You are on page 1of 1176

1|Page

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


ِ ‫ش‬

Visit for more novels: www.urdunovelbank.com


‫‪2|Page‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شب وصل کا سرور‬


‫غ‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ل‬‫ق‬
‫از م ما م ل‬
‫م‬‫ک‬‫م‬
‫ل ناول‬

‫ناول بینک و یب پر شا ئع ہونے والے تمام ناولز کے جملہ و حقوق تمعہ مصنفہ کے‬
‫نام محقوظ ہے۔ خالف ورزی کرنے والے کے خالف قانونی خارہ جونی کی خا شکتی‬
‫ہے۔ اگر آپ ایتی تحرپر ناول بینک پر شا ئع کروانا خا ہتے ہیں نو اردو میں نایپ کر کے‬
‫ہمیں سینڈ کردیں۔ آپ کی تحرپر ناول بینک و یب پر شا ئع کردی خانے گی۔‬

‫‪E-mail : pdfnovelbank@gmail.com‬‬
‫‪WhatsApp : 92 306 1756508‬‬

‫ناول بینک ای نظامیہ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪3|Page‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ح‬
‫(انتباہ‪ :‬اس ناول کے کرداروں کا تغلق ق یقی دنبا سے نالکل نہیں ہے‪ ،‬اس کو انک‬
‫فتنٹسی کہانی سمجھ کے ہی پڑھا جائے)‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪4|Page‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ہوٹل کی نارکبگ نک نبدل جائے میں اس کو جار سے نانچ منٹ لگ جائے‬


‫تھے‪ ،‬اتھی اس کو شدند تھکن محسوس ہو رہی ت‬
‫ھی۔ ہونل کے ز ننے اپرئے ہی اس کا شانس تھول گبا تھا‪ ،‬شانس نحال‬
‫کرئے کو اس ئے ستنے پہ ہاتھ رکھا اور ا ننے نالوں کو چہرے سے ہبانا۔‬
‫ہ‬‫ن‬
‫اتھی اننی گاڑی نک چی ھی یں ھی کہ سی ئے اس کے نازو کو ا نی‬
‫ن‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫گرفت میں لبا جس پہ وہ سہم سی گنی لبکن مقانل کا چہرہ دنکھنے ہی اس کے اعصاب‬
‫کجھ پرشکون ہوئے۔‬
‫”ہمیں نہاں سے جلبا ہے‪ ،‬جلدی کرو۔“ اس کی نات ستنے ما تھے پہ ناگوار‬
‫لکیریں اتھریں اور مقانل کی گرفت سے انبا ہاتھ چھڑوانا۔‬
‫”مجھے کہیں نہیں جانا‪ ،‬اکبال چھوڑ دو مجھے۔“ وہ سنجبدگی سے بولی اور اننی گاڑی کی‬
‫طرف پڑھی۔‬
‫”پہ نحث کرئے کا وفت نہیں ہے میرے شاتھ جلو۔“ لڑکے ئے تھر سے‬
‫نازو کو اننی گرفت میں لبا کہ اجانک کونی چیز ہوا کو چیرنی ہونی ان کے درمبان سے‬
‫گ‬ ‫م‬ ‫ن ً‬
‫ل‬
‫گزری جس پہ مقا ل فورا الرٹ ہوا جبکہ اس کے دل یں خوف کی ہر دوڑ نی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪5|Page‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫لڑکی کو نازو سے تھا منے اس ئے ا ننے ننجھے کبا اور اننی نشت سے نت نٹ کے‬
‫ہولڈر سے اننی گن تکالی‪ ،‬گن گولی جالئے والی کی سمت کرئے اس ئے دو قاپر‬
‫ناندھے چب نارکبگ کی دوسری طرف سے لوگ نمودار ہوئے لگے۔‬
‫”پہ شب کبا ہو رہا ہے۔۔؟“ خوف سے سرد پڑئے اس ئے لڑکے سے بوچھا خو‬
‫انک کے تغد انک نشاپہ ناندھ رہا تھا جبکہ گولباں جلنے کی آواز سے اس کا خود کا دماغ‬
‫ماؤف ہو رہا تھا۔‬
‫”تھاگو۔۔۔“ سرد آواز میں جکم دنا جس پہ وہ لڑکی تقی میں سر ہالئے لگی۔‬
‫”میں ئے کہا تھاگو۔۔۔“ آواز میں کونی پرمی کا ناپر نہیں تھا‪ ،‬موت جٹسی‬
‫تھبڈی آواز پہ اس کی نانگوں سے جان جائے لگی‪ ،‬ندن لرزئے لگا‪ ،‬زنان ئے بو لنے‬
‫سے اتکار کر دنا۔‬
‫خود میں جان الئے اس ئے تھا گنے کی کوشش کی‪ ،‬جس سمت وہ تھاگی تھی‬
‫اسی طرف لڑکے ئے اننی نشت کرئے نشاپہ ناندھبا سروع کر دنا چب انک گولی‬
‫لڑکے کے کبدھے کو چیرنی ہونی تکلی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪6|Page‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫لڑکی ئے ننجھے مڑ کے دنکھا خو اس کے ناؤں مڑئے کا سنب نبا اور وہ لڑکھڑا‬


‫پڑی۔ ناس گاڑی کا سہارا لتنے اس ئے شانس لتنی جاہی نب نک ماشک لگے آدمی‬
‫ن‬
‫اس نک ہنچ جکے تھے۔‬
‫جٹسے ہی انک آدمی ئے اس کا نازو دبوجا اس کے جلق سے انک جنخ پرآمد ہونی‪،‬‬
‫لڑکے ئے ننجھے مڑ کے دنکھا اور لڑکی کے ناس کھڑے آدمی کا نال چھحک نشاپہ ناندھا‪،‬‬
‫نہاں آدمی ننچے گرا اور دوسری جانب لڑکے کے سر پہ کسی زوردار چیز سے وار کبا‬
‫گبا۔‬
‫لڑکی کی جنخ ئے اس کو تھ یکا دنا تھا۔ لڑکی کو نازو سے دبوچے وہ پڑی گاڑی میں‬
‫زپردسنی ڈال رہے تھے‪ ،‬پرزور مزاچمت کرئے نبد ہونی آنکھوں سے اس ئے آخری نار‬
‫لڑکے کو گھت نوں کے نل گرئے دنکھا اور خود وہ ہوش سے ن یگاپہ ہو گنی۔‬
‫دونارہ چب آنکھ کھلی بو خود کو رسنوں سے جکڑے نانا‪ ،‬اس کے ہاتھ اور نازو‬
‫ُ‬
‫نبدھے تھے‪ ،‬اطراف میں تظریں گھمائے اس ئے جاپزہ لتبا جاہا بو شا منے ہی اس‬
‫لڑکے کو نبدھے نانا۔ وہ ہوش میں تھا‪ ،‬اس کی تگاہیں زمین پہ نکی تھی‪ ،‬چہرے پہ‬
‫پرف نتھر نلے ناپرات تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪7|Page‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫لڑکی کی نانسنت لڑکے کے ہاتھ‪ ،‬نازو اور ناؤں تھی مضنوط رسنوں سے ناندھے‬
‫گنے تھے۔‬
‫لڑکی ئے اس کو تکارا لبکن کونی خواب پہ مال جبکہ چہرے کے ناپرات میں تھی‬
‫کونی اپر پہ آنا‪ ،‬وہ نلک نک نہیں چھبک رہا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫دامیر‪” :‬کانیرٹکٹ کلوزڈ۔۔“‬


‫مٹسج نانپ کرئے اس ئے ستبڈ کبا چب اگلے ہی لمچے اس کے مونانل پہ انک‬
‫ت‬ ‫گ‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫ک‬‫ب‬ ‫ق‬‫نی‬
‫بو شن شو ہوا‪ ،‬ناقی کی ر م اس کے اکاؤنٹ یں فوری پران فر کر دی نی ھی۔‬‫ٹ‬
‫”اب کہاں جائے کا ارادہ ہے؟“ گاڑی میں نتتھنے اس ئے سنئیرنگ ونل‬
‫ستتھاال چب رنان ئے بوچھا۔‬
‫”خود کو تھوڑا رنلبکس کروں گا۔۔ کسی کلب جلنے ہیں۔“ دامیر ئے گاڑی‬
‫سڑک پہ دوڑائے ہوئے کہا رنان ئے محض سر ہالنا اور اننی نسنول کی مبگزین جبک‬
‫کرئے اس کو کمر کے ننجھے لے جائے رکھا۔‬
‫مزند دو گیز جبک کرئے ان کو سنٹ کے ننچے سنٹ کر دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪8|Page‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اتکل مبکس ملبا جا ہنے ہیں ہم سے۔“ رنان ئے مونانل کو دنکھنے کہا۔‬
‫”اتھی میں کانیرنکٹ لتنے کے موڈ میں نہیں‪ ،‬تم دنکھ لو۔۔“ دامیر ئے تھوڑا‬
‫ئےزار لہچے میں کہا۔‬
‫”وہ مجھ سے نہیں‪ ،‬ہم سے ملبا جا ہنے ہیں۔ دو دن تغد وہ انلی سے نہاں آرہے‬
‫ہیں۔“ رنان ئے ا ننے القاظ پہ زور د ننے ہوئے کہا۔ دامیر ئے سر ہالنا۔‬
‫گاڑی جلنے رنان ئے محسوس کبا جٹسے ان کی گاڑی کو قالو کر رہی تھی۔ نبک وبو‬
‫مرر میں رنان ئے ننجھے آنی انک سباہ گاڑی کو دنکھا۔‬
‫”ستبڈ کم پہ کرنا۔“ رنان ئے کہا اور اننی گن تکالے ہاتھ میں تھامی۔‬
‫”لگبا ہے ان کو اننی زندگی عزپز نہیں۔ جلو ہم تھی تھوڑا کھبل لتنے ہیں۔ روکھا‬
‫شوکھا مارنا نسبد نہیں آرہا تھا مجھے۔“ دامیر ئے سیطانی مشکراہٹ ل نوں پہ سحائے ہوئے‬
‫کہا‪ ،‬رنان ئے اس کو چمکنی تگاہوں سے دنکھا اور گہری مسکان لنے شانبڈ مرر سے ناہر‬
‫چھاتکا۔‬
‫”نین سے جار لوگ ہو نگے۔۔“ رنان ئے آ گاہ کبا‪ ،‬دامیر ئے سر ہالنا۔ گاڑی کی‬
‫ستبڈ کو نیز رکھنے اس ئے بو پرن لبا۔ چب ان کے پرن لتنے سے ہی ننجھا کرنی گاڑی‬
‫سے انک آدمی ئے ناہر تکلنے قاپر کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪9|Page‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دوبوں سڑکوں پہ گاڑناں تھیں‪ ،‬ننجھا کرنی گاڑی ان سے کاقی قاصلے پہ تھی۔‬
‫دامیر گاڑی کو ان کی جانب ہی لے جا رہا تھا لبکن دوسری شانبڈ سے۔ مقانل کی‬
‫گاڑی سے آدمی ناہر تکلنے ان کی جانب قاپر کرئے لگے۔‬
‫”کاکروچ زنادہ اچھل رہے ہیں۔“ دامیر ئے سنئیرنگ ونل پہ اننی گرفت سحت‬
‫کی‪ ،‬رنان ئے سنٹ کے ننچے سے گن تکالے دامیر کی طرف اچھالی۔‬
‫گاڑی بولٹ پروف تھی جس کی وجہ سے ان کی گاڑی پہ نشاپہ صجنح پہ لگا۔ رنان‬
‫ئے اننی شانبڈ کا دروازہ کھولے تھوڑا ناہر تکلنے قاپر ناندھا۔‬
‫انک گولی سبدھا نستنجر سنٹ پہ نتتھے آدمی کو لگی۔‬
‫”شسبلین ہیں پہ شب۔۔“ رنان ئے انک اور آدمی کو گرائے ہوئے کہا۔‬
‫دامیر ئے سنئیرنگ کو دانیں جانب گھمائے گاڑی کو دوسری سمت کبا کہ‬
‫دوبوں گاڑناں اب مقانل جا رہی تھیں۔ رنان ئے آشانی سے ڈران نو کرئے آدمی کا‬
‫نشاپہ کبا اور اس کی گردن پہ قاپر کبا۔‬
‫گ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”نکڑنا ہے نا مارنا۔۔؟“ دامیر ئے رنان سے کہا بو اس ئے آ یں ھمانی۔‬
‫ھ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪10 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”موڈ نہیں۔۔“ کہنے ہی اس ئے انک اور قاپر لبا اور خو تھے آدمی کے ما تھے پہ‬
‫گولی لگی۔ رنان ئے اننی شانبڈ کا دروازہ نبد کبا اور نسبل کی مبگزین جبک کرئے اس‬
‫کو دونارہ قل کبا۔‬
‫”مین روڈ پہ کجرا ہو گبا‪ ،‬کلب میں جائے کا ارادہ کنٹشل کرنا پڑے گا۔“ دامیر‬
‫ئے کہا اور گاڑی دوسری سڑک پہ لے جائے شسبلین کی گاڑی کے ناپرز پہ قاپر‬
‫کبا جس سے وہ شلو ہو گنی اور درمبان میں لگے درج نوں میں سے انک سے جا نکرانی۔‬
‫دو آدم نوں کی تعسیں سڑک پہ الوارث پڑی تھیں۔‬
‫”ڈرنک! اگلے آدھے گھتنے نک شب صاف ہونا جا ہنے۔“ دامیر ئے انک کال‬
‫کرئے اننی شاتھی سے کہا جبکہ رنان ان کی ڈنڈ ناڈپز کو جبک کر رہا تھا۔‬
‫”انک بو مجھے سمجھ نہیں آنا چب کانیرنکٹ جتم ہو جانا ہے بو مرئے والے کے‬
‫کیڑے ننجھے ک نوں پڑ جائے ہیں۔“ دامیر ئے ان کی گاڑی سے کجھ چیزیں لتنے‬
‫ہوئے ندمزہ ہوئے کہا۔‬
‫اتھی جس آدمی کو وہ جتم کر کے آئے تھے پہ شب اسی کے نبدے تھے۔ رنان‬
‫ئے نس کبدھے احکائے اور وانس گاڑی میں جاکے نتتھ گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪11 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر تھی اس کے ننجھے آنا اور سنئیرنگ ستتھالے وہاں سے تکلنے جلے گنے‬
‫جا ننے تھے کہ ڈرنک آدھے گھتنے نک نہاں کی شب صقانی کروا دے گا اور اس لڑانی‬
‫کا کسی کو نبا تھی نہیں جلے گا۔ سڑک پہ لگے سی سی نی وپز کی فوننج تھی ندل دے‬
‫گا۔‬
‫”انس آلرنڈی بو لنٹ‪ ،‬کلب؟“ دامیر ئے وفت دنکھنے ہوئے کہا چہاں رات کے‬
‫دو نج رہے تھے۔ رنان ئے اوکے کہا بو وہ دوبوں کلب کی طرف رواپہ ہوئے۔‬
‫”مہت نوں تغد نہاں آنا صحت پہ اچھا اپر ڈالبا ہے‪ ،‬پرانی کرنا۔“ رنان نہت کم اس‬
‫کے شاتھ نہاں آنا تھا نتھی دامیر ئے سرارت سے کہا جس پہ وہ نس گھور کے رہ گبا۔‬
‫”اننی زنادہ گبدرنگ ہے نہاں۔۔“ لڑک نوں اور لڑکوں کو شاتھ رنگنت نوں کے مزے‬
‫کرئے دنکھ رنان ندمزہ ہوا۔‬
‫دامیر اس کو لنے وی آنی نی سبکشن کی طرف پڑھ گبا خو اوپر والے بورشن پہ‬
‫تھا۔ وہ حصہ محصوص ہونا تھا کجھ لوگوں کے لنے‪ ،‬دامیر نہاں اکیر آنا تھا بو منتنجر اس‬
‫کو نہحانبا تھا۔‬
‫کلب کی النٹس نہت ڈم ت ھیں‪ ،‬نہاں شاند کسی وی آنی کبل کی نارنی ارننج تھی‬
‫نتھی وہ دوبوں سروع والے حصے سے تھوڑا دور آ گنے چہاں رتفرنشمنٹ کا ان یطام تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪12 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر اور رنان وہاں صوفے پہ نبک لگائے نتتھ گنے۔ ان کے نالکل شا منے‬
‫کاؤنیر نتبل تھا چہاں سے ڈرنکس سرو کی جا رہی تھیں۔ دامیر کے اشارے پہ انک ونیر‬
‫شافٹ ڈرنکس لے آنا۔‬
‫رنان مجباط انداز میں اطراف کا جاپزہ لتنے لگا چب اس کی تظر انک وخود پہ پڑی خو‬
‫ان کے نالکل شا منے صوفے پہ دوسری جانب چہرہ ہوئے تھا۔ وہ لڑکی تھی۔‬
‫وہ لوگوں سے کٹ کے تھی‪ ،‬رنان واصح دنکھ شکبا تھا اس کو۔ گولڈن رنگ کا‬
‫کاکتبل ڈرنس نہنے جس کی نشت کا گال کاقی گہرا تھا‪ ،‬نالوں کو آگے کی طرف کر رکھا‬
‫تھا۔‬
‫اس کا چہرہ تظر نہیں آرہا تھا لبکن رنان کی سرد تگاہیں اسی پہ نکی تھیں۔‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ف ً‬
‫چ‬
‫د عبا لڑکی ا ھی اور اس ئے انبا رخ موڑا۔ ا نی رو نی یں ھی اس کا ہرہ واصح‬
‫نہیں ہوا تھا کجھ لڑکی ئے عج نب طرح کا مبک اپ کر رکھا تھا۔‬
‫وہ وی آنی نی نارنی کا حصہ نہیں لگ رہی تھی ک نونکہ نارنی میں موخود لوگوں ئے‬
‫نلبک تھتم رکھا تھا‪ ،‬اس کے ہاتھ میں فون تھا اور مشلشل مٹسج نانپ کر رہی تھی۔۔‬
‫”انیرسبد ہاں۔۔!“ دامیر ئے اس کی تگاہیں انک جگہ نائے کہا‪ ،‬رنان ئے کونی‬
‫خواب پہ دنا۔ دامیر ئے اس کی بوجہ کا مرکز نہیں دنکھا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪13 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫لڑکی ئے چب ا ننے نال چہرے سے ننجھے کرئے کان میں اڑسے بو اس کے‬
‫کان میں موخود انیر نٹس شو ہوا۔ وہ وافعی نہاں کا حصہ نہیں تھی۔ رنان ئے انک لمحہ‬
‫تھی اس سے اننی تظریں نہیں ہبانی تھیں۔‬
‫لڑکی ئے کسی اجشاس کے نحت آس ناس دنکھا چب اس کی تظریں رنان سے جا‬
‫نکرانیں۔ لڑکی کے دنکھنے پہ تھی اس ئے تگاہیں نہیں ت ھیری ت ھیں۔‬
‫جٹسے شکاری ا ننے شکار کو دنکھبا۔۔ رنان انہیں پرفبلی تگاہوں سے اس کو دنکھ رہا‬
‫تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫اننی بور نت کم کرئے کے لنے وہ نہاں آ بو گنی تھی لبکن نہاں آنا تھی فصول‬
‫لگ رہا تھا۔ اننی دوشت سے نات کرئے اس کے مشلشل ہاتھ جل رہے تھے۔ فون‬
‫پہ اننی دوشت سے نات کر رہی تھی جبکہ مٹسج پہ ا ننے اتکل سے را تطے میں تھی۔‬
‫چب اس ئے انبا رخ ندال بو فصاء میں نبدنلی سی محسوس ہونی۔ کسی نیز چیز کی‬
‫خوسنو۔۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪14 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نالوں کو شانبڈ پہ کرئے خود پہ کسی تگاہ کی نٹش محسوس ہونی بو رونگھنے کھڑے‬
‫ہوئے لگے۔ اتکل سے نات جتم کرئے اس ئے آس ناس دنکھا چب نالکل شا منے‬
‫نتتھے انک سحص پہ تگاہ پڑی۔ وہ نلونڈ نالوں واال تھا۔ اس کی گرے آنکھوں میں پرف‬
‫جٹشا سرد ین تھا۔ چہرے کے ناپرات پرفبلے سباٹ تھے۔ اس کے دنکھنے پہ تھی اس‬
‫کے ناپرات میں فرق پہ پڑا۔ سباہ لبدر کی جبکٹ نہنے‪ ،‬سباہ ہی نی سرٹ اور نت نٹ نہنے‬
‫ہوئے تھا جبکہ سبدھے ہاتھ کی دوسری اتگلی میں انک انگھونی تھی۔‬
‫ت‬ ‫چ‬
‫شاتھ نتتھا سحص ا ننے مونانل پہ مصروف تظر آرہا تھا۔ وہ ھری لے ا ھی۔ اس‬
‫ج‬‫ھ‬
‫پہ تگاہیں تکائے شا منے نتتھے سحص ئے اننی ڈرنک سے انک گھونٹ تھرا۔ انداز انشا تھا‬
‫چ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫جٹسے شکاری شکار پہ تکال ہو اور موفع د نے ہی ھنٹ پڑے گا اس پہ۔‬
‫وہ انہیں نہحان جکی تھی۔ دل کی ستبڈ ئے رفبار نکڑی‪ ،‬انک انحاپہ شا خوف شا‬
‫دل میں آگبا۔ اِ س ئے تظریں ت ھیرئے اننی دوشت کی نابوں کو خواب د ننے نبا راتطہ‬
‫جتم کبا اور انبا رخ رنشٹ روم کی طرف کبا۔ اس کی تگاہوں کے سرد ین کی وجہ سے‬
‫عج نب خوف سران نت کر گبا تھا۔‬
‫ان کے نارے میں سبا ضرور تھا اور آج دنکھ تھی لبا تھا۔ رنان کے بو دنکھنے سے‬
‫ہی اس کو خوف آئے لگا تھا جبکہ دامیر کو وہ تھبک سے دنکھ نہیں نانی تھی ک نونکہ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪15 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر کا وخود رنان کے ننجھے تھا اور چہرہ تھی اندھیرے میں تھا لبکن اس کے ہاتھ پہ‬
‫نہنی انگوتھی وہ دنکھ جکی تھی۔‬
‫”مجھے نہاں سے جانا جا ہنے ان لوگوں کا کونی تھروسہ نہیں کب کس کو مار‬
‫دیں۔“ وہ گ ھیراہٹ سے پڑپڑانی اور ا ننے نال نشت پہ نک ھیرنی ہونی انک تظر ا ننے‬
‫ن‬ ‫ُ‬
‫لباس کو دنکھا۔ گہرا شانس تھر کے وہ ناہر تکلی اور نبا ان دوبوں کی جانب د ھے وہ‬
‫ک‬
‫ز ننے اپرئے لگی۔ وی آنی نی نارنی اتھی نک ا ننے عروج پہ تھی۔ لوگ ناہوں میں‬
‫ناہیں ڈالیں چھوم رہے تھے۔ ہلکا م نوزک جل رہا تھا اس کی نانسنت ننچے والے بورشن‬
‫میں زنادہ شور تھا۔‬
‫کلب سے ناہر تکلنے اس ئے گہرے شانس ت ھرے اور کنب کا ان یطار کرئے‬
‫ت‬ ‫ت‬‫م ن‬
‫لگی۔ کنب کے آئے پہ وہ اس یں ھی ا نے ہو ل لڈ گ کی طرف رواپہ ہو نی۔‬
‫گ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ہ‬‫م ن‬
‫ا ننے روم یں نے اس ئے شب سے لے نیروں کو گولڈن ل سے آزاد کبا۔‬
‫ج‬‫ن‬
‫اس ئے خود کو ستتھا لنے ہی اننی دوشت کا نمیر ڈانل کبا۔‬
‫”نمہیں مغلوم میں ئے آج کس کو دنکھا؟“ علتبا ئے عحلت میں کہا‪ ،‬دوسری‬
‫جانب موخود لڑکی ہلکا شا ہٹس دی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪16 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”پہ پہ کہبا کہ تم ئے ا ننے نسبدندہ انشان کو دنکھ لبا۔“ اس کی دوشت ئے‬


‫خڑانا جاہا چب علتبا ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”ہاں اور دوبوں کو دنکھا۔ تھبک سے میں ئے رنان کو دنکھا‪ ،‬دامیر تظر نہیں آنا‬
‫مجھے۔ انک لمچے کو میرا دل کبا کہ جا کے ان کو خوب ماروں لبکن رنان کی تظریں ہی‬
‫میری آدھی جان تکال گنیں تھی۔“ اس ئے انک ہی شانس میں شب نبا دنا۔ رنان‬
‫کی سرد گرے آنکھوں کو ناد کرئے جشم میں سٹسباہٹ دوڑ گنی۔‬
‫”تم ئے کجھ کہا ان کو۔۔؟“ دوشت ئے نحسس سے بوچھا۔‬
‫”میں کبا کہنی‪ ،‬ان کو شا منے دنکھ کے مجھے میری موت تظر آرہی تھی‪ ،‬ا نسے‬
‫ک‬‫ت‬ ‫م ً‬
‫قا نلوں سے دور ہی رہبا جا ہنے کبا نبا کب ان کو دورہ پڑ جائے اور مار دیں یں فورا ل‬
‫آنی تھی وہاں سے۔“ علتبا منہ نبائے بولی اور نالوں کو اننی ہاتھ کی اتگلی سے گھمائے‬
‫لگی۔‬
‫انک دو مزند نات کرئے اس ئے راتطہ جتم کبا اور جتنج کرئے جلی گنی۔‬
‫کجھ دبوں کے لنے وہ روس آنی تھی اور آج بور نت کا اجشاس دور کرئے رات کو‬
‫کلب جلی آنی‪ ،‬ننچے لڑکوں لڑک نوں کا ہال گال دنکھنے وہ اوپر والے بورشن میں آگنی خو اتھی‬
‫جالی محسوس ہو رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪17 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫تھوڑی دپر گزرئے کے تغد ہی وہاں پہ انک فتملی آگنی جن کی شاند بوکبگ کی‬
‫گنی تھی اسی لنے خود وہ انک صوفے پہ نک گنی۔‬
‫اتکل کا مٹسج آئے ان سے نات کرئے لگی شاتھ ہی دوشت کے شاتھ کال پہ‬
‫مصروف ہو گنی چب اس ئے خود پہ کسی کی تظروں کو محسوس کبا تھا۔‬
‫اس ئے دامیر اور رنان کے نارے میں شن رکھا تھا۔ وہ دوبوں اس وفت کے‬
‫نہیرین اشاشن )‪(Assassin‬مائے جائے تھے۔ دامیر شونبگ میں انبا رتکاڑد قاتم کر‬
‫گبا تھا جبکہ رنان سبکبڈز میں مقانل کو ڈھیر کر شکبا تھا۔ دوبوں ئےرچم قا نل تھے۔‬
‫اس ئے چب سے قانتبگ اکبڈمی خواین کی تھی نب سے وہ رنان اور دامیر کے‬
‫نارے میں ستنی آنی تھی اور کجھ تھی اچھا نہیں سبا تھا۔‬
‫رنان کو بو وہ اس وجہ سے نہحان گنی تھی ک نونکہ اکبڈمی میں کسی فبکشن میں‬
‫رنان کی تصوپر موخود تھی جبکہ دامیر اس کے لنے اتھی پردے میں ہی تھا۔‬
‫پہ نات شب جا ننے تھے کہ دامیر اور رنان انک شاتھ ہی نائے جائے تھے۔‬
‫دامیر اشاشن ہوئے کے شاتھ شاتھ رنان کا کئیر تھی تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪18 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نتبد پہ آئے کی وجہ سے وہ کاقی دپر ان کو ہی شوجنی رہی تھی۔ خود تھی وہ‬
‫انحائے میں اس دوسری دنبا کا حصہ ین گنی تھی چہاں کسی کو مارنا مشکرائے کے‬
‫پراپر سمجھا جانا تھا۔‬
‫س‬
‫اس ئے ڈ تقنٹس کا ڈ نبارنمنٹ خواین کبا تھا‪ ،‬لوگوں کو مارنا‪ ،‬نبا شوچے ھے ان‬
‫ج‬‫م‬
‫کو کحل د نبا اس شب سے تفرت تھی اسے۔ چب سے مغلوم پڑا تھا کہ دامیر اور رنان‬
‫ئےرچم قا نل ہیں‪ ،‬ان کے نام سے تھی تفرت ہوگنی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫”مجھے انل اے میں پراپرنی کے کجھ کام ہیں وہاں جانا ضروری ہے بو اتھی کونی‬
‫کانیرنکٹ نہیں لے رہا میں۔“ اتکل مبکس ان کے شا منے نتتھے تھے چب کونی نات‬
‫سروع ہوئے سے نہلے ہی دامیر ئے سنجبدگی سے کہا۔‬
‫”کانیرنکٹ نہیں ہے لبکن انک جاب ہے۔۔!“ انہوں ئے گہرا شانس تھرئے‬
‫کہا۔‬
‫”ہماری جاب نہی ہے۔۔“ رنان ئے جٹسے ناد دالنا بو مبکس ئے انبات میں سر‬
‫ہالنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪19 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے دامیر جا ہنے‪ ،‬اپز آ کئیر۔۔۔“ مبکس کی نات ستنے چہاں دامیر خوتکا وہاں‬
‫رنان کے ما تھے پہ جال نبا۔‬
‫”لبکن انک وفت میں‪ ،‬میں آپ دوبوں کو کٹسے دنکھوں گا؟“ دامیر ئے صوفے‬
‫سے تھوڑا آگے ہوئے کہا۔ وہ رنان کا کئیر تھا اور اس کو اکبال چھوڑئے کا مطلب تھا‬
‫ا ننے آپ سے عداری کرنا۔ انک وفت میں وہ مبکس اور رنان کے شاتھ نہیں رہ شکبا‬
‫تھا۔‬
‫”آقکورس مجھے تم جا ننے بو رنان کے کانیرنکٹ کو جتم ہونا ہو گا۔“ مبکس کی‬
‫نات پہ چہاں رنان مشکرا دنا وہاں دامیر ہٹس دنا۔ رنان ئے التف ناتم کے لنے دامیر کو‬
‫انبا کئیر رکھا تھا۔ پہ نات ان کی دنبا میں شب جا ننے تھے۔‬
‫”آپ کو نبا ہے میری فٹس کا۔۔ نہت مہ یگا نانت ہوئے واال ہوں۔“ دامیر ئے‬
‫ان کو ڈرانا جاہا۔‬
‫”کونی ئےوفوف ہی ہو گا خو نمہیں جائے تغیر تم پہ ہاتھ ڈالے۔۔“ مبکس ئے‬
‫آنکھوں میں سبانش لنے کہا۔ مطلب پہ تھا کہ وہ اس کی قانلنت سے ا چھے سے‬
‫وافف تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪20 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”بو مور ئےنی سنتبگ۔۔۔“ رنان ئے دامیر پہ طیز کبا جس پہ وہ رنان کو شاطر‬
‫مشکراہٹ سے دنکھنے لگا۔‬
‫”چہتم نک ننجھا نہیں چھوڑئے واال میں۔“ دامیر ئے جبانا۔ رنان کی آنکھوں میں‬
‫اس کے لنے انبان نت پڑھ گنی۔‬
‫”پہ لڑکی ہے۔۔۔“ مبکس ئے انک تصوپر اننی ج نب سے تکالے دامیر کے آگے‬
‫رکھی جس پہ اس ئے تظر ڈالے نبا ہی مبکس کو دنکھبا سروع کر دنا۔‬
‫”آپ جا ننے ہیں‪ ،‬ونی ڈانٹ ِکل وومن۔۔“‬
‫)‪(We don’t kill women‬‬
‫دامیر کے لہچے میں سرد ین چھلک پڑا۔ اسے لگا کہ خود کی حقاظت کے لنے لڑکی‬
‫کو مارنا ہو گا۔‬
‫”اس کو اشاشن نہیں کرنا‪ ،‬تم اس کو گارڈ کرو گے میری جگہ۔۔“ مبکس ئے‬
‫اننی نات پہ زور د ننے ہوئے کہا۔‬
‫”آپ مجھے انک انحان لڑکی کے لنے ہاپر کر رہے ہیں۔ ک نوں؟“ دامیر ئے الجھ‬
‫کے بوچھا۔‬
‫”تم کب سے وخوہات جا ننے لگے دامیر؟“ مبکس ئے نمسجراپہ لہچے میں بوچھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪21 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہم وجہ دنکھ کے ہی انبا کام کرئے ہیں ورپہ وفت ہمارے لنے نٹشا ہے۔“‬
‫دامیر ئے ان کو سنجبدگی سے ناور کروانا جس پہ وہ ہاتھ سرنڈر کے انداز میں نلبد کر‬
‫گنے۔ انداز انشا تھا کہ وہ ان کا وفت پرناد پہ کریں۔‬
‫”اوکے اوکے۔۔“‬
‫ت‬‫تھ‬
‫”انحان نہیں ہے‪ ،‬چی ہے میری۔ یں جاہبا ہوں کہ میری غیر موخودگی یں‬
‫م‬ ‫م‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫پہ محفوظ رہے۔“ مبکس ئے ان کو نبانا بو دوبوں کی آ کھیں چیرت سے کھل گنیں۔‬
‫لک‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫س‬
‫”آپ کی نچی! کب سے؟“ رنان ئے نا ل نجبدگی سے بوچھا جبکہ دامیر کے‬
‫ہون نوں پہ مشکراہٹ رنبگ گنی۔ مبکس ئے اسے گھورا۔‬
‫”میں ئے اسے اس دنبا سے چھبا کے ہی رکھا تھا لبکن اب وہ اننی صد کی وجہ‬
‫سے شب کے شا منے آگنی ہے اور اس کی جان کا میں حظرہ مول نہیں لے شکبا۔“‬
‫ان کی وصاچت پہ دوبوں ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”کونی اور ر سنے دار بو نہیں آپ کا نبا‪ ،‬نس نہی ہے؟“ رنان ئے تھر سنجبدگی سے‬
‫بوچھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪22 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہے انک اور لبکن اس کی قکر نہیں‪ ،‬دامیر میں جاہبا ہوں تم کراؤنڈ ہبڈ جلے‬
‫جاؤ چب نک اس کی پرنتبگ جتم پہ ہو اس کے ناس ہی رہو۔“ مبکس ئے صوفے‬
‫سے نبک لگانی‪ ،‬دامیر کو نبائے کے تغد وہ کجھ ہلکا محسوس کر رہے تھے۔‬
‫”کراؤنڈ ہبڈ! آپ جا ننے ہیں چب نک وہ وہاں موخود ہے نب نک وہ محفوظ ہے۔‬
‫ً‬
‫اسے کسی پرونبکشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہاں آکشن کے فورا تغد یں اس کا کئیر‬
‫م‬
‫رہوں گا۔“ دامیر ئے شو جنے ہوئے کہا کہ اکبڈمی میں جاہے ہر قشم کے مجرم پرنتبگ‬
‫کے لنے جائے تھے لبکن وہاں کے اصول کے مطابق کونی کسی پہ چملہ نہیں کر‬
‫شکبا تھا۔‬
‫”وہ ہماری طرح نہیں ہے‪ ،‬اس کے لنے شب نبا ہے کونی تھی اس کو‬
‫اسیعمال کر شکبا ہے۔“ مبکس کے لہچے میں قکرمبدی تھی۔‬
‫دامیر ئے انک تظر رنان کو دنکھا خو اس مغا ملے میں نہیں بوال تھا۔‬
‫چب سے وہ اکبڈمی سے تکلے تھے‪ ،‬آکشن والے دن سے وہ رنان کے شاتھ تھا‪،‬‬
‫اس کا کئیر تھا۔ دامیر اس کو کتھی اکبال نہیں چھوڑئے واال تھا‪ ،‬رنان جانبا تھا کہ اننی‬
‫جان سے زنادہ وہ اس کی جان کی پرواہ کرنا تھا۔ دوشت سے زنادہ تھانی مانبا تھا اس‬
‫کو۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪23 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں رنان کو اکبال نہیں چھوڑ شکبا۔۔“ دامیر ئے گہرا شانس ت ھر کے کہا جس پہ‬
‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫رنان ئے آ یں ھما یں۔‬
‫”کم آن! اب کسی اور کو ئےنی شٹ کر لو۔ نمہیں لگبا کہ کونی میری طرف قدم‬
‫اتھائے گا؟“ رنان ئے اکباہٹ تھرے لہچے میں کہا۔‬
‫”کسی میں اننی ہمت نہیں لبکن میں نمہارا رشک نہیں لے شکبا۔“ دامیر ئے‬
‫تھی دوبوک انداز میں کہا تھا۔‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ت ُ‬
‫” م اس پہ ظر بو رکھ ہی کنے ہو نا‪ ،‬اس کی پرنتبگ م ہوئے ہی نہاں لے آنا‬
‫میں اس کی شفتبگ کا ان یطام کر دوں گا۔“ مبکس ئے درمباپہ رشنہ تکاال جانبا تھا کہ‬
‫دامیر کسی فتمت تھی رنان سے دور نہیں جائے واال تھا۔‬
‫”گو قار اِ ٹ‪ ،‬مجھ سے دور جائے کا موفع نمہیں نار نار نہیں ملبا۔“ رنان ئے‬
‫سنجبدگی سے کہا بو دامیر تقی میں سر ہالئے لگا۔‬
‫”تھبک ہے۔ تھر ہمیں تھی جائے کی نباری کرنی ہو گی۔“ دامیر آخر ان کی‬
‫نات ما ننے ہوئے بوال۔‬
‫”ہمیں سے مراد؟“ رنان ئے آنکھوں میں سرد ین لنے بوچھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪24 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں اور تم‪ ،‬تم مجھے اننی جانداد تھی دے لو نب تھی میں نمہاری شانبڈ نہیں‬
‫چھوڑئے واال۔“ دامیر سنجبدگی سے کہا اور کنچن کاؤنیر کی طرف گبا ناکہ ڈپر کی نباری کر‬
‫شکے۔‬
‫”نتمنٹ نمہیں رنسنو ہو جائے گی۔۔“ اتکل مبکس ان سے ملنے ہوئے جلے‬
‫گنے۔ نانچ منٹ میں ہی دامیر کا مونانل ن نپ کبا خو نتمنٹ پرانسفر ہوئے کا‬
‫ی‬
‫بون قبکٹشن شو کروا رہا تھا۔‬
‫”کانیرنکٹ ملنے کی خوسی میں زہر پہ مال د نبا اندر۔۔“ رنان شک نورنی کی طرف جانا‬
‫ہوا سباٹ لہچے میں بوال کہ دامیر اقسوس میں سر ہالنا رہ گبا۔‬
‫اتکل مبکس کی دی گنی اتقارمٹشن وہیں نتبل پہ پڑی تھی جس کو دوبوں ئے‬
‫دنکھبا گوارا نہیں کبا تھا نا شاند رنان دنکھ حکا تھا۔‬
‫دامیر کا مونانل تھر سے نجنے لگا۔‬
‫”دامیر آر!“ دامیر ئے مصروف انداز میں کہا‪ ،‬دوسری جانب ڈرنک تھا۔‬
‫اس کی نات ستنے اس کے ما تھے پہ ناگواری کے نل واصح ہوئے۔‬
‫”ان کی لوکٹشن جبک کرئے رہو۔“ دامیر ئے جبا کے کہا اور فون نبد کرئے‬
‫کاؤنیر پہ رکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪25 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”البانین ئے نہاں قدم رکھ لنے ہیں۔“ کھائے کے دوران دامیر ئے اس کو‬
‫نبانا۔‬
‫”مجھے نس موفع جا ہنے تھا ان کو جتم کرئے کا وہ انہوں ئے خود دے دنا۔“‬
‫دامیر ئے شاطر مشکراہٹ لنے کہا کہ رنان ئے سر ہالنا۔‬
‫جت م ُ‬
‫”دنبا میں کتھی کسی سے اننی تفرت نہیں کی نی یں اس ا گرون سے کرنا‬
‫ن‬
‫ہوں۔ اگر وہ میرے شا منے آجائے خو نبا کسی دپری کے اس کا سر ین کے جدا کر‬
‫دوں۔“ رنان ئے آنکھوں میں عصہ لنے کہا۔‬
‫”دو دن تغد اگر وہ نہاں سے نہیں گنے بو جبگ کا اعالن واصح ہے۔“ دامیر‬
‫ئے کھائے سے ہاتھ روکے کہا۔ رنان سمجھ گبا تھا۔‬
‫روس ان کا تھا‪ ،‬دوسرے مافبا کے لوگوں کا نہاں آنا نبد تھا۔ کسی تھی‬
‫مغاہدے کے نبا وہ نہاں قدم نہیں رکھ شکنے تھے۔ ڈرنک ئے دامیر کو نبانا کہ وہ ان‬
‫کے عالفے میں د نکھے گنے خو کالج گنٹ کے ناہر ہیروین سمگل کر رہے تھے۔‬
‫انگرون البانبا مافبا کا ہبڈ تھا خو سمگلبگ اور ہ نومن پرتقکبگ کرنا تھا۔‬
‫کونی تھی مافبا کسی دوسرے کی رناشت میں دجل اندازی نہیں کر شکبا تھا ورپہ‬
‫ان کے درمبان جبگ ہونی۔ دامیر اور رنان اس کے کام کی وجہ سے تفرت کرئے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪26 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫تھے لبکن چب نک وہ نہاں دجل اندازی پہ کرنا ان دوبوں کو اس سے کونی سروکار‬


‫نہیں تھا لبکن اب جبکہ اس کے آدمی نہاں د نکھے گنے تھے بو ان کا خون کھول اتھا‬
‫تھا۔‬
‫”ہمیں کل صنح نک تکلبا ہو گا گرنس کے لنے۔ نمہارا کانیرنکٹ سروع ہو حکا‬
‫ہے۔“ رنان ئے اس کو ناد دالنا بو دامیر سر چھبک گبا۔‬
‫”زپردسنی کا کانیرنکٹ۔۔۔!“ وہ پڑپڑانا۔‬
‫”م یع کر د ننے۔“ رنان ئے مونانل تکا لنے اس پہ دنکھنے سنجبدگی سے کہا بو دامیر‬
‫اس کو ‘تم مزاق کر رہے ہو’ والی تظر سے بوازا۔‬
‫رنان ئے تظریں محسوس کرئے کبدھے احکائے۔‬
‫”انہوں ئے ہمیں ستتھاال ہے وہ ہمارے گارڈین رہ جکے ہیں۔ ان کا اجشان تھا‬
‫پہ‪ ،‬اب بورا ہو جائے گا۔“ دامیر ئے نتبل صاف کرئے ہوئے کہا۔ رنان ئے تگاہیں‬
‫اس کی جانب کیں۔‬
‫سباہ پراؤزر سرٹ نہنے اس ئے اننی گن تکالے شانبڈ پہ رکھی اور کنچن کاؤنیر‬
‫سمنتنے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪27 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مانی ہالف گرل فرنبڈ۔“ رنان ئے آنکھ دنانی اور کہنے ہوئے وہ آرمری میں جال‬
‫گبا۔ جائے سے نہلے وہ شب جبک کرنا جاہبا تھا۔ انشا ممکن ہی نہیں تھا کہ دامیر اس‬
‫کو شاتھ لنے نبا تکلبا۔ مرئے پہ تھی آنا ہونا بو دامیر اس کو گھسنتنے ہوئے لے جانا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫کراؤٹڈ ہ یڈ اک یڈمی‪:‬‬
‫نین میزلہ خوتصورت انک محل کی طرح نبار کردہ انک پرنتبگ سنئیر تھا چہاں‬
‫ت‬
‫مجبلف خراتم سے خڑے لوگ اننی ننی نشل کو پرنتبگ کے لنے ھنجنے تھے۔ اس‬
‫ہ‬ ‫ک‬‫ب‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ق‬‫ت‬
‫اکبڈمی میں کسی تھی ملک سے لوگ آشکنے تھے خواہ وہ انبا ڈ ٹس ھبا جا نے ہوں‪،‬‬
‫فبل کرنا‪ ،‬لڑنا نا تھر سمگلبگ کرنا۔‬
‫پہ خراتم کی دنبا کا ن نوپرل گراؤنڈ تھا‪ ،‬نہاں کا اصول تھا کہ خو تھی اس اکبڈمی‬
‫میں موخود ہے وہ جاہے مقانل کا کتبا تھی پرانا دسمن ک نوں پہ ہو‪ ،‬اس اکبڈمی میں‬
‫موخود ہوئے انک دوسرے کو جان سے مار نہیں شکنے تھے لبکن اگر وہ لڑانی کرئے‬
‫تھے بو اس پہ کونی روک بوک نہیں تھی الننہ جان سے مار د نبا اکبڈمی سے جبگ مول‬
‫لتنے کے پراپر تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪28 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نانٹس شال کی عمر میں دامیر اور رنان ئے نہاں سے آشاشن کی پرنتبگ لی تھی‪،‬‬
‫دامیر ئے خود کو کئیر تعنی نبگران کے طور پہ رنان کے شاتھ رکھا تھا۔‬
‫نبدرہ شال کی عمر سے وہ انک دوسرے کے شاتھ تھے اور دوبوں کو اننی جان‬
‫سے زنادہ دوسرے کی جان کی پرواہ تھی۔‬
‫مبکس انلی کا مافبا ہبڈ تھا لبکن اس کا رغب ان دوبوں پہ نہیں جلبا تھا۔ ان کا‬
‫کہبا تھا کہ وہ ا ننے عالفے میں مافبا ہبڈ ہو نگے جبکہ روس میں ان کی جکومت نہیں‬
‫تھی۔‬
‫چب کتھی ان دوبوں کا کانیرنکٹ گرنس میں ہونا وہ بوگ کراؤنڈ ہبڈ میں ضرور‬
‫آئے لبکن اس نار وہ دو شال تغد نہاں آرہے تھے۔‬
‫آئے سے نہلے انہوں ئے سر جارج کو اتقارم کر دنا ناکہ ان کے لنے روم نبار‬
‫ر ہنے۔ نہاں ر ہنے کی تھی انک تھاری فتمت ادا کرنا پڑنی تھی۔‬
‫اننی انس بو وی سے تکلنے ان دوبوں ئے انکڈمی کی زمین پہ قدم رکھا۔ ناہر سے‬
‫دنکھنے پہ پہ انک وزنتبگ ہاؤس ہی لگبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪29 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اتھی پرنتبگ سٹشن سروع ہو حکا تھا نتھی گراؤنڈ میں ا ننے لوگ تظر نہیں آرہے‬
‫تھے۔ دامیر ئے انک گارڈ کو نبگز اندر لے جائے کو کہا اور وہ خود دوبوں سر جارج کے‬
‫آقس کی طرف پڑھ گنے۔‬
‫”امبد ہے تم دوبوں کا شفر اچھا رہا ہو گا۔“ سر جارج ان کو دنکھنے مشکرا کے‬
‫بولے۔ رنان ئے نس سر ہالنا اور دوبوں ئے اننی نسشت ستتھالی۔‬
‫”جٹسے آپ کو نبانا تھا کہ ہم نہاں انک ولتننئیر کے لنے آئے ہیں۔ اس کے‬
‫نارے میں اتقارمٹشن جا ہنے تھی۔“ دامیر ئے گال کھ یگا لنے اننی نات کہبا سروع کی بو‬
‫سر جارج ئے انبات میں سر ہالنا جبکہ رنان کا دھبان نس کھڑکی سے ناہر تھا۔‬
‫”اتقارمٹشن! آپ جا ننے ہیں کہ اتقارمٹشن انک اچھی چیز نہیں ہے۔ فتمت حکانی‬
‫پڑنی ہے۔“ سر جارج ئے کجھ معنی چیز سے کہا بو دامیر مبہم شا مشکرانا۔‬
‫”میں جانبا ہوں مغلومات بو آپ لے ہی جکے ہو نگے مبکس ل نو سے لبکن خو آپ‬
‫جانبا جا ہنے ہیں وہ بو۔۔۔“ سر جارج ئے مزند اننی نات کہی بو دامیر ئے انک تظر رنان‬
‫کو دنکھا خو خود ان کی نات پہ سرد تگاہوں سے سر جارج کو ہی دنکھ رہا تھا۔‬
‫دامیر ئے مونانل تکالے تھاری رقم اکبڈمی کے اکاؤنٹ میں پرانسفر کی‪ ،‬مونانل‬
‫وانس رکھا اور ان کو دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪30 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اب نبا ننے۔۔“ مٹسج ن نپ ہوئے ہی دامیر ئے کہا بو سر جارج ئے ان کو نبانا‬


‫سروع کبا۔‬
‫”مبکس ل نو کو پہ نات نہیں مغلوم لبکن اکبڈمی میں ہوئے ہوئے انک نار علتبا‬
‫پہ انبک کرئے کی کوشش کی جا جکی ہے۔ میرے گارڈ ئے پروفت اس کی حقاظت‬
‫کر دی لبکن اس کا شورس نبا پہ جل شکا۔“ سر جارج کے نبائے پہ دامیر کے ما تھے‬
‫پہ ن نوری خڑھی۔‬
‫”اور پہ نات کتنی پرانی ہے؟“ دامیر ئے سنجبدگی سے بوچھا۔‬
‫”چب وہ اکبڈمی میں آنی اس کے دو ہقنے تغد ہی۔ مبکس ل نو ئے نبانا کہ وہ اس‬
‫مافبا دنبا کی نہیں‪ ،‬وہ خود تھی نہیں جاننی کہ وہ انک مافبا پرنسس ہے۔ انبا شوق بورا‬
‫کرئے خود کو وہ حظرے میں ڈال جکی ہے۔ شاند کونی اس کے ان یطار میں نہلے ہی‬
‫م‬ ‫س‬
‫نتتھا تھا۔“ جارج کے کہنے پہ دامیر ئے ھنے سر ہالنا اور دوبوں اتھ کھڑے ہوئے۔‬
‫ج‬
‫آقس سے ناہر آئے وہ گٹشٹ شانبڈ پہ جائے لگے چہاں پہ ان کی رہانش کا‬
‫ان یطام کبا گبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪31 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہیں لگا تھا کہ پہ نس لڑکی کو دنکھنے کا کام ہو گا لبکن مجھروں ئے نمہیں‬


‫شکون سے نتتھنے نہیں دنا۔ چچ چچ!“ رنان ئے شاتھ جلنے نمسجراپہ لہچے میں کہا جس پہ‬
‫دامیر ئے سر دانیں ناہیں ہالنا۔‬
‫”تم اگر شاتھ پہ ہوئے شکون مجھے نب تھی پہ ہونا۔“ دامیر ئے جبانا کہ رنان‬
‫ئےشاچنہ قہقہہ لگا اتھا۔‬
‫”کونی انک عام سی لڑکی کے ننجھے ک نوں ہو گا؟“ دامیر ئے اننی جبکٹ انارئے‬
‫کاؤچ پہ رکھی۔ رنان الپرواہ انداز میں نبڈ پہ نتتھا تھا۔‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫”وہ عام لڑکی نہیں ہے‪ ،‬مبکس ل نو کی نچی ہے۔“ رنان ئے ناد کروانا۔‬
‫”ہاں لبکن اگر کسی کی مبکس کے شاتھ دسمنی ہو گی تھی بو وہ انلی میں جبگ‬
‫چ ھیڑے گا۔ علتبا بو اتھی تھبک سے م یظر عام پہ آنی ہی نہیں۔“ دامیر ئے کہا اور‬
‫نبگ سے کیڑے تکالے سنٹ کرئے لگا۔‬
‫”اس دنبا میں‪ ،‬دسمن ہمٹشہ ہماری فتمنی چیزوں پہ وار کرنا ہے۔“ رنان کے‬
‫القاظ دامیر کو شوچ میں ڈال گنے۔‬
‫”شکر ہے کہ ہمارے شاتھ کونی لڑکی نہیں خڑی۔“ رنان ئے گہرا شانس‬
‫تھرئے ہوئے کہا جس پہ دامیر ئے نانبد کرئے سر ہالنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪32 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”انشا کتھی نہیں ہو گا کہ تم سے انبا دھبان ہبائے کہیں اور بوجہ دوں۔“ دامیر‬
‫ئے انک عظم سے کہا جس پہ رنان کو فجر محسوس ہوا۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫”تم ئے علتبا کی ربورٹ د ھی!“ رنان ئے ناد آئے پہ بوچھا جس پہ دامیر ئے‬
‫انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”سر جارج کبا میں علتبا سے اتھی مل شکبا ہوں؟“ دامیر ئے نبڈ پہ نتتھنے‬
‫ہوئے کہا‪ ،‬پرنتبگ سٹشن کا شو جنے اس ئے ہہلے اجازت جاہی۔‬
‫”علتبا آج کل اکبڈمی سے ناہر ہے۔ انک دو دبوں وانس آجائے گی شاند۔“‬
‫انہوں ئے اطالع دی بو دامیر کے ما تھے پہ نل نمودار ہوئے۔‬
‫”اتکل مبکس ئے اس نارے میں نہیں نبانا تھا۔“ دامیر کو شو جنے عصہ شا‬
‫آئے لگا کہ وہ انک لڑکی کے لنے نہاں آنا تھا اور وہ نہاں تھی ہی نہیں۔‬
‫اس ئے مونانل نبد کرئے شانبڈ پہ رکھا اور فرنش ہوئے جال گبا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪33 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چہرے پہ ماشک خڑھائے اس ئے گہرا شانس تھرا‪ ،‬ہاتھوں میں دسبائے تھبک‬
‫کنے اور نشت کے ہولڈر سے اننی گن تکالی۔ اس وفت وہ انک جار میزلہ عمارت کے‬
‫نیرس پہ موخود تھی۔‬
‫دوبوں ہاتھوں میں اننی نسنول تھامی اور نشاپہ ناندھا خو شا منے کجھ فٹ کے قاصلے‬
‫پہ موخود تھا۔ رات کی سباہی میں وہ اس کا حصہ ہی لگ رہی تھی۔‬
‫شا منے گالس دوڑ کے نار انک آدمی سراب کے نسے میں اننی نانی انار کے اننی‬
‫سرٹ کے نین کھول رہا تھا۔ ا ننے قدم اس ئے نبڈ کی جانب کنے چہاں انک نبدرہ‬
‫ن‬ ‫س‬
‫شالہ لڑکی ہمی ہونی تتھی تھی۔ اس نچی کو دنکھنے اس ئے دانت کحکائے اور اننی‬
‫گرفت نسنول پہ سحت کی۔‬
‫جٹسے ہی وہ آدمی گالس وال کے نالکل شا منے آنا اس کی شانلنٹسر لگی نسنول‬
‫سے گولی تکلی اور جا کے اس آدمی کی گردن پہ لگی۔ اس کو آواز تکا لنے کا تھی موفع‬
‫نہیں مال تھا اور وہ دھڑام سے زمین پہ گر پڑا۔‬
‫چنہ ئے مشکرائے ل نوں سے انک پرشکون شانس جارج کی اور جلدی سے نانپ‬
‫کی مدد سے ننچے اپرئے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪34 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس سے نہلے کہ نچی ڈر کے مارے وہاں سے تھاگ کے ناہر والی درندوں میں‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫س‬‫ٹ‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫نی چنہ اس نک نجبا جا نی ھی۔‬
‫سباہ بوٹ نہنے اس کو اپرئے میں آشانی ہونی اور دوسری میزل کی نالکنی میں‬
‫آئے اس ئے شا منے کجھ قاصلے کی نلڈنگ کی نالکنی میں چھالنگ لگانی۔ چھالنگ‬
‫لگائے سے اس کے ناؤں پہ زور پڑا کہ انک درد کی تھٹس سی اتھی لبکن اس کے‬
‫لنے پہ معمولی تھی۔‬
‫اس ئے دعا کی گالس دوڑ کو الک پہ لگا ہو۔ نسنول کو ہولڈر میں رکھنے اس ئے‬
‫دھکبلنے کی کوشش کی بو وہ کھل گبا۔‬
‫”او شکر۔۔“‬
‫آواز پہ نچی ئے سہم کے گالس دوڑ کی طرف دنکھا چہاں سے چنہ اندر داجل ہونی‬
‫تھی۔ کجھ اس آدمی کے مرئے پہ وہ شقبد پڑ جکی تھی اب چہرہ انشا تھا جٹسے اس ئے‬
‫موت کا فرشنہ دنکھ لبا ہو۔‬
‫چنہ ئے ناؤں کی مدد سے آدمی کی گردن کو دانیں نانیں ہالنا وہ مر حکا تھا۔ اس‬
‫کی اننی تھی اوقات نہیں تھی کہ چنہ اس کو چھو کے ا ننے ہاتھ مبلے کرنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪35 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫” ہنے لبل گرل‪ ،‬تم اب سنو ہو۔۔“ اس ئے لڑکی کی طرف پڑ ھنے دوسباپہ لہچے‬
‫میں کہا اور جلدی سے اس ال ہاتھ تھاما۔‬
‫”ہمیں نہاں سے جانا ہو گا‪ ،‬جلدی سے آؤ۔۔“ اس کا ہاتھ تھام کے دروازے‬
‫کی طرف آنی اور اننی گن ستتھالی۔‬
‫”کجھ تھی ہو جائے تم ئے میرے ننجھے ہی رہبا ہے۔ اور خو میں کہوں گی وہ‬
‫کہبا ہے۔“ چنہ ئے لڑکی کو سمجھانا جس پہ وہ جلدی سے انبات میں سر ہالئے لگی۔‬
‫چہاں نک وہ جاننی تھی نہاں اب نس دو گارڈ ہو نگے خو اس آدمی کے شاتھ‬
‫تھے۔ ان کو گرانا آشان ہوگا۔‬
‫گہرا شانس تھرئے اس ئے دروازہ کھوال اور نسنول نانی۔ دروازے کے ناہر کونی‬
‫نہیں تھا الننہ سیڑھ نوں سے قہقہے کی آوازیں آرہی تھیں۔‬
‫تعنی وہ ننچے والے بورشن میں تھے۔‬
‫”میرے ننجھے سے ہتبا نہیں۔“ چنہ کا چہرہ ماشک میں ڈھکا تھا ت ھر تھی نچی اس‬
‫پہ تفین کر رہی تھی۔‬
‫اس ئےآہشنہ سے قدم سیڑھ نوں کی جانب کنے‪ ،‬دو گارڈز نتتھے گالس تھامے‬
‫سراب کے مزے لے رہے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪36 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ دور سے نہیں مارنا جاہنی تھی۔ سیڑھباں جکر کھانی تھیں نتھی وہ دوبوں اس‬
‫کو پہ دنکھ نائے۔ موفع کا قاندہ اتھائے چنہ ئے نہلے انک کا نشاپہ ناندھا خو سر میں‬
‫گولی لگی۔ دوسرے کا تھی ما تھے پہ نشاپہ لبا۔‬
‫آواز ضرف گالس بو ننے کی اور جٹسے کسی تھاری چیز کے گرئے کی آنی تھی۔‬
‫ن‬
‫ننچے ہنجنے چنہ ئے ہر طرف سے جاپزہ لبا کہ نچی کو کجھ پہ ہو۔ اس کو لتنے وہ‬
‫ن‬
‫مین گنٹ نک آنی اور گاڑی میں لنے تتھی۔ نبا دپری کے وہ اس نلڈنگ کی جدود سے‬
‫تکل آنی۔‬
‫وہ نچی اتھی تھی کجھ نہیں بول نارہی تھی۔ نس جاموش سی شا منے ر سنے کو دنکھ‬
‫ت‬‫ن‬
‫رہی تھی۔ وہ شکون میں اس لنے تھی ک نونکہ جاننی تھی کہ شاتھ ھی لڑکی اس کو‬
‫ت‬

‫تقصان نہیں نہنحائے گی ک نونکہ وہی بو اس کو دردناک چہتم سے تکال کے النی تھی۔‬
‫چنہ ئے انبا ماشک انارا اور نچی کی طرف دنکھا جس کے چہرے پہ واصح خوف کی‬
‫لکیریں ت ھیں۔‬
‫”تم اب محفوظ ہو‪ ،‬کونی کجھ نہیں کہے گا نمہنیں۔ نباؤ نمہارا نام کبا ہے؟“ چنہ‬
‫ئے پرمی سے بوچھا۔‬
‫”النا۔۔“ نچی ئے نس ہلکی آواز میں متمبانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪37 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”النا تم تھبک ہو۔ میں نمہیں انک اچھی جگہ لے جاؤں گی کبا نمہاری کونی فتملی‬
‫ہے؟“ چنہ ئے اس کا ڈر جتم کرئے کے لنے اس کے ہاتھ پہ انبا ہاتھ رکھا لبکن وہ‬
‫ڈر گنی۔‬
‫فتملی کے شوال پہ چنہ ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”کونی نات نہیں تم چہاں جاؤ گی اب وہ نمہاری فتملی ہو گی۔“ چنہ ئے اس کو‬
‫دکھ سے دنکھا اگر وہ تھوڑا تھی لنٹ کرنی بو شاند وہ انک معصوم نچی کو کھو د ننی۔‬
‫تھوڑی دپر میں وہ انک کھلی سی جگہ پہ موخود تھے چہاں انک چھونا شا گراؤنڈ نبا‬
‫تھا اور اس کے آخر پہ انک گیراج جتنی جگہ تھی۔‬
‫چنہ اس نچی کو ا ننے شاتھ النی اور کجھ کوڈز لگا کے دروازہ کھوال۔‬
‫وہ انک مونا شا لوہے کا گنٹ تھا۔ چنہ ئے اندر انک دو اور نین پرنس کنے چب‬
‫دوسرا دروازہ کھال اور انک نٹس شالہ لڑکا ناہر تکال۔‬
‫”شکر ہے تم آگنی۔۔۔“ لڑکے ئے آگے پڑ ھنے چنہ کو ا ننے شاتھ لگانا۔ چنہ‬
‫اس کے خزنانی ین پہ مشکرا دی۔‬
‫”لبام پہ النا ہے النا ہے۔ النا لبام نمہاری مدد کرے گا نمہیں انک اچھی جگہ لے‬
‫جائے میں۔“ لبام سے کہنے وہ النا کی جانب گھومی اور اس سے پرمی سے بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪38 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫النا ئے انبات میں سر ہالنا۔ اس کے نال نکھرے ہوئے تھے چہرے پہ منے‬
‫منے آنسوؤں کے نشان تھے۔ اس نچی ئے وانٹ کلر کا فراک نہبا تھا جس کی آسنین‬
‫تھنی تھیں۔‬
‫ن‬
‫چنہ کا دل نار نار شکر ادا کر رہا تھا کہ وہ وفت پہ ہنچ گنی تھی۔‬
‫”اس کو کھائے کو کجھ دے دو شاند تھوک لگی ہو۔“ چنہ ئے لبام سے کہا‬
‫جس ئے انبات میں سر ہالنا اور خود سبک نورنی کی طرف جال گبا ناکہ گنٹ کا الک جبک‬
‫کر شکے۔‬
‫چنہ خود جتنج کرئے جلی گنی‪ ،‬پراؤزر سرٹ نہنے وہ ناہر آنی اور لبام کو نبانا کہ وہ‬
‫جا رہی تھی۔‬
‫”تھوڑی دپر بو رک جانی میں کھانا لگائے واال تھا۔“ لبام ئے اس کو جائے دنکھا‬
‫لبکن اس ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”نہیں مجھے کسی اور کام سے تھی جانا ہے تم اس کا اور انبا جبال رکھبا جٹسے‬
‫اس کا کہیں ان یطام ہو مجھے اتقارم کر د نبا۔“ چنہ ئے گاڑی کی کیز ناکٹ میں ڈالی‬
‫اور نٹشمنٹ کے گیراج سے اننی گاڑی تکالی خو نہلی گاڑی سے مجبلف تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪39 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫انک عام سہری کی طرح وہ اننی گاڑی میں تکلنی سڑکوں پہ ا نسے ہی تھرئے لگی‪،‬‬
‫چب لگا کہ پہ عالقہ تھبک تھا نتھی ا ننے انارنمنٹ کی طرف گنی۔‬
‫کارنل کی ڈنلتبگ میں چب گنی بو آج انک چھونی نچی کی نبالمی ہونا دنکھ اس‬
‫کے رگوں میں سرارے دوڑئے لگے۔ اس ئے غور سے اس آدمی کو دنکھا خو اس کو‬
‫خرندئے واال تھا۔‬
‫نہاں جٹسی عالموں کی نبالمی ہو رہی تھی‪ ،‬شب سے کم عمر کم شن نج نوں کی‬
‫فتمنیں زنادہ لگنی تھی اور پہ شب دنکھنے چنہ کا دل کبا کہ وہ اس جگہ کو انک ہی تم‬
‫سے اڑا دے۔‬
‫”پہ شب لوگ کون ہوئے ہیں؟“ اس ئے ا ننے شاتھ نتتھے انک سحص سے‬
‫بوچھا تھا۔ خود کو اس ئے وہاں ا نسے طاہر کبا تھا کہ اس کام میں ننی تھی۔‬
‫”پہ شب پزنس مین ہوئے ہیں ا ننے پرنس پہ بور ہوئے پہ پہ شل نوز ا ننے شاتھ‬
‫رکھنے ہیں۔ وفنی رنگنتباں۔“ اس سحص سے کمتبگی سے کہا۔ چنہ ئے مشکرائے کی‬
‫ناکام کوشش کی۔‬
‫اس ئے شاور لتنے کے تغد انبا لنپ ناپ آن کبا اور ڈارک و نب پہ کارنل پہ‬
‫ہوئے والی اگلی ڈنلز کی ڈنٹس دنکھنے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪40 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫زنادہ پر بو ڈرگس اور آرمز ڈنلبگ تھی لبکن اتھی مزند کونی سبل نوری نہیں تھی۔‬
‫اس ئے اقسوس سے النا کے نارے میں شوجا۔ ان کو شکول سے کسی پرپ‬
‫کے نہائے اتھانا جانا تھا اور دوسرے ممالک میں ان کی نبالنی ہونی تھی۔‬
‫چب اس کو پہ نبا جال کہ اس شل نوری کے کاموں میں زنادہ پر پزنس مین ابوالو‬
‫ہوئے تھے اس کو پزنس کی دنبا سے تھی تفرت ہوئے لگ گنی۔‬
‫”نہاں بو انشانی روپ میں فرسنے ننے تھرنی ہیں وہ تھی سیطان سے دو ہاتھ‬
‫آگے ہیں۔“ اس ئے عصے سے شوجا اور لنپ ناپ کو نبد کرئے شانبڈ پہ رکھا۔‬
‫اس کو کل گرنس کے لنے تکلبا تھا۔ جائے سے نہلے وہ لبام سے انک نار مل‬
‫کے تھوڑی نانیں ڈشکس کرے گی ناکہ وہ پرنشان پہ ہو۔‬
‫دن میں آج وہ ماڈلبگ ہاؤس گنی تھی آڈنشن کے لنے‪ ،‬انبا بو وہ کاتقبڈن نٹ تھی‬
‫کہ اس کا سبلبکشن ہو جائے گا لبکن ہوئے نا ہوئے سے اس کو فرق نہیں پڑنا تھا۔‬
‫اس کو تھی دنبا کو دکھانا تھا کہ وہ انک عام لڑکی تھی۔‬
‫اتھی نبکبگ کرئے کا تھی زرا دل نہیں تھا‪ ،‬پرابو نٹ چٹ اس کو لتنے آجائے‬
‫گا وفت پہ اسی لنے قالنٹ کی تھی پرنشانی نہیں تھی‪ ،‬النا کو ناد کرنی شکون سے‬
‫ش‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫آ یں موند نی۔ انک اور پر کون نتبد۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪41 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ن‬
‫”شپ منٹ کا کبا نبا‪ ،‬کب نک ہنچ رہی ہے؟“ رنان ئے دامیر سے بوچھا خو‬
‫ننجبگ نبگ کو ننچ کر رہا تھا۔ اس وفت وہ ہالف شل نوز نہلے ہوئے تھا خو نستنے سے‬
‫تھبگی اس سے جبکی تھی۔ کسرنی جشم واصح تھا۔‬
‫ن‬
‫”آج رات نک ہنچ جائے گی روس نک‪ ،‬علتبا اتھی اتکل مبکس کے شاتھ ہے‬
‫ن‬
‫بو میں شوچ رہا تھا شپ منٹ کی ڈنلوری کے وفت میں وہاں ہنچ جاؤں۔“ دامیر ئے‬
‫چم ناول سے ا ننے چہرے سے نسننہ جشک کبا اور نانی کی بونل اتھائے نتنے لگا۔‬
‫”مطلب تم مجنے چھوڑ کے جائے والے ہو!“ رنان کے چہرے پہ معنی چیز‬
‫مشکراہٹ رنبگ گنی جس پہ دامیر تقی میں سر ہالئے ہٹس دنا۔‬
‫”تم نہاں موخود ہو اور نمہیں خود کے کام ہیں‪ ،‬انبا وفت صا تع کرئے کے لنے‬
‫نمہارے ناس کجھ نہیں ہے۔“ دامیر ئے ناقی کا نانی ا ننے سر پہ گرا دنا اور نالوں میں‬
‫ہاتھ ت ھیرئے لگا۔‬
‫”شام کو میں تکل جاؤں گا‪ ،‬نلین نبار رہے گا اور تھبک کل آدھی رات میں‬
‫نہاں وانس آجاؤں گا۔“ دامیر ئے انبا ارادہ نبانا بو رنان ئے سر ہالنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪42 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬


‫اجانک اس کی آ یں چمک ا یں۔‬
‫”کہیں تم کسی اور جکر میں بو نہیں جا رہے؟“ رنان ئے معنی چیزی سے کہا کہ‬
‫دامیر کے ما تھے پہ نل نمودار ہوئے۔‬
‫”فصول چیزوں کے لنے میں انبا وفت اور نٹشا پرناد نہیں کرنا۔“ اس ئے سنجبدگی‬
‫سے کہا رنان ئے کبدھے احکائے۔‬
‫دامیر ا ننے کہنے کے مطابق پرابو نٹ چٹ میں رسبا کے لنے تکل حکا تھا۔ رنان‬
‫ئے اکبڈمی میں ہوئے اننی سبکورنی جبک کی اور شاتھ ہی ننی آئے والی مغلومات پہ‬
‫غور کبا۔‬
‫اس کو ڈرنک کی طرف سے انک شاکبگ چیر ملی کہ مبکسبکو میں کارنل کی‬
‫ستمنٹ کے لنے خو لڑکباں مگوانی گنی تھیں ان کو نازناب کروا لبا گبا تھا۔ وہ خود سے‬
‫تھاگ نہیں شکنی تھیں اور اننی سبک نورنی میں ان کو نازناب کون کروا شکبا تھا وہ تھی‬
‫ن‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ُ‬
‫س‬
‫اس وفت چب ک کو کے کار ل ہبڈ ئے ا ننے گارڈ الرٹ کنے ہوں۔‬
‫رنان کو دلحسنی ہونی پہ جان کے کہ کسی میں اننی ہمت تھی کہ وہ کارلوس سے‬
‫نکر لے رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪43 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫انگرون اور مبکسبکو کا کارنل ہبڈ کارلوس دوبوں جٹسی عالموں کی نبالمی کرئے‬
‫تھے اور اسی کام سے شب سے زنادہ دامیر اور رنان کو تفرت تھی۔‬
‫ان کا خود کا کام آرمز کی سمگلبگ نک ہونا تھا‪ ،‬انک ہبڈ مافبا سے دوسرے ہبڈ‬
‫مافبا نک کی ڈنلبکگ لبکن چہاں شل نوری کی نات آنی وہاں ان کی نبدوفیں بولنی تھیں۔‬
‫جس کسی ئے تھی اس ستمنٹ کو کنٹشل کروانا تھا رنان داد د ننے نبا پہ رہ نانا‬
‫تھا۔ اس ئے کجھ فوننج کو سرچ کرنا جاہا کہ شاند وہ کونی شوراغ مل نائے لبکن خو‬
‫کونی تھی تھا وہ نہت مجباط ہو کے کام کرنا تھا ک نونکہ ونڈبو میں نس وہ انک شانا ہی‬
‫دنکھ نانا تھا۔‬
‫ا ننے منٹشن کی انک نار شک نورنی جبک کرئے وہ ا نسے ہی اکبڈمی کے پرنتبگ اپرنا‬
‫کو نار کرئے کھلے مبدان میں آگبا چہاں اکیر ان کا شونبگ نٹشٹ لبا جانا تھا۔‬
‫رات کے دو نج رہے تھے اور اتھی گہرا اندھیرا چھانا ہوا تھا۔‬
‫کجھ ا ننے کمروں میں شوئے کو جا جکے تھے اور کجھ کو اس ئے پرنتبگ اپرناز میں‬
‫ہی دنکھا تھا۔‬
‫خونئیرز کو رات دس نچے کے تغد کمرے سے تکلنے کی اجازت نہیں تھی ک نونکہ‬
‫صنح ان کی پرنتبگ نانچ نچے سے ہی سبارٹ ہو جانی تھی۔ نانچ نچے سے چھے نچے نک‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪44 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ان کو جاگبگ کروا کے وارم اپ کبا جانا تھا اور اس کے تغد ان کا ننجبگ سٹشن ہونا‬
‫تھا خو شات نچے نک جلبا تھر شب کو کمروں میں تھنحا جانا ناکہ فرنش کو جائے اور آتھ‬
‫نچے نا سنے کی نتبل پہ شب کا ہونا ضروری تھا۔‬
‫رنان جلنے ہوئے ہال والی شانبڈ پہ آگبا چہاں پرنتبگ جتم ہوئے ہی سرمنی ہونی‬
‫س‬‫ٹ‬‫ن‬
‫تھی جن میں شب نار ٹس کو انک شال کے لنے کانیرنکٹ شاین ہوئے ھے۔‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬‫ن‬

‫رنان ئے اس جگہ پہ کاقی نبدنلی محسوس کی تھی۔ مزند ننی چیزیں نہاں مگوانی گنی‬
‫تھیں۔ ان کو گنے ہوئے تھی بو دس گبارہ شال ہوئے والے تھے۔‬
‫مونانل پہ دامیر کی کال آئے پہ اس کے کان دے لگانا چب اس کو دبوار کے‬
‫شاتھ کونی ہ نولہ گزرنا ہوا تظر آنا۔ دامیر ستمنٹ کلئیر ہوئے کے نارے میں نبا رہا تھا۔‬
‫ت‬ ‫چ‬ ‫م‬‫ک‬‫م‬
‫اس سے نات جتم کوئے رنان کی ل بوجہ اس نولے پہ ہی می ھی خو دبوار‬
‫ہ‬
‫کے شاتھ شاتھ ہی جا رہا تھا۔ اس سباہ رات کا حصہ۔‬
‫رنان کو مغلوم تھا کہ کونی اننی آشانی سے کراؤنڈ ہبڈ کے اندر نہیں آشکبا تھا‬
‫ضرور پہ کونی پرنیر تھا نا کونی سننئیر۔ رنان محو نت سے نکبا گبا۔‬
‫ہ نولہ تھوڑی روسنی میں تکال جس ئے سباہ ہی ڈرنس اپ کر رکھا تھا جٹسے اتھی‬
‫کہیں ڈبونی سے وانس لونا ہو۔ رنان غور نہیں کر نانا کہ وہ لڑکا تھا نا لڑکی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪45 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان اب اس سے جبد فٹ کے قاصلے پہ موخود تھا اور نبا نلکیں چھ یکائے اسی کو‬
‫دنکھ رہا تھا چب اس وخود ئے انبا رخ رنان کی جانب کبا۔ اس کی آنکھوں کے شاتھ‬
‫شاتھ چہرے کے ناپرات تھی پرف نتھر نلے ہو گنے جس پہ مقانل خوتکا۔‬
‫ب‬
‫رنان کی آنکھوں میں ج لنج کے شاتھ انک چمک تھی‪ ،‬اگلے ہی لمچے مقانل ئے‬
‫ا ننے ہولڈر سے گن تکالے رنان پہ نانی۔ رنان ئے آپرو اوپر اتھائے کہ اننی ہمت اس‬
‫ن‬
‫پہ گن نانی جا رہی تھی۔ وہ تھی اننی جگہ سے ہال نہیں تھا البا رنان کی آ کھیں چمکنے‬
‫لگیں۔‬
‫آہٹ پہ چنہ ئے ہاتھ دوسری طرف کرئے قاپر ناندھا اور نشاپہ لتنے ہی اننی گن‬
‫کو ہولڈر میں رکھنے وہ رنان کی جانب لبکی۔ انک نل کو رنان الجھا کہ وہ اس کی طرف‬
‫ک نوں آرہی تھی لبکن اس سے نہلے وہ بوچھبا چنہ ئے اننی متھی نبد کرئے اس کے‬
‫چہرے کا وار لتبا جاہا جس کو رنان ئے پروفت ا ننے سبدھے ہاتھ سے روک لبا۔‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫لک‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ک‬
‫وہ نا ھی سے مقا ل کو د ھنے لگا خو کجھ قاصلے سے بو لڑکی نا ل ھی ہیں لگ‬
‫رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪46 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”لبل لبڈی! کونی مسبلہ ہے کبا؟“ چنہ ئے انبا ہاتھ وانس کھتنحا اور اس کو‬
‫سرد تگاہوں سے دنکھا۔ اس کو وہ نہحان گنی تھی اور نہحاننی تھی کٹسے نا‪ ،‬اکبڈمی کا ہر‬
‫انک انشان جانبا تھا کہ پہ شا منے کھڑا گرے سرد تگاہوں واال رنان تھا۔‬
‫ل‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫چنہ نحائے خواب د ننے کے آ یں ھمائے وہاں سے جائے گی چب انک لڑکا‬
‫ان کی طرف آنا۔‬
‫”گتم کے درمبان میں؟“‬
‫ح س‬
‫پہ لوگ شاند پرنکٹس کر رہے تھے تھنی چنہ اس کو علط س ص ھنے اس پہ وار‬
‫ج‬‫م‬
‫کرئے لو دوڑی تھی۔‬
‫”میرا موڈ نہیں۔“ چنہ نگڑے موڈ سے بولی اور گن اس لڑکے کی طرف اچھالی۔‬
‫انداز صاف تھا جٹسے رنان کے آئے پہ وہ ندمزہ ہونی تھی۔‬
‫رنان کو اس کی جال کجھ الگ سی لگی‪ ،‬پہ لڑکی تھی الگ تھی۔ نہلے بو وہ اس‬
‫کے انداز پہ چیران ہوا تھا وہ جس طرح جسنی دکھا رہی تھی اندھیرے میں لڑکی کہیں‬
‫سے نہیں لگی تھی۔ تھر اس کا انتنت نوڈ!‬
‫رنان کے فرنب آکے تھی وہ گ ھیرانی نہیں‪ ،‬رنان کی تظروں میں انک سبانش‬
‫اتھری۔ لوگ نام شن کے تھی کا نتنے تھے نہاں محیرمہ چملہ کرئے پہ نلی تھیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪47 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ کو جانا دنکھ رنان کے ہونٹ مشکراہٹ میں ڈ ھلے۔‬


‫”رنان تم انک لڑکی سے انمیرنس ہو رہے ہو۔“ رنان ئے خود کو ڈ نبا اور وانس‬
‫ا ننے گٹشٹ نالک کی طرف جائے لگا۔‬
‫انشا بو ممکن نہیں تھا کہ کونی اکبڈمی میں موخود ہو اور رنان اس سے ئےچیر‬
‫اس ئے روم میں جائے نہال کام رنسرچ کا کبا۔‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫”چنہ ل نو! مبکس ل نو کی انک اور چی‪ ،‬انیرستبگ۔“ اس ئے چنہ کے نارے‬
‫ن‬
‫میں جا ننے ہی اتکل مبکس کو کال گھمانی خو دو نبل پہ رنسنو کر لی گنی۔‬
‫”چنہ ل نو! کس سے چھبا رہے تھے آپ اس کو؟“ رنان ئے سبدھا مدعے کی‬
‫نات کی۔‬
‫”وہ چھنی ہونی کتھی نہیں رہی رنان۔ اس کو انبا آپ ستتھالبا آنا ہے۔“ مبکس‬
‫کی آواز گونچی بو رنان کے لب مشکرا د ننے۔‬
‫”پرنتبگ ناتم اس کا اچھا گزرا ہے نہاں۔ پرنسس۔“ رنان ئے کجھ معنی چیزی‬
‫سے کہا کہ مبکس انک لمحہ بول پہ نانا۔‬
‫”اس سے دور رہبا رنان۔“ اس کی آواز میں وارنبگ دی جس پہ رنان قہقہہ لگا‬
‫اتھا۔ رنان ئے فون رکھ دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪48 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ مبکس کی فتملی تھی تعنی ان کی فتملی کا حصہ تھیں۔ انشا نہیں ہو شکبا تھا‬
‫کہ وہ کتھی ان کو تقصان نہنحائے۔‬
‫اس کو چنہ کا انداز ناد آنا جس طرح اس ئے رنان کے ردعمل کی پرواہ کنے نبا‬
‫اس پہ وار کبا تھا۔ وہ قانل تعرتف تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫خوتصورت فرنشڈ انارنمنٹ میں اس ئے قدم رکھا بو اس کو شگار کی مہک محسوس‬
‫ت‬ ‫ک‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ہونی۔ اس ئے نا ھی سے ناہر کھڑے گارڈ کو دنکھا خو شوند بوند تھا۔ نہلے بو ھی‬
‫کتھی تھی اتکل مبکس کے شاتھ گارڈ کو دنکھا تھا۔‬
‫نجھلی نار کی طرح اس نار تھی انارنمنٹ ندال تھا اور خوتصورت تھا۔‬
‫”علتبا۔۔!“ علتبا کے اندر آئے کی اطالع مل جکی تھی‪ ،‬مسفق مشکراہٹ لنے‬
‫وہ اس کی جانب پڑھے۔‬
‫”ہائے اتکل۔۔!“ اس ئے آگے پڑ ھنے خوشدلی سے کہا۔‬
‫”دو دن لگا د ننے تم ئے نہاں آئے میں!“ مبکس ئے مضنوعی ناراصگی سے‬
‫کہا جبکہ علتبا ہورے انارنمنٹ کا جاپزہ لتنے میں مصروف تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪49 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں ئے شوجا کہ میں خود تھی اس جگہ کی تھوڑی سیر کر لوں۔“ مبکس کے‬
‫شاتھ جلنے وہ ل نونگ روم کے صوفے پہ نتتھ گنی۔‬
‫”گھومبا تھا بو مجھے کہنی میں نمہیں اس جگہ کی سیر کروانا‪ ،‬کتنی نار کہا ہے کہ‬
‫اکبلی مجھے نبائے تغیر پہ جانا کرو۔“ مبکس ئے تھوڑا سنجبدگی سے کہا۔‬
‫”ارے اتکل‪ ،‬اب میں پڑی ہو گنی ہوں اور خود تھی انبا ڈ تقنٹس کرنا جاننی‬
‫ہوں۔ آپ کو قکر کرئے کی ضرورت نہیں ہے اب۔“ علتبا ئے فجرپہ انداز میں کہا کہ‬
‫مبکس نس مشکرا د ننے۔‬
‫”پہ نات بو تھبک ہے لبکن نمہیں میں ئے نہت سمجھانا تھا کہ کبا ضرورت ہے‬
‫اس شب کی۔ تم میرے شاتھ رہ شکنی ہو۔“ مبکس ئے تھوڑا قکر مبد لہچے میں کہا۔‬
‫”آپ گھر میں ر ہنے کہاں ہیں‪ ،‬ہر دو دن تغد آپ کو پزنس بور پہ جانا پڑ جانا‬
‫ہے۔“ علتبا ئے حقگی سے کہا۔‬
‫”مجھے پہ بو ئےقکری ہونی کہ تم میرے گھر میں محفوظ ہو۔“‬
‫”آپ ا نسے کہہ رہے ہیں جٹسے میری جان کو حظرہ ہو۔“ علتبا ئے نات کو ہوا‬
‫میں اڑانا لبکن مبکس کو وافعی اس کی قکر الخق تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪50 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں ئے نمہارے لنے کجھ شوجا ہے۔“ مبکس ئے نمہبد ناندھی۔ علتبا ئے‬
‫شوالنہ تظروں سے دنکھا۔‬
‫”نمہیں پہ مزاق ہی لگبا ہو گا لبکن مجھے وافعی نمہاری قکر ہے۔ میں ئے کسی کو‬
‫نمہارے لنے ہانیر کبا ہے‪ ،‬انک شال نک بو وہ نمہارے شاتھ ہی ہو گا۔ اور مجھے چب‬
‫تفین ہو جائے گا کہ تم اس قانل ہو گنی ہو کہ اکبلے ہر چیز کو ستتھال لو بو اس کو‬
‫ہبا دوں گا۔“ مبکس ئے سنجبدگی سے کہا جبکہ علتبا ئے چیرت و ئےتفتنی سے اس‬
‫کی جاتط دنکھا۔‬
‫”کسی کو میرے لنے ہانیر کبا ہے اور وہ لڑکا ہے۔ آپ مجھے نبائے تغیر کٹسے کر‬
‫شکنے ہیں پہ شب۔ وہ تھی انک شال کے لنے۔“ علتبا ئے صدمے سے کہا۔ اس‬
‫کے ما تھے پہ نل واصح ہوئے۔‬
‫”اس مغا ملے میں کجھ تھی نہیں ہو شکبا اب۔ شب قانبل ہوگبا ہے وہ نمہاری‬
‫ب‬ ‫م‬ ‫ہ‬‫ت ن‬
‫اکبڈمی ھی نچ حکا ہو گا۔“ کس ئے انبا نازو صوفے کی نشت سے ہبائے آگے‬
‫ہوئے کہا۔ علتبا اننی جگہ سے کھڑی ہونی۔‬
‫”اور آپ مجھے اب نبا رہے ہیں۔“ علتبا کا سحت موڈ خراب ہو حکا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪51 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اتکل آپ ئے جس کو تھی میرے ہانیر کبا ہے نلیز آپ اس کو م یع کر دیں‪،‬‬


‫میں نچی نہیں ہوں اب کہ ا ننے شاتھ گارڈ لنے تھروں۔“ علتبا ئے تھی مبکس کے‬
‫ردعمل کی پرواہ کنے نبا سنجبدگی سے کہا۔‬
‫”اس نارے میں مزند نحث نہیں ہو گی۔ میں نہلے ہی نمہاری ئےوفوقاپہ نات‬
‫مان حکا ہوں۔“ اس کی نات پہ وہ عصہ ضیط کرئے ہوئے بولے۔‬
‫”آپ ئے کتھی مجھے نہیں سمجھا۔“ علتبا ئے آنکھوں میں اقسوس اور شافت لنے‬
‫کہا کہ مٹشک کے چہرے پہ تکل یف اتھری۔‬
‫”میرے اس عمل کی نمہیں انک دن سمجھ آجائے گی۔“ مبکس ا ننے ناپرارت‬
‫ستتھا لنے سنجبدگی سے بولے۔‬
‫”مجھے ضروری کام سے جانا ہے۔ مبڈ ئے کھانا نبا دنا ہے تھوک لگے بو کھا لتبا‬
‫میرا ان یطار پہ کرنا۔“ وہ مزند اننی نات کہہ کے رکے نہیں تھے وہاں سے جلے گنے‬
‫تھے۔‬
‫علتبا ئے عصے سے انبا نبگ نبک صوفے سے اتھائے ت ھت یکا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪52 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”پہ بو نبانا ہی نہیں کہ کون ہے وہ جس کو میرے نلے ناندھ دنا ہے۔۔“ وہ‬
‫عصے سے پڑپڑانی اور اب پرا تھی لگنے لگا کہ اس ئے اتکل مبکس کے شاتھ ندنمیزی‬
‫کی تھی۔ ان سے آرام سے نات کرنی جا ہنے تھی۔‬
‫رات نک وہ وانس آ گنے تھے‪ ،‬کجھ دپر نک بو وہ ان کا کھائے پہ ان یطار کرنی رہی‬
‫لبکن وہ نہیں آئے تھے۔ تھر اکبلے ہی کھانا کھائے ا ننے روم میں آگنی تھی‪ ،‬انک نار‬
‫ناہر تکلنے کی کوشش کی بو دروازے پہ کھڑے گارڈ ئے روک لبا کہ وہ اس وفت ناہر‬
‫نہیں جا شکنی چب نک مبکس خود پہ کہہ دیں۔‬
‫نگڑے موڈ سے وہ وانس ا ننے روم آگنی اور ناتم ناس کے لنے نی وی آن کر‬
‫لبا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”آج شام کی قالنٹ سے تم وانس گرنس جا رہی ہو۔“ صنح نا سنے نک تھی اتکل‬
‫مبکس کا اس سے ناراصگی کا اظہار جاری تھا جبکہ علتبا مشلشل ان پہ حقگی تھری تگاہ‬
‫ڈال رہی تھی۔‬
‫”مجھے نبائے تغیر تم اکبڈمی سے ناہر نہیں تکلو گی۔“ شاتھ ہی انہوں ئے ننتبہہ‬
‫کی جس پہ علتبا ئے کھائے سے ہاتھ روک دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪53 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آپ مجھے نحوں کی طرح پرنٹ کر رہے ہیں۔“ علتبا ئے شکوہ کبا جس پہ‬
‫مبکس ئے نس انک تظر اس کو دنکھا۔‬
‫”علتبا چہاں تم جلی گنی ہو وہ اچھی جگہ نہیں ہے اسی لنے مجھے پہ شب اقدام‬
‫اتھائے پڑ رہے ہیں اور میں تم سے امبد کرنا ہوں کہ تم مجھے عصہ ہرگز نہیں دالؤ‬
‫گی۔“ اس کے شکوے پہ وہ تھی دو بوک انداز میں بولے‪ ،‬اس وفت وہ پرمی دکھائے‬
‫کے نالکل قانل نہیں تھے۔‬
‫”کوشش کروں گی۔“ علتبا ہلکا شا پڑپڑانی۔‬
‫”اور دامیر کو موفع پہ د نبا کہ کجھ انبہانی قدم اتھائے۔“ انہوں ئے نا سنے سے‬
‫قارغ ہوئے کہا‪ ،‬علتبا حقگی سے اتھنے لگی کہ ان کی نات ستنے خونک کے رک گنی۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”دامیر؟“ اس ئے نا ھی سے دنکھا۔‬
‫”دامیر آر؟“ دونارہ نام بو لنے پہ مبکس ئے سر انبات میں ہالنا۔‬
‫”وہ قا نل؟ آپ۔۔ آپ جا ننے تھی اس شانبکو انشان کو۔ اس قا نل کو آپ ئے‬
‫میرا کئیر نبانا؟“ علتبا ئے ئےتفتنی سے بوچھا۔‬
‫”اس میں نہت سی نانیں اچھی ہیں نتھی اس کو نمہارے لنے رکھا ہے۔“ مبکس‬
‫دامیر کے نارے میں مزند نات نہیں کرنا جا ہنے تھے نتھی جتمی انداز انبانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪54 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اچھی نانیں‪ ،‬وہ اچھانی لقظ سے وافف تھی ہے۔ مجھے آپ نالکل تھی سمجھ‬
‫نہیں آرہے اس نار۔“ علتبا ئے نگڑئے لہچے میں بولی۔ جس سحص سے اس کو تفرت‬
‫تھی اتکل مبکس اسی اس کا رکھواال نبا رہے تھے‪ ،‬کبا وہ نہیں جا ننے تھے کہ وہ انک‬
‫قا نل ہے نبا کسی وجہ سے وہ مقانل کی گردن اڑا دے اور اتکل مبکس اس سے بوفع‬
‫کر رہے تھے کہ وہ علتبا کی حقاظت کرے گا۔‬
‫”میں اتھی نبا رہی ہوں‪ ،‬میں اس دامیر کو ا ننے شاتھ نالکل تھی نہیں رکھنے‬
‫والی۔“ علتبا نیز لہچے میں انبا ف یصلہ سبانی ہونی کمرے میں جا نبد ہونی۔‬
‫مبکس اقسوس میں سر تقی میں ہالئے لگے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫رنان پراؤزر میں نبڈ پہ لتبا تھا چب اس کا مونانل ن نپ کبا۔ دنکھا بو دامیر کے‬
‫آس ناس ہوئے کا االرم تھا۔ تعنی وہ وانس آگبا تھا۔‬
‫اس کے شاتھ واال روم ہی دامیر کا تھا لبکن وہ جانبا تھا کہ دامیر نہلے ادھر ہی‬
‫آئے گا اور دروازہ ناک کرئے کی اس ئے زچمت تھی نہیں کرنی تھی۔ انشا ہی ہوا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪55 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اگلے ہی لمچے وہ اندر تھا اور النٹ آن کر کے اس ئے دنکھا کہ رنان ا ننے نسیر پہ تھا نا‬
‫نہیں۔‬
‫”ادھر ہی ہوں میں نتنی۔۔“ اس ئے خڑائے والے انداز میں کہا۔‬
‫”شٹ اپ۔“ دامیر سنجبدگی سے بوال اور صوفے پہ نتتھ گبا ناکہ تھوڑی تھکن انار‬
‫شکے۔‬
‫”پہ النٹ نبد کر دو۔“ رنان ئے سرد لہچے میں کہا ک نونکہ وہ شونا جاہبا تھا اتھی۔‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫”مبکس ل نو کی انک اور نچی ہے۔“ رنان ئے دامیر کو چیران کرنا جاہا کن‬
‫ب‬ ‫ل‬
‫اس کے پرشکون خواب پہ وہ چھبکے سے اس کو دنکھنے لگا۔‬
‫”جانبا ہوں میں‪ ،‬چب انہوں ئے علتبا کا نبانا میں ئے نتھی ڈھونڈ لبا تھا۔“‬
‫دامیر ئے عام لہچے میں کہا اور ن یقبدی تگاہوں سے اطراف کا جاپزہ لبا۔‬
‫”اس سے مالقات ہونی؟“ رنان ئے دلحسنی سے بوچھا وہ اتھی تھی ن نٹ کے نل‬
‫لتبا تھا۔‬
‫”نہیں لبکن نہی سے پرنبڈ ہے وہ۔“ دامیر ئے سرسری شا کہا بو رنان ئے سر‬
‫ہالنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪56 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میری ہو گنی مالقات۔“ اس کی نات پہ دامیر ئے سبانسی تظروں سے دنکھا اور‬


‫انک آپرو اتھانا۔‬
‫”وہ انک ڈانبامانڈ ہے۔ جلنی تھرنی آگ۔“ رنان کا لہحہ چنہ کے لنے سراہبا ہوا‬
‫تھا۔ دامیر مشکرا دنا۔‬
‫”لگبا ہے کونی کسی سے انمرنس ہوا ہے۔“ دامیر نمسجراپہ انداز میں بوال کہ رنان‬
‫ئے سر چھ یکا۔‬
‫”تم خود چیران ہوگے اس سے مل کے۔ تظر آجائے گی کل وہ۔“ رنان ئے‬
‫اس کی نہاں موخودگی کی اطالع دی۔‬
‫”مبکس کے مطابق کل نک علتبا تھی نہاں موخود ہو گی۔“ دامیر کہنے ہوئے‬
‫اتھ ک ھڑا ہوا۔‬
‫دامیر انک دو مزند نات کرئے ا ننے کمرے میں جال آنا۔ کھائے کی اتھی طلب‬
‫نہیں تھی نس شفر کی تھکن انارنا جاہبا تھا۔‬
‫اننی سرٹ انارے وہ شاور لتنے جال گبا‪ ،‬سرٹ انارئے اس کے کسرنی نازو واصح‬
‫ہوئے چہاں نت نو ننے تھے۔ انک سبار خو کاقی واصح تھا وہ نالکل کبدھے کے اوپری‬
‫حصے پہ موخود تھا۔ شاتھ کجھ ہی قاصلے پہ روسی زنان میں لکھا تھا۔‬
‫‪безжалостный‬‬
‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬
‫‪57 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس ئے جلنے نانی کے ننچے ا ننے گہرے تھورے نالوں میں ہاتھ ت ھیرا اور گہرا‬
‫شانس تھرا۔ تھبڈے نانی کی تھوار سے اعصاب پہ کجھ اپر پڑا۔‬
‫اگر علتبا نہاں اکبڈمی نک آنی تھی بو ان کی دنبا اور ناقی کاموں سے وافف ہو‬
‫گنی ہو گی‪ ،‬جائے کب نک علتبا کی وجہ سے اس کے شاتھ رہبا‪ ،‬ہو شکبا تھا کہ علتبا‬
‫کی وجہ سے مزند کونی کانیرنکٹ پہ کر نائے لبکن کام میں دپری تھی ان کے کرنیر‬
‫کے لنے اچھی نہیں تھی۔ کم از کم وہ رنان کو شاتھ تھٹشانا نہیں جاہبا تھا۔‬
‫اگر رنان کو کونی الگ سے کانیرنکٹ ملبا بو وہ اسے جائے دے گا اس ئے شوچ‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫لبا تھا اور خود وہ مبکس کی نچی کی کشڈنی کرنا رہے گا۔‬
‫لڑکوں کا اس کو نجرپہ تھا اور لڑکی‪ ،‬غورت زاد بو تھی ہی نہیں زندگی میں۔ شاند‬
‫اس کے لنے صیر کرئے کا وفت آگبا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


58 | P a g e

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


ِ ‫ش‬

Visit for more novels: www.urdunovelbank.com


‫‪59 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫صنح نا سنے کی نتبل پہ نتتھے تھے‪ ،‬ان کا نتبل ہال کے نالکل کوئے میں تھا‬
‫چہاں سے وہ شب کو آرام سے دنکھ شکنے تھے۔ آئے جائے والے کا تھی ان کو نبا‬
‫تھا۔‬
‫”چنہ ل نو۔۔!“ رنان ئے اندر آنی چنہ کو دنکھنے کہا۔ دامیر ئے اس کے تغافب‬
‫میں دنکھا۔ نت نٹ اور نی سرٹ نہنے‪ ،‬سباہ نالوں کو ہانی بونی نبل میں کسے وہ انک نتبل‬
‫ن‬
‫پہ جا تتھی اور ا ننے نا سنے کا آرڈر د ننے لگی۔‬
‫”دنکھنے سے بو اننی سیرانگ نہیں لگنی جتنی تم ئے نبانا تھا۔“ دامیر ئے ن یصرہ‬
‫کبا۔‬
‫”اس کو پرنتبگ کے دوران دنکھبا۔“ رنان ئے نس انبا کہا بو دامیر ئے سر ہالنا۔‬
‫”لبکن پہ اکبڈمی کس شلشلے میں آنی ہے؟“ دامیر ئے شو جنے بوچھا۔‬
‫”طاہر ہے مبکس ئے کجھ کہہ کے تھنحا ہو گا۔“ رنان الپرواہی سے بوال۔‬
‫”البانین کا کبا نبا؟ کبا وہ ناز آئے ا ننے کاموں سے؟“ رنان ئے اس سے‬
‫روس میں داجل ہوئے البانین کے نارے میں بوچھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪60 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ً‬
‫”ڈرنک ئے نبانا کہ ان کو دونارہ بو نہیں دنکھا گبا لبکن جٹسے ہی کونی تظر آنا فورا‬
‫نبا دے گا۔“ دامیر ئے کھانا کھائے ہوئے کہا۔‬
‫ن‬
‫دامیر ئے کھائے سے تظریں ہبائے شا منے دنکھا چہاں چنہ تتھی تھی۔ ا ننے‬
‫ناپرات سنجبدہ کنے‪ ،‬نبا کسی کی موخودگی کو محسوس کنے وہ ا ننے آپ میں مگن تھی۔‬
‫اس کی مجروطی اتگلباں نالوں کی ل نوں میں الجھی تھیں‪ ،‬تگاہیں ا ننے مونانل پہ‬
‫چمائے ہوئے تھی۔‬
‫کھانا آئے ہی چنہ ئے ہلکی سی مسکان ناس کی۔ دامیر کا اپرو اوپر اتھا۔‬
‫”پرننی سمانل ہاں۔“ اس سے نہلے دامیر کہبا رنان کی آواز پہ وہ خوتکا۔‬
‫”مجھے نس اس کی خرأت پہ چیرانگی ہونی تھی‪ ،‬مجھ پہ گن نائے کھڑی تھی۔“‬
‫رنان ئے اس کی معنی چیز تگاہوں کے شوال کا خواب دنا۔‬
‫”علتبا کی سمجھ آنی ہے لبکن چنہ کو ک نوں چھبانا ہم سے مبکس ئے؟“ رنان‬
‫ئے الجھن سے بوچھا۔‬
‫”پہ بو وہی نبانیں گے ہمیں اب‪ ،‬اتھی بو علتبا کا ان یطار ہے۔ ورپہ وفت پرناد‬
‫کرئے کا شوق نہیں مجھے۔“ دامیر علتبا کے پہ آئے سے سحت ندمزہ تھا۔ اگر اتھی‬
‫اس کی زمہداری پہ ہونی بو وہ انک کانیرنکٹ پہ کام کر رہے ہوئے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪61 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ ناشنہ کر کے ناہر جا جکی تھی۔ نت نٹ کی جت نوں میں ہاتھ ڈالے اس کھلے‬
‫مبدان میں جل رہی تھی۔ کل چب رنان کو ا ننے شا منے دنکھا بو انک نل کو وہ خونکی‬
‫کہ شاند تظروں کا دھوکا ہو لبکن وہ وافعی رنان تھا اور سرد تگاہوں سے اسی کو دنکھ رہا‬
‫تھا۔‬
‫س‬
‫اس کے شا منے خود کو کمزور نہیں دکھانا جاہنی تھی نتھی نبا شوچے ھے اس ئے‬
‫ج‬‫م‬
‫اننی گن اس کی طرف نان دی۔ اس ئے کونی رد عمل نہیں دکھانا تھا لبکن چب وہ‬
‫”لبل لبڈی“ بوال بو خوف و ہراس کی لہریں جشم میں سران نت کر گنیں۔ وہ جتبا کولڈ‬
‫ہارنڈ تظر آنا تھا اس سے تھی زنادہ اس کا لہحہ تھا۔‬
‫اس کے کارناموں کے فصے مافبا کی دنبا میں کس ئے نہیں شن ر کھے تھے۔ مافبا‬
‫کی دنبا میں ہر نبا آئے واال ان کے نام اور کام سے جلد ہی وافف ہو جانا تھا۔‬
‫رنان اور دامیر کی موخودگی سے اس کو کونی فرق نہیں پڑئے واال تھا۔ کجھ دن‬
‫کے لنے وہ ناہر کی دنبا سے الگ رہبا جاہنی تھی نتھی مبکس ل نو کے کہنے پہ کراؤنڈ ہبڈ‬
‫جلی آنی تھی۔‬
‫اچھا تھا نہاں کہ وہ کجھ چیزیں مزند پرنکٹس کر لتنی نب نک لبام اس کو ناقی‬
‫ً‬
‫انڈنٹ د نبا رہبا۔ اگر کسی کارنل کا نبا جلبا بو وہ نہاں سے فورا رواپہ ہو جانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪62 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہائے۔۔“ وہ اننی ہی شوخوں میں گم تھی چب انک مرداپہ آواز پہ اس ئے‬


‫خونک کے دنکھا۔‬
‫شا منے انک لڑکا ک ھڑا تھا خو قد کاتھ میں اس سے اونحا تھا۔ اس کی رنگت شابولی‬
‫س‬
‫تھی‪ ،‬چہرے پہ انک معنی چیز مشکراہٹ تھی۔ چنہ ئے اس کو نا ھی سے دنکھا۔‬
‫ج‬‫م‬

‫”اکبلی کہاں گم ہو‪ ،‬نانیں کرو شب سے۔“ اس لڑکے ئے دوسباپہ لہچے میں‬
‫کہا‪ ،‬شاند اس کو چنہ کونی ننی آئے والی لڑکی لگی تھی۔‬
‫” میں تھبک ہوں۔“ چنہ انبا کہہ کے آگے پڑ ھنے لگی چب لڑکے کی ہمت پہ‬
‫اس کو رکبا پڑا۔ اس کا ہاتھ لڑکے کی گرفت میں تھا۔‬
‫”ہم کہیں نتتھ کے نانیں کر شکنے ہیں۔“ اس ئے آفر کی‪ ،‬چنہ ئے انک تظر‬
‫ہاتھ کو دنکھا تھر اس کے معنی چیز مشکرائے چہرے کی طرف۔‬
‫نبا وارنبگ کے اس ئے دوسرے ہاتھ کی متھی نبائے انک زور دار ننچ اس کے‬
‫منہ پہ دے مارا اور انبا ہاتھ دنکھنے لگی خو اس کی گرفت میں تھا۔ ہاتھ چھوٹ حکا تھا‪،‬‬
‫وہ لڑکھڑا کے سبدھا ہوا اور ناک پہ اتگلی ر کھے جبک کبا۔ خون کی دھار۔‬
‫”آ نتبدہ لڑکی کے اتکار کا اچیرام کرنا۔“ انک انک لقظ زہرنلی مسکان سحائے اس‬
‫ئے کہا بو مقانل ئے اس کو ن یفر سے گھورا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪63 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫”نہی پہ ہو نا‪ ،‬دنکھ لوں گا۔“ اس ئے دھمکی دی جس پہ چنہ آ یں ھما کے‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫آگے پڑھ گنی۔‬


‫”آؤچ‪ ،‬زور سے لگی ہو گی۔“ رنان اور دامیر اتھی ہال سے ناہر تکلے تھے چب‬
‫شا منے کا م یظر تظر آئے رک گنے۔ رنان ئے ئےشاچنہ کہا جس پہ دامیر مشکرانا۔‬
‫”سی از کول۔“ دامیر ئے سراہا کہ رنان کی مشکراہٹ گہری ہونی جٹسے پہ‬
‫کمبلنت نٹ اس کو مال ہو۔‬
‫اس ئے زندگی میں کتھی کسی لڑکی کے نارے میں شوجا نہیں تھا لبکن جائے‬
‫ک نوں چنہ کو اتھی دنکھنے اس کے دل میں انک انحانی سے خواہش طاہر ہونی۔‬
‫”وہ اس کو کلتم )‪ (claim‬کرے گا۔ مافبا پرنسس!“‬
‫پہ دل کی آواز اجانک سبانی دی گنی تھی لبکن اس پہ رنان ئے پرا نہیں مبانا‬
‫تھا البا اس اجشاس کو انحوائے کبا تھا۔‬
‫”میں شوچ رہا تھا کہ چب نک نہاں ہیں انک پراپرنی خرند لیں ا ننے لنے۔“ دامیر‬
‫ئے چنہ سے تظریں ہبائے کہا خو اب فون پہ کسی سے نات کر رہی تھی۔‬
‫”ہاں تھبک ہے۔ جلیں تھر آج دنکھنے؟“ رنان ئے نانبد کرئے کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪64 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہاں میں ئے انک دو لوگوں سے نات کی ہے جلنے ہیں۔“ دامیر ئے کہا اور وہ‬
‫دوبوں اننی گاڑی لنے اکبڈمی سے ناہر تکلے۔‬
‫رنان ئے گاڑی تکالی اور دامیر کا ان یطار کرئے لگا خو انک فون کال پہ مصروف‬
‫تھا۔ گاڑی دامیر ہی ہمٹشہ جالنا تھا۔‬
‫فون ج نب میں رکھنے جٹسے ہی وہ مڑا کہ اجانک کسی کے آئے سے وہ نکرا گبا۔‬
‫مقانل اس افباد پہ ستتھل پہ نانا اور لڑکھڑا کے گر پڑا۔‬
‫دامیر ئے شا منے گری لڑکی کو دنکھا اور اس کا شامان اتھائے میں مدد کی۔‬
‫”مانی نبڈ۔“ دامیر ئے سنجبدگی سے کہا اور نبا اس کے چہرے پہ تگاہ ڈالے اننی‬
‫گاڑی کی طرف پڑھ گبا۔‬
‫گاڑی میں نتتھنے ہی اس ئے سنئیرنگ وہبل ستتھاال کہ رنان ئے اس کو معنی‬
‫چیز تظروں سے دنکھا۔‬
‫”نا بو پہ اتقاق ہے نا تھر تم مزند ہتبڈسم ہو گنے ہو کہ لڑکباں نکرائے کے‬
‫نہائے ڈھونڈنی ہیں۔“ رنان ئے اس کو خڑانا جس پہ وہ ہٹس دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪65 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫س‬
‫”نمہارا تھانی سروع سے ہتبڈسم ہے‪ ،‬اتقاق ہی ھو اس کو۔“ اس ئے گاڑی‬
‫ج‬‫م‬
‫سبارٹ کرئے اکبڈمی کی جدود سے ناہر تکالی‪ ،‬پہ جگہ سمبدر کے فرنب ہی وافع تھی بو‬
‫انہوں ئے گھر تھی اسی اپرنا کے فرنب لبا۔‬
‫کاقی خوتصورت وال تھا خو کشادہ‪ ،‬کھال ہوادار تھا۔‬
‫وہ دوبوں شارے کمروں کا جاپزہ لنے ناہر آئے تھے۔‬
‫انبا خو شامان انہوں ئے اکبڈمی رکھا تھا اس شب کو نہاں شفٹ کرئے کا ارادہ‬
‫رکھنے تھے ناکہ وہ اکیر نہاں آکے رک جانا کریں۔‬
‫وال شارا جبک کرئے انہوں ئے ا ننے کجھ گارڈز کو نہاں رکھا ناکہ ان کی غیر‬
‫موخودگی میں وہ نہاں رہیں۔‬
‫شام سے نہلے وہ دوبوں اکبڈمی وانس آ گنے تھے‪ ،‬کھانا وہ ناہر کھا آئے تھے۔‬
‫دامیر ا ننے روم میں آنا بو سر جارج کا مٹسج اس کا ان یطار کر رہا تھا۔‬
‫”سر جارج ئے کہا کہ چب آپ آجانیں بو ان کو کال کر دیں کسی ئے ملبا‬
‫ہے آپ سے۔“ پہ اس کا خود کا آدمی تھا جس ئے وانس مبل چھوڑا تھا اس کے‬
‫روم کے فون پہ۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪66 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ان کو نبا دو میں ا ننے کمرے میں ہوں۔“ اس ئے وانس کال کرئے اطالع‬
‫دی کہ تھوڑی ہی دپر میں اس کا دروازہ ناک ہوا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭‬
‫اتکل مبکس اس سے اتھی تھی ناراض تھے جبکہ اس کا خود کا ناراصگی پڑھائے‬
‫کا ارادہ تھا۔ وہ کسی تھی قشم کی نانبدی میں نہیں آنا جاہنی تھی۔‬
‫تھر ا نسے انشان کی جس سے وہ تفرت کرنی تھی۔ کتھی نہیں!‬
‫اس کی زندگی نہلے ہی بورڈنگ شکول‪ ،‬ہوسبلز میں گزری تھی۔ فتملی میں کون تھا‬
‫کہاں تھا وہ کجھ نہیں جاننی تھی شوائے اس کے کہ مبکس اس کے اتکل تھے۔‬
‫اب خوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا تھا بو خود انک آزاد زندگی گزارنا جاہنی تھی چہاں کونی‬
‫روک بوک پہ ہونی اننی مرضی کے ف یصلے لتنی۔ ا ننے شوق بورے کرنی۔ دنبا گھومنی۔‬
‫اگر کتھی موفع ملبا بو ا ننے آنانی گھر جانی چہاں سے وہ خود کو مزند جان شکنی تھی۔‬
‫لبکن اس کو لگ رہا تھا کہ اب وہ اکبڈمی میں آکے اننی زندگی کو مزند نبگ‬
‫کرئے والی تھی جبکہ نہلے بو وہ پرخوش تھی۔‬
‫دامیر نامی نال اس کی آزادی چھنتنے والی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪67 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں کسی کو اننی زندگی کئیرول کرئے نہیں دوں گی۔ تھاڑ میں جائے میری‬
‫ن‬
‫طرف سے دامیر۔“ گاڑی میں تتھی وہ مشلشل دامیر کو کوس رہی تھی۔‬
‫تھر مبکس کا شو جنے ئےنس ہونی جا رہی تھی۔‬
‫اکبڈمی میں گاڑی رو کنے ہی گارڈ ئے اس کی شانبڈ کا دروازہ کھوال۔ انبا ہتبڈ نبگ‬
‫لنے وہ اندر پڑ ھنے لگی چب کونی اس سے نکرانا۔ نبگ اور ہاتھ میں نکڑی انک دو چیزیں‬
‫ننچے گر گنیں۔‬
‫اس ئے مقانل کو دنکھا خو جلدی سے مغذرت کرنا آگے پڑھ گبا تھا لبکن اس‬
‫کے ناس سے گزرئے کا اجشاس الگ تھا۔ مرداپہ کلون کی جسنو اجانک فصاء میں رچ‬
‫گنی۔‬
‫اس ئے گھوم سے اس سحص کو دنکھا خو اب گاڑی میں نتتھ رہا تھا۔ دل میں‬
‫شدند خواہش اتھری کہ وہ اس سے نات کرے۔‬
‫لبکن وہ خود تھی پہ نات نہیں جاننی تھی کہ نکرائے واال دامیر تھا ورپہ اس دل‬
‫کی خواہش آئے سے نہلے ہی زہر کھا جکی ہونی۔‬
‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫اکبڈمی میں شب سے نہلے نجنے اس ئے فر کی تھکان اناری ھی۔ ٹسے ہی وہ‬
‫ج‬ ‫ش‬
‫ڈپر پہ جائے لگی بو اس کو سر جارج ئے ا ننے کنین میں نلوانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪68 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہاں مغلوم ہوا کہ دامیر اس کا دو نین دبوں سے نہاں ان یطار کر رہا ہے اور اب‬
‫ک‬‫ع ن‬
‫اس کو خود اس سے مل لتبا جا ہنے۔ لتبا آ یں ھمانی ہونی ان کی نات مان نی اور‬
‫گ‬ ‫گ‬ ‫ھ‬
‫دامیر کے انک گارڈ کے شاتھ اس کے نالک کی طرف جائے لگی۔‬
‫گٹشٹ نالک اور سنوڈ ننٹس کے نالک الگ تھے‪ ،‬ا نسے ہی ہر قشم کی خراتم کے‬
‫لوگوں کے نالک الگ الگ نبائے گنے تھے۔‬
‫دامیر کا نالک ان کے کورنڈور کے نالکل شا منے کارنڈور میں موخود تھا۔ تعنی وہ‬
‫لوگ انک دوسرے کے کمروں کے مقانل تھے جن کے درمبان ننچے ہال کا اپرنا تظر‬
‫آنا تھا خو الؤنج کے طور پہ اسیعمال ہونا تھا۔‬
‫گارڈ ئے دروازہ ناک کبا اور علتبا کو اندر جائے کا کہا۔ خود وہ شانبڈ پہ کھڑا ہو گبا‬
‫انک روبوٹ کی طرح۔‬
‫دامیر سے اس کو ملنے کا کونی شوق نہیں تھا نا وہ اس کے شا منے آنا جاہنی تھی‬
‫لبکن اندر ہی اندر انک نحسس تھا کہ ئےرچم قا نل کٹشا دکھبا ہو گا۔‬
‫”نبا نہیں اتکل ئے کبا شوچ کے اس سحص پہ میری زمہداری ڈال دی۔“ علتبا‬
‫ئے ن یفر سے شوجا چب کمرے کا دروازہ کھلنے پہ وہ خونک اتھی۔ تھوڑی دپر نہلے والی‬
‫خوسنو۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪69 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ک‬‫ن‬
‫شا منے ہی وہ کھڑا تھا۔ گہرے پراؤن نال‪ ،‬ہم رنگ آ یں۔ شو نٹ نت نٹ اور‬
‫ھ‬
‫سرٹ )‪ (sweatpant shirt‬میں مل نوس۔ چہرے پہ سنجبدگی بو نہیں الننہ سرد‬
‫سباٹ ناپرات تھے۔ انک ہاتھ دروازے پہ تکانا تھا جس میں علتبا کو وہی انگوتھی تظر‬
‫آنی جس طرز کی رنان نہتبا تھا۔‬
‫”پہ دامیر ہے؟“ اس ئے خود سے شوال کبا۔ وہ لڑک نوں کا کرش بو لگبا تھا لبکن‬
‫قا نل نہیں۔‬
‫”علتبا!“ دامیر کی گھتمیر آواز اس کو ہوش میں النی بو اس ئے ا ننے دل میں‬
‫کہی نابوں کی سرزنش کی۔‬
‫”جی۔“ اس ئے لہچے کو معرور نبائے کی کوشش کی ناکہ دامیر اس کو کسی‬
‫تھی طر تقے سے کئیرول پہ کر شکے اور پہ ہی وہ پہ شوچے کہ وہ اس کےقابو میں آئے‬
‫والی تھی۔‬
‫”اندر آؤ۔“ اس ئے اندر آئے کی دغوت دی لبکن علتبا کا دل آہشنہ جلنے لگا۔‬
‫اگر اس کو کسی نات پہ عصہ آگبا اور اس ئے مار دنا بو؟‬
‫ب ت م‬
‫خوف خواشوں میں چھائے لگا۔ اتھی بو اس ئے پرنت گ ھی ل یں لی ھی۔‬
‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫م‬ ‫ک‬
‫دقاع کرئے کے خو طر تقے تھے وہ بو دامیر پہ نالکل تھی نہیں جلنے والے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪70 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہیں میں نہی تھبک ہوں۔“‬


‫اس کے لہچے میں اکڑ محسوس کرئے دامیر کے لب مبہم مشکرائے جبکہ علتبا‬
‫کے چہرے پہ شانا شا لہرانا۔‬
‫”اپزی‪ ،‬میں کم از کم نہاں نمہیں مار نہیں شکبا۔“ دامیر ئے جٹسے اس کے‬
‫جباالت نک کی رشانی جاصل کی۔ علتبا از جد چیران ہونی اس کی نات پہ تھر ستتھل‬
‫کے کہنے لگی۔‬
‫”میں انسی جگہ جانا نسبد نہیں کرنی چہاں مجرم ر ہنے ہوں۔“ اس ئے تھی ناگوار‬
‫لہچے میں کہا کہ انک نل کو دامیر اس کی نہادری پہ تھ یکا۔ اس کی مشکراہٹ سمٹ‬
‫گنی۔ چہرے کے ناپرات سباٹ ہو گنے۔‬
‫”لبکن ا نسے مجرموں کو شاتھ لنے تھرنا نسبد کرنی ہیں اور ان سے پرن نت تھی‬
‫اچھی لتنی ہیں۔“ دامیر ئے سرد لہچے میں کہا۔ وہ اتھی تھی دروازے کے ناس ک ھڑا‬
‫تھا۔ پہ علتبا ئے اندر آئے کے لنے قدم پڑھانا اور پہ دامیر اننی جگہ سے ہال۔‬
‫”مجھے کونی شوق نہیں نمہیں شاتھ لنے گھوموں میری طرف سے تھاڑ میں جاؤ۔“‬
‫علتبا اس کے خواب پہ طٹش میں بولی۔ وہ اننی تفرت کا کھل کے اظہار کر رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪71 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”خود کی بو میں ئے نات ہی نہیں کی۔“ دامیر کے خواب پہ وہ الجھی لبکن اس‬
‫ئے نات جاری رکھی۔‬
‫” میں ئے نمہیں دنکھ لبا اب تم میری اجازت کے تغیر اس اکبڈمی سے انک‬
‫قدم تھی ناہر نہیں تکالو گی۔ ڈانتبگ روم میں خود کو میرے شاتھ رکھو گی۔ ناقی پرنتبگ‬
‫سٹشن میں کونی مداجلت نہیں کروں گا میں۔ اب تم ا نسے انشان کی تظروں میں ہو‬
‫خو مجرم ہے۔“ دامیر ئے اس کی آنکھوں میں دنکھنے انک انک نات کہنے آخر میں اس‬
‫کو جبائے ہوئے کہا اور شاتھ ہی طیزپہ مشکراہٹ اچھالی۔‬
‫”ا ننے روم میں جا شکنی ہو۔“ اس سے نہلے کہ دامیر کی اننی نانبدبوں پہ وہ کجھ‬
‫اجنحاج کرنی دامیر ئے سرد ناپرات انبائے التغلقی سے اس کو جائے کو کہا۔ علتبا کو‬
‫لگا کہ اگر اتھی وہ کجھ بولے گی بو اس کا سر ین سے جدا زمین پہ پڑا ہو گا۔‬
‫وہ جاموسی سے ا ننے روم کی طرف پڑھ گنی۔ نین قدم اتھائے اس ئے گردن‬
‫گھمانی کہ نبد دروازے کو ہی کجھ شلوانیں سبا لتنی لبکن وہ اتھی تھی اسی بوزنشن میں‬
‫دروازے کے ر سنے کے درمبان کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وجشت سی اپر آنی تھی‬
‫جس پہ وہ چھرچھری لنے ا ننے نالک کی جانب آگنی۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫ا ننے کمرے میں آئے نبڈ پہ دھڑام سے گر گنی اور آ یں موند نی۔‬
‫گ‬ ‫ھ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪72 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر کو جتبا وہ خوفباک سمجھ رہی تھی دکھنے میں وہ بو ونشا نہیں تھا لبکن نات‬
‫کرئے کا انداز اس کا دہشت لنے ہوئے ہی تھا۔‬
‫وہ انہیں شوخوں میں گم تھی چب اجانک اس کے روم کا دروازہ کھال اور کونی‬
‫اندر آنا۔ آئے والی ڈرنبا تھی خو اکبڈمی میں اس کے شاتھ ہی اکیر نانی جانی تھی۔‬
‫ن‬
‫”تم وانس آنی اور مجھ سے ملی تھی نہیں۔“ علتبا اتھ تتھی تھی۔ ڈرنبا اس کے‬
‫شاتھ ہی نبڈ پہ نتتھ گنی۔‬
‫”شفر سے تھک گنی تھی بو آرام کرئے لگی تھر کسی سے ملنے جلی گنی تھی۔“‬
‫علتبا ئے تھبڈی آہ تھرئے نالوں کو سمنتنے کہا۔‬
‫”کس سے؟“‬
‫”اتکل ئے میرے لنے انک کسنوڈین رکھا ہے اور جاننی ہو کون؟“ علتبا ئے‬
‫تھوڑا شستنٹس تھبالنا جاہا۔‬
‫”دنبا کا نہیرین کسنوڈین اور کئیر۔۔! دامیر کا نام پہ لتبا۔“ ڈرنبا ئے مزاق‬
‫اڑائے ہوئے کہا لبکن علتبا کے ہ نوز شاکت ناپرات پہ وہ خونکی۔‬
‫”وافعی! دامیر آر؟“ اس ئے ئےتفتنی سے بوچھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪73 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں خود چیران ہوں‪ ،‬اتکل ئے نبا اس کے نارے میں جائے اس کو میرا گارڈ‬
‫نبا دنا۔ وہ پزنس مین ہیں ان کو اس دنبا کے کالے دھبدوں کے نارے میں کبا‬
‫نبا۔“ علتبا ئے اقسوس سے کہا جس پہ ڈرنبا ہٹس دی۔‬
‫”نمہارے اتکل جا ننے ہیں نتھی انہوں ئے دامیر کو رکھا ہے ورپہ کونی عام انشان‬
‫بو اس سے نات کرئے سے تھی رہا۔“ ڈرنبا ئے اس کی عقل پہ ماتم کرئے کہا۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”کبا مطلب؟“ علتبا نا ھی سے بولی۔‬
‫”دامیر کونی انبا تھی شسبا انشان نہیں ہے‪ ،‬وہ اگر اشاشن ہے بو مہ یگا پرین اور‬
‫اس سے تھی مہ یگا اس کا شاتھی رنان ڈی‪ ،‬اور اگر دامیر کئیر نا کسنوڈین ہے بو انشان‬
‫ن‬
‫کو اننی جانبداد بو نی ہی پڑے گی اس کو جبد ماہ کی ٹس د نے کے نے۔“ ڈرنبا ئے‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ج‬‫ن‬
‫علتبا کی مغلومات میں اصاقہ کرنا جاہا جس کو ستنے اس کی آنکھوں کے شاتھ شاتھ منہ‬
‫تھی کھل گبا۔‬
‫”اننی فتمت؟ آخر د نبا کون ہے۔“ علتبا ئے چیرت میں ڈوئے شوال کبا کہ آخر‬
‫کون انبا نٹشہ لگا کے ان خراتم سے خڑے لوگوں کو دے گا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪74 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”قالحال بو نمہارے اتکل ئے دی ہے۔“ ڈرنبا کی نات پہ علتبا کو جبال آنا کہ‬
‫آخر مبکس ئے تھی بو فتمت ادا کی ہو گی لبکن وہ پزنس مین تھے بو کبا ان کو کاقی‬
‫تھاری پڑا ہو گا دامیر کو انانت نٹ کرنا۔‬
‫”میں جتبا اس انڈرورلڈ کو جاننی جا رہی ہو عج نب ہی انکشاف ہو رہے ہیں مجھ‬
‫پہ۔“ علتبا ئے گھو منے سر کے شاتھ کہا۔‬
‫”اتھی بو تم ئے کجھ دنکھا ہی نہیں۔ نہاں شب الگ نشل کے لوگ آئے‬
‫ہیں۔ اکبڈمی میں بو ہبلو ہانی ہو جانی ہے لبکن ناہر جائے ہی جانی دسمن ہوئے ہیں‬
‫شب۔ انک دوسرے کے لنے انحان۔“ ڈرنبا ئے مزند اس کو ڈرانا بو انک پرقی لہر رپڑھ‬
‫کی ہڈی میں سران نت کر گنی۔‬
‫”تم ئے نبانا نہیں کہ تم دامیر سے ملی۔“ ڈرنبا انک دم چہک کے بولی۔ علتبا‬
‫ئے اس کے چہرے پہ چمک دنکھنے اس کو معنی چیز تگاہوں سے گھورا۔‬
‫”ملی ہوں اس سے۔ وہ بو نات تھی ا نسے کرنا ہے جٹسے کسی فبل میں مداجلت‬
‫کر دی ہو میں۔“ علتبا ئے چھرچھری لی بو ڈرنبا ہٹس دی۔‬
‫”اچھا تم آرام کرو میں جلنی ہوں اب شوئے کا ناتم ہو گبا ہے۔“ ڈرنبا اس کو‬
‫کہنی ہونی اتھ کھڑی ہونی۔ علتبا ئے مشکرا کے اس کو دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪75 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ انک البانین تھی۔ سباہ نالوں اور شقبد جلد والی خوتصورت لڑکی۔ چب علتبا‬
‫اکبڈمی میں آنی تھی نتھی اس کی اس سے دوسنی ہوگنی تھی اور اس میں زنادہ ہاتھ ڈرنبا‬
‫کا ہی تھا۔ نہاں اس ئے دو دوشت نبائے تھے۔ انک ڈرنبا اور دوسری شوزین۔‬
‫ب‬
‫شوزین اتھی اننی ف لمی سے ملنے گنی تھی۔ شوزین فرانس کی لڑکی تھی۔ شوزین‬
‫کسنوڈین کئیر کی پرنتبگ لے رہی تھی جبکہ ڈرنبا اشاشن کی۔ ڈرنبا سے اس نارے میں‬
‫اس کی دو نین نار نحث ہونی تھی لبکن ڈرنبا اس کو پہ کہہ کے نال د ننی تھی کہ‬
‫نہاں سے ناہر جا کے وہ کونی اور کام کرے گی پہ نس وہ ا ننے نیرننٹس کی وجہ سے‬
‫کر رہی تھی۔‬
‫نہاں شب انبا نشلی کارونار آگے پڑھا رہے تھے۔‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬‫ت‬
‫شوزین نہلے ہی کاقی پرنتبگ لے کے آنی تھی بو اس کا ڈ ٹس اچھا تھا۔ لی‬
‫ہ‬

‫مالقات اس کی شوزین سے ہی ہونی تھی جس ئے اس کو کراؤن ہبڈ کے نارے میں‬


‫نبانا تھا اور اس کے ناپ اشاشن کا تھی۔ اس ئے مزند رنان اور دامیر کے کٹسز کے‬
‫نارے میں نبانا تھا جس کی وجہ سے وہ ان سے تفرت کرنا سروع ہو گنی تھی۔‬
‫کل سے اسے اس سحص کو شاتھ رکھبا تھا جس سے وہ تفرت کرنی تھی جائے‬
‫اس کو چھبلبا کٹشا ہو گا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪76 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ن‬
‫”لوسین کی نتنی ہے نا وہ؟“ دامیر ئے علتبا کے شاتھ تتھی البانین لڑکی کو‬
‫دنکھنے کہا۔ لوسین البانبا کے اشاشن تھے اور ان کی آگے نیڑی میں ڈرنبا تھی۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”ہاں وہی ہے ک نوں؟“ رنان ئے نا ھی سے بوچھا اور اس کے شاتھ جلبا ہوا‬
‫ان کے نتبل کے فرنب آگبا۔‬
‫”علتبا ہے وہ!“ دامیر ئے علتبا کی جانب اشارہ کبا۔ رنان کے چہرے کے‬
‫ً‬
‫ناپرات ندلے۔ وہ اس کو نہلے دنکھ حکا تھا اور تفتبا اس کا دنکھبا علتبا تھولی نہیں ہو‬
‫گی۔‬
‫”جاننی ہے وہ مجھے۔۔“ دامیر ئے اس کو خونک کے دنکھا۔ وہ اس چملے کی بوفع‬
‫نہیں کر رہا تھا۔‬
‫دامیر نبا اجازت کے ان کے شا منے موخود کرسنوں میں سے انک پہ نتتھ گبا۔‬
‫رنان ئے تھی نبا کجھ کہے اننی تگاہیں علتبا پہ تکانی۔‬
‫”او ہانی دامیر‪ ،‬رنان۔“ ڈرنبا دوبوں کی آمد پہ خونک کے بولی۔ دامیر ئے محض سر‬
‫ہالنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪77 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان اب انبا مونانل کھولے اس پہ مٹسجز جبک کرئے لگ گبا تھا جبکہ دامیر‬
‫ئے دوبوں کے لنے آرڈر لگوانا۔‬
‫رنان ئے کسی اجشاس کے نحت گردن ہلکی سی گھمانی کہ اس کو چنہ ہال کے‬
‫اندر آنی ہونی دکھانی دی۔‬
‫رنان کے لب مبہم سی مشکراہٹ میں ڈ ھلے۔‬
‫”آ نتبدہ ہم نہاں نہیں اس کارپر والی نتبل پہ نتتھیں گے۔“دامیر ئے کھائے‬
‫سے اتصاف کرئے ہوئے کہا جبکہ رنان اتھی جاموش ہی تھا وہ ان کی نابوں میں بولبا‬
‫تھی نہیں جاہبا تھا۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫لبکن علتبا چب تھی اننی تگاہیں اتھا کے رنان کی طرف د نی بو وہ اسی کو د کھ‬
‫ن‬ ‫ھ‬
‫رہا ہونا۔ ہر تگاہ کے شاتھ اس کا خوف پڑھبا جانا اس کے پرعکس دامیر تھوڑا پرشکون‬
‫شا تظر آنا تھا۔‬
‫”ڈرنبا لوسین! نہت جلدی دوشت نبا لتنی ہو۔“ ڈرنبا چب ان کے ناس سے‬
‫اتھ کے گنی بو دامیر ئے علتبا کو دنکھنے ن یصرہ کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪78 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”وہ انک اچھی لڑکی ہے کم از کم معصوم لوگوں کو مارنی نہیں۔“ علتبا ئے اس‬
‫ک‬‫ل نب‬
‫کی نات پر ننے ہوئے لہچے میں خواب دنا۔ رنان اس کے ہچے پہ ھی تگاہوں سے‬
‫اس کو دنکھنے لگا۔‬
‫علتبا ئے رنان کی تگاہیں محسوس کیں بو اننی جگہ خور سی ہوگنی۔‬
‫”اس کے نہاں سے تکلنے کی دپر ہے وہ نمہیں اشاشن تھی کر شکنی ہے۔“‬
‫دامیر ئے اس کو ناور کروانا جاہا کہ نہاں کونی کسی کا دوشت نہیں۔‬
‫”نالکل جٹسے تم تھی مجھے اشاشن کر شکنے ہو‪ ،‬نا نمہیں نمہارا دوشت۔“ علتبا ئے‬
‫انک انک لقظ عصے سے جبا کے کہا۔ وہ اس کی دوشت پہ کٹسے پہ نات کہہ شکبا تھا۔‬
‫دامیر ئے اس کی نات پہ انبا اتھرئے واال عصہ پرداشت کبا جبکہ رنان نبا کونی‬
‫ناپر د ننے اس کا خواب د نبا انحوائے کر رہا تھا۔‬
‫”نا تھر!“ رنان ئے ئےشاچنہ کہا اور انک نل کو رکا۔ علتبا کی شانسیں جشک‬
‫ہونیں۔‬
‫”میں خود نمہیں اشاشن کر شکبا ہوں۔“ رنان ئے گرے آنکھوں سے علتبا کو‬
‫دنکھا۔ نہاں علتبا کا اعتماد چھاگ کی طرح نتتھ گبا۔ وہ دھمکی نہیں تھی رنان انبا ارادہ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪79 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نبا رہا تھا۔ دامیر ئے ننتبہی تگاہوں سے رنان کو دنکھا جبکہ علتبا کا خون جشک ہو حکا‬
‫تھا۔‬
‫رنان ا ننے حظرناک طر تقے سے ک نوں دنکھبا تھا اس کو جٹسے وہ اس کی شکار ہو۔‬
‫علتبا کا دل اندر سے ڈر سے کا نتنے لگا تھا۔‬
‫”میں اتھی آنا ہوں۔“ رنان کہہ کے اتھ کھڑا ہوا جبکہ جائے ہوئے اس کے‬
‫چہرے پہ انک شاطر مشکراہٹ تھی۔‬
‫”وہ نمہیں کجھ نہیں کہے گا رنلبکس۔“ دامیر ئے اس کے چہرے کی شقبد‬
‫رنگت کو دنکھنے کہا۔‬
‫”میں ڈرنی نہیں ہوں اس سے۔۔“ وہ تھاڑ کھائے والے انداز میں بولی اور انبا‬
‫ناشنہ کرئے لگی۔ دامیر اس کے انبا ڈر چھبائے پہ مشکرا دنا۔‬
‫لبکن شاند وہ نہیں جاننی تھی کہ چب وہ ڈرنی تھی بو اس کے چہرے کا انک‬
‫انک تقش نبانا تھا کہ وہ ڈر رہی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫چنہ نا سنے سے قارغ ہوئے پرنتبگ کے لنے گن روم میں جلی آنی چہاں وہ اننی‬
‫شونبگ نٹشٹ کرئے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪80 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس وفت وہ نانٹ چئیز پہ نلبک سرٹ نہنے کابوں پہ ہبڈ فوپز لگائے ہوئے تھی‪،‬‬
‫سباہ نالوں کو ہانی بونی نبل میں ناندھ رکھا تھا۔ شا منے بوڑد لگا تھا خو تفرنبا دس فٹ کے‬
‫قاصلے پہ تھا۔ انمہاک سے انک کے تغد انک شوٹ کر رہی تھی۔‬
‫ا ننے کام میں وہ مگن تھی لبکن ا ننے ننجھے کسی کی آہٹ محسوس کرئے وہ خوکبا‬
‫ہونی۔ اس کی گن پہ گرفت مضنوط ہونی۔‬
‫رنان کا ہاتھ اس کے نازو سے ہونا گن نک گبا اور اس کے ہاتھ پہ ہی انبا ہاتھ‬
‫چمائے انک قاپر کبا خو سبدھا نشائے پہ جا لگا۔‬
‫”مقانل کو کبدھے پہ شوٹ کرئے کی علطی کتھی پہ کرنا۔ مارنا ہے بو سبدھا‬
‫دل نا دماغ کا نشاپہ لو۔“ رنان کی آواز کان کے نالکل فرنب سبانی دی۔ انک ہاتھ‬
‫اس کا ر نبگبا ہوا دوسرے نازو نک آئے لگا چب چنہ چھبکے سے مڑی اور نسبل کو اس‬
‫کے سر پہ نانا‪ ،‬دوسرے ہاتھ سے اس کی گردن دبوجی‪ ،‬اس سے دگنی ستبڈ پہ رنان‬
‫کا ہاتھ اس کی گردن نک آنا اور گرفت مضنوط کرئے لگا۔‬
‫”مجھ سے دور رہو۔“ چنہ ئے آنکھوں میں سرجی لنے کہا۔‬
‫رنان ئے اس سے دور ہوئے نحائے گردن سے ہی دبوچے اس کو فرنب کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪81 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”جلو انک مغاہدہ کرئے ہیں۔“ اس کی آنکھوں میں انک چمک تھی۔ چنہ ئے‬
‫ت‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ن‬
‫نا ھی سے د کھا۔ دوبوں کے ہاتھ انک دوسرے کی گردن پہ تھے۔ چنہ ئے ا ھی‬
‫تھی نسنول اس کے سر پہ نانی تھی۔‬
‫”میرج آف االننٹس!“‬
‫)‪(Marriage of Alliance‬‬
‫اس کے کان کے فرنب چھکنے وہ سرگوسی میں بوال۔ شاتھ ہی اننی گردن پہ وہ‬
‫ناج نوں کی جتھن محسوس کرئے لگا۔‬
‫انک چھبکے سے اس ئے چنہ کو خود سے دور کبا اور اننی دانیں آنکھ دنانی۔ اس کو‬
‫شاکت چھوڑے وہ شونبگ روم سے جا حکا تھا۔‬
‫چنہ کو اس کی دماعی جالت پہ شنہ ہوا۔ وہ اس کو جانبا نک نہیں تھا اور نبہودہ‬
‫آفر سے اس کو بواز گبا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”فباد کے لوگ نہاں د نکھے گنے ہیں۔ مجھے پہ انک اچھا شگبل نہیں لگ رہا۔‬
‫ڈرنک کو اتقارم کر دو۔“ رنان ئے انیر نٹس سے دامیر کو محاظب کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪82 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ان کا نہاں پہ کبا کام؟“ دامیر علتبا سے جبد قدم ننجھے جل رہا تھا۔ علتبا ئے‬
‫مڑ کے اس کو دنکھا۔ پرنتبگ کے تغد وہ ا نسے ہی الن والی شانبڈ پہ آگنی تھی۔ دامیر‬
‫ئے اتھی نک اس کے کسی کام میں دجل اندازی نہیں کی تھی۔‬
‫”فباد خود کہیں عانب ہے اور لوگوں کو مرئے تھنج رہا ہے۔“ دامیر ئے ن یفر سے‬
‫کہا کہ شاتھ جلنی علتبا ئے خونک کے اس کو دنکھا۔ دامیر ئے اس کے ناپرات بوٹ‬
‫کنے۔‬
‫”تھبک ہے میں دنکھبا ہوں۔“ دامیر ئے کہنے کال کانی اور علتبا کو دنکھا۔‬
‫”فباد! جاننی ہو اس کو؟“ دامیر ئے نبا نمہبد ناندھے بوچھا۔ علتبا انک نار تھر‬
‫خونکی۔ اس ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”تھر چیران ک نوں ہونی؟“ اس ئے جانجنی تگاہوں سے دنکھا۔‬
‫”مجھے لگا کہ شاند میں ئے اس کا نام سبا ہے۔“ علتبا ئے الپرواہی سے کہا۔‬
‫ل‬‫ع‬
‫”کہاں سبا ہے؟“ دامیر ئے نات کو جاری رکھا۔ علتبا ئے ال می سے کبدھے‬
‫احکائے کہا کجھ نہیں۔ وہ ا ننے لمنے نالوں کو دانیں نانیں ہالئے نس جکر لگا رہی تھی۔‬
‫دامیر ئے مزند کجھ پہ بوچھا۔ اس نارے میں وہ مبکس سے ہی نات کرئے واال تھا‬
‫اب۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪83 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر ئے بوٹ کبا تھا کہ چب سے وہ علتبا کے شاتھ تھا کونی تھی علتبا سے‬
‫نات کرئے کو نہیں آرہا تھا۔ پہ شو جنے ہی دامیر ہلکا شا ہٹس دنا۔ علتبا ئے اس کی‬
‫ہٹسی پہ اس کو سحت تظروں سے دنکھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫جاری ہے۔۔۔‬
‫(نبا اجازت کے کانی نٹشٹ کرنا مم نوع ہے)‬
‫”انک دن لگے گا مجھے نہاں شارا شستم سنٹ کرئے میں‪ ،‬نب نک کجھ گڑپڑ‬
‫پہ ہو جائے۔“ رنان ئے شک نورنی روم کے کتمرہ میں دنکھنے ہوئے کہا۔‬
‫”ہم نہیں پہ ہیں بو قکر پہ کرو‪ ،‬شب سے نہلے تم فباد کو پرنک کرئے کی‬
‫کوشش کرنا۔“ دامیر آہشنہ آواز میں بوال۔‬
‫”ڈرنک ئے کوشش کی تھی لبکن اتھی نک اس کی لوکٹشن نہیں مل رہی پہ‬
‫ہی اس کے عالفے میں کونی خرکت ہونی ہے جائے کہاں چ ھپ کے نتتھا گا کیڑا۔“‬
‫رنان شکرین پہ تظریں چمائے ہوئے بوال۔‬
‫”میں ناقی کام دنکھبا ہوں تم اکبڈمی کی انڈنٹ کرئے رہبا۔“ رنان ئے انک‬
‫کتمرہ میں خرکت ہونی دنکھ کال کاٹ دی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪84 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شا منے ہی اکبڈمی کے انک کتمرے کی الن نو فوننج جل رہی تھی۔ کونی وہاں سے‬
‫ناہر تکال تھا۔ رنان اندازہ نہیں لگا نانا کہ وہ لڑکی تھی نا لڑکا۔‬
‫اس ئے ہوڈی نہن رکھی خو نبگی سبانل ہوئے کے شاتھ شاتھ اس کا چہرہ تھی‬
‫ڈ ھکے ہوئے تھی۔ ہوڈی کی جت نوں میں ہاتھ تھٹشائے ہوئے تھے۔ ستبکرز نہنے لمنے‬
‫قدم اتھا رہا تھا۔ گنٹ کو ع نور کرئے ہی وہ ا نسے ہی دوسری سمت جل دنا۔‬
‫رنان ئے اکبڈمی کی دوسری شانبڈ کا کتمرہ جبک کبا لبکن وہاں سے تھی اس کا‬
‫چہرہ ڈھکا ہوا تظر آرہا تھا۔‬
‫اکبڈمی میں بو اس طرح کا جلنہ اس کو کہیں تظر نہیں آنا تھا بو پہ بووارد تھا‬
‫کون۔‬
‫اس ئے نہاں کا شستم شک نور کبا اور خود گھر سے تکل آنا۔ ا ننے خرندے ہوئے‬
‫وال کے شک نورنی روم کو وہ آج سنٹ کرئے واال تھا ناکہ چب نک ادھر ہو وہ ناقی کام‬
‫دنکھ شکے۔‬
‫اس عالفے کے کتمراز کی الن نو فوننج وہ آشانی سے جاصل کر حکا تھا جس میں‬
‫اکبڈمی کا اپرنا تھی آنا تھا۔‬
‫اننی گاڑی تکا لنے اس ئے دامیر کو انک مٹسج تھنحا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪85 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رٹان‪” :‬اک یڈمی سے اب ھی کوئی ٹاہر گ یا ہے؟“‬


‫دامیر کا سبکبڈز میں رنالنی آنا۔‬
‫دامیر‪” :‬میں اس وقت علی یا کے ٹریی یگ روم میں ہوں یہاں سب ب ھ یک ہے‪،‬‬
‫چ یک کر کے ب یاٹا ہوں۔“‬
‫دامیر کا مٹسج ملنے ہی وہ اکبڈمی کے اس ر سنے تکل آنا چہاں وہ سحص تکال تھا۔ وہ‬
‫اس سیرنٹ پہ نہیں تھا۔ نہاں نک کہ سیرنٹ نالکل جالی تھی۔‬
‫رنان ئے انبا لنپ ناپ تکالے وہیں کتمرا کی فوننج جبک کرنا جاہی۔ نانچ منٹ ہی‬
‫ن‬
‫ہوئے تھے اس کو نہاں نک ہنجنے میں اور ان نانچ منٹ میں وہ سحص عانب تھا۔‬
‫ہر شانبڈ کی فوننج میں اس کا چہرہ واصح نہیں تھا۔ اس ئے انبا چہرہ چھبائے کی‬
‫ف‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫م‬‫ک‬‫م‬
‫ل نباری کر ر ھی ھی۔ ہر مرے سے وہ وا ف تھا۔‬
‫اکبڈمی کی نجھلی شانبڈ پہ نبگ سی سیرنٹ تھی چہاں کے آخر پہ انک کلب نبا‬
‫تھا۔ اس کلب کی رات وفت کی رن نونٹشن اچھی نہیں تھی۔‬
‫دن میں پہ انک اچھا ک یقے تھا لبکن رات کو نہاں غیر قابونی کام کنے جائے‬
‫تھے۔ رنان تھوڑی دپر اس سیرنٹ میں کھڑا کلب کو گھورنا رہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪86 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ہ‬‫ن‬ ‫ت ت ً‬
‫اس وفت رات کے آتھ نج رہے ھے اور فتبا کونی مغاملہ بو تھا نہاں۔ لے اس‬
‫ئے اندر جائے کا شوجا۔ کجھ دپر وہ ناہر کھڑا رہا۔ ہو شکبا تھا کہ وہ اندر جائے اور لوگ‬
‫اس کو نہحان تھی لتنے۔‬
‫کبدھے احکائے وہ کلب کے اندر داجل ہوا۔ اندر جائے ان کو انبا کارڈ دکھانا پڑنا‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫تھا۔ رنان ئے آ یں ھمائے انبا کارڈ دکھانا اور نبا ر ٹشن پہ ھے آدمی کے ناپرات‬
‫د نکھے وہ اندر پڑھ گبا۔‬
‫اس آدمی کے چہرہ چیرت سے کھال‪ ،‬کتھی کارڈ کو د نکھے بو کتھی رنان کو۔‬
‫وہ نہاں اس کے شا منے کھڑا تھا اور نبا کجھ کہے آگے پڑھ گبا۔‬
‫اندر نلر گالس ڈور لگے تھے جن سے نس دھبدھال ہی تظر آرہا تھا لبکن اندر کا‬
‫ماخول ا ننے عروج پہ تھا۔‬
‫لڑکا لڑکی کھلے عام ا ننے ندن کو لہرا رہے تھے۔ انک دوسرے میں سما رہے‬
‫تھے۔ رنان ان شب کو تظرانداز کرنا کاؤنیر نتبل کے ناس آگبا اور وہیں نبک لگائے کھڑا‬
‫ہو گبا۔ اس کی تگاہیں اطراف کا شکین لے رہی تھیں کہ آخر وہ کون تھا خو نہاں آنا‬
‫تھا اور کبا وجہ تھی۔‬
‫نتھی مونانل مٹسج ن نپ کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪87 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر‪” :‬یہاں سب سٹوڈ ب نٹس موجود ہیں اور گارڈز نے ب ھی کسی کو یہیں‬
‫دٹکھا۔“‬
‫دامیر کا مٹسج دنکھنے اس ئے مونانل وانس ناکٹ میں رکھا اور ا ننے لنے نان‬
‫الکوجلک ڈرنک مگوائے لگا۔‬
‫انک لڑکی لہرانی ہونی اس کے فرنب آنی اور انبا پرہنہ کبدھا اس کے کبدھے‬
‫سے مالئے لگی۔‬
‫”اسیعفرہللا“‬
‫رنان دل میں بوال اور اجانک انبا کبدھا ننجھے کبا جس سے لڑکی خو انبا وزن اس پہ‬
‫ڈال رہی تھی لڑکھڑا پڑی اور گرئے گرئے نچی۔ اس ئے تفرت سے رنان کی جانب‬
‫دنکھا خو اننی ڈرنک کا گالس ہون نوں سے لگا رہا تھا۔‬
‫رنان ئے گالس کو نتبل پہ رکھا اور خود اندر کی طرف پڑھ گبا چہاں بول ڈانس‬
‫جل رہا تھا۔ اس ئے تظریں گھمانیں لبکن اس جلنے واال سحص اس کو تظر نہیں آنا۔‬
‫مزند تھوڑی دپر وہیں ر کنے کے تغد وہ کلب سے ناہر تکل آنا۔‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ٹ‬
‫دامیر‪” :‬کہاں نظارے د نے نے ہو؟“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪88 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫انک نار تھر مٹسج ن نپ ہوئے اس ئے مونانل تکاال بو دامیر ئے خڑائے ہوئے‬
‫مٹسج تھنحا تھا ضرور اس ئے لوکٹشن پرنک کی تھی اس کی۔‬
‫رٹان‪” :‬ب ھاب ھی ڈھوٹڈنے نکال ب ھا۔“‬
‫رنان ئے جلے دل سے اس کو خواب دنا۔‬
‫دامیر‪” :‬میرے سا م نے گولی چالنے کی ٹاکام کوشش کر رہی ہے وہ۔“‬
‫دامیر کے خواب پہ رنان ہٹس دنا‪ ،‬ضرور وہ اس وفت علتبا کے شاتھ تھا۔‬
‫پہ اس ئے مزاق میں کہا تھا نا سنجبدگی میں اس نارے میں وہ کجھ کہہ نہیں‬
‫شکبا تھا۔‬
‫ت‬‫ہ‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ج‬ ‫ن‬
‫لبکن انبا مغلوم تھا کہ اگر وہ انشا ارادہ کر لتبا بو ھے یں نے واال تھا۔‬
‫ن‬
‫سیرنٹ کی دوسری شانبڈ پہ اس ئے اننی گاڑی نارک کی تھی۔ گاڑی میں نتتھنے‬
‫ہی اس ئے فوننج دونارہ سے آن کر لی ناکہ جائے والوں کا نبا جل شکے۔ فوننج کو اس‬
‫ن‬
‫ئے رتکارڈنگ پہ تھی لگا رکھا تھا کہ دونارہ تھی آرام سے جبک کر شکے۔ ا ننے وال نجنے‬
‫ہ‬

‫اس کی بوجہ کلب کے گنٹ سے تکلنے انک وخود پہ گنی جس ئے النگ کوٹ نہن رکھا‬
‫تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪89 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ لڑکی تھی‪ ،‬سرخ النگ کاکتبل ڈرنس میں‪ ،‬اس کا لہرانا آنحل اس کو دکھانی‬
‫دے رہا تھا۔ اس کے سرخ نال چہرے کے آگے گرے تھے۔‬
‫رنان کو وہ غیر معمولی سی محسوس ہونی ک نونکہ اس ئے کلب میں کسی کو تھی‬
‫انشا نہیں دنکھا تھا۔ کوٹ کی جت نوں میں ہاتھ ڈالے ہانی ہبل نہنے وہ سہج سہج کے قدم‬
‫اتھا رہی تھی چب دو لڑکوں کو تھی اس ئے اس کے ننجھے جائے دنکھا۔ ان کو وہ‬
‫کلب میں دنکھ حکا تھا۔ انک نار انتبڈر تھا اور دوسرا بول ڈانسبگ روم میں تھا۔‬
‫رنان ئے شا منے کا کتمرہ آن کبا‪ ،‬لڑکی ئے ماشک نہن رکھا تھا۔ دوبوں لڑکے‬
‫اس کے دانیں نانیں آ گنے۔ رنان کو لگا کہ اس کو جانا جا ہنے تھا وہاں لبکن ہو شکبا تھا‬
‫کہ اس ئے خود نالنا ہو ان لڑکوں کو۔‬
‫نہاں کی لڑک نوں کا کونی تھروسہ تھی بو نہیں تھا‪ ،‬خود ہی لڑکوں کو سرعام دغوت‬
‫نٹش کرنی تھیں۔ اب وہ ان کے ناس جا کے ین نالنا مہمان نہیں نتبا جاہبا تھا۔‬
‫اگلے ہی نل مغاملہ الگ تطارہ نٹش کرئے لگا چب اس نار انتبڈر ئے اس کے‬
‫نالوں کی جانب ہاتھ پڑھانا بو لڑکی ئے اس کے منہ پہ ننچ دے مارا‪ ،‬دوسرے کو اس‬
‫ئے ہبل کی بوک جشاس جگہ پہ مارئے ننچے گرانا۔‬
‫”اوو۔“ رنان ئے اس لڑکے کو درد سے کرا ہنے دنکھ کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪90 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نار انتبڈر ئے ستتھلنے ہوئے اس کو تھر چھنتبا جاہا چب مقانل ئے اس کے نازو‬


‫کو مڑوڑئے اننی نانگ اس کے کبدھے سے گزاری اور اس پہ جاوی ہوئے اس کی‬
‫گردن کو انک چھ یکا د ننے بوڑ دنا۔ وہ وہیں پہ دم بوڑ گبا۔‬
‫سرخ نالوں والی لڑکی ئے انبا ہاتھ کرا ہنے لڑکے کے آگے کبا بو اس ئے سرخ‬
‫پڑئے اس کے ہاتھ میں جانی تھمانی۔ رنان ئے شکرین کو زوم کبا‪ ،‬وہ جانی ہی تھی‬
‫لبکن کس چیز کی۔‬
‫کبا اس کو لڑکی کا ننجھا کرنا جا ہنے تھا‪ ،‬ہو شکبا تھا کہ پہ شب کونی اور مغاملہ ہو۔‬
‫اس ئے سر چھ یکا کہ خوامحوا وہ کسی دوسرے کے کام میں دجل اندازی کرے گا۔‬
‫وہ لڑکی کو کمزور سمجھ کے جائے واال تھا لبکن وہ بو لڑکی لگ ہی نہیں رہی تھی۔‬
‫بورچ میں گاڑی ک ھڑی کرئے وہ اندر داجل ہوا چہاں گارڈ کھڑے تھے۔‬
‫انک دو کام نتبائے وہ وانس دامیر کے ناس جائے کا ارادہ رکھبا تھا۔‬
‫”سر کھانا نہیں کھانیں گے آپ؟“ وہ گھر سے تکلنے لگا چب مبڈ ئے اس سے‬
‫شوال کبا‪ ،‬تقی میں سر ہالئے آگے پڑھ گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪91 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رات کے دس نجنے والے تھے چب وہ اکبڈمی نہنحا۔ نہلی تظر ہی اس کی چنہ پہ‬
‫گنی خو پرنک شوٹ نہنے سیرنجبگ کر رہی تھی۔ رنان ئے تگاہیں اس کی طرف چمانیں‬
‫اور فرصت سے دنکھنے لگا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫چنہ کی نشت اس کی جانب تھی لبکن وہ اس کو دنکھ جکی تھی۔ رنان کی‬
‫موخودگی اس کو محسوس ہو جانی تھی۔‬
‫ا ننے دانیں نازو کو وہ نانیں لے جا کے سیرنچ کر رہی تھی چب اس ئے ا نسے‬
‫ہی گردن گھمائے کبدھے سے ننجھے دنکھا۔ نلر کے شاتھ کھڑے نت نٹ کی جت نوں میں‬
‫ہاتھ ڈالے وہ انہماک سے ا نسے دنکھ رہا تھا جٹسے دنبا میں اس کو کونی اور کام نہیں‬
‫تھا۔‬
‫چیر اس کو تظرانداز کرئے میں نٹسے نہیں لگنے تھے بو وہ کرئے لگی۔‬
‫رنان اس کی موخودگی کا انک انک نل اننی تگاہوں سے نتنے لگا۔‬
‫چب اس ئے کتمرہ کی فوننج میں لڑکی کو لڑئے دنکھا بو انک نل کو اجانک چنہ کا‬
‫جبال آنا تھا لبکن دامیر کے کہنے کے مطابق کونی تھی ناہر نہیں گبا تھا اسی لنے اس‬
‫جبال کو تکال دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪92 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫م‬
‫انبا کام کمل ہوئے ہی چنہ شو نٹ ناول لنے اندر پڑھ گنی ناکہ روم میں جا کے‬
‫فرنش ہو شکے۔‬
‫رنان اس کو جانا دنکھ نبک چھوڑے اس کے ننجھے جائے لگا۔ اتھی وہ ا ننے نالک‬
‫کی جانب گنی ہی تھی کہ رنان ئے اس کے نازو کو گرفت میں لتنے اسے دبوار سے ین‬
‫کبا اور اطراف میں ا ننے ہاتھ تکائے۔‬
‫چنہ ئے اس کو ننتبہی تگاہوں سے دنکھا ک نونکہ پہ دوسری نار تھا چب وہ اس کی‬
‫مرضی کے نبا اس کو ہاتھ لگا رہا تھا۔‬
‫”مجھے اس سے کونی فرق نہیں پڑنا کہ تم کتنے ہی حظرناک ہو لبکن آ نتبدہ تم‬
‫ئے میری اجازت کے نبا مجھے ہاتھ لگانا بو میں پہ ہاتھ بوڑ دوں گی۔“‬
‫چنہ ئے اس کی سرد گرے آنکھوں میں دنکھنے انک انک لقظ جبا کے کہا۔‬
‫”مجھے اپرنکٹ کرئے ہیں وہ لوگ خو ہمت پہ ہوئے تھی دھمکی د ننے ہیں۔“‬
‫رنان ئے نبا ناپر کے اس سے کہا۔ آنکھوں کے شاتھ شاتھ چہرے پر تھی کونی خزنات‬
‫کا ع یصر موخود نہیں تھا۔‬
‫چنہ ئے اس کی نات کا خواب اس کو دکھانا جاہا اور دانیں کبدھے پہ انک ہٹ‬
‫دنا۔ رنان ننجھے ہبا لبکن چہرے پہ زرا سی مسکان اتھر کے مغدوم ہونی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪93 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے کونی کمزور محلوق پہ سمجھبا۔ تم جٹسوں کے لنے شوجبا تھی میں وفت پرناد‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ہونا ھنی ہوں۔“ چنہ ئے اس کو وارن کرئے ہوئے کہا جبکہ رنان نبا ا ننے ناپرات‬
‫ندلے اسی کو نس دنکھ رہا تھا۔ چنہ انک نل کو ک یق نوز ہونی کہ آخر وہ جاہبا کبا تھا۔‬
‫”کب ارادہ ہے اکست نٹ کرئے کا؟“ رنان ئے اس کی شاری نابوں کو تظر انداز‬
‫س‬
‫کرئے گھمئیر لہچے میں بوچھا کہ چنہ ئے اس کو نا ھی سے دنکھا۔‬
‫ج‬‫م‬

‫”میں نمہارے اتکل سے نات کر لوں گا ستبل مت نٹ کی تم نس مجھے میرج‬


‫ڈ نٹ قانبل کر کے نبادو۔“ رنان ئے قدم اس کی طرف پڑھائے قاصلہ جتم کرئے‬
‫ہلکی آواز میں کہا۔ چنہ کا دماغ ماؤف ہوئے لگا۔ اس کی نانیں ضیط کھوئے کو کاقی‬
‫تھیں۔ اس ئے زندگی میں جتنے تھی تقسبانی مرتصوں کو دنکھا تھا ان شب میں ناپ پہ‬
‫رنان ڈی ہی اس کو تظر آرہا تھا۔‬
‫”میرا تم سے کونی تغلق نہیں‪ ،‬تم ا ننے ر سنے جاؤ مجھے میرے ر سنے جائے دو اور‬
‫م‬ ‫ک‬‫ن‬
‫میرے کاموں میں دجل اندازی مت کرو۔“ چنہ ئے زور سے آ یں یں انبا صہ‬
‫ع‬ ‫چ‬ ‫ن‬ ‫ھ‬
‫ن‬
‫کئیرول کبا اور مزند قاصلہ مبائے اس کی آنکھوں میں د نی بولی۔‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫”دنٹس وائے آنی وانٹ بو۔“‬


‫)!‪(That’s why I want you‬‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪94 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان کا اشارہ اس کی آنکھوں میں دنکھ کر نات کرئے کا تھا۔ وہ نبا ڈرے اس‬
‫کی آنکھوں میں د نکھے پراہ راشت مارئے کی نات کبا کرنی تھی۔‬
‫ب‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫”تم مجھے اننی جانب خود نجنی ہو‪ ،‬ڈ نٹ قان ل کر کے نبا د نبا میں انبا سبڈول‬
‫سنٹ کر لوں گا اس اسنٹشل دن کے لنے۔“ پہ ہی اس کا لہحہ نبار لنے ہوئے تھا‬
‫اور پہ ہی وہ پہ نات پرمی سے کہہ رہا تھا۔‬
‫اس کا پروبوز کرئے کا انداز تھی انشا تھا جٹسے وہ اس کو دھمکی دے رہا تھا۔‬
‫اور انسی دھمکی کو وہ خوئے کی بوک پہ رکھنی تھی۔‬
‫”وہ تم ہی تھی۔ میں جانبا تھا۔“ رنان ئے اس کے نالوں کو چھوئے ہوئے کہا‬
‫چب چنہ ئے قاصلہ پڑھانا۔‬
‫”میں نمہاری مدد کر شکبا ہوں جٹسی تم جاہو۔“ اس ئے لگے ہاتھوں اس کو آفر‬
‫کی۔‬
‫چنہ جاننی تھی کہ جن کے ننجھے پہ دوبوں ک ھڑے ہو جانیں تھر ان کی طرف‬
‫مسکل سے ہی کونی قدم پڑھانا تھا۔ ان دوبوں کی دہشت کی وجہ سے کونی ان پہ چملہ‬
‫کرئے کی علطی نہیں کر شکے گا۔ اس نار بو رنان خود مدد کرئے کو کہہ رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪95 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”خود کو مجھ سے دور رکھو۔“ چنہ انبا کہہ کے وہاں سے جلی گنی۔ مزند انبا وفت‬
‫پرناد نہیں کرنا جاہنی تھی نہلے ہی وہ تھکی آنی تھی۔‬
‫اس ئے نہاں سے اب جائے کا ارادہ کر لبا تھا ک نونکہ رنان اس کے کام میں‬
‫رکاوٹ نتنے واال تھا پہ نات وہ ا چھے سے سمجھ گنی تھی۔‬
‫م‬
‫کلب جائے ہوئے اس ئے کمل خود کو انک لڑکے کے جلنے میں ڈھاال تھا‬
‫ن‬
‫لبکن نبا نہیں کٹسے رنان کو اس کا علم ہو گبا اور ننجھا کرئے وہ اس نک ہنچ تھی‬
‫گبا۔ چب رنان کو اندر آئے دنکھا بو لبڈپز رنشٹ روم کی طرف جلی گنی۔ جاالنکہ خو وہاں‬
‫کا جال تھا وہ کسی تھی شانبڈ جا شکنی تھی لبکن جاننی تھی کہ رناں وہاں بو نہیں آئے‬
‫واال تھا۔‬
‫اس کو نہاں سے اتقارمٹشن ملی تھی کہ انک گودام میں لڑکی کو ناندھ کر رکھا گبا‬
‫تھا جس کو کل رات لوگ نہاں سے رواپہ کرئے والے تھے۔‬
‫چیر ملنے ہی چنہ ئے اس جگہ کا نبا کروانا جاہا اور ا نسے ہی نابوں نابوں میں نار‬
‫انتبڈر ئے ا ننے مسغلوں کا زکر کبا۔ وہیں اس کو قاندہ ہوا تھا۔ اس جگہ وہ دوسری‬
‫مرننہ آنی تھی اور اس دفع اس کو کامبانی جاصل ہونی تھی۔ رنان کے تکلنے ہی وہ انبا‬
‫ڈرنس کوڈ ند لنے ناہر تکل آنی۔ کسی کو مزند شک پہ ہو اس ئےوگ لگا لی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪96 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫جٹسے وہ دوبوں لڑکے جشن کے جال میں تھٹسے اس ئے موفع کا قاندہ اتھانا۔‬
‫لڑکی کی شپ منٹ کل رواپہ ہو رہی تھی اور اس کے نارے میں اتھی چیر‬
‫تھبلی نہیں تھی نتھی وہاں کی سبک نورنی کم تھی خو چنہ کے لنے قاندہ مبد نانت ہونی‬
‫تھی۔ آدھے گ ھتنے نک وہ لڑکی کو انک سیف ہاؤس میں نہنحا آنی تھی اور نہاں وانسی پہ‬
‫رنان کی نبہودہ نانیں ستنے کو ملیں۔‬
‫اس کے علم کے مطابق رنان کو غورت زات میں دلحسنی تھی ہی نہیں ضرف‬
‫رنان کو ہی نہیں‪ ،‬دامیر تھی کوشوں دور رہبا تھا لبکن اب وہ تھی انک لڑکی کا کئیر‬
‫تھا۔‬
‫اس شب میں رنان کا اجانک پروبوزل اس کی سمجھ سے ناہر تھا۔ وہ اس کو‬
‫جانبا نک نہیں تھا اور میرج آف آالننٹس کی نات کر رہا تھا۔‬
‫اگر پہ نات ان کے درمبان طے ہو جانی بو مرئے دم نک وہ اس سے ننجھے نہیں‬
‫ہتنے والے تھے۔ اس سباہ دنبا کا اصول تھا القاظ سے تھرنا تعنی کھلے عام موت کو‬
‫دغوت د نبا اور اس کی کونی انسی مج نوری تھی نہیں خو وہ رنان نامی نال کو ا ننے گلے‬
‫ل یکانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪97 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫صنح اس کو اکبڈمی سے جانا تھا بو اننی چیزیں نبک کرئے لگی۔ نبگ نبک کرئے‬
‫اجانک اس کے ہاتھ تھمے چب رنان کے کہے القاظ ناد آئے۔‬
‫”وہ میرے اتکل سے نات کرے گا؟“‬
‫تعنی وہ جانبا تھا کہ اس کی فتملی میں کون ہے۔ جتبا اس ئے خود کو شوسبل اور‬
‫ان لوگوں سے دور رکھا تھا وہ تھر تھی جان گبا تھا۔ اس سے نہلے کہ وہ اتکل مبکس‬
‫نک جانا اس کو خود ہی انہیں م یع کر د نبا جا ہنے تھا ناکہ وہ رنان کی کسی تھی نات‬
‫میں شامل پہ ہوئے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”تم کجھ نلین کر رہے ہو؟“ دامیر اس کو روم کے فرنب آئے دنکھ بوچھا۔‬
‫نالک کے سروع پہ وہ رنان اور چنہ کو انک شاتھ دنکھ حکا تھا‪ ،‬رنان کو چنہ کے ا ننے‬
‫فرنب دنکھبا اس کے چیرت زرہ تھا۔‬
‫”انک ونڈنگ آنی گٹس!“ رنان ئے سنجبدگی سے کہا جس پہ دامیر معنی چیز شا‬
‫مشکرانا۔‬
‫”ا ننے شالوں تغد کٹسے ناد آگبا؟“ دامیر ئے ہٹسنے ہوئے کہا‪ ،‬رنان الپرواہی سے‬
‫کبدھے احکا گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪98 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”وہ جلبا تھرنا تم ہے اور ا نسے حظروں کو شاتھ رکھبا مجھے اچھا لگبا ہے۔“ رنان کا‬
‫اشارہ دامیر کی طرف تھی تھا جس پہ وہ تقی میں سر ہالئے ہٹس دنا۔‬
‫”اگر انشا ہے بو نمہاری زندگی میں شامل ہوئے والی لڑکی مجھے نہت عزپز ہو گی۔“‬
‫دامیر ئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے انبان نت سے کہا۔ رنان جانبا تھا کہ وہ ا ننے‬
‫لقظوں کا تکا تھا۔‬
‫”نمہارے لنے تھی میرے ا نسے ہی خزنات ہیں۔“ رنان ئے مشکرائے کہا۔‬
‫”میری زندگی میں کونی نہیں آئے والی۔ میں مزند تم سے اننی بوجہ نہیں ہبا‬
‫شکبا۔“ دامیر ئے ناگوار لہچے میں کہا۔ رنان جانبا تھا کہ اس ئے نہلے تھی کتھی کسی‬
‫لڑکی پہ اننی بوجہ نہیں دی تھی ک نونکہ غوربوں کا تصور ہی نہیں تھا۔ اتھی وہ علتبا کا‬
‫زکر کر رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی آدھی بوجہ رنان سے ہنی ہونی تھی اور انشا وہ‬
‫نہیں جاہبا تھا۔‬
‫رنان ئے خود شادی کا ف یصلہ اجانک کبا تھا اور ک نوں اننی جلدی! وہ خود اندازہ‬
‫نہیں لگا نانا تھا۔‬
‫”میری وجہ سے اننی خوسباں جتم پہ کرو۔“ رنان ئے پرا مبائے ہوئے کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪99 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہاں لڑکی ہی خوسی رہ گنی ہے نا میری۔ اس نارے میں نات نہیں کرنی۔ و نسے‬
‫پہ نبا د نبا کہ شادی کس دن ہے۔“ دامیر ئے چھال کے کہنے آخر میں انبا لہحہ عام شا‬
‫رکھا جس پہ رنان ہٹس دنا اور ہٹسبا ہی جال گبا۔‬
‫”سننئیرز کا آکشن ڈے ہے کل۔ نہاں موخود ہو گے تم؟“ دامیر ئے ناد آئے‬
‫پہ رنان سے بوچھا جس پہ وہ کجھ شو جنے لگ گبا۔‬
‫”قاندہ ہو گا۔ پہ بو مغلوم ہو گا کہ کون کس کی کہنے پہ جلنے واال ہے۔“ رنان‬
‫شوجبا ہوا بوال ک نونکہ آکشن پہ خو فتملیز ہونی تھیں نا مافبا ہبڈز ہوئے خو پرن نت نافنہ‬
‫‪ participants‬کوخرندئے تھے جٹسے مبکس ئے دامیر کو ہانیر کر رکھا تھا۔‬
‫نہاں سے تکلنے ہی ان کا کانیرنکٹ سروع ہو جانا تھا وہ جاہے نہاں سے تکلنے‬
‫والے انک دوسرے کو مروائے کا کانیرنکٹ ہی ک نوں پہ د ننے۔‬
‫چب وہ آکشن کے فبکشن میں ہوئے بو ان کو مغلوم ہو جانا کہ کس کو کبا‬
‫کانیرنکٹ مال تھا۔ نبالمی شب کے شا منے ہونی تھی۔‬
‫دامیر اور رنان کجھ شالوں نہلے چب نہاں سے جائے والے تھے بو دامیر ئے اننی‬
‫فتمت اننی نبانی تھی کہ ا ننے میں دو کئیر ر کھے جا شکنے تھے رنان ئے اس کو ہی خوز‬
‫کرنا تھا پہ دوبوں کا خود کا ف یصلہ تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪100 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اشاشن وہ دوبوں اننی مرضی کے تھے۔ کانیرنکٹ اگر ان کو مباشب لگبا بو وہ‬
‫جامی تھرئے تھے ورپہ رنجبکٹ کر دنا کرئے تھے۔‬
‫”شل نوری کارنل تھی ہو نگے نہاں بو علتبا ہو گی شاتھ نمہارے؟“ رنان ئے علتبا‬
‫کے نارے میں بوچھا۔ آج کی انڈنٹ کے مطابق اس ئے دامیر کی ناک میں دم‬
‫کرئے کی نہت کوشش کی لبکن اس کی انک گھوری پہ ہی وہ انبا شانس جشک کر‬
‫لتنی تھی۔‬
‫”ہاں! اس کو تھی نبا جلبا جا ہنے کہ وہ کہاں آنی ہے۔ شل نوری کی نبالمی‬
‫ہوئے ہی تم تکل جانا۔“ دامیر ئے ا ننے روم کا دروازہ کھو لنے کہا لبکن شا منے علتبا‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫کو د نے خو ک گبا۔‬
‫وہ اس کے روم میں کب آنی تھی۔‬
‫جبکہ رنان ئے اس کے خو نکنے پہ اندر دنکھا بو علتبا کو کھڑا نانا خو دبوار سے نبک‬
‫لگائے ہوئے تھی۔‬
‫”تم ڈنل کرو ناقی نانیں میں صنح ڈشکس کروں گا۔“ رنان انک تظر علتبا پہ‬
‫ڈالے ا ننے روم میں جال گبا جبکہ دامیر ئے جاموش مگر شوالنہ تظروں سے علتبا کو‬
‫دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪101 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے تم سے نات کرنی تھی ضروری لبکن تم مجھے ملے ہی نہیں۔“ علتبا ئے‬
‫گال کھبکھارئے ا ننے آئے کی وجہ نبانی۔‬
‫” اس طرح روم میں؟“ دامیر سنجبدگی سے بوال۔‬
‫”نمہارے شاتھ گارڈ تھا اس کو کہہ شکنی تھی۔ مجھے شام میں ضروری کام سے‬
‫جانا تھا۔“ دامیر ئے مزند کہا اور روم میں داجل ہوا۔‬
‫علتبا اس کے شا منے سے ہنی اور دروازہ نبد کرئے لگی چب دامیر ئے اس کے‬
‫ہاتھ کو چھبک دنا۔ وہ نہیں جاہبا تھا کہ کونی علتبا کے نارے میں علط نات کہے۔‬
‫”کہو کبا کہبا ہے؟“ دامیر ئے صوفے پہ نتتھنے اس کو تھی نتتھنے کا اشارہ کبا۔‬
‫”مجھے کل کہیں جانا ہے‪ ،‬میں ئے اتکل مبکس سے کہا تھا لبکن انہوں ئے‬
‫مجھے تم سے بوچھنے کا کہا۔“ علتبا ئے ئےزار انداز میں کہا۔‬
‫”کہاں جانا ہے؟“ دامیر ئے اپرو احکائے۔‬
‫”پہ نبائے کی میں نانبد نہیں ہوں۔ مجھے نمہیں نبانا تھا نبا دنا۔ اب میرا ننجھا پہ‬
‫کرنا۔“ وہ نیز اور ندنمیز لہچے میں کہنی وہاں سے اتھی اور دروازے کی طرف پڑ ھنے لگی‬
‫چب دامیر ئے اس کی کالنی کو اننی گرفت میں لبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪102 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم ہر چیز میں میری نانبد ہو۔ نہاں سے ناہر جائے کے لنے تھی نمہیں میری‬
‫اجازت کی ضرورت ہے۔“ دامیر ئے اس کا رخ اننی طرف کرئے سرد لہچے میں وارن‬
‫کبا کہ علتبا کی آنکھوں میں خوف اپر آنا۔‬
‫”تم میری زندگی کو فبد میں نہیں کر شکنے۔“ علتبا کو اس کی نانیں ناگوار‬
‫گزریں۔‬
‫”نہاں سے تکلو گی بو فبد ہو جاؤ گی۔“ دامیر ئے اس کو ناور کروانا۔‬
‫”تم مجھے کئیرول کرئے کی کوشش ہرگز پہ کرو۔ تفرت کرنی ہوں تم جٹسوں‬
‫سے۔“ علتبا ئے انبا ہاتھ چھبکے سے چھڑوائے ہوئے کہا۔ دامیر کے لب ہلکی سی‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫م ھ لب ً‬
‫مشکراہٹ یں ڈ لے کن فورا ہی اس م کراہٹ کو م کرئے اس کے ہرے کے‬
‫چ‬ ‫ش‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫ناپرات حظرناک جد نک سنجبدہ ہوئے۔ اس ئے سجنی سے چیڑے نچ نے۔‬
‫ل‬
‫”مجھ جٹسوں سے کبا مطلب ہے نمہارا؟“ دامیر ئے اس کی طرف قدم پڑھائے‬
‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬
‫انک ہاتھ سے دروازہ زور سے نبد کبا کہ علتبا کی آ یں چیرت سے یں۔ اس کا پہ‬
‫ل‬ ‫ھ‬
‫انداز اس کے لنے نبا تھا۔‬
‫”تم انک قا نل۔۔“ علتبا ئے کجھ کہبا جاہا چب دامیر کو ا ننے فرنب دنکھنے القاظ‬
‫منہ میں ہی رہ گنے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪103 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے مزند انک فبل کرئے سے کونی تفرت محسوس نہیں ہوگی۔“ اس کے لہحہ‬
‫پراسرا ہوا۔ آواز سرگوسی کی طرح محسوس ہونی۔ علتبا ئے ا ننے رونگھنے کھڑے ہوئے‬
‫محسوس کنے۔‬
‫وہ اس کو مارئے کی دھمکی دے رہا تھا۔‬
‫”دو۔۔ دور رہو مجھ سے۔“ نہت ہمت کرئے پہ تھی وہ اننی آواز کو لڑکھڑائے‬
‫سے روک پہ نانی۔‬
‫”مجھے انبا سباؤ جتبا تم پرداشت کر شکو۔“ دامیر اس کے انبا فرنب آگبا کہ علتبا‬
‫کو شانس لتبا تھی مسکل لگنے لگا۔ اجانک اس کی دھڑکن نیز ہو گنی خوف سے۔ وہ اس‬
‫کو ڈرا رہا تھا اور علتبا ڈر رہی تھی۔‬
‫”اب انک اچھی لڑکی کی طرح ا ننے روم میں جاؤ۔“ اس کے گال کو تھبکنے‬
‫ن‬ ‫ب‬ ‫چ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ہوئے اس ئے سنجبدگی سے کہا کہ علتبا ئے آ یں نے اس کو د کھا۔ دامیر سے‬
‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ھ‬
‫انبا خوف نہلی نار محسوس کبا تھا۔‬
‫علتبا ئے جٹسے ہی انبا رخ موڑا انک گہرا شانس ہوا کے سیرد کبا۔ شانس لتنے میں‬
‫جٹسے دشواری ہو رہی تھی۔ کمرے کی ہوا نبگ محسوس ہوئے لگی۔ ئےشاچنہ ہی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪104 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گردن پہ ہاتھ رکھنے اس ئے دروازے کی جانب قدم پڑھائے۔ دامیر کے قا نل ہوئے‬


‫کا اجشاس پڑ ھنے لگا۔ تفرت پروان خڑ ھنے لگی۔‬
‫علتبا کے جائے کے تغد دامیر ئے خود کو آ نتنے میں دنکھا۔‬
‫”انبا خوفباک ہوں نہیں جتبا ڈر گنی ہے مجھ سے۔“ اس ئے کبدھے احکائے‬
‫ہوئے الپرواہی سے کہا اور نبڈ نک آنا۔‬
‫عج نب صد دالنی تھی اس کو۔ دامیر ئے خود اس کے کسی کام میں دجل‬
‫اندازی نہیں کی تھی اور وہ اس سے تھی بوفع کرنا تھا کہ علتبا اس کی نات مائے خو‬
‫اس کی ہی نہیری کے لنے تھا لبکن وہ البا اننی تفرت کا اظہار کرنی تھی۔‬
‫”اننی تفرت کے بو قانل نہیں ہوں میں۔ اچھا جاصا ہزنتبڈ مئیرنل ہوں وہ تظر‬
‫نہیں آنا اس کو۔“ دامیر ئے سر چھبکنے اقسوس سے کہا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫صنح وارم اپ کے تغد چب شب نا سنے کے لنے ہال میں جائے لگے بو دامیر کو‬
‫علتبا تظر نہیں آنی تھی۔ شاند وہ کمرے میں جا کے شو گنی تھی۔ گارڈ ئے تھی اس‬
‫کی غیر موخودگی کا زکر نہیں کبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪105 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شام میں آکشن ہو گا بو میں نب نک آجاؤں گا‪ ،‬نمہاری تھاتھی کہیں ڈ نٹ پہ‬
‫جانا جاہ رہی ہے۔“ دامیر ہال سے ناہر تکال چب انیر نٹس سے رنان کی آواز اتھری۔‬
‫”دھبان سے۔“ دامیر ئےشاچنہ بوال۔‬
‫”جی مام۔۔۔“ رنان ئے خڑئے ہوئے کہا دامیر کے ہونٹ مبہم شا مشکرائے۔‬
‫دامیر اتھی علتبا کے روم کی جانب جائے کا ارادہ کرنا تھا چب اس کے مونانل‬
‫پہ مٹسج ن نپ ہوا۔‬
‫ڈرٹک‪” :‬سر ق یاد کے آدمی اک یڈمی کے آس ٹاس نظر آرہے ہیں۔ اٹک ٹو رہیں۔“‬
‫ڈرنک ئے انبا کام جاری رکھا تھا اور خرکت ہوئے پہ ہی اس ئے آ گاہ کر دنا تھا۔‬
‫دامیر ئے اکبڈمی میں موخود ا ننے گارڈز کو اگاہ کر دنا کہ وہ خوکبا رہیں۔ چہاں کونی غیر‬
‫معمولی نات ہو وہاں ڈھیر کر دیں۔‬
‫دامیر نہلے شوچ رہا تھا کہ وہ علتبا کو روم سے ناہر الئے لبکن تھر ارادہ ندل لبا‬
‫کہ وہ ا ننے کمرے میں محفوظ بو رہے گی۔‬
‫لبکن وہ نہیں جانبا تھا کہ نہاں وہ علطی کر رہا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪106 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا کے کمرے میں شب کجھ ونشا ہی معمول پہ پڑا تھا۔ نبڈ کی سنٹ پرن نب‬
‫سے سنٹ تھی۔ کمرے کی النٹس نبد تھیں نہاں کونی موخود نہیں تھا۔ الننہ میز پہ‬
‫انک فون رکھا تھا خو علتبا کا ہی تھا۔‬
‫وہ چمکنے لگا۔ چہاں اتکل مبکس کا نام لکھا جگمگا رہا تھا۔‬
‫٭٭٭٭‬
‫اکبڈمی سے کجھ کلومئیر کے قاصلے پہ انک نک سنور موخود تھا‪ ،‬چہاں دو لڑکباں‬
‫کھڑی کسی کباب کو ہاتھ میں تھامے کھلکھال رہی تھیں۔ اس میں سے انک لڑکی ئے‬
‫گردن گھمائے آس ناس دنکھا جٹسے کجھ محسوس کبا ہو۔‬
‫نلونڈ نالوں والی لڑکی ئے شوال کبا جس پہ دوسری لڑکی ئے تقی میں گردن ہالنی‬
‫نتھی اجانک انک شور شا اتھا اور نک سنور کا گالس ڈور چھباکے سے بوٹ کے خور خور‬
‫ہوا چب اس میں سے انک گولی اس کو چیرنی ہونی گزری۔‬
‫شوزین ئے علتبا کو ا ننے ننجھے کرئے ہولڈر سے گن تکالے اس کو جبک کبا۔‬
‫”پہ کبا ہوا ہے؟“ علتبا گ ھیرانی۔‬
‫”گن سنٹ کرو اننی‪ ،‬چملہ ہوا ہے۔“ شوزین ئے اس کو کہا اور سبلف کے‬
‫ننچے اس کے شاتھ خود کو چھبانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪107 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا اس کی نات پہ ہوبق ننی اسے دنکھنے لگی۔ گن! وہ بو النی نہیں تھی شاتھ۔‬
‫اس کا بو فون تھی کمرے میں موخود تھا۔‬
‫”علتبا دوسری طرف انبا نشاپہ نبار رکھو۔“ شوزین نبا اس کے ناپرات جائے اس‬
‫سے کہنی ہونی آگے پڑ ھنے لگی چب علتبا ئے اس کا نازو تھاما۔‬
‫شوزین ئے شوالنہ تگاہوں سے نہلے اس کے ہاتھ کو تھر اسے دنکھا۔‬
‫”گن نہیں ہے ناس!“ علتبا کی کانتنی ہونی آواز پہ شوزین ماتھا ننتنی رہ گنی۔‬
‫کون کہہ شکبا تھا کہ پہ لڑکی انک مافبا اکبڈمی میں پرن نت لتنے آنی تھی۔ وہاں‬
‫ن‬
‫آئے واال نحہ تھی گن جالنا جانبا تھا اور نہاں مبڈم ڈری تتھی تھی۔‬
‫” سنے نی ہانتبڈ می۔“ اس کو جکم د ننی وہ ا ننے سبل سے اکبڈمی کال مالئے‬
‫ش‬ ‫ت‬
‫لگی ناکہ سر جارج کجھ نتم نج یں۔‬
‫ک‬ ‫ھ‬

‫”دامیر۔۔۔! ہاں دامیر کو کال کرو۔“ علتبا دامیر کا جبال آئے ہی جنچی۔ شوزین‬
‫ئے سر ہالنا۔ سر جارج سے کہہ کے وہ دامیر کو اتقارم کر شکنی تھی۔‬
‫علتبا کو اب اجشاس ہوا کہ اس کو دامیر کو نبائے تغیر ناہر نہیں آنا جا ہنے تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪108 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اکبڈمی کے ناس فباد کے آدم نوں ئے چملہ کبا ہے۔ تم کہاں ہو اس وفت؟“‬
‫رنان ڈران نو کرئے ہوئے بوال۔ فون کو اس ئے شا منے ڈنش بورڈ پہ رکھا تھا اور کابوں‬
‫میں انیر نٹس لگا ر کھے تھے۔‬
‫”مغلوم ہوا ہے مجھے میں نس علتبا کے روم کی طرف جا رہا تھا۔“ دوسری جانب‬
‫دامیر کارنڈور میں نیز قدم اتھانا علتبا کے روم کی طرف جا رہا تھا۔‬
‫”مجھے اتقارم کرو کہ شب تھبک ہے وہاں۔“ رنان ئے کہنے کال کانی‪ ،‬خود وہ‬
‫چنہ کی گاڑی کا ننجھا کر رہا تھا خو جائے کہاں جائے کا ارادہ رکھنی تھی۔‬
‫انک پرانا شا گھر تھا چہاں اس ئے گاڑی روکی تھی۔ انبا شوٹ کٹس تکالے وہ‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫اس گھر میں جلی گنی۔ رنان خود گاڑی سے ناہر آنا اور اطراف میں د نے لگا۔ اس ئے‬
‫گاڑی کاقی قاصلے پہ روکی تھی۔ لکڑی کا وہ انک چھونا شا گھر تھا۔ سر جارج سے مغلوم‬
‫ہوا تھا کہ چنہ ئے نس ا ننے دن ہی ا سنے کرنا تھا اب وہ وانس جا جکی تھی۔‬
‫رنان دھتمے قدموں سے جلبا ہوا اس گھر کے فرنب آنا اور اس کا جاپزہ لتنے لگا۔‬
‫گھر جالی تھا۔ چنہ کے عالوہ نہاں کونی نہیں تھا۔ گھر کا انک اوپر واال بورشن تھی تھا‬
‫چہاں نالکنی کا رشنہ موخود تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪109 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان ئے اننی سرٹ کے نازو فولڈ کنے اور سر کو ننجھے کی طرف چھ یکا د ننے ا ننے‬
‫نال ننجھے کنے۔ شورج کی روسنی اس کی آنکھوں میں پڑ رہی تھی جس سے گرے‬
‫گ‬‫ل‬ ‫م‬‫چ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫آ یں کنے یں۔‬
‫نالکنی والی جگہ کے عین ننچے سے اس ئے اوپر خڑھبا سروع کبا۔‬
‫م‬ ‫س‬
‫”میں ڈاپرنکٹ اندر تھی جا شکبا ہوں۔“ رنان ئے نا ھی سے خود سے کہا۔‬
‫ج‬

‫”سبدھا کام ک نوں کروں میں۔“ خود سے ناشف سے پڑپڑائے اس ئے نالکنی‬


‫میں قدم رکھا۔‬
‫دروازہ نبد تھا اندر سے‪ ،‬الک لگا تھا۔ اس ئے ناکٹ سے کجھ کیز تکالیں اور‬
‫دروازے کو کھو لنے کی کوشش کرئے لگا۔‬
‫کلک کی آواز پہ وہ ہلکا شا مشکرانا۔ دروازہ کھولے اندر داجل ہوا۔ پہ نبڈ روم تھا‪،‬‬
‫چنہ کا شوٹ کٹس نہاں پہ رکھا تھا۔ رنان جلبا ہوا اس کے فرنب آنا اور دنکھنے لگا۔‬
‫اس کو سمجھ پہ آنی کہ وہ نہاں کرئے کبا آنی تھی چب وہ شکون سے اکبڈمی‬
‫میں رہ شکنی تھی۔‬
‫سیڑھباں خڑ ھنے کی آواز پہ رنان ئے خونک کے دوسرے دروازے کو دنکھا۔ چنہ‬
‫اندر آئے والی تھی شاند۔ اس ئے جلدی سے خود کو ناتھروم میں نبد کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪110 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ اندر آنی جس ئے خود کو آرام دہ کیڑوں میں ڈھاال تھا۔ اس کے نال کھلے‬
‫نشت پہ نکھرے تھے۔ ننچے کی الننٹس وہ نبد کر آنی تھی۔ انک تظر کمرے کو دنکھنے‬
‫اس ئے انبا شوٹ کٹس اتھائے شانبڈ پہ رکھا اور اس میں سے لنپ ناپ تکا لنے لگی۔‬
‫لنپ ناپ کو نبڈ پہ رکھنے اس ئے نالکنی کا دروازہ تھر سے الک کبا۔ وہ اب‬
‫ناتھروم کی جانب آرہی تھی۔‬
‫”او شوٹ!“ رنان نبا آواز کنے بوال اور خود کو دروازے کے نالکل ننجھے کر لبا کہ‬
‫وہ جبک تھی کرے بو اس کو تظر پہ آئے۔ چنہ نیز تظر ڈالے اس کا دروازہ کھال‬
‫چھوڑے ہی نبڈ نک آنی۔ رات کی قالن نٹ تھی اور اس سے نہلے وہ انک دو کام‬
‫کرکے جانا جاہنی تھی۔‬
‫لنپ ناپ آن کرئے اس ئے کونی کوڈنگ کی چب اجانک اس پہ ن نپ کی‬
‫شاؤنڈ ہونی۔ رنان ناتھروم کے دروازے سے ناہر چھا نکنے لگا۔ ناتھروم نبڈ کی شا منے والی‬
‫شانبڈ کے دانیں طرف تھا۔ چنہ اس کو نہیں دنکھ شکنی تھی۔‬
‫ت‬‫ن‬
‫وہ خو اتھی آرام کرئے کا ارادہ رکھنی تھی اجانک چھبکے سے سبدھی ہو ھی اور‬
‫ت‬

‫مزند لنپ ناپ کی جانب چھکی۔‬


‫”او گاڈ۔۔“ وہ پڑپڑانی اور ناشف سے ما تھے پہ ہاتھ رکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪111 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان ئے وہیں کھڑے انبا مونانل آن کبا اور دامیر کی طرف سے آنا مٹسج جبک‬
‫کبا جس میں وہ نبا رہا تھا کہ علتبا ا ننے روم میں نہیں تھی اور سر جارج کو شوزین کی‬
‫کال تھی رنسنو ہونی تھی۔‬
‫چنہ ئے ناتھروم میں آہٹ محسوس کرئے وہاں دنکھا۔ دروازے تھوڑا ننجھے تھا‬
‫مطلب وہاں کونی تھا۔‬
‫اس سے نہلے چنہ اننی گن اس کی طرف قاپر کرنی رنان خود ہی ناہر آگبا۔ چنہ‬
‫ئے شانبڈ لتمپ اتھائے اس کی جانب تھت یکا جس سے پروفت رنان ئے خود کا نحاؤ‬
‫کبا۔‬
‫وہ جاگنی آنکھوں سے خواب دنکھ رہی تھی نا وافعی وہ اس کے ناتھروم سے ناہر‬
‫تکال تھا۔‬
‫” ہنے ملٹسکا‪ ،‬سی بو شون۔“ چنہ کو دنکھنے وہ انک آنکھ دنا کے بوال اور نالکنی والی‬
‫شانبڈ پہ آنا۔‬
‫”میرے لنے انک دروازہ بو کھول کے رکھا کرو۔“ وہ سنجبدگی سے پڑپڑانا ہوا ننچے اپر‬
‫گبا جبکہ چنہ اتھی تھی پہ پراشس کرئے کی کوشش میں تھی کہ وہ اس کو مشلشل‬
‫سبالک کر رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪112 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کو اتھی رنان نامی نال کا شو جنے وفت پرناد نہیں کرنا تھا۔ اس کو ضروری کام‬
‫سے جانا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”وہ اننی ناگل کٹسے ہو شکنی ہے‪ ،‬کہا تھی تھا کہ میری اجازت کے تغیر نہیں‬
‫جانا کہیں۔“ دامیر ئے عصے سے سنئیرنگ پہ ہاتھ مارا۔ اس کی آنکھوں میں خون اپر آنا‬
‫تھا چب سے سبا تھا کہ شوزین اور علتبا چملے والی جگہ پہ تھیں۔‬
‫”میں ئے ناقی آدم نوں کو تھی کال کر دی ہے۔“ رنان اس کے شاتھ نتتھا تھا‬
‫جس کے ناپرات تھی دامیر سے الگ پہ تھے۔‬
‫اس وفت دوبوں ئے کارگو نت نٹ سرٹ نہن رکھا تھا۔ ہولڈرز میں گن نبار موخود‬
‫تھیں۔‬
‫”نہاں نارک کرو گاڑی‪ ،‬میں فرنٹ سے جانا ہوں تم ننجھے سے علتبا کو کور دو۔“‬
‫رنان ئے گاڑی کا دروازہ کھو لنے ہوئے کہا۔ اس نک سنور سے کاقی دور انہوں ئے‬
‫گاڑی روکی تھی۔‬
‫ن‬
‫ان کے آدمی نہلے ہی ہنچ جکے تھے وہاں اور ان کے مطابق گولباں کہیں شا منے‬
‫نلڈنگ سے جل رہی تھیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪113 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے نمہیں تھی کور د نبا ہے رنان تم میرے شاتھ رہو گے۔ اکبلے نہیں جاؤ‬
‫گے۔“ دامیر اس کی نات شن کے نگڑے لہچے میں بوال۔‬
‫”نحوں کی طرح ری انکٹ مت کرو مجھے انبا نارگنٹ قاپر کرنا ہے۔“ رنان البا اس‬
‫پہ گرجا جس پہ دامیر چھال اتھا۔‬
‫رنان نبا مزند نات سنے‪ ،‬اننی سبانیر لنے آگے پڑھ گبا اور انک جگہ نال سنے لگا چہاں‬
‫سے وہ نلڈنگ کی طرف نشاپہ ناندھ شکے۔‬
‫دامیر ہولڈر سے گن تکالے نک سنور کی طرف تھاگا۔ اس کی نبک انیرنٹس کلئیر‬
‫تھی اتھی اور وہاں اس کے آدمی نہلے ہی کھڑے تھے۔‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫چ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫شوزین اور علتبا انک نک سبلف کے ھے نی یں چہاں سے لڈ گ ظر یں‬
‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ج‬
‫آنی تھی۔ شوزین ئے علتبا کو کور دے رکھا تھا۔‬
‫”دامیر۔۔۔!“‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫علتبا کی تگاہ چب دامیر کی طرف گنی بو ئےشاچنہ اس کو تکار ھی۔ دامیر ئے‬
‫انک تظر اطراف میں دنکھا اور ان کی جانب پڑھا نتھی انک قاپر ہوا۔ گولی دامیر کے‬
‫ر سنے سے گزری تھی لبکن وہ نچ گبا تھا لبکن علتبا ئے گ ھیرائے ہوئے ا ننے منہ پہ‬
‫ہاتھ رکھ لبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪114 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫”تم دوبوں تھبک ہو؟“ دامیر ئے ان نک ہنجنے بوچھا۔ شوزین ئے انبات میں‬
‫سر ہالنا۔ علتبا ئے آگے پڑ ھنے دامیر کے نازو کو تھام لبا۔‬
‫علتبا کی نسنت شوزین کے ناپرات سنجبدہ تھے وہ ا نسے جاالت کو ہتبڈل کرنا جاننی‬
‫تھی۔‬
‫”شوزین تم نہاں سے تکلو‪ ،‬میرے آدمی ناہر ہی ہیں نمہیں گاڑی نک لے‬
‫جانیں گے۔ علتبا جٹسے ہی میں کہوں تم تھی نہاں سے تکل جاؤ گی۔“ دامیر ئے مزند‬
‫قاپر جلنے کی آوازین ستنے ہوئے کہا۔‬
‫پہ قاپر گن کے نہیں تھے‪ ،‬کونی راتقل اسیعمال کر رہا تھا خو قاصلے پہ موخود تھا‬
‫اور ضرور وہ نلنتبگ سے آئے تھے۔‬
‫دوسری طرف رنان انک چھونی نلڈنگ کی چ ھت پہ اننی سبانیر نبار کنے نتتھا تھا۔‬
‫”نین‪ ،‬دو‪ ،‬انک۔۔!“ اور انک گولی ہوا کو چیرنی ہونی شا منے نلڈنگ کی طرف‬
‫گنی۔ ماشک نہنے آدمی کے سبدھا سر پہ شوراخ ہوا۔ اس کو اگال شانس لتنے کا موفع‬
‫نہیں مال تھا اور وہیں ڈھیر ہو گبا۔‬
‫رنان کے ل نوں پہ ہلکا شا نٹشم اتھرا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪115 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ً‬
‫”نارگنٹ ڈنڈ‪ ،‬دو گاڑناں آنی ہیں۔ نانچ سے چھے لوگ ہو نگے۔“ رنان ئے فورا‬
‫ناکٹ سے انبا مونانل تکالے دامیر کو اتقارم کبا۔‬
‫چب اس کی تظر سڑک کی دوسری شانبڈ سے آئے وخود پہ پڑی۔‬
‫اس ئے دور نین میں دنکھا۔‬
‫”ملٹسکا!“ رنان سرگوسی میں بوال۔ وہ نہاں تھی مطلب نہاں ہوئے چملے کے‬
‫نارے میں جاننی تھی لبکن اس کا جلنہ اب الگ تھا۔ نلبک تھری نٹس شوٹ نہنے‬
‫اس ئے شوٹ کٹس تھاما ہوا تھا۔‬
‫”ہر روپ جان ل نوا ہے اس کا۔“ رنان پڑپڑانا اور ناقی گاڑبوں پہ نشاپہ سنٹ‬
‫کرئے لگا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭‬
‫”اتھو میرے شاتھ۔“ دامیر ئے علتبا کا ہاتھ تھامے اس کو ک ھڑا کرنا جاہا چب‬
‫اس ئے گ ھیرائے ہوئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”نہیں اتھی قاپرنگ ہو رہی ہے۔“ اس کی آواز میں خوف واصح تھا۔ دامیر ئے‬
‫گہرا شانس تھرا اور اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھاما۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪116 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کجھ نہیں ہو گا۔ رنان ئے ستتھال لبا ہے اور میں ہوں نمہارے شاتھ۔ پہ‬
‫گن نکڑو اور میری شانبڈ سے ہتبا نہیں ہے۔ شاتھ رہبا ہے۔“ دامیر اس کے آنسوں‬
‫گرئے دنکھ اس کو پرمی سے سمجھائے بوال اور نانگ سے نت نٹ کو تھوڑا اوپر کر کے‬
‫گھتنے کے فرنب سے انک گن تکال کے تھمانی اس کو۔ علتبا ئے کا نتنے ہاتھوں سے‬
‫تھام بو لبا لبکن وہ نہاں سے ہلنے پہ تھی ڈر رہی تھی۔‬
‫”آنی رن نٹ ڈونٹ ل نو مائے شانبڈ۔“‬
‫)!‪( I repeat Don’t leave my side‬‬
‫دامیر ئے اس کی آنکھوں میں دنکھنے کہا جس پہ علتبا ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫اتھی علتبا کے دل میں پہ نات نالکل تھی نہیں تھی کہ دامیر انک قا نل تھا۔‬
‫وہ اس وفت کاقی ڈری ہونی تھی۔ ہق نوں کی پرنتبگ گنی نبل لتنے۔ اتھی بو تھبک‬
‫سے شانس تھی نہیں لبا جا رہا تھا۔ ضرف اننی جان کی قکر تھی اور دامیر کا جبال تھا‬
‫خو اس کو نہاں سے نحائے آنا تھا۔‬
‫ت‬ ‫ن چ‬
‫ھ‬ ‫ج‬‫ھ‬
‫”خو نمہاری طرف آئے کی کوشش کرے ال ک م ئے اسے شوٹ کر د نبا‬
‫ہے۔“ دامیر ئے اس کا ہاتھ دنائے ہوئے کہا اور اس کو لنے دروازے کی طرف‬
‫پڑ ھنے لگا لبکن وہاں سے آئے آدم نوں کو دنکھنے رک گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪117 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس وفت اگر وہ اکبال ہونا بو مسکل پہ ہونی لبکن اتھی علتبا شاتھ تھی۔ خود کی‬
‫جان سے زنادہ ضروری علتبا کی جان تھی۔‬
‫اجانک ناہر سے دھماکا ہوئے کی آواز آنی جٹسے کجھ ت ھٹ گبا ہو۔ دو آدمی ناہر‬
‫کی جانب تھاگے جبکہ ناف نوں ئے دامیر کی طرف قدم پڑھائے۔‬
‫علتبا دامیر کے ننجھے ہی تھی چب دامیر ئے اس کی طرف سے انک آدمی کو‬
‫آئے دنکھا۔‬
‫”شوٹ ِہ ِِم!“ دامیر ئے سرد لہچے میں جکم صادر کبا۔ علتبا ئے کا نتنے ہاتھوں‬
‫سے گن کو تھاما تھا۔ انک تظر گن کو دنکھا تھر اس آدمی کو۔‬
‫شوٹ مطلب وہ اس کا فبل کرے گی۔ اس کے تغد وہ انک قا نل کہالئے‬
‫گی‪ ،‬نہیں وہ انشا نہیں کر شکنی تھی۔ اس کو نہاں سے تھاگبا جا ہنے تھا۔‬
‫اس آدمی سے علتبا کی نانگوں کی طرف نشاپہ ناندھا شاند وہ اس کو مارنا نہیں‬
‫جاہبا تھا۔‬
‫دامیر ئے گردن گھمائے نیزی سے علتبا پہ تگاہ ڈالی۔‬
‫”پہ سبلف ڈ تقنٹس ہے‪ ،‬شوٹ ِہم۔“ شاند وہ اس کی شوچ نک رشانی جاصل‬
‫کر حکا تھا نتھی وہ جالنا اور خود انک آدمی کو ننچے گرانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪118 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا ئے تقی میں گردن ہالنی اور دامیر سے دور ہونی دروازے کی سمت تھاگی۔‬
‫دامیر ئے نحلی کی نیزی سے علتبا کی طرف پڑ ھنے آدمی کا نشاپہ ناندھا خو سبدھا اس‬
‫کے سر کے نجھلے حصے پہ لگا لبکن دپر نہاں ہونی کہ اس تقاب بوش آدمی ئے پرنگر‬
‫دنا دنا تھا۔ گولی علتبا کے دانیں کبدھے کے نجھلے حصے کو چھو کے گزری اور انک‬
‫دل خراش جنخ پرآمد ہونی۔‬
‫نک سنور اننی اصلی جالت میں نہیں تھا۔ سبلف بوٹ جکی تھیں اور کبانیں‬
‫نکھری پڑی تھیں۔‬
‫”علتبا کو گولی لگی ہے اس شانبڈ پہ جلدی آؤ۔“ انیر نٹس کی ندولت وہ رنان‬
‫سے محاظب ہوا اور علتبا کی جانب تھاگا خو اس سے کجھ قاصلے پہ تھی۔‬
‫درد سے کراہ رہی تھی۔ دامیر ئے اس کے زچم کو دنکھبا جاہا چب علتبا ئے اس‬
‫کا ہاتھ چھبک دنا۔‬
‫دانیں جانب سے انک آدمی زچمی جالت میں دامیر کی جانب پڑھا چب دامیر علتبا‬
‫کے ناس سے اتھبا انک جشت میں اس نک آنا اور اس کی گردن نک ہاتھ لے جائے‬
‫انک ہی نل میں نک کی آواز سے بوڑ دی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪119 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا انک نل اننی درد تھولے دامیر کے اس روپ کو دنکھنے لگی۔ وہ جتبا حظرناک‬
‫نبانا گبا تھا اس سے تھی زنادہ اتھی محسوس ہو رہا تھا۔‬
‫ن‬
‫رنان کے ہنجنے سے نہلے دامیر ئے انک وخود کو اندر آئے دنکھا خو علتبا کی طرف‬
‫پڑھا۔ دامیر ئے غور کبا وہ چنہ تھی لبکن قارمل ڈرنسبگ میں۔ وہ نہاں ک نوں اور کٹسے‬
‫آنی؟‬
‫”میرے شاتھ جلو۔۔“ چنہ ئے علتبا کو سہارہ د ننے اتھانا جاہا چب دامیر ئے‬
‫علتبا کا نازو تھاما۔ اس کو انک گولی لگ جکی تھی اب مزند وہ اس سے عقلت نہیں‬
‫پر ننے واال تھا۔ چنہ کے خواب اور علتبا کے ناپرات کا بونس لنے تغیر اس ئے علتبا کو‬
‫اننی گود میں اتھا لبا۔‬
‫علتبا ئے اجنحاج کے طور پہ جالنا جاہا چب دامیر کی دھمکی کار آمد نانت ہونی۔‬
‫”اگر کونی آواز تکالی بو اتھی اننی جان سے جاؤ گی۔“‬
‫علتبا جاموش ہو گنی تھی۔ اس کو نازو میں تکل یف ہو رہی تھی۔ نہاں سے تکلنے‬
‫وہ نیزی سے اننی گاڑی کی سمت تھاگا خو قاصلے پہ تھی۔ چنہ نبا دامیر کے کہنے کا‬
‫ت‬ ‫ت‬‫م ن‬
‫ان یطار کنے اس سے مزند نیزی سے جانی گاڑی یں جا ھی اور گاڑی کو ان کی طرف‬
‫لے آنی ناکہ دامیر کو اسے اتھائے تھاگبا پہ پڑے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪120 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر ئے چنہ کی تھرنی پہ سر چھ یکا کہ وہ مبکس کی وجہ سے ان کی مدد کر رہی‬


‫تھی۔‬
‫”میں ڈران نو کر لوں گا‪ ،‬تم علتبا کے شاتھ ننجھے نتتھ شکنی ہو؟“ دامیر ئے علتبا‬
‫کو نجھلی سنٹ پہ نتھائے ہوئے چنہ سے بوچھا جس ئے انبات میں سر ہالنا اور نبا کجھ‬
‫کہے علتبا کے ناس نتتھ گنی۔‬
‫نتھی رنان عحلت میں گاڑی کی فرنٹ سنٹ پہ نتتھا اور گہرا شانس تھرا۔ اننی‬
‫سبانیر اس ئے نجھلی سنٹ کی جانب رکھی خو لڑک نوں کے قدموں پہ آنی۔‬
‫”کام نمام کر آنا ہوں لبکن پہ لوگ اصل چملہ کس پہ کر رہے تھے۔“ رنان‬
‫ئے سنجبدگی سے کہا‪ ،‬علتبا ا ننے خواس کھو رہی تھی۔ اس کا خون تھی کاقی نہہ حکا تھا‬
‫اور درد پرداشت سے ناہر تھی۔‬
‫”وہ علتبا کے ننجھے ہیں۔“ چنہ کی آواز پہ دامیر رنان دوبوں خو نکے اور انک‬
‫دوسرے کو دنکھنے لگے۔‬
‫”علتبا کے ننجھے! ک نوں؟“ دامیر ئے الجھ کے بوچھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪121 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”وجہ نہیں مغلوم لبکن پہ لوگ علتبا کو اتھائے آئے تھے۔ مغلوم ہوئے ہی‬
‫میں نہاں آگنی تھی لبکن تم دوبوں نہلے موخود تھے۔“ چنہ ئے سنجبدگی سے خواب دنا‪،‬‬
‫شاتھ ہی اس ئے علتبا کے زچم کے اوپر کیڑا ناندھ رکھا تھا۔‬
‫دامیر نار نار نبک وبو مرر سے علتبا پہ تظر ڈال رہا تھا۔‬
‫ن‬
‫”نلیز اس کو ہوش میں الئے کی کوشش کرو ہم نس ہنجنے والے ہیں۔“ دامیر‬
‫ئے چنہ سے کہا جس پہ اس ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫ن‬
‫خون نہنے کی وجہ سے علتبا پہ ع نودگی چھانی ہونی تھی۔ وہ نس اکبڈمی ہنجنے والے‬
‫تھے۔ رنان ئے ا ننے جا ننے والے ڈاکیر کو اتقارم کر دنا تھا خو وہاں موخود تھے۔‬
‫دامیر ئے علتبا کو ا ننے نبڈ پہ لبانا اور شانبڈ پہ ہوا ناکہ ڈاکیر اس کو جبک کر‬
‫شکیں۔ اس کی ننی وغیرہ کرئے کے تغد شکون آور انجبکشن لگا دنا تھا ناکہ وہ کجھ دپر‬
‫درد کے اجشاس سے ئےچیر رہنی۔ گولی چھو کے ہی گزری تھی لبکن زچم گہرا چھوڑ‬
‫کے گنی تھی۔‬
‫چنہ ان کے شاتھ اندر نہیں آنی تھی۔ اس کے مطابق اسے کہیں جانا تھا اور‬
‫انبا وفت پرناد نہیں کر شکنی تھی۔ رنان ئے شوجا کہ وہ مغلوم کرے کہ چنہ کہاں‬
‫جائے والی تھی لبکن وہ دامیر کو اتھی اکبال تھی نہیں چھوڑ شکبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪122 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رات کو آکشن کا فبکشن تھا‪ ،‬دامیر ئے شوچ لبا تھا کہ نہاں سے قارغ ہوئے ہی‬
‫وہ علتبا کو لنے ا ننے وال میں شفٹ ہو جانیں گے۔ مزند اس کی جان کا رشک نہیں‬
‫لتبا جاہبا تھا۔‬
‫علتبا آرام کر رہی تھی دامیر کے کمرے میں جبکہ دامیر اور رنان‪ ،‬رنان کے‬
‫کمرے میں نتتھے اس چملے کے دوران والی فوننج جبک کر رہے تھے۔‬
‫”میں نہیں کہبا تھا کہ پہ لڑکی انک دھماکا ہے۔“ چب رنان نشابوں میں‬
‫مصروف تھا نب چنہ ئے انک دو آدم نوں کو مار گرانا تھا خو اس ئے اتھی دنکھا تھا‬
‫شاتھ ہی وہ ان تقاب بوش لوگوں کی انک گاڑی تھی اڑا جکی تھی۔ نتھی فجر سے دامیر‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ن‬
‫سے بوال۔ دامیر ئے معنی چیز تگاہوں سے اس کو د نے نانبد یں سر النا۔‬
‫ک‬
‫تعنی نہت جلد وہ اس کی شادی کی متھانی کھائے واال تھا۔‬
‫”علتبا کجھ بو جاننی ہے فباد کے نارے میں۔ پہ اسی کے لوگ تھے۔“ دامیر ئے‬
‫شاری فوننج دنکھنے ہوئے کہا۔‬
‫ت ع‬
‫”اتکل مبکس سے نات ہونی تھی انہوں ئے ھی ال می کا اظہار کبا۔“ رنان‬
‫ل‬
‫ئے مبکس سے ہوئے والی نات کا پزکرہ کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪123 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں خود علتبا سے بوچھوں گا اس نارے میں۔“ دامیر ئے کہا بو رنان ئے تقی‬
‫میں سر ہالنا۔‬
‫”پہ کام مجھ پہ چھوڑو۔“ رنان ئے شاطر مسکان سحائے کہا۔ دامیر جانبا تھا وہ‬
‫اس کو انک گھوری سے بوازے گا جس پہ وہ اگر کجھ جاننی تھی ہونی بو طوطے کی‬
‫طرح نبا دے گی۔‬
‫٭٭٭٭٭‬
‫علتبا کو ہوش آگبا تھا۔ وہ دامیر کے روم میں ہی تھی۔ دامیر صوفے پہ نتم دراز‬
‫ا ننے مونانل پہ کسی نبکشٹ کا رنالنی کر رہا تھا۔ علتبا ئے تقاہت سے اتھنے اس کو‬
‫دنکھا۔‬
‫”فباد کو جاننی ہو!“ دامیر ئے نبا کونی نمہبد ناندھے سبدھا شوال کبا۔ وہ خو اس‬
‫سے جال اخوال بوچھنے کی امبد رکھنی تھی اب اس کو گھورئے لگی۔‬
‫”میں نہیں جاننی اس کو۔ نہلے تھی نبا جکی ہوں میں۔ آہ!“ عصے سے کہنے وہ‬
‫اتھنے لگی چب کبدھے پہ ہوئے والے اجانک درد سے کراہ اتھی۔‬
‫”لتنی رہو۔۔“ دامیر اتھ کے اس کے فرنب آنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪124 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫س‬
‫”تم مجھے نہیں نبا شکنے کہ کبا کرنا ہے ھے۔ جد یں رہو۔“ لتبا صے سے‬
‫ع‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ج‬‫م‬
‫تھ یکاری کہ دامیر ئے ضیط سے لب تھتنچے۔‬
‫”میری نات ماننی بو پہ شب پہ ہونا۔۔“ دامیر ئے سرد لہچے میں اس کو نبانا بو‬
‫تفرت سے سر چھبکنے کے عالوہ اس کے ناس کجھ نہیں تھا۔‬
‫”اب نباؤ فباد کو کٹسے جاننی ہو؟“ دامیر ئے انبا شوال دہرانا اس نار علتبا ئے‬
‫خون اشام تظروں سے اس کو گھورا۔‬
‫”انک نار سمجھ نہیں آنی‪ ،‬مجھے نہیں مغلوم۔“‬
‫”پہ اسی کے آدمی تھے اور نمہارے ننجھے تھے۔ ک نوں؟“ دامیر ئے البا انک اور‬
‫شوال کبا کہ انک نل کو علتبا جاموش ہو گنی۔‬
‫”مجھے نہیں مغلوم کجھ تھی۔ میرے شاتھ پہ شب نہلی نار ہوا ہے۔ میں خود‬
‫نہت خوفزدہ ہوں۔ سمجھ نہیں آرہا کہ پہ شب کون اور ک نوں کر رہا ہے۔“ علتبا ئے‬
‫اب ئےنس لہچے میں کہا بو دامیر ئے جاموش تگاہوں سے اس کو دنکھا۔‬
‫وہ نہلے ہی چملے کی وجہ سے گ ھیرانی تھی اس کو مزند پرنشان نہیں کرنا جاہبا تھا‬
‫نتھی جاموسی اجتبار کر گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪125 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وانس صوفے پہ نتتھنے اس ئے تگاہیں علتبا پہ ہی رکھی تھیں۔ چب اس ئے‬


‫ن‬
‫دونارہ اتھنے کی کوشش کی بو دامیر کے انک ہ یکار تھرئے پہ ہی وہ سبدھا ہو تتھی۔‬
‫”اس اکبڈمی میں تم ک نوں آنی ہو؟“ دامیر ئے کجھ نا ننے جاموش ر ہنے کے تغد‬
‫اس سے شوال کبا۔‬
‫علتبا کا ارادہ اتھی ڈرنبا اور شوزین سے نات کرئے کا تھا لبکن اس کے شوال‬
‫پہ اس کو دنکھنے لگی۔‬
‫”نمہیں مسبلہ ہے میرے نہاں ہوئے سے؟“ علتبا ئے پڑخ کے خواب دنا۔‬
‫”ہوں!“ دامیر ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”نتھی ہم اب نہاں نہیں رہیں گے۔“ دامیر ئے وانس سے انبا مونانل تکاال۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫علتبا ئے اس کو نا ھی سے دنکھا۔ تھر گہرا شانس تھرا۔‬
‫”میں وکٹشن پہ گرنس آنی تھی‪ ،‬مجھے پہ جگہ نہت پراسرار لگی۔ ت ھر انک دن‬
‫ج‬ ‫ن‬ ‫ک‬‫تکل ن‬
‫نہاں سے میں ئے کجھ گاڑناں نی د یں اور ا یں لوگوں سے نبا ال کہ نہاں‬
‫ہ‬ ‫ھ‬
‫سبلف ڈ تقنٹس کی پرنتبگ ہونی ہے۔ نتھی سے شوق ہوا کہ میں تھی کجھ سبکھوں‬
‫گی۔ اتکل سے نات کی۔ مہتنے لگے تھے مجھے ان کو مبائے پہ تھر جا کے نہاں انڈمٹشن‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪126 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ن‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫چ‬


‫ہوا۔“ علتبا ئے تھوڑا ال کے ہاتھ نحا نحا کے اس کو ا نی نات م صر کر کے نبا‬
‫ی‬ ‫ج‬ ‫ھ‬ ‫ج‬
‫دی۔ دامیر ئے شن کے نس سر کو چم دنا۔‬
‫”میرے نارے میں کٹسے مغلوم ہوا؟“ دامیر اتھ کے نبڈ کے فرنب ہی جال آنا‬
‫اور اس کے نیروں کے فرنب قاصلے پہ نتتھ گبا۔ علتبا ئے ا ننے نیر سمنٹ لنے۔‬
‫”نہاں اکیر زکر سبا تھا شب سے بو مغلوم تھی ہو گبا مجھے۔“ علتبا ئے خور‬
‫تگاہوں سے دنکھنے کہا۔‬
‫”کبا زکر سبا ہے تم ئے؟“ دامیر ئے گھمئیر لہچے میں بوچھا۔ علتبا ئے اس کو‬
‫دنکھا خو اننی گہری تھوری تگاہیں اسی پہ تکائے ہوئے تھا جٹسے اتھی اس پہ چھنٹ‬
‫پڑے گا۔‬
‫ک چ‬
‫”نہی کہ تم انک قا نل ہو۔“ علتبا ئے نبا سی ک کے کہا کن دامیر کے‬
‫ب‬ ‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ج‬‫ھ‬
‫ناپرات میں کونی فرق نہیں پڑا تھا۔‬
‫ع‬ ‫ک‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”اور نبا شوچے ھے سی کو مار د نبا ہوں!“ دامیر ئے مزند کہا بو لتبا کو انبا‬
‫سر انبات میں ہلبا محسوس ہوا۔‬
‫ہلکا شا نٹشم ہون نوں پہ کھال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪127 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں ئے خود نمہیں لوگوں کو مارئے ہوئے دنکھا ہے‪ ،‬کتھی گتنی کی ہے کہ‬
‫کتنے لوگوں کو جان سے مار جکے ہو تم۔“ علتبا کا ڈر عصے میں ندال بو وہ دامیر سے شوال‬
‫کرئے لگی۔‬
‫دامیر چہرہ ننچے کر کے ہٹس دنا۔‬
‫”وہ لوگ اسی قانل تھے ورپہ تم اتھی زندہ پہ ہونی۔“ دامیر ئے جبانا جاہا۔‬
‫”نمہارے شاتھ رہ کے بو و نسے تھی میں زندہ نہیں رہوں گی۔“ علتبا ئے ن یفر‬
‫سے سر چھ یکا۔‬
‫”میں اتکل سے نات کر کے ان کے ناس ہی شفٹ ہو جاؤں گی مجھے نمہاری‬
‫ضرورت نہیں ہے۔ تم ا ننے خراتم کو سرانحام د ننے رہو جٹسے نہلے کرئے تھے۔ میری‬
‫قکر کرئے کی ضرورت نہیں اب۔“ علتبا ئے وہی نتتھے نتتھے انبا ف یصلہ سبانا کہ اس‬
‫کا کہا گبا انک انک لقظ دامیر کو پرا لگا۔ اس کے ما تھے پہ ن نوری خڑھ آنی۔‬
‫”نمہارے اتکل میرا کانیرنکٹ کنٹشل نہیں کر شکنے کسی تھی صورت۔۔“ دامیر‬
‫سرد لہچے میں بوال۔‬
‫”مجھے اس سے کونی فرق نہیں پڑنا لبکن میں نمہیں آس ناس پرداشت تھی‬
‫نہیں کر شکنی۔“ علتبا اس کے چہرے پہ تھ یکاری کہ دامیر ضیط کر کے رہ گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪128 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہارے شاتھ مسبلہ کبا ہے۔ پہ میرا کام ہے۔۔“ دامیر انک دم اتھنے اس‬
‫کی طرف پڑھا۔ علتبا کا خوف سے چہرہ زرد پڑ گبا۔‬
‫” اور خو تم پہ سبلف ڈ تقنٹس سبکھ رہی ہو وہ شب تھی۔ اکیر انک انشا وفت آنا‬
‫ہے جس میں خود کو نحائے کے لنے مارنا پڑنا ہے۔ اگر وفت پر عقل اسیعمال پہ‬
‫کریں بو وہی ہونا ہے خو نمہارے شاتھ ہوا۔ میں انبا کام کر رہا ہوں مجھے میرا کام‬
‫کرئے دو۔ اگر میں اس سے ہٹ کے کجھ کرئے پہ آنا بو نمہاری صحت کے لنے اچھا‬
‫نہیں ہو گا۔“ دامیر ئے اس کو وارن کبا۔ علتبا ئے نس تگاہیں ت ھیریں نتھی دامیر‬
‫کال آئے پہ روم سے ناہر تکل گبا۔‬
‫ش‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ک‬‫ت‬ ‫م‬ ‫ج‬‫م‬
‫” ھبا کبا ہے خود کو۔ یں ا ل سے نات کر کے ا یں کے ناس فٹ ہو‬ ‫س‬

‫جاؤں گی۔ جان چھوئے میری اس سے۔“ اس کے کمرے سے جائے کے تغد علتبا‬
‫خود سے پڑپڑانی۔‬
‫اس کے دانیں کبدھے پہ ننی تھی‪ ،‬لوز سرٹ نہن رکھی تھی کبدھے کو سنورٹ‬
‫کرئے کے لنے نبلٹ تھی نہنی تھی خو اس کو انک جگہ رکھنے میں مدد دے رہی تھی۔‬
‫اس ئے آس ناس دنکھا کہ شاند نہاں اس کا مونانل موخود ہو لبکن پہ کمرہ ہی‬
‫دامیر کا تھا بو شوائے خود کے نہاں اس کا کجھ تھی نہیں تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪129 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫آج آکشن فبکشن تھا اور مبکس ل نو تھی نہاں موخود ہوئے بو اس کو شام نک کا‬
‫ان یطار کرنا تھا ک نونکہ کمرے سے تکلبا اس کے لنے ممکن نہیں تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫(آکشن ہال)‬
‫ن‬
‫نتبل پرن نب سے سنٹ کنے گنے تھے جس کے گرد مافبا فتملیز تتھی تھیں جن‬
‫کی نشل کے لوگ آج نہاں سے اننی ننی میزل سروع کرئے والے تھے۔ ان میں سے‬
‫ڈرنبا اور شوزین تھی تھیں۔‬
‫شوزین کسنوڈین‪ ،‬کئیر نہاں سے تکلنے والی تھی اور ڈرنبا اشاشن ین کے۔ آج ہی‬
‫ان دوبوں کو ا ننے شاتھ نوں کا نبا جل جانا تھا کہ کون کس کو ہانیر کرئے واال تھا۔‬
‫ن‬ ‫ت‬‫ن‬ ‫ت‬‫س‬ ‫ٹ‬‫ن‬
‫ٹس انک شانبڈ پہ ننے نتبلز کے گرد موخود تھے۔‬ ‫شارے سننئیر نار‬
‫شا منے ستنج پہ سر جارج نمودار ہوئے۔ ان کے دانیں نانیں گارڈز موخود تھے۔ عمر‬
‫میں وہ کاقی پڑھے تھے لبکن مقانلہ اتھی تھی کر شکنے تھے۔‬
‫ان شب میں رنان تھی انک نتبل کے گرد نتتھا تھا چب اگلے ہی لمچے مبکس ل نو‬
‫اور ان کے آدمی رنان کے شاتھ ہی نتبل کے گرد نتتھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪130 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کونی رکھا ہے تظر میں۔۔؟“ مبکس ئے ڈرنک کا شپ لتنے ہوئے کہا۔ رنان کی‬
‫تگاہیں شا منے ہی تھیں چہاں جارج ڈانمبڈ پزنس کے نارے میں کانیرنکٹ نبا رہے‬
‫تھے۔‬
‫”میں ہی پہ کسی کی تظروں میں آجاؤں۔ وہ کبا ہے نا آج کل میری نتنی خود‬
‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫پزی ہے بو کونی آوارہ ھی امجھ کے فبد پہ کر لے۔“ رنان ئے نبا ا ننے چہرے کے‬
‫ناپرات ندلے ہ نوز سنجبدگی سے کہا کہ ناقی میز کے گرد نتتھے لوگ ہلکا شا ہٹس د ننے۔‬
‫”علتبا کٹسی ہے؟“‬
‫مبکس جا ننے تھے کہ چملہ ہوا ہے نتھی قکر مبدی سے بولے۔ دامیر ئے علتبا‬
‫کو آکشن میں آئے سے م یع کبا تھا ک نونکہ وہ نہیں جاہبا تھا کہ کسی اور کی تظروں میں‬
‫وہ آئے۔‬
‫”پہ بو آپ کو دامیر ہی نبائے گا ڈنتبل میں۔“ رنان ئے معنی چیز سے کہا بو‬
‫مبکس جاموش ہو گنے۔‬
‫جارج سر اب اشاشن کا زکر کر رہے تھے۔ نٹسرے نمیر پہ ڈرنبا کا زکر ہوا۔ رنان‬
‫س‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫م‬‫ک‬‫م‬
‫ل سماغت نبا شن رہا تھا۔ اس کو سی ا ین نبدے ئے ہانیر کبا تھا جس کا رنان‬
‫کو مغلوم نہیں تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪131 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”جاکم‪ ،‬آپ جا ننے ہیں اس نام کے انشان کو؟“ رنان ئے مبکس سے بوچھا‬
‫جس پہ اس ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”چار م یلین ڈالر“‬
‫پہ ڈرنبا ئے اننی فتمت رکھی تھی جس پہ شاڑھے جار مبلین ڈالر میں اس کو ہانیر‬
‫کر لبا گبا تھا۔‬
‫”اس کی فتمت سے پڑھ کے اس کو ہانیر کبا گبا ہے وہ تھی ا نسے انشان ئے‬
‫جس کا انڈرورلڈ میں نام نہلی نار سبا ہے۔“ مبکس ئے تھبک کہا تھا۔ نہاں کونی گڑپڑ‬
‫تھی۔‬
‫اتھی رنان پہ شب دنکھ رہا تھا چب اس کو انک مٹسج رنسنو ہوا۔‬
‫پہ انک کانیرنکٹ مٹسج تھا‪ ،‬اشاشن کرئے کا۔ کسی ئے اس کو نہاں نتتھے نتتھے‬
‫اشاسنت نٹ کانیرنکٹ تھنحا تھا۔‬
‫‪Name: Hannah Leo‬‬
‫‪Business: Diamond‬‬
‫‪Age: 27‬‬
‫‪Price: 3.5 Million‬‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪132 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫‪Current location: Crowned head academy‬‬


‫‪Greece‬‬
‫‪Contract for a week.‬‬
‫ٹام‪ :‬حنہ ل ٹو‬
‫ٹزنس‪ :‬ڈائم یڈ‬
‫عمر‪ :‬س یایٹس سال‬
‫قیمت‪3.5 :‬م یلین ڈالر‬
‫کربٹ لوکٹشن‪ :‬کراؤٹڈ ہ یڈ اک یڈمی گرنس‬
‫کانیرٹکٹ کا دورابنہ‪ :‬اٹک ہفنہ‬

‫مٹسج پڑ ھنے ئےشاچنہ ہی رنان کے ما تھے پہ نل واصح ہوئے۔ چنہ کو اشاشن‬


‫کرنا۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫اس ئے نبا شوچے ھے نانپ کرنا سروع کبا۔‬
‫رٹان‪” :‬کانیرٹکٹ ریج یک یڈ“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪133 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫مٹسج ستبڈ کر دنا تھا۔ اب انک نمیر نیزی سے ڈانل کرئے وہ اننی جگہ سے اتھ‬
‫گبا تھا۔ اطراف میں تگاہیں دوڑانیں چب انک جگہ تھہر گنیں۔ وہ نہیں تھی۔ اکبڈمی‬
‫میں موخود۔ سر پہ شکارف لنتنے اور آنکھوں پہ نلبک گاگلز لگائے۔ ا ننے جلنے سی نالکل‬
‫مجبلف۔ انک نبا روپ۔‬
‫وہ نہاں کبا کر رہی تھی؟‬
‫”مٹسج قارورڈ کبا ہے میں ئے‪ ،‬نمیر تھی۔ کانیرنکٹ د ننے والے کی لوکٹشن جبک‬
‫ً‬
‫کرو۔“ اس ئے دوسری جانب دامیر سے کہا جس ئے فورا عمل کرنا سروع کبا۔‬
‫سر جارج اب شل نوری کارنل کا نبا رہے تھے‪ ،‬ان کے نانیں جانب انک لڑکی‬
‫تھی جس کی نبالمی کی جا رہی تھی۔ لڑکی نتم پرہنہ تھی۔ نہیں پہ رنان کا کام تھا‬
‫لبکن اس کے زہن میں چنہ کا تھی جبال آنا کہ وہ نہاں موخود ہے اگر اس ئے‬
‫رنجبکٹ کر دنا تھا بو وہ کانیرنکٹ کسی کو تھی مل شکبا تھا۔‬
‫اس لڑکی کی فتمت لگ رہی تھی۔ الطتنی گتبگ اس لڑکی کو خرند رہے تھے‪ ،‬پہ‬
‫واصح تھا کہ وہ کسی نبک کام کے لنے بو نہیں تھی۔ رنان کی تگاہ دونارہ چنہ کی طرف‬
‫گنی۔ جس کی تگاہیں اسی الطتنی آدمی پہ نکی ت ھیں‪ ،‬اس کے ہاتھوں کی گرفت اننی‬
‫گود میں ر کھے نبگ پہ مضنوط ہونی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪134 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫وہ ضرور کسی مقصد کے نحت ہی نہاں تتھی تھی۔‬
‫”کجھ ہوا ہے کبا؟“ مبکس ئے رنان کو عحلت میں دنکھنے کہا۔ اس ئے سر‬
‫ہالنا۔‬
‫”آپ نہاں سے تکل جانیں‪ ،‬ہو شکے بو اتھی چنہ کو کال کر کے کہیں کہ وہ‬
‫آپ کے شاتھ رہے۔“ رنان ئے اس کے فرنب ہوئے ا ننے ناپرات کو نارمل رکھنے‬
‫کہا‪ ،‬مبکس ئے الجھ کے اس کو دنکھا۔‬
‫”چنہ پہ کونی تظر ر کھے ہوئے ہے۔“ ان کی شوالنہ تگاہوں کو پڑ ھنے رنان ئے‬
‫کہا بو اگلے ہی لمچے انہوں ئے انبا مونانل تکاال جس میں وہ چنہ کا نمیر ڈانل کرئے لگے۔‬
‫نہاں انہوں ئے نمیر مالنا اور کجھ قاصلے پہ ہی مونانل رنگ کرئے لگا۔ سر جارج‬
‫کی آواز کے شاتھ مونانل کی رنگ بون ہال میں گونچی۔ کجھ لوگوں کی تگاہیں اس طرف‬
‫ً‬
‫اتھیں۔ چنہ ئے مونانل کو فورا شا ت نٹ کبا اور اتھ ھڑی ہونی۔ اس سے لے وہ‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ک‬ ‫ل‬‫ن‬
‫مونانل کان سے لگانی اجانک ہوئے والے قاپر سے اس کا نبگ ہاتھ سے چھوٹ کے‬
‫ننچے گر گبا۔‬
‫چنہ ئے کمر کے ننجھے ہاتھ لے جائے ا ننے ہولڈر سے گن تکالی اور وہاں سے‬
‫تھا گنے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪135 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گن جلنے والی سمت رنان ئے نشاپہ لبا‪ ،‬ہال کی چ ھت سے قاپر ہوا تھا۔‬
‫”چنہ کو لے کے تکلیں نہاں سے۔“ رنان مبکس کی جانب دنکھنے جالنا خو ا ننے‬
‫گاردز کے شاتھ تکلے۔‬
‫سر جارج کو ان کے گارڈ ئے کور دنا اور م یظر عام سے ہبا دنا۔ اجانک ہوئے‬
‫والی قاپرنگ سے تھگڈر مچ گنی تھی۔‬
‫”آخر تم نہاں کر کبا رہی ہو؟“ رنان ئے چنہ کا نازو اننی گرفت میں لتنے بوچھا۔‬
‫اس کو لنے وہ اندھیرے والی شانبڈ پہ موخود تھا۔‬
‫”رشنہ چھوڑو میرا۔“ نیزی سے کہنی وہ جائے کو تھی چب رنان ئے چھ یکا د ننے‬
‫اس کو مزند فرنب کبا۔‬
‫”نہاں سے صجنح شالمت تکلو ورپہ مجھ سے پرا نہیں ہو گا۔“ رنان ئے اس ئے‬
‫ن‬
‫آنکھوں میں دنکھنے دھمکی دی جس پہ وہ آ یں ھمانی ہونی نبا پرواہ نے اس سے دور‬
‫ک‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫ہونی۔‬
‫اننی جان نحائے سے ضروری اتھی انک اور کام تھا اس کو نہلے وہ نتبانا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪136 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر کے روم سے جائے کے تھوڑی دپر تغد ہی گن قاپرنگ کی آوازیں آنا‬


‫سروع ہونیں۔‬
‫س‬
‫اتھی دن والے چملے سے وہ تتھلی نہیں تھی کہ انک اور وہ تھی اکبڈمی میں۔‬
‫”دامیر۔۔۔“ علتبا ئے نبڈ پہ نتتھے ہی دامیر کو آواز لگانی۔ شاند ہی شور میں اس‬
‫کو سبانی دنا ہو نتھی وہ وہاں سے اتھی اور دروازے کی طرف آنی۔‬
‫اس نار تھر وہ چمافت کر رہی تھی‪ ،‬دامیر کو نبائے تغیر وہ کمرے سے تکل رہی‬
‫تھی اور ناس کونی گن تھی نہیں تھی۔ آکشن ہال نہاں سے دوسری طرف تھا۔‬
‫فرنب سے اتھی کونی قاپرنگ کی آواز سبانی نہیں دے رہی تھی۔‬
‫علتبا ئے دروازہ کھولبا جاہا خو کھل گبا۔ دروازے کے ناہر گارڈز موخود نہیں تھے‪،‬‬
‫وہ اس نالک کی انئیرنس پہ کھڑے تھے۔ ضرور دامیر ئے اس کو شونا نا کے گارڈز کو‬
‫اس طرف جائے کا کہا ہو گا۔‬
‫اسی نات کا قاندہ اتھائے علتبا ئے النی سمٹ جانا سروع کبا ناکہ ا ننے کارنڈور‬
‫کی طرف جاشکے اور انبا مونانل لنے وہ مبکس سے راتطہ کر شکے۔‬
‫اس ئے نالک کی طرف شور نیز ہوئے سبا۔ نہاں تھی کجھ گڑپڑ تھی۔‬
‫اس کے کبدھے میں تکل یف ہوئے لگی لبکن اس ئے جلبا جاری رکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪137 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”علتبا رکو اس طرف مت جاؤ۔“‬


‫ا ننے ننجھے دامیر کی آواز ستنے وہ مزند گ ھیرا گنی اور تھا گنے لگی۔‬
‫علتبا ضرف مونانل کو نائے کے جکر میں پہ تھول گنی تھی کہ دن میں خو اس‬
‫پہ چملہ ہوا تھا وہ اب تھی ہو شکبا تھا۔ ا ننے ناس سے قاپر کی آواز ستنے وہ ڈر کی جنچی‬
‫اور کارنڈور کی رنلبگ کو تھام لبا۔‬
‫”مجھے ا ننے اتکل سے نات کرنی ہے۔“ اس ئے صدی لہچے میں کہا اور ا ننے‬
‫نالک کے نحائے سیڑھ نوں کی جانب تھاگی۔‬
‫جس طرف علتبا تھاگ رہی تھی اسی طرف سے کجھ تقاب بوش اوپر آرہے تھے‪،‬‬
‫دامیر اس کو روکبا جاہ رہا تھا ک نونکہ خود وہ اس سے کاقی قاصلے پہ تھا لبکن دپر ہو گنی۔‬
‫ا ننے شا منے آدم نوں کو دنکھنے اس سے نہلے علتبا کونی ردعمل طاہر کرنی‪ ،‬قاپر کی‬
‫آواز پہ اس ئے درد محسوس کبا۔ اسی جگہ چہاں نہلے تھا۔ ا ننے خواس کھوئے لگی۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫اس ئے رنلتبگ کو تھام رکھا تھا۔ شارا وزن اسی پہ تھا چب آ یں نبد ہوئے وہ خود کو‬
‫ھ‬
‫ستھال پہ نانی اور ز ننے کے رنلتبگ کی دوسری جانب لڑھک کر گر گنی۔‬
‫”علتبا۔۔!“ عصے کی سرند لہر رگ و رو میں سراہ نت کی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪138 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر قاپر کی آواز پہ مزند نیزی سے تھاگا اور آئے ہی ان آدم نوں کو چہتم واصل‬
‫ن‬
‫کبا۔ علتبا کمر کے نل گری تھی۔ اس کی آ یں نبد یں۔‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫ز ننے اپرئے وہ نیزی سے اس کی طرف ل یکا اور اس کا سر ہاتھوں میں تھامے‬


‫ہوش دالئے لگا۔ کبدھے سے مزند خون نہنے لگا تھا۔‬
‫ن‬
‫اونحانی سے گری تھی اور ہوش گ نوا تتھی تھی۔‬
‫دامیر اس کو ا ننے شاتھ لے جائے کمرے کی طرف ہی پڑھ رہا تھا چب اس کو‬
‫دوسری سمت تھا گنے دنکھا۔ اس کو پہ نبا کے کمرے سے تکلنے کی علطی وہ انک دن‬
‫میں دو نار کٹسے کر شکنی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫”اس کی شانسیں نہت دھتمی جل رہی ہیں اگر مزند تھوڑی دپر میں نہاں نہیں‬
‫نہنچے بو مجھ سے پرا نہیں ہو گا۔“ دامیر کی جبگھاڑنی ہونی آواز اندر آئے مبکس کے‬
‫کابوں سے نکرانی۔ مبکس ئے صدمے کی جالت میں شا منے نبڈ پہ پڑے وخود پہ تگاہ‬
‫دوڑانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪139 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”علتبا! میری نچی۔“ مبکس پڑ ننے ہوئے اس کی جانب پڑھے خو نہت پری‬
‫جالت میں تھی۔‬
‫دامیر ئے اس کو ڈھانپ رکھا تھا۔ اس کے کبدھے پہ انک اور گولی لگی تھی‬
‫جس کو پروفت تکالبا ضروری تھا ک نونکہ نہلے واال زچم تھی اتھی تھرا نہیں تھا۔‬
‫کبدھے کے آدھے حصے کو ننی میں جکڑ رکھا تھا۔ گولی تکا لنے واال کام دامیر ئے‬
‫خود کبا تھا۔ اس کی سرٹ کی آسنین کو تھاڑئے۔ مزند اس کو کہاں کہاں خوٹ آنی‬
‫تھی وہ کجھ کہہ نہیں شکبا تھا۔ ا ننے آدم نوں کی مدد سے وہ علتبا کو اتھائے ا ننے وال‬
‫نہنحا تھا اور اب ڈاکیر کو ارج نٹ کال کر رہا تھا ک نونکہ اس کی شانسیں نہت مدھم جل‬
‫رہی تھیں۔‬
‫اس کا ارادہ بو نہاں سے سبدھا روس جائے کا تھا لبکن رنان اتھی کسی ضروری‬
‫کام کو نتبائے کے لنے تکال تھا۔ اس کے آئے ہی نہاں سے رواپہ ہو جانا تھا ان‬
‫لوگوں ئے۔‬
‫”کمر کے نل گری تھی‪ ،‬اسی کی پرنشانی ہے مجھے۔ اور پہ ڈاکیر آ ک نوں نہیں‬
‫رہا۔“ دامیر چہرے پہ م یقکر انداز میں ہاتھ ت ھیرئے ہوئے بوال۔‬
‫نتھی ڈاکیر ہڑپڑی میں اندر داجل ہوا‪ ،‬گارڈ کمرے کی دروازے کے ناہر کھڑا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪140 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫م‬
‫”آپ لوگ تھوڑی دپر ناہر ان یطار کریں ناکہ میں کمل جبک اپ کر شکوں۔“‬
‫دامیر سے مغذرت کرئے ڈاکیر ئے عحلت میں کہا بو شب انبات میں سر ہالئے ناہر‬
‫کی جانب پڑھے۔‬
‫دامیر اننی جالت سے نالکل انحان تھا۔ اس ئے چب علتبا کو سیڑھ نوں سے ننچے‬
‫گرنا دنکھا بو انک نل کو انبا دل رکبا محسوس ہوا۔ علتبا مضنوط لڑکی تھی اسے امبد تھی کہ‬
‫وہ اب تھی ہمت نہیں ہارے گی۔ علتبا کو اسی کبدھے پہ گولی لگی تھی خو مزند‬
‫نسونش کی نات تھی۔ اس کا نہلے ہی خون صا تع ہوا تھا اور اب ت ھر سے۔ تقاہت اس‬
‫کے چہرے پہ واصح تھی۔ اس کی رنگت میں نبالہٹ تھی اب۔‬
‫دامیر ناہر نہلنے لگا اور انبا مونانل ناکٹ سے تکالے کال کی۔‬
‫”مغلوم کرواؤ کہ پہ شب چملہ فباد کی جانب سے تھا نا کونی اور تھی تھا خو‬
‫گھات لگائے نتتھا تھا۔“ دامیر فون پہ تھ یکارا اور ج نب میں وانس رکھا۔‬
‫”علتبا فباد کے نارے میں کبا جاننی ہے۔ مجھ سے کجھ تھی مت چھبا ننے گا۔“‬
‫کمرے کے ناہر راہداری میں مبکس اس کے شاتھ ہی موخود تھے چب دامیر ئے انبا‬
‫رخ ان کی جانب کرئے بوچھا۔ فباد کا نام ستنے انک نل کو وہ خونک ا تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪141 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے نہیں مغلوم اس نارے میں۔“ مبکس ئے تظریں خرائے ہوئے کہا۔‬
‫دامیر ئے سرد ناپرات انبائے ان کی جانب قدم پڑھائے۔ رنان ئے تھی چب اتکل‬
‫مبکس سے بوچھا بو ان کا خواب نب تھی نہی تھا۔‬
‫”چھوٹ نہیں ستبا مجھے۔۔“ دامیر کا انداز اور لہحہ سرد ہوا بو مبکس ئے گہرا‬
‫شانس تھرا۔‬
‫”میں چھوٹ ک نوں بولوں گا تم سے۔۔“ مبکس ئے سر چھبک کے کہا نتھی‬
‫ڈاکیر کمرے سے ناہر آنا۔ دامیر اور مبکس کی تظریں انک شاتھ اس طرف اتھیں۔‬
‫م‬
‫”کمر پہ خوٹ آنی ہے‪ ،‬دو نین مہتنے کمل رنشٹ پہ رکھبا ہے ان کو۔ کبدھے کی‬
‫ڈرنسبگ بو کر دی تھی لبکن دوسرے نازو پہ فرنکجر آنا ہے۔ سر پہ تطاہر کونی خوٹ بو‬
‫نہیں۔ انکسرے وغیرہ کرئے سے مغلوم ہو گا کہ کونی اندرونی تقصان زنادہ پہ ہو‪،‬‬
‫میں شب ان یطام کرنا ہوں نب نک آپ ان کو لے کے آجانیں۔“ ڈاکیر ئے دامیر کو‬
‫دنکھنے شاری نات کہی جس پہ وہ سر انبات میں ہال گبا۔‬
‫”پہ آپ کی کبا لگنی ہیں؟“ ڈاکیر کے بوچھنے پہ اس سے نہلے مبکس کجھ کہبا‬
‫دامیر خود بول اتھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪142 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دوشت ہے۔ اور اس کے ہوش میں آئے کے نارے میں نہیں نبانا آپ‬
‫ئے؟“ دامیر سنجبدگی سے بوچھا۔‬
‫”چہاں نک میرا جبال ہے‪ ،‬خوٹ ان کو اندرونی آنی ہے جس کی وجہ سے نبہوش‬
‫ہیں۔ آکسنچن لگا دی ہے بو نہلے شکین ہو جائے تھبک رہے گا ورپہ کونی پڑا تقصان پہ‬
‫اتھانا پڑے۔“ ڈاکیر ئے انک تظر اندر پڑے وخود پہ ڈا لنے ہوئے کہا۔‬
‫”میں اس کو نہاں سے ناہر لے جائے کی علطی نہیں کر شکبا نمہیں خو تھی‬
‫کرنا ہے مگواؤ نہاں اور جتنی جلدی ہو شکے شب کرو۔“ کمرے میں جائے سے نہلے‬
‫دامیر ئے کہا کہ مبکس تھی انک نل کو جاموش ہوا۔ ڈاکیر ئے ہراشاں تگاہوں سے‬
‫مبکس کو دنکھا کہ وہ کٹسے شب نہاں منتنج کرے۔‬
‫”انک گ ھتنے کے اندر اندر۔۔۔“ مبکس ئے سرد تگاہوں سے اس کو ننتبہہ کبا کہ‬
‫ڈاکیر نس تھوک تگلبا رہ گبا۔‬
‫ان لوگوں کو وہ ا چھے سے جانبا تھا‪ ،‬اکبڈمی میں انک دو نار انمرجنٹسی میں جانا ہوا‬
‫تھا نتھی وہ ڈاکیر ا نسے لوگوں کی نہحان رکھبا تھا۔ پہ تھی ا چھے سے مغلوم تھا کہ اگر انک‬
‫گھتنے میں کام پہ ہوا بو وہ نہاں سے ہمٹشہ کے لنے رحصت تھی ہو شکبا تھا۔ تعنی‬
‫زمین سے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪143 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫انک گھننہ نہیں لبکن ڈپرھ گھتنے کے اندر اندر افرا تفری میں نہاں پہ مسئیری‬
‫النی گنی اور علتبا کا جبک اپ کبا گبا۔‬
‫اس کے سر کی نبک شانبڈ پہ خوٹ تھی لبکن شکر تھا کہ اندرونی نلبڈنگ سبارٹ‬
‫نہیں ہونی تھی۔ ڈاکیر ئے تھی پہ نبانا کہ علتبا اتھی کومے کی جالت میں تھی۔ جٹسی‬
‫اس کی کبڈنشن تھی اس کا اڑنالٹس گھت نوں میں ہوش میں آنا ضروری تھا ورپہ جان کو‬
‫حظرہ تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫آدھی رات کے سبائے میں انک نانک ہوا کو چیرنی ہونی ستبڈ میں تھاگ رہی‬
‫تھی۔ نانبکر ئے ہبلمٹ نہن رکھا تھا۔ نلبک شوٹ میں ہاتھوں میں لبدر کے دسبائے‬
‫ت‬ ‫م‬‫ک‬‫م‬
‫گونا وہ ل قاب بوش تھا۔‬
‫نانبک انک کلب کے آگے آرکی تھی۔ ہبلمٹ انارے اس وخود ئے منہ پہ اب‬
‫ماشک خڑھا لبا۔ وہ لڑکی تھی۔ اور لڑکی چنہ ل نو تھی خو انک گاڑی کا ننجھا کرئے ہوئے‬
‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫ن‬
‫نہاں نک چی ھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪144 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫آکشن کے دوران ہوئے والی قاپرنگ سے نجنے وہ محفوظ جگہ ہنچ بو گنی تھی مگر‬
‫اس کو مشلشل محسوس ہو رہا تھا کہ کونی اس پہ تظر ر کھے ہوئے تھا۔ رنان کے عالوہ‬
‫تھی تھا کونی خو اس کے تغافب میں تھا۔‬
‫کلب کے داجلی دروازے سے اندر جائے کے نحائے اس ئے مونانل کو وہیں‬
‫کھڑے آن کبا۔ وہاں لگے کتمرہ کے شا منے ہاتھ ہالنا جٹسے ا ننے آئے کا نبا دے رہی‬
‫ہو۔‬
‫مونانل کو وانس رکھنے وہ نجھلے حصے کی طرف تھاگی چہاں کلب کی کئیرنگ شانبڈ‬
‫کا ڈور کھلبا تھا۔ اس کئیرنگ اپرنا کے نالکل اوپر مشافر جاپہ نبانا گبا تھا چہاں پہ اکیر‬
‫لوگ سباب کے شاتھ رانیں رنگین کرئے تھے۔‬
‫اس کا نارگٹ تھی اتھی نہی موخود تھا۔‬
‫لوہے کی ز ننے ننی تھی چہاں سے وہ دئے ناؤں اوپر جانا سروع ہونی اور انک‬
‫کمرے کی نالکنی میں کود آنی۔‬
‫ا ننے ہولڈر سے گن تکالے اس ئے نالکنی کی گالس وال سے اندر چھاتکا چب‬
‫اندر کا م یظر دنکھنے انک نل کو اس کا دل دہل گبا۔ کمرے کی النٹ مدھم تھی جبکہ‬
‫کمرہ کا خو آدھا حصہ تظر آرہا تھا وہ جالی ت ھا۔ نبڈ پہ خون کے د ھنے موخود تھے۔ اس ئے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪145 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نالکنی کے دروازے کے ہتبڈل کو گھمانا اور نبا ناچیر کنے اندر داجل ہونی۔ نحاس نچین‬
‫شالہ آدمی شقبد سرٹ میں مل نوس نبڈ کے نالکل شاتھ زمین پہ ئےشدھ پڑا تھا۔ وہ‬
‫تھب ت ف ً‬
‫پزنس مین لگ رہا تھا۔ اس کی شقبد سرٹ خون سے گی ھی۔ د عبا چنہ کو ا ننے‬
‫ننجھے آہٹ سبانی دی۔‬
‫تھرنی سے گھو منے اس ئے قاپر کبا لبکن نشاپہ خوک گبا۔‬
‫”ہبلو ملٹسکا!“ سنجبدہ چہرہ مگر مشکرانی آواز۔‬
‫ک‬‫ل‬ ‫ک‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫م‬
‫اس کو خواب د نبا ضروری پہ ھنے چنہ ئے گن وانس ہولڈر یں ر ھی اور نا نی‬
‫کی طرف پڑھی۔‬
‫رنان نہاں تھا مطلب لڑکی محفوظ تھی۔ اس نات سے وہ تھی وافف تھی کہ آر‬
‫نہ ن‬
‫ڈی کتھی غورت سے زپردسنی نہیں کرئے تھے۔ رنان اس سے لے نچ کے لڑکی کو‬
‫ہ‬

‫لے کے جا حکا تھا جس کو الطتنی گتبگ کے آدم نوں ئے آج شام آکشن کی نبالمی‬
‫میں خرندا تھا۔ ز ننے وانس اپرنی وہ اننی نانک کی جانب آنی اور انبا ہبلمٹ نہنے رواپہ‬
‫ہونی چب کھلی سڑک پہ ا ننے پراپر انک گاڑی کو نانا۔‬
‫رنان ڈی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪146 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫پہ اس کا فیر نک ننجھا نہیں چھوڑئے واال تھا۔ چنہ ئے ہبلمٹ کے سٹسے سے‬
‫اس کی گاڑی کی جانب تظر دوڑانی۔ وہ اکبال تھا۔‬
‫اگر وہ اکبال تھا بو لڑکی کہاں تھی۔ تکانک اس کو قکر ئے آن گ ھیرا۔‬
‫نانک کی ستبڈ شلو ہوئے ہی رنان کو اچھتبا ہوا بو اس سے آگے ہی گاڑی کو‬
‫رو کنے اپر آنا۔‬
‫چنہ ہبلمٹ انار رہی تھی۔ ماشک کو سر نک لے جائے اس ئے رنان کی جانب‬
‫قدم پڑھائے۔‬
‫”لڑکی کہاں ہے؟“‬
‫”کبا تم لڑکی نہیں؟“ نحائے خواب د ننے کے رنان ئے چیران ہوئے کی‬
‫اداکاری کرئے اس سے بوچھا۔ اس کے انداز ناپرات سے نالکل تھی نہیں لگا تھا کہ‬
‫وہ مزاق کر رہا تھا۔‬
‫ہ‬‫ن‬
‫”آکشن والی لڑکی کہاں ہے رنان ڈی؟ تم مجھ سے نہلے وہاں نچ گنے ھے۔“‬
‫ت‬
‫چنہ ئے لہچے میں عصہ سموئے کہا۔ اگر رنان اس نار سبدھا خواب پہ د نبا بو چنہ ئے‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ن مت ت‬
‫خواب نبار رکھا تھا۔ اس ئے زور سے ا نی ھی نچی۔‬
‫”وہ محفوظ ہے۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪147 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫پہ نین لقظ ستنے چنہ کو شکھ کا شانس آنا۔‬


‫”نمہیں تھی محفوظ رکھ شکبا ہوں۔ شادی کی ڈ نٹ نبا دو نس۔“ چہاں چنہ ئے‬
‫شکھ کا شانس لبا اور اس کا شکرپہ ادا کرنا جاہا وہیں وہ ا ننے القاطوں کا گال گھو نتنے‬
‫اس خون آشام تظروں سے گھورئے لگی۔‬
‫”تھاڑ میں جاؤ تم۔“ انک انک لقظ جبائے ہوئے بولی۔ رنان کے لب مبہم‬
‫مشکرائے۔‬
‫ہبلمٹ نہنے اتھی نانبک سبارٹ کی ہی تھی کہ نجھلی سنٹ سے انک بولنٹ‬
‫نکرانی۔ چنہ ئے پروفت انبا سر چھکانا۔ نبک وفت دوبوں ئے اننی گیز تکالی۔‬
‫”جتنی نیز ہو شکے نانبک تھگاؤ اور میری گاڑی کی دوسری شانبڈ پہ رہبا۔“ رنان‬
‫اننی گاڑی کی طرف تھاگبا ہوا جالنا۔ چنہ ئے اس کے کہنے پہ عمل کبا۔ گاڑی بولنٹ‬
‫پروف تھی بو چنہ کو کور مل گبا تھا۔‬
‫چنہ کا اندازہ تھبک تھا۔ کونی اس کا ننجھا کر رہا تھا۔ ان کے ننجھے ہی انک‬
‫گاڑی تھی چہاں سے قانیرنگ سروع ہونی۔‬
‫”گاڑی کے شا منے آؤ۔“ رنان ئے چنہ کو اشارہ کبا۔ سر ہالئے ہوئے نانک کی‬
‫ستبڈ نیز کرنی اس کی گاڑی کے شا منے آگنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪148 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ا نسے ہی بو نہیں پہ اپرنکٹ کرنی مجھے۔۔“ رنان ئے اس کی نشت کو دنکھنے‬


‫سبانش سے کہا۔ اس کے لہچے میں اننی نسبد کے لنے عرور تھا۔ انک ماہر نانبکر کی‬
‫طرح وہ زن سے نانبک تھگا رہی تھی۔ کہیں پہ وہ تھی زرا شا گ ھیرانی نہیں تھی۔‬
‫گاڑی اتھی تھی ان کے ننجھے ہی تھی۔ ناس ہی شاجل سمبدر کا اپرنا تھا چہاں پہ‬
‫چنہ ئے انبا نانبک کا رخ موڑ لبا تھا۔ رنان تھی اس کے ننجھے ہی ہوا۔ وہاں سے‬
‫وانس چملہ کرنا ان کے لنے آشان ہو گا۔‬
‫شاجل کبارے چہاں انک دو رنسنورن نٹ کی الننٹس تھیں وہیں پہ چنہ ئے اننی‬
‫نانبک روکی اور نیزی سے اپرئے ہوئے گن کو دوسری طرف سے آنی ہونی گاڑی پہ‬
‫نانا۔‬
‫وہ گاڑی اتھی تھی سڑک والے ر سنے پہ تھی۔ ضرف دو آدمی تھے۔‬
‫گاڑی کی کھڑکباں کھلی تھیں بو نہلے ڈران نور کا نشاپہ لبا۔ اس کے ڈھیر ہوئے‬
‫سے گاڑی ئےقابو ہونی بو اگال نبدہ تھی شا منے آنا۔‬
‫اگلے ہی لمچے وہ تھی ڈھیر ہوا۔ چنہ ہلکا شا مشکرانی۔‬
‫رنان گاڑی روکے تکل حکا تھا اور اس کی طرف پڑھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪149 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہارے ننجھے ک نوں تھے پہ لوگ؟“ رنان ئے سنجبدگی سے بوچھا۔ اس کا ہاتھ‬


‫تھامبا جاہا جس پہ چنہ ئے نیزی سے انبا ہاتھ ننجھے لے جائے گن کو ہولڈر میں رکھا۔‬
‫ب‬ ‫ن‬
‫”نمہارے دسمن تھی ہو شکنے ہیں پہ۔“ وہ آ یں ھما کے بولی کن رنان م‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫شا مشکرانا۔‬
‫”میرے ننجھے ہوئے بو نہاں پہ آئے۔ ان کا ناگنٹ تم تھیں۔“ رنان اس کی‬
‫نانبک سے نبک لگائے کھڑا ہوا۔ نتھی چنہ کا مونانل ن نپ کبا جس کو محسوس کرئے‬
‫اس ئے نبک بوکٹ سے تکاال۔ رنان ئے اس کو گہری تظروں سے دنکھنے ہونٹ گول‬
‫کرئے انک ستنی نحائے۔‬
‫چنہ کو اس وفت وہ لوفر شا لگا نتھی انبا رخ موڑے فون کا خواب د ننے لگی۔‬
‫”تم میرے شاتھ جاؤ گی اتھی۔۔ اکبلی کہیں نہیں جا رہی تم۔“ رنان ئے اس‬
‫کو جائے کی نباری نکڑئے دنکھ کہا۔‬
‫”مجھ سے نمہیں کجھ جاصل نہیں ہوئے واال بو ننجھا چھوڑ دو میرا۔“ ناگوار لہچے میں‬
‫کہنی وہ وہاں سے جا جکی تھی۔ جائے ہوئے رنان ئے چنہ کو تغافب کار کی گاڑی‬
‫کے ناس ر کنے دنکھا۔‬
‫وہ دو منٹ کے لنے وہاں رکی ہو گی تھر نیزی سے نانک تھگائے لے گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪150 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫صنح کے جار نج رہے تھے۔ ڈاکیر اتھی دامیر کے گھر پہ ہی موخود تھے ک نونکہ علتبا‬
‫کو اتھی ہوش نہیں آنا تھا۔ ڈاکیر کے مطابق اس کے سر پہ خوٹ لگنے کی وجہ سے‬
‫اس کا جلدی ہوش میں آنا مسکل تھا۔‬
‫دامیر کمرے میں ہی موخود تھا۔ نبڈ کے نانیں شانبڈ پہ صوقہ موخود تھا چہاں دامیر‬
‫ڈھبلے انداز میں نتم دراز تھا۔‬
‫مبکس کو اس ئے گٹشٹ روم میں تھنج دنا تھا ک نونکہ وہ تھی رات کے اس کے‬
‫شاتھ جاگ رہے تھے۔‬
‫رنان ئے اس کو لڑکی کے م یغلق اتقارم کر دنا تھا اور اب وہ نہیں وانس آرہا‬
‫تھا۔ دامیر ئے انبا ج نٹ رنڈی کروا دنا تھا کہ جٹسے ہی رنان نہنچے گا وہ لوگ نہاں سے‬
‫تکل جانیں گے۔‬
‫علتبا کے شاتھ شاتھ چنہ پہ تھی چملہ ہو حکا تھا اب مزند وہ ان دوبوں لڑک نوں‬
‫کی جان کا رشک نہیں لے گا۔‬
‫دامیر ئے اونگھنے ا ننے منہ پہ ہاتھ رکھا چب اس کی تظر علتبا پہ گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪151 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کتنی تفرت کرنی تھی پہ لڑکی اس سے۔ اگر کتھی موفع ملبا بو وہ اس کی تفرت کو‬
‫ب‬
‫ج لنج ضرور کرنا کہ انک نا انک دن وہ اس کو انبا عادی نبا د نبا تھر جاہے جتبا مرضی‬
‫اس سے تفرت کرنی تھرنی۔‬
‫”تم سیرانگ ہو نمہیں کجھ نہیں ہو گا۔“ دامیر اس کو پرم تگاہوں سے دنکھنے‬
‫پڑپڑانا۔‬
‫اتھ کے اس کے فرنب آنا چب علتبا کی نلکوں میں جنٹش محسوس کرئے خوتکا۔‬
‫اس کے فرنب نتتھے اس کی ہارٹ ن نٹ جبک کرئے لگا۔ تھوڑی نیز ہونی تھی۔‬
‫علتبا ہوش میں آرہی تھی۔ شکر تھا کہ وہ کومہ میں نہیں گنی تھی۔‬
‫”علتبا۔۔!“ دامیر ئے پرمی سے تکارا اور اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھا۔ دامیر کے‬
‫دل ئے ئےشاچنہ شکر کا کلمہ ادا کبا۔‬
‫ت‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫چ‬
‫وہ آ یں ھول رہی ھی‪ ،‬ہرے پہ ل ف کے آنار ھے۔ اس ئے ا نے نازو کو‬
‫خرکت دی لبکن کراہ اتھی۔ کبدھے میں تھٹس سی اتھی۔‬
‫”علتبا تم تھبک ہو؟“‬
‫ک‬‫ن‬ ‫ح‬ ‫ک‬‫ن ن‬
‫مرداپہ آواز پہ علتبا ئے ا نی آ یں ھو یں۔ شا منے انحان ص کو د ھنے اس‬
‫س‬ ‫ل‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫س‬
‫کے ما تھے پہ نل واصح ہوئے۔ الجھی تگاہیں ھنے کی کوشش یں یں۔‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ج‬‫م‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪152 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم کون ہو؟“ علتبا ئے ا ننے دھکنے کبدھے کو دنکھنے ہوئے کہا۔ دامیر ئے‬
‫آپرو احکائے۔‬
‫”جس سے تم شب سے زنادہ مجنت کرنی ہو۔“ دامیر ئے طیزپہ انداز میں کہا‬
‫لبکن علتبا کی آنکھوں میں غیر سباشانی اتھری۔‬
‫”کون!“ اس ئے اتھنے کی کوشش کی۔‬
‫”اتھو نہیں‪ ،‬نمہیں خوٹ آنی ہے کمر پہ درد ہو گا۔“ دامیر ئے اس کے فرنب‬
‫ہوئے کہا‪ ،‬علتبا اس کے ا نسے فرنب آئے پہ الجھی۔‬
‫”پہ کس کا کمرہ ہے؟“ علتبا ئے آہشنہ آواز میں کہا کہ دامیر چیران تگاہوں‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫سے د نے لگا۔‬
‫”میں دامیر ہوں۔ دامیر آر۔“ دامیر ئے تھہرے لہچے میں کہا۔‬
‫میں نمہیں نہیں جاننی۔۔۔“ وہ ناد کرئے کی کوشش کرنی ہونی بولی۔ دامیر‬
‫سرغت سے اتھا اور ڈاکیر کو نالئے گبا۔ ڈاکیر ئے اس کا نلڈ پرنسر‪ ،‬ہارٹ رنٹ جبک‬
‫کبا۔ شب نارمل تھا۔‬
‫”پہ مجھے نہحان نہیں رہی۔“ دامیر ئے ڈاکیر کو سرد لہچے میں کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪153 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اتکل مبکس کہاں ہیں اور میں نہاں کٹسے آنی؟ ان کو نال دیں۔ وہ میرے‬
‫ً‬ ‫ک‬‫ن‬
‫اتکل ہیں۔“ علتبا ڈاکیر اور دامیر کو پرنشان تظروں سے د نی ہونی فورا ناد آئے پہ بولی۔‬
‫ھ‬
‫”مبکس کا ناد ہے لبکن میرا نہیں۔“ دامیر سمجھ پہ نانا کہ اس کو کٹسے تھول‬
‫گنی تھی وہ۔‬
‫”انشا ہونا ہے سر‪ ،‬سر پہ خوٹ لگنے کی وجہ سے ان کا شارٹ پرم متمری الس‬
‫ہوا ہے قکر پہ کریں کجھ عرصے نک ان کو ناد آجائے گا۔“ ڈاکیر ئے پرمی سے‬
‫سمجھائے ہوئے کہا۔ علتبا ئے تھی تغور ان کی نات سنی۔‬
‫”علتبا نمہیں آخری نات کبا ناد ہے؟“ دامیر ئے انبا رخ اس کی جانب کرئے‬
‫کہا جس پہ علتبا انک نل کو تھہری۔‬
‫وہ شو جنے لگی کہ اگر شا منے کھڑے انشان کو اس کا نام ناد ہو گا بو ضرور وہ اس‬
‫کو جانبا تھی ہو گا نتھی آہسبگی سے کہبا سروع کبا۔‬
‫”میں شونیزرلتبڈ میں تھی اور فباد ئے ا ننے آدم نوں کو میرے ننجھے لگانا تھا لبکن‬
‫میں اب کہاں ہوں؟“ علتبا ئے شو جنے ہوئے نبانا۔ وہ تھر سے اتھنے کی کوشش‬
‫کرئے لگی جبکہ دامیر فباد کا نام ستنے خوتکا نہیں تھا۔ اس کو مغلوم تھا کہ کجھ بو تھا‬
‫خو علتبا فباد کے نارے میں جاننی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪154 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم اتھی گرنس میں ہو ہمارے گھر۔ قکر کی نات نہیں اتکل مبکس تھی ادھر‬
‫ہی ہیں۔ فباد کو کٹسے جاننی ہو؟“ دامیر ئے اس کو خوصلہ د ننے ہوئے کہا اور اس‬
‫کے شا منے نتتھنے پرمی سے بوچھا۔‬
‫”شونیزرلتبڈ میں ملے تھے وہ مجھے نہلے سے جانبا تھا۔ کبا تم اتکل مبکس کو نال‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫چ‬
‫شکنے ہو؟“ علتبا الہٹ کا شکار ہو رہی ھی۔ ا ھی وہ مزند نات یں کرنا جا نی‬
‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ھ‬ ‫ج‬‫ن‬
‫تھی ک نونکہ سر میں درد سروع ہو گبا تھا۔‬
‫دامیر ئے انک تظر ڈاکیر کو دنکھا اور اس کے اشارہ کرئے پہ وہ اتھ گبا ناکہ‬
‫مبکس کو نال شکے۔‬
‫فباد کا ضرور علتبا سے تغلق تھا لبکن نہلے وہ ک نوں اتکاری تھی اس نات سے۔‬
‫مبکس پہ اس کو عصہ شا آئے کا۔ وہ جاہے جتنے پڑے ہوں اس سے لبکن اس کے‬
‫کام میں ان کو اس سے چھوٹ نہیں بولبا جا ہنے تھا۔‬
‫دامیر مبکس کو اندر لے آنا بو علتبا آندندہ ہو گنی۔‬
‫ن‬
‫دامیر ئے ان کو وفت دنا اور خود کمرے سے ناہر جال آنا۔ رنان نہاں ہنچ گبا تھا۔‬
‫اب نس نہاں سے تکلنے کی نباری کرنی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪155 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ھ‬ ‫ت‬
‫”میں ناہر گنٹ کے ناس ہوں۔ ا ننے کسی گارڈ کو یں۔“ چنہ ئے فون پہ‬
‫چ‬ ‫ن‬
‫مبکس کو محاظب کرئے ہوئے کہا۔‬
‫سمبدر سے کجھ قاصلے پہ نبا ہوا پہ خوتصورت شا وال جائے کس کا تھا چہاں اتکل‬
‫مبکس ئے اس کو نالنا تھا۔‬
‫تھوڑی دپر میں ہی اس کو رنان آنا ہوا دکھانی دنا۔ چہرے پہ وہی سرد ین‪ ،‬نلبک‬
‫کارگو شوٹ میں نت نٹ کی جت نوں میں ہاتھ ڈالے اسی کی طرف آرہا تھا۔‬
‫”آقکورس اتکل ان کے ناس ہی تھہرے ہو نگے۔“ چنہ ئے ئےزارنت سے ہوا‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫میں ہاتھ اتھائے گرائے اور آ کھیں گھمانی۔ رنان کے ہنجنے سے نہلے ہی وہ اس کی‬
‫شانبڈ سے ہونی اندر کی طرف پڑھ گنی۔‬
‫چنہ ئے جائے ہی دامیر سے اتکل مبکس کا بوچھا جس پہ اس ئے ا ننے کمرے‬
‫کی جانب اشارہ کبا۔‬
‫چنہ کے جائے ہی رنان دامیر نک آنا۔‬
‫م‬ ‫ت‬‫ج‬
‫”کل صنح اس کی یں ستبا م۔“ رنان ئے نی چیز سے کہا جس پہ دامیر‬
‫ع‬ ‫ت‬ ‫چ‬ ‫ن‬
‫ئے گھورا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪156 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آفٹسبلی میری ہوئے جا رہی ہے۔“ رنان کے لب مسکائے تھے جبکہ دامیر تقی‬
‫میں سر ہالنا رہ گبا۔‬
‫”علتبا کی متمری الس ہونی ہے‪ ،‬چہاں نک اس کو ناد ہے اس میں فباد شامل‬
‫ہے۔ فباد کی اس سے مالقات شونیزرلتبڈ میں ہونی تھی۔ اتھی مبکس شاتھ ہیں اس‬
‫کے جٹسے ہی ناہر آئے ہیں میں ان سے بوچھبا ہوں۔“ دامیر ئے رنان کو اطالع دی‬
‫جس پہ وہ خود شو جنے لگا۔‬
‫”علتبا کو ا ننے ناس رکھ لو!“ رنان ئے جتنی سنجبدگی سے کہا دامیر ئے اس کو‬
‫سرد تگاہوں سے گھورا۔‬
‫”کبا مطلب ہے اس نات کا؟“‬
‫”علتبا کو ا ننے ناس رکھ لو ا نسے تم اس کی حقاظت کر ناؤ گے آشانی سے۔“‬
‫رنان ئے کبدھے احکائے۔‬
‫”وہ مجھے نہحان تھی نہیں رہی بو شاتھ ر ہنے کو راضی کٹسے ہو گی؟“ دامیر ئے‬
‫رنان کو دنکھنے بوچھا‪ ،‬رنان ئے نبا اس کو د نکھے کبدھے احکائے۔ نہلے بو وہ کئیر کے‬
‫طور پہ اس کے شاتھ رہ رہا تھا لبکن اب دامیر اس کے لنے انحان تھا۔ ا نسے میں وہ‬
‫اس کے شاتھ اکبلے جائے کو راضی نہیں ہو گی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪157 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”بوائے فرنبڈ ین جاؤ۔۔ اس سے کہو کہ تم اس کے بوائے فرنبڈ ہو اور وہ‬


