You are on page 1of 119

‫مت رو نورے تمہارے رونے سے جہانزیب واپس تھوڑی آ جائے گا ۔۔۔۔۔لیکن حریم وہ میرا بھائی ہے وہ مجھے کیسے اکیال

چھوڑ‬
‫کر جا سکتا ہے ؟ حریم دیکھو نہ یہ میرا بھائی نہیں ہے نہ یہ کسی اور کی الش ہے ؟ نورے جہانزیب کے جنازے کو دیکھ کر‬
‫بے حد تکلیف کے عالم میں رو رہی تھی ۔ حریم جہانزیب کو کچھ نہیں ہوا نا یہ سب جھوٹ کہہ رہے ہیں کہ جہانزیب مر گیا ہے‬
‫ایسا نہیں ہو سکتا نا ۔ حریم نورے کو کمرے میں زبردستی لے آئی ۔ رو مت نورے کچھ نہیں ہوتا ہللا کو یہی منظور تھا ۔ کیسے !‬
‫کیسے! تم یہ سب مجھ سے کہہ رہی ہو تم جھوٹی ہو میں تمہارا یقین نہیں کروں گی دفع ہو جاؤ ۔ حریم جو ویسے بھی جہانزیب‬
‫کی بیوی بننے جا رہی تھی اس کے بھی سارے خواب چکنا چور ہو چکے تھے ۔ دیکھو نورے تم رو گی تو جہانزیب کو کتنی‬
‫تکلیف ہوگی ۔ نورے پھر رونے لگی نورے کو اپنے جوان تقریبا ً ‪ 23‬سال کے بھائی کی موت واقع ہونے پر یقین نہیں آرہا تھا ۔‬
‫حریم تم کیا ۔ تم کو رونا نہیں آرہا اس سے بوال نہیں جا رہا تھا ۔ میں ۔ مجھے بے حد رونا آرہا ہے لیکن تمہیں دیکھ کر مجھے‬
‫تمہیں دالسہ دینے کا دل چاہ رہا ہے حریم کی انکھیں بھیگ چکی تھی ۔ مجھے اس کی آوازیں آرہیں ہیں ۔ سنو ! سنو تمہیں نہیں‬
‫آرہی کیا دیکھو جاہنزیب کہہ رہا ہے جنت آپی جنت آپی کدھر ہیں آپ‪ ،‬تمہیں پتہ تو ہے وہ ابھی تک میرے ہاتھوں سے کھاتا ہے ‪،‬‬
‫رکو میں اس کے لیے کچھ مزے کا بنا کر آتی ہوں۔ نورے جنت بیڈ سے اٹھنے لگی تو حریم نے نورے کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ‬
‫نورے جنت میری جان وہ اب اس دنیا سے رخصت ہو گیا ہے وہ جس کی امانت تھی اس کے پاس لوٹ گئی تم اپنے لیے صبر‬
‫مانگو میری جان ۔ حریم نورے جنت کو دیکھ کر مسلسل رو رہی تھی‪ ،‬لیکن ایک اچھی دوست ہونے کی حیثیت سے اس کو چپ‬
‫کروا رہی تھی نورے کی ماں کمرے کا دروازہ غصے سے کھول کر کمرے میں آئی اور چیختے چالتے نورے کے گلے پڑ گئی‬
‫تم نے مارا ہے میرے بیٹے کو تم نے اس کو مار دیا تم دشمن تھی میرے بیٹے کی تم جالد ہو ‪ ،‬تم میرے بیٹے کے قاتل ہو۔ ہائے!‬
‫ہائے ! ہم نے تمہیں اتنا پیار کیا اور تم نے ہمیں ہی لوٹ لیا تم نے میرا جوان بیٹا مار ڈاال‪ ،‬کھا گئی میرے بیٹے کو یہ ڈائن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫حریم اس کی ماں کی بات کاٹتے بولی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟ اور نورے کو چھوڑیں۔ اس نے نورے کو چھڑوایا نورے نے‬
‫سکون سے سانس لیا اور روتے ہوئے حیرت سے اپنی ماں کو سننے لگی۔ تم ہی ہو قاتل ایک تمہارا باپ ہے جو وہاں سے لوٹ‬
‫ہی نہیں رہے نا جانے کیوں نہیں آ رہا اس کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کا بیٹا جہانزیب ہائے! ہائے! اور وہ پھوٹ پھوٹ کے‬
‫رونے لگی نہ جانے کب عادل صاحب پردیس سے آئیں گے ؟ عادل صاحب کہاں ہو ؟ آجاؤ ۔۔۔ آپ کا بیٹا یہ ڈائن کھا گئی ۔ انٹی‬
‫اب آپ زیادتی کر رہی ہیں حریم چیختے ہوئے بولی انٹی خبردا! اگر اب آپ نے نورے کو کچھ کہا آپ اس کی حالت کو تو دیکھیں‬
‫وہ خود پاگل ہو رہی ہے رو رو کر اور آپ ہیں کہ ۔۔۔۔ارے لڑکی تم چپ رہو مجھے تو لگتا ہے میرا بیٹا تم سے شادی ہی نہیں‬
‫کرنا چاہتا تھا اس لیے وہ مر گیا حریم سفینہ بیگم کی یہ بات کاٹتے بولی پہلے آپ سوچ لیں کہ وہ کیسے مرا ؟ میرے سے شادی‬
‫کا سن کر یہ نورے نے اس کو مار دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ حریم نورے کو دوبارہ چپ کروانے لگی نورے نا رو۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫اور ہاں آنٹی یہ اپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ نورے ہمارا بیٹا کھا گئی ؟ اس کا بھی تو بھائی تھا اور کون بہن اپنے بھائی کو‬
‫مارے گی خود ؟ اور کیا مطلب کہ آپ نے نورے کو زیادہ پیار دیا ہے جہانزیب سے وہ بھی آپ کی بیٹی ہے ! آپ کیسے ایک ماں‬
‫ہونے کی حیثیت سے نورے کو زیادہ پیار کرنے کا حق جتا رہی ہے ۔؟ ہائے ! شکر ہے کہ میں اس جالد اس قاتل کی ماں نہیں‬
‫ہوں سفینہ بیگم کے یہ کہنے پر حریم اور نورے سکتے کے عالم میں سفینہ بیگم کو دیکھنے لگی۔ کیا مطلب ؟ نورے نے سوال‬
‫کیا تم ہماری بیٹی نہیں ہو تم اڈاپٹڈ ہو۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کس منحوس گھڑی میں ہم نے یہ نورے جنت جیسی نحوست زدہ ڈھول اپنے‬
‫گلے میں ڈاال ۔ یہ تو بس عادل صاحب کی ضد تھی نہیں تو میں پہلے دن جس روز یہ گھر آئی تھی اس کا گال دبا دیتی خود تو وہ‬
‫پردیس چلے گئے اور تم منحوس کو میرے پاس چھوڑ گئے ۔ یہ آپ ۔ آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟ مما میں میں آپ کی بیٹی ہوں آپ کی‬
‫نورے جنت وہ روتے ہوئے کہتی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫را ِہ کامل از قلم ذمر شہباز ۔‬


‫•‬

‫نہیں ہو تم ہماری کچھ بھی تم جانتی تھی کہ عادل صاحب اور میں تمہارے سگے ماں باپ نہیں ہیں اس لیے تم نے‬
‫جہانزیب کا قتل کیا تاکہ تم ساری جائیداد لے سکو۔ نہیں مما مجھے کچھ بھی نہیں پتہ آپ ۔ آپ جھوٹ بول رہی ہیں‪ ،‬کہہ‬
‫دیں کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ سفینہ بیگم ہائے ہائے کرتے کمرے سے چلی گئی۔ حریم ! حریم ! ایسے نہیں ہو سکتا نا‬
‫میں تو ان کے اصل اوالد ہوں بابا کو فون کروں ان کو بتاؤ بلکہ نہیں تم ان سے پوچھو حریم ایسا نہیں ہو سکتا انہوں‬
‫نے مجھے کبھی کیوں نہیں بتایا اب میں ‪ 26‬سال کی ہوں اب تک ان کو بتا دینا چاہیے تھا ‪ ،‬جہانزیب ۔ جہانزیب بھی کیا‬
‫میرا سوتیال بھتھاتھا ؟ نہیں لیکن میں اسے محبت کرتی ہوں میں نے تو ہی اس کو پاال ہے یہ ۔ یہ مما تو چلی گئی تھی‬
‫پانچ سال کے لیے امریکہ تو میں نے ہی تو جہانزیب کو سنبھاال تھا حریم کیا یہ سب جھوٹ ہے؟ کیا یہ میرا خواب ہے ؟‬
‫یا حقیقت ؟ پہلے میرا بھائی مر گیا پھر مجھ پر اس کے مرنے کا الزام لگا دیا گیا اور اب تو مجھے بتایا جا رہا ہے کہ‬
‫میں میں‬
‫سوتیلی ہوں تومیں کس کی بیٹی ہوں حریم ۔ وہ رونے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫•‬ ‫حریم سے نورے کی یہ حالت دیکھی نہ گئی حریم نے نورے کو گلے لگایا اور اس کو دالسہ دیا ‪ ،‬نورےجنت بولی ایسا‬
‫ایسا نہیں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ نورے اپنا جملہ مکمل کیے بغیر ہی بے ہوش ہو چکی تھی۔ نورے اٹھو حریم کو اُٹھانے کی حد کوشش‬
‫کی لیکن وہ نہ اٹھی تو پھر اس کو حریم ہسپتال لے گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫•‬ ‫ایک تو نہ جانے عادل انکل بھی نہیں فون اٹھا رہے ۔ مما نورے جنت کی ماں نے اس پر اس کے بھائی کے قتل کا‬
‫الزام لگایا ہے اور انہوں نے بتایا ہے کہ نورے جنت ان کی اصل حقیقی اوالد نہیں ہے۔ کیا کہا بیٹا ؟ واقعی ؟ جی مما‬
‫حریم سارا ماجرا اپنی امی کو ہسپتال میں بتا رہی تھی۔ حریم ہی اس کو ہسپتال الئی تھی بیٹا تم ان سب کے چکروں میں‬
‫نہ پڑو ہاجرہ بیگم نے حریم کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔ لیکن امی ایسے کیسے میں نورے جنت کو یوں چھوڑ دوں ؟ آج‬
‫اس وقت کوئی اس کے ساتھ نہیں ہے تو میں بھی اس کو باقی منافقوں کی طرح نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔۔۔ حریم نے اپنی امی‬
‫ہاجرہ بیگم کو صاف انکار کر دیا کہ وہ ان کی بات نہیں مان سکتی ہاجرہ بیگم نے حریم کی بات مان لی۔ حریم کا کوئی‬
‫بہن یا بھائی نہ تھا۔ وہ ایک امیر خاندان کی اکلوتی وارثہ بھی تھی اور نورے جنت کی ایک بہترین دوست تھی حریم ہی‬
‫بس نورے کو سمجھ سکتی تھی ‪.‬‬
‫•‬ ‫وہ دونوں ماں بیٹی ہسپتال میں بیٹھے تھے کہ نورے جنت کے کمرے سے ایک نرس باہر آئی۔ نرس کیا اپ بتائیں گی‬
‫کے نورے کیسی ہیں ؟ حریم نے پریشانی سے پوچھا ۔ جی وہ کافی بہتر ہے بٹ آپ ان کو ٹینشن نہ دیں پلیز ۔ ٹھیک‬
‫ہے لیکن ڈاکٹر صاحبہ سے پوچھ کے بتا دیں کہ ہم پیشنٹ سے مل سکتے ہیں ؟ میں پوچھتی ہوں۔ یہ کہہ کر نرس‬
‫ڈاکٹر سے پوچھنے چلی گئی اور چند سیکنڈ بعد باہر آئی اور کہنے لگی کہ آپ پیشنٹ سے مل سکتے ہیں۔ حریم دوڑتے‬
‫ہوئے اندر گئی اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ حریم ! حریم! ہاں نورے بولو! حریم مما جھوٹ کہہ رہی تھی کہ میں ان کی بیٹی‬
‫نہیں ہوں نہیں ! وہ سچ کہہ رہی تھی۔ وہ رونے لگی اور جہانزیب کہاں ہے ؟ وہ حیرانی سے پوچھ رہی تھی ۔ وہ۔۔ وہ ۔۔‬
‫چال گیا ہے نورے میری جان ہم سب کو چھوڑ کر‪ ،‬یقین کر لو اب۔۔۔۔۔۔۔۔ حریم سے نورے کی حالت دیکھی نہیں جا رہی‬
‫تھی نہیں جہانزیب ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر نورے پھر رونے لگی‬

‫•‬ ‫را ِہ کامل از قلم ذمر شہباز‬


‫حریم سنو ہاں ! بولو نورے میری جان ! مجھے گھر لے چلو مجھے مما سے کچھ سواالت کے جوابات جاننے ہیں ۔ اچھا لے‬
‫چلوں گی حریم نے اس کا ہاتھ چھوڑا اور سامنے صوفہ پر جا کر بیٹھ گئی۔ وہ نورے کو دیکھ کر رو رہی تھی کہ کوئی اپنے‬
‫بھائی سے اتنا پیار کیسے کر سکتا ہے؟ اور یہ جاننے کے بعد کہ وہ سوتیلی ہے اور وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ جہانزیب‬
‫اور نورے دونوں سوتیلے ہیں یا سگے ؟ اس نے یہ سوال نورے سے کرنا چاہا لیکن اس نے سوچا کہ ابھی صحیح وقت نہیں‬
‫ہے ۔۔۔۔۔۔‬
‫تمہیں پتہ ہے حریم جاہن زیب ایک دفعہ طوطے الیا تھا ان سے بے حد پیار کرتا تھا ان کی دیکھ بھال کرتا تھا اور جب اس کا‬
‫طوطا مر گیا تو بہت رویا تھا تب وہ بس ‪ 15‬سال کا تھا اور پھر اس کو میں نے بہت مشکلوں سے اور پیار سے منایا تھا ۔ اور‬
‫ایک دفعہ ۔ وہ اپنے دوست آیان خان سے جب لڑا تھا تو تب بھی وہ بہت اداس ہوا تھا کیونکہ وہ اس کا ایک واحد دوست تھا پھر‬
‫میں نے اس کی اداسی کی وجہ سے ان دونوں میں بہت مشکل سے صلح کروائی تھی۔ حریم نورے جنت کی باتوں کو سن کر اپنی‬
‫انکھوں میں آنسو دبانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ ناکام ہو رہی تھی۔ اور ایک بار جہانزیب میرے لیے بہت پیارا سا تحفہ‬
‫لے کر ایا تھا تب وہ بس ‪ 17‬سال کا تھا وہ ایک گھڑی تھی جو کہ مجھ سے خراب ہو گئی تو میں نے جہانزیب کو نہیں بتایا‬
‫کیونکہ وہ اداس نہ ہو نورے ے اپنی مگن میں ساری باتیں کر رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا بات کر رہی ہے ؟ لیکن بس‬
‫وہ حریم کو بتا رہی تھی اور خود سے بات کر رہی تھی۔ تو پھر وہ گھڑی کہاں گئی ؟ حریم نے اس سے پوچھا ‪ ،‬حریم نے آنسو‬
‫صاف کرتے ہوئے کہا تھا ۔ وہ وہ تو میرے پاس گھر میں ‪ ،‬میرے کمرے میں ‪ ،‬میرے دراز میں۔۔۔۔۔۔۔ اچھا ۔ حریم نےاس کو‬
‫دالسہ دیا۔ تم ۔ تم ایسا کرو تم میرے ساتھ میرے گھر چلو حریم نے کہا ۔ نہ ۔ نہ نہیں ۔ نہیں میرےگھر میں جہانزیب کی باتیں‬
‫سنائی دیتی ہیں اس کی یادیں ہیں ‪ ،‬تم کو شرم نہیں اتی تم مجھے میرے بھائی سے گمراہ کرنا چاہتی ہو ؟ میں نہ ۔ نہیں میرا ۔ میرا‬
‫یہ مقصد نہیں تھا ۔ جاؤ وہاں بیٹھ جاؤ حریم میں بہت اداس ہوں میرا بھائی چال گیا ہے وہ چیخ چیخ کر رونے لگی۔ اچھا ! اچھا !‬
‫ریلیکس حریم وہاں سے دوبارہ صوفہ پر جا کر بیٹھ گئی۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔‬
‫حریم کی ماں گھر جا چکی تھی ابھی اس کو ڈسچارج نہیں کرنا تھا ایک رات مزید ہسپتال میں رکھنا تھا اور حریم نے ہی اس کے‬
‫ساتھ رات گزارنی تھی کیونکہ نورے کے عالوہ اس کا کوئی دوست نہ تھا ۔ نورے ایک بات بتاؤں ؟ ہاں بولو! وہ روتے ہوئے‬
‫کہتی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ایکچولی سفینہ بیگم نے تم پر الزام لگایا کہ جہانزیب کو تم نے مارا ہے وہ مما کو بتا رہی تھی کہ انہوں نے پولیس‬
‫کو رپورٹ کروانا ہے۔ کیا ؟ پولیس؟ ( ہاں حریم سچ کہہ رہی تھی) یوں ہی رات گزر گئی ان کی باتوں اور جہانزیب بھی یادوں‬
‫میں اور اس کو ڈسچارج کرنے کا وقت اگیا حریم نورے کو گھر لے آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔ سفینہ بیگم گھر کے بڑے جھولے پر بیٹھی تھی اور کسی سوچ میں گم تھی اور وہ بہت سنجیدگی سے سوچ رہی تھی اور عادل‬
‫صاحب کو کوس رہی تھی ۔ ماما ۔۔۔۔۔ نورے نے مدھم آواز میں کہا ۔کیا تم ؟ اس گھر میں کیوں آئی ہو وہ غصے سے چالئی تم قاتل‬
‫ہو میرے بیٹے کی میں ابھی پولیس کو فون کرتی ہوں۔ مما یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟ میں صحیح کہہ رہی ہوں جو کہہ رہی ہوں۔۔۔۔‬
‫وہ چیخ کے بولی انہوں نے فون کیا پولیس کو لیکن پولیس نے فون نہیں اٹھایا اور حریم غصے سے اس کا ہاتھ پکڑ کے گھر سے‬
‫نکل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫حریم اور نورے گھر کے باہر کھڑے تھے نورے تم میرے ساتھ چلو۔ لیکن میں تم پر بوجھ نہیں بننا چاہتی۔۔۔ نورے جنت مسلسل‬
‫رو رہی تھی ۔ نہیں تم میرے ساتھ چلو گی حریم نے اس کا ہاتھ پکڑا اور گاڑی میں بٹھا دیا اور خود ڈرائیو کر کے اس کو اپنے‬
‫ذاتی فارم ہاؤس میں شہر سے دور لے گئی حریم تم یہاں کیوں الئی ہو مجھے اپنے گھر کیوں نہیں لے کر گئی ؟ نورے حیرانی‬
‫سے حریم کو دیکھ رہی تھی اور پوچھ رہی تھی اس کی سیاہ آنکھیں صاف بتا رہی تھیں کہ وہ دوبارہ رونے والی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں‬
‫تمہیں یہاں کیوں الئی ہوں اس کا جواب میں ابھی نہیں دوں گی مگر یقین جانو میں کبھی تمہارے ساتھ برا نہیں کروں گی ۔ میں‬
‫جانتی ہوں یہ کہہ کر نورے رونے لگی ۔ چلو اندر اب یہ کمرا تمہارا ہے تم اس میں رہو گی جاؤ اور جا کر تھوڑی دیر سو جاؤ ۔‬
‫حریم نےاس کو اندر بھیجا اور باہر سے دروازہ بند کر دیا ۔‬
‫حریم نے نورے جنت کے کمرے کا دروازہ بند کیا اور فارم ہاؤس کو الک کیا تاکہ کسی کو یہ معلوم نہ ہو سکے کوئی اندر ہے‬
‫وہ گاڑی میں بیٹھ کے گاڑی ڈرائیو کر کے اپنی امی کے پاس جانے لگی ان کو سارا کچھ بتانے کے لیے ‪ ،‬وہ راستے میں دیکھ‬
‫رہی تھی کہ کافی زیادہ پولیس باہر سڑکوں پر کسی کی تالش میں تھی اور وہ جان رہی تھی کہ یہ سب نورے کی تالش میں ہے‬
‫صرف پیسوں کی خاطر۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫•‬ ‫را ِہ کامل از قلم ذمر شہباز‬


‫وہ گھر پہنچی ماما یہ اتنی پولیس کیوں ہے باہر؟ وہ گھبرائے ہوئے پھولتی ہوئی سانسوں سے بول رہی تھی۔ یہ سب نورے جنت‬
‫کی تالش میں ہے حریم کی ماں نے یہ کہتے ہوئے حریم کو پانی کا گالس دیا اور بٹھا کر کہا اب تم کیا کرو گی ؟ مطلب حریم نے‬
‫کہا ۔ مطلب یہ کہ اب نورے جنت کہاں پر ہے ؟ وہ میرے ساتھ ہے میں اس کو فارم ہاؤس لے کے گئی تھی اس کو سال کر ائی‬
‫ہوں اب ‪ ،‬پھر حریم پانی پینے لگی اچھا تو اب کیا تم نے اس کی مدد کرنی ہے ؟ ہاجرہ بیگم نے سوال کیا جی مما امی میں چند دن‬
‫فارم ہاؤس میں رہوں گی اور میں نورے جنت کی مدد جب تک ہو سکے اور جتنی ہو سکے اتنی کروں گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔‬
‫حریم کو ویسے بھی اکیلے رہنے کی عادت تھی وہ جب مرضی باہر کے ملک بھی سیر کے لیے چلی جاتی تھی اس لیے اس کی‬
‫امی نے اس کو جانے کی اجازت دے دی تھی ۔ اس نے گاڑی نکالی اور فوراً سے ڈرائیو کرتے ہوئے فارم ہاؤس پہنچی وہ فٹافٹ‬
‫نورے کے کمرے میں گئی کیونکہ نورے جنت سوئی تھی اور وہ اس کو اکیال چھوڑ کر ائی تھی اس نے کمرے کا دروازہ کھوال‬
‫اور دیکھا تو نورے سو رہی تھی وہ تقریبا دو گھنٹوں میں واپس ا چکی تھی اس نے سکون کا سانس لیا کہ نورے سو رہی ہے اور‬
‫جا کے کافی بنانے لگی ۔ نورے جنت کمرے سے اٹھ کر باہر ائی اور کہنے لگی کہ مجھے گھر جانا ہے۔ اچھا ! اچھا ! آؤ کافی‬
‫پیو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حریم اس کو ارام سے گارڈن میں لے کر آئی اور اس کو کافی سرو کی ۔ یہ لو ۔ شکریہ ! یہ کہہ کر نورے نے حریم‬
‫کو دیکھا حریم کو محسوس ہوا کہ وہ اس سے کچھ پوچھنا چاہ رہی ہے ۔ ہاں بولو نورے جنت کیا کہنا چاہتی ہو ؟ حریم تم کہاں‬
‫گئی تھی ؟ میں اٹھی تھی پانی لینے تو تم کہیں پر نظر نہیں آئی ‪............‬‬
‫ہاں میں گھر کا چکر لگانے گئی تھی وہ بات گول مول کر رہی تھی ایکچولی میں ماما کو بتانے گئی تھی کہ میں تمہارے ساتھ‬
‫چند دن یہاں رہوں گی ۔ اب بتاؤ گی حریم کے ہم یہاں کیوں ائے ہیں ؟ نورے جنت کے تاثرات چہرے کے حیرت زدہ تھے جیسے‬
‫وہ کسی کشمکش میں ہو۔ لیکن تم رو گی نہیں حریم نے شرط رکھی ۔ اچھا ٹھیک ہے ! وہ ایک گہرا سانس لینے لگی کیونکہ وہ‬
‫جانتی تھی کہ وہ کوئی ایسی بات بتائے گی جس سے وہ دوبارہ چونک جائے گی ۔ سنو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب میں باہر گئی تھی تو ہر‬
‫جگہ پولیسی نظر آرہی تھی سفینہ بیگم نے پولیس کو تمہارے ڈھونڈ کر النے پر بھاری رقم کا کہا ہے۔۔۔۔۔۔ کیا ؟ ہاں ! یعنی سفینہ‬
‫بیگم واقعی سوتیلی ہی ہیں ۔ نورے نے ایک اور سوال کیا کہ حریم میں تو جاب پر تھی یہ بتاؤ جہانزیب کو کیا ہوا ؟ اور اس کے‬
‫جسم کے بائیں جانب پٹی بندھی تھی جو کہ مجھے کسی نے دیکھنے نہیں دی ۔ حریم سوچنے لگی کہ وہ اس کو بتائے یا نہ بتائے‬
‫پھر اخر اس نے بتانے کا فیصلہ کیا ‪ ،‬سنو ! نورے جب ہم نے تمہیں آفس ڈراپ کیا تو میں اور جہا نزیب شاپنگ کرنے جا رہے‬
‫تھے ایز یو نو(جیسا کہ تم جانتی ہو ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں مجھے معلوم ہے نورے اس کی بات کاٹتے بولی پھر کیا ہوا ؟ ہمیں راستے میں‬
‫آیان بھی مال جو کہ بہت گھبرایا ہوا تھا ہم نے اس کو گاڑی پر بٹھایا تو ابھی وہ ہمیں اپنی کہانی سناتا کہ کچھ لڑکے آئے تقریبا ً تین‬
‫لڑکے جو کہ بائک پر بیٹھے تھے انہوں نے ہماری گاڑی پر حملہ کیا اور گولیاں چالنا شروع کر دی آیان کے بازو پر لگی اور‬
‫جہانزیب کو سینے پر اور بازو کی الٹی طرف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫کیا کیا تم تم نے یہ پہلے نہیں بتایا ۔ سنو ابھی! حریم نے کہا۔ تو میں دونوں کو ہسپتال لے کر گئی تو پتہ چال کہ خون زیادہ بہہ گیا‬
‫ہے اس لیے جہانزیب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اور ایان کا کیا ؟ اس نے حیرت سے پوچھا۔ وہ تو بچ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو سفینہ بیگم مجھ پر کیوں الزام لگا رہی ہیں ؟ نورے نے‬
‫حریم کو دیکھا اور پوچھا ‪ .‬ان کو لگتا ہے کہ تم نے جہانزیب کو مارنے کے لیے وہ لڑکے بھیجے تھے کیا ؟ اتنی گھٹیا قسم کی‬
‫بات سوچ بھی کیسے سکتی ہیں ؟ ہللا اب میں کیا کروں ؟ نورے کو جہانزیب کی موت کے بعد بہت زیادہ قسم کے دھچکے مل‬
‫رہے تھے وہ کافی وہیں چھوڑ کر فوراً کمرے میں گئی اور چیخنے لگی یا ہللا میں نے تو کچھ نہیں کیا ؟ میرا کوئی نہیں ہے اس‬
‫دنیا میں کیا ؟ میں الوارث ہوں کیا ؟ کوئی میرا اپنا ہے یا نہیں ؟ میرے بابا ہیں نا۔۔۔ کہاں ہیں ؟ مجھے بابا کے پاس جانا ہے میں‬
‫کیا کروں ! یا ہللا میں بے بس ہوں ! وہ چیختے ہوئے رونے لگی ۔ تم پاگل ہو ؟ کیا کر رہی ہو؟ ہاں میں پاگل ہوں‪ ،‬میں بھی چیخ‬
‫سکتی ہوں ! کیا میں چیخ رہی ہوں ؟ نہیں ! دیکھو میری تو شادی ہونے والی تھی میرا اپنا رشتہ ٹوٹا ہے ‪ ،‬کیونکہ میرا منگیتر تو‬
‫مر گیا میں نے بھی تو صبر کیا ہوا ہے نا تم بھی صبر کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫حریم نورے کو کام ڈاؤن کر رہی تھی چپ ہو جاؤ ۔ تم حریم چلی جاؤ ۔ میں جاؤں گی لیکن تم خود کو نقصان نہیں پہنچاؤ گی۔‬
‫اچھا جاؤ ۔ اوکے ! اوکے ! ریلیکس حریم چلی گئی اور وہ نورے رونے لگی جب نورے تین گھنٹے بعد رونے سے فارغ ہو کر‬
‫واپس ائی اور وہ بے حد حسین لگ رہی تھی بھیگی پلکوں میں سیاہ رات جیسی آنکھوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اس کی انکھیں بڑی تھی‬
‫اور جب وہ روتی تھی تو وہ مزید خوبصورت لگتی تھی وہ اس طرح سرخ تھی جیسے وہ کمرے سے میک اپ کر کے ائی ہو‬
‫کیونکہ ہمیشہ نورے کی عادت تھی جب وہ روتی تھی تو وہ سُرخ پڑ جاتی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫حریم سنو ! ہاں بولو نورے ۔ اس نے نورے کو تھوڑا تلخی سے جواب دیا ۔ ایم سوری ۔ کوئی بات نہیں حریم نے سارا غصہ ختم‬
‫کر دیا اور اس کو معاف کر دیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کا اس کا کوئی نہیں ہے اور وہ کس کنڈیشن سے گزر رہی‬
‫ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حریم دیکھو تم بھی کہتی ہو گی کہ ایک تو میرے گھر میں رہ کر مجھ سے بدتمیزی کر رہی ہے میں بھی نا ۔ نہیں‬
‫میں ایسا کچھ نہیں سوچ رہی میں جانتی ہوں ۔‬

‫•‬ ‫را ِہ کامل از قلم ذمر شہباز‬


‫تم غصے کی بے حد تیز ہو میں تو ڈرتی ہوں کہ بچارے تمہارے شوہر کا کیا بنے گا ۔۔۔۔ یہ کہہ کر حریم اور نورے دونوں ہنسنے‬
‫لگی ۔ نورے دیکھو عادل صاحب کال اٹینڈ نہیں کر رہے ہیں ۔ لیکن اب کیا ہوگا ؟ نورے کے چہرے میں عجیب سی پریشانی‬
‫الحق تھی کہ ہم اب کیا کریں گے ۔ نورے دیکھو مجھے ایک بات پریشان کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا نورے نے اطمینان سے پوچھا‬
‫لیکن نورے پہلے سے ہی پریشان تھی نورے جب ہم نے تمہیں افس ڈراپ کیا تو عادل انکل کا کوئی میسج ایا تھا ۔ کیا واقعی؟ ہاں‬
‫پھر کیا جہانزیب کی بات ہوئی تھی بابا سے ۔ نہیں کوئی وائس میسج تھا واٹس ایپ پہ لیکن جہانزیب ان کی بات سن کے بہت‬
‫پریشان ہوا اور اس کو بے حد تیز چکر انے لگے ہماری گاڑی کی بھی پوزیشن خراب ہوئی کیونکہ جہانزیب سے ڈرائیونگ نہیں‬
‫ہو رہی تھی پھر میں نے ڈرائیو کیا تھا اور باقی سب میں نے تمہیں بتایا تھا پھر کیا بات ہوئی تھی ؟ کیا تمہیں پتہ ہے ؟ نورے‬
‫جیسے کچھ معلوم کرنا چاہ رہی تھی ۔ نہیں جہانزیب سے میں نے پوچھنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں بتا رہا تھا پھر آیان‬
‫راستے میں مال اور پھر باقی میں تمہیں بتا چکی ہوں اور پھر وہ دوبارہ کہنے لگی نونورےڑے چائے بناؤں یا کھانا لگاؤں ؟‬
‫میں کھانا کھاؤں گی ! اس نے اس انداز میں بوال کہ وہ جیسے بہت کچھ خاص سوچ رہی ہو اچھا یہ کہہ حریم کھانا لگانے چلی‬
‫گئی ۔ میں اب کیا کروں ؟ مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ اس مسئلے کو سلجھانا ہے تو مجھے انگلینڈ جانا ہوگا وہ خود سے ہی باتیں‬
‫کر رہی تھی۔ نورے کھانا لگا دیا ہے اب اگلے ہی لمحے نورے نے حریم کو اپنا فیصلہ سنایا اور اس سے مدد مانگی میں انگلینڈ‬
‫جا رہی ہوں نورے نے حریم سے کہا ۔ واٹ اڑ یو میڈ ( تمہارا دماغ لگتا ہے خراب ہو چکا ہے ) حریم نورے جنت نے اس کو‬
‫پیار سے کہا حریم دیکھو میں نے اپنے بھائی کے قتل کا مقدمہ چالنا ہے اس کے قاتلوں کو سزا دینی ہے سفینہ بیگم کا منہ بند‬
‫کروانا ہے اس لیے میرا جانا بے حد ضروری ہے ۔ تو میں تمہارے ساتھ جاؤں گی حریم نے جلدی سے کہا تم کیا کرو گی ؟ تم‬
‫اگے ہی میری بہت مدد کر چکی ہو اور میرا غصہ میری بدتمیزی برداشت کر چکی ہو میں نہیں چاہتی کہ میرے رویے کی وجہ‬
‫سے ہماری دوستی پر کوئی اثر ائے اس لیے رہنے دو میں اکیلی چلی جاؤں گی ۔ نہیں میں تمہارے ساتھ جاؤں گی حریم نے تو‬
‫جیسے ضد ہی پکڑ لی اخر کار نورے جنت کو حریم دل نواز کی بات ماننی پڑی ۔ میں فیصلہ کر چکی ہوں کہ میں کبھی روؤں‬
‫گی نہیں اور میں ڈٹ کر مقابلہ کروں گی میں بھی نورے جنت عادل حیات ہوں ۔ اس کا یہ کہنا حریم کو بے حد متاثر کر گیا تھا ۔۔۔۔‬
‫نورے بولی‬
‫میں اندھیروں میں تابانی کی طلبگار ہوں‬
‫سلطانی کے کُن کی منتظر ہوں‬
‫ت ُ‬
‫خلع ِ‬
‫میں بس یہ چاہتی ہوں کہ اپنے بھائی کی موت کا بدلہ لوں ۔ وہ شخص بخشا نہیں جائے گا یہ کہنا اس کا حریم کو یہ احساس دال‬
‫رہا تھا کہ نورے جنت سے بڑا کوئی صابر نہیں ہوا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ اچھا میں نماز پڑھ کر اتی ہوں ۔ ہاں میں بھی چلتی‬
‫ہوں تمہارے ساتھ اکٹھے نماز پڑھتے ہیں اور وہ دونوں عشاء کی نماز پڑھنے لگی یا ہللا میری مدد کریں میں اپ کی مدد کے بغیر‬
‫بالکل بے بس ہوں میں بالکل خالی ہاتھ اس وقت اپ کے اگے ہاتھ پھیالتی ہوں اور اپ سے مدد کی طلبگار ہوں بے شک اپ‬
‫سے بڑھ کر کون مدد کرنے واال ہے یا ہللا یا ہللا او گولڈ میں ایک نیا مسئلہ اپنی زندگی میں شروع کرنے لگی ہوں میری مدد‬
‫فرمائے میں اپنے بھائی کے قاتلوں کو نہیں چھوڑوں گی اگر بابا نے مجھے یہ بھی بتایا کہ جہانزیب میرا سدیال بھائی تھا تو تب‬
‫بھی میں اس کے قاتلوں کو نہیں چھوڑ وں گی نورے جنت اپنے ہللا اپنے رب اپنے خالق و مالک سے مدد چاہ رہی تھی ۔ صبح‬
‫ہوئی تو نورے نے ناشتہ بنایا ۔ تمہیں ناشتہ بنانا اتا ہے ؟ ہاں انڈا وغیرہ فرائی کر ہی لیتی ہوں ۔ تم بیٹھو کھانا کھاتے ہیں۔ نورے‬
‫نے حریم کو کرسی پر بٹھایا اور وہ دونوں کھانے لگی تم کھانے کے بعد مجھے میرے گھر لے چلو گی۔ لیکن کیوں ؟ حریم نے‬
‫سوال کیا میں نے گھر سے کچھ ضروری سامان لینا ہے مثالًا کپڑے پاسپورٹ اور جہانزیب کی چیزیں وغیرہ ۔ لیکن پولیس تمہیں‬
‫ڈھونڈ رہی ہے۔ حریم نے اس کو سمجھانا چاہا۔ نورے نے کہا لیکن یہ چیزیں بھی ضروری ہیں۔ اچھا کھانا کھاؤ میں کچھ کرتی‬
‫ہوں۔ حریم بولی۔ وہ کھانا کھا کر فارغ ہوئی۔ حریم نورے جنت کو گاڑی میں لے کر گھر لے گئی۔ وہ دونوں بڑی مشکالت کا‬
‫سامنا کر کے بچ بچا کر پولیس سے سفینہ بیگم کے گھر پہنچی۔ گھ ر کے باہر جو تختی تھی جس پر جہانزیب عادل حیات کا نام‬
‫لکھا ہوا تھا۔ اس پر اب سفینہ بیگم کا نام لکھا تھا۔ یہ دیکھ کر اسے پھر سے جہانزیب کی یاد ائی۔ اپی یہ دیکھیں بابا کے کہنے پر‬
‫میں نے یہ تختی بنوائی ہے۔ اور بابا کا نام بھی لکھوایا ہے۔ اپی میں جب اپنا گھر لوں گا تو میں اس پر اپ کا نام لکھواؤں گا۔‬
‫نورے جنت صاحبہ اور پھر نورے نے جہانزیب کے بالوں میں ہاتھ ڈال کر پیار سے اس کا سر ہالیا۔ اندر چلو نہ نورے جنت ۔‬
‫نورے جنت جیسے سب بھول چکی تھی ۔حریم نے کہا چلو اندر۔ وہ پھر بھی جیسے کسی ٹروما سے گزر رہی تھی۔ نورے جنت !‬
‫ہاں ہاں میں ٹھیک ہوں اپنے ہاتھ کی مٹھی بنا کر انسو صاف کیے جو کہ اس کے گالبی گالوں پر آ گرے تھے ۔ وہ اندر گئی اس‬
‫کی سوتیلی ماں سفینہ بیگم وہیں اس جھولے پر بیٹھی اپنی دوست سے فون پر بات کر رہی تھی ۔ میں چاہتی ہوں کہ یہ نورے جنت‬
‫بال گرفتار ہو کر پھانسی چڑھے یہ الفاظ سن کر نورے کے جیسے ہونٹ ہی سوکھ گئے تھے وہ سفینہ بیگم کے پیچھے کھڑی‬
‫تھی ۔ یار وہ کشمیر میں کام کرتے تھے تو یار جائیداد کی خاطر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی سفینہ بیگم کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی اور یہ بات‬
‫سن کے نورے حکا بکا رہ چکی تھی نورے اپنے اپ کو قابو کیے بغیر بولی۔۔۔۔ کیا ؟ بابا کشمیر میں ہیں وہ تو‬
‫انگلینڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اور سفینہ بیگم نے یہ دیکھا اور سنا اور فوراً گاڈز کو آواز لگائی ۔ حریم باہر گاڑی میں نورے کا ویٹ کر رہی تھی سفینہ بیگم‬
‫نے پولیس کو کال کی اور پولیس فوراً سفینہ بیگم کے گھر اگئی اور نورے کو جیل کی سلکھوں کے پیچھے بند کر چکی‬
‫تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫•‬ ‫را ِہ کامل از قلم ذمر شہباز‬


‫نورے جیل کی سالخوں کے پیچھے بیٹھی اکیلی زمین پر کبھی کھڑی ہوتی‪ ،‬کبھی روتی سر پکڑ کر یا ہللا میں کیا کروں میں‬
‫ابھی اندر ہوں جیل میں ‪ ،‬کس غلطی کی سزا ہے یہ ؟ پہلے بھائی مرا پھر چند راز ظاہر ہوئے پھر دربدر ٹھوکر کھائی پھر‬
‫اب ایک جھوٹے کیس میں جیل کے اندر ہوں اور یہ سارے لوگ یہاں پہ رشوت لیتے ہیں نورے جنت کو اپنی موت بھی نظر‬
‫انے لگی ‪ ،‬سفینہ بیگم کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں وہ سوچ رہی تھی وہ زمین پر ہی دیکھ رہی تھی زمین پر بیٹھے ہوئے کہ‬
‫ایک جوان شخص پولیس کی وردی میں ویل ڈریس کھڑا اور جب وہ چل رہا تھا تو اس کے بوٹ کی آواز زمین پر گونج رہی‬
‫تھی اس کے ایک ہاتھ میں پولیس واال ڈنڈا اور کمر پر بیلٹ تھی جس میں ایک گن تھی اور اس کا ہاتھ گن کی دوسری والی‬
‫سائیڈ پر اس نے رکھا تھا فوجی کٹ اور بیرڈ تھی اس کے چہرے پر‪ ،‬بھوری آنکھیں سفید چہرے پر بہت جچ رہی تھیں۔ ۔ ۔ ۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اور بی بی کو کس جرم میں اندر کیا ہے ؟ اس پولیس والے نے اپنے دوسرے پولیس ساتھی سے سوال کیا ‪ -‬سر انہوں نے قتل کیا‬
‫ہے ۔ کس کا ؟ اپنے بھائی کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوہ پولیس والے نے نورے جنت کو دیکھا اور پوچھا کیا نام ہے تمہارا ؟ میم ۔ میم ۔ میرا نام وہ‬
‫وہ ۔ ۔ ۔ کیا وہ وہ لگا رکھی ہے ؟ جلدی بولو اس سپاہی نے کہا ۔ رکو تمیز سے بولو اس ڈیسنٹ پولیس والے نے اپنے دوسرے‬
‫ساتھی کو روکا ۔ بولیے آپ کا نام کیا ہے ؟ میرا نام نورے جنت ہے ‪ ،‬۔میں میں پولیس میں کیسے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پولیس والے نے اس‬
‫کی بات کاٹی اور کہا ایس ایچ او محمد ارزم زاویار نام ہے میرا ۔ اچھا جو بھی ہے مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں ہے نورے‬
‫فٹ سے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمیز سے بات کرو ایس ایچ او سے نہیں تو تمہارے اوپر مزید پرچے ڈال دیے جائیں گے۔۔۔۔۔‬

‫نورے فٹا فٹ چپ کر گئی اور ڈر گئی کہ کہیں مزید کام خراب نہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات سن کے ارزم بوال میڈم آخر کو ہم مجرم‬
‫اور مظلوم دونوں کی سنتے ہیں اور انشاءہللا اپ سے بھی انکوائری کریں گے ارزم زاویار وہاں سے چال گیا ۔ اور نورے زمین پر‬
‫بیٹھ کر سر گھٹنوں پر رکھ کر رونے لگی اور اس کو یہ خیال آ رہا تھا کہ یہ انسان بہت ہی ڈیسنٹ ہمبل اور انٹیلیجنٹ ہے حریم‬
‫فوراً گاڑی گھماتے ہوئے تھانے پہنچی جب ایس ایچ او کے روم تک پہنچی تو وہ سامنے کا منظر دیکھ کر حیران رہ گئی ابھی وہ‬
‫حیران تھی کہ باقی سپاہی حریم کو ایس ایچ او روم سے باہر نکال رہے تھے کہ ایس ایچ او نے اس پولیس والے کو روکا ۔ کیا کر‬
‫رہے ہو ؟چھوڑو بی بی کو ۔ یس سر وہ یہ کہہ کر باہر چلے گئے ۔ آؤ بیٹھو ارزم بھائی اپ یہاں اپ تو پہلے کشمیر میں پولیس کی‬
‫نوکری کر رہے تھے حریم نے ارزم سے حیرانی سے پوچھا ۔ میرا تبادلہ ہوا تھا یہاں تھوڑا عرصہ پہلے اب چند دن بعد کشمیر‬
‫جاؤں گا اور تم بتاؤ یہاں کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی اپ کے پاس ایک مجرم کے طور پر ایک لڑکی آئی ہے ۔ نام نام کیا ہے اس کا ؟ اس کا‬
‫نام نورے جنت ہے ۔ وہ اچھا ہاں وہ جیل میں ہے ۔ لیکن تم اس کی کیا لگتی ہو ؟ آئی مین کیا ریلیشن ہو تمہارا ان سے ؟ وہ میری‬
‫بہت اچھی دوست ہیں ۔ اچھا جس کا تم گیدرنگز میں نارملی ذکر کرتی رہتی ہو ۔ ہاں ‪ ،‬ہاں وہی ۔۔۔۔۔ لیکن وہ تو قتل کے کیس کے‬
‫اندر گئی ہے۔ لیکن اس نے قتل نہیں کیا کون بھال اپنا بھائی خود مارے گا پلیز اس کا خیال رکھنا حریم نے ارزم سے جیسے‬
‫ریکویسٹ کی۔ ہاں اب ہم اس س ے انکوائری کریں گے تو پھر ہمیں معلوم ہوگا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ؟ سو تمہارے‬
‫کہنے پر دیکھوں گا اور تم جانتی ہو میں عورتوں کی عزت بھی کرتا ہوں ۔ ہاں بھائی لیکن کوئی رشوت لے کر اس کو نقصان نہ‬
‫پہنچائے گا پلیز۔ میں رشوت نہیں لیتا یہ کہتے ہوئے ارزم نے حریم کو بھوری آنکھوں سے گھور کر دیکھا ۔ حریم جانتی تھی کہ‬
‫وہ کبھی رشوت نہیں لے گا لیکن پھر بھی اس نے نورے کی سیفٹی کے لیے بات کہی تھی حریم یہ بھی جانتی تھہ کہ اس کی‬
‫نوکری ہی کیوں نہ چلی جائے لیکن ایس ایچ او ارزم زاویار کبھی رشوت نہیں لیتا ۔ عقیل ! عقیل ! اندر آؤ ۔ یس سر ۔ ارزم کے‬
‫بالنے پر ایک سپاہی اندر آیا میڈم کو نورے جنت سے ملوا الؤ ۔ جی ۔‬
‫جنت میری جان ! کیسی ہو حریم نے جیل کی سالخوں سے ہاتھ گزار کر اس کا ہاتھ پکڑا تمہیں انہوں نے کچھ کہا تو نہیں ۔ نہ ۔‬
‫نہ نہیں مگر مجھے یہاں بہت خوف آ رہا ہے نورے نے ہمت سے یہ الفاظ ادا کیے۔ میں ۔ میں ہوں نہ ! تمہیں پتہ ہے جو اس‬
‫تھانے کا ایس ایچ او ہے وہ میرا کزن ہے میں نے اس ان سے بات کی ہے تمہیں ہمت سے کام لینا ہوگا ۔ جب وہ باتیں کر رہی‬
‫تھی تو اتنی ہی دیر میں ارزم اندر آیا کہ ملنے کا وقت ختم ہو گیا ہے یہ بتانے کے لیے ۔ حریم نے ارزم کو دیکھا اور کہا میں‬
‫ابھی نہیں جاؤں گی مجھ سے دیکھا نہیں جا رہا اپ اس کی حالت دیکھیں ارزم سامنے کھڑا دیکھ رہا تھا ۔ میں نے کچھ نہیں کیا‬
‫نورے نے حریم کو دیکھا اور کہا ۔ حریم کو ہاتھوں کی گرفت کمزور ہوتی محسوس ہوئی ‪ ،‬نورے تم ہاتھ کیوں چھڑوا رہی ہو‬
‫حریم نے کہا ۔ میں ۔ میں نہیں چاہتی تم میری وجہ سے رو تو تم مجھے حوصلہ دیتی ہو اج خود ہی رو رہی ہو ہاں میں نے کچھ‬
‫نہیں کیا اور اس کا بدلہ میں ہللا سے لے لوں گی تم جاؤ شاباش نورے مسلسل رو رہی تھی ۔ نورے نے حریم کے انسو صاف کیا ۔‬

