نارے میں نبانا تھا۔
”اتکل آ ننی نتنے جا رہے ہیں ہم۔۔۔“ وہ ف ِرط خزنات سے کہبا ہوا جشارت کر گبا
ل ب ل جم س
کہ چنہ ئے نہلے نات کو ھنے گی ل کن رنان کی ئےناک خرکت پہ وہ گھورئے گی۔
”رنبلی۔۔۔“ وہ خوش ہونی۔ رنان ئے انبات میں سر ہالنا۔
”اب نباؤ کہ تم کب۔۔؟“ رنان ئے گہری تگاہیں اس پہ تکائے معنی چیزی
سے بوچھا۔
ل ہ َ
”شٹ اپ۔۔۔“ وہ سنتبانی اور اس کے ہاتھ دور کرئے تنے گی۔
”شوق نہت ہیں ،نمہیں گھر جا کے گ نوانا ہوں۔“ وہ آنکھ دنا کے بوال کہ وہ
ن گ گ ھ کن
آ یں ھما نی۔ انک بو اس کے ج نپ رومنتبک ڈا الگز۔ کوفت ہوئے کے ناوخود وہ
انحوائے کر کے ہٹس دنا کرنی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رنان ئے دامیر کے آرام کر لنے ہر چیز خود سنٹ کی تھی۔ گاڑی کی سنٹس
تھی اس ئے سنٹ کی ت ھیں کہ وہ آرام دہ بوزنشن میں رہبا۔ دامیر کو نئیز والی سرٹ
نہبانی تھی ناکہ اس کو انبا چھلشا ہوا کبدھا موو پہ کرنا پڑے۔
علتبا اور چنہ دوبوں کو ڈرنک ڈران نو کر کے لے جا رہا تھا جبکہ دامیر رنان کے
شاتھ تھا۔
علتبا ئے رنان کو اس کی خرکت پہ گھورا تھی تھا کہ چب وہ دامیر کے شاتھ ہونا
بو علتبا کو ننجھے ہونا پڑنا تھا جٹسے علتبا نہیں رنان اس کی ن نوی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
دامیر کے ننجھے نکنے سنٹ کنے۔ وہ ناؤں اوپر کر کے نتم دراز ہو گبا۔
”نمہیں ہمٹشہ نازو پہ خوٹ لگنی ہے دامیر۔“ علتبا م یقکر لہچے میں بولی۔ اس سے
نہلے تھی اس ئے دامیر کے کبدھے نا نازو کو ہی زچمی دنکھا تھا۔
”وہ اس لنے کہ تم مجھے کھانا کھال شکو۔ زچمی شوہر کی قدر کر شکو۔“ وہ اس کو
سرپر مشکراہٹ لنے سمجھائے والے انداز میں بوال۔
”زچمی شوہر۔۔!“ علتبا کو اس کا کہبا اچھا پہ لگا۔
ن
”تم انبا جبال ک نوں نہیں رکھ رہی۔ کمزور ہو گنی۔“ پراپر تتھی علتبا کا ہاتھ
تھامے وہ حقگی سے بوال۔ اس کا ہاتھ اب چہرے کی طرف پڑھا۔
”نمہاری وجہ سے ہی۔ اننی ننٹشن د ننے ہو۔“ وہ شارا الزام اس کے سر ڈالنی
ہونی بولی کہ دامیر مشکرا دنا۔ وہ اس کو ستنے میں تھتنجبا جاہبا تھا لبکن اننی جالت کے
زپر اپر فوری انشا پہ کر نانا۔
”بو میں ہوں نا جبال رکھنے کے لنے۔“ رجشار کو پرمی سے چھوئے ہوئے دامیر
نبار تھرے لہچے میں بوال۔
علتبا کے دل میں کونی انسی نات نہیں آنی تھی کہ وہ محسوس کر نانی دامیر کا
پہ فرنب تھا۔
کروں۔ نمہیں مغلوم ہے مجھے کٹشا فبل ہو رہا تھا۔ انشا لگ رہا تھا جٹسے کجھ دپر میں
میری جان تکل جائے گی۔ میں شوجبا نہیں جاہنی تھی کہ نمہیں کجھ ہو جائے۔“ وہ
تھرائے لہچے میں بولی کہ آنکھوں میں نمی تھی چھلکبا سروع ہو گنی۔ دامیر چیران شا
اس کو د نکھے گبا خو اجانک نگڑ گنی تھی۔
”کجھ تھی نہیں ہوا مجھے اور پہ ہو گا۔ ک نوں خود کو ہلکان کر رہی ہو۔“ دامیر اس
م ُ
کو نازو سے تھامے وانس اسی بوزنشن یں نتھانا ہوا بوال۔
”ہاتھ پہ لگاؤ مجھے۔۔“ اس کے شکون سے کہنے پہ وہ ہاتھ چھبکنی ہونی بولی۔
”پہ جبال رکھو گی تم میرا۔ زچمی شوہر ناس لتبا ہے اور تم کہہ رہی ہو کہ ہاتھ پہ
لگاؤں نمہیں۔“ دامیر سنجبدگی سے بوال کہ علتبا ئے تم نلکیں اتھائے حقگی سے اس کو
دنکھا۔
کتبا جاہا تھا کہ وہ دور جلی جائے لبکن دور تھی کہاں جائے د ننے تھے پہ لوگ۔
دو مہت نوں کے لنے گنی تھی انلی ،انک مہتنے میں اغوا ہو کے وانس آگنی۔ ناراصگی
بوری جبائے کا موفع تھی پہ مال تھا۔
”میں ناہر ڈاننتبگ میں ہی آجانی۔“ شب کو نہاں دنکھنے علتبا تھوڑا چحل سی
ہونی بولی۔
”شب اتھی کھانا نہیں کھانیں گے۔ پہ میں نس نمہارے لنے النی ہوں۔“ چنہ
کہنے ہوئے پرے اس کے شا منے رکھنی بولی اور اس سے قاصلے پہ نتتھ گنی۔ رنان اور
لبام دوبوں صوفے پہ نتتھ گنے۔
ل ھ کن
علتبا مشکور تگاہوں سے د نی ہونی چنہ کا نبانا ہوا ستبڈ وچ کھائے گی۔
”دامیر تم کون شا روم سنٹ کرواؤ گے؟“ رنان ئے گال کھ یگا لنے ہوئے دامیر
لک ل ن جم س
کو محاظب کبا۔ علتبا بوالہ جبائے ہوئے نا ھی سے رنان کو د کھنے گی خو نا ل سنجبدہ
تظر آرہا تھا۔
ً
”شاتھ واال روم ہی تھبک رہے گا۔“ اگلے ہی نل دامیر ئے فورا خواب دنا۔
”کس لنے؟“ علتبا الجھن لنے بولی۔
”آفکارس ئےنی کے لنے۔“ رنان نبا کسی پردد کے بوال کہ علتبا سنتبانی۔ وہ لوگ
کاقی آگے کا شوچ رہے تھے۔
”اتھی بو نہت ناتم ہے۔۔“ علتبا ہلکا شا پڑپڑانی۔
”وفت کون شا تھہر رہا ہے۔ ہمیں اننی نبارناں کرنی ہیں بو وہ انک دن میں
نہیں ہونگی نا۔“ رنان اس کی پڑپڑاہٹ ستنے ہوئے بوال۔
”دوبوں کاقی انکشانتبد ہیں۔“ چنہ ئے مشکرائے ہوئے علتبا کو دنکھا۔ اس کی
نات شن کے علتبا کو اندرونی خوسی سی ہونی۔
ن َ
”کبا مطلب۔۔ ان دوبوں کا نچ اپ ہو گبا ہے۔“ لبام خونک کے بوال۔ چہرے
پہ چیران کن ناپرات تھے جٹسے اس کو پہ شب شن کے صدمہ لگا تھا۔
”نمہیں ک نوں پرا لگ رہا ہے؟“ رنان سرد انداز میں بوال کہ وہ کبدھے احکا کے
صوفے سے نبک لگا گبا۔
”اگر علتبا راضی پہ ہونی اور دامیر نبک جانا بو میرا ارادہ تھا علتبا کو سنٹ کرئے
کا۔“ وہ شکون سے انبا م یصوپہ نبانا ہوا بوال کہ دامیر کی آنکھوں میں عصہ غود آنا۔ علتبا
اس کی نات ستنے ہلکا شا ہٹسی تھی جبکہ چنہ اس کو ناد ننی تگاہوں سے دنکھنے لگی۔
ت ع م گ ھ کن
ک
”چیر اب بو مغاملہ ہی۔۔۔“ لبام آ یں ھما کے ہبا نی چیز سے رکا۔۔ ھر
ئےزار نت سے دامیر کو دنکھا۔
”نہت آگے تکل حکا ہے۔“ اشارہ اس کے ناپ نتنے کی طرف تھا کہ دامیر کا
نس پہ جال اتھ کے اس نڈے کی گردن دنا دے۔
لبکن وہ نہاں نہیں تھا۔ کمرے میں ہوئے کا شو جنے چنہ ا ننے ہاتھ نسو نئیر سے
صاف کرنی ہونی کمرے میں آنی۔
دروازے کی طرف نشت کنے کھڑا وہ شاند مونانل اسیعمال کر رہا تھا۔
ُ
”ہاں کبا نات ہے؟“ ا ننے ننجھے دروازہ نبد کبا اور اس سے اس قشار کرئے گی۔
ل ی
مونانل ناکٹ میں رکھبا وہ اس کی طرف مڑا۔
ُ
”تقلی اوالد کا منہ نبد رکھواؤ۔ نمہاری وجہ سے کجھ کہبا نہیں ہوں اسے ورپہ ھے
جم
ا چھے سے جاننی ہو۔“ اس کے فرنب آئے اس کے ہاتھ تھامے اننی کمر کی طرف
لےجائے ننجھے ناندھ د ننے۔
”اس کو تقلی اوالد کہبا نبد کرو رنان۔“ چنہ ناگواری سے بوکنی ہونی بولی۔
رنان ئے اس کی کمر پہ دوبوں ہاتھ تکائے ،حصار میں لبا اور آپرو احکائے اس کو
ھ
د نے لگا۔کن
”بو اصلی لے آؤ نا۔۔“ وہ نل میں انبا انداز ندل گبا اور گہری تگاہوں سے اس کو
دنکھنے لگا۔
”ڈاؤنلوڈ بو میں کرئے سے رہی۔“ اس کی فرمانش پہ وہ دانت نٹسنی ہونی بولی۔
”ڈاؤنلوڈ ک نوں کرنا ہے چب دنسی۔۔“ رنان اس کے کان کے فرنب چھکنے
مکم
ہوئے ئےناک ہوا کہ چنہ ئے اس کا چملہ ل ہوئے سے سنتبائے ہوئے اس
کے نازو پہ ہاتھ دے مارا۔ اس کے کیرائے پہ وہ محظوظ ہوا۔
”ک نوں نالنا ہے ،کام تھا کونی؟“ وہ نات ند لنے کو بولی۔
”کجھ دن فری ہیں بو انبا شارا دھبان ،وفت ،کام ،فوکس ،اتھبا ،نتتھبا ،شونا ،جاگبا،
نبار ،مجنت ،اظہ ِار الفت شب میرے نام کرو۔“ رنان اس کو فرنب کرنا ہوا چہرے پہ
تظریں چمائے بوال اور رجشار کو چھوئے لگا۔
”فری نا تھی ہوں بو نمہاری نہی خواہش ہونی ہے رنان۔“ چنہ تھوڑا قاصلہ نبائے
ہوئے بولی خو اس کو خود کو لتبائے جا رہا تھا۔
”بو میری خواہشات کا اچیرام کرو۔“ رجشار سے لب مس کرئے ہوئے چنہ کا
چہرہ اوپر کا اتھانا۔
”مجھے نہیں کرنا۔“ وہ نبک کے بولی جبکہ رنان شکون کا شانس تھرئے اس کی
مہک محسوس کرئے لگا۔
”میری نات سنو۔۔“ زپردسنی خود کو تھوڑا ننجھے کرئے اس ئے رنان کا چہرہ ا ننے
مقانل کبا کہ رنان مداجلت پہ ناگواری سے دنکھنے لگا۔
چنہ ئے جاہت سے اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھا۔ رنان اس کے انداز کو نہحانبا
تھا۔
”نہلے وعدہ کرو کہ مجھے اگلے کانیرنکٹ پہ شاتھ لے جاؤ گے۔ ڈانتمبڈ کی ڈنل
کرئے۔“ چنہ ئے تھوڑا پرم لہچے میں کہا اور رنان کو مشکرانی تگاہوں سے دنکھنے لگی۔
چہرے پہ آئے ہاتھ کو رنان ئے ہون نوں سے لگانا اور دل کسی سے مشکرانا۔ چنہ
کا انبا مطلب آنا تھا اور انداز ندل گبا تھا۔
”سنور ملٹسکا۔۔“ وہ مان گبا اور چنہ کو انک جشت میں خود سے فرنب کر گبا کہ
وہ بوکھال اتھی۔
ت ُ ل ت ُ
اسے خود ھی اندازہ ہو رہا تھا کہ رنان کے مس کی عادی ہو رہی ھی۔ اس کے
فرنب آئے پہ شکون شا ملبا تھا۔
چب وہ اننی ماں کے شاتھ ہ نومن شل نو کی آکشن پہ النی گنی تھی نب اس ئے
ت ب ف ع م ت کن
چھونی عمر میں نہت پرانی د ھی ھی کہ صومنت کا ل تھا وہ۔ ہوس ھری
تگاہوں کو وہ ا چھے سے جاننی تھی۔ نب اس ئے نہت سے ہاتھوں کو خود پہ محسوس
کبا تھا انبا کہ اسے چھوئے جائے سے خوف آنا تھا ،کسی کے تھی ناس آئے سے
تفرت ہونی تھی۔ دماغ میں وہ شب چیزیں نتتھ گنی تھیں جن کو وہ جاہ کے تھی جتم
نہیں کر نانی تھی۔ لبام نتھی سے شاتھ تھا بو خزنانی ین دکھا جانا تھا لبکن اس کے
عالوہ کسی کو اننی ہمت نہیں دی تھی کہ کونی اس کے فرنب آکے جد تھالنگبا۔
لبکن رنان اس کے مغا ملے میں ڈھنٹ نانت ہوا تھا۔ وہ ا ننے اظہار میں
ئےناک تھا۔
نچین میں جن وجسی ہاتھوں ئے چھوا تھا وہ شب زانل ہو جانا تھا۔ خو وجشت
کے لمس کتھی محسوس کنے تھے وہ رنان کے مجنت تھرے انداز میں جتم ہو جائے
ُ
تھے۔ وہ کہیں نہیں تھے۔ رنان ا ننے نبار سے جبانا تھا کہ چنہ اِ س کی تھی اور اسے
چھوئے کا خق تھی ضرف اِ سی کے ناس تھا۔ چنہ کا دل و دماغ اجازت د نبا تھا۔ وہ
اغیراف کرنا جاہنی تھی جتبا رنان اس سے obsessedہے چنہ تھی رنان ڈی
سے اننی ہی obsessedہے۔
نبار مجنت عسق بو تغد میں۔ رنان اس کی آنسٹشن تھی جسے وہ کتھی جتم نہیں
کرے گی۔
جس لڑکی ئے کتھی ا ننے خزنات طاہر نہیں کنے وہ رنان کے شاتھ ہر خزپہ
محسوس کرنی تھی ،اس پہ ہر اجشاس جبانی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”کہیں درد بو نہیں ہو رہا؟“ علتبا اس کے ناس آنی۔ لہچے میں قکر نسونش تھی۔
دامیر مشکرانا۔
”نہیں میں تھبک ہوں۔“ دامیر ئے انبا نازو کھوال۔ وہ اجتباط سے اس میں
آسمانی۔
رنان ئے اس کے آرام کے لنے انک دو چیزیں مبگوا کے رکھیں تھی خو دامیر ئے
اننی کمر کے ننجھے سنٹ کی ہونی تھیں ،وہ شکون سے تھوڑی کروٹ لے شکبا تھا۔
اتھی تھی علتبا کے آئے سے وہ تھوڑا نانیں جانب ہوا۔
کن
”مبکس سے نات ہونی نمہاری؟“ علتبا اس کے چہرے کو د نی ہونی بولی۔
ھ
دامیر ئے تقی میں سر ہالنا۔
”اتھی نہیں ہونی ،شاند وہ خود نہاں آ نیں۔ ناد آرہی ہے؟“ دامیر اس کے
چہرے کو فرنب محسوس کرئے بوچھنے لگا۔ علتبا کجھ نل شو جنے لگی۔ تھر تقی میں سر
ہالنا۔
ن
”نہیں نس ا نسے ہی۔“ وہ کہنی ہونی آ یں نبد کر نی۔
گ ھ ک
کمرے میں نس جاموسی کا راج تھا۔ دامیر ئے اتھی تھی سرٹ نہیں نہن رکھی
کن ع ت ہن ت ُ
ھی۔ اسے نتبد یں آنی ھی وہ نس جاموش پرم تگاہوں سے لتبا کو د ھی جا رہا تھا۔
”تم لوگ اچھا کام کرئے ہو۔ تم لوگ انک چھنی ہونی کراتم ڈ نبارنمنٹ کی طرح
ہو۔ خو ا نسے لوگوں کو مارنی ہے خو پرا کام کرئے ہیں۔“ علتبا تھوڑا پرخوش لہچے میں
بولی۔
”علتبا! پہ مافبا ہے اور مافبا کی دنبا سباہ ہے۔ نہاں لوگ ا چھے نہیں ہیں۔“
ت ہن چ ت ُ
دامیر اسے کونی ھی ھونا دالشا یں دے شکبا تھا کہ وہ لوگ آرمی کی طرح ھے۔ خو
سچ تھا وہ اس کے شا منے ہی تھا۔
”چب کجھ اچھا نہیں ہے بو ہم کٹسے رہ شکنے ہیں۔“ اس کا لہحہ کانپ اتھا۔ وہ
تھر سے وہی نانیں شوجبا سروع ہو گنی تھی۔
”ک نونکہ ہم فتملی ہیں۔ اور انک فتملی چہاں کہیں تھی رہنی ہو خوش رہنی ہے۔
جاہے دنبا سباہ ہو نا شقبد۔ چب نک ہم ہیں نب نک تم لوگوں کو کجھ نہیں ہو شکبا۔
پہ نات تھی زہن نسین کر لو۔“ دامیر رشان سے اس کو سمجھانا ہوا بوال۔
”ہمارے ئےنی کو بو کجھ نہیں ہو گا نا۔“ وہ تھرائے لہچے میں اس کی جانب
ھ کن
ت گ چ
د نی بولی ،ہرے پہ خوف واصح تھا۔ دامیر ہرا شانس ھر کے رہ گبا تھا ،اس کا
مشلشل وہی نات کا زکر چ ھیڑنا اب سمجھ آنا تھا۔ وہ ننی زندگی کے شامل ہوئے پہ اِ ن
شک نور ہو رہی تھی۔
تن ن ن
نا سنے کے تغد الن کی چمکنی دھوپ کو د نی وہ دوبوں ز نے پہ ھی یں
ھ ت ت ھ ک
”رسبا میں مرنا مرانا نہت عام ہے ،نہاں جلنے تھرئے لوگوں کے ناس گن
اشلحہ موخود ہے۔ آپ کے شاتھ جلبا آدمی مافبا سے تغلق رکھنے واال ہو گا لبکن آپ کو
نبا نہیں۔ نہاں کی کراتم آرگباپزنشن ناقی ممالک کی نسنت زنادہ ہیں۔ اور ناور قل
تھی۔“ چنہ شا منے دنکھنے ہوئے نبائے لگی۔
جم س
”رنان اور دامیر کا رسین انکسنٹ کاقی اچھا ہے۔“ علتبا اس کی نات ھنی
ہونی سر ہال کے بولی۔
”تم زنادہ پر انلی میں رہی ہو؟“ علتبا ئے اب اس کو دنکھا۔ چنہ ئے تقی میں
سر ہالنا۔
”نہیں ،مجھے انلی نسبد نہیں۔ مبکسبکو میں زنادہ عرصہ ک نونکہ وہاں لبام ہونا تھا اور
ت ہ ت ُ
ادھر ادھر ھرنی ر نی ھی۔“ وہ الپرواہی سے بولی۔
”نہاں کی گورنمنٹ کجھ نہیں کرنی اگر نہاں کراتم ر نٹ زنادہ ہے بو۔“ کجھ دپر
جاموسی کے تغد علتبا دل میں آنا شوال اس سے بوچھنے لگی کہ چنہ ہٹس دی۔
”علتبا پرنسٹس۔۔!“ وہ دامیر کے انداز میں بولی کہ علتبا چحل سی ہونی۔
ل لب ع ع
”نمہیں کبا لگبا ہے؟“ وہ البا اس سے شوال کرئے گی کن لتبا ال می سے
ل
کبدھے احکا گنی۔
”اشاشن کبا کام کرئے ہیں؟“ چنہ ئے انک اور شوال کبا۔
”کانیرنکٹ پہ اشاسنت نٹ۔۔“ علتبا ئے خواب دنا۔
”نالکل اور کانیرنکٹ کون د نبا ہے؟“ اس کے شوالوں کے خواب وہ علتبا سے
ہی کہلوا رہی تھی۔
”جبہوں ئے دسمن کو مروانا ہو۔ ہے نا۔“ علتبا خواب د ننی ہونی اس کو الجھ
ل ھ کن
کے د نی گی۔
”اور دسمن کن کے ہوئے ہیں؟“ اگال شوال۔
علتبا کجھ سبکبڈز کے لنے چپ رہی۔
”ناور قل ،امیر۔ اپررشوخ رکھنے والے لوگوں کے۔“ علتبا کے خواب پہ چنہ کے
چہرے پہ مشکراہٹ اتھری۔
”اور انک ملک میں شب سے ناور قل کون ہونا ہے؟“ اب کے چنہ کے شوال
میں معنی چیزی مشکراہٹ تھی۔ علتبا کو سمجھ آنا۔
”گورنمنٹ!“
”نالکل۔۔۔“
علتبا کو نہاں اب ا ننے دل کو نتھر کرنا تھا کہ وہ انک مافبا پرنسٹس ہے لبکن
صجنح ہاتھوں میں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مونانل کی آواز پہ اس کا ارتکاز بونا۔ گود سے مونانل کو تھامے دنکھا بو مبکس کی
کال آرہی تھی۔ چنہ جاموسی سے شا منے دنکھ رہی تھی۔
”ہبلو۔۔“ دوسری جانب سے آواز اتھری۔
”کٹسے ہیں آپ؟“ سنجبدگی سے بوچھنے لگی۔
ً
”ہم لوگ گھر پہ موخود ہیں ،دامیر تھبک ہے اب۔“ مبکس عالبا اس سے دامیر
کا بوچھ رہے تھے۔
”چنہ!“ علتبا ئے نام لتنے چنہ کو دنکھا خو نبا کجھ کہے اتھ گنی۔ انداز انشا تھا کہ
ان کو کہہ دے وہ نہاں نہیں ہے۔
”وہ اندر ہے میں ناہر الن میں ہوں۔“ علتبا ئے چنہ کو جائے دنکھ کہا۔ انک دو
اور نات کر کے اس ئے فون نبد کبا۔
خود تھی اتھ کے اندر پڑھی چہاں دامیر اور رنان اتھی تھی نتتھے تھے۔
دامیر ئے نبا اس کی طرف د نکھے انبا نازو وا کبا کہ وہ جلنی ہونی اس کے ناس جا
ن
تتھی۔
اس ئے اننی نانگیں سبدھی کنے شا منے نتبل پہ رکھی تھیں اور کمر کے ننجھے نکنے
سنٹ تھے۔
”اتکل کا فون آنا تھا۔۔“ دامیر ئے چب اس کو دنکھا بو تھوڑی دپر نہلے آنی
کال کا نبائے لگی۔
”کبا کہہ رہے تھے؟ انہیں مغلوم ہے شب۔“ دامیر ئے اس کے چہرے کو
دنکھنے پرمی سے بوچھنے لگا کہ علتبا ئے تقی میں سر ہالنا۔
”نمہاری طت یغت کا بوچھ رہے تھے۔ شاند وہ آ نیں۔“ علتبا آہشنہ سے بولی کہ
اس کے لہچے میں دامیر ئے ئےزار نت محسوس کی۔
”کبا ہوا؟“
تن
”کجھ نہیں بور ہو رہی ہوں۔ تم دوبوں کام کر رہے ہو۔ چنہ تھی قارغ ھی
ت
ہے۔ وہ بو ا نسے لگ رہی ہے جٹسے کسی کو اتھی مار دے گی۔ کجھ تھی کرئے کو
نہیں ہے۔“ وہ اکباہٹ تھرے انداز میں بولی۔
”نمہیں بو اب مصروف نت مل گنی ہے علتبا ،ا ننے ئےنی کے لنے چیزیں نلین
کرو۔ روم میں خو جتنجبگ کروانی ہے وہ شب شوخو۔“ پہ رنان تھا خو اس کو سنجبدہ
تگاہوں سے د نکھے مسورے سے بواز رہا تھا۔ علتبا ئے اس کو گھورنا جاہا لبکن اس کی
ناپرات ند لنے دنکھ گڑپڑا سی گنی۔
کن
”اس شب میں نہت وفت پڑا ہے اتھی۔“ وہ دامیر کو د نی ہونی بولی خو م کرا
ش ھ
دنا۔
”ناہر جلیں۔۔!“ دامیر اس کا ہاتھ تھام کے بوال کہ وہ چیرت زدہ اس کو دنکھنے
لگی۔
”ناہر ،کہاں؟ گھر سے ناہر۔۔ نمہاری طت یغت نہیں تھبک۔۔“ علتبا اس سے
بوچھنی ہونی تھبک سے نبک لگا کے نتتھ گنی کہ نہیں تھبک تھا نتتھبا۔
”نمہیں تھوڑی پرنتبگ کرنی جا ہنے ،آجاؤ نمہاری صالجت نوں کو ناہر النا جائے۔“
رنان کہنے ہوئے کھڑا ہوا کہ علتبا ئے خونک کے نہلے دامیر کو تھر رنان کو دنکھا۔
”پرنتبگ!“ اس ئے تصدبق جاہی۔
”ہاں چہاں سے چھوڑا تھا وہیں سے جاری رکھو۔“ رنان کھڑے ہوئے اس کو
ن
دنکھ رہا تھا جبکہ علتبا اب تھی دامیر کے شاتھ تتھی تھی۔
”وہ صجنح کہہ رہا ہے نمہیں پرنتبگ سروع کرنی جا ہنے۔“ دامیر ئے رنان کی کہی
نات کی نانبد کی کہ علتبا ئے حقگی سے اس کو دنکھا۔
کن
”ڈپر کے تغد کریں گے۔“ پرچھی تگاہوں سے رنان کو د نی وہ رصامبد ہونی،
ھ
رنان سر ہالنا ہوا گالس دوڑ سے ناہر جال گبا۔ ارادہ اب اننی ملٹسکا کو نبگ کرئے کا
تھا۔
”مجھے نہیں کرنی اب پہ شب پرنتبگ ،میرا دل نہیں جاہ رہا۔“ رنان کے جائے
کے تغد علتبا دامیر سے منہ نبائے بولی کہ دامیر ئے چیرانگی سے اس کو دنکھا۔
”نمہیں اکبڈمی نہیں تھنج رہے ہم ،نہیں پہ رہو گی رنان اور چنہ شکھا دیں
گے۔“ دامیر اس کا چہرہ دنکھبا ہوا بوال خو پہ نات شن کے کجھ زنادہ خوش نہیں تھی۔
”مجھے ان سے نہیں کجھ تھی سبکھبا ،وہ دوبوں سر تھرے سے ہیں۔“ علتبا
ہری چھبڈی دکھانی ہونی بولی کہ دامیر ئے دلحسنی سے آپرو احکائے اس کو دنکھا۔
”وہ نمہیں اچھا پرین کر شکنے ہیں ،چیر لبکن نمہاری مرضی۔“ دامیر ئے گہرا
شانس ت ھر کے کہا ،وہ زنادہ اضرار نہیں کرنا جاہبا تھا۔ وہ خو تھی کرنا جاہے اننی بوری
رصا مبدی سے کرے۔
”انبا آشان ہے نمہاری تظر میں ہمارا کام؟ کونی ہمیں کانیرنکٹ دے اور ہم
اغوا ہوئے پہ نام نبا دیں؟“ دامیر آپرو احکائے اس سے بوچھنے لگا کہ علتبا ئے