‫نمہارے شاتھ رہنی تھی۔“ رنان ئے آنکھ دنائے ا ننے جالص مسورے سے بوازہ۔ دامیر‬
‫کجھ نل شوچ میں پڑ گبا۔‬
‫”میں اس کو بوائے فرنبڈ کہوں گا اور وہ مان جائے گی۔“ دامیر کہنے ہلکا شا‬
‫ہٹشا۔ اس کو پہ مزاق ہی لگا تھا۔‬
‫”پرانی کر لو۔“ رنان ئے الپرواہی سے کہا نتھی مبکس کمرے سے ناہر آئے اور‬
‫ان کے شاتھ ہی چنہ تھی۔ کمرے کا دروازہ نبد کرنی چنہ مبکس کی شانبڈ پہ کھڑی ہو‬
‫گنی۔‬
‫”علتبا شونیزرلتبڈ کب گنی تھی؟“ دامیر ئے نبا نمہبد کے شوال بوچھا۔ مبکس‬
‫ئے انک تظر چنہ کو دنکھا جس پہ وہ انحان نتنی کبدھے احکا گنی کہ پہ آپ کا خود کا‬
‫مغاملہ ہے۔‬
‫”نین شال نہلے گنی تھی۔“‬
‫ت‬ ‫ت‬‫گ ن‬
‫”نین شال نہلے مطلب وہ اننی نین شال کی ناداشت نوا ھی ہے‪ ،‬اکبڈمی‬
‫کے نارے میں اس کو کجھ مغلوم نہیں ہو گا تھر بو۔“ دامیر ئے اندازہ لگانا۔ مبکس‬
‫ئے انبات میں سر ہالنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪158 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نین شال نہلے وہ انک معصوم عام انشان تھی خو اس کالی دنبا سے ئےچیر‬
‫تھی۔“ مبکس کے لہچے میں دکھ تھا کہ اب علتبا ئے خود کو کہاں تھٹشا لبا تھا۔‬
‫”اور نجھلے نین شالوں سے وہ فباد کو جاننی تھی لبکن چب میں ئے آپ دوبوں‬
‫ئے بوچھا آپ دوبوں ئے اتکار کبا۔ ک نوں؟“ دامیر ئے اب کی نار انبا عصہ ضیط‬
‫کرئے سرد لہچے میں بوچھا۔ چنہ ئے انک گہرا شانس تھرا جٹسے نہاں گ ھین ہو رہی ہو۔‬
‫اس ئے دامیر کو دنکھنے سے پرہیز کبا۔‬
‫”علتبا وافعی کجھ نہیں جاننی تھی۔“ مبکس کے خواب پہ دامیر الجھا۔‬
‫”کبا مطلب ہے آپ کا اس نات سے۔ اتھی میرے شا منے اس ئے فباد کا زکر‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫کبا ہے۔“ دامیر دانت نٹسنے ہوئے بوال اور چیڑے نچ نے۔‬
‫ل‬
‫”فباد سے وہ ملی ضرور تھی۔ نب وہ نہت پری طرح ڈر گنی تھی اور ڈپرنشڈ ر ہنے‬
‫لگی تھی بو مجھے اس کو شانکئیرشٹ کے ناس لے جانا پڑا اور اس کا پرنتمنٹ کروانا پڑا۔‬
‫اسی وجہ سے وہ اس وا فعے کو بوری طرح تھول جکی تھی۔“ مبکس ئے انک گہرا شانس‬
‫لبا۔‬
‫چنہ اب مزند نہاں ان کے ناس تھہرنا نہیں جاہنی تھی نتھی وہ ل نونگ روم میں‬
‫آگنی اور صوفے پہ نتتھ گنی۔ رنان و نسے ہی دامیر کی شانبڈ پہ کھڑا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪159 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”فباد ئے اس کو کڈن نپ کرنا جاہا تھا‪ ،‬علتبا تھاگ تکلی تھی وہاں سے۔۔ نب وہ‬
‫ہماری دنبا کی کسی چیز سے وافف نہیں تھی۔ وہ وافعہ بو وہ تھول گنی لبکن اس کو‬
‫اکبڈمی میں جائے کا شوق نبا نہیں کہاں سے لگ گبا اور دنکھو وہ تھر سے وہیں آرکی‬
‫ہے۔“ مبکس ئے دکھ و ناشف سے نبانا۔ دامیر جاموش ہو گبا ک نونکہ مبکس وافعی‬
‫تکل یف میں لگ رہا تھا۔‬
‫”لبکن فباد کو علتبا سے کبا مطلب ہے؟“ دامیر کے نحائے رنان ئے شوال‬
‫کبا۔‬
‫”مجھے فباد کا خود مغلوم نہیں ک نونکہ کتھی اس کا انبا نام نہیں سبا تھا وہ شاند نبا‬
‫آنا تھا مافبا میں اور اس کا علتبا سے کبا تغلق وہ تھی نہیں جانبا میں۔ نتھی میں ئے‬
‫علتبا کو اس شب سے دور رکھا ہوا تھا لبکن اب لگبا ہے کہ فباد کو دونارہ مغلوم ہو گبا‬
‫س‬
‫ہے علتبا کے نارے میں۔“ مبکس ئے مزند کہا بو دامیر ئے ھنے سر ہالنا۔‬
‫ج‬‫م‬
‫”وہ ضرف علتبا کو ہی نہیں چنہ کو تھی مارنا جاہبا ہے اب اس کی کہانی بو علتبا‬
‫ہی جاننی ہو گی۔ کبا نہلے کتھی علتبا ئے فباد کے نارے میں کجھ نبانا تھا؟“ دامیر‬
‫ئے ستنے پہ نازو ناند ھنے شو جنے ہوئے بوچھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪160 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہیں علتبا نب نہت خوفزدہ تھی۔ کجھ تھی نہیں نبانی تھی نتھی ڈاکیر کے‬
‫ناس لے جانا پڑا۔ اس کو مسیقل ا ننے شاتھ نہیں رکھ شکبا تھا۔ اسی لنے اس کا‬
‫ملک سہر شب ندلبا پڑا۔“ مبکس کی نات پہ دامیر ئے انک تظر رنان کو دنکھا۔‬
‫”چنہ کو مارئے کا کانیرنکٹ انڈنا سے آنا تھا۔“ دامیر ئے رنان کو نبانا بو وہ چیرت‬
‫سے دنکھنے لگا۔‬
‫”چنہ کا کانیرنکٹ۔ کس نارے میں؟“ مبکس ئے پرنشانی سے بوچھا۔‬
‫چنہ کو اشاشن کرئے کے کانیرنکٹ سے وہ العلم تھے۔‬
‫”شادی مبارک کانیرنکٹ بو ہمیں نہیں ملنے‪ ،‬طاہر ہے مارئے کا تھا۔ رنجبکٹ‬
‫کر دنا تھا میں ئے لبکن نتھی آکشن ہال میں اس پہ چملہ ہوا تھا اور نبک وفت علتبا پہ‬
‫تھی۔“ رنان ئے سنجبدگی سے نبانا۔‬
‫پہ وفت ہٹسنے کا نہیں تھا ورپہ رنان کی نات پہ دامیر دل کھول کے ہٹسبا۔‬
‫”میں ئے آپ سے کجھ کہا تھا۔“ رنان اجانک ناد آئے پہ بوال۔‬
‫”مجھے م یظور ہے۔ میں ان کی زندگی کا اب رشک نہیں لتبا جاہبا اور چنہ بو میری‬
‫ستنی تھی نہیں۔“ مبکس ئے نبا دپر کنے رنان کو مت نت خواب دنا جس پہ اس کے‬
‫لب مشکرا ا تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪161 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫”نہت ندنمیز نچی ہے آپ کی۔“ رنان ئے نانبد کرئے ہوئے کہا۔‬
‫اس ئے شادی کی نات کی تھی وہ چنہ کے شاتھ اس کے ڈانمبڈ پزنس میں‬
‫ہبلپ تھی کرے گا۔ مبکس ئے چب چنہ کو مارئے کا سبا بو نبا مزند شوچے انہوں‬
‫ئے جامی تھر لی تھی۔ چب شب کو پہ علم ہو گا کہ چنہ اب رنان ڈی کے شاتھ خڑ‬
‫جکی ہے بو کونی تھی اس کی طرف قدم نہیں پڑھائے واال تھا۔‬
‫”آپ ئے شوچ لبا ہے نا ک نونکہ اب اس نات سے آپ ت ِھر نہیں شکنے اور اننی‬
‫نات سے تھرے بو انحام تھی مغلوم ہے۔“ رنان ئے ان کو جبانا جاہا جس پہ مبکس‬
‫ہٹس د ننے۔ انک طرح سے وہ ان کو دھمکی دے رہا تھا۔‬
‫”میں اننی نات کا تکا ہوں میری طرف سے تم شادی کی نباری کرو۔“ مبکس‬
‫ت‬‫م ن‬
‫انل لہچے میں بولے کہ رنان ئے اننی گرے آنکھوں سے ل نونگ روم یں ھی چنہ کو‬
‫ت‬

‫دنکھا۔‬
‫”آپ ئے علتبا کو میرے نارے میں کبا نبانا؟“ دامیر ئے انک دم خو نکنے‬
‫ہوئے بوچھا جس پہ وہ تقی میں سر ہالئے لگے۔‬
‫”اس ئے کجھ نہیں بوچھا۔ وہ نس اننی طت یغت کو لنے اموسبل ہو رہی تھی۔“‬
‫مبکس کے القاظ ستنے دامیر مشکرانا اور دروازہ کھولے اندر پڑھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪162 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کٹشا فبل کر رہی ہو؟“ دامیر کے شاتھ مبکس اور رنان کو اندر آئے دنکھ علتبا‬
‫ہلکا شا اتھی۔‬
‫”تم کون ہو؟“ علتبا ئے خواب د ننے کے نحائے شوال کبا۔ اتکل مبکس سے‬
‫اس کے نارے میں بوچھبا ناد ہی نہیں رہا تھا۔‬
‫”میں دامیر ہوں نمہارا ہزنتبڈ۔ نمہیں میں ناد نہیں؟“ دامیر کی نات پہ چہاں علتبا‬
‫چیران ہونی وہیں رنان کا منہ کھل گبا جبکہ مبکس شاک کی جالت میں اس کو دنکھنے‬
‫لگے۔‬
‫”میں ئے بوائے فرنبڈ کا کہا تھا پہ بو شوہر ین گبا ہے۔ مجھ سے آگے کا شوچ‬
‫کے نتتھا تھا۔“ رنان ئے مبکس کے فرنب ہوئے سرگوسی کی۔‬
‫م‬ ‫س‬
‫ج‬
‫”ہزنتبڈ! مجھے انشا کجھ تھی نہیں ناد۔“ علتبا ئے نا ھی سے مبکس کو دنکھا۔‬
‫دامیر ئے تھی انبا رخ ان کی طرف کبا اور اشارہ کبا جس پہ مبکس ئے انبات میں سر‬
‫ہالنا۔‬
‫”کجھ مہتنے نہلے کی نات ہے لبکن کونی نات نہیں میں نمہیں ناد دال دوں گا‬
‫آہشنہ آہشنہ۔“ دامیر ئے ا ننے لہچے میں نبار سموئے کہا اور اس کے نکھرے نالوں کو‬
‫کان کے ننجھے اڑشا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪163 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان اس کی آشکر ونبگ انکتبگ پہ اش اش کر اتھا اور اننی مشکراہٹ دنائے‬


‫لگا۔‬
‫”شاند‪ ،‬مجھے اتھی کجھ تھی ناد نہیں ہے۔“ علتبا مشکرائے کی کوشش کرئے‬
‫ہوئے بولی اور دامیر کے ہاتھ سے انبا چہرہ دور کبا۔‬
‫”کبا ہمیں اکبلے میں تھوڑا وفت مل شکبا ہے؟“ دامیرئے ننجھے گردن کرئے‬
‫ن‬ ‫ً‬
‫سنجبدگی سے کہا بو رنان فورا ا ک نو ہوا۔‬
‫”ہاں ہاں ضرور‪ ،‬جلیں اتکل ہزنتبڈ واتف کو پرابوسی جا ہنے۔“ رنان مبکس کو نازو‬
‫سے تھامے کمرے سے ناہر آنا۔‬
‫دامیر ئے انبا چہرہ علتبا کی طرف کرئے مشکرا کے اس کو دنکھا۔‬
‫”کجھ جا ہنے اتھی؟“ دامیر ئے ا ننے نبار تھرے انداز میں کہا کہ نجھلے شارے‬
‫شالوں کا نبار جٹسے اسی انک چملے میں آئے کسر بوری کر دی ہو۔‬
‫علتبا ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”ہم کہاں ہیں؟“‬
‫”ہم اس وفت گرنس آئے ہیں وکٹشن پہ لبکن آج ہی وانس جا رہے ہیں‬
‫روس۔ وہاں نمہارا پرنتمنٹ ہو گا۔ تھبک ہے۔“ دامیر ئے اس کا ہاتھ تھام کے کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪164 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا کو اس کے ہاتھ نکڑئے سے کونی عج نب شا محسوس پہ ہوا تھا بو مزاچمت پہ‬


‫کی۔‬
‫”ہم روس ر ہنے ہیں؟“ علتبا ئے چیران ہوئے بوچھا۔‬
‫”پہ ہمارا ہنی مون تھا۔“ دامیر کی اگلی نات پہ علتبا سے زنادہ دامیر کو خود نہت‬
‫عج نب لگا۔‬
‫وہ اس کو اتھی تفین دالنا جاہبا تھا کہ وہ انک ہتنی کبل تھا ناکہ چب وہ نارمل ہو‬
‫جائے بو اس سے فباد کے نارے میں بوچھ شکے۔ علتبا ئے آہشنہ سے انبا ہاتھ اس‬
‫کے ہاتھ سے آزاد کبا۔‬
‫”مغلوم نہیں!“ وہ ہلکا شا ہٹسی۔‬
‫”تفین نہیں آرہا ہے میں ئے اننی جلدی شادی کر لی تھی۔“ علتبا ک یق نوز سی‬
‫ہٹسی ہٹسنے ہوئے بولی۔‬
‫”اس میں پہ تفین کرئے والی کون سی نات ہے۔ ہم انک دوسرے کو نہت‬
‫نبار کرئے رہے ہیں۔“ دامیر کی اگلی نات پہ علتبا کے چہرے پہ سرجی چھائے لگی‬
‫ک نونکہ وہ اس کو والہاپہ تگاہوں سے دنکھ رہا تھا۔ دامیر ئے آگے پڑ ھنے شوخ سی‬
‫جشارت کرنا جاہی لبکن علتبا ئے پروفت چہرہ ت ھیر لبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪165 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں آرام کرنا جاہنی ہوں۔“ وہ مدھم لہچے میں بولی بو دامیر خود اتھ کھڑا ہوا اور‬
‫اننی جلد نازی پہ خود کو کوشا۔‬
‫”دو گھت نوں میں قالنٹ ہے ہماری۔ نب نک آرام کرو۔“ دامیر مشکرا کے کہبا‬
‫ہوا کمرے سے ناہر جال آنا۔‬
‫اگر وہ ا ننے تفین سے کہہ رہا تھا کہ اس کا شوہر ہے وہ تھی اتکل مبکس کے‬
‫شا منے بو ہوشکبا تھا کہ پہ سچ ہو لبکن اتھی وہ ہوش میں آنی تھی۔ نجھلے نین شال کی‬
‫نانیں وہ تھول جکی تھی۔ جائے دامیر اس کی زندگی میں کٹسے آنا اور ان میں کتنی‬
‫ً‬
‫انسنت رہی تھی لبکن وہ فورا ہی اس کو فرنب نہیں کرنا جاہنی تھی اتھی۔ خود تھی‬
‫اس نات کا اتھی تفین کرنا جاہنی تھی کہ اس کی ن نوی تھی۔‬
‫”میں اننی جلدی کسی سے شادی کٹسے کر شکنی ہوں؟“ اس ئے خود سے‬
‫شوال کبا اور انبا ہاتھ آگے کبا۔ وہاں کونی رنگ نہیں تھی۔‬
‫”شاند انار دی ہو اس ئے خود۔“ اس ئے کہا اور نبک لگا کے نتم دراز ہو گنی۔‬
‫شادی والی نات ہضم کرنا مسکل تھی اس کے لنے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪166 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم ئے علتبا کو انبا ہزنتبڈ ہونا ک نوں نبانا؟“ اتکل مبکس ئے اس کے ناہر‬
‫آئے اس سے عصے سے سرخ ہوئے بوچھا۔‬
‫”بو کبا کہبا کہ میں نمہارا کئیر ہوں خو نمہارا گارڈ ین کے مافبا کے لوگوں سے‬
‫حقاظت کرنا ہے۔“ دامیر البا طیزپہ انداز میں بوال کہ وہ مبکس ئے کالی گہری تگاہوں‬
‫سے اس کو گھورا۔‬
‫”وہ فباد کے نارے میں جاننی ہے مجھے اس کو اعتماد میں لے کے فباد نک نہنجبا‬
‫ہے۔ چب نک اس کی ناداشت وانس نہیں آنی ہمیں اس موفع سے قاندہ اتھانا جا ہنے‬
‫ک نونکہ فباد کے نارے میں پہ آپ جا ننے ہیں اور پہ ہی چنہ۔“ دامیر ئے رنان کے‬
‫شا منے نتتھنے اننی نات کی وصاچت کی۔ اس کی نات ستنے اتکل مبکس بو جاموش ہو‬
‫گنے جبکہ رنان اس کو معنی چیز تگاہوں سے دنکھنے لگا۔‬
‫”میرے لنے بو پہ ناقانل ف نول ہو گا کہ تم لوگ انک لڑکی کا قاندہ اتھاؤ گے۔“‬
‫چنہ ئے اس کی نات پہ اغیراض اتھانا۔ دامیر ئے خوسمگیں تگاہوں سے دنکھا۔‬
‫”میں اس کا قاندہ نہیں‪ ،‬جاالت کا قاندہ اتھا رہا ہوں۔“ دامیر ئے انک انک لقظ‬
‫جبا کے ناگوار لہچے میں کہا۔‬
‫”انک ہی نات ہے۔“ چنہ اس کی نات کا اپر لنے تغیر الپرواہی سے بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪167 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم اس کو انبا دوشت تھی نبا شکنے تھے۔ شوہر نبانا ضروری تھا۔“ مبکس ئے‬
‫تھوڑی دپر تغد تھر کہا۔‬
‫”کبا وہ دوشت کے شاتھ اس کے گھر میں ر ہنے پہ راضی ہو جانی۔۔ دوشت کہبا‬
‫نب تھی وہ آپ کے شاتھ جائے کی صد کرنی اس طرح میں اس کو پرونبکٹ پہ‬
‫کرنانا۔“ دامیر ئے مبکس کی آنکھوں میں دنکھنے جبا کے کہا۔‬
‫”نمہارے جبال میں علتبا کا انک تکلی شوہر کے شاتھ انک کمرے میں رہبا مجھے‬
‫م‬
‫ظمین کر دے گا؟“ مبکس ئے آئے والے عصے پہ نبا قابو نائے کہا۔ پہ نات دامیر‬
‫ئے تھی نہیں شوجی تھی۔ خود تھی وہ نذنذب کا شکار ہوا۔‬
‫”شادی کروا د ننے ہیں دوبوں کی۔ علتبا کو تھی تفین ہو جائے گا کہ دامیر اس‬
‫کا ہزنتبڈ ہے۔“ رنان ئے صوفے کی نشت سے نبک لگائے اننی تگاہیں چنہ پہ رکھنے‬
‫مسورے سے بوازہ۔ مبکس اور دامیر ئے انک دوسرے کو نبک وفت دنکھا۔‬
‫پہ مسورہ قانل غور تھا لبکن رنان جانبا تھا دامیر جلدی راضی نہیں ہو گا۔‬
‫”اس نارے میں شوجا جا شکبا ہے۔“ اتکل مبکس کو پہ موزوں لگا۔ جٹسے ان‬
‫کے کبدھوں سے تھوڑا بوچھ ہلکا ہوا ہو۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪168 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دامیر اس طرح علتبا کے شاتھ ہر وفت رہ شکبا ہے اور میں چنہ کے شاتھ۔۔“‬
‫رنان اب گہرا شانس تھرئے شکون تھرے لہچے میں بوال۔ ان کی نحث کے دوران انبا‬
‫نام ستنے چنہ ئے اچھتنے سے اتکل مبکس کو دنکھا۔‬
‫”مجھے ضرورت نہیں نمہاری۔۔۔“ ہمٹشہ کی طرح چنہ ئے انک انک لقظ عصے‬
‫سے جبائے ہوئے کہا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ن‬
‫نلین میں آرامدہ بوزنشن میں اننی چئیر کو سنٹ کنے آ کھیں موندیں ہوئے تھی۔‬
‫اس سے اتھا نہیں جا رہا تھا لبکن نبک آف کی وجہ سے آنا پڑا۔ انک نار اتکل مبکس کو‬
‫کہا تھی کہ رک جائے ہیں لبکن وہ تھی نہیں مائے تھے‪ ،‬دامیر اس کے شا منے ہی‬
‫سنٹ پہ نتتھا ا ننے لنپ ناپ پہ کجھ کام کر رہا تھا۔‬
‫چنہ نجھلے کنین میں جا کے آرام کر رہی تھی جبکہ اننی نانیں جانب نتتھے سحص‬
‫کی تگاہوں سے وہ نار نار نذنذب کا شکار ہو رہی تھی خو جائے اس کو کن تگاہوں سے‬
‫دنکھ رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪169 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کی اتھی ہی آنکھ کھلی تھی نتھی طت یغت میں خڑخڑا ین غود آنا تھا‪ ،‬اتھی اتکل‬
‫مبکس شاتھ نہیں تھے۔ علتبا ئے انک نار تھر اننی نانیں جانب دنکھا چہاں رنان اس‬
‫پہ و فقے و فقے سے تظر ڈال رہا تھا۔‬
‫چب سے وہ ہوش میں آنی تھی رنان سے انک نار تھی نات نہیں ہونی تھی لبکن‬
‫اس کے دنکھنے سے ہی اس کو وجشت سی ہوئے لگی۔ اس کی تگاہوں کا سرد ین‬
‫جٹسے مزند گہرا ہو رہا تھا‪ ،‬آنکھوں میں چمک انسی تھی جٹسے اتھی اس پہ چملہ کر دے‬
‫گا‪ ،‬نلونڈ نالوں کو نک ھیرا ہوا تھا۔‬
‫علتبا ئے انبا دھبان اس سے ہبانا جاہا اور دامیر کو دنکھا خو مشلشل ا ننے کام‬
‫میں مصروف تھا شاند اس ئے علتبا کے اتھنے کا تھی بونس نہیں لبا تھا۔ رنان کی‬
‫نانسنت اس کی آنکھوں کا اور نالوں کا رنگ تھورا تھا۔ دوبوں تھانی تھے نا دوشت اس‬
‫کو مغلوم نہیں تھا۔‬
‫ن‬ ‫ع‬ ‫ف ً‬
‫م‬ ‫ن‬
‫د عبا لتبا ہلکا شا کھا سی بو دامیر خو ک کے اس کی جانب نوجہ ہوا‪ ،‬اس کو اتھا‬
‫دنکھ سرغت سے اس کے ناس آنا اور طت یغت بوچھنے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪170 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہمارے شاتھ خو لڑکی ہے وہ کون ہے؟“ اننی جالت کا نبائے علتبا ئے چنہ‬
‫کے نارے میں بوچھا کہ دامیر کے شاتھ شاتھ رنان تھی خونک ا تھے کہ اس کو چنہ‬
‫کے نارے میں علم ہی نہیں تھا۔‬
‫”میری فبانسی۔۔!“ خواب دامیر کے نحائے رنان ئے دنا بو علتبا جاموش رہی۔‬
‫چنہ کا اس سے خو تھی رشنہ تھا وہ چنہ نا اتکل سے ہی نبا جلبا بو نہیر تھا۔‬
‫”نمہیں کجھ جا ہنے ‪Love‬۔“ دامیر ئے اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھنے نبار سے‬
‫کہا جس پہ علتبا ئے مشکرائے کی شعی کرئے ہوئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”نہیں میں تھبک ہوں نس سر میں درد ہو رہا ہے۔“ اس کے ہاتھ سے‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫نامحسوس انداز میں ھے ہوئے بولی بو دامیر ئے خود ہی ہاتھ نچ لبا۔‬
‫ج‬
‫ہ‬‫ن‬
‫”تم شوئے کی کوشش کرو‪ ،‬ہم نس نے والے یں۔“ وہ پرمی سے بوال جانبا‬
‫ہ‬ ‫ج‬‫ن‬
‫تھا کہ اتھی وہ تکل یف میں تھی اور اننی جلدی شفر کرئے کی اجازت تھی پہ تھی لبکن‬
‫گرنس سے فوری تکلبا تھی انک مج نوری تھی۔ وہ نبڈ سنٹ پہ موخود تھی‪ ،‬آرام سے وہ نتم‬
‫دراز ہو شکنی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪171 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کی کمر کے شاتھ شاتھ کبدھے میں شدند درد کی تھٹس اتھبا سروع ہو جکی‬
‫تھیں۔ مشلشل نتتھے ر ہنے والے انداز کی وجہ سے اس کے ناؤں میں شوزش تھی واصح‬
‫ہوئے لگی۔‬
‫نلین لتبڈ ہوئے ہی چنہ ا ننے کنین سے ناہر آنی چب دامیر کو علتبا کو اتھائے‬
‫کی کوشش کرئے دنکھا۔ چنہ ئے انک اجنی تگاہ رنان پہ ڈالی پہ تھر دامیر پہ۔‬
‫”میں اس کو لے آؤں گی۔۔۔“علتبا درد میں تھی اور اتھی نس وہ کسی پرم جگہ‬
‫پہ جانا جاہنی تھی نتھی دامیر کے پڑ ھنے ہاتھ کو چھبک پہ شکی لبکن چنہ کی آواز پہ‬
‫چہاں علتبا نذات خود خونکی وہیں دامیر ئے ناگوار تگاہوں سے اس کو دنکھا۔‬
‫”میں انبا کام کر شکبا ہوں ۔“ دامیر ئے جبائے ہوئے پہ القاظ ادا کنے کہ چنہ‬
‫ئے دانباں آپرو سبانسی انداز میں اوپر کبا‬
‫دامیر اب نہت اجتباط سے علتبا کو ا ننے نازوؤں میں اتھا رہا تھا۔ نلین کے ز ننے‬
‫اپرئے ہی شا منے گاڑی کھڑی تھی‪ ،‬دامیر ئے اس کو اجتباط سے نجھلی سنٹ کی‬
‫طرف نتم دراز کبا اور خود تھی شاتھ نتتھ گبا۔‬
‫ت‬‫ن‬
‫چنہ ناجا ہنے ہوئے تھی ان لوگوں کے شاتھ نبدھی ھی ھی اور اکباہٹ ھرے‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫ن‬
‫انداز میں فرنٹ سنٹ پہ تتھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪172 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان گاڑی ڈران نو کر رہا تھا نہاں سے نانچ منٹ کا رشنہ ہی تھا بو علتبا کو زنادہ‬
‫مسکل نہیں ہونی تھی لبکن اس وفت وہ خود کو ئےنس محسوس کر نارہی تھی جس‬
‫کے ناس کونی اور جارہ نہیں تھا۔‬
‫ن‬
‫”گھر ہنجنے ہی نس آرام کرنا ہے نمہیں‪،‬نس تھوڑا شا صیر کر لو۔“ علتبا کے‬
‫چہرے پہ تکل یف کے آنار دنکھنے ہوئے دامیر ئے اس کو نبار تھرے لہچے میں کہا کہ‬
‫رنان ئے نبک وبو مرر سے اس کا عکس دنکھنے ل نوں پہ معنی چیز مشکراہٹ اچھالی۔‬
‫ن‬
‫مین گنٹ نک ہنجنے ہی ڈرنک انک وہبل چئیر کو گھسنتبا ہوا آنا ک نونکہ اس کو‬
‫اطالع مل جکی تھی شارے وا فعے کی اور پہ تھی مغلوم تھا کہ اب علتبا دامیر کی ن نوی‬
‫ہے اور انشا طاہر کرنا تھی مج نوری تھا۔‬
‫ڈرنک ئے علتبا کا جال اخوال بوچھا۔ چنہ ئے نبا کسی کی پرواہ کنے خود ہی علتبا‬
‫کو سہارہ د ننے اس کو چئیر پہ نتھانا۔‬
‫”کوشش کرو کہ دوسروں پہ بوچھ کم ہی ین ناؤ۔“ چنہ اس کے شاتھ جلنی ہونی‬
‫م‬ ‫س‬
‫بولی۔ وہ اس پہ طیز کر رہی تھی نا پرس کھا رہی تھی علتبا تھبک سے ھی ہیں ھی۔‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ج‬

‫لبکن اس کا انداز عام شا تھا۔ آدھے سے زنادہ وزن علتبا ئے چنہ پہ ہی چھوڑا تھا الننہ‬
‫دوسری طرف دامیر تھی شاتھ تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪173 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ت‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬


‫ل‬ ‫ن‬
‫اس کی نات دامیر کے سماغت نک چی ھی اور انک ناگوار کیر اس کے ما ھے‬
‫پہ پڑی۔‬
‫”اتکل کہاں ہیں؟“ نہاں ضرف جبد تفوس کو دنکھنے ہوئے اس ئے اتکل‬
‫مبکس کا بوچھا۔‬
‫ن‬
‫”وہ اننی انک منتبگ سے فری ہو کے نہاں شام نک ہنچ جانیں گے۔“ دامیر‬
‫ئے پرمی سے اس کی نات کا خواب دنا۔ رنان دامیر کو اشارہ کرئے ہوئے ا ننے روم‬
‫میں فرنش ہوئے جال گبا اور نہاں چنہ ئے اس کو شلگنی تگاہوں سے دنکھا و نسے بو اس‬
‫کے ننجھے مر رہا تھا اور نہاں اس سے ئےنباز گھوم رہا تھا۔‬
‫اتھی علتبا کو کجھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس سے وہ کبا نات کرے نتھی نذنذب‬
‫کا شکار ہوئے نس اطراف میں تظریں دوڑانی رہی۔‬
‫”کجھ جا ہنے!“ دامیر جتنی لہچے میں پرمی گھول شکبا تھا اننی پرمی سے بوچھا۔ چنہ‬
‫سبانسی انداز میں دامیر کو د نکھے گنی۔‬
‫علتبا ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”مجھے روم میں جانا ہے۔“ چب اس کو درد کا اجشاس ہوا بو دامیر سے بولی۔‬
‫دامیر سر ہالنا ہوا اتھ کھڑا ہوا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪174 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ل‬
‫”ہاں آؤ کمرے میں چھوڑ آؤں‪ ،‬نمہارا گنج تھی میں ئے کمرے میں نجھوا دنا‬
‫ہے۔“ دامیر ئے ا ننے کف فولڈ کرئے علتبا کے نازو کو پرمی سے اننی گرفت میں‬
‫لبا۔ چنہ جاموسی سے اس ننے نبار تھرے کبل کو دنکھ رہی تھی۔‬
‫”کس کے روم میں؟“ علتبا ئے نہلے چنہ کو ت ھر دامیر کو ک یق نوز ہوئے دنکھا۔‬
‫نہاں اب چنہ کو محسوس ہوا کہ ان کو آنس میں اس نارے میں کھل کے نات کرنی‬
‫جا ہنے تھی نتھی وہ خود تھی فرنش ہوئے کا کہہ کے اتھ گنی۔‬
‫”ہمارے ا ننے کمرے میں۔۔ آؤ۔“ دامیر کے خواب پہ علتبا انک نل کو شاکت‬
‫ہونی۔‬
‫”آہ‪ ،‬نہیں مجھے وہاں نہیں رہبا۔ میں اتھی تھوڑا وفت اکبلے رہبا جاہنی ہوں۔“‬
‫علتبا کو سمجھ پہ آنی کہ وہ اننی نات کٹسے کہے۔‬
‫س‬
‫”بو ہم نمہیں ڈسیرب نہیں کریں گے‪ ،‬تم شکون سے رہبا۔“ دامیر ئے نبا ھے‬
‫ج‬‫م‬
‫اس کی نات کا خواب دنا۔ دامیر الجھ کے اس کے فرنب نتتھا رہا جبکہ علتبا چھال اتھی۔‬
‫”نہیں تم سمجھ نہیں رہے۔ میں۔۔۔ میں اس شب کو ف نول نہیں کر نا رہی۔‬
‫شادی گ ھر‪ ،‬انک شاتھ رہبا۔۔ مطلب اننی جلدی شادی ہو گنی میری۔ مجھے کجھ ناد‬
‫نہیں۔ تم سے خڑی کونی نات ناد نہیں بو میں اتھی نمہارے شاتھ نہیں رہ شکنی۔ میرا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪175 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دل ما ننے کو نبار نہیں اتھی۔ مجھے وفت جا ہنے اس شب کو ف نول کرئے میں۔ بو میں‬
‫جاہنی ہوں کہ شب کے شاتھ گھل مل جاؤں انک نانڈنگ ین جائے انک دوسرے کو‬
‫چ‬
‫جا ننے کا موفع دیں ہم اور۔۔۔ اس شب کو وفت لگے گا۔“ علتبا ئے ھجھکنے ہوئے‬
‫کجھ خزپز ہوئے اننی نات کہی جس پہ دامیر کجھ نل جاموش رہا۔ اس کے ا نسے جاموش‬
‫ہوئے پہ علتبا خوف سے دنکھنے لگی ک نونکہ اس کے چہرے پہ کونی ناپر نہیں تھا۔‬
‫”میں سمجھ شکبا ہوں نمہارے لنے پہ شب انک ننی سروعات ہے۔۔ تھبک ہے‬
‫جٹشا تم جاہو۔“ دامیر ئے پروفت عحلت دکھائے کے نحائے اس کی نات پہ رصامبدی‬
‫طاہر کی کہ کہیں وہ اس ر سنے کو لے کے شک میں پہ جلی جائے۔‬
‫انک پرشکون مشکراہٹ ئے علتبا کے ل نوں کو چھوا جس کو دامیر ئے تغور دنکھا۔‬
‫اس کا ہونٹ کا انک کبارہ تھبا تھا اور دانیں جانب رجشار پہ نبل نبا تھا۔‬
‫لبکن اس کی مشکراہٹ ئے اس چہرے کو مزند جسین نبانا تھا۔ دامیر کی‬
‫آنکھوں کی چمک ندلی بو اجشاس ہوئے ہی اس ئے گال کھبکھا لنے ہوئے علتبا کو سہارہ‬
‫دنا۔‬
‫”تم ہمارے نبڈروم کے شاتھ والے کمرے میں رہ شکنی ہو میں نمہارا شامان‬
‫وہاں سنٹ کروا د نبا ہوں کجھ۔۔“ دامیر ئے اس کا شارا وزن خود پہ لبا اور کمرے کی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪176 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫جانب پڑھا۔ اس کو وہ نازوؤں میں نہیں اتھا شکبا تھا ک نونکہ اس کی نشلی میں تکل یف‬
‫اتھ جانی۔۔‬
‫کمرہ دوسرے کمروں جتبا ہی کشادہ تھا۔ دامیر ئے اس کو نبڈ پہ لنتنے میں مدد‬
‫دی اور پرمی سے اس کے نبل زدہ رجشار کو چھوا۔۔ علتبا انک نل کو گ ھیرا گنی تھر‬
‫ستتھل کے مشکرائے کی شعی کی۔‬
‫”رنشٹ کرو‪ ،‬کسی چیز کی تھی ضرورت ہونی بو پہ پرنس کر د نبا اوکے۔“ پرم لہحہ‬
‫ر کھے دامیر ئے شانبڈ نتبل پہ پڑے انک پزر کی جانب اشارہ کبا۔‬
‫علتبا کے سر ہالئے پہ دامیر کمرے کی النٹ مدھم کرنا ہوا ناہر تکل آنا۔ چب وہ‬
‫الؤنج اپرنا میں آنا بو رنان نہلے سے موخود تھا‪ ،‬نی سرٹ اور پراؤزر میں فرنش شا۔‬
‫”دوسرے روم میں!“ رنان ئے آپرو احکائے بوچھا۔‬
‫”ہاں! وہ اس شب کو پراشس کرئے میں وفت جاہنی ہے۔ منتبلی سنتبل ہو‬
‫جائے تھر انک روم سئیر کریں گے ہم۔“ دامیر ئے گہرا شانس لتنے ہوئے کہا۔‬
‫”نبا شادی کے۔۔۔؟“ رنان ئے مسبلہ اتھانا جس پہ دامیر جاموش ہوا۔ اگر ان‬
‫کو انک شاتھ رہبا تھا اور علتبا کو شادی کا تفین تھی دالنا تھا بو وہ انک کبل ہوئے‬
‫کے نبا کٹسے کر شکبا تھا۔ وہ اس کے شاتھ اکبلے روم میں‪ ،‬اتکل مبکس اس نات پہ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪177 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ھ‬ ‫ت‬
‫کتھی راضی پہ ہوئے کہ ان کی نچی کسی کے شاتھ نبا کسی ر سنے کے اس کے نبڈ‬
‫ت‬

‫پہ ہونی۔‬
‫”علتبا کو بو اتھی تفین نہیں ہے اننی شادی کا بو ک نوں نا انک ونڈنبگ رنسنٹشن‬
‫ظ‬‫تک ت م‬
‫رکھا جائے۔ شادی! علتبا اور ا ل ھی ین ہو جا یں گے اور وہ اس ھر یں‬
‫م‬ ‫گ‬ ‫ن‬ ‫م‬
‫ہمارے شاتھ رہ تھی شکے گی۔“ دامیر ئے نیزی سے شو جنے انک جل تکاال خو قانل غور‬
‫تھا۔‬
‫”اور پہ انک کانیرنکٹ کے طور پہ ہو گی نا تم اس شادی کو نتھاؤ گے۔۔؟“‬
‫رنان ئے معنی چیز مشکراہٹ لنے دامیر سے بوچھا جس کی آنکھوں میں چمک اتھری۔‬
‫”نمہیں کبا لگبا ہے؟“ دامیر ئے شاطر مسکان لنے اس کو دنکھا۔‬
‫”تفرت کو مجنت میں ند لنے کا موفع اس سے اچھا نہیں ملے گا مجھے۔۔ پرنسس‬
‫اننی ناداشت کی وجہ سے شاری زندگی میرے شاتھ گزارئے والی ہے۔“ دامیر ئے ہ نوز‬
‫اسی مشکراہٹ سے کہا بو رنان ہلکا شا ہٹس دنا۔‬
‫”نہت جلدی شوچ لبا ہے۔۔“ رنان ئے سراہبا ضروری سمجھا ک نونکہ وہ شادی‬
‫ُ‬
‫ق‬ ‫ع‬
‫کبا غورت کے نام سے دور ر ہنے واال تھا کہ اس وجہ سے رنان سے لت پہ پرت لے‬
‫لبکن اس ئے اب اننی زندگی کا تھی ف یصلہ لبا تھا بو رنان خوش تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪178 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫شام میں اتکل مبکس کے آئے پہ دامیر ئے اننی نات کہی۔ اتکل مبکس ئے‬
‫ناری ناری نت نوں کے چہرے د نکھے۔‬
‫”نئیر دین فبک میرج۔“ (چھونی شادی کے نانک سے بو اچھا ہی ہے)‬
‫ع‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ت م‬
‫چنہ ھوڑا ین ظر آنی بو اس ئے کبدھے احکائے ہوئے کہا کہ وہ ھی لتبا‬
‫کے نبا کسی ر سنے کے دامیر کے شاتھ ر ہنے پہ راضی پہ ہونی۔‬
‫”علتبا کا اس نارے میں کبا جبال ہے؟“ وہ نتم رصامبد تھے۔‬
‫”میرے اس ف یصلے کا علم نہیں اس کو لبکن وہ وفت جاہنی ہے شب ف نول‬
‫کرئے کے لنے‪ ،‬گٹشٹ روم میں رہے گی ۔ میں ئے کونی اغیراض نہیں کبا۔ اس‬
‫کے لنے پہ تھبک تھی رہے گا۔“ دامیر ئے سنجبدگی سے کہا بو وہ سر ہال گنے۔‬
‫”اس نارے میں خود نات کروں گا میں علتبا سے۔۔ چنہ تم اس کو ک یفرٹ‬
‫کرئے کی کوشش کرو ناکہ وہ اکبلی محسوس پہ کرے۔“ اتکل مبکس بولے بو شب‬
‫ئے نانبدی انداز میں سر ہالنا ک نونکہ علتبا کے لنے اس وفت شب سے زنادہ تھروسے‬
‫مبد اتکل مبکس ہی تھے جن کو وہ نہحاننی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪179 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم بو میری فبانسی ہو‪ ،‬میرے شاتھ ر ہنے میں کونی مسبلہ بو نہیں۔“ چنہ کنچن‬
‫میں خود کے لنے کاقی نبائے گنی تھی چب رنان ئے اس کے ننجھے جائے سرگوسی‬
‫میں کہا۔‬
‫”مانی فٹ۔۔“ وہ عرانی جس پہ وہ مبہم شا مشکرانا۔‬
‫”قکر نہیں کرو‪ ،‬شکون سے ہی رہ شکو گی۔۔ کونی زور زپردسنی تھوڑی ہے۔۔“‬
‫ً‬
‫اس کی زومعنی نات پہ چنہ ئے انک شلگنی تگاہ اس پہ ڈالی اور فورا سے نٹسیر کجھ شوچ‬
‫لبا۔‬
‫خو اس ئے شوجا اگلے ہی نل اس ئے وہ کہہ تھی دنا۔‬
‫”اتکل مبکس مجھے ماشکو جانا ہے۔۔۔ کجھ ضروری کام ہیں بو رک نہیں شکنی۔‬
‫اننی قالن نٹ میں آج رات نک نک کروا لوں گی۔“ چنہ ئے کاقی کا گھونٹ تھرئے‬
‫رنان کے اندر کرواہٹ مت یقل کی جس پہ وہ شلگ کے رہ گبا۔ ا ننے ناپرات سباٹ‬
‫نبائے اس ئے نبا کجھ کہے اننی تگاہیں نس چنہ پہ چمانی رکھیں۔‬
‫”میں نمہیں اتھی کسی تھی چیز کی اجازت نہیں د ننے واال۔۔ شب مغامالت‬
‫سے تم ناچیر ہو۔ چب نک تم اور رنان انک ر سنے میں خڑ نہیں جائے تم اس منٹشن‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪180 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫سے کہیں نہیں جاؤ گی۔“ اتکل مبکس ئے نبا اس کے ضروری کام کو جا ننے کی‬
‫کوشش کنے سرد نتھر نلے لہچے میں کہا کہ وہ نہلو ندل کے رہ گنی۔‬
‫”میں اجازت نہیں لے رہی نبا رہی ہوں۔“ علتبا ئے ناگوار لہچے میں کہا جس پہ‬
‫اتکل مبکس ئے انک سحت تگاہ اس پہ ڈالی۔‬
‫”میں نمہیں جکم دے رہا ہوں۔ چنہ کے تھبک ہوئے سے نہلے اور رنان کے‬
‫تھ نجت‬
‫تغیر کہیں نہیں جاؤ گی تم۔۔“ انہوں ئے انل لہچے میں کہا جس پہ چنہ لب نی رہ‬
‫گنی۔‬
‫پہ بو وہ جاننی تھی کہ اس کی شادی پزنس االننٹس پہ ہو گی لبکن کجھ بو اس کی‬
‫خود کی تھی مرضی شامل ہونی جا ہنے تھی اور اننی اجانک وہ کٹسے شب ہضم کرنی۔۔‬
‫رنان اور دامیر کے ناپرات میں کونی فرق نہیں آنا تھا وہ ہ نوز التغلق ہوکے سباٹ‬
‫انداز میں نتتھے تھے۔‬
‫”قاین۔۔“ اس ئے دانت نٹسنے کہا۔‬
‫چنہ متھباں تھتنچے انبا کپ اتھائے وہاں سے اتھی اور ناہر گارڈن اپرنا کی طرف‬
‫جلی آنی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪181 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کاقی دپر وہ ا نسے ہی گارڈن میں جکر لگانی ہونی ا ننے کام کے نارے میں شوچ‬
‫رہی تھی۔ ا ننے دبوں سے اس کا لبام سے راتطہ تھی نہیں تھا اور اس کی طرف اتھی‬
‫جائے سے تھی اتکل مبکس ئے م یع کر دنا تھا۔‬
‫شوئے سے نہلے اس ئے لبام سے نات کرئے کا ارادہ کبا۔‬
‫اتھی وہ اننی شوخوں میں ہی محو تھی چب اس ئے کسی کی آہٹ محسوس کی۔‬
‫غیر م نوفع طور پہ پہ دامیر تھا۔‬
‫”کٹشا لگ رہا ہے نہاں آکے؟“ دامیر ئے تگاہیں شا منے ہی رکھی تھیں۔‬
‫”طیز کر رہے ہو نا جگہ کی تعرتف ستبا جا ہنے ہو؟“ چنہ ئے تھی اس کی جانب‬
‫د نکھے تغیر کہا‪ ،‬خواب کے نحائے شوال پہ دامیر ہلکا شا مشکرانا۔‬
‫”میں ئے نمہارا بوچھا ہے۔۔“ مشکراہٹ عانب تھی اب‪ ،‬وہیں سرد ناپرات واصح‬
‫ہو گنے تھے۔‬
‫”فبدی شا لگ رہا ہے جس کی زندگی کو مزند گ ھین زدہ نبائے کے لنے انک عدد‬
‫انشان دنا جا رہا ہے۔“ چنہ ئے کھل کے ا ننے جباالت کا اظہار کبا جس پہ دامیر ہٹس‬
‫دنا۔ اس کی ہٹسی تھی عام نہیں تھی۔ جٹسے کونی حظرناک عزم لنے ہٹسبا ہو۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪182 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”رنان نمہیں خوش ر کھے گا۔۔ وہ ‪ loyal‬ہے‪ ،‬دھوکا د ننے والوں میں سے‬
‫نہیں۔“ دامیر ئے سنجبدگی سے کہا۔‬
‫”اسے انشا ہونا تھی جا ہنے۔۔۔“ اب کہ چنہ کے لہچے میں دھمکی شامل تھی کہ‬
‫دامیر اننی امڈ آئے والی مشکراہٹ کو روک پہ نانا۔‬
‫”مجھے نمہاری مدد جا ہنے تھی۔۔“ کجھ بوفف کے تغد دامیر ئے گال کھبکھا لنے کہا۔‬
‫چنہ ئے اس کو تعحب سے دنکھا کہ وہ کٹسی مدد کر شکنی تھی۔‬
‫”علتبا اب نہی رہے گی ہمارے شاتھ بو مجھے اس کے لنے شارا شامان جا ہنے ہو‬
‫گا‪ ،‬اس میں نمہاری مدد کی ضرورت پڑے گی مجھے۔ تم اس کو جاننی ہو شاتھ تھی رہی‬
‫ہو گی بو نمہیں اندازہ ہو گا اس کی نسبد پہ نسبد کا۔۔“ دامیر ئے اننی نات کی وصاچت‬
‫کی کہ چنہ ئے سر ہالنا۔‬
‫”نسبد بو جاننی ہوں اور نانسبد کو بو میں نہت ا چھے سے جاننی ہوں جس کی‬
‫سرقہرشت میں تم ناپ پہ ہو۔۔“ چنہ کا انداز نمسجر اڑانا ہوا تھا کہ دامیر کے ما تھے پہ‬
‫نل نمودار ہوئے۔‬
‫”وہ میرا مغاملہ ہے اسے میں ہتبڈل کر لوں گا۔“ اس کا لہحہ نل میں ندال تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪183 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”قلحال تم مجھے نبا دو کہ کب جل شکنی ناکہ میں انبا سبڈبول رنڈی رکھوں۔“‬
‫دامیر ئے سر چھبکنے ہوئے کہا۔‬
‫”چہاں نک میرا جبال ہے آر ڈی کتھی کسی غورت پہ زپردسنی نہیں کرئے‬
‫لبکن نہاں دوبوں طرف مجھے انشا ہی لگ رہا ہے۔ نا شاند میں ئے علط شن رکھا ہو۔“‬
‫دامیر وانس جائے کو تھا چب چنہ کی آواز ئے اس کے قدم روک لنے۔‬
‫” تم دوبوں غیر نہیں ہو‪ ،‬ہم زپردسنی نہیں کر رہے۔ ہم نس تم دوبوں کی‬
‫سیقنی جا ہنے ہیں۔“ دامیر ئے کبدھے احکائے جس پہ چنہ نمسجراپہ ہٹس دی۔‬
‫”اور اس ڈارک ورلڈ میں جس کو انبا کہہ دنا اس کو انبا نبا لبا۔“ دامیر ئے پرفبلے‬
‫انداز میں ا ننے القاظ سے اس کو نہت کجھ جبا دنا۔‬
‫چنہ جاننی تھی پہ نات ضرف ان چملوں پر ہی نہیں تھی وہ ا نسے ہی تھے۔ مافبا‬
‫کی اس کالی دنبا میں ا ننے القاظ سے تھرنا موت کو گلے لگانا تھا۔ چہاں پہ دوبوں ر ہنے‬
‫تھے وہاں گارڈز کی تھی ضرورت نہیں تھی ک نونکہ ان کے عالفے میں کونی تھی آئے‬
‫کی علطی نہیں کرنا تھا۔ شب سے ناپ پہ ر ہنے والے اشاشن اور قانل پرین کئیر مائے‬
‫جائے تھے۔ کراؤنڈ ہبڈ اکبڈمی میں ان کے نبائے گنے رتکارڈز اتھی نک کسی ئے‬
‫نہیں بوڑے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪184 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ ئے مڑئے دامیر کو اندر جائے ہوئے دنکھا‪ ،‬اس کی جال میں تھی انک‬
‫رغب تھا کجھ فنح کرئے کا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اگلی صنح نا سنے کے تغد علتبا کی نتبد سے آنکھ کھلی بو مبکس ئے اتھی نات کرنا‬
‫مباشب سمجھا۔ وہ مزند نہاں تھہر تھی نہیں شکنے تھے ک نونکہ ان کے ا ننے کام نہت‬
‫نتبڈنگ تھے۔‬
‫تطاہر بو علتبا ئے کونی شدند ردعمل طاہر نہیں کبا تھا لبکن اس کی آنکھوں میں‬
‫الجھن ضرور در آنی تھی۔‬
‫”چنہ اور رنان کی تھی ونڈنگ نلین ہونی ہے بو شوچ رہا ہوں اس سے نہلے نمہارا‬
‫اور دامیر کا مغاملہ جل ہو جائے ناکہ تم دوبوں اننی نارمل رونین کی طرف آؤ۔“ اتکل‬
‫مبکس ئے ننے نلے انداز میں اس کو سمجھانا جس پہ وہ جاموسی سے ستنی رہی۔‬
‫”تھبک ہے لبکن۔۔۔“ علتبا کو سمجھ پہ آنا کہ وہ کٹسے اننی الجھن نبائے۔‬
‫”نمہیں کونی تھی کسی چیز پہ زنادہ فورس نہیں کرے گا۔ انبا وفت لو اور ا چھے‬
‫س‬
‫سے صحت نباؤ اننی دامیر تھی نمہارا جبال ر کھے گا۔“ علتبا کی ادھوری نات پہ وہ ھنے‬
‫ج‬‫م‬
‫ہوئے بولے کہ علتبا ئے انک پرشکون شانس جارج کی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪185 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اتکل انک نات بوچھنی تھی۔۔۔“ چب مبکس وہاں سے اتھ کے جائے لگیں بو‬
‫علتبا ئے ان کو چ ھحک کے تکارا کہ اسبہقامنہ تظروں سے دنکھنے رک گنے۔‬
‫”ہاں بوچھو۔۔“‬
‫”دامیر۔۔۔ دامیر کٹشا لڑکا ہے میرا مطلب کہ میں ئے اس سے اننی جلدی‬
‫شادی کٹسے کر لی چہاں نک مجھے خود کا نبا ہے میں انسی لڑکی بو نہیں تھی خو کسی‬
‫سے تھی مباپر ہوکے جلدی شادی کا ف یصلہ کر لتنی۔“ علتبا ئے دل میں آنا ہوا‬
‫شوال بوچھ ہی لبا جس پہ اتکل مبکس ہلکا شا ہٹس د ننے اب وہ اس کو ناد کروائے کہ‬
‫جس سے وہ تفرت کرنی تھی پہ اسی نبدے کا کمال تھا بو ضرور وہ ا ننے خواس کھو‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫نی ھی۔‬
‫”دامیر اچھا لڑکا ہے‪ ،‬میں اس کو نہت عرصے سے جانبا ہوں۔ میرے زر تعے‬
‫ہی تم لوگوں کی مالقات ہونی تھی۔ شادی کا ف یصلہ تم دوبوں کا تھا اور تم دوبوں انک‬
‫نہیرین کبل کی طرح ر ہنے تھے۔۔“ اتکل مبکس ئے اس کی رجشار کو پرمی سے‬
‫تھتتھبائے ہوئے کہا اور آرام کی نلفین کرئے ناہر آ گنے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪186 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر کے اس قدم کی وجہ سے ان کو پہ قاندہ تھا وہ چنہ اور علتبا کی طرف سے‬
‫تھوڑے پرشکون ہوجائے۔ ان دوبوں پہ چملہ کرئے سے نہلے کونی دس نار بو شوجبا کہ‬
‫وہ آر ڈی کے ناس تھیں۔ ضرف ناس نہیں وہ اب اِ ن کی تھیں۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫میرج نئیرز شاین کرئے کے تغد تھی دامیر کے ناپرات میں کونی فرق نہیں پڑا‬
‫تھا۔ وہ و نسے ہی سنجبدہ تھا۔‬
‫علتبا اس کے ناپرات سے اندازہ پہ لگا نانی کہ شاند وہ حقا تھا خو اِ س ئے ان کی‬
‫شادی پہ تفین نہیں کبا تھا اور دونارہ اس پروسنجر سے گزرنا پڑا۔‬
‫شب کے چہروں پہ مشکراہٹ تھی اور کونی رسمی نہیں ہوا تقاعدہ ان کو مباں‬
‫ن نوی کے ر سنے میں ناندھا گبا تھا۔‬
‫”سبلبکشن میری ہونی تھی نہلے لبکن نمیر تم لے گنے۔“ رنان ئے دامیر کو‬
‫مبارک د ننے ہوئے معنی چیز سے کہا کہ وہ ہلکا شا ہٹس دنا۔‬
‫”عزم مضنوط ہونا جا ہنے۔۔“ دامیر ئے کہنے انک آنکھ دنانی۔ آج ڈپر کے تغد‬
‫اتکل مبکس ئے نہاں سے جلے جانا تھا اور انک مہتنے کے اندر اندر رنان اور چنہ کی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪187 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شادی کی تھی نباری کرنی تھی۔ ان کا ارادہ تھا کہ نتھی ان سے مٹشلک لوگوں کو علم‬
‫ہو جائے گا کہ علتبا اب دامیر کی ن نوی تھی۔‬
‫”آنی تھبک ہمیں ننے کبل کو تھوڑی پرابوسی د ننی جا ہنے۔“ چنہ ئے انک‬
‫سرارنی تظر علتبا پہ ڈا لنے ہوئے خو محض مشکرا شکی۔‬
‫رنان دامیر کے کان میں سرگوسی سے کجھ بوال جس پہ دامیر ئے گھورنا مباشب‬
‫سمجھا اور ناری ناری ان کو مبارک د ننے وہ لوگ کمرے سے تکل گنے۔‬
‫ن‬
‫علتبا اس وفت نبڈ پہ نبک لگائے تتھی تھی اس کے ہاتھ گود میں دھرے‬
‫تھے۔ دامیر پرمی سے مشکرائے ہوئے اس کے پراپر نتتھا۔‬
‫”اب تم کٹشا فبل کر رہی ہو۔۔؟“ وہ م یقکر لہچے میں بوال علتبا ئے ہلکے سے سر‬
‫ہالنا۔ دامیر ئے اس کے گود میں دھرے ہاتھ کو ا ننے ہاتھ میں لبا۔‬
‫”کاقی نازک ہے۔۔“ دامیر میں اس کے ہاتھ تھامے دل میں شوجا۔‬
‫”نہلے سے نہیر ہے۔۔“ علتبا ئے تظریں اس کے ہاتھ پہ رکھیں تھر کہبا سروع‬
‫کبا۔‬
‫”کبا تم حقا ہو مجھ سے۔۔؟“ اس کے شوال پہ دامیر کے چہرے پہ نل واصح‬
‫ہوئے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪188 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شاند میں ئے تفین پہ کر کے دونارہ شادی کرئے کو کہا اس وجہ سے۔“ اس‬
‫م‬
‫کی تگاہوں میں شوال پڑ ھنے علتبا ئے اننی نات کمل کی کہ دامیر ہٹس دنا۔‬
‫”او شو ننی۔۔ میں ک نوں ناراض ہوئے لگا اس نات پہ۔“ دامیر ئے آگے ہوئے‬
‫اس کے ما تھے کو ل نوں سے چھوا کہ اس کے طرز نحاظب کے شاتھ اس کے لمس‬
‫سے تھی وہ چھت نپ گنی۔‬
‫”اس میں میرا ہی قاندہ ہوا ہے۔“ دامیر ہلکی سی آواز میں پڑپڑانا کہ علتبا ئے‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫نا ھی سے دنکھا۔‬
‫”ہماری میرج التف اور اسیرانگ ہو جائے‪ ،‬آنی مین مجھے نمہیں ڈنل نبار کرئے‬
‫کا سرن یقبکنٹ مل گبا ہے۔۔“ علتبا کے رجشار پہ ہاتھ رکھنے ہوئے اس ئے سرارت‬
‫سے کہا کہ اس کے چہرے پہ ہلکی سی سرجی چھائے لگی جبکہ اننی اس ج نپ سی‬
‫نات پہ دامیر خود چحل شا ہو گبا۔‬
‫”پہ نمہاری ونڈنگ رنگ تھی اب دونارہ نہبا رہا ہوں اس موفع پہ۔ نہلے ہی د ننے‬
‫کا ارادہ تھا تھر شوجا کہ چب انک نار تھر ہم ر سنے میں نبدھ رہے ہیں بو نب ہی دوں‬
‫گا۔“ دامیر ئے ناکٹ سے انک ناکس تکالے اس میں سے پرنسس کٹ ڈانمبڈ رنگ لتنے‬
‫اس کی اتگلی میں نہبانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪189 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا کے تھی زہن میں پہ شوال تھا کہ اگر وہ شادی شدہ تھی بو اس کی رنگ‬
‫کہاں تھی۔ اب ہاتھ میں نہنی انگھونی کو دنکھنے وہ سبانسی انداز میں مشکرانی تھی۔‬
‫”میں کھانا نبار کرنا ہوں نب نک تم آرام کرو۔“ اتھنے سے نہلے دامیر ئے چھک‬
‫کے اس کی گردن پہ بوسہ دنا کہ علتبا شاکت ہو گنی۔‬
‫گہرا شانس تھرئے اس ئے خود کو رنلبکس کبا کہ وہ اس کا ہزنتبڈ تھا اور‬
‫ناداشت جائے سے نہلے ضرور وہ کلوز ہو نگے انک دوسرے سے۔‬
‫دامیر ئے اس کے لنے رنگ اتھی لی تھی‪ ،‬چنہ کے شاتھ جائے ناقی کا تھی‬
‫ضروری شامان لے آنا تھا کجھ اس کی اسیعمال میں موخود چیزیں نہلے سے ہی نبگ‬
‫میں موخود تھیں بو دامیر کو اننی مسکل کا شامبا نہیں کرنا پڑا تھا۔‬
‫دامیر کے جائے کے تغد علتبا ہاتھ میں نہنے پرنسس کٹ ڈانمبڈ کو دنکھنے لگی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”آج رات کا کونی نلین ہے؟“ دامیر کنچن کاؤنیر پہ چیزیں تکال کے رکھ رہا تھا‬
‫چب رنان ئے کاؤنیر کی دوسری جانب موخود سنول پہ نتتھنے عام سے انداز میں بوچھا۔‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫م ن‬
‫چنہ کو نہاں کام کرئے کو ملبا نہیں تھا بو لو نبگ اپرنا یں ھی ل سرچ‬
‫ت‬‫ج‬
‫ن‬
‫کرنی رہنی تھی۔ رنان کا شوال اس کی سماغت نک تھی ہنچ حکا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪190 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہیں ک نوں؟“ دامیر ئے انک تظر اس کو دنکھا تھر انبا کام کرئے لگا۔ کھانا‬
‫دامیر خود ہی نبانا تھا‪ ،‬کسی دوسرے کے ہاتھ کے ننے کھائے کا وہ عادی نہیں تھا‬
‫اور پہ ہی رنان۔۔ کہیں جائے پہ تھی دامیر اس نات کا جبال رکھبا تھا کہ وہ اننی‬
‫نگرانی میں شب کام د نکھے۔‬
‫”شادی کی نہلی رات ہے نا۔۔“ رنان کی معنی چیز پہ نات پہ دامیر ئے سرد‬
‫ن‬
‫تگاہوں سے اس کو گھورا جبکہ چنہ ئے آ کھیں گھمانیں وہ اسی طرح کی گھتبا نات کی‬
‫امبد رکھنی تھی اس سے۔ رنان ہٹسبا ہوا سبکورنی روم کی طرف پڑھ گبا چہاں اس کو انبا‬
‫کام دنکھبا تھا۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫جائے سے نہلے اس ئے چنہ کو د نے اسے ھیڑا۔‬
‫چ‬ ‫ھ‬
‫” ہنے ملٹسکا!“‬
‫ش‬ ‫ہ‬‫ب‬ ‫م‬ ‫َ‬
‫”شٹ اپ۔۔“ وہ ناگواری سے اس کو بولی جس پہ وہ م شا م کرانا وہاں سے‬
‫جال گبا۔‬
‫کھانا نبار کرئے چنہ تھی کنچن میں آگنی کہ وہ تھوڑی سی ہبلپ کر دے‪ ،‬دامیر‬
‫ئے اغیراض نہیں کبا تھا الننہ اس کا دھبان رنان کی نات سے ہونا علتبا کی طرف‬
‫جال گبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪191 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫انک ر سنے میں نبد ھنے کے ناوخود اتھی علتبا کو وفت جا ہنے تھا انبا مانتبڈ نبائے‬
‫میں اسی لنے دامیر اس کو انک کمرے میں ر ہنے پہ مج نور نہیں کرئے واال تھا۔ اور اگر‬
‫وہ تھبک اور خواس میں ہونی نب تھی وہ شادی کے تغد کسی صورت دامیر کے شاتھ‬
‫انک کمرے میں پہ رہنی۔‬
‫اتھی دامیر پہ امبد کنے ہوئے تھا کہ اس کا علتبا کو اننی زندگی میں شامل‬
‫کرئے کا ف یصل علط پہ ہو اور پہ ہی اس کا کونی رنان پہ فرق پڑے۔‬
‫پہ بو ان کو نب نبا جال جلبا چب وہ لوگ انبا پرنک جتم کرئے۔۔‬
‫٭٭٭٭٭٭‬
‫دروازہ کھولے چب روم میں داجل ہونی بو وہ سمٹ کے پڑی تھی۔ کمرے کی‬
‫الننٹس جل رہی ت ھیں اس کو دنکھنے ہی وہ اتھنے کی کوشش کرئے لگی۔‬
‫”رنلبکس‪ ،‬اتھو نہیں۔“ چنہ ئے پرم لہچے میں کہا۔ اس وفت وہ خود تھی نی‬
‫سرٹ اور پراؤزر میں مل نوس تھی۔ رات کے دو نج رہے تھے اور اتھی نک علتبا شونی‬
‫نہیں تھی۔‬
‫”شونی نہیں اتھی نک۔۔۔“ چنہ کہنے ہوئے شا منے کاؤچ پہ نتتھ گنی خو نبڈ کے‬
‫شانبڈ پہ دبوار کے شاتھ سنٹ تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪192 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شاند دن میں شو گنی تھی نتھی۔“ علتبا ئے مشکرائے کی شعی کی۔ دامیر ڈپر‬
‫کے تغد اس کے ناس تھوڑی دپر نتتھا تھا تھر کسی کام کا کہہ جال گبا تھا۔ اس کو لگا‬
‫کہ شاند وہ شوئے سے نہلے آج تھر اس کو جبک کر کے جائے گا لبکن وہ نہیں آنا‬
‫تھا۔‬
‫”کل تھی تم نہیں شونی تھیں کبا کونی تکل یف ہو رہی ہے۔ اگر کونی مسبلہ‬
‫ہے بو نباؤ۔“ چنہ کی آنکھوں میں انبان نت تھی۔ انک لمحہ چنہ شوچ میں پڑ گنی۔‬
‫”نہیں نس ا نسے ہی ننی جگہ ہے شاند۔۔“ اتھی تھی اس ئے نا لنے کی‬
‫کوشش کی خو چنہ جاننی تھی۔‬
‫”کٹشا فبل کر رہی ہو انک فتملی کے شاتھ ہو کے۔۔“ چنہ ئے تھی اس کا‬
‫دھبان ہبا دنا لبکن علتبا وہیں کی وہیں تھی خو وہ شوچ رہی تھی۔‬
‫”فتملی! نہلے ضرف اتکل تھے جن سے مہتنے میں انک نار مالقات ہونی تھی اور‬
‫اب انک ہزنتبڈ ہے‪ ،‬تم ہو اور نمہارا فبانسی تھی ہے بو شاند اب نہیر محسوس کروں۔“‬
‫علتبا ئے ہلکی مشکراہٹ سے کہا۔‬
‫”کبا شوچ رہی تھی۔ نتبد ک نوں ڈسیرب ہے نمہاری؟“ چنہ اس کے فرنب جلی‬
‫آنی۔ علتبا شانبڈ کروٹ لنے لتنی تھی۔ چنہ کے نتتھنے پہ وہ سبدھی چت لنٹ گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪193 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے کجھ تھی ناد نہیں‪ ،‬کونی ہمارا اچھا مومت نٹ۔۔ نس انبا ناد ہے کہ میں‬
‫شوپزرلتبڈ میں تھی اور کجھ آدمی میرے ننجھے تھے۔ دونارہ چب آنکھ کھلی بو دنبا ہی الٹ‬
‫گنی ہے ا نسے میں کبا کروں میں۔“ علتبا ئے گہرا شانس تھر کے کہا۔ چنہ ئے اس‬
‫کے ستنے پہ دھرے ہاتھ پہ انبا ہاتھ رکھا۔‬
‫”تم اب تھبک ہو اور ا چھے لوگوں کے شاتھ ہو‪ ،‬خو تھی پرانی ناد ہے تھول‬
‫جاؤ۔“ چنہ ئے اس کو پرشکون رکھبا جاہا ک نونکہ اس فباد والے نانک پہ دامیر خود نات‬
‫کرنا جاہبا تھا۔‬
‫”کبا تم میرے شاتھ شو شکنی ہو؟“ چنہ چب اس کا شب چیر کہہ کے جائے‬
‫لگی بو علتبا ئے چ ھحک کے تکارا۔‬
‫”مجھے اکبلے میں نتبد نہیں آرہی انک دو نار آنکھ لگی ہے بو ڈر سے اتھ جانی‬
‫ہوں۔“ چنہ ئے ناآلخر ا ننے پہ شوئے کی وجہ نبانی بو چنہ اس کو جاموش تگاہوں سے‬
‫دنکھنے لگی۔‬
‫کجھ شال اس کے شاتھ خو ہوا تھا وہ نہت کم جاننی تھی لبکن اس کو ک یفرم‬
‫نہیں تھا کہ علتبا کو کتنی نانیں ناد تھیں اور کتنی نہیں جس پہ وہ لوگ فباد کو جان‬
‫شکنے تھے اور وہ نانیں خو اتھی اس کو نبگ تھی کر رہی تھیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪194 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”کونی نات نہیں اگر تم۔۔“ اس کی طونل جاموسی پہ علتبا ھی کہ وہ ہیں‬
‫ن‬

‫رہبا جاہنی چب چنہ تقی میں سر ہالئے لگی۔‬


‫”میں شو جاؤں گی نمہآرے شاتھ مجھے کونی مسبلہ نہیں‪ ،‬اگر تم جاہو بو میں دامیر‬
‫کو تھی نال شکنی ہوں وہ نمہارے ناس رک جائے گا۔“ چنہ ئے نشلی د ننے کہا اور اس‬
‫کے خواب کا ان یطار کرئے لگی۔ دامیر کے زکر پہ علتبا کے چہرے کے ناپرات‬
‫س‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ح‬ ‫چ‬
‫ھ‬
‫ندلے۔ شاند وہ کی ھی شاند سرمانی ھی ھی۔ چنہ تھبک سے مجھ پہ نآنی۔‬
‫ت‬ ‫ع‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫نہ ُ‬
‫” یں اس کو یں۔۔۔“ لتبا ئے نیزی سے نات کانی چب چنہ کے ا ھے‬
‫آپرو کو دنکھنے علتبا ئے مزند کہا۔‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ن م ت ُ‬
‫م‬
‫”ا کحولی یں ا ھی اس کو جانبا جاہ رہی ہوں بو یں نس۔۔۔“ وہ جھ پہ نانی کہ‬
‫چنہ کو کبا نات کہہ کے نالے کہ وہ دامیر کے شاتھ اتھی روم سئیر نہیں کرنا جاہنی‬
‫تھی۔‬
‫”کونی نات نہیں میں نب نک نمہارے شاتھ ہی ہوں۔“ چنہ پرمی سے بولی اور‬
‫اس کے شاتھ نبڈ پہ لنتنے لگی چب کہا۔‬
‫”میرے ا نسے نبڈ پہ شاتھ شوئے سے ک یفرنتبل ہو نا‪ ،‬اگر جاہو بو میں صوفے پہ‬
‫تھی آرام سے شو شکنی ہوں۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪195 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں تھبک ہوں‪ ،‬مجھے خوصلہ ہو گا کہ میرے ناس کونی ہے تم ادھر ناس ہی‬
‫رہو۔“ علتبا مشکور ہونی بولی۔‬
‫جس وا فعے کو مبکس ئے اس کے زہن سے تکلوا دنا تھا وہ اب تھی نازہ تھا اور‬
‫شاند اس کو ہانٹ کرنا تھا جس کی وجہ سے وہ پرے خوابوں کے ننچ تھٹس گنی تھی۔‬
‫شو رہی ہونی بو انشا لگبا کہ آدم نوں کا گروہ اس کے ننجھے ہے‪ ،‬ڈر سے جاگنی بو مغلوم‬
‫ہونا کہ وہ ننے لوگوں میں آگنی ہے خو نالکل انحان تھے۔‬
‫وہ دو صورنحال کا شکار تھی ا نسے میں دماغ تھی شکون سے کجھ شوچ نہیں نا رہا‬
‫تھا۔‬
‫ک‬‫ش‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ع ن‬
‫لتبا آ یں نبد کر کے نی رہی‪ ،‬ا ھی وہ چنہ کی جانب کروٹ یں کر نی‬
‫تھی ک نونکہ اسی شانبڈ پہ کبدھے پہ خوٹ تھی۔ زچم کو ت ھرئے میں وفت لگبا تھا۔‬
‫چب نک اس کے گہرے شانسوں کی مدھم آواز کمرے میں پہ گونچی نب نک چنہ‬
‫ئے خود تھی شوئے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ان کو نہاں آئے دو دن ہی ہوئے‬
‫تھے اور علتبا نس دن میں تھبک سے شو نانی تھی ورپہ رات کی ئےخوانی چنہ ئے خود‬
‫گ‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ک‬
‫د ھی ھی ا کی ھی آج نبا الئے اس کے مرے یں آ نی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪196 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رات کا جائے کون شا نہر تھا چب چنہ کی آنکھ دروازہ کھلنے کی آواز پہ کھلی‪،‬‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫اس ئے نبا شوچے ھے ا نی گن تکالی خو لے ہی وہ شاتھ النی ھی اور آ کھ نحا کے‬
‫اننی شانبڈ پہ رکھ دی تھی۔‬
‫گن کو نکڑئے چب اس ئے شا منے دنکھبا بو دامیر الجھی تظروں سے چنہ کو دنکھ‬
‫رہا تھا۔ علتبا کے کمرے میں چنہ کا ہونا اس کے لنے غیر م نوفع تھا۔‬
‫وہ اتھی اتھی انک کام نتبا کے آنا تھا اور شب سے نہلے علتبا کو ہی دنکھبا جاہبا‬
‫تھا۔‬
‫”مجھے لگا کونی اور ہے۔۔“ چنہ ڈھبلے اعصاب سے بولی اور وانس گن کو شانبڈ‬
‫نتبل کے ننچے رکھا۔‬
‫”میں نس علتبا کوجبک کرئے آنا تھا۔۔ تھتبکس۔“ وہ جلبا ہوا علتبا کی شانبڈ پہ‬
‫آنا چہاں وہ شو رہی تھی۔ دامیر کا انبا جلنہ نبا رہا تھا کہ وہ کس کام سے وانس آنا تھا۔‬
‫اس کی نت نٹ پہ منی لگی تھی اور سرٹ کے نازوؤں پہ تھی جٹسے وہ کسی جگہ ن نٹ‬
‫کے نل لتبا تھا۔‬
‫”میں جلبا ہوں۔۔“ ارادہ بو اس کا ر کنے کا ہی تھا لبکن چنہ کو اب وہ جائے کا‬
‫تھی نہیں کہہ شکبا تھا نتھی وانس مڑ گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪197 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر اتھی ناہر تکال ہی تھا کہ رنان کی سرد تگاہوں ئے اس کو گھورا۔‬


‫”اب تم چ ھپ کے پہ کام کبا کرو گے۔۔“ اس کے لہحہ معنی چیز طیز لنے‬
‫ہوئے تھا۔ دامیر اس کے کبدھے پہ ہاتھ سے زور ڈالبا شانبڈ سے تکل آنا۔‬
‫”لگبا ہے ارادے پری طرح بوئے ہیں۔“ کنچن کاؤنیر کے شاتھ نبک لگائے وہ‬
‫مزند چ ھیڑئے ہوئے بوال‪ ،‬دامیر ئے اس کی نات کو تظر انداز کبا خو اب کاقی نبا رہا تھا۔‬
‫”قکر نہیں کرو میں کل ارننج کروانا ہوں شب۔۔“ رنان ئے انک آنکھ دنانی جس‬
‫پہ ناجا ہنے ہوئے تھی دامیر ہٹس دنا۔‬
‫”اننی نکواس ناس ہی رکھو تم۔۔“ سحت تظروں سے دنکھنے ہوئے وہ ا ننے کمرے‬
‫کی جانب جل دنا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭‬
‫”آپ انشا کٹسے کر شکنے ہیں میرے شاتھ‪ ،‬نہلے ہی میں آپ کے اس شادی‬
‫کے ف یصلے سے خوش نہیں ہوں۔“ اس کی ئےنس آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔‬
‫جبکہ فون کی دوسری طرف کجھ کہنے پہ اس ئے گہرا شانس تھرئے ا ننے ما تھے کو‬
‫چھوا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪198 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں انک جگہ نہیں رہ شکنی اور اس کے شاتھ بو نالکل تھی نہیں۔“ آواز میں‬
‫عصہ چھلکبا سروع ہوا۔ نبڈ کے کبارے پہ نتتھے اس کے نحلے لب کو کانا۔‬
‫دوسری جانب کجھ اور تھی کہا جا رہا تھا چب اس ئے پرداشت سے ناہر ہوئے‬
‫مونانل ہی نبد کر دنا۔ چہرے پہ دوبوں ہاتھ رکھنے اس ئے شا منے دبوار کو کاقی دپر‬
‫گھورا۔ اصظرانی جالت میں انبا نیر ہالئے جا رہی تھی۔‬
‫لبام سے رات کو نات ہونی تھی وہ تھبک تھا اور کونی گڑپڑ نہیں ہونی تھی۔‬
‫م‬
‫اس کی طرف سے بو ظمین تھی کسی کو اس کے نارے میں جاص علم نہیں تھا وہ‬
‫نس ضرورت کے نحت اننی جگہ سے تکلبا تھا۔‬
‫لبکن اننی دپر وہ اننی جگہ سے دور تھی نہیں رہ شکنی تھی۔ سیرنس ل نول پڑھبا‬
‫سروع ہوا بو اتھ کے کنچن میں آگنی۔ صنح شاور لے کے اس ئے چئیز اور نی سرٹ‬
‫نہن لی تھی اور اوپر انک جبکٹ نہن رکھی تھی۔‬
‫دامیر اور رنان اتھی گھر تظر نہیں آرہے تھے بو کنچن میں فرنج کھولے اس میں‬
‫سے کجھ کھائے کو دنکھنے لگی۔ پہ اس عج نب عادت تھی کہ سیرنس اور اووتھبکبگ‬
‫میں اس کو شوگر کربونگ ہونی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪199 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اتھی تھی وہ کجھ متتھا کھائے کو ڈھونڈ رہی تھی چب فرنج کی شانبڈ ناکٹ میں‬
‫چ‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ن‬
‫اس کو جاکلنٹ سیرپ تظر آنا۔ انک نار آ یں نچے اس ئے تکال لبا اور مچ کڑا‪ ،‬انک‬
‫ن‬ ‫ھ‬
‫چمچ جٹسے ہی اس ئے منہ میں رکھا تھا ننجھے سے ا ننے نام کی تکار شن کے انک دم گ ھیرا‬
‫گنی۔‬
‫”چنہ۔۔۔!“ دامیر ئے اس کو تکارا تھا‪ ،‬رنان تھی اس کی نشت دنکھ رہا تھا چب‬
‫ک‬‫ن‬
‫اس ئے چنہ کا نام تکارے جائے پہ انک دم چنہ کے ہاتھ میں لرزش د ھی۔‬
‫ً‬
‫وہ فورا مڑی نہیں تھی‪ ،‬سیرپ کو شانبڈ پہ رکھنے اس ئے گہرا شانس تھرا اور‬
‫سنجبدگی سے ان کی طرف گھومی۔‬
‫”کجھ جا ہنے کبا؟“ دامیر ئے بوچھا جس پہ چنہ کی تگاہ انک نار سیرپ پہ اتھی تھر‬
‫انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”ہاں! ا ننے اس دوشت کو کہو کہ میری جان چھوڑ دے اور مجھے اجازت دے‬
‫کہ میں دنبا کے کسی دوسرے کوئے میں جلی جاؤں لبکن اس کے ناس نہیں۔“‬
‫اس ئے اننی شلگنی تگاہیں رنان پہ تکانیں اور انک انک لقظ جبا کے کہا ک نونکہ اس‬
‫کے کہنے پہ اتکل مبکس اس کی شادی انک ہقنے کے اندر کور کرنا جاہ رہے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪200 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”پہ بو نہیں ہو شکبا کجھ اور ہے بو نباؤ۔۔“ دامیر ئے ا ننے ہی پرشکون لہچے میں‬
‫کہہ کے چنہ کے اندر جلنی آگ کو تھڑکا دنا جس پہ وہ شغلہ ناز تگاہوں سے دنکھنے لگی۔‬
‫نبا مزند کونی اور نات کنے جاکلنٹ سیرپ اتھائے وہ ان دوبوں کے فرنب سے‬
‫گزر گنی اور علتبا کے کمرے کی جانب پڑھ گنی۔‬
‫”تم ئے اجانک اسے تکار کے ڈرا دنا تھا۔“ رنان ئے اس کے عانب ہونی ہی‬
‫دامیر سے کہا جس کے آپرو چیرت سے اوپر ا تھے۔‬
‫”ہاں وہ ڈر گنی تھی۔“ رنان ئے ا نسے کہا جٹسے پہ مغلومات ان کو نٹسوں سے‬
‫تھی کہیں پہ ملنی۔‬
‫”چیرت ہے۔۔“ دامیر ئے کہا۔ دوبوں کے ردعمل ا نسے ہی تھے جٹسے اس شال‬
‫کی شب سے ابوکھی نات ہو۔‬
‫”مبڈے کو ستمنٹ آرہی ہے‪ ،‬اور اگلے دن ونڈنگ ہے بو ارنجمنٹ شب نہلے ہی‬
‫ت ن‬
‫دنکھنے ہو نگے اور گٹشٹ لشٹ ھی د نی ہے۔“ دامیر ئے صوفے پہ نسشت تھا لنے‬
‫ت‬‫س‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫ہوئے کہا۔‬
‫”گٹشٹ کا تم مجھ پہ چھوڑ دو‪ ،‬ڈرنسز نہیں مگوا لتنے ہیں ناکہ چنہ کو جانا پہ پڑے‬
‫علتبا تھی ا نسے نسبد کر لے گی۔“ رنان ئے پرشوچ ہوئے کہا۔ دامیر اجانک ہٹس دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪201 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کتھی شوجا تھا کہ ا نسے شادی کی نانیں تھی کریں گے‪ ،‬کیڑے‪ ،‬ان یطامات‬
‫وغیرہ۔۔“ رنان کے الجھ کے دنکھنے پہ دامیر ئے کہا بو وہ ہلکا مشکرا دنا۔‬
‫”شو جنے بو کجھ تھی نہیں ہم نس خو ہونا ہے اسی سہنے جائے ہیں اور زندگی جلنی‬
‫ہ‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫جانی ہے۔“ رنان ئے نبک لگائے کہا‪ ،‬دامیر اس کی نات ھنے ہوئے سر ال گبا۔‬
‫رنان کے چہرے پہ سنجبدہ ناپرات اتھرے تھے۔ اس ئے مزند کونی نات نہیں کی‬
‫تھی۔ نتھی چنہ علتبا کو وہبل چئیر پہ نتھائے ناہر النی ہونی دکھانی دی۔‬
‫ً‬
‫”کونی پرانلم ہونی ہے کبا؟“ دامیر علتبا کو دنکھنے فورا اس کے ناس نہنجبا م یقکر‬
‫ہوا۔‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”نہیں ہم نس الن نک جا رہے تھے۔“ علتبا ئے اس کی عحلت د نے کہا۔‬
‫”بو مجھ سے کہہ د ننی میں لے جانا۔“ دامیر ئے چنہ سے وہبل چئیر لتنی جاہی‬
‫لبکن چنہ ئے انبا ہاتھ آگے کر لبا۔‬
‫”ضرورت نہیں‪ ،‬میں لے جا رہی ہوں۔“ چنہ کا لہحہ جبانا ہوا تھا کہ دامیر کے‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ً‬
‫ما تھے پہ فورا ل مودار ہوئے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪202 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر نبا کجھ کہے شانبڈ پہ ہو گبا ناکہ وہ جاشکے چب اس کی تظر چنہ کے جبکٹ‬
‫ناکٹ میں جاکلنٹ سیرپ کی طرف گنی۔ اس ئے اچھتنے سے وانس چنہ کو دنکھا بو سر‬
‫چھبکنی ہونی علتبا کو ناہر لے آنی۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫”پہ جگہ کاقی خوتصورت ہے۔۔“ علتبا آس ناس ست نٹ د نی ہونی بولی۔ چنہ‬
‫ھ‬
‫اس کو سہارہ د ننے والک کروا رہی تھی۔ نازو کا فرنحکر تھبک ہو رہا تھا لبکن درد کتھی‬
‫کتھی جاگ جانا تھا۔‬
‫”خوتصورت بو ہے۔۔“ چنہ الپرواہی سے بولی۔‬
‫”انک نات بوچھوں؟“ چنہ ئے شوالنہ تگاہوں سے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”تم انبا روڈ ک نوں ہو جانی ہو ان دوبوں سے؟ دامیر کی نات الگ ہے لبکن رنان‬
‫ک‬‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫بو نمہارا فبانسی ہے نا۔“ علتبا ئے نا ھی سے اس کو کہا‪ ،‬چنہ آ ھیں گھمانی رہ گنی‬
‫زپردسنی کا فبانسی۔۔‬
‫”نس ا نسے ہی کسی نات پہ ناراض ہوں میں۔۔“ چنہ ئے الپرواہی سے کہا نہت‬
‫کوشش کے تغد تھی وہ ا ننے ناپرات سے ئےزارنت پہ ہبا نانی خو ان کے زکر سے‬
‫آگنی تھی۔‬
‫”کس نات پہ ناراض ہو؟“ علتبا ئے شادہ شا شوال کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪203 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ک‬‫م م‬
‫”زنادہ پڑی نات نہیں ہے۔۔“ چنہ ئے نات کو ہوا یں ھی کی طرح اڑانا۔‬
‫”میں نس شادی نہیں کرنا جاہنی۔“ علتبا اس کی نہلی نات پہ سر ہالنی ہونی شا منے‬
‫ن‬
‫دنکھنے لگی چب اس کے ناقی کے القاظ سے اس کی آ یں پڑی ہو یں اور اس کو‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫چیرت سے دنکھنے لگی۔‬


‫”ک نوں؟“ ئےشاچنہ ہی شوال کبا۔‬
‫”شادی میرے نلین میں کہیں تھی نہیں تھی۔ میرے شارے کام رک جانیں‬
‫گے اس وجہ سے۔“ چنہ ئے انبا ماتھا مشلنے ہوئے کہا۔ جبکٹ کی ناکٹ سے سیرپ‬
‫تکالے انک اور چمچ تھرا۔‬
‫”انبا متتھا ک نوں کھا رہی ہو؟“ علتبا کو اس کے تھوڑی دپر تغد متتھا کھائے سے‬
‫الجھن ہوئے لگی۔‬
‫”میرا شوگر ل نول کم ہو رہا تھا۔۔“ چنہ ئے گہرا شانس ت ھر کے کہا تھر عصے سے‬
‫سیرپ کی بونل ہی تھتبک دی۔ موڈ پری طرح خراب تھا۔‬
‫”شونیزرلتبڈ میں نمہارا پرپ کٹشا رہا تھا؟“ کجھ نل سرکے بو چنہ ئے خود علتبا کو‬
‫محاظب کبا۔‬
‫”اچھا تھا شاند۔“ وہ ئےجبالی میں بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪204 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اور کون کون گبا تھا نمہارے شاتھ؟“ چنہ نس تھوڑا نہت جانبا جاہنی تھی ناکہ‬
‫ن‬
‫وہ خود تھی فباد نک ہنچ نانی جبکہ اس کے شوال پہ علتبا اس کو جالی تگاہوں سے‬
‫دنکھنے لگی۔‬
‫”میرے شاتھ! میری دوشت۔۔۔“ علتبا کے منہ سے پہ القاظ سرگوسی میں تکلے‬
‫تھے۔ چنہ اس کے القاظ سمجھ گنی تھی لبکن اس کے ناپرات نہیں۔‬
‫”میری دوشت کہاں ہے؟“ وہ خود تھی پرنشان اور الجھی تظر آنی چب اس ئے‬
‫چنہ سے بوچھا۔‬
‫”کبا نام ہے نمہاری دوشت کا؟“ چنہ ئے دھتمے سے بوچھا۔‬
‫”فروا۔ ہم شاتھ گنی تھیں شوپزرلتبڈ۔ کبا وہ اب تھی میرے شاتھ ہے؟“ علتبا‬
‫ت‬
‫کی آنکھوں میں امبد اتھری ا ننے کسی کو ناد کر کے۔ چنہ نہاں خود سی ھی نونکہ‬
‫ک‬ ‫ت‬ ‫ٹ‬‫ھ‬

‫وہ فروا کو نہیں جاننی تھی پہ ہی کتھی اتکل مبکس سے زکر سبا تھا۔‬
‫”فروا کا بو مجھے نہیں مغلوم‪ ،‬شاند دامیر کو نبا ہو ک نونکہ مجھے کجھ ہی دپر ہونی ہے‬
‫نہاں آئے ہوئے۔“ چنہ ئے پروفت دماغ جالئے قلحال کے لنے خود کو اس صورنحال‬
‫سے تکاال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪205 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں اس سے بوچھنی ہوں۔۔“ وہ اتھی اندر جائے کو پڑ ھنے لگی چب چنہ ئے‬
‫روک لبا۔‬
‫”تھوڑی دپر میں اندر جانیں گے بو کر لتبا نات وہ اتھی کام سے وانس آنا ہے بو‬
‫تھکا ہوگا۔“ اس سے نہلے علتبا دامیر سے بوچھنی چنہ خود اس کو اتقارم کرئے والی تھی‬
‫ناکہ وہ کونی کہانی کور کر شکبا۔‬
‫علتبا کا دھبان وہ دوسری طرف کرئے میں کامباب ہونی تھی اور اسی دوران‬
‫اس ئے دامیر کو مٹسج کر دنا تھا۔‬
‫”علتبا اننی کسی دوشت فروا کا بوچھ رہی ہے اس کے نارے میں مغلوم‬
‫کرواؤ۔“‬
‫ت‬‫ن‬
‫تھوک کا اجشاس ہوئے پہ وہ دوبوں کنچن کی طرف آ نیں۔ علتبا اسنول پہ ھی‬
‫ت‬

‫و فقے و فقے سے خود چنہ سے کجھ پہ کجھ بوچھنی جس کا وہ خواب دے رہی تھی چب‬
‫اجانک علتبا کو گردن پہ پرم شا لمس محسوس ہوا۔ دامیر مشکرائے ہوئے اس سے ننجھے‬
‫ہوئے شاتھ والے اسنول پہ نتتھ گبا۔‬
‫علتبا اس کی خرکت سے جاتف ہونی چنہ کو دنکھنے لگی خو ئےنباز سی انبا کام‬
‫کرئے میں مگن تھی جٹسے اس ئے کجھ دنکھا پہ ہو۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪206 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کمرے سے ناہر تکل کے کٹشا لگ رہا ہے؟“ دامیر ئے پرم مشکراہٹ اس کی‬
‫طرف اچھالی۔ علتبا کو لگا کہ وہ اس وفت زپردسنی مشکرانا تھا۔‬
‫”اچھا محسوس ہورہا ہے۔ جگہ تھی نہت خوتصورت ہے۔“ علتبا تعرتف کنے نبا پہ‬
‫رہ شکی‪ ،‬دامیر ئے سر کو چم دنا۔‬
‫علتبا ئے محسوس کبا تھا دامیر سے اس کی زنادہ نات انک ہی محصوص چملے پہ‬
‫ہونی ہے کہ ”وہ کٹشا محسوس کر رہی ہے۔“‬
‫پہ شوچ آئے ہی وہ ہلکا شا ہٹس دی۔ دامیر ئے شوالنہ انداز میں اس کی جانب‬
‫دنکھا۔‬
‫چنہ کے کھانا نبار کرئے علتبا کے شا منے انک نلنٹ رکھی اور انک خود کی نلنٹ‬
‫لنے وہ دوسری طرف ہی نتتھ گنی۔ دامیر ئے چنہ کو دنکھا گونا بوچھبا جاہ رہا ہو کہ اس‬
‫کا کھانا۔‬
‫”میں بوکر نہیں ہوں تم دوبوں کی۔ خود نباؤ۔“ وہ پڑخ کے بولی کہ دامیر چھکے‬
‫سر سے مشکرا دنا جبکہ علتبا کے چہرے پہ الگ ناپرات تھے‪ ،‬چنہ کے اس لہچے پہ وہ‬
‫خوش نہیں تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪207 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں رنان کی خوانس سے انمرنس ہوں کاقی۔“ دامیر ہلکا شا پڑپڑانا جس پہ چنہ‬
‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ئے آ یں ھما یں۔‬
‫دامیر ئے نحائے کجھ نبائے کے علتبا کے ناس نتتھبا ہی نہیر سمجھا۔ چب نک‬
‫وہ کھانا کھانی رہی وہ نس اس کو دنکھبا رہا۔‬
‫”دامیر!“ کھانا جتم ہوئے ہی علتبا ئے تکارا۔‬
‫”نس واتف!“ اس ئے سرگوسی میں کہا کہ ئےشاچنہ پرم مشکراہٹ علتبا کے‬
‫ل نوں پہ آنی۔‬
‫”میری دوشت فروا کو جا ننے ہو؟ وہ میرے شاتھ ہی ہونی تھی۔ چب ہماری‬
‫شادی ہونی کبا وہ میرے شاتھ تھی؟“ علتبا ئے م یقکر ہوئے بوچھا۔ پرنشانی ضرف‬
‫لہچے میں ہی نہیں اس کی آنکھوں میں تھی تھی۔‬
‫”وہ ہماری شادی ہوئے سے نہلے ہی وانس جلی گنی تھی ناکسبان۔“دامیر ئے‬
‫اس کا ہاتھ تھام ئے شادہ سے لہچے میں کہا۔‬
‫”ناکسبان لبکن ک نوں‪ ،‬وہ پڑ ھنے کے لنے آنی تھی اور اتھی نہت وفت تھا۔“‬
‫علتبا کے دل میں نہت سے شوال اتھنے لگے ک نونکہ فروا سے اس کی مالقات اتھی نین‬
‫ماہ نہلے ہی ہونی تھی اور وہ نہت اچھی دوشت نانت ہونی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪208 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کبا کہہ شکنے ہیں‪ ،‬ارادے ند لنے میں وفت بو نہیں لگبا۔“ دامیر ئے کبدھے‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ظ‬ ‫م‬
‫احکائے لبکن علتبا اس کی نات پہ ین ھی یں ہونی ھی۔‬
‫ہ‬ ‫م‬
‫”میرا مونانل کہاں ہے؟“‬
‫”چب نمہیں خوٹ لگی بو مونانل تھی وہیں گم گبا تھا۔ تھوڑی دپر نک نمہیں نبا‬
‫مونانل مل جائے گا۔“ دامیر کے زہن سے تکل گبا تھا کہ اس کو مونانل کی ضرورت‬
‫تھی ہو شکنی تھی ک نونکہ چملے کے دوران اس کا فون بوٹ حکا تھا۔‬
‫”کبا فروا ئے کونی راتطہ تھی نہیں کبا اس کے تغد؟“ علتبا اس کی طرف گھوم‬
‫کے بوچھنے لگی۔‬
‫دامیر ئے انک نل کو اس کے جسین چہرے کو دنکھا چہاں پرنشانی واصح تھی۔‬
‫تھر اس ئے ہولے سے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”نہیں کونی راتطہ نہیں کبا۔۔“‬
‫”انشا کٹسے کر شکنی ہے وہ۔ ہم خود تھی بو راتطہ کر شکنے ہیں نا۔۔ اس ئے کجھ‬
‫بو نبانا ہو گا جائے ہوئے۔ نمہیں ناد ہے۔“ علتبا ئے آنکھوں میں امبد لنے اس سے‬
‫بوچھا کہ شاند دامیر کجھ بو جانبا ہو۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪209 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ندقشمنی سے نہیں۔ کونی کانتبکٹ تھی نہیں ہے ناس۔“ دامیر ئے تقی میں‬
‫گردن ہالئے ہوئے اس کے خوتصورت چہرے کو دنکھنے کہا۔‬
‫”میری وہی دوشت تھی نس۔“ علتبا اقسردگی سے بولی۔ چنہ التغلق سی انبا کھانا‬
‫جتم کرکے اتھی چیزیں سمنتنے لگی۔‬
‫”آپ انبا کھانا نبا شکنے ہیں اب دبور جی۔“ چنہ ئے کام جتم کرئے دامیر کو‬
‫طیزپہ انداز میں کہا اور علتبا کو شاتھ لنے وہاں سے روم کی طرف پڑھ گنی۔‬
‫دامیر ئے وہاں آئے رنان کو دنکھنے ا ننے نازو ہوا میں لہرائے جٹسے بوچھ رہا ہو کہ‬
‫پہ کبا نٹس جبا ہے تم ئے۔ رنان ئے فجرپہ سر کو چم دنا۔‬
‫”فروا کا کجھ نبا جال؟“ دامیر ئے ا ننے شل نوز فولڈ کرئے بوچھا۔ وہ ڈپر کی نباری‬
‫کرئے لگا تھا۔‬
‫”نین شال نہلے وہ شوپزرلتبڈ گنی تھی اننی دوشت علتبا کے شاتھ‪ ،‬اجانک انک‬
‫دن عانب ہو گنی۔ اس کے ہونل سے تھی مغلوم کبا‪ ،‬پرانی نات ہے لبکن فروا کے‬
‫پہ آئے پہ وہ لوگ اس کی چیزیں کمرے سے ہبا جکے تھے اس کے ڈاکومتنٹس‪ ،‬آنی‬
‫ڈی کارڈز شب عانب اسی کی طرح۔ وہ انک مسبگ پرشن ہے۔۔“ رنان ئے اس کو‬
‫شاری مغلومات دی خو اسے مغلوم ہونی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪210 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ناکسبان سے کجھ نبا جل شکبا ہے؟“ دامیر ئے ہاتھ جالئے ہوئے اس سے‬
‫بوچھا۔‬
‫”ہاں جل شکبا ہے اگر علتبا تھی کجھ جاننی ہو اس نارے میں ورپہ اس لڑکی کا‬
‫آگے ننجھے کا شارا رتکارڈ جتم ہے۔۔“ رنان ئے جتمی انداز میں ہاتھ اوپر کنے۔ دامیر‬
‫ئے محض سر ہالنا۔‬
‫”ڈرنک نبا رہا تھا کہ پرابوا)‪ (Bratva‬میں کجھ گڑپڑ جل رہی ہے لبکن مبکس‬
‫ئے زکر نہیں کبا اس نارے میں۔“ رنان آہشنہ آواز میں بوچھنے لگا۔‬
‫”عمر ہو گنی ہے پرن نوا کے ناس کی‪ ،‬شل نو )‪ (Slaves‬رکھبا سروع کر د ننے‬
‫ہیں اس عمر میں حظرناک شوق نالے ہیں۔“ نات کرئے ہوئے دامیر کی آواز کے‬
‫شاتھ لہحہ تھی سرد ہو گبا تھا۔‬
‫”اس کی صحت کے لنے اچھا نہیں ہو گا پہ شب۔“ رنان ئے پرفبلے لہچے میں‬
‫کہا۔ آنکھوں میں گہری چمک اتھری۔‬
‫دامیر اور رنان روس میں ر ہنے تھے‪ ،‬ان کا تغلق انڈرورلڈ گتبگسیر سے تھا۔‬
‫‪Bratva‬روس (رسبا) کی انک شب سے طاف نور کراتم ن یظتم تھی خو ہر طرح کے‬
‫کراتم کو سرانحام د ننے تھے۔ مبکس ل نو چب انلی مافبا کے ہبڈ ننے تھے نتھی پرابوا کا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪211 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نبا ہبڈ اپرشا نبا تھا جس کے تغلقات مبکس ل نو کے شاتھ نہیر تھے۔ ان میں طے نانا‬
‫گبا تھا کہ پہ لوگ ناقی کراتم کریں گے لبکن غوربوں کو اس میں شامل نہیں کبا‬
‫جائے گا۔ چب سے اپرشا کی موت ہونی تھی اس کا شونبال نتبا شاشا پرابوا کا ہبڈ نبا دنا‬
‫گبا تھا جس کے آئے سے مغلوم ہو گبا تھا کہ اس کے لنے پہ شب پزنس ضرف انبا‬
‫دل نہالنا ہی تھا۔ اس کے آئے سے نہاں و نمن شل نوری تھی سروع ہو گنی تھی لبکن‬
‫دامیر اور رنان نبا کسی ہبڈ کی مداجلت کے شاشا کو جتم نہیں کر شکنے تھے انہیں ننجھے‬
‫سے سنورٹ جا ہنے تھی ک نونکہ پرابوا کا ہبڈ جاہے جٹشا تھی ہو اس کی آرمی اس سے‬
‫وقادار رہنی تھی۔‬
‫شاشا عمر میں نچٹس سے نٹس کے درمبان تھا اس کا مقصد ضرف کئیرول لتبا‬
‫ہی تھا خو وہ لے حکا تھا۔‬
‫البانین کا فصہ اتھی تھوڑی دپر کے لنے رکا تھا ک نونکہ شاند ان کو اطالع مل‬
‫جکی تھی کہ دامیر اور رنان نہلے ہی کسی کی وجہ سے انک نو ہیں۔ بو اگر ا نسے میں البانین‬
‫ان سے الجھنے بو شارا پزلہ انہیں پہ گرنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪212 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آنی تھبک ہمیں ڈرنبا اور شوزین سے بوچھا جا ہنے وہ دوبوں علتبا کی دوشت‬
‫تھیں شاند کتھی علتبا ئے فروا کا زکر کبا ہو ان سے۔“ رنان ئے کجھ دپر شو جنے کے‬
‫تغد کہا۔‬
‫”میں سر جارج سے کانتبکٹ اتقارمٹشن لتبا ہوں۔“ دامیر کو اس کی نات کجھ‬
‫تھبک لگی نتھی نانبد میں کہا۔‬
‫”شاند نمہاری واتف بوٹ پہ کرے لبکن کھانا نبائے تم نہت ہاٹ لگنے ہو۔۔“‬
‫رنان ئے اننی سنجبدگی سے نات کہہ کے انک آنکھ دنانی تھر شاطر مشکراہٹ لنے اس‬
‫کو دنکھا۔‬
‫”گرل فیرنڈ سمجھ رکھا ہے نا تم ئے مجھے نمہیں بو لگوں گا ہی۔“ دامیر تھی شلگنے‬
‫ہوئے بوال کہ رنان ہلکا شا ہٹس دنا۔‬
‫”اگر علتبا کی ناداشت وانس آگنی!“ رنان کی اجانک کہی نات پہ دامیر کے ہاتھ‬
‫انک نل کو شاکت ہوئے تھر الپرواہی سے کبدھے چھبکے۔‬
‫”بو۔۔۔!“‬
‫”تم تھول رہے ہو‪ ،‬اس سے نہلے تم اس کے لنے انک قا نل اور تفرت کے‬
‫قانل انشان رہے ہو۔“ رنان ئے ناددہانی کروانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪213 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تفرت ندل تھی جانی ہے۔“ دامیر ئےشاچنہ بوال تھر اجشاس ہوئے پہ رنان کو‬
‫دنکھا جس کی آنکھوں میں معنی چیز چمک تھی۔‬
‫”اس کی ناداشت وانس آئے سے نہلے ہی میں اس کو خود سے مجنت کرئے پہ‬
‫مج نور کر دوں گا۔“ انک دم ہی دامیر کی آواز میں دہشت لوٹ آنی اس ئے سرد لہچے‬
‫میں کہا۔ آنکھوں میں انک ناپر اتھرا خو اننی ملکنت طاہر کرئے کا تھا۔ رنان ئے بوٹ‬
‫کبا وہ جبد دن میں ہی علتبا کو لنے جشاس ہو رہا تھا۔‬
‫”علتبا خود تھی جاہے بو دامیر آر سے اب دور نہیں جا شکے گی۔ اس کی زندگی مجھ‬
‫سے خڑ جکی ہے‪ ،‬جاہے اب نا تغد میں اس کو ف نول کرنا ہو گا۔“ دامیر انل لہچے میں‬
‫بوال۔ سرد سباٹ لہحہ ستنے رنان ئے سبانسی انداز میں سر ہالنا۔‬
‫”اور اگر وہ پہ مانی بو۔۔“ رنان ئے فرضی نات کہی لبکن دامیر کے ناپرات سے‬
‫واصح تھا کہ اس کو پہ نات نالکل نسبد نہیں آنی تھی۔‬
‫”چنہ پہ مانی بو۔“ دامیر کے ل نوں پہ انک مسکان نمودار ہونی‪ ،‬اس کی آنکھوں میں‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫آ یں گاڑھے بوچھا۔‬
‫رنان ئے گہرا شانس لبا تھر چب بوال بو القاظ میں پرفبال ین تھا۔‬
‫ً‬
‫”وانس جائے کا کونی رشنہ نہیں۔“ خواب فورا آنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪214 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اس کے ناس کونی خوانس نہیں ہو گی میرے عالوہ۔“ دامیر ئے پرشکون انداز‬
‫میں کہا اور کھانا سرو کرئے لگا۔‬
‫”مجھے ڈانمبڈز کی ڈنلتبگ میں جانا ہے‪ ،‬مبکس ئے کہا کہ چنہ کو نبائے تغیر میں‬
‫پہ کام کروں۔ اس کو وہ ڈنلتبگ کے لنے نہیں تھنج شکنے اتھی۔“ رنان ئے کھائے‬
‫سے قارغ ہوئے کہا۔‬
‫”گڈ قار بو!“ )‪(Good for you‬‬
‫”اب نک کی وہ نین ڈنل کر جکی ہے اور میرے لنے شاکبگ تھا کہ وہ شاؤتھ‬
‫افرنکہ تھی جا جکی ہے ڈنلتبگ کرئے۔“ رنان ئے سبانش تھرے انداز میں کہا۔ نات‬
‫کرئے اس کے لہچے میں چنہ کے لنے فجر نمانا تھا۔‬
‫”سی از سچ آ ڈانبامانٹ۔“ )‪(She’s such a Dynamite‬‬
‫رنان کی مشکراہٹ گہری ہونی تھی چنہ کو شو جنے۔‬
‫ت‬ ‫نب س‬
‫”نب نک مجھے لگبا ہے کہ ہمیں شاشا پہ تظر رکھنی جا ہنے‪،‬کار ل اور ٹس‬
‫ن‬ ‫ت‬‫م‬

‫کا تھی ہمیں نبا ہونا جا ہنے۔“ دامیر ئے شو جنے ہوئے کہا ک نونکہ نہاں ان کے ہوئے‬
‫ہوئے وہ و نمن شل نوری نہیں ہوئے د ننے والے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪215 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مبکس ل نو سے اس نارے میں منتبگ ارننج کرئے ہیں۔“ رنان ئے جامی‬


‫تھری اس نات پہ۔‬
‫اگر مبکس تھی شاشا کے جالف ہوا بو وہ لوگ انک جبگ نلین کر شکنے تھے لبکن‬
‫رنان کی شادی کے تغد۔ پرابوا پہ ہاتھ ڈالبا آشان کام نہیں تھا لبکن شاشا جٹشا کمزور‬
‫کھالڑی شا منے موخود ہو بو وہ ان کے لنے مسکل تھی نہیں تھا۔ اس کام کے لنے‬
‫کراؤنڈ ہبڈ کی وہ لوگ مدد لے شکنے تھے۔‬
‫اس سے نہلے رنان کو ڈانمبڈ کی ڈنلتبگ کرنی تھی۔ ان کا کام پہ نہیں تھا لبکن‬
‫آالنٹس کے طور پہ رنان نلڈ ڈانمبڈ کے پزنس میں شامل تھا اب۔ اور پہ آالنٹس چنہ کی‬
‫شادی کے طور پہ تھی خو رنان ئے خود طے کی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫دامیر ا ننے کمرے میں کھڑا مونانل پہ آنی مبل جبک کر رہا تھا۔ اس کا ارادہ‬
‫شاور لتنے کے تغد شوئے کا تھا لبکن اس سے نہلے علتبا کو تھی دنکھبا تھا۔ مونانل کو‬
‫شانبڈ نتبل پہ رکھنے کے تغد اس ئے ونشٹ نتبڈ سے اننی گن تکالے اس کو تھی‬
‫شانبڈ پہ رکھا چب دروازے پہ دسبک ہونی۔ رنان ہونا بو نبا اجازت لنے اندر آجانا جاہے‬
‫وہ کسی تھی جالت میں ہونا۔ چنہ خود کمرے میں پہ آنی نالکہ ناہر ہی اس سے نات‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪216 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کر لتنی بو دروازے نک کون آنا تھا۔ علتبا کا اتھی تصور نہیں آنا تھا ک نونکہ اس کے‬
‫مطابق وہ آرام کر رہی ہو گی۔‬
‫دامیر ئے وفت دنکھا چہاں بوئے دو ہو رہے تھے۔ ما تھے پہ نل لنے اس ئے‬
‫دروازہ کھوال بو شا منے علتبا کھڑی تھی۔ اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ ڈری‬
‫تھی۔‬
‫دامیر کو دنکھنے علتبا ئے رکی شانس نحال کی۔‬
‫ً‬
‫”علتبا! کبا ہوا شب تھبک ہے؟“ دامیر ئے فورا اس کے گرد نازو رکھنے ناہر‬
‫راہداری میں چھاتکا۔‬
‫”وہ میں۔۔۔ میں۔۔“ اس کی آواز تھی کانپ رہی تھی۔ دامیر کو اندر النا اور خود‬
‫انک نار ناہر ہو کے جبک کبا شب۔ شب نارمل تھا۔‬
‫”کجھ تھی نہیں ہے ناہر رنلبکس۔“ اسے لگا کہ شاند کسی آہٹ سے ڈر گنی ہو‬
‫لبکن علتبا ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”مجھے نتبد نہیں آرہی تھی اور اکبلی تھی میں۔“ علتبا ئے تھوڑا سرم شار ہوئے‬
‫کہا جٹسے اس ئے کونی علطی کی ہو۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪217 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر جانبا تھا کہ دو نین دبوں سے چنہ اس کے شاتھ شو رہی تھی بو کبا آج چنہ‬
‫نہیں تھی۔‬
‫”آدھر نتتھ جاؤ گ ھیرائے کی نات نہیں ہے شب تھبک ہے۔“ دامیر ئے اس‬
‫کا ہاتھ تھامے خوصلہ دنا ک نونکہ وہ جانبا تھا کہ چب تھی وہ خوف کے زپر اپر آنی تھی‬
‫اس کی شانس ئےپرن نب ہو جانی تھی‪ ،‬کجھ منٹس نہلے وہ انسی ہی جالت میں تھی۔‬
‫ک‬‫ن‬ ‫ُ‬
‫”چنہ کہاں ہے؟“ علتبا ئے کمرے میں ادھر ادھر د ھنے بوچھا جٹسے وہ نہاں‬
‫رہنی ہو۔‬
‫”چنہ میرے کمرے میں نہیں رہنی۔“ دامیر ئے مبہم مشکراہٹ لنے کہا وہ‬
‫خوامحوا ہی سرمبدہ ہو گنی ا ننے شوال پہ۔‬
‫”میرا مطلب وہ آج آنی ہی نہیں روم میں۔“ علتبا ئے اننی نات اور آئے کا‬
‫مقصد واصح کبا۔‬
‫”شاند رنان کے شاتھ کہیں گنی ہو۔ تم نہاں آرام سے رہ شکنی ہو۔ لنٹ‬
‫جاؤ۔“ دامیر اس کا ہاتھ تھامے نبڈ نک لےجائے لگا لبکن علتبا ئے قدم آگے پہ‬
‫پڑھائے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪218 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے میرے روم میں جانا ہے۔۔“ علتبا ئے چ ھحک کے کہا لبکن دامیر ئے‬
‫شوالنہ تگاہوں سے دنکھا کہ تھر نہاں ک نوں آنی تھی۔‬
‫”کبا تم میرے کمرے میں آشکنے ہو چب نک چنہ نہیں آجانی؟“ علتبا اس کی‬
‫جانب نہیں دنکھ رہی تھی لبکن کمرے کا بورا جاپزہ لے رہی تھی۔‬
‫”ہاں سنور۔“ دامیر نبا دپری کے راضی ہوا بو پرم مشکراہٹ علتبا کے ل نوں پہ‬
‫تھبل گنی۔‬
‫انک نات کی سروعات بو ہونی وہ اس پہ تفین کرنی تھی اور اس سے نحقظ جاہنی‬
‫تھی۔ دامیر پہ شوچ آئے ہی اندر نک سرشار ہو گبا۔ اس کے فرنب ر ہنے کا موفع وہ‬
‫چھوڑ نہیں شکبا تھا۔‬
‫علتبا کو لنے وہ اس کے روم میں آنا اور دروازہ نبد کبا۔‬
‫”تم رنلبکس رہو میرے ہوئے ہوئے کجھ نہیں ہو گا۔“ دامیر ئے سنجبدگی کہا۔‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫علتبا نبڈ پہ ھی چب دامیر ئے مزند کہا۔‬
‫”شوئے سے نہلے مجھے شاور لتنے کی عادت ہے بو میں شاور لے لوں۔“ دامیر‬
‫ئے کہنے ہی نبا علتبا کی موخودگی کی پرواہ کنے اننی سرٹ انارے اس کو شانبڈ پہ رکھا‬
‫اور ناتھ میں جال گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪219 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫اس کے عمل پہ بو کجھ دپر علتبا شانس روکے تتھی رہی اس کو سمجھ ہی نہیں‬
‫ن‬
‫آنا کہ ا نسے ک نوں تتھی ہے اس کو اب لنتبا جا ہنے۔ شاند دامیر کے شاتھ اس کا‬
‫تغلق کاقی گہرا رہا ہو لبکن اتھی علتبا کے لنے پہ نہلی نار ہی تھا کہ دامیر اس جالت‬
‫میں اس کے شا منے موخود تھا۔‬
‫دامیر شاور لنے پراؤزر میں ہی وانس آنا جبکہ علتبا ئے دنکھنے سے گرپز ہی کبا۔‬
‫ت‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ً‬
‫اس کو انک منٹ کا کہہ کے فورا روم یں وانس گبا۔ لتبا نتنے کے لنے ا ھی‪ ،‬اسی‬
‫لمچے دامیر اندر داجل ہوا اور اس کی تگاہوں سے نحائے اس ئے گن نبڈ کی شانبڈ‬
‫نتبل کے ناس رکھ دی۔‬
‫النٹ نبد کرئے دامیر خود تھی نبڈ پہ آئے لگا چب علتبا ئےشاچنہ بول اتھی۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”تم نبڈ پہ ک نوں؟؟“ اس ئے ک یق نوز ہوئے بوچھا‪ ،‬دامیر کے ما تھے پہ نا ھی‬
‫سے نل واصح ہوئے۔ علتبا کے مطابق وہ صوفے پہ آرام کر شکبا تھا۔‬
‫”شونا نہیں کبا میں ئے؟“ وہ ہٹس کے بوال‪ ،‬علتبا کا خونحود سر تقی میں ہل گبا‬
‫جس پہ دامیر ئے آپرو احکائے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪220 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میرا مطلب چب نک چنہ نہیں آنی تم نب نک نہاں ہو بو شونا ک نوں ہے وہ‬


‫م‬
‫تھی نبڈ پہ۔“ علتبا ئے نیزی سے اننی نات کمل کی اور اس کے ناپرات دنکھنے لگی خو‬
‫سنجبدہ تھے۔‬
‫”کجھ نہیں ہو گا لبل واتف۔ پرشکون ہو کے شو جاؤ‪ ،‬نمہیں ناتم دنا ہے بو اننی‬
‫نات سے نہیں تھروں گا۔“ دامیر کی نات پہ چہاں علتبا سرخ ہونی وہیں دامیر نبا‬
‫کسی دپری کے ک یفرپر اوڑھے لنٹ تھی حکا تھا۔ علتبا نذنذب کا شکار خود تھی شکڑ کے‬
‫لنٹ گنی چب دامیر ئے آہشنہ سے اس کے سر کے ننچے انبا نازو گزارا اور دوسرے‬
‫نازو سے اس کی کمر کے گرد حصار ناندھا۔‬
‫علتبا کی نشت دامیر کے ستنے سے لگی تھی۔ علتبا کو عج نب بو نہیں لبکن‬
‫گ ھیراہٹ ئے آکے گ ھیر لبا تھا۔ اس طرح وہ نہلی نار کسی کے فرنب ہونی تھی اور دل‬
‫کی دھڑکن تھی نیز ہو رہی تھی۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫”گہرے شانس لو علتبا‪ ،‬اور آ یں نبد کر کے شوئے کی کوشش کرو۔ یں‬
‫م‬ ‫ھ‬
‫نمہارے ناس ہی ہوں۔“ گ ھیراہٹ کے مارے علتبا کے ندن کا لرزنا دامیر محسوس‬
‫کرئے سرگوسی میں بوال۔ علتبا ئے محض سر ہالئے کی کوشش کی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪221 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کے کبدھے کا زچم مبدمل ہو رہا تھا جبکہ نازو اور کمر میں اکیر درد سروع ہو‬
‫جانی تھی۔ وہ دوسری طرف کروٹ لنے لتنی تھی۔‬
‫نہلے وہ اکبلے ہوئے کا شو جنے شو نہیں نانی تھی اور اب دامیر کے شاتھ ہوئے‬
‫کی وجہ سے شو نہیں نارہی تھی۔‬
‫”چنہ کب آئے گی وانس؟“ چب کوشش کے ناوخود اس کو نتبد پہ آنی بو اس‬
‫ئے کمزور آواز میں بوچھا کہ دامیر نبد آنکھوں شاتھ مشکرا دنا۔‬
‫”میرا فرنب رہبا اچھا نہیں لگ رہا کبا‪ ،‬ہم بو اس سے تھی زنادہ فرنب تھے۔۔‬
‫ا ننے کے میری فرنت میں نمہیں شانس لتنے میں تھی دفت ہونی تھی۔“ دامیر سرگوسی‬
‫میں کہہ رہا تھا اور اس کے کہے جائے والے القاظ سے علتبا کی نچی کچی ہمت تھی‬
‫خواب دے رہی تھی۔ دل کے انک کوئے میں وہ نجھبا رہی تھی کہ ک نوں دامیر کو کہا‬
‫اس کے روم میں آئے۔‬
‫دامیر کے ل نوں پہ شاطر مسکان تھی‪ ،‬خود کو اس ئے پہ نات کہنے پہ داد دی‪،‬‬
‫علتبا کے چہرے کا رنگ شو جنے اس ئے مزند ا ننے نازو کا حصار نبگ کبا اور اس کے‬
‫نالوں کی خوسنو کو ناک کے نتھ نوں کے زر تعے خود میں سمانا۔‬
‫”دامیر۔۔۔!“ علتبا ہلکا شا متمبانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪222 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نس واتف!“ اس کے خواب میں ہی جبانا تھا کہ وہ اس کی ن نوی تھی۔‬


‫”چنہ آگنی ہے شاند۔۔“ انبا آپ اس سے دور کرنا جاہا۔‬
‫”لبکن وہ نہاں نہیں آئے گی شو جاؤ۔“ دامیر ئے پرمی سے اس کے کبدھے‬
‫پہ ہونٹ ر کھے اور نالوں میں ہولے سے اتگلباں جالئے لگا ناکہ وہ پرشکون ہو کے نتبد‬
‫میں جلی جائے۔‬
‫انشا نہیں تھا کہ علتبا کو اس سے کراہ نت ہو رہی تھی نا دامیر کے لمس سے‬
‫وجشت تھی۔ اس کے ناس آئے سے نحقظ مال تھا لبکن اس لمس کو وہ نہلی نار محسوس‬
‫کر رہی تھی بو گ ھیراہٹ فظری تھی۔ دامیر کی نات پہ اس ئے خود کو خوصلہ دنا کہ وہ‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫نہلے تھی شاتھ تھے اور انک نہیرین کبل تھے۔ ان شب چیزوں کو اسے نارمل ھبا‬
‫جا ہنے تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫روس کی سڑکیں اس وفت لوگوں کی چہل نہل سے مصروف تھیں۔ روستباں‬


‫ا ننے عروج پہ تھیں‪ ،‬ئےناک قہقہے گونج رہے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪223 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ا نسے میں وہ نج نوں نک آنی سرخ رنگ کی ڈرنس نہنے ہوئے تھی۔ گہرے‬
‫تھورے نالوں کو ہلکا شا کرل ڈالے کمر پہ نک ھیرا تھا۔ انک ہاتھ میں فنٹسی کلچ نکڑ رکھا‬
‫تھا۔ خوتصورت جال جلنے لوگوں کی ننچ سے گزرنی وہ پراعتمادی کا محشمہ لگ رہی تھی۔‬
‫اس ئے آس ناس لوگوں پہ تظریں دوڑانی ہر کونی ا ننے آپ میں مصروف تھا۔ انک‬
‫جگہ پہ ر کنے اس ئے انبا مونانل تکاال۔ چہرے پہ ئےزانت کے ناپرات ات ھرے۔‬
‫”ناٹ اگین۔۔!“ وہ پڑپڑانی اور مونانل وانس رکھنے تھر سے جلبا سروع ہونی۔‬
‫اس ئے انک کنب نک کروانی اور ک یقے میں انئیر ہونی۔ نانچ منٹ تغد ہی کنب‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫ہنچ گنی۔ سر پہ نلبک ہ نٹ نہتنے کنب کا دروازہ کھولے نجھلی سنٹ پہ تتھی۔ نتتھنے‬
‫ن‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫اس ئے ا ننے ہاتھوں پہ سباہ دسبائے نہتبا سروع کنے۔ انک تظر مڑ کے ھے د کھا‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫تھر انک ہلکی مسکان ل نوں پہ سمانی اور نبک لگائے ھی۔‬
‫نبدرہ منٹ کی ڈران نو کے تغد وہ انک نلڈنگ کے ناہر رکی اور نتمنٹ کرئے وہ ناہر‬
‫آنی۔ چب وہ ناہر تکلی بو اس کے ناس انک درمباپہ شوٹ کٹس موخود تھا۔‬
‫ا ننے نالوں کو چہرے کے اطراف میں سنٹ کرئے اس ئے آس ناس دنکھا۔‬
‫تھر نلڈنگ کے رسنٹشن نک آنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪224 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ہ‬‫ن‬
‫نک نک ہبل کی آواز نبدا کرئے رات کے اس نہر وہ نازکی دکھائے وہاں چی اور‬
‫ن‬
‫اننی طرف سے غیر ملکی نتنے کی کوشش کی خو سباچت کے لنے نہاں آنی تھی۔‬
‫”آپ کی آنی ڈی ناسنورٹ متم؟“ اس کا نام درج کرئے لڑکی پروفٹسبل انداز‬
‫میں بولی کہ اِ س ئے ئےجارگی واال منہ نبانا۔‬
‫”دراصل میں نہاں کل ہی آنی ہوں۔ میرا شامان مجھے انیربورٹ پہ نہیں مال‪ ،‬اس‬
‫کو کونی اور انبا سمجھ کے لے گبا ہے۔ اس میں میرے شارے ڈاکومتنٹس تھے۔“ وہ‬
‫چ ھحک کے بولی کہ رسنٹسٹشٹ ئے تغور اس کے جلنے کو دنکھا۔ سر پہ ہ نٹ‪ ،‬ہاتھوں‬
‫پہ دسبائے اور آنکھوں پہ پڑا سباہ جشمہ‪ ،‬گہرے تھورے نال چہرے کے اطراف میں۔‬
‫وہ فرننچ غورت کا جاکہ نٹش کر رہی تھی۔‬
‫ً‬
‫”آپ نہاں کی نہیں ہیں؟“ اس ئے تصدبق جاہی خوانا وہ انبات یں سر‬
‫م‬
‫ہالئے لگی۔‬
‫”آپ جاننی ہیں آپ اتھی قان نو سبار ہونل میں موخود ہیں‪ ،‬آپ کو کہیں اور جانا‬
‫جا ننے تھا ہم آپ کو روم نہیں دے شکنے۔“ لڑکی مشکرانی ہونی اس کو اتکار کر گنی‬
‫کہ مقانل کے چہرے پہ مابوسی در آنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪225 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نس انک رات کی ہی بو نات ہے‪ ،‬میں ئے ربورٹ کروا دی ہے مجھے انک دو‬
‫دن نک شامان مل جائے گا میں نتمنٹ کر دوں گی لبکن نلیز مجھے آج کی رات نہاں‬
‫ر کنے دیں۔ میں اس عالفے میں کسی کو جاننی تھی نہیں اور رات تھی کاقی ہو گنی‬
‫ہے۔“ اس ئے اننی ئےنسی طاہر کی بو رسنٹسٹشٹ جاموش ہو گنی۔‬
‫منتنجر کا نمیر ڈانل کرئے اس ئے ان یطار کرئے کو کہا ناکہ وہ خود پہ مغاملہ دنکھ‬
‫لیں۔ اس لڑکی کو پرس شا آگبا تھا نتھی وہاں النی میں نتتھنے کا اشارہ کبا۔ سہج کے‬
‫ن‬
‫جلنی ہونی وہ نانگ پہ نانگ خڑھائے صوفے پہ تتھی کہ اس انداز سے اس کی نبڈلباں‬
‫واصح ہوئے لگیں۔‬
‫النی کی دوسری شانبڈ پہ نین شونڈ بوند لوگ موخود تھے جن کے ہاتھ سے لے کر‬
‫گردن نک نت نو تظر آئے تھے۔ نالکل چھوئے نال اور کابوں میں نالی وہ اس کو تغور دنکھ‬
‫رہے تھے۔ نامحسوس انداز میں اس ئے انبا رخ نبدنل کبا کہ ان کی طرف نشت ہو‬
‫گنی۔‬
‫”جی محیرمہ!“ انک درمبانی عمر کا آدمی اس کے شانبڈ پہ آکے رسین میں بوال‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫کہ وہ نا ھی سے کھڑی ہو گنی۔‬
‫”شوری؟“ چہرے پہ الجھن کے ناپرات اتھرے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪226 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آپ کو کبا مدد جا ہنے؟“ اب کہ اس ئے اتگلش میں نات کرنا سروع بو مقانل‬
‫ئے سمانل ناس کی۔‬
‫م‬
‫”مجھے آج رات کا سنے جا ہنے‪،‬میں آپ کو نتمنٹ کمل دوں گی لبکن ڈاکومتنٹس‬
‫میرے ناس نہیں ہیں۔“ وہ کھڑے ہوئے ہوئے ئےنسی سے بولی بو منتنجر ئے سر‬
‫انبات میں ہالنا۔‬
‫”آپ کے ناس آپ کا مونانل وغیرہ!“ متنجر ئے اس کی نباری دنکھنے بوچھا۔‬
‫”نہیں! وہ تھی چیزوں میں گم گبا۔ میں نہاں انک آفٹشل نارنی کے شلشلے میں‬
‫آنی تھی‪ ،‬پہ شب انہوں ئے ارننج کبا تھا‪ ،‬میں بولٹس سنٹشن سے سبدھا نہی آنی‬
‫ہوں۔“ ان کو تفین دلوائے کے لنے وہ جلدی سے بولی اور ا ننے کیڑوں کی جانب‬
‫اشارہ کبا۔‬
‫”اگر رات پہ ہونی بو میں نہاں ہرگز پہ آنی مجھے۔۔۔“ اتھی وہ نات کر ہی رہی‬
‫تھی کہ ان نت نوں لوگوں میں انک ان کے فرنب جال آنا۔‬
‫”کونی مسبلہ ہوا ہے کبا؟“ وہ مشکرا کے بوچھنے لگا بو منتنجر ئے اس کو شب‬
‫نبانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪227 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”پہ کونی انسو نہیں ہے وہ تھی انک خوتصورت لڑکی کے لنے‪ ،‬آپ ان کی نکبگ‬
‫ہماری طرف سے کر دیں۔“ لڑکے ئے منتنجر سے سنجبدگی سے کہا اور نتمنٹ کے لنے‬
‫ً‬
‫انک کارڈ ان کو تھمانا جس کو لتنے وہ فورا تھام گنے اور انک کی کارڈ لڑکی کو ال ھمانا۔‬
‫ت‬
‫”آپ کا نہت شکرپہ اگر آپ پہ ہوئے بو میں کہاں جانی۔“ کارڈ تھا منے وہ‬
‫مشکور ہونی بولی۔‬
‫”پہ تھتبکس آپ ہمارے ناس سے کنجنے گا انہوں ئے ہی آپ کے لنے روم‬
‫ارننج کبا ہے۔“ لڑکا انبا کہہ کے اس کو جلنے کا اشارہ کرئے لگا۔ اس ئے چھک کے‬
‫انبا شوٹ کٹس تھامبا جاہا جس کو وہ لڑکا تھام گبا۔‬
‫لفٹ میں انئیر ہوئے اس کے ناپرات سنجبدہ ہوئے تھے۔‬
‫انبا قلور آئے ہی اس ئے ان کا شکرپہ ادا کبا خو اس کے تھانی ین کے اس‬
‫کے روم نک چھوڑئے آئے تھے۔‬
‫کی کارڈ شوانپ کرئے اس ئے انبا شوٹ کٹس تھاما‪ ،‬سبدھے ہاتھ کے دسبائے‬
‫کو منہ میں لنے اس ئے انارا اور اندر پڑھ گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪228 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس آدمی ئے اس کو دسبائے انارئے دنکھا چب اس کی تظر اس کے صاف‬


‫نازو پہ ننے نت نو پہ گنی۔ کہنی پہ ناس انک نت نو تھا جس کا آدھا حصہ تظر آنا تھا جٹسے‬
‫کسی چیز کا ہتبڈل تھا وہ‪ ،‬اس سے نہلے وہ غور کرنا چنہ روم میں جا جکی تھی۔‬
‫روم میں آئے ہی اس ئے گہرا شانس تھرا‪ ،‬دسبائے انارے‪ ،‬گالسز ہبانیں۔‬
‫انک نیز تظر گھمائے بورے شو نٹ کا جاپزہ لبا۔‬
‫چھونا شا لونگ روم‪ ،‬ناتھ‪ ،‬نبڈ روم اور انک لونگ روم میں چھونا شا کنچن اپرنا تھی‬
‫تھا لبکن وہاں نس کاقی مبکر اور جارز ہی ر کھے تھے۔‬
‫اس کو مغلوم تھا کہ روم اس کو مل جائے گا نتھی نلنتبگ کے نحت نہاں آنی‬
‫تھی۔‬
‫شب سے نہلے اس ئے شارے شو نٹ کو تھبک سے جبک کبا‪ ،‬پردے پراپر‬
‫گرائے۔‬
‫انبا شوٹ کٹس کھوال اور اس میں سے انبا لنپ ناپ تکاال۔ انبا مونانل اس ئے‬
‫اتھی نک شونچ آف کر رکھا تھا۔‬
‫لنپ ناپ آن ہوئے ہی اس ئے اننی مبلز جبک کیں۔ کسی ناتم نتبل کا‬
‫جارٹ موخود تھا شاتھ لوکٹشن تھی منٹشن تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪229 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫آج رات اس کا نہاں آنا ضروری تھا‪ ،‬دامیر اور رنان کو نبا نبائے وہ گھر سے تکلی‬
‫تھی۔ ڈارک و نب کھولے مزند ڈنتبلز دنکھنے لگی شاتھ ہی لبام کو شکانپ پہ کانتبکٹ‬
‫کبا۔‬
‫”مونانل بو آن کرو کتھی تھی راتطہ کرئے کی ضرورت پڑ جانی ہے۔“ لبام ئے‬
‫مغلومات د ننے کے تغد ناراصگی سے کہا۔‬
‫”کردوں گی کجھ دپر نک۔“ الپرواہی سے بولی۔‬
‫”نالوں کو کلر کروانا ہے؟“ لبام ئے اس کو سنجبدہ دنکھنے کہا‪ ،‬اس کے نال‬
‫سباہ تھے اور اتھی گہرے تھورے وہ تھی ہلکے کرلز کے شاتھ۔ اس سے نہلے کہ چنہ‬
‫خواب د ننی اس کے دروازہ پہ ناک ہوا۔‬
‫جلدی سے ا ننے گلوز وانس نہتنے انبا لنپ ناپ شوٹ کٹس میں رکھنے دروازے‬
‫نک آنی اور ہلکا شا کھوال۔‬
‫وہی نت نو واال آدمی ہاتھ ناندھے کھڑا تھا‪ ،‬چنہ ئے زپردسنی کی مسکان سحائے اس‬
‫کو دنکھا۔‬
‫”ہمارے ناس آپ سے ملبا جا ہنے ہیں۔“ اس ئے ن یغام دنا۔‬
‫”مجھ سے ک نوں؟“ چہرے پہ چیرانگی الئے بوچھنے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪230 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اوکے بو پہ نلین سے ہٹ کر ہو رہا ہے اب۔“ چنہ ئے دل میں شوجا چب‬


‫اس آدمی ئے نبانا کہ وہ ا ننے مہمان سے ملبا جا ہنے ہیں نس۔‬
‫چنہ جاننی تھی کہ پہ کتبا ملبا ہو گا‪ ،‬ضیط کرئے اس ئے جامی تھر لی۔ اتکل‬
‫ن‬
‫مبکس کو مغلوم ہونا کہ وہ کہاں پر تھی بو خود اس نک ہنجنے اس کا فبل کر د ننے۔‬
‫انک نل کو اس کا دل گ ھیرانا تھر ہمت کرئے وہ روم سے ناہر آگنی۔ اس ئے لنپ‬
‫ناپ کو الک رکھا تھا‪ ،‬ناقی ضرف نی سرٹ اور پراؤزر ہی موخود تھا اس کے شوٹ کٹس‬
‫میں۔ اگر وہ لوگ اس کے نبگ کو جبک تھی کرئے بو کجھ جاص پہ ملبا۔‬
‫نلبک ہ نٹ نہتنے وہ ناہر آنی اس کے شاتھ جلنے لگی۔ لفٹ میں جائے ہی اس‬
‫کے وی آنی نی سبکشن پرنس کبا۔ آقکورس اس کا ناس کسی شو نٹ میں ک نوں ر ہنے‬
‫واال تھا۔‬
‫لفٹ کا دروازہ کھلنے وہ دوبوں انک لگژری انارنمنٹ میں موخود تھے چہاں انئیر‬
‫ہوئے ہی نیز سراب کی بو اس کے نتھ نوں سے نکرانی۔‬
‫اس کو لونگ روم کے صوفے پہ نتتھنے کا اشارہ کرئے خود شانبڈ پہ مؤدب نبا‬
‫کھڑا رہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪231 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اس ئے علطی بو نہیں کر دی تھی نہاں آکے۔“ دل سے آواز سبانی تھی‬


‫ن‬
‫جس کو وہ چھبک تتھی۔‬
‫اجانک انک شالنڈنگ ڈور کھال اور ننتنٹس شالہ مرد وہاں سے اس کی طرف پڑ ھنے‬
‫لگا۔ اس کی گردن کبا اس کے چہرے کا آدھا حصہ تھی نت نو سے تھرا تھا۔ ہاتھوں پہ‬
‫تھول‪ ،‬گیز اور رسین زنان میں لکھا ہوا کجھ ہر جگہ نت نو۔ چنہ کو کراہ نت سی محسوس‬
‫ہونی۔‬
‫اس وفت وہ پرابوا کے ہبڈ کے شا منے موخود تھی۔ ہون نوں پہ زپردسنی مسکان‬
‫ن‬
‫سحائے وہ تتھی رہی۔ انشا کتھی تھی ممکن نہیں تھا کہ وہ اس کے اچیرام میں کھڑی‬
‫ہونی۔‬
‫”مانی سبلف شاشا۔“ اس ئے ہاتھ آگے پڑھانا۔ چنہ ئے انک تظر اس کے ہاتھ‬
‫کو تھر اس کے چہرے کو دنکھا۔ وہ انک عج نب محلوق لگ رہی تھی اس وفت۔ سر پہ‬
‫چھوئے نال اور نت نو سے تھرا چہرہ۔ ضرور اس کا بورا جشم تھی انشا تھا۔‬
‫چنہ ئے انک سبکبڈ کے لنے تھی انبا ہاتھ اس کے ہاتھ میں ر ہنے پہ دنا اور‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫وانس نچ لبا۔‬
‫”روز! روز فرانسس۔“ )‪(Rose Frances‬‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪232 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”سبا ہے نہاں پہ مہمان ہیں آپ؟“ وہ اس کے شا منے ہی نتتھ گبا تھا اور اننی‬
‫تظریں اس پہ تکائے بوچھا۔ چنہ ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”نبانا تھا مجھے منتنجر ئے کہ کبا مسبلہ نٹش آنا تھا۔ تم مجھے نال چ ھحک نبا شکنی‬
‫ہو۔ تھوڑی دپر میں ہی جل ہو گا شب۔“ شاشا اس پہ مہرنان تھا بو اس کا مطلب‬
‫تھی چنہ کو سمجھ آرہا تھا۔‬
‫شاشا اسے نہحانبا نہیں تھا ک نونکہ دنبا والوں کے لنے وہ انک شوسنولنٹ تھی۔‬
‫”کہاں سے آنی ہو تم؟“ شاشا کی تظروں میں جبانت چمک رہی تھی۔ چنہ ئے‬
‫نہاں انبا آپ کور کر رکھا تھا۔‬
‫”میں فرانس سے ہوں‪ ،‬نارنی انتبڈ کرئے آنی تھی۔“ چنہ ئے کہا بو شاشا ئے‬
‫انبات میں سر ہالنا۔‬
‫س‬
‫”نارنی‪ ،‬اب بو روز ہوا کرے گی۔“ وہ زومعنی بوال کہ چنہ ئے نا ھی سے دنکھا۔‬
‫ج‬‫م‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ح‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”ا لی یں کی ہوں بو آرام کرنا جا نی ہوں۔“ اس سے لے کہ شاشا مزند‬
‫کونی نات کہبا چنہ کھڑی ہوئے بولی۔ شاشا تھی ک ھڑا ہوا۔‬
‫”اور آپ ئے میرے لنے روم ارننج کبا اس کے لنے تھتبکس۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪233 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اس کی کونی نات نہیں تم چب نک جاہو نہاں رہ شکنی ہو۔ کونی کجھ تھی‬
‫نہیں بو چھے گا تم سے۔“ شاشا جلدی سے بوال کہ چنہ محض سر ہال گنی۔‬
‫”جاؤ متم کو چھوڑ آؤ روم میں۔“ ا ننے اسی گارڈ سے بوال خو چنہ کو لنے لفٹ نک‬
‫آنا۔‬
‫چنہ کی اپر فبلبگس اس سے کہہ رہی تھیں کہ وہ تھٹس جکی ہے اب۔‬
‫”دل کو آگ لگا کے جلی گنی‪ ،‬نالؤ اس لڑکی کو انبا آپ نجھاور کرئے کو نبار‬
‫ن‬
‫تتھی ہے۔ اس کی قشمت جاگ گنی ہے۔“ چنہ کو جانا ہوا دنکھ وہ جبانت سے ا ننے‬
‫انک گارڈ کو بوال اور خود ا ننے کمرے کو جل دنا۔‬
‫ل‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ت‬
‫چنہ اس پہ نین خرف نی ہونی ا ننے شو نٹ کو جائے گی چب گارڈ ئے اس‬
‫کو محاظب کبا۔‬
‫”ہمارے ناس کو تم نسبد آگنی ہو۔۔“ وہ بونی تھونی انگرپزی مار رہا تھا جس پہ چنہ‬
‫ن‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ل‬‫ب‬
‫آ یں ھما کے رہ نی۔ اگر وہ ن ک ٹس یں پہ ہونی بو ضرور اس کو مزا کھا د نی۔‬
‫”لبکن مجھے بو تم زنادہ ا چھے لگے ہو۔۔“ لفٹ کا دروازہ کھلنے ہی چنہ ئے اس کو‬
‫انک آنکھ ماری اور ناہر تکلی جبکہ اس کی نات ستنے وہ گارڈ بو جٹسے صدمے میں ہی جال‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪234 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گبا تھا۔ چنہ ئے جان بوچھ کے انبا انک دسباپہ انارا جس سے اس کی کہنی کے ناس‬
‫نبا نت نو واصح ہوا۔‬
‫تغیر دسبائے والے ہاتھ کو وہ ہون نوں نک لے کے گنی اور انک قالنبگ کس‬
‫اس نک اچھالی۔ نمسجر اڑانی مشکراہٹ لنے وہ اننی شو نٹ میں داجل ہونی۔‬
‫جٹسے ہی چنہ شو نٹ میں داجل ہونی وہیں اس گارڈ ئے اس کے نازو کی طرف‬
‫دنکھا۔ وہ نت نو اب واصح تھا۔ انک جنجر۔‬
‫”لڑکباں تھی عج نب نت نو ن نوانی ہیں۔“ جبانت سے مشکرائے ہوئے وہ وانس‬
‫جائے لگا۔‬
‫لبکن اگر وہ جان لتبا کہ انشا نت نو کس ئے ن نوانا تھا بو اس کے نارے میں ا ننے‬
‫نبک جباالت کو زہن میں شو جنے کی علطی پہ کرنا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫النٹس نبد تھیں جبکہ وہ جائے سے نہلے ا نسے ہی چھوڑ گنی تھی روم تھر نبد کٹسے‬
‫ہونیں۔ انک بو سیرنس ہو رہا تھا تھر الجھن الگ سے ہو رہی تھی۔ اس ئے النٹس آن‬
‫کیں اور ا ننے کمرے کی طرف پڑھی وہاں تھی اندھیرا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪235 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫النٹ کو جالئے ہی اس کی تظر شا منے نبڈ پہ گنی چہاں وہ انبا شوٹ کٹس رکھ‬
‫م‬ ‫ن‬
‫کے گنی تھی لبکن اب انک جنخ پرآمد ہونی اور اس ئے سجنی سے آ یں یں خود کو‬
‫چ‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫ستتھاال اور گہرا شانس تھرا۔‬


‫”ہبلو ملٹسکا!“ اس کا کلچ تھامے ہوا میں اچھا لنے اس ئے شکون سے کہا کہ‬
‫انک عصے کی لہر چنہ کے جشم میں سران نت کر گنی۔‬
‫ن‬
‫”میں بوچھ شکبا ہوں کہ نہاں کبا کر رہی ہو؟“ رنان ئے گرے آ کھیں اس پہ‬
‫تکانیں۔ لہحہ پرم تھا مگر ناپرات نہیں۔ چنہ اندازہ لگا شکنی تھی کہ اتھی وہ کتبا عصہ‬
‫ضیط کر کے نتتھا تھا۔‬
‫”نمہیں مجھ سے کونی سروکار نہیں ہونا جا ہنے۔“ چنہ سرد لہچے میں بولی اور آگے‬
‫ک‬
‫پڑ ھنے اس سے انبا لچ لتبا جاہا۔‬
‫”مجھے اسی دن سے سمجھ جانا جا ہنے تھا کہ تم کون ہو۔“ کلچ کو اس کی ن نچہ‬

‫سے دور کرئے وہ نتم دراز ہوا۔ اشارہ اس کے نازو کی طرف تھا۔ رنان ڈی کے لنے‬
‫مسکل نہیں تھا نہاں آنا اسی لنے چنہ ئے اس نارے شو جنے میں وفت صا تع نہیں‬
‫کبا۔ وہ نہلے ہی اس کا ننجھا کر رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪236 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ اس کو جاموسی سے گھورئے لگی چب رنان انک جشت میں اتھبا اس نک آنا‬
‫اور اس کی گردن کو اننی گرفت میں لبا۔‬
‫”مجھے اننی نات دہرائے کی عادت نہیں ہے ملٹسکا‪ ،‬لبکن میں اننی ملکنت پہ‬
‫کسی دوسرے کی تگاہ پرداشت نہیں کرشکبا۔ میں ہرگز نہیں جاہوں گا کہ مجھ سے خڑا‬
‫کونی سحص خود کو مضت نت میں ڈالے۔۔“ اس کی گہری آنکھوں میں د نکھے پرفبلے لہچے‬
‫میں بوال کہ اس کا سرد ین چنہ کو چھرچھری لتنے پہ مج نور کرگبا۔‬
‫چنہ ئے انبا ہاتھ اس کے ہاتھ پہ رکھا‪ ،‬گرفت سحت نہیں تھی بو اس ئے ہاتھ‬
‫چھبک دنا۔‬
‫”میں تم خڑی نہیں ہوں پہ مت تھولو کہ میرا تم سے کونی تغلق نہیں ہے۔“‬
‫چنہ ئے ا ننے درمبان موخود انک قدم کا قاصلہ تھی جتم کبا کہ اب وہ دوبوں نالکل‬
‫فرنب کھڑے تھے انبا کہ انک دوسرے کی شانس نک محسوس کر شکنے تھے۔‬
‫چنہ کا قد رنان سے تھوڑا ہی چھونا تھا۔‬
‫اس کی اتھی ہونی تھوڑی کو دنکھنے رنان کے چہرے پہ معنی چیز مشکراہٹ در‬
‫آنی کہ ئےشاچنہ ہی تظر اس کے ل نوں نک گنی۔ سرخ رنگ میں لتنے ہونٹ۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪237 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تغلق ہونا بو پہ قاصلہ تھی کب کا مبا حکا ہونا میں‪ ،‬وہ وفت تھی دور نہیں۔“‬
‫گھمئیر القاظ میں چھبا مطلب چنہ کے اندر انک اسیغال تھرنا کر گبا جبکہ اس کی‬
‫تگاہوں کا سرد ین انک وجشت تھبال رہا تھا۔‬
‫چنہ ئے اس سے قاصلہ پڑھائے اس کے ستنے پہ ہاتھ رکھنے اس کو دھکا شا دنا‬
‫اور خود اننی چیزیں دنکھنے لگی۔ رنان کی مشکراہٹ گہری ہونی۔‬
‫رنان دونارہ سے نتم دراز اور اس کی نشت کو گہری تگاہوں سے دنکھ رہا تھا۔‬
‫”نلبک زنادہ ا چھے لگنے ہیں!“ مشکرانا لہحہ۔ پہ سحص نل میں ا ننے ناپرات ندلبا‬
‫تھا۔ چنہ جاننی تھی وہ اس کے نالوں پہ ن یصرہ کر رہا تھا۔‬
‫ل‬‫م‬ ‫مط‬ ‫ل‬ ‫ک‬‫ن‬
‫وہ لنپ ناپ کھولے کجھ د نے گی چب لوپہ اشارہ نے ہی اس ئے شب‬
‫ھ‬
‫وانبڈ اپ کبا اور انبا شوٹ کٹس نہیں پہ چھوڑا جس میں پراؤزر سرٹ موخود تھی کہ اگر‬
‫وہ لوگ اس کے ننجھے کمرے نک آئے تھی بو نس کیڑے ہی ملنے۔ لنپ ناپ کا نبگ‬
‫نکڑے اور انبا کلچ نکڑے وہ ناہر جائے کی نباری کرئے لگی۔ رنان اس کی نباری‬
‫دنکھنے ئےنباز شا لتبا رہا۔‬
‫”ان یطار کرنا ہو شکبا ہے کونی کالے نالوں والی راہ جلنی رشنہ تھول کے آ ہی‬
‫جائے گی نہاں‪ ،‬نمہاری رات رنگین کرئے۔“ اننی ہ نٹ اور دسبائے خڑھائے چنہ اس‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪238 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کو نبا د نکھے کہنی مڑی ہی تھی کہ اس کی نات پہ شلگنے رنان ئے اس کا نازو اننی آہنی‬
‫گرفت میں لبا۔‬
‫”اننی ہی قکر ہو رہی ہے بو تم ک نوں نہیں رک جانی میری رات رنگین کرئے۔“‬
‫انک انک لقظ جبا کے کہبا وہ چنہ کو سہما گبا تھا ک نونکہ اس کا لہحہ نہلے کی نسنت‬
‫حظرناک تھا۔‬
‫س‬
‫”خود کی طرح گھتبا مت مجھو مجھے۔“ چنہ ئے نبا ڈرے کہا اور انبا نازو چھڑوانا۔‬
‫رنان جانبا تھا کہ اس ئے وہ نات جان بوچھ کے کہی تھی‪ ،‬جاموش وہ تھی نہیں‬
‫رہا پراپر کا خواب د ننے اس ئے آگ لگانی تھی۔ دوبوں آگ لگائے میں ماہر تھے۔‬
‫”اگر اس ئے دونارہ نمہاری طرف دنکھا تھی نا تم اس کے شا منے گنی بو وہ بو اننی‬
‫جان سے جائے گا ہی لبکن تم خود کو مجھ سے نہیں نحا ناؤ گی۔“ اس کے نازو کو تھر‬
‫سے اننی گرفت میں لتنے فرنب کرئے سرگوسی میں القاظ کہے کہ چنہ ئے اس کی‬
‫آنکھوں میں دنکھا خو گرے رنگ میں ہی گہرانی دکھا رہی تھی۔ موت کی گہرانی۔ وہ‬
‫ضرف القاظ ادا نہیں کر رہا تھا انبا ارادہ نبا رہا تھا۔‬
‫چنہ سمجھ گنی تھی کہ رنان جان گبا تھا کہ شاشا ئے اس کو دنکھ لبا ہے‪ ،‬اس‬
‫سے مالقات ہونی تھی نتھی وہ دھمکی دے رہا تھا لبکن اتھی اس کو دھمکی کا نہیں‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪239 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شوجبا تھا۔ اس کو جانا تھا۔ نبا خواب د ننے اس کی گرفت ڈھبلے نائے وہ شو نٹ سے‬
‫تکل آنی۔‬
‫رنسنٹشن پہ لڑکی ندل جکی تھی کہ اس کو کسی مسکل کا شامبا نہیں کرنا پڑا تھا۔‬
‫نبدل تھوڑا آگے جائے اس ئے پرن لبا اور نانچ منٹ کی والک پہ اس کو انک گاڑی‬
‫تظر آگنی۔ وہ مشکرانی لبکن مشکراہٹ سمٹ گنی چب اس کے ناس ہی اس ئے رنان‬
‫کو دنکھا۔‬
‫وہ اس سے نہلے نہاں نہنحا تھا۔ جن تھا نا انشان۔۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ن‬ ‫ک‬‫ن‬
‫انک گھننہ وہ اننی گاڑی کے بونٹ پہ خڑھا آ یں موندیں م دراز تھا۔ اس‬
‫ت‬ ‫ھ‬
‫وفت وہ انک گودام کے ناہر موخود تھا۔ بوفع کے مطابق اس کو چنہ سے وہی چملہ‬
‫ستنے کو مال تھا خو وہ کہنی آنی تھی۔‬
‫”میرے کام میں دجل اندازی پہ کرو اور مجھ سے دور رہو۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪240 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کی نات کا اچیرام کرئے ہوئے اب وہ ناہر مزے کر رہا تھا جبکہ گودام‬
‫کے اندر سے وہ گن قاپر کی آوازیں شن شکبا تھا مگر اس کا شکون نال کا تھا۔ گودام‬
‫ت‬ ‫ت ً‬
‫کے دروازے کے فرنب سے شور سبانی د نبا سروع ہوا تھا۔ فتبا وہ اب ناس ھی۔‬
‫سر کے ننچے نازو تکائے رنان ئے گن تکا لنے ا ننے ستنے پہ رکھی اور چنہ کے ناہر‬
‫آئے کا ان یطار کرئے لگا۔ ان یطار کرنا اس کے نس کی نات نہیں تھی نتھی چھالنگ لگا‬
‫کے اتھبا اننی سرٹ سہی کرئے لگا۔ گودام کا دروازہ کھو لنے اس ئے اننی گن‬
‫ستتھالی۔‬
‫چنہ کجھ ہی قاصلے پہ موخود تھی اور اس کے ننجھے دو لڑکباں تھیں۔ رنان نیزی‬
‫سے آگے پڑھا اور چنہ کو کور دنا۔‬
‫دامیر کو اگر مغلوم ہونا کہ رنان اس کے تغیر لڑئے آنا بو وہ خود اس کا گال ا ننے‬
‫ہاتھوں سے دنانا۔‬
‫نہاں اب نس دو آدمی ہی نچے تھے‪ ،‬چنہ کی گن اس کے ناس نہیں تھی۔‬
‫رنان ئے ان آدم نوں کی طرف انبا رخ کرئے نشاپہ ناندھا اور اس کی جانب گھوما۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪241 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شوری لبکن نہاں میری مداجلت نتنی تھی۔“ انک آنکھ دنائے اس ئے کہا اور‬
‫چنہ کو ناہر کی طرف جائے کا اشارہ کبا۔ اس پہ انک تظر ڈا لنے وہ لڑک نوں کو دنکھنے‬
‫لگی جن کو وہ اتھی نازناب کروا کے آنی تھی۔‬
‫”تھتبکس۔“ وہ تھولی شانسوں کے درمبان بولی بو رنان ئے محض سر ہالنا۔‬
‫”ہمیں نہاں سے جلدی تکلبا جا ہنے‪ ،‬ان کے لوگ کتھی تھی نہاں آشکنے ہیں۔“‬
‫اننی گن کو ہولڈر میں رکھنے نیزی سے بوال۔ چنہ ان دو لڑک نوں کو آگے جلنے کا کہنی انک‬
‫تظر ننجھے دنکھا۔‬
‫انک کے تغد انک تعسیں گری تھیں۔ نہاں آئے سے نہلے ہی رنان ناہر کے‬
‫گارڈز کا صقانا کر حکا تھا۔ وہ اس کے ہر قدم پہ تظر ر کھے ہوئے تھا۔‬
‫لڑک نوں کو گاڑی کی نجھلی سنٹ پہ نتھائے خود نستنجر سنٹ پہ نتتھ گنی۔ رنان‬
‫ڈران نو کر رہا تھا اور کہاں جانا تھا پہ چنہ کو مغلوم نہیں تھا ک نونکہ روس میں اس کا خود‬
‫کا آنا کم ہی ہونا تھا۔‬
‫لبام کے زر تعے اس کو چیر ملی تھی کہ انک اور نبالمی ہونی ہے جس میں پرابوا‬
‫کے ہبڈ کو دو لڑکباں دی گنی ہیں خو نٹس سے نچٹس شال کی عمر نک تھیں۔ شاتھ‬
‫ً‬
‫میں اس کو پہ تھی نبانا تھا کہ شاشا آج کی رات اسی سہر میں ر کنے واال تھا بو عالبا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪242 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫لڑکباں تھی نہاں تھیں لبکن کسی اور جگہ۔ اس کو جگہ کا مغلوم کرنا تھا نتھی انبا‬
‫جلنہ ند لنے اس نلڈنگ میں آنی چہاں شاشا آج ُرکا تھا۔ وہ حظرناک ن یظتم کا ناس تھا اور‬
‫اس کے ستبکڑوں وقادار نہاں اس وفت اس سہر میں گھوم رہے تھے۔ اس نک نہنجبا‬
‫بو آشان تھا۔ چنہ جاننی تھی کہ شاشا کو دو نسوں کی لت تھی۔ کاال نٹشا اور غورت۔‬
‫نتھی اس ئے شاشا کے شا منے جائے کا ف یصلہ لبا۔ خود کو اس ئے روز نبانا تھا اننی‬
‫م‬
‫تقلی سباچت میں اس کے شا منے جائے کی تھی کمل نباری تھی۔ چب نک چنہ نک‬
‫ن‬
‫وہ ہنجنے نب نک دپر ہو جکی ہو گی۔ شاشا کے کمرے سے جائے اس ئے گارڈز کو‬
‫کہنے سبا تھا کہ لڑکباں کہاں رکھی ت ھیں۔ اس سے ملنے کا اس کو انک قاندہ بو ہوا تھا۔‬
‫انہیں جبالوں میں کھونی تھی چب رنان ئے چھبکے سے گاڑی روکی اور انک نمیر‬
‫ڈانل کبا۔ کجھ سبکبڈز میں ہی انک آدمی ناہر آنا ہوا دکھانی دنا۔ گاڑی کسی شوشاننی‬
‫میں آکے رکی تھی۔‬
‫”تم دوبوں کو کل صنح پہ نمہارے گھروں نک نہنحا دے گا۔“ رنان ئے انک تظر‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ت ت س‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ننج ن‬
‫ھے ھی لڑ نوں پہ ڈالی خو ا ھی ھی می ہونی یں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪243 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”پہ میرا نمیر ہے۔ اگر کونی تھی گڑ پڑ ہونی بو نالچ ھحک مجھے انک مٹسج چھوڑ د نبا‬
‫ہے‪ ،‬وفت نہیں دنکھبا نس مجھے مٹسج کرنا ہے۔“ ان دوبوں کے لنے رنان کی نات کا‬
‫تفین کرنا مسکل تھا لبکن کارڈ کو تھام لبا۔‬
‫”قکر نہیں کرو اس کے شاتھ اِ س کی ن نوی تھی رہنی ہے۔“ وہ دوبوں شاند انک‬
‫لڑکے کے شاتھ نہیں جانا جاہ رہی تھیں۔‬
‫چنہ تھی ان کے شاتھ گاڑی سے اپر آنی۔ دوبوں لڑک نوں کو دنکھنے اس کے‬
‫چہرے پہ ہلکی سی مشکراہٹ تھی۔‬
‫انک خوتصورت مشکراہٹ کے شاتھ روسی غورت آنی ہونی دکھانی دی بو رنان ئے‬
‫اس کا تھی تغارف کروانا۔ چنہ اس نارے میں ئےقکر تھی ک نونکہ رنان دنکھ تھال کے‬
‫ہی شب کرنا تھا۔‬
‫وہ دوبوں چب گھر کے اندر گنیں بو رنان ڈران نونگ سنٹ پہ نتتھا۔ چنہ کے نتتھنے‬
‫ہی اس کی گاڑی سبارٹ کی۔‬
‫اس کے ہاتھ میں جافو تھا جس پہ خون لگا تھا۔ اننی رنڈ ڈرنس سے اس کو صاف‬
‫کرئے اننی نانگ سے کیڑا ہبانا چہاں اس ئے شارٹ نانٹس نہن رکھا گھا اور اس میں‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪244 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ہولڈر موخود تھے۔ جافو کو اس میں سنٹ کبا اور ناہر دنکھنے لگی۔ اب وہ سیرنس فری‬
‫ن‬
‫تھی۔ لڑکباں آزاد تھیں۔ انک پرشکون شانس جارج کرئے اس ئے آ یں موند یں۔‬
‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫”مجھے وانس ہونل چھور دو۔“ ناد آئے پہ چنہ ئے کہا لبکن رنان ئے ان سبا کر‬
‫دنا اور الپرواہ نبا ڈران نو کرنا رہا۔‬
‫”تم ئے سبا نہیں مجھے وانس ہونل ڈراپ کرو۔“ چنہ اس کی جانب گھومی نیز‬
‫لہچے میں بولی کہ رنان ئے اجانک پرنک لگانی جس پہ چنہ کو چھ یکا شا لگا۔ سنٹ نبلٹ‬
‫کی وجہ سے وہ نچ گنی ورپہ تقصان ہو جانا۔ چنہ ئے اس کو ا نسے دنکھا جٹسے وہ ناگل‬
‫ہو۔‬
‫”ڈونٹ بو ڈنیر‪ ،‬اگر نمہاری اس چمافت کی وجہ سے نمہیں کونی تھی تقصان نہنحا بو‬
‫آنی شونیر تم نہت نجھباؤ گی۔“ اس کی گردن کو دبوچے وہ انک نار تھر وہ تھڑک اتھا‬
‫تھا۔‬
‫”رنان دہاب۔“ اس ئے بورا نام لبا کہ رنان تھ یکا۔‬
‫”مجھ پہ اننی دھونس چمانا نبد کرو۔ نمہارا پہ زور مجھ پہ نالکل تھی نہیں جلنے‬
‫واال۔“ چنہ اس کی گرفت میں محلنی ہونی بولی وہ اس کے آگے کمزور نالکل نہیں تھی‬
‫لبکن رنان کی نازو پہ نکڑ سحت تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪245 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم ا چھے سے جاننی ہو کہ میں کبا کر شکبا ہوں۔“ رنان ئے اس کو وارن کبا‪،‬‬
‫آنکھوں میں شغلے تھڑک ا تھے تھے۔‬
‫”انک غورت کی مرضی کے تغیر اس کو ا ننے ناس رکھو گے؟“ اس کا لہحہ نمسجر‬
‫اڑانا ہوا تھا جبکہ چہرے پہ وہی مسکان اتھری۔‬
‫رنان ئے ہلکے سے تقی میں سر ہالنا اور اس کو مزند ا ننے فرنب کبا۔‬
‫”ہماری شادی م نوفع ہے‪ ،‬اس سے تھاگبا کونی رشنہ نہیں نمہارے لنے۔ اس کو‬
‫ف نول کرو ورپہ دوسری صورت نمہیں نبا ہے کہ کبا ہو گا۔“ رنان ئے اس کے کان‬
‫میں سرگوسی کرئے کہا تھر اس کی گردن اور نازو کو اننی گرفت سے آزاد کرئے اس‬
‫کی آنکھوں میں چھاتکا چہاں عصے کی لہریں موخود تھیں۔‬
‫”میں دوسرے را سنے کو نحوسی ج نوں گی۔“ انک انک لقظ جبا کے کہنی وہ رنان‬
‫کے اندر کی آگ کو شلگا گنی۔ حظرناک ناپرات چہرے پہ سحائے وہ اس کو گھورئے‬
‫میں مصروف تھا خو الپرواہی سے کبدھے احکا گنی۔‬
‫رنان ئے گاڑی سبدھا گھر کی ہی راہ لی تھی۔‬
‫”لنٹس قانٹ‪ ،‬ڈو اور ڈانی۔“ )‪(let’s Fight, Do or Die‬‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪246 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گھر میں داجل ہوئے ہی چنہ اس کے مقانل آنی بولی۔ اس کے تھورے نالوں‬
‫کی وگ اپر جکی تھی‪ ،‬ہاتھوں کے دسبائے تھی عانب تھے۔ چہرے پہ انک خراش کی‬
‫لکیرتھی۔‬
‫چنہ کا انداز جبلنجبگ تھا۔ وہ اس کو لڑئے کی دغوت دے رہی تھی۔ شادی کے‬
‫مغاہدے سے تھرنا تھی موت تھا بو اس ئے شوجا ک نوں پہ نہیر طر تقے سے کبا جائے‬
‫شب۔‬
‫اس کی نات سے واصح تھا کہ وہ کسی تھی صورت پہ شادی نہیں کرئے والی‬
‫تھی۔‬
‫رنان ئےشاچنہ ہٹس دنا جٹسے کسی نچے ئے لظ یفہ سبانا ہو۔ چنہ کے ما تھے پہ نل‬
‫واصح ہوئے۔‬
‫”جلو شاتھ مرئے ہیں۔“ وہ آنکھ دنا کے بوال کہ چنہ کا چہرہ سرخ پڑ گبا۔‬
‫”نئیر لک نبکشٹ ناتم ئےنی۔“ رنان ہٹسنے ہوئے اس سے بوال‪ ،‬وہ اس سے‬
‫ج نت نہیں شکنی تھی جاہے وہ کتنی اچھی پرنتبگ لے کے آنی ہو۔‬
‫روم کی طرف جائے لگا چب اس ئے علتبا کے کمرے کے دروازہ کھلنے دنکھا۔‬
‫وہ چیران ہوا تھر معنی چیز شا مشکرانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪247 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫رات کا جائے کون شا نہر تھا چب اس کی آنکھ کھلی۔ علتبا غیر آرامدہ تھی۔ وہ‬
‫انک ہی کروٹ میں لتنی تھک جکی تھی شاند۔ دامیر اس کے گرد سے نازو ہبائے‬
‫سبدھا ہوا۔‬
‫” ہنے علتبا‪ ،‬تم تھبک ہو؟“ علتبا کی ما تھے پہ نل نتنے د نکھے‪ ،‬چہرے پہ خوف زدہ‬
‫ناپرات اتھرے۔ دامیر ئے اس کا گال تھتتھبانا۔ شاند وہ کونی خواب دنکھ رہی تھی‬
‫جس کی وجہ سے اس کے چہرے کے ناپرات ا نسے تھے‪ ،‬وہ اتھی رو د ننے کو تھی۔‬
‫ک‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ع‬ ‫َ‬
‫”پرنسس۔۔“ دامیر ئے زور سے تکارا کہ لتبا ئے ا نی آ ھیں کھولیں اور انک دو‬
‫گہرے شانس تھرے۔ ناس نتتھے دامیر کو دنکھا خو م یقکر تھا۔‬
‫”دامیر۔۔“ انک لمحہ کو علتبا تھول گنی کہ دامیر اس کے شاتھ ہی تھا۔‬
‫”کبا ہوا؟ کونی پرا خواب دنکھا ہے۔“ دامیر ئے پرمی سے بوچھا۔ انک ہاتھ اتھی‬
‫ت‬‫ن‬
‫تھی اس کے رجشار پہ تھا۔ علتبا اتھ ھی اور انبات یں سر النا۔‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ت‬

‫”میں۔۔ میں تھاگ رہی تھی کونی تھا میرے ننجھے۔۔“ اس کی آنکھوں سے‬
‫آنسوں تکلنے کو نبار تھے‪ ،‬کاقی خوف زدہ تظر آرہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪248 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں ادھر ہی ہوں نمہارے ناس‪ ،‬کونی نہیں ہے نمہارے ننجھے۔ نمہیں تقصان‬
‫نہنحائے کا شو جنے سے نہلے ہی وہ انشان اننی جان سے جائے گا۔“ دامیر ئے پرمی‬
‫سے اس کو ا ننے شاتھ لگانا۔ علتبا ئے انبا انک نازو اس کے گرد لنتبا۔‬
‫”مجھے نہت ڈر لگ رہا ہے۔“ وہ روئے کے درمبان بولی۔ دامیر سمجھ گبا تھا کہ‬
‫وہ انبا ماضی جاننی تھی لبکن اس کا زکر نہیں کرنا جاہنی تھی اتھی۔‬
‫”میں ہوں نا۔ چب نک میں ہوں ڈرئے کی ضرورت نہیں۔“ اس ئے پرمی سے‬
‫اس کے نال سہالئے۔ نبڈ کراؤن سے نبک لگائے ا نسے ہی علتبا کو خود سے لگائے‬
‫نتم دراز ہوا۔ تھوڑی دپر وہ ئےآواز رونی رہی تھر نتبد میں جائے لگی۔‬
‫اس کے نتبد میں جائے ہی دامیر ئے پرمی سے اس کا سر نکنے پہ رکھا اور خود‬
‫دوسری طرف آگبا۔‬
‫خود لنتنے اس ئے جٹسے ہی علتبا کو فرنب کرنا جاہا اس کی آنکھ کھل گنی۔‬
‫چ‬
‫ھ‬
‫”نہاں آجاؤ۔“ دامیر ئے اس کو نازو پہ سر رکھنے کا کہا‪ ،‬وہ جھکی ت ھر اس کی‬
‫آنکھوں میں دنکھا‪ ،‬پہ چمک وہ دامیر کی آنکھوں میں نہلی نار دنکھ رہی تھی۔ اس کا‬
‫کسرنی وخود دنکھنے وہ کیرانی ت ھر خود کو اس کے فرنب لے آنی۔ اس کے کبدھے پہ انبا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪249 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫سر رکھنے تھر جلد ہی نتبد میں جا جکی تھی۔ دامیر دونارہ شونا نہیں تھا اس کے نالوں‬
‫میں اتگلباں جالنا رہا تھا۔‬
‫شاند ہی کتھی اس ئے کسی سے نات کرئے ہوئے اننی نبار تھرا لہحہ نا پرمی‬
‫دکھانی ہو خو وہ علتبا سے نات کرئے وفت دکھائے کی کوشش کرنا تھا۔‬
‫ع س‬
‫پہ سچ تھا‪ ،‬وہ ا ننے لہچے میں نبار الئے کی کوشش کرنا تھا کہ لتبا ھے وہ‬
‫ج‬‫م‬
‫وافعی اس سے نبار کرنا تھا۔ خواب میں ڈرنا شاند نہلی نار نہیں تھا نتھی چنہ اس کے‬
‫شاتھ رکنی تھی۔ چنہ جاننی تھی کہ وہ تھبک سے شو نہیں نا رہی۔ لبکن اب دامیر ئے‬
‫ف یصلہ کبا تھا کہ علتبا اسی کے شاتھ اِ س کے کمرے میں رہے گی۔ وہ اسے اب خود‬
‫سے دور نہیں کرنا جاہبا تھا۔‬
‫”کبا میں وافعی اس کو خود سے دور نہیں ر ہنے دوں گا؟“ ان شوخوں میں اس‬
‫ئے خود سے اسیقشار کبا۔ ہلکا شا سرچھکائے علتبا کے شوئے چہرے کو۔ کتنی‬
‫َ‬
‫معصوم تھی وہ۔ انک پرنسس۔‬
‫آخر وہ کٹسی ان کی دنبا میں آگنی۔ اس کو بو کہیں فیری نبل میں ہونا جا ننے تھا‬
‫نہاں سیطابوں کی دنبا میں نہیں چہاں نات تھی نٹشا اور گولی کے دم پہ کی جانی‬
‫تھی۔ کبا اس خوتصورت محشمے کو اس کے لنے نبانا گبا تھا۔ نتھی بو وہ اس کے نہلو‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪250 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫میں تھی۔ دامیر ئے ا ننے دوسرے ہاتھ سے اس کا چہرہ تھام کے نلبد کبا اور ہولے‬
‫سے اس کے ل نوں کو چھوا۔‬
‫کجھ ہی ہق نوں میں اس کی زندگی ندل گنی تھی اور اب علتبا کی تھی ند لنے والی‬
‫تھی۔‬
‫شوخوں کا محور چنہ کی طرف جال گبا۔ وہ آج علتبا کے کمرے میں تھہرئے ک نوں‬
‫نہیں آنی تھی۔ مونانل اس کا دوسری شانبڈ پہ موخود تھا۔ اس شانبڈ پہ علتبا کا فون‬
‫پڑا تھا۔ انک نار چھوئے ہی اس کی شکرین روشن ہونی بو وفت دنکھا۔ صنح کے نانچ نج‬
‫رہے تھے۔‬
‫غ‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫وہ انک نار تھی علتبا کو د نے یں آنی ھی‪ ،‬شاند اس کو لوم ہو گبا ہو کہ‬
‫دامیر علتبا کے ناس ہی تھا۔‬
‫نہی شو جنے دامیر ئے علتبا کو وانس نکنے پہ مت یقل کبا اور خود اننی سرٹ نکڑئے‬
‫روم سے ناہر تکال۔ کمروں کی راہداری کے نالکل شا منے لونگ اپرنا تھا چہاں رنان اور چنہ‬
‫کی نابوں کی آوازیں سبانی دیں۔‬
‫دامیر اس طرف پڑھا چب رنان کی تگاہ اس کی طرف اتھی اور تکلحت اس کے‬
‫چہرے پہ زومعنی مشکراہٹ اتھری۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪251 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ضرور کجھ گھتبا شوجا ہو گا اس ئے۔“ وہ پڑپڑانا ہوا اننی سرٹ نہتنے لگا اور رنان‬
‫کے فرنب جال آنا۔چنہ رنان کو صلوانیں سبانی ہونی ا ننے کمرے کی جانب جا جکی تھی۔‬
‫”میں بوچھ شکبا ہوں کہ تم دوبوں کہاں تھے؟“ دامیر ئے اس کے چہرے کو‬
‫دنکھنے بوچھا۔ رنان ئے ا ننے نالوں میں ہاتھ ت ھیرا اور چنہ کی نشت کو دنکھا۔ تھر پرمی‬
‫سے مشکرانا اور تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”نہیں تم نہیں بوچھ شکنے۔“ رنان ئے نبانا۔‬
‫”ہم چہاں تھی تھے لبکن نمہیں بو قاندہ ہوا نا۔ رات بو اچھی گزری نا میرے‬
‫تغیر؟“ رنان سنجبدگی سے اس کو دنکھبا ہوا بوال اشارہ اس کا علتبا کے روم سے تکلبا تھا‬
‫وہ تھی انسی جالت میں۔‬
‫”وہ ڈر رہی تھی اکبلے۔۔“ دامیر کو خود تھی سمجھ پہ آنی کہ وہ اس کو وصاچت‬
‫ک نوں دے رہا تھا۔‬
‫ً‬
‫”میں کجھ نہیں کہہ رہا۔“ رنان اس کی صقانی پہ فورا ہاتھ لبد کرنا ہوا بوال کہ‬
‫ن‬
‫دامیر ئے سر چھ یکا۔‬
‫”چنہ شاشا سے ملی تھی آج۔“ دامیر کجھ اور بوچھبا رنان ئے خود سنجبدگی سے نبانا‬
‫کہ اس کو چیرت کا چھ یکا لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪252 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شاشا سے! ک نوں؟“ پہ نات شن کا چھ یکا ہی لگبا تھا کہ چنہ کی جان کو نہلے‬
‫ہی حظرہ تھا اوپر سے وہ ننی مضت نت میں پہ پڑ جائے۔‬
‫”شاشا کو آکشن میں دو لڑکباں ملی تھی اسی کی چیر شن کے جلی گنی وہ۔“ رنان‬
‫اس کو نبانا ہوا خود تھی مضظرب تظر آنا اور کاؤچ پہ نتتھ گبا۔‬
‫”مبکس اس نات کو جا ننے کے تغد ہ یگامہ کریں گے۔ کبا شاشا جانبا ہے کہ‬
‫چنہ کون ہے؟“ دامیر اس کے پراپر نتتھنے ہوئے بوال‪ ،‬رنان ئے تقی میں گردن ہالنی۔‬
‫”اننی بو وہ عقل مبد ہے اننی سباچت چھبا کے گنی تھی۔“‬
‫”شاشا جٹسے جت نث انشان سے کجھ تھی بوفع کی جا شکنی ہے بو ستتھل کے رہبا‬
‫ہو گا۔“ دامیر ئے کہا بو رنان ئے نانبدی انداز میں سر ہالنا۔‬
‫”اس کی لڑکباں عانب ہونی ہیں اس نات پہ وہ جاموش نہیں ر ہنے واال۔ ہ یگامہ‬
‫ضرور محائے گا۔“ رنان اتھنے ہوئے بوال‪ ،‬تھوڑا آرام کرنا جاہبا تھا۔‬
‫”تم تھی جاؤ آرام کرو‪ ،‬کجھ دپر تغد مالقات ہو گی۔“ جائے ہوئے تھی وہ دامیر‬
‫کو چ ھیڑنا نا تھوال تھا جس پہ وہ نس سرد آہ تھر کے رہ گبا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


253 | P a g e

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


ِ ‫ش‬

Visit for more novels: www.urdunovelbank.com


‫‪254 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ ناشنہ کرئے تھی نہیں آنی تھی‪ ،‬علتبا کو اس کی قکر سبائے لگی۔ صنح چب‬
‫وہ اتھی تھی بو دامیر نہیں تھا کمرے میں لبکن نا سنے کے وفت تھی اِ س ئے دامیر کو‬
‫دنکھنے سے پرہیز ہی کبا۔ کل رات کو خواب دنکھنے پری طرح ڈری تھی جس میں اس‬
‫کے ننجھے فباد کے آدمی تھے جبہوں ئے اس کی دوشت کو نکڑ رکھا تھا۔‬
‫اس کی دوشت! ہاں فروا۔ فروا کے نارے میں جائے دامیر ئے کجھ مغلوم کبا‬
‫تھی تھا نا نہیں۔ وہ اس نارے میں چنہ سے نات کرنا جاہنی تھی لبکن وہ تھی کہاں۔‬
‫اس کا الن میں جائے کو دل کر رہا تھا پہ نتھی ممکن تھا چب چنہ اس کو لے جانی۔‬
‫اتھی وہ چنہ کا نمیر مالئے کا شوچ ہی رہی تھی چب دامیر کمرے میں داجل ہوا۔ وہ‬
‫ع‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫پراؤزر سرٹ میں مل نوس تھا۔ اس کو د نے لتبا کا دھبان ئےشاچنہ ہی اس کے کام‬
‫کی طرف گبا۔ وہ کام کبا کرنا تھا پہ بو اسے مغلوم ہی نہیں تھا چب سے وہ ہوش میں‬
‫آنی تھی دامیر کو نس پہ کہنے سبا تھا کہ وہ ناہر جا رہا تھا لبکن وہ کام کبا کرنا تھا پہ‬
‫اس ئے نبانا ہی نہیں تھا۔‬
‫ئےشاچنہ ہی تظر ہاتھ میں نہنے ڈانمبڈ پہ گنی۔ وہ فتمنی تھا بو ضرور دامیر اچھا کمانا‬
‫تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪255 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ت‬ ‫ک‬‫مش ش ن‬
‫علتبا کو اندازہ ہی نہیں ہوا تھا کہ وہ دامیر کو ل ل د ھی جا رہی ھی۔‬
‫اجشاس نب ہوا بو دامیر ئے مشکرائے اس کے شا منے ہاتھ لہرانا اور وہ ہوش میں آنی۔‬
‫”تم کبا کام کرئے ہو؟“ پہ شوال ئےشاچنہ تھا کہ چب وہ کہہ جکی تھی نب‬
‫اجشاس ہوا کہ وہ کتنی ئےاجتبار ہونی تھی۔ تکلحت ہی اس کے رجشار سرخ ہوئے۔‬
‫دامیر کو بوفع نہیں تھی‪ ،‬وہ نہلے الجھا تھر اس کے ناپرات دنکھنے ہٹس دنا۔‬
‫”نمہیں کبا لگبا ہے کہ میں کبا جاب کرنا ہوں؟“ دامیر ئے البا اس سے بوچھا‬
‫اور اس کے مقانل نتتھ گبا۔ اس کی پرشوق تگاہیں علتبا کے چہرے پہ نکی تھیں جس‬
‫ع‬
‫ئے ال لمی سے کبدھے احکائے۔‬
‫”نبا نہیں‪ ،‬شاند بولٹس میں۔“ علتبا کے خواب پہ دامیر تھ یکا۔‬
‫”نمہیں انشا ک نوں لگا؟“ اس ئے تھر البا شوال کبا۔ آنکھوں میں سرد لہر واصح‬
‫ہونی۔ اس کا لہحہ تھی سنجبدہ ہوا تھا۔‬
‫”شاند‪ ،‬تم کاقی صحت مبد ہو میرا مطلب تم انک بوانا مرد ہو۔ نمہاری ناڈی کاقی‬
‫اپرنک نو ہے۔“ علتبا ئے اس کے نازو کے تھولے مشلز کو دنکھنے کہا۔ دامیر ئے ا ننے‬
‫نازو د نکھے تھر علتبا کو خو شاند اننی نات پہ سرمبدہ تظر آرہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪256 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہیں میری ناڈی اپرنک نو لگنی ہے تعنی تم میری طرف اپرنکٹ ہونی ہو۔“ اس‬
‫کی آنکھوں کی چمک ندلی‪ ،‬چہرے پہ انک مدھم مشکراہٹ نمودار ہونی۔ زرا شا اس کی‬
‫جانب چھکا۔‬
‫”میں ئے انشا نہیں کہا۔ میرا کہنے کا مطلب تھا کہ تم انک اچھی جشامت کے‬
‫مالک ہو بو نہت سے لوگوں کو تم نسبد ہوگے۔“ علتبا تھوڑا شا ننجھے ہٹ کے بولی کہ‬
‫دامیر کی مشکراہٹ مزند گہری ہونی۔ اس کی دھڑکن پڑ ھنے لگی تھی۔ جائے وہ کس‬
‫کام سے آنا تھا اور اب علتبا کے شوال ئے اس کو خود تھٹشا دنا تھا۔‬
‫”لوگوں کی مجھے پرواہ نہیں انبا نباؤ۔ نمہیں نسبد ہوں میں۔“ اب وہ اس کو اننی‬
‫تگاہوں سے پزل کر رہا تھا۔ علتبا کے لنے اس کی جانب دنکھبا دوتھر ہوا چب دامیر‬
‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫ئے ہاتھ پڑھائے اس کے نالوں کو پرمی سے کان کے ھے اڑشا۔‬
‫”چپ پہ رہو‪ ،‬نباؤ۔ کبا میں نمہیں نسبد ہوں؟“ اس کے کان کے جانب چھکنے‬
‫وہ سرگوسی میں بوال کہ علتبا ئے چہرہ ت ھیرئے گہرا شانس ت ھرا۔ تھر ہلکے سے انبات میں‬
‫سر ہالنا۔ دامیر اس کو کام والے شوال سے نتھکانا جاہبا تھا نتھی دوسری نابوں میں لگا‬
‫دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪257 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہہ۔۔ ہاں ا چھے ہو تم۔“ وہ نس انبا ہی کہہ نانی تھی جس پہ دامیر دور ہوئے‬
‫ہلکا شا مشکرانا۔‬
‫”پہ وہ خواب نہیں تھا جس کی میں بوفع کر رہا تھا لبکن پہ تھی تھبک ہے۔ تم‬
‫آج سے میرے شاتھ ہمارے روم میں رہو گی۔“ دامیر کا لہحہ نل میں سنجبدہ ہوا اور‬
‫اتھ ک ھڑا ہوا جبکہ علتبا شاک کی ک یق نت میں اس کو دکھنے لگی۔‬
‫”انک روم میں؟“ علتبا ئے جٹسے تصدبق جاہی‪ ،‬دامیر ئے محض سر ہالنا۔‬
‫”جٹسے آج رہے و نسے ہی۔“ دامیر مشکراہٹ دنا کے بوال۔‬
‫”لبکن میں ئے کہا تھا کہ اتھی نہیں ک نونکہ میں۔۔ میں تھبک تھی نہیں ہونی‬
‫اتھی خوامحوا انک زمہ داری ین جاؤں گی۔“ علتبا ئے اننی طرف سے اس کو نا لنے کی‬
‫کوشش کی۔‬
‫”ہمارے کمرے میں تھی تم تھبک ہو شکنی ہو‪ ،‬پرامس میں کجھ تھی نہیں‬
‫کروں گا۔“ دامیر ئے اس کی آنکھوں میں دنکھنے کہا کہ علتبا اس کی نات ستنے چحل‬
‫سی ہو گنی۔‬
‫”میں نمہیں اننی تظروں کے شا منے دنکھبا جاہبا ہوں۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪258 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”لبکن میں اتھی نہیں جانا جاہنی نہاں سے۔“ علتبا ئے تظریں خرا کے کہا۔‬
‫اصل میں وہ اس کے فرنب آئے کی وجہ سے گ ھیرا رہی تھی۔‬
‫”تم کل رات تھبک سے شونی نہیں تھی بو اب سے تم میرے شاتھ ہی رہو‬
‫ن‬
‫گی۔“ اس کے لہچے کی گھمئیرنا پہ علتبا محو نت اس کو د نی گی۔‬
‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫”شاتھ والے کمرے میں تھی نہی کجھ ہے اتقبکٹ وہ زنادہ خوتصورت ہے‬
‫ک نونکہ وہاں میں ہوں‪ ،‬نمہارا شامان نہلے سے ہی روم میں سنٹ ہے اور خو نہاں موخود‬
‫ہے وہ ر ہنے دو۔“ دامیر اس کے پراپر سے اتھنے لگا چب علتبا بول اتھی۔‬
‫”دامیر‪ ،‬فروا کا کجھ مغلوم ہوا اور چنہ کہاں ہے؟“ اس ئے دوبوں لڑک نوں کا‬
‫بوچھا۔‬
‫”چنہ رنان کے شاتھ کہیں گنی تھی ناہر گھو منے اور اب وہ دوبوں آرام کر رہے‬
‫ہیں۔ رہی نات فروا کی بو آنی اتم شوری اس کا مغلوم نہیں ہو شکا۔ وہ ناکسبان میں‬
‫ہی ہے لبکن کونی راتطہ نمیر نہیں مال۔“ دامیر ئے کبدھے احکا کے کہا جس پہ علتبا‬
‫کے چہرے پہ مابوسی سی چھا گنی۔‬
‫”کبا ہم ناکسبان نہیں جا شکنے؟“ علتبا ئے امبد لنے بوچھا بو دامیر ئے گہرا‬
‫شانس تھرا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪259 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہم ضرور جانیں گے لبکن ہمارا نہاں کام ہے اتھی۔“ علتبا اس کا نالبا سمجھ‬
‫گنی تھی نتھی مزند کجھ پہ کہا ماشوائے سر ہالئے کے اس کے ناس کونی جارہ نہیں‬
‫تھا۔‬
‫”ڈپر کے تغد تم ہمارے کمرے میں آرہی ہو اور اس نارے میں کونی تھی نحث‬
‫ک‬‫ن‬
‫نہیں ہو گی۔“ دامیر انبا کہہ کے کمرے سے جال گبا‪ ،‬علتبا نبک لگائے آ یں موند‬
‫ھ‬
‫گنی جبال نار نار فروا کی جانب جا رہا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫دامیر اور رنان اتھی سبک نورنی روم میں نتتھے تھے چب چنہ دندنانی ہونی وہاں آنی اور‬
‫نبا ان دوبوں کی پرواہ کنے عصے سے انبا ہاتھ نتبل پہ مارا۔ دامیر ئے ناگوار تظر اس پہ‬
‫ڈالی۔‬
‫”گارڈ کو تم ئے کہا ہے مجھے ناہر جائے سے رو کنے کا؟“ اس ئے رنان کی‬
‫آنکھوں میں دنکھنے مسیغل ہوئے کہا۔‬
‫”آقکورس ملٹسکا‪ ،‬میرے عالوہ نمہاری تھالنی کون شوچ شکبا ہے۔“ رنان ئے‬
‫اس کو دنکھنے کہا جس پہ وہ گھورئے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪260 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”رنان‪ ،‬مجھے مج نور پہ کرو کہ میں نہاں سے تھاگ جاؤں۔ مجھے میری زندگی جتنے‬
‫دو۔ اننی نانبدناں کسی ہونی شونی کے لنے رکھبا۔“ چنہ ئے اتگلی اتھائے اس کو وارن‬
‫کبا کہ رنان ہون نوں پہ مسکان لنے اتھا۔‬
‫”میری ہوئے والی تھی تم ہو‪ ،‬شاتھ شوئے والی تھی تم ہو‪ ،‬کبا آپ نبانا نسبد‬
‫کریں گی کہ آپ ئے کہاں جانا ہے؟“ رنان ئے اس کے فرنب آئے سنجبدگی سے‬
‫بوچھا۔‬
‫َ‬
‫”جشٹ شٹ اپ اور میری گاڑی کی جانی دو۔“ اس کی نہلی نات پہ وہ شلگ‬
‫اتھی تھی۔ دامیر جاموسی سے انبا کام سرانحام دے رہا تھا۔‬
‫”وہ بو نہیں ملنے والی کم از کم نب نک چب نمہاری شادی پہ ہو جائے مجھ‬
‫سے۔“ رنان اس کی آنکھوں میں دنکھبا ہوا سرگوسی میں بوال کہ چنہ ئے سر چھ یکا۔‬
‫چب تھی اس سے نات کرنی ہمٹشہ پرسی تگاہوں سے اس کو دنکھبا تھا۔‬
‫”اس جانی کو ناس رکھو اور اسی سے شادی کرو۔۔“ جبا کے انک انک لقظ کہنی‬
‫ہونی مڑی ہی تھی کہ رنان کا چملہ سبانی دنا۔‬
‫”میری جانی بو نمہی ہو۔ نمہیں دنکھنے ہی میں جالو ہو جانا ہوں۔“ رنان پڑپڑانا ہوا‬
‫وانس اننی جگہ پہ نتتھا اور ا ننے ناپرات نل میں ند لنے دامیر سے کونی نات کرئے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪261 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کی پڑپڑاہٹ کو ستنے چنہ ئے اس کو ناشف سے اس کو دنکھا۔‬


‫پہ واہبات نانیں کر کے ا ننے ناپرات نل میں کٹسے ندلبا تھا۔‬
‫”آں چنہ‪ ،‬نات سنو۔“ چنہ ناہر جائے کو تھی چب رنان ئے ئےشاچنہ اس کو‬
‫تکارا۔ چنہ تھتھک کے رک گنی۔‬
‫”پرانبڈل ڈرنسز آ نیں گے‪ ،‬تم اور علتبا مل کے دنکھ لتبا اننی نسبد کا کونی۔“‬
‫رنان ا نسے ہی اننی چئیر پہ گھومبا ہوا اس سے بوال‪ ،‬چنہ نبا خواب د ننے سبک نورنی روم سے‬
‫ناہر تکل گنی۔‬
‫”زندگی میں آگے مشانل کم تھے خو پہ تھی میری زندگی عذاب نبائے واال ہے۔“‬
‫وہ پڑپڑانی ہونی ل نونگ اپرنا میں آنی چہاں علتبا نہلے ہی کاؤچ پہ ناؤں سبدھے کنے‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫ھی ھی۔‬
‫”کبا ہوا۔۔۔؟“ علتبا ئے اس کے پرے موڈ کو دنکھنے ہوئے بوچھا۔ اس وفت‬
‫وہ گود میں پرے ر کھے فراپز کھا رہی تھی خو دامیر اس کے لنے نبا کے النا تھا۔‬
‫”کجھ نہیں۔۔“ انبا کہہ کے وہ اس سے قاصلے پہ ہی نتتھ گنی تھی۔‬
‫”تم کل رنان کے شاتھ ناہر گنی تھی کٹشا رہا ڈپر؟“ چنہ کی جاموسی لمنی ہونی‬
‫تھی بو علتبا ئے خود ہی اس کو محاظب کبا۔ ڈپر کا ستنے چنہ خونکی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪262 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہاں اچھا گبا‪ ،‬انکحولی بو بو واٹ۔۔ آؤ ہم پرانبڈل ڈرنسز سبلبکٹ کریں۔ رنان ئے‬
‫نبانا کہ انک سبانلشٹ آئے والی ہے۔۔“ چنہ ئے نل میں انبا موڈ ند لنے ہوئے کہا‬
‫جس پہ علتبا چیران ہونی۔‬
‫”کب ہے تم دوبوں کی شادی؟“ علتبا فراپز کی پرے شانبڈ پہ رکھنی ہونی بولی۔‬
‫”تم ان سے کجھ تھی بوفع لگا شکنی ہو‪ ،‬مجھے آج رات نتبد سے اتھا کے تھی کہہ‬
‫ن‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫َ‬
‫شکنے ہیں کہ میری شادی ہے۔۔۔ ان پرڈ ل!“ چنہ ئے ہنے اس کو چیرا گی یں‬
‫م‬ ‫ک‬ ‫ت‬
‫چھوڑا اور خود مونانل تکالے اس میں کجھ دنکھنے جکر کا ننے لگی۔‬
‫علتبا اس کو کتھی دانیں اور کتھی نانیں جانا دنکھ رہی تھی۔ وہ انک دم رکی چب‬
‫ن ن ن‬
‫علتبا کی تغافب کرنی تگاہوں ئے تھی پرنک لگانا۔ چنہ ئے اس کو د کھا‪ ،‬ا نی آ یں‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫شکیڑیں تھر آپرو اتھائے جٹسے شوال کبا ہو کہ “کبا دنکھ رہی ہو” علتبا اس کے انداز پہ‬
‫سنتبا اتھی اور تقی میں سر ہالئے لگی۔‬
‫چ‬
‫”چنہ انک نات بوچھوں۔“ علتبا ئے ناد آئے پہ ک کے تکارا۔ چنہ ئے‬
‫ھ‬ ‫ج‬‫ھ‬
‫اسبہقامنہ تگاہوں سے دنکھا۔‬
‫”دامیر اور رنان کبا کام کرئے ہیں؟“ اس ئے دامیر سے بوچھا تھا لبکن وہ‬
‫ن‬
‫نات کو گھما گبا تھا نتھی ناد آئے پہ چنہ سے بوچھ تتھی۔ وہ تھی بو شاتھ رہنی تھی بو‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪263 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کو مغلوم ہو گا کہ وہ دوبوں کبا کام کرئے تھے خو ا ننے خوتصورت پڑے منٹشن‬
‫میں ر ہنے تھے۔‬
‫”ن یکائے کا۔۔“ اس کے شوال پہ چنہ ئے الپرواہی سے خواب دنا کہ علتبا کے‬
‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫اعصاب الجھے۔ ما تھے پہ نا ھی کے ل واصح ہوئے۔‬
‫ُ‬
‫”مطلب۔۔۔؟“ وہ سمجھ نہیں نانی تھی جبکہ چنہ نبا ان دوبوں کی پرواہ کنے‬
‫آرام سے کہہ گنی تھی۔‬
‫ن‬
‫”مطلب تم ا ننے شوہر سے بوچھبا وہ ا کسبلین کرے گا۔“ چنہ ئے نبار تھری‬
‫تظروں سے اس کو دنکھا۔ علتبا کی الجھن کم پہ ہونی تھال پہ کٹشا خواب تھا۔‬
‫”تم رات میں تھبک شونی تھی۔ آنی اتم شوری میں آ نہیں شکی۔ آج رات‬
‫آجاؤں گی۔“ علتبا اس کے د ننے گنے خواب “ن یکائے” پہ شش و ننج میں متبال تھی‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫چب چنہ اس کے فرنب نی ہونی بولی۔‬
‫”نہیں اس کی ضرورت نہیں اب۔ دامیر ئے کہا کہ مجھے اب اس کے شاتھ‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫روم میں شفٹ ہو جانا جا ہنے۔“ علتبا اس کی طرف د نی ہونی بولی چب چنہ کے‬
‫چہرے پہ معنی چیز مشکراہٹ اتھری۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪264 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اوہ! مطلب رات وہ نمہارے شاتھ تھا‪ ،‬گڈ اچھی نات ہے۔“ وہ اس کو دنکھ‬
‫کے کہہ رہی تھی چب علتبا اس کی تظروں سے جاتف ہونی۔‬
‫”ا نسے نہیں دنکھو مجھے۔۔“‬
‫چنہ ہٹس دی۔ ”تم نہت ک نوٹ ہو۔“ چنہ ئے اس سے کہا چب اسبانلشٹ اندر‬
‫آنی ہونی دکھانی دی جس کے ننجھے گارڈز موخود تھے خو انک سنتبڈ کو تھامے آرہے تھے۔‬
‫”جلو ڈرنس ڈنشانبڈ کرئے ہیں۔“ علتبا کو ہاتھ د ننے ہوئے کھڑا کبا اور ڈرنسز‬
‫دنکھنے لگیں۔ علتبا جلدی رنکور کر رہی تھی‪ ،‬والک تھی اب کر لبا کرنی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭‬
‫اسے نہاں آئے کاقی دپر ہو گنی تھی لبکن دامیر نہیں آنا تھا۔ چنہ کے شاتھ‬
‫چب وہ ڈپر سے قارغ ہو کے ا ننے روم میں آنی بو اس کی مبڈنشن وہاں موخود نہیں‬
‫تھیں۔ بوچھنے پہ نبا جال کہ دامیر شب اس کے روم میں رکھوا حکا تھا۔‬
‫چب سے وہ نہاں آنی تھی ا ننے کمرے کے عالوہ نہلی نار وہ کسی اور کمرے‬
‫میں گنی تھی اور اب اس کو نہی رہبا تھا۔ اس گھر کے الن‪ ،‬ل نونگ اپرنا اور کنچن سے‬
‫ہی وافف تھی۔ دامیر کی طرح پہ کمرہ تھی ڈارک تھتم ہی تھا لبکن اس کے کمرے‬
‫سے کاقی کشادہ۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪265 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫خود وہ اس وفت لوز نی سرٹ اور پراؤزر میں مل نوس کمرے کا جاپزہ لتنے میں‬
‫مصروف تھی۔ اس ئے غور کبا کہ دامیر اور اس کی انک شاتھ کونی تھی تصوپر نہیں‬
‫تھی۔ چب اس کو ہوش آنا بو دامیر ئے نبانا تھا کہ وہ لوگ ہنی مون پہ تھے بو نب کی‬
‫تصاوپر بو موخود ہونگی۔ گھر میں تھی ان کی انک شاتھ کونی تھی تصوپر آوپزاں نہیں‬
‫تھی۔‬
‫”شاند وہ نکجر پرشن نا ہو۔“ علتبا ئے خود سے کہا۔ اس ئے شولڈر نبلٹ اتھی‬
‫انار رکھا تھا۔‬
‫اتھی انبا وفت نہیں ہوا تھا کہ وہ شو جانی۔ چنہ تھی ا ننے روم میں جا جکی تھی۔‬
‫آج ان دوبوں ئے مل کے کجھ کیڑے قانبل کنے تھے۔‬
‫چب چنہ کیڑے نہن کے جبک کر رہی تھی بو دنکھنے سے نہلے ہی اس میں سے‬
‫شو جامباں تکال د ننی‪ ،‬اسبانلشٹ کجھ بولبا جاہنی بو چنہ کی گھوری پہ وہ جاموش ہو جانی‬
‫تھی۔ انک دو دفع بو وہ انبا سرد انداز میں بولی کہ علتبا خود شانبڈ پہ کھڑی چیرانگی سے‬
‫اس کو دنکھنے لگنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪266 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫آ جا کے اس کو کجھ نسبد آہی گبا تھا جس کو اس ئے نالکل نبا نبار کرئے کو‬
‫کہا تھا۔ خو اس کو نسبد آنا تھا نالکل ونشا نبا نبانا جائے وہ پہ پرانبڈ ڈرنس نہیں نہتبا‬
‫جاہنی تھی۔ اس نات پہ علتبا ہٹس دی۔‬
‫صوفے پہ نتتھے چب وہ ئےزار ہوئے لگی بو ڈرنسبگ روم میں وارڈ روب کے‬
‫فرنب جلی آنی ناکہ اننی شانبڈ دنکھ شکے۔ اب چب نہاں رہبا تھا بو شاری سنتبگ تھی‬
‫کھ‬ ‫کھ‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫د نی ھی۔ اس سے لے وہ کیرڈ کا نٹ وا کرنی دروازہ لنے کی آواز آنی۔ آدھ ال‬
‫کیرڈ کا دروازہ ا نسے ہی چھوڑے وانس کمرے میں آنی کہ دامیر اسی طرف آئے رک‬
‫گبا۔‬
‫”نہاں کبا کر رہی تھی؟“‬
‫”کجھ نہیں نس ا نسے ہی اننی چیزیں دنکھنے آنی تھی۔“ علتبا ئے سرسری شا کہا۔‬
‫”اگر کمرے میں کونی نبدنلی کرنی ہے بو شوق سے کرشکنی ہو۔“ دامیر ئے اس‬
‫کا ہاتھ تھامے کمرے کی جانب اشارہ کرئے ہوئے کہا۔‬
‫علتبا ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”نہیں شب تھبک ہے کجھ تھی ند لنے کی ضرورت نہیں۔“ علتبا مشکرانی چب‬
‫دامیر ئے اس کی آنکھوں میں چھاتکا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪267 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے تھی نہیں۔۔!“ وہ بوچھ رہا تھا کہ علتبا الجھ کے ہٹس دی۔ پہ کٹشا شوال‬
‫تھا۔‬
‫”نہیں‪ ،‬نمہیں ک نوں ند لنے کی ضرورت ہے۔“ علتبا دھتمے لہچے میں بولی کہ دامیر‬
‫سر ہال گبا۔‬
‫”قاتم رہبا اننی نات پہ۔۔“ دامیر ئے زور دنا جس پہ علتبا کھلکھالنی۔‬
‫”میں شاور لے لوں‪ ،‬تم رنشٹ کرو۔ مجھے کام ہیں تھوڑے۔“ اس کے رجشار‬
‫پہ ہاتھ رکھنے ہوئے دامیر پرمی سے بوال۔‬
‫”تم کمرے میں نہیں رہو گے؟“ علتبا کو لگا کہ شاند اس کو اتھی نہاں اکبلے‬
‫ن‬
‫رہبا پڑے گا نتھی بوچھ ھی۔‬
‫ت‬ ‫ت‬

‫”ئےنی میں نہیں ہوتگا نمہارے ناس اسی روم میں‪ ،‬نمہارے فرنب۔ نس انک‬
‫چیز کا فرق ہو گا۔“ دامیر اس کے چہرے پہ اجانک چھانی پرنشانی کو تھا نتنے ہوئے‬
‫بوال۔‬
‫”کبا۔۔؟“ علتبا اس کی ادھوری نات پہ ئےشاچنہ بولی۔ دامیر معنی چیز‬
‫مشکراہٹ لنے اس کے فرنب ہوا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪268 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میری آغوش میں نمہارے نحائے لنپ ناپ ہو گا۔“ کان کے فرنب اس کی‬
‫سرگوسی ستنے علتبا چحل سی ہو گنی۔‬
‫َ‬
‫”شو گو انبڈ گنٹ سم شلنپ پرنسس۔“‬
‫”‪“So go and get some sleep‬‬
‫اس کا چہرہ تھامے رجشار پہ ہونٹ رکھنے بوال بو علتبا نبڈ کی جانب پڑھ گنی۔‬
‫دامیر ئے پرم تگاہوں سے اس کو دنکھا‪ ،‬کبا وہ اس سے مجنت کرئے لگے گی؟‬
‫اگر مجنت ہو تھی گنی بو کبا شب وانس ناد آئے پہ اسی طرح نارمل رہے گی زندگی؟ پہ‬
‫نات پرنشانی کی تھی۔‬
‫دامیر جاہبا تھا کہ اس کی ناداشت وانس آجائے لبکن اتھی نہیں۔ وہ فباد‪ ،‬جاکم‬
‫کے نارے میں جانبا جاہبا تھا اور شو ف یصد اس نات کا تفین تھا کہ علتبا جاننی تھی۔‬
‫وہ نہلے اس سے مغلومات لتبا جاہبا تھا نتھی کجھ ہو شکبا تھا ورپہ فباد نامی کیڑا اتھی‬
‫نک انک نل میں موخود تھا خو دوسروں کو انبا مہرہ نبا کے اننی نہحان چھبا رہا تھا۔‬
‫شاور لتنے کے تغد چب وہ کمرے میں آنا بو علتبا نبڈ کراؤن سے نبک لگائے نتم‬
‫دراز تھی اور ہاتھ میں مونانل تھا۔ دامیر کو دنکھنے اس ئے مونانل شانبڈ پہ رکھ دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪269 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫انبا لنپ ناپ اور انک دو ڈبوانس نکڑے دامیر اننی جگہ پہ آنا‪ ،‬ک یفرپر میں گھسنے‬
‫اس ئے انبا نازو وا کبا اور علتبا کو اشارہ کبا۔‬
‫”میں تھبک ہوں تم انبا کام آرام سے کر شکنے ہو۔“ علتبا ئے کیرائے کہا۔‬
‫دامیر کی تگاہیں ا ننے لنپ ناپ پہ تھیں خو آن ہو رہا تھا۔ چنہ کی نات کو ان سبا‬
‫کرئے اس ئے تھر سے ناس آئے کا اشارہ کبا۔ علتبا ئے گہرا شانس تھرا اور پراپر‬
‫آگنی۔‬
‫اس کے ا نسے نبا سرٹ نتتھنے سے علتبا چحل ہو رہی تھی۔ دامیر کے کہے کے‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫مطابق اس کو عادت ہیں ھی سرٹ رات کو ہتنے کی کن اِ س کو ھی عادت‬
‫ل‬
‫ف‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫نہیں تھی ا نسے کسی کو د نے کی بو ظری جبا الزم ھی۔‬
‫ت‬

‫دل کو الکھ نشلباں د ننی پڑنیں کہ وہ کاقی عرصے سے انک شاتھ رہے ہیں‪ ،‬ان‬
‫کے ر سنے میں تکلف نہیں تھا بو ان شب کی عادت ڈالنی پڑے گی۔ جا ہنے کے ناوخود‬
‫اس کو دامیر کے م یغلق کجھ تھی ناد نہیں آنا تھا۔ اس کے لمس سے کونی سباشانی‬
‫نہیں تھی لبکن اجتنی تھی نہیں لگبا تھا پہ ہی الجھن ہونی تھی۔‬
‫”کبا شوچ رہی ہو؟“ دامیر کے اجانک شوال پہ وہ خونکی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪270 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر نبک لگائے نانگیں سبدھے کنے ہوئے تھا جبکہ وہ اس کے پراپر فرنب‬
‫میں دراز تھی۔‬
‫ن‬
‫”کجھ نہیں۔“ علتبا ئے تقی میں سر ہالنا اور آ یں موند نی۔ اب وہ اس کو پہ‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫نہیں نبا شکنی تھی کہ نمہارے لمس کا شوچ رہی ہوں۔ اس ئے کروٹ لی تھی۔ دامیر‬
‫تغور اس کے چہرے کو دنکھنے لگا۔‬
‫اس کی جانب چھکا اور پرمی سے گردن پہ ہونٹ ر کھے کہ علتبا ئے ہڑپڑا کے‬
‫ن‬
‫آ کھیں کھولیں۔‬
‫”تم نہت معصوم ہو۔“ اس کے زچمی کبدھے پہ ہونٹ رکھنے وہ سبدھا ہوا۔‬
‫علتبا گ ھیرا گنی تھی کہ اس ئے انک دو گہرے شانس تھرے۔‬
‫”رنلبکس۔“ اس کی طرف مشکراہٹ اچھالبا انبا کام کرئے لگا۔ علتبا کو اس کی‬
‫اجانک کی گنی خرکت کی سمجھ پہ آنی۔ جائے آج وہ کٹسے شوئے والی تھی۔ اتھی نک‬
‫بو وہ اس کے مزاج کو تھی تھبک سے سمجھ نہیں نانی تھی۔ اس سے نات بو وہ‬
‫نہت پرمی سے کرنا تھا لبکن چب رنان اور وہ آنس میں نات کرئے نب جائے انشا‬
‫ک نوں لگبا تھا کہ ماخول میں انک وجشت سی طاری ہو گنی تھی‪ ،‬وہ دوبوں ازجد سنجبدہ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪271 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ہوئے تھے۔ رنان کی انک تگاہ الگ خوف میں متبال کرنی تھی۔ انہیں شوخوں میں وہ‬
‫نتبد میں جا جکی تھی پہ دعا کر کے کہ آج اس کو کونی تھی پرا خواب پہ آئے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫صنح اس کی آنکھ عج نب سی آوازوں سے کھلی جٹسے کونی نحث کر رہا ہو۔ نبڈ کی‬
‫دوسری شانبڈ جالی تھی‪ ،‬دامیر نہاں موخود نہیں تھا۔ کمرے کا دروازہ کھال تھا۔ اننی‬
‫ن م‬
‫آ کھیں کمل کھولے چت لتنی بو سمجھ آنا کہ رنان اور چنہ کی کسی نات پہ نحث ہو رہی‬
‫تھی۔‬
‫”کبا پہ دوبوں ا نسے ہی لڑئے ہیں؟“ پڑپڑا کے وہ اتھی اور فرنش ہوئے گنی۔‬
‫گ‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫س‬
‫نتبد سے اتھنے کی وجہ سے ہلکا شا جکر شا آنا تھا لبکن ل کے وہ ناتھ روم ک نی۔‬
‫فرنش ہو کے چب وہ کمرے سے ناہر آنی بو اب کی نحث ہ نوز جل رہی تھی۔‬
‫”میری مرضی میں خو مرضی نہ نوں۔“ رنان شکون سے صوفے پہ نتتھا تھا جس‬
‫کے شا منے چنہ کھڑی پرس رہی تھی۔‬
‫ان دوبوں سے الپرواہ نبا دامیر کنچن میں ناشنہ نبار کرئے میں مصروف تھا۔‬
‫”مجھے انبا مج نور پہ کرو کہ میں نمہارے شا منے پرفع نہن کے ت ِھروں اور شاری‬
‫زندگی اسی میں رہوں۔“ چنہ ئے اس کو درشگنی سے کہا کہ رنان ئے شاچنہ ہٹس دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪272 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ان کی نحث شاند شادی کے خوڑے کو لے کر ہو رہی تھی ک نونکہ اس وفت چنہ‬
‫معمول کے مطابق چئیز اور نی سرٹ میں تھی جبکہ نال ہانی بونی نبل میں نبدھے‬
‫تھے۔‬
‫ن‬
‫علتبا دامیر کو کنچن میں د نی اس کی طرف ہی آ نی۔ گرے ڈرنس سرٹ اور‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫نت نٹ نہنے نبار کھڑا تھا شاند کہیں جانا تھا۔ سرٹ کے کف کھولے فولڈ کنے ہوئے‬
‫تھے۔‬
‫”مارنبگ ئےنی!“ دامیر ئے آگے پڑ ھنے اس کو شاتھ لگائے گردن کو چھوا کہ‬
‫علتبا سنتبانی۔‬
‫”مارنبگ!“ وہ نامسکل بولی اور انبا دھبان ان دوبوں کی طرف کبا خو اب الگ‬
‫موصوع پہ نحث کر رہے تھے‪ ،‬رنان کے اس نار ناپرات سرد تھے جبکہ چنہ کے چہرے‬
‫پہ سرپر مشکراہٹ۔ وہ اس کو اب صد دال رہی تھی۔‬
‫”اگ نور کرو‪ ،‬وہ دوبوں ا نسے ہی ہیں۔“ دامیر ئے علتبا سے کہا۔ وہ ناشنہ نبا حکا‬
‫تھا۔‬
‫انبا اور علتبا کا ناشنہ نکڑے اس کو ڈانتبگ نتبل نک النا‪ ،‬نلنٹس وغیرہ نتبل پہ‬
‫رکھنے علتبا کے لنے کرسی ننجھے کی ناکہ وہ نتتھ شکے لبکن اس کا دھبان ان دوبوں کی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪273 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫طرف تھا خو اب انک دوسرے کے نالکل آ منے شا منے کھڑے ا نسے تھے کہ انک‬
‫دوسری کی جان لتنے کے در پہ تھے۔‬
‫”رات نتبد کٹسی آنی۔ شکون سے رہی تم؟“ دامیر ئے کا ننے سے انڈے کا‬
‫ن‬ ‫ُ‬
‫نٹس بوڑئے ہوئے کہا۔ علتبا ئے ان دوبوں سے ظریں ہبائے ہوئے دامیر کو د کھا۔‬
‫ت‬
‫ن‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ف ً‬
‫د عبا وہ خود ھی خو کی۔ دامیر ئے جا نی تگاہوں سے اس کو د کھا۔ نتبد!‬
‫وہ پرشکون تھی رات میں۔ اس ئے آج کونی پرا خواب نہیں دنکھا تھا۔ کونی پرا‬
‫جبال اس کو ئےشکون نہیں کر نانا تھا۔ چہرے پہ خودنحود مشکراہٹ در آنی۔‬
‫م‬
‫”میں شکون میں تھی۔“ اس کے چہرے کی خوسی دنکھنے دامیر ظمین ہوا۔‬
‫”اچھی نات ہے‪ ،‬اب جلدی سے ناشنہ جتم کرو۔ مجھے اور رنان کو کسی ضروری‬
‫کام سے جانا ہے چنہ گھر پہ ہی ہو گی اور اگر کونی انسو ہوا بو مجھے کال کر شکنی ہو۔“‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ع‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫م‬‫ک‬‫م‬
‫انبا ناشنہ وہ ل کر حکا تھا کن لتبا شاند اس کی نات پہ دھبان یں دے رہی‬
‫تھی وہ آج شکون سے شونی تھی اس کو شو جنے وہ بوخوش تھی۔‬
‫”ناشنہ مکمل کرو پرن َسس۔“ اس ئے م نوجہ کرنا جاہا جس پہ وہ مشکرا کے سر الہ‬
‫گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪274 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کبا کونی انسی نات ہے خو تم مجھ سے سئیر کرنا جاہنی ہو۔“ نا سنے کے دوران‬
‫دامیر ئے سرسری شا کہا۔ علتبا ئے جاموش تگاہوں سے اس کو دنکھا گونا وہ اس کے‬
‫شوال کو سمجھبا جاہ رہی ہو۔‬
‫دامیر اس کو انک ک یفرٹ زون میں النا جاہبا تھا چہاں وہ خود ا ننے دل کی نانیں‬
‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫م‬ ‫ت‬
‫اس سے کہہ نائے۔ کجھ سبکبڈز بو وہ دامیر کو د نی رہی ھر قی یں سر الئے ا ننے‬
‫نا سنے پہ م نوجہ ہونی۔‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫َ‬
‫”لو پرڈز لڑانی ہوگنی ہو بو زرا اطالع دے دیں تھر میں جانا ھی ہے۔“ دامیر‬
‫ئےرنان اور چنہ کی جانب سنجبدگی سے دنکھنے ہوئے کہا۔ اس کی آواز پہ وہ دوبوں‬
‫تھبکے۔‬
‫ل‬ ‫َ‬
‫ک‬
‫”زنان ستتھال کے۔“ دامیر کے لو پرڈز ہنے پہ چنہ پڑخ ہچے میں بولی کہ دامیر‬
‫نبا پرواہ کنے اندر گبا اور اننی نبلٹ اور اوپر کوٹ نہنے وانس آنا۔‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ع‬ ‫م‬‫ک‬‫م‬
‫ن‬
‫وہ ل ڈرنس اپ تھا‪ ،‬ا سی نباری لتبا ئے لی نار د ھی ھی۔ اس وفت‬
‫علتبا کو وہ انک جسین مرد لگا تھا خو ا ننے چہرے پہ سرد ناپرات سحائے ہوئے تھا۔‬
‫اس کی آنکھوں میں پرفبال ناپر‪ ،‬سجنی سے چیڑے کو تھتنچے ہوئے اننی ونشٹ نبلٹ‬
‫سنٹ کر رہا تھا۔ اس کے لب ا ننے آپ ہی مشکراہٹ میں د ھلے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪275 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شام نک آجاؤں گا‪ ،‬انبا جبال رکھبا۔“ اس کے سر کو ہولے سے چھوئے‬


‫ہوئے رنان کی جانب پڑھا خو خود تھی نہلے سے ہی نبار تھا۔‬
‫”ملٹسکا پہ ن نوبوں والے انداز تغد کے لنے رکھو ناکہ میں شوہر والے انداز سے‬
‫نمہیں نب چپ تھی کروا شکوں۔“ دامیر کو آنا دنکھ رنان چنہ کے چہرے پہ آنی لٹ‬
‫کو چھوئے ہوئے بوال جس پہ وہ ن یفر سے انبا سر چھبک گنی۔ وہ دوبوں جا جکے تھے‪ ،‬ان‬
‫کے شاتھ کونی گارڈ نہیں گبا تھا۔ جبکہ علتبا ئے بوٹ کبا الن والے اپرنا میں مزند‬
‫گارڈز موخود تھے۔ وہ سبک نورنی زنادہ کر گنے تھے۔‬
‫”چنہ ئے کہا تھا کہ پہ دوبوں ن یکائے کا کام کرئے بو کبا پہ دوبوں کسی فورس‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫میں ہیں۔“ اننی شک نورنی د نے لتبا نس ہی شوچ نانی ھی۔‬
‫ع‬ ‫ھ‬ ‫ک‬
‫جبکہ چنہ کا خون کھول رہا تھا۔ رنان اس سے شادی کے خوڑے پہ نحث کر رہا‬
‫تھا خو اس ئے کاکتبل اسبانل میں رکھوانی تھی۔‬
‫نہتبا بو دور وہ اتھی شوجبا تھی نہیں جاہنی تھی لبکن چب رنان کو اس ڈرنس‬
‫ڈپزاین کا مغلوم ہوا بو اغیراض کرئے لگا جس پہ وہ تھڑک اتھی۔‬
‫”کبا رنان کو نمہارا ڈرنس نسبد نہیں آنا۔۔؟“ علتبا دئے قدموں سے جلنی ہونی‬
‫ت‬‫ن‬
‫کنچن کاؤنیر کے فرنب ر کھے اسنول پہ نی ہونی بولی۔‬
‫ھ‬ ‫ت‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪276 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن چ‬
‫س‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫ھ‬
‫”نسبد‪ ،‬کجھ زنادہ ہی نسبد آگبا تھا خو مجھ سے ا نی ھوری فرما یں کر رہا تھا۔“‬
‫چنہ شلگنی ہونی بولی کہ علتبا ئے مشکراہٹ دنانی۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫”تم دوبوں ا چھے لگنے ہو انک شاتھ۔“ علتبا ئے مشکرائے ن یصرہ کبا‪ ،‬چنہ آ یں‬
‫ھ‬
‫گھما کے رہ گنی۔‬
‫چنہ انبا موڈ فرنش کرئے کو علتبا کو تھی الن کی طرف لے آنی اور تھوڑی والک‬
‫کرئے لگیں۔‬
‫”علتبا تم ئے نبانا تھا کہ تم وکٹسیز پہ شوپزرلتبڈ گنی تھی اور پہ تھی کہ کجھ لوگ‬
‫نمہارے ننجھے تھی تھے۔“ وہ دوبوں اب گھر کی انیرنٹس پہ موخود ز ننے پہ نتت ھیں تھی‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫چب چنہ ئے نات سروع کی۔ علتبا ئے انک تظر اس کو د نے سر انبات یں النا۔‬
‫”کون تھے وہ لوگ کبا تم جاننی ہو؟“ چنہ ئے سرسری شا بوچھا۔ دوبوں کی‬
‫تگاہیں شا منے تھیں۔ گارڈز ان کی موخودگی کا جبال کرئے الن کے دوسرے کبارے‬
‫جا جکے تھے۔ منٹشن کی ناؤنڈری زنادہ اونچی پہ تھی جس سے شا منے واال اپرنا تھی تظر آرہا‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ت نہ ن‬
‫ن‬
‫تھا چہاں انک کشادہ گارڈن تھا۔ دھوپ وہاں نک ا ھی یں چی ھی۔ پہ شوشا نی‬
‫کا پرشکون اپرنا تھا۔ دوبوں کے درمبان انک جاموسی کا طونل دوراننہ جال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪277 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں نہیں جاننی‪ ،‬ہم خوش تھیں وہاں۔ میری دوشت فروا تھی شاتھ میرے۔‬
‫دن ا چھے گزر رہے تھے تھر اجانک جٹسے کونی طوقان شا آگبا تھا۔ فروا نبا نہیں کہاں‬
‫جلی گنی۔“ علتبا ئے دھتمے لہچے میں کہبا سروع کبا۔‬
‫”کبا فروا کی کسی سے دسمنی تھی؟“ چنہ کے بوچھنے پہ علتبا ئے تقی میں سر‬
‫ہالنا۔‬
‫”انشا کجھ نہیں تھا۔ وہ نہت اچھی لڑکی تھی‪ ،‬ہماری دوسنی کو اتھی نہت کم‬
‫وفت ہوا تھا۔ انشا لگبا ہے کہ اتھی کل ہی کی نات ہو۔ پر دنکھو کتبا کجھ ندل گبا۔“‬
‫عمگین لہچے کے شاتھ اس ئے گھر کی طرف اشارہ کبا کہ زندگی کہاں لے آنی تھی۔‬
‫چنہ کے ناپرات ہ نوز تھے۔ جاموسی کا انک اور دوراننہ۔‬
‫”تم رنان کو کب سے جاننی ہو؟“ علتبا ئے ستتھلنے کہا۔‬
‫”کجھ ہی دپر ہونی ہے۔“ سنجبدگی سے خواب دنا گبا۔‬
‫”بو تم نہاں کب سے ہو؟ میرا مطلب فتملی وغیرہ میں اور کونی۔۔“ علتبا ئے‬
‫چ‬
‫ک کے بوچھا۔‬ ‫ھ‬ ‫ج‬‫ھ‬
‫ٹ‬‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫”چب سے اسے جا نی ہوں نب سے نہاں سی ہوں۔“ دوسرا چملہ وہ نس‬
‫پڑپڑا کے رہ گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪278 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫” میری فتملی میں مبکس ل نو کے عالوہ تم ہو۔“ چنہ کی نات پہ علتبا خونکی۔‬
‫آنکھوں میں ئےتفتنی در آنی وہ اس کی فتملی تھی اور پہ نات اس ئے نہلے ک نوں نہیں‬
‫نبانی۔‬
‫”اتکل ئے کتھی مجھ سے نمہارا زکر نہیں کبا‪ ،‬کبا تم میری نہن ہو؟“ علتبا‬
‫خوشگوار چیرت لنے بولی‪ ،‬پہ شوال کرئے اس کی دھڑکن انک دم رک کے جلی۔‬
‫آنکھوں میں چمک اتھر آنی۔ چنہ ہلکا شا مشکرانی اور اس کی جانب دنکھا۔‬
‫”تم نہن سے پڑھ کے ہو‪ ،‬میں سروع سے نمہارے نارے میں جاننی تھی۔‬
‫اتکل ئے نمہیں شوپزرلتبڈ کے پرپ کے تغد نبانا تھا میرے نارے میں نتھی نمہیں کجھ‬
‫ناد نہیں۔“ چنہ پرمی سے بولی۔‬
‫”کبا تم تھی میری طرح ہوسبلز میں رہی ہو؟“ علتبا کے لہچے میں اداسی سما‬
‫گنی۔ اکبلے ر ہنے کی اداسی۔ اس ئے انبا رخ چنہ کی جانب کبا کہ وہ خزنانی ہو رہی‬
‫تھی۔‬
‫چنہ ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”میں سروع سے ان کے شاتھ ہی رہی ہوں‪ ،‬لبکن چب تم آنی بو نمہیں وہ اچھی‬
‫زندگی د نبا جا ہنے تھے نتھی انہوں ئے انک گورنس رکھی تھی نمہارے لنے خو نمہارے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪279 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شاتھ ہی رہنی تھی۔“ چنہ اس کو مزند نبائے لگی خو وہ خود تھی جاننی تھی۔ اس کا‬
‫نچین کا کجھ حصہ ناکسبان میں اور کجھ گورنس کے شاتھ گزرا تھا اور تھر ہاسبل میں‬
‫رہبا۔‬
‫”لبکن تم مجھ سے ا ننے شال ک نوں چھنی رہی؟“ علتبا ئے زہن میں اتھرنا ہوا‬
‫ْ‬
‫شوال فورا زنان پہ النا۔‬
‫”پہ شب تم جاننی ہو لبکن ناداشت کے اِ س حصے کو کھو جکی ہو۔ چب نمہاری‬
‫ناداشت وانس آئے گی بو شب سمجھ جاؤ گی۔“ چنہ ئے اس کی طرف انک مشکراہٹ‬
‫اچھالی۔‬
‫”تم نہت خوتصورت ہو۔ کبا تم رنان سے مج نت کرنی ہو؟“ چنہ اس کی اجانک‬
‫کی گنی تعرتف پہ سنتبانی تھر شوال پہ الجھی۔‬
‫”رنان چب نمہیں دنکھبا ہے بو اس کی آنکھوں میں جاہت تظر آنی ہے۔“ علتبا‬
‫ئے مزند کہا کہ چنہ اس کو گھورئے لگی۔ تعنی وہ ان دوبوں کو کاقی بوٹ کرنی تھی۔‬
‫”دامیر تھی نمہیں والہاپہ تظروں سے دنکھبا ہے جٹسے شب کجھ اتھی تم پہ وار‬
‫دے گا۔“ چنہ ئے البا اس سے کہا جس پہ علتبا جاموش ہونی تھر سرما سی گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪280 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کبا وافعی انشا ہے؟“ علتبا ئے ہولے سے بوچھا جس پہ چنہ سر چھبکنے ہٹس‬
‫دی۔‬
‫”اس سے خود بوچھبا وہ نمہیں ا چھے طر تقے سے واصح کرے گا۔“ چنہ ئے اس‬
‫کے چہرے پہ جبا کے رنگ دنکھنے کہا۔‬
‫”کبا رنان ئے کتھی اظہارکبا؟“ علتبا ئے استباق سے بوچھا‪ ،‬چنہ گہرا شانس تھر‬
‫کے رہ گنی۔ علتبا کو نالبا آشان تھا لبکن شاند وہ انبا شوال دہرانا نہیں تھولنی تھی‬
‫جس کا خواب پہ مال ہو۔‬
‫”مجھے انبان نت نہیں نسبد۔“ اس کے خواب پہ علتبا ہونٹ تھنچے ا ننے آپرو‬
‫شکیڑے۔ پہ کٹشا عج نب خواب تھا۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”کبا مطلب۔۔!“ علتبا نا ھی سے بولی۔‬
‫”خو چیز مجھے وفت پہ نہیں ملنی تھر وہ چیز میرے لنے معنی نہیں رکھنی۔ میں‬
‫ئے خو زندگی گزاری ہے اس میں انبان نت‪ ،‬اظہار‪ ،‬مجنت انشا کجھ تھی نہیں تھا اسی‬
‫لنے مجھے پہ شب اب جا ہتنے تھی نہیں۔“ اس کا لہحہ سنجبدہ ہوا‪ ،‬چہرے پہ سجنی در‬
‫آنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪281 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شا منے گارڈن میں اب دھوپ کی چمک کاقی زنادہ تھی۔ علتبا اس کی نات کو‬
‫س‬ ‫گ‬ ‫ت‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ک‬ ‫م‬
‫ھنے کی کوشش یں ھی چب چنہ ھڑی ہو نی۔ اس وفت وہ انک نجبدگی کا‬
‫محشمہ لگ رہی تھی خو مشکرانا پہ جاننی ہو۔ لبکن اگلے ہی لمچے وہ ندل گنی۔ اس ئے‬
‫چہرے پہ مسکان سحانی۔‬
‫”جلو اندر جلنے ہیں۔“ انبا ہاتھ پڑھائے علتبا کو کھڑا کبا۔ وہ اس کی نات کے‬
‫شاک میں تھی۔‬
‫وہ انک عام لڑکی نہیں تھی خو مجنت کے نارے میں شوجنی۔ وہ اس کالی دنبا‬
‫میں نلی انک ڈبول کا روپ تھی جسے اس ئے چھبا کے رکھا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫دونہر میں چنہ ئے کجھ ہلکا تھلکا شا نبا لبا تھا اور اب وہ ڈپر کا نلین کر رہی‬
‫تھی۔ دامیر وانسی پہ شاند رنان اور ا ننے لنے خود کجھ نبانا لبکن علتبا کو دوانی د ننی تھی‬
‫نتھی چنہ خود نبار کرئے لگی۔‬
‫دودھ لتنے کے لنے گالس تھامے چب علتبا فرنج کا دروازہ کھولے کھڑی تھی‬
‫نتھی اننی گردن پہ لمس محسوس کرئے وہ ہڑپڑا اتھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪282 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر اس کے نالکل فرنب کھڑا تھا۔ اس کے آئے کا مغلوم ہی پہ ہو شکا۔‬


‫علتبا ئے ل نو نبگ اپرنا میں دنکھا چہاں پہ چنہ رنان کی آمد سے ئےزار نی وی آن کنے‬
‫ن‬
‫تتھی تھی۔‬
‫”کٹشا گزرا دن؟“ اس کے گرد حصار نبائے دامیر ئے بوچھا۔‬
‫” ہنے نتنی‪ ،‬نہلے کھانا نبار کر لو تھوک سے جان تکل رہی ہے تھر اننی شو نٹ‬
‫ڈش پہ دھبان د نبا۔“ رنان ئے انبا ونشٹ نبلٹ انارے صوفے پہ رکھا اور چنہ کے‬
‫فرنب نتتھا جس پہ وہ اس کو ناگوار تظروں سے دنکھنے لگی۔‬
‫”بو مر جاؤ‪ ،‬ڈشگستبگ۔“ چنہ پڑپڑانی اور ا ننے کام میں مسغول رہی۔ تھوک سے‬
‫مرئے والی نات پہ طغنہ تھا۔ اس کی پڑپڑاہٹ اننی بو تھی کہ رنان شن حکا تھا۔‬
‫ادھر رنان کی ئےناک نات پہ علتبا چ ھت نپ گنی اور دامیر سے قاصلے پہ ہونی۔‬
‫”میں کجھ نبار کر دوں تم لوگ تھکے ہو گے نب نک فرنش ہو جاؤ۔“ علتبا ئے‬
‫اننی جدمت نٹش کی جس پہ دامیر مشکرانا۔ کجھ علتبا کو پرا تھی لگا کہ رنان کٹسے اس‬
‫کو کھانا نبائے کا کہہ رہا تھا خود وہ صوفے پہ جا نتتھا تھا۔‬
‫”تم مجھے کمتنی دے شکنی ہو نس۔ نتتھ جاؤ نہاں۔“ دامیر مشکرانا ہوا اس کو کمر‬
‫سے تھامے سبلف پہ نتھا حکا تھا کہ علتبا ئے گردن گھمائے ننجھے دنکھا جن کا دھبان‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪283 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ان کی طرف نہیں تھا۔ دامیر ئے علتبا سے نہلے فون پہ راتطہ کبا تھا جس میں اس‬
‫ئے نبانا کہ وہ کھانا کھا جکی تھی۔‬
‫دامیر فرنش ہوئے کے تغد کنچن میں وانس آنا۔‬
‫علتبا اس کو کھانا نبانا دنکھ رہی تھی خو انبا کوٹ اور ونشٹ نبلٹ انارے ماہر‬
‫سیف کی طرح ہاتھ جال رہا تھا۔ گرے سرٹ کے کف کہت نوں نک فولڈ کر ر کھے تھے۔‬
‫علتبا کے دل ئے اغیراف کبا تھا کہ اتھی کھانا نبائے وہ مزند پرکسش اور جازب‬
‫لگ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ کی تھولی نسیں واصح تھیں‪ ،‬نانٹ سرٹ میں اس کے نازو‬
‫کے مشلز تظر آرہے تھے۔ ا ننے دوبوں ہاتھ سبلف پہ ر کھے آہشنہ سے ناؤں چھالنی‬
‫ہونی وہ دامیر کو پرشوق تگاہوں سے دنکھ رہی تھی خو انمہاک سے کھانا نبار کرئے میں‬
‫مصروف تھا۔‬
‫دامیر ئے انک تظر اس کو دنکھنے ا ننے اپرو احکائے۔‬
‫”تم نہت ہتبڈسم لگ رہے ہو اس وفت۔۔“ علتبا خود کو پہ کہنے سے روک پہ‬
‫نانی تھی‪ ،‬اننی نات کا اجشاس ہوئے ہی وہ تظریں خرا گنی۔ شاالد نبار کرئے دامیر ئے‬
‫لتموں کا رس نحوڑا اور نماپر کا انک نکرا اتھائے علتبا کے ہون نوں کے فرنب کبا‪ ،‬اس‬
‫ئے ہون نوں کو تھوڑا کھو لنے آدھا نکرانا کھانا کہ کھبا ین محسوس کرئے چھرچھری لی‪ ،‬اس‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪284 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کی خرکت پہ مشکرائے نحا ہوا نکرا خود کھا لبا۔ ا نسے ہی اس کو انک انک سیزی کا نکرا‬
‫کھالنا اور نحا ہوا خود کھا لتبا۔‬
‫کھانا نتنے پہ رنان خود اننی پرے نتبل نک لے گبا ک نونکہ جانبا تھا کہ دامیر اتھی‬
‫علتبا کے ناس ہی رہے گا‪ ،‬اور نہیں کھانا کھا لے گا۔‬
‫”تم ئے نبانا نہیں دن کٹشا گزرا؟“ کھانا کھائے دامیر ئے اس سے بوچھا۔ وہ‬
‫ن‬
‫اتھی تھی سبلف پہ تتھی تھی جبکہ دامیر اس سے قاصلے پہ۔‬
‫”اچھا گزرا‪ ،‬چنہ کے شاتھ وفت اچھا گزرا ہے۔ تم جا ننے تھے کہ وہ میری کزن‬
‫شسیر ہے۔“ علتبا نات کرئے پرخوسی سے بولی بو دامیر ئے دھیرے سے انبات میں‬
‫سر ہالنا۔‬
‫”لبکن تم ئے مجھے نبانا ک نوں نہیں؟“ وہ جاتف ہونی۔‬
‫”چنہ ئے خود نبانا بو نمہیں زنادہ خوسی ہونی اسی لنے۔“ دامیر کبدھے احکائے‬
‫بوال۔‬
‫”ہاں پہ تھی ہے لبکن۔۔۔ مجھے لگبا ہے کہ وہ شادی نہیں کرنا جاہنی۔“ علتبا‬
‫ئے گردن گھمائے چنہ کو دنکھا خو رنان کو تظرانداز کنے اتھی تھی نی وی دنکھنے میں‬
‫مصروف تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪285 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شادی اس کے لنے نہیر ہے۔ پہ ان دوبوں پہ چھوڑ دو۔“ دامیر ئے سنجبدگی‬


‫سے کہا۔‬
‫”کبدھے کا درد اب کٹشا ہے؟“ دامیر اس کے شولڈر نبلٹ پہ لگائے کی وجہ‬
‫سے بوچھ رہا تھا۔‬
‫”نہیر ہے‪ ،‬نازو موو کرنا ہے اب لبکن وزن نہیں پرداشت ہونا‪ ،‬اجانک اتھنے سے‬
‫ت ً‬
‫سر جکرانا ہے تھوڑا اور نبک نین رہنی ہے اکیر۔“ علتبا ئے قصبال نبانا بو دامیر سر ہال‬
‫گبا۔‬
‫”کل ڈاکیر کو کال کروں گا‪ ،‬انک نار جبک کر جائے گا وہ۔“‬
‫”کبا ہم نہیں جا شکنے؟“ علتبا اس کی نات جتم ہوئے ہی بولی جس پہ دامیر‬
‫اس کو دنکھنے لگا۔‬
‫”دنکھنے ہیں۔۔“ اس ئے پہ ہاں کی تھی اور پہ ہی نا‪ ،‬پہ درمباپہ خواب تھا جس‬
‫سے علتبا کو ناال جا شکبا تھا۔‬
‫”تھوڑا رنشٹ کرنا جاہبا ہوں۔“ کھائے سے قارغ ہوئے کے تغد اس ئے رنان‬
‫سے کہا جس ئے انبات میں سر ہالنا ک نونکہ دامیر کل شاری رات جاگبا رہا تھا اور اب‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪286 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شام ہوئے کو آنی تھی۔ اعصاب کو پرشکون کرئے کے لنے نتبد کی تھوڑی ضرورت‬
‫تھی۔‬
‫علتبا کو شاتھ لنے روم میں آنا چب علتبا ئے اس کی ونشٹ نبلٹ کو صوفے پہ‬
‫پڑا دنکھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف‪ ،‬ئےتفتنی نبک وفت سمانی۔‬
‫دامیر ئے اس کو انک جگہ سبل دنکھنے تظروں کے تغافب میں دنکھا تھر اننی‬
‫الپرواہی کو کوشا۔‬
‫”دامیر پہ گن۔“ اس ئے گن کی جانب اشارہ کبا۔ وہ ونشٹ نبلٹ میں موخود‬
‫تھی۔‬
‫” سیقنی کے لنے رکھی ہے۔ ڈرئے کی ضرورت نہیں۔“ دامیر ئے ہلکے تھلکے‬
‫لہچے میں کہنے صوفے سے نبلٹ اتھائے کیرڈ میں رکھا۔‬
‫”رنلبکس‪ ،‬پہ سبلف ڈ تقنٹس کے لنے ہے۔“ وہ اتھی تھی ئےتفتنی تگاہوں‬
‫سے دامیر کو دنکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے کو ہاتھوں کے نبالے میں تھامے وہ‬
‫پرمی سے بوال۔‬
‫س‬
‫”سبلف ڈ تقنٹس؟“ نا ھی سے بوچھا۔‬
‫ج‬‫م‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪287 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہمارا کام انشا ہے نا بو ہم شاتھ رکھنے ہیں‪ ،‬ضرف ضرورت پڑئے پہ جال‬
‫شکیں۔۔ نمہیں ڈرئے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے گارڈز کے ناس تھی موخود ہیں۔“‬
‫ً‬
‫دامیر ئے پرمی سے سمجھانا جاہا ناکہ وہ فورا ان کے نارے یں پہ جان جائے۔‬
‫م‬
‫”لبکن وہ بو گارڈز ہیں نا۔۔“‬
‫”بو سمجھ لو میں نمہارا اور خود کا گارڈ ہی ہوں خو ہم دوبوں کی حقاظت کرے گا‪،‬‬
‫اوکے اب شکون سے لنٹ جاؤ اور آرام کرو۔“ ا ننے کیڑے لنے وہ ناتھ روم جال گبا‪،‬‬
‫علتبا نبڈ پہ نتتھ گنی۔‬
‫کجھ دپر تغد وہ شاور لنے وانس آنا بو اس ئے نلبک ونشٹ نہنے رکھی تھی۔ دامیر‬
‫چ‬
‫اس کا کیرانا بوٹ کر حکا تھا نتھی نہن لی کہ وہ ک یفرنتبل رہے۔ ک حسوس پہ‬
‫م‬ ‫ھ‬ ‫ج‬‫ھ‬
‫کرے۔ علتبا ئے پہ بو بوٹ پہ کبا البا اس کے کسرنی نازو پہ ننے انک زچم کی جانب‬
‫دھبان جال گبا۔‬
‫”دامیر پہ کبا ہوا ہے؟“ پرنشانی سے وہ اتھ کھڑی ہونی۔ دامیر ئے نازو دنکھا‬
‫چہاں انک گہرا زچم نبا تھا خو اس کو آج انک لوہے کی چیز لگنے کی وجہ سے مال تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪288 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہم انک منتبگ پہ گنے تھے چہاں لوہے کا شامان پڑا تھا کاقی۔ شانٹ وزنبگ‬
‫تھی تھی نا شاتھ بو نس گزرئے کونی کبل لگ گبا اسی لنے نبا نہیں جال۔“ اس ئے‬
‫الپرواہی سے نات نبانی لبکن علتبا اس کے زچم کو پرنشانی سے دنکھ رہی تھی۔‬
‫”کہاں جا رہی ہو؟“ اس کو انک منٹ کا کہنی وہ ڈرنسبگ روم میں جائے لگی‬
‫چب دامیر ئے کہا۔‬
‫”نانی کی وجہ سے وہ زنادہ خراب پہ ہو جائے میں کجھ لگائے کو النی ہوں۔ ننی‬
‫کر د ننی ہوں میں۔“ چہرے پہ آئے نالوں کو ہبائے نبائے تھر سے جائے لگی۔‬
‫”میں النا ہوں و نٹ۔“ وہ جانبا تھا کہ اس کی مرہم ننی کنے تغیر شکون سے‬
‫نہیں نتتھے گی نتھی خود لتنے جال گبا۔‬
‫فرشٹ انڈ ناکس الئے اس کو تھمانا اور خود اس کے پراپر نبڈ پہ نتتھ گبا۔‬
‫”درد بو نہیں ہو رہا۔۔؟“ وہ نسونش زدہ لہچے سے بولی‪ ،‬تقی میں سر ہالئے وہ مزند‬
‫اس کے فرنب سرک کے نتتھا۔ علتبا اس کی خرکت پہ انک تظر اس کو دنکھنے رونی‬
‫سے اس کا زچم صاف کرئے لگی۔‬
‫”تم کبا کام کرئے ہو دامیر؟“ اس کے شوال پہ وہ ہٹس دنا۔ وہ وافعی ا ننے‬
‫شوال دہرانا نہیں تھولنی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪289 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں نمہارے لنے کام کرنا ہوں۔“ دامیر ئے اس کے چہرے پہ تظریں تکائے‬
‫کہا۔ علتبا ئے اسبہقامنہ تظروں سے اس کو دنکھا۔‬
‫”خو تم کہو میں وہ کرئے کو نبار ہوں۔“ وہ مجمور لہچے میں بوال۔ وہ اس کے ا ننے‬
‫فرنب نتتھا تھا کہ علتبا کو گ ھیراہٹ ہوئے لگی۔ شوال سنجبدہ تھا‪ ،‬خواب رومابوی۔‬
‫”میں ننی کر دوں!“ علتبا ئے اس کا دھبان تھ یکائے کو کہا۔ دامیر اس کی‬
‫کیرانی تگاہوں کو محسوس کرئے انبا ہاتھ اس کے چہرے نک النا۔‬
‫اس کی گہری بولنی تگاہوں کو تظرانداز کرئے کی نگ و دو میں فرشٹ انڈ ناکس‬
‫سے ننی تکالے ناند ھنے لگی۔‬
‫”لو ہو گنی ننی۔۔“ علتبا انبا کام جتم کرئے اس کے ناس سے اتھنے لگی چب‬
‫دامیر ئے اس کی کالنی تھامی۔‬
‫”تم ئے انبا ڈرنس قانبل کر لبا؟“ اس کا ہاتھ تھامے پرمی سے انگو تھے سے‬
‫سہالئے ہوئے بوچھا۔ علتبا ئے انبات میں سر ہالنا۔ وہ اس کے ناس سے اتھبا‬
‫جاہنی تھی۔‬
‫”کبا تم مجھے کجھ نبانا جاہنی ہو؟“ دامیر ئے صنح واال شوال دہرانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪290 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہیں انشا کجھ نہیں ہے۔“ علتبا کے کہنے پہ دامیر ئے اس کو جانجنی تگاہوں‬
‫سے دنکھا۔ علتبا کو اس نل انشا محسوس ہوا جٹسے وہ اس کے اندر نک چھانک رہا تھا۔‬
‫”تم جتنج کر لو۔ مجھے آج تھی زرا کام کرنا ہے۔“ اس کا نات چھوڑئے وہ‬
‫سنجبدگی سے بوال بو علتبا شکھ کا شانس تھرئے اس کے ناس سے اتھی اور جتنج کرئے‬
‫جلی گنی۔‬
‫دامیر اور رنان آج ماشکو گنے تھے چہاں شاشا ئے ان کو نالنا تھا۔‬
‫شاشا کو ان پہ شک نہیں تھا لبکن وہ ان دوبوں کی مدد جاہبا تھا ناکہ وہ اس‬
‫سحص کو ڈھونڈ شکے جس ئے اس کے ف یصے سے لڑک نوں کو نازناب کروانا تھا لبکن وہ‬
‫دوبوں صاف اتکار کر آئے تھے کہ وہ اس کے مغا ملے میں نہیں پڑنا جا ہنے خونکہ وہ‬
‫لوگ کرائے کے قا نل (اشاشن) تھے بو ا نسے کسی کے انڈر کام نہیں کر شکنے تھے پہ‬
‫ہی انہوں ئے شاشا سے کونی واشطہ رکھبا تھا۔‬
‫وہ دوبوں پہ نبائے سے تھی رہے تھے کہ انہی کی نبدی ئے پہ کام کبا تھا۔‬
‫جبکہ وہاں شاشا کی انک نات پہ دامیر کا دماغ انک گبا تھا۔ اس کے مطابق پہ کام‬
‫ڈنگر ‪ Dagger‬کا تھا ک نونکہ مرے ہوئے لوگوں پہ جافو سے وار کبا گبا تھا خو ڈنگر‬
‫کی ہی جاضنت تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪291 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ڈنگر! ‪Dagger‬‬
‫چہاں نک دامیر جانبا تھا‪ ،‬ڈنگر کی سحضنت انلی میں مشہور تھی بو وہ نہاں کٹسے۔‬
‫شاند اس نارے میں رنان جانبا ہو۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫م‬
‫چنہ انبا لنپ ناپ لنے کجھ کام کمل کر رہی تھی جبکہ علتبا اس سے تھوڑے‬
‫قاصلے پہ کسرت کرئے میں مصروف تھی خو چنہ ئے کجھ نبانی تھیں۔ دامیر اور رنان‬
‫صنح کے گنے تھے کسی کام اور اتھی نک وانس نہیں لوئے تھے۔ علتبا کو نیزی سے‬
‫اتھنے نتتھنے میں تکل یف ہونی تھی‪ ،‬کمر کی خوٹ کی وجہ سے وہ تھرنی نہیں دکھا نانی تھی‬
‫اور اسی لنے چنہ اس کو تھوڑی کسرت کروا دنا کرنی تھی۔ دوبوں آرامدہ پراؤزر سرٹ‬
‫میں مل نوس تھیں۔‬
‫الن میں موخود چئیر پہ نتتھے چنہ ئے ا ننے ناؤں شا منے میز پہ ر کھے تھے۔ چب‬
‫اس کے مونانل پہ کال آئے لگی۔ مین گنٹ کا گارڈ اس کو کال کر رہا تھا۔‬
‫”ڈرنبا مس آنی ہیں۔“ گارڈ ئے اتقارم کبا کہ ئےشاچنہ ہی چنہ کی تظر علتبا کی‬
‫طرف اتھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪292 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اندر نہیں آئے د نبا۔“ چنہ ئے انبا کہنے کال کاٹ دی۔ دامیر کی غیر موخودگی‬
‫میں وہ پہ رشک نہیں لے شکنی تھی۔ ڈرنبا علتبا کی ناداشت میں کہیں تھی نہیں‬
‫تھی۔ دامیر کی اجازت کے تغیر علتبا کسی اور سے نہیں مل شکنی تھی۔ دامیر پہ تھی‬
‫کہبا بو چنہ اکبڈمی کے کسی تھی سنوڈ ن نٹ پہ تھروسہ نہیں کرنی تھی اور پہ ہی کسی کو‬
‫علتبا سے ملنے دے شکنی تھی۔‬
‫چنہ‪” :‬ڈرنبا نہاں شوشاننی میں موخود ہے۔“ اس ئے پروفت دامیر کو مٹسج تھنج دنا‬
‫ناکہ اس کے علم میں ہو۔‬
‫دامیر‪”:‬دوبوں اسی وفت اندر جاؤ۔“‬
‫دامیر کے رنالنی آنا بو چنہ نبا کسی نحث کے علتبا کی طرف پڑھی اور اس کو اندر‬
‫لے آنی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫”نمہاری نات بو آشانی سے مان گنی ہے‪ ،‬میری دفع کون شا دورہ پڑنا ہے۔“‬
‫ً جک ن‬
‫شا منے شکرین کو دنکھنے رنان جلے دل سے پڑپڑانا چب چنہ کو فورا م کی ل کرئے‬
‫ب‬ ‫م‬ ‫ک‬

‫دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪293 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ک نونکہ پہ کام کی نات تھی کونی فصول نکواس نہیں۔“ دامیر ئے نمسجر اڑائے‬
‫ہوئے کہا رنان ئے ا ننے ناپرات ندلے۔‬
‫”جاکم نامی نبدے ئے اس کو ہانیر کبا تھا ا ننے لنے۔ چھتباں بو مبائے نہیں‬
‫آنی ہونی پہ‪ ،‬ضرور اس کا مالک تھی نہیں ہو گا۔“ رنان ئے مین گنٹ کے کتمرہ فوننج‬
‫کو آن کرئے کہا چہاں وہ گارڈ سے نحث کرئے میں مصروف تھی۔ اس کو اندر جانا‬
‫تھا لبکن ان کی اجازت کے تغیر نہیں جا شکنی تھی جاہے وہ علتبا کی دوشت ہی‬
‫ک نوں پہ ہو۔‬
‫”سر آپ کو کجھ جا ہنے؟“ وہ دوبوں کارگو نت نٹ سرٹ میں مل نوس انک آقس‬
‫میں موخود تھے چب انک آدمی مؤدب شا ان کے شا منے آنا‪ ،‬رنان ئے ہاتھ کی اشارے‬
‫سے جائے کا کہا۔‬
‫وہ دوبوں شکرین پہ تظریں چمائے ہوئے تھے چب مزند اشلحہ لٹس دو گارڈ اندر‬
‫داجل ہوئے‪ ،‬ان کے ننجھے ہی نلبک شوند بوند مافبا ہبڈ تھی داجل ہوا۔ شاشا۔۔ پرابوا‬
‫ہبڈ۔‬
‫دامیر ئے انبا لنپ ناپ شا منے نتبل پہ رکھا لبکن کھڑے ہوئے کی زچمت دوبوں‬
‫ئے نہیں کی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪294 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ ہبڈ تھا بو پہ اشاشن تھے‪ ،‬ڈبول۔ خو شا منے موخود ہسنی کو مارئے سے نہلے اس‬
‫کا رننہ نہیں دنکھنے تھے نس انبا کام کرئے تھے۔‬
‫دامیر ئے ا ننے ہاتھوں کی اتگلباں ناہم ن نوشت کیں۔ رنان ئے چئیر سے نبک‬
‫لگائے انک ہاتھ ا ننے گال کے ننچے رکھا۔ اس ہقنے میں پہ شاشا کے شاتھ دوسری‬
‫مالقات تھی اور رنان ڈی کے لنے سحت کوفت تھرا وفت تھی۔‬
‫”ان یطار کی عادت نہیں ہمیں‪ ،‬ناتم از منی)‪ ،(Money‬ان یطار کی فتمت‬
‫وصول کریں گے۔“ دامیر ئے سباٹ ناپر لنے کہا۔ شاشا ہٹس دنا۔‬
‫”مجھے تم دوبوں کا انتنت نوڈ نہت نسبد ہے‪ ،‬وفت پرناد ہوا ہے بو اس کا ہرجاپہ‬
‫ضرور بورا ہو گا۔“ شاشا ئے مشکرائے ہوئے کہا۔‬
‫”میں تم دوبوں کا انک کانیرنکٹ د نبا جاہبا ہوں۔“ شاشا ئے نمہبد سے پرہیز کبا‬
‫اور سبدھا مدعے کی نات کی اور ا ننے آدمی کو اشارہ کبا جس پہ اس ئے انک پرتف‬
‫کٹس اتھائے ان کے شا منے میز پہ رکھا۔ نٹسوں سے تھرا پرتف کٹس۔‬
‫”ڈنگر کو مارئے کا کانیرنکٹ۔“ شاشا کے کہنے پہ رنان ئے انک اپرو احکانا۔‬
‫”ڈنگر! جا ننے تھی ہو اسے۔“ رنان اننی گرے آنکھوں میں سرد وجشت لنے بوال‬
‫جبکہ ہون نوں پہ معنی چیز مشکراہٹ تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪295 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”وہ انک چھبا ہوا مہرا ہے جسے ڈھونڈنا تم دوبوں کے لنے مسکل نہیں اور پہ کام‬
‫تم دوبوں سے نہیر کونی کرے گا نہیں۔“ شاشا ہلکا شا ہٹس کے بوال۔‬
‫”تھبک کہا پہ کام ہم سے نہیر کونی نہیں کرے گا لبکن ہم نمہارے کہنے پہ‬
‫ہی ک نوں کریں؟“ رنان آگے کو ہوا۔ دامیر کے ہون نوں پہ نٹشم نکھرا تعنی اس کا شک‬
‫تھبک تھا۔ رنان جانبا ہے کہ ڈنگر کون ہے۔‬
‫”ک نونکہ میں نمہیں اس کی فتمت دے رہا ہوں۔“ شاشا کا انداز سنجبدہ ہوا۔‬
‫”میری مانگی فتمت تم سے ادا نہیں ہو نائے گی۔“ رنان ئے پرشکون لہچے میں‬
‫کہنے نانگ پہ نانگ خڑھانی۔ انداز معروراپہ تھا۔ اس کے خوئے کا رخ شاشا کی طرف‬
‫تھا۔ شاشا اننی کی گنی بوہین پہ جاموش رہا۔‬
‫”زنادہ سے زنادہ کتنی‪ ،‬مبلئیز ڈالر‪ ،‬نا نبلئیز۔۔“ شاشا اننی جگہ سے کھڑا ہو گبا۔‬
‫دامیر ئے انک تظر رنان کو دنکھا خو اس کی نبانی فتمت پہ سر چھبکبا اتھ کھڑا ہوا۔‬
‫”کہا نا تم سے ادا نہیں ہو نائے گی۔“ رنان جلبا ہوا اس کے فرنب آنا۔ اس کی‬
‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫نک م ن‬
‫آ ھوں یں آ یں ڈالے ھڑا رہا۔ شاشا ئے انبا رخ موڑا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪296 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم نال چھحک اننی فتمت نبا شکنے ہو۔“ اس ئے جت نوں میں ہاتھ ڈالے۔ اس‬
‫کی گردن پہ نت نو واصح تھے۔ سر پہ نالکل چھوئے نال اور کابوں میں نالی۔ وہ انک مجرم‬
‫کا جاکہ نٹش کرنا تھا۔‬
‫”میری فتمت! نمہاری جان ہے۔“ رنان ئے اس کے کان کے فرنب ہوئے‬
‫حظرناک لہچے میں سرگوسی کی کہ شاشا ئے عصے سرخ ہونی آنکھوں سم نت اس کو‬
‫دنکھا۔‬
‫”جس دن پہ فتمت ادا کرئے کو نبار ہو جاؤ بو نبانا ڈنگر کی طرف سے خوش چیری‬
‫دوں گا۔“ انک آنکھ دنائے ہوئے رنان ئے کہا جبکہ دامیر سبانسی انداز میں کھڑا ہوا۔‬
‫”رنان ڈی دا سبانیر! تم شاند تھول رہے ہو کہ تم کس کے شا منے کھڑے‬
‫ہو۔“ اس کی نات پہ شاشا کے چہرے پہ عصے کی اللی آنی بو رنان کو اس کے نام‬
‫سے تکارئے ہوئے کہا۔‬
‫انبا نام ستنے رنان کی آنکھوں میں وجشت اپر آنی۔ اس ئے سجنی سے انبا چیڑا‬
‫نک م ن‬
‫تھتنحا۔ اس کے مقانل ک ھڑے اس کی آ ھوں یں آ یں گاڑھے اس ئے ماخول‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫میں دہشت تھبالنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪297 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫” ننے ہو اس دنبا میں‪ ،‬جس دن پراپری پہ آؤ نب میرا نام تکارنا وہ تھی نبا ڈرے‪،‬‬
‫پہ ہاتھوں کا کانتبا مجھ سے چ ھپ نہیں شکبا۔“ نبا نلک چھبکے رنان ئے مدھم آواز میں‬
‫کہا کہ ضرف شاشا ہی شن شکبا تھا۔ اگر اس کا کونی آدمی شن لتبا بو اس کی عزت کی‬
‫دھجبا اڑنی تھی۔ وہ پرابوا کا ہبڈ تھا اور اس کے شا منے کھڑا کونی اس کو دھمکی دے رہا‬
‫تھا۔‬
‫دھمکی د ننے واال کونی اور نہیں سبانیر خود تھا۔ شاشا اس سے دو قدم ننجھے ہوا اور‬
‫تظریں ت ھیرئے آس ناس دنکھنے لگا۔‬
‫”تم لوگ خود اس کانیرنکٹ سے اتکار کر رہے ہو جبکہ میں اس کی تھاری فتمت‬
‫دے رہا تھا۔“ اس ئے ا ننے آدم نوں کو نٹسوں سے تھرا نبگ وانس لے جائے کا‬
‫اشارہ کبا اور خود وہ ہبڈ چئیر پہ نتتھ گبا۔‬
‫”ہمارے لنے ہمارا وفت فتمنی ہے خو تم ئے پرناد کبا۔“ دامیر رنان کے پراپر‬
‫کھڑا ہونا بوال۔‬
‫”مت تھولو تم دوبوں میرے عالفے میں ر ہنے ہو۔ اگر میں اس وفت جاہوں بو‬
‫تم دوبوں کا نام و نشان مٹ جائے اس صفحۂ ہسنی سے۔“ دامیر کی نات پہ شاشا انبا‬
‫عصہ دنانا ہوا بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪298 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہی القاظ ہماری طرف سے لے لو۔“ دامیر سرد لہچے میں بوال۔‬
‫”اور ہاں انبا پہ نتھا دماغ کسی کھبلنے کودئے والی چیزوں میں لگاؤ‪ ،‬پہ ڈنگر اور‬
‫سبانیر سے نبگے لتبا اتھی نمہاری عمر کے لنے تھبک نہیں ہے۔“ اس کا کبدھا تھبکنے‬
‫ہوئے رنان ئے سرد نتھر نلے لہچے میں کہا اور نبا کسی کی پرواہ کنے وہ دوبوں وہاں سے‬
‫تکل پڑے۔‬
‫ماشکو کی اس پڑی خوتصورت نلڈنگ سے تکلنے وہ لوگ اننی گاڑی میں نتتھے۔ رنان‬
‫ئے سنئیرنگ ستتھاال چب دامیر ئے اننی گود میں لنپ ناپ ر کھے اس کو آن کبا۔‬
‫گھر کے آس ناس کی سبک نورنی کو جبک کرئے لگا‪ ،‬ڈرنبا وانس جا جکی تھی اور‬
‫اتھی کے لنے اچھا تھا ک نونکہ پروفت ڈرنبا کا علتبا سے ملبا اچھا نانت نہیں ہو شکبا تھا۔‬
‫اس سے نہلے چب وہ کسی دوسرے سہر نا ملک کے لنے تکلنے بو گھر کی‬
‫سبک نورنی اننی جبک نہیں کرئے تھے اور پہ ہی ضرورت پڑنی تھی لبکن اس نار ان کے‬
‫ننجھے دو غورنیں تھیں خو ان کی زمہدارناں تھیں نتھی ان کی قکر میں وہ نار نار کتمرے‬
‫جبک کر رہا تھا۔‬
‫”اس سے اچھا میں اننی ن نوی کے شاتھ وفت گزار لتبا۔“ دامیر تظریں شا منے‬
‫شکرین پہ تکانا ہوا بوال چہاں گھر کے الؤنج اپرنا کی فوننج دکھانی جا رہی تھی۔ علتبا اننی گود‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪299 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫میں انک ناپ کارن کا ناؤل ر کھے شاند کونی مووی دنکھنے میں مصروف تھی جبکہ چنہ‬
‫اس کے آس ناس نہیں تھی۔‬
‫”ن نوی‪ ،‬آں ہاں! اب بو ر ہنے تھی انک ہی کمرے میں ہو۔“ رنان ئے اس کو‬
‫چ ھیڑا جس پہ وہ گھورئے لگا۔‬
‫”میں ئے نہلے نمہارا پہ انداز نہیں دنکھا تھا‪ ،‬میرے لنے نمہارا انک کئیرنگ انداز‬
‫تھا ہی لبکن علتبا کے لنے کجھ الگ ہے ناس۔۔“ رنان ئے صاف گونی سے انبا‬
‫مشاہدہ نٹش کبا کہ دامیر کبدھے احکا گبا۔‬
‫”ہو شکبا ہے‪ ،‬میں بوری کوشش کرنا ہوں کہ اس کو تفین آجائے میں اس‬
‫سے مجنت کرنا ہوں‪ ،‬لبکن شاند میرے چہرے کے ناپرات میرا شاتھ نہیں د ننے۔“‬
‫گ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫دامیر ہلکا شا ہٹس کے بوال۔ جبکہ رنان اس کی نات پہ آ یں ھما کے رہ گبا وہ اس‬
‫ھ‬
‫سے علتبا سے نبار کے م یغلق نات کر رہا تھا اور وہ جباب اننی انکتبگ کا زکر رہے‬
‫تھے۔‬
‫”تم انشا نتنے کی کوشش ک نوں کرئے ہو چب تم اصل میں اس سے نبار‬
‫کرئے لگے ہو۔ انبا اصل دکھاؤ اس کو۔“ رنان ئے اس کو سنجبدگی سے کہا کہ دامیر‬
‫ل‬‫ن‬
‫چ‬
‫ئے چی سے سر ھ یکا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪300 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کہا بو ہے کہ کوشش کرنا ہوں۔“ دامیر کہہ کے ناہردنکھنے لگا۔‬


‫”کتھی کتھی بو نمہاری خراب انکتبگ پہ اس کو وافعی تفین ہی نہیں آنا کہ تم‬
‫َ‬
‫اس سے نبار کرئے رہے ہو نا اس کے ِلونگ ہزنتبڈ تھے‪ ،‬علتبا کا چہرہ شب نبا د نبا‬
‫ہے۔“ رنان کے ناس جٹسے اس سے ضروری موصوع موخود پہ تھا۔ دامیر ئے گردن‬
‫گھمائے اس کو دنکھا اور ہلکا شا ہٹس دنا۔‬
‫”نبار کا نجرپہ تھی نہلی نار ہوا ہے اور ا نسے ن نوی کا تھی نتھی ان شب خونحلوں‬
‫کے نارے میں مغلوم نہیں۔۔“ دامیر ئے انک تظر ت ھر شکرین کو دنکھا۔‬
‫”نمہیں میں شکھاؤں گا۔۔“ رنان ئے فجرپہ کالر چھ یکائے کہ دامیر ئے ئےزار‬
‫تظروں سے اس کو دنکھا جٹسے اس کا بو کام ہی نہی رہا تھا نبار مجنت کرنا۔ خود اس کی‬
‫مبگئیر منہ تھی نہیں لگانی تھی۔‬
‫”چنہ کہاں ہے؟“ علتبا کو اکبال دنکھنے رنان ئے سرسری شا کہا۔‬
‫”وہ آرمری میں ہے‪ ،‬شونبگ پرنکٹس کر رہی ہے۔“ دامیر ئے آرمری کتمرہ کی‬
‫فوننج آن کرئے کہا۔‬
‫”تم ئے مجھے ڈنگر کا ک نوں نہیں نبانا؟“ چنہ کا زکر چھڑا بو دامیر کو ناد آنا۔۔ رنان‬
‫کے ل نوں پہ مشکراہٹ رنبگ گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪301 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے لگا نمہیں نہلے سے شب مغلوم ہو گا۔“ اس ئے خڑانا۔ چب رنان ئے‬