‫•‬ ‫را ِہ کامل از قلم ذمر شہباز‬

‫نورے کی اپنی انکھیں اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ اگر پلک جھپکتی تو اس کے آنسو شدت سے بہنے لگتے لیکن اس نے کنٹرول‬
‫کیا ہوا تھا ‪ ،‬جاؤ تم جاؤ ۔ حریم تو نورے سے جیسے بہن سے بھی بڑھ کر پیار کرتی تھی ‪ ،‬ارزم بھائی سنیں حریم نے ارزم کو‬
‫مخاطب کیا میری بہن جیسی دوست کا خیال رکھیے گا اپ کو میری قسم نورے جنت نے حریم کو کہا کہ ایسے مت بولو ایسا نہ‬
‫کہو قانون کو اپنی قسم دے کر خود کو اور قانون کو مٹھی میں نہ لو ۔ لیکن بھائی اپ کچھ نہیں کریں گے حریم مسلسل رو رہی‬
‫تھی ۔ اچھا حریم تم جاؤ میں کچھ نہیں کرتا ارزم نے اس کو وہاں سے بھجوا دیا ۔ نورے اس وقت سفید رنگ کا سادہ سا جوڑا‬
‫پہنے ہوئے تھی اور ریشمی دوپٹہ تھا اور وہ ہمیشہ روتے ہوئے بے حد سرخ ہو جاتی تھی اور رنگت اس کی صاف تھی اور وہ‬
‫بہت پیاری لگ رہی ہے جتنی روتے ہوئے وہ پیاری لگتی تھی اتنی شاید وہ ویسے بھی پیاری نہیں لگتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نورے حریم کے جانے کے بعد تھانے میں جیل کی سالخوں کو پکڑ کر زمین پر بیٹھ کر خاموشی سے رو رہی تھی حریم اور‬
‫جہانزیب کی یاد میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔‬
‫اس کو ایک اور یاد ائی جہانزیب ۔۔۔۔‬
‫آپی دیکھیں اج کل میرے مارکس سکول میں اچھے نہیں ا رہے ۔ ہاں تم ہر وقت کھیلتے ہو بچوں کو مارتے ہو اور ٹی وی‬
‫دیکھتے ہو ۔ باقی سب تو ٹھیک ہے بچوں کو میں کب مارتا ہوں ؟ ہاں ابھی کل کرکٹ کھیلتے وقت گلی میں تم نے بول کو جب‬
‫بیٹ سے ہٹ کیا تو ساتھ والے گھر کے بچے کا سر پھٹ گیا تھا ۔ ہاں وہ ہ ہ جہانزیب کو جیسے یاد ایا ‪ ،‬ہاں اپی وہ تو غلطی سے‬
‫پھٹ گیا تھا تو میں نے سوری بھی تو کیا تھا نا ۔ ہاں شاباش اس بات پر رہنا وہ دونوں ہنسنے لگے یہ کہہ کر۔۔۔۔‬
‫نورے کو جہانزیب کی مسلسل یاد آ رہی تھی اس کو ایک اور یاد انا شروع ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حریم تم کب ائی وہ ایک نیا‬
‫قصہ سوچنے لگی۔ میں ابھی ائی ہوں نورے وہ وہ ۔ کیا ہوا جہانزیب کو سوچ رہی ہے اور پوچھنا چاہ رہی ہو ؟ ہاں حریم ہنسی‬
‫جاؤ وہ اپنے کمرے میں ہیں ایسا کرو تم اس کو بال لو میں نے سوجی کا حلوہ بنایا ہم مل کر کھائیں گے میں نے اج انٹرنیٹ سے‬
‫دیکھا تھا ۔ واقعی میں بال کر التی ہوں ۔ حریم دوڑتے ہوئے جہانزیب کے کمرے میں گئی اور حلوے کی آکسائیٹمنٹ میں جاہنزیب‬
‫کے کمرے کے باہر ٹھوکر لگنے سے منہ کے بل زمین پر گر گئی تھی جہانزیب سامنے بیٹھا موبائل یوز کر رہا تھا وہ بھاگتا ہوا‬
‫اٹھا حریم کو اٹھایا ہاتھ سے پکڑ کر اور اپنی اپی کے پاس لے کر ایا اپی یہ دیکھیں ۔ حریم کیا کیا تم نے ہللا ہللا تم ٹھیک تو ہو ہاں‬
‫نورے میں ٹھیک ہوں نورے نے فٹ سے پٹی کی اور پھر تینوں نے مل کر حلوہ کھایا نورے سب سوچ کر ہنس رہی تھی اور‬
‫سامنے سے ایس ایچ او ارزم جو کہ قیدیوں کو دیکھ رہا تھا بلکہ ایک قیدی کو مار کر بھی ایا تھا اس کے جرم کی وجہ سے اس‬
‫نے اپنی شرٹ کے کف کہنیوں تت اوپر چڑھائے تھے اور مار کر ہی ا رہا تھا ۔ نورے نے دیکھا اور اواز لگائی ایس ایچ او‬
‫صاحب ۔۔۔۔ وہ اس وقت فل تپا ہوا تھا اس نے مڑ کر دیکھا اور وہ دیکھتا ہی رہ گیا کیونکہ نورے بے حد پیاری لگ رہی تھی ۔ جی‬
‫بولیں کیا مسئلہ ہے اپ کو ارزم نے غصے سے سختی لہجہ اپناتے کہا ۔ وہ ۔ وہ وہاں سے آوازیں آرہی تھی۔ کیسی آوازیں تھی‬
‫ارزم نے اس کو چونک کر دیکھا ۔ نہیں ۔ نہیں ۔ میرا مطلب ہے کہ وہاں آواز آرہی تھی وہ بات کو گول مول کرنے لگی ۔ ارزم‬
‫نورے کو دیکھ کر بوال اس لڑکے نے قتل کیا تھا وہ مان نہیں رہا تھا اس سے اگلوا کر ا رہا ہوں ۔ نورے تو جیسے آنکھوں میں‬
‫انسو رکھ کر ہی بیٹھی تھی وہ ڈگمگاتی ہوئی تھوڑا پیچھے ہٹی اور ارزم اس کو ڈرا کر جا چکا تھا نورے یہ سوچنے لگی کہ اب‬
‫اس کا کیا بنے گا سفینہ بیگم کے پاس تو اتنا پیسہ ہے عادل صاحب کا اس وقت کہ وہ کسی کا ایمان خرید لیں نورے کی آنکھ لگ‬
‫گئی وہ بیٹھے بیٹھے سو گئی ویسے بھی رات ہو چکی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ارزم اپنے گھر جا چکا تھا اور اپنی امی کو اس نے اج کی ساری بات بتائی حریم کی اور نورے جنت کے متعلق شائستہ نے ارام‬
‫سے کہا بیٹا تم پہلے سب کچھ اچھے سے جان لو ‪ ،‬دین تم اپنا ایکشن لینا ۔ جی مما ‪،‬‬
‫ارزم نے اپنی مما کی بات مانتے ہوئے کہا اگال دن چرھا اور وہ دن تھا جس دن نورے جنت سے انکوائری کرنی تھی ارزم نے‬
‫ارڈر دیا کہ جاؤ قیدی نورے جنت کو جلدی سے انکوائری روم میں بٹھاؤ حریم اس وقت تھانے میں موجود تھی بھائی وہ بے‬
‫قصور ہے اس نے کچھ نہیں کیا ۔ اچھا اب یہ انکوائری کی بات نہیں پتہ چلے گا ۔ لیکن آپ میرا یقین کریں حریم جیسے ارزم کو‬
‫یقین دالنے کی کوشش کر رہی تھی کمرے میں الئٹس آف تھیں نورے جنت کے ہاتھ کرسی کے پیچھے بندھے ہوئے تھے اور‬
‫کمرے کے اوپر والی دیوار پر ایک چھوٹا سا بلب تھا جس سے صرف نورے جنت اور اس کے سامنے والی کرسی نظر ارہی‬
‫تھی نورے خوف میں بیٹھی تھی اور اس کو ڈر لگ بھی رہا تھا اور نہیں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫حریم کی ضد پر حریم کمرے کے باہر کھڑی رہی اور ایس ایچ او ارزم زاویار اندر ایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬

‫نورے اس وقت زمین پر دیکھ رہی تھی اور خود کو بے بس نہیں محسوس کر رہی تھی لیکن وہ خاموشی سے بیٹھی تھی ۔ جی تو‬
‫میڈم! ارزم زاویار کے یہ کہنے پر فوراً نورے جنت نے اوپر دیکھا ‪ ،‬نورے کی کالی رات جیسی آنکھیں اس کی بھوری آنکھوں‬
‫سے جا ٹکرائی تھی ۔۔۔۔۔۔ نورے حیا دار تھی نظر پھیر لی تو ارزم نے بھی ایسا ہی کیا ‪ ،‬ارزم کرسی پر آ کر بیٹھ گیا اور پولیس‬
‫واال ڈنڈا اپنے ہاتھوں میں جکڑ لیا اپ پر قتل کا کیس ہے۔۔۔۔ نورے نے ایٹیٹیوڈ سے آنکھیں گُھمائی ‪ ،‬جانتی ہوں میں اور یہ کہہ‬
‫کر وہ دوبارہ زمین پر دیکھنے لگی ۔ ارزم نے حیرت سے نورے کی طرف دیکھا کہ کیا یہ لڑکی پاگل ہے ۔ تم ایک پولیس والے‬
‫کو ایٹیٹیوڈ دکھا رہی ہو ۔ نورے نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا یا اس کے پاس جواب تھا ہی نہیں شاید ۔ سیدھی طرح بتاؤ‬
‫مجھے تم نے اپنے بھائی کو کیوں مارا وہ سختی سے اس سے بات کر رہا تھا۔ میں نے نہیں مارا اور خود بتائیں میں بھال کیوں‬
‫اپنے بھائی کو مارنے لگی۔ کیونکہ تم ساری جائیداد لینا چاہتی تھی ہنا ۔ ایسی ۔ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ بولی ۔ تو پھر تم نے‬
‫گُنڈے کیوں بھیجے ؟ میں نے نہیں بھیجے تھے سب مجھ پر الزام لگا رہے ہیں خاصے عقلمند ظاہر ہوتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ‬
‫عقل استعمال نہیں کرتے اپ میں تو افس جا رہی تھی حریم اور جہانزیب نے مجھے چھوڑنے کا کہا تو میں چلی گئی ان کے ساتھ‬
‫اور مجھے ڈراپ کرنے کے بعد تو گنڈے نے اس کو مارا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ یہ الفاظ کہہ کر رو دی ۔ ہمارے تھانے میں ہم مار مار کر‬
‫بھی سچ نکلوا لیتے ہیں انسو ابھی نہ نکالو ابھی تو اپ کو ٹارچر نہیں کیا گیا۔ تم لوگ مجھے ٹارچر کرو یا نہ کرو میں آخری دم‬
‫تک یہی کہوں گی کہ میں نے نہیں مارا نہیں مارا وہ شدت سے اپنی پوری قوت سے چیخی تھی ۔ ارزم فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور کہا‬
‫خبردار خاموش اس کا لہجہ نہایت سنجیدہ اور سختی واال تھا ۔ نورے خاموش ہو گئی وہ ڈر گئی تھی جیسے اس چھ فٹ دو انچ‬
‫لمبے آدمی کو اپنے سامنے یوں کھڑا دیکھ کر وہ بھی غصے سے بڑی سُرخ انکھوں میں ۔ لیکن نورے پھر بھی خاموش نا ہوئی‬
‫کیونکہ وہ جب ڈرتی تھی تو مزید غصہ ہوتی تھی اور یہ اس کی فطرت میں شامل تھا ۔ تم خود کو سمجھتی کیا ہو ؟ ارزم نے ٹیبل‬
‫پر ہاتھ رکھا اور پوچھا ۔ ایک مظلوم انسان جس کو ایک جھوٹے کیس میں رشوت کی بنا پر اندر کیا گیا ہے اور اب اس کو مینٹلی‬
‫ٹارچر کر کے جھوٹے کیس کو سچ ماننے پر عمل درامد کرنے کا کہا جائے گا ۔ میں نے کوئی رشوت نہیں لی ۔ ارزم نورے کے‬
‫سامنے پرے ٹیبل پر جس پر اس کا ہاتھ تھا‪ ،‬تھوڑا جھکا اور کہنے لگا میں رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت کرتا ہوں اور‬
‫خود ایسا کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ مجھے وضاحت مت دو اتنے سچے ہو تو یقین کرو میں نے کچھ نہیں کیا نورے‬
‫جنت اس وقت بے حد پیاری لگ رہی تھی کیونکہ روتے وقت اس کی بھوڑی آنکھیں اور لمبی پلکیں گیلی ہو کر اس کی آنکھوں‬
‫کو مزید بڑا اور سیراب کر دیتی کہ دیکھنے واال تیراکی ہی کیوں نہ کرے ۔ اور ارزم بھی اس کے روتے اور غصے چہرے کو‬
‫دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کیونکہ ارزم کو وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی ۔ اس کو یوں دیکھ کر ارزم سے مزید انکوائری نہ‬
‫ہو پائی لیکن نا جانے اس کو یہ محسوس ہوا کہ یہ سچ کہہ رہی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو بہت اچھے سے جان سکتا تھا ۔ ارزم اٹھا‬
‫اور باہر چال گیا اور باہر جا کر ارڈر دیا کہ جاؤ اس لڑکی کو باہر لے کر اؤ یعنی اس کی جیل میں ۔حریم ارزم کے کمرے سے‬
‫باہر آنے پر فوراً دوڑ کر اس کے روم میں گئی اور ارزم کو دیکھنے لگی ۔ ارزم جیسے کچھ پوچھنا چاہ رہا تھا مجھے ساری‬
‫بات بتاؤ ارزم نے کہا ۔۔۔۔ کہ ۔ کہ کون سی ۔ کیا کیا ہوا تھا نورے کے ساتھ ؟ بتاؤ حریم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫حریم بتانا شروع ہوئی۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬

‫چلو بی بی اس کمرے میں ۔ مجھے گھر جانا ہے‪ ،‬میرا کوئی قصور نہیں نور نبس ایک ہیرٹ لگا رکھی تھی ۔ چل چل اندر۔اس‬
‫وومن پولیس نے اس کو اندر کیا ۔اور نور سالخوں کو پکڑ کر بے بسی کے عالم میں بیٹھ گئی اور نور سو چکی تھی کہ اب دنیا‬
‫ادھر سے اُدھر کیوں نہ ہو جائے میرے میں جھان جیک کے قاتلوں کو ضرور سزا دلواؤں گی وہ جو کوئی بھی ہے بخشا نہیں‬
‫جائے گا ۔‬
‫اچھا تو یہ سب ہوا تھا! ارزم نے افسوس سے کہا حریم کی بتائی ساری بات سن کر۔ حریم نے حیرانی سے پوچھا بھائی لیکن آپ‬
‫نے سب کچھ مجھ سے کیوں پوچھا ؟ کچھ نہیں بس ویسے ہی تم جاؤ۔ ارزم نے ارڈر دیا تھا جیسے۔ لیکن بھائی ٹارچر ۔۔۔۔۔۔۔نہیں ہم‬
‫ابھی ایسے قدم نہیں اٹھائیں گے۔ لیکن ۔ حریم کچھ کہنا چاہ رہی تھی ۔ جاؤ ارزم سختی سے بوال ۔ وہ فوراً چلی گئی ۔ تھوڑی ہی‬
‫دیر گزری تھی کہ ایک ان نون کال ائی ۔ جی کون ارزم نے پوچھا ؟ میں سفینہ بیگم!!!! لیٹ میگس سفینہ بیگم وہی نورے کی ماں ۔‬
‫نہیں سوتیلی ماں ۔ او اچھا! اب اس کو خود سمجھ انا شروع ہوا ۔ اور زم نے فورا موبائل کی ریکارڈنگ آن کی۔ ہاں تو سنو! سنا‬
‫ہے تم رشوت نہیں لیتے؟ جی اپ نے درست سنا ہے ۔ ارزم خاموشی سے سن کر سوچ سمجھ کر جواب دے رہا تھا ۔ سنو ! میں‬
‫تمہیں پورے دو الکھ دوں گی ۔ کس لیے ؟ ارزم جیسے سفینہ بیگم سے اگلوانا چاہ رہا تھا ۔ نورے جنت کو اندر رکھنے کے لیے‬
‫اس پر ایسے پرچے ڈالو یا کیس کرو اور اس کو پھانسی دو ‪ ،‬یا عمر قید ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫جھوٹا وکیل میں کروا لوں گی اب بس تم سے سودا کرنا باقی ہے ۔ لیکن اپ کی بات کیوں مانوں اور ویسے بھی بقول اپ کے قتل‬
‫نورے جنت نے کیا تو اپ کیوں مجھے وضاحتیں دے رہی ہیں ۔ جو کہہ رہی ہوں وہ سنو ! فوراً اس پر پرچے بے شمار کرو اور‬
‫اس کو ہمیشہ جیل کی سالخوں میں رکھو ۔ اس دفعہ سفینہ بیگم سختی سے بولی تھی ۔ جی ٹھیک ہے جیسا اپ کہیں ۔ شاباش‬
‫پیسے مل جائیں گے تمہیں ۔ اوکے ۔ ارزم نے فوراً فون بند کیا اور حریم کو کال کی ۔ حریم نے کال اٹینڈ کی ‪،‬جی ارزم بھائی ۔‬
‫حریم تم مجھے میمی کیفٹیریا پر ملو ۔ لیکن کیوں؟ جو کہہ رہا ہوں وہ کرو ارزم نے کال کاٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اب وہ دونوں حریم اور ارزم امنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں ہی ارزم کو اس کے دوست کی‬
‫کال ائی ۔ مبارک ہو مبارک ! کیوں کیا ہوا ارزم نے بوال ؟ یار تیرے پروموشن ہو گئی ہے تو اب ایس ایچ او نہیں رہا تو ایس پی‬
‫بن گیا ہے ۔ الحمدہلل رب العالمین ارزم میں ایک سانس میں بوال ۔ کیفٹیریا میں ایک نماز پڑھنے کے لیے جگہ بنی تھی ارزم نے‬
‫ویٹر کو بالیا اور اس کے ساتھ نماز والی جگہ پر گیا ‪ ،‬اور جا کر شکرانے کے نوافل ادا کیے ۔ بھائی اپ کہاں گئے تھے ؟ حریم‬
‫نے حیرت سے پوچھا ۔ میں ارڈر دینے گیا تھا ۔ اچھا اپ بتائیں مجھے اپ نے کیوں بالیا ہے یہاں پر؟سنو! جب تم نے مجھے سارا‬
‫معاملہ بتایا تھا تو یہ بتاؤ عادل صاحب کشمیر میں ہے تو کیا تمہیں ان کے گھر کا ایڈریس معلوم ہے ۔۔۔۔ نہیں لیکن اگر نورے جنت‬
‫چھوٹ جائے جیل سے تو میں خود اس کو کشمیر میں کسی ہوٹل لے جاؤں گی اور ہم کسی طرح ان کا اڈریس ڈھونڈ لیں گے ۔‬
‫ٹھیک ہے تم جلدی سے آؤ ضمانت کراؤ۔۔۔۔۔ کیا کیا واقعی ؟ ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ایکچولی میرا تبادلہ ہو رہا ہے واپس کشمیر میں امی کو لے کر کشمیر جا رہا ہوں اور تم ضمانت کرواؤ اور فوراً سے پہلے اور‬
‫کشمیر پہنچو ۔ ۔۔ جی جی بھائی حریم کی تو خوشی کی انتہا ہی نہیں تھی ۔ کل تھانے آنا اور ضمانت کروانا ۔ جی جی۔ ارزم اور‬
‫حریم دونوں نے چائے پی اور گھر کو چلے گئے ۔‬

‫اگلی صبح حریم فوراً تھانے پہنچی السالم علیکم ارزم بھائی ! وعلیکم السالم حریم تم صبح صبح ہی اگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی جی بھائی مجھ‬
‫سے تو صبر ہی نہیں ہو رہا تھا ۔ ٹھیک ہے ۔ حریم نے ضمانت کروائی اور نورے کو جیل کی سالخوں سے باہر پا کر خوشی‬
‫سے رونے لگی اور نورے جنت نے دوڑتے ہوئے حریم کو گلے لگایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ اور تقریبا ً دس منٹ تک نورے حریم کو گلے‬
‫لگا کر روئی ۔ اور ارزم جو کہ تھانے سے جا رہا تھا تبادلہ ہو چکا تھا اس لیے وہ کھڑا ہو کر دونوں کی دلی محبت دیکھ کر‬
‫خوش بھی ہو رہا تھا اور اس کی آنکھ میں اچانک سے نم ہوی لیکن اس نے فوراً سے صاف کیا اور دونوں کے پاس گیا اور‬
‫شائستگی سے بوال چلو اب بس بھی کرو نہیں تو اگر سفینہ بیگم کو معلوم ہو گیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫حریم اور نورے نے ایک دوسرے کو چھوڑا اور پیچھے ہٹی نورے کو ویسے بھی کسی اجنبی شخص سے بات کرنا ناپسند تھا وہ‬
‫پھر سے اس کو دیکھ کر ویسے ہی انکھیں گھمانے لگی جیسے انکوائری کے وقت گھما رہی تھی ۔ ارزم نے اس کو دیکھا اور‬
‫حیرانی اس کے چہرے پر ظاہر ہوئی ۔ حریم چلو اب جاؤ ‪ ،‬ہللا تم دونوں کی مدد کرے اور ہاں کبھی میری ضرورت پڑے تو بندہ‬
‫حاضر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ارزم ابھی یہ کہہ ہی رہا تھا کہ نورے جنت بولی بندہ حاضر برا آیا وہ اپنی طرف سے تو آہستہ بولی تھی لیکن ارزم سن چکا تھا‬
‫اور وہ ہنسی دبا کر ہنسی روکنے لگا لیکن بعد میں اس کو غصہ بھی آیا تھا لیکن اس نے کنٹرول کیا ‪ ،‬اور وہ سب اپنی گاڑیوں‬
‫میں بیٹھے اور کشمیر کے لیے روانہ ہو گئے تھے‬
‫ہاں بڑی آئی خود کو کیا سمجھتی ہے ایٹیٹیوڈ تو دیکھیں ان میڈم کا ایک تو میں ان کی مدد کر رہا تھا اور ان کا رویہ دیکھو جی‬
‫چلو ویسے یہ کسی بال سے کم نہیں تھی ایک پولیس والے کو بھی نہ چھوڑا اس سے بھی بدتمیزی کر رہی تھی وہ تو میں ہی اچھا‬
‫تھا تو غصہ پی گیا نہیں تو کوئی اور ہوتا تو اندر ہی رکھتا اس کو ۔ارزم گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے سب کہہ رہا تھا اور سوچ رہا‬
‫تھا لیکن اس کے چہرے کے تاثرات میں کوئی فرق نہ تھا وہ معمولی طور پر سوچ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ہنہ۔۔۔ نورے نے کہا ۔ کیا ہوا تمہیں بھوتنی ؟ حریم نے ہنس کر پوچھا ۔ تمہارا دو نمبر کزن تھا نا یار وہ ایک قاتل بندے کو مار‬
‫کر نکال تو کیا لگ رہا تھا حریم نے نوے کو حیرت سے دیکھا اس کو کچھ اور لگا تھا ۔ مطلب ؟ یعنی آستینوں کے کف چڑی‬
‫ہوئے ہیں بال خراب تھے ۔ مگر اچھے لگ رہے تھے حریم بات کاٹتے بولی اب ایسا بھی نہیں ہے خوفناک جن لگ رہا تھا نورے‬
‫نے فوراً کہا ۔ ہاہا حریم ہنسی یار ایسے تو نہ کہو ہمارے خاندان کا سب سے ہینڈسم ہیں یہ ۔ ویسے اکیا خیال ہے حریم نورے کو‬
‫چھیڑتے ہوئے پوچھا ۔ چلو پاگل زیادہ شوخی نہ ہو ۔ کہان میں اور کہاں وہ نورے اپنے بال پیچھے کرتی ہوئی بولی ۔ ہاں تم‬
‫بھوتنی اور وہ جن یہ کہہ کر حریم اور نورے ہنسنے لگی ۔ حریم دھیان سے ڈرائیو کرو آگے خطرناک راستہ ہیں نورے نے‬
‫حریم کو سمجھایا ۔ اچھا میں دیکھ ہی رہی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ن‬
‫وہ دونوں اب کشمیر پہنچ چکی تھی اور ان کا سٹے ہوٹل میں تھا اب کافی رات ہو چکی تھی اور ویسے بھی نومبر کا مہینہ تھا‬
‫سردی بھی خوب تھی اب دونوں سو چکے تھے ۔ ۔ ارزم کا کشمیر میں گھر تھا کیونکہ وہ پہلے بھی کشمیر میں ایس ایچ او کی‬
‫نوکری کر چکا تھا اور اب وہ ایس پی کی نوکری کرنے جا رہا تھا ارزم کو کال ائی ۔ ہیلو حریم نے کہا ۔ السالم علیکم ! حریم‬
‫کے ہیلو پر ارزم نے کہا تو حریم شرمندہ ہو گئی ۔ وعلیکم السالم ! بھائی اپ خیریت سے پہنچ گئے ۔ ہاں پہنچ گیا ۔ اچھا ۔ اور‬
‫کچھ ؟ ا ۔ ا ۔ کچھ نہیں ۔ بس یہی پوچھنا تھا اچھا چلو فون بند کرو ۔ اوکے ۔ ہللا حافظ ۔ دفعہ دور پاگل سٹھاایا ہوا ہے۔ حریم یہ کہہ‬
‫رہی تھی اور نورے پاس بیٹھی تھی جو کہ الؤڈ سپیکر پر باتیں سن کر پاگلوں کی طرح پیٹ پکڑ کر ہنسنے لگی ۔ باز آؤ میں‬
‫تمہارا سر پھاڑ دوں گی نورے ۔۔۔ ہا ۔ ہا ۔ اس ارزم کا تو پھاڑ نہیں سکی ۔ کوئی نہیں ۔ ۔ میرے ایلڈر برادر ہیں کچھ نہیں ہوتا ۔ ہاں‬
‫بھئی کچھ نہیں ہوتا نورے کہہ کے اٹھی اور اب دونوں ناشتہ بنانے لگی ۔ اب وہ دونوں ناشتہ کر رہی تھی کہ نورے کو اچانک‬
‫سے خیال آیا ۔ حریم ! ہاں ایک بات بتاؤ مجھے جیل سے نکلوایا کیسے ؟ میں پاگل میں نے تو پوچھا ہی نہیں ۔ ضمانت کروا کر ۔‬
‫پاگل یہ تو مجھے معلوم ہے لیکن سفینہ بیگم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫اچھا وہ ویسے یار یہ تو مجھے بھی نہیں ۔ ایسا کیا ہوا جو تمہارے عجیب سے کزن نے مجھے چھوڑ دیا ؟ ہاں یار یہ تو میں نے‬
‫بھی نہیں پوچھا ۔ ہاں عقل ہو تو پوچھو نا ۔ یار بھائی فون پر تو ایسے بات کرتے ہیں جیسے بھوکا شیر ابھی فون سے نکل کر چبا‬
‫جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ اچھا ویسے پھر بھی کبھی مالقات ہوئی تو ضرور پوچھوں گی میں حریم نے کہا ۔ اوکے ۔ نورے نے حریم کو کہا‬
‫سنو ! ہاں ۔ اب ہمیں کسی ایس پی سے رابطہ کرنا پڑے گا ۔ ہاں تم صحیح کہتی ہو ۔ اب وہ دونوں تھانے جانے لگی عادل صاحب‬
‫کے گھر کا اڈریس نکلوانے ۔ ۔ ۔ ابھی تک ایس پی صاحب نہیں آئے ۔ ہاں یار ! چلو بیٹھ کر ویٹ کر لیتے ہیں وہاں سے ایک لڑکا‬
‫کمرے میں داخل ہوا جس نے فیس ماسک لگا رکھا تھا بلیک کلر میں وہ آ کر بیٹھا اور نورے جیسے اس شخص کو گھورنے لگی‬
‫۔ السالم علیکم ! حریم نے کہا وعلیکم السالم ! اس شخص نے کہا نورے کو آواز جانی پہچانی لگی ۔ ایکسکیوز می ۔ کیا آپ یہ‬
‫ماسک اتاریں گے ؟ نورے نے نا سمجھی میں یہ بات کر دی ۔ کیا کہہ رہی ہو پاگل ؟ حریم نے ہلکی سی آواز میں نورے جنت‬
‫کے قریب ہو کر سرگوشی کی ۔ یار مجھے یہ شخص جانا پہچانا لگ رہا ہے کہیں یہ وہی تمہارا عجیب سا کزن تو نہیں نورے‬
‫جنت نے بھی سرگوشی کی ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ وہ تو ایس ایچ او ہے اور ہم ایس ۔ پی کے پاس آئے ہیں ۔ محترمہ ! کیا‬
‫مسئلہ ہے آپ کا ؟ ان دونوں کو دیکھ کر وہ بوال ۔ باہر سے ایک سپاہی آیا اور اونچی آواز سے بوال سر ارزم باہر ایک صاحب آپ‬
‫سے ملنا چاہتے ہیں ۔ اچھا میں آتا ہوں ارزم نظر جھکا کر باہر چال گیا ۔ ۔ اور نورے نے حریم کے کندھے پر تھپڑ مارا اور کہا‬
‫مینٹل تجھے اپنے خاندان کے وفد کا ہی نہیں پتا ُتو کیا میرا ساتھ دے گی ؟ اوہ اچھا ! واقعی سوری مجھے نہیں پتہ تھا ۔ لیکن ہم‬
‫تو ایس پی کے پاس ائے ہیں اور یہ تمہارا دو نمبر کزن تو ایس ایچ او نہیں تھا حریم ۔ ارزم سن چکا تھا پیچھے کھڑا ۔ یار پتہ نہیں‬
‫‪ ،‬ہاں ویسے کہیں انہوں نے دو نمبری تو نہیں کی ۔ کی ہوگی کوئی دو نمبری اور آگیا ہوگا ادھر ‪ ،‬ابھی وہ بول رہی تھی کہ حریم‬
‫کی نظر ارزم پر گئی اور اس نے زور سے کھانسا ۔ تو نورے نے بھی مڑ کے دیکھا تو وہ دیکھ کر ایساے چپ کر گئی جیسے‬
‫کوئی سانپ سونگ گیا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ بھائی آپ ۔ جی میں کیا کہہ رہی تھی اپ کی دوست ؟ کچھ نہیں وہ تو بس یہ کہہ رہی تھی کہ ‪- - -‬‬
‫ارزم بات کاٹتے بوال ہاں کہ میں ایک دو نمبر ہوں ۔ نہیں ۔ نہیں ۔ بھائی ۔ اچھا ! بولو کیا کام ہے پھر میرے متھے کیوں لگی ہو وہ‬
‫سڑی ہوئی آواز میں بوال۔ بھائی وہ ہم کو ایک ایڈریس نکلوانا تھا ۔ کس کا ؟ نورے کے بابا کا ۔ اچھا ! دو نمبر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے دو‬
‫نمبر کہنے پر نورے جنت کا قہقہہ نکال بہت مشکل سے اس نے ضبط کیا ۔ ارزم فوراً سمجھ گیا کہ یہ اس کے دو نمبر کہنے پر‬
‫ہنسی ہے ‪،‬میں نے تم دونوں کا کام نہیں کرنا جاؤ یہاں سے ۔ کیوں بھائی؟ اپنی دوست کو نا تمیز سکھاؤ پہلے اور پھر انا جاؤ‬
‫یہاں سے ۔لیکن ‪ ....‬میں کہہ رہا ہوں جاؤ وہ زور سے چالیا ۔ وہ دونوں اٹھ کر چلی گئی ۔ یار تمہارا مسئلہ کیا ہے تم ہنسی کیوں‬
‫اب کون کرے گا کام وہ تو بھائی نے فوراً کر دینا تھا یار نورے تم بھی نہ بھائی نے اچھا خاصا کام کر دینا تھا اچھی بات ہے ہم‬
‫بھائی سے کروا لیتے اب کون کرے گا؟ نورے شرمندہ ہوئی ۔ تم مجھے ایک بات بتاؤ تم ان کو دو نمبر کہتی کیوں ہو ؟ یار‬
‫حریم تمہارے کزن نے مجھے کیسے چھڑوایا ہیں جب کہ اس کے پاس کوئی مقصد ہی نہیں تھا چھوڑنے کا لیکن مجھے سمجھ‬
‫نہیں ائی اس لیے شاید میں اس کو دو نمبر کہتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو نور تم بھی نا اب اب اتنا کھجل خوار ہونا پڑے گا ۔ اچھا چھوڑو‬
‫نا نورے نے کہا۔ تم کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتی نورے ۔ اگلی دو راتیں گزر گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫نور میں پچھلے دو دنوں سے ٹرائی کر رہی ہوں مختلف تھانوں میں بھی گئی لیکن میں کیا کروں اب حریم نے تنگ ا کر کہا۔حریم‬
‫کو اپنی تائی کی کہنے لگے کہ تمہیں یاد ہے نا حمین کی شادی ہے اس اتوار کو ہے اور تم اؤ گی حریم۔ حریم کو جیسے نورے‬
‫کے کاموں میں شادی بھول ہی چکی تھی جی اچھا میں ضرور اؤں گی اس نے ہللا حافظ کہہ کے فون بند کیا۔ کون تھا؟ نور نے‬
‫برتن دھوتے ہوئے ایک سرسری سی بات کرتے ہوئے کہا۔تائی تھی حمین کی شادی پر آنے کا یاد کروا رہی تھی۔ کہاں پر رہتی‬
‫ہیں تمہاری تائی؟ یار وہ یہی کشمیر میں ہی رہتی ہیں‪ .‬اچھا کبھی تم نے ذکر تو نہیں کیا؟ ہاں کبھی موقع ہی نہیں مال یار وہ ارزم‬
‫بھائی کی بہن ہے ؟ ریلی؟ ہاں بٹ سوتیلی ۔ اچھا تمہارا کزن ائے گا ؟ نورے نے تعجب سے پوچھا ۔ ظاہری سی بات ہے ایک قسم‬
‫کی ان کی بہن ہی ہے تو وہ ائیں گے ہی تم بھی نورے کیسی باتیں کرتی ہو ۔ نہیں مجھے لگا کہ وہ سوکن کی بیٹی ہے تمہارے‬
‫ارزم بھائی کی ما ما کی تو کیا وہ ارزم کو جانے دیں گی ؟ہاں میری تائی اور ان کی سوتن میں کوئی اتنا لڑائی واال مسئلہ نہیں تھا‬
‫وہ مل کر رہ لیتی ہوتی تھی ۔ بڑی اچھی سوتنے تھی بھئی ۔‬
‫تم تم بھی شادی پہ چلنا میرے ساتھ حریم نے نورے کو ساتھ چلنے کے لیے انسسٹ کیا ۔ نہیں یار میرا وہاں پر کیا کام مجھے‬
‫ویسے بھی بہت ٹینشنز ہیں۔ یار میں کلی کیا کروں گی میری تو اب اتنے خاندان میں بنتی بھی نہیں ہے تم ا جاؤ نا مزہ ائے گا ۔‬
‫حریم کے بار بار انسسٹ کرنے پر نورے مان گئی ۔‬
‫اتوار کا روز ا چکا تھا اور وہ دونوں تیار ہو کر شادی پر گئی ۔ یہ کون ہے ؟ تائی نے پوچھا حریم سے ۔ یہ میری دوست ہے‬
‫حریم نے نورے کو اپنی تائی سے انٹروڈیوس کروایا ۔ نور حریم کو سائیڈ پر لے کر جا کر بولی یہ بتاؤ تمہارا جو دونمرکزن ائی‬
‫مین ارزم غصے کا تیز ہے۔ ہاں بہت زیادہ اور تم جانتی تو ہو اب ویسے تم کیوں پوچھ رہی ہو حریم نے کہا۔ ویسے ہی چلو تم‬
‫یہاں بیٹھو میں آتی ہوں ۔ کہاں جا رہی ہو حریم نے نورے سے پوچھا ۔ یار شادی ہال کافی پیارا لگ رہا ہے وہی دیکھنے جا رہی‬
‫ہوں ۔ اوکے تم جاؤ میں مہمانوں کو دیکھ لوں حریم کہتے ہوئے چلی گئی اور نورے بھی ۔ نور نے راستہ صاف پایا تو تھوڑا اگے‬
‫گئی جہاں حریم کا وہ ہینڈسم واال کزن کھڑا تھا ۔ نور اس کے پیچھے کھڑی ہوئی اور کہنے لگی ایکسکیوز می ! جی ارزم کہتے‬
‫ہوئے مڑا تم ! ! حیرانگی سے پوچھا تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟ اور تم یہاں کیوں آئی ہو ؟ او لیٹ می گیس تو میں یہاں حریم الئی‬
‫ہے۔ ج جی مجھے حریم ہی الئی ہے۔ ویل بیٹھو جا کے اب تم ۔ ایکچولی مجھے اپ سے بات کرنی تھی ۔ ارزم جو کہ وہاں سے‬
‫جانے لگا تھا وہ دوبارہ مڑا اس نے اپنے سینے پہ شہادت کی انگلی رکھی اور کہا میں۔ ۔ مجھ سے تم نے بات کرنی ہے ۔ جی ۔‬
‫جی کہیے ؟ ارزم نے جیب سے موبائل نکالتے ہوئے کہا ۔ وہ۔ وہ۔ ائی ایم سوری مجھے اپ سے اس طرح بات نہیں کرنی چاہیے‬
‫تھی ائی مین ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا ۔ ۔ ۔ ایک تو نور اتنی حسین لگ رہی تھی اس گالبی رنگ کے جوڑے میں اور وہ اس سے‬
‫یوں معافی مانگ رہی تھی اس کو اس نے معاف کر دیا ۔ اچھا اور کچھ ۔ ارزم نے نورے کو کہا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ارزم کا‬
‫سارا غصہ ختم ہو چکا ہو ۔ ارزم کے یہ الفاظ کہنے پر نورے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے حیرانگی سے اس کو دیکھنے لگی ؟‬
‫اچھا آپ کو آواز نہیں ائی ارزم نے اس کو چھڑاتے ہوئے بوال ۔ کتنے عجیب ادمی ہیں اپ نورے نے غصے سے کہا۔ اپ بتائیں‬
‫اپ کو اب مجھ سے کیا کام ہے ؟ کام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ نور نے حیرانگی سے پوچھا اور وہ سوچ رہی تھی کہ اس کو کیسے پتہ چال کہ‬
‫نورے نے اس سے کام نکلوانا ہے ۔ ہاں کام کیونکہ کوئی شخص کسی کی خوشامد بغیر کسی معاملے میں اگلے انسان کی مداخلت‬
‫کو ضروری سمجھتے ہوئے ہی کرتا ہے اور یقینا ً آپ کو مجھ سے کام نکلوانا ہوگا جو اپ میٹھی بن کر مجھ سے بات کر رہی ہیں‬
‫۔ واٹ میٹھی ؟ جی لگتا ہے اپ ایک بات کو دوبارہ سننے اور ترجیح دیتی ہیں ہنا ۔ ایکسکیوز می ! میں اپ سے کوئی میٹھی بن‬
‫کے بات نہیں کر رہی میں اپ سے اس دن کی کی گئی بدتمیزی پر ایک ذرا سی معافی مانگ رہی تھی ‪ ،‬نورے اوپر سے بولی ۔‬
‫جی جی ارزم نے سر جھکاتے ہوئے کہا کام بتائیں کہ مجھے اپ ؟ وہ۔وہ۔ پلیز بابا کا ڈریس نکلوا دیں اف یو ول ڈو دس آئی ایم‬
‫ویری تھینک فل ٹو یو ۔ ۔ یعنی کہ میں درست تھا اپ اپنا کام نکلوانے کے لیے میری یہ خوشامد کر رہی تھی۔ آ ۔ آ ۔اپ جو بھی‬
‫سمجھیں پلیز میرا یہ کام کر دیں نورے جیسے ریکویسٹ کر رہی تھی ۔ کل میرے تھانے ا جانا تم حریم کے ساتھ ۔ کیا کیا واقعی ؟‬
‫تھینک یو سو مچ ! حریم اور نورے اب شادی سے گھر آ چکے تھے ۔ حریم میں نے تمہیں ایک بات بتانی تھی ۔ ہاں بولو۔ نورے‬
‫نے حریم کو ساری بات بتائی ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫کیا تم نے بھائی سے سوری کہا تم نے نورے ؟ حریم حیرانگی سے پوچھ رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ نورے اور کسی سے‬
‫معافی مانگے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ؟ تم تو کبھی بھی کسی کو نہ کہو سوری ۔ یار جب انسان کو کچھ چاہیے ہوتا ہے نا تو اس کو‬
‫پھر حاصل کرنے کے لیے اگر انسان کو دوسروں کے سامنے نیک شریف ہو کر بھی حاصل کرنا پڑے تو کرو میرا تو یہی قانون‬
‫ہے ۔ او ! حریم نورے کی اس بات پر چونک گئی تھی ‪ ،‬ایک بات کہوں نورے ؟ ہاں ۔ یار رہنے دیتے ہیں جہانزیب کی موت کا‬
‫بدلہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حریم کا اتنا ہی کہنا تھا کہ نور کا دل کیا کہ وہ اپنا سر یا ر حریم کا سر دیوار پر مار ڈالے‪ ،‬تم جانتی ہو تم کیا کہہ‬
‫رہی ہو تمہارا دماغ خراب ہے تم سے اگر یہاں پہ مجھے رکھا نہیں جا رہا تو تم مجھے بتا دو میں چلی جاتی ہوں مجھے کوئی‬
‫شوق نہیں یہاں رہنے کا اور تمہاری باتیں سننے کا ‪ ،‬چاہے جہانزیب میرا سوتیال بھائی ہی کیوں نہ ہو میں نے اس کو پاال ہے میں‬
‫اس کی بہن ہوں تم آئندہ ایسی بات نہ کرنا اگر تم تنگ آ رہی ہو تو میں یہاں سے چلی جاتی ہوں ۔ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے‬
‫بس ویسے ہی کہہ رہی تھی حریم نے خفگی لہجے سے کہا ۔ نورے اٹھی اور اپنے کمرے میں جا کے دروازہ زور سے بند کر‬
‫کے لیٹ گئی۔ کیا سمجھتی ہے یہ خود کو اس کو کیا لگتا ہے کہ میں اس کی بات ہمیشہ سنتی رہوں گی جب دیکھو جب مرضی‬
‫مجھے جو مرضی کہتی رہتی ہے اور میں اس کو کچھ نہیں کہتی اور میں ہمیشہ اس کا ساتھ دیتی ہوں اس کو یہ نظر نہیں آتا ہلکا‬
‫سا اگر میں نے کہہ ہی دیا ہے کہ تم جہانزیب کی موت کا بدلہ نا لو تو پھر بھی اس کو سکون نہیں مل رہا یہ نہیں کہ مجھے نرمی‬
‫کے لہجے میں کہہ دے پتہ نہیں بھائی کے آگے بھی کیا بھنڈ مار کے آئی ہوگی مجھے تو لگتا ہے ان کے آگے بھی کچھ ایسا بولی‬
‫ہوگی جس کی وجہ سے مجھے ڈانٹ کھانی پڑے گی ‪،‬حریم خود سے باتیں کر رہی تھی ۔ اور حریم غصے سے اپنے کمرے میں‬
‫۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔‬ ‫جا کر سو گئی ۔ ۔ ۔۔‬
‫صبح ہوئی نور نے فجر کی نماز پڑھی پھر قران پڑھا اور تھوڑا بہت ناشتہ کر کے سوچنے لگی کہ ابھی تک حریم تو جاگی نہیں‬
‫وہ کس کے ساتھ تھانے جائے ۔ اگر وہ نہیں اٹھتی تو نہ اٹھے میں خود ہی چلی جاؤں گی اس گاڑی میں اس کی گاڑی ہے تو کیا‬
‫ہوا میری بھی ہے وہ ‪ ،‬میری دوست کی گاڑی ہے میں لے کے جا رہی ہوں ۔ نور خود دل کو تسلی دیتے ہوئے اس کی گاڑی‬
‫نکالتے اور اس میں بیٹھ کر تھانے لیے چلی گئی ۔ پورے تھانے میں ارزم کے کمرے کے باہر پہنچی اندر گئی السالم علیکم ! کہا‬
‫۔ وعلیکم السالم ارزم نے فائلز کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا ۔ ارزم نے اوپر نہیں دیکھا کہ کون آیا ہے نورے وہاں اس کے‬
‫سامنے کھڑی رہی تو ارزم کو محسوس ہوا کہ کوئی خاص بندہ ہے ارزم نے نظر اٹھا کے دیکھا تو وہ نورے تھی اوہ نورے تم !‬
‫آؤ بیٹھو کھڑی کیوں ہو ۔ ایکچولی آپ فائلز میں بزی تھے تو میں نے بیٹھنا مناسب نہیں سمجھا اگر آپ فری ہیں تو کیا اب ہم بات‬
‫کر لیں نورے پھر غصے سے اور خفگی لہجہ اپناتے کہا ۔ اور سب نے ایک نظر اس کو گھور کے دیکھا اور بوال تمہارے ساتھ‬
‫کیا کوئی سائیکالوجسٹ مسئلہ ہے ؟ کبھی تم اتنی میٹھی بن کے بات کر رہی ہوتی ہے اور کبھی تمہارا غصہ ساتھ ہوئے اسمان کو‬
‫چھو رہا ہوتا ہے ‪ .‬نورے کو اس بات پہ بے حد غصہ ایا لیکن نور نے اپنا غصہ جذب کرتے ہوئے کچھ نہیں کہا ۔ یہ لے نمبر اس‬
‫نمبر کا ڈریس چاہیے نورے نے بہت ارام سے کہا ؟ ٹھیک ہے کل تک تمہیں نمبر مل جائے گا لیکن ایک بات بتاؤ تمہاری‬
‫دوست کہاں ہے ائی مین حریم ؟ کیا مطلب نورے نے پوچھا ۔ مطلب یہ کہ وہ تمہارے ساتھ کیوں نہیں ائی اج ؟ اس کی اور میری‬
‫لڑائی ہو گئی تھی جس وجہ سے وہ صبح اٹھی نہیں اور کافی دیر ہو رہی تھی تو میں خود ہی ا گئی ۔ نورے کی یہ بات سن کر‬
‫ارزم بوال کیا تم دونوں میں لڑائی بھی ہوتی ہے ائی ڈونٹ تھنک سو ۔۔۔۔۔۔۔۔نور اپنا غصہ مزید قابو نہیں کر پا رہی تھی اس لیے‬
‫کہنے لگی اچھا تو میں چلتی ہوں اپ پلیز اڈریس ڈھونڈ دیجئے گا ہللا حافظ وہ یہ کہہ کر چلی گئی ۔ کتنی عجیب ہے ؟ نورے کے‬
‫کمرے سے باہر جانے پر ارزم نے کہا ۔ نور گاڑی گھماتے ہوئے گھر پہنچی اور حریم تب تک اٹھ چکی تھی ۔ نورے کو احساس‬
‫تھا کہ وہ رات کو کچھ زیادہ بھول گئی تھی اور اس کو یہ بات نہیں کرنی چاہیے تھی جو اس نے رات کو کی تھی ۔‬
‫حریم ‪ .‬نورے کو بالنے پر حریم نے جواب نہیں دیا ۔ اچھا نہ حریم یار اب ناراضگی چھوڑو نا دیکھو تم میرے سے ناراض ہو‬
‫جاؤ گی تو میں کس سے باتیں کروں گی تم یہ جان بوجھ کے کر رہی ہو تم جانتی ہو میں تو صرف تم سے تو باتیں کرتی ہوں ۔‬
‫نورے اگر مجھے زندگی میں دوبارہ کوئی اچھی دوست بنانے کا موقع مال نا تو پہلے میں اس کا چیک اپ کرواؤں گی کہ وہ بالکل‬
‫ٹھیک ہے کوئی مینٹل مسئلہ تو نہیں ہے اس کے اندر‪ ،‬حریم نے کہا ۔ تمہیں لگتا ہے میں اپنے عالوہ تمہیں کوئی نئی دوست‬
‫بنانے دوں گی ۔جس طرح کے ہمارے حاالت لگ رہے ہیں نا آئے دن ہم دونوں لڑ رہے ہیں مجھے تو لگتا ہے تم کو بھی بنانی‬
‫پڑے گی اور مجھے بھی بنانی پڑے گی کوئی نئی دوست ۔ اچھا ناراضگی چھوڑ دو اب دیکھو اب تو مجھے مینٹل بھی کہہ رہی‬
‫ہو میں نے تمہیں بھال کچھ کہا ہے تم رات کو ایسی باتیں کیوں کر رہی تھی تم جانتی ہو میں جہانزیب سے کتنا پیار کرتی ہوں اور‬
‫بابا جہانزیب سے کتنا پیار کرتے تھے میں نہیں چاہتی کہ میں جہانزیب کو انصاف نہ دالؤں کیا میں اس کی بہن ہوتے ہوئے‬
‫صرف اتنا نہیں کر سکتی اس کو انصاف نہیں دال سکتی حریم تم بھی تو دیکھا کرو نا چلو اب ناراضگی چھوڑو پلیز پلیز پلیز‬
‫نورے نے حریم کا ہاتھ پکڑا اچھا نہ چھوڑ دو اب ناراضگی چلو نا شاباش ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اچھا لیکن تم مجھ سے ائندہ کوئی بھی ایسی‬
‫بات نہیں کرو گی حریم نے شرط رکھتے ہوئے کہا ۔ اوکے ائی پرومس ۔ اب تو نہیں ناراض ؟ نورے نے حریم سے پوچھا ۔ نہیں۔‬
‫اچھا چلو دیکھو میں صبح صبح تمہاری گاڑی لے کے گئی تھی ارزم کے تھانے گئی تھی میں ۔ کیا ہوا دے دیا نمبر پھر تم نے ؟‬
‫ہاں دے تو دی ہے اب وہ کہہ رہا تھا کہ ایڈریس مل جائے گا ۔ چلو ٹھیک ہے اچھی بات ہے مل ہی جائے ۔ حریم نے کہا سنو‬
‫میں دوپہر کے کھانے کا کچھ کرنے لگی ہوں تم بتاؤ کچھ کھاؤ گی ؟ ہاں جو تم بھی بناؤ وہی کھاؤں گی ‪ .‬چلو میں بریانی بنا لیتی‬
‫ہوں پھر مل کے کھا لیں گے ۔ ٹھیک ہے میں بھی تمہاری ہیلپ کر دیتی ہوں ۔ وہ دونوں کچن میں جا کر بریانی بنانے لگی اور‬
‫بریانی بنانے کے تھوڑی دیر بعد باہر سویمنگ پول کے پاس بیٹھ کر بریانی کھانے لگے۔ تم جانتی ہو حریم جہانزیب کو سومنگ‬
‫بہت پسند تھی ۔ تو بابا نے کہا تھا کہ ہم اپنا جو نیا گھر بنا رہے ہیں نا اس میں بابا سمنگ پول بنوائیں گے ۔ اچھا واقعی ؟ ہاں نا اس‬
‫کو تو اتنی اچھی سویمنگ کرنی اتی تھی بلکہ وہ مجھے بھی کہتا تھا اپ کی ائیں میں اپ کو سکھاتا ہوں لیکن مجھ سے کہاں ہو‬
‫رہا تھا مجھ سے تو گھر کی کوکنگ نہیں ہوتی اور وہ مجھے کہتا تھا اؤ میں اپ کو سویمنگ سکھاؤں ۔ ہاں یہ تو ہے بھئی تم سے‬
‫کوکنگ نہیں ہوتی تم نے کہاں سوئمنگ سیکھنی تھی حریم اور نورے ہسنے لگے۔ حریم روزانہ کھانا بناتی تھی اور نورے برتن‬
‫وغیرہ دھوتی تھی۔ حریم میری بات سنو اج تم میرے کمرے میں میرے ساتھ ہی سو جاؤ ۔ لیکن کیوں ؟ یار ویسے ہی سو جاؤ میرا‬
‫دل کر رہا ہے تمہارے ساتھ سونے کا ۔ مجھے پتہ ہے اگر میں تمہارے ساتھ سوئی نا تو تم پوری رات مجھ سے باتیں کرو گی اور‬
‫سو گی نہیں ابھی ہم نے صبح جانا بھی ہے ارزم بھائی کے پاس ایڈریس لینے ۔ اچھا چلو سو جاؤ تم اپنے کمرے میں اپنے کمرے‬
‫میں میں سو جاؤں گی ۔ وہ دونوں اپنے اپنے کمروں میں سو گئے صبح ہوتے ہی نورے نے معمول کے مطابق فجر پڑی اور قران‬
‫پڑھ کر ناشتے میں املیٹ بنایا اپنے اور حریم کے لیے حریم ا کر بیٹھ گئی اور وہ دونوں ناشتہ کرنے لگی ۔ ۔ ۔ ۔ نورے تم سے‬
‫کبھی فجر کی نماز مس کیوں نہیں ہوتی میرے سے تو صبح اٹھا ہی نہیں جاتا ؟ فجر تو میری نیند کا حصہ ہے اور میری صبح کا‬
‫حصہ ہے میں۔ مجھے پتہ ہے کہ اگر میں فجر پڑھوں گی نا تو میرا دن بہت اچھا گزرے گا میں اس لیے پڑھتی ہوں فجر ‪ ،‬بلکہ‬
‫ہللا تعالی نے فرض کی ہے میرے پہ یہ نماز ائ مین تمام مسلمانوں پر تو میں کون ہوتی ہوں چھوڑنے والی یا نہ اٹھنے والی‬
‫الحمدہلل ہللا تعالی ہمت اور طاقت دیتا ہے جس سے میں اٹھتی ہوں اور میں ویسے بھی ہر رات ہللا تعالی کو کہہ کے سوتی ہوں کہ‬
‫مجھے صبح فجر کے ٹائم اٹھا دینا اور مجھے نماز پڑھنے کی توفیق دینا اور بس پھر میں اٹھ جاتی ہوں تم بھی پڑھا کرو نماز پتہ‬
‫ہے کتنی سزا ہے نماز نہ پڑھنے کی ۔ ہاں میں پڑھوں گی انشاءہللا لیکن تم نا قیامت والے دن ہللا تعالی سے میرے لیے ریکویسٹ‬
‫کرنا کہ ہللا تعالی اس کو معاف کر دے اس کو میرے ساتھ جنت میں بھیج دیں جس نے میرا بڑا ساتھ دیا تھا ۔ اور اگر ہللا تعالی نے‬
‫میری بات نہ مانی ؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے تم پانچوں وقت کی نماز پڑھتی ہو کبھی کبھار تہجد بھی پڑھتی ہو ساتھ میں تم نے‬
‫قران پاک بھی پڑھنا ہوتا ہے اچھی بات ہے یہ کرنی ہوتی ہے تو پھر تو ہللا تعالی کو تو فیورٹ ہو گئی نا ‪ ......‬تم بھی تو فیورٹ‬
‫بن جاؤ ہللا تعالی کی اس میں کیا ہے ؟ تم میرے لیے دعا کرنا پلیز میں بھی نماز پڑھنا چاہتی ہوں ۔ پتہ ہے میں تمہیں نا ایک کہانی‬
‫سے سناتی ہوں مجھے اتنی کوئی پرفیکٹ یاد نہیں ہے بٹ میں تمہیں سناتی ہوں کہ ایک بندے کے پاس نہ ایک ادمی ایا اور کہتا‬
‫ہے کہ میرا دل نہیں کرتا نماز پڑھنے کا لیکن میں پھر بھی اپنے اپ کو گھسیٹ گھسیٹ کے نماز پڑھتا ہوں تو اگے سے نا وہ بندہ‬
‫بوال دوسرے واال جس کے پاس وہ ادمی ایا تھا کہتا ہے یار تو کتنا اچھا ہے یہ تو ہللا تعالی کی بات مان رہا ہے اور تو اپنے اپ‬
‫کو گھسیٹ گھسیٹ کے نماز پڑھ رہا ہے چاہے تیرا دل نہیں کر ہللا تعالی تیرے سے کتنا راضی ہو گا ۔ واؤ ماشاءہللا کتنی پیاری‬
‫کہانی ہے یار یہ ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں تو وعدہ کرو تم بھی نمازیں پڑھو گی ۔ انشاءہللا ضرور چلو اب دیر ہو رہی ہے تھانے چلتے ہیں ۔‬
‫وہ دونوں تھانے کے لیے روانہ ہو چکی تھی اور جب وہ تھانے پہنچی اور دو گھنٹے مسلسل بیٹھنے کے باوجود ارزم تھانے نہ ایا‬
‫تو انہوں نے سپاہی کو بلوایا اور پوچھا کہ ابھی تک ایس پی صاحب کیوں نہیں ائے تو اگے سے وہ کہتا کہ اج تو ان کی چھٹی‬
‫تھی ۔ نوریوں کو شدید غصہ ایا اس نے حریم کا ہاتھ پکڑا اور گاڑی میں لے گئی اور اس کو کہا کہ چلو گھر ۔‬