کبدھے احکائے۔
”مجھے نہیں مغلوم لبکن ہم نچ شکنے تھے۔“
وہ اب دامیر کو دنکھنے لگی خو خو لہے کی آنچ ہلکی کر رہا تھا۔
ن
”اگر نب میں نمہارے مسورے پہ کام کرنا بو نہاں تتھی تم مجھ سے شوال پہ
کر رہی ہونی پرنسٹس۔“ دامیر تھوڑا جبائے والے لہچے میں بوال کہ علتبا منہ خڑھا گنی۔
”تم مجھے نہیں نباؤ گے؟“ وہ تھر بوچھنے لگی۔ دامیر ئے ناد ننی تگاہوں سے اس
م ُ
کو دنکھا۔ وہ صدی تھی۔ اننی بوچھی نات کا خواب پہ لنے پہ اسے ھو نی یں ھی۔
ت ہن ل ت
”نہیں ،پہ ہمارے کام میں جبانت ہے۔ جاہے کام ال یگل ہو لبکن کرئے
اس کو انمان داری سے ہیں۔ اور کامبانی اسی میں ہونی ہے کہ کونی رازدار پہ ہو۔“
دامیر کرتم کا نبکٹ کھو لنے ہوئے بوال اور مشکرانی تظروں سے اس کو دنکھا ،تھر اتگلی
پہ تھوڑی کرتم لگائے اس کی ناک پہ لگانی۔
”رازدار ،دامیر میں واتف ہوں نمہاری۔“ علتبا صدمے سے بولی کہ وہ اس کو تھی
نہیں نبائے واال تھا۔
”نہاں دنکھو ،پہ الین آرہی ہے ان کے الس کی۔ اچھا کام گبا اس نار نمہارا۔“
لبام چنہ کو سبانسی انداز میں بوال۔ وہ دوبوں الن کے دوسرے حصے میں موخود تھے۔
لبام ئے لنپ ناپ شا منے نتبل پہ رکھا تھا اور چنہ کو کسی چیز کے م یغلق نبا رہا تھا۔
”اور کونی ننی انڈنٹ آنی؟“ وہ لبام کو دنکھنے بوچھنے لگی اور نبک لگائے نتتھ
گنی۔
ُ
”اتھی بو شب صاف شقاف جل رہا ہے۔ ادھر ادھر کی ڈ لز ل رہی یں۔ جٹسے
ہ ج ن
ہی ملے گی انڈنٹ کروں گا۔“ لبام لنپ ناپ پہ تظریں مرکوز کنے بوال بو چنہ انبات
میں سر ہال گنی ،ا ننے دھبان میں اس ئے گردن گھمانی چب رنان کو اننی طرف آنا
دنکھا۔ سباہ پراؤزر سرٹ میں ،صاف رنگت لنے ،نلونڈ نال۔
ً
چنہ معرور م کرانی۔ وہ اس کا تھا۔
ش
”نمہیں اب رنان اچھا لگنے لگا ہے ۔“ لبام ئے تغور اس کو دنکھنے معنی چیزی
سے کہا۔ چنہ ئے رنان سے تگاہیں نہیں ت ھیری تھیں ،وہ اسی کو دنکھنے مشکرا رہی
تھی ،تقی میں سر ہالنا۔
”جتبا اِ س سحص ئے نبگ کبا ہے پرا تھی نہیں لگبا۔“ وہ ہلکا شا پڑپڑانی کہ اس
کی پڑپڑاہٹ ستنے لبام مشکراہٹ دنا گبا۔
وہ جانبا تھا کہ رنان نہاں آرہا ہے لبکن وہ ا تھے گا نہیں ،ڈھنٹ نبا نتتھا رہے
گا۔ جانا ہوا بو لے جائے گا اس کو شاتھ۔ لبکن وہ کباب میں ہڈی ہی نبا رہے گا۔
رنان اس نک نہنحا ،چب مونانل میں مٹسج ن نپ ہوا۔ ناکٹ میں ہاتھ ڈالے مونانل
تکاال اور تظریں اس پہ کیں لبکن انبا ہاتھ چنہ کی طرف پڑھانا۔ اس کے ہاتھ تھا منے پہ
کھڑا کبا اور کمر کے گرد نازو چمانل کنے مونانل پہ ہی تظریں مرکوز کنے رکھیں۔
ن ل کن
چنہ دلحسنی سے اس کا چہرہ فرنب سے د نی گی خو مونا ل پہ کجھ د کھ رہا تھا اور
ن ھ
ما تھے پہ نل تھی نمودار ہو رہے تھے۔
مونانل وانس ناکٹ میں رکھنے اس ئے آس ناس دنکھا تھر چنہ کو خو اس کو دنکھ
کے مشکرا رہی تھی۔
”نہاں اکبلی کبا کر رہی تھیں؟“ وہ سنجبدگی سے بوچھنے لگا۔
”میری موخودگی نمہیں محسوس نہیں ہونی ،اگر نہیں بو آج سے تم دوبوں کے
کمرے میں شو رہا ہوں میں۔“ لبام رنان کی نات شن کے شلگ شا گبا۔ اس کو لبام
تظر نہیں آنا تھا کبا خو چنہ کو اکبال نہاں سمجھ رہا تھا۔
”دنکھ لو نکواس کر رہا ہے مجھ سے۔“ رنان سرد آنکھوں سے چنہ کو دنکھنے ہوئے
بوال کہ چنہ ہٹس دی۔
”کام جتم ہو گبا نمہارا؟“ وہ البا اس سے شوال کرئے لگی کہ رنان ئے دھوپ
ش ھ کن
کی زنادنی سے آ یں کیڑیں۔
ن ن ت ً
”ہاں فرنبا۔۔“ انبا کہہ کے اس ئے ا نی تتھ لبام کی جانب کی اور چنہ کو
دوسری طرف کھڑا کبا۔
”کبا دنکھ رہے تھے آگے خو ما تھے پہ نل ننے تھے۔“ چنہ اس کے ما تھے پہ اتگلی
رکھنی ہونی بوچھنی لگی کہ رنان ئے اس کی آنکھوں میں چھاتکا۔
”البانین کجھ مسبلہ کر رہے ہیں نہاں ،منتبگ کرنا پڑے گی۔“ وہ سرسری شا
بوال کہ چنہ ئے مزند نہیں کرندا تھا ،اگر رنان کو ضرورت محسوس ہونی بو وہ تقصبل اس
سے سئیر کر لے گا۔
”لبام اندر جاؤ۔“ رنان ئے گردن گھمائے تغیر لبام کو سرد لہچے میں جکم دنا کہ
وہ ناگواری سے اس کو دنکھنے لگا۔
”نمہیں نہیں سرم آنی کہ اندر جلے جاؤ ،خو شکون سے نتتھے ہیں ان کو اتھوائے
کی پڑی ہے۔“ وہ پڑپڑانا ہوا اتھا اور لنپ ناپ کے شاتھ چیزیں سمتنے اندر کی طرف
جائے لگا۔
”جان بوچھ کے نبگ کرنا ہے نمہیں۔“ لبام کی نشت کو دنکھنے چنہ اس کی
شانبڈ لتنی بولی کہ رنان ئے گھورا۔
”نحہ ہے پرداشت کر لتبا ہوں ،انک دو شال پڑا ہونا بو ہاتھ ناؤں پڑوا حکا ہونا مجھ
سے۔“ اس کے نالوں کو آگے کی طرف الئے وہ سرد لہچے میں ہی بوال کہ عمل اور
نات میں تصاد تھا۔ اس کی آنکھوں میں مجنت تھی ،اس کی نالوں کی پرماہٹ محسوس
کر رہا تھا جبکہ نات وہ نالکل الٹ لہچے میں کر رہا تھا۔
”سبا ہے کہ اکبڈمی میں نمہارے نام کا کانیرنکٹ آنا ہے۔“ رنان کمر سے
تھامے اس کو خود سے لتبائے مجنت تھرے انداز میں شاکبگ ن نوز اس کے گوش
گزار رہا تھا۔
م
چنہ خونکی۔ اس ئے رنان کے ہاتھ ہبائے جاہے کہ وہ ل طور پہ چیرت کا
مک
اظہار کر شکنی لبکن اس کے انداز ہی الگ تھے۔
”شپ منٹ میں رکاوٹ ڈا لنے والی ڈنگر کے لنے کراؤنڈ ہبڈ میں نہت پڑا
کانیرنکٹ ہے۔ مرئے سے نہلے کجھ جسین نل ہی گزار جاؤ میرے شاتھ۔“ ہون نوں پہ
شاطرمسکان سحائے اس کے تفوش کو خزب کرئے ہوئے بوال۔ آنکھوں میں چمک تھی
کہ چنہ ئے لب تھتنچے۔
”کجھ دبوں کے لنے کمرے میں نبد ہو جائے ہیں ،تم میں اور نبہانی۔“ چنہ کو
نالکل امبد نہیں تھی اس کے تھڑڈ کالس آ نبڈئے کی۔ وہ ئےتفتنی تگاہوں سے اس
کو دنکھنے لگی۔
”مجھے دنکھ کے نمہارا دماغ گھاس خرئے جال جانا ہے کبا؟“ انک بو چیر سے مئیر
گھوم گبا تھا اوپر سے اس کی عاشقی مزاج نانیں ،شدند کوفت ہوئے لگی تھی۔
”نمہیں دنکھنے سے دماغ کا کبا تغلق ،پہ بو دل کی خواہشات ہیں۔“ رنان اس کا
تھر سے تھام کے فرنب کرئے ہوئے بوال کہ چنہ سجنی سے اس کو گھورئے لگی۔
”ادھر الؤ نمہارے دل کا بو میں کام نمام کروں۔“ چنہ انک جشت میں انبا پراؤزر
اوپر کرنی وہاں سے جافو تکالے بولی کہ رنان ئے سبانسی انداز میں آپرو احکائے۔
”کمرے میں نہیر نہیں؟ تھر تم کہو گی کہ شب کے شا منے لحاظ کبا کروں۔“
ٹہ ن م ص
اس کا جافو واال ہاتھ تھام کے وہ لح خو انداز یں بوال کہ چنہ کو ئے سی سے سی
آئے لگی۔ ہٹسنے ہوئے اس ئے انبا سر رنان کے کبدھے پہ تکانا۔
”ا نسے ہی تم انبا قلرٹ چھاڑئے رہے بو مجھ سے نہت جلد بور ہو جاؤ گے۔“ وہ
آہشنہ آواز میں بولی کہ رنان کو ناگوار لگا۔
”کراؤنڈ ہبڈ سے میں خود کانتبکٹ کرنی ہوں۔ آخر انہوں ئے اس کو انکست نٹ
کٹسے کر لبا۔“ چنہ کا عصے سے پرا جال ہو رہا تھا۔ وہ انک اچھی اماؤنٹ وہاں ڈون نٹ
کرنی تھی اور سر جارج ئے اس کو مارئے کا کانیرنکٹ ف نول کبا تھا۔
”نمہیں ضرورت نہیں ،میں خود ان سے مل لوں گا۔“ رنان سنجبدگی سے بوال چب
وہ دوبوں اندر داجل ہوئے ،کنچن کا م یظر تظر آنا چہاں دامیر کھڑا کجھ نبا رہا تھا اور علتبا
اس پہ پرشوق تگاہیں تکائے کھڑی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لبام ان دوبوں کو وانس الؤنج میں آنا دنکھ گھورئے لگا۔ چب وہ اندر آنا تھا نب
دوارا کبل کنچن میں مصروف تھے تھر دامیر کا الگ سرد ین دنکھا اور اب تھوڑی دپر
تغد پہ تھر وانس آ گنے تھے۔
”مجھے نہاں آنا ہی نہیں جا ہنے تھا۔۔“ لبام ندمزا ہوئے عصے سے پڑپڑائے اتھا
کہ وہ ک نوارا نہاں خوامحوا تھٹس گبا تھا۔
”ہمیں کونی مسبلہ نہیں تم نہاں انبا کام کر شکنے ہو۔“ اس کے اتھنے پہ
علتبا نیزی سے بولی کہ پرا پہ مبا جائے۔
”مجھ سے آخر لڑک نوں کو ک نوں مسبلہ ہو گا۔ مسبلہ بو نمہارے پہ شوہر ہیں۔“
لبام جلے دل سے بولبا ہوا ا ننے کمرے میں ہی جائے لگا کہ دامیر کی آواز پہ رک گبا۔
”لنچ رنڈی ہے۔ کہیں جائے کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ لنچ نبار کر حکا تھا جس
پہ رنان کو اچھتبا ہوا۔
لبام اجشان کرئے والے انداز میں رک گبا جبکہ رنان جلبا ہوا اس کے فرنب
گبا۔
”نمہیں کبا ضرورت تھی کنچن میں آئے کی ،کھائے کا ہم دوبوں دنکھ رہے تھے
نا۔“ رنان دامیر کو بوکبا ہوا بوال۔
”و نسے ہی دل جاہ رہا تھا بو کجھ نبا دنا۔ ڈپر تم لوگ ہی نبار کرنا پہ بو نس ہلکا
جن ن
تھلکا شا ہی کھانا نبانا ہے۔“ ہاتھ نٹسو سے صاف کرئے وہ ھے ہبا۔
رنان ئے چنہ کو اشارہ کبا کہ وہ چیزیں اس کے شاتھ مل کے نتبل پہ سنٹ
کر لے۔
کھائے کے دوران چنہ جاموش رہی تھی ،ا ننے لنے اشاشن کا کانیرنکٹ ستبا
طٹش میں متبال کر رہا تھا۔ شکون سے بو وہ اب تھی نہیں نتتھنے والی تھی۔ اس کا نس
نہیں جل رہا تھا کہ اتھی اکبڈمی میں جا کے نباہی محا دے۔
”ہاتھ سبدھا رکھو۔۔“ سرد آواز میں جکم پہ علتبا ئے نسنول پہ گرفت سحت
کرئے نازو نالکل سبدھا کبا۔ ا ننے عرصے تغد اس ئے گن تھامی تھی وہ تھی قاپر
کرئے کے لنے۔
ً چ
”تظر نارگنٹ پہ ،چب محسوس ہو کہ نارگنٹ پہ ہے نشاپہ فورا قاپر ،کبا
ھ جھ
نہیں۔“
”قاپر۔۔۔“ رنان کی عرانی آواز پہ انک نار ت ھر علتبا کا ہاتھ لڑکھڑانا اور گولی تھر
نارگنٹ سے ہٹ کے لگی۔ علتبا ئے روہانشا ہوئے رنان کو دنکھا۔
”تم ہر نار ا نسے میرے ناس جالؤ گے بو خراب ہی لگے گا نشاپہ۔“ علتبا اس کو
کن
مالمنی تگاہوں سے د نی ہونی بولی۔
ھ
ارادہ اس کا ہقنے تغد دامیر سے ہی سبکھنے کا تھا لبکن رنان زپردسنی اس کو
آرمری میں لے آنا تھا کہ وہ آج سے ہی شونبگ پرنکٹس سروع کرے۔
”پہ بو ضرف میں ہوں جس سے ڈر گنی ،چہاں نسبل تھامنی ہو وہاں تم دھماکے
تھی ہوئے ہیں۔ بو کبا ہر نار ہاتھ کا ننے گا نمہارے؟“ رنان اس کو سحت لہچے میں
بوال۔
”ہللا پہ کرے کہ مجھے انسی صورت جال میں کتھی گن تھامنی پڑے۔“ علتبا
چھرچھری لتنی ہونی بولی۔
”بو کبا ڈانس کرئے ہوئے گن تھامنی ہے اگر انسی صورت جال میں نہیں
تھامنی۔“ رنان نبکھے لہچے میں اس سے بوچھنے لگا کہ وہ گڑپڑا گنی۔
”سنین بور بوزنشن۔“
وہ اجانک تھر نحکم تھرے لہچے میں بوال۔
”میں تھک گنی ہوں۔“ علتبا پرو تھے انداز میں بولی اور ا ننے ہبڈ فوپز انارئے لگی۔
”دو قاپر کر کے ہی تھک گنی ہو۔ دسمن نمہاری تھکن دنکھ کے قاپر نہیں
کرے گ کہ ناجی آپ تھوڑا شانس لے لیں ہم تھر آپ پہ چملہ کریں گے۔“ رنان
اس پہ طیز کرئے سے تھر ناز پہ آنا۔
اس ئے شکوہ کباں تگاہوں سے چنہ کو دنکھا خو التغلق سی اننی پرنکٹس میں
مصروف تھی۔ اس کو کونی فرق نہیں ہڑنا تھا کہ رنان علتبا کو کٹسے پرنبڈ کر رہا تھا۔
شونبگ کی قالحال کی زمہ داری رنان ئے لی تھی۔
”ہم کل نہیں سے کانتنت نو کریں گے۔“ علتبا ئےنبازی سے بولنی ہونی گن کو
نتبل پہ رکھ گنی۔
”نمہیں صنح سے شام کے درمبان شوٹ کرنا آجانا جا ہنے تھر ہم نبکشٹ کی طرف
پڑھیں گے لبکن پہ لڑک نوں والے نجرے۔ چیر و نسے تھی نمہاری طت یغت کی وجہ سے
اتھی سحت پرنتبگ نہیں سروع کر شکنے اتھی پرمی ہی کرنا پڑے گی۔“ رنان اس کی
گن تھام کے مبگزین جبک کرئے لگا جس میں سے دو ہی گولباں جلی تھیں۔
پہ اتھی سحت پرنتبگ نہیں تھی اس کی ،ا ننے سحت لہچے میں وہ اس کو جکم
دے رہا تھا اور اب تھی جباب کی کیر ناقی تھی۔
علتبا اس کو گھورئے میں مصروف تھی چب رنان ئے اجانک اننی تگاہ اتھانی۔
علتبا اس کی آنکھوں میں پرفبال ناپر محسوس کرئے تھوک تگل کے رہ گنی۔ گردن کے
ننجھے کرنٹ شا لگا تھا۔
اس ئے چنہ کو دنکھا خو اننی جبکٹ انار رہی تھی۔ نسننہ اس کے چہرے پہ
چمک رہا تھا۔ علتبا ئے بو اس کی نسنت کجھ تھی نہیں کبا تھا اور وہ ا ننے کم وفت
میں کاقی کسرت کر جکی تھی۔
نہاں سے تکلنے میں ہی عاف نت جانی۔ دامیر نہاں موخود نہیں تھا۔ آج شام کا
کھانا کھائے کے تغد وہ دامیر کے شاتھ الن میں ہی تھوڑی والک کرنی رہی تھی تھر
رنان ئے رات کی پرنتبگ کا کہا بو اس کا دھبان علتبا پہ گبا۔ کل بو اس ئے کجھ
نہیں کہا تھا لبکن آج رنان کا ارادہ تھا کہ کجھ سبارٹ بو کرے۔
دامیر وانس گھر کی طرف پڑھ گبا تھا اور علتبا چنہ اور رنان کے شاتھ نہاں آرمی
میں آگنی تھی۔ آخری نار وہ نہاں سے وانس گنی بو اس کو شب ناد آنا تھا ،نب اس
ئے انبا دل بونبا محسوس کبا تھا لبکن آج انشا کجھ نہیں تھا۔ اور آج بو شاند رنان ہڈناں
بوڑئے کا ارادہ رکھبا تھا۔
چیر اننی جان چھڑوانی وہ وانس گھر کی طرف پڑھی کہ رنان کی شکانت کرے گی
دامیر سے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
علتبا کو جانا ہوا دنکھ چنہ ئے انبا مونانل نتبل سے اتھانا اور مبکس کا نمیر ڈانل
کرئے لگی۔
”مبکس سے نات کرواؤ۔۔“ فون کسی گارڈ ئے اتھانا تھا نتھی وہ سنجبدگی سے
بولی۔
”مبکس اتھی کسی متنتبگ میں ہیں۔“ گارڈ مؤدب شا بوال۔
”اتقارم کرو کہ میری کال ہے۔“ مونانل کبدھے اور کان کے درمبان رکھنے
رکھنے ا ننے ہاتھ پہ ننی لتنتنے لگی۔
رنان اس کی جانب پڑھا۔ مونانل کو ا ننے ہاتھ میں لتنے اس کے کان سے لگانا
اور انک ہاتھ ننجھے سے اس کے گرد ناندھا۔
”سر ئے م یع کبا ہے کہ ان کو ڈسیرب پہ کبا جائے۔“ وہ اب تھی اسی انداز
میں بوال کہ چنہ کو عصہ آئے لگا۔
”مجھے امبد ہے کہ وہ آپ نہیں ہو نگے جبہوں ئے اننی کسی پزنس منتبگ میں
ڈنگر کا زکر کبا کہ ڈنگر ئے شپ منٹس رکوانیں۔ ک نونکہ اس میں آپ کا بو کونی قاندہ
نہیں۔ ہے نا۔“ چنہ نالکل سنجبدگی سے بولی کہ دوسری طرف مبکس جاموش ہو گنے۔
”جس ئے تھی کانیرنکٹ دنا ہے میرا ،اس کو کہیں وانس لے۔ مجھے آپ کا
ت ح م ُ
مغلوم ہو گبا ہے بو الزمی نات ہے کہ یں اس س ص کو ھی جان نی ہوں۔“ چنہ
گ
رنان کا ہاتھ پرمی سے ہبانی ہونی اس سے دور ہوئے مبکس کو وارنبگ د ننی ہونی بولی۔
”میرا اس سے کونی تغلق نہیں چنہ۔ میں ک نوں انشا جاہوں گا پہ ہی میں جانبا
ہوں کہ کونی کانیرنکٹ تھی آنا ہے۔“ مبکس سنجبدگی سے اننی نات کہنے لگے لبکن چنہ
کو کونی فرق نہیں پڑنا تھا۔
ُ
”ورپہ انک دن کا تھی وفت نہیں ہے اس ص کے ناس۔۔“ انبا کہہ کے
ح
س
چنہ ئے کال کاٹ دی۔
کانیرنکٹ کسی پزنس مین کی طرف سے تھا ک نونکہ نباہ ہوئے کننئیرز میں انک
کننئیر اس آدمی کا تھی تھا۔ اس کی ڈنل میں انک لڑکی تھی تھی خو اب چنہ کے ناس
ُ
تھی اور شاتھ اس پڑی شپ یں لبگ کا ھی کاقی قصان ہوا تھا۔
ت ت مگ س م
”شالے پزنس مین۔۔“ فون کو ننجنے وہ عصے سے پڑپڑانی۔
مبکس کو کال کرئے کا مقصد تھا کہ وہ آدمی مبکس کا پزنس نارنیر تھی رہ حکا
ن
تھا بو ا نسے میں اِ س کی دی ہونی دھمکی اس نک ہنچ جائے گی ،انک دن کا وفت تھا
ُ
لبکن اس سے تھی کم وفت میں اگر کانیرنکٹ وانس پہ لبا گبا بو پہ خود اس ص کو
ح
س
مبائے والے تھے۔
پہ مغاملہ بو جل ہوا۔ ما تھے پہ ہاتھ رکھنے اس ئے کنتنی کو سہالنا۔
٭٭٭٭٭٭٭
”میں نہیں جاؤں گی اب وہاں۔ زرا نمیز نہیں ہے رنان کو نات کرئے کی۔“
الؤنج میں آنی وہ عصے سے بولی کہ دامیر ئے الجھن سے اس کو دنکھا۔
”کبا ہوا؟“ وہ نسونش زدہ لہچے میں بوچھنے لگا کہ علتبا کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ شاند
وہ روئے کی نباری میں تھی۔
”مجھے ڈانٹ رہا ہے ،میں ئے کجھ کرئے سے م یع کبا بو کمزور کہبا سروع ہو
گبا۔ اس کو سمجھا لو دامیر۔ تھر مجھے جن کی طرح گھورنا ہے جٹسے اس کا اگال شکار میں
ہوں۔“ علتبا عصے اور تھرائے لہچے میں اس سے بولی۔
”اوکے رنلبکس۔ وہ چب کام سے رنلتبڈ کجھ کرنا ہے بو تھر کجھ نہیں دنکھبا۔“
دامیر پرمی سے اس کو سمجھانا ہوا بوال۔ ہون نوں کے کبارے مسکائے کہ ا چھے موڈ
شونتبگ جل رہے تھے اس کے۔
دامیر اتھنے لگا بو علتبا ئے شوالنہ تظروں سے دنکھا۔
”کہاں جا رہے ہو؟“ ا ننے رجشار سے آنسو صاف کرئے وہ نیزی سے بولی۔
”رنان سے دو دو ہاتھ کرئے۔“ وہ سباٹ انداز میں بوال جبکہ علتبا ہڑپڑا اتھی۔
”نمہیں تکل یف ہو گی دامیر ،ر ہنے دو ت ھر کتھی نات کرنا اس سے۔۔“ علتبا خزپز
ہونی بولی کہ وہ دامیر کو نات پڑھا کے نبا رہی تھی رنان بو وافعی اننی پرنتبگ ہی کروا رہا
تھا۔
دامیر ئے اس کو جانجنی تگاہوں سے دنکھا ،وہ ڈرامہ کر رہی تھی۔
”جلو کمرے میں جلنے ہیں۔“ دامیر کجھ دپر تغد بوال بو علتبا سر ہالنی ہونی ڈرنک نا
رنان کو نالئے کے ارادے سے وانس مڑی کہ دامیر ئے اس کا ہاتھ تھاما۔
”کہاں؟“
”روم میں جانا ہے بو ان کو نال رہی ہوں۔“ وہ شادہ لہچے میں نبائے لگی۔ آج
ً
اس ئے گولی والی جگہ پہ ڈرنسبگ کی تھی بو زچم سے خون ر سنے لگا تھا نتھی اجتباط
بولی۔
”تم ہو نا ،مجھے تھام کے جلو۔“ دامیر اس کو دنکھبا ہوا بوال کہ علتبا مشکرا دی۔
انک بو وہ اس سے قد میں چھونی ،اگر دامیر اس کے کبدھے پہ نازو رکھبا بو شارا
بوچھ اسی پہ آجانا اور عین ممکن تھا کہ علتبا دب ہی جانی۔
لبکن دامیر ئے اجتباط سے اس کے شائے کے گرد نازو تھبالنا۔
”پرداشت کر لو گی نا ،پہ نا ہو کہ البا مجھے نمہیں گود میں اتھانا پڑے۔“ وہ لوگ
کمرے کی راہداری کی طرف پڑھ رہے تھے چب دامیر ئے سرپر لہچے میں بوچھا۔
”میں تھبک ہوں ،تم تھی رنان کی طرح کمزور کہہ رہے ہو مجھے۔“ وہ پرا مبائے
ہوئے بولی چب وہ لوگ کمرے میں نہنچے۔ دامیر کو سہارے کی ضرورت نہیں تھی ،وہ
آرام سے جل شکبا تھا لبکن نیزی نہیں دکھا شکبا تھا۔
علتبا ئے دروازہ نبد کبا اور دامیر کو لنے نبڈ نک آنی۔
علتبا وافعی ہانپ گنی گنی۔ اس کے نتتھنے پہ ستنے پہ ہاتھ رکھنی وہ گہرا شانس
تھرئے لگی۔
دامیر مشکرانا ہوا علتبا کو دنکھنے انبا ہاتھ سرٹ نک لے گبا اور آہشنہ سے نین
کھو لنے لگا۔ اس کا ارادہ سرٹ انار کے چھلسی ہونی جگہ پہ مبڈنشن لگائے کا تھا۔ علتبا
ئے گھورا۔
”ک نوں نازو کو خرکت د ننے ہو دامیر ،درد ہو گی۔“ وہ ڈ نتنے والے انداز میں بولی کہ
دامیر کو اس پہ نبار آئے لگا۔
کون کہہ شکبا تھا کہ پہ وہی علتبا تھی خو اس سے تفرت کا اظہار ئےڈھرک کبا
کرنی تھی۔
”الؤ میں مدد کروں۔“ تکلحت ہی چہرے پہ مدھم سرمگیں مشکراہٹ الئے اس کا
ہاتھ ہبا گنی اور نین کھو لنے لگی۔
دامیر ہلکا شا ہٹشا ،وہ خود آفر کنے اب سرما رہی تھی۔
”پہ بو خراب تھی ہو گنی ،کونی دوسری نہ نو گے؟“ علتبا انک شانبڈ سے سرٹ