‫نہلی نار چنہ کا زکر کبا تھا نب دامیر کا خواب تھا کہ وہ جانبا ہے نہلے سے ہی اور اب‬
‫تھی رنان کا نہی خوالہ تھا۔‬
‫”مجھے کونی خواب آنا تھا۔۔۔“ دامیر جلے لہچے میں بوال۔‬
‫”ہو تھی شکبا ہے۔۔“ رنان ئے مزند چ ھیڑا۔‬
‫”چنہ کو کجھ عرصہ گھر میں رہبا تھبک ہی ہے‪ ،‬وہ خزنانی ہے کجھ تھی کر شکنی‬
‫ہے‪ ،‬شاشا ئے ضرور ا ننے آدم نوں کو کہہ کے ہم پہ تظر رکھوانی ہو گی۔“ دامیر ئے‬
‫لنپ ناپ کی کیز پہ اتگلباں جالئے ہوئے کہا۔‬
‫”اس کی قکر نہیں کرو تم‪ ،‬شادی ہوئے والی ہے تھر دنکھبا کٹسے عانب ہونی‬
‫شاشا کے لنے ہی نہیں نلکہ ہمارے لنے تھی۔“ رنان کہنے ہوئے ہٹس دنا۔ وہ جانبا‬
‫تھا کہ شادی ہوئے کے تغد اس کا عصہ شابویں آسمان پہ ہو گا خو وہ ان پہ نہیں‬
‫انار نائے گی۔‬
‫”تم اسے نبار سے تھی ہتبڈل کر شکنے ہو۔“ دامیر ئے انک تظر اس کو دنکھا۔‬
‫”مجھ سے زنادہ پرشکون تم ر ہنے ہو چب تم سے نبار نہیں کبا جا رہا بو مجھ سے‬
‫جاک ہو گا۔“ رنان اس پہ تھڑکا جس پہ دامیر کا قہقہہ ئےشاچنہ تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪302 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نبا نہیں کس کی نددعا لگ گنی خو ہم اس را سنے پہ آ گنے۔ اچھی جاضی زندگی‬


‫تھی غوربوں کے تغیر۔“ دامیر مضنوعی ئےجارگی سے بوال اور سنٹ سے نشت تکائے‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫آ یں موند گبا کہ اس رگ جاں کا چہرہ لہرانا۔‬
‫اس کے خوالے سے نس انک پرنشانی تھی کہ چب اس کی ناداشت وانس آئے‬
‫گی بو کبا وہ اس کے ناس رہے گی؟ نا اس کو تفرت سے دھ یکارے چھوڑ کے جلی‬
‫جائے گی؟‬
‫دو دن تغد رنان کی شادی تھی اور مبکس ل نو تھی موخود ہو نگے اس شادی میں۔‬
‫”اتھی کہیں جانا ہے؟“ رنان ئے سنجبدگی سے بوچھا۔‬
‫”نہیں ہونل جلنے ہیں نس۔“ دامیر ئے تھکن سے کہا۔ انک دن نہاں اور ر کنے‬
‫م‬ ‫م‬
‫انہیں اننی ستمنٹ کا کونی کام ل کرنا تھا ھر سبدھا وہ شادی یں ہی سرکت‬
‫م‬ ‫ت‬ ‫ک‬
‫کرئے۔‬
‫ہ‬‫ن‬
‫ہونل نجنے ا ہوں ئے شب سے لے ا ننے روم کی نورنی کو ج ک کبا۔ ما کو‬
‫ش‬ ‫ب‬ ‫ک‬‫ب‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫میں موخود ا ننے گھر جائے کے نحائے وہ لوگ نہیں آ گنے ک نونکہ اتھی وہ دوبوں انبا‬
‫جلنہ عام انشان کی طرح نبائے ہوئے تھے جبہیں نہاں کجھ لوگ جا ننے تھے‪ ،‬نتھی وہ‬
‫گارڈز کو تھی ا ننے شاتھ نہیں الئے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪303 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ڈرنبا اس وفت نہاں تھر موخود ہے۔ وہ ک نوں آرہی ہے۔“ رنان دوسرے سہر‬
‫میں موخود ا ننے منٹشن کی فوننج جبک کر رہا نب اس کو مین گنٹ پہ تھر ڈرنبا دکھانی‬
‫دی۔‬
‫”علتبا سے ملنے آنی ہو گی لبکن پہ نات تھی وہ ا چھے سے جاننی ہو گی کہ اتھی‬
‫ہم دوبوں موخود نہیں ہیں وہاں۔“ دامیر ئے شکرین کو زوم اِ ن کرئے کہا۔ وہ آس‬
‫ناس تظریں دوڑا رہی تھی جبکہ گارڈ اس کو نہاں سے جائے کا کہہ رہا تھا۔‬
‫”چنہ کو کال کرکے کہو کہ کسی تھی صورت وہ علتبا کو ناہر پہ الئے اور خود‬
‫تھی خوکس رہے۔“ دامیر ئے منٹشن کی گرد موخود گارڈز کو کال مالئے ہوئے رنان‬
‫سے کہا جس ئے نانبد میں سر ہالئے ہوئے انبا مونانل تکاال۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫چب سے دامیر ئے کال کر کے نبانا تھا کہ وہ آج رات گھر نہیں آئے گا اور‬
‫علتبا نبا اس کا ان یطار کنے شو جائے نب سے علتبا ئےجین تھی۔‬
‫وہ جبد دن ہی اس کے شاتھ رہے گی اور اس کو موخودگی کو وہ محسوس کرنی‬
‫تھی جاہے نتبد میں تھی ہونی لبکن انک نحقظ کا اجشاس ہونا تھا۔ جس دن سے وہ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪304 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر کے کمرے میں شفٹ ہونی تھی دامیر انک نار تھی رات کو شونا نہیں تھا‪ ،‬وہ انبا‬
‫م‬
‫کام کمل کرنا رہبا تھا۔ اسی کی غیر موخودگی اب اس کو غیر آرام دہ کر رہی تھی۔‬
‫چنہ مونانل پہ کال آئے ہی روم سے ناہر تکل گنی تھی۔ اس ئے مابوسی سے‬
‫انک تظر بورے کمرے میں ت ھیری۔ ہر چیز و نسے کی و نسے تھی نس دامیر موخود نہیں‬
‫تھا۔‬
‫”کہاں گنی تھی؟“ چنہ کے روم میں آئے ہی علتبا ئے ئےشاچنہ بوچھا۔‬
‫”کال شن رہی تھی تم انشا کرو کہ فرنش ہو جاؤ نب نک میں آنی ہوں۔“ چنہ‬
‫س‬
‫اننی جبکٹ نی سرٹ کے اوپر نہتنی ہونی بولی۔ علتبا ئے نا ھی سے دنکھا کہ اس‬
‫ج‬‫م‬

‫وفت کہاں جا رہی تھی۔ وہ بوچھ تھی پہ نانی کہ چنہ عحلت میں جا جکی تھی۔‬
‫اننی جبکٹ نہنے‪ ،‬کھلے نال لنے جاند کی جاندنی میں‪ ،‬گردن اتھائے مین گنٹ کی‬
‫جانب پڑھ رہی تھی چہاں ڈرنبا اتھی تھی گارڈ سے نحث میں مصروف تھی۔‬
‫”ڈرنبا‪ ،‬نہاں کٹسے آنا ہوا؟“ چنہ ئے نبا کونی جال اخوال بو چھے ڈاپرنکٹ اسی کو‬
‫محاظب کبا کہ گارڈ جاموسی سے تھوڑا ہٹ کے کھڑا ہو گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪305 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ڈرنبا اس کو نہاں دنکھ کے خونکی تھی‪ ،‬اس ئے انک دو نار اسے اکبڈمی میں دنکھا‬
‫تھا لبکن اس کے نارے میں انبا جاننی نہیں تھی ک نونکہ چنہ ئے کتھی اکبڈمی میں‬
‫کسی سے نبانی نہیں تھی۔‬
‫”تم۔۔! نہاں کبا کر رہی ہو؟“ اس کے شوال کے خواب میں اس ئے البا‬
‫شوال ہی نٹش کبا کہ چنہ ئے اپرو احکائے اور اننی جبکٹ کا نین کھو لنے کجھ قدم‬
‫آگے کو ہونی کہ اس کی آنکھوں کا سرد ین واصح ہوا۔ جبکٹ تھوڑی ننجھے ہونی بو ہولڈر‬
‫میں لگا جاکو واصح ہوا۔‬
‫”تم نہاں کٹسے آنی؟“ اس کے چہرے پہ پرفبلی ناپرات تھے جبکہ ہون نوں کو‬
‫انک مشکراہٹ میں ڈھاال تھا۔‬
‫”علتبا سے ملنے آنی ہوں وہ نہیں رہنی ہے۔۔“ ڈرنبا کو اس کا انداز ناگوار گزار‬
‫نتھی سنجبدگی سے خواب دنا۔‬
‫”وہ نہاں نہیں ہے‪ ،‬ا ننے ہزنتبڈ کے ناس ہونی ہے آج کل۔“ چنہ ئے ناکٹ‬
‫میں ہاتھ ڈالے الپرواہی سے کہا کہ ڈرنبا ئے اچھتنے سے اس کو دنکھا۔‬
‫”ہزنتبڈ؟“ اس ئے اسبہقامنہ تگاہوں سے دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪306 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دامیر آر دی اشاشن۔“ چنہ ئے نلکیں چھ یکائے جٹسے اس کی مغلومات میں‬


‫اصاقہ کبا۔‬
‫”لبکن علتبا بو اس سے تفرت‪ ،‬آنی مین وہ کٹسے اس سے شادی کر شکنی ہے‬
‫اننی جلدی اور وہ کٹسی ہے؟ مجھے اس کا کانتبکٹ نمیر مل شکبا ہے۔ انکحولی نبالمی‬
‫والے دن اس پہ چملہ ہوا تھا اور اس کے تغد میں اسے مل نہیں شکی۔“ ڈرنبا اننی‬
‫چیرانگی چھبانی ہونی بولی جس پہ چنہ ئے سر ہالنا۔‬
‫”ہمم اقسوس ہوا شن کے‪ ،‬تم جا شکنی ہو۔۔“ چنہ ئے اقسردگی سے کہنے اس کو‬
‫گنٹ کے نار کا رشنہ دکھانا کہ ڈرنبا ہوبق ننی کھڑی رہ گنی کہ کتنی ئے مرونی ہے۔‬
‫اس کو خواب د ننے نبا نہاں سے تکال رہی تھی۔‬
‫”میں تھر آؤں گی علتبا سے ملنے اور مجھے نب کونی روک نہیں شکے گا۔“ اس‬
‫کے انداز سے وہ طٹش میں آنی بولی کہ چنہ کے ل نوں کے کبارے پہ مشکراہٹ‬
‫اتھری۔‬
‫”روکیں گے نب چب تم زندہ ہو گی‪ ،‬آ نتبدہ نہاں تظر نہیں آنا۔“ چنہ ئے‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ت‬
‫پراسرار لہچے میں کہا کہ ڈرنبا کی وہ اس کو مارئے کی د کی دے رہی ھی۔‬
‫م‬‫ھ‬ ‫ھ‬ ‫ت‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪307 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم ہونی کون ہو مجھے مارئے کی دھمکی د ننے والی۔“ ڈرنبا اس کے نالکل‬
‫پزدنک آنی عرانی کہ چنہ کے ناپرات میں کونی فرق پہ پڑا۔‬
‫”مجھے جانبا تم پرداشت نہیں کر ناؤ گی‪ ،‬نس انبا جان لو کہ میں چنہ رنان‬
‫ہوں۔“‬
‫”چنہ۔۔۔ رنان۔“‬
‫چنہ ئے آنکھوں میں دنکھنے سرد لہچے میں بولی کہ ڈرنبا کی رپڑھ کی ہڈی میں‬
‫سٹسباہٹ سی تھبل گنی۔‬
‫اس کے انداز میں کجھ بو تھا خو ڈرنبا کو کجھ تھی کرئے سے روکے ہوئے تھا‪،‬‬
‫تھر اس کا رنان کا نام لتبا‪ ،‬اس کا نام ستنے ہی وجشت طاری ہو گنی تھی۔ چنہ‬
‫مشلشل نبا نلک چھ یکائے اس کی آنکھوں میں دنکھ رہی تھی کہ ڈرنبا ئے خود ہی ا ننے‬
‫چہرے کا رخ موڑ لبا۔‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫م ن‬
‫نبا مزند کونی نات کنے ڈرنبا اننی گاڑی یں ھی وانس جائے گی ھی چنہ کی‬
‫آواز گونچی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪308 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اس گاڑی کا نمیر بوٹ کرئے ہی اتقارمٹشن تکال کے الؤ۔“ چنہ ئے گارڈ کو‬
‫دنکھا خو اس کے اشارے پہ سر ہال گبا۔ چب نک اس کی گاڑی تظروں سے اوچھل پہ‬
‫ہو گنی چنہ وہیں ک ھڑی رہی۔‬
‫گارڈز کو اننی ڈبونی پہ انک نو ر ہنے کا کہنی گھر میں داجل ہونی۔ علتبا الؤنج میں نہل‬
‫رہی تھی۔‬
‫”نہاں کبا کررہی ہو‪ ،‬میں ئے کہا تھا کہ آرام کرو۔“ چنہ چہرے پہ پرمی الئے‬
‫اس سے بولی۔‬
‫”تم اجانک جلی گنی بو مجھے قکر ہوئے لگی تھی۔“ علتبا اننی جشاسنت پہ ہٹس‬
‫دی۔‬
‫”اننی جلدی پرنشانی نہیں لتنے‪ ،‬تھوڑا مضنوط ن نو۔ میں گارڈز کو دنکھنے گنی تھی۔“‬
‫چنہ نامحسوس انداز میں اننی جبکٹ کے شاتھ انبا گن ہولڈر اسی میں انارئے لگی۔ وہ‬
‫دوبوں آج علتبا کے پرائے کمرے میں موخود تھیں۔ دامیر والے کمرے میں چنہ کے‬
‫شاتھ رہبا اس کو عج نب لگبا تھا نتھی اسی کمرے میں وانس آگنی۔‬
‫”نمہیں نتبد آجائے گی میرے شاتھ؟“ چنہ انبا نکنہ درشت کرئے ہوئے علتبا‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫کو د نی بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪309 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫م‬ ‫س‬
‫”ہاں نہلے تھی نمہارے شاتھ شونی تھی میں۔“ علتبا نا ھی سے بولی۔‬
‫ج‬

‫”میرا مطلب کہ ہو شکبا ہے دامیر کی طرح میں نمہیں اننی ناہوں میں پہ لے‬
‫شکوں۔“ چنہ کی سنجبدگی میں کہی غیر سنجبدہ نات پہ علتبا پری طرح گڑپڑانی۔‬
‫”انسی نات نہیں ہے‪ ،‬مجھے آجائے گی نتبد۔“ علتبا چھت نپ کے سرخ پڑنی ہونی‬
‫بولی کہ چنہ نس مشکرا دی۔‬
‫”نمہیں کتھی محسوس ہوا کہ تم لڑنا جاننی ہو؟“ وہ دوبوں جاموسی سے چت لتنی‬
‫تھیں چب چنہ کی آواز کمرے میں گونچی۔‬
‫”کبا مطلب؟“ علتبا الجھی۔‬
‫”تعنی کتھی شدت سے دل کبا ہو کہ ہاتھ نیر جالؤ‪ ،‬کسی کی ہڈی نشلی انک کر‬
‫دو۔“ چنہ ئے اس کے چہرے پہ تظریں چمائے کہا کہ علتبا کے چہرے پہ الجھن‬
‫کے ناپرات مزند اتھرے‪ ،‬جبکہ ما تھے پہ نل نتبا سروع ہوئے۔‬
‫”نہیں کتھی تھی نہیں۔“ علتبا ئے تھوڑا کیرائے کہا کہ جائے چنہ اس سے‬
‫کبا ستبا جاہ رہی تھی۔‬
‫”میں نمہیں کل شکھاؤں گی کجھ تھبک ہے‪ ،‬تم ئے سبلف ڈ تقنٹس تھوڑا‬
‫نہت سبکھا ہے شاند اتھی ناد پہ ہو لبکن میں نمہیں تھوڑی سی پرنکٹس کروا دنا کروں‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪310 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ن‬ ‫ت ً‬
‫گی۔“ چنہ ئے سر ہالئے ہوئے کہا فتبا ا نی ناداشت کے شاتھ ھوڑی ہت ا ننے‬
‫ن‬ ‫ت‬
‫اندر نبدا ہونی ہمت تھی کھو جکی تھی وہ۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”اس کی کبا ضرورت ہے؟“ علتبا نا ھی سے بولی۔‬
‫”ضرورت ہر انک کو ہے ضرف نمہیں نہیں‪ ،‬کتھی اونچ ننچ تھی ہو شکنی ہے بو‬
‫نمہیں نبار رہبا جا ہنے۔“ چنہ عام سے انداز میں بولی۔‬
‫”ہللا نا کرے۔“ علتبا اونچ ننچ والی نات پہ ئےشاچنہ بولی کہ چنہ ہلکا شا‬
‫مشکرانی۔‬
‫”ہللا پہ ہی کرے لبکن ہمیں ناہمت بو رہبا جا ہنے نا۔“ چنہ ئے تھر تھی اننی‬
‫نات پہ زور دنا کہ علتبا جاموش ہو گنی۔‬
‫ن‬ ‫ق‬‫ت‬
‫”تم ئے کہا میں ئے پرنتبگ لی ہونی ہے بو کبا نمہیں تھی سبلف ڈ ٹس آنا‬
‫ہے؟“ علتبا اس کی طرف کروٹ لتنے ہونی استباق سے بولی۔‬
‫”ضرف سبلف ڈ تقنٹس نہیں اور تھی نہت کجھ آنا ہے مجھے۔“ چنہ معنی چیز شا‬
‫مشکرانی۔‬
‫”اور کبا مطلب۔۔؟“ علتبا کی دلحسنی اور پڑھی کہ چنہ ئے اس کے چمکنے‬
‫چہرے کو دنکھا جس کو پہ موصوع گقبگو مزے کا لگ رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪311 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ک‬‫ل م ن‬
‫” جان لے لتنی ہوں۔“ چنہ پراسرار ہچے یں آ یں پڑی کرنی اس کو ڈرائے‬
‫ھ‬
‫ہوئے بولی کہ علتبا ہٹس دی۔‬
‫”ہاں جٹسے رنان اننی جان لبانا تھر رہا ہے تم پہ۔“ علتبا اس کی نات مزاح میں‬
‫ک‬‫ن‬
‫لتنی ہونی بولی کہ رنان کا زکر آئے چنہ ئے آ یں ھما یں۔‬
‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬
‫ک‬‫ک ن‬
‫”شو جاؤ علتبا۔۔“ چنہ ئے مزند کجھ ہے نبا آ یں موند یں کہ لتبا ئے منہ‬
‫ع‬ ‫ل‬ ‫ھ‬
‫نبانا۔‬
‫”مجھے اتھی نتبد نہیں آرہی۔“ علتبا تھوڑا مدھم لہچے میں بولی کہ چنہ ئے مڑ کے‬
‫اس کو گھورا۔‬
‫”کال کر لو دامیر کو۔“ چنہ ئے مفت کا مسورہ دنا لبکن علتبا کیرانی رہی‪ ،‬وہ اگر‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫دامیر کو اس وفت کل کرنی بو جائے کبا ھبا وہ۔‬
‫وہ ا نسے ہی کاقی دپر کرونیں ندلنی رہی لبکن نتبد آئے کا نام نہیں لے رہی‬
‫تھی۔ دامیر کے شاتھ جاہے جبد انک دن ہی رہی تھی لبکن اس کی موخودگی میں وہ‬
‫شکون سے نتبد کی وادی میں جلی جانی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪312 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اتھی وہ د ھنے قدموں سے اتھنی ہونی کمرے سے ناہر آنی تھی۔ الؤنج اپرنا میں‬
‫تھی نالکل ہلکی سی روسنی جل رہی تھی جبکہ گالس وال سے ناہر سے تظر آنا الن‬
‫نالکل سٹشان پڑا تھا چہاں جبد انک روستباں جل رہی ت ھیں۔‬
‫جبکی پڑھ رہی تھی‪ ،‬اس کا ارادہ اتھی الن میں جائے کا تھا کہ تھوڑا نہل شکے۔‬
‫اتھی اس کا ہاتھ گالس ڈور پہ تھا ہی کہ الؤنج میں رکھا فون نجنے لگا۔ اجانک آنی آواز پہ‬
‫وہ انک دم گ ھیرا اتھی۔ الؤنج میں کونی فون تھی تھا اس نارے میں وہ نہیں جاننی‬
‫تھی۔‬
‫صوفے کی دوسری شانبڈ پہ ہی واپر لٹس فون نج رہا تھا۔‬
‫آگے پڑھ کے اس ئے فون ہاتھ میں نکڑا۔ اس کو اتھانا جا ہنے تھی تھا نا نہیں‬
‫وہ اسی کشمش میں پڑ گنی۔ فون نجنے نجنے نبد ہو گبا۔ وہ نہاں سے اتھ کے وانس‬
‫جائے ہی والی تھی کہ انک نار تھر گ ھتنی نجبا سروع ہو گنی۔‬
‫اس ئے انک نل شوجا اور فون کان سے لگانا۔‬
‫ع‬ ‫ھ‬ ‫گ‬ ‫ب َ‬
‫ن‬
‫”ہ لو پرنسس!“ دوسری جانب سے دامیر کی ئیر آواز گو چی بو لتبا ئے‬
‫م‬
‫ئےشاچنہ اطراف میں دنکھا جٹسے وہ اس کو دنکھ رہا تھا۔‬
‫”دامیر۔۔“ وہ گہرا شانس ت ھر کے بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪313 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شونی نہیں اتھی نک۔“ اس کی آواز انیر نٹس میں گونچی۔‬


‫”نتبد نہیں آرہی تھی۔“‬
‫”کبا کونی خواب دنکھا ہے؟“ م یقکر لہچے میں بوچھا گبا۔‬
‫”نہیں نس ا نسے ہی‪ ،‬میں شو ہی نہیں نا رہی۔“ صوفے پہ نتتھنے اس ئے ناؤں‬
‫اوپر کنے۔‬
‫”کمرے میں جاؤ نہاں سردی ہے۔“ دامیر کی نات پہ وہ خونکی۔‬
‫م‬
‫”نمہیں کٹسے نبا میں کمرے میں نہیں؟“ علتبا ئے نحسس ہوئے بوچھا اور ا ننے‬
‫نیر دونارہ ننچے کنے۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬ ‫ً‬
‫ھ‬ ‫ع‬ ‫ت‬
‫”عالبا م ئے الؤنج کا ہی فون اتھانا ہے۔“ دامیر ئے جبانا۔ لتبا نی ہلکا شا‬
‫مشکرانی۔‬
‫نتھی اس ئے ا ننے کمرے کے ناہر کھڑی چنہ کو دنکھا خو آپرو اوپر کنے اسی کو‬
‫گھورئے میں مصروف تھی۔‬
‫”میرے شا منے نات نہیں کرنی تھی بو مجھے کہہ د ننیں۔“ چنہ ئے مضنوعی‬
‫ناگواری لنے کہا بو علتبا خوامحواہ سرمبدہ ہو گنی۔‬
‫”نہیں پہ فون خود ہی آگبا تھا۔۔“ علتبا ئے چحل ہوئے وصاچت کرنا جاہی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪314 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کہاں جا رہی ہو؟“ چنہ کو کمرے سے ناہر جانا دنکھ علتبا ئےشاچنہ بول اتھی۔‬
‫دامیر اتھی تھی کال پہ تھا۔‬
‫”تم آرام سے نات کر لو میں نہیں ناہر صوفے پہ موخود ہوں۔“ چنہ ئے اس‬
‫کو پرسبل اسنٹس د نبا جاہی۔‬
‫ً‬
‫”نہیں ناہر سردی ہے تم نہیں رہو‪ ،‬نات نس جتم ہو گنی تھی۔“ علتبا ئے فورا‬
‫کہا ک نونکہ چنہ کا ا نسے ناہر جانا اس کو نالکل تھی اچھا نہیں لگا تھا اور اگلے ہی نل اس‬
‫ئے کال تھی ڈشکتبکٹ کر دی پہ جائے تغیر کہ دامیر کو اس کی خرکت کتنی ناگوار‬
‫گزری تھی۔‬
‫چنہ ئے کجھ نا ننے اس کو ا نسے ہی دنکھا تھر کبدھے احکا د ننے۔ وہ معمولی سے‬
‫نابوں کی تھی کاقی پرواہ کر رہی تھی۔‬
‫ن‬
‫علتبا اس کو اننی نتبد کا تفین دالئے ہوئے نسیر میں گھس گنی اور آ یں موند‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫گنی۔‬
‫چب علتبا کمرے سے ناہر تکلی تھی چنہ نتھی نتبد سے جاگ گنی تھی۔ چب وہ‬
‫دو منٹ تغد تھی کمرے میں پہ آنی بو خود دنکھنے کو اتھ گنی‪ ،‬اس کو ا نسے ہی دروازے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪315 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کے ناس کھڑے دنکھ رہی تھی چب فون کو نجبا دنکھا۔ چنہ سرد آہ تھرئے رہ گنی کہ‬
‫وہ جاننی تھی کہ اس وفت کس کی کال ہو گی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫وہ کاقی دپر مونانل کو گھورنا رہا‪ ،‬اس سے اتھی نات تھی نہیں ہونی تھی کہ اس‬
‫ئے فون کاٹ دنا تھا۔ جائے ک نوں اس وفت اسے عصہ آرہا تھا۔ اس کی بوری نات‬
‫سنے تغیر وہ فون کٹسے نبد کر شکنی تھی۔ اس ئے دونارہ کال نہیں کی لبکن آدھا‬
‫گھننہ نتتھے وہ اس مونانل کو گھورنا رہا تھا۔‬
‫م‬
‫ا ننے کام کمل کرئے چب وہ خود نبڈ پہ نتم دراز ہوا بو لنپ ناپ تھامے گھر کی‬
‫فوننج جبک کرئے لگا‪ ،‬علتبا ا ننے روم میں نہیں تھی‪ ،‬دوسرے روم کا جبک کبا بو وہ‬
‫وہاں موخود چنہ سے نابوں میں مصروف تھی۔‬
‫تھوڑی دپر تغد چب اس ئے دنکھا کہ وہ کمرے سے ناہر گنی ہے اور الن میں‬
‫جائے والی تھی نتھی اس ئے گھر کے نمیر پہ کال مالنی۔‬
‫اس وفت اس کا ناہر جانا نالکل تھی تھبک نہیں تھا وہ تھی رنان اور دامیر کی‬
‫غیر موخودگی میں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪316 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ڈرنبا کا آنا نہلے ہی شک میں متبال کر گبا تھا ک نونکہ وہ ا نسے نبدے کے لنے ہانیر‬
‫کی گنی تھی جس کا اس کالی دنبا میں کتھی نام نہیں سبا تھا۔ جاکم! پہ جاکم تھا کون؟‬
‫ش‬
‫اور فباد کا کبا کنتبکشن تھا علتبا سے۔ اس شب کو جلد از جلد لجھانا تھا۔‬
‫لبکن اس وفت بو وہ علتبا سے نات کرنا جاہ رہا تھا خو اس پہ نبا دھبان د ننے فون‬
‫کاٹ گنی تھی وہ تھی اس وجہ سے کہ چنہ ناہر پہ جلی جائے۔‬
‫”اس نات کا ندلہ بو میں تم سے لوں گا‪ ،‬کسی اور کی جاطر تم ئے مجھے اگ نور‬
‫کبا۔۔“ پڑپڑائے ہوئے اس ئے مونانل کو شانبڈ پہ رکھا اور انک آخری تظر شکرین پہ‬
‫ڈالی چہاں وہ دوبوں نسیر پہ نتم دراز تھیں۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اننی سبانیر کو نبک کرئے رنان ئے گہرا شانس تھرا اور دامیر کو دنکھا خو اننی گن‬
‫ن م‬
‫کو ری لوڈ کر رہا تھا۔ اتھی انہوں ئے انک کانیر کٹ ل کبا تھا۔ جاہ کے ھی وہ‬
‫ت‬ ‫م‬‫ک‬
‫اس کام سے زنادہ دپر نک الپرواہی نہیں پرت شکنے تھے۔‬
‫م‬
‫ماشکو سے وہ لوگ اتھی پرکی میں تھے‪ ،‬نہاں کام ل ہو گبا تھا بو وا سی کے‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫ک‬
‫لنے تکلبا تھا‪ ،‬ننجھے بولٹس آنی ہے نا نہیں پہ ان کا سر درد نہیں تھا ک نونکہ ا نسے‬
‫مغامالت میں آدھا ہاتھ بولٹس کا ہی ہونا تھا‪ ،‬لوکل اور انیرننٹشل قالننٹس کا تھی ان‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪317 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کو کونی حظرہ نہیں تھا ک نونکہ وہ پرابو نٹ شفر کرئے تھے اور اس کے لنے ان کے‬
‫ناس پزنس پرمٹشن تھی۔‬
‫”آج نمہاری شادی تھی ہے بو وفت پہ نہنجبا ضروری ہے ہمارا۔“ دامیر ئے‬
‫نلڈنگ کی سیڑھ نوں سے ننچے اپرئے ہوئے کہا۔ رنان ئے اننی سبانیر کو کبدھے پہ‬
‫ڈال رکھا تھا جبکہ دامیر ئے انبا شفری نبگ تھاما تھا۔‬
‫ن‬
‫” ہنچ جانیں گے‪ ،‬نہلی میری دلہن کو نہنحا د نبا۔“ رنان ئے سر چھبکنے کہا کہ‬
‫چنہ کہیں آج ہی پہ تھاگ جائے۔‬
‫”نمہیں تھی جا ہنے تھا کہ انبا کونی فبکشن ارننج کرئے‪ ،‬علتبا تھی خوش ہو‬
‫جانی۔“ رنان ئے سنئیرنگ ستتھا لنے ہوئے کہا۔ دامیرخو انبا مونانل شا منے کنے علتبا‬
‫کی طرف سے آئے گڈ مارنبگ کے مٹسج کو دنکھ رہا تھا اس کی نات کو تظر انداز کر گبا۔‬
‫اس ئے علتبا کے مٹسج کو اگ نور کبا جٹسے وہ دو دن سے اگ نور کر رہا تھا۔ اگر دامیر‬
‫ئے اس کو کال نہیں کی تھی بو علتبا ئے انک نار تھی کوشش نہیں کی تھی اس‬
‫سے خود سے راتطہ کرئے کی البا اس کو گڈمارنبگ اور گڈ نانٹ وسز تھنج رہی تھی۔‬
‫”اتکل مبکس کی قالنٹ کب کی ہے؟“ دامیر ئے مونانل کو ناکٹ میں رکھنے‬
‫ہوئے کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪318 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫”ہو شکبا ہے کہ ہم سے نہلے ہنچ جانیں‪ ،‬ان کی منتبگ تھی شاشا سے۔۔“‬
‫رنان ئے گاڑی کو رن وے کی جانب موڑئے ہوئے کہا۔ ان کی خود کی قالنٹ میں‬
‫تھی آدھا گھتبا رہ گبا تھا۔‬
‫”شاشا خوامحوا خود کو مضت نت میں ڈال رہا ہے وہ تھی عانب ہونی دو لڑک نوں کے‬
‫ت ً‬
‫ننجھے۔۔“ دامیر ئے ناشف سے کہا فتبا وہ کس سے ا یں دو لڑک نوں کا زکر کرئے‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ب‬ ‫م‬
‫واال تھا جن کو رنان اور چنہ نازناب کروا الئے تھے۔‬
‫”اننی موت کو دغوت دے رہا ہے اور کجھ نہیں۔“ رنان ئے گاڑی رن وے‬
‫پہ تھگائے کہا چہاں کجھ ہی قاصلے پہ ان کا پرابو نٹ چٹ کھڑا تھا۔‬
‫ان کے دو آدمی نلین کے ناس انہیں کے ان یطار میں کھڑے تھے۔ ان کے‬
‫آئے ہی انہوں ئے نیزی دکھائے گاڑی سے ان کا شامان تکاال اور قالنٹ کی نباری‬
‫کرئے لگے۔ دامیر اور رنان دوبوں ئے اتھی سیڑھ نوں پہ قدم رکھا ہی تھا کہ اجانک قاپر‬
‫کی آواز گونج اتھی‪ ،‬وہ خوکبا ہوئے اور پروفت خود کو چھکائے نشائے سے نحانا۔‬
‫دامیر رنان کی نشت پہ آئے اننی گن تکالے اس طرف قاپر کرئے لگا چہاں سباہ‬
‫لباس میں لوگ رن وے کی طرف تھاگے آرہے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪319 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم جلدی سے نلین میں خڑھو‪ ،‬پہ دو ہی لوگ ہیں نس۔“ دامیر ئے ز ننے کی‬
‫اوتھ میں ہوئے رنان سے کہا جس ئے سر ہالنا۔ دامیر اس کو کور د نبا ہوا نبا کسی‬
‫مسکل کے ان دو آدم نوں کو گرا حکا تھا۔ کجھ سبکبڈز ان یطار کے تغد تھی چب مزند‬
‫کونی قاپر پہ ہوا بو دامیر انیر فبلد چھوڑے ان دوبوں آدم نوں کی تعسوں کے ناس نہنحا۔‬
‫بوٹ کی مدد سے اس ئے ان کے چہرے دانیں نانیں کنے۔‬
‫خو دو گارڈ ان کے آئے سے نہلے نہاں موخود تھے ان میں سے انک زچمی ہوا‬
‫تھا‪ ،‬دامیر ئے دوسرے کو ناس آئے کا اشارہ دنا ناکہ ان کی نالسی لے شکیں۔ کجھ‬
‫تھی پرآمد نہیں ہوا تھا۔ ان کو الوارث چھوڑے وہ وانس نلین کی جانب گنے۔‬
‫”پہ خو کونی تھی تھے مارئے کی ن نت سے نہیں آئے تھے۔ ان کو مرئے کے‬
‫لنے ہی تھنحا گبا تھا۔“ دامیر ئے اننی گن کو ونشٹ ہولڈر میں رکھنے ہوئے کہا۔ رنان‬
‫ئے اس کے نازو کی جانب دنکھا۔‬
‫”اس کی ڈرنسبگ کر لو وفت پہ۔“ رنان سباہ سرٹ کو تم دنکھنے ہوئے بوال چہاں‬
‫سرٹ پہ انک کٹ تھی موخود تھا۔ گولی اس کے نازو کو چیرئے ہونی گنی تھی۔‬
‫دامیر ئے فرشٹ انڈ ناکس مگوانا‪ ،‬رنان ئے اس کے ہاتھ سے کاین لتنے خود اس‬
‫کا زچم صاف کبا۔۔ انک ہاتھ سے کام کرنا مسکل ہونا بو ننی تھی اسی ئے کر دی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪320 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اگر پہ شاشا کا کام ہوا بو قشم کھانا ہوں اس کو ا ننے ہاتھوں سے ماروں گا۔“‬
‫رنان لہچے میں نتھرنال ین گھولبا ہوا بوال‪ ،‬آنکھوں میں سرخ جبگھاری واصح تھی۔‬
‫”انک تھی کام شکون سے نہیں کرئے د ننے پہ مجھر۔۔“ دامیر سنٹ سے‬
‫نبک لگائے ہوئے پڑپڑانا۔‬
‫”کونی نات نہیں‪ ،‬آج کی رات شکون سے نتبد بوری کر لتبا میری طرف سے‬
‫ئےقکر ہو کے۔“ رنان ا ننے مونانل پہ مصروف سنجبدگی سے بوال کہ اس کی نات کا‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ش‬
‫مطلب ھنے دامیر ناجا ہنے ہوئے ھی ا نی م کراہٹ پہ روک نانا۔‬
‫ن‬
‫”ئےسرم انشان۔“ اس ئے القاب سے بوازہ اور آ کھیں موند گبا۔‬
‫”آج نمہاری طرف سے زنادہ ہی قکر ہو گی پہ نا ہو کہ صنح اتھ کے ستبا پڑے‬
‫ننے بو نلے د لہے کو دلہن سہبد کر کے تھاگ گنی۔“ دامیر ئے نمسجر اڑائے ہوئے کہا‬
‫کہ رنان ئے شلگنی تگاہوں سے اس کو دنکھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫چنہ انبا مونانل تھامے الن میں ہونی نبارناں دنکھ رہی تھی۔ شب الن میں ارننج‬
‫کبا جا رہا تھا اور جس کی شادی تھی وہ نانگ پہ نانگ خڑھائے‪ ،‬چئیر پہ کہنی تکائے ہاتھ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪321 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کی متھی نبا کے چہرے کے ننچے رکھی ہونی تھی۔ و فقے و فقے سے وہ تھا گنے لوگوں پہ تظر‬
‫مار لتنی تھی۔ شلئیر نہنے‪ ،‬پراؤزر سرٹ میں مل نوس الپرواہ شا انداز تھا۔‬
‫”متم آپ کا ناتم ہو رہا ہے آ نیں آپ کو رنڈی کر دیں۔“ اسبانلشٹ چنہ سے‬
‫آکے بولی جس ئے مقانل لڑکی کو گھورا۔‬
‫ن‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”چب سر آ نیں گے نب د یں گے کہ شادی کرنی ہے نا یں۔“ وہ الپرواہی‬
‫ہ‬ ‫ھ‬
‫سے اس کو نہاں سے رواپہ ہوئے کا اشارہ کرئے ہونی بولی۔‬
‫”سر کی کال آنی تھی وہ را سنے میں ہیں۔۔“ اس کی نات شن کے بو‬
‫اسبانلشٹ گڑپڑا گنی تھی تھر ستتھل کے مشکرانی۔‬
‫”کہا نا کہ سر کو آئے دو۔“ لڑکی کے دونارہ بو لنے پہ چنہ کے لہچے میں سرد ین در‬
‫آنا بو تھوک تگلنی ہونی وہ لڑکی اس کے ناس سے ہٹ گنی۔‬
‫علتبا ہر چیز میں پڑھ خڑھ کے حصہ لے رہی تھی چب چنہ ئے اس کی چہرے‬
‫پہ تھکن کی آنار دنکھنے ہوئے اس کو آرام کرئے کا کہا۔ پہ جا ہنے کے ناوخود وہ اتھی‬
‫کمرے میں آرام کر رہی اور نہاں چنہ نیزارنت سے شب کجھ دنکھنے میں مگن تھی۔‬
‫تھولوں سے شب کجھ مزین کبا جا رہا تھا جٹسے کتنی ہی مجنت تھری شادی ہو‬
‫رہی تھی ان کی۔ اس سے مزند پرداشت پہ ہوا بو اتھ کے اندر آگنی۔ اندر آنی بو ضیط‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪322 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫چ‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬


‫سے اس ئے آ یں یں چہاں اس کے کمرے سے اس کا خو ھوڑا ہت ھی‬
‫شامان تھا اس کو لنے وہ شب رنان کے کمرے میں شفٹ کبا جا رہا تھا۔‬
‫”تھاڑ میں جائے شب‪ ،‬و نسے تھی میں ئے جلے ہی جانا ہے۔۔“ گہرا شانس‬
‫تھرنی ہونی بولی اور کمرے میں آگنی چہاں دو لڑکباں موخود اس کو دلہن نبائے کی‬
‫نباربوں میں مصروف تھیں۔‬
‫”متم آپ کے شاور کی تھی شاری نباری کر دی گنی ہے۔ آپ فرنش ہو‬
‫جانیں۔۔“ وہ لڑکی اس کے فرنب آئے اس کو ناتھروب تھمانی ہونی بولی‪ ،‬چنہ ئے‬
‫چھنتنے کے انداز میں لبا۔‬
‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫”کہاں۔۔۔؟“ ناتھ روم میں انئیر ہوئے لگی تھی چب دوسری لڑکی کو تھی ھے‬
‫آئے دنکھا۔۔‬
‫”متم آپ کی نباری میں ہبلپ کروانی ہے۔۔“ اس کے چہرے پہ عصبلے‬
‫ناپرات دنکھنے وہ ہکالنی ہونی بولی‪ ،‬اس کا اشارہ متنی نبڈی ک نور کی جانب تھا لبکن چنہ‬
‫کے ما تھے پہ نل واصح ہوئے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪323 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اننی جان عزپز ہے نا خوسی خوسی گ نوانا جاہو گی۔“ وہ آنکھوں میں سرد ین لنے‬
‫بولی کہ لڑکی چ ھٹ سے تقی میں سر ہال گنی اور اس سے دور ہوگنی۔ دوسری لڑکی بو نہلے‬
‫ہی الن میں اس سے شن کے آنی تھی نتھی جاموش مورت ننی کھڑی تھی۔‬
‫شاور لتنے کے تغد چب چنہ تم نال لنے ناہر آنی بو دوبوں لڑکباں انک نو ہونیں۔‬
‫ڈرنسبگ نتبل کے آگے چئیر پہ نتتھنے چنہ ئے ان کو اشارہ کبا۔‬
‫”مجھے کونی خور نہیں لگبا‪ ،‬زرا سی قارمبلنی بوری کرو اور میرے نال نبا کے تکلو‬
‫نہاں سے۔“ چنہ ئے نانگ پہ نانگ خڑھائے جبکی نحائے ان کو کام سروع کرئے کا‬
‫کہا۔ اس وفت اس ئے ناتھ روب نہن رکھا تھا۔‬
‫م ن‬
‫اتکل مبکس سے صنح نات ہونی تھی وہ نس کجھ ہی دپر یں نے والے ھے‪،‬‬
‫ت‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ہ‬

‫دامیر اور رنان تھی۔۔ علتبا کے آرام میں وہ محل نہیں ہونا جاہنی تھی ورپہ اتھی وہ ہی‬
‫اس کے ناس موخود ہونی۔‬
‫”ڈرنس کدھر ہے میرا؟“ انک لڑکی اس کے نالوں کی طرف آنی بو چنہ ئے‬
‫بوچھا۔‬
‫”آپ کے ڈرنسبگ روم میں ہتبگ کبا ہے‪ ،‬آپ کے نال ین جانیں بو تھر آپ‬
‫نہن شکنی ہیں۔“ لڑکی ئے نیزی سے خواب دنا بو چنہ ئے محض سر ہالنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪324 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫مبڈنشن کھائے کے تغد اس کو نتبد سی آئے لگی جسے دنکھنے چنہ ئے زپردسنی‬
‫اس کو آرام کرئے تھنج دنا۔ اس کا ڈرنس اور ناقی چیزیں تھی دامیر اور اس کے مسیرکہ‬
‫کمرے میں ہی موخود تھیں بو ادھر ہی آگنی تھی۔‬
‫آرام کے عرض سے وہ نتم دراز ہونی اور مونانل کو دنکھنے لگی۔‬
‫مونانل دنکھنے ہی اس کی اجانک آنکھ لگ گنی۔ جائے کتبا وفت گزرا ہو گا چب‬
‫ن‬
‫نتبد میں ہی ا ننے گرد نازوؤں کا حصار محسوس کرئے وہ ہلکا شا کشمشانی۔ آ کھیں‬
‫کھو لنے کی کوشش کی لبکن وہ کھلنے سے ہی اتکاری تھیں کہ تکلحت اس کو اننی‬
‫گردن پر شانسوں کی گرمانش محسوس ہونی‪ ،‬تھر گردن پہ ل نوں کا لمس۔ ما تھے پہ نل‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫چ‬ ‫گ‬ ‫ل‬‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫نت ن‬
‫لنے م وا آ یں ھولے گردن کی سی ھما کے خود پہ کے دامیر کو د کھا۔ اس کے‬
‫گرد لتبا نازو اننی گرفت سحت کرئے لگا بو ئے شاچنہ ہی اس ئے نازو کو تھام لبا۔‬
‫”مجھ سے نات ک نوں نہیں کی؟“ وہ شکوہ کرئے لگا۔‬
‫”دامیر۔۔۔“ اس کا نام سرگوسی میں ادا ہوا۔ اس کو پہ انک خواب لگا تھا۔‬
‫دامیر ئے اسے سبدھا کبا اور ما تھے پہ ہونٹ ر کھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪325 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا ئے گہرا شانس تھرئے کی کوشش کی‪ ،‬جٹسے نہاں کی ہوا نبگ ہو گنی‬
‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫چ ع مکم ن‬
‫ہو۔ دامیر ئے اس کے رجشار کو ھوا بو لتبا ل آ یں ھولے اس سے دور ہوئے‬
‫لگی۔‬
‫”رنلبکس میں ہوں۔۔۔۔“ وہ لمنے شانس تھرئے لگی تھی‪ ،‬دامیر ئے اس کا‬
‫ن‬
‫ہاتھ تھامے سہالنا۔ علتبا انبات میں سر ہالئے ہوئے اتھ تتھی۔‬
‫”تم کب آئے۔۔؟“ علتبا ا ننے نال سنوارنی ہونی بولی‪ ،‬نامحسوس انداز میں وہ اس‬
‫سے قاصلے پہ ہونی تھی جسے بوٹ کرئے دامیر کے ما تھے پہ ہلکے سے نل واصح ہوئے۔‬
‫”چب تم میرے خواب دنکھ رہی تھی۔“ دامیر ئے تگاہ اس کی گردن پہ تکانی‬
‫چہاں سے وہ ا ننے نال سمنٹ کے آگے کی طرف کر رہی تھی۔‬
‫اس کی نات شن کی ئےشاچنہ ہی علتبا ئے اس کی طرف دنکھا جس کے‬
‫چہرے کے ناپرات سنجبدہ تھے۔‬
‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫س‬
‫”ا ننے دن کہاں تھے؟“ علتبا چب لی بو اس سے شوال کرئے گی۔‬
‫”ضروری کام تھا لبکن تم ئے مجھ سے نات نہیں کی انک نار تھی۔“ دامیر ئے‬
‫اس کا ہاتھ تھاما اور ا ننے فرنب کرنا جاہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪326 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”چب تم ئے فون کبا تھا بو اس دن نات کی تھی۔“ علتبا اس کو ناد کروانی‬


‫ہونی بولی۔‬
‫”نب تم ئے نس انک دو چملہ ہی کہا تھا تھر نبا میری کونی نات سنے میرے‬
‫منہ پہ فون نبد کبا تھا۔“ دامیر ئے سنجبدگی سے اس کو ناد کروانا۔ انداز جبانا ہوا تھا کہ‬
‫دامیر کو اس وفت پرا لگا تھا۔‬
‫”انسی نات نہیں ہے‪ ،‬میں کبا نات کرنی نب تم سے۔۔“ علتبا ئے وصاچت‬
‫کرنی جاہی۔‬
‫”تم مجھے ا ننے شارے دن کی رونین نبا شکنی تھی‪ ،‬اننی نانیں سئیر کر شکنی‬
‫تھی۔ تھر تم ئے مجھے دونارہ کال تھی نہیں کی۔“ وہ آہشنہ آواز میں اس سے شکوہ‬
‫کر رہا تھا‪ ،‬علتبا کو سمجھ پہ آنا کہ وہ کبا کہے۔‬
‫”مجھے مس کبا؟“ دامیر پزدنکی پڑھا رہا تھا۔‬
‫”نبا نہیں۔۔!“ اس کو خود سمجھ پہ آنا کہ وہ کبا کہہ گنی تھی۔ نتبد سے اتھی‬
‫م‬
‫جاگی تھی بو جٹسے خواس ل جاگے یں ھے۔‬
‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫م‬ ‫ک‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪327 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ک نوں نمہارا دل نمہاری نات نہیں ستبا کبا؟“ دامیر ئے اس کے ہاتھ کو‬
‫تھامے ا ننے کبدھے پہ رکھنے اس کے گرد پرمی سے حصار ناندھا کہ وہ اس کے فرنب‬
‫آگنی۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫”دامیر ہمیں نبار ہونا ہے۔۔“ علتبا اس کے ند لنے انداز د نی ہونی پروفت بولی۔‬
‫ھ‬
‫اس کا انداز اس کی شانسیں جشک کر رہا تھا۔‬
‫”میں ئے نمہیں نہت مس کبا۔۔“ دامیر ئے ہلکی سی سرگوسی کی۔‬
‫”میں ئے کتھی نہیں شوجا تھا کہ اس دفع گھر سے دور جائے پہ مجھے کسی کی‬
‫ناد تھی سبائے گی۔ میرا گھر جائے کو دل کرے گا‪ ،‬میرا نمہارے ناس آئے کو دل‬
‫محلے گا۔“ اس کو خود سے لتبائے وہ مجمور لہچے میں کہہ رہا تھا کہ علتبا دم نحود اس کو‬
‫ج‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ت‬
‫د ھی جا رہی ھی۔ اس کی نابوں پہ دل انمان ال رہا تھا۔ دل اس کی جانب نحا ال جا‬
‫رہا تھا۔‬
‫”مجھے نمہارے تغیر نتبد نہیں آنی تھی۔“ نآلخر اس ئے اغیراف کبا جس پہ دامیر‬
‫منٹشم ہوا اور اس پرمی سے اس کی رجشار کو چھوا۔‬
‫”تعنی تم مجھے مس کر رہی تھی۔۔“ اس کی آنکھوں میں چمک اتھری۔ علتبا‬
‫ئے تظریں خرانیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪328 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کہہ شکنے ہو۔۔“ وہ سر چھکائے متمبانی کہ اس پہ ئےشاچنہ نبار آنا۔ دامیر‬


‫اس سے نہلے کونی نٹش رفت اجتبار کرنا دروازے پہ دسبک ہونی۔‬
‫”تم نبار ہو جاؤ‪ ،‬چنہ کے ناس اگر جانا ہو بو اس کے ناس جلی جاؤ اور اچھا شا نبار‬
‫ہو جاؤ‪ ،‬نمہیں تھی شب سے انیروڈبوس کروانا ہے۔“ دامیر اس کو ا ننے حصار سے آزاد‬
‫کرنا ہوا بوال بو علتبا سر ہالنی اتھی‪ ،‬دامیر ئے دروازہ کھوال بو رنان کھڑا تھا۔‬
‫وہ لوگ آنس میں کونی نات کرئے لگے چب علتبا انبا ڈرنس تھامے چنہ کے‬
‫کمرے کی طرف جلی گنی۔‬
‫م‬
‫چنہ کے کمرے میں داجل ہونی بو خوتصورت تتھی سی خوسنو ئے اس کا‬
‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫اسیقبال کبا۔ اس کے خوتصورت آدھے نالوں کو ھے ناندھا گبا تھا اور ناقی کے نالوں‬
‫ش‬ ‫چ‬ ‫چ‬ ‫م‬ ‫گ‬ ‫چ‬ ‫ج‬‫ن‬
‫کو کرل کر کے ھے ھوڑا گبا تھا۔ ناندھے نے نالوں یں ھوئے ھوڑے سے قبد‬‫ن‬

‫تھول تکائے گنے تھے۔ چنہ کے چہرے پہ کونی ناپر موخود نہیں تھا۔ وہ سباٹ انداز‬
‫میں ا ننے نالوں کی فنٹسبگ کروا رہی تھی‪ ،‬اس ئے شادی کا خوڑا اتھی تھی نہیں نہبا‬
‫تھا۔‬
‫”تم ا نسے ہی نہت خوتصورت لگ رہی ہو۔۔“ علتبا ئے ئےشاچنہ اس کی‬
‫م‬
‫تعرتف کی جاالنکہ وہ اتھی کمل نبار نہیں تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪329 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم تھی نبار ہو کے دامیر کو پہ کہنے کا موفع دو۔“ چنہ ہلکا شا مشکرانی‪ ،‬علتبا کی‬
‫خوسی دنکھنے والی تھی۔ اس کی نات پہ وہ چھت نپ گنی تھی۔‬
‫”میں اتھی ناہر دنکھ کے آرہی ہوں‪ ،‬شب انبا خوتصورت لگ رہا ہے جٹسے انک‬
‫ڈرتم ونڈنگ۔ ہر چیز آف وانٹ تھتم میں ہے۔۔ تم دوبوں کا کبل نہت خوتصورت‬
‫م‬
‫لگے گا۔“ علتبا پرخوش ہونی بولی‪ ،‬چنہ ا ننے نال کمل نتنے پہ اتھی اور اس کے رجشار‬
‫تھتتھبانی ہونی بولی۔‬
‫”نہلے تم نبار ہو جاؤ۔ تھبک ہے۔“ انبا کہہ کے وہ ڈرنسبگ میں جلی گنی۔‬
‫علتبا فرنش ہو کے آنی بو وہ دوبوں لڑکباں اس کو تھی نبار کرئے لگیں۔‬
‫”کبا متم اسی طرح رہنی ہیں‪ ،‬عصے میں۔“ اسبانلشٹ ئے دھتمے لہچے میں علتبا‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫سے بوچھا جس پہ وہ نا ھی سے د کھنے گی۔‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫م ن‬
‫لڑکی ئے نبانا کہ کٹسے وہ نالکل سباٹ انداز یں ھی ھی‪ ،‬نا م کرا رہی ھی اور‬
‫ش‬
‫پہ ہی کونی خوسی والے خزنات کا اظہار کر رہی تھی۔ البا جٹسے وہ کسی کو فبل کرئے‬
‫والی تھی۔ علتبا ئے شاچنہ ان کی نانیں ستنی ہٹس دی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪330 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اتھی آپ لوگوں ئے ان کے ہوئے والے ہزنتبڈ کو نہیں دنکھا‪ ،‬وہ اس سے‬


‫تھی کولڈ ہارٹ ہیں۔ مجھے بو ان کو دنکھ کے چھرچھری سی آنی ہے۔“ علتبا ئے ان کو‬
‫ک یفرٹ کرئے کے نحائے رنان کے نارے میں ا ننے جباالت کا اظہار کبا۔‬
‫ان دوبوں لڑک نوں ئے انک دوسرے کے دنکھا جن کے چہروں کی ہوانباں اڑی‬
‫تھیں۔‬
‫چنہ انبا خوتصورت شا ونڈنبگ گاؤن نہن کے آنی خو وانٹ ہی تھا۔ نازو اور اس‬
‫کے گلے پہ ن نٹ پہ خوتصورت شقبد پرل سے کام ہوا تھا۔ وہ نہت خوتصورت لگ رہی‬
‫تھی کہ کمرے میں موخود ناقی نت نوں مبہوت سی اس کو د نکھے گنیں۔‬
‫”کونی جالنی محلوق نہیں ہوں میں۔“ ان نت نوں لڑک نوں کو مشلشل خود کو نکبا نا‬
‫کے وہ کوفت سے بولی۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫”میں ئے اننی خوتصورت پرانڈ زندگی میں نہلی نار د ھی ہے۔۔“ لتبا ئےشاچنہ‬
‫ع‬
‫بولی کہ ان کی تعرتفوں سے چنہ کے ما تھے پہ ن نوری ہی خڑھی جا رہی تھی۔‬
‫”نمہیں ہم دونارہ نبا دیں گے پرانڈ تھر نہی چملہ دامیر کہے گا۔۔“ چنہ کی کہی‬
‫سنجبدہ نات پہ علتبا کو کجھ دپر نہلے دامیر کے شاتھ وہ نل ناد آئے بو سرخ پڑ گنی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪331 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ن‬
‫مبکس ل نو تھی نہاں ہنچ جکے تھے‪ ،‬اور انہی کی موخودگی میں رنان ڈی اور چنہ ل نو‬
‫خود کو انک دوسرے کے نام کر جکے تھے‪ ،‬شام ڈھل رہی تھی اور مہمابوں کی آمد سے‬
‫الن پرروبق ہو گبا تھا۔‬
‫گلبارے کے گرد تھولوں کی لڑناں سحانی گنی تھیں اور دوبوں اطراف نتبل‬
‫سنٹ کنے گنے تھے۔ گولڈن النٹس سے تطارہ مزند خوتصورت نٹش ہو رہا تھا۔ اسی تھتم‬
‫کے مطابق رنان ئے نلبک تھری نٹس نہن رکھا تھا جس میں آف وانٹ سرٹ تھی‬
‫م‬
‫جبکہ دامیر ئے کمل نلبک تھری نٹس شوٹ نہن رکھا تھا۔‬
‫تھولوں سے سچی راہ داری کے آخر پہ رنان مشکرانا ہوا کھڑا تھا‪ ،‬چنہ مبکس ل نو اور‬
‫علتبا کی ہمراہ چہرے کے آگے شقبد گھونگ ھٹ گرائے اس کی طرف پڑھ رہی تھی‪ ،‬وہ‬
‫جا ہنے کی ناخود ا ننے چہرے پہ مشکراہٹ نہیں ال نارہی تھی۔‬
‫اس کو رہ رہ کے شا منے کھڑے انشان پہ عصہ آرہا تھا جس کی وجہ وہ آج دلہن‬
‫ننی کھڑی تھی۔ اس کے نس میں ہونا بو ا ننے جافو سے ہی اس کا گال کاٹ د ننی۔ گال‬
‫کانبا ممکن نہیں تھا کم از کم انک ہاتھ بو علنحدہ کر ہی شکنی تھی نا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪332 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا مشکرانی ہونی اس کے شاتھ جا رہی تھی‪ ،‬شب مہمان اننی نسسنوں پہ‬
‫پراچماں تھے۔ رنان کی شانبڈ پہ دامیر ہاتھ ناندھے کھڑا تھا جس کے تگاہیں اس وفت‬
‫علتبا پہ نکی ہونی ت ھیں۔‬
‫ن‬
‫رنان کے ناس ہنجنے مبکس ل نو ئے مشکرائے ہوئے چنہ کا ہاتھ رنان کے ہاتھ‬
‫ک‬
‫میں تھمانا۔ جٹسے ہی وہ اس کے پراپر کھڑی ہونی چنہ ئے نیزی سے انبا ہاتھ ھتنچ لبا۔‬
‫رنان ضیط کرنا رہ گبا۔ تکاح بو نہلے ہی ہو حکا تھا ان کا اندر مبکس کی موخودگی‬
‫میں‪ ،‬اب رنگ سرمنی تھی خو شب کے شا منے تھی۔ رنان ئے انبا ہاتھ آگے پڑھانا‪،‬‬
‫گہری تگاہیں چنہ کے خوتصورت روپ کا جاپزہ لے رہی تھیں۔ چنہ ئے گہرا شانس‬
‫تھرئے انبا ہاتھ آگے کبا۔ رنان ئے تطاہر مشکرا کے اس کا ہاتھ تھاما لبکن اس کی‬
‫گرفت کتنی سحت تھی پہ چنہ جاننی تھی۔ دانت نٹسنے اس ئے ہاتھ چھڑوانا جاہا لبکن وہ‬
‫گرفت مضنوط کنے اس کی رنگ فبگر میں انگھونی نہبائے لگا۔ چھوئے گالنی نگت نوں سے‬
‫تھری جس کے درمباں میں انک خوتصورت ڈانمبڈ تصب تھا۔ رنان ئے اس کے ہاتھ‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫کو ا نسے ہی تھامے اننی جانب نجنے تنے سے لگانا کہ شب کے شا منے اس کی‬
‫س‬
‫خرکت پہ وہ شلگ کے رہ گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪333 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا ئے ہٹسنے چنہ کو رنگ تھمانی خو اس ئے رنان کو نہبانی تھی۔ اب وہ اسے‬


‫حصار سے آزاد کرنا بو اس کو نہبا نانی لبکن اس کی کمر پہ نازو تکائے ا نسے ہی اس سے‬
‫رنگ نہنی کہ شب مہمابوں میں شور اتھا گبا۔ جٹسے ہی رنان ئے اس کے چہرے سے‬
‫گھونگٹ اتھانا کہ رسبا اور دنگر معرنی ممالک میں ہوئے والی شادبوں کے مطابق ناقی‬
‫شب اب ان کو معنی چیز مشکراہٹ سے دنکھنے لگے۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”ڈونٹ بو ڈنیر۔۔“ رنان کی تگاہوں کا مطلب ھنے ہوئے چنہ ئے اس کو‬
‫سرد لہچے میں وارن کبا۔‬
‫”بو ملٹسکا‪ ،‬اس سے نہیں روک شکنی تم مجھے۔۔“ رنان جاالکی سے مشکرانا‪ ،‬اس‬
‫کی گرے آنکھوں میں الگ ہی چمک تھی۔ اس کی گرفت سے خود کو آزاد کروائے کو‬
‫چنہ ئے زور لگانا لبکن رنان ئے اس کی کمر کے گرد اننی گرفت مضنوط ہی رکھی کہ وہ‬
‫نس کشمشا کے ہی رہ گنی۔‬
‫”نہاں نہیں نلیز۔۔“ رنان اس کے مزند فرنب ہوا تھا چب چنہ ئے ئےشاچنہ‬
‫کہا‪ ،‬لبکن وہ قاصلہ مبائے اس کے رجشار پہ ا ننے ہونٹ رکھ گبا۔ اس کے لمس سے‬
‫چنہ کا دل اجانک زوروں سے دھڑکا کہ اس کے نازو پہ ر کھے چنہ کے ہاتھ کی نکڑ‬
‫سحت ہونی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪334 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ ئے شکھ کا شانس لبا کہ کم از کم اس ئے شب کے شا منے مزند ئےسرمی‬


‫کا مطاہرہ نہیں کبا تھا۔‬
‫شب کی ہونبگ سروع ہونی تھی‪ ،‬علتبا ئے خوسی سے نالباں نحانا سروع کی۔‬
‫دامیر اس کے فرنب ہوئے پرمی سے اس کو حصار میں لے گبا۔‬
‫”نہت خوتصورت لگ رہی ہو۔۔“ دامیر ئے ئے شاچنہ اس کی تعرتف کی جس‬
‫پہ وہ نلش کردی مشکرا دی۔‬
‫”تھتبک بو۔۔“ علتبا ا ننے نال کان کے ننجھے اڑ سنے ہوئے بولی۔‬
‫اس ئے خود گرے رنگ کا النگ ڈرنس نہن رکھا تھا شاتھ گلے میں ماال نہن رکھی‬
‫تھی۔ نالوں کو ڈنڈ سیرنٹ کبا ہوا تھا۔‬
‫”نمہیں ہبل نہیں نہتنی جا ہنے تھی۔“ دامیر ئے اس کے نیروں کو دنکھنے کہا‬
‫چہاں اس ئے پرانسئیرنٹ ہبل نہن رکھی تھی اور ان میں چھلکنے اس کے سرخ‬
‫ہوئے ناؤں تظر آرہے تھے۔ ضرور وہ تھک گنی تھی۔‬
‫”میں تھبک ہوں ا نسے ہی۔۔ اور کتنے زنادہ مہمان آئے ہیں تم ئے مجھے ملوانا‬
‫ک‬‫ن‬
‫نہیں کسی سے۔“ علتبا اطراف میں د نی ہونی بولی۔‬
‫ھ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪335 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫پہ نات دامیر ہی جانبا تھا کہ آدھے لوگوں کو انمرجنٹسی میں وہ کٹسے دھمکا کے النا‬
‫تھا رنان کی شادی کے لنے۔‬
‫اگر انہیں کے سرکل کے لوگ ہوئے بو علتبا نہلی فرصت میں نہاں اشلحہ زدہ‬
‫لوگ دنکھنے نبہوش ہونی ملنی۔‬
‫ان کے گارڈز کی فتملیز تھیں‪ ،‬کجھ شوشاننی کے لوگ تھے خو ان کو جا ننے تھے۔‬
‫ہر کونی نہاں ہانی پروقانل واال سحص موخود تھا۔‬
‫رتفرنشمنٹ کے تغد ن نو کبل کے ڈانس کی فرمانش آئے لگی بو ناقی کبلز تھی قلور‬
‫پہ آ گنے۔‬
‫چنہ ئے انک شکوہ کباں تگاہ سے مبکس ل نو کو دنکھا۔ ان شب لوگوں میں اس‬
‫ھ‬ ‫چ‬
‫کو وجشت ہو رہی تھی۔ عج نب جھالہٹ کا شکار ہو رہی ھی وہ۔ اس کا نہاں ر کنے کا‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫نالکل تھی دل نہیں جاہ رہا تھا۔ مبکس پہ شب ا چھے سے جا ننے تھے کہ اس کو‬
‫گبدرنگ سے الیرجی تھی ت ھر اوپر سے ا ننے مہمان۔‬
‫”مجھے جانا ہے نہاں سے۔“ م نوزک کی ہلکی سی دھن پہ شب لوگ اننی مست نوں‬
‫میں تھے چب چنہ ئے رنان سے کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪336 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ا نسے کٹسے‪ ،‬اتھی بو رات سروع ہونی ہے۔۔“ رنان ئے تگاہیں اس کے چہرے‬
‫پہ تکائے معنی چیز سے کہا۔‬
‫”میرے شاتھ پہ نکواس نہیں کرو اور چھوڑو مجھے‪ ،‬ہو گنی شادی دنکھ لبا شب‬
‫ئے ۔۔ اب جان چھوڑو میری۔“ نہلے وہ نالکل مدھم لہچے میں بولی تھی لبکن جٹسے ہی‬
‫رنان ئے کہا بو وہ شلگ اتھی۔ پرزور مزاچمت کرئے اس ئے انبا آپ چھڑوانا۔‬
‫”شادی ہونی ہے اتھی۔۔ اس کا مطلب پہ نہیں کہ جان چھوڑ دوں نمہاری۔“‬
‫رنان ئے انک جشت میں اس کو تھامے ا ننے فرنب کبا کہ چنہ ئے عصہ ضیط کبا۔‬
‫”نمہیں نمیز نہیں ہے نات کرئے کی‪ ،‬ہاتھ مت لگاؤ مجھے۔“ اس کے نار نار‬
‫ناس کرئے پہ اسے خڑ سی ہو رہی تھی جس پہ وہ تھبا کے رہ گنی۔‬
‫”نمیز ملٹسکا‪ ،‬تم موفع دو بو نمہیں عسق کی میزلیں طے کرواؤں۔“ اس کو زپردسنی‬
‫ا ننے شاتھ لگائے ہلکا شا موو کرئے لگا ا نسے کہ شب کو لگبا وہ دوبوں ہتنی کبل ا ننے‬
‫اہم موفع پہ ڈانس کر رہے تھے۔ ناقی شب تھی ان کے فرنب ہی انحوائے کر رہے‬
‫تھے چب رنان ئے ہلکی آواز میں اس سے کہبا سروع کبا۔‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫ت ً‬
‫”شاشا نمہاری نالش میں ہے۔ فرنبا شب جان گنے یں کہ م میری ہو کن خو‬
‫ل‬ ‫ہ‬
‫اننی نہحان تم شاشا سے کہہ کے آنی تھی وہ اتھی تھی اس کی نالش میں ہے بو کجھ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪337 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دن اس گھر سے ناہر نہیں تکلو گی۔“ انبا انک ہاتھ اس کے رجشار پہ تکائے وہ پرمی‬
‫سے بوال۔‬
‫ل‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫نک م ن‬
‫”اس کی بو آ ھوں یں آ یں ڈال کے یں انبا نام لوں گی۔“ چنہ سرد ہچے‬
‫میں بولی کہ رنان کے ہونٹ کے کبارے تھبلے۔‬
‫”نہلے تھی کہا تھا‪ ،‬تم پہ کسی اور کی تگاہ پرداشت نہیں کروں گا۔“ اس کی‬
‫تھوڑی کو تھامے چہرہ نلبد کرئے ا ننے القاظ پہ زور دنا کہ چنہ ئے اس کی آنکھوں میں‬
‫دنکھا۔‬
‫”نہاں شب مجھے ہی دنکھ رہے ہیں۔“ چنہ ئے سر چھبک کے کہا۔‬
‫”نہاں کسی کی ہمت نہیں کہ تم پہ پری تگاہ ڈالے‪ ،‬ورپہ وہ نہاں موخود نہیں‬
‫ہونا۔“ رنان کی گرے آنکھوں میں چمک تھی‪ ،‬وہ اس وفت قل نباری میں چنہ کو‬
‫شب سے ہتبڈسم لگا تھا لبکن اس کا اغیراف وہ اس سے ک نوں کرنی۔ کرنی تھی بو‬
‫ہتبڈسم کی جگہ وہ زہر کا لقظ اسیعمال کرنی۔‬
‫”مجھے اب جائے دو۔“ چنہ ئے اس کا ہاتھ چہرے سے ہبانا جاہا۔ رنان ئے‬
‫انک نل کو اسے دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪338 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫”جتنج نہیں کرنا۔۔“ اس ئے چھک کی سرگوسی کی کہ چنہ ئے آ یں ھما یں۔‬
‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫نہی کام شب سے نہلے کرئے والی تھی وہ۔‬


‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫چنہ رنان سے دور ہونی چب گالس ڈور کو دھکبلے اندر جائے لگی نب انک گارڈ‬
‫کی تکار ستنے رک گنی۔ گارڈ نیزی سے تھاگبا ہوا آنا اور دامیر سے کجھ کہنے لگا خو رنان‬
‫کے ناس ہی تھا۔ اس ئے علتبا کو دنکھنے کے لنے تگاہیں دوڑانیں خو فوڈ کاؤنیر کے‬
‫ناس کھڑی تھی‪ ،‬ڈرنک اسی کے شاتھ تھا۔‬
‫گارڈ کے جائے کے تغد اس ئے ڈرنبا کو اندر آئے دنکھا۔ ڈرنبا کی اس نل آمد‬
‫شب کو خوتکا د ننے والی تھی۔ چنہ ئے دامیر کے چہرے کے ناپرات نل میں ند لنے‬
‫د نکھے۔‬
‫الن میں سحاوٹ دنکھنے اس کے چہرے پہ چیرت تھی۔ وہ موفع کا قاندہ اتھائے‬
‫اندر آنی تھی۔‬
‫”نہاں ک نوں آنی ہو؟“ دامیر اس کے مقانل ک ھڑے ہوئے بوال‪ ،‬اس کے انداز‬
‫س‬
‫پہ وہ انک نل ہمی لبکن طاہر پہ کبا۔ ڈرنبا آس ناس دنکھنے لگی جٹسے علتبا کو نالش‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪339 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کر رہی ہو۔ علتبا اس شب سے ئےچیر ڈرنک کی کسی نات پہ مشکرائے ہوئے سر ہال‬
‫رہی تھی۔‬
‫”مجھے علتبا سے ملبا ہے‪ ،‬اس کی کاقی قکر ہو رہی تھی مجھے۔ انک دفع اس کو نال‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫م‬
‫دیں۔“ ڈرنبا دامیر کو د نی ہونی بولی۔ وہ جا نی ھی کہ ا ننے لوگوں یں دامیر اس کا‬
‫ن‬
‫کجھ تگاڑ نہیں شکے گا نتھی لوگوں کو د نی وہ نڈر ننے اندر آ نی ھی۔‬
‫ت‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫”اس کی طت یغت تھبک نہیں ہے‪ ،‬نہاں سے جاؤ۔۔ اور آ نتبدہ اس طرف کا رخ‬
‫اجتبار نہیں کرنا۔“ دامیر انک انک لقظ جبا کے بوال‪ ،‬ڈرنبا جاموش ننی کھڑی رہی۔‬
‫”وہ میری دوشت‪ ،‬آپ مجھے اس سے ملنے سے روک نہیں شکنے۔“ وہ ہمت کرنی‬
‫بولی چب اسے علتبا اِ دھر ہی آنی ہونی دکھانی دی۔‬
‫”ہم نالکل تھی پرداشت نہیں کرئے کہ کونی ہماری پراپرنی میں نبا اجازت اننی‬
‫نانگ اڑائے‪ ،‬اور اگر کونی انشا کرنا تھی ہے بو اننی اگلی شانس نہیں لے نانا۔۔۔“‬
‫دامیر شلگنے ہوئے لہچے میں بوال کہ ڈرنبا موفع دنکھنے نیزی سے علتبا کی جانب پڑھی۔‬
‫دامیر ضیط کرنا رہ گبا۔ اس کے لڑکی ہوئے کا لحاظ کر گبا ورپہ اتھی نک وہ الوارث‬
‫تعش پڑی ہونی نہاں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪340 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫مبکس ل نو ا ننے گارڈز کے شاتھ انک نتبل کے گرد موخود اس صورت جال سے‬
‫ناوافف تھے لبکن جٹسے ہی ان کی تظر ڈرنبا پہ پڑی وہ تھی خونک ا تھے۔‬
‫”علتبا! کٹسی ہو تم؟“ ڈرنبا اس کو گلے لگانی ہونی بولی کہ وہ گ ھیرا اتھی۔ انحان‬
‫چہرے کو دنکھنے اس ئے دو قدم ننجھے لنے اور ئےشاچنہ دامیر کو دنکھا۔‬
‫”علتبا رنلبکس! ادھر آجاؤ۔“ مبکس کی آواز ستنے وہ ڈرنبا سے دور ہونی ا ننے اتکل‬
‫ہ‬‫ن‬
‫کی جانب جل دی۔ چنہ انبا ڈرنس تھامے نبا کسی کا لحاظ کنے ڈرنبا کے شا منے چی۔‬
‫ن‬
‫من بو تھا کہ انک سبدھا وار اس کے گردن پہ کرے لبکن دلہن کسی کو مارنی ہونی‬
‫اچھی تھوڑی لگنی تھی۔‬
‫”کہا تھا کہ نہاں نہیں آنا‪ ،‬ڈرنبا اننی جلدی وانسی۔۔“ نہال چملہ آہشنہ آواز میں‬
‫کہنے اس کے نازو کو سجنی سے تھامے دوسرا چملہ نلبد آواز میں کہا۔‬
‫”کبا ہو گبا ہے آپ کو میری دوشت ہے وہ۔“ ڈرنبا الجھن لنے دکھ سے بولی جبکہ‬
‫ت‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫علتبا شب ھنے کی کوشش کر رہی ھی نونکہ نوں کے ناپرات سرد ھے۔ رنان کی‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬ ‫ک‬
‫تگاہیں ڈرنبا کے نحائے علتبا پہ نکی تھیں جٹسے وہ اس کو جانچ رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪341 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم جتنی دوشت ہو جا ننے ہیں ہم۔ اس سے نہلے کہ میں نمہارا سر ین سے جدا‬
‫کردوں نہاں سے دفع ہو جاؤ۔“ چنہ اس کو شاتھ لنے انک انک لقظ جبا کے بولی‪ ،‬ڈرنبا‬
‫ئے عصے سے سرخ چہرہ لنے چنہ کو دنکھا خو دلہن ننی اس کو دھمکباں دے رہی تھی۔‬
‫”ملٹسکا! آج کے دن تم پہ عصہ شوٹ نہیں کرنا‪ ،‬کم آن تم رنشٹ کرو جا‬
‫کے۔“ رنان ڈرنبا کو اس کی گرفت سے آزاد کرنا ہوا بوال۔‬
‫ان شب کو علتبا کی طرف سے قکر تھی کہ کہیں ڈرنبا کی کہی نات سے شک‬
‫میں پہ جلی جائے اور اگر اس کی وجہ سے علتبا کی ناداشت وانس آجانی بو عین ممکن‬
‫تھا کہ پہ تھوڑا عرصہ خو ان کے شاتھ گزارا تھا وہ تھول جانی۔ ا نسے میں وہ دامیر کے‬
‫شاتھ انبا رشنہ تھال د ننی۔‬
‫”تم لوگ تھول رہے ہو اگر اس دنبا میں نمہارا نام ہے بو میں تھی نہیں نلی‬
‫ہوں۔ اس شب کا ندلہ میں ضرور لوں گی۔ وہ میری دوشت ہے اور تم لوگ اس سے‬
‫ملنے سے روک رہے ہو۔“ ڈرنبا لہچے میں عصہ سموئے بولی اور نیزی سے نہاں سے تکل‬
‫گنی۔‬
‫ن‬
‫علتبا الجھن کا شکار کتھی دامیر کو بو کتھی چنہ کو د نی کہ آخر پہ کبا ماخرہ تھا اور‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫اگر وہ اس کی دوشت تھی بو اس سے ملنے ک نوں نہیں دنا گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪342 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم پرنشان پہ ہونا۔ وہ کونی تھی نہیں تھی تم انحوائے کرو۔“ مبکس اس کو‬
‫نشلی د ننے ہوئے بولے جس ئے محض سر ہالنا۔‬
‫”اگر نمہارا ارادہ رنشٹ کرئے کا نہیں بو ہم انک اور ڈانس کر شکنے ہیں۔“ چنہ‬
‫اتھی تھی شلگنی تگاہوں سے اس راہ کو نک رہی تھی چہاں سے اتھی ڈرنبا گنی تھی‬
‫نتھی رنان اس کے فرنب آنا اس کے نازو کو تھا منے لگا چب اس ئے انبا نازو چھبکے‬
‫سے ننجھے کرئے اس پہ تگاہ علط ڈالے نبا وہاں سے جلی گنی۔‬
‫اس کو اندر جانا دنکھ مبکس ئے علتبا کو تھی کہا کہ وہ آرام کر لے۔ وہ اتھی‬
‫تھی خزپز سی تھی نتھی م یکانکی انداز میں سر ہالئے ہوئے چنہ کے شاتھ اندر ہی جلی‬
‫گنی۔‬
‫”مجھے اس کا نان نو ڈ نبا جا ہنے ڈرنک‪ ،‬پہ دوسنی کی جاطر نہاں نہیں آنی تھی۔“‬
‫رنان ڈرنک سے بوال اور انبا کوٹ انارئے لگا‪ ،‬ڈرنک ئے مؤدب سر ہالنا۔‬
‫مبکس کو رات میں شاشا سے متنتبگ کے لنے تکلبا تھا بو وہ نہاں زنادہ دپر رکے‬
‫نہیں تھے۔ مہمابوں کے جائے کے تغد رنان اور دامیر کجھ دپر کے لنے سبک نورنی روم‬
‫میں رہے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪343 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫انبا کوٹ کبدھے پہ ر کھے رنان چب کمرے میں داجل ہوا بو وہاں کونی نہیں‬
‫تھا‪ ،‬نہاں نک کہ نبڈ سنٹ تھی نبا شلوٹ کے ونسی ہی تھی۔ اسے اچھتبا ہوا کہ چنہ‬
‫کہاں تھی۔‬
‫اس ئے ڈرنسبگ اور ناتھ روم جبک کنے وہاں تھی شب نارمل تھا۔‬
‫انبا کوٹ ہتبگ کرئے وہ کمرے سے ناہر آنا‪ ،‬تگاہیں اس راہ داری پہ گنیں‬
‫چہاں چنہ کا شاتفہ کمرہ تھا۔‬
‫اس کا ا ننے روم میں ر ہنے کے جبال پہ اسیغال کی لہر جشم میں سران نت کر‬
‫گنی۔ لمنے لمنے ڈگ تھرنا وہ اس کے کمرے کے ناہر رکا‪ ،‬نبا دسبک د ننے وہ اندر داجل‬
‫ہوا۔ رات کے نارہ نج رہے تھے اور کمرہ نتم نارنکی میں ڈونا ہوا تھا۔ شا منے نبڈ پہ کمفرپر‬
‫کے اندر چھنے وخود کو وہ شلگنی تگاہوں سے دنکھنے لگا۔ اسے تفین پہ آنا کہ شادی کے‬
‫دن اس کی پرانڈ نحائے اس کے شاتھ روم میں ر ہنے کے ا ننے شاتفہ کمرے میں‬
‫موخود تھی۔‬
‫اس کا اندر آنا بو وہ محسوس کر جکی تھی۔ ا ننے کف لبکس فولڈ کرئے‪ ،‬شوز‬
‫انارے وہ نبڈ نک آنا۔ سنجبدگی سے اس ئے چنہ کے سباہ نالوں کو دنکھا خو کروٹ لنے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪344 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫لتنی تھی۔ اس کے کہنے کے ناوخود وہ کیڑے پہ ضرف نبدنل کر جکی تھی نلکہ اس‬
‫کے ارمابوں پہ نانی ت ھیر جکی تھی۔‬
‫اس پہ زرا شا چھکنے کمفرپر کو ننجھے کبا اور انک چھبکے سے اس کا رخ اننی جانب‬
‫َ‬
‫کرئے اس کی گردن کو گرفت میں لبا خو النٹ نبک نانٹ پراؤزر سرٹ میں مبک اپ‬
‫سے ناک چہرہ لنے ہوئے تھی۔‬
‫”ملٹسکا! نبانا نسبد کریں گی کہ آپ نہاں کبا کر رہی ہیں۔“ گردن کے گرد ہاتھ‬
‫لنتنے‪ ،‬اس کی کھلی آنکھوں میں چھانکبا وہ سرد لہچے میں بوال۔‬
‫”نین ہیں خو تظر نہیں آنا‪ ،‬مجھلباں ننچ رہی ہوں۔“ اس کے ہاتھ کی گرفت کو‬
‫ئےدردی سے چھبکنے وہ دانت نٹسنے ہوئے بولی۔‬
‫رنان ئے کجھ کہنے میں وفت صا تع کنے نبا‪ ،‬اس کو کمر سے تھامے ا ننے‬
‫کبدھے پہ تھت یکا کہ چنہ کو بو اجانک ہونی واردات کی سمجھ ہی نہیں آنی۔‬
‫”میں نمہاری جان تکال لوں گی رنان۔۔“ اس کی نانگوں کو قابو کنے ہوئے تھا‬
‫چب وہ جال اتھی۔‬
‫”اس کمرے کی عالوہ تم مجھے کسی دوسرے کمرے میں تظر پہ آؤ۔“ اس کو‬
‫نبڈ پہ انارئے ہوئے اس کے اطراف میں دوبوں ہاتھ چمائے اور سرد لہچے میں کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪345 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میرج آف االننٹس میں پہ کون شا ُرخ ہے مجھے نبانا زرا۔“ چنہ تھوڑا ننجھے کو‬
‫ہونی ہونی آپرو احکائے اسیقشار کرئے لگی۔‬
‫”کبا تم نہیں جاننیں مافبا پرنسٹس کہ ہماری شادبوں میں اس کو نتھانا تھی‬
‫ضروری ہونا ہے۔“ انک گھتبا نبڈ پہ تکائے مزند اس پہ چھکنے معنی چیز لہچے میں بوال کہ‬
‫چنہ ئے ن یفر سے رخ موڑا۔‬
‫”اور آج بو تھر ہماری رات نمہارے نجرے کے نام۔۔“ اس کے ل نوں کا انک‬
‫کونا تھبال‪ ،‬گونا وہ جاالکی سے مشکرانا تھا۔ رنان ئے انبا ہاتھ اس کے چہرے کی طرف‬
‫پڑھانا چب انک جتھن ا ننے ن نٹ پہ محسوس کرئے اس کی مشکراہٹ گہری ہونی‬
‫تھی۔‬
‫”آنی ڈانٹ النک بو نی نحڈ‪ ،‬کنپ بور ہتبڈز آف می۔“‬
‫‪(I don’t like to be Touched,‬‬
‫)‪keep.Your.Hands.off.Me.‬‬
‫وہ انک انک لقظ جبا کے بولی‪ ،‬رنان ئے تظریں ننچے کرئے ا ننے ن نٹ پہ دنکھا‬
‫چہاں وہ جاکو ر کھے ہوئے تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪346 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”لبکن ا نسے بو رات گزرئے سے رہی۔۔“ وہ ئےناک سرگوسی کرئے بوال‪ ،‬اشارہ‬
‫اس کی نات کی طرف تھا جس پہ وہ ضیط کرنی رہ گنی۔‬
‫”میں ئے شادی کر لی ہے لبکن اس کا پہ مطلب نہیں کہ چب تم جاہو میں‬
‫نمہارے جکم پہ سر چم کروں۔ االننٹس تھی بو پزنس نک ہی رکھو۔ مجھ سے کونی تغلق‬
‫نبائے کی ضرورت نہیں ہے اور پہ میں جاہنی ہوں۔“ جاکو کی بوک پہ دناؤ ڈا لنے‬
‫ن‬
‫ہوئے وہ سرد لہچے میں بولی اور اس کے نازو کو ہبائے ہوئے سبدھی تتھی۔‬
‫”تغلق بو ین حکا ہے‪ ،‬جاہے نمہاری دلی رصامبدی تھی نا نہیں۔ اس کو جتم‬
‫کرئے کا شوجا تھی بو اگلے ہی لمچے نمہاری جان انہیں ہاتھوں سے تکالوں گا۔“ اس‬
‫کے جافو تھامے ہاتھ کو ا ننے ہاتھ میں لتنے ہوئے وہ بوال۔ اس کی آنکھوں میں تھی‬
‫سرد ین در آنا تھا۔‬
‫”شوچ لبا‪ ،‬اب تکالو جان۔۔“ وہ ہاتھ میں تھامے جافو کو چھوڑنی ہونی نمسجراپہ‬
‫انداز میں بولی۔ جافو ننچے کارن نٹ پہ جا گرا کہ رنان کی آنکھوں کی چمک ندلی۔ چنہ سمجھ‬
‫پہ نانی تھی اور اگلے ہی لمچے اس کے اوشان حطا ہوئے چب وہ قاصلے جتم کر گبا۔‬
‫اس کے دوبوں ہاتھ رنان کی گرفت میں تھے‪ ،‬وہ چھڑوا پہ نانی۔ کجھ سمجھ پہ آنی بو اس‬
‫ئے انبا ناؤں رنان کے ناؤں پہ دے مارا۔۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪347 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گرفت ڈھبلے کرئے وہ مشکرانا ہوا اس سے تھوڑے قاصلے پہ ہوا۔‬


‫”قسظوں میں تکالوں گا جان۔۔“ اس کے کان کے فرنب ہوئے زومعت نت‬
‫سے بوال۔ کجھ نل بو چنہ خود کا ن یقس ستتھالنی رہی۔ کجھ کہنے کے نحائے اس کو دھکا‬
‫د ننی ننجھے ہونی اور نبا کونی مزند نات کنے کمفرپر لنے لنٹ گنی۔ رنان سے اس قشم کی‬
‫ئےناکی کی وہ امبد نہیں کر رہئ تھی نتھی وہ جٹسے صدمے میں تھی۔ اس سے تظریں‬
‫مالئے تغیر رخ موڑ گنی۔‬
‫اننی ئےنسی پہ عصہ شا آرہا تھا کہ وہ اس کو روک ک نوں نہیں نانی جبکہ رنان‬
‫سرشاری کی ک یق نت میں جلبا ہوا روم النٹ ڈم کرنا ہوا ڈرنسبگ روم میں جتنج کرئے‬
‫جال گبا۔ فرنش ہو کے ناہر آنا بو اس کو شوئے کی اداکاری کرئے نانا۔‬
‫”ڈنگر دی ڈبول! اننی سی نات پہ جاموش اور نبا فبل کنے شکون میں ہے۔“ وہ‬
‫جان بوچھ کے اس کو نبگ کر رہا تھا لبکن وہ جاموسی سے پڑی رہی۔‬
‫اس ئے انبا نکنہ اتھائے چنہ کے فرنب کبا اور اس کے نالکل پزدنک نتم دراز‬
‫ہو گبا۔ چت لتنے اس کے ہون نوں پہ نمودار ہوئے والی مشکراہٹ ابوکھی تھی۔ دوسری‬
‫جانب چنہ اس کی ا ننے پزدنک لنتنے پہ خواس ناچنہ ہو رہی تھی۔ اگر اس ئے کہا تھا‬
‫کہ اس کو چھوئے جائے سے الجھن تھی بو وافعی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪348 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”واتف کا ہونا تھی الگ ہی شکون ہے و نسے۔۔“ رنان اس کی طرف کروٹ لتبا‬
‫اس کے گرد نازو تھبالئے بوال کہ چنہ ئے شانس روک لبا۔ وہ جان بوچھ کے اس کے‬
‫صیر کا امنحان لے رہا تھا۔‬
‫”اگر نہلے نبا ہونا بو دس شال نہلے تم سے شادی کر حکا ہونا۔۔“ اس کے نالوں‬
‫کی خوسنو میں گہرا شانس تھر کے بوال‪ ،‬اس کے کہنے کی دپر تھی۔ چنہ چھبکے سے اتھ‬
‫ن‬
‫تتھی۔‬
‫دونارہ سبدھے ہوئے سر کے ننچے دوبوں نازو ر کھے وہ مزے سے چنہ کو دنکھنے‬
‫لگا۔‬
‫”کبا ہوا‪ ،‬ڈر لگ رہا ہے۔۔“ اس ئے مضنوعی قکرمبدی کا مطاہرہ کبا کہ چنہ‬
‫ئے اشعبال انگیز تگاہوں سے اس کو دنکھا۔ نبا کجھ کہے وہ نبڈ سے ہی اپر گنی۔‬
‫نہاں اس کے شاتھ رات گزارئے کا مطلب تھا فصوروار ہوئے تھی مقانل کی‬
‫جان پہ لتبا اور انشا اس کو پرداشت نہیں ہو نا رہا تھا۔‬
‫چنہ کو چب دروازے کی جانب جانا دنکھا بو رنان نیزی سے نبڈ سے اتھنے اس‬
‫کے فرنب آنا اور اس کے نازو کو اننی گرفت میں لبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪349 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ڈونٹ بو ڈنیر۔۔۔“ اس کی گردن پہ جافو کی بوک رکھنے وہ عرانی کہ رنان ئے‬


‫آپرو احکائے جبکہ ہون نوں پہ نٹشم کھال۔۔‬
‫”نہلی رات مار ڈھار انیرستبگ۔۔“ رنان اس کے نازو پہ اتگلی ت ھیرئے کبدھے‬
‫نک آنا چب چنہ ئے اس کی گردن کے ننچے جافو الئے زور دنا۔ خون کی نارنک لکیر تظر‬
‫آنی۔‬
‫”چب میں ئے کہا ہے مجھے نہیں نسبد پہ شب بو دور رہو۔۔“ مزند زور د ننی ہونی‬
‫اس ئے جافو کو تھوڑا اور ننچے کبا۔ چنہ کی تظر اس خون کی بوند پہ گنی خو اس لکیر‬
‫سے تکلی تھی۔ اسی کا قاندہ اتھائے رنان ئے اس کے جافو کو انک جشت میں نکڑے‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫دور اچھاال۔ ھنے ہی چنہ ئے ہاتھ کا مکا نبائے ہی اس کے چیڑے پہ دے مارا۔‬
‫”لبکن مجھے نمہیں چھونا انبا ہی نسبد ہے جتبا نمہیں دور جانا۔۔۔“ اس کے دوبوں‬
‫ہاتھوں کو قابو میں کرئے اس کی نشت کو ستنے سے لگائے ہوئے سرد لہچے میں بوال۔‬
‫”ڈنل کرئے ہیں۔۔ مجھ سے جتبا دور جاؤ گی میں خود کو تم پہ انبا ہی نبگ کر‬
‫دوں گا۔“ چنہ کو اس وفت رنان پہ شدند عصہ آرہا تھا۔ وہ جاہے جتنی تھی ماہر ہونی‬
‫اس کی مرداپہ مضنوط گرفت سے خود کو آزاد نہیں کروا نا رہی تھی۔‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ف ً‬
‫د عبا اس کو ا نی گردن پہ اس کا مس محسوس ہوا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪350 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”جاؤ چھوڑ دنا۔۔“ اس کی ئےنسی دنکھنے وہ ہٹس کے اس کو اننی گرفت سے‬


‫آزاد کر گبا کہ آزادی ملنے ہی چنہ ئے انک اور مکا اس کو دے مارا کہ اب کی نار رنان‬
‫ئے مباپر ہوئے آپرو احکائے۔‬
‫”اوف ملٹسکا۔۔!“ وہ سراہبا ہوا بوال کہ پہ وار زپردشت تھا۔‬
‫”نتبد بوری کرو اننی۔“ نل میں اس ئے انبا انداز‪ ،‬ناپرات ند لنے جٹسے دھمکانا جس‬
‫ن‬
‫کا چنہ پہ البا اپر ہوا اور وہ آ ک ھیں گھما کے رہ گنی۔ ننچے گرے دوبوں جافو اتھائے اس‬
‫ئے وانس نانگ پہ نہنے نبلٹ ہولڈر میں سنٹ کنے۔‬
‫ن‬
‫کجھ دپر وہ ا نسے ہی صوفے پہ تتھی رہی چب رنان اننی جگہ سے ہال نہیں بو اتھ‬
‫کے نبڈ کی جانب آنی۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫وہ دروازے والی شانبڈ پہ لتبا تھا‪ ،‬سر کے ننچے نازو تکائے آ یں موندی ہونی‬
‫ھ‬
‫تھیں۔ چنہ نبا خوں خرا کنے نتم دراز ہو گنی کہ اب ان کے درمبان اچھا قاصلہ تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ت‬‫م ن‬
‫دامیر روم میں آنا بو وہ اتھی تھی اسی بوزنشن یں ھی ھی ٹسے وہ نانچ منٹ‬
‫ج‬ ‫ت‬ ‫ت‬

‫نہلے چھوڑ کے گبا تھا۔ وہ اتھی تھی نبار تھی اس ئے جتنج نہیں کبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪351 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کبا شوچ رہی ہو؟“ دامیر اس کے ناس قاصلے پہ نتتھنے ہوئے بوچھنے لگا۔‬
‫”وہ لڑکی کون تھی خو مجھے جاننی تھی؟“ اس ئے نبا کونی نمہبد ناندھے شوال‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ت‬
‫کبا‪ ،‬دامیر کے اندازے کے مطابق وہ ڈرنبا پہ ہی می ھی۔‬
‫”کجھ انشان ہوئے ہیں خو آپ کی زندگی کے لنے نہیر نہیں ہوئے بو ان سے دور‬
‫رہبا ہی تھبک ہے۔“ دامیر ئے پرمی سے اس کا ہاتھ تھام کے سمجھانا۔‬
‫”لبکن وہ کہہ رہی تھی کہ دوشت ہے میری۔ مجھ سے ملبا جاہنی تھی۔“ علتبا‬
‫الجھن لنے بولی۔ ڈرنبا کا شو جنے علتبا کے چہرے پہ اداسی چھا گنی تھی۔‬
‫”وہ اننی ضروری نہیں ہے کہ تم اس کو شوچ کے انبا وفت پرناد کرو۔“ دامیر‬
‫کو اس کا ڈرنبا کے نارے میں شوجبا نالکل نسبد نہیں آنا تھا۔‬
‫”میری نبک نین ہو رہی ہے۔“ اس کے ہاتھ کو تھامے سہال رہا تھا چب علتبا‬
‫ئے آہشنہ آواز میں کہا۔‬
‫”م یع کبا تھا میں ئے کہ ہبل نہیں نہتنی۔“ غیر ارادی طور پہ دامیر کی تگاہ‬
‫اس کے نیروں کی جانب گنی خو اب ہبل سے ندارد تھے۔‬
‫”ہبل بو میں ئے ا ننے دبوں تغد نہنی تھی اور نس تھوڑی دپر کے لنے۔“ علتبا‬
‫ئے ناؤں کو اوپر کرئے ہوئے کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪352 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”زنادہ درد ہو رہی ہے۔“ دامیر ئے کمر پہ نازو تکائے ہوئے بوچھا۔‬
‫”اننی زنادہ نہیں لبکن اتھی تھی ہو رہی ہے۔ اتکل مبکس کب آ نیں گے؟“‬
‫درد کا نبائے اجانک ناد آئے پہ مبکس کے نارے میں اسیقشار کبا۔ اس کے شوال کو‬
‫جٹسے وہ سرے سے اگ نور کر گبا۔‬
‫”جتنج کر لو۔“ دامیر ئے اس کا ہاتھ تھامے اتھانا۔ وہ گہرا شانس تھر کے سر ہال‬
‫گنی۔‬
‫اس کے جتنج کرئے نک دامیر انک ڈاکیر کو نال حکا تھا۔‬
‫”نٹس منٹ نک اگر اس کی کمر درد نہیں گنی بو تم اس دنبا سے جلے جاؤ‬
‫گے۔“ دامیر ئے تطاہر مشکرائے مگر سرد لہچے میں وارن کبا کہ علتبا کے شاتھ شاتھ‬
‫ڈاکیر ئے تھی ہراشاں تگاہوں سے اس کو دنکھا۔ اس وفت وہ لوگ الؤنج میں موخود‬
‫تھے۔ رات کے اس نہر شوشاننی جاموش سی ہو گنی تھی۔‬
‫”دامیر۔۔!“ علتبا ئے ئےتفتنی تگاہوں سے اس کو دنکھا۔‬
‫”رنلبکس‪ ،‬اس طرح ڈاکیر جلدی کام کرے گا انبا۔“ اس ئے علتبا کو بو نشلی‬
‫دے دی لبکن ڈاکیر چیران پرنشان تگاہوں سے دنکھنے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪353 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”سر میں جبک کر رہا ہوں آپ نلیز تھوڑا صیر کریں۔“ ڈاکیر تفین دہانی کرئے‬
‫بوال‪ ،‬علتبا کی مبڈنشن جبک کرئے اس سے درد کی بوعنت بوچھنے لگا۔‬
‫مغا ننے کے تغد اس ئے تھوڑا پروگرنس کی جانب اشارہ کبا کہ وہ جلدی رنکور کر‬
‫رہی تھی اور آج نس تھکن کی وجہ سے اس کی کمر میں درد تھی۔‬
‫”کل ہم ان کے نازو کا انکسرے کریں گے اور اس کو تھی جبک کر لیں‬
‫گے۔“ ڈاکیر اس کے نازو کی موومت نٹ دنکھبا ہوا بوال۔‬
‫”ہاں میں زنادہ اس کو موو نہیں کرنی پہ ہی اس پہ وزن ڈالنی ہوں۔“ علتبا سر‬
‫ہالنی ہونی بولی۔‬
‫دامیر ہاتھ ناندھے کھڑا ڈاکیر کو نئیر پہ لکھبا دنکھ رہا تھا۔‬
‫”اس نانمبگ پہ کل آپ لوگ آجا ننے گا۔۔“ ڈاکیر نئیر پہ لکھے ناتم کی جانب‬
‫اشارہ کبا۔‬
‫ن‬ ‫م‬‫ن‬ ‫ہ‬‫ت ن‬
‫”ہم چب ھی یں یں وہاں ہونا جا ہنے۔۔ دپر سی صورت پرداشت یں‬
‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ہ‬ ‫چ‬ ‫ن‬
‫کروں گا میں۔“ دامیر ئے وہ وفت دنکھنے کی زچمت تھی نا کی تھی اور البا ڈاکیر کو جکم‬
‫د ننے لگا۔‬
‫”جی سر آپ چب مرضی آجا ننے گا۔“ ندفت مشکرائے ہوئے ڈاکیر ئے کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪354 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نبکشٹ ناتم ا ننے شاتھ انک قی مبل کو تھی رکھبا۔“ رنان علتبا کا ہاتھ تھام‬
‫کے اس کو صوفے سے کھڑا کرئے ڈاکیر سے بوال جس پہ وہ سر ہال گبا۔‬
‫ڈرنک ڈاکیر کو وانس چھوڑئے گبا تھا چب دامیر اس کو روم میں لنے وانس آنا۔‬
‫”میں دو دن گھر سے دور تھا کہیں تم ئے کونی انکت نونی بو سبارٹ نہیں کی خو‬
‫مجھے مغلوم نہیں۔“ دامیر اس کے فرنب نتتھنے ہوئے بوال۔‬
‫”کٹسی نانیں کر رہے ہو۔ انسی کونی نات نہیں ہے۔ میں نس تھک گنی‬
‫ہوں۔“ وہ جاتف ہونی بولی۔ دامیر اس کو دنکھ کے گہرا شانس ت ھر کے رہ گبا۔‬
‫”آرام کرو۔۔“ انبا کوٹ انارے اس ئے شانبڈ پہ رکھا اور سرٹ کا اوپری نین‬
‫کھوال۔ علتبا کی تگاہیں اسی پہ چمیں ت ھیں۔‬
‫وہ اس سے قد میں کتنی چھونی تھی‪ ،‬اس کے کبدھے سے تھوڑی ننچے آنی‬
‫ہیں۔‬
‫اننی نات شو جنے وہ ہلکا شا ہٹس دی۔‬
‫”کبا ہوا۔۔۔“ اننی گھڑی انارئے ہوئے‪ ،‬کف لبکس کو فولڈ کر رہا تھا چب علتبا‬
‫کو ا ننے آپ میں مشکرائے دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪355 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کجھ نہیں! میں نس شوچ رہی تھی کہ میں کتنی چھونی ہوں تم سے۔۔“ علتبا‬
‫تھوڑا مشکرائے ہوئے بولی۔ دامیر کے ل نوں پہ نٹشم نکھرا۔‬
‫”نہی کونی نارہ نیرا شال۔۔!“ دامیر ئے عام سے انداز میں کہنے اننی سرٹ اناری‬
‫ن‬
‫ناکہ جتنج کر شکے اس کے پرعکس علتبا کی آ یں چیرت سے ناہر آئے کو ہو یں۔ نارہ‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫نیرا شال۔۔ مطلب وہ تھرنیز میں تھا جبکہ وہ ہان نٹ کی نات کر رہی تھی۔‬
‫”نارہ شال۔۔! میں بو قد کی نات کر رہی تھی۔“ علتبا ستتھل کے بولی بو دامیر‬
‫خوتکا۔‬
‫”او ہاں! تھوڑی سی چھونی ہو‪ ،‬ک نوٹ لگنی ہو میرے شاتھ۔“ نانٹ سرٹ نہتنے‬
‫دامیر عام سے انداز میں بوال۔‬
‫”تم وافعی تھرنی بو کے ہو۔۔!“ چب وہ پراؤزر جتنج کر آنا بو علتبا اس کے نبڈ پہ‬
‫نتتھنے بوچھنے لگی۔‬
‫”تھرنی فور۔۔“ وہ اننی نٹس شال کی عمر سے اندازہ لگا رہی تھی جس پہ دامیر‬
‫ج‬‫ص‬‫ت‬
‫ئے نح کی۔‬
‫”تم مجھے مل کٹسے گنے۔۔“ علتبا چیران ہونی بولی جس پہ دامیر ہٹس دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪356 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نباؤں گا کسی دن‪ ،‬خوتصورت نانیں ہیں شب۔“ دامیر اس کو فرنب کرئے بوال‬
‫چب علتبا کی تگاہ اس کے کبدھے پہ گنی چہاں شل نولٹس سرٹ سے اس کا سبار نت نو‬
‫تظر آرہا تھا۔‬
‫”نت نو شوٹ کر رہا ہے تم پہ۔“ علتبا اس کے کبدھے پہ اننی مجروطی اتگلی‬
‫ت ھیرئے ہوئے بولی جس پہ دامیر ئے آپرو احکائے۔‬
‫”تم آج نہت خوتصورت لگ رہی تھی۔“ اس کے چہرے کو دنکھنے ہوئے بوال اور‬
‫اس کے ننجھے نکنہ تھبک سے سنٹ کرئے لگا ناکہ وہ تھکے نا۔‬
‫”تم تھی نہت ہتبڈسم لگ رہے تھے‪ ،‬تم کوکبگ کرئے نہت اپرنک نو لگنے ہو۔“‬
‫علتبا اغیراف کر رہی تھی جبکہ دامیر سبانسی تگاہوں سے اس کو دنکھ رہا تھا۔‬
‫”نمہاری طت یغت تھبک نہیں ورپہ نمہیں اتھی نبا شکبا تھا کہ تم اس وفت مجھے‬
‫کتنی اپرنک نو لگ رہی ہو۔“ اس کی زومعنی نات پہ علتبا سنتبا اتھی کہ اس کے رجشار‬
‫سرخ پڑ گنے۔‬
‫”علتبا۔۔“‬
‫شوجا نہیں تھا کہ ا ننے نبار سے تھی کتھی کسی کو تکارے گا۔ اس کے تکارئے‬
‫پہ وہ اسبہقامنہ تگاہوں سے دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪357 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم کل رات تھر ڈری تھی۔۔“ وہ بوچھ نہیں رہا تھا‪ ،‬وہ عام انداز میں اسے نبا‬
‫رہا تھا‪ ،‬علتبا ئے تگاہیں خرانیں۔‬
‫”نمہیں کٹسے مغلوم؟“ وہ مدھم لہچے میں بولی۔‬
‫”میں ئے دنکھا تھا۔۔“ دامیر ئے پرشکون لہچے میں کہا۔‬
‫”دنکھا‪ ،‬کٹسے؟“ علتبا الجھی کہ وہ کبدھے احکا گبا۔ تھر اس ئے کمرے میں‬
‫لگے دانیں جانب کتمرے کا اشارہ کبا‪ ،‬علتبا ئے دنکھا بو وہاں وافعی کتمرہ موخود تھا۔‬
‫اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گبا‪ ،‬کبا اس ئے کجھ انشا ونشا بو نہیں کبا تھا روم‬
‫میں؟ نہیں! شکر‪ ،‬نل میں گ ھیرانی اور نل میں پرشکون ہونی۔‬
‫س‬ ‫ح‬ ‫چ‬
‫”ہمارے روم میں تھی ہے؟“ وہ نی ہونی بولی کہ دامیر نات کو ھنے ٹس‬
‫ہ‬ ‫ج‬‫م‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫دنا۔‬
‫”قلحال نبد ہے‪ ،‬میرے ہوئے ہوئے نبد ہونا ہے لبکن غیر موخودگی میں آن‬
‫ر ہنے ہیں۔“ اس ئے نشلی دی کہ وہ سر ہال گنی۔‬
‫”بو اس دن ہمارے روم واال آن تھا؟“ وہ ناد آئے پہ بوچھنے لگی۔‬
‫”ہاں نب تھی آن تھے‪ ،‬رنان تھی جبک کرنا رہبا ہے شاتھ شاتھ۔ اس گ ھر میں‬
‫ہر جگہ موخود ہیں۔ سبک نورنی کے لنے۔“ دامیر ئے تھوڑی وصاچت کی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪358 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”سرم کرو‪ ،‬چب تم دوبوں نہاں نہیں ہو گے بو کبا ا ننے ننجھے کتمرے آن کر‬
‫دنا کرو گے۔“ علتبا ئے مضنوعی ڈ نتنے کہنے جٹسے اس کو سرم دالنی جاہی جس پہ‬
‫دامیر گہری تگاہوں سے اس کو دنکھنے لگا۔‬
‫ک‬‫ن‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”اننی ن نوبوں کو ہی د یں گے م۔۔“ وہ کبدھے احکانا بوال کہ لتبا ئے آ یں‬
‫ھ‬ ‫ع‬ ‫ہ‬ ‫ھ‬
‫گھمانیں۔‬
‫”علتبا۔۔!“ دامیر ئے انک نار تھر تکارا۔‬
‫”کبا ہوا تھا نمہارے شاتھ اور فروا کے شاتھ؟“ دامیر جاہبا تھا کہ وہ خود اس سے‬
‫نات کرے اس نارے میں ک نونکہ وہ رات کو اکیر ڈرنی تھی اور ڈرئے کی وجہ وہی‬
‫وافعہ تھا خو شوپزرلتبڈ میں نٹش آنا تھا لبکن وہ خود نبائے سے کیرانی تھی۔‬
‫”کبا مطلب۔۔!“ اس شوال سے علتبا کے چہرے کی مشکراہٹ ماند پڑ گنی۔‬
‫”شوپزرلتبڈ! کبا ہوا تھا مجھے نباؤ کبا نبگ کرنا ہے نمہیں آج تھی؟“ اس کا ہاتھ‬
‫تھامے دامیر ئے انبان نت تھرے لہچے میں بوچھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”شوپزرلتبڈ! کبا ہوا تھا مجھے نباؤ کبا نبگ کرنا ہے نمہیں آج تھی؟“ اس کا ہاتھ‬
‫تھامے دامیر ئے انبان نت تھرے لہچے میں بوچھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪359 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شوپزرلتبڈ‪ ،‬کجھ تھی نہیں۔“ علتبا اس سے تظریں مالئے تغیر بولی۔‬


‫”چب تم ہوش میں آنی تھی بو شب سے نہلے تم ئے فباد کا ہی زکر کبا۔ کون‬
‫ہے وہ؟“ دامیر آج اس نات کو کسی صورت ن ِس نشت نہیں ڈا لنے واال تھا نتھی‬
‫سنجبدگی سے بوال۔ علتبا ئے انک تظر دامیر کو دنکھنے تھوک تگال۔‬
‫”میں فباد کو نہیں جاننی۔۔“ اس ئے تھر اتکار کبا۔‬
‫”مجھے شب کجھ نباؤ‪ ،‬کبا ہوا تھا اس وکٹسیز پہ۔“ دامیر ئے اس کا چہرہ ا ننے‬
‫مقانل کرئے کہا‪ ،‬تعنی آج وہ اس موصوع پہ نات الزمی کر کے رہے گا۔۔۔۔‬
‫یین سال یہلے! سوٹزرلی یڈ؛‬
‫”شکر ہے کہ میں تھی کہیں گھو منے آنی۔“ چھبل کے کبارے جلنے ہوئے اس‬
‫کی آواز میں خوسی چھلک رہی تھی‪ ،‬ستنے کے گرد نازو ناندھے‪ ،‬کھلے نال‪ ،‬سرد ہوا سے‬
‫نجنے کی نباری میں النگ کوٹ نہن رکھا تھا۔‬
‫”تم بو نہلے ہی انلی رہنی تھی ا نسے بو نا کہو۔“ شاتھ جلنی سباہ نال‪ ،‬گبدمی رنگت‪،‬‬
‫پرکسش تفوش والی لڑکی بولی۔‬
‫”جٹسے تم ناکسبان میں رہنی تھی نا انبا ملک سمجھ کے و نسے ہی میں تھی انلی کو‬
‫ک‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ت‬ ‫س‬
‫انبا گھر ہی ھنی ہوں‪ ،‬م ل سے اجازت لی ہے مجھے ا ل سے۔“ علتبا لمنے نالوں‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪360 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کو چہرے سے ننجھے کرئے ہوئے بولی خو ہوا کی دوش سے نار نار چہرے سے نکرا رہے‬
‫تھے۔‬
‫”پہ بو اچھا ہے کہ ہمیں کالج سے تھی آف مل گبا‪ ،‬آؤ کجھ کھائے جلنے ہیں۔“‬
‫علتبا ئے اس کا ہاتھ تھاما اور رنسنورن نٹ کی جانب جل دی۔ فروا سے دوسنی اس کی‬
‫کالج میں ہونی تھی خو ناکسبان سے آنی تھی۔ کم عرصے میں علتبا اس کو دوشت مان‬
‫جکی تھی خو نہت سبدھی شادھی سی پرم مزاج لڑکی تھی۔‬
‫رنسنورن نٹ میں داجل ہونیں بو وہاں نہلے کی نانسنت آج رش زنادہ تھا۔ انک‬
‫حصے میں انہوں ئے جار نانچ مرد د نکھے خو انک ہی طرح کی ڈرنسبگ میں موخود تھے۔‬
‫آنکھوں پہ شن گالسز نہن ر کھے تھے جٹسے وہ لوگ گارڈ ہوں کسی کے۔ وہ دوبوں‬
‫انہیں تظرانداز کرنیں انبا آرڈر د ننی لگیں چب انک آدمی ان کے ناس آئے رک گبا۔‬
‫فروا کے شاتھ علتبا ئے تھی خونک کے دنکھا۔‬
‫”ہمارے ناس ئے آج نارنی رکھی ہے بو لنچ ہماری طرف سے۔“ اس آدمی کی‬
‫نات پہ دوبوں کے چہروں پہ خوشگوار چیرت سمٹ آنی اور کھلکھال دیں۔‬
‫”ہمارا گڈ لک۔۔“ وہ مشکرانی ہونی بولیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪361 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ان دوبوں ئے خو ہلکا تھلکا کھانا تھا‪ ،‬فری کے کھائے کا ستنے ان دوبوں ا چھے‬
‫سے کھانا کھانا لبکن پہ نات نہیں جاننی تھیں کہ پہ شب ان کو مہ یگا پڑئے واال تھا۔‬
‫”آپ کو ہمارے رنسنورن نٹ کا سباف اور شب کٹشا لگا نلیز اس کی سبار رنتبگ‬
‫کر دیں۔“ وہ دوبوں چب فری ہونیں اور جائے کا ارادہ کرئے ات ھیں بو وہی آدمی ان‬
‫کے فرنب آنا ہاتھ ناندھ کے کھڑا ہوا۔‬
‫اس آدمی کی نات پہ تظروں کا نبادلہ ہوا تھر کبدھے احکانی اس کے شاتھ ہو‬
‫لیں کہ وہ ربوبو دے شکنیں۔ وہ کاونیر نک گنیں چہاں پہ انک ناشکٹ سچی تھی اور‬
‫اس میں جاکلنٹ کے مجبلف قل نورز تھے شاتھ انک نئیر نین رکھا گبا تھا۔‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ش ل‬
‫علتبا ئے نہلے اس پہ انک دو ظریں یں ھر فروا ئے ھی دہرانا۔ کاؤنیر پہ‬
‫ت‬ ‫ھ‬
‫کھڑی لڑکی ئے ان دوبوں کو انک انک جاکلنٹ تھمانی اور الگ الگ کارڈز د ننے جس‬
‫کو وہ تھام گنیں‪ ،‬وہ کونی شانبگ واؤخرز تھے‪ ،‬ضرف ان کو ہی نہیں ناف نوں میں تھی‬
‫م‬ ‫ھ‬ ‫چ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫س‬‫ق‬‫ت‬
‫چ‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫م کنے جا رہے ھے۔ نوں یں پہ شب ان کو لبا ا گ تھا اور خوسی ہرے پہ‬
‫تظر آرہی تھی۔‬
‫”آپ ا ننے ناس کو ہماری طرف سے شکرپہ کہہ دنجنے گا۔“ فروا مشکرانی ہونی بولی‬
‫اور دوبوں رنسنورن نٹ سے ناہر تکلنے کو تھیں چب علتبا وانس کو مڑی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪362 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”و نسے پہ نارنی کس خوسی میں تھی؟“ علتبا ئے فروا کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔‬
‫”ہمارے ناس کو انک چیز جا ہنے تھی اور ان کو خوسی کی چیر مل جکی ہے کہ وہ‬
‫چیز نہی موخود ہے۔“ اس آدمی ئے مشکرائے ہوئے کہا جس پہ وہ دوبوں محض سر ہال‬
‫گنیں۔ عج نب نات تھی۔ فروا کے اشارے پہ علتبا اس کے شاتھ ناہر آگنی۔‬
‫”کتبا اچھا کھانا تھا نا۔۔“ فروا اس کے شاتھ جلنی ہونی سبانسی انداز میں بولی۔‬
‫وہ دوبوں اننی دھن میں مگن جا رہی ت ھیں چب اجانک سے کونی دانیں جانب‬
‫سے تھاگبا ہوا آنا اور ان کا زور شا تصادم ہوا۔‬
‫علتبا بو شانبڈ پہ ہونی لڑکھڑا دی جبکہ فروا انبا بوازن پرفرار پہ رکھ نانی اور ننجھے کو جا‬
‫گری۔‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫”فروا۔۔“ علتبا ئےشاچنہ تکار ھی۔‬
‫نکرائے واال ا ننے کبدھے کو چھبکنے فروا کی جانب پڑھا۔‬
‫”آنی اتم شوری‪ ،‬مانی مستبک۔۔“ فروا کی جانب ہاتھ پڑھائے اس کو اتھانا جاہا۔‬
‫فروا اس کا ہاتھ تھام کے کھڑی ہونی بو علتبا نیزی سے اس کے فرنب آنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪363 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میری علطی ہے میں جلدی میں آرہا تھا نس۔“ مقانل پرم مشکراہٹ لنے بوال۔‬
‫علتبا اور فروا ئے نبک وفت اس کو دنکھا۔ فروا بو خونک اتھی جبکہ علتبا فروا کے لنے‬
‫قکرمبدی ہونی اس سے بوچھنے لگی۔‬
‫”زنادہ بو نہیں لگی‪ ،‬تم تھبک ہو۔۔“ علتبا کی شاری بوجہ فروا پہ تھی جبکہ فروا‬
‫اس انحان سحص کو الجھی تگاہوں سے دنکھ رہی تھی۔‬
‫وہ دوبوں نبا کجھ کہے وہاں سے جائے لگیں چب نکرائے والے ئے انک‬
‫مشکراہٹ اچھا لنے انبا ہاتھ ہوا میں لہرانا۔‬
‫”علتبا‪ ،‬تم ئے اس سحص کو دنکھا؟“ فروا ئے مدھم لہچے میں کہا۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”کس کو۔۔؟“ وہ نا ھی سے بولی۔‬
‫”ارے خو اتھی نکرانا تھا۔۔“ فروا ئے اشارہ کرئے کہا بو علتبا ئے انبات میں‬
‫سر ہالنا۔‬
‫”نمہیں نہیں لگبا کہ وہ نہنحانا شا لگ رہا تھا جٹسے ہم اس کو جا ننے ہوں۔“ فروا‬
‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ح‬
‫ئے کہا کہ علتبا کے ما تھے پہ نا ھی سے ل نمودار ہوئے۔ علتبا ئے اس س ص کو‬
‫غور سے نہیں دنکھا تھا نتھی کجھ کہہ پہ نانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪364 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”جلو ہونل جلنے ہیں‪ ،‬اگر کونی خوٹ ہونی بو اس پہ دوانی لگا لیں گے۔“اس کی‬
‫نات کو تظرانداز کرئے ہوئے کہا‪ ،‬فروا تھی نانبد میں سر ہال گنی کہ ہو شکبا تھا اس کو‬
‫ق‬
‫علط ہمی ہونی ہو۔‬
‫تصادم کے تغد آج ان دوبوں کو نہاں آئے مہننہ ہو گبا تھا اور شب تھبک جا رہا‬
‫تھا لبکن انک نات فروا کو کھبکنی تھی جٹسے کونی ان کو ہر وفت دنکھ رہا ہونا تھا۔ کجھ‬
‫تھا خو فروا کو غیر آرامدہ محسوس کروانا تھا۔ جٹسے کونی ان کا ننجھا کر رہا ہونا۔‬
‫”علتبا‪ ،‬میں شوچ رہی تھی کہ ہمیں اب وانس جانا جا ہنے نہت دن گزار لنے ہم‬
‫ئے نہاں پہ۔“ وہ دوبوں آج تھی اسی رنسنورن نٹ میں موخود تھیں چب فروا ئے دھتمے‬
‫لہچے میں کہا۔ سرٹ پہ النگ کوٹ نہن ر کھے تھے دوبوں ئے اور گلے کے گرد مقلر‬
‫لت نٹ ر کھے تھے۔‬
‫”ارے ک نوں اتھی بو نہت دن ناقی ہیں۔“ علتبا الپرواہی سے بولی اس کا پہ جگہ‬
‫نہت نسبد آنی تھی۔‬
‫ت‬ ‫ُ‬
‫”نبا نہیں مجھے نہاں کجھ اچھا نہیں لگ رہا‪ ،‬اس دن والے گارڈز آج ھی یں‬
‫ہ‬‫ن‬
‫ُ‬ ‫ہ‬ ‫ک‬‫ہ ہم ن‬
‫موخود یں خو یں د ھی جا رہے یں۔“ فروا ئے کاؤنیر کی جانب اشارہ کبا چہاں اسی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪365 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دن والے گارڈز موخود تھے۔ چب چب فروا کی تگاہ اس طرف اتھنی بو ان کی تگاہوں کا‬
‫مرکز پہ دوبوں ہی ہونیں۔‬
‫”جلو ہونل جلیں جلدی اور تم ا ننے اتکل کو فون کرو آج ہی۔“ فروا کو چب‬
‫نہاں نتتھے کسی انحائے سے ڈر ئے گ ھیرا بو انبا ہتبڈ نبگ نکڑنی اتھ کھڑی ہونی۔ علتبا‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫اس کی عحلت د نی چیران ہونی۔‬
‫فروا کے اتھنے پہ اسے تھی اتھبا پڑا‪ ،‬جٹسے ہی وہ دوبوں دروازہ دھکبل کے ناہر‬
‫گنیں نتھی ان میں سے انک گارڈ ئے انبا مونانل تکالے کسی کو کال مالنی۔‬
‫”مجھے نمہیں کجھ ضروری نبانا ہے۔۔۔“ فروا کنب میں نتتھے علتبا سے بولی‪،‬‬
‫چہرے پہ خوف کے آنار چھائے ہوئے تھے۔‬
‫”نمہیں نہیں لگبا کہ نہاں کونی ہمارا ننجھا کر رہا ہے‪ ،‬کونی ہم پہ تظر ر کھے ہوئے‬
‫ہے۔۔“ فروا نالکل اس کے فرنب ہونی بولی۔ علتبا ئے سنجبدہ تظروں سے اس کو‬
‫دنکھا۔‬
‫”خو گارڈز ہم ئے رنسنورن نٹ میں د نکھے میں ان کو اور تھی نہت جگہوں پہ دنکھا‬
‫ہے‪ ،‬مجھے لگبا ہے کہ وہی ہمارا ننجھا کر رہے ہیں۔“ فروا ئے ناقاعدہ اس کو ناد دالئے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪366 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ہوئے کہا کہ علتبا کے اعصاب کو چھ یکا لگا ک نونکہ اس ئے تھی اسی آدمی کو انک دو‬
‫نار دنکھا تھا۔‬
‫”تم وہم نال رہی ہو انشا ک نوں ہو گا تھال۔۔“ علتبا اس کو نشلی د ننے کے لنے‬
‫بولی۔‬
‫”تم آج ہی اتکل کو کال کرو اور ان سے کہو کہ ہم وانس آرہے ہیں۔“ فروا‬
‫اس کی نات کی تقی کرئے ہوئے بولی۔‬
‫”اچھا ہم انشا کرئے ہیں کہ کسی دوسری جگہ جلنے ہیں اگر وہاں تھی انشا کجھ‬
‫ً‬
‫لگا بو ہم وانس جلے جانیں گے۔“ فورا سے وانس جائے کا شن کے علتبا ندمزہ ہونی‬
‫نتھی درمباپہ رشنہ نبائے لگی۔‬
‫علتبا ئے کہہ بو دنا تھا کہ وہ لوگ جلیں جانیں گے لبکن ر سنے میں ہی ان کی‬
‫کنب کو رکبا پڑا۔۔ علتبا خونک اتھی جبکہ فروا کے چہرے پہ خوف کے آنار واصح ہوئے۔‬
‫”ناہر پہ تکلبا۔۔“ فروا سرگوسی میں بولی لبکن اس سے نہلے ان کی کنب سے‬
‫آگے کھری گاڑی میں سے دو آدمی ناہر آئے اور ان کی طرف پڑ ھنے لگے۔‬
‫اس سے نہلے کہ ڈران نور کجھ کرنا اجانک سٹسے کو چیرنی ہونی گولی اس کے ما تھے‬
‫کے نالکل درمبان لگی جس سے وہ موفع پہ ہی مر گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪367 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ن‬ ‫ک‬‫ن‬
‫فروا اور علتبا کی آ یں ا ل کے ناہر کو آ یں‪ ،‬چہرے خوف سے زرد پڑ گنے‬
‫ن‬ ‫ھ‬
‫تھے۔ ان کو اننی تھی مہلت پہ ملی کہ وہ کسی کو کال کر شکنیں۔‬
‫دوبوں شانبڈ کا دروازہ کھوال گبا اور دوبوں طرف انک آدمی کھڑا تھا جس ئے ان کو‬
‫نازو سے دبو جنے ناہر تکاال۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ان کی آنکھوں‪ ،‬ہاتھوں پہ ننی ناندھے ان کو انک جگہ النا گبا تھا۔‬
‫دوبوں لڑکباں انک جالی کمرے میں نتم اندھیرے میں کھڑی تھیں چہاں کونی‬
‫روسنی کا کونی ان یطام نہیں تھا۔ ان کے نبگز‪ ،‬مونانل ان سے چھین لنے گنے تھے۔‬
‫علتبا پہ جٹسے شانس نبگ ہو رہا تھا اور گہرے شانس تھر رہی تھی‪ ،‬دوبوں کی آنکھوں‬
‫میں نمی نیر رہی تھی۔‬
‫”میرا دل نہت گ ھیرا رہا ہے۔ کونی ہمارے شاتھ انشا ک نوں کرے گا؟“ علتبا‬
‫فروا کے فرنب ہونی بولی چب اجانک اس نتم اندھیرے میں ڈوئے کمرے کا دروازہ‬
‫کھال۔‬
‫دوبوں کی تگاہیں نبک وفت بووارد کی جانب گنیں جس کو دنکھنے فروا کی آنکھوں‬
‫میں ئے تفتنی در آنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪368 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫”امبد ہے نہاں نک ہنجنے مسکل نہیں ہونی ہو گی تم دوبوں کو۔“ نمسجراپہ لہحہ‪،‬‬
‫ہون نوں پہ مسکان سحائے وہ فروا کو گہری تگاہوں سے دنکھ رہا تھا۔‬
‫”تم‪ ،‬ہم سے کبا جا ہنے نمہیں۔“ فروا اس کو نہحان جکی تھی۔ پہ وہی لڑکا تھا خو‬
‫اس سے کجھ دن نہلے نکرانا تھا۔‬
‫”شاند کسی ئے نبانا ہو کہ ان کے ناس کو انک فتمنی چیز نہاں پہ مل گنی ہے‬
‫ن‬
‫نس وہی لتنی تھی اب۔۔“ وہ فروا کو گہری تگاہوں سے دنکھبا ہوا بوال جس کی آ کھیں‬
‫خوف سے تھبلی تھیں‪ ،‬ندن لرز رہا تھا۔ فروا کا ڈر نحا تھا‪ ،‬وہ گارڈز ان پہ تظر ر کھے‬
‫ہوئے تھے اور وہ گارڈز اسی آدمی کے تھے۔۔‬
‫”اس سے ہمارا کبا تغلق؟“ علتبا کی انسی جالت نہیں تھی کہ وہ کجھ کہہ نانی‬
‫نتھی فروا عرانی۔‬
‫”تغلق! شا منے ہی بو موخود ہے میرے۔“ وہ معنی چیز سے علتبا کو دنکھبا ہوا بوال‬
‫اور فروا کی جانب قدم پڑھائے لگا۔‬
‫”کبا نکواس ہے ہمیں جائے دو۔“ علتبا اس وجشت سے گ ھیرانی ہونی جالنی۔‬
‫خوف و گ ھیراہٹ سے اس کی دھڑکن نیز ہو گنی تھی کہ شانس لتنے میں دشواری ہو‬
‫رہی تھی۔ اس ئے گلے میں موخود الکٹ کو تھام رکھا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪369 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نکواس کہاں‪ ،‬ا ننے شالوں تغد کونی ملے بو ہم اس کو ا نسے ہی جائے دیں اور‬
‫شاتھ چب بونس موخود ہو۔۔“ علتبا کو انک تظر دنکھنے اب اس کا دھبان فروا کی‬
‫جانب تھا‪ ،‬آنکھوں سے جٹسے خوس نبک رہی تھی۔‬
‫فروا کو اس نل انشا لگ رہا تھا جٹسے پہ اس کی زندگی کا آخری وفت تھا‪ ،‬کونی‬
‫راشنہ امبد کی کرن تظر نہیں آرہی تھی کہ وہ نہاں سے ناہر جا نانیں اور اس آدمی کا‬
‫انہیں نکڑنا تھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔‬
‫”ملنے آؤں گا تم سے جلد ہی۔“ فروا کے رجشار کو چھوئے ہوئے وہ جبانت سے‬
‫بوال اور قہقہہ لگائے اس جالی وجشت زدہ کمرے میں ان کو اکبال چھوڑے جال گبا۔‬
‫ش‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫س‬
‫فروا ئے آگے پڑ ھنے علتبا کے کمر پہ ہاتھ ت ھیرنا سروع کبا کہ وہ ل کے‬
‫جبکہ آنسوں دوبوں کے رجشار پہ بواپر نہہ رہے تھے۔‬
‫اجانک کبا ہوا تھا سمجھ سے ناہر تھا‪ ،‬دماغ ئے کام کرنا چھوڑ دنا تھا۔ نہاں وہ‬
‫ک نوں تھیں‪ ،‬کبا فصور تھا ان کا وہ نہیں جاننی تھیں۔‬
‫دوبوں عام سی زندگی گزار رہی تھیں اس پرائے ملک میں کسی سے کبا دسمنی‬
‫ہونی چب وہ نہاں کسی کو جاننی نک پہ تھیں۔‬
‫اس اندھیرے میں وہ دوبوں انک دوسرے کا سہارہ تھیں‪ ،‬عم گشار تھیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪370 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نہاں کمرے میں انہیں جائے کتبا وفت ہو گبا تھا‪ ،‬تھوک کا اجشاس تھی شدند‬
‫تھا۔ وہ لوگ شاند تھوکا مار د ننے لبکن انک نبدے کا کھانا ان نک نہنحا دنا گبا۔‬
‫انشا لگ رہا تھا کہ وہ جبل میں فبدی ہوں خو کسی خرم کی آڑ میں نہاں‬
‫اندھیرے میں نبد کر د ننے گنے تھے۔ علتبا کا ن یقس نار نار نگڑنا تھا اس کے پرعکس‬
‫فروا تھوڑی ہمت دکھانی اس کو نشلباں دے رہی تھی۔‬
‫گھت نوں گزرئے کے تغد ان کو اندازہ ہو حکا تھا کہ رات ہو گنی تھی‪ ،‬انک نسیرا ال‬
‫کے تھتبک دنا گبا تھا‪ ،‬جٹسے نٹسے کرئے وہ دوبوں انک دوسرے کا ہاتھ تھامے اسی‬
‫کو عتتمت جائے شوئے کی کوشش کرئے لگیں لبکن شکون کی نتبد کہاں آنی تھی۔‬
‫کجھ گھت نوں نہلے وہ دوبوں انک نارمل زندگی ہٹسی خوسی جی رہی تھیں اور اب انک‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫اندھیرے میں لتنیں اننی قشم نوں کو ن نول رہی تھیں خو جائے کبا شوچے ھی ھی۔‬
‫مسکل سے آنکھ لگے اتھی تھوڑی ہی دپر ہونی ہو گی چب فروا کو خود پہ کسی کی‬
‫گرفت محسوس ہونی‪ ،‬اس کو انجبکشن لگانا جا رہا تھا جبکہ منہ پہ زپردسنی ہاتھ تکانا تھا کہ‬
‫آواز پہ کرے۔۔ اس ئے ہاتھ نیر مارنا سروع کر د ننے‪ ،‬علتبا تھی ہوش میں آگنی‪ ،‬اس‬
‫سے نہلے علتبا کو صورت جال سمجھ میں آنی وہ لوگ فروا کو اتھائے وہاں سے لے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪371 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫جائے لگے‪ ،‬وہ رونی ہانتنی اس کو نحائے کو لبکی کہ انک ت ھیڑ سے ہی زمین پہ ڈھے‬
‫سی گنی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫دونارہ چب اس کی آنکھ کھلی بو سر نہت تھاری ہو رہا تھا‪ ،‬کجھ دپر خواس کام پہ‬
‫کنے‪ ،‬جکرائے سر کو تھامے چب اطراف میں دنکھا بو وہی نبد کمرہ تھا۔ انک نسیر اتھی‬
‫تھی موخود تھا‪ ،‬روشن دان کو مزند کھول دنا تھا کہ شورج کا اجاال اندر آرہا تھا۔‬
‫ن‬
‫فروا نہیں تھی نہاں‪ ،‬وہ چھبکے سے اتھ تتھی۔ دل کی دھڑکن اجانک نیز ہونی‬
‫تھی۔‬
‫”فروا۔۔۔“ کھڑے ہوئے اس ئے انک تکار لگانی خواب کے ندلے اس کو نس‬
‫جاموسی ہی ملی تھی۔‬
‫”فروا۔۔۔ کہاں لے گنے ہو اس کو؟“ وہ ہزنانی انداز میں جالنی ہونی بولی لبکن‬
‫خواب ندارد۔ آنکھوں سے آنسوں بواپر نہبا سروع ہو گنے تھے۔ کجھ سمجھ نہیں آرہا تھا‬
‫کہ وہ نہاں ک نوں تھیں اور کبا ہوئے جا رہا تھا ان کے شاتھ۔ وا ہمے سبا رہے تھے۔‬
‫اس لمچے کجھ تھی علط شوچ آشکنی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪372 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گھت نوں کے گرد نازو لتنتنے وہ انک کوئے میں نتتھ گنی۔ خوف اس کے وخود نک‬
‫سما گبا تھا۔ شانس لتنے میں نبگی ہو رہی تھی۔ ہراشاں تگاہوں سے آس ناس دنکھ رہی‬
‫تھی۔ فروا کی قکر سبا رہی تھی جائے وہ کہاں تھی۔‬
‫پہ شب اس ئے قلموں نک محدود ہی سمجھا تھا لبکن آج اصل زندگی میں ہونا دنکھ‬
‫وہ پری طرح گ ھیرانی ہونی تھی۔ قلموں میں بو کونی نحا لتبا تھا لبکن نہاں اس اندھیری‬
‫جبل میں شاند کسی کو مغلوم تھی پہ ہونا کہ پہ دوبوں عانب تھیں۔‬
‫تھوڑی دپر تغد وہ تھر اتھی اور نبد دروازے کو ننتبا سروع ہونی اور فروا کا‬
‫بوچھنی۔ جائے اس کو کہاں لے گنے تھے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫انبا وخود کسی پرم جگہ پہ نائے انشا محسوس ہوا جٹسے وہ کسی خواب سے جاگی‬
‫تھی۔ انک پرا تھبانک خواب خو اس کی زندگی کا ندپرین لمحہ تھا۔ وہ شکر کا شانس لتنی‬
‫ک‬‫ن‬
‫لبکن چب اس ئے آ یں ھو یں بو خود کو انحان مرے یں نائے اس ہڑپڑا کے‬
‫م‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫اتھ ھی۔ نبڈ پہ م دراز ھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪373 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کمرہ ونل فرنشڈ تھا لبکن اس کا نہیں تھا۔ مطلب وہ اتھی تھی تھبانک خواب‬
‫سے نہیں جاگی تھی۔ وہ خواب اتھی تھی جل رہا تھا۔ نہاں کجھ تھی تھبک نہیں تھا۔‬
‫دل اس نات کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ علط جگہ پہ تھی۔‬
‫”علتبا!“ علتبا کا جبال آئے ہی وہ پڑپڑانی۔ نبڈ سے ننچے اپری ہی تھی اجانک‬
‫ہی سر جکرا کے رہ گبا۔ انجبکشن کا اپر جٹسے اتھی تھی موخود تھا۔‬
‫ن‬
‫زور سے آ کھیں منچ کے کھو لنے وہ دروازے کی جانب پڑھی‪ ،‬ڈور ناب گھمانا جاہا‬
‫لبکن وہ نبد تھا۔‬
‫”دروازہ کھولو۔۔ کونی ہے؟ میں کہاں ہوں۔“ اس کی آواز رند ھنے لگی۔ جلق‬
‫میں آنسوؤں کا گولہ شا تھٹس گبا۔‬
‫اس کے گھر والوں کو چیر تھی پہ ہو گی کہ وہ کہاں تھی اس وفت اور کس‬
‫چہتم میں تھٹس جکی تھی۔‬
‫”دروازہ کھولو۔۔ علتبا! تم کہاں ہو؟“ زور زور سے دروازہ نحائے ہوئے وہ جالنی‬
‫ناکہ آواز کہیں نک بو نہنچے۔ ناہر سے نس قدموں کے جاپ سبانی دے رہی تھی جٹسے‬
‫کونی جکر لگا رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪374 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دروازہ کھولو خو تھی ناہر ہے۔ مجھ۔۔۔ مجھے تکالو نہاں سے۔“ اس کی آواز کے‬
‫شاتھ ہاتھ نیر تھی کا نتنے لگے تھے۔‬
‫وہ کہاں تھی اس وفت؟ علتبا کہاں تھی؟ نہاں وہ لوگ سیر کرئے آنی تھیں‬
‫لبکن پہ کبا ہو گبا تھا نہاں۔‬
‫ن‬
‫آنکھوں سے آنسوں نہنے لگے بو بوں ہی روئے روئے وہ ننچے تتھنی جلی گنی۔ علتبا‬
‫کا شوچ شوچ کے تھی دل گ ھیرا رہا تھا۔‬
‫وہ دوبوں اغوا ہونی تھیں اور کسی نبک کام کے لنے بو کسی ئے نہیں رکھا تھا‬
‫ان کو نہاں۔ نہی شو جنے اس کو اس دن پہ اقسوس ہو رہا تھا چب اس ئے نہاں‬
‫آئے کا شوجا تھا۔‬
‫نہاں نتتھے جائے کتبا وفت گزرا تھا چب دروازہ کھلنے کی آواز پہ فروا نیزی سے‬
‫اتھی۔ اس کا مقلر کوٹ جائے کہاں تھتبک دنا گبا تھا۔‬
‫اس سے نہلے کہ دروازہ کھلبا وہ نیزی سے نبڈ کی جانب گنی اور شانبڈ لتمپ کو‬
‫ل‬ ‫کھ‬ ‫م‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫ت‬
‫نچ کے ا ننے ہاتھ یں لبا۔ دروازہ ال ہی تھا کہ اس آئے والے پہ وہ مپ زور سے‬
‫دے مارا‪ ،‬نبا اس کی جانب د نکھے وہ تھاگنی ہونی دروازے کی جانب لبکی لبکن مقانل‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪375 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ئے اس کا نازو دبو جنے ہوئے اس ئے فروا کو ناہر جائے سے روکا۔ مقانل ئے اس‬
‫لتمپ سے خود کو نحا لبا تھا۔‬
‫”کہاں جانا ہے اتھی تم ئے‪ ،‬اتھی بو میں آنا ہوں دندار تھی پہ کروں۔“ فروا کو‬
‫ا ننے مقانل کرئے ہوئے وہ زومعنی لہچے میں بوال۔ فروا تقی میں سر ہالئے لگی۔ جتنی‬
‫وہ ہمت دکھائے کا شوچ رہی تھی اب اس کی جگہ خوف ئے لے لی تھی۔‬
‫”مجھے جائے دو‪ ،‬میں اس دن جان بوچھ کے نہیں نکرانی تھی۔“ فروا روئے‬
‫ہوئے بولی اور انبا آپ چھڑوائے لگی‪ ،‬اسے لگا کہ وہ ندلہ لے رہا تھا اس سے لبکن‬
‫مقانل کا ارادہ کجھ اور ہی تھا۔‬
‫”ارے تم ک نوں نکرانی‪ ،‬نکرانا بو میں تھا تم سے وہ تھی اننی مرضی سے۔ تظر‬
‫نمہاری دوشت پہ رکھنی تھی لبکن نسبد تم آگنی کبا کرنا۔ اسی لنے لے آنا نمہیں تھی۔“‬
‫اس کو جبانت سے دنکھنے ہوئے اس کے چہرے پہ انبا ہاتھ تکانا اور اس کا چہرہ دبوچ‬
‫لبا۔‬
‫ج‬‫ن‬ ‫چ ت نت ج‬
‫”چھوڑو۔۔۔“ اس کی گرفت ئےر م ھی ھی وہ نی ہونی بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪376 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”چھوڑ دوں‪ ،‬ا ننے عرصے تغد کجھ نسبد آنا ہے نبا انحوائے کنے ہی چھوڑ دوں۔“‬
‫اس کو اننی جارجاپہ گرفت سے چھوڑئے ننجھے کی جانب دھکا دنا اور ا ننے کف لبکس‬
‫کھو لنے لگا۔‬
‫فروا کا دل ڈو ننے لگا‪ ،‬ناسمجھ نہیں تھی خو اس کی نات کا مطلب پہ جاننی۔‬
‫ہ نومن پرتقبکبگ‪ ،‬سمگلبگ‪ ،‬شل نوز )‪ (Slaves‬شب شن رکھا تھا بو کبا وہ دوبوں‬
‫اسی کا شکار ہو گنی تھیں۔‬
‫”مجھے نہاں ک نوں رکھا ہے‪ ،‬میری دوشت کدھر ہے۔“ فروا ہمت کرنی ہونی‬
‫شوال کرئے لگی۔ نحائے خواب د ننے کے وہ اس کے فرنب پڑ ھنے لگا۔‬
‫”مجھ پہ دھبان دو‪،‬ا ننے عاشق پہ خو نمہاری خوتصورنی کو سرا ہنے کا شوچ رہا‬
‫ہے۔۔“ اننی سنو کو سہالئے ہوئے وہ اس گہری تگاہوں سے دنکھنے لگا۔ فروا کو اس‬
‫نل اس کی تظریں ا ننے آر نار جانی محسوس ہونیں۔ زلت و اہانت کا اجشاس پڑ ھنے لگا۔‬
‫اس کی عزت حظرے میں تھی۔‬
‫”مجھ سے شادی کر لو۔۔“ اس ئے نٹشکش کی۔ گباہ سے نہیر تھا کہ جالل‬
‫ر سنے میں ہی آجانی لبکن مقانل ئے جٹسے اس کی نات کو ان سبا کر دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪377 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دروازے کو الک لگائے وہ اس کی جانب پڑ ھنے لگا‪ ،‬آنکھوں میں عج نب ہی چمک‬


‫تھی۔‬
‫خوف سے اس کا ندن لرزئے لگا‪ ،‬اس کے آگے کھڑے ہوئے اننی جان کی‬
‫تھبک ما نگنے لگی۔‬
‫”اگر تم مجھے نسبد کرئے ہو بو شادی کر لو ا نسے میری زندگی پرناد پہ کرو۔“ وہ‬
‫روئے ہوئے بولی۔‬
‫جلنے سے بو وہ انک اچھا جاصا پڑھا لکھا انشان لگبا تھا لبکن وافعی درندگی ا ننے جلنے‬
‫سے طاہر نہیں ہونی۔ ہر تھٹس میں نہاں درندے آپ کو بو جنے کو نبار نتتھے تھے۔‬
‫اس کے آگے پڑ ھنے سے وہ نبڈ کراؤن سے جا لگی۔‬
‫”ہم شادی کر شکنے ہیں۔“ انک نار تھر اس ئے ہمت کرئے کہا جبکہ وہ جٹسے‬
‫ندمزہ ہوا اور سرد تگاہوں سے دنکھنے لگا۔ تھر اجانک قہقہہ لگا اتھا۔‬
‫”شادی میری نانپ چیز نہیں ہے‪ ،‬میرا ہر چیز میں نٹشٹ ندلبا رہبا ہے‪ ،‬آج تم‬
‫ہو کل کونی اور۔ بو نار نار شادناں نہیں کر شکبا میں۔“ اننی سرٹ کے اوپری نین‬
‫کھو لنے ہوئے اس ئے ہٹسنے کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪378 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”خو میرے نانپ چیز ہے وہ نمہیں کجھ دپر نک مغلوم ہو جائے۔“ آنکھ دنائے‬
‫ہوئے اس ئے اجانک فروا کو دبوجا۔‬
‫خوف و ہراس سے وہ ہزنانی انداز میں جنجبا سروع ہو گنی۔ عزت گ نوائے سے‬
‫اچھا تھا وہ مر جانی‪ ،‬نہلی نار موت کی شدت سے خواہش کی تھی لبکن موت تھی‬
‫نکروں میں آنی تھی۔‬
‫”فباد نام تم ہمٹشہ ناد رکھو گی۔“ اس کے کابوں میں شور تھونکبا ہوا اس کی‬
‫زندگی کو وہ نباہی کی جد نک لے گبا تھا چہاں وہ ا ننے آپ کو انک موت کی کھانی میں‬
‫گرنا دنکھ رہی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اس جشنہ جال کمرے میں ر ہنے اس کو جائے کتنے دن ہو گنے تھے‪ ،‬آنسوں‬
‫تھی اب آنکھوں میں جشک ہو گنے تھے۔ دن میں انک وفت کا کھانا دنا جا رہا تھا جس‬
‫کو وہ زہر مار کر لتنی تھی۔ چب تھی کونی کھانا د ننے آنا بو ہمٹشہ فروا کا بوچھنی لبکن نبا‬
‫کونی خواب د ننے تکل جانا تھا۔ اب بو خود تھی جاموش ہوئے اس کو کاقی دن ہو گنے‬
‫تھے۔ کابوں ئے جٹسے کتھی کجھ سبا ہی نہیں تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪379 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ضرف دروازہ کھلنے کی آواز سبانی د ننی تھی۔ انہیں نہاں رکھنے کا مقصد تھی‬
‫مغلوم نہیں تھا۔ اتھی نک اس کے اتکل تھی نہاں نہیں نہنچے تھے۔ زندگی کی امبد‬
‫ہی چھوڑ دی تھی۔‬
‫روشن دان سے آنی روسنی سے نس اندازہ ہوجانا تھا کہ اب رات کا وفت نا دن‬
‫کا۔ رات کے اندھیرے میں اس کو آنکھوں پہ ننی نہبائے واش روم لے کے جانا جانا‬
‫تھا۔ جائے ہوئے تھی نس جاموسی ہی ملنی تھی جٹسے کونی زی روح موخود ہی پہ ہو اور‬
‫وہ کہیں دنبا سے دور النی گنی تھی۔‬
‫مغلوم نہیں کہ اس کی دوشت زندہ تھی تھی نا نہیں۔ روز انک ہی جگہ نتتھ کے‬
‫وہ دل میں دعانیں پڑھنی کہ جائے کس وفت کونی عتنی مدد آجائے اور انک تھبانک‬
‫خواب سے وہ جاگ جانیں۔ شوئے سے نہلے وہ ہمٹشہ نہی دعا کرنی کہ چب صنح ا تھے‬
‫بو زندگی ندلی ہو‪ ،‬اس سحت نسیر کے نحائے پرم نسیر پہ موخود ہو۔ رات میں پڑئے والی‬
‫سردی کو کم کرئے کے لنے ہئیر موخود ہو۔ کھائے کو دو وفت کا کھانا ہو۔‬
‫اب بو خود سے تھی بو آنا سروع ہو گنی تھی‪ ،‬اس ئے طت یغت کا نگڑنا محسوس کبا‬
‫تھا کہ ن نٹ میں درد سروع ہو گبا تھا۔ اننی ئےنسی پہ آج تھر رونا آئے لگا۔ گھت نوں‬
‫میں سر د ننے وہ ا ننے اس درد کے کم ہوئے کی دعانیں ما نگنے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪380 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نسیر کو ا چھے سے ا ننے گرد لت نٹ لبا تھا ناکہ جشم کو تھوڑی گرمانش محسوس ہو۔‬
‫نین ہق نوں سے زنادہ وہ اس وجشت زدہ کمرے میں فبد تھی۔ اب شاند اس کو‬
‫موت کا فرشنہ ہی تظر آنا چب اجانک اس ئے دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔‬
‫آج اس کو دن میں ہی واش روم لے جائے آئے تھے‪ ،‬اس نات پہ وہ خود تھی‬
‫خونک اتھی ک نونکہ روشن دان سے روسنی اندر آرہی تھی۔‬
‫خو آدمی روز نہاں موخود ہونا تھا آج وہ نہیں تھا‪ ،‬شاند کسی ننے کو نہاں رکھا گبا‬
‫تھا ک نونکہ اس کی آنکھوں پہ ننی تھی نہیں ناندھی گنی تھی۔‬
‫نہلی نار اس ئے کمرے سے ناہر تکلنے دنکھبا تھا۔ انک لمنی راہداری ننی تھی اور‬
‫دوبوں اطراف کمرے موخود تھے۔ اس راہداری کے آخر اور سروع پہ ہی روسنی کے لنے‬
‫انک انک نلب لگے تھے۔ بو کمرے میں آئے والی روسنی شورج کی نہیں‪ ،‬انہیں نلب‬
‫کی ہونی تھی۔ خو دل میں جبال تھا کہ اس وفت دن تھا وہ تھی تکل گبا۔ جائے کون‬
‫شا نہر تھا پہ اور کتنے دن نہاں گزارے ہو گنے تھے۔‬
‫اس ئے نہلی نار رشنہ دنکھا اور جاموسی سے جانی گنی۔ ا ننے ہی قدم لگے تھے‬
‫ج‬ ‫م‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫واش روم نک نجنے یں تنے روز۔ رشنہ آشان تھا۔ چہاں سے مڑنا تھا وہاں اس ئے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪381 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ت‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ہ‬‫ک‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ل ت ن‬


‫ش‬‫ٹ‬
‫انک فٹ ھی د ھی ھی بو وہ یں منٹ یں موخود ھی۔ اس ئے اس آدمی کو‬
‫پہ کہنے کی علطی پہ کی کہ اس کی آنکھوں پہ ننی ک نوں نہیں ناندھی۔‬
‫اور تھر پہ اس آدمی کی علطی ہی تھی خو اس کو مغلوم نہیں تھا کہ اس کی‬
‫آنکھوں پہ ننی ناندھی جانی تھی‪ ،‬نہی علطی وہ روز دہرانا تھا۔ علتبا اب نہاں موخود تفوس‬
‫کو بوٹ کرنا سروع ہونی خو پہ ہوئے کے پراپر تھے۔ جار دن میں اس ئے ضرف انک‬
‫آدمی کو دنکھا تھا خو کسی کمرے میں جا رہا تھا۔ تعنی نہاں انک نہی آدمی موخود ہونا تھا‬
‫خو اس کے کمرے کے ناہر موخود رہبا تھا اور شاند وہ کسی وفت شونا تھی تھا۔‬
‫نٹشمنٹ میں اس کی رکھوالی پہ نس انک ہی آدمی تھا۔۔‬
‫علتبا ئے شوچ لبا تھا کسی طرح بو وہ اس آدمی سے نچ تکلے گی لبکن نبا نہیں‬
‫اس کے آگے کٹسے نچے گی۔‬
‫آج خو کھانا آنا تھا اس کو اس ئے آدھا کھانا تھا اور اس میں موخود کا ننے کو اس‬
‫ئے ا ننے نسیر میں چھبا لبا تھا‪ ،‬جاہے وہ نالسبک کا تھا لبکن اس کے کام آئے واال‬
‫تھا۔ چب وہ آدمی پرے لے جائے وانس آنا بو علتبا ئے شکر کا کملہ پڑھا ک نونکہ اس‬
‫آدمی ئے کا ننے کا پہ ہونا بوٹ نہیں کبا تھا۔ اس کی جان میں جان آنی اور اب اس‬
‫کو اس وفت کا ان یطار تھا چب آدمی اسے واش روم لے جائے آنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪382 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نب نک وہ کمرے میں موخود نتھر کو زمین پہ رگڑئے لگی۔ انشا وہ روز کر رہی تھی‬
‫جس سے نتھر فرش پہ رگڑ کھائے سے اس جگہ منی نتنی جانی۔‬
‫ن‬
‫چب وفت ہوا بو وہ ا نسے ہی اننی بوزنشن میں تتھی رہی۔ آدمی ئے چب اس کا‬
‫نازو نکڑا بو علتبا کھڑی ہو گنی۔‬
‫واش روم جائے اس ئے وہ کانبا مضنوطی سے اننی سرٹ کی آسنین میں‬
‫چھبائے رکھا تھا اور انک ہاتھ کی متھی کو تھتنحا ہوا تھا۔ اس ئے پرچھی تگاہوں سے‬
‫جبک کبا کونی تھی موخود نہیں تھا نہاں۔ اسی نات کا قاندہ اتھانا تھا۔ آدمی اس کو‬
‫واسروم کے ناہر چھوڑنا تھا۔ علتبا جار منٹ اندر رہی اور نانحویں منٹ وہ جال دی۔ آدمی‬
‫ہڑپڑا کے اندر آنا چب علتبا ئے اننی متھی کھو لنے اس کی آنکھوں کی طرف کی۔ ہاتھ‬
‫میں موخود منی کا عبار اس ئے منہ اور آنکھوں میں جال گبا۔ اننی ہمت جائے کہاں‬
‫سے آنی کہ آسنین میں چھبانا کانبا تکا لنے اس ئے اس کی آنکھ میں دے مارا‪ ،‬وہاں‬
‫م‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫سے نچ کے تکا لنے ھر گردن یں مارا۔۔ وہ آدمی نی کے وار سے ہڑپڑانا ہی تھا کہ‬
‫علتبا ئے اس کو ستتھلنے کا موفع تھی نہیں دنا تھا۔ آنکھ میں وار ہوئے پہ وہ درد سے‬
‫نلبال اتھا۔ گردن پہ وار کرئے کے تغد چب اس ئے کانبا وانس کھتنحا وہ اس کا بوکبال‬
‫حصہ اس کی گردن میں ہی بوٹ گبا۔ اس کی آنکھ تھوٹ جکی تھی اور وہ درد سے کراہ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪383 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رہا تھا۔ علتبا ئے پہ بونا کانبا تھی وار سے جالی پہ ر ہنے دنا۔ وہ خو انک ہاتھ اننی گردن‬
‫اور آنکھ پہ ر کھے ہوئے تھا‪ ،‬علتبا ئے اس کی گردن کے شا منے والے حصے‪ ،‬شاہ رگ‬
‫میں گھشا دنا۔ اس کا نچتبا اب ممکن نہیں تھا۔ وہ ننچے گرنا جال گبا۔ علتبا خوف سے‬
‫دور ہونی۔‬
‫آنکھوں سے آنسوں مشلشل نہہ رہے تھے ہاتھ خوف سے لرز رہے تھے۔ دل کی‬
‫دھڑکن اجانک پڑھ گنی تھی۔ اس کے ہاتھوں انک فبل ہوا تھا۔‬
‫اس کے ئےشدھ پڑے وخود کو دنکھنے وہ کانتنی ہونی ننجھے ہتنے کو تھی چب تظر‬
‫اس آدمی کی گن کی طرف گنی۔ اننی ہمت دکھا کے اس وفت پہ گن انبا سہارہ لگی بو‬
‫اس کو اتھا لبا۔ زندگی میں نہلی نار انسی چیز کو ہاتھ میں لبا تھا۔‬
‫پہ شب تھی نہلی نار ہی ہو رہا تھا۔‬
‫ناہر تکلنے وانس اس راہداری کی جانب آنی اور گن کو دوبوں ہاتھوں سے مضنوطی‬
‫سے تھامے آہشنہ سےجلنے لگی۔ اس کے ناؤں خوئے سے ندارد تھے بو آواز نبدا نہیں‬
‫ہوشکنی تھی۔‬
‫دوبوں ہاتھ سبدھے کنے وہ ڈرئے ڈرئے زن نوں کی جانب آنی چہاں پہ ہلکی سی‬
‫ً‬
‫روسنی تھی عالبا انک ھونا لب لگانا گبا تھا۔‬
‫ن‬ ‫چ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪384 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ہللا کا نام لتنے وہ خڑ ھنے لگی اور ہر قدم پہ اننی زندگی کی دعا کرئے لگی کہ اگر پہ‬
‫ہمت آنی تھی بو ہللا نہاں سے تکلنے کی تھی ہمت عطا کرے۔ نانچ چھے ز ننے خڑ ھنے‬
‫کے تغد وہی لفٹ تھی۔ ہو شکبا تھا کہ اگر وہ کونی نین پرنس کرنی‪ ،‬لفٹ ننچے آئے‬
‫لگنی بو مغلوم ہو جانا کہ کونی نٹشمنٹ سے تکلنے واال تھا۔ اس کو اب نہاں خوف‬
‫سبائے لگا۔‬
‫اننی جان کا رشک لتنے اس ئے نین پرنس کبا بو تھر سے آنکھوں سے آنسوں نہبا‬
‫سروع ہوئے۔ لفٹ ننچے ہی تھی‪ ،‬نحائے کونی نین پرنس کرئے کے وہ ا نسے ہی اندر‬
‫ن‬
‫تتھی رہی کہ کونی خود اس لفٹ کو اوپر نالئے گا۔ گن میں گولباں موخود تھی تھوڑا شا‬
‫بو لڑ ہی شکنی تھی وہ۔‬
‫آج کا دن شاند اس کے خق میں تھا۔ نتھی لفٹ نبد ہونی اور اوپر جائے لگی۔‬
‫کسی ئے تھرڈ قلور پہ مگوانی تھی لفٹ۔۔ انک نار تھر خوف عالب آئے لگا۔ علتبا ئے‬
‫نیزی سے گراؤنڈ قلور کا نین پرنس کر دنا کہ اوپر جائے وہ انک نار رک جانی اور اگر‬
‫ن‬
‫وافعی وفت اس کے خق میں تھا بو وہ تکل جانی نہاں سے۔ وہاں نجنے اس کو فروا کو‬
‫ہ‬

‫نالسبا تھا خو جائے زندہ تھی تھی نا نہیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪385 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫لفٹ رک گنی اور کھلی۔۔ علتبا کا دل ناہر آئے کو تھا۔ پہ کٹسی جگہ تھی۔‬
‫نالکل جاموش وجشت ناک۔۔ لفٹ سے ناہر تکلی بو دنکھا ہر شوں جاموسی اور نتم اندھیرا‬
‫تھا۔ گراؤنڈ قلور تعنی نہاں سے ناہر تکلنے کا رشنہ تھی ہو گا۔ لفٹ وانس اوپر جائے‬
‫لگی۔ علتبا ئے لفٹ کی آواز پہ گ ھیرا کے دنکھا۔‬
‫نبگے ناؤں آگے پڑ ھنے اس کو اجانک کسی کی آواز سبانی دی۔ کونی نہاں موخود‬
‫تھا۔ انک نہیں دو نین لوگ تھے۔ اس راہداری سے دانیں طرف موخود کمرے میں نین‬
‫لوگوں کی آوازیں سبانی دے رہی تھی۔‬
‫”ہاں وہ نہی نبا رہا تھا کہ فباد انالین مافبا کی لڑکباں ننجنے واال ہے اور اس کی‬
‫ڈنلتبگ میں نس نین دن ناقی ہیں۔“ وہ لوگ آنس میں نات کر رہے تھے نا شاند‬
‫کسی سے فون پہ۔‬
‫َ‬
‫گ‬ ‫نٹش م َ‬
‫”انک منٹ یں ان نچ پڑی ہے‪ ،‬دوسری شاند فباد کو زنادہ ہی نسبد آ نی بو‬
‫اسی کے ناس ہونی ہے۔“ فون پہ نات کرنا سحص انہیں کا زکر کر رہا تھا لبکن خو وہ‬
‫کہہ رہا تھا وہ ناقانل تفین تھا۔ مافبا! ننجبا!‬
‫نٹشمنٹ میں بو پہ خود تھی اور جس دوسری کا وہ نبا رہا تھا وہ فروا ہو شکنی تھی۔‬
‫وہ زندہ تھی لبکن کس جال میں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪386 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہیں کونی اشاشن ابوالو نہیں اس میں۔ انالین مافبا خود ہتبڈل کر رہا ہے شب‬
‫ن‬
‫نتھی بو شسنی دکھا رہا ہے۔۔ اس کی جان کا انک ھی خو ہمارے نجرے میں ہے۔“‬
‫ن‬ ‫ج‬‫ن‬

‫علتبا کو کجھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کبا نانیں ہو رہی تھیں لبکن انک نات وہ‬
‫سمجھ جکی تھی کہ وہ کسی مافبا کے نبدے کے ہاتھ لگ گنی تھی اور پہ کونی مووی‬
‫نہیں تھی‪ ،‬حق یفت تھی۔‬
‫ق‬
‫مافبا‪ ،‬گتبگ پہ شب لمی نانیں لگنی تھیں لبکن آج ا ننے کابوں سے ستنے جٹسے‬
‫تفین کرنا مسکل تھا کہ وہ ان میں تھٹس جکی تھی۔‬
‫م‬ ‫ُ‬
‫”البانین سے کاقی تغلقات پڑھا رہا ہے فباد۔۔ ادھر سے ہی قاندہ لے گا اسے۔“‬
‫علتبا ئے قدموں کی جاپ سنی‪ ،‬اندھیرے والی جگہ پہ آئے وہ زمین پہ نتتھ گنی‬
‫اور اننی شانس روک لی۔‬
‫”ہماری شپ منٹ کسی ئے رکوا دی ر سنے میں ہی۔ لڑک نوں کو نازناب کروا لبا‬
‫کسی ئے۔۔ فباد کے لڑکباں سمگلبگ کے دھبدے میں کونی آرہا ہے۔“ آواز اب‬
‫آہشنہ ہونی جا رہی جٹسے جٹسے وہ ان سے قاصلے پہ ہونی گنی۔ ان نابوں کو ستنے کا کونی‬
‫مطلب نہیں تھا‪ ،‬اس کو مغلوم ہو گبا تھا کہ دوسری لڑکی کا زکر کبا گبا تھا وہ فروا ہی‬
‫تھی اور فباد کے ناس تھی لبکن جائے کس جال میں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪387 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫نہاں سے اوپر جائے والی سیڑھ نوں نک بو ہنچ گنی تھی اب اس کو جاموسی کا‬
‫ہی مطاہرہ کرنا تھا۔ پہ کسی جگہ کا نجھال حصہ مغلوم ہو رہا تھا۔‬
‫جبد ز ننے ہی خڑھی تھی کہ اس کو کمزوری کا اجشاس ہوئے لگا اور نلڈ پرنسر لو‬
‫ہوا‪ ،‬سر جکرائے لگا۔۔ آنکھوں کے شا منے اندھیرا جٹسے چھا رہا تھا۔‬
‫رنلتبگ کو تھامے اس ئے جبد گہرے شانس لنے اور ہمت کرنی اوپر پڑ ھنے‬
‫لگی۔ نہاں تھی وہ کونی بوکبلی چیز ڈھونڈنا جاہنی تھی۔‬
‫قشمت شاتھ تھی آج نتھی اس کو فرشٹ قلور تھی جالی ہی مال۔ ننچے بو اس کو‬
‫کونی فرار کا رشنہ نہیں مال تھا شاند نہاں سے کونی جائے کا رشنہ مل جانا۔ مضنوطی‬
‫سے گن کو تھامے وہ آگے پڑ ھنے کو تھی چب کبدھے پہ کسی کا ہاتھ محسوس ہوئے‬
‫اس کا دل ڈوب گبا۔ وہ نکڑی گنی تھی۔‬
‫چھبکے سے مڑی کہ کسی ئے اس کو ا ننے گلے سے لگانا۔‬
‫”شکرہے‪ ،‬تم زندہ ہو۔۔“ مہتنے تغد فروا کی آواز ستنے علتبا ئے اس کا چہرہ دنکھا۔‬
‫”تم۔۔ تم زندہ ہو‪ ،‬فروا۔“ علتبا ئے اس کے چہرے کو تھامے ئےتفتنی کی‬
‫ن‬ ‫س‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ک یق نت میں بوچھا‪ ،‬دوبوں کی آ یں اشک نار ہو یں۔ مجھ پہ آنا کہ اس ل خوش ہوں‬
‫ن‬ ‫ھ‬
‫نا تھا گنے کا خوف محسوس کریں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪388 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے راشنہ مغلوم ہے۔۔“ فروا ئے اس کا ہاتھ تھاما اور اس کو لنے ا ننے‬
‫شاتھ اسی بورشن کی دوسری شانبڈ پہ جائے لگی۔ اس وفت کونی تھی نات کرنا فصول‬
‫تھی۔ انہیں نیزی دکھانی تھی۔‬
‫”گن جالنی آنی ہے؟“ فروا ئے اس کا ہاتھ مضنوطی سے تھام رکھا تھا چب علتبا‬
‫ئے تم آواز میں “نہیں” کہا۔‬
‫”اچھی نات ہے بو چب تھی کونی شا منے آئے مار د نبا۔“ فروا نڈر لہچے میں بولی۔‬
‫اس بورشن کے حصے میں ان کو آوازیں سبانی د نبا سروع ہونیں۔‬
‫”پہ وہی رنسنورن نٹ ہے چہاں ہم ئے لنچ کبا تھا‪ ،‬اسی کا ہونل۔۔“ فروا ئے‬
‫علتبا سے کہا۔ اس نل بو وہ خونک تھی پہ نانی تھی جتبا وہ سہہ کے آنی تھیں اب شاند‬
‫ہی کونی نات ان کو چیران کرنی۔‬
‫”اس طرف سیڑھباں ہیں خو ننچے گراؤنڈ قلور کے رنشٹ رومز کی طرف جانی ہیں‪،‬‬
‫وہاں نک جائے ہم رنشٹ روم کے نجھلے دروازے سے تھاگ جانیں گی۔“ فروا ئے‬
‫اس سے کہا بو علتبا ئے انبات میں سر ہالنا۔ علتبا کو کانتبا دنکھ اس ئے گن ا ننے‬
‫ہاتھ میں لے لی‪ ،‬علتبا کی تگاہیں نار نار اس کے چہرے کی طرف جا رہی تھیں چہاں‬
‫نشان تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪389 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم کہاں تھی؟“ علتبا ئے خود کو کہنے سبا‪ ،‬نات کرئے فروا اجانک رک گنی‪،‬‬
‫ُ‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ت‬ ‫ً‬
‫اس کے ناپرات فورا ندلے‪ ،‬چہرے پہ ل یف ا ھر آنی‪ ،‬اس ئے خود کو روئے سے ناز‬
‫رہا۔‬
‫”اتھی نہیں۔“ وہ رندھے لہچے میں بولی کہ اس وفت ان کو نس نہاں سے تکلبا‬
‫تھا۔‬
‫سیڑھ نوں کی جانب پڑ ھنے وہ دھبان سے ننچے جا رہی تھیں‪ ،‬انک انک قدم تھونک‬
‫تھونک کے رکھ رہی تھیں۔‬
‫”چہرے کے آگے نال کر لو۔“ فروا ئے کہنے خود کے نال تھی آگے کنے اور‬
‫اس کے تھی نال تھبالئے لگی خو گبدے ہو رہے تھے‪ ،‬ہر گزرئے لمچے آنکھوں سے‬
‫آنسو زنادہ نہہ رہے تھے۔‬
‫”نارمل رہو‪ ،‬گہرے شانس لو۔۔“‬
‫علتبا ئے سر ہالئے آنسوؤں کو روکا اور لمبا شانس کھتنحا۔‬
‫”مشکراؤ۔۔“ فروا ئے تم آنکھوں سے کہا علتبا ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”ہم ئے نہاں سے رنشٹ روم میں نیزی سے انئیر ہونا ہے‪ ،‬ہاتھ دھوئے کے‬
‫نہائے دو سبکبڈ کھڑے رہ کے تھاگ جانا‪ ،‬ننجھے مڑ کے نہیں دنکھبا ورپہ نتھر کے ہو‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪390 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫جانیں گے۔۔ تھا گنے رہبا ہے۔ اگر ہم ئے ننجھے پہ دنکھا بو ہم نچ جانیں گے۔“ فروا‬
‫اس کو خوصلہ دے رہی تھی۔ علتبا نحوں کی طرح سر ہالنی جا رہی تھی۔ فروا ئے گن‬
‫اننی کمر پہ تکا لی‪ ،‬اس کے کیڑے تھی ندلے تھے۔‬
‫”گہرا شانس لو۔۔“ دوبوں ئے شانس تھرا۔‬
‫”ہم آزاد ہیں۔“ انبا کہہ کے وہ دوبوں نیزی سے آخری جبد ز ننے تھی تھالنگنی‬
‫ہونی رنشٹ روم میں داجل ہونیں کہ ا ننے سے ہی ان کا ن یقس نگڑا تھا۔‬
‫سیڑھ نوں کے نالکل دانیں جانب واش روم ننے تھے اور پہ حصہ رنسنورن نٹ کے‬
‫اندر جا کے تھا‪ ،‬نہاں زنادہ لوگ موخود نہیں تھے نتھی اس نات کا قاندہ اتھانا تھا۔‬
‫فروا ئے اس کا ہاتھ اتھی نک نہیں چھوڑا تھا۔ ناس سے گزرنی انک لڑکی ئے‬
‫نحوت سے علتبا کو سر نا نا دنکھا جس کا جلنہ انشا تھا جٹسے کونی تھبک ما نگنے والی ہو‪،‬‬
‫خوئے سے ندارد ناؤں‪ ،‬نالوں کو کاقی دن سے دھونا نہیں تھا‪ ،‬ا ننے ناس سے اتھنی‬
‫ُ‬
‫بو۔۔‬
‫فروا ئے جنی االمکان سباٹ ناپرات کرئے انبا رخ ناہر کے دروازے کی طرف‬
‫کبا۔ دروازہ دکھبلنے ہی وہ دوبوں ناہر تھیں۔ رات کا وفت تھا لبکن آس ناس روستباں‬
‫اجاال کر رہی تھیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪391 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تھاگو۔۔“ جبد قدم نبدل جلنے ہوئے فروا اجانک جالنی کہ دوبوں ئے اندھا دھبد‬
‫تھاگبا سروع کر دنا۔‬
‫اس شانبڈ کی طرف رش نہیں تھا‪ ،‬آج شاند کونی نہوار تھا جس کی وجہ سے ہونل‬
‫کی انئیرنٹس کی طرف لوگوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ ان کو ننجھے نہیں دنکھبا تھا اور وہ‬
‫نس تھاگی جا رہی ت ھیں۔‬
‫لوگوں والی جگہ میں آئے وہ دوبوں انک نتنچ کے ناس نتتھ گنیں۔ کونی لوکل‬
‫شاپ تھی جس کے ننجھے کی طرف نتنچ لگے تھے‪ ،‬نتم اندھیرے والی جگہ کہ شاند ہی‬
‫کونی انہیں نہحان نانا۔‬
‫گ‬‫ل‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫چب وہ وہاں یں اور تھا نے کی وجہ سے ا نی ھولی شانس نحال کرئے یں‬
‫بو انک دوسرے کو دنکھا۔‬
‫ا ننے دبوں کے تغد انک دوسرے کو زندہ دنکھبا‪ ،‬خوسی و عم سے وہ دوبوں انک‬
‫دوسرے سے لنٹ کے رو دیں۔‬
‫”کہاں تھی تم؟ پہ۔۔ پہ کبا ہوا ہے شب؟“ علتبا ئے اس کے چہرے کو‬
‫تھامے روئے ہوئے بوچھا چہاں الگ الگ نشان تھے‪ ،‬اس کی گردن پہ تھی‪ ،‬چیڑے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪392 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫پہ آنکھ کی انک شانبڈ پہ کٹ۔۔ خو زہن میں آرہا تھا وہ شب دل کو بور رہا تھا۔ دل‬
‫نتتھا جا رہا تھا۔‬
‫”فباد نمہارے ننجھے ہے علتبا‪ ،‬اسے تم جا ہنے وہ نمہیں اسیعمال کر رہا ہے۔“ انبا‬
‫خواب د ننے کے نحائے اس ئے علتبا سے کہا۔‬
‫”وہ نمہیں ا ننے ناس رکھ کے اسیعمال کر رہا ہے۔ اسے کجھ جا ہنے۔“ فروا ئے‬
‫اس کا ہاتھ تھامے کہا۔‬
‫ن‬ ‫ت ُ‬ ‫ل‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”کون فباد؟“ علتبا نا ھی سے بوچھنے گی۔ وہ دوبوں ا ھی اس ہو ل سے کاقی‬
‫دور موخود تھیں۔‬
‫”وہی جس ئے ہمیں نہاں رکھا۔“ فروا ئے نبانا۔‬
‫”پہ شب تھی اسی ئے کبا‪ ،‬تم کہاں تھی؟ تم تھبک ہو۔۔؟“ علتبا کے روئے‬
‫میں اصاقہ ہوا چب نات کا ادراک ہوئے لگا۔ فروا ئے تقی میں سر ہالنا کہ وہ تھبک‬
‫نہیں تھی۔‬
‫”میں زندہ ہوں۔۔۔ تم تھبک ہو۔“ فروا کی آواز میں تکل یف تھی جسے محسوس‬
‫کرئے علتبا تھر سے اس سے لنٹ گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪393 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کونی اِ س کو اسیعمال کر رہا تھا لبکن اس کی دوشت کی زندگی پرناد ہو گنی تھی‬
‫اس کی وجہ سے۔‬
‫”میں روز مرنی تھی وہاں علتبا۔ اس کی متنیں کرنی تھی۔۔“ اس کے گرد زور‬
‫سے نازو ناندھے وہ آہشنہ آواز میں بولی۔‬
‫”مجھے مغاف کر دو فروا۔ میں ئے نمہاری نات نہیں سنی تھی اور میری وجہ سے‬
‫تم تھی تھٹس گنی۔“‬
‫وہ دوبوں انک دوسرے سے تگاہیں نہیں مال نا رہی تھیں۔ فروا کی جالت قانل‬
‫رچم تھی۔‬
‫”ہمیں نہلے کسی سے راتطہ کرنا جا ہنے۔“ فروا ئے ستتھلنے ہوئے کہا علتبا ئے‬
‫انبات میں سر ہالنا۔ علتبا سے زنادہ فروا ہمت دکھا رہی تھی۔‬
‫اب ان کو کونی انشا انشان جا ہنے تھا خو ان کی مدد کر شکبا لبکن خو ان کے‬
‫شاتھ ہو حکا تھا وہ اننی آشانی سے کسی پہ تھروسہ نہیں کر شکنی ت ھیں۔ اس ہونل‬
‫میں وانس نہیں جا شکنی تھیں چہاں وہ نہلے تھہری تھیں‪ ،‬وہاں جائے سے ہو شکبا تھا‬
‫کہ فباد کے آدم نوں کو ان کی چیر مل جانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪394 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اتھی ان کو اس عالفے سے دور ہی جانا تھا چہاں کونی نہحانبا پہ ہو انہیں۔‬


‫دوبوں کے وخود نہلے سے کاقی کمزور ہو گنے تھے بو اننی طافت نہیں تھی کہ وہ مزند‬
‫تھاگ شکنیں۔ بوانانی کے لنے انہیں کھائے کو کجھ جا ہنے تھا۔‬
‫ان کے نبگز‪ ،‬مونانل کجھ تھی ناس نہیں تھا۔ وہ جٹسے کسی اور دنبا میں آگنی‬
‫تھیں چہاں ان کا ہمدرد کونی تھی نہیں تھا۔‬
‫ن‬
‫خود کے وخود کو گھسنتنے ہوئے وہ انک گھر کے ناہر ہنچ جکی تھیں۔ فروا ئے‬
‫دروازے پہ دسبک دی انک جابون ناہر آنی جس سے انہوں ئے انک کال کروائے کو‬
‫کہا۔ ان دوبوں کی جالت انسی نہیں تھی کہ وہ مان جانی لبکن اس ئے اجازت دے‬
‫دی۔ فروا ئے اسے ا ننے اتکل کو ہی کال کرئے کا کہا کہ اس کے اتکل مبکس‬
‫ش‬ ‫ہ‬‫ن ج ن‬
‫کاقی اپر رشوخ رکھنے تھے۔ وہ ان ک لدی نچ نے ھے۔‬
‫ت‬ ‫ک‬
‫کال لگ گنی بو علتبا کو رونا آئے لگا‪ ،‬دوسری جانب آبومتبک آنسر مسین کی آواز‬
‫گونج رہی تھی کہ وہ انبا مٹسج چھوڑ دے۔‬
‫”اتکل مبکس! میں علتبا ہوں نلیز ہمیں نہاں سے لے جانیں۔۔“ انبا کہہ کے‬
‫علتبا کی آواز رندھی گنی اور اس سے کجھ تھی بوال پہ گبا‪ ،‬فروا ئے جلدی سے اس سے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪395 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫فون لتنے ناقی نات خود کہہ دی۔ علتبا کو مغلوم پہ ہوا کہ اس ئے کبا کہا تھا لبکن‬
‫فون اس جابون کو وانس کرئے انہوں ئے شکرپہ ادا کبا اور کجھ کھائے کو ماتگا۔‬
‫اس غورت کو ان دوبوں پہ پرس شا آنا بو پرنڈ کے نٹس ان کو دے د ننے۔‬
‫ن‬
‫وہ دوبوں کہیں دور جائے کے نحائے اسی گھر کے ناس تتھی رہیں کہ اتکل‬
‫مبکس مٹسج ملنے ہی ہو شکبا تھا کہ نہی پہ ان کو لتنے آجانیں۔ وہ خود پہ تھی آئے بو ان‬
‫کے جا ننے والے نہت تھے۔‬
‫”تم کٹسے وہاں سے تکلی۔۔؟“ فروا اس کبدھے پہ سر ر کھے ہوئے تھی چب‬
‫علتبا ئے بوچھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”تم کٹسے وہاں سے تکلی۔۔؟“ فروا اس کبدھے پہ سر ر کھے ہوئے تھی چب‬
‫علتبا ئے بوچھا۔ اس ئے سر نہیں اتھانا تھا‪ ،‬وہ انک فبامت سے گزر کے آنی تھی۔‬
‫فباد نامی سحص انک درندہ تھا جسے ضرف بوجبا آنا تھا۔ وہ جتبا تھی پرے القاظ اس‬
‫کے لنے اسیعمال کر لتنی کم تھا۔ ج نوان‪ ،‬وجسی‪ ،‬درندہ‪ ،‬انشان کے تھٹس میں چھبا ہوا‬
‫سیطان تھا وہ۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪396 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کو انک کمرے میں بو رکھا تھا لبکن زہنی تکل یف کے شاتھ شاتھ جشمانی‬
‫تکل یف سے تھی دوجار کرنا تھا۔ انک دو دن کے لنے عانب ہونا بو فروا کو موفع ملبا وہ‬
‫کھل کے آنسوں نہائے اننی تقدپر پہ ماتم کر شکنی۔‬
‫کھانا دن میں انک وفت کا ہی دنا جانا تھا‪ ،‬کمرہ جاروں طرف سے نبد تھا۔ ہر چیز‬
‫موخود تھی کمرے میں‪ ،‬کرسی‪ ،‬میز‪،‬ڈرنسبگ نتبل‪ ،‬واش روم الماری لبکن انسی کونی‬
‫تھی چیز موخود نہیں تھی جس کو وہ ا ننے نحاؤ کے لنے اسیعمال کرنی‪ ،‬ردی کے پرائے‬
‫کاعذ کی طرح اس کو پڑوڑ مڑوڑ کے ت ھتبک جانا تھا۔ کجھ ہی دبوں میں اس کا وخود‬
‫نج یف شا ہو گبا تھا۔‬
‫ہقنے میں انک نار لباس نبدنل کرئے کے لنے دنا جانا تھا۔ اس کے وخود کو نس‬
‫وہ دل نہالئے کے لنے نہاں النا تھا۔ زندگی میں انبا آپ فروا کو نہلی نار حفیر‪ ،‬ئےکار‬
‫محسوس ہوا تھا‪ ،‬انبا آپ دنبا میں بوچھ لگا تھا جس کو مر جانا جا ہنے تھا۔‬
‫کمرے کے انک کوئے میں پڑی نس رونی رہنی تھی اور جائے کتنی دفع وہ فباد‬
‫کی موت کی دعا کر جکی تھی۔ اگر اس کو موت پہ آنی بو اننی موت کی دعانیں کرنی‬
‫رہنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪397 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫”اب نک ا نسے تتھی ہو‪ ،‬نمہیں اب عادت ہو جانی جا ہنے میری‪ ،‬انحوائے کبا‬
‫کرو۔۔“ عالظت تھرے القاظ کہنے وہ اس کے فرنب نتتھ گبا۔ فروا میں اننی ہمت‬
‫نہیں نچی تھی کہ وہ اس کے پڑھے ہاتھ کو تھی چھبک د ننی۔ نہت نار شوجا کہ خرام‬
‫موت مر جائے لبکن اننی جان لتنے کو تھی نہاں کجھ موخود نہیں تھا۔ اننی جالت کا‬
‫شو جنے چب پرداشت پہ ہونا بو دبوار پہ سر مار لبا کرنی کہ شاند اسی سے موت ہو جانی۔‬
‫”ک نوں رونی ہو‪ ،‬شاری زندگی کے لنے ا ننے ناس رکھ رہا ہوں نمہیں کم ہے کبا۔“‬
‫اس کے نالوں کو متھی میں جکڑئے ہوئے اس کے چہرے پہ عرائے ہوئے بوال۔‬
‫”مجھے مار دو۔۔“ آنکھوں سے آنسوں گرا تھا اور فروا کے ہون نوں سے فرناد تکلی تھی‬
‫جس پہ وہ مشکرانا۔‬
‫”مارئے ہی بو آنا ہوں لبکن تم تھر زندہ ہو جانی ہو۔“ اس کی گردن کو دبو جنے‬
‫ہوئے کھڑا کبا اور پراسرار لہچے میں بوال۔ نبڈ کی جانب دھکا د ننے ہوئے چب ہاتھ اننی‬
‫سرٹ کی طرف گبا نتھی نت نٹ میں موخود مونانل نجنے لگا۔‬
‫اس وفت ندمزہ ہوئے اس ئے مونانل تکاال اور کالر آنی ڈی دنکھنے چہرے کے‬
‫ناپرات ڈھبلے پڑے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪398 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫َ‬ ‫ش ِ‬
‫ہ َ‬
‫”ہاں دو دن تغد رکھ رہا ہوں‪ ،‬ستمنٹ میں اتھی کجھ دن یں۔ ان نچ رکھا ہے‬
‫مال‪ ،‬فرنش گفٹ ہو گا میری طرف سے۔“ دوسری جانب جائے کون تھا جس سے وہ‬
‫اننی واہبات گقبگو کر رہا تھا۔ فروا آئے والے لمحات کا شو جنے خوف سے شقبد پڑ رہی‬
‫تھی چب اس کی تظر کرسی کی نشت پہ موخود کوٹ میں انک جانی کے گجھے پہ پڑی۔‬
‫نہلے دو دن اس ئے بورا کمرہ ن نوال تھا لبکن نہاں سے فرار ہوئے کا راشنہ ضرف‬
‫انک نہی دروازہ تھا خو ہمٹشہ نبد رہبا تھا۔ فباد فون پہ نات کر رہا تھا جبکہ فروا کی تظریں‬
‫ان جان نوں پہ تھیں جن میں ہو شکبا تھا کہ اس کمرے کی تھی جانی شامل ہو۔‬
‫اس کا نس نہیں جل رہا تھا کہ وہ کسی طرح ان کو ا ننے ہاتھ میں لے اور‬
‫نہاں سے فرار ہو۔‬
‫فباد اجانک گھوما بو فروا کی تظریں انک جگہ پہ نانیں‪ ،‬چہاں وہ کھڑا تھا وہاں سے‬
‫کوٹ کا ان یگل جتنج تھا کہ اس کو جانباں تظر نہیں آنی تھیں۔‬
‫”کوٹ جا ہنے نمہیں؟“ فباد کی اجانک آواز پہ وہ گ ھیرا اتھی اور اس کو ہراشاں‬
‫تگاہوں سے دنکھنے لگی۔ اس کی تظر اتھی تھی جان نوں پہ نہیں گنی تھی۔‬
‫”ڈھانتبا ہے خود کو۔۔؟“ اس کے کان کے فرنب وہ شور تھو نکنے ہوئے بوال کہ‬
‫جان نوں سے بوجہ ہٹ کے اب فباد کو دنکھنے لگی۔ ل نوں سے ششکی تکلی جس کو‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪399 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دنائے کو فروا ئے نیزی سے منہ پہ ہاتھ رکھا لبکن وہ پروا کنے نبا انبا وجسی ین دکھائے‬
‫لگا۔‬
‫”اب ا چھے سے ڈھانپ لو خود کو۔۔“ نمسجر اڑائے لہچے میں کہنے انک حقارت‬
‫تھری تظر اس پہ ڈالے کوٹ اس کے اوپر تھتبکنے اننی سرٹ نکڑی اور جان نوں کا گجھا‬
‫نکڑے دروازے کو دھڑام سے نبد کرنا جال گبا۔ اس کا ئےجان وخود ا نسے ہی اجشاس‬
‫سے عاری پڑا تھا جس کو وہ آج تھر نکروں میں کاٹ گبا تھا۔ چہاں پرائے نشان اتھی‬
‫مبدمل نہیں ہوئے تھے وہاں وہ ننی درندگی کی نشانباں دے گبا تھا۔‬
‫اننی ششکباں آہیں دنائے جائے کب وہ نتبد میں جلی گنی اجشاس پہ ہوا۔ آنکھ‬
‫کھلی بو سر تھاری ہو رہا تھا‪ ،‬رو رو کے آنکھوں کے ن نوئے شوج جکے تھے۔ وہ اتھنے لگی‬
‫چب اس کی تظر کوٹ پہ گنی۔‬
‫اس ئے نیزی سے اس کو تھاما اور کوٹ کو ن نو لنے لگی کہ شاند جانباں اتھی‬
‫تھی موخود ہوں اس میں۔‬
‫اندر سے ضرف انک کارڈ مال تھا اور کجھ تھی نہیں تھا۔ کارڈ کو تھکے ہارے انداز‬
‫میں نبڈ پہ رکھنے ہزنانی انداز میں جنجنے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪400 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کب میری ازنت جتم ہو گی۔۔؟“ وہ کرب سے جالنی اور رونی جلی گنی۔ جس‬
‫دن فباد پہ آنا اس کو نبا خوف ا ننے حصار میں رکھبا کہ کہیں وہ کسی اور کو اس طرف‬
‫پہ تھنج دے۔ کہیں کونی ناہر سے اجانک نہاں پہ آجائے۔‬
‫اس ئے کوٹ کو تفرت سے خود سے دور تھت یکا اور جالنی رہی۔‬
‫ناتھ روم میں کونی آ نننہ نہیں تھا‪ ،‬پہ کمرے میں‪ ،‬نس انک ڈرنسبگ نتبل تھا‬
‫وہاں تھی کجھ نہیں تھا۔ سٹشہ بورے کمرے میں موخود نہیں تھا۔ فروا خود کو تھی‬
‫ہاتھ لگائے سے کیرانی تھی کہ وہ خود ناناک بو جکی تھی اور خود کو دنکھنے سے تھی‬
‫کراہ نت محسوس ہونی تھی۔‬
‫اس ئے چب ناتھ روم کے دروازے پہ ہاتھ رکھا بو ہاتھ دروازے کی ناب پہ گبا‪،‬‬
‫ہاتھ کی اتگلباں بولٹ کو چھو رہی تھیں خو انک وشل )‪ (Wistle‬کی سنپ میں‬
‫تھی‪ ،‬تعنی اوپر سے ننچے انک شالنڈ کی طرح۔‬
‫اتگلی کا دناؤ پڑھانا بو بولٹ اندر کی طرف ہوا۔ اس ئے ناب کو انک ہاتھ سے نکڑا‬
‫اور تھر بولٹ پہ ہلکا شا زور دنا اور اندر جال گبا۔ ناب کو گھمائے تغیر بولٹ اندر جال جانا‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫تھا‪ ،‬ا ننے ہی دھبان میں وہ اس کو نار نار چ ھیڑنی رہی۔ جالی تگاہوں سے شا منے د نی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪401 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ت ت ً‬
‫رہی چہاں بوتھ نٹشٹ موخود تھی جتم ہوئے والی ھی فرنبا‪ ،‬نچے سے اس کے صے کو‬
‫ح‬ ‫ن‬
‫موڑا ہوا تھا کہ وہ زگ زنگ کی طرح ننی تھی۔‬
‫ئےدھبانی میں اس کی تظر بولٹ کی طرف اتھی کہ اجانک دماغ میں کجھ کلک‬
‫شا ہوا۔ ڈور ناب نبا گھمائے بولٹ اندر رہا تھا‪ ،‬نیزی سے تگاہ ئے کمرے کے مین‬
‫دروازے کو دنکھا۔ انک جٹشا الک تھا۔‬
‫اس بوتھ نٹشٹ ن نوب کو نکڑا اور ننچے سے اس کی نچی کچی نٹشٹ کو اوپر کبا‪،‬‬
‫اس کو ا چھے سے زگ زنگ میں سنپ کرئے وہ ناتھ روم کے اندر آنی اور دروازے کو‬
‫الک کبا۔ ڈور ناب گھمانا لبکن دروازہ نبد‪ ،‬دروازہ ناتھ روم کے اندر سے کھل شکبا تھا‬
‫اس کو پہ پرنشانی نہیں تھی کہ وہ ناتھ روم سے ناہر نہیں جا شکنی تھی نتھی اندر سے‬
‫الک لگانا۔‬
‫اس ئے ن نوب کے نجھلے مڑے ہوئے حصے کو الک کے تھوڑا اوپر اس نبلی سی‬
‫لکیر (خو نالکل نارنک شا جال تھا) میں ڈاال اور ن نوب کو اوپر سے ننجھے کی طرف لے‬
‫جائے آگے کبا اور ڈور ناب کے نالکل پراپر اس نارنک لکیر میں لے آنی۔ اس ن نوب‬
‫کو انک دو نار تھبک سے اوپر ننچے کرئے سے دروازہ ڈھبال پڑ گبا۔‬
‫فروا ئے نبا ناب گھمائے دروازہ کھو لنے کی کوشش کی بو وہ کھل گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪402 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دروازہ کھل گبا تھا اور چہرے پہ ا ننے دبوں تغد انک خوشگوار لہر آنی تھی جٹسے وہ‬
‫اس عزاب سے تکل گنی تھی۔ عذاب سے نہیں تکلی تھی لبکن اس عذاب سے تکلنے‬
‫کی امبد کی کرن دکھانی دی گنی تھی۔‬
‫اس کو اب وفت کا ان یطار کرنا تھا کہ کب وہ کمرے کا الک کھو لنے کی‬
‫کوشش کرے‪ ،‬اس سے نہلے اگر اس ئے الک کھو لنے کی کوشش کی اور تھاگا پہ‬
‫گبا بو نکڑی جانا تھا۔ اتھی نک بو فباد کو تفین تھا کہ فروا نہاں سے تھاگ نہیں شکنی‬
‫تھی اور نہی تفین اتھی کجھ دن نک قاتم رکھبا تھا۔‬
‫اس کو اب دروازہ کھو لنے کی پرنکٹس کرئے رہبا تھا نتھی اس ئے بوتھ نٹشٹ‬
‫کو وانس اس کی جگہ پہ نارمل کر کے رکھ دنا ناکہ کجھ تھی ندلہ ہوا پہ لگے۔‬
‫اس کے دل ئے دعا کی کہ کجھ دن نک فباد نہاں پہ آئے نلکہ اس کی شکل‬
‫کتھی پہ د نکھے۔ نس نہاں سے تھاگ جائے۔‬
‫ہر چیز نہاں اس کو محدود دی گنی تھی۔ نانی کا سبالنی تھی دن میں دو وفت کا‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ل م ن‬
‫ہونا تھا۔ انبا منہ دھوئے وہ ناہر آنی اور انک موہوم سی امبد نے ز ین پہ ھی نبڈ سے‬
‫نبک لگا گنی۔ آج ندن نپ رہا تھا اور طت یغت تھی عج نب تھی۔ اس کو نحار ہو رہا تھا۔‬
‫زندگی میں جائے کون شا گباہ کبا تھا جس کی سزا اس کو فباد کی صورت میں مل رہی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪403 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫تھی۔ ان کو نکڑئے کا مقصد بوچھنے پہ فباد ہمٹشہ پر اسرار ہٹس دنا کرنا اور ضرف پہ‬
‫کہبا کہ اس کو علتبا کے شاتھ جانی لڑکی نسبد آگنی تھی بو لے آنا۔‬
‫علتبا کے نارے میں بوچھنے پہ تھی وہ کجھ پہ نبانا تھا بو شوال کرنا چھوڑ دنا۔ ادھر‬
‫نتتھے نتتھے اس کی آنکھ لگ گنی تھی‪ ،‬کمزوری اننی ہو رہی تھی کہ اتھا نہیں گبا بو وہیں‬
‫شو گنی۔‬
‫دونارہ چب آنکھ کھلی بو دنکھا فباد اس کو نبڈ پہ لبا رہا تھا۔‬
‫”میں بو اچھا وفت گزارئے آنا تھا اور تم نہاں مر رہی ہو‪ ،‬پرس کھا لبا ورپہ پہ نا ہو‬
‫کہ تم مجھے پرداشت ہی پہ کر ناؤ اور نبک جاؤ۔۔“ اس کا چہرہ تھوڑی سے تھامے ا ننے‬
‫چہرے کے فرنب کرئے ہوئے سرد لہچے میں بو لنے قہقہہ لگا اتھا۔‬
‫”جلو کبا ناد کرو گی آج نمہاری جدمت کر لتبا ہوں۔“ انبا کہہ کے فباد اس پہ‬
‫جاوی ہوئے لگا۔ آنسوں بوٹ بوٹ کے گر رہے تھے۔‬
‫”مجھے جائے نہیں دو گے؟“ تقاہت و کمزوری کے ناغث اس سے بوال نہیں جا‬
‫رہا تھا۔‬
‫”کجھ دن میری ناہوں میں ہو گی تھر کسی اور کی ناہوں میں۔“ وہ شقاکی کی جد‬
‫نار کرئے ہوئے بوال کہ اس لمچے کا انک انک نل چہتم کی آگ لگ رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪404 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہمارا کبا فصور ہے؟“ نتم وا آنکھوں سے اس ئے فباد سے بوچھا جس سے فروا‬


‫کو اتھی تفرت محسوس ہو رہی تھی۔ تفرت سے تھی کونی پڑا خزپہ تھا بو وہ اتھی فروا کے‬
‫دل میں تھا۔‬
‫”نمہارا فصور نہی ہو گا کہ تم میری تظروں میں آگنی۔۔“ وجشت و درندگی‪ ،‬جارجاپہ‬
‫ین دکھائے وہ عرانا کہ فروا ششکنے لگی۔‬
‫خو خو حق یفت وہ اس کے شا منے کھول رہا تھا پہ شب پرداشت کرنا ممکن نہیں‬
‫تھا‪ ،‬اسی نل وہ موت کی خواہش کرئے لگی کہ زندگی اسی لمچے جتم ہو جائے۔‬
‫”ہاں کل کے وفت میں نہاں نہیں ہوتگا‪ ،‬شپ منٹ ہے اور تھر کجھ دن تغد‬
‫نہاں منتبگ ہے میری نب نہیں ملوں گا میں۔“ اس کی نشت فروا کی جانب تھی۔‬
‫فروا اس کی گقبگو شن رہی تھی۔ انک تکارا چیز کی طرح اسیعمال کرے نبا مڑے وہاں‬
‫سے جا حکا تھا۔ کتنی دپر وہ ا نسے ہی ئےشدھ پڑی رہی تھی۔ نین پرہنہ نسیر پہ چت‬
‫لتنے وفت گزرئے کا ان یطار کرئے لگی۔ جالی تگاہوں سے وہ انک ہی غیر مرنی تقطے کو‬
‫گھوری جا رہی تھی۔‬
‫علتبا کے نارے میں شو جنے ہوئے دل اجانک سے گ ھیرانا سروع ہو گبا‪ ،‬گہرے‬
‫ن‬
‫شانس ت ھرئے وہ اتھ تتھی‪ ،‬ستنے پہ ہاتھ رکھنے لمنے لمنے شانس لنے۔ علتبا اتھی تھی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪405 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کی فبد میں تھی‪ ،‬نہاں سے اگر زندہ نچ کے تکل تھی جانی بو علتبا کو کٹسے‬
‫ڈھونڈے گی وہ۔۔۔ کبا اس کے شاتھ تھی نہی شب ہو رہا تھا؟‬
‫دکھ‪ ،‬عم‪ ،‬تکل یف‪ ،‬عصہ شب محسوس ہو تھا تھا کہ ہزنانی انداز میں جنجبا سروع کر‬
‫دنا۔‬
‫”ک نوں۔۔۔ ک نوں ہو رہا ہے میرے شاتھ پہ شب؟“ ا ننے نال بو جنے وہ جٹسے‬
‫ناگل ہوئے کو تھی۔ کتنی نار وہ انک نسو نئیر کی طرح اسیعمال کر کے ت ھتبک دی جا‬
‫جکی تھی‪ ،‬اس ئے دونارہ خود کو خوڑئے کی کوشش تھی نہیں کی تھی۔ کرنی تھی‬
‫کٹسے وہ دونارہ اس کو ننے سرے بوڑئے آجانا تھا۔‬
‫”مجھے موت ک نوں نہیں آرہی۔۔۔؟“ جلق کے نل جالنی ہونی وہ زار و فطار‬
‫روئے لگی۔‬
‫فباد ئے فون پہ زکر کبا تھا کہ وہ کل نہاں نہیں ہو گا مطلب وہ کل نہاں‬
‫سے تکل شکنی تھی۔‬
‫لبکن اس سے نہلے اس کو ک یفرم کرنا تھا کہ دروازے کے ناہر کون اور کتنے‬
‫لوگ تھے۔ فباد کو گنے کاقی دپر ہو گنی تھی اس کا کھانا اب کل ہی آنا تھا بو‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪406 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دروازے کے نالکل ناس نبک لگائے نتتھ گنی ناکہ ناہر لوگوں کے آئے جائے کی‬
‫آوازیں شن شکنی۔‬
‫دروازے سے کان لگائے کاقی دپر نک وہ محسوس کرنی رہی تھی لبکن کسی کی‬
‫تھی آہٹ سبانی نہیں دی گنی تھی۔‬
‫کبا اس کو کل صنح نک کا ان یطار کرنا جا ہنے تھا‪ ،‬دل ئے اتکار کبا۔ اگر اتھی موفع‬
‫مل رہا تھا بو اس کو رات کے اسی اندھیرے میں قاندہ اتھانا جا ہنے تھا۔‬
‫جتم ہوئے والی بوتھ نٹشٹ کو نکڑے نحلے حصے سے نٹشٹ کو دنا کے اوپر کبا‬
‫ناکہ وہ اس کو مڑوڑ کے دروازے کی جال میں ڈال شکے۔۔‬
‫اس ئے کنی نار ناتھ روم کا دروازہ کھو لنے کی پرنکٹس کی تھی بو نٹشٹ کا رنیر‬
‫ہ‬‫ن‬
‫کاقی ڈھبال ہو گبا تھا لبکن اس کو نار نار تھبک کرئے وہ دروازے نک نچی۔‬
‫وہی زنڈ کی سنپ دے کے اس ئے الک کے اوپر جال میں وہ نارنک رنیر گھشانا‬
‫اور اس کو ننچے کرئے لگی لبکن وہ ننچے کی طرف نہیں آرہا تھا۔۔ نین سے جار نار‬
‫کوشش کرئے پہ تھی وہ تھبک سے الک کے فرنب نہیں نہنحا بو ناتھ روم جا کے‬
‫اس ئے جتبا تھی تھوڑا شا نٹشٹ نحا تھا اس کو تکال لبا اور ن نوب کو دہرا کر دنا ناکہ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪407 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫تھوڑا سحت شا ہو گبا۔ اس ئے اب دروازے کی جال میں ڈاال اور کوشش کی لبکن وہ‬
‫مڑ جانا تھا۔ نحائے الک کے بولٹ کے ناس آئے کے وہ وہی سے مڑ جانا۔‬
‫ئےنسی سے اس کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہوئے لگے۔‬
‫”ک نوں نہیں کھل رہا پہ۔“ رندھے ہوئے لہچے میں بولی اور نپ نپ آنسوں پرسنے‬
‫رہے۔‬
‫ناامبدی سے وہ نبڈ پہ نتتھ گنی‪ ،‬کاقی دپر وہ ا نسے ہی آنسوں نہانی رہی تھی چب‬
‫اس کی تظر کرسنوں کے فرنب گرے انک کارڈ پہ پڑی۔ ناس ہی فباد کا کوٹ پڑا تھا‬
‫خو وہ کمرے میں ہی چھوڑ گبا تھا۔ اس ئے آگے پڑ ھنے وہ کارڈ اتھانا۔ اس کو جبک‬
‫کبا۔ وہ ہارڈ تھا کاقی۔‬
‫اس ئے کارڈ کو موڑنا جاہا بو وہ ہلکا شا ہوا مطلب وہ اس سے کھول شکنی تھی۔‬
‫خوسی کی چمک اس کے آشودہ چہرے پہ سما گنی۔ نیزی سے اتھی اور تھوڑی دپر‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫وانس دروازے سے کان لگائے ھی رہی۔ کونی آہٹ سبانی یں دی۔‬
‫اس ئے ہللا کا نام لبا‪ ،‬آج آر نا نار۔۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪408 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کارڈ کو اسی نارنک جال میں ڈاال اور الک کے بولٹ نک لے آنی۔ زرا شا ننچے کبا‪،‬‬
‫دل کی دھڑکن جد سے زنادہ نیز ہونی۔ نہاں سے ناہر تکلنے وہ نکڑی گنی بو اس کا‬
‫آخری دن ہو گا۔‬
‫”جلو اسی نہائے مر بو جاؤں گی۔“ خود سے پڑپڑانی۔ دل انبا مابوس ہو گبا تھا کہ‬
‫زندگی کی اب جاہ ہی نہیں رہی تھی۔‬
‫ن‬
‫سجنی سے آ کھیں منجنے اس ئے ڈور ناب کو چھوا‪ ،‬دروازہ ڈھبال شا لگا اننی جانب‬
‫کھتنحا بو وہ کھل گبا۔ دل کی دھڑکن ڈوب کے اتھری‪ ،‬ہون نوں پہ سجنی سے ہاتھ رکھنے‬
‫ا سنے اننی ششکباں روکیں۔ وہ اس کمرے سے ناہر جا شکے گی۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫لبکن اتھی اننی ہمت نہیں ہو نا رہی تھی کہ وہ دروازہ بورا کھول کے د نی‬
‫ھ‬
‫ناہر۔۔ کتنے ہی گہرے شانس تھر لنے تھر دروازہ کھوال۔ کمرے کے ناہر اندھیرا چھانا‬
‫ہوا تھا۔ کسی زی روح کا نام و نشان موخود پہ تھا۔ نہلے دانیں تھر نانیں جانب۔ جالی‬
‫وپران سی راہ داری۔ کمرے میں وانس مڑ کے دنکھنے کی زچمت تھی نہیں کی تھی۔‬
‫چہاں سے ضرف از نت کے نحنہ نشان وہ ا ننے ندن پہ لنے جا رہی‪ ،‬تفرت کے عالوہ‬
‫کجھ نہیں تھا دل میں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪409 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس ئے ناہر قدم رکھا‪ ،‬تھبڈا فرش ناؤں کو محسوس ہوا کہ انک سرد لہر جشم میں‬
‫نیر گنی۔ اجانک اننی ہمت آنی تھی کہ اگر اس وفت فباد شا منے ہونا بو اس کے منہ پہ‬
‫شو گالباں د ننی‪ ،‬اس کے منہ پہ تھوکنی خو انک گبدی ناناک جگہ کا چیزپر تھا۔‬
‫اس ئے اب کسی چیز کی پروا پہ کی اور خو رشنہ سمجھ آنا وہاں جل دی۔ انبا بو‬
‫اس کو مغلوم ہو گبا تھا کہ نہاں شوائے کھانا د ننے کے کونی نہیں آنا تھا اور کھانا‬
‫اب اگلی صنح ہی نہاں آئے گا۔‬
‫کسی نلڈنگ کے انڈر کٹسیرکشن والے بورشن میں تھی۔ لفٹ تظر آنی اس کو لبکن‬
‫اس میں جائے کا رشک نہیں لبا تھا۔ سیڑھ نوں کی طرف پڑ ھنے اس ئے دئے قدموں‬
‫ننچے اپرنا سروع کبا۔ اب جبال سبدھا علتبا کی طرف گبا۔ وہ کہاں ہوگی‪ ،‬صنح نک اس‬
‫کو نہاں سے تکلبا تھا ورپہ اس کی غیر موخودگی محسوس کر لی جانی۔ سیڑھ نوں سے ا نسے‬
‫ہی ننچے کی طرف چھاتکا بو نالکل ننچے روستباں دکھانی دی۔ ضرور وہ نلڈنگ کا دوسرا حصہ‬
‫تھا خو اسیعمال میں تھا۔ اب وہ اسی بورشن کے اندھیرے حصے سے پرے اس روسنی‬
‫والے حصے کی شانبڈ پہ ہونی ناکہ اگر کہیں کونی روشن دان‪ ،‬سٹشہ موخود تھا بو ننچے دنکھ‬
‫شکنی اور ناہر جائے کا رشنہ مل جانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪410 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دوسری طرف اس کو انک جگہ سے اوپر آنی روسنی دکھانی دی۔ پہ انک اوین کنچن‬
‫کی طرح کا اپرنا تھا چہاں سبلف ننی ہونی تھیں اور انہیں سبلف کے اوپر انک چھونا شا‬
‫و ننتبلئیر کا شستم لگا تھا خو انک شانبڈ سے بونا تھا اور اسی جگہ سے روسنی کی شغانیں‬
‫ادھر آرہی تھی۔‬
‫ہمت کرئے وہ اس سبلف پہ خڑھی اور نبا آواز کنے اس بوئے نکرے کو الگ‬
‫کرئے کی کوشش کرئے لگی لبکن ستبل کا ہوئے کی وجہ سے وہ کامباب پہ ہونی‪،‬‬
‫نالکل چھونا شا شوراخ تھا۔ انک آنکھ نبد کر کے اس ئے دنکھبا جاہا۔‬
‫شا منے دو بورشن تظر آرہے تھے خو روست نوں میں نہائے ہوئے تھے۔ مسکل سے‬
‫دانیں جانب اس کو انک رنلتبگ تظر آنی۔ اس ئے اندازہ لگانا بو وہ وہیں سیڑھ نوں کی‬
‫رنلتبگ تھی لبکن اسیعمال میں نہیں تھیں۔ اور اس کے نالکل شاتھ اس ئے‬
‫لڑک نوں کو اس طرف جائے دنکھا۔ انبا چہرہ زرا شا دوسری طرف کرئے اس ئے دنکھبا‬
‫جاہا بو رنشٹ روم کا لوگو تظر آنا۔ وہ ہے تھی نالکل اندر کی طرف تھا مطلب وہ نیزی دکھا‬
‫کے وہاں سے تکل شکنی تھی۔ انبا بو وہ جان گنی تھی کہ پہ وہی رنسنورن نٹ تھا چہاں‬
‫وہ آنی تھیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪411 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ت‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ل ت‬ ‫ُ‬


‫ب‬
‫اسی دن پہ فروا ئے شو نار عنت چی ھی۔ س لف سے آرام سے اپرئے اس‬
‫ئے وہاں کجھ ڈھونڈنا جاہا لبکن شوائے منی دھول کے کجھ ہاتھ پہ آنا۔ علتبا کو ڈھونڈنا‬
‫تھا اور اس کو تفین تھا کہ جس بورشن میں وہ خود تھی نہاں علتبا موخود نہیں ہو گی۔‬
‫رشنہ وہ دنکھ جکی تھی نتھی سیڑھ نوں کی جانب پڑھی کہ ننچے والے بورشن کا نجھال حصہ‬
‫انک نار دنکھ لے۔‬
‫اتھی وہ سیڑھباں آدھی اپری ہی تھی کہ اس کو انک شانا شا تظر آنا۔ منہ پہ سجنی‬
‫سے ہاتھ چمائے وہ وہیں رنلتبگ کے شاتھ ننچے نتتھ گنی۔ زرا شا آگے ہو کے دنکھا بو‬
‫نبگے ناؤں تظر آئے۔‬
‫تظر اس وخود پہ آہشنہ سے اوپر کی طرف اتھی بو متباال گبدہ جلنہ‪ ،‬نکھرے منی‬
‫سے ائے نال۔ سبکبڈز کے ہزارویں حصے میں دماغ ئے کلک کبا کہ وہ علتبا تھی۔‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ج‬‫س‬ ‫ُ‬
‫ب‬ ‫س‬ ‫ن‬
‫اس ئے نی سے ہاتھ یں نول تھامی ھی۔ ا نسے ہی ر لت گ کے شاتھ شاتھ‬
‫جبکنی وہ ننچے کی طرف آگنی۔ اس ئے تکارئے کی علطی نہیں کی تھی ک نونکہ کجھ دپر‬
‫نہلے مردوں کے قہقہے اس ئے تھی سنے تھے۔‬
‫جٹسے ہی کبدھے پہ ہاتھ رکھا بو شا منے وخود کے جشم کا خونکبا وہ محسوس کر جکی‬
‫تھی۔ وہ اس کو مل گنی تھی‪ ،‬جٹسے ہی علتبا ئے مڑ کے دنکھا اس کے چہرے پہ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪412 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫خوف ہراس دنکھنے فروا ئے اس کو ا ننے شاتھ لگانا۔ ان کا نہاں سے ناہر تکلبا طے تھا‬
‫نتھی وہ انک ہی جگہ پہ کھڑی تھیں وہ تھی انک ہی دن۔‬
‫قشمت اچھی تھی کہ وہ دوبوں انک دوسرے کو مل گنی تھیں‪ ،‬فروا ئے خو رشنہ‬
‫دنکھا تھا اسی طرف جائے وہ لوگ اس وجسنوں سے تھرے ہونل سے ناہر تکل آ نیں‬
‫ن‬
‫تھیں۔ فروا کی آ یں جشک یں یں ہر سبکبڈ گزرئے کے تغد وہ پرس رہی یں‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫اب وہ علتبا کو کبا نبانی کہ ان دبوں میں اس کو کبا کبا مغلوم ہو گبا تھا۔‬
‫اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ علتبا کو نبانی کہ فباد کون تھا اور پہ شب ک نوں‬
‫م‬
‫کر رہا تھا۔ وہ آزاد ت ھیں لبکن کمل نہیں۔‬
‫علتبا کے شوالوں پہ وہ منجمبد تھی وہ کبا نبائے اس کو۔ اننی ازنت ناک رابوں‬
‫کا کٹسے زکر کرے اس سے۔ ان کے کبدھے پہ سر ر کھے ہوئے تھی اور دوبوں ئے‬
‫انک دوسرے کے گرد نازو لت نٹ ر کھے تھے جٹسے اتھی کونی ان کو نہاں سے جدا کر‬
‫دے گا اور وانس اسی اندھیری جگہوں پہ لے جائے گا۔ دوبوں ئے ازننیں سہی‬
‫تھیں۔‬
‫”نمہارے شاتھ کسی ئے پرا بو نہیں کبا؟“ فروا ئے نبا اس کو دنکھنے شوال کبا‪،‬‬
‫لہحہ تم تھا‪ ،‬آنکھوں سے نانی آج جتم نہیں ہو نا رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪413 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫چ‬
‫فروا کے شوال ئے علتبا کو اندر نک ھوڑ کے رکھ دنا‪ ،‬اس ئے قی یں سر‬
‫م‬ ‫ج‬‫ن‬
‫ہالنا جس کو فروا محسوس کر جکی تھی۔‬
‫م‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”میں خوش ہوں کہ تم تھبک ہو۔۔“ فروا ئے سجنی سے نازو ناند ھنے آ یں نجنے‬
‫ھ‬
‫کہا کہ شکر تھا اس کی دوشت درندگی سے نچ گنی تھی۔ علتبا اس کو پہ القاظ پہ کہہ‬
‫شکی ک نونکہ وہ نالکل تھی تھبک نہیں تھی‪ ،‬اس کی دوشت کی زندگی اخڑ گنی تھی۔ وہ‬
‫اس کے ملنے پہ خوش تھی اور ضرور اس کو زندگی کی طرف الئے گی۔‬
‫چب نہاں سے وہ لوگ شالمت تکل جانیں‪ ،‬ان کو تفین ہو جانا کہ اب وہ‬
‫محفوظ ہیں بو فروا کے لنے مرنا مسکل نہیں تھا‪ ،‬وہ خود کو مار د ننی کہ پہ زندگی کا مج یصر‬
‫لبکن طونل ازنت واال حصہ تقش ہو گبا تھا‪ ،‬اس سے وہ جاہ کے تھی خود کو آزاد پہ کر‬
‫نانی۔‬
‫”ہمیں پرین اسنٹشن نک جانا جا ہنے۔“ علتبا کجھ دپر تغد بولی بو فروا ئے تقی میں‬
‫سر ہالنا۔‬
‫”ہماری گمشدگی پہ وہ شب سے نہلے انسی ہی جگہوں پہ جانیں گے۔“ فروا ئے‬
‫کہا بو علتبا سمجھ کے جاموش ہو گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪414 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ان کو نہاں ا نسے ہی نتتھے جائے کتبا وفت ہو گبا تھا چب اجانک ہی ان کو‬
‫آوازیں سبانی د نبا سروع ہونیں‪ ،‬گاڑبوں کے آئے کا شور آس ناس ہی تھا۔ فروا ئے‬
‫اتھ کے گھر کی آڑ میں آگے ہوئے چھاتکا بو اشلحہ لٹس لوگ دکھانی د ننے۔ کبا وہ دوبوں‬
‫وانس اسی جبہم میں جائے والی تھیں اور تھر ان کو آگے ننچ دنا جائے گا۔ فروا ئے‬
‫خوف سے شوجا لبکن علتبا سے کجھ تھی پہ کہا۔‬
‫ن‬
‫دوبوں ا نسے ہی تتھی رہیں جبکہ فروا ڈر سے لرزنا سروع ہو گنی تھی چب اجانک‬
‫کونی ان کے شا منے آنا‪ ،‬اس ئے فورا ناف نوں کو تھی ا ننے ناس آئے کا اشارہ کبا۔ علتبا‬
‫ئے خوف سے فروا کا ہاتھ تھاما اور دوبوں اتھی تھا گنے کا شوچ رہی تھیں چب اس‬
‫آدمی کو کہنے سبا۔‬
‫”متم مل گنی ہیں۔“ وہ انالین میں بوال‪ ،‬علتبا کو سمجھ آگنی۔‬
‫”مبکس ل نو کے آدمی ہیں ہم آپ کو ڈرئے کی ضرورت نہیں۔“ اس ئے نشلی‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ً‬
‫د ننے کہا علتبا بو فورا خوش ہوئے ا ھنے کو ھی کن فروا ئے اس کا ہاتھ تھامے رکھا۔‬
‫ل‬
‫”کبا ن نوت ہے تم انہیں کے آدمی ہو۔“ فروا ئے اتگلش میں اس سے سجنی‬
‫سے کہا بو علتبا کو اننی عحلت کا اجشاس ہوا۔ اس آدمی ئے نبا کونی مزند نات کنے‬
‫انبا فون تکالے ان کے شا منے کبا چہاں ونڈبو کال تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪415 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫پہ لوگ مبکس ل نو کے ہی تھے۔ دوبوں کو تفین ہوا بو ان کو نیزی سے گاڑی‬


‫میں نتھانا گبا۔ رات کی سباہی میں ان کو نحا لبا گبا تھا دوبوں نشکر سے روئے لگیں۔‬
‫ن‬
‫مبکس ل نو صنح نک نہاں ہنجنے والے تھے نب نک دوبوں لڑکباں محفوظ انک‬
‫تھکائے نک نہنحا دی جانیں۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫یین سال نعد‪ ،‬موجودہ دن‪:‬‬
‫دامیر ئے آہسبگی سے اس کے چہرے پہ ہاتھ ت ھیرئے آنکھوں سے نہنے آنسوؤں‬
‫کو اتگلی کے بوروں پہ جبا۔‬
‫”قشم ہے مجھے اگر فباد زندہ ہے بو اس کو نمہاری آنکھوں کے شا منے موت دوں‬
‫گا۔“ اس کے نالوں کو پرمی سے سہالئے ہوئے بوال خو اس کے نالکل فرنب نحوں کی‬
‫طرح سمٹ کے شو رہی تھی۔ اس کی نلکیں اتھی تھی تم تھیں جن پہ دامیر ئے‬
‫چھکنے بوسہ دنا۔‬
‫”فروا۔“ فروا کا شو جنے دامیر ئے چیڑے سجنی سے تھتنچے۔ ”فباد تم ا ننے مرد‬
‫ہوئے پہ نجھباؤ گے وعدہ ہے میرا تم سے۔“ وہ خود سے تھی عہد کر رہا تھا۔ علتبا ئے‬
‫خو اس کو نبانا وہ ان دوبوں لڑک نوں کے لنے انک نہت پرا جادپہ تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪416 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا اس کی دسیرس میں تھی اور فروا اس کا مغلوم پہ ہو شکا وہ کہاں ہے‬
‫ک نونکہ اس کے نارے میں کونی تھی اتقارمٹشن نہیں مل نا رہی تھی۔ کتنے پرے وفت‬
‫ھ‬ ‫م ت‬
‫سے وہ گزری تھیں دامیر ئے ئےشاچنہ اس کو خود یں نچ لبا۔ اس کے نالوں پہ‬
‫ت‬

‫پرمی سے ہونٹ رکھنے ہوئے اسے خود میں سمانا۔‬


‫اس کا نس نہیں جل رہا تھا کہ وہ اتھی اس فباد نامی کیڑے کو اس کے نل‬
‫سے تکالے اس کے نکرے کر دے‪ ،‬تھر خوڑے ت ھر نکرے کرے‪ ،‬اس کو انبا‬
‫پڑنائے کہ وہ جبہم میں جائے کی دعا خود مانگبا سروع دے۔‬
‫عصے سے اننی متھباں تھتنجبا وہ نبڈ سے اتھ کھڑا ہوا‪ ،‬نار نار متھی کھولے نبد‬
‫کرے۔ انک زور دار مکا اس ئے دبوار پہ دے مارا کہ عصہ پرداشت نہیں ہو نا رہا تھا۔‬
‫اگر علتبا نہاں پہ ہونی بو وہ آرمری میں شونبگ کر کے انبا عبار تکال شکبا تھا لبکن‬
‫اس نل علتبا کو اکبلے نہیں چھوڑ شکبا تھا ک نونکہ شب نانیں دونارہ سے ناد کرنا تھی اسی‬
‫لمحات سے وانس گزرئے کے پراپر ہونا ہے اور وہ پراما میں تھی۔‬
‫ا ننے دبوں سے وہ تھبک سے نتبد نہیں لے نا رہی تھی اور آج وہ انبا دل ہلکا کر‬
‫کے شونی تھی‪ ،‬لبکن فروا کا زکر آخر میں نہیں تھا۔ فروا اتھی تھی شوالنہ نشان تھی!‬
‫چہاں نک دامیر کا جبال تھا فروا کٹسے عانب ہونی علتبا کو اس نارے میں علم ہونا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪417 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫جا ہنے تھا ک نونکہ اس عرصے کی نانیں اسے ناد تھیں۔ لبکن علتبا کے مطابق چب وہ‬
‫ت‬ ‫کھ‬ ‫ن‬ ‫چ‬ ‫ہ‬‫ن م صج ش ن‬
‫ن‬
‫لوگ ہو ل یں نح المت یں بو اس کی دونارہ آ کھ نب ہی لی ھی چب دامیر‬
‫شا منے تھا۔ مطلب نین شال نہلے ہونل جائے کے تغد کی نانیں تھی وہ تھول جکی‬
‫تھی اور اگر اس کو وہ حصہ ناد تھی کروانا جانا بو دامیر کے لنے پہ مسکل ہونی کہ وہ‬
‫اس سے دور ہو جانی‪ ،‬وہ جاہبا تھا کہ اس کی کھونی ناداشت خود وانس آئے پہ کے ان‬
‫کے زپردسنی کجھ ناد دالئے پہ۔‬
‫ہاتھ کی متھی نبائے اس ئے ہون نوں پہ رکھا تھا اور لمنے شانس لتبا کہ عصہ تھوڑا‬
‫کئیرول میں آجائے لبکن وہ کم ہوئے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔‬
‫علتبا کے فرنب آئے اس کا چہرہ دنکھا چہاں معصومنت آناد تھی‪ ،‬وہ اس‬
‫معصومنت کو جتم نہیں ہوئے د نبا جاہبا تھا۔ اس کے نس میں ہونا بو علتبا کو اس‬
‫مافبا‪ ،‬ڈارک ورلڈ سے کہیں دور لے جانا چہاں وہ اننی فیری نبل کہان نوں والی زندگی‬
‫گزارنی انک سہزادے کے شاتھ خو اس کی شاری زندگی حقاظت کرنا۔ اس ئے چھک‬
‫کے اس کے ما تھے پہ ہونٹ ر کھے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪418 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫صنح کی روسنی کمرے میں آرہی تھی‪ ،‬اسے مسکل سے ہی نہاں نتبد آنی تھی اور‬
‫اب چب آنکھ کھلی بو ما تھے پہ الجھن کے نل واصح ہوئے‪ ،‬رنان نتم دراز اننی گود میں‬
‫لنپ ناپ ر کھے کجھ کر رہا تھا چب اس ئے خود کو اس کے نالکل فرنب نانا۔ اس کی‬
‫ن‬
‫کلون کی مہک خواشوں پہ چھانی بو ہڑپڑا کے اتھ تتھی۔ اتھنے ہی خون آشام تگاہوں‬
‫سے اس کو گھورا۔‬
‫ف‬ ‫ج‬‫م‬ ‫ن س‬
‫”مارنبگ ملٹسکا۔۔“ اس کو اتھبا د کھ نبا ھنے کا مو ع د ننے چہرہ فرنب الئے‬
‫چ‬
‫سرارت کر گبا کہ چنہ کے خواس ھنجھبا ا تھے۔ اس کو دھکا د ننے ننجھے کبا اور انک‬
‫ناگوار تظر ڈا لنے نبڈ سے اپر آنی۔‬
‫کمرے کی سحاوٹ ہ نوز ونسی ہی تھی‪ ،‬شقبد گالبوں سے کمرے کو تھوڑا سحانا گبا‬
‫ک‬‫ن‬
‫تھا۔ انک ہاتھ کمر پہ اور دوسرے ہاتھ سے ما تھے کو مشلنے اس ئے زور سے آ یں‬
‫ھ‬
‫منچیں۔‬
‫رنان پہ نہلے ہی طٹش تھا شوئے پہ سہاگا اس کی جشارنیں منی کے نبل کی‬
‫طرح کام کر رہی تھیں خو اس کے عصے کو ہوا د ننے جا رہا تھا۔‬
‫گہرا شانس تھرئے اس ئے خود کو کم نوز کبا اور رنان کو دنکھا جس کی معنی چیز‬
‫تگاہیں اسی کی طرف تھیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪419 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”پہ آخری نار تھا۔“ وہ ننتبہی انداز میں کہنی ہونی اس کمرے سے ہی واک آؤٹ‬
‫کر دی‪ ،‬رنان مشکرانا ہوا لنپ ناپ دنکھنے لگا‪ ،‬تھوڑی سی نتبد بوری کرئے کے تغد وہ‬
‫انبا کام دنکھنے لگ گبا تھا رات میں۔‬
‫چنہ کی موخودگی سرشاری کا اجشاس نحش رہی تھی۔‬
‫پہ سچ تھا کہ انہوں ئے کتھی تھی نہیں شوجا تھا کہ وہ زندگی میں شادی تھی‬
‫کریں گے نا کسی غورت کو انبانیں گے تھی لبکن اب چب انشا ہوا تھا بو کجھ زنادہ ہی‬
‫زور کا ہوا تھا کہ ان سے دوری نبانا ناممکن سی نات ہو گنی تھی۔‬
‫رنان کے لنے پہ کہبا نہیر ہو گا کہ اس کی چب تگاہ ملی بو شاری زندگی اس کے‬
‫نام کر دی۔‬
‫گردن کو دانیں نانیں کرئے اس ئے گہرا شانس تھرا اور اتھ کھڑا ہوا‪ ،‬دامیر ئے‬
‫ت‬ ‫ک‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫م ت‬
‫رات میں کجھ اتقار ٹشن چی ھی جس کو وہ ج ک کر رہا تھا کجھ نورنی مراز ھی‬
‫ت‬ ‫ک‬ ‫س‬ ‫ب‬ ‫ن‬
‫جبک کرئے تھے۔ لنپ ناپ کو شانبڈ پہ رکھنے وہ اتھا‪ ،‬ارادہ اس کا نہائے کا تھا۔‬
‫مبکس ل نو ئے کل رات سے انڈنٹ نہیں کبا تھا کہ اس کی شاشا سے متنتبگ کٹسی‬
‫رہی تھی۔ شاشا سے ہونی مالقانیں جبگ کی جانب ہی اشارہ کر رہی تھیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪420 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چب وہ فرنش ہو کے کمرے میں آنا نتھی چنہ نہاں موخود تھی خو خود ا ننے‬
‫ت ت ً‬
‫کیڑے دنکھ رہی ھی فتبا اس کے ناتفہ کمرے کی شاری وارڈ روب کو جالی کر دنا گبا‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ً‬
‫تھا اور مج نورا یں آنا پڑا تھا۔‬
‫”اگر کجھ نہتنے کو پہ ملے بو تم میرے کیڑے پرانی کر شکنی ہو میں نالکل تھی‬
‫مانتبڈ نہیں کروں گا۔“ اس کے عفب میں کھڑے ہوئے کان میں سرگوسی کرئے‬
‫ن‬
‫بوال کہ چنہ ئے ضیط سے آ کھیں منچیں‪ ،‬انک ہاتھ کیرڈ کا دروازہ نکڑے ہوئے تھا جس‬
‫پہ اس کی گرفت مزند سحت ہونی تھی۔‬
‫”نلبک شونس بو وپری ونل۔“ اس کے کبدھے پہ تھوڑی تکائے ہوئے گھمئیر‬
‫لہچے میں بوال کہ چنہ ئے سجنی سے کیرڈ کا دروازہ نبد کبا جس پہ رنان کے لب منٹشم‬
‫ہوئے۔‬
‫”نمہاری زندگی میں اندھیرا کر د نبا ہے میں ئے۔“ انک چھبکے سے مڑنی رنان کی‬
‫گردن پہ ا ننے ہاتھ کی گرفت چمانی ہونی بولی کہ رنان کی مشکراہٹ گہری ہونی گنی۔‬
‫چنہ ئے ا ننے ناجن اس کی گردن میں جتھوئے لبکن اس پہ البا اپر پڑ رہا تھا خو‬
‫وہ انک قدم کا قاصلہ تھی مبانا اس کے مقانل فرنب پرین آگبا کہ دوبوں انک‬
‫دوسرے کی آنکھوں میں موخود سرد ین محسوس کر شکنے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪421 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہارے ہوئے پہ اندھیرا تھی م یظور۔۔“اس کے دوسرے ہاتھ کو نکڑے کیرڈ‬


‫سے ین کبا ا ننے دوسرے ہاتھ سے اس کو کمر سے تھاما۔ چنہ ئے واصح پہ کبا لبکن‬
‫اس کی دھڑکن اجانک پڑھ گنی تھی‪ ،‬وہ پزدنکی پڑھا رہا تھا۔ رنان کی تگاہ اس کے نانٹ‬
‫ڈرنس کے نلبک کالر پہ گنی۔ اس سے نہلے کہ وہ کونی جشارت کرنا کمرے کے‬
‫دروازے پہ دسبک ہوئے لگی۔‬
‫اس سے دور ہوئے وہ اننی سرٹ کے نین نبد کرئے لگا۔ چنہ اس ڈھنٹ‬
‫انشان کو کبا کہنی خو البا اس کو کھائے کو دوڑنا تھا۔ ا ننے کیڑے لنے وہ جتنج کرئے‬
‫جلی گنی۔ دروازے پہ ڈرنک کھڑا تھا خو کونی ن یغام د ننے آنا تھا ورپہ وہ ا نسے ان کے‬
‫رومز نک نہیں آنا تھا۔‬
‫ڈانتبگ پہ علتبا موخود نہیں تھی جبکہ دامیر کنچن میں کھڑا ناشنہ نبائے میں‬
‫مصروف تھا۔ نی سرٹ پراؤزر میں مل نوس کابوں میں نل نو بوتھ لگا ر کھے تھے۔‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫چنہ الپرواہ انداز میں صوفے پہ ھی ا نی گن تکالے اس کی گزین ج ک کرئے‬
‫ب‬
‫م‬
‫لگی شاتھ ہی ا ننے جافو کو تھامے اسے ل کے کیڑے سے صاف کرئے گی ٹسے‬
‫ج‬ ‫ل‬ ‫م‬‫ل‬
‫اسی سے کھانا کھانا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪422 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫تھوڑی دپر میں وہ اتھ کے آرمری کی جانب آگنی خو اس گھر کے نجھلے شانبڈ پہ‬
‫موخود تھا۔ دامیر اور رنان ئے پہ انک چھونا شا پرنتبگ اپرنا نبا کے رکھا تھا کہ چب کتھی‬
‫موڈ ہونا بو وہ لوگ نہی جلے آئے۔‬
‫چنہ انک کے تغد انک نشاپہ لے رہی تھی‪ ،‬ہبڈ فوپز لگائے اور آنکھوں پہ سیقنی‬
‫گالسز نہن ر کھے تھے جٹسے رنان کا عصہ نہاں انار رہی ہو۔‬
‫”نین شال نہلے کی شاری کتمرہ ہسیری تکالبا مسکل ہو گا‪ ،‬اگر وہ ہونل فباد کا‬
‫تھا بو ضرور اس ئے وہ کانیز ڈ نمج کروا دی ہونگی۔ ناقی اس کا اوپر اتھی ندال ہے بو ہو‬
‫شکبا ہے وہ کجھ پہ کجھ بو نبا ہی دے فباد کے نارے میں نا اس سحص کے نارے‬
‫میں جس ئے پہ ہونل سبل کبا تھا۔“ رنان اس کے شا منے کاؤنیر کے نار اسنول پہ‬
‫نتتھنے ہوئے بوال۔‬
‫”فروا میرے زہن سے نہیں جا رہی کل رات کی‪ ،‬مبکس نہت کجھ چھبا رہے‬
‫ہیں ہم سے۔“ دامیر اس کے شا منے نلنٹ رکھنے ہوئے بوال۔‬
‫”اگر انشا ہے بو مبکس نہت پڑی علطی کر رہے ہیں۔ علتبا کی زندگی ا نسے‬
‫مسکل میں ڈال رہے ہیں۔“ رنان سنجبدگی سے بوال اور دامیر کو کھانا پہ کھائے دنکھ آپرو‬
‫احکائے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪423 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں علتبا کے شاتھ ناشنہ کروں گا‪ ،‬شو رہی ہے اتھی۔“ دامیر ئے ا ننے لنے‬
‫کاقی نبانی تھی جس کا گھونٹ تھرئے ہوئے بوال۔‬
‫”میری واتف کا ناشنہ۔۔!“ رنان کے ناپرات نل میں ندلے تھے کہ چنہ کا‬
‫ناشنہ تھی نبار کرے۔‬
‫”تھتبکس دامیر میں ناشنہ خود نبار کر لوں گی۔“ اس سے نہلے دامیر کجھ کہبا چنہ‬
‫کی آواز پہ رنان خو نکنے ہوئے اس کی جانب دنکھنے لگا جس کے چہرے پہ نستنے کی‬
‫نتھی بوندیں تظر آرہی تھیں۔‬
‫”ن نور مانتبڈ‪ ،‬آج کا ناشنہ نبار ہے۔۔“ دامیر ئے اطالع د نبا ضروری سمجھا جبکہ‬
‫رنان مشلشل چنہ کو گھور رہا تھا جس کے مطابق آج کا کھانا ان کو شاتھ کھانا جا ہنے‬
‫تھا۔‬
‫”میں علتبا کو جبک کر آنا ہوں۔“ رنان کی مشلشل تگاہ چنہ پہ نائے دامیر گال‬
‫کھ یگا لنے ہوئے بوال اور ان کو پرابو نٹ ناتم د ننے نہاں سے جال گبا جٹسے وہ اسی پرابو نٹ‬
‫ناتم کے پرسے ہوئے تھے۔‬
‫چنہ ناکٹ ناول سے ا ننے چہرے پہ آنا نسننہ جشک کرئے لگی چب ناس سے‬
‫گزرنی چنہ کا نازو اننی گرفت میں لتنے اجانک اس کو اننی جانب کھتنحا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪424 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫علتبا اتھی تھی شو رہی تھی اور دامیر اس کی نتبد پہ چیران ہوا ک نونکہ آج کجھ‬
‫زنادہ ہی گہری نتبد تھی۔‬
‫”پرنسٹس۔۔۔“ اس کے ناس نتتھنے دامیر ئے پرمی سے تکارا‪ ،‬اس کے نالوں کو‬
‫سہالئے لگا۔‬
‫آج ا ننے زچمی کبدھے کی طرف کروٹ لی تھی اور کبدھے کے ننچے انک پرم‬
‫کشن رکھا تھا۔ نتبد میں شونی انسی لگ رہی تھی جٹسے اس کا اتھنے کا ارادہ ہی نہیں تھا‪،‬‬
‫اننی گہری اور پرشکون نتبد‪ ،‬چہرے پہ طمان نت کا اجشاس تھا جس کو دنکھنے انک نل‬
‫دامیر کا دل ہی پہ کبا کہ اس کو اتھائے لبکن تھر ناشنہ لنٹ ہو جانا اس کا بو اتھانا‬
‫پڑا۔‬
‫”علتبا۔۔“ اس ئے چھک کے سرگوسی کی اور شاطر مسکان ہون نوں پہ لنے اس‬
‫ک‬‫ت لب ن‬
‫کے ہون نوں کو ہلکا شا چھوا۔ وہ محسوس کر حکا تھا کہ علتبا اتھ رہی ھی کن آ یں‬
‫ھ‬
‫نہیں کھولی تھیں نتھی سرارت کر گزرا جبکہ اس اجانک ہونی واردات پہ علتبا کی صجنح‬
‫ت‬‫ن‬
‫مع نوں میں نتبد اڑ گنی تھی‪ ،‬سرخ چہرہ لنے وہ ہڑپڑا کے اتھ ھی۔‬
‫ت‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪425 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”گڈ مارنبگ۔۔“ دامیر ا نسے بوال جٹسے اتھی کجھ ہوا ہی نہیں تھا‪ ،‬علتبا ئے تگاہیں‬
‫خرانیں۔‬
‫”مارنبگ۔۔“‬
‫”آج بو اتھنے کا ارارہ ہی نہیں لگ رہا تھا تھر اجانک کبا ہوا؟“ وہ جان بوچھ کے‬
‫انحان ین رہا تھا علتبا سے خواب پہ ین نانا بو فرنش ہوئے کا کہنی اتھ کھڑی ہونی۔‬
‫دامیر ئے سرارت جان بوچھ کے کی تھی صنح اتھنے ہی اس کے زہن میں گزشنہ‬
‫رات کی اتھی کونی نات پہ آئے‪ ،‬اس کو نارمل رکھبا جاہبا تھا ناکہ وہ ا ننے پراما سے تکل‬
‫شکنی اور پہ لوگ اس مغا ملے میں آگے پڑ ھنے۔‬
‫ڈانتبگ نتبل نک نہنچے بو دامیر کی نہلی تگاہ زمین پہ بوئے کانچ کی جانب گنی۔‬
‫تھر اس ئے کنچن کی طرف دنکھا چہاں رنان مصروف شا کھائے میں مصروف تھا اور‬
‫ت‬ ‫م‬
‫چنہ ڈانتبگ نتبل پہ اننی نلنٹ پہ چھکی انبا ناشنہ ل کر رہی ھی۔‬
‫م‬ ‫ک‬
‫ن‬
‫رنان کی گرے سرٹ کی آسنین تھنی تھی۔ دامیر آ یں ھمانا رہ گبا کہ ا ننے‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫پرابو نٹ ناتم میں دوبوں ئے نبار تھری جبگ کی تھی۔‬


‫ن‬
‫”پہ کبا ہوا ہے۔۔؟“ دامیر کے ننجھے آنی علتبا اچھتنے سے د نی ہونی بولی۔‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪426 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کجھ نہیں ن نولی ونڈ کبل انبا کوالنی ناتم سنتبڈ کر رہے تھے۔“ دامیر پڑپڑانا ہوا‬
‫ڈرنک کو آواز د ننے لگا ناکہ وہ نہاں کی صقانی کروا دے۔‬
‫انبا اور علتبا کا ناشنہ لنے دامیر ڈانتبگ نتبل کی طرف آنا اور علتبا کے لنے کرسی‬
‫کھسکانی جبکہ رنان دامیر کی جاموسی پہ شلگ کے رہ گبا۔‬
‫”آسنین کے نانپ تکلے تم۔“ رنان پڑپڑانا ہوا انبا ناشنہ جتم کر کے اتھ گبا کہ‬
‫دامیر کے ہون نوں پہ مشکراہٹ رنبگ گنی۔ وہ چنہ کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہا تھا‬
‫ت‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫جبکہ علتبا شب ھنے کی کوشش یں ھی۔‬
‫م‬
‫وہ بو شوچ رہی تھی کہ آج ان کی نہلی صنح ہو گی بو دوبوں مشکرائے خوشگوار لہچے‬
‫میں نانیں کرئے تظر آ نیں گے لبکن نہاں بو ماخرہ ہی کجھ اور تھا۔‬
‫ع‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫م ن‬
‫چنہ اس شب سے انحان گن ھی ھی ٹسے نہاں اس کے الوہ کونی اور‬
‫موخود ہی پہ تھا۔‬
‫علتبا نذنذب کا شکار نتتھ گنی اور چنہ کو دنکھنے لگی جس ئے اس کے نتتھنے ہی‬
‫اس کو ہلکی سی مشکراہٹ ناس کی۔ علتبا کی تظر نتھی اس کے کان کے نالکل ننچے‬
‫گ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫نشان پہ گنی جسے محسوس کرئے چنہ آ یں ھما نی۔‬
‫گ‬ ‫ھ‬
‫”وجسی کہیں کا۔۔“ چنہ دل میں رنان کو صلوانیں سبائے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪427 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہم ئے آج ڈاکیر کے ناس جانا تھا۔“ کھانا کھائے اجانک ناد آئے پہ علتبا ئے‬
‫دامیر کو دنکھا بو دامیر ئے انبات میں سر ہالنا لبکن بوال کجھ نہیں۔ علتبا کے فرنش‬
‫ہوئے نک وہ خوش تھی جتنج کر حکا تھا‪ ،‬نلبک کارگو نت نٹ کے شاتھ نلبک ہی سرٹ‬
‫نہن رکھی تھی۔‬
‫علتبا ناہر جائے کا شو جنے خوش ہونی اور جٹسے ہی اس کی تظر رنان کی طرف‬
‫اتھی بو مشکرائے ہونٹ سمٹ گنے۔ وہ اننی محصوص سرد سباٹ تگاہوں سے اس کو‬
‫دنکھ رہا تھا۔ آسنین سے سرٹ تھنی تھی جبکہ ستبد جلد والی گردن پہ سرخ نشان‬
‫تھے۔ علتبا ئے گڑپڑا کے تگاہیں ت ھیر لیں۔‬
‫اس نبدے کی پرسبالنی ہی انسی تھی کہ وہ زنادہ دپر نک اس کو دنکھ پہ نانی‪،‬‬
‫انک سرد لہر سی رپڑھ کی ہڈی میں سران نت کر جانی تھی۔‬
‫”کبا پہ دوبوں لڑے تھے؟“ علتبا ئے تھر چنہ کو دنکھنے دل میں شوجا۔‬
‫نا سنے سے قارغ ہو کے چنہ ا ننے کمرے کی جانب جل دی۔ رنان پرشکون شا‬
‫الؤنج اپرنا میں ا ننے مونانل میں مگن تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪428 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم فرنش ہو جاؤ تھر ہم جلنے ہیں ڈاکیر کی طرف‪ ،‬نمہارے لنے کجھ ڈرنسز لنے‬
‫تھے ان میں سے دنکھ لتبا۔“ اس کے رجشار کو چھوئے ہوئے دامیر اتھنے ہوئے بوال‬
‫اور رنان کو اشارہ کرئے گالس ڈور کی جانب پڑھ گبا۔‬
‫وہ دوبوں گھر کے نجھلے حصے میں ننی آرمری میں گنے تھے ناکہ کجھ نانیں ڈشکس‬
‫کر شکیں۔‬
‫”سبلز مین میں بو کسی کا نام فباد ہو گا نا‪ ،‬علتبا ئے زکر کبا تھا کہ فروا کو وہ‬
‫کجھ سباشا شا لگا تھا تعنی کہیں بو دنکھا ہو گا اسے۔“ دامیر ئے شوپزرلتبڈ کے اس ہونل‬
‫کی تصوپر تکالے شا منے کی۔‬
‫”بو علتبا تھی جاننی ہو گی اس کو؟“ رنان نالوں میں ناتھ ت ھیرے آگے کی طرف‬
‫ہوا۔‬
‫”علتبا کا کہبا تھا کہ اس ئے فباد کو نس دو نار دنکھا اور مجھے نہیں لگبا کہ وہ‬
‫اسے نہحاننی ہو گی۔“ دامیر ئے اننی نات کہی۔‬
‫”ہمیں شوپزرلتبڈ کے لنے تکلبا جا ہنے لبکن اس سے نہلے مبکس سے نات کرنی‬
‫ہو گی۔“ رنان فون پہ آئے مٹسج کو دنکھنے لگا۔‬
‫”لگبا ہے اس نار کاقی لوگوں سے ننتبا پڑے گا۔“ رنان نمسجراپہ ہٹس کے بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪429 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شسبلین بو ڈرے نتتھے ہیں اتھی‪ ،‬البانیں! جاص کر کے ڈرنبا۔ تھر پہ فباد۔۔“‬
‫دامیر ئے نین تصوپریں شا منے رکھیں۔‬
‫ڈرنبا‪،‬‬
‫لوسین( ڈرنبا کا ناپ)‪،‬‬
‫انگرون (البانبا کا مافبا)‬
‫پہ نین لوگ البانبا کے تھے‪ ،‬ڈرنبا کی اشاشن فتملی تھی۔ اس کا ناپ البانبا کا‬
‫نہیرین اشاشن مانا جانا تھا اور ضرور وہ انگرون کے لنے کام تھی کر حکا تھا۔‬
‫ان نین تصوپروں کے شاتھ انک جالی سباہ تصوپر تھی جس پہ انگرپزی میں فباد‬
‫لکھا تظر آرہا تھا۔‬
‫”انگرون سے بو نہلے ہی ہمارے پرمز ا چھے نہیں ہیں تھر اسی کے عالفے سے‬
‫ڈرنبا کا نہاں آنا۔ مجھے وہ علتبا کی دوشت نہیں لگنی۔ اشاشن کسی کے ا ننے جلدی‬
‫دوشت نہیں نتنے۔“ رنان ڈرنبا اور انگرون کی تصاوپر کو انک شاتھ رکھنے ہوئے بوال۔‬
‫لوسین اب رنباپرڈ تھا بو اس کا انبا عمل دجل نہیں تھا ا نسے کاموں میں۔‬
‫”شاشا کے نارے میں کبا جبال ہے۔“ دامیر ئے معنی چیز شا کہا جس پہ رنان‬
‫ک‬‫م‬‫چ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫کی آ یں یں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪430 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میری واتف کاقی اچھی طرح اننی چھاپ چھوڑ کے آنی ہے‪ ،‬ناگل کبا نبا تھر رہا‬
‫ہے۔“ رنان کہنے ہوئے ہٹس دنا۔‬
‫”ڈرنک۔۔!“ دامیر ئے ڈرنک کو محاظب کبا خو ہاتھ ناندھے ناس کھڑا تھا۔‬
‫ً‬
‫”جی سر۔“ وہ فورا م نوجہ ہوا۔‬
‫”فری ہو آج کل؟“ دامیر ئے کرسی سے نبک لگائے ہوئے کہا۔‬
‫”جی سر۔۔۔!“ اس ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”گرل فرنبڈز لفٹ نہیں کروا رہیں کبا؟“ دامیر ئے سرپر لہچے میں کہا کہ ڈرنک‬
‫ہٹس دنا۔‬
‫”نہیں سر‪ ،‬انبا ناتم نہیں کہ لڑک نوں کا شوجا جائے۔“ ڈرنک اننی مشکراہٹ‬
‫روکبا ہوا بوال۔‬
‫”پہ ا ننے رنان سر سے بوچھو کہ کتبا ناتم تکالبا پڑنا ہے۔“ دامیر ئے رنان کی‬
‫جانب اشارہ کبا خو اتھی مونانل کو کھولے اس کو گھور رہا تھا۔ رنان کے چہرے کے‬
‫ناپرات سے تھبک اندازہ لگانا جا شکبا تھا کہ وہ اس وفت عصے میں تھا۔‬
‫”رنان سر کا ل نول ہی اور ہے‪ ،‬آپ انبا بو ر ہنے دیں سر۔ مجھے اس دن کا ڈر ہے‬
‫چب متم تھبک ہونگی۔“ ڈرنک ئے انبا جدسہ نٹش کبا جس پہ دامیر ئے گھورا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪431 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اننی متم کی قکر پہ کرو‪ ،‬اننی گرل فرنبڈ سے تھوڑی بوجہ ہباؤ اور ادھر شک نورنی پہ‬
‫ً‬
‫دھبان دو۔“ دامیر ئے انبا لہحہ ند لنے سنجبدگی سے کہا‪ ،‬ڈرنک فورا سبدھا ھڑا ہوا اور‬
‫ک‬
‫انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”جی سر۔۔!“‬
‫”مجھے اتھی علتبا کو لے کے ڈاکیر کی طرف جانا ہے‪ ،‬اس کا جبک اپ ہے نب‬
‫نک تم اتکل مبکس سے راتطہ کرئے کی کوشش کرو۔“ دامیر کھڑے ہوئے بوال بو‬
‫رنان ئے نبا د نکھے سر ہالنا۔‬
‫اس وفت وہ چنہ کو مٹسج کر رہا تھا خو اسے جلے کنے خواب تھنج رہی تھی جس‬
‫سے اس کا مئیر ہانی ہو رہا تھا۔‬
‫دامیر انبا کہہ کے ڈرنک کو ا ننے شاتھ لنے آرمری سے جال گبا۔‬
‫”ملٹسکا! پہ خو دھمکباں مجھے دی رہی ہو اس وفت د نبا چب تم میری گرفت میں‬
‫موخود ہو‪ ،‬تھر دنکھوں گا کٹسے جلبا ہے نمہارا رغب اور ڈنگر کا جافو۔۔“ چنہ کی مشلشل‬
‫نبگ کرئے والی دھمک نوں پہ شلگنے اس ئے سرد لہچے میں چنہ کو وانس بوٹ تھنحا۔‬
‫”تھاڑ میں جاؤ رنان دہاب دی سبانیر۔۔“ چنہ ئے نہت نجمل سے انک انک لقظ‬
‫ب‬ ‫م‬
‫پر زور د ننے ہوئے کہا۔ اس کا کمل نام لتنے جٹسے وہ اس کو خڑا رہی تھی‪ ،‬ج لنج کر‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪432 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رہی تھی۔ اس ئے مونانل کو متھی میں زور سے تھتنحا۔ پہ لڑکی اس کا صیر آزمائے‬
‫والی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫دامیر چب روم میں آنا بو علتبا ا ننے شوز نہن رہی تھی جس میں اسے دفت‬
‫محسوس ہو رہی تھی ک نونکہ اس کو چھکبا پڑ رہا تھا اور ا نسے کبدھے پہ تھی زور لگبا۔ دامیر‬
‫نبا کجھ کہے اس کے ناس گھت نوں کے نل نتتھا اور اس کو شوز نہبائے لگا۔‬
‫”چب تکل یف ہونی ہے بو ا نسے کاموں سے پرہیز کبا کرو۔“ اس کا لہحہ تھوڑا‬
‫ڈ نتنے واال تھا‪ ،‬ڈرنک دروازے پہ کھڑا تھا وہ اندر نہیں آنا تھا لبکن دامیر کو ا نسے علتبا‬
‫کے آگے چھکے دنکھ اس ئے آپرو سبانسی انداز میں نلبد کنے۔‬
‫اگر ان کی دنبا میں نبا جل جانا کہ دامیر آر کسی کے شا منے چھکا تھا بو انک نہلکا‬
‫ہی مچ جانا۔ علتبا ئے لوز سرٹ کے شاتھ چئیز نہن رکھی تھیں اور اس پہ النگ کوٹ‬
‫نہبا تھا۔‬
‫”جلیں۔۔“ علتبا پرخوش سی اتھی اور مشکرانی ہونی دامیر سے بولی۔‬
‫”نہال انشان دنکھا ہے خو استبال جائے ہوئے خوش لگ رہا ہے۔“ دامیر پڑپڑانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪433 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ت‬ ‫ت‬
‫”ہوستبل نہیں‪ ،‬ہم ناہر جا رہے ہیں۔“ علتبا ئے فوری نح کی جس پہ وہ قی‬
‫ج‬‫ص‬

‫میں سر ہال گبا۔‬


‫دامیر انک منٹ کا کہہ کے ڈرنسبگ روم نک گبا اور اننی ونشٹ نبلٹ نہن کے‬
‫وانس آنا۔‬
‫”اس کی کبا ضرورت ہے ہم ہوستبل ہی بو جا رہے ہیں۔“ علتبا چیران ہونی‬
‫بوچھنے لگی۔‬
‫”سیقنی۔۔“ وہ نس انبا ہی بوال اور اس کا ہاتھ تھامے کمرے سے ناہر آنا چہاں‬
‫ڈرنک کھڑا تھا۔‬
‫”تم پہ تھی آئے گا کتھی پہ وفت۔“ ڈرنک کی آنکھوں میں چیرانگی و سبانش‬
‫دنکھنے وہ سرد لہچے میں بوال کہ اس ئے مشکراہٹ دنانی۔ اشارہ اس کا شوز نہائے کی‬
‫طرف تھا۔‬
‫ڈرنک کو انک دو ہدانات کرئے ا ننے شاتھ آئے سے م یع کبا کہ وہ رنان کے‬
‫شاتھ ہی رہے‪ ،‬گارڈز و نسے تھی جا رہے تھے اس کے شاتھ۔‬
‫گاڑی کی نجھلی سنٹ پہ علتبا اور خود نتتھنے اس ئے گارڈ کو جلنے کا اشارہ کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪434 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کتبا اچھا لگ رہا ہے نا۔“ ا ننے عرصے میں نہلی نار ناہر آنی تھی بو دل نحوں کی‬
‫ک‬‫ن‬
‫طرح خوسی سے محل رہا تھا۔ دامیر کا نازو تھامے وہ آس ناس د نی ہونی بولی۔‬
‫ھ‬
‫”تم کتھی تھی مجھے نارک نک نہیں الئے۔“ گھر کے فرنب ہی نارک دنکھنے اس‬
‫ئے شکوہ کبا۔‬
‫”چب تھبک ہو جاؤ گی نب جانا کرنا۔“ ہاتھ کو ہون نوں نک لے جائے ہوئے‬
‫بوال۔ علتبا کی تظر اس کے ونشٹ نبلٹ کی طرف گنی چہاں گن موخود تھی۔‬
‫اس ئے اننی محیرطی اتگل نوں کو اس پہ ت ھیرا۔‬
‫”لوڈڈ ہے؟“ علتبا ئے شوال کبا دامیر ئے اس کے چہرے پہ تظریں چمائے‬
‫ہوئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”کبا چب میں تم سے نہلی نار ملی تھی نب تھی تم ا نسے ہی تھے۔“ علتبا ئے‬
‫مدھم لہچے میں بوچھا۔ دامیر ئے اس کی آنکھوں میں پراہ راشت چھاتکا۔ اس کا بوچھنے کا‬
‫مقصد اننی سبک نورنی اور بوزنسو ننجر کی طرف تھا۔‬
‫”چب میں تم سے مال نب نالکل انک مجبلف انشان تھا۔“ دامیر ئے چھوٹ‬
‫نہیں کہا تھا نب زندگی میں کونی لڑکی اننی اہم نہیں تھی‪ ،‬لبکن علتبا اس کو ا ننے‬
‫مطابق لے گنی تھی کہ شاند اب اننی سبک نورنی کی ضرورت پہ پڑنی ہو۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪435 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم گن جال شکنے ہو؟“ علتبا ئے اننی تگاہیں وانس گن کی طرف کیں وہ اننی‬
‫اتگل نوں سے اتھی تھی ونشٹ نبلٹ کو چھو رہی تھی‪ ،‬دامیر ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”تم ئے کتھی کسی کو مارا۔۔؟“ انک اور شوال اور نہاں دامیر اس کے چہرے‬
‫کے ناپرات جانجنے لگا۔‬
‫”نمہیں کبا لگبا ہے؟“ دامیر ئے البا شوال کبا کہ علتبا ئے کبدھے احکا د ننے۔‬
‫”مجھے تفرت ہے ا نسے لوگوں سے‪ ،‬کسی معصوم کو مارئے ہوئے دل نہیں کانتبا‬
‫کبا؟“ علتبا چھرچھری لے اتھی‪ ،‬اس کا خواب شن کے دامیر ئے گہرا شانس تھرا‬
‫ک نونکہ نہاں اس کو مسکل آنی تھی۔‬
‫ن‬ ‫ت ُ‬
‫”تم ئے ھی اس آدمی کو مارا تھا نا کا نے سے۔“ دامیر اس وفت پہ ہبا یں‬
‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ن‬
‫جاہبا تھا لبکن اس کو کسی نات کا اجشاس دالنا جاہبا تھا‪ ،‬علتبا جاموش ہو گنی اس‬
‫کے چہرے کی خوسی ماند پڑ گنی۔‬
‫”وہ سبلف ڈ تقنٹس تھا۔۔“ کجھ نا ننے تغد چب وہ بولی بو دامیر کے لب کھل‬
‫کے مشکرائے۔‬
‫ت‬ ‫َ‬
‫”انگزنکبلی مانی لو‪ ،‬سبلف ڈ نٹس‪ ،‬انبڈ آنی اتم پراؤڈ آف بو۔“‬
‫ق‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪436 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫‪(Exactly my Love’ self defence. And I’m‬‬


‫)‪proud of you.‬‬
‫اس ئے علتبا کو سراہا اور اس کا اظہار کرئے اس کے ما تھے کو عقبدت سے‬
‫چھوا۔ علتبا تھ یکا شا مشکرا دی۔ اس کے دل میں تھٹس سی اتھی تھی کہ کبا اس‬
‫ئے فبل کبا تھا‪ ،‬ہو شکبا تھا کہ وہ نبدہ مرا ہی پہ ہو لبکن وہ وافعی سبلف ڈ تقنٹس تھا‬
‫اس ئے اندر ہی اندر خود کو تفین دالنا۔ انشا محسوس ہو رہا تھا جٹسے وہ شب کجھ ہی دن‬
‫نہلے کی نات ہو۔‬
‫”میں جاہبا ہوں نمہیں سبلف ڈ تقنٹس آئے اور تم خود مقانلہ کر شکو۔“ دامیر‬
‫ئے اس کے چہرے پہ ہاتھ ر کھے پرمی سے کہا کہ علتبا ئے آہشنہ سے انبات میں‬
‫سر ہالنا۔‬
‫ہوستبل آئے پہ گارڈ ئے گاری روکی اور نیزی سے اپرئے اس ئے دامیر کی‬
‫شانبڈ کا دروازہ کھوال۔ دامیر ئے علتبا کے آگے ہاتھ کبا بو وہ ننچے آنی۔ کاقی وسیع‬
‫نلڈنگ تھی۔‬
‫گارڈز چب شاتھ جلنے لگے بو علتبا ئے ر کنے دامیر سے بوچھا۔‬
‫”کبا پہ شب ہمارے شاتھ جانیں گے؟“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪437 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آقکورس۔“ وہ کبدھے احکا کے بوال۔‬


‫”لبکن دامیر پہ ہوستبل ہے‪ ،‬نہاں شب کبا شوجیں گے۔“ علتبا کو نہت‬
‫عج نب لگ رہا تھا ا نسے گارڈز کا پروبوکول لے جائے ہوئے جبکہ دامیر ئے اس نات کا‬
‫دھبان نہیں دنا تھا۔‬
‫ک‬‫م م‬
‫”نہاں لوگ انسی نابوں کے عادی ہیں۔“ اس ئے جٹسے ہوا یں ھی اڑانی اور‬
‫ن‬
‫لے کے جائے لگا۔ دامیر کے ہنجنے سے نہلے انک گارڈ نہلے ہی ڈاکیر کو الرٹ کر حکا‬
‫تھا کہ وہ لوگ آرہے تھے نتھی انہیں وہاں ان یطار نہیں کرنا پڑا تھا۔ ان کو پرابو نٹ‬
‫سبکیر میں لے جائے نشلی سے علتبا کا مغاننہ کبا گبا تھا۔‬
‫”آپ کے نازو کے تھوڑے نسوز ونک ہو گنے ہیں فرنکجر سے بو اس کے لنے‬
‫تھوڑی تھوڑی موومت نٹ کرنی رہا کریں۔“‬
‫دامیر کی نجھلی ہدانت کے مطابق آج انک لبڈی ڈاکیر تھیں نہاں خو اس کا‬
‫انکسرے اور اتم آر آنی جبک کر رہی تھی۔‬
‫ان پروسنجرز میں انہیں نہاں وفت لگ گبا تھا لبکن دامیر علتبا کے ناس ہی‬
‫موخود رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪438 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آپ کی لوور نبک کے مشلز تھی کاقی ہارڈ ہو گنے ہیں اور سیرنچ نہیں کر رہے‬
‫نتھی آپ کو نبک نین رہنی ہے۔ کمر کو تھوڑی ہ نٹ دنا کریں اس سے رنل یف ملے‬
‫ت ُ‬
‫گا۔“ ڈاکیر اس کو مشکرانی ہونی نبا رہی تھی علتبا بو نہیں لبکن دامیر غور ان کی نات‬
‫شن رہا تھا۔ علتبا کی تظریں ڈاکیر کو دنکھنے کے نحائے نار نار تھبک کے دامیر کی طرف‬
‫جانیں خو ا نسے ہی نہت اپرنک نو لگ رہا تھا۔ اس کے چہرے کے ناپرات سنجبدہ تھے۔‬
‫علتبا ئے جانجنی تگاہوں سے ڈاکیر اور تھر دامیر کو دنکھا کہ کہیں ڈاکیر دامیر سے مباپر‬
‫پہ ہو جائے نتھی انبا انک ہاتھ دامیر کے نازو پہ تکانا۔‬
‫”شاند کاقی دپر نبڈ پہ لتنے ر ہنے کی وجہ سے انشا ہو رہا ہے۔“ دامیر ئے انک تظر‬
‫ک‬‫ن‬
‫علتبا کو تھر ڈاکیر کو د نے کہا۔‬
‫ھ‬
‫”آپ کوشش کریں کہ زنادہ شوفٹ مئیرس پہ ہو اور پہ ہی زنادہ فرم‪ ،‬اِ ن ن نوین‬
‫ناکہ سباین تھی تھبک رہے۔“ ڈاکیر ئے ہلکے تھلکے سے مسورے سے بوازا بو دامیر ئے‬
‫انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”لیزر پرنتمنٹ کی وجہ سے آپ کے کبدھے کے زچم تھبک ہیں اتھی‪ ،‬تھوڑا شا‬
‫ناتم اور تھر آپ قلی رنکور کر جانیں گی۔“ ڈاکیر ئے اس کا نارمل نلڈ پرنسر جبک کبا‬
‫ناکہ اتھی کی کبڈنشن دنکھ شکے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪439 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ناقی شب بو نارمل ہے‪ ،‬سیرنس والی کونی نات نہیں ہے۔ رنکوری نبکس ناتم۔“‬
‫وہ پروفٹسبل انداز میں بولیں اور اس کی مبڈنشن میں انک دو نتبلٹ لکھ دیں۔‬
‫”اگر کتھی نین زنادہ ہونی بو لنجنے گا ورپہ آپ اننی ڈانٹ پراپر لیں نس۔“ ڈاکیر‬
‫ئے کہا اور انک ڈاننٹشن کو نالنا ناکہ وہ تھوڑا گانبڈ کر شکے و نسے اس کی ضرورت نہیں‬
‫تھی لبکن علتبا ونک تھی کاقی ہو گنی تھی بو ڈاکیر ئے ان کو سحشٹ کر دنا تھا۔‬
‫دامیر ئے ان کی انک انک نات غور سے سنی تھی‪ ،‬خو غیر ضروری تھی ہونی وہ‬
‫تھی بوری بوجہ سے شن رہا تھا۔‬
‫”میں اننی تھی نتمار نہیں جتنی اس ڈاکیر ئے نمہیں لبکجر دے دنا تھا میری‬
‫صحت کا۔“ علتبا وانسی پہ منہ نبائے ہوئے بولی کہ وہ ہٹس دنا۔‬
‫”اگر فٹ رہبا ہے بو ڈانٹ کا بو جبال رکھبا ہی ہے۔“ وہ کبدھے احکانا ہوا بوال اور‬
‫لفٹ کا نین پرنس کبا۔‬
‫”اننی کھائے نتنے پہ نانبدناں لگ جانیں بو انشان کا دل اداس ہو جانا ہے۔“‬
‫علتبا ئے اننی طرف سے الجک نٹش کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪440 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫َ‬
‫”ہر چیز کو کھائے کے نہت سے طر تقے ہیں اس کو ہبلدی اور ان ہبلدی نبانا‬
‫َ‬
‫ہمارے نس میں ہونا ہے۔“ دامیر جبانا ہوا بوال اور پہ بو طے تھا کہ وہ سجنی سے اس کا‬
‫ڈانٹ جارٹ فولو کرئے واال تھا۔‬
‫اتھی وہ لوگ گاڑی میں نتتھے ہی تھے ڈرنک کی کال آئے لگی‪ ،‬دامیر ئے فون‬
‫کان سے لگانا بو انبا ماتھا مشلنے لگا۔‬
‫ہ‬
‫”تم سر کے شاتھ رہو میں نس نبدرہ منٹ میں ہنجنے واال ہوں اور ہاں میں انک‬
‫کام دے رہا ہوں وہ شام سے نہلے نہلے کرواؤ۔“ دامیر ڈرنک کی نات ستنے ہوئے سرد‬
‫آہ تھر کے رہ گبا‪ ،‬کال نبد کرئے اس ئے ڈرنک کو انک مٹسج کبا اور گارڈ کو جلدی‬
‫سے گھر جائے کا کہا۔‬
‫”کبا ہوا؟“ علتبا ئے نسونش زدہ لہچے میں بوچھا۔‬
‫”گھر جا کے مغلوم ہو جائے گا۔“ اس ئے پرمی سے کہا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫چب نک وہ گھر نہنچے نک نب رنان گھر سے جا حکا تھا‪ ،‬ڈرنک اسی کا ان یطار کرنا‬
‫مضظرب انداز میں جکر کاٹ رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪441 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”سر کو چب نبا جال بو میری انک تھی سنے تغیر جلے گنے۔“ ڈرنک نیزی سے‬
‫تھاگبا ہوا اس سے بوال۔‬
‫”کتنی دپر ہونی ہے؟“ دامیر ئے اننی رشٹ واچ میں وفت دنکھا‪ ،‬دن کے‬
‫شاڑھے نارہ ہو رہے تھے۔‬
‫”متم کو گنے آدھا گھتبا ہوگبا ہے اور سر کو نبدرہ منٹ ہی ہوئے ہیں۔“ ڈرنک‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬ ‫ع‬ ‫ن‬ ‫ً‬
‫ئے نبانا بو دامیر ئے فورا رنان کا نمیر ڈا ل کبا جبکہ لتبا شب ھنے کی کوشش کر‬
‫رہی تھی کہ آخر ہوا کبا تھا۔ رنان کہاں گبا تھا اور چنہ‪ ،‬وہ کہاں تھی؟‬
‫”علتبا تم اندر جاؤ آرام کرو۔۔“ دامیر ئے اس کے چہرے پہ پرنشانی دنکھنے‬
‫ہوئے کہا خو نذنذب کا شکار وہیں کھڑی ان کو دنکھ رہی تھی۔ اتکل مبکس ئے آج‬
‫وانس آنا تھا وہ تھی اتھی نک نہیں آئے تھے۔‬
‫”چہاں ہو وہی رہو میں آرہا ہوں۔“ دامیر ئے نبا دوسری جانب کی نات سنے‬
‫سباٹ لہچے میں کہا بو علتبا مزند پزل ہونی۔‬
‫”ہو کبا رہا ہے مجھے تھی نباؤ۔“ وہ الجھن لنے بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪442 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”چھتبانی تھاگ گنی ہے نمہاری۔“ دامیر بوال بو علتبا ئے تعحب سے اس کو‬