‫نورے نے ہوٹل روم میں قدم رکھ کر زور سے اپنا ہینڈ بیگ نیچے مارا ۔ نورے کنٹرول یار ۔ میرا دل چاہ رہا ہے اس کو جیل میں‬
‫ڈال دوں اور اس کو اتنا ماروں کہ وہ ۔۔ ۔ ۔ ۔ میرا بس چلے تو میں اس کو اس کی ہی گن سے گولی مار دوں میں تو پاگلوں کی‬
‫طرح اس سے سوری کرنے گئی تھی تاکہ میرا کام نکل ائے اور وہ وہ واقعی دو نمبر ہے حریم ۔ اوکے نور کنٹرول یار کوئی بات‬
‫نہیں کوئی ان کو کام ہوگا ۔ تم صرف پردہ پوشی ہی کرتی رہا کرو اس کی اب تم نے دیکھا نہیں ہے وہ کتنا دو نمبر ادمی ہیں دو‬
‫نمبری نہیں دکھائی کیا اس نے ؟ اوکے اوکے اوکے یو گو اور سو جاؤ ۔ ۔ ۔‬
‫نورے دوپہر چار بجے سوئی اور اگلی صبح چار بجے اٹھی اور نماز پرھی ۔۔۔۔۔‬
‫نورے حریم گاڑی میں اب تھانوں کے دھکے کھا رہے تھے کہ حریم نے تنگ ا کر نور کے پاس سنو ! ہاں۔ یار تم نے کہا تھا نا‬
‫کہ انسان کو اپنا کام نکلوانے کے لیے میٹھی چھری بن جانا چاہیے ۔ ہاں تو۔تو اج ہم دوبارہ چلیں ۔ نور سوچنے لگی اخر کو اس‬
‫کو بھی ہاں کرنی پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب وہ دونوں تھانے میں تھی ارزم کے سامنے وہ دونوں بیٹھی تھی بھائی نورے کل ائی تھی لیکن‬
‫اپ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ میں کل تھوڑا بزی تھا اس لیے میں نے کل چھٹی کی تھی ۔ نورے نے یہ سن کر غصے سے انکھ بند کی اور‬
‫غصہ کنٹرول کرنے کے لیے زور سے اپنی مٹھی دبئی ۔ارزم کو ساری سمجھ ارہی تھی ۔ بھائی نمبر دے دیں ائی مین ایڈریس‬
‫۔۔۔۔ ہاں وہ کل تک نکلے گا۔اتنا سننے کی دیر تھی کہ نورے اٹھی اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا اور غصے سے باہر چلی گئی ۔بھائی غصہ‬
‫مت کرنا وہ بہت پریشان ہے حریم نے یہ کہا جو کہ وہیں بیٹھی تھی ابھی ۔ اچھا جاؤ اب تم بھی کہیں وہ چلتا پھرتا مینٹل ہاسپٹل‬
‫کہیں ٹھوک نا دے تمہاری گاڑی کو ۔ جی جا رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔‬
‫کیا سمجھتے ہیں تمہارا یہ کزن خود کو ہے یہ ایک دو نمبر ہے وہ بھی ایک نمبر کا ۔ چلو یار چھوڑو ہمیں کیا ؟ ایک دفعہ کام ہو‬
‫جائے تو ہم نے کون سا ان سے ملنا ہے حریم نے کہا ۔ خدا نہ ہی کرے کہ ہم دوبارہ ان سے ملے اس کام کے بعد نورے نے کہا ۔‬
‫ہاں ۔ ارزم اپنے دوست کے ساتھ بیٹھا تھا اور سگریٹ پی رہا تھا جس کی لت اس کو ابھی نئی لگی تھی۔ حمدان رئیس اس کا‬
‫دوست تھا جو کہ شروع سے لے کر ساری بات نورے کے بارے میں جانتا تھا ارزم کے منہ سے ۔ یار تو اتنا ایٹیٹیوڈ کیوں دکھاتا‬
‫ہے حمدان نے پوچھا ۔ تم جانتے ہو میرا ایک قانون ہے کہ جو جیسا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہوتا ہوں جب تک وہ مجھے‬
‫ایٹیٹیوڈ دکھائے گی میں بھی دکھاؤں گا ۔ ارزم نے جواب دیا ۔ اور نشئی تجھے تیری نہ بیوی ہی صحیح کرے گی‪ ،‬ہمدان نے‬
‫ہنستے ہوئے کہا ۔ او ہیلو ! نہ میں شادی کروں گا نہ اب تم ائندہ سے مجھے نشئی بولو گے صرف سیکرٹ تو پیتا ہوں وہ بھی‬
‫ہفتے میں دو دفعہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں بھائی ! وہ بھی میرے پیسوں کی ہمدان نے ہنستے ہوئے کہا۔ تو کیا ہیں تو پال دے گا تو‬
‫مر نہیں جائے گا ۔ یار تو نورے کو نا ستایا کر ۔ کیوں تجھے بل آتا ہے ۔ یار مجھے تو لگتا ہے تیری شادی ہو جائے گی نورے‬
‫سے ۔ تجھے ایسا کیوں لگتا ہے ؟ ارزم نے ایک تیکھی نگاہ اس کی طرف ڈالی ۔ کیونکہ تجھے نا وہی ٹھیک کر سکتی ہے تیرے‬
‫ایٹیٹیوٹ کو ختم ہوئی کرے گی‪ ،‬نہیں تو کسی اور سے تیری شادی ہوئی تو وہ بیچاری دو دو انکھیں روئے گی ہمدان ہیں ہنستے‬
‫ہوئے کہا ۔ یار وہ مجھے دو نمبر کہتی ہے ابھی ارزم بات کر ہی رہا تھا تو ہمدان نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ہاں تو تو نے‬
‫دکھائی ہو گئی کوئی دو نمبری ۔ ہاں تجھ سے ہی تو سیکھی ہے ساری دو نمبری رائیس زادے۔ ایک تے تو مینوں لٹی جانداں‬
‫اے تے دوجا مینوں رئیس زادہ وی کہندا اے‪ ،‬دونوں ہنس دیے ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔‬
‫اگلی صبح ارزم میں ریم کو کال کی ۔ جی السالم علیکم بھائی ! وعلیکم السالم حریم انٹرسٹ مل گیا ہے تم جلدی سے تھانے پہنچو‬
‫لیکن صرف تم ۔ تو بھائی وہ نورے ۔ یار صرف تم پہنچ جاؤ اس نے ا کے کوئی نہ کوئی بدتمیزی کرنی ہے جس سے میرا میٹر‬
‫شارٹ ہونا ہے‪ ،‬اور پھر میں نے اڈریس دینے سے انکار کر دینا ہے ۔ حریم سمجھ گئی کہ اکیلے جانا ہی بہتر ہے ‪،‬اوکے میں آ‬
‫رہی ہوں ۔ حریم نکلنے لگی تو نورے نے آواز لگائی۔ کدھر ؟ یار میں نے کہا تم تھکی ہو گئی اتنے دنوں سے تھانوں کے چکر‬
‫لگا لگا کے اس لیے میں خود ہی بھائی کے پاس جا کے اڈریس لے آؤں ۔ ہم تمہارے بھائی نے اڈریس نکال لیا ہوگا ۔ حریم نے‬
‫اس کو کچھ نہیں بتایا اور کہا ہاں دیکھتی ہوں میں جا کے یہی دیکھنے جا رہی ہوں ۔ چلو بائے جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫حریم فوراً ارزم کے پاس گئی اور ایڈریس حاصل کیا ۔ شکریہ بھائی ! مینشن ناٹ ۔ بھائی ایک بات کہوں ؟ بولو فائلز کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے کہا ۔ بھائی اس ایڈریس پر اپ بھی آ جائیے گا ۔ میرا وہاں کیا کام ؟ فور سکیورٹی پرپس ۔ اچھا اتا ہوں میں دیکھتا‬
‫ہوں تم لوگ پہنچ جاؤ ۔ جی یہ کیا کہ حریم فورا ہوٹل ائی اور نورے کو گاڑی میں لے کر بتایا کہ ارزم بھائی نے ڈریس دے دیا‬
‫ہے ۔ ریلی ‪ ،‬مجھے لگا کہ اس دو نمبر میں نہیں دینا ۔ یار بار بار دونوں بنا کھا کے وہ دے دیا ہے ایڈریس انہوں نے اب ہم نے‬
‫وہاں جانا ہے ۔ اوکے نہیں کہتی چلو اب جلدی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔‬
‫تھوڑی دیر بعد حریم اور نور ہے اس ایڈریس پر تھے اور اس گھر پر تاال لگا تھا ۔ نورے بولی سنو حریم تمہارے کزن نے دو‬
‫نمبری دکھائی ہے شاید ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں یار بھائی کیوں ایسے کریں گے انہوں نے صحیح اڈریس ہی دیا ہوگا ۔ چلو ایسا کرو تم اپنے‬
‫بھائی کو کال کرو ۔ ہاں پوچھتی ہوں۔ حریم ابھی کال کرنے ہی لگی کہ اچانک ہی دو لڑکے آئے گاڑی میں ‪ ،‬اور ان دونوں پر گھر‬
‫رکھی تم دونوں میں سے حریم کون ہیں ؟ ان لڑکوں نے سوال کیا ۔ نورے اور حریم دونوں خاموش رہی ۔ بولو ۔ وہ دونوں پھر‬
‫خاموش رہی ۔ان کی خاموشی کی وجہ سے ایک لڑکے نے اسمان کی طرف فائر نکاال۔ تو حریم ساتھ ہی بولی میں ہوں حریم ‪ ،‬وہ‬
‫زور سے چالئی نورے یہ وہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حریم کے اتنا کہنے پر انہوں نے حریم کو پکڑ کر گاڑی میں ڈاال اور لے گئے اور‬
‫نورے حکی بکی دیکھتی رہ چکی تھی اور کچھ نہ کر پائی ۔ ان دونوں کو روکنے کے باوجود بھی وہ نہ رکے اور وہ حریم کو‬
‫لے کر جا چکے تھے ۔ ایس پی کو حریم کے بالنے پر ‪ ،‬وہ آ چکا تھا ۔ اور نورے کو دروازے کے باہر اکیال پا کر وہ حیران ہوا‬
‫۔ نور زمین پر بیٹھی سر پکڑ کر زمین کی جانب دیکھتے ہوئے زار و زار ہو رہی تھی ۔ وہ ایک ویران جگہ تھی خالی سڑک‬
‫تھی درختوں کے سائے میں نورے اکیلی بیٹھی تھی اور بے بس محسوس کر رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ ارزم وہاں پر آ چکا‬
‫ہے ۔ زمین پر کسی کے چلنے کی اواز ائی وہ پہلے تو ڈر گئی پھر ہمت کر کے سر اٹھایا اور دیکھا تو وہ ارزم زاویار تھا ۔ وہ‬
‫اس کو دیکھ کر بے بسی کے عالم میں مزید روئی اور ہچکیوں کے ساتھ اس کو دیکھنے لگی ۔ نور ے کیا ہوا ہے ؟ اس کو روتا‬
‫دیکھ کر ارزم نے آرام سے اس سے سوال کیا ۔ اور حریم کہاں ہے تم اس کے ساتھ نہیں ائی ۔ آ۔ آ۔ آ آپ یہاں ؟ نور نے کپکپاہٹ‬
‫سے یہ الفاظ اپنے منہ سے ادا کیے ۔ مجھے تو حریم نے بالیا تھا کہ میں بھی ا جاؤں۔ وہ ۔ وہ ۔وہ حریم ۔۔۔۔۔ کیا ہوا ہے حریم نے‬
‫بے چینی سے پوچھا ۔ نورے دائیں بائیں دیکھنے لگی اور رونے لگی ۔ ارزم سمجھ چکا تھا کہ وہ یہاں پر محفوظ خود کوئی نہیں‬
‫سمجھ رہی اس لیے اس نے کہا چلو گاڑی میں میرے ساتھ ۔ ارزم نے اس کو گاڑی میں بٹھایا اور اس سے سوال کیا اب بتاؤ حریم‬
‫کہاں ہے ؟ وہ وہ دو لڑکے ائے اور حریم کو لے گئے وہ گاڑی بھی لے گئے ۔ واٹ ؟ جی وہ کہتے حریم کون ہے اور پھر ہم‬
‫دونوں خاموش رہی تو اس نے ہوا میں فائر نکاال تو حریم ساتھ ہی بول پڑی میں حریم تو وہ اس کو پکڑ کے لے گئے ۔ او مائی‬
‫گاڈ ۔ پلیز پلیز میری مدد کریں میری دوست میری وجہ سے پتہ نہیں کہاں ہوگی اس کو میں نے منع بھی کیا تھا کہ میرا ساتھ نہ‬
‫دے وہ میری وجہ سے اج مشکل میں پھنس چکی ہے یا ہللا میں کیا کروں ؟ نورے بہت بری حالت میں تھی اور روئی جا رہی تھی‬
‫۔ رکو ریلیکس میں تمہیں ہوٹل چھوڑ کر خود جاتا ہوں اس کو ڈھونڈنے ۔ نہیں ہوٹل نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں ؟ ارزم نے حیرانگی سے‬
‫پوچھا ۔ وہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں اور ہم دونوں نے تو اب ابو کے گھر رہنا تھا لیکن سب کچھ ہی خراب ہو گیا ہے اب کیا ہوگا‬
‫یا ہللا میری مدد کریں ۔ رکو ایک بات بتاؤ تمہارے بابا ایک امیر ادمی ہیں ‪ ،‬بولو ؟ ج ۔ ج ۔ جی وہ ہچکیوں سے بات کر رہی تھی ۔‬
‫تو پھر تمہارے پاس پیسے کیوں نہیں ہیں ؟ جب مجھے پولیس پکڑ کر تھا ۔ تھانے لے کر گ۔ گئی تھی پھر اپ کے چھوڑنے کے‬
‫بعد میں حریم کے ساتھ سیدھا کشمیر اگئی تھی میرے پاس کوئی رقم نہیں ہے ن ۔ نا تھی ۔ اپ میری فکر نہ کریں اپ مجھے یہیں‬
‫چھوڑ دیں اپ بس حریم کو ڈھونڈیں وہ میری وجہ سے پتہ نہیں کہاں ہوگی وہ مسلسل رو رہی تھی ۔ نورے گاڑی سے اترنے لگی‬
‫۔ کہاں جا رہی ہو تم ارزم نے گاڑی کے دروازے لوک کیے ۔ دروازے کیوں الک کیے ہیں میں جا رہی ہوں اپ مجھے حریم کو‬
‫ڈھونڈ کے ال دیں ۔ میں تمہیں اس ویران سڑک پہ تن تنہا کیسے چھوڑ کر جا سکتا ہوں ؟ اپ میری فکر مت کریں اپ جائیں اور‬
‫بس حریم کو ڈھونڈ دیں پلیز خدا کے لیے حریم کو ڈھونڈ دیں ‪ ،‬نورے بہت رو رہی تھی ۔ پاگلوں والی باتیں نہ کرو ۔ اس میں‬
‫پاگلوں والی کیا بات ہے نورے نے کہا ۔ نہ تمہارے پاس ہوٹل جانے کے لیے پیسے ہیں نہ تمہارے پاس اس وقت کوئی محفوظ‬
‫ساز و سامان ہے نہ گاڑی ہے اور کچھ بھی نہیں ہے تمہارے پاس اور تم مجھے کہہ رہی ہو کہ میں تمہیں یہاں چھوڑ دوں ‪،‬میں‬
‫ایک ایس پی ہو کے اتنی الپرواہی والی حرکت ہرگز نہیں کر سکتا ۔ اب ہم مسجد جائیں گے ارزم نے جیسے ارڈر دیا تھا ۔ لیکن‬
‫کیوں ۔۔۔؟ بس خاموش رہو نور ے ۔ نورے روتے ہوئے مسجد تک پہنچ چکی تھی ۔ مجھے یہاں کیوں الئے ہو ؟ نکاح کے لیے ۔ ۔‬
‫۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔‬
‫د‬
‫نکاح نورے نے حیرانگی اور تعجب سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا ۔ میری بات سنو میں تمہیں یہاں پر اس لیے الیا ہوں کہ‬
‫میں تمہیں کہیں چھوڑ نہیں سکتا اتنی غیر ذمہ داری نہیں دکھا سکتا ۔ پاگل ہو گئے ہو تم ‪ ،‬تم جانتے ہو وہ جو کوئی بھی ہے جو‬
‫مجھے فالو کر رہا ہے وہ میرے سے جڑے ہر انسان کو مجھ سے دور کر رہا ہے اور اگر تم سے میں نے نکاح کر لیا تو وہ‬
‫تمہیں بھی نہیں چھوڑے گا ۔ تو تمہیں محفوظ کرنے کے لیے صرف یہ نکاح ہو رہا ہے نہیں تو وجہ اور کوئی بھی نہیں ہے اور‬
‫کسی کو بھی مجھے معلوم نہیں ہوگا کہ ہم دونوں نکاح کر چکے ہیں ‪ ،‬اور سنو ہمارا نکاح بہت ضروری ہے تم کہاں رہو گی ؟‬
‫میری امی بھی نہیں ہے گھر وہ حنین کے گھر اسالم اباد گئی ہیں تھوڑے دنوں بعد وہ الہور واپس چلی جائیں گی اور تمہارے پاس‬
‫پیسے نہیں ہیں اور حریم بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھ سے نکاح کر کے کیوں اپنی زندگی پر بات کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسا کچھ نہ سوچو‬
‫جو میں کہہ رہا ہوں صرف وہ سوچو ‪ ،‬تم سکون سے سوچو وقت لے لو میں تم پر زبردستی نہیں کررہا اچھا سنو ارزم نے کہا ۔‬
‫کیا تمہاری اج تک کبھی منگنی ہوئی یا تم کسی کو پسند کرتی ہو جس سے تم اج اس موقع پر نکاح کر سکے اور وہ تمہیں‬
‫باحفاظت رکھ سکے ۔ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ تو اگے فیصلہ تمہارا ہے ‪ ،‬ارزم اٹھا اور گاڑی سے باہر چال گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔‬
‫جہانزیب بھی دنیا سے جا چکا ہے حریم اغوا ہو چکی ہے ‪ ،‬اور بابا کا بھی کچھ پتہ نہیں ہے سفینہ بیگم تو مجھے رکھنے کو‬
‫قبول نہیں کریں گی ‪ ،‬تو مجھے اب کیا کرنا چاہیے کیا یہ ٹھیک کہہ رہا ہے مجھے اس سے نکاح کر لینا چاہیے ؟ کافی دیر‬
‫سوچنے کے بعد نورے نے فیصلہ کر لیا تو ‪ 15‬منٹ بعد ارزم گاڑی میں ایا اور بوال ۔ کیا فیصلہ کیا اپ نے ؟ میں بس اس لیے‬
‫کہہ رہا ہوں کہ تمہاری حفاظت کر سکوں۔ ایک بات بتاؤ ؟ جی ‪.‬۔ کیا یہ مجبوری ہے ؟ شاید پہلی نظر پر تم پر قربان ہونے کا‬
‫صلہ۔ ک کیا ؟ ہاں ۔ مجھے اپنی زندگی میں ال کر تم اپنے لیے کیوں گھڑا کھولنا چاہتے ہو ؟ کیا مطلب ؟ مطلب یہ کہ میں تو بہت‬
‫مشکلوں میں پھنسی ہوئی ہوں ‪ ،‬کیا پتہ مذید مسائل آکر میرے قدم چومے ۔ ارزم نے اپنی ہنسی دبائی اور اس کی جانب دیکھتے‬
‫ہوئے بوال نکاح کروں گا تو ساتھ بھی نبھاؤں گا اور آپ کو سمجھوں گا بھی ۔ میں اتنی اسان نہیں ہوں سمجھنے میں ‪ ،‬میں خود‬
‫کو کبھی خود نہیں سمجھ پائی ۔ کوشش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھنا نورے بولی ۔ کیا یاد رکھنا ؟ میں لفظوں کی نہیں جذبات کی کتاب ہوں ‪،‬‬
‫ارزم نے اس کو دیکھا اور بوال کتابیں پڑھنے کا شوق تو مجھے ہمیشہ سے ہی تھا ‪ ،‬اور ساتھ ہی نوال بس بے وفائی مت کرنا‬
‫میں سب برداشت کر لوں گا لیکن یہ نہیں ‪،‬ط کسی کو چاہتی ہوں تو ابھی بتا دو ۔ن نہیں ۔ارزم نے اس کی جانب دیکھا اور بوال کیا‬
‫فیصلہ ہے؟ میں فیصلہ کر چکی ہوں ٹھیک ہے ہم نکاح کر لیتے ہیں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔‬
‫وہ دونوں اج ایک دوسرے کو دیکھ کر نہایت تعجب میں ا رہے تھے کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے اتنے ارام سے بات کیسے کر‬
‫رہے ہیں اور مان کیسے رہے ہیں ؟ نورے نے سر پر دوپٹہ اوڑھا اور مسجد کی جانب بھری ۔ مولوی صاحب ہم نکاح کے‬
‫بندھن میں بندھنا چاہتے ۔ مولوی صاحب نے ان کا نکاح پڑھوایا اور وہ ایک بندھن میں بندھ چکے تھے ۔ اب وہ دونوں جانتے‬
‫تھے کہ ان دونوں کو نہایت کمپرومائز کر کے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا پڑے گا ۔‬
‫گاڑی چل رہی تھی ارزم نے نورے سے پوچھا ۔ وہ لڑکے کون تھے کچھ جانتی ہو ؟ مجھے تو نہیں پتہ لیکن ہاں حریم کہہ‬
‫ضرور رہی تھی کہ یہ وہی ہیں ۔ وہی سے مراد جہانزیب والے ‪ ،‬ارزم بوال ۔ شاید ‪ ،‬اب ہم کیا کریں گے ؟ نورے نے کہا ۔ اب ہم‬
‫الہور واپس جائیں گے اور قاتل کو ڈھونڈیں گے ۔ وہ دونوں اب تھوڑی دیر بعد فلیٹ پر تھے ‪ ،‬ارزم کا فلیٹ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫نورے باہر صوفہ پر تھی اور ارزم واش روم سے نہا کر ایا اور اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا ۔ سنو ! نورے نے بالیا ۔‬
‫جی ۔ کیا ہم الہور جانے سے پہلے اس ایڈریس پر جا سکتے ہیں ۔ ہرگز نہیں ۔ لیکن کیوں ؟ نورے نے تعجب سے پوچھا۔ اگر وہ‬
‫لڑکے وہاں دوبارہ اگئے ۔ نہیں اتے اور اگر اپ بھی گئے تو اپ میرے ساتھ جائیں گے نا اور اپ دوسرے سپاہیوں کو بھی چاہے‬
‫ساتھ لے جانا ۔ تم وہاں جانا کیوں چاہتی ہو ؟ نہ جانے مجھے ایسا لگا کہ وہاں کچھ ہے جو مجھے اپنی طرف کھینچ رہا ہے ۔ تو‬
‫کیا تم واقعی جانا چاہتی ہو ؟ جی ۔ ٹھیک ہے نورے تم اندر جا کر اس روم میں سو جاؤ اور میں اس روم میں سو رہا ہوں اگر‬
‫کوئی مسئلہ ہوا تو بتا دینا ۔ ارزم کی مہربانیاں کو دیکھ کر نورے سخت حیران تھی اور تعجب میں تھی ۔ اور وہ دونوں اپنے اپنے‬
‫مقرر کیے کمروں میں جا چکے تھے اور سو چکے تھے ۔ صبح فجر کے وقت نور جنت اٹھی اور معمول کے مطابق اس نے‬
‫نماز پڑھی اور پھر اپنے لیے کھانے کو انڈا بوائل کیا اور کھایا اور اس کے بعد قران پاک کی تالوت کی پھر وہ دوبارہ سونے جا‬
‫چکی تھی ۔ وہ تقریبا چار بجے اٹھتی تھی اور سات بجے تک دوبارہ سو جاتی اور نو بجے اٹھ کر ناشتہ بناتی تھی ۔ وہ نو بجے‬
‫اٹھی اور ناشتہ بنایا ‪ ،‬جس نے اس کو انڈا بنانا اتا تھا اور خوش قسمتی سے بریڈ گھر میں ہی پڑی تھی ۔ ارزم اٹھا بریک فاسٹ‬
‫کرنے کے لیے ٹیبل پر بیٹھا اور کہا السالم علیکم ! جوابا ً نورے نے کہا وعلیکم السالم ! وہ دونوں ناشتہ کرنے لگے اور یوں‬
‫ناشتہ کر رہے تھے کہ جیسے کوئی موجود ہی نہ ہو اتنی خاموشی تھی کبھی نورے جنت اس کو ایک نظر دیکھتی اور کبھی ارزم‬
‫زاویار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارزم نے ناشتہ کیا اور ٹیبل سے اٹھا کہ نورے بولی ۔ اپ اور میں کل رات سے یوں ارام سے کیوں بیٹھے ہیں ایک‬
‫لڑکی اغوا ہوئی ہے ائی مین حریم کا کیس ہے اس کا یوں اغوا ہو جانا ہو جانا کوئی عام نہیں ۔ اس کا جواب میں تمہیں بعد میں‬
‫دوں گا ‪ ،‬فوراً سے تیار ہو ہم جا رہے ہیں ۔ ارزم کے یہ کہنے پر نورے نے پوچھا ہم کہاں جا رہے ہیں ۔ میں اتنے سوالوں کا‬
‫جواب نہیں دیتا جو کہتا ہوں بس وہ کر لیا کرو یہی ہم دونوں خاص طور پر تمہارے لیے بہتر ہے۔ نورے حیرت زدہ نہیں تھی‬
‫کیونکہ وہ جانتی تھی کہ مجبوری کی شادی میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے ۔ ارزم اندر گیا اس نے اپنا ایس پی واال لباس پہنا اور باہر‬
‫ایا تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی ارزم نے نورے کو دیکھتے ہوئے کہا ‪ ،‬جو کہ وہی ٹیبل پر بیٹھی تھی ۔ میں تیار ہوں ۔ ان کپڑوں‬
‫میں؟ ارزم نے سوال کیا ۔ جی ۔ لیکن چینج کر لو یہ کپڑے کافی گندے ہو گئے ہیں ۔ میں یہاں مجبوری میں ائی ہوں اور اپنے‬
‫کپڑے اپنی چیزیں کچھ نہیں الئی ہاٹل سے تو تم دونوں نکل چکی تھی تو کپڑے اور باقی سامان کہاں ہیں ۔ گاڑی میں تھا اور وہ‬
‫چور ا کر گاڑی لے کے جا چکے ہیں اپ کو میں نے بتایا بھی تھا ۔ چلو اٹھو پھر گاڑی میں چلو ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ یہ ہم کہاں‬
‫اگئے نورے نے حیرت سے پوچھا ۔ روکو یہ میرے دوست کا گھر ہے وہاں سے اس کا دوست ہمدان ایا اور ارزم گاڑی سے باہر‬
‫نکال اور وہ دونوں موبائل پر کچھ کر رہے تھے لیکن نورے کو سمجھ نہ ایا ۔ تھوڑی دیر بعد ارزم گاڑی میں ایا اور نورے جنت‬
‫سے کہا ‪ ،‬یہ ویڈیو دیکھو ۔ اس ویڈیو میں صاف صاف معلوم ہو رہا تھا کہ حریم کو کس نے اغوا کیا ہے اور یہاں تک کہ حریم‬
‫اور نورے کے سارے الفاظ بھی سنائی دے رہے تھے ۔ یہ ۔ یہ ویڈیو کہاں سے ملی ؟ حمدان نے دی ہے اس کو میں نے وہاں کی‬
‫تالشی اور مقبری کرنے کا کہا تھا ۔ حمدان؟ نورے نے پوچھنا چاہا کہ کون حمدان ؟ وہ میرا دوست ہے وہ ایک ایس ایچ او ہے‬
‫ابھی اور ہاں تم نے صبح پوچھا تھا کہ حریم کے اغوا ہونے پر مجھے اتنی فکر کیوں نہیں ہے ؟ میں جانتا ہوں اس کو کس نے‬
‫اغوا کروایا ہے ۔ کیا ارزم اب جانتے ہیں حریم کو کس نے اغوا کروایا ہے تو ہم یہاں پر کیوں ہیں چلیں فوراً ۔ بے وقوف لڑکی‬
‫رکو بات پوری سن لو ۔ نور نے اس کو تیکھی نگاہ سے دیکھا کہ اس نے کس کو بے وقوف کہا ہے ۔ تمہیں پتہ ہے کس نے اغوا‬
‫کروایا ہے ‪ ،‬تمہاری سوتیلی ماں نے ۔ اور ان الفاظ پر تو نورے جیسے سکتے میں ا چکی تھی ۔ لیکن اپ کو کیسے پتہ اس نے‬
‫بہت مشکل سے یہ الفاظ اپنے منہ سے ادا کیے ۔ جب تم تھانے میں تھی تو مجھے کال ائی اور مجھے بتایا گیا کہ دوسری جانب‬
‫سے بات کرنے واال بندہ سفینہ بیگم ہے انہوں نے مجھے کہا کہ میں تم پر بے شمار کیس ڈالوں اور تمہیں اندر رکھوں تو وہ‬
‫مجھے ایسا کرنے پر رشوت دیں گے اور میں تب ہی سمجھ گیا تھا کہ انہوں نے ہی کچھ کیا ہے اور حریم کے کہنے پر اگر یہ‬
‫وہی لڑکے تھے تو پھر میرا شک شاید یقین میں بدل چکا ہے ۔ نورے جو کہ سمجھ رہی تھی کہ ارزم نے کوئی دو نمبری کی ہے‬
‫اس کو چھڑوانے میں اب وہ معلوم کر چکی تھی کہ واقعی اس نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی بلکہ وہ اس کا واقعہ ساتھ دے رہا‬
‫ہے ۔ چلو اب گاڑی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وہ دونوں گاڑی میں تھے نورے بولی ارزم ۔ بولو۔اب ہم اس ایڈریس پہ جا رہے ہیں نا ائی مین بابا کے گھر ۔ ہاں ۔ لیکن اگر وہ‬
‫لوگ دوبارہ اگئے یا کچھ اور میرا مطلب ہے اگر انہوں نے ہم دونوں میں سے کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ ارض ہم‬
‫نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کہا کہ کل تک تو کوئی مجھے کہہ رہا تھا کہ جب میں ساتھ ہوں تو فکر کی کوئی بات نہیں ائی مین‬
‫ایس پی ۔ نورے کو یاد ایا ‪،‬لیکن میں نے کہا اگر پھر بھی وہ لوگ اگر دوبارہ اگئے یا کچھ مسئلہ ہو گیا تو پھر ہم دونوں کیا کریں‬
‫گے ؟ ارزم نے نورے کی جانب دیکھا اور وہ جان چکا تھا کہ نورے گھبرا رہی ہے ۔ گھبراؤ نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ لیکن‬
‫پھر بھی ۔۔۔۔۔۔ اس کی گھبراہٹ کو دیکھتے ہوئے ارزم نے اپنی بیلٹ میں پھنسی پستول کو باہر نکاال اور نورے جنت کو پکڑا دی ‪،‬‬
‫اور بوال یہ اپنے ہینڈ بیگ میں ڈال لو ۔ یہ ۔ یہ ۔ پستول کا میں کیا کروں گی ؟ نورے کی تو جیسے ہوائیاں اڑ گئی تھیں ۔۔۔۔۔ اس‬
‫کے ساتھ تم ایسا کرنا لوڈو کھیل لینا ‪ ،‬ارزم بوال ۔ میں نے تو کبھی یہ یوز بھی نہیں کی ۔ تو اب کرو گی‪ ،‬غور سے سنو یہ پستول‬
‫ہے جس کو ہم خطرہ محسوس ہونے پر استعمال کرتے ہیں ۔ ایکسکیوز می میں کوئی جنگلوں سے نہیں ائی جو مجھے پتہ نہیں‬
‫ہے کہ پستول ہے اور اس کو خطرے پہ استعمال کرتے ہیں۔ او ہاں میں بھول گیا تھا سوری ‪ ،‬وہ نورے کو چڑھا رہا تھا ‪ ،‬چالنی‬
‫اتی ہے تمہیں ویسے ارزم نے نورے سے سوال کیا ۔ ہاں میں تو روزانہ کے تین چار بندے مار دیتی ہوں ۔ واقعی میں ارزم اس‬
‫کو پھر تنگ کر رہا تھا ۔ یقین نہیں ا رہا تو مار کے دکھاؤں نورے نے ارزم کی طرف گن کرتے بوال ۔ ارے پاگل لڑکی سمجھایا‬
‫تو ہے اس کو تب استعمال کرتے ہیں جب خطرہ محسوس ہو میرے اوپر تانو گی نا اگر یہ بندوق تو پھر میں اگر چال گیا نا تو اس‬
‫دنیا سے تو پھر جو مرضی کرنا اکیلی بیٹھ کے ۔ چلو اس لیے پھر چھوڑ دیتی ہوں کہ مجھے اکیال نہ رہنا پڑے یہ تو میں تین چار‬
‫بندے پھڑکا دیتی ہوں ۔ ارزم کھڑکی کی طرف منہ کر کے ہنسنے لگا ۔ اب تھوڑی دیر میں وہ پہنچ چکے تھے ۔‬
‫نورے نے تاال دیکھ کر ارزم کو دیکھا ۔ ارزم نے نورے کو دیکھ کر دروازہ توڑ دیا اور اب وہ دونوں اندر تھے ۔‬
‫نور گھر کے اندر داخل ہوئی تو اس کو سب سے پہلے اپنی عادل صاحب کی اور جہانزیب کی ایک بچپن کی تصویر نظر ائی ۔‬
‫نورے اور ارزم اس تصویر کو دیکھنے لگے ارزم نے سوال کیا یہ کون ہے ؟ نورے فٹ سے بولی یہ میرے بابا ہیں نورے انگلی‬
‫رکھتے ہوئے بتا رہی تھی یہ جہانزیب ہے اور یہ میں ۔ نور کمرے کے اندر گئی اس کو ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ اس کمرے میں‬
‫شاید اس کے بابا رہتے تھے ۔ نور نے سائیڈ ٹیبل پر پڑی ایک تصویر کو اٹھایا جس میں اس کے بابا اور جہانزیب کی تصویر لگی‬
‫تھی ۔ ایس پی ارزم صاحب گھر کا جائزہ لے رہے تھے اور نورے اپنے بابا کی چیزیں دیکھ رہی تھی ۔ ارزم اس کمرے کی‬
‫طرف بھرا جس میں نورے تھی کیا اتنے میں ہی ہمدان اندر ایا اور کہا ارزم باہر اؤ ارزم باہر گیا تو ہمدان بوال ارزم اس گھر میں‬
‫جو عادل صاحب نامی شخص رہتے تھے وہ وفات پا چکے ہیں اج سے دو ماہ پہلے اور یہ گھر تب سے لوک پڑا ہے ۔ ارزم اندر‬
‫گیا کمرے میں ‪ ،‬بیڈ کے دوسری جانب کھڑا تھا اور اس وقت نورے نے وہی تصویر پکڑی ہوئی تھی نورے جنت ارزم نے مدھم‬
‫اواز میں کہا ۔ نورے نے اس کی طرف نہیں دیکھا بلکہ تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ہاں کیا بات ہے ۔ وہ تمہارے ابو‬
‫اج سے چھ ماہ پہلے وفات پا چکے ۔۔۔‬
‫ارزم کے اتنے ہی کہنے پر نورے کے ہاتھ سے تصویر زمین پر گری اور اس کا شیشہ ٹوٹ گیا اور وہ جا کر نورے کے پاؤں‬
‫میں لگا ‪ ،‬وہ فورا بہتے ہوئے خون والے پاؤں کے ساتھ دوڑتی ہوئی ارزم کی جانب گئی جو کہ بیڈ کی دوسری جانب کھڑا تھا‬
‫اور جا کر اس نے ارزم کا گریبان پکڑا اور اس کو کہنے لگی ‪ ،‬ایسا نہیں ہو سکتا یہ جھوٹ ہے میرے بابا۔۔۔اپ کو کس نے کہا‬
‫ہے کہ بابا۔۔۔۔ نہ ۔ نہ نہیں یہ نہیں ہو سکتا اپ جھوٹے ہیں ۔۔اپ دو نمبری دکھا رہے ہیں ‪ ،‬یہ ناممکن ہے ‪ ،‬دیکھو دو نمبری نہ‬
‫دکھاؤ میں جانتی تھی کہ تم مجھ سے نکاح یوں ہی نہیں کر رہے کوئی نہ کوئی تمہارا مقصد ہے کیا مقصد ہے مجھے ابھی بتا دو‬
‫میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی ‪ .......‬حمدان پیچھے کھڑا سب دیکھ رہا تھا ۔ اور سوچ رہا تھا کہ آج نورے نے دو بہت بڑی غلطی‬
‫کی پہال اس کا گریبان پکڑ کر اور دوسرا اس کو دو نمبر کہہ کر۔ ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ بابا کو ۔۔۔کس نے کہا ہے ہو ہی نہیں سکتا ‪،‬ارزم نے‬
‫اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور اس کے بازو پکڑ کر اپنے گریبان سے نیچے کرتے ہوئے اس کو ایک تعجبی نگاہ سے دیکھا ‪ ،‬اور‬
‫اس کو پیچھے کیا اور اس کا بازو پکڑ کر اس کو بیڈ پربٹھایا ۔ ارزم نے اپنا غصہ بہت کنٹرول کیا صرف اس کا بہتا خون دیکھ‬
‫کر ۔۔۔۔۔۔‬

‫ارزم نے حمدان کو اواز دی حمدان جلدی سے گاڑی سے فرسٹ ایڈ باکس لے کر اؤ ۔ اچھا ‪،‬حمدان فرسٹ ایڈ باکس دے کر مزید‬
‫معلومات حاصل کرنے چال گیا ۔ نور اٹھی اور اسی تصویر کو نورے جنت نے تھام لیا جس کا شیشہ ٹوٹ کر نورے کے قدموں‬
‫میں لگا تھا ۔ نورے واپس اؤ کہاں جا رہی ہو؟ ارزم جیسے نورے کے سامنے بے بس تھا شاید اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر۔‬
‫مجبوراً ارزم کو اس کے پاس جانا پڑا ارزم نے اس کا پاؤں پکڑا ۔ چھوڑو میرا پاؤں بابا آ ۔ آ ۔ آ ۔ آ اور وہ ہچکیوں کے ساتھ‬
‫رونے لگی ۔ ایک تو اس کو اپنی باپ کی موت کا سن کر روگ لگا تھا اور دوسرا اس کا پاؤں شدید زخمی تھا کیونکہ کرچیاں اس‬
‫کے پاؤں کو چھیل چکی تھی ۔۔۔۔۔بابا کے پاس جانا ہے ۔ ۔ آ ۔ آ ۔ آ ۔ نورے نے روتے ہوئے ارزم کو کہا اپ ایسا کریں مجھے مار‬
‫دیں میں زندہ رہ کر کیا کروں گی کس کے لیے جیوں گی مجھے مر جانا چاہیے ‪ ،‬نور نے زمین پر گری گرچی اٹھا کر اپنی‬
‫کالئی پر مارنا چاہی ۔ ارزم نے فورا سے اس کا ہاتھ پکڑا اور کرچی پکڑ کے دور پھینکی پاگل ہو گئی ہو تم یہ فضول حرکتیں‬
‫اور یہ فضول باتیں کیوں کر رہی ہو ؟ نور ےمسلسل رو رہی تھی سر پکڑ پکڑ کے ۔ ۔ ۔ ارجم نورے کو ڈانٹتے لہجے میں بوال‬
‫کیا تم یہ فضول ہرکت ے کرنا بند کرو گی اور یہ پاگل پن کی باتیں کرنا۔۔۔اور ساتھ ساتھ اس کی پٹی میں مصروف تھا ۔ ن۔ن نہیں‬
‫مجھے مار دیں نورے نے ارزم کے دونوں ہاتھ جو کہ پٹی پہ مصروف تھے پکڑے اور اپنی گردن سے لگائے اور کہا اپ مجھے‬
‫مار ڈالیں میں زندہ رہ کر کیا کروں گی پلیز مجھے مار ڈالیں ‪ ،‬میں زندہ نہیں رہنا چاہتی ہوں ۔ نورے خاموش !!! سنو! ارزم نے‬
‫نورے کا منہ اپنے دونوں ہاتھوں میں نرمی سے پکڑا اور کہا تم زندہ رہو گی تو ہی تو جہانزیب کو انصاف ملے گا ابھی تو ہم نے‬
‫جھانزیب کے قاتل کو بھی پکڑنا ہے ۔ اگر تم ایسے میں ایسی کی باتیں کرو گی تو تم بلکہ ہم کچھ بھی نہیں کر پائیں گے تمہیں پتہ‬
‫ہے مایوسی کفر ہے ‪،‬چلو شاباش چپ ہو جاؤ اور پٹی کرواؤ ۔ نور کو یہ سن کر تھوڑا حوصلہ ہوا اور پٹی کروانے لگی اور‬
‫نورے نے اس تصویر کو مسلسل تھاما ہوا تھا اور جیسے وہ اس تصویر سے باتیں کرنے لگی ۔ بابا مجھ سے دور کیسے چلے‬
‫گئے ‪ ،‬آپ کو پتہ ہے جہانزیب ا بھیپ کی اور میری جان اس دنیا سے چلی گئی آپ کیوں چلے گئے آپ کو معلوم ہے آپ کی اور‬
‫میری آخری دفعہ بات آج سے اتنی دیر پہلے کب ہوئی تھی میرا بہت دل چاہ رہا ہے کہ آپ مجھ سے بات کریں میرا ماتھا چومے‬
‫اور مجھے اپنے ساتھ لگائیں دیکھیں میں اس وقت کتنی بے بس ہوں میں تو ا نےپ کے پاس آئی تھی کہ آپ اور میں مل کر‬
‫جہانزیب کی موت کا بدلہ لیں گے لیکن بابا آپ بھی ۔ ۔ ۔۔ اور ساتھ ساتھ پھر وہ رونے لگی ۔ارزم پٹی کر رہا تھا اور ساری‬
‫باتیں سن رہا تھا اور اس کی باتیں سن کر نہایت افسردہ ہو رہا تھا وہ اپنا غصہ جیسے بھول ہی چکا تھا۔ نورے چپ کر جاؤ پتہ‬
‫ہے اگر مرنے والے کے لیے رو تو مرنے والے کو تکلیف ہوتی ہے اور تم چاہتی ہو کہ تمہارے بابا کو اور جہانزیب کو تمہاری‬
‫وجہ سے تکلیف ہو ۔ نورے نے فوراً اپنی گالوں سے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اپنے آنسو صاف کیے کیونکہ وہ اپنے بابا اور اپنی جان‬
‫جہانزیب کو تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی ۔ کمرے کے دروازے سے ہمدان داخل ہوا اور ارزم کو اواز دی ارزم ۔۔۔ سنو ارزم ! ہاں ۔‬
‫یار میں اس پاس کے گھروں سے پتہ کر کے ایا ہوں یہ بھابھی کے ابو کا بھی قتل ہوا تھا ۔ ارزم مزید پریشان ہوا کیونکہ اس کو‬
‫لگا کہ وفات کا سن کر نورے اتنی پریشان ہو رہی ہے کہ اس کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے اور اب قتل کا سن کر کہیں پاگل ہی نہ‬
‫ہو جائے ارزم نے ہمدان کو گھوری ڈالی اور اس کو چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔ حمدان ساتھ ہی خاموش ہو گیا ۔ اچھا اچھا جھانزیب‬
‫کو بھی قتل کیا حریم کو بھی اغوا کیا تو تو بابا کو بھی سفینہ بیگم نے ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نورے ساتھ ہی خاموش ہو گئی یہ کہہ کر ۔‬
‫حمدان اور ارزم سارا معاملہ بالکل صحیح سے نورے جنت کی اس بات پر سمجھ چکے تھے ۔ ہاں شاید نورے تم ٹھیک ہو ارزم‬
‫نے کہا ۔ ہاں لیکن ہم پتہ کیسے کروائیں گے کہ میرا شک ٹھیک ہے یا نہیں نورے بولی ‪ ،‬ہم اب کیا کریں گے مجھے کچھ سمجھ‬
‫نہیں ا رہا ہے ۔ میں جانتا ہوں اب کیا کرنا ہے ارزم بوال ۔ کیا ؟ نورے بولی ۔‬
‫اب تم دونوں میری بات غور سے سنو ارزم نے نورے اور حمدان کو مخاطب کیا ‪ ،‬میں یو ایکٹ کروں گا جیسے میں سفینہ بیگم‬
‫کا قریبی ہوں یعنی میں ان کو ساتھ دوں گا حمدان نے بات کاٹی اور بوال مطلب ۔ مطلب یہ کہ اب ہمیں ایکٹنگ کرنی پڑے گی اس‬
‫لیے نورے تمہیں جیل میں چند دن گزارنے پڑیں گے ۔ میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں بس مجھے اپنے بھائی اور باپ کے لیے‬
‫انصاف چاہیے ان کا ایک ایک خون کا قطرہ میں یو رائیگاں نہیں جانے دوں گی ‪ ،‬ایک بہن اور بیٹی ہونے کا فرض ادا کروں گی‬
‫۔۔۔۔۔ نورے میری بات سنو ارزم نے کہا ۔‬