ھ کن
پہ خون کے د ھنے د نی ہونی بولی۔
”میں سرٹ نہیں نہ نوں گا اب ،نس نہاں مبڈنشن لگا دو۔“ وہ تقی میں سر ہالنا
ہوا بوال۔ اس کی تگاہیں علتبا کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔
”نہیں ہو گی ،ہو شکبا ہے نمہارے لگائے سے مجھے جلدی آقاقہ ہو جائے۔“
اس کا موڈ تھبک کرئے کو وہ سرپر لہچے میں بوال۔ وہ اس کے ناپرات سمجھ شکبا تھا۔
جم م س
م
اس کو وفت لگبا تھا شب چیزوں کو نار ل ھنے یں۔
علتبا گہرا شانس تھرنی ہونی اننی اتگلی کے بوروں پہ ن نوب تکا لنے لگی۔
اس کی سرٹ کبدھے سے انارنی ہونی پرمی سے وہاں مرہم رکھنے لگی۔
دامیر ئے اس کو کمر سے تھاما اور فرنب کبا۔ نازو لنتنے دامیر ئے انبا سر اس
کے ستنے پہ تکانا۔ وہ مرہم لگا جکی تھی۔ ن نوب نبد کرئے وہ مشکرانی۔
”ہ نو اب۔ میں نمہاری سرٹ جگہ پہ رکھوں۔“ اس ئے کاقی دپر اس کو حصار
میں ناندھے رکھا چب علتبا اس کے نالوں میں ہاتھ ت ھیرنی بولی۔
وہ گہرا شانس تھر کے رہ گبا ،ا ننے فرنب آ کے اسے دور نہیں کرنا جاہبا تھا
لبکن سرد آہ تھر کے ا ننے نازو ہبائے۔ وہ جتبا تھی اظہار کرنا کم تھا۔ اس کا وخود
راچت ،تفو نت نحسبا تھا۔
”تم آج جلدی نہیں شوؤ گی۔“ وہ جتنج کر کے وانس آنی بو دامیر نتم دراز شا اس
کو دنکھنے بوال۔ نالوں کو خوڑے میں فبد کرئے علتبا ئے الجھ کے اس کو دنکھا۔
ت ت ُ
س
”ک نوں؟ اس کی نات تنے وہ ھوڑا کیرانی سی ھی۔
”ک نونکہ میں نہیں جاہبا۔“ وہ آنکھوں میں چمک لنے بوال۔ وہ کھلکھالنی۔
”تم مشلشل دو دن سے ان کو کور نہیں کررہے رات کو۔ ہوا لگ جائے
گی۔“ علتبا اس کے نبا سرٹ کے وخود کو دنکھنے ہونی بولی ،کبدھے پہ نبا نت نو اب تھی
ونشا ہی تھا۔ آتھ کباروں واال سبارا۔ رسین مافبا۔
”سرٹ سے زنادہ الجھن ہونی ہے ،رات کو جلن ہونی ہے۔“ دامیر سنجبدگی سے
بوال۔
”میں نمہں شل نو لٹس تکال د ننی ہوں ،پہ ناقی خو چھوئے موئے زچم ہیں پہ
مسبلہ کریں گے۔“ علتبا کیرڈ کی طرف پڑ ھنے لگی کہ دامیر ئے روک لبا۔
”وانس آجاؤ۔۔ ا نسے ہی تھبک ہے۔ پہ چھوئے زچم محسوس تھی نہیں ہوئے۔“
دامیر اس کو ہاتھ کے اشارے سے نالئے لگا کہ علتبا کشمکش میں پڑ گنی کہ اس کی
ستنی جا ہنے نا نہیں۔
ن ً
اجتباط وہ انک سرٹ تکال النی کہ رات میں ہن لے گا چب دل کبا۔
”پہ چھوئے موئے زچم ک نوں نہیں فبل ہوئے نمہیں۔ ا ننے فبلتبگ لٹس ہو
ل چ کھ ن
گنے ہو؟“ علتبا نبڈ پہ خڑ نی آ یں ھونی کنے اس سے بو ھنے گی۔
چ ھ
”تم ئے اکبڈمی خواین کی تھی بو مغلوم نہیں ہوا اتھی نک۔“ وہ البا اس سے
شوال کرئے لگا۔
”میں کون شا ہر جگہ تھرنی تھی ا ننے کام سے کام رکھنی تھی وہاں۔“ علتبا ناک
تھوں خڑھائے بولی۔
”کراؤند ہبڈ اور ناقی اور تھی نہت سی اکبڈمیز میں ہر چیز الگ سے شکھانی جانی
ُ
ہے۔ مافبا کے ا ننے شکول کہہ لو۔ اسی طرح ڈ نبارنمنٹ ننے ہوئے یں۔ نارخر کا الگ
ہ
ڈ نبارنمنٹ ہونا ہے اور نمہارا شوہر ا چھے سے پرنبڈ ہے۔“ دامیر نیر کی مدد سے ک یفرپر
کھو لنے لگا کہ علتبا خود آگے ہوئے دوبوں پہ ک یفرپر اوڑھائے لگی۔
”تم لوگ شوئے تھی نہت کم ہو۔“ وہ انک اور نات ناد کرئے لگی۔
”اور تم شوئے ہوئے نالکل تھی ا چھے نہیں لگنے پہ بو اچھا ہے مجھ سے نہلے اتھ
جائے ہو۔“ علتبا اجانک چھرچھری لتنی ہونی بولی۔ آنکھوں کے شا منے استبال کا م یظر
ھ کن
لہرانا چب وہ آ یں موندیں پڑا تھا۔
”نارخر میں مشلشل حگانا تھی جانا ہے۔ نتبد کاقی کچی ہے ہماری۔ چنہ سے
بوچھبا وہ کاقی انک نو ہے اس مغا ملے میں۔“ دامیر علتبا کو مشکرائے ہوئے دنکھ نبائے
لگا۔
علتبا کو رشک شا آئے لگا۔ چنہ انہیں کی طرح مضنوط تھی اور خود وہ خوزے کی
جان والی۔ رنان کے "قاپر" کہنے پہ کا نتنے لگ جانی تھی۔
”تم تھک بو نہیں گنی؟“ دامیر کی آواز پہ علتبا اننی شوخوں سے تکلنی اس کو
دنکھنے لگی۔
”نہیں ،میں کٹسے تھکوں گی۔“ وہ پرمی سے بولی۔
”کبا کجھ انشا ہے خو تم مجھ سے کہبا جاہنی ہو؟“ دامیر اس کے چہرے پہ پرمی
سے ہاتھ ت ھیرنا ہوا بوال۔
علتبا ئے انبات میں سر ہالنا اور کھشک کے تھوڑا فرنب ہونی۔
”میں نہت خوش ہوں۔“وہ کہنے تگاہیں چھکا گنی۔ دامیر ئے تگاہوں سے اس
کے انک انک تقش کو خوما۔
"میری دب یا ئمہارے گرد گھو م نے لگی ہے"
اس کے من مو ہنے چہرے کو دنکھنے وہ دل میں اس سے محاظب ہوا۔
”ک نوں خوش ہو؟“ اس کا چہرہ اوپر اتھائے بوچھا۔
”ہماری فتملی نتنے جا رہی ہے دامیر۔ میری ہمٹشہ سے خوانش تھی کہ انک گھر
ہو ،شوہر اور نچے ہوں۔ میں ہاؤس واتف۔ گھر ستتھالوں۔“ وہ خوسی سے چہکنی ہونی
ل ن
کہنے لگی کہ دامیر کی آ یں کنے یں۔
گ مچ ھ ک
آنکھوں پہ شن گالسز لگائے ،سر پہ کنپ نہنے اور نالکل سباہ جلنے میں وہ
ئےنباز سی جلنی آرہی تھی کہ شا منے ہی نت نٹ کی ناکٹس میں ہاتھ ڈالے رنان کھڑا
اس کو سرد تگاہوں سے دنکھ رہا تھا۔
”ا نسے بو نمہیں کسی ئے نہحانا ہی نہیں آنی اتم امیرنس۔“ سرد آواز میں واصح طیز
کبا گبا۔ چنہ اس کی نات کو تظر انداز کرئے آگے پڑ ھنے کو تھی کہ رنان ئے اس کے
نازو کو گرفت میں لبا۔
”کبا شوچ کے تم ناہر گنی تھی ہاں۔“ آنکھوں میں سرد ین لنے وہ حظرناک لہچے
میں دانت نٹسنے بوال۔
”اننی ڈھنٹ ک نوں ہو تم ،چب نمہیں م یع کبا تھا کہ خود کو تھوڑے دن گھر
میں رکھو ناہر کنے تھر رہے ہیں بو کبا موت کو دنکھنے کا زنادہ عسق ہو رہا ہے نمہیں۔“
انک ہاتھ سے اس کا چہرہ دبوچے ا ننے مقانل کرئے عرانا کہ چنہ ئے سجنی سے اس
کا ہاتھ چھ یکا۔
”میں کونی دنکو سی لڑکی نہیں خو انک دھمکی ملنے پہ گھر میں ڈر کے نتتھ جاؤں اور
دسمن کو موفع دوں اننی کمزوری کا۔“ چنہ البا اس کو سرد لہچے میں بولی۔
”میں مقانلہ کرنا جاننی ہوں۔“ وہ انک انک لقظ جبا کے بولی۔ اننی گالسز ،ہ نٹ
انارے اس ئے عصے سے چھبکے میں اس کی طرف اچھالی خو رنان کے ستنے سے نچ
ہوئے زمین پہ جا لگیں۔
”جالی ہاتھ بو تم لونی نہیں ہو گی ،کس کو ن یکا کے آنی ہو؟“ اس کی نشت کو
جانا ہوا دنکھ وہ بوچھنے لگا۔
”نمہاری مج نوپہ کو۔۔“ وہ وانس مڑئے جالنی کہ رنان کے ل نوں پہ نا جا ہنے ہوئے
تھی مشکراہٹ ر نبگ گنی۔ وہ وانس گھوما چب اس کو ڈرنک تھی آنا ہوا دکھانی دنا۔
ہن ُ
اس کا نہاں نجبا اس کے لنے علط نانت ہوا تھا چب اجانک پڑ ھنے والے ت ھیڑ
سے اس کو خواس جائے ہوئے محسوس ہوئے۔ کان میں نتم سی نجنے لگی۔
”کس کے کہنے پہ تم گنے تھے اس کے شاتھ؟“ ت ھیڑ کھائے کی وجہ جا ننے
کے تغد رنان جاموش شا تظریں چھکائے کھڑا رہا۔
”بولو نا تھر شادی سے نہلے سہبد ہوئے کی خواہش ہے نمہاری۔“ رنان اس کے
سر پہ کھڑا دھاڑا کہ ڈرنک ئے تھوک تگال۔
”سر متم کے شاتھ تھا ان کو ضرورت تھی میری۔“ ڈرنک سنجبدگی سے بوال کہ
رنان کا مئیر گھوما۔
”نمہاری متم کی بو انسی کی نٹسی۔۔“ وہ منہ ہی منہ میں پڑپڑانا کہ چنہ کا شو جنے
ت گ ی م ک ھ کن
اس ئے ضیط سے آ یں نبد یں۔ ع کرئے کے ناوخود وہ ناہر نی ھی انبا جلنہ
نبدنل کنے۔
”آ نتبدہ مجھے اتقارم کنے تغیر تم اس کے شاتھ گنے بو جس نانگوں کے شاتھ جاؤ
گے وہ اکھاڑ دوں گا۔“ رنان اس کو سرد لہچے میں وارن کرنا ہوا بوال بو وہ انبات میں سر
ہالگبا۔
”سر منتبگ کا ناتم نبا دیں ،لوگ نار نار آپ سے کانتبکٹ کرئے کا کہہ رہے
ہیں۔“ اس سے نہلے رنان وانس مڑنا ڈرنک ئے نیزی سے بوال۔
”آج شام نانچ نچے کی منتبگ ارننج کرو۔ شب کو اتقارم کرو کہ اگر کونی تھی
اس سے انک سبکبڈ تھی لنٹ ہوا بو اس کا زمہ دار میں نہیں۔ جس ئے خو نات کرنی
ہے وہ آج ہی کرے۔ ہر نار میں انبا فتمنی وفت صا تع نہیں کرئے واال۔“ رنان اننی
رشٹ واچ میں دنکھبا ہوا اس کو وفت نبانا ہوا اندر کی طرف پڑ ھنے لگا۔
جبکہ ڈرنک ئے منہ نبائے انبا چیڑہ سہالنا۔ پہ آج نک کا شب سے زور سے
پڑئے واال ت ھیڑ تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ کمرے میں داجل ہوا بو چنہ کو نگڑے موڈ میں دنکھا۔ وہ کسی پہ پرہم ہو رہی
تھی۔
”چب میں ئے وارن کبا تھا نب آپ کو تھی اجتباط کرنی جا ہنے تھی۔ آپ کی
ڈنلز ،پزنس نارنیرز میرے سر درد نہیں ہیں پہ ہی مجھے کونی فرق پڑنا ہے۔“ فون کان
سے لگائے وہ عرانی تھی۔
رنان جانبا تھا کہ دوسری طرف مبکس تھے۔ چنہ کی اتھی والی خرکت سے ان کو
کاقی تقصان ہوا تھا ک نونکہ وہ ان کے پزنس نارنیر کو مار کے آنی تھی۔
”ضیط کر لیں اس کی پراپرنی کونی نبا کام تھوڑی ہے۔“ وہ سرد لہچے میں بولی
اور فون نبد کر کے نبڈ پہ اچھاال۔ ما تھے پہ ہاتھ رکھنے اس کو مشلنے لگی۔
خوامحوا ہی مئیر ہانی ہوا تھا اب جا کے شکون مال تھا۔
منٹشن میں نالکل تھی فبد ہو کے ر ہنے کا اس کا کونی ارادہ نہیں تھا نتھی اس
ُ
ئے البا اسی نبدے کو مروا دنا جس ئے اس کو مروانا جاہا۔ پہ کام اس کے لنے
مسکل نالکل تھی نہیں تھا۔ ڈرنک ئے اس کی مدد کی تھی۔
لبام سے مغلومات ملی تھی کہ وہ سحص ان کے عالفے کے آس ناس ہی موخود
ہو گا آج اور اسی کا قاندہ چنہ ئے اتھانا تھا۔
”آ نتبدہ مجھے نبائے تغیر تم کہیں نہیں جاؤ گی اور پہ ہر وفت نمہارے ناس رہنی
جا ننے۔“ وہ مڑی ہی تھی کہ رنان کی موخودگی سے جاتف ہونی خو سنجبدگی سے اس کے
ناس آئے اس کا ہاتھ تھامے انگوتھی نہبا رہا تھا۔ وہی ڈانمبڈ رنگ خو ونڈنگ رنگ تھی۔
چنہ کجھ پہ بولی ک نونکہ وہ جان بوچھ کے اس کو گھر چھوڑ کے گنی تھی ،اگر نہنے
رکھنی بو رنان کو اس کی لوکٹشن کا اندازہ ہو جانا،
ُ
ان شب ئے خو رنگ نہنی ہونی تھی اس یں انک پرنکبگ ڈبوانس موخود ھی
ت م
جس سے وہ انک دوسرے پہ تظر رکھ نائے تھے۔
ان کے فرننی ہر سحص کے ہاتھ میں انک انتبک رنگ موخود تھی۔
چنہ کا موڈ آج خراب تھا ،رنان کی کسی قشم کی خرکت وہ پرداشت نہیں کرئے
والی تھی نتھی انبا ہاتھ چھڑوائے وہ ناتھ روم کی جانب پڑ ھنے لگی کہ رنان اس کی
خرکت پہ ناگوارنت لنے انک جشت میں نازو کو تھامے ا ننے ستنے سے لگانا۔
چنہ ئے اس کی گردن کو اننی گرفت میں لبا اور دناؤ پڑھانا۔
”ناٹ ناؤ۔۔“ وہ وارن کرئے والے انداز میں بولی۔ رنان الپرواہ انداز میں آپرو
احکائے اس کو دنکھنے لگا ،جس کا ہاتھ رنبگبا ہوا اس کے نازو سے گردن کی طرف
پڑھا۔
”ناؤ اور ن نور۔۔ پہ میرا مانبا ہے۔“ معنی چیز تظریں اس کے چہرے پہ تکائے
ہوئے بوال کہ چنہ ئے گرفت مزند سحت کی۔ رنان کے ہون نوں پہ نٹشم نکھرا۔ اس ئے
البا چنہ کی گردن کے گرد ہاتھ لنتبا اور اننی جانب کھتنحا۔ انچ تھر کا قاصلہ رہ گبا۔ چنہ
آنکھوں میں سجنی لنے اس کی آنکھوں میں پراہ راشت دنکھنے لگی۔
”مجھ سے سرم نہیں آنی؟“ وہ سبانسی انداز میں آپرو اتھائے بوچھنے لگا۔
”تم سے سرم نہیں الننہ عصہ نہت آنا ہے تم پہ۔“ وہ دانت نٹسنے ہوئے بولی
کہ محال تھی کہ پہ نبدہ م یع کرئے کے ناوخود شکون سے نتتھے۔
چنہ ئے زرا سی نانگ اتھانی اور نامحسوس انداز میں انبا جافو تکاال۔ جافو کو اس ئے
رنان کے ن نٹ پہ رکھا کہ جتھن محسوس کرئے اس کا سر خودنحود ننچے چھکا۔ ن نٹ پہ
رکھی بوک دنکھنے وہ مشکرا دنا۔
”نمہیں لگبا ہے کہ پہ مجھ پہ اپر کرے گا؟“ وہ جٹسے اس کی نحوں والی خرکت
پہ چیران ہونا بوال۔
”پہ نہیں بو پہ ضرور اپر کرے گا۔“ جس ہاتھ سے رنان کی گردن کو دبوجا تھا
اجانک وہ دور کرئے اس ئے بوری فوت سے رنان کے منہ پہ مکہ خڑ دنا کہ پروفت
ڈھبلی گرفت نائے وہ دور ہونی۔
”چب کہوں کہ اتھی نہیں بو اچیرام کرو میری نات کا۔“ وہ جبانی ہونی بولی کہ
نہلے تھی وارن کبا تھا۔
رنان چہرہ شانبڈ پہ کنے ہلکا شا ہٹشا جٹسے اننی واتف کا چھونا مونا نہادری کا
مطاہرہ دنکھنے لطف اندوز ہوا ہو۔
”اتھی نہیں کا کبا مطلب ،میں کجھ کرئے بو نہیں واال۔۔ میں نس تم سے ملبا
جاہبا ہوں۔“ وہ ناتھ روم میں جا جکی تھی اور اس سے نہلے کہ دروازہ نبد کرنی رنان
ئے انبا ناؤں دروازے کے ننچ اتکانا اور شوخ تظروں سے اس کو دنکھنے لگا۔
”رنان دفع ہو جاؤ نہاں سے۔ مجھے شکون کا شانس لتنے دو۔“ اس کی ڈھنٹ
طت یغت کو مد تظر رکھنے ہوئے وہ عصے سے نیز لہچے میں بولی۔
”شکون کا شانس کٹسے لے شکنی ہو چب میں نہاں ہو۔ شکون بو نمہیں ضرف
میرے ناس آنا ہے۔“ وہ شکون سے کھڑا اس کے عصے سے سرخ ہوئے چہرے کو
دنکھبا بوال۔ عصے سے نا سرم سے وہ کجھ کہہ نہیں شکبا تھا اننی نیز پرار ن نوی کے لنے۔
”اکبلے کبا کرو گی اندر۔۔؟“ مزے سے نبک لگائے اس ئے سر نا نا اس کو
معنی چیز تگاہوں سے دنکھا۔
”چہتم میں جاؤں گی۔۔“ وہ جالنی اور دروازے کو نبد کرئے کے لنے زور لگانا۔
”بور ہو جاؤ گی وہاں۔ شاتھ جلنے ہیں۔“ پہ کہنے ہی اس ئے دروازے کو زرا شا
چھ یکا دنا اور چنہ لڑکھڑا پڑی۔ ناجار اس کو ننجھے ہتبا پڑا۔
ئےسرموں کی طرح اس کو دنکھنے اب اسبہقامنہ تگاہوں سے دنکھنے لگا کہ جلو
اب آگے خو کرنا ہے کرو لبکن وہ ستنے پہ نازو ناندھے کھڑی اس کو گھورئے لگی۔
”اب آہی گنے ہو بو پہ ناتھ روم صاف کرو۔“ ا ننے نالوں کو خوڑے کی شکل
میں ناندھنی وہ سنجبدگی سے بولی اور اننی سرٹ کی آسنین فولڈ کرئے لگی۔
”تم نہاں پہ کرئے والی تھی؟“ وہ نبکھے انداز میں بوچھنے لگا کہ چنہ کا دل کبا
نہاں جتنی چیزیں تھی شب اتھا کے اس کے سر پہ دے مارے۔ اس قدر ئےسرم
انشان تھا پہ کہ اننی ئےسرمی کا مطاہرہ کرئے میں کونی آر محسوس نہیں کرنا تھا۔
”میں بو نہاں منہ ہاتھ دھوئے والی تھی لبکن نمہیں اب شوق ہو رہا ہے کام
کرئے کا بو کر لو۔ آخر کو نمہارا تھی ناتھ روم ہے۔“ وہ الپرواہی سے بولی اور سبک کی
طرف پڑ ھنے نانی کھول کے منہ پہ چھنتنے مارئے لگی۔
”چب انک کبل اکبال ہونا ہے بو انسی نانیں نہیں کرئے۔“ ا ننے چہرے پہ
ہاتھ ت ھیرئے رنان گہرا شانس تھر کے اس کو نازو سے تھامے ا ننے مقانل کرئے
ہوئے سمجھائے والے انداز میں بوال اور اس کی مزاچمت کو تظر انداز کرئے والہاپہ نبار
کا اظہار کرئے ننجھے ہوا۔
”اب شکون سے چہتم میں جاؤ۔۔“ سرپر انداز میں انک آنکھ دنا کے کہبا وہ دروازہ
کھولے ناہر گبا کہ اگر وہ پروفت دروازہ نبد پہ کرنا بو خو اڑنی ہونی چیز دروازے کو لگی
تھی وہ اس کے سر کو شالمی دے جانی۔
ننجھے اس ئے چنہ کو صلوانیں د ننے سبا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”ا نسے کون مارنا ہے؟“ پرمی سے اس کے رجشار کو چھونی ہونی بولی کہ ڈرنک
ئے مشکراہٹ دنانی۔
”کبا ہو گبا ہے نہلی دفع تھوڑی ہوا ہے۔“ ڈرنک ئے اس کا ہاتھ تھام کے کہا
کہ نبال ئے حقگی سے اس کو دنکھا۔
”چہرہ سرخ ہو رہا ہے شارا۔ انہوں ئے زرا لحاظ نہیں کبا کہ دو دن تغد نمہاری
شادی ہے۔“ وہ عصہ کر رہی تھی۔ ما تھے پہ شکنیں موخود ت ھیں۔
”عصہ نبا کے تھوڑی آنا ہے تم زنادہ ری انکٹ کر رہی ہو۔ چب دامیر سر ئے
گولی ماری تھی نب بو تم ئے سراہا تھا ،رومنتبک لگ رہا تھا اب بو نس ت ھیڑ ہے۔“
ڈرنک مشکرانا ہوا بوال۔
”وہ بو ان کا خزنانی ین تھا۔“ نبال دامیر کی شانبڈ لتنی بولی۔
”بو پہ کون شا شوق سے مارا ہے ،چنہ متم کو دنکھنے خزنات میں مارا گبا ہے۔“
ڈرنک اس کی نات شن کے سر چھبکبا بوال خو اب نبڈ سے اتھنی جائے کو تھی۔
”میں آ نٹس نبک لے کے آنی ہوں ناکہ تھوڑی سی نکور کر دوں۔“ وہ کہنی ہونی
ناہر گنی ،تھوڑی دپر تغد اس کے ہاتھ میں انک آ نٹس نبک تھا اور پرے تھی۔ اس
کے ناس نتتھنے اس ئے آہشنہ سے ڈرنک کے چہرے پہ رکھا۔
”کتبا رنڈ ہو رہا ہے دنکھو۔“ وہ ناشف سے بولی۔
”سر رنان کے سر پہ و نسے ہی خون شوار رہبا ہے۔ نبدے کے اندر فبلتبگز ہونی
ہیں لبکن پہ بو فبلتبگ لٹس نبدا ہوئے ہیں کجھ کہو بو گھورئے ا نسے ہیں جٹسے اتھی
چیڑ تھاڑ دیں گے۔“ وہ نانسبدندگی کا اظہار کر رہی تھی کہ ڈرنک کو تھوڑا پرا لگا۔
”وہ ا ننے تھی پرے نہیں جتنے تم سمجھ رہی ہو۔“ وہ بو کنے لگا۔
”انسی نات ہے بو نین جار مکے تھی کھا آئے ،تھوڑے نبل بو پڑے ہوئے
چہرے پہ۔“ وہ جلے دل سے اس کو گھورئے ہوئے بولی کہ ڈرنک ئے ہٹسنے تقی میں
سر ہالنا۔
رنان اور دامیر کی خزنانی طت یغت کا وہ کجھ نہیں کر شکبا تھا۔ دوبوں ہی ا ننے
غوربوں کے ننجھے سر تھرے تھے۔ مروا تھی شکنے تھے اور مار تھی شکنے تھے لبکن اننی
ن نوی کی جاطر خون کو مرئے سے نحائے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شا منے موخود نبڈ پہ نتتھے دامیر کو م یقکر انداز میں دنکھ رہی تھی جس کے شانبڈ پہ
کھڑا ڈاکیر اس کے زچم کا مغاننہ کرئے اب نتبڈج کر رہا تھا۔
آنا بو وہ علتبا کو جبک کروائے تھا لبکن وہ تصد تھی کہ دامیر تھی ڈاکیر کو دکھائے
انک نار۔ دامیر کو ا ننے زچموں کی پرواہ نہیں تھی ک نونکہ اب کاقی دن ہو گنے تھے
و نسے تھی درد کا اجشاس نہیں تھا۔
اننی سرٹ نہتنے مشلشل تگاہ علتبا پہ چمانی جس کی آنکھوں میں پرنشانی تھی۔ وہ
نہت جلد ا ننے خزنات و اجشاس واصح کرنی تھی۔
”تم میرا ناشنہ ہی نہیں ،التف ناتم مبل) (mealہو۔“ اس کی آنکھوں کی
کع ن
چمک اتھری بو گہری تگاہوں سے دنکھبا ہوا بوال۔ لتبا آ یں ھما نی کہ دامیر ئے
گ گ ھ
اس کا ہاتھ تھامے ا ننے فرنب کھڑا کبا۔
م ہ ھ کن
”میری آ یں یں ،میری ن نوی ہے یں چب جاہے ،جٹسے جاہے ،چہاں جاہے
مرضی دنکھوں۔“ دامیر ئے کہنے ہوئے اس کو جن تگاہوں سے دنکھا علتبا نلش کر
گنی ،چہرے پہ نیزی سے سرجی نیرئے لگی۔
”ہوستبل کا لحاظ کرو۔ انبا نبار آرہا تھا بو گھر سے تکلنے ہی نہیں۔“ وہ مضنوعی
سحت لہحہ انبائے ہوئے بولی۔
”گھر! میں نبڈ روم سے تکلنے پہ نجھبا رہا ہوں۔ انبا نبار آرہا ہے مجھے تم پہ۔“
دامیر ڈاکیر کی موخودگی کو تظر انداز کنے بوال کہ علتبا سنتبا اتھی۔
اس کی نات سے انحان نتنے کی کوشش کی جٹسے دامیر ئے کجھ کہا ہی نہیں
تھا۔ نٹشک وہ کسی دوسری زنان میں نات کر رہے تھے لبکن ڈاکیر اس کے ناپرات
سے جان شکبا تھا کہ دامیر اس وفت کس موصوع پہ نات کر رہا تھا۔
ڈاکیر رسین میں دامیر سے کجھ کہہ رہا تھا اور علتبا جاموسی سے دوبوں کو ناری
ناری دنکھ رہی تھی ،چب ڈاکیر بولبا بو علتبا کی تگاہ ڈاکیر کی طرف اتھنی ،دامیر بولبا بو
اس کی جانب دنکھنے لگنی۔