‫دنکھا۔ اس کی کون سی چ ھتبانی تھی‪ ،‬ادراک ہوئے پہ نہلے سر ہالنا تھر تھبک سے‬
‫ن‬
‫سمجھ آئے پہ اس کی آ یں یں۔‬
‫ل‬‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫”چنہ! کہاں ہے وہ؟ وہ کہاں جلی گنی۔“ وہ نتبک ہوئے والی تھی چب دامیر‬
‫ئے اس کو رنلبکس ہوئے کا کہا۔‬
‫”رنان شاتھ ہے‪ ،‬تم آرام کرو۔“ دامیر پرمی سے بوال۔‬
‫”مجھے رنان کے ننجھے ہی جانا ہو گا‪ ،‬تھوڑی دپر نک ہم آجانیں گے پرنشان نہیں‬
‫ہونا۔“ کمرے کی طرف پڑ ھنے دامیر اننی سرٹ کے نین کھو لنے لگا ناکہ جتنج کر شکے۔‬
‫پہ گھر علتبا کے لنے سیف تھا نتھی علتبا کو نہاں وہ چھوڑ کے جا شکبا تھا اور ڈرنک‬
‫تھی نہی موخود ہو گا۔‬
‫اس ئے اتھی سرٹ اناری ہی تھی کہ علتبا کی تگاہ اس کے کبدھے پہ گنی‬
‫چہاں نہال زچم اتھی تھبک نہیں ہوا تھا کہ انک اور موخود تھا۔‬
‫”دامیر پہ انک اور خوٹ کٹسے آنی؟“ وہ پرنشانی سے اس کی جانب پڑھی خو اننی‬
‫سرٹ تکال رہا تھا‪ ،‬دامیر کا دھبان زچم پہ گبا خو پرکی سے وانسی چملے پہ گولی کے‬
‫چھوئے سے آنا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪443 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نبا نہیں شاند فبکشن میں کجھ لگ گبا ہو۔“ وہ انحان نبا‪ ،‬سرٹ نہتنے لگا چب‬
‫علتبا ئے اس کے نازو کو تھامے سرٹ ننچے کی۔‬
‫”پہ بو نہلے والے سے گہرا ہے‪ ،‬ہم آج ہوستبل گنے تھے تم ئے جبک کروانا‬
‫جا ہنے تھا۔“ وہ نسونش زدہ لہچے میں بولی دامیر اس کی قکر پہ مشکرا دنا۔‬
‫ن‬
‫”نس ا نسے ہی مجنت کر تتھی گی پہ مجھ سے۔“ اس ئے دل میں شوجا اور‬
‫ہولے سے اس کے رجشار کو چھوا کہ اجانک لمس پہ وہ سنتبا اتھی۔‬
‫”میں تھبک ہوں‪ ،‬معمولی شا زچم ہے تھبک ہو جائے گا۔“ سرٹ تھبک‬
‫کرئے اس ئے نین نبد کرنا سروع کنے۔ علتبا جاتف ہونی۔ اس کو جلدی سے اب‬
‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫رنان کے ناس نہنجبا تھا خو چنہ کے ھے گبا تھا۔‬
‫ع‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫چنہ ا ننے کاموں کے ھے‪ ،‬رنان چنہ کے ھے‪ ،‬دامیر رنان کے ھے‪ ،‬لتبا دامیر‬
‫کے ننجھے اور ڈرنک پرنشانی سے ان شب کے ننجھے۔۔ آج کا دن گھن شب ہی جکر‬
‫ننے تھے۔۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫پہ انک شاجل سمبدر کا م یظر تھا چہاں لوگ دھوپ کے مزے لوٹ رہے تھے۔‬
‫نتم پرہنہ لباس میں شب ا ننے ا ننے مسغلوں میں مصروف تھے کہ ا نسے میں انک لڑکی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪444 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شوتم شوٹ نہنے‪ ،‬آنکھوں پہ شن گالسز لگائے سر پہ ہ نٹ نہنے وہاں آنی ہونی دکھانی‬
‫دی۔‬
‫ہ‬‫ن‬
‫لوگوں میں پراعتمادی سے جلنی ہونی وہ نتنچ کے فرنب چی چہاں انک ٹس سے‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫ننتنٹس شال کے درمبان سحص نتم دراز تھا۔ آس ناس کجھ لوگ مؤدب ہاتھ ناندھے‬
‫کھڑے تھے۔‬
‫”ڈارلبگ تم ئے آئے میں دپر کر دی میں کب سے و نٹ کر رہا تھا۔“ لڑکی‬
‫کے ناس نتتھنے پہ وہ مشکرانا ہوا بوال اور اس کا ہاتھ تھامے قدرے خود پہ چھکانا کہ وہ‬
‫ادا سے مشکرا دی۔‬
‫”کام نہیں ہوا نا اتھی نک۔“ اگلے ہی لمچے مقانل کا لہحہ سرد ہوا کہ اس ئے‬
‫جاتف تظروں سے اس کو دنکھا۔‬
‫”آشان کام ہے کبا مبکس ل نو کی نتنی کو آشاشن کرنا؟“ وہ کہنی ہونی اس پر‬
‫ل‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫سے اتھ ھی اور ا ننے نالوں کو ادا سے نوارئے گی۔‬
‫”نمہارے لنے مسکل تھی نہیں۔۔“ اس کی گردن کو پرمی سے اننی گرفت میں‬
‫لتنے ہوئے بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪445 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہیں لگبا ہے کہ چب رنان ڈی اور دامیر آر کو مغلوم ہو گا چنہ ل نو کو اشاشن‬


‫کبا جا رہا ہے بو وہ انک کوئے میں جاموسی سے نتتھ جانیں گے۔“ اس ئے کجھ‬
‫سحت لہچے میں کہا جس پہ فباد کا قہقہہ ئےشاچنہ تھا۔‬
‫”وہ کوئے میں نتت ھیں نا کسی کی گود میں مجھے نس چنہ ل نو مری ہونی جا ہنے اور‬
‫اس کام کے لنے نمہیں اچھی جاضی فتمت ادا کر حکا ہوں میں۔“ اس کی گردن کو‬
‫اجانک سحت گرفت میں لتنے ہوئے اس کا رخ اننی جانب کرئے ہوئے وہ عرانا کہ‬
‫ڈرنبا کھانسنے لگی۔‬
‫”میں کوشش کر رہی ہوں نالن پہ عمل کرئے کی لبکن وہ آشان نارگنٹ‬
‫نہیں ہے۔“ اس کی گرفت سے خود کو چھڑوائے ہوئے ڈرنبا اتھ کھڑی ہونی۔‬
‫”اور دوسری لڑکی! کہاں ہے وہ؟“ فباد خود کی سرٹ کے نین نبد کرنا ہوا اتھ‬
‫کھڑا ہوا جس پہ شارنس نہن ر کھے تھے۔ اس کی نات ستنے ڈرنبا انک دم ہٹس دی۔‬
‫”تھول جاؤ کہ تم اس کو کجھ کہہ تھی شکنے ہو۔۔“ وہ نمسجراپہ لہچے میں بولی کہ‬
‫فباد کے ما تھے پہ نل نمودار ہوئے۔‬
‫”مجھے نہبلباں پہ نجھوانا کرو ڈرنبا ڈارلبگ۔“ انک انک لقظ جبا کے کہبا ہوا وہ‬
‫اس کے مقانل آنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪446 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دامیر آر کی ن نوی ہے وہ۔۔“ ڈرنبا ئے اسی انداز میں اس کو خواب دنا کہ فباد‬
‫کا ماتھا تھ یکا تھر ہٹسنے لگ گبا اور ہٹسبا جال گبا۔‬
‫”نمہاری دوسنی کب کام آئے گی!“ اس ئے معنی چیز تگاہوں سے ڈرنبا کو‬
‫دنکھنے ہوئے کہا۔‬
‫”وہ مجھے نہحا ننے سے اتکار کر رہی ہے۔۔“ ڈرنبا کہنے ہوئے وانس نتنچ پہ نتتھ‬
‫گنی جٹسے اس نارے میں کجھ نہیں کر شکنی تھی۔‬
‫”نین شال میں ئے نمہیں اس لنے نہیں ہاپر کبا ڈرنبا کہ تم فباد جاکم کو اتکار‬
‫م‬
‫سباؤ‪ ،‬مجھے میرا کام کمل جا ہنے۔“ ڈرنبا کی نات اس کوعصہ ہی دال گنی تھی جس پہ وہ‬
‫دھمکانا ہوا بوال۔‬
‫”چنہ کو نارگنٹ کرنا نہت مسکل ہے اور تھر رنان ڈی اس کے شاتھ رہبا ہے‬
‫اب۔ ا چھے لڑکے تھٹشائے ہے دوبوں ئے۔“ ڈرنبا نحوت سے بولی۔‬
‫”بو نہلے دوبوں لڑکوں کو نارگنٹ کرو۔“ فباد اس کا رخ چھبکنے سے اننی جانب‬
‫کرئے ہوئے بوال۔‬
‫”جس لمحہ ان کو مغلوم ہو گا کہ کونی ان کو نارگنٹ کر رہا ہے بو اگلے ہی لمحہ وہ‬
‫مجھے ڈھونڈ کے مار دیں گے‪ ،‬ا نسے کاموں میں وہ وجہ نہیں دنکھنے انبا کام دنکھنے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪447 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ہیں۔“ ڈرنبا اس کو سمجھانی ہونی بولی کہ خو اسے جبک نوں کا کھبل لگ رہا تھا وہ اصل‬
‫میں خود اس کے لنے موت کا ک نواں تھا۔‬
‫و نسے تھی چنہ ل نو کو اس ئے نہت نار پرنک کرئے کی کوشش کی تھی لبکن وہ‬
‫ہر نار کسی پہ کسی طرح آنکھوں میں دھول چھونک جانی تھی۔‬
‫”اتھی کے لنے تھول جاؤ شب اور مجھ پہ فوکس کرو۔“ فباد اس کے چہرے پہ‬
‫چھکنے ہوئے زومعت نت سے بوال کہ ڈرنبا مشکرانی ہونی اس کا شاتھ د ننے لگی۔‬
‫”کاقی مہ یگا پڑ رہا ہے نمہیں علتبا نک نہنجبا۔“ وہ ننجھے ہبا بو ڈرنبا اس کے چہرے‬
‫پہ ہاتھ رکھنی ہونی بولی خو نسبلی آنکھوں سے اس کو دنکھ رہا تھا۔‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ہ‬‫نہ ت ن ن‬
‫” لے م ک بو نچ جاؤں۔“ اس کو ناوؤں یں ھر کے بوال اور گاڑی کی طرف‬
‫لے جائے لگا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫سباہ نت نٹ پہ وانٹ سرٹ اور اس پہ جبکٹ نہنے۔ ہبلمٹ کا سٹشہ اوپر تھا جس‬
‫میں تظر آنا کہ وہ نلبک ماشک تھی لگائے ہوئے تھی۔ نانک سے اپرئے اس‬
‫ئےہبلمٹ انارا کہ نال خوڑے میں نبدھے کھل گنے۔ ماشک کو انارے تغیر اس‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪448 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ئے نانک کے شاتھ انبا ہبلمٹ ل یکانا اور جبکٹ کو نبد کرئے شا منے نلبد عمارت کی‬
‫طرف پڑ ھنے لگی۔‬
‫شکر تھا کہ آج ہبل کی جگہ سباہ بوٹ نہن ر کھے تھے ورپہ ہبل آواز نبدا کرنی۔‬
‫اتھی دونہر کا ہی وفت تھا اور اسی نلڈنگ میں آنی تھی چہاں وہ نہلی نار شاشا سے ملی‬
‫تھی لبکن اس نار الگ جلنے میں۔‬
‫رنسنٹشن پہ آئے اس ئے ا ننے لنے روم نک کبا اور انبا آنی ڈی کارڈ شو کروانا۔‬
‫چنہ کو مافبا میں زنادہ پر لوگ اس نام سے نہیں جا ننے تھے‪ ،‬اگر کونی جانبا تھی بو نس‬
‫کجھ ہی خو اس کے شاتھ اکبڈمی سے ناس آؤٹ ہوئے تھے۔‬
‫”تھتبک بو۔۔“ انبا کی کارڈ لتنے وہ لفٹ کی جانب گنی اور مطلوپہ قلور کا نین‬
‫پرنس کبا۔‬
‫اس ئے آج رات نہاں موخود کلب میں جانا تھا چہاں آج تھر شاشا آئے واال‬
‫تھا۔ زنادہ کجھ نہیں نس موفع دنکھ کے اس کو جان سے مارئے کا ارادہ تھا ک نونکہ‬
‫شاشا نہاں سے تھر انک نبالمی میں لڑکباں خرندئے واال تھا۔ لبام ئے اس کو اطالع‬
‫دی تھی کہ بو انس میں انک نبالمی ہوئے جا رہی تھی جس میں پرابوا کے ہبڈ کو مدغو‬
‫کبا گبا تھا ک نونکہ اس وفت شب سے طافت ور ن یظتم مافبا پرابوا کی تھی جس کے اندر‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪449 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫روس کے شارے مافباز آئے تھے۔ روس میں خو تھی شپ منٹس آنی تھی وہ شب‬
‫پرابوا کے ہبڈ کے علم میں ہونی تھیں اور وہ جس کی ستمنٹ جاہے روک شکبا تھا نا‬
‫اس پہ ف یصہ چما شکبا تھا اور اتکار نا اجبالف کی صورت میں پرابوا اس مافبا گتبگ کا‬
‫جانمہ آشانی سے کروا شکبا تھا۔‬
‫چنہ کو کسی طرح شاشا کو روکبا تھا اور وہ دو صوربوں میں ہونا انک صورت بو پہ‬
‫تھی کہ وہ مر جانا اور دوسری صورت پہ کہ ڈنگر اس کو مار د ننی۔ چنہ کو دوسری‬
‫صورت دلحشپ لگی۔‬
‫مبکس ئے اس کو اننی کسی تھی منتبگ کے نارے میں اطالع نہیں دی تھی‬
‫جبکہ وہ مشلشل ان سے بوچھ رہی تھی۔ چنہ ل نو چب سے اس دنبا سے وافف ہونی‬
‫ک‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫تھی اس کو انک چیز سے تفرت تھی۔ غوربوں کو انبا عالم ھبا‪ ،‬ان پہ مرانی کرنا خو‬
‫ج‬

‫اس کالی دنبا کے کالے دل والے شوق سے کرئے تھے اور ان میں شب سے زنادہ‬
‫ہاتھ مشہور و معروف پزنس مین کا ہونا تھا خو ا ننے شفر کو رنگین نبائے کے لنے غورت‬
‫ج‬‫م‬ ‫کھ س‬
‫ت‬
‫زات کو لونا ھنے ھے۔‬
‫کمرے سے ملحفہ نالکنی میں کھڑی ا ننے جافو کو مشلشل رنلتبگ پہ ت ھیر رہی تھی‬
‫جس پہ نشان پڑ رہے تھے۔ سباہ جبکٹ کے ننچے سے دو نین نبد تھے کہ شقبد سرٹ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪450 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫تظر آرہی تھی۔ چہرہ اتھائے شا منے جلنی گاڑبوں کو دنکھنے لگی‪ ،‬وہ کتنے دن الپرواہ ننی‬
‫رہی تھی۔ انک گھر میں نبد رہبا اب مسکل تھا۔ لبام سے ملے تھی انک مہننہ ہوئے‬
‫واال تھا‪ ،‬اس سے زنادہ دن دور نہیں رہنی تھی لبکن اس نار مبکس ل نو کے سجنی سے‬
‫بو کنے پہ رکبا پڑا تھا۔‬
‫دو دن نہلے اس کو ماڈلبگ ہاؤس سے مبل رنسنو ہونی تھی جس میں وہ سبلبکٹ‬
‫م‬
‫ہو گنی تھی۔ وہ ماڈل کے روپ میں نہت آشانی سے ا ننے نارگنٹ کمل کر شکنی تھی‬
‫لبکن رنان ڈی کی اس شادی کی آفر ئے نہت رکاوٹ ڈال دی تھی۔ شادی نلین‬
‫میں کہیں تھی نہیں تھی‪ ،‬شادی کا شو جنے اس کو انبا آپ وافعی انک جگہ نک محدود‬
‫ہونا محسوس ہوا لبکن وہ انشا نالکل تھی نہیں جاہنی تھی۔‬
‫ڈنگر نام تھی اس ئے خود شوجا تھا ا ننے لنے ک نونکہ جافو کا اسیعمال کرنا اس کو‬
‫اچھا لگبا تھا‪ ،‬کراؤنڈ ہبڈ اکبڈمی کا اننحاب اس ئے اجانک اور چ ھپ کے کبا تھا‪ ،‬مبکس‬
‫ل نو سے گھو منے کی نات کرئے وہ گرنس میں جلی آنی تھی اور نہاں پرنتبگ سبارٹ کر‬
‫دی‪ ،‬مہت نوں تغد مبکس کو علم ہوا بو انہوں ئے سحت ناراصگی کا اظہار کرئے کاقی‬
‫عرصہ اس سے نات نہیں کی تھی‪ ،‬ان کے مطابق وہ خزنانی ہو کے وانس آجائے گی‬
‫لبکن انشا نہیں ہوا تھا وہ اننی جگہ اننی صد پہ قاتم تھی۔ نہیں سے اس ئے جافو سے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪451 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وار کرنا سبکھا۔ نب تھی اس ئے دامیر اور رنان کے نارے میں شن رکھا تھا لبکن کتھی‬
‫ان کو وہاں آنا دنکھا نہیں تھا اور وہ پہ نات تھی جاننی تھی کہ رنان ڈی اور دامیر آر‬
‫مبکس کو ا چھے سے جا ننے تھے اور مبکس ان کا گارڈین رہ حکا تھا۔‬
‫شوجیں کہاں سے کہاں جلی گنیں اس کو اندازہ نہیں ہوا تھا۔ وہ پہ نات جاننی‬
‫ن‬
‫تھی کہ رنان کسی تھی وفت اس کا ننجھا کرنا نہاں ہنچ جائے گا اوراس ئے چھبانا‬
‫تھی نہیں جاہا تھا نس وہ خود کو انک ہی جگہ فبد کر کے نہیں رکھبا جاہنی تھی۔‬
‫کمرے میں وانس آئے اس ئے انبا لنپ ناپ آن کبا اور نہاں کے کلب کی‬
‫فوننج آن کی۔ اتھی کلب نالکل جالی تھا‪ ،‬شور و عل نہاں رات کی سباہی میں چمکبا‬
‫تھا۔‬
‫ن ن‬
‫نب نک وہ و نسے ہی انک اجتنی تگاہ ڈال رہی تھی۔ شاشا ک نے سے لے اگر‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ہ‬

‫وہ کونی وارنبگ د ننی نا چ ھپ چھبا کے جانی بو ہو شکبا تھا کونی اس پہ شک کر لتبا‬
‫نتھی وہ عام جلنے میں ہی جائے والی تھی۔‬
‫رات میں علتبا ئے فباد کے نارے میں دامیر کو نبا دنا اور کجھ انسی نانیں تھی‬
‫تھیں خو اتھی نک شا منے نہیں آنی ت ھیں۔ چنہ ان شب نابوں سے نہلے ہی وافف تھی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪452 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫لبکن کسی ئے اس سے بوچھنے کی زچمت نہیں کی بو وہ ک نوں نبانی و نسے تھی مداجلت‬
‫کرئے سے اس کو سحت خڑ تھی۔‬
‫کونی غیر معمولی خرکت تظر میں پہ آنی بو لنپ ناپ نبد کرئے وہ اتھ گنی۔ آج‬
‫رات کے لنے اس کو انک ڈرنس تھی جا ہنے تھا۔ رنان ئے نہت سے خوڑے رکھوائے‬
‫تھے اس کی کیرڈ میں لبکن ان کو دنکھبا تھی اس کے گوارا نہیں کبا تھا۔‬
‫ننچے آئے اس ئے نانک پہ جائے کے نحائے انک کنب نک کروانی تھی ناکہ‬
‫ناس ہی کسی شانبگ مال میں جا شکے۔‬
‫انک شاپ میں کھڑے وہ مجبلف لباس دنکھ رہی تھی خو نہتنے کے لنے قانل‬
‫اغیراض ہی تھے اور کاقی عرناں تھی تھے۔‬
‫کاقی دپر کیڑوں کی چھان مارئے اس ئے سباہ رنگ کی شلک النگ گاؤن نسبد‬
‫کر لی۔۔ کلب کی نارنی کے جشاب سے اچھا تھا۔‬
‫اکبلے رہبا اس کے لنے بور نت کا کام نہیں تھا۔ وہ گھت نوں جاموش رہ کے گزار‬
‫ش‬ ‫ت‬‫م ن‬
‫شکنی تھی‪ ،‬اتھی تھی وہ انک فوڈ اپرنا یں ھی ل آئے جائے لوگوں کو د کھ رہی‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫ت‬

‫تھی چہرے کے ناپرات نالکل سنجبدہ تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪453 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫انک دو گزرئے لڑکوں ئے اس کو دنکھنے مشکراہٹ ناس کی لبکن اس کے‬


‫ن‬
‫ناپرات میں کونی نبدنلی نہیں آنی تھی۔ وہ سبل ا نسے تتھی تھی جٹسے خوتصورنی کا انک‬
‫محشمہ جس کی آنکھوں میں لڑکے سرد ین دنکھنے اننی راہ کو ہی جائے۔‬
‫خود پہ کسی کی تگاہ تھی وہ ا چھے سے محسوس کر رہی تھی جٹسے کونی اس پہ تظر‬
‫ر کھے ہوئے تھا۔ پہ نات تھی وہ ا چھے سے جاننی تھی کہ پہ تگاہوں کا سرد ین کسی اور‬
‫ن‬
‫کا نہیں رنان ڈی کا ہی تھا۔ وہ اس نک ہنچ حکا تھا۔ اننی دپر میں وہ نہلی نار اسبہزاپہ‬
‫مشکرانی تھی جٹسے وہ رنان کو خڑا رہی ہو۔‬
‫سباخوں کے بولے مشکرائے قہقہے لگائے آ جا رہے تھے‪ ،‬اس کا شانبگ نبگ‬
‫شاتھ والی چئیر پہ پڑا تھا۔‬
‫کاقی دپر نتتھے ر ہنے کے تغد وہ اتھ کھڑی ہونی‪ ،‬انک ہاتھ میں انبا شانبگ نبگ‬
‫تھامے شانبگ مال سے تکلی چہاں اس کی کنب ان یطار کر رہی تھی۔ گاڑی میں نتتھے‬
‫وہ وانس ہونل روم میں موخود تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪454 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ کو مال سے وانس جانا دنکھ رنان کا ضیط سے پرا جال ہو رہا تھا۔ شادی کے‬
‫دوسرے دن ا نسے ا ننے شوہر کو چھوڑ کے کون تھاگبا تھا اور تھر نہاں وہ کہیں‬
‫جائے کے لنے شانبگ تھی کر رہی تھی۔‬
‫دامیر ئے اس کو کال کر کے کہا تھا کہ وہ اس کے ناس آئے واال تھا لبکن وہ‬
‫نہیں جاہبا تھا کہ اتھی آئے نتھی انبا مونانل تکالے دامیر کا نمیر ڈانل کرئے لگا۔‬
‫”دامیر نہاں آئے کی ضرورت نہیں ہے‪ ،‬میں اور چنہ ہونل میں موخود ہیں۔‬
‫شب تھبک ہے۔۔“ رنان ئے ا ننے چہرے پہ ہاتھ ت ھیرئے ہوئے انبا انداز عام شا‬
‫رکھنے کہا ناکہ دامیر نات کی کھال پہ ادھیڑے۔‬
‫”تم دوبوں ہونل میں؟“ دامیر کو وافعی اس کی نات کا تفین نہیں آنا تھا نتھی‬
‫ھ‬ ‫چ‬ ‫ت‬‫ف‬ ‫ت‬
‫وہ ئے نی سے بو نے لگا۔‬
‫”ہاں ننی شادی ہونی ہے نا مجنت تھرے نل گزارئے ہیں۔“ رنان دانت نٹسنے‬
‫ہوئے بوال۔‬
‫”نہاں شب تھبک ہے‪ ،‬کجھ ہوا بو کال کر دوں گا۔“ رنان ئے انبا کہہ کے‬
‫کال کاٹ دی اور سر پہ کنپ نہنے وہ چہرہ چھکائے وہ خود تھی اننی گاڑی کی طرف‬
‫جائے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪455 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫دامیر اتھی گنٹ کے ناس نہنحا ہی تھا کہ رنان ئے اس کو کال کرئے م یع کر‬
‫دنا۔ وہ گہرا شانس تھر کے رہ گبا۔ نہلے ضرف رنان تھا سر تھرا اور اب اس کے شاتھ‬
‫والی تھی ونسی ہی تھی۔‬
‫علتبا اس کو منٹشن کے مین گنٹ پہ ہی کھڑے جانا دنکھ رہی تھی چب وہ‬
‫وانس آئے کو مڑا۔ ڈرنک تھی اسی کے شاتھ موخود تھا دوبوں نبک وفت خو نکے۔‬
‫”کبا ہوا۔۔ شب تھبک ہے؟“ دامیر کے ناس آئے ہی علتبا ئے نسونش سے‬
‫بوچھا‪ ،‬اس کی قکر پہ دامیر مشکرا دنا‪ ،‬ڈرنک کو اشارہ کرئے وہ علتبا کی طرف م نوجہ ہوا۔‬
‫ڈرنک وہاں سے جال گبا مطلب دامیر اب نہیں جائے واال تھا۔‬
‫”اننی قکر ک نوں کرنی ہو پرنسٹس!“ آنکھوں میں چمک لنے وہ ہلکا شا ہٹشا۔‬
‫”چنہ اور رنان کہاں ہیں‪ ،‬تم نہیں جا رہے ان کے ناس؟“ اس کی نات کو‬
‫تظرانداز کرئے علتبا ئے انبا شوال دہرانا۔‬
‫”جٹشا کے نہلے تھی کہا تھا وہ انبا کوالنی ناتم سنتبڈ کرنا جا ہنے ہیں نتھی نس‬
‫تکل گنے سیر کرئے۔“ دامیر ئے ہلکے تھلکے انداز میں کہا کہ علتبا کے اعصاب‬
‫پرشکون ہوئے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪456 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہیں آرام کرنا جا ہنے تھا۔“ دامیر اس کے رجشار پہ ہاتھ رکھنے ہوئے بوال۔‬
‫”میں دن میں شو کے کبا کروں گی‪ ،‬تھوڑی دپر نہلے ہی بو اتھی ہوں۔“ اس کا‬
‫ہاتھ ا ننے رجشار سے ہبائے ہوئے وہ خزپز سی ہونی تھی کہ دامیر اس کو والہاپہ ین‬
‫سے دنکھ رہا تھا۔‬
‫نتھی سڑک پہ آنی گاڑی ئے علتبا کی بوجہ اننی جانب میزول کی جس پہ کونی‬
‫کاقی پڑا نارشل لگ رہا تھا۔‬
‫”پہ کبا ہے۔۔۔؟“ علتبا ئے اچھتنے سے بوچھا۔ ڈرنک نیزی سے آگے پڑھا اور‬
‫اس نارشل کو انارئے میں مدد د ننے لگا۔‬
‫”پہ مئیرس ہے ہمارے روم کے لنے۔“ دامیر عام سے انداز میں بوال۔‬
‫”ک نوں؟ کبا تم الگ شونا کرو گے؟“ علتبا کو نالکل تھی وجہ سمجھ پہ آنی تھی‬
‫ل‬ ‫ج‬‫م‬ ‫نت س‬
‫مئیرس مبگوائے کی ھی نا ھی سے بوچھنے گی۔ دامیر ئے چیرت سے تھ نویں شکیڑیں‬
‫کہ کبا اس کے دماغ میں نہلی نات نہی آنی کہ وہ اس سے الگ شوئے گا۔‬
‫”پہ اس لنے ہے ناکہ ہم ک یفرنتبل شونا کریں۔“ دامیر سنجبدگی سے”ہم” پہ زور‬
‫د نبا ہوا بوال کہ علتبا چھت نپ گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪457 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہاری نبک نین کے لنے۔“ دامیر ئے کہنے ہی اس کو کمر سے تھامے اننی‬


‫جانب کھتنحا کہ بوکھال گنی۔ وہ لوگ گھر کے ناہر تھے اندر نہیں۔‬
‫گ‬ ‫ہ‬ ‫ج‬‫م‬ ‫ع س‬
‫”او اچھا۔۔“ لتبا ھنے ہوئے سر ال نی۔‬
‫”لبکن انک سے زنادہ ہیں۔“ علتبا انک کے تغد انک مئیرس کے نارشل کو ننچے‬
‫اپرنا دنکھ بولی۔‬
‫”ہمارے بورشن کے ہر نبڈ روم کا جتنج ہو گا۔۔“ دامیر اس کے چہرے کو‬
‫تظروں کے حصار میں لتبا ہوا بوال۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”ک نوں؟ رہبا بو ہم ئے انک کمرے میں ہے نا۔“ وہ نا ھی سے بولی اور خزپز‬
‫ہونی اس کے حصار سے تکلنے کی کوشش کرئے لگی۔‬
‫”کتنے شوال کرنی ہو۔۔“ چھکنے اس ئے ہلکا شا اس کی گردن کو چھوا۔ شکر تھا‬
‫کہ اس ئے پہ نہیں کہا کہ کبا وہ دوسرے کمرے میں ر ہنے واال تھا۔‬
‫چب نک ڈرنک کمروں کے مئیرس نبدنل کروانا نب نک دامیر علتبا کے لنے کجھ‬
‫کھائے کو نبائے لگا‪ ،‬کجھ پہ شوچھنے وہ کنچن کاؤنیر کے نار اسنول پہ نتتھے دامیر کو‬
‫کوکبگ کرنا دنکھ رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪458 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم ئے کھانا نبانا کہاں سے سبکھا۔۔؟“ علتبا ئے استباق سے بوچھا ک نونکہ خود‬
‫اس کو کجھ تھی نبانا نہیں آنا تھا۔‬
‫”سروع سے ہی کرنا ہوں بو اب ناد نہیں۔“ دامیر چمچ انک شاس میں ڈبونا اس‬
‫کے ہون نوں نک النا۔‬
‫”ہاں کاقی پرانی نات ہو گنی ہو گی چب تم ئے سبکھا۔۔“ علتبا چہرے کے‬
‫زاوئے چیران کن کرئے ہونی بولی‪ ،‬وہ اس عمر کا اندازہ لگا رہی تھی دامیر ئے اس کو‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫نب‬
‫ھی ظروں سے د کھا۔‬
‫”روم رنڈی ہو جائے بو آرام کر لتبا۔۔“ اس کے شا منے کھائے کی نلنٹ رکھنے‬
‫ہوئے بوال‪ ،‬خود اس کا ارادہ آرمری میں جائے کا تھا شاتھ و فقے و فقے سے وہ مونانل پہ‬
‫رنان سے راتطہ کر رہا تھا۔‬
‫”نار نار ک نوں کہہ رہے ہو آرام کرئے کا۔“ علتبا تھوڑا چھالنی ہونی بولی دامیر‬
‫ہٹس دنا اور اس کے ما تھے کو ل نوں سے چھوئے ہوئے آرمری میں جال گبا‪ ،‬علتبا اننی‬
‫نلنٹ تھامے ناہر الن میں ہی آگنی ناکہ وہیں پہ نتتھ کے دھوپ ستبک شکنی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪459 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ڈرنک ئے اننی نگرانی میں میڑس سنٹ کروا د ننے تھے‪ ،‬دامیر آرمری میں ہی‬
‫ن‬
‫موخود تھا جبکہ علتبا الن میں تتھی کسی گہری شوچ میں ڈونی تھی۔ دامیر کو اس ئے‬
‫فروا اور ا ننے نارے میں شب نبا دنا تھا لبکن آگے کا کجھ تھی ناد نہیں آرہا تھا کہ وہ‬
‫چ‬ ‫ہ‬‫ن ن‬
‫ن‬
‫اس دن ہو ل یں بو کبا ہوا تھا۔‬
‫ت‬ ‫چ‬ ‫م‬ ‫ف ً‬
‫د عبا اس کے زہن یں انک ھماکا شا ہوا‪ ،‬چب سے ہوش آنی ھی اس ئے‬
‫انک نار تھی جا ننے کی کوشش نہیں کی تھی کہ اس کو خوٹ کٹسے لگیں کبا ہوا تھا‬
‫اس کے شاتھ۔ اتکل مبکس کو دنکھ کے شب نابوں پہ تفین کر لبا تھا کہ وہ دامیر‬
‫کے شاتھ رہنی تھی لبکن ان شب نابوں کا کونی نہلے سے ن نوت موخود نہیں تھا۔‬
‫شاند وہ زنادہ شوچ رہی تھی نتھی سر چھبکے اس کاقی پہ دھبان د ننے لگی خو اتھی‬
‫نبا کے النی تھی۔ دامیر اس کا نہت جبال رکھبا تھا۔ زہن کے پردوں میں وہ لمحات‬
‫لہرائے لگے چب چب وہ فرنب ہونا تھا‪ ،‬اس ئے محسوس کبا تھا کہ چب سے وہ انک‬
‫ہی کمرے میں تھے دامیر کو کتھی شونا نہیں نانا تھا۔ اگر وہ شو تھی جانا بو اس سے‬
‫نہلے اتھ جانا تھا نا اس کے پراپر میں نتم دراز کام میں مصروف تظر آنا تھا۔ کاقی دپر‬
‫اکبلے نتتھنے کی وجہ سے شسنی سی شوار ہوئے لگی اور وہ اونگھنے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪460 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس ئے شوجا کہ کمرے میں جا کے تھوڑی دپر کے لنے شو جانی ہے نب نک‬


‫ہو شکبا تھا کہ چنہ اور رنان تھی وانس آجائے۔ چنہ گھر ہونی بو دن اچھا گزر جانا تھا۔‬
‫دامیر ئے جائے ا ننے آقس کب جانا تھا نس ا نسے ہی گھر میں رہبا تھا نا ڈرنک‬
‫سے کسی نا کسی نانک پہ نات کرنا رہبا۔ اس ئے اتھی نک اننی جاب کا تھی نہیں‬
‫نبانا تھا۔‬
‫بورنت کا اجشاس پڑ ھنے لگا بو کمرے میں جائے کا ارادہ پرک کرئے وہ الؤنج‬
‫میں آکے نی وی آن کرے نتتھ گنی شاند کجھ دنکھنے کو مل جانا۔‬
‫مسکل سے کونی اس کو اتگلش مووی جتبل مال تھا اور وہ دنکھنے تھی اونگھنے لگی‬
‫اور جائے کب آنکھ لگ گنی اس کو اندازہ نہیں ہوا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫آرمری میں موخود دامیر اننی آئے والی اشلحہ کی شپ منٹس کی ڈنتبل جبک کر رہا‬
‫تھا۔ نتھی اس کو مبکس ل نو کی کال آئے لگی‪ ،‬مونانل کو نلو بوتھ سے کتبکٹ کرئے‬
‫اس ئے شانبڈ پہ رکھا اور انبا کام شاتھ شاتھ جاری رکھا۔‬
‫”شاشا سے آپ کی کبا نات ہونی؟“ دامیر نبا نمہبد ناندھے سبدھے مدعے پہ آنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪461 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫م‬
‫”وہ شب آرگباپزنسیز کو اکھبا کرنا جاہ رہا ہے اور پرابوا کی سنٹ کمل طور پہ خود‬
‫لتنے واال ہے۔“ مبکس کی آواز انیر نٹس سے گونچی کہ دامیر کے ل نوں پہ اسبہزاپہ‬
‫مشکراہٹ آگنی۔‬
‫”اوقات بو نہیں ہے اس کی تھر تھی نحوں کے شوق ہیں اپر جانیں گے۔“‬
‫دامیر طیزپہ بوال جبکہ مبکس ئے کونی ردعمل پہ دنا۔‬
‫”دامیر چنہ کبا شاشا سے ملی تھی؟“ مبکس کی اگلی نات پہ دامیر کے کی بورڈ پہ‬
‫ت‬
‫جلنی اتگلباں انک نل کو ھمیں۔‬
‫”جی۔۔“ اس ئے نبا نات گول کنے خواب دنا۔‬
‫”کب؟“‬
‫”اننی شادی سے دو نین دن نہلے۔۔۔!“ وہ اب تھی پرشکون شا بوال۔‬
‫”اور تم لوگوں ئے مجھے اتقارم نک نہیں کبا‪ ،‬پہ لڑکی خزنات میں آکے کجھ پڑا‬
‫تقصان کروا نتتھے گی۔“ مبکس ستنے ہی مسیغل ہوئے اور سجنی سے بولے۔‬
‫”وہ جاننی ہے کہ اسے کبا کرنا ہے۔۔“ دامیر ئے ئےشاچنہ ہی چنہ کی نانبد‬
‫کرئے کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪462 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم لوگ نہیں جا ننے اسے‪ ،‬خو نانیں نمہیں تغد میں مغلوم ہونی ہیں وہ ان‬
‫نابوں کی کھال نک اڈھیر جکی ہونی ہے۔ میں نہیں جاہبا کہ وہ اس وجہ سے اننی جان‬
‫کو کونی تقصان نہنحائے۔“ مبکس ئے تھکے لہچے میں کہا کہ وہ وافعی علتبا سے زنادہ‬
‫چنہ کے ردعمل سے پرنشان ر ہنے تھے۔‬
‫”رنان شاتھ ہے اس کے آپ قکر پہ کبا کریں۔ ہم اننی فتملی کو پرونبکٹ کرنا‬
‫ا چھے سے جا ننے ہیں۔“ دامیر ئے کہنے گونا نات ہی جتم کر دی۔‬
‫”اچھا آپ ئے نبانا کہ شاشا منتبگ کرئے واال ہے بو انڈر ورلڈ کے ہبڈ موخود‬
‫ہو نگے وہاں۔“ دامیر ئے شو جنے ہوئے کہا۔‬
‫”طاہر سی نات ہے مجھے تھی وہاں ہونا ہے لبکن چہاں نک میرا جبال ہے کجھ‬
‫لوگ کاقی اغیراض اتھانیں گے شاشا کے پرابوا ہبڈ ہوئے پہ۔“ مبکس ئے انبا جدسہ‬
‫تھی نٹش کبا۔‬
‫”اور اگر انشا ہوا بو آپ کی کبا رائے ہو گی؟“ دامیر ئے سرسری کا جانبا جاہا۔‬
‫”میں انک وفت میں زنادہ ن یظتم نہیں ستتھال شکبا‪ ،‬مجھے انبا پزنس تھی دنکھبا‬
‫ہے۔ اگر کسی ئے اغیراض اتھانا بو اس سے بوچھا تھی جائے گا کہ اگال کون ننے اور‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪463 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نب شب کا خواب ا ننے خق میں ہی ہوگا۔“ مبکس ل نو ئے تھوڑی وصاچت کرئے‬


‫کہا۔‬
‫”مجھے اگر ف یصلہ کرئے کا خق ملے بو دامیر میں نمہیں ج نوں گا۔“ ان کی نات پہ‬
‫دامیر خونک گبا۔ الجھن سے تھ نویں شکڑیں۔‬
‫”مجھے! کس لنے؟“‬
‫”پرابوا کے لنے‪ ،‬رنان میرے تغد انلی شفٹ ہو شکبا ہے نہاں۔“ مبکس ئے‬
‫کھل کے اننی نات کہی کہ اگر ان کو کجھ ہو جائے بو رنان انالین مافبا ہبڈ ین جائے‬
‫اور دامیر کو پرابوا نبک اوور کرنا جا ہنے۔‬
‫”مجھے کونی شوق نہیں ہے خود سے ہٹ کے کام کروں۔“ دامیر ئے ہری‬
‫چھبڈی دکھائے گونا سبدھا اتکار ہی کبا۔‬
‫”شاشا چنہ کو نالش کر رہا ہے بو اس کو اتھی روکے رکھو۔۔“مبکس ئے انبا کہہ‬
‫کے کال کاٹ دی‪ ،‬اب دامیر ان کو کبا نبانا کہ چنہ مبڈم نہاں سے نہلے ہی تھاگ‬
‫جکی ہیں‪ ،‬ہو تھی شکبا تھا کہ مبکس جان گبا ہو اس نات کو۔ جٹشا رنان ونسی اس کی‬
‫ملٹسکا!‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪464 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر کبدھے احکانا سبک نورنی کتمراز جبک کرئے لگا چب اس ئے الؤنج کتمرہ پہ‬
‫تظر ڈالی‪ ،‬انک خوتصورت مشکراہٹ اس کے ہون نوں پہ نمودار ہونی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫جٹسے جٹسے شام ڈھل رہی تھی و نسے ہی چنہ ئے انبا نلین لبام سے ڈشکس کر لبا‬
‫تھا اور اب وہ کلب میں جائے کی نباری کر رہی تھی۔‬
‫نلبک گاؤن نہنے اس ئے نالوں کو ا نسے ہی کھال چھوڑ دنا اور اننی سباہ نانٹس پہ‬
‫لگے نبلٹ میں جافو اور گن کو سنٹ کرئے لگی۔ نازوؤں پہ اس پہ آج ت ھر لمنے‬
‫دسبائے نہن ر کھے تھے۔ ہون نوں پہ سرخ رنگ سحائے انہیں ناہم ن نوشت کرئے رنگ‬
‫کو سنٹ کرئے لگی۔‬
‫ل‬ ‫ک‬ ‫ک‬
‫انبا لچ تھامے وہ مرے سے ناہر آنی اور مرے کو الک کرئے فٹ کی جانب‬ ‫ک‬

‫پڑھی۔ اس وفت آنکھوں پہ گالسز تھی لگا لی تھیں۔ آج وہ نلڈنگ میں ر ہنے آنی تھی بو‬
‫اسے نہاں کلب میں انئیری دی گنی تھی اور نہی آج آئے کا قاندہ تھا۔‬
‫شک نورنی جبکبگ پہ وہاں گارڈز موخود تھے‪ ،‬چنہ جاننی تھی کہ جبکبگ نہیں ہو گی‬
‫ک نونکہ رسبا میں نسنول لے کے گھومبا عام نات ہونی تھی اور نہاں بو تھر مشہور پزنس‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪465 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫مین آئے تھے اور ان کے شاتھ اشلحہ لٹس گارڈز ہمٹشہ ہوئے تھے بو وہ تھی آشانی‬
‫سے اندر پڑھ شکنی تھی۔ سہج سہج کے قدم رکھنی وہ اندر آنی چہاں ماخول کاقی گرم تھا۔‬
‫اونچی آواز میں موسیقی کی آوازیں اور لوگوں کا شور‪ ،‬نار کاؤنیر پہ اکا دکا لوگ ہی‬
‫موخود تھے ناقی ڈانس اور ا ننے ا ننے مسغلوں میں مصروف تھے۔ چنہ سباہ نالوں اور سباہ‬
‫لباس میں مونی جٹسی چمک رکھنی نار کاؤنیر کے پزدنک آنی۔ انبا کلچ کاؤنیر پہ رکھنے اس‬
‫ئے شوفٹ ڈرنک کا آرڈر دنا اور اطراف میں دنکھنے لگی۔ چہرے پہ نباری سی مسکان‬
‫ن‬
‫سحائے تتھی وہ خور لگ رہی تھی خو تھبکی ہونی تھی انسی جگہ پہ جٹسے کسی کی نالش‬
‫میں تھی۔‬
‫ت‬ ‫گ‬ ‫ل‬ ‫گ‬‫ت‬ ‫ن‬ ‫ف ً‬
‫م‬ ‫ل‬
‫د عبا اس کو ا نی نشت پہ ا نوں کا مس حسوس ہوا‪ ،‬اس کی نشت کا ال ھوڑا‬
‫گہرا تھا بو کونی اس کے نالوں کو شانبڈ پہ کرے اس کی نشت پہ اننی اتگلی سے لکیر‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫نچ رہا تھا۔‬
‫”ہبلو ملٹسکا!“ کان کے نالکل فرنب سے سرگوسی سبانی دی کہ چنہ ئے سجنی‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫لک‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫چ‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫سے آ یں یں۔ “ یں ا ھی نا ل ھی یں۔ اس کو نہاں یں آنا جا ہنے تھا۔”‬
‫وہ دل ہی دل میں رنان کو صلوانیں سبائے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪466 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ ئے ا ننے ناپرات نارمل رکھنے اس کی طرف انبا رخ کبا اور اس کی آنکھوں‬
‫میں چھا نکنے لگی۔‬
‫”ا ننے ہاتھوں کو لگام دو۔“ اس کے ہاتھ کو اتھی تھی نشت پہ محسوس کرئے‬
‫وہ سرد لہچے میں عرانی۔‬
‫”انشا جشن کتھی ہمیں اکبلے میں تھی تضنب کروا دو۔“ اس کے کان کے‬
‫فرنب ا ننے ہونٹ النا وہ گھمئیر لہچے میں بوال کہ چنہ ئے ا ننے رونگھنے کھڑے ہوئے‬
‫محسوس کنے۔‬
‫”آج رات نمہیں اننی دھڑک نوں کا شور ستبا جا ننے تھا نا کہ نہاں ناچ گابوں‬
‫کا۔“ اس کی کمر پہ ا نسے ہی انبا ہاتھ رکھنے شاتھ والے اسنول پہ نالکل فرنب نتتھ گبا‬
‫ن‬
‫کہ چنہ اس کے چہرے کو ا ننے مقانل دنکھنے لگی جس کی گرے آ یں اس پہ ہی‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫نکیں تھیں۔‬
‫چب نار نتبڈر ئے اس کی شافٹ ڈرنک چنہ کے شا منے رکھی بو رنان ہون نوں پہ‬
‫معنی چیز مشکراہٹ لنے اسی گالس کو تھامے ا ننے ل نوں نک لے آنا۔‬
‫”نانس خوانس۔۔“ انک گھونٹ تھرئے اس ئے آنکھ دنانی‪ ،‬چنہ ئے نلک نہیں‬
‫چھبکی تھی اس کی آنکھوں کا سرد ین اتھی تھی موخود تھا۔ رنان کو دنکھ کے خو سروع‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪467 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫میں اس کو خوف محسوس ہونا تھا وہ اب کہیں نہیں تھا۔ وہ جاننی تھی کہ اس کو بو وہ‬
‫مارئے سے رہا۔‬
‫”تم ئے نہاں آکے علطی کر دی۔۔“ اس کا گالس وانس رکھنے وہ مزند اس کی‬
‫جانب چھکا کہ چنہ کو اس کی گرم پرجدت شانسیں اننی گردن پہ محسوس ہونیں۔‬
‫”انبا ہاتھ مجھ سے دور کرو رنان۔۔“ تطاہر وہ ادا سے اس کی گردن پہ انبا ہاتھ‬
‫رکھنی ہونی بولی جبکہ اس کے ناج نوں کی چھین محسوس کرئے رنان مشکرا دنا۔‬
‫”میں تم سے انبا آپ دور پہ کروں تم ہاتھ کی نات کر رہی ہو۔“ وہ زومعت نت‬
‫سے بوال کہ چنہ کے چہرے پہ سرجی چھائے لگی‪ ،‬وہ انک چھبکے سے اتھی اور اس کا‬
‫نازو خود سے دور کرنی کھڑی ہونی اور اس پہ چھک آنی۔ رنان کاؤنیر سے نبک لگا نتتھا۔‬
‫”ا ننے پہ ج نپ ڈانالگز سے کسی اور کو انمیرنس کرو۔“ وہ نحوت سے انک انک‬
‫لقظ جبا کے بولی اور اس سے دور جانی ت ھیڑ میں شامل ہو گنی۔‬
‫”نہلے تم بو قابو میں آجاؤ۔“ رنان کی تظروں ئے اس کا تغافب کبا خو اب لڑک نوں‬
‫میں شامل ہوئے ہلکے سے ہل رہی تھی گونا وہ نارنی کا انک حصہ لگبا جاہنی تھی۔ سباہ‬
‫نت نٹ سرٹ پہ سباہ ہی جبکٹ نہنے اننی دوبوں نازو اور نشت کاؤنیر سے تکائے وہ چنہ‬
‫کو گہری تگاہوں سے دنکھ رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪468 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫پہ لڑکی عام جلنے میں نہاں جلی آنی تھی پہ نات تھول کے کہ کل ہی وہ رنان‬
‫ڈی کی ن نوی ننی تھی بو الزمی تھا کہ اس کی ن نوی کی تصاوپر تھبل جکی ت ھیں اور پہ‬
‫نات تھی مغلوم ہو گنی ہو گی کہ وہ مبکس ل نو سے تغلق رکھنی تھی۔‬
‫انئیرنس پہ لوگوں کے ہحوم کو دنکھنے رنان اور چنہ کی نبک وفت تگاہ اس جانب‬
‫ن‬
‫اتھی‪ ،‬شاشا نہاں ہنچ حکا تھا۔ رنان کو اس سے کونی سرو کار نہیں تھا کہ وہ نہاں‬
‫تھا نا وہ اس کو نہاں نہحان لے گا۔ وہ نس اننی ملٹسکا کے لنے نہاں موخود تھا۔‬
‫چنہ کے چہرے کے ناپرات رنان ئے بوٹ کنے جس کی آنکھوں میں ج یگاری‬
‫چمکی تھی۔‬
‫شاشا کی تظر چب انک خوتصورت سباہ لباس میں لڑکی پہ گنی بو اس کو ناس‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫آئے کا اشارہ کرئے لگا خو اس نارنی میں انک الگ ہی نچ ر نی ھی۔‬
‫اننی نالوں کو چھ یکا د ننی چنہ شاشا کی جانب جل دی چہاں وہ نتم پرہنہ لڑک نوں کو‬
‫ناہوں میں لنے آئے ہی چھو منے لگ گبا تھا۔ اس کے گارڈز انئیرنس پہ ہاتھ ناندھے‬
‫کھڑے تھے۔ آنکھوں پہ سباہ جشمے موخود تھے لبکن رنان جانبا تھا کہ کتنی خوس نبک‬
‫ن‬
‫رہی ہوگی انہیں آنکھوں میں خو لڑکباں ناڑئے آ یں ستبک رہے ھے۔‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪469 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان تغور چنہ کے انک انک قدم کو دنکھنے لگا خو شاشا کی جانب پڑھ رہا تھا۔ اس‬
‫ئے ہاتھ میں شافٹ ڈرنک کا گالس تھام رکھا تھا خو اجانک چھباکے سے بوٹ گبا کہ‬
‫اس کے ہاتھ کی گرفت اس پہ سحت ہونی تھی۔ دوسری جانب چنہ اجانک لڑکھڑائے‬
‫شاشا سے نکرانی تھی۔ نکرائے وہ اجانک انبا کلچ ننچے سے تھا منے کے لنے اجتباط سے‬
‫چھکی۔ رنان ضیط سے نتتھا اس کی پہ کاروانی دنکھ رہا تھا۔‬
‫”اتم شو شوری۔۔“ چنہ انک ادا سے اتھنی ہونی بولی اور چہرے پہ معصومنت‬
‫تھری مسکان الئے بولی۔ رنان کے ناپرات ا نسے تھے جٹسے وہ اتھی ا تھے گا اور اس‬
‫شاشا نامی نبدے کو چہتم نک چھوڑ کے آئے گا۔‬
‫ب‬ ‫ک‬‫ن‬
‫شاشا اننی شا منے اننی خوتصورت لڑکی د نے قدا ہوا اور اس کو تھامبا جاہا کن وہ‬
‫ل‬ ‫ھ‬
‫پروفت ننچے چھکی‪ ،‬اور اس سے تھوڑا قاصلے پہ ہونی مغذرت کرئے لگی۔ وہ نسے میں‬
‫تھا‪ ،‬اس کے وخود کا لڑکھڑاپہ واصح تھا نتھی چنہ اس سے قاصلے پہ ہی کھڑی تھی۔‬
‫ً‬
‫”انس اوکے ن نون یقل۔۔“ وہ مشکرانا ہوا بوال اور چنہ کا ہاتھ تھامبا جاہا‪ ،‬چنہ فورا‬
‫کجھ کہبا سروع ہونی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪470 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”انکحولی میں نہاں انحوائے کرئے آنی تھی نتھی مسنی میں آپ تظر نہیں آئے‬
‫اور میں نکرا گنی۔“ چنہ خوتصورت ہون نوں کو مشکراہٹ میں ڈھا لنے ہوئے بولی بو شاشا‬
‫جی جان سے قدا ہوا۔‬
‫”بو آؤ نا مسنی کریں ہم۔۔۔“ وہ اس کی جانب پڑھا کہ وہ کھلکھال دی۔ شاشا ئے‬
‫اس کو نکڑنا جاہا لبکن چنہ ئے ہاتھ کی اشارے سے روکا۔‬
‫”اوں ہوں‪ ،‬اتھی نچ نہیں۔“ وہ آنکھ دنا کے بولی بو شاشا جبانت تھری‬
‫مشکراہٹ لنے اس کے شاتھ جل دنا۔ وہ اوپر والے بورشن میں جائے والے تھے خو‬
‫وی آنی نی الؤنج ہونا تھا چہاں کونی تھی رات تھہر شکبا تھا۔ شاشا کل سے نہیں پہ‬
‫موخود تھا۔ اس نلڈنگ کا نت نٹ ہاؤس تھی اسی کے نام پہ نک رہبا تھا اور وی آنی نی‬
‫بورشن تھی۔ چنہ چب سے آنی تھی اس کو مغلوم تھا کہ شاشا نہیں ہوگا۔‬
‫شاشا کے شاتھ اس کے گارڈز جائے لگے بو شاشا ئے روک دنا۔‬
‫”آج نمہارا ناس مزے کرے گا بو تم لوگ تھی کھل کے عباسی کرو۔“ شاشا‬
‫ان کو بوال بو شب کے چہروں پہ گمتبگی تھری مشکراہٹ آگنی اور خود تھی وہ نہاں کے‬
‫چھو منے ہوئے ہحوم میں مگن ہو گنے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪471 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ پزاکت سے قدم اتھانی انک انک سیڑھی خڑھ رہی تھی جس کے ننجھے رال‬
‫نکبانا شاشا آرہا تھا۔ چنہ پہ تھی جاننی تھی کہ اس وفت رنان کا خون کھول رہا ہو گا وہ‬
‫شب مباطر دنکھنے لبکن شاشا کو اس کے گارڈز سے علنحدہ کرنا ہی تھا نتھی اس ئے‬
‫انشا کبا۔‬
‫”کبا میں ئے نمہیں کہیں دنکھا ہے؟“ وہ چنہ کو دنکھنے ہوئے بوال‪ ،‬نشہ اس پہ‬
‫جاوی ہو رہا تھا۔‬
‫”ہاں نا نمہاری زندگی کی ندپرین رات ہوں میں۔“ چنہ معنی چیز سے بولی کہ شاشا‬
‫ہٹس دنا۔ وہ دوبوں انک کمرے کے نہنچے خو شاشا کا ہی روم تھا۔ اس کا اصل مقصد‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫نہاں آنا تھا اور وہ نچ کی ھی نس۔‬
‫”نہیں! تم بو سبانیر کی ن نوی ہو۔۔“ وہ نہحان گبا تھا کہ چنہ کے ہون نوں پہ‬
‫طیزپہ مشکراہٹ آنی۔‬
‫”تظر رکھی ہونی ہے۔۔“ چنہ تھوڑا رازداری سے بولی‪ ،‬شاشا کمرے میں آگبا اس‬
‫کے ننجھے ہی چنہ اندر آنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪472 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کون جت نث نہیں جاہے گا انشا ندن۔۔“ وہ کمتبگی سے کہبا ہوا اس پہ چھنتنے‬


‫کو تھا ک نونکہ نشہ سر خڑ کے بول رہا تھا۔ چنہ ئے موفع کا قاندہ اتھانا اور کلچ سے سرنج‬
‫تکالی اس کی گردن میں دے مارا۔ اجانک ہوئے والی جتھن سے وہ نلبال اتھا۔‬
‫نمہ چہت تھ‬ ‫م‬
‫”نس تھوڑی دپر تھر انبا کام کمل ہوئے ہی یں م نی ہوں۔“ اس کو‬
‫ج‬‫ن‬
‫انجبکشن د ننے ہی اس ئے انبا جافو تکاال اور شاشا کی سرٹ کو تھارئے اس کے منہ کو‬
‫سجنی سے نبد کر دنا۔ انجبکشن کا اپر سروع ہو حکا تھا کہ اس کے ہاتھ نیراالپز ہوئے‬
‫لگے۔‬
‫”چنہ ل نو اننی گنی گزری تھی نہیں کہ وہ تم جٹسے عالظت کے ڈھیر کو ہاتھ تھی‬
‫ک‬ ‫ن‬
‫لگائے۔“ ا ننے لچ سے ا ک لے مولڈ )‪(clay mold‬تکا نے اس ئے شاشا کے‬
‫ل‬ ‫ک‬

‫انگھوئے پہ لگانا۔ اس کا فبگر پرنٹ لتنے جلدی وہ ڈرنسبگ اپرنا کی طرف گنی اور کیرڈ‬
‫کھولے وہاں سے ناکس دنکھنے لگی جس کو الک لگا تھا۔ وہ فبگر پرنٹ الک تھا‪ ،‬چنہ ئے‬
‫نیزی سے اس کو پرنٹ والی جگہ پہ لگانا بو کھل گبا۔‬
‫”ڈنگر ہمٹشہ اننی نباری سے تکلبا ہے۔۔“ اس ئے الکر کھوال اور اس میں سے‬
‫نئیر تکالے اننی نانٹس کی نبلٹ میں ر کھے۔‬
‫نئیر ملنے ہی وہ شاشا کی جانب آنی خو اب نک نتم نبہوسی میں جا حکا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪473 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”چچ چچ تم بو نہت کمزور تکلے۔۔“ وہ نمسجراپہ لہچے میں بولی۔ دل بو کبا کہ اس کی‬
‫گردن میں انبا جافو گھشا دے لبکن اس کو مارئے سے اتھی اس کا شب کو مغلوم ہو‬
‫جانا تھا کہ چنہ ہی اس کے شاتھ اوپر آنی تھی۔‬
‫”کبا مجھے فرق پڑے گا؟“ اس ئے خود سے کہا تھر تقی میں سر ہالئے ہوئے‬
‫ا ننے جافو کو اس کے گردن پہ رکھا۔ وہ جال تھی د ننی اگر کونی کمرے کا دروازہ کھولے‬
‫اندر داجل پہ ہونا۔‬
‫دروازہ کھلنے کی آہٹ پہ چنہ ئے چھبکے سے اننی گردن گھمانی جس کے نتنچے میں‬
‫ہاتھ کے خرکت کرئے پہ شاشا کی گردن پہ انک کٹ لگ گبا۔‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫رنان کو دروازے پہ د نے چنہ جی ھر کے ندمزہ ہونی۔‬
‫”کسی کی عزت لو ننے سرم نہیں آنی۔“ رنان اندر کا ماخول دنکھنے پرشکون ہوا‬
‫ورپہ بو آج پہ کلب دھماکے میں اڑئے واال تھا۔‬
‫”کسی کی پرابونسی ڈسیرب کرئے نمہیں سرم نہیں آنی۔۔“ چنہ شاشا کے چہرے‬
‫کو ہاتھ سے ننجھے کرنی گردن پہ کٹ دنکھنے لگی۔‬
‫”اقسوس نچ جائے گا۔“ وہ نحوت سے بولی اور کھڑی ہونی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪474 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کونی میری ن نوی کو ا ننے کمرے میں لے جائے اور میں خوڑناں نہن لوں۔“‬
‫رنان اس کو نازو سے دبوجبا ا ننے فرنب کرنا ہوا بوال کہ اس کے نال چہرے کے آگے‬
‫گر آئے۔‬
‫”جابوروں کی طرح ضرور ک ھتنجبا ہونا ہے تم ئے۔“ اس کی گرفت میں وہ سجنی‬
‫سے بولی۔‬
‫”کبا جبال ہے نہی پہ ہنی مون مبا لیں۔“ اس وی آنی نی شو نٹ کو دنکھنے‬
‫ہوئے وہ زومعت نت سے بوال۔‬
‫”ا ننے واہبات آ نبڈناز نمہیں آئے کہاں سے ہیں۔“ اس سے دور ہونی وہ نحوت‬
‫سے بولی اور نال سنٹ کرئے دروازے کی طرف پڑھی۔ رنان ئے انک ن یقبدی تگاہ‬
‫شاشا کے نبہوش وخود پہ ڈالی اور اننی گن تکالی۔‬
‫اگر اس کا خون ا نسے ہی گردن سے تکلبا رہا بو زنادہ خون صا تع ہوئے کی وجہ سے‬
‫وہ مر تھی شکبا تھا اور اننی آشانی سے اس کو نہیں مارنا تھا نتھی اس کی نانگ کی طرف‬
‫نسبل کا ُرخ کرئے انک قاپر کبا کہ اس کی آواز سے ہی اس کے گارڈ نہاں آجانیں‬
‫گے۔ گولی کا کبا ہے چہاں انبا خون تکال وہاں تھوڑا اور تکل جائے گا بو کجھ نہیں ہو‬
‫گا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪475 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کبا نحوں کو آج کل ناس نتنے کی پڑی ہے۔“ اننی نبلٹ میں گن کو تکائے وہ‬
‫چنہ کے ننجھے ہی کمرے سے تکال۔ چنہ ا ننے گلورز تھبک کرنی سیڑھ نوں کی جانب جا‬
‫رہی تھی چب رنان ئے اس کا نازو تھامے راہداری سے گزرئے انک کمرے کا دروازہ‬
‫کھولے اس کو اندر دھکبال اور خود تھی اندر آنا۔ گولی کی آواز ستنے شاشا کے گارڈز نہاں‬
‫کی طرف تھاگے آرہے تھے بو اس جانب جائے کے نحائے رنان ئے اجتباط پرنی۔‬
‫”رنان میرے شاتھ نمیز سے نٹش آنا کرو۔۔۔“ رنان کے اس طرح دھکبلنے پہ‬
‫چنہ انبا جافو انک جشت میں تکالے اس پہ نائے کھڑی ہونی۔‬
‫”رنلبکس ملٹسکا! نمہیں اغوا نہیں کر رہا میں۔“ اس کے جافو کی بوک کو تظر انداز‬
‫کرئے رنان انبا مونانل تکا لنے ہوئے بوال۔‬
‫م‬‫ک‬‫م‬
‫”جلو آؤ۔۔۔“ اس ئے ناہر چھاتکا چب راہداری ل جالی ہونی بو اس کا ہاتھ‬
‫تھامے ناہر تکال۔‬
‫رنان کی ستبڈ نیز تھی‪ ،‬اگرجہ چنہ تھی نیزی دکھا رہی تھی لبکن ہبل نہتنے کی وجہ‬
‫سے وہ اس سے قدم نہیں مال نا رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪476 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”انشابوں کی طرح جلو گے تم؟“ چنہ ئے ا ننے ہاتھ کو چھ یکا د ننے ہوئے کہا‬
‫کہ سیڑھباں ننچے اپرئے رنان ئے اس کو گھورا تھر تظر اس کے ناؤں کی طرف گنی‬
‫چہاں سباہ ہبل میں ستبد نیر مقبد تھے۔‬
‫رنان ئے اس کو نبا سمجنے کا موفع د ننے انک جشت میں ا ننے کبدھے پہ ڈاال کہ‬
‫وہ بوکھال اتھی۔‬
‫اس سحص ئے قشم کھانی تھی کہ جس کام سے وہ م یع کرنی وہ کام وہ صد میں‬
‫آکے ضرور کرنا تھا۔ اس ئے تھبک کہا تھا وہ جتبا اس سے دور تھاگنی تھی وہ انبا ہی‬
‫خود کو اس پہ نبگ کر رہا تھا۔‬
‫”مضنوط بو تم نہت ہو لبکن تھوڑا وزن تھی پڑھا لو۔“ اس کو چ ھیڑئے کے انداز‬
‫میں بوال اور کلب کی انئیرس پہ الکے کبدھے سے انارا۔‬
‫شاشا پہ چملہ ہوا تھا پہ شب جان گنے تھے اور کلب میں تھگدڑ سی مچ گنی‬
‫تھی۔‬
‫”اس طرح تھا گنے سے شب کا شک مجھ پہ جائے گا بو انڈنٹ۔“ چنہ اس کو‬
‫دھکا د ننی ہونی بولی اور وانس اندر جائے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪477 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کبا شوچ کے تم پہ شب کر رہی ہو‪ ،‬مقصد کبا ہے نمہارا۔“ رنان اس کو انک‬


‫نارنک کوئے میں لے آنا۔‬
‫”پہ شب میرے کام کے م یغلق ہے مجھے اس میں روکبا بوکبا نالکل نسبد نہیں‬
‫ہے۔ میں کتھی تھی تم لوگوں کے کام میں رکاوٹ نہیں ننی بو تم ک نوں ہر کام میں‬
‫مداجلت کر رہے ہو۔ زپردسنی شادی کرنا تھی تم ئے ہو گنی ہے‪ ،‬مل گبا مجھے نمہارا‬
‫نام اب جدا کے لنے مجھے میرا کام کرئے دو۔۔۔“ اس کے ا نسے بوچھنے پہ آئے سے‬
‫ناہر ہونی سحت لہچے جالنی ہونی بولی اور اتگلی اتھا کے اس وارن کرئے لگی۔‬
‫”میں مداجلت کروں گا ہر نار کروں گا‪ ،‬ن نوی ہو تم میری اور نمہیں ا نسے مسکل‬
‫کاموں میں نہیں پڑئے دوں گا جس سے نمہاری جان جائے ک نونکہ نمہاری جان لتنے‬
‫کا تھی خق ضرف میرا ہے۔“ چنہ کی نات ستنے رنان کے چہرے کے ناپرات نتھر نلے‬
‫ہوئے اور ا ننے درمبان سے قاصلہ مبائے وہ نالکل فرنب انبا چہرہ النا سرد لہچے میں‬
‫بوال۔‬
‫”تھر تم انبا تغلق مجھ سے جتم کر لو اور خود تھی آزاد گھومو۔۔“ ندلے میں وہ‬
‫تھی اسی لہچے میں عرانی کہ انک مبہم سی مشکراہٹ رنان کے ل نوں پہ آسمانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪478 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تغلق بو میرے مرئے پہ ہی جتم ہو گا۔۔“ وہ نل میں انبا لہحہ ندلے گ ھئیرنا‬
‫سے بوال کہ چنہ ئے سحت تگاہوں سے اس کو گھورا۔ ڈھنٹ پرین انشان اس کی‬
‫قشمت میں لکھ دنا تھا۔‬
‫”بو تھر مرو کہیں جا کے۔“ وہ کہنے ہوئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ ر کھے دھکا‬
‫د ننی ہونی وہاں سے ہنی۔ شاشا کے گارڈز اب کلب میں تھبل جکے تھے‪ ،‬شب سے‬
‫نہلے وہ اس کی شک نورنی کو پڑھائے اور اس کو استبال لے جائے۔‬
‫رنان کو تظر انداز کرنی ہونی وہ وانس نلڈنگ نک آنی اور لفٹ کا نین پرنس کرئے‬
‫لگی۔ ا ننے دسبائے انارے اس ئے گہرا شانس تھرا۔ کل انک منتبگ تھی شاشا کی‬
‫مافبا آرگباپزنشن ہبڈز سے بو اس کا ارادہ وہاں تھی جائے کا تھا اس سے نہلے اس کو‬
‫نئیرز جا ہنے تھے جن کو وہ خرا النی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ا ننے کاموں سے قارغ ہوئے چب وہ الؤنج میں آنا بو وہ ئے شدھ شو رہی تھی‬
‫اور نی وی رنمورٹ اس کے ہاتھ سے تھشال تھا۔ دوبوں نانگیں فولڈ کنے صوفے کے‬
‫ش‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫نازو سے نبک لگائے ھی ھی‪ ،‬اس سے اس کی گردن ھی تھک جانی۔ دامیر م کرانا‬
‫ہوا اس کے فرنب آنا اور اسے گود میں اتھانا ناکہ روم میں لے جا شکے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪479 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫خود کو پرم نسیر پہ محسوس کرئے علتبا کی آنکھ کھلی بو دنکھا کہ دامیر اس کو‬
‫تھبک سے لبا رہا تھا۔‬
‫”میں شو گنی تھی؟“ اس ئے اتھنے ہوئے کہا‪ ،‬نبک لگائے نتتھ گنی۔‬
‫”لگ بو رہا تھا۔۔“ دامیر گہری تگاہوں سے دنکھبا ہوا بوال۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫”نمہارا کام جتم ہو گبا۔۔؟“ وہ آ یں لنے ہوئے بولی۔ ئےوفت کی نتبد لے لی‬
‫م‬ ‫ھ‬
‫تھی اس ئے۔ دامیر ئے انبات میں سر ہالنا۔ علتبا اس کی تظروں سے جاتف ہونی‬
‫ہونی تظریں خرا گنی۔‬
‫”رنان اور چنہ آ گنے؟“ اس ئے انک اور شوال داعا۔‬
‫”وہ نہیں آرہے اتھی وانس‪ ،‬کجھ جا ہنے؟“ دامیر ئے اس کا ہاتھ تھام کے‬
‫بوچھا۔ علتبا ئے ہاتھ اس کی گرفت سے تکالبا جاہا لبکن اس ئے گرفت ہلکی پہ کی۔‬
‫”دامیر ہماری کونی تصوپر نہیں شاتھ؟“ علتبا کے اجانک زہن میں جائے کبا آنا‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫خو وہ بوچھ ھی۔‬
‫”مجھے شوق نہیں اسی لنے لبکن اگر تم جاہو بو اب سے ہونگی۔“ دامیر اس کے‬
‫ناس سے اتھبا ہوا بوال ک نونکہ وہ نہت ک یق نوز ہو رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪480 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں جتنج کر لوں تھر نات کرئے ہیں۔“ آگے چھکنے اس کی گردن پہ ہونٹ‬
‫رکھنے ہوئے بوال اور جتنج کرئے جال گبا۔ علتبا کی چھنی جس جٹسے کونی االرم دے رہی‬
‫تھی ک نونکہ چب وہ شونی دامیر انبا لنپ ناپ لنے کام رہا ہونا۔‬
‫کل رات اس ئے ا ننے نارے میں شب نانیں کی تھیں‪ ،‬فروا کا نبانا تھا اور صنح‬
‫ہوئے ہی اس ئے انک نار تھی زکر نہیں کبا تھا اس نارے میں۔ شارا دن پرشکون‬
‫گزرا تھا جٹسے وہ انک خواب کو گزار آنی تھی۔‬
‫اس ئے اتھی کہا کہ وہ نات کرے گا‪ ،‬کبا نات کرنی تھی اب اس کو۔‬
‫انہیں شوخوں کا ارتکاز بونا چب وہ ڈرنسبگ روم سے ناہر آنا۔‬
‫”کبا کجھ انشا ہے خو تم مجھے نبانا جاہنی ہو؟“ دامیر ئے خود پہ پرف نوم سیرے‬
‫کرئے کہا‪ ،‬علتبا ئے ہلکی مشکراہٹ لنے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫اس ئے ہمٹشہ کی نانسنت آج سرٹ نہیں نہنی تھی ضرف پراؤزر میں مل نوس تھا‬
‫جس سے علتبا کو تھوڑی جبا سی محسوس ہونی۔‬
‫کمرے کی النٹ ڈم کرئے وہ نبڈ نک آنا۔ علتبا کو اب جلدی نتبد نہیں آئے‬
‫م‬
‫والی تھی ک نونکہ اتھی اتھی نتبد بونی تھی اور وہ ل خواشوں یں ھی۔‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫م‬‫ک‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪481 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کبا کجھ انشا ہے خو تم مجھے نبانا جا ہنے ہو؟“ دامیر کے نتتھنے ہی علتبا ئے اس‬
‫سے اسی کے انداز میں بوچھا کہ دامیر کے ل نوں پہ گہری مسکان چھا گنی۔ وہ کجھ کہنے‬
‫کے نحائے اس کے فرنب ہوا‪ ،‬اس نتم اندھیرے میں علتبا ئے اس کے چہرے کو‬
‫تغور دنکھا۔‬
‫”میں جاہبا ہوں کہ چب نمہاری ناداشت وانس آئے بو تم ان لمحات کو کتھی پہ‬
‫تھولو۔۔“ اس کے کان کے فرنب ا ننے ہونٹ الئے نالکل مدھم لہچے میں بوال کہ علتبا‬
‫کو اننی دھڑکن کابوں میں سبانی دی۔‬
‫”کٹسے لمحات۔۔؟“ اس ئے پہ شوال شوجا تھا لبکن تھر ئےشاچنہ خود کو کہنے‬
‫سبا۔ وہ اس قدر ک یق نوز تھی کہ ان جشاس لمحات کو جان پہ نانی۔‬
‫”جن میں دامیر آر تم سے اغیراف مجنت کرے گا۔“ علتبا ئے ا ننے رجشار پہ‬
‫اس کا لمس محسوس کبا کہ وہ جبا سے سمٹ گنی۔‬
‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫م‬
‫”ہاں۔۔!؟“ وہ نا ھی سے بولی جٹسے دامیر ئے اس ل انک سحور کن حصار‬
‫ناندھ دنا تھا‪ ،‬علتبا نہیں جاننی تھی کہ وہ کب سے اس کے شاتھ تھی‪ ،‬کب سے وہ‬
‫ع‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫اس سے مجنت کر ھی ھی کن اس ل لتبا کو انبا دل ئے انمان ہونا محسوس ہوا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪482 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫خو اس نل دامیر کی مجنت کی گواہی دے رہا تھا۔ دامیر کا اسنحقاق تھرا لمس دامیر کے‬
‫مجنت تھرے خزنات پہ مہر لگا رہا تھا۔‬
‫”تغد میں جاہیں جٹسے تھی جاالت ہوں‪ ،‬جاہے خو تھی ہو لبکن میں جاہبا ہوں کہ‬
‫تم کتھی پہ تھولو دامیر تم سے مجنت کرنا ہے۔ دامیر نمہارے لنے جان لے شکبا ہے۔‬
‫دامیر آر خود کو نمہاری مجنت میں گرفبار کرنا ہے۔۔“ اس کی مجروطی اتگل نوں کو ل نوں‬
‫ت‬ ‫س‬
‫سے لگائے وہ مجمور لہچے میں بوال جبکہ علتبا پہ ھنے کی کوشش یں ھی کہ اجانک‬
‫م‬ ‫ج‬‫م‬
‫دامیر کو ہوا کبا تھا۔ اس کا ن یقس نگڑ رہا تھا۔‬
‫”دامیر۔۔۔“ اس ئے جبا سے کیرائے ہوئے دامیر کو تکارا۔ دامیر ئے خواب‬
‫د ننے کے نحائے اس کا ہاتھ ا ننے ستنے پہ رکھا کہ اس کی دل کی دھڑکن سبانی دی‬
‫جس سے انک پرقی لہر جشم میں سران نت کر گنی۔ اس ئے دامیر کی آنکھوں میں دنکھا‬
‫چہاں مجنت کا چہاں آناد تھا۔ دامیر ئے اس کی جانب چھکنے اس کی گردن پہ پرمی‬
‫سے بوسہ دنا۔‬
‫دامیر ا ننے اس ر سنے کو آگے پڑھانا جاہبا تھا ک نونکہ وہ اس سے وافعی مجنت‬
‫کرئے لگا تھا۔ پہ شب وفنی نہیں تھا اگر اس ئے کہا تھا کہ وہ اس کی مجنت میں‬
‫گرفبار تھا بو انشا ہی تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪483 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا کی اگر ناداشت انک دن‪ ،‬دو دن نا مہتنے تغد تھی وانس آنی بو وہ اس کو‬
‫کسی تھی فتمت پہ خود سے دور نہیں کرئے واال تھا۔ مجنت کرنا نہلے ناممکن تھا اس‬
‫کے لنے لبکن اب زندگی میں علتبا شامل تھی۔ اس کی زندگی علتبا کے تغیر ادھوری‬
‫تھی بو اس سے دوری نبائے رکھبا تھی ممکن نہیں تھا۔ آئے والے وفت کو نالکل‬
‫فراموش کرئے وہ ان لمحات کو محسوس کرئے لگا۔ دل کے کسی کوئے میں انک‬
‫خواہش تھی کہ علتبا کی ناداشت وانس پہ آئے اور وہ اس کو ا نسے ہی جاہے‪ ،‬علتبا کی‬
‫آنکھوں میں مجنت بو وہ خود تھی محسوس کر حکا تھا۔ جن آنکھوں میں انک نار مجنت دنکھ‬
‫لی جائے اس جگہ تفرت جگہ نبا لے بو وہ نہت تکل یف دہ ہوگا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫مافبا کی اس دنبا میں کسی کی زندگی کو خود کے شاتھ خوڑنا تھر اس کی حقاظت‬
‫کرنا مسکل تھا‪ ،‬دسمن آپ کے گھر کے ناہر آپ کی موت کے ان یطار میں ناک لگائے‬
‫نتتھے ر ہنے ہیں۔ آپ کے شاتھ خڑے لوگوں کو اسیعمال کر کے وہ زہنی و جشمانی‬
‫نارخر کرئے تھے۔‬
‫دامیر نہلے انہیں نابوں کی وجہ سے کسی رنلٹشن سے دور رہبا تھا اور خود کو رنان‬
‫نک محدود رکھا تھا لبکن چب سے علتبا زندگی میں آنی تھی اس کو فراموش کرنا مسکل ہی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪484 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫تھا۔ تھر اجانک اس کو اننی سرنک جبات نبانا‪ ،‬اس ئے شاری نابوں کو ن ِس نشت‬
‫ڈال دنا تھا۔ اس کے لنے ضرف علتبا ہی نہیں چنہ تھی اہم تھی ک نونکہ وہ رنان سے‬
‫خڑی تھی۔ وہ شب انک فتملی تھے اور رنان ‪ ،‬دامیر اننی فتملی کی حقاظت کرنا جا ننے‬
‫تھے۔‬
‫ا ننے نہلو میں شونی اس خوتصورت معصوم دل والی لڑکی کو دنکھا‪ ،‬دامیر کو اس‬
‫نل لگا جٹسے اس کا شارا چہان اس لڑکی میں سمٹ گبا تھا۔ اس کی دنبا اس کے گرد‬
‫گھوم رہی تھی۔‬
‫”پرنسٹس۔۔!“ اس کے چہرے پہ آئے نالوں کو پرمی سے ننجھے کرئے ہوئے‬
‫وہ سرگوسی میں بوال۔‬
‫”امبد ہے چب نمہاری ناداشت وانس آئے بو میں نمہارے لنے تفرت نہیں‬
‫مجنت ہی رہوں۔۔ نس تم پہ ناد رکھبا کہ دامیر ئے تم سے مجنت کی ہے۔۔“ اس کے‬
‫چہرے کو مجنت کے حصار میں لتنے وہ سرگوسی میں بوال۔‬
‫”گڈ نانٹ۔۔“ اس کے ل نوں کو پرمی سے چھوئے ہوئے ننجھے ہبا کہ وہ ہلکا شا‬
‫کشمکانی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪485 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫انک زپردسنی کی شادی کو وہ کتبا گھسنٹ کے جلنی جس میں اس کی کونی‬


‫دلحسنی شامل نہیں تھی۔ ا ننے دسبائے انارئے اس ئے ہاتھ کی متھی نبائے کھوال۔‬
‫نازو والے دسبائے اس ئے اسی لنے نہنے تھے کہ نازو پہ نبا نت نو شب کو واصح کر د نبا‬
‫کہ وہ ڈنگر تھی اور کسی کو نہحان نبائے کا اتھی کونی شوق نہیں تھا۔‬
‫”مجھے اتکل سے نات کرنی جا ہنے‪ ،‬رنان کے شاتھ نہیں رہ شکنی میں۔“ نالوں کو‬
‫ن‬
‫خوڑے کی شکل د ننی نبڈ پہ تتھی اننی ہبلز انارئے لگی۔ نتھی مونانل پہ لبام کی کال‬
‫آئے لگی۔‬
‫تھ‬
‫”نئیرز مل گنے ہیں مجھے‪ ،‬نمہیں شکین کر کے نی ہوں۔ اگر جگہ نمہارے آس‬
‫ج‬‫ن‬
‫ط‬ ‫مج ً‬
‫ناس ہونی بو ھے فورا ا الع د نبا۔“ چنہ کبدھے اور کان کے درمبان فون کو تکائے‬
‫ہوئے دوبوں ہاتھوں سے ہبل انار رہی تھی۔‬
‫”شاشا کا کبا نبا؟“ لبام ئے اس کے جاموش ہوئے ہی بوچھا۔‬
‫”نبہوش پڑا ہو گا لبکن اب وہ مجھے رنان کی ن نوی کی جنت نت سے جان گبا‬
‫ہے۔“ چنہ ئے انبا کہا اور نانٹس کی نبلٹ سے ان نئیر کو تکاال خو وہ شاشا کے الکر‬
‫سے النی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪486 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہیں کبا ضرورت تھی وہاں جائے کی؟“ لبام جاتف ہوا ک نونکہ وہ نکڑی جانی بو‬
‫اس کے شاتھ نہت پرا شلوک ہونا۔‬
‫”لبام پہ خزنانی ین مجھے پہ دکھانا کرو‪ ،‬مجھے ک نوں ضرورت تھی اس سے اچھی طرح‬
‫وافف ہو تم۔“ چنہ اس کو سجنی سے بولی بو دوسری جانب اس کی ڈانٹ ستبا وہ‬
‫جاموش ہو گبا۔‬
‫”میں نمہیں نہت مس کر رہا ہوں۔“ لبام کی اداس آواز فون سے گونچی‪ ،‬اس‬
‫ئے ناد کرنا ہی تھا ک نونکہ انبا عرصہ وہ کتھی تھی لبام سے دور نہیں رہی تھی۔‬
‫ُ‬
‫”اتکل مبکس کے ناس نجھوا دوں کجھ دن ادھر گزار آؤ۔“‬
‫وہ نہیں جاننی تھی کہ کب اس کا لبام کے ناس جانا ہو نتھی لبام کو نہالئے‬
‫کے لنے بولی۔‬
‫”میں نمہارے تغیر وہاں کٹسے جاؤں گا‪ ،‬اور تھر نہاں شارا شستم موخود ہے۔“ وہ‬
‫سرد آہ تھر کے شا منے جلنی شکرنیز کو دنکھبا ہوا بوال چہاں مجبلف جگہوں کی فوننج جل‬
‫رہی تھی۔‬
‫”میں کوشش کروں گی جلد آئے کی نب نک تم ان نئیرز کو دنکھ لو۔“ چنہ‬
‫اتھی کے لنے نالنی ہونی بولی بو لبام ئے سر ہالئے فون نبد کر دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪487 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ ئے ان نئیرز کو شا منے تھبالنا اور شکین کر کے لبام کو ان کی کانیز تھنج‬


‫ت‬ ‫ف ً‬
‫دیں کہ د عبا کمرے کا دروازہ ناک ہوا۔ چنہ ئے ھرنی سے ان نئیرز کو نبڈ مئیرس کے‬
‫ننچے سرکا دنا اور دروازے کو تھوڑا شا کھول کے دنکھبا جاہا کہ اجانک انک طوقان کی‬
‫طرح دروازہ کھال اور چنہ ئے انبا آپ ستتھاال ورپہ وہ پری طرح ننچے گرنی۔‬
‫”ہبلو ملٹسکا!“ آئے والے ئے معنی چیز مشکراہٹ سحائے ہوئے کہا اور دروازہ‬
‫وانس نبد کرئے اس کو دنکھ کے آنکھ دنانی۔ وہ جاننی تھی کہ اب پہ وانس جائے کا‬
‫نام نہیں لے گا نتھی جاموش رہی۔‬
‫ا ننے روم میں آئے وانس ان نئیرز کو تکاال اور لبام کو مٹسج نانپ کرئے لگی جس‬
‫کا اگلے ہی نل خواب آنا۔‬
‫ل یام‪” :‬ان میں سے اسی ق یصد ٹزنس ٹاٹکون ہیں اور ٹاقی کے یٹس ڈارک ورلڈ کے‬
‫لوگ۔“‬
‫مٹسج دنکھنے چنہ ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫حنہ‪” :‬لوکٹشن؟“‬
‫اس ئے مٹسج نانپ کبا اور اس کے رنالنی کا ان یطار کرئے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪488 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہاری کل ہی شادی ہونی ہے نمہیں کام سے تھوڑا رنشٹ لتبا جا ہنے۔“ رنان‬
‫م‬
‫اس کے کمرے میں آنا جاپزہ لتنے ہوئے بوال۔ چنہ ئے کمل طور پہ اس کو تظرانداز کبا‬
‫جس سے رنان کے چہرے کے ناپرات نل میں ندلے۔ اس کو چنہ تظر انداز کرے‬
‫پرداشت کہاں ہونا تھا۔‬
‫”میں ئے تم سے کجھ کہا ہے۔۔“ چنہ اتھ کے کنچن کی جانب جائے لگی‬
‫چب رنان اس کے ر سنے میں رکاوٹ نتبا کھڑا ہوا اور انک انک لقظ جبا کے بوال۔‬
‫”مغذرت میرے کان آپ کی آواز ستنے سے قاضر ہیں۔“ انک دم وہ چہرے پہ‬
‫معصومنت سحائے بولی کہ رنان کے ما تھے پہ نل نمودار ہوئے۔‬
‫ف ً‬
‫ن‬
‫”کاقی بوپ چیز لگ رہی ہو اس وفت۔۔“ د عبا وہ ہو نوں پہ شاطر مسکان نے‬
‫ل‬
‫بوال کہ چنہ ئے حظرناک ن نور لنے اس کو دنکھا۔‬
‫”زنان کو لگام دو۔“ وہ عرانی تھی۔‬
‫”سبانی د ننے لگ گبا اب۔۔!“ وہ چیران ہوئے کی اداکاری کرنا ہوا بوال کہ وہ‬
‫گ‬ ‫ج‬ ‫ت‬‫ج‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫آ یں ھما کے رہ نی اور دوسرے کیڑے کڑے نج کرئے لی نی۔‬
‫فرنش ہو کے وانس آنی بو رنان شکون سے نبڈ پہ نانگیں سبدھے کنے نتم دراز‬
‫اس کے لنپ ناپ کو تھامے کجھ دنکھ رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪489 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”پہ شاری اتقارمٹشن کہاں سے لی ہے تم ئے؟“ رنان نبا د نکھے اس سے بوچھنے‬


‫لگا۔ چنہ ئے انبا ڈرنس ہتبگ کبا اور خود نبڈ پہ آئے اس سے انبا لنپ ناپ نکڑا۔‬
‫”کام ہے میرا پہ۔۔“ وہ سنجبدگی سے بولی۔‬
‫اس کے لنپ ناپ میں انڈر ورلڈ کی کاقی مغلومات تھیں۔‬
‫”تم اچھا کام کرنی ہو آنی اتم انمرنس۔ ڈنگر کی پرستبلنی کاقی عرصہ سے انک‬
‫مسیری تھی۔ آنی اتم آپر کہ ڈنگر میری واتف ہے۔۔“ رنان نازو سر کے ننچے تکانا ہوا‬
‫بوال سبانسی انداز میں بوال‪ ،‬چنہ ئے خونک کے اس کو دنکھا وہ اس کی تعرتف کر رہا تھا۔‬
‫”مجھے کونی فجر نہیں تم سے شادی کرکے۔“ چنہ ئے نل میں اس کے چہرے‬
‫سے مشکراہٹ جتم کی کہ وہ اس کو گھورئے لگا۔‬
‫ل‬‫ش‬ ‫ش‬ ‫م‬ ‫ن‬
‫”ا کحولی یں نمہاری مدد کر کبا ہوں‪ ،‬نوز )‪ (Slaves‬کو نازناب کروائے‬
‫میں۔“ رنان ئے نٹشکش کی کہ چنہ ئے انک تظر اس کو دنکھا۔‬
‫”وہ شل نوز نہیں معصوم لوگ ہیں خو ہم جٹسوں کے ہاتھ لگ جائے ہیں۔“ چنہ‬
‫ب‬ ‫م‬ ‫ج‬‫ص‬‫ت‬
‫سنجبدگی سے اس کی نح کی کہ رنان کے ہون نوں پہ ہم مشکراہٹ آنی اس مغا ملے‬
‫میں وہ جشاس تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪490 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے نمہاری مدد کی ضرورت نہیں۔“ وہ اگلے ہی نل وہ مشکراہٹ تھر سے‬


‫مغدوم ہونی۔‬
‫”تم انک وفت میں کت نوں کو نحا شکنی ہو‪ ،‬آخر کو نمہیں انک آرمی جا ننے ہو گی‬
‫اور میں نمہیں دے شکبا ہوں۔“ رنان اس کو مسورے سے بوازنا ہوا بوال‪ ،‬چنہ ئے‬
‫پرشوچ تگاہوں سے اس کی جانب دنکھا۔ انک طرح سے وہ تھبک کہہ رہا تھا۔ انک‬
‫وفت میں وہ دو جگہوں پہ نہیں ہو شکنی تھی۔‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫س‬
‫”رنلبکس میں نحوں کی نات نہیں کر رہا۔۔“ وہ اس کے نا ھی سے د کھنے پہ‬
‫ج‬

‫انبا الگ ہی مطلب تکالبا ہوا معنی چیزی سے بوال کہ چنہ سنتبا اتھی۔‬
‫”شٹ اپ۔۔“ رکھانی سے کہنی ہونی وہ اتھ کھڑی ہونی۔‬
‫”کہاں جا رہی ہو؟“ اس کو جانا دنکھ وہ ئےشاچنہ تکار نتتھا۔‬
‫”الؤنج میں جا رہی ہوں تم رہو نہاں۔“ چنہ انبا کہہ کے جائے کو تھی چب رنان‬
‫انک جشت میں اتھبا ہوا دروازہ نبد کر کے اس کے مقانل ک ھڑا ہوا۔‬
‫”مجھ سے نات ک نوں نہیں کرنی۔“ وہ سنجبدگی سے بوچھنے لگا۔‬
‫”ک نونکہ مجھے نات کرئے کا شوق نہیں۔“ وہ اسی انداز میں بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪491 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نس دنکھنے سے ہی کام جالنی ہو ک نونکہ نمہارے مطابق نمہیں میری آواز تھی‬
‫سبانی نہیں د ننی۔“ اس کے ہاتھ سے لنپ ناپ نکڑے وہ آنکھوں میں چمک لنے بوال‬
‫کہ چنہ کا دل انک دم زوروں سے دھڑکا۔‬
‫”مجھے دنکھنے کا تھی شوق نہیں‪ ،‬جاص طور پہ جابور۔“ چنہ اس کو شلگنی آگ‬
‫میں ڈالے مزے سے بولی کہ رنان ئے سرد تگاہوں سے گھورا۔‬
‫رنان اس کو مزند کجھ کہبا چب چنہ کا فون نجنے لگا۔ لبام کال کر رہا تھا۔‬
‫”ادھر ہی رہ کے انبا کام کرو‪ ،‬میں ڈسیرب نہیں کروں گا۔“ رنان روم الک کرنا‬
‫ہوا بوال اور نبڈ پہ دونارہ نتم دراز ہوا۔‬
‫چنہ نبا کونی خواب د ننے لبام کی کال رنسنو کرنی اس سے نات کرئے لگی خو‬
‫اس کو نئیرز میں موخود مزند اتقارمٹشن دے رہا تھا۔‬
‫ل‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫چنہ سنجبدگی سے کمرے میں موخود صوفے پہ ھی ا نے کام سرانحام د نے گی‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫اور اننی نات کے مطابق رنان ئے اس کو ڈسیرب نہیں کبا تھا نلکہ مونانل میں خود‬
‫مصروف رہا تھا۔‬
‫اس ئے شاشا سے وہ نئیر خرانا تھا جس میں شپ منٹس کی ڈنتبل موخود تھیں‪،‬‬
‫اس پہ کوڈز تھے جن کو لبام جل کر شکبا تھا۔ ان نئیرز میں اشلحہ‪ ،‬ڈرگز‪ ،‬پرتقبکبگ کی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪492 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شاری ڈنتبلز تھیں خو وہ کل منتبگ میں سئیر کرئے واال تھا۔ مشہور و معروف پزنس‬
‫مین خو ناہر سے سرافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے ان کی نمام مغلومات موخود تھیں‬
‫نہاں نک کہ ان کے گھر کے ننے اور نانمبگ‪ ،‬لوکٹشن شب کہ کون سی ڈنل کب‬
‫اور کہاں ہوئے والی تھی۔ ڈارک و نب پہ نہت سی مغلومات نہلے موخود ہونی تھیں‬
‫لبکن کنی قانلز وہاں کرنبڈ اور کوڈنگ کے شاتھ تھیں‪ ،‬لبام کمت نوپر شستم میں ماہر تھا‬
‫بو چنہ کو اس کی وجہ سے کاقی مدد مل جانی تھی۔‬
‫اب ان شب ڈنٹس اور جگہ کے جشاب سے چنہ کو کام کرنا تھا۔ لبام اس کو‬
‫شاری تقصبالت تھنج حکا تھا۔‬
‫”کبا تم اس کو جا ننے ہو؟“ چنہ نام پڑ ھنے پڑ ھنے رکی بو رنان کو محاظب کرکے‬
‫بوچھنے لگی۔‬
‫”ہاں پہ جانان کی آرگباپزنشن ہے۔۔“ رنان نام دنکھبا ہوا بوال بو چنہ وانس صوفے‬
‫پہ جائے کے نحائے اس کے ناس ہی نتتھ گنی۔‬
‫”ناکوزا! پرتقکبگ میں زنادہ ہاتھ ان کا ہونا ہے‪ ،‬ان کو ہتبڈل کرنا مسکل ہو گا۔“‬
‫رنان اس کی رنسرچ دنکھبا ہوا بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪493 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”لبکن ناممکن بو نہیں ہے نا۔“ چنہ تھی سنجبدگی سے بولی‪ ،‬رنان کو اس کی ول‬
‫ناور نہت اپرنکٹ کرنی تھی‪ ،‬وہ تغور اس کا چہرہ دنکھنے لگا۔‬
‫”میں ئے اکبڈمی میں دنکھا تھا انک دو کو لبکن ان کے نارے میں زنادہ جاننی‬
‫نہیں تھی۔“ چنہ ا ننے نالوں کو چہرے سے ننجھے کرنی ہونی بولی۔‬
‫”ان کے پرائے ناس کو ہم ئے اشاشن کبا تھا۔“ رنان شکون سے بوال کہ چنہ‬
‫ئے اچھتنے سے اس کو دنکھا۔‬
‫”کس کے کہنے پہ۔۔؟“ اس شوال پہ رنان کے ہون نوں پہ مدھم سی مشکراہٹ‬
‫آنی۔‬
‫”اتقارمٹشن از منی۔۔“ )‪(Information is money‬‬
‫ن‬ ‫ک‬‫ن‬
‫وہ آنکھ دنا کے بوال جس پہ چنہ آ یں ھما نی۔ ا نی آشانی سے یں نبانا جانا‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫گ‬ ‫ھ‬
‫تھا کہ انہوں ئے کس کے کہنے پہ اشاشن کبا تھا‪ ،‬نہت کم ہونا تھا کہ کونی ڈاپرنکٹ‬
‫ان کو اشاشن کا کانیرنکٹ دنا کرنا زنادہ پر پرابو نٹ نمیرز سے کانتبکٹ کبا جانا تھا۔‬
‫”چیرت ہے مجھے ان کے نارے میں مغلومات نہیں تھی۔“ وہ خود سے پڑپڑانی۔‬
‫”حظرناک ن یظتموں میں سے انک ہے‪ ،‬ان کو دنکھنے سے ہی مغلوم ہوجانا ہے‬
‫کہ پہ کس گتبگ سے ہیں‪ ،‬ناکوزا کے متمیرز کی پہ چھونی اتگلی کنی ہونی ہے۔“ رنان‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪494 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ئے اس کو اننی چھونی اتگلی دکھائے کہا۔ لبکن اس کے چہرے کے ناپرات میں کونی‬
‫فرق نہیں پڑا تھا۔‬
‫”ان کا مین کام کبا ہے؟“ چنہ خود چیران تھی کہ وہ اننی مغلومات رکھنی تھی‬
‫اور ان کو ناکوزا کے نارے میں علم نہیں تھا۔‬
‫”ڈرگز‪ ،‬پرتقکبگ‪ ،‬جاص طور پہ لڑک نوں کی۔“ رنان سبدھا لنتنے ہوئے اس کو‬
‫نبائے لگا۔‬
‫”بو تم لوگوں کو ہی ک نوں اشاشن کا کانیرنکٹ مال تھا‪ ،‬جانان کے اشاشن کو‬
‫ک نوں نہیں؟“ چنہ ئے اس کی طرف دنکھنے بوچھا خو نہلے ہی اس کو جائے کن تگاہوں‬
‫سے گھور رہا تھا۔‬
‫”رسبا اور انلی میں نٹشٹ اشاشن پرین ہو کے آئے ہیں اور و نسے تھی وہ جانان‬
‫کی آرگباپزنشن ہے لبکن ضرف جانان کی جد نک محدود نہیں‪ ،‬بو انس‪ ،‬کورنا اور تھی نہت‬
‫سی ممالک میں پہ ہونیں ہیں‪ ،‬جانان سے زنادہ پر شپ منٹس بو انس نک جانی ہیں بو‬
‫ہمیں بو انس کا کانیرنکٹ مال تھا۔“ رنان ئے تقصبل نبانی بو چنہ ئے انبات میں سر‬
‫ہالنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪495 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”رنبلز کو جاننی ہو؟“ رنان ئے اس کے سنجبدہ چہرے پہ تظر ڈا لنے ہوئے کہا‪،‬‬
‫چنہ ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”میں ڈانمبڈ پزنس جالنی ہوں اور مجھے رنبل کا مغلوم نہیں ہو گا!“ چنہ نمسجراپہ‬
‫مشکراہٹ لنے بولی۔‬
‫”مجھے لگا نمہارا اب نک ان سے شامبا نہیں ہوا۔“ رنان سرسری شا بوال چنہ ئے‬
‫تظرانداز کبا ک نونکہ اس کا شامبا وافعی نہیں ہوا تھا ان سے۔ وہ نس جاننی تھی ان کو‬
‫اور جلد ہی وہ ان سے ڈنل کرئے والی تھی۔‬
‫َ‬
‫آدھی رات کے تغد جا کے چنہ پہ نتبد کا علنہ چھانا بو اس ئے انبا کام وانبڈ اپ‬
‫کبا جبکہ رنان اتھی تھی اسی انداز میں لتبا مونانل میں مصروف تھا۔‬
‫”تم ادھر شکون سے شو شکنی ہو۔۔“ اس کو دونارہ اتھبا دنکھ رنان سنجبدگی سے‬
‫بوال۔ چنہ چیزیں شانبڈ پہ رکھنی ہونی نتم دراز ہونی ک نونکہ شاند رنان کا شوئے کا نلین‬
‫نہیں تھا۔ دامیر اور رنان نہت کم شوئے تھے۔‬
‫”کل منتبگ سے نہلے تم وانس جلی جانا نمہیں خو جا ہنے تھا وہ مل گبا ہے۔“‬
‫ل‬ ‫ک‬ ‫ب‬ ‫چ‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ت ن‬
‫ھ‬
‫اس ئے ا ھی آ یں نبد کی ہی یں کہ رنان کی آواز پہ کے سے دونارہ ھو یں اور‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫نا ھی سے اس کو د کھنے گی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪496 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ک نوں۔۔۔؟“‬
‫م‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن ت ً‬
‫”مبکس نہاں ہو گے اور فتبا م یں جاہو گی کہ وہ یں خود نہاں سے جائے‬
‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ت‬
‫کو کہیں۔“ رنان ئے سنجبدگی سے کہا کہ چنہ ئے انبا ُرخ اس کی جانب کبا۔‬
‫”ان کو نبائے گا کون؟“ انداز ننتبہی تھا کہ رنان ئےشاچنہ قہقہہ لگا اتھا۔‬
‫”نمہیں لگبا ہے کہ میں نمہیں نہاں ر کنے دوں گا؟“ رنان کا انداز جبلنجبگ تھا‬
‫کہ اب کی نار چنہ ہلکا شا ہٹسی۔‬
‫”دنکھنے ہیں۔۔“ رنان انبا بوال اور دامیر کی کال آئے پہ اس کو ستنے لگا۔ چنہ‬
‫نالکل تھی نہاں سے نہیں جائے والی تھی۔ انک دو کو بو وہ کل ہی ن یکائے والی تھی‬
‫اور تھر شاشا کا کام تھی نمام کرنا تھا وہ تھی مبکس کے شا منے ہی ناکہ ان کو مغلوم‬
‫ہونا کہ چنہ کبا کر شکنی تھی۔‬
‫کل پرابوا کا ہبڈ نتنے سے نہلے ہی فیر میں جائے واال تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫رات کا وفت نتبا اور صنح کا شورج مبڈالئے لگا۔‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫مبدی مبدی آ یں ھولے اس کی شب سے لے تگاہ ہی دامیر کی نشت پہ‬
‫گنی خو فون پہ کسی سے نات کر رہا تھا۔ کمرے میں اتھی تھی نتم اندھیرا شا تھا۔ صنح‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪497 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ہو جکی تھی اور شاند وہ دپر سے اتھی تھی۔ روم میں کالک نہیں تھا بو شانبڈ نتبل پہ‬
‫موخود انبا مونانل اتھائے دنکھا بو صنح کے بو نج رہے تھے۔ وہ معمول سے ہٹ کے‬
‫لنٹ اتھی تھی۔‬
‫آنٹ پہ دامیر ئے ننجھے مڑ کے دنکھا‪ ،‬علتبا کو جا گنے دنکھ فون پہ الوداعی کلمات‬
‫کہنے مونانل وہیں شانبڈ پہ رکھا اور اس کی جانب پڑھ گبا۔‬
‫”مارنبگ پرنسٹس۔۔“ وہ مشکرانا ہوا بوال اور اس کے ما تھے کو چھوا۔ اس کے‬
‫چہرے پہ سرجی چھانی تھی اور تگاہیں چھکا رکھی تھیں۔‬
‫وہ نہت کجھ کہبا جاہنی تھی لبکن اتھی کجھ تھی کہنے کی ہمت نہیں تھی اس‬
‫میں۔ اتھی وہ دماعی طور پہ اس ر سنے کو مزند آگے پڑھائے کو نبار نہیں تھی پہ نات‬
‫وہ نہلے تھی کر جکی تھی لبکن دامیر کی نٹش قدمی سے شب ن ِس نشت ڈل گبا تھا۔ وہ‬
‫جاتف تھی اس سے لبکن اس کا تھی قاندہ نہیں تھا کل رات اس ئے نہت نار‬
‫اغیراف مجنت کبا تھا کہ علتبا اس کی مجنت کے آگے ہار مان جکی تھی۔ اس کی‬
‫ک‬‫ن‬
‫نابوں سے ہی نہیں اس کی آ یں‪ ،‬اس کا انداز واصح کرنا تھا کہ وہ لتبا کی پروا کرنا‬
‫ع‬ ‫ھ‬
‫تھا۔ وہ جاہ کے تھی چھبال نہیں نارہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪498 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ ہر چیز پہ آنکھ نبد کر کے سروع میں ہی تفین کر لتنی اگر کتھی دل میں‬
‫دامیر کو دنکھنے ہی کونی خزپہ نبدا ہونا لبکن انشا نہیں ہوا تھا۔ اس کے پرعکس اب وہ‬
‫دامیر کو دل کے فرنب محسوس کرئے لگی تھی۔ دامیر کے شاتھ وفت گزارنا اچھا لگنے‬
‫لگا تھا۔‬
‫”فرنش ہو جاؤ تھر ناشنہ کرئے ہیں۔“ اس کے ناک کو ل نوں سے چھوئے‬
‫ہوئے بوال بو نبا کجھ کہے وہ نبڈ سے اپرنی ناتھ روم کی طرف پڑھ گنی۔‬
‫دامیر فرنش ہو حکا تھا نتھی اننی نی سرٹ تکالے نہتنے لگا۔ نا سنے کے تغد اس کو‬
‫رنان کے ناس جانا تھا۔‬
‫وہ اتھی ناہر آنی ہی تھی کہ ناک کے نتھ نوں سے مرداپہ جسنو نکرانی لبکن دامیر‬
‫کمرے میں موخود نہیں تھا۔ نالوں میں پرش ت ھیرے وہ کنچن نک آنی چہاں وہ ہمٹشہ‬
‫کی طرح جارمبگ پرستبلنی لنے ناشنہ نبائے میں مصروف تھا۔ علتبا کیرانی ہونی ا نسے‬
‫ہی الؤنج کے صوفے پہ نتتھ گنی۔ چنہ کی شادی پہ اتکل مبکس ئے کہا تھا کہ وہ اس‬
‫کے ناس رکیں گے لبکن انہوں ئے دونارہ اس سے راتطہ ہی نہیں کبا تھا۔‬
‫اتھی وہ انہی کو شوچ رہی تھی چب دامیر کی آواز پہ خونک اتھی‪ ،‬وہ اس کو‬
‫ڈانتبگ نتبل پہ نال رہا تھا۔ علتبا گہرا شانس تھر کے اتھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪499 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نا سنے کے تغد مجھے کسی ضروری کام سے جانا ہے بو شام نک وانس آجاؤں گا۔‬
‫ڈرنک نہی ہو گا گھر میں۔ میں نمہیں کال کرنا رہوں گا تھبک ہے‪ ،‬گ ھیرانا نہیں۔“‬
‫دامیر نا سنے کے دوران اس سے پرمی سے بوال جس پہ علتبا ئے محض سر ہالنا۔ دامیر‬
‫محسوس کر حکا تھا کہ وہ اس سے زنادہ نات نہیں کر رہی تھی شاند وجہ گزری شب‬
‫وصل تھی۔‬
‫”علتبا کجھ انشا ہے خو تم مجھے کہبا جاہنی ہو؟“ دامیر کے پرمی سے اس کو‬
‫محاظب کرئے بوچھا کہ وہ تقی میں سر ہال گنی۔‬
‫دامیر ئے کجھ پہ کہا نس جاموش تظروں سے اس کو دنکھنے لگا جس سے وہ‬
‫پروس ہوئے لگی۔‬
‫”دامیر۔۔“ علتبا ئے مدھم شا تکارا کہ دامیر کے ہون نوں پہ ہلکی مشکراہٹ در‬
‫آنی۔‬
‫َ‬
‫”نس مانی لو!“‬
‫”ہماری شادی کو کاقی عرصہ ہوگبا ہے نا اور تم ئے نبانا تھا کہ ہم ہنی مون پہ‬
‫تھی گنے تھے بو کبا تم نہلے تھی مجھ سے اننی مجنت کرئے تھے؟“ وہ سمجھ نہیں نا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪500 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رہی تھی کہ کبا کہے اور کبا پہ‪ ،‬عج نب کشمکش کا شکار تھی۔ نہلی نات پہ اس ئے‬
‫انبات میں سر ہالنا جبکہ دوسری نات پہ دامیر ئے نبا کونی پردد کنے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”نہیں‪ ،‬نہلے میں تم سے اننی مجنت نہیں کرنا تھا ک نونکہ مجھے اب تم سے عسق‬
‫ہوئے لگا ہے۔۔“ وہ انک خزب کے عالم میں بوال کہ علتبا اننی تگاہیں چھکا گنی۔‬
‫”نہلے تم تھی مجھے نہیں جاہنی تھی وہ بو اب نمہیں میری قدر ہوئے لگی‬
‫ہے۔۔۔“ دامیر کی شکوہ کباں آواز پہ علتبا ئے سر اتھا کے اس کو دنکھا۔ اس کی‬
‫آنکھوں میں سرارت ناچ رہی تھی۔‬
‫”علتبا میں جانبا ہوں تم کبا شوچ رہی ہو‪ ،‬ہم ہزنتبڈ واتف ہیں تم کھل کے مجھ‬
‫سے نات کر شکنی ہو۔ تم اتھی منتبلی پرننئیر نہیں تھی اس شادی کو لے کے ک نونکہ‬
‫نمہارے لنے شب نبا ہے‪ ،‬انحانا ہے لبکن میں تم سے سٹسئیر ہوں اور بوں ا ننے ر سنے‬
‫کو ل یکانا نہیں جاہبا تھا۔ میں تم سے مجنت کرنا ہوں اور چب سے نمہیں دنکھا ہے نب‬
‫سے لبکن اب کم از کم میں نمہیں الگ کمرے میں شوئے کی اجازت نہیں دے‬
‫شکبا۔۔۔“ دامیر ئے رشان سے اس کو سمجھانا جاہا ناکہ وہ ان دوبوں کے ر سنے کو‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪501 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”انک اور نات۔ ہاں نہلے ہم کتھی انبا فرنب نہیں آئے تھے اس نات کو لے‬
‫کے زنادہ پہ شوخو۔ نہلے کی نات اور تھی لبکن اب میں جاہبا ہوں ہماری زندگی تھر سے‬
‫نارمل ہو جائے۔“ اس ئے اننی نات کو جاری رکھنے ننے نلے انداز میں کہا ناکہ وہ ان‬
‫ع‬ ‫چ‬
‫کے ر سنے کو لے کے کجھ علط پہ شوچے۔ ھجھک و جبا کے مارے لتبا کے نا کردہ‬
‫شوال کا خواب دامیر نحونی دے حکا تھا۔‬
‫وہ کوما سے تکلی تھی اور منتبلی سیرنس تھی تھا بو اس کے زہن میں عج نب‬
‫جباالت آشکنے تھے جٹسے ”اگر پہ مجنت کی شادی تھی بو ان میں دوری ک نوں تھی“‪،‬‬
‫”ہو شکبا ہے کہ کوما سے تھبک ہوئے کے تغد دامیر اس سے شب ڈرامہ کر رہا ہو‬
‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫اور اسی لنے مبکس اس کو وفت نہیں د ننے شاند کہ اس کی زمہداری سے ھے ہتبا‬
‫جا ہنے ہوں۔“ ان شب الجھ نوں میں وہ تھٹس شکنی تھی لبکن دامیر کی نات پہ وہ‬
‫کجھ ہلکا تھلکا محسوس کرئے لگی۔ وہ اس کے چہرے کے ناپرات سے کجھ اجذ پہ کر‬
‫نانا نتھی بوال۔‬
‫”کبا نمہیں پرا لگا میرا فرنب آنا؟“ اس کے پراہ راشت ا نسے شوال کرئے پہ علتبا‬
‫چھت نپ گنی‪ ،‬اسے پری طرح سرم کا دورہ پڑا کہ وہ انبا سر دونارہ پہ اتھا شکی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪502 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”علتبا۔۔۔!“ دامیر کی سنجبدہ آواز پہ اس ئے تگاہ اتھانی خو اسبہقامنہ تگاہوں سے‬


‫اس کو دنکھ رہا تھا۔‬
‫”خواب دو۔“‬
‫”نہیں میں ئے انشا بو نہیں کہا۔۔۔“ وہ حق یف سی ہونی بولی کہ اس کے‬
‫رجشار گلبار ہوئے لگے۔‬
‫”کبا تم خوش ہو؟ اگر نمہیں پرا لگا بو میں تم سے اتھی شوری کرئے کو نبار‬
‫ہوں۔“ دامیر ئے انبان نت سے اس کے ہاتھ پہ دناؤ ڈا لنے کہا کہ علتبا گڑپڑا گنی‪ ،‬وہ‬
‫کٹسی مسکل میں ڈال رہا تھا اس کو۔‬
‫”انسی نات نہیں ہے دامیر میں نس الجھ گنی تھی۔“ دامیر کے چپ ہوئے‬
‫س‬
‫ہی وہ نیزی سے بولی مبادہ وہ وافعی انشا پہ ھے۔‬
‫ج‬‫م‬
‫”بو کبا میں اب نمہیں اچھا لگبا ہوں؟“ اس کا چہرہ تھوڑی سے تھامے ا ننے‬
‫فرنب کرئے دامیر ئے گھمئیر لہچے میں بوچھا کہ علتبا کے چہرے پہ سرجی چھائے‬
‫لگی‪ ،‬وہ کٹسے شوال کر رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪503 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم ا چھے ہو دامیر‪ ،‬تم میرا نہت جبال رکھنے ہو۔“ ا ننے چہرے پہ موخود اس کے‬
‫ہاتھ پہ انبا ہاتھ رکھنے علتبا اغیراف کرنی ہونی بولی کہ دامیر ئے مشکرائے اس کے‬
‫ہون نوں کو چھوا۔‬
‫دامیر کے ئےناک اظہار پہ علتبا گلبار ہونی اور دونارہ نا سنے کی طرف اننی بوجہ‬
‫مرکوز کی۔‬
‫”چنہ کب نک وانس آئے گی؟“ اس کے اتھنے پہ وہ ئےشاچنہ بولی۔‬
‫”میرے شاتھ ہی آجانیں گے دوبوں‪ ،‬انبا جبال رکھبا‪ ،‬میں جتنج کر کے آنا‬
‫ہوں۔“ انبا کہہ کے دامیر وانس کمرے کی جانب جل دنا‪ ،‬علتبا کے ہون نوں پہ خودنحود‬
‫انک سرمگین مشکراہٹ آگنی‪ ،‬دامیر ئے تھبک کہا تھا اب وہ تھی اس کو نسبد کرئے‬
‫لگی تھی۔‬
‫اور دامیر نہی بو جاہبا تھا کہ وہ اس کو اننی مجنت‪ ،‬دبوانگی کا عادی نبائے ناکہ وہ‬
‫اس سے جاہ کے تھی دور پہ جانائے۔‬
‫ڈارک گرے نت نٹ سرٹ میں دامیر جلبا ہوا آنا جس کی ونشٹ پہ گن ہولڈر موخود‬
‫تھا‪ ،‬علتبا گن کو دنکھنے کتھی کتھی سہم جانی تھی کہ جائے ان کو گن‪ ،‬شک نورنی کی‬
‫کبا ضرورت تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪504 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں جا رہا ہوں‪ ،‬مٹسج کرنی رہبا۔“ اس کا ہاتھ تھامے ا ننے مقانل کرئے ستنے‬
‫سے لگانا اور ما تھے کو خوما‪ ،‬علتبا مشکرانی ہونی علنحدہ ہونی۔‬
‫م‬
‫وہ جا حکا تھا‪ ،‬گھر اب کمل جاموسی میں ڈونا ہوا تھا اور ا نسے میں علتبا اطراف‬
‫میں دنکھنے لگی جٹسے کجھ کرئے کو انک نونی مل جائے لبکن شوائے ا ننے نا سنے کی‬
‫نلنٹس کنچن میں رکھنے کے اس کو کونی کام پہ مال۔‬
‫جالی گھر میں کجھ کرئے کو نہیں تھا‪ ،‬دامیر کے ہوئے ہوئے کام پہ تھی ہو بو‬
‫نس اسی کو دنکھنے سے کام جال شکنی تھی۔ ڈرنک سے وہ کبا نات کرنی‪ ،‬اسے بو رنان‬
‫سے خوف آنا تھا وہ بو تھر ان کا گارڈ تھا۔‬
‫کجھ پہ شو جنے ہوئے وہ کمرے میں ہی آگنی اور کمرے میں تھر وہی خوسنو کا‬
‫اجشاس ہوا خو دامیر سے آنی تھی‪ ،‬اور کل اس خوسنو کو اس ئے نالکل فرنب سے‬
‫محسوس کبا تھا جٹسے وہ اس میں ہی سما گنی ہو۔‬
‫”میں شوئے لگی ہوں۔“ اس ئے دامیر کو مٹسج نانپ کر کے تھنحا خو اتھی شاند‬
‫ڈران نو کر رہا ہو۔‬
‫ً‬ ‫َ‬
‫”شو نت ڈرنمز لو۔“ اس کا فورا خواب موصول ہوا کہ انک خوتصورت مشکراہٹ‬
‫لنے اس ئے خود کو آ نتنے میں دنکھا چہاں اس کی تظر اننی گردن پہ گنی۔ دامیر کو‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪505 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گردن کا بوسہ لتبا کتبا نسبد تھا۔ اس ئے ہلکے سرخ نشان پہ اننی اتگلی ت ھیری کہ سرم‬
‫سے رجشار اللی چھلکھائے لگے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اس کی چب آنکھ کھلی بو انک نار تھر خود کو رنان کے پزدنک نانا جبکہ وہ جاگ رہا‬
‫تھا اور خود وہ اس کے نازو کے حصار میں موخود تھی۔ اننی بوزنشن سمجھ آئے پہ وہ ہڑپڑا‬
‫کے اس سے دور ہونی۔ نتبد میں وہ کٹسے اننی ئے اجتبار ہو شکنی تھی۔‬
‫ن‬
‫رنان اتھی تھی ا ننے مونانل میں مصروف شا تظر آنا‪ ،‬آ کھیں مشلنی ہونی اتھی اور‬
‫فرنش ہوئے جلی گنی۔ رنان سباہ نتبان میں مل نوس تھا تعنی وہ رات کو شونا تھا۔ نالوں‬
‫کا خوڑا نبائے ہوئے وہ ناہر تکلی اور شانبڈ نتبل پہ موخود کرنڈل اتھائے رنسنٹشن پہ‬
‫کال کرئے لگی ناکہ ناشنہ مبگوا شکے۔‬
‫”تم پہ ئےوفوقی وافعی کرو گی۔۔“ رنان ناگوار لہچے میں بوال جس کو چنہ ئے‬
‫تظرانداز کبا اور آرڈر د ننے لگی‪ ،‬آرڈر کرئے وفت اس ئے ا ننے ہزنتبڈ کا زکر الزمی کبا‬
‫کہ ان کو مغلوم ہوجائے کہ وہ ہزنتبڈ کے شاتھ موخود ہے اور خود کنچن میں جلی آنی‬
‫کہ کجھ اچھا شا نبا شکے۔ تھوڑا نہت نا سنے کا شامان موخود تھا جس سے وہ دوبوں اچھا‬
‫ناشنہ کر شکنے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪506 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنسنٹش پہ کال کرئے کا مقصد پہ تھا کہ وہ جبا شکنی کہ رات کو وہ نارنی میں‬
‫موخود نہیں تھی اور نہاں ا ننے ہزنتبڈ کے شاتھ تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫رنان کے نارہا کہنے پہ چب چنہ نا مانی بو وہ مزند کجھ پہ بوال لبکن اس ئے چنہ کو‬
‫ننتبہہ کی کہ وہ وہاں اننی سباچت چھبا کے جائے گی‪ ،‬اور چہرے پہ ماشک ر کھے گی‬
‫ناکہ کسی کو علم پہ ہو کہ وہ اس کی ن نوی تھی۔ چنہ نبار تھی و نسے تھی اس ئے تظر‬
‫ہی رکھنی تھی شب پہ۔۔‬
‫”مجھ سے زنادہ دور نہیں لبکن تھوڑی قاصلے پہ موخود رہبا ناکہ تم میری تظروں‬
‫کے شا منے رہو۔“ اس کی جبکٹ کو آگے سے صجنح کرئے ہوئے ا ننے القاظ پہ زور‬
‫د ننے بوال۔‬
‫”میں جاننی ہوں انبا آپ ستتھالبا۔۔“ وہ تھی اس کو جبانی ہونی بولی کہ رنان‬
‫ً‬
‫ئے چھکنے انک سرارت کی کہ چنہ ئے فورا اس سے قاصلہ نبانا۔‬
‫”مجھ سے فری پہ ہوا کرو۔“ وہ ناگواری سے بولی اور انبا نبگ نکڑنی ہونی لفٹ کی‬
‫جانب پڑھی ناکہ منتبگ میں جائے سے نہلے وہ اننی چیزیں رنان کی گاڑی میں رکھ‬
‫شکنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪507 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان اس کے ننجھے ہی دامیر سے نات کرنا ہوا آرہا تھا۔ چنہ جبک آؤٹ کرنی ناہر‬
‫کی جانب پڑھی چہاں اس کی نانبک تھی موخود تھی۔ انبا ہبلمٹ نکڑئے اس کو نہبا‬
‫نب نک رنان تھی ناہر آحکا تھا۔ نانبک پہ شوار ہوئے اس ئے رنان کو اشارہ کبا اور‬
‫وہاں سے رواپہ ہونی۔‬
‫رنان گاڑی کی ستبڈ نیز کرنا اس سے آگے تھا۔ عین وفت پہ منتبگ کی لوکٹشن‬
‫ندل دی گنی تھی وجہ شاشا پہ کل رات کو چملہ ہونا تھا۔‬
‫لوکٹشن کا مٹسج ان کو مل گبا تھا۔ چنہ رنان کے ننجھے ہی نانبک جال رہی تھی‬
‫چب انک موڑ پہ رنان کی گاڑی مڑئے ہی چنہ کی نانبک کو چھ یکا شا محسوس ہوا جٹسے‬
‫ن‬ ‫ً‬
‫ناپر نبکجر ہوا ہو۔۔ اس ئے فورا نان ک روکی اور ھے گردن ھمائے ج ک کرئے گی‪،‬‬
‫ل‬ ‫ب‬ ‫گ‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ب‬
‫ن‬ ‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫ک‬‫ھ‬ ‫چ‬ ‫ت‬
‫ھے کا ناپر ھ ک تھا ھر آگے کو نے د نے گی شاتھ ہی اس ئے خوکبا ہوئے ا ک‬‫ب‬ ‫ت‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬

‫ہاتھ اننی نانگ کی طرف پڑھانا ناکہ گن تکال شکے ک نونکہ ننچ ر سنے میں اجانک نانبک میں‬
‫خرانی اتقاق نہیں تھا۔ اتھی اس ئے گن ہاتھ میں لی اور سبدھی ہونی تھی کہ اجانک‬
‫گردن پہ جتھن ہونی۔ وہ انک پرنپ میں تھٹس جکی تھی۔ گردن نک ہاتھ لے کے‬
‫گنی بو وہاں انک ڈاٹ جتھا تھا جس کے آگے انجبکشن کی نبڈل موخود تھی‪ ،‬اس ئے‬
‫چ‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ً‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫نچ کے تکاال اور آس ناس فورا د کھا۔ ا کشن خو ھی تھا وہ اپر ھوڑنا سروع کر حکا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪508 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ً‬
‫چنہ ئے انبا مونانل تکالے فورا رنان کو کال کرنا جاہی کن نانبک سے اپرئے‬
‫ب‬ ‫ل‬
‫ہی اس پہ ع نودگی چھائے لگی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ن‬
‫رنان چب موڑ لے کے آگے پڑھا بو اس ئے چنہ کی نانبک ننجھے پہ د ھی‪ ،‬ھوڑا‬
‫ت‬ ‫ک‬

‫آگے گبا اور نبک وبو مرر سے دنکھا لبکن چنہ نہیں تھی ننجھے۔ الجھن لنے اس ئے نبا‬
‫کونی دپر کنے گاڑی کا بوپرن لبا خو آگے ہی تھا۔‬
‫رنان وہاں نہنحا چہاں اس ئے چنہ کو دنکھا تھا ا ننے ننجھے لبکن وہ نہیں تھی۔‬
‫ً‬
‫”ہو گبا کام‪ ،‬اتھا لے گنے میری ن نوی کو۔“ وہ پڑپڑانا اور فورا مونانل تکالے اس‬
‫کی لوکٹشن پرنس کرئے لگا۔‬
‫”جلنے ہیں اننی لوکٹشن پہ۔“ انبا کہہ کے وہ اننی گاڑی میں نتتھا اور چہاں جانا‬
‫ہ‬‫ہ ن‬
‫تھا وہیں کی راہ گاڑی دوڑانی۔ دامیر و یں نے واال تھا۔‬
‫ج‬‫ن‬
‫پہ انک کاقی وسیع نلڈنگ تھی اور قان نو سبار ہونل۔ رنسنٹشن پہ انہوں ئے نہیں‬
‫جانا تھا‪ ،‬ڈاپرنکٹ ان کو نٹشمنٹ کی طرف پڑھبا تھا۔‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫نٹشمنٹ میں نجنے اس کو دامیر ل گبا خو ہرے پہ ھر لی ناپرات سحائے شب‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫چ‬
‫دنکھ رہا تھا۔ پہ انک آکشن جال کی طرح ہی لگ رہا تھا‪ ،‬شا منے انک چھونا شا ستنج نبانا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪509 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گبا تھا اور اس پہ انک پروجبکیر سنٹ تھا۔ جال میں تھوڑے تھوڑے قاصلے پہ نتبل‬
‫سنٹ کنے گنے تھے جن کے گرد کرسباں موخود ت ھیں۔‬
‫شونڈ بوند ہر مافبا کے لوگ نہاں موخود تھے۔ انک عج نب وجشت تھرا ماخول نبا تھا‪،‬‬
‫ہر کونی اشلحہ لٹس تھا‪ ،‬ہر مافبا کا آدمی ا ننے شاتھ گارڈز کے شاتھ موخود تھا۔ دامیر‬
‫اور رنان تھی انک کوئے میں لگے نتبل پہ نتتھ گنے‪ ،‬مبکس ان کے شاتھ نہیں تھے‬
‫وہ ان سے الگ ہی تظر آئے۔‬
‫”چنہ۔۔۔؟“ دامیر ئے رنان سے بوچھا جس پہ اس ئے شاشا کی جانب اشارہ‬
‫کبا۔ ”اتھا کے لے گنے۔“ وہ الپرواہ انداز میں بوال۔ دامیر جانبا تھا کہ اب وہ کبا کرئے‬
‫واال ہے ک نونکہ رنان کو مغلوم تھا کہ چنہ نہیں تھی۔‬
‫شب نتتھے تھے لبگڑانا ہوا شاشا وہاں ا ننے گارڈز کا سہارہ لتنے ہوئے ستنج پہ خڑھا‪،‬‬
‫اس کی گردن کے گرد ننی د نکھے شب کے ہون نوں پہ انک معنی چیز مشکراہٹ تھی۔‬
‫”پہ پربوا کا ہبڈ ننے گا۔۔“ انک مرداپہ آواز پہ جال میں دنی دنی ہٹسی گونج‬
‫اتھی۔‬
‫”تم نتتھو میرے جائے کا وفت ہو گبا‪ ،‬مجھے گانبڈ کرئے رہبا۔“ رنان دامیر کے‬
‫کبدھے پہ ہاتھ رکھبا ہوا بوال بو دامیر ئے انبات میں سر ہالنا‪ ،‬رنان کے اتھنے ہی دامیر‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪510 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ئے انبا مونانل شا منے کبا اور نہاں کا تقشہ کھوال جس میں اسے رنان کی لوکٹشن شو ہو‬
‫رہی تھی۔ اس ئے چنہ کی لوکٹشن کا کوڈ لگانا بو اس اسی نلڈنگ میں شو ہونی۔‬
‫”نٹشمنٹ میں ہی نا اس سے ناہر۔۔؟“ رنان کی آواز انیر نٹس میں سے گونچی۔‬
‫رنان نجھلے گنٹ سے ناہر تکال تھا اور نہاں موخود آدم نوں کو ن یکائے بوچھنے لگا۔‬
‫”نٹشمنٹ اپرنا میں ہی‪ ،،‬آگے جا کے ل یفٹ ہونا وہاں نین رومز ہیں‪ ،‬درمبان‬
‫والے میں چنہ موخود ہے۔“ رنان اس کی نات ستبا ہوا سر ہالئے اس کے نبائے‬
‫ہوئے ر سنے کی طرف پڑھا۔‬
‫”میری جالت پہ ہٹسنے کی ضرورت نہیں ہے‪ ،‬پہ جس تھی (گالی) ئے کبا ہے‬
‫اس کو بو میں نہاں شب کے شا منے مزا جکھائے واال ہوں۔ جس کا نماشا تم شب‬
‫تھی انحوائے کرو گے۔“ شب کی ہٹسی کی آواز پہ شاشا ئے زچمی سیر کی طرح‬
‫ت ھیرئے ہوئے کہا کہ شب کے چہروں پہ چمک اتھر آنی۔‬
‫شاشا نہاں شب کے شا منے ندلہ لتنے واال تھا اس کا مطلب شب جا ننے تھے۔‬
‫”نہاں پہ آئے کی وجہ تم شب کو مغلوم ہے کہ میں پرابوا کو نبک اوور کرئے‬
‫واال ہوں‪ ،‬جس کی خو ڈنلتبگ ہے مجھ سے وہ دونارہ ہو گی اور اس کی دگنی فتمت پہ۔‬
‫میرے ناپ کے مرئے کے تغد پہ شب میرا خق ہے کہ میں پرابوا کو نبک اوور‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪511 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کروں۔ کبا کسی کو کونی اغیراض ہے؟“ شاشا ئے کرسی پہ نتتھنے ہوئے اننی نات‬
‫سروع کی اور جال میں انک تظر دوڑانی۔‬
‫ً‬
‫” مجھے ہے۔۔۔“ کبل یفورنبا کے انک ڈان ئے فورا انبا ہاتھ نلبد کرئے کون‬
‫ش‬
‫سے کہا کہ شب کی تگاہ اس کی جانب اتھی۔‬
‫”انک نچٹس شالہ لڑکا اب مافبا جالئے گا جس کو نس عباسی کرنی ہے۔۔۔“ وہ‬
‫انبا مدعا نبان کر رہا تھا‪ ،‬اس کی نات پہ کنی لوگوں ئے نانبد کی اور ناری ناری انبا ہاتھ‬
‫نلبد کرئے لگے جن میں مبکس تھی شامل تھے۔ دامیر پرشکون انداز میں اس کی‬
‫نکواس کو شن رہا تھا جبکہ دوسری طرف رنان انیرنٹس سے شاشا کی آواز ستنے گال نوں‬
‫سے اس کو بواز رہا تھا۔‬
‫” کنے کا انک دن آنا ہے وہ آج ہے‪ ،‬تھونک لے نس تھر آنا ہوں نیرے‬
‫ک‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫ہ‬‫ج ن‬
‫ناس۔۔“رنان پڑپڑانا ہوا اس گہ نچ گبا تھا چہاں ین مرے موخود ھے‪ ،‬لے مرے‬
‫کو چھوڑے وہ دوسرے کمرے کی طرف پڑھا بو وہ جالی تھا۔۔۔‬
‫”دامیر چنہ نہاں نہیں ہے۔۔“ رنان کی سرد آواز اس کے کابوں سے نکرانی بو‬
‫دامیر ہلکا شا مشکرانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪512 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہاں وہ نہاں شا منے موخود ہے۔“ دامیر کے شکون سے کہی جائے والی نات پہ‬
‫رنان دامیر کو گالی سے بوازنا ہوا وانس پڑ ھنے لگا۔ اگر وہ نہلے ہی نبا د نبا بو نہاں ا ننے‬
‫نبدوں سے لڑنا پہ پڑنا خو نہاں گارڈز موخود تھے۔‬
‫”کس جالت میں ہے وہ؟“ رنان گن وانس ہولڈر میں ڈالبا ہوا بوال۔‬
‫”فرنش‪ ،‬ہونٹ کا کبارہ تھبا ہے نس‪ ،‬اس کی چیر ہے وہ ندلہ لتنے والی ہے‪،‬‬
‫ہوش میں ہے۔۔“ دامیر اس کو تقصبل سے بوازنا ہوا بوال رنان وانس نٹشمنٹ میں جال‬
‫آنا چہاں شاشا کی اس کی طرف تظر اتھی۔‬
‫رنان کی تظر دانیں جانب کے دروازے کی طرف اتھی چہاں سے دو لوگ چنہ کو‬
‫کرسی پہ ناندھے ال رہے تھے‪ ،‬تطاہر وہ نبہوش تظر آرہی تھی اور نال تھی نکھر گنے تھے۔‬
‫رنان ئے سجنی سے انبا چیڑہ تھتنحا‪ ،‬اس کی ن نوی کو ہاتھ لگائے کا مطلب انہوں ئے‬
‫موت کو دغوت دی تھی۔ شاشا کی تظر رنان پہ ہی تھی ک نونکہ شاشا کو اب تفین ہوا‬
‫تھا کہ چنہ رنان کی ہی ن نوی تھی لبکن ڈنگر کا اس کو مغلوم نہیں تھا کہ پہ وہی تھی‪،‬‬
‫اس کا ارادہ چنہ کو شب کے شا منے پزلبل کرئے کا تھا نتھی اس کی اوپری جبکٹ‬
‫اپری تھی‪ ،‬نس سباہ نی سرٹ نہن رکھی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪513 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میرے ہبڈ ہوئے پہ اگر اغیراض ہے بو وہ شب تغد میں کرنا اتھی تم لوگ میرا‬
‫ارننج کبا ہوا شو بو انحوائے کر لو ک نوں مبکس ل نو۔۔“ شاشا جبانت سے چنہ کو دنکھبا ہوا‬
‫بوال اور آخر میں مبکس کو دنکھا اور اننی گردن پہ ہاتھ ت ھیرا چہاں ننی نبدھی تھی۔ چنہ کو‬
‫نالکل شا منے ال کے رکھا گبا۔ کجھ لوگوں کی و نسے ہی رال نبکنے لگی تھی انک خوتصورت‬
‫لڑکی کو دنکھنے مبکس ضیط سے نتتھے رہے۔ شاشا جانبا تھا کہ رنان انک اشاشن تھا‬
‫کسی کراتم آرگباپزنشن کا ہبڈ نہیں خو شب اس کی نات ستنے اور اس کے شاتھ‬
‫کھڑے ہو کے شاشا کے جالف آواز کسنے۔‬
‫”ڈارک ورلڈ کا انک رول ہے۔“ اس سے نہلے کہ کونی اور خرکت ہونی رنان کی‬
‫سرد آواز جال میں گونچی۔‬
‫”سبا ہے کہ مافبا ہبڈ کو مارئے کا تغد مارئے واال اس کی جگہ لتنے کا دغوی‬
‫کرے بو اسی کا اننحاب کبا جانا ہے۔“ رنان ئے آہشنہ سے قدم اس کی طرف‬
‫پڑھائے ہوئے کہا‪ ،‬شب کی تظریں رنان پہ چمی تھیں۔ دامیر کے ہون نوں پہ مدھم‬
‫مشکراہٹ اتھری تعنی وکیری کا وفت تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪514 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس سے نہلے کونی شاشا کو کور د ننے کے لنے آگے پڑھبا گولی کی آواز پہ شب‬
‫کی تگاہ ستنج کی جانب گنی چہاں شاشا زمین بوس ہوا اور کرسی پہ نبدھا وخود گن تھامے‬
‫ا ننے نیروں پہ کھڑا تھا۔‬
‫ہر انک ہبڈ کو اس کا گارڈ کوور د ننے لگا‪ ،‬دامیر ئے چھبکے سے اتھنے شاشا کے‬
‫ارد گرد موخود گارڈز کا نشاپہ ناندھا۔‬
‫ن‬
‫رنان کے ہون نوں پہ مشکراہٹ نمودار ہونی ‪ ،‬گرے آ کھیں تفجر سے چمکیں۔‬
‫٭٭٭٭٭٭‬
‫ہر انک کو اننی جان کی قکر الخق ہو گنی تھی‪ ،‬دامیر اور رنان ہبڈ نہیں تھے لبکن‬
‫انک اچھی آرمی رکھنے تھے‪ ،‬وہ ا ننے کانیرنکٹ پہ کام کرئے تھے لبکن خود کے لنے ان‬
‫کو کانیرنکٹ کی تھی ضرورت پہ تھی جٹسے اتھی شاشا ان کے شا منے موخود تھا اور ان‬
‫کا شکار تھا۔‬
‫کونی ان کے درمبان بو لنے واال نہیں تھا کہ چب وہ شب کے شا منے شاشا پہ وار‬
‫کر شکنے تھے بو نبا پرواہ کنے ان کا نشاپہ دوسروں کی جانب تھی ہو شکبا تھا۔ دنکھنے ہی‬
‫ت ً‬
‫دنکھنے اس جال کے گرد ماشک نہنے لوگ چمع ہو گنے خو فتبا دامیر اور رنان کے ہی ھے‬
‫ت‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪515 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫خو شاشا کے آئے گارڈز سے لڑ رہے تھے۔ وہاں موخود ناف نوں ئے تھی قاپرنگ سروع‬
‫کر دی۔‬
‫رنان کا شاشا پہ چملہ کرئے کی وجہ سے انک تھگڈر سی مچ گنی تھی چب کجھ‬
‫مافبا ڈان وہاں سے جائے لگے‪ ،‬اس لڑانی جبگ میں ان کا کونی مطلب نہیں تھا۔‬
‫جبکہ دوسری طرف ہر عالفے کا مافبا ا ننے گارڈ کے شاتھ خوکبا موخود تھا۔ وہ لوگ‬
‫نماسنین کا کام کر رہے تھے جٹسے ان کو شاشا اور رنان کے درمبان ہوئے والی جبگ‬
‫کا مزا آرہا ہو۔‬
‫چنہ کو شالمت دنکھنے مبکس ئے شکون کا شانس جارج کبا ورپہ اس کو ا نسے‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬
‫نبہوش ئےشدھ د نے دل کو جھ ہوا تھا‪ ،‬وہ خود ا ھی قانیر یں کر رہے ج کہ ان‬
‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫کے گارڈز ان کی حقاظت کر رہے تھے۔‬
‫چنہ ا ننے گرد موخود آدم نوں سے ن نٹ رہی تھی جبکہ دامیر رنان کو کور د ننے وہاں‬
‫نشائے ناندھ رہا تھا‬
‫رنان کی گرے سرد آنکھوں میں انک وجشت اپر آنی جٹسے وہ آج نہاں قہر محا‬
‫دے گا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪516 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گولی لگنے کی وجہ سے شاشا کا کبدھا زچمی ہوا تھا‪ ،‬اس ئے مڑئے چنہ پہ وار کبا‪،‬‬
‫اس کے آئے وار کو رو کنے چنہ ئے زور دار انک مکہ رسبد کبا۔ رنان کی تظر چب چنہ‬
‫کی جانب گنی بو اس ئے ناس گری نسبل اتھائے شاشا کی طرف تھتبکی جس پہ وہ‬
‫پروفت انبا نحاؤ کر گبا۔ نہاں کونی کحا کھالڑی نہیں ہونا تھا خو آشانی سے انک چیز کی‬
‫زد میں آجانا۔‬
‫چنہ لڑکی تھی لبکن اننی تھی کمزور نہیں کہ شاشا کی نکڑ میں تھڑتھڑانی رہنی۔‬
‫”نیری اننی ہمت۔۔“ شاشا رسین میں اس کو گالی د نبا ہوا گردن دبو جنے لگا‪ ،‬چنہ‬
‫ئے انبا دقاع کرئے نیزی سے اس کے پڑ ھنے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے روکا اور اس‬
‫کو مروڑ دنا۔ خو نجھلی درد سے نحات نائے تغیر اب انک اور گولی کھا حکا تھا‪ ،‬کبدھے پہ‬
‫درد کا اجشاس پڑ ھنے سے وہ پڑ ننے لگا۔ درد سے نلبالئے اس کی کراہ گونچی‪ ،‬چنہ البا‬
‫اس کی گردن کو ا ننے شکنچے میں لتنی بورا زور لگائے اس خو ننچے نتتھانی جلی گنی چب‬
‫م‬ ‫ک‬‫ن‬
‫انک چیرنی ہونی چیز اس کو نانگ میں ن نوشت ہونی جس سے وہ ضیط سے آ یں نچ‬
‫ھ‬
‫کے رہ گنی۔ شاشا ئے ناس نکڑی بونی کرسی کی لکڑی کا نکرا اتھائے اس کے نانگ‬
‫کے اوپری حصے میں دے مارا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪517 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کی گردن چھوڑے بوری فوت سے چنہ ئے چہرے پہ وار کبا اور ئے در ئے‬
‫ن‬
‫مکے مارئے لگی۔ اننی تکل یف وہ تھوڑی دپر کے لنے تھال تتھی۔ شاشا کے وخود میں‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ن ک‬
‫چب شکت ناقی پہ رہی بو چنہ ئے اننی نانگ سے وہ کرا نچ تکاال کو گہرا ز م کر گبا‬
‫چ‬
‫تھا۔‬
‫مبکس ل نو کے گارڈز مبکس کے انک اشارے کے ان یطار میں کھڑے تھے جبکہ‬
‫دامیر اننی گن کی گولباں جبک کرنا اب نٹشمنٹ کی مین انئیرنس کو جبک کرئے لگا۔‬
‫چنہ کو آئے سے ناہر جانا دنکھ رنان اس کی طرف پڑھا‪ ،‬چنہ کو ننجھے کرئے اس‬
‫ئے شاشا کا گرنبان نکڑئے اس کو کھڑا کبا خو لڑکھڑا گبا۔ اس کو ا ننے مقانل کرئے‬
‫رنان ئے زور دار نمانحہ رسبد کبا کہ شاشا کے نچے کچے اعصاب تھی گم گنے۔‬
‫”اس کے فرنب سے گزرنی ہوا تھی مجھے رف نب لگنی ہے تم بو تھر انک گبدی‬
‫نالی کے کیڑے ہو۔۔“ اس کے شا منے چھکبا اس کے منہ کے اندر نسنول کا نیرل‬
‫کرئے بوال۔‬
‫”میری ن نوی پہ بو تظر رکھنے ہوئے میرے شا منے اننی ہمت دکھانی“ رنان ئے اس‬
‫کے ہاتھ پہ انک قاپر کبا کہ شاشا کی جنخ گونج اتھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪518 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”انک اور تظر اور تم ا ننے مرد ہوئے پہ نجھباؤ گے۔“ اس کی لگانی آگ کا خواب‬
‫وہ اس جال میں اننی وجشت تھبالئے دے رہا تھا۔ شب اگلے لمچے کا ان یطار کر رہے‬
‫تھے کہ کب رنان شاشا کو مارے گا ک نونکہ اب اس کی نجنے کی جالت نہیں تھی۔‬
‫شاشا ئے اس کی غورت پہ تگاہ علط ڈالی تھی۔ رنان کی جگہ کونی اور ہبڈ تھی‬
‫ہونا بو وہ ا نسے ہی جبگ کا اعالن کر د نبا۔‬
‫”رنان۔۔۔“ مکے کھائے کے تغد اس میں بو لنے کی شکت ناقی پہ رہی بو پڑوڑ‬
‫مڑوڑ کے اس کا نام لتنے لگا۔‬
‫”آں ہاں! دی سبانیر۔۔۔“ اس کا بورا نام لتنے سے نہلے رنان ئے سرد لہچے میں‬
‫کہا اور اس کے چہرے کو دبوجا۔‬
‫”پرابوا کو نبک اوور کرئے واال دی سبانیر۔۔“ وہ سرگوسی میں بوال اور نبا کسی پردد‬
‫کنے نسبل کی گولی اس کے منہ میں انار دی کہ گولی کی آواز سے انک شکنہ شا چھا‬
‫ن‬
‫گبا کمرے میں۔ شاشا کا ئےجان وخود ننجھے کو جا گرا جس کی آ یں لی یں۔‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫کھ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫دامیر اس کی شانبڈ پہ کھڑا چنہ کو دنکھ رہا تھا جس کے چہرے پہ تکل یف کے آنار‬
‫موخود تھے۔ وہ اننی نانگ پہ اتھی وزن نہیں ڈال نا رہی تھی بو دامیر ئے آگے پڑ ھنے‬
‫اس کے نازو کو ا ننے کبدھے پہ رکھنے سہارا دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪519 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں پرابوا کو نبک اوور کرئے کا دغوی کرنا ہوں کبا ہے کسی کو اغیراض۔۔“‬
‫رنان کی سرد آواز گونجنے کے تغد دو سبکبڈز جاموسی رہی چب اگلے ہی نل انک آواز‬
‫اتھری۔‬
‫”مجھے ہے۔۔“ جس طرف سے آواز آنی تھی رنان ئے نبا دپر کنے اننی گن اس‬
‫طرف کرئے اس سحص کو بو چہتم واصل کبا خو اغیراض کر رہا تھا۔ نہاں جتنے تھی‬
‫لوگ موخود تھے وہ ان شب کو ناور کروانا جاہبا تھا کہ شاشا کو مار کے وہ پرابوا کا خق دار‬
‫ہے اور اتھی انک ہی موت سے وہ پہ تھی جبا گبا کہ اس کو شاشا پہ سمجھا جائے خو‬
‫شکون سے اغیراصات پرداشت کر لے گا۔ چب مزند دو سبکبڈز نک کونی پہ بوال بو رنان‬
‫ئے انک فجرپہ تظر جال میں دوڑانی چہاں جگہ جگہ گرے ئےجان وخود پڑے تھے۔‬
‫”کسی کو نہیں گڈ۔۔“ رنان کے چہرے پہ انک قانحاپہ مشکراہٹ آنی۔‬
‫”لوگ پہ ک نوں تھول جائے ہیں میں ناپ اشاشن ہوں۔“ وہ مضنوعی اقسوس‬
‫کرنا ہوا بوال اور شا منے ستنج کی طرف پڑھا۔‬
‫”ہمیں کونی اغیراض نہیں۔“ شب سے نہلی آواز مبکس کی طرف سے آنی۔‬
‫”لبکن پہ شب انک منتبگ میں طے ہو گا سبانیر‪ ،‬ہم انک اور منتبگ ارننج‬
‫کروانیں گے چہاں شب کے علم میں اس نات کو النا جائے گا کہ شاشا کی پراپرنی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪520 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شاری ونلتھ اب رنان سبانیر کی ہو گی۔“ مبکس ئے ناف نوں کی نانبد جاہی بو شب ئے‬
‫انبات میں سر ہالنا۔‬
‫گن کو ہولڈر میں رکھنے اس کی بوجہ چنہ پہ گنی خو دامیر کے سہارے کھڑی تھی۔‬
‫دامیر کو نبا کسی لحاظ کے شانبڈ پہ کرئے اس ئے چنہ کو نازؤں میں اتھانا اور نٹشمنٹ‬
‫سے ناہر تکلنے گاڑی کی نجھلی سنٹ پہ نتھانا۔‬
‫”انارو اس کو۔۔۔“رنان ئے گاڑی کا دروازہ نبد کرئے ہی کہا کہ چنہ ئے‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫نا ھی سے اس کو دنکھا خو اننی جبکٹ انار رہا تھا۔‬
‫”کبا۔۔؟“ وہ اسبہقامنہ لہچے میں بولی چب رنان ئے اس کی کارگو نت نٹ کی‬
‫جانب اشارہ کبا وہ اس کا زچم دنکھبا جاہبا تھا خو لکڑی کا نکرا اس کی تھانی میں لگا‬
‫تھا۔ اننی جبکٹ کو اس ئے چنہ کے کبدھے کے گرد تھبال دنا ک نونکہ اس کی خود کی‬
‫جبکٹ وہ جابور انار جکے تھے اور اس وفت وہ ہالف شل نوز سرٹ میں تھی ضرور اس کا‬
‫نت نو تھی شب دنکھ جکے تھے۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”نمہارا دماغ تھبک ہے پہ کبا نکواس کر رہے ہو۔“ چنہ اس کا اشارہ ھنے‬
‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ہوئے آئے سے ناہر ہونی اس پہ عرانی کہ رنان ئے آ یں ھما یں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪521 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”زچم جبک کرنا ہے میں ئے فرشٹ انڈ دوں نمہیں۔“ رنان اس کی ونشٹ کی‬
‫جانب ہاتھ پڑھانا ہوا بوال کہ چنہ ئے اس کے پڑ ھنے ہاتھ کو چھ یکا۔‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫”میں کر لوں گی جاؤ نہاں سے۔۔“ وہ رکھانی سے بولی کہ رنان لب نج کے رہ‬
‫گبا۔‬
‫”خود کٹسے کرو گی تم زچم شاند شانبڈ پہ ہے بو مسکل ہو گی۔“ رنان انک نار تھر‬
‫سمجھائے والے انداز میں بوال ک نونکہ خون مشلشل نہہ رہا تھا اور زنادہ خون کا نہبا تھی‬
‫اس کے اچھا نہیں تھا۔‬
‫”بو کبا گاڑی میں نتتھ کے نمہیں کرئے دوں شب؟“ چنہ اسی لہچے میں اس‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫م‬‫چ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫سے بولی کہ رنان کی آ یں کی۔ ان دو ین دبوں یں جتبا وہ رنان کو فرنب سے‬
‫دنکھ جکی تھی اس کی آنکھوں کا جکمبا ہمٹشہ کجھ زومعت نت ہی لنے ہونا تھا۔ ہون نوں پہ‬
‫مبہم سی مشکراہٹ لنے وہ اس کے فرنب ہوا۔ چنہ دوسری شانبڈ کے دروازے کے‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫چ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫شاتھ نبک لگائے ھی ھی۔ اس کی ز می نا گ نچے کی ھی جبکہ دوسری کو وہ فولڈ‬
‫ن‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫کر کے ھی ھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪522 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شب کجھ بو نہیں کرئے واال میں‪ ،‬نس جبک کروں گا۔۔“ رنان ئے گھمئیر‬
‫لہچے میں کہا کہ چنہ کے چہرے کے ناپرات نگڑے۔ وہ اسی طرح کے ڈانالگ کی‬
‫ن‬
‫امبد لگائے تتھی تھی۔‬
‫”ناہر جاؤ میں کر لتنی ہوں‪ ،‬ضرورت پڑی بو نمہیں نال لوں گی۔۔“ قالحال کے‬
‫لنے وہ اس کو خود سے دور کرنی ہونی بولی۔ رنان ئے انک نل اس کے چہرے کی‬
‫ن‬
‫طرف دنکھا خو چہرہ دوسری جانب کر کے تتھی تھی۔‬
‫ً‬
‫”میں ادھر ہی ہوں‪ ،‬تکل یف زنادہ ہونی بو مجھے فورا نالنا۔“ رنان اس سے دور ہونا‬
‫بوال اور ناہر تکال‪ ،‬فرنٹ ڈور کھو لنے اس ئے ڈنش بورڈ کے جائے سے فرشٹ انکڈ ناکس‬
‫تکاال اور اس کو تھمانا۔‬
‫چنہ ئے زچم والی جگہ سے کیڑا اجتباط سے ہبانا بو دل جٹسے خود گ ھیرا اتھا۔ زچم‬
‫آئے ر ہنے تھے لبکن اس بوعنت کا نہلی نار تھا۔ وہ لکڑی کا کاقی خوڑا اور بوکبال نکرا تھا‬
‫خو گہرا زچم کر گبا تھا۔ اس کے کبارے پہ خون چمبا سروع ہوا تھا۔ زچم ڈھانی سے‬
‫نین انچ کا لمبا زچم تھا۔ زچم کو دنکھنے اس کا ہاتھ کا نتنے لگا۔ رنان ئے تھبک کہا تھا‬
‫کہ اس کو تکل یف ہو گی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪523 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چ‬ ‫ت‬‫ل‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬


‫آ یں نبد کرئے اس ئے گہرا شانس ھرا اور کاقی رونی نی وہ اس ز م کا‬
‫کبارہ صاف کرئے گلی‪ ،‬اس کو سنجز کی ضرورت تھی۔ زچم صاف کرئے اس ئے‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬‫ن‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ن‬
‫تکل یف سے آ یں یں اور ا نی نان نونک لگائے ا نی نانگ زرا اوپر کرئے نی ناند ھنے‬
‫چ‬ ‫ن‬ ‫ھ‬
‫لگی۔ انبا پراؤزر اوپر کرئے اس ئے نانگ تھبک کی اور رنان کو آواز دی۔‬
‫ً‬
‫”مدد کروں؟“ وہ جٹسے اس کی تکار کے ان یطار میں نتتھا تھا فورا دروازہ ھول کے‬
‫ک‬
‫اس سے بوچھنے لگا۔‬
‫”نہیں میں ئے ہلکی سی ننی کر لی ہے‪ ،‬اسنجز کی ضرورت پڑے گی۔“ اس ئے‬
‫آہشنہ آواز میں کہا کہ شاتھ کھڑے دامیر ئے رنان کو دنکھا۔ رنان کی تظر تھی دامیر پہ‬
‫گنی ک نونکہ دامیر ان چیزوں میں ماہر تھا لبکن تھر دوبوں ئے نبک وفت تقی میں سر‬
‫ہالنا۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫”ہمیں قی مبل ڈاکیر د نی جا ہنے۔“ دامیر ئے ہنے ہوئے چنہ کو د کھا بو اس‬
‫ن‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫ئے تھی نانبدی انداز میں سر ہالنا۔‬
‫”تم مجھے شکھا دو میں کر لوں گا۔“ رنان کی نات پہ دوبوں ئے اچھتنے سے اس‬
‫کو دنکھا جٹسے کہہ رہے ہوں کہ نمہارا دماغ بو نہیں جل گبا۔‬
‫”پرادر خوصلہ۔۔۔“ دامیر ئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪524 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہلے ڈاکیر کی طرف جلنے ہیں‪ ،‬تم ک یفرنتبل ہو چنہ؟“ دامیر ئے ننجھے مڑئے‬
‫کہا‪ ،‬رنان ڈران نونگ سنٹ ستتھال حکا تھا۔‬
‫”میں تھبک ہوں نس شلو جالنا۔۔“ وہ تکل یف ضیط کرنی ہونی بولی۔ رنان ئے‬
‫انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”دامیر تم ڈران نو کر لو میں چنہ کے ناس نتتھ جانا ہوں۔“ رنان نل میں ڈران نونگ‬
‫سنٹ سے اتھبا ہوا بوال‪ ،‬دامیر کے خواب کا ان یطار کنے تغیر وہ چنہ کے شاتھ نتتھ گبا‬
‫تھا۔‬
‫”میری گود میں نتتھ شکنی ہو ناکہ نمہاری نانگ کو تکل یف پہ ہو۔“ رنان ئے انبا‬
‫نازو اس کے شائے کے گرد تھبالئے ہوئے کہا‪ ،‬چنہ ئے ہوبق ننے اس کو دنکھا تھر‬
‫آگے نتتھے دامیر کو۔‬
‫”نمہیں ا ننے تھانی کی موخودگی میں انسی نبہودہ نابوں سے پرہیز کرنی جا ہنے۔“ چنہ‬
‫اس کو سرم دالئے ہوئے بولی لبکن اننی تکل یف کا جبال کرنی ہونی وہ رنان سے حصار‬
‫میں آرام دہ بوزنشن میں نتتھ گنی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪525 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ نہلے استبال گنے تھے چہاں چنہ کی تھبک سے ننی کروا دی گنی تھی اور‬
‫شاتھ اس ئے نین کلر لے لی تھی ناکہ اتھی خو درد تھی اس میں آقاقہ ہونا۔‬
‫”اتھی گ ھر جائے ہیں‪ ،‬علتبا گھر میں اکبلی ہے اور رات تھی ہو رہی ہے بو ڈر پہ‬
‫ن‬
‫جائے۔“ گاڑی میں نتتھنے ہوئے دامیر ئے کہا‪ ،‬چنہ اب شکون سے تتھی تھی۔ دامیر‬
‫کی نات کی چنہ ئے تھی نانبد کی بو رنان ئے کجھ پہ کہا ک نونکہ اتھی چنہ کے لنے تھی‬
‫گھر جانا ہی تھبک رہبا۔‬
‫چنہ ئے گاڑی کے ڈور سے نبک لگا لی تھی ک نونکہ اس کو اب نتبد آنا سروع ہو‬
‫گنی تھی۔‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ت ن‬
‫”نمہیں میں تظر نہیں آنا؟“ اس ئے ا ھی آ یں موندیں ہی یں کہ رنان کی‬
‫ھ‬ ‫ھ‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫سنجبدہ آواز پہ اس کو نا ھی سے د کھنے گی۔‬
‫”چب میں ادھر نتتھا ہوں بو وہاں نبک ک نوں لگانی ہے‪ ،‬ادھر آؤ۔۔“ رنان کو‬
‫جٹسے اس کا دروازے سے نبک لگانا ناگوار گزرا تھا جبکہ چنہ اس کو عج نب تگاہوں سے‬
‫دنکھنے لگی جس کے سبہرے نال ما تھے پہ نکھرے تھے اور گرے آنکھوں میں تھی‬
‫سجنی در آنی تھی۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫اس کی نات پہ کونی ردعمل طاہر پہ کرئے وہ تھر سے آ یں موند نی۔‬
‫گ‬ ‫ھ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪526 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ھ‬ ‫م ک‬
‫”اگر پہ نانگ زچمی پہ ہونی بو نمہیں خود یں نچ لتبا۔۔“ رنان کی وارنبگ پہ اس‬
‫ت‬
‫ل‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ئے دونارہ آ یں ھو یں۔‬
‫” پہ زچمی پہ ہونی بو میرے نہاں نتتھنے کی بونت ہی پہ آنی‪ ،‬انبا پہ رغب ناس‬
‫گ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫رکھو تم۔“ وہ آ یں ھما کے ئےزار انداز یں بولی۔‬
‫م‬ ‫ھ‬
‫”کتنی کڑواہٹ تھری ہے تم میں‪ ،‬کجھ رومنٹس الؤ ا ننے انداز میں۔“ اس کو‬
‫مجمور تگاہوں سے دنکھبا ہوا بوال۔‬
‫”نہت ہی انک ابوکھی شادی ہے میری‪ ،‬شادی کی رات ن نوی گردن پہ جافو ر کھے‬
‫کھڑی تھی کہ ہاتھ پہ لگاؤں‪ ،‬شادی کے اگلے دن گھر سے ہی تھاگ گنی اور شادی کے‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫نٹسرے دن اننی نانگ پڑوا کے ھی ہے۔۔“ جائے اس کو آج کبا شوجی سمانی ھی‬
‫خو ا ننے انداز میں سرارت الئے وہ چنہ کو معنی چیز تگاہوں سے دنکھبا ہوا بوال جبکہ دامیر‬
‫اس کی نات پہ ہلکا شا ہٹس دنا۔‬
‫ش‬ ‫ل‬‫ش‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫”میری میرے جافو نک نچ ا ھی ھی ہے۔“ اس کے ل ا نسے شسنے‬
‫ڈانالگ شن کے وہ ئےزار ہو جکی تھی نتھی نبگ آکے اس سے کہنے لگی۔ رنان اس‬
‫کا دھبان نتھکا رہا تھا جان بوچھ کے اس کی نات پہ قہقہہ لگا اتھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪527 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میرا نس نہیں جل رہا کہ میں نمہیں ہاتھ لگائے والے شاشا کو زندہ کر کے‬
‫دونارہ موت کے منہ اناروں۔“ شاشا کا شو جنے اس کا خون کھول رہا تھا کہ کٹسے اس‬
‫ئے چنہ کو ہاتھ لگانا‪ ،‬اس پہ وار کبا اور گردن نکڑی۔‬
‫”میں تھبک ہوں رنان۔“ رنان کے چہرے پہ نتھر نلے ناپرات دنکھنے وہ پرم لہچے‬
‫میں بولی۔‬
‫”نمہیں تھبک رہبا ہے۔۔“ اس کی جانب چھکنے اس کے چہرے پہ انبان نت‬
‫سے ہاتھ رکھنے ہوئے بوال کہ چنہ سنجبدگی سے اس کو دنکھنے لگی۔ تظریں ت ھیرے اس‬
‫ئے مدھم لہچے میں کہا۔‬
‫”مجھے آرام کرنا ہے۔“ اس سے نہلے رنان دامیر کا جبال کنے نبا کونی نٹش قدمی‬
‫کرنا چنہ ئے اجشاس دالنا۔‬
‫”نمہیں نہاں ضرور ہونا تھا۔“ اگلے ہی لمچے رنان دامیر کو کو سنے لگا۔‬
‫ج‬‫ص‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬ ‫ل‬ ‫گ‬ ‫ن‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫ان کو وانس نجنے ا ک ھننہ مزند گ جانا تھا‪ ،‬چنہ کے لنے ھنے کا نح ان یطام‬
‫تھا بو وہ انبا وفت گزار شکنی تھی۔ و نسے تھی درد اب پرداشت کے قانل تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪528 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شارا دن گھر میں ا نسے ہی ن یکار تھرئے وہ خود تھی نیزار ہوئے لگی تھی۔ ڈرنک‬
‫ہر گھتنے تغد اس سے بوچھنے آجانا کہ اگر اس کو کجھ جا ہنے ہونا بو لبکن وہ تقی میں سر‬
‫ہال د ننی۔ دامیر سے تھی مٹسج پہ نس تھوڑی سی کی نات ہونی تھی۔ بورنت کا اجشاس‬
‫مزند ہوا بو نی وی آن کنے نتتھ گنی۔ نی وی کونی ڈاک نومنئیری جل رہی تھی جس کو‬
‫دنکھنے میں وہ مگن ہو گنی۔ ڈاک نومنئیری جتم ہونی بو کونی مووی کلپ جلنے لگا۔‬
‫جٹسے جٹسے وہ کلپ جلنے لگا علتبا کے ناپرات ند لنے لگے‪ ،‬چہرہ خوف سے شقبد‬
‫ہوئے لگا۔ آنکھوں کی نبلباں تھبل گنیں۔‬
‫وہ کونی کلپ تھی جس میں انک لڑکی کے ننجھے کجھ آدمی لگے تھے اور اب وہ‬
‫اس لڑکی کو نبد جگہ لے جارہے تھے چہاں اندھیرا تھا۔ وہ کونی کراتم شو تھا۔ جٹسے‬
‫جٹسے وہ کلپ جل رہی تھی علتبا کو انبا آپ اس لڑکی میں تظر آنا رہا تھا۔ وہ تھی ا نسے‬
‫ہی کمرے میں نبد تھی چہاں دن رات کا کجھ اندازہ نہیں ہونا تھا۔‬
‫اس کے وہ ازنت ناک لمحات نہیں نک تھے کہ وہ انک اندھیرے نبد کمرے‬
‫میں فبد تھی لبکن کلپ آگے پڑھنی گنی۔ اس لڑکی کے شاتھ پرا ہو رہا تھا خو اننی جان‬
‫ن‬ ‫ً‬ ‫ت‬ ‫ا‬
‫عزت نحائے کو جال رہی ھی۔ علتبا ئے فورا نی وی نبد کر دنا اس سے اب د کھا پہ‬
‫گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪529 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫آنکھوں کے شا منے اجانک وہ لمحہ گزرئے لگا چب اس ئے فروا کے چہرے پہ‬


‫شانات د نکھے‪ ،‬اس کی گردن اس کے نازو۔۔ وہ کس کرب سے گزری تھی لبکن اب‬ ‫ن‬
‫شاتھ نہیں تھی۔‬
‫انشا لگبا تھا کہ وہ انک مہننہ نہلے ہی اس کے شاتھ تھی چب وہ دوبوں انک‬
‫شاتھ تھاگی تھیں۔ اس کی عزت ‪ ،‬زندگی دوبوں شاتھ تھیں لبکن فروا اس کی بو پہ‬
‫عزت نچی اور زندگی؟ جائے وہ کہاں تھی‪ ،‬ا ننے ناؤں سمتنے گھتنے ستنے سے لگائے‬
‫روئے لگی۔ نہاں اکبلے نتتھے خوف شا آئے لگا۔ آنکھوں سے زار و فطار آنسوں نہنے لگے۔‬
‫وہ نل نار نار زہن کے پردوں پہ لہرا رہے تھے۔ اتھی بو دامیر اور شب شاتھ تھے نبا‬
‫نہیں نہلے اس ئے کٹسے اس شب سے رنکور کبا تھا۔‬
‫فروا کا شو جنے اس کا دل گ ھیرائے لگا وہ اس کے جباالت سے کٹسے ناہر آئے‪،‬‬
‫اس کے شاتھ گزارا وفت نار نار آنکھوں کے شا منے آنا‪ ،‬اس کی اخڑی جالت کو ناد‬
‫کرئے دل کٹ کے رہ گبا تھا۔‬
‫خود کو روئے سے روک پہ نانی اور اس کی ششکباں الؤنج میں گونجنے لگیں۔ وہ‬
‫گھت نوں میں سر د ننے گزرے جاالت پہ ماتم کرئے لگیں۔ دل میں گلٹ شا اتھبا تھا‬
‫کہ وہ فروا کی جالت کی زمہ دار تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪530 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اگر وہ اننی فتملی کے ناس جلی تھی گنی تھی بو کبا اس کی فتملی ئے اس کو‬
‫انسی جالت میں ف نول کبا ہو گا۔ نہی شوچ شوچ کے مزند اداسی کا شکار ہو رہی تھی‬
‫اور خود پہ قابو نہیں نا رہی تھی‪ ،‬نہت کم عرصے میں وہ اس کے دل کے فرنب آگنی‬
‫تھی اور اس کی اخڑی جالت کی ناجا ہنے ہوئے تھی وہ زمہ دار ین گنی تھی۔‬
‫”کاش تم میری دوشت ہی پہ ہونی بو پہ شب پہ ہونا‪ ،‬تم خوش رہنی اب۔۔“ وہ‬
‫خود کو زمہ دار تھہرانی ہونی بولی۔ وہ زار و فطار روئے جا رہی تھی‪ ،‬رات کا اندھیرا چھا گبا‬
‫تھا اتھی نک دامیر وانس نہیں آنا تھا۔‬
‫وہ خود کو اب انک نبد کمرے میں محسوس کرئے لگی تھی‪ ،‬پہ منٹشن ندل کر‬
‫اب وہی جشنہ جال کمرہ تظر آرہا تھا۔ روسنی کا جٹسے دروازہ نبد ہو گبا تھا۔ گ ھیراہٹ کے‬
‫مارے اس کی شانس اکھڑئے لگی۔ آہٹ پہ اس ئے خود کے گرد سجنی سے نازو لت نٹ‬
‫لنے۔ آس ناس کجھ محسوس نہیں ہو رہا تھا چب گالس ڈور کھلنے کی آواز پہ وہ‬
‫ئےشاچنہ جنخ اتھی۔‬
‫”علتبا۔۔۔“ مرداپہ آواز پہ اس کی آواز نہلے سے نلبد تھی‪،‬وہ اننی گ ھیرا گنی تھی‬
‫کہ نہاں سے اتھنے کی تھی ہمت نہیں نچی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪531 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”علتبا۔۔۔“ آواز ندل گنی تھی‪ ،‬انبان نت تھری آواز پہ اس ئے سر نہیں اتھانا‬
‫تھا۔‬
‫”علتبا گ ھیراؤ نہیں میں آگبا ہوں۔“ پہ آواز! وہ وانس آگبا تھا‪ ،‬نبد کمرہ اب ندل‬
‫حکا تھا وہ وانس اسی منٹشن کے الؤنج میں موخود تھی۔ اندھیرا اب جتم ہو حکا تھا۔ کمرہ‬
‫انک نار تھر روشن ہو حکا تھا۔‬
‫ا ننے گرد پرم حصار محسوس ہوا۔ کنتنی پہ ہون نوں کا لمس۔۔ وہ اس کی خوسنو‬
‫ن‬
‫نہحان گنی تھی لبکن آ کھیں نہیں کھولیں تھی‪ ،‬اس کے گرد نازو ناندھے اس کے‬
‫ستنے میں منہ چھبائے لگی۔ دامیر ئے اس کو اننی نباہ میں لتنے نحقظ کا اجشاس نحشا۔‬
‫پرمی سے اس کے نال سہالئے اس کو اننی موخودگی کا اجشاس دالنا۔‬
‫وہ نت نوں اتھی نہنچے تھے نہاں‪ ،‬اندر آئے چب دامیر کی تظر اس پہ پڑی خو سمٹ‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫کے ھی ھی بو ک گبا۔ وہ ڈری ھی اور اس کا وخود لرز رہا تھا۔ دامیر نیزی سے‬
‫آگے پڑھا اور گالس ڈور کھوال چب وہ اجانک ڈر سے جنخ پڑی۔ چنہ اور رنان تھی شاتھ‬
‫آرہے تھے‪ ،‬رنان ئے اس کو سہارہ دے رکھا تھا۔ اندر آئے اس کو پرمی سے دوسرے‬
‫صوفے پہ نتھانا ناکہ زنادہ دپر کھڑے ر ہنے سے وہ تھکے نا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪532 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”وہ مجھے مار دے گا۔۔“ اس کے ستنے سے لگی وہ روئے کے درمبان بولی۔‬


‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫دامیر ئے سجنی سے ا ننے لب نچ لنے۔‬
‫”وہ ہم دوبوں کو مار دے گا‪ ،‬فروا کی زندگی پرناد کر دی اس ئے دامیر‪ ،‬وہ مجھے مار‬
‫دے گا۔۔“ وہ نہت زنادہ سہم جکی تھی‪ ،‬دامیرئے اس کو سجنی سے خود میں تھتنحا۔‬
‫”ڈرنک۔۔۔“ رنان کی نیز گرجدار آواز الؤنج میں گونچی۔‬
‫ڈرنک خو نہلے ہی ان کی آمد سے ناچیر تھا رنان کی سحت تکار ستبا تھاگبا ہوا اندر‬
‫آنا۔‬
‫”جی سر۔۔“ وہ ان کے ناس کھڑا بوال چب اس کی تظر تھی علتبا کی طرف اتھی‬
‫خو دامیر سے لتنی تھی۔‬
‫”کبا ہوا ہے نہاں خو متم کی پہ جالت ہونی ہے۔۔“ رنان ئے ڈرنک کو دنکھنے‬
‫سرد لہچے میں بوچھا خو اس کے دنکھنے پہ خود گ ھیرا اتھا۔‬
‫”مغلوم نہیں سر‪ ،‬متم نہیں پہ مووی دنکھ رہی تھیں شس۔۔ شب تھبک‬
‫تھا۔“ ڈرنک کتھی رنان کو دنکھبا بو کتھی دامیر کو دنکھبا۔‬
‫”بو تھر متم کی انسی جالت ک نوں چب شب تھبک تھا۔۔“ رنان نل میں‬
‫مسیغل ہونا ڈرنک کی گردن دبوجبا ہوا اس سے شوال کرئے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪533 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آنی اتم شوری سر۔۔۔“ وہ نامسکل بول نانا کہ رنان ئے انک چھبکے سے اس‬
‫کی گردن چھوڑی۔‬
‫”نمہیں نہاں رکھا تھا کہ متم کا دھبان رکھبا بو کہاں تھے تم۔۔“ اس پہ ڈھارنا ہوا‬
‫بوال ڈرنک سرمبدہ شا سر چھکا گبا۔ اب اننی متم کی جالت کی وجہ وہ خود نہیں جانبا‬
‫تھا۔‬
‫”آ نتبدہ کتھی الپرواہی پرنی بو میں نمہیں شوٹ کرئے سے نہلے انک نل تھی‬
‫نہیں شوخوں گا۔“ رنان ئے اس کو ننتبہہ کی جس پہ وہ تگاہیں چھکا کے انبات میں‬
‫سر ہال گبا۔‬
‫”دفع ہو جاؤ نہاں سے۔۔“ اس کی گرج دار آواز ستنے ڈرنک وہاں سے جا حکا‬
‫تھا۔‬
‫”دامیر اسے روم میں لے جاؤ‪ ،‬وہ ڈری ہے نہت۔“ رنان ئے علتبا کو دنکھنے‬
‫ہوئے کہا جس پہ دامیر ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫دامیر ئے علتبا کا چہرہ شا منے کرنا جاہا لبکن وہ ہ نوز اس کے شاتھ لتنی رہی۔‬
‫دامیر ئے اس کو نازوؤں میں تھرا اور کمرے میں لے جائے لگا۔ اس کو گ ھر اکبال چھوڑ‬
‫کے وہ علطی کر نتتھا تھا اس کو اجشاس ہو رہا تھا کہ اسے اکبال نہیں چھوڑنا جا ہنے تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪534 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آؤ نمہیں تھی روم میں لے جاؤں۔“ دامیر کے جائے کے تغد رنان ئے چنہ‬
‫سے کہا جس پہ وہ کھڑی ہوئے کو تھی چب اس ئے آگے پڑ ھنے اس کو اتھا لبا کہ‬
‫چنہ سنتبا اتھی‪ ،‬اجانک دل کی دھڑکن پڑھی۔ وہ اس سے پہ امبد نہیں کرنی تھی۔‬
‫”پہ کبا ندنمیزی ہے۔۔۔“ اس کی خرکت پہ وہ نلمال اتھی تھی۔‬
‫”کتنی دفع م یع کبا ہے کہ مجھے ہاتھ مت لگاؤ۔“ اس کو نبڈ پہ نتھائے ہوئے‬
‫چب ننجھے ہبا نب چنہ عصے سے بولی۔‬
‫”چھوڑ آؤں وانس۔۔“ اس کی نات پہ وہ خڑانا ہوا بوال جس پہ وہ سر چھبک گنی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫چب چنہ کو وہ لوگ اتھائے انک گاڑی میں نتھائے لگے بو اس کے خواس اتھی‬
‫تھوڑے قاتم تھے وہ شب دنکھ رہی تھی لبکن کجھ تھی کرئے کی جالت میں نہیں‬
‫تھی۔ اس کو اسی نٹشمنٹ والے اپرنا میں ہی النا گبا تھا۔ وہ اس ر سنے کو نہحاننی تھی۔‬
‫اس کو الئے ہی انک کرسی پہ نتھانا گبا‪ ،‬شا منے کھڑے وخود کو وہ نہحان گنی‬
‫تھی۔ اس کو کرسی پہ دھکبلنے ہی اس کے چہرے پہ زور دار انک مکہ مارا گبا جس سے‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬
‫وہ نامسکل ہی ا ننے ہوش نحال کر نانی۔ اس ئے آ یں یں ھو یں ھی نا ہی‬
‫ل‬ ‫ک‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ھ‬
‫کونی ردعمل طاہر کبا تھا کہ ان کو مغلوم ہونا وہ خواس میں تھی۔ خو اس کو شونی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪535 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫جتھونی گنی تھی وہ انبا اپر بورا بو نہیں لبکن تھوڑا دکھا گنی تھی۔ چب مقانل کا انک‬
‫مکے سے دل پہ تھرا بو دو نین مکے اور مارے جس سے اس کا ہونٹ کا کبارہ ت ھٹ‬
‫گبا تھا۔ ڈرنبا! وہ اس پہ انبا عصہ تکال رہی تھی۔‬
‫”نیری اننی ہمت تھری محقل میں میری انشلٹ کرے۔“ اس کے منہ کو‬
‫دبو جنے ہوئے وہ عرانی اور چھبکے سے اس کا چہرہ چھوڑا۔ اس کی نہنی جبکٹ کو انارے‬
‫وہ کجھ اور ہی کرئے کا ارادہ رکھنی تھی چب کسی ہ یگامے کی وجہ سے وہ نیزی سے‬
‫نلنی۔ اس کو عحلت میں ناند ھنے لگے۔ چنہ اتھی تھی ئے جس و خرکت پڑی تھی۔‬
‫”منحوس لوگ۔۔۔“ انک ن یفر تھری تظر اس پہ ڈا لنے ہوئے وہ نیزی سے وہاں‬
‫سے تکلی۔‬
‫ڈرنبا اس کو نہاں اغوا کر کے النی تھی اور اب اس کی موت بو نکی تھی لبکن‬
‫آج ڈرنبا کی قشمت اچھی تھی بو اس کو نہاں النی چھوڑ کے جلی گنی تھی۔‬
‫اس کے ناس دو نبدے کھڑے تھے خو اس پہ تظر ر کھے کھڑے تھے۔‬
‫چنہ ئے زرا کی زرا نلکوں کو جنٹش دی۔ اس کی گردن لڑکھی تھی بو ہلکی سی‬
‫چ‬ ‫ل‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ک‬
‫آ یں وا کرنی ہونی آس ناس د ھنے گی۔ ھونا شا مرہ اور دو آدمی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪536 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کے ہاتھ ننجھے نبدھے اور ان نکموں کی صالجنت وہ ہاتھ ناند ھنے سے ہی‬
‫جان جکی تھی۔ زنادہ نگ و دو نہیں کرنا پڑی تھی‪ ،‬انک نار کوشش کرئے پہ ہی اس‬
‫ئے ہاتھ کھول لنے تھے لبکن رسی کو اس ئے تھام کے رکھا تھا۔ گول نوں کی آواز ناہر‬
‫سے آنی بو چنہ کو اندازہ ہو حکا تھا کہ رنان نہاں آرہا تھا اور نتھی اس کی کرسی اتھائے‬
‫وہ لوگ اس جگہ لے جائے لگے چہاں شب موخود تھے۔‬
‫ہاتھ بو اس ئے کھول ر کھے تھے اب نس موفع کا ان یطار تھا۔ ڈرنبا بو اس کے‬
‫ہاتھوں ہی اننی جان گ نوائے گی۔ پزدل کہیں کی‪ ،‬جٹسے ہی رنان ئے ناف نوں کا دھبان‬
‫انبا جانب میزول کبا وہیں موفع کے قاندہ اتھائے اس ئے اننی گن شوز شانبڈ سے‬
‫چ‬ ‫ل‬ ‫ً‬
‫ت‬
‫تکالے فورا شاشا پہ قاپر کبا۔ جس کا ندلہ نے وہ اس کو ز می کر حکا تھا۔‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫چ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ک ن‬
‫اور اب وہ نبڈ پہ نانگ سبدھے نے ھی ھی۔ ز م انبا ھی جان نوہ یں تھا‬
‫ب‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ت ً‬
‫کہ وہ کجھ دبوں نک اسی کا ماتم کرنی رہنی۔ درد اب فرنبا م تھا۔ وہ ر کس انداز یں‬
‫م‬ ‫ل‬ ‫ت‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫ھی انبا مونا ل ج ک کر رہی ھی۔ اس جال کی فو نج ج ک کر رہی ھی چہاں پہ شب‬
‫موخود تھے۔‬
‫کمرے سے شادی کی وہ سحاوٹ جتم کر دی گنی تھی خو ہلکا شا انبا سجر تھو نکنے‬
‫میں تھی کامباب پہ ہو شکی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪537 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان شاور لے رہا تھا‪ ،‬چنہ اننی دپر میں انبا لباس ندل جکی تھی اور آرام دہ پراؤزر‬
‫ن‬
‫سرٹ میں مل نوس نبک لگائے تتھی تھی۔‬
‫”کہاں نک گبا کام نمہارا۔۔؟“ رنان شاور لنے تکال بو نالوں میں بولنہ رگڑئے تظر‬
‫آنا‪ ،‬سرٹ سے ندارد رنان’ اس کو انک تظر دنکھنے ڈرنسبگ مرر کے آگے کھڑا ہوا۔‬
‫چنہ ئے ئےدھبانی میں اس کو دنکھا کہ سنتبا اتھی تھر اننی تگاہ وانس مونانل‬
‫کی طرف کی۔ رنان اس کا کیرانا سمجھ گبا تھا نتھی ہون نوں پہ شاطر مسکان آسمانی۔‬
‫اب اس کے زہن سے نالکل تکل گبا کہ رنان ئے اس سے کبا بوچھا تھا۔‬
‫”تم ئے کبا کہا؟“ چنہ ئے ستتھلنے ہوئے کہا۔‬
‫”میں بوچھ رہا تھا کہ کبا تم آج رات میرے نالکل فرنب شونا نسبد کرو گی؟“ انبا‬
‫لہحہ جنی االمکان سنجبدہ رکھنے اس ئے آ نتنے میں چنہ کا عکس دنکھا خو اس کی نات پہ‬
‫انک نل کو تھم گنی لبکن تگاہ پہ اتھانی۔‬
‫”میں اس کمرے میں موخود ہوں پہ کاقی ہے۔۔“ اس ئے جبانا جاہا۔‬
‫”دوسرے کمرے میں تھی ہونی بو میں وہاں تھی آجانا‪ ،‬مسبلہ کمرے میں رہبا‬
‫نہیں‪ ،‬مسبلہ پہ دوری ہے خو مجھ سے بو پرداشت نہیں ہونی۔۔“ رنان جلبا ہوا ا نسے‬
‫ہی اس کے فرنب آنا اور دوبوں ہاتھ اس کے دانیں نانیں رکھنے اس پہ چھکا۔۔ چنہ اس‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪538 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کے اجانک اس جالت میں فرنب آئے پہ بوکھال اتھی۔ مار ڈھار میں جاہے جتنی تھی بولڈ‬
‫ہو لبکن ا نسے جاالت کا اس ئے کتھی گمان ہی نہیں کبا تھا۔‬
‫”تم قاصلے پہ رہ کے مجھ سے گقبگو کر شکنے ہو۔۔“ چنہ ئے اس کی آنکھوں میں‬
‫دنکھنے کہا۔‬
‫”تم تھر قاصلے کی نات کر رہی ہو۔۔ ہماری شادی جس نتباد پہ ہونی ہے اس‬
‫ن‬
‫کو قاتم رکھبا ہمارا فرض ہے۔۔“ رنان اس کی آنکھوں میں اننی گرے آ کھیں گاڑنا ہوا‬
‫بوال۔‬
‫”میرج آف االننٹس! میں قاتم ہوں اس ر سنے پہ لبکن زپردسنی خود کو مجھ پہ‬
‫مشلط نہیں کر شکنے۔۔“ چنہ ئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے خود سے دور کبا خو‬
‫مزند اس پہ چھک رہا تھا۔‬
‫رنان ئے اس کا مونانل نبد کرئے شانبڈ پہ رکھا اور اننی گہری تگاہیں اسی پہ‬
‫تکائے ہوئے اس کی تھوڑی کو تھامے اجانک اس کا چہرہ ا ننے چہرے کے مقانل‬
‫کبا۔ رنان کی اس ئےناک خرکت پہ وہ بوکھال اتھی‪ ،‬اس ئے ا ننے ناجن اس کی‬
‫کبدھے پہ جتھوئے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪539 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان کے ننجھے ہتنے خود کا ن یقس ستتھا لنے اس ئے ئےتفتنی تگاہوں سے اس‬
‫کو دنکھا۔ اس کے ہاتھ کانتبا سروع ہو گنے تھے‪ ،‬رنان ئے واصح محسوس کبا کہ وہ‬
‫نتبک ہو گنی تھی اور اس کی غیر ہونی جالت اس کی سمجھ سے ناہر تھی۔‬
‫”رنان نس اب۔۔ ننجھے ہ نو۔“ اس کی مزند نٹش قدمی پہ وہ ہکالئے ہوئے بولی‬
‫اور نبڈ سے ہی اتھ گنی‪ ،‬دھڑکن جد سے شوا تھی۔‬
‫” ہنے ہنے۔۔۔“ رنان اس کے ا نسے اتھنے پہ اس کو تھا منے کے لنے آگے پڑھا‬
‫لبکن اس ئے ہاتھ کے اشارے سے روک دنا۔ وہ کاقی زنادہ نتبک ہو گنی تھی رنان‬
‫کی سمجھ سے ناہر تھا کہ اس ئے انشا تھی کبا کر دنا خو وہ ا نسے ری انکٹ کر رہی‬
‫تھی۔‬
‫ہ‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫چب رنان ئے اس کو شائے سے تھامبا جاہا بو وہ ندک کے ھے نی۔‬
‫”نلیز۔۔۔ مجھے اکبال رہبا ہے۔“ اس ئے تگاہیں مالئے تغیر کہا بو رنان تھتھک‬
‫کے رک گبا۔ کجھ بو تھا خو چنہ کو پرگر کبا تھا جس کی وجہ سے وہ اجانک بوکھال اتھی‬
‫تھی۔‬
‫گ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫م‬ ‫ک‬ ‫ج‬
‫رنان اس کی کبڈنشن ھنے ہوئے ھے ہٹ گبا‪ ،‬چنہ مرے یں موخود الس‬
‫ڈور کو دھکبلنی ہونی ناہر کھڑی ہونی خو الن کی طرف تھی۔ وہاں کھڑے لمنے گہرے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪540 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شانس لتنے لگی۔ رنان کے فرنب آئے سے کونی کراہ نت محسوس نہیں ہونی تھی لبکن‬
‫ت س‬
‫انک عج نب سی جالت ہو جانی تھی اس کی خو وہ خود ھی ھنے سے قاضر ھی۔‬
‫ت‬ ‫ج‬‫م‬
‫دنبا میں لوگ ا ننے افئیرز تھی جالئے اور اننی رات رنگین کرئے کو چب دل کرنا‬
‫کسی پہ کسی کے شاتھ وفت گزار لتنے وہ خود تھی انسی ہی دنبا سے تھی لبکن اننی جدود‬
‫کو ا چھے سے جاننی تھی۔‬
‫اور شادی! وہ بو کتھی شوجا ہی نہیں تھا کہ کتھی شادی تھی کرنی اور انک مرد‬
‫اس کی زندگی میں رہبا۔ رنان فرنب آئے واال نہال مرد تھا لبکن اننی جلدی تھی اس کے‬
‫شاتھ ک یفرنتبل نہیں ہو نانی تھی۔ اس کو الرجی تھی ا نسے چھوئے جائے سے۔ اس‬
‫کا دل گ ھیرائے لگبا تھا۔ پہ عادت اس کی اب سے نہیں تھی‪ ،‬نچین سے تھی نتھی وہ‬
‫کسی سے انبا اننحڈ نہیں ہونی تھی۔ وفنی طور کے لنے وہ کسی کے شاتھ نتتھ شکنی تھی‬
‫نانیں کر شکنی تھی ہاتھ مال شکنی تھی لبکن خو رنان جاہبا تھا اس سے وہ گ ھیرا جانی‬
‫تھی۔‬
‫رنان کو اگر اس کی عادت نبا جلنی بو ضرور اس کا مزاق نبانا‪ ،‬وہ کتنی دپر وہیں‬
‫جاموسی میں کھڑی خود کو سمجھانی رہی۔ جائے ک نوں اس نل اننی ماں کی ناد آئے‬
‫لگی۔ چہرے کے ناپرات سباٹ ہو گنے جبکہ آنکھوں میں نمی آئے لگی۔ وہ اننی ماں‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪541 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کے عالوہ کسی سے تھی اننی اننحڈ نہیں تھی اور اننی ماں کے شاتھ اس ئے وفت‬
‫تھی نہت کم گزارا تھا اور اجانک ماں کی ناد آرہی تھی۔ اس کو اجشاس ہوا کہ ا نسے‬
‫اوور ری انکٹ نہیں کرنا جا ہنے تھا۔‬
‫اتھی وہ اندر جائے کو تھی چب ا ننے شابوں کے گرد نازو محسوس ہوئے۔ نازو کو‬
‫دنکھنے اس ئے گردن گھمانی رنان پرم تگاہوں سے اس کو دنکھ رہا تھا۔‬
‫”پہ نس میری انک خرکت کی وجہ سے نمہیں نتبک انبک آنا تھا؟“ وہ نہت پرمی‬
‫سے اس کو کہہ رہا تھا۔‬
‫”آنی اتم شوری‪ ،‬میں زنادہ ری انکٹ کر گنی تھی۔“ چنہ ئے سنجبدگی سے کہا‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫جائے وہ کبا ھبا اس کو۔‬
‫”جبکہ نمہیں نس سرمانا جا ہنے تھا۔“ رنان ئے سنجبدگی سے کہا جس پہ چنہ اس‬
‫کو گھورئے لگی کہ اب پہ کام بو اس سے نہیں ہونا تھا۔‬
‫”اس شب کے ننجھے انک وجہ ہے خو مجھے جاننی ہے۔“ شائے سے تھامے اس‬
‫ئے چنہ کو ا ننے مقانل کبا‪ ،‬چنہ ئے اننی گہری تگاہ اتھا کے اس کو دنکھا خو نالکل‬
‫سنجبدہ تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪542 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے اننی واتف کے نارے میں شب جانبا ہے۔“ اس کے چہرے پہ انبا ہاتھ‬
‫رکھنے ہوئے بوال اور اس کو آہسبگی سے ا ننے ناس کرئے ستنے سے لگانا۔‬
‫”ک یفرنتبل پہ ہو بو نبا شکنی ہو۔“ رنان اس کو ک یفرٹ زون د نبا جاہبا تھا نتھی‬
‫اس کو ا ننے پرم حصار میں رکھا۔ چنہ جاموش سی اس کے حصار میں تھی‪ ،‬دل کی‬
‫دھڑکن انک نار ڈوب کے اتھری لبکن اس ئے گہرا شانس ت ھرئے خود کو ستتھاال۔ اس‬
‫ئے خود کے نازو اس کے گرد نہیں ناندھے تھے نس کھڑی رہی۔‬
‫”نبکشٹ ڈانمبڈ ڈنل میں کرئے جاؤں گا تم نہیں۔“ انک دم ہی رنان ئے‬
‫س‬
‫نات کا ُرخ نلبا کہ چنہ اس سے دور ہونی نا ھی سے د کھنے گی۔‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫م‬
‫ل‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”اور اس کی وجہ؟“ وہ نا ھی سے بوچھنے گی۔‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫َ‬
‫”اب آالننٹس میں میں ھی شا ل ہوں بو پہ ڈ ل میں کروں گا پہ نات میں‬
‫مبکس سے کر حکا ہوں اور نمہارا کونی اغیراض نہیں جا ہنے مجھے۔“ رنان ئے سنجبدگی‬
‫سے اننی نات اس کے شا منے رکھی کہ چنہ کے ما تھے پہ نل نمودار ہوئے۔‬
‫”ڈانمبڈز کی ڈنل ہمٹشہ میں کرنی ہوں اور پہ میرا پزنس ہے تم ئے خو آالننٹس‬
‫اننی سنٹ کی ہیں انہیں پہ دھبان دو۔“ چنہ ئے اس کو جٹسے ا ننے پزنس سے دور‬
‫ر ہنے کو کہا جس پہ وہ ہٹس دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪543 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”لبکن پہ ڈنل میں کروں گا ملٹسکا اور تم شاتھ جائے کی صد تھی نہیں کرو‬
‫گی۔“ اس کے رجشار کو چھوئے ہوئے وہ مشکرا کے بوال اور کمرے کی طرف پڑ ھنے لگا‬
‫قلحال کے لنے چنہ جاموش رہی۔‬
‫کمرے میں وانس آنی بو وہ سرٹ نہن رہا تھا چب چنہ کی تگاہ اس کے نشت پہ‬
‫گنی چہاں کبدھے پہ انک سبانیر کا نت نو تھا۔ اس کے نام کی طرح نت نو تھی‪ ،‬جٹسے چنہ‬
‫کے نازو پہ تھا۔‬
‫”میری عادت ڈال لو ک نونکہ ہر نار نمہارے نتبک ہوئے سے میں دور نہیں‬
‫جائے واال۔۔“ وہ نبڈ کی جانب پڑھی کہ رنان کی آواز ستنے رک گنی۔‬
‫”اننی مبڈنشن کھا کے شونا۔“ رنان ئے ناد دالنا الزمی سمجھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫دامیر ئے اس کو پرمی سے نبڈ پہ لبانا جاہا جس ئے اس کی گردن کے گرد نازو‬
‫چمانل کر ر کھے تھے لبکن اس کو چھوڑئے کی روادار پہ تھی۔‬
‫”رنلبکس پرنسٹس۔۔ میں ادھر ہی ہوں نمہارے ناس۔“ اس ئے پرمی سے اس‬
‫کی کمر سہالئے ہوئے کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪544 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم ک نوں نہیں اس کو ڈھ نوڈ رہے‪ ،‬نمہارے ناس ا ننے گارڈز ہیں ان کو کہو کہ‬
‫فروا کو ڈھونڈ کے النیں۔“ دامیر کے کہنے وہ ننجھے ہتنی شکوہ کرنی ہونی بولی‪ ،‬مشلشل‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬
‫روئے کی وجہ سے اس کی ناک اور رجشار سرخ ہو جکے تھے جبکہ آ یں ھی شوج رہی‬
‫ھ‬
‫تھیں۔‬
‫”علتبا‪ ،‬اس نات کو نین شال ہو گنے ہیں ہو شکبا ہے وہ اننی زندگی میں خوش‬
‫ہو۔۔ اس نات کو عرصہ ہو گبا ہے کبا نبا نمہیں مغلوم ہو لبکن اتھی نمہیں ناقی نابوں‬
‫کے شاتھ ناد پہ ہو۔۔“ دامیر ئے اس کے ہاتھ تھامے اس کو سمجھانا جاہا۔‬
‫”نمہیں لگبا ہے عرصہ ہو گبا ہے لبکن مجھے نہیں‪ ،‬مجھے اتھی تھی انشا محسوس‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ہ‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫ہونا ہے کہ وہ شب آدمی اتھی تھی ہمارے ھے یں‪ ،‬سی ھی وفت وہ نہاں آ یں‬
‫گے اور مجھے لے جانیں گے اور فروا تھر اسی عذاب میں چھونک دی جائے گی۔“ اس‬
‫ن م ج ً‬
‫کی سرٹ کو متھی میں تھرے وہ دھتمے مگر اس کی کڑ یں ا نحاجا رونی ہونی بولی۔ دامیر‬
‫ئے اس کے نال سنوارئے اس کے چہرے کو تھاما۔‬
‫”میں ڈھونڈوں گا اس کو‪ ،‬کل ہی میں شب مغلوم کرنا ہوں لبکن میری جان‬
‫اتھی کے لنے ہم دوبوں کو تکل یف پہ دو۔۔“ اس کو زپردسنی خود سے لگائے ہوئے‬
‫بوال۔ دامیر کو اس کو اکبال چھوڑ کے جائے پہ اقسوس ہو رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪545 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ت‬
‫”اس کو ڈھونڈو وہ میری وجہ سے ھٹسی تھی دامیر۔۔“ علتبا کی آواز میں تکل یف‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫محسوس کرئے وہ لب نچ گبا۔‬
‫اس کو فرنش ہونا تھا‪ ،‬جتنج کرنا تھا ک نونکہ کیڑوں پہ خون کی چھنتنے تھیں۔‬
‫تھوڑی دپر وہ اس کے ناس نتتھا رہا چب روئے میں کمی آنی بو آہشنہ سے اتھنے‬
‫لگا لبکن علتبا ئے ہاتھ تھام لبا۔‬
‫”سمبل آنی گی مجھ سے‪ ،‬فرنش ہوئے جا رہا ہوں نس۔“ اس کا انبا کہبا تھا کہ‬
‫علتبا ئے اس کا ہاتھ چھوڑ دنا۔ دامیر ا ننے کیڑے لتبا ناتھ روم میں نبد ہوا۔‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫وانس آنا بو علتبا آ کھیں نبد کنے نبک لگائے تتھی تھی۔‬
‫علتبا کے نبا کہے ہی وہ اس کی شانبڈ پہ آنا ک یفرپر اتھائے نتتھ گبا‪ ،‬علتبا تھوڑا‬
‫شا کھشکی اور دامیر کے نتتھنے ہی انبا سر اس کے ستنے پہ تکا دنا۔ نازو اس کے گرد‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ناندھے وہ آ یں موند نی۔ دامیر کو اچھا لگا تھا کہ وہ اس کے ہوئے سے اب اچھا‬
‫چ‬
‫محسوس کرنی تھی اور اس کی ک ھی اب م ہو نی ھی۔‬
‫ت‬ ‫گ‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ج‬‫ھ‬
‫اس وفت علتبا کو کونی نات نہیں کرنی تھی نس اننی دوشت کی تکل یف کا‬
‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ک‬
‫شو جنے نار نار آ یں اشک نار ہو رہی یں۔ دامیر دوبوں پہ فرپر د ننے اس کے نالوں‬
‫کو سہالئے لگا ناکہ وہ تھوڑا پرشکون رہے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪546 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نی وی دنکھ رہی تھی؟“‬


‫کجھ نل سرکے بو دامیر ئے مدھم آواز میں بوچھا وہ جانبا تھا کہ علتبا شو نہیں رہی‬
‫تھی‪ ،‬اس کے شوال پہ علتبا ئے ہلکے سے انبات میں سر ہالنا کہ وہ سمجھ گبا کہ کجھ‬
‫نی وی پہ ہی دنکھ لبا تھا اس ئے۔‬
‫”آ نتبدہ اکبلے نہیں نتتھبا تم ئے کہیں۔۔“ اس کی کنتنی پہ ہونٹ رکھنے ہوئے‬
‫بوال۔‬
‫”نمہاری خوٹ کٹسی ہے؟“ اجانک ناد آئے پہ اس ئے بوچھا کہ دامیر خوتکا کون‬
‫سی خوٹ۔‬
‫”کون سی؟“ اس ئے ئےشاچنہ کہا۔‬
‫”نازو اور کبدھے پہ آنی تھی نا۔“ علتبا ئے ناد کروائے کہا۔‬
‫”تھبک ہے معمولی سے زچم ہیں تھبک ہو جانیں گے‪ ،‬اب کٹشا فبل کر رہی‬
‫ہو؟“ اس کے چہرے سے نال ہبائے کان کے ننجھے اڑ سنے ہوئے پرمی سے بوچھنے‬
‫لگا۔‬
‫ک ن‬
‫”تھبک۔۔۔“ انک لقطی خواب د ننے تھر سے ستنے پہ سر ر ھے آ یں موند‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪547 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اتکل نہیں آئے آپ لوگوں کے شاتھ؟ میں چنہ سے ملی تھی نہیں کبا شوچ‬
‫رہی ہو گی وہ۔“ اس کے خواس کجھ ستتھلے بو نادم سی بولی شاتھ ہی مبکس کا بوچھنے‬
‫لگی خو وافعی اب جٹسے اس سے عاقل ہو جکے تھے۔‬
‫”اتکل پزی ہیں آج کل‪ ،‬صنح نا سنے پہ مل لتبا چنہ سے۔۔“ اس کے نالوں پہ‬
‫ہونٹ ر کھے کہنے لگا۔‬
‫”کھانا کھا لبا تھا؟“ اس کے ہاتھ کو ا ننے ہاتھ میں لتنے وہ بوچھنے لگا کہ علتبا ئے‬
‫انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”تم ئے کھانا۔۔؟“ علتبا کو اجشاس ہوا کہ وہ لوگ تھکے آئے تھے اور اس کی‬
‫وجہ سے اجانک پرنشان ہو گنے ہو نگے۔‬
‫”نہیں اور کونی جاص طلب تھی نہیں ہے۔“ دامیر ئے کبدھے احکائے۔‬
‫علتبا اب نہلے کی نانسنت کجھ پرشکون تھی۔ دامیر ئے اس کے ہاتھ کو ل نوں‬
‫سے لگانا وہ کتنی ندل جکی تھی نا جاالت ئے اس کو کتبا ندال تھا۔ چب نہلی نار ان کی‬
‫مالقات ہونی تھی وہ کتنی پراعتماد تھی۔ جادنات ئے اس کو کتبا کمزور نبا دنا تھا۔ نین‬
‫شال نہلے تھی مبکس کو اس کی جالت دنکھنے ڈاکیر کے ناس لے جانا پڑا تھا ناکہ ان‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪548 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وافغات کو وہ زہن سے تکال نائے۔ اب تھر وہ انہیں وافغات کو شوچ رہی تھی۔‬
‫م‬
‫فروا! اس کے نارے میں اس کو کمل مغلوم کروانا تھا اب۔۔‬
‫چنہ ئے نبانا کہ ڈرنبا ئے اس پہ چملہ کبا تھا تعنی اس کا کانیرنکٹ اتھی تھی‬
‫جل رہا تھا لبکن اس نار ڈرنبا ئے اننی مرضی سے کام کبا تھا تعنی نس وار کبا تھا جان‬
‫ل نوا چملہ نہیں۔ وہ اتھی تھی چنہ کے ننجھے تھی‪ ،‬انہوں ئے صجنح شوجا تھا کہ ڈرنبا کتھی‬
‫علتبا کی دوشت تھی ہی نہیں۔‬
‫علتبا اس کے ہاتھ کی اتگل نوں کو کتھی الجھانی بو کتھی کھول د ننی‪ ،‬دامیر ئے‬
‫اس کا نہی ہاتھ تھامے اس کے چہرے کو اوپر کبا اور گردن کو پرمی سے چھوا‪،‬‬
‫اجانک ہونی کاروانی پہ وہ گڑپڑا گنی۔‬
‫”مجھے نہت نتبد آرہی ہے۔۔“ وہ ہلکا شا متمبانی کہ انک مبہم سی مشکراہٹ‬
‫دامیر کے ل نوں پہ آسمانی۔‬
‫”شو جاؤ۔۔۔“ ہٹس کے اس کے ہاتھ کو خومبا ہوا بوال کہ اس کے حصار میں‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫آ یں موند نی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


549 | P a g e

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


ِ ‫ش‬

Visit for more novels: www.urdunovelbank.com


‫‪550 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫صنح نا سنے کے تغد ڈرنک‪ ،‬رنان اور دامیر نت نوں شک نورنی روم میں موخود تھے۔ چنہ‬
‫علتبا کو لنے ناہر الن میں تھوڑی کسرت کروا رہی تھی۔‬
‫”اگر کسی گتبگ ئے اننی جان نحانی ہو بو شب سے نہلے وہ کراؤنڈ ہبڈ میں‬
‫جائے گا ن نوپرل گراؤنڈ ہے چہاں کونی جان سے نہیں مار شکبا البا اس کو گارڈ کبا جانا‬
‫ہے۔“ رنان ئے ستنے پہ نازو ناندھے شا منے نئیرز کا نکھراوا دنکھنے ہوئے بوال۔‬
‫”ہم سر جارج سے مغلوم کر لیں گے اگر فباد وہاں رکا تھی بو۔۔“ دامیر ئے کہا‬
‫بو رنان ئے اس کو آپرو احکائے دنکھا۔‬
‫”اننی آشانی سے بو وہ نبائے والے نہیں ہمیں۔“ ڈرنک کے کہنے پہ دوبوں ئے‬
‫نانبد انداز میں سر ہالنا۔‬
‫”نٹشا ہر چیز کو خرند لتبا ہے۔“ دامیر ئے الپرواہی سے کہا کہ انک معنی چیز‬
‫مسکان رنان کے ہون نوں پہ آنی۔‬
‫”فباد کو شب سے نہلے شوپزرلتبڈ میں ہی دنکھبا ہو گا کجھ پہ کجھ بو مل ہی جائے‬
‫گا اور میں تفین سے کہہ شکبا ہوں مبکس اس سے تھی زنادہ جا ننے ہیں کجھ۔۔“‬
‫دامیر کے کہنے پہ رنان ئے تھی انبات میں سر ہالنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪551 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫” ہلکے میں لے رہے ہیں ہمیں وہ‪ ،‬کڈن نپ کر کے ان سے اگلوا نا لیں ہم‬
‫شب۔۔“ رنان کے مسورے پہ دامیر اس کو گھورئے لگا۔‬
‫”علتبا کو نس انبا ناد تھا کہ وہ نچ گنی تھی لبکن اس کے تغد وہ کہاں رکیں پہ‬
‫شب مبکس جا ننے ہیں۔ کال کرو ان کو۔۔“ دامیر ئے اننی ہلکی پڑھی سنو ک ھحائے‬
‫ہوئے کہا۔ ڈرنک ئے سر ہالئے مونانل تکاال۔‬
‫”اس وفت کہاں ہیں آپ‪ ،‬ضروری نات کرنی ہے۔“ دامیر ئے مبکس کے فون‬
‫اتھائے ہی نبا نمہبد کے کہا۔‬
‫”ضروری نات کے تغیر تم لوگوں ئے کتھی کال تھی نہیں کی۔“ مبکس کے‬
‫طیزپہ انداز پہ رنان سر چھبک کے رہ گبا۔‬
‫”مبکس! فروا کہاں ہے؟“ دامیر کے بوچھنے پہ دوسری جانب جبد نل جاموسی‬
‫چھانی رہی۔‬
‫”ان نابوں کو نین شال ن نت گنے ہیں دامیر۔۔ اب چب شب تھبک ہے بو‬
‫دونارہ ک نوں انہیں نابوں کی کھال ادھیڑ رہے ہو۔ نمہیں نس علتبا کی حقاظت کرنی‬
‫ہے۔“ مبکس ئے سحت لہچے میں کہا کہ نات کو گھمائے پہ دامیر کے چہرے پہ سرد‬
‫ناپرات واصح ہوئے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪552 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”علتبا کی حقاظت کرنی ہے بو چب نک آپ مجھے سچ نہیں نبانیں گے میرا شک‬


‫آپ پہ ہی جائے گا۔“ دامیر ئے واصح القاظ میں ان کو جبانا۔‬
‫”مجھ پہ شک۔“ ان کی ئے تفتنی میں ڈونی آواز اتھری۔‬
‫”فروا کہاں ہیں آپ جا ننے ہیں نہت ا چھے سے۔“ دامیر ئے انل لہچے میں کہا۔‬
‫”دنکھو دامیر علتبا نہت مسکل سے اس فیز سے تکلی تھی تم فروا کا زکر اس کے‬
‫شا منے مت کبا کرو۔“ مبکس اتھی تھی نات کو گھما رہے تھے جس پہ دامیر کا مئیر‬
‫ن‬
‫شاٹ ہوئے لگا جبکہ رنان ئے ئےزارنت سے آ کھیں گھمانیں۔‬
‫”وہ اس فیز میں وانس آجکی ہے اور اس میں سراسر علطی آپ کی ہے۔۔ اگر‬
‫مجھے تغد میں مغلوم ہوا کہ اس میں آپ کا ہاتھ تھا بو ۔۔۔“ اس سے نہلے رنان مزند‬
‫کجھ کہبا مبکس کی کاننی آواز پہ وہ چپ ہوا۔‬
‫”فباد لے گبا تھا اسے۔۔“‬
‫رنان اور دامیر نبک وفت خو نکے۔‬
‫”علتبا جاننی ہے اس نات کو؟“ دامیر ئے چہرے پہ ہاتھ ت ھیرئے بوچھا کہ فباد‬
‫کا نام ستنے اس کا عصہ پڑھبا جا رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪553 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”علتبا انہیں نابوں کو تھولی ہونی ہے شکر ہے‪ ،‬ان کو چب رنشک نو کبا تھا نب‬
‫فباد ئے انک نار تھر چملہ کبا تھا جس پہ علتبا کو نحا لبا تھا لبکن وہ فروا کو لے گنے‬
‫تھے۔“ مبکس کی نات پہ دامیر اور رنان ئے انک دوسرے کی جانب دنکھا چب ڈرنک‬
‫نیزی سے لنپ ناپ ان کے شا منے النا۔‬
‫”آپ کی جانب سے ان ئےوفوف نوں کی امبد نہیں تھی۔ پہ نانیں چھبا کے‬
‫جائے آپ ئے کون شا قاندہ نہنحانا ہے علتبا کو۔“ دامیر ئے ناگوار لہچے میں کہنے کال‬
‫کاٹ دی۔‬
‫”فباد نامی کبا‪ ،‬ڈرنبا کا کبا نبا۔“ رنان ئے ڈرنک کو دنکھا جس ئے لنپ ناپ‬
‫آگے کبا۔‬
‫”ڈرنبا البانبا سے چب اکبڈمی آنی تھی بو اشاشن کی پرنتبگ لے رہی تھی اور جال‬
‫ہی میں اس کو چنہ متم کو اشاشن کرئے کا کانیرنکٹ مال ہے لبکن دو نار ناکام ہونی‬
‫ہے۔ پہ نات تھی نبا جلی ہے کہ وہ جاکم کی فبانسی ہے۔۔“ ڈرنک ئے اتھی اتھی ملی‬
‫مغلومات ان کے گوش گزاری کہ دوبوں کو چیرت ہونی۔‬
‫”آکشن پہ جاکم ئے ہی ڈرنبا کو لبا تھا اور دوگنی فتمت پہ‪ ،‬تھر وہ شاشا کے‬
‫نٹشمنٹ میں تھی تھی شب چھوڑو اس کو اتھاؤ۔۔“ رنان ئے شو جنے ہوئے کہا کہ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪554 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شاشا کے شاتھ تھی اس کی کڑی خڑ رہی تھی اور جاکم تھی اتھی م یظر عام پہ نہیں آنا‬
‫تھا۔‬
‫”ڈرنبا کے ناپ لوسین کو تھی اتھاؤ‪ ،‬مار ڈھار جانبا ہوگا وہ اتھی تھی لبکن نڈھے‬
‫کی ہڈبوں میں وہ جان نہیں ہو گی خو تم میں ہے ڈرنک‪ ،‬شام نک نہاں ہونا جا ہنے‬
‫لوسین۔“ رنان ئے ڈرنک کو دنکھنے کہا جس ئے سر انبات میں ہالنا اور انبا فون‬
‫تکالے ا ننے آدم نوں کو کال کرئے لگا ناکہ وہ جلد از جلد تکل شکیں۔‬
‫”سر میں ئے متم کے کالج سے تھی اتقارمٹشن تکلوانی ہے وہاں تھی فروا متم کا‬
‫مزند کونی رتکارڈ نہیں چب سے وہ وکٹشن پہ گنی تھیں‪ ،‬ان کے گھر کا انڈرنس مغلوم‬
‫ہوا ہے لبکن وہاں کجھ تھی نہیں مال۔“ ڈرنک ئے مزند کہا بو دامیر شوچ میں ڈوب‬
‫گبا۔‬
‫”مبکس کے مطابق وہ فباد کے ناس تھی اور فباد کا مین مقصد علتبا کو جاصل‬
‫کرنا تھا ک نوں؟ تھر چنہ کو اشاشن کرنا‪ ،‬چنہ اور علتبا کزپز ہیں لبکن فباد ئے انک نار‬
‫تھی مبکس کو دھمکی نہیں دی۔۔۔ وہ ان دوبوں لڑک نوں سے کبا جاہبا ہے۔“ رنان‬
‫ئے بوری نات دہرانی۔‬
‫”مبکس سے کہو کہ وہ نہاں آ نیں۔“ دامیر ئے نس انبا کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪555 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دامیر‪ ،‬علتبا کجھ اور تھی جاننی ہے‪ ،‬اگر کہو بو میں بوچھ کے دنکھوں۔“ رنان‬
‫ئے پراعتماد لہچے میں کہا۔‬
‫”وہ ڈرنی ہے تم سے۔۔“ دامیر ہٹشا تھا۔‬
‫”اسی کا قاندہ اتھاؤں گا میں۔۔“ رنان کے چہرے پہ شاطر مسکان دنکھنے وہ‬
‫سجنی سے گھورئے لگا۔‬
‫”علتبا کو میں دنکھ لوں گا تم چنہ سے بوچھو‪ ،‬بوری نات بو نا نبائے کی اس ل نو‬
‫فتملی ئے قشم کھانی ہے۔“ دامیر پڑپڑانا ہوا شک نورنی روم سے تکال۔۔‬
‫اصل نات اتھی تھی شب چھبا رہے تھے۔ رنان تھبک کہہ رہا تھا علتبا ئے تھی‬
‫کجھ چھبانا تھا جس پہ وہ خود تھی پروس تھی۔ اور مبکس انہوں ئے بو آدھی نات ہی‬
‫اتھی نبانی تھی۔‬
‫ت‬‫چ ن‬
‫علتبا اتھی سیرنجبگ کر رہی تھی جبکہ چنہ ناس ہی ئیر پہ ھی لنپ ناپ آن‬
‫ت‬
‫ن‬ ‫ل‬‫ہ‬ ‫ع‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ک ن‬
‫نے ھی ھی۔ دامیر کو ا نی طرف آنا د کھ لتبا ئے کی سی سما ل ناس کی۔ اس‬
‫چ‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫کے ناس نجنے دامیر ئے اس کے رجشار کو ھوا۔‬
‫”پہ اچھی انک نونی ڈھونڈی ہے تم ئے۔۔“ دامیر ئے اس کو سراہبا جاہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪556 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”چنہ ئے کہا وہ مجھے تھوڑا نہت سبلف ڈ تقنٹس شکھائے گی۔“ وہ خوسی سے‬
‫اس کو نبائے لگی۔‬
‫”اچھی نات ہے۔۔“‬
‫”فروا کا کجھ مغلوم ہوا؟“ علتبا جاننی تھی کہ وہ شب نہی کجھ ڈشکس کر رہے‬
‫تھے نتھی آنکھوں میں امبد الئے بوچھنے لگی دامیر ئے نبا کجھ کہے سر ہالنا۔‬
‫”ہم ڈھونڈ رہے ہیں۔۔“ اس ئے پرمی سے اس کے نالوں کو شانبڈ پہ کرئے‬
‫کہا کہ چہرے پہ امبد چھانی ہلکی سی ماند پڑی۔‬
‫”تم اتکل مبکس کو کٹسے جاننی ہو؟“ وہ اس کو لے کے اندر کی طرف پڑھا چب‬
‫الؤنج کے صوفے پہ نتتھنے دامیر ئے بوچھا۔‬
‫”میرے نانا کے دوشت تھے‪ ،‬نہت چھونی تھی چب ان کے ناس آگنی تھی۔“‬
‫”کبا نمہیں نہیں مغلوم پہ شب؟“ علتبا ئے چیرانگی سے کہا۔‬
‫”پہ بو مغلوم ہے مجھے‪ ،‬بو کونی دوسرا رنلت نو تھی نہیں ہے؟“ دامیر ئے سرسری‬
‫شا بوچھا۔‬
‫”انک آنانی گھر ہے ناکسبان میں لبکن میں کسی اور کو نہیں جاننی۔“ علتبا ناد‬
‫کرنی ہونی بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪557 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”علتبا اگر کجھ انشا ہے خو مجھے جانبا جا ہنے بو پرنسٹس چھبانا نہیں۔۔۔ نمہاری‬
‫زندگی سے زنادہ میرے لنے اب کجھ تھی ضروری نہیں ہے۔“ دامیر ئے اس کو‬
‫انبان نت تھرے لہچے میں کہا کہ علتبا نس سر ہال گنی۔‬
‫”تم لوگ چب تھی ناہر جائے ہو کونی پہ کونی خوٹ لگوا آئے ہو اس نار چنہ کی‬
‫نانگ پہ زچم ہے‪ ،‬کبا کرئے تھرئے ہو ناہر۔۔“ علتبا انک دم ناد آئے پہ دامیر سے‬
‫حقگی تھرے لہچے میں بولی جس پہ وہ ہٹس دنا۔‬
‫”مرڈر کر کے آئے ہیں۔“ وہ پراسرار لہچے میں بوال کہ علتبا ئے اس کو ناراض‬
‫تگاہوں سے دنکھا۔‬
‫گ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”وپری فنی۔۔۔“ وہ آ یں ھما نی۔‬
‫گ‬ ‫ھ‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”وہ زندہ نہیں ہے۔۔۔ اس کی نالش میں وفت صا تع پہ کرو۔“ رنان چب اس‬
‫کے شا منے نتتھا بو لنپ ناپ سے تظریں ہبائے تغیر چنہ ئے کہا‪ ،‬رنان ئے خونک کے‬
‫اس کو دنکھا۔ وہ کس کی نات کر رہی تھی فباد نا تھر فروا۔۔۔؟‬
‫”فروا!“ انک نام لتنے چنہ ئے اس کی الجھن دور کی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪558 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اگر تم جاننی تھی بو ہمیں نبانا ک نوں نہیں؟“ رنان آنکھوں میں شغلے تھرے‬
‫اس سے بوال۔‬
‫”مجھ سے بوچھنے بو نبا د ننی‪ ،‬علتبا کو اس نات کا علم پہ نہلے تھا اور پہ ہی‬
‫اب۔“ وہ سنجبدگی سے بولی کہ رنان کرسی سے نشت تکائے نتتھ گبا۔ چنہ ئے تھبک‬
‫کہا کہ اس سے بو فروا کا زکر ہی نہیں کبا تھا۔‬
‫اور مبکس ئے تھی تھبک کہا تھا خو نات وہ اتھی جا ننے نک نہیں چنہ اس کی‬
‫کھال اڈھیر جکی ہونی ہے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭‬

‫”پہ نات میں اس کو کٹسے نباؤں گا‪ ،‬نمہیں مغلوم ہے وہ رابوں کو اتھ کے رونی‬
‫م‬ ‫ص‬ ‫ن ُ‬
‫ت‬‫س‬ ‫ل‬
‫ہے ضرف ا نی اس دوشت کے نے۔“ رنان کی نات نے وہ ا ل یں پرنشان ہو گبا‬
‫تھا۔ فروا کی موت کی چیر انسی تھی کہ وہ خود کتنی دپر نک شاکت رہا تھا۔‬
‫”دامیر پہ وافعی مسکل ہے اس کو نبانا لبکن اس سے پہ نات اب چھبانی نہیں‬
‫جا شکنی۔“ چنہ ئے سنجبدگی سے کہا کہ دامیر ئے چہرے پہ ہاتھ ت ھیرئے انبات میں‬
‫سر ہالنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪559 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫پہ نات علتبا سے چھبائے والی تھی تھی نہیں‪ ،‬انشا کرنا اس کو دھوکے میں رکھبا‬
‫ہونا خو تغد میں اس کے لنے نہت تکل یف دہ تھا۔‬
‫”رنلبکس پردر۔“ رنان ئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے خوصلہ دنا۔ علتبا اتھی‬
‫روم میں تھی‪ ،‬آج کل وہ دن میں انک دپڑھ گھتنے کے لنے شو جانا کرنی تھی نتھی‬
‫نت نوں الؤنج میں موخود تھے۔‬
‫”مبکس ئے تھر چھوٹ بوال ہم سے۔۔“ دامیر ئے اقسوس سے کہا کہ جتنی نار‬
‫ان سے بوچھا وہ ہمٹشہ آدھی ادھوری نات ہی نبائے۔‬
‫”ان سے بوفع تھی کبا لگا شکنے ہو‪ ،‬ان کو انبا کام عزپز ہے نس۔“ چنہ ئے گہرا‬
‫شانس ت ھرئے کہا کہ رنان ئے گہری تگاہوں سے چنہ کو دنکھا جٹسے اس کی نات کہنے‬
‫کا مقصد سمجھ رہا ہو۔‬
‫ُ‬
‫”ارادہ بو نہیں تھا میرا نبائے کا لبکن نبا دوں‪ ،‬اس کا بورا نام فباد جا م ہے۔“‬
‫ک‬
‫چنہ ئے انک نل ان دوبوں کو جاموسی سے دنکھا تھر الپرواہی سے کبدھے احکائے‬
‫ہوئے جٹسے تم تھوڑا۔ دامیر ئے بو چیرانگی سے اس کو دنکھا جبکہ رنان ئے سجنی سے‬
‫چیڑے تھتنچے‪ ،‬پہ لڑکی جان بوچھ کے انحان نتنی رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪560 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”فباد‪ ،‬جاکم انک ہی سحص ہے اور ڈرنبا فباد جاکم کی فبانسی ہے۔۔“ دامیر کے‬
‫کہنے پہ چنہ ئے سر ہالنا جبکہ رنان مشلشل چنہ کو سرد پرفبلی تگاہوں سے گھور رہا تھا۔‬
‫”ڈرنبا نہیں ہے بو فباد تھی نہیں پہ ہے۔۔۔“ دامیر ئے کہا جس پہ چنہ ئے‬
‫نانبدی انداز میں سر ہالنا۔‬
‫”تم فباد کے نارے میں مزند کبا جاننی ہو چنہ۔۔۔؟“ کجھ دپر تغد دامیر ئے‬
‫سنجبدہ لہچے میں چنہ سے بوچھا جس پہ وہ کبدھے احکا گنی۔‬
‫”میں زنادہ نہیں جاننی‪ ،‬اتقبکٹ زنادہ نانیں مجھے تم سے ہی مغلوم ہونی ہیں خو‬
‫تھی علتبا اور فروا کے شاتھ ہوا‪ ،‬مزند مجھے پہ مغلوم ہے کہ اس کا کتبکشن اتکل سے‬
‫زنادہ ہم سے ہے لبکن مجھ سے زنادہ علتبا اس کی تظروں میں ہے۔۔“ چنہ ئے دامیر‬
‫کو دنکھنے ہوئے کہا۔‬
‫”فروا جاننی تھی شب۔۔“ چنہ ئے دھتمے لہچے میں کہا۔‬
‫دامیر کا دھبان انک نار تھر علتبا کی طرف گبا کہ وہ اس کو فروا کے نارے میں‬
‫کٹسے نبائے گا۔ اننی مصنت نوں کے تغد اس ننحاری کو موت ئے جا لبا۔ وہ ئےموت‬
‫ماری گنی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪561 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شوزین‪ ،‬علتبا کی دوسری دوشت۔ اس ئے راتطہ نہیں کبا علتبا سے دونارہ‪،‬‬


‫ل‬‫ع‬
‫کس کی کسنوڈنین ہے وہ؟“ دامیر ئے اجانک ناد آئے پہ کہا۔ چنہ ئے ال می سے‬
‫کبدھے احکائے وہ وافعی نہیں جاننی تھی اور آکشن(نبالمی) پہ ان کو انبا موفع نہیں مال‬
‫تھا کہ وہ شوزین کو دنکھ نانی۔‬
‫”میں مغلوم کروانی ہوں۔“ چنہ ئے کہا۔‬
‫دامیر کو کال آئے لگی‪ ،‬اس ئے مونانل جبک کبا بو مین گنٹ کا گارڈ تھا خو‬
‫مبکس کے آئے کا نبا رہا تھا۔‬
‫کجھ ہی دپر میں الؤنج میں نین کے نحائے اب جار تفوس تھے۔‬
‫”علتبا آپ کو کاقی ناد کرنی ہے۔۔“ دامیر کی نات پہ ان کے چہرے پہ ہلکی‬
‫سی مشکراہٹ آنی۔‬
‫”اتھی شو رہی ہے آپ کے آئے کا شن کے خوش ہو گی لبکن اس سے نہلے‬
‫ہمیں کجھ نات کرنی ہے۔“ دامیر ئے سنجبدگی سے کہا بو وہ اس کا چہرہ دنکھنے لگے۔‬
‫”آپ ئے ہم سے شب کجھ ک نوں چھبا کے رکھا‪ ،‬نہت دفع شو جنے پہ تھی ہمیں‬
‫کونی تھوس وجہ نہیں ملی‪ ،‬تھبک ہے آپ ئے سروع میں ہم سے فباد کے نارے میں‬
‫ُ‬
‫چھبانا لبکن اب آپ نالکل سچ نبانیں گے کہ اس دن لتبا اور فروا کو نحائے کے تغد‬
‫ع‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪562 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ن‬ ‫ت‬ ‫ع‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬


‫کبا ہوا تھا۔۔۔ د یں کس‪ ،‬لتبا ا ھی اس وفت ہت نازک فیز سے گزر رہی ہے‬
‫اس کے زچم نازہ ہیں جن کو تھرئے میں تھر سے وفت لگے گا اور میں نہیں جاہبا‬
‫کہ دونارہ کجھ انشا ہو کہ وہ اننی زندگی سے ئےزار ہو جائے۔“ دامیر ئے نبا کونی اِ دھر‬
‫ب‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ُ‬
‫ادھر کی نات کنے دو بوک ہچے یں کہا کہ اس کا انداز کس کو ناگوار گزرا جس کا‬
‫اظہار ان کے ناپرات سے واصح تھا۔‬
‫انک صوفے پہ دامیر‪ ،‬ان کے نالکل شا منے مبکس جبکہ دانیں جانب صوفے پہ‬
‫رنان اور چنہ موخود تھے۔ گالس وال سے ناہر دھوپ کی روسنی اندر نک آرہی تھی جبکہ‬
‫الؤنج کو مزند روشن کرئے کے کنے نتباں تھی جل رہی تھیں۔‬
‫دامیر کے شوال پہ اب نت نوں تفوس کی تگاہیں مبکس پہ ہی نکی تھیں۔‬
‫”فباد کا کجھ ندلہ تھا خو علتبا کے ناپ سے بورا ہونا تھا اور اسی وجہ سے وہ علتبا‬
‫ن‬
‫کے ننجھے پڑا ہے‪ ،‬جا ننے بو ہو کہ ناپ کے کنے نہاں اوالد کو نے پڑئے یں۔“‬
‫ہ‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫گ‬
‫انہوں ئے گہرا شانس تھرئے لمنی نات مج یصر کر دی چنہ ئے ان کی نات پہ سر‬
‫چھ یکا۔‬
‫”نالکل۔۔“ وہ ہلکا شا پڑپڑانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪563 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کٹشا ندلہ۔۔۔؟“ رنان کے سباٹ انداز میں دو القاظ پہ مستمل شوال پہ مبکس‬
‫ئے اس کی جانب انک تظر دنکھا تھر کبدھے احکا گنے جٹسے کہا ہو کہ مغلوم نہیں۔‬
‫”چب سے ہم آپ کو جا ننے ہیں نب بو علتبا کے قادر کا کتھی زکر نہیں سبا تھا‬
‫ہم ئے۔“ رنان نبک چھوڑ کے آگے کی طرف ہوا اور دوبوں ہاتھوں کی اتگل نوں کو ناہم‬
‫تھٹشانا۔ اس کے شوال پہ مبکس ئے اس کو سنجبدگی سے دنکھا۔‬
‫”میری نہت سی نابوں سے تم لوگ انحان تھے اسی لنے۔ کبا کتھی علتبا نا چنہ‬
‫ن‬
‫کا مغلوم ہوا تم لوگوں کو؟“ انہوں ئے جٹسے سحت لہچے میں کہا کہ رنان ئے آ کھیں‬
‫گھمانیں۔‬
‫دامیر نا رنان اتھی کجھ کہنے کہ انک خوشگوار آواز ستنے شب کی تظر علتبا پہ گنی۔‬
‫”اتکل آپ آ گنے۔۔۔“ وہ مبکس کو د نکھے انہیں کی جانب جلی آنی تھی۔‬
‫”کٹسی ہے میری نچی۔۔“ کھڑے ہوئے انہوں ئے نبار سے بوچھا جس پہ وہ انبا‬
‫جال اخوال نبائے لگی شاتھ ہی ان کے جلدی پہ آئے پہ شکوہ تھی کرئے لگی۔‬
‫وہ دوبوں کجھ دپر نک نانیں کرئے چب رنان اور چنہ تھی تھوڑی دپر تغد ہی‬
‫وہاں سے اتھ گنے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪564 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا کو مبکس کے شاتھ اکبال چھوڑے دامیر کنچن میں آگبا ناکہ ڈپر کی نباری کر‬
‫شکے۔‬
‫”ڈپر بو کر کے جانیں گے آپ۔۔“ دامیر ئے کنچن سے ہی بوچھا۔ اوین کنچن‬
‫تھا چہاں سے وہ علتبا اور مبکس کو نانیں کرنا دنکھ رہا تھا۔‬
‫”نہیں‪ ،‬مجھے ہونل جانا ہے رات نک اور تھر کل انک اور منتبگ ہے جس کے‬
‫تغد میں وانس انلی تکل جاؤں گا۔“ مبکس ئے اس کو دنکھنے ہوئے کہا‪ ،‬دامیر ئے‬
‫انک تظر ان کو دنک ھا۔ منتبگ تعنی کل تھر سے ہبڈ چمع ہوئے والے تھے۔‬
‫”آپ نہیں رکیں گے میرے ناس؟“ علتبا کے بو لنے پہ دامیر ئےشاچنہ الجھا۔‬
‫میرے ناس سے کبا مراد تھا۔ اگر وہ نہاں ر کنے بو کبا علتبا ان کے ناس رہنی۔‬
‫ئےشاجبگی میں ہی اس کے ما تھے پہ نل ننے۔‬
‫”نہیں میں دامیر کو کہوں گا نمہیں میرے ناس لے آئے کجھ دبوں کے لنے‪،‬‬
‫اتھی پربولبگ نہیں کرو گی تم۔“ مبکس اس کو پرمی سے بولے بو علتبا کی چمک ماند‬
‫پڑی اور نس سر ہال گنی۔ اس ئے دامیر کو دنکھا خو وانٹ سرٹ کے کف فولڈ کنے‬
‫کجھ خوپ کر رہا تھا‪ ،‬اس کے گہرے تھورے نال ما تھے پہ نکھرے تھے‪ ،‬نازو اور‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪565 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ہاتھوں کی نسیں تھولی تھیں۔ چہرے پہ کونی ناپر موخود نہیں تھا۔ وہ آج تھی انبا ہی‬
‫ہتبڈسم لگا تھا جتبا علتبا کو نہلے دن لگا تھا۔‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫وہ اس کو کاقی دپر نک د نی رہی چب دامیر ئے اس کی جانب تگاہ اتھانی‪ ،‬خود‬
‫کو دنکھبا نا کے اس ئے آنکھ دنانی کہ وہ سنتبا اتھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”تھوڑی پرنکٹس کرنا جاہنی ہو؟“ چنہ مبکس کے ناس سے اتھنے آرمری میں‬
‫جائے لگی تھی چب ننجھے سے رنان کی آواز ستنے نلنی۔ اس کو چیرت ہونی کہ وہ اس‬
‫کو پرنکٹس کی دغوت دے رہا تھا۔ اس ئے کبدھے احکائے۔‬
‫”سنور۔۔!“ وہ اس سے نٹس انبڈ پرکس سبکھے گی اس سے اچھا کبا موفع تھا۔‬
‫وہ لوگ شونبگ اپرنا میں آئے چہاں گلوز‪ ،‬ہبڈ سنٹ اور گیز رکھی تھی۔ چنہ ئے‬
‫وہاں سے انک نسبل ہ یکلر انبڈ کوچ اتھانی اور اس کی مگزین جبک کرئے لگی۔‬
‫”میں گالک کو پرجنح دوں گا۔۔“ رنان گالک نسبل اتھانا ہوا اس کو جبک‬
‫کرئے لگا۔ اننی جبکٹ انارے اس ئے شانبڈ پہ ر کھے نتبل پہ رکھی‪ ،‬اب وہ انک سباہ‬
‫نتبان میں موخود تھا جس میں سے اس کے تھولے مشلز تظر آرہے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪566 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان کے آدمی شا منے لگے ستنحو کو انک جگہ پہ سنٹ کرئے لگے‪ ،‬رنان ئے اس‬
‫کو تھوڑا ننجھے سنٹ کرئے کو کہا۔‬
‫شانبڈ کی شاری النٹس کم کر دی گنی تھیں اور نس نارگنٹ سے ان نک کی انک‬
‫الین میں النٹس سنٹ تھیں۔ آنکھوں پہ گالسز نہنے چنہ ئے انبا نارگنٹ سنٹ کبا اور‬
‫انک کے تغد انک قاپر کرنا سروع کنے۔‬
‫”اگر کونی اجانک نمہارے ننجھے سے چملہ کرنا جاہے بو۔۔۔“ رنان ئے ننجھے سے‬
‫اس کے کان کے فرنب ہوئے کہا کہ اس کی آواز ا ننے فرنب سے ستنے چنہ کو ا ننے‬
‫رونگھنے ک ھڑے ہوئے محسوس ہوئے۔ اس ئے ا ننے ناپرات کو سباٹ رکھا چب اجانک‬
‫اس ئے انک ہاتھ سے گن چھوڑے ا ننے نانگ اجانک گھمائے رنان کے نانگ کے‬
‫ننچ اتکانی اور ا ننے ہاتھ سے اس کو کبدھے کو چھ یکا د ننے نتتھ کے نل گرانا‪ ،‬اس کا‬
‫انک گھتبا اس کے ن نٹ پہ رکھنے اس پہ گن نانی۔‬
‫”بو۔۔۔ میں اننی تھی ئےچیر نہیں۔“ اس کے چہرے پہ انک قانحاپہ‬
‫مشکراہٹ اتھری کہ رنان ئے سبانسی انداز میں اپرو احکائے۔‬
‫”نانس نٹ۔۔۔“ انبا کہہ کے رنان ئے اننی نانگ موڑئے اس کی نشت پہ ہلکی‬
‫سی ماری کہ چنہ کا نبلٹس خراب ہوا اور اسی کا قاندہ اتھائے ئے اس کی گردن کو‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪567 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گرفت میں لتنے دوسرے ہاتھ سے گن چھتنی اور نازی نلنی۔ اب صورت جال پہ تھی‬
‫کہ چنہ کی نشت زمین پہ اور رنان اس اس کے اوپر چھکا ما تھے پہ گن نائے ہوئے‬
‫تھا۔‬
‫”وار تھاری پڑ جائے گا۔۔“ رنان ئے ہلکی طیزپہ مشکراہٹ لنے کہا۔ چنہ ئے‬
‫رنان کا طرتفہ اسی پہ آزماپہ جاہا لبکن وہ رنان اس کی دوبوں نانگوں پہ انبا گھتبا فولڈ کنے‬
‫اس پہ وزن ڈالے ہوئے تھا۔‬
‫ن‬
‫”میرے اوپر سے ہ نو اب۔۔“ چنہ ئے آ کھیں اوپر کرئے ما تھے پہ رکھی گن‬
‫ک‬‫ن‬
‫د ھی تھر رنان سے کہا۔‬
‫”اگر کتھی کسی کو ننچے گرانا ہو بو شاتھ ہی نانگ پہ قاپر کر دو‪ ،‬چب نک وہ‬
‫ستتھلے دوسرا وار کبدھے پہ تھر آگے نمہاری مرضی چہاں وار کرنا جاہو جٹسے اتھی تم‬
‫ئے میرے دل پہ وار کر دنا۔۔“ اس پر سے ہتنے رنان ئے اتھائے کے لنے چنہ کے‬
‫آگے ہاتھ کبا جس کو تھامے وہ کھڑی ہونی‪ ،‬اس کے کھڑے ہوئے ہی رنان ئے اننی‬
‫ن‬
‫جانب کرئے آخری نات زومعت نت سے کہی کہ وہ آ یں ھما کے رہ نی۔‬
‫گ‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬
‫ح‬ ‫ح‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”و نسے ہی قانتبگ ہو نبا گن کے بو آ یں اور ن نٹ کے ن لے صے پہ وار کرنا‬
‫نہیر ہو گا۔“ رنان ئے مزند کہا بو چنہ ئے انبات میں سر ہالنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪568 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اب مجھ پہ وار کرنا ہے۔۔“ رنان اس سے قاصلے پہ ہونا بوال بو چنہ ئے بوزنشن‬
‫سنٹ کی‪ ،‬رنان ئے اس کے نیروں کی جانب دنکھا چہاں اس ئے نجھلے ناؤں کو‬
‫مضنوطی سے زمین پہ چمانا اور دوسرا ناؤں اس سے آگے رکھا‪ ،‬ہاتھوں کی متھباں‬
‫نبانیں۔ تھر وہ رنان کی جانب لبکی اور ہاتھ سے چہرے پہ وار کبا جس کو اس ئے‬
‫آشانی سے روک لبا۔ چنہ کو خود سے دور دھکبلنے اس ئے تھر اشارہ کبا بو چنہ ئے‬
‫بوزنشن لی کہ رنان ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”علطی۔۔۔ چب وار کرنا ہو بو انک سبکبڈ تھی پہ لو خود کی بوزنشن سنٹ کرئے‬
‫میں‪ ،‬مقانل نمہارا وار نہحان لے گا۔“ رنان ئے اس کی نانگ اور ہاتھوں کی جانب‬
‫اشارہ کرئے کہا۔‬
‫”اب رنلبکس سبدھی کھڑی ہو جاؤ۔“ اس ئے تھر موفع دنا۔ چنہ ڈھبلے انداز میں‬
‫کھڑی ہونی۔‬
‫”انبک۔۔۔“ رنان کے لقظ ادا کرئے کی دپر تھی کہ چنہ نبا سبکبڈ صا تع کنے‬
‫اس کی طرف لبکی اس نار ہاتھ نہیں اس ئے نازو کا اسیعمال کبا اور اس کی نتتھ کی‬
‫طرف ہوئے گردن پہ وار کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪569 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان تفجراپہ مشکرانا‪ ،‬اس ئے نہت جلدی نک کبا تھا اور ا ننے کرئے والے وار‬
‫کی ہ نٹ تھی نہیں دی تھی۔ اس کے نازو پہ دو نار ہاتھ سے اشارہ کبا بو چنہ ئے‬
‫گرفت ڈھبلی کرئے چھوڑا۔‬
‫”قاننتبگ میں ہمیں سبکبڈ سے تھی کم وفت نہیں ملبا کہ خود کو قاننتبگ‬
‫ستنٹس میں النیں۔ دکھاؤ کجھ اور کرو کجھ اور۔۔“ رنان ئے اب خود کا نشاپہ سنٹ کبا‬
‫اور شا منے زنادہ قاصلے پہ لگے ستنحو پہ گولباں جالئے لگا۔‬
‫”ا ننے نارے میں نباؤ کجھ۔۔“ اننی شونبگ سے قارغ ہوئے رنان ئے چنہ سے‬
‫بوچھا خو ننجبگ نبگ پہ پرنکٹس کر رہی تھی۔‬
‫”مجھے اکبلے رہبا نسبد ہے۔“ چنہ ئے نبا کسی ناپر کے پرجشنہ کہا کہ رنان ئے‬
‫تگاہ اتھائے اس کو دنکھا۔‬
‫”پہ بو میں جان گبا ہوں اس کے عالوہ۔“‬
‫”مجھے دوسروں کو خود کے نارے میں نبائے کا نالکل تھی شوق نہیں۔“ اس‬
‫کے اسی انداز میں خواب پہ رنان کے ہاتھ نل تھر کے لنے تھمے خو ا ننے ہاتھ پہ کیڑا‬
‫لت نٹ رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪570 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دوسروں کو چھوڑو مجھے نباؤ۔۔“ رنان ئے الپرواہی سے کہنے دونارہ کیڑا ہاتھ میں‬
‫گ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ک‬‫نب‬
‫چ‬
‫لتنتبا سروع کبا کہ چنہ ئے اس کو ھی تگاہوں سے د کھا۔ ھر سر ھبک نی۔‬
‫چنہ گن کو رکھنی وہاں سے جائے لگی کہ رنان ئے اس کو جا لبا اور اس کا نازو‬
‫کو تھامے ا ننے شا منے کبا۔‬
‫”اننی مام کے نارے میں نباؤ۔“ رنان ئے اس کی آنکھوں میں دنکھا چہاں کونی‬
‫تھی نبا ناپر نہیں اتھرا تھا۔ وہ نالکل سنجبدگی سے اس کو دنکھ رہی تھی۔‬
‫”میری ماں مر گنی ہے اور اس نات کو کاقی شال ن نت گنے ہیں۔“ چنہ کہنے‬
‫آخر میں ہلکا شا مشکرانی۔‬
‫”مبکس میرا ناپ ہے اور علتبا ان کے فرننی دوشت کی نتنی‪ ،‬خونکہ وہ میرے‬
‫ناپ کو انبا اتکل کہنی ہے بو میں اس کی کزن ہونی‪ ،‬اب نک میں اکبلے زندگی گزار رہی‬
‫تھی لبکن اب میرا انک عدد شوہر ہے خو میرے شا منے ہے۔۔ نس نہی شب ہے‬
‫میرے نارے میں۔ خوش!۔“ چنہ ئے جٹسے اجشان کرئے والے انداز میں ا ننے‬
‫نارے میں اس کو نبانا جس پہ وہ مدھم شا مشکرانا۔‬
‫”ننچ کا حصہ کون نبائے گا۔۔۔؟“ دو قدم کا قاصلہ تھی جتم کرئے وہ اس‬
‫کے فرنب نالکل مدھم لہچے میں بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪571 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہیں اس نارے میں پرنشان نہیں ہونا جا ہنے۔“ چنہ نمسجراپہ مشکراہٹ لنے‬
‫اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھنی ہونی بولی۔‬
‫ُ‬
‫”مجھے میری ن نوی سے خڑی ہر پرنشانی کو شکون میں ندلبا ہے۔“ اس کے اسی‬
‫ہاتھ کو ا ننے ل نوں سے لگائے ہوئے بوال‪ ،‬چنہ کا پہ انداز ہی اس کے لنے دل موہ لتنے‬
‫واال تھا۔‬
‫”اور اگر شوہر ہی ن نوی کی پرنشانی ہو بو۔“ چنہ ئے خوتصورت لہچے میں کہا کہ‬
‫رنان کا قہقہہ ئےشاچنہ تھا۔‬
‫”شوہر شکون د نبا تھی جانبا ہے ملٹسکا!“ رنان اس کے کان کے فرنب ہونٹ‬
‫ن‬
‫النا زومعنی لہچے میں بوال کہ چنہ آ یں ھما نی۔‬
‫گ‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫نبا خواب د ننے اس کے ستنے پہ ہاتھ ر کھے خود سے دور کبا اور آرمری سے تکل‬
‫آنی۔‬
‫”چنہ نمہاری مام کو کبا ہوا تھا؟“ اس ئے اتھی قدم ناہر تھی نہیں تکاال تھا کہ‬
‫رنان کی آواز پہ رک گنی۔ چہرے پہ انک شانا شا لہرانا لبکن ستتھل کے مڑی۔‬
‫”ان کو انک مرض تھا جان ل نوا۔“ اس ئے عام سے انداز میں کہا اور وہاں سے‬
‫جلی گنی۔ اس کا خواب رنان کو تھ یکا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪572 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫جال نما کمرہ چہاں اندھیرا تھا اور اس کمرے کے وشط میں انک لمنی سی میز موخود‬
‫تھی جس کے گرد لوگ کرسنوں پہ پراچمان تھے۔ کمرے میں ضرف انک وفت میں‬
‫انک سحص ہی نات کرنا اور اس کی آواز گونج اتھنی۔‬
‫کمرے کی جاروں دبواروں پہ گارڈز ہاتھ ناندھے کھڑے تھے۔ ہبڈ چئیر پہ رنان‬
‫دی سبانیر چہرے پہ حظرناک جد نک سرد ناپرات سحائے نتتھا تھا۔ آج وہی منتبگ تھی‬
‫چب شب کی موخودگی میں رنان پرابوا کو نبک اوور کرے گا۔‬
‫”شاشا کی شاری پراپرنی رنان ڈی کے ناس جائے گی اب‪ ،‬شاشا کی خو تھی لین‬
‫دین تھی وہ نہیں جتم ہے۔ خو تھی ڈنلز ہیں وہ ننے سرے سے ہونگیں۔“ بو انس‬
‫اے کے انک ڈان ئے شب کو دنکھنے ہوئے کہا خو انک میز کے گرد نتتھے تھے۔‬
‫”ہمیں خوسی ہونی جان کر کے ڈنگر سبانیر کی واتف ہیں۔“ ان میں سے انک‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫مافبا ڈان بوال جس کی تظر رنان کی دانیں جانب ھی چنہ پہ ھی اور آج اس ئے ا نی‬
‫سباچت نہیں چھبانی تھی۔ سباہ چئیز سرٹ پہ رنان کی طرح جبکٹ نہنے ہونی تھی۔‬
‫دوسری جانب نانیں طرف دامیر نتتھا تھا۔ مبکس دامیر کے شاتھ والی کرسی پہ موخود‬
‫تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪573 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ڈنگر۔۔۔ انالین ڈان۔“ انک دو سراہنی ہونی آواز گونچی۔ رنان ہلکا شا ہٹشا۔‬
‫”ڈنگر کو سراہبا اچھا ہے لبکن میری ن نوی پہ تگاہ ڈالبا مجھے ناگوار گزرنا ہے‪ ،‬آج‬
‫نبانا ہے آ نتبدہ القاظ نہیں میری نبدوق نبائے گی۔“ رنان ئے دوبوں ہاتھوں کو ناہم‬
‫مالئے میز پہ رکھنے آگے ہوئے اننی سرد وجشت گرے آنکھوں سے گھورا۔ شب کے‬
‫چہروں پہ سنجبدگی چھا گنی کہ انک نمسجر تھری آواز اتھری‪ ،‬شب کی تگاہ اس جانب‬
‫اتھی۔‬
‫”اگر انشا ہے بو نہاں نہیں النا جا ہنے تھا ڈنگرکو اونس!“ کہنے والے ئے ہٹس‬
‫کے ہاتھ نلبد کنے جٹسے ڈنگر کہنے کی علطی کی ہو۔‬
‫ن‬ ‫ج‬ ‫ت‬
‫”اننی واتف کو۔۔“ وہ ہٹس کے ص نح کرنا ہوا بوال اور رنان کو طیزپہ تگاہ سے د کھنے‬
‫لگا۔ چنہ کے چہرے پہ مدھم سی مشکراہٹ اتھری۔‬
‫ل نوں پہ زنان ت ھیرئے رنان ئے نس اس کو گھورئے پہ اک یقا کبا اور آہشنہ سے‬
‫ُ‬
‫اننی گن تکا لنے میز پہ رکھی۔ دامیر کرسی پہ نبک لگائے نتتھا تھا خو آرام سے اس‬
‫تھو نکنے والے کنے کو دنکھ شکبا تھا۔‬
‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫مزند تھوڑی دپر تغد ان کی منتبگ اجتبام کو چی بو رنان کے ا ھنے ہی ناقی‬
‫ن‬
‫شب تھی اننی نسسنوں سے اتھ کھڑے ہوئے۔ کجھ ڈان رنان سے مصافحہ کرئے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪574 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫آگے آئے جن کے لنے رنان کے شاتھ تغلق اسنوار رکھبا نہیر تھا اور کجھ لوگ ا نسے ہی‬
‫کھڑے رہے۔ رنان کو ان شب سے کونی فرق نہیں پڑنا تھا۔ چب وہی ڈان اس کے‬
‫شا منے آنا اور ہاتھ مالئے کو آگے پڑھانا جس ئے کجھ دپر نہلے طیز کبا تھا۔‬
‫رنان ئے نہلے اس کو تھر اس کے ہاتھ کو دنکھا‪ ،‬میز پہ پڑی گن اتھی تھی‬
‫و نسے ہی تھی۔‬
‫”امبد ہے پرابوا نمہارے لنے اچھا رہے گا۔“ وہ مشکرانا ہوا دوسباپہ لہچے میں بوال‬
‫کہ اجانک میز سے کسی ئے گن اتھانی اور گولی کی آواز جلی۔ شب کی تگاہ چنہ کی‬
‫جانب گنی جس ئے اس گن کو دنکھنے وانس میز پہ رکھا اور چہرے پہ مشکراہٹ‬
‫آسمانی۔‬
‫”ڈنگر خود تھی بولبا جاننی ہے۔۔“ اس ئے رنان کو دنکھنے کہا خو اس کی خرکت پہ‬
‫سبانسی انداز میں دنکھ رہا تھا۔‬
‫”وارنبگ میں انک نار ہی د نبا ہوں۔۔“ رنان ئے اننی گن تھامے دو مزند قاپر‬
‫اس سحص پہ کنے خو زمین پہ ئےشدھ پڑا تھا جبکہ بورے جال میں سبانا شا چھا گبا‬
‫تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪575 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میری واتف وارنبگ د ننے میں تھی وفت صا تع نہیں کرنی۔“ اس کی آنکھوں‬
‫میں چمک اتھری تھی۔‬
‫کجھ لوگوں کی تگاہوں میں ئےتفتنی تھی کہ وافعی ان کی موخودگی میں چنہ ئے‬
‫جائے مائے ڈان کو مار دنا تھا ضرف اس لنے کہ اس ئے انک کمنٹ ناس کبا تھا‪ ،‬وہ‬
‫کمنٹ چنہ پہ نہیں رنان سبانیر کی واتف پہ تھا۔‬
‫شب کے جائے سے نہلے چنہ‪ ،‬رنان اور دامیر وہاں سے تکلے تھے اور ان کے‬
‫شاتھ گارڈز تھی موخود تھے۔‬
‫رنان ئے گارڈز کو شاتھ جائے سے م یع کر دنا تھا ک نونکہ وہ اتھی ہونل میں‬
‫تھہرے تھے خو ناس ہی تھا اور علتبا کو دامیر وہیں چھوڑ آنا تھا۔ ہر دو منٹ تغد وہ اس‬
‫روم کا کتمرہ جبک کر رہا تھا خو اس ئے وہاں تکلنے سے نہلے سنٹ کبا تھا۔‬
‫”وہ تھبک ہے تم ک نوں ہلکان ہو رہے ہو۔۔؟“ رنان ئے سنئیرنگ وہبل‬
‫ستتھا لنے ہوئے کہا‪ ،‬دامیر اتھی تھی مونانل آن کنے نتتھا تھا۔ چنہ نجھلی سنٹ پہ‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫ئےنباز سی ھی ھی۔‬
‫”مجھے اس کو اکبال چھوڑ کے نہیں آنا جا ننے تھا وہ تھی نتبد کی جالت میں۔“‬
‫دامیر پڑپڑانا جٹسے وہ نجھبا رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪576 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آدھی فوج اس کی نگرانی کر رہی ہے قکر نہیں کرو نانچ منٹ میں تم اس کے‬
‫ناس ہو گے۔“ رنان ئے تقی میں سر ہالئے ہوئے کہا کٹسے مج نوؤں کی طرح پڑپ رہا‬
‫تھا۔‬
‫”نمہیں اب اجتباط کرنی پڑے گی۔“ رنان کا اشارہ اس ڈان کے لوگوں کی‬
‫س‬
‫طرف تھا خو ضرور اس کی موت پہ جاموش نہیں ر ہنے والے تھے۔ دامیر ئے ھنے‬
‫ج‬‫م‬
‫سر ہالنا۔‬
‫”اس کی قکر نہیں کرو۔“ وہ سنجبدگی سے بوال۔‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫چ‬
‫”جلدی جالؤ نار۔۔“ دو سبکبڈ تغد پہ وہ الہٹ زدہ ہچے میں بوال۔‬
‫ھ‬ ‫ج‬
‫ن ن ن‬
‫”روم نو کہیں کا۔“ رنان پڑپڑانا اور تھوڑی ہی دپر میں وہ لوگ ہو ل ک نچ نے‬
‫گ‬ ‫ہ‬

‫تھے۔‬
‫دامیر عحلت دکھانا ہوا لفٹ میں انئیر ہوا اور جلدی سے قلور نین پرنس کبا۔‬
‫چنہ اننی دھن میں ان کے شاتھ آرہی تھی۔ دامیر ان کے آگے کھڑا تھا چب‬
‫رنان ئے چنہ کی کمر میں نازو چمانل کرئے اننی جانب کھتنحا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪577 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”وہ بو اننی واتف کے ناس جائے کے لنے پڑپ رہا ہے اور میں ناس ہو کے‬
‫تھی پڑبوں۔ کہاں کا اتصاف ہے۔“ چنہ کے گھورئے پہ وہ سنجبدگی سے بوال جس پہ وہ‬
‫گہرا شانس تھر کے رہ گنی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫کمرے میں داجل ہوا بو انک تھبڈک کا اجشاس دل میں سران نت کرنا گبا‪ ،‬وہ‬
‫اتھی تھی اسی بوزنشن میں شو رہی تھی جٹسے وہ چھوڑ کے گبا تھا اور شکر تھا کہ ان کو‬
‫آئے جائے میں زنادہ وفت نہیں لگا تھا۔ ہونل کے انارنمنٹ میں وہ اس وفت موخود‬
‫َ‬
‫تھے۔ علتبا کو پہ نبانا تھا کہ وہ لوگ چنہ کا جبک اپ کروائے دوسری جگہ جا رہے‬
‫تھے اور علتبا کو وہ اب کی نار اکبال نہیں چھوڑ شکنے تھے بو وہ تھی شاتھ تھی‪ ،‬ا نسے‬
‫منتبگ میں اس کو شاتھ تھی نہیں لے کے جا شکنے تھے بو اننی مبڈنشن کھانی چب‬
‫نک وہ شو پہ گنی وہ لوگ تکلے نہیں تھے۔‬
‫دامیر اس کی رونین سے وافف تھا وہ دونہر کو شو جانی تھی اور منتبگ ناتم تھی‬
‫دونہر کا ہی تھا بو علتبا کا شونا قاندہ مبد ہوا تھا۔‬
‫رنان ئے انارنمنٹ میں داجل ہوئے سے نہلے ناہر کھڑے درج نوں گارڈز کو‬
‫جائے کا اشارہ کبا۔ دامیر کی خزنانی طت یغت کجھ زنادہ ہی پڑھ گنی تھی علتبا کے آئے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪578 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫سے۔ اندر آئے اس ئے انک تظر دامیر کے روم میں ڈالی خو روم نمیرنجر اڈجشٹ کر رہا‬
‫تھا۔‬
‫”کجھ کھاؤ گے۔۔؟“ چنہ اننی جبکٹ انارنی ہونی بولی کہ رنان ئے تقی میں سر‬
‫ہالنا اور چھوئے سے ل نونگ اپرنا کے صوفے پہ نتتھے انبا سر ننجھے تکانا۔‬
‫”نمہیں اسے شوٹ نہیں کرنا جا ہنے تھا۔“ چب چنہ تھی اس سے کجھ قاصلے پہ‬
‫ن‬
‫تتھی بو وہ سنجبدگی سے بوال۔‬
‫”تم تھی نہی کرئے والے تھے۔“ وہ جبانی ہونی بولی کہ رنان جاموش رہا‪ ،‬وہ‬
‫تھبک کہہ رہی تھی ک نونکہ رنان خود تھی اس کو مارئے واال تھا۔‬
‫کونی اس کی پراپرنی پہ تظر ڈالے اور وہ پرداشت کر لے انشا ہو ہی نہیں شکبا‬
‫تھا۔ چنہ اس کی تھی‪ ،‬اس کی پراپرنی اس کی ملکنت۔۔‬
‫ن ن‬
‫وہ جاموسی سے انبا مونانل دنکھ رہی تھی جبکہ رنان ئے ا نی آ یں اس پہ تکانی‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫تھیں چہاں سرد ین نالکل نہیں تھا نلکہ انک الگ ہی خزپہ تھا جٹسے وہ اس کو د نکھے‬
‫اسی میں کھو رہا تھا۔ انالین پرنسٹس! خوتصورت تفوش والی لڑکی لمنے سباہ نال۔ وہ اس‬
‫سے نبار نہیں کرنا تھا چنہ کا انداز اس کو خود اننی جانب مانل کرنا تھا۔‬
‫اس کے لنے بوزنسنو تھا‪ ،‬کسی تھی جد نک جا شکبا تھا‪ ،‬جان لے شکبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪579 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫تگاہوں کی نٹش محسوس کرئے چنہ ئے نلکیں اتھائے اس کی طرف دنکھا‪،‬‬


‫تظروں کا تصادم ہوا کہ انک پرقی لہر چنہ کے جشم میں سران نت کر گنی۔‬
‫”تم پہ ہو بو جائے میں کبا کر نتتھوں۔“ تگاہوں کا مالپ دپرنا رہا بو رنان ہلکا شا‬
‫پڑپڑانا۔ نہلی نار وہ انک غورت کی جانب مانل ہوا تھا اور نہت پرے طر تقے سے۔ کجھ‬
‫لمچے جاموسی کے جانل ہوئے تھر چنہ ئے سنجبدگی سے کہا۔‬
‫”میری کل انک قالنٹ ہے‪ ،‬مجھے ضروری تکلبا ہے میں جاہنی بو تم سے چھبا‬
‫ن‬
‫شکنی لبکن میں جاننی ہوں کہ تم میرا ننجھا کر کے ہنچ جائے۔“ رنان اس کی نات پہ‬
‫منٹشم ہوا۔ وہ الزمی ننجھا کرنا۔‬
‫”کہاں کی قالنٹ ہے؟“ نبک چھوڑے وہ اس کی جانب رخ کنے نتتھ گبا۔‬
‫”وانس مبکسبکو کی‪ ،‬وہاں میرے نہت سے کام نتبڈنگ ہیں۔“ چنہ ئے سنجبدگی‬
‫سے کہا۔‬
‫”کب نک کے لنے جانا ہے؟“ اس ئے اگال شوال اس کے چہرے کو دنکھنے‬
‫بوچھا۔‬
‫”انک دو ہقنے کے لنے۔۔“ وہ اسی انداز میں بولنی کبدھے احکا گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪580 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں نمہیں اکبال جائے نہیں دے شکبا۔۔“ رنان گہرا شانس ت ھر کے بوال اور‬
‫انک تظر دامیر کے کمرے کے نبد دروازے کو دنکھا۔ دامیر اس کو ا ننے نبا جائے‬
‫نہیں دے گا۔ علتبا کو وہ اکبال نہیں چھوڑئے واال تھا۔‬
‫”ہم جاروں کی زندگباں آنس میں خڑی ہیں اور ا نسے تم اکبلے کہیں نہیں جائے‬
‫والی وہ تھی نب چب نمہاری سباچت انڈر ورلڈ جان گبا ہو۔“ رنان ئے سنجبدگی سے‬
‫جٹسے اس کو نالبا جاہا۔‬
‫”مجھے اکبلے جائے میں کونی مسبلہ نہیں‪ ،‬میں نہلے تھی اکبلی ہی رہنی تھی۔“‬
‫چنہ تھوڑا نیز لہچے میں بولی کہ اس کے گھما تھرا کے اتکار کرئے پہ اس کو عصہ شا‬
‫آئے لگا تھا۔‬
‫”تم شاتھ جل شکنے ہو۔۔“ ئےشاچنہ ہی وہ اس کو آفر د ننی بولی کہ رنان ئے‬
‫جاموش تگاہوں سے اس کو دنکھا۔ وہ وافعی اس کو شاتھ جائے کی آفر کر رہی تھی۔‬
‫”ضرور۔۔“ رنان نبا کونی اغیراض کنے مان گبا کہ چنہ خونک گنی۔ پہ کام آشان‬
‫تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪581 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان ئے شوجا کہ وہ دامیر اور علتبا کو تھوڑا وفت دے دیں گے اکبلے میں اور‬
‫اتھی کونی کانیرنکٹ تھی نہیں تھا بو چنہ کے شاتھ جائے سے کونی مسبلہ نہیں‬
‫ہوئے واال تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫خود پہ اتگل نوں کا لمس محسوس کرئے اس کی نتبد بونی بو دامیر کو ا ننے شا منے‬
‫نکنے پہ کہنی تکائے نانا خو اسی کو مشکرانی پرم تگاہوں سے دنکھ رہا تھا جبکہ اس کا‬
‫دوسرا ہاتھ پرمی سے اس کے چہرے پہ آئے نادندہ نالوں کو کان کے ننجھے اڑس رہا‬
‫تھا۔‬
‫”زنادہ شوئے لگ گنی ہو آج کل دن میں۔“ دامیر اس کے رجشار پہ لب رکھنے‬
‫سرگوسی میں بوال کہ علتبا اس کی نات پہ جبا سے چھت نپ گنی۔‬
‫”تم کہیں گنے تھے ناہر۔۔“ وہ لہچے میں ناراصگی سموئے بولی۔‬
‫”انک چھونا شا کام تھا۔“ اس ئے اتکار نہیں کبا تھا۔ ہو شکبا تھا کہ وہ نتبد‬
‫میں انک نار جاگی ہو اور اس کو کمرے میں موخود نا نانا ہو۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪582 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم مجھے ا ننے کام کے نارے میں نہیں نبائے۔“ وہ حق یف سی ہونی شکوہ‬
‫کرئے لگی اور اتھ کے نتتھبا جاہا چب دامیر ئے اس کو روکا اور نکنے سے کہنی ہبائے‬
‫قدرے اس چھکا۔‬
‫”تم نحونی وافف ہو میرے کاموں سے ۔۔“ اس کی گردن پہ ا ننے لب مس‬
‫کرنا ہوا وہ زومعنی بوال کہ علتبا کے رجشار نتنے لگے۔‬
‫ک‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫م‬ ‫م ُ‬
‫” یں اس نارے یں نات یں کر رہی۔۔“ اس کے کبدھے پہ ہاتھ ر ھنے اس‬
‫ئے حقگی جبانی کہ دامیر ”اس نارے“ کا ستنے سرپر شا مشکرانا۔‬
‫”کس نارے میں؟“ اس ئے اس کی نات اجک لی تھی کہ علتبا کو ا ننے بولے‬
‫گنے القاظ کا اندازہ ہوا اور نلکوں پہ بوچھ شا آگبا۔‬
‫”تم مجھے نبگ کر رہے ہو اب۔۔“ وہ آہشنہ آواز میں متمبانی اور دامیر کے‬
‫گسباجی کرئے ہاتھوں کو تھام لبا۔‬
‫دامیرے ئے آہسبگی سے اس کے کبدھے پہ لب ر کھے اور ننجھے ہٹ گبا‪ ،‬اس‬
‫کے کبدھے کے زچم اب نہیر تھے۔ نازو کو وہ موومت نٹ د نبا سروع ہو گنی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪583 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کو ننجھے ہتبا دنکھ علتبا ک یفرپر خود پر سے اتھانی نبڈ سے ننچے اپرئے کو تھی‬
‫کہ دامیر ئے پرجشنہ اس کی کالنی کو تھامے ا ننے فرنب کبا اور ئےناک جشارت کر‬
‫نتتھا۔ علتبا کو چب نک سمجھ آنی دامیر کا لمس محسوس کرئے وہ بوکھال اتھی۔‬
‫نیز ہونی دھڑکن پہ قابو نائے اس ئے دامیر کے خزنانی انداز کو دنکھا۔‬
‫”نمہارا دور جانا پرداشت نہیں ہوا مجھ سے۔“ دامیر ا ننے کنے کی وصاچت د نبا بوال‬
‫کہ علتبا کو ا ننے رجشار نتنے محسوس ہوئے۔ ئےتفتنی و چیرت سے وہ اس کو د نکھے‬
‫گنی۔‬
‫”میں نس فرنش ہوئے جا رہی تھی۔۔“ وہ نامسکل بول نانی۔‬
‫”ہاں میں سمجھا دوں گا۔۔“ وہ اننی ئے شاجبگی پہ خود تھی چیران تھا لبکن اس‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫کی نات پہ علتبا ئے نا ھی سے اس کو دنکھا۔‬
‫”کس کو۔۔؟“ وہ بو چھے نبا پہ رہ نانی۔‬
‫”ا ننے دل کو۔۔“ دامیر کے فوری خواب پہ علتبا پری طرح نلش کر گنی کہ انک‬
‫سرمگیں مشکراہٹ اس کے ہون نوں پہ آسمانی جس کو چھبائے کی جاطر وہ انبا رخ موڑ‬
‫گنی اور الخواب ہونی ناتھ روم کی طرف پڑھ گنی۔ دامیر اس کا دبواپہ تھا اس نات کا‬
‫اندازہ علتبا کو دن ندن ہو رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪584 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا کے جائے ہی دامیر ئے کمرے میں لگے کتمرہ کو تکال دنا خو وہ جائے‬
‫ہوئے سنٹ کر کے گبا تھا۔‬
‫”تھوک ہے اتھی؟“ اس کے ناہر آئے پہ دامیر ئے بوچھا خو اب جتنج کر کے‬
‫آرامدہ کیڑوں میں موخود تھا۔ علتبا ئے انبات میں سر ہالنا اور وفت دنکھا۔ دونہر کے‬
‫نین نج رہے تھے۔ اس کو اب دن کی نتبد جتم کرنی جا ہنے تھی۔ دل میں شوجنی ہونی‬
‫وہ کمرے کا دروازہ کھولے ناہر آنی کہ چنہ سے اس کے زچم کے نارے میں بوچھ‬
‫شکے خو اتھی ڈاکیر سے جبک کروا کے آنی تھی۔‬
‫دامیر کنچن میں آنا چہاں رنان نہلے سے موخود تھا اور کجھ کھائے کو نبائے کی‬
‫کوشش کر رہا تھا‪ ،‬دوبوں مل کے کوکبگ کرئے لگیں جبکہ چنہ اور علتبا ل نونگ اپرنا‬
‫ل‬ ‫ب‬ ‫گ‬ ‫ت‬
‫میں یں آنس یں گو کرئے یں۔‬
‫گ‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ت‬‫ن‬

‫رنان ئے دامیر سے چنہ کے اور ا ننے جائے کا زکر کبا‪ ،‬نہلے بو دامیر ئے اتکار کبا‬
‫لبکن تھر جاموش ہوگبا کہ علتبا کی تظر میں وہ دوبوں وکٹسیز پہ جلے جانیں گے اور اگر‬
‫دامیر شاتھ جائے کی نات کرے بو علتبا انک ننے شادی شدہ خوڑے کے ننچ کباب‬
‫میں ہڈی نہیں نتبا جاہے گی نتھی مان گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪585 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چ‬ ‫ت‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ہ ہ ُ‬


‫”دو قنے م ادھر ر یں گے نب نک م لتبا کے شاتھ ھوڑا وفت گزار لو ا ھی‬
‫انڈرسنتبڈنگ ہو جائے گی۔“ رنان ئے نلنٹس شا منے رکھنے کہا کہ دامیر کی تگاہ علتبا کی‬
‫طرف اتھی۔‬
‫”مجھے انڈنٹ کرئے رہبا۔۔“ وہ رصامبد ہونا بوال کہ رنان ئے انبات میں سر‬
‫ہالنا۔‬
‫کھانا پرشکون ماخول میں کھانا گبا نتھی دامیر ئے علتبا کو تھی رنان اور چنہ کے‬
‫جائے کا نبانا بو وہ چیران سی ان کو دنکھنے لگی۔‬
‫”ہم تھی ان کے شاتھ ہی جلنے ہیں نا۔۔“ انک دم اس کے چہرے پہ روبق‬
‫ک‬‫ن‬
‫سی آگنی اور دامیر کو د نی ہونی بولی۔‬
‫ھ‬
‫”ہم ضرور جلنے لبکن تم اتھی شفر نہیں کر شکنی۔۔“ دامیر ئے پرمی سے نالبا‬
‫جاہا۔‬
‫”بو کجھ دبوں نک ہم شب شاتھ جلے جانیں گے۔“ علتبا مسورہ دنا۔‬
‫”رنان اور مجھے ضروری کام ہیں خو لنٹ نہیں ہو شکبا ورپہ ہم شب شاتھ‬
‫جائے۔“چنہ ئے علتبا کی طرف دنکھنے عام سے لہچے میں کہا بو علتبا جاموش ہو گنی۔‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫وہ پہ ھی ھی کہ شاند چنہ ہیں جاہنی ان کا شاتھ جانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪586 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہارے لنے ہم ئے پرپ نلین کی ہے انک چب وانس آ نیں گے بو ت ھر شاتھ‬