‫جی ۔ مجھے فون ایا تھا سفینہ بیگم کا جب میں نے تمہیں اپنے تھانے میں بند کیا ہوا تھا نور چونک گئی تھی پھر نورے نے جاننا‬
‫چاہا کیا ہوا پھر نورے بولی ؟ پھر مجھے صفینہ بیگم نے کہا کہ میں تم کو جیل میں رکھوں اور تم پر الٹے سیدھے کیس ڈالوں‬
‫پھر تم کو پھانسی تک لے کر جاؤں ۔ کیا ؟؟؟؟؟؟۔ ہاں ۔ لیکن اپ نے مجھے چھوڑا کیوں میں یہ بات پہلے بھی جاننا چاہتی تھی ۔‬
‫میری پوسٹنگ ہو رہی تھی ان دنوں اور میں رشوت نہیں لیتا اور کسی کے ساتھ غلط ہوتا نہیں دیکھ سکتا اخر کو میں نے اپنی‬
‫پولیس کی وردی کا فرض نبھانا ہے ۔ میں نے تمہیں چھڑوایا اور حریم کو اور تم کو کشمیر بھیج دیا تاکہ وہ تمہارا پیچھا نہ کر‬
‫پائے لیکن اب صورتحال ایسی ہے کہ ہمیں ایکٹنگ کرنی پڑے گی وہ بھی واپس الہور جا کر ۔ اور ہاں ہمدان تم یہاں رہو گے اگر‬
‫یہاں کوئی مسئلہ ہوا تو تم ہینڈل کرو گے ۔ ٹھیک ہے۔ اور میں رشوت واال پولیس واال بن کر سفینہ کو کال کروں گا اور کہوں گا‬
‫کہ نور جنت کو میں نے پکڑ رکھا ہے اور ان سے سب سچ اگلواؤں گا اور پھر ریکارڈنگ کے ذریعے ہم ان پہ کیس کر کے ان‬
‫کو سزا دلوائیں گے ۔ ہاں ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے ایسے ہمیں معلوم بھی ہو جائے گا کہ سفینہ بیگم واقعی ہی قاتل ہیں یا کوئی اور ۔‬
‫۔۔۔۔۔ ہاں اور پھر ہم ان پر کیس کر کے ثبوت پا کر ان کو پھانسی پر بھی لٹکائیں گے ۔ نوڑے اب تم اٹھو اور گھر چلو میرے ساتھ‬
‫صبح ہم الہور جائیں گے میری پوسٹنگ دوبارہ الہور ہو رہی ہے میں نے درخواست کی تھی ۔ اب وہ دونوں گھر ا چکے تھے ۔‬
‫نورے آپ ایسا کرو اپ کچھ کھانے کو بنا لو اور پھر ہم کھانا کھا کر پیکنگ وغیرہ کر لیں گے اور نورے کھانا بنانے کچن میں‬
‫چلی گئی کچھ دیر بعد ارزم کچن میں ایا اور بوال یار سنو ارزم نے نورے کو بالیا جو کہ کچن میں کھڑی تھی ۔ کھانا تمہیں کھانا‬
‫بنانا اتا ہے ۔ ؟ کھانا؟ یہ کہہ کر نورے خاموش ہو گئی ۔ یعنی نہیں اتا میرا اندازہ ٹھیک تھا ۔ اپ کو کیسے پتہ چال کہ مجھے کھانا‬
‫نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ آپ پچھلے ادھے گھنٹے سے کچن میں ہو اور صرف برتن گرنے کی آواز آرہی ہے ۔ وہ تو بس دو دفعہ پلیٹ‬
‫گری تھی بات کو ٹالتے ہوئے نورے بولی ۔ جی نہیں پوری ‪ 6‬دفعہ پلیٹ اور چار چمچ تین دفعہ چھری اور تین گالس ٹوٹ چکے‬
‫ہیں جب سے اپ کچن میں ائی ہیں اور یہ مجھے آواز آرہی تھی ۔ باہر نورے شرمندہ ہو گئے اور خاموش ہو گئی ۔ اچھا انڈا بنانا‬
‫اتا ہے اس دن اپ نے ناشتے میں بنایا تھا تو پلیز وہی بنا دو ۔ جی اچھا وہ بنا دیتی ہوں اور روٹی مجھے بنانی اتی ہے ۔ چلو میں‬
‫ویٹ کر رہا ہوں وہ یہ کہہ کر باہر چال گیا ۔ اب وہ دونوں کھانا کھانے کے لیے ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے ارزم بوال روٹی دینا ۔‬
‫نور نے ایک سڑی اور اکڑی ہوئی روٹی نکال کر دی جس پر ارزم نے روٹی کو پورا مکمل دائیں بائیں کر کے دیکھا اور ایک‬
‫نظر نورے کو دیکھا اور پھر اسی روٹی کے ساتھ انڈا کھانے لگا ۔ نورے تم کھا نہیں رہی ارزم نے تقریبا ‪ 15‬منٹ بعد نورے کو‬
‫پلیٹ میں چمچہ گھماتے ہوئے دیکھا تو پوچھا ۔ میں کھا رہی ہوں اچھا تم بس انڈا چمچوں سے کھاؤ گی۔ نہیں وہ مجھے۔ وہ‬
‫ایکچولی انڈا پسند نہیں ہے اتنا زیادہ میں کافی دنوں سے انڈا کھا کھا کر اب تھک چکی ہوں ائی ڈونٹ وانٹ ٹو ایٹ اٹ ۔ کیا حسین‬
‫اتفاق ہے نورے ویسے تمہیں انڈا پسند نہیں ارہا اور کھانا بنانا نہیں اتا ۔ نور نے ارزم کو دیکھا اور شرمندگی سے نظریں نیچے‬
‫کر لی اور انڈا زبردستی کھانے لگی ۔ ایک بات بتاؤ گے نورے نے پوچھنا چاہا ۔ مم ۔ ٹیبل پر جو پلیٹ تھی اس پر نظر رکھتے‬
‫ہوئے ارزم نے کہا ۔ مجھ سے نکاح کیوں کیا کوئی خاص وجہ تھی ؟ عزم نے ایک چونک دی نظر سے اس کو دیکھا اور کہا‬
‫وجہ پوچھنے کی کیا ہے یہ بتاؤ ؟ بیکوز ہم پہلے کبھی ملے نہیں تھے یہ تین سے چار دفعہ ملے اور وہ بھی تقریبا لڑے ہم ایک‬
‫دوسرے کو بہت برا سمجھتے ہیں اور نہ ہی پہلے کبھی ہماری کوئی انگیجمنٹ وغیرہ یا شادی کی بات ہوئی تو پھر کیوں جو‬
‫حریم کے اغوا ہونے کا سن کر اپ نے مجھ سے شادی کر لی مجھے اس بات کی ذرا سمجھ نہیں ائی ۔ تو تم انکار کر دیتی ارزم‬
‫نے کھانا کھاتے ہوئے بوال ۔ بھال میں کیوں انکار کرتی میرے لیے تو یہ اچھا موقع تھا نہ میرے پاس گھر رہنے کو اور نہ ہی‬
‫کوئی اور تو میں نے تو کر لی شادی لیکن اپ نے مجھ سے نکاح کیوں کیا اپ کو کیا تھا ایسا اپ تو بے بس نہیں تھے میری‬
‫طرح ‪،‬۔ دنیا میں میرا کون ہے بھائی مر گیا باپ بھی مر گیا یعنی تب اپ کا تو پتہ بھی نہیں تھا اور سفینہ بیگم میرے ستیلی ماں‬
‫نکلی حریم پیسے بھی اغوا ہو چکی تھی تو میں کیا کرتی اور اتنا بڑا ہاتھ سے میرے سامنے ہے حریم کے ساتھ پیش ایا تھا تو نہ‬
‫میرے پاس کپڑے جوتے نہ سازو سامان میرا ضرورت کا تو پھر تو مجھے یہی راستہ مناسب لگا لیکن اپ نے مجھ سے نکاح‬
‫کیوں کیا اب بات گھمائیں مت اور مجھے بتائیں ۔‬

‫میں تمہیں اکیلے نہیں چھوڑ سکتا تھا ۔‬


‫لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ بس میں نہیں چاہتا تھا کہ تم یوں بے بس پھرو دراصل میں تمہاری ساری حقیقت سے واقف تھا اس لیے‬
‫میں نے تم سے شادی کی آپ ایک اچھی لڑکی ہیں ۔ نورے اس کی اس بات پر اس کو دیکھنے لگی جیسے وہ بہت حیرت زدہ‬
‫تھی ۔ رکو ! میں آتا ہوں وہ اٹھ کر کسی کو کال کرنے گیا تھا اور نورے وہاں بیٹھے ہللا کا شکر کر رہی تھی کہ ہللا نے اس کو‬
‫اکیال نہیں چھوڑا ارزم آیا اور بیٹھ گیا اور اپنی باقی روٹی زبردستی کھانے لگا ۔ آپ بہت نا عجیب شخص ہیں ویسے آپ کو‬
‫کسی کی فیلنگز کا نہ پتہ نہیں چلتا اپ کو اتنا بھی نہیں ہے کہ گھر میں کوئی بھوکا بیٹھا ہے میں نے کل رات سے کچھ نہیں کھایا‬
‫اور اب شام کے تین بج رہے ہیں جب ارزم کھانا کھا کر اپنے کمرے میں گیا تو نورے اس کے کمرے میں جا کر کہنے لگی ۔‬
‫ویسے تم مجھ سے پوچھو کہ میں نے وہ کھانا کھایا کیسے ہے ؟ وہ بات چھوڑیں اپ نے کھا تو لیا نا اپ نے ایکچولی پیٹ بھر لیا‬
‫ہے نا اس لیے اپ کو میری فیلنگز کا پتہ نہیں چل رہا کہ مجھے اس وقت کتنی بھوک لگی ہوئی ہے ۔ ابھی وہ اس کو باتیں سنا ہی‬
‫رہی تھی کہ ساتھ ہی بیل بجی ۔ نورے باہر دروازہ کھول نے جانے لگی ۔ رکو ٹوٹے پاؤں کے ساتھ تم اگلے سال تک دروازے پر‬
‫پہنچو گی جاتا ہوں میں ارزم اٹھا اور دروازے سے ڈلیوری مین سے پزا لے کر اندر ایا اور نورے کو تھما دیا ۔ نورے کو‬
‫شرمندگی ہوئی کہ کبھی اس سے صبر نہیں ہوتا لیکن اس نے شرمندگی ظاہر نہ کرتے ہوئے بوال بہت شکریہ جیسے وہ طنزیہ‬
‫الفاظ میں بول رہی ہو ۔ ویسے ٹوٹے پاؤں کے ساتھ بھی تمہارے غصے اور یا تمہاری زبان جو کہ پٹر پٹر کرتی ہے کوئی فرق‬
‫نہیں ایا ۔ ایکس کیوز می پاؤں ٹوٹا ائی مین کرچیاں لگی ہیں ٹوٹا تو نہیں ہے اور ویسے بھی ٹوٹا پاؤں اور منہ کا کیا مقابلہ ‪،‬‬
‫بولتے تو منہ سے ہیں نا یا پاؤں سے ۔ ویری گڈ اچھے انفارمیشن دی ہے اپ نے مجھے ارزم اس کو تنگ کرتے لہجے میں بوال‬
‫۔ واٹ ایور نورے نے انکھیں گھماتے ہوئے کہا میرا پیزا ٹھنڈا ہو رہا ہے نہیں تو میں اپ کو مزید اچھی انفارمیشن دیتی نورے‬
‫پیزا پکڑ کر فوراً کمرے میں جا کر کھانے لگی سردیوں کے دن تھے رات جلدی ہو جایا کرتی تھی وہ دونوں عشاء پڑھ کر اپنے‬
‫کمروں میں سو چکے تھے اور نورے نے دوبارہ صبح اٹھ کر فجر کی نماز پڑھی قرآن پڑھا اور پھر وہ دونوں اب الہور کے لیے‬
‫نکل چکے تھے ۔ اب وہ دونوں گاڑی میں سفر کر رہے تھے ویسے اپ صبح نماز پڑھنے جب اٹھتی ہو تو بہت شور کرتی ہو‬
‫۔ اپ جاگ رہے ہوتے ہیں ؟ ہاں ۔ تو اپ نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ تمہیں کس نے کہا میں نماز نہیں پڑھتا میں تو روزانہ پڑھتا ہوں‬
‫بلکہ جب سے آپ آئی ہیں اور آسانی ہو گئی ہے االرم بھی نہیں لگانا پڑتا اپ کے شور سے کوئی ہاتھی بھی جاگ جائے میں تو‬
‫پھر بھی ایک ہینڈسم ‪ ،‬معصوم پیارا سا ایس پی ہوں ۔ کیا پیارا اور معصوم بھی ایسے مت کہیں دونوں لفظوں نے خود کشی کر‬
‫لینی ہے ۔ محترمہ آپ بھی ایسا مت کہیں ‪ ،‬لیکن مجھے تمہارے االرم کی اواز کبھی نہیں ائی ۔ ائے گی بھی کیسے اپ کا کمرہ‬
‫الگ ہے اور میرا الگ بائے دا وے میں االرم نہیں لگاتی بس میں ہللا تعالی کو یہ کہہ کر سو جاتی ہوں کہ ہللا تعالی مجھے صبح‬
‫نماز پڑھنے کی توفیق دینا اور مجھے صبح فجر کے وقت اٹھا دینا بس پھر میں اٹھ جاتی ہوں اور نماز ادا کر لیتی ہوں ۔ بڑی ہللا‬
‫کی پیاری ہو تم گڈ ۔۔۔۔ شکر ہے ایک نیک عورت سے نکاح ہوا ہے میرا ۔ لیکن آپ کو کیا پرابلم ہے آئی مین آپ نے کبھی ظاہر‬
‫نہیں ہونے دیا کہ آپ نماز پڑھتے ہیں صبح فجر ٹائم اٹھ کے ۔ میں نہیں چاہتا کہ میری نمازوں کو نظر لگے اور ویسے بھی میں‬
‫دکھاوا نہیں کرتا ۔ کیا مطلب ہے اپ کا کہ میں دکھاوا کرتی ہوں ؟ نہیں میں نے ایسا تو نہیں کہا ‪ ،‬میرے خیال سے سب کا سوچنے‬
‫کا پوائنٹ اف ویو تھوڑا ڈفرنٹ ہوتا ہے اب اپ کو لگتا ہے کہ اپ نماز یوں پڑھیں گی تو دوسری بھی اپ کو دیکھ کے نماز پڑھیں‬
‫گے اور مجھے لگتا ہے کہ میں نماز یوں پڑھوں گا تو شاید یہ دکھاوا نہیں ہے ائی مین نیت کی بات ہوتی ہے ساری جو اپ کو‬
‫ٹھیک لگے اپ وہ کرو جو مجھے ٹھیک لگے میں وہ کروں گا ‪ ،‬اچھا رکو تم مجھے ایک بات بتاؤ جب تم جیل میں تھی اور میں‬
‫جب کسی کی جھکائی کر کے باہر ایا تو تم اکیلے اندر بیٹھے ہنس رہی تھی ۔ نورے نے اس کو دیکھا اور حیران ہوئی کہ یہ کیا‬
‫کہنا چاہ رہا ہے ۔ ائی مین تم کہیں پاگل تو نہیں ہو خواہ مخواہ بیٹھی اکیلی ہنس رہی تھی ؟واٹ میں پاگل نہیں ہوں اور ویسے بھی‬
‫جو کہتا ہے نا وہی ہوتا ہے ۔ اس کے اس بات پر ارزم اس کو گھور بھی نہ سکا کیونکہ بعد کا اغاز اس نے کیا تھا ۔ تھوڑا اور‬
‫سفر گزرنے کے بعد وہ پھر باتیں کرنے لگے نورے میں تم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں ۔ میں نے سنا تھا کہ لڑکیاں زیادہ بولتی‬
‫ہیں اپ کتنا بولتے ہیں ۔ مذاق کا ٹائم نہیں ہے میں ابھی باقی ایک سیریس بات کرنا چاہتا ہوں جس کو تم اپنے دماغ میں بٹھا لو تو‬
‫تمہارے لیے کافی اچھا ہوگا ۔ اچھا تو وہ بات کیا ہے نورے نے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے پوچھا ۔ نورے اگر تم چاہتی ہو کہ ہم‬
‫دونوں ایک ساتھ خوش رہیں تو تمہیں یہ بات میری ماننی پڑے گی کہ میں جو کہوں گا تم وہ کرو گی ۔ اور اپ کو یہ کس نے کہا‬
‫ہے کہ میں اپ کی بات مانوں گی اس نے ایک بھنو کو اٹھا کے کہا ۔ ارزم نے غصے میں اس کو دیکھا ۔ چلیں ٹھیک ہے میں اپ‬
‫کی ماننے والی بات مان لوں گی جو میرے بس میں ہوئی ادروائز نو ۔ ٹھیک ہے یہ بات تمہاری مانتا ہوں لیکن یاد رکھنا اگر تم‬
‫نے میری ماننے والی بات بھی نہ مانی‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔ ‪ so you will see my devil heart‬۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪Mr . Don't be sigma guy in front of your own wife try to be a respected person in front of her‬‬

‫ویسے یہ ڈیول ہرٹ کیا ہوتا ہے ؟ نورے نے تعجب سے پوچھا ۔ دنیا میں بہت سے انسان دماغ سے سوچتے ہیں میں اپنے اکثر‬
‫معامالت دماغ سے سلجھاتا ضرور ہوں لیکن میرے معامالت جو دل سے سلجھائے جائیں وہ بہت سینسٹو ٹائپ ہوتے ہیں اور اگر‬
‫ان میں کوئی خرابی ا جائے سو میں برداشت نہیں کرتا میں دنیا کو تباہ کر سکتا ہوں اگر میرا ڈیول ہرٹ کا موڈ ایکٹیویٹ ہو‬
‫جائے ‪ ،‬تم ابھی تک جان تو چکی ہوگی میرے دو روپ کو ۔ ہاں جان چکی ہوں جس میں ایک بہت ہی خونخوار قسم کا اور ایک‬
‫بہت ہی ڈیسنٹ ہمبل اور انٹیلیجنٹ بندے کا ۔ ابھی خون کو اور اپ نے دیکھا نہیں ہے میں چاہتا بھی نہیں کہ اپ کو دکھاؤں تو پلیز‬
‫ایک بات میں اپ کی مانوں گا اور ایک اپ میری ‪ ،‬یہی کہہ رہی ہو نا ۔ یس ۔ اچھی سوداگر ہو ۔ سوداگر کی بیٹی جو ہوں‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫اب وہ دونوں تھانے پہنچ چکے تھے چلو اب اج ہماری ایکٹنگ شروع ہو جائے گی نورے نے ارزم کے یہ کہنے پر ہاتھ اگے کیا‬
‫اور دونوں نے ہاتھ مالیا ۔ اب وہ دونوں اپنے اپنے مشن پر تھے ۔‬
‫ہیلو ۔ کون ؟ ایس پی ارزم زاویار ۔ او جو کہ پہلے ایس ایچ او ارزم زاویار تھا ‪ ،‬فون کی دوسری جانب سے اواز ائی ۔ یعنی تو اپ‬
‫مجھے جانتی ہیں سفینہ بیگم ۔ بہت اچھے سے تمہارا معلوم ہے تمہیں میں نے بے تحاشہ پیسوں کو کہا تھا لیکن تم نے جو کیا وہ‬
‫تم بھگتو گے جانتے نہیں ہو تم مجھے اس نے شدید غصے سے کہا ۔ سفینہ بیگم رکیں تو صحیح بات سنیں اپ کے لیے ایک بہت‬
‫اچھی خبر لے کر ایا ہوں سننا نہیں چاہیں گی ؟ کیا ؟ اگر اپ حریم کو چھوڑ دیں تو میں نورے کو پھانسی یا عمر قید کروا سکتا‬
‫ہوں ۔ حریم میرے پاس نہیں ہے ۔ میڈم جھوٹ تو نہ بولیں حریم اپ کے پاس ہے ہم بھی ساری معلومات رکھتے ہیں کشمیر سے‬
‫الہور صرف ہم حریم کے لیے ہی ائے ہیں وہ بھی معلومات اکٹھی کرتے کرتے ۔ میں لڑکوں کو بھی اچھے سے جانتا ہوں‬
‫جانزیب والے ہی تھے نا ۔۔۔۔۔۔۔۔شٹ اپ کیا چاہتے ہو تم ؟ حریم اس نے دو ٹوک بات کی ۔ ٹھیک ہے ۔ ایس پی نے جلدی سے‬
‫ریکارڈنگ آن کی ۔ میں حریم کو ایک شرط پہ واپس کروں گی ۔ جی شرط بتائیے ۔ شرط نور کو پھانسی یا عمر کی ہے ۔ منظور‬
‫ہے ۔ سفینہ بیگم نے فون بند کر دیا ۔ ارزم گاڑی سے باہر نکل کر فون پر بات کر رہا تھا فون بند ہونے پہ فوراً اندر ایا اور بوال‬
‫نورے سنو اس وقت نور گاڑی میں تھی اور ارزم نے دروازہ کھول کر اندر آ کر اس کو بتانا چاہا بولو ارزم نے ساری بات بتائی‬
‫۔اچھا تو ارزم اب ہم کیا کریں گے ؟ شدید دھوپ اور پوری رات گاڑی ڈرائیو کرنے کی وجہ سے وہ سو بھی نہ سکا تھا اس کی‬
‫وجہ سے ارزم تھوڑا تپا ہوا تھا ۔ یار خود تمہیں عقل ہے نہیں ہے خود بھی کبھی کوئی عقل لگا لیا کرو کوئی دماغ لگا لیا کرو‬
‫سارا مسئلہ میرا ہے تمہارا کبھی تم نے خود سوچا ہے حد ہوتی ہے اب کیا ہم کریں گے اب کیا ہم کریں گے تم نے تو بس ایک ہی‬
‫بات پکڑی ہوئی ‪ ،‬ارزم غصے سے نہیں لیکن بدتمیزی سے ضرور کہہ گیا تھا ۔ نورے بے حد چونک چکی تھی ۔ نورے صرف‬
‫اپنا کام نکلوانے کے لیے ہی چپ کر جائے گی ‪ ،‬ارزم نے یوں سوچا لیکن نورے بولی ‪ ،‬خود کو اپ کوئی تیس مار خان سمجھتے‬
‫ہہیں ‪،‬۔ ارزم نے گردن گھما کر اس کی طرف ایک بہنو اٹھاتے ہوئے غصے سے دیکھا دوبارہ کہو ذرا ۔ جی کوئی تیس مار کھا‬
‫نہیں ہو جو مجھے یوں ڈانٹو گے تو میں چپ کر جاؤں گی اور کچھ کہوں گی نہیں مجھے نہ کوئی شوق نہیں کسی پر زبردستی‬
‫بوجھ بننے کا میں نورے جنت ہوں اپنا کام کرنا اچھے سے جانتی ہوں ٹھیک ہے تمہارا اس کام سے کوئی تعلق نہیں ہے آپ کا‬
‫راستہ وہ ہے اب جائیں نورے نے ہاتھ کے اشارے سے کہا ‪ ،‬اور بیگ پکڑا اور پیدل چلنے لگی گاڑی سے اتر کر ۔ نورے کہاں‬
‫جا رہی ہو ؟ ارزم نے کہا ‪ .‬سنو ڈونٹ فالو می ۔۔۔۔۔ مجھے کوئی شوق نہیں تھا اپ سے شادی کا نورے یہ کہہ کر پیدل چلنے لگے‬
‫اور چلتے چلتے فٹ پاتھ پر تھی کہ غصے سے منہ ہی منہ میں بول رہی تھی کہ پہلے تو اس نے ایک پولیس کی گاڑی کو دیکھا‬
‫جو کہ وہاں سے گزر رہی تھی وہ اچانک سے ڈگمگائی اور پیچھے کو سلپ ہوئی تو جوتی ٹوٹ گئی اب وہ جوتی اٹھانے کے لیے‬
‫نیچے بیٹھی تو دو لڑکے وہاں سے بائک اور اس کے پاس رکے اوہ سلیپنگ بیوٹی کدھر ۔ نورے کی آنکھیں نیند سے جیسے بند‬
‫ہو رہی تھی اس لیے شاید انہوں نے اس کو سلیپنگ بیوٹی کہا تھا گالبی رنگ کے سوٹ میں وہ کسی پرنسز سے کم تو لگ نہیں‬
‫رہی تھی ۔ ان لڑکوں کا اس کو سلیپنگ بیوٹی کہنا نورے کو اس بات کا احساس رہا تھا کہ اس نے واقعی گاڑی سے اتر کر تنہا‬
‫چلنے کا فیصلہ غلط کیا ہے ۔ ا جائیں ہمارے ساتھ ہم کہیں ڈراپ کر دیں کہیں لے چلیں ‪ ،‬ویسے بھی اتنی تپتی گرمی میں اپ کہاں‬
‫جائیں گی ائیں بیٹھیں ہمارے ساتھ ہم اپ کو لے جاتے ہیں۔ نورے رکی نہیں وہ چلتی جا رہی تھی اور وہ لڑکی اس کو فالو کر‬
‫رہے تھے ۔ جب ان دونوں میں سے ایک لڑکا آگے ہوا اور اس نے نورے کا ہاتھ پکڑا تو پیچھے سے ایک گولی چلی اور اس‬
‫لڑکے کا بازو شدید زخمی کر گئی تھی ۔‬

‫نورے بغیر پیچھے دیکھے آگے کو دوڑنے لگی ۔ ابھی وہ تھوڑا اگے گئی تھی کہ ارزم کی گاڑی کو دیکھ کر رک گئی ۔ گاڑی‬
‫کا شیشہ نیچے ہوا ارزم نے سنجیدہ لہجے میں کہا نور جنت اندر اؤ ایک ہاتھ سٹیرنگ ویل پر اور ایک ہاتھ سر پر تھا اور ایسے‬
‫بات کی جیسے کوئی ارڈر دے رہا ہو ۔ نور فٹ کے اندر بیٹھی اور ارزم گاڑی چالنے لگا ۔ نورے کی ایک عادت تھی کہ اپنے‬
‫قریبی کو سب کچھ بتاتی تھی اور اس نے ارزم کو اب اپنا قریبی پا کر اس کو بے سب کچھ بتایا ۔ آ ۔ آ ۔ ارزم م ۔ م ۔ مم ۔ میں وہ‬
‫جب میں پیدل جا رہی تھی تو وہ ۔ وہ ۔ وہ دو وہ ۔ و۔ یہ کہتے کہ ۔ کہ ۔۔۔۔۔ نورے سے بات مکمل نہ ہوئی وہ ہچکیاں لے کر رونے‬
‫لگی۔ کیونکہ نور کے ساتھ یہ سب کچھ پہلی دفعہ ہوا تھا اور اس کے بعد اب وہ شاید طاقتور بن جائے گی ‪ ،‬لیکن ابھی ارزم کو‬
‫اس کو سنبھالنا تھا ۔ وہ بہت عجیب نہیں بات تھی ریلیکس کرو وہ گولی میں نے چالئی تھی ارزم نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے‬
‫کہا ۔ ارزم جو پہلے ہی تپا ہوا تھا ایک تو گولی چال کر اور رات کو نہ سونے کی وجہ سے جو کہ کسی کی بات سننے کو تیار‬
‫نہیں تھا اس نے فوراً سے گاڑی روکی اور بوال نورے ریلیکس کچھ نہیں ہوا ریلیکس وہ گولی میں نے چالئی تھی چلو شاباش کام‬
‫ڈاؤن کچھ نہیں ہوا اس کو بچوں کی طرح چپ کروانے لگا ۔ وہ گولی اپ نے چالئی تھی ۔ جی ۔ لے ۔ لیکن کیوں ؟ میں دیکھ رہا‬
‫تھا اور تمہیں اس نے ہاتھ لگایا تو تمہیں کیا لگتا ہے میں اپنی نظروں کے سامنے یہ ہوتا برداشت کر پاؤں گا اس لیے میں نے اس‬
‫کو گولی مار دی ۔ لیکن اگر وہ مر گیا ؟ فکر نہ کرو ایک پولیس افسر ہو کے مجھے اتنا تو پتہ ہے کہ کہاں بولی لگنے سے بندہ‬
‫مرتا ہے اور کہاں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نورے اس نے نورے کے کندھوں کو پکڑتے ہوئے اس کو کہا‬
‫‪Be a strong and rude women in front of the world except the people that you love‬‬

‫ارزم کا یہ کہنا نورے کو نہایت متاثر کر گیا تھا ۔ ہر وقت میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں گا تمہیں اپنا اپ خود سنبھالنا بھی انا چاہیے‬
‫کوئی تمہیں چیل کی نگاہ سے دیکھے تو تم اس کو مگر مچھ کی نگاہ دیکھنا ‪ ،‬اور اگر موقع ملے تو اس کو نوچ جانا گھبرانا مت‬
‫یہ دنیا ہے اگر یہاں پر رہنا ہے تو ایسا ہونا پڑے گا خاص طور پہ ایک لڑکی کے لیے یہ بہت ضروری ہے ۔ ارزم نے نہایت پیار‬
‫سے نورے کو سمجھایا ۔ سمجھ گئی ارزم نے جیسے نورے سے پوچھا ؟ جی ۔ نورے کو تسلی دینے کے بعد وہ دونوں اب ارزم‬
‫کے گھر پر تھے ۔ یہ کون ہے ارزم ؟ میری بیوی ماں کے سوال پر اس نے کہا کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے‬
‫نورے کے کمرے میں جانے کا کہا تو نورے چلی گئی ۔ امی میری بات سنیں اس کی امی نے اس کو کہا پاگل ہو تم ؟ تم نے کس‬
‫سے شادی کر لی تمہارا دماغ گھاس چڑھنے چال گیا تھا ‪ ،‬تم نے تو میری بہن کی بیٹی سے شادی کرنی تھی یا میرے خدا اس‬
‫لڑکے کی تو لگتا ہے مت ماری گئی ہے ۔ امی سنے تو بیچاری مجبور تھی ۔ ہاں ہاں تم تو کوئی سینٹر کھول کے بیٹھے ہو نا‬
‫لوگوں کی مدد کرنے کا بے وقوف تم سے بڑا میں نے گدھا کبھی نہیں دیکھا تمہاری کزن کے ساتھ تمہاری بات پکی کر چکی‬
‫تھی میں تمہارے کہنے پر ہی تو تم نے یہ کیا حرکت کی ہے اب میں کیا شکل دکھاؤں گی اپنی بہن کو اور کس آوارہ لڑکی کو لے‬
‫ائے ہو ۔ امی خدا کا خوف کریں وہ اوارہ نہیں ہے وہ ایک شریف خاندان کی سلجھی ہوئی تمیزدار بیٹی ہے ۔یعنی تم اس کے‬
‫پیچھے کافی دیر سے تھے تم نے کیا کیا ہے یہ میری سمجھ سے باہر ہے بہت چیخ رہی تھی ۔ امی اپ نے میری بات سن لی ہے‬
‫یا نہیں ارزم چالیا ۔ اس کے چالنے پہ اس کی ماں نے اس کے منہ پہ زور دار تھپڑ مار دیا اور بولی یہ سکھایا ہے میں نے تمہیں‬
‫کہ ماں سے کس طرح بات کرتے ہیں چیخ رہے ہو اج اس لڑکے کے لیے میرے سامنے کل کو گھر سے نکال دو کہ مجھے کس‬
‫چالک سے شادی کر ائے ہو تم ۔ میں بھی اب عرضب نہیں اگر اپ کو کچھ بتا گیا ارزم یہ کہہ کر فوراً اپنے کمرے میں چال گیا‬
‫اور جا کر زور سے دروازہ بند کیا ۔ اور نور سب کچھ دیکھتی رہ گئی ۔ ارزم غصے میں ا کر بیڈ کی جانب پر بیٹھ گیا جبکہ‬
‫نورے صوفہ پر بیٹھی تھی ۔ تقریبا آدھے گھنٹے کے بعد جب نورے کو مناسب لگا تو وہ کمرے کے دوسرے کونے کے صوفے‬
‫سے اٹھی اور ارزم کے پاس گئی جو کہ بیڈ پر شوز سمیت پاؤں رکھ کر لیٹا تھا اور سر پر ہاتھ رکھا ہوا تھا غصے میں۔ ارزم ‪.‬‬
‫نورے کے بالنے پر ارزم نے غصے سے نورے کو دیکھا اور بوال بولو ۔ ایک بات کہوں ۔ جلدی بولو ۔ دیکھیں اگر مجھ سے‬
‫کوئی پوچھے کہ میں سب سے زیادہ پیار کس سے کرتی ہوں تو میں کہوں عادل صاحب اور جھانزے انسان کو اپنے بہن بھائی‬
‫اور اپنے ماں باپ سے ہی سب سے زیادہ پیار ہوتا ہے ۔ تو ؟ تو یہ کہ انسان پیدا ہو کر سب سے پہلے اپنی ماں کو دیکھتا ہے اور‬
‫وہی اس کا سب سے زیادہ خیال رکھتی ہے اگر ایک ماں کے دس بچے بھی ہوں تو وہ پھر بھی اس ‪ 10‬کو برابر تیار دے گی وہ‬
‫کبھی بھی کسی سے کم اور زیادہ پیار نہیں کرے گی ‪ ،‬ارزم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تو نور بیڈ کی دوسری جانب بیٹھ گئی ۔ ایک ماہی‬
‫تو ہوتی ہے جو کہ اپنے بچوں کو ہر بری چیز سے روکتی ہے ۔ لیکن وہ میری بات سننے کو تیار ہی نہیں اور میں ان کو نہیں‬
‫بتاؤں گا اب ‪ ،‬ارزم زمین کی جانب دیکھتے غصے سے کہہ رہا تھا ۔ ماں باپ کے ساتھ کون ضد لگاتا ہے میرے خیال سے ہمیں‬
‫کبھی بھی اپنے ماں باپ کو بے بس نہیں کرنا چاہیے اگر وہ ڈانٹے یا مارے یا ہماری بات نہ سمجھ رہے ہوں تو ان کو مان دینا‬
‫چاہیے اور ہمیں خاموش ہو جانا چاہیے ان کی عزت کرنی چاہیے اور پھر تھوڑی دیر بعد ان کو سمجھانا چاہیے نہیں تو جو یوں‬
‫آپ کر کے آئے ہیں اسں سے میری اور آپ کی دونوں کی عزت خراب ہو رہی ہے اور ماں باپ کو مان دینا سیکھو ان کو یہ‬
‫احساس دالؤ کہ اگر ہم بڑے بھی ہو گئے ہیں تو کیا ہوا وہ آج بھی ہم پر اپنا حکم نافذ کر سکتے ہیں اور ہم کون ہوتے ہیں نا ماننے‬
‫والے ان کو احساس دالؤ کہ وہ ابھی کسی پر حکم چالنے کے لیے زندہ ہیں ایسے ان سے بات نہیں کرنی چاہیے ماں باپ کے‬
‫سامنے نافرمان اوالد کی بلند آواز ہللا تعالی کے نزدیک گدھے کے بعد سب سے بری مانی جاتی ہے تو کیا اپ چاہو گے کہ ہللا اپ‬
‫سے ناراض ہو جائے ارزم کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ نورے جیسے کسی بچے کو پیار سے سمجھا رہی ہو ارزم کیسے بات‬
‫کو نہ سمجھتا اگر وہ کسی بے عقل بچے کو بھی اتنی پیار سے سمجھاتی تو وہ ضرور سمجھ جاتا اور ارزم تو پھر بھی ایک‬
‫نوجوان اور ایک سمجھدار لڑکا تھا اب اپ جائیں اور ان کو بتائیں مجھے یقین ہے وہ ضرور اپ کی بات سنیں گی ‪ ،‬اور اپ یہ‬
‫بھی تو دیکھیں کہ میری ماں سوتیلی ہے جس ماں کو میں نے اتنا پیار کیا اور میں سمجھتی تھی کہ یہ میری اپنی ہے وہ تو‬
‫سوتیلی نکلی یہاں تک کہ انہوں نے مجھ پر قتل کا بھی الزام لگایا اپ خوش قسمت ہیں اپ کے پاس ماں ہیں وہ بھی اپ کی اپنی‬
‫ارزم اٹھا اور باہر کی جانب چال گیا نورے سمجھ گئی تھی کہ اب وہ اپنی امی سے معافی مانگنے گیا ہے ۔ باہر صحن میں چار‬
‫پائی پر بیٹھی ماں کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا ارزم ‪ ،‬اس کی ماں سر پکڑ کر بیٹھی ہوئی تھی ۔ امی ۔ امی مجھے معاف کر دے‬
‫مجھے اپ سے یوں بات نہیں کرنی چاہیے تھی امی وہ مجبور تھی میرا مطلب ہے کہ اس کا باپ اور بھائی مر گئے اس کو‬
‫سوتیلی ماں نے اس کے باپ کو اور بھائی کو مار دیا اور جب وہ اپنے باپ سے ملنے کشمیر گئی تو اس کی دوست یعنی حریم‬
‫بھی اغوا ہو گئی ہے ۔ کیا حریم اغوا ہو گئی ہے ؟ جی امی۔ ہائے ہللا ۔ امی فکر نہ کریں ماموں کو ابھی کچھ معلوم نہیں اگلے‬
‫تین دن میں حریم ہمارے پاس ہوگی اور کوئی خطرے کی بات نہیں میں تو بس اس کی مدد کر رہا ہوں میں اس کو تنہا نہیں چھوڑ‬
‫سکتا تھا امی اپ نے ہم دونوں بھائیوں کی یہ تربیت تو نہیں کی کہ ہم یوں لوگوں کی مجبوریوں کو فائدہ اٹھائیں میں واقعی ہی سچا‬
‫ہوں اور اپ دیکھنا اپ کو ایک دن مجھ پر فخر ہوگا ۔ امی میں نے اپ سے بہت بدتمیزی سے بات کی مجھے معاف کر دیں ۔‬
‫اس کی ماں حیران تھی کہ ارزم معافی مانگ رہا ہے ۔ وہ ایک ماں تھی اور ماں ہونے کے ناطے اس نے معاف کر ڈاال۔ ارزم کی‬
‫ماں پریشان تھی کہ ارزم کے اندر بھی کسی کو حاصل کر کے اس کے لیے کوئی جذبہ اجاگر ہو سکتا ہے کیونکہ ماں اپنے بچوں‬
‫کو بے حد جانتی ہوتی ہے ۔ امی دیکھیں صرف چند دن اس کی مجھے مدد کرنے دیں ۔ لیکن بیٹا یہ یاد رکھنا تو میں معاف تو کر‬
‫رہی ہوں لیکن مجھے فخر کرنے کا موقع چاہیے ۔ ان کی اس بات پر ارزم مسکرا دیا اور اپنی ماں کے گلے لگا اور کہا امی میں‬
‫اپ سے ائندہ کبھی اس لہجے میں بات نہیں کروں گا ۔ کچھ دیر بعد ارزم کو کال آئی اور وہ اپنی امی کے پاس سے اٹھ کر چال‬
‫گیا ۔ تقریبا ً شام کے چھ بج گئے اور اشعر اندر آیا اور ماں بیٹے کو اکٹھا پا کر بوال کیا بات ہے امی آج آپ نے اشعر کو نہیں بلکہ‬
‫بھائی صاحب کو یہاں بٹھایا ہوا ہے یہ زیادتی ہے بھائی یہاں سے اٹھ جائیے نہیں تو میں اپنا حق لینے ا رہا ہوں یہاں پر‪ ،‬اشعر یہ‬
‫کہتے ہوئے اپنے کمرے میں بیگ رکھ کر فوراً ایا باہر اور ا کر امی کی گود میں سر رکھ لیا اور اشعر نے بھائی کو ہاتھ سے‬
‫تھوڑا پیچھے دھکیال ۔ بھائی اپ یہاں کیا کر رہے ہیں اپ جانتے ہیں یہ میری سیٹ ہے ۔ اوئے چلتے پھرتے چوہے چپ رہ جتنی‬
‫تیری امی ہے نا اتنی میری امی بھی ہیں ۔ امی دیکھیں بھائی مجھے پھر سے چوہا کہہ رہے ہیں ۔ باز اؤ ارزم ۔ اچھا امی میں بھی‬
‫منہ دھو کر آتا ہوں اشعر اپنے کمرے میں گیا ۔ نورے اپنے کمرے سے باہر ائی اور ا کر ارزم کی ماں کے پاس بیٹھ گئی ۔ انٹی‬
‫ائی ایم سوری میں نے اپ کے بیٹے سے شادی ضرور کی ہے لیکن میں اپ کے بیٹے کو اپ سے ہرگز دور نہیں کروں گی اور‬
‫نہ ہی ان کو یہ اجازت دوں گی کہ وہ اپ سے میری وجہ سے یوں بات کریں انٹی اپ پلیز مجھے اپنی بہو کے طور پر قبول کر‬
‫لیں۔ نورے کے یہ کہنے پر عارزم کی ماں بولی بیٹا تم میری بہو نہیں ہو سکتی ۔ ارزم اور نورے نے سکتے کے عالم میں ایک‬
‫دوسرے کو دیکھا ۔ بلکہ تم میری بیٹی ہو ۔ نورے مسکرا دی۔ بیٹا میں تم دونوں کے لیے کچھ کھانے کو التی ہوں ۔ ارزم اور‬
‫نورے اب دونوں باہر چارپائی پر بیٹھے تھے اتنے میں اشعر باہر آیا اور نورے کو پا کر بوال ہیلو ۔ ہائے نورے بولی ۔ آ کون ؟‬
‫میں ہوں اشعر مراد مراد ابو کا نام نہیں تھا بلکہ میں امی کو بہت ہی مرادوں سے مال تو امی نے میرا نام رکھ دیا اور میں ایک‬
‫یونیورسٹی لیول کا بچہ ہوں۔ بچہ نورے اس کو دیکھتے ہوئے حیرت سے بولی یونیورسٹی والے لڑکے کو بچہ نہیں کہتے ۔ جی‬
‫ٹھیک ہے اگر نہیں کہتے تو آپ بتا دیں آپ کون ہیں ؟ اشعر دو قدم آگے ہوا اور ارزم بوال بھابھی ۔ واقعی اپ بھابھی ہیں ‪ ،‬اچھا یہ‬
‫بتائیں ہونے والی ہے یا ہو چکی ہیں ۔ ہو چکی ہوں نورے ہنستے ہوئے بولی ۔ بھائی ویسے یہ تو زیادتی ہے مجھے اپ نے اپنی‬
‫شادی پہ بالیا ہی نہیں ایک ایک ہی تو اپ کا بھائی ہے اس نے ارزم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ مجھے بھی نہیں پتہ یہ شادی‬
‫کیسے ہو گئی ہو گئی ہے بس یہ تمہاری بھابھی ہیں اوکے اور میں تمہارا بھائی تمیز سے رہنا اب ۔ جی حضور اپ کا حکم سر‬
‫انکھوں پہ ۔ بھابھی ویسے تھوڑی ہسٹری جان سکتا ہوں اپ کی۔ ارزم نے اشعر کو کان سے پکڑا اور باہر کی طرف لے کر‬
‫جاتے ہوئے بوال آؤ میں تمہیں ہسٹری سناتا ہوں ۔ ابے وہ شوخے تیری بھابھی ہے یہ چل سن ہسٹری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نورے ارزم کی ماں کے پاس کچن میں گئی انٹی کچھ ہیلپ کر دوں ہاں بیٹا ایسا کرو تم یہ برتن باہر لگا دو ہم مل کے کھانا کھاتے‬
‫ہیں ۔ جی ۔ اب وہ سب مل کر باہر کھانا کھانے لگے ۔ بھائی ویسے ایک بات تو بتائیں ۔ پوچھ ۔ اگر میں اپ کو اپنی شادی پہ نہ‬
‫بالؤں تو چلے گا ۔ چلے گا کیا دوڑے گا بلکہ ‪ ،‬تیری میں نا ایسی کی تیسی کر دوں گا اور تیرے سے بھی کون شادی کرے گا‬
‫اپنی عمر دیکھ ‪ 21‬سال کا ہے بس تو ابھی ۔ بھائی یہ نا انصافی ہے جیسے کو تیسا ہوتا ہے اپ نے مجھے اپنی شادی کے بریانی‬
‫نہیں کھالئی تو میں بھی اپ کو نہیں کھالنے واال ۔ بچے میں نے خود بھی نہیں کھائی ابھی تک۔ ۔ اشعر باز اؤ بھائی کو تنگ کرنا‬
‫بند کرو ۔ اپنی امی کے منع کرنے کے باوجود اب وہ اپنی بھابی کو تنگ کرنے لگا ۔ بھابھی ویسے اپ نے میرے بھائی سے‬
‫شادی کیسے کی ۔ کیا مطلب ؟ نورے بولی ۔ مطلب یہ کہ اتنے اکڑو سڑیل مزاج ہیں یہ تو اپ راضی کیسے ہو گئی مجھے تو یہ‬
‫کوئی زبردستی سین لگ رہا ہے ۔ او تو پاگل ہے تو کیسی باتیں کر رہا ہے امی اس کو سمجھائیں فضول باتیں کری جا رہا ہے‬
‫تمہارے ساتھ کھانا کھا رہا ہے فضول ہے میں جا رہا ہوں ۔ اشعر کھڑا ہوا اور بھائی کو پکڑا بھائی نہیں میں مذاق کر رہا تھا‬
‫بھابھی اپ کو برا لگا ہے ؟ لگا ہی ہوگا ظاہری سی بات ہے جس طرح کہ تم باتیں کر رہے ہو ارزم بوال ۔ نہیں مجھے ذرا برا نہیں‬
‫لگا بلکہ تم کافی انٹرسٹنگ ہو مسٹر اشعر ‪ ،‬نورے کے یہ کہنے پر اشعر نے شکریہ ادا کرنے والے طریقے سے بھابھی کو کہا‬
‫شکریہ ۔ نورے اور ارزم کی امی مسکرا دی ۔ کھانا کھا کر ارزم بوال چلو نورے کمرے میں ۔ نورے اور ارزم کمرے میں گئے‬
‫نورے بولی یہ اپ کا بھائی تھا ۔ جی میرا بھائی ہے کیوں ؟ کافی مذاق کیا ہے ۔ ہاں ‪ ،‬یہ شروع سے ہی شرارتی ہے چلو اب ایسا‬
‫کرتے ہیں ہم سو جاتے ہیں صبح دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے ۔ جی سفینہ بیگم اپ نے کال کی تھی ۔ مسٹر ریسپی میں نورے سے‬
‫ملنے تھانے ا رہی ہوں میں جاننا چاہتی ہوں اور دیکھنا چاہتی ہوں کہ تم جھوٹ تو نہیں کہیں بول رہے ۔ جی ضرور ائے ۔ یہ‬
‫سارا واقعہ ایک نئی صبح کا تھا ارزم فوراً کمرے میں گیا اور نورے کا ہاتھ پکڑا اور اس کو باہر کی طرف لے کر آیا ۔ بیٹا کہاں‬
‫جا رہے ہو نورے کی ساس نے پوچھا ۔ امی ہم بس ابھی آتے ہیں ۔ چلو خیر سے جاؤ ۔ ارزم نے نورے کو گاڑی میں بٹھایا اور‬
‫ساری بات بتائی کیونکہ بے حد کم وقت تھا سفینہ بیگم کسی بھی وقت پہنچ سکتی تھی تھانے ۔ نورے بس ایک بات دھیان میں‬
‫رکھنا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو نہیں جانتے ٹھیک ہے ۔ اوکے ۔ ارزم فورا گاڑی سے اترا نورے کو جیل کی سالخوں کے‬
‫پیچھے بند کیا اور خود اپنے افس میں جا کر بیٹھ گیا ۔ سفینہ بیگم ائی ہیلو مسٹر ایس پی ۔۔۔۔ او اپ سفینہ بیگم ۔ ہاں ۔ ارزم کے‬
‫کمرے میں پہلے ہی کیمرے لگے ہوئے تھے ائیے بیٹھیے ۔ ضرور ‪ ،‬لیکن پہلے میں نورے کو دیکھنا چاہوں گی مجھے نورے‬
‫کے پاس لے کر چلو ۔ وہ دونوں اب نورے کی جیل کے باہر کھڑے تھے نور زمین پر بیٹھے گھٹنے پر سر رکھی ہوئی تھی ۔‬
‫سفینہ کا قہقہہ نکال تو نورے فٹ سے کھڑی ہو گئی ۔ ارزم تھوڑا سا گھوما اور موبائل سے ریکارڈنگ ان کر دی نہایت ہی چالکی‬
‫سے۔ نورے رو رہی تھی ۔ اپ یہاں یہ دیکھیں اپ نے میرے ساتھ کیا کیا ہے اگر اپ میری ماں نہیں تھی تو کیا اپ میری ماں بن‬
‫بھی نہیں سکتی تھی میں نے اپ کا کیا بگاڑا تھا ۔ وہ دوبارہ ہنسی ۔ اپ یہاں سے چلی جائیں اپ اور کیا چاہتی ہیں میری زندگی تو‬
‫اپ یوں ہی برباد کر چکے ہیں اب یہاں میری اخری سانسوں کا جائزہ لینے ائی ہیں ‪ ،‬اپ میری دشمن ہیں ۔ اور تمہارے بھائی کی‬
‫قاتل سفینہ بیگم بولی۔ نورے کو اپ سفینہ بیگم کے منہ سے یہ بات سن کر یقین ہو چکا تھا کہ واقعی سفینہ بیگم نے ہی جہانزیب‬
‫کو قتل کیا ہے تو انہوں نے پھر عادل صاحب کو بھی قتل کیا ہوگا ۔آ آ آ اپ یہ کیا کہہ رہی ہیں اپ نے ایسا نہیں ہو سکتا اپ نے‬
‫کیا کیا میرا بھائی کا کیا قصور تھا ؟ شششش سفینہ بیگم منہ پر انگلی رکھتے ہوئے بولی ‪ ،‬کوئی سن لے گا اہستہ بولو اور وہ‬
‫دوبارہ اونچی اونچی ہنسنے لگی ۔ نورے نے ان سے پھر اگلوانا چاہا ۔ بابا بابا کہاں ہے وہ اپ کو نہیں چھوڑیں گے ۔ تیرے باپ‬
‫کو بھی میں جائیداد کی خاطر ہاہاہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیرا باپ پھڑک چکا ہے ۔ کیا کیا مطلب ؟ مار ڈاال ۔ نہیں نہیں وہ زور سے چیخنے لگی یا‬
‫ہللا ایس پی صاحب دیکھیں میں نے کچھ نہیں کیا مجھے چھوڑ دے یہ اپ کے سامنے اعتراف جرم کر رہی ہیں تو اپ مجھے‬
‫کیوں نہیں چھوڑتے اب ان کو پکڑیں ۔ ہا ہا وہ مجھے کیا پکڑے گا میں اس کو پکڑ چکی ہوں ۔ م م مطلب ؟ مطلب یہ کہ اپ‬
‫قانون میرے ہاتھ میں ہے خرید چکی ہوں میں اس ایس پی کو بھی ہاں ہا ہا ۔۔۔۔۔ایس پی صاحب دیکھیں اپ کیسے ایسے کر سکتے‬
‫ہیں ۔۔۔۔۔ اولڈ کی تمیز سے بات کرو اور تم میرے لیے سونے کی چڑیا ہو اور میں تمہیں کیسے چھوڑ دوں ارزم نے نورے کو کہا‬
‫۔ ارزم کے یہ کہنے پر سفینہ اور ارزم دونوں ہنسنے لگے ۔ ہاں تو مسٹر ارزم تم میری مدد کیوں کرو گے سفینہ بیگم نے پوچھا ۔‬
‫بس میڈم پیسے کی ضرورت انسان سے بہت کچھ کروا سکتی ہے ۔ شاباش ‪ ،‬اس پر سخت کیس ڈالو نورے کی طرف اشارہ کرتے‬
‫ہوئے صفینہ بیگم بولی ۔ جی کیوں نہیں ۔ میڈم جتنا کام سخت کرو گے اس کے ساتھ اتنا پیسہ ملے گا مسکرایا ۔ صفینہ بیگم وہاں‬
‫سے جانے لگی اور اگے جا کر دو قدم کر کے چھپ گئی ۔ ارزم نے اس کو چھپتے ہوئے دیکھ لیا ۔ اب تمہارا کیا ہوگا لڑکی تم اب‬
‫مجھ سے بچ نہیں پاؤ گی ایسے کیس ڈالوں گا کہ تم کیس کے نیچے دبتی چلی جاؤ گے تمہیں اپنا سانس گھٹتا ہوا معلوم ہوگا ہا ہا ہا‬
‫۔۔اپ ایسا نہیں کر سکتے ‪ ،‬نورے کو کچھ گڑبڑ لگی ۔ میں ایسا ہی کروں گا ارزم نے جیل کی سالخوں کو زور سے پکڑتے ہوئے‬
‫کہا ۔ اور عرض ہم وہاں سے چال گیا سفینہ کو بھی یقین ہو گیا تھا کہ ارزم سچا ہیں۔ یہ لو پیسے سفینہ بیگم نے پیسے دیے تو‬
‫ارزم کہنے لگا میڈم ایک بات کہوں ۔ جلدی بولو ۔ میڈم اپ پیسے چاہے نہ دیں لیکن پلیز حریم کو چھوڑ دیں ۔ او ویسے حریم‬
‫تمہاری کیا لگتی ہے ؟ حریم میری کزن ہے ۔ اوکے چلو ٹھیک ہے حریم جلد تمہارے پاس ہوگی ۔ ارزم مسکرایا ۔ ارزم کرسی پر‬
‫بیٹھا تھکاوٹ کی وجہ سے سو گیا اور دو گھنٹوں بعد اس کی انکھ کھلی ‪ ،‬سپاہی کو اندر اواز دی اور پوچھا ٹائم کیا ہو رہا ہے ۔‬
‫صاحب چھ بج چکے ہیں اپ ایٹ لیسٹ تین گھنٹے سوئے ہیں ۔ مجھے تو دو گھنٹے لگا تھا چلو جن لوگوں کی چھٹی اس وقت کا‬
‫ٹائم ہو چکا ہے ان کو چھٹی دو اور اگلے بندے بھی حاضر کرواؤ ۔ یس سر اور وہ کہہ کر چال گیا ۔ یا ہللا نورے کہاں ہے ؟ اس‬
‫نے خود سے سوال کیا وہ ابھی تک وہاں یا میرے خدایا کیا سوچے گی وہ کہ کہیں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارزم اٹھا اور جیل کا دروازہ کھوال ۔‬