دامیر اس کی آنکھوں کی خرکت پہ مشکرانا ،اسے ئےشاچنہ نبار آئے لگا۔ وہ سمجھ
نہیں نا رہی تھی لبکن ڈاکیر کی ہر نات پہ سر ہال رہی تھی۔
نارکبگ نک آئے وہ دوبوں جاموش رہے تھے ،علتبا کا جبک اپ ہو حکا تھا ،ان
کی گاڑی کے ننجھے گارڈز کی گاڑی تھی خو ہوستبل کے اندر نہیں گنے تھے۔
”تم ڈران نو کر لو گے اب تھی؟“ دامیر ئے چب علتبا کے لنے دروازہ کھوال بو
علتبا ئےشاچنہ بول اتھی۔
”ک نوں ،نمہارا ارادہ مجھے نبگ کرئے کا ہے؟“ دامیر ئے سنجبدگی سے کہا کہ علتبا
ئے گھورا۔
”دامیر۔۔“ وہ ننتبہی تگاہوں سے دنکھنے لگی۔
”کر تھی شکنی ہو نبگ ،میں مانتبڈ نہیں کروں گا۔“ کہبا ہوا اننی ڈروانتبگ سنٹ
ستتھالی۔
”مجھے نہیں کرنا نمہیں نبگ۔۔“ وہ ناک خڑھا کے بولی کہ دامیر اس کی ادا پہ جی
جان سے مشکرانا۔
”تھر میرے نبگ کرئے پہ شکانت پہ کرنا۔“ وہ معنی چیزی سے بوال کہ علتبا
ئے حقگی سے اس کے نازو پہ ہاتھ مارا۔
”ہم آج لنچ ناہر کریں گے۔“ علتبا ئے گونا انبا ف یصلہ سبانا۔ دامیر ئے اس کے
چمکنے چہرے کی جانب دنکھا تھر سر کو چم دنا۔
”جٹشا میری واتف جاہے گی ونشا ہی ہو گا۔“
اس کی نات پہ علتبا کے ن نٹ میں گدگدی سی ہونی ،اس ئے مشکرائے چمکنی
ن ھ کن
روشن آ یں دامیر پہ تکا یں۔
”تم نہت ا چھے ہو دامیر۔۔“
وہ اجشان کرئے والے انداز میں بولی ،اس کے کبدھے پہ سر رکھنے کو تھی کہ
زچم کا جبال کرئے رک گنی۔
”تم نہاں آشکنی ہو۔“
دامیر ئے اس کے ننجھے ہتنے پہ اشارہ کبا کہ وہ اس کی آغوش میں سما شکنی
تھی اگر وہ کبدھے پہ سر رکھبا جاہے۔
گرد نتتھے تھے۔ لبام ئےزار ناپر سحائے آس ناس دنکھ رہا تھا۔ اس کو گبدرنگ نسبد
نہیں تھی نتھی التغلقی اجتبار کنے ہوئے تھا۔
”نہاں سے قارغ ہوئے ہی ہمیں تکلبا ہے ،ڈرنک بو نہیں جا نائے گا بو جلدی
کام جتم کر دیں گے۔“ رنان کھائے کے دوران شاتھ نتتھے دامیر سے محاظب ہوا جس
ئے محض سر ہالنا۔
جم س
علتبا ئے نا ھی سے نہلے رنان تھر دامیر کو دنکھا۔
”کدھر جانا ہے؟“ دامیر کو دنکھنے ہوئے شوال کبا۔
”ضروری کام ہے۔“ وہ سنجبدگی سے انبا ہی بوال۔ علتبا ئے انک تگاہ چنہ پہ ڈالی
خو ئےنباز سی کھائے میں مصروف تھی۔ شاند وہ وافف تھی ان کے کام سے نتھی
جاموش تھی۔
ا ننے چہرے پہ تظریں محسوس کرئے دامیر ئے شا منے دنکھا چہاں علتبا اسی کو
ت ت ً ن ت ُ
دنکھ رہی ھی۔ اس کی آ ھوں یں نسونش ھی۔ فتبا وہ اس کے جائے کا شن کے
م ک
مابوس ہونی تھی۔
دامیر کو تفین تھا کہ وہ اس سے اکبلے میں نات کر کے سمجھا دے گا۔ جادئے
کے تغد نہلی نار وہ تھر سے کام کی طرف م نوجہ ہوا تھا اور علتبا الجھی تھی۔
اس کے خوتصورت چہرے پہ پرنشانی دامیر کو نالکل تھی نہیں تھانی تھی ،علتبا
ن ت ت ُ
کو پرشکون رکھبا تھا اور اسے ین دہانی کروانی ھی کہ دامیر کو کجھ یں ہو گا۔
ہ ف
علتبا اب تھی دامیر کو دنکھ رہی تھی نا کسی شوچ میں تھی ،دامیر ئے مشکراہٹ
ناس کی۔ دامیر کو مشکرانا دنکھ اس کے ہونٹ کے کبارے ہلے۔ وہ انبا سر چھکا
گنی۔
م
سیف والے روپ کے تغد دامیر اس طرح کمل ڈرنس اپ نہت ہتبڈسم لگ رہا
تھا۔ اس نات کا اغیراف وہ دامیر سے ضرور کرئے والی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رنان ئے سبانسی انداز میں چنہ کے چہرے کو دنکھا۔ پرمی سے اس کے آگے
ت ب جن ن
آئے نالوں کو کان کے ھے اڑشا۔ وہ اس کی ونشٹ ن لٹ ناندھ رہی ھی۔
اس کے نالکل پزدنک کھڑی کہ اس کے انک انک تقش پہ وہ لمس کی نارش
کرشکبا تھا۔
”و نسے تھوڑی دپر نہلے تم انشان لگ رہے تھے۔“ چنہ نبلٹ نبد کرئے ہوئے
سنجبدگی سے بولی۔
”میرے جٹشا انک کبا ،دو نین آجانیں گے اگر تم جاہو بو۔۔“ اس کو تھامے ہی
وہ سرگوسی میں بوال کہ چنہ جل کے رہ گنی۔
”تھر نبہودہ نانیں۔۔“ وہ ندمزہ ہونی اور چہرے پہ کوفت تھرے ناپرات سحائے
دور ہوئے لگی۔ رنان ہلکا شا ہٹس دنا۔
” تم مجھے اب کام سے دور کر رہے ہو رنان۔ میں زنادہ دپر ا نسے نہیں رہ ناؤں
گی۔“ چنہ آ نتنے کے شا منے کھڑی ا ننے نالوں کی لمبانی دنکھنے لگی خو پڑھ گنی تھی۔
اسے ک نوا لتنے جا ہنے تھے اب۔
ن ت ک ُ
”خو ہمارا کام ہے وہ ہم دنکھ رہے ہیں۔ خو نمہارا کام ہے اس سے ھی ہیں
روکا نا روکوں گا۔“ وہ سنجبدگی سے بولبا ہوا اس نک آنا۔
”مجھے تم ئے ا ننے شاتھ آج تھی جائے سے روکا ہے۔“ وہ جبانی ہونی بولی۔
”کہا نا کہ ہمارا کام ہمیں کرئے دو ،علتبا کو نمہاری ضرورت ہو گی۔“ گہری
ھ کن
ل
گرے آ یں لنے اس ئے ا قاظ پہ زور د ننے کہا۔
”چب ہم انک شاتھ ہیں بو ہمارا کم تھی انک شاتھ ہونا جا ہنے۔ میں خود کو زنگ
نہیں لگا شکنی قارغ رہ کے۔“ اس کے مقانل آئے وہ تھی جبائے لگی۔
”دامیر کی جگہ میں جا شکنی تھی۔“
”دامیر کی جگہ تم نہیں ہو شکنی ،وہ مجھے کور د نبا ہے اور اگر تم شاتھ ہونیں بو
مجھے کور کرئے کے نحائے نمہیں کور د نبا پڑنا ،نا جا ہنے ہوئے تھی میرا دھبان تم پہ
رہبا۔“ رنان ئے رشان سے اس کو سمجھانا کہ چنہ ئے سر ہالئے گہرا شانس تھرا۔
”رات میں ملنے ہیں۔“ اس کے کبدھوں کو ننجھے سے تھامے نالوں پہ ہونٹ
رکھنے ننجھے ہبا۔
چنہ ئے گردن گالس ونڈو کی طرف کی ،اندھیرا نس چھائے ہی واال تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رنان ہال میں آنا چہاں اس کو علتبا اور دامیر دکھانی د ننے۔ علتبا حقا سی تظر آرہی
ل ُ
تھی ضرور وہ دامیر کے جائے پہ اس سے ا ھی ھی۔
ت ج
رنان کے آئے ہی علتبا جاموش مگر شکوہ کباں تگاہوں سے دامیر کو دنکھنے لگی،
چہرے پہ ناراصگی واصح تھی۔ رنان ئے آنکھوں سے دامیر کو اشارہ کبا خو الجارگی سے
کبدھے احکا گبا کہ ن نوبوں کا کجھ نہیں ہو شکبا تھا۔
ً
دامیر مونانل پہ کسی کا نمیر ڈانل کرئے گاڑی نبار رکھنے کو کہہ رہا تھا ،عالبا
اشلحہ رکھوانا تھا۔ علتبا ئے شاکی تگاہوں سے دامیر کو دنکھا جس کا شانبڈ بوز تظر آرہا تھا۔
چہرے پہ سنجبدہ ناپرات تھے۔
”نمہیں لگبا ہے میں مرئے والے کو انبا تھی موفع د نبا ہوں کہ وہ جان نائے وہ
مرئے واال ہے۔ میں اس کو تغد میں سرپراپز د نبا ہوں
”That you’re dead
رنان ئے چہرے پہ سنجبدگی لنے کہا کہ علتبا ئے چھرچھری لی ،اس کے خواب
میں ہمٹشہ نتبک انبک ہی ملبا تھا۔ گردن کے ننجھے سٹسباہٹ سی محسوس ہونی۔ انک
پرقی لہر سی دوڑ گنی۔
رونگھنے ک ھڑے ہوئے۔ وہ کجھ ئےتفتنی ،چیرت تھری تگاہوں سے رنان کو دنکھنے
لگی۔
”کجھ مغلوم ہے کتنے لوگوں کو مار جکے ہو؟“ دامیر اتھی تھی کال میں مصروف
ُ
تھا نتھی وہ رنان سے نانیں کر رہی تھی ورپہ رنان کا خو کولڈ ری انکشن ہونا تھا اس سے
بو و نسے ہی نات کرئے میں خون جشک ہو جانا تھا۔
”پہ نبکی کرئے میں جشاب نہیں رکھبا۔۔“ وہ طیزپہ مشکراہٹ اچھا لنے ہوئے
علتبا کو دنکھنے بوال تھر انک دم مشکراہٹ عانب کرئے دامیر کو دنکھنے لگا۔
”لوگوں کو مارنا اب نبکی ہو گبا۔۔“ علتبا ئے ناگوارنت سموئے شا منے کھڑے
اس ہتبڈسم لڑکے کو دنکھا۔
”وہ لوگ مرنا ڈپزرو کرئے ہیں۔“ رنان اس کی پڑپڑاہٹ ستنے ہوئے بوال۔
ج ً
”خو تھی ہے دامیر کو گھر چھوڑ کے جاؤ۔ وہ تھبک نہیں ہے۔“ علتبا ئے ا نحاجا
اس سے کہا کہ اگر علتبا دامیر سے کہنی بو تھر نحث و مباپہ ہونا اور اگر رنان خود دامیر
کو ر کنے کا کہبا بو دامیر رک شکبا تھا۔
”نہادر ن نو۔ آج چھوئے سے کام پہ جائے سے تم روک رہی ہو کل کو اس سے
پڑی کونی نات ہونی تم بو دامیر کو ناندھ ہی لو گی۔ وہ انبا کام کر رہا ہے کرئے دو۔
آگے ہی مج نوں کی اوالد نبا تھرنا ہے۔“ رنان ئے نبا کسی لگی لتنی کے نات کہہ کے
کام نمام کبا کہ علتبا ہوتفوں کی طرح اس کو دنکھنے لگی۔
”دامیر کو تم مج نوں کہہ رہے ہو خود کبا ہو تم۔۔“ رنان کا دامیر کو انشا کہبا علتبا
ً
کو نالکل تھی اچھا نا لگا جس کا اظہار اس ئے فورا کبا۔ اس کی ند میزی پہ رنان ئے
ن
علتبا کو جشمگیں تگاہوں سے گھورا کہ وہ تھوک تگل کے رہ گنی۔
تگاہیں خرانی ہونی وہ دامیر کے ناس ہی جلی گنی کہ رنان پہ اس کو چیڑ تھاڑ
دے۔
کھ نجت
نی سرگوسی ”دامیر۔۔۔“ علتبا کن اکھ نوں سے رنان کو دنکھنے دامیر کی سرٹ
میں بولی۔ دامیر کال پہ مصروف اس کے گرد نازو کا حصار ناندھ گبا۔
”اگر نمہیں کجھ ہوا نا بو میں ئے رنان کو نہیں چھوڑنا۔“ وہ گردن اتھائے اس
کو دھمکی د ننے لگی۔ دامیر ئے اس کے ناس سے اتھنی خوسنو کو محسوس کبا اور ہلکا شا
چھکنے اس کی گردن پہ بوسہ دنا۔
کال جتم کرئے اس ئے دوسرا نازو تھی علتبا کے گرد ناندھا۔
”چھونا شا کام ہے ہم رات نک آجانیں گے۔ قکر کی کونی نات نہیں۔“ تھوڑی
دپر نہلے والی نات دامیر ئے تھر کہی کہ علتبا سر ہال گنی۔
اگر وہ اس کو تھر جائے سے روکنی بو رنان ئے اس کا مزند مزاق اڑانا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نبگ سی گلی کے نالکل آخر پہ گاڑی روکے رنان آس ناس کا جاپزہ لتنے میں
مصروف تھا۔ گاڑی کے سٹسے اوپر ہی کر ر کھے تھے ناکہ اندر نتتھے لوگوں کا کسی کو
مغلوم پہ ہو شکے۔ رنان ڈران نونگ سنٹ پہ تھا۔
البانین (انگرون کا گتبگ) کاقی عرصے سے ان کے عالفے میں گھسے تھے اور
نہاں ال یگل سرگرمباں جاری تھیں۔ رنان ڈی ،دامیر آر ئے کتھی ا ننے عالفے میں
انشابوں کی سمگبگ نہیں ہوئے دی تھی اور پہ ہی ڈرگز کی۔ وہ لوگ نس ال یگل ونئیز
کی شپ منٹس دنکھنے تھے لبکن ان سے بو چھے تغیر خو نہاں اننی جکومت نبائے تکلبا
ان کو پہ چھوڑئے تھی نہیں تھے۔
شاشا کے مرئے کے تغد البانین ئے تھوڑی شسنی دکھانی تھی اور ان کا کام
رک گبا تھا لبکن اب وہ تھر سے انک نو ہو گنے تھے۔ نجھلے دبوں میں ڈرنک ئے نہاں
بورا گروپ جبک کبا تھا۔ وہ لوگ نہاں جاوی ہو رہے تھے اور اس سے نہلے کہ وہ
ُ
ف یصہ کرئے ان کا جانمہ ضروری تھا۔
اس وفت رنان ،دامیر ان کے تھکائے پہ ہی موخود تھے اور کسی تھی خرکت کی
صورت میں انہوں ئے چملہ کر د نبا تھا۔ ان کا ناس نہاں نہیں تھا لبکن رنان خود
نہاں آنا تھا کہ پرابوا کے ہبڈ کے چملہ کرئے پہ وارنبگ مل جانی اور اگر اس کے تغد
تھی وہ لوگ ناز پہ آئے بو رنان انگرون کے گھر میں گھس کے اس کو مارئے کا ارادہ
رکھبا تھا۔
”آنی گٹس ہمیں نہاں ر کنے کے نحائے اندر جلبا جا ہنے۔“ طونل ان یطار کے تغد
دامیر ئے کہا اور اننی گن جبک کرئے لگا۔ رنان ئے انک تظر اس کو دنکھا خو نالکل
نبار تھا۔
”آج نمہیں میں کور دوں گا۔“ رنان سنجبدگی سے بوال کہ دامیر خوتکا،اسبہقامنہ
تگاہوں سے اس کو دنکھا۔
”علتبا کے دامیر کی جان کا کونی رشک نہیں لے شکنے ہم۔“ رنان ہ نوز سنجبدگی
پرفرار رکھنے بوال کہ دامیر ئے گہرا شانس تھرے مشکرا کے تقی میں سر ہالنا۔
ن
”جاموسی سے اپرو۔“ تکلحت وہ آ یں ھما کے بوال کہ رنان ئے سر چھ یکا۔
گ ھ ک
”زندگی ئے کبا نلبا کھانا ہے۔ ناپ اشاشن اب ن نوبوں سے ڈرئے لگے ہیں۔“
رنان پڑپڑانا اور دوبوں ئے انک شاتھ قاپرنگ سروع کی۔
ان کو خوانی کاروانی کی کونی قکر نہیں تھی ک نونکہ وہ ہمٹشہ بوری نباری سے آئے
تھے ،نہاں کا شستم ہبک تھا اور دھماکوں کے لنے انہوں ئے نہلے سے ہی ڈبوانس
انسبال کر رکھی تھیں۔ اگر مغاملہ آؤٹ آف کئیرول ہو جانا بو وہ انک نین دنائے کی
دوری پہ تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ان دوبوں ئے اتھی جتنج نہیں کبا تھا ،ڈرنک کی شادی کا فبکشن اتھی جاری
تھا۔ علتبا کا ارادہ بو نہلے نا جائے کا تھا لبکن چنہ کو جائے دنکھ وہ تھی اس کے شاتھ
ہو لی۔
رتفرنشمنٹ کے تغد اب نہاں ہلکا شا م نوزک جال دنا گبا تھا ،پرانبڈ کبل اننی مگن
میں ہلکی دھن کے سرور پہ چھوم رہے تھے۔ چنہ جاموسی سے ا ننے نتبل پہ ہی آگنی۔
لبام اب نہاں موخود نہیں تھا ،چنہ کا جبال تھا کہ وہ وانس منٹشن ا ننے روم
میں جا حکا ہو گا لبکن اس کا جبال علط نانت ہوا چب علتبا ئے اس کو انک جانب
اشارہ کبا۔
وہ کسی لڑکی کے شاتھ کھڑا اس سے ہٹس کے نات کر رہا تھا۔
چنہ کے ما تھے پہ ناگواری کی شکنیں پڑیں۔ اس کو لبام کی پہ خرکت پری لگی
تھی۔ وہ لڑکی اتھی نچی تھی جس کے شاتھ وہ نابوں میں مصروف تھا۔
علتبا کو نہیں نتتھے ر ہنے کا کہنے وہ لبام کی طرف پڑھی خو نار کاؤنیر پہ کہنی
ک
تکائے ،نانگوں کی تنچی نبائے کھڑا تھا۔ ہاتھ میں واین گالس تھا جس میں شوڈا ڈرنک
تھی۔
نہن ُ
”مجھے نہاں کجھ نسبد نہیں آنا لبکن تم نہت ک نوٹ ہو۔“ چنہ وہاں چی بو اس
کے کابوں میں لبام کا پہ چملہ پڑا۔ وہ انک نچی پہ الین مار رہا تھا۔
”لبام۔۔۔“
چنہ کی سحت آواز پہ لبام گڑپڑانا اور ہاتھ میں تھاما گالس کاؤنیر پہ رکھا۔ اس ئے
اننی ناگوار نت نہیں چھبانی تھی۔
”ہائے چنہ! اس سے ملو پہ میری ننی دوشت۔ ہے نا۔“ ستتھلنے ہوئے اس
ئے چنہ سے اس لڑکی کو م یغارف کروانا اور آخر پہ اسی سے نانبد جاہی خو سرما سی
گنی۔
”ہاؤ ک نوٹ ۔۔۔“ لبام کو وہ وافعی ک نوٹ لگی تھی جس کا اظہار اس ئے چنہ
کے شا منے تھی کبا۔
چنہ کی سرد تظریں خود پہ محسوس کرئے لبام نانگیں کھولے سبدھا کھڑا ہوا۔
”نار خود بو شوہر کے ناس جلی گنی تھی بو میں کبا کرنا۔۔“ اس کی گھورنی
تگاہوں کا خواب وہ ئےنسی سے د ننے لگا کہ وہ لڑکی تھی اب شا منے کھڑی خوتصورت
ل ھ کن
کالے نالوں والی لڑکی کو د نے گی۔
”اس کا مطلب پہ نہیں کہ تم نہاں نج نوں کو نبگ کرو۔“ وہ سجنی سے بولی کہ
خود کے لنے نچی کا لقظ شن کے لڑکی ئے منہ کے زاوئے تگاڑے۔
”میں نچی نہیں ہوں ،انٹس شال کی لڑکی ہوں۔“ وہ زور د ننے ہوئے بولی کہ
کمچ ھ کن
لبام کی آ یں یں۔
”دامیر کے جبالوں میں کھو کے آپ میرے شاتھ نا اتصاقی کر رہی ہیں۔“ وہ
ت ن ھ چ ع ش گ ھ کن
قدرے آ یں ھمائے کوہ کرنا بوال کہ لتبا ئے ا تنے سے اس کو د کھا کہ ا ھی وہ
انک لڑکی کے شاتھ فری ہو رہا تھا اور اب اس سے شکوہ کر رہا تھا۔
ُ
”انبا ک نوٹ لڑکا شاتھ نتتھا ہے اس سے نا یں کریں۔“ وہ چہرے پہ شوجی
ن
سحائے اس کو دنکھبا ہوا بوال کہ علتبا ہٹس دی۔
”کبا نانیں کریں۔“ وہ گہرا شانس تھرنی ہونی بولی کہ اس کا شارا دھبان دامیر کی
جانب تھا۔
”مجھے نبانیں کہ ئےنی کا نام کبا شوجا ہے؟ اس کے لنے کتنی نباری کر لی
ہے اور جتبڈر مغلوم ہوا۔ ہم انک نارنی رکھنے ہیں۔“ نہلے وہ دھتمے سے اس کو شوال
گ نوائے لگا تھر اجانک ہی چہکنے ہوئے انبا مسورہ نٹش کبا کہ علتبا بوکھال اتھی۔
اگر نانیں ہی کرنی تھیں بو دوسرا موصوع نکڑے ،ان لڑکوں کے ناس بو جٹسے
اس موصوع کے شواہ کجھ تھی نہیں تھا نانیں کرئے کے لنے۔
”پرنک پہ ناؤں رکھو لبام ،میں ئے انشا کجھ تھی نہیں شوجا۔“ وہ کہنی ہونی نبک
لگا کے نتتھ گنی۔ لبام ئے مابوسی سے اس کو دنکھا جٹسے اس نات کی امبد نہیں
تھی۔
”جلو نار گھر جلنے ہیں۔ کبل کا انبا رومنٹس نہیں جتم ہو رہا۔ تم دوبوں کی
شکلوں پہ شوہر کی جدانی تظر آرہی تھی اور میں و نسے ہی ئےزار ہو رہا ہوں۔“ کجھ دپر
مزند نہاں نتتھنے کے تغد لبام کوفت تھرے انداز میں بوال۔ اب زنادہ دپر نہیں نتتھا جا
رہا تھا۔ شاند ہی کتھی وہ ا ننے لوگوں میں تکال ہو ،پہ اس کی عادت کے جالف تھا نتھی
وہ مشلشل چمانباں روک رہا تھا۔
گع ن
”ہاں جلنے ہیں مجھے تھی نتبد آنا سروع ہو گنی ہے۔“ لتبا او نی ہونی بولی۔
ھ
چنہ ئے دوبوں کے سنے ہوئے چہروں کا دنکھا اور اتھ کھڑی ہونی۔
نبال اور ڈرنک کے ناس جا کے انہوں ئے اجازت جاہی۔
علتبا کو وافعی نتبد سبا رہی تھی بو فوری جتنج کر کے شوئے کے لنے لنٹ گنی،
دامیر کے گھر سے دور ہوئے پہ اس کی تگاہ ئےشاچنہ ہی کوئے میں لگے کتمرہ کی
طرف اتھی۔ جائے وہ اس کو دنکھ تھی رہا تھا نا نہیں۔
اس ئے مونانل اتھانا۔ وفت دنکھا۔ آدھی رات ہوئے والی تھی۔
”کب نک وانس آؤ گے؟“ اس ئے مٹسج نانپ کر کے تھنحا۔
”میرے آئے پہ کجھ اسنٹشل ہے کبا؟“ خواب کجھ سبکبڈز تغد ہی موصول ہوا۔
علتبا کے ہون نوں پہ مشکراہٹ اتھری۔
”میں ہوں نا اسنٹشل۔“ وہ اپرانی اور دامیر کے خواب کا ان یطار کرئے لگی۔
”ان یطار کرو میرا پرنسٹس۔۔“
دامیر کا خواب دنکھنے وہ چیران ہونی ،اس ئے نات کو طوالت نہیں دی تھی
جبکہ وہ جاہنی تھی کہ اس سے نات کرے۔ ہو شکبا تھا کہ وہ اتھی مصروف ہو۔
مونانل کو شانبڈ پہ رکھنے وہ دامیر کو شو جنے لگی۔
دامیر کے ا نسے جائے کی اب عادت لگانی ہو گی ،اس شب کو نارمل لتبا ہو گا
کہ وہ کسی تھی وفت کتھی تھی بوں اجانک جا شکنے تھے۔ رو کنے پہ تھی پہ رکیں گے۔
دامیر کو شو جنے اس کی آنکھ کب لگی اسے اندازہ نہیں ہوا ،وہ اتھی کچی نتبد میں
ہی تھی کہ اجانک کسی آہٹ پہ آنکھ کھلی۔ کجھ سبکبڈ وہ سبل رہی۔ وہ شو گنی تھی۔
آواز تھر سبانی دی کہ اس ئے چھبکے سے سر اتھانا۔
کن
کجھ نل وہ دروازے پہ تظریں چمائے د نی رہی ل کن دونارہ کونی آہٹ پہ ہونی بو
ب ھ
سر وانس نکنے پہ رکھ دنا۔ مونانل انک نار جبک کبا۔
چنہ کا کونی ن یغام نہیں تھا مطلب شب تھبک ہے۔ گہرا شانس تھر کے وہ
گ ھ کن
وانس آ یں موند نی۔
کھو لنے کی شعی کی ،ہلکی سی گردن گھمانی۔ دامیر شانبڈ نتبل لتمپ آف کر رہا تھا۔
علتبا ئے کروٹ ندلی اور اس کی جانب رخ کبا۔
”تم ئے ان یطار نہیں کبا۔“ اس کے رجشار پہ ہاتھ ت ھیرئے دامیر سنجبدگی سے
بوال،علتبا ئے تگاہیں اتھانیں۔
”تم خود لنٹ آئے!“ وہ البا شکوہ کرئے لگی۔
”تم ئے جتنج کر لبا جبکہ میں اسنٹشل علتبا کے لنے آنا تھا۔“ اننی پرم تگاہوں
سے اس کے تفوش کو چھونا ہوا بوال کہ علتبا کے ہونٹ مسکائے۔
ُ
”میں ہوں نا اسنٹشل علتبا۔“وہ اسی انداز یں بولی اور ھ ک کے ھوڑا فرنب
ت ش ک م
ہونی۔ ارادہ تھر سے نتبد میں جائے کا تھا۔
”تھر بو کجھ اسنٹشل ہی پرنتمنٹ ہونا جا ہنے۔“ وہ گھمئیر لہچے میں بوال ،علتبا ئے
اس کو گھورنا جاہا لبکن وہ ئے ناک جشارت کر نتتھا۔
رجشار پہ سرجی نیری کہ وہ تگاہیں چھکا گنی۔
”تم نازو بو زچمی نہیں کروا کے آئے نا؟“ کجھ دپر تغد علتبا کی نسونش زدہ آواز
م ل ک ھ کن
ستنے دامیر ئے آ یں ھو یں خو اس کو حصار یں لنے ہوئے تھا۔ اس کی نات کا
ہ جم س
مطلب ھنے وہ ٹس دنا۔
”نہیں الننہ میرا دل زچمی ہے ،نمہاری نتبد کی وجہ سے۔“ وہ سرپر لہچے میں بوال