‫جانیں گے۔“ چنہ کی اگلی نات پہ اس کے ناپرات ڈھبلے پڑے وہ خوامحوا اس کے‬
‫نارے میں م یقی شوچ رہی تھی۔‬
‫”تھبک ہے تعنی میں نہاں اکبلی رہوں گی۔“ علتبا نجھے نجھے چہرے کے شاتھ‬
‫بولی کہ دامیر ئے اس کو دنکھا۔‬
‫”میں نمہارے شاتھ ہی ہوں پرنسٹس۔“ وہ اس کو ناد کروانا بوال لبکن اس کے‬
‫چہرے کے اداس ناپرات ہ نوز تھے تعنی شوہر کی قدر ہی نہیں۔‬
‫کھائے سے قارغ ہوئے وہ لوگ وانس منٹشن جائے کو تکل گنے تھے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ان دوبوں کو گھر چھوڑے دامیر اور رنان گودام جلے گنے چہاں کجھ مافبا ہبڈز کے‬
‫جاص لوگ موخود تھے خو شپ منٹس کی ڈنلبگ کرنا جا ہنے تھے۔‬
‫اشلحہ کی ام نورٹ اور انکسنورٹ کے نارے میں نحث کرئے وہ لوگ غیر قابونی‬
‫راسنوں کو ڈشکس کرئے لگے چہاں سے شپ منٹس النا آشان ہونیں۔‬
‫گودام ان کے منٹشن سے کجھ ہی قاصلے پہ موخود تھا چہاں وہ نبدل آجاشکنے‬
‫تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪587 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”افرتفہ نارڈر شانبڈ پہ زنادہ شک نورنی نہیں ہے بو وہ تھی آشان ہو گا۔“ دامیر اننی‬
‫ہلکی پڑھی سنو کو ک ھحانا ہوا بوال۔‬
‫”ڈانمبڈز لے جائے والے رونس کا چنہ کو علم ہو گا بو ہم اس سے ڈشکس کر‬
‫لیں گے۔۔“ شا منے کھلے تقسے کے کاعزات کو دنکھنے رنان بوال بو دامیر ئے نانبد میں‬
‫سر ہالنا۔‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫”اس کی ڈ ل م کب کرو گے؟“ دامیر ئے سرسری شا بوچھا۔‬
‫”انک دو لوگوں ئے کانتبکٹ کبا ہے اس نارے میں‪ ،‬جٹسے ہی نانیرز کا ارننج ہو‬
‫گا بو ڈنلتبگ سبارٹ ہو جائے گی اس سے نہلے ر نبلز کے شاتھ ڈنل ہے انک۔“ میز‬
‫کے ناس رکھی کرسی پہ نتتھنے رنان ئے کہا۔‬
‫”چنہ جائے گی؟“ دامیر ئے اس کے چہرے کی طرف دنکھا بو رنان ئے تقی‬
‫میں سر ہالنا۔‬
‫”اس کا جانا تھبک نہیں۔ ڈانمبڈ ڈنلز اب میں دنکھا کروں گا۔“‬
‫”ڈرنبا کے نارے میں رنسرچ جاری رکھو لبکن تطاہر فباد کے نارے میں شب‬
‫ابونستبگٹشن چھوڑ دو۔۔ کجھ دبوں کے لنے انہیں اکبال چھوڑ د ننے ہیں۔“ دامیر ئے‬
‫ڈرنک کو دنکھنے کہا جس ئے انبات میں سر ہالنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪588 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہمارے مہمان کو لے آئے ہو ڈرنک۔“ رنان کھڑے ہوئے بوال۔‬


‫”جی سر۔۔۔ وہ ادھر ہی موخود ہیں آپ کے جکم کے مطابق جاطر بوازن کر‬
‫رہے ہیں۔“ ڈرنک ئے انبا مونانل آگے کرئے ہوئے کہا جس میں لوسین کی فوننج‬
‫تھی۔‬
‫”پڑے ر ہنے دو اس کو‪ ،‬دنکھنے ہیں کہ اس خوہے کو نل میں رکھنے سے دوسرا‬
‫ناہر تکلبا ہے نا نہیں۔“ رنان شا منے جلنی شکرین کو دنکھنے ہوئے بوال چہاں شاتھ‬
‫ننٹستھ عمر کا درمباپہ آدمی انک جالی نتم اندھیرے کمرے میں نبد تھا۔‬
‫”ان کو فزتکل نارخر نہیں کرنا اگر منتبلی سے ہی کام جل رہا ہے بو جلنے دو۔“‬
‫دامیر کے کہنے پہ ڈرنک مؤدب شا سر ہال گبا۔‬
‫”کانیرنکٹس پہ کام کرشکنے ہیں اب۔“‬
‫خونکہ اب فباد سے وہ تھوڑا الپرواہی طاہر کرئے والے تھے بو ان کو اننی رونین پہ‬
‫آنا تھا۔ رنان کی نات پہ دامیر ئے کبدھے احکائے۔‬
‫”تکلنے کی نانمبگ کبا ہے صنح؟“ گودام سے ناہر تکلنے دامیر ئے شاتھ جلنے‬
‫ہوئے بوچھا‪ ،‬جبکٹ کی ج نب میں ہاتھ ڈالے رنان ئے آس ناس انک اجتنی تگاہ ڈالی‬
‫اور کبدھے احکا گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪589 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تھاتھی جاننی ہے نمہاری میں بو اس کے جکم کا عالم ہوں۔“ رنان ئے آنکھ دنا‬
‫کے کہا کہ دامیر کا قہقہہ ئےشاچنہ تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫چنہ ئے مبکسبکو میں لبام سے ملبا تھا ک نونکہ وہ اس کے کاقی عرصے سے نا ملنے‬
‫پہ اداس ہو رہا تھا‪ ،‬چنہ کے عالوہ اس کا کونی نہیں تھا۔‬
‫نحائے کسی ہونل جائے کے چنہ رنان کو اسی جگہ لے آنی چہاں لبام رہبا تھا۔‬
‫باہ النگ شکرٹ نہنے اس ئے گردن کے گرد مقلر لت نٹ رکھا تھا اور آنکھوں پہ گالسز‬ ‫س‬
‫تھے۔ رنان ہمٹشہ کی طرح اننی چئیز سرٹ اور جبکٹ نہنے ہوئے تھا۔ نلونڈ سبہرے نال‬
‫ما تھے پہ ا نسے ہی نکھرے تھے اور آنکھوں میں سرد ناپر موخود تھا۔‬
‫کوڈنگ ان الک کرئے چنہ اندر کی جانب پڑھی چہاں پڑا شا لوہے کا گنٹ تھا۔‬
‫لوہے کا گنٹ کھال اور ہمٹشہ کی طرح لبام اس کے نار مشکرانا کھڑا تھا خو اس‬
‫کے اندر آئے ہی اس کو گلے ملنے لگا لبکن رنان ئے پروفت چنہ کے آگے ہاتھ کر دنا‬
‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ک‬
‫جس سے وہ خونک کے رکبا نہلے چنہ کو تھر رنان کو نا ھی سے د ھنے لگا۔‬
‫”رنان۔۔۔“ چنہ ئے ننتبہی انداز میں کہنے اس کا ہاتھ آگے سے ہبانا اور پرم‬
‫مشکراہٹ لنے لبام کی طرف پڑھی خو اتھی الجھی تگاہوں سے رنان کو دنکھ رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪590 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نس انبا ہی۔۔۔“ لبام ئے اتھی دو سبکبڈ کے لنے چنہ کو گلے لگانا تھا کہ رنان‬
‫کی آواز پہ وہ دور ہوا۔‬
‫”لبام پہ رنان ہے ۔۔۔“ چنہ رنان کا تغارف لبام سے مزند کروانی کہ لبام کی‬
‫ناگوار آواز ئے اس کی نات کانی۔‬
‫”جانبا ہوں‪ ،‬نمہیں کبا ضرورت پڑ گنی تھی اس سے شادی کرئے کی۔“ لبام‬
‫چنہ کے شاتھ جلنے آہشنہ آواز میں اننی نانسبدندگی کو چھبائے نبا بوال کہ ننجھے جلنے رنان‬
‫ئے دانت نٹسے۔‬
‫”رنان پہ لبام ہے۔۔۔ ہونہار لڑکا کمت نوپر ماسیر۔“ چنہ ئے رک کے مشکرائے‬
‫ہوئے لبام کو م یغارف کروانا۔‬
‫س‬ ‫س‬
‫”ہبلو لبام! مجھے انبا تھانی ہی ھو۔۔“ رنان جھ گبا تھا کہ لبام چنہ کے نے‬
‫ل‬ ‫م‬ ‫ج‬‫م‬
‫جاص ہو گا نتھی نارمل لہچے میں بوال‪ ،‬لبام ئے سنجبدگی سے اس کے پڑھے ہاتھ کو تھام‬
‫لبا۔‬
‫”بو کتنی دپر ہو گنی ہے نمہیں نہاں لبام؟“ رنان اطراف کو دنکھبا ہوا بوال چہاں‬
‫کمت نوپر شستم سنٹ کنے تھے۔ انک چھوئے سے انارنمنٹ کی شکل کا تھا نٹشمنٹ واال‬
‫حصہ۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪591 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کاقی عرصہ ہو گبا ہے شاند نبدرہ شال۔۔“ وہ کبدھے احکانا بوال کہ رنان ئے‬
‫سبانسی انداز میں آپرو احکائے۔‬
‫”لبام نہت جاص ہے میرے لنے۔۔ نہت نبلتبڈ ہے۔۔“ چنہ ئے مشکرائے‬
‫ہوئے لبام کے شائے پہ ہاتھ رکھا نبانا‪ ،‬اس کے لہچے میں انک انبان نت تھرا ع یصر‬
‫شامل تھا‪ ،‬اس کی آنکھوں میں لبام کے لنے پرمی اور مجنت تھی لبکن لبام شاند رنان‬
‫کو انبا نسبد نہیں کرنا تھا نتھی وہ سنجبدہ چہرہ لنے ہوئے تھا۔‬
‫”تم ئے اس نار تھر آئے میں نہت وفت لگانا ہے۔۔“ لبام کنچن میں کھڑا اس‬
‫سے شکوہ کرنا ہوا بوال‪ ،‬وہ ان دوبوں کے لنے کجھ ستبکس نبار کر رہا تھا جبکہ رنان جال‬
‫میں ر کھے صوفے پہ نتتھا تھا۔‬
‫”مج نوری تھی۔۔۔۔“ چنہ ئے رنان کی جانب اشارہ کرئے کہا۔‬
‫”تم ئے کتھی رنان کا زکر نہیں کبا تھا تھر شادی ک نوں کر لی؟“ لبام ئے‬
‫الجھن تھرا شوال کبا ک نونکہ چنہ ئے پہ تھی طاہر نہیں کبا تھا کہ وہ کسی کو نسبد کرنی‬
‫تھی اور تھر اجانک رنان سے شادی۔‬
‫”آالننٹس! کرنی پڑی مبکس کے کہنے پہ۔“ وہ سرد آہ تھر کے رہ گنی بو لبام‬
‫ہ‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ئے ھنے سر النا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪592 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اس کی ضرورت نہیں تھی‪ ،‬میں ناہر کھانا نہیں کھانا۔“ شا منے پڑے ستبکس‬
‫کو دنکھنے رنان ئے سنجبدگی سے کہا کہ لبام ئے آپرو احکائے چنہ کو دنکھا۔‬
‫”نمہیں انبا روڈ ہوئے کی ضرورت نہیں رنان۔“ چنہ ئے نبا کسی لگی لتنی کے‬
‫ت ً‬
‫اس کو سرم دالنی جاہی جس پہ وہ کبدھے احکا گبا۔ لبام کے نارے میں وہ قصبال‬
‫اس سے بو چھے گا۔‬
‫”تم آج نہیں پہ رکو گی۔“ رنان کو تظرانداز کرئے لبام ئے چنہ کو دنکھنے کہا۔‬
‫”نہیں میں ئے ان یطام کر رکھا ہے ر کنے کا ہم جلیں جانیں گے۔“ اس سے‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫نہلے کہ چنہ خواب د ننی کی رنان کی آواز ئے ان دوبوں کی بوجہ اننی جانب نچی۔‬
‫”بو تم جلے جاؤ‪ ،‬چنہ نہی رکے گی۔“ لبام کا انبا ہی کہبا تھا کہ رنان کی آنکھوں‬
‫میں سرد ین در آنا‪ ،‬اس کے چہرے کے ناپرات سباٹ ہوئے۔‬
‫چنہ ئے دوبوں کے چہرے ناری ناری د نکھے۔‬
‫”میں آج نہیں رک شکنی لبام‪ ،‬کل رک جاؤں گی۔“ چنہ ئے خود ہی مداچت کی‬
‫کہ جال میں جاموسی چھا گنی جبکہ رنان اس نچے کو دنکھ کے کڑھ رہا تھا خو چنہ پہ انبا‬
‫جائے کون شا خق جبا رہا تھا۔ اگر چنہ کو پہ عزپز پہ ہونا بو ا چھے سے نبانا اس کو۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪593 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ کجھ وفت لبام کے شاتھ گزارئے کے تغد اتھی کہ لبام اس سے ملنے کو‬
‫آگے پڑھا چب رنان ئے تھر بوکا۔‬
‫”تم اس کے تغیر تھی اس کو نائے بول شکنے ہو۔۔“ رنان کی آواز میں وارنبگ‬
‫تھی کہ لبام نبا نحث کنے ننجھے ہٹ گبا۔ لبام کو انک دو چیزوں کی ہدانت کرئے وہ‬
‫ن‬
‫وہاں سے تکلی اور گاڑی میں تتھی‪ ،‬رات کاقی گہری ہو گنی تھی آس ناس کا عالقہ‬
‫سٹشان تھا۔‬
‫”نمہیں اس سے روڈ ہوئے کی ضرورت نہیں رنان‪ ،‬وہ ضرف نہاں مجھے جانبا ہے‬
‫اور میں نمہیں ہرگز اجازت نہیں دوں گی کہ تم اس کے شا منے پہ نماسے کرو۔“‬
‫گاڑی میں نتتھنے ہی چنہ ئے رنان کی طرف رخ کرئے اس کو سجنی سے کہا۔‬
‫”اب نمہیں الرجی نہیں ہونی نچ سے۔۔“ رنان جان بوچھ کے طیزپہ انداز میں بوال‬
‫کہ چنہ کا چہرہ دھواں دار ہوا‪ ،‬اس کی آنکھوں میں عصہ غود آنا۔‬
‫”ہی از کلوز بو می۔“‬
‫)‪(He is close to me‬‬
‫چنہ اس کی نات پہ ضیط کرنی ہونی دانت نٹسنے بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪594 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ج‬‫س‬ ‫م‬ ‫ُ‬


‫”اور اس سے زنادہ یں فرنب ہوں نمہارے۔“ رنان اس سے زنادہ نی سے بوال‬
‫کہ اس کے ہاتھ کی گرفت سنئیرنگ پہ مضنوط ہونی۔ اس کی نات پہ رنان کا عصہ‬
‫مزند پڑھا تھا کہ وہ اس کے شا منے کٹسے اس لڑکے کو گلے لگا شکنی تھی جبکہ اس‬
‫کے ناس آئے سے وہ عج نب ڈرامہ کرنی تھی۔‬
‫اس کے انداز پہ چنہ جاموش ہو گنی تھی نبا مزند نات کنے وہ ناہر گزرئے ر سنے‬
‫کو دنکھنے لگی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”لبام نہت چھونا تھا چب میں ئے اس کو رنشک نو کبا تھا‪ ،‬وہ نٹس شال کا ہے‬
‫اور اس کو میرے شاتھ ر ہنے نبدرہ شولہ شال ہوئے والے ہیں‪ ،‬تم ئے جس طرح‬
‫اس کو آج پرنٹ کبا مجھے نہت پرا لگا‪ ،‬تم ا نسے نبہ نو کر رہے تھے جٹسے وہ انک پرا‬
‫انشان ہو۔۔ پڑی نہن ہوں میں اس کی کتھی کتھی مجھے اننی ماں کہبا ہے‪ ،‬مجھے نمہیں‬
‫وصاجنیں د ننے کی ضرورت نہیں ہے لبکن میں اسی لنے کہہ رہی ہوں کہ آ نتبدہ تم‬
‫مجھ سے خڑے لوگوں کی عزت کرو۔“ چنہ کی سنجبدہ آواز اس کے کابوں سے نکرانی بو‬
‫وہ گردن گھمائے اس کی جانب دنکھنے لگا خو اننی گھڑی انارئے ڈرنسبگ پہ رکھ رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪595 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس وفت وہ لوگ رنان کے خرندے گنے انک چھوئے سے مگر پراشانش گھر میں‬
‫موخود تھے‪ ،‬ہر جگہ پراپرنی خرندئے کا ان کو پہ قاندہ ہونا تھا کہ چب وہ کہیں جائے بو‬
‫وہ لوگ اننی جگہ پہ شکون سے رہ نائے تھے۔‬
‫”میں ئے کونی پرا انشان نہیں سمجھا اس کو‪ ،‬مجھے اس کا نمہارے فرنب آنا پرا‬
‫لگا اور پہ نات تم ا چھے سے جاننی ہو کہ مجھے پہ نالکل تھی پرداشت نہیں کہ کونی‬
‫نمہارے فرنب آئے۔“ رنان اس کی نات پہ سنجبدگی سے جبانا ہوا بوال اور اننی سرٹ‬
‫انارئے لگا۔‬
‫”میں اس سے مہت نوں تغد ملنی ہوں اور وہ اننی خوسی کا اظہار کرنا ہے نمہیں اننی‬
‫پرانلم ہے اس سے بو نہیر ہے کہ اگلی نار تم شاتھ پہ جاؤ۔“ رنان کی نات پہ وہ‬
‫شلگ کے رہ گنی تھی چب وہ اس کو نبا رہی تھی کہ وہ اس کو کتبا عزپز ہے تھر‬
‫تھی انبا رغب چھاڑ رہا تھا۔‬
‫”مجھے نمہارے ملنے سے کونی مسبلہ نہیں ہے اور کبا پہ گلے ملبا شاتھ جبکبا‬
‫ھ‬ ‫چ‬
‫ضروری ہے۔۔۔“ رنان اس کی طرف انبا رخ کرنا ہوا نجھالہٹ میں بوال کہ چنہ کے‬
‫ما تھے پہ نل واصح ہوئے۔‬
‫”واچ بور ورڈز۔۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪596 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫)‪(Watch your words‬‬


‫اس کا جبکبا کہبا اس کو نہت ناگوار گزرا تھا۔ پرے موڈ کے شاتھ وہ خود تھی‬
‫فرنش ہوئے کا ارادہ رکھنی ڈرنسبگ روم کی طرف پڑ ھنے لگی تھی کہ رنان ئے ر سنے میں‬
‫اس کا نازو تھام لبا۔‬
‫”شادہ سے القاظ میں کہہ د نبا ہوں اننی نات‪ ،‬میرے شاتھ رہو نس میرے‬
‫ناس۔ کونی دوسرا نمہیں مشکرا کے د نکھے تھی پہ جلبا ہے شاال۔۔۔“ اس چہرے کو‬
‫ہاتھوں کے نبالے میں تھرئے وہ آہشنہ آواز میں بو لنے ہوئے ا ننے دل کی جانب‬
‫اشارہ کرئے لگا۔‬
‫”نبار نہیں کرئے تم مجھ سے؟“ چنہ اس کے ستنے سے تگاہ خرانی اس کی‬
‫ن‬
‫آنکھوں میں د نی نجبدگی سے بو ھنے گی کہ رنان ئے قی میں سر ہالنا۔‬
‫ت‬ ‫ل‬ ‫چ‬ ‫س‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫”میں نبار نہیں کرنا تم سے۔۔“ رنان ئے اسی انداز میں کہا۔‬
‫”نمہارا ج نون ہے مجھے۔“‬
‫”‪“I’m obsessed with you‬‬
‫اس ئے انک جذب کے عالم میں کہا کہ چنہ کو انبا دل کابوں میں دھڑکبا ہوا‬
‫محسوس ہوا اور اسی دھڑکن کو اس ئے اننی ہتھبلی پہ محسوس کبا چب رنان ئے اس‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪597 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کا ہاتھ تھامے ا ننے پرہنہ ستنے پہ رکھا۔ وہ اب تھی اس کی آنکھوں میں دنکھ رہی تھی‬
‫چہاں کجھ دپر نہلے کا عصہ اب جتم تھا۔‬
‫رنان ئے جبد انچ کا قاصلہ تھی مبائے دھڑک نوں کا شور مزند نلبد کبا کہ چنہ ئے‬
‫دوسرے ہاتھ کو سجنی سے ت ھتنحا۔‬
‫”تم نس میرے شاتھ ک یفرنتبل رہو۔۔ نس میرے لمس کو محسوس کرو۔ مجھے‬
‫ا ننے فرنب محسوس کرو۔“ اس کے ما تھے سے ماتھا تکائے ہوئے وہ مدھم گھمئیر لہچے‬
‫میں بوال۔‬
‫اس ئے ہمٹشہ کی طرح رنان کو ننجھے ہوئے کو نہیں کہا تھا نلکہ اس کے حصار‬
‫میں کھڑی رہی تھی۔‬
‫”میں پہ نہیں ستبا جاہبا کہ تم میرے فرنب آئے سے اچھا محسوس نہیں‬
‫کرنی۔“ اس کے کان کے فرنب ہونٹ لے جائے وہ سرگوسی میں بوال۔‬
‫”جبکہ میرا دل نمہارے فرنب آئے کے لنے محلبا ہے۔۔“ اس کے رجشار کو‬
‫چھوئے ہوئے وہ مجمور تگاہوں سے اس کو دنکھنے لگا خو انچ تھر کے قاصلے پہ موخود‬
‫تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪598 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫انک نل میں ہی انک قسوں شا کمرے میں تھبل گبا تھا خو ان کو ا ننے سجر میں‬
‫جکڑنا جاہ رہا تھا۔‬
‫رنان مزند کونی گسباجی کرنا کہ مونانل کی چیرنی ہونی آواز پہ اس کا ارتکاز بونا اور‬
‫ا ننے حصار میں فبد اس ماہ نارا کو دنکھا جس کی آنکھوں کا جبا سے چھکبا اس کو نہت‬
‫تھانا تھا‪ ،‬اس کے رجشار کی سرجی اس کے دل نار اور چ ھیڑ گنی تھی لبکن مونانل کی‬
‫مشلشل دجل اندازی وہ سحت ندمزہ ہوا اور سرد آہ تھرنا شانبڈ نتبل سے فون اتھائے‬
‫کان سے لگا گبا۔‬
‫قسوں بوٹ حکا تھا‪ ،‬فرنت کا سجر جتم ہو حکا بو چنہ تھی ستتھل کے ناتھ روم کی‬
‫جانب پڑھ گنی۔ چب نک وہ فون پہ راتطہ جتم کر کے قارغ ہوا نب نک وہ جتنج کر‬
‫کے آجکی تھی۔‬
‫ان کے کیڑے نہاں سنٹ کر د ننے گنے تھے کہ چب نک نہاں موخود ہیں‬
‫ان کو آشانی ہو۔ نانگ کا زچم اب درد نہیں کرنا تھا‪ ،‬جتنی سحت ان کو نارخر پرنتبگ‬
‫دی جانی ہے اس کے آگے پہ کجھ نہیں تھا۔‬
‫نالوں کا رف شا خوڑا نبا کے وہ نبڈ پہ نتم دراز ہونی تھی کہ رنان کی آواز پہ خونک‬
‫کے اس کی جانب دنکھنے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪599 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”لبام کو تم ئے کہاں سے رنشک نو کبا تھا؟“ وہ نس پراؤزر جتنج کر کے آنا تھا‪،‬‬


‫سرٹ اس ئے اتھی تھی نہیں نہنی تھی۔‬
‫”انلی میں ہی‪ ،‬اس کی ماں کو مار دنا گبا تھا انک آکشن کی لڑانی میں نب سے‬
‫میرے شاتھ ہے۔“ چنہ ئے سنجبدگی سے نبانا‪ ،‬دوبوں کا انداز ا نسے تھے جٹسے تھوڑی‬
‫ُ‬
‫دپر ان میں کونی پزدنکی کا لمحہ آنا ہی نہیں تھا اور اس سجر ا گیز فرنت کو وہ فراموش کر‬
‫ن‬
‫جکے تھے۔‬
‫”آکشن میں!“ رنان ئے دہرانا۔‬
‫”شل نو)‪ (Slave‬تھیں وہ‪ ،‬نبالمی لگ رہی تھی‪ ،‬خود کو انسی جالت میں وہاں‬
‫کھڑا رکھبا پرداشت نہیں کر نانیں خود کی جان لتنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے‬
‫ہ یگامہ ہوا اور وہ ماری گنی۔“ چنہ ئے گہرا شانس تھر کے کہا کہ آنکھوں کے شا منے‬
‫وہ شارے م یظر جلنے لگے تھے۔‬
‫”لبام وہیں موخود تھا‪ ،‬ڈرا ہوا سہما شا‪ ،‬کجھ کھوئے کا خوف اس کی آنکھوں میں‬
‫رچ گبا تھا‪ ،‬نحہ تھا وہ لبکن وہاں خو ہو رہا تھا وہ دنکھ کے ڈرا تھا۔ انبا بو جانبا تھا کہ‬
‫اس کی ماں کے شاتھ تھبک نہیں ہو رہا تھا خو شب کے شا منے انک شو نٹس کی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪600 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫طرح نتم پرہنہ کھڑی کر دی گنی تھی۔“ چنہ کے چہرے پہ کرب کے آنار تظر آئے‪،‬‬
‫م‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ان کی تکل یف کا شو جنے اس ئے سجنی سے آ یں نچ یں۔‬
‫ل‬ ‫ھ‬
‫”دس نارہ شال کی تھی میں زنادہ کجھ کرنا نہیں جاننی تھی لبکن اس دن دو‬
‫فبل کنے تھے میں ئے ان ہاتھوں سے۔۔“ اس ئے ا ننے ہاتھوں کو شا منے کبا اور‬
‫رنان کی طرف دنکھا۔‬
‫وہ تغور اسی کو دنکھ رہا تھا۔ پہ ضرف لبام کی نات نہیں تھی کجھ اور تھی تھا۔‬
‫”نہت ج نوان ہیں نہاں عام زندگی گزارئے والوں کو کبا نبا ان کے شاتھ اتھبا‬
‫نتتھبا جلبا تھرنا انشان کبا ہے۔۔ دنکھنے میں خوش اجالق لبکن اندر سے انک سیطان‬
‫ج نوان۔۔“ وہ نحوت سے بولی کہ اس دنبا کے لوگوں سے وہ عاخز آگنی تھی۔‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫ل‬ ‫ج‬ ‫ج‬‫ن‬
‫”اس نانچ شال کے نچے کو وہ نے والے ھے ا نی نوا گی کے نے۔۔ خرندئے‬
‫والے کو مار دنا۔“ چنہ الپرواہی سے بولی‪ ،‬اس کے لہچے میں شقاکنت تھی جٹسے وہ رچم‬
‫نہیں کرے گی آگے تھی‪ ،‬ان کا زکر آئے جٹسے وہ لمحات وانس آ گنے تھے اور عصہ‬
‫اس کی رگوں میں سرارے مارئے لگا تھا۔‬
‫”نہی زندگی ہے ملٹسکا۔۔۔“ رنان اس کے پراپر نتتھبا ہوا بوال۔ چنہ ئے گردن‬
‫گھمائے اس کو دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪601 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہم چہاں نبدا ہوئے ہیں وہاں ہمارا ف نوخر لکھ دنا جانا ہے‪ ،‬مارے جاؤ نا مار دو اور‬
‫مارے جائے سے نہیر ہے مار دو۔“ اس ئے کمرے کی النٹ ہلکی کر دی‪ ،‬چنہ ئے‬
‫کمرے میں تظر دوڑانی۔‬
‫”مجھے تم پہ فجر ہے کہ تم ئے پہ راشنہ جبا ا ننے لنے۔۔۔“ وہ اس کے فرنب‬
‫ن‬
‫ہوا اور ما تھے پہ ہونٹ ر کھے۔۔ اسے وافعی فجر تھا۔ اس کی آ یں م کرا رہی یں کہ‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫اس کی ن نوی معصوم لوگوں کو نحانی تھی۔‬


‫”میں نمہارا بورا شاتھ دوں گا اس کام میں۔“ اس کی اگلی نات پہ چنہ خونکی۔‬
‫”تم پرابوا کے ہبڈ ہو اور پرابوا میں شب سے زنادہ نہی کبا جانا ہے رنان۔ ہ نومن‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫پرتقبکبگ‪ ،‬کٹسے روکو گے اس شب کو؟“ چنہ ئے اس کی جانب د نے شوال کبا۔ وہ‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ل‬‫ن‬
‫ھ‬
‫چی سے م کرانی ھی۔ رنان ئے اس کے شائے کے گرد نازو الئے گو کہ وہ اس‬
‫کے حصار میں آگنی۔‬
‫”جٹشا کہ تم ئے کہا پرابوا کا ہبڈ‪ ،‬میرے لنے مسکل نہیں اور ا ننے پرے‬
‫کاموں میں انک نبک کام شاند میری زندگی پڑھا دے۔۔“ اس کو تظروں کے حصار‬
‫میں رکھبا وہ آنکھ دنا کے بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪602 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”لبام کے شاتھ میرا خو تھی نبہ نو ہے مجھے کونی سرم نہیں اور اگر آ نتبدہ تھی‬
‫ف ً‬
‫نہارے فرنب آنا بو میں ا نسے ہی ری انکٹ کروں گا۔۔“ د عبا وہ لبام کا زکر کرنا‬
‫سنجبدگی سے بوال کہ چنہ اس کو گھورئے لگی۔‬
‫”میں جانبا ہوں تم نہاں انبا نارگنٹ بورا کرئے آنی ہو۔“ تگاہیں اتھی تھی اس‬
‫کے چہرے پہ مرکوز ت ھیں اور اس کا ہاتھ نالوں کی ل نوں سے اتھکبلباں کر رہا تھا۔‬
‫چنہ کو اس کی فرنت سے کونی عج نب شا اجشاس نہیں ہو رہا تھا۔‬
‫”دو دن تغد نہاں سے انک شپ منٹ بو انس اے جائے والی ہے لڑک نوں‬
‫کی۔۔ مجھے اسے نازناب کروانا ہے۔“ چنہ ئے سنجبدگی سے کہا رنان ئے آہشنہ سے سر‬
‫ہالنا۔‬
‫مج ُ‬
‫”تم ئے خو کرنا ہے کرو نسرظنہ ھے ہر اس کام کی ا الع دو۔۔“ اس کی‬
‫ط‬
‫تھوڑی کو تھامے اس ئے وارنبگ دی۔ چنہ اس کا ہاتھ دور کرنی جاموش رہی۔ لبام‬
‫کو رنان نسبد نہیں تھا سروع سے ہی اور پہ کتھی انہوں ئے رنان کا زکر کبا تھا۔‬
‫پرتقکبگ کے م یغلق اتھی رنان کی نات شن کے اس کو خوشگوار چیرت ہونی تھی۔ وہ‬
‫اس کا شاتھ دے گا پہ جا ننے ہوئے تھی بوابوا مشہور ہی پرتقکبگ کی وجہ سے ہے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪603 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دل میں رنان کے لنے انک پرم گوشا نتبا سروع ہو گبا تھا۔ اس ئے لبام کے‬
‫م یغلق بو نبا دنا لبکن وہ اس کو پہ پہ کہہ نانی کہ وہ اِ س کی ماں تھی جسے ناقانل‬
‫پرداشت جالت میں ا ننے ج نوابوں کے شا منے ال کھڑا کر دنا تھا‪ ،‬وہ اس کی ماں تھی خو‬
‫ن‬
‫اننی رہانی کے ان یطار میں تتھی ان ج نوابوں کے ہاتھوں بوجی گنی لبکن امبد پہ بو ننے‬
‫دی۔‬
‫اس کی ماں انک جٹسی عالم تھی‪ ،‬معصوم تھی ان شب کی طرح جن کو وہ‬
‫نازناب کروانی تھی لبکن انہیں زانی دو کوڑی کی نشکین کے لنے اسیعمال کبا جانا‬
‫تھا۔‬
‫وہ نہت چھونی تھی لبکن اننی چھونی عمر میں نہت کجھ سمجھ گنی تھی‪ ،‬زندگی کا‬
‫نہت تھبانک ناب کھوال گبا تھا نب۔‬
‫انک عام زندگی گزارئے اجانک قہر شا تھرنا ہو گبا تھا خو ان کو اس اندھیری کال‬
‫کوتھری میں نبد کر دنا گبا تھا چہاں دن کا شورج تھا نا رات کی جاندنی‪ ،‬نس آہوں اور‬
‫ششک نوں کا چہان آناد تھا اور انہیں ششکنی آہوں میں ضرف پہ دو وخود ہی نہیں نلکہ‬
‫نٹسوں ا نسے وخود تظر آئے خو ئےنار و مدد گار پڑ ننے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪604 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫مبکس ئے کتھی شادی نہیں کی تھی لبکن وہ اس کی اوالد تھی ناجاپز اوالد!‬
‫مبکس کو ناپ کہنے کی کتھی خود میں ہمت نبدا ہی نہیں کی نتھی ناف نوں کی طرح نام‬
‫سے نا اتکل کہہ کے نال لتنی۔‬
‫مبکس انہی کالے دل والے مافبا سرداروں میں سے تھا خو اننی رات رنگین‬
‫کرئے لنے کسی نبلی کی ناہوں میں اننی نباہ ڈھونڈئے جن کے پر کاٹ د ننے جائے۔‬
‫ت ُ‬
‫انہیں میں اس کی ماں ھی۔ اس ئے انبا بو لبا تھا کن شب کے شا منے یں اور پہ‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ب‬ ‫ل‬
‫م‬
‫ہی انک سبدھے طر تقے سے لبکن گ ھر نار اور کھائے نتنے کی ضرورنات کمل کرنا رہبا۔‬
‫مبکس کے ہی ندلے کی تھت نٹ خڑھی تھی اس کی ماں کی زندگی چب اجانک‬
‫مبکس پہ چملہ کرئے وہاں موخود شب غوربوں کو عالم نبا لبا گبا اور ان کو نبالمی کے‬
‫لنے نبار کر دنا گبا۔‬
‫انک ک نواری اور کم شن لڑکی ڈارک ورلڈ کے لنے فتمنی خزاپہ ہونی تھی اور شقبد‬
‫چمڑی واال جشن جس پہ معصومنت رجی ہو اس کو نائے لنے نہاں کے لوگوں کی‬
‫رالیں نبکنی تھیں جاہے جان ہی ک نوں پہ جلی جائے۔ اندھیروں سے لوگوں کے‬
‫تھبانک روپ سے ڈری وہ اننی ماں کے نلو سے لتنی رہی۔ ماں کے شاتھ آنسوں نہانی‬
‫آہ و زار کرنی‪ ،‬حق یفت سے وافف تھی اِ س کی نتھی دل میں امبد حگائے رکھنی کہ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪605 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫مبکس ان نک ہنچ جائے گا کل ان کو نحا لے گا۔۔ اور نہی جبال وہ روز دل میں‬
‫النی کہ “مبکس کل نحا لے گا”‬
‫جس دن ناری ناری شب کو نبالمی لے لنے النا گبا اس دن شب سے زنادہ خرجا‬
‫مبکس کی چھنی مج نوپہ کا کبا جا رہا تھا جس کے شاتھ اس کی نتنی تھی تھی۔‬
‫شب میں تعرے نازی جاری تھی۔ وہاں انک چھونا نانچ شالہ نحہ تھی تھا‪ ،‬دس‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫سے نبدرہ شالہ لڑکباں۔ اس دن قدرت ھی شاتھ خو ان کو رہانی دلوانا جا نی ھی ھی‬
‫کسی ہ یگامے میں اس کے ہاتھوں دو فبل ہوئے تھے۔ اس کی ماں کو بو جنے ج نوان‬
‫تھڑکے تھے کہ نتھی انہوں ئے خود کو اس تکل یف سے نحاد دے دی اور وہاں گری‬
‫کسی کی نبدوق اتھائے خود پہ نان کے اس کی گولی کھا لی۔ اس دن چنہ کو اننی‬
‫معصومنت جتم ہونی محسوس ہونی اور نبا کونی تھی آنسوں نہائے اس دن نہلی نار فبل‬
‫کر ڈالے۔ وہ چھونا نانچ شالہ نحہ اننی ماں کی جاطر رونا سروع ہوا خو اسی تھگڈر میں کسی‬
‫کی وجشت کا شکار ہو گنی۔‬
‫آنکھوں کے آگے وہ شارے نل انک قلم کی طرح جلنے لگے‪ ،‬وہ شارے مباطر‬
‫انک انک کر کے اس کے زچموں کو تھر سے نازہ کر گنے تھے جٹسے ان میں سے‬
‫خون رسبا سروع ہو گبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪606 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫خود کے گرد سے رنان کا نازو ہبائے وہ اتھبا جاہنی تھی لبکن وہ کچی نتبد میں تھا‬
‫خو ہلکی سی تھی جنٹش سے اتھ گبا۔‬
‫”کبا ہوا؟“ کچی نتبد کا چمار آنکھوں کے پردوں پہ لہرا رہا تھا۔‬
‫”کجھ نہیں نس نالکنی نک جا رہی تھی۔۔“ وہ اننی آواز کی کبکباہٹ پہ چھبا نانی‬
‫ً‬
‫تھی نتھی رنان فورا سبدھا ہو تتھا۔‬
‫ن‬
‫”اِ دھر دنکھو۔۔“ رنان ئے اس کا نازو تھامے اننی جانب اس کا رخ موڑا بو‬
‫ن‬
‫آ کھیں ضیط سے سرخ ہو رہی تھیں۔‬
‫”آنکھوں میں جلن سی ہو رہی ہے شاند نتھی نانی کے چھنتنے مارئے جارہی‬
‫تھی۔“ چنہ تگاہیں خرانی ہونی بولی۔ اس وفت تھوڑا اکبلے وفت جا ہنے تھا۔‬
‫”خو نانیں ستنے میں جلن نبدا کریں ان کا عبار تھی تکال د نبا جا ہنے۔“ رنان اس‬
‫کا تگاہیں خرانا دنکھنے بوال۔‬
‫”انہیں کا عصہ‪ ،‬عبار تکالنی ہوں میں لبکن اکیر کجھ لوگوں پہ جاہ کے تھی انبا‬
‫نس نہیں جال شکنی۔“ وہ سرد آہ تھرئے ہوئے بولی۔ رنان ئے اس کا نازو چھوڑ دنا۔‬
‫ج‬ ‫ن‬
‫وہ اتھ کھڑی ہونی اور جلنے نالکنی نک آگنی چہاں نجنے ناہر کی نی ہوا ئے اس کا‬
‫ل‬ ‫ہ‬
‫ک‬‫ن‬
‫اسیقبال کبا جس پہ اس ئے گہرا شانس تھر کے آ یں موند یں۔‬
‫ل‬ ‫ھ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪607 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬‫ج‬ ‫گ‬‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬


‫ضیط بونا اور آ یں پرسنے یں۔ ناہر سے نی وہ سحت ھر دل ظر آنی ھی‬
‫ُ‬ ‫ن‬
‫اننی ہی اندر موم تھی خو نگھلنے کو نبار تتھی تھی۔ اگر اس ل تقدپر شاتھ پہ د نی بو شاند‬
‫ن‬ ‫ن‬

‫آج وہ تھی انہیں ئےزنابوں مطلوموں میں شامل ہونی خو ا ننے انشان ہوئے کا چمبازہ‬
‫ن‬
‫دن رات گھتنے تھے۔‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬
‫نہاں کھڑے کاقی نل ن نت گنے اور آ یں اب جشک ہو نی یں۔ ا ننے گرد‬
‫ھ‬ ‫گ‬ ‫ھ‬
‫نازو محسوس کرئے نبا اس کی جانب د نکھے اس ئے رنان کے کبدھے پہ سر تکانا۔‬
‫”میری ماں معصوم تھیں‪ ،‬وہ ان یطار کرنی رہنی تھیں لبکن مبکس ئے ان کو‬
‫نہیں نحانا۔۔ وہ ان یطار طونل ہونا گبا اور تھر اسی ان یطار کو انہوں اننی جان کے شاتھ‬
‫جتم کر دنا تھا رنان۔ وہ جا ہنے بو جلدی آشکنے تھے‪ ،‬ان کے ہاتھ میں تھا شب لبکن وہ‬
‫نتتھے رہے۔ جن وفت ماں ئے آخری شانس لبا اس نل وہ ہمیں نحائے آ گنے۔ جد‬
‫عرضی کی جد تھی وہ۔۔“ وہ اس کے کبدھے سے خڑی بولی کہ القاطوں میں چھنی‬
‫ئےنسی پہ رنان ئے اس کے چہرے کو دنکھا۔‬
‫”میں وہ شب دونارہ نہیں دنکھبا جاہنی‪ ،‬زندگی نہت فتمنی ہے اور معصومنت اس‬
‫سے تھی زنادہ۔“ چنہ مدھم لہچے میں بولی‪ ،‬رنان ئے دوسرا ہاتھ تھی اس کے گرد ناندھ‬
‫دنا۔ ”میرے ہوئے ہوئے تم کتھی تھی وہ شب نہیں دنکھ شکو گی پہ وعدہ ہے۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪608 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫م ت‬
‫ن‬
‫رنان ئے اس کو خود یں نجنے ہوئے کہا۔ اس کی نا یں اس نک آدھی ادھوری چی‬
‫تھیں لبکن انبا وہ ضرور جان گبا تھا کہ خو نازناب کروائے کا اس میں خزپہ تھا پہ کسی‬
‫وجہ سے آنا تھا۔‬
‫کتھی کتھی جن کاموں میں ہم ج نونی ہوئے ہیں ان کے ننجھے کونی انسی ہی‬
‫کہانی‪ ،‬القاظ‪ ،‬وافغات اور روئے چھنے ہوئے ہیں خو ہمیں ج نونی نبا د ننے ہیں۔‬
‫اس کے ستنے سے لگی وہ شا منے آدھی رات کو سڑکوں کے مباطر دنکھ رہی تھی۔‬
‫رنان اس کو پرم حصار میں ناندھے کھڑا تھا۔ اس وفت وہ انبا دوسرا روپ لنے کھڑی‬
‫تھی وہ جانبا تھا کہ صنح ہوئے ہی وہ دونارہ سرد چنہ ین جائے گی جس کو اسنٹشلی‬
‫“رنان کے نچ” سے الرجی ہو گی۔ پہ جبال آئے ہی وہ ان لمحات کو مزند جتنے کا‬
‫خواہش مبد ہوا تھا اور آشودگی سے مشکرا دنا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”پہ نہت خوتصورت جگہ ہے لبکن مجھے چنہ کی نہت ناد آرہی ہے۔۔“ آس ناس‬
‫کی نارنچی عمارات کو دنکھنے وہ خوسی سے چہچہانی لبکن تھر چنہ کو ناد کرئے اس ئے‬
‫منہ نبانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪609 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اتھی خو ناس ہے اس سے تھی خوش ہو جاؤ۔“ دامیر ہلکی گھوری سے بوازنا ہوا‬
‫اس کی کمر کے گرد نازو چمانل کرنا ہوا بوال اور چہل قدمی کرئے لگا۔‬
‫رنڈ شکوانیر! ماشکو کی خوتصورت جگہ جس کے اطراف میں خوتصورت نارنچی عمارات‬
‫ننی تھیں اور سباح نہاں ا ننے جسین نل جی رہے تھے۔‬
‫دامیر آج علتبا کو لنے تھوڑی آؤنبگ پہ آنا تھا ک نونکہ دو دبوں سے وہ اس سے‬
‫شکوہ کر رہی تھی کہ گھر میں رہ کے وہ دامیر کی طرح ئےزار سحضنت نہیں نتبا جاہنی‬
‫تھی جس پہ وہ پری طرح خوتکا۔‬
‫انک ہاتھ ناکٹ میں جبکہ دوسرا علتبا کی کمر کے گرد نبدھا تھا‪ ،‬علتبا خوسی سے‬
‫اس کی کمر سے لتنی ہونی نانیں کر رہی تھی۔‬
‫”تم مجھے شن نہیں رہے نا۔۔“ دامیر کے خواب پہ د ننے پہ علتبا ئے اس سے‬
‫حقگی تھرے انداز میں کہا۔‬
‫”شن رہا ہوں۔۔“ دامیر ئے شا منے دنکھنے کہا۔‬
‫”ادھر میری طرف دنکھو۔“ علتبا ئے ا ننے ہاتھ سے اس کا چہرہ اننی جانب کبا۔‬
‫”دنکھوں گا بو سر عام حطا ہو جائے گی۔“ اس کو گہری تگاہوں سے دنکھنے وہ‬
‫ع ن‬
‫گھمئیر لہچے میں بوال کہ لتبا آ یں ھ الئے اس کی نات پہ ھت نپ سی نی۔‬
‫گ‬ ‫چ‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪610 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم شا منے ہی دنکھو اور سنو۔۔“ اس کا چہرہ وانس شا منے کی طرف کرئے وہ‬
‫ستتھلنے ہوئے بولی کہ دامیر کے ہون نوں پہ ہلکی سی مشکراہٹ آنی‪ ،‬وہ تھر سے اننی‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫خوسی کا اظہارکرئے لگی۔ چب دامیر ئے اجانک نازو سے اس کو نجنے دوسری جانب‬
‫کبا۔۔‬
‫ل‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫س‬ ‫گ‬ ‫کھ‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫اس کے ا نسے اجانک نجنے پہ وہ بو ال سی نی اور لنے اس کو د ھنے گی‬
‫جس کا ہاتھ اننی ونشٹ کی جانب تھا۔ اس کا سر اجانک جکرا شا گبا چب آنکھوں کے‬
‫شا منے جٹسے انک قلم سی لہرانی۔‬
‫انک نک سنور چہاں کبانیں نکھری پڑی تھیں۔ دھواں اتھ رہا تھا۔ وہ ا نسے ہی‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫گ‬ ‫ل‬‫ب‬ ‫ت‬ ‫ک‬
‫دامیر کے ھے ھڑی ھی‪ ،‬س ف بوٹ نی ھی اور ا ک آواز کابوں سے کرانی۔‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬

‫”ڈونٹ ل نو مانی شانبڈ!“‬


‫وہ م یظر اب ہٹ گبا تھا اور سر میں درد کی تھٹس اتھی‪ ،‬دامیر کسی سے کجھ‬
‫کہہ رہا تھا ک نونکہ وہاں کونی اس سے نکرائے واال تھا اور دامیر ئے پروفت اس کو‬
‫دوسری شانبڈ کر دنا تھا۔‬
‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫لبکن اس کو خو اجانک جبال آنا تھا وہ کبا تھا؟ وہ نا ھی سے آس ناس د ھنے‬
‫ک‬
‫لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪611 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم تھبک ہو؟“ دامیر کے چہرے کے ناپرات نالکل سباٹ تھے چب وہ اس‬
‫آدمی کو گھور رہا تھا کو ئےدھبانی میں ادھر آتکال تھا لبکن اس کی طرف مڑئے اس‬
‫کے چہرے کو ہاتھوں میں تھرئے پرمی سے بوچھنے لگا۔ علتبا ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫دامیر مزند عصے سے پڑپڑانا ہوا اس کو شاتھ لنے آگے پڑھا۔ وہ جبال سمجھ کے‬
‫زہن سے چھبک جکی تھی کہ شاند کتھی پرانا شاتھ گزارا وفت ہو۔ لبکن نک سنور نکھرا‬
‫ک نوں پڑا تھا؟‬
‫اس وفت وہ دوبوں شانبگ اپرنا کی طرف پڑھ آئے تھے چہاں نس ا نسے ہی وہ‬
‫دوبوں جا رہے تھے۔ ان سے کجھ ہی قاصلے پہ موخود دامیر کے گارڈز جل رہے تھے۔‬
‫”ڈرنس لتبا جاہو گی۔۔“ دامیر ئے شا منے شو کٹس میں لگے گالس وال کے نار‬
‫سرخ ڈرنس کی طرف اشارہ کبا خو شل نو لٹس ہوئے کے شاتھ گ ھت نوں نک آنا تھا۔‬
‫”کس لنے۔۔؟“علتبا ئے نہلے اس ڈرنس کو دنکھا تھر دامیر کو نبکھے انداز میں۔‬
‫”میرے لنے۔۔۔“ وہ اس کو گھورئے میں مصروف تھی چب دامیر ئے ہلکا شا‬
‫اس کی جانب چھکنے مشکرا کے کہا۔ علتبا اس کی سرارت پہ اس کے کبدھے پہ ہلکی‬
‫سی ج نت رسبد کرنی ہونی وانس اس سرخ ڈرنس کو دنکھنے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪612 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”لیں۔۔۔؟“ علتبا ئے مشکراہٹ دنا کے کہا دامیر ئے خواب د ننے کے نحائے‬


‫اس شاپ کی طرف جلبا سروع کبا کہ علتبا کھلکھال اتھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫آج کا دن ان کا مصروف گزرا تھا نتنچے میں وہ لوگ ا ننے م یصوئے میں کامباب‬
‫تھی ہو گنے تھے۔ لبام کی مدد سے وہ لوگ تھبک جگہ نہنچے تھے اور ان لڑک نوں کو لے‬
‫جائے سے نہلے ہی نازناب کروا لبا تھا انہوں ئے‪ ،‬اسی تھاگم تھاگ میں چنہ کا زچم‬
‫خون سے ر سنے لگا تھا۔‬
‫لڑک نوں کو نازناب کروائے کے تغد ان کی سیقنی کی زمہ داری رنان ئے خود پہ‬
‫لی اور چنہ کو وانس جائے کا کہا ک نونکہ وہ اس کو تکل یف کی وجہ سے مسکل میں‬
‫نہیں ڈال شکبا تھا۔ لبام کتھی تھی اننی اس نٹشمنٹ والی جگہ سے ناہر نہیں تکال تھا‬
‫ک نونکہ اس کو لوگوں کے مبل خول سے خوف آنا تھا۔‬
‫چنہ اسی نٹشمنٹ کا دروازہ ان الک کرنی اندر آنی چہاں لبام کمت نوپر شستم کے‬
‫آگے رکھی کرسی پہ نتتھا تھا۔‬
‫”رنان نہیں آنا نمہارے شاتھ؟“ اس کو اکبال دنکھنے وہ بوچھنے لگا۔ شاند وہ رنان‬
‫کو پہ د نکھے خوش تھی ہوا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪613 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ل‬ ‫ج‬‫م‬ ‫َ‬


‫”وہ ناقی کا کام وانتبڈ اپ کر رہا ہے۔۔ ھے انڈ ناکس ال دو۔“ چنہ انبا جافو تکا نی‬
‫ہونی بولی کہ لبام کی تظر اس کے ہاتھ کی طرف گنی خو خون سے سرخ تھا۔ وہ نل‬
‫میں گ ھیرا گبا اور م یقکر لہچے میں اس سے بوچھنے لگا۔‬
‫”پہ۔۔ پہ کبا ہوا ہے نمہیں؟“ آواز خودنحود کانپ گنی۔‬
‫”کجھ نہیں نہلے کا زچم ہے وہی مسبلہ کر رہا ہے۔“ وہ الپرواہی سے بولی اور‬
‫اس کو ناکس الئے کی طرف اشارہ کبا۔ لبام نیزی سے انبات میں سر ہالنا ہوا ا ننے‬
‫کمرے کی جانب گبا۔‬
‫اس کو ناکس ال کے تھمانا بو چنہ دوسرے کمرے کو جائے لگی شاتھ ہی اس کو‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ہدانت دی کہ اندر پہ آئے ک نونکہ اس کو انبا زچم صاف کرنا تھا۔ لبام ھنے سر ال گبا‬
‫ہ‬
‫اور اس کے لنے کجھ کھائے کو دنکھنے لگا۔‬
‫وہ اتھی کنچن میں مصروف تھا کہ اجانک اس کو نٹشمنٹ کے دروازے پہ کونی‬
‫آہٹ سبانی دی۔ کونی تھا ناہر۔ اس کا دھبان فوری رنان پہ گبا کہ چنہ کی ننجھے وہی‬
‫آنا ہو گا نتھی تصدبق کرئے کے لنے اس ئے ناہر لگے سبک نورنی کتمرہ جبک کبا بو رنان‬
‫کی تظر کتمرے کی طرف ہی تھی جٹسے وہ کتمرے کے نار اسی کو گھور رہا تھا۔ لبام‬
‫ئے لوہے کا مونا شا گنٹ کھوال اور رنان اندر آنا جس کے نال مزند نکھر جکے تھے اور‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪614 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کے کیڑوں پہ منی کے داغ تھی موخود تھے۔ نبا جل رہا تھا کہ وہ کسی ”ضروری“‬
‫کام سے وانس آنا تھا۔‬
‫”وہ روم میں ہے شاند اس کو خوٹ آنی ہے بو زچم جبک کر رہی ہے اس ئے‬
‫پہ تھی کہا کہ کونی اندر ۔۔۔“ لبام جٹسے جٹسے بولبا گبا و نسے ہی رنان کی تگاہ نہلے‬
‫کمرے کی طرف اتھی تھر اسی طرف پڑھبا سروع ہو گبا اور چب نک لبام اننی نات‬
‫م‬
‫کمل کرنا وہ اندر جا حکا تھا۔‬
‫”میں کبا کہہ شکبا ہوں سبکی شوہر ہے اس کا۔۔“ نبا بوری نات سنے رنان کو‬
‫اندر جانا دنکھ وہ جلنے دل سے پڑپڑائے لگا اور کبدھے احکا کے اب اس کے تھی‬
‫کھائے کا ان یطام کرئے لگا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ک‬‫ن‬
‫دروازہ کھلنے کی آواز پہ اس ئے ہڑپڑا کے دنکھا کہ رنان کی آمد اس کی آ یں‬
‫ھ‬
‫پڑی ہونیں۔ نیزی سے اس ئے جبکٹ کو اننی نانگوں پہ تھبال دنا ک نونکہ اتھی وہ انک‬
‫شارنس نہنے ہونی تھی اور نانگ کے سنجز دنکھ رہی تھی خو انک دو کھل جکے تھے۔‬
‫”رنان نمہیں کسی لڑکی کے کمرے میں جائے کی نمیز نہیں ہے۔“ چنہ اس کو‬
‫ع‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ت‬
‫د نی ہونی صے سے ھ یکاری کہ رنان ئے آس ناس تگاہ دوڑانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪615 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے کبا مغلوم تھا کہ لڑکی کا کمرہ ہے۔۔“ وہ الپرواہی سے بوال کہ تگاہ اس کی‬
‫نانگوں کی جانب گنی‪ ،‬آنکھوں میں نسونش اپر آنی۔‬
‫”دکھاؤ مجھے زنادہ بو نہیں خون نہہ گبا۔“ چب وہ سنجبدگی سے دروازہ الک کرنا اس‬
‫کی طرف پڑھا بو چنہ ئے نبا کسی نحث کے اننی جبکٹ شانبڈ پہ کی اور اننی شارنس کو‬
‫زرا شا اوپر کی جانب کبا کہ اس کی تھانی پہ نبا ہوا وہ زچم تظر آنا جس کی وجہ سے‬
‫نانگ کے اِ س حصے میں شوزش تھی آگنی تھی۔‬
‫ن‬
‫وہ نبڈ پہ تتھی تھی اور نبڈ سنٹ پہ خون تھی لگ حکا تھا۔‬
‫”میں ڈاکیر کا ارننج کروا رہا ہوں۔“ رنان زچم کو دنکھبا ہوا انبا فون تکا لنے لگا۔ چنہ‬
‫ئے سر ہالنا اور اننی جبکٹ کو نامحسوس انداز میں وانس اننی نانگوں پہ رکھ دنا۔‬
‫”کل کی خو تھی ڈنلتبگ ہے میں دنکھ لوں گا تم انک دن رنشٹ کرو ورپہ پہ‬
‫ناقانل پرداشت ہو جائے گا۔“ فون وانس ناکٹ میں رکھنے اس کے ناس نتتھنے ہوئے‬
‫پرمی سے بوال۔‬
‫”نہیں میرا جانا ضروری ہے۔۔“ وہ انل لہچے میں بولی کہ رنان ئے اس کو گھورا۔‬
‫”چب میں کہہ رہا ہوں کہ ہو جائے گا شب تھبک بو نبا نحث کنے انک دن‬
‫گزارنا نمہارے لنے مسکل نہیں ہے۔“ رنان تھوڑا سنجبدگی سے سمجھانا ہوا بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪616 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں نبا نحث کنے دن گزار شکنی ہوں لبکن نبا کام کنے نہیں۔“ وہ تھی دوندو‬
‫بولی کہ رنان سرد آہ تھر کے رہ گبا‪ ،‬وفت آئے پہ اس سے ن نٹ لے گا وہ۔‬
‫”وزن نہیں ڈالو اس پہ‪ ،‬کروٹ لے کے لنٹ جاؤ۔۔۔“ چنہ اتھی اتھنے کا ارادہ‬
‫رکھنی تھی کہ وہ کجھ نہن شکے اب اس جالت میں وہ اس کے شا منے اننی دپر نہیں رہ‬
‫شکنی تھی۔‬
‫”میں انبا پراؤزر تکال لوں۔“ وہ تگاہیں ت ھیرنی ہونی بولی۔‬
‫”لنٹ جاؤ اتھی۔۔“ رنان ئے القاطوں پہ زور دنا چنہ کو اس وفت اس سے‬
‫نحث کرنا فصول لگا نتھی جاموسی سے ا ننے خوڑے میں نبدھے نالوں کو کھو لنے لگی۔‬
‫جبکٹ بو وہ نہلے سے ہی انار جکی تھی اب نس انک سرٹ نہن رکھی تھی۔‬
‫م‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫”تم کبا کر رہے ہو؟“ چب وہ کروٹ لنے لتنی بو ا ننے ھے رنان کو حسوس‬
‫کرئے گڑپڑا سی گنی۔ وہ اس کے نالکل فرنب نشت پہ تھا کہ رنان کا ستبا اس سے‬
‫نچ ہو رہا تھا۔ رنان ئے نبڈ پہ پڑا ک یفرپر تھی دوبوں پہ اوڑھ دنا۔‬
‫”میں تھی تھکا آنا ہوں نار رنلبکس ہونا جاہبا ہوں۔“ اس کے گرد نازو تھبالنا ہوا‬
‫وہ عام سے انداز میں بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪617 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”بو انبا پڑا نبڈ نمہیں تظر نہیں آرہا نہی انک نبگ سی جگہ پہ لنتبا تھا۔“ اس کے‬
‫ہاتھوں کے لمس کی خرارت سے وہ سنتبا اتھی تھی نتھی اس پہ خڑھانی کرنی بولی جس‬
‫پہ رنان کے ہون نوں پہ نٹشم نکھرا۔‬
‫”اب مجھے پہ پہ کہبا کہ نمہیں الجھن ہو رہی ہے میرے شاتھ لنتنے سے تھی۔“‬
‫وہ اس کو خڑانا ہوا بوال جس پہ چنہ ئے دانت نٹسے۔‬
‫”جس طرح کی نمہاری خرکنیں ہیں دل جاہ رہا ہے اتھا کے ناہر تھتبکوں۔“ چنہ‬
‫پڑپڑانی اور اننی گردن سبدھی کی۔‬
‫”جٹسی نمہاری جالت ہے مجھے اتھائے سے بو رہی تم۔“ وہ اس کو مزند نبگ کرنا‬
‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ہوا بوال اور اس کو ا ننے شاتھ لتبا لبا کہ چنہ کی آ یں لی اور دل کی دھڑکن نیز‬
‫ہونی۔‬
‫”رنان انبا ہاتھ ننجھے کرو۔۔“ ک یفرپر کے اندر اس کی رنبگنے ہاتھ کو محسوس کرئے‬
‫ہوئے وہ اجانک سے جنچی خو اس کی پرہنہ نانگ کی طرف جا رہا تھا کہ رنان اجانک‬
‫قہقہہ لگا اتھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪618 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اب چھونی مونی سرارت بو کر ہی شکبا ہوں نمہیں انبا عادی نبائے کے‬
‫لنے۔۔“ وہ اس کو مشلشل زچ کر رہا تھا اور اس کی ئےنسی کا قاندہ اتھا رہا تھا ورپہ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ً‬
‫فورا اتھ کے ا ننے ڈ گر سے انک دو کٹ بو لگا ہی د ننے ھے اس ئے۔۔‬
‫”تم پہ شب نبہودہ خرکنیں کر کے مجھے مزند کوفت میں متبال کر رہے ہو۔۔“ چنہ‬
‫اس کو جبانی ہونی بولی کہ رنان ئے اس کے کبدھے پہ انبا لمس چھوڑا۔‬
‫”اسی کوفت کو تم اننی عادت نباؤ گی کسی دن۔۔“ وہ سرگوسی میں بوال اس کے‬
‫کھلے نالوں کو کبدھے سے شانبڈ پہ کرئے انک جانب کر دنا۔‬
‫دروازے پہ ہوئے والی دسبک سے رنان کو دھبان تھ یکا اور ندمزا ہوا۔‬
‫ت‬ ‫ُ‬
‫”چنہ میں ئے لنچ رنڈی کر دنا ہے آجاؤ اور اس رنان کو ھی کہہ دو۔“ لبام کی‬
‫آواز ناہر سے آنی اور آخر پہ وہ رک کے جٹسے نانسبدندگی سے بوال کہ رنان کو اس کے‬
‫عصہ آئے لگا۔‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫”پہ اس رنان کو‪ ،‬کبا ہونا ہے۔۔ میز یں کھانی م ئے ا ننے دور کے تنے‬
‫کو۔۔“ رنان ناگوار لہچے میں چنہ سے بوال لبکن اتھنے کی علطی اس ئے اتھی تھی نہیں‬
‫کی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪619 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”لبام اتھی ضرورت نہیں‪ ،‬ہم تھوڑی دپر تغد کھا لیں گے۔۔“ چنہ ئے اس کو‬
‫پرمی سے ناال کہ نبا کجھ بولے وہ نبد دروازے سے ہی وانس جال گبا۔‬
‫رنان ڈھنٹ سے وہ ننجھے ہوئے کی امبد کو گولی مارے گہرا شانس تھر کے‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ش‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫آ یں موند نی۔ چب نک ڈاکیر آنا وہ کجھ دپر نک خود کو پر کون کرنا جا نی ھی۔‬
‫اِ س کی اننی پزدنکی سے اس کی دھڑکن نیز ہونی جا رہی تھی لبکن وہ ننجھے ہتنے کا‬
‫متمنی نہیں تھا۔‬
‫قسوں چیز لمحات میں کجھ دپر جاموسی جانل رہی چب رنان کی سنجبدہ مگر گھمئیر‬
‫آواز اس کو نالکل فرنب سے سبانی دی کہ اس کے بو لنے سے ہی انک پرقی لہر رپڑھ‬
‫کی ہڈی میں سران نت کر گنی۔‬
‫”نمہیں نہیں لگبا ہمیں اننی شادی کو آگے پڑھانا جا ہنے۔“‬
‫” پہ نالکل تھی مباشب وفت نہیں انسی نات کرئے کا۔۔“ چنہ ئے سنجبدگی‬
‫سے کہا اور اس کے چمار کو تھک سے اڑانا۔‬
‫”نمہاری جگہ لبام کو ا ننے سے لتبا کے کونی مباشب وفت دنکھ کے نات‬
‫کروں؟“ چنہ کی نات پہ وہ شلگ کے رہ گبا تعنی جد ہو گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪620 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫چ‬
‫”تم مجھے موفع نہیں دو گی بو نمہاری جھک ٹسے م ہو گی۔“ رنان نہانت‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫سنجبدگی سے اننی نات کہہ رہا تھا جٹسے اس سے زنادہ ضروری کونی نات ہی نہیں تھی۔‬
‫شکر تھا اس کا چہرہ دوسری طرف تھا ورپہ اس کی ا نسے ئےناک نابوں سے وہ چہرہ خون‬
‫چھلکائے لگ جانا۔‬
‫”موفع والی نات بو تم ر ہنے دو رنان‪ ،‬اس وفت میرے نا جا ہنے کے ناوخود تھی تم‬
‫ا ننے پزدنک ہو‪ ،‬نمہیں پرداشت کر رہی ہوں میں کاقی ہے اتھی۔“ چنہ نالکل سنجبدگی‬
‫سے بولی کہ رنان ئے اس کی نات کی پرواہ کنے نبا اس کے کبدھے کو پرمی سے‬
‫ن‬
‫چھوا۔۔ نتھی مونانل پہ نبل ہوئے لگی تعنی ڈاکیر ہنجنے والے تھے۔‬
‫”تم ئے ڈاکیر کو نہاں آئے کا کہا؟“ چنہ انک دم خونک کے اس کی جانب‬
‫مڑی۔‬
‫”آقکورس تم کٹسے جا شکنی تھی۔“ رنان انبا ہاتھ اس کے گرد سے ہبا کے اتھ‬
‫نتتھا کہ چنہ ئے ئےتفتنی تگاہوں سے اس کو دنکھا۔‬
‫”تم ناگل ہو؟ کٹسے تم کسی نٹسرے کو نہاں آئے کا کہہ شکنے ہو۔ لبام نہاں‬
‫رہبا ہے پہ کونی تھی نہیں جانبا اور ڈاکیر کے آئے سے نہت سے لوگوں کو مغلوم ہو‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪621 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫جائے گا۔“ رنان کی نات پہ اس کی آنکھوں میں سجنی در آنی اور رنان سے نیز لہچے میں‬
‫ً‬
‫بولی۔ رنان کو اننی علطی کا اجشاس ہوا اور فورا اس ئے کال النی۔‬
‫م‬
‫”چنہ۔۔!“ دروازے پہ انک نار تھر دسبک ہونی۔‬
‫”دپر ہو گنی۔۔!“ چنہ اقسوس سے پڑپڑانی اور اتھنی نبڈ سے ننچے اپری۔‬
‫”ناہر انک لبڈی ہے خو شاند ڈاکیر تھی ہے۔“ لبام کی آواز پہ رنان ئے نیزی‬
‫سے دروازہ کھوال۔‬
‫”و نٹ‪ ،‬دروازہ پہ کھولبا۔“ رنان انبا بوال اور کمت نوپر شستم کی جانب گبا۔‬
‫”میرے آدمی آرہے ہیں وہ اس کو نہاں سے لے جانیں گے۔“ رنان ئے انبا‬
‫کہا نب نک چنہ تھی ناہر آگنی۔‬
‫”آنی اتم شوری۔۔“ وہ نس انبا ہی بوال چہرے پہ ندامت چھلک رہی تھی‪ ،‬رنان‬
‫ئے ماتھا مشال نب نک کجھ لوگ آئے اور اس لبڈی ڈاکیر کی آنکھوں پہ ننی ناندھے‬
‫اجانک اس کو گھستنے وہاں سے لے گنے۔‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫ک‬ ‫ُ‬
‫ی‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫م‬
‫”پہ کہاں لے گنے اب اس کو؟“ چنہ نوپر پہ ظر آئے واال ظر د نی ہونی‬
‫بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪622 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کہیں نہیں‪ ،‬نس انک دو سڑکوں کا جکر لگوا کے وانس لے آ نیں گے نہیں‬
‫پہ۔ اس کی آنکھوں پہ ننی نبدھی ہو گی بو اسے مغلوم نہیں ہو گا۔“ رنان کے مونانل‬
‫شا منے کرئے شکرین کو دنکھا چہاں اس کے آدمی کا مٹسج آنا تھا۔‬
‫”قکر نہیں کرو میں پہ شب ستتھال لوں گا‪ ،‬لبام کا کسی کو مغلوم نہیں ہو‬
‫گا۔“ رنان ئے ان کو نشلی دی۔‬
‫”اننی دپر سے کبا کر رہے تھے اندر کھانا تھی تھبڈا ہو گبا۔“ لبام ئے چنہ سے‬
‫بوچھا کہ ئےشاچنہ ہی چنہ کی تگاہ رنان کی جانب گنی۔‬
‫”رنشٹ کر رہے تھے‪ ،‬میں آج ادھر ہی رکوں گی۔“ چنہ ئے رنان سے تگاہیں‬
‫ت ھیرئے لبام سے کہا کہ چنہ کی نات شن کے اس کے چہرے پہ روبق سی آگنی جبکہ‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫رنان آ یں ھما گبا۔‬
‫”چب مباں ن نوی اکبلے کمرے میں موخود ہوں بو شوال نہیں بوچھنے جا ہنے۔“‬
‫ل‬‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫چنہ وہیں موخود انک صوفے پہ ھی چب رنان ئے لبام کے ناس سے گزرئے کی‬
‫سی پڑپڑاہٹ کی جس پہ وہ خود تھی گڑپڑا گبا۔ عج نب ئےناک انشان تھا۔ انشان تھی‬
‫کہاں تھا وہ۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪623 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫” ہنچ گنے ہیں وہ آجاؤ روم میں‪ ،‬میں ڈاکیر کو نہاں لے آنا ہوں۔“ چنہ کو‬
‫کمرے نک چھوڑئے مین گنٹ سے ڈاکیر کو اندر النا جس کی آنکھوں پہ اب تھی ننی‬
‫موخود تھی۔‬
‫”اس کی وجہ سے پرنشان ہوئے کی ضرورت نہیں ہے میرے آدمی تظر رک ھیں‬
‫ہ‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫گے اس پہ۔“ رنان ئے لبام سے کہا کہ وہ ھنے سر ال گبا۔‬
‫لبڈی ڈاکیر تھیں اور رنان ئے ا ننے تھروسے مبد آدمی سے کہہ کے ہی نلوانی‬
‫تھی بو زنادہ مسبلہ نہیں تھا لبکن ان دوبوں کی نشلی کے لنے اس ئے ا ننے آدم نوں‬
‫ک‬ ‫ُ‬
‫کو اس پہ تظر ر ھنے کا کہہ دنا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫الؤنج کی النٹ مدھم کر دی گنی تھیں اور ناہر کا اجاال تھی جتم تھا‪ ،‬گالس ڈور‬
‫کے نار سے ناہر الن میں جلنی مدھم روستباں اندر آرہی تھیں۔ چنہ کے جائے کے تغد‬
‫اس کو اکبال اکبال محسوس ہوا تھا لبکن دامیر کے شاتھ اکبلے وفت گزارئے تھی اچھا لگ‬
‫رہا تھا۔‬
‫وانسی پہ اس ئے دو نین نکس لے لی تھیں اور آج انہیں کو پڑھ کے دن گزارا‬
‫تھا لبکن چب بور نت کا اجشاس ہوا بو کمرے سے ناہر آگنی چہاں دامیر کاقی نبار کر رہا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪624 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫تھا۔ جشب عادت وہ آسنین کہت نوں نک فولڈ کنے ہوئے تھا‪ ،‬ہاتھ کی اگلی میں انت نق‬
‫سی انگوتھی کہ علتبا اس انگوتھی کو تغور دنکھنے لگی۔ چب سے دامیر سے ملی تھی پہ‬
‫انگوتھی نب سے اس کی اتگلی میں تھی لبکن اب ا نسے محسوس ہو رہا تھا جٹسے نہلے تھی‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ک‬
‫د ھی ھی اس ئے۔۔ سی اور جگہ۔‬
‫”نکس سے قارغ ہو گنی۔۔؟“ دامیر اس کا آنا بوٹ کر حکا نتھی حقگی سے بوال‬
‫کہ آج وہ کبابوں میں ہی مگن رہی تھی۔‬
‫”مجھے نبا ہی نہیں جال کہ میں انبا وفت نکس کے شاتھ ہی تھی۔۔“ علتبا تھوڑا‬
‫حق یف سی ہونی بولی۔‬
‫”میں چیران ہوں تم مجھے فراموش کر جکی تھی۔۔“ دامیر اسی انداز میں بوال کہ‬
‫علتبا جلنی ہونی اس کے فرنب آنی اور اس کی نشت پہ انبا سر تکا دنا۔‬
‫”تم ناراض ہو؟“ وہ نبار تھرے لہچے میں بولی کہ اس کی آواز میں معصومنت‬
‫تھی‪ ،‬دامیر مشکرا دنا۔‬
‫”اب نہیں ہوں۔۔“ اس کے ہاتھ ا ننے ستنے پہ محسوس کرئے وہ سنجبدگی سے‬
‫بوال۔ علتبا اس کی نشت سے ہتنی آگے کی طرف آنی خو اب انک ناؤل میں انڈے‬
‫تھت نٹ رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪625 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ل‬ ‫چ‬ ‫ش‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن ن‬


‫”ک نوں اب کبا ہوا؟“ وہ ا نی آ یں کیڑے اس سے بو ھنے گی جس ئے ناؤل‬
‫م‬ ‫ک‬‫ن‬
‫سے تگاہ ہبا کر اس کو دنکھا۔ اس کی آ یں گہری ہو یں اور انک نی چیز سی چمک‬
‫ع‬ ‫ن‬ ‫ھ‬
‫اتھری‪ ،‬علتبا کا دل ئےشاچنہ دھڑکا۔‬
‫”ک نونکہ اب تم مجھے مبائے والی ہو۔۔“ انبا چہرہ اس کے چہرے کے فرنب‬
‫الئے گھمئیرنا سے بوال کہ علتبا اننی مشکراہٹ چھبانی چہرہ ت ھیر گنی۔‬
‫”تم انک سیف ہو اتھی بو سیف ین کے ہی رہو۔۔“ وہ انک ادا سے بولنی ہونی‬
‫سبلف کی دوسری شانبڈ پہ موخود اسنول پہ خڑھ کے نتتھ گنی۔‬
‫”شوہر نبا بو وہ تم سے پرداشت نہیں ہو گا۔“ ہون نوں پہ معنی چیز مشکراہٹ‬
‫سحائے وہ وانس ا ننے کام میں مگن ہوا کہ علتبا کی نبلباں اس کی نات پہ تھبل‬
‫گنی۔‬
‫”دامیر۔۔۔“ اس ئے ئےتفتنی سے اس کو بوکا اور شا منے پڑے بود ننے کے‬
‫نت نوں میں سے انک دو اتھا کے اس کی طرف اچھالیں خو ادھر سبلف پہ ہی آگے کو‬
‫گریں۔‬
‫ن‬ ‫َ‬
‫ک‬
‫”نس مانی لو۔۔“ چہرے کے ناپرات سنجبدہ کرئے وہ اس کی طرف د ھنے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪626 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”انبا کام کرو۔۔“ اس کے دنکھنے پہ ہی وہ گڑپڑا سی گنی بو چہرے پہ جبا کے‬


‫رنگ لنے اس کو مضنوعی سجنی سے بولی۔‬
‫”اتھی انبا کام کبا بو نمہارے لنے گڑپڑ ہو جائے گی۔۔“ وہ تھر اس کو نبگ‬
‫ن‬
‫کرئے ہوئے بوال کہ علتبا وہاں سے اتھ ہی گنی کہ چب نک اس کے شا منے تتھی‬
‫رہے گی وہ ا نسے ہی اس کو نبگ کرے گا۔‬
‫ن‬
‫الؤنج کے صوفے پہ تتھنی اس ئے نی وی آن کر لبا اور ا نسے ہی سرجبگ‬
‫کرئے لگی لبکن غیر معمولی شا بوٹ کرئے اس ئے دامیر کو تکارا۔‬
‫”اس کے جتبل کم ہو گنے ہیں۔“ وہ الجھن لنے بولی کہ دامیر ئے کبدھے‬
‫احکائے۔‬
‫”ہو شکبا ہے۔۔“‬
‫اب کجھ دنکھنے البق پہ مال بو وانس انبا دھبان دامیر کی طرف کر لبا خو نیزی سے‬
‫انبا کام کر رہا تھا‪ ،‬علتبا کو نی وی دنکھنے سے زنادہ دامیر کو ا نسے کھانا نبائے دنکھ‬
‫دلحسنی ہونی کم از کم وہ بور بو نہیں ہو رہی تھی۔‬
‫”میں شارا دن ا نسے نمہیں دنکھ کے گزار شکنی ہوں۔“ چب وہ اس کو کھانا سرو‬
‫کرئے لگا بو علتبا ئےشاچنہ بول اتھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪627 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں تھی۔ نسرظنہ تم میرے فرنب ہو۔۔“ اس کا چہرہ تھامے ا ننے مقانل‬
‫کرئے شوخ سی جشارت کرنا ہوا بوال کہ علتبا مشکرا دی۔‬
‫الن میں ہلکی سی روسنی تھبلی تھی‪ ،‬گالس ڈور کھال تھا اور اس کے نالکل شا منے‬
‫کرسنوں پہ دوبوں نتتھے ہاتھ میں کاقی کے مگ تھام ر کھے تھے۔ کاقی کے مگ سے‬
‫تھاپ اڑ رہی تھی‪ ،‬کرسباں نالکل فرنب تھیں کہ علتبا ئے اس کے کبدھے پہ سر‬
‫تکانا تھا۔‬
‫”کتنی خوتصورت اور بون نق سی ہے نا پہ۔۔“ اس کے ہاتھ میں نہنی انگونی کو‬
‫گھمائے ہوئے علتبا بولی۔‬
‫”ہوں۔۔۔“ دامیر ئے نس سر ہالنا۔‬
‫علتبا کی تگاہ اسی انگوتھی پہ چمی تھی خو آج اس کی بوجہ اننی جانب زنادہ کھ نچت‬

‫رہی تھی۔‬
‫دامیر ئے اس کے شائے کے گرد انبا نازو رکھا اور کنتنی کو ل نوں سے چھوا۔ کاقی‬
‫کا مگ وہ جتم کر کے ننچے رکھ حکا تھا۔‬
‫اس کو کھوئے کا وہ شوچ تھی نہیں شکبا تھا‪ ،‬اگر اس کی ناداشت پہ تھی جانی‬
‫بو ہو شکبا تھا وہ اس کا ناڈی گارڈ ننے ہی اس کو انبا لتبا لبکن خود سے دور کتھی پہ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪628 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کرنا۔ اس کو تگاہوں کے حصار میں رکھنے جٹسے وہ اس کو حقظ کر رہا تھا۔ اس کو‬
‫سرا ہنے کا دل کر رہا تھا کہ اس کا دل کتنی عقبدت سے اس کو جاہبا تھا اس کو ہر‬
‫وفت محسوس کرئے کی جاہ کرنا تھا۔‬
‫اس کا ملبا کونی معجزہ ہی تھا۔ کتنی ہی لڑکباں تھیں خو تگاہ میں آجانی لبکن دل‬
‫ضرف اس کے لنے محال تھا‪ ،‬اس کی طرف ہی مانل ہوا تھا۔ اس کی مجنت میں وہ پری‬
‫طرح گرفبار تھا کہ رہانی کسی صورت ممکن نہیں تھی۔ اس کی خوسنو کا وہ دبواپہ تھا۔‬
‫چہرے سے نال ننجھے ہبائے وہ پرمی سے اس کی گردن کو چھوئے لگا‪ ،‬اس کی مہک‬
‫کو محسوس کرئے لگا۔‬
‫”دامیر ڈرنک نہی پر ہے۔“ دامیر کی جشارت پہ وہ سنتبانی اور اس کو ناز رکھنے‬
‫کی جاطر بولی۔‬
‫”وہ جانبا ہے جس نل اس کی تظر نہاں ا تھے گی اگلے ہی نل وہ آنکھوں سے‬
‫مجروم ہو گا۔“ اس کی آواز سرگوسباپہ کان کے فرنب سبانی دی۔ اس کی عام انداز‬
‫میں حظرناک عزاتم ستنے وہ چیران ہونی۔‬
‫”میں نمہارے ننجھے خوار ہوئے واال ہوں۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪629 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کے چہرے کو اننی طرف کرئے وہ گہرا شانس تھر کے بوال۔ اس کے‬
‫ناپرات سنجبدہ تھے لبکن آنکھوں میں مجنت کا تھا تھے مارنا سمبدر آناد تھا۔‬
‫”جاہے کجھ تھی ہو جائے تم پہ نات کتھی نہیں تھولو گی کہ دامیر تم سے‬
‫ئےانبہا مجنت کرنا ہے‪ ،‬نمہیں پہ تھی ف نول ہو نب تھی تم ضرف میری ہو۔۔“ اس‬
‫کے ما تھے سے ماتھا تکائے ہوئے وہ جٹسے اننی ئےنسی طاہر کر رہا تھا‪ ،‬علتبا کی‬
‫آنکھوں میں الجھن در آنی۔ اس کے ہاتھ پہ انبا ہاتھ رکھنی ہونی وہ دامیر کی آنکھوں میں‬
‫دنکھنے لگی۔‬
‫”دامیر انشا ک نوں کہہ رہے ہو؟“ وہ پرمی سے بولی‪ ،‬دامیر کا انداز انشا تھا جٹسے‬
‫علتبا اتھی اس سے چھین جائے گی۔‬
‫”وعدہ کرو مجھ سے کہ تم کسی تھی صورت مجھ سے دور نہیں ہو گی۔“ اس کے‬
‫ہاتھ کی گرفت سحت ہونی اور وہ انک جذب کے عالم میں کہنے لگا جٹسے پہ لمحہ دونارہ‬
‫مٹسر نہیں ہونا۔‬
‫”میں وعدہ کرنی ہوں۔۔“ وہ اس کو تفین دالنی ہونی بولی اور تھوڑا آگے پڑ ھنے‬
‫دامیر کے رجشار پہ ہونٹ ر کھے۔۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪630 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دامیر اس تھوڑے عرصے میں نمہیں جا ہنے لگی ہوں۔ میری دنبا نہت محدود‬
‫سی ہے اور تم میرے لنے نہت ضروری ہو۔ میں تم سے دور کتھی نہیں جاؤں گی۔“‬
‫دامیر کی ک یق نت وہ نہیں سمجھ نا رہی تھی‪ ،‬اس کی آنکھوں میں دنکھنے وہ مضنوط‬
‫ع ت م‬
‫لہچے میں بولی دامیر کے ہون نوں پہ مشکراہٹ آنی کہ لتبا ھی ین ہونی م کرا دی۔‬
‫ش‬ ‫م‬ ‫ظ‬
‫چ‬
‫اس کا ہاتھ تھامے اس کو کھڑا کرئے دامیر ئے ا ننے ناس کبا۔ علتبا ھجھکنے ہوئے‬
‫اس کی گود میں نتتھ گنی اور انبا سر اس کے ستنے پہ تکا دنا۔‬
‫”تم نہت ہتبڈسم ہو دامیر اور نہت ا چھے تھی۔۔“ اس کے نازو پہ اتگلی ت ھیرنی‬
‫ہونی جبا سے بولی۔‬
‫”جس دن تم ئے مجھے چھوڑئے کی نات کی اس دن میں سیطان ین جاؤں‬
‫گا۔۔“ وہ آہشنہ آواز میں پڑپڑانا اور اس کے نالوں کی مہک کو ا ننے اندر انارئے لگا۔‬
‫”تم کٹسی نانیں کر رہے ہو آج؟“ علتبا اس کے انداز سے تھوڑا گ ھیرا گنی‬
‫تھی۔ وہ اس کو ک نوں چھوڑ کے جائے گی۔‬
‫”میں نس نمہیں محسوس کرنا جاہبا ہوں کہ تم میرے ناس ہو اور میری ہو۔۔“‬
‫اس کے ہاتھوں کو ل نوں سے لگانا ہوا بوال اور اجانک علتبا کے چہرے پہ بوشوں کی‬
‫پرشات کر دی کہ وہ چھت نپ کے کھلکھال دی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪631 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ک‬‫ن‬
‫”دامیر۔۔“ اس کے خزنانی ین کو روکنی وہ اس سے دور ہونی ہونی بولی اور آ یں‬
‫ھ‬
‫دکھائے لگی۔‬
‫”نمہارے گارڈز نہاں شب موخود ہیں۔۔“ اس ئے جگہ کا اجشاس دالنا جبکہ‬
‫دامیر کے ناپرات سے لگ رہا تھا کہ وہ اس کے دور جائے سے خوش نہیں تھا۔‬
‫”تم ئے کہا تھا کہ تم دور نہیں جاؤ گی۔“ وہ سنجبدگی سے بوال اور خود تھی اتھ‬
‫کھڑا ہوا۔‬
‫”میں نہیں گنی لبکن۔۔“ وہ کجھ کہنی کہ دامیر ئے اس کو ا ننے ناس کبا۔‬
‫”تم نہت بوزنسسو ہو رہے ہو۔۔“ اس ئے دامیر کے گرد نازو ناندھے ناکہ وہ خو‬
‫تھی شوچ رہا تھا اس سے نحات نائے۔ علتبا ئے محسوس کبا تھا کہ وہ انشک نور ہو رہا تھا‬
‫نتھی اس کو پرشکون کرنا جاہا۔۔‬
‫”نمہارے مغا ملے میں ہوں۔“ دامیر کو خود تھی اجشاس ہوا کہ وہ زنادہ ہی خزنانی‬
‫ین دکھا رہا تھا۔ خود کے اعصاب پہ قابو نائے ہوئے دو نین گہرے شانس تھرے۔۔‬
‫”آنی لو بو دامیر۔۔ تم ا ننے انشک نور پہ ہو نلیز‪ ،‬نمہارا انداز مجھے ڈرا رہا ہے۔۔“ اس‬
‫ئے مدھم لہچے میں کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪632 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ اس کو تفین دال رہی تھی ناکہ دامیر اچھا محسوس کر نائے اور اس کے نہلی‬
‫دفع ا نسے اظہار پہ دامیر کے ستنے پہ جٹسے تھبڈک سی پڑی اور اس کو مزند خود میں‬
‫تھتنحا۔‬
‫ک‬‫ن‬ ‫َ‬
‫”لو بو مور پرنسٹس۔۔“ اس کے نالوں پہ ہونٹ رکھنے اس ئے آ ھیں موندیں۔۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫خوتصورت شا جدند طرز سے مزین شو نٹ)‪ (suite‬جس کی کھڑک نوں کی آگے‬
‫پردے لہرا رہے تھے اور نتم اندھیرے میں ڈونا ہوا تھا۔‬
‫ا نسے میں شلنپ گاؤن نہنے وہ کمرے میں دانیں نانیں جکر لگانی ہونی مشلشل‬
‫کسی سے راتطہ کرئے کی کوشش میں تھی لبکن ہر نار مابوسی اس کا منہ خڑھا رہی‬
‫تھی۔‬
‫ھ‬ ‫ت‬
‫”فباد۔۔۔ کہاں ہیں نمہارے آدمی نحو ان کو۔“ اوندھے منہ نے فباد کے‬
‫ت‬‫ل‬
‫ھ‬ ‫چ‬
‫بدھے کو نجھوڑئے ہوئے عصے سے بولی۔‬ ‫ک‬
‫”مرئے تھنج دوں ان کو۔۔“ وہ ندمزا ہوئے سبدھا ہوا اور شا منے عصے سے‬
‫تھری ڈرنبا کو دنکھنے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪633 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہیں مزاق لگ رہا ہے میرے ناپ کو اتھا کے لے گنے ہیں۔“ ڈرنبا دانت‬
‫نٹسنے ہوئے بولی کہ چب سے اس کو نبا جال تھا شکون سے نہیں نتتھ رہی تھی اور اس‬
‫کو ا ننے آدم نوں کی پڑی تھی۔‬
‫”خو تھی اتھا کے لے گبا ہے چھوڑ جائے گا نار پرنشان ہوئے والی کبا نات‬
‫ہے۔“ وہ الپرواہ انداز میں بوال اور اتھ کے اننی سرٹ نہتنے لگا۔‬
‫”پرنشان کٹسے نا ہوں فباد‪ ،‬کسی کو تھی ان کے نارے میں نہیں نبا اور نا ہی‬
‫ان کا نمیر لگ رہا ہے۔۔“ وہ پرنشانی سے بولی اور انک نار تھر نمیر ڈانل کرئے لگی۔‬
‫”اکبڈمی راتطہ کرو اور ان سے کہو کہ لوسین کا نبا لگوائے‪ ،‬نتمنٹ کی قکر پہ‬
‫کریں شام نک پرانسفر ہو جائے گی۔“ اس کو کمر سے تھامے ا ننے فرنب کبا اور‬
‫ہون نوں کو خوم کے فرنش ہوئے جال گبا۔‬
‫ڈرنبا اس کے د ننے مسورے پہ عمل کرنی نیزی سے سر جارج سے راتطہ کرئے‬
‫لگے۔ ان کے زر تعے وافعی پہ کام جلدی ہو شکبا تھا۔‬
‫”میں ئے کہہ دنا ہے انہوں ئے کہا نتمنٹ ہوئے ہی وہ آدم نوں کو لگا دیں‬
‫گے اس کام پہ۔“ چب نک وہ فرنش ہو کے آنا ڈرنبا ئے اس کو نبانا۔۔‬
‫”اننی کسی مج نوپہ کے شاتھ ہو نگے وہ۔۔“ فباد سر چھبک کے بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪634 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس وفت دوبوں کے وہم و گمان میں تھی نہیں تھا کہ پہ کام رنان اور دامیر کا‬
‫ہو گا ک نونکہ ان دوبوں کو اتھی تھی نہی شک تھا کہ وہ ڈرنبا اور فباد جاکم کے تغلق کے‬
‫نارے میں نہیں جا ننے تھے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫آرمری میں اس وفت شا منے جلنی شکرنیز کی روسنی ہی تھی اور ان کے شا منے‬
‫راکبگ چئیر پہ نتتھا وخود ا ننے ہاتھ میں مونانل تھامے کسی چیز کی ڈنتبلز جبک کر رہا‬
‫تھا۔‬
‫”سر اکبڈمی کال کی گنی ہے لوسین کے عانب ہوئے کے نارے میں۔“‬
‫ڈرنک کی آواز پہ دامیر ئے سر اتھا کے اس کو دنکھا۔‬
‫”ان کی مزند کالز کی ہسیری جبک کرئے رہبا اور لوکٹشن کا مغلوم ہوا؟“‬
‫”نہیں سر پران نو نٹ نمیر! سر جارج ئے نتمنٹ کا مطالنہ کبا ہے۔ ہو شکبا ہے‬
‫نتمنٹ سے مغلوم ہو جائے۔“ ڈرنک ئے مزند کہا بو دامیر چئیر سے کھڑا ہوا۔‬
‫”انشا ہی ہو گا ڈرنک۔۔“ وہ تفتنی لہچے میں بوال اور مونانل پہ تظریں کرئے نانپ‬
‫کرئے لگا۔‬
‫دامیر‪” :‬کانیرٹکٹ ریج یک یڈ!“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪635 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫مٹسج ستبڈ کرئے اس ئے گہرا شانس تھرا۔‬


‫اس ہقنے میں دوسری مرننہ تھا چب اس کو انک ہی نام کے نبدے کو اشاشن‬
‫کرئے کا کانیرنکٹ مال تھا اور اب کی نار دوگنی فتمت پہ۔ قالحال وہ علتبا کے شاتھ تھا‬
‫اور اس سے اننی بوجہ نہیں ہبانا جاہبا تھا۔ چب نک رنان تھی وانس نہیں آجانا نب‬
‫نک تھی وہ کانیرنکٹ پہ کام نہیں کرئے واال تھا۔‬
‫م‬
‫”خو رنان سر ئے کام دنا تھا وہ کمل ہو گبا؟“ دامیر ئے مونانل ناکٹ میں رکھنے‬
‫ہوئے بوچھا۔‬
‫”جی سر گھروں کے ان یطام ہو گنے ہیں۔“ ڈرنک ئے مؤدب سر ہالنا بو دامیر‬
‫انک تظر اس کو دنکھبا ہوا آرمری کی طرف پڑھا۔ اس کا ارادہ اب گودام جائے کا تھا‬
‫چہاں گیز کی سبالنی موخود تھی ان کو جبک اِ ن کر کے اسے آگے پرانسفر کروانا تھا۔‬
‫اس شپ منٹ کو آئے میں شب سے زنادہ وفت لگا تھا ک نونکہ بورننین شانبڈ‬
‫سے سبک نورنی کا مسبلہ ین رہا تھا جس کی وجہ سے ال یگل ستبگ رک گنی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪636 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کبا ہوا نہاں ک نوں جلی آنی؟“ علتبا چہل قدمی کرئے چب مٹشن کی نجھلی‬
‫شانبڈ آنی بو دامیر اس کے فرنب جانا ہوا بوچھنے لگا خو خود شونبگ اپرنا میں شونبگ‬
‫پرنکٹس کر رہا تھا۔‬
‫”اکبال اکبال محسوس ہو رہا ہے۔۔“ وہ اداس لہچے میں بولی کہ دامیر ئے اس کے‬
‫چہرے کو غور سے دنکھا جٹسے اندر کا جال جانبا جاہ رہا ہو۔‬
‫”تم نہیں تھہرو میں اتھی آنا ہوں۔“ اس ئے ہبڈ فوپز لگا ر کھے تھے اور دسبائے‬
‫تھی نہنے تھے‪ ،‬وہ نہیں جاہبا تھا کہ علتبا شونبگ اپرنا میں جا کے ابواع و اقشام کی گیز‬
‫اور راتقل دنکھ کے گ ھیرانی نتھی اس سے کہبا ہوا وہ چیزیں رکھنے جال گبا۔ وانس آنا بو‬
‫ہالف شل نوز سرٹ نہن رکھی تھی اور کارگو نت نٹ میں مل نوس اس کے فرنب جال آرہا تھا۔‬
‫”ہم آج کہیں ناہر جلنے ہیں۔۔“ علتبا کے کہنے پہ دامیر ئے کجھ نل شوجا تھر‬
‫جائے کے لنے نبار ہو گبا کہ ا ننے دن وہ گھر میں تھی رہ کے کبا کرے گی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اس وفت وہ دوبوں انک نارک میں موخود تھے جبکہ دامیر کو مشلشل انک اجشاس‬
‫کھبک رہا تھا کہ کونی ان کو دنکھ رہا ہے نا ان پہ تظر ر کھے ہوئے ہے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪637 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ خوکبا تھا اور ا ننے گارڈز کو تھی اشارہ کر دنا تھا کہ کسی تھی صورت جال‬
‫کے لنے نبار رہیں۔‬
‫دامیر کی تظر ئےشاچنہ ہی علتبا کے ہاتھ کی طرف گنی چہاں اس ئے ڈانمبڈ‬
‫رنگ نہن رکھی تھی‪ ،‬کجھ شکون شا محسوس ہوا۔ اس کی ہاتھ کی اتگل نوں کو ا ننے ہاتھ‬
‫میں الجھائے وہ دھیرے سے قدم اتھا رہے تھے۔‬
‫ل‬‫ک‬‫ت‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫علتبا آس ناس د نی م کرا رہی ھی کہ ا ننے دبوں یں انک نار بو وہ ناہر نی‬
‫م‬ ‫ش‬
‫تھی اور خود کو مزند فرنش محسوس کرنی تھی۔‬
‫وہ دوبوں انک نتنچ پہ نتتھے تھے چہاں سے نارک کا انک اچھا شا وبو مل رہا تھا‪ ،‬کجھ‬
‫لوگ ان کی طرح ہی والک پہ تکلے تھے اور کجھ غورنیں ا ننے نحوں کو لنے اس نارک‬
‫میں آنی تھیں خو نلے اپرنا میں کھبل کود کر رہے تھے۔‬
‫علتبا اس کے ہاتھ میں ہاتھ د ننے کبدھے پہ سر تکائے ہوئے تھی چب دامیر‬
‫کی آواز پہ خونک کے اس کو دنکھنے لگی۔‬
‫”گھر جلیں؟“‬
‫”اتھی بو ہم آئے تھے۔۔“ وہ منہ نسورے بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪638 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کھانا تھی رنڈی کرنا ہے نمہیں تھوک لگ جائے گی۔“ وہ نات نبانا ہوا بوال ک نونکہ‬
‫اس کی چھنی جس کہہ رہی تھی نہاں مزند رکبا تھبک نہیں تھا۔‬
‫”مجھے تھوک نہیں لگی اور ہم ناہر کھانا کھانیں گے ناں آج۔“ وہ الڈ سے بولی کہ‬
‫دامیر گہرا شانس ت ھر کے رہ گبا اور اطراف میں انک تظر دوڑانی۔‬
‫”نس تھوڑی دپر اور رکیں گے‪ ،‬کھانا ہم گھر ہی کھانیں گے۔“ دامیر ر کنے والی‬
‫نات مانبا ہوا بوال کہ وہ خوش ہو گنی۔‬
‫”ہم ئے کتھی ناہر ڈپر نہیں کبا دامیر۔“ وہ شکوہ کرنی ہونی بولی۔ دامیر ئے‬
‫خواب د ننے کے نحائے نس اس کی کنتنی کو ہون نوں سے چھوا۔‬
‫”ڈرنک گاڑی نہیں ناس لے آؤ۔۔“ اس ئے ڈرنک کو مٹسج کر دنا جس پہ اگلے‬
‫ہی نل “اوکے” کا مٹسج آنا۔۔‬
‫”شو ننی اب گھر جلنے ہیں‪ ،‬موسم تھبڈا ہو رہا ہے تم ئے اوپر کجھ نہبا تھی نہیں‬
‫ہے۔“ دامیر نتنچ سے کھڑا ہوئے بوال کہ علتبا کا چہرہ اپر گبا‪ ،‬وہ مزند نہاں وفت گزارنا‬
‫جاہنی تھی لبکن دامیر کو جائے کبا عحلت تھی۔‬
‫”دامیر۔۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪639 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا کے کہنے پہ تھی دامیر رکا نہیں تھا‪ ،‬اس کا نازو تھامے اس کو کھڑا کر حکا‬
‫تھا جس پہ وہ شکوہ کباں تگاہوں سے اس کو دنکھنے لگی۔‬
‫”انبا نبارا نام ہے نمہارا لبکن تم زرا ا ننے نام کی طرح نبارے اور شو نٹ نہیں‬
‫ہو۔“‬
‫اس پرے موڈ میں اس سے ناراصگی تھرے لہچے میں بولی کہ دامیر مشکرا کے‬
‫تقی میں سر ہالئے لگا۔‬
‫”اسے نبارے نام والے آدمی کی تم کنی نار تعرتف کر جکی ہو۔“ وہ شاتھ جلبا‬
‫ن‬
‫ہوا جبا کے بوال کہ علتبا ئے آ کھیں گھمانیں۔‬
‫ت‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫کت کت م‬
‫” ھی ھی ھن لگانا ھی پڑنا ہے۔۔“ لتبا اپرانی ھی۔‬
‫ع‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫گھ‬‫مک م ن‬
‫”اور اسی ھن یں ل جانا ہوں یں۔“ وہ ھوڑا ہٹشا تھا کہ لتبا اس کے‬
‫ہٹسنے پہ کھل کے مشکرانی تھی۔‬
‫گاڑی میں اس کو نتھائے اس کا دروازہ نبد کرئے اننی سنٹ نک آنا ہی تھا کہ‬
‫اجانک انک بولٹ اس کے فرنب سے گزرنی شانبڈ مرر سے نکرانی۔‬
‫آواز پہ علتبا خونکی اور دامیر کو دنکھنے لگی خو نیزی سے گاڑی میں نتتھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪640 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”پہ کبا تھا۔۔“ اس کے چہرہ اجانک زرد ہونا سروع ہوا کہ وہ انک گولی کی آواز‬
‫سے گ ھیرا جکی تھی۔‬
‫”کجھ نہیں سنٹ نبلٹ ناندھ لو۔۔“ اس ئے جلدی سے گاڑی سبارٹ کی اور‬
‫مین روڈ پہ لے آنا۔‬
‫ً‬
‫”اننی ڈاپرنکشن جتنج کر لو فورا۔“‬
‫ً‬
‫اس ئے ڈرنک کو مٹسج کبا جس ئے فورا ل کبا‪ ،‬دامیر ئے شانبڈ وبو مرر سے‬
‫م‬‫ع‬
‫ننجھے جبک کبا ڈرنک دوسرے روڈ پہ محالف سمت گاڑی تھگائے لگا تھا۔‬
‫انک اور بولٹ نجھلے سٹسے سے نکرانی تھی کہ علتبا خوف زدہ سی اس کے نازو کو‬
‫تھام گنی‪ ،‬آنکھوں میں ڈر سما گبا۔‬
‫گ ن‬
‫شکر تھا کہ گاڑی بولٹ پروف تھی وہ آرام سے ھر نچ نے ھے اگر کونی ان‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ش‬ ‫ہ‬

‫کے پراپر گاڑی پہ تھگانا بو۔‬


‫”ا ننے سنٹ کے ننچے ہاتھ کرو اور وہاں سے گن تکالو۔“ دامیر ئے علتبا سے کہا‬
‫جس ئے شاک کی ک یق نت سے دامیر کو دنکھا۔‬
‫”پرنسٹس چیران تغد میں ہونا نہلے گن تکالو۔۔“ اس ئے اب کی نار سنجبدگی سے‬
‫کہا کہ علتبا کا نتنے ہاتھوں سے اننی سنٹ کے ننچے ہاتھ کرئے گن نال سنے لگی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪641 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گن ہاتھ لگنے اس ئے دامیر کو دنکھا‪ ،‬دامیر ئے شوالنہ تگاہ اس پہ تکانی لبکن‬
‫علتبا کے ناپر ا نسے تھے جٹسے اس ئے کونی حظرناک نانپ ہاتھ میں نکڑ لبا تھا۔‬
‫”ئےنی قاشٹ۔۔“ وہ زور د نبا ہوا بوال کہ قاپرنگ اب مشلشل ہو رہی تھی۔ علتبا‬
‫ً‬
‫ئے ہڑپڑی میں گن تکالی اور فورا دامیر کی طرف انبا رخ کبا۔‬
‫”نکڑ کے رکھو کام آئے گی۔۔“ وہ گاڑی نہت ستبڈ سے دوڑا رہا تھا اور اس کو‬
‫نہت عام سے انداز میں اس کا رجشار تھبک کے کہہ رہا تھا کہ گن تھامے ر کھے۔۔‬
‫گن کو ہاتھ میں لنے اس کو ہول اتھ رہے تھے۔‬
‫”پہ کبا ہو رہا ہے؟“ وہ کانتنی ہونی آواز میں بولی کہ دامیر ئے اننی گن تکال‬
‫لی۔۔‬
‫وہ ا ننے گھر کے اپرنا میں داجل ہوا نب تھی ان کا ننجھا جاری رہا تھا۔‬
‫”ڈتم اِ ٹ پہ نہاں کٹسے آئے؟“ مین انئیرنٹس پہ گارڈ موخود نہیں تھے۔ وہ عصے‬
‫سے سنئیرنگ وہبل پہ ہاتھ مارنا ہوا گرجا۔ اس ئے انبا فون تکاال اور کسی کا نمیر ڈانل‬
‫کبا۔‬
‫”ہمت کٹسے ہونی ان شب کی نہاں نک آئے کی‪ ،‬صنح ہوئے سے نہلے اگر مجھے‬
‫پہ لوگ نہاں پہ ملے بو تم خود کو نبار رکھبا میری گولی کھائے کے لنے۔۔“ منٹشن کے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪642 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬ ‫ً‬
‫آگے گاڑی رو کنے وہ نہت عصے سے بوال کہ علتبا ئے گن کو فورا ھے کرئے اس کو‬
‫ج‬‫ن‬
‫دنکھا خو اتھی رو د ننے کو تھی۔‬
‫دامیر نات کرئے دروازہ کھولے علتبا کی شانبڈ پہ آنا اور اس کا دروازہ کھوال۔‬
‫”مجھے وصاچت د ننے سے اچھا ہے کہ انبا کام کرو‪ ،‬اگر جاب کرئے کا دل‬
‫نہیں کرنا بو نباؤ نہیں نانگیں گردن بوڑ کے نمہارے ہاتھ میں دے دوں۔“ علتبا ناہر بو‬
‫تکل گنی لبکن اس کو عصے سے میں دنکھ کے آنکھوں میں ئےتفتنی آگنی۔‬
‫اس کا سنجبدہ سرد سباٹ انداز اس کو مزند خوف میں ڈال رہا تھا اور تھر گول نوں‬
‫کی گونج اتھی نک کابوں میں گونج رہی تھی۔‬
‫ہ‬‫ن‬
‫”انک منٹ سے نہلے نہاں حو۔“ ا ک اور کال الئے اس ئے سی سے‬
‫ک‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫اسیغال میں آئے کہا اور علتبا کا ہاتھ تھاما۔‬
‫وہ گھر میں داجل ہوئے اور دامیر ئے علتبا کو صوفے پہ نتتھنے کا اشارہ کبا‪..‬‬
‫ج‬ ‫ُ‬
‫خود وہ ماتھا مشلبا ہوا ادھر ادھر لر لگائے لگا۔‬
‫ڈرنک گالس دوڑ دھکبلنے ہوئے اندر داجل ہوا کہ دامیر ئے نبا کونی نات کنے‬
‫انک زنائے دار ت ھیر ڈرنک کو دے مارا کہ علتبا گ ھیراہٹ کے مارے اننی جگہ سے اتھ‬
‫کھڑی ہونی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪643 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہاری زمہ داری تھی نا گارڈز ارننج کروائے کی بو کٹسے تم ئے پہ کوناہی کی۔۔‬
‫کٹسے وہ ہمارے مین گنٹ کو نار کرکے نہاں آئے خواب دو۔۔“‬
‫ڈرنک سر چھکائے کھڑا تھا ک نونکہ جانبا تھا اس سے علطی ہونی تھی اور اس کے‬
‫سر اس سے تھی مزند پرا شلوک کر شکنے تھے لبکن علتبا متم کی موخودگی میں نس انک‬
‫ت ھیڑ سے ہی کام جال تھا۔‬
‫”گن کہاں ہے نمہاری؟“ ڈرنک کے آگے کھڑے ہوئے وہ سرد لہچے میں بوچھنے‬
‫لگا۔ ڈرنک ئے اننی نتتھ سے اننی گن تکال کے شا منے کی۔ دامیر ئے وہ گن تھامی‬
‫اور اس کو الٹ نلٹ کر کے دنکھنے لگا۔‬
‫”کتنی دپر ہو گنی اس کو جالئے ڈرنک؟“‬
‫وہ سنجبدگی سے بوچھنے لگا‪ ،‬ڈرنک ئے انک تظر اس کو دنکھا تھر دامیر کی نشت پہ‬
‫قاصلے پہ کھڑی علتبا کو خو چیرت و ئےتفتنی سے ان دوبوں کو دنکھ رہی تھی۔‬
‫”سر آج ہی پرنکٹس کی ہے۔۔“ اس ئے سر چھکائے کہا۔‬
‫”جل رہی ہے اتھی تھی؟“ وہ سر ہالنا ہوا بوال کہ ڈرنک ئے انبات میں سر‬
‫ہالنا۔ دامیر ئے نبا کسی مزند نات کے اجانک گن جالنی کہ علتبا کی جنخ ہال میں گونج‬
‫م‬ ‫ن‬
‫اتھی‪ ،‬ڈرنک ئے تکل یف سے آ یں یں۔‬
‫چ‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪644 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ج‬
‫”دامیر۔۔!“ وہ نجنی ہونی دامیر کو تکارئے لگی جس ئے ڈرنک کے نازو کو زچمی‬
‫کر دنا تھا۔‬
‫”پہ آخری علطی تھی ڈرنک‪ ،‬اگلی دفع پہ گولی نہاں ہو گی۔“ دامیر اس کے‬
‫فرنب ہوئے ستنے پہ اتگلی رکھنے ہوئے وارن کرنا بوال۔‬
‫”اکھبا کرو شب کو۔۔“ عصے سے سرخ ہوکے کہبا ہوا وہ ڈرنک کو نہاں سے‬
‫جائے کا اشارہ کرنا علتبا کی طرف مڑا۔‬
‫”تم ئے اسے گولی مار دی دامیر‪ ،‬اس کا خون نہہ رہا تھا۔“ دامیر کو خود کی طرف‬
‫آنا دنکھ علتبا شاک کی ک یق نت میں بولی۔ دامیر کو گولی جالنا دنکھ اس کو دھحکا شا لگا‬
‫تھا۔ وہ اجانک سے انبا ئےرچم اور نتھر دل کٹسے ین شکبا تھا۔‬
‫”اس کی علطی تھی اسے سزا ملنی جا ہنے تھی۔۔“‬
‫دامیر ئے اس کو شائے سے تھامبا جاہا ناکے اندر لے جا شکے۔ اس کو اجشاس‬
‫ہو رہا تھا کہ ا ننے عصے کو اس کے شا منے قابو میں رکھبا جا ہنے تھا لبکن ڈرنک کی علطی‬
‫تھی خو اس ئے گارڈ کی صجنح طر تقے سے چھان نین نہیں کی تھی اور اسی وجہ سے آج‬
‫ان کے منٹشن والے روڈ پہ اور مین انئیرنٹس پہ گارڈ موخود نہیں تھے ورپہ خونٹس گ ھتنے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪645 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نہاں پہ گارڈ نہرہ د ننے تھے‪ ،‬اسی گارڈ کی الپرواہی اور عداری کی وجہ سے آج لوگ ان‬
‫ن‬
‫کے منٹشن نک ہنچ جکے تھے۔‬
‫”نمہیں ڈرنک کو دنکھبا جا ہنے دامیر اس کا خون نہہ رہا تھا۔“ علتبا کے چہرے‬
‫کی ہوانباں اڑی تھیں اور اب تھی اسے ڈرنک کی قکر ہو رہی تھی جس پہ دامیر ئے‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ن‬
‫سجنی سے آ یں یں وہ اس وفت لتبا پہ عصہ یں کرنا جاہبا تھا۔‬
‫ہ‬ ‫ع‬ ‫چ‬ ‫ن‬ ‫ھ‬
‫”اننی بوجہ مجھ نک رکھا کرو‪ ،‬اندر جلو۔۔“ سرد لہچے میں ننتبہی انداز پہ علتبا ئے‬
‫ناراض تظروں سے اس کو دنکھا۔‬
‫”تم ئے ا ننے فرننی آدمی کو مارئے کی کوشش کی ہے دامیر وہ مر تھی شکبا‬
‫ہے۔“ علتبا ئے اس کو اجشاس دالنا جاہا۔‬
‫”مرا نہیں اتھی اور چیردار دونارہ ڈرنک کا نام لبا نا اس کے نارے میں شوجا۔“‬
‫انک نار تھر اس کے منہ سے ڈرنک کا نام ستنے وہ سجنی سے بوال کہ علتبا ئے سہم‬
‫کے اس کو دنکھا‪ ،‬کجھ نل نہلے وہ جس دامیر کے شاتھ تھی پہ اس سے نالکل مجبلف‬
‫تھا۔ اس کی آنکھوں میں نبار نہیں تھا‪ ،‬عج نب سی وجشت تھی انک ج نون تھا جٹسے وہ‬
‫جاک میں مال دے گا شب۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪646 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم انبہانی خود عرض اور پرے سحص ہو دامیر‪ ،‬آنی ہ نٹ بو۔۔“ روہا نسے لہچے میں‬
‫کہنے‪ ،‬آنکھوں میں نمی لنے وہ ا ننے کمرے کی جانب تھاگ گنی۔ دامیر سرد آہ تھر کے‬
‫اس کی نشت کو دنکھبا رہ گبا‪ ،‬مضظرب انداز میں اس ئے اننی سنو ک ھحانی۔‬
‫دامیر کا اس طرح نات کرنا اس کو نہت پرا لگا تھا‪ ،‬وہ ڈری تھی اور تھر اس کا‬
‫پہ انداز اس کو مزند سہمائے کے لنے کاقی تھا۔‬
‫نبڈ پہ اوندھے منہ لتنے وہ آنسوں نہا رہی تھی‪ ،‬کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز پہ‬
‫تھی وہ سبدھی نہیں ہونی تھی نلکہ انبا رونا جاری رکھا تھا۔‬
‫دامیر اس کے فرنب نتتھا اور اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھا۔‬
‫”پرنسٹس۔۔“ اس ئے پرمی سے تکارا مگر علتبا ئے انبا کبدھا چھبکے اس کے‬
‫ہاتھ کو خود سے دور کبا۔‬
‫”تم کٹسے کسی کے شاتھ پہ شب کر شکنے ہو‪ ،‬تم ئے اس پہ گولی جالنی۔۔“‬
‫وہ روئے کے درمبان تم آواز لنے بولی‪ ،‬دامیر ئے اس کے سر کو گھورا تعنی وہ تھر‬
‫ڈرنک کی نات کر رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪647 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اگر مزند تم ئے مجھ سے گولی جالئے کی نات کی بو میں اس کو شوٹ کر دوں‬


‫گا تھر انک نار میں ہی رونی رہبا۔“ دامیر اس کی تھبلنی آنکھوں کی پرواہ کنے نبا بوال کہ‬
‫علتبا ئے عصے سے سرخ ہونی آنکھوں سے اس کو دنکھا۔‬
‫”جاؤ نہاں سے۔۔ مجھے کونی نات نہیں کرنی تم سے۔“ وہ نیز لہچے میں بولی۔‬
‫صاف انداز تھا کہ وہ اس سے حقا ہو جکی تھی اب۔‬
‫دامیر اس سے تغد میں نات کرئے کا شو جنے اس کے ناس سے اتھ گبا کہ‬
‫علتبا ئے ناشف سے اس کو دنکھا کہ وہ اس کو چھوڑ کے جا رہا تھا۔‬
‫دامیر کو سبک نورنی روم میں جانا تھا چہاں اس ئے مین انئیرنٹس کی فوننج جبک کرنی‬
‫تھی‪ ،‬چملہ کرئے واال بو کونی اور ہی دسمن تھا لبکن ان کو نہاں آئے کی ہمت دی‬
‫تھی کسی ئے۔ انک مہننہ نہلے ننے گارڈز کو مین انئیرنٹس پہ رکھا گبا تھا خو دامیر ئے‬
‫ڈرنک کے زمہ کام لگانا تھا۔ جس کی نااہلی کی وجہ سے ان کو آج پہ نگ ھتبا پڑا تھا۔‬
‫س‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫م‬‫ک‬‫م‬
‫ڈرنک ئے شاند ل چھان ین یں کی ھی جس کا کونی قاندہ اتھا گبا تھا۔ د من بو‬
‫ل‬ ‫ُ‬
‫اسی ناک میں نتتھے ہوئے تھے کہ کب کونی کوناہی ہو اور وہ اس مزور مچے کا قاندہ‬
‫ک‬
‫اتھا شکیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪648 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اگر دامیر اور ڈرنک اکبلے ہوئے بو کونی مسبلہ پہ تھا لبکن نات علتبا کی حقاظت‬
‫کی تھی اور آج دامیر سچ میں ڈر گبا تھا اس کے خوالے سے کہ اگر اس کو کجھ ہو جانا‬
‫بو وہ خود کو کتھی مغاف پہ کرنا۔‬
‫اس کا شاتھ ہونا ہی اسے خوف میں ڈال رہا تھا وہ کٹسے اس کی حقاظت کرے‬
‫گا۔‬
‫سبک نورنی روم میں آنا بو ڈرنک کتمرہ سنٹ اپ کے شا منے کھڑا تھا‪ ،‬اس کے نازو‬
‫پہ خون کے نشان اتھی تھی تھے‪ ،‬گولی چھو کے گزری تھی نازو میں ن نوشت نہیں ہونی‬
‫تھی۔‬
‫”سروع کے دن وہ نانٹ ڈبونیز میں تھا جبکہ اس کو دن کی ڈبونی دی گنی تھی‬
‫اور تغد میں اس ئے انبا ناتم تھر ندل لبا۔۔ آقکورس دن میں اس کا ارادہ پہ عداری‬
‫کرئے کا خو تھا۔۔“ دامیر نشلی سے فوننج جبک کرنا ہوا بوال اور ڈرنک کو ناد ننی تگاہوں‬
‫سے گھورا خو سرمبدہ شا سر چھکا گبا۔‬
‫رنان کی کال آئے لگی ضرور اس کو اطالع مل جکی ہو گی آج کے نارے میں۔‬
‫”سر جارج کے آدمی پہ ہوں؟“ رنان ئے انبا نجزپہ نٹش کبا کہ دامیر ئے تقی‬
‫میں سر ہالنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪649 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہیں سر جارج کے آدم نوں کی انک نشانی ہونی ہے پہ کونی اور ہی لوگ‬
‫تھے۔۔ دسمن انک تھوڑی نال رکھا ہے ہم ئے۔“ دامیر مزند فوننج جبک کرنا ہوا رنان‬
‫سے بوال۔‬
‫”صنح ہوئے سے نہلے مجھے پہ آدمی جا ہنے ڈرنک۔۔۔“ دامیر ئے انبا رخ ڈرنک کی‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ً‬
‫جانب کبا جس ئے فورا انبات یں سر النا۔‬
‫”خو بولٹس تھیں ان کا ستمبل لبا؟“ رنان ئے ناد آئے پہ کہا۔‬
‫”جی سر وہ ناس ہیں‪ ،‬جبک ہوئے ہی ڈنتبلز مل جانیں گی۔“‬
‫”علتبا کٹسی ہے؟“ رنان کی آواز ستبکر سے اتھری بو دامیر ئے فون ستبکر سے‬
‫ہبا کے کان سے لگانا۔‬
‫”ڈر گنی ہے۔۔ جائے لگا ہوں اس کے ناس۔“ دامیر علتبا کے ردعمل کو شوچ‬
‫کے گہرا شانس ت ھر کے بوال اور سبک نورنی سے تکلنے لگا تھر رک گبا۔‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫”زچم کو ناندھو ا ننے‪ ،‬ن نوی ناراض ھی ہے میری نمہاری وجہ سے اور چب ک پہ‬
‫ن‬
‫ت‬ ‫چ‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ُ‬
‫تھبک نا ہو اس کے شا منے یں آنا ورپہ ا ھی بو گولی ھو کے گزری ھی آ نتبدہ نشاپہ‬
‫سبدھا بوان نٹ پہ ہوگا۔“ ڈرنک کو دنکھنے ہوئے وہ سرد لہچے میں بوال کہ ناجا ہنے ہوئے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪650 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫تھی ڈرنک کے چہرے پہ ہلکی سی مشکراہٹ آگنی جس کو چھبائے کے لنے وہ‬


‫مضنوعی کھانسنے لگا۔‬
‫”جی سر۔۔۔“ ڈرنک ئے تظریں خرائے کہا۔‬
‫دامیر پڑپڑانا ہوا وہاں سے تکل گبا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”کبا ہوا؟“‬
‫چب وہ دامیر سے نات کر رہا تھا نتھی اندر آنی چنہ ئے اس کی نات شن لی‬
‫تھی۔‬
‫”دامیر پہ چملہ ہوا ہے۔“ مونانل کو شانبڈ نتبل پہ رکھنے ہوئے بوال۔ وہ نبڈ پہ‬
‫اس طرح نتم دراز تھا جٹسے شسرال آنا ہو۔‬
‫”دامیر پہ نا علتبا پہ۔۔“ چنہ ئے آپرو شکیڑے بوچھا۔‬
‫”دامیر پہ‪ ،‬علتبا شاتھ تھی لبکن ان کا نارگنٹ دامیر تھا۔“ رنان کہنے ہوئے اس‬
‫کو دنکھنے لگا جس کے ہاتھ میں فروٹ کی نلنٹ تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪651 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دامیر ک نوں۔۔ نمہیں مارئے سے بو قاندہ تھی ہو گا اگلے کو‪ ،‬دامیر ننحارے کو بو‬
‫اننی ن نوی کے شاتھ شکون سے ر ہنے دیں۔“ چنہ ناشف سے سر ہالئے ہونی اس کے‬
‫ن‬
‫شا منے تتھی کہ رنان اس کی نات پہ گھورئے لگا۔‬
‫”بو میری ن نوی نہیں ہے کبا جس کے شاتھ میں شکون سے رہ شکوں؟“ وہ‬
‫شلگبا ہوا اس سے بوچھنے لگا خو عام سے انداز میں اس کو مارئے کی نات کررہی تھی۔‬
‫”اس کی ن نوی اس کے شاتھ رہبا جاہنی ہے نمہاری نہیں۔“ وہ کبدھے احکا‬
‫کے بولی چب کہ پزاکت سے نلنٹ سے انک سنب کا نکرا اتھائے منہ میں رکھا۔‬
‫”سروع سے ہی اننی کڑوی ہو نا کسی جابور کو مار کے کھانا پڑنا ہے نمہیں۔“‬
‫رنان جلے دل سے پڑپڑانا۔ اس ئے ہمٹشہ نہبا کر رکھا تھا کہ اس کے رومنتبک موڈ کا‬
‫ستباناس کرنا ہے۔‬
‫”تم سے ننتنے کے لنے بو جابور کا خون تھی کم پڑ جائے۔۔“ وہ دوندو بولی اور‬
‫رنان ئے دانت نٹسے‪ ،‬چیڑہ سجنی سے ت ھتنحا۔‬
‫”کسی دن بو لگو گی نا ہاتھ‪ ،‬پرلے متنیں تھی کرو گی بو جان نہیں چھوڑوں گا‬
‫م‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫گ‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫نمہاری۔۔“ شا منے ھی چنہ کو ہری ظروں سے د ھنے وہ من ہی من یں پڑپڑانا۔‬
‫”ہمیں کب تکلبا ہے۔۔؟“ رنان ئے آج کے کام کے نارے میں بوچھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪652 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”رات کے دو نچے گارڈز مدہوش ہوئے ہیں وہاں کے بو اچھا وفت رہے گا پہ۔“‬
‫چنہ ئے سنجبدگی سے کہا۔ چب کام کی نات ہونی تھی بو دوبوں سنجبدگی اجتبار کر لتنے۔‬
‫چنہ کا زچم اب نہلے سے نہیر تھا‪ ،‬نہلے بو اس ئے ارادہ کبا کہ لیزر سنجز ہو‬
‫جائے بو زنادہ نہیر رہبا لبکن اس کے لنے اس کو بورا دن صا تع کرنا پڑنا۔‬
‫رنان کا مونانل ن نپ ہوا‪ ،‬کونی مبل تھی ڈارک و نب سے۔ کسی کانیرنکٹ کا‬
‫اگرنمت نٹ تھا اور نتمنٹ فوری طور پہ ادا کرئے کی نات تھی۔۔ رنان ئے ڈنتبلز جبک‬
‫کیں۔‬
‫رسبا میں ہی تھا کانیرنکٹ۔ اس کے لب مشکرا د ننے‪ ،‬جس ڈان کو چنہ ئے‬
‫منتبگ روم میں مارا تھا اس کے تھانی کو مارئے کا کانیرنکٹ دنا گبا تھا۔ رنان ف نول‬
‫کر لتبا لبکن اتھی وہ کجھ دبوں کے لنے پرنک پہ تھا۔ کجھ دبوں نک ان کو وانس جلے‬
‫جانا تھا رسبا اور کانیرنکٹ کا وفت نس نین دن نک کا تھا اسے بورا کرنا اتھی ممکن‬
‫نہیں تھا۔‬
‫”ریج یک یڈ!“‬
‫پہ مٹسج لکھنے اس ئے تھنج دنا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪653 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ڈارک و نب پہ لوگ کسی کو تھی اشاشن کرئے کے لنے ہانیر کر لبا کرئے تھے‬
‫لبکن اس کی تھاری فتمت د نبا پڑنی تھی اور کونی تھی انبا پرسبل ڈ نبا انئیر نہیں‬
‫کرئے تھے لبکن خو ہبکبگ میں ماہر ہوئے تھے وہ انک منٹ میں ڈ نبا نک رشانی‬
‫جاصل کر لتنے تھے۔ رنان کانیرنکٹ ملنے ہی شب سے نہلے نبدے کا ڈ نبا ہی ہبک‬
‫کرنا تھا ت ھر دل کرنا بو کام کرنا ورپہ م یع کر د نبا۔۔ اس وفت اس کا موڈ چنہ کی جلی‬
‫کنی نابوں ئے خراب کر دنا تھا۔‬
‫”ڈپر پہ جلیں۔۔“ چنہ نبڈ سے اتھنے لگی چب رنان کی آواز پہ ئےشاچنہ رک‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫کے اس کو نا ھی سے د کھنے گی۔‬
‫”ک نوں؟“‬
‫”ک نوں کبا مطلب‪ ،‬آؤنبگ ہو جائے گی۔۔“ رنان کبدھے احکانا ہوا بوال‪ ،‬اس کے‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ہونٹ کے شاتھ آ یں ھی مسکانی یں۔‬
‫”اوکے۔۔۔“ چنہ نبا کسی فباچت محسوس کرئے کے مان گنی۔‬
‫ہ‬‫ن‬
‫”لبام کو تھی رنڈی ر ہنے کا کہہ د نبا۔۔“ وہ اتھی دروازے نک چی ھی کہ ھر‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫رک گنی۔ اس ئے جانجنی تگاہوں سے رنان کو دنکھا‪ ،‬وہ لبام کو دوبوں کے درمبان‬
‫پرداشت کر لے گا؟ پہ شو جنے وہ اسبہزاننہ مشکرانی اور سر ہالئے ناہر تکل گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪654 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان جانبا تھا کہ لبام جائے سے اتکار کرے گا نتھی نس جسکا لتنے کو کہہ دنا‪،‬‬
‫نانگ پہ نانگ ر کھے‪ ،‬سر کے ننچے دوبوں نازو ر کھے مزے سے ا ننے اور چنہ کے نارے‬
‫میں شو جنے لگا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫کمرے میں داجل ہوئے اس کو علتبا دکھانی پہ دی‪ ،‬ناتھروم کی النٹ آن تھی۔‬
‫اب علتبا کو مبانا تھا خو اس کو محاز سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ اننی گن‪ ،‬گھڑی وغیرہ‬
‫ُ‬
‫انارے اس ئے شانبڈ نتبل پہ رکھی اور اس کا ان یطار کرئے لگا‪ ،‬آ نین ہت نوں نک‬
‫ک‬ ‫س‬
‫فولڈ کر رہا تھا چب ناتھ روم کا دروازہ کھال اور سنجبدہ چہرے کے شاتھ وہ ناہر آنی۔ دامیر‬
‫ت‬ ‫م‬‫ک‬‫م‬
‫کو اس ئے ل طور پہ ظرانداز کبا کہ وہ چیران ہوا۔‬
‫جلنی ہونی وہ آ نتنے کے شا منے آنی اور مونٹسجراپزر‪/‬لوشن تکالے اس کو ہاتھوں پہ‬
‫ن م ن ن‬
‫لگائے لگی۔ علتبا ئے چہرہ اتھائے خود کو آ تنے یں د کھا‪ ،‬آ یں روئے کی وجہ سے‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫شوجی تھیں اور ناک تھی سرخ ہو رہی تھی۔‬


‫دامیر کے دل میں تھٹس سی اتھی تھی‪ ،‬وہ اس کو کتھی تکل یف د ننے کا شوچ‬
‫تھی نہیں شکبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪655 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ل‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬


‫دامیر کا عصہ اور چھڑکبا ناد کرنی علتبا کی آ یں ھر سے م ہوئے یں۔ وہ‬
‫گ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬
‫جلبا ہوا اس کے فرنب آنا کہ علتبا ئے جاتف ہوئے انبا رخ موڑنا جاہا۔۔ دامیر ئے‬
‫ننجھے سے دوبوں ہاتھ اس کے اطراف میں تکائے کہ وہ اس حصار فبد ہوئے کھڑی ہو‬
‫گنی۔ اس کی نشت دامیر کی طرف تھی جبکہ وہ انبا فرنب تھا کہ اس کا کبدھا دامیر‬
‫کے ستنے سے نکرا رہا تھا۔‬
‫”ناراض ک نوں ہو رہی ہو‪ ،‬ہمارا کام ہی انشا ہے۔۔“ دامیر ئے آ نتنے سے اس کو‬
‫تظروں سے حصار میں لنے سمجھائے ہوئے کہا خو اننی تگاہیں چھکائے کھڑی تھی۔‬
‫علتبا ئے کجھ کہنے کے نحائے ششکی تھری۔‬
‫”اس کی علطی تھی۔۔“ دامیر ئے تھر سمجھانا جاہا چب علتبا ئے اس کی نات‬
‫کانی۔‬
‫”چھونی سی علطی پہ گولباں جالنا نمہارا کام ہے۔ تم ئے کہا کہ سبک نورنی کے‬
‫لنے گن ہے نمہارے ناس لبکن تم ئے ا ننے ہی آدمی کو ئےدردی سے مارا‬
‫دامیر۔۔“‬
‫ً‬
‫”وہ مرا نہیں ہے۔۔“ دامیر ئے فورا کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪656 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫”مر تھی شکبا تھا‪ ،‬ہ نو ننجھے مجھے شونا ہے۔۔“ آ نتنے میں ہی د نی وہ اس سے‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫سحت لہچے میں بولی کہ دامیر سرد آہ تھرنا رہ گبا۔‬


‫”تم اس نات پہ مجھ سے ک نوں حقا ہو رہی ہو خو ہوا ہی نہیں۔“ دامیر ئےنس‬
‫لہچے میں بوال ک نونکہ وہ اس کی طرف دنکھنے سے تھی گرپز کر رہی تھی۔‬
‫”بو تم جا ہنے ہو کہ میں ان یطار کروں کب تم اس کو مارو اور میں حقا ہوں۔“‬
‫علتبا مڑئے ہوئے ئےتفتنی سے بولی۔‬
‫”اب تم جد کر رہی ہو۔۔“ دامیر سنجبدگی سے بوال ک نونکہ وہ خوامحوا ہی اس سے‬
‫نحث کر رہی تھی جبکہ وہ اس کو م یع کر حکا تھا اس نانک پہ نات کرئے سے۔‬
‫”تم نہت پرے ہو دامیر‪ ،‬تم ئے مجھ پہ نال وجہ شاؤٹ کبا اور اب اننی علطی‬
‫تھی نہیں مان رہے۔“ علتبا اس کے نازو کو شانبڈ پہ کرنی ہونی بولی اور نبڈ کی جانب‬
‫پڑ ھنے لگی۔‬
‫”آنی اتم شوری‪ ،‬میں مانبا ہوں کہ مجھے عصہ نہیں کرنا جا ہنے تھا لبکن تم انک‬
‫نات نار نار کہہ رہی تھی۔۔“ وہ ہار مانبا ہوا اس کے ننجھے آنا خو اب کمفرپر کھولے خود پہ‬
‫لے رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪657 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا ئے اب تھی تظرانداز کبا۔ کروٹ لنے وہ لنٹ گنی اور کبدھے نک کمفرپر‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫اوڑھے آ یں موند نی۔‬
‫دامیر تھوڑی سی جگہ دنکھبا اس کے ننجھے کھشک کے نتتھ گبا کہ علتبا ئے‬
‫گردن گھمائے اس کو خونحوار تظروں سے دنکھا۔‬
‫ک‬‫ت ن‬
‫”جاؤ نہاں سے مجھے شونا ہے۔“ وہ بولنی ہونی ھر آ یں موند نی۔ دامیر خوتکا‬
‫گ‬ ‫ھ‬
‫کہ اب وہ اس کو کمرے سے تکالے گی۔‬
‫”میں شوری کر بو رہا ہوں۔“ وہ مبائے والے انداز میں بوال۔‬
‫”مجھے نہیں جا ہنے۔۔“ وہ نبک کے بولی۔‬
‫”کتھی پہ چھکنے والے دامیر کو ا چھے سے ناکوں جنے ج نوا رہی ہے‪ ،‬پہ دن تھی‬
‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫آئے تھے دامیر کہ تم انک لڑکی سے مغاقی ما نگنے تھرو گے اور اس کے ھے ھے تھاگو‬
‫گے۔ چیر لڑکی بو نہیں ن نوی ہے میری۔“ دامیر اس کے سر کو دنکھبا گہرا شانس‬
‫تھرے دل میں شوجبا رہ گبا۔‬
‫اس کی نبد آنکھوں کو د نکھے دامیر کھڑا ہوا اور انبا ڈرنس نکڑے جتنج کرئے جال‬
‫گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪658 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ق‬ ‫ح‬ ‫ک‬‫ن‬


‫اس کے اتھنے ہی علتبا ئے اننی نبد آ یں ھو یں اور گی سے اس کی نشت‬
‫ل‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫کو دنکھا۔‬
‫”زرا پرواہ نہیں میری اس سحص کو‪ ،‬چب دل جاہا مجھے چھڑک دنا اور اب مغاقی‬
‫مانگ رہا۔ نا مجھے کتھی ا ننے نارے میں نبانا کہ کبا کام کرنا ہے۔“ وہ عصے سے‬
‫ک‬‫ن‬
‫پڑپڑانی اور اس کو ڈرنسبگ روم سے تکلنے دنکھ نیزی سے آ یں موند نی۔‬
‫گ‬ ‫ھ‬
‫دامیر جانبا تھا کہ وہ شو نہیں رہی تھی نس ڈرامہ کر رہی تھی لبکن نبا کونی مزند‬
‫نات کنے وہ تھی اننی جگہ پہ آنا انبا لنپ ناپ لنے نتتھ گبا۔‬
‫علتبا کا روئے کو دل کرئے لگا کہ کٹسے ئےجس ین کے نتتھ گبا تھا…جس‬
‫کو اس کی ناراصگی کی پرواہ نہیں تھی۔‬
‫آج اس کے انداز کو د نکھے وہ خود تھی نہت پری طرح ڈر گنی تھی‪ ،‬انک نل کو بو‬
‫ن‬ ‫ُ‬
‫اسے لگا وہ دامیر تھا ہی نہیں خو اس سے نبار تھری نانیں کرنا تھا‪ ،‬وہ بو اس ل کونی‬
‫ئے رچم شا انشان لگ رہا تھا خو مارئے سے نالکل تھی پہ گ ھیرائے۔ وہ جانبا تھا کہ‬
‫اسے گن سے خوف آنا تھا لبکن تھر تھی اس کو نکڑئے کو کہا اور اس کی پرواہ کنے‬
‫نبا ہی اس کے شا منے گولی تھی جالنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪659 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گاڑی پہ ہونی قاپرنگ سے وہ نہلے ہی خواس ناچنہ ہونی تھی لبکن دامیر کے اس‬
‫عمل سے اس کی خو جان نچی تھی وہ تھی شوکھ جکی تھی۔ اس کو ڈرنک پہ پرس شا آنا‬
‫جس ئے گولی کھائے انک لقظ تھی نہیں کہا تھا۔‬
‫دامیر ئے گردن پرچھی کرئے علتبا کو دنکھا جس کی چمدار نلکیں آنکھوں پہ شانا‬
‫قگن تھیں۔ تھر بوڑا شا آگے ہوئے اس کے نال چہرے سے ہبائے گردن پہ بوسہ‬
‫دنا۔‬
‫”گڈ نانٹ۔۔۔“‬
‫وہ ننجھے ہبا اور انبا دھبان لنپ ناپ کی طرف کبا۔‬
‫”گٹ نانٹ ا نسے کہہ رہا ہے جٹسے مجنت تھرے لمچے گزاریں ہیں اتھی۔۔“ علتبا‬
‫جلے دل سے شوجنی ہونی شوئے کی کوشش کرئے لگی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫”لبام کہاں ہے؟“ چنہ کو نبار دنکھنے رنان ئے بوچھا۔ خواب وہ جانبا تھا لبکن‬
‫جان بوچھ کے بوچھا تھا۔ اتھی وہ دوبوں نٹشمنٹ کے ناہر موخود تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪660 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”وہ نہیں جارہا‪ ،‬نس ہم دوبوں جانیں گے۔“ چنہ سنجبدگی سے بولی اور ا ننے نالوں‬
‫کو آگے کی طرف کبا۔‬
‫”تم کونی لڑک نوں واال ڈرنس نہتنی‪ ،‬ہم ڈ نٹ پہ جا رہے ہیں نار۔“ رنان ئے اس‬
‫کی نباری دنکھنے کہا خو جشب معمول سباہ چئیز پہ سرٹ نہنے اس پہ جبکٹ نہنے ہوئے‬
‫تھی۔‬
‫”نمہارے نارے میں کبا جبال ہے!“ وہ اس کی نباری پہ خوٹ کرنی ہونی بولی‬
‫م‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ت ت ً‬
‫خو خود ھی فرنبا م ڈرنسبگ یں تھا۔‬
‫ن‬
‫”میری پرستبلنی ہے انک۔“ وہ جبانا ہوا بوال کہ وہ آ کھیں گھما گنی۔‬
‫”اور ڈ نٹ پہ کون جا رہا ہے؟ تم ئے ڈپر کا کہا تھا۔۔“ چنہ اس کو گھورئے‬
‫ہوئے بولی خو گاڑی کی جانی تھامے گاڑی کی طرف پڑھ رہا تھا۔‬
‫”لبام شاتھ ہونا بو ڈپر کہبا‪ ،‬ہم دوبوں ڈ نٹ پہ ہی جا شکنے ہیں۔“ کبدھے احکا‬
‫کے کہنے اس ئے گاڑی کا دروازہ کھوال اور چنہ کے نتتھنے ہی وہ لوگ انک رنسنورن نٹ‬
‫کی جانب گنے۔‬
‫انک اچھی جگہ پہ ڈپر کرئے وہ دوبوں والک کرئے تکل گنے تھر تھوڑی دپر‬
‫وانس ان کو لبام کی طرف جائے کے نحائے ان کو نارگنٹ بورا کرنا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪661 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ ا ننے ہی دھبان میں تھی چب رنان ئے اجانک اس کے گرد حصار ناندھا۔‬
‫چنہ کا مونانل رنگ ہوا‪ ،‬دنکھا بو مبکس کی کال تھی۔ چنہ کے چہرے پہ‬
‫ئےزانت چھانی اور کال رنسنو کی۔‬
‫”جی۔۔!“‬
‫”کہاں ہو اس وفت۔۔؟“ انہوں ئے شوال کبا۔ رنان نک ہلکی سی آواز آنی بو‬
‫اس ئے چنہ کی جانب چھک کے سرگوسی کی۔‬
‫”کہو ہزنتبڈ کی ناہوں میں۔“ چنہ ئے اس کو گھورا۔‬
‫”مبکسبکو میں ہوں۔“ اس ئے سنجبدگی سے خواب دنا جس پہ وہ رنان کے نارے‬
‫میں بوچھنے لگے۔‬
‫”شاتھ ہے وہ تھی۔“‬
‫”میرا شک تھبک تھا‪ ،‬تم نجھلے دبوں سے شپ منٹس رکوا رہی ہو۔“ وہ عصے میں‬
‫لگ رہے تھے جس کی چنہ کو نالکل تھی پرواہ نہیں تھی۔‬
‫”میرا کام ہے پہ۔“ وہ الہرواہی سے بولی اور رنان کا نازو اننی کمر سے ہبائے‬
‫اس سے زرا قاصلے پہ ہونی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪662 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کون نٹسے دے رہا ہے نمہیں پہ شب کرئے کے؟“ انہوں ئے مسیغل ہوئے‬


‫کہا جس پہ چنہ ئے کونی ردعمل طاہر پہ کبا۔‬
‫”ناز آجاؤ تم‪ ،‬مسکل میں ڈال رہی ہو مجھے۔۔ وہ انک ام نورنت نٹ شپ منٹ تھی‬
‫جس کی وجہ سے میں حظرے میں پڑ شکبا ہوں۔“ مبکس ئے ننتبہی انداز میں کہا۔‬
‫”مجھے پرواہ نہیں۔۔“ انبا کہہ کے چنہ ئے فون نبد کر دنا اور انبا رخ موڑا‪ ،‬رنان‬
‫اسی کو دنکھ رہا تھا۔‬
‫”ا ننے ناپ کے پزنس میں نانگ اڑا رہی ہو۔ انمیرنسنو۔“ رنان سبانسی انداز میں‬
‫بوال۔‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن ن‬
‫”کام میں ر سنے داری ہیں د نی میں۔“‬
‫وہ سنجبدگی سے بولی کہ رنان فجرپہ مشکرانا اور اس کو سرا ہنے کے طور پہ زپردسنی‬
‫انک شوخ جشارت کر نتتھا کہ چنہ ئے ما تھے پہ نل لنے ناگوارنت سے اس کو گھورا۔‬
‫”مجھ سے دور رہا کرو۔۔“‬
‫وہ سجنی سے بولی کہ اس کا موڈ پری طرح سے آف ہو حکا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪663 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫صنح اس کی آنکھ کھلی بو کمرے کو جالی نانا جبکہ کمرے میں نتم اندھیرا ہ نوز تھا‪،‬‬
‫دامیر ئے اتھ کے پردے نہیں ہبائے تھے اور پہ ہی کونی النٹ آن کی تھی۔‬
‫”کبا کونی انسی صنح ہو شکنی ہے چب میں جلدی اتھ جاؤں اور دامیر کو شونا دنکھ‬
‫شکوں۔“ پڑپڑانی ہونی اتھی اور نیروں میں خونا نہنے ناتھ روم فرنش ہوئے جلی گنی۔‬
‫آج سردی پڑھنی ہونی محسوس ہونی نتھی وارڈ روب سے انک ہڈی تکال کے نہن‬
‫لی۔‬
‫اس ئے غور کبا کہ سردبوں کے کیڑے زنادہ موخود نہیں تھے‪ ،‬درمبائے موسم‬
‫کی ڈرنسبگ موخود تھی۔ روم کی النٹ آن کرئے اس ئے نال نبائے اور نبڈ سنٹ‬
‫سنوارئے ناہر آنی چہاں جشب معمول دامیر کو کنچن میں نانا۔ ئےشاچنہ ہی علتبا کے‬
‫دماغ میں انک چملہ آنا۔‬
‫”گھر کی زمہ دار نہو۔۔“‬
‫سر چھبکنی ہونی وہ کنچن نک آنی اور مشکرانی اس کی نشت پہ سر رکھنے ا ننے ہاتھ‬
‫آگے لےجائے اس کے ستنے پہ دھرے۔‬
‫”گڈ مارنبگ۔۔“ وہ نتبد سے تھری آواز میں بولی۔ دامیر خوتکا مطلب وہ ناراصگی‬
‫جتم کر جکی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪664 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مارنبگ شن شاین۔۔“ اس کے ستنے پہ دھرے ہاتھ کو ہونٹ نک لے جائے‬


‫اس ئے بوسہ دنا۔‬
‫”نتبد کٹسی آنی؟“ دامیر ئے بوچھا وہ اب تھی نشت سے سر تکائے کھڑی تھی۔‬
‫ن‬
‫”اچھی تھی نس۔“ وہ کہنی ہونی آ یں موند نی۔‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫”آواز سے نہیں لگ رہا کہ نتبد بوری ہونی ہے۔“ دامیر کی نات پہ علتبا ئے‬
‫ک‬‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫نا ھی سے آ ھیں کھولیں۔‬
‫نتبد بوری ک نوں نا ہونی علتبا شو جنے لگی چب اس کا دھبان گزری شب کی طرف‬
‫گبا‪ ،‬کبا وہ دپر نک جاگے تھے؟ نہیں! زہن میں اجانک انک چھماکا شا ہوا…‪ .‬الجھن‬
‫دور ہونی نیزی سے ا ننے ہاتھ اس کے ستنے سے ہبائے وہ اس سے قاصلے پہ ہونی۔‬
‫چہرہ چحالت کے مارے سرخ ہو رہا تھا کہ وہ اس سے ناراض تھی اور کٹسے اس‬
‫کو صنح شوپرے مارنبگ وش کر رہی تھی۔‬
‫اس کے اجانک ننجھے ہتنے پہ دامیر الجھا اور گردن گھمانی خو خود پہ اقسوس کرنی‬
‫ہونی نانی گنی۔ دامیر ئے گہرا شانس تھرا اور اس کو نازو سے نکڑئے ا ننے فرنب کبا۔‬
‫ل‬ ‫ج‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫ی‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ع ً‬
‫ل‬
‫لتبا فورا ھرنی دکھائے ا ننے ہاتھ لی نوں کی طرح الئے گی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪665 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کھائے بو نہیں لگا میں نمہیں خو انبا نحاؤ کر رہی ہو۔“ وہ زومعت نت سے اس کو‬
‫جبانا ہوا بوال کہ علتبا سنتبا اتھی۔‬
‫”ناشنہ رنڈی ہے۔۔“ دامیر سنجبدگی سے بوال۔‬
‫”نہیں جا ہنے۔۔ خود ہی کھاؤ۔“ وہ اس پہ چ ھتنی۔۔‬
‫”میں بو کھا ہی لوں گا۔۔“ اس ئے علتبا کو گہری تگاہوں سے دنکھنے خواب دنا۔‬
‫ُ‬
‫علتبا کے رجشار پہ سرجی نیرئے لگی۔ وہ اس سے ناراض تھی جس کی اسے کونی پرواہ‬
‫نہیں تھی۔‬
‫”تم مجھے دنکھ کے نات ک نوں کہہ رہے ہو؟“ علتبا حقگی سے اس کو دنکھنے آپرو‬
‫احکائے بوچھنے لگی۔‬
‫”تم میرا کھانا تھوڑی خو مجھ سے ڈر رہی ہو۔“ دامیر اس کی جالت سے محظوظ ہو‬
‫رہا تھا اور آہشنہ سے اس کی جانب قدم پڑھائے۔‬
‫”بو مجھے ا نسے ک نوں دنکھ رہے ہو؟“ خود کو مضنوط نانت کرئے وہ گردن اکڑا‬
‫کے بولی۔‬
‫”کٹسے؟“ دامیر ئے گھمئیر لہچے میں شوال کبا۔‬
‫علتبا کو اس کا انداز ندال شا لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪666 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”جٹسے انک شکاری دنکھبا ہے۔۔“ وہ تھوک تگل کے بولی اور اس کی فرنت سے‬
‫گ ھیرائے ہوئے تظریں ت ھیر گنی۔ اس کی نشت اب فرنج سے لگ جکی تھی جبکہ دامیر‬
‫فرنب آنا جا رہا تھا۔ وہ اس کے کان کے فرنب انبا چہرہ النا۔ علتبا کو ا ننے چہرے کی‬
‫شانبڈ پہ اس کی شانسیں محسوس ہونیں۔‬
‫”ک نونکہ تم میرا شکار ہو۔۔“ گھمئیر آواز پہ علتبا کی شانس ستنے میں انکی‪ ،‬اس ئے‬
‫نلکیں اتھائے دامیر کو دنکھا خو اننی نات کہہ کے مسکانا تھا۔‬
‫”نمہیں پہ نات نہیں تھولنی جا ہنے دامیر کہ میں تم سے ناراض ہوں۔“ اس‬
‫کے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے ننجھے ہبانا جاہا اور تھوڑا مضنوط لہچے میں کہا۔‬
‫”شکاری انبا شکار کرئے سے نہلے پہ بو نالکل تھی نہیں دنکھبا کہ وہ اس سے‬
‫ع‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫ناراض ہے نا نہیں۔“ دامیر اس کے ہاتھ تھامے کمر کے ھے لے گبا‪ ،‬لتبا ئے‬
‫ج‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ہ‬‫س‬
‫می تگاہوں سے اس کو د کھا۔ اس کا انداز وہی تھا سرد وجشت سے ھرا ٹسے اس کو‬
‫کل دنکھا تھا۔‬
‫دل کی دھڑکن کابوں میں گونجنے لگی۔ دامیر مشکرانا ہوا اس کی گردن پہ ہلکا شا‬
‫بوسہ د ننے ننجھے ہبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪667 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”قکر پہ کرو اتھی کجھ نہیں کرئے لگا۔“ اس کی غیر ہونی جالت دنکھنے وہ‬
‫اسبہزاننہ مشکرانا اور وانس گھوم گبا۔‬
‫”تم کجھ کر کے تھی دکھاؤ زرا۔۔“ دامیر کے ننجھے ہتنے سے اس کو تھوڑا خوصلہ‬
‫مال کہ وہ اننی خون میں وانس آنی اس کے ننجھے نیز لہچے میں بولی۔‬
‫”دک ھاؤں۔۔“ اسی نیزی سے وہ اننی گردن گھمائے آپرو احکا کے بوال کہ علتبا‬
‫سنتبا اتھی۔ پڑپڑانی ہونی وہ الؤنج میں ر کھے صوفے کی جانب پڑھی۔‬
‫دامیر محظوظ ہونا ناشنہ نتبل پہ لگائے لگا۔‬
‫”نبا کونی نحث کنے ناشنہ کرئے آجاؤ۔۔“ وہ اننی سنجبدگی سے بوال علتبا کو ناجار آنا‬
‫ہی پڑا۔ لہچے میں پرمی نہیں تھی پہ ہی کونی سجنی لنے ہوئے تھا۔‬
‫”پہ کلر کٹشا ہے؟“ کھائے کے دوران اجانک علتبا کی تگاہ اس کی سرٹ کی‬
‫آسنین پہ گنی چہاں سرخ رنگ کے د ھنے موخود تھے۔ اس ئے آپرو شکیڑے اور ہاتھ‬
‫لگانا جاہا چب دامیر ئے روک دنا۔‬
‫”اوں ہوں ہاتھ گبدے ہو جانیں گے۔“ اس کے بو کنے پہ علتبا ئے تگاہیں‬
‫اتھائے دامیر کو دنکھا۔‬
‫”پہ خون ہے۔۔!“ وہ نسونش زدہ لہچے میں بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪668 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”فوڈ کلر ہے۔“ نین لقظ کہنے جٹسے دامیر ئے نات جتم کی۔ علتبا کجھ لمچے اس‬
‫ک‬‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫کے چہرے کو د نی رہی چب دامیر کے د ھنے پہ دوبوں کی تگاہوں کا تصادم ہوا۔‬
‫وہ پرمی سے مشکرا دنا‪ ،‬اب کی نار اس کی مشکراہٹ انبان نت تھری تھی جٹسے وہ‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫م‬ ‫ظ‬‫نک م‬
‫اس کو د ھے ین تھا۔ آ ھوں یں مجنت اور جاہت ھی۔‬
‫علتبا کو تھول گبا کہ اس ئے کل دامیر کا دوسرا روپ تھی دنکھا تھا خو نبار کرنا‬
‫نہیں جانبا تھا جسے ضرف انبا خوف تھبالنا آنا تھا۔‬
‫وہ پرکسش جازب مرد تھا‪ ،‬خو اننی ن نوی کی حقاظت کرنا جانبا تھا۔ علتبا ئے جٹسے‬
‫نبار کرنا ہی اس سے سبکھا تھا‪ ،‬چب سے وہ ہوش میں آنی شب سے زنادہ اس کو ا ننے‬
‫فرنب نانا ۔ دامیر کا انداز انشا ہونا جٹسے دنبا میں نس علتبا کا وخود ہے اس کے لنے‬
‫ناقی تھا۔ اس کا مجنت تھرا انداز‪ ،‬اس کا لمس‪ ،‬اس کی وارفبگی وہ شب لمحات ناد آئے‬
‫علتبا کے چہرے پہ سرجی چھائے لگی۔‬
‫”آنی لو بو۔۔“ وہ ئےشاچنہ ہی بول اتھی۔‬
‫دامیر اننی جگہ سے تھوڑا اتھا اور اس کے ما تھے پہ ہونٹ ن نت کنے۔‬
‫َ‬
‫”لو بو مور۔۔“‬
‫ن‬
‫وہ اننی ناراصگی کو اس نل فراموش کنے تتھی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪669 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫دامیر صنح اتھنے ہی نہلے آرمری گبا چہاں ڈرنک ئے اس کو اطالع دی کہ جس‬
‫ب‬ ‫ف‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫گارڈ ئے ان چملہ آوروں کو نہاں نک کی رشانی دی ھی اس کو لے ہی ل کر دنا‬
‫گبا تھا اور اس کے ناقی نچے شاتھ نوں کو نکڑ لبا گبا تھا جن کو ڈرنک ئے گودام میں رکھا‬
‫تھا۔‬
‫شک نورنی روم جبک کر کے وہ انک راؤنڈ لگائے گودام کی طرف پڑھا۔‬
‫نین لوگ تھے جن کو کرسنوں پہ نتتھائے ناندھا گبا تھا۔ دامیر نہحان گبا تھا ان‬
‫میں سے دو وہی تھے جبہوں ئے قاپرنگ کی تھی اور انک کو وہ نہیں نہحانبا تھا نتھی‬
‫ک‬‫ن‬
‫ڈرنک کو شوالنہ تظروں سے د نے لگا۔‬
‫ھ‬
‫”سر چب میں ان کو ال رہا تھا بو خوانی کاروانی سروع کر دی بو اتھا النا۔۔“ ڈرنک‬
‫ئے معصومنت سے خواب دنا دامیر ئے اسبہزاننہ مشکرائے سر ہالنا۔ ہالف شل نو سرٹ‬
‫نہنے ڈرنک ئے نازو پہ ننی ناندھ رکھی تھی۔‬
‫نتم اندھیرے میں ڈونا کمرہ چہاں ڈرنبا کے ناپ لوسین کو تھی رکھا تھا۔ دامیر اننی‬
‫س‬
‫آسنین فولڈ کرنا ہوا انک آدمی کے شا منے آنا اور نبا اس کو کجھ تھی جا ننے اور ھنے کا‬
‫ج‬‫م‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪670 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫موفع د ننے انک مکا رسبد کبا کہ مقانل کی کراہ گونج اتھی جبکہ ناف نوں کی ہوانباں اڑ‬
‫گنیں۔ ان شب کی آنکھوں پہ ننی نبدھی ہونی تھی بو وہ دامیر کو دنکھ نہیں نائے تھے۔‬
‫ک‬
‫”ڈرنک نمہیں اجازت ہے چب تھی نمہیں محسوس ہو کہ ہاتھوں میں لی ہو‬
‫ح‬ ‫ھ‬
‫رہی ہے بو تم اس کا اسیعمال کر شکنے ہو۔“ دامیر ئے ڈرنک کو اسی آدمی کی طرف‬
‫اشارہ کبا جس ئے خوانی کاروانی کی تھی۔‬
‫”ان سے میں ن نٹ لتبا ہوں۔“ خو دو مین آدمی تھے شب سے نہلے دامیر ئے‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫ان دوبوں کی نا گوں پہ ناری ناری قاپر کبا ھر زنائے دار ھیڑوں سے ان کے چہرے‬
‫سرخ کنے۔‬
‫”ضرف انک نار شوال کروں گا ک نونکہ وفت نہت فتمنی ہے میرا۔۔“ انک آدمی‬
‫کے نالوں کو متھی میں لنے دامیر سرد لہچے میں بوال جبکہ دوسرا ہاتھ گردن کو دبوچے‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫ب‬
‫ہوئے تھا جس سے اس کی شا یں ن گ ہو رہی یں۔‬
‫”کس وجہ سے تم نہاں نک نہنچے تھے؟“ دامیر عرانا اور گردن پہ محسوس جگہ پہ‬
‫دناؤ ڈا لنے لگا جس سے وہ پڑپ اتھا۔‬
‫اس ئے کونی خواب نہیں دنا کہ دامیر ئے گردن اور نال چھوڑے اس کے‬
‫ما تھے پہ قاپر کبا۔ وہ اسی لمچے ڈھیر ہو گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪671 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫لوسین نہلے ہی نہاں ا ننے ہوئے کی وجہ نہیں جانبا تھا گول نوں کی آواز سے وہ‬
‫خود گ ھیرا اتھا تھا۔ جانا مانا اشاشن رہا تھا اور کرائے کے قا نلوں کے نہت سے دسمن‬
‫ہوا کرئے تھے وہ تھی اسی شوچ میں ئےنس تھا کہ کونی پرانا دسمن ہو گا۔‬
‫”انک صا تع ہو گبا ہے تم نبا دو۔“ دوسرے کے گال پہ گن کی بوزل رکھنے‬
‫ہوئے وہ سنجبدگی سے بوال اور اس آدمی کی نانگ پہ انبا انک نیر رکھنے آگے کو چھکا۔‬
‫نحائے کجھ نبائے کے مقانل ئے مزاچمت سروع کر دی۔‬
‫”ہم سے نمہیں کجھ تھی جاصل نہیں ہوئے واال جاہے ہمیں مار ہی ک نوں نا‬
‫دو۔“ وہ دامیر پہ پرشا جس پہ دامیر ئے ئےزار انداز میں گولی اس کے ما تھے کے آر نار‬
‫کی۔۔‬
‫”لو مار دنا۔“ اس ئے گن کو ہاتھ میں گھمانا۔‬
‫”اتگلش نتبلز!“ آدمی کے بو لنے کی انداز سے دامیر پڑپڑانا۔‬
‫”بو انس اے نک چیر نہنحا دو۔“‬
‫دامیر گن اچھالبا لوسین کی طرف آنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪672 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”چیرت ہے لوسین۔۔ ا ننے کامباب ہوئے ہوئے تھی تم ئے اننی نتنی کو‬
‫پرین نہیں کبا۔ جن سے قاندہ ہو ان سے دسمنی مول نہیں لتنے۔۔“ لوسین کی‬
‫آنکھوں سے ننی ہبائے دامیر ئے ناشف سے کہا۔‬
‫ننی ہتنے سے تھی آنکھوں کے آگے اندھیرا ہی رہا تھا۔ آنکھوں کو نار نار چھبکنے وہ‬
‫دنکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کہاں ہے۔‬
‫”ڈرنبا سے نمہارا کبا تغلق؟“‬
‫م‬
‫لوسین دامیر کو جانبا تھا لبکن اس کی آواز نہیں نہحانبا تھا نتھی کمل اندازہ پہ لگا‬
‫نانا۔‬
‫ُ‬
‫”نمہاری وہ ’انک علطی‘ فصول میں اننی جان گ نوائے پہ نلی ہونی ہے۔۔ اس‬
‫سے اچھا تم کونی کبا نال لتنے لوسین‪ ،‬چچ جس کی وجہ سے تم تھی مرئے والے ہو۔“‬
‫دامیر اس سے ہمدردی جبانا ہوا بوال۔‬
‫”منہ تھی ناندھو اس کا۔“ ڈرنک کو کہبا ہوا وہ وانس اس نٹسرے نبدے کے‬
‫ناس آنا اور اس کے چیڑے پہ زور سے مکا رسبد کبا کہ اس کے منہ سے خون نہنی‬
‫لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪673 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”روز کا انک شوال‪ ،‬کہاں سے آئے ہو؟“ دامیر ئے نہت پرمی سے اس سے‬
‫ت‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫شوال کبا تھا جبکہ وہ جاموش رہا۔ آ یں ھمائے دامیر ئے انک اور ھیڑ مارا اور ڈرنک‬
‫کی طرف انبا رخ موڑا۔‬
‫”ناقی زمہ داری نمہاری۔“ اس کو کہبا ہوا وہ گودام سے تکل آنا اور منٹشن وانس‬
‫جائے لگا ناکہ علتبا کے اتھنے سے نہلے ناشنہ نبار کر شکبا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫”میں شوچ رہا تھا کہ انک اور ہفنہ رک جائے نہاں‪ ،‬کام سے ہٹ کے تھوڑا‬
‫ح‬ ‫ک‬
‫ہنی مون ہو جانا۔“ رنان ڈران نو کر رہا تھا چب اس کی زنان ئے ھ لی کی۔‬
‫”نمہاری نابوں سے لگبا ہے کہ تم کاقی پرسے ہوئے ہو رنان۔۔ پرابوا ہبڈ ہو‬
‫کونی تھی لڑکی مل جائے گی نمہیں ہنی مون کے لنے۔“ چنہ اسبہزاننہ ہٹسنی ہونی بولی کہ‬
‫رنان ئے سجنی سے چیڑے تھتنچے اور ناپرات نتھر نلے ہوئے۔‬
‫ت‬‫ن‬
‫”تم اتھی نہاں زندہ ھی ہو نونکہ یں ئے جاہا ورپہ میرے کردار پہ نات‬
‫م‬ ‫ک‬ ‫ت‬

‫کرئے واال اتھی زندہ پہ نجبا۔“ کجھ نل جاموسی کے تغد وہ سرد لہچے میں بوال کہ چنہ ئے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪674 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫انک تظر اس کو دنکھا اور سر چھبک کے مشکرا دی۔ اس ئے وافعی ہی جد کی تھی‬


‫اتھی اس کو ہلکے کردار کا کہہ کے۔۔‬
‫ن‬
‫”مجھے آج کا دن لبام کے شاتھ گزارنا ہے۔“ نٹشمنٹ کے ناہر ہنجنے چنہ ئے‬
‫سنجبدگی سے کہا۔‬
‫”تم نہلے ہی دو دن اس کے شاتھ رہی تھی رات میں ہماری وانسی کی قالنٹ‬
‫ہے۔“ رنان اس کو ناد ننی تگاہوں سے دنکھبا ہوا بوال۔‬
‫”مجھے نہیں مغلوم کہ وانسی کب ہو گی نہاں بو میں اچھا ناتم گزارنا جاہنی ہوں‬
‫اس کے شاتھ۔“ چنہ سنجبدگی سے بولی اور نٹشمنٹ کا دروازہ ان الک کرئے اندر‬
‫پڑھے۔‬
‫”مجھے ضروری کام سے جانا ہے فری ہو جاؤ بو مجھے نبا د نبا میں نک کر لوں گا۔“‬
‫لبام سے مصافحہ کرئے ہوئے وہ چنہ کو محاظب ہوا۔ چنہ سر ہال گنی۔‬
‫رنان کو گنے کاقی دپر ہو گنی تھی‪ ،‬کاقی کے مگ ہاتھ میں تھامے لبام اور چنہ‬
‫دوبوں کاؤچ پہ نتتھے تھے۔‬
‫ڈپر وہ لوگ کر آئے تھے بو اس کو مزند کھائے کی طلب نہیں تھی جتھی نس‬
‫لبام کو کاقی کا ہی کہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪675 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”رنان کو کہہ د ننی کہ تھوڑے دن مزند رکبا تھا۔“ کاقی کا گھونٹ تھرئے لبام‬
‫ئے کہا کہ چنہ ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”نہت سے کام نتبڈنگ ہیں اس کے وہاں پہ‪ ،‬دامیر اس کے نہاں اکبلے ہوئے‬
‫پہ تھی کاقی ننٹس ہے۔“ چنہ ئے سنجبدگی سے کہا کہ لبام کا چہرہ اپر شا گبا۔‬
‫”بو اس کو جائے دو اکبلے۔“ لبام ئے مسورہ دنا…‪.‬چنہ ہلکا شا ہٹسی۔‬
‫”نمہیں لگبا ہے وہ اکبال وانس جائے گا‪ ،‬نہاں ضرف میرا کام تھا اور وہ دو ہقنے‬
‫نہاں رہا ہے نبا ا ننے کام کی پرواہ کنے۔“ چنہ ئے لبام کو دنکھنے ہلکی مشکراہٹ سے‬
‫کہا۔‬
‫”تم اس کی نات کنے مشکرا رہی ہو۔“ لبام کے کہنے پہ چنہ کے چہرے کی‬
‫مشکراہٹ سمٹ گنی۔‬
‫”نہیں میں نس نمہیں نبا رہی تھی۔“ وہ اتکار کرنی بولی اور کاقی کا گھونٹ تھرا۔‬
‫”نمہیں کٹشا لگبا ہے وہ۔۔ نمہارے شاتھ کٹشا ہے؟“ لبام ئے کجھ بوفف کے‬
‫تغد شوال کبا۔‬
‫”تھبک ہے جٹسے ہونا جا ہنے۔“ وہ الپرواہی سے بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪676 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میرا مطلب وہ نمہاری پرواہ کرنا ہے‪ ،‬نمہیں نسبد کرنا ہے۔“ لبام عام سے انداز‬
‫میں بوال کہ چنہ اس کو خونک کے دنکھنے لگی۔‬
‫”ا نسے کبا دنکھ رہی ہو؟ سچ کہہ رہا ہوں‪ ،‬مجھے نمہارا نہیں مغلوم لبکن وہ کاقی‬
‫اننحڈ اور ‪ obsessed‬ہے تم سے۔“ لبام ئے کبدھے احکا کے کہا چنہ کاقی کا‬
‫انک اور گھونٹ تھرئے لگی۔‬
‫”مغلوم نہیں!“ وہ نس انبا ہی کہہ نانی۔ کاقی نتنے کا اب دل نہیں کبا تھا‬
‫نس ہاتھ میں مگ تھامے رکھا تھا۔‬
‫رنان وافعی اس کی پرواہ کرنا تھا اور اس کی عمل سے تھی لگبا تھا کہ چنہ اس‬
‫کے لنے کبا معنی رکھنی تھی۔‬
‫”شادی میرے نانپ چیز نہیں ہے۔“ چنہ کجھ دپر جاموسی کے تغد مدھم آواز‬
‫میں بولی۔‬
‫”میرے ماں ناپ کی شادی نہیں ہونی تھی اور پہ میں ئے کتھی ا ننے پزدنک‬
‫کسی کو شادی کو اننی ام نورننٹس د ننے دنکھا ہے۔۔ آج میں ہوں کل اس کی زندگی‬
‫میں کونی اور ہو گی تھر شادی کرنا مجھے سمجھ نہیں آنا۔“ وہ شا منے دنکھنے سنجبدگی سے‬
‫کہہ رہی تھی۔ چنہ کی نات ستنے لبام کو اقسوس شا ہوئے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪677 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہارے نانا ئے شادی نہیں کی نمہاری ماما سے بو اس کا پہ مطلب نہیں تم‬


‫اننی زندگی اکبلے گزارو۔۔“ لبام اس کو سمجھائے والے انداز میں بوال۔‬
‫”رنان کے کسی تھی انداز سے نہیں لگبا کہ وہ نمہیں چھوڑئے واال ہے۔ ہی از‬
‫َون و نمن مین۔“ )‪(he’s one woman man‬‬
‫لبام ئے انبا اندازہ نٹش کبا کہ چنہ ئے جٹسے اس نات کا تفین کرنا جاہا۔‬
‫”ہو شکبا ہے میں ون مین و نمن پہ ہوں۔۔“ وہ الپرواہی سے بولی کہ لبام ئے‬
‫اس کو گھورا۔‬
‫ن‬
‫”نلیز۔۔“ لبام ئے ئےزار نت سے آ کھیں گھمانی کہ چنہ ہٹس دی۔‬
‫”ہماری دنبا میں شاز و نازر ہی ہوا ہو گا کہ کونی شادی کو شاری زندگی نتھا کے‬
‫رکھبا ہو اور انک ہی ن نوی سے مجنت کا دغوے دار تھی رہا ہو۔۔“ چنہ لبام کو جبائے‬
‫ہونی بولی جس پہ لبام ئے تقی میں سر ہالئے ہوئے کاقی کا مگ نتبل پہ رکھا۔‬
‫”ہیں ا نسے نہت سے‪ ،‬جتنے مافبا والے اننی غوربوں کے لنے خزنانی ہیں شاند‬
‫کونی دوسرا ہو‪ ،‬نمہیں رنان کو انک موفع د نبا جا ہنے تھر دنکھبا وہ تھی شاری زندگی کسی‬
‫دوسری غورت کو د نکھے گا تھی نہیں۔“ لبام اس کو پڑے پزرگوں کی طرح سمجھا رہا‬
‫تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪678 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں ئے شادی کر لی نہی نہت ہے لبام… خود کو کسی کے شاتھ ناؤنڈ‬


‫کرئے کا میں ئے تصور تھی نہیں کبا تھا اور پہ نبار مجنت وفنی ہے شب۔ و نسے تھی‬
‫اس کو مجھ سے نبار نہیں ہے۔“ چنہ تقی میں سر ہالنی ہونی طیزپہ بولی جس پہ لبام‬
‫س‬ ‫ہ‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ت‬
‫ئے ھنے سر النا گونا اس کا ظرپہ مجھا ہو۔‬
‫”ہاں وہ نبار نہیں کرنا ک نونکہ وہ ‪ obsessed‬ہے تم سے۔۔“ لبام کی نات‬
‫کہنے پہ چنہ ئے چھبکے سے اس کی طرف دنکھا۔ رنان ئے تھی نہی کہا تھا۔‬
‫”تظر آنا ہے۔“ وہ کبدھے احکا گبا۔‬
‫”میں ان جکروں میں نہیں پڑنا جاہنی‪ ،‬میرے لنے پہ شب انہونی سی نات‬
‫ہے۔ ‪ “! Unwanted‬چنہ جلنی ہونی کنچن کاؤنیر سے نشت کو نبک لگائے‬
‫الپرواہی سے بولی جٹسے اسے ان شب نابوں میں میں کونی دلحسنی پہ تھی۔‬
‫”اور فتملی؟“ لبام ئے آپرو احکا کے بوچھا۔ چنہ ہٹس دی۔ وہ خو کہبا جاہ رہا تھا‬
‫ہ‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫اس کو ھنے مزند ٹس دی۔‬
‫”تم ہو نا میری فتملی میں“ انبا رخ موڑے اس ئے کاؤنیر پہ کپ رکھا۔‬
‫”میں اننی نات نہیں کر رہا‪ ،‬کم آن! نمہاری اور رنان کی فتملی۔۔“ لبام تھی اتھ‬
‫کے اس کے فرنب آنا کہ چنہ ئے اس کو گھورا اور تقی میں سر ہالئے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪679 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫”اننی سنجبدگی ک نوں دکھا رہے ہو‪ ،‬عمر دنکھو اننی لبام۔“ چنہ اس کو آ یں دکھانی‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫ہونی بولی کہ لبام ئے سر کھحانا۔‬


‫ج ً‬
‫”نحہ نہیں ہوں میں۔۔“ وہ ا نحاجا النا۔‬
‫ج‬
‫”نہی نات رنان کے شا منے کہو ناکہ وہ مجھے تم سے ملنے پہ دے کہ تم انک‬
‫پڑے مرد ین گنے ہو۔۔“ چنہ اس کی تقل انارنی ہونی بولی کہ لبام ئے حقگی سے‬
‫اس کو دنکھا۔‬
‫” نچے ہی ہو میرے لنے تم‪ ،‬میری قکر پہ کبا کرو ا ننے آپ پہ فوکس کرو۔“ اس‬
‫کے نالوں میں ہاتھ ت ھیرنی ہونی وہ ہلکا شا ہٹس کے بولی اور ا ننے کمرے میں جائے کا‬
‫ارادہ کرنی ہونی گھومی۔‬
‫”نمہاری قکر ک نوں پہ کروں‪ ،‬تم ہی بو ہو نس میرے ناس۔“ لبام کی نات ستنے‬
‫چنہ ئے مڑ کے اس کو دنکھا خو آشودگی سے مشکرا رہا تھا۔ چنہ کجھ پہ بولی نس اس کو‬
‫ع‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ب‬ ‫ت‬
‫پرم تگاہوں سے د نی رہی۔ وہ ھ ک کہہ رہا تھا کہ اس کے ناس چنہ کے الوہ کونی‬
‫نہیں تھا۔ جس طرح آج اس ئے چنہ سے شاری نانیں کی تھیں چنہ کے لنے چیران‬
‫کن تھا کہ وہ اس کو سمجھا رہا تھا رنان کے م یغلق اور ان کے ر سنے کے م یغلق۔۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪680 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫” میں ان یطام کرنی ہوں نمہارا وہیں ا ننے ناس ناکہ شاتھ رہ شکو۔“ خود کو کسی‬
‫تھی خزنانی لمچے کی فبد میں جائے سے نہلے وہ گہرا شانس تھر کے بولی۔۔‬
‫”رنان اچھا لڑکا ہے۔۔ وہ اننی فتملی کو پرونبکٹ کرنا جا ننے تھے۔ آر ڈی‬
‫اشاشن۔۔“ لبام ئے چنہ سے زنادہ جٹسے خود کو تفین دالنا۔ چنہ سنجبدگی سے سر ہال گنی‬
‫اور کمرے میں جلی گنی۔‬
‫لبام کی نابوں ئے اس کو ناجا ہنے ہوئے تھی شو جنے پہ مج نور کر دنا تھا۔ رنان‬
‫چ‬
‫کے فرنب آئے سے شوائے ھجھک کے وہ کجھ تھی محسوس نہیں کرنی تھی نا کرنا‬
‫ُ‬
‫جاہنی تھی۔ پہ دن خو شاتھ گزارے تھے اس میں رنان ئے نہت مدد کی ھی اس کی‬
‫ت‬

‫کہ شاند پڑی شپ منٹس کو وہ اکبلی روک پہ نانی۔ اس کے کام میں بورا بورا شاتھ تھا‬
‫پہ جا ننے ہوئے تھی کہ اگر لوگوں کو مغلوم ہو جانا اس میں رنان کا تھی ہاتھ ہے بو‬
‫کنی لوگ اس سے جبگ کا اعالن تھی کر د ننے لبکن اسے اِ س نات کی قکر نہیں‬
‫ت‬ ‫گ‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ت ت ُ‬
‫ھی ھر ان شب نازناب ہوئے صوم لوگوں کے لنے ھروں کا ان یطام ھی اس ئے‬
‫اور دامیر ئے کروانا تھا۔‬
‫ھ‬ ‫چ‬
‫مشلشل رنان کی طرف دھبان سے وہ نجھال ا ھی اور فرنش ہوئے لی گنی۔‬
‫ج‬ ‫ت‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪681 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫تھوڑی دپر میں اس ئے رنان کو مٹسج کر دنا تھا کہ وہ اس کو نک کر لے۔ اس‬


‫کا شامان و نسے ہی شارا نبکڈ تھا بو قکر نہیں تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫دو ہف ٹوں نعد؛‬
‫منٹشن میں اس وفت سبانا شا چھانا تھا۔ گارڈ کی شفٹ جتنج ہو گنی تھی اور نانٹ‬
‫ڈبونی د ننے گارڈز خوکس تھے۔ ڈرنک ا ننے کوارپر بورشن میں موخود تھا۔ الن میں مدھم‬
‫روستباں جل رہی تھیں۔ الؤنج اپرنا نتم اندھیرے میں ڈونا ہوا تھا۔‬
‫ک یفرپر میں دو وخود اس وفت خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے‪ ،‬انک شانبڈ‬
‫نتبل پہ گن موخود تھی۔ پردے کھڑک نوں کے پراپر تھے‪ ،‬رات کے نین نچے کا وفت‬
‫تھا چب اجانک مونانل پہ مٹسج ن نپ ہوا۔ جاموش کمرے میں مدھم شانسوں کی روانگی‬
‫میں اس وانیرنشن ئے جلل ڈاال۔‬
‫ن‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ن‬
‫اس کی نتبد فوری بونی۔۔ آ یں ھولے اس ئے کنے سے سر اتھائے ا ک‬
‫طاپراپہ تگاہ کمرے میں دوڑانی تھر شاتھ شوئے وخود کو دنکھا۔‬
‫وانیرنشن انک نار تھر ہونی۔‬
‫سرہائے کے فرنب ر کھے مونانل پہ تظر گنی چہاں مٹسج جگمگا رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪682 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اس کے ٹاس سے ابھو۔“‬


‫”اوف دامیر۔۔!“‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫مٹسج پڑھ کے چنہ ئے آ یں ھما یں ضرور وہ نچ گبا تھا۔‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫انک اور مٹسج تھا۔‬


‫رنان‪” :‬ملٹشکا‪ ،‬کم ٹو دی روم۔“‬
‫”کبا ندنمیزی ہے پہ کونی وفت ہے گھر آئے کا شاری نتبد خراب کردی۔“ وہ‬
‫پڑپڑائے ہوئے اتھی‪ ،‬اننی گن جافو تھامے ونشٹ میں لگائے اور انک تگاہ شونی ہونی‬
‫علتبا پہ ڈالی۔ دئے ناؤں نبا آواز نبدا کنے کمرے کا دروازہ کھوال اور ناہر چھانک کے‬
‫دنکھا۔ سبانا و نسے کا و نسے تھا۔ نالوں کو سمنتنے وہ دامیر کے کمروں والی راہداری سے‬
‫تکلی ہی تھی کہ کسی ئے اس کو اجانک نازو اور کمر سے تھامے ا ننے کبدھے پہ‬
‫تھت یکا اور لمنے لمنے ڈگ تھرنا دوسرے حصے کی طرف پڑھ گبا۔‬
‫”لوفروں کی طرح ا ننے طر تقے آزمانا چھوڑ دو۔“ چنہ رنان کے اجانک ا نسے اتھائے‬
‫سے جاتف اس کو سرم دالنی ہونی بولی جس پہ وہ مدھم قہقہہ لگا اتھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪683 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ا ننے کمرے میں آئے اس ئے چنہ کو ننچے انارا‪ ،‬چنہ نبا کونی مزند نات کنے‬
‫جاموسی سے نبڈ کی جانب پڑھی اور ک یفرپر کھولے خود پہ اوڑھ کے لنٹ گنی۔ جافو گن‬
‫کو شانبڈ نتبل پہ رکھ جکی تھی۔‬
‫”میں ا ننے دبوں تغد گھر آنا ہوں کونی خوسی نہیں۔“ رنان اس کے انداز پہ شلگبا‬
‫ہوا شکوہ کرئے لگا‪ ،‬کونی گرم خوسی نہیں تھی پہ کونی خوشگوار چیرت۔۔‬
‫”صنح اتھ کے اظہار کر لوں گی۔“ چنہ نتبد سے بوچھل آواز میں بولی کہ رنان‬
‫ت‬ ‫ُ‬
‫اقسوس سے اس کے سر کو دنکھبا ہوا فرنش ہوئے جال گبا ورپہ ارادہ بو اس کو ھی‬
‫”فرنش“ کرئے کا تھا۔ پہ کام صنح پہ چھوڑے وہ پراؤزر تھامے ناتھ لتنے جال گبا۔‬
‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫وہ لوگ ا ک کانیر کٹ سے قارغ ہو کے آئے ھے جس کی وجہ سے وہ بورا فنہ‬
‫گھر سے عانب رہے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫چنہ کے ناس سے اتھ کے جائے پہ تھی علتبا کی نتبد میں زرا جلل نہیں پڑا‬
‫تھا۔ رنان اور چنہ کے جائے ہی دامیر کمرے میں داجل ہوا۔ پہ وہی کمرہ تھا چہاں‬
‫علتبا سروع کے دبوں میں رہا کرنی تھی۔ رنان اور دامیر کے نہاں موخود پہ ہوئے پہ‬
‫چنہ علتبا کے ناس شو جانا کرنی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪684 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ا ننے شوز انارنا ہوا‪ ،‬گھڑی‪ ،‬مونانل گن شب شانبڈ نتبل پہ رکھ کے وہ کمفرپر میں‬
‫گھشا۔‬
‫دامیر کی محصوص خوسنو کمرے میں تھبل گنی تھی۔ ا ننے دبوں تغد علتبا کو ا ننے‬
‫شا منے دنکھنے وہ سرشار ہوا تھا دل میں تھبڈک سی پڑی تھی۔ پرمی سے اس کا رجشار‬
‫سہالئے وہ کھشک کے فرنب ہوا اور رجشار کو ہون نوں سے چھوئے لگا۔ اس کو محسوس‬
‫کرئے وہ گہرا مسکانا۔ وہ ئےخود ہوئے لگا۔ اس کی گردن سے نال ہبائے اس ئے‬
‫گردن کو ہون نوں سے چھوا۔ ہلکی سنو کی جتھن اور اس کا لمس نتبد میں محسوس کرئے‬
‫علتبا کے ہون نوں مشکرائے۔‬
‫ن‬ ‫ک‬‫ل ن‬
‫”انک ہقنے تغد آئے ہو۔“ وہ نتبد میں پڑپڑانی اور شکوہ کرئے گی‪ ،‬آ یں م وا‬
‫ت‬ ‫ھ‬
‫ہونیں‪ ،‬شاند وہ اس کو خواب سمجھ رہی ہو۔‬
‫”مجھے مس کبا؟“ اس کی خوسنو میں گہرا شانس تھرئے بوال‪ ،‬علتبا محض سر ہال‬
‫گنی۔ ا ننے دبوں کے ہجر کے تغد دامیر علتبا کو ا ننے حصار میں لنے ئےنس کر رہا‬
‫تھا۔ علتبا ئے انبا ہاتھ اتھائے مجروطی اتگل نوں سے اس کے تفوش کو چھوا کہ اس‬
‫کے ہونٹ گہری مسکان سحائے دامیر کو ئےناک جشارت کرئے پہ اکشا گنے جس‬
‫ن‬ ‫کھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫سے علتبا کی آ یں بوری یں‪ ،‬پہ خواب یں تھا وہ اس کے فرنب تھا۔‬
‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ھ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪685 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ع‬ ‫ن‬ ‫ُ‬


‫”دامیر۔۔۔“ اس کی ٹش قدمی پہ لتبا کے نبدھ ناندھبا جاہا کہ دامیر ئے ا ننے‬
‫ب‬‫دبوں کی دوری کو جتم کرئے اس کے وخود کو اننی آغوش میں نشا لبا کہ پہ ش ِ‬
‫وصل کا سرور تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”تم تھر اتھ گنے؟“ صنح کا اجاال کمرے میں آرہا تھا چب علتبا کی آنکھ کھلی۔‬
‫دامیر کا انک نازو اس کے گرد تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ فون جبک کر رہا تھا۔‬
‫اس کے کبدھے سے سر اتھائے وہ پرو تھے لہچے میں بولی۔‬
‫دامیر اس کے اتھنے پہ منٹشم ہوا اور اس کا ماتھا چھوا۔‬
‫”تھر سے کبا مراد۔۔“ اس کا چہرہ شا منے کرئے بوچھنے لگا۔‬
‫”تم ہمٹشہ مجھ سے نہلے ا تھے ہوئے ہو۔۔“ وہ منہ نبا کے بولی۔‬
‫”تم مجھ سے زنادہ تھکی ہونی ہو شاند۔۔“ وہ بوال بو عام سے انداز میں تھا لبکن‬
‫علتبا کو جبا سی آئے لگی۔‬
‫”تم نین دن کا کہہ کر گنے تھے اور ا ننے دن لگا کے آئے ہو۔“ وہ اتھ کے‬
‫نتتھ گنی اور ا ننے نالوں کو سمنتنے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪686 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ضروری تھا۔۔“ نس انبا ہی بوال اور اس کے ما تھے کو انک نار تھر چھوئے نسیر‬
‫سے اتھ گبا‪ ،‬اننی سرٹ نہتنے فرنش ہوئے جال گبا چب علتبا کی تگاہ کمرے میں لگے‬
‫کتمرے پہ گنی۔‬
‫مشکراہٹ میں ڈ ھلے لب سمٹ گنے چب گزری شب کا جبال آنا‪ ،‬پہ کتمراز‬
‫دامیر ئے انک نو کر ر کھے تھے جائے سے نہلے۔ چہرے کا رنگ نبدنل ہوئے سرخ ہوئے‬
‫لگا ک نونکہ اس کا ‪ access‬رنان کے ناس تھی تھا۔‬
‫ُ‬ ‫م‬
‫دامیر چب جتنج کر کے کمل ڈرنسبگ میں ناہر آنا بو علتبا کو اسی طرح نبڈ پہ‬
‫د نکھے شوالنہ تظروں سے دنکھنے لگا۔‬
‫”دامیر وہ پہ کتمرہ۔۔“ اس ئے کوئے میں لگے کتمرہ کی طرف اشارہ کبا۔‬
‫”ہوں۔۔“ وہ اسبہقامنہ انداز لنے آ نتنے کے شا منے آنا اور پرف نوم خود پہ سیرے‬
‫کرئے لگا۔‬
‫ھ‬ ‫چ‬
‫”دامیر۔۔۔“ وہ نجھالہٹ سے اس کے ناس آنی‪ ،‬دامیر ئے آپرو احکائے اس‬
‫کی کمر پہ ا ننے دوبوں ہاتھ تکائے اور مسکان لنے دنکھنے لگا۔‬
‫”کہہ تھی دو اب‪ ،‬نبار آرہا ہے مجھ پہ؟“ دامیر آنکھوں میں سرارت سموئے بوال‪،‬‬
‫ا ننے دبوں تغد اس کو دنکھنے کی خوسی ہی الگ تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪687 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہیں! وہ کتمرہ کام کرنا ہے۔“ اس ئے بوجہ کتمرے کی طرف کروانی۔‬


‫”ہاں کرنا ہے۔“ انبات میں سر ہالئے خواب دنا جبکہ اس کی تگاہ اس کے‬
‫چہرے پہ نکی تھی۔‬
‫”رات کو تھی جل رہا تھا اور ہم نہیں پہ شوئے تھے۔“ علتبا ئے مدھم سی‬
‫سرگوسی کی کہ دامیر ئے الجھ کے دنکھا۔‬
‫”بو۔۔۔؟“ وہ سمجھ پہ نانا نا شاند اس کو نبگ کر رہا تھا۔‬
‫”بو کبا‪ ،‬نمہیں سمجھ ک نوں نہیں آرہا دامیر ہم دوبوں نہاں پہ تھے اور کتمرہ تھی‬
‫جل رہا تھا‪ ،‬نمہیں سرم نہیں آرہی کبا۔ اس کو نبد کرواؤ۔“ علتبا چھالنی ہونی اس کے‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ہاتھ کمر سے ہبائے آ یں دکھا کے بولی کہ دامیر م کراہٹ دنائے قی یں سر الئے‬
‫لگا۔ چب تھی وہ گ ھر آئے نا کمرے میں ہوئے بو ان کا نہال کام نہی ہونا کہ ا ننے نبڈ‬
‫روم کا کتمرہ نبد کرئے تھے لبکن اس وفت علتبا کو نبگ کرئے کا بورا بورا موڈ تھا۔‬
‫”کجھ نہیں ہونا چب تم نہیں ہو گی بو دنکھ لبا کروں گا۔۔“ وہ سرگوسی کرنا ہوا‬
‫بوال اور اس کو گھما کے اس کی نشت ا ننے ستنے سے لگانی۔ اس کی نات ستنے علتبا‬
‫کے جٹسے خودہ ط نق روشن ہوئے تھے‪ ،‬چہرہ چھلس شا گبا تھا۔ اس کو اننی ئےناکی کی‬
‫امبد نہیں تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪688 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم جا ننے ہو تم انک نہت ہی ندنمیز انشان کو۔۔“ علتبا اس سے دور ہونی‬
‫حقگی سے بولی کہ دامیر قہقہہ لگا اتھا۔‬
‫”مجھے ِمس کبا؟“ انک نار تھر اس کو تھامے ا ننے ستنے سے لگانا۔ علتبا اس‬
‫گ‬ ‫ہ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫کے گرد نازو ناندھے آ یں موند کے سر ال نی۔‬
‫”نمہارے نبائے نا سنے کو نہت زنادہ۔۔“‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫”ہو گنی ہے صنح اب اظہار کرو میرے آئے کا۔۔“ وہ اتھی تھی مِحو خواب تھی‬
‫چب رنان ئے اس کا چہرہ تھامے زپردسنی ا ننے مقانل کرئے کہا۔ نتبد میں چنہ کے‬
‫ل‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ما تھے پہ نل ننے اور ما تھے پہ نل لنے آ یں ھولے رنان کو ھورئے گی خو اس پہ‬
‫گ‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫چھکا ہوا تھا۔‬
‫”نمہیں شکون نہیں۔۔“ وہ گھورئے ہوئے بولی اور کروٹ لتنے لگی چب رنان‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ئے آ یں دکھا یں۔‬
‫”خوسی ہونی مجھے نمہارے زندہ ر ہنے کی۔“ ہون نوں پہ خوتصورت مشکراہٹ لنے‬
‫اس ئے رنان کے چہرے پہ ہاتھ رکھنے کہا۔ کبا جسین اظہار تھا!!‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪689 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے تھی کہ تم میری ناد میں اڑ پہ گنی ہو۔ خوسی ہونی نمہیں شالمت دنکھ‬
‫کے۔۔“ رنان اس کے ہاتھ کو خومبا ہوا بوال۔‬
‫”میں بو کھل کے اظہار کرئے والوں میں سے ہوں۔“‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫انبا کہہ کے وہ چنہ کو ھنے کا مو ع د ننے غیر انک شوخ سی جشارت کر گبا کہ‬
‫چنہ سنتبا اتھی۔۔‬
‫”مجھے ڈانتمبڈ ڈنل کرئے جانا ہے اب اور جائے سے نہلے میں جاہبا ہوں کہ ہم‬
‫۔۔۔۔“ رنان اس کے نالوں کی ل نوں کو ہاتھ پہ لتنتنے ہوئے معنی چیز سے بوال۔‬
‫”میں تھی جاہنی ہوں کہ ہم میں شب تھبک ہو جائے‪ ،‬پہ خوہے نلی کی طرح‬
‫ن‬
‫کب نک رہیں گے ہم۔۔“ جالف معمول آج چنہ کی نات ستنے رنان کی آ یں‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫چمکیں۔‬
‫”بو اجازت ہے۔۔“ وہ سرشاری کی ک یق نت میں بوال کہ چنہ بوکھال اتھی۔‬
‫”مجھے فرنش ہونا ہے۔۔“ اس کی نٹش رفت سے گ ھیرانی ہونی وہ بو کنے لگی۔‬
‫رنان سر ہال کے ننجھے ہبا۔‬
‫اس کے ما ننے پہ ہی وہ خوشگوار چیرت میں متبال ہو گبا تھا کہاں وہ اس کو سڑا‬
‫ہوا کرنال چھوڑ کے گبا تھا اور کہاں آج گاخر کا جلوہ لگ رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪690 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫سر کے ننچے نازو تکائے وہ اس کے آئے کا ان یطار کرئے لگا۔۔‬


‫چنہ ناتھ روم جائے ہی خود کی ئےقابو ہونی دھڑکن کوقابو کرئے لگی۔ اس ئے‬
‫رنان سے کہہ بو دنا تھا اور جاننی تھی کہ اب وہ ننجھے ہتنے واال نہیں تھا۔ و نسے تھی اس‬
‫س‬
‫ئے شوچ لبا تھا کہ چب زندگی رنان کے شاتھ ہی گزرنی تھی بو ھوپہ کرنا مہ یگا یں‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ج‬‫م‬
‫تھا۔‬
‫اس ئے نانیرز کا ارننج کبا تھا اور نہلی نار رنبلز ئے ان سے ڈنل کرنی تھی۔ چنہ‬
‫کسی تھی طور پہ موفع گ نوانا نہیں جاہنی تھی۔ اور رنان اس کو شاتھ لے کے نہیں جانا‬
‫جاہبا تھا۔‬
‫نالوں کو ہانی بونی نبل میں ناندھے وہ ناہر آنی‪ ،‬النگ شکرٹ نہن رکھی تھی۔‬
‫”دامیر نا سنے پہ ان یطار کر رہا ہے۔“ اس کو ناہر آنا دنکھ رنان سنجبدگی سے بوال۔‬
‫ڈاننتبگ نتبل پہ علتبا نہلے سے ہی موخود تھی جس کے چہرے پہ دامیر کے‬
‫آئے کی خوسی واصح چھلک رہی تھی۔ دامیر ئے رنان کو اشارہ کبا کہ وہ نلنٹس لے‬
‫جائے نا سنے کی۔‬
‫ناشنہ پرشکون ماخول میں کھانا گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪691 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شوزین آئے گی آج۔۔“ دامیر ئے رنان کو اطالع دی‪ ،‬علتبا ئے خونک کے‬
‫دنکھا جٹسے نام سبا ہو۔‬
‫”شوزین؟“ علتبا ئے شوالنہ تگاہوں سے دنکھا۔‬
‫”میری فرنبڈ ہے انک‪ ،‬کاقی پرانی اس کو کام تھا ان دوبوں سے۔“‬
‫دامیر کے خواب د ننے سے نہلے ہی چنہ ئے نات ستتھالی۔‬
‫وہ لوگ کھائے سے قارغ ہوئے تھے دوبوں لڑکے انبا کام دنکھنے سبک نورنی روم‬
‫میں جلے گنے۔ تھوڑی دپر میں وہاں شوزین جلی آنی تھی جس کی اطالع گارڈ ئے دی‬
‫بو ڈرنک اس کو لتنے گبا۔‬
‫شوزین سے انہوں ئے ڈرنبا کے نارے میں انک دو نات مغلوم کرنی تھی۔ وہ‬
‫کسنوڈین کئیر تھی اور مغلومات لتنے کے لنے دامیر ئے اس کو فتمت ادا کی تھی۔‬
‫سبک نورنی جبک کرئے دامیر اور رنان آرمری میں پڑھ گنے چہاں ڈرنک شوزین کو‬
‫لے آنا تھا۔‬
‫”مجھے چیرت کے شاتھ خوسی تھی ہونی کہ ناپ اشاشن اور پرابوا ہبڈ کو مجھ سے‬
‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫کبا کام ہو شکبا ہے۔“ وہ ان کے شا منے کرسی پہ ھی بولی۔ رنان کے ناپرات مٹشہ‬
‫کی طرح سباٹ تھے۔ جبکہ دامیر کے چہرے پہ مدھم مشکراہٹ نمودار ہونی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪692 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شوزین اکبڈمی میں کتھی علتبا ئے تم سے فباد نامی سحص کے نارے میں زکر‬
‫کبا؟“ دامیر ئے نہال شوال کبا۔‬
‫”علتبا ہی ک نوں کرے گی‪ ،‬ڈرنبا کا فبانسی ہے وہ اور سمگبگ میں نہت لمبا ہاتھ‬
‫ہے اس کا۔۔“ شوزین سنجبدگی سے بولی۔‬
‫”ڈرنبا اس کے لنے کام کرنی ہے اور دو نار وہ میری واتف پہ انبک تھی کر جکی‬
‫ہے۔“ دامیر سنجبدگی سے بوال۔‬
‫ع‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”واتف!“ شوزین نا ھی سے بولی چہاں نک اس کو لم تھا رنان ئے شادی کی‬
‫تھی دامیر ئے نہیں اور پہ نات تھی ا چھے سے جاننی تھی کہ علتبا کو گارڈ دامیر کر رہا‬
‫تھا۔‬
‫”علتبا‪ ،‬سی از مانی واتف۔“ دامیر کے نبائے پہ اس کو شاک لگا۔‬
‫”انیرستبگ۔۔“ انک لقطی اظہار کبا گبا۔‬
‫”چہاں نک اکبڈمی کی نات ہے دامیر صاچب‪ ،‬ہر کونی انبا قاندہ دنکھ کے دوسنی‬
‫کا ہاتھ پڑہانا ہے۔ علتبا انک ننی انشان تھی وہاں اور زپرو نالج۔۔ ڈرنبا کی بوری کوشش‬
‫ہونی کہ وہ اس کو جتبا ہو شکے نہاں کی گہری نابوں کو اس کے علم میں ال شکے۔ مجھے‬
‫اس سے کونی سروکار نہیں تھا۔ وہ اچھی تھی میرے شاتھ مجھے اس سے تقصان تھا نا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪693 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫قاندہ۔۔ اور علتبا آپ کی واتف ہے خوسی ہونی جان کے۔“ شوزین کبدھے احکا کے‬
‫بولی‪ ،‬رنان جاموسی سے شا منے نتتھے تھوڑی پہ ہاتھ تکائے اس کو شن رہا تھا۔‬
‫ن‬
‫”دو نار اس پہ چملہ اکبڈمی میں ہی ہو حکا تھا اس کے تغد تھی علتبا نک ہنجنے‬
‫کی کوشش کی گنی ہے۔“ دامیر ئے شو جنے ہوئے کہا۔‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ُ‬
‫”ان دوبوں چ لوں کے نارے یں لتبا نحونی وافف ھی اس ئے نبانا یں وہ‬
‫جاننی تھی کہ کونی اس کے ننجھے ہے۔“ شوزین ئے چیران ہوئے کہا کہ دامیر خونک‬
‫اتھا۔‬
‫”علتبا سے میں ئے چب تھی بوچھا وہ اتکار کرنی آنی۔۔“ دامیر ئے دل میں شوجا‬
‫لبکن وہ کہہ پہ نانا۔‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ک ن‬
‫”آکشن پہ ہوئے چملے سے اننی ناداشت ھو ھی ہے‪ ،‬اسی نے شاند وہ پہ نات‬
‫ل‬
‫تھی تھول جکی تھی۔“ دامیر کے کہنے پہ شوزین ئے سر ہالنا۔‬
‫دامیر کا دماغ اتھی انک جگہ رک گبا تھا کہ علتبا جاننی تھی اس کے ننجھے کونی‬
‫چ‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ت ً‬
‫ہے اور فتبا وہ فباد کو لے سے ہی جا نی ھی کن اس کے نارہا بو ھنے پہ اتکار کرنی‬
‫گنی ک نوں؟ اب تھی کجھ تھا خو وہ چھبا رہی تھی۔ ضرف وہی نہیں مبکس تھی۔۔ اور‬
‫پہ شوچ آئے ہی دامیر ئے سجنی سے چیڑہ تھتنحا۔۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪694 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آؤٹ آف دا وے کونسچن! علتبا مان کٹسے گنی شادی کے لنے؟“ شوزین کی‬
‫آواز میں نحسس تھا جا ننے کا‪ ،‬دامیر ہلکا شا ہٹس دنا۔‬
‫”وہ اشاشن سے تفرت کرنی ہے اور وپری سیرننج آپ کے شاتھ رہ رہی ہے۔۔“‬
‫شوزین اننی چیرانگی کا اظہار کرنی ہونی بولی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫چنہ انبا ل نپ ناپ لنے انبا کام دنکھ رہی تھی جبکہ علتبا بوگا سے تھی بورنت‬
‫محسوس کرئے اب چہل قدمی کرنا سروع ہونی۔‬
‫اس کا آج ا نسے ہی دل کبا کہ وہ نجھلی شانبڈ پہ جائے اور شک نورنی روم جبک کر‬
‫ن‬ ‫ک‬‫ن‬
‫لے۔ آس ناس دلحسنی سے د نی وہ س ک نورنی نک بو ہیں ل کن اس سے لے آئے‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ھ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫ہ‬‫ک ن ن‬
‫والے مرے ک نچ نی‪ ،‬اس کا دروازہ سباہ ر گ کا تھا اور ھوڑا نچے کی جانب نبا‬
‫تھا چہاں نک نین ز ننے ننے تھے۔‬
‫کونی گارڈ موخود نہیں تھا اسی کا قاندہ اتھانی علتبا مشکراہٹ دنائے دروازہ‬
‫کھولے اندر کی جانب پڑھی۔ اندر ہلکی روسنی تھی اور ہال نما کمرہ چہاں شانبڈ پہ مزند دو‬
‫روم تھی موخود تھے۔ ڈرنک تھی نہاں نہیں تھا۔‬
‫اس ئے ہاتھ پڑھائے شونچ بورڈ ڈھونڈا اور النٹ آن کی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪695 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫النٹ آن کرئے ہی اس کی آنکھوں کی نبلباں تھبلیں۔۔ ئےتفتنی ہی‬


‫ئےتفتنی تھی۔ شونبگ اپرنا‪ ،‬چہاں شانبڈ پہ انک لمبا شا نتبل موخود تھا اور مجبلف قشم‬
‫کی گیز موخود ت ھیں۔‬
‫”پہ کٹسی جگہ ہے۔۔“ وہ پڑپڑانی جبکہ دل عج نب طرز سے ڈھڑ کنے لگا۔ انک‬
‫خوف شا اننی لت نٹ میں لتنے لگا‪،‬‬
‫آنکھوں کے آگے اجانک نکھری کبانیں لہرانیں چہاں دامیر اس کے شا منے نشت‬
‫کنے کھڑا تھا اور ہاتھ میں گن تھی۔ سر چھبکنے اس ئے نتبل کے ناس جائے دنکھا۔۔‬
‫اور تھی ہتھبار موخود تھے۔‬
‫کجھ نئیرز موخود تھے چہاں آکشن لشٹ رکھی گنی تھی۔‬
‫انک اور م یظر آنکھوں کے شا منے لہرانا چہاں پڑے سے ہال میں میزوں کے گرد‬
‫لوگ نتتھے تھے اور شا منے ستنج پہ انک شاتھ شالہ آدمی اننی شانبڈ پہ دو اشلحہ لٹس‬
‫آدم نوں کے شاتھ کھڑا تھا۔‬
‫”آکشن۔۔“ زہن میں لقظ گونحا۔‬
‫”اشاشن۔۔“‬
‫”کئیر۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪696 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”سمگلر۔۔“‬
‫ناری ناری القاظ گونجنے لگے۔‬
‫اس ک دل زوروں سے دھڑ کنے لگا‪ ،‬میز پہ پڑی انک گن کو چھوا۔ اس کو ہاتھ‬
‫میں لبا۔۔‬
‫دو شال کا گزرا وفت زہن میں جلنے لگا۔‬
‫گن کو شا منے کنے نارگنٹ پہ سنٹ کبا‪ ،‬ہاتھ نہیں کا ننے تھے۔ اس کو گن‬
‫نکڑنی آنی تھی۔ گن لوڈڈ تھی اجانک اس ئے پرگر دنانا اور تھا کی آواز ہال میں گونج‬
‫اتھی نہاں نک کہ علتبا کے کابوں میں مزند آوازیں گونجنے لگی تھیں۔۔ ا نسے ہی‬
‫قاپرنگ کی۔‬
‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫اجانک انک دروازہ کھال اور انک غورت ناہر تکلی‪ ،‬اس کے ھے ہی دامیر اور‬
‫رنان۔ شوزین علتبا کو د نکھے رک گنی اور دامیر کو دنکھا۔‬
‫علتبا کے ہاتھوں میں گن د نکھے دامیر خونک گبا جبکہ علتبا ہ نوز گن تھامے‬
‫کھڑی رہی۔‬
‫رنان تغور اس کے چہرے کو دنکھ رہا تھا۔ وہ خوتکا نہیں تھا اس کی تگاہ ہاتھ سے‬
‫ہونی نارگنٹ کی طرف اتھی۔ تھر تغور علتبا کے ہاتھوں کو دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪697 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دی ناپ اشاسیز دامیر آر‪ ،‬رنان ڈی۔۔“ رنان اور دامیر کو دنکھنے زہن میں آواز‬
‫گونچی۔ دل کی دھڑکن ڈوب کے اتھری۔ ڈر‪ ،‬خوف‪ ،‬گ ھیراہٹ اس کو محسوس ہوئے‬
‫لگا۔‬
‫”شوزین۔۔“ علتبا کی تگاہ شوزین پہ گنی اور ہونٹ ہلے۔‬
‫”ہبلو مسز دامیر۔۔“ شوزین دوسباپہ لہچے میں بولی جٹسے وہ نہلی نار اس سے مل‬
‫رہی تھی‪ ،‬علتبا نس سر ہال گنی۔ وہ جاننی تھی اس کو۔ اکبڈمی۔۔‬
‫کراؤنڈ ہبڈ اکبڈمی!‬
‫”نہاں کبا کر رہی ہو پرنسٹس؟“ دامیر آگے پڑھا اور اس کے ہاتھ سے پرمی‬
‫سے گن لی۔‬
‫”نس جکر لگائے ادھر آگنی۔۔ پرنتبگ روم ہے؟“ ستتھلنے ہوئے بولی اور آس‬
‫ناس تگاہ دوڑانی۔‬
‫”ہاں گارڈز ہوئے ہیں نہاں۔“ دامیر سر ہال گبا اور ڈرنک کو آواز د ننے علتبا کو‬
‫نہاں سے لے جائے کو کہا۔‬
‫”میں نس آرہا ہوں ان کو سی آف کرئے۔“ دامیر ئے شوزین کی جانب اشارہ‬
‫کبا۔ علتبا ہلکی مشکراہٹ لنے ڈرنک کے شاتھ ہو لی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪698 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دامیر۔۔۔“ شوزین کے جائے کے تغد رنان ئے اس کو محاظب کبا۔‬


‫”علتبا ئے قاپر کبا ہے۔۔“ رنان ئے کہا اور دامیر ئے سر ہالنا وہ جانبا تھا۔‬
‫”اس کا نارگنٹ نالکل تھبک تھا۔۔“ رنان ئے القاطوں پہ زور دنا۔ دامیر خوتکا۔‬
‫علتبا کا نہاں آنا اتقاق تھا لبکن اس کے ہاتھ میں گن دنکھبا تھر اس کے ہاتھوں کو‬
‫زرا تھی کبکباہٹ موخود نہیں تھی۔ وہ کھ یکا۔‬
‫”مجھے دنکھنے اس کے آنکھوں میں سباشانی نہیں نلکہ خوف تھا۔“ رنان ئے مزند‬
‫کہا کہ علتبا کی آنکھوں کا ناپر وہی تھا چب اس ئے نہلی نار رنان کو دنکھا تھا۔ وہی‬
‫خوف اور ڈر سمانا تھا اس کی آنکھوں میں۔۔‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ک‬‫ن‬
‫دامیر ئے گہرہ شانس تھرئے آ یں نبد یں۔ وہ رنان کو یں د کھ رہا تھا لکہ‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫اس کی تگاہ نتبل پہ تھی چہاں اشلحہ موخود تھا۔‬
‫”میں اس کو چھوڑ نہیں شکبا۔۔“‬
‫رنان ئے نہلی نار اس کی آواز میں لعزش محسوس کی۔ علتبا کے دور جائے کا‬
‫چ‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫شو جنے دامیر ئے کرب سے آ یں یں۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪699 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ن‬ ‫ن‬ ‫ک‬‫ن‬


‫دامیر ئے گہرہ شانس تھرئے آ یں نبد یں۔ وہ رنان کو یں د کھ رہا تھا نلکہ‬
‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫اس کی تگاہ نتبل پہ تھی چہاں اشلحہ موخود تھا۔‬
‫”میں اس کو چھوڑ نہیں شکبا۔۔“‬
‫رنان ئے نہلی نار اس کی آواز میں لعزش محسوس کی۔ علتبا کے دور جائے کا‬
‫چ‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫شو جنے دامیر ئے کرب سے آ یں یں۔‬
‫”شاند وہ نس گن جبک کر رہی ہو اس کو ناد کجھ تھی پہ آنا ہو۔“ دامیر ئے‬
‫انک موہم سی امبد لنے رنان کو کہا۔ وہ ضرف خود کو نشلی دے رہا تھا اور کجھ نہیں‬
‫اور رنان پہ تھی پہ کر شکا۔‬
‫”اس سے نات کرو جا کے۔“‬
‫رنان ئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے کہا دامیر سر ہالنا ہوا وہاں سے تکال اور‬
‫اندرونی حصے کی جانب پڑ ھنے لگا۔‬
‫چنہ اتھی تھی انبا لنپ ناپ اسیعمال کرئے میں مصروف تھی۔‬
‫”علتبا کہاں ہے۔۔؟“ دامیر کے بوچھنے پہ چنہ ئے اس کو اندر کی طرف اشارہ‬
‫کبا۔‬
‫علتبا کنچن میں آئے فرنج سے خوس کین تکال رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪700 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کجھ جا ہنے کبا؟“ دامیر خود کو نارمل رکھبا مشکرا کے بوچھنے لگا۔ علتبا ئے اس‬
‫کے چہرے کو دنکھا۔ وہ تھی ہلکا شا مسکانی۔‬
‫”نہیں میں نس خوس نتنے آنی تھی‪ ،‬نباس لگ رہی تھی۔“ وہ شادہ شا خواب‬
‫د ننی ہونی اس کو مشکراہٹ اچھا لنے صوفے کی طرف پڑھی اور شانبڈ پہ موخود نتبل‬
‫سے اننی نک اتھائے پڑ ھنے لگی۔‬
‫دامیر کو اس کے روئے میں کونی نبدنلی محسوس نہیں ہونی تھی‪ ،‬وہ و نسے ہی‬
‫اننی کباب میں مگن تھی جٹسے نہلے ہوا کرنی تھی۔‬
‫ناقی کا دن تھی نارمل ہی گزر تھا جبکہ دامیر ئے جس ئےجتنی سے گزارا تھا وہ‬
‫وہی جانبا تھا اور اسی وجہ سے وہ تھبک سے کام پہ فوکس تھی نہیں کر نا رہا تھا۔‬
‫اگر اس کی ناداشت وانس آگنی تھی بو وہ اس کا زکر ک نوں نہیں کر رہی تھی نا‬
‫شاند وہ پہ شب ف نول کر جکی تھی پہ نات دامیر کی سمجھ سے ناہر تھی۔ اس کا دھبان‬
‫نار نار تھبک کے علتبا کی جانب جانا خو کھائے سے قارغ اب چنہ سے نابوں میں‬
‫مصروف تھی۔‬
‫وہ چب اس کو دنکھبا‪ ،‬علتبا کی تگاہ دامیر پہ پڑئے پہ وہ مشکرا د ننی۔۔ وہ انبا‬
‫ردعمل طاہر نہیں کر رہی تھی پہ نات اس کو اصظراب میں ڈال رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪701 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کا ارادہ آج شام ڈپر پہ جائے کا تھا لبکن وہ ڈسیرب ہو گبا تھا اور اس‬
‫جبال کو چھبک گبا۔‬
‫”امبد ہے میری مجنت نمہیں تفین دالئے کے لنے کاقی ہو کہ تم میری ہو۔۔“‬
‫آ نتنے کے شا منے کھڑے ہوئے اس ئے گہرا شانس ت ھر کے کہا۔‬
‫کبا جاک وہ مافبا کی دنبا میں انبا دہشت تھبالئے گا چب اننی ن نوی کے انک رد‬
‫عمل کا شو جنے اس کا شکون پرناد ہوا تھا۔‬
‫ناتھ روم سے چب ناہر آنا بو علتبا ا ننے نالوں میں پرش کر رہی تھی۔ وہ جلبا ہوا‬
‫اس کی نشت پہ کھڑا ہوا۔‬
‫ک‬‫س ت م ن‬
‫علتبا ئے اس کو اننی نشت پہ دنکھا جس کے ناپرات نجبدہ ھے گر آ یں جھ‬
‫ک‬ ‫ھ‬
‫کہنے کی جاہ لنے ہوئے تھیں۔‬
‫جتبا خود کو اس ئے نارمل طاہر کرئے کی کوشش کی تھی اننی ہی اس کے اندر‬
‫بوڑ تھوڑ جاری تھی۔ وہ سحص سے شادی کر جکی تھی جس سے وہ تفرت کرنی تھی۔ اور‬
‫ئےنسی کی انبہا پہ تھی کہ آج صنح ہی وہ اس سے نبار کا اظہار کر رہی تھی۔‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫کباب پڑ ھنے کے دوران اس کی آ یں کباب پہ مرکوز یں جبکہ دھبان اس کا‬
‫دامیر پہ تھا‪ ،‬اب نک شاند وہ جان گبا ہو اس کی ناداشت وانس آئے کا۔ وہ انک‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪702 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اشاشن کے شاتھ رہ رہی تھی نجھلے دو مہت نوں سے‪ ،‬انک کرائے کا قا نل جس ئے‬
‫انگنت فبل کنے تھے وہ تھی نبا کسی خوف کے۔ جس چیز سے وہ تھاگنی تھی آج شاند‬
‫وہ اسی کے مرکز پہ کھڑی تھی۔‬
‫”پرنسٹس۔۔۔!“‬
‫دامیر ئے عفب سے اس کے شائے کو تھاما اور پرمی سے ہونٹ ن نت کنے۔‬
‫اس سحص کی تکار اتھی تھی ونسی تھی مجنت تھری‪ ،‬وہ اتھی نک مجنت کا نانک‬
‫ن‬
‫کر رہا تھا۔ علتبا ئے آ کھیں منچ لیں۔‬
‫”ہوں۔۔“ جاہ کے تھی وہ کجھ کہہ پہ نانی۔‬
‫”تم جاننی ہو نا میں تم سے مجنت کرنا ہوں۔“ وہ اس کے نالکل فرنب کھڑا تھا‬
‫انبا کہ اس کی شانسیں ا ننے شائے پہ محسوس کر نا رہی تھی۔ اس کے نال شانبڈ پہ‬
‫کرئے اس کا رخ اننی طرف کبا۔‬
‫علتبا ئے اس کی آنکھوں میں دنکھا۔‬
‫اس کی اداکاری کمال کی تھی‪ ،‬علتبا کے دل میں تھٹس سی اتھی۔ وہ اس کا‬
‫اسیعمال کر رہا تھا۔ مجنت کا ڈھونگ رجا رہا تھا۔ انک دن کے لنے وہ تھی اداکاری کر‬
‫ہی شکنی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪703 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”جاہے کجھ تھی ہو تم پہ نات نہیں تھولو گی کہ دامیر تم سے مجنت کرنا‬


‫ہے۔“ اس کے چہرے کو ہاتھوں کے نبالے میں تھرے وہ تفین دالنا ہوا بوال۔‬
‫(او گاڈ ئمہیں نقین ٹو ہے ٹا میری مجبت کا“ دامیر دھڑ ک نے دل سے سو چ نے لگا)‬
‫انک طرف علتبا کا دل گواہی دے کہ اس کے القاظ اس کے خزنات کی گواہی‬
‫دے رہے تھے جبکہ دماغ اس کی تقی کر رہا تھا‪ ،‬نا شاند دل تھی۔‬
‫دامیر ئے انبا ماتھا اس کے ما تھے سے تکانا‪ ،‬علتبا کا چہرہ اوپر کی طرف تھا جبکہ‬
‫ن‬
‫دامیر کا اس پہ چھکاؤ تھا۔ دامیر ئے آ کھیں نبد کر رکھی ت ھیں۔‬
‫(”ساٹد اس ل نے کہ میں اس کا جھوٹ نہ ٹکڑ لوں۔“ وہ دل میں سوچی۔)‬
‫”دامیر تم سے مجنت کرنا ہے پرنسٹس۔۔“ دامیر کے القاظ جبائے ہوئے تھے۔‬
‫علتبا ئے ہلکے سے انبات میں سر ہالنا۔ دامیر نبار کے اظہار پہ چھکنے کو تھا چب علتبا‬
‫اس کے ستنے پہ سر رکھ گنی۔‬
‫”میں جاننی ہوں۔“ اس ئے مدھم شا کہا۔‬
‫ی‬ ‫ک‬ ‫ہ‬‫ی‬
‫(”تم نے میرا اسیعمال ک یا۔۔ ا ب نے کام ٹک نے کے نے جزٹات کا ل‬
‫ھ‬ ‫ل‬ ‫ج‬‫ن‬
‫ک ھ یال۔۔ میری نفرت کو چا ب نے ہونے ب ھی میری زٹدگی میں دھوکے سے سامل ہونے۔“‬
‫نہ ٹاییں نس جود کے دماغ میں گویج رہی ب ھیں۔)‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪704 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر اس کی آواز ستنے اس کے گرد سجنی سے نازو لت نٹ گبا اور اس کو ستنے‬


‫ن‬ ‫گ‬ ‫ج‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫م ت‬
‫یں نچ لبا ٹسے ا لے ہی ل وہ اس سے دور ہو جائے گی۔‬
‫اس نل علتبا کونی تھی اجشاس نہیں سمجھ نا رہی تھی۔ دامیر اس کے فرنب تھا‬
‫اور وہ نذنذب کا شکار تھی۔‬
‫اننی ہی شوخوں میں گم ہوش نب آنا چب دامیر کے لب گردن پہ محسوس‬
‫ہوئے‪ ،‬اس کی سنو کی چھین سے وہ کیرانی ہونی ننجھے ہنی۔ چہرہ سرخ پڑ رہا تھا۔‬
‫پہ نہلی نار نہیں ہوا تھا وہ اس سے زنادہ فرنب آ جکے تھے۔‬
‫”کبا ہوا؟“ اس کے ا نسے دور ہوئے دامیر خوتکا۔‬
‫”میں تھک گنی ہوں دامیر‪ ،‬کل رات تھی لنٹ شونی تھی۔“ تظریں چھکا کے‬
‫کہنی وہ دامیر کو اننی جانب مانل کرنی لگی۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”بو ہم شو جانیں گے ناں۔“ اس کا ہاتھ تھام کے بوال کہ علتبا ئے نا ھی سے‬
‫اس کو دنکھا۔‬
‫(”میں ئمہیں ا ب نے قربب دٹک ھ یا چاہ یا ہوں۔“ دامیر نہ الفاظ کہہ نہ ٹاٹا۔)‬
‫”میں جتنج کر لوں۔“ کہنے وہ ناتھ روم کی جانب پڑھ گنی اور دامیر شوچ میں پڑ‬
‫گبا کہ اس کی ناداشت وانس آنی تھی تھی نا نہیں۔۔؟‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪705 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وانس آئے پہ ئےشاچنہ ہی تظر دامیر کی شانبڈ نتبل نک گنی۔ گن موخود تھی۔‬
‫دل میں گلٹ پڑ ھنے لگا کہ وہ کس کے شاتھ رہ رہی تھی۔ کٹسے وہ نارمل نبہ نو کر شکبا‬
‫تھا اس کے شاتھ۔‬
‫س‬
‫اس کو کجھ دن نہلے کا وافع ناد آنا چب ڈرنک کو اس ئے نبا شوچے ھے گولی‬
‫ج‬‫م‬
‫ت ً‬
‫ماری تھی۔ اگر علتبا نہاں سے جائے کی نات کرنی بو فتبا دامیر اس پہ ھی پرسبا۔‬
‫ت‬

‫انک قا نل سے وہ کتنی ا چھے کی امبد لگا شکنی تھی۔۔ شاند پڑنا کے مارئے کے‬
‫نحائے انک نار میں ہی گولی آر نار کر دے۔۔‬
‫اس کو صنح اتھنے ہی اتکل مبکس کو کال کرنی تھی ناکہ نہاں سے جا شکے اور‬
‫چنہ۔۔ وہ کٹسے رہ رہی تھی رنان کے شاتھ۔‬
‫اس کو ناد تھا کہ وہ تھی اس شادی سے خوش نہیں تھی بو اِ ن دوبوں کی مرضی‬
‫کے تغیر پہ زپردسنی شادی ہونی تھی۔‬
‫اننی شانبڈ پہ لنتنے علتبا ئے لتمپ آف کبا اور کمفرپر اوڑھ لبا۔ دامیر کی جانب‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ت ن‬
‫ک‬
‫نشت ھی۔ آ یں موندیں ہی یں کہ دامیر کا نازو ا نی مر سے آگے کی طرف آنا‬
‫محسوس ہوا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪706 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ مجنت کا دکھاوا کرئے میں ماہر تھا!! اس ئے کرب سے شوجا اور وہ خود کو‬
‫ن‬
‫اس مجنت میں نانتبا کر تتھی تھی۔‬
‫(وہ چان گ یا ہو گ یا کہ میری ٹاداست وانس آگئی ہے بی ھی ابئی سدت دکھا رہا ہے‬
‫ا ب نے ب یار میں مجھے نقین دالنے کے ل نے)‬
‫علتبا ئے زرا کی زرا گردن گھمائے دامیر کو دنکھا جس ئے اس کے ما تھے پہ‬
‫ہونٹ ر کھے‪ ،‬تھر رجشار پہ۔‬
‫اس ئے گردن وانس گھما لی۔‬
‫زہن کے پردوں میں جسین لمحات لہرائے لگے۔‬
‫(تم کیئی ٹاگل ب ھی کوئی تم سے کہے کہ تم سادی سدہ ہو اور تم مان چاؤ گی)‬
‫وہ خود کو اندر ہی اندر کو سنے لگی۔‬
‫شادی؟ کبا اس کی اصل میں شادی ہونی تھی؟ پہ جبال آئے ہی وہ چھبکے سے‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫اتھ ھی۔ دامیر خو ک گبا۔‬
‫”یہیں انکل م یکس کی موجودگی میں سائن ک نے بھے ٹو سب نکلی یہیں ہو گا۔“‬
‫نئیرز اور تکاح کا دن ناد کرئے وہ زہن پہ زور د ننے لگی۔‬
‫”شب تھبک ہے؟“ دامیر اس کے اجانک اتھنے پہ م یقکر ہوا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪707 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫جھوئی فکر! علی یا نے یخوت سے سوچا۔‬


‫”تم ئے کتمرہ نبد کنے؟“ اس ئے نات نبانی کہ دامیر کے ہون نوں پہ‬
‫مشکراہٹ دوڑ گنی۔‬
‫”کون شا کجھ کر رہے ہیں۔“ دامیر کی پڑپڑاہٹ سے علتبا سنتبا اتھی اور اس‬
‫کو گھورئے لگی۔‬
‫”نبد ہیں نار۔۔“‬
‫ناشف سے سر ہالئے وانس لنٹ گنی۔ دامیر ئے تھر سے اس کو خود سے لتبا‬
‫ک‬
‫لبا۔ علتبا ئے اس کے نازو پہ انبا ہاتھ رکھ دنا اور ئےدھبانی میں لکیریں ھتنجنے لگی۔‬
‫اس کی جالی الزہن سے دامیر اندازہ لگا حکا تھا کہ وہ خود تھی ڈسیرب تھی۔‬
‫وہ نہاں سے جلی جائے گی۔ دامیر کے شاتھ نہیں رہے گی۔ اس ئے دھوکا دنا‬
‫تھا۔ اس کی مجنت کا مزاق نبانا تھا۔‬
‫وہ رونا جاہنی تھی لبکن خود کو روئے سے ناز رکھا کسی تھی طرح اس کو پہ رات‬
‫گزارنی تھی آج۔‬
‫اور صنح وہ جلی جائے گی اس سے دور۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪708 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان منٹشن کی جار دبواری کا جکر لگا کے اتھی وانس آنا تھا۔ سبک نورنی کتمراز‬
‫جبک کرئے چب کمرے میں وانس آنا کہ اس کو اندھیرے میں ڈونا دنکھ وہ خونک‬
‫گبا۔ اس کو دو دن تغد نانیرز سے ملبا تھا ڈانتمبڈ کی ڈنل کے لنے تھی نباری کرنی‬
‫تھی۔‬
‫دامیر آج کاقی ڈسیرب لگ رہا تھا‪ ،‬اسی وفت سے وہ جار کھانا تھا اور وہی ہوا جس‬
‫کا ڈر تھا۔ دامیر کے لنے تھی کجھ شوجبا تھا۔ اس کا دھبان زرا کام میں نہیں لگ رہا‬
‫تھا جس سے رنان کو خڑ تھی ہو رہی تھی۔‬
‫چنہ کمرے میں نہیں نہی شو جنے وہ منٹشم ہوا اور اہنی چیزیں انار کے اننی شانبڈ‬
‫نتبل پہ رکھنے لگا۔ ڈرنسبگ روم کا نلر گالس ڈور چمک رہا تھا۔ وہ اس وفت وہاں تھی۔‬
‫”اسنٹشل نانٹ کی نبارناں ہو رہی ہیں۔“ وہ ناآواز پڑپڑانا کہ اندر موخود چنہ واصح‬
‫شن شکے۔‬
‫”کجھ زنادہ ہی اسنٹشل کرنا۔“ وہ تھر بوال اور ڈرنسبگ روم کے دروازے کے‬
‫ً‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫فرنب نجنے سرارنا ناک کرئے لگا۔‬
‫”ان یطار کرو ناہر۔۔“ وہ تھاڑ کھائے والے انداز میں بولی کہ رنان سبانسی انداز میں‬
‫آپرو احکانا ہوا وانس نبڈ کی طرف آنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪709 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اوو شغلہ تھڑک رہا ہے۔۔“ کہنے ہوئے اس ئے انبا مونانل تکاال اور ہبڈ کراؤن‬
‫سے نبک لگائے اس میں مگن ہو کے چنہ کے ناہر آئے کا ان یطار کرئے لگا۔‬
‫ڈرنسبگ روم میں کھڑی چنہ کاقی دپر سے خود کا جاپزہ لتنے میں مصروف تھی۔‬
‫آج وہ رنان کو زپر کرئے کا اہتمام کر رہی تھی۔‬
‫َ‬
‫نالوں کو سیرنٹ کر رکھا تھا اور مبک اپ کے نام پہ سرخ رنگ ہون نوں پہ لگا رکھا‬
‫تھا۔‬
‫”لڑکباں جائے شوئے وفت انبا مبک اپ کٹسے تھوپ لتنی ہیں۔“ وہ انک‬
‫سرجی لگائے پہ چھال اتھی تھی۔‬
‫ت‬ ‫گ‬ ‫ل‬ ‫م‬‫ک‬‫م‬
‫انک نار خود کا ل جاپزہ نے اس ئے ہرہ شانس ھرا۔‬
‫ت‬
‫سباہ النگ نانٹ گاؤن نہن رکھا تھا۔ انبا بو جاننی تھی کہ رنان کو اس پہ سباہ‬
‫رنگ نسبد تھا۔‬
‫”انک بو اس کی عادات مفت میں جا ننے کو مل رہی ہیں مجھے۔۔“ پڑپڑانی ہونی‬
‫اس ئے آخری تظر خود پہ ڈالی اور گالس ڈور دکھبلنے ہوئے ناہر تکلی۔ رنان النٹ آن‬
‫کر حکا تھا جس سے چنہ ندمزہ ہونی کم از کم وہ اس جالت میں روسنی میں شا منے نہیں‬
‫آنا جاہنی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪710 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫”زہے تضنب۔۔“ اس کو دنکھنے ہوئے ہی رنان کی آ یں یں۔‬
‫ک‬ ‫م‬‫چ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫چنہ اننی مشکراہٹ چھبا گنی۔‬


‫”نہت جلدی ہاتھ نہیں آگنیں تم۔۔“ وہ نبڈ سے اتھ کھڑ ہوا۔ اس کی جانب‬
‫قدم پڑھائے۔ جٹسے جٹسے اس کے قدم اننی طرف آئے د نکھے اس کے دل کی دھڑکن‬
‫نیز ہونی محسوس ہونی۔‬
‫اس سے نہلے چنہ کجھ کہنی رنان ئے اجانک اس کو ا ننے نازوؤں میں تھرا کہ وہ‬
‫سنتبا اتھی۔‬
‫”کبا میں وافعی کھلی آنکھوں سے پہ خواب دنکھ رہا ہوں۔“ اس کے کان کی‬
‫جانب چھکنے وہ سرگوسی تھرے انداز میں بوال۔‬
‫”تفین نہیں آرہا بو تفین دال دوں؟“ وہ آپرو احکانی ہونی ادا سے کہنے لگی چب‬
‫رنان ہٹس دنا۔‬
‫”میں خود کر لوں گا تفین ا ننے طر تقے سے۔“ وہ معنی چیزی سے بوال اور اس‬
‫کے نازک وخود کو نبڈ پہ مت یقل کرئے تھوڑا شا اس پہ چھکا۔‬
‫”اننی نباری کٹسے کر لی تم ئے ملٹسکا‪ ،‬دل کٹسے مان گبا۔ نمہیں بو نچ کنے‬
‫جائے سے تفرت تھی۔“ رنان کی اتگلباں اس کی گردن پہ رفصان تھی چب وہ گ ھئیر‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪711 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫آواز میں اس سے اسیقشار کرئے لگا۔ چنہ ئے کیرائے اس کی گسباجی کرئے ہاتھ‬
‫کو تھاما۔‬
‫”راضی کر لبا میں ئے دل کو پہ کاقی نہیں‪ ،‬نمہیں ہی بو پرداشت کرنا ہے اب‬
‫شاری زندگی۔۔“ اس کے ہاتھ میں اننی اتگلباں الجھائے ہوئے وہ مشکرانی ہونی بولی۔‬
‫”اننی اجانک۔۔“ رنان ئے چیران ہوئے کی اداکاری کرئے بوچھا۔‬
‫”اجانک کب ہے‪ ،‬ہر تھوڑی دپر تغد بو نمہیں ناد آنا تھا کہ انک عدد ن نوی ہے‬
‫نمہاری۔ تھوڑی نہت عادت بو ہو ہی گنی ہے نمہاری۔۔“ رنان پزدنکی پڑھانا ہوا اس‬
‫کے چہرے پہ بوشوں کی پرشات کر رہا تھا جس سے وہ گہرا شانس تھر کے رہ گنی۔‬
‫پرقی لہر رپڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ نبدا کر گنی۔‬
‫رنان ئے اجانک اس کا ہاتھ گرفت میں لتنے سر کے اوپر ین کبا کہ چنہ‬
‫بوکھالنی۔‬
‫”اور میں پہ مان لوں کہ پہ نمہارا پرنپ نہیں کونی۔۔؟“ رنان کی آواز اجانک‬
‫ندلی‪ ،‬چنہ تھبک گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪712 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں پہ مان لوں کہ ا ننے کبل کان نوں سے لٹس ہو کے تم مجھ سے کونی‬
‫فرمانش نہیں کرو گی؟“ اس کے دوبوں ہاتھ رنان کی گرفت میں تھے‪ ،‬اور اس پہ‬
‫قاتض ہورہا تھا۔‬
‫”تھول ہے نمہاری کہ میں نمہیں شاتھ لے جاؤں گا۔“ وہ سرد لہحہ لنے اس‬
‫کے کان میں بوال کہ چنہ ئے محلنے ا ننے ہاتھ چھڑوائے جاہے۔‬
‫انبا ندنمیز تھا چب مطلب جان گبا تھا بو ک نوں ئےنس کر رہا تھا۔‬
‫”ہاتھ چھوڑو میرے۔۔“ اس کی آواز کانپ اتھی ک نونکہ اب وہ اس کی شانس‬
‫نک محسوس کر نا رہی تھی۔‬
‫”نباری کی ہے‪ ،‬داد وصول کرو اب۔۔“ اس کے کبدھے کو خو منے ہوئے بوال‬
‫کہ چنہ کا روئے کو دل کرئے لگ گبا۔‬
‫وہ وافعی اس سے نانیر نک جائے کا پرنک بوچھنے والی تھی کہ وہ کس ر سنے سے‬
‫جائے واال تھا لبکن اس کے بوچھنے سے نہلے ہی وہ جان گبا تھا۔ اور نحائے ننجھے ہتنے‬
‫کے اس ئے چنہ کو ا ننے حصار میں قابو کر رکھا تھا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪713 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہاتھ کبا اب خود کو تھی چھڑوا لو بو مان لوں میں۔“ اس کی مزاچمت کو تظر‬
‫انداز کرئے وہ سرگوسی میں بوال۔ ”ڈنگر کو ضرف سبانیر ہی ڈھیر کر شکبا ہے وہ تھی‬
‫نبار سے۔۔“‬
‫وہ اس کی ن نوی تھی اور انک شوہر ہوئے کی جنت نت سے اس کا دل تھی چنہ‬
‫کی فرنت کو محلبا تھا۔ وہ انسی مجھلی تھی خو نبا کسی جال نجھائے کے تھٹس جکی‬
‫تھی۔ نا انشا شکاری خو ا ننے نجھائے جال میں تھڑتھڑا رہا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫آج اس کی آنکھ کھلی بو کجھ نل خواس میں آئے کو لگے تھے۔ وہ چت لتنی‬
‫تھی۔ اس کا جبال تھا کہ دامیر اس سے نہلے اتھ گبا ہو گا ہمٹشہ کی طرح لبکن ا ننے‬
‫ہاتھ کو اس کے ہاتھ کی گرفت میں دنکھنے وہ خونکی۔‬
‫آج نہلی نار ہوا تھا کہ وہ اتھی ہو اور دامیر اتھی تھی نسیر پہ موخود ہو۔‬
‫اس ئے انبا ہاتھ تکاال‪ ،‬دامیر کی آنکھ کھلی بو اجشاس ہوا کہ وہ جاگ رہا تھا۔‬
‫”میں فرنش ہو جاؤں۔“ انبا کہہ کے وہ اتھی اور انبا مونانل نامحسوس انداز میں‬
‫تھامے ناتھ روم کی طرف پڑھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪714 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کا ن یگاپہ شا انداز اور مونانل چھبائے کی خرکت وہ بوٹ کر حکا تھا۔ دامیر‬
‫ئے نہلی نار ا ننے اندر خوف نلبا ہوا محسوس ہوا۔ علتبا کے دور جائے کا۔‬
‫ناتھ روم میں جا کے علتبا ئے شب سے نہلے مبکس کو کال کی لبکن وہ فون‬
‫نہیں اتھا رہے تھے۔ علتبا ئے ئےشاچنہ تظر ناتھ روم کی دبواروں پہ دوڑانی دامیر کا‬
‫کونی تھروسہ نہیں تھا کہ نہاں تھی کتمرہ فٹ کروانا ہو۔‬
‫دو نار مزند کال کرئے کے تغد اس ئے انک لمبا شا مٹسج تھنج دنا جس میں واصح‬
‫القاطوں میں اِ س ئے کہا کہ اسے دامیر کے شاتھ نہیں رہبا جس ئے دھوکے سے‬
‫م‬ ‫ش‬ ‫ہ‬ ‫ُ‬
‫اس سے شادی کی اور وہ وانس ان کے ناس آنا جا نی ہے ہو کے بو وہ جلد ہی لنے‬
‫والی قالنٹ سے انلی آجائے گی۔‬
‫مبکس کو نبائے کے تغد وہ خود کو ہلکا محسوس کر رہی تھی۔ اب اس کو نانک‬
‫کرئے کی کونی ضرورت نہیں تھی۔ فرنش ہو کے ناہر آنی بو دامیر روم سے ناہر نہیں‬
‫گبا تھا۔ اسی کا ان یطار کر رہا تھا۔‬
‫علتبا اس کو تظرانداز کرنی ہونی آ نتنے کے شا منے کھڑی ہونی چب دامیر کی آواز‬
‫سبانی دی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪715 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں جانبا ہوں کہ نمہاری ناداشت وانس آگنی ہے لبکن میری نات سنو۔“ دامیر‬
‫اس کے ناس آنا ہاتھ تھا منے لگا چب علتبا ئے نحوت سے ہاتھ چھبک دنا۔‬
‫”مجھے کجھ نہیں ستبا اور ہاتھ پہ لگاؤ مجھے۔“‬
‫وہ سباٹ انداز میں بولی اور شانبڈ سے تکلبا جاہا چب دامیر ئے نازو گرفت میں‬
‫لبا۔‬
‫”تم میری نات سنے تغیر کجھ تھی علط نہیں کہہ شکنی۔“ دامیر کی نات پہ علتبا‬
‫شلگ اتھی۔‬
‫”کون سی نات۔ تم انک دھوکے ناز سحص ہو۔ میں جا رہی ہوں نہاں سے۔۔“‬
‫چھبکے سے انبا نازو چھڑوائے وہ روہا نسے لہچے میں بولی۔‬
‫”مجھے شب ناد آگبا ہے شب کجھ۔۔ کٹسے تم ئے چھوٹ کا سہارہ لتنے مجھے اننی‬
‫زندگی میں شامل کبا۔“ علتبا اس کے ستنے پہ اتگلی رکھنے عصے سے بولی۔ دامیر کو‬
‫تکل یف ہونی کہ وہ اس کی شب نابوں کو چھوٹ سمجھ رہی تھی۔‬
‫”میں ئے تم سے شادی کی لبکن میرا مقصد علط نہیں تھا“ وہ اننی وصاچت‬
‫کرئے لگا کہ علتبا ئے نیزی سے اس کی نات کانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪716 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مقصد کبا تھا دامیر۔ دھوکا‪ ،‬چھوٹ‪ ،‬فرنب دکھا کے تم ئے مجھے جاصل کبا پہ‬
‫جا ننے ہوئے تھی میں تم سے تفرت کرنی ہوں۔“ وہ انک انک لقظ جبا کے بولی۔‬
‫”میں ئے شب نمہارے لنے کبا پرنسٹس۔۔“ دامیر دھیرے سے بوال۔‬
‫”مجھے اس نام سے مت تکارو۔۔“ وہ جال اتھی۔ دامیر کو ناگوار گزرا لبکن وہ گہرا‬
‫شانس ت ھر کے ضیط کر گبا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫چنہ کمرے میں نہیں تھی‪ ،‬شاند فرنش ہو رہی تھی۔ انک معنی چیز مشکراہٹ‬
‫اس کے ل نوں پہ آسمانی۔ اس کی مار ڈھار کہاں کام آنی تھی‪ ،‬تھی بو وہ تھی نازک سی‬
‫جسننہ۔۔ لبکن پہ خوتصورت صنح کا آعاز وہ اس کو دنکھ کے ہی کرنا جاہبا تھا خو کل‬
‫رات اس کا ا ننے جشن کے جال میں پرنپ کرئے جلی تھی لبکن انبا جال البا پڑ گبا‬
‫تھا۔‬
‫اس کا ارادہ اتھ کے اتھی راؤنڈ پہ جائے کا تھا چب نک چنہ فرنش ہو جانی۔‬
‫اتھنے سے نہلے اس ئے چنہ کے نکنے کو سجنی سے نازوؤں میں تھتنحا جٹسے وہ چنہ ہی‬
‫ہو۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪717 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ملٹسکا اگر اندر ہی ہو بو میں نمہیں خواین کر لوں؟“ سرٹ نہتنے اس ئے ناتھ‬
‫روم کے ناہر سے ہانک لگانی کہ اندر پرش کرنی چنہ دانت نٹسنے رہ گنی۔‬
‫”نبہودہ انشان۔۔“ خود سے پڑپڑانی اور اس کی تکار کو تظرانداز ہی کبا لبکن تکلحت‬
‫ہی اس کا دھبان ناتھ روم کے الک کی طرف گبا‪ ،‬کبا تھروسہ وہ اندر ہی آجانا۔‬
‫”میں نانچ منٹ میں خواین کرنا ہوں نمہیں۔۔“ فصول کی ہا نکنے سے وہ ناز پہ آنا‬
‫‪ ،‬مزند ئےناک سی نات کہنے وہ ہٹسبا ہوا کمرے سے ناہر آنا۔‬
‫ارادہ ناہر جائے کا تھا لبکن دامیر کے کمرے کی طرف پڑھ گبا کہ اس کو شاتھ‬
‫لے جائے ناکہ وہ تھی فرنش فبل کر شکے۔ وہ اتھی راہداری میں ہی تھا چب اس کو‬
‫علتبا کے جالئے کی آواز سبانی دی۔‬
‫”ئےجارے کا پرا وفت سروع ۔۔“‬
‫رنان ناشف سے تقی میں سر ہال کے رہ گبا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫”ہم اس نارے میں آرام سے نات کر شکنے ہیں‪ ،‬نہلے ناشنہ کر لو۔۔“ دامیر پرم‬
‫لہچے میں بوال اور اس کے شائے کے گرد نازو تھبالئے جاہے چب علتبا چھتنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪718 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے اننی ملکنت سمجھبا چھوڑ دو‪ ،‬ا ننے پہ ہاتھ دور رکھو مجھ سے‪ ،‬پہ پرم لہحہ ‪،‬‬
‫مجنت کا نانک جتم کرو شب۔“ کمرے سے تکلنے ہوئے وہ پڑپڑانی۔‬
‫”تم میری ملکنت ہو۔ اس نات کو تم مابو نا نہیں لبکن تم کسی صورت دور‬
‫نہیں جائے والی مجھ سے۔ “ اس کی پڑپڑاہت ستنے دامیر زپردسنی اس کو دبوار کے‬
‫شاتھ لگائے انک انک لقظ جبانا ہوا بوال۔ اس کی آنکھوں میں وہی سرد ناپر موخود تھا۔‬
‫جس سے وہ خوف کھانی تھی۔ ئےشاچنہ ہی اس کی شانس نبگ ہوئے لگی‪ ،‬دامیر کی‬
‫آنکھوں سے تگاہ ہبائے وہ گہرے شانس تھرئے لگی۔ خوف عالب آئے لگا تھا۔‬
‫دامیر ئے اطراف سے ہاتھ ہبائے چہرے پہ پرنشانی در آنی۔ اس کی پہ ک یق نت‬
‫اننی وجہ سے ہونا دنکھ دامیر کو ندامت ئے گ ھیر لبا‪ ،‬اننی چمافت کا اجشاس ہوئے لگا‬
‫کہ وہ اس کو خود سے ندظن کررہا تھا۔‬
‫”علتبا۔۔“ اس ئے اس کو ک یفرٹ د نبا جاہا چب وہ اس سے دور ہونی۔‬
‫”دور رہو مجھ سے۔۔“ وہ نتبک ہو رہی تھی۔‬
‫”دھوکے ناز‪ ،‬قا نل‪ ،‬تم ئے میری پزلبل کی۔“ علتبا ئے تفرت سے جنجنے ہوئے‬
‫کہا کہ وہ ا ننے خوف کے زپ ِر اپر اس کو ا ننے ناس رکھبا جاہبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪719 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ن‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬


‫ہ‬
‫”میری نات ھنے کی کوشش کرو‪ ،‬جٹشا م مجھ رہی ہو ونشا یں ہے۔“‬
‫دامیر ئے آگے پڑ ھنے اس کو پرمی سے کہا لبکن اس ئے ہاتھ کے اشارے سے روک‬
‫دنا۔‬
‫”کبا سمجھبا ہے‪ ،‬تم ئے دھوکے سے مجھ سے شادی کی‪ ،‬میری جالت کا قاندہ‬
‫اتھانا اور میں اننی ناگل تھی کہ نمہاری چھونی مجنت تھری نابوں میں آنی گنی۔۔ نمہاری‬
‫نابوں پہ انمان النی گنی پہ جائے تغیر کہ میں نمہارے لنے انک مہرہ ہوں۔“ علتبا ئے‬
‫آنکھوں میں تفرت لنے اس کو دنکھنے کہا۔ اس وفت وہ دامیر کو ا ننے شا منے تھی‬
‫پرداشت نہیں کر نا رہی تھی۔‬
‫وہ ا ننے اندر کا عبار تکال رہی تھی کہ کل کے رکے ہوئے آنسوں تھی اب نہبا‬
‫سروع ہو گنے تھے۔‬
‫”نمہارے شاتھ کجھ تھی دھوکہ نہیں تھا‪ ،‬میری فبلتبگز‪ ،‬میرا نبار شب سچ ہے۔‬
‫میں ئے کجھ تھی چھوٹ نہیں کہا۔“ دامیر کو اس کی نابوں سے تکل یف ہو رہی تھی‪،‬‬
‫اس کے چہرے پہ دکھ کی لکیریں واصح تھیں اور وہ سبگ دل ین گنی تھی۔‬
‫”تم۔۔۔ تم انک قا نل ہو‪ ،‬مجرم‪ ،‬میرا اسیعمال کر کے تم انبا مطلب تکال رہے‬
‫تھے۔۔۔ مجھے اننی میزل نک سیڑھی نبانا ہی تھا بو پہ شادی مجنت کا نانک ک نوں کبا تم‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪720 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ئے دامیر۔۔“ اس کے ستنے پہ ہاتھ رکھنے دھکا دنا اور جنچی کہ رنان خو ناہر دروازے‬
‫کے ناس تھا اندر داجل ہوا۔‬
‫”دامیر۔۔۔“ رنان ئے سرد لہچے میں اس کو وارن کبا۔‬
‫”میں نات کر رہا ہوں اس سے۔۔۔“ دامیر البا رنان پہ جنحا جس سے رنان کے‬
‫ما تھے پہ نل نمودار ہوئے۔‬
‫”اس سے نہلے کہ تم نہاں ہوئے پہ نجھباؤ ناہر تکلو‪ ،‬وہ نات نہیں کرنا‬
‫جاہنی۔۔“ وہ قدم تقدم جلبا ہوا اس کے مقانل آئے سرد سباٹ لہچے میں بوال کہ دامیر‬
‫ئے اس کو ئےنسی سے دنکھا۔‬
‫دو نل وہ دکھ و ناشف سے علتبا کو دنکھبا رہا تھر گہرا شانس تھر کے کمرے سے‬
‫ناہر تکال۔‬
‫”تم خو جاہو گی وہی ہو گا۔۔“ رنان ئے اس کو تفین دہانی کروانی جاہی جس کا‬
‫علتبا کو زرا تھی تھروسہ نہیں تھا۔ رنان تھی دامیر کے ننجھے ناہر تکال لبکن وہ دامیر کو‬
‫زپردسنی تھی نہیں کرئے دے گا۔ علتبا کو کجھ وفت کی ضرورت تھی بو اس کو وفت‬
‫ملبا جا ہنے تھے۔‬
‫رنان کے ناہر آئے ہی دامیر سجنی سے عرانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪721 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اس سے کہہ دو نہاں سے وانسی ممکن نہیں۔۔“‬


‫”ہم اس پہ زپردسنی نہیں کر شکنے‪ ،‬اگر وہ جانا جاہے گی بو ہم اس کو نہیں‬
‫روکیں گے۔“ رنان ئے اس کو دو بوک انداز میں سمجھانا۔‬
‫”وہ میری گرل فرنبڈ نہیں ن نوی ہے‪ ،‬اس سے وہ ننجھے نہیں ہٹ شکنی۔۔“‬
‫دامیر رنان کی آنکھوں میں د نکھے انک انک لقظ جبا کے بوال لبکن رنان کے ناپرات پہ‬
‫کونی فرق پہ پڑا۔‬
‫”اس نات کو پہ تھولبا کہ میں اس کے شاتھ ہوں۔۔“ رنان کے القاظ میں‬
‫واصح دھمکی تھی کہ وہ علتبا کے ف یصلے کی رنستبکٹ کرے گا۔ انبا کہنے وہ خود تھی‬
‫وہاں سے جال گبا۔‬
‫”دھوکے ناز دوشت میرا اور شانبڈ میری ن نوی کی لے رہا ہے۔۔“ دامیر عصے سے‬
‫پڑپڑانا‪ ،‬ئےنسی و اسیغال میں آکے اس ئے انک زور دار مکہ دبوار پہ رسبد کبا۔‬
‫وہ اس کی پرمی کا امنحان لے رہی تھی۔‬
‫”کبا میری مجنت کاقی نہیں تھی نمہاری تفرت کو نگھالئے کے لنے۔۔“ کمرے‬
‫کے نبد دروازے کو دنکھنے وہ اقسوس سے شو جنے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪722 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫علتبا اندر نبڈ پہ تتھی چہرے پہ ہاتھ ر کھے مشلشل رو رہی تھی‪ ،‬اسے خود پہ‬
‫اقسوس ہو رہا تھا کہ وہ کٹسے اس کو نہحان پہ نانی‪ ،‬اننی آشانی سے وہ اس کی مجنت‬
‫سے کھبل گبا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫دامیر کے ناس سے ہو کے وہ وانس کمرے میں جال آنا۔ چنہ نب نک ناہر آجکی‬
‫تھی۔ وہ تھر سے اننی چئیز سرٹ میں مل نوس تھی۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”مارنبگ ئےنی۔۔“ اس سے نہلے چنہ کجھ ھنی رنان چہرے پہ چمک لنے‬
‫اس کی جانب پڑ ھنے اننی خوسی کا اظہار کر گبا کہ وہ بوکھال اتھی۔ وہ اس کو کجھ سحت‬
‫سبانی کہ رنان بول اتھا۔‬
‫”نمہیں اتھی علتبا کے ناس ہونا جا ہنے۔“ اس کو ستنے سے لگائے وہ دھیرے‬
‫سے بوال کہ چنہ کی آنکھوں میں الجھن در آنی۔‬
‫”ک نوں۔۔؟“‬
‫نہال جبال کی علتبا کی ناداشت کی طرف گبا اور اس کا شک تھبک تھا۔‬
‫”اس کو شب ناد آگبا ہے اور پری طرح سے وہ دامیر سے لڑی ہے۔۔ نمہیں‬
‫اسے کمفرٹ کرنا جا ہنے۔“ رنان کے بو لنے پہ چنہ سر ہالنی ہونی اس سے دور ہونی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪723 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”انک نار پہ مسبلہ جتم ہو جائے بو میں تم سے دونارہ ا نسے ہی اسنٹشل سرپراپز‬
‫کی امبد رکھبا ہوں۔“ وہ معنی چیزی سے بوال۔‬
‫”میرا جافو د نبا ہے نمہیں سرپراپز۔“ وہ ننے ہوئے انداز میں بولی۔‬
‫دامیر اس کو ناہر الن میں مضظرب شا جکر کا ننے ہوئے تظر آنا۔ چنہ اس کے‬
‫کمرے میں گنی چہاں علتبا نبڈ پہ اوندھے منہ لتنی روئے کا شغل فرما رہی تھی۔‬
‫”علتبا۔۔۔۔“ چنہ کی آواز پہ اس ئے سر اتھانا۔‬
‫”نمہیں شب مغلوم تھا لبکن تم ئے اِ ن کو روکا نہیں تم تھی شامل تھی ان‬
‫ل‬ ‫ش‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫میں۔۔“ چنہ کو د نی ہونی وہ کوہ کرئے گی۔‬
‫چنہ گہرہ شانس ت ھر کے رہ گنی۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”وہ دوبوں ہی انک نمیر کے گدھے ہیں۔“ چنہ پڑپڑانی علتبا نا ھی سے اس کو‬
‫دنکھنے لگی۔‬
‫ُ‬
‫”تم اس سے نبار کرنی ہو۔۔“ شب نانیں چھوڑ کے چنہ ئےعلتبا کو اس کے‬
‫ا ننے اجشاس کی طرف بوجہ دالنی۔‬
‫”اس ئے میرے نبار کا تھی مزاق نبانا۔۔“ کہنے وہ چنہ سے لنٹ کے روئے‬
‫لگی۔ اس کو انبا آپ نہت چھونا محسوس ہو رہا تھا کہ کٹسے کونی آشانی سے اس کا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪724 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اسیعمال کر گبا تھا۔ اس کی انک نتماری اسے کمزور نبا گنی تھی جبکہ وہ مضنوط نتنے‬
‫تکلی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫علتبا کے اس طرح لنٹ کے روئے سے چنہ کو عج نب شا محسوس ہوئے لگا۔ وہ‬


‫ہر انک کو ا نسے گلے نہیں لگانی تھی اور علتبا کو اتھی ا نسے کبدھے کی ضرورت تھی خو‬
‫اس کا عم گشار ہونا نتھی چنہ ئے اس آہشنہ سے اس کی کمر سہالنی۔‬
‫”اسے وفت دو۔ تم ا چھے سے جان جاؤ گی اس کو۔“ علتبا کے ننجھے ہتنے چنہ‬
‫ئے اس کو نشلی د نبا جاہی خو اننی آنکھوں پہ ستم ڈھانی ان کے ن نوئے سحا جکی تھی۔‬
‫ُ‬
‫”مجھے کجھ تھی نہیں شوجبا اتھی مجھے نس اس سے ا ھی دور جانا ہے۔۔“ ا نے‬
‫ن‬ ‫ت‬

‫رجشاروں سے نہنے آنسوؤں کو بونجھنے ہوئے اس ئے تقی میں سر ہالئے دو بوک انداز‬
‫میں کہا۔‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫ک‬‫ن‬
‫چنہ ئے اس کی شقاکی د ھی کہ وہ وا عی دامیر کی دی جائے والی مجنت کو ظر‬
‫انداز کر کے دور جائے کی نات کر رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪725 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”علتبا نمہارا ری انکشن م نوفع تھا لبکن تم اس طرح اجانک دور جائے کی نات پہ‬
‫کرو۔ دامیر انشا کتھی نہیں ہوئے دے گا۔“ چنہ اس کو سمجھانی ہونی بولی۔‬
‫”مجھے دامیر سے کونی فرق نہیں پڑنا اب۔ اس ئے مجھے نہت ہڑٹ کبا ہے۔“‬
‫وہ تم لہچے میں بولی اور نبڈ سے اتھنے اننی وارڈ روب کی جانب لبکی۔ چنہ اتھ کے اس‬
‫کے ننجھے ہی ڈرنسبگ نک گنی خو ا ننے کیڑے تکال رہی تھی۔‬
‫”نمہیں کبا تکل یف دے رہا ہے علتبا؟“ چنہ ستنے پہ نازو ناند ھنے اس سے پرمی‬
‫سے شوال کرئے لگی۔ علتبا ئے تھبگی تگاہوں سے اس کو دنکھا جس کے چہرے پہ‬
‫سنجبدگی چھانی تھی۔‬
‫”نمہیں کٹشا لگے گا چب نمہیں مغلوم ہو کہ کونی نمہیں مجنت کے نام پہ‬
‫اسیعمال کررہا اور وہ تھی انشا سحص جس سے تم تفرت کرنی ہو؟“ ا ننے کیڑے ننچے‬
‫ل‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ک‬‫ب‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫کارن نٹ پہ نی ہونی روہا نسے ہچے یں شوال کرئے گی۔‬
‫”پہ نمہارا نس خزنانی ین ہے اور کجھ نہیں۔“ چنہ سنجبدگی سے بولی لبکن اس کی‬
‫کسی تھی نات کو ستنے کے کونی موڈ میں نہیں تھی۔‬
‫”میں ا نسے لوگوں میں نہیں رہ شکنی خو نبا شوچے لوگوں کو فبل کرئے ہوں‬
‫اور۔۔۔ اور۔۔۔“ اس کی آواز کا نتنے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪726 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”خو ڈارک ورلڈ سے خڑیں ہوں۔“‬


‫پہ کہنے ہی وہ ئے نحاسہ روئے لگی کہ چنہ کو اس پہ پرس شا آئے لگا۔ ننچے‬
‫ن‬
‫کارن نٹ پہ تتھی اس ئے چہرے کو ہاتھوں میں چھبا لبا۔‬
‫”مم۔۔۔ میں ئے کتھی نہیں شوجا تھا کہ مجھے ا نسے لوگوں میں رہبا پڑے گا۔“‬
‫اس کی مدھم آواز پہ چنہ اس کے اس آنی۔‬
‫”کجھ دن و نٹ کرو اور اس مغا ملے کو شوخو کہ نمہیں کبا جا ہنے۔۔“ چنہ اس‬
‫کے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے پرمی سے بولی۔ علتبا ئے سر اتھا کے اس کو دنکھا۔‬
‫”تم جاننی تھی نا شب‪ ،‬میرے نارے میں تھی بو تم ئے ک نوں پہ روکا؟“ اب‬
‫وہ البا اس سے شوال کرئے لگی۔‬
‫”دامیر اور رنان نمہاری حقاظت کرنا جا ہنے تھے۔“ چنہ اس کو سمجھائے کے لنے‬
‫نس نہی کہہ نانی۔‬
‫”مجھے کجھ سمجھ نہیں آرہی مجھے نس جانا ہے نہاں سے۔“ علتبا مدھم لہچے میں‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن ن‬
‫بولی اور گ ھت نوں میں سر د نے ھی رہی۔ چنہ اس کے کبدھے سے ہاتھ ہبائے ا ھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪727 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ت‬
‫”میں دامیر کو نجنی ہوں۔“ اس کے کہنے پہ علتبا ئے تم آ کھوں سے اس کو‬
‫دنکھا جس میں شکوہ تھا۔ وہ ک نوں دامیر کو نہاں تھنج رہی تھی ناکہ وہ اس کو نہاں‬
‫ر ہنے پہ مج نور کر د نبا۔ قالحال وہ انشا نالکل نہیں جاہنی تھی۔‬
‫اسے پہ دکھ سبائے جا رہا تھا کہ دامیر ئے کٹسے اس کی نتماری کی جالت کا قاندہ‬
‫اتھانا تھا ضرف لوگوں سے ندلہ لتنے کی جاطر۔ اگر اس کو کجھ مغلوم کرنا تھی تھا بو‬
‫کونی اور طرتفہ ڈھونڈ لتبا اس سے نبار کا مزاق الزمی نبانا تھا۔‬
‫ن‬
‫لبکن علتبا ا ننے خزنانی ین میں پہ فراموش کر تتھی تھی کہ وہ خود تھی دامیر سے‬
‫مجنت کرنی تھی‪ ،‬دور جائے سے وہ نا ضرف دامیر کو تکل یف نہنحائے گی نلکہ خود تھی‬
‫ازنت میں رہے گی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”دامیر وہ نہاں سے جانا جاہ رہی ہے۔“‬
‫چنہ چب ناہر آنی بو دامیر اور رنان کو انک شاتھ نی وی الؤنج میں نتتھے دنکھ ادھر‬
‫ہی آگنی۔‬
‫چنہ کی نات شن کے دامیر کے ما تھے پہ نل نمودار ہوئے اور سجنی سے ا ننے‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫چیڑے نچ گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪728 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اگر اس کو مجھ سے کونی مسبلہ ہے بو نہاں رہ کے تھی جل ہو شکبا ہے۔“‬


‫ن‬
‫دامیر اننی جگہ سے اتھبا مسیغل ہوا‪ ،‬چنہ رنان سے کجھ قاصلے پہ تتھی نبک لگا گنی۔‬
‫”تم نہیں جاؤ میں نات کرنا ہوں اس سے۔۔“ دامیر کو جانا دنکھ رنان ئے کہا۔‬
‫دامیر انک نل کو اس کے چہرے کی جانب دنکھبا رہا چہاں سنجبدگی چھانی تھی۔ گہرا‬
‫شانس ت ھرئے اس ئے سر ہالنا۔‬
‫اگر رنان ئے کہا تھا کہ وہ اس سے نات کرے گا بو وہ ضرور اس کو مبا لے‬
‫گا۔‬
‫م یقکر انداز میں چہرے پہ ہاتھ ت ھیرئے وہ وانس صوفے پہ نتتھ گبا چب چنہ کو‬
‫مبکس کی جانب سے مٹسج رنسنو ہوا۔‬
‫”وہ تھبک ہو جائے گی نس شب دھوکا سمجھ رہی ہے اس کو وفت جا ہنے‬
‫دامیر۔“ دامیر کی مضظرب جالت چھبائے نہیں چ ھپ رہی تھی۔‬
‫چنہ کجھ چیران تھی تھی کہ وافعی دامیر اس سے اننی مجنت کرنا تھا کہ اس کی‬
‫ج‬ ‫ہ‬‫ع ق‬
‫لط می پہ ہی وہ ئے ین تھا۔‬
‫مج ُ‬
‫” ھے اس سے خود نات کرنی جا ہنے۔“ دامیر انبا سر صوفے کی نشت سے تکانا‬
‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫آ یں نچے بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪729 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”وہ نمہیں دنکھبا تھی نہیں جاہ رہی دامیر۔۔ شکون سے نتتھے رہو زنادہ نمہیں‬
‫مج نوں نتنے کی ضرورت نہیں۔“ دامیر کی نات شن کے چنہ اس کو ننتبہی انداز میں بولی‬
‫کہ مج نوں لقظ شن کے دامیر کے ناپرات ندلے‪ ،‬اس ئے ناگوار تگاہوں سے اس کو‬
‫دنکھا۔‬
‫”مجھ سے زنادہ نمہیں رنان مج نوں کی طرح ملے گا۔“ دامیر ننے ہوئے لہچے میں‬
‫ن‬
‫پڑپڑانا اور وانس آ کھیں موند گبا۔‬
‫رنان نبا نہیں اس کو مبائے میں کامباب ہونا تھی نا نہیں۔‬
‫اس کا ان یطار طونل ہوئے لگا چب دامیر ضیط کی طبانیں کھونا خود اتھ کھڑا ہوا۔‬
‫ا ننے روم کی جانب پڑ ھنے واال تھا چب اس کو رنان وہاں سے تکلبا ہوا دکھانی دنا۔ اس‬
‫ت‬ ‫ع‬ ‫ج‬‫ن‬
‫کے ھے ہی لتبا ھی آنی ہونی دکھانی دی۔‬‫ن‬