‫نورے فٹ سے اٹھی ارزم اپ میرے ساتھ ہیں یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔ارزم بوال تم میرے لیے پیسے کمانے کا واحد ذریعہ ہو اور ہاں خبردار‬
‫اگر تم نے کسی کو بتایا کہ تم میری بیوی ہو میں تمہیں بخشوں گا نہیں یاد رکھنا ۔ ارزم ۔ کیا ارزم ہے میں تمہارا کچھ نہیں لگتا‬
‫صرف اور صرف ایس پی صاحب بول کیا بولنا ہے وہ اونچی بوال۔ ایس پی صاحب نورے روتے ہوئے بولی ۔ ارزم باہر اگیا اور‬
‫نورے کی جیل بند کر دی اور نورے جیسے بے بسی کی عالم میں ارزم کی حرکتوں کو دیکھ رہی تھی ۔ انکھوں پر ہاتھ رکھ کر‬
‫انسو صاف کرنے لگا یا ہللا کیا تھا اگر وہ منحوس ایس ایچ او یہاں سے نہ گزر رہا ہوتا تو میں یہ ایکٹنگ کر کے نورے کو ڈراتا‬
‫تو نا کیا سوچے گی وہ میرے بارے میں اس نے میرے پر اتنا یقین کیا اور میں کیا کر رہا ہوں میری سمجھ سے خود باہر ہے یا‬
‫ہللا کیا ہو رہا ہے مجھے ارزم کی آنکھ میں پہلی دفعہ آنسو اس لیے آئے تھے کیونکہ اس کی وجہ سے نورے کی آنکھ میں آنسو‬
‫آئے تھے اور نورے کو لگا تھا کہ وہ دھوکے باز ہے ۔ سامنے سے ایس ایچ او دوبارہ ایا ارزم کسی کو کچھ نہیں بتانا چاہتا تھا ۔‬
‫السالم علیکم ایس پی صاحب سر کیا ہوا اپ کافی پریشان لگ رہے ہیں ۔ وعلیکم السالم کچھ نہیں تم بتاؤ کیسے ہو ۔ شکر ہے سر‬
‫اچھا چلو مجھے کام ہے میں چلتا ہوں ارزم یہ کہہ کر نورے کی جیل کے سامنے سے گزرا اور اس کو ایک نگاہ دیکھا وہ سرخ‬
‫ہوئی اس کو غصے کی انکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔ کیا یہ سب جھوٹ تھا میری مدد کرنا مجھ سے نکاح کرنا اس لڑکے کو گولی‬
‫مارنا یہ سب کیا تھا ارزم نورے خود سے باتیں کر رہی تھی ارزم اب دن رات نورے کی وجہ سے تھانے میں گزارنے کا عہد کر‬
‫چکا تھا ارزم کو اپنی امی کی کال ائی ۔ جی امی کیا ہوا ۔ بیٹا یہ تو تم مجھے بتاؤ گے کیا ہوا ہے ۔ کچھ نہیں امی کیوں ۔ تو اس‬
‫وقت کہاں ہو ۔ تھانے میں ۔ رات کے اٹھ بج رہے ہیں اور تم ابھی تک ائے نہیں گھر اور نورے کہاں ائے تمہارے ساتھ اب ایک‬
‫ذمہ داری بھی ہے ۔ امی اپ کو میں نے سارا کچھ بتایا ہوا ہے نا صفینہ بیگم وغیرہ کے بارے میں تو بس وہی ائی تھی ملنے تو‬
‫نورے کو جیل میں رکھنا پڑا میں نور ایکٹنگ کر رہے ہیں صفینہ بیگم سے سارا سچ اگلوانے کے لیے ۔ تو اپ کہاں پر ہو کب اؤ‬
‫گے ۔ امی ابھی مجھے کچھ نہیں پتا ابھی مجھے نورے کے ساتھ یہی رہنا پڑے گا شاید کل پرسوں تک میں گھر اؤں ۔۔۔اپنا اور‬
‫نورے کا خاص طور پر دھیان رکھنا اور میں صبح ناشتہ بھجوا دوں گی یاد رکھنا میں نے کی ہے نا ٹھیک ہے ۔ جی ٹھیک ہے ہللا‬
‫حافظ ۔ ارزم کھڑے ہو کر اپنی امی سے بات کر رہا تھا تو ابھی وہ بیٹا ہی خون بند کر کے کہ ساتھ ہی سفینہ بیگم کی کال ا کھڑی‬
‫ہوئی ۔ اس منہوس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے ارزم نے کال اٹھائی ۔ جی سفینہ بیگم ۔ حلیم کو چھوڑ دیا ہے میں نے‬
‫اچھا تو اپ ایسا کیجئے کہ اپ حریم کو تھانے بھجوا سکتی ہیں ۔ کوئی خاص وجہ ۔ ارزو کو لگا کہ وہ کوئی غلطی کر بیٹھا ہے‬
‫لیکن اس نے بات سنبھالنے کے لیے کہا وہ ایکچولی ابھی تک کسی کو نہیں پتہ کہ حریم اغوا ہوئی تھی وہ صرف میں ہی جانتا‬
‫ہوں تو پلیز اپ یہاں پر ہی بھجوا دیں میں نے یہی بتایا ہے کہ وہ میرے ساتھ ہے ۔ ٹھیک ہے فون بند کرو ۔ ارضم نے فون بند‬
‫کیا کچھ دیر بعد ایک تھانے کے باہر گاڑی ائی گاڑی کا دروازہ کھال حریم تھانے کے اندر گئی ارزم جو کہ کرسی پر بیٹھا تھا ۔‬
‫اٹھا اور شکر کا کلمہ پڑھا کہ تم واپس اگئی ہو ۔ بھائی نوڈے کا کچھ پتہ ہے حریم کی زبان پر نہ سالم تھی نہ دعا بس یہی فقرہ تھا‬
‫کہ اپ کو نورے کے بارے میں کچھ معلوم ہے یا نہیں ۔ ہاں وہ اندر جیل میں ہے ۔ کیا جیل لیکن بھائی وہ کیوں ؟ تم ایسا کرو اس‬
‫سے مل لو تاکہ وہ تمہیں سب کچھ بتا سکے میں تھک چکا ہوں سب کو بتا بتا کے اور تمہارے چکروں میں سفینہ بیگم کو کال کر‬
‫کر کے اور ان کی کال سن سن کے پلیز تم جا کے خود سن لو ۔ جی میں اتی ہوں وہ اٹھی تو ارزم نے اواز لگائی اگر کوئی پاس‬
‫سپاہی گزرے تو خاموش ہو جانا ۔ لیکن کیوں؟ حریم تم میں جتنا کہا کروں اتنا کیا کرو تم بہت سوال کرتی ہو وہ غصے سے بوال‬
‫‪ .‬وہ منہ پہ چھوڑتے ہوئے فوراً نورے کی جیل کی جانب چلی گئی ۔ نورے اپنی جیل میں بیٹھی مسلسل رو رہی تھی ۔ نورے‬
‫میری جان! حریم کے لیے جیسے نورے میری جان کہنا ہی اس کا ایک مکمل نام تھا وہ نورے جنت کم اور نورے میری جان‬
‫زیادہ کہا کرتی تھی ۔ حریم کی آواز سن کر نورے چونک کر کھڑی ہو گئی اور جیل کی سالخوں میں سے ہی حریم کو گلے لگا‬
‫لیا ۔ ارزم خود بھی ان کے پاس گیا لیکن ان دونوں کو گلے لگتا اور روتا دیکھ کر خاموشی سے ان کی باتیں سننے لگا ایک‬
‫دوسرے کونے میں کھڑا ہو کر ۔ تمہارا کزن بہت برا ہے بہت زیادہ بہت زیادہ بہت زیادہ ۔۔۔۔۔ ہوا کیا ہے بھائی نے کہا ہے کہ میں‬
‫تم سے پوچھوں ۔ اس نے وہ رونے لگی ۔۔نورے نورے نورے بعد مکمل کرو مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے ۔ تمہارے اس دو نمبر گھٹیا‬
‫کزن نے مجھ سے دھوکے سے شادی کی ۔ کیا ؟ ہاں وہ دو نمبر تھا واقعی اس دو نمبر شخص نے مجھ سے نکاح کیا میرا ساتھ‬
‫دینے کا دو نمبری واال وعدہ کیا اور پھر مجھے ایکٹنگ کرنے کا کہا تاکہ ہم سفینہ بیگم کو پکڑیں اور سزا دالئیں ۔ ت تو ؟ تو کیا‬
‫میں نے بات مان لی اور جیل کی سالخوں کے پیچھے ائی لیکن ۔ لیکن کیا ؟ وہ تو پیسوں کی اللچ میں رشوت کی اللچ‬
‫میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں اج یہاں ہوں تمہارے کزن سے گھٹیا شخص نہیں دیکھا وہ ایک بے ادب بد لحاظ دھوکے باز اور دو نمبر ادمی‬
‫ہیں اس دفعہ نورے چیخی کی تھی ۔ ارزم کو نہایت غصہ ارہا تھا لیکن وہ خاموشی سے باتیں سن رہا تھا کیونکہ نورے بھی اپنی‬
‫جگہ غلط نہ تھی اور اس کا غصہ تو ویسے بھی ساتویں آسمان کو ہی چھوتا تھا ۔ حریم نے نورے کا منہ پکڑا اور اس کو کہا نہیں‬
‫یار میں کرتی ہوں بھائی سے بات شاید وہ ایسا نہ کرنا چاہتے ہو کسی وجہ سے کر رہے ہوں تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی‬
‫بھائی ایسے نہیں ہے میں ان کو جانتی ہوں ۔ میں تم سے بہتر اس شخص کو جان چکی ہوں وہ بہت ہی برا شخص ہے تم بھی اسے‬
‫دور رہو وہ تمہیں بھی پھنسا ڈالے گا ۔ اج میں یہاں ہوں تو صرف اور صرف تمہارے اس کزن کی وجہ سے ہمارا کوئی رشتہ‬
‫نہیں ہے بس تو میری قیدی ہو پتہ ہے اس نے مجھے یہ الفاظ کہے ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا کہتا کہ مجھے کہا کہ مجھے ایس پی‬
‫بالؤ ‪ ،‬اور اور مجھے کہتا کہ تم میرے لیے سونے کی چڑیا ہو پیسے کمانے کو واحد ذریعہ ہو تو اب میں کیا اس کو سمجھوں‬
‫ایک دھوکہ یا اتفاق ۔ حریم حیرت زدہ ہو رہی تھی پھر حریم بولی ۔ پھر کیا میں ڈوب چکی ہوں میرے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا ۔‬
‫لیکن تم نے ارزم بھائی سے نکاح کیوں کیا اور کب کیا ۔ جب تم اگوا ہوئی تو کوئی نہیں تھا کچھ بھی میرے پاس نہیں تھا میں بے‬
‫سہارا تھی رہنے کو چھت تک نہ تھی تو میں کیا کرتی پھر تمہارے بھائی نے مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھ سے نکاح کیا‬
‫اور اپ مجھ سے پیسے کما رہے ہیں دھوکے سے تم تم کہتی تھی کہ نا کہ وہ دو نمبر نہیں ہیں ان کو دو نمبر ناکہو ‪ ،‬وہ دو نمبر‬
‫ہیں انگلی کے اشارے سے نورے نے کہا وہ بھی چیختے ہوئے ۔ میں میں اتی ہوں حریم ارزم سے پوچھنے جانے لگی ۔ ن ۔ ن ۔‬
‫نہیں تم پلیز مت جاؤ مجھے یہاں پہ گھٹن ہو رہی ہے میرا سانس بند ہو رہا ہے یہاں پہ مجھے پلیز یہاں سے نکلواؤ کسی طرح‬
‫پلیز ۔ رکو پہلے ان سے ذرا پوچھ کر اتی ہوں کہ انہوں نے تمہارے ساتھ یہ سب کیوں کیا ہے ؟ حریم گزر گئی ارزم کے سامنے‬
‫سے لیکن اس کو ارزم نظر نہ ایا کیونکہ وہ ایک کونے میں تھا حریم فوراً کمرے میں گئی تو ارزم پیچھے ہی اگیا ۔ بھائی یہ اپ‬
‫نے کیا کیا ؟ کیا یہ واقعی سچ ہے کہ اپ نے واقعی نورے سے دھو کے شادی کی اور اب اسے پیسے کمانا چاہتے ہیں ؟ ایسا کچھ‬
‫نہیں ہے وہ رعب دار اواز میں بوال ۔ اپ کو شرم نہ ائے کسی بن ماں باپ کی بچی کے ساتھ ایسا کرتے ہوئے اپ کتنے برے ہیں‬
‫اور ذلیل قسم کے ۔۔۔۔ بس ارزم چالیا ۔ ہمت نہ کرنا ائندہ اس لہجے میں مجھ سے بات کرنے کے لیے تو تمہاری زبان کھینچ لوں گا‬
‫میں تمیز کے دائرے میں رہو تم ‪ ،‬میں صرف ایکٹنگ کر رہا تھا ۔ اکیلے میں بھی واہ!!! وہاں سے ایس ایچ او گزر رہا تھا اور‬
‫ایک دفعہ سفینہ بیگم مجھے ٹیسٹ کرنے لگی تھی اور اگے جا کر رک گئی تب مجھے پتہ چل گیا تھا اس لیے تب بھی ایکٹنگ‬
‫کرنے لگا ۔ کیا کیا واقعی بھائی۔۔۔۔۔ نا میں کبھی رشوت خور تھا اور نہ ہوں ۔۔۔ بھائی بھائی ایم ریلی سوری میں نہیں جانتی تھی۔‬
‫بات کی تحقیق کیے بغیر بات کو اگے بڑھانے واال انسان میرے لیے ایک بہت بڑا مجرم ہے ‪ ،‬تم مجھ سے ا کر تمیز سے بھی‬
‫پوچھ سکتی تھی لیکن تم نے نہیں پوچھا دل تو چاہا تمہارے منہ پہ زوردار لگاؤں ۔ ائ ایم سوری ۔ تم صرف نورے کی وجہ سے‬
‫پریشان تھے اس لیے تمہیں بخش رہا ہوں ۔ بھائی ایٹ لیسٹ نورے کو تو بتائیں وہ بیچاری اتنی پریشان ہے ‪ ،‬حریم نورے کو‬
‫بتانے جانے لگی ۔ ارزم بوال رک جاؤ خبردار اگر تم گئی اس کی زبان تو ہم نے دیکھی کتنی لمبی ہے کس طرح ان چونچی چیخ‬
‫چیخ کر مجھے گھٹیا تو پتہ نہیں کیا کیا بول رہی تھی دھوکے باز کہہ رہی تھی تو کبھی کچھ کہہ رہی تھی بالکل نہیں جاؤ گی تم‬
‫وہاں پہ ۔ بھائی وہ پریشان تھی وہ اس لیے ایسا بولی ۔ بڑی نرالی دوست ہے ویسے تمہاری اتنی نازک صورتحال میں بھی غصہ‬
‫کر رہی ہے یہ نہیں کہ وہ چپ کر کے معصوم سی شکل بنا کے بیٹھ جائے کہ مجھے اس پہ ترس آ جائے ال کہ اس کی اکڑ ختم‬
‫ہو جائے ۔ بھائی وہ اکڑ نہیں ہے اس کا لہجہ یس ہے وہ ایسے ہی ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد زبانی کی وجہ سے اس کو تھوڑا یوں‬
‫ہی رہنے دو ۔ لیکن ۔۔ لیکن ہم اس کے ساتھ ہیں میں نے ساری ریکارڈنگ کر لی ہے اور اب بس تمہاری ویڈیو بنانی ہے ۔ اچھا‬
‫اور پھر ۔ پھر جب مجھے مناسب لگے تو میں نورے کو سب کچھ بتا دوں گا اور میں کوئی غلط کام نہیں کر رہا تم اس کی فکر نہ‬
‫کرو ۔ حریم تم اب گھر چلی جاؤ اور سب کو یہی بتانا کہ تم میرے ساتھ ہی تھی ۔ جی بھائی اور حریم گھر چلی گئی ارزم وہی‬
‫چکر کاٹنے لگا اور نورے نے باہر ایک سپاہی کو پکارا ۔ مجھے ایس پی سے بات کرنی ہے ایس پی کو بال دیں ۔ وہ سپاہی‬
‫نورے کے بار بار اصرار کرنے پر گیا اور بوال سر اپ کو قیدی نورے جنت بالتی ہے ‪ ،‬بار بار تنگ کر رہی ہیں ۔ اچھا تم یہاں‬
‫رکو میں دیکھتا ہوں کیا مسئلہ ہے اس کو۔ اچھا تم یہاں رکو میں دیکھتا ہوں کیا مسئلہ ہے اس کو ؟ عرض ہم نے دروازہ کھوال‬
‫جیل کی سالکھوں کا تو بیٹھی ہوئی نورے فوراً کھری ہو گئی ۔ ہاں تم نے بالیا تھا ۔ جی میں نے بالیا تھا لیکن اندر آنے کا نہیں‬
‫کہا تھا ۔ نورے نے نڈر ہو کر بولی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫یہ لہجہ کہیں اپ کو مشکل میں نہ ڈال دے ۔ جو جیسا ہوگا اس کے ساتھ نورے جنت عادل حیات ویسا ہی کرے گی ‪ ،‬وہ لفظ تم‬
‫نے سنا ہی ہو گے نا جیسے کو تیسا تو تمہارے ساتھ میں وہی کروں گی انگلی کے اشارے سے وہ بتا رہی تھی ۔ اس کی انکھوں‬
‫میں انسو ا رہے تھے لیکن نڈر بننے کی ناکام کوشش بھی کر رہی تھی ۔ تم اتنا ریڈر نہ بنو یہ والی ایکٹنگ تم سے ہو نہیں رہی ‪،‬‬
‫اچھا ویسے یہ بتاؤ مجھے یہاں بلوایا کیوں تھا ۔ تصحیح فرما لیجئے جناب اپ کو میں نے یہاں اندر نہیں باہر بلوایا تھا مجھے جان‬
‫نماز چاہیے تھی ۔ ارزم باہر گیا اور باہر جان نماز لے کر کسی کو باہر نہ پا کر اندر ایا اور نورے کو جائے نماز تھما دی ۔ اور‬
‫بوال یہ لو ۔ نورے نے جائے نماز پکڑی وضو اس نے پہلے ہی کیا ہوا تھا اس لیے نماز پڑھنے لگی جیسے وہ روزانہ نماز پڑھتی‬
‫تھی ۔ ارزم اس کے پیچھے وہی دیوار کے ساتھ بیٹھ گیا لیکن یہ بات نورے نہیں جانتی تھی ۔ نماز مکمل کر کے نورے دعا کرنے‬
‫لگی اور اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ ارزم پیچھے ہی ہے ۔ اے میرے ہللا اے اس دنیا کے خالق و مالک ‪ ،‬اس دنیا کو بنانے والے ‪،‬‬
‫اس دنیا اور بشر اور حشر کے دن کے مالک ‪ ،‬اے میرے پاک پروردگار ‪ ،‬اے میرے رحمان پروردگار ‪ ،‬اے مدد کرنے والے‬
‫پروردگار ‪ ،‬اے عاجزی قبول کرنے والے پروردگار ‪ ،‬اے ہزار دفعہ معافی اور توبہ قبول کرنے والے پروردگار ‪ ،‬میں اپ سے‬
‫اپنی گناہوں کی معافی طلب کرتی ہوں مجھے معاف فرما دیں ۔ یا ہللا میرا اپ کے سوا کوئی نہیں یا ہللا جب مجھے روشنی کی‬
‫کوئی کرن نظر اتی ہے تو وہ کرن رات کے تیسرے پہر کی طرح اندھیرے میں بدل جاتی ہے اور میں پیچھے ایک نابینا شخص‬
‫کی طرح رہ جاتی ہوں جس کو پہلے ہی کچھ نظر نہیں ا رہا ہوتا اور بعد میں بھی وہ بے بس ہوتا ہے ۔ یا ہللا اس بے بسی کے‬
‫عالم میں میں اپ سے دعا کرتی ہوں ۔ یا ہللا یا ہللا میری مدد فرما دیجیے میں ایک عام بن گئی ہوں میں اب مزید یہ برداشت نہیں‬
‫کر سکتی میں کوئی ولی اولیاء نہیں ہوں موال ‪ ،‬میں نہیں چاہتی کہ اپ میرے صبر کا امتحان لے اور میں اس امتحان میں ہار کر‬
‫اپ کو بھگو ڈالوں کیونکہ میرے پاس اپ کے سوا کچھ نہیں ہے ‪ ،‬ہللا تعالی جی پلیز فارگو می ‪ ،‬میں نہیں جانتی کہ جو سب میرے‬
‫ساتھ ہو رہا ہے وہ کوئی ازمائش ہے یا میرے گناہوں کی سزا ۔ ہللا یا ہللا میں تو نیک بھی نہیں اتنی جو میں اس کو ازمائش‬
‫سمجھوں اور یا ہللا میں نے نہیں کبھی غلط کیا تو کیا یہ اس پر سزا سمجھوں یا ازمائش ‪ ،‬ہللا بس میرا یہ امتحان اب ختم کر دے‬
‫میں نہیں چاہتی اپ کو کھونا اس امتحان میں پورا نا اتر کر ‪ ،‬ہللا تعالی جی اپ میری مدد نہیں کریں گے تو کون کرے گا اپ ہی تو‬
‫ہیں جو مدد کرتے ہیں جو دن کو رات میں بدلتے ہیں اور رات کو دن میں صبح سے شام بھی کرتے ہیں ‪ ،‬ہللا تعالی جی اپ کی‬
‫نظر میں تو تمام انسان برابر ہے یا ہللا میں اپ سے عاجزی اور انکساری کے ساتھ دعا مانگتی ہوں میری مدد کیجئے میں بے بس‬
‫ہوں میں جھانزیب اور اپنے بابا کی موت کا بدلہ لینا چاہتی ہوں اور کوئی ایسا وسیلہ بنا دیجیے جس سے میں یہ سب کچھ حاصل‬
‫کر سکوں ‪ ،‬ہللا تعالی میں بے بس ہوں میرے دل کو سکون عطا فرما دے میرا میرا اپنے پر یقین مزید بڑھا دے ‪ ،‬ہللا تعالی جی اپ‬
‫ہیلپ نہیں کریں گے تو کون کرے گا میں اپ سے مدد نہیں مانگوں گی تو کس سے مانگوں گی صرف اپ ہی سے تمہیں مدد‬
‫مانگتی ہوں اور مدد چاہتی ہوں ۔ یا ہللا میری مدد فرمائے اپ کے سوا میری کوئی مدد نہیں کر سکتا بلکہ بے شک سب سے بڑھ‬
‫کر اپ فرما نے والے ہیں ۔ اور پھر نورے نے دعا کا اختتام درود ابراہیمی سے کیا اور جائے نماز اٹھا کر جب مڑی تو ارزم اس‬
‫کی دعا سن کر افسردہ ہو رہا تھا گھٹنوں پر سر رکھ کر ۔ ا ا ا ارزم میرا مطلب ایس پی صاحب اپ یہاں کیا۔۔ اپ سب کو سن‬
‫چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نورے جنت اپ کتنی پیاری دعا کرتی ہیں ‪ ،‬ہللا سے کسی کی شکایت بھی نہیں کرتی نہ کسی قسم کا گال ۔ میں میں بھال کون ہوتی‬
‫ہوں ہللا سے شکایت یا گال کرنے والی لیکن اپ کو کیا ہوا ہیں ؟ نورے مجھے معاف کر دو میں نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا‬
‫اس دن سفینہ بیگم تھوڑا اگے جا کر ہماری ساری باتیں سننے کی کوشش کرنے لگی تھی تو مجھے معلوم ہو گیا تھا وہ راز فاش‬
‫کرنا چاہ رہی تھی وہ دیکھنا چاہ رہی تھی کہ ہم دونوں سچے ہیں یا نہیں تو اس لیے میں ایکٹنگ کرنے لگا اور جب میں دوبارہ‬
‫واپس ایا تھوڑی دیر بعد تو وہاں سے ایس ایچ او گزر رہا تھا میں تمہیں بتانے ایا تھا کہ میں تب ایکٹنگ ہی کر رہا تھا لیکن وہاں‬
‫سے ایس ایچ او گزر رہا تھا اور جب میں نے سفینہ بیگم کو بھیجا تھا تب میری تھکاوٹ کی وجہ سے انکھ لگ گئی تھی میرا یقین‬
‫کرو میں سچ کہہ رہا ہوں مجھے اس لیے یہ سب کچھ کرنا پڑا میں کیا کرتا اب موقع مال ہے بتانے کا تو اب بتا رہا ہوں میری بات‬
‫کا یقین کرو ‪ ،‬ارزم کی آنکھ میں آنسو تھے ۔ اچھا میں یقین کرتی ہوں لیکن اپ اپنی انکھوں سے یہ انسو صاف کریں ۔ ارزم بوال‬
‫یہ انسو نہیں ہے یہ بس پانی ہے میں روتا تو نہیں ہوں ۔ وہ نورے کو ٹالنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن نورے تو جانتی تھی ۔ اچھا‬
‫اچھا بس بابا اپ اتنا مت سوچیں ٹھیک ہے پانی ہوگا کچھ چال گیا ہوگا اپ کی انکھ میں ۔ شکر ہے ہللا کا ایک اسالمی بیوی ملی تم‬
‫فکر نہ کرو ہم دونوں مل کر تمہیں تمہارے بھائی بابا کو انصاف دالئیں گے اور نورے اب جانتی ہو اپ کتنی نیک ہو بہت پاکیزہ‬
‫بہت اچھی لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اپ خود کو نیک کیوں نہیں کہتی۔ مجھے صحیح سے تو یاد نہیں لیکن ہللا تعالی نے فرمایا ہے کہ اگر‬
‫کسی کے دل میں رائی کے ذرے کے برابر بھی تکبر ہوا کسی اچھی چیز کا تو اس کی نیکیاں مٹ جائیں گی ‪ ،‬اور اگر واقعی‬
‫میں نیک ہوں یا پاکیزہ ہوں تو یہ میرے ہللا سے بہتر کون جان سکتا ہے تو میں کون ہوتی ہوں اپنے اپ کو نیک کہنے والی کیا پتہ‬
‫میں اپنے اپ کو یوں نیک کہتے کہتے تکبر کر بیٹھوں نورے نے ارزم کی بات کا جواب دیا ۔ لیکن تم تہجد پڑھتی ہو پانچوں‬
‫نماز باقاعدگی سے قران باقاعدگی سے یہاں تک کہ تم مجھے بھی اتنی اچھی باتیں بتاتی ہو نورے جنت اگر میرا بیہیویئر تمہیں برا‬
‫لگا اور میں تمہیں دھوکے باز دگا باز دو نمبر گھٹیا لگا ہوں تو مجھے معاف کر دینا ۔۔۔۔۔۔۔۔تم سے شادی بس تم کو انصاف دالنے‬
‫کے لیے گئی تھی نہ کہ کسی رشوت کے چکر میں وہ ایکٹنگ ہی تھی اور ایکٹنگ ہی رہے گی ‪ ،‬نورے یاد رکھنا میری اگلی‬
‫سات نسلیں بھی نہیں رشوت لیں گی انشاءہللا اور نہ میری پچھلی نسلوں نے لیا تو میں کیسے لے سکتا ہوں مجھے میری ماں نے‬
‫یہ کہا تھا کہ میں دھوکہ نہ دھوم تمہیں اور تمہارے سمجھانے کے بعد میں اپنی ماں سے کیا ہوا وعدہ بھی نہیں توڑ سکتا اور‬
‫تمہیں کیسے لگا کہ میں یوں نکاح کو مذاق سمجھوں گا۔ ہللا تعالی کے فیصلے سے ہی تو ہم دونوں نے نکاح کیا اتنے پاکیزہ‬
‫رشتے میں بندھے اور یہ رشتہ تو ہللا تعالی کے نزدیک اتنا پسندیدہ ہے تو میں ایک عام عاجز بندہ ہو کر اس کو مذاق نہیں بنا‬
‫سکتا نورے سارے رشتے دنیا میں ہللا انسان کی پیدائش سے پہلے ہی بناتا ہے صرف ایک واحد میاں بیوی کا رشتہ ہے جو کہ‬
‫انسان دنیا میں ا کر خود بناتا ہے وہ بھی ہللا کی رضا تمہیں معلوم ہے میں اج زندگی میں تیسری دفعہ رویا اور دو دو دفعہ‬
‫تمہاری وجہ سے اور ایک وجہ کسی اور وجہ سے۔ کیوں میں نے کیا کیا اور پہلی دفعہ کیوں میری وجہ سے یعنی دو دفعہ میری‬
‫وجہ سے کیوں ؟ جب تمہاری انکھ میں میری وجہ سے انسو ایا اور تمہیں ڈر لگا کہ تم شاید دوبارہ ایک نئے گڑھے میں گر گئی‬
‫ہو جب میں نے تمہیں ڈرایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا نورے جنت میں یہ نہیں کرنا چاہتا تھا اور میں دو نمبر ادمی‬
‫نہیں ہوں۔ م۔ م میں جان چکی ہوں اور یہ کبھی نہ سمجھنا کہ میں نورے جنت کو کسی کے سہارے کی ضرورت ہے سوائے ہللا‬
‫کے اب جب مجھے لگا تھا کہ اپ مجھے چھوڑ چکے ہیں یا اپ بھی دھوکے باز دو نمبر نکلے ہیں تو میں نے ہللا کے سامنے اپنا‬
‫معاملہ رکھ دیا اور دیکھیں ہللا نے کتنا اچھا انصاف کیا میرے ساتھ انشاءہللا ہللا میرے ساتھ اگے بھی اچھا کرے گا ۔ تم کبھی فکر‬
‫نہ کرنا میں تمہارے ساتھ ہوں اور ہاں تم نورے جنت عادل حیات تو تھی لیکن اب نورے جنت ارزم زاویار ہو ۔ وہ دونوں اس بات‬
‫پر ہنسنے لگے ۔ یاد رکھنا تم اب یہی ہو ‪ ،‬اگر کوئی مسئلہ ہو تو مجھے بتانا ۔ اب تم گھر چلے جاؤ گے ۔ نہیں بھال میں کیسے جا‬
‫سکتا ہوں میں خود بھی تمہیں یہاں رکھنا نہیں چاہتا تم جیسی لڑکیوں کو یہاں نہیں الیا جاتا بلکہ ہللا کے گھر کی زیارت کروانے‬
‫لے کر جایا جاتا ہے ۔ کوئی بات نہیں ہللا تعالی کو منظور ہوا تو وہاں بھی جائیں گے ۔ بس یہ سفینہ کا کام تمام کر کے انشاءہللا ۔‬
‫۔۔۔۔۔۔نورے ہنسی اور ارزم باہر نکال اور چال گیا ۔ نورے نے شکر کا کلمہ ادا کیا کہ وہ تنہا تو نہیں ہے ہللا نے اس مدد کی ہے ‪،‬‬
‫بے شک دعا میں بہت طاقت ہے اور وہ بیٹھ کر تسبیح پڑھنے لگی ۔ ارزم نے باہر جا کر سفینہ کو کال کی ۔ سفینہ بیگم اب کیا‬
‫کرنا ہے ۔ تو میری بات غور سے سنو ایک مسئلہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مجھے جانا پڑ رہا ہے ملک سے باہر ۔ کیسا مسئلہ‬
‫؟ ایکچولی میرے بچے امریکہ میں ہیں ایک کی شادی ہے تو مجھے اس کی شادی کروانے جانا ہے ۔ کیا مطلب سفینہ بیگم اپ‬
‫کے بچے اور امریکہ یہ کیا بات ہوئی ۔ رکو ذرا یہ میں تمہیں کیوں بتا رہی ہوں سفینہ بیگم نے شاید خود سے ہی اونچی اواز میں‬
‫سوال کیا تھا ۔ ارزم اسے اگلوانے کے لیے بوال اپ مجھے یہ اس لیے بتا رہی ہیں تاکہ میں کیس کو سنبھالوں اس لیے اپ مجھے‬
‫بتا دیں کہ کیا معاملہ ہے تاکہ میں یہاں پہ کیس کو اتنا ہی لٹکاؤں ۔ اچھا صفینہ بیگم کو سمجھ ایا‪ ،‬سنو پھر میرے بچے امریکہ میں‬
‫ہیں عادل صاحب سے میری دوسری شادی ہوئی تھی پہلے مجھے طالق ہو گئی تھی ‪ ،‬میرے شوہر پہلے والے نے میرے بچوں‬
‫کو پاال تھا اور اب ان کی شادی کا معاملہ ہے تو میرا جانا ضروری ہے ۔ ارزم چونک چکا تھا لیکن اس نے پوچھنا چاہا سفینہ بیگم‬
‫اپ کب تک ائیں گی میں یعنی کیس کو ک کب تک لٹکاؤں ۔ تھوڑی دیر لگ جائے کہ مجھے تقریبا شاید چھ ماہ تک اگر ٹائم مزید‬
‫لگا یا کم لگا تو میں تمہیں بتا دوں گی میری اج رات کی فالئٹ ہے ٹھیک ہے لیکن یاد رکھنا ہے نورے جیل سے نہ کہیں جائے‬
‫میں تمہیں یاد رکھنا جان سے مار ڈالوں گی اگر کچھ ایسا ہوا تو ۔۔۔۔۔ جی ٹھیک ہے‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ارزم نے کال بند ہونے پر فوراً حمدان کو کال لگائی اور بوال یار مجھے صفینہ کا فون ایا تھا وہ اپنے سابقہ شوہر کے بچوں کی‬
‫شادی کرانے باہر کے ملک جا رہی ہے تو کم از کم چند ماہ کیلئے ہم کیس روک سکتے ہیں ۔ اچھا ۔ تو تم ایک کام کرو ایک قابل‬
‫اعتبار بندہ یہاں بھیجو تاکہ وہ یہاں رہے اور یہاں رہ کر مجھے ڈیٹیل دیتا رہے اب میں نورے کو لے کر گھر جانا چاہوں گا اس‬
‫لیے ۔ ٹھیک ہے یار میں بھیج دیتا ہوں لیکن انسان کبھی اپنے دوست کو ویسے بھی یاد کر لیتا ہے یا تو تم میرے پاس سیگرٹ‬
‫پینے اتا تھا اور یا ں تجھے میرے سے کوئی کام ہوتا تو مجھے کال کھڑکا دیتا ہے ۔ یار بہت بزی ہوں میں اج کل چل تو میرا کام‬
‫کر دے پلیز ۔ اچھا صبر کر ابھی تھوڑی دیر میں بندہ ا جائے گا ۔ ٹھیک ہے خدا حافظ ۔ ہللا حافظ ۔‬
‫السالم علیکم سر ! وعلیکم السالم کون ارزم کرسی پر ٹیک لگا کر انکھیں بند کر کے بیٹھا تھا جو کہ اس کے اسالم کرنے پر اٹھا‬
‫اور چونکا ۔ سر ہمدان نے بھیجا ہے اس کا ایک مدت پرانا دوست ہوں ویسے سر بڑی ایڈونچر فول الئف چل رہی ہے اپ کی ۔‬
‫لگتا ہے سب کچھ بتایا ہے اس کھانے نے ارزم نے اہستہ سے بر بڑھایا ۔ ہاں تو سر نا چیز کا نام نزاکت علی ہے نا اچھا تو‬
‫نزاکت علی سب کچھ تو تم جانتے ہو گے ۔ ابھی تک اپ کو میری باتوں سے معلوم نہیں ہوا ۔ ہو گیا ہے معلوم تو یہ بھی جانتے ہی‬
‫ہو کہ اگے کیا کرنا ہے ۔ جی سر جی میں سب جانتا ہوں کیا کرنا ہے ۔ نمبر دو اپنا کنٹیکٹ کرنے کے لیے ۔ استغفر ہللا اتنی رات‬
‫کو اب میرا نمبر مانگ رہے ہیں کچھ تو خیال کریں ویسے کب کال کریں گے اس نے بھویں اٹھاتے ہوئے بوال ۔ ضرورت کے‬
‫وقت ارزم نے ڈائریکٹ منہ پر جواب دیا ۔ ہللا اکبر اے خدا تیری دنیا میں کہاں سے مطلبی لوگ ا جاتے ہیں ہائے میں ایک‬
‫معصوم باقی سب مطلبی ‪ ،‬چلیں پھر بھی اپ نمبر لکھ لیں ۔ ارزم حیران تھا کہ یہ بندہ پہلی مالقات میں اتنا فرینک ہے بعد میں تو‬
‫یہ سر پر چڑھ جائے گا اور کیا پتہ ناچنا شروع کر دے ۔ ارزم کو نزاکت نے نمبر نوٹ کروایا ۔ چلو تم یہاں بیٹھو میں جا رہا ہوں‬
‫اور اب سب تم سنبھالو گے ۔ جیسا اپ کہیں سر ۔ ارزم گیا نورے کی جیل کھولی نورے اٹھو اور گھر چلو ۔ لیکن ۔۔۔ لیکن ویکن‬
‫چھوڑو چلو یار ارزم نے اس کا ہاتھ پکڑا گاڑی میں بٹھایا اور سکون کا سانس لیا۔ اب یہ کیا ہے نورے نے تھکے ہوئے لہجے‬
‫میں بوال ۔ یار میری بات سنو صفینہ بیگم امریکہ جا رہی ہے ۔ اس لعنتی عورت کو ابھی تک سکون نہیں مال میرے باپ کے‬
‫پیسوں پہ عیاشی کر رہی ہے سمجھتی کیا ہے وہ خود کو نورے غصے میں بولی ۔ ابھی پوری بات تو سنو میری ۔ نورے ارزم کو‬
‫حیرت سے دیکھنے لگی ۔ سفینہ بیگم کے اصل بچے بھی ہیں جو کہ امریکہ میں ہیں ۔ کیا ؟ ہاں تمہارا سوتیلے بہن بھائی اس‬
‫نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بولی دفعہ دور لعنت پور ۔۔۔ ارزم ہنسا اور بوال نورے تمہارے باپ سے شادی سے پہلے سفینہ بیگم‬
‫کے اصل بچے امریکہ میں ہیں ان کو طالق ہو گئی تھی اور وہ تمہارے باپ کے ساتھ بیاہی گئی تھی ‪ ،‬اب وہ اپنے ایک بچے کی‬
‫شادی کروانے گئی ہیں چند ماہ تک ائیں گی ۔ یہ خود کو سمجھتی کیا ہے ہللا اکبر کبھی انہوں نے ہمیں بتایا بھی نہیں یہ کیا چیز‬
‫تھی نورے نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے خود سے بات کی ۔ اچھا ہے ہم مزید ثبوت ڈھونڈ لیں گے ان کے خالف ۔ وہ تو ٹھیک‬
‫ہے لیکن کیا عورت تھی یہ کیا دشمن تھی اس کو میرے بھائی سے یوں ہی کہہ دیتی کہ جائیداد دے دو قسم خدا کی میں سب کچھ‬
‫دے دیتی ہے لیکن اپنا بھائی نہ دیتی ۔ چلو اب ڈونا مت یہاں پر ہم نے گھر جانا ہے سکون سے سونا ہے ٹھیک ہے ۔ اچھا‬
‫وہ دونوں گھر پہنچے کافی رات کی وجہ سے کوئی نہیں اٹھا تھا صبح فجر کا وقت تھا لیکن نورے نہیں سوئی نور نے فجر پڑھی‬
‫ارزم بھی فجر پڑھنے چال گیا ‪ ،‬نورے نے معمول کے مطابق ہی ہوئی شور کرتے ہوئے نماز ادا کی قران پڑھا اور پھر اس نے‬
‫انکھ لگائی ۔ تقریبا ً نو بجے نورے کی انکھ کھلی لیکن اس نے بستر پر ارزم کو نہ پایا وہ حیران ہوئی کہ پوری رات کے جاگے‬
‫ہوئے ہم دونوں لیکن وہ اس وقت کہاں گیا ہے ۔ وہ باہر گئی ارزم کی ماں کو سالم کیا۔ وعلیکم السالم بیٹا ‪ ،‬وہ دونوں کچن میں‬
‫تھی ۔ انٹی کوئی ہیلپ چاہیے۔ ہاں بیٹا اگر اپ اٹھ گئی ہو تو انڈے فرائی کر دو ۔ جی انٹی میں کر دیتی ہوں نورے انڈے فرائی کر‬
‫رہی تھی تو اس نے ارزم کی ماں سے سوال کیا انٹی ؟ جی ۔ ارزم کہاں پر ہے ؟ بیٹا مجھے نہیں پتہ کمرے میں نہیں ہے کیا ؟‬
‫نہیں پتہ نہیں کہاں گیا ہے ؟ ایک تو یہ لڑکا بھی نا ۔ فکر نہ کریں ا جائیں گے چھوٹے بچے تھوڑی ہیں وہ ۔ نورے اور اس کی‬
‫ساس ناشتہ کرنے ٹیبل پہ بیٹھے کہ اشعر بھی اپنے کمرے سے باہر ایا ۔ گڈ مارننگ سب کو ۔ یہ گڈ مارننگ کیا ہوتا ہے صبح‬
‫اٹھ کر سالم کرتے ہیں نورے نے اشعر کو سمجھایا ۔ اوکے بھابھی السالم علیکم کیسے مزاج ہیں اپ کے اور بھابھی اپ تو کل‬
‫گھر نہیں تھی خیر سے گھر اگئی ہیں اپ نے تو دو تین دن اور جیل میں نہیں رہنا تھا ۔ وعلیکم السالم ! چھوٹے سے یونیورسٹی‬
‫کے بچے مجھے لگتا ہے اپ کا دماغ بھی چھوٹا ہے ۔ بھابھیی اپ بھی پہچان گئی ہیں بہت جلد کافی انٹیلیجنٹ ہے ‪ ،‬لیکن اتنا بھی‬
‫چھوٹا دماغ نہیں ہے میرا اس دفعہ کالس میں ٹاپ ا ا ا ۔ ۔ ۔ ۔ اشعر نے ہی کیا ہے ۔ ماشاءہللا بہت اچھی بات ہے ۔ انٹی اپ نے تو‬
‫پوچھا ہی نہیں کہ میں اور ارزم گھر کیسے اگئے اور کب ائے ۔ بیٹا صبح فجر ٹائم شور کی اواز ارہی تھی میں سمجھ گئی تھی اپ‬
‫ہی ہو گئی لیکن مجھے بھی بتاؤ اپ لوگ گھر کیسے اگئے ؟ اشعر بھی ٹیبل پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگا ۔ انٹی سفینہ بیگم کو تو‬
‫اپ کو پتہ ہی ہے یعنی اپ کو ساری بات تو معلوم ہی ہے نا ۔ ہاں جی پتہ ہے اشعر بوال ۔ نورے نے اشعر کی طرف منہ کر کے‬
‫کہا تم تو مجھے بچے لگتے تھے لیکن تم تو انٹی نکلے تو اس بات پر اشعر اور نورے کی ساس ہنس پڑے ۔ انٹی سفینہ بیگم نے‬
‫میرے باپ سے شادی سے پہلے بھی ایک شادی کی تھی ان کے بچے تھے اپنے بچوں کی شادی کروانے پر امریکہ گئی ہیں ان‬
‫کے بچے امریکہ میں رہتے تھے تو اب تھوڑا کیس پینڈنگ ہو جائے گا اور ہمیں یہاں تھوڑا ٹائم مل جائے گا مزید ثبوت اکٹھے‬
‫کرنے کے لیے ۔ بھابھی ویسے اپ کی الئف بڑی مزے کی جا رہی ہے ۔ وہ کیسے ؟ بھابھی دیکھیں اتنی ایڈوینچر فل الئف ہے‬
‫دیکھیں اتنے راز کھل رہے ہیں کتنی مسٹیریس الئف ہے ویسے اپ کی ۔ ہللا تعالی اپ کو ایسی الئف نہ دے نورے نے سڑے‬
‫ہوئے انداز میں کہا ۔ اشعر سمجھ گیا تھا کہ بھابھی کو برا لگا ہے کیونکہ جہاں پر بھی نورے کے بھائی اور بابا کی بات اتی تھی‬
‫تو وہ اداس ہو جایا کرتی تھی ۔ تھوڑی دیر بعد نڑے برتن دھونے لگی انٹی میں نے برتن دھو دیے ہیں اب میں وضو کرنے کے‬