کہ علتبا حقگی سے دنکھنے لگی۔
اس کی کنتنی کو ل نوں سے چھوئے وہ انک نار تھر ہٹس دنا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جشب معمول آج تھی علتبا دامیر کے تغد ہی اتھی بو وہ کمرے میں دکھانی پہ
دنا۔ فرنش ہوکے وہ کنچن کی طرف پڑھی چہاں ناشنہ نالکل نبار تھا اور نتھی چنہ کو تھی
ڈانتبگ نک آنا دنکھا۔
اس ئے آج قل شل نوز ہانی نبک نہنی تھی اور نالوں کو کھال چھوڑے آگے کبا
تھا۔ عام دبوں کی نانسنت آج وہ کاقی ندلی ہونی لگ رہی تھی اور پہ ندالؤ خوشگوار تھا۔
وہ نک شک سی نبار تھی۔
”ناشنہ کس ئے نبار کبا ہے؟“ دامیر کنچن میں تظر نہیں آنا تھا نتھی علتبا ئے
چنہ سے بوچھا۔
”آج کا کھانا دی پرابوا کے ہبڈ کی طرف سے جبہوں ئے ا ننے مرداپہ ہاتھوں سے
کھانا نبار کبا ہے ،امبد ہے مجھے مارئے کے لنے زہر موخود نہیں ہو گا اندر۔“ اس سے
نہلے کہ چنہ خواب د ننی ڈانتبگ اپرنا میں آنا لبام چہکبا ہوا بوال۔
”لبام۔۔!“ چنہ ئے ننتبہی تگاہوں سے گھورا۔
لبام ئے سرنڈر کرئے ہوا میں ہاتھ لہرائے تھر اننی جگہ پہ نتتھ گبا۔ اس ئے
خونک کے چنہ کو دنکھا۔ آف وانٹ ہانی نبک کے شاتھ نلبک چئیز نہنے وہ جازب
دکھانی دے رہی تھی۔ نالوں کو خوتصورنی سے ناندھ رکھا تھا۔
”آج بو کاقی لڑکی لگ رہی ہو۔“ لبام خود کو کہنے سے روک پہ نانا ،علتبا ئے تھی
نانبدی انداز میں سر ہالنا کہ وہ تھی نہی کہبا جاہنی تھی۔
چنہ ئے دوبوں کو تظر انداز کبا کہ نبک وفت گالس ڈور سے اندر آئے دامیر اور
رنان کی طرف شب کی تگاہ اتھی۔ علتبا اور لبام کے ہون نوں پہ معنی چیز مشکراہٹ دوڑ
گنی۔
رنان تھی ہم رنگ سرٹ میں مل نوس تھا جبکہ نازوؤں کے شل نوز فولڈ تھے اور نازو
پہ شقبد ننی تھی نماناں تھی۔
”رنان نمہیں کبا ہوا ہے؟“
جبکہ رنان اور چنہ انک دوسرے کو گھورئے میں مصروف تھے چب رنان ئے
سرپر انداز میں آنکھ دنانی۔
”تم آج نہت نباری لگ رہی ہو اس ڈرنسبگ میں۔“ علتبا نا سنے کے دوران چنہ
سے محاظب ہونی بو اس ئے سر کو ہلکا شا چم دنا۔
”میری ننی کی وجہ ملٹسکا تھی بو طاہر ہے اس کی ہانی نبک سرٹ کی وجہ تھی
میں ہوں۔“ رنان کی نات زومعنی تھی کہ چنہ عصے سے سرخ پڑنی اس کو گھورئے
ُ
لگی جبکہ علتبا گڑپڑائے ہوئے اس کی نات ظر انداز کر نی کہ اب کبا ہی وہ نات کو
گ ت
آگے پڑھائے۔
”پرنسٹس کھانا تھبک سے کھاؤ۔“ دامیر ئے اس کو بوکا خو کھائے کو نس گھور
رہی تھی۔
”اگر شب کجھ دبوں کے لنے قارغ ہیں بو ہم کہیں گھو منے جلیں۔“ چب شب
ئے کھائے سے ہاتھ روک لبا بو علتبا ئے خوشگوار لہچے میں کہا۔ وہ نس گھر کی ہو کے
نہیں رہبا جاہنی تھی۔
رنان ئے نس انک تظر اتھا کے اس کو دنکھا۔
”چب نمہاری طت یغت نالکل تھبک ہو گی بو ہم جانیں گے وکٹسیز پہ۔“ دامیر پرمی
سے کہنے ہوئے اتھا کہ علتبا ئے مابوسی سے اس کو دنکھا۔
”بو کبا نب نک ہم گھر ہی رہیں گے؟“
”گھر ک نوں ،تم جانا کرو نارکس میں ،والک کبا کرو ضرف گھر میں ہی پہ رہو۔“
رنان ئے اب کہ گقبگو میں حصہ لبا۔
”لبکن۔۔۔“ اس ئے کجھ کہبا جاہا کہ دامیر بول اتھا۔
”ہم جانیں گے لبکن تم اس جالت میں پربول نہیں کرشکنی۔ بو اس مغا ملے
میں تھوڑا کمیروماپز کرنا پڑے گا۔“ دامیر ئے اس کو نہالئے ہوئے کہا جبکہ علتبا کا
موڈ اب آف ہو حکا تھا۔
”کمیروماپز ،اب نک کبا بو ہے۔۔“ وہ ما تھے پہ نل لنے پڑپڑانی کہ دامیر ئے
چیرت سے اس کو دنکھا جبکہ رنان ئے سبانسی انداز میں آپرو احکانی۔
”ہم اس نارے میں تغد میں نات کریں گے۔“ دامیر ئے سنجبدگی سے کہنے گونا
نات کو اتھی کے لنے نال دنا جبکہ علتبا سر چھبک گنی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رنان اور دامیر آج صنح سے کسی دوسرے سہر گنے تھے چہاں ان کی کسی سے
آرمز کی ڈنلتبگ تھی۔
شام کے شائے ڈھلبا سروع ہوئے بو سباہ ہڈی نہنے ،نالوں کو کھال چھوڑے ،ہڈ
کی ناکٹ میں ہاتھ ڈالے آہشنہ سے قدم لتنی فٹ ناتھ پہ جل رہی تھی۔ تطاہر اس
ئے سر چھکانا تھا لبکن تگاہ اس کی اوپر تھی۔ سباہ بوٹ نبا آواز کنے آگے پڑھ رہے
ن
تھے۔ ناؤن شانبڈ میں وہ نہت آگے آگنی تھی۔ گہری آ کھیں اس وفت سرد تھیں،
چہرے پہ کونی ناپر موخود نہیں تھا۔ سر پہ نہنی ُہڈ سے نال آگے کو آئے تھے خو ہوا
کی دوش سے لہرا رہے تھے۔
جلنے جلنے وہ انک ہونل کے شا منے آرکی۔ آس ناس مزند نلڈنگس موخود تھیں۔
رنسٹشن نک جائے اس ئے انک سحص کا نام لبا اور خود کو مہمان کہنی لفٹ کی
جانب پڑھی۔
ہن
جٹسے ہی لفٹ کا دروازہ کھال اور مطلوپہ قلور پہ نجنے وہ ناہر آنی بو ہرہ مزند چھکا
چ
ب ھ ت ہ ہک تھ ک
لبا۔ نازو سے ہڈ اوپر نچی کہ نی پہ نبا نت نو واصح ہوا۔ ہاتھ سبدھا کبا کہ لی کے
نالکل شاتھ لگا جافو اب تظر آنا۔
راہداری نالکل جالی تھی۔ رات کی وجہ سے روستباں ندل دی گنی تھیں۔ ہر
کمرے کے ناہر انک گلدان موخود تھا جس میں لگے تقلی بودے اس سبہری روسنی میں
تھلے لگ رہے تھے۔
دھتمے قدموں سے جلنے وہ روم نمیر جبک کر رہی تھی۔ نبا گردن گھمائے کن
اکھ نوں سے آس ناس دنکھا ،تکلحت انبا رخ اس مطلوپہ دروازے کی طرف کبا۔
ہلکا شا ناک۔
تھک.تھک.تھک.
اندر سے آواز اتھری۔
”ہو از دنیر؟“
”روم سروس۔“ پراسرار انداز میں ہون نوں پہ مشکراہٹ اتھری۔
لب ُ
نسوانی آواز پہ اندر موخود سحص خوتکا۔ دروازہ زرا شا کھولے جبک کرنا جاہا کن اس
ئے پروفت انبا بوٹ دروازے پہ اتکانا۔
”ڈ نتھ از انٹ بور سروس سر۔“
مقانل کے چہرے پہ خوف کا ناپر اتھرا اور ڈنگر ناؤں کی تھوکر لگائے اندر پڑھی
شاتھ ہی دروازہ تھک کی آواز سے نبد ہوا۔ دروازہ نبد ہوئے سے نہلے زمین پہ کجھ خون
کے فظرے گرئے تظر آئے۔ وہ اندر جائے ہوئے کتمراز میں تظر آنی تھی لبکن ناہر
نہیں آنی تھی اور پہ ہی اس کو ناہر جانا دنکھا گبا تھا۔
کمرے کا دروازہ کھولے چب روم سروس کا عملہ اندر داجل ہوا۔ دروازے پہ
خون کے فظرے دنکھنے وہ تھ یکا۔ ڈرئے وہ اندر پڑھا کہ کمرے کا رہانسی جبک کر شکے
ب کن
چب اس ئے کرسی پہ نتتھے وخود کی نشت د ھی۔ وہ سبڈی ل کی کرسی پہ سبدھا
تن
نتتھا تھا بوں کہ اس کے دوبوں نازو کرسی کے نازو پہ تھے۔
سروس بوائے کی تظر کرسی کے ننچے گنی چہاں انک کے تغد انک فظرہ آہشنہ
سے ننچے چمع ہوئے خون میں شامل ہو رہا تھا۔ ہاتھ کی اتگلی نک نارنک سی خون کی
لکیر ننی تھی چہاں سے فظرے نبک رہے تھے۔
وہ آگے پڑھا۔ ہمت کرئے ہلکا شا دنکھبا جاہا ،چہرہ خوف سے زرد پڑ رہا تھا۔ کھلی
ل گ ک ج حس ھ کن
م
آ یں نے وہ ص شا نے ٹسے سی چیز کو ھور رہا تھا گردن پہ خون کی کیریں ل
ن ت ت ھ ک
نچی ھی جن سے خون انلبا ہوا ناہر گر رہا تھا۔ دوبوں آ کھوں سے لے کر گردن نک
لکیر ننی تھی جٹسے آنسوں ہوں مگر سرخ رنگ کے۔
ت ب گ ب ل ت ک ن ح ُ
اس ص ئے سباہ سرٹ ہن ر ھی ھی کن وہ لی ھی۔ س
سروس بوائے ئے خوف سے جالنا سروع کر دنا اور نیزی سے ناقی سباف کو
نہاں نلوا لبا۔ سباہ نہنی سرٹ تطاہر گبلی تھی لبکن ہلکا شا ہاتھ لگنے سے مغلوم ہونی
کہ وہ کس رنگ میں ڈونی تھی۔
کھلی آنکھوں سمنت ،چہرے سے لبکر ہاتھوں نک نارنک لمنے اور گہرے کٹ کہ
خون رو کنے پہ نا رک رہا تھا۔ سرٹ اپری بو مغلوم ہوا کہ شاند ہی کونی حصہ ہونا چہاں
جافو کا اسیعمال پہ ہو۔ وہ انک وجشت ،خوف ناک شا م یظر نٹش کر رہا تھا جٹسے انک
مردہ کسی فیر سے اتھا کہ وہاں نتھا دنا گبا ہو۔
کونی وہاں آکے اس سحص کو گمبام موت مار گبا تھا۔ خو اندر جانا ہوا بو دکھانی دنا
تھا لبکن وہ ناہر کٹسے گبا کسی کو مغلوم پہ ہوا تھا لبکن جائے ہوئے وہ جافو کا نبانا پہ
تھولی تھی اور نہی بو وہ ہ نٹ تھا خو ہر جگہ ڈنگر انبا چھوڑ کے جانی تھی ،انک نتھا شا
جافو کا کھلونا جس پہ انگرپزی میں خروف گبدھے تھے۔
”!“Dagger with love
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گلی کے انک نارنک کوئے میں جلنے وہ کجھ گبگبا رہی تھی۔ رات مزند گہری ہو
رہی تھی اس کو اب گھر نہنجبا تھا۔
اس وفت ُہڈ کے نحائے وہ سباہ جبکٹ نہنے ہوئے تھی ،نالوں کو اونچی بونی میں
ناندھ رکھا تھا۔ تکانک اس کے ہون نوں پہ مشکراہٹ اتھری۔ وہ دلکسی سے مشکرانی۔
انک قدم رکی۔ نالکل سٹشان گلی میں کونی آواز سبانی پہ دی۔
”ہبلو ملٹسکا۔۔“ اس نبدے کا پہ القاظ کہبا۔ اوفف
”کب تم میرا ننجھا کرنا چھوڑو گے؟“ ہونٹ مشکرا رہے تھے جبکہ لہچے میں
ئےزار نت تھی۔ وہ گھومی کہ اس کے عین ننجھے کھڑا وخود آنکھوں میں سرد ناپر لنے
ہوئے تھا۔
ما تھے پہ سبہرے نال نکھرے تھے۔ قاصلہ قدم تھر کا تھی پہ تھا۔
”نمہارا ننجھا بو میں چہتم نک کروں گا ک نونکہ ج نت والے کام نہیں نمہارے۔“ وہ
پرفبلے لہچے میں بوال کہ چنہ ئے سر چھ یکا۔ مشکرانی تگاہوں سے اس کو دنکھنے لگی۔
”تم جٹسے نبک لوگوں کی وہاں تھی انئیری نہیں ہو گی ،انک اسنٹشل ڈ نبارنمنٹ
ہو گا۔“ چنہ اس کے فرنب آنی۔ سرگوسی میں القاظ کہنے اس سے دونارہ دور ہونی اور
جلبا سروع کبا۔ رنان ئے نبا کجھ کہے اس کو نازو سے تھامے دبوار کے شاتھ لگانا اور
اس کے عین مقانل کھڑے ہوئے سرد لہچے میں کہا۔
”تم تھر نبائے تغیر گھر سے ناہر تکلی۔“ چنہ کو اس کی تگاہوں میں ہی نہیں
اس کے لہچے میں تھی پرفبال ین محسوس ہوا۔ اس کی نکڑ میں سجنی تھی۔
چنہ ئے نہلے اس کے ہاتھ کو تھر گردن اتھائے اس کے چہرے کو دنکھا۔
”تم تھی گھر سے ناہر تھے میں ئے کجھ کہا۔“ وہ دوندو بولی اور اس کی نکڑ میں
مزاچمت کرئے لگی۔
”کم آن تم ا ننے عمل کو ا نسے جسیقانی نہیں کر شکنی۔“ رنان ہون نوں پہ طیزپہ
مشکراہٹ سحائے اس سے بوال کہ چنہ ئے آپرو احکائے۔
”کام تھا مجھے ہ نو۔“ ما تھے پہ نل لنے اس ئے رنان کے ستنے پہ ہاتھ ر کھے دھکا
شا دنا۔
”میرے کام بو کتھی نہیں آنی تم۔“ وہ جائے کو تھی چب رنان ئے اس کو
ننجھے سے کمر سے تھام کے گھمانا اور کبدھے پہ ڈال دنا۔ چنہ اس کی خرکت پہ نلمال
کے رہ گنی۔
”پہ کبا ندنمیزی ہے۔ انارو مجھے ننچے۔“ چنہ عصے سے جالئے ہوئے بولی۔
”گھر جلو میرے شاتھ اور میرے کام آؤ زرا۔“ اس کو اتھائے وہ گلی نار کرئے
لگا چہاں اس کی گاڑی نارک تھی۔ چنہ کو اس کے اجانک آئے سے نالکل تھی
چیرانگی نہیں ہونی تھی ک نونکہ چب تھی وہ نبا نبائے ناہر تکلے گی رنان ہمٹشہ اس کے
ننجھے کھڑا ہو گا اور پہ نہلی نار نہیں ہوا تھا۔
”ملٹسکا۔۔“ گاڑی میں نتتھنے ہی رنان ئے انبا رخ اس کی جانب کبا۔ اس کے
چہرے پہ سنجبدگی سے تھی۔
”میں تھر دہرا رہا ہوں کہ مجھے نبائے تغیر تم کہیں نہیں جاؤ گی۔ میں نمہیں
گھر چھوڑ کے جانا ہوں بو گ ھر رہا کرو۔ چب ضرورت پڑے میں اتقارم کرو لبکن ا نسے نبا
نبائے کہیں نہیں تکلبا۔“ وہ سنجبدگی سے اس کی طرف دنکھنے ہوئے کہا رہا تھا۔
”میں نا تھی نباؤں بو تم مجھ سے نہلے نہنچے ہوئے ہو وہاں۔“ وہ سر چھبکنی
الپرواہی سے بولی۔
”ہاں۔۔ ک نونکہ تم میری ن نوی ہو۔“ اس ئے چنہ کا نازو تھامے خود کے فرنب
کبا اور انک انک لقظ جبا کے بوال۔
”اننی ن نوی سے میں انک نل کے لنے تھی عاقل نہیں ہوشکبا۔“ اس کی
م ل ن ھ کنک م ن
آ ھوں یں آ یں گاڑھے وہ ا ل ہچے یں بوال۔
”دامیر کدھر ہے؟“ چنہ پرمی سے دور ہوئے اننی سنٹ سے نبک لگا کے نتتھ
گنی اور نات ند لنے ہوئے کہنے لگی۔
”میں نہاں موخود ہوں۔“ آواز ننجھے سے آنی کہ چنہ کی نبلباں خونک کے تھبل
م کن
گنیں۔ ئےشاچنہ اس ئے گہرا شانس تھرا اور انک نار آ یں نی سے نجنے ھو یں۔
ل ک جس ھ
شاتھ نتتھے رنان کو خون آشام تگاہوں سے گھورا جس ئے آئے ہی انبا شوہر نبا
دکھانا سروع کر دنا وہ تھی دامیر کے شا منے۔
چ
”شوری دامیر ،رنان کی عادت نتنی جا رہی ہے ھور ین کی۔“ چنہ دامیر کو
جھ
ل ھ کن
م
نبک وبو مرر سے د نی ہونی مغذرت خواپہ ہچے یں بولی کہ دامیر ئے انک تگاہ ڈا لنے
مشکراہٹ دنانی۔
ن ُ
”جس کو نبا رہی ہو اس ئے دن میں شو کالز کر کے ا نی ن نوی ،نچے کا جال
بوچھا ہے ،مج نوں کہیں کا۔“ رنان جلنے تھتنے پڑپڑائے لگا اور گاڑی سبارٹ کرئے اس
کو روڈ پہ النا۔
اتھی بو چنہ ئے اس سے دو دن تغد ہوئے والی ڈانمبڈ ڈنل کا نہیں نبانا تھا جس
کی وہ نباری کر جکی تھی۔ پہ نات مغلوم ہوئے پہ تھی رنان ہ یگامہ کرئے واال تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ان لوگوں کے آئے کی اطالع ملنے ہی علتبا کنچن میں مصروف ہو گنی۔ کھائے
میں زنادہ کجھ نبانا بو نہیں آنا تھا لبکن اس ئے سبلڈ اور ناسبا نبا لبا تھا خو نس دو چمچ
کھائے کے لنے تھی کاقی نا تھا۔
دامیر اور رنان کے جائے کے کجھ دپر تغد چنہ تھی کسی کام کا کہہ کے جا جکی
تھی اور اب لبام اور علتبا ہی موخود تھے۔
”مس علتبا! آپ ئے پہ جکھا ہے؟“ لبام ئے انبہانی مؤدناپہ انداز میں چمچ کو
شانبڈ پہ رکھنے چہرے پہ مسکان سحائے بوچھا۔
علتبا ئے تقی میں سر ہالنا۔
”کبا اچھا نہیں ہے؟“ اس ئے ڈرئے بوچھا۔
”اچھا ہے نہت۔ چنہ پہ ڈش نہیں کھائے گی بو ہم انشا کرئے ہیں انک اور
چیز نبا لتنے ہیں۔ پہ دامیر اور رنان کھا لیں گے۔“ لبام شاطر دماغ سے کام لتبا ہوا بوال
بو علتبا ئے جانجنی تگاہوں سے اس کو دنکھا۔
”ارے مطلب اس میں کبلرپز زنادہ ہونی ہیں ناں بو ہم کجھ ہلکا تھلکا نبا لتنے
ہیں ناکہ تم دوبوں لڑکباں سمارٹ رہو۔“ لبام ئے انبا ننہ تھت یکا خو نالکل تھبک تھا۔
علتبا کی تظر ئےشاچنہ ہی ا ننے سرائے پہ گنی۔ اس کے جدوجال میں اب نبدنلباں
نماناں تھیں۔ لبام کی نات اس کو تھبک لگی کہ اگر وہ زنادہ ہ نوی کھانا کھائے گی بو
مزند مونی ہو جائے گی۔
کاش اس ئے کھانا نبانا سبکھا ہونا۔ لبام اننی جاالکی پہ مشکرانا ک نونکہ کھانا نس
جکھنے کی جد نک ہی تھا کھائے البق نہیں۔
ت ن ُ
”ہم فرانڈ رانس نبا لتنے ہیں۔“ اسے کھانا نبانا آنا تھا ھی فرنج یں لوپہ چیزیں
مط م
دنکھبا ہوا بوال۔
ل ع ل م ُ
”اس یں کتبا وفت گے گا؟“ لتبا اندازہ لگائے گی۔
”آدھا گھننہ۔ جلدی ہو جائے گا شب۔“ لبام نیزی دکھائے لگا۔
”اگر وہ لوگ آ گنے بو؟“ علتبا اس کی مدد کروانی ہونی بولی۔
”بو پہ ہے نا اچھا شا ناسبا ہم نٹش کریں گے۔ دامیر کو بو اتغام د نبا جا ننے آپ
کو انبا اچھا ناسبا نبائے کے لنے۔“ لبام رانس نبار کرئے ہوئے اس کو سرپر لہچے میں
بوال کہ علتبا ستنی چہک اتھی۔ وافعی دامیر کو اتغام بو د نبا ہی پڑے گا۔
ت ُ
”و نسے کبا ضرورت ھی اس سے شادی کرئے کی۔ مزند دو شال ان یطار کر
لتنیں بو میں ئے ہو ہی جانا تھا نانٹس کا۔“ کام کے دوران تھی اس کی زنان نبد
نہیں ہونی تھی کہ دامیر کی واتف سے قلرٹ کرنا اس کا نسبدندہ مسغلہ ین حکا تھا۔
”میں ئے تھوڑی کی تھی شادی ،خود ہی ہو گنی تھی۔“ وہ منہ نبائے بولی۔
”آج کل کے لڑکے پرسے نتتھے ہیں لڑک نوں کے لنے۔ ادھر لڑکی دکھی نہیں اور
نہائے سے اس کو اننی ن نوی کہہ دنا۔ کبا زماپہ آگبا ہے۔“ لبام بوڑھی غوربوں کی طرح
نہ ُ
اس سے نانیں کر رہا تھا جٹسے کجھ دن لے اس ئے خود سے ھونی لڑکی سے لرٹ
ق چ
نہیں کبا تھا۔
علتبا نس جاموسی سے اس کی نانیں شن کے مشکرا د ننی چب نک وہ کھانا نبار
کر حکا تھا۔ وہ دوبوں کنچن سے تکل کے الؤنج کے صوفے پہ نتتھ گنے۔
”تم نہت بو لنے ہو لبام۔“
ی ن ھ کن
علتبا ئے اس کی نابونی طت یغت کو د نے صرہ کبا۔
”میں انبا نہیں بولبا نس اب ندل رہا ہوں خود کو۔ میں ئے نہت شال اکبلے
گزاریں ہیں۔ تم لوگ ا ننے لگنے ہو بو اچھا لگبا ہے نانیں کرنا۔“ ہلکی مشکراہٹ لنے
اس ئے علتبا کو دنکھا۔ اس کے نات کرئے کے انداز سے وہ کجھ دپر نہلے واال لبام
نہیں لگ رہا تھا۔
ع چ
”بور ہو جانی ہیں میرے بو لنے سے؟“ لبام ئے قدرے جھک کے بوچھا لتبا
ھ
چحل سی ہونی کہ اس کی نات کو وہ کبا سمجھ گبا تھا۔
”نہیں انشا نہیں ہے۔ مجھے نہت اچھا لگبا ہے تم سے نانیں کرنا۔ جاموسی
ن
اچھی نہیں لگنی مجھے۔“ علتبا ا ننے ہاتھوں کو د نی ہونی بولی۔ کر تھا کہ لبام اس
ش ھ ک
کے شاتھ گھر موخود رہا کرے گا ورپہ نت نوں کام کو جلے جائے بو گ ھر میں بو گل سڑ
جانا تھا اس ئے۔
”کونی نات نہیں کجھ مہت نوں نک شور تھی آجائے گا۔“ لبام شادگی سے بوال کہ
ل س جم س
علتبا ئے نا ھی سے اس کو دنکھا۔ تھر مجھ آئے پہ جبا سی آئے گی۔
زندگی کاقی مصروف ہوئے والی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لبام ئے ا ننے کہے کے مطابق کبا علتبا کا نبانا وہ ند زاتفہ ناسبا اس ئے دامیر
اور رنان کے شا منے نٹش کبا جبکہ خود نت نوں ئے فرانبڈ رانس کھائے تھے۔
نہال چمچ منہ میں جائے ہی دامیر کو لگا کہ انال ہوا کحا مبدہ منہ میں رکھ لبا ہو۔
”کس ئے نبانا ہے پہ کھانا۔“ رنان کے ناپرات سے اندازہ لگانا مسکل نہیں تھا
کن
کہ کھانا کٹشا تھا۔ علتبا ئے معصومنت سے آ یں ننتبائے دامیر کو د کھا۔
ن ھ
”میں ئے نبانا ہے۔ کبا اچھا نہیں نبا؟“ اس ئے انک تظر رنان کے سباٹ
چہرے پہ ڈالی تھر دامیر سے بوچھا۔
”تھوڑے مصا لچے کم ہیں۔ مجھے نمک ناس کر دو۔“ سچ بولے تغیر چھوٹ تھی
ُ
نہیں کہہ رہا تھا۔ جبکہ نمک ما نگنے پہ رنان دامیر کو گھورئے لگا کہ اس کی وجہ سے
اب وہ جال تھی نہیں شکبا تھا کہ اب نک کا ندپرین ناسبا تھا پہ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کھائے کے تغد وہ لوگ والک کر رہے تھے۔ چنہ اور رنان ان دوبوں سے آگے
جل رہے تھے۔ رات کا کاقی وفت ہو رہا تھا۔ لبام ئے شاتھ جائے سے م یع کر دنا
تھا کہ وہ ا ننے شستم پہ کجھ کام کرئے واال تھا۔
”کھانا اچھا نہیں تھا بو ک نوں کھانا۔“ علتبا ئے سر اتھائے دامیر سے کہا۔ دامیر
ئے اس کے تھامے ہاتھ کو ل نوں سے لگانا۔
”اب چب کھا جکے ہیں بو ک نوں کہہ رہی ہو۔“ دامیر آپرو احکائے ہوئے بوچھنے لگا
کہ علتبا ئے مشکراہٹ دنانی۔
”وہ بو ہم ئے ا نسے ہی رکھا تھا لبکن تم دوبوں ئے انک نار تھی م یع نہیں کبا
کھائے سے۔ انبا اچھا لگ رہا تھا کھانا؟“ علتبا آنکھوں میں سرارت لنے بولی کہ دامیر
نس ناشف سے تقی میں سر ہال گبا۔
”اب نس کرو کہبا۔ ننحارے رنان کو میری وجہ سے کھانا پڑا۔“ دامیر البا مضنوعی