‫علتبا کی جالت دنکھنے اس کے دل کو جٹسے کسی ئے متھی میں جکڑا‪ ،‬وہ کتبا‬
‫رونی تھی۔ کمرے سے ناہر آئے پہ دامیر کے چہرے پہ مشکراہٹ سی در آنی کہ شاند‬
‫رنان اس کو مبا النا تھا۔‬
‫چنہ کی تگاہیں دامیر کے چہرے کا ہی طواف کر رہی ت ھیں جس کی آنکھوں اور‬
‫چہرے پہ چمک اپری تھی لبکن اگلے ہی نل اس ئے اسی چمک کو ماند پڑئے اور‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪730 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫مابوسی کو چھائے دنکھا۔ وہ ئےتفتنی سے اب رنان کو دنکھ رہا تھا جبکہ علتبا کا وخود‬
‫ک‬ ‫م‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت ً‬
‫فرنبا اس کے ھے چھبا ہوا تھا جس کے ہاتھ یں شوٹ ٹس تھا۔‬
‫”دامیر علتبا کی دو گھتنے میں قالنٹ ہے انلی کی۔“ رنان ئے گال کھ یکا لنے‬
‫ہوئے دامیر کو دنکھا خو ئےتفتنی و ہوبق نبا اس کو دنکھ رہا تھا۔‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫مت ت‬ ‫ت‬ ‫ت ُ‬
‫” م اس کو مبائے گنے ھے!!“ دامیر ضیط کرنا ہوا ھی نج گبا۔‬
‫”ہاں وہ مان گنی ہے جائے کے لنے۔“ رنان کی نات ستنے دامیر کا دل کبا کہ‬
‫وہ اِ س کا منہ بوڑ دے۔‬
‫”جائے کے لنے؟“ دامیر ئے القاظ دہرائے جٹسے ستنے میں علطی ہو۔‬
‫”ہاں وہ مبکس کے ناس جانا جاہ رہی ہے بو دو گ ھتنے میں قالنی کر جائے گی۔“‬
‫رنان ئے شکون سے کہا اور علتبا کو شا منے آئے کا اشارہ کبا۔ وہ جلنی ہونی چنہ کی‬
‫طرف پڑ ھنے لگی۔ تگاہیں چھکی تھیں جٹسے وہ دامیر سے تظریں خرا رہی ہو۔ دامیر کو اس‬
‫کا پہ انداز دنکھ کے تکل یف ہونی۔‬
‫”میں شاتھ جاؤں گا۔۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪731 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اگلے ہی نل وہ انبا ف یصلہ سبائے ہوئے بوال کہ علتبا ئے چھبکے سے سر اتھا کے‬
‫انک نل کو دامیر کو دنکھا تھر اسبہقامنہ تگاہوں سے رنان کو دنکھا جٹسے کہبا جاہ رہی کہ‬
‫”رنان تم ا ننے وعدے سے تھر نہیں شکنے۔“‬
‫”دامیر۔۔!“ رنان کی ننتبہی آواز الؤنج اپرنا میں گونچی۔‬
‫”اس کو جائے دو۔۔“‬
‫رنان کی آواز پہ علتبا کا دل ڈوب شا گبا کہ کہیں ان دوبوں کی آنس میں‬
‫چھڑپ پہ ہو جائے اس کی وجہ سے۔‬
‫”جائے دوں‪ ،‬نمہیں مغلوم تھی ہے تم کبا کہہ رہے ہو؟“ دامیر متھی تھتنجبا ہوا‬
‫اس کے مقانل ک ھڑا ہوا۔ دوبوں کی آنکھوں میں اس وفت سرد نتھرنال ناپر تھا۔‬
‫”میں ا ننے القاظ کا نانبد ہوں دامیر اور علتبا نہاں سے جائے گی۔“ رنان کی‬
‫گرے نبلباں شکڑیں ان میں گہرا ین واصح ہوا جٹسے وہ دھمکی دے رہا تھا۔‬
‫چ‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ہ‬ ‫م‬‫ن‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ُ‬
‫”اسے اگر ا ک ھروچ ھی آنی بو یں یں یں ھوڑوں گا۔“ دامیر اس کے‬ ‫ن‬
‫مزند فرنب ہوئے انک انک لقظ جبا کے بوال کہ رنان ئے انک تظر علتبا کو دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪732 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہم اس پہ زپردسنی نہیں کر شکنے دامیر‪ ،‬اسے نہلے ہم پہ تھروسہ کرنا پڑے‬
‫گا۔“ رنان ئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھا جبکہ دامیر کے ناپرات میں کونی فرق‬
‫نہیں پڑ رہا تھا۔‬
‫وہ نس سر ہال کے نبا علتبا کو د نکھے لمنے ڈگ تھرنا ناہر کی طرف پڑھ گبا۔ علتبا‬
‫ل‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ئے نس اس کو جائے ہوئے دنکھا کہ آ یں م ہوئے یں۔‬
‫گ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬
‫”نمہیں جائے کی اجازت دے رہا ہوں لبکن ہمٹشہ کے لنے نہیں۔ تم دامیر کی‬
‫ن نوی ہو اور دامیر مجھے نہت عزپز ہے۔“ رنان نبا کسی لحاظ کے اس کو ناور کروانا ہوا‬
‫بوال۔ آگے پڑ ھنے اس ئے علتبا کا شوٹ کٹس تھام لبا۔ رنان کی نات ستنے خو نہلے ہی‬
‫دل دھڑک رہا تھا اب ڈھول کی مانبد کان میں سبانی د ننے لگا۔ اس کا انداز عام شا‬
‫نالکل تھی نہیں تھا۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”میں امبد کرنا ہوں کہ تم ئے خو وفت ماتگا ہے دامیر کو ھنے کے لنے کاقی‬
‫ہو گا۔“ وہ اس کے شا منے آ رکا اور اس کی آنکھوں میں دنکھ کر بوال۔ علتبا ئے نیزی‬
‫سے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫چنہ سنجبدگی سے پہ شب دنکھ رہی تھی۔ اس ئے ہی علتبا کی نکٹ نک کی تھی‬
‫مبکس کے کہنے پہ۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪733 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ُ‬
‫وہ سمجھ شکنی تھی کہ علتبا کا اتھی جانا نہیر تھا ک نونکہ اس وفت اگر اس پہ‬
‫زپردسنی کونی ف یصلہ مشلط کبا جانا بو وہ کتھی ان پہ تفین پہ کر نانی۔ دامیر سے وہ مزند‬
‫ندظن ہو شکنی تھی۔‬
‫کجھ ہی دپر میں وہ لوگ انیر بورٹ پہ موخود تھے چہاں علتبا کو سی آف کرنا تھا۔‬
‫مبکس کو شاری صورت جال سے آ گاہ کر دنا تھا اور علتبا انہیں کے ناس جا رہی تھی۔‬
‫م‬
‫نہاں سے جائے ہوئے علتبا کو نالکل تھی خوسی نہیں تھی نا وہ ین ھی‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ظ‬
‫اس شب سے کہیں اندر دل اس کو کوس رہا تھا کہ وہ نہت ئےوفوقاپہ خرکت کر رہی‬
‫تھی۔‬
‫نلین میں نتتھنے اس کا جبال نس دامیر کے گرد ہی گھوم رہا تھا۔ آنکھوں کے‬
‫گوسے انک نار تھر تھبگنے لگے‪ ،‬گزرے نل شب انک انک کر کے ناد آئے لگے۔‬
‫”اس دنبا میں وہی مال تھا جس سے مجنت کرنی تھی۔“ وہ خود سے شکوہ کرئے‬
‫لگی‪ ،‬پہ نات وہ ف نول کرنی تھی کہ اِ سے دامیر سے مجنت تھی اننی تفرت ناد تھی کرنی بو‬
‫وہ دامیر سے کی گنی مجنت کے آگے دب جانی۔‬
‫”تم ئے نالکل اچھا نہیں کبا۔ تم ئے چھوٹ کا سہارہ لبا دامیر‪ ،‬مجھے چھونی‬
‫شادی کا تفین دالنا۔“ کھڑکی سے ناہر دنکھنے اس ئے دکھ سے شوجا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪734 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شاند وہ دنبا کی ئےوفوف لڑکی تھی خو انسی نات پہ ا ننے شوہر کو چھوڑ آنی تھی۔‬
‫”تم ئے میری تفرت کو ندل دنا۔۔“‬
‫اس کے آنسوں عارصوں پہ نہہ رہے تھے جن کو وہ روک نہیں نا رہی تھی۔ خو‬
‫نانیں وہ نہلے کتھی تھولی تھی وہ شب ناد آجکی ت ھیں۔‬
‫فروا ناکسبان تھی۔ مبکس ئے اس کو نبانا تھا کہ فروا کو ناکسبان تھنج دنا گبا تھا‬
‫ن‬ ‫ُ‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫اور اس کی حقاظت کے لنے ہی کونی ھی راتطہ یں رکھا تھا ناکہ اس کا کونی نجھا پہ‬
‫کر نائے۔‬
‫شوپزرلتبڈ سے وانسی پہ وہ کتنے مہتنے گھر میں فبد ہو کے رہ گنی تھی ضرف فباد‬
‫کے ڈر سے‪ ،‬اس کا حظرہ کم ہوا بو وہ پڑ ھنے کی طرف آنی۔‬
‫نلین سے اپرئے وہ لوگ انیربورٹ والے حصے کی طرف پڑھ رہے تھے‪ ،‬شب‬
‫لوگ ا ننے نبگ اکھبا کر رہے تھے۔ م یکانکی انداز میں وہ تھی انبا شامان تھامے نیرونی‬
‫گ ت ً‬
‫طرف پڑھی چہاں اس کے نام کا بورڈ دنکھ وہ ان شونڈ بونڈ آدم نوں کی طرف نی خو فتبا‬
‫مبکس ئے تھنچے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪735 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫گھر ہنجنے مبکس کو شا منے دنکھنے انک نار تھر انبا ضیط کھو تتھی اور اس کے گرد‬
‫نازو لنتنے روئے لگی۔ مبکس ئے اس کا کمرہ نبار کروا رکھا تھا جتھی اس کو آرام کرئے‬
‫کے عرض سے تھنج دنا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫رات گنے نک وہ وانس لونا تھا‪ ،‬شارا دن اس ئے گودام میں گزارا تھا۔ جس‬
‫آدمی کو فری میں فبد کر رکھا تھا اس کی ندقشمنی تھی کہ دامیر کا موڈ پری طرح خراب‬
‫تھا جس کا شارہ عبار اسی پہ تکال تھا۔ ہاتھ پہ اس ئے ننی لت نٹ رکھی تھی جس پہ خون‬
‫کے د ھنے تھے۔ انک دو ہاتھ اس ئے لوسین کو تھی لگا د ننے تھے۔ ننی انارے اس‬
‫ب‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫ئے زمین پہ کی۔‬
‫نالوں میں ہاتھ ت ھیرا اور سرٹ انارے ناتھ روم میں جال آنا۔۔‬
‫پراؤزر سمنت اس ئے شاور کا نانی جالنا اور سر پہ نہائے لگا‪ ،‬تھبڈے نانی کی‬
‫تھوار پرسنے پہ اس ئے گہرا شانس ت ھرئے ا ننے خواس پہ قابو نانا۔ گبلے نالوں میں ہاتھ‬
‫ت ھیرا۔۔ چہرہ اوپر کرئے نانی کو گرئے دنا کہ نبد آنکھوں کے ننجھے اس ئےمہر کا چہرہ‬
‫لہرائے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪736 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دور جائے کے لنے مغاقی نہیں ملے گی نمہیں پرنسٹس۔ میری مجنت کا انبا‬
‫تھی مان پہ رکھا تم ئے۔۔“ سجنی سے چیڑے تھتنچے اس ئے جبالوں میں علتبا کو‬
‫محاظب کبا۔ ہاتھ کی نشت پہ چھونی چھونی خراش تھیں جس سے خون نہہ رہا تھا۔‬
‫اس ئے زور لگا کے ہاتھ کھوال اور نبد کبا۔ گردن کو دانیں نانیں گھمانا تھر خود کو‬
‫آ نتنے میں دنکھا۔ کبدھے پہ نبا آتھ کوبوں واال سبارہ چمک رہا تھا۔‬
‫آنکھوں کی نبلباں شکڑیں اور اس کو چھوا۔ ئےشاچنہ ہی علتبا کی مسکان ناد‬
‫م‬
‫کرئے وہ منٹشم ہوا۔ اس سبارے کو چھوئے وہ نہت نحسس ہونی تھی۔ اس ئے‬
‫ن‬
‫آ کھیں نبد کیں‪ ،‬علتبا کی اتگل نوں کے بوروں کا لمس محسوس ہوا۔‬
‫)‪(Addiction, moya malen'kaya printsessa‬‬
‫”عادت لگ گنی مجھے نمہاری‪ ،‬مانی لبل پرنسٹس۔“‬
‫اس ئے گہرا شانس تھرا اور گبلے پراؤزر سمنت کمرے میں آنا اور انبا لنپ ناپ‬
‫نکڑے اس کو آن کرئے نبڈ پہ رکھا۔‬
‫گزرے دبوں کی فوننج تکالے اس ئے نلے کر دیں جس میں علتبا کمرے میں‬
‫موخود تھی اور اننی انک نونی کرنی نانی گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪737 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس وفت دامیر انشا محسوس کر رہا تھا کہ وہ گھر موخود نہیں اور گھر سی دور رہ‬
‫کے وہ علتبا کو شکرین پہ دنکھ رہا تھا۔‬
‫مونانل پہ اس ئے علتبا کی لوکٹشن جبک کی‪ ،‬انلی میں مبکس کے گھر موخود وہ‬
‫ا ننے کمرے میں تھی۔ انک ہی جگہ سبل۔۔‬
‫اس ئے رنگ نہن رکھی تھی۔ الکھ ناراض سہی لبکن اس ئے دامیر کی نہبانی‬
‫انگوتھی نہیں ا ناری تھی جس میں پرنکر موخود تھا۔ اگر وہ رنگ اناری ہونی بو دامیر کا‬
‫س‬
‫دماغ مزند گھمائے کو کاقی تھا جس پہ وہ نبا شوچے مجھے اگلی قالنٹ لنے ہی اس کے‬
‫ن‬
‫ناس ہنچ جانا۔‬
‫کیرڈ سے پراؤزر سرٹ کا نئیر تکا لنے جتنج کرئے لگا۔ علتبا کی چہچہانی ہونی آواز‬
‫کابوں سے نکرانی ئےشاچنہ ہی تظر اس کی لنپ ناپ پہ گنی۔ وہ کونی کباب پڑ ھنے‬
‫ہوئے کھلکھال رہی تھی۔‬
‫فوننج میں ہی علتبا ئے مونانل پہ آئے والی کال اتھانی اور مشکرا کے نات‬
‫ت‬ ‫ُ‬
‫کرئے لگی۔ دامیر جانبا تھا کہ وہ اس وفت اِ سی سے نات کر رہی ھی۔ اس کے‬
‫چہرے کی روبق اور ہون نوں پہ سرمگیں مشکراہٹ۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪738 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں نمہاری ادانیں کب نک مس کرئے واال ہوں۔“ نبڈ پہ نتم دراز ہوئے‬
‫لنپ ناپ ا ننے شا منے رکھا اور اس کو دنکھنے لگا۔‬
‫کمرے کا ماخول نبگ شا لگ رہا تھا۔ وپرانی سی تھبلی تھی۔ ا ننے دبوں جس کی‬
‫خوسنو میں وہ گہرے شانس تھرنا تھا وہ اداس گنت نبا مبلوں دور تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”زندگی میں نہال کام تم ئے اچھا کبا خو علتبا کو وفت دنا ورپہ مجھے لگا تھا کہ اس‬
‫کو تھی زپردسنی شاتھ رکھنے۔“ رنان کھڑکی کے ناس کھڑا مونانل پہ کجھ جبک کر رہا تھا‬
‫چب چنہ کی آواز پہ اس کا دھبان نتھکا۔ اس کا طیزپہ انداز ہون نوں پہ مشکراہٹ الئے‬
‫کا ناغث نبا۔‬
‫”اس کو تھی سے کبا مراد‪ ،‬کبا کونی اور تھی ہے خو نہاں زپردسنی رہ رہا ہے؟“‬
‫رنان اسبہقامنہ تگاہوں سے اس کو دنکھبا بوچھنے لگا‪ ،‬چنہ کا اندر نک شلگ کے رہ گبا۔‬
‫ب‬ ‫ع ً‬
‫”ہاں تم ہو نا‪ ،‬موما جابوروں کو خڑنا ھر رکھا جانا ہے کن اقسوس دامیر کے‬
‫ل‬ ‫گ‬
‫ت‬ ‫س‬ ‫ً‬
‫ب‬
‫شاتھ نہاں رہبا پڑ رہا ہے مج نورا نا زپرد نی خو ھی کہہ لو۔“ چنہ اس ہزاننہ انداز انبانی ہونی‬
‫اس کے ناس سے گزرنی ہونی آ نتنے کے شا منے آنی‪ ،‬ا ننے نال کھولے فجرپہ مشکرانی‬
‫ک نونکہ دوسری جانب وہی شلگنی آگ لگا جکی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪739 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان مونانل ناکٹ میں رکھبا اس نک آنا۔‬


‫”جابور سے نمہارا کبا مطلب ملٹسکا‪ ،‬کجھ نشانات بو ان نازک ہاتھوں ئے تھی کل‬
‫چھوڑے ہیں کہیں۔ ان کے نارے میں کبا کہبا ہے۔“ اس کے کبدھے پہ تھوڑی‬
‫رکھنے… اس کا ہاتھ تھام کے شا منے کبا اور ناج نوں کو چھوئے لگا۔ چنہ اس کی‬
‫گ‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ب‬ ‫چ‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ئےناک نات کا مطلب ھنے ھ کے سے انبا ہاتھ نچ نی۔ چہرہ سرجی چھلکائے لگا۔‬
‫”نمہاری پہ نبہودہ نانیں تم خود نک ہی رکھا کرو۔“ انبا ُرخ اس کی طرف کرنی وہ‬
‫عرانی چب رنان ئے اس کی گردن دبوجی۔‬
‫”میری نبہودہ خرکنیں تھی خود نک ہی ہیں ک نونکہ تم مجھ میں ہی بو نسنی ہو۔“‬
‫ن‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫اس کا چہرہ ا ننے چہرے کے فرنب الئے گھمئیر لہچے میں بوال کہ تظریں نی ا ک‬
‫ھ‬

‫انک تفوش کو تگاہ سے نٹش نہنحائے لگی۔‬


‫”ہمارے نچے بون نق نبدا ہو نگے۔“ گردن سے ہاتھ ہتبا اس کی زلفوں کو لتنتنے‬
‫لگا۔ نحوں کا زکر آئے چنہ کے چہرے پہ الجھن تھرے ناپرات نمودار ہوئے۔‬
‫”نلبک انبڈ وانٹ ڈانی ہئیر۔۔“‬
‫وہ آنکھ دنا کے بوال۔ اس کا اشارہ ا ننے نلونڈ اور چنہ کے سباہ نالوں کی طرف تھا‬
‫جس کا تصور کرئے ناجا ہنے ہوئے تھی چنہ ہلکا شا ہٹس دی۔ رنان منٹشم ہوا اور‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪740 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫جشارت کرئے پہ آمادہ ہوا‪ ،‬چنہ ئے سنتبائے اس سے قاصلہ پڑھانا۔ اس کا دور ہونا‬
‫رنان کو ناگوار گزرا جس پہ وہ انک جشت میں اس کو فرنب کرنا ہوا حصار میں فبد کر‬
‫گبا کہ چنہ کی جبا آڑے آگنی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”نمہیں کونی انک نونی ڈھونڈنی جا ہنے علتبا‪ ،‬اس طرح قارغ رہ کے بو بور ہو جاؤ گی۔‬
‫گھر میں ہی کجھ دنکھ لو۔“ آج کاقی دن تغد وہ دوبوں نا سنے پہ انک شاتھ نتتھے تھے۔‬
‫مبکس ئے اس کو جاموش دنکھنے کہا۔ چب سے وہ آنی تھی ا نسے ہی اداس اور بوالنی‬
‫بوالنی تھرنی تھی۔‬
‫مبکس خود تھی کاقی مصروف تھے لبکن دن میں جتبا وفت ہو شکے اس کے‬
‫شاتھ گزار لتنے تھے مگر کھائے کے وفت کوناہی ہو جانی تھی۔‬
‫”میں شوچ رہی تھی کہیں کسی ناس کے ہی نک شاپ پہ جلی جانا کروں۔“ انبا‬
‫بوالہ جتم کرئے وہ شوجنی ہونی بولی کہ مبکس شوچ میں پڑ گنے کہ اس کو ناہر جائے‬
‫د نبا جا ہنے نا نہیں۔‬
‫ُ‬
‫”نلیز اب آپ پہ پہ کہنے گا کہ مجھے حظرہ ہے۔۔“ ان کے شو جنے پہ لتبا خود‬
‫ع‬
‫سے اجذ کرنی ہونی ئےزار انداز میں بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪741 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نہاں اکبلے رہ کے طت یغت میں خڑخڑا ین شامل ہو رہا تھا جس سے وہ خود تھی‬
‫عاخر آجکی تھی۔‬
‫”جائے کون شا گباہ کر دنا میں ئے خو ا نسے لوگوں سے ناال پڑ گبا میرا۔“ ما تھے‬
‫پہ نل لنے وہ شدند کوفت تھرے لہچے میں بولی۔ کبا اس کی زندگی انک عام زندگی نہیں‬
‫ین شکنی تھی۔‬
‫پہ مارنا مرانا‪ ،‬دسمن‪ ،‬اشاشن‪ ،‬گارڈز‪ ،‬مافبا۔۔ پہ شب ک نوں آگبا تھا اس کی زندگی‬
‫میں۔‬
‫”نبگ آگنی ہوں میں اننی زندگی سے۔۔“ اس ئے کھائے سے ہی ہاتھ روک لنے‪،‬‬
‫اب رونا آئے لگا۔‬
‫”شوہر تھی میرا وہ ہے جس سے میں دور تھاگنی تھی شوئے پہ سہاگا میں نبار کر‬
‫ن‬ ‫ب‬ ‫ت‬‫ن‬ ‫چ‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫ھی ہوں اس سے۔۔“ ہاتھ یں تھامے مچ کانبا اس ئے زور سے ل پہ نحا اور‬
‫رونا سروع کر دنا۔‬
‫”علتبا تم دامیر کے مغا ملے میں اننی خزنانی ک نوں ہو رہی ہو وہ انک اچھا لڑکا‬
‫ہے۔۔“ مبکس اس کو رونا دنکھ پرنشان ہوئے اور سمجھائے والے انداز میں بولے۔ خود‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪742 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ سمجھ نہیں نا رہے تھے کہ اس کو کٹسے ستتھالیں وہ۔ اتھی آدھا سچ شا منے آنا تھا۔‬
‫چنہ اور اِ ن کے نارے میں وہ جاننی ہی نہیں تھی۔‬
‫س‬
‫ا ننے رجشار سے آنسوں صاف کرئے وہ تتھلی اور مغذرت کرئے اتھ گنی۔‬
‫اس کو دامیر پری طرح سے ناد آرہا تھا۔ سروع کی رانیں نہت مسکل سے گزری‬
‫تھیں ک نونکہ دامیر کی عادت تھی۔ اس کے ہاتھ کا کھانا ناد آرہا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اگلے دن وہ مبکس سے بوچھ کے ناس کے ہی کونی نک شاپ آگنی تھی۔ اس کا‬
‫دل جاہا کہ کجھ کبانیں لے کے نہی نتتھ کے ناتم ناس کر لبا کرے اور آئے جائے‬
‫لوگوں کو د نکھے گی بو دل نہل جانا کرے گا۔‬
‫نک سبلف جبک کرنی ہونی اس ئے دو نین کبانیں تکالیں۔ سر پہ شکارف‬
‫لنتنے‪ ،‬آنکھوں پہ گالسز لگائے ہوئے تھی اور کبدھے پہ انک نبگ لبک رہا تھا۔‬
‫النیرپری کی طرح نہاں ُنک رنک سنٹ کنے گنے تھے۔ ہر زوق کے مطابق‬
‫نہاں کبابوں کی پرن نب سنٹ تھی۔ وہ شاننٹس قکشن والی شانبڈ پہ تھی۔‬
‫اننی نسبد کی آخری کباب تھی نکڑے جٹسے ہی وہ مڑی کہ اجانک دل زور سے‬
‫دھڑکا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪743 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنک کے آخری کوئے پہ وہ ستنے پہ ہاتھ ناندھے نبک لگا کے کھڑا تھا۔ علتبا‬
‫ئے کجھ گہرے شانس تھر کے خود کے ناپرات پہ قابو نانا۔‬
‫”ہبلو لبل پرنسٹس۔“ اس کے ناس آئے ہی مشکرانی دوسباپہ آواز گونچی۔ علتبا‬
‫ت‬ ‫ُ‬
‫ئے م یکانکی انداز میں آس ناس تظر دوڑانی جٹسے اس کو ھی د کھبا جاہا ہو خو ہر وفت‬
‫ن‬

‫اِ س کے شاتھ رہبا تھا لبکن شاند وہ اکبال ہی آنا تھا۔ سباہ جبکٹ‪ ،‬سباہ چئیز۔ الپرواہ سے‬
‫ن‬
‫ما تھے پہ نکھرے نال اور گالسز کے ننجھے چھنی گرے سرد آ کھیں۔‬
‫ُ‬
‫”قکر نہیں کرو وہ نہیں آنا‪ ،‬میں ا ننے القاظ کا تکا ہوں تم دو ماہ نک اس کو‬
‫نہیں دنکھ ناؤ گی۔“ رنان ستنے سے نازو ہبائے اس کی طرف آنا خو کاؤنیر کی طرف جا‬
‫رہی تھی ناکہ کبابوں کی نتمنٹ کر شکے۔‬
‫رنان کی نات ستنے اس کے دل میں انک تھانس سی جتھی‪ ،‬جلش سی نبدا ہونی‬
‫کہ وہ تھی شاتھ آجانا کم از کم اس کو دنکھ بو شکنی تھی نا۔‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫ف‬
‫اور دو ماہ۔۔ ا ف ا ھی کتبا وفت پڑا تھا۔ ضرف دو قنے گزرے ھے اور مزند‬
‫کتنے ہقنے ناقی تھے۔‬
‫”کبا وہ پہ وفت گزرئے کا شدت سے ان یطار کر رہی تھی ناکہ دامیر کے ناس جا‬
‫شکے؟“ اس ئے خود سے شوال کبا تھر جبال کو چھبک گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪744 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ نتمنٹ کرئے لگی چب رنان ئے انبا کارڈ کاؤنیر پہ رکھا۔‬


‫”دور ہو لبکن ہماری زمہ داری ہو۔“ رنان کے القاظ جبائے ہوئے تھے‪ ،‬علتبا‬
‫ل‬‫ن‬
‫ئے چی سے سر چھ یکا۔‬
‫ن‬
‫”ہماری! جس کی ہوں اس کو قکر تھی نہیں ہو گی میری۔“ وہ چی سے بولی کہ‬
‫ل‬
‫رنان ئے آپرو احکائے۔‬
‫”انبا جاننی ہو دامیر کو؟“‬
‫وہ مشکراہٹ لنے بوچھنے لگا‪ ،‬عام مشکراہٹ نہیں تھی… طیزپہ تھی‪ ،‬جبلنجبگ‬
‫تھی۔ جٹسے وہ اس سے اگلوانا جاہبا ہو۔‬
‫”ہاں نہت زنادہ جاننی ہوں‪ ،‬میں جاننی ہوں وہ شکون میں نہیں ہے‪ ،‬پڑپ رہا‬
‫ہو گا لبکن میں جاہنی ہوں وہ پڑئے ک نونکہ اس ئے میری فبلبگز کا مزاق نبانا۔“ رنان‬
‫کی نات پہ وہ خود سے کہنے لگی۔ رنان اس کی طونل جاموسی پہ مشکرا دنا جٹسے وہ اس‬
‫کی شوچ نک رشانی کر حکا ہو۔‬
‫کاؤنیر سے کبابوں کا نبگ نکڑئے علتبا نک شاپ سے تکلی‪ ،‬رنان اس کے شاتھ‬
‫ہی تھا۔ رنان ئے اس کے لنے اننی گاڑی کا دروازہ کھوال علتبا نبا کونی نحث کنے نتتھ‬
‫گنی۔ گارڈز کو رنان وانس تھنج حکا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪745 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ت‬ ‫ہ‬‫ن ن‬
‫ن‬
‫جس دن وہ ا لی چی ھی رنان ئے اس سے وعدہ کبا تھا کہ وہ جتبا وفت‬
‫س‬
‫جاہے لے شکنی ہے شب ھنے یں کن دامیر اس کو سی صورت یں ھوڑئے‬
‫چ‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ک‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫ج‬‫م‬
‫واال تھا جتھی علتبا ئے دو ماہ نک کا وفت لبا تھا کہ وہ نہاں سے جانا جاہنی تھی‪ ،‬اس‬
‫کی شاری نادیں نازہ تھیں۔ وہ فباد نامی انک انشا کانبا جتھ گبا تھا خو جشم میں آدھا‬
‫ن نوشت تھا۔ ناہر تکا لنے میں تھی تکل یف اور اس کو چھوئے سے تھی تکل یف۔‬
‫ک‬‫ن‬ ‫ل‬ ‫ُ‬
‫فباد کے فصے کو ناد کرنا ان شب از نت ناک محات کو ا ننے شا منے د ھنے کے‬
‫ُ‬
‫میرادف تھا۔ دامیر کا اس سے شادی کرئے کا مقصد ہی فباد نک نہنجبا تھا۔ اس کے‬
‫شادی کرئے کا انک مقصد تھا اور پہ نات کتنی تکل یف دہ تھی۔‬
‫”کٹشا جا رہا ہے نہاں شب؟“ ڈران نو کرئے رنان ئے پرم لہچے میں بوچھا۔‬
‫علتبا ئے اس کی پہ پرمی نہلے کتھی محسوس نہیں کی تھی پہ ہی پہ انداز اس‬
‫کے مزاج کو حصہ تھا۔ جاننی تھی کہ وہ اس کو غیر آرامدہ محسوس نہیں کروانا جاہبا‬
‫تھا۔‬
‫”تھبک ہے شب۔“ وہ نس انبا ہی کہہ نانی۔‬
‫م‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ُ‬
‫”کم رونا کرو اس کی ناد یں‪ ،‬اسے لوم ہوا بو نہاں مزند انک ھی دن یں‬
‫ہ‬ ‫غ‬ ‫م‬
‫پرداشت نہیں کرے گا۔“ وہ شا منے دنکھ رہا تھا لبکن علتبا اس کی نات پہ خونک‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪746 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گنی۔ اس ئے نامحسوس انداز میں انبا مونانل تکاال اور چھولی میں تھوڑا شا آگے کرئے انبا‬
‫چہرہ دنکھنے لگی کہ رنان کو کٹسے مغلوم ہوا وہ رونی تھی۔ ئےشاچنہ ہاتھ ا ننے چہرے‬
‫نک گبا۔ شوجا ہوا تھا۔ آنکھوں کے ن نوئے تھی سرخ تھے۔‬
‫”تم نہاں ک نوں آئے ہو؟“ مونانل وانس رکھنے اس ئے اننی بوجہ رنان کی طرف‬
‫کی۔ رنان ئے انک مشکرانی تظر اس پہ ڈالی۔‬
‫”زنادہ نہیں مشکراؤ‪ ،‬نمہارے مشکرائے سے مجھے مزند ڈر لگے گا۔“ علتبا تگاہیں‬
‫ت ھیرنی ہونی بولی کہ اب کی نار وہ انبا قہقہہ ضیط کر گبا۔‬
‫”کجھ زنادہ ہی وجشت تھبال رکھی ہے میری ان آنکھوں ئے۔۔“ وہ فجرپہ بوال۔‬
‫”میں نس تم سے ملنے آنا تھا‪ ،‬نمہیں کجھ تھی جا ہنے ہو نالچھحک نبا شکنی ہو۔ اگر‬
‫وانس جائے کا دل کرے نب تھی۔“ رنان کا لہحہ اب سنجبدگی اجتبار کر گبا تھا‪ ،‬اس‬
‫کی مشکرائے والی نات پہ وہ فوری عمل کر گبا تھا۔‬
‫”مجھ سے ملنے۔۔۔!“ علتبا چیران ہونی‪ ،‬ئےتفتنی سی تھی۔‬
‫”تم فتملی ہو۔“ وہ کبدھے احکا کے بوال کہ علتبا اس کے تغد کجھ کہہ نا نانی‬
‫ن‬
‫نس رنان کو دنکھنے لگی۔ نلونڈ نال‪ ،‬گرے آ یں وہ ر ین خو صورت مرد تھا۔۔ ئے‬
‫ت‬ ‫س‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫انبہا خوتصورت۔ مرد خوتصورت نہیں ہتبڈسم ہوئے ہیں لبکن رنان کے لنے خوتصورت‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪747 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬


‫لقظ نہیر تھا۔ اس کی آ یں‪ ،‬سجر نجھانی یں وہ ھی ظرناک کہ انک ل سے زنادہ‬
‫ح‬ ‫ھ‬ ‫ھ‬
‫ان میں دنکھبا ڈر میں اصاقہ کرنا تھا۔‬
‫علتبا کو ئےشاچنہ نہلی مالقات ناد آنی۔ وہ نس جاموش تگاہوں سے دنکھبا تھا‬
‫جٹسے سیر انبا شکار دنکھ رہا ہو۔ چہرہ نالناپر۔سباٹ۔ قد میں وہ دامیر کے پراپر تھا۔‬
‫ئےاجتباری میں تظر اس کے ہاتھ پہ گنی۔ وہی انت نق انگوتھی خو دامیر تھی نہن‬
‫کے رکھبا تھا۔ ملنی جلنی تھی۔‬
‫”آنی گٹس نمہیں دامیر زنادہ نسبد ہے۔۔“‬
‫رنان کی آواز اس کو جبالوں سے چھبک کے ناہر النی کہ وہ الجھن سے دنکھنے‬
‫لگی۔ وہ تھر مشکرانا تھا ا نسے جٹسے علتبا کی خوری نکڑی ہو۔ انشا ہی ہوا تھا۔‬
‫وہ اِ س کا دنکھبا بوٹ کر حکا تھا نتھی دامیر کا نام لنے خوٹ کرنا بوال۔‬
‫ت ُ‬ ‫ُ‬
‫”نسبد! چھونا لقظ تھا۔۔ وہ دامیر کی لک پہ مرنی ھی۔ اس کا نازو فولڈ کر کے‬
‫کھانا نبانا نہت جاذب تھا۔ شاند نب رنان اس کے شا منے کجھ تھی پہ لگبا ہو جتبا وہ‬
‫ل‬ ‫ک‬‫ن‬
‫کھانا نبائے وفت اپرنک نو لگبا تھا۔“ علتبا کھڑکی سے ناہر د نی شو جنے گی۔‬
‫ھ‬
‫”آہ دامیر۔۔“‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ُ‬
‫آ جا کے اس کی شوچ اسی پہ م ہونی ھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪748 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”سبا ہے کہ اشاشن کی ن نوی روتھ کے گنی ہونی ہے۔“‬
‫نئیر فولڈ کرئے فباد ئے نتبل پہ ر کھے اور کمرے میں آنی ڈرنبا کو دنکھنے بوال۔‬
‫”اچھا موفع ہے تم اسے اشاشن کر شکنی ہو اتھی۔۔“ چئیر پہ نتتھنے اس ئے‬
‫نانگ پہ نانگ چمانی۔‬
‫”فباد تم میرے نانا کے لنے کجھ تھی نہیں کر رہے۔۔“ ڈرنبا ئے انک شکوہ‬
‫کباں تگاہ اس پہ ڈالی‪ ،‬اس کے ناپ کو عانب ہوئے کاقی دن ہو گنے تھے۔‬
‫”دسمن نالبا آشان نہیں ہونا ئےنی۔۔ ان کے وار کا ان یطار تھی کرنا ہونا ہے کہ‬
‫کب وہ کمزوری نکڑیں اور ہمیں طافت ور ہوئے کا موفع تھی دیں۔“ فباد سنجبدگی سے‬
‫بوال کہ ڈرنبا ئے نحوت سے سر چھ یکا۔‬
‫”لبکن تم طاف نور ہوئے کے نحائے البا مزند کمزور پڑ رہی ہو۔“ وہ مابوسی سے تقی‬
‫میں سر ہال کے بوال۔‬
‫”مجھے میرے دسمن کی کمزوری مل گنی ہے‪ ،‬بو تم انک اچھی اشاشن کی طرح‬
‫اس کو مارئے جاؤ گی اب۔۔“ فباد اس کے فرنب آنا ہوا بوال اور اس کا رجشار تھ یکا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪749 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے انک ڈنل کے لنے جانا ہے۔ نب نک امبد ہے تم میرا کام کر لو گی۔‬
‫ورپہ میری رنگتنی کا شامان بو میں و نسے تھی ال رہا ہوں۔“ جبانت سے آنکھ دنانا ہوا وہ‬
‫بوال۔‬
‫ڈرنبا کا چہرہ عصے سے سرخ ہوئے لگا وہ اس کو دوسری لڑکباں الئے کی دھمکی‬
‫دے رہا تھا۔‬
‫ڈرنبا کو اب انلی کے لنے تکلبا تھا ناکہ وہ علتبا سے انک نار مالقات کر لتنی۔ وہ‬
‫وہاں مبکس کے ناس تھی بو ضرور علتبا کی ناداشت وانس آجکی تھی عین ممکن تھا کہ‬
‫وہ ڈرنبا کو انبا دوشت ہی ماننی ہو گی۔‬
‫انبا نبگ تکالنی وہ انلی جائے کی نباری کرئے لگی۔۔۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫رنان ئے گاڑی نتھرنلی روش پہ نارک کی‪ ،‬خود ناہر آنا اور علتبا کی شانبڈ کا دروازہ‬
‫کھوال‪ ،‬کبابوں کا نبگ اس ئے نجھلی سنٹ پہ رکھا تھا۔‬
‫”ہم نہاں ک نوں آئے ہیں؟“‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬
‫علتبا نتھرنلی جگہ د نی ہونی بو ھنے گی۔۔ ھروں کی ڈ لوان نی ھی چہاں نچے‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ل‬ ‫چ‬ ‫ھ‬
‫سمبدر کا نانی نکرا رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪750 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”و نسے ہی کجھ نازی ہوا ہو جائے گی اور کجھ نانیں تھی۔“ رنان جلبا ہوا انک‬
‫ن ن‬
‫نتھر پہ نتتھ گبا۔ علتبا تھی اس کی د کھا د ھی شانبڈ پہ تھ نی۔ ہوا کاقی ا ھی ل‬
‫ج‬ ‫چ‬ ‫گ‬ ‫ت‬‫ن‬ ‫ک‬

‫رہی تھی اور دھوپ تھی کاقی تھلی لگ رہی تھی۔ علتبا کو نہاں آنا اچھا لگ رہا تھا۔‬
‫ا ننے دبوں تغد اس آب و ہوا ئے زہن پہ اچھا اپر ڈاال تھا۔‬
‫رنان تھی اس وفت زہر نہیں لگ رہا تھا۔‬
‫”تم ئے کبا شوجا دامیر کے نارے میں؟“ رنان ئے نات سروع کی۔ وہ دوبوں‬
‫انک دوسرے کو نہیں دنکھ رہے تھے۔ تگاہیں شا منے لہرانی لہروں پہ تھیں۔‬
‫”مجھے نہیں مغلوم۔۔“ وہ مدھم شا بولی۔‬
‫”اچھی نات ہے۔۔ مطلب تم اس کے مغا ملے میں ئےنس ہو۔“ رنان سمجھ‬
‫کے سر ہالنا ہوا بوال‪ ،‬علتبا ئے خونک کے اس کو دنکھا۔ وہ ئےنس تھی۔ چھوڑئے کا‬
‫شوجنی بو دل دہل جانا تھا کحا کے شاری عمر اس سے دور رہبا۔‬
‫”علتبا ہم لوگ اِ س ڈارک ورلڈ سے ہٹ کے اننی فتملی کی کئیر کرئے ہیں۔‬
‫نہت سی فتملیز ہیں خو خوش ہیں۔ ہم ناہر حظرناک ہو شکنے ہیں لبکن گھر میں‬
‫نہیں۔۔ ک نونکہ اب تم‪ ،‬چنہ ہماری فتملی ہو۔ مرد ہمٹشہ دو شانبڈ رکھبا ہے‪ ،‬نلخ‪ ،‬سنجبدہ‬
‫خو وہ ا ننے کام میں دکھانا ہے لبکن چب وہ گھر آنا ہے بو اس کا انداز ندل جانا ہے‪،‬‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪751 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ انک نبار کرئے واال شوہر‪ ،‬ناپ‪ ،‬تھانی ہونا ہے۔۔ تم ہمارے شاتھ رہ کے نارمل‬
‫زندگی گزار شکنی۔“‬
‫رنان تھہرے لہچے میں نات کرنا رشان سے اس کو سمجھا رہا تھا۔ علتبا اس کو‬
‫دنکھ رہی تھی۔‬
‫”میں انسی جگہ نہیں رہ شکنی چہاں ہر وفت مجھے مرئے مرائے کا خوف ہو۔“‬
‫علتبا گہرہ شانس ت ھر کے بولی۔‬
‫”مجھے سروع سے ہی تفرت ہے اس شب سے۔ کس کو نہیں ہو گی؟ ہر عام‬
‫انشان نہی جاہے گا کہ وہ انک عام زندگی گزارے۔ شوہر ہو فتملی ہو جس کے مرئے‬
‫کا خوف سر پہ مبڈالنا پہ رہے۔“ علتبا ا ننے ہاتھوں پہ تظریں چمائے بولی‪ ،‬اننی ونڈنگ‬
‫رنگ کو وہ مشلشل گھما رہی تھی۔‬
‫”موت کا کبا ہے۔۔ خوف پہ تھی ہو بو مرنا ہی ہے۔۔ اور ہمیں اننی انسی زندگی‬
‫سے تفرت نہیں ک نونکہ ہم نبدا ہی نہی ہوئے ہیں۔ پہ زندگی ہم ئے نہیں جنی۔ اور‬
‫تم۔۔!“ رنان ئے کہنے وففہ لبا اور اس کی جانب دنکھا۔‬
‫”عام نہیں ہو‪ ،‬پہ شب نمہارے نس میں نہیں ہے ک نونکہ پہ زندگی تم ئے خود‬
‫ا ننے لنے نہیں لی۔۔ تم خود انک مافبا پرنسٹس ہو علتبا۔ تم جاہ کے تھی اس شب‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪752 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫سے دور نہیں جا شکنی۔“ رنان ئے اس کی آنکھوں میں دنکھنے تھہر کے کہا کہ رنان‬
‫ن‬
‫ئے اننی کہی نات کا ادراک ہوئے علتبا کی آنکھوں میں شاک کی ک یق نت د ھی‪،‬‬
‫ک‬

‫چہرے پہ الجھن در آنی۔‬


‫”مافبا پرنسٹس!!“ وہ اسبہزاننہ بولی جٹسے اس کی نات کو مزاح کا رنگ دنا ہو۔‬
‫”بو آر بورن بو نی آ مافبا پرنسٹس!“‬
‫)‪(You’re born to be a MAFIA PRINCESS‬‬
‫رنان کے ہونٹ کے کبارے مسکائے تھے‪ ،‬علتبا کے دماغ میں کلک ہوا۔‬
‫دامیر کا پرنسٹس کہبا۔۔ وہ اس کو مافبا پرنسٹس کہہ کے محاظب کرنا تھا۔‬
‫”اور پہ شب کٹسے ہے؟ ک نونکہ میں بو کسی ا نسے نبک گراؤنڈ سے نہیں‬
‫وافف۔۔“ علتبا الپرواہی سے بولی اس کو اتھی تھی رنان کی نات پہ تفین نہیں آنا‬
‫تھا۔ شاند وہ اس کو خوامحوا اننی دنبا سے خوڑئے کے لنے کہہ رہا تھا ناکہ وہ نبا اغیراض‬
‫کنے ان کے شاتھ جا شکے۔‬
‫”تم اس وفت جس کے گھر میں تھہری وہ انلی کے ڈان کا گھر ہے لبل‬
‫پرنسٹس۔۔“ رنان کی آنکھوں میں چمک اتھری جٹسے پہ نانیں علتبا کو نبائے سے اس‬
‫کو مزا آرہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪753 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”انلی کا ڈان۔۔“‬
‫القاظ دہرائے علتبا کو اننی رپڑھ کی ہڑی میں سٹسباہٹ سی محسوس ہونی۔‬
‫”کتھی مبکس سے بوچھا کہ نمہارا ناپ کون تھا؟“ رنان اب نہنے نانی کو دنکھنے لگا‬
‫جبکہ علتبا کا دماغ انلی کے ڈان پہ رک گبا وہ مبکس تھے۔۔ اتکل مبکس!!‬
‫نہاں کی تھلی لگنے والی دھوپ اب آنکھوں میں جتھنے لگی تھی‪ ،‬ہوا خو شکون دے‬
‫رہی تھی اب سرد ہو گنی تھی۔ پہ شب انک مزاق تھا اس کے شاتھ۔۔‬
‫خو تھی ہونا آنا تھا وہ اتقاق نہیں تھا۔ رنان ئے تھبک کہا تھا اس ئے نہیں جنی‬
‫تھی پہ زندگی‪ ،‬وہ شب اسی ڈارک دنبا میں نبدا ہوئے تھے جس سے وہ تھاگ نہیں‬
‫شکنے تھے۔‬
‫”کون تھا میرا ناپ؟“ علتبا ئے ا ننے آپ کو پہ کہنے سبا۔ ہوا اب سرد سے نبگ‬
‫ہو رہی تھی۔‬
‫”تم انک انلی کے ڈان کی نتنی ہو جس کی جگہ اب مبکس ئے ستتھالی ہے۔“‬
‫رنان ئے اس کی طرف ہوئے تھوڑا سرگوسی میں کہا کہ علتبا کے چہرے پہ ئےتفتنی‬
‫ہی ئےتفتنی تھبلی تھر صدمہ‪ ،‬صدمے سے تھر خوف۔۔ اس کی آنکھوں کی نبلباں‬
‫تھبل گنیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪754 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”انلی کے ڈان کی نتنی‪ ،‬ڈنٹس وانی بو آر اے مافبا پرنسٹس۔۔ لبل علتبا۔“ رنان‬
‫کی کہی نات کا انکشاف ہوئے علتبا ئے ئےشاچنہ اننی گردن کو چھوا۔۔ شانس مزند‬
‫نبگ ہوا۔‬
‫”تم پہ شب ک نوں نبا رہے ہو؟“ علتبا ئے مدھم لہچے میں بوچھا‪ ،‬رنان جانبا تھا‬
‫ُ‬
‫اس کے لنے پہ شب شاک ہو گا۔ علتبا کے لنے پہ شب جانبا ضروری تھا اگر اس کو‬
‫ان کے شاتھ زندگی گزارنی ہی تھی بو آدھا سچ اور آدھا چھوٹ ک نوں۔‬
‫”ناکہ نمہیں شب مغلوم ہو تم کون ہو۔ تم سے نہت سی نانیں چھبانی گنی‬
‫تھیں۔ ہم سمجھ شکنے ہیں کہ مبکس نمہیں اس شب سے دور رکھبا جا ہنے تھے لبکن‬
‫نمہارا اکبڈمی جائے کا ف یصلہ ان کے لنے نہت شاکبگ تھا علتبا۔۔ وہ نہیں جان نائے‬
‫کہ نمہیں اکبڈمی کا کٹسے مغلوم ہوا۔ نہی سے شب دونارہ سروع ہوا تھا۔۔“ رنان ئے‬
‫ن‬
‫اس کو دنکھنے کہا۔ تعنی کجھ اور تھی تھا چھبا ہوا۔ اس کی آ یں م ہوئے یں۔‬
‫گ‬‫ل‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫”اکبڈمی۔۔“ علتبا کے لب ہلے۔‬


‫”مجھے لڑکی ملی تھی خو اکبڈمی میں شاتھ تھی میرے‪ ،‬اس ئے سچٹشٹ کبا تھا۔۔‬
‫ڈرنبا۔“ علتبا ئے کا نتنے ہوئے کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪755 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اور تم پہ جاننی ہو کہ ڈرنبا فباد کی فبانسی ہے۔۔۔؟“ رنان کی نات پہ علتبا کا‬
‫سر انبات میں ہال‪ ،‬وہ جاننی تھی لبکن تھولی ہونی تھی۔ اس شب میں اِ س ئے خود کو‬
‫تھٹشانا تھا۔‬
‫ع‬ ‫ج‬‫م‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫ہ‬
‫”فباد! ڈرنبا کو مجھ نک اسی ئے نحانا۔ وہ ا ھی ھی ھے مارنا جاہبا ہے۔“ لتبا‬
‫ہولے سے بولی رنان سر ہالگبا وہ اس کی نابوں کی نانبد کر رہا تھا۔‬
‫س‬ ‫ُ‬
‫”وہ نمہیں ک نوں مارنا جاہبا ہے؟ مبکس سے اس کی د نی تغد یں ہے لتبا‪،‬‬
‫ع‬ ‫م‬ ‫م‬
‫م‬
‫نہلے وہ تم نک نہنجبا جاہبا ہے۔۔“ رنان ئے انبا کمل ُرخ اس نک کبا۔‬
‫”فروا ئے نبانا تھا۔۔ تھر میں شب تھول گنی۔ مبکس ئے میرا پرنتمنٹ کروانا‬
‫تھا۔ میں شانبکئیرشٹ کے ناس جانی رہی۔۔“ علتبا خود تھی شب نانیں اب خوڑ جکی‬
‫تھی۔ فروا ئے اس کو نبانا تھا‪ ،‬ان لوگوں پہ چب دونارہ چملہ ہوا تھا فروا ئے نبانا تھا۔‬
‫فباد ک نوں اس کو مارنا جاہبا تھا اور اسی چملے کے دوران فروا عانب ہونی تھی۔ وہ عانب‬
‫نہیں ہونی تھی۔‬
‫”فروا کہاں ہے رنان؟“ علتبا ئے ڈرئے ہوئے بوچھا۔ اس کا دل زوروں سے‬
‫دھڑکا تھا اگر کونی بورا سچ جانبا تھا بو وہ فروا کے تغد علتبا تھی۔ مبکس ئے نبانا کہ فروا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪756 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ناکسبان تھی لبکن نہیں…‪ .‬وہ وہاں کٹسے ہو شکنی تھی۔۔ رنان جانبا تھا کہ وہ فروا کا‬
‫ضرور بو چھے گی اور فروا کا مزند چھبا کے رکھبا تھی اس کو دھوکا د نبا تھا۔‬
‫”وہ نہیں ہے علتبا!“ رنان ئے اس کی آنکھوں سے نہنے آنسوں د نکھے۔‬
‫”وہ مار دی گنی تھی۔“ علتبا کو اب لگا کہ اس کا شانس چھین لبا گبا تھا۔ اس‬
‫کے ہاتھ پری طرح کا نتنے لگے۔ رنان نبا کسی چھحک کے اس کے فرنب ہوا اور اس‬
‫کے گرد نازو ناندھے۔‬
‫”نمہیں مضنوط نتبا ہے۔۔ پہ شب آشان نہیں تھا سہبا۔“ علتبا کو وافعی سہارہ‬
‫جا ہنے تھا۔ رنان جاہے جتبا تھی اس کو حظرناک لگبا تھا لبکن اس وفت وہ واجد سہارہ‬
‫تھا خو اتھی اس کو کمفرٹ دے شکبا تھا۔‬
‫وہ نتبک ہو رہی تھی۔ اس کی شانسیں گہری اور نبگ ہو رہی تھیں۔ رنان ئے‬
‫اس کی کمر سہالنی اور گردن کے نجھلے حصے پہ انگوتھا ت ھیرئے لگا۔‬
‫”وہ میری وجہ سے ماری گنی۔۔“ اس کی رندھی آواز رنان کے کابوں سے نکرانی۔‬
‫اس کے ہاتھوں کی لرزش پڑھ گنی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪757 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہیں! اس کی زندگی ہی اننی تھی۔“ رنان پرمی سے بوال۔ وہ اس کو روئے دے‬


‫ُ‬
‫رہا تھا ناکہ وہ شب انک نار ہی انبا عبار تکال شکنی۔ رنان کو ہی پہ شب نبانا تھا اور اس‬
‫ئے نبا دنا۔‬
‫علتبا اس کے نازوؤں کے حصار میں رونی رہی‪ ،‬کتبا کجھ تھا خو اس کے شا منے‬
‫ہوئے تھی اوچھل تھا۔ اس کی عارصوں پہ جٹسے آنسوؤں کا سبالب آگبا تھا۔ رنان اس‬
‫کی عزت کرنا تھا۔ وہ اس کی فتملی کا حصہ تھی اور کسی کو تھی تکل یف میں دنکھبا‬
‫انہیں گوارہ نہیں تھا۔ ا ننے تھوڑے عرصے میں ان کی زندگباں ندل گنی تھیں۔‬
‫س‬
‫وہ چب تتھلی بو رنان ئے نازو ہبائے‪ ،‬علتبا ئے ششکی تھرئے اس کو مشکور‬
‫تگاہوں سے دنکھا۔ رنان ہلکا شا مشکرانا۔‬
‫”میں نمہیں شاتھ جلنے کو نہیں کہوں گا۔ وہ نمہاری مرضی ہو گی تم چب تھی‬
‫نبار ہو جائے کے لنے مجھے نبا شکنی ہو۔“ رنان ئے اس کو پرمی سے کہا کہ علتبا‬
‫جاموش رہی لبکن آنسو جاری رہے۔‬
‫”آجاؤ اب ہمیں نہاں سے جلبا جا ہنے۔۔“ رنان ئے کھڑے ہوئے کہا‪ ،‬کاقی‬
‫دپر وہ دوبوں نتتھے رہے اور جاموسی کا دوراننہ جلبا رہا۔ علتبا کو آئے ہوئے پہ جگہ‬
‫نہت تھانی تھی اب نہی جگہ اس کو نبگ سی محسوس ہو رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪758 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا تھی جائے کو اتھی۔ رنان ئے گاڑی کا دروازہ کھوال۔ آس ناس انک طاپراپہ‬
‫تگاہ دوڑانی۔‬
‫ڈران نونگ سنٹ ستتھا لنے اس ئے گاڑی ربورس لی۔ خو آج حق یفت مغلوم ہونی‬
‫تھی وہ نہت نلخ تھی۔ صنح نک وہ کتنی نابوں سے انحان تھی اور خود کو انک عام‬
‫ت‬ ‫ص‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ن‬
‫انشان ھنی ھی خو اس دنبا میں ھٹس گنی ھی۔ آ ل میں وہ ا ہیں کا حصہ ھی‬
‫خو عام زندگی گزارنی آنی تھی اور شاند اب شب نہلے جٹشا کتھی پہ ہو۔‬
‫”پہ شب مجھے تم ئے ہی ک نوں نبانا؟“ گاڑی مین روڈ پہ آنی چب علتبا ئے‬
‫آہشنہ آواز میں رنان کو دنکھنے بوچھا۔‬
‫”ک نونکہ دامیر نمہیں تکل یف میں نہیں دنکھ شکبا‪ ،‬نمہیں رونا دنکھ وہ خود نتبک ہو‬
‫جانا اور میں ۔۔۔اس کو نتبک نہیں دنکھ شکبا۔ ان شارٹ میں ئے دامیر کی مسکل‬
‫آشان کر دی۔“ رنان الپرواہی سے کبدھے احکا کے بوال۔‬
‫دامیر میں وافعی خوصلہ نہیں تھا کہ وہ فروا کے نارے میں اس کو کجھ تھی‬
‫نبانا۔ علتبا کو رونا دنکھ وہ خود ہڑپڑا شا جانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪759 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا کو آج نہلی نار رنان اچھا لگا تھا۔ وہ تھبک کہبا تھا ان کی دو شانبڈ تھیں۔‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬
‫انک خو وہ ا ننے کام میں دکھائے دوسری وہ خو آج علتبا ئے رنان کی د ھی ھی۔ وہ‬
‫پروا کرنا تھا۔‬
‫ُ‬
‫”فروا۔۔۔“ اس کی موت انک دھحکا تھی علتبا کے لنے۔ اگر اس یں زرا ھی‬
‫ت‬ ‫م‬
‫ہمت نبدا ہونی بو وہ فباد کو مار د ننی نارہا مارنی۔۔ پڑنا کے مارنی۔‬
‫جس ئے اس کا تھانی ہوئے ہوئے اس کی دوشت کو اننی ہوس کا نشاپہ نبانا‬
‫تھا۔ وہ پہ نات زنان پہ النی ہونی تھی رنان کو پہ نبا نانی۔ اس میں خوصلہ نہیں تھا۔‬
‫وہ اس شب کی زمہ دار تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫”سر انک شاکبگ ن نوز ہے۔۔“‬


‫ڈرنک کی آواز دامیر کے کابوں سے نکرانی۔ اس وفت وہ شک نورنی روم میں موخود‬
‫تھا۔ علتبا کی لوکٹشن ننچ کے کبارے پہ شو ہو رہی تھی رنان تھی شاتھ تھا اس کے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪760 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”علتبا متم کا انک تھانی ہے سر…‪..‬اور وہ فباد جاکم ہے۔“ ڈرنک ئے نات کہی‬
‫تھی نا کونی تم تھوڑا تھا‪ ،‬دامیر کے اعصاب پہ جٹسے انک چھ یکا تھا۔ اس کے ما تھے پہ‬
‫نل ننے اور اننی جگہ سے کھڑا ہوا۔‬
‫”شوزین اور ڈرنبا کی کال رتکارڈ ہے سر۔۔ ڈرنبا ئے جال ہی میں شوزین سے‬
‫راتطہ کبا تھا جس میں وہ ا ننے ناپ کی گمشدگی کا نبا رہی تھی۔ آپ کے شک کے‬
‫مطابق شوزین ئے ڈرنبا سے آپ کا زکر کبا۔۔“ ڈرنک ئے انک نتبلٹ دامیر کے آگے‬
‫کرئے کہا جس میں وانس رتکارڈنگ شو ہو رہی تھی۔‬
‫”شوزین ئے زکر بو الزمی کرنا ہی تھا۔۔“ دامیر کی چیرت اتھی تھی کم نہیں ہو‬
‫رہی تھی۔ نتبلٹ کو ہاتھ میں تھامے اس ئے انک رتکارڈنگ نلے کی۔‬
‫ڈرنبا کی پرنشان آواز اتھری‪ ،‬وہ ا ننے ناپ کا نبا رہی تھی اصل مقصد ڈرنبا کا‬
‫کال کرئے کا علتبا کے نارے میں نات کرنا ہی تھا کہ شوزین کو اس کی اور دامیر‬
‫کی شادی کا علم تھا تھی نا نہیں۔‬
‫شوزین ئے اس کو مت نت خواب دنا پہ تھی نبانا کہ وہ فباد کے نارے میں کاقی‬
‫م‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫گ‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ح‬ ‫م‬
‫سس ھے۔ ا لی نات دامیر کو خوتکائے والی ھی۔ ڈرنبا شوزین سے ناگوار ہچے یں فباد‬
‫اور علتبا کا زکر کر رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪761 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں خوامحوا تھٹس گنی ہو۔ فباد انک نمیر کا مطلنی انشان ہے۔ مجھے اننی نہن کو‬
‫مارئے کے لنے شاتھ رکھا ہے انبا کونی ندلہ لتنے کے لنے۔ میں مج نور ہوں آالننٹس کی‬
‫وجہ سے ورپہ شب سے نہلے بو اسی کو اڑانی۔۔“‬
‫جائے وہ کن اجشاشات کے زپر شوزین سے تھڑاس تکال رہی تھی پہ شوچے‬
‫تغیر کہ شوزین پہ نات ضرف ا ننے نک نہیں رکھنے والی تھی۔‬
‫”ہم ڈرنبا کو اسیعمال کر شکنے ہیں ونل۔۔۔“ دامیر کو نلس بوان نٹ مال ڈرنک‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ئے نا ھی سے اس کو دنکھا۔‬
‫”کٹسے سر؟“‬
‫”وہ انبا ناپ جاہنی ہے خو عانب ہے اور فباد اس میں ڈھبل دکھا رہا ہے۔۔ ہم‬
‫اس کا ناپ ڈھونڈ کے النیں گے خو نہلے سے ہی ہمارے ناس ہے اور تھر اس پہ‬
‫ہمارا اجشاس ہو گا جس کی فتمت وہ ادا کرے گی۔“ دامیر نتبلٹ اس کو وانس تھمانا‬
‫ہوا بوال۔ ڈرنک سبانسی انداز میں دامیر کو دنکھنے لگا۔‬
‫”وفت بو پرناد ہم کرئے نہیں جاہے وہ کسی کو کڈن نپ ہی ک نوں نا کرنا ہو۔“‬
‫دامیر سباٹ انداز میں بوال۔‬
‫لوسین کو اغوا کرئے کا قاندہ تھا اور اس کا اب وفت آنا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪762 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”رنان کو اس کال کے نارے میں اتقارم کر دو۔۔ اور ڈرنبا نک چیر نہنحاؤ کہ‬
‫اسے صجنح لوگوں سے مدد لتنی جا ہنے۔“ دامیر انبا کہہ کے انبا مونانل نکڑے سبک نورنی‬
‫روم سے ناہر تکال۔ اس کا ُرخ گودام کی طرف ہوا۔‬
‫”فباد علتبا کا تھانی تھا۔۔۔“‬
‫ت‬
‫اس کی رگیں تھو لنے لگیں‪ ،‬آنکھوں میں اسیغال نبدا ہوا‪ ،‬چیڑے سجنی سے ھتنچ‬
‫چ ت ُ‬
‫لنے۔ اس کے نارہا بو ھنے پہ ھی اس ئے پہ نات دامیر سے چھبانی۔‬
‫اس ئے گودام کے لوہے کے گنٹ پہ ہاتھ رکھا چب مونانل ن نپ ہوا۔‬
‫کانیرنکٹ مٹسج۔۔‬
‫سجنی سے دانت نٹسنے اس ئے وہ کانیرنکٹ انکست نٹ کر لبا۔۔ گودام میں داجل‬
‫ہوئے اس ئے سرٹ انارے تھتبکی۔ وہاں موخود نتبل کے فرنب گبا اور شقبد کیڑا‬
‫اتھائے اس کو ہاتھ پہ لتنتنے لگا۔ اندر انک آگ سی لگی تھی۔ آئے ہی اس ئے انک‬
‫ُ‬
‫زپردشت مکا اس آدمی کے منہ پہ رسبد کبا خو روز نہاں ہوئے کی سزا کاٹ رہا تھا۔‬
‫ئے در ئے وہ اس پہ نار کرنا گبا چب نک وہ ادھ موا پہ ہو گبا۔ اس کی آنکھوں پہ ننی‬
‫نبدھی تھی جبکہ منہ لہو لہان ہو حکا تھا۔ دامیر کی مشلشل مار سے اس کا شانس‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪763 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اکھڑئے لگا تھا۔ اس کا دھبان لوسین کی طرف گبا جس کی جالت کمزور تھی اب۔‬
‫چب سے وہ نہاں تھا اس کی صحت گرنی جا رہی تھی۔‬
‫”نمہاری نتنی میری ن نوی کو مارئے تکلی ہے لوسین۔ پہ جا ننے ہوئے تھی کہ‬
‫دامیر آر کی واتف ہے۔۔“ لوسین کی گردن دبوچے اس ئے سرد لہچے میں کہا۔‬
‫”دامیر آر۔۔۔“ لوسین کے ہونٹ ہلے چب دامیر ئے اس کے چیڑے پہ وار‬
‫کبا۔ عصے سے اس کا شانس تھول رہا تھا۔ کرسی کو تھوکر مارئے وہ عصے سے دھاڑا۔‬
‫”اگر نمہاری نتنی ئے میری ن نوی کا انک نال تھی ناکا کبا بو وہ بو جائے گی اننی‬
‫جان سے تم اگال شانس نہیں لے ناؤ گے۔۔“‬
‫اس کے نالوں کو متھی میں تھرئے ہوئے اس کے چہرے پہ عرانا اور چھبکے‬
‫سے اس کا سر چھوڑا جس سے لوسین کراہ اتھا۔‬
‫نہاں سے تکلنے وہ دوسرے روم میں گبا چہاں محل یف اوزار موخود تھے۔ نارخر‬
‫کرئے والے‪ ،‬چھوئے سے پڑا ہر اوزار خو نارخر کرنا۔‬
‫اس ئے انک نبلٹ نکڑی اور زور سے اس کو نتبل پہ دے مارا۔‬
‫”تم ئے مجھ سے چھبانا فباد کے نارے میں سروع دن سے۔۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪764 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کہنے ہی اس ئے انک زور دار ضرب لگانی جس سے کمرے میں تھاہ کی آواز گونج‬
‫اتھی۔‬
‫”تم ئے مجھ پہ تھروسہ نہیں کبا۔ مشلشل چھوٹ بوال اور میری انک علطی پہ‬
‫سزا دے رہی ہو مجھے۔۔“‬
‫وہ انبا عصہ انار رہا تھا۔ زور دار کاری وار کبا۔ ہاتھ میں نبلٹ لنتنی اور تھر وار‬
‫کبا۔‬
‫اس سے تھی عصہ کم نہیں ہو رہا تھا کہ اس ئے نتبل کو انک تھوکر ماری اور‬
‫بوری فوت سے جالنا۔‬
‫”اگر اس نار فباد ئے تم پہ چملہ کبا بو پرنسٹس میں نمہیں مغاف نہیں کروں گا‬
‫ک نونکہ اس کو موفع تم ئے دنا پہ شب کرئے کا۔۔“ ا ننے دوبوں ہاتھ نتبل پہ رکھنے‬
‫اس تھولے شانس کو نحال کرئے شوجا۔‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


765 | P a g e

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


ِ ‫ش‬

Visit for more novels: www.urdunovelbank.com


‫‪766 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ش‬
‫گبلے نالوں کو لجھائے اس ئے اتھی پرش رکھا ہی تھا مونانل پہ ونڈبو کال آئے‬
‫ن‬
‫لگی۔ نام دنکھنے اس ئے آ یں ھما یں۔‬
‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫آنسر کرئے ونڈبو کا آنشن نبد کر دنا اور مونانل شا منے رکھا۔ رنان کی تصوپر دکھانی‬
‫دے رہی تھی لبکن چنہ کی طرف سے شکرین نلبک تھی۔‬
‫”تم تظر نہیں آرہیں؟“‬
‫رنان ئے الجھ کے کہا۔‬
‫”اندھیرا ہی دنکھو۔۔“ وہ سنجبدگی سے بولی اور پرف نوم اتھائے خود پہ سیرے کبا۔‬
‫”رات تھی تم اندھیرے میں ہی رکھنی ہو اب تھی پہ دنکھوں۔ کتمرہ آن کرو۔“‬
‫رنان ئے سنجبدگی سے غیر سنجبدہ نات کہی کہ چنہ سنتبا اتھی۔‬
‫م‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ہ‬‫م‬‫ن‬ ‫َ‬
‫م‬
‫”شٹ اپ رنان! یں ا نی صول کی کواس کرئے لبا کبا ہے۔“ کرین یں‬
‫اس کو دنکھنے ہوئے وہ سحت لہچے میں بولی۔‬
‫”میں فصول کی نکواس ہی نہیں کرنا‪ ،‬تفول نمہارے فصول کی خرکات تھی کرنا‬
‫ہوں۔ و نسے وانٹ انبا شوٹ نہیں کرنا۔ نلبک ناتھ روب تھی موخود تھا وہاں۔“ رنان‬
‫الپرواہی سے بوال کہ چنہ اس کی دوسری نات شن کے خونکی۔ اس کی تگاہیں ا ننے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪767 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫مونانل شکرین پہ نہیں تھیں وہ کمرے میں موخود کتمرہ دنکھ رہا تھا۔ چنہ ئے‬
‫ئےزار نت سے مونانل کتمرہ آن کبا۔‬
‫”ہاں اب تھبک ہے وہاں سے ان یگل اچھا نہیں تھا۔“‬
‫رنان شکون سے بو لنے ہوئے ا ننے نبڈ پہ نبک لگا گبا۔ چنہ کو اس سے کسی قشم‬
‫کی تعبد نہیں تھی۔ وہ ئےناک قشم کا انشان تھا۔‬
‫”کبا کر رہی ہو؟“ پرشوق تگاہیں اس پہ تکائے ہوئے بوچھنے لگا‪ ،‬چنہ نبا اس کو‬
‫د نکھے ا ننے نازوؤں پہ کجھ لگا رہی تھی۔‬
‫”نتھی اننی شوفٹ ہو۔“‬
‫ک‬‫ن‬
‫اس کے لوشن لگائے پہ وہ ن یصرہ کرئے بوال کہ چنہ ئےنسی سے آ یں نبد کر‬
‫ھ‬
‫گنی۔ وہ اننی انک انک نات میں زومعت نت النا تھا۔ چنہ اس کو تظرانداز کرنی ا ننے‬
‫ہونٹ کا ننے لگی جٹسے مشکراہٹ روک رہی ہو۔‬
‫”ملٹسکا!“ کجھ نل جاموسی کے تغد رنان ئے آواز میں مجنت سموئے کہا کہ چنہ‬
‫کا ئےشاچنہ ہی دل زور سے دھڑکا۔‬
‫”ہوں۔۔!“ چنہ ئے نس سر ہالنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪768 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آرہا ہوں میں آج۔۔“ چنہ ئے تظریں اتھا کے اس کو دنکھا جس کی گہری تگاہ‬
‫اسی پہ نکی تھیں۔‬
‫”بو۔۔۔!“ اس ئے خواب میں آپرو احکائے۔‬
‫”نبار رہبا۔۔“‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫َ‬
‫”شٹ اپ۔۔۔“ اس ئے جس انداز یں کہا چنہ ئے ہڑپڑا کے کہا اور ٹسنے لگ‬
‫گنی۔ تھر ہٹسنی جلی گنی۔ رنان کے ہون نوں پہ مشکراہٹ در آنی‪ ،‬چیرت تھری‬
‫مشکراہٹ۔۔ وہ اس کی کھبکنی ہٹسی کو دنکھ رہا تھا۔‬
‫”ندنمیز۔۔“ انبا کہہ کے اس ئے کال ہی کاٹ دی۔‬
‫”آنی النک بور الف! چب تم ہٹسی مجھے نبلباں سی محسوس ہونیں۔“ اگلے ہی نل‬
‫اس کو مٹسج موصول ہوا۔ چنہ کے رجشار سرخ ہوئے لگے۔ اس کے ہون نوں پہ‬
‫مشکراہٹ اتھی تھی تھی۔‬
‫”اس کو اب میری ہٹسی ستنے کا دورہ پڑے گا۔“ وہ گہرہ شانس ت ھر کے رہ‬
‫گنی۔‬
‫”کبا انشان مال ہے۔“ وہ پڑپڑانی اور کاقی دپر اس مٹسج کو د نکھے گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪769 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ نس انک دن کے لنے انلی گبا تھا‪ ،‬کل رات کی اس کی قالنٹ تھی اور آج‬
‫رات وانس آجانا تھا۔‬
‫نجھلے دبوں میں وہ اس سے کاقی لڑی تھی ضرف اس نات پہ کہ وہ اس کو‬
‫ُ‬
‫ڈنلبگ پہ شاتھ نہیں لے گبا تھا۔ اب کی نار اس ئے وعدہ کبا تھا کہ اِ س کو لے‬
‫جائے گا نتھی وہ نات کرئے پہ آمادہ ہونی تھی۔‬
‫جتنج کر کے وہ کمرے سے ناہر آنی بو دامیر کو اندر آئے دنکھا‪ ،‬اس کے ہاتھ پہ‬
‫ننی نبدھی تھی۔ اصل صدمے میں بو دامیر تھا جس کا دماغ ضرف علتبا میں الجھا ہوا‬
‫تھا۔‬
‫کبابوں میں تھبک لکھا ہونا تھا کہ مج نوب کے دور جائے سے آپ کی دنبا سے‬
‫رنگ جتم ہو جائے ہیں۔۔ دامیر جلنی تھرنی مبال تھی اس کے لنے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫”کجھ جا ننے دامیر؟“ چنہ کی آواز ئے دامیر کی بوجہ نچی۔ اس ئے قی میں‬
‫سر ہالنا۔ اور وہیں الؤنج کے صوقہ پہ نتتھ گبا۔‬
‫”انکحولی انک کپ کاقی!“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪770 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ما تھے کو مشلنے ہوئے اس ئے چنہ سے کہا خو سر ہالنی ہونی کنچن میں گنی۔‬
‫اس کو اتھی تھوڑا شکون جا ہنے تھا۔ وہ شکون خو علتبا کے ہوئے سے ملبا لبکن شارا‬
‫مسبلہ ہی نہی تھا کہ وہ نہاں تھی ہی نہیں۔ ناس ہونی بو ئےشکونی کٹسی ہونی۔‬
‫رنان کی کال اتھائے اس ئے نلوبوتھ کان سے لگائے۔‬
‫چنہ ئے کنچن سے انک تظر اس کو دنکھا۔ جاننی تھی کہ رنان کا فون تھا۔ وہ‬
‫دوبوں آنس میں نات کرئے لگے۔ چنہ کاقی کا کپ اس کے شا منے رکھنے ناہر کی‬
‫جانب اشارہ کرئے جلی گنی ناکہ وہ دوبوں نات کر شکیں۔‬
‫”اسی لنے وہ آخر پہ مجھ سے تظریں خرا گنی تھی ک نونکہ وہ جاننی تھی کہ فباد اس‬
‫کا تھانی ہے۔“ رنان ئے سنجبدگی سے کہا‪ ،‬دامیر ئے کاقی کا گھونٹ تھرا۔‬
‫ت‬ ‫م ُ‬
‫”مجھ سے دور جا کے نتتھ کے کبا لے گا اسے۔۔۔“ دامیر کا صہ اب ھی‬
‫ع‬
‫ڈھبڈا نہیں ہوا تھا۔‬
‫”نمہیں اس کو گلے لگائے کی کبا ضرورت تھی تم دور رہ کے تھی اس کو نشلی‬
‫دے شکنے تھے۔“ رنان کی شاری روداد ستنے دامیر کا ماتھا اسی نات پہ تھ یکا تھا کہ‬
‫رنان ئے اس کو گلے لگانا تھا۔ وہ خو سنجبدگی سے اس کی نات شن رہا تھا دامیر کے‬
‫جلنے پہ اجانک ہی قہقہہ لگا اتھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪771 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اسے انک ہمدرد جا ہنے تھا دامیر‪ ،‬تم اونلتبل نہیں تھے بو مجھے نتبا پڑا “ رنان‬
‫رشان سے اس کو سمجھانا ہوا بوال جبکہ لہچے میں سرارت چھلک رہی تھی۔‬
‫”نتھی میں ئے شاتھ جلنے کو کہا تھا لبکن تم مائے نہیں۔“ دامیر کی آواز میں‬
‫شکوہ تھا۔‬
‫”دامیر وہ اتھی تھی نمہارے ناس آئے کو نبار نہیں ہے بو نہیر ہے دور ہی‬
‫رہو۔“ رنان سرد لہچے میں بوال کہ دامیر سر چھبک کے رہ گبا۔‬
‫”میں اس کو مج نور کر دوں گا خود نک آئے کے لنے۔۔“ اس کی پڑپڑاہٹ ستنے‬
‫رنان ئے ناشف سے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”میرے تھانی اس سے نبار کرنا ہے ڈرانا نہیں نہلے ہی وہ تم سے ڈری ہے۔“‬
‫ل‬ ‫ل‬ ‫ُ‬
‫”تم بو جٹسے اسے فرشنہ نے ہو نا۔“ دامیر نے ہوئے ہچے یں بوال۔‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫گ‬
‫”انبا کہ میری نات مان لتنی ہے وہ‪ “.‬رنان کا لہحہ نمسجر اڑانا ہوا کہ دامیر ئے‬
‫دانت نٹسے۔‬
‫”کانیرنکٹ انکست نٹ کبا ہے میں ئے‪ ،‬نمہارے آئے ہی تکل جاؤں گا۔“ دامیر‬
‫ئے ناد آئے پہ رنان کو اطالع د نبا ضروری سمجھا۔ دوسری جانب رنان کے ما تھے پہ‬
‫ناگوارنت کے نل ننے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪772 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میرے تغیر۔۔۔! مسورہ تھی نہیں کبا۔“ وہ سباٹ لہچے میں بوال۔‬
‫”نس عصے میں تھا ناد نہیں رہا۔ چیر تم وانس آجاؤ۔“ دامیر الپرواہی سے بوال۔‬
‫ت‬
‫”کہاں جانا ہے‪ ،‬مجھے ڈنتبل ھنحو۔“‬
‫”انلی۔۔۔“ دامیرے کاقی کا مگ شا منے نتبل پہ رکھنے بوال کہ رنان ئے دوسری‬
‫جانب آپرو احکائے۔‬
‫”اسی لنے نبا نبائے انکست نٹ کر لبا۔۔“ وہ طیز کر رہا تھا۔ دامیر ئے کبدھے‬
‫احکائے۔‬
‫”لوکٹشن میں ئے تغد میں جبک کی۔“ دامیر ئے چھوٹ نہیں کہا تھا‪ ،‬اسیغال‬
‫م ن‬
‫میں آکے اس ئے کانیرنکٹ لبا تھا لوکٹشن وافعی تغد یں د ھی ھی۔‬
‫ت‬ ‫ک‬

‫”میں قالنٹ ڈلے کر د نبا ہوں آجاؤ‪ ،‬چنہ تھی آجائے گی نہیں۔“ رنان ئے‬
‫مسورہ دنا۔‬
‫”چنہ سے بوچھ لو۔“ دامیر کی نات پہ رنان انک نل کو شو جنے لگا‪ ،‬تھر ہون نوں پہ‬
‫مشکراہٹ در آنی۔‬
‫”میں وانس آرہا ہوں۔“ وہ انبا ہی بوال اور کال کٹ گنی‪ ،‬دامیر نمسجراپہ مشکرانا۔‬
‫زپ ِر لب کونی گالی دی اور ہلکا شا ہٹس دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪773 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ان دوبوں کی مالقات آنیر فبلڈ پہ ہونی تھی چہاں ج نٹ اتھی لتبڈ کبا تھا۔ دامیر‬
‫ا ننے شاتھ چنہ کو تھی لے آنا تھا۔‬
‫رنان ئے آئے ہی دامیر کو زور سے ستنے میں ت ھتنحا۔‬
‫”نمہاری پرنسٹس کی طرف سے۔۔“ رنان کے کہنے ئےناکی سے آنکھ دنانی اور‬
‫اس سے علنحدہ ہوئے چنہ کی جانب پڑھا۔‬
‫”ہبلو ملٹسکا۔۔!“ وہ جبکٹ کی ناکٹس میں ہاتھ ڈالے کھڑی تھی رنان کے‬
‫تکارئے پہ اس کی طرف دنکھنے لگی۔‬
‫شکر تھا کہ وہ ناف نوں کا لحاظ کر گبا تھا اور نس کنتنی کو ہون نوں سے چھوا۔‬
‫دامیر کے جائے ہی وہ دوبوں وانس منٹشن کی طرف پڑھے۔‬
‫”مجھے نمہاری مدد کی ضرورت ہے۔“ چنہ ئے نمہبد ناندھی‪ ،‬ڈرنک ڈران نو کر رہا تھا‬
‫جبکہ رنان اور چنہ ننجھے نتتھے تھے۔ چنہ کا ہاتھ اس کی گرفت میں تھا کہ اس کی نات‬
‫پہ وہ اسبہقامنہ تگاہوں سے دنکھنے لگا۔‬
‫”انک مہتنے کے اندر اندر شپ منٹ جائے والی ہے تھانی لتبڈ نک۔ دس لڑکباں‬
‫ہونگی۔“ اس ئے رنان کو دنکھا جس ئے انبات میں سر ہالنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪774 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میری نہلے کی شپ منٹس کو نباہ کرئے کی وجہ سے ہو شکبا ہے وہ عین موفع‬


‫پہ لوکٹشن اور روٹ جتنج کر لیں بو مجھے نتم جا ہنے۔“ چنہ کی مزند نات ستنے رنان ئے‬
‫سنجبدگی سے سر ہالنا۔‬
‫”ہو جائے گا اور مزند۔۔“ رنان ئے اس کے چہرے کو دنکھا۔‬
‫”پہ مسکل ہو گا بو تم تھی۔۔۔“ چنہ ئے تگاہیں ہاتھ پہ کیں اور آہشنہ آواز میں‬
‫کہا۔‬
‫”میں ہمٹشہ شاتھ ہوں ملٹسکا‪ ،‬نمہارے اس کام سے مجھے خوسی ہونی ہے۔ قکر‬
‫نہیں کرو۔“‬
‫تھامے ہوئے ہاتھ کو ا ننے ہون نوں نک الئے چنہ کے ہاتھ کی نشت کو خوما۔ چنہ‬
‫کے ہون نوں پہ مغدوم سی مشکراہٹ اتھری۔‬
‫انک وفت میں دس لڑکباں‪ ،‬نہت سیرنس تھا شوجبا تھی۔‬
‫کم شن نجباں۔ رنان اگر لوگ ارننج کروا د نبا بو آشان رہبا ک نونکہ وہ انک ہی وفت‬
‫میں مجبلگ جگہ نہیں جا شکنی تھی۔‬
‫”انک اور نات۔۔۔۔“ تکلحت ناد آئے پہ چنہ بولی کہ رنان ئے شوالنہ دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪775 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تھروسے مبد آدمی۔۔“ چنہ کے بو لنے پہ رنان ئے اس کو ا نسے دنکھا جٹسے اس‬
‫کی نات نسبد پہ آنی ہو۔‬
‫”نمہیں مجھ پہ تھروسہ ہے نا۔“ اس کے تھامے ہاتھ پہ رنان ئے زور دے کے‬
‫بوچھا۔‬
‫”ہاں۔۔“ وہ دل میں بولی جبکہ سر تقی میں ہالنا۔ وہ خو اس کے مت نت خواب پہ‬
‫پرتفین تھا‪ ،‬تقی میں سر ہالئے پہ صدمہ شا ہوا۔ چنہ اس سے نہلے ہلکا شا تھی‬
‫مشکرانی…‪.‬رنان ئے اس کو فرنب کرئے انک جشارت کی کہ وہ بوکھال اتھی۔‬
‫”ہونا جا ہنے ملٹسکا! مجھ پہ تھروسہ ہونا جا ہنے۔“ وہ سرد لہچے میں اس کو وارن‬
‫کرئے بوال۔‬
‫ڈرنک کی موخودگی میں اس کی ئےناک خرکت اس کو عصہ دال گنی‪ ،‬انبا ہاتھ‬
‫چھڑوائے وہ آنکھوں میں سجنی لنے گھورئے لگی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫م‬‫ک‬‫م م‬
‫اس کو نہاں آئے ہفنہ ہوئے واال تھا انبا نارگنٹ وہ دو دبوں یں ل کر حکا‬
‫تھا جس کی نتمنٹ تھی اس کو رنسنو ہو گنی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪776 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ وانس جال جانا لبکن علتبا کی موخودگی اس کو ئےجین کر رہی تھی وہ اس سے‬
‫تھوڑا ہی دور تھی۔ اور ملے تغیر جانا اس کا دل نہیں مان رہا تھا۔ کتنی دفع اس کو اننی‬
‫آنکھوں کے شا منے دنکھا تھا۔ وہ نک شاپ نک جانی تھی اور روز وہاں دو گھتنے گزار کے‬
‫آنی۔ وہ کمزور ہو گنی تھی۔‬
‫”چب دوری پرداشت نہیں ہو رہی بو ک نوں خود کے شاتھ مجھے تھی تکل یف دے‬
‫رہی ہو۔“ ہونل روم میں موخود شا منے جلنی فوننج کو دنکھ رہا تھا۔ نک شاپ کے ناہر‬
‫کتمرہ موخود تھا اور وہاں وال گالس لگے تھے چہاں سے اندر نتتھے تفوس کا عکس تظر آنا‬
‫تھا۔‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ع ن‬
‫چہاں لتبا ھی وہاں سے دامیر اس کا شانبڈ ٹس واصح د کھ کبا تھا۔‬
‫خو روبق کباب پڑ ھنے اس کے چہرے پہ ہونی تھی ہو اس وفت نہیں تھی۔ شاند‬
‫وہ زپردسنی انبا دھبان تھ یکا رہی تھی۔ کباب میں اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔‬
‫اس کا جائے کا ناتم ہوئے واال تھا لبکن آج وہ ا ننے وفت پہ اتھی نہیں تھی۔‬
‫علتبا ئے کباب نبد کر دی تھی اور گالس وال کے نار ناہر دنکھنے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪777 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر کو کجھ علط شا محسوس ہوا۔ علتبا کا گارڈ ناہر کھڑا تھا خو وہاں سے ہبا اور‬
‫وانس نہیں آنا تھا۔ نک شاپ کی دوسری شانبڈ گبا تھا۔ دامیر ئے اسی ر سنے لگے‬
‫نجھلے کتمرہ کو جبک کبا کہ شاند دوسری شانبڈ پہ موخود ہو لبکن وہاں تھی نہیں تھا۔‬
‫اس ئے ضرف فوننج نک رشانی جاصل کی تھی اس کی گزری رتکارڈنگ نہیں‬
‫دنکھ شکبا تھا۔‬
‫ن‬
‫اس ئے علتبا کا کتمرہ جبک کبا وہ اب تھی ا نسے ہی تتھی تھی تھر انبا سر میز‬
‫پہ تکا دنا۔ انبا مونانل نکڑے وہ نیزی سے کمرے سے تکال۔‬
‫کونی تھا خو علتبا کے ارد گرد تھا۔ اس وفت دامیر ئے نشکر کا شانس تھرا تھا کہ‬
‫وہ وانس نہیں گبا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اس کو نہاں نتتھے کاقی دپر ہو گنی تھی اور نہاں سے جائے کا دل تھی نہیں‬
‫کر رہا تھا۔ گھر وانس جانی بو وہیں جالی دبواروں کو گھورنی رہنی نہاں لوگ بو تھے نا دنکھنے‬
‫کو۔‬
‫دو دن نہلے اس ئے دامیر کو دنکھا تھا۔ وہ جاننی تھی کہ اتھی تھی وہ اِ دھر ہی‬
‫موخود تھا اس پہ تظر ر کھے ہوئے۔ انشا ہو ہی نہیں شکبا تھا کہ وہ اس کو اکبال چھوڑنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪778 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ت‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫ُ‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ن ُ‬


‫دامیر کو جس دن د کھا اس رات وہ شو یں نانی ھی۔ اس ئے ہڈی ہن ر ھی ھی‪،‬‬
‫اس کی نشت سے ہی وہ نہحان گنی تھی۔ جس سحص کی خوسنو وہ نتبد میں نہحان جانی‬
‫تھی اس کو کھلی آنکھوں سے دنکھنے کٹسے نا نہحاننی۔ اس کا دل نہت زور سے دھڑکا‬
‫تھا لبکن وہ اِ س سے ملبا نہیں جاہنی تھی اتھی۔ دامیر کو اننی علطی کا اجشاس ہونا‬
‫جا ننے تھا کہ اس ئے چھوٹ بول کے رشنہ نبانا تھا۔‬
‫مبکس سے تھی اِ س ئے نات کرنا کم کر دی تھی۔ وہ ہر انک کو فصور وار تھہرا‬
‫رہی تھی۔ اگر وہ کتھی نہاں آنی ہی نا بو پہ کہانی کتھی سروع ہی نا ہونی۔ خو آنانی گھر‬
‫تھا وہیں رہنی بو اچھا ہونا۔ زندگی ئے نہت عج نب عج نب موڑ لنے تھے۔‬
‫انبا نبگ تھامے وہ اتھ کھڑی ہونی اور جائے کے ارادے سے نک کو وانس‬
‫سبلف میں رکھا۔‬
‫”مس علتبا!“ نک شاپ اوپر ئے اس کو تکارا۔ چہرے پہ ہلکی مسکان سحائے‬
‫اس ئے اسبہقامنہ تگاہوں سے اس کو دنکھا۔‬
‫”کل ہم انک ‪ exhibition‬رکھ رہے ہیں‪ ،‬نہت سے نک آرتھر وہاں موخود‬
‫ہو نگے۔۔ آپ کو تھی ابوانٹ کبا ہے ضرور آ ننے گا۔“ وہ جالٹس سے اوپری عمر کا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪779 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫مرد تھا جس کو علتبا نہاں نب سے دنکھ رہی چب سے وہ اس نک شاپ میں آنا‬


‫سروع ہونی تھی۔‬
‫”ناس ہی نلڈنگ ہے وہاں ہوگا‪ ،‬لوکٹشن‪ ،‬ناتم منٹشن ہے ان یطار رہے گا۔ آپ‬
‫نہاں کی اب رنگولر کستمر ہیں بو مجھے نہت اچھا لگے گا چب آپ انبا وفت تکالے‬
‫‪ exhibition‬میں آ نیں گی۔“‬
‫وہ نہت پرمی سے کہہ رہے تھے۔ علتبا ئے وہ کارڈ تھام لبا اور مشکرانی ہونی‬
‫جامی تھر لی کہ وہ ضرور آئے گی۔‬
‫ا ننے دبوں میں کجھ ہوا نبدنل ہو گی اور ننے لوگوں سے ملے گی بو اچھا لگے گا‬
‫و نسے تھی طت یغت میں ششت ین تھی تھا۔‬
‫اور آج اس کی انانتمنٹ تھی تھی جس کو شو جنے وہ سرد آہ تھر کے رہ گنی۔ نک‬
‫شاپ سے ناہر آنی بو اس کا انک گارڈ موخود نہیں تھا۔ جبکہ گاڑی نہیں پہ تھی۔‬
‫”اس کو گھر کسی ضروری کام سے جانا پڑا آپ آجانیں۔“ گارڈ اس کی کھوجنی‬
‫تگاہوں کو دنکھ کے بوال بو علتبا سر ہال گنی۔‬
‫اس کے شاتھ دو گارڈز ہوئے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪780 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫گاڑی میں تتھی ہی تھی کہ اس کو وہاں دامیر تظر آنا‪ ،‬اس کی گاڑی اتھی‬
‫ً‬
‫سبارٹ ہونی ہی تھی کہ وہ شا منے آگبا۔ علتبا ئے فورا گاڑی رو کنے کو کہا۔ وہ ناہر‬
‫نہیں آنی جبکہ ما تھے پہ نانسبدندگی کے نل واصح ہوئے۔‬
‫دامیر ئے ا ننے قدم اس نک پڑھائے کہ علتبا شانس روک گنی۔ وہ ک نوں اس‬
‫کے روپرو آنا تھا۔‬
‫”میرے شاتھ جلو۔۔“ دامیر ئے اس کی شانبڈ کا دروازہ کھوال اور ناہر آئے کا‬
‫اشارہ کبا۔‬
‫”مجھے کہیں نہیں جانا اور جاؤ نہاں سے ورپہ میں رنان کو نبا دوں گی۔“ علتبا دو‬
‫بوک لہچے میں بولی اور گاڑی کا دروازہ نبد کرئے لگی چب دامیر ئے انبا ہاتھ اتکانا۔‬
‫”نمہیں لگبا ہے میں رنان سے ڈرنا ہوں؟“ دامیر ئے چیرت زدہ اس سے بوچھا وہ‬
‫اس کو رنان کی دھمکی دے رہی تھی۔‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫شک ت ن ن‬
‫”مجھے نمہاری ل ھی ہیں د نی جاؤ نہاں سے۔۔“ اس کے طیز کرئے پہ‬
‫علتبا عصہ لنے بولی کہ دامیر ئے دانت نٹسے۔ اس کو گڑپڑ محسوس ہو رہی تھی اور علتبا‬
‫کو ا نسے نہیں چھوڑ شکبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪781 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہاری پہ کمزور مزاچمت میرے آگے کجھ تھی نہیں ہے بو مجھے زپردسنی‬
‫کرئے پہ مج نور پہ کرو۔“ دامیر ئے علتبا کا نازو تھاما۔‬
‫”تم مجھ پہ انبا آپ مشلط نہیں کر شکنے دامیر‪ ،‬انشا ہر نار نہیں ہوگا کہ میں‬
‫نمہاری نابوں میں آجاؤں۔۔“ چھبکے سے انبا نازو چھڑوائے علتبا سجنی سے بولی‪ ،‬دامیر‬
‫ُ‬
‫کے لہچے میں زرا پرمی نہیں تھی جس کا اسے دکھ ہوئے لگا۔‬
‫ت‬
‫دامیر اس کی لمنی تفرپر پہ چیڑہ ھتنچ گبا اور انبا رخ گارڈ کی جانب کبا۔ اس ئے‬
‫ڈران نونگ سنٹ کا دروازہ کھولے گارڈ کو گرنبان سے نکڑ کے ناہر تکاال۔‬
‫”دوسرا کدھر ہے۔۔؟“ اس ئے سرد لہچے میں دوسرے گارڈ کا بوچھا‪ ،‬وہ دامیر‬
‫کے آئے سے ہی گ ھیرا اتھا تھا نتھی نیزی سے بو لنے لگا کہ وہ گھر گبا ہے دامیر ئے‬
‫اس کو کال مالئے کا کہا جس پہ وہ فوری عمل کرئے لگا۔‬
‫علتبا سنجبدگی سے دامیر کو دنکھ رہی تھی خو گارڈ سے نات کر کے نشلی کر رہا تھا۔‬
‫ہ‬‫گ ن‬
‫”اس کو لے کے سبدھا ھر نحو‪ ،‬دس منٹ کا رشنہ ہے اگر گبارواں منٹ ہوا‬
‫بو تم فیر میں ہو گے آج رات۔۔“ دامیر ئے اس گارڈ کا گرنبان چھبکے سے چھوڑئے‬
‫کہا کہ علتبا ئے ئےتفتنی تگاہوں سے اس کو دنکھا۔ وہ آج دوسری نار کسی کو اس‬
‫کے شا منے مارئے کی دھمکی دے رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪782 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”گھر جا کے کال کروں گا پرنسٹس۔۔“ دامیر کا لہحہ نل میں ندال۔۔ آنکھوں میں‬
‫پرم ناپر اتھرا کہ علتبا ہوبق ننی اس کو دنکھنے لگی۔ وہ نل میں ناپرات ندل شکبا تھا۔‬
‫”مجھے نہیں کرنی تم سے نات۔“‬
‫انبا کہہ کے علتبا ئے اننی شانبڈ کا دروازہ نبد کبا اور گارڈ کو جلدی سے گاڑی‬
‫جالئے کا کہا۔‬
‫دامیر ئے اس کی گاڑی کو جائے ہوئے دنکھا چب نک وہ آنکھوں سے اوچھل‬
‫پہ ہو گنی۔‬
‫م‬
‫عانب ہوئے والے گارڈ سے وہ نات بو کر حکا تھا لبکن وہ ظمین نہیں ہوا تھا۔‬
‫چھنی جس اتھی تھی کونی گڑپڑ ہوئے کا اشارہ دے رہی تھی۔‬
‫وہ نک شاپ میں داجل ہوا اور آس ناس دنکھنے جاپزہ لتنے لگا۔ وہ روز نہاں آنی‬
‫تھی اور گھت نوں گزار کے جانی تھی۔‬
‫دامیر اس کا عصہ جتم کر دے گا اگر وہ نات کرئے کا موفع د ننی۔ موفع کبا‬
‫دامیر اس کو اتھا کے لے جا شکبا تھا لبکن وہ مزند حقا ہونی بو اس ئے تھوڑا شا وفت‬
‫دنا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪783 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس ئے رنان کو کال کر کے وہاں کا جال اخوال جانا اور اننی گاڑی میں نتتھے‬
‫علتبا کی لوکٹشن جبک کرئے لگا۔‬
‫وہ گھر کی راہ پہ تھی۔ اور مزند دو منٹ میں گھر ہونی‪ ،‬دامیر چب ہونل نہنحا نب‬
‫ُ‬ ‫ن‬
‫نک علتبا تھی ہنچ جکی تھی۔ اس کی لوکٹشن گھر کی ہی شو ہو رہی تھی۔ وہ اس گارڈ‬
‫کے ناس جانا جاہ رہا تھا خو نک شاپ کی شانبڈ سے تطاہر اسی لنے عانب ہوا کہ اس‬
‫کو انمرجنٹسی آنی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫آرمری میں اس وفت النٹس آن تھیں‪ ،‬اشلحہ تظر آرہا تھا۔ دبواروں کے شاتھ‬
‫رنکس ننے تھے جس میں پرن نب سے شب سنٹ تھا۔ پہ سمگلبگ واال اشلحہ تھا خو دامیر‬
‫اور رنان ڈنل کرئے تھے۔‬
‫چنہ معمول کے پرعکس آج عام جلنے میں تھی۔ النٹ گرے پراؤزر سرٹ نہن‬
‫رکھا تھا اور نالوں کو رف سے خوڑے میں ناندھا تھا جبکہ رنان اننی محصوص کارگو ڈرنسبگ‬
‫میں تھا۔‬
‫انک گول میز تھی۔ نئیر نکھرے پڑے تھے۔ چنہ ستنے پہ نازو ناندھے کھڑی‬
‫سنجبدگی سے شب دنکھ رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪784 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ڈرنک ئے لنپ ناپ رنان کے شا منے کبا۔‬


‫”نمہارے اندازے کے مطابق ہمیں کتنے آدمی جا ہنے ہو نگے؟“‬
‫ُ‬
‫اس ئے انک تظر چنہ کو دنکھا۔ چنہ ئے پرشوچ انداز میں ہونٹ جبائے۔ اس کی‬
‫تگاہیں میز پہ ر کھے نئیرز پہ تھیں جن میں الگ الگ لوکٹسیز کی نشاندہی کی گنی تھی۔‬
‫چنہ کا ہاتھ ہونٹ نک گبا۔ رنان ئے نبا کجھ کہے انبا ہاتھ اونحا کنے اس کے ہاتھ کو‬
‫ننچے کبا اور ننتبہی تگاہوں سے دنکھا۔‬
‫”نہیں کرو۔“‬
‫چنہ ئے گھورا اور انک نئیر تکال کے شانبڈ پہ رکھا۔‬
‫”نہاں سے نین کننئیرز جانیں گے۔ نجری راشنہ ہے بو انک شاتھ نہیں تکلیں‬
‫گے۔ نین کے جشاب سے میں نہاں ہونگی‪ ،‬اور میرے شاتھ چھے آدمی۔ انک کو میں‬
‫دنکھ لوں گی ناقی دو کننئیر دوسرے لوگ دنکھ لیں گے۔“ چنہ سنجبدگی سے انک جگہ‬
‫پہ اننی اتگلی رکھنے بولی۔‬
‫”جار آدمی‪ ،‬تم اور میں۔۔۔“ وہ رکا۔ آپرو احکائے جٹسے ناور کروانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪785 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اس جگہ انک شاتھ ہو نگے‪ ،‬دامیر اِ س والے روٹ کو دنکھ لے گا آرام سے۔‬
‫نہاں سے کتنے کننئیرز جانیں گے؟“ دوسرے روٹ کو دنکھنے رنان ئے اسبہقامنہ‬
‫تگاہوں سے چنہ کو دنکھا۔‬
‫”ہو شکبا ہے دو اور…‪ .‬پہ راشنہ چھونا ہو گا بو آشانی سے نہلے نہاں انبک کبا جا‬
‫شکبا ہے۔“ چنہ ئے نارڈر اپرنا کی طرف اشارہ کبا۔‬
‫”دامیر کے شاتھ نین آدمی‪ ،‬اور نہاں ڈرنک۔۔۔!“ رنان ئے کہنے ڈرنک کو دنکھا‬
‫جس ئے سر ہالنا۔ آخری روٹ وہ دنکھ لے گا۔‬
‫”تم جتنے جاہو ا ننے شاتھ آدمی لے جا شکنے ہو لبکن مجھے ہر انک کی شالمنی‬
‫جا ہنے۔۔ وہ چھونی نجباں ہونگی اور نہت ڈری ہونی تھی۔۔“ رنان ئے سرد لہچے میں‬
‫ڈرنک سے کہا۔‬
‫”ا ننے آدم نوں میں سے دنکھو خو راضی ہو جائے کو‪ ،‬کسی پہ کونی زور زپردسنی‬
‫نہیں۔“ شاتھ ہی اس ئے اگال جکم دنا جس پہ ڈرنک ئے مؤدب سر ہالنا۔‬
‫”سر اکبڈمی کے نہت سے لوگوں ئے کانتبکٹ کرنا جاہا آپ سے؟“ شاتھ ہی‬
‫ڈرنک انک لشٹ لے کے آنا اور اس کو تھمانی جس پہ رنان ئے سرسری سی تگاہ‬
‫دوڑانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪786 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کس لنے؟“‬
‫”جاب کے لنے سر‪ ،‬پرابوا کے ن نو ہبڈ کا ستنے نہاں سے شوپرز ئے کانتبکٹ کبا‬
‫ہے۔“ ڈرنک ئے مزند کہا کہ وہ سنجبدگی سے سر ہال گبا جبکہ چنہ اب نئیرز پہ نانمبگ‬
‫دنکھ رہی تھی۔‬
‫ہر مافبا ہبڈ کو ا ننے شوپرز‪ ،‬کڈننتبگ‪ ،‬نارخر‪ ،‬سمگلبگ نتم جا ہنے ہونی تھی۔ اکبڈمی‬
‫کے مجبلف ڈ نبارنمنٹ سے پرین شدہ ا ننے عالفوں کی مافبا کے مانحت ہوئے تھے۔ اگر‬
‫رسبا سے کونی پرنتبگ لتنے کراؤنڈ ہبڈ گبا ہے بو وہ پرابوا کے انڈر ہی کام کرے گا اور‬
‫پرابوا کے جکم کا مجباج ہوگا ک نونکہ رسبا کی پڑی ن یظتم پرابوا ہی تھی اسی طرح ہر ملک‬
‫اور عالفے کے ا ننے ہی لوگ ہو نگے۔‬
‫خو پرنتبگ سے فری ہو نگے ان کو نٹشٹ کر کے رنان ا ننے شاتھ رکھ شکبا تھا۔‬
‫”کڈننتبگ تم نٹشٹ کرو گے ڈرنک‪ ،‬نتم رنڈی کرواؤ۔۔“ رنان کے ہون نوں پہ‬
‫معنی چیز مشکراہٹ در آنی۔‬
‫”کس کو کڈن نپ کروانا ہے سر؟“ ڈرنک تھوڑا گڑپڑانا کہ اگر تھبک سے کام پہ‬
‫ہوا بو رنان موت کا تطارہ کروا شکبا تھا۔‬
‫”فباد جاکم کو۔۔۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪787 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ نمسجر اڑانی مشکراہٹ لنے بوال کہ ڈرنک اننی جگہ شاکت ہوا۔ خو سحص ان کی‬
‫تظروں میں نہیں آرہا تھا وہ تھال پہ کڈن نپ کروا شکبا تھا۔ اس کے بو نستنے چھوٹ‬
‫گنے‪ ،‬ئےشاچنہ ہی ڈرنک ئے تھوک تگال۔‬
‫فباد کی کڈننتبگ کا ستنے بو چنہ تھی خونکی۔ وہ انک نتم نٹشٹ میں فباد کو کڈن نپ‬
‫کروائے گا۔‬
‫”ناپ ‪ participants‬کو ن یغام نہنحا دو‪ ،‬نبا کونی وجہ نبائے نس نارگنٹ‬
‫نباؤ ان کو۔۔ تھر ہم تھی دنکھنے ہیں کہ اکبڈمی ئے اس شال کبا پرین کبا ہے۔۔“‬
‫رنان ئے وہ لشٹ ڈرنک کی طرف اچھالی جس کو وہ پروفت کنچ کر گبا۔ پہ کونی الگ‬
‫اور ابوکھی جال تھی خو رنان اتھی جلنے واال تھا۔‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫”گیز کی ننی سبالنی کل نک نہاں نچ جائے گی بو اس کی ھی کر کرئے کی‬
‫ق‬ ‫ہ‬

‫ضرورت نہیں۔“ رنان ئے اننی بوجہ چنہ پہ کی۔ وہ سر ہال گنی۔‬


‫رنان اس کے شاتھ ہو گا بو امبد تھی کہ کامباب ہو جائے گی۔ دس لڑکباں وہ‬
‫تھی کم شن‪ ،‬معصوم۔‬
‫نمام رونس‪ ،‬نانمبگ اور کننئیرز کی مغلومات لتبا اب مسکل نہیں تھا کم از کم‬
‫پرابوا کے ہبڈ کے لنے بو نالکل تھی نہیں۔ لبام تھی مشلشل را تطے میں تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪788 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ل‬ ‫ن‬ ‫ک‬‫نب‬


‫آرمری سے ناہر آئے چنہ اس کے پراپر جلنے ہوئے ھی تگاہ سے د ھنے گی۔‬
‫ک‬
‫”نمہیں لگبا ہے فباد ا نسے اپزی ناگٹ رہے گا؟“‬
‫م‬ ‫ُ‬
‫وہ کڈننتبگ کا خوالہ د ننے بوچھنے لگی کہ اس کے ہون نوں پہ وہی نی چیز‬
‫ع‬
‫مشکراہٹ نمودار ہونی۔ وہ دوبوں جلنے ہوئے الن میں آ گنے چہاں دھوپ کی کرنیں پڑ‬
‫رہی تھیں۔ چنہ ئے رک کے اس کی مشکراہٹ کو دنکھا۔‬
‫”وہ ہم سے اننی سباچت چھبا رہا ہے لبکن ناف نوں سے نہیں‪ ،‬وہ پہ تھی جانبا ہے‬
‫کہ ہم کسی سے مدد نہیں لیں گے اور ہم انشا نالکل نہیں کریں گے چب پہ کام ہم‬
‫ا ننے طر تقے سے ہی تکلوانیں گے۔ فباد جاکم انسبا کا سمگلر ہے نہت جانا مانا‪ ،‬بورنین‬
‫شانبڈ پہ اس کا نس نام مغلوم ہے اصل نہحان بو انسبا شانبڈ پہ ہے۔‬
‫کراؤنڈ ہبڈ سے پرنبڈ انلقا نتم نس انبا نارگنٹ بورا کرے گی ک نونکہ انہیں پرابوا میں‬
‫آنا ہے اور اس کے لنے وہ ہر جد نک جانیں گے۔ پہ ہونی ہے ناور مافبا ہبڈ کی ملٹسکا۔‬
‫آپ کسی تھی کوئے کے لوگوں کو اونحانی کا اللچ دے کے انبا مطلب تکلوا شکنے ہو۔‬
‫اور قاندہ دوبوں طرف ہو گا۔“‬
‫الن میں موخود کرسی پہ نتتھنے ہوئے اس ئے چنہ کو دنکھا خو سر چھبک کے‬
‫مشکرا دی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪789 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کڈنئیرز کو ا نسے ہی پرین نہیں کبا جانا۔۔ ان کو انک شو انک طر تقے نبائے‬
‫جائے ہیں۔“ رنان شاطر مشکرانا۔‬
‫”اب میں جاہبا ہوں کہ اس شب سے نہلے۔۔۔“ رنان ئے چنہ کا ہاتھ تھامے‬
‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫آ یں گول ھما یں (اس شب سے لے‪ ،‬القاظ پہ) اور ھہرئے چنہ کو فرنب کبا‪ ،‬وہ‬
‫اس کی کرسی کے نالکل شا منے نانگوں کے ناس کھڑی ہونی۔‬
‫”تم مجھے سرپراپز دے کے مبہوت کر دو۔“ اجانک اس کو اننی جانب چھکائے‬
‫وہ سرپر لہچے میں بوال کہ چنہ کھتنچے جائے پہ بوکھال اتھی۔‬
‫”نتتھ جاؤ نمہارا ہی ہوں۔“‬
‫اس کی فرمانش پہ وہ گھورئے لگی کہ وہ تھر ئےناک ہونا اننی گود کی جانب‬
‫اشارہ کر رہا تھا۔ انبا ہاتھ چ ھڑوائے وہ سبدھی کھڑی ہونی۔‬
‫”تم کتھی سیرنس ہو گے؟“‬
‫وہ چھال کے بولی۔‬
‫”اتھی ہو جانا ہوں‪ ،‬پہ کل رات سے میری سرٹ نہنی ہے وانس کرو۔“ اس‬
‫ن‬
‫کے ننجھے ہتنے پہ وہ تھی کھڑا ہوا اور سنجبدگی سے بوال‪ ،‬گرے آ یں سرٹ پہ کی یں‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫کہ چنہ کے چہرے پہ سرجی چھائے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪790 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں اگر کجھ کہنی نہیں بو اس کا پہ مطلب نہیں کہ انحوائے کرنی ہوں‬
‫نمہاری فصولبات کو۔“ عصے کی سرجی آنکھوں میں لنے وہ اس کے فرنب آنی۔ چنہ کا‬
‫ُ‬
‫ہاتھ رنان کی گردن نک آنا کہ اس کے ہون نوں کی مسکان گہری ہونی۔ وہ انبا جافو‬
‫تھامے ہوئے تھی۔‬
‫اس کا جافو واال ہاتھ کالنی سے تھامے ننچے النا اور ستنے پہ رکھا۔‬
‫ن‬
‫”اس کو چیر کے دکھاؤ بو نمہاری خرأت کو مابوں۔“ رنان کی آ کھیں چمکیں‪ ،‬شورج‬
‫کی روسنی سبدھا آنکھوں سے نکرا رہی تھی۔ رنان ئے جافو کی بوک ستنے پہ دل کے مقام‬
‫پہ رکھی۔‬
‫سباہ شقبد نال والے محشمے جٹسے دھوپ میں کھڑے تھے۔‬
‫چنہ ئے نبا کجھ کہے ا ننے جافو پہ زور دنا وہ اس کی سرٹ کو چیرنا کٹ لگا گبا۔‬
‫م ل کھت‬
‫خون کی بوند نبکی۔ دناؤ ہلکا کرئے چنہ جافو کو ننچے الئے لگی کہ سرٹ یں کیر نی‬
‫ج‬‫ن‬
‫گنی۔‬
‫”کبا چیز ہو تم رنان۔۔“‬
‫اس کے ڈھنٹ ین پہ وہ شلگ اتھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪791 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہی کر کے میں تم سے بوچھوں؟“ رنان اس کے ہاتھ سے جافو لتبا ہوا معنی‬


‫چیزی سے بوال۔ اشارہ اس کی سرٹ میں کٹ لگائے کی طرف تھا۔‬
‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫چنہ ئے الپروواہی سے آ یں ھما یں چب رنان ئے اس کی کمر کے گرد حصار‬
‫ناندھ کے فرنب کبا اس کا دل زور سے دھڑکا۔ وہ اس کو کتھی نہیں طاہر کرئے‬
‫والی تھی کہ اس کی پہ چھونی مونی جشارنیں گدگدی سی کرنی تھیں۔ اس کو عادت ہو‬
‫جلی تھی رنان تھی۔‬
‫کسی دوسرے کے چھوئے سے خو تھی انک عج نب سی ک یق نت طاری ہونی وہ‬
‫رنان کے لمس سے نہیں ہونی تھی نلکہ وہ شکون تھرا لمحہ ہونا تھا۔ اس کے لمس سے‬
‫وہ ئےزار نہیں ہونی تھی اور نا ہی کراہ نت محسوس کرنی تھی۔‬
‫اس کی عادت کے جالف وہ صدی نبا تھا اور ا ننے لمس کا عادی نبا رہا تھا۔‬
‫”تم ئے وعدہ کبا تھا اگلی ڈنل میں کروں گی‪ ،‬نانیرز نک میں جاؤں گی۔“ اس‬
‫کے ستنے پہ ہاتھ رکھنے چنہ ناد کروانی بولی۔‬
‫”ا ننے ناس آ کے نمہیں انسی نانیں ک نوں ناد آنی ہیں؟“ وہ ندمزہ ہوا اور چہرے‬
‫کو غور سے دنکھنے لگا۔‬
‫”ک نونکہ و نسے تم ستنے نہیں۔۔“ وہ دوندو بولی کہ رنان ہلکا شا ہٹس دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪792 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم پرابوا کے ہبڈ ہو اب مجھے شاتھ لے جائے میں کونی مسبلہ نہیں ہونا‬
‫جا ہنے۔“ چنہ جبانی ہونی بولی۔‬
‫”پرابوا کو نبک اوور کبا ہے بوری دنبا کی مافبا کو نہیں‪ ،‬ا چھے سے جاننی ہو کہ‬
‫ڈانتمبڈ کے نانیرز سبدھے نہیں ہوئے‪ ،‬لڑکی کو دنکھنے تغد میں ہیں نہلے اس کا قاندہ‬
‫اتھانیں گے۔ میں رشک نہیں لے شکبا۔“ رنان سنجبدگی سے بوال۔ چنہ ئے کمر سے‬
‫اس کے نازو ہبائے اور ما تھے پہ نل لنے اس کو دنکھنے لگی۔‬
‫”انشا ک نوں رنان۔۔ پہ میرا کام ہے۔ میں کرنی آرہی ہوں پہ کام۔“ چنہ نیز لہچے‬
‫میں بولی۔‬
‫”نمہارا خو کام ہے میں اس میں سنورٹ کر رہا ہوں لبکن پہ نات نہیں مابوں‬
‫گا۔“ وہ دو بوک لہچے میں بوال کہ چنہ ضیط کر کے رہ گنی۔‬
‫”نمہیں مجھ پہ تفین نہیں؟“ اس کی آنکھوں میں دنکھنے سنجبدگی سے بولی۔ رنان‬
‫دو قدم کا قاصلہ تھر سے طے کرنا اس کے فرنب آنا‪ ،‬خو مجنت کے رنگ آنکھوں میں‬
‫کجھ نل فبل تھے اب وہ سرد ناپرات میں ندل گنے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪793 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہیں لگبا ہے تم مجھے اموسبل نلبک مبل کر شکنی ہو۔۔؟“ اس کے ناپرات‬


‫نل میں ندلے تھے‪ ،‬چنہ سبل کھڑی رہی۔ وہ اندر جائے کو پڑھا چب اس کی آواز پہ‬
‫قدم رکے۔‬
‫”تم ئے دنکھا ہے مجھے کام کرئے ہوئے‪ ،‬میں کر شکنی ہوں پہ۔۔“ وہ تھی‬
‫پرتفین لہچے میں بولی۔‬
‫”میں جانبا ہوں تم کر شکنی ہو لبکن پہ شب مجھے دنکھنے دو‪ ،‬میں کسی کی علط‬
‫تگاہ تم پہ پرداشت نہیں کر شکبا۔“ اس کی طرف مڑئے سنجبدگی سے کہنے جٹسے ناور‬
‫کروانا۔‬
‫”چب تم میرے شاتھ ہو گے بو کٹسی مسکل۔۔“ چنہ کے کہنے پہ رنان ئے‬
‫سرد آہ تھری۔‬
‫”چنہ‪ ،‬نحث نہیں۔“ اس ئے نام سے تکارا تھا اور پہ انداز رنان کا نہیں تھا پہ‬
‫ت‬ ‫م‬‫ھ‬ ‫ف‬ ‫ل‬ ‫ُ‬
‫ب‬
‫اس ناپ اشاشن کا تھا جس کا ہحہ وارن گ دے رہا تھا۔ اور پہ وا عی د کی ھی۔‬
‫”تھاڑ میں جاؤ تم۔۔“ اننی مت نوں کے تغد تھی چب وہ نہیں مانا بو وہ دانت نٹسنے‬
‫ہوئے بولی اور اس کے کبدھے سے نکرانی ہونی اندر پڑھی۔ رنان چیران ہوا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪794 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫م‬
‫”اننی نات م نوائے کو تم نلوار سے تتھی چھری ین جانی ہو جٹسے میں جانبا نہیں‬
‫نمہیں۔“ وہ پڑپڑانا اور نالوں میں ہاتھ ت ھیرئے اس کے ننجھے گبا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اس کا اتھنے کا نالکل تھی دل نہیں کر رہا تھا نتھی کہیں تھی جائے کا ارادہ‬
‫مل نوی کر دنا۔ ‪ Exhibition‬پہ ابوانٹ کبا گبا تھا لبکن شسنی اننی تھی کہ دل و‬
‫دماغ شاتھ نہیں دے رہے تھے۔ صنح کے گبارہ نج رہے تھے‪ ،‬مبکس انک نار اس‬
‫کے ناس سے جکر لگا کے جا جکے تھے۔ ناقی دبوں کی طرح تھی وہ گ ھر میں گارڈز اور‬
‫ورکرز کے شاتھ ہو گی۔‬
‫اس گھر میں سروع سے ہی نہت کم رہی تھی‪ ،‬پہ زنادہ دلحسنی تھی۔ زنادہ پر‬
‫ہوسبلز میں رہبا ہوا تھا۔ چنہ کا روم تھی نہاں موخود تھا لبکن وہ بو جٹسے کاقی عرصے‬
‫سے اسیعمال میں نہیں تھا۔‬
‫جس کمرے میں وہ موخود تھی کاقی کشادہ تھا جٹسے انک لگیری کمرہ ہونا جا ہنے‬
‫تھا۔ مبکس رنٹس آدمی تھے لبکن کٹسے اور ک نوں پہ اب وہ جان جکی تھی۔‬
‫انڈر ورلڈ‪ ،‬ڈارک مافبا!‬
‫سرتف لوگوں میں شامل ہوئے کے لنے پزنس مین‪ ،‬ہونہہ!‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪795 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کشلمبدی سے اتھنے اس ئے شلئیر نہنے اور ناتھ روم فرنش ہوئے گنی۔ ناتھ لے‬
‫کے وانس آنی بو کجھ اعصاب پرشکون ہوئے۔ نالوں کو کنجر میں مقبد کبا اور خود کو‬
‫انک تظر آ نتنے میں دنکھا۔ چہرے پہ تکان تھی۔‬
‫ل‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫انک دو نار آ یں زور سے نچے ھو یں اور چہرے پہ ہاتھ رکھا۔ شاند ہلکا شا نحار‬
‫تھا۔‬
‫وفت دنکھا۔ ناشنہ نہیں کبا تھا اتھی وہ تھوک کاقی محسوس ہو رہی تھی۔‬
‫اس ئے کمرے میں موخود دبوار گیر الماری کا انک نٹ وا کبا۔ شا منے انک قانل‬
‫موخود تھی۔ آنکھوں میں نمی گھلنے لگی۔ دامیر کی شدت سے ناد سبانی۔‬
‫وہ ک نوں کر رہی تھی انشا؟ اسے وانس جلے جانا جا ہنے اس کے ناس۔‬
‫جبالوں کو چھبک کے وہ ڈاننتبگ نک آنی اور ناشنہ لگائے کو کہا۔‬
‫مبکس ئے ہمہ وفت اس کے لنے گارڈز ر کھے تھے۔‬
‫”مجھے آج انک جگہ جانا ہے‪ ،‬پہ لوکٹشن دنکھ لو۔۔“ انبا نبگ تھامے وہ نارکبگ‬
‫اپرنا نک آنی اور ا ننے گارڈ کو کارڈ تھمانا۔‬
‫علتبا کو کجھ تھی کہے تغیر اس ئے مونانل تکاال اور کال کرئے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪796 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ُ‬
‫”اتکل کو نبائے کی ضرورت نہیں ہے‪ ،‬اسی نک شاپ کے اوپر کی ا گز ٹشن‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫چ‬
‫ھ‬ ‫ج‬
‫میں جانا ہے نس۔۔“ اس کے کال کرئے پہ ہی وہ ال ا ھی اور ناگواری سے‬
‫بو کنے ہوئے بولی۔‬
‫”شوری متم لبکن دامیر سر کو اتقارم کر رہا تھا۔“ علتبا کے نگڑئے پہ وہ صقانی‬
‫د نبا ہوا بوال۔‬
‫ن‬
‫”دامیر‪ ،‬رانٹ۔۔“ وہ آ کھیں گھما گنی کہ اس کے گارڈز نک کو خرندا ہوا تھا۔‬
‫ن‬
‫اس کے لنے گاڑی کا دروازہ کھوال بو وہ تتھی‪ ،‬گلے میں مقلر لت نٹ رکھا تھا‪ ،‬آج‬
‫ستبکرز نہنے تھے ہبل کے نحائے۔ چھوئے تھولوں والی شکرٹ کے شاتھ النٹ نل نو‬
‫کلر کی نلیزر نہن رکھی تھی۔‬
‫نالوں کو ڈھبال شا ناندھ رکھا تھا۔‬
‫کہیں جائے کے لنے مباشب سی نباری تھی۔‬
‫گاڑی انک نلڈنگ کے فرنب آکے رکی۔ لفٹ میں انئیر ہوئے اس ئے گارڈز کو‬
‫کہہ دنا کہ وہ اسے چھوڑ کے ننچے نارکبگ نک و نٹ کریں اگر جاہیں بو نشلی کر شکنے ہیں‬
‫ک نونکہ وہ نہیں جاہنی تھی کہ ان کی موخودگی میں دوسرے لوگ غیر آرامدہ محسوس‬
‫کریں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪797 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫م‬
‫ناپ قلور پہ شب ارننج تھا اور گارڈ ئے کمل نشلی کی تھی لبکن جائے سے اتکار‬
‫کر دنا۔ علتبا کے دھمکی د ننے پہ وہ لوگ ننچے نک آ گنے تھے اس سے نہلے وہ لوگ دامیر‬
‫کو اتقارم کرنا نہیں تھولے تھے۔‬
‫کل انک گارڈ عانب ہوئے کی وجہ سے وہ ان کی اچھی جاضی پرنڈ لگا حکا تھا۔‬
‫آدھا گھننہ ر کنے پہ ہی علتبا کی ک یق نت عج نب سی ہوئے لگی۔ نہاں مجبلف نتبل‬
‫سنٹ کنے تھے اور کبابوں کو سحانا گبا تھا لبکن اجانک طت یغت میں ئےزار نت گھل‬
‫گنی۔ ہر چیز سے دل اجاٹ ہو گبا۔ نہاں رکبا اب ئےمعنی لگا۔‬
‫انک منٹ نہیں لگا تھا طے کرئے میں کہ وہ وانس جائے گی‪ ،‬نہاں شب‬
‫الکوجل کے شوفین تھے اور شافٹ ڈرنکس تھی موخود نہیں تھیں۔ لفٹ کا نین پرنس‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫گ‬‫ن‬
‫کبا‪ ،‬لبکن وہ ا نج ھی۔ نا شاند س ک ہو نی ھی۔ وہ کاقی دپر ھڑی رہی کن اب‬
‫ب‬ ‫ل‬ ‫ک‬ ‫گ‬ ‫ب‬
‫ان یطار تھی ممکن نہیں تھا ک نونکہ گ ھیراہٹ طاری ہو رہی تھی۔‬
‫اس سے نہلے وہ سیڑھ نوں کا اننحاب کرنی لفٹ آجکی تھی۔‬
‫اندر داجل ہوئے گراؤنڈ قلور کا نین پرنس کبا لبکن گ ھیراہٹ پڑھنی گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪798 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شاند میں ئے ناشنہ آنلی کر لبا تھا۔“ ستنے پہ ہاتھ رکھنے وہ پڑپڑانی اور آدھ میں‬
‫ہی لفٹ کو روک دنا۔ اور ز ننے ا نسے ہی اپرئے لگی۔ لفٹ کے اندر گھین سی محسوس‬
‫ہو رہی تھی۔‬
‫ہونل کی نارکبگ نک نبدل جائے میں اس کو جار سے نانچ منٹ لگ جائے‬
‫تھے‪ ،‬اتھی اس کو شدند تھکن محسوس ہو رہی تھی۔ ز ننے اپرئے ہی اس کا شانس‬
‫تھول گبا تھا‪ ،‬شانس نحال کرئے کو اس ئے ستنے پہ ہاتھ رکھا اور ا ننے نالوں کو‬
‫چہرے سے ہبانا۔‬
‫گاڑدز کو نہیں پہ ہونا جا ہنے تھا گاڑی موخود تھی لبکن اس کے گارڈز نہیں۔ کجھ‬
‫گڑپڑ کا اجشاس ہوا۔ دماغ ئے حظرے کا االرم نحانا۔‬
‫ہ‬‫ن‬
‫اتھی اننی گاڑی نک نچی ھی ہیں ھی کہ کسی ئے اس کے نازو کو ا نی‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬

‫گرفت میں لبا جس پہ وہ سہم سی گنی لبکن مقانل کا چہرہ دنکھنے ہی اس کے اعصاب‬
‫کجھ پرشکون ہوئے۔‬
‫وہ دامیر تھا لبکن عحلت میں‪ ،‬اس کو نہاں سے جائے کا کہہ رہا تھا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪799 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہمیں نہاں سے جلبا ہے‪ ،‬جلدی کرو۔“ اس کی نات ستنے ما تھے پہ ناگوار‬
‫لکیریں اتھریں اور مقانل کی گرفت سے انبا ہاتھ چھڑوانا۔ وہ اس کو ا ننے شاتھ لے‬
‫جائے کے لنے آنا تھا شوچ کے انا آڑے آگنی۔‬
‫”مجھے کہیں نہیں جانا‪ ،‬اکبال چھوڑ دو مجھے۔“ وہ سنجبدگی سے بولی اور اننی گاڑی کی‬
‫طرف پڑھی۔‬
‫”پہ نحث کرئے کا وفت نہیں ہے میرے شاتھ جلو۔“ دامیر ئے تھر سے نازو‬
‫کو اننی گرفت میں لبا کہ اجانک کونی چیز ہوا کو چیرنی ہونی ان کے درمبان سے گزری‬
‫ً‬
‫جس پہ دامیر فورا الرٹ ہوا جبکہ اس کے دل میں خوف کی لہر دوڑ گنی۔ علتبا شاتھ‬
‫تھی‪ ،‬نہیں ہونا جا ہنے تھا۔‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫علتبا کو نازو سے تھا منے اس ئے ا ننے ھے کبا اور ا نی نشت سے ت نٹ کے‬
‫ن‬ ‫ج‬
‫ہولڈر سے اننی گن تکالی‪ ،‬گن گولی جالئے والی کی سمت کرئے اس ئے دو قاپر‬
‫ناندھے چب نارکبگ کی دوسری طرف سے لوگ نمودار ہوئے لگے۔‬
‫”پہ شب کبا ہو رہا ہے۔۔؟“ خوف سے سرد پڑئے اس ئے دامیر سے بوچھا خو‬
‫انک کے تغد انک نشاپہ ناندھ رہا تھا جبکہ گولباں جلنے کی آواز سے اس کا خود کا دماغ‬
‫ماؤف ہو رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪800 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تھاگو۔۔۔“ سرد آواز میں جکم دنا جس پہ وہ علتبا تقی میں سر ہالئے لگی۔‬
‫”میں ئے کہا تھاگو۔۔۔“ آواز میں کونی پرمی کا ناپر نہیں تھا‪ ،‬موت جٹسی‬
‫تھبڈی آواز پہ اس کی نانگوں سے جان جائے لگی‪ ،‬ندن لرزئے لگا‪ ،‬زنان ئے بو لنے‬
‫سے اتکار کر دنا۔‬
‫خود میں جان الئے اس ئے تھا گنے کی کوشش کی‪ ،‬جس سمت وہ تھاگی تھی‬
‫اسی طرف دامیر ئے اننی نشت کرئے نشاپہ ناندھبا سروع کر دنا اور علتبا کو کور دنا‬
‫چب انک گولی دامیر کے کبدھے کو چیرنی ہونی تکلی۔ وہ زنادہ آدمی تھے۔‬
‫علتبا ئے ننجھے مڑ کے دنکھا خو اس کے ناؤں مڑئے کا سنب نبا اور وہ لڑکھڑا‬
‫پڑی۔ ناس گاڑی کا سہارا لتنے اس ئے شانس لتنی جاہی نب نک ماشک لگے آدمی‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ہ‬‫ن ن‬
‫اس ک نچ کے ھے۔‬
‫”شٹ‪ ،‬شٹ‪ ،‬شٹ۔۔ علتبا کو نہاں نہیں ہونا جا ہنے تھا۔“ دامیر کا دل خوف‬
‫سے دھڑکا۔ کھوئے کا ڈر۔‬
‫جٹسے ہی انک آدمی ئے علتبا کا نازو دبوجا اس کے جلق سے انک جنخ پرآمد ہونی‪،‬‬
‫دامیر ئے ننجھے مڑ کے دنکھا اور علتبا کے ناس کھڑے آدمی کا نال چ ھحک نشاپہ ناندھا‪،‬‬
‫نہاں آدمی ننچے گرا اور دوسری جانب دامیر کے سر پہ کسی زوردار چیز سے وار کبا گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪801 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ُ‬
‫علتبا کی جنخ ئے اس کو تھ یکا دنا تھا۔ اس کو نازو سے دبوچے وہ پڑی گاڑی یں‬
‫م‬
‫زپردسنی ڈال رہے تھے‪ ،‬پرزور مزاچمت کرئے نبد ہونی آنکھوں سے اس ئے آخری نار‬
‫دامیر کو گھت نوں کے نل گرئے دنکھا اور خود وہ ہوش سے ن یگاپہ ہو گنی۔‬
‫وہ کتنی آشانی سے پرنپ ہو گنے تھے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫دونارہ چب آنکھ کھلی بو خود کو رسنوں سے جکڑے نانا‪ ،‬اس کے ہاتھ اور نازو‬
‫نبدھے تھے‪ ،‬اطراف میں تظریں گھمائے اس ئے جاپزہ لتبا جاہا بو شا منے ہی دامیر کو‬
‫نبدھے نانا۔ وہ ہوش میں تھا‪ ،‬اس کی تگاہیں زمین پہ نکی تھیں‪ ،‬چہرے پہ پرف‬
‫نتھر نلے ناپرات تھے۔‬
‫علتبا کی نانسنت دامیر کے ہاتھ‪ ،‬نازو اور ناؤں تھی مضنوط رسنوں سے ناندھے‬
‫گنے تھے۔ خوف اندر نک سما گبا تھا‪ ،‬عرصہ نہلے نتبا ازنت ناک وفت وانس آگبا تھا۔ وہ‬
‫تھر کسی کی فبد میں تھی۔ شانس لتنے میں نبگی ہوئے لگی۔‬
‫”تکا تفین ہے کہ وہی ہے جس کو النا تھا؟“ کسی مرداپہ آواز پہ علتبا ئے ننجھے‬
‫گردن گھمانی جاہی۔ وہاں گنٹ تھا شائے دکھانی دے رہے تھے۔ کجھ لوگ موخود تھے‬
‫خو نات کر رہے تھے۔ وہ انالین نہیں تھے پہ ہی رسین۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪802 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”لڑکی بو وہی ہے‪ ،‬لڑکا علط پہ ہو۔ پرابوا کا آدمی لگ رہا ہے۔“ انک کمزور آواز‬
‫میں بوال شاند وہ دامیر سے وافف نہیں تھا جبکہ علتبا کا تفین تھا۔‬
‫پرابوا! علتبا کے زہن میں لقظ گونحا۔‬
‫رسین مافبا کی کرمبل آرگباپزنشن!‬
‫لبکن دامیر کو پرابوا کا نہیں تھا۔ وہ انک اشاشن تھا خو اننی مرضی سے کام کرنا‬
‫تھا۔‬
‫”پرابوا کا ہوا بو تھوڑی دپر میں موت کو ہبلو کہہ د نبا۔“ ان میں سے انک آدمی‬
‫پرابوا کا ستنے ناگوار لہچے میں اس کو چ ھڑکبا بوال۔‬
‫علتبا ئے چھبکے سے سر موڑے دامیر کو دنکھا وہ اب تھی و نسے ہی دنکھا‪،‬‬
‫ئےجس و خرکت انک محشمہ۔ جٹسے ہلے گا بو ر نت کی مانبد نکھر جائے گا۔‬
‫نتھی دو لوگ اندر آئے‪ ،‬علتبا ئے سہم کے دامیر کو دنکھا‪ ،‬وہ کجھ کر ک نوں نہیں‬
‫رہا تھا۔‬
‫ُ‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫”بو مبکس کی نچی ہے نا۔۔“ ان میں سے انک آدمی اس کے شا منے کھڑا‬
‫ہوئے بوچھنے لگا۔‬
‫ت‬ ‫ک‬ ‫ن‬
‫علتبا ئے خوف سے زرد پڑئے آ یں اتھا یں اور قی یں سر النا۔‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ھ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪803 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”چھوٹ بولنی ہے۔۔“ اگلے ہی نل ا ننے رجشار پہ پڑئے والے ہاتھ ئے اس کے‬
‫خواس معطل کنے۔ رجشار پہ جلن ہوئے لگی‪ ،‬تظریں دامیر پہ گنیں۔ کونی خرکت‬
‫نہیں۔‬
‫”خود دنکھا ہے نجھے وہاں سے تکلنے‪ ،‬اور پہ کون ہے؟ جاننی ہے نا اس کو؟“‬
‫اس کے نالوں کو متھی میں تھرا کہ وہ کراہ اتھی۔ آنسوں آنکھوں سے زار و زار نہنے‬
‫لگے۔‬
‫علتبا ئے دامیر کو دنکھا‪ ،‬نانی نبک رہا تھا اس ئے تھر تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”میں نہیں جاننی اس کو۔۔“ وہ کا نتنے لہچے میں بولی کہ انک اور ہاتھ پڑئے‬
‫سے اس کا سر پری طرح جکرانا۔‬
‫”بوائے فرنبڈ بو نہیں کہیں۔۔ تھوڑی دپر رکھنے ہیں ان کو۔ کبا نبا لڑکی کو پڑنبا‬
‫دنکھ پہ ڈھنٹ نشلی تھی ہل جائے۔“ انک چھبکے سے علتبا کے نال چھوڑے …‪..‬ان‬
‫دوبوں ئے انبا رخ دامیر کی طرف کبا۔‬
‫”مجھے پہ پرابوا کا نبدہ لگبا ہے‪ ،‬اس کے ہاتھ میں انگوتھی تھی۔“ دوسرا آدمی تھر‬
‫اس کو ننتبہی انداز میں بوال جٹسے کہہ رہا ہو کہ تھٹس پہ جانیں اس کو نکڑ کے۔‬
‫”اور کجھ نہیں تھا؟“ بوچھنے پہ دوسرے ئے تقی میں گردن ہالنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪804 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اور اس لڑکی کے ناس؟“‬


‫”انک نبگ تھا نس‪ ،‬چھین لبا۔۔ شادی شدہ لگنی ہے۔“ علتبا کی طرف دنکھنے وہ‬
‫جبانت سے بوال چب نہلے آدمی کی تظر اس کے سبدھے ہاتھ کی نٹسری اتگلی پہ گنی‪،‬‬
‫ڈانمبڈ رنگ۔‬
‫”مبکس ئے خود بو نہیں کر لی شادی اس سے۔۔ ہم شالوں کا دین تھی بو کونی‬
‫ہونا نہیں۔“ وہ جبانت سے کہنے ہوئے وہاں سے تکلنے کو تھے کہ گنٹ پہ ہی رک‬
‫گنے۔‬
‫”ننجھے سے مغلوم ہوا ہے کہ پہ وہی ہے جس ئے کجھ دن نہلے ناس کو مارا‬
‫تھا۔ اشاشن ہی ہے پہ۔۔“ وہ گنٹ کے ناس تھے چب آواز اندر نک سبانی دی۔‬
‫”اشاشن! میں ئے نکواس کی تھی کہ پہ پرابوا کا ہے۔ انشا کرو نبا کرواؤ کہ نام‬
‫کبا ہے اور ناقی شب تھی۔۔ کسی ئے بو دنکھا ہو گا اس کو۔“‬
‫تھوڑی سی سحانی کا ادراک ہوئے ہی ان کی بو جٹسے سنی گم ہو گنی اور ہڑپڑا‬
‫سے گنے کہ پہ وہی سحص تھا جس ئے ناس کو مارا تھا اب انہیں نبا کرنا تھا کہ کس‬
‫کے کہنے پہ ان کے ناس کو مارا گبا تھا۔‬
‫علتبا کی موخودگی ان کے مطابق دامیر کو نارخر کرئے کے لنے تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪805 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کس کے کہنے پہ تم ئے مارا انیزو کو؟“ انک سحص وانس اندر آنا ہوا دامیر کو‬
‫مکا مارئے ہوئے بوال۔ پہ وہی تھا جس ئے علتبا پہ ہاتھ اتھانا تھا۔‬
‫دامیر کی طرف لبکنے انشان کو دنکھنے علتبا کی ئےشاچنہ جنخ تکل گنی۔‬
‫”کجھ بو لگنی ہے بو اِ س کی۔۔۔“ وہ وانس علتبا کی جانب مڑا‪ ،‬اس کے جنجنے پہ‬
‫معنی چیز مشکرانا۔‬
‫”ا ننے اِ س نار سے بول کہ ہمیں نبا دے کہ اِ س ئے کس کے کہنے پہ‬
‫ہمارے ناس کو مارا بو ہم نمہیں چھوڑ دیں گے۔“ وہ اب آہشنہ پرم آواز میں علتبا کے‬
‫شا منے چھکبا ہوا بوال کہ علتبا ئے سہم کے دامیر کو دنکھا۔‬
‫”مم۔۔۔ میں نہیں جاننی اس کو‪ ،‬مجھے چھوڑ دو۔“‬
‫وہ ہکالنی اور تقی میں سر ہالئے لگی۔‬
‫”تھر اس کے شاتھ کبا کر رہی تھی تم؟“ علتبا کے شا منے سے ہٹ کے وہ‬
‫زرا شانبڈ پہ کھڑا ہوا کہ علتبا دامیر کو واصح دکھانی دے لبکن وہ د نکھے بو سہی۔‬
‫”اس کا نام مغلوم ہے؟“ ا ننے ہاتھ کی اتگلباں علتبا کے چہرے پہ مس‬
‫کرئے ہوئے بوال کہ انبا منہ دوسری طرف کرنی وہ ششکی دنا گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪806 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں کسی کو نہیں جاننی‪ ،‬مجھے جائے دو نہاں سے۔۔“ وہ اب کی نار جالنی‬
‫تھی۔‬
‫”اس سے نس کہہ دو کہ ہمیں نبائے کہ کس کے کہنے پہ اِ س ئے انیزو کو مارا‬
‫ہے نمہیں جائے دیں گے۔“ وہ پرمی سے علتبا کو نحکارئے ہوئے بوال اور کمرے سے‬
‫ناہر گبا چہاں ناقی شب تھی کھڑے تھے۔‬
‫”تم انہیں نبا دو کہ تم کون ہو اور کس کے کہنے پہ تم ئے اِ ن کے آدمی کو‬
‫مارا تھا۔ مجھے نہاں سے جانا ہے۔۔“‬
‫علتبا ئے جنجنے ہوئے دامیر سے کہا لبکن اس کو انشا محسوس ہوا جٹسے وہ دبواروں‬
‫سے نات کر رہی تھی۔‬
‫”اِ س کی گرل فرنبڈ ہو گی نتھی بو نحائے آگبا تھا۔ ان کا دھبان رکھبا لڑکا کجھ بو‬
‫بولے گا‪ ،‬انک نار مغلوم بو ہو کہ پہ لڑکی اسی کی ہے بو نارخر کرئے میں مزا تھی‬
‫آئے۔“ وہ آدمی ا ننے ناقی کھڑے شاتھ نوں سے بوال۔‬
‫”تھنی مجھے بو پہ اس آدمی کی نہیں لگ رہی دنکھا نہیں تھا کٹسے نُت نبا نتتھا‬
‫تھا۔ ہال نک نہیں اگر کجھ جکر وکر ہونا بو پڑنبا بو سہی۔۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪807 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ مین آدمی نہاں سے جا حکا تھا۔ اب نس گنٹ پہ کھڑے دو شاتھ نوں کی‬
‫آوازیں ت ھیں خو اندازے لگا رہے تھے۔‬
‫”اس ئے انک تھی تظر اس لڑکی پہ ڈالی بو سمجھ جانا کہ جکر ہے تھر دنکھبا‬
‫پڑ ننے اور پڑنائے کا مزا۔۔“ ان دوبوں ئے انک نار گردن اندر کی طرف کرئے علتبا‬
‫اور دامیر کو دنکھا ت ھر قہقہہ لگا ا تھے۔‬
‫گنٹ نبد ہوئے لگا۔‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫کسی ئے ان کو النا تھا۔ قدموں کی آواز آنی ھی خو دور جا رہی ھی۔‬
‫آوازیں اب نبد ہو گنی ت ھیں۔ وہ جا جکے تھے۔‬
‫آواز تھی بو نس علتبا کے روئے کی‪ ،‬اسے تکل یف ہو رہی تھی جشمانی تھی اور اندر‬
‫تھی۔ دامیر کی ئےجسی پہ تکل یف ہو رہی تھی۔‬
‫ان آدم نوں ئے علتبا کو نارخر کبا تھا اور دامیر ہال نک پہ تھا نہاں نک کے کونی‬
‫ل ن‬
‫عصہ تھی نہیں تھا۔ وہ رو رو کے تھک گنی بو خواس گم ہوئے گے‪ ،‬آ یں ا ک نار‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫تھر نبد ہوئے کی تھی چب اس کے ہونٹ آہشنہ سے ہلے۔۔‬


‫”دامیر۔۔۔!“‬
‫لبکن وہ ونشا ہی رہا۔ شاکن محشمہ۔ زمین کو گھورنا ہوا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪808 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ دامیر سے ناراض تھی‪ ،‬حقا تھی عصہ تھی۔ اب شکوے تھے۔ شکانات تھیں۔‬
‫اس ئے انک نار تھی اسے نہیں دنکھا تھا۔ وہ ڈھنٹ تھا۔‬
‫ت ُ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫کبا وہ اسے ہحا ننے سے اتکار کر کے ھبک کر رہی ھی؟ اس آدمی ئے کہا تھا‬
‫کہ اگر وہ نبا دے اِ س کو چھوڑ دیں گے لبکن کبا وافعی چھوڑ دیں گے۔‬

‫اس ئے تھبگی نلکیں اتھا کے شا منے دنکھا۔ آنکھوں میں نمی کی وجہ سے م یظر‬
‫دھبدال شا دکھانی دے رہا تھا۔‬
‫”دامیر۔۔۔“ اس کی تکار میں صدبوں کی تکان تھی‪ ،‬انک آس‪ ،‬امبد لبکن وہ کجھ‬
‫پہ بوال۔ اس کی نلکوں نک ئے جنٹش پہ کی۔ وہ سباٹ چہرہ چھکائے نتتھا رہا۔‬
‫”آنی اتم انکستبکتبگ دامیر۔“‬
‫اس نبد کمرے کی وجشت ناک جاموسی میں علتبا کی سرگوسی گونچی لبکن دامیر‬
‫کی تگاہ پہ اتھی۔ علتبا کے دل کو تکل یف ہونی۔‬
‫”مجھے جانا ہے نہاں سے۔۔“ علتبا ہزنانی انداز میں جنچی تھیں۔‬
‫”اِ ن کو نام ک نوں نہیں نبا رہے تم؟“ وہ جالنی ہونی بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪809 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر کا ضیط کمال تھا کہ وہ علتبا کے شا منے ہوئے تھی نتھر نبا نتتھا تھا جٹسے‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫م‬ ‫ُ‬
‫اس یں دل یں تھا۔ وہ انک ئےجان روبورٹ نبا ہوا تھا۔‬
‫علتبا کی نات ستنے دامیر کا دل زوروں سے دھڑکا۔ پہ وہ خود جانبا تھا کہ اس‬
‫وفت کٹسے ضیط کنے نتتھا تھا اور دوبوں کی جان نحائے کی جاطر اس کو شاکت رہبا تھا‬
‫کونی تھی ناپر نہیں دکھانا تھا اور نا پہ طاہر کرنا تھا کہ علتبا اس کی ن نوی تھی۔‬
‫اگر اِ ن لوگوں کو مغلوم ہو جانا کہ وافعی علتبا اِ س کی ن نوی تھی بو وہ اس کے‬
‫شا منے اس کی عزت پہ ہاتھ ڈا لنے‪ ،‬دامیر سے نام اگلوائے کے لنے وہ علتبا کو نارخر‬
‫کرئے نتھی اس کو انحان ئےجس نتبا تھا۔‬
‫کونی ناپر نہیں د نبا تھا۔ علتبا سے ن یگانگی دکھانی تھی۔ وہ ‪ trained‬تھا‬
‫ئےجسی دکھائے کے لنے‪ ،‬نارخر سہنے کے لنے لبکن علتبا نہیں۔ اس کے دل ئے‬
‫شکر ادا کبا کہ علتبا تھولی نہیں تھی اِ س کی نات۔ وہ اس کو نہحا ننے سے اتکاری تھی‬
‫لبکن اگر مان جانی بو۔‬
‫اسے کجھ دپر اور ان یطار کرنا تھا نس کجھ دپر۔۔ شگبل ملنے ہی وہ انبا ضیط بوڑے‬
‫گا۔ اس سے نہلے وہ علتبا کی جان کا رشک نہیں لے شکبا تھا۔ علتبا کی جان‪ ،‬وہ‬
‫ضرف انک جان نہیں تھی اب۔۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪810 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کو محسوس ہو رہا تھا کہ علتبا کی تگاہیں اس پہ تھیں۔ مالمنی‪ ،‬شکوے سے‬
‫تھری۔‬
‫”آنی اتم شوری پرنسٹس لبکن پہ الزمی تھا ورپہ میری انک نار تھی قکر کرئے پہ‬
‫وہ نمہیں مار د ننے۔۔ تم نس ا نسے ہی اتکار کرنی رہو۔“ وہ ا ننے دل میں کہہ رہا تھا۔‬
‫شاند علتبا سمجھ نانی۔‬
‫”قشم ہے نمہاری‪ ،‬جس ئے نمہیں ہاتھ لگانا اس کو پڑناؤں گا۔ نس تھوڑی سی‬
‫اور آزمانش‪ ،‬تھوڑا شا وفت اور۔۔۔“ زمین کو گھورئے ہوئے اس کا زہن الجھا ہوا تھا۔‬
‫علتبا خود کو چھڑوائے کی کوشش میں تھی۔‬
‫نہاں اندر الئے ہی اس ئے کمرہ دنکھ لبا تھا‪ ،‬کونی کتمرہ نہیں تھا ورپہ علتبا کی‬
‫غ‬ ‫م‬ ‫ُ‬
‫سرگوسی سے ان کو لوم ہو جانا شب۔۔‬
‫ن‬ ‫ی ً‬
‫مج صرا دامیر کو ان یطار تھا۔ اور کڑئے والوں کو دامیر کو نارخر کرئے کی وجہ جا نے‬
‫ہ‬
‫ُ‬
‫تھی خو علتبا تھی ناکہ وہ دامیر سے نام اگلوائے کے لنے اسے ا عمال کرئے۔ اس‬
‫ی‬ ‫س‬
‫ُ‬
‫کی قکر کرنا‪ ،‬پڑنبا علتبا کو آشانی سے مروا شکبا تھا۔ علتبا کے اتکار ئے ان لوگوں کو الجھا‬
‫دنا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪811 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نحائے کسی لوکل قالنٹ کے انہوں ئے نیزی دکھانی ‪ ،‬ا ننے آدم نوں کو نبار کر‬
‫کے اور اشلحہ لوڈ کر کے وہ لوگ پرابو نٹ چٹ میں انلی کے لنے رواپہ ہوئے۔ دامیر‬
‫ُ‬
‫کے نتبک نین سے رنان کو فوری الرٹ مل گبا تھا تھر انہوں ئے اس کی لو ٹشن‬
‫ک‬
‫جبک کی خو انک جگہ پہ رکی تھی۔‬
‫دامیر اکبال ہونا بو کتھی رنان کو نتبک الرٹ پہ تھنجبا اسی کو ِمد تظر رکھنے رنان ئے‬
‫علتبا کی لوکٹشن جبک کی۔ ڈاؤن ناؤن کی نہت پرانی عمارت کی جگہ تھی۔ آس ناس‬
‫کونی آنادی نہیں تھی۔ وہ لوگ حظرے میں تھے۔‬
‫نبا دپر کنے رنان ئے چنہ کو کہا خو اجانک ہڑپڑی پہ خونک اتھی۔‬
‫”شسرال جانا ہے نبار ہو جاؤ۔“‬
‫چنہ کے نار نار بوچھنے پہ وہ دانت نٹسنے بوال۔‬
‫ن‬
‫نین گھتنے کی قالنٹ تھی۔۔ نس آدھا گھننہ مزند وہ لوگ نجنے والے ھے‪ ،‬کس‬
‫ب‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ہ‬

‫کو اطالع تھی آدھا فصور بو اس مبکس کا ہی ہونا تھا خو علتبا تھٹس جانی تھی۔‬
‫چ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫وہاں نجنے اس ئے کس کے آد نوں کو ھی شاتھ لبا۔ ٹس کے فرنب آدمی‬
‫تھے۔ مبکس کے گھر کی نٹشمنٹ میں شب چمع تھے‪ ،‬ان کو انک شاتھ چملہ کرنا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪812 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫سباہ کارگو ڈرنسبگ‪ ،‬ونشٹ نبلٹ میں لوڈڈ گیز موخود تھیں۔ سباہ بوٹ نہن ر کھے‬
‫تھے۔ ہاتھوں پہ دسبائے تھے۔ وہ اس طرح نبار تھے جٹسے انڈر کور آرمی ہو۔‬
‫”دس لوگ اس کی نجھلی شانبڈ سے جانیں گے۔ ڈرنک تم نمانبدگی کر لو گے؟“‬
‫رنان ئے انک تقشہ شا منے رکھا تھا جس پہ اتگلی سے نشاندہی کرنا بوال۔ ڈرنک ئے انانت‬
‫میں سر ہالنا۔‬
‫”میں اس شانبڈ جاؤں گی۔“ چنہ اوپری حصے کی جانب اشارہ کبا کہ رنان ئے‬
‫اس کا ہاتھ تھاما۔‬
‫”تم میرے شاتھ رہو گی‪ ،‬انک انک منٹ۔۔“ وہ سنجبدگی سے دو بوک انداز میں‬
‫بوال کہ چنہ ئے صدمے سے اس کو دنکھا۔‬
‫”میں کسی جاطے میں آنی تھی ہوں نا نہیں۔۔؟“ اس کے لہچے میں عصہ تھا۔‬
‫اب رنان جاہبا تھا کہ وہ ہر وفت ہی اس کے شاتھ رہے۔‬
‫”آنی رنت نٹ‪ ،‬تم میرے شاتھ رہو گی۔“ اس کے عصے کو تظر انداز کرئے بوال۔‬
‫اس وفت دامیر ضروری تھا۔‬
‫”مبکس پہ جگہ تھی جالی ہے نہاں سے اندر جانا آشان ہے۔“ رنان ئے اس‬
‫عمارت کی دانیں جانب اشارہ کبا خو نتھروں کی وجہ سے تھوڑا اونحانی کی طرف تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪813 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آپ نین آدم نوں کے شاتھ نہاں سے انئیر ہو نگے۔۔۔“‬


‫”انیر نٹس شب کے ناس ہیں۔۔ کتبکٹ کرو۔۔“ رنان کے کہنے پہ شب کے‬
‫ا ننے کان میں ڈبوانس ڈالی۔‬
‫”میری آواز آنی؟“ رنان ئے بوچھا۔ اب ئے نکحا مت نت خواب دنا۔‬
‫”میرے جکم کے نبا کونی انکشن نہیں ہو گا۔۔ چب نک میں پہ بولوں کونی تھی‬
‫انئیر نہیں ہو گا۔ ڈرنک نمہاری زمہ داری ہو گی وہاں ڈانبامبڈ سنٹ کرئے ہیں۔‬
‫نجھلی شانبڈ پہ۔۔ جٹسے ہی میں کہوں وہ تھتنے جا ننے۔ وہ دوبوں انک روم میں نبد ہیں۔‬
‫ہو شکبا ہے کونی سنٹسر تھی موخود ہو۔ خو ر سنے میں آئے نبا د نکھے گولی جالنی ہے۔۔“‬
‫س‬ ‫ک‬‫ن‬
‫رنان ئے شب کو انک تظر د نے نجبدگی سے کہا۔‬
‫ھ‬
‫”انبا انبا ونین جبک کر لو‪ ،‬آن مانی کمانڈ۔۔“ رنان کی سرد آواز گونچی۔ نانبدی‬
‫تگاہوں سے شب کو دنکھا شب ئے ”نس سر“ نکحا کہا اور نٹشمنٹ سے تکلے۔۔‬
‫رنان ئے چنہ کا ہاتھ تھاما اور اس کو شاتھ لنے گاڑی میں نتتھا۔ ہ نوی مسئیز‪،‬‬
‫لوڈڈ گیز شب نبار تھا۔‬
‫جبہوں ئے دامیر اور علتبا کو نکڑا تھا‪ ،‬دامیر ئے جس کو اشاشن کبا تھا اس کے‬
‫لوگ تھے۔ شوئے پہ سہاگا اس کام میں ڈرنبا تھی شامل تھی۔ جس ئے اب نک بو‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪814 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ان کو پہ نہیں نبانا تھا کہ دامیر اور علتبا کا کبا تغلق تھا۔اس ئے دامیر کا نبانا اور‬
‫ندلے میں اِ س ئے علتبا کو کڈن نپ کروانا تھا۔۔‬
‫گاڑناں اس عمارت سے کاقی قاصلے پہ کھڑی کر دی گنی تھیں ناکہ وہاں موخود‬
‫لوگوں کو دکھانی پہ دے۔‬
‫”ڈرنک نہلے تم نجھلی شانبڈ کی طرف تکلو۔۔“ رنان کی آواز انیر نٹس سے نکرانی بو‬
‫ڈرنک نس سر کہبا ہوا ا ننے آدم نوں کو لے کے تکال۔۔ ان کی بوزنسیز نبائے اس ئے‬
‫ڈانبامانبڈ سنٹ کنے۔‬
‫رنان چنہ کا ہاتھ تھامے ناہر تکال۔۔ اس کے ننجھے ہی نانچ آدمی تھے۔‬
‫”رنان ہاتھ چھوڑ دو۔۔“ چنہ شاتھ جلنے ہوئے بولی۔‬
‫”نمہیں شاتھ نہیں آنا جا ہنے تھا۔۔“ وہ ئےنسی سے بوال کہ چنہ کو اچھتبا ہوا۔‬
‫اسے شاتھ الئے کبا وہ نجھبا رہا تھا؟‬
‫”مجھے دامیر کی قکر ہے لبکن تم شاتھ ہو‪ ،‬میرا فوکس نہیں پڑھ رہا۔۔“ وہ‬
‫ئےنسی سے بوال۔‬
‫”قار گاڈ سبک رنان! میں کونی کم عقل نہیں خو تم انبا سیرنس لے رہے ہو۔“‬
‫چنہ اس کے فرنب ہونی بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪815 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم ئے دنکھا ہے نا میں کر شکنی ہوں۔ میری قکر نہیں کرو۔ ہمیں دامیر اور‬
‫علتبا کو دنکھبا ہے۔۔“ چنہ ئے اس کے چہرے پہ دوبوں ہاتھ رکھنے تفتنی لہچے میں کہا‬
‫کہ وہ سر ہال گبا۔‬
‫”خود کو کجھ پہ ہوئے د نبا۔ مجھے تم شالمت جا ننے۔۔“ وہ وارن کرنا ہوا بوال چنہ‬
‫ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”میری تظروں سے انک نل کے لنے تھی اوچھل نہیں ہونا۔“ اس کے ہاتھوں‬
‫پہ ہاتھ رکھنے وہ سرد لہچے میں بوال اور ئےاجتباری میں اس کے فرنب ہوئے جشارت کر‬
‫نتتھا۔‬
‫”نی مانی شانبڈ۔“‬
‫انبا کہہ کے وہ آگے پڑ ھنے لگا۔ کبدھے پہ ہ نوی مسین گن تھی۔ جبکہ اس‬
‫موفع پہ اجانک ہونی واردات پہ چنہ بوکھال اتھی۔ اس ئے ننجھے مڑ کے دنکھا‪ ،‬ناقی لوگ‬
‫ُ‬
‫اجانک دنکھنے پہ تگاہیں خرا گنے اور ادھر ادھر د ھنے گے ٹسے کجھ ہوا ہی یں۔‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ل‬ ‫ک‬‫ن‬

‫”انبا تھی کبا ڈرنا۔۔“ وہ عصے سے پڑپڑانی کہ نبدہ لوگوں کا لحاظ کر لتبا ہے۔‬
‫رنان انئیرنٹس کے فرنب نہنحا اور مسین گن کو نبار رکھا۔ چنہ اس کے نالکل‬
‫فرنب کھڑی تھی۔ سباہ نبد جبکٹ سباہ ہی چئیز‪ ،‬نالوں کو ناندھ رکھا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪816 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان ئے اندر کی طرف چھاتکا۔ نین آدمی تظر آئے۔‬


‫”میرے کہنے پہ ڈرنک۔۔“ ڈرنک کو محاظب کبا جس ئے دھماکے کی نباری کر‬
‫رکھی تھی۔‬
‫”اتھی۔۔۔“ رنان کی آواز انیر نٹس سے گونچی اور اجانک ہی عمارت کی نجھلی‬
‫طرف سے دھماکے کی آواز گونج اتھی۔‬
‫”ملٹسکا قانیر۔۔۔“‬
‫چنہ کو اشارہ کبا۔ دھماکے کی آواز ستنے اندر موخود لوگوں کو دھبان نجھلی طرف‬
‫ف‬ ‫ُ‬
‫گبا۔۔ نہاں ان کی گردنیں گھومی اور مو ع کا قاندہ اتھائے چنہ کے شاتھ رنان ئے‬
‫قانیر کبا۔۔ نین آدمی تھے انک شاتھ ڈھیر ہوئے۔۔‬
‫”مبکس اس طرف جاوی ہوں۔“ رنان کی آواز پہ دانیں جانب والی نتم پہ خرکت‬
‫میں آنی۔۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫کمرے میں ہ نوز جاموسی تھی۔ علتبا اب رو رو کے جاموش ہو جکی تھی۔ دامیر کی‬
‫بوزنشن میں کونی جاطر خواہ نبدنلی نہیں آنی تھی۔ وہ جانبا تھا کہ نس تھوڑا اور ان یطار۔۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪817 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کمرے کا گنٹ کھال‪ ،‬اندر دو آدمی آئے۔ انک کے ہاتھ میں گن تھی ہو شکبا تھا‬
‫دوسرے کے ہاتھ میں تھی ہونی۔‬
‫”انشا کرئے ہیں کہ پرنلر دکھائے ہیں ان صاچب کو کہ کمزوری ہاتھ لگنے سے‬
‫کبا ہونا ہے۔۔“ وہ دوبوں وہی تھے خو گنٹ پہ کھڑے تھے‪ ،‬علتبا کی طرف دنکھنے‬
‫جبانت سے مشکرائے تھر دامیر کو دنکھا۔‬
‫ن‬
‫ان کی نات ستنے علتبا کی ہراشاں آ کھیں تھر سے تھبگنے لگیں اور دامیر کو‬
‫ئےنسی سے دنکھا۔‬
‫اور پہ نہلی نار تھا چب دامیر ئے انبا سر اتھانا تھا‪ ،‬اس کی آنکھوں میں وہی سرد‬
‫ین تھا۔ مار د ننے کا ج نون۔ آنکھوں میں وارنبگ تھی کہ ہاتھ لگا کے دکھاؤ۔ دامیر کے‬
‫سر اتھائے پہ علتبا کو مزند رونا آئے لگا کہ کم از کم وہ کجھ ہال بو ورپہ اس کی جاموسی‬
‫مار رہی تھی۔‬
‫نک ُ‬
‫دامیر کو اننی دپر میں نہلی مرننہ خرکت کرنا دنکھ اور آنکھوں میں وجشت د ھنے ان‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫دوبوں آدم نوں ئے تھوک تگال۔ اس ئے چیڑے زور سے نچ ر ھے ھے۔ ہا ھوں کی‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ک‬
‫متھی نبائے نبد کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪818 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ُ‬
‫اجانک انک زور دار آواز پہ ان دوبوں آدم نوں ئے خونک کے گنٹ کی طرف‬
‫س‬
‫دنکھا۔ نہی وہ لمحہ تھا چب دامیر چھبکے سے اننی کرسی سے اتھا اور ھنے کا مو ع د ننے‬
‫ف‬ ‫ج‬‫م‬
‫نبا اس آدمی کی گردن کو گھمائے بوڑا۔‬
‫علتبا کی اجانک جنخ گونج اتھی۔ اس سے نہلے کہ دوسرا آدمی کجھ سمجھبا ہاتھ میں‬
‫تھاما جافو دامیر اس کے ستنے میں گھونپ حکا تھا۔ اسی آدمی کی ونشٹ سے گن‬
‫تکالے اس کے منہ میں رکھی اور دو قاپر کنے۔۔‬
‫”میری ن نوی پہ چملے کسنے کے لنے۔۔“ دو مزند قاپر اس ئے زمین پہ پڑے اس‬
‫مرے آدمی پہ کنے۔۔‬
‫اس کی آنکھوں میں دہشت تھی۔ گن کو ونشٹ میں اتکائے وہ علتبا کی طرف‬
‫پڑھا خو اب زار و فطار رونا سروع ہو جکی تھی۔‬
‫”آنی اتم شوری پرنسٹس۔۔“ اس کے ہاتھ رسی سے کھو لنے ہوئے وہ نادم لہچے‬
‫میں بوال۔ علتبا ہاتھ آزاد ہوئے پہ فورا اس کی گردن کے گرد نازو لت نٹ کے روئے لگ‬
‫گنی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪819 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ت‬ ‫گ‬ ‫ح‬ ‫ُ‬


‫عمارت میں دھماکہ ہوئے کی اطالع ڈرنبا اور اس ص کو کر دی نی ھی خو‬
‫س‬
‫اس کے شاتھ تھا۔ رنان آگے پڑھا اور نتھروں کی روش پہ جلنے وہ اونحانی کی طرف‬
‫پڑ ھنے لگے چہاں عمارت کا اندرونی حصہ دکھانی دے رہا تھا۔ وہاں کمرے ننے تھے‪،‬‬
‫ناالنی میزل تھی انک۔ وہاں تھی کمرے ننے تھے۔‬
‫جشنہ جال عمارت تھی لبکن اس کے سنئیر کو دونارہ سے نبانا گبا تھا۔ وہاں‬
‫فرش تکا تھا اور ننچے جائے کے لنے سیڑھباں تھیں۔ رنان آہشنہ قدموں سے آگے پڑھ‬
‫رہا تھا اس ئے ا ننے ننجھے آدم نوں کو اوپر کی طرف جائے کا اشارہ کبا۔ نٹشمنٹ کی‬
‫سیڑھ نوں سے ننچے اپرئے نین آدمی نکرائے تھے جن کو وہ فوری مار حکا تھا۔‬
‫”ڈرنک‪ ،‬مبکس! اس جگہ کو اڑائے کی نباری کرو۔ نہاں کسی کو تھی زندہ نہیں‬
‫چھوڑنا۔“ رنان ئے دھتمی آواز میں جکم صادر کبا‪ ،‬ڈرنک کی نس سر آواز گونچی۔‬
‫رنان ئے انک اجتباط تھری تظر ننجھے ڈالی‪ ،‬چنہ اس کے شاتھ تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪820 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آنی اتم شوری پرنسٹس۔۔“ اس کے ہاتھ رسی سے کھو لنے ہوئے وہ نادم لہچے‬
‫میں بوال۔ علتبا ہاتھ آزاد ہوئے پہ فورا اس کی گردن کے گرد نازو لت نٹ کے روئے لگ‬
‫گنی۔ پرنسٹس! وہ پہ ستبا جاہنی تھی لبکن ا نسے جاالت میں نہیں۔‬
‫”آنی ہ نٹ بو دامیر۔۔ تم نہت پرے ہو۔“ اس ئے سجنی سے دامیر کے گرد‬
‫نازو ناندھے تھے۔‬
‫”جانبا ہوں۔“ ا ننے دبوں تغد اس ئے علتبا کے وخود کو محسوس کبا تھا۔ انک‬
‫شکون شا سران نت کر گبا تھا۔ ئےشاچنہ ہی اس ئے علتبا کی گردن کو ل نوں سے‬
‫چھوا۔ دل پہ پڑئے والی تھبڈک تھی خو علتبا کے وخود سے ملی تھی۔‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫س م ت‬
‫”آنی اتم شوری کہ انہوں ئے نمہیں ہاتھ لگانا۔۔“ شدت سے تنے یں نے‬
‫ج‬‫ن‬
‫ہوئے وہ سرگوسی میں بوال کہ شاند وہ تھر سے دور پہ ہو جائے۔‬
‫”مجھے نمہارے شاتھ نالکل نہیں رہبا۔ تم ئےرچم‪ ،‬طالم انشان ہو۔۔“ اس کی‬
‫گردن میں چہرہ چھبانی وہ روئے کے درمبان بولی۔ اس کے نہنے آنسوؤں سے دامیر کو‬
‫اننی گردن تم ہونی محسوس ہونی۔ وہ نحوں کی طرح روئے انبا ڈر کم کر رہی تھی خو اس‬
‫تھوڑے سے وفت میں محسوس کبا تھا۔ دامیر اس کی نیز دھڑکن کو محسوس کر شکبا‬
‫تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪821 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دل اس کا تھی زوروں سے دھڑک رہا تھا۔ اس کو کھوئے کا شوچ تھی نہیں‬
‫شکبا تھا وہ۔‬
‫ن‬
‫اتھی تھی کرسی پہ تتھی تھی‪ ،‬دامیر اس کے آگے زمین پہ ننحوں کے نل نتتھا‬
‫اس کے گرد نازو ناندھے ہوئے تھے۔‬
‫”مجھے لگا کہ آج میں شب کھو دو گی دامیر‪ ،‬میں مر جانی۔“ اس کا وخود لرزئے‬
‫لگا تھا۔ اس کا رونا دامیر کو تکل یف میں متبال کر رہا تھا۔‬
‫”شش۔۔“ اس ئے علتبا کو خود سے الگ کبا۔‬
‫”ہمیں نہاں سے تکلبا ہے۔۔“ اس کے چہرے کو ہاتھوں میں تھامے پرمی‬
‫سے بوال۔‬
‫علتبا ئے تھبگی آنکھوں سے دامیر کو دنکھا۔ دامیر کے زہن میں چھماکا ہوا‪ ،‬علتبا‬
‫س‬
‫کا کہا گبا چملہ۔ اِ س کی کبا ک یق نت تھی وہ ھنے سے قاضر تھا۔ علتبا کے نال‬
‫ج‬‫م‬
‫چہرے سے ننجھے کرئے اس ئے تغور اس کا چہرہ دنکھا۔‬
‫دامیر کو تکل یف ہونی۔ اس کی آنکھوں میں جتھن ہوئے لگی۔ پرمی سے اس کے‬
‫رجشار پہ ہاتھ ت ھیرا۔ ت ھیڑ کا نشان تھا۔ عصہ رگوں میں الوا ین کے نیرئے لگا۔ سجنی‬
‫سے چیڑے تھتنچے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪822 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کی آنکھوں ئے علتبا کے انک انک تقش کو خوما۔‬


‫ک‬‫ن‬
‫علتبا ئے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ ر کھے کہ دامیر ئے آ یں نبد کرئے اس کے‬
‫ھ‬
‫ما تھے سے ماتھا تکانا۔ اگر آج اِ سے کجھ ہو جانا بو۔۔ وہ اب تھی رو رہی تھی‪ ،‬ہحکباں‬
‫تھر رہی تھی کہ آنسوں تھشل کے عارصوں کو پر کرئے جا رہے تھے۔ چہرے پہ‬
‫دھول تھی اور آنسو نہنے ا ننے نشان چھوڑے جا رہے تھے۔‬
‫”میں نمہیں کھو نہیں شکبا۔۔“ کہنے دامیر ئے اس کے وخود کو انبا حصہ نبانا‪،‬‬
‫سجنی سے اس کے گرد نازو ناندھے اور اس کے چہرے پہ بوشوں کی پرشات کر دی۔‬
‫ناہر سے گول نوں کی آوازیں آرہی تھیں‪ ،‬اس کو رسنوں سے آزاد کبا اور ہاتھ‬
‫تھاما۔۔ ننچے چھکنے دوسرے آدمی سے تھی گن لی اور اس کی مبگزین جبک کرئے‬
‫لگا۔ انک نسنول کو اننی ونشٹ میں رکھنے ہوئے انک ہاتھ سے علتبا کا ہاتھ نکڑا اور‬
‫دوسرے سے گن تھامی۔‬
‫گنٹ کے ناس نیروں کی آوازیں سبانی د ننے لگیں‪ ،‬دامیر ئے علتبا کو ا ننے‬
‫عفب میں کرئے دئے ناؤں آگے ہونا جاہا اور گردن ہلکی سی ناہر تکا لنے جاپزہ لبا۔‬
‫علتبا کا ہاتھ چھوڑا کہ وہ ڈنڈنانی تگاہوں سے دنکھنے لگی۔ وہ ہاتھ نہیں چھوڑنا جاہ‬
‫رہی تھی لبکن دامیر کی تگاہوں ئے جاموش ر ہنے کا اشارہ کبا۔ دھماکے کی آواز میں‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪823 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ہی اس ئے دوبوں آدم نوں کو مار دنا تھا۔ ممکن تھا کہ کسی ئے نٹشمنٹ سے گول نوں‬
‫کی آواز پہ سنی ہو۔‬
‫دامیر اجانک گنٹ سے ناہر تکال‪ ،‬علتبا ئے پڑ ننے اس کو دنکھا چب گول نوں کی‬
‫آوازیں آ نیں‪ ،‬وہ ئےشاچنہ کابوں پہ ہاتھ رکھ گنی دل کی دھڑکن کابوں میں سبانی‬
‫د ننے لگی‪ ،‬وہ نہت زنادہ خوف زدہ ہو گنی تھی۔‬
‫گول نوں کی آواز میں وففہ آنا تھر نین قاپر انک شاتھ جلے۔ وہ کا نتنے ہوئے دبوار‬
‫سے جبک گنی۔ اس کے نالکل شا منے دو وخود مردہ جالت میں موخود تھے‪ ،‬انک کا منہ‬
‫چیر دنا تھا گبا تھا اور دوسرے کی گردن نیڑھی ہو جکی تھی۔‬
‫آوازیں نبد ہو جکی تھیں۔ علتبا کی نانگوں میں اننی ہمت نہیں تھی کہ وہ خود‬
‫آگے پڑھ کے دامیر کو دنکھ نانی۔‬
‫خو تھوڑا نہت خوصلہ اور پراعتمادی تھی وہ شب ہوا میں زانل ہو حکا تھا۔ ماضی‬
‫آسنب کی طرح چمتنے شاری طافنیں ضیط کر حکا تھا۔‬
‫شا منے موخود دو تعسوں کو دنکھنے خوف اننی لت نٹ میں لتنے لگا جٹسے وہ اتھی اتھ‬
‫کے اس کو جکڑ لیں گی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪824 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اننی شکرٹ کو اس ئے مضنوطی سے تھام رکھا تھا۔ چب اجانک گنٹ پہ کونی‬


‫نمودار ہوا اور علتبا کی خوف سے جنخ تکل گنی۔‬
‫”پرنسٹس! رنلبکس میں ہوں۔ آجاؤ۔۔“ دامیر ئے اس کو تکارا‪ ،‬کہ وہ ڈھارس ملنے‬
‫ہی اس کی جانب لبکی‪ ،‬اس کی شانبڈ پہ ہوئے دوبوں نازو اس کے گرد ناندھے کہ وہ‬
‫لنٹ گنی۔ انک ہاتھ دامیر ئے اس کے گرد رکھا ناکہ اس کو نحقظ کا اجشاس ہو۔‬
‫ن‬
‫علتبا کی آ کھیں ئےتفتنی سے پڑھی ہونیں کہ نہاں جار اور لوگ تھے جن کو‬
‫دامیر ئے مار گرانا تھا۔ ئےشاجبگی میں وہ لوگوں کو گتنے لگی۔ “‬
‫انک سرنگ نما نبگ راہداری ننی تھی اور قاصلے پہ کمرے موخود تھے۔ دامیر اس کو‬
‫شاتھ لنے آگے پڑھ رہا تھا‪ ،‬علتبا ئے انک ہاتھ ا ننے منہ پہ رکھا تھا ناکہ وہ اننی‬
‫ششکباں دنا شکے۔‬
‫آگے دانیں جانب رشنہ تھا‪ ،‬دامیر دبوار کی اوٹ میں اس کو شاتھ کنے چ ھپ‬
‫گبا۔ اِ س کے بوانا وخود میں وہ چھنی ہونی تھی‪ ،‬مضنوطی سے گن تھامے دامیر ئے انک‬
‫قاپر کبا۔ خوانی کونی آواز نہیں آنی تھی نتھی زرا سی گردن آگے کی۔ وہاں کونی نہیں‬
‫لبکن انک شانا شا لہرانا۔‬
‫”میرے ننجھے ہو جاؤ۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪825 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا کے کان کے فرنب ہوئے دامیر نالکل مدھم سرگوسی کرئے بوال‪ ،‬علتبا گ ھیرا‬
‫کے سر ہالئے ہوئے اس کے ننجھے چ ھپ سی گنی۔ دامیر ئے آگے قدم پڑھائے۔‬
‫علتبا کا شاتھ ہونا نہلی نار خوف میں متبال کر رہا تھا۔ اس کی وجہ سے علتبا کو‬
‫کجھ ہو پہ جائے۔ نبا قدموں کی جاپ نبدا کنے دامیر ئے دو قدم آگے لنے۔‬
‫وہ نہاں تھرنی دکھا شکبا تھا‪ ،‬نبا ڈرے آگے پڑھ جانا لبکن نہاں نات علتبا کی‬
‫حقاظت کی تھی جس کا حظرہ مول نہیں لتبا تھا۔ انک ہاتھ ننجھے علتبا کو تھامے‬
‫ہوئے تھا۔ چب اجانک دوسری طرف سے دو وخود شا منے آئے اور اجانک قاپر ہوا۔ گولی‬
‫دامیر کی نالکل شاتھ دبوار سے جا نکرانی۔‬
‫”رنان انس می۔۔“ دامیر کی آواز گونچی کہ اگلے ہی لمچے رنان ئے گالی دی۔‬
‫ل‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫چ‬ ‫ک‬‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫علتبا اس کے ھے سے لی اور پر ھی تگاہوں سے د نے گی۔ وہاں رنان اور چنہ‬
‫ھ‬ ‫ج‬
‫تھے۔‬
‫دامیر کا نسنول تھاما ہاتھ ننچے ہوا اور اس ئے گہرا شانس تھرا‪ ،‬کبدھے شکون‬
‫سے ڈھبلے پڑے۔ دامیر اننی جگہ کھڑا رہا چب رنان اس نک آنا اور اسے ستنے میں‬
‫تھتنحا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪826 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شکر ہے مرے نہیں ورپہ فٹس صا تع ہو جانی میری۔“ اس وفت رنان کو کتبا‬
‫شکون مال تھا دامیر کو شالمت دنکھنے پہ وہی جانبا تھا۔ ہون نوں پہ مشکراہٹ نمودار ہونی۔‬
‫”علتبا تھبک ہے؟“ اس کا دھبان علتبا کی طرف گبا۔ دامیر ئے علتبا کو دنکھنے‬
‫انبات میں سر ہالنا تھر وہ چنہ کی طرف تھاگی۔‬
‫چنہ ہڑپڑا اتھی‪ ،‬وہ اِ س سے لنٹ کے روئے لگی۔ اور ئےنحاسہ رونی گنی۔‬
‫”مجھے لگا اس نار تھی دپر ہو جائے گی۔۔“ وہ خوف کے زپر اپر بولی۔‬
‫”ہمیں آنا تھا نہاں علتبا۔“ چنہ نس انبا ہی کہہ نانی۔ وہ اموسبل لمحات سے‬
‫ئےچیر تھی‪ ،‬اسے نشلی د نبا نہیں آنا تھا۔‬
‫”آؤ کام نمام کریں۔“ رنان ئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھا اور اننی انک گن‬
‫اس کو تھمانی۔ دامیر ئے سر ہالنا اور انک تظر علتبا کو دنکھا جس ئے چہرے پہ‬
‫گ ھیراہٹ واصح تظر آرہی تھی۔‬
‫”علتبا کو نہلے سیف جگہ پر نہنحانا ہے؟“ دامیر ئے اس کو تظروں سے حصار‬
‫میں کرئے کہا‪ ،‬وہ اننی وجشت زدہ جگہ پہ تھبک نہیں تھی۔‬
‫”اِ س کو نہاں سے لبکر تکلو دامیر۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪827 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان ئے انک نل تھی دپر پہ کی کہنے میں‪ ،‬وہ اسی کے شاتھ محفوظ تھی۔ جبکہ‬
‫علتبا تقی میں سر ہالئے لگی۔ دامیر کو اچھتبا ہوا۔‬
‫”مجھے نمہارے شاتھ رہبا ہے۔“ وہ چنہ سے بولی اور پہ نات دامیر‪ ،‬رنان ئے تھی‬
‫سنی۔‬
‫دامیر کو نکھرنا ہوا محسوس ہوا‪ ،‬وہ اس کے شاتھ نہیں جانا جاہ رہی تھی۔‬
‫”ئےنی‪ ،‬اس کو لے جاؤ نہاں سے۔“ رنان ئے دامیر کو دنکھنے چنہ کو اشارہ‬
‫کبا۔ وہ سر ہال کے علتبا کا ہاتھ تھامے وانس مڑئے لگی کہ دامیر نیزی سے علتبا کی‬
‫جانب پڑھا۔‬
‫”میں جانا ہوں اس کے شاتھ۔“ وہ سنجبدگی سے بوال‪ ،‬چنہ الپرواہی سے کبدھے‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫احکا کے ھے نی چب ا ک اور دھماکے کی آواز گو چی۔‬
‫َ‬
‫”ہری اپ۔۔“‬
‫رنان عرانا۔ علتبا کی مزاچمت کو تظر انداز کرئے دامیر اس کا نازو تھامے آگے‬
‫ت‬ ‫س‬ ‫گ‬
‫پڑھا۔ وہ م یکانکی انداز میں اس کے شاتھ نی جا رہی ھی۔‬
‫ت‬‫ن‬ ‫ھ‬

‫ہر نار دامیر رنان کو کور د نبا تھا‪ ،‬آج رنان اس کے آگے تھا کہ دامیر محفوظ‬
‫رہے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪828 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”پہ انیر نٹس لگا لو۔۔“ دامیر دوسری شانبڈ کی طرف جائے لگا چب چنہ ئے‬
‫ا ننے کان سے آلہ تکالے اس کو تھمانا‪ ،‬رنان ئے رک کے گردن گھمانی۔ دامیر آلہ‬
‫ا ننے کان میں فٹ کرئے لگا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ن‬
‫چملے کی چیر ہنجنے ہی وہ لوگ نہاں آتکلے تھے چہاں ان کو عمارت کی نجھلی اور‬
‫دانیں شانبڈ سے دھواں اتھبا دکھانی دے رہا تھا۔‬
‫ن‬
‫آ کھیں شاک کی ک یق نت میں پڑی ہونیں چب ڈرنبا آگے پڑھی۔‬
‫علتبا کو نہاں سے لے جانا تھا۔ وہ نیزی سے اندر کی طرف لبکی چب انک آدمی‬
‫ئے اس کا نازو تھاما۔ پہ وہی سحص تھا جن کا ناس دامیر کے ہاتھوں مارا گبا تھا۔‬
‫”ئےوفوقی مت کرو۔۔ نہاں سے تھاگو۔“ اس کی عقل پہ ماتم کرئے اس ئے‬
‫ڈرنبا کو کوشا جس ئے چھبکے سے انبا نازو چھڑوانا۔‬
‫”ئےوفوقی پہ ہے کہ میں انبا شکار اندر نہیں چھوڑ شکنی۔ مجھے وہ ہر جال میں‬
‫جا ہنے۔۔۔“ وہ عرانی ہونی آگے پڑھی۔‬
‫ُ‬ ‫ُ‬
‫”تم ئے ان دوبوں کو الگ روم یں رکھا تھا نا؟“ وہ رکی اور اس آدمی سے‬
‫م‬
‫اسیقشار کرئے لگی کہ اجانک وہ گڑپڑا اتھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪829 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہا۔۔ ہاں مجھے لگا کہ وہ دوبوں کبل ہیں بو انک ہی روم میں رکھا ناکہ کجھ اگل‬
‫شکے وہ لڑکا۔“ ڈرنبا کے چہرے پہ سجنی دنکھنے ہوئے وہ وصاچت کرئے لگا۔‬
‫”وہ کبل ہی تھا اور جا ننے ہو کہ لڑکا کون تھا؟“ وہ دانت نٹسنے ہوئے اس کے‬
‫شا منے آرکی کہ مقانل کی آنکھوں میں الجھن در آنی۔‬
‫”پرابوا کا رانٹ ہتبڈ‪ ،‬دامیر آر تھا وہ۔ دی ناپ کسنوڈنین کئیر۔۔“وہ انک انک‬
‫لقظ جبا کے بولی کہ شا منے موخود سحص ئے اِ س کا کام تھی مسکل میں ڈال دنا تھا۔‬
‫علتبا کو نہاں سے لے جانی اور فباد کے شا منے نٹش کر د ننی ت ھر وہ جانبا اور‬
‫علتبا۔ اس کو ا ننے ناپ سے مطلب تھا خو کسی کی فبد میں تھا اور اگر فباد جاہبا بو وہ‬
‫انک دن کے اندر اس کو نحا شکبا تھا لبکن وہ مطلنی اور خود عرض تھا۔ اسے نہلے علتبا‬
‫ُ‬
‫جا ہنے تھی تھر چنہ۔۔ اس کے غد کس۔۔۔‬
‫ب‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫مقانل ڈرنبا کی نات ستنے کے تغد شکنے میں آگبا تعنی نہاں پرابوا کے ہبڈ ئے‬
‫چملہ کبا تھا۔۔ چہرہ خوف سے شقبد ہوئے لگا۔‬
‫”تم ئے چھوٹ بوال ہم سے‪ ،‬دھوکا دنا۔“ اجانک ہی وہ عصے میں آگبا اور ڈرنبا پہ‬
‫پرسنے اننی گن تکالے اس پہ نان دی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪830 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں ئے کونی دھوکا نہیں دنا‪ ،‬مجھے میرے کام سے مطلب تھا۔ تم لوگوں کی‬
‫مدد کی میں ئے اور تم مجھے ہی دھمکی دے رہے ہو۔“ ڈرنبا عصے سے تھری اس کی‬
‫ن‬
‫آنکھوں میں د نی ہونی بولی۔ اس کے زہن پہ بوچھ شا تھا۔ لتبا کو جلد از جلد نہاں‬
‫ع‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫سے لے جانا تھا اور سحص اننی نکواس لنے نتتھا تھا۔‬
‫”اگر تم ہمیں نبا د ننی بو ہمارا کام آشان ہوجانا۔“ وہ دانت پہ دانت چمائے بوال‬
‫اور گن کو اس کے ستنے پہ رکھنے زور دنا۔‬
‫”ناکہ تم لوگ اس لڑکی کو مار د ننے۔۔“ وہ تھ یکاری اور اس کا ہاتھ انک چھبکے‬
‫میں ہبائے اس سے گن چھین لی۔ اگلے ہی لمچے اس کی نانگ پہ قاپر کرئے ہوئے‬
‫وہ سرد آواز میں بولی۔‬
‫”پہ مت تھولو کہ میں کون ہوں۔“ اگال قاپر اس ئے نبا شوچے اس کے ما تھے‬
‫پہ کبا اور گہرا شانس تھرا۔‬
‫”و نسے تھی اس کے زندہ ر ہنے سے کسی کو کونی قاندہ نہیں تھا۔“ وہ پڑپڑانی اور‬
‫نیزی سے عمارت کے اندرونی حصے کی طرف لبکی چہاں انک کے تغد انک آدمی گرا‬
‫تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪831 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس ئے ا ننے قدم نٹشمنٹ کی قدم پڑھائے چب وہاں سے تکلنے رنان کو دنک ھا۔‬
‫وہ انک نل کو رکا۔‬
‫ڈرنبا کو شا منے دنکھ رنان ئے سبانسی انداز میں تھ نویں احکانیں جبکہ ڈرنبا کے‬
‫دل میں خوف آسمانا۔ ضرور ان کو مغلوم تھا کہ ڈرنبا تھی شامل تھی اس شب میں۔‬
‫اس کے ننجھے ہی چنہ موخود تھی۔ دامیر نٹشمنٹ سے تکل حکا تھا۔ ڈرنبا قاپر‬
‫کرئے کا شو جنے لگی چب رنان کی نات پہ خونکی۔ چیرت آنکھوں میں در آنی۔‬
‫”ونل ونل‪ ،‬نمہاری قشمت اچھی ہے میں غوربوں کو نہیں مارنا۔“ رنان ناشف‬
‫تھرے انداز میں کہبا اننی گن ننچے کر گبا۔ رنان کی نات شن کے ڈرنبا شکنے میں آنی‬
‫لبکن شو جنے لگی کہ وہ البا ان پہ وار کر شکنی تھی لبکن چنہ عفب سے نمودار ہونی۔‬
‫”اونس لبکن میں انشا نہیں کرنی۔۔“ ڈرنبا کی تظر چنہ کی طرف اتھی چب‬
‫اجانک قاپر کی آواز پہ اس کے ن نٹ میں درد کی لہر اتھی۔‬
‫”آ و نمن قار و نمن۔“‬
‫)‪(A woman for woman‬‬
‫چنہ نمسجر اڑانی مشکراہٹ لنے اس کے پزدنک آنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪832 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫چنہ انبا جافو تکالنی اس کے فرنب آنی اور دوہری ہونی ڈرنبا کے فرنب تتھی۔ جافو‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫کو اس کی گردن کے فرنب رکھا‪ ،‬دناؤ ڈاال۔ خون کی لکیر سی نچی گنی۔ ڈرنبا ئے‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ن‬
‫تکل یف سے آ یں نچ یں‪ ،‬اس کے ہاتھ سے گن ھوٹ کے نچے گر کی ھی۔‬
‫چ‬ ‫ل‬ ‫ھ‬
‫”تم وافعی لکی ہو ک نونکہ مجھے نارخر نسبد نہیں۔“‬
‫اس کے کان کے فرنب چھکنے وہ سرگوسی کرئے لگی۔ جافو اب گردن سے‬
‫ستنے کی طرف پڑھا اور روک لبا۔‬
‫”آشانی سے مر جاؤ گی۔“‬
‫انبا کہہ کے چنہ ئے وہی جافو اس کے ستنے پہ دناؤ ڈا لنے اندر گھونپ دنا کہ ڈرنبا‬
‫ک‬‫ن‬ ‫گ‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ھ‬
‫کی آ یں ل یں۔ وہ دم بوڑ نی۔ سرد تگاہوں سے اس کے وخود کو د نے انبا‬
‫ل‬ ‫ُ‬
‫جافو ناہر تکاال اور اسی کی سرٹ سے صاف کرئے گی۔‬
‫رنان اب تھی ننجھے کھڑا تھا‪ ،‬چنہ اس کی طرف مڑی اور اسبہقامنہ تگاہوں سے‬
‫دنکھا۔‬
‫”ڈ نٹ واز انکسیرنملی ہاٹ ملٹسکا۔۔“‬
‫وہ وافعی مباپر لگ رہا تھا نتھی مشکرائے ن یصرہ کرئے لگا۔ چنہ آنکھ دنا گنی۔‬
‫”آنی بو۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪833 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫انداز تفجراپہ تھا۔‬


‫”ڈرنک کبا صورت جال ہے؟“‬
‫چنہ پہ تظر تکائے ڈرنک کو محاظب کبا۔‬
‫”آل کلئیر سر۔۔ جگہ اڑئے کو نبار ہے۔“ وہ قانحاپہ مشکرانا۔‬
‫”جگہ کو جالی کرو۔“ انبا کہہ کے وہ دوبوں نہاں سے تکلنے کو تھے۔‬
‫جگہ پہ تم سنٹ کر د ننے گنے تھے‪ ،‬نانمر آن تھے بو دو منٹ کے اندر ت ھٹ‬
‫جائے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫علتبا کو لنے وہ عمارت سے دور آگبا تھا چہاں گاڑناں کھڑی تھیں۔ علتبا کا ا ننے‬
‫سے شانس تھول گبا تھا۔ انک تظر اس عمارت کو دنکھا‪ ،‬جگہ جگہ سے دھواں اتھ رہا‬
‫تھا۔‬
‫وہ ستنے پہ ہاتھ ر کھے تھوڑا چھکی۔ گہرے شانس تھرے۔ دامیر شا منے کھڑا‬
‫پرنشانی سے اس کو دنکھ رہا تھا۔‬
‫گہرے شانس وہ تھا گنے کی وجہ سے نہیں لے رہی تھی نلکہ وہ خوف کو کم کر‬
‫رہی تھی خو اس ئے آئے ہوئے دامیر کو ا ننے شا منے لوگوں کو مارئے دنکھا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪834 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ م یظر انشا تھا کہ نلک چھبکنے ہی اس ئے جار آدم نوں کو ڈھیر کبا تھا‪ ،‬خود اس‬
‫کے ہاتھ پہ گہرا کٹ آنا تھا۔‬
‫پہ لوگ موت سے ئےخوف تھے۔ نا موت پہ انبا تفین تھا کہ ڈرنا ہی چھوڑ دنا‬
‫تھا۔‬
‫”میں ان جٹسی نہیں ہوں۔“ اندر سے انک آواز آنی۔ وہ اتھی تھی انبا ن یقس‬
‫ستتھا لنے کی کوشش میں تھی کہ آنکھوں کے گوسے تھبگنے لگے۔ ئےنسی سے رونا‬
‫آئے لگا۔‬
‫دامیر الجھا کہ شاند وہ اتھی تھی گ ھیرا رہی تھی کہ ان پہ چملہ پہ ہو جائے۔‬
‫”کبا ہوا۔۔؟“ وہ نسونش زدہ لہچے میں بوال کہ علتبا کے اس کے ہاتھ چھبکے۔‬
‫”پہ ک نوں ہو رہا ہے شب میرے شاتھ؟“‬
‫وہ ئےنسی سے دامیر پہ جالنی‪ ،‬دامیر ئے زپردسنی اس کو تھامے خود سے لتبانا‬
‫کہ انک نار تھر ضیط کی طبانیں بوڑنی وہ آغوش میں شکون کا لہحہ مٹسر ناکے رو پڑی۔‬
‫”شب تھبک ہے۔“ وہ پرمی سے بوال اور اس کے نالوں میں اننی اتگلباں جالئے‬
‫لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪835 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کجھ تھی تھبک نہیں ہے اور پہ ہی ہو گا۔“ وہ پرزور مزاچمت کرنی ہونی جنچی۔‬
‫دامیر ئے اننی گرفت اس پہ سحت کر دی چب انک دھماکے کی آواز پہ خوف سے‬
‫علتبا ندن لرزا۔‬
‫چہاں وہ لوگ کھڑے تھے عمارت دکھانی نہیں دے رہی تھی لبکن دامیر جانبا تھا‬
‫کہ وہ لوگ وانس آرہے تھے۔‬
‫”دامیر کہاں ہو؟“ انیر نٹس سے رنان کی آواز گونچی۔‬
‫”میں گاڑبوں کے ناس موخود ہوں۔ ہمیں نہاں سے تکلبا ہے جلدی آؤ۔۔“‬
‫دامیر سنجبدگی سے بوال نتھی رنان کی نیز جبگھارنی ہونی آواز تھر سبانی دی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”ملٹسکا۔ کہاں ہو؟“ آواز سے صاف نبا جال کہ چنہ دکھانی پہ د ننے کی وجہ سے‬
‫عصے سے دھاڑا تھا۔ اجانک دھواں ہوئے کی وجہ سے تصارنیں دھبدال گنی تھیں۔‬
‫”تم تھبک ہو۔۔ چنہ! کجھ کہو میرا دل رک رہا ہے۔“ وہ بوری فوت سے جال رہا‬
‫ب‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت ً‬
‫تھا فتبا ناقی شب ھی انیر ٹس سے اس کی آواز شن نا رہے ھے کن جس کو وہ‬
‫محاظب کر رہا تھا اس ئے انبا انیر نٹس دامیر کو دے دنا تھا۔‬
‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫َ‬
‫”شٹ اپ رنان‪ ،‬یں نمہارے ھے ہوں۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪836 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ چحل ہونی ہونی اس کو بو کنے لگی‪ ،‬اننی ئےنانباں شب کے شا منے دکھا رہا تھا‬
‫کہ اس کا دل کبا اسی دھونیں میں رنان کو عانب کر دے۔‬
‫وہ نیزی سے مڑا اور دھوئے میں ڈھونڈنا دو قدم جال بو اسے چنہ دکھانی دی۔ اس‬
‫ئے شکھ کا شانس لبا کہیں لڑاکا ن نوی سہبد پہ ہو گنی ہو۔‬
‫ن‬
‫”کہاں ت ھیں؟ کہا تھا کہ میرے ناس سے ہتبا نہیں تم ئے۔“ چنہ نک ہنجنے وہ‬
‫سجنی سے بوال کہ وہ مشکرا دی۔‬
‫ن‬
‫”نمہاری آ کھیں کتھی کتھی کام کرنا چھوڑ د ننی ہیں رنان۔ انبا مج نوؤں کی طرح‬
‫جنجنے کی ضرورت نہیں تھی۔“ وہ ناس آنی ہونی بولی اور گہرا شانس لبا۔ دھواں گلے میں‬
‫خراش نبدا کر رہا تھا۔‬
‫ن‬ ‫ہ‬‫م‬‫ن‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ہ‬‫م‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ج‬
‫”آ یں یں ہر وفت الش کرنی ر نی یں۔ لے ہی یں شاتھ ال کے ھبا رہا‬
‫ہوں۔“ اس کو شابوں سے تھامے ا ننے شا منے کبا اور لہچے میں پرمی سموئے بوال۔‬
‫”رنان‪ ،‬نمہارے نانیں شب شن رہے ہیں بو جاموش رہو۔“ چنہ دانت نٹسنی ہونی‬
‫اس کو اجشاس دالنی بولی کہ رنان ئے اطراف میں دنکھا چہاں ان کے آدمی دور جا‬
‫ن‬ ‫ً‬
‫رہے تھے عالبا ا نی گاڑبوں کی طرف۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪837 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میرا ن نوی سے رومنٹس کرئے پہ کسی کو اغیراض ہے بو اتھی خود کو گولی مار‬
‫لے۔“ چنہ کی نات کو تظر انداز کرئے اس کی کمر پہ ہاتھ تکانا اور شب کو محاظب‬
‫کرئے بوچھا۔ دوسری جانب سے شب ئے رنان کی نات ستنے آہشنہ آواز میں ”بو سر“‬
‫کہا۔‬
‫”کسی کو اغیراض نہیں۔“ رنان مشکرانا اور جبانی تظر سے چنہ کو دنکھا خو ہٹس‬
‫کے اس کے چہرے پہ ہلکی سی ج نت لگائے دور ہنی اور ناف نوں کی طرف پڑھی۔‬
‫”مجھے ہے۔“ وہ پڑپڑانی۔‬
‫گاڑبوں نک نہنچے بو رنان ئے انک طاپراپہ تگاہ دوڑانی۔ دامیر علتبا کو لنے اس کی‬
‫گاڑی میں نتتھا تھا۔ رنان صاف اس کے چہرے پہ خوف دنکھ شکبا تھا۔‬
‫کجھ شاتھی زچمی تھے۔ ان میں سے دو مارے گنے تھے جبکہ ناقی شب شالمت‬
‫تھے۔‬
‫”آپ کے آدم نوں کا شکرپہ۔“ رنان مبکس کی طرف پڑ ھنے ہوئے بوال۔ مبکس‬
‫نس سر ہال گنے۔ وہ علتبا کی طرف پڑ ھنے لگے چب رہان ئے ہاتھ کے اشارے سے‬
‫روک دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪838 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”وہ ہمارے شاتھ جائے گی اتھی ڈری ہونی ہے۔“ اس ئے سنجبدگی سے کہا کہ‬
‫وہ سر ہال گنے۔‬
‫چنہ کو گاڑی میں نتتھنے کا کہنے خود تھی ڈرابونگ سنٹ کی طرف آنا۔‬
‫”چنہ تم ننجھے آجاؤ۔“ چنہ اتھی دروازہ کھو لنے کو تھی چب علتبا کی گھنی سی آواز‬
‫پہ نت نوں تفوس خو نکے۔‬
‫رنان ئے گال کھ یگاال اور دامیر کو محاظب کبا خو صدمے سے علتبا کو دنکھ رہا تھا۔‬
‫”دامیر تم آگے آجاؤ مجھے انبا کئیر وانس جا ننے۔“ وہ الپرواہی سے بوال اور گاڑی‬
‫سبارٹ کرئے لگا جبکہ علتبا کی دامیر سے ن یگانگی شب ئے محسوس کی۔‬
‫گاڑی جلنے لگی‪ ،‬علتبا کی تگاہ ناہر چم کے رہ گنی۔ اس ئے شارے ر سنے کسی‬
‫سے نات نہیں کی تھی‪ ،‬الکھ رو کنے کے تغد تھی وہ ا ننے آنسو پہ روک نانی تھی۔‬
‫طت یغت میں خڑخڑاہٹ سی گھلنے اور ا ننے مشلشل روئے پہ تھی عصہ آئے لگا۔‬
‫ع‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫نبک وبو مرر میں دامیر کی تگاہ اسی پہ کی ھی جس یں وہ نار نار لتبا کو آنسوں‬
‫م‬
‫صاف کرنا دنکھ رہا تھا۔‬
‫وہ ئےدردی سے ا ننے ہاتھ رگڑنی تھی کہ رجشار سرخ ہو رہے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪839 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ لوگ وانس رسبا جائے والے تھے‪ ،‬ان کا ج نٹ انیر فبلڈ پہ ک ھڑا تھا۔ اس نار‬
‫علتبا ئے نا جائے کا کونی زکر نہیں کبا تھا وہ جاموسی سے ان کے شاتھ جٹسے‬
‫ئےجان وخود گھسنتبا جا رہا تھا۔‬
‫م‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”پرنسٹس۔۔“ ا ننے فرنب آواز ستنے علتبا ئے کرب سے آ یں یں۔ اِ س تکار‬
‫چ‬ ‫ن‬ ‫ھ‬
‫کو ستنے کے لنے دل کتبا پڑنا تھا لبکن وہ اتھی تھی کسی سے نات نہیں کرنا جاہنی‬
‫تھی۔‬
‫تظریں اتھا کے دامیر کو دنکھا جس کی آنکھوں میں اِ س کے لنے قکر تھی وہ اس‬
‫کے پرنشان ہو رہا تھا۔‬
‫”مجھ سے نات کرو مگر جاموسی کی مار پہ مارو۔“ وہ تظرانداز کرنی ج نٹ کے ز ننے‬
‫خڑ ھنے کو تھی کہ دامیر ئے اس کا نازو تھامے ئےنسی سے کہا۔‬
‫علتبا کس کو فصور وار تھہرانی اب۔ وہ دوبوں تھٹسے تھے مگر فصور وار کون تھا۔ وہ‬
‫خود کو سمجھ رہی تھی۔‬
‫وہ نہیں بولی۔ وہ جاموش رہی اور دامیر کو مزند تکل یف میں چھوڑ گنی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪840 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ان کی قالنٹ جاری تھی۔ چنہ علتبا کو پرابو نٹ سبکیر میں لے گنی تھی چہاں وہ‬
‫تھکے اعصاب لنے شو گنی تھی۔‬
‫”سر نلیز۔۔“ ڈرنک کی کراہنی آواز پہ دامیر ہوش میں آنا اور اس کے نازو کو‬
‫دنکھا۔ اسے گولی لگی تھی اور دامیر اس کو سنجز لگا رہا تھا۔ دھبان نار نار تھبک رہا تھا‬
‫نتنچے میں ڈرنک کے زچم پہ طلم ہو رہا تھا۔‬
‫”تھتبک دوں نہاں سے ننچے۔۔ مرد ن نو کبا لڑک نوں کی طرح روگ لگا کے نتتھے‬
‫ت‬ ‫ُ‬
‫ہو۔“ رنان ناگواری سے بوال جس کے لبکے چہرے سے ہی اسے ئےزارنت ہو رہی ھی۔‬
‫چنہ جاموسی سے آکے ان کے ناس ہی نتتھ گنی تھی۔‬
‫گ‬ ‫ش‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫رنان کی نات پہ وہ آ یں ھمائے م کراہٹ دنا نی۔‬
‫وہ کجھ پہ بوال اور جاموسی سے ڈرنک کی ننی ناند ھنے اس سے قارغ ہوا۔ اتھ کے‬
‫وہ نجھلے حصے میں آنا پردہ گرانا گبا تھا دوسری طرف علتبا شو رہی تھی۔‬
‫وہ اس کے ناس کاقی دپر نک نتتھا رہا جبکہ وہ ئےچیر اننی تھکن انار رہی تھی۔‬
‫کت ُ‬
‫دامیر ئے خود کو اتھی اس جد نک ئےنس محسوس نہیں کبا تھا پہ ہی ھی اس ئے‬
‫شوجا تھا کہ اس کی دنبا کسی اور کے گرد تھی گھومے گی۔‬
‫پرمی سے اس کے نالوں پہ ہونٹ رکھنے ہوئے وانس جال آنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪841 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫انہیں وانس آئے کجھ ہی دپر ہونی تھی کہ رنان کو ڈرنک کی کال رنسنو ہونی۔‬
‫”خوش چیری ہے سر‪ ،‬آپ کا طرتفہ کام کر گبا۔ فباد جاکم کو گودام نک کی‬
‫دغوت دے دی گنی ہے۔“ ڈرنک کی نات ستنے رنان کے چہرے پہ مشکراہٹ دوڑ‬
‫گنی۔‬
‫دامیر رنان مزند نہاں نہیں رکے تھے۔ چنہ اور علتبا کو وہ ناحقاظت چھوڑ گنے‬
‫تھے۔‬
‫”مبکس کو کہو کہ پرابوا کا ہبڈ انہیں ناد کر رہا ہے۔“ اس کی سرد آواز ستنے‬
‫ڈرنک کے کال کانی۔‬
‫اب فباد جاکم کا تھی فصہ جتم کرنا تھا اور اب وفت فرنب تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭‬
‫ب وصل کا سرور‬‫ش ِ‬
‫ازقلم ماہم مغل‬
‫وشط نمیر ‪۳۲‬‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪842 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نبا اجازت کے کانی نٹشٹ کرنا مم نوع ہے۔‬

‫نجھلے دبوں کی نانسنت آج دھوپ نہیں تھی‪ ،‬نادل آسمان پہ چھائے تھے‪ ،‬ہر‬
‫تھوڑی دپر گزرئے کے تغد شورج اننی کرنیں تھبال کے تھر عانب ہو جانا تھا۔ سبک نورنی‬
‫مزند پڑھا دی گنی تھی۔ چہاں نہلے دو گارڈ تظر آئے اب وہاں نانچ کھڑے کر د ننے‬
‫گنے تھے۔ بورش میں گاڑناں کھڑی ت ھیں۔‬
‫علتبا چب سے آنی تھی کسی سے جاطر خواہ نات نہیں کی تھی نس چپ کا روزہ‬
‫ر کھے ہوئے تھی۔ دامیر اور رنان جا جکے تھے۔‬
‫کجھ شوجنی ہونی وہ آج اوپر والے ننے بورشن کی جانب جل دی۔ کٹسی عج نب‬
‫ن‬ ‫ت ل ب کت م‬
‫نات تھی وہ نہاں دو مہتنے نک رہی ھی کن ھی ل شن د نے کا ا قاق یں‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ٹ‬‫ن‬ ‫م‬ ‫م‬‫ک‬
‫ہوا تھا۔ ننچے والے اندرونی بورشن اور الن میں ہی گھوما کرنی تھی۔ اوپر جانی تھی کٹسے‬
‫انجری کی وجہ سے دامیر کاقی اجتباط کرنا تھا ز ننے اپرئے خڑ ھنے سے۔‬
‫خوئے سے ندارد ناؤں جن کے ننچے فرش تھبڈا محسوس ہو رہا تھا۔ تھبڈے فرش پر‬
‫جلنے سے تھی اس کو شکون مل رہا تھا۔ دوبوں لڑکوں کے عحلت میں جائے کی وجہ‬
‫سے چنہ اس وفت علتبا کے لنے کجھ کھائے کو نبار کر رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪843 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گالس ڈور دھکبل کے اندر آؤ بو ہال نما اپرنا جس کے دانیں جانب الؤنج اپرنا اور‬
‫نالکل شا منے ہی اوین کنچن۔ ہال اور الؤنج اپرنا کے درمبان اوپر جائے کو سیڑھباں‬
‫تھیں (نالکل ننچے آئے کے لنے تھی)‬
‫وہ گول گھوم کے جانی تھیں۔ شقبد مارنل لگا تھا جبکہ ڈارک پراؤن ہانی النٹ کبا‬
‫گبا تھا۔ نالشنہ پہ انک خوتصورت اور فیری نبل ہاؤس تھا۔‬
‫چنہ اس کو اوپر جانا دنکھ رہی تھی۔‬
‫اس کے نال کھلے تھے‪ ،‬شکرٹ نلیزر اتھی تھی وہی تھا۔ ہاتھ میں دامیر کی دی‬
‫ہونی ڈانتمبڈ رنگ چمک رہی تھی۔‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫اوپر نچی بو نچے والے بورشن سے زنادہ مجبلف ہیں تھا پہ۔ اسی انداز میں دو‬
‫حصے تھے‪ ،‬دانیں نانیں جبکہ درمبان میں رنلتبگ لگانی گنی تھی اور ننچ میں قابوس لبک‬
‫رہا تھا۔‬
‫اوپر واال حصہ زنادہ اسیعمال میں نہیں تھا ک نونکہ نہاں کی النٹس نبد تھیں اور‬
‫خوسنو تھی وہ نہیں تھی خو ننچے آنی تھی۔ ر ہنے والی جگہ کی خوسنو ہی الگ ہونی تھی۔‬
‫مابوس سی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪844 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ننچے گالس دوڑ کی طرح نہاں تھی موخود تھا خو الن کی طرف ہی کھلبا تھا لبکن‬
‫نہاں انک نیرس تھا چہاں کرسباں میز سنٹ تھیں۔‬
‫کونی اور وفت ہونا بو علتبا کا دل اس وفت خوسی سے چھوم جائے کو کرنا۔ پہ‬
‫ً‬
‫انک ڈرتم ہاؤس تھا اور عالبا ال ھوں کروڑوں ڈالر کی مالنت کا۔‬
‫ک‬
‫”ان دوبوں کے لنے مسکل بو نہیں ہو گا پہ لتبا۔“ رنلتبگ پہ انبا ہاتھ ت ھیرنی‬
‫ہونی شو جنے لگی۔ نہاں سے اچھا وبو آنا تھا۔ چہاں وہ ر ہنے تھے وہاں کا تطارہ و نسے تھی‬
‫خوتصورت تھا۔‬
‫تھولی تھبکی مشکراہٹ ل نوں پہ آ تھہری۔ اس کو پہ جگہ نسبد آنی تھی۔ وہاں‬
‫موخود کرسی پہ نتتھنے اس ئے گھتنے ستنے نک الئے ان کے گرد نازو لت نٹ لنے۔‬
‫رنلبگ تھی گالس تھی بو آر نار واصح دکھانی دے رہا تھا۔‬
‫کجھ ہی دپر میں اس کو آہٹ سبانی دی۔ گھت نوں سے سر اتھا کے گردن گھمانی‬
‫بو چنہ ہاتھ میں پرے لنے اس نک آرہی تھی۔‬
‫”کٹشا فبل کر رہی ہو؟“‬
‫پرے کو شا منے نتبل پہ رکھا اور پرمی سے بوچھا۔ چنہ جتنج کر جکی تھی اور فرنش‬
‫تھی لگ رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪845 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہاں نتتھ کے اچھا لگ رہا ہے۔“ علتبا ئے شا منے دنکھنے خواب دنا۔‬
‫”کھانا کھا لو تھوڑی ہمت آجائے گی۔“ نلنٹ اس کے شا منے رکھنی ہونی بولی کہ‬
‫علتبا ئے نبا کسی پردد کے آہشنہ سے تھام لی۔ تھوک کو تظرانداز کرئے سے خود کو‬
‫ازنت ہی ملنی بو نہیر تھا کھانا کھا لتنی۔‬
‫اسے وافعی ہمت جا ہنے تھی۔ جاموسی درمبان میں جانل ہونی۔ چنہ کرسی کے‬
‫نازو پہ ہاتھ تکائے آسمان کو دنکھنے لگی۔‬
‫”میں نمہیں ا ننے عرصے سے جاننی ہوں لبکن کتھی تم ئے زکر نہیں کبا تھا۔“‬
‫نا سنے سے قارغ ہوکے علتبا ئے نات سروع کی۔ چنہ ئے خو نکنے اس کی جانب دنکھا‬
‫اور مشکرا دی۔ وہ اِ س کے تھی مافبا میں ابوالو ہوئے کا زکر کر رہی تھی۔‬
‫”میں ئے نمہیں نبانا بو تھا کہ اتکل مبکس نمہیں انک نارمل التف د نبا جا ہنے‬
‫تھے اسی لنے نمہیں ان شب سے دور رکھا۔“ چنہ الپرواہی سے بولی۔‬
‫”لبکن میں خود ہی دور نا رہ نانی۔“‬
‫وہ گہرا شانس تھر کے بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪846 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم ک نوں کرنی ہو شب؟ تم انک عام زندگی گزار شکنی ہو۔ رچم نہیں آنا‬
‫نمہیں؟“ علتبا جٹسے اب چنہ کو سنجھائے کی کوشش کرئے لگی کہ کونی بو سبدھے‬
‫ر سنے پہ آئے۔‬
‫”میں رچم کرئے کے لنے نہیں ننی۔ چہاں میں نہیں بولنی وہاں میرا وار بولبا‬
‫ہے۔۔ پہ شب کرنا شوق ہے میرا۔“ چنہ سباٹ انداز میں کہنے آخر میں آنکھ دنا گنی کہ‬
‫علتبا ئے شاچنہ چھرچھری لے اتھی۔ لہچے میں شقاکنت چھلک رہی تھی۔‬
‫”لبکن میں انسی نہیں ہوں۔“ علتبا ئے کمزور سے لہچے میں کہا۔‬
‫”تم تھاگ نہیں شکنی اس شب سے‪ ،‬تھا گنے کا نتنحہ تم دنکھ جکی ہو۔“ چنہ کا‬
‫انداز نالکل جبانا نا طیزپہ نہیں تھا وہ شادہ سے لہچے میں بولی اور آگے ہوئے پرے سے‬
‫انبا کاقی کا مگ تھاما۔‬
‫”تم طیز کر رہی ہو؟“ علتبا پرا مبائے بولی۔‬
‫”طیز نہیں حق یفت نبا رہی ہوں۔“ چنہ الپرواہی سے کبدھے احکا گنی۔‬
‫”اس حق یفت کو نشلتم کرو۔ کب نک ہم دوسروں کو فصور وار تھہرانیں گے۔‬
‫میں ئے ا ننے لنے اس زندگی کا خود ف یصلہ کبا تھا اور اسے جی رہی ہوں اگر کونی‬
‫م‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ُ‬
‫تقصان ہونا ہے بو اس کا زمہ دار یں خود کو ہی ھہراؤں گی ک نونکہ یں ئے جاالت‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪847 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کے مطابق جتبا سبکھ لبا ہے۔“ چنہ کاقی کا گھونٹ تھرئے پرمی و رشان سے اس کو‬
‫سمجھائے لگی۔‬
‫”نمہیں تھی انشا ہی کرنا جا ہنے۔ ک نونکہ نہاں سے وانسی ممکن نہیں ہے۔“ علتبا‬
‫کے دنکھنے پہ اس ئے مزند کہا کہ وہ خونکی۔ ”نہاں سے وانسی“ سے کبا مراد تھا کبا‬
‫وہ جان گنی تھی شب۔‬
‫نہ ُ‬
‫”نمہارا نام دامیر سے خڑ حکا ہے اور دامیر کونی عام انشان یں۔ اس کے ا ننے‬
‫دوشت نہیں جتنے دسمن ہیں۔“ چنہ لقظوں کا ہیر ت ھیر کرنی اس کو نہت کجھ جبا‬
‫گنی۔ وہ تھبک کہہ رہی تھی جٹسے اتھی وہ لوگ زندہ نچے تھے اگر کتھی انشا دونارہ ہوا بو‬
‫کونی تعبد نہیں تھی۔‬
‫وہاں کڈنئیر نہی نات کہہ رہے تھے کہ اگر وہ دامیر کی ن نوی تھی بو دامیر کو نارخر‬
‫کرئے کے لنے اس کا اسیعمال کر شکنے تھے۔‬
‫ت‬ ‫ع‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫چنہ کی نات کا مطلب ھنے لتبا کا کجھ ھی بو لنے کو دل پہ کبا۔ وہ جاموسی‬
‫سے وانس گھت نوں کے گرد نازو ناندھے سر رکھ گنی۔ چنہ اننی کرسی کھسکائے تھوڑا اس‬
‫کے فرنب ہونی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪848 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہم نمہارے شاتھ ہیں۔ نمہیں نہاں نالکل تھی عج نب نہیں لگے گا۔ نہاں ہم‬
‫شب انک عام فتملی کی طرح رہیں گے۔“ اس کے شائے پہ ہاتھ رکھنے انبان نت‬
‫تھرے لہچے میں کہا۔‬
‫”میرے لنے شب نہت مسکل ہو رہا ہے ف نول کرنا۔“ وہ گھنی سی آواز میں‬
‫بولی۔‬
‫”آشان کر لو اس کو۔“ چنہ کی آواز پہ خونک کے اس کو دنکھا۔‬
‫”ضرف انک کام کرنا ہے۔ ہمیں فتملی سمجھبا ہے زنادہ مسکل کام بو نہیں۔“‬
‫اس کے چہرے پہ پرم مشکراہٹ تھی۔ علتبا کو آج وہ اننی ماں کی جگہ محسوس ہونی۔‬
‫وہ اتھ کھڑی ہونی۔ نا سنے کی پرے نتبل سے اتھانی۔‬
‫” ننچے جانا ہے؟“ وہ جائے ہوئے مڑی۔‬
‫”نہیں۔“ انک لقطی خواب۔‬
‫وہ نہاں کجھ دپر اور نتتھبا جاہ رہی تھی۔ چنہ سر ہال کے ننچے جلی گنی۔ پرے‬
‫نتبل پہ رکھنے اس ئے انبا لنپ ناپ اور علتبا کا خونا نکڑا اور وانس اوپر آگنی۔ وہ نبگے نیر‬
‫تھی۔‬
‫ن‬
‫علتبا اسی بوزنشن میں تتھی تھی‪ ،‬خونا اس کی کرسی کے ناس رکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪849 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اننی نانگیں سبدھی کرئے میز پہ رکھیں اور نبک لگا کے لنپ ناپ گود میں کھول‬
‫لبا۔‬
‫فباد کا جنئیر کلوز ہو جانا تھا اب اس کو ا ننے کام پہ فوکس کرنا تھا۔ کجھ ہی‬
‫دبوں میں انہوں ئے چملہ کرنا تھا۔‬
‫لبام کر مٹسج نانپ کرئے ستبڈ کبا۔‬
‫ً‬ ‫ُ‬
‫”رنان نمہیں کب آزاد کر رہا ہے؟“ چنہ کا مٹسج ملنے ہی اس ئے فورا نانپ کبا۔‬
‫چنہ مشکرا دی۔‬
‫ُ‬
‫”نہیر ہے پہ شوال اسی سے کرو۔“‬
‫اس ئے مشکراہٹ دنائے نانپ کبا۔ اگر لبام رنان سے پہ شوال کرنا بو لبام کی‬
‫اچھی جاطر بوازع ہونی تھی۔‬
‫وہ خود تھی شفر کی وجہ سے تھک گنی رنلبکس ہونا جاہنی تھی لبکن علتبا کو اکبال‬
‫تھی نہیں چھوڑنا تھا نتھی نہیں پہ آکے نتتھ گنی۔ اگر علتبا ننچے بورشن میں آجانی بو وہ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫م ُ‬
‫الؤنج یں اسی کے ناس م دراز ہو جانی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪850 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ دوبوں گودام نہنچے چہاں نین خوان لڑکے کھڑے تھے۔ سروں کے نال‬
‫مبڈوائے ہوئے تھے‪ ،‬کابوں میں نالباں تھیں۔ سباہ شوٹ نہنے ہوئے دوبوں ہاتھوں‬
‫کو ناہم مالئے سنجبدہ چہرہ لنے کھڑے تھے جبکہ نبدھے ہاتھوں پہ نت نو کے نشان تھی‬
‫واصح تھے۔‬
‫پہ نت نوں وہ لڑکے تھے جبہیں فباد جاکم کو اغوا کرئے کا ناشک دنا گبا تھا اور‬
‫انک ہقنے سے نہلے ہی وہ کامباب ہو جکے تھے۔‬
‫رنان کے شاتھ جلبا دامیر مباپر ہوا ک نونکہ رنان کے اِ س قدم کے نارے میں‬
‫اسے مغلوم نہیں تھا۔‬
‫فباد انبا آشان نارگنٹ تھا۔‬
‫وہ نت نوں رنان اور دامیر کو دنکھنے ہوئے ہلکا شا مشکرائے۔ جٹسے کونی پرانی خواہش‬
‫بوری ہو گنی ہو۔‬
‫”ہبلو سر۔۔“ وہ انک جگہ پہ فطار میں کھڑے تھے اور نبک وفت بولے۔‬
‫”سر جارج سے مغلوم ہوا ہے کہ کاقی زپردشت پرنتبگ رہی ہے تم لوگوں کی۔‬
‫اور نٹشٹ تھی ناس ہے۔ تم نت نوں اب سے پرابوا کے لنے کام کرو گے اور علطی کی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪851 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گنحانش نالکل تھی نہیں ہے۔“ رنان ان کے شا منے کھڑے ہوئے سباٹ لہچے میں‬
‫بوال۔‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ح‬ ‫غ‬ ‫م‬ ‫ُ‬
‫س‬
‫اسے لوم تھا کس ص سے کس وفت کس انداز یں نات کرنی ھی۔ وہ ہر‬
‫انک سے پرمی نہیں پرنبا تھا۔ سباٹ انداز اس کی جاضنت تھی۔ دامیر جاموش ہی رہا‬
‫ک نونکہ اس وفت اس کا دوشت نہیں پرابوا کا ہبڈ نات کر رہا تھا۔‬
‫”منٹشن کے فرنب ہی کوارپر موخود ہیں جتنی جلدی ہو شکے شفٹ ہو جاؤ اور‬
‫ڈرنک۔۔“ رنان ئے کہنے انبا رخ ڈرنک کی جانب کبا خو انک قدم جل کے آگے آنا۔‬
‫”سبڈول وغیرہ سمجھا دو شب۔ سمگلبگ شپ منٹس کا ان یطام تھی سمجھاؤ ان‬
‫کو۔“ اس کے کہنے پہ ڈرنک ئے ”نس سر“ کہا۔‬
‫م‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫م‬‫ک‬‫م‬
‫”نارگنٹ ل ہوئے پہ م لوگوں کو ا غام ضرور لے گا۔“ رنان کے لب اب‬
‫کے طیزپہ مسکان میں ڈ ھلے۔ تفجراپہ انداز تھا۔ اِ س کی نات ستنے نت نوں کے چہروں پہ‬
‫مشکراہٹ چمکی۔‬
‫”تھتبک بو سر‪ ،‬ہمیں خوسی ہو گی آپ کے شاتھ کام کر کے۔“ ان میں سے‬
‫انک لڑکا بوال بو رنان محض سر ہال گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪852 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ان کو جائے کا اشارہ کبا بو ڈرنک رنان کو انک روم میں لے آنا چہاں فباد کو رکھا‬
‫گبا تھا۔‬
‫”منہ دکھانی ہو جائے آج۔۔“ وہ سرپر ہوا اور دامیر سے کہا خو جاموش کھڑا تھا۔‬
‫اس کی جاموسی رنان شلگ اتھا۔‬
‫”دھبان کہاں ہے نمہارا؟“ دامیر کے خواب پہ د ننے پہ وہ تھڑکا کہ وہ ہوش‬
‫میں آنا اس کو شوالنہ تگاہوں سے دنکھنے لگا۔‬
‫دامیر ئے خود کو کوشا کہ انشا ک نوں ہو رہا تھا وہ۔ اننی الجھن کس نات کی تھی‬
‫علتبا وانس آ گنی تھی بو تھر کبا ئےجتنی تھی۔‬
‫”دفع ہو جاؤ اننی ن نوی کو شاتھ الؤ نہاں۔ سرمبلی لڑک نوں کی طرح روگ لگا کے‬
‫نتتھے ہو۔“ وہ سرد انداز میں دامیر سے بوال خو اس کو سحت تظروں سے گھورئے لگا۔ انبا‬
‫تھی وہ عاشق نہیں ین گبا تھا خو رنان مشلشل طیز کے نیر جال رہا تھا۔ وہ علتبا کو لتنے‬
‫ت ُ‬
‫گبا ک نونکہ خو تھی نات تھی وہ علتبا کے شا منے ہی کرنا جا ہنے ھے۔ اس کے جاموسی‬
‫سے جائے پہ رنان شلگ کے رہ گبا اور ڈرنک سے محاظب ہوا۔‬
‫”اگر کتھی مجنت کرنی ہو بو دامیر سر کی طرح نالکل پہ کرنا۔ دنکھ رہے ہو نا جال‬
‫ٹ‬‫ج‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫اس کا۔ انک ن نوی ہلکا شا ناراض ہے پڑنبا ھر رہا ہے۔ مجنت کرنی ہے بو مجھ سی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪853 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کرنا ڈ نکے کی خوٹ پہ۔“ رنان سنجبدگی سے ڈرنک کو مجنت کا ناٹ پڑھائے بوال جس ئے‬
‫مشکراہٹ دنائے سر ہالنا۔‬
‫”لبکن سر دامیر سر کاقی نبار کرئے ہیں متم سے نتھی بو الجھے ہوئے ہیں۔“‬
‫ڈرنک دامیر کی تھوڑی طرف داری کرئے بوال۔‬
‫”میری طرح ہونا بو انک تظر ہی گھور کے دنکھبا نیر کی طرح سبدھی ہو جانی‬
‫ن نوی۔“ رنان اقسوس کرنا ہوا بوال کہ کبا زماپہ آگبا تھا اب دامیر آر کی ن نوی کے شا منے‬
‫نہیں جلنی تھی۔‬
‫”لبکن سر چنہ متم بو۔۔“ ڈرنک ئے کجھ کہبا جاہا کہ رنان کی سرد تگاہ پہ‬
‫جاموش ہو گبا۔‬
‫”ہر انک کی ن نوی کا الگ جشاب ہونا ہے۔“ وہ عصہ دکھانا بوال کہ ڈرنک کو فقل‬
‫لگ گبا اور نانبدی انداز میں سر ہال گبا ک نونکہ رنان سر کی ن نوی کا انداز تھی دنکھ جکے‬
‫تھے۔‬
‫”خود کی جلنی نہیں ن نوی کے شا منے اور دامیر سر کو شکھا رہے۔ انبا نبارا کبل‬
‫ہے وہ۔“ ڈرنک من ہی من میں پڑپڑا کے رہ گبا۔‬
‫”آپ کو چنہ متم ہی ملنی جا ہنے تھی۔“ وہ تھی دانت نٹسنے ہوئے شو جنے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪854 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫گارڈ سے مغلوم ہوا تھا کہ چنہ اور علتبا اوپر والے بورشن کے نیرس پہ موخود‬
‫تھیں۔ وہ وہیں جال آنا۔ چنہ کا رخ علتبا کی طرف تھا بو وہ دامیر کو آنا ہوا دنکھ اتھ‬
‫کھڑی ہونی۔‬
‫”شاتھ جلبا ہے علتبا کو لے آؤ۔“ وہ انبا ہی بوال۔ چنہ سمجھ کے سر ہالنی ہونی‬
‫علتبا کے شائے پہ ہاتھ رکھنے اس کو اننی جانب م نوجہ کبا۔ وہ خو انک ہی غیر مرنی‬
‫تقطے کو غور سے دنکھ رہی تھی اجانک خونک اتھی۔‬
‫”جلو ہمیں جانا ہے کہیں۔“‬
‫ن‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫وہ نا ھی سے چنہ کو د کھنے گی۔ تھر گردن نجھے گھمانی چہاں نیرس کے‬
‫دروازے پہ دامیر کھڑا تھا۔ وہ سمجھ گنی۔ اتھ کے انبا خونا نہبا اور چنہ کے شاتھ ننچے‬
‫آگنی۔ دامیر ان کے آگے تھا۔‬
‫چنہ ئے کوشش کی تھی کہ وہ تھوڑا شانبڈ پہ ہو جانی ناکہ علتبا اور دامیر آنس‬
‫میں کونی نات کر لتنے لبکن علتبا بو جٹسے اس سے جبک کے رہ گنی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪855 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫منٹشن کے نالکل شا منے دوسری طرف جانا تھا۔ پرابو نٹ پراپرنی ہوئے کی وجہ‬
‫سے نہاں پرتقک نہیں ہونا تھا۔ نین سے جار منٹ کی والک پہ گودام موخود تھا۔ وہاں‬
‫ن‬
‫ہنجنے ہوئے دامیر ئے گنٹ کھوال بو وہ دوبوں اندر پڑھیں۔‬
‫”نہلے سبک نورنی‪ ،‬تھر آرمری روم اور اب پہ ونیر ہاؤس۔“ علتبا دل میں شو جنے‬
‫لگی۔ اس کی دھڑکن نیز ہو رہی تھی۔ مارے گ ھیراہٹ کے ہتھبلباں نستنے سے تم ہونا‬
‫سروع ہو گنی ت ھیں۔‬
‫وہ اندر کی طرف پڑھیں۔ لکڑی کے ناکسز‪ ،‬پڑے میز موخود تھے اور نارود‪ ،‬لوہے کا‬
‫زنگ‪ ،‬لکڑی کی بو اجانک علتبا کو نیز سی محسوس ہونی۔ اس ئے چہرے پہ ہاتھ رکھ لبا۔‬
‫دامیر ان کو لنے انک کمرے کی طرف پڑھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫کمرے میں داجل ہوئے بو رنان انک شانبڈ پہ کھڑا ہاتھ پہ شقبد ننی ناندھ رہا تھا‬
‫جبکہ دوسرے ہاتھ پہ نبدھی ننی پہ خون کے د ھنے موخود تھے۔‬
‫کرسی سے نبدھا وخود ہانپ رہا تھا۔ اس کا چہرہ چھکا تھا ضرور رنان ئے ان کے‬
‫آئے سے نہلے انبا ہاتھ صاف کبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪856 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گ‬ ‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬


‫علتبا شا منے نبدھے وخود کو د نی شاکت ہونی‪،‬آ ھوں کی ن لباں ل یں۔‬
‫ن‬ ‫ب‬ ‫ک‬
‫اِ سے وہ کٹسے نا نہحاننی جس ئے اِ س کی دوشت کی زندگی پرناد کی تھی اور ت ھر اسے‬
‫موت کے منہ میں تھنحا تھا۔‬
‫ُ‬
‫وہ نبدھا ہوا تھا اور ئےنس تھی نالکل و نسے ہی جٹسے اس ئے فروا اور اِ سے‬
‫ئےنس کبا تھا۔‬
‫عم و عصے کی انک لہر جشم میں سران نت کر گنی‪ ،‬اس کا نس کبا کہ وہ آگے‬
‫پڑھے اور ئے دھڑک اس کو مارنی رہے۔ اس کا خون کر دے لبکن اس میں ہمت‬
‫نہیں نچی تھی اب۔‬
‫وہ نہت ندل گنی تھی۔‬
‫”آؤ علتبا ا ننے تھانی سے ملو۔۔“ رنان کی آواز پہ وہ از جد خونکی۔ تھانی! کبا وہ‬
‫جانبا تھا۔ ئےشاچنہ ہی اس کی تظر دامیر پہ گنی جس کی تگاہیں اسی پہ نکی تھیں۔‬
‫تگاہوں کا تصادم ہوا کہ علتبا تظریں خرا گنی۔‬
‫فباد ئے انبا چہرہ اوپر اتھائے کی شعی کی۔ اس کے چہرے پہ نشان تھے‪ ،‬آنکھوں‬
‫کے ناس زچم ننے تھے خو نالشنہ رنان کی مار ن نٹ سے آئے تھے۔‬
‫ن‬ ‫ُ‬
‫علتبا کو دنکھ کے اس کے چہرے پہ سجراپہ م کراہٹ آنی۔‬
‫ش‬ ‫م‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪857 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نار ہم سے چھتنے کی کبا ضرورت تھی نمہاری نہن کا شسرال ہے پہ۔ اب‬
‫نمہیں ا نسے بو نہیں نا رکھ شکنے تھوڑی جاطر داری بو کرنی نتنی تھی۔“ رنان فباد کے‬
‫م‬ ‫ک‬‫ن‬
‫شائے پہ ہاتھ رکھنے دناؤ ڈالبا بوال جس سے وہ کراہ اتھا اور تکل یف سے آ یں نچ یں۔‬
‫ل‬ ‫ھ‬
‫جبکہ علتبا اس کے انک نار تھر تھانی کہنے پہ اس کو دنکھنے لگی۔ اس کو ندامت‬
‫ئے آن گ ھیرا تھا۔ وہ جان جکے تھے کہ فباد اس کا تھانی تھا۔‬
‫”جاطر داری تھر نہ نونی سے کروائے نا۔۔“ تکلحت ہی دامیر آگے پڑھا اور ئے در‬
‫ئے فباد جاکم کے منہ پہ مکوں کی پرشات کر دی۔ اس کے ہاتھ نبدھے تھے شوائے‬
‫مار کھائے کے اس کے ناس اور کونی ”منت نو“ ‪ Menu‬میں آنشن نہیں تھا۔‬
‫علتبا ئے ششکی تھرئے ا ننے منہ پہ ہاتھ رکھ لبا ک نونکہ دامیر نبا کجھ د نکھے نس‬
‫اس کو مارے جا رہا تھا۔‬
‫”ری لبکس نڈی‪ ،‬شالے پہ کجھ رچم کھائے ہیں۔“ رنان اس کو آئے سے ناہر‬
‫ہونا دنکھ اسے کبدھے سے تھام کے ننجھے کر گبا جس کا انبا ن یقس تھول گبا تھا۔‬
‫”انک شوال انک خواب تھر وففہ۔ وفت صا تع نہیں کرئے ہم۔“ رنان فباد کے‬
‫ک‬‫ن‬ ‫ک‬‫س‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ک‬‫ن‬
‫شا منے کھڑا ہوا جس کی آ یں اب شوج کی یں۔ نا ل ان کو ھولے وہ د ھنے‬
‫ک‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ھ‬
‫کی کوشش کرئے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪858 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”علتبا سے کبا لتبا د نبا ہے نمہارا؟“ مشکرانا لہحہ نل میں نبدنل ہوا تھا‪ ،‬اس کی‬
‫سرد آواز اس نبد کمرے میں گونچی۔ چنہ ستنے پہ نازو ناندھے کھڑی تغور فباد کو دنکھ‬
‫رہی تھی جبکہ علتبا دم شادھے شب مباطر دنکھ رہی تھی۔‬
‫”شاال نہ نونی کہنے ہو تھر تھی بوچھنے ہو۔“ وہ اسبہزاننہ انداز میں بوال کہ رنان ئے‬
‫ونشٹ سے گن تکال کے اس کو دنکھا۔‬
‫”انک شوال انک خواب تھر وففہ۔۔“ رنان ئے کہنے ہی انک گولی اس کی نانگ‬
‫کی طرف قاپر کی کہ وہ جال اتھا۔‬
‫”اگال شوال۔“‬
‫”علتبا کو ک نوں مارنا جا ہنے تھے؟“ رنان ئے گہری تگاہوں سے اس کو دنکھا جس‬
‫میں سرد ناپر کے شاتھ مار د ننے کا ج نون تھا۔‬
‫”انک مافبا میں ہبڈ کی کبا اوقات ہے تم ا چھے سے جا ننے ہو اور تھر مرئے‬
‫والے کی آالنٹس۔۔“ فباد ئے اب کی نار سبدھا خواب دنا۔‬
‫وہ علتبا کی طرح مافبا ہبڈ کا نتبا تھا خو اب اس دنبا میں نہیں تھا۔ اسے ہبڈ نتبا‬
‫تھا اور شاری االننٹس سے مطلب تھا خو مبکس کے ناس تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪859 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫مافبا ورلڈ میں چب کونی ہبڈ مرنا بو اس کی شاری االننٹس اس کے تغد نحوں کو‬
‫ہی ملنی۔ ان کے ناپ کے مرئے کے تغد شب علتبا کو مال تھا ک نونکہ فباد گم نام تھا۔‬
‫علتبا کو مارئے کا مقصد اس شاری آالننٹس کو وانس لتبا تھا خو اب مبکس کے‬
‫ناس تھی۔ اس کا ہدف ضرف علتبا ہی نہیں‪ ،‬چنہ اور مبکس ل نو تھی تھے۔‬
‫”خو شب تم کہہ رہے ہو مجھے بو اس نات کا علم نک نہیں تھا۔“ اس شب‬
‫میں علتبا نہلی نار بولی۔ فباد کی تگاہ اس طرف اتھی اور ن یفر سے سر چھ یکا۔‬
‫”نتھی بو زندہ ر ہنے کا کونی قاندہ نہیں تھا نا مانی ڈنیر شسیر۔۔“ وہ انک انک لقظ‬
‫جبا کے بوال کہ دامیر علتبا نام ستنے انک نار تھر آئے سے ناہر ہوا۔‬
‫”فر۔۔۔ فروا کا کبا فصور تھا؟“ علتبا اب کی نار جنچی۔ رنان ئے علتبا کی جانب‬
‫دنکھا خو عصے میں لگ رہی تھی۔ جلو شکر تھا کہ نہاں عصہ دکھا دنا ورپہ اسے اب تھی‬
‫آنسو کی امبد تھی۔‬
‫”مطلب بو نمہی سے تھا لبکن وہ نسبد آگنی۔“ وہ جبانت سے مشکرانا۔ دامیر ئے‬
‫ج‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫رنان سے گن نجنے اس کے نازو پہ گولی النی۔‬
‫”کہاں ہے وہ۔۔؟“ اس کا گرنبان نکڑئے دامیر جبائے ہوئے بوال۔‬
‫”مر گنی۔۔“ کہنے ہی ہٹس دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪860 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نحہ تھا اس کے ناس میرا‪ ،‬مارنا بو تھا ہی لبکن خود ہی مر گنی۔“‬


‫نبد ہونی آنکھوں کے شاتھ وہ اسبہزاننہ مشکرانا۔ پہ ستنے علتبا کا جٹسے دل تھتنے‬
‫کو تھا۔‬
‫”چنہ اس کو لے جاؤ نہاں سے۔۔“ دامیر ئے چنہ کی جانب اشارہ کبا۔ ک نونکہ‬
‫وہ اس کی وجہ سے کاقی ضیط کر رہا تھا۔ اس کا نس نہیں جل رہا تھا کہ وہ آگے پڑھ‬
‫کے فباد کا سننہ گول نوں سے چھلنی کر دے۔ نلبڈ تھامے اس کی انک انک نس کو‬
‫کاٹ تھتبکے۔‬
‫”چچ‪ ،‬ا ننے نمہیں شکوے تھے نس ہم سے آ کے کہا ہونا۔۔ شب کجھ د ننے وہ‬
‫تھی شود سمنت۔“ رنان اقسوس کرنا ہوا بوال کہ تھال پہ تھی کونی نات تھی ا ننے چملے‬
‫کروائے کی۔‬
‫چنہ ئے جائے سے نہلے انک تظر رنان کو دنکھا۔ وہ فرمانسی تگاہوں سے دنکھ رہی‬
‫تھی کہ رنان سرد آہ تھرنا رہ گبا۔‬
‫”آجانیں۔۔“ اس ئے اجشان کرئے والے انداز میں کہا اور آگے پڑھی۔ دامیر‬
‫کے آگے ہاتھ کبا کہ وہ اسبہقامنہ تگاہوں سے دنکھنے لگا۔ اس ئے گن کی طرف اشارہ‬
‫کبا اور تھام لی۔ انک قاپر اس کے ہاتھ پہ کبا اور کان کے فرنب چھکی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪861 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫م‬ ‫ُ‬
‫”نمہاری ہمت تھی کٹسے ہونی مجھے مارئے کا شو جنے کی۔“ وہ اس پہ ل کی‬
‫ھ‬ ‫چ‬ ‫م‬‫ک‬
‫ہونی تھی کہ رنان سے اس کی اننی پزدنکی ہضم پہ ہونی۔‬
‫”ملٹسکا نس۔۔“ وہ آگے پڑھا چب چنہ مشکرانی ہونی ننجھے ہنی۔ اس کے ہاتھ‬
‫میں جافو تھا۔‬
‫ت‬‫ل کھ‬
‫رنان کی تظر فباد پہ گنی‪ ،‬کان کے ننچے سے لبکر گردن نک انک سرخ کیر چی‬
‫ن‬
‫تھی جس سے خون ناہر آرہا تھا۔ پہ نل میں جافو سے وار کرنی کٹسے تھی۔ انمیرنسو! وہ‬
‫شوچ کے رہ گبا۔‬
‫”تھتبکس۔۔“ رنان کو آنکھ دنا کے کہنی وہ علتبا کی طرف پڑھی۔‬
‫”نہت شوال ہو گنے اب وففہ۔“‬
‫انبا کہہ کے رنان ئے فباد کے دوسرے ناؤں پہ قاپر کبا۔‬
‫”مجھے کونی دلحسنی نہیں کجھ تھی مزند جا ننے کی‪ ،‬کجھ دپر مجھے اس کے شاتھ‬
‫اکبلے میں گزارنا ہے۔“ دامیر اننی سرٹ انارئے ہوئے بوال‪ ،‬ڈرنک ئے مشکراہٹ دنانی‬
‫جبکہ رنان ئے ناشف میں سر ہالنا۔‬
‫”شالے کا فرق ا چھے سے مغلوم ہےنا۔“ رنان اس کے سرٹ انارئے پہ خوٹ‬
‫کرنا ہوا بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪862 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہت ا چھے سے۔۔ اس کو مجھ پہ چھوڑ دو نس۔“ فباد پہ اننی تظریں تکانا ہوا وہ‬
‫دانت نٹس کے بوال۔‬
‫”شکر ہے اس کا روگ کجھ کم ہوا اور کام کی طرف دھبان آنا جلو ڈرنک سر کو‬
‫ڈسیرب نہیں کرنا۔“ رنان نالوں میں ہاتھ ت ھیرنا ہوا ڈرنک کو محاظب کرئے کمرے‬
‫سے تکلنے لگا چب دامیر کو نارخر نتبل سے انک نالس) ‪(pliers‬اتھائے دنکھا۔‬
‫اس ئے انبا عصہ شارا آج فباد پہ تکالبا تھا‪ ،‬نجھلے کجھ دبوں سے وہ جن الجھ نوں‬
‫کا شکار تھا آج ان کا عبار تکا لنے کا اچھا موفع تھا۔‬
‫”تم بو نہت کچے کھالڑی تکلے فباد جاکم۔ نمہیں لگا کہ ہم تم سے ئےچیر تھے۔“‬
‫دامیر ہاتھ میں نالس تھامے اس کی طرف پڑھا۔‬
‫اس شب میں نہلی نار فباد کو خوف شا محسوس ہوا۔ نالس کسی اچھی چیز کے‬
‫لنے بو اسیعمال نہیں ہوئے واال تھا۔‬
‫ک‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫”ہم نمہارے انک انک قدم سے وافف تھے۔ اننی نچ ر ھنے والے اشاشن م سے‬
‫ت‬
‫ُ‬
‫ئےچیر ر ہنے؟“ وہ اس کے نالکل شا منے کھڑا ہوا۔ اب اس یں و نسے ہی زنادہ جان‬
‫م‬
‫نہیں نچی تھی۔ ہاتھ‪ ،‬ناؤں‪ ،‬نازو پہ گولباں لگی تھیں اور کان کے ننچے سے تھی خون‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪863 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫مشلشل نہہ رہا تھا۔ اس ئے نالس کو اس کے ہاتھ کے فرنب رکھا۔ اس کو زرا شا‬
‫کھوال۔ اس کی نارنک بوک اس کے ناجن پہ انکی۔‬
‫”ہم نس نمہیں زندہ ر ہنے کا موفع دے رہے تھے۔“ دامیر ئے کہنے ہی نالس کو‬
‫ننجھے کھتنحا۔ ناجن چمڑی سے اکھڑنا نالس پہ جبک گبا۔‬
‫اکھڑئے والی جگہ سے خون انلبا ہوا ناہر آئے لگا۔‬
‫”وہ میری ن نوی ہے۔۔“‬
‫نالس کو دوسری اتگلی پہ رکھا‪ ،‬نالس کی بوک ئے ناجن کو نکڑا۔‬
‫”تم ئے دامیر آر کی ن نوی کو مارئے کا شوجا تھی کٹسے۔۔“‬
‫انک دردناک جنخ اس نبد کمرے میں گونچی‪ ،‬خون نیزی سے نہہ رہا تھا۔‬
‫”گولی مار دو نس۔۔“ وہ درد سے نلبال اتھا اور کراہبا ہوا بوال کہ مارنا ہی تھا بو گولی‬
‫مارے۔۔‬
‫”نمہاری خواہش ضرور بوری کروں گا‪ ،‬انبا طالم نہیں میں۔“ وہ وانس مڑا اور نتبل‬
‫سے انک چھونا جافو نکڑ آنا۔ اس کو اک ھڑے ناجن کی چمڑی پہ رکھا اور زور دنا کہ فباد کی‬
‫نہاں جد جتم تھی۔ عصب ناک سی آواز اس کے جلق سے پرآمد ہونی اور وہ ا ننے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪864 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫خواس کھوئے لگا۔ دامیر کا عصہ رگوں میں سرارے مار رہا تھا کہ جافو کو اس ئے‬
‫گردن میں گھونپ دنا۔‬
‫اننی گن تکا لنے اس ئے فباد کی دوبوں آنکھوں میں قاپر کبا۔ جتنی گولباں تھیں‬
‫شاری اس کے ستنے میں انار دیں۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫علتبا چنہ کے شاتھ جا رہی تھی چب ننجھے رنان اور ڈرنک تھی آئے ہوئے دکھانی‬
‫د ننے۔‬
‫وہ ڈرنک سے کجھ کہہ رہا تھا۔‬
‫”لوسین کی ناڈی کو تھی تھکائے لگاؤ اننی نتنی کے شاتھ چہتم کی سیر کرے‬
‫مل کے۔“ وہ سنجبدگی سے کہہ رہا تھا۔‬
‫علتبا اب تھک جکی تھی۔‬
‫انک خونی رشنہ تھا خو اس کے خون کا نباشا تھا ضرف نٹسوں کے لنے۔ فروا کا‬
‫دکھ تھر سے سبائے لگا تھا۔ اگر اِ س کو مغلوم ہونا کہ فباد نس آالنٹس کے ننجھے تھا بو‬
‫وہ خود ہٹ جانی اس شب سے۔ اس ئے کبا کرنا تھا جانداد نٹسوں کا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪865 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں ئے کتبا کجھ خراب کر دنا نا۔“ وہ تھکے قدموں سے جل رہی تھی چب‬
‫علتبا ئے کہا۔ چنہ ئے اس کے چہرے کی طرف دنکھا چہاں ندامت چھلک رہی تھی۔‬
‫وہ ا ننے ستنے پہ نازو لنتنے ہوئے تھی جبکہ چنہ پرشکون سی ج نب میں ہاتھ ڈالے جل‬
‫رہی تھی۔‬
‫”کٹسے؟“‬
‫وہ سنجبدگی سے بوچھنے لگی۔‬
‫”مجھے فروا ئے فباد کی سحانی نبانی تھی‪ ،‬مجھے نب ہی اس سے مل کے شب کجھ‬
‫ل‬ ‫ُ‬
‫اسی کو دے د نبا جا ننے تھا۔“ وہ نادم ہچے میں بولی کہ چنہ ئے اس کو گھورا۔‬
‫”شب کجھ کبا؟“ چنہ ئے جانبا جاہا کہ وہ کبا شوچ رہی تھی۔‬
‫”خو تھی میرے نام تھا‪ ،‬کجھ پراپرنی ہو گی وہی‪ ،‬میں بو و نسے تھی ہوسبل میں‬
‫ُ‬
‫رہنی آرہی تھی۔“ شا منے تظر رکھنے ہوئے کہنے لگی۔ وہ گھر جائے کے نحائے اب اسی‬
‫کشادہ سڑک پہ والک کر رہی تھیں۔ شام کے شائے چھانا سروع ہو گنے تھے۔‬
‫”نمہارے جبال میں ”کجھ پراپرنی“ ہوگی انک مافبا کے ہبڈ کے ناس؟“ چنہ آپرو‬
‫احکا کے اس سے بوچھنے لگی‪ ،‬علتبا ئے گردن گھمائے اس کو دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪866 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”انک مافبا ہبڈ کم از کم آدھے ملک سے زنادہ منی آن کرنا ہے۔ وہ نبا شوچے‬
‫ل‬ ‫ل‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫ک‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ھے انبا نٹشا نہا شکبا ہے م از م آئے والی شات یں نبا کجھ کرے انک گژری‬
‫زندگی گزار شکنے ہیں۔“ چنہ ئے معنی چیز مشکراہٹ لنے علتبا کو چھبکوں کی ذد میں‬
‫چھوڑا وہ ئےتفتنی تگاہوں سے اس کو دنکھنے لگی۔‬
‫م‬
‫”اسے ’کجھ‘ پراپرنی نہیں اس کو انک کمل آالنٹس جا ہنے تھی خو نمہاری شوچ‬
‫ن‬
‫سے تھی زنادہ ہے۔“ چنہ اس کی تھبلنی تگاہوں سے د نی ہونی مزے بولی۔‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫”مبکس ئے دامیر کو نمہاری لنے ہاپر کبا تھا کبا جبال ہے کتنی نتمنٹ ہو گی؟“‬
‫وہ اب اس کے ناپرات کو انحوائے کر رہی نتھی تھوڑی سٹسنی پڑھانی۔‬
‫”تھاؤزنبڈز ڈالر۔۔“ )‪(Thousands dollars‬‬
‫علتبا ئے نکہ لگانا کہ چنہ ہٹس دی اور ہٹسنی جلی گنی۔‬
‫”معصوم ہو نہت‪ ،‬بوچھبا دامیر سے۔“ اس کے گال کو چھونی ہونی وہ مشکرائے‬
‫لہچے میں بولی کہ علتبا سر چھبک گنی‪ ،‬اسے کونی دلحسنی نہیں تھی جا ننے میں۔ فباد‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت ً‬
‫ن‬
‫فتبا اب ک مر حکا ہونا۔ اس کے مرئے کا کونی اقسوس ھی یں تھا۔ پہ ہی کونی‬
‫ہمدردی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪867 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا اس وفت خود کو جالی محسوس کر رہی نالکل جالی‪ ،‬خزنات سے عاری انشان‬
‫جس کو اس وفت کجھ تھی محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ پہ ہی کہیں خوسی تھی پہ عم۔‬
‫انبا آپ انک محشمہ لگ رہا تھا جس کی زندگی ئےمعنی سی لگ رہی تھی۔ چہرا ہر‬
‫ناپر سے ناک تھا۔‬
‫رنان اور ڈرنک ان کو ا نسے ہی چھوڑے آرمری کی طرف پڑھ گنے تھے۔‬
‫”نمہیں اب آرام کرنا جا ہنے۔“ چنہ کی آواز پہ اس ئے سر اتھانا خو کب سے‬
‫ا ننے نیروں کو گھور رہی تھی انک تھبڈی آہ تھر کے رہ گنی۔‬
‫چنہ ئے اس کو وانس جلنے کا کہا نب نک ان کو دامیر تھی آنا ہوا دکھانی دنا اور‬
‫ت‬‫ل‬ ‫م‬ ‫ہ‬‫س‬ ‫ن‬
‫اس کو د نے لتبا کا دل ا ک نار م شا گبا۔ اس کے ہاتھ خون یں نے ہوئے‬ ‫ع‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫چ‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ُ‬
‫تھے‪ ،‬کبا اسے خوٹ گی ھی۔ وہ ز می تھا؟‬
‫علتبا ئے شوجا۔ تظر اس کی سرٹ پہ گنی جس کو وہ نہن رہا تھا۔‬
‫علتبا اور چنہ اندر کی طرف پڑھیں جبکہ دامیر ان کے شاتھ جائے کے نحائے‬
‫آرمری کی طرف ہی گبا تھا۔ چنہ ئے اس کو آرام کرئے کی نلفین کرئے خود تھی‬
‫کمرے میں جلی آنی تھی۔ وہ کاقی زنادہ تھکی تھی رات کے کھائے کا ارادہ پرک‬
‫کرئے تھکن انارنا جاہی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪868 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫کاقی دپر آرمری میں ر ہنے کے تغد وہ وانس آئے تھے۔ الؤنج میں کونی تھی موخود‬
‫نہیں تھا مطلب دوبوں کمروں میں تھیں۔ دامیر چب کمرے میں داجل ہوا بو وہاں‬
‫کونی تھی موخود نہیں تھا۔ اسے اچھتبا ہوا کہ علتبا بو کمرے میں ہی آنی تھی۔‬
‫اس کا ارادہ نہلے فرنش ہوئے کا تھا ک نونکہ خون کے د ھنے موخود تھے۔‬
‫شاور لنے وہ وانس کمرے میں آنا۔ نبڈ سنٹ ونسی ہی تھی‪ ،‬وہ کمرے میں نہیں‬
‫آنی۔‬
‫دامیر سرد آہ تھرنا رہ گبا۔‬
‫تک ُ‬
‫نبا سرٹ نہنے‪ ،‬پراؤزر میں مل نوس وہ کمرے سے ناہر ال اور اسی مرے یں گبا‬
‫م‬ ‫ک‬
‫چہاں علتبا ئے نہنہ کر لبا تھا ر ہنے کا۔ علتبا کی پہ خرکت تھی اس کو شلگائے کے‬
‫لنے کاقی تھی۔ وہ اب عصہ دال رہی تھی۔‬
‫دروازہ کھوال بو ک یفرپر اوڑھے کروٹ لنے لتنی تھی۔ نبا جاپ نبدا کنے وہ نبڈ کی‬
‫دوسری طرف آنا اور آہشنہ سے ک یفرپر اتھانا۔ وہ شوئے کی کوشش کر رہی تھی لبکن‬
‫شونی نہیں تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪869 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬
‫اس کو نازوؤں میں تھرا کہ علتبا ئے چھبکے سے آ یں ھو یں۔ وہ ہڑپڑا ا ھی‬
‫ل‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫اور اس پہ چ ھتنی۔ دامیر نبا پرواہ کنے اس کو ا ننے روم میں النا اور پرمی سے نبڈ پہ‬
‫ن‬
‫لبانا۔ علتبا ئے حقگی تھری تگاہوں سے اس کو دنکھا جبکہ آ یں م ہوئے گی یں۔‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫”نمہارا کمرہ پہ ہے۔۔“‬


‫وہ سنجبدگی سے بوال‪ ،‬آواز میں کونی پرمی نہیں تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫‪Novel: #Shabe_wasal_ka_Suroor‬‬
‫‪By: #Maham_mughal_Novels‬‬
‫‪Episode_no_33#‬‬
‫‪❌ Don’t copy paste without my permission‬‬
‫”نمہارا کمرہ پہ ہے۔۔“‬
‫وہ سنجبدگی سے بوال‪ ،‬آواز میں کونی پرمی نہیں تھی۔ علتبا ئے تگاہیں خرانیں‪،‬‬
‫سرمبدگی تھی تھی اور جبا تھی۔‬
‫وہ اغیراض و مزاچمت کرئے کی جالت میں نہیں تھی۔ آج دامیر ئے نبا کسی‬
‫پرواہ کے اننی گن اس کے شا منے شانبڈ نتبل پہ رکھی وگرپہ نہلے وہ اجتباط ہی کرنا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪870 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کمرے کی النٹس آف کرئے وہ نبڈ نک آنا۔ علتبا کی ناراصگی ہ نوز تھی‪ ،‬وہ ا نسے ہی نبڈ‬
‫ُ‬ ‫ن‬
‫پہ تتھی رہی۔ وہ کاقی دپر اس کی نشت کو گھورنا رہا چب اس کی کمزور سی آواز کمرے‬
‫کی جاموسی میں جانل ہونی۔‬
‫”میں ا نسے زندگی نہیں گزار شکنی دامیر۔۔ خوف اور ڈر کو ا ننے شاتھ لے کے۔“‬
‫اس کا لہحہ تم تھا جٹسے وہ دامیر کو اننی نات سمجھانا جاہنی ہو۔‬
‫”میرے مرئے کا ان یطار کرو تھر علتبا۔“ دامیر کی سرد آواز پہ علتبا ئے پڑپ‬
‫کے گردن گھمانی خو اسی کو دنکھ رہا تھا۔ اس ئے نام سے تکارا تھا اور کہیں کونی‬
‫پرماہٹ نہیں تھی۔‬
‫”تم نہت ئےرچم ہو۔“ وہ جبانا پہ تھولی۔‬
‫”جانبا ہوں۔ میرے مرئے کے تغد ہی تم دوسری زندگی گزار شکنی ہو۔ میرے‬
‫جتنے جی بو ا نسے ہی رہبا ہو گا۔“ وہ سنجبدگی سے بوال اور تگاہیں ت ھیرئے ک یفرپر کھو لنے‬
‫لگا۔‬
‫”تم ئے آج کتنے لوگوں کو مارا ہے دامیر۔“ علتبا اس کی ڈھبانی پہ شلگ اتھی‬
‫م‬‫ک‬‫م‬
‫اور انبا رخ ل اس کی جانب کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪871 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫”زندہ ہوئے بو تم اتھی نہاں تتھی نہیں ہونی علتبا۔“ وہ رکھانی سے بوال‪ ،‬علتبا‬
‫اب اس کی ئےاعتبانی پہ پڑپ رہی تھی۔ وہ مزند کجھ نا بوال اور چت لتنے آنکھوں پہ‬
‫نازو رکھ لنے۔ علتبا تھی جاموسی سے کروٹ لنے لنٹ گنی۔‬
‫اس کے لنتنے پہ آہشنہ سے اس کے فرنب ہوا کہ علتبا ئے نشت پہ اس کی‬
‫موخودگی محسوس کی۔ وہ اسے نام سے تکار رہا تھا لبکن جاہ کے تھی دور نہیں رہ نا رہا‬
‫تھا۔ پہ اس کی ناراصگی تھی لبکن ک نوں؟‬
‫اس کا رخ اننی جانب کبا۔ علتبا جاموش مگر مالمنی تگاہوں سے اس کو دنکھنے‬
‫لگی۔‬
‫اس ئے دور ہونا جاہا۔‬
‫”دن میں جتنی مرضی مجھے ئےرجی دکھاؤ‪ ،‬مجھے دنکھو تھی نا لبکن ا نسے ہمارے‬
‫کمرے کے عالوہ تم کہیں نہیں رہو گی۔“ اس کی مزاچمت کو تظر انداز کرنا وہ تھوڑا‬
‫سحت لہچے میں بوال کہ علتبا جاموش تگاہوں سے اس کو دنکھنے لگی۔‬
‫پہ وہی جانبا تھا کہ آج علتبا کو دنکھ کے اسے کتبا شکون مل رہا تھا۔ وہ اس کے‬
‫شا منے اس کے نالکل فرنب تھی کہ اسے خود سے سما شکبا تھا اس کی خوسنو میں گہرا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪872 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شانس ت ھر شکبا تھا‪ ،‬کتنے دبوں سے وہ اس کے لمس سے مجروم تھا۔ چب انک انڈکٹ‬
‫پرشن کو اس کی اڈکشن پہ ملے بو وہ ج نونی ہوئے لگبا ہے نہی جال دامیر کا تھا۔‬
‫ُ‬
‫اس ئے نبا علتبا کے ردعمل کی پرواہ کنے اسے ئےجد فرنب کرئے ناہوں‬
‫ت‬ ‫کھ‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫م ت‬
‫یں نج لبا کہ اس کی شدت پہ وہ بو ال ا ھی۔‬
‫”تم ئے مجھے ِمس کبا؟“ چب وہ کجھ پہ بولی بو دامیر ئے اس کے ما تھے کو‬
‫ل نوں سے چھوئے ہوئے مجنت سے خور لہچے میں بوچھا۔‬
‫”کبا تم شاری ناراصگی تھالئے اتھی ہماری خوسی کو محسوس نہیں کرنا جاہو‬
‫گی؟“ اس کا چہرہ شا منے کرئے دامیر ئے اس کی آنکھوں میں دنکھا۔ علتبا کے ننے‬
‫اعصاب ڈھبلے پڑے۔ وہ طالم اشاشن دامیر سے انک پرم‪ ،‬نبار کرئے واال شوہر تھا‬
‫اب۔‬
‫دامیر کے دل کی عج نب ہی ک یق نت تھی اس وفت‪ ،‬علتبا کا شاتھ تفو نت نحش‬
‫رہا تھا اور ان کی زندگی میں آئے والی ننی نبدنلی دامیر کے لنے غیر م نوفع تھی۔‬
‫وہ شاری زندگی علتبا کے نام کر حکا تھا لبکن کتھی فتملی میں ہوئے والے‬
‫ت‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫اصافے کے نارے میں نہیں شوجا تھا۔ اسے اس ل مجھ یں آرہی ھی کہ وہ‬
‫ہ‬‫ن‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪873 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کٹسے اظہار کرے‪ ،‬اسے کبا کرنا جا ہنے تھا۔ وہ خوش تھا‪ ،‬پروس تھی۔ اور بوکھالنا ہوا‬
‫تھی۔‬
‫”کبا وافعی انشا ہے۔۔“ دامیر کا ہاتھ آہشنہ سے اس کے ن نٹ کی جانب گبا کہ‬
‫علتبا کے چہرے پہ سرجی نیزی سے نیری اور تگاہیں چھکا گنی۔ ہولے سے انبات میں‬
‫سر ہالئے اس کے جٹسے تصدبق کی۔ فرط خزنات میں دامیر ئے اس کی گردن پہ بوسہ‬
‫دنا۔‬
‫ت‬ ‫ک‬‫نہ ن‬
‫علتبا ئے اس کے چہرے پہ خوسی یں د ھی ھی۔ وہ الگ ہی خزنات ھے۔‬
‫ت‬
‫پرنشانی؟ نہیں‪ ،‬کشمکش۔ الجھن۔ بوکھالہٹ۔ دل ئے وہم شا کبا کہ شاند دامیر کو پہ‬
‫چیر تھانی نہیں تھی۔‬
‫”تم خوش ہو؟“‬
‫علتبا ئے اس کے ہاتھ پہ انبا ہاتھ رکھا۔ لہحہ مدھم شا تھا۔‬
‫”نبا نہیں‪ ،‬نبا نہیں مجھے کٹشا فبل ہو رہا ہے۔ میں ئے کتھی شوجا نہیں تھا‬
‫کہ۔۔“ وہ سچ کہہ رہا تھا اس ئے شوجا نہیں تھا کہ وہ انک ناپ ننے گا اور پہ کہنے‬
‫ہوئے اس کو جٹسے انک نہاڑ سر کرئے کے میرادف لگا تھا کہ جائے علتبا کبا مطلب‬
‫لتنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪874 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دامیر۔۔“ علتبا ئے امبد لنے اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھا۔ دامیر کا ہر عصو‬


‫اس کو ستنے کو جٹسے ئےناب ہوا۔‬
‫”مجھے نہاں نہیں رہبا۔“ وہ تم لہچے میں بولی۔‬
‫”ہم کہیں اور جلے جائے ہیں نا۔ نہاں سے دور۔ ہماری فتملی ہوگی۔“ علتبا‬
‫کے ہونٹ لرز رہے تھے۔ اس میں اب ہمت نہیں تھی کونی تھی مزند جادپہ پرداشت‬
‫کرئے کی جبکہ اس کی نات ستنے دامیر کے ما تھے پہ نل واصح ہوئے۔‬
‫”ہماری فتملی نہی موخود ہے۔ رنان‪ ،‬چنہ۔۔“ دامیر ئے زور د ننے کہا کہ علتبا‬
‫تقی میں سر ہالئے لگی۔ ”مم۔۔ میں کٹسے رہوں گی نہاں۔ مجھے خوف آنا ہے۔“‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫اس کے ہاتھ خود سے چھبکنے وہ اتھ ھی اور آ ھوں سے آنسو رواں ہوئے۔‬
‫ک‬
‫دامیر ئے سنجبدگی سے اس کو دنکھا۔ پرمی عانب تھی اب۔‬
‫”کس چیز سے خوف آنا نمہیں‪ ،‬مجھ سے خوف آنا ہے؟“دامیر کا لہحہ سرد ہوا کہ‬
‫علتبا ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”رنان سے خوف آنا ہے۔ نہاں سے۔ کس سے ڈر ہے نمہیں؟“ اس کو نازو‬
‫سے تھامے اننی طرف کرئے وہ سنجبدگی سے بوچھنے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪875 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے تم لوگوں کو کھوئے سے خوف آنا ہے دامیر۔ تم شب کے دور جائے‬


‫سے۔ میں نہیں رہ شکنی ا نسے ششکنے ہوئے۔ میں ئے کتھی انسی زندگی نہیں‬
‫جاہی۔“ وہ نیز لہچے میں جالئے ہوئے بولی کہ دامیر نس اس کو رونا د نکھے گبا۔ وہ‬
‫فصول کی صد کر رہی تھی جبکہ حق یفت سے خود تھی وافف تھی۔‬
‫”چب میں نمہارے شاتھ ہوں بو ک نوں پہ شب شوچ رہی ہو۔ نمہیں نہاں کونی‬
‫مسبلہ نہیں ہو گا۔ ادھر دنکھو۔“ دامیر ئے اس کی جالت کے نٹ ِش تظر انبا لہحہ دھتما‬
‫رکھا ورپہ اس کی نابوں سے دماغ کا مئیر گھوم حکا تھا۔‬
‫”مجھے ہے مسبلہ۔ تم۔۔۔ تم مجھے چھوڑ دو تھر۔ میں خود نہاں سے دور جلی‬
‫جاؤں گی۔ اس شب سے۔“ علتبا ئے آنسو بونجھنے ہوئے رشان سے کہا کہ دامیر کی‬
‫تگاہوں میں اسے سرد اور عصب ناک ناپر محسوس ہوا۔ وہ ضیط کر رہا تھا۔‬
‫”شو جاؤ پرنسٹس!“ اس کے سباٹ انداز میں بو لنے پہ علتبا خونکی۔ چھوڑ د ننے‬
‫والی نات پہ دامیر جانبا تھا کہ اس ئے کٹسے ضیط کبا تھا۔‬
‫”تم انشا نہیں کر شکنے۔۔۔۔“ اس کی ئےجسی پہ علتبا پڑپ اتھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪876 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم انشا کر شکنی ہو؟ جا شکنی ہو دور مجھ سے نباؤ۔۔ میری طرف دنکھ کے نبا‬
‫تظریں خرائے پہ نات کہو… میں نمہیں جائے دوں گا۔“ اس کا نازو تھامے اس ئے‬
‫سجنی سے کہا کہ علتبا سہم سی گنی۔‬
‫”جاموسی سے لنٹ جاؤ پرنسٹس۔۔“ وہ انک انک لقظ جبا کے بوال کہ انبا نازو‬
‫چھبکے سے اس سے چھڑوانی حقگی تگاہوں سے دنکھنے لگی۔‬
‫دامیر خود اننی جگہ لنٹ حکا تھا‪ ،‬آنکھوں پہ نازو ر کھے اس ئے علتبا کو دونارہ دنکھنے‬
‫سے گرپز کبا۔‬
‫”میں تفرت کرنی ہوں تم سے۔۔ سبا تم ئے۔۔“ تھرانی آواز میں کہنی اس سے‬
‫ک‬‫ن‬
‫قاصلے پہ لنٹ گنی اور سجنی سے آ یں موند یں۔‬
‫ل‬ ‫ھ‬
‫ب‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ن‬
‫دامیر ئے اس کی نشت کو گھورا۔ وہ اتھی کونی لخ المی یں جاہبا تھا کن‬
‫ن‬

‫علتبا کی صد ننچ میں آجانی تھی۔ اس ئے کروٹ لی اور ک یفرپر اوڑھا۔ اس کی نشت کو‬
‫تظروں کے ہالے میں رکھنے آشودگی سے مشکرا دنا۔‬
‫ان کی فتملی پڑی ہوئے جا رہی تھی اور طالم دسمن جاں ئے خوسی کو تھبک‬
‫سے محسوس تھی نہیں کرئے دنا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪877 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نبڈ پہ نتتھے وہ نئیرز کو پرن نب د ننے لنپ ناپ پہ کجھ نانپ کر رہی تھی جبکہ‬
‫رنان انبا کام جتم کنے اتھی روم میں آنا تھا۔‬
‫”نمہیں آرام کرنا جا ہنے تھا۔۔“ رنان اس کی مصروف نت دنکھبا ہوا بوال۔ چنہ ئے‬
‫نس انک تظر اتھا کے اِ سے دنکھا خو اننی سرٹ کے نین کھول رہا تھا۔ ارادہ اس کا‬
‫ھ‬ ‫م ت‬
‫اتھی شوئے کا تھا لبکن لبام ئے کجھ اتقار ٹشن چی ھی بو اس یں ہی چت نی‬
‫گ‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫تھی۔‬
‫”تھوڑی دپر میں شو جانی ہوں۔“ عام سے انداز میں بولی۔‬
‫”کھانا کھانا؟“ ا ننے کیڑے کیرڈ سے تکا لنے ڈرنسبگ سے ناہر چھانک کے بوچھا۔‬
‫آخری نار انہوں ئے نلین میں ہی کھانا تھا تھوڑا شا۔‬
‫ن ن‬
‫”نہیں میرا دل نہیں کر رہا۔ میں نس اتھی شوؤں گی۔“ اس ئے ا نی آ یں‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫مشلیں اور چمانی روکی۔‬


‫وہ شاور لتنے جال گبا۔ چنہ ئے نیزی سے کام جتم کبا اور النٹس کو ہلکا کر دنا۔‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬
‫نتبد سے بوچھل ہونی آ یں اب مزند لنے سے اتکاری یں۔‬
‫ھ‬ ‫کھ‬ ‫ھ‬
‫شاور لے کے وانس آنا بو نتبد میں جا جکی تھی۔ سرٹ سے ندارد وہ تھی نبڈ کی‬
‫طرف ہی آگبا۔ آج پزی ڈے تھا بو رنلبکس ہونا اس کا تھی خق تھا۔ نہی شو جنے وہ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪878 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دھڑلے سے چنہ کے گرد حصار ناندھ گبا کہ اس کے تھبڈے وخود سے وہ چھرچھری‬


‫لے اتھی۔‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫چ‬
‫”رنان پہ کبا ندنمیزی ہے۔“ وہ نجھبا ا ھی کہ اس کے گ لے نالوں سے ھی‬
‫الجھن ہو رہی تھی۔‬
‫”تھک گنی ہو نا‪ ،‬تھوڑا شکون نہنحا دوں نمہیں۔“ وہ زومعت نت سے بوال اور زپردسنی‬
‫چنہ کا رخ سبدھا کبا۔‬
‫”مجھے نہیں جا ہنے انشا شکون رنان۔ ہاتھ چھوڑو میرے اور تھوڑا دور رہ کے‬
‫گ‬ ‫ہ‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫لت نو۔“ اس کی نات کا مطلب ھنے ہوئے وہ تھے سے اکھڑ نی اور پرزور مزاچمت‬
‫کرئے لگی۔‬
‫”نمہیں نا تھی جا ہنے ہو مجھے بو جا ہنے نا۔“ ہون نوں پہ سرپر مشکراہٹ لنے بوال اور‬
‫اس کی فرار کی راہیں مشدود کر دیں۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫شام سے رات کا وفت ہوگبا تھا۔ شارے منٹشن میں اس وفت جاموسی تھی مگر‬
‫کنچن کی النٹ آن تھیں۔ پرن نوں کی آوازیں آرہی تھیں۔‬
‫”تم شور ک نوں کر رہے ہو۔ شکون سے کام نہیں ہونا تم سے۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪879 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫کنچن میں اجانک نبکٹ گرئے سے شور نبدا ہوا بو چنہ آ یں دکھانی ہونی اس کو‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫آہشنہ آواز میں بوکنی ہونی بولی۔‬