‫نماز پڑھنے جا رہی ہوں۔ ٹھیک ہے بیٹا تم جاؤ پڑھ لو میں بھی پڑھوں اب نور کمرے میں گئی وضو کے بعد نور کمرے کے بیڈ‬
‫پر بیٹھی سوچ رہی تھی کہ ارزم ابھی تک نہیں ایا ہے تو ساتھ ہی دروازہ کھال نورے نے مڑ کر دیکھا تو وہ ارزم تھا ۔ کہاں گئے‬
‫تھے انسان بتا ہی دیتا ہے ۔ اپ کے لیے کچھ لینے گیا تھا ۔ میرے لیے ۔ ارزم نے ہاں میں سر ہالیا ‪ ،‬اچھا ادھر تو ائے میں اپ کو‬
‫دکھاؤں میں اپ کے لیے کیا لے کے ایا ہوں ۔ نورے اٹھی اور جا کر ارزم کے پاس بیٹھی اور ارزم نے کہا یہ دیکھو بیک سے‬
‫نکالتے ہوئے اس نے کہا تھا ۔یہ تو برقعہ ہے ۔ ہاں میں تمہارے لیے الیا ہوں ۔ لیکن کیوں میں نے تو کبھی یہ پہنا بھی نہیں۔‬
‫کیونکہ کیا مطلب ہے پہلے تو مجھے ایک بات بتاؤ اتنی نمازی ہو تم اچھی لڑکی ہو پاکیزہ تو کبھی تمہیں خود کو پورا کور کرنے‬
‫کا کیوں نہیں سوچا کیا مطلب ہے اپ کا اس بات سے میں پورا کپڑے پہنتی ہوں ۔ یو نو اسالم میں اگر عورت کا ایک بال کسی‬
‫نامحرم کو نظر ائے تو ہزار سال جہنم میں جلنے کی سزا ہے صرف ایک بال کی وجہ سے ۔ کیا واقعی نور جیسے چونک گئی‬
‫تھی۔ ہاں کیا تمہیں معلوم نہیں تھا۔ ۔ نہیں اگر ہوتا تو میں یہ سب سے پہلے ہی کر چکی ہوتی جس کا اپ مجھے اب کرنے کا کہہ‬
‫رہے ہیں ۔ چلو تم ہللا تعالی سے معافی مانگ لو ہللا تعالی تمہیں معاف کر دیں گے اور پھر تم یہ حجاب پردہ وغیرہ شروع کر دینا‬
‫‪ ،‬تم جانتی ہو یہ جو لڑکیاں ہوتی ہیں یہ صرف خود کو اپنی طرف اٹریکٹ کرنے کے لیے یو بیہودہ قسم کی ڈریسنگ کرتی ہیں‬
‫الئک ساڑی یا شلوار قمیض وہ بھی دوپٹے کے بغیر لیکن یہ چیز لوگوں کو تھوڑی دیر کے لیے اچھی لگتی ہے لیکن ایک پردہ‬
‫دار خاتون کی عزت ہمیشہ کی جاتی ہے یہ یاد رکھنا دوپٹہ وہ نہیں ہوتا جو اپ کے گلے میں ہو وہ پٹا ہوتا ہے دوپٹہ وہ ہوتا ہے‬
‫جو سر پہ ہوتا ہے اور حجاب وہ ہوتا ہے جو اپ کے بالوں کو اپ کے سر کو کور کرے اپ کی بورڈ کو کور کرے ٹھیک ہے۔‬
‫جی ٹھیک ہے اپ لیکن یہ بتائیں کہ عبایا بالکل سادہ نہیں ہے ائی مین اج کل تو اتنے سادہ عباۓ نہیں چلتے۔ مجھے یہ بتاؤ وہ‬
‫عبایا ہوتا ہے کیا ؟ مطلب ؟ مطلب یہ کہ عبایا کا مطلب ہے سادہ ایسی چیز جو کہ اپ کی سمپلی فشٹی کو ظاہر کریں ایک کھال‬
‫کافتان بغیر موتی اور ڈیزائننگ کا ۔ یہ وہ تھوڑی ہوتے ہیں جو موتی سے بھرپور ہوں لیئرز والے ڈیزائننگ والے کلرفل جس‬
‫میں اپ خوبصورت لگ رہے ہو یا اپ کی خوبصورتی ظاہر ہو رہی ہو ۔ نورے بہت دھیان سے اس کو سن رہی تھی ۔ دیکھو‬
‫نورے اسالم نے دنیا کے تمام مذاہب سے بھر کر عورت کو بے تحاشہ عزت اور احترام بخشی ہے اور یہ بات مجھ سے بہتر‬
‫میرے خیال سے تم جانتی ہو کیونکہ تم ایک عورت ہو نورے نے ہاں میں سر ہالیا ۔ نورے دیکھو جب ایک لڑکی باہر جائے تو‬
‫وہ گھر میں چاہے کام والی کے ڈریس میں ہی کیوں نہ ہو آئی مین اس کے کپڑے گندے ہیں لیکن اس کو کوئی فرق نہیں پڑے گا‬
‫اور جیسے ہی وہ باہر جائے گی تو وہ خوبصورت کپڑے ‪ ،‬چادر ‪ ،‬جوتی اوڑھ لے گی کیوں ؟ کیونکہ شاید یہ روایت ہے شاید‬
‫سبھی ایسے کرتے ہیں نورے بولی ۔ مانا روایت ہے لیکن یہ روایت بے حد غلط ہے اور یہ روایت ہم نے بہت غلط بنائی ہے خود‬
‫‪ ،‬ہم باہر خوبصورت کپڑے پہن کر جائیں گے تاکہ لوگ ہمیں دیکھیں ہنا ۔ ہاں ۔ اور یہی تو میرا کہنے کا اصل مقصد ہے کہ اسالم‬
‫تو اس کے بارے میں ہمیں بے حد تک منع کرتا ہے اپ کی کالئی ٹکنے نظر نہ ائے ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے لوگ‬
‫ہیں جیسے اب بائک پر عورتیں بیٹھی ہیں چادر بھی ہے لیکن سر پر نہیں شلوار ٹخنوں سے اوپر ہے کالئی صاف نظر ارہی ہے‬
‫اور جب ان عورتوں کو منع کیا جائے اور بتایا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے محرم کے ساتھ ہیں تو کسی کو کیا لگے‪ ،‬میری‬
‫بات غور سے سنو نور تم چاہتی ہو کہ تم اپنے بابا بھائی مجھے اور اپنی اوالد کو (بیٹے) کو جہنم میں لے کر جاؤ ۔ ہرگز نہیں‬
‫نورے فٹ سے بولی ۔ تو پھر یاد رکھنا ایک عورت کے عمل سے ہی یہ چاروں جہنم میں یا جنت میں جاتے ہیں ۔ ارزم نے اتنے‬
‫پیار سے نورے کو سمجھایا تھا کہ اسے لگ رہا تھا کہ اگر باتوں باتوں میں ارزم اس کو کہے کہ مر جاؤ تو وہ مر جاتی اور بات‬
‫کرتے وقت تو اس کا لہجہ مزید پیارا اور یوں لگتا تھا کہ شاید باتوں سے شہد گرا رہا ہو لیکن صرف اپنے پسندیدہ انسان سے وہ‬
‫ایسے بات کرتا تھا اور نورے شاید اب اس کی پسندیدہ بن گئی تھی ‪ ،‬نورے کا اس کو یوں سمجھانا نہایت متاثر کر گیا تھا ۔ ٹھیک‬
‫ہے میں ضرور پردہ کروں گی نورے بولی ۔ ظہر کی نماز کا وقت چال نہ جائے اپ جائیں اور نماز پڑھ لیں ‪ ،‬میں بھی نماز پڑھتا‬
‫ہوں پھر مل کر انٹی اور اشعر کے پاس بیٹھ کر باتیں کریں گے وہ مسکرا کر بوال ۔ وہ دونوں تھے تو بہت عقلمند اور غصے کے‬
‫تیز لیکن ان دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھانا بے حد پسند تھا ۔ ارض و نماز پڑھنے چال گیا تو نور نے نماز ادا کی اور پھر‬
‫درود ابراہیم کے ساتھ دعا کو شروع کیا یا ہللا میں پہلے یہ سب نہیں جانتی تھی میں نہ اشنا تھی میں اگر جانتی ہوتی تو میں‬
‫ضرور اپ کے حکم کی پابندی کرتی میرے موال مجھے اج معلوم ہو گیا ہے کہ ایک عورت کی زندگی میں غیر محرم سے پردہ‬
‫کتنا ضروری ہے یہ دنیا تو عارضی ہے اور میں اپ کی عاجز بنتی ہوں کہ یا ہللا میں اپ سے معافی کی طلبگار ہوں یا ہللا اپ‬
‫مجھے معاف کر دیں میں اپ سے اپ کی رحمت کی طلبگار ہوں ہللا تعالی جی اپ کی رحمت اپ کو غصے اور جالل پر بھاری‬
‫ہے یا ہللا مجھے معاف کر دے اور مجھے بہترین انسان اپنی نظروں میں بننے کی کوشش میں کامیاب کر دے یا ہللا میری مدد‬
‫فرمائے ہر حال میں یا ہللا میں اپ کو شکر ادا کرتی ہوں ہللا تعالی کی ذات سے پاک اور کوئی ذات نہیں بے شک میرا خدا بہترین‬
‫فیصلے کرنے واال ہے یا ہللا مجھے معاف کر دینا اور میری رہنمائی کرنا نورے نے دعا کا اختتام درود ابراہیم سے کر کے منہ‬
‫پر ہاتھ پھیرا اور باہر جا کر ارزم کی ماں نادیہ کے پاس بیٹھ گئی وہاں پر اشعر بھی موجود تھا ‪ ،‬نورے حجاب کر کے باہر ائی‬
‫تھی کیونکہ عشر بھی اس کے لیے غیر محرم ہی تھا ۔ اور پھر اشعر کیا ہو رہا ہے ۔ بھابھی امی کو منا رہا ہوں کہ مجھے ٹرپ‬
‫پر جانے دو دوستوں کے ساتھ ۔ اشعر میں تو مانی ہوئی ہوں لیکن تمہارا بھائی تمہیں نہیں جانے دے گا اشعر کی ماں بولی ۔ امی‬
‫بھائی اپ کی بات کو نہیں ٹالیں گے ۔ لیکن وہ تمہیں نہیں جانے دیتا ہوتا ہے تمہیں معلوم ہے تم اج سے پہلے کبھی گئے ہو ۔ امی‬
‫اب میں چھوٹا نہیں رہا ہوں مجھے جانے دینا دیکھیں امی وہ اپنی امی کا ہاتھ پکڑ کر ہالنے لگا ۔ اچھا ابھی تو کوئی کہہ رہا تھا‬
‫کہ میں یونیورسٹی لیول کا بچہ ہوں نورے اس کو چڑھاتے ہوئے بولی ۔ بھابھی جتنا مرضی مذاق اڑا لینا لیکن پلیز کچھ کریں‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫بھابھی ۔ ہاں ۔ بھائی اپ کی بات مانتے ہیں ائی مین اگر اپ ان سے کہیں تو وہ مان جائیں گے ۔ ہاں وہ میری بات مان جائیں گے‬
‫مجھے پتہ ہے ۔ بھابھی دیکھیں پلیز بھائی کو کہہ دیں مجھے جانے دیں بھابھی دیکھیں میں اج سے پہلے کبھی ٹرپ پر نہیں گیا‬
‫اور سکول میں بھی امی نے کبھی جانے نہیں دیا کالج میں بھی بھائی نے منع کر دیا اور اپ یونیورسٹی لیول پر تو جانے دیں‬
‫پہلے سکول نہیں کہتے تھے کالج جا کے تو جانے دیں گے پھر کالج میں کہتے تھے کہ یونیورسٹی جاؤ گے تو جانے دیں گے اب‬
‫کہہ رہے ہیں کہ نہیں جانے دینا ۔ بیٹا تم اس کی باتوں میں نہ انا اور کچھ نہ کہنا ارزم سے وہ اس بات پہ بہت غصہ کرتا ہے اگر‬
‫اس کی بات نہ مانو تو وہ بہت غصہ ہوتا ہے ارزم کی ماں نے نورے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کو سمجھایا ۔ نہیں انٹی‬
‫اگر وہ اتنی ضد کر رہا ہے تو اس کو جانے دیں اس میں کیا ہے اپ کو پتہ ہے میں بھی کبھی ٹرپ پر نہیں گئی اب اس کو تو‬
‫جانے دیں میں جانتی ہوں ٹرپ پر جانے کا شوق کیا ہوتا ہے ۔ جاؤ پھر مناؤ اپنے شوہر کو تم ارزم کی ماں نے نورے کو کہا ۔‬
‫تھوڑی دیر میں ارزم نماز پڑھ کر واپس اگیا۔ وہ سب وہیں باہر بیٹھے ہوئے تھے ۔ کیا ہو رہا ہے سارے اتنے خاموش کیوں ہو‬
‫گئے ؟ ارزم اشعر اپ سے کچھ کہنا چاہتا ہے ۔ اشعر کی زبان نہیں ہے‪ ،‬اشعر کیا ہوا ہے خود پوچھ لو ۔ اشعر نے نورے کو اشارہ‬
‫کیا کہ وہ نہیں بول پائے گا بھائی کے اگے ۔ تو نورے نے اس کو اشارہ کیا بولو۔ اشعر بوال ۔ بھائی ۔ اگے بول ۔ بھائی میں ٹرپ‬
‫پر مری ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی الفاظ اشعر کے منہ میں ہی تھے کہ ارزم بوال بالکل نہیں تمہیں پتہ ہے کہ میرا جواب کیا ہوگا پھر بھی تم مجھ‬
‫سے ضد کر کے پوچھ رہے ہو خبردار تم گئے چھوٹے ہو تم ابھی ‪ ،‬اتنے دور اکیلے کیسے جاؤ گے ؟ اشعر وہی خاموش ہو گیا‬
‫اور نورے کے پاس ہو کر بوال دیکھا بھابھی میں نے کیا کہا تھا یہ بھائی ہیں ہی ایسے خود تو اتنے عیاشیاں کرتے ہوتے تھے‬
‫اپنی یونیورسٹی لیول میں اور مجھے کچھ کرنے نہیں دیتے ۔ ارزم اس کی بات سن چکا تھا اور اس نے اشعر کو تھپڑ لگایا ۔‬
‫بھائی اپ نے مجھے پھر تھپڑ مارا ہے ۔ ہاں مارا ہے بات چیک کر کیا کر رہا ہے اپنی بھابھی کو کیا کہہ رہا ہے ۔ بھائی صحیح‬
‫تو کہہ رہا ہوں اس نے سر کھجاتے ہوئے کہا ‪ ،‬بھائی دیکھیں مان جائیں جانے دے مجھے سارے دوست جا رہے ہیں وہ میرا مذاق‬
‫اڑاتے ہیں کہتے ہیں تو چھوٹا کاکا ہے ابھی تک تجھے گھر والے باہر نہیں جانے دیتے ۔ ہاں کہہ دینا ان سے ہاں میں ہوں کاکا‪ ،‬تم‬
‫سب کو کوئی مسئلہ ہے بھال ؟ ارزم یہ کہہ کر کمرے میں چال گیا ۔ اشعر وہاں افسردہ ہو کر بیٹھ گیا امی بھائی ہمیشہ ایسے کرتے‬
‫ہیں آئندہ میں نے بھائی سے کبھی بات نہیں کرنی ہے میں جا رہا ہوں ۔ کدھر اس کی امی نے پوچھا ؟ باہر جا رہا ہوں میں ۔ تیرے‬
‫بھائی کو بتاؤں اس کی ماں بولی ۔ آ آ آ کیا ہر وقت بھائی بھائی کرتی رہتی ہیں میں ڈرتا ہوں ان سے بھال بتا دے بھائی کو ۔ ارزم‬
‫ساتھ ہی کمرے سے باہر نکال اور اس کا کان پکڑتے ہوئے بوال ہاں کیا بھائی سے نہیں ڈرتا اس کو ایک اور تھپڑ لگایا ۔ بھائی‬
‫نہیں میں مذاق کر رہا تھا میں جھوٹ بول رہا تھا میں ویسے ہی لگا ہوا تھا ‪ ،‬ویسے ہی کہہ رہا تھا اپ تو سیریس ہی ہو جاتے ہیں‬
‫بار بار ۔ ۔۔۔۔۔ اس نے اشعر کا کان مزید مروڑا اور پوچھا تم نے جھوٹ کہاں سے سیکھ لیا ہے؟ بھائی منہ سے سلیپ ہو گیا تھا‬
‫مجھے معاف کر دیں میرا کان چھوڑ دیں معصوم سا نازک سا کان ہے میرا چھوڑ دے دیکھیں میں اپ کا کاکا ہوں میرا کان چھوڑ‬
‫دیں ‪ ،‬نورے اس کی بات پر مسکرائی اور ہنسی دبائی ۔ چل کمرے میں ارزم نے اس کو کمرے میں بھیج دیا ۔ نورے اٹھی اور‬
‫کمرے کی جانب گئی ارزم پہلے ہی کمرے کی جانب جا رہا تھا ۔ کمرے میں جا کر نورے نے کہا ارزم ۔ ارزم مڑا اور بوال ہاں‬
‫۔ کیا مسئلہ ہے کیوں نہیں جانے دے رہے بیچارے کو جانے دو نا اس کا اتنا دل کر رہا ہے ۔ رہنے دو کوئی نہیں جانا اس نے‬
‫ایویں کوئی مسئلہ کروا ایا پھر ۔ کیسا مسئلہ ؟ کوئی چوٹ لگوایا کہیں گم گیا راستوں کا نہیں پتہ مری جا رہا ہے کوئی چھوٹی جگہ‬
‫پہ تو نہیں جا رہا اتنا بڑا ہے مری اور اتنے بڑے بڑے پہاڑ ہیں کہیں گر نہ جائے کوئی مسئلہ نہ ہو جائے۔ دیکھو میری بات سنو‬
‫اس کا اتنا دل کر رہا ہے اس کو جانے دو نا وہ دیکھو تم سے ڈرتا ہے وہ تمہیں کچھ نہیں کہتا تم نے اس کو دو تھپڑ مارے ہیں‬
‫اس نے پھر بھی کچھ نہیں کہا وہ پھر بھی ہستا ہی گیا ہے تم دیکھو نا اس کو جانے دو وہ اتنا پیار کرتا ہے آپ سب سے ‪ ،‬اتنی‬
‫عزت کرتا ہے تمہاری بھی دیکھو اس کو جانے دو پلیز ۔ ارزم حیرت سے اس کو دیکھ رہا تھا کہ وہ سوچ رہا تھا اب میں کیا‬
‫کہوں ۔ پلیز پلیز پلیز پلیز ‪ ،‬جانے دو اس کو دیکھیں میں نے اپ کی وجہ سے اپ کی بات مانتے ہو حجاب کیا ہے نا اب اپ میری‬
‫بات مانیں ۔ میڈم حجاب اپ نے میری وجہ سے نہیں بلکہ ہللا تعالی کے حکم کی وجہ سے کیا ہے ۔ یعنی اپ میری بات نہیں مانیں‬
‫گے نورے غصے سے بولی ۔ اچھا بابا ٹھیک ہے جانے دیتا ہوں اس کو ۔ ویری گڈ تھینک یو سو مچ باہر ائے اور اس کو پیسے‬
‫دیں ۔ چلو ارزم ہنستا ہوا باہر گیا نورے کے ساتھ ۔ ارزم باہر جا کر صوفہ پر بیٹھا اشعر کچن سے پانی کا گالس لے کر ا رہا تھا‬
‫۔ اشعر ‪ ،‬ارزم نے آواز دی ۔ جی بھائی وہ اس کے سامنے ہوا ۔ ارزم اپنے والٹ سے پیسے نکال کر اس کو دینے لگا یہ لو ۔ بھائی‬
‫یہ کس لیے اس نے پیسے پکڑتے ہوئے کہا ۔ ٹرپ جا رہی ہے نا تمہاری مری جاؤ وہاں پر ۔ واقعی یہ اپ ہی کہہ رہے ہیں مجھے‬
‫مجھے یقین نہیں ارہا ہے کیا کہہ رہے ہو بھائی ایسے نہیں ہو سکتا اپ کیسے مجھے جانے کی اجازت دے رہی ہیں ۔ ادھر آ تھپڑ‬
‫لگاؤں یقین دالؤں ۔ نہیں مجھے یقین اگیا ہے لیکن بھائی تھینک یو سو مچ اپ نے مجھے اجازت دے دی ۔ تھینک یو میرا نہ کرو‬
‫اپنی بھابھی کا کرو صرف ان کے کہنے کی وجہ سے تم کو اجازت ملی ہے ۔ تھینک یو سو مچ بھائی کی وائف ۔ نورے اشعر‬
‫کی اس بات پر مسکرائی اور اندر جا کر نماز پڑھنے لگی ارزم اور اشعر بھی نماز پڑھنے چلے گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫اگلی صبح نورے اٹھی اور ناریہ کے پاس جا کر بیٹھ گئی ۔ انٹی کیا ہوا اپ اتنی سوچ میں کہ گم لگ رہی ہے ۔ بیٹا کچھ خاص‬
‫نہیں یوں ہی بیٹھی ہوں سوچ رہی ہوں کہ تم دونوں کا ولیمہ کروا دوں ۔ جی ؟ نورے نے چونک کر پوچھا ۔ ہاں بیٹا میرے بھی‬
‫ارمان ہیں میں بھی اپنے ارمان پورا کرنے چاہتی ہوں میں بھی چاہتی ہوں کہ میرے بیٹے کی شادی دھوم دھام سے ہوتی لیکن‬
‫نہیں ہو پائی تو کوئی بات نہیں لیکن اب میں تم دونوں کو ولیمہ کرواؤں گی ۔ انٹی اپ یہ کیا کہہ رہی ہیں ؟ بیٹا میں اپنے بیٹے کی‬
‫بیوی کو دلہن بنا دیکھنا چاہتی ہوں اپنے بیٹے کو دولہا بنا دیکھنا چاہتی ہوں ۔ کیا خیال ہے تمہارا ؟ انٹی یہ تو اب اپ ارزم سے‬
‫پوچھیں ان کا کیا خیال ہے ۔ اتنی ہی دیر میں عرضم اگیا لو تم اگے بیٹا میں تمہارا اور نورے کا ولیمہ کروانا چاہتی ہوں وہ دیکھو‬
‫اس کو دلہن بنا دیکھنا چاہتی ہوں اور تمہیں دولہا دیکھو نورے اتنی پیاری ہے دیکھنا بہت روپ چرھے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔‬
‫۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔‬
‫نورے نے اپنی تعریف سن کر منہ نیچے کر لیا۔ امی دولہن تو صرف ایک ہی پیاری لگتی ہے جو میرے دل و دماغ میں ہر وقت‬
‫موجود ہے وہ رنگ و روپ جو شیری کو چڑھا وہ کبھی کسی کو نہیں چڑھ سکتا ارزم کھڑا تھا اور کھوئے ہوئے انداز میں کہہ‬
‫گیا ‪ ،‬امی اب جانتی ہے میرے نزدیک اس سے زیادہ پیاری کوئی نہیں ہو سکتی تو میں نہیں چاہتا کسی اور کو دلہن کی روپ میں‬
‫‪ ،‬امی میں دنیا میں سب سے زیادہ پیار اس سے ہی کرتا تھا اور کرتا ہوں ۔ نورے جس کا منہ نیچے تھا اس نے منہ دیکھا اور‬
‫حیرت سے اس کو تکتی رہ گئی‪ ،‬یہ کیسے اپنی بیوی کے سامنے کسی اور لڑکی کی بات کر رہا ہے نورے نے سوچا ۔ بھول جا‬
‫میرے بچے ۔ امی اپ کو بھی بھول پائی ہیں جو میں بھول جاؤں ؟ ارزم یہ کہتا ہوئے کمرے میں چال گیا ۔ ا ا ا انٹی یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫جا بیٹا اس کو دیکھ بہت اداس ہے میں نے بھی نہ جانے کیوں ولیمے کی بات کر ڈالی ‪ ،‬حاالنکہ میں جانتی بھی ہوں کہ وہ ان‬
‫باتوں پر اداس ہو جاتا ہے ۔ نورے نادیہ کے پاس سے اٹھتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب گئی نورے حیرانی سے چونکتی ہوئی‬
‫کمرے کا دروازہ کھولتے کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا تو ارزم سامنے صوفہ پر بیٹھا تھا دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں پر سر‬
‫رکھ کر اور کہن یاں گھٹنوں پر رکھ کر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھا وہ نہایت عجیب معلوم ہو رہا تھا ۔ نورے جا کر صوفہ کی دوسری‬
‫سیٹ پر بیٹھ گئی ‪،‬اور غصے سے دانت پیستے ہوئے ‪ ،‬اپنے ہاتھوں کی مٹھی بنا کر زور سے دباتے ہوئے پوچھنے لگی کون تھی‬
‫شیری ؟ کون تھی نہیں کون ہے وہ اج بھی میرے اندر ہے میں اسے اج بھی اتنی ہی محبت کرتا ہوں جتنی تب کرتا تھا نورے نے‬
‫تعجب سے اس کو دیکھا اپ میرے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں سب کچھ اپنے بارے میں بتا دیتے تاکہ اپ کو یہ زبردستی کی‬
‫شادی نہ کرنی پڑتی ارزم نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا اور پھر اسی طرح بیٹھ کر بوال ‪ ،‬جب تمہیں بات معلوم نہیں تو یوں‬
‫الٹے سیدھے الزام میرے پہ مت لگاؤ ۔ کیا مطلب مجھے بات کا معلوم نہیں اپ بتائیں گے تو پتہ چلے گا نا کون تھی وہ نہ کرتے‬
‫مجھ سے شادی ۔۔۔۔۔۔‪ ،‬ابھی نورے غصے میں بول ہی رہی تھی کہ ارزم ساتھ ہی بوال نورے خبردار اب ایک لفظ اور نہ بولنا ۔‬
‫کیوں میں بولوں نا کچھ ؟ ارزم نے ایک نگاہ نورے کو دیکھا اور بوال ‪ ،‬شیری میری معصوم ‪ ،‬بے بس‪ ،‬الچار بہن ہیں میری بڑی‬
‫بہن ۔ نورے کی تو جیسے اواز ہی بند ہو گئی تھی اور وہ حقی بکی اس کو تکتی رہ گئی ‪ ،‬نورے نے یہ سن کر اپنے دونوں ہاتھ‬
‫اپنے منہ پر رکھے اور بولی کیا ؟ ہاں ارزم نے سر اٹھا کر نورے کو دیکھا تو اس کی انکھیں بھیگی پڑی تھی ۔ نورے صرف اس‬
‫کی انکھوں میں انے والے انسو دیکھتی رہ گئی تھی کہ کیا ارزم رو رہا ہے یا اج بھی وہ اس سے یہی کہے گا کہ میری انکھ میں‬
‫کچھ چال گیا ہے ۔ ارزم سیدھا ہو کر صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا کمرے کی چھت کی سیلنگ کو دیکھتے ہوئے بولنے لگا ہاں‬
‫وہ میری بہن تھی میری بڑی بہن ہے بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔ میں کچھ سمجھ نہیں پا رہی ہوں مجھے ساری بات بتاؤ دیکھو میں نے بھی تو اپ‬
‫کو اپنی ساری بات بتائی نا اپ بھی مجھے بتاؤ بلکہ میرے بارے میں تو اپ پہلے ہی جانتے تھے تو کہ میں یہ حق نہیں رکھتی کہ‬
‫اپ مجھے اپنی ساری باتیں بتاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سنو پھر ارزم نے اپنی انکھ سے انے والے انسو کو اپنی انگوٹھے کے پور سے صاف کرتے ہوئے کہا ۔ میرا باپ ایک مزدور تھا‬
‫یہ جو گھر ہے یہ عالی شان گھر یہ میری محنت کا صلہ ہے اور میری ماں کی محنت کا میرا باپ ایک مزدور تھا کبھی کام ہوتا‬
‫تھا تو کبھی نہیں لیکن میری ماں محنت کرتی تھی سالئی کڑھائی بچوں کو پڑھانا تو گھر کا گزر بسر ہو جاتا تھا میرا باپ جوا‬
‫کھیلتا تھا اکثر لوگ میرے باپ کے ہارے ہوئے پیسے جو کہ وہ جوئے میں ہار اتا تھا اور لوگوں کو دیتا نہیں تھا تو لوگ ا کر‬
‫ہمارا دروازہ توڑ مار دیتے تھے کہ پیسے دو ہمارے تو میری ماں بہت مشکل سے دیتی یہاں تک کہ میری ماں کا سونے کا زیور‬
‫سارا میرا باپ جوئے میں ہار چکا تھا ایک دن یوں ہی میرے باپ نے ہمیشہ کی طرح جوا کھیال پیسے نہیں تھے تو کسی نے‬
‫کھیلے نہیں دیا دوست سے دس الکھ روپیہ مانگا اور کہا کہ میں جیت کر اؤں گا اور تمہیں سود سمیت واپس کروں گا دوست نے‬
‫پیسے دے دیے ۔ پھر ۔ میرے باپ نے جوا کھیال پہلے تو وہ جیت رہا تھا لیکن بعد میں وہ ہار گیا اب کچھ دن بعد اس ادمی نے‬
‫پیسے مانگنا شروع کیے اور یوں مہینہ گزر گیا وہ ادمی ایک ٹائپ کا ڈون بندہ تھا ‪ ،‬اس نے میرے باپ کو کہا کہ یہ ‪ 10‬الکھ یا‬
‫اپنی بیٹی سے نکاح اور میرا باپ دوسری اپشن پر فوری راضی ہو گیا ۔ اپ کی بہن کی عمر کتنی تھی ۔ ‪ 18‬برس ۔ کیا بس۔۔۔۔ ؟؟؟‬
‫نورے نے حیرت سے پوچھا ۔ ہاں ۔ اس وقت اپ کتنے سال کے تھے ؟ میں اس وقت ‪ 1 2‬سال کا تھا ۔ پھر کیا ہوا ؟ میرے باپ‬
‫نے میری ماں اور میری بہن کو کچھ نہیں بتایا تھا بس یہی کہا تھا کہ اس تاریخ کو تمہاری شادی ہے لڑکا بہت اچھا ہے بہت اچھا‬
‫کماتا ہے اور اچھا کاروبار ہے اس کا میری معصوم ماں مان گئی اور بہن کو منا چکی تھی اور میری بہن کچھ نہ کہہ پائی تھی‬
‫اس نے بھی ہاں کر دی ۔ میری بہن نہایت ۔۔۔۔۔۔یار اگر تم اس کو دیکھتی تو تم بھی یہی کہتی اج سے پہلے میں نے اتنی پیاری دلہن‬
‫نہیں دیکھی کیا رنگ و روپ تھا کہ میں بیان نہیں کر سکتا ‪ ،‬وہ اج بھی میرے خواب میں جب بھی ائی ہے اسے دلہن کے روپ‬
‫میں ائی ہے ۔ پھر کیا ہوا ؟ میری ماں نے نہایت قیمتی جوڑا پہنایا کہ میری بیٹی کی شادی ہے جب اس کو نکاح کے لیے لے کر‬
‫جایا جا رہا تھا تو سامنے بیٹھا دلہا دیکھ کر جو کہ ‪ 52‬سال کا تھا میرا باپ تب ‪ 47‬سال کا تھا وہ میرے باپ سے بھی بڑا تھا‬
‫میری بہن نے اس کو دیکھا اور وہیں اس نے شادی سے انکار کر دیا میرے باپ کے اتنے اصرار پر بھی وہ نہ مانی میرے باپ‬
‫نے اس کے بہت ترلے کیے کہ جا کر لے اس سے شادی ‪ ،‬لیکن وہ انکار کر رہی تھی ۔ ظاہری سی بات ہے ایک ‪ 18‬سالہ لڑکی‬
‫اور ایک ‪ 52‬سالہ بڈھا ۔ اور یہی بات اس کے ذہن میں تھی اور یہ بات اس کو مار چکی تھی ۔ م م مطلب ؟ مطلب یہ کہ بہن کے‬
‫انکار کرنے پر اور باپ کے اصرار کرنے پر جب بہن نہ مانی تو میرے باپ نے اپنے ہاتھوں سے اس کا گال گھونٹ دیا ۔ ک ک‬
‫کیا ؟ کوئی باپ ایسا بھی کر سکتا ہے ؟ کسی اور باپ کا تو نہیں پتہ لیکن میرے باپ نے یہی کیا تھا ۔ پھر اپ کی امی نے کچھ‬
‫نہیں کہا ۔ ان کو یہی پتہ تھا کہ وہ خود ہی مری ہے ۔ م مطلب ؟ مطلب یہ کہ میرے باپ نے اس کو مار دیا تھا لیکن اس بات کا‬
‫پتہ کسی کو نہیں تھا ۔ تو اپ سب کو کیسے پتہ چال ۔ اگے پوری بات سنو پھر بتاتا ہوں ‪ ،‬ارزم بات سنانے لگا اور کہا کہ وہ تو‬
‫مر گئی ہے اس ‪ 52‬سالہ منحوس زدہ ادمی نے میری چھوٹی بہن کا رشتہ مانگ لیا ۔ واٹ ؟؟؟؟؟؟ ہاں میری چھوٹی بہن اس وقت‬
‫صرف ‪ 16‬سال کی تھی ہادیہ نام تھا اس کا ۔ ہادیہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ میرے بابا نے اس کا نکاح اس بڈھے سے رکھوا دیا ہے‬
‫تو وہ بولی میں نکاح نہیں کروں گی ‪ ،‬بابا نے کمرے سے باہر نکال دیا تھا سب کو اور اس کو بوال کہ میں تمہارا گال جس طرح‬
‫میں نے شیری کا گھونٹا ہے اسی طرح گھونٹ ڈالوں گا اگر تم نے انکار کیا اور یہ کہہ کر وہ باہر ا کے اور سب کو بولے کہ وہ‬
‫شادی کے لیے تیار ہے ‪ ،‬ارزم نے دوبارہ اپنا انسو صاف کیا اور بوال میرے باپ نے میری ماں کو یہی کہا تھا کہ میری بات نے‬
‫اگر تم بولو گی تمہاری دوسری بیٹی کو میں مار ڈالوں گا میری ماں نہیں جانتی تھی کہ پہلی بیٹی کو بھی اس نے ہی مارا ہے‬
‫میری ماں کچھ نہ کر پائی ‪ ،‬تھوڑی دیر بعد جب میری ماں اندر گئی تو میری بہن نے خود کشی کر لی تھی اور یہ الفاظ کہتے‬
‫کہتے اس کے انسو زور سے ٹپکنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ رو تو مت مرد روتے اچھے نہیں لگتے چپ کر جاؤ کچھ نہیں ہوتا اس بات کو‬
‫تو ‪ 15‬سال تقریبا ً گزر چکے ہیں ۔ لیکن وہ ‪ 15‬سال کا لمحہ ابھی تک می رے ذہن میں ہے وہ نہیں جاتا میں بے بس ہوں میں اس کو‬
‫نہیں بیچ پاتا اس لمحے کو اس دن کو جس دن میری دو بہنوں کی موت واقع ہوئی تھی ‪ ،‬میری ماں اج تک نہیں جانتی کہ شیری‬
‫کی موت میرے باپ نے کی تھی ۔ پھر اپ کو کیسے معلوم ؟ کمرے میں کھڑکی تھی چھوٹا تھا کھیل رہا تھا کھڑکی سے دیکھ لیا‬
‫تھا میرا باپ اس کا گال گھونٹ رہا تھا اور میں وہیں خاموش ہو گیا تھا کہ اگر یہ بات میری ماں کو پتہ چلی تو میں مسکین ہو‬
‫جاؤں گا میں کچھ نہ بول پائا کیونکہ میں جانتا تھا میری ماں کچھ نہیں کر پائے گی بس خود کو اذیت ہی دے پائے گی اور میں یہ‬
‫نہیں کر سکتا تھا ۔ اپ نے اپنی بہن کو ہاسپٹل لے کے جانا تھا ۔ چھوٹی بہن کو لے کر گئے تھے بڑی کا تو وقت ہی نہیں مال نا‬
‫اس کی جان گھر ہی نکل چکی تھی چھوٹی کے سانس چل رہے تھے تین دن ہسپتال میں وہ کوما میں رہی زندہ تھی یہ الفاظ کہتے‬
‫ہوئے ارزم یوں بول رہا تھا جیسے اس کا دل کٹ رہا ہو ‪ ،‬تھوڑے دنوں بعد ڈاکٹر نے بتایا شی از نو مور ۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میری بہن شیری کیا جانتی تھی کہ شادی والے دن اس کی برسی منایا کریں گے ہم اور پانچ دن بعد ہادیہ کی اس کی انکھ سے‬
‫ایک اور انسو نکال۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میں تمہیں اپنی ایک نظم سناتا ہوں جو میں نے اپنی بہنوں پر لکھی تھی اس لمحے پر لکھی تھی جب وہ لمحہ میرے ذہن سے جا‬
‫نہیں رہا تھا اج بھی میں وہ لمحہ یاد کرتا ہوں تو میں رو پڑتا ہوں نہ جانے کیوں میرے ذہن سے یہ بات جاتی نہیں ہے سنو گی‬
‫میں نے اج تک وہ کبھی کسی کو نہیں سنائی نہ امی کو نہ اشعر کو ۔۔۔ میں ضرور سنوں گی سناؤ ۔ ارزم صوفے سے اٹھا اپنی‬
‫الماری کھولی اس میں سے ایک ڈائری نکالی اور ا کر وہیں صوفہ پر بیٹھ گیا اور کہا سنو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫لوگ کہتے ہیں مجھ سے رات گزرتی نہیں‬
‫میں سمجھتا ہوں کہ شاید رات سے میں گزرتا نہیں‬
‫یہ کالی رات اب مجھ کو برداشت کرتی نہیں‬
‫ہر رات یہ اندھیرا کہتا ہے کہ تو اب ویسا لگتا نہیں‬
‫نہ جانے کیا ہو گیا ہے مجھ سے راتیں گزرتی نہیں‬
‫ہر رات مجھ کو رات کہتی ہے یہ لمحہ تیرے ذہن سے نکلتا کیوں نہیں‬
‫مدہوشی کے عالم میں یہ رات گزرتی ہے سر کا درد بھی ہٹتا نہیں‬
‫نہ سوتا ہوں نہ جاگتا ساری رات یہ لمحہ میرے ذہن سے گزرتا نہیں‬
‫اتے ہیں اس بات پر جس کا اب کسی کو معلوم نہیں‬
‫روتا دل ‪،‬بھیگی انکھیں ‪،‬پھٹتا سر اور پاگل پنے سے کچھ زیادہ بھی نہیں‬
‫ایمان سے وہ لمحہ پہلے سب کو معلوم تھا اب وہ کسی کو معلوم نہیں‬
‫جب یہ راز فاش ہوا تو بڑے راز رکھے میں نے کوئی جانتا بھی نہیں‬
‫رات بھی ہر رات کہتی ہے بھول جاؤ لمحہ اب کچھ ہو سکتا بھی نہیں‬
‫میں ہر رات کہتا ہوں ہزار رات گزر گئی اور مجھے وہ لمحہ ٹھیک سے یاد بھی نہیں‬
‫اور میں اس کو سارا بھول گیا ہوں ایسا بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫یہ اپ نے خود لکھا ہے ۔ ہاں نا ۔ اپ کو پتہ ہے میں بھی لکھتی ہوتی ہوں وہ اس کو باتوں میں لگانے لگی ۔ اچھا سناؤ تم بھی کچھ‬
‫وہ اس کی طرف دیکھتا بوال ۔ نہیں وقت انے پہ ۔ ارزم پھر سیدھا ہوا صوفے پر ٹیک لگا کے اسی پوزیشن میں بیٹھا اور بوال‬
‫نورے ۔ ہاں ؟ تم جانتی ہو میں نے تم سے نکاح کیوں کیا تھا ؟ اپ نے خود ہی بتایا تھا کہ اپ مجھے اکیال نہیں چھوڑنا چاہتے‬
‫تھے ‪ ....‬ایک اور بات ہے میں نے اپنی بہنوں کو بے بس دیکھا تھا اب میں نہیں چاہتا تھا کہ میں کسی کی بیٹی اور بہن کو بھی‬
‫بے بس محسوس کرتا اور مرتا دیکھوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اپ کے بابا کا کیا ہوا یعنی اپ کی دونوں بہنیں تو ۔۔۔۔۔۔۔بابا نے دو شادیاں کی‬
‫تھی جانتی تو ہو تم حنین کی ماں میری باپ کی دوسری بیوی تھی ۔ حنین سے ‪ 15‬سال کی تھی میرا باپ اس کی جانب بڑھا میری‬
‫سوتیلی ماں کو پتہ چال تو اس نے اپنے بھائیوں کو بتایا ۔ تو پھر ؟ نورے نے تعجب سے پوچھا۔ ‪ .‬پھر انہوں نے میرے باپ کو‬
‫گولی مار دی ‪ .‬کیا ؟؟؟؟ ہاں چند سال بعد تقریبا دو یا تین سال بعد حنین کی ماں بھی مر گئی حنین اپنی نانی کے پاس رہنے لگی‬
‫اور کبھی کبھی ادھر ملنے اتی تھی مجھ سے اور اشعر سے ۔ وہ سرخ انکھوں سے اس کو دیکھ رہا تھا اور باتیں کر رہا تھا اور‬
‫اپنے انسو چھپانا چاہ رہا تھا لیکن وہ ناکام ہو رہا تھا ۔ دیکھیں اپ روئے نا ان کو مزید تکلیف ہوگی فکر نہ کریں وہ دونوں جنت‬
‫میں ہوں گی ۔ نورے کے یہ کہنے پر ارزم نے اپنے انسو صاف کیے اور کہا انشاءہللا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫چلو چھوڑو یہ سب باتیں میں مغرب پڑھنے جا رہا ہوں اور عشاء پر کھڑی اؤں گا !!!! مطلب ؟ میں مغرب کے بعد اکثر مسجد‬
‫میں بیٹھ کر تسبیح کرتا ہوں اور عشاء کے بعد ہی اتا ہوتا ہوں ۔ ٹھیک ہے لیکن اب رونا نہیں مرد روتے اچھے نہیں لگتے ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫اگال دن چڑھ گیا تھا اور نورے کچن میں رات کے برتن دھو رہی تھی ۔ نادیہ ائی اور بولی بیٹا تم نے ناشتہ نہیں بنایا ؟ نہیں انٹی‬
‫ایکچولی مجھے ناشتہ بنانا نہیں اتا ہے میں جانتی ہوں اپ کو یہ سن کر تھوڑا عجیب لگے گا لیکن واقعی وہ اپنا سر کھجاتے ہوئے‬
‫بولی ۔ نادیہ مسکرائی اور بولی اج کل یہ نئی نسل ہو نا اس لیے رکو بناتی ہوں میں تم بس میری تھوڑی بہت ہیلپ کر دو تاکہ‬
‫تمہیں کچھ ا جائے ۔ نورے بھی مسکرائی اور ان کی ہیلپ کرنے لگی ۔ اب وہ چاروں بیٹھ کر کھانا کھانے لگے تو ارزم کی ماں‬
‫بولی بیٹا نورے کو مخاطب کرتے ۔ جی ۔ فجر کے وقت اتنا شور کیوں کرتی ہو ؟ میرا مطلب ہے اپ جب سے اس گھر میں ائی ہو‬
‫اپ بہت شور کرتی ہو ۔ اشعر اپنی امی کی اس بات پر بوال اچھا تو وہ جو صبح شور ہو رہا ہوتا ہے وہ یہ شور ہوتا ہے میں بھی‬
‫کہوں کون اتنی کھر کھر رہا ہوتا ہے میری تو نیند خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔ تم نماز نہیں پڑھتے نورے نے اشعر سے‬