ع ھ کن
آ یں دکھانا ہوا بوال کہ لتبا ئے منہ خڑانا۔
کن
”ننحارہ بو نہیں ہے وہ کہیں سے۔“ علتبا شا منے جائے چنہ اور رنان کو د نی
ھ
ہونی بولی۔ وہ دوبوں کسی نات پہ نحث کر رہے تھے چب رنان ئے زپردسنی چنہ کو
اننی جانب کھتنچے شاتھ لگانا اور جلنے لگا۔
کمر پہ ر کھے رنان کے ہاتھ پہ چنہ ئے ا ننے ناجن جتھوئے جس پہ وہ اس کو
گھورئے لگا۔
”ان دوبوں ئے لگبا ہے کہ شاری زندگی گھورئے ہی رہبا ہے انک دوسرے
ن ھ کن
کو۔“ علتبا ان کی بوک چھوک د نی ہونی بولی کہ ان کا کجھ ہیں ہو شکبا۔
کونی کال آئے پہ دامیر ئے انبا مونانل تکاال اور کان سے لگانا۔ علتبا کا ہاتھ
تھامے وہ آہشنہ سے جل رہا تھا اور شاتھ شاتھ نات کر رہا تھا۔
اجانک دامیر کا لہحہ ندال ،وہ دھمکی د ننے لگا۔ انداز وہی سرد اور وجشت تھرا تھا
ت ہن ن ت ب ل ت ہ ن ع س
جس سے ا ک نار لتبا می ھی کن ا ھی وہ کونی ری ا کٹ یں کر رہی ھی نہاں
نک کہ دامیر ئے جان سے مارنی کی دھمکی دی۔ علتبا ئے نس انک تظر دامیر کو دنکھا
اور اسی لمچے دامیر کے ناپرات میں پرمی آنی۔ وہ نل میں ا ننے ناپرات ندل گبا تھا۔
”اس ئے نہت جاہت سے نالنا ہے بو اتکار اور ان یطار نتبا نہیں۔“ دامیر رشان
سے بوال کہ علتبا سر ہال گنی۔
”تھر ہمیں گفٹ تھی لے کے جانا جا ہنے۔ ان کی اتھی شادی ہونی ہے بو اچھا
شا نحفہ نتبا ہے۔“ دامیر اس کی گود میں سر ر کھے لنٹ گبا بو علتبا نالوں میں ہاتھ
جالنی شوجنی ہونی بولی۔
ن
”نالکل۔۔“ وہ نس انبا بوال اور آ کھیں موند لیں۔
”کل تھر مجھے شانبگ پہ جانا پڑے گا۔“ علتبا کو ننی قکر آن پڑی۔
”ضرور جانیں گے۔“ دامیر اس کا ہاتھ تھام کے ستنے پہ رکھ گبا۔
”کبا لتبا جا ہنے۔۔ ان کی اتھی شادی ہونی ہے اور ہم نہلی نار ان کے گھر
کع ن
جانیں گے۔۔“ لتبا آ یں ھونی نے شو نے والے انداز یں بولی۔ دامیر ئے ہاتھ پہ
م ج ک چ ھ
دناؤ ڈاال۔
”صنح دنکھ لیں گے۔۔“ دامیر کو اس وفت کسی اور کا زکر کرنا نسبد نہیں آنا
تھا۔
”تم کجھ آ نبڈناز دو۔۔“ نالوں کو کان کے ننجھے اڑ سنے وہ چہرہ چھکائے دامیر کو
ھ کن
د نی بولی۔
”اب کٹسی سرم۔۔۔!“ انداز سرپر تھا۔ علتبا کے ہون نوں پہ ناجا ہنے ہوئے تھی
مشکراہٹ آگنی جس کو وہ چھبائے کی ناکام کوشش کرئے لگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جم س
رات کے نین نچے چب ہلکی سی آہٹ پہ اس کی نتبد بونی بو نا ھی سے ا ننے
پراپر دنکھنے لگی چہاں رنان نبڈ سے ناؤں ننچے کنے سرٹ نہن رہا تھا۔
چنہ کی تظر ئےشاچنہ ہی مونانل شکرین کی طرف گنی رات کے نین نج رہے
تھے۔
ت تن جم س
” اس وفت کہاں جا رہے ہو؟“ وہ نا ھی سے اتھ ھی۔
”ارج نٹ کام ہے انک۔“ وہ سنجبدگی سے بوال۔ چنہ نالوں کو لتنتنے لگی۔
”دامیر شاتھ ہے میرے بو انبا جبال رکھبا۔ کمرے سے ناہر پہ جانا نلیز۔“ رنان
اننی گن جبک کرئے بوال اور مونانل شا منے کرئے انک نار کمرے میں لگے کتمرہ کو
جبک کبا۔
اننی عحلت میں جائے ہوئے وہ اس کو جبال رکھنے کا کہہ رہا تھا۔ اس کا ہتبڈسم
رنان۔
”تم مجھے پرنپ کر رہی ہو۔“ اس کو ناس آنا دنکھ وہ گہری تگاہوں سے دنکھبا
بوال۔
”ہاں اب نس نہی رہ گبا ہے نا کرئے کے لنے۔ علطی سے نبار آرہا تھا مجھے تم
پہ۔“ وہ چہرے پہ ئےزار نت النی سحانی کا مطاہرہ کر گنی کہ رنان کو خوشگوار چیرت
ئے لت نٹ میں لبا۔ چنہ کو ناس کرئے پرمی سے اس کے نال سنوارے۔۔
”بو تھر۔۔؟“ وہ اب اس کے اظہار کا مت یظر تھا۔
”کبا تھر ،نبار آرہا تھا نمہاری نانیں شن کے وانس جال گبا۔“ وہ معصومنت سے
بولی اور اس کے ستنے پہ ہاتھ رکھا۔ چنہ کا دل جاہ رہا تھا کہ وہ اس کو ستنے سے
لگائے۔ وہ تھوڑی دپر کے لنے نالکل دنبا سے فراموش ہونا جاہنی تھی کہ نس رنان کا
حصار اس کے گرد نبدھا ہو۔ رات کے اس نہر رنان کا حصار نتبد میں تھی محسوس ہونا
تھا پہ الگ عادت نبا دی تھی اس عج نب انشان ئے۔
”نہت علط ناتم پہ نبار آنا ہے نمہیں مجھ پہ۔۔ وانسی پہ نمہارا نبار محسوس کروں
گا۔“ سرارت سے کہنے ہوئے وہ اس کو ستنے سے لگا گبا۔ چنہ کو اس کو کبا نبانی کہ
اب پہ ندنمیز و نسے ہی نبارا لگنے لگا تھا۔
”اور اگر مجھے کجھ اور مغلوم ہوا بو تھر دنکھبا۔“ شاتھ ہی اس کا لہحہ ندال ،وہ وارن
کرئے ہوئے بوال۔ انک نل کو چنہ کا ماتھا تھ یکا۔ کبا وہ اس کی ڈنل والی نات جان
ت سش م لب ت ُ
گبا تھا کن ا ھی اس یں وفت تھا اور شارا م لبام ہتبڈل کر رہا تھا
”جاؤ تم۔۔ لنٹ ہو رہے ہو۔“ چنہ نل میں اس سے دور ہونی رکھانی سے بولی اور
نبڈ کی جانب پڑھی۔
”کٹسی ناقدری ن نوی ہے میری۔“
اس ئے سحت تگاہوں سے چنہ کو گھورا خو دونارہ شوئے کی نباری میں تھی۔
کجھ دپر وہ کھڑا اس کو دنکھبا رہا تھر سر چھبک کے کمرے سے ناہر آگبا۔ ان
کے انک چیری ئے مغلومات دی تھی کہ ناکوزا کے گتبگ ئے ڈانتمبڈ کی کونی ڈنل
قانبل کی تھی۔ ہیرے کل شام نک نہاں آئے والے تھے۔ رنان کے لنے نسونش
کی نات پہ تھی کہ ہیرے نہاں رسبا میں ک نوں آئے والے تھے۔ اس کو کسی ڈنل
کے نارے میں مغلوم نہیں تھا خو اس کے عالفے میں ہوئے والی تھی۔
شو میں سے اسی ف یصد اس کو چنہ پہ شک تھا کہ وہ اس کو نبائے تغیر ڈنل
کرئے والی تھی ک نونکہ چب سے رنان االننٹس میں نارنیر تھا اس ئے چنہ کو ڈنل نہیں
کرئے دی تھی۔
”نمہارا پہ کہبا نتبا تھی ہے۔“ دامیر ئے اسبہزاننہ انداز میں کہا کہ رنان ئے اس
کو جشمگیں تگاہوں سے گھورا۔ وہ دوبوں انک نتبل کے فرنب آئے چہاں انک آدمی نہلے
سے نتتھا ان کا ان یطار کر رہا تھا ،ان کو آنا دنکھ وہ فوری کھڑا ہوا۔
نہاں نتم روستباں تھیں بو کونی ان کو آشانی سے نہحان نہیں شکبا تھا۔
”سر پہ ڈنل قانبل تھی۔ کل شام کو نہاں ڈانتمبڈ آ نیں گے اور ان کا ڈنلر
پرشوں نک ڈانتمبڈ رنسنو کرے گا۔“ وہ نئیرز ان دوبوں کے شا منے رکھنے ہوئے بوال۔
”پرشوں نک۔۔“ رنان نئیرز کو دنکھبا ہوا پڑپڑانا۔
”لوکٹشن؟“ دامیر ئے اس آدمی کو دنکھا۔
” ک یفرم نہیں ہے۔ آپ کو مغلوم بو ہے کہ نانیرز فوری لوکٹشن کسی کو گانبڈ
نہیں کرئے۔“ وہ آدمی مابوسی سے بوال۔
”اور جاص طور پر چب نانیر انک لڑکی ہو۔۔“ رنان کی آواز پہ دامیر اور وہ آدمی
نبک وفت خو نکے۔
دامیر تھتھک گبا ،شاند وہ سمجھ گبا تھا کہ نانیر کون ہے۔
ہ ُ
”اگر لڑکی ہے بو اس کی جان کو رشک ہی ہے۔ ناکوزا کا گتبگ جا ننے یں
س
آپ۔ رنتبلز کے تغد وہی ہے خو لڑکی کو لڑکی نہیں کجھ اور ہی ھنے یں۔“ وہ آدمی
ہ جم
جٹسے ان کو وارن کر رہا تھا اور و نسے ہی رنان کے ناپرات ندل رہے تھے۔
”کونی انکشن لتنے کی ضرورت نہیں ہے ،ہم ڈنل کر لیں گے۔“ دامیر نئیر فولڈ
کرنا ہوا بوال۔ رنان ئے دامیر کی نات پہ سر ہالنا۔ اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ
اتھی مسیغل تھا۔
”جٹشا آپ کو تھبک لگے سر۔ اگر مجھے لوکٹشن اتقارمٹشن ملنی ہے بو آپ کو فوری
نبا دوں گا۔“ وہ آدمی ک ھڑا ہوا۔ دامیر کے اشارے پہ وہ آدمی انبا چہرہ چھبانا ہوا وہاں
سے جال گبا۔
کلب کی روستباں ہ نوز تھیں۔ لوگ ئےہبگم ناچ رہے تھے ،کجھ نسے میں
مدہوش تھے۔ نتم پرہنہ لباس نہنے انک دوسرے کی ناہوں میں چھول رہے تھے اور
رنان کو اس وفت کجھ سبانی نہیں دے رہا تھا۔ اس وفت زہن پہ عصہ شوار ہو رہا تھا
کہ م یع کرئے کے ناوخود چنہ ناز نہیں آنی تھی۔ چھونی مونی ڈنل پہ وہ مان تھی جانا
لبکن ناکوزا سے ڈنل کرنا تعنی خود کے شاتھ شاتھ عزت کو تھی حظرے میں ڈالبا تھا۔
کے کتمراز کو جالئے انک نو تھے۔ دامیر کو آج نتبد کی طلب ہو رہی تھی شاند مبڈنشن کا
اپر تھا خو وہ و فقے سے اسیعمال کر رہا تھا ،رنان کے ناپرات اب تھی سباٹ تھے۔
”تم اس نارے میں زرا نجمل سے شوجبا ،ڈنل ہم کنٹشل نہیں کر شکنے۔ اگر
جاہو بو میں چنہ کے شاتھ جا شکبا ہوں۔“ دامیر اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے بوال۔
”جانا بو پڑے گا ،نمہارے تغیر مجھے کہاں شکون ملے گا بو ہم دوبوں جلیں گے۔
اس کا بو میں نبدونشت کرنا ہوں۔ ناگن کہیں کی۔“ رنان ا ننے نبد دروازے کی سمت
دنکھبا ہوا بوال جس کے نار چنہ آرام فرما رہی تھی۔
دامیر کا ارادہ اتھی شوئے کا ہی تھا نتھی ا ننے روم میں جال آنا۔ علتبا ہ نوز شو رہی
تھی۔
دامیر کے ما تھے پہ نل وخود میں آئے کہ پہ نتبد میں اتھی نک کروٹ نہیں ندل
نانی پہ ہی دامیر کی غیر موخودگی محسوس کر نانی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اتھی نک شو رہی تھی۔ رنان نبا جاپ نبدا کنے ڈرنسبگ روم نک گبا اور اننی
چیزیں انارئے لگا۔
ناکٹ سے وہ نئیر تکاال جس پہ ڈنل کے نارے میں مغلومات تھی۔
”اگر مجھ سے چ ھپ کر ڈنل کرنی تھی بو ماشکو سے ناہر جلی جانی۔ دماغ ناس
ہے لبکن انبا تھی نہیں کہ صجنح اسیعمال کر شکے۔“ رنان نئیر کو دنکھنے ہوئے پڑپڑانا
اور نئیر نہہ کرئے اس کو اننی کیرڈ میں رکھ دنا۔
نالوں میں ہاتھ ت ھیرئے اس ئے گہرا شانس تھرا اور جلبا ہوا نبڈ نک آنا۔ کمرے
میں روسنی اتھی نک مدھم تھی کہ ناہر سے صنح کی روسنی اندر نہیں آرہی تھی۔ وہ ہلکی
سی آہٹ تھی نبدا کرنا بو چنہ جاگ جانی۔ آہٹ کبا اب ہو طوقان الئے واال تھا نتھی
ھ چ ُ
اس کی نتبد کی نبا پروا کنے اس ئے نبڈ پہ النگ لگانی اور اس کے پراپر گرا۔
”نبدروں کی طرح اچھلنے کی ضرورت نہیں ہے ،مغلوم ہو گبا مجھے کہ تم آ گنے
ن
ہو۔“ آ ک ھیں نبد کنے اس کے ما تھے پہ نل نمودار ہوئے۔
”کتبا نبار کرنی ہو مجھ سے۔۔“ رنان اس کی نات کے نالکل پرعکس بوال کہ چنہ
ل ن جم س ن
کے نلوں میں اصاقہ ہوا ،نتم وا آ کھیں کھولے نا ھی سے اس کو د کھنے گی۔
”ہمارے درمبان نبار نامی نال تھی ہے کونی؟“ وہ تھی دوندو البا شوال کرئے
ُ
لگی کہ اس کی ہری تگا یں خود پہ نائے چنہ تگا یں ھیر نی۔
گ ت ہ ہ گ
”ہمارے درمبان ج نون ہے۔۔“ آہشنہ سے تقی میں سر ہالئے رنان ئے
گ کت ن
اسبہزاننہ مشکراہٹ لنے کہا کہ چنہ کے لب مشکرا د ننے۔ وہ ھر آ یں موند نی۔
ھ
”انبا ج نون کہ تم مجھ سے آشانی سے چھوٹ بول شکنی ہو۔“ رنان کی اگلی نات
کن
پہ چنہ ئے چھبکے سے آ یں ھو یں ،ہو نوں سے م کراہٹ عانب ہونی۔ شوالنہ
ش ن ل ک ھ
تگاہوں سے اسے دنکھنے لگی کہ اس نات کا کبا مقصد۔
”اتکار کی گنحانش نہیں ہے ملٹسکا۔ ڈنل ک نوں قانبل کی تم ئے؟“ رنان نبا
کسی نمہبد ناندھے اس کی آنکھوں میں دنکھبا ہوا بوال اور اجانک ہی اس کے ہاتھوں کو
قابو میں کبا۔
”مجھے تم سے چھوٹ بو لنے کا شوق تھی نہیں میں ئے نات چھبانی لبکن آج نا
کل میں نبا د ننی۔“ اس ئے ا ننے انداز میں تھی کونی لحک پہ رکھی تھی۔
”تم پہ تھی نبانی بو نمہاری لعش نبا د ننی مجھے۔“ وہ انک انک لقظ جبا کے بوال کہ
شاند ہی زندہ وانس آنی وہ۔ ن نٹ کے نل اس کے نالکل پزدنک لتبا اس پہ چھکنے لگا۔
”دور ہ نو مجھ سے۔ پہ کبا طرتفہ ہے نات کرئے کا۔“ اس کے دوبوں ہاتھوں کو
قابو میں کر کے اب ئےنس کر رہا تھا۔
”اتھی نس ہاتھ قابو کنے ہیں۔ تم قابو میں ہونی بو پہ ئےوفوقی کرئے کا شوجنی
تھی نہیں۔“ اس کے کان کے فرنب چھکنے وہ عرانا کہ چنہ کو رونگھنے کھڑے ہوئے
محسوس ہوئے۔
م جب
”اب تم مجھے قابو کرو گے؟“ وہ آپرو احکائے بوچھنے لگی کہ انداز یں نج شا
ل
تھا۔
”قابو بو تم ئے کر رکھا ہے۔۔“ اس کی آواز کے شاتھ انداز تھی ندال۔ چنہ کی
جس االرم د ننے لگی۔ پہ صنح صنح کون شا دورہ پڑ گبا تھا۔
اتھی بو وہ چنہ کو دھمکباں د ننے واال تھا اور اب الگ ہی خزنات تھے۔
”نبا نحث کنے مجھے لوکٹشن اور ناتم نباؤ۔ ورپہ میں تم پہ شب کجھ نبگ کر دوں
گا۔ اور تم جاننی ہو میں دھمکی د ننے سے نہلے وہ کام کر حکا ہونا ہوں۔“ انک ہاتھ
میں اس کے دوبوں ہاتھوں کو نکڑے ،دوسرے سے اس کا چہرہ تھوڑی سے تھامے
ا ننے نالکل فرنب کبا۔ رنان اس مغا ملے میں پرمی نالکل نہیں دکھائے واال تھا کہ چنہ
ت ش ُ
کی گنی خرکت اس پہ تھاری پڑ نی ھی۔
ک
”لبکن پہ ڈنل میں ہی کروں گی۔۔“ وہ انل لہچے میں بولی چب رنان ئے قاصلہ
کم کبا۔
”شوق سے کرنا لبکن میرے تغیر نہیں۔“ اس ئے چنہ کے رجشار چھوئے کہ
رنان کی چھلسنی شانس محسوس کر کے وہ جلق پر کرئے لگی۔
”پرشوں شام جار نچے۔ لوکٹشن میں نمہیں گانبڈ کرنی ہوں۔“ رنان کا دوسرا ہاتھ
گسباجی کرئے پہ آمادہ تھا کہ ئےشاچنہ ہی اس کا دل زور سے دھڑکا۔ نات جتم
کرئے ہی وہ رنان کو گھورئے لگی جس کی ہونٹ مبہم شا مشکرائے۔
انشا ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ کجھ کرنی اور رنان اس سے ئےچیر رہبا۔ اگر وہ جد
درجہ اجتباط کرنی تھی بو اس کے جبلے تھبلے تھے جس ئے ضرور اطالع کر د ننی تھی۔
دل ہی دل میں وہ رنان کے لوگوں کو لعن تعن کرئے لگی ،نکھرے نالوں کو
سمنتنے اتھی اور فرنش ہوئے جلی گنی۔ اتھنے کا اتھی وفت بو نہیں تھا لبکن اس
انشان ئے نتبد اڑا دی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دو دن نعد:
ش م ن
ڈنلبگ انیر فبلڈ پہ ہونا طے نانی تھی۔ ڈانتمبڈ کل کے ما کو یں نچ کے ھے اور
ت ج ہ
آج چنہ ئے رنسنو کرئے جانا تھا۔ گاڑی میں نتتھنے وہ ناہر دنکھ رہی تھی چہاں انک
کے تغد انک گاڑی آنی گنی اور پرنک کے دوسری شانبڈ پہ فطار میں کھڑی ہونی
گنیں۔ اِ ن کو نہاں آئے نبدرہ منٹ ہو جکے تھے۔
ان کی گاڑی پرنک کے محالف جانب تھی جبکہ درمبان میں جالی سڑک تھی
چہاں انک آدمی کھڑا تھا۔ نلبک شوٹ میں آنکھوں پہ گالسز لگائے۔
”اننی زنادہ گاڑناں ۔۔۔“ چیران کن آواز پہ رنان ئے ننجھے مڑ کے دنکھا چہاں
نالنتبد ونڈو سے علتبا پرشوق تگاہیں تکائے کھڑی تھی۔
”گٹس کرو کس والی گاڑی میں ڈانتمبڈز ہیں؟“ رنان ئے آہشنہ آواز میں کہا۔
ل ل کن ھ کن
علتبا رنان کو د نی وانس ناہر د ھنے گی اور جانجنے گی۔
چب نہلے نین گاڑبوں سے انک انک نبدہ ناہر آنا۔
”نہلی نین گاڑبوں میں ہے۔“ اس ئے کہنے رنان کو دنکھا جس ئے اقسوس سے
سر تقی میں ہالنا۔
”دامیر تم ئے کجھ نہیں شکھانا۔۔“ رنان ئے خڑائے والے انداز میں شاتھ نتتھے
دامیر کو دنکھا خو اسے ناد ننی تگاہوں سے گھورئے لگا۔ علتبا خزپز سی ہونی۔
جٹسے ہی وہاں کی نہلی گاڑی سے آدمی تکال نہاں سے چنہ ناہر تکلی۔ اس ئے
سر پہ کنپ نہن رکھی تھی ،سباہ چئیز ،سباہ جبکٹ۔ اور نالوں کو کور کر رکھا تھا۔
کش ھ تکل ع ک
”کبا رنان جانبا ہے ڈانتمبڈ کس کے ناس ہیں؟“ چنہ کے نے لتبا نی
ہونی تھوڑا آگے ہونی اور سرگوسی میں دامیر سے بوچھنے لگی۔
”خو آدمی نجھلے نبدرہ منٹ سے ہمارے شا منے پرنک پہ کھڑا ہے اسی کے ناس
ہیں۔“ دامیر ئے سر ہالئے ہوئے کہا کہ علتبا کو چھ یکا شا لگا۔ وہ اکبال سحص نہاں
کاقی دپر سے موخود تھا جبکہ دوسری گاڑناں نالکل اتھی آنی تھیں۔
”بو تم لوگ اس سے و نسے تھی زور زپردسنی کر کے لے ہی شکنے تھے ڈانمبڈز۔“
علتبا الجھن لنے بولی کہ رنان قہقہہ لگا اتھا۔
” سی از سچ آ ئےنی دامیر۔۔ اور تم ناپ نتنے جا رہے ہو۔“ رنان انبا قہقہہ روکبا
ہوا دامیر سے بوال کہ علتبا کے چہرے پہ سرجی چھائے لگی۔ پہ کٹشا طرتفہ تھا علطی
نبائے کا۔ وہ جاتف تگاہوں سے رنان کو دنکھنے لگی۔
ن ت لج جم س س
”تم خود کو زنادہ مجھدار ھنے ہو۔ نی نمہاری خود کی ھی ہیں ہے چنہ کے
شا منے۔“ علتبا کو اس کے ہٹسنے پہ آگ لگ گنی نتھی نبا ڈرے نیز لہچے میں بولی کہ
اس کی مشکراہٹ کو پرنک لگا۔
”مجھے نات نات پہ روشٹ کرئے کا شوق ہے نمہیں۔“ وہ منہ نبائے بولی کہ
دامیر ئے مشکراہٹ روکے ناہر دنکھبا سروع کر دنا۔
”نحوں کو خواب د نبا آگبا ہے۔۔“ رنان گال کھ یگا لنے پڑپڑانا۔
چنہ گاڑی سے تکلی تھی اور شاتھ ہی ان کے ننجھے کھڑی اننی گاڑبوں سے گارڈ
ہن
تکلے تھے۔ دامیر اور رنان ئے اتھی ناہر نہیں جانا تھا۔ چنہ جٹسے ہی پرنک پہ چی بو
ن
دوسری طرف سے تھی دو لوگ آگے پڑھے۔ سر سے نیر نک نت نو میں نہائے تھے وہ۔
ئےشاچنہ ہی اس کی تگاہ ان کے ہاتھ کی طرف گنی شب سے چھونی اتگلی کنی ہونی
تھی۔ پہ ناکوزا کے گتبگ کی نشانی تھی۔ نال مبڈے ہوئے تھے۔ سر پہ ڈرنگن کے
نت نو ننے تھے۔ وہ لوگ زنادہ جشامت والے نہیں تھے لبکن ان کو دنکھ کے اندازہ ہو
شکبا تھا کہ وہ کاقی حظرناک تھے۔
چنہ درمبان میں کھڑی ہونی اور ان یطار کرئے لگی کہ کب وہ لوگ ڈانتمبڈ اس
کے ہاتھ میں رکھنے۔ پرنک پہ کھڑا سحص آگے پڑھا۔ ا ننے کوٹ کی ناکٹ سے انک
م ب ت ہ
سرخ مجمل کا کیڑا تکاال۔ اس کو کھو لنے ا ننے لی پہ رکھا کہ لی کیڑا سرک کے
جم ھ
ت م ک م ن
لی سے نچے ہوا اور درمبان یں ر ھی چیز چ ک ا ھی۔ ب ھ ت ہ
وہ چھوئے چھوئے کنی ہیرے تھے خو شورج کی روسنی میں مزند چمک رہے
تھے۔
چنہ ئے اننی ناکٹ سے انک چیز کا نکرا تکاال اور انبا ہاتھ شا منے کبا۔
”منی فرشٹ۔“ ان میں سے انک آدمی عرانا۔
”فرشٹ لنٹ می جبک اِ ف دے آر رنبل اور ناٹ۔“ چنہ سرد لہچے میں بولی کہ
ح ُ
س
اس آدمی ئے ہیرے تھامے ص کو اشارہ کبا۔
ل ُ
چنہ ئے انک ہیرے کو نکڑا اور ستبڈ نئیر پہ اس ہیرے کو رگڑئے گی۔ رنگ
مال پہ رگڑ کا نشان پڑئے لگا۔ چنہ ئے ہیرے کو شا منے کبا۔ وہ و نسے کا ونشہ ہی تھا
چمکبا ہوا۔
”بو جبکڈ ،انس رنبل۔“
شا منے کھڑا آدمی ئےزار نت سے بوال۔
”ناٹ آل ،مے نی۔“
چنہ پڑخ انداز میں بولی کہ شا منے کھڑے آدمی کے چہرے پہ طیزپہ مشکراہٹ
اتھری۔
ہیرے نبدرہ کے فرنب تھے۔ چنہ کا آدمی نیزی سے اس نک آنا اور اس کے
شاتھ کھڑا ہوا ،چنہ انک انک کر کے ہیرے کو جبک کرنی تھما رہی تھی جس ئے ہاتھ
میں انک مجملی کٹس تھام رکھا تھا۔ انک ہیرا الکھوں ڈالرز کی مالنت کا تھا۔
”نٹشٹ ڈن۔ نبک بور نتمنٹ۔۔“ شارے ہیرے جبک کرئے کے تغد چنہ
سنجبدگی سے بولی اور کٹس میں موخود ہیروں کو شا منے کبا۔
اس کی نہلی ڈنل تھی دل اندر سے خوش ہوا۔ اس کے آدمی ئے پرتف کٹس
آگے پڑھ کے تھمانا۔
ک َ
”انکحولی! ونی ہ نو این آدر اپرنک نو ڈنل قار بو۔ اِ ف بو م ود اس۔ بو ین ہ نو قان نو مور
ک
ڈانتمبڈز۔“
“Actually, We have another attractive deal for
you. If you come with us you can have five more
”diamonds.