‫”میں شکون سے انبا کام ہی کر رہا تھا نمہیں ہی تھوک کا دورہ پڑا۔“ رنان البا‬
‫اس پہ پرشا کہ چنہ سنتبا اتھی۔‬
‫”اننی پہ فصول نکواس نبد کرو اور مجھے وہ شاس کی بونل نکڑاؤ۔“ چنہ ناؤل میں‬
‫چیزیں مکس کرنی ہونی بولی۔‬
‫ک‬‫نہ سب‬
‫”تم ئے نمیز یں ھی شوہر سے نات کرئے کی۔“ رنان اقسوس سے سر‬
‫ہالنا ہوا بوال اور بونل اس کو تھمائے نالکل اس کے عفب میں کھڑا ہوا کہ چنہ اس‬
‫کے آگے کھڑی تھی اور اطراف میں رنان ئے سبلف پہ ا ننے دوبوں ہاتھ تکائے تھے۔‬
‫”میرے کونی نانچ چھے شوہر نہیں خو مجھے نجرپہ ہونا شوہر سے نات کرئے کا۔“‬
‫اس کی پزدنکی کو تظرانداز کرنی ہونی بولی۔‬
‫”انک ہے نا شاری زندگی چھبلنے کو‪ ،‬ہر نجرپہ کر لو اسی پہ۔“ اس کے کبدھے پہ‬
‫تھوڑی تکائے ہوئے دلکسی سے بوال۔‬
‫انک بو اس کا نات نات پہ فرنب آنا اور پزدنکی پڑھانا‪ ،‬اس ئے گہرا شانس تھر‬
‫کے دھڑکن کو قابو کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪880 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اگر اس وفت دامیر نہاں آگبا بو کبا شوچے گا۔“ وہ ناشف سے سر ہال گنی کہ‬
‫رنان سرٹ سے ندارد اور اس کی نشت پہ تھا جبکہ وہ سبلڈ نبا رہی تھی۔‬
‫”وہ نہیں آئے گا‪ ،‬اس کی ن نوی شو رہی ہے بو شکون سے پڑا ہو گا۔“ رنان‬
‫مزے سے ن یصرہ کرئے بوال کہ چنہ ئے گردن گھمائے اس کو گھورا۔‬
‫”میں ئے کہاں اننی ن نوی کو شوئے دنا۔“ اس کی اگلی نات پہ چنہ کا دماغ‬
‫گھوم گبا۔ وہ اس کو نہت سبانا جاہنی تھی لبکن جاننی تھی کہ اس پہ اپر نہیں کرے‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫چ‬
‫ھ‬ ‫ج‬
‫گا بو نس ال کے سر چھبک دنا۔‬
‫جبکو شوہر تھا اس کا۔ نالکل اس سے الٹ۔‬
‫”میں تم سے نہت جلد عاخز آئے والی ہوں۔“ انبا سبلڈ ناؤل تھامے وہ کنچن‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫کی دوسری طرف آئے سنول پہ نتتھ کے بولی کہ رنان ئے نا ھی سے اس کو دنکھا۔‬
‫”نمہیں عادت ہو جائے گی میری۔۔“ وہ آنکھ دنا کے بوال۔‬
‫”نہاں ک نوں نتتھ گنی آؤ روم میں جلیں۔“ نالوں میں ہاتھ ت ھیرئے رنان بوال اور‬
‫کنچن کی النٹ آف کرئے اس کی طرف آنا۔ نبا اس کو موفع د ننے کبدھے پہ الدا کہ‬
‫وہ بوکھال اتھی۔ چنہ ئےنسی سے شو جنے لگی کہ اس ئے انشا کبا ِکبا تھا خو رنان جٹشا‬
‫شوہر مال تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪881 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کو کمرے میں ال کے چھوڑا بو رنان خوتکا‪ ،‬اس کا مونانل نج رہا تھا۔ چہرے پہ‬
‫ہاتھ ت ھیرئے رنان ئے آگے پڑ ھنے کال رنسنو کی۔ لبام کال کر رہا تھا۔‬
‫”لبام کال کر رہا ہے اس وفت۔۔“ رنان اچھتنے سے بوال کہ چنہ ئے خونک کے‬
‫ً‬
‫انبا مونانل دنکھا۔ اس کے فون پہ مشڈ کال ت ھیں۔ خو تھوک تھی وہ فورا مٹ نی۔‬
‫گ‬
‫”ہبلو۔۔“‬
‫رنان ئے دو نین نار تکارا لبکن خواب نہیں دے رہا تھا کونی شور سبانی دے رہا‬
‫تھا۔‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ُ‬
‫”اس ئے جھے ھی کالز کی ہیں‪ ،‬اوفف نبا ہیں کبا ہوا ہو گا۔“ چنہ کو‬
‫گ ھیراہٹ ہوئے لگی وہ نیزی سے ا ننے لنپ ناپ کی طرف پڑھی اور مبکسبکو کی‬
‫نٹشمنٹ کی سبک نورنی جبک کرئے لگی۔‬
‫”کتمراز نہیں جل رہے۔۔“ وہ گ ھیرانی۔ رنان اس کی طرف ل یکا اس کے ہاتھ‬
‫سے لنپ ناپ لتنے کیز دنائے جبک کرئے لگا۔‬
‫”انگزنکٹ لوکٹشن نباؤ مجھے۔۔“ رنان ئے انبا لنپ ناپ لبا اور اس سے لوکٹشن‬
‫بوچھنے نٹشمنٹ کے آس ناس کی سبک نورنی جبک کرئے لگا۔ اس ئے نجھلی رتکارڈنگ‬
‫جبک کی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪882 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ رنان کا فون کان سے لگائے کھڑی تھی چہاں کجھ شور سبانی دے رہا تھا‬
‫لبکن کسی کی آواز نہیں تھی۔‬
‫دو گھتنے نہلے اسے نٹشمنٹ کی آس ناس والی جگہ پہ دو گاڑناں تظر آنی ت ھیں خو‬
‫انک کے تغد انک وہاں سے گزری تھیں۔ پہ فوننج اس نٹشمنٹ سے نانچ منٹ کے‬
‫قاصلے پہ تھا۔‬
‫”کجھ سبانی دنا؟“ رنان ئے فوننج دنکھنے چنہ سے بوچھا خو پرنشانی سے ہونٹ کاٹ‬
‫رہی تھی۔ اس ئے تقی میں سر ہالنا اور فون رنان کو تھمانا۔‬
‫انبا فون ستبکر پہ رکھنے اس ئے چنہ کا فون تھاما اور کسی کو کال مالئے لگا۔‬
‫م‬ ‫ل‬ ‫ُ‬
‫ت‬‫ن‬ ‫ک‬
‫”اسے جھ ہو نا گبا ہو۔۔“ وہ کا نے ہوئے ہچے یں بولی اور پرنشانی سے اس‬
‫کے ناس نتتھ گنی۔ دل میں مشلشل وشوسے آرہے تھے۔‬
‫”رنلبکس۔۔ میں کر رہا ہوں راتطہ۔“ اس کے گرد نازو تھبالئے ہوئے بوال چب‬
‫دوسری طرف سے کال رنسنو ہونی۔‬
‫وہ پرابوا کا ہبڈ تھا‪ ،‬نبدے کی مغلومات لتبا مسکل نہیں تھا۔ مبکسبکو میں موخود‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ً‬
‫ن‬
‫اس ئے فورا کانیر کٹ نحا تھا کہ لبام کو ڈھونڈا جائے۔ ا ہوں ئے لبام کی کال نک‬
‫کی تھی بو مطلب لبام کال کر کے زنادہ دور نہیں تھا۔ وہ فون کے آس ناس ہی تھا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪883 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نتھی رنان ئے اس کی لوکٹشن وہاں موخود لوگوں کو تھنج دی۔ امبد تھی کہ جلد ہی لبام‬
‫مل جانا۔‬
‫”ہم جلنے ہیں وہاں۔“ چنہ نل میں جائے کو نبار ہونی خو ا ننے مصروف دن کے‬
‫ناوخود آرام نہیں کر نانی تھی لبکن اس وفت اس کے انداز میں زرا تھی تھکن نہیں‬
‫تھی۔‬
‫”نہیں ہم نہیں جا شکنے‪ ،‬کجھ ہی دپر میں لبام نہاں موخود ہو گا۔ تم آرام‬
‫کرو۔“ رنان ئے اس کو رشان سے سمجھانا جاہا جس پہ وہ عصے سے جنچی۔‬
‫”وہ مسکل میں ہے رنان۔۔ اس کو اکبال نہیں چھوڑ شکنی۔“‬
‫”تم ئے رنشٹ نہیں کبا‪ ،‬بو مزند شفر نہیں کر شکو گی۔“ رنان لنپ ناپ شانبڈ‬
‫پہ رکھبا اتھ کھڑا ہوا۔‬
‫”نمہاری وجہ سے۔۔“ وہ انک انک لقظ جبا کے بولی کہ اننی سنجبدہ صورت جال‬
‫میں رنان کے ہون نوں پہ ناجا ہنے ہوئے تھی مشکراہٹ آگنی۔‬
‫”اچھا میرا فصور ہے لبکن تھوڑا شا و نٹ کر لو۔ اتھی کال آجائے گی۔ شب انک نو‬
‫ہیں وہاں۔“ چہرے پہ سنجبدگی طاری کرئے وہ اس کی طرف پڑھا کہ چنہ کو ناجار ان یطار‬
‫کرنا پڑا۔ اس کے سر میں درد اتھ رہا تھا۔ تھکن وافعی جد سے شوا تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪884 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کونی انک دسمن تھوڑی تھا ان کا خو دو نین کو مار کے کام نمام ہو جانا۔ دسمن‬
‫نہت تھے ہر ننے دن نبا دسمن اتھرنا تھا۔ لبام پہ چملے کا مطلب تھا چنہ کو وارنبگ۔‬
‫ُ‬
‫اس ئے آئے والے دبوں میں شپ منٹس کو روکبا تھا اور پہ وارنبگ تھی کہ ان‬
‫کے کام میں دجل اندازی پہ کی جائے۔ وہ جتبا لبام کے نارے میں شوچ رہی تھی‬
‫انبا ہی عصہ مزند پڑھبا جا رہا تھا کہ چنہ کو رو کنے کے لنے لبام کا اسیعمال کرنا جاہا‬
‫تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اجانک آنکھوں کے پردوں پہ پڑئے والی روسنی سے اس کی نتبد میں جلل پڑا بو‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬ ‫گ‬ ‫ک‬ ‫ش‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫آ یں نے ھوال۔ دامیر الس وال سے پردے ہبا رہا تھا۔ وہ اتھ ھی۔‬‫ل‬ ‫م‬
‫ہمٹشہ کی طرح آج تھی وہ اس سے نہلے اتھ گبا تھا۔ نالوں کو سمنتنے اتھی اور‬
‫فرنش ہوئے جلی گنی۔ نہاں سے جائے سے نہلے وہ ا ننے کیڑے لے گنی تھی لبکن‬
‫ناقی اس کی شاری چیزیں ہ نوز اننی جگہ پہ موخود تھیں۔ کونی تھی چیز اننی جگہ سے‬
‫نہیں ہلی تھی۔‬
‫سر چھبکنے اس ئے شاور کا ارادہ کبا۔‬
‫ت‬ ‫ُ‬
‫کمرے میں آنی بو وہ نہاں نہیں تھا۔ اس ئے د کھا ھی یں تھا لتبا کو۔‬
‫ع‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ن‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪885 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ناراض وہ تھی لبکن ناراصگی وہ جبا رہا تھا۔‬


‫ضرور وہ ناشنہ نبائے گبا تھا۔‬
‫ا ننے کیڑے بو وہ لے گنی تھی کجھ نہاں موخود تھے۔ ا ننے نہتنے کا دل پہ کبا‬
‫بو دامیر کا ہی انک پراؤزر سرٹ تکالے اس کو نہن لبا۔ دامیر کی جسنو محسوس کرئے‬
‫اس ئے گہرا شانس تھرا۔‬
‫اس کی شاری ربورنس مبکس کے گھر رہ گنی تھیں‪ ،‬مبڈنشن اور ڈانٹ جارٹ تھی‬
‫اسی میں موخود تھا۔ دامیر کے عالوہ بو کونی جانبا نہیں تھا اس کی کبڈنشن اور اتھی‬
‫کسی اور کو نبائے کا دل تھی نہیں تھا۔‬
‫کمرے سے تکلنے راہ داری سے آخر نک آنی چہاں سے الؤنج اپرنا تظر آنا۔‬
‫آگے پڑھی لبکن اس کو دامیر کنچن میں تظر پہ مال۔ وہ الجھن لنے آگے پڑھی اور‬
‫بورے ہال میں تظر دوڑانی۔ وہ کہیں نہیں تھا۔‬
‫”اننی جلدی کہاں جال گبا‪ ،‬کہیں آرمری میں پہ گبا ہو۔“‬
‫ض‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ش‬ ‫ھ‬ ‫چ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫آ یں اب کہاں اس کا او ل ہونا پرداشت کر نی یں ھی ظرب انداز‬
‫میں وہ ناہر آنی۔ الن کا اپرنا کراس کرئے نجھلے حصے کی طرف پڑھی چب ڈرنک کی‬
‫آواز پہ رک گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪886 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کجھ جا ہنے آپ کو متم؟“‬


‫علتبا مڑی بو وہ ننجھے ہاتھ ناندھے کھڑا بوچھ رہا تھا۔ اس ئے انک تظر آرمری‬
‫والے ر سنے کو دنکھا تھر وانس ڈرنک کو۔‬
‫”نہیں کجھ نہیں۔“‬
‫تقی میں سر ہالنا اور چھوئے قدم اتھانی ہونی وانس پڑھ گنی۔ کم از کم وہ گھر‬
‫کے گارڈز کو پہ واصح نہیں کرنا جاہنی تھی کہ دامیر کے نانچ منٹ تظروں سے دور‬
‫ہوئے پہ وہ ئےجین ہونی تھی۔‬
‫”دامیر سر کسی ضروری کام سے گنے ہیں۔“ علتبا سر چھکائے جل رہی تھی‬
‫چب ڈرنک بوال۔‬
‫”کہاں؟“ وہ ئےشاچنہ بولی کہ اننی ئےاجتباری پہ چحل ہونی۔ تعنی وہ جان گبا‬
‫تھا کہ دامیر کو ہی ڈھونڈئے آنی تھی۔‬
‫”رنان سر‪ ،‬دامیر‪ ،‬چنہ متم کسی ضروری کام سے گنے ہیں۔ تھوڑی دپر میں‬
‫آئے ہو نگے وانس۔“ ڈرنک ئے مزند کہا بو علتبا شوچ میں پڑ گنی کہ انشا کبا ضروری‬
‫کام تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪887 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں ئے چھوڑئے والی نات کر دی تھی بو اب کہاں ضروری رہبا ہے میں‬


‫ئے۔“ وہ جلے دل سے شوجنی ہونی وانس ہال میں آنی اور انک صوفے پہ نتتھ گنی۔‬
‫تھوک کا اجشاس جاگ رہا تھا۔‬
‫وہ کنچن میں آگنی کہ کجھ نبا لے ا ننے لنے لبکن دنکھ کے چیران ہونی کہ نہلے‬
‫سے ہی کنچن میں ناشنہ موخود تھا۔‬
‫دامیر اس کے اتھنے سے نہلے ہی ناشنہ نبا حکا تھا۔ ناراصگی ہ نوز رکھنی تھی۔ نا سنے‬
‫ُ‬
‫کی نلنٹ اتھائے وہ وانس صوفے پہ ہی نتتھے شاتھ ان کے وانس آئے کا ان یطار‬
‫کرئے لگی۔‬
‫دماغ میں اتھی پہ نات نہیں آنی تھی کہ وہ کال کر کے بوچھ لتنی۔ وہ نت نوں‬
‫انک شاتھ گنے تھے اور کجھ گڑپڑ ہونی ہو گی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫رنان نار نار نبک وبو مرر سے چنہ کو دنکھبا خو سنجبدگی سے ناہر دنکھ رہی تھی‪،‬‬
‫آنکھوں پہ سباہ گاگلز نہن ر کھے تھے۔‬
‫رنان ئےچیر تھا کہ چنہ اس کا نار نار دنکھبا بوٹ کر رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪888 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہیں گھر رہبا جا ہنے تھا کجھ رنشٹ کر لتنی۔“ پہ کونی نٹسری دفع تھا کہ رنان‬
‫ئے اس کو محاظب کبا تھا جس کو چنہ ئے تظر انداز کبا۔‬
‫”سباپ اِ ٹ رنان۔“ وہ ناگوارنت سے بولی۔‬
‫ن‬
‫لبام نہاں ہنجنے واال تھا۔ رنان کے آدم نوں ئے اس کو ڈھونڈ لبا تھا اور اتھی وہ‬
‫لوگ انیر فبلڈ کی جانب جا رہے تھے چہاں سے وہ لوگ ملنے والی نہلی قالنٹ سے نہاں‬
‫ن‬
‫ہنچ رہے تھے۔‬
‫رنان ئے دامیر کو تھی اتقارم کر دنا تھا۔ ان کے م یع کرئے کے ناوخود وہ شاتھ‬
‫آنا تھا۔‬
‫انیر فبلڈ پہ گاڑی نارک کی۔ شب ناہر تکلے چہاں نلین آئے واال تھا۔ دامیر کال‬
‫آئے پہ زرا شانبڈ ہوا‪ ،‬ڈرنک اس کو اتقارم کر رہا تھا کہ علتبا انبا ناشنہ کر رہی تھی۔‬
‫چنہ ئے تھبک شوجا تھا وہ اس کے لنے وارنبگ تھی شپ منٹس کو نارو کنے کے‬
‫لنے لبکن اب وہ ر کنے والی کہاں تھی۔ اس کا نس جلبا وہ ان آدم نوں کی تعسیں نجھا‬
‫کے اس پر سے جلنے ہوئے شب نباہ کرنی۔ نلین کا دروازہ کھال کہ چنہ کے قدم اس‬
‫کی جانب پڑھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪889 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اس لڑکی کو آرام کرنا جا ہنے تھا کہا تھی تھا شکون سے رہے گھر‪ ،‬میں لے آؤں‬
‫گا اس کو۔“ رنان چنہ کی نیزی دنکھنے پڑپڑانا کہ دامیر ئے نبکھے انداز میں اس کو دنکھا۔‬
‫دو آدمی شونڈ بوند ناہر آئے تھے اور ان کے ننجھے ہی لبام تھا۔ جس کو دنکھنے چنہ‬
‫اننی گالسز انارئے نیزی سے آگے پڑھی۔‬
‫”اب پہ گلے لگے گی اس کے۔۔“ وہ پڑپڑانا۔‬
‫ن‬
‫”کس چیز کا عصہ ہے نمہیں؟“ دامیر ئے آ کھیں چھونی کنے اس سے بوچھا۔‬
‫”خود کا شکون پرناد کر کے اس کی جاطر نہاں آنی ہے اور دنکھو۔۔۔“رنان ئے‬
‫نلین کی سیڑھ نوں کی طرف دنکھا۔ چہاں چنہ ئے لبام کو خود سے لگانا تھا۔‬
‫” لو ہو گبا کام‪ ،‬پہ گلے ملبا ضروری ہے کبا۔“ ہوا میں ہاتھ لہرائے رنان ئے‬
‫جٹسے کام نمام کبا۔ دامیر ئے نہلے رنان کو تھر چنہ کو دنکھا۔‬
‫وہ ماؤں کی طرح اس کا جال جال بوچھ رہی تھی۔‬
‫” ِجل مین۔ وہ کاقی چھونا ہے اس سے۔“ دامیر ئے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے نشلی‬
‫دی جبکہ انداز صاف خڑائے واال تھا۔‬
‫”چھونا۔۔ نٹس شال کا لڑکا ہے وہ۔ چھونا نہیں ہے۔۔“ رنان دامیر کو گھورئے‬
‫ہوئے بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪890 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”چنہ‪ ،‬لبام۔۔۔ ہم تھی ادھر ہیں۔“ رنان سے چب مزند پرداشت پہ ہوا بو وہ‬
‫آگے پڑھا۔ چنہ اور لبام ئے مڑ کے اس کو دنکھا۔‬
‫لبام کے چہرے پہ ہلکی سی خوٹ کا نشان تھا‪ ،‬وہ لڑکھڑا کے تھی جل رہا تھا۔‬
‫چنہ اس کو سیڑھ نوں سے اپرئے میں مدد د ننے لگی کہ رنان ئے دامیر کو دنکھا اور ضیط‬
‫سے دانت نٹسے۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”پہ لڑکی ک نوں نہیں ھنی میری فبلبگز کو۔“ ہون نوں پہ زپردسنی مشکراہٹ لنے‬
‫وہ آگے پڑھا اور چنہ کو پرمی سے شانبڈ پہ کرئے لبام کو سہارہ دنا۔‬
‫دامیر تھی آگے پڑھا۔ اسے گاڑی میں نتھائے نبا دپر کنے وہ لوگ وانس منٹشن‬
‫کی طرف پڑھے۔‬
‫ڈرنک کو اطالع کر دی تھی کہ ان کے شاتھ لبام تھی ہو گا بو کمرہ نبار رہے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫گاڑی کی آواز پہ علتبا ناشنہ جتم کرئے نیزی سے اتھی اور گالس ڈور کی طرف‬
‫پڑھی۔ رنان اور دامیر ئے انک لڑکے کو سہارہ دے رکھا تھا۔ وہ چیران پرنشان تظروں‬
‫سے ان کو دنکھنے لگی۔ اس کی تظر چنہ پہ گنی خو شانبڈ پہ تھی‪ ،‬تظریں گھومنی دامیر پہ‬
‫گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪891 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کبا وہ لوگ تھر کسی جبگ پہ گنے تھے؟ وہ پرنشانی سے شو جنے لگی اور ناہر آگنی۔‬
‫دامیر کی تگاہ اس پر اتھی بو خونک شا گبا۔ وہ اس کے کیڑوں میں تھی۔ اسے‬
‫دنکھنے وہ جلبا تھول گبا کہ لبام کے کرا ہنے پہ ہوش میں آنا ک نونکہ رنان آگے پڑھ رہا‬
‫تھا۔‬
‫دامیر ئے رنان کو دنکھا خو اسی کو معنی چیز تگاہوں سے دنکھ رہا جٹسے کہبا جاہ رہا‬
‫ہو ”واہ پڑی جلدی عصہ جتم کبا۔“ تھر رنان ہلکا شا ہٹس دنا۔ علتبا کو ان کی تظروں‬
‫کے نبادلے کی سمجھ پہ آنی تھر رنان کی معنی چیز ہٹسی۔‬
‫جبکہ اب علتبا کو پہ قکر تھی کہ کہیں دامیر کو خوٹ پہ آنی ہو‪ ،‬دامیر ئے لبام‬
‫کو تھاما تھا اس کا دل کبا کہ وہ علتبا کے ناس جائے۔ اسے کس ئے روکبا تھا ڈرنک‬
‫کو اشارہ کبا اور خود شانبڈ پہ ہو گبا۔ لبام انک نار تھر کراہا۔‬
‫”نار نمہاری ن نوبوں کے عالوہ تھی لوگ ہیں۔“ لبام دہانی د نبا بوال۔ دامیر تظر انداز‬
‫کرئے علتبا کی طرف پڑھا۔‬
‫”ناشنہ کبا پرنسٹس۔۔“ اس کے فرنب آئے چہرے پہ دوبوں ہاتھ رکھنے پرمی‬
‫سے بوچھا کہ وہ سر ہال گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪892 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم تھبک ہو؟“ علتبا ئے ئےشاچنہ بوچھا دامیر مشکرا کے اس کے ما تھے پہ‬
‫ہونٹ رکھ گبا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ن‬
‫گٹشٹ روم میں اس وفت وہ جاروں موخود تھے۔ چنہ لبام کے فرنب تتھی اس‬
‫سے طت یغت کا بوچھ رہی تھی جبکہ رنان اس کو شلگنی تگاہوں سے مشلشل گھور رہا‬
‫تھا۔‬
‫”تم ئے مجھے نہلے اتقارم ک نوں نہیں کبا؟“ اس کے ما تھے کو اتگلی کے بورے‬
‫سے چھوئے ہوئے زچم دنکھنے لگی۔‬
‫”میں ئے کتنی نار کال کی تھی‪ ،‬تم نک ہی نہیں کر رہی تھی ت ھر رنان کو کرنا‬
‫سروع ہوا وہ تھی کاقی دپر تغد اس ئے اتھانا شاند۔ اجانک ہی ہو گبا شب۔ مجھے بو‬
‫اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کبا ہو رہا ہے ناہر۔ وہ لوگ کاقی دبوں سے رات کے وفت‬
‫دروازہ کھو لنے کی کوشش میں تھے اور کل رات ان کو موفع مل گبا۔“‬
‫لبام چنہ کو دنکھ کے نبائے لگا۔ کال والی نات پہ چنہ کو مابوسی ہونی اور لبام کو‬
‫دنکھنے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪893 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں کنچن میں تھی بو مجھے نمہاری کال کا نبا ہی پہ جال۔“ وہ ندامت تھرے‬
‫لہچے میں بولی کہ لبام مشکرا دنا۔‬
‫”تم اب نہی رہو گے ہمارے شاتھ پرنشان ہوئے کی ضرورت نہیں ہے۔“ چنہ‬
‫اس کو پرمی سے کہنی ہونی بولی۔‬
‫دامیر اور علتبا کمرے میں موخود صوفے پہ نتتھے تھے۔ علتبا ئے غیر ارادی طور پہ‬
‫دامیر کا ہاتھ تھام رکھا تھا جس کی اتگلی میں موخود انگوتھی کو وہ گھمائے جا رہی تھی۔‬
‫دامیر ئے اننی انگوتھی وہیں سے اتھانی چہاں ان لوگوں کو ناندھ کے رکھا گبا تھا۔‬
‫”اہم۔۔“ رنان ئے گال کھ یگا لنے چنہ کو اننی جانب م نوجہ کبا۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫”تم سے ضروری نات کرنی ہے۔“ چنہ کی شوالنہ تگاہوں کو د نے رنان ئے‬
‫ھ‬
‫ناہر جائے کا اشارہ کبا اور خود ناہر آگبا۔‬
‫لبام کو انک تظر دنکھنے اتھی اور رنان کے ننجھے جل دی۔‬
‫”نمہیں اننی پرواہ ہے نا نہیں؟“ اس کے ناہر آئے ہی وہ عصہ دنائے سرد لہچے‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ن‬
‫میں بوال کہ چنہ ئے نا ھی سے اس کو د کھا۔‬
‫”روم میں جلو اور آرام کرو۔“ اس کا نازو تھامے ا ننے کمرے کی طرف لے‬
‫جائے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪894 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”رنان‪ ،‬لبام اتھی آنا ہے اس کو کسی چیز کی ضرورت ہو شکنی ہے ا نسے میں‬
‫کٹسے میں آرام کر لوں۔“ چنہ انبا نازو اس کی گرفت سے آزاد کرنی ہونی بولی۔‬
‫”ملٹسکا!“ وہ اس کے فرنب ہوا انبا کہ چنہ کو اس کی شانسیں محسوس ہونیں۔‬
‫اس کے چہرے کو ہاتھوں کے نبالے میں تھرا‪ ،‬اس کی آنکھوں میں دنکھا۔ چنہ‬
‫کو وہاں انبان نت‪ ،‬قکر‪ ،‬پرواہ محسوس ہونی۔‬
‫”تم دو دن سے جاگ رہی ہو۔ تھبک سے شونی نہیں۔ تھکی ہو کاقی۔ آرام کرو‬
‫ئےنی۔ ا نسے تم لبام کا دھبان نہیں رکھ ناؤ گی۔“ وہ م یقکر لہچے میں بوال۔ چنہ ئے‬
‫اس کی آنکھوں میں دنکھا وہ اس کے آرام کی کتنی پرواہ کر رہا تھا۔‬
‫”تم ئے کون شا شوئے دنا تھا۔“ وہ جان بوچھ کے جبائے لگی کہ رنان کے‬
‫ہون نوں پہ مشکراہٹ دوڑ گنی۔‬
‫”میں نمہیں سبلڈ کا ناؤل جتم کرئے کے تغد شوئے ہی د ننے واال تھا۔“ وہ‬
‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫سرپر مسکان لنے بوال کہ چنہ ئے آ یں ھما یں اور اس کے ہاتھ ہبائے۔‬
‫”اتھی روم میں جلو۔ دامیر لبام کو دنکھ لے گا۔“ رنان ئے تھر کہا کہ وہ سر ہال‬
‫گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪895 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں لبام کے ناس شو جاؤں گی۔“ چنہ جان بوچھ کے بولی کہ رنان خڑ گبا اور‬
‫اس کے ما تھے پہ نل نمودار ہوئے۔‬
‫”تم نہیں جاہو گی کہ لبام کو آج کی رات میں کہیں اور شفٹ کرو دوں؟ ہے‬
‫نا۔“ وہ سرد لہچے میں بوال کہ چنہ سر چھبک کے ہلکا شا ہٹسی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫دامیر صوفے سے اتھا بو علتبا کی گرفت سے اس کا ہاتھ تکال‪ ،‬علتبا اس نل خونکی‬


‫کہ اس ئے دامیر کا ہاتھ تھام کی رکھا تھا۔‬
‫وہ جلبا ہوا لبام کی طرف آنا۔‬
‫”نمہیں کسی تھی چیز کی ضرورت ہو بو مجھے نبا شکنے ہو۔ خو مبڈنشن میں ئے دی‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫ہیں وہ الزمی لتنی ہیں۔“ دامیر مبڈنشن تکال کے اس کی لی پہ ر ھبا ہوا بوال بو لبام‬
‫ک‬ ‫ھ‬
‫سر ہال گبا۔‬
‫”تم اننی ن نوی سے ناراض ہو؟“ مبڈنشن کھائے کے تغد لبام کے غیر م نوفع‬
‫شوال پہ خوتکا لبکن اس ئے خواب نہیں دنا۔ جبکہ علتبا اب تھی جاموسی سے دوبوں‬
‫کو دنکھ رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪896 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شدند قشم کی مجنت میں گرفبار ہیں نہاں کے مرد۔“ لبام سبانسی انداز میں بوال‬
‫چب دامیر ئے اس کو سرد تگاہوں سے گھورا۔‬
‫” نچے ہو نچے ین کے رہو۔“ اس کے انداز میں وارنبگ تھی۔ لبام ئے الپرواہی‬
‫سے کبدھے احکائے۔ چنہ کی وجہ سے وہ شکون میں تھا کہ رنان اور دامیر اس کو کجھ‬
‫نہیں کہہ شکنے تھے۔‬
‫”و نسے مس علتبا آپ میں اور مجھ میں زنادہ فرق بو نہیں۔“ اجانک لبام کے‬
‫تکارئے پہ علتبا ئے چیران ہوئے اس کو دنکھا ت ھر دامیر کو‪ ،‬جبکہ دامیر کی سرد تگاہیں‬
‫لبام کو ہی گھور رہی تھیں اسے اب سمجھ آنا تھا کہ رنان کی تھرکی ک نوں گھوم رہی‬
‫تھی۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”کبا مطلب؟“ علتبا ئے نا ھی سے بوچھا۔‬
‫”میں آپ سے نس دو شال ہی چھونا ہوں اور تھر ہمیں پہ مار دھاڑ نسبد تھی‬
‫نہیں ہے نا۔“ لبام معصوم نتبا علتبا سے بوال بو علتبا کو جٹسے انبا نجھڑا تھانی مل گبا۔‬
‫اس کے چہرے پہ تھی مابوسی چھا گنی۔‬
‫دامیر ئے لبام کو دنکھا تھر علتبا کو۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪897 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”علتبا اتھو ناہر الن میں جلو‪ ،‬فرنش انیر لو۔“ اس سے نہلے لبام مزند کجھ کہبا‬
‫دامیر علتبا کی طرف پڑ ھنے ہوئے بوال۔‬
‫وہ نبا کجھ کہے اتھ کھڑی ہونی لبکن جائے سے نہلے انک مشکرانی تظر لبام پہ‬
‫ڈالی۔‬
‫کمرے کا دروازہ نبد کرئے دامیر ئے علتبا کا ہاتھ تھاما کہ وہ ندک کے ننجھے‬
‫ہنی۔‬
‫”ہاتھ ک نوں نکڑ رہے ہو میرا؟“ وہ نانسبدندہ انداز میں بولی کہ اس کے نبا نبائے‬
‫جائے پہ تھی وہ عصہ تھی۔‬
‫”نمہاری مبڈنسیز کہاں ہیں؟“ دامیر ئے ضیط کرئے سنجبدگی سے بوچھا۔ خود وہ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن ن‬
‫ہاتھ کڑے ھی ھی اب اس ئے کڑا بو اغیراض تھا مبڈم کو۔‬
‫”مجھے نہاں الئے سے نہلے تم ئے نبانا نہیں تھا ورپہ میں انبا شامان تھی شاتھ‬
‫لے آنی۔“ وہ نبک بولی اور اس کو تظرانداز کرنی ہونی الن میں جلی آنی۔‬
‫رات کے اور اب کے انداز میں فرق تھا۔ وہ اب ندنمیزی سے نات کر رہی تھی‬
‫جسے وہ کڑوے گھونٹ سمجھ کے نی رہا تھا لبکن پہ زنادہ دپر نک پرداشت نہیں ہونا‬
‫تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪898 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”سر‪ ،‬جارج سر کا اکبڈمی سے فون ہے وہ آپ سے نات کرنا جا ہنے ہیں۔“‬
‫ڈرنک فون لنے رنان کے ناس آنا۔‬
‫اس وفت آرمری میں کھڑے وہ لوگ اگلے ہوئے والے چملے کے نارے میں‬
‫ڈشکس کر رہے تھے۔‬
‫رنان ئے فون ڈرنک کے ہاتھ سے لبا اور مصروف انداز میں کان سے لگانا۔‬
‫”رنان ڈی استبکبگ!“‬
‫دوسری جانب سے سر جارج کی آواز گونچی خو اس کو ہبڈ ہوئے کی مبارک دے‬
‫رہے تھے۔‬
‫ل‬ ‫ش‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ت‬‫ض‬ ‫ت‬
‫”نہت خوش نی کہ آپ ئے یں وفت دنا۔“ ان کا م کرانا ہحہ سبانی دنا‬
‫کہ رنان کے ہون نوں پہ اسبہزاننہ مشکراہٹ اتھری۔‬
‫”انبا مطلب ہو بو وفت صا تع کرئے میں کبا خرج ہے۔“ رنان کی نات ستنے‬
‫جٹسے جارج کی مشکراہٹ سمٹ گنی۔‬
‫”مجھے مغلوم ہوا تھا کہ آپ کو کجھ آدم نوں کی ضرورت ہے۔“ نبا نمہبد ناندھے‬
‫وہ مدعے پہ آئے تھے کہ نہاں خوش آمد کرئے کا کونی قاندہ نہیں تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪899 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آپ کتنے آدم نوں کا ارننج کر شکنے ہیں؟“ رنان نتبل کے گرد سے اتھ گبا اور‬
‫جلبا ہوا شانبڈ پہ آنا۔‬
‫”پہ نات آپ کی کی گنی نتمنٹ پہ انحصار کرنی ہے۔“ وہ طیزپہ بولے۔‬
‫”آپ مجھے آدم نوں کی گتنی نبانیں اگلے کجھ منٹس میں نتمنٹ رنسنو ہو جائے‬
‫گی۔“ رنان ئے کہنے ڈرنک کو اشارہ کبا۔‬
‫”شات پرنبڈ آدمی آپ کو مل جانیں گے۔۔“ جارج ئے شاتھ ہی ان کی فتمت‬
‫نبانی۔‬
‫”ڈرنک نتمنٹ ڈن کرو۔۔ ہمیں اگلے خونٹس گ ھت نوں کے اندر آدمی نہاں جا ہنے۔“‬
‫سر جارج کے مت نت خواب پہ رنان ئے کال کاٹ دی۔‬
‫چنہ اس وفت نہاں موخود نہیں تھی۔‬
‫”دامیر تم سنور ہو کہ علتبا کے تغیر تم وفت گزار شکنے ہو؟“ شارے مغا ملے‬
‫طے کرئے کے تغد رنان ئے سنجبدگی سے دامیر کی طرف دنکھنے بوچھا۔ دامیر ئے اس‬
‫کو سحت تگاہوں سے گھورا۔‬
‫”نمہاری ئےنانباں تھی شب سے چھنی نہیں رنان۔۔“وہ البا اس کو جبا کے بوال‬
‫کہ دوبوں کی گھوربوں پہ ڈرنک محظوظ ہوئے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪900 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میری والی بو شاتھ ہی ہو گی میرے۔“ رنان الپرواہی سے بوال۔‬


‫”تم وہاں ہنی مون پہ نہیں شپ منٹس رو کنے جا رہے ہو۔“ وہ تھی جبائے‬
‫والے انداز میں بوال کہ رنان شلگ اتھا۔‬
‫”سر میرے لنے کونی جکم۔۔“ ان دوبوں کی بوک چھوک سے نجنے کے لنے‬
‫ڈرنک گال کھ یگا لنے ہوئے بوال۔‬
‫”شوٹ کر لو خود کو ڈرنک۔“ دامیر سرد لہچے میں بوال کہ وہ زنادہ ہی جل گبا تھا‬
‫رنان کی نابوں سے۔‬
‫”شوری سر۔۔“ وہ سرمبدہ ہی ہو گبا اور خور تگاہوں سے ان دوبوں کو دنکھنے لگا۔‬
‫عج نب ہی محلوق ین گنے تھے دوبوں شادی کے تغد ۔۔۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫شارا دن دامیر کا رنان کے شاتھ مصروف رہا تھا کہ دونارہ علتبا سے کونی نات ہی‬
‫پہ ہونی ۔ کھائے سے قارغ ہوئے علتبا اوپر والے بورشن میں آگنی بو اسے اندازہ ہوا کہ‬
‫دن کے مقا نلے رات میں نہاں زنادہ شکون ملبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪901 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ کرسی پہ نتتھے ناہر دنکھنے لگی چہاں رات جگمگا رہی تھی اور منٹشن کی النٹس‬
‫کی وجہ سے الن کا تطارہ اچھا لگ رہا تھا۔‬
‫ا ننے ننجھے آہٹ محسوس کرئے پہ اس ئے خونک کے گردن گھمانی‪ ،‬دامیر کاقی‬
‫کا مگ ہاتھ میں تھامے نہاں آرہا تھا۔ رات کے آتھ نج رہے تھے۔‬
‫”کل میرے شاتھ ڈاکیر کے ناس جانا ہے۔۔“ وہ سنجبدگی سے کہبا ہوا اس کے‬
‫ناس رکھی کرسی پہ نتتھ گبا۔ علتبا جاموش رہی۔‬
‫”نمہاری ربورنس میں ئے مبگوا لی ہیں لبکن انک نار نہاں سے پراپر جبک اپ ہو‬
‫جائے بو مجھے نشلی ہو جائے گی۔“ کاقی کا گھونٹ تھرئے وہ تھر بوال۔‬
‫علتبا کا پہ ن یگاپہ ین اس کو جتھ رہا تھا آخر وہ ک نوں نہیں سمجھ نا رہی تھی اس‬
‫شب کو۔ جان بوچھ کے اس کو مسکل میں ڈال رہی تھی۔‬
‫”میں کونی زپردسنی نہیں جاہ رہا علتبا‪ ،‬نمہیں وفت دنا ہے لبکن اس مغا ملے میں‬
‫نمہاری الپرواہی پرداشت نہیں کر شکبا۔“ وہ کجھ پہ بولی کہ دامیر انبا کاقی کا کپ‬
‫اتھائے وہاں سے جائے کے لنے کھڑا ہوا۔‬
‫”نمہیں لگبا ہے کہ مجھے پہ شب بوچھ لگ رہا ہے؟“ علتبا اس کی نات پہ‬
‫مڑئے ہوئے نبکھے انداز میں بوچھنے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪902 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں وہ کہہ رہا ہوں خو مجھے تظر آرہا ہے۔“ دامیر کا سرد لہحہ نہت کجھ جبا رہا‬
‫تھا‪ ،‬وہ وانس مڑ گبا۔ علتبا ئے مالمنی تگاہوں سے اس کو نشت کو دنکھا۔‬
‫شاند دامیر تھبک کہہ رہا تھا ک نونکہ اس ئے شام کا کھانا تھی تھبک سے نہیں‬
‫کھانا تھا۔ خود بو وہ دامیر کو مشلشل تظر انداز کر رہی تھی لبکن دامیر تھی اس سے اب‬
‫پرمی نہیں دکھا رہا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫کاقی دپر نہاں نتتھنے کے علتبا کا دل چب وانس جائے کو کبا بو اتھ کھڑی‬
‫ہونی۔ نیرس سے اتھی تکلی تھی کہ اس کو اوپر والے بورشن کے ہال میں النٹ جلنی‬
‫محسوس ہونی وہ اس طرف آنی بو دنکھا کہ دامیر نیر سبدھے کنے نتبل پہ ر کھے ہوئے تھا‬
‫اور گود میں موخود لنپ ناپ پہ اتگلباں جل رہی تھیں۔‬
‫وہ وانس نہیں گبا تھا نہیں موخود تھا لبکن تھوڑا قاصلے پہ۔ علتبا کو آنا دنکھ وہ نیر‬
‫ش‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ننچے کنے اتھ ک ھڑا ہوا۔ آ یں م لنے ہوئے اس ئے نالوں یں ہاتھ ھیرا۔‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ھ‬
‫دامیر اس کو نیرس پہ اکبال نہیں چھوڑنا جاہبا تھا نتھی تھوڑے قاصلے پہ رہا کہ وہ‬
‫انبا وفت اکبلے گزار شکے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪903 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫جائے علتبا انبا روپہ کب اس سے تھبک کرنی‪ ،‬اس کی ئےرجی کا خواب اب‬
‫وہ تھی ا ننے انداز میں دے گا ناکہ جلد ہی وہ الین پہ آجائے۔‬
‫علتبا آہشنہ سے ز ننے اپرئے لگی نب دامیر تھی اس کے ننجھے اپرئے لگا۔‬
‫اس کا آج تھی ارادہ تھا کہ وہ دوسرے کمرے میں شوئے لبکن ننجھے دامیر کو‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫وہ خور تگاہوں سے د نی ا ننے ہی کمرے کی طرف نی۔‬
‫”تم فرنش ہو جاؤ میں کھانا ال رہا ہوں۔“ دامیر نبڈ پہ انبا لنپ ناپ رکھبا اس سے‬
‫بوال۔‬
‫”مجھے تھوک نہیں ہے۔“ اس سے نہلے وہ ناہر تکلبا علتبا کی آواز پہ رک گبا۔‬
‫وہ کھڑی تھی اور دامیر جلبا ہوا اس کے فرنب آنا۔‬
‫”میں تم سے بوچھ نہیں رہا نبا رہا ہوں۔“ اس کی آنکھوں میں سرد ین اپر آنا۔‬
‫علتبا سہم سی گنی۔ اس میں کونی پرائے دامیر کی چھلک نہیں تھی۔ اس وفت علتبا‬
‫کو وہ دامیر تظر آنا تھا جس سے وہ نہلی نار ملی تھی۔‬
‫”تم مجھ پہ عصہ نہیں کر شکنے۔“ اس ئے کمزور سے لہچے میں کہا کہ دامیر‬
‫ت‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫کے ہونٹ مشکراہٹ میں ڈ ھلے۔ اب اگر وہ اس کو اشاشن دامیر آر ہی ھنی ھی بو‬
‫تھبک۔ دامیر وہی ین کے دکھائے گا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪904 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں عصہ نہیں اس کے عالوہ تھی نہت کجھ کر شکبا ہوں۔“ درمبان میں‬
‫موخود قاصلہ تھی انک قدم فرنب آئے جتم کبا کہ علتبا ئے گردن اونچی کرئے اس کو‬
‫دنکھا۔‬
‫ک‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫چ‬ ‫ت ُ‬
‫”اور م اس سے ا ھے سے وافف ہو پر ٹس۔۔“ اسبہزاننہ ہچے یں ہنے اس‬
‫کے رجشار کو ہلکے سے چھوا‪ ،‬علتبا کی آنکھوں میں شکوہ اتھرے۔‬
‫”کھانا ال رہا ہوں‪ ،‬تھبک سے نہیں کھانا تم ئے۔“ دامیر کی تگاہ اس کی گردن پہ‬
‫گنی‪ ،‬دل کبا کہ وہاں انبا لمس چھوڑے لبکن ناراصگی جبانی تھی بو ننجھے ہٹ گبا۔ علتبا‬
‫ئے تھرانی آنکھوں سے اس کو دنکھا‪ ،‬وہ روئے کو نس نبار تھی۔‬
‫چب وہ اننی انا کی دبوار کھڑی کنے ہوئے تھی بو دامیر ک نوں سبگ دل نبا تھا۔‬
‫اب پہ نبا دکھ تھا۔‬
‫پرے میں کھانا الئے اس کے شا منے رکھا خو دامیر کو مشلشل گھور رہی تھی۔‬
‫اس ئے کھانا سروع کر دنا‪ ،‬دامیر فرنش ہوئے جال گبا۔ چب نک وہ وانس آنا وہ‬
‫م‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت ً‬
‫ن‬
‫فرنبا کھانا م کر کی ھی۔ خود پہ سیرے کرئے اس ئے پرے اتھانی اور چن یں‬
‫رکھ کے آنا۔‬
‫اب وہ اس کو تظر انداز کر رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪905 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کٹسی مجنت ہے نمہاری‪ ،‬میری جاطر تم میری نات نہیں مان شکنے۔“ اس کے‬
‫نبڈ پہ نتتھنے پہ علتبا ئے کہا۔‬
‫وہ النٹس‪ ،‬دروازہ نبد کر حکا تھا۔ اب اس سے کروٹ لنے لنٹ گبا۔ علتبا‬
‫ئےتفتنی تگاہوں سے اس کی نشت کو دنکھنے لگی۔‬
‫پہ بو کونی اور ہی دامیر تھا۔‬
‫”نمہیں اب میں پری لگنے لگی ہوں نا خو میری نات کا خواب تھی نہیں دے‬
‫رہے۔“ اس کے خواب پہ د ننے پہ وہ طیزپہ انداز میں خوٹ کرنی ہونی بولی اور ک یفرپر‬
‫خود پہ لتنے لگی۔‬
‫”اننی پری کہ نمہاری موخودگی میں شکون کی نتبد شو رہا ہوں۔“ دامیر کی آواز‬
‫اتھری جس پہ علتبا ئے اس کو دنکھا۔‬
‫”دامیر تم۔۔۔“ اس سے نہلے علتبا تھر سے کونی پرانی نات دہرانی دامیر ئے‬
‫سجنی سے بوک دنا۔‬
‫”جاموسی سے نتبد بوری کرو۔“ علتبا ئے ہاتھ آگے پرھائے دامیر کے نالوں کو‬
‫متھی میں تھرا اور زور سے ک ھتنحا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪906 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم انک نمیر کے ندنمیز‪ ،‬طالم اور ئےرچم شوہر ہو جسے ن نوی سے نات کرئے کی‬
‫نمیز نہیں۔“ اس کے کبدھے پہ ہاتھ مارئے وہ جنچی تھی کہ دامیر اننی امڈ آئے والی‬
‫مشکراہٹ کو ضیط کر کے رہ گبا۔‬
‫”شو رہی ہو نا میں کجھ کروں۔“ اس کے ہاتھوں کو گرفت میں لتبا ہوا سجنی‬
‫سے بوال کہ وہ تھم گنی۔‬
‫س‬
‫”نہیں شونا مجھے۔ مجھے تم۔“وہ اس پہ جنچی چب دامیر اتھا اور سرد تگاہوں سے‬
‫گھورئے لگا۔ علتبا اس کے ہاتھ چھبکی ہونی لنٹ گنی۔ اس کے اجانک اتھنے پہ وہ‬
‫گ ھیرا ہی بو گنی تھی۔‬
‫”مجھ سے ا ننے دبوں سے ئےرجی پرنی ہے چب میں ئے انشا کبا بو پرداشت‬
‫نہیں ہو رہا۔“ وہ پڑپڑانا اور اس پہ ک یفرپر تھبک کبا شاتھ ہی اس کے فرنب ہوا اور انبا‬
‫نازو اس کے گرد ناندھا۔‬
‫”اب دور رہو مجھ سے۔“ وہ البا اس پہ چ ھتنی لبکن وہ نہیں ہبا۔ نہی بو وہ شکون‬
‫کے نل تھے خو بورے دن تغد محسوس کرنا تھا اس کو ا ننے فرنب نا کے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪907 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کل ان شب کو نہاں سے تکلبا تھا۔ لبام کی طت یغت اب نہیر تھی جبکہ رنان‬
‫کے شاتھ اب دامیر تھی اس سے خڑ رہا تھا ک نونکہ ان دوبوں کی ن نوناں اس کو وفت‬
‫دے رہی تھیں۔‬
‫چیر اس سے وہ تغد میں ن نٹ لیں گے۔‬
‫اتھی رنان گودام میں موخود اننی آئے والی سبالنیز جبک کر رہا تھا خو آج ہی نہاں‬
‫نہنحا تھا۔ ان نک ونئیز(اشلحہ) نہاں نک سمگل کبا گبا تھا اور پہ ان کا کام تھا۔‬
‫رنان ہر پڑے ناکس کو اننی نگرانی میں جبک کر رہا تھا۔ چب اس کو ڈرنک ئے‬
‫جارج کی طرف سے آئے والے آدم نوں کی اطالع دی۔ وہ سر ہالنا ہوا ناہر آنا۔ دامیر‬
‫ناقی شاری ڈبواپز جبک کر رہا تھا اور چنہ انک نار شاری لوکٹشن کو مارک کر رہی تھی۔‬
‫ت‬ ‫م‬‫ک‬‫م‬
‫ان کی نباری ل ھی۔‬
‫”انبا جبال رکھبا اور مجھ سے را تطے میں رہبا‪ ،‬انک نل تھی راتطہ جتم نا کرنا مجھ‬
‫سے۔“ لبام چنہ کے ناس آئے ہوئے بوال۔ اس کی نانگ اب تھبک تھی۔ چنہ الن‬
‫میں موخود تھی۔ شارے گارڈز‪ ،‬اشلحہ لٹس آدمی منٹشن کے نحائے گودام والے حصے‬
‫میں موخود تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪908 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا کا نہلے کی نانسنت موڈ آج زنادہ خراب تھا۔ دامیر اس کو ڈاکیر کے ناس‬
‫لے گبا تھا اور پراپر جبک اپ کروانا تھا۔‬
‫وہ گالس ڈور کے ناس کھڑی نس شب کو کام میں مصروف دنکھ رہی تھی۔‬
‫اب اس کو دو نین دبوں کے لنے نہاں اکبلے رہبا تھا۔ خوصلہ تھا کہ لبام تھی شاتھ ہو‬
‫گا اس کے۔ وہ نہاں رہ کے شارا کمت نوپر شستم ستتھا لنے واال تھا اور نہیں سے ان کو‬
‫گانبڈ کرئے واال تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫شارے آدمی انک فطار میں کھڑے تھے‪ ،‬رنان ان سے منتبگ کر رہا تھا اور‬
‫شب کو ان کی لوکٹشن کے نارے میں نبا رہا تھا۔ چنہ تھی اس کے شاتھ موخود تھی‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫چ ل ن‬
‫جبکہ دامیر اندر کی طرف پڑھا چہاں علتبا اداس ہرہ نے ھی ھی۔‬
‫”تم ئے پرنشان نہیں ہونا ہم دو دن تغد نہاں موخود ہو نگے اور میں چب تھی‬
‫نمہیں مٹسج کال کروں اننی ناراصگئ تھالئے تم میری ہر کال کو رنسنو کرو گی۔“ وہ‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫صوفے پہ ھی ھی چب دامیر اس کے شا منے نچے کے ل ھبا ہوا رشان سے‬
‫سمجھائے لگا۔ دامیر ئے اس کے ہاتھ تھامے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪909 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا کو سمجھ پہ آنی کہ اس وفت وہ کبا نات کہے اس سے‪ ،‬اس کے جائے‬
‫سے دل اداس ہو رہا تھا۔ وہ نہاں اکبلی ہو گی۔ ناراصگی کہاں تھی اب۔ اس کے دور‬
‫ہوئے پہ اداس تھی۔‬
‫”تم شب کو انک شاتھ جائے کی کبا ضرورت ہے۔“ وہ آہشنہ آواز میں بولی۔‬
‫دل میں انک وہم شا تھا کہ ان کے جائے کے تغد نہاں کونی گڑپڑ پہ ہو جائے۔‬
‫”ضروری ہے جانا۔۔ نہت ضروری ہے ورپہ میں نمہارے ناس ہی رہبا۔“ اس‬
‫کے چہرے پہ ہاتھ رکھنے وہ پرمی سے بوال۔‬
‫”تم مجھے چھوڑ کے جا رہے ہو۔“ وہ روہانشا ہونی۔‬
‫”نہیں پرنسٹس۔۔“ وہ اتھ کے اس کے ناس نتتھا۔‬
‫”نمہیں چھوڑ کے مرنا ہے میں ئے؟“ وہ مشکرائے ہوئے اس کو ا ننے شاتھ لگا‬
‫گبا۔‬
‫”طالم ئےرچم ضرور ہوں لبکن اننی نات کا تکا ہوں‪ ،‬تم میری ہو بو نمہیں‬
‫چھوڑئے کے لنے نہیں انبانا۔ ہم اننی جان دے دیں گے لبکن نات سے نہیں‬
‫تھریں گے۔“ اس کی آنکھوں میں دنکھبا ہوا وہ سنجبدگی سے بوال کہ ئےشاچنہ علتبا ئے‬
‫اس کے ستنے پہ سر رکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪910 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں نمہیں نہت مس کروں گی۔“ وہ اغیراف کرگنی۔ دامیر ئے اس نار نہیں‬
‫بوچھا تھا لبکن وہ خود مان گنی تھی۔‬
‫”ا ننے دبوں تغد نمہارا خود ناس آنا شکون بو دے گبا ہے‪ ،‬نہلے جبال ک نوں نہیں‬
‫آنا۔“ وہ تھوڑا سرپر لہچے میں بوال کہ علتبا تھوڑا حقگی سے اس کو دنکھنے لگی۔‬
‫”انبا جبال رکھبا۔ تم میرے خواشوں پہ چھائے والی ہو اب۔“ دامیر اس کے‬
‫ما تھے کو چھوئے ہوئے بوال اور دوسری نات دل میں شوچ کے رہ گبا۔ اس سے دور رہ‬
‫کے کام پہ فوکس کرنا مسکل ہی تھا لبکن ان کو کرنا تھا۔‬
‫ک نونکہ پہ معصوم زندگ نوں کا شوال تھا اور انہیں اس میں کامباب ہونا تھا۔ شب‬
‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫سے زنادہ پرخوش چنہ تھی جس کو د نے رنان فجر حسوس کر رہا تھا۔‬
‫اس کا اننحاب اچھا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫آج رات نک شب ئے اننی اننی لوکٹشن کی جانب تکل جانا تھا۔ کونی تھی شپ‬
‫منٹ انک ہی جگہ سے نہیں جائے والی تھی۔ نتبکرز کا الگ الگ روٹ تھا اور رنان‬
‫ئے شب کو ان کی لوکٹشن گانبڈ کر دی تھی۔ تھوڑی دپر میں ہی وہ شب ا ننے ا ننے‬
‫آدم نوں کو لے کے تکل جائے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪911 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫جس روٹ سے زنادہ نتبکرز جائے تھے دامیر ‪،‬رنان‪ ،‬چنہ اسی طرف جائے والے‬
‫تھے۔‬
‫آج وہ لوگ نانی انیر نہیں نانی روڈ ہی شفر کرئے جا رہے تھے جس میں گھت نوں‬
‫لگ جائے۔‬
‫دامیر الگ گاڑی میں تھا جبکہ رنان اور چنہ انک ہی گاڑی میں۔ چب سے شفر‬
‫سروع ہوا تھا چنہ جاموسی سے ناہر دنکھ رہی تھی۔ اس ئے نہلے تھی نہت دفع لوگوں‬
‫کی آنکھوں میں دھول چھونکی تھی اور معصوم لوگوں کو نازناب کروانا تھا لبکن اس نار‬
‫انک شاتھ زنادہ تھے۔‬
‫انسباء سے بورنین ممالک نک انشابوں کی سمگلبگ نہت عام تھی اور کیرت سے‬
‫پہ کام جاری تھا لبکن کم عمر لڑکباں نحفوں میں دی جانی تھیں۔‬
‫چنہ سے انک نار میں ا ننے لوگوں کو چھڑوانا ناممکن شا تھا لبکن اس سے جتبا ہو‬
‫شکبا وہ اجانک انبک کر کے دوسروے لوگون کے شستم ہبک کر د ننی تھی ناکہ اسی‬
‫دوران وہ لوگوں کو چھڑوا شکے۔‬
‫س‬
‫تمنٹس واال کام مسکل تھا۔ انک جائے ہوئے نتبکر پہ چملہ کرنا نہت جبلنجبگ‬
‫تھا۔ وہ اندر ہی اندر نہت زنادہ گ ھیرانی ہونی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪912 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان کے لوگوں پہ اس کو تھروسہ تھا لبکن اگر ان دس نج نوں میں سے کونی تھی‬
‫رہ جانی بو چنہ خود کو مغاف پہ کرنی۔‬
‫کھڑکی پہ کہنی تکائے وہ رات کے مباطر دنکھ رہی تھی جبکہ اندر اصظراب کی انک‬
‫جبگ چھڑی ہونی تھی۔‬
‫رنان اس کے پراپر میں نتتھا اس کو نکنے میں محو تھا۔‬
‫”ہم کامباب ہو نگے خود پہ تھروسہ رکھو۔“ رنان ئے اس کی جالت کے نٹ ِش تظر‬
‫اس کے ہاتھ پہ انبا ہاتھ رکھا۔ چنہ ئے خونک کے اس کو دنکھا۔‬
‫”میں جاننی ہوں…“ وہ مضنوط لہچے میں بولی اور رنان کو انک مشکراہٹ ناس‬
‫کی۔‬
‫”نمہیں ا ننے آدم نوں پہ بورا تھروسہ ہے نا کہ وہ کر لیں گے۔“ تھوڑی دپر کی‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫جاموسی کے تغد چنہ اس کی طرف د نی ہونی بولی۔‬
‫”ہاں وہ شب قانل ہیں۔ شب تھبک ہو گا اور ہر لڑکی محفوظ رہے گی۔“ رنان‬
‫پرتفین لہچے میں بوال۔ چنہ تھر سے ناہر دنکھنے لگی۔‬
‫پہ اس کی زندگی کی شب سے پڑی شپ منٹس تھیں خو روکنی تھیں جتھی اسے‬
‫ناف نوں کے شاتھ خود کو تھی پرامبد رکھبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪913 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کا دل اندر سے کانپ رہا تھا لبکن تطاہر وہ الپرواہ سی دکھانی دے رہی تھی۔‬
‫چب سے وہ اکبڈمی سے قارغ ہونی تھی اس کا نہی زندگی کا مقصد رہ گبا تھا اور اس‬
‫کو بورا کرئے کو وہ ہر جد نک جا شکنی تھی۔‬
‫رات کی گہرانی ہر طرف تھبلنی جا رہی تھی۔ چنہ کی آنکھوں سے نتبد کوشوں دور‬
‫تھی‪ ،‬اس کی جاموسی رنان کو مشلشل کھل رہی تھی۔‬
‫جبکہ دوسری جانب ان کی گاڑی کے ننجھے آنی گاڑی میں نتتھے دامیر کے‬
‫چہرے پہ سرد ناپر چھانا تھا۔‬
‫اس کے دل کو پہ شکون تھا کہ آئے ہوئے علتبا کے روئے میں کجھ فرق پڑا‬
‫تھا۔ اس کا دل تھوڑا نگھال تھا وہ موم ہونی تھی اس کے نبار کے آگے۔ اس کے‬
‫ت‬ ‫گ‬ ‫گھ‬‫ن‬
‫جائے کا ستنے وہ لی اور جھ بو ا نے نبار کا اغیراف کر نی ھی کہ اسے دامیر کی‬
‫ن‬ ‫ک‬
‫قکر ہو گی…‪.‬وہ اس کو ناد کرے گی۔‬
‫گاڑی کی نجھلی سنٹ پہ نتتھے اس ئے مونانل تکاال اور علتبا کی تصوپر کو دنکھنے‬
‫لگا۔ وہ مشکرا رہی تھی کسی نات پہ۔‬
‫اس کے ہون نوں پہ مشکراہٹ سی نکھر گنی‪ ،‬گہرا شانس تھرا اور مونانل کو وانس‬
‫ناکٹ میں رکھا۔ جلد ہی اس مشن سے کامباب ہو کے وہ وانس علتبا کے ناس جائے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪914 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گا۔ شاری ناراصگی دور ہو جائے گی وہ تھر سے نارمل اس کے شاتھ رہے گی ہر چیز کو‬
‫ف نول کر کے۔‬
‫اجانک انیر نٹس پہ ن نپ ہوا اور ڈرنک کی آواز اتھری۔‬
‫ن‬
‫”سر ہم اننی لوکٹشن پہ ہنچ جکے ہیں۔“‬
‫اس ئے اطالع دی بو شب خرکت میں آئے۔‬
‫ً‬
‫”کبا وہاں کونی غیر معمولی لگا؟“ رنان ئے فورا بوچھا۔‬
‫”سر اتھی نک بو جاموسی ہی چھانی ہونی ہے۔ ہمارے نالکل شا منے دو پڑی‬
‫گاڑناں دکھانی دے رہی ہیں۔“ ڈرنک ئے آس ناس دنکھنے ہوئے اتقارم کبا۔‬
‫ً‬
‫”تم اننی بوزنشن لے لو اور چب محسوس ہو کہ نارگنٹ آشان ہے فورا ان ک کرنا‬
‫ب‬
‫ہے۔“ ڈرنک کی نات ستنے وہ سر ہالئے ہوئے بوال اور لنپ ناپ انک نو کرئے نیزی‬
‫سے لوکٹشن کو اناالپز کرئے لگا۔ اسے واصح ڈرنک اور نین آدم نوں کی لوکٹشن دکھانی‬
‫دے رہی تھی۔ شکرین پہ جار گرین ڈانس تظر آرہے تھے۔‬
‫”پہ سٹشان جگہ بو نالکل نہیں ہے بو نمہیں نہاں قاپرنگ کرئے وفت اجتباط‬
‫کرنا پڑے گی۔“ رنان ئے لنپ ناپ پہ تگاہیں چما کے کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪915 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ت‬ ‫ن‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ح‬ ‫ل‬‫ہ‬


‫”جی سر‪ ،‬نہاں ل ھی یں ہے ا نی ا ھی۔“ ڈرنک ئے مزند کہا بو رنان‬
‫اس کو انک دو چیزوں کی ہدانت کرئے دوسری جانب نتم سے راتطہ کرئے لگا ناکہ‬
‫ان سے انڈنٹ جاصل کر شکے۔‬
‫ن‬
‫وہ لوگ تھی اننی جگہ ہنجنے والے تھے اور ان سے نہلے دامیر ئے رنان کی گاڑی‬
‫سے علنحدہ ہونا تھا۔‬
‫رنان اور چنہ دوبوں نجری راسنوں والی شپ منٹس کو رو کنے والے تھے اسی لنے‬
‫ان کو شاجل کے فرنب جانا تھا اور ان کے لنے قاندہ مبد نات پہ تھی وہ جگہ لوگوں‬
‫کی آنادی سے جالی تھی۔ اگر وہاں وہ چملہ تھی کر د ننے بو ج نت ان کے خق میں‬
‫ہونی۔‬
‫دامیر کا روٹ نارڈر کے فرنب تھا چہاں سے وہ لوگ البگبل سمگلبگ کرئے‬
‫والے تھے۔ تطاہر پہ سمگلبگ وہ لوگ اشلحہ اور ہیروین کی تھی لبکن انہیں کننئیرز‬
‫میں انہوں ئے لڑکباں تھی چھبانی تھیں۔ پہ نارنک مغلومات ان کو انہیں کے کجھ‬
‫لوگوں سے ملی تھی خو تھاری فتمت کے غوض نک گنے تھے لبکن آخر میں اننی موت‬
‫کا شودہ کر گنے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪916 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر ئے وہ عالقہ شارا نہلے ہی ا ننے انڈر کور کر لبا تھا ناکہ وہاں کے چھنے را سنے‬
‫تھی اس کو مغلوم ہوئے۔ ا ننے شاتھ وہ دو آدم نوں کو لنے جا رہا تھا۔ ضرورت بو اس‬
‫کو کسی کی نہیں تھی لبکن رنان کے اضرار پہ وہ ناجار مان گبا۔‬
‫دامیر کی انک گاڑی پہ تھی جس میں وہ خود موخود تھا اور آگے سنٹ پہ انک‬
‫آدمی ڈران نو کر رہا تھا۔‬
‫اس کے شاتھ ہی انک اور گاڑی تھی جس میں دو ہی آدمی موخود تھے۔ وہ ا چھے‬
‫جاصے اشلچے کے شاتھ نہاں آئے تھے۔‬
‫م‬
‫”میں تم لوگوں سے علنحدہ ہوئے لگا ہوں‪ ،‬انبا کام کمل کرئے ہی تم لوگوں کو‬
‫خواین کروں گا۔“ وہ لوگ پرن لے رہے تھے چب دامیر ئے ان کو اطالع دی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫کاقی دپر ڈران نو کرئے تغد وہ لوگ انک جگہ پہ نہنچے چہاں سے کجھ دور ہی شاجل‬
‫تظر آرہا تھا۔ انہوں ئے اننی گاڑناں نارک کیں اور چہرے پہ ماشک خڑھا لبا۔‬
‫رات کی نارنکی میں وہ اسی کا نارنک حصہ تھے۔ اننی اننی گن ستتھالے انہوں‬
‫ئے آس ناس جاپزہ لبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪917 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شاجل سمبدر کے انک طرف انہیں ہلکی سی روسنی دکھانی دی۔ رنان ئے‬
‫ئےشاچنہ ہاتھ پہ نہنی رشٹ واچ پہ وفت دنکھا۔‬
‫شاڑھے نین کے فرنب کا وفت تھا‪ ،‬اسی وفت وہ لوگ نہاں سے تکلبا جا ہنے‬
‫تھے۔ وہ کھلم کھال انبک نہیں کرئے والے تھے۔ انہیں چ ھپ کے وار کرنا تھا ناکہ‬
‫کونی تھی ہڑپڑی پہ ہونی اور کننئیر شفٹ ہوئے سے نہلے ہی ہاتھ لگ جائے۔‬
‫”وہ نمہیں فیری تظر آرہی ہے؟“ چنہ ئے رنان کی بوجہ سمبدر میں نہت آگے‬
‫جلنی انک کسنی کی جانب م نوجہ کبا۔‬
‫م ُ‬
‫”نہیں آرہی ہے۔ یں اس طرف پڑ نی ہوں م لوگ نہاں کی صورت جال کو‬
‫ت‬ ‫ھ‬
‫قابو کرو۔“ چنہ ماشک کو تھوڑی نک کرنی ہونی بولی اور چھاڑبوں کی طرف پڑ ھنے لگی‬
‫لبکن رنان ئے اس کا ہاتھ تھام لبا۔‬
‫”اکبلی نہیں جاؤ گی تم اور اس فیری کو پزدنک آئے دو نشاپہ آشان رہے گا۔“‬
‫رنان سنجبدگی سے بوال۔‬
‫اس ئے گلے میں لبکنی دور نین اتھانی اور چہاں سے روسنی آرہی تھی وہاں دنکھنے‬
‫لگا۔‬
‫”انک دو‪ ،‬جار اور…‪ .‬نانچ۔ نس نانچ آدمی۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪918 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان ئے وہاں موخود لوگوں کو گتنے کہا خو تظر آرہے تھے۔‬


‫”کونی ان کا ناس بو تظر نہیں آرہا۔“‬
‫”ناس نہاں ک نوں ہو گا رنان‪ ،‬اس ئے تھروسے مبد آدمی تھنچے ہیں نہاں۔‬
‫ہمیں دپر نہیں کرنی جا ہنے۔ نہاں جار نانچ لڑکباں ہیں۔“ چنہ کے انداز میں ئےجتنی‬
‫تھی جٹسے وہ شب جلد از جلد جتم کر دے۔‬
‫انہوں ئے آہشنہ سے چھاڑبوں میں چ ھپ کے آگے جلبا سروع کبا۔ قدموں کی‬
‫آواز نبدا کرئے سے خود کو روکا اور آگے پڑ ھنے گنے۔ رنان ئے ا ننے دو آدم نوں کو اس‬
‫جگہ کی نجھلی شانبڈ پہ جائے کا اشارہ کبا۔ اننی گیز پہ شانلنٹسر لگا رکھا تھا۔‬
‫”خو اکبال تظر آئے اسے شوٹ کر د نبا۔“ سرد آواز میں جکم صادر کرئے اس ئے‬
‫چنہ کا ہاتھ تھاما اور چھونیڑی نما چیز کے شا منے والے حصے میں جائے لگے۔ نہاں‬
‫چھاڑناں نہیں تھیں۔ جاند تھی آسمان سے ال نبا تھا بو روسنی نا ہوئے کے پراپر تھی۔‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫م‬ ‫م‬‫ک‬‫م‬
‫ل سباہ لباس یں سباہ ما ک۔ فیری پزد ک آ کی ھی۔ رنان ئے دور ین‬
‫سے دنکھنے اس فیری کا جاپزہ لبا۔‬
‫”اس میں ناکسز ہیں‪ ،‬نمہاری اتقارمٹشن کے مطابق نہاں کتنی نجباں ہیں؟“ رنان‬
‫ئے چنہ کو دنکھنے بوچھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪919 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”زنادہ سے زنادہ نہاں سے نانچ کو رواپہ کرنا تھا انہوں ئے۔“‬


‫چنہ ئے مغلومات کے مطابق کہا لبکن رنان کو نہاں کجھ اور ہی لگ رہا تھا۔‬
‫ن‬ ‫ً‬
‫”رنان۔۔“ انیر نٹس سے دامیر ئے رنان سے راتطہ کبا بو رنان فورا نچے چھک کے‬
‫اس کو خواب د ننے لگا۔‬
‫”مجھے نہاں جار پڑے نتبکرز تظر آرہے ہیں۔ وہاں کبا صورت جال ہے۔“ رنان‬
‫ئے دامیر کی آواز میں الجھن محسوس کی۔‬
‫”نہاں پڑے نتبکیرز نہیں ناکسز موخود ہیں۔ تم تھوڑا ان یطار کرو میرا۔ میں نمہیں‬
‫مزند نبانا ہوں۔“ رنان انک تظر ننجھے دنکھنے ہوئے دامیر سے بوال۔‬
‫”شانبلنٹسر انار لو گن سے۔ میں جاہبا ہوں وہ ہڑ پڑا جانیں۔“ رنان کے ناف نوں‬
‫کو جکم دنا بو انہوں ئے اس کے کہے کے مطابق کبا۔‬
‫”وہاں ننجھے انک آدمی جا رہا ہے۔ قاپر کرو۔“ اس ئے چھونیڑی کی نجھلی طرف‬
‫موخود آدمی کو سے کہا بو انشا ہی ہوا۔ اگلے ہی نل انک قاپر کی آواز گونچی۔ وہاں موخود‬
‫لوگ ہڑپڑائے اور خونک کے انک دوسرے کی جانب دنکھنے لگے۔‬
‫ن‬ ‫ُ‬
‫”اب وہ اسی طرف آ یں گے بو وار کرئے جانا۔۔“ رنان ئے مزند کہا چب اس‬
‫ئے چنہ کا ہاتھ تھامبا جاہا لبکن وہ نہاں نہیں تھی۔ اس ئے تگاہیں ت ھیریں وہ اسی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪920 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چھونیڑی کی طرف جا رہی تھی۔ اسے عصہ شا آئے لگا کہ اس کا ان یطار کرنا جا ہنے تھا۔‬
‫نبا نبائے وہ آگے ک نوں پڑھی۔‬
‫ُ‬
‫چنہ اب چھک کے نہیں نلکہ سبدھا تھاگ رہی تھی۔ اس کی سمت اس فیری‬
‫ن‬
‫کی طرف تھی خو اب شاجل کے فرنب ہنچ جکی تھی۔‬
‫وہ انک نل کو رکی اور فیری میں موخود لوگوں کے نشائے ناندھے۔ دو آدمی گر‬
‫گنے۔‬
‫”ان کا نلین جتنج ہے نہاں کجھ تھی نہیں ہے۔۔“ چنہ کی آواز عصے سے‬
‫اتھری۔‬
‫”دامیر۔۔۔“ چنہ ئے اس کو تکارا۔‬
‫رنان اس چھونیڑی نک نہنحا بو وہاں اشلحہ اور کوکین کی نبکٹس نبار کنے جا رہے‬
‫تھے لبکن وہ نتبکرز موخود پہ تھے جن کا انہیں علم تھا۔‬
‫”تم لوگوں کی دانیں جانب دنکھو۔۔ پہ کجھ تھی نہیں تھا۔ وہاں اندھیرے میں‬
‫ً‬
‫سٹس جائے والی ہیں۔ دوسری طرف پڑھو۔“ دامیر ئے فورا کہا بو چنہ ئے سر ھ یکا۔‬
‫چ‬
‫وہ نہاں انبا کاقی وفت پرناد کر جکے تھے۔‬
‫ان کو فوری نہاں سے دوسرے کبارے کی طرف پڑھبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪921 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اتقارمٹشن علط تھی۔“ رنان عصے سے تھ یکارا اور ا ننے آدم نوں کے شاتھ وہ لوگ‬
‫انک نو ہوئے اور صجنح جگہ کی طرف لبکے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫نہاں دامیر ئے ا ننے شاتھ موخود آدم نوں کو نشاپہ ناند ھنے کو کہا تھا‪ ،‬انہیں‬
‫دوسرے لوگوں کو نہیں ڈاپرنکٹ ڈران نور کو نارگٹ کرنا تھا ناکہ تھا گنے واال کونی پہ ننے۔‬
‫وہ لوگ نلڈنگز کے اندر چھنے تھے اور شارپ شوپرز تھے۔ ان پڑے نتبکرز کے‬
‫ڈران نور جٹسے ہی نتتھے انہوں ئے گتنی گتنے انبا انبا قاپر کبا۔ پہ نارگنٹ آشان تھے لبکن‬
‫ان کو پہ مغلوم نہیں تھا کہ کس نتبکر میں لڑکباں موخود تھیں۔‬
‫”تم لوگ انبا نشاپہ ناندھ رکھو‪ ،‬میں آگے جا رہا ہوں۔“ دامیر انبا کہہ کے نلڈنگ‬
‫سے تکلنے اس سڑک پہ آگبا چہاں پڑے لوڈر کنتبکیرز کھڑے تھے۔ ناس ہی ونیر ہاؤس‬
‫تھا ضرور وہاں مزند آدمی موخود ہو نگے۔‬
‫دامیر انک گاڑی کے فرنب گبا اس کا نجھال دروازہ الک کبا گبا تھا۔ اس ئے‬
‫آدم نوں کو انک نو ر ہنے کا کہا ک نونکہ وہ الک کو قاپر کر کے بوڑئے واال تھا ا نسے میں‬
‫گودام سے لوگ ضرور ناہر تکلنے بو پروفت ان کا نشاپہ لبا جانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪922 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫انشا ہی ہوا… اس ئے قاپر کبا اور ناال بونا۔ لوہے کا پڑا شا بولٹ لگا تھا اس کو‬
‫زور لگائے کھوال بو اندر سے انک آدمی تکال۔ دامیر خوکبا ہوا اور پروفت شانبڈ ہوئے اس‬
‫انشان کے ہاتھ پہ قاپر کرئے ما تھے پہ نشاپہ لبا۔‬
‫دامیر شانبڈ ہو گبا تھا کہ اگر کونی اور تھی اندر ہوا بو وہ ناہر آجائے گا۔‬
‫”کونی ہے اس میں؟“ دامیر ئے نلڈنگ میں چھنے ا ننے آدمی سے بوچھا۔‬
‫”نہیں سر دروازے نک کونی نہیں آنا۔۔“‬
‫پہ ستنے ہی دامیر اس کھلے لوہے کے دروازے کے شا منے آنا اور اننی گن نانی۔‬
‫اندر مجبلف شانیز کے لوہے اور لکڑی کے ناکس موخود تھے اور انہیں میں انک اور‬
‫لوہے کا نکشہ تھا جس پہ ناال لگا تھا۔ وہ ناف نوں سے شانیز میں پڑا اور مضنوط لگ رہا تھا۔‬
‫وہ نیزی سے اوپر خڑھا اور اس نالے پر گولی جالئے اس کو کھوال۔ اندر دو لڑکباں‬
‫تھیں۔ بو سے نارہ شال کے درمبان۔ شقبد نیروں نک آنی نارنک سی فراک میں۔ نال‬
‫نکھرے۔ ان کا جلنہ ونشا ہی جٹسے جشمانی عالموں کو رکھا جانا تھا۔‬
‫وہ آگے پڑھا بو مارے خوف کے وہ جال اتھیں۔ خوف اندر نک سما گبا تھا انہیں‬
‫چیر پہ تھی کجھ تھی۔ اس کے مطابق انک درندے سے دوسرا درندہ بو جنے آنا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪923 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھ سے ڈرئے کی ضرورت نہیں…‪.‬تھاگ شکنی ہو؟“ اس کے لہچے میں پرمی‬


‫س‬
‫نہیں تھی۔ شاتھ ہی شوال کبا۔ شا منے ڈری ہمی لڑک نوں کو مغلوم نہیں ہوا کہ وہ‬
‫کبا کہیں۔‬
‫”میری آواز د ننے پہ تم دوبوں کو نہاں سے تھاگبا ہے…‪ ..‬اور سبدھے جا کے‬
‫پرن لتبا ہے وہاں انک گاڑی ہے۔ اس کے ننجھے چ ھپ جانا۔ میں وہاں آجاؤں گا۔‬
‫گ ھیراؤ نہیں تم دوبوں نہاں سے نجنے والی ہو۔“ دامیر ان کے آگے ننحوں کے نل نتتھنے‬
‫ہوئے سنجبدگی سے بوال۔ وہ دوبوں انک دوسرے سے لتنی ہونی تھیں۔ ہراشاں تگاہوں‬
‫سے اس کو دنکھنے لگی۔‬
‫دامیر ئے پرمی سے کہا۔‬
‫”تم آزاد ہوجاؤ گی۔“‬
‫دامیر تفین دالئے ہوئے بوال کہ وہ ناجا ہنے ہوئے تھی اتھ گنیں‪ ،‬نکشہ چھونا تھا‬
‫وہ کھڑی نہیں ہو شکنی تھیں۔ نتھی ننحوں کے نل چھکنی وہ رنبگنی ہونی آگے پڑھی۔‬
‫نکسے سے ناہر تکلنے وہ کھڑی ہونیں۔‬
‫”آل کلئیر؟“ لڑک نوں کو ناہر تکا لنے سے نہلے دامیر ئے بوچھا۔‬
‫”نس سر۔۔۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪924 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫آواز پہ دامیر نہلے ننچے اپرا اور اس کے ننجھے ہی دوبوں ناری ناری نانگیں نچے کنے‬
‫کبارے پہ نتتھیں۔ کنتبکیر کاقی اونحا تھا دامیر ئے ناری ناری دوبوں کو تھام کے ننچے‬
‫انارا۔‬
‫ان کو ر کنے کا اشارہ کرئے دامیر ئے شانبڈز کو جبک کبا۔ اتھی نک جاموسی‬
‫چھانی تھی۔ موفع کا قاندہ اتھائے دامیر آہشنہ سے بوال۔‬
‫”تھاگو۔۔۔“‬
‫دامیر کے کہنے پہ وہ تھاگبا سروع ہونیں۔ اس سباہ رات میں وہ دو نجباں کسی‬
‫آسنب شگ تھاگنی ہونی دکھانی دیں۔‬
‫انک شکون تھری شانس دامیر ئے جارج کی۔ شکر تھا کہ نہلے ہی کننئیر میں‬
‫اس کو لڑکباں مل گنی ت ھیں۔‬
‫”لڑکباں آرہی ہیں گاڑی کی طرف۔“ دامیر ئے گاڑی میں موخود آدمی کو کہا۔‬
‫دامیر وانس مڑا اور نلڈنگز کی جانب دنکھنے لگا۔‬
‫”انک نو رہبا۔“ وہ سنجبدگی سے بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪925 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کا رخ اب دوسرے کننئیر کی طرف تھا۔ اس کو الک نہیں لگانا گبا تھا اور‬
‫بولٹ کھول کے وہ اندر گھشا۔ اندر تھلوں کی ننتباں رکھی گنیں تھیں جن میں تھل بو‬
‫نہیں تھے الننہ ”نشہ“ ضرور تھا۔‬
‫اس ئے ناری ناری شب جبک کبا اور ننچے اپرا۔ وہ نٹسرے کی طرف پڑ ھنے لگا‬
‫تھا کہ اجانک قاپر کی آواز گونچی۔‬
‫گودام سے لوگ ناہر تکلبا سروع ہو گنے تھے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫م‬
‫پہ جگہ کمل اندھیرے میں ڈونی تھی۔ روسنی کے نام پہ انک نارچ تھی لوگوں‬
‫کے ناس۔ وہ لوگ عحلت میں دکھانی دے رہے تھے۔‬
‫رنان ئے دور نین کے زر تعے دنکھبا جاہا لبکن نارنکی نہت زنادہ تھی وہ زنادہ لوگوں‬
‫کو پرنک نہیں کر نانا تھا۔‬
‫”رنان پہ وفت نہیں ہے نلین کا ہمیں سبدھا انبک کرنا ہے۔“ چنہ دانت نٹسنی‬
‫ہونی بولی اور اس ئے اننی گن کو انک نار تھر لوڈ کبا۔‬
‫وہ آگے پڑھی چب اطراف سے ان کے لوگ تھی آہشنہ سے آگے پڑ ھنے لگے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪926 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اندھیرا تھا لبکن جٹسے جٹسے وہ پڑ ھنے گنے ان کو آدمی دکھانی د ننے۔ چنہ ئے نبا‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫ً‬
‫کسی ان یطار کے فورا قاپر کرنا سروع کبا۔ اس ئے انک منٹ یں ین آدمی گرا د ننے۔‬
‫وہ تھاگی اور کبارے پہ موخود پڑی شپ کے اندر جائے کی کوشش کی۔ اس کا راشنہ‬
‫اتھی کھال تھا اور وہ شب لوڈ کر جکے تھے۔ ان کی قشمت اچھی تھی کہ پہ لوگ وفت پہ‬
‫نہنچے تھے ورپہ وہ شپ کی رسباں چھوڑئے والے تھے۔‬
‫رنان ئے چنہ کو اندر جائے دنکھا بو ناقی آدم نوں کو ناہر کی صورت جال ستتھا لنے‬
‫کو کہا۔ وہ اس کی طرف ل یکا ک نونکہ انک آدمی شپ کی رسباں چھوڑ حکا تھا۔‬
‫اس سے نہلے شپ آگے نانی میں پڑھنی رنان کو چنہ وانس النی تھی۔‬
‫چنہ اندر پڑھی بو شپ کے نحلے حصے میں کاقی پڑے پڑے کننئیرز تھے اب وہ‬
‫کشمش میں پڑ گنی کہ کہاں سے د نکھے۔ اس کا دل پری طرح دھڑک رہا تھا کہ اگر‬
‫کونی رہ گبا بو۔ وہ کسی کو کھو نہیں شکنی تھی۔ اس ئے اننی ماں کو ا نسے ہی کھونا‬
‫تھا۔‬
‫ت‬‫م ج‬
‫گہرا شانس تھرا اور اجانک اونچی آواز یں چی کہ کونی اندر تھا بو وہ تکار کا خواب‬
‫ن‬
‫دے ناکہ وہ اسے طرف پڑھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪927 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اس کا وفت نہیں ملٹسکا! ہمیں ناس جا کے دنکھبا پڑے گا۔“ رنان کی آواز‬
‫ستنے اس ئے ننجھے دنکھا۔ کجھ کہنے کا وافعی وفت نہیں تھا ک نونکہ شپ ہلکی سی آگے‬
‫پڑھی تھی کہ اس کا لوہے کا گنٹ خو زمین پہ تھا اب نانی میں اپر حکا تھا۔‬
‫ناکسز نبد تھے‪ ،‬ان پہ بوٹ لگے تھے لبکن نالے نہیں۔ پہ ان کے خق میں تھا‬
‫نتھی وہ نیزی دکھائے لگی۔‬
‫ن‬
‫”ا ننے زنادہ ہیں کٹسے د کھیں گے۔“ اس کی آواز تھرا گنی۔ وہ کمزور نہیں پڑنا‬
‫جاہ رہی تھی۔ اسے ہمت جا ہنے تھی۔‬
‫زور لگائے وہ کھولبا سروع ہونی۔ نہاں ہر کننئیر میں الگ چیزیں رکھی گنی تھیں‬
‫کہیں اشلحہ کہیں کوکین‪ ،‬کہیں تھلوں میں کجھ تھرا تھا۔‬
‫رنان انک کننئیر نک نہنحا بو وہ جالی تھا اور اس میں ونشا ہی انک پڑا شا لوہے کا‬
‫الگ ناکس تھا۔ اس ئے نبا دپری کنے اس پہ لگا ناال بوڑا اور گھت نوں کے نل چھکا۔‬
‫”چنہ۔۔۔“ وہ جالنا۔ نہاں انک نبہوش نچی تھی۔ نبدرہ شال کے فرنب۔‬
‫چنہ شب چھوڑنی اس نک آنی۔‬
‫”اس کو ناہر تکالو۔ نہاں سے ہی نہیں۔۔ شپ سے تکالو۔۔ میں دنکھبا ہوں‬
‫ناقی۔“ وہ کہہ کے رکا نہیں۔ ناقی کے تھی جبک کرئے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪928 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ُ‬
‫چنہ کے ہاتھ کانتبا سروع ہو گنے چب اس ئے لوہے کے اس پڑے گنٹ کو‬
‫نانی میں دنکھا۔ نانی اندر نک آئے واال تھا۔ وہ جلد ہی کبارے سے دور ہو جائے۔‬
‫جس کننئیر میں لڑکی ملی تھی رنان ئے اس کو غور سے دنکھا۔ ا ننے زنادہ کننئیرز‬
‫میں کجھ بو الگ تھا اس میں۔۔ اس ئے وہی دنکھا۔ اس کا رنگ الگ تھا۔ اس ئے‬
‫جتنے ناقی جبک کنے وہ کنی ہم رنگ تھے اور وہ نہت زنادہ تھے۔ جبکہ اس رنگ کے‬
‫نس دو تھے۔‬
‫وہ آگے ل یکا۔ نالکل ننجھے آخر میں اس کو ہلکا شا تظر آنا۔ وہ ناف نوں میں چھبا ہوا‬
‫تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫انہوں ئے نین لڑک نوں کو نحانا تھا۔ دامیر خود ڈران نو کر رہا تھا جبکہ ناقی نت نوں آدمی‬
‫نجھلی والی گاڑی میں تھے۔‬
‫وہ پرشکون تھا کہ نہاں سے وہ کامباب ہوئے تھے۔ اس ئے ڈرنک سے راتطہ‬
‫کبا۔‬
‫”جی سر‪ ،‬ہم ئے سروابو کبا آپرنشن۔ نچی ہمارے شاتھ ہے۔“ اس ئے مت نت‬
‫خواب دنا کہ دامیر ئے چنہ سے راتطہ کرئے کی کوشش کی لبکن اس سے ہو نا نانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪929 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چہاں رنان اور چنہ گنے تھے ان کا نلین جتنج تھا بو دامیر لڑک نوں کو تھبک جگہ پہ‬
‫چھوڑے فوری طور پہ ان نک نہنجبا جاہبا تھا۔‬
‫اس ئے ستبڈ نیز کی۔ وہ نجباں اب تھوڑا اچھا محسوس کر رہی تھیں کہ وافعی وہ‬
‫اب آزاد تھیں۔ وہ جشمانی عالم نہیں نتنے والی تھیں۔ ان کو نحا لبا گبا تھا۔ اب وہ‬
‫ا ننے گھر والوں کے ناس وانس جانیں۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ن‬
‫”رنلبکس۔۔ ہم دور نہیں ہیں۔ ہنچ جانیں گے۔“ رنان ئے چنہ کو نشلی دی۔ وہ‬
‫دو لڑک نوں کو کبارے نک چھوڑ آنی تھی چہاں اس کے آدمی تھے۔ اس ئے آدم نوں کو‬
‫ر کنے کا نہیں کہا تھا۔ ان کو ہدانت کی تھی کہ وہ فوری طور پر نہاں سے تکل جانیں‬
‫گ‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫م‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫اور گاڑبوں نک نچیں ک نونکہ چ لے کی چیر نچ نی ہو گی۔‬
‫شپ آگے نک تکل آنی تھی۔ چنہ اکبلی ہونی بو نانی سے گزر جانی لبکن شاتھ‬
‫اس کے دو مزند اور لڑکباں تھیں خو نہت چھونی اور گ ھیرانی ہونی ت ھیں۔‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫غ‬ ‫م‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ہ‬‫س‬
‫چنہ کی آواز سے ان می نوں کو لوم ہوا تھا کہ وہ لڑکی ھی ھی اس کا‬
‫ہاتھ تھائے کھڑی تھیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪930 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ان کو لے کے نانی میں چھالنگ لگاؤ‪ ،‬ہاتھ نیر جالئے رہبا ا نسے کبارے نک‬
‫ن‬
‫ہنچ جاؤ گے۔ نانی زنادہ گہرہ نہیں ہے۔“ رنان ئے چنہ کا چہرہ تھامے اس کو پرمی‬
‫سے کہا۔‬
‫ن‬
‫نانی اندر نک ہنچ حکا تھا۔ چنہ ئے انبات میں سر ہالنا اور ا ننے ناس کھڑی‬
‫لڑک نوں کو دنکھا۔ رات کے اس نہر نانی میں نبا کونی حقاطنی اقدام کے اپرنا حظرناک ہو‬
‫شکبا تھا۔‬
‫رنان ئے نہاں ڈانبامانڈ سنٹ کرئے تھے ناکہ پہ شپ کہیں جائے سے نہلے ہی‬
‫نباہ ہو جانی۔‬
‫اس ئے چنہ کو جائے ہوئے دنکھا۔ چب دامیر کی آواز سبانی دی۔‬
‫”میں آرہا ہوں ادھر۔۔۔“ وہ جنحا تھا۔‬
‫”دامیر دوسری طرف آؤ چہاں نمہیں شپ جانی تظر آرہی ہے۔“ رنان بوال اور نبگ‬
‫سے ڈانبامانڈ تکالے ان کا ناتم سنٹ کرئے لگا۔‬
‫دس منٹ کا ناتم سنٹ کرئے وہ الگ الگ کننئیرز کے شاتھ خوڑ رہا تھا۔‬
‫گردن موڑی۔ چنہ نانی میں کود جکی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪931 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان انبا کام جتم کرئے نیزی سے آگے پڑھا اور نیرئے لگا۔ وہ چنہ کے پراپر ہوا‬
‫چب اس کو وہی فیری تظر آنی خو نہاں آئے ہونی دکھی تھی۔ اس میں دو آدمی تھے اور‬
‫وہ اسی ناکس کو کھو لنے کی کوشش میں تھے۔‬
‫ن‬
‫وہ دوبوں نانی کے کبارے نک ہنچ جکے تھے۔ رنان کو کجھ علط ہوئے کا‬
‫اجشاس ہوا۔ وہ دو آدمی فیری کو لنے اس پڑی شپ نک لے آئے تھے اور نیزی‬
‫دکھائے اس ناکس کو کھو لنے لگے۔‬
‫انک چھ یکا تھا خو اسے لگا تھا۔‬
‫اگلے جبد منٹ میں پہ شپ دھماکے کا شکار ہو جانی لبکن۔‬
‫ک‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫دامیر نچ حکا تھا۔ اس ئے نیزی سے چنہ کو نانی سے تکاال اور شاتھ ہی لڑ نوں‬
‫کو تھی۔ چنہ کے آنسوں نہنے لگے۔ دامیر ئے مشکرائے انبات میں سر ہالنا وہ کامباب‬
‫ہوئے تھے۔ انہوں ئے نازناب کروا لبا۔‬
‫لبکن رنان کی تگاہیں انک جگہ منجمبد تھیں دامیر ئے تغافب میں دنکھا۔‬
‫اس فیری کے ناکس میں لڑکی تھی جس کو اب وہ لوگ شپ میں پرانسفر کر‬
‫رہے تھے۔‬
‫”اوبو۔۔“ چنہ کا دل ڈوب کے اتھرا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪932 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ کھونا نہیں جاہنی تھی۔ تھر سے کسی کو کھونا نہیں جاہنی تھی۔‬
‫لبکن وہ دور جا رہی تھی۔ شپ کا دروازہ اتھی تھی کھال تھا۔ وہ نباہ ہوئے والی‬
‫تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫فیری اور شپ کے درمبان ان دو آدم نوں ئے نیزی دکھائے انک راشنہ نبانا اور‬
‫اس لڑکی کو نازو سے گھسنتنے ہوئے شپ کی طرف لے جائے لگے۔ وہ نتم نبہوسی کی‬
‫جالت میں تھی۔‬
‫چب انک آدمی اندر کی طرف پڑھا بو اسے نک نک کی آواز سبانی د ننے لگی۔‬
‫”نہاں تم لگا ہے ہمیں وانس جانا ہے جلدی کرو۔۔ اس کو اتھاؤ چھوڑ کے‬
‫ُ‬
‫نہیں جا شکنے۔“ وہ آدمی نیزی سے بوال اور دوسرے آدمی ئے اس لڑکی کو کبدھے پہ‬
‫ڈاال اور وانس فیری کی طرف پڑھے۔‬
‫ان کا ارادہ تھا کہ مین شپ سے نہاں سے رواپہ ہو جانیں گے لبکن وہ بو نباہ‬
‫ہوئے والی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪933 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نہاں سے شب لڑکباں نازناب کروا لی گنی تھیں اگر پہ آخری تھی جلی جانی بو‬
‫ان کی تھی موت نکی تھی‪ ،‬ان کے جبال میں ناقی شپ منٹس کامباب گنی تھیں‬
‫لبکن وہ ان کا جبال ہی تھا ک نونکہ اصلنت میں بو دامیر‪ ،‬ڈرنک انبا کام کر جکے تھے۔‬
‫وہ لوگ فیری کو لنے اب دوسری طرف جائے کبارے کو پڑ ھنے والے تھے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”میں جارہی ہوں وہاں ہم اس کو چھوڑ نہیں شکنے۔۔“ چنہ عحلت میں کہنے‬
‫ہوئے نانی کی جانب پڑ ھنے لگی لبکن فیری دور جائے لگی۔ وہ شپ کے پراپر جا رہی‬
‫تھی۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔‬
‫”نہیں تم نہیں جا شکنی وہاں‪ ،‬شپ کاقی پڑی ہے کتھی تھی ت ھٹ شکنی‬
‫ہے۔ نمہاری جان کو حظرہ ہو گا۔“ رنان ئے اس کو سجنی سے تھاما۔ فیری اندھیرے‬
‫میں عانب ہوئے والی تھی اور چنہ کا دل خوف سے کانپ اتھا۔‬
‫”مجھے دنکھبا جا ہنے تھا وہاں۔ مجھے اس ناکس کو جبک کرنا جا ہنے تھا۔ وہ چھونی‬
‫سی نچی ہے۔“ چنہ کا نتنے لہچے میں بولی۔ انبا فرنب آکے وہ تقصان نہیں کرنا جاہنی‬
‫تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪934 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے جائے دو رنان۔۔ ہم کجھ کر شکنے ہیں۔“ وہ رنان کی سحت گرفت میں‬
‫جنچی تھی۔‬
‫”وہ اس کو لے گنے۔ تم جائے دے رہے ہو رنان۔۔ وہ مر جائے گی۔“ اس‬
‫ئے رنان کو دھکا د نبا جاہا ک نونکہ وہ نانی کی طرف پڑھ رہی تھی۔ اس کا ندن نہلے ہی‬
‫گبال تھا۔‬
‫”وہ لے گنے اس کو۔۔ میں اس کو۔۔۔“‬
‫ن‬
‫چنہ کی نات ننچ میں رہ گنی۔ آنسو تھری آ کھیں صدمے سے تھبلیں چب اجانک‬
‫انک دھماکا ہوا اور نہت نیز ہوا نہاں سے گزری‪ ،‬دھواں اتھا انک روسنی کا پڑا شا چھ یکا‬
‫لگا تھا۔ اس ئے نانی میں دھماکا دنکھا۔ آگ لگے پڑے نکرے کاقی دور نک تھبلے‬
‫گ‬‫ل‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫تھے۔ کجھ دپر نک تصارت دھبدالنی رہی۔ آ یں ئےشاچنہ نے یں۔ فیری شپ کے‬
‫ہ‬
‫فرنب تھی۔‬
‫اس کے کتنے خزنات خڑے تھے اس شب سے۔‬
‫ن‬
‫اگر وہ وفت پہ ہنچ جائے اور وہ فیری کو انک نار دنکھ لتنی بو لڑکی کو نحا شکنی‬
‫ج گ ت ُ‬
‫تھی۔ شاند فیری دور لی نی ھی نا اسی یں نباہ ہو نی۔‬
‫گ‬ ‫م‬
‫اس کا دل ت ھٹ رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪935 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس ئے دنکھا تھا اس لڑکی کو‪ ،‬وہ نامسکل دس شال سے اوپر ہو گی۔ اننی چھونی‬
‫نچی تھی وہ ِجسے وہ آدمی لے گنے۔‬
‫آنکھوں کے شا منے اننی ماں دکھانی د ننے لگی خو نتم پرہنہ جالت میں نمانش کے‬
‫ت‬ ‫گ ت ُ‬
‫لنے ک ھڑی کی نی ھی۔ اس کے شاتھ ھی انشا ہو گا۔‬
‫ک‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫اس چی کو سر نازار یں پرہنہ ھڑا کبا جائے گا اسے بوجا جائے گا۔‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫وہ گ ھتنے کے نل زمین پہ تتھنی جلی گنی۔ اسے نہاں ہنجنے علطی ہونی تھی اور‬
‫شب جٹسے نکھر گبا تھا۔ دنبا جٹسے اس کی آنکھوں کے شا منے جتم ہو گنی تھی۔‬
‫آنسوؤں کا گولہ جلق میں تھٹس شا گبا۔ اس درد کو اندر سمائے کی کوشش‬
‫کی۔ ماشک انار کے تھتبک دنا۔‬
‫”چنہ اتھو نہاں سے۔۔“ رنان ئے اس کو اتھانا جاہا کہ کسی تھی وفت نہاں‬
‫مزند لوگ آشکنے تھے ک نونکہ نہاں اتھی مزند شامان موخود تھا اور خو تھاری تقصان انہوں‬
‫ن‬
‫ئے کبا تھا اس کی تھی چیر نچ نی ہو گی بو کونی چپ یں ر ہنے واال تھا۔‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫ہ‬

‫”دور رہو مجھ سے‪ ،‬دور ہو جاؤ شب۔۔“ وہ جال اتھی‪ ،‬اس وپران و سٹشان عالفے‬
‫میں اس کی درد ناک جنخ گونج اتھی۔ اننی لڑکباں نازناب کروائے کا شکون ماند پڑ گبا‬
‫تھا اس نچی کے عم کے ننجھے جسے وہ نحا نہیں نانی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪936 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”وہ مجھ سے انبا دور تھی اور میں کجھ پہ کر نانی۔۔ میں ئے ا ننے ہاتھ گبدے‬
‫ج‬
‫کر لنے۔۔“ ا ننے نالوں کو تھامے وہ ہزنانی انداز نجنی ہونی بولی۔‬
‫ش‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”وہ نچی تھی‪ ،‬پہ مجھ سے کبا ہو گبا۔“ ا ننے ہاتھوں کو د نی وہ ل ل یف‬
‫ک‬‫ت‬ ‫ش‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫ھ‬
‫سے پڑپڑا رہی تھی‪ ،‬آنکھوں سے آنسوں بواپر نہہ رہے تھے۔ اس کا لہحہ کانپ رہا تھا۔‬
‫رنان ئے نبا کجھ کہے اس کے ناس نتتھنے اسے ستنے سے لگانا‪ ،‬وہ پری طرح لرز‬
‫رہی تھی۔‬
‫”اسے کجھ نہیں ہو گا۔۔“ اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھامے رنان ئے نشلی دی‪،‬‬
‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ک‬‫ن‬
‫اس کی پہ جالت د ھی ہیں جا رہی ھی۔ وہ لی نار اس کے شا منے بونی ھی اور‬
‫رنان انشا نالکل نہیں جاہبا تھا۔‬
‫”میں ئے کھو دنا اس کو‪ ،‬میں نحا نہیں نانی اس کو۔میرے لنے کجھ تھی‬
‫مسکل نہیں تھا تھر کٹسے ہو گبا پہ شب۔“ تقی میں سرہالئے ہوئے وہ درد سے بولی۔‬
‫آنسوؤں کے درمبان بوال نہیں جا رہا تھا۔‬
‫”مجھے تکل یف ہو رہی ہے ا نسے پہ رو۔۔“ رنان مدھم لہچے میں بوال‪ ،‬چنہ مشلشل‬
‫تقی کرنی رہی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪937 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اننی ماں کی طرح کھو دنا میں ئے اس کو‪ ،‬وہ درندوں کے ہاتھ لگ گنی۔“ وہ‬
‫بوئے لہچے میں بولی کہ شاتھ ہی دل خراش جنخ مارئے وہ اونچی آواز میں روئے لگی۔‬
‫ج‬
‫نجنی وہ جٹسے ا ننے دل کی تھڑاس تکال رہی تھی۔‬
‫ک‬‫نہ ن‬
‫”میں ئے ک نوں یں د ھی وہ۔۔“ اس کی آواز یں نجھباوا تھا۔ لقظ ”کاش“‬
‫م‬
‫زہن میں گونج رہا تھا۔ کاش وہ اس کسنی کے ناس جلی جانی۔ اس میں موخود ناکس‬
‫کو کھول کے دنکھ لتنی۔‬
‫”میں ئے تھر سے شب کھو دنا‪ ،‬میں ئے اننی ماں کھو دی آج تھی۔۔ میں ئے‬
‫ُ‬
‫کھو دنا مجھے انشا لگ رہا ہے کونی میری اوالد کو مجھ سے چ ھین کے لے گبا۔ اسے بو جنے‬
‫ک‬‫ت‬ ‫م‬ ‫ً‬
‫ی‬
‫کے لنے۔“ دو زا ہوئے اس ئے انبا سر ز ین کی طرف چھکا لبا۔ دل کی ل ف پڑھ‬
‫رہی تھی۔ اس ئے اننی ماں سے وعدہ کبا تھا کہ چہاں نک ممکن ہوا وہ انسی نج نوں کی‬
‫زندگی پرناد نہیں ہوئے دے گی۔‬
‫رنان ئے اس کو زپردسنی ستنے سے لگانا اور تھام کے رکھا ناکہ وہ دل ہلکا کر شکے‬
‫لبکن خو تکل یف وہ محسوس کر نارہی تھی شاند کم ہوئے کے نحائے پڑھنی جانی۔‬
‫رنان ئے آس ناس دنکھا۔ دامیر!‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪938 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دامیر!“ اس ئے تکارا۔ وہ نہیں تھا۔ تھوڑی دپر نہلے وہ نہی آنا تھا۔ چنہ کو‬
‫زپردسنی شاتھ لگائے اس ئے گردن گھمائے آس ناس جاپزہ لبا وہ کہیں نہیں تھا۔‬
‫شاند وہ نج نوں کو گاڑی نک چھوڑئے گبا ہو۔‬
‫”وہ زنادہ دور نہیں گنے ہو نگے تم ناقی نج نوں کے ناس جاؤ میں ُاس لڑکی کو ص نحج‬

‫شالمت وانس الؤں گا۔“ چنہ کا چہرہ شا منے کرنا وہ سنجبدگی سے بوال کہ چنہ ئے سرخ‬
‫ہونی آنکھوں سے اس کو دنکھا۔‬
‫اس کا روپ رنان کے لنے نالکل مجبلف اور نبا تھا۔ تھی بو وہ تھی انک غورت۔‬
‫خزنابوں سے لیرپز۔‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ُ‬
‫ن‬ ‫ک‬
‫”اسے جھ یں ہونا جا نے۔۔“ وہ سرگوسی کرنی ہونی بولی‪ ،‬رنان ئے اس کو‬
‫اتھانا۔ اس کا انیر نٹس نانی میں گر گبا تھا۔‬
‫”کجھ نہیں ہو گا۔ خود کو کمزور نہیں کرو۔“ رنان ئے اس کو نازوؤں سے تھام‬
‫کے کھڑا کبا۔ چنہ ئے انبات میں سر ہالئے رجشار پہ نہنے آنسوں صاف کنے۔‬
‫وہ دوبوں نیزی دکھائے ہوئے اننی گاڑبوں کی طرف تھاگے چہاں ناقی شب تھی‬
‫موخود تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪939 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫”شب تھبک ہے نہاں؟“ رنان ئے ناس ہنجنے بوچھا۔ اس ئے دامیر کے لنے‬
‫مبالسی تگاہیں دوڑانیں۔‬
‫م‬
‫”جی سر نہاں شب تھبک ہے‪ ،‬جائے کی نباری کمل ہے۔ ہمیں دو گھت نوں‬
‫میں انیر فبلڈ نہنجبا ہے۔“ انک آدمی اس کے شا منے آنا ہوا بوال۔ چنہ ان لڑک نوں کا‬
‫س‬
‫جاپزہ لے رہی تھی خو ڈری ہمی تھیں۔ نین لڑکباں دامیر ا ننے شاتھ النا اور ناقی انہوں‬
‫ئے نہاں سے نازناب کروانی تھی۔‬
‫”دامیر۔۔ دامیر کہاں ہے؟“‬
‫رنان ئے سرد لہچے میں بوچھا۔اس کی نٹشانی پہ نل واصح ہوئے۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”سر وہ بو آپ کے شاتھ ہی تھے۔“ اس آدمی ئے نا ھی سے کہا۔ رنان نیزی‬
‫سے اننی گاڑی کی طرف پڑھا اور وہاں سے لنپ ناپ تکا لنے لگا۔‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ج‬ ‫ً‬
‫”دامیر سے کانتبکٹ کرو فورا۔“ رنان کا م نے ہی وہ لوگ انیر ٹس کے زر عے‬
‫ل‬
‫دامیر سے راتطہ کرئے لگے لبکن خواب ندارد۔‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ُ‬
‫”سر ان سے راتطہ یں ہو نا رہا۔۔“ وہ رنان کے ناس آکے بوال خو گاڑی کی‬
‫بونٹ پہ لنپ ناپ ر کھے دامیر کی لوکٹشن جبک کر رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪940 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ب‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫گ‬ ‫ُ‬


‫رنان ئے اس طرف گردن ھمانی چہاں سے وہ ا ھی وانس آئے ھے کن وہاں‬
‫بو دامیر نہیں تھا۔‬
‫اس کی لوکٹشن اسی طرف دکھانی دے رہی تھی۔‬
‫”دامیر کہاں ہے؟“ چنہ اس کے فرنب آنی۔‬
‫رنان ئے پرنشانی سے ا ننے چہرے پہ ہاتھ ت ھیرا۔ وہ دامیر کو نہیں کھو شکبا تھا۔‬
‫”النٹس نکڑو اور میرے شاتھ جلو۔“ لنپ ناپ فولڈ کرئے اس ئے نکڑا اور انبا‬
‫نبگ گاڑی کی سنٹ پہ تھتبکنے اس ئے ا ننے نین آدم نوں سے کہا۔ وہ نیزی سے‬
‫اس کی جانب لبکے۔‬
‫”تم نہیں رہو گی لڑک نوں کے ناس۔ میں دامیر کو شاتھ النا ہوں۔ شاند وہ‬
‫دوسری طرف گبا ہو۔“ اس ئے چنہ سے کہا لبکن رنان کو خوف شا آئے لگا تھا۔‬
‫چنہ اور رنان کی جالت انک جٹسی تھی اس وفت۔ کھوئے کا ڈر۔‬
‫”اور وہ لڑکی۔۔۔“ اس کے مڑئے ہی وہ امبد سے بوچھنے لگی۔‬
‫”وہ تھی شاتھ ہو گی۔“ اس ئے نشلی دی۔ وہ نہیں جانبا تھا کہ لڑکی وانس‬
‫آئے گی نا نہیں لبکن پہ القاظ کہنے وہ خود کو روک پہ نانا تھا۔ شاند اس کو چھونی نشلی‬
‫نہیں د ننی جا ہنے تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪941 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ُ‬
‫لبکن وہ رکا نہیں۔ آدم نوں کو لنے جال گبا۔ اندھیرے میں تھا گنے وہ لوگ اسی‬
‫طرف جا رہے تھے چہاں انہوں ئے چملہ کبا تھا۔ ہو شکبا تھا دامیر کسی چیز میں تھٹشا‬
‫ہو۔ وہ کجھ اور دنکھنے لگ گبا ہو۔‬
‫ُ‬
‫”لبکن راتطہ ک نوں نہیں ہو رہا اس سے۔“ رنان شو جنے لگا۔ انک ہاتھ یں لنپ‬
‫م‬
‫ناپ تھا جبکہ دوسری میں نسبل تھام رکھی تھی۔‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ُ‬
‫وہ شب اسی جگہ نچ گنے ھے۔ رنان ئے آدم نوں کو نہاں ال ٹس آن کرئے کا‬
‫اشارہ کبا۔ ان کے ناس واپر لٹس انل ای ڈی النٹس تھیں ‪-‬انہیں آن کبا۔ ان کی‬
‫روسنی نیز تھی۔‬
‫لوکٹشن انڈنٹ کی۔ دامیر کی لوکٹشن دور تھی لبکن نانی کی طرف۔ رنان ئے نانی‬
‫کی طرف دنکھا۔ دل زور سے دھڑکا۔ خوف سما گبا۔ جگہ جگہ شپ کے نکرے نکھرے‬
‫پڑے تھے اور آگ اتھی تھی جل رہی تھی۔‬
‫”آس ناس دنکھو کونی ج نٹ شکی‪ ،‬کونی بوٹ کونی۔۔ کجھ تھی دنکھو۔ کجھ تھی‬
‫ملبا ہے نہاں سے جلدی دنکھو۔“ وہ بوکھالئے ہوئے بوال اور آخر میں اسیغال سے جال‬
‫اتھا۔‬
‫وہ لوگ نیزی سے آس ناس تھبل گنے۔ رنان النٹ لنے نانی میں آگے پڑھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪942 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ کس وفت نانی کی طرف گبا تھا‪ ،‬اس کو اندازہ ک نوں نہیں ہوا۔‬
‫”دامیر۔۔۔“ رنان نانی میں کاقی آگے آگبا تھا نہاں نک کہ اس کا آدھے سے‬
‫زنادہ دھڑ نانی میں ڈونا تھا۔ وہ بوری فوت سے جالنا۔‬
‫”سر نہاں انک بوٹ ہے۔۔“ انک آدمی کی آواز سبانی دی۔ رنان نیزی سے ناہر‬
‫تکال۔‬
‫فیری اب کاقی دور جا جکی ہو گی۔ دامیر کو دنکھبا تھی ضروری تھا۔ مغلوم نہیں‬
‫وہ کسنی شالمت تھی تھی نا نہیں۔‬
‫رنان نانی سے تکلنے تھا گنے ہوئے اس آواز کی جانب تھاگا۔‬
‫”اس کو نانی میں انارو۔“ وہ البکیرک بوٹ تھی۔‬
‫”اننی گیز نبار رکھو۔ ہو شکبا ہے کہ وہ فیری اتھی تھی نانی میں ہو اور کونی ہم پہ‬
‫انبک کر دے۔ نانی میں دھبان رکھبا ہے دامیر کی لوکٹشن ادھر ہی ہے۔“ وہ ہدانت‬
‫کرنا بوال اور گھستنے ہوئے اس کسنی کو نانی میں انارا۔‬
‫انک آدمی نیزی دکھائے ہوئے اس کو جالئے لگا۔ النٹس ان کے ہاتھ میں‬
‫تھیں۔ رنان دامیر کی لوکٹشن انڈنٹ کرنا رہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪943 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اِ س طرف۔۔“ رنان ئے کسنی جالئے والے کو دانیں جانب جلنے کا کہا چہاں‬
‫آگ جل رہی تھی۔‬
‫”نمہیں نہاں نہیں ہونا جا ہنے دامیر۔۔“ رنان گ ھیرائے ہوئے شو جنے لگا۔‬
‫م‬ ‫س‬
‫”سر وہاں۔“ آدمی جالنا۔ رنان نبا کجھ شوچے ھے نانی یں غوطہ لگائے کودا۔‬
‫م‬ ‫ج‬
‫تھوڑے قاصلے پہ انک لکڑی کا پڑا شا نکرا جل رہا تھا اور اس پہ دو وخود تھے۔‬
‫ن‬
‫رنان نیزی سے نیرئے اس نکرے کی طرف پڑھا۔ وہاں ہنجنے کبارے پہ ہاتھ رکھا۔ وہ‬
‫گبال ہوئے کی وجہ سے آگ نجھا گبا تھا۔ چہرے پہ ہاتھ ت ھیرئے اس ئے شا منے م یظر‬
‫کو دنکھا۔ وہ وہی نچی تھی جس کو وہ دوبوں لے جا رہے تھے۔ نبہوش جالت میں۔ تم‬
‫وخود۔ دامیر ئے اننی نہنی جبکٹ انارے اس پہ دی۔ وہ قانل اغیراض جالت میں‬
‫تھی۔‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫ُ‬
‫چ‬
‫”دامیر۔۔۔“ رنان اس کی طرف ل یکا۔ اس کی آ یں نبد یں۔ ہرے پہ خون‬
‫تھا۔ ما تھے پہ کجھ چھبا ہوا تھا۔ رنان کی دھڑکن پڑھی۔‬
‫جا ننے ہو کٹسے؟ نالکل و نسے ہی چب آپ کسی کے مرئے کی چیر ستنے ہو۔‬
‫جس کی موت کا کتھی تصور پہ کبا ہو اور وہ آپ کے شا منے ئےجس و خرکت پڑا ہو۔‬
‫چب ضیط کے ناوخود آنکھوں سے آنسوں نہنے لگیں۔ آپ تفین پہ کرنا جاہ رہے ہوں‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪944 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫لبکن حق یفت شا منے ہو۔ دل کی دھڑکن کابوں میں سبانی دے۔ آپ کا دل و دماغ‬
‫کہے کہ اتھی آنکھ کھل جائے گی اور پہ خواب بوٹ جائے گا۔ آپ دنبا میں ہر چیز‬
‫کھوئے کا شوچ شکنے ہیں لبکن انک وہ سحص نہیں جس میں آپ کی جان نسی ہو‪،‬‬
‫جس کے جائے سے آپ کی زندگی موت ہو۔‬
‫رنان ڈی کا دل اس کے کابوں میں دھڑک رہا تھا وہ ا ننے خوف سے دھڑ کنے‬
‫دل کی آواز شن شکبا تھا۔ دامیر کو دنکھنے اس کا شانس لتبا دشوار ہو رہا تھا۔ اس کی‬
‫ُ‬
‫گردن پہ کجھ کرجباں سی ت ھیں۔ نازو کا حصہ جال ہوا تھا۔ رنان کا ہاتھ اس کے ستنے‬
‫پہ گبا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫اسے شوئے اتھی تھوڑی دپر ہی ہونی تھی کہ چہرے کے ناپرات نتبد میں ند لنے‬
‫لگے۔ نتبد میں وہ ڈر رہی تھی۔ کمرے کا درجہ خرارت پڑھبا ہوا محسوس ہوا۔‬
‫نتبد میں ہی خود سے کمفرپر دور کبا کہ وخود نستنے سے تم شا ہوئے لگا۔ وہ‬
‫ل‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫گ ھیراہٹ سے اتھ ھی اور آ یں ھولے خواس نحال کرئے گی۔ ہاتھ گردن نک‬
‫ک‬ ‫ھ‬
‫گبا۔ گھین ہو رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪945 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اجانک طت یغت نگڑئے کا اجشاس ہوا بو ناتھ روم کی طرف لبکی۔ دل مبال رہا تھا۔‬
‫واش نٹشن پہ چھکی۔‬
‫کاقی دپر نک وہ ناتھ روم میں رہی‪ ،‬نیروں سے جان تکل گنی تھی۔ نانگیں کانتبا‬
‫سروع ہونیں کہ اب کھڑا نہیں رہا تھا۔‬
‫چہرے پہ نانی کی چھنتنے مارئے اس ئے انبا منہ صاف کبا۔ کلی کرئے ناس‬
‫ر کھے فٹس ناول سے انبا چہرہ صاف کبا اور ناہر آنی۔ دبوار کا سہارہ لتنے کھڑی رہی اور‬
‫گہرے شانس تھرئے لگی ناکہ کجھ ہمت آئے۔‬
‫کجھ سبکبڈز کھڑے ر ہنے کے تغد وہ نبڈ کی طرف آنی اور نتتھ گنی۔ کمرے میں‬
‫لگے کتمرے کو دنکھا۔ آنکھوں میں شکوہ در آنا کہ دامیر اس کو دنکھ رہا ہو گا۔‬
‫اس کی گ ھیراہٹ کم نہیں ہونی تھی۔ پڑھنی جا رہی تھی۔ شاند نبد کمرے میں‬
‫گھین ہو رہی تھی۔ وفت دنکھا۔۔ صنح کے شاڑھے نانچ ہو رہے تھے۔ تھوڑی دپر میں‬
‫ہی دن کا اجاال ہو جانا۔‬
‫وہ الن میں جائے کو اتھی کہ ہو شکبا تھا صنح کی نازی ہوا لتنے گ ھیراہٹ کجھ کم‬
‫ہو جانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪946 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر ئے کہا تھا وہ اس کو کال کرنا رہے گا‪ ،‬مٹسج کرنا رہے گا۔ رات نک بو‬
‫اس کے مٹسج ملنے رہے لبکن اتھی نک کونی مزند مٹسج نہیں آنا تھا۔ اس ئے مونانل‬
‫تھاما اور انک مونی شال لنے کمرے سے ناہر آنی۔ ملگحا شا اندھیرے منٹشن میں تھبال‬
‫تھا۔‬
‫ت‬ ‫ع‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫ان ت نوں کے جائے کے تغد نہاں لتبا کے شاتھ انک لڑکی رہ رہی ھی خو‬
‫ڈرنک کی جا ننے والی تھی۔ شاند فرننی جا ننے والی۔‬
‫دامیر کی جاص ہدانت پہ وہ اس کے شاتھ تھی اور اس کا جبال رکھ رہی تھی۔‬
‫لبام تھی نہیں تھا اور ا ننے کمرے میں شو رہا تھا۔‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن ن‬
‫گالس ڈور کے نار وہ ز نے پہ ھی ھی۔ شال کو کبدھے ک لبا ہوا تھا۔‬
‫ن‬
‫تھوڑی دپر نہلے مبلی کی وجہ سے رجشار سرخ ہوئے پڑے تھے۔‬
‫صنح کی ہلکی سی لکیر واصح ہو رہی تھی۔ اس ئے دامیر کا نمیر کھوال۔ نانتبگ‬
‫سروع کی۔‬
‫”مسبگ بو!“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪947 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫لکھنے اس ئے ستبڈ کبا اور مونانل کو اننی گود میں دھرا۔ ن نٹ میں گرہیں اتھی‬
‫ت ن‬
‫تھی پڑ رہی تھیں۔ جائے اس وفت گ ھیراہٹ ک نوں ہو رہی ھی۔ آ یں موندیں وہ‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫گھت نوں پہ سر ر کھے نتتھ گنی۔‬


‫”آپ نہاں اس وفت۔ چیرنت ہے۔“ انک نسوانی آواز پہ علتبا ئے خونک کے‬
‫ننجھے دنکھا۔‬
‫ن‬
‫”نہیں نس و نسے ہی جلدی آنکھ کھل گنی تھی۔“ وہ آ کھیں مشلنی ہونی بولی۔‬
‫لڑکی جلنی ہونی اس کے فرنب آنی اور شاتھ ہی ز ننے پہ نتتھ گنی۔ وہ نچٹس شالہ‬
‫خوتصورت رسین لڑکی تھی۔‬
‫”نتبد نہیں آرہی نا!“ وہ لڑکی مشکرا کے بولی۔‬
‫علتبا محض سر ہال گنی۔‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”انشا ہی ہونا ہے چب ہمارے ا ننے دور ہوئے ہیں۔“ وہ شا منے د نی ہونی‬
‫بولی۔‬
‫”تم ڈرنک کو کب سے جاننی ہو؟“ علتبا ئے اس کو دنکھنے سنجبدگی سے بوچھا۔‬
‫”کاقی عرصے سے‪ ،‬ہم جلد شادی کرئے والے ہیں۔“ وہ مشکرانی ہونی کبدھے‬
‫احکا کے بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪948 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”پہ شب جا ننے کے ناوخود؟“ علتبا چیران ہونی بولی‪ ،‬اس کا اشارہ اس ڈارک‬
‫ورلڈ کی طرف تھا۔‬
‫”اس ئے مجھ سے کتھی نہیں چھبانا۔ سروع میں وہ جاہبا تھا کہ میں اس کی‬
‫طرف نا آؤں لبکن میں نہیں مانی۔ میں اس سے نبار کرنی ہوں بو کٹسے ننجھے ہٹ‬
‫جانی۔“ وہ لڑکی مشکرا کے اس کو نبا رہی تھی جبکہ علتبا چیران تگاہوں سے د نکھے کونی‬
‫کٹسے شب کجھ جا ننے ہوئے خود کو اِ س دلدل میں النا جاہے گا۔‬
‫َ‬
‫”پہ فرشٹ شانٹ لو تھا۔۔“ وہ کہنے ہوئے سرمانی۔‬
‫”سروع میں ڈرنی تھی لبکن مجھے تھر عادت ہوئے لگی۔“‬
‫علتبا نس شن رہی تھی ڈرنی بو وہ تھی تھی اور اتھی نک۔‬
‫ح‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ب‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ج‬‫م‬ ‫ُ‬
‫ن‬
‫”اس ئے ھے ھی ل ہی یں ہوئے دنا کہ وہ ا نے ظرناک لوگوں کے‬
‫شاتھ رہبا ہے اور اب بو پرابوا کا تھی حصہ ہے۔“ وہ مزند بولی کہ علتبا پرابوا کے نام پہ‬
‫خونکی۔‬
‫”نہیں‪ ،‬پہ لوگ رسبا کے ضرور ہیں لبکن پرابوا سے ان کا تغلق نہیں۔“ علتبا کو‬
‫ن‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫غ‬ ‫م‬ ‫ُ‬
‫لگا کہ شاند اس لڑکی کو علط لومات یں ھی اس کو بوک کے نبائے گی کہ ا نی‬
‫حظرناک ن یظتم سے اِ ن شب کا تغلق کٹسے ہو گا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪949 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تغلق۔۔“ وہ اسبہزاننہ ہٹسی۔‬


‫”رنان سر پرابوا کے ہبڈ ہیں۔“ وہ سبانسی و فجرپہ انداز میں بولی۔‬
‫”ا ننے حظرناک مافبا ہبڈز کے شا منے رنان سر ئے شاشا کا جانمہ کبا تھا تھر اس‬
‫کی جگہ لتنے کا دغوی کبا۔۔ کسی کو کبا اغیراض تھا۔ خو پرابوا کے ہبڈ کو مار شکبا تھا‬
‫اغیراض کرئے والے کو تھی مار شکبا تھا۔“ وہ لڑکی اننی دھن میں نبانی جا رہی تھی وہ‬
‫کاقی مباپر تھی ان شب سے جبکہ علتبا کے ناپرات ندل رہے تھے۔ ئےتفتنی سی‬
‫تھی۔‬
‫وہ شاری زندگی ا نسے لوگوں سے تھاگنی رہی تھی اور آ جا کے کہاں رکی۔ پرابوا کی‬
‫ُ‬
‫فتملی میں۔ شوہر اس کا اشاشن‪ ،‬حظرناک کئیر۔ شوہر کا دوشت پرابوا کا ہبڈ اور اس‬
‫کی ن نوی الگ سے حظرناک۔‬
‫”آپ کو دامیر سر کے شاتھ کتبا عرصہ ہوا ہے؟“ وہ اب استباق سے علتبا کی‬
‫طرف رخ کرنی بوچھنے لگی۔‬
‫”میں۔۔۔“ وہ شو جنے لگی۔ انشا لگبا تھا کہ وہ اس کے شاتھ صدناں جی کے آنی‬
‫ہو۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪950 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے مغلوم نہیں۔“ وہ نس انبا ہی کہہ نانی۔ گ ھیراہٹ اتھی تھی تھی۔ نتھی‬
‫دل نات کرئے کو نہیں جاہ رہا تھا۔‬
‫”ڈرنک اکیر آپ دوبوں کا زکر کرنا رہبا ہے۔ انکحولی آپ کا کبل اس کے لنے‬
‫آ نبڈنل ہے۔ دامیر سر آپ سے نہت مجنت کرئے ہیں۔“ وہ نہت انبان نت سے اس‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫کو د نی ہونی کہہ رہی ھی۔‬
‫”ہاں شاند۔۔“‬
‫ت ُ‬
‫”شاند کبا۔ نتھی بو آپ نہاں اننی صنح آگنیں۔ انک رات ھی ان کے غیر یں‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ت‬
‫گزار نانیں آپ۔“ علتبا کا خواب جٹسے اس کو نسبد نہیں آنا نتھی جبانی ہونی بولی۔‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت ُ‬
‫وہ تھبک کہہ رہی ھی اس کے غیر نتبد یں آرہی ھی اگر شونی ھی بو‬
‫گ ھیراہٹ سے اتھ گنی تھی۔ نجھلے دبوں چب وہ انلی میں تھی نب تھی وہ مسکل سے‬
‫شونا کرنی تھی۔‬
‫اسے عصہ شا آئے لگا کہ دامیر ئے اسے اننی عادت لگا دی تھی۔‬
‫”ڈرنک مجھے وانس آکے پروبوز کرئے واال ہے۔ وہ جاہبا ہے کہ شب کجھ‬
‫پرفبکٹ ہو۔ کبا آپ مجھے نٹس دے شکنی ہیں۔“ وہ اس کے ہاتھوں پہ ہاتھ رکھنی‬
‫ہونی چہکنی ہونی بولی کہ علتبا کو اچھتبا ہوا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪951 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ا ننے حظرناک لوگوں میں آئے کا اسے کتبا شوق ہو رہا ہے۔“ علتبا نس شوچ‬
‫کے رہ گنی اور ہلکا شا ہٹس دی۔‬
‫”میں کبا نباؤں نمہیں۔ مجھے بو آ نبڈنا ہی نہیں۔ میری شادی نہت جلدی میں‬
‫ہونی تھی۔۔“ علتبا اس کی خوسی ماند نہیں کرنا جاہنی تھی نتھی آہسبگی سے بولی۔‬
‫”ڈرنک ئے نبانا تھا کہ کٹسے آپ کی شادی ہونی۔ مجھے بو صجنح فتنٹسی سنوری‬
‫والی فبلتبگز آ نیں کہ دامیر سر آپ کو دور نہیں دنکھ شکنے آپ کے تھبک ہوئے کا‬
‫ان یطار کنے تغیر چ ھٹ سے شادی کر لی۔۔ ہاؤ رومنتبک۔۔“ ڈرنک ئے لگبا تھا کہ‬
‫شب ہی نبا رکھا تھا اسے نتھی بو انداز میں کاقی خوسی تھی۔ وہ کاقی نابونی مغلوم ہونی‬
‫تھی۔‬
‫”رومنتبک۔۔ مجھ سے بوچھو۔“ علتبا پڑپڑانی۔ گود میں دھرے مونانل کو‬
‫سرسری شا دنکھا۔ اس کا رنالنی نہیں آنا تھا۔ نہلے بو وہ سبکبڈ نہیں لگانا تھا رنالنی‬
‫کرئے میں اب اننی دپر ک نوں۔ اس ئے گہرا شانس تھرا۔‬
‫”دامیر سر ئے بو انک نار ڈرنک پہ گولی تھی جالنی تھی چب آپ اجانک نتمار ہو‬
‫گنی تھیں۔ اوفف کبا عصہ ہے ان میں۔ مجھے بو نہت نسبد ہیں وہ۔“ وہ اتھی تھی‬
‫فصبدے پڑ رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪952 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تعنی اننی ن نوی کے ڈرئے پہ انہوں ئے انک نل تھی نہیں شوجا۔۔ واؤ۔۔“ وہ‬
‫دامیر کی مجنت کا دم تھر رہی تھی کہ علتبا ئے خونک کے اس کو دنکھا۔‬
‫”شوری‪ ،‬وہ آپ کے شوہر ہیں۔۔۔ میں نس انہیں اڈماپر کرنی ہوں۔“ وہ‬
‫وصاچت کرنی ہونی بولی کہ کہیں علتبا اس کو علط پہ سمجھ لے۔‬
‫”دامیر ئے نمہارے فبانسی پہ گولی جالنی تھی۔ عصے کے نحائے نمہیں وہ‬
‫رومنتبک لگ رہا ہے۔“ علتبا اس کو عج نب تگاہوں سے دنکھنے ہونی بولی۔‬
‫”مجنت کے آگے کون کجھ دنکھبا ہے جاہے وہ وقادار مالزم ہی ک نوں پہ ہو۔“ وہ‬
‫بو دامیر کی نانبد کرنی ہونی بولی کہ ا ننے فبانسی کی تکل یف تھی تظر پہ آنی۔‬
‫”آپ نجھی نجھی ک نوں لگ رہی ہیں کجھ نبا کے الؤں؟“ اننی نابوں کے تغد تھی‬
‫چب علتبا ئے کونی جاطر خواہ رد عمل طاہر پہ کبا بو وہ م یقکر لہچے میں بوچھنے لگی۔‬
‫”نہیں میرا دل نہیں جاہ رہا۔“ وہ مشکرائے کی شعی کرنی بولی۔‬
‫”دل پہ تھی کرے بو لے آ نیں کجھ کھائے کو نلیز۔۔ میری تھوک سے آنکھ‬
‫کھل گنی ہے۔“ علتبا کجھ کہنی کہ لبام کی آواز ستنے دوبوں خوانین ئے ننجھے دنکھا۔ وہ‬
‫چھوئے نحوں کی طرح جلبا ہوا انہیں کے ناس آرہا تھا۔‬
‫ک‬ ‫ت‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫اس لڑکی کے ا ھنے پہ لتبا ھی اتھ ھڑی ہونی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪953 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کبا ہوا؟“ لبام ئے تھی خونک کے اس کو دنکھا۔‬


‫”کجھ نہیں میں نس والک کرئے جائے لگی ہوں‪ ،‬آجاؤ۔۔“ اس ئے وصاچت‬
‫کرئے شاتھ ہی لبام کو آفر کی بو وہ تھی اتھ گبا۔‬
‫مونانل کو انک نار تھر جبک کبا۔ دامیر کا کونی خواب نہیں تھا۔ اگر اننی سی‬
‫ل‬ ‫گ‬ ‫ُ‬
‫نات پہ اسے ھیراہٹ ہوئے گی بو اس سے دور ہو کے وہ کٹسے رہے گی۔‬
‫نہی شو جنے ہوئے وہ چھوئے چھوئے قدم جلنے لگی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫رنان ئے دامیر کے ستنے پہ ہاتھ رکھا۔ دل کی دھڑکن محسوس ہونی۔‬
‫”ڈاکیرکا ارننج کرو‪ ،‬جلدی۔۔“ وہ جالنا اور دامیر کا چہرہ تھاما۔ الکھ جا ہنے کے ناوخود‬
‫وہ آنکھوں میں آنی نمی کو دھکبل نہیں نانا تھا۔‬
‫”نمہیں کجھ نہیں ہو گا۔“ اس کا چہرہ تھامے وہ جٹسے خود کو تفین دال رہا تھا۔‬
‫اس کی شانسیں مدھم تھیں۔ دانباں کبدھا آگ سے چھلس حکا تھا۔ اگر اس ئے‬
‫اتھی رنگ پہ نہنی ہونی بو رنان اس کی لوکٹشن کتھی نا جان نانا۔‬
‫ُ‬
‫نیز دھڑ کنے دل کے شاتھ اس ئے دامیر کے وخود کو سہارہ دنا کہ اسے اس بوٹ‬
‫میں ڈال شکنے۔ پروفت اعالج ضروری تھا۔ اس کے زچموں سے خون رس رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪954 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”متم کو اتقارم کرو کہ ہمیں نچی مل گنی ہے۔“ رنان ئے دامیر کا نازو خود کے‬
‫کبدھے پہ رکھا تھا‪ ،‬بوٹ میں اننی جگہ نہیں تھی کہ دامیر کو نہاں لبا د ننے نتھی رنان‬
‫ئے اس کے وخود کو آدھا ا ننے اوپر گرا دنا۔‬
‫ہ‬‫ن‬
‫ن‬
‫بوٹ کبارے نک چی کہ رنان ئے انک آدمی کی مدد لتنے نیزی سے دامیر کو‬
‫ننچے انارا۔ وہ اتھی تھی ہوش سے ن یگاپہ تھا۔‬
‫دوسرا آدمی نیزی دکھائے انک گاڑی نہاں الئے کو دوڑا ک نونکہ دامیر کو وہ ا نسے‬
‫اتھا کے اننی دور نہیں لے جا شکنے تھے۔‬
‫نانچ منٹ تغد ہی گاڑی نہاں موخود تھی۔‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫”سر ڈاکیر انیر بورٹ پہ نچ حکا ہے یں و یں جانا ہے۔“‬
‫”اس کو ر سنے میں نالئے۔ اننی دپر دامیر تکل یف میں رہے گا۔“ رنان اس کی‬
‫نات پہ تھڑکا۔‬
‫”شوری سر ہمارے ناس وفت کم ہے قالن نٹ میں۔ نتھی ڈاکیر وہیں نال لبا۔“ وہ‬
‫آدمی وصاچت کرنا ہوا بوال۔‬
‫رنان جاموش ہو گبا۔ وہ لوگ اب گاڑناں لنے فبلڈ کی جانب پڑھ رہے تھے۔ چنہ‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ُ‬
‫اس گاڑی یں ھی چہاں لڑکباں ھی یں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪955 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫جٹسے وہ لوگ انیر بورٹ نہنچے رنان ئے وہاں انک ڈاکیر کو ان یطار کرنا نانا۔ پہ‬
‫پرابو نٹ ج نٹ ہی تھا۔ دامیر کو نیزی سے سیرنجر پہ شفٹ کرئے اسے اندر لے جانا گبا‬
‫اور آرامدہ نبڈ پہ لبانا۔‬
‫دامیر کی جالت دنکھنے چنہ شکنے کی جالت میں آنی۔ اس کی جالت کٹسے ہونی۔‬
‫رنان کی جانب پڑ ھنے اس ئے دامیر کے نارے میں درنافت کبا۔‬
‫”ہمیں مغلوم ہی پہ ہو شکا وہ نانی میں جال گبا تھا اس لڑکی کو نحائے کے لنے‬
‫نتھی شاند دھماکا ہوا اور فرنب ہوئے کی وجہ سے وہ اِ س جال میں۔۔۔“ رنان ئے‬
‫چہرے پہ پرنشانی سے ہاتھ ت ھیرئے ہوئے کہا۔ چنہ ئے ا ننے چہرے پہ ہاتھ رکھا۔ اننی‬
‫ت‬ ‫گ‬‫ل‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ُ‬
‫جان کی پرواہ کنے نبا وہ لڑکی کو نحائے گبا تھا خو اس کی جھ یں نی ھی۔‬
‫ک‬
‫ب‬ ‫چ‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ڈن ن ُ‬
‫”اِ ن کی کب شن ہت پری ہے۔۔ یں ا ھی ان ز موں کی ڈرنس گ سروع کرنا‬
‫ہوں۔“ ڈاکیر دامیر کی گردن دنکھبا ہوا بوال چہاں جگہ جگہ کٹ آئے تھے۔ صد شکر کہ‬
‫اس کی کونی نس کو تقصان نہیں ہوا تھا۔‬
‫”ہمیں ان کی شاری ناڈی کا مغاننہ کرنا ہو گا ناکہ زچموں کو جبک کر شکیں۔“‬
‫س‬
‫ڈاکیر ئے رنان کی جانب دنکھنے ہوئے کہا بو چنہ ھنی ہونی سر ہال کے ناہر جائے‬
‫ج‬‫م‬

‫لگی لبکن رنان کا پرنشان چہرہ د نکھے رک گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪956 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”وہ تھبک ہو جائے گا‪ ،‬اس ئے نہت پڑی فرنانی دی ہے۔ مجھے فجر ہے اس‬
‫پہ۔“ چنہ رنان کے نازو پہ ہاتھ رکھنی ہونی بولی کہ رنان نس گہرا شانس تھر کے رہ گبا۔‬
‫ُ‬
‫رنان ئے پردہ آگے لہرا دنا اور دامیر کی سرٹ انارئے میں مدد کی۔ اس کی جالت‬
‫نہت پری تھی کہ رنان کو تکل یف سی ہوئے لگی۔ وہ ضیط سے نتتھا رہا کہ کہیں کمزور‬
‫پہ پڑ جائے۔‬
‫دامیر وہ سحص تھا جسے وہ کتھی مرنا ہوا نہیں دنکھ شکبا تھا۔‬
‫نلین ہوا میں اڑ رہا تھا‪ ،‬ڈاکیر ئے شاتھ ہی دامیر کو آکسنچن لگا دی تھی کہ قالنٹ‬
‫ی‬ ‫ُ‬
‫کی وجہ سے اس کی ط عنت پہ نگڑ جائے۔‬
‫انک انک کر کے ڈاکیر دامیر کی گردن سے لوہے کے نٹس تکال رہا تھا۔ انہوں‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ب‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ً‬
‫ئے نہلے اسے اجتباط ا کشن لگا دنا کہ لوہے کے ھنے سے ز م مزند پہ نگڑ پہ جانیں۔‬
‫چ‬
‫”انہیں گولی تھی لگی ہونی ہے۔۔“ ڈاکیر چب شارے زچموں سے ر سنے واال خون‬
‫صاف کرئے قارغ ہوا بو نشلی کے فرنب لگی گولی کو دنکھبا ہوا بوال۔‬
‫”اسے تکالو جلدی!“ رنان سباٹ انداز میں بوال۔‬
‫”سر نہاں آپرنشن ناممکن ہے‪ ،‬ہوا میں و نسے ہی آکسچن ل نول کم ہے۔“ وہ ڈاکیر‬
‫دھتمے لہچے میں بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪957 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہوا میں کم ہے نا نہاں بو نارمل ہی ہے۔۔“ رنان اس کی نات پہ نگڑ گبا کہ‬
‫ڈاکیر اس کے سرد لہچے پہ ہڑپڑا اتھا۔‬
‫”لبکن سر ان کا نلڈ نہیں رک رہا۔ ہمیں نلڈ تھی ارننج کرنا ہو گا نہلے ہی کاقی‬
‫نلبڈنگ ہو جکی ہے۔ ہو شکبا ہے سر کوما میں۔۔۔“‬
‫اس سے نہلے کجھ تقصبل نبانا کوما میں جائے والی نات کو بو کنے رنان اس کو‬
‫سرد لہچے میں وارن کرئے لگا۔‬
‫”اننی نکواس نبد کرو اور اس کا اعالج کرو۔ اگر اس کا انک تھی شانس اکھڑا بو‬
‫میں قشم کھانا ہوں تم اگال شانس نہیں لو گے۔“ گرے آنکھوں میں اسیغال تھرنا تھا‪،‬‬
‫ڈاکیر کی سنی گم ہونی ک نونکہ رنان سے اب ڈر لگبا سروع ہو گبا تھا۔‬
‫وہ آہشنہ سے انبات میں سر ہالئے ہوئے اس کی گردن کی نتبڈج کرئے لگا۔‬
‫”ہم جٹسے ہی لتبڈ ہو نگے ہمیں انہیں استبال شفٹ کرنا ہو گا ناکہ وہاں ان نہیر‬
‫پرنتمنٹ ہو اور فوری آپرنشن سے گولی تکال شکیں۔“ ڈاکیر اب کی نار زرا نیزی سے بوال‬
‫کہ رنان جاموش رہا۔‬
‫ڈاکیر اس کو مزند کجھ گانبڈ کر رہا تھا دامیر کے نارے میں کہ اسے و ننتبلٹشن‬
‫ک‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫پہ رکھبا پڑے گا۔ وہ آ یں یں ھول رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪958 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ُ‬
‫رنان نہیں شن تھا وہ نس دامیر کو دنکھ رہا تھا۔ تکل یف سے‪ ،‬اسے اندازہ پہ ہوا‬
‫کہ اس کی آنکھوں میں نمی آئے لگی تھی۔‬
‫رجشار سے آنسوں تھشال بو اس کا شکنہ بونا‪ ،‬چہرہ ت ھیرے اس ئے نامحسوس انداز‬
‫میں آنسو صاف کبا اور دامیر کے پراپر نتتھ گبا۔‬
‫ڈاکیر مشلشل ہر دو منٹ کے و فقے پہ دامیر کا ہاڑٹ رنٹ جبک کر رہا تھا۔‬
‫”کتھی اکبال پہ چھوڑئے کی قشم کھانی تھی تم ئے تھانی۔۔ اور اب نہاں مجھ‬
‫سے ن یگاپہ پڑے ہو۔ فٹس کابوں گا اننی۔۔“ دامیر کا ہاتھ تھامے وہ تم آنکھوں سے‬
‫دل میں اس سے محاظب تھا۔‬
‫کونی اس وفت رنان کی آنکھوں میں نمی دنکھبا بو تفین پہ کرنا کہ پہ وہی ئےرچم‬
‫اور سرد وجشت انداز واال رنان تھا جس کے نام سے انک دنبا ڈرنی تھی۔‬
‫”اِ ن کا ہارٹ رنٹ ستم ہے کاقی دپر سے۔۔ پہ زنادہ ہوا ہے نا مدھم۔ امبد ہے‬
‫وہ جلدی ہوش میں آ نیں گے۔“ ڈاکیر انک نار تھر جبک کر کے بوال۔‬
‫”رنان۔۔!“‬
‫پردے کے ننجھے سے چنہ کی آواز ستنے رنان دامیر کے فرنب سے اتھا اور پردہ زرا‬
‫شا ہبانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪959 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر کا نحال دھڑ کور تھا لبکن اوپری ندن پہ سرٹ نہیں تھی۔‬
‫”کٹشا ہے دامیر؟“ چنہ ئے نسونش زدہ لہچے میں بوچھا‪ ،‬اس ئے رنان کی آنکھوں‬
‫ک‬‫ن‬
‫میں سرجی د ھی۔‬
‫”گولی لگی ہے اس کو‪ ،‬کاقی نلبڈ کر حکا ہے۔۔“ انک تظر ننجھے مڑ کے دنکھا۔‬
‫”آنی اتم شوری۔۔“ وہ تھرائے لہچے میں بولی کہ اگر وہ شب نہاں پہ ہوئے بو‬
‫ت‬ ‫ُ‬
‫دامیر کی پہ جالت پہ ہونی۔ نجھباوا پڑھ گبا تھا کہ اسے وہ فیری جبک کرنی جا ہنے ھی۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫اس کے کہنے پہ رنان ئے نا ھی سے دنکھا۔‬
‫”انشا ک نوں کہہ رہی ہو؟“ رنان سنجبدگی سے بوال۔‬
‫ک‬‫ننج ن‬
‫”اگر میں وہ جبک کر لتنی بو۔۔“ دامیرکو رنان کے ھے آ یں موندیں د کھ وہ‬
‫ن‬ ‫ھ‬
‫ناشف سے بولی۔ اس کے لہچے میں ندامت محسوس کرئے رنان سرد آہ تھر کے رہ گبا۔‬
‫نبا کجھ کہے پردے سے ہی ناہر آگبا اور چنہ کو ا ننے نازو کے حصار میں تھرا۔‬
‫”نمہاری وجہ سے کجھ نہیں ہوا۔ آ نتبدہ انشا کہا بو مجھ سے پرا نہیں ہو گا۔“ اس‬
‫کے انداز میں پرمی نہیں تھی۔ وہ دھمکا ہی رہا تھا۔‬
‫ک‬‫س‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫چنہ سجنی سے لب نج کے رہ نی ورپہ وہ رو پڑنی۔ آج کا دن کاقی ل‬
‫م‬ ‫گ‬
‫نانت ہوا تھا۔ ہر کونی اننی جگہ بونا تھا اور بوٹ رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪960 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”نمہارا چنہ سے راتطہ ہوا کبا؟“ نا سنے سے قارغ ہوئے اس ئے لبام سے بوچھا خو‬
‫انبا شستم لنے نتتھا تھا۔‬
‫”ہاں تھوڑی دپر نہلے ہوا تھا۔ وہ لوگ کامباب ہوئے۔“ لبام نبائے ہوئے‬
‫مشکرانا۔ علتبا کو اس نات کی خوسی ہونی تھی کہ جس چیز کے لنے وہ گنے تھے اس‬
‫میں کامباب بو ہوئے لبکن اندر دل میں اقسردگی چھا گنی کہ اگر وہ لوگ قارغ ہو گنے‬
‫تھے بو دامیر اس سے راتطہ ک نوں نہیں کر رہا تھا۔‬
‫”دامیر سے اتھی تھی ناراض ہو؟“ لبام ئے شستم سے تگاہیں اتھائے علتبا کو‬
‫دنکھا خو مضظرب جالت میں اننی اتگلباں آنس میں الجھا رہی تھی۔‬
‫”نہیں بو۔۔“ وہ سنجبدگی سے بولی۔ وہ وافعی ناراض نہیں تھی۔ ناراصگی پہ اب‬
‫قکر ئے جگہ لے لی تھی۔‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ک ن‬
‫”بو ا نسے نوں ھی ہو۔ وہ لوگ شاند آئے والے ہوں بو کجھ نباری کر لو۔“‬
‫لبام اس کو مسورے سے بوازنا ہوا بوال۔ علتبا ئے خونک کے اس کو دنکھا۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”کٹسی نباری۔۔؟“ وہ نا ھی سے بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪961 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ارے اننی جالت دنکھو۔کہیں سے نہیں لگ رہا کہ آپ کا شوہر وانس آئے واال‬
‫ہے۔“ لبام اس کے جلنے پہ اقسوس کرنا ہوا بوال خو آج تھی پراؤزر سرٹ میں مل نوس‬
‫تھی۔‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫ت ت س‬
‫وہ ا ھی ھی نا ھی سے اس کو د کھنے گی۔‬
‫”جاؤ زرا فرنش ہو جاؤ تھوڑا خوسنوؤں میں نہاؤ۔“ لبام تھوڑا ہاتھ نحا کے بوال کہ‬
‫علتبا ئے اس کو ناد ننی تگاہوں سے اس کو گھورا۔ نات بو وہ تھبک کر رہا تھا۔‬
‫”ا نسے دنکھنے سے کجھ نہیں ہوئے واال۔ اگر ناراصگی جتم ہے بو دکھاؤ بو سہی۔“‬
‫لبام اس کی گھوربوں کا اپر لنے تغیر زور د نبا بوال۔‬
‫ڈرنک کی گرل فرنبڈ نبال(اتھی نک وہ گرل فرنبڈ ہی تھی) اس وفت کنچن میں‬
‫ہی مصروف تھی خو نا سنے کے تغد چیزیں سمنٹ رہی تھی اور کاقی کے مگ نبار کر رہی‬
‫تھی جس کی فرمانش لبام ئے کی تھی۔‬
‫وہ کجھ زنادہ ہی تھبل گبا تھا نہاں‪ ،‬انداز انشا تھا جٹسے امی ابو اس کو پڑی نہ نوں‬
‫کے ناس چھوڑ کے گنے تھے اور وہ نہاں جکم جالئے نتتھا تھا۔‬
‫گ‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن ن‬
‫علتبا کجھ دپر بو ہی ھی رہی ھر لبام کی نات کا ہی اپر تھا خو وہ اتھ نی اور‬
‫ت‬
‫روم میں جلی آنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪962 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫شاند دامیر اتھی تھی کسی کام میں مصروف ہو۔‬


‫نہی شو جنے اس ئے کجھ نہتنے کے لنے کیرڈ کھولی کہ ڈرنس سبلبکٹ کر شکے‬
‫لبکن اس کے کیڑے بو نہاں موخود ہی نہیں تھے۔‬
‫انک نار تھر دامیر کا پرنک شوٹ ہاتھ آنا۔ ہون نوں پہ مشکراہٹ آگنی کہ دامیر‬
‫خوش ہو گا۔‬
‫لبکن اسے کبا مغلوم تھا کہ دامیر اِ س وفت کس جالت میں تھا جس کی‬
‫شانسیں ہی مسین کی مجباج ہو گنی ت ھیں۔‬
‫نبال سے نات کر کے وہ پہ شو جنے پہ مج نور ہو گنی تھی کہ اگر وہ لڑ چھگڑ کر دامیر‬
‫سے دوری نبائے رکھنی ہے بو اس میں اِ سی کو تکل یف ہو گی ک نونکہ وہ کسی صورت‬
‫تھی مافبا سے دور نہیں رہ شکنے تھے۔‬
‫ان کی نہی دنبا تھی جٹسے دوسرے لوگ عام زندگی گزارئے تھے۔ دامیر اور رنان‬
‫کے لنے نہی زندگی عام زندگی تھی۔‬
‫علتبا خود انک مافبا نبک گراؤنڈ سے تغلق رکھنے ہوئے اِ ن کے شاتھ ر ہنے پہ‬
‫اجبالف کر رہی تھی جبکہ نبال… وہ بو تھی ہی کسی اور دنبا کا حصہ۔ شب کجھ جا ننے‬
‫کے ناوخود وہ نحوسی راضی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪963 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چب وہ ڈرنک کے شاتھ زندگی گزارئے کے لنے خوسی خوسی راضی ہو شکنی تھی بو‬
‫علتبا ک نوں نہیں۔ رنان اور دامیر ئے وعدہ کبا تھا کہ وہ انک فتملی ہیں…‪ .‬اور فتملی بو‬
‫خوش رہنی ہے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”کبا علتبا کو نبانا اس نارے میں۔“ چنہ ئے رنان کے شاتھ جلنے بوچھا۔ رنان‬
‫ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫دامیر کو دونارہ سیرنجر پہ شفٹ کبا جا رہا تھا ناکہ اس کو استبال لے جانا جائے‪،‬‬
‫ُ‬ ‫ن‬
‫وہ منٹشن نہیں گنے تھے۔ ڈرنک اتھی ہنجنے واال تھا نہیں پہ۔ اسے ا ھی لوم ہوا تھا‬
‫غ‬ ‫م‬ ‫ت‬

‫اور وہ لوگ نانی روڈ ہی آرہے تھے۔‬


‫ُ‬
‫ج‬ ‫ہ‬
‫”اسے نبا د نبا جا نے رنان۔“ چنہ ئے شو نے ہوئے کہا۔‬
‫م‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ح‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫”ناکہ اسے ین ہو جائے کہ وہ م فوظ یں؟“ رنان گڑے ہچے یں بوال کہ چنہ‬
‫کے ما تھے پہ نل آئے۔‬
‫م‬ ‫ہ‬ ‫غ‬ ‫م‬ ‫ُ‬
‫”ناکہ اسے لوم ہو کہ وہ کبا جا نی ہے۔ دامیر کی اِ س جالت یں اس کو‬
‫اجشاس ہو گا کہ وہ دامیر کے نبا نہیں رہ نائے گی۔“ چنہ سنجبدگی سے بولی کہ رنان‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫سر چھبک گبا۔ اسے ا ھی ضرف دامیر کی کر ھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪964 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ روم میں جا رہے تھے۔ دامیر کا انمرجنٹسی آپرنٹ تھا‪ ،‬نلٹ لگے دو گھتنے‬
‫ہوئے والے تھے اور اس سے مزند دپر نہیں کر شکنے تھے ک نونکہ گولی کا لوہا اندر کاقی‬
‫تقصان کر شکبا تھا۔ پہ تھی ہو شکبا تھا کہ وفت کے شاتھ وہ اندر گھلبا تھی سروع کر‬
‫دے ک نونکہ کجھ گول نوں کی شاچت اس طرح نبانی جانی تھی کہ وہ زہر کی طرح گھل‬
‫جانی تھی اور انشان دھیرے سے موت کے منہ میں جانا تھا۔‬
‫رنان ئے انک تظر چنہ کو دنکھا وہ دوبوں روم کے ناہر کھڑے تھے۔ رنان تطاہر بو‬
‫سباٹ چہرہ لنے ہوئے تھا جبکہ اندر دل گ ھیرا رہا تھا۔ تکلحت اس ئے انبا مونانل تکاال اور‬
‫نمیر ڈانل کبا۔‬
‫”ڈرنک آئے ہوئے گھر سے متم کو شاتھ لے آنا۔“ انبا کہہ کے اس ئے‬
‫مونانل وانس ناکٹ میں رکھا۔ چنہ نس ہلکا شا مشکرا دی۔‬
‫رنان کے تھروسے مبد آدمی نازناب ہونی لڑک نوں کو انک سبلیر ہوم لے جا رہے‬
‫تھے کہ اتھی وہ تھوڑی عرصہ وہاں رکنیں تھر چنہ اور رنان ان کے نارے میں تقصبل‬
‫سے کجھ شو جنے ناکہ ان کا مسیقل تھکاپہ ہونا۔ خو وانس جانا جاہے اسے جائے دیں‬
‫گے لبکن جس کا کونی آگے ننجھے پہ ہو گا ان کا ان یطام پہ لوگ کر لیں گے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪965 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫مزند نبدرہ منٹ سرکیں ہو نگے کہ ڈرنک نہاں آنا ہوا دکھانی دنا۔ اس کے ننجھے‬
‫علتبا دکھانی دی جس کا چہرہ گ ھیراہٹ سے زرد ہو رہا تھا۔‬
‫”شب تھبک ہے دامیر کہاں ہے؟ وہ آپ لوگوں کے شاتھ تھا نا۔ ڈرنک ئے‬
‫کجھ نبانا ہی نہیں مجھے۔“ وہ چنہ اور رنان کے فرنب آئے نیزی سے شوال کرئے لگی۔‬
‫گ ھیراہٹ ئےمعنی نہیں تھی۔‬
‫”دامیر زچمی ہے بو ڈاکیر جبک کر رہے ہیں۔“ چنہ ئے اس کو کبدھے سے‬
‫تھا منے ہوئے کہا۔ علتبا کی تگاہ آپرنشن روم کے لتبل پہ گنی چہاں آپرنشن کی النٹ‬
‫آن تھی۔‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ف‬ ‫ت‬
‫”بو پہ آپرنشن ک نوں؟“ وہ بوکھالئے ہوئے بولی۔ آنکھوں میں ئے نی سی ھی۔‬
‫ع‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫”اسے گولی ھی گی ہے“ چنہ آہشنہ سے بولی کہ لتبا ئے منہ پہ ہاتھ رکھ لبا۔‬
‫آنسو نہنے لگے۔‬
‫”لبکن تم لوگوں ئے بو کہا تھا کہ وانس آؤ گے اور شب تھبک ہو جائے گا بو پہ‬
‫ج‬ ‫ع‬ ‫ج ً‬
‫کٹسے؟“ وہ ا نحاجا صے سے النی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪966 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”وہ تھبک ہے نس ڈاکیر اس کو جبک کر رہے ہیں۔“ چنہ سمجھائے ہوئے‬


‫بولی‪ ،‬علتبا ہاتھ چھبک کے خود انک نتنچ پہ آگنی اور جاموسی سے آنسو نہائے لگی۔ رنان‬
‫ئے انک نار تھی اس کی طرف نہیں دنکھا تھا۔‬
‫وہ اننی ک یق نت چھبا رہا تھا۔‬
‫گولی تکا لنے کا عمل زنادہ طونل پہ تھا‪ ،‬آدھے گ ھتنے تغد ہی آپرنشن روم کی النٹ‬
‫جتنج ہونی بو رنان کا دھبان اس طرف ہوا۔ وہ کب سے خود کو کمزور پڑئے سے روک رہا‬
‫ن‬
‫تھا‪ ،‬ضیط کی زنادنی سے آ کھیں سرخ ہو رہی ت ھیں۔‬
‫مزند دو منٹ تغد دروازہ کھال بو رنان اس طرف ل یکا۔ ڈرنک‪ ،‬چنہ اور علتبا تھی اننی‬
‫جگہ سی اتھی۔‬
‫َ‬
‫ن‬
‫”آپرنشن اچھا گبا ہے امبد ہے کہ سر کو جلدی ہوش آجائے۔ ان کا لس رنٹ‬
‫سبل ہے۔ ہم ئے نتبڈج کر دی ہے۔ نلڈ کا انک نبگ ہمیں مل گبا تھا لبکن ہمیں‬
‫مزند جا ہنے ورپہ ان کا جلدی ہوش میں آنا ۔۔۔“ ڈاکیر ا ننے پروفٹسبل انداز میں‬
‫تقصبالت سے آ گاہ کر رہا تھا لبکن آخر میں رنان کے ند لنے ناپرات دنکھنے چپ ہو گبا۔‬
‫”انکشک نوز می۔۔“ انبا کہہ کے ڈاکیر وہاں سے گزرا اس سے نہلے رنان اس پہ‬
‫چھنتبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪967 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہم نٹسنٹ کو شفٹ کر رہے ہیں آپ ان کے ناس جا شکنے ہیں۔“ روم سے‬
‫انک دو اور ڈاکیر تکلے خو انہیں اطالع کرئے دامیر کا سیرنجر دوسرے روم میں لے جا‬
‫رہے تھے۔‬
‫جس ڈاکیر کو پہ شاتھ الئے تھے وہ اِ ن لوگوں کو ا چھے سے جانبا تھا نتھی فوری مدد‬
‫کر گبا اور نہاں کے انک پرابو نٹ استبال میں موخود تھے۔ چہاں ان کے ناقی آدمی‬
‫تھی اکیر انڈمٹ ہوئے تھے۔‬
‫دامیر کے شفٹ ہوئے ہی رنان نیزی سے کمرے میں داجل ہوا۔ اس کی‬
‫ڈرنسبگ کر دی گنی تھی۔ چہاں کجھ فبل خون رس رہا تھا اب وہاں شقبد نتباں تھی۔‬
‫”نار میں نمہیں نہیں دنکھ شکبا ا نسے۔“ رنان جلبا ہوا اس کے فرنب آنا۔‬
‫علتبا اور چنہ تھی نہیں موخود تھیں۔ علتبا کے آنسو نہیں تھم رہے تھے دامیر کو‬
‫ا نسے دنکھنے۔ چنہ ئے رنان کے کبدھے پہ ہاتھ رکھا۔‬
‫”ڈاکیر کو نالؤ۔۔“ وہ جد درجہ سنجبدگی سے بوال۔ چنہ ئے ڈرنک کو اشارہ کبا۔‬
‫”نمہیں میں ئے کہا تھی تھا کہ اس کو کجھ نہیں ہونا جا ہنے۔ اس کو البکیرک‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫لک‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫سیروک دو نا کجھ کرو۔ وہ آ یں ھولے ورپہ یں نا ل نمہارا لحاظ یں کروں گا۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪968 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان ڈاکیر کی گردن کو دبوجبا ہوا سرد لہچے میں بوال کہ ڈاکیر بوکھال اتھا۔ علتبا تھی وجشت‬
‫ن‬
‫کے مارے اتھ کھڑی ہونی خو دامیر کے ناس اسنول پہ تتھی تھی۔‬
‫”ڈرنک خو تھی اِ س سے نہیر ڈاکیر ملے اس کو نہاں نلواؤ آج۔“ ڈاکیر کی گردن‬
‫کو چھبکے سے چھوڑے وہ ڈرنک سے بوال خو انبات میں سر ہال گبا۔‬
‫دامیر سر کی جاطر رنان کا پہ انداز ڈرنک کے لنے نبا نہیں تھا جبکہ چنہ اور علتبا‬
‫اس کے انداز پہ شاکت تھیں۔ رنان کو دنکھنے انشا لگ رہا تھا جٹسے وہ نل میں پہ‬
‫ہوستبل فبا کر دے گا۔‬
‫ُ‬
‫”سر۔۔۔“ ڈرنک کی آواز ئے رنان کو م نوجہ کبا۔ اس کے اشارے پہ وہ دامیر‬
‫ن‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ل‬‫ن‬ ‫ھ‬
‫کو د نے لگا۔ کوں یں ٹش ہونی۔‬ ‫ک‬‫ن‬

‫”دنکھو اسے جلدی۔“ کمرے میں رنان کی دھاڑ گونچی بو ڈاکیر خرکت میں آنا۔‬
‫علتبا ئے دامیر کا ہاتھ تھامے رکھا۔ وہ ہوش میں آرہا تھا۔‬
‫”سر آپ ہمیں دس منٹ دے شکنے ہیں ان کے شاتھ۔“ ڈاکیر ڈرئے ہوئے‬
‫رنان سے محاظب ہوا جس کی ئےناب تگاہ دامیر پہ نکی تھی۔ رنان کے ناپرات ا نسے‬
‫تھے جٹسے وہ اتھی رو دے گا۔ دامیر ہوش میں آرہا تھا۔ اس کی اننی دھڑکن پڑھ رہی‬
‫تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪969 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ ئےرچم رنان ا ننے دامیر کے لنے جد سے زنادہ خزنانی تھا۔ وہ دنبا کھو شکبا تھا‬
‫لبکن دامیر نہیں۔ چنہ ئے آگے پڑ ھنے رنان کا نازو تھاما ناکہ وہ ناہر و نٹ کر شکنے۔‬
‫ب‬ ‫ُ‬ ‫ن‬ ‫ل‬‫م‬
‫علتبا ئے چی تگاہوں سے ڈاکیر کو د کھا کہ اسے دامیر کے ناس ر ہنےدیں کن‬
‫ل‬ ‫ن‬
‫انہوں ئے م یع کر دنا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫گالس ڈور کے نار دامیر کا وخود دکھانی دے رہا تھا۔‬
‫اسے انک اور خون کی ڈرپ لگی تھی۔ ڈاکیر کے مطابق وہ حظرے سے ناہر تھا‬
‫لبکن انتنی اتقبکشن مبڈنسیز کی وجہ سے وہ اتھی ع نودگی میں رہے گا۔ علتبا کا رونا اب‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫نت ن‬
‫نبد ہو حکا تھا۔ وہ نچ پہ ھی ا نی زندگی کے نارے یں شوچ رہی ھی۔ زندگی کبا ھی‬
‫ُ‬
‫اور کبا ہو گنی‪ ،‬تگاہیں شا منے ر کھے وہ غیر مرنی تقطے کو گھوری جا رہی تھی۔ آج اس‬
‫ئے انک چیز محسوس کی تھی۔‬
‫دامیر کو اِ س سے زنادہ تھی کونی جاہبا تھا‪ ،‬علتبا سے زنادہ کونی اور تھی اس کی‬
‫ت‬ ‫ُ‬
‫زندگی جاہبا تھا خو اس کے لنے رونا ھی تھا۔‬
‫چنہ روم سے ناہر آنی‪ ،‬وہ انبا نازو مشل رہی تھی۔ اس ئے دامیر کو نلڈ دنا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪970 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ک‬‫ن‬
‫”تم دامیر کو مج نوں کہنے ہو‪ ،‬خود کی جالت د ھی م ئے۔“ چنہ اسبہزاننہ انداز‬
‫ت‬
‫ن ن‬
‫میں رنان کو جبانی ہونی بولی کہ ماخول چھانی جبکی کو کم کر شکے۔ رنان ئے ا نی آ یں‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫صاف کیں۔ وہ مشکرانا نہیں تھا۔ سبل کھڑا رہا۔ نت نٹ کی ناکٹس میں ہاتھ ڈالے۔‬
‫ُ‬
‫”وہ سحص نبدرہ شال سے اننی زندگی کی پرواہ کنے نبا میری حقاظت کرنا رہا۔ اسے‬
‫مج ُ‬
‫اننی جان سے زنادہ میری جان عزپز ہے۔ اور ھے اس کی۔ رنان ڈی ئے اگر زندگی یں‬
‫م‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫م ُ‬
‫آنکھ نبد کے تھروسہ کبا بو وہ دامیر ہے۔ یں اسے ھوئے کا شوچ ھی یں شکبا۔‬
‫ہ‬ ‫ک‬
‫م‬ ‫ُ‬
‫میری زندگی اس سے خڑی ہے۔۔ اس کی ہر آنی جانی شانس سے یں شانس لتبا‬
‫ہوں۔“ رنان سنجبدگی سے کہبا جا رہا تھا۔ وہ انبا دل چیر کے تھی دکھانا بو دامیر کے لنے‬
‫وہ القاظ پہ کہہ نانا خو وہ محسوس کرنا تھا۔ اس کی آنکھوں اتھی تھی نمکین نانی تھا‬
‫جبہیں وہ روک نہیں رہا تھا۔‬
‫ت‬ ‫ُ‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ننج نت ن‬
‫ھے نچ پہ ھی لتبا محو نت سے اسے شن رہی ھی۔‬
‫”وہ تھبک ہے اب۔“ چنہ پرمی سے اس کے حصار میں آنی۔ رنان وافعی نہت‬
‫ڈسیرب ہوا تھا۔ وہ جاننی تھی۔‬
‫علتبا کو تھر سے رونا آئے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪971 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ ان لوگوں سے دور جانا جاہنی تھی خو انک دوسرے پہ جان لبائے تھے۔‬
‫س‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫آ یں پرسنے گی کہ وہ شدت سے دامیر کے ناس جانا جا نی ھی ناکہ وہ اس سے تنے‬
‫ُ‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫چ‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ُ‬
‫سے لگ کے نبانی …وہ اسے ھی ھوڑنا یں جا نی۔ وہ شاری زندگی اس کے شاتھ‬
‫ت‬ ‫ُ‬
‫رہے گی جاہے خود وہ کتنی تفرت دکھانی اور جبانی لبکن وہ اس سے مجنت کرنی ھی۔‬
‫روئے کی آواز پہ چنہ ئے خونک کے ننجھے دنکھا۔ رنان ئے اس کے گرد سے نازو‬
‫ہبائے۔‬
‫”تم علتبا کے ناس جاؤ میں دامیر کو جبک کر لوں۔“ رنان کہبا ہوا گالس ڈور‬
‫دھکبل کے اندر پڑھا۔‬
‫چنہ جلنی ہونی اس نک آنی اور شاتھ نتتھ گنی۔‬
‫چنہ ئے دامیر کو خون دنا تھا۔ وہ اس کی مشکور تھی ک نونکہ ان ئے تھی دامیر کی‬
‫جان نحانی تھی۔‬
‫”رنان دامیر کے لنے نہت جشاس ہے نا۔“ علتبا ئے اداسی سے اس کے‬
‫کبدھے پہ سر تکائے کہا۔‬
‫”ہوں۔“ اس ئے سر ہالنا۔ ا ننے مسکل دن کے تغد کجھ شکون کے لمحات‬
‫مٹسر آئے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪972 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہت زنادہ۔ میں ئے نہلی نار اس کی آنکھوں میں آنسو د نکھے۔ وہ زندگی میں‬
‫دوسری نار رونا ہے۔“ چنہ ئے تگاہیں شا منے کرئے ہوئے سنجبدگی سے کہا۔ علتبا‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫نا ھی سے د کھنے گی۔‬
‫”دوسری نار!“‬
‫ُ‬
‫”نہلی نار ا ننے ماں ناپ کی موت پہ۔“ چنہ ئے اسی انداز یں کہا۔ لتبا جٹسے‬
‫ع‬ ‫م‬
‫سمجھ کے سر ہال گنی۔‬
‫”نہت نبار کرئے ہو نگے نا۔“ علتبا تھرائے لہچے میں بولی۔‬
‫”نہیں۔۔“ چنہ ئے تقی میں سر ہالنا وہ تھر خونکی۔‬
‫”تھر۔۔“‬
‫ت ُ‬
‫”رنان نہلی نار اننی ماں کی موت پہ رونا تھا ھر اس ئے ماں کو مارئے والے‬
‫ناپ کو مار دنا۔“ چنہ نالکل سنجبدگی سے بولی کہ علتبا کا دماغ اس کی نات کو پروسٹس‬
‫کرئے لگا کہ آنا چنہ ئے کبا کہا تھا۔‬
‫”علتبا آجاؤ۔۔“ اس سے نہلے وہ کجھ کہنی‪ ،‬رنان ئے دروازہ کھولے علتبا کو اندر‬
‫آئے کا کہا۔ علتبا کا دل محل اتھا۔ وہ دامیر کے ناس جانا جاہنی تھی‪ ،‬اس کے حصار‬
‫میں جانا جاہنی تھی لبکن اس وفت ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ اس کے قدم نتھر ہو‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪973 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گنے تھے۔ کجھ دپر فبل چب وہ دامیر کے ناس تھی نب دامیر کی جالت دنکھنے وہ مزند‬
‫نکھر گنی تھی۔‬
‫وہ علتبا کو کہہ کے گبا تھا کہ اگر علتبا دور جانا جاہنی تھی بو دامیر کے مرئے کا‬
‫ان یطار کرے۔ اور دامیر ئے کس انداز میں علتبا کو مجنت کا سنق شکھانا تھا۔‬
‫ہر انک کی ک یق نت الگ تھی۔ شب کے خزنات دامیر سے خڑے تھے۔ چنہ پہ‬
‫دامیر کا فرض تھا کہ اس ئے اننی جان کی فرنانی د ننے انک معصوم کی جان نحانی‬
‫تھی۔‬
‫ُ‬
‫رنان ڈی کے بو نام میں دامیر شامل تھا۔ وہ کٹسے اسے ا نی زندگی سے جائے‬
‫ن‬
‫د نبا۔‬
‫اور علتبا‪ ،‬جس زندگی سے وہ تھاگبا جاہنی تھی اب وہی زندگی وہ دامیر کے شاتھ‬
‫گزارنا جاہنی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫اندر کا ماخول عج نب ہی وجشت ناک تھا۔ علتبا کو نہاں رکبا نالکل نسبد نا آنا۔‬
‫ل‬‫ج‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ُ‬
‫اسے دامیر کا نہاں ا نسے لنتبا نسبد یں آنا تھا۔ وہ نی ہونی دامیر کے نبڈ کی جانب‬
‫پڑھی۔ پران نو نٹ روم تھا جس کی وجہ سے روم کاقی کشادہ تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪974 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان جاموسی سے دانیں جانب موخود صوقہ سنٹ پہ نتتھ حکا تھا۔ علتبا کے شاتھ‬
‫داجل ہونی چنہ تھی جلنی ہونی رنان کے ناس ہی نتتھ گنی۔‬
‫علتبا ئے انک تظر رنان کو دنکھا خو اسی کو دنکھ رہا تھا۔ رنان کے اشارے پہ‬
‫علتبا دامیر کے شاتھ ہی نبڈ پہ نتتھ گنی۔‬
‫”تم شوئے ہوئے نالکل ا چھے نہیں لگنے۔۔“ دامیر کے ہاتھ پہ انبا ہاتھ رکھنی وہ‬
‫ن‬
‫ئےشاچنہ کہہ اتھی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ دامیر کو کتھی شوئے ہوئے د نی‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫ک نونکہ ہمٹشہ وہ اس سے نہلے اتھ جانا تھا۔ لبکن آج چب وہ نتبد میں تھا بو علتبا کو‬
‫نالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔‬
‫فظرہ فظرہ الل محلول نارنک نالی سے گزرنا ہوا دامیر کی نس میں جا رہا تھا۔ اس کا‬
‫کبدھے پہ ہلکی ننی کر رکھی تھی۔ مرہم لگنے کی وجہ جلنے والی جگہ کو نانٹ ننی سے‬
‫نہیں نبدھا تھا۔‬
‫چہرے اور گردن پہ تھی نتبڈج کی گنی تھی۔‬
‫وہ علتبا کا طالم ئےرچم سہزادہ اس وفت ئےچیر شو رہا تھا جس سے علتبا کی‬
‫تکل یف میں نل نل اصاقہ ہو رہا تھا۔‬
‫اس کا ہاتھ تھامے وہ مشلشل اتگل نوں پہ تگاہ چمائے ہونی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪975 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫جٹسے انک معصوم نحہ اننی چیز کھو جائے پہ اداس شا نتتھا رہبا ہے و نسے ہی علتبا‬
‫کے چہرے کے ناپرات تھے۔‬
‫پرائے شکوے تھالئے اس وفت ننے شکووں کا انبار سج رہا تھا کہ وہ ک نوں اس‬
‫سے روتھا تھا۔ ک نوں ا نسے ن یگاپہ اور التغلق شا پڑا تھا۔‬
‫علتبا ئے کن اکھ نوں سے رنان کو دنکھا خو نہلے کی نانسنت پرشکون انداز میں‬
‫صوفے سے نبک لگائے نتتھا تھا۔ جبکہ چنہ کے چہرے پہ تھوڑی تھکن دکھانی دے‬
‫رہی تھی۔‬
‫ڈرنک ان کے لنے گھر سے کجھ کھائے کو لے آنا ناکہ وہ فرنش ہو شکیں لبکن‬
‫علتبا ئے اتکار کر دنا ک نونکہ اس کا دل نہیں کر رہا تھا۔ دامیر کو و نسے ہوش آگبا تھا۔‬
‫اس کا دل اب نارمل ستبڈ پہ دھڑک رہا تھا لبکن شکون آور دوان نوں کے زپر وہ ع نودگی‬
‫میں تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫انہیں نہاں رکے رات ہوگنی تھی۔ رنان چب سے نہاں تھا انک نل تھی دامیر‬
‫ت‬ ‫ت‬‫م ن ن‬
‫سے خود کو اوچھل نہیں ہوئے دنا تھا۔ نہی جال علتبا کا تھا۔ وہ بو حشمہ نے ھی‬
‫تھی دامیر کے ناس۔ اِ سی کی تھکن کا جبال کرئے رنان ئے چنہ کو تکارا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪976 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ل‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫ُ‬


‫”ملٹسکا!“ رنان کی آواز پہ اسے خونک کے د ھنے گی۔‬
‫”نمہیں رنشٹ کرنا جا ہنے‪ ،‬وانس جاؤ گھر۔ صنح آجانا۔“ وہ سنجبدگی سے بوال۔‬
‫”ا نسے علتبا کو نہاں اکبال چھوڑے؟“ وہ البا اس سے اسیقشار کرئے لگی۔‬
‫”میں ہوں اس کے شاتھ۔ نمہیں تھی رنشٹ کرنا جا ہنے۔“ وہ پرمی سے بوال اور‬
‫اس کا ہاتھ تھام کے ہون نوں نک لے گبا۔‬
‫چنہ ئے انک تظر علتبا کو دنکھا۔‬
‫ُ‬
‫وہ خود تھی اتھی نک لبام سے نہیں ملی تھی جبکہ اس کی کالز نارہا آ کی یں۔‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ج‬

‫دامیر کو ا نسے چھوڑ کے جائے کا دل نہیں تھا کہ وہ اجشان فراموش پہ ین جائے۔‬


‫ش‬ ‫ت‬ ‫کھ‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫ی‬ ‫ل‬
‫اس کی آ کھ نے کا ان طار اس کو ھی تھا ناکہ وہ اِ س انشان کا کرپہ ادا کرنی جس‬
‫ئے معصوم کل نوں کی زندگی چہتم نتنے سے نحانی تھی۔‬
‫”میں نہی رک جانی ہوں‪ ،‬ادھر ہی آرام کر لوں گی۔“ نآلخر وہ ف یصلہ کرنی ہونی‬
‫بولی کہ اسی صوفے پہ لنٹ جائے گی۔‬
‫”نہیں نہاں نہیں۔ میں انک اور روم لے لتبا ہوں۔ تم وہاں رک جانا۔“ رنان‬
‫اس کی نات پہ شوجبا ہوا بوال خو چنہ کو پہ مباشب لگا۔ علتبا کو تھی آرام کی ضرورت‬
‫ن‬
‫تھی جس کی آ یں پرسنے سے ناز یں آرہی یں۔‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪977 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان ئے چنہ کا تھامے اس کو کھڑا کبا۔ چب سے آئے تھے‪ ،‬جتنج تھی نہیں‬
‫کبا تھا۔‬
‫وہ جائے لگے نب تھی علتبا ئے بوٹ نہیں کبا تھا۔‬
‫”علتبا!“ چنہ ئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھا۔ وہ خونکی۔ اسبہقامنہ تگاہوں سے‬
‫اس کو دنکھنے لگی۔‬
‫”لنٹ جاؤ۔۔ تھک جاؤ گی۔“ وہ پرمی سے دامیر کے شاتھ ہی اس کو اشارہ کرنی‬
‫بولی۔‬
‫”میں دوسرے روم میں ہوں۔ کجھ جا ہنے ہوا بو۔۔“ چنہ اتھی کہہ رہی تھی چب‬
‫رنان بول اتھا۔‬
‫”میں ناہر ہی ہوں۔ تم دوبوں آرام کرو۔ میں شب دنکھ لوں گا۔“ وہ سنجبدگی‬
‫سے بوال۔ علتبا انبات میں سر ہال گنی۔‬
‫وہ رنان کے شاتھ ناہر تکل گنی اور علتبا نبڈ سے کھڑی ہونی لبکن اس کا ہاتھ‬
‫دامیر کے ہاتھ میں تھا۔‬
‫اننی دپر سے اس کو اندازہ ہی نہیں ہوا تھا دامیر کے ہاتھ ئے گرفت نبانی تھی۔‬
‫تعنی وہ انبا تھی عاقل نہیں تھا نبہوسی میں تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪978 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ہلنے سے علتبا کو اننی کمر میں درد محسوس ہوا۔ وہ کاقی دپر سے انک ہی بوزنشن‬
‫میں تھی بو درد جاگ گبا تھا۔‬
‫نبڈ کشادہ تھا۔ علتبا آرام سے لنٹ شکنی تھی۔ انبا ہاتھ اس کی گرفت سے‬
‫ً‬
‫تکالے تغیر خونا انارئے علتبا دامیر کے پراپر لنٹ گنی۔ وہ چت لتبا تھا۔ علتبا اجتباط‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ل‬ ‫ُ‬
‫اسی طرف نی ھی جس شانبڈ دامیر کا کبدھا ھبک تھا۔‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ُ‬
‫اس کی ڈرپ کب کی م ہو کی ھی اب وہاں انک ن نپ لگانی ھی۔ ڈنڈنانی‬
‫تگاہوں سے اس کا چہرہ فرنب سے دنکھنے علتبا ئے آہشنہ سے اتگل نوں کے بوروں سے‬
‫اس کے چہرے کو چھوا۔‬
‫”آنی اتم شوری دامیر‪ ،‬میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔ مجھے انشا نہیں کرنا جا ہنے‬
‫تھا۔“ وہ خود کو روئے سے پہ روک نانی۔ آج کے دن علتبا جتبا رو جکی تھی شاند ہی‬
‫کتھی ا ننے آنسوں نہائے ہوں اس ئے۔‬
‫”تم مجھ سے نات کرو نا۔۔ مجھے تکارو جٹسے ہر نار تکارئے تھے۔ جاہے عصے میں‬
‫تھی۔“ وہ اننی عمر سے کاقی چھونی لگ رہی تھی خو نحوں کی طرح روئے اس سے‬
‫شکوے کر رہی تھی۔‬
‫اجانک دروازہ کھلنے کی آواز پہ علتبا خونک کے اتھنے لگی کہ رک گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪979 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آرام کرو علتبا۔“ رنان ئے سنجبدگی سے بوکا لبکن وہ حق یف سی ہو گنی اننی‬


‫جالت پہ۔ وہ دامیر کے فرنب لتنی تھی۔ رنان نبا اس پہ تظر ڈالے صوفے سے انبا‬
‫چھوڑا مونانل اتھائے ہوئے وانس ناہر جال آنا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫کارگو ڈرنسبگ میں چنہ کو اب الجھن ہونا سروع ہونی تھی۔ وہ جتنج کرنا جاہنی تھی‬
‫اور ممکن نب ہونا چب وہ وانس گھر جانی۔‬
‫نتھی اننی جبکٹ انارے اس ئے شانبڈ پہ رکھی‪ ،‬اب وہ شل نو لٹس سباہ سرٹ‬
‫میں مل نوس تھی۔ کہنی پہ نبا جافو کا نت نو واصح تھا۔ رنان ئے پران نو نٹ روم نک کروا لبا‬
‫تھا اپز آ نٹسنٹس فتملی ناکہ وہ نہاں تھہر شکنے۔‬
‫نہاں رہبا و نسے تھی مسکل نہیں تھا۔ اننچ ناتھ میں جا کے ا ننے چہرے پہ‬
‫چھنتنے مارے وہ وانس آنی بو رنان اندر آرہا تھا۔‬
‫اس کو ا نسے دنکھنے وہ رک گبا جس کے چہرے سے شقاف نانی کے فظرے‬
‫نبک نبک رہے تھے اور وہ آس ناس نٹسو کے لنے تظریں دوڑا رہی تھی۔‬
‫ا نسے ہی نانی کو چہرے پہ ر ہنے دنا کہ خود جشک ہو جائے گا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪980 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کجھ جا ہنے اتھی؟“ رنان جلبا ہوا نبڈ کے فرنب آنا۔ چنہ ئے خون دنا تھا بو اس‬
‫کو فرنش خوس نتنے رہبا جا ہنے تھا نتھی بوچھنے لگا۔‬
‫اچھی سنٹس تھی نہاں وہ دوبوں نہاں لنٹ شکنے تھے لبکن چنہ جاننی تھی کہ وہ‬
‫شوئے گا نہیں۔‬
‫”نہیں مجھے نس الجھن ہو رہی ہے ان کیڑوں میں۔“ وہ دھیرے سے بولی اور‬
‫اس سے کجھ قاصلے پہ نتتھ گنی۔‬
‫”تھتبکس ملٹسکا!“ رنان گہرا شانس ت ھرئے اس کی طرف ُرخ کرنا ہوا مم نون لہچے‬
‫میں بوال کہ چنہ ئے الجھ کے اس کو دنکھا۔‬
‫م‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”ک نوں؟“ وہ نا ھی و الع لی سے بولی۔‬
‫”تم ئے دامیر کی جان نحانی۔ تھتبک بو شو مچ۔“ رنان وافعی مشکور تھا۔ چنہ‬
‫ئے نہلی نار دنکھا ہو گا کہ رنان شکرپہ ادا کر رہا تھا وہ تھی ا ننے ا چھے طر تقے سے۔‬
‫ئےشاچنہ وہ ہلکا شا کھلکھالنی۔‬
‫”رنان تم ان نل نو نبل ہو۔“ وہ تقی میں سر ہالنی ہونی بولی۔‬
‫”دامیر ئے میرے لنے نہت کجھ کبا ہے اس کے مقا نلے میں میرا عمل نہت‬
‫ت‬ ‫ت‬‫مظم ن‬
‫چھونا ہے رنان۔ اگر تم دوبوں پہ ہوئے بو شاند میں اس وفت ین پہ ھی ہونی۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪981 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ ئے انبان نت سے اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھا۔ رنان کی ہلکی سنو کی چھین ہتھبلی‬
‫پہ محسوس ہونی۔‬
‫رنان مشکرانا۔ وہ اس کو چھو رہی تھی۔ لمس کی عادت ہو جلی تھی۔ جس لڑکی کو‬
‫چھوئے جائے سے الرجی تھی وہ اب خود اس کو محسوس کرنی تھی۔‬
‫اس کی آنکھوں کی چمک پڑھی۔ پزدنکی و فرنت کا اجشاس پڑھا۔‬
‫”انک شوال کروں!“ چنہ ئے اجانک کہا۔ تگاہوں کا تصادم ہوا‪ ،‬رنان ئے‬
‫چہرے پہ ر کھے اِ س کے ہاتھ کو ل نوں سے لگانا اور سر ہلنے گونا اجازت دی۔‬
‫”اگر کتھی میں اور دامیر انک ہی سحونشن میں تھٹسے ہوں بو تم کس کو نحاؤ‬
‫ک چ‬
‫گے؟“ وہ اس کی آنکھوں میں د نکھے’ نبا سی ک کے شوال کر نی‪ ،‬دامیر کے‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ج‬‫ھ‬
‫ُ‬
‫م‬ ‫ش‬
‫لنے خو روپ رنان کا شا منے آنا تھا اس سے چنہ کاقی مباپر اور ر ک حسوس کرئے‬
‫لگی۔‬
‫دامیر سے کونی مقانلہ نہیں تھا وہ نس رنان سے جانبا جاہنی تھی کہ کبا وہ دامیر‬
‫پہ اِ س کو جنے گا۔ نا شاند وہ خواب جاننی تھی۔‬
‫لج ُ‬
‫”دامیر نمہیں نحا لے گا۔“ چنہ کی بوفع کے پرعکس خواب ملنے پہ وہ ا ھی۔ اسے‬
‫تکا تفین تھا کہ وہ دامیر کا نام لے گا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪982 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫لب نمہ ُ‬
‫”وہ خود کو مسکل میں ڈال دے گا کن یں اس سحونشن یں یں آئے‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫م‬
‫دے گا۔“ رنان ئے اس میں انبا زکر نہیں کبا تھا وہ الگ ہی خواب دے رہا تھا جس‬
‫سے وہ مزند الجھی۔‬
‫”انشا ک نوں؟“ چنہ ئے ہاتھ وانس کھتنحا۔ ما تھے پہ ہلکی سی شکن آنی۔‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”ک نونکہ دامیر جانبا ہے کہ چنہ ل نو رنان کی ہے۔“ رنان کی آ یں گہری ہو یں۔‬
‫رنان کے چہرے پہ فجر دنکھنے چنہ کے چہرے پہ مشکراہٹ اتھری۔‬
‫ن‬ ‫ْ‬
‫”چب تم سیف ہو گی بو عالبا یں دامیر کی مدد کروں گا۔“ رنان ئے ا نی نات‬
‫م‬
‫ن‬ ‫م‬
‫کمل کی اور آخر میں مشکرانا جٹسے شاطر مسکان۔ چنہ اس کا خواب ستنے آ کھیں گھما‬
‫گنی۔‬
‫وہ نات گھما کے اچھا خواب دے گبا تھا۔‬
‫رنان ئے اس کا چہرہ تھاما اور آہشنہ سے مجنت تھرا لمس چھوڑا۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫ک‬ ‫ق‬‫ت‬ ‫ن ُ‬
‫”ا نی اس لی اوالد سے ہو کہ ھے نار نار فون کرنا نبد کرے۔“ اس کے سرخ‬
‫ہوئے رجشار کو سہالئے ہوئے وہ تھوڑا ناگواری سے بوال۔‬
‫تقلی اوالد! چنہ الجھی۔ لبام!‬
‫آنکھوں میں سجنی در آنی اور رنان کو گھورئے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪983 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمیز سے نات کبا کرو۔“ وہ نانسبدندگی سے بو کنے لگی‪ ،‬رنان ئے اس کے سرخ‬


‫رجشار سے تظریں ہبائے آنکھوں میں دنکھا۔‬
‫”تم ک یفرنتبل نہیں تھی اِ ن کیڑوں میں۔“ وہ نات ندلبا اس کے کیڑوں کی‬
‫طرف اشارہ کر کے بوال۔ ”میں ا ننے دے دوں؟“ سنجبدگی سے کبا گبا غیرسنجبدہ شوال۔‬
‫چنہ ئےشاچنہ سنتبانی۔ اس سے دو منٹ نات کرئے کے تغد وہ انبا مطلب‬
‫ضرور تکالبا تھا۔ نا وہ ضرف ا ننے مطلب کی ہی نات کرنا تھا۔‬
‫”میں تھبک ہوں ا نسے اور شونا ہے مجھے۔“ چہرے سے ہاتھ ہبائے وہ تگاہیں‬
‫ت ھیر گنی کہ رنان محظوظ ہوا۔‬
‫”تم ناہر جاؤ گے؟“ رنان کو اتھبا دنکھ چنہ ئے شاچنہ بول اتھی۔ وہ جاہنی تھی‬
‫کہ اِ س کے ناس ہی رہے۔‬
‫”رات کاقی ہو گنی ہے بو تم تھی تھوڑی دپر آرام کر لتنے۔ میں جاننی ہوں‬
‫نمہیں نتبد بو آنی نہیں۔“ انبا نکنہ سنٹ کرنی ہونی وہ شادہ لہچے میں بولی۔ رنان ئے‬
‫گہری تگاہوں سے اس کو دنکھا جس ئے نات کرئے تظریں نہیں اتھانی تھیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪984 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں نہاں آرام کرئے کو رکا بو تم سے آرام نہیں ہو نائے گا تھر۔۔“ آنکھوں‬
‫میں چمک لنے وہ زومعت نت سے بوال کہ چنہ چہرے پہ امڈ آئے والی مشکراہٹ کو روک‬
‫گنی۔ آپرو اتھائے اسے دنکھا۔‬
‫”ج نپ ڈانالگز۔۔“ وہ طیزپہ بولی کہ رنان منٹشم ہوئے اس کی جانب پڑھا۔ دوبوں‬
‫اطراف میں ہاتھ تکائے۔‬
‫چ‬ ‫ن‬
‫”رک جاؤں؟“ آنکھوں میں آ کھیں ڈالے گھمئیر لہچے میں بوچھا۔ وہ کی۔ تھوڑا‬
‫ھ‬ ‫ج‬‫ھ‬

‫کھلکھالنی تھر چہرہ موڑے اس کے ستنے پہ ہاتھ دھرے۔ اس سحص کا ناس آنا اب‬
‫دل کو تھانا تھا۔‬
‫اس ئے رنان سے کجھ کہا نہیں تھا نس رخ ت ھیر گنی تھی۔ اس کو جائے کا‬
‫کہنے کے لنے دل نہیں تھا اتھی لبکن وہ رکے گا تھی نہیں۔ پہ تھی جاننی تھی۔ دامیر‬
‫کے دروازے کے نار نتتھا رہے گا۔ اس کو دنکھبا رہے گا۔‬
‫ت‬ ‫ل‬ ‫ت‬‫ن‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫چنہ ئے آ یں موندیں کہ نی پہ مس محسوس ہوا۔ ھر ا ننے کبدھے پہ۔‬
‫وہ ننجھے ہبا اور النٹ آف کرئے ناہر آگبا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪985 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کارنڈور میں النٹ اب مدھم تھیں ک نونکہ خو نٹسنٹس انڈمنٹ تھے ان کے لنے‬
‫راہداری ڈم النٹ سے روشن کی گنی تھی۔ سباف کی شفٹ جتنج ہونی تھی۔ اتھی تھی‬
‫شب انک نو تھے۔‬
‫اس ئے انک تظر دامیر کے روم کو دنکھا۔ دامیر کے روم سے ناہر آئے سے نہلے‬
‫وہ گالس ونڈو کے نالنتبڈز گرا آنا تھا ناکہ علتبا تظر پہ آئے۔‬
‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ت‬‫ن‬ ‫م‬ ‫ظ‬‫م‬
‫وہ ین تھا اب۔ ناہر موخود نچ پہ تتھ گبا۔ نالوں یں ہاتھ ھیرے سر ھے‬
‫ن‬
‫دبوار سے تکانا۔ گہرا شانس تھرا چہرے پہ ہاتھ ت ھیرئے ا نسے ہی آ کھیں موندیں رکھیں۔‬
‫اس نار حقاظت کرئے کی ناری رنان کی تھی۔‬
‫اکبڈمی سے چب وہ لوگ فری ہوئے تھے نب سے دامیر اس کو گارڈ کرنا تھا۔ وہ‬
‫انک نہیرین کئیر تھا۔ آج تھی اکبڈمی میں ننے اس کے رتکارڈ کو کونی بوڑ نہیں نانا‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬‫س‬ ‫ُ‬
‫ن‬ ‫ب‬
‫تھا۔ اس ئے اشا ٹشن کی ھی پرنت گ لے ر ھی ھی ھی کانیر کٹ شا ین کر لتبا‬
‫تھا۔‬
‫چب ان لوگوں کا کسی دسمن سے ناال پڑنا بو دامیر انک نل تھی شوچے نبا اس‬
‫کے شا منے دبوار ین کے کھڑے ہونا کہ رنان کے حصے کی گولی تھی اس کو چھو کے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪986 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ُ‬


‫گزرنی۔ اسے ا نی جان کی پرواہ پہ ہونی۔ کر ہونی بو نس ا نی کہ رنان کو وہ کور د نبا‬
‫رہے‪ ،‬اسے کجھ پہ ہو۔‬
‫چنہ اور علتبا بو زندگی میں تغد آ نیں۔ دامیر اس کی زندگی کا حصہ تھا۔ دامیر کے‬
‫شواہ کجھ نہیں۔ اور دامیر کے نبا کجھ نہیں۔‬
‫وہ انہیں شوخوں میں گم تھا چب مونانل رنگ پہ شکبا بونا۔ دنکھا بو لبام کال کر‬
‫رہا تھا۔‬
‫”بولو۔۔!“ سباٹ انداز میں ئےزاری دکھانی۔‬
‫”آپ لوگوں ئے کب وانس آنا ہے۔ میں نہاں اکبال بور ہو رہا ہوں۔“ وہ چھالئے‬
‫ہوئے بوال۔ بورنت اس کی آواز میں تھی چھلک رہی تھی۔‬
‫”نبال اور ڈرنک نہیں وہاں؟“ ما تھے پہ نل لنے شوال کبا۔‬
‫”وہ اننی مج نوپہ کو لے تکل گبا ہے۔ ہو شکبا ہے تھاگ گبا ہو۔ میں نہاں اکبال‬
‫ہوں مجھے تھی نال لو وہاں کم از کم وہاں جالی دبواریں بو پہ ہونگی۔“ وہ سحت عاخز آنا تھا‬
‫منٹشن میں اکبلے ر ہنے پہ۔‬
‫”مجھے لگا نمہیں عادت ہو گی اکبال ر ہنے کی۔“ رنان سنجبدگی سے بوال ک نونکہ مبکسبکو‬
‫میں تھی وہ اکبال ہی رہبا تھا بو تھر نہاں بورنت ک نوں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪987 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ُ‬
‫”دو دن میں عادت ہو گنی تھی مجھے جابوروں میں ر ہنے کی۔ اب ان کے غیر‬
‫ت‬
‫دل نہیں لگبا تھا نا۔“ وہ تھی سنجبدگی سے بوال کہ ان شب کو جابور ستنے رنان شلگ‬
‫اتھا۔ نبا کونی دوسری نات کنے اس ئے فون ہی نبد کر دنا۔ پہ لڑکا فصول گونی‬
‫کرکے اس کا ضیط آزمانا تھا۔‬
‫ُ‬
‫ڈرنک کا نمیر ڈانل کرئے اس ئے اسے کال کی۔‬
‫” کہاں ہو تم‪ ،‬نبال اور تم دوبوں گ ھر ک نوں نہیں ہو؟“ رنان ئے سرد مگر سحت‬
‫لہچے میں بوچھا۔ لبام نحہ تھا اتھی‪ ،‬اس کے ناس کسی کو بو ہونا ہی جا ہنے تھا۔‬
‫پراہ راشت بو چھے جائے پہ ڈرنک گڑپڑا شا گبا۔‬
‫”سر ہم گھر کے ناس ہی ہیں۔ نبال اور میں نس والک کرئے تکلے تھے۔“ وہ‬
‫سرمبدگی سی اننی وصاچت د ننے لگا کہ رنان جاموش رہا۔‬
‫”ہم نس جا رہے ہیں گھر۔۔“ انبا کہہ کے ڈرنک ئے کال کاٹ دی۔ رنان‬
‫وہیں نتتھے مونانل پہ کجھ کام دنکھنے لگا۔ اِ سے نازناب کروانی لڑک نوں کی رہانش کا‬
‫ت‬ ‫ک‬‫نتب ت ن‬
‫ان یطام کرنا تھا اور ناقی کی شپ منٹس کی ڈ ل ھی د نی ھی۔ ڈر ک ئے اس کو‬
‫ن‬ ‫ھ‬
‫اطالع دی تھی کجھ لوگ اس سے منتبگ کرنا جا ہنے تھے اور وفت مانگ رہے تھے۔‬
‫ُ‬
‫دامیر سے تھوڑا قارغ ہو کے وہ اس طرف بوجہ دے گا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪988 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫پرابوا میں آئے کے تغد اہمنت زنادہ پڑھ گنی تھی اور لوگ خود اس کی طرف‬
‫رخوع کر رہے تھے ناکہ وہ قاندہ میں رہیں ورپہ پرابوا کے جالف جائے پہ رنان مقانل کی‬
‫شاری آرگباپزنشن نباہ کروا شکبا تھا۔‬
‫ان کا کام جلبا رہبا تھا‪ ،‬دسمن کتھی جتم نہیں ہوئے وہ پڑ ھنے جائے ہیں۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫دامیر کا ہاتھ تھامے وہ گہری نتبد میں تھی۔ انک ہاتھ دامیر کے ہاتھ کی گرفت‬
‫میں تھا جبکہ دوسرا ئےدھبانی میں دامیر کے ستنے پہ دھرا تھا۔‬
‫اس کے چہرے پہ اطمبان تھا وہ شکون تھری نتبد شو رہی تھی۔‬
‫کجھ دپر فبل کی اس کی آنکھ کھلی تھی اور ستنے پہ ہلکی سی تھٹس اتھنے پہ دنکھا بو‬
‫علتبا کا ہاتھ اس کے ستنے پہ آگبا تھا۔ دامیر ئے تھوڑا اتھبا جاہا لبکن کبدھے پہ‬
‫م‬ ‫ن م‬
‫اجانک جلن سی ہونی۔ اس ئے ا ک نار ل خود کا جاپزہ لبا۔‬
‫ک‬
‫”اوفف ا ننے زچم‪ ،‬لگبا وہبل چئیر پہ الئے کا ارادہ ہے۔۔“ وہ ندمزہ ہوا کہ ا نسے‬
‫تھی کبا زچم کہ بورا ندن ہی نت نوں میں جکڑ دنا اس کو۔‬
‫ناس شونی علتبا پہ تگاہ گنی۔ وہ آج تھی اسی کی نی سرٹ اور پراؤزر میں موخود‬
‫تھی لبکن کجھ کمزور سی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪989 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر ئے کروٹ لتنی جا ہنے کہ انک اور تھٹس۔ نشلی کے ناس۔ گولی کا زچم‬
‫تھا اس کے زنادہ ہلنے سے خون ر سنے لگبا۔‬
‫لتبا رہا۔ ا ننے ہاتھ میں موخود علتبا کے ہاتھ کو محسوس کرئے لگا۔ اس کی مدھم‬
‫شانسیں کبدھے پہ پڑ رہی ت ھیں۔‬
‫نبا نہیں کتنی دپر نبہوش رہا تھا‪ ،‬شو جنے ہوئے وہ اس ئے علتبا کا ہاتھ اوپر اتھانا‬
‫کہ ل نوں نک الشکے۔‬
‫ہاتھ کے ہلنے پہ علتبا کی نتبد بونی اور ہڑپڑا سی گنی۔‬
‫ن‬
‫”دامیر تم تھبک ہو۔۔“ وہ بوکھالنی ہونی بولی اور نیزی سے اتھ تتھی لبکن دماغ‬
‫گھوم شا گبا ک نونکہ اس ئے کل صنح کا کھانا کھانا تھا۔ کمزوری پڑھ گنی تھی۔‬
‫”تم اتھ گنے۔۔ “ اس کی کھلی آنکھوں کو د نکھے وہ فرط خزنات سے بولی۔‬
‫”درد بو نہیں ہو رہا کہیں۔ جلن بو نہیں ہو رہی نہاں۔۔؟“ پرمی سے اس سے‬
‫ہاتھ چھڑوانی ہونی م یقکر لہچے میں بولی کہ دامیر مشکرا دنا۔‬
‫”مجھے کجھ نہیں ہوا پرنسٹس‪ ،‬میں تھبک ہوں۔“ اس ئے پرمی سے کہا جبکہ‬
‫دامیر کے نات کرئے پہ وہ روہانشا ہونی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪990 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم کتنے پرے ہو دامیر۔۔“ علتبا تھوڑا آگے ہونی کہ اس کے ستنے سے لگ‬
‫شکنی لبکن تھر رک گنی اور آنکھوں سے سبالب جاری کر دنا۔‬
‫”ادھر آؤ۔۔“ دامیر ئے خود انبا نازو وا کبا کہ وہ اس کی شانبڈ پہ آجائے۔ وہ نبا‬
‫کسی دپر کے اس کے کبدھے سے لگ گنی۔‬
‫”نمہیں درد بو نہیں ہو رہا نا!“ تھر بوچھنے لگی۔ دامیر ئے تقی میں سر ہالنا اور اس‬
‫کی کنتنی کو چھوا۔‬
‫”پرنشانی کی نات نہیں ہے۔ میں تھبک ہوں اب۔ تم ئے انبا جبال رکھا؟“‬
‫کمرے میں اتھی تھی ملگحا شا اندھیرا تھا۔ علتبا ئے خواب د ننے کے نحائے البا‬
‫ل‬ ‫ک‬‫ن‬
‫اس کو شکوہ کباں تگاہوں سے د نے گی۔‬
‫ھ‬
‫”مجھے مس کبا؟“ تکل یف کے ناوخود دامیر ئے تھوڑی کروٹ لی کہ اب علتبا‬
‫اس کے حصار میں فبد ہونی۔‬
‫”میں ئے نمہیں مس کبا دامیر‪ ،‬نہت زنادہ لبکن تم ئے مجھے ہرٹ کبا۔ تم ئے‬
‫مجھے کجھ نہیں نبانا نا مجھے مٹسج کبا اور نا کال۔“ وہ تھرائے لہچے میں اس سے انک نار‬
‫میں ہی شکوے کر گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪991 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اسی لنے میں ڈرنی تھی۔ اِ س شب سے۔“ دامیر مشکرانا نس اس کے شکوہ‬


‫ستنے لگا۔‬
‫”اب تھی دور جانا ہے؟“ دامیر ئے اس کے سر پہ ہونٹ رکھنے بوچھا۔‬
‫علتبا اس وفت ا ننے خزنات نہیں نبا نا رہی تھی کہ وہ دامیر کو محسوس کر کے‬
‫کبا کہے۔‬
‫”میں جاؤں گی دور دنکھبا تم‪ ،‬میں تم سے نالکل نبار نہیں کرنی۔“ وہ البا اس پہ‬
‫جنچی تھی کہ دامیر شکون سے مشکرانا۔ کرنی رہے جتنے مرضی شکوے‪ ،‬اِ س ئے کون‬
‫شا اب دور ہوئے د نبا تھا۔‬
‫”تھر ک نوں مجھ سے لتنی ہو۔۔؟“ وہ مشکراہٹ دنا کے اس کو نبائے ہوئے‬
‫بوال۔‬
‫”نمہیں تکل یف ہے مجھ سے۔“ وہ تھاڑ کھائے والے انداز میں بولی کہ دامیر‬
‫چیران ہوا۔ پہ کٹشا ردعمل تھا خو اس کے ہوش میں آئے کے تغد دے رہی تھی۔‬
‫دامیر کجھ پہ بوال نس چمکنی آنکھوں سے اس کو نہارئے لگا۔‬
‫ک‬ ‫ف ً‬
‫د عبا دروازہ ناک ہوا۔ رنان ئے ہلکا شا دروازہ ھوال۔‬
‫”دامیر۔۔۔!“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪992 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ اندر آنا۔ علتبا چھت نپ کے ننجھے ہنی‪ ،‬تھبگے رجشار کو ہاتھ کی ہتھبلی سے صاف‬
‫ن‬
‫کبا۔ کل سے مشلشل روئے کی وجہ سے آ یں اور ناک سرخ ہو کے ھے۔‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫رنان کے چہرے پہ زندگی سے تھر بور مشکراہٹ اتھری۔ دامیر کے فرنب آنا اور‬
‫نبا کسی زچم درد کی پرواہ کنے اس پہ چھکنے ستنے میں تھتنحا۔ دامیر کو بو نہیں الننہ‬
‫علتبا کو رنان کے اس اظہار پہ درد ہونی۔‬
‫ُ‬
‫”اگر تم اتھی تھی ہوش میں پہ آئے بو میں نمہیں خود اڑا د نبا۔۔“ اس سے دور‬
‫ہوئے ہوئے وہ بوال کہ دامیر مشکرا دنا۔‬
‫”آشانی سے نہیں جائے واال میں‪ ،‬اتھی بو ا ننے نتنے کو نمہارے شاتھ کھبلنے‬
‫دنکھبا ہے۔“ دامیر مشکرائے لہچے میں بوال کہ اس کی اجانک کہی نات پہ علتبا سنتبا‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫س‬
‫اتھی جبکہ رنان نا ھی سے اس کو د کھنے لگا۔‬
‫ج‬

‫”نتبا! میرا تھتنحا۔۔“ رنان دامیر کے نالکل شاتھ نتتھا تھا اور تصدبق جاہی کہ‬
‫دامیر ہٹس دنا۔‬
‫”تم ئے نبانا نہیں؟“ دامیر ئے علتبا سے پراہ راشت بوچھا جس پہ وہ مزند‬
‫گڑپڑانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪993 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ک‬‫ن‬
‫”نہیں مجھے ناد ہی نہیں رہا تھا۔“ علتبا کن اکھ نوں سے د نی ہونی بولی کہ جبا‬
‫ھ‬
‫آرہی تھی۔ خود وہ کسی کو کٹسے نبانی۔‬
‫”پہ تھو لنے والی نات ہے۔“ رنان ئے سنجبدگی سے کہا‪ ،‬علتبا ئے دنکھا نہیں تھا‬
‫لبکن اس کو سرد انداز لگا۔‬
‫جبکہ وہ معنی چیز تگاہوں سے دامیر کو دنکھ رہا تھا۔ ”آنی اتم پراؤڈ آف بو مین۔“‬
‫وہ انک نار تھر دامیر کے اوپر چھکا اور اسے ستنے میں تھتنحا۔‬
‫علتبا کے خودہ ط نق روشن ہوئے کہ اس میں پراؤڈ والی کبا نات۔‬
‫رنان کو خود تھی تھبک پہ لگا کہ دامیر کو ا نسے الجھن ہو گی نتھی اس کو سہارہ‬
‫د ننے نتھائے میں مدد دی۔ شاتھ ہی نبڈ کا پہ حصہ تھوڑا اونحا کر دنا کہ دامیر کی‬
‫گردن تھی پہ تھکنی۔‬
‫”علتبا تم ئے کل کھانا تھی نہیں کھانا تھا۔ اگر ہمیں مغلوم ہونا بو انسی الپرواہی‬
‫نالکل تھی پہ کرئے د نبا میں۔“ رنان کی نات پہ علتبا ئے صدمے سے رنان کو دنکھا‬
‫تھر دامیر کو۔‬
‫اسے آکورڈ شا محسوس ہوئے لگا۔ دوبوں ہی ئےناک تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪994 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”چنہ کہاں ہے؟“ علتبا کو خود ہی نہاں سے بو دو گبارہ ہونا تھا نتھی رنان سے‬
‫بوچھنے لگی۔‬
‫”وہ شاتھ والے روم میں ہے تم اس کے ناس جا شکنی ہو۔“ رنان پرمی سے بوال‬
‫کہ علتبا عاف نت جاننی ہونی نبڈ سے ننچے اپر آنی۔ فرنش ہوکے وہ کمرے سے جائے لگی‬
‫لبکن جائے سے نہلے اس ئے رنان اور دامیر اور شاتھ نتتھے دنکھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫علتبا چنہ والے کمرے میں آنی بو وہ اتھی تھی مِحو خواب تھی۔ وہ جاموسی سے‬
‫اس کے ناس ہی نتتھ گنی۔ اسے تھوک کا اجشاس ہو رہا تھا۔ آنکھوں کی شوزش اور‬
‫سر میں درد تھی اتھ رہی تھی۔‬
‫اتھی نہاں نتتھے اس کو تھوڑی دپر ہی ہونی تھی کہ دروازہ ناک ہوا۔ چنہ کا‬
‫جبال کرنی ہونی وہ اتھی اور دروازے نک گنی۔‬
‫انک آدمی کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں پرے تھی۔‬
‫”سر ئے ناشنہ تھنحا ہے آپ کے لنے۔“ اس ئے مؤدب انداز میں کہا۔ علتبا‬
‫ئے پرے تھام لی اور اندر آگنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪995 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دامیر کٹشا ہے؟“ علتبا اتھی مڑی ہی تھی کہ آواز پہ خونک گنی۔ چنہ اتھ‬
‫ن‬
‫تتھی تھی۔‬
‫”تم ئے مجھے ڈرا دنا۔۔“ وہ آہشنہ سے بولنی ہونی پرے اس نک لی آنی۔‬
‫”دامیر تھبک ہے۔ فرنش تھی لگ رہا تھا۔ رنان اس کے ناس ہے۔“ علتبا‬
‫مشکرانی ہونی بولی۔‬
‫”تم نتتھو میں فرنش ہو کے آنی ہوں۔“ چنہ سر ہالنی ہونی اتھی اور فرنش ہوئے‬
‫گنی۔ علتبا اس کے ناہر آئے کا ان یطار کرئے لگی۔‬
‫ان دوبوں ئے مل کے ناشنہ کبا اور وانس دامیر کے روم میں آ گنے۔‬
‫چہاں وہ رنان سے منٹشن میں وانس جائے کا زکر کر رہا تھا ک نونکہ نہاں مزند رکبا‬
‫اس کو کوفت میں متبال کر رہا تھا۔‬
‫رنان ئے تقصبل میں ڈاکیر سے نات کر لی۔ دامیر کی انک نار ڈرنسبگ جبک کی‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫گنی اور وانس جائے کی نباری کرئے لگے۔ علتبا نب سے اس سے قاصلے پہ ہی ھی‬
‫تھی جبکہ دامیر کی تظریں مشلشل اس کا طواف کر رہی ت ھیں۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪996 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اننی جبکٹ اور انک دو چیزیں لتنے وہ دوسرے کمرے میں آنی۔ تھوڑی دپر میں‬
‫وہ تکلنے والے تھے۔ ڈرنک ان کا ننچے ان یطار کر رہا تھا۔ اننی جبکٹ نہن کے اس ئے‬
‫نال ناہر تکالے اور ان کو رف سے خوڑے میں ناند ھنے لگی چب کمر سے رنبگنے ہاتھ‬
‫آگے نبدھے۔‬
‫”دامیر اور علتبا بو اننی فتملی سبارٹ کر جکے ہیں تم تھی کجھ شوخو۔۔“ اس کے‬
‫کبدھے پہ ہونٹ رکھنے ہوئے وہ مجمور لہچے میں بوال۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”کبا مطلب۔۔؟“ وہ نا ھی سے بولی۔‬
‫”نمہیں علتبا ئے نہیں نبانا!“‬
‫رنان کے بوچھنے پہ چنہ ئے تقی میں سر ہالنا کہ کس نارے میں نبانا تھا۔‬
‫”اتکل آ ننی نتنے جا رہے ہیں ہم۔۔۔“ وہ ف ِرط خزنات سے کہبا ہوا جشارت کر گبا‬
‫ل‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫کہ چنہ ئے نہلے نات کو ھنے گی ل کن رنان کی ئےناک خرکت پہ وہ گھورئے گی۔‬
‫”رنبلی۔۔۔“ وہ خوش ہونی۔ رنان ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”اب نباؤ کہ تم کب۔۔؟“ رنان ئے گہری تگاہیں اس پہ تکائے معنی چیزی‬
‫سے بوچھا۔‬
‫ل‬ ‫ہ‬ ‫َ‬
‫”شٹ اپ۔۔۔“ وہ سنتبانی اور اس کے ہاتھ دور کرئے تنے گی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪997 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ہ‬‫چ‬ ‫ج‬‫م‬ ‫َ‬


‫”کبا شٹ اپ۔۔ ھے بو ئےصیری سے ان یطار ہے۔“ وہ کنے ہوئے بوال کہ چنہ‬
‫ئے اس کو گھورا۔‬
‫ک‬‫ن‬ ‫نب‬
‫”نمہارے ا نسے شوق تھی ہیں؟“ وہ ھی ظروں سے د نی بولی۔‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ک‬

‫”شوق نہت ہیں‪ ،‬نمہیں گھر جا کے گ نوانا ہوں۔“ وہ آنکھ دنا کے بوال کہ وہ‬
‫ن‬ ‫گ‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫آ یں ھما نی۔ انک بو اس کے ج نپ رومنتبک ڈا الگز۔ کوفت ہوئے کے ناوخود وہ‬
‫انحوائے کر کے ہٹس دنا کرنی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫رنان ئے دامیر کے آرام کر لنے ہر چیز خود سنٹ کی تھی۔ گاڑی کی سنٹس‬
‫تھی اس ئے سنٹ کی ت ھیں کہ وہ آرام دہ بوزنشن میں رہبا۔ دامیر کو نئیز والی سرٹ‬
‫نہبانی تھی ناکہ اس کو انبا چھلشا ہوا کبدھا موو پہ کرنا پڑے۔‬
‫علتبا اور چنہ دوبوں کو ڈرنک ڈران نو کر کے لے جا رہا تھا جبکہ دامیر رنان کے‬
‫شاتھ تھا۔‬
‫علتبا ئے رنان کو اس کی خرکت پہ گھورا تھی تھا کہ چب وہ دامیر کے شاتھ ہونا‬
‫بو علتبا کو ننجھے ہونا پڑنا تھا جٹسے علتبا نہیں رنان اس کی ن نوی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪998 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ً‬ ‫ن‬
‫گھر ہنجنے علتبا کو انک نار تھر طت یغت نگڑئے کا اجشاس ہوا بو فورا کمرے کی‬
‫طرف تھاگی۔ گاڑی میں نتتھنے کی وجہ سے جالت عج نب ہو رہی تھی۔‬
‫دامیر اس کے بوں جائے پہ چیران ہوا۔‬
‫”اِ س ئے کل کھانا نہیں کھانا تھا آج صنح تھی نس ہلکا شا ناشنہ ہی کبا۔“ چنہ‬
‫اس کو جانا دنکھ بولی۔‬
‫”دامیر نمہارے لنے تھی کجھ نبا دوں؟“ علتبا کے لنے کجھ نبائے کا شوجنی وہ‬
‫کنچن کی پڑھی چب مڑ کے دامیر سے بوچھا‪ ،‬جس ئے محض تقی میں سر ہالنا۔ تظریں‬
‫اس کی نار نار کمرے کی داہداری کی طرف اتھ رہی تھیں۔‬
‫”میرے لنے ملٹسکا!“ رنان ئے اس کو اننی جانب م نوجہ کبا کہ وہ اسبہقامنہ‬
‫ف‬ ‫نک ل ت ً‬
‫تگاہوں سے د ھنے گی اور فتبا کونی صول گونی کرئے واال تھا۔‬
‫”خود کو میرے لنے النا۔۔“ گہری آنکھوں میں چمک لنے بوال کہ چنہ ئے اس کو‬
‫ناد ننی تگاہوں سے گھورا۔‬
‫وہ کنچن میں گنی اور رنان دامیر کو لنے اس کے روم کی طرف پڑھا۔ دامیر علتبا‬
‫کی طت یغت دنکھبا اب ناہر بو نتتھنے نہیں واال تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪999 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫وہ کمرے میں داجل ہوئے بو علتبا نبڈ پہ تتھی سر چھکائے ہوئے تھی۔ دامیر‬
‫کو نسونش ہونی۔‬
‫رنان ئے اسے نبڈ پہ نتھانا۔‬
‫”اگر کہو بو ڈاکیر کے ناس لے جاؤں۔“ رنان ئے نٹشکش کی کہ علتبا تقی میں‬
‫سر ہالئے لگی۔‬
‫ُ‬
‫”میں تھبک ہوں‪ ،‬تھوڑا خو شفر کبا ہے نا اس کی وجہ سے عج نب محسوس ہو رہا‬
‫تھا۔ میں تھبک ہوں۔“ وہ نیزی سے بولی مبادہ دامیر اور رنان اس کو لے ہی پہ‬
‫جانیں۔‬
‫”تم آرام کرو دامیر۔“ رنان اس کو کہبا ہوا انک تظر علتبا کو د نکھے ناہر تکل گبا۔‬
‫چب نک دامیر کی طت یغت تھبک نہیں ہونی رنان اور چنہ کھانا خود دنکھنے والے تھے‬
‫ورپہ نہلے پہ دامیر کی زمہ داری ہونی تھی۔‬
‫”نمہیں لنتنے میں مدد دوں؟“علتبا اتھ کے اس کی طرف آنی ہونی بوچھنے لگی۔‬
‫دامیر ئے اس کے چہرے کو دنکھا۔‬
‫”اگر شاتھ ہو گی بو ضرور۔“ وہ سنجبدگی سے بوال مگر لہچے کی گھمئیرنا محسوس کر کے‬
‫علتبا مشکرا دی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1000 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر کے ننجھے نکنے سنٹ کنے۔ وہ ناؤں اوپر کر کے نتم دراز ہو گبا۔‬
‫”نمہیں ہمٹشہ نازو پہ خوٹ لگنی ہے دامیر۔“ علتبا م یقکر لہچے میں بولی۔ اس سے‬
‫نہلے تھی اس ئے دامیر کے کبدھے نا نازو کو ہی زچمی دنکھا تھا۔‬
‫”وہ اس لنے کہ تم مجھے کھانا کھال شکو۔ زچمی شوہر کی قدر کر شکو۔“ وہ اس کو‬
‫سرپر مشکراہٹ لنے سمجھائے والے انداز میں بوال۔‬
‫”زچمی شوہر۔۔!“ علتبا کو اس کا کہبا اچھا پہ لگا۔‬
‫ن‬
‫”تم انبا جبال ک نوں نہیں رکھ رہی۔ کمزور ہو گنی۔“ پراپر تتھی علتبا کا ہاتھ‬
‫تھامے وہ حقگی سے بوال۔ اس کا ہاتھ اب چہرے کی طرف پڑھا۔‬
‫”نمہاری وجہ سے ہی۔ اننی ننٹشن د ننے ہو۔“ وہ شارا الزام اس کے سر ڈالنی‬
‫ہونی بولی کہ دامیر مشکرا دنا۔ وہ اس کو ستنے میں تھتنجبا جاہبا تھا لبکن اننی جالت کے‬
‫زپر اپر فوری انشا پہ کر نانا۔‬
‫”بو میں ہوں نا جبال رکھنے کے لنے۔“ رجشار کو پرمی سے چھوئے ہوئے دامیر‬
‫نبار تھرے لہچے میں بوال۔‬
‫علتبا کے دل میں کونی انسی نات نہیں آنی تھی کہ وہ محسوس کر نانی دامیر کا‬
‫پہ فرنب تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1001 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫وہ وافعی اس کی مجنت کرنا تھا۔ اس کی آ یں دامیر کی کا شاتھ دے رہی‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫تھیں۔ کونی مالوٹ کونی شنہ نہیں تھا۔‬


‫”قلحال بو نمہیں کئیر کی ضرورت ہے۔“ علتبا اجتباط سے اس کے فرنب ہونی‬
‫اور انبا نکنہ نالکل اس کے فرنب رکھنے اس کی طرف رخ کبا۔‬
‫”تم رکھو گی میرا جبال؟“‬
‫دامیر اس کے ہاتھ کو پرمی سے سہالئے ہوئے بوال۔ علتبا ئے انبات میں سر‬
‫ہالنا۔‬
‫”اور کون ر کھے گا!“ وہ بوچھنے لگی۔‬
‫دامیر گہرا شانس ت ھر کے رہ گبا۔‬
‫”میری قکر نہیں کرو پرنسٹس! انبا جبال رکھو نس۔“ دامیر اس کا ہاتھ ہون نوں‬
‫سے لگانا ہوا بوال۔‬
‫”میں نمہاری قکر پہ کروں دامیر؟“ علتبا اس کے القاطوں پہ زور د ننی ہونی بولی‬
‫اور زرا شا اتھی۔‬
‫”نجھلے دو دن سے تم ئے میری جان جشک کر دی تھی۔ نمہیں ہوش نہیں آرہا‬
‫تھا۔ ا ننے زنادہ زچم تھے نمہیں۔ وہ نمہارا کبدھا جال ہوا ہے اور تم کہہ رہے ہو قکر پہ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1002 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کروں۔ نمہیں مغلوم ہے مجھے کٹشا فبل ہو رہا تھا۔ انشا لگ رہا تھا جٹسے کجھ دپر میں‬
‫میری جان تکل جائے گی۔ میں شوجبا نہیں جاہنی تھی کہ نمہیں کجھ ہو جائے۔“ وہ‬
‫تھرائے لہچے میں بولی کہ آنکھوں میں نمی تھی چھلکبا سروع ہو گنی۔ دامیر چیران شا‬
‫اس کو د نکھے گبا خو اجانک نگڑ گنی تھی۔‬
‫”کجھ تھی نہیں ہوا مجھے اور پہ ہو گا۔ ک نوں خود کو ہلکان کر رہی ہو۔“ دامیر اس‬
‫م‬ ‫ُ‬
‫کو نازو سے تھامے وانس اسی بوزنشن یں نتھانا ہوا بوال۔‬
‫”ہاتھ پہ لگاؤ مجھے۔۔“ اس کے شکون سے کہنے پہ وہ ہاتھ چھبکنی ہونی بولی۔‬
‫”پہ جبال رکھو گی تم میرا۔ زچمی شوہر ناس لتبا ہے اور تم کہہ رہی ہو کہ ہاتھ پہ‬
‫لگاؤں نمہیں۔“ دامیر سنجبدگی سے بوال کہ علتبا ئے تم نلکیں اتھائے حقگی سے اس کو‬
‫دنکھا۔‬
‫کتبا جاہا تھا کہ وہ دور جلی جائے لبکن دور تھی کہاں جائے د ننے تھے پہ لوگ۔‬
‫دو مہت نوں کے لنے گنی تھی انلی‪ ،‬انک مہتنے میں اغوا ہو کے وانس آگنی۔ ناراصگی‬
‫بوری جبائے کا موفع تھی پہ مال تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1003 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے وہ علتبا پہ سمجھبا جس کا تم ئے قاندہ اتھا کے شادی کی تھی۔ میں اب‬


‫تھی وہی ہوں خو اکبڈمی میں ملی تھی تم سے۔۔“ علتبا اس کو جبانی ہونی بولی اور اب‬
‫اس ئے دامیر کو انبا ہاتھ تھی نہیں نکڑئے دنا تھا۔‬
‫”ہاں وہ علتبا خو مجھے نہلی نار دنکھ کے ہی ڈر گنی تھی۔“ دامیر اسبہزاننہ بوال کہ‬
‫علتبا ئے سحت تظروں سے اس کو گھورا۔‬
‫”نمہاری طت یغت کا لحاظ کر رہی ہوں میں دامیر۔۔ ا ننے طعنے د نبا نبد کرو مجھے۔“‬
‫وہ سحت حقا ہونی۔‬
‫”طعنے نہیں دے رہا نس نبا رہا ہوں۔“ وہ مشکراہٹ چھبا گبا تھا۔ پہ انداز وافعی‬
‫پرانی علتبا کا تھا۔‬
‫”مجھے نبائے کی تھی ضرورت نہیں ہے نمہیں۔“ وہ اکھڑے لہچے میں بولی۔‬
‫دروازہ ناک ہوا۔ چنہ پرے تھامے اندر آنی وہ علتبا کے لنے کجھ نبا کے النی‬
‫تھی۔‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫علتبا وانس اتھ ھی۔۔ دامیر نس ن ک لگائے م دراز رہا۔‬
‫ب‬
‫چنہ کے ننجھے رنان تھی داجل ہوا‪ ،‬لبام تھی ننجھے پہ رہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1004 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں ناہر ڈاننتبگ میں ہی آجانی۔“ شب کو نہاں دنکھنے علتبا تھوڑا چحل سی‬
‫ہونی بولی۔‬
‫”شب اتھی کھانا نہیں کھانیں گے۔ پہ میں نس نمہارے لنے النی ہوں۔“ چنہ‬
‫کہنے ہوئے پرے اس کے شا منے رکھنی بولی اور اس سے قاصلے پہ نتتھ گنی۔ رنان اور‬
‫لبام دوبوں صوفے پہ نتتھ گنے۔‬
‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫علتبا مشکور تگاہوں سے د نی ہونی چنہ کا نبانا ہوا ستبڈ وچ کھائے گی۔‬
‫”دامیر تم کون شا روم سنٹ کرواؤ گے؟“ رنان ئے گال کھ یگا لنے ہوئے دامیر‬
‫لک‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫کو محاظب کبا۔ علتبا بوالہ جبائے ہوئے نا ھی سے رنان کو د کھنے گی خو نا ل سنجبدہ‬
‫تظر آرہا تھا۔‬
‫ً‬
‫”شاتھ واال روم ہی تھبک رہے گا۔“ اگلے ہی نل دامیر ئے فورا خواب دنا۔‬
‫”کس لنے؟“ علتبا الجھن لنے بولی۔‬
‫”آفکارس ئےنی کے لنے۔“ رنان نبا کسی پردد کے بوال کہ علتبا سنتبانی۔ وہ لوگ‬
‫کاقی آگے کا شوچ رہے تھے۔‬
‫”اتھی بو نہت ناتم ہے۔۔“ علتبا ہلکا شا پڑپڑانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1005 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”وفت کون شا تھہر رہا ہے۔ ہمیں اننی نبارناں کرنی ہیں بو وہ انک دن میں‬
‫نہیں ہونگی نا۔“ رنان اس کی پڑپڑاہٹ ستنے ہوئے بوال۔‬
‫”دوبوں کاقی انکشانتبد ہیں۔“ چنہ ئے مشکرائے ہوئے علتبا کو دنکھا۔ اس کی‬
‫نات شن کے علتبا کو اندرونی خوسی سی ہونی۔‬
‫ن َ‬
‫”کبا مطلب۔۔ ان دوبوں کا نچ اپ ہو گبا ہے۔“ لبام خونک کے بوال۔ چہرے‬
‫پہ چیران کن ناپرات تھے جٹسے اس کو پہ شب شن کے صدمہ لگا تھا۔‬
‫”نمہیں ک نوں پرا لگ رہا ہے؟“ رنان سرد انداز میں بوال کہ وہ کبدھے احکا کے‬
‫صوفے سے نبک لگا گبا۔‬
‫”اگر علتبا راضی پہ ہونی اور دامیر نبک جانا بو میرا ارادہ تھا علتبا کو سنٹ کرئے‬
‫کا۔“ وہ شکون سے انبا م یصوپہ نبانا ہوا بوال کہ دامیر کی آنکھوں میں عصہ غود آنا۔ علتبا‬
‫اس کی نات ستنے ہلکا شا ہٹسی تھی جبکہ چنہ اس کو ناد ننی تگاہوں سے دنکھنے لگی۔‬
‫ت‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ک‬
‫”چیر اب بو مغاملہ ہی۔۔۔“ لبام آ یں ھما کے ہبا نی چیز سے رکا۔۔ ھر‬
‫ئےزار نت سے دامیر کو دنکھا۔‬
‫”نہت آگے تکل حکا ہے۔“ اشارہ اس کے ناپ نتنے کی طرف تھا کہ دامیر کا‬
‫نس پہ جال اتھ کے اس نڈے کی گردن دنا دے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1006 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ُ‬
‫رنان لبام کو دنکھنے کے نحائے چنہ کو دنکھ رہا تھا جٹسے شارا فصور ہی اس کا تھا۔‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”لبام۔۔۔!“ چنہ ئے آ یں دکھا یں۔‬
‫”ملٹسکا‘ ضروری نات کرنی ہے۔“ رنان کہبا ہوا اتھا اور کمرے سے ناہر گبا۔‬
‫ن‬ ‫ُ‬
‫علتبا کھانا کھا جکی تھی بو چنہ ئے پرے تھی اتھا لی اور اس کے ھے ل دی۔‬
‫ج‬ ‫ج‬‫ن‬
‫لبام ئے دوبوں کو ناری ناری ناہر جائے دنکھا۔‬
‫”روم نو کا خزنانی سٹشن سروع ہو گبا ۔“ لبام پڑپڑائے سے ناز پہ آنا اور دامیر کو‬
‫دنکھا جس کی تظریں خود پہ نائے ئےشاچنہ ہی گڑپڑا گبا ک نونکہ انشا لگ رہا تھا جٹسے وہ‬
‫اتھی اننی بونی نشلی کی پرواہ کنے نبا اس کی ہنی نشلی انک کر دے گا۔‬
‫”مجھے تھی کجھ کام ہیں۔“ وہ تگاہیں خرائے ہوئے اتھا اور گال کھ یگا لنے ناہر کی‬
‫طرف اشارہ کرئے لگا۔‬
‫چب نک وہ کمرے سے پہ تکال دامیر کی خون آشام تگاہوں کو محسوس کرنا رہا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ن‬
‫چنہ پرے کنچن میں رکھی‪ ،‬اطراف میں رنان کو دنکھنے کے لنے آ یں ھما یں‬
‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫لبکن وہ نہاں نہیں تھا۔ کمرے میں ہوئے کا شو جنے چنہ ا ننے ہاتھ نسو نئیر سے‬
‫صاف کرنی ہونی کمرے میں آنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1007 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دروازے کی طرف نشت کنے کھڑا وہ شاند مونانل اسیعمال کر رہا تھا۔‬
‫ُ‬
‫”ہاں کبا نات ہے؟“ ا ننے ننجھے دروازہ نبد کبا اور اس سے اس قشار کرئے گی۔‬
‫ل‬ ‫ی‬
‫مونانل ناکٹ میں رکھبا وہ اس کی طرف مڑا۔‬
‫ُ‬
‫”تقلی اوالد کا منہ نبد رکھواؤ۔ نمہاری وجہ سے کجھ کہبا نہیں ہوں اسے ورپہ ھے‬
‫ج‬‫م‬
‫ا چھے سے جاننی ہو۔“ اس کے فرنب آئے اس کے ہاتھ تھامے اننی کمر کی طرف‬
‫لےجائے ننجھے ناندھ د ننے۔‬
‫”اس کو تقلی اوالد کہبا نبد کرو رنان۔“ چنہ ناگواری سے بوکنی ہونی بولی۔‬
‫رنان ئے اس کی کمر پہ دوبوں ہاتھ تکائے‪ ،‬حصار میں لبا اور آپرو احکائے اس کو‬
‫ھ‬
‫د نے لگا۔‬‫ک‬‫ن‬

‫”بو اصلی لے آؤ نا۔۔“ وہ نل میں انبا انداز ندل گبا اور گہری تگاہوں سے اس کو‬
‫دنکھنے لگا۔‬
‫”ڈاؤنلوڈ بو میں کرئے سے رہی۔“ اس کی فرمانش پہ وہ دانت نٹسنی ہونی بولی۔‬
‫”ڈاؤنلوڈ ک نوں کرنا ہے چب دنسی۔۔“ رنان اس کے کان کے فرنب چھکنے‬
‫م‬‫ک‬‫م‬
‫ہوئے ئےناک ہوا کہ چنہ ئے اس کا چملہ ل ہوئے سے سنتبائے ہوئے اس‬
‫کے نازو پہ ہاتھ دے مارا۔ اس کے کیرائے پہ وہ محظوظ ہوا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1008 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ک نوں نالنا ہے‪ ،‬کام تھا کونی؟“ وہ نات ند لنے کو بولی۔‬
‫”کجھ دن فری ہیں بو انبا شارا دھبان‪ ،‬وفت‪ ،‬کام‪ ،‬فوکس‪ ،‬اتھبا‪ ،‬نتتھبا‪ ،‬شونا‪ ،‬جاگبا‪،‬‬
‫نبار‪ ،‬مجنت‪ ،‬اظہ ِار الفت شب میرے نام کرو۔“ رنان اس کو فرنب کرنا ہوا چہرے پہ‬
‫تظریں چمائے بوال اور رجشار کو چھوئے لگا۔‬
‫”فری نا تھی ہوں بو نمہاری نہی خواہش ہونی ہے رنان۔“ چنہ تھوڑا قاصلہ نبائے‬
‫ہوئے بولی خو اس کو خود کو لتبائے جا رہا تھا۔‬
‫”بو میری خواہشات کا اچیرام کرو۔“ رجشار سے لب مس کرئے ہوئے چنہ کا‬
‫چہرہ اوپر کا اتھانا۔‬
‫”مجھے نہیں کرنا۔“ وہ نبک کے بولی جبکہ رنان شکون کا شانس تھرئے اس کی‬
‫مہک محسوس کرئے لگا۔‬
‫”میری نات سنو۔۔“ زپردسنی خود کو تھوڑا ننجھے کرئے اس ئے رنان کا چہرہ ا ننے‬
‫مقانل کبا کہ رنان مداجلت پہ ناگواری سے دنکھنے لگا۔‬
‫چنہ ئے جاہت سے اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھا۔ رنان اس کے انداز کو نہحانبا‬
‫تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1009 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہلے وعدہ کرو کہ مجھے اگلے کانیرنکٹ پہ شاتھ لے جاؤ گے۔ ڈانتمبڈ کی ڈنل‬
‫کرئے۔“ چنہ ئے تھوڑا پرم لہچے میں کہا اور رنان کو مشکرانی تگاہوں سے دنکھنے لگی۔‬
‫چہرے پہ آئے ہاتھ کو رنان ئے ہون نوں سے لگانا اور دل کسی سے مشکرانا۔ چنہ‬
‫کا انبا مطلب آنا تھا اور انداز ندل گبا تھا۔‬
‫”سنور ملٹسکا۔۔“ وہ مان گبا اور چنہ کو انک جشت میں خود سے فرنب کر گبا کہ‬
‫وہ بوکھال اتھی۔‬
‫ت ُ‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫اسے خود ھی اندازہ ہو رہا تھا کہ رنان کے مس کی عادی ہو رہی ھی۔ اس کے‬
‫فرنب آئے پہ شکون شا ملبا تھا۔‬
‫چب وہ اننی ماں کے شاتھ ہ نومن شل نو کی آکشن پہ النی گنی تھی نب اس ئے‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ف‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ک‬‫ن‬
‫چھونی عمر میں نہت پرانی د ھی ھی کہ صومنت کا ل تھا وہ۔ ہوس ھری‬
‫تگاہوں کو وہ ا چھے سے جاننی تھی۔ نب اس ئے نہت سے ہاتھوں کو خود پہ محسوس‬
‫کبا تھا انبا کہ اسے چھوئے جائے سے خوف آنا تھا‪ ،‬کسی کے تھی ناس آئے سے‬
‫تفرت ہونی تھی۔ دماغ میں وہ شب چیزیں نتتھ گنی تھیں جن کو وہ جاہ کے تھی جتم‬
‫نہیں کر نانی تھی۔ لبام نتھی سے شاتھ تھا بو خزنانی ین دکھا جانا تھا لبکن اس کے‬
‫عالوہ کسی کو اننی ہمت نہیں دی تھی کہ کونی اس کے فرنب آکے جد تھالنگبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1010 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫لبکن رنان اس کے مغا ملے میں ڈھنٹ نانت ہوا تھا۔ وہ ا ننے اظہار میں‬
‫ئےناک تھا۔‬
‫نچین میں جن وجسی ہاتھوں ئے چھوا تھا وہ شب زانل ہو جانا تھا۔ خو وجشت‬
‫کے لمس کتھی محسوس کنے تھے وہ رنان کے مجنت تھرے انداز میں جتم ہو جائے‬
‫ُ‬
‫تھے۔ وہ کہیں نہیں تھے۔ رنان ا ننے نبار سے جبانا تھا کہ چنہ اِ س کی تھی اور اسے‬
‫چھوئے کا خق تھی ضرف اِ سی کے ناس تھا۔ چنہ کا دل و دماغ اجازت د نبا تھا۔ وہ‬
‫اغیراف کرنا جاہنی تھی جتبا رنان اس سے ‪ obsessed‬ہے چنہ تھی رنان ڈی‬
‫سے اننی ہی ‪ obsessed‬ہے۔‬
‫نبار مجنت عسق بو تغد میں۔ رنان اس کی آنسٹشن تھی جسے وہ کتھی جتم نہیں‬
‫کرے گی۔‬
‫جس لڑکی ئے کتھی ا ننے خزنات طاہر نہیں کنے وہ رنان کے شاتھ ہر خزپہ‬
‫محسوس کرنی تھی‪ ،‬اس پہ ہر اجشاس جبانی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1011 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اننی مبڈنشن کھا کے چب وہ جتنج کر کے آنی نب دامیر کو مونانل میں مصروف‬


‫نانا۔‬
‫”خوٹ آنی ہے نازو پہ پہ خرکت دو انہیں۔“ علتبا اس کو ڈ ننے ہوئے بولی۔‬
‫”تم کون شا میرے ناس نک رہی ہو۔ ہر تھوڑی دپر نار مجھے ناد دالئے آجانی‬
‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ع ن‬
‫ہو۔“ دامیر فون شانبڈ پہ رکھبا ہوا بوال کہ لتبا آ یں دکھائے گی۔‬
‫ڈپر شب کر جکے تھے‪ ،‬رنان ڈرنک کو لنے اتھی راؤنڈ پہ تھا۔‬
‫”شارا دن اب نبڈ پہ نتتھ بو نہیں شکنی نا۔ تھک جانی ہوں۔“ علتبا کمرے کے‬
‫النٹس ہلکی کرنی ہونی بولی اور نبڈ کی طرف پڑھی۔‬
‫”خود تم سے نتتھا نہیں جا رہا اور مجھے اتھنے نہیں دے رہی۔“ وہ چھالئے ہوئے‬
‫بوال‪ ،‬اس کے انداز سے وافعی لگ رہا تھا کہ وہ ا نسے فصول نتتھے خڑ شا گبا تھا۔‬
‫”اننی جالت دنکھو نا۔“ نبڈ پہ نتتھے ک یفرپر کھوال۔‬
‫”اننی تھی دنکھو۔۔“ وہ دوندو بوال کہ علتبا سنتبا اتھی۔ دن میں کونی نحاس دفع‬
‫اس کی جالت ناد دال جکے تھے پہ دو لڑکے‪ ،‬چہاں وہ اس نات سے کیرانی تھی وہیں پہ‬
‫بوری دنبا کو نبائے پہ نلے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1012 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کہیں درد بو نہیں ہو رہا؟“ علتبا اس کے ناس آنی۔ لہچے میں قکر نسونش تھی۔‬
‫دامیر مشکرانا۔‬
‫”نہیں میں تھبک ہوں۔“ دامیر ئے انبا نازو کھوال۔ وہ اجتباط سے اس میں‬
‫آسمانی۔‬
‫رنان ئے اس کے آرام کے لنے انک دو چیزیں مبگوا کے رکھیں تھی خو دامیر ئے‬
‫اننی کمر کے ننجھے سنٹ کی ہونی تھیں‪ ،‬وہ شکون سے تھوڑی کروٹ لے شکبا تھا۔‬
‫اتھی تھی علتبا کے آئے سے وہ تھوڑا نانیں جانب ہوا۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫”مبکس سے نات ہونی نمہاری؟“ علتبا اس کے چہرے کو د نی ہونی بولی۔‬
‫ھ‬
‫دامیر ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”اتھی نہیں ہونی‪ ،‬شاند وہ خود نہاں آ نیں۔ ناد آرہی ہے؟“ دامیر اس کے‬
‫چہرے کو فرنب محسوس کرئے بوچھنے لگا۔ علتبا کجھ نل شو جنے لگی۔ تھر تقی میں سر‬
‫ہالنا۔‬
‫ن‬
‫”نہیں نس ا نسے ہی۔“ وہ کہنی ہونی آ یں نبد کر نی۔‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫کمرے میں نس جاموسی کا راج تھا۔ دامیر ئے اتھی تھی سرٹ نہیں نہن رکھی‬
‫ک‬‫ن‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ت ُ‬
‫ھی۔ اسے نتبد یں آنی ھی وہ نس جاموش پرم تگاہوں سے لتبا کو د ھی جا رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1013 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ہ‬‫ن‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬


‫وہ نبا شوچے ھے نانی یں بو ال گبا تھا کن شوجا یں تھا کہ اگر اس کی‬
‫دونارہ کتھی آنکھ پہ کھلنی بو کبا ہونا۔‬
‫”دامیر۔۔۔“ وہ محو نت سے علتبا کو نک رہا تھا چب علتبا کی آواز گونچی۔‬
‫”ہوں۔“ اس کی محو نت میں کونی جلل پہ پڑا۔‬
‫”تم لوگ خو کرئے ہو وہ اچھا کام ہے نا؟“ وہ سنجبدگی سے شوال کرئے لگی۔‬
‫اس کے لہچے میں نسونش تھی۔‬
‫وہ شوئے کی کوشش نہیں کر رہی تھی نلکہ کجھ شوچ رہی تھی۔‬
‫”مافبا میں کونی تھی اچھا انشان نہیں ہے پرنسٹس۔“ دامیر ئے نبا کسی لگی لتنی‬
‫کے کہا۔‬
‫”لبکن تم لوگوں ئے اتھی نہت اچھا کام کبا ہے جٹسے کونی آرمی کرنی ہے اور‬
‫خو تم لوگ اشاشن کرئے ہو وہ تھی دنکھ کے ہی کرئے ہو۔“ علتبا ئے گردن اتھانی‬
‫اور دامیر کو دنکھا۔‬
‫”وہ کونی تھی کر شکبا ہے پرنسٹس۔“ دامیر ہ نوز سنجبدگی لنے بوال۔‬
‫ت‬‫ن‬
‫”کونی تھی نہیں کر شکبا نا۔۔“ وہ اتھ ھی۔‬
‫ت‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1014 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم لوگ اچھا کام کرئے ہو۔ تم لوگ انک چھنی ہونی کراتم ڈ نبارنمنٹ کی طرح‬
‫ہو۔ خو ا نسے لوگوں کو مارنی ہے خو پرا کام کرئے ہیں۔“ علتبا تھوڑا پرخوش لہچے میں‬
‫بولی۔‬
‫”علتبا! پہ مافبا ہے اور مافبا کی دنبا سباہ ہے۔ نہاں لوگ ا چھے نہیں ہیں۔“‬
‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫چ‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫دامیر اسے کونی ھی ھونا دالشا یں دے شکبا تھا کہ وہ لوگ آرمی کی طرح ھے۔ خو‬
‫سچ تھا وہ اس کے شا منے ہی تھا۔‬
‫”چب کجھ اچھا نہیں ہے بو ہم کٹسے رہ شکنے ہیں۔“ اس کا لہحہ کانپ اتھا۔ وہ‬
‫تھر سے وہی نانیں شوجبا سروع ہو گنی تھی۔‬
‫”ک نونکہ ہم فتملی ہیں۔ اور انک فتملی چہاں کہیں تھی رہنی ہو خوش رہنی ہے۔‬
‫جاہے دنبا سباہ ہو نا شقبد۔ چب نک ہم ہیں نب نک تم لوگوں کو کجھ نہیں ہو شکبا۔‬
‫پہ نات تھی زہن نسین کر لو۔“ دامیر رشان سے اس کو سمجھانا ہوا بوال۔‬
‫”ہمارے ئےنی کو بو کجھ نہیں ہو گا نا۔“ وہ تھرائے لہچے میں اس کی جانب‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ت‬ ‫گ‬ ‫چ‬
‫د نی بولی‪ ،‬ہرے پہ خوف واصح تھا۔ دامیر ہرا شانس ھر کے رہ گبا تھا‪ ،‬اس کا‬
‫مشلشل وہی نات کا زکر چ ھیڑنا اب سمجھ آنا تھا۔ وہ ننی زندگی کے شامل ہوئے پہ اِ ن‬
‫شک نور ہو رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1015 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ُ‬
‫”چب نمہیں کجھ نہیں ہوئے دنا بو کبا اسے ہو گا؟ وہ یں زنادہ عزپز ہو گا۔“‬
‫م‬ ‫ہ‬
‫دامیر اس کے ہاتھ تھام کے تفین دالئے ہوئے بوال۔‬
‫”لبکن نمہیں بو ہوا نا۔“ وہ اس کے زچموں کی جانب اشارہ کرئے بولی۔‬
‫”اگر تم ہر نار ا نسے کرو گی بو میں کٹسے شکون میں رہوں گا۔“ دامیر تھوڑی‬
‫ئےنسی سے بوال کہ اس کی نانیں کمزور کر جانی تھیں۔‬
‫”ہم کل ڈاکیر کے ناس جانیں گے۔ نمہاری کبڈنشن تھی مجھے تھبک نہیں لگ‬
‫رہی۔“ دامیر اس کو وانس لبانا ہوا بوال کہ علتبا جاموش رہی۔‬
‫”میں تھبک ہوں۔ تم تھی تھبک ہو جاؤ نس۔“ وہ تھوڑے پروڑھے لہچے میں‬
‫بولی کہ دامیر ئے اس کے ند لنے انداز کو دنکھا۔‬
‫”شاند اس کبڈنشن میں نارمل ہو شب۔۔“ وہ نس شوچ کے رہ گبا‪ ،‬اسے ہتبڈل‬
‫کرنا مسکل ہوئے واال تھا۔‬
‫وہ تھوڑا شا اس کی جانب چھکا‪ ،‬علتبا کے چہرے سے نال ہبائے‪ ،‬گردن پہ پرمی‬
‫سے انبا لمس چھوڑا۔‬
‫”دامیر تم سے مجنت کرنا ہے پرنسٹس۔“ وہ سرگوسی بوال۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1016 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ت‬‫ن ن‬ ‫ن‬
‫نا سنے کے تغد الن کی چمکنی دھوپ کو د نی وہ دوبوں ز نے پہ ھی یں‬
‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫چہاں اوپر کی سبڈ ئے ان پہ شانا شا کبا تھا۔‬


‫رنان دامیر کے شاتھ الؤنج میں موخود تھا چہاں وہ لوگ کجھ ڈشکس کر رہے‬
‫تھے۔‬
‫”چنہ۔۔۔!“ علتبا کی پرشوچ آواز پہ چنہ ئے اس کو دنکھا۔‬
‫”رنان اور دامیر سروع سے رسبا میں ر ہنے ہیں؟“ وہ سنجبدگی سے بوچھنے لگی۔ چنہ‬
‫خونکی کہ پہ کٹشا شوال تھا۔‬
‫”نہیں سروع سے بو نہیں‪ ،‬پرنتبگ کے تغد سے نہاں ہیں وہ شاند۔“ چنہ ناد‬
‫کرنی ہونی بولی۔ اور اس نات کو نبدرہ شال ہو جکے ہو نگے۔‬
‫”نہاں ک نوں‪ ،‬کسی اور ملک تھی جا شکنے تھے نا۔“اس کے اگلے شوال پہ چنہ‬
‫ئے جانجنی تگاہوں سے اس کو دنکھا۔‬
‫”رسبا میں کراتم ر نٹ ناقی ممالک سے زنادہ ہے۔“ چنہ کبدھے احکا کے بولی‬
‫کہ علتبا الجھی۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”مطلب۔۔۔“ وہ نا ھی سے بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1017 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”رسبا میں مرنا مرانا نہت عام ہے‪ ،‬نہاں جلنے تھرئے لوگوں کے ناس گن‬
‫اشلحہ موخود ہے۔ آپ کے شاتھ جلبا آدمی مافبا سے تغلق رکھنے واال ہو گا لبکن آپ کو‬
‫نبا نہیں۔ نہاں کی کراتم آرگباپزنشن ناقی ممالک کی نسنت زنادہ ہیں۔ اور ناور قل‬
‫تھی۔“ چنہ شا منے دنکھنے ہوئے نبائے لگی۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”رنان اور دامیر کا رسین انکسنٹ کاقی اچھا ہے۔“ علتبا اس کی نات ھنی‬
‫ہونی سر ہال کے بولی۔‬
‫”تم زنادہ پر انلی میں رہی ہو؟“ علتبا ئے اب اس کو دنکھا۔ چنہ ئے تقی میں‬
‫سر ہالنا۔‬
‫”نہیں‪ ،‬مجھے انلی نسبد نہیں۔ مبکسبکو میں زنادہ عرصہ ک نونکہ وہاں لبام ہونا تھا اور‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫ادھر ادھر ھرنی ر نی ھی۔“ وہ الپرواہی سے بولی۔‬
‫”نہاں کی گورنمنٹ کجھ نہیں کرنی اگر نہاں کراتم ر نٹ زنادہ ہے بو۔“ کجھ دپر‬
‫جاموسی کے تغد علتبا دل میں آنا شوال اس سے بوچھنے لگی کہ چنہ ہٹس دی۔‬
‫”علتبا پرنسٹس۔۔!“ وہ دامیر کے انداز میں بولی کہ علتبا چحل سی ہونی۔‬
‫ل لب ع ع‬
‫”نمہیں کبا لگبا ہے؟“ وہ البا اس سے شوال کرئے گی کن لتبا ال می سے‬
‫ل‬
‫کبدھے احکا گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1018 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اشاشن کبا کام کرئے ہیں؟“ چنہ ئے انک اور شوال کبا۔‬
‫”کانیرنکٹ پہ اشاسنت نٹ۔۔“ علتبا ئے خواب دنا۔‬
‫”نالکل اور کانیرنکٹ کون د نبا ہے؟“ اس کے شوالوں کے خواب وہ علتبا سے‬
‫ہی کہلوا رہی تھی۔‬
‫”جبہوں ئے دسمن کو مروانا ہو۔ ہے نا۔“ علتبا خواب د ننی ہونی اس کو الجھ‬
‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫کے د نی گی۔‬
‫”اور دسمن کن کے ہوئے ہیں؟“ اگال شوال۔‬
‫علتبا کجھ سبکبڈز کے لنے چپ رہی۔‬
‫”ناور قل‪ ،‬امیر۔ اپررشوخ رکھنے والے لوگوں کے۔“ علتبا کے خواب پہ چنہ کے‬
‫چہرے پہ مشکراہٹ اتھری۔‬
‫”اور انک ملک میں شب سے ناور قل کون ہونا ہے؟“ اب کے چنہ کے شوال‬
‫میں معنی چیزی مشکراہٹ تھی۔ علتبا کو سمجھ آنا۔‬
‫”گورنمنٹ!“‬
‫”نالکل۔۔۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1019 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کراتم نب نک جتم نہیں ہو شکبا چب نک گورنمنٹ پہ جاہے۔ آدھے سے زنادہ‬


‫کراتم آرگباپزنشن سے تغلق گورنمنٹ کا ہونا ہے ک نونکہ ان کے دسمن زنادہ ہوئے‬
‫ہیں۔ وہ اشاشن ہانیر کر شکنے ہیں ا ننے کام تکلوائے کے لنے۔ ان کے ناس پڑی‬
‫سی پڑی کراتم کے نارے میں مغلومات ہو نگی لبکن چب نک ان کا قاندہ جل رہا ہے‬
‫وہ کجھ نہیں کریں گے۔ رسبا میں کراتم آرگباپزنشن جتبا نٹشا انک شال میں اکھبا کرنی‬
‫ہے انبا گورنمنٹ کے ناس نہیں ہونا۔“ چنہ سنجبدگی سے اس کو نبانی گنی کہ علتبا کی‬
‫ن‬
‫آ کھیں ئےتفتنی سے تھبلنی گنیں۔‬
‫”شب سے زنادہ کرنٹ پہ پزنس مین ہوئے ہیں‪ ،‬منی النڈرنگ ان کا دوسرا کام‬
‫ہے۔ چ ھپ کے مافبا سے تغلقات پڑھائے ہیں ک نونکہ اس میں انہی کا قاندہ ہونا ہے۔‬
‫لب ُ‬
‫رنان پرابوا کا ہبڈ ہے‪ ،‬آہشنہ سے چیزیں نمہیں سمجھ آجانیں گی۔ کن ان شب کو وہ‬
‫ہم پہ جاوی نہیں ہوئے دے گا۔ ان کام ا ننے نک رہے گا۔ وہ ناہر مافبا اشاشن‪،‬‬
‫پرابوا ہو نگے لبکن نہاں گھر میں وہ ہماری حقاظت کرئے والے۔ نمہیں ڈرئے کی‬
‫ک‬‫ن‬
‫ضرورت نہیں ہے۔ میں ئے د ھی یں ہت سی لیز۔ کامباب لیز۔ مجنت‬
‫م‬‫ت‬ ‫ف‬ ‫م‬‫ت‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ہ‬
‫کرئے والے کبلز۔ شب تھبک رہے گا۔ ہمارے شوہر ہمیں کجھ نہیں ہوئے دیں‬
‫س‬ ‫ل‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫گے۔“ چنہ اس کی ک یق نت ھنی ہونی اس کو پرم ہچے میں مجھانی ہونی بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1020 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا کو نہاں اب ا ننے دل کو نتھر کرنا تھا کہ وہ انک مافبا پرنسٹس ہے لبکن‬
‫صجنح ہاتھوں میں۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫مونانل کی آواز پہ اس کا ارتکاز بونا۔ گود سے مونانل کو تھامے دنکھا بو مبکس کی‬
‫کال آرہی تھی۔ چنہ جاموسی سے شا منے دنکھ رہی تھی۔‬
‫”ہبلو۔۔“ دوسری جانب سے آواز اتھری۔‬
‫”کٹسے ہیں آپ؟“ سنجبدگی سے بوچھنے لگی۔‬
‫ً‬
‫”ہم لوگ گھر پہ موخود ہیں‪ ،‬دامیر تھبک ہے اب۔“ مبکس عالبا اس سے دامیر‬
‫کا بوچھ رہے تھے۔‬
‫”چنہ!“ علتبا ئے نام لتنے چنہ کو دنکھا خو نبا کجھ کہے اتھ گنی۔ انداز انشا تھا کہ‬
‫ان کو کہہ دے وہ نہاں نہیں ہے۔‬
‫”وہ اندر ہے میں ناہر الن میں ہوں۔“ علتبا ئے چنہ کو جائے دنکھ کہا۔ انک دو‬
‫اور نات کر کے اس ئے فون نبد کبا۔‬
‫خود تھی اتھ کے اندر پڑھی چہاں دامیر اور رنان اتھی تھی نتتھے تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1021 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر ئے نبا اس کی طرف د نکھے انبا نازو وا کبا کہ وہ جلنی ہونی اس کے ناس جا‬
‫ن‬
‫تتھی۔‬
‫اس ئے اننی نانگیں سبدھی کنے شا منے نتبل پہ رکھی تھیں اور کمر کے ننجھے نکنے‬
‫سنٹ تھے۔‬
‫”اتکل کا فون آنا تھا۔۔“ دامیر ئے چب اس کو دنکھا بو تھوڑی دپر نہلے آنی‬
‫کال کا نبائے لگی۔‬
‫”کبا کہہ رہے تھے؟ انہیں مغلوم ہے شب۔“ دامیر ئے اس کے چہرے کو‬
‫دنکھنے پرمی سے بوچھنے لگا کہ علتبا ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”نمہاری طت یغت کا بوچھ رہے تھے۔ شاند وہ آ نیں۔“ علتبا آہشنہ سے بولی کہ‬
‫اس کے لہچے میں دامیر ئے ئےزار نت محسوس کی۔‬
‫”کبا ہوا؟“‬
‫ت‬‫ن‬
‫”کجھ نہیں بور ہو رہی ہوں۔ تم دوبوں کام کر رہے ہو۔ چنہ تھی قارغ ھی‬
‫ت‬

‫ہے۔ وہ بو ا نسے لگ رہی ہے جٹسے کسی کو اتھی مار دے گی۔ کجھ تھی کرئے کو‬
‫نہیں ہے۔“ وہ اکباہٹ تھرے انداز میں بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1022 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہیں بو اب مصروف نت مل گنی ہے علتبا‪ ،‬ا ننے ئےنی کے لنے چیزیں نلین‬
‫کرو۔ روم میں خو جتنجبگ کروانی ہے وہ شب شوخو۔“ پہ رنان تھا خو اس کو سنجبدہ‬
‫تگاہوں سے د نکھے مسورے سے بواز رہا تھا۔ علتبا ئے اس کو گھورنا جاہا لبکن اس کی‬
‫ناپرات ند لنے دنکھ گڑپڑا سی گنی۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫”اس شب میں نہت وفت پڑا ہے اتھی۔“ وہ دامیر کو د نی ہونی بولی خو م کرا‬
‫ش‬ ‫ھ‬
‫دنا۔‬
‫”ناہر جلیں۔۔!“ دامیر اس کا ہاتھ تھام کے بوال کہ وہ چیرت زدہ اس کو دنکھنے‬
‫لگی۔‬
‫”ناہر‪ ،‬کہاں؟ گھر سے ناہر۔۔ نمہاری طت یغت نہیں تھبک۔۔“ علتبا اس سے‬
‫بوچھنی ہونی تھبک سے نبک لگا کے نتتھ گنی کہ نہیں تھبک تھا نتتھبا۔‬
‫”نمہیں تھوڑی پرنتبگ کرنی جا ہنے‪ ،‬آجاؤ نمہاری صالجت نوں کو ناہر النا جائے۔“‬
‫رنان کہنے ہوئے کھڑا ہوا کہ علتبا ئے خونک کے نہلے دامیر کو تھر رنان کو دنکھا۔‬
‫”پرنتبگ!“ اس ئے تصدبق جاہی۔‬
‫”ہاں چہاں سے چھوڑا تھا وہیں سے جاری رکھو۔“ رنان کھڑے ہوئے اس کو‬
‫ن‬
‫دنکھ رہا تھا جبکہ علتبا اب تھی دامیر کے شاتھ تتھی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1023 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے ضرورت نہیں ہے اب۔“ وہ ئے نبازی سے بولنی دوبوں کو خوتکا گنی۔‬


‫”ک نوں؟“ دامیر ئے بوچھا‪ ،‬وہ جاہبا تھا کہ علتبا جس طرح نہلے تھی وہ اب تھی‬
‫مضنوط ننے ناکہ وہ ا ننے خوف پہ قابو نا لبا کرے۔‬
‫”تم دوبوں ئے کہا ہے کہ مجھے ڈرئے کی ضرورت نہیں بو میں ک نوں اب خود کو‬
‫ک‬‫ن‬
‫ان چھنتبلوں میں الجھاؤں۔“ وہ دوبوں کو سنجبدہ تظروں سے د نی ہونی جبائے گی کہ‬
‫ل‬ ‫ھ‬
‫دوبوں نبک وفت ہٹس د ننے۔‬
‫ن‬ ‫ف ً‬
‫”اگر کتھی تم اکبلی ہونی بو۔۔۔“ د عبا رنان کی آ یں یں‪ ،‬ان یں سرد ین‬
‫م‬ ‫ک‬‫م‬‫چ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬
‫ُ‬
‫اپر آنا‪ ،‬علتبا کو دنکھنے وہ معنی چیزی سے بوال کہ اسے ا ننے رو ھنے کھڑے ہوئے‬
‫گ‬‫ن‬

‫محسوس ہوئے۔ اس ئے تھوک تگال۔‬


‫”اِ س کو کہو کہ مجھے ا نسے پہ دنکھا کرے۔“ نامسکل انبا رخ دامیر کی جانب‬
‫کرنی جٹسے رنان کی شکانت کرئے لگی۔‬
‫”اور تم کہہ رہی ہو کہ نمہیں ضرورت نہیں۔“ رنان اسبہزاننہ مشکراہٹ لنے بوال۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫”لبکن اس کو ڈرائے کی کبا ضرورت ہے؟“ علتبا ہ نوز دامیر کو د نی ہونی‬
‫ھ‬
‫بولی۔ اس وفت اسے رنان وہ انشان لگ رہا تھا جس کو نہلی نار کلب میں دنکھا تھا‪،‬‬
‫ا ننے شکار کو جتم کرئے واال شکاری۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1024 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”وہ صجنح کہہ رہا ہے نمہیں پرنتبگ سروع کرنی جا ہنے۔“ دامیر ئے رنان کی کہی‬
‫نات کی نانبد کی کہ علتبا ئے حقگی سے اس کو دنکھا۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫”ڈپر کے تغد کریں گے۔“ پرچھی تگاہوں سے رنان کو د نی وہ رصامبد ہونی‪،‬‬
‫ھ‬
‫رنان سر ہالنا ہوا گالس دوڑ سے ناہر جال گبا۔ ارادہ اب اننی ملٹسکا کو نبگ کرئے کا‬
‫تھا۔‬
‫”مجھے نہیں کرنی اب پہ شب پرنتبگ‪ ،‬میرا دل نہیں جاہ رہا۔“ رنان کے جائے‬
‫کے تغد علتبا دامیر سے منہ نبائے بولی کہ دامیر ئے چیرانگی سے اس کو دنکھا۔‬
‫”نمہیں اکبڈمی نہیں تھنج رہے ہم‪ ،‬نہیں پہ رہو گی رنان اور چنہ شکھا دیں‬
‫گے۔“ دامیر اس کا چہرہ دنکھبا ہوا بوال خو پہ نات شن کے کجھ زنادہ خوش نہیں تھی۔‬
‫”مجھے ان سے نہیں کجھ تھی سبکھبا‪ ،‬وہ دوبوں سر تھرے سے ہیں۔“ علتبا‬
‫ہری چھبڈی دکھانی ہونی بولی کہ دامیر ئے دلحسنی سے آپرو احکائے اس کو دنکھا۔‬
‫”وہ نمہیں اچھا پرین کر شکنے ہیں‪ ،‬چیر لبکن نمہاری مرضی۔“ دامیر ئے گہرا‬
‫شانس ت ھر کے کہا‪ ،‬وہ زنادہ اضرار نہیں کرنا جاہبا تھا۔ وہ خو تھی کرنا جاہے اننی بوری‬
‫رصا مبدی سے کرے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1025 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مگر۔۔۔!“ علتبا ئے آہشنہ سے اس کی آنکھوں میں دنکھنے کہا کہ دامیر ئے‬


‫اسبہقامنہ تگاہوں سے اس کو دنکھا۔‬
‫”مجھے تم شکھاؤ‪ ،‬شب کجھ۔۔“ وہ گردن اکڑا کے بولی کہ دامیر مشکرا دنا۔ اس‬
‫ئے علتبا کی کنتنی کو ل نوں سے چھوا۔‬
‫”میں نمہیں آج ہی شکھا شکبا ہوں۔“ وہ الپرواہی سے بوال۔‬
‫”نہیں تم انک ہفنہ رنشٹ لو‪ ،‬تھر ہم سبارٹ کریں گے۔“ علتبا اس کے‬
‫کبدھے پہ سر رکھنے ہوئے بولی۔‬
‫”کٹشا فبل کر رہی ہو؟“ کجھ دپر جاموسی کے تغد دامیر ئے بوچھا۔ دامیر کو سمجھ‬
‫نہیں آرہا تھا کہ وہ کٹسے نات سروع کرے۔ شادی کا کتھی تصور نہیں کبا تھا لبکن‬
‫دل کے ہاتھوں مج نور ہوئے شادی کے مجنت تھرے نبدھن میں نبدھ گنے اور اب وہ‬
‫دوبوں اگلے مراجل میں داجل تھے۔ ناپ نتنے کی خوسی۔ اس کے وہم و گمان میں تھی‬
‫نہیں تھا اور اب سمجھ نہیں نا رہا تھا کہ کٹشا ردعمل دے۔ فتملی پڑھائے کا کتھی‬
‫شوجا نہیں تھا‪ ،‬اور نچے! جائے وہ اس زمہ داری کو ستتھال نائے گا نا نہیں۔ ان‬
‫دوبوں کی آنس میں اس م یغلق کونی نات تھی نہیں ہونی تھی۔‬
‫”میں بو تھبک ہوں۔“ وہ شادہ سے لہچے میں بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1026 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ڈاکیر کے ناس کب جانا ہے؟“ دامیر ئے سرسری شا بوچھا۔‬


‫”اتھی بو گنی تھی میں‪ ،‬اگلے مہتنے جاؤں گی نا اس سے اگلے مہتنے۔“ علتبا پرشوچ‬
‫لہچے میں بولی۔‬
‫”میں نہت مس کر رہی ہوں نمہارے کھائے کو۔“ علتبا مشکرانی ہونی بولی۔‬
‫”مجھے آرام کرئے کا تھی کہنی ہو تھر تھوڑی دپر تغد مجھے کام تھی ناد کروا رہی‬
‫ہو۔ آجاؤ نمہیں کجھ نبا کے کھالؤں۔“ دامیر ا ننے ناؤں ننچے کنے بوال کہ علتبا ئے‬
‫مشکرائے اس کو دنکھا۔‬
‫”وافعی نباؤ گے۔ کھڑے رہ لو گے۔“ وہ نسونش زدہ لہچے میں بولی۔‬
‫”تم ئے کاقی ہلکا لبا ہوا ہے مجھے‪ ،‬انک دن آرام کر حکا ہوں میں۔ میرے لنے‬
‫پہ شب نارمل ہے۔ تم آجاؤ میرے ناس کنچن میں۔“ دامیر اس کا ہاتھ تھام کے بوال‬
‫اور آہشنہ سے جلنے ہوئے کنچن میں آگبا۔‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫علتبا مشکرانی تظروں سے اس کو د نی ہونی کاؤنیر کے نار ا نول پہ خڑھ کے‬
‫س‬
‫نتتھ گنی۔‬
‫دامیر کے ہاتھ جل رہے تھے‪ ،‬سرٹ کو کہت نوں نک فولڈ کر رکھا تھا‪ ،‬اس کی‬
‫صاف جلد پہ سرخ خراسیں تظر آرہی تھیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1027 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دامیر تم سے انک نات بوچھوں؟“ مصروف سے دامیر ئے شوالنہ تگاہیں‬


‫اتھانیں۔‬
‫”چب ہم اغوا ہوئے تھے نب وہ لوگ تم سے کجھ جانبا جا ہنے تھے۔“ علتبا ئے‬
‫سرسری شا انداز انبائے ہوئے نات سروع کی۔ دامیر فرنج سے کجھ چیزیں تکا لنے کو‬
‫مڑا‪ ،‬اس کی نات کا مقصد وہ جانبا تھا۔‬
‫”تم ئے کس کو اشاشن کبا تھا۔ وہ پہ جانبا جا ہنے تھے اور تم ئے ک نوں نہیں‬
‫نبانا۔ اگر تم نبا د ننے بو وہ لوگ ہمیں چھوڑ د ننے۔“ نات کرئے ہوئے اس ئے‬
‫تظریں نہیں اتھانیں تھی۔ دامیر ئے اس کی آخری نات پہ شکوہ محسوس کبا۔‬
‫”نمہارا جبال ہے کہ وہ چھوڑ د ننے۔“ وہ نس انبا ہی بوال۔‬
‫انلی ہونی سیزبوں کے نبکٹس اس ئے کاؤنیر پہ ر کھے‪ ،‬انک جبانی ہونی تظر علتبا‬
‫پہ ڈالی۔‬
‫”تم اس سحص کا نام نبا د ننے‪ ،‬کس کے کہنے پہ تم ئے اشاشن کبا تھا؟“‬
‫علتبا کجھ دپر نہلے چنہ کی نات زہن میں رکھنی ہونی اس سے نات کر رہی تھی‬
‫کہ دامیر کو کس ئے کانیرنکٹ دنا تھا۔ کبا اس ئے تھی کسی گورنمنٹ کے نبدے‬
‫کے کہنے پہ اشاسنت نٹ کبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1028 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”انبا آشان ہے نمہاری تظر میں ہمارا کام؟ کونی ہمیں کانیرنکٹ دے اور ہم‬
‫اغوا ہوئے پہ نام نبا دیں؟“ دامیر آپرو احکائے اس سے بوچھنے لگا کہ علتبا ئے‬
‫کبدھے احکائے۔‬
‫”مجھے نہیں مغلوم لبکن ہم نچ شکنے تھے۔“‬
‫وہ اب دامیر کو دنکھنے لگی خو خو لہے کی آنچ ہلکی کر رہا تھا۔‬
‫ن‬
‫”اگر نب میں نمہارے مسورے پہ کام کرنا بو نہاں تتھی تم مجھ سے شوال پہ‬
‫کر رہی ہونی پرنسٹس۔“ دامیر تھوڑا جبائے والے لہچے میں بوال کہ علتبا منہ خڑھا گنی۔‬
‫”تم مجھے نہیں نباؤ گے؟“ وہ تھر بوچھنے لگی۔ دامیر ئے ناد ننی تگاہوں سے اس‬
‫م ُ‬
‫کو دنکھا۔ وہ صدی تھی۔ اننی بوچھی نات کا خواب پہ لنے پہ اسے ھو نی یں ھی۔‬
‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ل‬ ‫ت‬
‫”نہیں‪ ،‬پہ ہمارے کام میں جبانت ہے۔ جاہے کام ال یگل ہو لبکن کرئے‬
‫اس کو انمان داری سے ہیں۔ اور کامبانی اسی میں ہونی ہے کہ کونی رازدار پہ ہو۔“‬
‫دامیر کرتم کا نبکٹ کھو لنے ہوئے بوال اور مشکرانی تظروں سے اس کو دنکھا‪ ،‬تھر اتگلی‬
‫پہ تھوڑی کرتم لگائے اس کی ناک پہ لگانی۔‬
‫”رازدار‪ ،‬دامیر میں واتف ہوں نمہاری۔“ علتبا صدمے سے بولی کہ وہ اس کو تھی‬
‫نہیں نبائے واال تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1029 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کام اننی جگہ پرنسٹس۔ تم نہیں جاہو گی کہ اس انک اتقارمٹشن سے نمہاری‬


‫جان کو حظرہ ہو۔“ کہنے وہ رکا۔ تظریں اتھا کے علتبا کو دنکھا۔‬
‫”دونارہ۔“ وہ زور د ننے بوال اور ہلکا شا ہٹشا کہ علتبا دونارہ نالکل تھی نہیں تھٹسبا‬
‫جاہے گی۔‬
‫علتبا جاموش ہو گنی اور کہتباں سبلف پہ تکائے اس کو محو نت سے دنکھنے لگی۔‬
‫”اگر تم کسی کو نبا دو کہ پہ کئیرنکٹ کہاں سے تھا بو کبا ہو گا؟“ تھوڑی دپر‬
‫تغد وہ تھر بوچھنے لگی۔‬
‫”بو پہ خو نمہارا خوتصورت سیف ہزنتبڈ ناپ اشاسیز میں مشہور ہے نا‪ ،‬کسی کام کا‬
‫نا رہبا۔ کرنیر قالپ ہونا میرا۔ نبکشٹ کونی کانیرنکٹ پہ ملبا اور ممکن ہونا کہ مجھے مار‬
‫تھی دنا جانا۔“ دامیر گہرا شانس تھر کے علتبا کو دنکھنے رشان سے سمجھائے لگا کہ وہ‬
‫گ‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫ھنے سر ہال نی۔‬
‫تعنی اتقارمٹشن وافعی فتمنی سہ تھی نہاں اننی کہ جان تھی جا شکنی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1030 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہاں دنکھو‪ ،‬پہ الین آرہی ہے ان کے الس کی۔ اچھا کام گبا اس نار نمہارا۔“‬
‫لبام چنہ کو سبانسی انداز میں بوال۔ وہ دوبوں الن کے دوسرے حصے میں موخود تھے۔‬
‫لبام ئے لنپ ناپ شا منے نتبل پہ رکھا تھا اور چنہ کو کسی چیز کے م یغلق نبا رہا تھا۔‬
‫”اور کونی ننی انڈنٹ آنی؟“ وہ لبام کو دنکھنے بوچھنے لگی اور نبک لگائے نتتھ‬
‫گنی۔‬
‫ُ‬
‫”اتھی بو شب صاف شقاف جل رہا ہے۔ ادھر ادھر کی ڈ لز ل رہی یں۔ جٹسے‬
‫ہ‬ ‫ج‬ ‫ن‬
‫ہی ملے گی انڈنٹ کروں گا۔“ لبام لنپ ناپ پہ تظریں مرکوز کنے بوال بو چنہ انبات‬
‫میں سر ہال گنی‪ ،‬ا ننے دھبان میں اس ئے گردن گھمانی چب رنان کو اننی طرف آنا‬
‫دنکھا۔ سباہ پراؤزر سرٹ میں‪ ،‬صاف رنگت لنے‪ ،‬نلونڈ نال۔‬
‫ً‬
‫چنہ معرور م کرانی۔ وہ اس کا تھا۔‬
‫ش‬
‫”نمہیں اب رنان اچھا لگنے لگا ہے ۔“ لبام ئے تغور اس کو دنکھنے معنی چیزی‬
‫سے کہا۔ چنہ ئے رنان سے تگاہیں نہیں ت ھیری تھیں‪ ،‬وہ اسی کو دنکھنے مشکرا رہی‬
‫تھی‪ ،‬تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”جتبا اِ س سحص ئے نبگ کبا ہے پرا تھی نہیں لگبا۔“ وہ ہلکا شا پڑپڑانی کہ اس‬
‫کی پڑپڑاہٹ ستنے لبام مشکراہٹ دنا گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1031 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ جانبا تھا کہ رنان نہاں آرہا ہے لبکن وہ ا تھے گا نہیں‪ ،‬ڈھنٹ نبا نتتھا رہے‬
‫گا۔ جانا ہوا بو لے جائے گا اس کو شاتھ۔ لبکن وہ کباب میں ہڈی ہی نبا رہے گا۔‬
‫رنان اس نک نہنحا‪ ،‬چب مونانل میں مٹسج ن نپ ہوا۔ ناکٹ میں ہاتھ ڈالے مونانل‬
‫تکاال اور تظریں اس پہ کیں لبکن انبا ہاتھ چنہ کی طرف پڑھانا۔ اس کے ہاتھ تھا منے پہ‬
‫کھڑا کبا اور کمر کے گرد نازو چمانل کنے مونانل پہ ہی تظریں مرکوز کنے رکھیں۔‬
‫ن‬ ‫ل‬ ‫ک‬‫ن‬
‫چنہ دلحسنی سے اس کا چہرہ فرنب سے د نی گی خو مونا ل پہ کجھ د کھ رہا تھا اور‬
‫ن‬ ‫ھ‬
‫ما تھے پہ نل تھی نمودار ہو رہے تھے۔‬
‫مونانل وانس ناکٹ میں رکھنے اس ئے آس ناس دنکھا تھر چنہ کو خو اس کو دنکھ‬
‫کے مشکرا رہی تھی۔‬
‫”نہاں اکبلی کبا کر رہی تھیں؟“ وہ سنجبدگی سے بوچھنے لگا۔‬
‫”میری موخودگی نمہیں محسوس نہیں ہونی‪ ،‬اگر نہیں بو آج سے تم دوبوں کے‬
‫کمرے میں شو رہا ہوں میں۔“ لبام رنان کی نات شن کے شلگ شا گبا۔ اس کو لبام‬
‫تظر نہیں آنا تھا کبا خو چنہ کو اکبال نہاں سمجھ رہا تھا۔‬
‫”دنکھ لو نکواس کر رہا ہے مجھ سے۔“ رنان سرد آنکھوں سے چنہ کو دنکھنے ہوئے‬
‫بوال کہ چنہ ہٹس دی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1032 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کام جتم ہو گبا نمہارا؟“ وہ البا اس سے شوال کرئے لگی کہ رنان ئے دھوپ‬
‫ش‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫کی زنادنی سے آ یں کیڑیں۔‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت ً‬
‫”ہاں فرنبا۔۔“ انبا کہہ کے اس ئے ا نی تتھ لبام کی جانب کی اور چنہ کو‬
‫دوسری طرف کھڑا کبا۔‬
‫”کبا دنکھ رہے تھے آگے خو ما تھے پہ نل ننے تھے۔“ چنہ اس کے ما تھے پہ اتگلی‬
‫رکھنی ہونی بوچھنی لگی کہ رنان ئے اس کی آنکھوں میں چھاتکا۔‬
‫”البانین کجھ مسبلہ کر رہے ہیں نہاں‪ ،‬منتبگ کرنا پڑے گی۔“ وہ سرسری شا‬
‫بوال کہ چنہ ئے مزند نہیں کرندا تھا‪ ،‬اگر رنان کو ضرورت محسوس ہونی بو وہ تقصبل اس‬
‫سے سئیر کر لے گا۔‬
‫”لبام اندر جاؤ۔“ رنان ئے گردن گھمائے تغیر لبام کو سرد لہچے میں جکم دنا کہ‬
‫وہ ناگواری سے اس کو دنکھنے لگا۔‬
‫”نمہیں نہیں سرم آنی کہ اندر جلے جاؤ‪ ،‬خو شکون سے نتتھے ہیں ان کو اتھوائے‬
‫کی پڑی ہے۔“ وہ پڑپڑانا ہوا اتھا اور لنپ ناپ کے شاتھ چیزیں سمتنے اندر کی طرف‬
‫جائے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1033 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”جان بوچھ کے نبگ کرنا ہے نمہیں۔“ لبام کی نشت کو دنکھنے چنہ اس کی‬
‫شانبڈ لتنی بولی کہ رنان ئے گھورا۔‬
‫”نحہ ہے پرداشت کر لتبا ہوں‪ ،‬انک دو شال پڑا ہونا بو ہاتھ ناؤں پڑوا حکا ہونا مجھ‬
‫سے۔“ اس کے نالوں کو آگے کی طرف الئے وہ سرد لہچے میں ہی بوال کہ عمل اور‬
‫نات میں تصاد تھا۔ اس کی آنکھوں میں مجنت تھی‪ ،‬اس کی نالوں کی پرماہٹ محسوس‬
‫کر رہا تھا جبکہ نات وہ نالکل الٹ لہچے میں کر رہا تھا۔‬
‫”سبا ہے کہ اکبڈمی میں نمہارے نام کا کانیرنکٹ آنا ہے۔“ رنان کمر سے‬
‫تھامے اس کو خود سے لتبائے مجنت تھرے انداز میں شاکبگ ن نوز اس کے گوش‬
‫گزار رہا تھا۔‬
‫م‬
‫چنہ خونکی۔ اس ئے رنان کے ہاتھ ہبائے جاہے کہ وہ ل طور پہ چیرت کا‬
‫م‬‫ک‬
‫اظہار کر شکنی لبکن اس کے انداز ہی الگ تھے۔‬
‫”شپ منٹ میں رکاوٹ ڈا لنے والی ڈنگر کے لنے کراؤنڈ ہبڈ میں نہت پڑا‬
‫کانیرنکٹ ہے۔ مرئے سے نہلے کجھ جسین نل ہی گزار جاؤ میرے شاتھ۔“ ہون نوں پہ‬
‫شاطرمسکان سحائے اس کے تفوش کو خزب کرئے ہوئے بوال۔ آنکھوں میں چمک تھی‬
‫کہ چنہ ئے لب تھتنچے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1034 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہیں کٹسے مغلوم ہوا پہ شب؟“ وہ سنجبدگی سے بوچھنے لگی۔‬


‫ہ‬‫ن‬
‫”چھتنے والی نات تھی ہی نہیں۔ انسی چیریں اشاشن نک نہلے نجنی ہیں۔“ اس‬
‫کے رجشار کو چھوئے ہوئے وہ مجمور لہچے میں بوال۔‬
‫”کس ئے کانیرنکٹ اشاین کبا ہے؟“ اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے قاصلہ نبانا‬
‫جاہا۔‬
‫”ہو گا کونی دسمن‪ ،‬تھر کبا جبال ہے جسین لمحوں کا۔۔“ اس کے کان کے‬
‫ناس چھکنے ہوئے سرگوسی میں بوال کہ چنہ کو طٹش شا آئے لگا۔ وہ رومابوی انداز میں‬
‫اسے چیر دے رہا تھا کہ اس کو مارئے کا کانیرنکٹ اشاین ہوا تھا اور تھرکی کو ا ننے‬
‫جسین لمحوں کی قکر تھی۔‬
‫ل‬ ‫ک‬ ‫ہ‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫َ‬
‫ج‬ ‫ک‬ ‫ہ‬
‫”شٹ اپ‪ ،‬دور نو۔“ وہ ندک کے ھے نی اور مر ہاتھ ر ھے شو نے گی کہ اب‬
‫کبا ننی مضت نت تھی۔‬
‫”دور ک نوں ہ نوں۔ اچھا نہیں کہ مجھ میں الجھی رہو گی بو کسی کو ملو گی کٹسے‪،‬‬
‫میرے ناس انک آ نبڈنا ہے۔“ رنان اس کو نازو سے تھامے ا ننے مقانل کرنا سنجبدگی‬
‫سے بوال کہ چنہ ئے اسبہقامنہ تگاہوں سے اس کو دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1035 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کجھ دبوں کے لنے کمرے میں نبد ہو جائے ہیں‪ ،‬تم میں اور نبہانی۔“ چنہ کو‬
‫نالکل امبد نہیں تھی اس کے تھڑڈ کالس آ نبڈئے کی۔ وہ ئےتفتنی تگاہوں سے اس‬
‫کو دنکھنے لگی۔‬
‫”مجھے دنکھ کے نمہارا دماغ گھاس خرئے جال جانا ہے کبا؟“ انک بو چیر سے مئیر‬
‫گھوم گبا تھا اوپر سے اس کی عاشقی مزاج نانیں‪ ،‬شدند کوفت ہوئے لگی تھی۔‬
‫”نمہیں دنکھنے سے دماغ کا کبا تغلق‪ ،‬پہ بو دل کی خواہشات ہیں۔“ رنان اس کا‬
‫تھر سے تھام کے فرنب کرئے ہوئے بوال کہ چنہ سجنی سے اس کو گھورئے لگی۔‬
‫”ادھر الؤ نمہارے دل کا بو میں کام نمام کروں۔“ چنہ انک جشت میں انبا پراؤزر‬
‫اوپر کرنی وہاں سے جافو تکالے بولی کہ رنان ئے سبانسی انداز میں آپرو احکائے۔‬
‫”کمرے میں نہیر نہیں؟ تھر تم کہو گی کہ شب کے شا منے لحاظ کبا کروں۔“‬
‫ٹ‬‫ہ‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ص‬
‫اس کا جافو واال ہاتھ تھام کے وہ لح خو انداز یں بوال کہ چنہ کو ئے سی سے سی‬
‫آئے لگی۔ ہٹسنے ہوئے اس ئے انبا سر رنان کے کبدھے پہ تکانا۔‬
‫”ا نسے ہی تم انبا قلرٹ چھاڑئے رہے بو مجھ سے نہت جلد بور ہو جاؤ گے۔“ وہ‬
‫آہشنہ آواز میں بولی کہ رنان کو ناگوار لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1036 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫َ‬
‫”نہلی نات کونی تھی مرد اننی ن نوی سے بور نہیں ہونا‪ ،‬دوسری نات میری لو‬
‫لتبگونج کو تم قلرنبگ نہیں کہہ شکنی۔“ اس کا چہرہ شا منے کرنا ہوا وہ سنجبدگی و‬
‫نانسبدندگی سے بوال اور انک والہاپہ جشارت کرئے اس کو گھورئے لگا خو اجانک ہونی‬
‫واردات پہ سنتبا اتھی تھی۔‬
‫َ‬
‫”نمہاری لو لتبگونج میرے لنے عذاب ین کے رہ گنی ہے‪ ،‬چھوڑو مجھے۔ ہر وفت‬
‫کا جبکبا۔“ وہ نگڑئے لہچے میں بولی اور انبا ُرخ ت ھیر گنی۔‬
‫”تھوڑی دپر نہلے بو نہت نبار آرہا تھا مجھ پہ۔ وہ کبا تھا۔“ اس کی جالت سے‬
‫محظوظ ہوئے وہ سرپر لہچے میں بوال کہ چنہ اس کا ہاتھ چھبکنی ہونی اندر کی طرف جائے‬
‫لگی۔‬
‫م‬ ‫ُ‬
‫ن‬
‫اسے اس کانیر کٹ کے نارے یں شوجبا تھا خو اس کے نام کا جاری کبا گبا‬
‫تھا۔ نہاں سے تکلنے میں تھی اجتباط کرنی تھی ک نونکہ کانیرنکٹ میں اس کی لوکٹشن‬
‫نک منٹشن ہو گی۔‬
‫”میں ئے شک نورنی پڑھا دی ہے‪ ،‬قکر کرئے کی ضرورت نہیں۔ تھوڑی دپر میں‬
‫ہی وہ آدمی شا منے ہو گا جس ئے پہ چمافت کی ہے۔“ چنہ کے شاتھ جلنے ہوئے وہ‬
‫سنجبدگی سے بوال۔ چنہ ئے نس انک تظر اس کو دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1037 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کراؤنڈ ہبڈ سے میں خود کانتبکٹ کرنی ہوں۔ آخر انہوں ئے اس کو انکست نٹ‬
‫کٹسے کر لبا۔“ چنہ کا عصے سے پرا جال ہو رہا تھا۔ وہ انک اچھی اماؤنٹ وہاں ڈون نٹ‬
‫کرنی تھی اور سر جارج ئے اس کو مارئے کا کانیرنکٹ ف نول کبا تھا۔‬
‫”نمہیں ضرورت نہیں‪ ،‬میں خود ان سے مل لوں گا۔“ رنان سنجبدگی سے بوال چب‬
‫وہ دوبوں اندر داجل ہوئے‪ ،‬کنچن کا م یظر تظر آنا چہاں دامیر کھڑا کجھ نبا رہا تھا اور علتبا‬
‫اس پہ پرشوق تگاہیں تکائے کھڑی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫لبام ان دوبوں کو وانس الؤنج میں آنا دنکھ گھورئے لگا۔ چب وہ اندر آنا تھا نب‬
‫دوارا کبل کنچن میں مصروف تھے تھر دامیر کا الگ سرد ین دنکھا اور اب تھوڑی دپر‬
‫تغد پہ تھر وانس آ گنے تھے۔‬
‫”مجھے نہاں آنا ہی نہیں جا ہنے تھا۔۔“ لبام ندمزا ہوئے عصے سے پڑپڑائے اتھا‬
‫کہ وہ ک نوارا نہاں خوامحوا تھٹس گبا تھا۔‬
‫”ہمیں کونی مسبلہ نہیں تم نہاں انبا کام کر شکنے ہو۔“ اس کے اتھنے پہ‬
‫علتبا نیزی سے بولی کہ پرا پہ مبا جائے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1038 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھ سے آخر لڑک نوں کو ک نوں مسبلہ ہو گا۔ مسبلہ بو نمہارے پہ شوہر ہیں۔“‬
‫لبام جلے دل سے بولبا ہوا ا ننے کمرے میں ہی جائے لگا کہ دامیر کی آواز پہ رک گبا۔‬
‫”لنچ رنڈی ہے۔ کہیں جائے کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ لنچ نبار کر حکا تھا جس‬
‫پہ رنان کو اچھتبا ہوا۔‬
‫لبام اجشان کرئے والے انداز میں رک گبا جبکہ رنان جلبا ہوا اس کے فرنب‬
‫گبا۔‬
‫”نمہیں کبا ضرورت تھی کنچن میں آئے کی‪ ،‬کھائے کا ہم دوبوں دنکھ رہے تھے‬
‫نا۔“ رنان دامیر کو بوکبا ہوا بوال۔‬
‫”و نسے ہی دل جاہ رہا تھا بو کجھ نبا دنا۔ ڈپر تم لوگ ہی نبار کرنا پہ بو نس ہلکا‬
‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫تھلکا شا ہی کھانا نبانا ہے۔“ ہاتھ نٹسو سے صاف کرئے وہ ھے ہبا۔‬
‫رنان ئے چنہ کو اشارہ کبا کہ وہ چیزیں اس کے شاتھ مل کے نتبل پہ سنٹ‬
‫کر لے۔‬
‫کھائے کے دوران چنہ جاموش رہی تھی‪ ،‬ا ننے لنے اشاشن کا کانیرنکٹ ستبا‬
‫طٹش میں متبال کر رہا تھا۔ شکون سے بو وہ اب تھی نہیں نتتھنے والی تھی۔ اس کا نس‬
‫نہیں جل رہا تھا کہ اتھی اکبڈمی میں جا کے نباہی محا دے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1039 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس نڈھے کی ہمت کٹسے ہونی اس کا کانیرنکٹ ف نول کرئے کی۔‬


‫لبام اور علتبا کے شا منے رنان ئے کام سے م یغلق کونی نات نہیں چ ھیڑی‬
‫تھی۔‬
‫کھائے کے تغد رنان دامیر کو لنے آرمری کی طرف جلے گنے تھے ناکہ مزند کجھ‬
‫ڈشکس کر شکنے۔‬
‫ڈپر لڑکوں ئے لنٹ کبا تھا‪ ،‬علتبا تھی قارغ ہو کے ا ننے کمرے میں جا جکی تھی‬
‫کہ رنان خود دامیر کو چھوڑ جائے گا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫”ہاتھ سبدھا رکھو۔۔“ سرد آواز میں جکم پہ علتبا ئے نسنول پہ گرفت سحت‬
‫کرئے نازو نالکل سبدھا کبا۔ ا ننے عرصے تغد اس ئے گن تھامی تھی وہ تھی قاپر‬
‫کرئے کے لنے۔‬
‫ً چ‬
‫”تظر نارگنٹ پہ‪ ،‬چب محسوس ہو کہ نارگنٹ پہ ہے نشاپہ فورا قاپر‪ ،‬کبا‬
‫ھ‬ ‫ج‬‫ھ‬
‫نہیں۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1040 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کے نالکل ننجھے کھڑے ہوئے وہ سنجبدگی سے اس کو جکم دے رہا تھا۔‬


‫سمجھانا بو دور کی نات۔‬
‫”قاپر۔۔۔۔“ مزند دو سبکبڈز پہ چب علتبا ئے قاپر پہ کبا بو اس کی سحت آواز پہ‬
‫ت‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫ک‬‫ن‬
‫اس ئے گ ھیرائے قاپر کبا اور کا نتنے ہاتھ ننچے کنے۔ آ یں زور سے نچ ر ھی یں۔‬
‫ھ‬ ‫ھ‬
‫”پہ بو ئےنی قاپر تھا۔۔“ وہ ناخوش تظر آنا اور نارگنٹ پہ تظر چمائے دنکھا۔‬
‫علتبا ئے جاتف تگاہوں سے رنان کو گھورا۔ وہ انک نل تھی پرم لہحہ نہیں انبا نانا‬
‫تھا۔ جالد ننے اس کے سر پہ کھڑا تھا۔‬
‫ُ نہ ُ‬
‫”پہ شاری مبگزین جالی کرنی ہے آج اور ادھر ادھر یں۔ اس نارگنٹ پہ۔“‬
‫رنان اس کو شا منے لگے بورڈ کی طرف اشارہ کرئے ہوئے بوال۔‬
‫علتبا کا شانس تھول گبا تھا‪ ،‬اس کسرت سے نہیں نلکہ رنان کی نانیں شن شن‬
‫کے۔‬
‫”بوان نٹ لو انبا۔“ اس ئے علتبا کے نیروں کی طرف اشارہ کبا۔ علتبا ئے دوبوں‬
‫نیر سبدھے کنے‪ ،‬نسبل ہاتھ میں تھامے نازو اوپر کنے۔ کابوں پہ ہبڈ فون لگائے رکھنے‬
‫ب‬ ‫ل‬ ‫ش‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ت ن‬
‫ھے۔ آ یں کیڑیں۔ نشاپہ لبا کن۔۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1041 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”قاپر۔۔۔“ رنان کی عرانی آواز پہ انک نار ت ھر علتبا کا ہاتھ لڑکھڑانا اور گولی تھر‬
‫نارگنٹ سے ہٹ کے لگی۔ علتبا ئے روہانشا ہوئے رنان کو دنکھا۔‬
‫”تم ہر نار ا نسے میرے ناس جالؤ گے بو خراب ہی لگے گا نشاپہ۔“ علتبا اس کو‬
‫ک‬‫ن‬
‫مالمنی تگاہوں سے د نی ہونی بولی۔‬
‫ھ‬
‫ارادہ اس کا ہقنے تغد دامیر سے ہی سبکھنے کا تھا لبکن رنان زپردسنی اس کو‬
‫آرمری میں لے آنا تھا کہ وہ آج سے ہی شونبگ پرنکٹس سروع کرے۔‬
‫”پہ بو ضرف میں ہوں جس سے ڈر گنی‪ ،‬چہاں نسبل تھامنی ہو وہاں تم دھماکے‬
‫تھی ہوئے ہیں۔ بو کبا ہر نار ہاتھ کا ننے گا نمہارے؟“ رنان اس کو سحت لہچے میں‬
‫بوال۔‬
‫”ہللا پہ کرے کہ مجھے انسی صورت جال میں کتھی گن تھامنی پڑے۔“ علتبا‬
‫چھرچھری لتنی ہونی بولی۔‬
‫”بو کبا ڈانس کرئے ہوئے گن تھامنی ہے اگر انسی صورت جال میں نہیں‬
‫تھامنی۔“ رنان نبکھے لہچے میں اس سے بوچھنے لگا کہ وہ گڑپڑا گنی۔‬
‫”سنین بور بوزنشن۔“‬
‫وہ اجانک تھر نحکم تھرے لہچے میں بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1042 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں تھک گنی ہوں۔“ علتبا پرو تھے انداز میں بولی اور ا ننے ہبڈ فوپز انارئے لگی۔‬
‫”دو قاپر کر کے ہی تھک گنی ہو۔ دسمن نمہاری تھکن دنکھ کے قاپر نہیں‬
‫کرے گ کہ ناجی آپ تھوڑا شانس لے لیں ہم تھر آپ پہ چملہ کریں گے۔“ رنان‬
‫اس پہ طیز کرئے سے تھر ناز پہ آنا۔‬
‫اس ئے شکوہ کباں تگاہوں سے چنہ کو دنکھا خو التغلق سی اننی پرنکٹس میں‬
‫مصروف تھی۔ اس کو کونی فرق نہیں ہڑنا تھا کہ رنان علتبا کو کٹسے پرنبڈ کر رہا تھا۔‬
‫شونبگ کی قالحال کی زمہ داری رنان ئے لی تھی۔‬
‫”ہم کل نہیں سے کانتنت نو کریں گے۔“ علتبا ئےنبازی سے بولنی ہونی گن کو‬
‫نتبل پہ رکھ گنی۔‬
‫”نمہیں صنح سے شام کے درمبان شوٹ کرنا آجانا جا ہنے تھر ہم نبکشٹ کی طرف‬
‫پڑھیں گے لبکن پہ لڑک نوں والے نجرے۔ چیر و نسے تھی نمہاری طت یغت کی وجہ سے‬
‫اتھی سحت پرنتبگ نہیں سروع کر شکنے اتھی پرمی ہی کرنا پڑے گی۔“ رنان اس کی‬
‫گن تھام کے مبگزین جبک کرئے لگا جس میں سے دو ہی گولباں جلی تھیں۔‬
‫پہ اتھی سحت پرنتبگ نہیں تھی اس کی‪ ،‬ا ننے سحت لہچے میں وہ اس کو جکم‬
‫دے رہا تھا اور اب تھی جباب کی کیر ناقی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1043 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا اس کو گھورئے میں مصروف تھی چب رنان ئے اجانک اننی تگاہ اتھانی۔‬
‫علتبا اس کی آنکھوں میں پرفبال ناپر محسوس کرئے تھوک تگل کے رہ گنی۔ گردن کے‬
‫ننجھے کرنٹ شا لگا تھا۔‬
‫اس ئے چنہ کو دنکھا خو اننی جبکٹ انار رہی تھی۔ نسننہ اس کے چہرے پہ‬
‫چمک رہا تھا۔ علتبا ئے بو اس کی نسنت کجھ تھی نہیں کبا تھا اور وہ ا ننے کم وفت‬
‫میں کاقی کسرت کر جکی تھی۔‬
‫نہاں سے تکلنے میں ہی عاف نت جانی۔ دامیر نہاں موخود نہیں تھا۔ آج شام کا‬
‫کھانا کھائے کے تغد وہ دامیر کے شاتھ الن میں ہی تھوڑی والک کرنی رہی تھی تھر‬
‫رنان ئے رات کی پرنتبگ کا کہا بو اس کا دھبان علتبا پہ گبا۔ کل بو اس ئے کجھ‬
‫نہیں کہا تھا لبکن آج رنان کا ارادہ تھا کہ کجھ سبارٹ بو کرے۔‬
‫دامیر وانس گھر کی طرف پڑھ گبا تھا اور علتبا چنہ اور رنان کے شاتھ نہاں آرمی‬
‫میں آگنی تھی۔ آخری نار وہ نہاں سے وانس گنی بو اس کو شب ناد آنا تھا‪ ،‬نب اس‬
‫ئے انبا دل بونبا محسوس کبا تھا لبکن آج انشا کجھ نہیں تھا۔ اور آج بو شاند رنان ہڈناں‬
‫بوڑئے کا ارادہ رکھبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1044 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چیر اننی جان چھڑوانی وہ وانس گھر کی طرف پڑھی کہ رنان کی شکانت کرے گی‬
‫دامیر سے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫علتبا کو جانا ہوا دنکھ چنہ ئے انبا مونانل نتبل سے اتھانا اور مبکس کا نمیر ڈانل‬
‫کرئے لگی۔‬
‫”مبکس سے نات کرواؤ۔۔“ فون کسی گارڈ ئے اتھانا تھا نتھی وہ سنجبدگی سے‬
‫بولی۔‬
‫”مبکس اتھی کسی متنتبگ میں ہیں۔“ گارڈ مؤدب شا بوال۔‬
‫”اتقارم کرو کہ میری کال ہے۔“ مونانل کبدھے اور کان کے درمبان رکھنے‬
‫رکھنے ا ننے ہاتھ پہ ننی لتنتنے لگی۔‬
‫رنان اس کی جانب پڑھا۔ مونانل کو ا ننے ہاتھ میں لتنے اس کے کان سے لگانا‬
‫اور انک ہاتھ ننجھے سے اس کے گرد ناندھا۔‬
‫”سر ئے م یع کبا ہے کہ ان کو ڈسیرب پہ کبا جائے۔“ وہ اب تھی اسی انداز‬
‫میں بوال کہ چنہ کو عصہ آئے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1045 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”جس سر ئے م یع کبا ہے اس کو دنبا سے مبا دوں گی میں۔ فون دو ان کو۔“‬


‫وہ طٹش میں عرانی۔ رنان ئے اس کے کبدھے پہ ہونٹ ر کھے۔‬
‫”رنلبکس۔“ سرگوسی میں بوال‪ ،‬کس نات کا عصہ تھا اس کو۔‬
‫دوسری جانب گارڈ کو مبکس کی منتبگ میں محل ہونا پڑا اور نبانا پڑا کہ چنہ متم‬
‫کی کال تھی۔‬
‫”کام کٹشا جا رہا ہے آپ کا؟“ مبکس کی آواز اتھرئے ہی اس ئے سنجبدگی سے‬
‫بوچھا۔ ہاتھ میں ننی وہ لت نٹ جکی تھی نتھی رنان کے ہاتھ سے فون لے لبا لبکن اس‬
‫ئے انبا نازو نہیں ہبانا تھا۔ اس کے کبدھے پہ تھوڑی تکائے کھڑا رہا۔‬
‫”تھبک جا رہا ہے۔ چب نمہیں گارڈ ئے اتقارم کبا تھا کہ منتبگ جل رہی ہے بو‬
‫تھوڑا ان یطار کر لتنیں۔“ مبکس تھوڑا سحت لہچے میں بولے کہ چنہ کے چہرے پہ‬
‫اسبہزاننہ مشکراہٹ اتھری۔‬
‫”کون سی منتبگ جل رہی ہے آپ کی؟“‬
‫مبکس ئے اس کی آواز میں طیز محسوس کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1046 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے امبد ہے کہ وہ آپ نہیں ہو نگے جبہوں ئے اننی کسی پزنس منتبگ میں‬
‫ڈنگر کا زکر کبا کہ ڈنگر ئے شپ منٹس رکوانیں۔ ک نونکہ اس میں آپ کا بو کونی قاندہ‬
‫نہیں۔ ہے نا۔“ چنہ نالکل سنجبدگی سے بولی کہ دوسری طرف مبکس جاموش ہو گنے۔‬
‫”جس ئے تھی کانیرنکٹ دنا ہے میرا‪ ،‬اس کو کہیں وانس لے۔ مجھے آپ کا‬
‫ت‬ ‫ح‬ ‫م ُ‬
‫مغلوم ہو گبا ہے بو الزمی نات ہے کہ یں اس س ص کو ھی جان نی ہوں۔“ چنہ‬
‫گ‬
‫رنان کا ہاتھ پرمی سے ہبانی ہونی اس سے دور ہوئے مبکس کو وارنبگ د ننی ہونی بولی۔‬
‫”میرا اس سے کونی تغلق نہیں چنہ۔ میں ک نوں انشا جاہوں گا پہ ہی میں جانبا‬
‫ہوں کہ کونی کانیرنکٹ تھی آنا ہے۔“ مبکس سنجبدگی سے اننی نات کہنے لگے لبکن چنہ‬
‫کو کونی فرق نہیں پڑنا تھا۔‬
‫ُ‬
‫”ورپہ انک دن کا تھی وفت نہیں ہے اس ص کے ناس۔۔“ انبا کہہ کے‬
‫ح‬
‫س‬
‫چنہ ئے کال کاٹ دی۔‬
‫کانیرنکٹ کسی پزنس مین کی طرف سے تھا ک نونکہ نباہ ہوئے کننئیرز میں انک‬
‫کننئیر اس آدمی کا تھی تھا۔ اس کی ڈنل میں انک لڑکی تھی تھی خو اب چنہ کے ناس‬
‫ُ‬
‫تھی اور شاتھ اس پڑی شپ یں لبگ کا ھی کاقی قصان ہوا تھا۔‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫مگ‬ ‫س‬ ‫م‬
‫”شالے پزنس مین۔۔“ فون کو ننجنے وہ عصے سے پڑپڑانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1047 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫مبکس کو کال کرئے کا مقصد تھا کہ وہ آدمی مبکس کا پزنس نارنیر تھی رہ حکا‬
‫ن‬
‫تھا بو ا نسے میں اِ س کی دی ہونی دھمکی اس نک ہنچ جائے گی‪ ،‬انک دن کا وفت تھا‬
‫ُ‬
‫لبکن اس سے تھی کم وفت میں اگر کانیرنکٹ وانس پہ لبا گبا بو پہ خود اس ص کو‬
‫ح‬
‫س‬
‫مبائے والے تھے۔‬
‫پہ مغاملہ بو جل ہوا۔ ما تھے پہ ہاتھ رکھنے اس ئے کنتنی کو سہالنا۔‬

‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”میں نہیں جاؤں گی اب وہاں۔ زرا نمیز نہیں ہے رنان کو نات کرئے کی۔“‬
‫الؤنج میں آنی وہ عصے سے بولی کہ دامیر ئے الجھن سے اس کو دنکھا۔‬
‫”کبا ہوا؟“ وہ نسونش زدہ لہچے میں بوچھنے لگا کہ علتبا کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ شاند‬
‫وہ روئے کی نباری میں تھی۔‬
‫”مجھے ڈانٹ رہا ہے‪ ،‬میں ئے کجھ کرئے سے م یع کبا بو کمزور کہبا سروع ہو‬
‫گبا۔ اس کو سمجھا لو دامیر۔ تھر مجھے جن کی طرح گھورنا ہے جٹسے اس کا اگال شکار میں‬
‫ہوں۔“ علتبا عصے اور تھرائے لہچے میں اس سے بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1048 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اوکے رنلبکس۔ وہ چب کام سے رنلتبڈ کجھ کرنا ہے بو تھر کجھ نہیں دنکھبا۔“‬
‫دامیر پرمی سے اس کو سمجھانا ہوا بوال۔ ہون نوں کے کبارے مسکائے کہ ا چھے موڈ‬
‫شونتبگ جل رہے تھے اس کے۔‬
‫دامیر اتھنے لگا بو علتبا ئے شوالنہ تظروں سے دنکھا۔‬
‫”کہاں جا رہے ہو؟“ ا ننے رجشار سے آنسو صاف کرئے وہ نیزی سے بولی۔‬
‫”رنان سے دو دو ہاتھ کرئے۔“ وہ سباٹ انداز میں بوال جبکہ علتبا ہڑپڑا اتھی۔‬
‫”نمہیں تکل یف ہو گی دامیر‪ ،‬ر ہنے دو ت ھر کتھی نات کرنا اس سے۔۔“ علتبا خزپز‬
‫ہونی بولی کہ وہ دامیر کو نات پڑھا کے نبا رہی تھی رنان بو وافعی اننی پرنتبگ ہی کروا رہا‬
‫تھا۔‬
‫دامیر ئے اس کو جانجنی تگاہوں سے دنکھا‪ ،‬وہ ڈرامہ کر رہی تھی۔‬
‫”جلو کمرے میں جلنے ہیں۔“ دامیر کجھ دپر تغد بوال بو علتبا سر ہالنی ہونی ڈرنک نا‬
‫رنان کو نالئے کے ارادے سے وانس مڑی کہ دامیر ئے اس کا ہاتھ تھاما۔‬
‫”کہاں؟“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1049 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”روم میں جانا ہے بو ان کو نال رہی ہوں۔“ وہ شادہ لہچے میں نبائے لگی۔ آج‬
‫ً‬
‫اس ئے گولی والی جگہ پہ ڈرنسبگ کی تھی بو زچم سے خون ر سنے لگا تھا نتھی اجتباط‬
‫بولی۔‬
‫”تم ہو نا‪ ،‬مجھے تھام کے جلو۔“ دامیر اس کو دنکھبا ہوا بوال کہ علتبا مشکرا دی۔‬
‫انک بو وہ اس سے قد میں چھونی‪ ،‬اگر دامیر اس کے کبدھے پہ نازو رکھبا بو شارا‬
‫بوچھ اسی پہ آجانا اور عین ممکن تھا کہ علتبا دب ہی جانی۔‬
‫لبکن دامیر ئے اجتباط سے اس کے شائے کے گرد نازو تھبالنا۔‬
‫”پرداشت کر لو گی نا‪ ،‬پہ نا ہو کہ البا مجھے نمہیں گود میں اتھانا پڑے۔“ وہ لوگ‬
‫کمرے کی راہداری کی طرف پڑھ رہے تھے چب دامیر ئے سرپر لہچے میں بوچھا۔‬
‫”میں تھبک ہوں‪ ،‬تم تھی رنان کی طرح کمزور کہہ رہے ہو مجھے۔“ وہ پرا مبائے‬
‫ہوئے بولی چب وہ لوگ کمرے میں نہنچے۔ دامیر کو سہارے کی ضرورت نہیں تھی‪ ،‬وہ‬
‫آرام سے جل شکبا تھا لبکن نیزی نہیں دکھا شکبا تھا۔‬
‫علتبا ئے دروازہ نبد کبا اور دامیر کو لنے نبڈ نک آنی۔‬
‫علتبا وافعی ہانپ گنی گنی۔ اس کے نتتھنے پہ ستنے پہ ہاتھ رکھنی وہ گہرا شانس‬
‫تھرئے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1050 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دامیر مشکرانا ہوا علتبا کو دنکھنے انبا ہاتھ سرٹ نک لے گبا اور آہشنہ سے نین‬
‫کھو لنے لگا۔ اس کا ارادہ سرٹ انار کے چھلسی ہونی جگہ پہ مبڈنشن لگائے کا تھا۔ علتبا‬
‫ئے گھورا۔‬
‫”ک نوں نازو کو خرکت د ننے ہو دامیر‪ ،‬درد ہو گی۔“ وہ ڈ نتنے والے انداز میں بولی کہ‬
‫دامیر کو اس پہ نبار آئے لگا۔‬
‫کون کہہ شکبا تھا کہ پہ وہی علتبا تھی خو اس سے تفرت کا اظہار ئےڈھرک کبا‬
‫کرنی تھی۔‬
‫”الؤ میں مدد کروں۔“ تکلحت ہی چہرے پہ مدھم سرمگیں مشکراہٹ الئے اس کا‬
‫ہاتھ ہبا گنی اور نین کھو لنے لگی۔‬
‫دامیر ہلکا شا ہٹشا‪ ،‬وہ خود آفر کنے اب سرما رہی تھی۔‬
‫”پہ بو خراب تھی ہو گنی‪ ،‬کونی دوسری نہ نو گے؟“ علتبا انک شانبڈ سے سرٹ‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫پہ خون کے د ھنے د نی ہونی بولی۔‬
‫”میں سرٹ نہیں نہ نوں گا اب‪ ،‬نس نہاں مبڈنشن لگا دو۔“ وہ تقی میں سر ہالنا‬
‫ہوا بوال۔ اس کی تگاہیں علتبا کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1051 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے نمہیں ا نسے دنکھ کے نہت تکل یف ہونی ہے دامیر۔۔“ اس کے چہرے‬


‫کی مشکراہٹ اب قکر میں ندلی بو روہانشا ہونی۔‬
‫”اگر نمہیں کجھ ہو جانا بو۔۔“ اس ئے ششکی تھرئے چہرے پہ ہاتھ رکھا۔‬
‫”نمہیں پہ نات کتھی نہیں تھولنی جا ہنے پرنسٹس‪ ،‬دامیر تم سے مجنت کرنا ہے۔‬
‫اور نمہاری مجنت مجھے کجھ نہیں ہوئے دے گی۔“ دامیر ئے اس کے چہرے سے‬
‫پرمی سے نال ہبائے۔‬
‫”میں شب کجھ ف نول کر جکی ہوں لبکن میرے اندر ڈر سما گبا ہے۔“ وہ تھرانی‬
‫آنکھوں سے دنکھنے لگی۔‬
‫دامیر ئے پرمی سے اس کو ناس کرئے اننی گود میں نتھا لبا۔ علتبا ناقی کے نئیز‬
‫کھو لنے لگی۔ اس کے ستنے پہ موخود جگہ جگہ زچم ننے تھے۔ خراسیں موخود تھیں۔ علتبا‬
‫ئے پرمی سے ان پہ ہاتھ ت ھیرا۔ ”پہ دنبا نہت طالم ہے‪ ،‬ہمیں کبا سے کبا نبا د ننی‬
‫ہے۔“ وہ شو جنے لگی۔‬
‫”نمہیں آرام کرنا جا ہنے دامیر۔“ اس کے دل کی دھڑکن محسوس کرئے علتبا‬
‫چ ھحک کے بولی خو نیز ہو رہی تھی۔ شاند وہ تھک گبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1052 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اننی قکر ہو رہی ہے میری؟“ اس ئے مشکرائے ہوئے گردن پہ ہلکا شا بوسہ‬


‫دنا۔‬
‫”میں نمہیں مبڈنشن لگا دوں۔“ مشکرا کے کہنی ہونی اتھی اور ڈرنسبگ پہ اس کی‬
‫مبڈنشن دنکھنے لگی۔‬
‫اِ سے اب دامیر سے مابوسی والی نانیں نہیں کرنی جا ہنے تھیں‪ ،‬دامیر اس کے‬
‫شاتھ زندگی گزارنا جاہبا تھا اور ان کی زندگی میں خوشگوار نبدنلی کا اصاقہ تھی ہوئے جا رہا‬
‫تھا بو اب انسی نانیں کر کے وہ دامیر کو مزند مابوس نہیں کرنا جاہنی تھی۔ آ نتنے میں‬
‫اس ئے دامیر کا عکس دنکھا خو مشکرانی تظروں سے اس کو دنکھ رہا تھا۔‬
‫”ننی نہیں کرو گے دونارہ؟“‬
‫علتبا اس کے ناس آنی بولی‪ ،‬دامیر ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”زچم تھوڑا جشک ہو جائے ت ھر۔ لگا دو گی؟“ اننی نات کہنے اس ئے جانجنی‬
‫تگاہوں سے علتبا کو دنکھا۔‬
‫”نمہیں درد پہ ہو۔“ وہ نذنذب کا شکار ہونی بولی‪ ،‬دامیر تھوڑا سبدھا ہوا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1053 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہیں ہو گی‪ ،‬ہو شکبا ہے نمہارے لگائے سے مجھے جلدی آقاقہ ہو جائے۔“‬
‫اس کا موڈ تھبک کرئے کو وہ سرپر لہچے میں بوال۔ وہ اس کے ناپرات سمجھ شکبا تھا۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫م س‬
‫م‬
‫اس کو وفت لگبا تھا شب چیزوں کو نار ل ھنے یں۔‬
‫علتبا گہرا شانس تھرنی ہونی اننی اتگلی کے بوروں پہ ن نوب تکا لنے لگی۔‬
‫اس کی سرٹ کبدھے سے انارنی ہونی پرمی سے وہاں مرہم رکھنے لگی۔‬
‫دامیر ئے اس کو کمر سے تھاما اور فرنب کبا۔ نازو لنتنے دامیر ئے انبا سر اس‬
‫کے ستنے پہ تکانا۔ وہ مرہم لگا جکی تھی۔ ن نوب نبد کرئے وہ مشکرانی۔‬
‫”ہ نو اب۔ میں نمہاری سرٹ جگہ پہ رکھوں۔“ اس ئے کاقی دپر اس کو حصار‬
‫میں ناندھے رکھا چب علتبا اس کے نالوں میں ہاتھ ت ھیرنی بولی۔‬
‫وہ گہرا شانس تھر کے رہ گبا‪ ،‬ا ننے فرنب آ کے اسے دور نہیں کرنا جاہبا تھا‬
‫لبکن سرد آہ تھر کے ا ننے نازو ہبائے۔ وہ جتبا تھی اظہار کرنا کم تھا۔ اس کا وخود‬
‫راچت‪ ،‬تفو نت نحسبا تھا۔‬
‫”تم آج جلدی نہیں شوؤ گی۔“ وہ جتنج کر کے وانس آنی بو دامیر نتم دراز شا اس‬
‫کو دنکھنے بوال۔ نالوں کو خوڑے میں فبد کرئے علتبا ئے الجھ کے اس کو دنکھا۔‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫س‬
‫”ک نوں؟ اس کی نات تنے وہ ھوڑا کیرانی سی ھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1054 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ک نونکہ میں نہیں جاہبا۔“ وہ آنکھوں میں چمک لنے بوال۔ وہ کھلکھالنی۔‬
‫”تم مشلشل دو دن سے ان کو کور نہیں کررہے رات کو۔ ہوا لگ جائے‬
‫گی۔“ علتبا اس کے نبا سرٹ کے وخود کو دنکھنے ہونی بولی‪ ،‬کبدھے پہ نبا نت نو اب تھی‬
‫ونشا ہی تھا۔ آتھ کباروں واال سبارا۔ رسین مافبا۔‬
‫”سرٹ سے زنادہ الجھن ہونی ہے‪ ،‬رات کو جلن ہونی ہے۔“ دامیر سنجبدگی سے‬
‫بوال۔‬
‫”میں نمہں شل نو لٹس تکال د ننی ہوں‪ ،‬پہ ناقی خو چھوئے موئے زچم ہیں پہ‬
‫مسبلہ کریں گے۔“ علتبا کیرڈ کی طرف پڑ ھنے لگی کہ دامیر ئے روک لبا۔‬
‫”وانس آجاؤ۔۔ ا نسے ہی تھبک ہے۔ پہ چھوئے زچم محسوس تھی نہیں ہوئے۔“‬
‫دامیر اس کو ہاتھ کے اشارے سے نالئے لگا کہ علتبا کشمکش میں پڑ گنی کہ اس کی‬
‫ستنی جا ہنے نا نہیں۔‬
‫ن‬ ‫ً‬
‫اجتباط وہ انک سرٹ تکال النی کہ رات میں ہن لے گا چب دل کبا۔‬
‫”پہ چھوئے موئے زچم ک نوں نہیں فبل ہوئے نمہیں۔ ا ننے فبلتبگ لٹس ہو‬
‫ل‬ ‫چ‬ ‫ک‬‫ھ ن‬
‫گنے ہو؟“ علتبا نبڈ پہ خڑ نی آ یں ھونی کنے اس سے بو ھنے گی۔‬
‫چ‬ ‫ھ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1055 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم ئے اکبڈمی خواین کی تھی بو مغلوم نہیں ہوا اتھی نک۔“ وہ البا اس سے‬
‫شوال کرئے لگا۔‬
‫”میں کون شا ہر جگہ تھرنی تھی ا ننے کام سے کام رکھنی تھی وہاں۔“ علتبا ناک‬
‫تھوں خڑھائے بولی۔‬
‫”کراؤند ہبڈ اور ناقی اور تھی نہت سی اکبڈمیز میں ہر چیز الگ سے شکھانی جانی‬
‫ُ‬
‫ہے۔ مافبا کے ا ننے شکول کہہ لو۔ اسی طرح ڈ نبارنمنٹ ننے ہوئے یں۔ نارخر کا الگ‬
‫ہ‬
‫ڈ نبارنمنٹ ہونا ہے اور نمہارا شوہر ا چھے سے پرنبڈ ہے۔“ دامیر نیر کی مدد سے ک یفرپر‬
‫کھو لنے لگا کہ علتبا خود آگے ہوئے دوبوں پہ ک یفرپر اوڑھائے لگی۔‬
‫”تم لوگ شوئے تھی نہت کم ہو۔“ وہ انک اور نات ناد کرئے لگی۔‬
‫”اور تم شوئے ہوئے نالکل تھی ا چھے نہیں لگنے پہ بو اچھا ہے مجھ سے نہلے اتھ‬
‫جائے ہو۔“ علتبا اجانک چھرچھری لتنی ہونی بولی۔ آنکھوں کے شا منے استبال کا م یظر‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫لہرانا چب وہ آ یں موندیں پڑا تھا۔‬
‫”نارخر میں مشلشل حگانا تھی جانا ہے۔ نتبد کاقی کچی ہے ہماری۔ چنہ سے‬
‫بوچھبا وہ کاقی انک نو ہے اس مغا ملے میں۔“ دامیر علتبا کو مشکرائے ہوئے دنکھ نبائے‬
‫لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1056 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫علتبا کو رشک شا آئے لگا۔ چنہ انہیں کی طرح مضنوط تھی اور خود وہ خوزے کی‬
‫جان والی۔ رنان کے "قاپر" کہنے پہ کا نتنے لگ جانی تھی۔‬
‫”تم تھک بو نہیں گنی؟“ دامیر کی آواز پہ علتبا اننی شوخوں سے تکلنی اس کو‬
‫دنکھنے لگی۔‬
‫”نہیں‪ ،‬میں کٹسے تھکوں گی۔“ وہ پرمی سے بولی۔‬
‫”کبا کجھ انشا ہے خو تم مجھ سے کہبا جاہنی ہو؟“ دامیر اس کے چہرے پہ پرمی‬
‫سے ہاتھ ت ھیرنا ہوا بوال۔‬
‫علتبا ئے انبات میں سر ہالنا اور کھشک کے تھوڑا فرنب ہونی۔‬
‫”میں نہت خوش ہوں۔“وہ کہنے تگاہیں چھکا گنی۔ دامیر ئے تگاہوں سے اس‬
‫کے انک انک تقش کو خوما۔‬
‫"میری دب یا ئمہارے گرد گھو م نے لگی ہے"‬
‫اس کے من مو ہنے چہرے کو دنکھنے وہ دل میں اس سے محاظب ہوا۔‬
‫”ک نوں خوش ہو؟“ اس کا چہرہ اوپر اتھائے بوچھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1057 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہماری فتملی نتنے جا رہی ہے دامیر۔ میری ہمٹشہ سے خوانش تھی کہ انک گھر‬
‫ہو‪ ،‬شوہر اور نچے ہوں۔ میں ہاؤس واتف۔ گھر ستتھالوں۔“ وہ خوسی سے چہکنی ہونی‬
‫ل‬ ‫ن‬
‫کہنے لگی کہ دامیر کی آ یں کنے یں۔‬
‫گ‬ ‫م‬‫چ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫”کتنے نچے؟“ دامیر اس کے نالوں کی لٹ کو اتگلی پہ گول گول گھمائے ہوئے‬


‫سرپر مشکراہٹ لنے بوچھنے لگا۔‬
‫س‬
‫”جتنے تھی ہو جانیں۔“ وہ اننی رو میں نبا نات پہ غور کنے بولی دامیر ھنے سر‬
‫ج‬‫م‬
‫ہال گبا۔‬
‫”لبکن مجھے نہیں پہ مار دھاڑ سبکھبا میں ا نسے ہی گھر میں تھبک ہوں۔“ وہ تھوڑا‬
‫پرو تھے ین میں بولی۔‬
‫”تم آج اور کل گھر ہی تھی اور بور ہو گنی تھی۔“ دامیر جبائے ہوئے اس کو‬
‫کل کا کہا چملہ ناد دالئے لگا۔‬
‫”وہ بو تم لوگ تھی گھر پہ تھے۔ کجھ کرئے کہاں د ننے ہو۔“ وہ ان کو فصور‬
‫وار تھہرانی ہونی بولی۔‬
‫”شوہر گ ھر ہوں بو بورنت نتنی نہیں پرنسٹس۔“ دامیر اس کی لٹ کو ک ھتنجبا ہوا‬
‫بوال کہ علتبا ئے گھورا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1058 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم لوگ مزند بور کرئے ہو۔“ وہ دوندو بولی۔‬


‫”اتھی بور کر رہا ہوں نمہیں؟“ دامیر گھورئے ہوئے بوچھنے لگا کہ علتبا مشکراہٹ‬
‫دنا گنی۔‬
‫”اتھی بو ہم اکبلے ہیں نا‪ ،‬نانیں کر رہے ہیں۔ گھر پہ ہو تم لوگ بو آدھا دن تم‬
‫لوگ اننی منتبگ میں گزارئے ہو۔“ علتبا تھوڑی تقصبل نبائے لگی۔‬
‫”میرے شاتھ اکبلے میں بور نہیں ہونی۔“ دامیر دلحسنی سے بوچھنے لگا۔ اس کا‬
‫چہرہ ا ننے مقانل کبا۔‬
‫”نمہارے شاتھ میں ک نوں بور ہوں گی۔“ وہ مدھم لہچے میں بولی کہ دامیر کی‬
‫آنکھوں کی نٹش سے چہرے پہ سرجی چھائے لگی تھی۔‬
‫”تھر۔۔۔؟“ پرشوق تظریں تکائے وہ قاصلہ جتم کرئے کو تھا۔‬
‫”تم نہت ا چھے ہو۔۔“ وہ نس انبا ہی کہہ نانی کہ دامیر ئے اس کے مشکرائے‬
‫ہون نوں کے کبارے کو پرمی سے محسوس کبا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1059 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫آنکھوں پہ شن گالسز لگائے‪ ،‬سر پہ کنپ نہنے اور نالکل سباہ جلنے میں وہ‬
‫ئےنباز سی جلنی آرہی تھی کہ شا منے ہی نت نٹ کی ناکٹس میں ہاتھ ڈالے رنان کھڑا‬
‫اس کو سرد تگاہوں سے دنکھ رہا تھا۔‬
‫”ا نسے بو نمہیں کسی ئے نہحانا ہی نہیں آنی اتم امیرنس۔“ سرد آواز میں واصح طیز‬
‫کبا گبا۔ چنہ اس کی نات کو تظر انداز کرئے آگے پڑ ھنے کو تھی کہ رنان ئے اس کے‬
‫نازو کو گرفت میں لبا۔‬
‫”کبا شوچ کے تم ناہر گنی تھی ہاں۔“ آنکھوں میں سرد ین لنے وہ حظرناک لہچے‬
‫میں دانت نٹسنے بوال۔‬
‫”اننی ڈھنٹ ک نوں ہو تم‪ ،‬چب نمہیں م یع کبا تھا کہ خود کو تھوڑے دن گھر‬
‫میں رکھو ناہر کنے تھر رہے ہیں بو کبا موت کو دنکھنے کا زنادہ عسق ہو رہا ہے نمہیں۔“‬
‫انک ہاتھ سے اس کا چہرہ دبوچے ا ننے مقانل کرئے عرانا کہ چنہ ئے سجنی سے اس‬
‫کا ہاتھ چھ یکا۔‬
‫”میں کونی دنکو سی لڑکی نہیں خو انک دھمکی ملنے پہ گھر میں ڈر کے نتتھ جاؤں اور‬
‫دسمن کو موفع دوں اننی کمزوری کا۔“ چنہ البا اس کو سرد لہچے میں بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1060 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں مقانلہ کرنا جاننی ہوں۔“ وہ انک انک لقظ جبا کے بولی۔ اننی گالسز‪ ،‬ہ نٹ‬
‫انارے اس ئے عصے سے چھبکے میں اس کی طرف اچھالی خو رنان کے ستنے سے نچ‬
‫ہوئے زمین پہ جا لگیں۔‬
‫”جالی ہاتھ بو تم لونی نہیں ہو گی‪ ،‬کس کو ن یکا کے آنی ہو؟“ اس کی نشت کو‬
‫جانا ہوا دنکھ وہ بوچھنے لگا۔‬
‫”نمہاری مج نوپہ کو۔۔“ وہ وانس مڑئے جالنی کہ رنان کے ل نوں پہ نا جا ہنے ہوئے‬
‫تھی مشکراہٹ ر نبگ گنی۔ وہ وانس گھوما چب اس کو ڈرنک تھی آنا ہوا دکھانی دنا۔‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ُ‬
‫اس کا نہاں نجبا اس کے لنے علط نانت ہوا تھا چب اجانک پڑ ھنے والے ت ھیڑ‬
‫سے اس کو خواس جائے ہوئے محسوس ہوئے۔ کان میں نتم سی نجنے لگی۔‬
‫”کس کے کہنے پہ تم گنے تھے اس کے شاتھ؟“ ت ھیڑ کھائے کی وجہ جا ننے‬
‫کے تغد رنان جاموش شا تظریں چھکائے کھڑا رہا۔‬
‫”بولو نا تھر شادی سے نہلے سہبد ہوئے کی خواہش ہے نمہاری۔“ رنان اس کے‬
‫سر پہ کھڑا دھاڑا کہ ڈرنک ئے تھوک تگال۔‬
‫”سر متم کے شاتھ تھا ان کو ضرورت تھی میری۔“ ڈرنک سنجبدگی سے بوال کہ‬
‫رنان کا مئیر گھوما۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1061 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہاری متم کی بو انسی کی نٹسی۔۔“ وہ منہ ہی منہ میں پڑپڑانا کہ چنہ کا شو جنے‬
‫ت‬ ‫گ‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫اس ئے ضیط سے آ یں نبد یں۔ ع کرئے کے ناوخود وہ ناہر نی ھی انبا جلنہ‬
‫نبدنل کنے۔‬
‫”آ نتبدہ مجھے اتقارم کنے تغیر تم اس کے شاتھ گنے بو جس نانگوں کے شاتھ جاؤ‬
‫گے وہ اکھاڑ دوں گا۔“ رنان اس کو سرد لہچے میں وارن کرنا ہوا بوال بو وہ انبات میں سر‬
‫ہالگبا۔‬
‫”سر منتبگ کا ناتم نبا دیں‪ ،‬لوگ نار نار آپ سے کانتبکٹ کرئے کا کہہ رہے‬
‫ہیں۔“ اس سے نہلے رنان وانس مڑنا ڈرنک ئے نیزی سے بوال۔‬
‫”آج شام نانچ نچے کی منتبگ ارننج کرو۔ شب کو اتقارم کرو کہ اگر کونی تھی‬
‫اس سے انک سبکبڈ تھی لنٹ ہوا بو اس کا زمہ دار میں نہیں۔ جس ئے خو نات کرنی‬
‫ہے وہ آج ہی کرے۔ ہر نار میں انبا فتمنی وفت صا تع نہیں کرئے واال۔“ رنان اننی‬
‫رشٹ واچ میں دنکھبا ہوا اس کو وفت نبانا ہوا اندر کی طرف پڑ ھنے لگا۔‬
‫جبکہ ڈرنک ئے منہ نبائے انبا چیڑہ سہالنا۔ پہ آج نک کا شب سے زور سے‬
‫پڑئے واال ت ھیڑ تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1062 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ت‬ ‫ن‬ ‫ُ‬


‫دامیر علتبا کے شاتھ ناہر تکال تھا۔ اس کی کر یں ھی ک نونکہ وہ گارڈز کے‬
‫ہ‬ ‫ق‬
‫شاتھ تھا اور دامیر ئے ا ننے سنجز جبک کروائے تھے‪ ،‬علتبا کی طت یغت کجھ ڈاؤن تھی‬
‫بو ناہر جائے سے ط یعنت پہ اچھا اپر پڑنا۔‬
‫چنہ کنچن میں کھڑی نانی ننے اب کمرے کی طرف جائے والی تھی کہ رنان کو‬
‫ک‬‫ن‬
‫آنا دنکھ اس ئے آ یں ھما یں۔‬
‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬
‫”اتھی میں نالکل تھی نمہاری فصولبات پرداشت کرئے کے موڈ میں نہیں ہوں‬
‫رنان بو دور رہبا۔“ وہ رکھانی سے کہنی ہونی جائے کو تھی چب رنان دانت نٹسبا ہوا اس‬
‫کی طرف پڑ ھنے لگا کہ فون ن نپ پہ رک گبا۔‬
‫وہ لوگ کسی تھی مٹسج کو اگ نور نہیں کرئے تھے‪ ،‬کسی تھی وفت کونی تھی‬
‫الرٹ مل شکبا تھا نتھی وہ ہمہ وفت انک نو ر ہنے تھے۔‬
‫مٹسج دنکھا بو ما تھے پہ الجھن کے نل نمودار ہوئے‪ ،‬اس ئے تظریں اتھائے ہوئے‬
‫جانی چنہ کی نشت کو دنکھا جس کے نال کمر پہ نکھرے تھے۔‬
‫”انیرستبگ۔“‬
‫خو مٹسج موصول ہوا تھا‪ ،‬وہ سبانسی انداز میں آپرو احکانا ہوا اس کے ننجھے ل یکا خو‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت ُ‬
‫ن‬ ‫ہ‬
‫ا ھی اس آدمی کو اوپر نحا آنی ھی جس ئے اس کا کانیر کٹ تکاال تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1063 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ کمرے میں داجل ہوا بو چنہ کو نگڑے موڈ میں دنکھا۔ وہ کسی پہ پرہم ہو رہی‬
‫تھی۔‬
‫”چب میں ئے وارن کبا تھا نب آپ کو تھی اجتباط کرنی جا ہنے تھی۔ آپ کی‬
‫ڈنلز‪ ،‬پزنس نارنیرز میرے سر درد نہیں ہیں پہ ہی مجھے کونی فرق پڑنا ہے۔“ فون کان‬
‫سے لگائے وہ عرانی تھی۔‬
‫رنان جانبا تھا کہ دوسری طرف مبکس تھے۔ چنہ کی اتھی والی خرکت سے ان کو‬
‫کاقی تقصان ہوا تھا ک نونکہ وہ ان کے پزنس نارنیر کو مار کے آنی تھی۔‬
‫”ضیط کر لیں اس کی پراپرنی کونی نبا کام تھوڑی ہے۔“ وہ سرد لہچے میں بولی‬
‫اور فون نبد کر کے نبڈ پہ اچھاال۔ ما تھے پہ ہاتھ رکھنے اس کو مشلنے لگی۔‬
‫خوامحوا ہی مئیر ہانی ہوا تھا اب جا کے شکون مال تھا۔‬
‫منٹشن میں نالکل تھی فبد ہو کے ر ہنے کا اس کا کونی ارادہ نہیں تھا نتھی اس‬
‫ُ‬
‫ئے البا اسی نبدے کو مروا دنا جس ئے اس کو مروانا جاہا۔ پہ کام اس کے لنے‬
‫مسکل نالکل تھی نہیں تھا۔ ڈرنک ئے اس کی مدد کی تھی۔‬
‫لبام سے مغلومات ملی تھی کہ وہ سحص ان کے عالفے کے آس ناس ہی موخود‬
‫ہو گا آج اور اسی کا قاندہ چنہ ئے اتھانا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1064 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آ نتبدہ مجھے نبائے تغیر تم کہیں نہیں جاؤ گی اور پہ ہر وفت نمہارے ناس رہنی‬
‫جا ننے۔“ وہ مڑی ہی تھی کہ رنان کی موخودگی سے جاتف ہونی خو سنجبدگی سے اس کے‬
‫ناس آئے اس کا ہاتھ تھامے انگوتھی نہبا رہا تھا۔ وہی ڈانمبڈ رنگ خو ونڈنگ رنگ تھی۔‬
‫چنہ کجھ پہ بولی ک نونکہ وہ جان بوچھ کے اس کو گھر چھوڑ کے گنی تھی‪ ،‬اگر نہنے‬
‫رکھنی بو رنان کو اس کی لوکٹشن کا اندازہ ہو جانا‪،‬‬
‫ُ‬
‫ان شب ئے خو رنگ نہنی ہونی تھی اس یں انک پرنکبگ ڈبوانس موخود ھی‬
‫ت‬ ‫م‬
‫جس سے وہ انک دوسرے پہ تظر رکھ نائے تھے۔‬
‫ان کے فرننی ہر سحص کے ہاتھ میں انک انتبک رنگ موخود تھی۔‬
‫چنہ کا موڈ آج خراب تھا‪ ،‬رنان کی کسی قشم کی خرکت وہ پرداشت نہیں کرئے‬
‫والی تھی نتھی انبا ہاتھ چھڑوائے وہ ناتھ روم کی جانب پڑ ھنے لگی کہ رنان اس کی‬
‫خرکت پہ ناگوارنت لنے انک جشت میں نازو کو تھامے ا ننے ستنے سے لگانا۔‬
‫چنہ ئے اس کی گردن کو اننی گرفت میں لبا اور دناؤ پڑھانا۔‬
‫”ناٹ ناؤ۔۔“ وہ وارن کرئے والے انداز میں بولی۔ رنان الپرواہ انداز میں آپرو‬
‫احکائے اس کو دنکھنے لگا‪ ،‬جس کا ہاتھ رنبگبا ہوا اس کے نازو سے گردن کی طرف‬
‫پڑھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1065 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ناؤ اور ن نور۔۔ پہ میرا مانبا ہے۔“ معنی چیز تظریں اس کے چہرے پہ تکائے‬
‫ہوئے بوال کہ چنہ ئے گرفت مزند سحت کی۔ رنان کے ہون نوں پہ نٹشم نکھرا۔ اس ئے‬
‫البا چنہ کی گردن کے گرد ہاتھ لنتبا اور اننی جانب کھتنحا۔ انچ تھر کا قاصلہ رہ گبا۔ چنہ‬
‫آنکھوں میں سجنی لنے اس کی آنکھوں میں پراہ راشت دنکھنے لگی۔‬
‫”مجھ سے سرم نہیں آنی؟“ وہ سبانسی انداز میں آپرو اتھائے بوچھنے لگا۔‬
‫”تم سے سرم نہیں الننہ عصہ نہت آنا ہے تم پہ۔“ وہ دانت نٹسنے ہوئے بولی‬
‫کہ محال تھی کہ پہ نبدہ م یع کرئے کے ناوخود شکون سے نتتھے۔‬
‫چنہ ئے زرا سی نانگ اتھانی اور نامحسوس انداز میں انبا جافو تکاال۔ جافو کو اس ئے‬
‫رنان کے ن نٹ پہ رکھا کہ جتھن محسوس کرئے اس کا سر خودنحود ننچے چھکا۔ ن نٹ پہ‬
‫رکھی بوک دنکھنے وہ مشکرا دنا۔‬
‫”نمہیں لگبا ہے کہ پہ مجھ پہ اپر کرے گا؟“ وہ جٹسے اس کی نحوں والی خرکت‬
‫پہ چیران ہونا بوال۔‬
‫”پہ نہیں بو پہ ضرور اپر کرے گا۔“ جس ہاتھ سے رنان کی گردن کو دبوجا تھا‬
‫اجانک وہ دور کرئے اس ئے بوری فوت سے رنان کے منہ پہ مکہ خڑ دنا کہ پروفت‬
‫ڈھبلی گرفت نائے وہ دور ہونی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1066 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”چب کہوں کہ اتھی نہیں بو اچیرام کرو میری نات کا۔“ وہ جبانی ہونی بولی کہ‬
‫نہلے تھی وارن کبا تھا۔‬
‫رنان چہرہ شانبڈ پہ کنے ہلکا شا ہٹشا جٹسے اننی واتف کا چھونا مونا نہادری کا‬
‫مطاہرہ دنکھنے لطف اندوز ہوا ہو۔‬
‫”اتھی نہیں کا کبا مطلب‪ ،‬میں کجھ کرئے بو نہیں واال۔۔ میں نس تم سے ملبا‬
‫جاہبا ہوں۔“ وہ ناتھ روم میں جا جکی تھی اور اس سے نہلے کہ دروازہ نبد کرنی رنان‬
‫ئے انبا ناؤں دروازے کے ننچ اتکانا اور شوخ تظروں سے اس کو دنکھنے لگا۔‬
‫”رنان دفع ہو جاؤ نہاں سے۔ مجھے شکون کا شانس لتنے دو۔“ اس کی ڈھنٹ‬
‫طت یغت کو مد تظر رکھنے ہوئے وہ عصے سے نیز لہچے میں بولی۔‬
‫”شکون کا شانس کٹسے لے شکنی ہو چب میں نہاں ہو۔ شکون بو نمہیں ضرف‬
‫میرے ناس آنا ہے۔“ وہ شکون سے کھڑا اس کے عصے سے سرخ ہوئے چہرے کو‬
‫دنکھبا بوال۔ عصے سے نا سرم سے وہ کجھ کہہ نہیں شکبا تھا اننی نیز پرار ن نوی کے لنے۔‬
‫”اکبلے کبا کرو گی اندر۔۔؟“ مزے سے نبک لگائے اس ئے سر نا نا اس کو‬
‫معنی چیز تگاہوں سے دنکھا۔‬
‫”چہتم میں جاؤں گی۔۔“ وہ جالنی اور دروازے کو نبد کرئے کے لنے زور لگانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1067 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”بور ہو جاؤ گی وہاں۔ شاتھ جلنے ہیں۔“ پہ کہنے ہی اس ئے دروازے کو زرا شا‬
‫چھ یکا دنا اور چنہ لڑکھڑا پڑی۔ ناجار اس کو ننجھے ہتبا پڑا۔‬
‫ئےسرموں کی طرح اس کو دنکھنے اب اسبہقامنہ تگاہوں سے دنکھنے لگا کہ جلو‬
‫اب آگے خو کرنا ہے کرو لبکن وہ ستنے پہ نازو ناندھے کھڑی اس کو گھورئے لگی۔‬
‫”اب آہی گنے ہو بو پہ ناتھ روم صاف کرو۔“ ا ننے نالوں کو خوڑے کی شکل‬
‫میں ناندھنی وہ سنجبدگی سے بولی اور اننی سرٹ کی آسنین فولڈ کرئے لگی۔‬
‫”تم نہاں پہ کرئے والی تھی؟“ وہ نبکھے انداز میں بوچھنے لگا کہ چنہ کا دل کبا‬
‫نہاں جتنی چیزیں تھی شب اتھا کے اس کے سر پہ دے مارے۔ اس قدر ئےسرم‬
‫انشان تھا پہ کہ اننی ئےسرمی کا مطاہرہ کرئے میں کونی آر محسوس نہیں کرنا تھا۔‬
‫”میں بو نہاں منہ ہاتھ دھوئے والی تھی لبکن نمہیں اب شوق ہو رہا ہے کام‬
‫کرئے کا بو کر لو۔ آخر کو نمہارا تھی ناتھ روم ہے۔“ وہ الپرواہی سے بولی اور سبک کی‬
‫طرف پڑ ھنے نانی کھول کے منہ پہ چھنتنے مارئے لگی۔‬
‫”چب انک کبل اکبال ہونا ہے بو انسی نانیں نہیں کرئے۔“ ا ننے چہرے پہ‬
‫ہاتھ ت ھیرئے رنان گہرا شانس تھر کے اس کو نازو سے تھامے ا ننے مقانل کرئے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1068 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ہوئے سمجھائے والے انداز میں بوال اور اس کی مزاچمت کو تظر انداز کرئے والہاپہ نبار‬
‫کا اظہار کرئے ننجھے ہوا۔‬
‫”اب شکون سے چہتم میں جاؤ۔۔“ سرپر انداز میں انک آنکھ دنا کے کہبا وہ دروازہ‬
‫کھولے ناہر گبا کہ اگر وہ پروفت دروازہ نبد پہ کرنا بو خو اڑنی ہونی چیز دروازے کو لگی‬
‫تھی وہ اس کے سر کو شالمی دے جانی۔‬
‫ننجھے اس ئے چنہ کو صلوانیں د ننے سبا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”ا نسے کون مارنا ہے؟“ پرمی سے اس کے رجشار کو چھونی ہونی بولی کہ ڈرنک‬
‫ئے مشکراہٹ دنانی۔‬
‫”کبا ہو گبا ہے نہلی دفع تھوڑی ہوا ہے۔“ ڈرنک ئے اس کا ہاتھ تھام کے کہا‬
‫کہ نبال ئے حقگی سے اس کو دنکھا۔‬
‫”چہرہ سرخ ہو رہا ہے شارا۔ انہوں ئے زرا لحاظ نہیں کبا کہ دو دن تغد نمہاری‬
‫شادی ہے۔“ وہ عصہ کر رہی تھی۔ ما تھے پہ شکنیں موخود ت ھیں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1069 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”عصہ نبا کے تھوڑی آنا ہے تم زنادہ ری انکٹ کر رہی ہو۔ چب دامیر سر ئے‬
‫گولی ماری تھی نب بو تم ئے سراہا تھا‪ ،‬رومنتبک لگ رہا تھا اب بو نس ت ھیڑ ہے۔“‬
‫ڈرنک مشکرانا ہوا بوال۔‬
‫”وہ بو ان کا خزنانی ین تھا۔“ نبال دامیر کی شانبڈ لتنی بولی۔‬
‫”بو پہ کون شا شوق سے مارا ہے‪ ،‬چنہ متم کو دنکھنے خزنات میں مارا گبا ہے۔“‬
‫ڈرنک اس کی نات شن کے سر چھبکبا بوال خو اب نبڈ سے اتھنی جائے کو تھی۔‬
‫”میں آ نٹس نبک لے کے آنی ہوں ناکہ تھوڑی سی نکور کر دوں۔“ وہ کہنی ہونی‬
‫ناہر گنی‪ ،‬تھوڑی دپر تغد اس کے ہاتھ میں انک آ نٹس نبک تھا اور پرے تھی۔ اس‬
‫کے ناس نتتھنے اس ئے آہشنہ سے ڈرنک کے چہرے پہ رکھا۔‬
‫”کتبا رنڈ ہو رہا ہے دنکھو۔“ وہ ناشف سے بولی۔‬
‫”سر رنان کے سر پہ و نسے ہی خون شوار رہبا ہے۔ نبدے کے اندر فبلتبگز ہونی‬
‫ہیں لبکن پہ بو فبلتبگ لٹس نبدا ہوئے ہیں کجھ کہو بو گھورئے ا نسے ہیں جٹسے اتھی‬
‫چیڑ تھاڑ دیں گے۔“ وہ نانسبدندگی کا اظہار کر رہی تھی کہ ڈرنک کو تھوڑا پرا لگا۔‬
‫”وہ ا ننے تھی پرے نہیں جتنے تم سمجھ رہی ہو۔“ وہ بو کنے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1070 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”انسی نات ہے بو نین جار مکے تھی کھا آئے‪ ،‬تھوڑے نبل بو پڑے ہوئے‬
‫چہرے پہ۔“ وہ جلے دل سے اس کو گھورئے ہوئے بولی کہ ڈرنک ئے ہٹسنے تقی میں‬
‫سر ہالنا۔‬
‫رنان اور دامیر کی خزنانی طت یغت کا وہ کجھ نہیں کر شکبا تھا۔ دوبوں ہی ا ننے‬
‫غوربوں کے ننجھے سر تھرے تھے۔ مروا تھی شکنے تھے اور مار تھی شکنے تھے لبکن اننی‬
‫ن نوی کی جاطر خون کو مرئے سے نحائے تھے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫شا منے موخود نبڈ پہ نتتھے دامیر کو م یقکر انداز میں دنکھ رہی تھی جس کے شانبڈ پہ‬
‫کھڑا ڈاکیر اس کے زچم کا مغاننہ کرئے اب نتبڈج کر رہا تھا۔‬
‫آنا بو وہ علتبا کو جبک کروائے تھا لبکن وہ تصد تھی کہ دامیر تھی ڈاکیر کو دکھائے‬
‫انک نار۔ دامیر کو ا ننے زچموں کی پرواہ نہیں تھی ک نونکہ اب کاقی دن ہو گنے تھے‬
‫و نسے تھی درد کا اجشاس نہیں تھا۔‬
‫اننی سرٹ نہتنے مشلشل تگاہ علتبا پہ چمانی جس کی آنکھوں میں پرنشانی تھی۔ وہ‬
‫نہت جلد ا ننے خزنات و اجشاس واصح کرنی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1071 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ڈاکیر ان کے ناس سے ہبا کہ دامیر کا ہاتھ اب سرٹ کے نین کی جانب پڑھا۔‬


‫علتبا پروفت اتھی اور اس کے فرنب آنی۔‬
‫”میں کر د ننی ہوں‪ ،‬نمہیں درد ہو گی۔“ وہ مدھم آواز میں بولنی ہونی نین نبد‬
‫کرئے لگی۔‬
‫دامیر کو کتھی انسی سرٹ نہنے نہیں دنکھا تھا‪ ،‬وہ ہمٹشہ نی سرنس نہتبا تھا اور‬
‫اب زچم کی وجہ سے علتبا جاص جبال رکھنی تھی۔‬
‫دامیر ئے انک نل کے لنے تھی اس سے تظریں نہیں ہبانی تھیں۔‬
‫”سر انبا نازو اوپر کر ننے۔“ ڈاکیر اس کو نبلٹ نہبانا جاہ رہے تھے۔ دامیر ئے نبا‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫کجھ کہے نازو اوپر کبا لبکن علتبا سے تگاہ پہ ہبانی۔ وہ اس کے ا نسے د نے پہ خزپز سی‬
‫ہو رہی تھی۔ نار نار آنس میں ہاتھ الجھانی۔‬
‫”ا نسے نہیں دنکھو۔۔“ نآلخر علتبا ئے سرگوسی کرئے اس کو بوکبا جاہا ک نونکہ‬
‫م‬‫ک‬‫م‬
‫دامیر کا ل رخ ہی اس کی جانب تھا۔‬
‫م‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫م‬ ‫ُ‬
‫”کٹسے؟“ وہ اسی انداز یں بوال‪ ،‬آ ھوں یں شوخ ین واصح ہوا۔‬
‫”جٹسے میں نمہارا ناشنہ ہوں۔“ وہ گھورنی ہونی کہنے لگی کہ ڈاکیر کی موخودگی کا‬
‫جبال کرنا جا ہنے تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1072 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم میرا ناشنہ ہی نہیں‪ ،‬التف ناتم مبل)‪ (meal‬ہو۔“ اس کی آنکھوں کی‬
‫ک‬‫ع ن‬
‫چمک اتھری بو گہری تگاہوں سے دنکھبا ہوا بوال۔ لتبا آ یں ھما نی کہ دامیر ئے‬
‫گ‬ ‫گ‬ ‫ھ‬
‫اس کا ہاتھ تھامے ا ننے فرنب کھڑا کبا۔‬
‫م‬ ‫ہ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”میری آ یں یں‪ ،‬میری ن نوی ہے یں چب جاہے‪ ،‬جٹسے جاہے‪ ،‬چہاں جاہے‬
‫مرضی دنکھوں۔“ دامیر ئے کہنے ہوئے اس کو جن تگاہوں سے دنکھا علتبا نلش کر‬
‫گنی‪ ،‬چہرے پہ نیزی سے سرجی نیرئے لگی۔‬
‫”ہوستبل کا لحاظ کرو۔ انبا نبار آرہا تھا بو گھر سے تکلنے ہی نہیں۔“ وہ مضنوعی‬
‫سحت لہحہ انبائے ہوئے بولی۔‬
‫”گھر! میں نبڈ روم سے تکلنے پہ نجھبا رہا ہوں۔ انبا نبار آرہا ہے مجھے تم پہ۔“‬
‫دامیر ڈاکیر کی موخودگی کو تظر انداز کنے بوال کہ علتبا سنتبا اتھی۔‬
‫اس کی نات سے انحان نتنے کی کوشش کی جٹسے دامیر ئے کجھ کہا ہی نہیں‬
‫تھا۔ نٹشک وہ کسی دوسری زنان میں نات کر رہے تھے لبکن ڈاکیر اس کے ناپرات‬
‫سے جان شکبا تھا کہ دامیر اس وفت کس موصوع پہ نات کر رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1073 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ڈاکیر رسین میں دامیر سے کجھ کہہ رہا تھا اور علتبا جاموسی سے دوبوں کو ناری‬
‫ناری دنکھ رہی تھی‪ ،‬چب ڈاکیر بولبا بو علتبا کی تگاہ ڈاکیر کی طرف اتھنی‪ ،‬دامیر بولبا بو‬
‫اس کی جانب دنکھنے لگنی۔‬
‫دامیر اس کی آنکھوں کی خرکت پہ مشکرانا‪ ،‬اسے ئےشاچنہ نبار آئے لگا۔ وہ سمجھ‬
‫نہیں نا رہی تھی لبکن ڈاکیر کی ہر نات پہ سر ہال رہی تھی۔‬
‫نارکبگ نک آئے وہ دوبوں جاموش رہے تھے‪ ،‬علتبا کا جبک اپ ہو حکا تھا‪ ،‬ان‬
‫کی گاڑی کے ننجھے گارڈز کی گاڑی تھی خو ہوستبل کے اندر نہیں گنے تھے۔‬
‫”تم ڈران نو کر لو گے اب تھی؟“ دامیر ئے چب علتبا کے لنے دروازہ کھوال بو‬
‫علتبا ئےشاچنہ بول اتھی۔‬
‫”ک نوں‪ ،‬نمہارا ارادہ مجھے نبگ کرئے کا ہے؟“ دامیر ئے سنجبدگی سے کہا کہ علتبا‬
‫ئے گھورا۔‬
‫”دامیر۔۔“ وہ ننتبہی تگاہوں سے دنکھنے لگی۔‬
‫”کر تھی شکنی ہو نبگ‪ ،‬میں مانتبڈ نہیں کروں گا۔“ کہبا ہوا اننی ڈروانتبگ سنٹ‬
‫ستتھالی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1074 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”مجھے نہیں کرنا نمہیں نبگ۔۔“ وہ ناک خڑھا کے بولی کہ دامیر اس کی ادا پہ جی‬
‫جان سے مشکرانا۔‬
‫”تھر میرے نبگ کرئے پہ شکانت پہ کرنا۔“ وہ معنی چیزی سے بوال کہ علتبا‬
‫ئے حقگی سے اس کے نازو پہ ہاتھ مارا۔‬
‫”ہم آج لنچ ناہر کریں گے۔“ علتبا ئے گونا انبا ف یصلہ سبانا۔ دامیر ئے اس کے‬
‫چمکنے چہرے کی جانب دنکھا تھر سر کو چم دنا۔‬
‫”جٹشا میری واتف جاہے گی ونشا ہی ہو گا۔“‬
‫اس کی نات پہ علتبا کے ن نٹ میں گدگدی سی ہونی‪ ،‬اس ئے مشکرائے چمکنی‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫روشن آ یں دامیر پہ تکا یں۔‬
‫”تم نہت ا چھے ہو دامیر۔۔“‬
‫وہ اجشان کرئے والے انداز میں بولی‪ ،‬اس کے کبدھے پہ سر رکھنے کو تھی کہ‬
‫زچم کا جبال کرئے رک گنی۔‬
‫”تم نہاں آشکنی ہو۔“‬
‫دامیر ئے اس کے ننجھے ہتنے پہ اشارہ کبا کہ وہ اس کی آغوش میں سما شکنی‬
‫تھی اگر وہ کبدھے پہ سر رکھبا جاہے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1075 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہیں جی شکرپہ۔۔“ وہ لتھ مار انداز میں بولی کہ وہ ہٹس دنا۔‬


‫تھوڑی دپر میں وہ لوگ رنسنوران میں موخود تھے‪ ،‬ا چھے سے ماخول میں کھانا کھانا۔‬
‫ان کے گارڈز ان سے قاصلے پہ تھے کہ علتبا کو محسوس ہی پہ ہوا کہ ہمہ وفت گارڈ‬
‫موخود تھے خو ان کو کور کر رہے تھے۔‬
‫وہ نارمل کبل کی طرح انبا وفت انحوائے کر رہے تھے۔ و نسے ہی جٹسے علتبا عام‬
‫سی زندگی جاہنی تھی لبکن اس میں جاص اس کا شوہر تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫منٹشن کے شا منے ہی خوتصورت سی سحاوٹ کی گنی تھی اور شارا ان یطام کبا گبا‬
‫تھا۔‬
‫ڈرنک ان کا جاص آدمی تھا اور رنان کے ونڈنبگ فبکشن کی طرح ہی شب ارننج‬
‫تھا۔ مسرقی شادبوں کی روانت کی طرح ہی ڈرنک اور نبال ئے انک دوسرے کا شاتھ‬
‫نتھائے کی قشمیں کھانی تھیں اور ونڈنگ کبک کا ننے کے تغد شب رتفیرسمنٹ سے‬
‫لطف اندوز ہو رہے تھے۔‬
‫چنہ اور علتبا پرانبڈزمبڈ کے طور پہ النٹ پراؤن گاؤن نہنے ہوئے تھیں جبکہ رنان‬
‫اور دامیر گہرے تھورے رنگ کے شوٹ میں مل نوس تھے۔ وہ شب انک ہی نتبل کے‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1076 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گرد نتتھے تھے۔ لبام ئےزار ناپر سحائے آس ناس دنکھ رہا تھا۔ اس کو گبدرنگ نسبد‬
‫نہیں تھی نتھی التغلقی اجتبار کنے ہوئے تھا۔‬
‫”نہاں سے قارغ ہوئے ہی ہمیں تکلبا ہے‪ ،‬ڈرنک بو نہیں جا نائے گا بو جلدی‬
‫کام جتم کر دیں گے۔“ رنان کھائے کے دوران شاتھ نتتھے دامیر سے محاظب ہوا جس‬
‫ئے محض سر ہالنا۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫علتبا ئے نا ھی سے نہلے رنان تھر دامیر کو دنکھا۔‬
‫”کدھر جانا ہے؟“ دامیر کو دنکھنے ہوئے شوال کبا۔‬
‫”ضروری کام ہے۔“ وہ سنجبدگی سے انبا ہی بوال۔ علتبا ئے انک تگاہ چنہ پہ ڈالی‬
‫خو ئےنباز سی کھائے میں مصروف تھی۔ شاند وہ وافف تھی ان کے کام سے نتھی‬
‫جاموش تھی۔‬
‫ا ننے چہرے پہ تظریں محسوس کرئے دامیر ئے شا منے دنکھا چہاں علتبا اسی کو‬
‫ت ت ً‬ ‫ن‬ ‫ت ُ‬
‫دنکھ رہی ھی۔ اس کی آ ھوں یں نسونش ھی۔ فتبا وہ اس کے جائے کا شن کے‬
‫م‬ ‫ک‬
‫مابوس ہونی تھی۔‬
‫دامیر کو تفین تھا کہ وہ اس سے اکبلے میں نات کر کے سمجھا دے گا۔ جادئے‬
‫کے تغد نہلی نار وہ تھر سے کام کی طرف م نوجہ ہوا تھا اور علتبا الجھی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1077 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کے خوتصورت چہرے پہ پرنشانی دامیر کو نالکل تھی نہیں تھانی تھی‪ ،‬علتبا‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ُ‬
‫کو پرشکون رکھبا تھا اور اسے ین دہانی کروانی ھی کہ دامیر کو کجھ یں ہو گا۔‬
‫ہ‬ ‫ف‬
‫علتبا اب تھی دامیر کو دنکھ رہی تھی نا کسی شوچ میں تھی‪ ،‬دامیر ئے مشکراہٹ‬
‫ناس کی۔ دامیر کو مشکرانا دنکھ اس کے ہونٹ کے کبارے ہلے۔ وہ انبا سر چھکا‬
‫گنی۔‬
‫م‬
‫سیف والے روپ کے تغد دامیر اس طرح کمل ڈرنس اپ نہت ہتبڈسم لگ رہا‬
‫تھا۔ اس نات کا اغیراف وہ دامیر سے ضرور کرئے والی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫رنان ئے سبانسی انداز میں چنہ کے چہرے کو دنکھا۔ پرمی سے اس کے آگے‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫آئے نالوں کو کان کے ھے اڑشا۔ وہ اس کی ونشٹ ن لٹ ناندھ رہی ھی۔‬
‫اس کے نالکل پزدنک کھڑی کہ اس کے انک انک تقش پہ وہ لمس کی نارش‬
‫کرشکبا تھا۔‬
‫”و نسے تھوڑی دپر نہلے تم انشان لگ رہے تھے۔“ چنہ نبلٹ نبد کرئے ہوئے‬
‫سنجبدگی سے بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1078 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ُ‬
‫”تم تھی آج زہر سے کم ہی لگ رہی ہو۔“ وہ اسی کے انداز یں بو لنے ہوئے‬
‫م‬
‫اس کی تھوڑی کو تھامے چہرہ شا منے کرئے دنکھنے لگا۔‬
‫م‬
‫”کب وانس آؤ گے؟“ اس کی نباری کمل کروائے چنہ بوچھنے لگی کہ رنان ئے‬
‫دلحسنی سے اس کا چہرہ دنکھا۔‬
‫”کونی سرپراپز نلین کرنا ہے میرے لنے؟“ وہ البا زومعت نت سے بوچھنے لگا کہ‬
‫ن‬
‫چنہ آ کھیں گھما گنی۔‬
‫”نس مر کے وانس پہ آنا۔۔ زندہ ہی آجانا۔“ وہ زپردسنی طیزپہ مشکراہٹ اچھالنی‬
‫ہونی بولی کہ رنان ئے اس کی کمر کو جا لبا خو اتھی تھی خوتصورت گاؤن میں موخود‬
‫تھی۔‬
‫”ک نوں۔۔“‬
‫”جابور کے شاتھ ر ہنے کی عادت ہو گنی ہے نا۔“ آنکھوں میں مجنت الئے وہ‬
‫دھتمے لہچے میں بولی۔‬
‫”تھر انشا جابور ملبا تھی نہیں مجھے کہیں۔“ اس کی مزند کہی نات پہ رنان ئے‬
‫پرمی سے اس کے رجشار کو خوما۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1079 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میرے جٹشا انک کبا‪ ،‬دو نین آجانیں گے اگر تم جاہو بو۔۔“ اس کو تھامے ہی‬
‫وہ سرگوسی میں بوال کہ چنہ جل کے رہ گنی۔‬
‫”تھر نبہودہ نانیں۔۔“ وہ ندمزہ ہونی اور چہرے پہ کوفت تھرے ناپرات سحائے‬
‫دور ہوئے لگی۔ رنان ہلکا شا ہٹس دنا۔‬
‫” تم مجھے اب کام سے دور کر رہے ہو رنان۔ میں زنادہ دپر ا نسے نہیں رہ ناؤں‬
‫گی۔“ چنہ آ نتنے کے شا منے کھڑی ا ننے نالوں کی لمبانی دنکھنے لگی خو پڑھ گنی تھی۔‬
‫اسے ک نوا لتنے جا ہنے تھے اب۔‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ُ‬
‫”خو ہمارا کام ہے وہ ہم دنکھ رہے ہیں۔ خو نمہارا کام ہے اس سے ھی ہیں‬
‫روکا نا روکوں گا۔“ وہ سنجبدگی سے بولبا ہوا اس نک آنا۔‬
‫”مجھے تم ئے ا ننے شاتھ آج تھی جائے سے روکا ہے۔“ وہ جبانی ہونی بولی۔‬
‫”کہا نا کہ ہمارا کام ہمیں کرئے دو‪ ،‬علتبا کو نمہاری ضرورت ہو گی۔“ گہری‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ل‬
‫گرے آ یں لنے اس ئے ا قاظ پہ زور د ننے کہا۔‬
‫”چب ہم انک شاتھ ہیں بو ہمارا کم تھی انک شاتھ ہونا جا ہنے۔ میں خود کو زنگ‬
‫نہیں لگا شکنی قارغ رہ کے۔“ اس کے مقانل آئے وہ تھی جبائے لگی۔‬
‫”دامیر کی جگہ میں جا شکنی تھی۔“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1080 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دامیر کی جگہ تم نہیں ہو شکنی‪ ،‬وہ مجھے کور د نبا ہے اور اگر تم شاتھ ہونیں بو‬
‫مجھے کور کرئے کے نحائے نمہیں کور د نبا پڑنا‪ ،‬نا جا ہنے ہوئے تھی میرا دھبان تم پہ‬
‫رہبا۔“ رنان ئے رشان سے اس کو سمجھانا کہ چنہ ئے سر ہالئے گہرا شانس تھرا۔‬
‫”رات میں ملنے ہیں۔“ اس کے کبدھوں کو ننجھے سے تھامے نالوں پہ ہونٹ‬
‫رکھنے ننجھے ہبا۔‬
‫چنہ ئے گردن گالس ونڈو کی طرف کی‪ ،‬اندھیرا نس چھائے ہی واال تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫رنان ہال میں آنا چہاں اس کو علتبا اور دامیر دکھانی د ننے۔ علتبا حقا سی تظر آرہی‬
‫ل‬ ‫ُ‬
‫تھی ضرور وہ دامیر کے جائے پہ اس سے ا ھی ھی۔‬
‫ت‬ ‫ج‬

‫رنان کے آئے ہی علتبا جاموش مگر شکوہ کباں تگاہوں سے دامیر کو دنکھنے لگی‪،‬‬
‫چہرے پہ ناراصگی واصح تھی۔ رنان ئے آنکھوں سے دامیر کو اشارہ کبا خو الجارگی سے‬
‫کبدھے احکا گبا کہ ن نوبوں کا کجھ نہیں ہو شکبا تھا۔‬
‫ً‬
‫دامیر مونانل پہ کسی کا نمیر ڈانل کرئے گاڑی نبار رکھنے کو کہہ رہا تھا‪ ،‬عالبا‬
‫اشلحہ رکھوانا تھا۔ علتبا ئے شاکی تگاہوں سے دامیر کو دنکھا جس کا شانبڈ بوز تظر آرہا تھا۔‬
‫چہرے پہ سنجبدہ ناپرات تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1081 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫پہ لوگ اب تھی کسی چملے کی نباری میں تھے۔‬


‫”نمہیں دامیر کے تھبک ہوئے کا ان یطار کرنا جا ہنے تھا۔“ علتبا ئے رنان کو‬
‫محاظب کبا خو اس کی نات پہ آپرو اتھائے دنکھنے لگا۔‬
‫”میں بو کر تھی لوں لبکن نمہارا شوہر تھوڑا عحلت قشم کی طت یغت کا مالک ہے‪،‬‬
‫نمہیں تھی ا چھے سے ہی مغلوم ہو گا۔“ رنان ئے سنجبدگی سے کہا کہ علتبا اس کی‬
‫دوسری نات شن کے تھوڑا سنتباہی کہ اس کا اشارہ اِ س کی طت یغت کی طرف تھا۔‬
‫چ‬
‫”تم لوگ تھر کسی کو مارئے جا رہے ہو؟“ اب کہ علتبا ئے ھجھک کے بوچھا‪،‬‬
‫کبا ان کا مارے تغیر گزارا نہیں ہونا۔‬
‫” کسی ئے خود دغوت دی ہے۔“ اس ئے مونانل شا منے کرئے وفت دنکھا۔‬
‫”کٹسی دغوت؟“ وہ خود کو بوچھنے سے روک پہ نانی۔‬
‫”خود کو مروائے کی۔۔“ وہ آنکھ دنا کے بوال‪ ،‬آواز سے بو مشکرانا لہحہ لگا تھا لبکن‬
‫چہرے کے ناپرات بو پرفبلی تھے۔ علتبا کو سمجھ پہ آنا کہ وہ مشکرائے نا کبا کرے۔۔‬
‫”تم ئے کتھی مارئے سے نہلے مرئے والے کے آخری خواہش نہیں بوچھی؟“‬
‫علتبا ئے جٹسے اس کو سرم دالنی جاہی جبکہ رنان کی عج نب مشکراہٹ مزند گہری ہونی‬
‫اور آنکھوں میں چمک اتھری۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1082 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہیں لگبا ہے میں مرئے والے کو انبا تھی موفع د نبا ہوں کہ وہ جان نائے وہ‬
‫مرئے واال ہے۔ میں اس کو تغد میں سرپراپز د نبا ہوں‬
‫‪”That you’re dead‬‬
‫رنان ئے چہرے پہ سنجبدگی لنے کہا کہ علتبا ئے چھرچھری لی‪ ،‬اس کے خواب‬
‫میں ہمٹشہ نتبک انبک ہی ملبا تھا۔ گردن کے ننجھے سٹسباہٹ سی محسوس ہونی۔ انک‬
‫پرقی لہر سی دوڑ گنی۔‬
‫رونگھنے ک ھڑے ہوئے۔ وہ کجھ ئےتفتنی‪ ،‬چیرت تھری تگاہوں سے رنان کو دنکھنے‬
‫لگی۔‬
‫”کجھ مغلوم ہے کتنے لوگوں کو مار جکے ہو؟“ دامیر اتھی تھی کال میں مصروف‬
‫ُ‬
‫تھا نتھی وہ رنان سے نانیں کر رہی تھی ورپہ رنان کا خو کولڈ ری انکشن ہونا تھا اس سے‬
‫بو و نسے ہی نات کرئے میں خون جشک ہو جانا تھا۔‬
‫”پہ نبکی کرئے میں جشاب نہیں رکھبا۔۔“ وہ طیزپہ مشکراہٹ اچھا لنے ہوئے‬
‫علتبا کو دنکھنے بوال تھر انک دم مشکراہٹ عانب کرئے دامیر کو دنکھنے لگا۔‬
‫”لوگوں کو مارنا اب نبکی ہو گبا۔۔“ علتبا ئے ناگوارنت سموئے شا منے کھڑے‬
‫اس ہتبڈسم لڑکے کو دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1083 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”وہ لوگ مرنا ڈپزرو کرئے ہیں۔“ رنان اس کی پڑپڑاہٹ ستنے ہوئے بوال۔‬
‫ج ً‬
‫”خو تھی ہے دامیر کو گھر چھوڑ کے جاؤ۔ وہ تھبک نہیں ہے۔“ علتبا ئے ا نحاجا‬
‫اس سے کہا کہ اگر علتبا دامیر سے کہنی بو تھر نحث و مباپہ ہونا اور اگر رنان خود دامیر‬
‫کو ر کنے کا کہبا بو دامیر رک شکبا تھا۔‬
‫”نہادر ن نو۔ آج چھوئے سے کام پہ جائے سے تم روک رہی ہو کل کو اس سے‬
‫پڑی کونی نات ہونی تم بو دامیر کو ناندھ ہی لو گی۔ وہ انبا کام کر رہا ہے کرئے دو۔‬
‫آگے ہی مج نوں کی اوالد نبا تھرنا ہے۔“ رنان ئے نبا کسی لگی لتنی کے نات کہہ کے‬
‫کام نمام کبا کہ علتبا ہوتفوں کی طرح اس کو دنکھنے لگی۔‬
‫”دامیر کو تم مج نوں کہہ رہے ہو خود کبا ہو تم۔۔“ رنان کا دامیر کو انشا کہبا علتبا‬
‫ً‬
‫کو نالکل تھی اچھا نا لگا جس کا اظہار اس ئے فورا کبا۔ اس کی ند میزی پہ رنان ئے‬
‫ن‬
‫علتبا کو جشمگیں تگاہوں سے گھورا کہ وہ تھوک تگل کے رہ گنی۔‬
‫تگاہیں خرانی ہونی وہ دامیر کے ناس ہی جلی گنی کہ رنان پہ اس کو چیڑ تھاڑ‬
‫دے۔‬
‫کھ نجت‬
‫نی سرگوسی‬ ‫”دامیر۔۔۔“ علتبا کن اکھ نوں سے رنان کو دنکھنے دامیر کی سرٹ‬
‫میں بولی۔ دامیر کال پہ مصروف اس کے گرد نازو کا حصار ناندھ گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1084 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اگر نمہیں کجھ ہوا نا بو میں ئے رنان کو نہیں چھوڑنا۔“ وہ گردن اتھائے اس‬
‫کو دھمکی د ننے لگی۔ دامیر ئے اس کے ناس سے اتھنی خوسنو کو محسوس کبا اور ہلکا شا‬
‫چھکنے اس کی گردن پہ بوسہ دنا۔‬
‫کال جتم کرئے اس ئے دوسرا نازو تھی علتبا کے گرد ناندھا۔‬
‫”چھونا شا کام ہے ہم رات نک آجانیں گے۔ قکر کی کونی نات نہیں۔“ تھوڑی‬
‫دپر نہلے والی نات دامیر ئے تھر کہی کہ علتبا سر ہال گنی۔‬
‫اگر وہ اس کو تھر جائے سے روکنی بو رنان ئے اس کا مزند مزاق اڑانا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫نبگ سی گلی کے نالکل آخر پہ گاڑی روکے رنان آس ناس کا جاپزہ لتنے میں‬
‫مصروف تھا۔ گاڑی کے سٹسے اوپر ہی کر ر کھے تھے ناکہ اندر نتتھے لوگوں کا کسی کو‬
‫مغلوم پہ ہو شکے۔ رنان ڈران نونگ سنٹ پہ تھا۔‬
‫البانین (انگرون کا گتبگ) کاقی عرصے سے ان کے عالفے میں گھسے تھے اور‬
‫نہاں ال یگل سرگرمباں جاری تھیں۔ رنان ڈی‪ ،‬دامیر آر ئے کتھی ا ننے عالفے میں‬
‫انشابوں کی سمگبگ نہیں ہوئے دی تھی اور پہ ہی ڈرگز کی۔ وہ لوگ نس ال یگل ونئیز‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1085 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کی شپ منٹس دنکھنے تھے لبکن ان سے بو چھے تغیر خو نہاں اننی جکومت نبائے تکلبا‬
‫ان کو پہ چھوڑئے تھی نہیں تھے۔‬
‫شاشا کے مرئے کے تغد البانین ئے تھوڑی شسنی دکھانی تھی اور ان کا کام‬
‫رک گبا تھا لبکن اب وہ تھر سے انک نو ہو گنے تھے۔ نجھلے دبوں میں ڈرنک ئے نہاں‬
‫بورا گروپ جبک کبا تھا۔ وہ لوگ نہاں جاوی ہو رہے تھے اور اس سے نہلے کہ وہ‬
‫ُ‬
‫ف یصہ کرئے ان کا جانمہ ضروری تھا۔‬
‫اس وفت رنان‪ ،‬دامیر ان کے تھکائے پہ ہی موخود تھے اور کسی تھی خرکت کی‬
‫صورت میں انہوں ئے چملہ کر د نبا تھا۔ ان کا ناس نہاں نہیں تھا لبکن رنان خود‬
‫نہاں آنا تھا کہ پرابوا کے ہبڈ کے چملہ کرئے پہ وارنبگ مل جانی اور اگر اس کے تغد‬
‫تھی وہ لوگ ناز پہ آئے بو رنان انگرون کے گھر میں گھس کے اس کو مارئے کا ارادہ‬
‫رکھبا تھا۔‬
‫”آنی گٹس ہمیں نہاں ر کنے کے نحائے اندر جلبا جا ہنے۔“ طونل ان یطار کے تغد‬
‫دامیر ئے کہا اور اننی گن جبک کرئے لگا۔ رنان ئے انک تظر اس کو دنکھا خو نالکل‬
‫نبار تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1086 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آج نمہیں میں کور دوں گا۔“ رنان سنجبدگی سے بوال کہ دامیر خوتکا‪،‬اسبہقامنہ‬
‫تگاہوں سے اس کو دنکھا۔‬
‫”علتبا کے دامیر کی جان کا کونی رشک نہیں لے شکنے ہم۔“ رنان ہ نوز سنجبدگی‬
‫پرفرار رکھنے بوال کہ دامیر ئے گہرا شانس تھرے مشکرا کے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫ن‬
‫”جاموسی سے اپرو۔“ تکلحت وہ آ یں ھما کے بوال کہ رنان ئے سر چھ یکا۔‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫عزت راس نہیں آنی۔‬


‫وہ دوبوں جلنے ہوئے اس گلی میں داجل ہوئے۔ نبگ سی گلی کہ انک وفت‬
‫میں نہاں سے نس انک نانک کے گزرئے کا رشنہ تھا۔ پہ گھروں کی شانبڈ پہ موخود‬
‫جال تھی چہاں سے وہ گزر رہے تھے۔ اس کے دوسری طرف آخر پہ انک گنٹ تظر آرہا‬
‫تھا چہاں ان شب لوگوں کی رہانش تھی۔‬
‫”کبا کرنا ہے انک انک کر کے نا تھر اکھنے۔“ رنان ئے ونشٹ نبلٹ سے گن‬
‫تکالی۔ کتنے دن ہو گنے تھے سبانیر ئے اننی سبانیر سے وار نہیں کبا تھا اور آج تھی‬
‫وہی دن تھا۔ سبانیر کی جگہ نسبل جالنی تھی۔‬
‫”اکھنے۔۔ واتف ان یطار کر رہی ہے گھر۔“ دامیر جنی االمکان لہحہ سنجبدہ رکھنے‬
‫ہوئے بوال کہ نا جا ہنے ہوئے تھی رنان کے ہونٹ مشکراہٹ میں ڈھل گنے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1087 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”زندگی ئے کبا نلبا کھانا ہے۔ ناپ اشاشن اب ن نوبوں سے ڈرئے لگے ہیں۔“‬
‫رنان پڑپڑانا اور دوبوں ئے انک شاتھ قاپرنگ سروع کی۔‬
‫ان کو خوانی کاروانی کی کونی قکر نہیں تھی ک نونکہ وہ ہمٹشہ بوری نباری سے آئے‬
‫تھے‪ ،‬نہاں کا شستم ہبک تھا اور دھماکوں کے لنے انہوں ئے نہلے سے ہی ڈبوانس‬
‫انسبال کر رکھی تھیں۔ اگر مغاملہ آؤٹ آف کئیرول ہو جانا بو وہ انک نین دنائے کی‬
‫دوری پہ تھے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫ان دوبوں ئے اتھی جتنج نہیں کبا تھا‪ ،‬ڈرنک کی شادی کا فبکشن اتھی جاری‬
‫تھا۔ علتبا کا ارادہ بو نہلے نا جائے کا تھا لبکن چنہ کو جائے دنکھ وہ تھی اس کے شاتھ‬
‫ہو لی۔‬
‫رتفرنشمنٹ کے تغد اب نہاں ہلکا شا م نوزک جال دنا گبا تھا‪ ،‬پرانبڈ کبل اننی مگن‬
‫میں ہلکی دھن کے سرور پہ چھوم رہے تھے۔ چنہ جاموسی سے ا ننے نتبل پہ ہی آگنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1088 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫لبام اب نہاں موخود نہیں تھا‪ ،‬چنہ کا جبال تھا کہ وہ وانس منٹشن ا ننے روم‬
‫میں جا حکا ہو گا لبکن اس کا جبال علط نانت ہوا چب علتبا ئے اس کو انک جانب‬
‫اشارہ کبا۔‬
‫وہ کسی لڑکی کے شاتھ کھڑا اس سے ہٹس کے نات کر رہا تھا۔‬
‫چنہ کے ما تھے پہ ناگواری کی شکنیں پڑیں۔ اس کو لبام کی پہ خرکت پری لگی‬
‫تھی۔ وہ لڑکی اتھی نچی تھی جس کے شاتھ وہ نابوں میں مصروف تھا۔‬
‫علتبا کو نہیں نتتھے ر ہنے کا کہنے وہ لبام کی طرف پڑھی خو نار کاؤنیر پہ کہنی‬
‫ک‬
‫تکائے‪ ،‬نانگوں کی تنچی نبائے کھڑا تھا۔ ہاتھ میں واین گالس تھا جس میں شوڈا ڈرنک‬
‫تھی۔‬
‫نہن ُ‬
‫”مجھے نہاں کجھ نسبد نہیں آنا لبکن تم نہت ک نوٹ ہو۔“ چنہ وہاں چی بو اس‬
‫کے کابوں میں لبام کا پہ چملہ پڑا۔ وہ انک نچی پہ الین مار رہا تھا۔‬
‫”لبام۔۔۔“‬
‫چنہ کی سحت آواز پہ لبام گڑپڑانا اور ہاتھ میں تھاما گالس کاؤنیر پہ رکھا۔ اس ئے‬
‫اننی ناگوار نت نہیں چھبانی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1089 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ہائے چنہ! اس سے ملو پہ میری ننی دوشت۔ ہے نا۔“ ستتھلنے ہوئے اس‬
‫ئے چنہ سے اس لڑکی کو م یغارف کروانا اور آخر پہ اسی سے نانبد جاہی خو سرما سی‬
‫گنی۔‬
‫”ہاؤ ک نوٹ ۔۔۔“ لبام کو وہ وافعی ک نوٹ لگی تھی جس کا اظہار اس ئے چنہ‬
‫کے شا منے تھی کبا۔‬
‫چنہ کی سرد تظریں خود پہ محسوس کرئے لبام نانگیں کھولے سبدھا کھڑا ہوا۔‬
‫”نار خود بو شوہر کے ناس جلی گنی تھی بو میں کبا کرنا۔۔“ اس کی گھورنی‬
‫تگاہوں کا خواب وہ ئےنسی سے د ننے لگا کہ وہ لڑکی تھی اب شا منے کھڑی خوتصورت‬
‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫کالے نالوں والی لڑکی کو د نے گی۔‬
‫”اس کا مطلب پہ نہیں کہ تم نہاں نج نوں کو نبگ کرو۔“ وہ سجنی سے بولی کہ‬
‫خود کے لنے نچی کا لقظ شن کے لڑکی ئے منہ کے زاوئے تگاڑے۔‬
‫”میں نچی نہیں ہوں‪ ،‬انٹس شال کی لڑکی ہوں۔“ وہ زور د ننے ہوئے بولی کہ‬
‫ک‬‫م‬‫چ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫لبام کی آ یں یں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1090 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫س‬
‫”میرے لنے لبام تھی اتھی نحہ ہے نمہیں کس جاطے میں پڑی ھوں۔ جاؤ‬
‫ج‬‫م‬
‫ُ‬
‫ا ننے نیرننٹس کے ناس۔“ چنہ ڈ ننے ہوئے بولی کہ اس لڑکی ئے ناراض ظروں سے‬
‫ت‬
‫لبام کو دنکھا تھر سر چھبک کے ”ہونہہ“ کرنی وہاں سے جلی گنی۔‬
‫”نار میں ئے دوشت نبانی تھی۔“ اس کے جائے کے تغد لبام ئے شکوہ کبا۔‬
‫”آ نتبدہ میں نمہیں کسی لڑکی کو نبگ کرئے ہوئے نا دنکھوں۔“ چنہ کے لہچے‬
‫میں کونی نبدنلی نہیں آنی تھی جس پہ لبام ندمزہ ہوا‪ ،‬وہ نبگ نہیں کر رہا تھا۔‬
‫”خود تم سے انک لڑکے ئے زپردسنی نبار میں شادی کی اور میری دفع میں نبگ‬
‫پہ کروں کسی کو۔ انشا ہی رہا بو میں بو اکبال ہی رہ جاؤں گا۔“ اس کے شاتھ جلنے‬
‫ہوئے وہ مشلشل پڑپڑا رہا تھا کہ چنہ ئے کرچت لہچے میں بوکا۔‬
‫”شٹ اپ لبام۔ نحث نہیں۔“ چنہ درشگنی سے بوک گنی کہ اس کا موڈ خراب‬
‫دنکھنے لبام ئے وافعی کجھ نہیں کہا۔‬
‫” ہنے مسز دامیر۔“ لبام خوشگوار لہچے میں علتبا سے بولبا ہوا شاتھ والی چئیر پہ نتتھ‬
‫گبا۔‬
‫”ہبلو۔“ علتبا پرمی سے مشکرانی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1091 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دامیر کے جبالوں میں کھو کے آپ میرے شاتھ نا اتصاقی کر رہی ہیں۔“ وہ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫چ‬ ‫ع‬ ‫ش‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫قدرے آ یں ھمائے کوہ کرنا بوال کہ لتبا ئے ا تنے سے اس کو د کھا کہ ا ھی وہ‬
‫انک لڑکی کے شاتھ فری ہو رہا تھا اور اب اس سے شکوہ کر رہا تھا۔‬
‫ُ‬
‫”انبا ک نوٹ لڑکا شاتھ نتتھا ہے اس سے نا یں کریں۔“ وہ چہرے پہ شوجی‬
‫ن‬
‫سحائے اس کو دنکھبا ہوا بوال کہ علتبا ہٹس دی۔‬
‫”کبا نانیں کریں۔“ وہ گہرا شانس تھرنی ہونی بولی کہ اس کا شارا دھبان دامیر کی‬
‫جانب تھا۔‬
‫”مجھے نبانیں کہ ئےنی کا نام کبا شوجا ہے؟ اس کے لنے کتنی نباری کر لی‬
‫ہے اور جتبڈر مغلوم ہوا۔ ہم انک نارنی رکھنے ہیں۔“ نہلے وہ دھتمے سے اس کو شوال‬
‫گ نوائے لگا تھر اجانک ہی چہکنے ہوئے انبا مسورہ نٹش کبا کہ علتبا بوکھال اتھی۔‬
‫اگر نانیں ہی کرنی تھیں بو دوسرا موصوع نکڑے‪ ،‬ان لڑکوں کے ناس بو جٹسے‬
‫اس موصوع کے شواہ کجھ تھی نہیں تھا نانیں کرئے کے لنے۔‬
‫”پرنک پہ ناؤں رکھو لبام‪ ،‬میں ئے انشا کجھ تھی نہیں شوجا۔“ وہ کہنی ہونی نبک‬
‫لگا کے نتتھ گنی۔ لبام ئے مابوسی سے اس کو دنکھا جٹسے اس نات کی امبد نہیں‬
‫تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1092 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”جلو نار گھر جلنے ہیں۔ کبل کا انبا رومنٹس نہیں جتم ہو رہا۔ تم دوبوں کی‬
‫شکلوں پہ شوہر کی جدانی تظر آرہی تھی اور میں و نسے ہی ئےزار ہو رہا ہوں۔“ کجھ دپر‬
‫مزند نہاں نتتھنے کے تغد لبام کوفت تھرے انداز میں بوال۔ اب زنادہ دپر نہیں نتتھا جا‬
‫رہا تھا۔ شاند ہی کتھی وہ ا ننے لوگوں میں تکال ہو‪ ،‬پہ اس کی عادت کے جالف تھا نتھی‬
‫وہ مشلشل چمانباں روک رہا تھا۔‬
‫گ‬‫ع ن‬
‫”ہاں جلنے ہیں مجھے تھی نتبد آنا سروع ہو گنی ہے۔“ لتبا او نی ہونی بولی۔‬
‫ھ‬
‫چنہ ئے دوبوں کے سنے ہوئے چہروں کا دنکھا اور اتھ کھڑی ہونی۔‬
‫نبال اور ڈرنک کے ناس جا کے انہوں ئے اجازت جاہی۔‬
‫علتبا کو وافعی نتبد سبا رہی تھی بو فوری جتنج کر کے شوئے کے لنے لنٹ گنی‪،‬‬
‫دامیر کے گھر سے دور ہوئے پہ اس کی تگاہ ئےشاچنہ ہی کوئے میں لگے کتمرہ کی‬
‫طرف اتھی۔ جائے وہ اس کو دنکھ تھی رہا تھا نا نہیں۔‬
‫اس ئے مونانل اتھانا۔ وفت دنکھا۔ آدھی رات ہوئے والی تھی۔‬
‫”کب نک وانس آؤ گے؟“ اس ئے مٹسج نانپ کر کے تھنحا۔‬
‫”میرے آئے پہ کجھ اسنٹشل ہے کبا؟“ خواب کجھ سبکبڈز تغد ہی موصول ہوا۔‬
‫علتبا کے ہون نوں پہ مشکراہٹ اتھری۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1093 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں ہوں نا اسنٹشل۔“ وہ اپرانی اور دامیر کے خواب کا ان یطار کرئے لگی۔‬
‫”ان یطار کرو میرا پرنسٹس۔۔“‬
‫دامیر کا خواب دنکھنے وہ چیران ہونی‪ ،‬اس ئے نات کو طوالت نہیں دی تھی‬
‫جبکہ وہ جاہنی تھی کہ اس سے نات کرے۔ ہو شکبا تھا کہ وہ اتھی مصروف ہو۔‬
‫مونانل کو شانبڈ پہ رکھنے وہ دامیر کو شو جنے لگی۔‬
‫دامیر کے ا نسے جائے کی اب عادت لگانی ہو گی‪ ،‬اس شب کو نارمل لتبا ہو گا‬
‫کہ وہ کسی تھی وفت کتھی تھی بوں اجانک جا شکنے تھے۔ رو کنے پہ تھی پہ رکیں گے۔‬
‫دامیر کو شو جنے اس کی آنکھ کب لگی اسے اندازہ نہیں ہوا‪ ،‬وہ اتھی کچی نتبد میں‬
‫ہی تھی کہ اجانک کسی آہٹ پہ آنکھ کھلی۔ کجھ سبکبڈ وہ سبل رہی۔ وہ شو گنی تھی۔‬
‫آواز تھر سبانی دی کہ اس ئے چھبکے سے سر اتھانا۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫کجھ نل وہ دروازے پہ تظریں چمائے د نی رہی ل کن دونارہ کونی آہٹ پہ ہونی بو‬
‫ب‬ ‫ھ‬
‫سر وانس نکنے پہ رکھ دنا۔ مونانل انک نار جبک کبا۔‬
‫چنہ کا کونی ن یغام نہیں تھا مطلب شب تھبک ہے۔ گہرا شانس تھر کے وہ‬
‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫وانس آ یں موند نی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1094 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫تھوڑی دپر ہی گزری ہو گی کہ اس کو ا ننے ننجھے نبڈ پہ وزن شا محسوس ہوا۔‬


‫ت‬‫ھ‬ ‫کی ک‬
‫جٹسے کونی فرپر نچ رہا تھا۔‬
‫ن‬
‫علتبا ڈری نہیں ک نونکہ جاننی تھی دامیر وانس آگبا تھا۔ کشلمبدی سے آ یں‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫کھو لنے کی شعی کی‪ ،‬ہلکی سی گردن گھمانی۔ دامیر شانبڈ نتبل لتمپ آف کر رہا تھا۔‬
‫علتبا ئے کروٹ ندلی اور اس کی جانب رخ کبا۔‬
‫”تم ئے ان یطار نہیں کبا۔“ اس کے رجشار پہ ہاتھ ت ھیرئے دامیر سنجبدگی سے‬
‫بوال‪،‬علتبا ئے تگاہیں اتھانیں۔‬
‫”تم خود لنٹ آئے!“ وہ البا شکوہ کرئے لگی۔‬
‫”تم ئے جتنج کر لبا جبکہ میں اسنٹشل علتبا کے لنے آنا تھا۔“ اننی پرم تگاہوں‬
‫سے اس کے تفوش کو چھونا ہوا بوال کہ علتبا کے ہونٹ مسکائے۔‬
‫ُ‬
‫”میں ہوں نا اسنٹشل علتبا۔“وہ اسی انداز یں بولی اور ھ ک کے ھوڑا فرنب‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫ک‬ ‫م‬
‫ہونی۔ ارادہ تھر سے نتبد میں جائے کا تھا۔‬
‫”تھر بو کجھ اسنٹشل ہی پرنتمنٹ ہونا جا ہنے۔“ وہ گھمئیر لہچے میں بوال‪ ،‬علتبا ئے‬
‫اس کو گھورنا جاہا لبکن وہ ئے ناک جشارت کر نتتھا۔‬
‫رجشار پہ سرجی نیری کہ وہ تگاہیں چھکا گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1095 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم نازو بو زچمی نہیں کروا کے آئے نا؟“ کجھ دپر تغد علتبا کی نسونش زدہ آواز‬
‫م‬ ‫ل‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ستنے دامیر ئے آ یں ھو یں خو اس کو حصار یں لنے ہوئے تھا۔ اس کی نات کا‬
‫ہ‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫مطلب ھنے وہ ٹس دنا۔‬
‫”نہیں الننہ میرا دل زچمی ہے‪ ،‬نمہاری نتبد کی وجہ سے۔“ وہ سرپر لہچے میں بوال‬
‫کہ علتبا حقگی سے دنکھنے لگی۔‬
‫اس کی کنتنی کو ل نوں سے چھوئے وہ انک نار تھر ہٹس دنا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫جشب معمول آج تھی علتبا دامیر کے تغد ہی اتھی بو وہ کمرے میں دکھانی پہ‬
‫دنا۔ فرنش ہوکے وہ کنچن کی طرف پڑھی چہاں ناشنہ نالکل نبار تھا اور نتھی چنہ کو تھی‬
‫ڈانتبگ نک آنا دنکھا۔‬
‫اس ئے آج قل شل نوز ہانی نبک نہنی تھی اور نالوں کو کھال چھوڑے آگے کبا‬
‫تھا۔ عام دبوں کی نانسنت آج وہ کاقی ندلی ہونی لگ رہی تھی اور پہ ندالؤ خوشگوار تھا۔‬
‫وہ نک شک سی نبار تھی۔‬
‫”ناشنہ کس ئے نبار کبا ہے؟“ دامیر کنچن میں تظر نہیں آنا تھا نتھی علتبا ئے‬
‫چنہ سے بوچھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1096 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”آج کا کھانا دی پرابوا کے ہبڈ کی طرف سے جبہوں ئے ا ننے مرداپہ ہاتھوں سے‬
‫کھانا نبار کبا ہے‪ ،‬امبد ہے مجھے مارئے کے لنے زہر موخود نہیں ہو گا اندر۔“ اس سے‬
‫نہلے کہ چنہ خواب د ننی ڈانتبگ اپرنا میں آنا لبام چہکبا ہوا بوال۔‬
‫”لبام۔۔!“ چنہ ئے ننتبہی تگاہوں سے گھورا۔‬
‫لبام ئے سرنڈر کرئے ہوا میں ہاتھ لہرائے تھر اننی جگہ پہ نتتھ گبا۔ اس ئے‬
‫خونک کے چنہ کو دنکھا۔ آف وانٹ ہانی نبک کے شاتھ نلبک چئیز نہنے وہ جازب‬
‫دکھانی دے رہی تھی۔ نالوں کو خوتصورنی سے ناندھ رکھا تھا۔‬
‫”آج بو کاقی لڑکی لگ رہی ہو۔“ لبام خود کو کہنے سے روک پہ نانا‪ ،‬علتبا ئے تھی‬
‫نانبدی انداز میں سر ہالنا کہ وہ تھی نہی کہبا جاہنی تھی۔‬
‫چنہ ئے دوبوں کو تظر انداز کبا کہ نبک وفت گالس ڈور سے اندر آئے دامیر اور‬
‫رنان کی طرف شب کی تگاہ اتھی۔ علتبا اور لبام کے ہون نوں پہ معنی چیز مشکراہٹ دوڑ‬
‫گنی۔‬
‫رنان تھی ہم رنگ سرٹ میں مل نوس تھا جبکہ نازوؤں کے شل نوز فولڈ تھے اور نازو‬
‫پہ شقبد ننی تھی نماناں تھی۔‬
‫”رنان نمہیں کبا ہوا ہے؟“‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1097 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چب شب نا سنے کی نتبل کے گرد نتتھے بو علتبا ئے خود کو کہنے سبا۔‬


‫”اب پہ گھور کے د نکھے گا۔ کبا ضرورت تھی محاظب کرئے کئ۔“‬
‫اور اگلے ہی لمچے اس کے دل ئے سرزنش کی۔‬
‫”میری ن نوی ئے نبار کا مطاہرہ کجھ الگ انداز میں کبا ہے۔“ وہ سنجبدگی سے بوال‬
‫ت‬ ‫غ‬ ‫ت‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫کہ علتبا ئے نا ھی سے چنہ کو دنکھا خو ال لق دکھانی دے رہی ھی۔‬
‫”کبا پہ چنہ کی وجہ سے خوٹ آنی ہے؟“ علتبا ئے نذنذب کا شکار ہوئے بوچھا۔‬
‫رنان کی نات کا مطلب بو نہی تکلبا تھا۔‬
‫”نمہیں لگبا ہے کہ میں انشا کجھ کروں گی؟“ علتبا کی طرف دنکھنے چنہ ئے‬
‫شوالنہ آپرو احکائے۔‬
‫ً‬
‫”ہاں۔۔۔ میرا مطلب نہیں‪ ،‬تم ک نوں انشا کرو گی۔“ وہ فورا گڑپڑائے ہوئے‬
‫ت‬
‫صجنح کرنی بولی کہ ل نوں پہ آنی مشکراہٹ کو چنہ ئے مسکل سے روکا۔‬
‫”اگزنکبلئ‪ ،‬میں انشا ک نوں کروں گی۔ انبا نبار کرئے واال ہزنتبڈ ہے میرا۔“ چنہ‬
‫چہرے پہ مشکراہٹ الئے آخر پہ دانت نٹسنے ہوئے بولی۔ علتبا ئے نانبد میں سر‬
‫ہالنا۔رنان کو شاند کل کہیں خوٹ لگ گنی ہو گی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1098 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫جبکہ رنان اور چنہ انک دوسرے کو گھورئے میں مصروف تھے چب رنان ئے‬
‫سرپر انداز میں آنکھ دنانی۔‬
‫”تم آج نہت نباری لگ رہی ہو اس ڈرنسبگ میں۔“ علتبا نا سنے کے دوران چنہ‬
‫سے محاظب ہونی بو اس ئے سر کو ہلکا شا چم دنا۔‬
‫”میری ننی کی وجہ ملٹسکا تھی بو طاہر ہے اس کی ہانی نبک سرٹ کی وجہ تھی‬
‫میں ہوں۔“ رنان کی نات زومعنی تھی کہ چنہ عصے سے سرخ پڑنی اس کو گھورئے‬
‫ُ‬
‫لگی جبکہ علتبا گڑپڑائے ہوئے اس کی نات ظر انداز کر نی کہ اب کبا ہی وہ نات کو‬
‫گ‬ ‫ت‬
‫آگے پڑھائے۔‬
‫”پرنسٹس کھانا تھبک سے کھاؤ۔“ دامیر ئے اس کو بوکا خو کھائے کو نس گھور‬
‫رہی تھی۔‬
‫”اگر شب کجھ دبوں کے لنے قارغ ہیں بو ہم کہیں گھو منے جلیں۔“ چب شب‬
‫ئے کھائے سے ہاتھ روک لبا بو علتبا ئے خوشگوار لہچے میں کہا۔ وہ نس گھر کی ہو کے‬
‫نہیں رہبا جاہنی تھی۔‬
‫رنان ئے نس انک تظر اتھا کے اس کو دنکھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1099 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”چب نمہاری طت یغت نالکل تھبک ہو گی بو ہم جانیں گے وکٹسیز پہ۔“ دامیر پرمی‬
‫سے کہنے ہوئے اتھا کہ علتبا ئے مابوسی سے اس کو دنکھا۔‬
‫”بو کبا نب نک ہم گھر ہی رہیں گے؟“‬
‫”گھر ک نوں‪ ،‬تم جانا کرو نارکس میں‪ ،‬والک کبا کرو ضرف گھر میں ہی پہ رہو۔“‬
‫رنان ئے اب کہ گقبگو میں حصہ لبا۔‬
‫”لبکن۔۔۔“ اس ئے کجھ کہبا جاہا کہ دامیر بول اتھا۔‬
‫”ہم جانیں گے لبکن تم اس جالت میں پربول نہیں کرشکنی۔ بو اس مغا ملے‬
‫میں تھوڑا کمیروماپز کرنا پڑے گا۔“ دامیر ئے اس کو نہالئے ہوئے کہا جبکہ علتبا کا‬
‫موڈ اب آف ہو حکا تھا۔‬
‫”کمیروماپز‪ ،‬اب نک کبا بو ہے۔۔“ وہ ما تھے پہ نل لنے پڑپڑانی کہ دامیر ئے‬
‫چیرت سے اس کو دنکھا جبکہ رنان ئے سبانسی انداز میں آپرو احکانی۔‬
‫”ہم اس نارے میں تغد میں نات کریں گے۔“ دامیر ئے سنجبدگی سے کہنے گونا‬
‫نات کو اتھی کے لنے نال دنا جبکہ علتبا سر چھبک گنی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


1100 | P a g e

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


ِ ‫ش‬

Visit for more novels: www.urdunovelbank.com


‫‪1101 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان اور دامیر آج صنح سے کسی دوسرے سہر گنے تھے چہاں ان کی کسی سے‬
‫آرمز کی ڈنلتبگ تھی۔‬
‫شام کے شائے ڈھلبا سروع ہوئے بو سباہ ہڈی نہنے‪ ،‬نالوں کو کھال چھوڑے‪ ،‬ہڈ‬
‫کی ناکٹ میں ہاتھ ڈالے آہشنہ سے قدم لتنی فٹ ناتھ پہ جل رہی تھی۔ تطاہر اس‬
‫ئے سر چھکانا تھا لبکن تگاہ اس کی اوپر تھی۔ سباہ بوٹ نبا آواز کنے آگے پڑھ رہے‬
‫ن‬
‫تھے۔ ناؤن شانبڈ میں وہ نہت آگے آگنی تھی۔ گہری آ کھیں اس وفت سرد تھیں‪،‬‬
‫چہرے پہ کونی ناپر موخود نہیں تھا۔ سر پہ نہنی ُہڈ سے نال آگے کو آئے تھے خو ہوا‬
‫کی دوش سے لہرا رہے تھے۔‬
‫جلنے جلنے وہ انک ہونل کے شا منے آرکی۔ آس ناس مزند نلڈنگس موخود تھیں۔‬
‫رنسٹشن نک جائے اس ئے انک سحص کا نام لبا اور خود کو مہمان کہنی لفٹ کی‬
‫جانب پڑھی۔‬
‫ہ‬‫ن‬
‫جٹسے ہی لفٹ کا دروازہ کھال اور مطلوپہ قلور پہ نجنے وہ ناہر آنی بو ہرہ مزند چھکا‬
‫چ‬
‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬‫ک‬ ‫ت‬‫ھ‬ ‫ک‬
‫لبا۔ نازو سے ہڈ اوپر نچی کہ نی پہ نبا نت نو واصح ہوا۔ ہاتھ سبدھا کبا کہ لی کے‬
‫نالکل شاتھ لگا جافو اب تظر آنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1102 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫راہداری نالکل جالی تھی۔ رات کی وجہ سے روستباں ندل دی گنی تھیں۔ ہر‬
‫کمرے کے ناہر انک گلدان موخود تھا جس میں لگے تقلی بودے اس سبہری روسنی میں‬
‫تھلے لگ رہے تھے۔‬
‫دھتمے قدموں سے جلنے وہ روم نمیر جبک کر رہی تھی۔ نبا گردن گھمائے کن‬
‫اکھ نوں سے آس ناس دنکھا‪ ،‬تکلحت انبا رخ اس مطلوپہ دروازے کی طرف کبا۔‬
‫ہلکا شا ناک۔‬
‫تھک‪.‬تھک‪.‬تھک‪.‬‬
‫اندر سے آواز اتھری۔‬
‫”ہو از دنیر؟“‬
‫”روم سروس۔“ پراسرار انداز میں ہون نوں پہ مشکراہٹ اتھری۔‬
‫لب ُ‬
‫نسوانی آواز پہ اندر موخود سحص خوتکا۔ دروازہ زرا شا کھولے جبک کرنا جاہا کن اس‬
‫ئے پروفت انبا بوٹ دروازے پہ اتکانا۔‬
‫”ڈ نتھ از انٹ بور سروس سر۔“‬
‫مقانل کے چہرے پہ خوف کا ناپر اتھرا اور ڈنگر ناؤں کی تھوکر لگائے اندر پڑھی‬
‫شاتھ ہی دروازہ تھک کی آواز سے نبد ہوا۔ دروازہ نبد ہوئے سے نہلے زمین پہ کجھ خون‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1103 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫کے فظرے گرئے تظر آئے۔ وہ اندر جائے ہوئے کتمراز میں تظر آنی تھی لبکن ناہر‬
‫نہیں آنی تھی اور پہ ہی اس کو ناہر جانا دنکھا گبا تھا۔‬
‫کمرے کا دروازہ کھولے چب روم سروس کا عملہ اندر داجل ہوا۔ دروازے پہ‬
‫خون کے فظرے دنکھنے وہ تھ یکا۔ ڈرئے وہ اندر پڑھا کہ کمرے کا رہانسی جبک کر شکے‬
‫ب‬ ‫ک‬‫ن‬
‫چب اس ئے کرسی پہ نتتھے وخود کی نشت د ھی۔ وہ سبڈی ل کی کرسی پہ سبدھا‬
‫ت‬‫ن‬
‫نتتھا تھا بوں کہ اس کے دوبوں نازو کرسی کے نازو پہ تھے۔‬
‫سروس بوائے کی تظر کرسی کے ننچے گنی چہاں انک کے تغد انک فظرہ آہشنہ‬
‫سے ننچے چمع ہوئے خون میں شامل ہو رہا تھا۔ ہاتھ کی اتگلی نک نارنک سی خون کی‬
‫لکیر ننی تھی چہاں سے فظرے نبک رہے تھے۔‬
‫وہ آگے پڑھا۔ ہمت کرئے ہلکا شا دنکھبا جاہا‪ ،‬چہرہ خوف سے زرد پڑ رہا تھا۔ کھلی‬
‫ل‬ ‫گ‬ ‫ک‬ ‫ج‬ ‫ح‬‫س‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫م‬
‫آ یں نے وہ ص شا نے ٹسے سی چیز کو ھور رہا تھا گردن پہ خون کی کیریں‬ ‫ل‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬
‫نچی ھی جن سے خون انلبا ہوا ناہر گر رہا تھا۔ دوبوں آ کھوں سے لے کر گردن نک‬
‫لکیر ننی تھی جٹسے آنسوں ہوں مگر سرخ رنگ کے۔‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫گ‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫ح‬ ‫ُ‬
‫اس ص ئے سباہ سرٹ ہن ر ھی ھی کن وہ لی ھی۔‬ ‫س‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1104 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫سروس بوائے ئے خوف سے جالنا سروع کر دنا اور نیزی سے ناقی سباف کو‬
‫نہاں نلوا لبا۔ سباہ نہنی سرٹ تطاہر گبلی تھی لبکن ہلکا شا ہاتھ لگنے سے مغلوم ہونی‬
‫کہ وہ کس رنگ میں ڈونی تھی۔‬
‫کھلی آنکھوں سمنت‪ ،‬چہرے سے لبکر ہاتھوں نک نارنک لمنے اور گہرے کٹ کہ‬
‫خون رو کنے پہ نا رک رہا تھا۔ سرٹ اپری بو مغلوم ہوا کہ شاند ہی کونی حصہ ہونا چہاں‬
‫جافو کا اسیعمال پہ ہو۔ وہ انک وجشت‪ ،‬خوف ناک شا م یظر نٹش کر رہا تھا جٹسے انک‬
‫مردہ کسی فیر سے اتھا کہ وہاں نتھا دنا گبا ہو۔‬
‫کونی وہاں آکے اس سحص کو گمبام موت مار گبا تھا۔ خو اندر جانا ہوا بو دکھانی دنا‬
‫تھا لبکن وہ ناہر کٹسے گبا کسی کو مغلوم پہ ہوا تھا لبکن جائے ہوئے وہ جافو کا نبانا پہ‬
‫تھولی تھی اور نہی بو وہ ہ نٹ تھا خو ہر جگہ ڈنگر انبا چھوڑ کے جانی تھی‪ ،‬انک نتھا شا‬
‫جافو کا کھلونا جس پہ انگرپزی میں خروف گبدھے تھے۔‬
‫”!‪“Dagger with love‬‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫گلی کے انک نارنک کوئے میں جلنے وہ کجھ گبگبا رہی تھی۔ رات مزند گہری ہو‬
‫رہی تھی اس کو اب گھر نہنجبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1105 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس وفت ُہڈ کے نحائے وہ سباہ جبکٹ نہنے ہوئے تھی‪ ،‬نالوں کو اونچی بونی میں‬
‫ناندھ رکھا تھا۔ تکانک اس کے ہون نوں پہ مشکراہٹ اتھری۔ وہ دلکسی سے مشکرانی۔‬
‫انک قدم رکی۔ نالکل سٹشان گلی میں کونی آواز سبانی پہ دی۔‬
‫”ہبلو ملٹسکا۔۔“ اس نبدے کا پہ القاظ کہبا۔ اوفف‬
‫”کب تم میرا ننجھا کرنا چھوڑو گے؟“ ہونٹ مشکرا رہے تھے جبکہ لہچے میں‬
‫ئےزار نت تھی۔ وہ گھومی کہ اس کے عین ننجھے کھڑا وخود آنکھوں میں سرد ناپر لنے‬
‫ہوئے تھا۔‬
‫ما تھے پہ سبہرے نال نکھرے تھے۔ قاصلہ قدم تھر کا تھی پہ تھا۔‬
‫”نمہارا ننجھا بو میں چہتم نک کروں گا ک نونکہ ج نت والے کام نہیں نمہارے۔“ وہ‬
‫پرفبلے لہچے میں بوال کہ چنہ ئے سر چھ یکا۔ مشکرانی تگاہوں سے اس کو دنکھنے لگی۔‬
‫”تم جٹسے نبک لوگوں کی وہاں تھی انئیری نہیں ہو گی‪ ،‬انک اسنٹشل ڈ نبارنمنٹ‬
‫ہو گا۔“ چنہ اس کے فرنب آنی۔ سرگوسی میں القاظ کہنے اس سے دونارہ دور ہونی اور‬
‫جلبا سروع کبا۔ رنان ئے نبا کجھ کہے اس کو نازو سے تھامے دبوار کے شاتھ لگانا اور‬
‫اس کے عین مقانل کھڑے ہوئے سرد لہچے میں کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1106 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم تھر نبائے تغیر گھر سے ناہر تکلی۔“ چنہ کو اس کی تگاہوں میں ہی نہیں‬
‫اس کے لہچے میں تھی پرفبال ین محسوس ہوا۔ اس کی نکڑ میں سجنی تھی۔‬
‫چنہ ئے نہلے اس کے ہاتھ کو تھر گردن اتھائے اس کے چہرے کو دنکھا۔‬
‫”تم تھی گھر سے ناہر تھے میں ئے کجھ کہا۔“ وہ دوندو بولی اور اس کی نکڑ میں‬
‫مزاچمت کرئے لگی۔‬
‫”کم آن تم ا ننے عمل کو ا نسے جسیقانی نہیں کر شکنی۔“ رنان ہون نوں پہ طیزپہ‬
‫مشکراہٹ سحائے اس سے بوال کہ چنہ ئے آپرو احکائے۔‬
‫”کام تھا مجھے ہ نو۔“ ما تھے پہ نل لنے اس ئے رنان کے ستنے پہ ہاتھ ر کھے دھکا‬
‫شا دنا۔‬
‫”میرے کام بو کتھی نہیں آنی تم۔“ وہ جائے کو تھی چب رنان ئے اس کو‬
‫ننجھے سے کمر سے تھام کے گھمانا اور کبدھے پہ ڈال دنا۔ چنہ اس کی خرکت پہ نلمال‬
‫کے رہ گنی۔‬
‫”پہ کبا ندنمیزی ہے۔ انارو مجھے ننچے۔“ چنہ عصے سے جالئے ہوئے بولی۔‬
‫”گھر جلو میرے شاتھ اور میرے کام آؤ زرا۔“ اس کو اتھائے وہ گلی نار کرئے‬
‫لگا چہاں اس کی گاڑی نارک تھی۔ چنہ کو اس کے اجانک آئے سے نالکل تھی‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1107 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چیرانگی نہیں ہونی تھی ک نونکہ چب تھی وہ نبا نبائے ناہر تکلے گی رنان ہمٹشہ اس کے‬
‫ننجھے کھڑا ہو گا اور پہ نہلی نار نہیں ہوا تھا۔‬
‫”ملٹسکا۔۔“ گاڑی میں نتتھنے ہی رنان ئے انبا رخ اس کی جانب کبا۔ اس کے‬
‫چہرے پہ سنجبدگی سے تھی۔‬
‫”میں تھر دہرا رہا ہوں کہ مجھے نبائے تغیر تم کہیں نہیں جاؤ گی۔ میں نمہیں‬
‫گھر چھوڑ کے جانا ہوں بو گ ھر رہا کرو۔ چب ضرورت پڑے میں اتقارم کرو لبکن ا نسے نبا‬
‫نبائے کہیں نہیں تکلبا۔“ وہ سنجبدگی سے اس کی طرف دنکھنے ہوئے کہا رہا تھا۔‬
‫”میں نا تھی نباؤں بو تم مجھ سے نہلے نہنچے ہوئے ہو وہاں۔“ وہ سر چھبکنی‬
‫الپرواہی سے بولی۔‬
‫”ہاں۔۔ ک نونکہ تم میری ن نوی ہو۔“ اس ئے چنہ کا نازو تھامے خود کے فرنب‬
‫کبا اور انک انک لقظ جبا کے بوال۔‬
‫”اننی ن نوی سے میں انک نل کے لنے تھی عاقل نہیں ہوشکبا۔“ اس کی‬
‫م‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫نک م ن‬
‫آ ھوں یں آ یں گاڑھے وہ ا ل ہچے یں بوال۔‬
‫”دامیر کدھر ہے؟“ چنہ پرمی سے دور ہوئے اننی سنٹ سے نبک لگا کے نتتھ‬
‫گنی اور نات ند لنے ہوئے کہنے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1108 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں نہاں موخود ہوں۔“ آواز ننجھے سے آنی کہ چنہ کی نبلباں خونک کے تھبل‬
‫م‬ ‫ک‬‫ن‬
‫گنیں۔ ئےشاچنہ اس ئے گہرا شانس تھرا اور انک نار آ یں نی سے نجنے ھو یں۔‬
‫ل‬ ‫ک‬ ‫ج‬‫س‬ ‫ھ‬
‫شاتھ نتتھے رنان کو خون آشام تگاہوں سے گھورا جس ئے آئے ہی انبا شوہر نبا‬
‫دکھانا سروع کر دنا وہ تھی دامیر کے شا منے۔‬
‫چ‬
‫”شوری دامیر‪ ،‬رنان کی عادت نتنی جا رہی ہے ھور ین کی۔“ چنہ دامیر کو‬
‫ج‬‫ھ‬
‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫م‬
‫نبک وبو مرر سے د نی ہونی مغذرت خواپہ ہچے یں بولی کہ دامیر ئے انک تگاہ ڈا لنے‬
‫مشکراہٹ دنانی۔‬
‫ن‬ ‫ُ‬
‫”جس کو نبا رہی ہو اس ئے دن میں شو کالز کر کے ا نی ن نوی‪ ،‬نچے کا جال‬
‫بوچھا ہے‪ ،‬مج نوں کہیں کا۔“ رنان جلنے تھتنے پڑپڑائے لگا اور گاڑی سبارٹ کرئے اس‬
‫کو روڈ پہ النا۔‬
‫اتھی بو چنہ ئے اس سے دو دن تغد ہوئے والی ڈانمبڈ ڈنل کا نہیں نبانا تھا جس‬
‫کی وہ نباری کر جکی تھی۔ پہ نات مغلوم ہوئے پہ تھی رنان ہ یگامہ کرئے واال تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1109 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ان لوگوں کے آئے کی اطالع ملنے ہی علتبا کنچن میں مصروف ہو گنی۔ کھائے‬
‫میں زنادہ کجھ نبانا بو نہیں آنا تھا لبکن اس ئے سبلڈ اور ناسبا نبا لبا تھا خو نس دو چمچ‬
‫کھائے کے لنے تھی کاقی نا تھا۔‬
‫دامیر اور رنان کے جائے کے کجھ دپر تغد چنہ تھی کسی کام کا کہہ کے جا جکی‬
‫تھی اور اب لبام اور علتبا ہی موخود تھے۔‬
‫”مس علتبا! آپ ئے پہ جکھا ہے؟“ لبام ئے انبہانی مؤدناپہ انداز میں چمچ کو‬
‫شانبڈ پہ رکھنے چہرے پہ مسکان سحائے بوچھا۔‬
‫علتبا ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”کبا اچھا نہیں ہے؟“ اس ئے ڈرئے بوچھا۔‬
‫”اچھا ہے نہت۔ چنہ پہ ڈش نہیں کھائے گی بو ہم انشا کرئے ہیں انک اور‬
‫چیز نبا لتنے ہیں۔ پہ دامیر اور رنان کھا لیں گے۔“ لبام شاطر دماغ سے کام لتبا ہوا بوال‬
‫بو علتبا ئے جانجنی تگاہوں سے اس کو دنکھا۔‬
‫”ارے مطلب اس میں کبلرپز زنادہ ہونی ہیں ناں بو ہم کجھ ہلکا تھلکا نبا لتنے‬
‫ہیں ناکہ تم دوبوں لڑکباں سمارٹ رہو۔“ لبام ئے انبا ننہ تھت یکا خو نالکل تھبک تھا۔‬
‫علتبا کی تظر ئےشاچنہ ہی ا ننے سرائے پہ گنی۔ اس کے جدوجال میں اب نبدنلباں‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1110 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نماناں تھیں۔ لبام کی نات اس کو تھبک لگی کہ اگر وہ زنادہ ہ نوی کھانا کھائے گی بو‬
‫مزند مونی ہو جائے گی۔‬
‫کاش اس ئے کھانا نبانا سبکھا ہونا۔ لبام اننی جاالکی پہ مشکرانا ک نونکہ کھانا نس‬
‫جکھنے کی جد نک ہی تھا کھائے البق نہیں۔‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫”ہم فرانڈ رانس نبا لتنے ہیں۔“ اسے کھانا نبانا آنا تھا ھی فرنج یں لوپہ چیزیں‬
‫مط‬ ‫م‬
‫دنکھبا ہوا بوال۔‬
‫ل‬ ‫ع‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫ُ‬
‫”اس یں کتبا وفت گے گا؟“ لتبا اندازہ لگائے گی۔‬
‫”آدھا گھننہ۔ جلدی ہو جائے گا شب۔“ لبام نیزی دکھائے لگا۔‬
‫”اگر وہ لوگ آ گنے بو؟“ علتبا اس کی مدد کروانی ہونی بولی۔‬
‫”بو پہ ہے نا اچھا شا ناسبا ہم نٹش کریں گے۔ دامیر کو بو اتغام د نبا جا ننے آپ‬
‫کو انبا اچھا ناسبا نبائے کے لنے۔“ لبام رانس نبار کرئے ہوئے اس کو سرپر لہچے میں‬
‫بوال کہ علتبا ستنی چہک اتھی۔ وافعی دامیر کو اتغام بو د نبا ہی پڑے گا۔‬
‫ت ُ‬
‫”و نسے کبا ضرورت ھی اس سے شادی کرئے کی۔ مزند دو شال ان یطار کر‬
‫لتنیں بو میں ئے ہو ہی جانا تھا نانٹس کا۔“ کام کے دوران تھی اس کی زنان نبد‬
‫نہیں ہونی تھی کہ دامیر کی واتف سے قلرٹ کرنا اس کا نسبدندہ مسغلہ ین حکا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1111 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میں ئے تھوڑی کی تھی شادی‪ ،‬خود ہی ہو گنی تھی۔“ وہ منہ نبائے بولی۔‬
‫”آج کل کے لڑکے پرسے نتتھے ہیں لڑک نوں کے لنے۔ ادھر لڑکی دکھی نہیں اور‬
‫نہائے سے اس کو اننی ن نوی کہہ دنا۔ کبا زماپہ آگبا ہے۔“ لبام بوڑھی غوربوں کی طرح‬
‫نہ ُ‬
‫اس سے نانیں کر رہا تھا جٹسے کجھ دن لے اس ئے خود سے ھونی لڑکی سے لرٹ‬
‫ق‬ ‫چ‬
‫نہیں کبا تھا۔‬
‫علتبا نس جاموسی سے اس کی نانیں شن کے مشکرا د ننی چب نک وہ کھانا نبار‬
‫کر حکا تھا۔ وہ دوبوں کنچن سے تکل کے الؤنج کے صوفے پہ نتتھ گنے۔‬
‫”تم نہت بو لنے ہو لبام۔“‬
‫ی‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫علتبا ئے اس کی نابونی طت یغت کو د نے صرہ کبا۔‬
‫”میں انبا نہیں بولبا نس اب ندل رہا ہوں خود کو۔ میں ئے نہت شال اکبلے‬
‫گزاریں ہیں۔ تم لوگ ا ننے لگنے ہو بو اچھا لگبا ہے نانیں کرنا۔“ ہلکی مشکراہٹ لنے‬
‫اس ئے علتبا کو دنکھا۔ اس کے نات کرئے کے انداز سے وہ کجھ دپر نہلے واال لبام‬
‫نہیں لگ رہا تھا۔‬
‫ع‬ ‫چ‬
‫”بور ہو جانی ہیں میرے بو لنے سے؟“ لبام ئے قدرے جھک کے بوچھا لتبا‬
‫ھ‬
‫چحل سی ہونی کہ اس کی نات کو وہ کبا سمجھ گبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1112 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہیں انشا نہیں ہے۔ مجھے نہت اچھا لگبا ہے تم سے نانیں کرنا۔ جاموسی‬
‫ن‬
‫اچھی نہیں لگنی مجھے۔“ علتبا ا ننے ہاتھوں کو د نی ہونی بولی۔ کر تھا کہ لبام اس‬
‫ش‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫کے شاتھ گھر موخود رہا کرے گا ورپہ نت نوں کام کو جلے جائے بو گ ھر میں بو گل سڑ‬
‫جانا تھا اس ئے۔‬
‫”کونی نات نہیں کجھ مہت نوں نک شور تھی آجائے گا۔“ لبام شادگی سے بوال کہ‬
‫ل‬ ‫س‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫علتبا ئے نا ھی سے اس کو دنکھا۔ تھر مجھ آئے پہ جبا سی آئے گی۔‬
‫زندگی کاقی مصروف ہوئے والی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫لبام ئے ا ننے کہے کے مطابق کبا علتبا کا نبانا وہ ند زاتفہ ناسبا اس ئے دامیر‬
‫اور رنان کے شا منے نٹش کبا جبکہ خود نت نوں ئے فرانبڈ رانس کھائے تھے۔‬
‫نہال چمچ منہ میں جائے ہی دامیر کو لگا کہ انال ہوا کحا مبدہ منہ میں رکھ لبا ہو۔‬
‫”کس ئے نبانا ہے پہ کھانا۔“ رنان کے ناپرات سے اندازہ لگانا مسکل نہیں تھا‬
‫ک‬‫ن‬
‫کہ کھانا کٹشا تھا۔ علتبا ئے معصومنت سے آ یں ننتبائے دامیر کو د کھا۔‬
‫ن‬ ‫ھ‬
‫”میں ئے نبانا ہے۔ کبا اچھا نہیں نبا؟“ اس ئے انک تظر رنان کے سباٹ‬
‫چہرے پہ ڈالی تھر دامیر سے بوچھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1113 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تھوڑے مصا لچے کم ہیں۔ مجھے نمک ناس کر دو۔“ سچ بولے تغیر چھوٹ تھی‬
‫ُ‬
‫نہیں کہہ رہا تھا۔ جبکہ نمک ما نگنے پہ رنان دامیر کو گھورئے لگا کہ اس کی وجہ سے‬
‫اب وہ جال تھی نہیں شکبا تھا کہ اب نک کا ندپرین ناسبا تھا پہ۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫کھائے کے تغد وہ لوگ والک کر رہے تھے۔ چنہ اور رنان ان دوبوں سے آگے‬
‫جل رہے تھے۔ رات کا کاقی وفت ہو رہا تھا۔ لبام ئے شاتھ جائے سے م یع کر دنا‬
‫تھا کہ وہ ا ننے شستم پہ کجھ کام کرئے واال تھا۔‬
‫”کھانا اچھا نہیں تھا بو ک نوں کھانا۔“ علتبا ئے سر اتھائے دامیر سے کہا۔ دامیر‬
‫ئے اس کے تھامے ہاتھ کو ل نوں سے لگانا۔‬
‫”اب چب کھا جکے ہیں بو ک نوں کہہ رہی ہو۔“ دامیر آپرو احکائے ہوئے بوچھنے لگا‬
‫کہ علتبا ئے مشکراہٹ دنانی۔‬
‫”وہ بو ہم ئے ا نسے ہی رکھا تھا لبکن تم دوبوں ئے انک نار تھی م یع نہیں کبا‬
‫کھائے سے۔ انبا اچھا لگ رہا تھا کھانا؟“ علتبا آنکھوں میں سرارت لنے بولی کہ دامیر‬
‫نس ناشف سے تقی میں سر ہال گبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1114 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اب نس کرو کہبا۔ ننحارے رنان کو میری وجہ سے کھانا پڑا۔“ دامیر البا مضنوعی‬
‫ع‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫آ یں دکھانا ہوا بوال کہ لتبا ئے منہ خڑانا۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫”ننحارہ بو نہیں ہے وہ کہیں سے۔“ علتبا شا منے جائے چنہ اور رنان کو د نی‬
‫ھ‬
‫ہونی بولی۔ وہ دوبوں کسی نات پہ نحث کر رہے تھے چب رنان ئے زپردسنی چنہ کو‬
‫اننی جانب کھتنچے شاتھ لگانا اور جلنے لگا۔‬
‫کمر پہ ر کھے رنان کے ہاتھ پہ چنہ ئے ا ننے ناجن جتھوئے جس پہ وہ اس کو‬
‫گھورئے لگا۔‬
‫”ان دوبوں ئے لگبا ہے کہ شاری زندگی گھورئے ہی رہبا ہے انک دوسرے‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫کو۔“ علتبا ان کی بوک چھوک د نی ہونی بولی کہ ان کا کجھ ہیں ہو شکبا۔‬
‫کونی کال آئے پہ دامیر ئے انبا مونانل تکاال اور کان سے لگانا۔ علتبا کا ہاتھ‬
‫تھامے وہ آہشنہ سے جل رہا تھا اور شاتھ شاتھ نات کر رہا تھا۔‬
‫اجانک دامیر کا لہحہ ندال‪ ،‬وہ دھمکی د ننے لگا۔ انداز وہی سرد اور وجشت تھرا تھا‬
‫ت‬ ‫ہ‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ن ع س‬
‫جس سے ا ک نار لتبا می ھی کن ا ھی وہ کونی ری ا کٹ یں کر رہی ھی نہاں‬
‫نک کہ دامیر ئے جان سے مارنی کی دھمکی دی۔ علتبا ئے نس انک تظر دامیر کو دنکھا‬
‫اور اسی لمچے دامیر کے ناپرات میں پرمی آنی۔ وہ نل میں ا ننے ناپرات ندل گبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1115 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اگر وہ کونی خواب پہ دے بو اس کے جلق میں گولباں انارو۔“ وہ درسبگی سے‬


‫بوال کہ علتبا چھرچھری لے اتھی۔‬
‫”نتھر دل انشان ہو تم“ وہ پڑپڑانی۔ دامیر کال نبد کرنا مونانل کو وانس رکھنے‬
‫ہوئے رک گبا۔ علتبا ئے شوالنہ تگاہوں سے اس کو دنکھا۔‬
‫”نمہیں ڈر لگا؟“ گہری تگاہوں سے دنکھبا ہوا بوال۔ ہون نوں پہ معنی چیز مشکراہٹ‬
‫تھی۔‬
‫”مجھے ڈر ک نوں لگے گا!“ وہ البا الپرواہی سے بولی۔‬
‫”نہلے بو نہت خوف آنا تھا میری انسی نابوں سے‪ ،‬اتقبکٹ شانسیں انک جانی‬
‫تھیں۔“ دامیر مزے سے بوال جٹسے پہ نات کہنے وہ محظوظ ہو رہا تھا۔‬
‫”نہلے مجھے تم سے مجنت نہیں تھی اب میں ئے دل کو سمجھا لبا ہے۔“ علتبا‬
‫گہرا شانس تھر کے اجشان کرئے والے انداز میں بولی جبکہ دل ہی دل میں اب تھی‬
‫وہ اس کے اجانک ند لنے والے انداز سے جار کھانی تھی۔‬
‫”کبا سمجھا لبا ہے؟“ دامیر دلحسنی سے اس کو مجنت تھری تگاہوں سے دنکھبا ہوا‬
‫بوال اور ا ننے دوبوں ہاتھ اس کی کمر پہ تکائے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1116 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نہی کہ اب خو تھی ہو زندگی بو اِ سی ئےجس کے شاتھ گزارنی ہے نا۔ جاہے تم‬


‫اب میرے شا منے جتنی مرضی دھمکباں دو۔“ علتبا گردن اکڑا کے بولی کہ دامیر ئے‬
‫مشکرائے اس کو ستنے سے لگانا اور نالوں پہ ہونٹ ر کھے۔‬
‫نتھی علتبا ئے ڈرنک اور اس کی واتف نبال کو آئے ہوئے دنکھا۔ دامیر سے ننجھے‬
‫ہنی اور مشکرا کے ان دوبوں کو دنکھنے لگی۔ ڈرنک اب تھی اننی ڈبونی پہ ہونا تھا لبکن‬
‫نبال سے آج مالقات ہو رہی تھی۔‬
‫” ہم ئے شوجا کہ آپ کی طرف جکر لگالیں اور ابوانٹ کریں آپ کو ڈپر پہ۔“‬
‫ڈرنک ئے اس وفت ا ننے آئے کی وجہ نبانی ک نونکہ رات کاقی گہری تھی۔ وہ دوبوں‬
‫تھی والک پہ تکلے تھے۔‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫”ڈپر پہ ابوانٹ؟“ علتبا ئے نا ھی سے بوچھا۔‬
‫”ہاں نا انک نار شب اکھنے ہو نگے بو کتبا اچھا لگے گا۔ بو کل کا ڈپر آپ کا ہماری‬
‫طرف۔“ نبال خوسی سی چہکنی ہونی بولی۔‬
‫ً‬
‫”ہم ضرور آ نیں گے۔“ دامیر ئے فورا جامی ھری۔ چہاں ک لتبا کو ناد تھا‬
‫ع‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫س‬
‫انہوں ئے کل تھی کسی کام سے جانا تھا بو اس ئے نبا شوچے ھے جامی ھر لی‬
‫ت‬ ‫ج‬‫م‬
‫تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1117 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫رنان اور چنہ تھی ان کی طرف آرہے تھے۔‬


‫کجھ دپر نک وہ شب لوگ نہاں کھڑے نانیں کرئے رہے تھر وفت زنادہ ہوئے‬
‫پہ شب گھر کی راہ جلے گنے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”دامیر تم لوگوں ئے کل منتبگ پہ جانا تھا نا۔“ دامیر پراؤزر جتنج کر کے وانس‬
‫آنا بو علتبا ئے نات سروع کی۔ خود پہ سیرے کرئے وہ نبڈ کی جانب پڑھا۔‬
‫”ڈلے کر دی۔۔“ کہنے وہ نبڈ پہ نتتھا۔ گن کو شانبڈ نتبل پہ رکھا۔ علتبا ئے‬
‫پرچھی تگاہوں سے گن کو دنکھا۔‬
‫”ڈلے ک نوں کر دی؟“ وہ الجھن لنے بولی۔‬
‫”ڈرنک ئے نبانا بو ہے کہ ڈپر ہے اس کی طرف۔ ہماری منتبگ رات کی تھی بو‬
‫ہم ئے کل کے لنے کنٹشل کر دی۔“ وہ فرنش لگ رہا تھا۔ علتبا اس کی نات پہ‬
‫چیران ہونی۔‬
‫س‬
‫”فتملی فرشٹ پرنسٹس۔“ علتبا کے شوال بوچھنے کا مقصد ھنے ہوئے وہ خود‬
‫ج‬‫م‬
‫بوال اور اس کی گردن کو چھکنے سرارت کر کے ننجھے ہبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1118 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اس ئے نہت جاہت سے نالنا ہے بو اتکار اور ان یطار نتبا نہیں۔“ دامیر رشان‬
‫سے بوال کہ علتبا سر ہال گنی۔‬
‫”تھر ہمیں گفٹ تھی لے کے جانا جا ہنے۔ ان کی اتھی شادی ہونی ہے بو اچھا‬
‫شا نحفہ نتبا ہے۔“ دامیر اس کی گود میں سر ر کھے لنٹ گبا بو علتبا نالوں میں ہاتھ‬
‫جالنی شوجنی ہونی بولی۔‬
‫ن‬
‫”نالکل۔۔“ وہ نس انبا بوال اور آ کھیں موند لیں۔‬
‫”کل تھر مجھے شانبگ پہ جانا پڑے گا۔“ علتبا کو ننی قکر آن پڑی۔‬
‫”ضرور جانیں گے۔“ دامیر اس کا ہاتھ تھام کے ستنے پہ رکھ گبا۔‬
‫”کبا لتبا جا ہنے۔۔ ان کی اتھی شادی ہونی ہے اور ہم نہلی نار ان کے گھر‬
‫ک‬‫ع ن‬
‫جانیں گے۔۔“ لتبا آ یں ھونی نے شو نے والے انداز یں بولی۔ دامیر ئے ہاتھ پہ‬
‫م‬ ‫ج‬ ‫ک‬ ‫چ‬ ‫ھ‬
‫دناؤ ڈاال۔‬
‫”صنح دنکھ لیں گے۔۔“ دامیر کو اس وفت کسی اور کا زکر کرنا نسبد نہیں آنا‬
‫تھا۔‬
‫”تم کجھ آ نبڈناز دو۔۔“ نالوں کو کان کے ننجھے اڑ سنے وہ چہرہ چھکائے دامیر کو‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫د نی بولی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1119 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ع‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫نمہ ً‬


‫”انشا آ نبڈنا دوں گا کہ یں فورا نتبد ناد آجانی ہے۔“آ یں ھولے وہ نی چیز‬
‫سے بوال کہ علتبا ئے حقگی سے اس کو دنکھا اور اس کا سر دوبوں ہاتھوں سے اتھائے‬
‫نتم دراز ہوئے لگی۔ اگرجہ دامیر ئے خود ا ننے سر کا بوچھ اس کے ہاتھ پہ نہیں ڈاال‬
‫تھا۔ جٹسے وہ ک یفرنتبل ہونی دامیر ئے وانس انبا سر اس کی گود میں رکھا۔‬
‫علتبا کا دل ئےشاچنہ زور سے دھڑکا چب دامیر ئے کروٹ لنے چہرہ اس کی‬
‫جانب کبا۔‬
‫ن‬
‫”دامیر اب اتھ جاؤ۔“ وہ آہشنہ سے بولی۔ وہ نل میں آ کھیں کھولے اس کو‬
‫دنکھنے لگا۔‬
‫”تھک گنی ہو؟“ اس کے لہچے میں نسونش تھی‪ ،‬علتبا ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫اس کی تگاہیں چھکی تھیں وہ کیرا رہی تھی لبکن ک نوں۔‬
‫”تھر۔۔!“ اس کو ا نسے لتنے اچھا لگ رہا تھا۔ علتبا اس کے نالوں میں اتگلباں‬
‫جال رہی تھی۔‬
‫”مجھے سرم آرہی ہے اب۔۔“ علتبا کی نات پہ دامیر کجھ سبکبڈز سنجبدہ تگاہوں‬
‫سے اس کو دنکھبا رہا۔ تھر دل کھول کے ہٹس دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1120 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اب کٹسی سرم۔۔۔!“ انداز سرپر تھا۔ علتبا کے ہون نوں پہ ناجا ہنے ہوئے تھی‬
‫مشکراہٹ آگنی جس کو وہ چھبائے کی ناکام کوشش کرئے لگی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫رات کے نین نچے چب ہلکی سی آہٹ پہ اس کی نتبد بونی بو نا ھی سے ا ننے‬
‫پراپر دنکھنے لگی چہاں رنان نبڈ سے ناؤں ننچے کنے سرٹ نہن رہا تھا۔‬
‫چنہ کی تظر ئےشاچنہ ہی مونانل شکرین کی طرف گنی رات کے نین نج رہے‬
‫تھے۔‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬
‫” اس وفت کہاں جا رہے ہو؟“ وہ نا ھی سے اتھ ھی۔‬
‫”ارج نٹ کام ہے انک۔“ وہ سنجبدگی سے بوال۔ چنہ نالوں کو لتنتنے لگی۔‬
‫”دامیر شاتھ ہے میرے بو انبا جبال رکھبا۔ کمرے سے ناہر پہ جانا نلیز۔“ رنان‬
‫اننی گن جبک کرئے بوال اور مونانل شا منے کرئے انک نار کمرے میں لگے کتمرہ کو‬
‫جبک کبا۔‬
‫اننی عحلت میں جائے ہوئے وہ اس کو جبال رکھنے کا کہہ رہا تھا۔ اس کا ہتبڈسم‬
‫رنان۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1121 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس وفت شاتھ بو وہ نالکل نہیں لے کے جائے گا بو نہیر تھا کہ چب نک‬


‫نہاں تھا اس کو گھورئے سے کام جالنی و نسے تھی کاقی اپرنک نو لگ رہا تھا وہ نکھرے‬
‫نالوں میں۔‬
‫”کتمرہ کے شا منے سے کہیں پہ جانا‪ ،‬مجھے نمہیں ہر سبکبڈ دنکھبا ہے ہر نل‬
‫آنکھوں کے شا منے جا ہنے مجھے تم۔۔“ رنان مصروف انداز میں بوال کہ چنہ کہنے لگی۔ انبا‬
‫خزنانی کس خوسی میں ہو رہا تھا وہ۔‬
‫”بو چھوڑ کے جانا ہی نا کرو۔“اس کی نات پہ رنان ئے ئےشاچنہ ہی چنہ کو‬
‫دنکھا۔ وہ مشکرا رہی تھی اور رنان کو اس وفت اس کی مشکراہٹ سے خوتصورت کونی‬
‫ت‬ ‫م‬‫چ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫چیز پہ تھانی۔ اس کے مشکرائے پہ اس کی آ یں کی یں۔‬
‫ھ‬ ‫ھ‬
‫”اتھی مجھے پہ ادانیں دکھا ہے تھٹشاؤ مت‪ ،‬ضروری کام سے جانا ہے ورپہ لنٹ‬
‫ہو جاؤں گا۔“ وہ تگاہیں خرائے ہوئے بوال کہ آج اس کی مشکراہٹ دنکھنے دل‬
‫ئےشاچنہ نیز دھڑکا تھا۔ و نسے بو چب تھی اس کو دنکھبا تھا دل ئےانمان ہی ہونا تھا۔‬
‫”بو پہ جاؤ۔۔“ وہ نبڈ سے اتھ کھڑی ہونی۔ ونشٹ نبلٹ نکڑئے رنان کے ہاتھ‬
‫تھمے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1122 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم مجھے پرنپ کر رہی ہو۔“ اس کو ناس آنا دنکھ وہ گہری تگاہوں سے دنکھبا‬
‫بوال۔‬
‫”ہاں اب نس نہی رہ گبا ہے نا کرئے کے لنے۔ علطی سے نبار آرہا تھا مجھے تم‬
‫پہ۔“ وہ چہرے پہ ئےزار نت النی سحانی کا مطاہرہ کر گنی کہ رنان کو خوشگوار چیرت‬
‫ئے لت نٹ میں لبا۔ چنہ کو ناس کرئے پرمی سے اس کے نال سنوارے۔۔‬
‫”بو تھر۔۔؟“ وہ اب اس کے اظہار کا مت یظر تھا۔‬
‫”کبا تھر‪ ،‬نبار آرہا تھا نمہاری نانیں شن کے وانس جال گبا۔“ وہ معصومنت سے‬
‫بولی اور اس کے ستنے پہ ہاتھ رکھا۔ چنہ کا دل جاہ رہا تھا کہ وہ اس کو ستنے سے‬
‫لگائے۔ وہ تھوڑی دپر کے لنے نالکل دنبا سے فراموش ہونا جاہنی تھی کہ نس رنان کا‬
‫حصار اس کے گرد نبدھا ہو۔ رات کے اس نہر رنان کا حصار نتبد میں تھی محسوس ہونا‬
‫تھا پہ الگ عادت نبا دی تھی اس عج نب انشان ئے۔‬
‫”نہت علط ناتم پہ نبار آنا ہے نمہیں مجھ پہ۔۔ وانسی پہ نمہارا نبار محسوس کروں‬
‫گا۔“ سرارت سے کہنے ہوئے وہ اس کو ستنے سے لگا گبا۔ چنہ کو اس کو کبا نبانی کہ‬
‫اب پہ ندنمیز و نسے ہی نبارا لگنے لگا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1123 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اور اگر مجھے کجھ اور مغلوم ہوا بو تھر دنکھبا۔“ شاتھ ہی اس کا لہحہ ندال‪ ،‬وہ وارن‬
‫کرئے ہوئے بوال۔ انک نل کو چنہ کا ماتھا تھ یکا۔ کبا وہ اس کی ڈنل والی نات جان‬
‫ت‬ ‫س‬‫ش‬ ‫م‬ ‫لب ت ُ‬
‫گبا تھا کن ا ھی اس یں وفت تھا اور شارا م لبام ہتبڈل کر رہا تھا‬
‫”جاؤ تم۔۔ لنٹ ہو رہے ہو۔“ چنہ نل میں اس سے دور ہونی رکھانی سے بولی اور‬
‫نبڈ کی جانب پڑھی۔‬
‫”کٹسی ناقدری ن نوی ہے میری۔“‬
‫اس ئے سحت تگاہوں سے چنہ کو گھورا خو دونارہ شوئے کی نباری میں تھی۔‬
‫کجھ دپر وہ کھڑا اس کو دنکھبا رہا تھر سر چھبک کے کمرے سے ناہر آگبا۔ ان‬
‫کے انک چیری ئے مغلومات دی تھی کہ ناکوزا کے گتبگ ئے ڈانتمبڈ کی کونی ڈنل‬
‫قانبل کی تھی۔ ہیرے کل شام نک نہاں آئے والے تھے۔ رنان کے لنے نسونش‬
‫کی نات پہ تھی کہ ہیرے نہاں رسبا میں ک نوں آئے والے تھے۔ اس کو کسی ڈنل‬
‫کے نارے میں مغلوم نہیں تھا خو اس کے عالفے میں ہوئے والی تھی۔‬
‫شو میں سے اسی ف یصد اس کو چنہ پہ شک تھا کہ وہ اس کو نبائے تغیر ڈنل‬
‫کرئے والی تھی ک نونکہ چب سے رنان االننٹس میں نارنیر تھا اس ئے چنہ کو ڈنل نہیں‬
‫کرئے دی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1124 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫الؤنج میں آئے اس ئے دامیر کو انبا ان یطار کرئے نانا۔‬


‫”مجھے لگا نمہیں ناہر آئے میں ناتم لگے گا۔ میری والی بو منہ نہیں لگانی نمہاری‬
‫والی ئے اننی آشانی سے کٹسے آئے دنا۔“ رنان نالوں میں ہاتھ ت ھیرئے ہوئے سرپر‬
‫لہچے میں بوال کہ دامیر ہٹس کے سر چھبک گبا۔‬
‫”شو رہی ہے وہ۔۔“ اس کے کہنے پہ رنان ئے سر ہالنا اور دوبوں گھر کے ناہر‬
‫تکلے۔‬
‫ڈرنک ان کے شاتھ نہیں تھا۔ وہ لوگ سہر کی جدود سے ناہر آ گنے تھے۔‬
‫پرائے جشنہ جال گھر کے ناہر گاڑی رو کنے دامیر نہلے ناہر تکال۔ آس ناس کا‬
‫جاپزہ لبا نب نک رنان تھی ناہر تکلنے ا ننے نازو کھولے انگڑانی لے رہا تھا۔‬
‫”جلو جلیں۔۔“ نت نٹ کی ناکٹ میں ہاتھ ڈالے رنان الپرواہی سے بوال اور دوبوں‬
‫اس گھر کی داجلی دروازے کو کھولے اندر داجل ہوئے۔‬
‫ناہر سے پہ انک پرانا شا گھر ہی تھا لبکن اندر داجل ہوئے مغلوم ہونا تھا کہ پہ‬
‫انک نانٹ کلب تھا۔‬
‫”شادی کے تغد نہلی نار انسی جگہ آ نیں ہیں اچھا لگ رہا ہے۔“ رنان شوخ لہچے‬
‫میں بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1125 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہارا پہ کہبا نتبا تھی ہے۔“ دامیر ئے اسبہزاننہ انداز میں کہا کہ رنان ئے اس‬
‫کو جشمگیں تگاہوں سے گھورا۔ وہ دوبوں انک نتبل کے فرنب آئے چہاں انک آدمی نہلے‬
‫سے نتتھا ان کا ان یطار کر رہا تھا‪ ،‬ان کو آنا دنکھ وہ فوری کھڑا ہوا۔‬
‫نہاں نتم روستباں تھیں بو کونی ان کو آشانی سے نہحان نہیں شکبا تھا۔‬
‫”سر پہ ڈنل قانبل تھی۔ کل شام کو نہاں ڈانتمبڈ آ نیں گے اور ان کا ڈنلر‬
‫پرشوں نک ڈانتمبڈ رنسنو کرے گا۔“ وہ نئیرز ان دوبوں کے شا منے رکھنے ہوئے بوال۔‬
‫”پرشوں نک۔۔“ رنان نئیرز کو دنکھبا ہوا پڑپڑانا۔‬
‫”لوکٹشن؟“ دامیر ئے اس آدمی کو دنکھا۔‬
‫” ک یفرم نہیں ہے۔ آپ کو مغلوم بو ہے کہ نانیرز فوری لوکٹشن کسی کو گانبڈ‬
‫نہیں کرئے۔“ وہ آدمی مابوسی سے بوال۔‬
‫”اور جاص طور پر چب نانیر انک لڑکی ہو۔۔“ رنان کی آواز پہ دامیر اور وہ آدمی‬
‫نبک وفت خو نکے۔‬
‫دامیر تھتھک گبا‪ ،‬شاند وہ سمجھ گبا تھا کہ نانیر کون ہے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1126 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ہ‬ ‫ُ‬
‫”اگر لڑکی ہے بو اس کی جان کو رشک ہی ہے۔ ناکوزا کا گتبگ جا ننے یں‬
‫س‬
‫آپ۔ رنتبلز کے تغد وہی ہے خو لڑکی کو لڑکی نہیں کجھ اور ہی ھنے یں۔“ وہ آدمی‬
‫ہ‬ ‫ج‬‫م‬
‫جٹسے ان کو وارن کر رہا تھا اور و نسے ہی رنان کے ناپرات ندل رہے تھے۔‬
‫”کونی انکشن لتنے کی ضرورت نہیں ہے‪ ،‬ہم ڈنل کر لیں گے۔“ دامیر نئیر فولڈ‬
‫کرنا ہوا بوال۔ رنان ئے دامیر کی نات پہ سر ہالنا۔ اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ‬
‫اتھی مسیغل تھا۔‬
‫”جٹشا آپ کو تھبک لگے سر۔ اگر مجھے لوکٹشن اتقارمٹشن ملنی ہے بو آپ کو فوری‬
‫نبا دوں گا۔“ وہ آدمی ک ھڑا ہوا۔ دامیر کے اشارے پہ وہ آدمی انبا چہرہ چھبانا ہوا وہاں‬
‫سے جال گبا۔‬
‫کلب کی روستباں ہ نوز تھیں۔ لوگ ئےہبگم ناچ رہے تھے‪ ،‬کجھ نسے میں‬
‫مدہوش تھے۔ نتم پرہنہ لباس نہنے انک دوسرے کی ناہوں میں چھول رہے تھے اور‬
‫رنان کو اس وفت کجھ سبانی نہیں دے رہا تھا۔ اس وفت زہن پہ عصہ شوار ہو رہا تھا‬
‫کہ م یع کرئے کے ناوخود چنہ ناز نہیں آنی تھی۔ چھونی مونی ڈنل پہ وہ مان تھی جانا‬
‫لبکن ناکوزا سے ڈنل کرنا تعنی خود کے شاتھ شاتھ عزت کو تھی حظرے میں ڈالبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1127 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اگر ملٹسکا پہ تم ہونی بو آج نحانا خود کو مجھ سے۔“ وہ من ہی من چنہ سے‬


‫محاظب ہوا۔‬
‫کلب میں مزند ر کنے کا ان کا کونی ارادہ نہیں تھا نتھی وہ لوگ وہاں سے ناہر‬
‫آ گنے۔‬
‫”تم سنور ہو کہ ڈنل چنہ کر رہی ہے؟“ رنان ئے چب گاڑی سبارٹ کی بو‬
‫دامیر ئے سنجبدگی سے بوچھا۔‬
‫”اس کے عالوہ کسی میں ہمت نہیں کہ ناکوزا سے ڈنل کر شکے۔ پہ چنہ ہی‬
‫ہے۔“ سنئیرنگ پہ ا ننے ہاتھ کی گرفت سحت کرئے ہوئے وہ بوال۔‬
‫”ہوپ شو کہ کونی مسکل پہ ہو۔“ دامیر گہرا شانس تھر کے بوال کہ رنان ئے‬
‫ت‬‫ھ‬ ‫ت‬
‫سجنی سے چیڑہ نچ لبا۔‬
‫منٹ ن‬
‫صنح ہوئے سے نہلے ہی وہ لوگ شن نچ کے ھے۔ ر نے یں وہ دوبوں ھر‬
‫گ‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ہ‬

‫کے کتمراز کو جالئے انک نو تھے۔ دامیر کو آج نتبد کی طلب ہو رہی تھی شاند مبڈنشن کا‬
‫اپر تھا خو وہ و فقے سے اسیعمال کر رہا تھا‪ ،‬رنان کے ناپرات اب تھی سباٹ تھے۔‬
‫”تم اس نارے میں زرا نجمل سے شوجبا‪ ،‬ڈنل ہم کنٹشل نہیں کر شکنے۔ اگر‬
‫جاہو بو میں چنہ کے شاتھ جا شکبا ہوں۔“ دامیر اس کے کبدھے پہ ہاتھ رکھنے بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1128 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”جانا بو پڑے گا‪ ،‬نمہارے تغیر مجھے کہاں شکون ملے گا بو ہم دوبوں جلیں گے۔‬
‫اس کا بو میں نبدونشت کرنا ہوں۔ ناگن کہیں کی۔“ رنان ا ننے نبد دروازے کی سمت‬
‫دنکھبا ہوا بوال جس کے نار چنہ آرام فرما رہی تھی۔‬
‫دامیر کا ارادہ اتھی شوئے کا ہی تھا نتھی ا ننے روم میں جال آنا۔ علتبا ہ نوز شو رہی‬
‫تھی۔‬
‫دامیر کے ما تھے پہ نل وخود میں آئے کہ پہ نتبد میں اتھی نک کروٹ نہیں ندل‬
‫نانی پہ ہی دامیر کی غیر موخودگی محسوس کر نانی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫وہ اتھی نک شو رہی تھی۔ رنان نبا جاپ نبدا کنے ڈرنسبگ روم نک گبا اور اننی‬
‫چیزیں انارئے لگا۔‬
‫ناکٹ سے وہ نئیر تکاال جس پہ ڈنل کے نارے میں مغلومات تھی۔‬
‫”اگر مجھ سے چ ھپ کر ڈنل کرنی تھی بو ماشکو سے ناہر جلی جانی۔ دماغ ناس‬
‫ہے لبکن انبا تھی نہیں کہ صجنح اسیعمال کر شکے۔“ رنان نئیر کو دنکھنے ہوئے پڑپڑانا‬
‫اور نئیر نہہ کرئے اس کو اننی کیرڈ میں رکھ دنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1129 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫نالوں میں ہاتھ ت ھیرئے اس ئے گہرا شانس تھرا اور جلبا ہوا نبڈ نک آنا۔ کمرے‬
‫میں روسنی اتھی نک مدھم تھی کہ ناہر سے صنح کی روسنی اندر نہیں آرہی تھی۔ وہ ہلکی‬
‫سی آہٹ تھی نبدا کرنا بو چنہ جاگ جانی۔ آہٹ کبا اب ہو طوقان الئے واال تھا نتھی‬
‫ھ‬ ‫چ‬ ‫ُ‬
‫اس کی نتبد کی نبا پروا کنے اس ئے نبڈ پہ النگ لگانی اور اس کے پراپر گرا۔‬
‫”نبدروں کی طرح اچھلنے کی ضرورت نہیں ہے‪ ،‬مغلوم ہو گبا مجھے کہ تم آ گنے‬
‫ن‬
‫ہو۔“ آ ک ھیں نبد کنے اس کے ما تھے پہ نل نمودار ہوئے۔‬
‫”کتبا نبار کرنی ہو مجھ سے۔۔“ رنان اس کی نات کے نالکل پرعکس بوال کہ چنہ‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س‬ ‫ن‬
‫کے نلوں میں اصاقہ ہوا‪ ،‬نتم وا آ کھیں کھولے نا ھی سے اس کو د کھنے گی۔‬
‫”ہمارے درمبان نبار نامی نال تھی ہے کونی؟“ وہ تھی دوندو البا شوال کرئے‬
‫ُ‬
‫لگی کہ اس کی ہری تگا یں خود پہ نائے چنہ تگا یں ھیر نی۔‬
‫گ‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫گ‬
‫”ہمارے درمبان ج نون ہے۔۔“ آہشنہ سے تقی میں سر ہالئے رنان ئے‬
‫گ‬ ‫ک‬‫ت ن‬
‫اسبہزاننہ مشکراہٹ لنے کہا کہ چنہ کے لب مشکرا د ننے۔ وہ ھر آ یں موند نی۔‬
‫ھ‬
‫”انبا ج نون کہ تم مجھ سے آشانی سے چھوٹ بول شکنی ہو۔“ رنان کی اگلی نات‬
‫ک‬‫ن‬
‫پہ چنہ ئے چھبکے سے آ یں ھو یں‪ ،‬ہو نوں سے م کراہٹ عانب ہونی۔ شوالنہ‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ل‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫تگاہوں سے اسے دنکھنے لگی کہ اس نات کا کبا مقصد۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1130 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اتکار کی گنحانش نہیں ہے ملٹسکا۔ ڈنل ک نوں قانبل کی تم ئے؟“ رنان نبا‬
‫کسی نمہبد ناندھے اس کی آنکھوں میں دنکھبا ہوا بوال اور اجانک ہی اس کے ہاتھوں کو‬
‫قابو میں کبا۔‬
‫”مجھے تم سے چھوٹ بو لنے کا شوق تھی نہیں میں ئے نات چھبانی لبکن آج نا‬
‫کل میں نبا د ننی۔“ اس ئے ا ننے انداز میں تھی کونی لحک پہ رکھی تھی۔‬
‫”تم پہ تھی نبانی بو نمہاری لعش نبا د ننی مجھے۔“ وہ انک انک لقظ جبا کے بوال کہ‬
‫شاند ہی زندہ وانس آنی وہ۔ ن نٹ کے نل اس کے نالکل پزدنک لتبا اس پہ چھکنے لگا۔‬
‫”دور ہ نو مجھ سے۔ پہ کبا طرتفہ ہے نات کرئے کا۔“ اس کے دوبوں ہاتھوں کو‬
‫قابو میں کر کے اب ئےنس کر رہا تھا۔‬
‫”اتھی نس ہاتھ قابو کنے ہیں۔ تم قابو میں ہونی بو پہ ئےوفوقی کرئے کا شوجنی‬
‫تھی نہیں۔“ اس کے کان کے فرنب چھکنے وہ عرانا کہ چنہ کو رونگھنے کھڑے ہوئے‬
‫محسوس ہوئے۔‬
‫م جب‬
‫”اب تم مجھے قابو کرو گے؟“ وہ آپرو احکائے بوچھنے لگی کہ انداز یں نج شا‬
‫ل‬

‫تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1131 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”قابو بو تم ئے کر رکھا ہے۔۔“ اس کی آواز کے شاتھ انداز تھی ندال۔ چنہ کی‬
‫جس االرم د ننے لگی۔ پہ صنح صنح کون شا دورہ پڑ گبا تھا۔‬
‫اتھی بو وہ چنہ کو دھمکباں د ننے واال تھا اور اب الگ ہی خزنات تھے۔‬
‫”نبا نحث کنے مجھے لوکٹشن اور ناتم نباؤ۔ ورپہ میں تم پہ شب کجھ نبگ کر دوں‬
‫گا۔ اور تم جاننی ہو میں دھمکی د ننے سے نہلے وہ کام کر حکا ہونا ہوں۔“ انک ہاتھ‬
‫میں اس کے دوبوں ہاتھوں کو نکڑے‪ ،‬دوسرے سے اس کا چہرہ تھوڑی سے تھامے‬
‫ا ننے نالکل فرنب کبا۔ رنان اس مغا ملے میں پرمی نالکل نہیں دکھائے واال تھا کہ چنہ‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫ُ‬
‫کی گنی خرکت اس پہ تھاری پڑ نی ھی۔‬
‫ک‬
‫”لبکن پہ ڈنل میں ہی کروں گی۔۔“ وہ انل لہچے میں بولی چب رنان ئے قاصلہ‬
‫کم کبا۔‬
‫”شوق سے کرنا لبکن میرے تغیر نہیں۔“ اس ئے چنہ کے رجشار چھوئے کہ‬
‫رنان کی چھلسنی شانس محسوس کر کے وہ جلق پر کرئے لگی۔‬
‫”پرشوں شام جار نچے۔ لوکٹشن میں نمہیں گانبڈ کرنی ہوں۔“ رنان کا دوسرا ہاتھ‬
‫گسباجی کرئے پہ آمادہ تھا کہ ئےشاچنہ ہی اس کا دل زور سے دھڑکا۔ نات جتم‬
‫کرئے ہی وہ رنان کو گھورئے لگی جس کی ہونٹ مبہم شا مشکرائے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1132 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ُ‬ ‫ن‬ ‫ً‬
‫تھوڑی دپر تغد رنان اس سے دور ہوا اور فورا سی کا میر ڈا ل کرئے اس سے‬
‫ن‬ ‫ک‬
‫ن‬
‫ڈنل کے نارے میں نات کرئے لگا۔ ننجھے چنہ آ یں یں خود کو تھا لنے گی۔‬
‫ل‬ ‫ت‬‫س‬ ‫چ‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫انشا ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ کجھ کرنی اور رنان اس سے ئےچیر رہبا۔ اگر وہ جد‬
‫درجہ اجتباط کرنی تھی بو اس کے جبلے تھبلے تھے جس ئے ضرور اطالع کر د ننی تھی۔‬
‫دل ہی دل میں وہ رنان کے لوگوں کو لعن تعن کرئے لگی‪ ،‬نکھرے نالوں کو‬
‫سمنتنے اتھی اور فرنش ہوئے جلی گنی۔ اتھنے کا اتھی وفت بو نہیں تھا لبکن اس‬
‫انشان ئے نتبد اڑا دی تھی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫دو دن نعد‪:‬‬
‫ش م ن‬
‫ڈنلبگ انیر فبلڈ پہ ہونا طے نانی تھی۔ ڈانتمبڈ کل کے ما کو یں نچ کے ھے اور‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ہ‬

‫آج چنہ ئے رنسنو کرئے جانا تھا۔ گاڑی میں نتتھنے وہ ناہر دنکھ رہی تھی چہاں انک‬
‫کے تغد انک گاڑی آنی گنی اور پرنک کے دوسری شانبڈ پہ فطار میں کھڑی ہونی‬
‫گنیں۔ اِ ن کو نہاں آئے نبدرہ منٹ ہو جکے تھے۔‬
‫ان کی گاڑی پرنک کے محالف جانب تھی جبکہ درمبان میں جالی سڑک تھی‬
‫چہاں انک آدمی کھڑا تھا۔ نلبک شوٹ میں آنکھوں پہ گالسز لگائے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1133 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اننی زنادہ گاڑناں ۔۔۔“ چیران کن آواز پہ رنان ئے ننجھے مڑ کے دنکھا چہاں‬
‫نالنتبد ونڈو سے علتبا پرشوق تگاہیں تکائے کھڑی تھی۔‬
‫”گٹس کرو کس والی گاڑی میں ڈانتمبڈز ہیں؟“ رنان ئے آہشنہ آواز میں کہا۔‬
‫ل‬ ‫ل‬ ‫ک‬‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫علتبا رنان کو د نی وانس ناہر د ھنے گی اور جانجنے گی۔‬
‫چب نہلے نین گاڑبوں سے انک انک نبدہ ناہر آنا۔‬
‫”نہلی نین گاڑبوں میں ہے۔“ اس ئے کہنے رنان کو دنکھا جس ئے اقسوس سے‬
‫سر تقی میں ہالنا۔‬
‫”دامیر تم ئے کجھ نہیں شکھانا۔۔“ رنان ئے خڑائے والے انداز میں شاتھ نتتھے‬
‫دامیر کو دنکھا خو اسے ناد ننی تگاہوں سے گھورئے لگا۔ علتبا خزپز سی ہونی۔‬
‫جٹسے ہی وہاں کی نہلی گاڑی سے آدمی تکال نہاں سے چنہ ناہر تکلی۔ اس ئے‬
‫سر پہ کنپ نہن رکھی تھی‪ ،‬سباہ چئیز‪ ،‬سباہ جبکٹ۔ اور نالوں کو کور کر رکھا تھا۔‬
‫ک‬‫ش‬ ‫ھ‬ ‫تکل ع ک‬
‫”کبا رنان جانبا ہے ڈانتمبڈ کس کے ناس ہیں؟“ چنہ کے نے لتبا نی‬
‫ہونی تھوڑا آگے ہونی اور سرگوسی میں دامیر سے بوچھنے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1134 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”خو آدمی نجھلے نبدرہ منٹ سے ہمارے شا منے پرنک پہ کھڑا ہے اسی کے ناس‬
‫ہیں۔“ دامیر ئے سر ہالئے ہوئے کہا کہ علتبا کو چھ یکا شا لگا۔ وہ اکبال سحص نہاں‬
‫کاقی دپر سے موخود تھا جبکہ دوسری گاڑناں نالکل اتھی آنی تھیں۔‬
‫”بو تم لوگ اس سے و نسے تھی زور زپردسنی کر کے لے ہی شکنے تھے ڈانمبڈز۔“‬
‫علتبا الجھن لنے بولی کہ رنان قہقہہ لگا اتھا۔‬
‫” سی از سچ آ ئےنی دامیر۔۔ اور تم ناپ نتنے جا رہے ہو۔“ رنان انبا قہقہہ روکبا‬
‫ہوا دامیر سے بوال کہ علتبا کے چہرے پہ سرجی چھائے لگی۔ پہ کٹشا طرتفہ تھا علطی‬
‫نبائے کا۔ وہ جاتف تگاہوں سے رنان کو دنکھنے لگی۔‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ل‬‫ج‬ ‫ج‬‫م‬ ‫س س‬
‫”تم خود کو زنادہ مجھدار ھنے ہو۔ نی نمہاری خود کی ھی ہیں ہے چنہ کے‬
‫شا منے۔“ علتبا کو اس کے ہٹسنے پہ آگ لگ گنی نتھی نبا ڈرے نیز لہچے میں بولی کہ‬
‫اس کی مشکراہٹ کو پرنک لگا۔‬
‫”مجھے نات نات پہ روشٹ کرئے کا شوق ہے نمہیں۔“ وہ منہ نبائے بولی کہ‬
‫دامیر ئے مشکراہٹ روکے ناہر دنکھبا سروع کر دنا۔‬
‫”نحوں کو خواب د نبا آگبا ہے۔۔“ رنان گال کھ یگا لنے پڑپڑانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1135 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫چنہ گاڑی سے تکلی تھی اور شاتھ ہی ان کے ننجھے کھڑی اننی گاڑبوں سے گارڈ‬
‫ہ‬‫ن‬
‫تکلے تھے۔ دامیر اور رنان ئے اتھی ناہر نہیں جانا تھا۔ چنہ جٹسے ہی پرنک پہ چی بو‬
‫ن‬
‫دوسری طرف سے تھی دو لوگ آگے پڑھے۔ سر سے نیر نک نت نو میں نہائے تھے وہ۔‬
‫ئےشاچنہ ہی اس کی تگاہ ان کے ہاتھ کی طرف گنی شب سے چھونی اتگلی کنی ہونی‬
‫تھی۔ پہ ناکوزا کے گتبگ کی نشانی تھی۔ نال مبڈے ہوئے تھے۔ سر پہ ڈرنگن کے‬
‫نت نو ننے تھے۔ وہ لوگ زنادہ جشامت والے نہیں تھے لبکن ان کو دنکھ کے اندازہ ہو‬
‫شکبا تھا کہ وہ کاقی حظرناک تھے۔‬
‫چنہ درمبان میں کھڑی ہونی اور ان یطار کرئے لگی کہ کب وہ لوگ ڈانتمبڈ اس‬
‫کے ہاتھ میں رکھنے۔ پرنک پہ کھڑا سحص آگے پڑھا۔ ا ننے کوٹ کی ناکٹ سے انک‬
‫م‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫سرخ مجمل کا کیڑا تکاال۔ اس کو کھو لنے ا ننے لی پہ رکھا کہ لی کیڑا سرک کے‬
‫ج‬‫م‬ ‫ھ‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫ن‬
‫لی سے نچے ہوا اور درمبان یں ر ھی چیز چ ک ا ھی۔‬ ‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ہ‬

‫وہ چھوئے چھوئے کنی ہیرے تھے خو شورج کی روسنی میں مزند چمک رہے‬
‫تھے۔‬
‫چنہ ئے اننی ناکٹ سے انک چیز کا نکرا تکاال اور انبا ہاتھ شا منے کبا۔‬
‫”منی فرشٹ۔“ ان میں سے انک آدمی عرانا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1136 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”فرشٹ لنٹ می جبک اِ ف دے آر رنبل اور ناٹ۔“ چنہ سرد لہچے میں بولی کہ‬
‫ح‬ ‫ُ‬
‫س‬
‫اس آدمی ئے ہیرے تھامے ص کو اشارہ کبا۔‬
‫ل‬ ‫ُ‬
‫چنہ ئے انک ہیرے کو نکڑا اور ستبڈ نئیر پہ اس ہیرے کو رگڑئے گی۔ رنگ‬
‫مال پہ رگڑ کا نشان پڑئے لگا۔ چنہ ئے ہیرے کو شا منے کبا۔ وہ و نسے کا ونشہ ہی تھا‬
‫چمکبا ہوا۔‬
‫”بو جبکڈ‪ ،‬انس رنبل۔“‬
‫شا منے کھڑا آدمی ئےزار نت سے بوال۔‬
‫”ناٹ آل‪ ،‬مے نی۔“‬
‫چنہ پڑخ انداز میں بولی کہ شا منے کھڑے آدمی کے چہرے پہ طیزپہ مشکراہٹ‬
‫اتھری۔‬
‫ہیرے نبدرہ کے فرنب تھے۔ چنہ کا آدمی نیزی سے اس نک آنا اور اس کے‬
‫شاتھ کھڑا ہوا‪ ،‬چنہ انک انک کر کے ہیرے کو جبک کرنی تھما رہی تھی جس ئے ہاتھ‬
‫میں انک مجملی کٹس تھام رکھا تھا۔ انک ہیرا الکھوں ڈالرز کی مالنت کا تھا۔‬
‫”نٹشٹ ڈن۔ نبک بور نتمنٹ۔۔“ شارے ہیرے جبک کرئے کے تغد چنہ‬
‫سنجبدگی سے بولی اور کٹس میں موخود ہیروں کو شا منے کبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1137 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫اس کی نہلی ڈنل تھی دل اندر سے خوش ہوا۔ اس کے آدمی ئے پرتف کٹس‬
‫آگے پڑھ کے تھمانا۔‬
‫ک َ‬
‫”انکحولی! ونی ہ نو این آدر اپرنک نو ڈنل قار بو۔ اِ ف بو م ود اس۔ بو ین ہ نو قان نو مور‬
‫ک‬
‫ڈانتمبڈز۔“‬
‫‪“Actually, We have another attractive deal for‬‬
‫‪you. If you come with us you can have five more‬‬
‫”‪diamonds.‬‬
‫اس کی نات میں ہی جبانت نبک رہی تھی‪ ،‬للحانی تظروں سے وہ چنہ کو دنکھنے‬
‫اننی سنو کھحائے لگا۔‬
‫چنہ سرد تگاہوں سے اس کو دنکھنے لگی تھر نڈر انداز میں وہ زپر لب گالی کہنے‬
‫ک‬ ‫ُ‬
‫ہوئے مڑی کہ اجانک اس آدمی کے شاتھ ھڑے گارڈز آگے پڑھے کہ آدمی کے‬
‫اشارے سے رک گنے۔‬
‫”ن نون یقل گرل اننت نوڈ۔ شونس بو۔“ وہ آدمی آگے پڑھا اور چنہ کے فرنب جائے‬
‫ک‬ ‫ح‬ ‫ً‬
‫س‬
‫لگا چب چنہ کے آدمی فورا گن تکالے اس ص پہ نان کے ھڑے ہوئے۔‬
‫ناکوزا کے آدمی کے ما تھے پہ شکنیں ننیں۔‬
‫”گنٹ‪.‬آف‪.‬می۔“ چنہ انک انک لقظ جبا کے بولی کہ وہ قہقہہ لگا اتھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1138 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫گاڑی کے سٹسے اوپر تھے۔ ان نت نوں کا دھبان ناہر تھا۔ چنہ ڈانمبڈ نٹستبگ کر‬
‫رہی تھی۔‬
‫”ڈانتمبڈ جبک کر رہی ہے۔“ رنان علتبا کو دنکھنے نبائے لگا خو نلک چھ یکائے نبا‬
‫ناہر دنکھ رہی تھی۔ اس کے نبائے پہ رنان کو دنکھا۔‬
‫”جاننی ہوں میں۔“‬
‫وہ نبک کے بولی کہ انبا بو وہ جاننی تھی کہ ڈانتمبڈ نٹشٹ کٹسے ہونا تھا۔‬
‫ن‬ ‫ح‬ ‫ُ‬
‫چنہ جٹسے ہی وانس مڑی اس س ص کو اس کی طرف پڑھبا د کھا بو رنان کا ہاتھ‬
‫ئےشاچنہ گاڑی کے دروازے کی طرف گبا۔ چنہ کے مڑئے کی دپر تھی رنان ضیط‬
‫چ‬ ‫ص‬ ‫ح‬ ‫م‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫کھونا ناہر تکال اور اس کے ھے ہی دامیر۔ ناکوزا کے آد نوں کی لت سے وہ ا ھی‬
‫طرح وافف تھا۔‬
‫چنہ کو وہاں نک جائے دنا پہ وہ خود جانبا تھا کہ کس ضیط سے نتتھا تھا۔ اس‬
‫ن‬
‫سحص کی ہوس زدہ تگاہوں کی بو نہاں نک ہنچ رہی تھی۔ کٹسے پرداشت کرنا کہ کونی‬
‫اس کی ملٹسکا کو آنکھ تھر کے د نکھے تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1139 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”ڈنل ڈن۔ نبک بور ستنٹس نبک۔۔“ نبا کسی نبانج کی پرواہ کنے رنان ئے گن‬
‫ہ‬‫ن‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬
‫ل‬
‫تکالی اور اسی سے اشارہ کرئے اس آدمی کو وانس قدم تنے کا کہا خو لے بو رنان اور‬
‫دامیر کو دنکھنے خونک گبا۔‬
‫”سبانیر‪ ،‬پرابوا ہبڈ۔“ وہ پڑپڑانا۔ چنہ اسبہزاننہ مسکان لنے مڑی اور دامیر اور رنان‬
‫کو ا ننے ننجھے دنکھنے فجرپہ گردن اکڑائے جلنے لگی۔‬
‫”ونی آفر جشٹ آ ڈنل۔“ ہوا میں ہاتھ سرنڈر کے انداز میں لہرائے ہوئے بونی‬
‫تھونی اتگلش میں کہا۔‬
‫”نبک مانی آفر‪ ،‬تھاؤزنڈ ڈالر انبڈ بور ڈ نتھ۔“ دامیر قدم ناقدم جلبا ہوا اس کے‬
‫مقانل ک ھڑا ہوا اور سرد لہچے میں بوال۔‬
‫نسبل کے نیرل کو اس کے ن نٹ پہ رکھنے زور دنا۔‬
‫ناکوزا جاہے جتبا مرضی حظرناک گتبگ ہو لبکن وہ تھی پرابوا کے تھے‪ ،‬چنہ اور‬
‫علتبا اگر نہاں پہ ہونیں بو علتبا کی نات وہ وافعی نانت کرنا۔ ان یطار کنے نبا گول نوں کے‬
‫دم پہ ڈانمبڈز ان کے ناس ہوئے۔‬
‫ت‬ ‫ت م‬
‫لبکن نات اس وفت ڈنل کی ھی خو ل ہو نی ھی اور اگر دامیر رنان ان کو‬
‫گ‬ ‫م‬‫ک‬
‫اڑا تھی د ننے بو ان کی خونی کو تھی پروا پہ تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1140 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”بو گونتبگ بو ئے دس۔۔“‬


‫وہ آدمی دانت نٹسنے ہوئے بوال کہ دامیر ئے آپرو احکائے۔‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ُ‬
‫اس آدمی ئے ا ننے آدم نوں کو وانس مڑئے کا اشارہ کبا ک نونکہ ان کی منٹ ہو‬
‫جکی تھی۔ شا منے کھڑا سحص پرابوا کے ہبڈ کا رانٹ ہتبڈ تھا اسے ہبڈ کی پرمٹشن کی تھی‬
‫ضرورت نہیں ہو گی۔ اگر لڑکی اکبلی ہونی بو وہ قاندہ ضرور اتھائے لبکن نہاں خود کی‬
‫موت کو دغوت کون دے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫چنہ گاڑی کی طرف پڑھ رہی تھی اس کے ننجھے ہی انک طرف رنان اور دوسری‬
‫طرف دامیر جلنے آرہے تھے۔ کبا پران نو)‪ (Trio‬تھا۔‬
‫ل‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫نین لوگوں کی آرمی۔ چنہ کی گردن فجرپہ نلبد تھی‪ ،‬ھے دوبوں الپرواہی سے نے‬
‫ج‬
‫آرہے تھے۔ سبہرے‪ ،‬گہرے تھورے نال شورج میں چمک رہے تھے‪ ،‬دوبوں کے‬
‫ہاتھ میں موخود انگوتھ نوں کی ہیرے ہاتھ میں واصح چھلک رہے تھے۔‬
‫ان کے قدم ہموار تھے۔‬
‫ننجھے شونڈ بونڈ ان کے گارڈز آرہے تھے۔‬
‫علتبا کو رشک شا آنا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1141 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫چنہ گاڑی نک ہنجنے نجھلی سنٹ کا دروازہ کھولے تتھی اور شاتھ ہی رنان دامیر‬
‫اننی نسشت ستتھالے نتتھے۔‬
‫”تم نت نوں کتنے کول لگ رہے تھے۔“‬
‫علتبا ان کے نتتھنے ہی چہکنی ہونی بولی کہ چنہ مشکرا دی۔‬
‫”مبارک ہو کامباب ڈنل کے لنے۔“ دامیر ئے سرا ہنے ہوئے کہا‪ ،‬چنہ کے‬
‫ہون نوں پہ مشکراہٹ اتھری۔‬
‫جٹسے ہی ناکوزا کے لوگ اننی گاڑبوں میں رواپہ ہوئے و نسے ہی ان کی اننی گاڑناں‬
‫ناری ناری رواپہ ہوئے لگیں۔‬
‫”وہ آدمی تم سے کبا کہہ رہا تھا۔“ علتبا چنہ کی جانب چھکنے سرگوسی میں بوچھنے‬
‫ت‬ ‫م م‬
‫لگی گاڑی یں ل جاموسی کی وجہ سے لتبا کی سرگوسی شب ئے نی ھی۔‬
‫س‬ ‫ع‬ ‫م‬‫ک‬
‫”دامیر نالکل نہیں جاہے گا کہ کونی تم سے وہ کہے لبل پرنسٹس۔“ رنان‬
‫ت‬‫ن‬
‫سنجبدگی سے بوال کہ علتبا سمجھ گنی اور سر ہال کے سبدھی ہو ھی۔‬
‫ت‬

‫”دامیر تم ننجھے آجاؤ۔“ تھوڑا شفر گزرا بو علتبا ئے دامیر کی سنٹ کی طرف ہوئے‬
‫کہا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1142 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”میرے شاتھ نتتھا زہر لگ رہا ہے۔“ رنان علتبا کی نات ستنے سباٹ انداز میں‬
‫بوال۔‬
‫”تم شاتھ نتتھے زہر لگ رہے ہو۔“ علتبا اس کی نات پہ ما تھے پہ نل لنے بولی۔‬
‫آج وہ جان بوچھ کے اس کو نبگ کر رہا تھا۔‬
‫”چھونا منہ پڑی زنان۔“ رنان ناز پہ آنا کہ علتبا خڑ گنی جبکہ دامیر ان کی بوک‬
‫چھوک سے محظوظ ہو رہا تھا۔‬
‫”دامیر اس کو سمجھا لو تھر مجھے شکاری ین کے گھورنا ہے۔“ وہ شکاننی انداز میں‬
‫بولی۔‬
‫”نمہارا شوہر مجھ سے فٹس لتبا ہے۔ بول کے دکھائے کجھ مجھے۔“ رنان اس کی‬
‫شکانت پہ سرد لہچے میں بوال۔‬
‫دامیر ئے وافعی کجھ پہ کہا کہ علتبا صدمے سے اس کو دنکھنے لگی۔‬
‫ص‬ ‫ع‬ ‫ہ‬‫ن‬
‫گھر نجنے ہی لتبا ئے ھربور نارا گی کا اظہار کبا تھا۔‬
‫ت‬
‫”نمہارے موڈ شونتبگ کی وجہ سے خڑانا ہے نمہیں اور کجھ نہیں۔“ علتبا کے‬
‫شکوے پہ وہ اسے سمجھانا ہوا بوال جبکہ آنکھوں میں سرارت ناچ رہی تھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1143 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”تم کجھ کہنے تھی نہیں اس کو۔ اگر میں کہوں بو مجھے ڈرانا ہے۔“ علتبا اس‬
‫کی نات پہ مزند جاتف ہونی۔‬
‫”اچھا ہے نا تم خود اس کو خواب دو۔ وہ نمہیں کجھ نہیں کہہ شکبا۔“ اس کو‬
‫ناس کرئے وہ پرمی سے بوال۔‬
‫”نمہیں کبا کہے گا؟“‬
‫”مجھے وہ آرام سے انک دو گولی مار تھی دے بو نجھبائے گا نہیں۔“ دامیر سنجبدگی‬
‫سے بوال۔‬
‫”تم دوبوں کتبا فصول بو لنے ہو۔“‬
‫علتبا بولنی ہونی اس کے ستنے سے لگ کے کھڑی ہونی۔‬
‫”نمہاری تظر میں میری خرکنیں تھی فصول ہی ہیں۔“ دامیر ئے اس کا چہرہ اوپر‬
‫کبا اور چھکنے اس کے رجشار پہ ہلکا شا بوسہ دنا۔‬
‫”وہ بو ہیں۔“ وہ کھلکھال اتھی۔‬
‫رنان اور دامیر کو ڈانتمبڈ سے م یغلفہ کام تھے بو وہ دوبوں آرمری میں جلے آئے‬
‫نہاں انہیں ہیروں کی مزند نٹستبگ کرنی تھی اور آگے ان کے کنے نانیرز کا ارننج کرنا‬
‫تھا جس سے ان کو قاندہ ہونا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1144 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫پہ ان کی مرضی تھی کہ وہ پہ ہیرے سنور کرئے نا نہلے سے تھی پڑی نارنی‬
‫الئے خو ان ہیروں کو خرندنی‪ ،‬وہ جا ہنے بو ہیروں کا کراؤنڈ ہبڈ میں ہوئے والے آکشن‬
‫میں تھی نٹش کر شکنے تھے چہاں ان کی اچھی نبالنی ہو شکنی تھی۔‬
‫لبام تھی انہیں کے شاتھ آرمری میں موخود تھا اور ا ننے شستم سے ان کو مزند‬
‫اتقارمٹشن مہبا کر رہا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”نمہیں مجھے تھتبکس کہبا جا ہنے ملٹسکا۔“ کمرے میں آئے ہی اس ئے شکوہ‬
‫کبا‪ ،‬چنہ ئے دانباں آپرو اتھانا۔‬
‫”کس نارے میں؟“‬
‫”نمہیں ڈنل کرئے کی اجازت خو دے دی میں ئے۔“ اننی سرٹ کے نین‬
‫کھولبا ہوا بوال‪ ،‬چنہ ئے الپرواہی سے سر چھ یکا۔‬
‫”تم پہ تھی د ننے بو میں کر کے رہنی۔“ مونانل میں مگن اس ئے نبڈ کراؤن‬
‫سے نبک لگانی۔ رنان ئے اس کو دنکھا اور جتنج کرئے جال گبا۔‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫وانس آنا بو وہ و نسے ہی نبک لگائے ھی ھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1145 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”شوہر کو کتھی نبار سے گلے تھی لگا لبا کرو۔“ وہ ا ننے آپ میں مگن تھی چب‬
‫رنان ئے اس کی نانگیں نکڑئے ک ھتنحا کہ وہ ہڑپڑا اتھی۔ مونانل چھوٹ کے شانبڈ پہ‬
‫نبڈ پہ گرا اور اس کا سر نکنے پہ گرا۔‬
‫لک‬ ‫ج ً‬
‫”پہ کبا نبہودگی ہے۔“ وہ ا نحاجا النی کہ رنان نبا پرواہ کنے اس کے نا ل پراپر‬
‫ج‬
‫نتم دراز ہوا اور زپردشت جشارت کرئے ننجھے ہبا۔ ہون نوں پہ سرپر مسکان سحائے اس‬
‫کو دنکھا۔‬
‫”آنی اتم پراؤڈ آف بو۔۔“ چنہ کا ہاتھ تھامے ا ننے کبدھے پہ رکھا اور اسے خود‬
‫سے لتبانا۔‬
‫”بو شوڈ نی۔“‬
‫!‪You should be‬‬
‫”ونل آنی اتم۔۔“ اس کے ما تھے پہ ہونٹ ر کھے۔‬
‫”ا ننے شال میں ئے نمہیں مس کبا۔“ اس کے رجشار پہ انبا چہرہ مس کرئے‬
‫ہوئے مجمور لہچے میں بوال۔‬
‫”نمہیں میری موخودگی کا علم تھا؟“ چنہ اس کے ا ننے شال والی نات پہ ہلکا شا‬
‫ہٹس کے بولی۔ رنان کی ہلکی سنو کی چھین محسوس کرئے وہ سرخ پڑی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1146 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫”علم ہونا بو اتھی نک دس نچے بو ہوئے ہمارے۔“ آ یں موندے اس کی‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫خوسنو محسوس کرئے لگا۔‬


‫”نبہودہ نابوں کا سباک تھرا ہے نمہارے ناس۔“ نحوں والی نات پہ وہ بوکھالنی‪،‬‬
‫م‬
‫اس کے ستنے پہ ہاتھ رکھنے دور کرنا جاہا خو درمبان کا قاصلہ کمل جتم کر حکا تھا۔‬
‫”نبہودہ کبا نار‪ ،‬بوڑھی ہوکے مجھے ملی ہو۔ اتھارہ نٹس شال کی ہونی بو اب نک‬
‫دس ہو ہی جائے تھے۔“ اس کے ستنے پہ دھرے ہاتھ کو ہون نوں سے لگائے ہوئے‬
‫بوال۔‬
‫”میں شوچ رہا تھا کہ نمہاری پرتھ ڈے پہ ہمارے ئےنی کا تھی پرتھ ڈے ہونا‬
‫ج‬ ‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫جا ہنے۔“ چنہ کے چہرے سے نال ھے کرئے رنان ئے ٹسے اس کو نحکارا تھا کہ چنہ‬
‫ہوبق ننی اس کو دنکھنے لگی۔‬
‫”آر بو مبڈ رنان۔۔“ چنہ ئے اس کے کبدھے پہ ہاتھ مارا۔‬
‫”ناگل تم ہو‪ ،‬شوخو زرا ہمارا ئےنی تم سے اتھانس شال چھونا ہو گا نار۔ وفت‬
‫نٹشا ہے اور میں اس کو صا تع نہیں کر شکبا۔“ رنان نالکل سنجبدگی سے بوال کہ چنہ‬
‫ا ننے منحور انشان سے انسی نانیں ستنے ازجد چیران ہونی۔‬
‫”تم نہت عج نب ہو۔۔“ وہ ہٹس دی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1147 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہاری ہی شب سے پڑی انسٹشن ہوں۔“ اس کی ہٹسی کو مبہوت ہوئے‬


‫دنکھنے بوال۔‬
‫”چھوڑو مجھے۔۔“ اس کے مشلشل دنکھنے پہ وہ تگاہیں خرا گنی۔‬
‫”نمہیں لگبا ہے میں نمہیں اتھی جائے دوں گا۔“ وہ آپرو احکائے اس سے‬
‫شوال کرئے لگا کہ چنہ ئے تقی میں سر ہالنا۔‬
‫”ن نت خراب ہو گنی ہے نمہاری۔“ اس کے چہرے پہ ہلکی سی ج نت لگائے‬
‫ہوئے بولی۔‬
‫”جالل غورت پہ ن نت خراب ہونا جاپز ہے۔“ وہ آنکھ دنا کے بوال اور جشارت پہ‬
‫آمادہ ہوا۔‬
‫ان دوبوں کو نبارے کے اظہار کی ضرورت نہیں تھی ک نونکہ دوبوں انک‬
‫دوسرے کے مغا ملے میں شدت نسبد‪ ،‬مطلنی اور خزنانی تھے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫کجھ عرصہ نعد‪:‬‬
‫دروازے پہ دسبک ہوئے کی وجہ سے چنہ کی نتبد کھلی بو دنکھا کہ رنان اس سے‬
‫ن‬
‫نہلے اتھنے دروازہ کھو لنے جا رہا تھا۔ اس ئے جلدی سے ا ننے نال سمتنے اور اتھ تتھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1148 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫دروازہ کھوال کہ اس کو دامیر کی چھلک دکھانی دی۔‬


‫رنان ئے چیرانگی سے شا منے دامیر کو دنکھا جس کی گود میں وہی نتھی محلوق تھی‬
‫خو ان کو حگائے کا سنب ننی۔‬
‫”رو رہا ہے‪ ،‬ناس شال لو۔“ دامیر ئے نازو آگے کنے اور نسیر میں چھبا وخود اس‬
‫کے خوالے کبا‪ ،‬رنان ئے نہلے ا ننے نازو میں جاگبا ہوا خونئیر دنکھا تھر وفت۔‬
‫”پہ کونی وفت ہے جان چھڑوائے کا۔ لوگ نچے نبدا کرکے اننی مست نوں میں‬
‫لگ جائے ہیں۔“ رنان سرد لہچے میں دامیر سے بوال خو ہوا میں نازو لہرانا ہوا وانس ا ننے‬
‫کمرے کی جانب پڑھ گبا۔‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن ن ن‬
‫خونئیر کو د کھا خو ا نی آ یں ھولے منہ یں ہاتھ ڈال رہا تھا۔ چنہ ھی نبڈ سے‬
‫اتھ آنی تھی۔‬
‫”کبا ہوا شب تھبک ہے؟“ نسونش زدہ لہچے میں بوچھا۔‬
‫”انک نار میرا ہوئے دو‪ ،‬نہلے دن ہی ان کے ناس چھوڑ کے آؤں گا۔“ وہ اننی‬
‫تھڑاس تکا لنے لگا اور خونئیر کو لنے جلبا ہوا نبڈ نک آنا۔‬
‫”مج نوں کہیں کا‪ ،‬اس کا فبڈر تھی نہیں دے کے گبا۔“ اس کو نبڈ پہ لبائے‬
‫وہ نگڑا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1149 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”پڑا ہوا ہے شامان اندر میں نبا النی ہوں۔“چنہ نالوں کو خوڑے میں ناندھنی ہونی‬
‫بولی کہ رنان ئے روک لبا۔‬
‫”تم نتتھو میں لے آنا ہوں۔“ وہ مشکرانا۔ چنہ سر ہال گنی۔ اشاسنٹشن کے تغد‬
‫اگر رنان کو کونی نسبدندہ کام تھا بو وہ گھر میں ننے آئے والے وخود کے کام کرنا تھا۔‬
‫وہ پہ دوبوں لڑک نوں کے شاتھ شاتھ دامیر کے لنے تھی خوتکائے والی نات تھی۔‬
‫جٹسے رنان کے اندر کا نحہ جاگ جانا تھا۔‬
‫”پہ اتھی شونا ک نوں نہیں؟“ رنان فبڈر کو شانبڈ نتبل پہ رکھنے ہوئے بوال۔‬
‫”جلدی شو گبا ہو گا آج اور اتھی جاگ کے نبگ کر رہا ہو گا علتبا کو۔“ چنہ‬
‫گ‬‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫اس کو نبار تھری تظروں سے د نی ہونی بولی خو اس کے ہاتھ کی ا لی تھامے اس‬
‫سے کھبل رہا تھا۔‬
‫چب سے بوقل نبدا ہوا تھا اکیر چنہ اور رنان کے کمرے میں موخود ہونا تھا جس‬
‫کی وجہ سے آدھا شامان اس کا نہاں تھی پڑا تھا۔‬
‫”تم شو جاؤ میں جاگ رہا ہوں۔“ رنان چنہ سے محاظب ہوا۔‬
‫”چب پہ شوئے گا بو شو جاؤں گی۔“ بوقل کے سر پہ ہونٹ رکھنے ہوئے بولی کہ‬
‫ک‬‫ن‬
‫رنان ئے دلحسنی سے اس کی خرکت د ھی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1150 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اب جبلس پہ ہونا۔“ وہ ئےزارنت دکھانی بولی رنان کجھ پہ بوال نس گہرا شانس‬
‫تھر کے رہ گبا۔ جبلسی بو ہونی تھی لبکن اس پہ اجتبار نہیں تھا کونی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫کمرے کا دروازہ الک کرئے اس ئے شونی ہونی علتبا کو دنکھا۔ بوقل کے اتھنے‬
‫پہ دامیر کجھ نل اس کے شاتھ کھبلبا رہا تھر چب بوقل تھوڑا نبگ آنا بو رنان کے ناس‬
‫لے گبا۔‬
‫چہرے کے ننچے ہاتھ ر کھے وہ نتبد میں محو خواب تھی۔ درمبان سے بوقل کا‬
‫ک یفرپر شانبڈ پہ کبا اور خود علتبا کے فرنب آگبا۔‬
‫ن ن‬
‫اس کے کھشکنے سے علتبا کی نتبد میں جلل پڑا اور دامیر ئے پروفت ا نی آ یں‬
‫ھ‬ ‫ک‬

‫نبد کر لیں۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫کشلمبدی سے آ یں ھو یں بو شا نے دامیر کا ہرہ دکھانی دنا۔ وہ م کرا دی اور‬
‫ش‬ ‫چ‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ک‬ ‫ھ‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫پرمی سے اس کے چہرے کو چھوئے لگی چب اجانک خواس جاگے اور آ یں یں‪،‬‬
‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫ئےشاچنہ ہی انک جنخ اس کے جلق سے پرآمد ہونی اور دامیر ہڑپڑا اتھا۔‬
‫”دامیر تم بوقل کے اوپر۔۔۔“ وہ ڈرئے ہوئے بولی اور دامیر کو دھکا د ننے لگی۔‬
‫دامیر اس کو گھورئے ہوئے ننجھے ہبا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1151 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کون بوقل۔۔“ وہ انحان نبا اور الپرواہی سے بوچھنے لگا‬


‫”بوقل۔ ہمارا نتبا۔ اتھو تم اس کے اوپر۔“ علتبا کانتنی لہچے میں بولی کہ دامیر زرا‬
‫شا ننجھے ہبا۔ اس وفت وہ مزاق کے موڈ میں نہیں تھی۔‬
‫”ا ننے اتکل آ ننی کے ناس ہے۔ تم ادھر آؤ۔“ دامیر ئے کہنے ہوئے اس کو‬
‫اننی آغوش میں لبا۔ اتکل آ ننی کا ستنے علتبا پرشکون ہونی۔‬
‫”اس وفت ان کے ناس ک نوں ہے؟ وہ شو رہے ہو نگے۔“ علتبا الجھی۔‬
‫”رنان خود لے گبا تھا کہ بوقل کی ناد آرہی ہے۔“ وہ الپرواہی سے بوال۔‬
‫”لبام تھی اکیر رات کو لے جانا ہے۔ ا نسے بو ان شب کی نتبد خراب ہو گی۔“‬
‫علتبا کو اتھی بوقل کی خود ناد سبا رہی تھی نتھی م یقکر لہچے میں بولی۔‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬
‫”نہیں ہونی ان کی نتبد خراب۔ آؤ نمہیں انک نات نباؤں۔“ اس ئے ھی ہونی‬
‫علتبا کا ہاتھ تھاما اور ناس کرئے لگا۔‬
‫”صنح نبانا دامیر۔ تم بوقل کو لے آؤ وہ نبگ کرے گا۔“ اس وفت بوقل ضروری‬
‫تھا۔‬
‫”کتنے دن ہو گنے ہیں تم ئے مجھے تھبک سے ناتم نہیں دنا۔“ علتبا کو ا ننے‬
‫حصار میں لتنے ہوئے دامیر شکوہ کرئے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1152 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”پہ نمہارا فصور ہے تم لوگ پہ خو ہق نوں کے لنے عانب ہوجائے ہو اسی لنے‬
‫ناتم نہیں ملبا۔ میں اتھی نک اس چیز کی عادی نہیں ہونی۔“ علتبا اس کے کبدھے‬
‫پہ سر رکھنے ہوئے بولی۔ دامیر ئے چھک کے اس کی گردن پہ بوسہ دنا۔‬
‫”اگر اتھی تھوڑا وفت مٹسر ہے بو نحث میں ک نوں صا تع کرنا۔“ دامیر زومعت نت‬
‫ک‬‫ن‬
‫سے بوال اور علتبا کے گرد حصار ناندھے آ یں موند گبا۔‬
‫ھ‬
‫”پرنتبگ کٹسی جا رہی ہے؟“ دامیر ئے ناد آئے پہ بوچھا۔‬
‫”دامیر اتھی شوئے کا ناتم ہے نمہیں اس وفت پہ شب نانیں ناد آرہی ہیں“‬
‫علتبا ما تھے پہ نل لنے بولی ک نونکہ اس کی نتبد خراب ہو رہی تھی۔‬
‫”ناد بو نہت کجھ آرہا ہے مجھے۔۔“ وہ گہری تظروں سے دنکھبا ہوا بوال تھر سرد آہ‬
‫تھر کے رہ گبا۔‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”تھبک جا رہی ہے پرنتبگ۔“ علتبا دونارہ آ یں نبد کرئے سے لے نس انبا ہی‬
‫ھ‬
‫بولی۔‬
‫چنہ اس کو آرمری میں ہی کجھ چیزیں شکھا رہی تھی۔ اس ئے دونارہ اتھی‬
‫سبارٹ کی تھی۔ شونبگ میں اس کا نارگنٹ اچھا ہو گبا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1153 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ک‬‫ن‬
‫”بوقل کو لے آؤ۔۔“ وہ تھوڑی دپر ہی آ یں موندی نی رہی کن بو ل کی‬
‫ق‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫ت‬‫ل‬ ‫ھ‬
‫قکر سبائے لگی۔ وہ انبا چھونا تھا اکیر چب علتبا شو رہی ہونی بو دامیر اس کو رنان کو‬
‫دے آنا نا وہ خود لے جانا تھا۔ اس نات کا علم تھر علتبا کو صنح ہی ہونا ک نونکہ رات‬
‫اس کی گہری نتبد نبا جلل کے گزرنی تھی۔‬
‫”پرنسٹس اتھی تھوڑی دپر شکون سے نتبد بوری کر شکنی ہو بو کر لو۔“ دامیر اس‬
‫کو رشان سے سمجھانا ہوا بوال۔‬
‫ُ‬
‫”نمہیں میرے شکون کی پڑی ہے۔ ادھر وہ رو رہا ہو گا۔“‬
‫ن‬
‫علتبا اتھ تتھی۔ دامیر ئے نازو سر کے ننچے تکانا۔‬
‫”اگر انشا ہونا بو رنان دے جانا وانس۔ وہ ا چھے سے وہاں رہ لتبا ہے تم لنٹ رہی‬
‫ہو نا نمہاری نچی کچی نتبد اڑاؤں۔“ دامیر اس کو خود پہ چھکانا ہوا دھمکی آمیز لہچے میں بوال‬
‫کہ کٹشا ناپ تھا خو ن نوی کے آرام کی جاطر نچے کو کمرے میں نہیں ال رہا تھا۔ علتبا‬
‫ما تھے پہ ن نوڑی خڑھائے لنٹ گنی۔‬
‫اس ئے دامیر کی طرف نشت کر دی‪ ،‬انداز ناراصگی جبا رہا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1154 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫صنح چب آنکھ کھلی نب تھی بوقل کمرے میں نہیں آنا تھا اور دامیر ضرور کنچن‬
‫میں جا حکا تھا۔‬
‫پہ اچھا تھا ن نوبوں کا منجر کام دامیر ئے ستتھال رکھا تھا۔ کجھ انک دو ڈسز بو اس‬
‫ئے تھی سبکھ لیں تھی اس سے خو ان کی غیر موخودگی میں ین جانی تھیں لبکن نب‬
‫کی زمہداری لبام اور چنہ لے لتنے تھے۔ علتبا کو اچھا پرنسٹس پرنتمنٹ ہی ملبا تھا۔‬
‫فرنش ہو کے شب سے نہلے وہ چنہ کے ناس سے بوقل کو النا جاہ رہی تھی ناکہ‬
‫اس کو نبار کر شکے لبکن چب وہ ہال میں داجل ہونی بو بوقل صاچب صوفے پہ مزے‬
‫ن‬
‫سے لتنے ہاتھ نیر جال رہے تھے جبکہ چنہ اس کے ناس ہی تتھی تھی۔ چنہ اس کو‬
‫نہلے سے ہی نبار کر جکی تھی۔‬
‫”اس ئے نبگ بو نہیں کبا رات کو؟“ علتبا بوقل کو نکڑنی ہونی بوچھنے لگی خو‬
‫ماں کو دنکھنے انکھبلباں کرئے لگا۔‬
‫”نہلے کتھی نبگ کبا ہے اس ئے؟“ چنہ ئے البا شوال کبا۔‬
‫بوقل نالکل دامیر پہ تھا۔ نتھی رنان اس کو خونئیر دامیر کہبا تھا‪ ،‬اسی کی طرح‬
‫ل‬‫ہب‬ ‫ن‬
‫خوتصورت نبکھے نین تقش‪ ،‬گہری تھوری آ یں اور نال۔ وہ انک ھی‪ ،‬ہانتبڈ ئےنی‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1155 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ک‬‫ن‬
‫تھا۔ اس وفت وہ نانچ ماہ کا ہو حکا تھا۔ خوتصورت گالنی گول گال۔ مونی مونی آ یں‬
‫ھ‬
‫جن میں ہمہ وفت چمک موخود رہنی تھی۔‬
‫”دامیر تم رات کو آئے تھے چیرنت تھی۔“ لبام ہال میں آنا ہوا دامیر کو محاظب‬
‫کرئے بوال۔‬
‫”ہاں کام تھا انک۔“ وہ نس انبا ہی بوال علتبا کے شا منے پہ نہیں کہہ شکبا تھا‬
‫کہ وہ بوقل کو د ننے گبا تھا۔‬
‫علتبا کے لنے پہ راز ہی تھا کہ رات کو لبام اور رنان‪ ،‬بوقل کو لتنے نہیں آئے‬
‫تھے نلکہ دامیر خود چھوڑ کے آنا تھا۔‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”اب نبا دو۔“ لبام بوقل کی طرف آنا اور مشکرا کے اس کو د نے لگا۔‬
‫”ضرورت نہیں اتھی۔“ وہ سنجبدگی سے بوال۔‬
‫”مبکس آرہے ہیں آج اور ہمیں رات کو تکلبا ہے‪ ،‬چب نک ہم وانس نہیں‬
‫آ نیں گے مبکس نہیں رکیں گے۔“ رنان دامیر کے شاتھ ڈانتبگ نتبل سنٹ کرنا ہوا‬
‫بوال۔‬
‫ت ع ً‬
‫” لبکن اتھی دو ہقنے نہلے بو تم لوگ آئے ھے۔“ لتبا فورا بول ا ھی۔‬
‫ت‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1156 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”کام رکبا نہیں پرنسٹس۔۔“ دامیر اس کے ناس آنا پرمی سے بوال اور بوقل کو‬
‫اس سے لتنے علتبا کے ما تھے پہ ہونٹ ر کھے۔‬
‫چہاں گھر میں غورت زات نہیں ہونی تھی اب نہاں انک نتھا شا وخود تھی تھا‬
‫جس کی آوازیں دن میں گونجنی تھیں۔ دامیر اس سے ہلکی سی نات کرنا بو وہ آگے سے‬
‫پرخوش آوازیں تکالبا تھا۔‬
‫”میں آج نک سنور نک جاؤں گی کجھ کبانیں لتنی ہیں۔“ نا سنے سے قارغ ہوئے‬
‫شب الن میں نتتھے تھے چب علتبا ئے ناد آئے پہ کہا۔‬
‫”انک بو ان غوربوں کو انک ماہ کے نچے کو تھی پڑھانا ہونا ہے۔ مس علتبا پڑا‬
‫ہوئے دیں اس کو تھر شوق بورے کنجنے گا ا ننے۔“ لبام اس کی کبانیں الئے والی‬
‫نات شن کے ندمزہ ہوا۔‬
‫”میں ا ننے لنے لتنے جاؤں گی۔“ علتبا حفت زدہ ہونی۔‬
‫”مار کبانی کی نک لنجنے گا۔ کہاں تم سرتف سی ان گبڈوں میں تھٹس گنی۔“‬
‫بام اقسوس سے تقی میں سر ہالنا اس کو مسورے سے بوازئے بوال۔‬ ‫ل‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1157 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”لبام نمہاری صحت اجازت نہیں د ننی میری ن نوی کو ا نسے مسوروں سے بوازئے‬
‫کی۔ میں مسورہ د ننے پہ آنا نا بو ہڈناں ستبکنے رہ جاؤ گے۔“ دامیر آنکھوں میں سرد ین‬
‫ک‬‫م‬
‫لنے اس کو بوال کہ لبام ئے ناک سے ھی اڑانی۔‬
‫”سر ہماری شپ منٹس کے ر سنے میں رکاوٹ آرہی ہے۔“ ڈرنک رنان کے‬
‫فرنب آنا ہوا بوال۔‬
‫”کون۔۔؟“‬
‫”البانین سر۔۔“ اس ئے اطالع دی کہ رنان کے ما تھے پہ ناگواری کے نل‬
‫ننے۔ کجھ عرصہ نہلے وہ انگرون کے لوگوں کو ا چھے سے سنق شکھا آئے تھے کہ اب‬
‫وہ ان کے عالفے میں نہیں آ نیں گے لبکن وہ تھر سے نانگ اڑا رہے تھے۔ البانین‬
‫نہاں وہ کام کر رہے تھے خو م یع کر دنا گبا تھا لبکن ناوخود وارنبگ کے ناز نہیں آئے‬
‫تھے۔‬
‫”ان پہ انبک کی نباری کرو۔“ رنان کے جکم د ننے ہی ڈرنک نیزی سے سبک نورنی‬
‫روم کی طرف تھاگا ناکہ ا ننے آدم نوں کو نبار کر شکیں۔‬
‫”بوقل کا روم سنٹ ہوجائے گا آج ہی۔ علتبا انک نار جبک کر لتبا کونی چیز‬
‫موخود پہ ہونی بو نبانا۔“ رنان سنجبدگی سے بو لنے ہوئے اتھ کھڑا ہوا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1158 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اتھی اس کی ضرورت نہیں تھی رنان۔ پہ نہت چھونا ہے اتھی۔“ علتبا بوقل‬
‫کو گود میں لبائے ہوئے بولی خو خڑخڑا ہو رہا تھا اس وفت اور ما تھے پہ نل لنے روئے کی‬
‫نباری میں تھا۔‬
‫”جانبا ہوں لبکن اس کی شاری چیزیں سنٹ ہیں وہاں۔ کھلوئے وغیرہ دن میں‬
‫خونئیر وہاں خوش رہے گا۔“ نالوں میں ہاتھ ت ھیرئے ہوئے وہ چنہ کو دنکھنے لگا خو‬
‫نانگ پہ نانگ خڑھائے علتبا سے بوقل کو لے رہی تھی ک نونکہ علتبا کے نتتھنے سے وہ‬
‫الجھ رہا تھا۔‬
‫چنہ بوقل کو لنے کھڑی ہونی بو بوقل آس ناس دنکھنے لگا۔ رنان کو دنکھنے اب اس‬
‫کی طرف جائے کو ہمکنے لگا۔ چنہ رنان کے فرنب کھڑی ہونی‪ ،‬رنان ئے بوقل کو اتھی‬
‫نکڑا نہیں تھا ک نونکہ وہ آرمری میں جائے واال تھا بو چنہ کی گود میں ہی اس کو نبار‬
‫کرئے لگا۔‬
‫” نچے اب خود آنا جا ہنے ہیں میرے ناس۔ نتبا بو ہے تم نتنی الئے کی نباری‬
‫کرو۔“ چنہ اس کے نالکل فرنب تھی نتھی وہ زومعت نت سے کہنے لگا۔‬
‫”میرے ناس کونی شافٹ ونیر نہیں ہے کہ نتنی کی نباری کروں۔“ رنان کی‬
‫ب‬ ‫م‬ ‫ُ‬
‫نات پہ وہ دانت نٹسنے ہوئے بولی کہ اس کے ہونٹ م م کرائے۔‬
‫ش‬ ‫ہ‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1159 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫بوقل کو نبار کرئے کو چھکا شاتھ ہی اس ئے چنہ کا چہرہ مقانل کرئے سرارت‬
‫کرئے ننجھے ہبا۔‬
‫”خو ہوئے واال ہے اتھی۔ اسی سے گزارا کرو۔“ چنہ تگاہیں ت ھیرنی ہونی بولی کہ‬
‫رنان اس کے سرخ چہرے کو دنکھنے ہلکا شا ہٹشا۔ وہ دوبوں خود تھی نیرننٹس نتنے والے‬
‫تھے۔‬
‫ق‬ ‫ُ‬
‫”اس پہ بو جی جان فرنان ہو گی میری۔“ بو ل کے نالوں کو خراب کرئے وہ‬
‫دلکسی سے بوال۔‬
‫”اننی ن نوبوں کے لنے جان لو گے اور نحوں کے لنے جان دو گے۔“ چنہ ئے‬
‫بوقل کو دوبوں ہاتھوں سے شا منے کی طرف کبا کہ بوقل کی نانگیں چھو لنے لگیں۔‬
‫”فئیر اِ تف ہاں۔“ رنان آنکھ دنا کے بوال۔‬
‫دامیر کال پہ مصروف تھا۔ مونانل ناکٹ میں رکھنے اس کی جانب آنا اور چنہ سے‬
‫بوقل کو لتنے جارہاپہ نبار کرئے لگا کہ وہ عصہ کرئے انبا منہ کھولے اس پہ چھنٹ‬
‫پڑا۔‬
‫”ممی پہ گبا ہے۔“ اس کے عصے کو دنکھنے دامیر ئے علتبا کو دنکھنے نبانا ضروری‬
‫ن‬
‫سمجھا کہ وہ آ یں ھما نی۔‬
‫گ‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1160 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫پہ انک عالٹشان گ ھر تھا جس کے شا منے وہ کھڑے تھے۔ چہرے پہ ماشک‬
‫نہنے۔ اشلحہ سے لٹس بوری نباری کے شاتھ نہاں موخود تھے۔‬
‫”زنادہ گارڈز موخود نہیں ہے نجھلی شانبڈ پہ۔ نس دو اوپر والی نالکنی میں ک ھڑے‬
‫ہیں۔“ دامیر ہاتھ میں نکڑی شکرین کو دنکھبا ہوا بوال جس میں سرخ نشان تظر آرہے‬
‫تھے۔‬
‫”ڈرنک نجھلی شانبڈ کی طرف جاؤ۔ شگبل ملنے ہی انبک کر د نبا اور وہیں سے انئیر‬
‫ہو جانا۔“ رنان اس کو اشارہ کرئے بوال کہ وہ سر ہال کے ا ننے شاتھ دو آدم نوں کو لنے‬
‫ان سے علنحدہ ہوا۔‬
‫اس وفت وہ لوگ البانبا میں موخود تھے چہاں انہوں ئے انگرون کے گھر چملہ‬
‫کرنا تھا۔ چنہ تھی ان کے شاتھ موخود تھی جبکہ علتبا کو شاتھ الئے ضرور تھے لبکن وہ‬
‫بوقل کے شاتھ ہونل میں موخود تھی۔‬
‫ھ‬ ‫چ‬
‫”نمہیں م یع کبا تھا آئے سے۔ نمہیں دنکھوں نا انبا کام۔۔“ رنان سحت نجھالنا‬
‫ہوا تھا۔ انک بو چنہ کی کبڈنشن نہیں تھی کہ وہ لڑنی نہاں۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1161 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”اگر تم ئے مزند کونی خزنانی سین نہاں کبا بو میں نمہیں شوٹ کر دوں گی۔“‬
‫چنہ سجنی سے بولی کہ رنان گھورئے لگا۔‬
‫”اگر تم انک قدم تھی مجھ سے دور ہونی بو میں نمہیں شوٹ کر دوں گا۔“ وہ‬
‫اس کو وارن کرنا ہوا بوال۔‬
‫”سبڈی میں موخود ہے اس وفت انگرون۔“ دامیر ئے کہنے ہی شکرین کو فولڈ کبا‬
‫اور ننجھے کھڑے آدمی کو تھمانا۔‬
‫وہ لوگ اتھی انک دبوار کی اوٹ میں چھنے تھے۔ دامیر ئے زرا شا چہرہ آگے‬
‫ن‬
‫کرئے دنکھا۔ اس وفت جاموسی تھی۔ ڈرنک اننی جگہ ہنچ حکا تھا۔‬
‫”پرنسٹس۔۔“ دامیر سرگوسی میں بوال۔‬
‫”میں تھبک ہوں دامیر۔“ علتبا کی آواز انیر نٹس سے اتھری کہ وہ شکون کا‬
‫شانس ت ھرئے دبوار کی اوٹ سے تکال اور نیزی سے آگے پڑھا۔‬
‫شب ئے انک دوسرے سے انیر نٹس کتبکٹ کبا تھا جبکہ دامیر کا علتبا کے‬
‫فون سے کتبکٹ تھا خو ہونل میں موخود تھی۔‬
‫دامیر کے اشارہ کرئے پہ اجانک انک دھماکے کی آواز گونچی اور گھر کی نجھلی‬
‫شانبڈ پہ ڈرنک اور آدمی تھی خرکت میں آئے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1162 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫گھر کے شا منے والے حصے سے جائے رنان ئے شاتھ جلنی چنہ کو دنکھا تھر اس‬
‫کے نیروں کو۔ وہ ہبل والے شوز نہن کے آنی تھی۔ ما تھے پہ نل لنے گن ننچے کنے‬
‫رنان ئے چنہ کا نازو تھاما۔‬
‫”پہ کبا نہن رکھا ہے تم ئے؟“ اس کے نیروں کی جانب اشارہ کرئے ہوئے‬
‫وہ سرد لہچے میں بوال۔‬
‫”اندھے ہو خونا تظر نہیں آرہا۔“ وہ عرانی۔‬
‫”نمہیں کتنی نار م یع کبا ہے کہ انسی چیزیں پہ نہبا کرو۔“ وہ سجنی سے بوال کہ‬
‫دامیر ئے ان دوبوں کو دنکھا۔‬
‫”پہ کونی وفت ہے ڈرنسبگ پہ کمنٹ کرئے کا۔“ دامیر ان دوبوں کی خرکت‬
‫سے عاخز آنا ہوا بوال۔ اس وفت وہ لوگ کسی کی پراپرنی پہ چملہ کرئے آئے تھے اور‬
‫ان دوبوں کی اننی لڑانباں جتم نہیں ہونی تھی۔‬
‫”تم گھر جلو زرا۔“ انبا کہنے رنان ئے نسبل ہاتھ میں تھامے قدم آگے پڑھائے۔‬
‫سبڈی میں نتتھا سحص اجانک ہوئے والی زور دار آواز پہ خونک گبا تھا۔ اس کی‬
‫سبڈی شاؤنڈ پروف تھی نتھی وہ شور کو تھبک سے محسوس پہ کر نانا۔ اس کے گارڈز‬
‫سبڈی کے ناہر نہیں ہوئے تھے نتھی خود دروازہ کھولے جٹسے ہی اس ئے ناہر چھاتکا‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1163 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫بو ہر طرف دھواں ہی تظر آنا۔ وہ گ ھیرا اتھا کسی ئے اس کے گھر چملہ کر دنا تھا اور‬
‫موفع دنکھ کے ک نونکہ گھر کی غورنیں اتھی نہاں نہیں تھیں۔ وہ نس اکبال ہی موخود‬
‫تھا۔‬
‫اس سے نہلے کہ وہ انمرجنٹسی نٹشمنٹ کی طرف تھاگبا گھر کا نجھال حصہ نباہ ہو‬
‫گبا تھا۔ اس وفت کونی گن تھی موخود نہیں تھی کہ خوانی کاروانی تھی کرنا۔ جس طرح‬
‫قاپر کی آواز آرہی تھی اس کو سمجھ آگبا تھا کہ اس کا نجبا اب ممکن نہیں تھا۔‬
‫وہ تھا گنے ہوئے سیڑھ نوں کی طرف پڑھا لبکن وہاں پہ کسی کو کھڑا دنکھ رک گبا۔‬
‫دامیر ئے دلحسنی سے انگرون کو دنکھا۔ ان مافبا ہبڈ کو موفع دنکھنے زپر کرنا نہت‬
‫آشان تھا۔‬
‫”آخری خواہش۔۔“ دامیر ئے ئےزار نت سے بوچھا۔‬
‫”تم لوگوں ئے اچھا نہیں کبا۔“ وہ خوف سے شقبد پڑنا ہوا بوال۔‬
‫”نمہاری آخری خواہش ہے کہ ہم کجھ اچھا کریں؟“ دامیر سنجبدگی سے بوال چب‬
‫اجانک انک قاپر کی آواز گونچی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1164 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”آخری خوانش کون بوچھبا ہے نڈی۔“ رنان کی ناگوار آواز پہ دامیر ئے آ یں‬
‫گھمانی۔ انگرون کی نتتھ پہ گولی لگی تھی اور تھنی آنکھوں سے وہ شا منے کھڑے رنان کو‬
‫دنکھ رہا تھا۔‬
‫”عادت کے جالف انک واررنگ دی تھی لبکن اب وارنبگ کا وفت نہیں تھا۔“‬
‫رنان نالوں میں ہاتھ ت ھیرئے ہوئے بوال۔ چنہ اس کے شاتھ کھڑی تھی ناقی شب ئے‬
‫اس گھر کو ا ننے انڈر کر لبا تھا۔‬
‫”وفت صا تع کر رہے ہو میری فتملی و نٹ کر رہی ہے۔“ دامیر ئےزار نت سے‬
‫س‬
‫بوال چب رنان ئے اس کو گھورا۔ انگرون ئے ہمی تگاہوں سے اس کو دنکھا لبکن اگلے‬
‫ت‬ ‫ل‬ ‫کھ‬ ‫کھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ہی لمچے اس کی آ یں لی کی لی رہ یں۔ گولی سبدھا اس کے ما ھے پہ گی ھی‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬
‫اور نہیں اس کی آخری شانس تھی۔‬
‫البانبا کا مافبا ہبڈ اس وفت مر حکا تھا اور اس کی شاری پراپرنی اب پرابوا کے‬
‫ف یصے میں تھی۔ انگرون کی فتملی سے ان کا اب کونی لتبا د نبا نہیں تھا۔ ان کو مغلوم‬
‫ہو جائے گا کہ ان کی شاری پراپرنی اب پرابوا کے ف یصے میں ہو گی۔‬
‫”نہلی فرصت میں پہ خوئے انارو۔۔“ رنان اب چنہ کی جانب مڑا اور سرد لہچے‬
‫میں بوال۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1165 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ل‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫َ‬


‫”شٹ اپ۔۔“ وہ الپرواہی سے بولی اور ا نی ونشٹ نبلٹ یں گن ر ھنے گی۔‬
‫دامیر زرا شانبڈ پہ علتبا سے نات کر رہا تھا۔‬
‫”نمہاری وجہ سے میری اوالد سر تھری ہونی بو تھر دنکھبا۔“ رنان اس کی صد پہ‬
‫نگڑنا ہوا بوال خو اب گاڑی کی طرف پڑھ رہی تھی۔‬
‫ن‬
‫”خود تم منتبل کٹس ہو۔“ وہ پڑپڑانی اور گاڑی میں تتھی۔ دامیر ہ نوز علتبا سے‬
‫نات کرئے ہوئے گاڑی میں نتتھا چب رنان ڈران نونگ سنٹ ستتھالے گاڑی جالئے‬
‫لگا۔‬
‫کجھ دن وہ لوگ اب نہیں رہیں گے اور خو مافبا سے رنلتبڈ کام تھے وہ دامیر اور‬
‫رنان دنکھ لیں گے۔ ان کو اب انک منتبگ تھی ارنج کروانی تھی جس میں البانبا سے‬
‫م یغلفہ چیزیں ڈشکس کرنا تھیں۔ وہ لوگ البانبا مافبا کی شاری پراپرنی بو لے شکنے تھے‬
‫لبکن نہاں کی مافبا کا نبا ہبڈ انگرون کی فتملی سے ہی کونی ہو گا جس سے وہ لوگ اب‬
‫منتبگ کریں گے۔ اگر وہ انگرون کی طرح ہی کام کرنا رہا بو پرابوا اس کے خق میں اچھا‬
‫نانت نہیں ہو گا اور اگر وہ ان کے شاتھ مل گبا بو قاندے میں رہبا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1166 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫منٹشن کے الن میں اس وفت کاقی اچھی ہوا جل رہی تھی۔ چنہ اور علتبا‬
‫ن‬
‫کرسنوں پہ تتھی کسی چیز کو ڈشکس کر رہی تھیں۔ چنہ کو ننی آئے والی ستمنٹ پہ‬
‫کام کرنا تھا۔ لبام ئے آئے والے دبوں میں انک شپ منٹ کا زکر کبا تھا۔‬
‫علتبا ئے ا ننے نالوں کو خوڑے میں فبد کر رکھا تھا جبکہ چنہ ئے اونچی بونی ناندھی‬
‫ہونی تھی۔‬
‫وہ دوبوں کسی لوکٹشن کو ڈشکس کر رہی تھیں چب اجانک نیز روئے کی آواز پہ‬
‫انہوں ئے گردنیں گھمانیں۔‬
‫”لیزا کبا ہوا؟“ چنہ ئے دوبوں نحوں کو دنکھنے ہوئے بوچھا۔ بوقل ا ننے کام میں‬
‫مگن ا ننے نالکس کے شاتھ کھبل رہا تھا۔‬
‫”بوقل میری نات نہیں مان رہا۔“ نین شالہ لیزا شکانت کرنی ہونی بولی اور عصے‬
‫سے بوقل کے شارے نالکس کو گرا گنی۔ بوقل کجھ پہ بوال نس لب تھتنچے لیزا کی‬
‫خرکت کو پرداشت کر گبا۔‬
‫”بوقل ک نوں نات نہیں مان رہے تم نہن کی۔“ علتبا اتھ کھڑی ہونی اور جا‬
‫کے لیزا کو نحکارئے لگی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1167 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”لیزا مجھے کہہ رہی ہے میں ان گبدے نحوں کو ماروں خو اس کو نبگ کرئے‬
‫ہیں۔“ بوقل پرشکون لہچے میں بوال اور ا ننے نالکس کو دونارہ سے اکھبا کرئے لگا۔‬
‫”پری نات لیزا کسی کو مارئے نہیں۔“ علتبا سمجھانی ہونی بولی جبکہ چنہ ہ نوز نئیر‬
‫پہ چھکی کجھ دنکھ رہی تھی۔‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”ا ننے ناپ کی طرح خون خراپہ نسبد ہے اس کو۔“ چنہ لیزا کو د نی ہونی‬
‫مشکرانی۔ رنان کی طرح ہر مسبلے کا جل لیزا کے ناس مار کبانی کا تھا جبکہ بوقل کے‬
‫جباالت تھوڑی علتبا سے ملنے تھے کہ انسی چیزوں سے دور رہبا جا ہنے۔‬
‫خوتصورت ناپ کی خوتصورت نتنی۔ اس کے نال سبہرے اور تھورے سے تھے۔‬
‫لیزا کی آنکھوں کا رنگ رنان کی طرح گرے تھا۔ ماں کی طرح لڑاکا طت یغت کی مالک‬
‫تھی۔ پہ ن یصرہ رنان کا تھا۔‬
‫رنان اور دامیر اس وفت ا ننے کانیرنکٹ پہ کام کرئے گنے تھے۔‬
‫”مجھے دامیر سے نات کرنی ہے۔“ لیزا پرو تھے انداز میں اتھنی ہونی علتبا سے بولی‬
‫بو اس ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫”لیزا اتکل دامیر کہا کرو۔“ چنہ ئے اس کو دنکھنے ہوئے نبار سے بوکا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1168 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”دامیر کو اچھا لگبا ہے۔“ وہ منہ خڑھائے بولی۔ بوقل تھی ک ھڑا ہو گبا ک نونکہ علتبا‬
‫لیزا کو لنے اندر پڑھ رہی تھی۔‬
‫چنہ تھی انبا کام وانتبڈ اپ کرنی اتھی ک نونکہ نحوں کے کھائے کا وفت تھا۔ لبام‬
‫نہلے ہی کنچن میں کھڑا لنچ میں ہلکا تھلکا نبار کر رہا تھا۔‬
‫گزرے شالوں میں لبام کو تھی اچھا پرنبڈ کر دنا تھا جس کی وجہ سے وہ سمارٹ‬
‫شا لبام نہیں رہا تھا نلکہ کسرنی جشامت کا مالک تھا۔‬
‫”خود جلے جائے ہیں مجھے نحوں کی آنا نبا کے چھوڑ جائے ہیں۔“ بوقل کو دنکھنے‬
‫لبام جان بوچھ کر بوال کہ بوقل ئے نس گھورا۔ رنان کی طرح بو لنے کے نحائے وہ‬
‫گھورئے سے کام لتبا تھا جبکہ لیزا بورا بورا خواب د ننی تھی۔‬
‫”آنا لڑکی ہونی ہے۔ آپ لڑکی ہو۔“ علتبا ئے چب لیزا کو گود سے انارا بو وہ لبام‬
‫کو دوندو خواب د ننے ہوئے ناک تھوں خڑھا گنی۔‬
‫”لگبا ہے رنان اس کی رات کو تھبک پرنتبگ کرنا ہے۔“ لبام رنان کی کانی کو‬
‫دنکھنے پڑپڑانا۔ انشا کتھی نہیں ہوا تھا کہ لبام کجھ کہبا اور لیزا جاموش رہنی۔‬
‫علتبا ئے دامیر کو کال کی خو اس ئے دو نبل کے تغد ہی رنسنو کر لی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1169 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬
‫”ہبلو ڈنڈ۔۔!“ بوقل دامیر کو دنکھبا ہوا چہکا جبکہ لیزا مونانل اس کی ہنچ سے دور‬
‫کرنی ہونی صوفے پہ رکھنے خود اس پہ خڑ ھنے لگی۔‬
‫”دامیر نانا کدھر ہیں؟“ لیزا ئے نہال شوال ہی رنان کے نارے میں کبا۔ دامیر‬
‫ئے کتمرہ شاتھ نتتھے رنان کی طرف کبا خو ڈران نو کر رہا تھا۔‬
‫”وانس کب آنا ہے؟“ ناؤں سبدھے کنے اس ئے گود میں مونانل رکھا تھا جس‬
‫سے دامیر کو آدھا چہرہ تظر آرہا تھا۔‬
‫”ہم کل وانس آجانیں گے لبل پرنسٹس۔“ دامیر مشکرائے ہوئے بوال۔ تھر وہ‬
‫کاقی دپر نک دامیر سے نانیں کرنی رہی جس میں زنادہ بوقل کی شکانات تھیں۔ بوقل‬
‫ان یطار میں تھا کہ کب وہ اننی نانیں جتم کرنی اور ا ننے ڈنڈ سے اس کو نات کرئے کا‬
‫موفع ملبا۔ چب نک لیزا دامیر سے نانیں کرنی رہی بوقل چنہ اور علتبا کے شاتھ نتتھے‬
‫کھانا کھا حکا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫رات کا جائے کون شا نہر تھا چب نحوں کے کمرے کا دروازہ کھولے وہ دوبوں‬
‫آہشنہ سے اندر آئے۔ دامیر ئے دروازہ نبد کبا کہ آہٹ پہ بوقل کی نتبد کھل گنی۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1170 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬
‫ن‬ ‫ک‬‫ق ن‬
‫”ڈنڈ۔۔ اتکل۔“ بو ل آ یں م لبا ہوا دوبوں کو د ھنے لگا۔ رنان لیزا کی طرف‬
‫ک‬ ‫ش‬ ‫ھ‬
‫چھکا خو نبڈ پہ آڑھی پرچھی شو رہی تھی۔ اس کے ما تھے پہ ہونٹ رکھنے ہوئے وہ بوقل‬
‫کی طرف آنا۔‬
‫”مجھے مس کبا۔۔“ بوقل کو ستنے سے لگائے ہوئے دامیر مجنت ت ھرے لہچے‬
‫میں بوال بوقل ئے سر ہالنا۔ اب وہ رنان سے مل رہا تھا۔ دامیر کے قد کاتھ کی وجہ‬
‫سے بوقل کی ہانٹ اچھی تھی۔‬
‫”ممی شو گنی؟“ دامیر بوقل کے نالوں میں ہاتھ ت ھیرئے ہوئے بوال بو اس ئے‬
‫سر ہالنا۔‬
‫”آپ میری چیز لے کے آئے؟“ بوقل رنان کو دنکھبا ہوا بوال جس ئے انک تظر‬
‫دامیر کو دنکھا تھر بوقل کو اور سر ہال گبا۔‬
‫”ممیز کو نبا نہیں جلبا جا ہنے خونئیر۔ پہ سبکرٹ رہے ہم نت نوں میں۔“ رنان ئے‬
‫اننی ونشٹ نبلٹ سے انک چھونی گن تکال کے اس کو تھمانی۔ وہ انک ڈمی گن تھی‬
‫لبکن خونہو اصل کی کانی لبکن شاپز میں چھونی۔‬
‫بوقل کو شونبگ کا شوق تھا اور پہ شوق اس کو ا ننے ڈنڈ اور اتکل رنان کو دنکھنے‬
‫مال تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1171 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫ان میں رہ کے اب وہ الگ بو نہیں ین شکبا تھا اور پہ ہی کجھ چھبا ہو گا اس‬
‫سے۔‬
‫”میں ڈرنک سے کہوں گا وہ مجھے نالوپز کے شاتھ پرنکٹس کروائے گا۔“ بوقل‬
‫چھونی گن کو د نکھے چہکنے ہوئے بوال۔‬
‫”پہ انک بوائے ہے لبکن دھبان سے آپ اننی شسیر کو نہیں دکھا شکنے اتھی۔“‬
‫دامیر ئے اس کو سمجھائے ہوئے کہا کہ بوقل ئے سر ہالنا۔ اننی نہن کے شا منے‬
‫انسی نانیں نہیں کرنا تھا اور پہ ہی اس کو کرئے د نبا تھا۔‬
‫”شو جاؤ خونئیر اتھی۔“ رنان اس کو نبار کرنا اتھا بو بوقل وانس ا ننے نبڈ پہ لنٹ‬
‫گبا۔‬
‫بوقل اور لیزا کا کمرہ دامیر کے شاتھ واال کمرہ ہی تھا جس کو رنان ئے بوقل کے‬
‫لنے سنٹ کروانا تھا۔ علتبا ئے تھوڑی جتنجبگ کروا کے اس میں لیزا کا شامان تھی‬
‫رکھوا دنا تھا اب بوقل کے شاتھ ہی کمرے میں رہنی تھی۔ ان کے کمرے میں انک‬
‫کے نحائے نین کتمراز سنٹ تھے‪ ،‬واکی ناکیز تھی سنٹ کنے تھے کہ اگر لیزا نا بوقل کو‬
‫ضرورت پڑنی بو وہ اننی ممی کو آواز دے شکنے تھے۔‬
‫”آپ مجھے کل قانتبگ شکھانیں گے؟“ بوقل رنان کو دنکھبا بوچھنے لگا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1172 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہاری ممی نمہارے ڈنڈ کو چھوڑیں گی نہیں اگر اس کو مغلوم ہوا بو۔“ رنان‬
‫دامیر کو دنکھبا ہوا ہٹس کے بوال۔ اننی ماں کے شا منے وہ نہانت سرتف نحہ تھا لبکن‬
‫ا ننے اتکل اور ناپ سے وہ خوب نالج لتبا رہبا تھا۔‬
‫بوقل شوئے کے لنے لتبا بو دامیر لیزا کو نبار کرئے لگا۔ نہلے چب تھی گھر آئے‬
‫بو ن نوبوں کو دنکھنے تھے لبکن اب نچے ناپ پہ تھے۔‬
‫ن‬
‫”دامیر۔۔“ دامیر کے نبارے کرئے پہ لیزا اننی مبدی مبدی آ کھیں کھولے اس‬
‫کو دنکھنے لگی۔‬
‫”ا ننے ڈنڈ سے کبا لڑانی ہے خو اس کے نبار کرئے پہ نہیں اتھی۔“ رنان پہ‬
‫ت‬ ‫ت‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫د نے ل ہی گبا تھا۔ لے اس کی ماں ن گ کرنی ھی اب نی کسر بوری کرنی ھی۔‬ ‫ج‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬

‫دامیر ئے پرمی سے اس کے نال سہالئے کہ وہ تھر سے نتبد میں جلی گنی۔‬


‫ان دوبوں پہ نبار تھری تظر ڈا لنے کمرے سے تکلے اور ا ننے نبڈ روم میں جائے‬
‫لگے۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”ہبلو ملٹسکا۔۔“‬
‫کمرے میں نتم اندھیرا د نکھے رنان ہمٹشہ کی طرح دھپ سے نبڈ پہ گرا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1173 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”نمہیں تھوڑی نمیز نہیں ہے کہ شوہر آئے بو اس کا اسیقبال کٹسے کرئے‬


‫ہیں۔“ چنہ کا ُرخ زپردسنی اننی جانب کرئے وہ سرد لہچے میں بوال کہ اجانک چنہ کا‬
‫ن‬ ‫گ‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫ہاتھ اس کی گردن نک گبا اور رنان ئے آ یں ھما یں۔‬
‫”نمہاری انہیں عادات کی وجہ سے میری نتنی لڑاکا تکلی ہے۔“ رنان اس کے‬
‫ہاتھ میں جافو دنکھبا ہوا پڑپڑانا۔‬
‫ھ‬ ‫ک‬‫ن‬
‫”خود بو جٹسے منہ سے تھول پرشائے ہو نا۔“ انبا ہاتھ اس کی گرفت میں د نی‬
‫وہ گرجی۔‬
‫ن‬
‫”تم کہو بو میں نمہیں نبار کر د نبا ہوں۔“ چنہ کی نات پہ رنان کی آ کھیں چمکیں‬
‫بو اس کی آنکھوں میں چھانکبا ہوا سرارت سے بوچھنے لگا۔‬
‫ج‬‫ن‬ ‫ن‬
‫”دور رہو اتھی۔۔“ چنہ الپرواہی سے اس کو ھے کرنی ہونی بولی۔‬
‫”اننی دور سے میں اسی لنے وانس آنا تھا نا۔۔“ چنہ کے ننجھے ہبائے پہ وہ شلگنے‬
‫ہوئے بوال۔‬
‫ان دوبوں کے نبار کا انداز نہیں ند لنے واال تھا انک دوسرے کو جی تھر کے‬
‫نبگ کرنا اور جان بوچھ کے تفرت کا اظہار کرنا۔ وہ دوبوں ہی ج نونی تھے انک دوسرے‬
‫کے مغا ملے میں لبکن انداز رواننی نہیں تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1174 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫وہ انک دوسرے کی آنسٹشن تھے اور ان کی اس انسٹشن میں اصاقہ ان کی‬
‫ن‬
‫تتھی لیزا ئے کبا تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫”تم تھر نبا نبائے آئے دامیر۔“ دامیر کا حصار محسوس کرئے علتبا اس کے‬
‫لمس کو جان گنی تھی نتھی شکوہ کرنی بولی۔‬
‫”مجھے لگا نمہیں سرپراپز ا چھے لگنے ہیں۔“ دامیر پرمی سے اس کی گردن کو‬
‫چھوئے ہوئے بوال۔‬
‫”مجھے مس کبا؟“ اس کے نال چہرے سے ہبائے نبار سے بوچھنے لگا کہ علتبا‬
‫ئے انبات میں سر ہالنا۔‬
‫ک‬‫ن‬
‫”تم لوگوں کا کام کٹشا جا رہا ہے؟“ علتبا کے آ یں موندئے پہ دامیر ئے‬
‫ھ‬
‫بوچھا۔‬
‫علتبا تھی اب چنہ کا شاتھ دے رہی تھی‪ ،‬زنادہ نہیں لبکن وہ اس کی کاقی مدد‬
‫کرنی تھی شپ منٹس کو رنکور اور رکوائے میں۔ چنہ ئے اب تھی انبا کام نہیں چھوڑا‬
‫تھا جس کا تھربور شاتھ لبام دے رہا تھا۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1175 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫لبکن علتبا اتھی نہیں جاہنی کہ ان کے نچے اس شب میں ابوالو ہوں نتھی چنہ‬
‫اور علتبا لیزا‪ ،‬بوقل کو اس شب سے دور رکھنی تھیں۔ علتبا کے لنے اب شب کجھ‬
‫نارمل تھا۔ مافبا میں کجھ تھی انہونی تھی۔ دامیر ئے تھبک کہا تھا اگر وہ جاہنی بو انک‬
‫فتملی کی طرح ہی نارمل زندگی گزار شکنی تھی اور انشا ہو تھی رہا تھا۔ شب نارمل تھا۔‬
‫دامیر اور رنان مافبا کو گھر نک نہیں الئے تھے کہ ہر وفت نس مار ڈھار‪ ،‬خون خرائے‬
‫کی نانیں۔ وہ شب چب اکھنے ہوئے بو انک فتملی کی طرح ہی شب نانیں کرئے۔ نحوں‬
‫کی کھلکھالہنیں ستنے۔‬
‫نبدنلی نس نتھی آنی چب علتبا اور چنہ کو خود دوسرے کام کی طرف بوجہ د ننی‬
‫پڑنی۔ چنہ تھبک کہنی تھی کہ معصوموں کی نازنانی سے شکون ملبا تھا اور وہ نہی کرنی‬
‫رہیں گی اب۔‬
‫ناہر وہ لوگ مافبا کا حصہ ہوئے لبکن گھر میں وہ انک عام سی مج نت کرئے‬
‫والی فتملی ہوئے۔ اس شب میں زنادہ ہاتھ رنان اور دامیر کا تھا۔‬
‫دنبا کے لنے وہ ناپ اشاشن دامیر آر اور دی پرابوا ہبڈ رنان ڈی ہو نگے لبکن گھر‬
‫میں داجل ہوئے ہی وہ مجنت کرئے والے شوہر اور الڈ اتھائے والے ڈنڈ تھے۔‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬


‫‪1176 | P a g e‬‬

‫ب وصل کا سرور ازقلم ماہم مغل‬


‫ش ِ‬

‫”زرا شوجا اگر رنان کا دماغ پہ جلبا اور وہ مجھے نمہیں گرل فرنبڈ نبائے کا پہ کہبا بو‬
‫آج بوقل ہونا؟“ کمرے کی قسوں چیز جاموسی میں دامیر کی سرگوسی سبانی دی کہ‬
‫علتبا ئے نلکیں اتھائے دامیر کو دنکھا۔‬
‫”ا نسے آ نبڈناز رنان کو ہی آشکنے ہیں۔“ علتبا مشکرانی کہ اس کی متمری الس‬
‫کے وفت رنان کا ہی مسورہ تھا کہ دامیر علتبا کو انبا نبانا۔‬
‫”لبکن انک نات ناد رکھبا‪ ،‬دامیر آر تم سے مجنت کرنا ہے پرنسٹس۔“ اس کے‬
‫رجشار کو چھوئے ہوئے وہ مجمور لہچے میں بوال کہ ا ننے دبوں کے ہجر کے تغد آج وصل‬
‫کی شب تھی۔ علتبا مسرور سی ہونی مشکرا دی۔‬
‫٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭‬
‫جتم شد‬

‫جواین ناول بینک فیس نک گروپ‬


‫‪www.facebook.com/groups/NovelBank‬‬

‫‪Visit for more novels: www.urdunovelbank.com‬‬

You might also like