اس کی نات میں ہی جبانت نبک رہی تھی ،للحانی تظروں سے وہ چنہ کو دنکھنے
اننی سنو کھحائے لگا۔
چنہ سرد تگاہوں سے اس کو دنکھنے لگی تھر نڈر انداز میں وہ زپر لب گالی کہنے
ک ُ
ہوئے مڑی کہ اجانک اس آدمی کے شاتھ ھڑے گارڈز آگے پڑھے کہ آدمی کے
اشارے سے رک گنے۔
”ن نون یقل گرل اننت نوڈ۔ شونس بو۔“ وہ آدمی آگے پڑھا اور چنہ کے فرنب جائے
ک ح ً
س
لگا چب چنہ کے آدمی فورا گن تکالے اس ص پہ نان کے ھڑے ہوئے۔
ناکوزا کے آدمی کے ما تھے پہ شکنیں ننیں۔
”گنٹ.آف.می۔“ چنہ انک انک لقظ جبا کے بولی کہ وہ قہقہہ لگا اتھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گاڑی کے سٹسے اوپر تھے۔ ان نت نوں کا دھبان ناہر تھا۔ چنہ ڈانمبڈ نٹستبگ کر
رہی تھی۔
”ڈانتمبڈ جبک کر رہی ہے۔“ رنان علتبا کو دنکھنے نبائے لگا خو نلک چھ یکائے نبا
ناہر دنکھ رہی تھی۔ اس کے نبائے پہ رنان کو دنکھا۔
”جاننی ہوں میں۔“
وہ نبک کے بولی کہ انبا بو وہ جاننی تھی کہ ڈانتمبڈ نٹشٹ کٹسے ہونا تھا۔
ن ح ُ
چنہ جٹسے ہی وانس مڑی اس س ص کو اس کی طرف پڑھبا د کھا بو رنان کا ہاتھ
ئےشاچنہ گاڑی کے دروازے کی طرف گبا۔ چنہ کے مڑئے کی دپر تھی رنان ضیط
چ ص ح م جن ن
کھونا ناہر تکال اور اس کے ھے ہی دامیر۔ ناکوزا کے آد نوں کی لت سے وہ ا ھی
طرح وافف تھا۔
چنہ کو وہاں نک جائے دنا پہ وہ خود جانبا تھا کہ کس ضیط سے نتتھا تھا۔ اس
ن
سحص کی ہوس زدہ تگاہوں کی بو نہاں نک ہنچ رہی تھی۔ کٹسے پرداشت کرنا کہ کونی
اس کی ملٹسکا کو آنکھ تھر کے د نکھے تھی۔
”ڈنل ڈن۔ نبک بور ستنٹس نبک۔۔“ نبا کسی نبانج کی پرواہ کنے رنان ئے گن
ہن ُ ُ
ل
تکالی اور اسی سے اشارہ کرئے اس آدمی کو وانس قدم تنے کا کہا خو لے بو رنان اور
دامیر کو دنکھنے خونک گبا۔
”سبانیر ،پرابوا ہبڈ۔“ وہ پڑپڑانا۔ چنہ اسبہزاننہ مسکان لنے مڑی اور دامیر اور رنان
کو ا ننے ننجھے دنکھنے فجرپہ گردن اکڑائے جلنے لگی۔
”ونی آفر جشٹ آ ڈنل۔“ ہوا میں ہاتھ سرنڈر کے انداز میں لہرائے ہوئے بونی
تھونی اتگلش میں کہا۔
”نبک مانی آفر ،تھاؤزنڈ ڈالر انبڈ بور ڈ نتھ۔“ دامیر قدم ناقدم جلبا ہوا اس کے
مقانل ک ھڑا ہوا اور سرد لہچے میں بوال۔
نسبل کے نیرل کو اس کے ن نٹ پہ رکھنے زور دنا۔
ناکوزا جاہے جتبا مرضی حظرناک گتبگ ہو لبکن وہ تھی پرابوا کے تھے ،چنہ اور
علتبا اگر نہاں پہ ہونیں بو علتبا کی نات وہ وافعی نانت کرنا۔ ان یطار کنے نبا گول نوں کے
دم پہ ڈانمبڈز ان کے ناس ہوئے۔
ت ت م
لبکن نات اس وفت ڈنل کی ھی خو ل ہو نی ھی اور اگر دامیر رنان ان کو
گ مک
اڑا تھی د ننے بو ان کی خونی کو تھی پروا پہ تھی۔
”دامیر تم ننجھے آجاؤ۔“ تھوڑا شفر گزرا بو علتبا ئے دامیر کی سنٹ کی طرف ہوئے
کہا۔
”میرے شاتھ نتتھا زہر لگ رہا ہے۔“ رنان علتبا کی نات ستنے سباٹ انداز میں
بوال۔
”تم شاتھ نتتھے زہر لگ رہے ہو۔“ علتبا اس کی نات پہ ما تھے پہ نل لنے بولی۔
آج وہ جان بوچھ کے اس کو نبگ کر رہا تھا۔
”چھونا منہ پڑی زنان۔“ رنان ناز پہ آنا کہ علتبا خڑ گنی جبکہ دامیر ان کی بوک
چھوک سے محظوظ ہو رہا تھا۔
”دامیر اس کو سمجھا لو تھر مجھے شکاری ین کے گھورنا ہے۔“ وہ شکاننی انداز میں
بولی۔
”نمہارا شوہر مجھ سے فٹس لتبا ہے۔ بول کے دکھائے کجھ مجھے۔“ رنان اس کی
شکانت پہ سرد لہچے میں بوال۔
دامیر ئے وافعی کجھ پہ کہا کہ علتبا صدمے سے اس کو دنکھنے لگی۔
ص ع ہن
گھر نجنے ہی لتبا ئے ھربور نارا گی کا اظہار کبا تھا۔
ت
”نمہارے موڈ شونتبگ کی وجہ سے خڑانا ہے نمہیں اور کجھ نہیں۔“ علتبا کے
شکوے پہ وہ اسے سمجھانا ہوا بوال جبکہ آنکھوں میں سرارت ناچ رہی تھی۔
”تم کجھ کہنے تھی نہیں اس کو۔ اگر میں کہوں بو مجھے ڈرانا ہے۔“ علتبا اس
کی نات پہ مزند جاتف ہونی۔
”اچھا ہے نا تم خود اس کو خواب دو۔ وہ نمہیں کجھ نہیں کہہ شکبا۔“ اس کو
ناس کرئے وہ پرمی سے بوال۔
”نمہیں کبا کہے گا؟“
”مجھے وہ آرام سے انک دو گولی مار تھی دے بو نجھبائے گا نہیں۔“ دامیر سنجبدگی
سے بوال۔
”تم دوبوں کتبا فصول بو لنے ہو۔“
علتبا بولنی ہونی اس کے ستنے سے لگ کے کھڑی ہونی۔
”نمہاری تظر میں میری خرکنیں تھی فصول ہی ہیں۔“ دامیر ئے اس کا چہرہ اوپر
کبا اور چھکنے اس کے رجشار پہ ہلکا شا بوسہ دنا۔
”وہ بو ہیں۔“ وہ کھلکھال اتھی۔
رنان اور دامیر کو ڈانتمبڈ سے م یغلفہ کام تھے بو وہ دوبوں آرمری میں جلے آئے
نہاں انہیں ہیروں کی مزند نٹستبگ کرنی تھی اور آگے ان کے کنے نانیرز کا ارننج کرنا
تھا جس سے ان کو قاندہ ہونا۔
پہ ان کی مرضی تھی کہ وہ پہ ہیرے سنور کرئے نا نہلے سے تھی پڑی نارنی
الئے خو ان ہیروں کو خرندنی ،وہ جا ہنے بو ہیروں کا کراؤنڈ ہبڈ میں ہوئے والے آکشن
میں تھی نٹش کر شکنے تھے چہاں ان کی اچھی نبالنی ہو شکنی تھی۔
لبام تھی انہیں کے شاتھ آرمری میں موخود تھا اور ا ننے شستم سے ان کو مزند
اتقارمٹشن مہبا کر رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”نمہیں مجھے تھتبکس کہبا جا ہنے ملٹسکا۔“ کمرے میں آئے ہی اس ئے شکوہ
کبا ،چنہ ئے دانباں آپرو اتھانا۔
”کس نارے میں؟“
”نمہیں ڈنل کرئے کی اجازت خو دے دی میں ئے۔“ اننی سرٹ کے نین
کھولبا ہوا بوال ،چنہ ئے الپرواہی سے سر چھ یکا۔
”تم پہ تھی د ننے بو میں کر کے رہنی۔“ مونانل میں مگن اس ئے نبڈ کراؤن
سے نبک لگانی۔ رنان ئے اس کو دنکھا اور جتنج کرئے جال گبا۔
ت ت تن
وانس آنا بو وہ و نسے ہی نبک لگائے ھی ھی۔
”شوہر کو کتھی نبار سے گلے تھی لگا لبا کرو۔“ وہ ا ننے آپ میں مگن تھی چب
رنان ئے اس کی نانگیں نکڑئے ک ھتنحا کہ وہ ہڑپڑا اتھی۔ مونانل چھوٹ کے شانبڈ پہ
نبڈ پہ گرا اور اس کا سر نکنے پہ گرا۔
لک ج ً
”پہ کبا نبہودگی ہے۔“ وہ ا نحاجا النی کہ رنان نبا پرواہ کنے اس کے نا ل پراپر
ج
نتم دراز ہوا اور زپردشت جشارت کرئے ننجھے ہبا۔ ہون نوں پہ سرپر مسکان سحائے اس
کو دنکھا۔
”آنی اتم پراؤڈ آف بو۔۔“ چنہ کا ہاتھ تھامے ا ننے کبدھے پہ رکھا اور اسے خود
سے لتبانا۔
”بو شوڈ نی۔“
!You should be
”ونل آنی اتم۔۔“ اس کے ما تھے پہ ہونٹ ر کھے۔
”ا ننے شال میں ئے نمہیں مس کبا۔“ اس کے رجشار پہ انبا چہرہ مس کرئے
ہوئے مجمور لہچے میں بوال۔
”نمہیں میری موخودگی کا علم تھا؟“ چنہ اس کے ا ننے شال والی نات پہ ہلکا شا
ہٹس کے بولی۔ رنان کی ہلکی سنو کی چھین محسوس کرئے وہ سرخ پڑی۔
”پڑا ہوا ہے شامان اندر میں نبا النی ہوں۔“چنہ نالوں کو خوڑے میں ناندھنی ہونی
بولی کہ رنان ئے روک لبا۔
”تم نتتھو میں لے آنا ہوں۔“ وہ مشکرانا۔ چنہ سر ہال گنی۔ اشاسنٹشن کے تغد
اگر رنان کو کونی نسبدندہ کام تھا بو وہ گھر میں ننے آئے والے وخود کے کام کرنا تھا۔
وہ پہ دوبوں لڑک نوں کے شاتھ شاتھ دامیر کے لنے تھی خوتکائے والی نات تھی۔
جٹسے رنان کے اندر کا نحہ جاگ جانا تھا۔
”پہ اتھی شونا ک نوں نہیں؟“ رنان فبڈر کو شانبڈ نتبل پہ رکھنے ہوئے بوال۔
”جلدی شو گبا ہو گا آج اور اتھی جاگ کے نبگ کر رہا ہو گا علتبا کو۔“ چنہ
گت ھ کن
اس کو نبار تھری تظروں سے د نی ہونی بولی خو اس کے ہاتھ کی ا لی تھامے اس
سے کھبل رہا تھا۔
چب سے بوقل نبدا ہوا تھا اکیر چنہ اور رنان کے کمرے میں موخود ہونا تھا جس
کی وجہ سے آدھا شامان اس کا نہاں تھی پڑا تھا۔
”تم شو جاؤ میں جاگ رہا ہوں۔“ رنان چنہ سے محاظب ہوا۔
”چب پہ شوئے گا بو شو جاؤں گی۔“ بوقل کے سر پہ ہونٹ رکھنے ہوئے بولی کہ
کن
رنان ئے دلحسنی سے اس کی خرکت د ھی۔
”اب جبلس پہ ہونا۔“ وہ ئےزارنت دکھانی بولی رنان کجھ پہ بوال نس گہرا شانس
تھر کے رہ گبا۔ جبلسی بو ہونی تھی لبکن اس پہ اجتبار نہیں تھا کونی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کمرے کا دروازہ الک کرئے اس ئے شونی ہونی علتبا کو دنکھا۔ بوقل کے اتھنے
پہ دامیر کجھ نل اس کے شاتھ کھبلبا رہا تھر چب بوقل تھوڑا نبگ آنا بو رنان کے ناس
لے گبا۔
چہرے کے ننچے ہاتھ ر کھے وہ نتبد میں محو خواب تھی۔ درمبان سے بوقل کا
ک یفرپر شانبڈ پہ کبا اور خود علتبا کے فرنب آگبا۔
ن ن
اس کے کھشکنے سے علتبا کی نتبد میں جلل پڑا اور دامیر ئے پروفت ا نی آ یں
ھ ک
نبد کر لیں۔
کن
کشلمبدی سے آ یں ھو یں بو شا نے دامیر کا ہرہ دکھانی دنا۔ وہ م کرا دی اور
ش چ م ل ک ھ
ب ت ن
پرمی سے اس کے چہرے کو چھوئے لگی چب اجانک خواس جاگے اور آ یں یں،
ل ھ ھ ک
ئےشاچنہ ہی انک جنخ اس کے جلق سے پرآمد ہونی اور دامیر ہڑپڑا اتھا۔
”دامیر تم بوقل کے اوپر۔۔۔“ وہ ڈرئے ہوئے بولی اور دامیر کو دھکا د ننے لگی۔
دامیر اس کو گھورئے ہوئے ننجھے ہبا۔
”پہ نمہارا فصور ہے تم لوگ پہ خو ہق نوں کے لنے عانب ہوجائے ہو اسی لنے
ناتم نہیں ملبا۔ میں اتھی نک اس چیز کی عادی نہیں ہونی۔“ علتبا اس کے کبدھے
پہ سر رکھنے ہوئے بولی۔ دامیر ئے چھک کے اس کی گردن پہ بوسہ دنا۔
”اگر اتھی تھوڑا وفت مٹسر ہے بو نحث میں ک نوں صا تع کرنا۔“ دامیر زومعت نت
کن
سے بوال اور علتبا کے گرد حصار ناندھے آ یں موند گبا۔
ھ
”پرنتبگ کٹسی جا رہی ہے؟“ دامیر ئے ناد آئے پہ بوچھا۔
”دامیر اتھی شوئے کا ناتم ہے نمہیں اس وفت پہ شب نانیں ناد آرہی ہیں“
علتبا ما تھے پہ نل لنے بولی ک نونکہ اس کی نتبد خراب ہو رہی تھی۔
”ناد بو نہت کجھ آرہا ہے مجھے۔۔“ وہ گہری تظروں سے دنکھبا ہوا بوال تھر سرد آہ
تھر کے رہ گبا۔
ہ ن کن
”تھبک جا رہی ہے پرنتبگ۔“ علتبا دونارہ آ یں نبد کرئے سے لے نس انبا ہی
ھ
بولی۔
چنہ اس کو آرمری میں ہی کجھ چیزیں شکھا رہی تھی۔ اس ئے دونارہ اتھی
سبارٹ کی تھی۔ شونبگ میں اس کا نارگنٹ اچھا ہو گبا تھا۔
کن
”بوقل کو لے آؤ۔۔“ وہ تھوڑی دپر ہی آ یں موندی نی رہی کن بو ل کی
ق ب ل تل ھ
قکر سبائے لگی۔ وہ انبا چھونا تھا اکیر چب علتبا شو رہی ہونی بو دامیر اس کو رنان کو
دے آنا نا وہ خود لے جانا تھا۔ اس نات کا علم تھر علتبا کو صنح ہی ہونا ک نونکہ رات
اس کی گہری نتبد نبا جلل کے گزرنی تھی۔
”پرنسٹس اتھی تھوڑی دپر شکون سے نتبد بوری کر شکنی ہو بو کر لو۔“ دامیر اس
کو رشان سے سمجھانا ہوا بوال۔
ُ
”نمہیں میرے شکون کی پڑی ہے۔ ادھر وہ رو رہا ہو گا۔“
ن
علتبا اتھ تتھی۔ دامیر ئے نازو سر کے ننچے تکانا۔
”اگر انشا ہونا بو رنان دے جانا وانس۔ وہ ا چھے سے وہاں رہ لتبا ہے تم لنٹ رہی
ہو نا نمہاری نچی کچی نتبد اڑاؤں۔“ دامیر اس کو خود پہ چھکانا ہوا دھمکی آمیز لہچے میں بوال
کہ کٹشا ناپ تھا خو ن نوی کے آرام کی جاطر نچے کو کمرے میں نہیں ال رہا تھا۔ علتبا
ما تھے پہ ن نوڑی خڑھائے لنٹ گنی۔
اس ئے دامیر کی طرف نشت کر دی ،انداز ناراصگی جبا رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صنح چب آنکھ کھلی نب تھی بوقل کمرے میں نہیں آنا تھا اور دامیر ضرور کنچن
میں جا حکا تھا۔
پہ اچھا تھا ن نوبوں کا منجر کام دامیر ئے ستتھال رکھا تھا۔ کجھ انک دو ڈسز بو اس
ئے تھی سبکھ لیں تھی اس سے خو ان کی غیر موخودگی میں ین جانی تھیں لبکن نب
کی زمہداری لبام اور چنہ لے لتنے تھے۔ علتبا کو اچھا پرنسٹس پرنتمنٹ ہی ملبا تھا۔
فرنش ہو کے شب سے نہلے وہ چنہ کے ناس سے بوقل کو النا جاہ رہی تھی ناکہ
اس کو نبار کر شکے لبکن چب وہ ہال میں داجل ہونی بو بوقل صاچب صوفے پہ مزے
ن
سے لتنے ہاتھ نیر جال رہے تھے جبکہ چنہ اس کے ناس ہی تتھی تھی۔ چنہ اس کو
نہلے سے ہی نبار کر جکی تھی۔
”اس ئے نبگ بو نہیں کبا رات کو؟“ علتبا بوقل کو نکڑنی ہونی بوچھنے لگی خو
ماں کو دنکھنے انکھبلباں کرئے لگا۔
”نہلے کتھی نبگ کبا ہے اس ئے؟“ چنہ ئے البا شوال کبا۔
بوقل نالکل دامیر پہ تھا۔ نتھی رنان اس کو خونئیر دامیر کہبا تھا ،اسی کی طرح
لہب ن
خوتصورت نبکھے نین تقش ،گہری تھوری آ یں اور نال۔ وہ انک ھی ،ہانتبڈ ئےنی
ت ھ ک
کن
تھا۔ اس وفت وہ نانچ ماہ کا ہو حکا تھا۔ خوتصورت گالنی گول گال۔ مونی مونی آ یں
ھ
جن میں ہمہ وفت چمک موخود رہنی تھی۔
”دامیر تم رات کو آئے تھے چیرنت تھی۔“ لبام ہال میں آنا ہوا دامیر کو محاظب
کرئے بوال۔
”ہاں کام تھا انک۔“ وہ نس انبا ہی بوال علتبا کے شا منے پہ نہیں کہہ شکبا تھا
کہ وہ بوقل کو د ننے گبا تھا۔
علتبا کے لنے پہ راز ہی تھا کہ رات کو لبام اور رنان ،بوقل کو لتنے نہیں آئے
تھے نلکہ دامیر خود چھوڑ کے آنا تھا۔
ھ کن
”اب نبا دو۔“ لبام بوقل کی طرف آنا اور مشکرا کے اس کو د نے لگا۔
”ضرورت نہیں اتھی۔“ وہ سنجبدگی سے بوال۔
”مبکس آرہے ہیں آج اور ہمیں رات کو تکلبا ہے ،چب نک ہم وانس نہیں
آ نیں گے مبکس نہیں رکیں گے۔“ رنان دامیر کے شاتھ ڈانتبگ نتبل سنٹ کرنا ہوا
بوال۔
ت ع ً
” لبکن اتھی دو ہقنے نہلے بو تم لوگ آئے ھے۔“ لتبا فورا بول ا ھی۔
ت
”کام رکبا نہیں پرنسٹس۔۔“ دامیر اس کے ناس آنا پرمی سے بوال اور بوقل کو
اس سے لتنے علتبا کے ما تھے پہ ہونٹ ر کھے۔
چہاں گھر میں غورت زات نہیں ہونی تھی اب نہاں انک نتھا شا وخود تھی تھا
جس کی آوازیں دن میں گونجنی تھیں۔ دامیر اس سے ہلکی سی نات کرنا بو وہ آگے سے
پرخوش آوازیں تکالبا تھا۔
”میں آج نک سنور نک جاؤں گی کجھ کبانیں لتنی ہیں۔“ نا سنے سے قارغ ہوئے
شب الن میں نتتھے تھے چب علتبا ئے ناد آئے پہ کہا۔
”انک بو ان غوربوں کو انک ماہ کے نچے کو تھی پڑھانا ہونا ہے۔ مس علتبا پڑا
ہوئے دیں اس کو تھر شوق بورے کنجنے گا ا ننے۔“ لبام اس کی کبانیں الئے والی
نات شن کے ندمزہ ہوا۔
”میں ا ننے لنے لتنے جاؤں گی۔“ علتبا حفت زدہ ہونی۔
”مار کبانی کی نک لنجنے گا۔ کہاں تم سرتف سی ان گبڈوں میں تھٹس گنی۔“
بام اقسوس سے تقی میں سر ہالنا اس کو مسورے سے بوازئے بوال۔ ل
”لبام نمہاری صحت اجازت نہیں د ننی میری ن نوی کو ا نسے مسوروں سے بوازئے
کی۔ میں مسورہ د ننے پہ آنا نا بو ہڈناں ستبکنے رہ جاؤ گے۔“ دامیر آنکھوں میں سرد ین
کم
لنے اس کو بوال کہ لبام ئے ناک سے ھی اڑانی۔
”سر ہماری شپ منٹس کے ر سنے میں رکاوٹ آرہی ہے۔“ ڈرنک رنان کے
فرنب آنا ہوا بوال۔
”کون۔۔؟“
”البانین سر۔۔“ اس ئے اطالع دی کہ رنان کے ما تھے پہ ناگواری کے نل
ننے۔ کجھ عرصہ نہلے وہ انگرون کے لوگوں کو ا چھے سے سنق شکھا آئے تھے کہ اب
وہ ان کے عالفے میں نہیں آ نیں گے لبکن وہ تھر سے نانگ اڑا رہے تھے۔ البانین
نہاں وہ کام کر رہے تھے خو م یع کر دنا گبا تھا لبکن ناوخود وارنبگ کے ناز نہیں آئے
تھے۔
”ان پہ انبک کی نباری کرو۔“ رنان کے جکم د ننے ہی ڈرنک نیزی سے سبک نورنی
روم کی طرف تھاگا ناکہ ا ننے آدم نوں کو نبار کر شکیں۔
”بوقل کا روم سنٹ ہوجائے گا آج ہی۔ علتبا انک نار جبک کر لتبا کونی چیز
موخود پہ ہونی بو نبانا۔“ رنان سنجبدگی سے بو لنے ہوئے اتھ کھڑا ہوا۔
”اتھی اس کی ضرورت نہیں تھی رنان۔ پہ نہت چھونا ہے اتھی۔“ علتبا بوقل
کو گود میں لبائے ہوئے بولی خو خڑخڑا ہو رہا تھا اس وفت اور ما تھے پہ نل لنے روئے کی
نباری میں تھا۔
”جانبا ہوں لبکن اس کی شاری چیزیں سنٹ ہیں وہاں۔ کھلوئے وغیرہ دن میں
خونئیر وہاں خوش رہے گا۔“ نالوں میں ہاتھ ت ھیرئے ہوئے وہ چنہ کو دنکھنے لگا خو
نانگ پہ نانگ خڑھائے علتبا سے بوقل کو لے رہی تھی ک نونکہ علتبا کے نتتھنے سے وہ
الجھ رہا تھا۔
چنہ بوقل کو لنے کھڑی ہونی بو بوقل آس ناس دنکھنے لگا۔ رنان کو دنکھنے اب اس
کی طرف جائے کو ہمکنے لگا۔ چنہ رنان کے فرنب کھڑی ہونی ،رنان ئے بوقل کو اتھی
نکڑا نہیں تھا ک نونکہ وہ آرمری میں جائے واال تھا بو چنہ کی گود میں ہی اس کو نبار
کرئے لگا۔
” نچے اب خود آنا جا ہنے ہیں میرے ناس۔ نتبا بو ہے تم نتنی الئے کی نباری
کرو۔“ چنہ اس کے نالکل فرنب تھی نتھی وہ زومعت نت سے کہنے لگا۔
”میرے ناس کونی شافٹ ونیر نہیں ہے کہ نتنی کی نباری کروں۔“ رنان کی
ب م ُ
نات پہ وہ دانت نٹسنے ہوئے بولی کہ اس کے ہونٹ م م کرائے۔
ش ہ
بوقل کو نبار کرئے کو چھکا شاتھ ہی اس ئے چنہ کا چہرہ مقانل کرئے سرارت
کرئے ننجھے ہبا۔
”خو ہوئے واال ہے اتھی۔ اسی سے گزارا کرو۔“ چنہ تگاہیں ت ھیرنی ہونی بولی کہ
رنان اس کے سرخ چہرے کو دنکھنے ہلکا شا ہٹشا۔ وہ دوبوں خود تھی نیرننٹس نتنے والے
تھے۔
ق ُ
”اس پہ بو جی جان فرنان ہو گی میری۔“ بو ل کے نالوں کو خراب کرئے وہ
دلکسی سے بوال۔
”اننی ن نوبوں کے لنے جان لو گے اور نحوں کے لنے جان دو گے۔“ چنہ ئے
بوقل کو دوبوں ہاتھوں سے شا منے کی طرف کبا کہ بوقل کی نانگیں چھو لنے لگیں۔
”فئیر اِ تف ہاں۔“ رنان آنکھ دنا کے بوال۔
دامیر کال پہ مصروف تھا۔ مونانل ناکٹ میں رکھنے اس کی جانب آنا اور چنہ سے
بوقل کو لتنے جارہاپہ نبار کرئے لگا کہ وہ عصہ کرئے انبا منہ کھولے اس پہ چھنٹ
پڑا۔
”ممی پہ گبا ہے۔“ اس کے عصے کو دنکھنے دامیر ئے علتبا کو دنکھنے نبانا ضروری
ن
سمجھا کہ وہ آ یں ھما نی۔
گ گ ھ ک
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پہ انک عالٹشان گ ھر تھا جس کے شا منے وہ کھڑے تھے۔ چہرے پہ ماشک
نہنے۔ اشلحہ سے لٹس بوری نباری کے شاتھ نہاں موخود تھے۔
”زنادہ گارڈز موخود نہیں ہے نجھلی شانبڈ پہ۔ نس دو اوپر والی نالکنی میں ک ھڑے
ہیں۔“ دامیر ہاتھ میں نکڑی شکرین کو دنکھبا ہوا بوال جس میں سرخ نشان تظر آرہے
تھے۔
”ڈرنک نجھلی شانبڈ کی طرف جاؤ۔ شگبل ملنے ہی انبک کر د نبا اور وہیں سے انئیر
ہو جانا۔“ رنان اس کو اشارہ کرئے بوال کہ وہ سر ہال کے ا ننے شاتھ دو آدم نوں کو لنے
ان سے علنحدہ ہوا۔
اس وفت وہ لوگ البانبا میں موخود تھے چہاں انہوں ئے انگرون کے گھر چملہ
کرنا تھا۔ چنہ تھی ان کے شاتھ موخود تھی جبکہ علتبا کو شاتھ الئے ضرور تھے لبکن وہ
بوقل کے شاتھ ہونل میں موخود تھی۔
ھ چ
”نمہیں م یع کبا تھا آئے سے۔ نمہیں دنکھوں نا انبا کام۔۔“ رنان سحت نجھالنا
ہوا تھا۔ انک بو چنہ کی کبڈنشن نہیں تھی کہ وہ لڑنی نہاں۔
”اگر تم ئے مزند کونی خزنانی سین نہاں کبا بو میں نمہیں شوٹ کر دوں گی۔“
چنہ سجنی سے بولی کہ رنان گھورئے لگا۔
”اگر تم انک قدم تھی مجھ سے دور ہونی بو میں نمہیں شوٹ کر دوں گا۔“ وہ
اس کو وارن کرنا ہوا بوال۔
”سبڈی میں موخود ہے اس وفت انگرون۔“ دامیر ئے کہنے ہی شکرین کو فولڈ کبا
اور ننجھے کھڑے آدمی کو تھمانا۔
وہ لوگ اتھی انک دبوار کی اوٹ میں چھنے تھے۔ دامیر ئے زرا شا چہرہ آگے
ن
کرئے دنکھا۔ اس وفت جاموسی تھی۔ ڈرنک اننی جگہ ہنچ حکا تھا۔
”پرنسٹس۔۔“ دامیر سرگوسی میں بوال۔
”میں تھبک ہوں دامیر۔“ علتبا کی آواز انیر نٹس سے اتھری کہ وہ شکون کا
شانس ت ھرئے دبوار کی اوٹ سے تکال اور نیزی سے آگے پڑھا۔
شب ئے انک دوسرے سے انیر نٹس کتبکٹ کبا تھا جبکہ دامیر کا علتبا کے
فون سے کتبکٹ تھا خو ہونل میں موخود تھی۔
دامیر کے اشارہ کرئے پہ اجانک انک دھماکے کی آواز گونچی اور گھر کی نجھلی
شانبڈ پہ ڈرنک اور آدمی تھی خرکت میں آئے۔
گھر کے شا منے والے حصے سے جائے رنان ئے شاتھ جلنی چنہ کو دنکھا تھر اس
کے نیروں کو۔ وہ ہبل والے شوز نہن کے آنی تھی۔ ما تھے پہ نل لنے گن ننچے کنے
رنان ئے چنہ کا نازو تھاما۔
”پہ کبا نہن رکھا ہے تم ئے؟“ اس کے نیروں کی جانب اشارہ کرئے ہوئے
وہ سرد لہچے میں بوال۔
”اندھے ہو خونا تظر نہیں آرہا۔“ وہ عرانی۔
”نمہیں کتنی نار م یع کبا ہے کہ انسی چیزیں پہ نہبا کرو۔“ وہ سجنی سے بوال کہ
دامیر ئے ان دوبوں کو دنکھا۔
”پہ کونی وفت ہے ڈرنسبگ پہ کمنٹ کرئے کا۔“ دامیر ان دوبوں کی خرکت
سے عاخز آنا ہوا بوال۔ اس وفت وہ لوگ کسی کی پراپرنی پہ چملہ کرئے آئے تھے اور
ان دوبوں کی اننی لڑانباں جتم نہیں ہونی تھی۔
”تم گھر جلو زرا۔“ انبا کہنے رنان ئے نسبل ہاتھ میں تھامے قدم آگے پڑھائے۔
سبڈی میں نتتھا سحص اجانک ہوئے والی زور دار آواز پہ خونک گبا تھا۔ اس کی
سبڈی شاؤنڈ پروف تھی نتھی وہ شور کو تھبک سے محسوس پہ کر نانا۔ اس کے گارڈز
سبڈی کے ناہر نہیں ہوئے تھے نتھی خود دروازہ کھولے جٹسے ہی اس ئے ناہر چھاتکا
بو ہر طرف دھواں ہی تظر آنا۔ وہ گ ھیرا اتھا کسی ئے اس کے گھر چملہ کر دنا تھا اور
موفع دنکھ کے ک نونکہ گھر کی غورنیں اتھی نہاں نہیں تھیں۔ وہ نس اکبال ہی موخود
تھا۔
اس سے نہلے کہ وہ انمرجنٹسی نٹشمنٹ کی طرف تھاگبا گھر کا نجھال حصہ نباہ ہو
گبا تھا۔ اس وفت کونی گن تھی موخود نہیں تھی کہ خوانی کاروانی تھی کرنا۔ جس طرح
قاپر کی آواز آرہی تھی اس کو سمجھ آگبا تھا کہ اس کا نجبا اب ممکن نہیں تھا۔
وہ تھا گنے ہوئے سیڑھ نوں کی طرف پڑھا لبکن وہاں پہ کسی کو کھڑا دنکھ رک گبا۔
دامیر ئے دلحسنی سے انگرون کو دنکھا۔ ان مافبا ہبڈ کو موفع دنکھنے زپر کرنا نہت
آشان تھا۔
”آخری خواہش۔۔“ دامیر ئے ئےزار نت سے بوچھا۔
”تم لوگوں ئے اچھا نہیں کبا۔“ وہ خوف سے شقبد پڑنا ہوا بوال۔
”نمہاری آخری خواہش ہے کہ ہم کجھ اچھا کریں؟“ دامیر سنجبدگی سے بوال چب
اجانک انک قاپر کی آواز گونچی۔
ھ کن
”آخری خوانش کون بوچھبا ہے نڈی۔“ رنان کی ناگوار آواز پہ دامیر ئے آ یں
گھمانی۔ انگرون کی نتتھ پہ گولی لگی تھی اور تھنی آنکھوں سے وہ شا منے کھڑے رنان کو
دنکھ رہا تھا۔
”عادت کے جالف انک واررنگ دی تھی لبکن اب وارنبگ کا وفت نہیں تھا۔“
رنان نالوں میں ہاتھ ت ھیرئے ہوئے بوال۔ چنہ اس کے شاتھ کھڑی تھی ناقی شب ئے
اس گھر کو ا ننے انڈر کر لبا تھا۔
”وفت صا تع کر رہے ہو میری فتملی و نٹ کر رہی ہے۔“ دامیر ئےزار نت سے
س
بوال چب رنان ئے اس کو گھورا۔ انگرون ئے ہمی تگاہوں سے اس کو دنکھا لبکن اگلے
ت ل کھ کھ کن
ہی لمچے اس کی آ یں لی کی لی رہ یں۔ گولی سبدھا اس کے ما ھے پہ گی ھی
ت ن گ ھ
اور نہیں اس کی آخری شانس تھی۔
البانبا کا مافبا ہبڈ اس وفت مر حکا تھا اور اس کی شاری پراپرنی اب پرابوا کے
ف یصے میں تھی۔ انگرون کی فتملی سے ان کا اب کونی لتبا د نبا نہیں تھا۔ ان کو مغلوم
ہو جائے گا کہ ان کی شاری پراپرنی اب پرابوا کے ف یصے میں ہو گی۔
”نہلی فرصت میں پہ خوئے انارو۔۔“ رنان اب چنہ کی جانب مڑا اور سرد لہچے
میں بوال۔
منٹشن کے الن میں اس وفت کاقی اچھی ہوا جل رہی تھی۔ چنہ اور علتبا
ن
کرسنوں پہ تتھی کسی چیز کو ڈشکس کر رہی تھیں۔ چنہ کو ننی آئے والی ستمنٹ پہ
کام کرنا تھا۔ لبام ئے آئے والے دبوں میں انک شپ منٹ کا زکر کبا تھا۔
علتبا ئے ا ننے نالوں کو خوڑے میں فبد کر رکھا تھا جبکہ چنہ ئے اونچی بونی ناندھی
ہونی تھی۔
وہ دوبوں کسی لوکٹشن کو ڈشکس کر رہی تھیں چب اجانک نیز روئے کی آواز پہ
انہوں ئے گردنیں گھمانیں۔
”لیزا کبا ہوا؟“ چنہ ئے دوبوں نحوں کو دنکھنے ہوئے بوچھا۔ بوقل ا ننے کام میں
مگن ا ننے نالکس کے شاتھ کھبل رہا تھا۔
”بوقل میری نات نہیں مان رہا۔“ نین شالہ لیزا شکانت کرنی ہونی بولی اور عصے
سے بوقل کے شارے نالکس کو گرا گنی۔ بوقل کجھ پہ بوال نس لب تھتنچے لیزا کی
خرکت کو پرداشت کر گبا۔
”بوقل ک نوں نات نہیں مان رہے تم نہن کی۔“ علتبا اتھ کھڑی ہونی اور جا
کے لیزا کو نحکارئے لگی۔
”لیزا مجھے کہہ رہی ہے میں ان گبدے نحوں کو ماروں خو اس کو نبگ کرئے
ہیں۔“ بوقل پرشکون لہچے میں بوال اور ا ننے نالکس کو دونارہ سے اکھبا کرئے لگا۔
”پری نات لیزا کسی کو مارئے نہیں۔“ علتبا سمجھانی ہونی بولی جبکہ چنہ ہ نوز نئیر
پہ چھکی کجھ دنکھ رہی تھی۔
ھ کن
”ا ننے ناپ کی طرح خون خراپہ نسبد ہے اس کو۔“ چنہ لیزا کو د نی ہونی
مشکرانی۔ رنان کی طرح ہر مسبلے کا جل لیزا کے ناس مار کبانی کا تھا جبکہ بوقل کے
جباالت تھوڑی علتبا سے ملنے تھے کہ انسی چیزوں سے دور رہبا جا ہنے۔
خوتصورت ناپ کی خوتصورت نتنی۔ اس کے نال سبہرے اور تھورے سے تھے۔
لیزا کی آنکھوں کا رنگ رنان کی طرح گرے تھا۔ ماں کی طرح لڑاکا طت یغت کی مالک
تھی۔ پہ ن یصرہ رنان کا تھا۔
رنان اور دامیر اس وفت ا ننے کانیرنکٹ پہ کام کرئے گنے تھے۔
”مجھے دامیر سے نات کرنی ہے۔“ لیزا پرو تھے انداز میں اتھنی ہونی علتبا سے بولی
بو اس ئے انبات میں سر ہالنا۔
”لیزا اتکل دامیر کہا کرو۔“ چنہ ئے اس کو دنکھنے ہوئے نبار سے بوکا۔
”دامیر کو اچھا لگبا ہے۔“ وہ منہ خڑھائے بولی۔ بوقل تھی ک ھڑا ہو گبا ک نونکہ علتبا
لیزا کو لنے اندر پڑھ رہی تھی۔
چنہ تھی انبا کام وانتبڈ اپ کرنی اتھی ک نونکہ نحوں کے کھائے کا وفت تھا۔ لبام
نہلے ہی کنچن میں کھڑا لنچ میں ہلکا تھلکا نبار کر رہا تھا۔
گزرے شالوں میں لبام کو تھی اچھا پرنبڈ کر دنا تھا جس کی وجہ سے وہ سمارٹ
شا لبام نہیں رہا تھا نلکہ کسرنی جشامت کا مالک تھا۔
”خود جلے جائے ہیں مجھے نحوں کی آنا نبا کے چھوڑ جائے ہیں۔“ بوقل کو دنکھنے
لبام جان بوچھ کر بوال کہ بوقل ئے نس گھورا۔ رنان کی طرح بو لنے کے نحائے وہ
گھورئے سے کام لتبا تھا جبکہ لیزا بورا بورا خواب د ننی تھی۔
”آنا لڑکی ہونی ہے۔ آپ لڑکی ہو۔“ علتبا ئے چب لیزا کو گود سے انارا بو وہ لبام
کو دوندو خواب د ننے ہوئے ناک تھوں خڑھا گنی۔
”لگبا ہے رنان اس کی رات کو تھبک پرنتبگ کرنا ہے۔“ لبام رنان کی کانی کو
دنکھنے پڑپڑانا۔ انشا کتھی نہیں ہوا تھا کہ لبام کجھ کہبا اور لیزا جاموش رہنی۔
علتبا ئے دامیر کو کال کی خو اس ئے دو نبل کے تغد ہی رنسنو کر لی۔
ان میں رہ کے اب وہ الگ بو نہیں ین شکبا تھا اور پہ ہی کجھ چھبا ہو گا اس
سے۔
”میں ڈرنک سے کہوں گا وہ مجھے نالوپز کے شاتھ پرنکٹس کروائے گا۔“ بوقل
چھونی گن کو د نکھے چہکنے ہوئے بوال۔
”پہ انک بوائے ہے لبکن دھبان سے آپ اننی شسیر کو نہیں دکھا شکنے اتھی۔“
دامیر ئے اس کو سمجھائے ہوئے کہا کہ بوقل ئے سر ہالنا۔ اننی نہن کے شا منے
انسی نانیں نہیں کرنا تھا اور پہ ہی اس کو کرئے د نبا تھا۔
”شو جاؤ خونئیر اتھی۔“ رنان اس کو نبار کرنا اتھا بو بوقل وانس ا ننے نبڈ پہ لنٹ
گبا۔
بوقل اور لیزا کا کمرہ دامیر کے شاتھ واال کمرہ ہی تھا جس کو رنان ئے بوقل کے
لنے سنٹ کروانا تھا۔ علتبا ئے تھوڑی جتنجبگ کروا کے اس میں لیزا کا شامان تھی
رکھوا دنا تھا اب بوقل کے شاتھ ہی کمرے میں رہنی تھی۔ ان کے کمرے میں انک
کے نحائے نین کتمراز سنٹ تھے ،واکی ناکیز تھی سنٹ کنے تھے کہ اگر لیزا نا بوقل کو
ضرورت پڑنی بو وہ اننی ممی کو آواز دے شکنے تھے۔
”آپ مجھے کل قانتبگ شکھانیں گے؟“ بوقل رنان کو دنکھبا بوچھنے لگا۔
”نمہاری ممی نمہارے ڈنڈ کو چھوڑیں گی نہیں اگر اس کو مغلوم ہوا بو۔“ رنان
دامیر کو دنکھبا ہوا ہٹس کے بوال۔ اننی ماں کے شا منے وہ نہانت سرتف نحہ تھا لبکن
ا ننے اتکل اور ناپ سے وہ خوب نالج لتبا رہبا تھا۔
بوقل شوئے کے لنے لتبا بو دامیر لیزا کو نبار کرئے لگا۔ نہلے چب تھی گھر آئے
بو ن نوبوں کو دنکھنے تھے لبکن اب نچے ناپ پہ تھے۔
ن
”دامیر۔۔“ دامیر کے نبارے کرئے پہ لیزا اننی مبدی مبدی آ کھیں کھولے اس
کو دنکھنے لگی۔
”ا ننے ڈنڈ سے کبا لڑانی ہے خو اس کے نبار کرئے پہ نہیں اتھی۔“ رنان پہ
ت تن ت ب ہ ن
د نے ل ہی گبا تھا۔ لے اس کی ماں ن گ کرنی ھی اب نی کسر بوری کرنی ھی۔ ج ھ کن
وہ انک دوسرے کی آنسٹشن تھے اور ان کی اس انسٹشن میں اصاقہ ان کی
ن
تتھی لیزا ئے کبا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”تم تھر نبا نبائے آئے دامیر۔“ دامیر کا حصار محسوس کرئے علتبا اس کے
لمس کو جان گنی تھی نتھی شکوہ کرنی بولی۔
”مجھے لگا نمہیں سرپراپز ا چھے لگنے ہیں۔“ دامیر پرمی سے اس کی گردن کو
چھوئے ہوئے بوال۔
”مجھے مس کبا؟“ اس کے نال چہرے سے ہبائے نبار سے بوچھنے لگا کہ علتبا
ئے انبات میں سر ہالنا۔
کن
”تم لوگوں کا کام کٹشا جا رہا ہے؟“ علتبا کے آ یں موندئے پہ دامیر ئے
ھ
بوچھا۔
علتبا تھی اب چنہ کا شاتھ دے رہی تھی ،زنادہ نہیں لبکن وہ اس کی کاقی مدد
کرنی تھی شپ منٹس کو رنکور اور رکوائے میں۔ چنہ ئے اب تھی انبا کام نہیں چھوڑا
تھا جس کا تھربور شاتھ لبام دے رہا تھا۔
لبکن علتبا اتھی نہیں جاہنی کہ ان کے نچے اس شب میں ابوالو ہوں نتھی چنہ
اور علتبا لیزا ،بوقل کو اس شب سے دور رکھنی تھیں۔ علتبا کے لنے اب شب کجھ
نارمل تھا۔ مافبا میں کجھ تھی انہونی تھی۔ دامیر ئے تھبک کہا تھا اگر وہ جاہنی بو انک
فتملی کی طرح ہی نارمل زندگی گزار شکنی تھی اور انشا ہو تھی رہا تھا۔ شب نارمل تھا۔
دامیر اور رنان مافبا کو گھر نک نہیں الئے تھے کہ ہر وفت نس مار ڈھار ،خون خرائے
کی نانیں۔ وہ شب چب اکھنے ہوئے بو انک فتملی کی طرح ہی شب نانیں کرئے۔ نحوں
کی کھلکھالہنیں ستنے۔
نبدنلی نس نتھی آنی چب علتبا اور چنہ کو خود دوسرے کام کی طرف بوجہ د ننی
پڑنی۔ چنہ تھبک کہنی تھی کہ معصوموں کی نازنانی سے شکون ملبا تھا اور وہ نہی کرنی
رہیں گی اب۔
ناہر وہ لوگ مافبا کا حصہ ہوئے لبکن گھر میں وہ انک عام سی مج نت کرئے
والی فتملی ہوئے۔ اس شب میں زنادہ ہاتھ رنان اور دامیر کا تھا۔
دنبا کے لنے وہ ناپ اشاشن دامیر آر اور دی پرابوا ہبڈ رنان ڈی ہو نگے لبکن گھر
میں داجل ہوئے ہی وہ مجنت کرئے والے شوہر اور الڈ اتھائے والے ڈنڈ تھے۔
”زرا شوجا اگر رنان کا دماغ پہ جلبا اور وہ مجھے نمہیں گرل فرنبڈ نبائے کا پہ کہبا بو
آج بوقل ہونا؟“ کمرے کی قسوں چیز جاموسی میں دامیر کی سرگوسی سبانی دی کہ
علتبا ئے نلکیں اتھائے دامیر کو دنکھا۔
”ا نسے آ نبڈناز رنان کو ہی آشکنے ہیں۔“ علتبا مشکرانی کہ اس کی متمری الس
کے وفت رنان کا ہی مسورہ تھا کہ دامیر علتبا کو انبا نبانا۔
”لبکن انک نات ناد رکھبا ،دامیر آر تم سے مجنت کرنا ہے پرنسٹس۔“ اس کے
رجشار کو چھوئے ہوئے وہ مجمور لہچے میں بوال کہ ا ننے دبوں کے ہجر کے تغد آج وصل
کی شب تھی۔ علتبا مسرور سی ہونی مشکرا دی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جتم شد