‫سوال کیا ۔ پڑھتا ہوں بھابھی لیکن کبھی کبھی فجر رہ جاتی ہے لیکن جب سے اپ ائی ہیں تب سے نہیں رہ رہی کیونکہ صبح کے‬
‫ٹائم بہت شور ہوتا ہے اور پھر اٹھ جاتا ہوں پھر میں کہتا ہوں اب میں اٹھ گیا ہوں کتنا بدبخت ہوں گا اگر میں نماز نہیں پڑھوں گا‬
‫کیا سوچیں گے ہللا تعالی میرے بارے میں ڈیٹس وائے اور ویسے بھی میں اتنا نیک ہو ۔ ارزم ان کی ساری باتیں سن رہا تھا اور‬
‫مسکرا رہا تھا ۔ انٹی بس کیا کروں خود ہی شور ہو جاتا ہے ۔ ارزم بوال امی میں بتاتا ہوں یہ کہتی ہے کہ فرض نماز سب کے‬
‫سامنے پڑھو وہ کھانا کھاتے ہوئے بوال ۔ واہ واہ کیا بات ہے بھابھی اپ کی کتنا نیک خیال ہے اپ کا ۔۔۔ اشعر کھڑا ہو کر کہنے‬
‫لگا ۔ نیچے بیٹھ اے آرزم نے اشعر کو بازو سے پکڑ کر نیچے بٹھایا ۔ بھائی ائندہ میں اپ کے ساتھ والی سیٹ پہ کبھی نہیں بیٹھوں‬
‫گا ۔ اچھا نہ بیٹھی ابھی کھانا کھا ۔ انٹی میں سب کو جگاتی ہوں ائی مین جگانا چاہتی ہوتی ہوں کہ سب نماز پڑھیں کیونکہ میں نے‬
‫یہ سنا ہے کہ فرض نماز ہمیشہ سب کے سامنے اور نفل نماز چھپ کر پڑھنی چاہیے ۔ ماشاءہللا سنا تو بالکل ٹھیک ہے نادیہ بولی‬
‫۔ انٹی مجھے بھ ال کیا لگتا ہے کہ اگر انسان نماز کو پابندی سے پڑھے تو اس کے غلط کام بھی لوگوں کو ٹھیک لگتے ہیں اور‬
‫بلکہ انسان کو بھی خود ٹھیک لگتے ہیں بلکہ ہللا تعالی خود ہی سب کام ٹھیک کر دیتے ہیں اور یہ ازمایا ہوا ہے انٹی نورے نے‬
‫ارزم کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ اشعر بوال اچھا میں نے کھانا کھا لیا میں جا رہا ہوں ۔ کدھر جا رہا ہوں تم نے کہاں کھانا کھایا ہے‬
‫ارزم نے دوبارہ اس کا بازو پکڑ کر کرسی پر بٹھایا اور کہا چپ کر کے کھانا کھاؤ ۔ بھائی دیکھیں میرے سے اور نہیں کھایا جا‬
‫رہا مجھے جانے دیں ۔ خبردار میرے ساتھ بیٹھ کر تم کھانا کھاؤ گے آئندہ تاکہ مجھے پتہ چلے تم کتنا کھاتے ہو اتنا سا تم نے کھایا‬
‫ہے ۔ بھائی اب میں کوئی ڈائناسور ‪ dinasour‬تھوڑی ہوں جو اتنا زیادہ کھانا کھاؤں ۔ تو تم کوئی چوہے بھی نہیں ہو جو اتنا سا‬
‫کھانا کھاؤ ارزم نے اشعر کو ڈائناسور ‪ dinasour‬والی بات کا جواب دیا ۔ ارزم کی ماں اور نورے ہنس دیے ۔ ویسے تم جا‬
‫کہاں رہے ہو ؟ ارزم کے سوال پر اشعر بوال بھائی ہم ٹرپر جا رہے ہیں نا تو اپنے دوستوں کے پاس جا رہا ہوں ویسے ہی تھوڑی‬
‫پالننگ کرنے ۔ اچھا اجازت لی ہے اپ نے ۔ اشعر پہلے تو کنفیوز ہوا لیکن پھر بعد میں بوال ہاں امی سے لی ہے نا ۔ نہیں نہیں‬
‫اس نے میرے سے کوئی اجازت نہیں لی ارزم اس کو ٹھیک کرو یہ پھر جھوٹ بولنا شروع ہو گیا ہے ارزم کی ماں نے کہا ۔ ارزم‬
‫نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا امی کہہ رہی ہیں کہ تم نے اجازت نہیں لی تم جھوٹ بولنے لگے ہو ۔ ن ن نہیں بھائی میں جھوٹ‬
‫نہیں بولتا وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ ارزم نے ایک تھپڑ اس کے منہ پہ لگایا ۔ امی دیکھیں بھائی مار رہے ہیں ۔ بالکل صحیح مار‬
‫رہا ہے اگر وہ تمہیں نہ تھپڑ لگائے دن میں دو تین ‪ ،‬تم انسان نہیں بنتے وہ تو شکر ہے اس نے تمہیں سیٹ کر کے رکھا ہوا ہے ۔‬
‫ہائے میرا اس گھر میں کوئی بھی نہیں ہے میں کیا کروں اشعر بوال ۔ اس بات پر نورے پھر مسکرا دی ۔ اپنی بھابھی کو‬
‫مسکراتے دیکھ کر اشعر بوال بھابھی اپ بس مسکرائی جائیں ‪ ،‬یہ نہیں کہ اپنے چھوٹے سے معصوم سے دیور کا ساتھ ہی دے‬
‫دیں دیکھیں بھائی کو کہہ دیں ۔ ارزم نے ایک اور تھپڑ اشع ر کو لگایا اور بوال بھائی کے سامنے ہی اپنی بھابھی کو تو کہہ رہا ہے‬
‫کہ بھائی کو منائیں پاگل یہ تو نے چھپ کے کہنا تھا تاکہ تمہاری بھابھی مجھے کہتی اور پھر میں مان جاتا ‪ ،‬اب چاہے امی کہیں‬
‫یا نورے کہے تم اج پورا دن گھر ہی رہو گے ۔ ہائے بھائی یہ ظلم مجھ معصوم پر مت کیجئے ۔ کھانا کھا لے جلدی سے نہیں تو‬
‫تجھے ایک اور تھپڑ پڑ جانا ہے ارزم بوال ۔ بچوں تم لوگ باتیں کرو مجھے تمہاری خالہ کا فون ا رہا ہے میں ابھی اتی ہوں‬
‫ارزم کی ماں یہ کہہ کر اپنے کمرے کی جانب گئی ۔ اچھا میں سارا کھانا کھا لوں گا پھر اپ مجھے جانے دیں گے ۔ ہاں جانے دیں‬
‫گے نورے بولی ۔ ارزم نے نورے کو دیکھا اور پھر وہ منع نہیں کر پایا کیونکہ نورے کہہ چکی تھی تو اب منع نہیں ہو سکتا تھا ۔‬
‫اشعر نے دو منٹ میں کھانا اندر کیا ‪ ،‬اور اپنی بھابھی اور بھائی کا منہ تکنے لگا ۔ نورے نے اس کا چہرہ دیکھ کر ارزم کو کہا‬
‫اچھا اب اس کو جانے بھی دیں بیچارے پہ ظلم کرتے رہتے ہیں چلو جاؤ تم چلے جاؤ ۔ اشعر نے ایک نظر ارزم کو دیکھا جو کہ‬
‫اس وقت کھانا کھانے میں مصروف تھا اور چپ کر کہ وہیں بیٹھ گیا کیونکہ ارزم کی شکل سے لگ رہا تھا کہ وہ اجازت نہیں دے‬
‫گا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ نورے کا کہا وہ ٹالے گا بھی نہیں ۔ بیٹھ کیوں گئے جاؤ نا میں کہہ رہی ہوں ‪ .‬بھابھی اگر میں بھائی‬
‫کی اجازت کے بغیر گیا نا تو بھائی کے پاؤں میں جو چپل ہے نا وہ میرے سر پر ٹوٹے گی اور میں تھپڑ کھا کے تھک چکا ہوں‬
‫اور اب میں مزید چپلیں نہیں کھا سکتا اس نے اپنے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ‪ ،‬اور ویسے بھی یہ جو بھائی کی چپل ہے بہت‬
‫زور سے پڑتی ہے ۔ کیوں تم نے کھائی ہوئی ہے ؟ نورے ہستی ہوئی بولی ۔ بھابھی اتنے ظلم ہوتے ہیں مجھ پر تو یہ چپل کیا‬
‫چیز ہے یہ بھی پڑی تھی مجھے ایک دفعہ قسم سے ہفتہ نشان نہیں گیا تھا ۔ نورے زور زور سے ہنسنے لگی ۔ اشعر اداسی واال‬
‫چہرہ بنا کر ٹیبل پر ہی بیٹھا رہا ۔ ٹرپ پر کب جا رہے ہو ؟ ارزم بوال ۔ دو دن بعد ۔ ابھی کہاں جانے کا کہہ رہے ہو ۔ بھائی‬
‫دوستوں کے ساتھ ٹرپ کی پالننگ کرنے ۔ اچھا چلے جاؤ اور یاد رکھنا ابھی ‪ 11‬بج رہے ہیں تم تین بجے تک گھر واپس ہو ۔‬
‫واقعی بھائی تھینک یو وہ اٹھتا ہوا جانے لگا تو ارزم بوال میری بات سن تمہارے پاس پیسے ہیں ۔ اشعر نے اپنی دونوں جیب چیک‬
‫کی لیکن ان میں کچھ نہ تھا ۔ ن نہیں بھائی اشعر نے منہ میں انگلی ڈالتے ہوئے کہا ۔ ادھر سامنے ا ارزم کی اس بات پر اشعر کو‬
‫لگا کہ شاید اب اس کا جانا کینسل ۔ وہ سامنے ا کر کھڑا ہوا تو ارزم نے اپنی جیب سے پیسے نکال کر اس کو دیے اور کہا یہ‬
‫پکڑو اور جب باہر جاتے ہیں اور اگر پیسے نہ ہو تو مجھ سے لے کر جایا کرو دوسروں کے پاس جو پیسے ہوتے ہیں ان کو‬
‫اپنے اوپر خرچ نہ کروایا کرو انسان کی کوئی اپنی سیلف رسپیکٹ ہوتی ہے ۔ اشعر خوش ہوا اور کہا تھینک یو بھائی سو مچ ۔‬
‫چلو جاؤ اور مکھن مت لگاؤ مجھے ۔ اور وہ یہ کہہ کر چال گیا ۔ ۔‬
‫کھانا کھانے کے تھوڑی دیر بعد حریم کو کال کی نورے نے حریم کیسی ہو ٹھیک ہوں نورے جان تم بتاؤ بہت دنوں بعد کال کی ۔‬
‫ویسے یہ بتاؤ تمہیں کس نے بتایا کہ میں گھر اگئی ہوں دے ‪ ،‬نورے نے کہا ۔ میں تھانے گئی تھی وہاں پر نزاکت نامی ادمی نے‬
‫مجھے سب بتایا تھا ۔ کون ہے وہ ؟ ارزم بھائی کے دوست کا دوست ‪ ،‬بھائی نے اس کو وہاں پر سب سنبھالنے کا کہا تھا ۔ اچھا‬
‫یار تم میرا بیگ پہنچادو جس میں میرے کپڑے تھے مجھے ضرورت ہے میرے کپڑوں کی اچھا چلو ٹھیک ہے میں بھجواتی ہوں‬
‫ڈرائیور لے کر ا رہے ہیں تھوڑی دیر میں اوکے ۔ ہاں چلو ٹھیک ہے اس نے فون بند کیا اور کمرے میں جا کر ظہر کا وقت ہو‬
‫چکا تھا تو نماز ادا کرنے لگی ۔ اور ارزم نماز پڑھنے چال گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ارزم ظہر پڑھ کر گھر ایا اور بوال نورے ۔ جی ۔ مجھے ایک کام سے ضروری اج فیصل اباد جانا ہے تو میں پرسوں تک ا جاؤں‬
‫گا ۔ لیکن کس کام سے ۔ یار پولیس افیسر ہوں بہت کام ہوتے ہیں اس لیے بس میں نے امی کو بتا دیا بس تمہیں بتا رہا ہوں بیگ‬
‫پیک میں نے تھوڑی دیر پہلے ہی کیا ہے جب تم برتن دھو رہی تھی تو میں اب نکلنے لگا ہوں بس ٹھیک ہے ہللا حافظ ۔ ہللا حافظ ۔‬
‫۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫دو دن یوں ہی گزر گئے ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔‬
‫اچھا بھابھی تو میں چلتا ہوں اوکے امی ہللا حافظ اشعر بھی اپنی ٹرپ پر روانہ ہو چکا تھا ۔ حریم کے گھر سے ایا ہوا بیگ نورے‬
‫نے اب کھوال تھا اور اس میں سے کپڑے نکال کر الماری میں رکھ رہی تھی کہ جہانزیب کی تصویر کو دیکھ کر وہ شدید شدت‬
‫سے رونے لگی کہ اس کے انسو تھم نہیں رہے تھے اور اس کی ساس بھی گھر نہیں تھی وہ اپنی بہن کے گھر تھی ‪ ،‬گھر میں نہ‬
‫ارزم تھا نہ اشعر نہ اس کی ساس کوئی اس کو دالسہ دینے واال نہیں تھا وہ اکیلے ہی رو رہی تھی اتنی ہی دیر میں بارش ہونے‬
‫لگی جنوری کا مہینہ تھا ‪ ،‬نورے کو یاد ایا کہ جہانزیب کو بارش کتنی پسند تھی ‪ ،‬اپی دیکھیں بارش ہو رہی ہے اپی اپ کو‬
‫پکوڑے نہیں نہ بنانے اتے میں اپ کو پکوڑے بنا کے کھالتا ہوں ۔ اچھا تمہیں اتے ہیں۔ ہاں اپی وہ دوست بتا رہا تھا ایسے ایسے‬
‫بنتے ہیں میں بناتا ہوں ‪ ،‬اپ ایسا کریں اپ چھت پر چلی جائیں بارش ہو رہی ہے ہم دونوں بارش میں پکوڑے کھائیں گے ۔ تم بھی‬
‫نہ ۔ ۔ ۔ ۔۔‬
‫جہانزیب تم نے کتنے مزے کے پکوڑے بنائے ہیں کیا بات ہے یار تم شیف بن جاؤ بہت کمال کرتے ہو واؤ مزہ اگیا وہ دونوں‬
‫بارش میں بیٹھ کر پکوڑے کھا رہے تھے اور پکوڑے کو گیال ہونے سے بھی بچا رہے تھے نورے یہ سوچتے ہوئے چھت پر‬
‫چلی گئی اور اس وقت تقریبا ً رات کے ‪ 11‬بج رہے تھے ‪ ،‬گھر میں کوئی نہیں تھا بغیر ڈرے وہ اکیلے اتنی رات کو چھت پر تھی‬
‫‪ ،‬بارش کی شدت تیز ہو رہی تھی نورے چھت کا دروازہ کھول کر بیٹھی تھی اور رو رہی تھی ۔ وعدے کے مطابق ارزم اپنے کام‬
‫سے فارغ ہو کر فیصل اباد سے الہور ا رہا تھا اور اب وہ گھر پہنچ چکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ارزم یہ جانتا تھا کہ اشعر تو اج ٹرپ پ ر گیا ہے لیکن اس کو اپنی امی اور نورے نہ ملنے کی وجہ سے اس نے اپنی امی کو کال‬
‫کی نورے کو کال کی تھی لیکن اس کا فون وہی ٹیبل پر پڑا تھا ‪ ،‬السالم علیکم ۔ وعلیکم السالم بیٹا اگئے ہو تم واپس ۔ جی لیکن اپ‬
‫کہاں ہیں ؟ میں تمہاری خالہ کے گھر ائی ہوں ۔ اچھا تو نورے بھی اپ کے ساتھ ہے کیا؟ نہیں تو کیوں کیا وہ گھر پر نہیں ہے ؟‬
‫نہیں نہیں امی وہ گھر پر ہی ہے میں ویسے ہی پوچھ رہا تھا ارزم اپنی ماں کو ٹینشن نہیں دینا چاہتا تھا اس لیے اس نے کچھ نہیں‬
‫بتایا ۔ ارزم نے فون بند کیا اور ٹینشن میں نورے کو پور ے گھر میں ڈھونڈنے لگا کبھی نیچے گیا تو نیچے نہیں ملی اور اوپر ایا‬
‫تو اوپر بھی نہیں ملی اچانک اس کی نظر چھت پر پڑی تو چھت کا دروازہ کھال تھا تیز بارش ہو رہی تھی اس نے سوچا کہ نورے‬
‫چھت پر کیا کرنے گئی ہوگی اتنے میں ہی چھت کا دروازہ زور زور سے بجنے لگا ہوا کی وجہ سے ارزم اوپر گیا دروازہ بند‬
‫کرنے لیکن وہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ سامنے نورے بیٹھی رو رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫نو ۔ نو نورے آپ یہاں کیا کر رہی ہو ؟ ارزم نے اس سے سوال کیا ۔ نورے نے ایک نظر اس کی جانب دیکھا اور پھر گھٹنوں پر‬
‫سر رکھ کر رونے لگی ۔ اس وقت نورے نے سفید رنگ کا گھٹنوں سے نیچے فراک پہنا تھا اور نورے کے بال کھلے ہوئے تھے‬
‫نہ جانے کیوں وہ بال کھولتی تو نہیں تھی لیکن اج اس کے بال کھلے ہوئے تھے ارزم سوچ رہا تھا ‪ ،‬وہ پوری بھیگ چکی تھی ۔‬
‫ارزم دروازے کے پیچھے کھڑا تھا اور اس کی بے بسی کو تعجب کے عالم میں دیکھ رہا تھا ‪ ،‬لیکن وہ بھیگا نہیں تھا ۔ وہ اگے‬
‫بڑھا اس نے نورے کا بازو کہنی سے پکڑا اور کہا اٹھو اور نیچے چلو ‪ ،‬کیا حرکت ہے یہ تم اوپر بیٹھی ہو تمہیں سردی لگ‬
‫جائے گی جنوری کا مہینہ ہے جوالئی کا نہیں ۔ نورے نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تو ارزم بولتے بولتے رک گیا اور اس‬
‫کی انکھوں میں دیکھتا رہ گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ نورے روتے ہوئے زیادہ پیاری لگتی ہے اور وہ لگ بھی رہی تھی بڑی‬
‫انکھیں تھی اس کی اس وقت اور وہ پانی سے بھری ہوئی تھی اور یوں لگ رہا تھا جیسے ارزم تیر جاۓ گا اور وہ سرخ ہوئی‬
‫تھی بال اس کے کھلے ہوئے تھے اور سفید رنگ تو جیسے اس کے لیے ہی بنا تھا گوری رنگت پہ سرخ گالیں بڑی انکھیں تھیں ۔‬
‫نورے نے اس کی جانب ایک نظر دیکھتے ہوئے دوبارہ سر نیچے کر لیا اور بولی یہاں سے چلے جاؤ مجھے یہاں تھوڑی دیر‬
‫بیٹھنے دو ۔ کیا تمہیں جہانزیب کی یاد ا رہی ہے ؟ نورے نے بے بسی کے عالم میں ایک دفعہ دوبارہ اس کو دیکھا اور زور زور‬
‫سے رونے لگی منہ پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے وہ منہ کو چھپا گئی تھی ۔ نورے نورے مت رو ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ارزم کو سمجھ نہیں ارہی تھی وہ کیا کرے اتنی تیز بارش تھی اور اتنی ٹھنڈ والی بارش تھی کہ نورے بیمار بھی پڑ سکتی ہے وہ‬
‫یہ سوچنے لگا ۔ نورے یوں رو تو مت رونے سے جہانزیب سے واپس تھوڑی ا جائے گا ۔ لیکن مجھے واپس چاہیے پتہ ہے اس‬
‫کو بارش بہت پسند ہے وہ اپنے خیالوں میں کھوتی ہوئی کہہ رہی تھی اس کو بارش بہت پسند تھی وہ یوں ہی بارش میں ا کر نہاتا‬
‫تھا اور بیٹھ جاتا تھا مجھ سے باتیں کرتا تھا کیونکہ میں اور وہی گھر میں اکیلے ہوتے تھے اور اگر سفینہ بیگم ہوتی بھی تھی تو‬
‫وہ ہمیں نہ بالتی نہیں تھی اور ہم نے کبھی اتنے محسوس بھی نہیں کیا تھا ہم خود ہی خوش رہتے تھے وہ میرا چھوٹا بھائی میری‬
‫جان تھا اور اج مجھے اس کو تھا کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہوتا ہے اس کی انکھوں سے شدت سے انسو بہنے لگے ۔ اچھا چلو‬
‫نیچے چلو نیچے چل کے بات کرتے ہیں ۔ ارزم نے نورے کا ہاتھ پکڑا اور اس کو سیڑھیوں سے نیچے لے کر ایا چھت کے‬
‫دروازے کو کنڈی لگا کر ۔ جاؤ پہلے آپ جا کر کپڑے وغیرہ چینج کرو ان کپڑوں میں سردی لگ جائے گی۔ نورے نے روتے‬
‫ہوئے کمرے میں جا کر اپنے کپڑے چینج کیے ‪ ،‬اور جا کر اپنے بیڈ روم میں بیٹھ گئی ۔ ارزم نے اس کے لیے ہیٹر آن کیا اور‬
‫اس کے سامنے رکھ دیا تاکہ اس کو سردی وغیرہ نہ لگ جائے ۔ ارزم صوفے پر بیٹھ گیا جو کہ بیڈ کے ساتھ ہی تھا ۔ نورے یہ‬
‫کتنی بے وقوفانہ حرکت ہے کہ رات کے اس وقت چھت پہ جا کے تم بیٹھ گئی‪ ،‬کون بھال ایسے کرتا ہے تمہارے پاس دماغ نہیں‬
‫ہے جو دل میں ائے کرتی رہتی ہو ‪ ،‬کسی خوف نام کی چیز تمہارے اندر پائی نہیں جاتی ‪ ،‬جنوری کا مہینہ ہے اتنی سردی ہے‬
‫اور تم کیا کرتی پھر رہی ہو کوئی گھر نہیں ہوگا تو تم یہ کرو گی خود کو نقصان اور اذیت دینے سے کیا ہوتا ہے بھال ۔ ارزم نے‬
‫اس کو غصے سے کہا ۔ مجھے اس وقت ڈانٹو مت نورے نے دوسری جانب اپنا منہ کر لیا وہ بیٹھی ہی ہوئی تھی ۔ ارزم خاموش‬
‫ہو گیا وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ اس وقت اس کنڈیشن میں نہیں کہ اس سے یوں بات کی جائے ۔ نورے مسلسل رو رہی تھی ۔ اچھا میں‬
‫اپ کو کچھ نہیں کہتا لیکن میری بات سنو رو تو نہیں ۔ میں کیوں نہ روؤں یہ روگ تو اب زندگی بھر کا ہے نا میں نا چاہتے ہوئے‬
‫بھی اس کو بھال نہیں سکتی ‪ ،‬میں نے اپنے بھائی کو اتنا پیار کیا خود پاال ایک قسم کا اور وہ میرے سے دور چال گیا مجھے بھی‬
‫اس کے پاس جانا ہے پلیز مجھے مار دیں وہ بے بسی سے کہہ رہی تھی اس کی ایسی بے بسی ارزم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی‬
‫تھی جو اج اس کے چہرے پر نمودار تھے۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫بس نورے اب اپ ایسی کوئی بات نہیں کرو گی جانتی ہو اپنے لیے موت مانگنے والی عورت کتنی گنہگار ہوتی ہے کیوں اپنے‬
‫اپ کو گنہگار کرتی رہتی ہے وہ نرمی سے بوال تھا ‪،‬کیونکہ اس کو یوں دیکھ کر ارزم سے غصے سے بات نہیں کی جا رہی تھی‬
‫۔ میں کیا کروں میں بے بس ہوں کیا میں کچھ نہیں کر سکتی نہ جانے سفینہ بیگم کب ائیں گی اور ابھی میری زندگی میں کیا کیا‬
‫ہونا ہے کوئی مستقبل نہیں نظر ا رہا نورے اس کو سمجھانا چاہ رہی تھی اس کو اپنی سمجھ خود نہیں ارہی تھی ۔ ارزم نے بیڈ‬
‫کی جانب اپنا ہاتھ بڑھا کر نورے کا ہاتھ نرمی سے پکڑا اور بوال نورے انسان کے پاس زندگی میں دو آپشن ہیں یا تو پرانی سوچو‬
‫کو سوچ کر خود اپنے پیروں میں نئی خوشیاں ملنے کے باوجود بھی بیڑیاں ڈال لے یا تو پچھلے صدمے کو بھال کر نئی خوشیوں‬
‫کو حاصل کرنے کا سوچے اب یہ انسان پر ہے کہ وہ زندگی کو دکھ کی زنجیر میں لپیٹنا چاہ کر گزارنا چاہے گا یا تو ایک ایسی‬
‫زندگی جس نے وہ ماضی کو بھولنے کی صالحیت رکھتا ہو تم سوچو تم کیسے زندگی گزارنا چاہو گی ۔ ارزم کے اس بات پر‬
‫نورے کسی سوچ میں پڑ گئی تھی ‪ ،‬ل ل لیکن اگر انسان یعنی میں وہ بولتے ہوئے لڑکھڑا رہی تھی کیونکہ وہ بہت شدت سے‬
‫روئی ہوئی تھی ‪ ،‬اپ اپ مجھے بتائیں مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ میری بات سنو جب میں نے تمہیں کہا ہے کہ میں تمہارے ساتھ‬
‫ہوں میں تمہیں تمہارے بھائی کو اور تمہارے بابا کو انصاف دلواؤں گا تو تمہیں کسی بات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ٹھیک‬
‫ہے ۔ لیکن مجھے اپنے مستقبل کا کچھ سمجھ نہیں اتا میں آگے کیا کروں گی میں یو اپنی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتی ۔ برباد‬
‫مطلب؟ ارزم نے سوال کیا ۔ برباد میرا مطلب کہنے کا وہ نہیں ہے میرا مطلب یہ ہے کہ میں شادی کر کے اپنی زندگی کو روکنا‬
‫نہیں چاہتی تھی میں اب کیا کروں گی؟ نورے اپ جانتی ہو کہ انسان کی زندگی کا فیصلہ ہللا کرتا ہے ہر فیصلہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫دنیا میں جتنے بھی فیصلے انسان کرتا ہے وہ ہللا تعالی کو حاضر ناظر رکھتے ہوئے ہی کرتا ہے اس کا ماضی اس کا مستقبل اس‬
‫کا حال صرف ہللا جانتا ہے انسان سے بہتر انسان کو ہللا جانتا ہے ٹھیک کہہ رہا ہوں میں ۔ جی ‪ ،‬نورے نے یہ کہتے ہوئے نظریں‬
‫نیچے کر لی ۔ تو پھر مجھے یہ بتاؤ جب ہللا تعالی کو ہمارا ہر فیصلہ کرنا ہے تو پھر ہم کون ہوتے ہیں اپنے مستقبل کی فکر‬
‫کرنے والے ہللا تعالی کہتے ہیں کہ اپنے مستقبل کی فکر نہ کرو میں نے بنایا بہتر ہی ہوگا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہللا تعالی انسان کا‬
‫فیوچر بنائے تو وہ اچھا نہ ہو ‪ ،‬نورے ایسا نہیں سوچتے نہ ہی ایسا کہتے ہیں‪ ،‬نورے اپنے دکھ میں بھی کبھی ایسی بات نہ کرو یا‬
‫آنکونسشلی ‪ uncounciously‬اپ کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل جائے جو کہ ہللا تعالی کو نہ پسند ائے تو پھر ؟ تو پھر کیا‬
‫اپ چاہتی ہو کہ ہللا تعالی اپ سے ناراض ہو جائیں یا اپ کے بارے میں فیصلہ اچھا نہ کریں وہ کہیں کہ اس نے تو خود ہی‬
‫فیصلے کرنے ہیں تو اس پہ ڈال دیتا ہوں ‪،‬خود ہی کر لے ‪ ،‬دیکھو اپ کہتی ہو نا کہ اپ کو جہانزیب کی موت کا بدلہ لینا ہے اپ‬
‫کو اپنے بابا کی موت کا بدلہ لینا ہے تو اپ لینا ضرور لینا اپ ان کو انصاف دلوانا ہے لیکن دیکھو ایک انسان کہتا ہے کہ یہ‬
‫مجھے نہیں مال کیوں نہیں مال مجھے چاہیے تھا اس کے پاس ہے میرے پاس نہیں ہے ایسے نہیں ہوتا اسے ایک قسم کا جیلسی‬
‫‪ jealousy‬کہتے ہیں اور اگر اپ یہ کرو گے تو اپ کو کتنا ہللا تعالی گناہ دیں گے دیکھو کیا پتا اپ ایک ستارہ چاہتے ہو اور ہللا‬
‫تعالی اپ کو چاند دینا چاہتا ہو لیکن بات کیا ہے صرف صبر کی جتنا اپ صبر کرو گے نا ہللا تعالی اپ کی مدد کرے گا میں جانتا‬
‫ہوں صبر کرنا بہت مشکل ہے نورے ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس انسان پر گزر رہی ہوتی ہے اس کو ہی پتہ ہوتا ہے صبر کیا ہے میں جانتا‬
‫ہوں صبر بہت مشکل ہے میرے پہ بھی بہت سے ایسے مرحلے آئے ہیں میری زندگی میں کہ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ کیا‬
‫کروں میں کیا نہ کروں میں ۔ میں نے صبر سے ہللا تعالی سے مدد مانگی ہے اور میری بہنیں بھی تو تھی نا دیکھو وہ بھی تو اس‬
‫دنیا میں نہیں ہے میری ماں نہیں جانتی کہ وہ میرے باپ کے ہاتھوں ماری گئی تھی ‪ ،‬وہ نورے کا ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ سے‬
‫بھی تھام کر تھپتھپا کر بول رہا تھا ۔ میں جانتا ہوں یہ مرحلہ اپ کی زندگی کا بہت مشکل ہے لیکن اپ کو اس کو بہت ہمت اور‬
‫بہادری کے ساتھ گزارنا ہے اتنی ہمت والی تو ہو نا جانتا ہوں میں اپ کو کسی سے نا ڈرنے والی رات کے اس وقت چلے جانے‬
‫والی چھت پر ارزم نے نورے کے گال کو تھپتھپاتے ہوئے کہا ‪ ،‬مسکراتے ہوئے کہا ۔ نورے کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ‬
‫جیسے ارزم اس کو نہیں بلکہ ایک ‪ 12 10‬سال کے بچے کو پیار سے سمجھا رہا ہو جیسے اس کو اچھے اور برے میں فرق کرنا‬
‫سکھا رہا ہو اس کو ہللا کی راہ میں چلنے کے لیے کہہ رہا ہو۔ اپ میری بات سمجھ رہی ہو۔ ( نہ جانے ارزم کیوں نورے سے‬
‫ہی یوں اپ کر کے پیار سے بات کیا کرتا تھا اور باقی سب پر روبہ چالتا تھا) ۔ میں سمجھ گئی ہوں میں صبر کروں گی اور اب‬
‫میں نہیں روؤں گی ‪،‬میں ان کو بہادری اور ہمت کے ساتھ انصاف دلواؤں گی اپنے بابا کو اپنے جھانزیب کو ۔ یہ ہوئی نا بہادری‬
‫والی بات ‪ ،‬اور ہاں اتنے اونچے دعوے کرنے والی روتی اچھی نہیں لگتی ۔ نورے ارزم کی اس بات پر مسکرا دی تو نورے کو‬
‫دیکھ کر ارزم بھی مسکرا دیا ۔ چلو سو جاؤ کافی رات ہو گئی ہے میں نے عشا نہیں پڑھی تھی میں عشا پڑھنے جا رہا ہوں اپ‬
‫سو جاؤ ۔ گھر میں ہی عشاء پڑھ لو ۔ چلو ٹھیک ہے ارزم اس لیے راضی ہو گیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ نورے ابھی بہت ٹینس‬
‫ہے ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ارزم نے نماز پڑھی اور ا کر بیڈ پر بیٹھ گیا ۔ نورے اپ ابھی تک سوئے کیوں نہیں کتنی غلط بات ہے ۔ میں نے اپ کو بتایا تھا نا‬
‫کہ میں بھی نظم شاعری وغیرہ کرتی ہوں ۔ ہاں ارزم نے مسکراتے ہوئے کہا ‪ ،‬لیکن کیوں کیا ہوا ؟ میں نے اپ کو ایک سنانی‬
‫ہے ۔ اچھا چلیں سنائیں ۔ ویسے اپ بھی کمال کرتے ہیں اب مجھے زبانی تھوڑی اتی ہوگی ایک کام کریں وہ الماری میں میں نے‬
‫اپنے کپڑوں کے نیچے ڈائری رکھی ہے وہ پکڑا دیں میں اٹھوں گی تم مجھے سردی لگی کہ دیکھیں پلیز نورے خود نہ اٹھنا چاہ‬
‫رہی تھی اس لیے اس نے ارزم کو مکھن لگایا اور ارزو بھی اٹھ کر مسکراتے ہوئے اور ہنسی دباتے ہوئے اس کی ڈائری لے کر‬
‫دوبارہ بیڈ پر ا چکا تھا ۔ نورے بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھی اور سنانے لگی ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫دکھ درد کو سینے میں دفن کر کے ماتھے پر خوشیوں کی لڑی کو پرو کے‬
‫یہ زندگی گزاری ہے میں نے‬
‫کیسے گزاری ہے تم پوچھو گے نہ زندگی پوچھو گے نہیں تو پھر بھی بتاؤں گی‬
‫کیونکہ میں نے یہ زندگی گزاری ہے‬
‫بڑی مشکل تھی پھر بھی گزاری ہے یہ میری تھی اس لیے‬
‫میں نے یہ زندگی گزاری ہے‬
‫سارے راز سینے میں دفن کر کے جا رہی ہوں ‪ ،‬اب چاہوں گی بھی تو نہیں گزاروں گی‬
‫کیونکہ میں نے یہ زندگی گزاری ہے‬
‫کیسے نہ بتاؤں کیسے ہے گزارش زندگی بتانا ہوں میں چاہتی‬
‫کیونکہ میں نے یہ زندگی گزاری ہے‬
‫بچپن میں زندگی کا بہت مزہ تھا کیونکہ جانتی نا تھی زندگی گزارنی ہے اب چاہوں گی بھی تو نہیں گزاروں گی‬
‫کیونکہ میں نے یہ زندگی گزاری ہے‬
‫سمجھ جاؤ گے تم بھی زندگی کیسے گزاری ہے کیونکہ تم نے بھی یہ زندگی گزارنی ہے اور تم کہو گے کہ تم نے زندگی گزارنی‬
‫نہیں‬
‫کیونکہ تم نے بھی زندگی گزاری ہے‬
‫چلے گا پتہ کہ تم کو کتنی ہے مشکل کی زندگی‬
‫جب گزارنی پڑے گی‬
‫کبھی دکھی ‪ ،‬کبھی سوکھی ‪ ،‬کبھی اداسی ‪ ،‬کبھی ہنسی‪ ،‬کبھی نہ چاہی ‪ ،‬کبھی من چاہی ‪ ،‬کبھی خوشی ‪ ،‬کبھی غمی پھر بھی‬
‫گزارنی پڑے گی‬
‫کیونکہ ہم سب کو یہ زندگی گزارنی ہے‬
‫نا جانے کیا ہو گیا ہے مجھے ابھی تو ساری زندگی گزاری بھی نہیں‬
‫میری باتیں سن کر لوگ کہتے ہیں لگتا ہے اس نے زندگی گزاری ہے۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫یہ واقعی اپ نے لکھی ہے ۔ کوئی شک ۔ ہمیں تو اپ کی ایک ہی بات پہ یقین ا جاتا ہے اور اپ شک کی بات کر رہی ہو ۔ نورے‬
‫مسکرا دی ۔ اچھا بہت اچھی تھی ویسے یہ اب اپ ایسا کرو سو جاؤ کافی رات ہو گئی ہے اور اتنی بھیگنے کے بعد نیند اچھی ائے‬
‫گی ارزم نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔‬
‫اگلی صبح ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫نادیہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو نادیہ کی بہن راحیلہ نے اس سے حیرانگی کے لہجے میں پوچھا ۔ ہاں راحیلہ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ‪،‬‬
‫ارزم نے نکاح کر لیا ہے اور اب وہ اس لڑکی کو گھر لے کر ا چکا ہے ۔ وہاں پر موجود رہیلہ کی بیٹی کشف جو کہ ارزم کے‬
‫لیے مانگی گئی تھی اس کو جب معلوم پڑا کہ اس کی منگنی ٹوٹ چکی ہے تو وہ حیرت سے کھڑی ہو گئی ۔ خالہ ماں یہ اپ کیا‬
‫کہہ رہی ہیں ‪ ،‬اپ تو اپنی زبان کی بہت پکی ہیں اپ نے یہ کیا کیا ؟ بیٹا میں نے کچھ نہیں کیا بلکہ میں تو اس کو اتنا بولی تھی کہ‬
‫تم نے کیا کیا میں کیا کر سکتی ہوں تم جانتی ہو ارزم کسی کی نہیں سنتا ہے ۔ کسی کی نہیں سنتا کیا مطلب اپ اس کی ماں ہو کر‬
‫اس کو سمجھا نہ پائیں اس نے مجھے دھوکہ دیا ہے ۔ اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے کشف کی اس بات پر نادیہ بولی منگنی اس‬
‫کی زبردستی تم سے ہوئی تھی وہ نہیں چاہتا تھا یہ تم بھی جانتی ہو اس نے تم سے کوئی وعدے نہیں کی تھے ۔ لیکن خالماں کسی‬
‫کی بیٹی کے ساتھ یوں کرنا کتنی غلط بات ہے راحیلہ کی دوسری بیٹی کنول بولی ۔ بچے میں کیا کروں میں کچھ نہیں کر پائی وہ‬
‫تو تمہاری ماں نے مجھے دو دن پہلے فون کیا تھا کہ کشف کی اور ارزم کی شادی کا کچھ کیا جائے تو میں اسی لیے کل چلی ائی‬
‫بتانے ۔ کشف یہ سب سنتے ہوئے غصے سے اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر چکی تھی ۔ چلی جاؤ میرے گھر سے راحیلہ‬
‫نے اپنی بہن کو کہا ۔ لیکن راحیلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کہہ رہی ہوں چلی جاؤ ۔‬
‫نادیہ اب اپنے گھر ا چکی تھی۔ امی اپ صبح صبح ہی اگئی ‪ ،‬ارزم نے اپنی ماں کو اتے ہوئے دیکھا صبح ناشتے کے وقت تو‬
‫وہ بوال ۔ بیٹا مجھے تم سے بات کرنی ہے اس وقت نورے سامنے ہی موجود تھی ۔ ارزم کی ماں نادیہ نے ارزم کو اشارہ کیا کہ‬
‫نورے کو کمرے میں بھیجو وہ اپنی ماں کا اشارہ سمجھ گیا ۔ نورے اپ ایسا کرو اپ کمرے میں جا کر میرا موبائل چارجنگ پر‬
‫لگا دو ‪ ،‬چارجر میرے سوٹ کیس میں ہے جو کہ میں ساتھ لے کر گیا تھا ارزم نے اپنا موبائل نورے کو پکڑاتے ہوئے کہا ۔‬
‫نورے بغیر کچھ بولے موبائل اس کی ہاتھ سے پکڑ کر جا چکی تھی ۔ اس کے جانے پر ارزم اپنی ماں کے پاس زمین پر بیٹھا اس‬
‫کی ماں بیڈ پر بیٹھی تھی امی کیا ہوا ؟ وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا ۔ بیٹا یاد ہے تین دن پہلے جب ہم سب ناشتہ کر رہے تھے تب‬
‫تمہاری خالہ کا مجھے فون ایا تھا ۔ جی ۔ انہوں نے مجھے کہا تھا کہ اؤ اور کچھ رشتے کی مزید بات کرتے ہیں رشتے کو مزید‬
‫بڑھاتے ہیں ۔ پھر ؟ پھر یہ کہ میں اب اس کو دھوکے میں نہیں رکھ سکتی تھی میں کل رات کو جا کر سو گئی تھی وہاں پر لیکن‬
‫اج صبح میں نے سب بتا دیا میں ان کو دھوکے میں رکھنا ہرگز نہیں چاہتی تھی ۔ خالہ کا کیا ری ایکشن تھا امی ؟ اس نے تو‬
‫مجھے سیدھا سیدھا گھر سے کہا کہ نکل جاؤ اور کشف بھی اپنے کمرے میں دروازہ بند کر کے چلی گئی تھی ۔ اچھا ‪ ،‬ارزم اٹھ‬
‫کر کمرے سے باہر کی جانب جانے لگا ۔ تم کہاں جا رہے ہو ارزم کی ماں سنجیدہ لہجہ اپناتے پوچھا ۔ امی ناشتہ کرنے جا رہا‬
‫ہوں اپ بھی ا جائیں ۔ تم پر میری باتوں کا کچھ اثر نہیں ہوا تم جانتے نہیں ہو شارک کو ۔ جانتے ہوں میں شاری کو بھی اور اپ‬
‫بھی اپنے بیٹے کو جانتی ہیں جو وہ کرے گا اس سے ڈبل پھر میں کر کے دکھاؤں گا ۔ شارق کسی چھوٹے بڑے کا لحاظ نہیں‬
‫کرتا ‪ ،‬اور دنیا میں وہ سب سے پیار اپنی بہن سے کرتا ہے بلکہ اپنی دونوں بہنوں سے اور اپنی ماں سے تو وہ تم سے سوال‬
‫کرنے ضرور ائے گا کہ تم نے اس کشف کو کیوں رالیا تمہیں کوئی ڈر خوف نہیں ہے اس کا ۔ امی میں جھوٹے لوگوں سے نہیں‬
‫سچے لوگوں سے ڈرتا ہوں ۔ کیا مطلب سچے لوگ اس سے کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ کہ جھوٹے لوگ جتنی مرضی دلیلیں دے‬
‫دیں وہ مانی بھی جائیں تو وہ تھوڑے وقت کے لیے ہوتا ہے لیکن سچے کی انکھیں ہی بتا دیتی ہیں کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ۔‬
‫اپنی فالسفیاں بعد میں جھاڑنا وہ ضرور ائے گا میں جانتی ہوں ۔ پہلے وہ اپنے ‪ 50‬قتل تو پورے کر لے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬

‫وہ یہ کہتا کمرے سے باہر نکل گیا اور جا کر کچن سے شربت بنا کر اپنی ماں کو دیا اور بوال امی اپ کو فکر کرنے کی کوئی‬
‫ضرورت نہیں ہللا میرے ساتھ ہے اس کے بعد آپ میرے ساتھ ہیں پھر نورے اور اشعر بھی میرے ساتھ ہیں مجھے ڈرنے کی‬
‫کوئی ضرورت نہیں ہے اور اپ بھی ریلیکس کریں جو ہوگا دیکھا جائے گا اور وہ ناشتہ کرنے چال گیا ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ماں بیگم ماں بیگم ۔۔۔۔۔شارق اپنی ماں کو ڈھونڈتے ہوئے پورے گھر میں چال رہا تھا ۔ کیا ہوا ہے تمہیں ؟ اس کی ماں اس کے‬
‫سامنے آئی اور بولی لیکن غصے سے بولی تھی ۔ شارق حیران ہوا تھا کہ اس کی ماں غصے میں کیوں بولی لیکن وہ بولنے لگا‬
‫امی کشف کیوں نہیں ائی ۔ کہاں نہیں ائی کشف ؟ امی آپ جانتی ہیں میں جب بھی آتا ہوں امریکہ سے تو کشف سب سے پہلے‬
‫میرا استقبال کرتی ہے ۔ آج تمہاری بہن پاگل ہوئی ہوئی ہے ۔ کیوں کیا ہوا ہے ؟ لگتا ہے یونیورسٹی میں کچھ ہوا ہوگا میں جا کے‬
‫پوچھتا ہوں شارک اپنی بہن کا پوچھ لیں اس کے کمرے میں بھرنے لگا تو اس کی ماں نے اس کا بازو پکڑا اور اپنی طرف‬
‫کھینچتے ہوئے بولی ‪ ،‬تمہاری بہن جس سے منگنی کر چکی ہوئی تھی وہ جا کے منگنی توڑ گیا ہے۔ کیا؟؟؟ شارق کی آنکھیں‬
‫پھٹی کی پھٹی رہ گئی اور اس کا دماغ جیسے چلنا بند ہو گیا اور میٹر گھوم گیا تھا ۔ ارزم کی یہ ہمت ۔ تمہارے اس کزن نے اس‬
‫چھوٹے سے ایس پی نے شادی کر لی ہے نکاح کر کے آیا ہے وہ کسی سے اور اس کو اپنی بیوی بنا کے گھر میں مقام دے چکا‬
‫ہے اور تمہاری بہن تمہاری خالہ کے منہ سے یہ بات سن کر صبح کی کمرے سے باہر نہیں نکلی بھوکی پیاسی وہیں بیٹھی ہوئی‬
‫ہے وہ نہایت سنجیدہ لہجے میں بول رہی تھی ۔ میں اس کو نہیں چھوڑوں گا میں بھی رویل ریکس ( شاندار بادشاہ ) ہوں ۔‬
‫شارق دوڑتا ہوا اپنی بہن کے کمرے کی جانب گیا اور بوال۔ دروازہ کھولو کشف ۔ کشف نے فوراً اپنی بھائی کی آواز سن کر‬
‫دروازہ کھوال ‪ ،‬اور بھائی کے ساتھ لگ کر اونچا اونچا رونے لگی ۔ بھائی اس گھٹیا آدمی نے اپ کی بہن کا مذاق بنایا ہے آپ اس‬
‫کو نہیں چھوڑیں گے وہ یہ کہتے ہوئے رو رہی تھی ۔ فکر نہ کرو میں اس کو بالکل نہیں چھوڑوں گا اپنی بہن کی آنکھوں میں‬
‫اس نے دیکھا تو وہ واقعی بھیگی ہوئی تھی اس نے اپنی بہن کشف کو پیچھے کرتے ہوئے فوراً سیڑھیوں کی طرف دوڑ لگاتے‬
‫ہوئے باہر کی جانب بھرتے ہوئے گاڑی نکالی اور ارزم کے گھر چال گیا ۔ اشعر کی ٹرپ بھی ایک دن کی ہی تھی ‪ ،‬لہذا واپس ا‬
‫چکا تھا ۔ ارزم اپنے کام پر گیا ہوا تھا ۔ شارق فوراً گھر پہنچا ارزم کے اور اندر آتا ہوا بوال کون ہے وہ جس نے میری بہن کا حق‬
‫لے لیا ہے ؟ اس کی اواز اتنی اونچی تو نہ تھی لیکن صحن میں گونج رہی تھی نورے اس وقت اوپر والے کچن میں موجود تھی‬
‫لیکن نورے کو آواز نہ گئی تھی ۔ ارے ریکس دا ڈون اپ یہاں خیریت سے اشعر بوال ‪ ،‬وہ سیب کھا رہا تھا ۔ تمہارے بھائی نے‬
‫نکاح کر لیا ہے ۔ بتا رہے ہیں یا پوچھ رہے ہیں ؟پوچھ رہا ہوں وہ نہایت غصے میں بوال۔ غالبا ً اس بات کو ایک ہفتہ ہو چکا ہے‬
‫آپ لیٹ ہیں ‪ ،‬اگر بریانی کھانے آئے ہیں تو وہ نہیں ہے کیونکہ وہ میں نے بھی نہیں کھائی‪ ،‬ویسے خیر تھی کہاں تھے اپ وہ‬
‫سیب کھاتا بوال ۔ میں امریکہ میں تھا وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ اشعر اس کی بات کاٹتے بوال ‪ ،‬کیا ‪ 48‬وقت قتل کرنے گئے تھے ۔‬
‫میرے سامنے زبان مت چال وہ نہایت سنجیدہ انکھیں کھولتے ہوئے بوال ‪ ،‬میں تیرے خاندان کو برباد کر کے دم لوں گا ۔ وائی ناٹ‬
‫یہ ہے میرا خاندان اس نے گھر کی طرف انگلی گھماتے ہوئے کہا اور میں بھی دیکھتا ہوں اپ اس کو تباہ کیسے کرتے ہیں بھائی‬
‫یہ ایک نیا روپ تھا جو اشعر نے سب سے پہلے شارق کو دکھایا تھا ۔ بھائی لیں سیب کھائیں خالہ ماں کہاں پر ہیں ؟ اب وہ‬
‫ب چیختا ہوا اندر گیا ۔ اشعر جو اس کے انے سے پہلے سیب کھا رہا تھا وہی بیٹھ کر دوبارہ سیب کھانے لگا ۔ وہ اوپر کی جانب گیا‬
‫اوپر والے کچن میں نورے موجود تھی ۔ اس کو لگا کے خالہ ماں ہے کیونکہ نورے نے حجاب کیا ہوا تھا وہ اندر گیا اور بوال‬
‫خالہ یہ کیا ہیں اور اپ کیا کہہ کے گئی ہیں ۔ نورے نے مڑ کر دیکھا تو شارق وہی تھم گیا تھا کیونکہ اس کو نورے بے حد‬
‫پیاری لگی تھی ۔ کون ہو تم لڑکی اس نے گویا عجیب انداز میں پوچھا ۔ یہ میرا گھر ہے تم مجھے بتاؤ تم کون ہو؟ تمہارا گھر کیا‬
‫مطلب وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے ساری بات بھول چکا تھا ۔ شارق اگے کی جانب بھرا اور بوال ول یو میری می ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اس کے یہ کہنے پر نورے اپنا ہاتھ نہ روک پائی اور اس نے ایک زوردار تھپڑ پوری قوت سے اس کے منہ پر لگا دیا ۔ تمہاری‬
‫اتنی ہمت کہ تم مجھے تھپڑ لگاؤ شارق نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بوال تم جانتی نہیں میں رویل ریکس ہوں ۔ جو مرضی‬
‫ہو تم تم میری جوتی کے نیچے ہو بڑا ایا رویل ریکس بنا پھرتا ہے حرکتیں اتنی چیپ ہے ۔ شارق نے غصے سے اس کا بازو‬
‫پکڑا تو نورے پھر نہ رکی اس نے ایک اور تھپڑ اس کے منہ پر اس دفعہ زیادہ قوت سے جھڑ دیا ۔ اور اپنے کمرے میں چلی‬
‫گئی ۔ شارق فوراً نیچے ایا اور اس نے اشعر کو غصے سے دیکھا۔ تھپڑ کی اواز تو ویسے بہت زور سے ائی ہے اشعر سیب‬
‫کھاتا ہوا بوال ‪ ،‬بڑی قوت سے مارا ہے لگتا ہے بھابھی نے دیکھو کیسے سرخ ہو رہے ہو ۔ میں کوئی سرخ نہیں ہو رہا اور‬
‫بکواس بند کرو اپنی ۔ اوہ لگتا ہے اپنی حرکتوں سے شرما کے سرخ ہو رہے ہیں اپ ۔ بکو مت ریکس بوال تم دیکھنا میں کیا کرتا‬
‫اور وہ یہ کہتا ہوا اپنے گھر جا چکا تھا ۔ ارزم گھر واپس ایا تقریبا ً دو گھنٹوں بعد اس واقعے کے ۔ اشعر اپنے کمرے میں تھا ۔‬
‫ارزم نے جب باہر کسی کو نہ پایا تو وہ بھی اپنے کمرے کی جانب جانے لگا اس نے کمرے کا دروازہ کھوال تو نورے کمرے‬
‫کے چکر کاٹ رہی تھی ۔ السالم علیکم ارزم نے گھر ا کر سب سے پہلے کمرے میں جا کر نورے کو سالم کیا ۔ نورے نے جواب‬
‫نہیں دیا اور مسلسل کمرے کے چکر کاٹ رہی تھی اور اس کا چہرہ نہایت غصے واال معلوم ہو رہا تھا ۔ ارزم نے بیٹھتے ہوئے‬
‫صوفے پر کہا لگتا ہے میں سالم کر رہا تھا شاید اپ کو اواز نہیں ائی ۔ ا گئی تھی مجھے اواز وہ نہایت غصے اور سنجیدہ رہنے‬
‫سے بولی اور کہا وعلیکم السالم ۔ کیا ہوا ہے اتنے غصے میں کیوں ہے ارزم صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تھا ۔ کون تھا وہ‬
‫میری سمجھ سے باہر ہے ‪ .‬کون ؟ اور ہم نے سوال کیا ۔ نہ جانے وہ کون تھا وہ کچن میں ایا اور مجھ سے کہا بلکہ پہلے اس نے‬
‫مجھے دیکھا اور دیکھنے کے بعد مجھے کہا ول یو میری می ؟ کیا کون تھا وہ ؟ میں جانتی ہوتی نا تو پوچھ نہ رہی ہوتی نورے‬
‫نہایت غصے میں بول رہی تھی کہ جیسے اج وہ کسی نہ کسی کو مار کے ہی چھوڑے گی ۔ اشعر گھر تھا اس وقت ؟ ہاں ۔ ارزم‬
‫نے فوراً اشعر کو اواز دی ۔ اشعر ۔ اشعر ۔ لہجہ نہایت سنجیدہ تھا ۔ وہ دوڑتا ہوا کمرے میں ایا اور بوال السالم علیکم بھائی ۔‬
‫وعلیکم السالم کون ایا تھا اج ؟ بھائی پہلے اپ مجھے یہ بتائیں اپ سیب الئے ہیں یا نہیں ۔ کون سے سیب ؟ بھائی میں نے اپ کو‬
‫کال کر کے کہا تو تھا سیب لے کر ائیے گا ختم ہو گئے تھے اپ کو پتہ ہے میں سیب کھائے بغیر سوتا نہیں ہوں ۔ وہ میں بھول گیا‬
‫تھا تو مجھے یہ بتاؤ کہ اج کون ایا تھا اس نے اپنے سر پکڑتے ہوئے کہا ۔ میں بھی بھول گیا ہوں اس کے منہ سے اچانک سے‬
‫نکل گیا۔ اشعر !!! ارزم نے غصے سے اس کو کہا اور بوال میں تمہیں اس وقت کچھ نہیں کہنا چاہتا مجھے بتاؤ کون ایا تھا ۔‬
‫بھائی مجھے پہلے سیب چاہیے اپ کو پتہ ہے مجھے سوچ سوچ کے کچھ ہو رہا ہے میں سیب نہیں کھاتا تو میرے دماغ میں درد‬
‫لگ جاتی ہے ۔ تم کتنے بھوکے ہوتے جا رہے ہو ویسے تمہیں ایک دفعہ میری کہی بات سمجھ نہیں ارہی میں کیا کہہ رہا ہوں تم‬
‫سمجھ نہیں رہے اس وقت میں کس کنڈیشن نہیں مجھے شدید غصہ ایا اور تم پھر بھی بولی جا رہے ہو کیا ہوتا جا رہا ہے تمہیں‬
‫انکھ کھلتے تم نے بس یہ ایک لگزری الئف دیکھی ہے نا تم نے جانتے ہو کتنی محنت سے کمایا جاتا ہے ‪ ،‬جب دیکھو تو میں‬
‫اپنی پڑی رہتی ہے ارزم ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے غصے میں ایک سانس میں کہہ گیا تھا ۔ بھائی اپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں‬
‫اپ کے ٹکڑوں پہ پلتا ہوں ۔ کیا بکواس کر رہے ہو ؟ اشعر تمہارے بھائی نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے نورے بولی ۔ لیکن بھابھی ان‬
‫ڈائریکٹلی یہی کہا ہے کہنے کا تو یہی مطلب ہے نا کہ میں کچھ کرتا نہیں ہوں بس روٹیاں توڑتا رہتا ہوں ہائے میں کیا کروں اس‬
‫سے اچھا میں جیل ہی چال جاتا ہوں وہاں پہ دو وقت کی روٹی تو ملے گی یوں بے عزت تو نہیں ہونا پڑے گا بھابھی میں نے‬
‫فیصلہ کر لیا ہے۔ نورے بولی کیسا فیصلہ وہ اگے ہی مزید غصے میں تھی ۔ میں گھر چھوڑ کے جا رہا ہوں اشعر بھابھی کے‬
‫پاس ا کے تھوڑا سا رکا اور جھک کر کہا بھابھی پیار دے دے میرے سر پہ میں گھر چھوڑ کے جا رہا ہوں ارزم اس کو حیرانگی‬
‫سے صوفے پر بیٹھا منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ یہ کیا کر رہا ہے ۔ نورے نے ابھی کچھ نہیں کیا تھا تو ارزم بوال‬
‫مجھ سے پیار نہیں لو گے تو اشعر کہتا کیوں نہیں اشعر ارزم کی جانب جا کر تھوڑا سا جھکا تو ارزم نے ایک زوردار تھپڑ اشعر‬
‫کے منہ پر لگایا اور بوال خبردار جو تم نے ایسی بات کی فضول بولتے رہتے ہو ۔ اشعر منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی بھابھی کی‬
‫طرف دیکھتے بوال بھابھی دیکھیں بھائی مار رہے ہیں دیکھا میرا گھر میں کوئی نہیں ہے اس لیے میں گھر چھوڑ کے واقعی جا‬
‫رہا ہوں ۔ اشعر نہیں جانتا تھا کہ یہ مذاق اس کو بھاری پڑنے واال ہے ارزم اٹھا اور اپنی الماری کی طرف گیا اور وہاں جا کر‬
‫اپنی الماری سے کچھ نکالنے لگا اور ساتھ ساتھ بول رہا تھا تم واقعی جا رہے ہو گھر چھوڑ کر ؟ ارزم اشعر کہ ہاں یا نا پر اپنا‬
‫اگال قدم اٹھانا چاہتا تھا۔ جی بھائی میں جا رہا ہوں اس نے دوسری جانب منہ کرتے ہوئے کہا ۔ ارزم نے اپنی سٹک ( سوٹی )‬
‫نکالی اور اشعر کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگا اب گھر کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ اشعر کے پیچھے ارزم اور ارزم کے پیچھے‬
‫نورے تھی ‪ ،‬بھائی معاف کر دیں ‪ ،‬اج میں تمہیں سیدھا کر کے رہوں گا تمہیں نہیں چھوڑوں گا ‪ ،‬اور ارزم اس کو چھوڑ دیں‬
‫پورے گھر میں بس یہی اوازیں گونج رہی تھی ۔ اشعر دوڑتا ہوا اپنی بھابھی کے پیچھے چھپا اور کہا بھابھی بچا لے مجھے ۔ ارزم‬
‫نے اپنے لمبے قد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نورے کے اوپر کی جانب سے اشعر کو ایک سٹک ماری ۔ ہائے ‪ ،‬بھائی بہت زور سی‬
‫لگی ہے ۔ ہاں تو میں نے اہستہ ماری بھی نہیں تھی ارزم اشعر کو ایک اور مارنے لگا تو وہ بوال بھائی اور نا ماریے گا میں ائندہ‬
‫ایسا کچھ نہیں کہوں گا ۔ نادیہ فٹا فٹ باہر ائے یہ سارا شور سن کے کیا ہو رہا ہے یہ سونے بھی نہیں دیتے ۔ امی دیکھیں بھائی‬
‫مار رہے ہیں اشعر نے اپنی امی کی جانب ہوتے ہوئے کہا ۔ کیوں بھائی اس وقت کیوں تم اس کو مار رہے ہو؟ امی یہ کہتا ہے کہ‬
‫میں گھر چھوڑ کے جا رہا ہوں اپ لوگ مجھے طعنے دیتے ہو کہ میں اپ کو ٹکڑے پہ پلتا ہوں ۔ تم نے واقعی یہ کہاں ہے ارزم‬
‫کی مماں اشعر کی جانب ہوتے ہوئے بولی ۔ ج ۔ ج جی وہ ہچکچا کے بوال ۔ ارزم کیا مارا تم نے اس کو ۔ امی ایک سٹک ماری‬
‫ہے ابھی بس ۔ اشعر کو لگا کہ اس کی ماں اس کو بچائے گی لیکن وہ بولی ایک سے کیا ہوتا ہے اس کو تین چار مارنی تھی اس‬
‫کو سٹک کے ساتھ تھپڑ لگانے تھے اور اپنی جوتی توڑنی تھی اس کے سر پہ زبان دیکھو کیا چال رہا ہے کہ گھر چھوڑ کے جا‬
‫رہا ہے کیا چاہتے ہو کہ تمہاری ماں جیتے جیتے مر جائے ۔ ارزم نے اپنی ماں کی یہ بات سن کر ان کو کمرے کی جانب بھیجا‬
‫امی فکر نہ کریں میں اس کو دیکھ لیتا ہوں اپ جائیں سو جائیں اس کی اپنے کمرے میں چلی گئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ارزم‬
‫سے بہتر اشعر کو کوئی نہیں جانتا ۔ ارزم نے اس کا کان پکڑا اور اس کو کمرے کی جانب لے کر گیا اور بوال چل کمرے میں ۔‬
‫نورے ارزم اور اشعر کمرے میں گئے اب بول کون ایا تھا ارزم نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔ میں آیا تھا ۔ میں نے ایک‬
‫تھپڑ لگانا ہے تمہارے عالوہ کون ایا تھا ؟ امی ائی تھی ۔ ارزم نے پہلے سے اس کو غصے سے دیکھا اور پھر اپنی انکھوں پہ‬
‫ہاتھ پھیرنے لگا اور بوال امی کہاں سے ائی تھیں ؟ بازار سے اشعر امی اور تمہارے عالوہ کون ایا تھا ؟ ۔ اوہو رائل ریکس ایا‬
‫تھا ۔ ارزم نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا اور پہلے تو وہ خاموش ہو گیا لیکن پھر اس نے کہا اشعر تم جاؤ یہاں سے اور دروازہ بند کر‬
‫دو ۔ جیسا اپ کا حکم وہ یہ مذاق میں کہتا کہتا دروازہ بند کر کے جا چکا تھا ۔ کیا بال تھی یہ روئل ریکس نورے نے پوچھا ۔ تم‬
‫بتاؤ جب جب اس نے تم سے اتنی چیپ الئن کہی پھر ۔؟ پھر کیا میں نے اس کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا ۔ ارزم نے‬
‫حیرانگی سے نورے کی جانب دیکھا کہ وہ تھپڑ مار سکتی ہے کسی کو نور جو اس وقت تپی ہوئی تھی جو کہ اس وقت فل سرخ‬
‫تھی اس کو کچھ کہنا اپنی موت کو اواز دینا تھا اس لیے ارزم بوال ‪ ،‬پھر ؟ کیا مطلب ہے نورے غصے سے بولی ‪ .‬پھر تمہیں کیا‬
‫کیا یعنی کہ تم نے اس کو تھپڑ مارا تو اس نے اگے سے کچھ نہ کچھ تو کیا ہی ہوگا اتنا تو میں جانتا ہوں اس شارق کے بچے کو۔‬
‫پھر اس نے میرا بازو زور سے پکڑا اور کہا کہ تم جانتی ہو کہ میں کون ہوں تو میں نے ایک اور تھپڑ اس کے منہ پہ لگا دیا اس‬
‫دفعہ ارزم یہ بات سن کر کھڑا ہو گیا اور بوال کیا تم نے واقعی ایسا کیا ہے ؟ مجھے جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‬
‫نورے صوفے پر بیٹھی مسلسل ٹانگیں اور بازو ہال رہی تھی اور وہ نہایت غصے میں تھی کہ جیسے اج اس کا اپنا سر ہی پھٹ‬
‫جائے گا ‪ ،‬اور بولی میرا دل چاہ رہا تھا تیسرا تھپڑ بھی اس کے منہ پر لگاؤں ۔ تو لگا دیتی نا یہ کہتے ہوئے ارزم دروازے کی‬
‫جانب بھرا تو نورے نے اواز لگائی کہاں جا رہے ہو ؟میں اس شارق کو تیسرا تھپڑ مارنے جا رہا ہوں ۔ لیکن کیوں میں نے دو‬
‫مار لیے تھے کافی تھے اس کو تسکین ہو گئی ہوگی ۔ جب نکاح میں قبول ہے تین دفعہ قبول کہنے سے نکاح ہوتا ہے اور تین‬
‫دفعہ طالق کہنے سے طالق ہوتی ہے تو اس کو تین تھپڑ مارنے سے اس کے دل کو تسکین ملتی ہے وہ نورے کی جانب انگلی‬
‫کرتے ہوئے بوال تھا۔ میں سمجھی نہیں تمہاری اس بات کا مطلب ۔ ہر بات سمجھنا ضروری نہیں ہوتی ہے میں پہلے اس کو تھپڑ‬
‫مار کے اؤں گا پھر ہی تمہارے پاس یہاں سکون سے بیٹھ کے تمہیں ساری بات سمجھاؤں گا ۔ ارزم کو لگا کہ نورے اس کو روک‬
‫لے گی لیکن نورے بولی ایز یو وش جاؤ اور زور سے مار کے انا ۔ ارجم نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا لیکن وہ جانا تھا کہ‬
‫نورے اس وقت بے حد غصے میں ہیں اور وہ چال گیا۔ وہ شارق کے گھر گیا بیل بجائی دروازہ کھوال تو وہ اندر ایا ۔ شارق اپنی‬
‫بہن کشف کے ساتھ صوفے پر بیٹھ کر اس کو چپ کروا رہا تھا کہ ارزم اندر ایا اور بوال ‪ ،‬شارق باہر اؤ ۔ جو بات کرنی ہے یہی‬
‫کرو شارق کھڑا ہو کر کہنے لگا ۔ تم چاہتے ہو یہی بات کروں ؟ ہاں ۔ ارزیک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر مارتے ہوئے بوال کہ‬
‫یہ تھپڑ میری بیوی نے کہا تھا کہ اس کا دل چاہ رہا ہے کہ وہ تمہارے منہ پر مارے ۔ اور تم فرمانبردار نے فرمانبرداری دکھاتے‬
‫ہوئے تابعداری کے ساتھ مجھے تھپڑ مار بھی دیا اس نے تالیہ بجاتے ہوئے ارزم کی جانب بڑھتے ہوئے کہا ۔ ارزم اس کو نہایت‬
‫غصے سے دیکھ رہا تھا اور بوال تھپڑ تو تمہیں میں نے اپنی بیوی کے کہنے پر مارا ہے اس کی خواہش کے اظہار پہ لیکن اب‬
‫میں تم سے اپنا مقابلہ کروں گا ۔ اس کی اس بات پر شارق ساری کو اتنا غصہ ایا کہ اس نے ارزم کا بازو اتنی قوت سے پکڑا کہ‬
‫شارق کہ ناخن مکمل طور پر ارزم کے اندر گھس چکے تھے اور اس کا بازو سے خون نکلنے لگا ۔ارزم نے اس وقت بلیک ٹی‬
‫شرٹ پہنی تھی ۔ ارزم سے اس کی یہ حرکت برداشت نہ ہوئی تو ارزم نے بغیر کسی کا لحاظ کرتے ہوئے کشف کے سامنے ہی‬
‫شارق کے منہ پر زوردار مکا مارا۔ تم جانتے نہیں ہو میں کون ہوں شارق دھاڑا ۔ جا نتا ہوں اور تم بھی مجھے اچھے سے جان‬
‫لو کہ میں کون ہوں ‪ .....‬ارزم ایک سنجیدہ لہجے سے یہ بات کر گیا تھا ۔ میرے شر سے بھی پناہ مانگو میں خود بھی مانگتا‬
‫ہوں مجھے صرف قتل کرنا اتا ہے اپنے اپ پر قابل کرنا مجھے نہیں اتا یہ بات یاد رکھنا ارزم شارق کی طرف انگلی کرتے‬
‫ہوئے پوری قوت سے اونچی اواز میں بولتے ہوئے کہہ رہا تھا اور ہاں تم کون ہو تم ایک چھوٹے سے عالقے کے ایس پی او وہ‬
‫بھی معمولی سے اور میں جانتے ہو میں کون ہوں شارق نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا میں وہ ہوں جس کو پوری دنیا‬
‫جانتی ہے ایک ایک ڈرتا ہے میرے نام سے ۔ لیکن یہ یاد رکھنا میں ارزم زاویار کبھی تم جیسوں سے ڈرنے واال نہیں ہے ۔ یہ‬
‫کہتا ارزم باہر کی جانب چال گیا تھا اور شارق نے پیچھے سے اواز لگائی یاد رکھنا میرے شر سے بھی بچنا میں اب تمہارے‬
‫پیچھے پڑ چکا ہوں ارزم اب تم دیکھنا میں تمہارے ساتھ کیا کیا کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫بھائی اپ نے اس ارزم کا سر کیوں نہیں پھاڑا کشف غصے سے بولی ۔ فکر نہ کرو اس کے خاندان کو برباد کرنا اب میرا نیا‬
‫ٹارگٹ ہے ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ارزم گھر پھنچا تقریبا نو سے ‪ 10‬کے درمیان کا وقت تھا ۔ اشعر ! ارزم نے اواز دی ۔ جی بھائی وہ لنگڑاتے ہوئے ایا اور اپنی‬
‫پینٹ گھٹنوں تک فولڈ کر رکھی تھی اور نیچے اس نے پٹی کی ہوئی تھی ۔ ارزم نے اس کو ایک نظر دیکھا تو بوال ہوگے تمہارے‬
‫ڈرامے شروع ۔ بھائی وہ سیب کھائے بغیر نیند نہیں ا رہی تھی تو میں نے سوچا پٹی کر لیتے ہیں اشعر نے سر کھجاتے ہوئے‬
‫بوال۔ یہ سیب پڑے ہیں ارزم نے صوفے کی جانب ہاتھ کر کے اس کو دکھائیں یہ پڑے ہیں کھا لو تمہیں سکون مل جائے ۔اشعر‬
‫نے ارزم کے بازو پر لگے نشان دیکھ لیے تھے لیکن وہ خاموش رہا اور وہ جانتا تھا کہ اب اس نے اگال قدم کیا اٹھانا ہے بغیر‬
‫کچھ بولنے سے اٹھاتا ہو بھائی کا شکریہ کرتا اپنے کمرے میں جا چکا تھا ارزم اپنے کمرے میں وہاں صوفے پر وہیں بیٹھی تھی‬
‫۔ ارزم نے دروازہ کھولتے ساتھ جب اس کو دیکھا تو بوال کیا تم تب کی وہیں بیٹھی ہو ؟ اس بات کا کوئی تعلق نہیں ہے نورے‬
‫بولی ۔ میں نے ویسے ہی پوچھا ۔ یہ تمہارے بازو پر کیا ہوا ہے ؟ نورے ارزم کے بازو پر لگے نشان دیکھ کر تلمال کے اٹھ‬
‫کھڑی ہوں ۔ کچھ نہیں ہوا ۔ تم لڑنے گئے تھے ؟ جب انسان اتنے غصے میں گھر سے باہر جائے تو وہ فالودہ لینے نہیں بلکہ‬
‫لڑنے ہی جاتا ہے ‪ ،‬وہ اپنی دوسری ٹی شرٹ نکالتا بول رہا تھا ۔ بہت اچھا جوک سنایا ہے ویسے یہ بتاؤ اس کے پاس گئے تھے‬
‫کیا نام تھا بھال اس کا وہ سوچنے کے انداز میں بول رہی تھی ہاں یاد ایا شارک کے پاس۔ ہاں ۔ مجھے بتاؤ تو سہی وہ ہے کون ؟‬
‫وہ میرا کزن ہے جو کہ اپنے باپ سے بے حد پیار کرتا تھا لیکن اس کے باپ نے خود کشی کر لی تھی اور میرے کزن ‪ 47‬قتل‬
‫کر چکا ہے ۔ ایک منٹ اس نے یعنی کہ شارق کے باپ نے خودکشی کی اور اس نے ‪ 47‬قتل کیوں کیے ؟ اس کا باپ ایک‬
‫بزنس کرتا تھا بزنس میں پرافٹ نہ ہوا مسلسل تو انہوں نے لون لیا کافی زیادہ لون تھا ‪ ،‬پرافٹ نہ ہونے کی وجہ سے واپس کرنا‬
‫لون مشکل ہو چکا تھا ۔ پھر ؟ شارق ابھی نیا جوان ہو رہا تھا تقریبا وہ ‪ 18‬یا ‪ 19‬سال کا ہوگا تو جس پارٹی سے لون لیا گیا تھا‬
‫انہوں نے کہا اپنا بیٹا ہمارے بزنس میں لگا دو ۔ مطلب ؟ یار ایک تو اپ سوال بہت کرتی ہو بات پوری سنتی نہیں ہے ۔ ارزم کی‬
‫اس بات میں نورے نے اس کو تھوڑا غصے سے دیکھا لیکن پھر وہ خاموشی سے سننے لگی۔ شارق کے باپ کو بہت ٹریپ کیا‬
‫گیا کافی لوگوں نے پکڑ کے مارا وغیرہ بھی اور ان کے حاالت کافی خراب ہو چکے تھے پھر ان حاالت سے تنگ ا کر شارق‬
‫کے باپ نے خود کشی کر لی ‪ ،‬اور شارق یہ سب برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اپنے باپ سے بے حد پیار کرتا تھا وہ ہر وقت‬
‫اپنے باپ کی گود میں ہی چڑا رہتا تھا وہ بہت شریف تھا پہلے ایسا بالکل نہیں تھا لیکن حاالت نے اس کو بدل دیا اور جو ‪ 47‬قتل‬
‫کیے ان میں سے ‪ 14‬لوگ اس پارٹی کے تھے جنہوں نے اس کے باپ کو ٹریپ کیا اور دکھ وغیرہ دیا اور جو اس کو مزید تنگ‬
‫کرتا ہے وہ اس کا کام تمام کرنے میں دیر نہیں لگاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارزم بات کرتا رک گیا وہ دیکھ رہا تھا کہ نورے یوں ساری بات‬
‫سن کر سکتے کہ عالم میں کھڑی ہے اور جیسے وہ سب کچھ بھول چکی ہو ارزم نورے کے پاس ہوا اور بوال۔ بھاؤ ۔ نورے کا‬
‫جسم مکمل ہال وہ ایک دم سے ڈر گئی تھی ۔ ارزم نے اس کو بازو سے پکڑا وہ گرنے لگی تھی ‪ ،‬ریلیکس کیا ہو گیا ہے ؟ کیسا‬
‫جنونی خاندان ہے تمہارا ۔ مطلب ؟ مطلب یہ کہ خود بھی جنون میں فیصلہ کرنے والے اور وہ بھی کیا خوب ہو تم دونوں ویسے‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہاں اگر میں تمہیں اس کا سارا بایا ڈیٹا بتا ہی رہا ہوں تو یہ بھی سن لو وہ امریکہ میں جاتا ہے اکثر اس کے باپ کا وہاں‬
‫پہ بھی بزنس تھا تو سال میں چھ سے سات ماہ تقریبا ً وہ وہاں گزارا اتا ہے ۔ اب تو نہیں وہ یہاں ائے گا اس گھر میں ؟ نورے کے‬
‫سوال پر ارزم سوچنے لگا کہ اس کو کشف والے سارے قصے کا بتاؤں یہ نا لیکن پھر اس نے نہ بتانا ہی مناسب سمجھا اور بوال‬
‫ائے گا بھی تو تم دیکھ لینا ‪ ،‬ویسے بھی تمہیں تھپڑ مارنے ا ہی گئے ہیں ۔ ہاں بھئی اپ سے ہی سیکھیں تھپڑ مارنے بچارے اشعر‬
‫کو بار بار پڑتے دیکھ کر نورے نے اس کو تنگ کرنے والے الفاظ میں کہا ۔ چلو کچھ تو سیکھا ارزم نے بھی یہ کہتے ہوئے‬
‫ہنسی دبئی اور جا کر چینجنگ روم میں ٹی شرٹ چینج کرنے لگا ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔‬
‫اگلی صبح ہو چکی تھی وہ سب ناشتہ کرنے ٹیبل پر بیٹھ گئے ۔ اشعر اٹھو ارزم کے یہ کہنے پر وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا ۔ یہاں‬
‫میرے ساتھ ا کر بیٹھو ۔ ل لیکن کیوں بھائی ؟ جتنا میں کہا کروں اتنا کیا کرو فضول اگے لیکن ویکن نہ شروع کر دیا کرو مجھے‬
‫نہیں اچھا لگتا ۔ بھائی اپ یہ دیکھیں چاہتے ہیں نا میں کتنا کھانا کھاتا ہوں اپ جتنا ڈال کے دیں گے میں اتنا کھا لوں گا لیکن پلیز‬
‫مجھے یہاں پر ہی بیٹھنے دیں ۔ ارزم نے اس کو غصے سے دیکھا ‪ ،‬اور بوال تم میری بات کیوں نہیں سن رہے ہو ‪ ،‬اس کے‬
‫لہجے میں اتنا غصہ بھرا تھا کہ اشعر فوراً اٹھ کر اپنے بھائی کے ساتھ والی سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا ۔ بھائی آگیا میں ۔ ارزم نے‬
‫اس کو پلیٹ میں رو انڈے دیے ۔ اشعر نے بریڈ پکڑی اور پلیٹ میں رکھی ۔ ارزم بوال جاؤ کچن سے پانی الؤ ۔ جی بھائی ۔ وہ پانی‬
‫لے کر آیا اور کھانے لگا تو اس نے بریڈ پکڑنے لگا اپنی پلیٹ سے لیکن اس نے دیکھا وہاں پر تو دو پراٹھے پڑے تھے ۔ یہاں‬
‫پر پراٹھے کس نے رکھے ہیں میں تو بریڈ کھاؤں گا ۔ میں نے رکھے ہیں تم یہ کھاؤ گے ارزم یہ کہتا ہوا خود بھی کھانا کھا رہا‬
‫تھا ۔ بھائی میں ہاتھی جتنا نہیں کھا سکتا ۔ ارزم نے اس کا کان پکڑا اور بوال یہ ہاتھی جتنا کھانا ہے ؟ ب ب بھائی میرا کان تو‬
‫چھوڑ دیں بات بات پر کان پکڑ لیتے ہیں میں اس لیے یہاں نہیں بیٹھ رہا تھا ۔‬
‫میرا چھوٹا سا پیٹ ہے اب اس میں اور جگہ باقی نہیں‬
‫اب میں اور کھا لوں کوئی ڈائناسور تو نہیں‬
‫۔ تم اس لیے یہاں نہیں بیٹھ رہے تھے اس نے غصے سے پوچھا ۔ نہیں نہیں ویسے ہی کہہ رہا ہوں بھائی دیکھیں کان چھوڑ دیں‬
‫میرا نازک سا کان ہے اتر جائے گا ۔ چائنہ سے لگوا کے ایا ہے کان تو چائنہ میں پیدا ہوا تھا اتنا کچا نہیں لگا ہوا تیرا کان یہ دیکھ‬
‫نہیں اتر رہا ارزم نے اس کا ن مڑورتے ہوئے کہا ۔ بھائی میں کھانا کھا لوں گا میرا کان چھوڑ دیں دیکھیں قسم سے میں کھاؤں‬
‫گا پکا ۔ ٹھیک ہے کھاؤ ۔ وہ سب کھانا کھانا کھانے لگے۔ بچوں میں نے کھانا کھا لیا ہے میں قران پڑھنے جا رہی ہوں تم لوگ‬
‫کھانا کھاؤ اور نورے پھر اپ برتن وغیرہ اٹھا دینا ۔ ٹھیک ہے انٹی ۔ نادیہ اپنے کمرے میں قران پڑھنے چلی گئی ۔ ارزم نورے‬
‫نے ارزم کو بالیا ۔ جی ارزم نہایت اطمینان اور ارام سے بوال ۔ اشعر نے ایک نظر اپنے بھائی کو دیکھا ۔ میں چاہتی ہوں کہ اج‬
‫حریم یہاں ا جائے میں کافی دنوں سے بور ہو رہی ہوں اکیلی ۔ اب اشعر نے ایک نظر اپنی بھابھی کو دیکھا ۔ اجائے اس میں کیا‬
‫ہے پوچھنے کی کیا بات ہے بال لو۔ اشعر نے دوبارہ اپنے بھائی کی جانب دیکھا ۔ وہ کھانا کھاتے ہوئے نہایت تمیز سے نورے‬
‫سے بات کر رہا تھا ‪ ،‬وہ ویسے بھی نورے سے تمیز سے ہی بات کیا کرتا تھا ۔ ٹھیک ہے تو پھر میں اج اس کو بال لوں گی اشعر‬
‫نے اس دفعہ اپنی بھابھی کو دوبارہ دیکھا ۔ جیسی اپ کی مرضی ‪ ،‬اشعر نے اپنے بھائی کو اس دفعہ حیرانگی سے دیکھا اور‬
‫دیکھتا رہ گیا ۔ اشعر !!!!! ارزم نے اس کو غصے سے کہا کھانا کھاؤ ۔ بھائی کبھی مجھ سے بھی یوں بات کر لیا کریں ۔ یوں کس‬
‫طرح ارزم نے کھانا کھاتے ہو اپنی ہنسی دباتے ہوئے اس سے کہا ۔ جیسے آپ بھابھی سے کر رہے ہیں ۔ اچھا تو اپ سے بھی‬
‫کر لیتے ہیں ۔ اشعر کھانا کھائیں ‪ ،‬نہیں تو مار کھائیں ۔ اشعر نے حیرانگی سے اس کی جانب دیکھا اور بوال یہ اپ میرے سے‬
‫بات کر رہے ہیں؟ جی ہاں میں اپ سے بات کر رہا ہوں اپ اپنا کھانا ختم کرو شاباش ۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ بھابھی بھائی کو‬
‫کیا بنا چکی ہیں ‪ ،‬وہ اپنی ہنسی دباتے ہوئے سوچ میں پڑ گیا کہ اتنا اکڑو سیڑیل بھائی کیسے سیدھا ہو گیا ہے۔ اور وہ کھانا کھانے‬
‫لگا ‪ ،‬اشعر تھوڑی دیر بعد بوال بھائی ۔ مم ارزم کھانا کھاتے ہوئے بوال ۔ بھائی مجھے اج کہیں جانا ہے میں جاؤں ۔ ارزم نے اس‬
‫کو ایک نے کہا غصے سے دکھاؤ اور کھانے کو دکھا اس نے ابھی تک ادھا پراٹھا کھایا تھا ۔ نہیں نہیں بھائی میں سارا کھا کے‬
‫جاؤں گا میں ویسے ہی کہہ رہا ہوں تھوڑی دیر بعد مجھے کہیں جانا ہے میں جاؤں ۔ جانا کہاں ہے یہ بتاؤ ؟بھائی میرے دوست کو‬
‫چوٹ لگی ہے تو اس لیے بس اس کا حال پتہ کرنے جانا ہے ۔ دوست کا نام ؟ اشعر میں دانتوں میں زبان پھنسائی اور سوچا کیا نام‬
‫بتاؤں اب سارے دوستوں کو تو بھائی جانتے ہیں ‪ ،‬بھائی وہ وہ اس کا نام شمیر ہے ۔ شمیر ارزم وال ۔ جی جی بھائی وہی ۔ ہاں‬
‫شمیر کو میں جانتا ہوں کیا ہوا ہے اس کو ؟ بھائی اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا ۔ چلو ٹھیک ہے چلو جانو تم لیکن یاد رکھنا صرف‬
‫دو گھنٹے کے لیے باہر جاؤ گے ابھی ‪ 11‬بجے ہے تم ایک بجے تک گھر ہو ۔ اوکے بھائی ۔ سب اپنا ناشتہ ختم کر چکے تھے ۔۔ ۔‬
‫۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ہیلو حریم یار تم ایسا کرو میرے گھر ا جاؤ میں بہت بور ہو رہی ہوں اج کل تو ا جاؤ ۔ اچھا نورے میں اتی ہوں وہ دونوں اپس میں‬
‫بات کر رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔‬
‫اشعرفل ویل ڈریس ہو کر گھر سے باہر جانے لگا تو نورے اس کو اواز دی اشعر ۔ اشعر پلٹا اور بوال جی بھابی ۔ یہ تم اپنے‬
‫دوست کی عیادت کرنے جا رہے ہو یا کسی پارٹی میں ۔ بھابھی میں شمیر سے ملنے جا رہا ہوں ابھی اتا ہوں اور وہ یہ کہہ کر‬
‫چال گیا اور نورے اس کا حلیہ ہی دیکھ ہی رہ گئی تھی کہ اس کو کیا ہوا اج سے اتنا تیار کیوں تھا ۔نورے فریج کے پاس گئی وہاں‬
‫پہ سیب دیکھ کے حیران ہوئی کہ ارزم سیب کب لے کر ایا۔ پھر وہ سوچنے لگے کہ یہ دونوں بھائی ایک دوسرے سے کتنا پیار‬
‫کرتے ہیں چاہے مارتے بھی ہوں لیکن پیار ان میں بہت ہے‪ ،‬نورے نے سیب نکاال اور کاٹ کمرے کی جانب لے گئی ارزم اپنے‬
‫کمرے میں ہی تھا ۔ دروازے کو کھول کر وہ اندر داخل ہوئی ارزم نے اس کو ایک نظر دیکھا اور پھر اپنے موبائل میں لگ گیا ۔‬
‫ارزم !!! جی ۔ سیب اپ الئے تھے رات کو ۔ جی ۔ نورے سیب کھانے لگی اور اس نے ارزم کے ساتھ شیئر کیا کھا لو ارزم نے‬
‫ایک بیچ میں سے لے لیا ۔ ارزم بیڈ پر بیٹھا تھا اور نورے صوفے پہ کہ کمرے کا دروازہ ناک ہوا ۔ ا جاؤ کمرے کا دروازہ کھال‬
‫ہے ارزم بوال ۔ دروازہ کھوال‪ ،‬ہیلو مائی بیوٹیفل نورے جان اور یہ کہتے ہوئے حریم اندر ائی اور نورے کے ساتھ گلے لگ گئی ۔‬
‫ہیلو تم اگئی شکر ہے میں تو بہت بور ہو رہی تھی ۔ اب میں ا گئی ہوں نا تمہیں بور ہونے کی ضرورت نہیں ہے ابھی میں نے تم‬
‫سے بہت باتیں کرنی ہیں نورے ۔ میں کون سے تمہیں یوں جانے دوں گی ۔ وہ دونوں بیٹھ کر باتیں کرنے لگی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اشعر شارق کے سیکرٹ کیبن میں پہنچا ‪ ،‬اور اندر گیا ۔ شارق کے مالزم نے ا کر شارق کو بتایا کہ ایک لڑکا ایا ہے اپنا نام نہیں‬
‫بتا رہا لیکن کہتا ہے وہ لڈال ریکس ہے ۔ شارق نے کہا بھیجو اس کو اندر ۔ ہیلو ہیلو مسٹر ریکس !!! ابی صرف اس کی اواز ہی‬
‫ائی تھی کہ وہ پہچان گیا کہ یہ اشعر ہے ۔ اشعر سامنے ہوا ۔ او تم کیسے انا ہوا ؟ اشعر نے شارق کے ساتھ ہاتھ مالیا شارق کے‬
‫اس سوال پر اشعر بوال باسی کڑی میں ابال والی بات سنی ہوئی ہے نا اپ نے وہ ٹہلتا ہوا کہہ رہا تھا ۔ ہاں شارق نے تعجب سے‬
‫کہا ۔ ہاں تو وہی کرنے ایا ہوں نہایت ادب و احترام سے اپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اپ نے جو کل حرکت میرے بھائی‬
‫کے ساتھ کی ہے اور بھابھی کے ساتھ اس کی وجہ کیا تھی ؟ لگتا ہے ارزم سے خود کچھ ہوا نہیں تو جو تمہیں بھیج دیا ہے ۔ میرا‬
‫بھائی اپ جناب کی طرح کوئی ریکس دا ڈون تو ہے نہیں جو اس کے اگے پیچھے اتنے لوگوں گھومیں ۔ لیکن ایک نمبر کا سریل‬
‫مزاج بہت جلد فیصلے کرنے واال اور ان پر پچھتانے واال ۔۔۔۔ ابھی شارق بول ہی رہا تھا کہ اشعر بوال اور پھر ان پچھتاووں کو‬
‫دور کرنے واال انڈرسٹینڈ اس نے شارق کے سامنے انگلی کرتے ہوئے کہا ۔ تم اپنی حد پار کر رہے ہو یہ انگلی نیچے کرو بچے‬
‫۔۔ اس کا لہجہ نہایت سنجیدہ تھا ۔ حد پار نہیں کر رہے ۔ جہاں پر ساری حدیں ختم ہوتی ہیں وہاں سے تمہاری بات شروع ہوتی ہے‬
‫اشعر مراد ! یہ یاد رکھو میں صرف تمہیں اس لیے چھوڑ دیتا ہوں کہ تم میری گود میں پلے ہو اور یہ بتاؤ کیا لینے ائے ہو یہاں پہ‬
‫؟ اپنے بھائی کے بازو پہ لگے ہوئے ناخنوں کے نشانوں کا بدلہ ۔ شارق نے اس کو ایک تعجبی نگاہ سے دیکھا اور کھڑا ہوا اور‬
‫بوال چل آ کچھ نہیں کہوں گا تجھے‪ ،‬لے بدلہ ۔ درندوں سے تشبیح نہ دو مجھے میں جانور نہیں جو ہاتھوں سے بات کروں ‪،‬‬
‫سیدھا سیدھا منہ سے بات کر رہا ہوں خبردار جو ائندہ میرے بھائی کی جانب قدم بڑھا کے دیکھا اور بھابھی کی جانب انکھیں اٹھا‬
‫کے بھی دیکھا ۔ اور اگر میں یہ دونوں کام کروں تو کیا کر لے گا ؟ شارق نے ایک بھنو اٹھا کے دیکھا ۔ انسان درندہ بننے میں‬
‫زیادہ دیر نہیں لگاتا اور ایک خونخوار جانورر تو ہر کسی میں ہوتا ہے نا ۔ریکس صرف یہ سب باتیں اشعر مراد کہ ہی سن سکتا‬
‫تھا اور بھوال سکتا تھا کیونکہ وہ اس کا اپنا جگر گوشہ جو تھا۔ اشعر یہ کہتے ہوئے باہر کی جانب بڑھنے لگا تو شارق بوال‬
‫میرے ہاتھوں میں پال اج مجھے باتیں سنا رہا ہے ‪ ،‬تو جانتا ہے میں تجھے صرف اس لیے چھوڑ جاتا ہوں کہ تو میری خالہ کا‬
‫سب سے چھوٹا بچہ ہے اور اس پورے خاندان کا الڈال ۔ جو کرنا ہوا اپ کر سکتے ہیں ۔ مجبوری ہے میری جو میں تمہیں کچھ‬
‫نہیں کہتا ۔ کیسی مجبوری ؟ پیدا ہوتے ساتھ ہی ہفتے میں تین دن تو یہاں گزارتا تھا میرے پاس گھر میں میرے اور باقی چار دن‬
‫اپنے گھر میں تجھے جیسے ارزم پیار کرتا ہے نا ویسے ہی میں کرتا ہوں یا میں یہ نہیں چاہتا کہ اب میں یہ کہوں کہ میں پیار‬
‫کرتا تھا ۔ میں بھی اپ جناب کی خدمت میں کوئی گستاخی نہیں کرنا چاہتا اپ مجھے خود ہی بار بار کہہ رہے ہیں کر گستاخی اپ‬
‫نہ کہیں میرے بھائی کو کچھ اور میں اپ کو کچھ نہیں کہوں گا ۔ اگر تم میری مجبوری نہ ہوتے نا میں تمہیں بتاتا ۔۔۔۔ محترم‬
‫مجبوری کا فائدہ اٹھانا میں نے اپ سے سیکھا ہے بقول اپ کے کہ میں ہفتے میں تین دن اپ کے گھر رہتا تھا ٹھیک ہے اشعر یہ‬
‫کہتا شارا ایک کو الجواب کر کے باہر کی جانب بڑھ چکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔‬
‫اور بتاؤ نورے ۔۔۔۔ حریم اور نورے مسلسل باتوں میں لگے تھے۔ اور وہ تمہیں اب کیا کیا بتائیں سب کچھ اس نے تمہیں بتا دیا ہے‬
‫اور کچھ رہ گیا ہے ارزم چڑ کے بوال ‪ ،‬جو کہ وہیں بیڈ پر بیٹھا ان دونوں کی باتیں سن سن کر تھک چکا تھا ۔ ارزم اپ جا کر نا‬
‫یوں کیجیے کچھ کھانے کو لے ائے حریم مہمان ہے ۔ ارزم اٹھا اور باہر چال گیا ۔ کیا بات ہے تمہاری تو ساری باتیں مانی جاتی‬
‫ہیں ۔ شکر ہے ۔ تم جانتی ہو یہ بھائی جو ہیں یہ ہمارے خاندان کا سب سے اکرو بندہ ہے اور ایک جذباتی بندہ ہے یہ دھیان سے‬
‫رہنا ان کے ساتھ ۔ نورے مسکرائی اور بولی اچھا اتنی دیر میں ارزم کولڈ ڈرنک گالس میں ڈال کر لے ایا تھا اور دروازے کے‬
‫باہر کھڑا ہو کر ان کی باتیں سننے لگا ۔ بھائی تمہیں اچھا ٹریٹ کرتے ہیں ؟ مطلب ؟ مطلب یہ ہے کہ ان کا بیہیویئر تمہارے ساتھ‬
‫کیسا ہے ؟ اچھا ہے ۔ بس اچھا !!؟؟ ہاں یار تم جانتی تو ہو کہ میں کس طرح کے انسان سے شادی کرنا چاہتی تھی یہ تو بس ایک‬
‫اتفاق ہی ہوا جیسے ۔۔۔۔ کیسے ؟ ایسے شخص سے جو مجھے ہر حال میں پسند کرے ہر حال میں میرا خیال رکھے‪ ،‬مجھے ایسے‬
‫شوہروں سے نفرت ہوتی ہے جن کو اپنی بیویاں صرف تیار اچھی لگتی ہیں ‪ ،‬لڑکیاں کوئی شو پیس تو ہے نہیں کہ ہر وقت تیار‬
‫ہیں اور ان کو ہر کسی کو دکھایا جائے ۔ تو پھر تمہارے ذہن میں کیا ہے ؟ یہی کہ ان کو تاج کی طرح سجا کر رکھا جائے جس‬
‫طرح ایک لڑکی خود سے محبت کرتی ہے اس طرح اس کا شوہر اس سے کرے جیسے اب میں یا کوئی بھی لڑکی شیشے کے‬
‫سامنے جائے تو اس کو اپنا آپ پیارا لگتا ہے لیکن دوسروں کی رائے کا وہ نہیں جانتی ہوتی میں چاہتی ہوں شادی ہو تو ایسے‬
‫بندے سے جو کہ اپ کو جیسے اپ خود سے پیار کرتے ہیں ویسے ہی پیار کرے ۔۔۔۔ انٹرسٹنگ حریم نے ہنستے ہوئے کہا ۔ اتنی‬
‫دیر میں ارزم اندر ایا اور وہ تمام بات سن چکا تھا ‪ ،‬اس نے گالس حریم کو دیا اور ایک نور کو اور ایک خود لیا اور وہ بیٹھ گیا ۔‬
‫نورے میں نے تمہیں ایان والی ساری بات بتائی ہوئی ہے نا ۔ ہاں نورے نے حریم کی بات کا جواب دیا ۔ یار میرے گھر کے پاس‬
‫رہتا ہے مجھے اس پہ بہت شک ہوتا ہے وہ مجھ سے بہت چبتا ہے اور نہ جانے کیوں وہ پتہ نہیں کیا کرتا رہتا ہے مجھے لگتا‬
‫ہے ہمیں پتہ لگانا چاہیے شاید وہ بھی جھانزیب کی موت نے ملوث تھا ۔۔۔ کیا واقعی نورے نے حیرت سے پوچھا ۔ ہاں یار پہلے‬
‫اس کی امی اور میری امی بہت باتیں کیا کرتی تھی اب وہ اپنی امی کو میری امی کے پاس انے بھی نہیں دیتا ‪ ،‬اور مجھ سے بھی‬
‫بات نہیں کرتا اور وہ مجھ سے نظریں چراتا ہے میں نے بلکہ اس کو بتایا تھا کہ جہانزیب کی موت کا بدلہ نور ضرور لے کے‬
‫باتوں باتوں میں جب وہ میری امی کو کچھ دینے ایا تھا تب تو وہ بہت گھبرا گیا تھا اور فورا اپنے گھر چال گیا ۔ ارزم۔ ہاں ۔ مجھے‬
‫ایان سے ملنا ہے مجھے اس پہ شک ہے ۔ ٹھیک ہے حریم تم اج رات کو جاؤ گی ؟ جی بھائی تو یہ اسانی سے دنی میں جاؤں گی‬
‫ارزم کے سوال پر حریم نے جواب دیا ۔ ٹھیک ہے پھر ہم لوگ رات کو ہی چلیں گے اور پھر تمہیں میں ڈراپ کر دوں گا ۔ ٹھیک‬
‫ہے ۔ ارزم کو اس کے افس سے کال ائی اور وہ چال گیا اور وہ دونوں باتیں کرنے لگی ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫اشعر گھر ایا اس کو گھر اتے دو بج چکے تھے اس کے بھائی نے اس کو ایک بجے کا ٹائم دیا تھا لیکن وہ پھر بھی اوپر ایا اور‬
‫اپنی بھابھی کے پاس گیا ابھی وہ کمرے کی جانب جانے لگا تو اس نے دیکھا یا کمرے میں حریم تھی ۔ اندر انے کی اجازت طلب‬
‫کرتا ہے یہ خادم آ سکتا ہے ؟ اشعر اپنے کمرے کے باہر کھڑے ہو کر کہا ۔ نورے ہنسی اور بولی ا جاؤ ۔ ارے تم لیزرڈ کب ائی‬
‫اس نے حریم کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ یہ لیزرڈ کیا ہوتا ہے ؟ نورے نے حیرت سے پوچھا ۔ بھابھی لیزرڈ مین چھپکلی ۔۔۔۔۔‬
‫اشعر کے ہاتھ میں پانی کا گالس تھا اور وہ بیڈ پر بیٹھ کر پینے لگا ۔ دیکھو نورے یہ بدتمیز کتنا ہے یہ مجھے چھپکلی کہتا ہے ‪،‬‬
‫اور تو مجھے کہہ رہی تھی کہ یہاں پہ سب سے اچھا اشعر ہے ۔ ہیں !!! بھابھی اپ نے واقعی یہ کہا ہے ؟ ہاں وہ منہ سے نکل گیا‬
‫تھا بس نورے نے ہنستے ہوئے کہا ‪ ،‬حریم بھی ہنسنے لگی تو اشعر نے اس کے اوپر اپنے پانی کے گالس میں سے تھوڑا سا‬
‫پانی اس کا سر پہ گرایا کھڑے ہو کر۔ یہ یہ کیا بدتمیزی ہے حریم بولی اور کھڑی ہو کر اس کے کندھے پر تھپڑ لگایا ۔ چپکلی‬
‫چھوٹی ہو تو میرے سے کتنی دیکھو وہ قد کی بات کر رہا تھا ۔ ہاں ہاں تم تو مینار پاکستان ہو ۔ اور تم برج خلیفہ شکرگڑھ واال‬
‫اور اشعر یہ کہتا باہر کی جانب بھاگا ہنستے ہوئے تو اپنے بھائی سے جا ٹکرایا حریم بھی اس کے پیچھے تھی اور نورے حریم‬
‫کے پیچھے تھی ۔ دھیان سے چلو کہاں ہوتا ہے تمہارا دھیان ؟ او سوری بھائی مجھے دکھا نہیں ۔ کیا ہوا حریم تم کیوں بھاگتے ہو‬
‫آ رہی ہو ؟ نورے جا کر ارزم کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور وہ دونوں اس کے سامنے تھے ۔ بھائی کچھ نہیں ہو تو بس ہم ویسے ہی‬
‫پکڑم پکڑائی کھیل رہے تھے تو حریم میرے پیچھے تھی ۔ نہیں بھائی حریم بولی۔ تو پھر ؟ بھائی پھر یہ کہ یہ میرے سر پہ پانی‬
‫گرا کر اور مجھے چھپکلی کہتے ہوئے اور برج خلیفہ کہتے ہوئے ایا ہے ۔ ارزم نے اشعر کو گھور کے دیکھا اور کہا میں نے‬
‫تمہیں کیا کہا تھا کہ ایسے نہیں بات کرتے۔ بھائی وہ میرے سے چھوٹی ہے بس مذاق کر رہا تھا اس نے اہستہ اواز میں کہا ۔‬
‫نورے سمجھ گئی تھی کہ اب اشعر کو تھپڑ پڑنے واال ہے تو اس نے ارزم کی کمر میں چٹکی کاٹی تو ارزم نے اس کی جانب‬
‫دیکھا تو نورے نے اشارہ کیا کہ نہیں مارنا ۔ ارزم سمجھ گیا کوئی تو وجہ ہوگی جو اس نے یوں کہا ہے ۔ بھائی تھپڑ لگائیں ذرا‬
‫اس کو حریم بولی ۔ ٹھیک ہونا یا نہیں ہونا ارزم اس سے غصے سے بات کر رہا تھا ۔ ہو گیا میں ٹھیک اس نے سر کھجاتے ہوئے‬
‫ہنسی دباتے ہوئے کہا ۔ خبردار اگر تم نے حریم کو تنگ کیا ہے میں تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا ؟ اشعر زمین کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے ایک نگاہ حریم کو دیکھ رہا تھا اور حریم اس کو دیکھ کر ہنس رہی تھی۔ اچھا نورے میں ذرا تائی سے مل لوں گا ملی ہی‬
‫نہیں تب تک تم لوگ اس کو سیٹ کرنا وہ یہ کہتے ہوئے ہنستے ہوئے چلی گئی ۔ نورے اپنے کمرے میں گئی تو ارزم اشعر کو‬
‫بوال باز اجا اپنی حرکتوں سے میں تجھے بار بار نہیں چھوڑوں گا اپنے کمرے میں جاؤ اشعر ہنستا ہوا اپنے کمرے میں چال گیا ۔‬
‫ارزم بھی اپنے کمرے میں گیا اور جا کر بوال نورے آپ نے مجھے اس کو تھپڑ لگانے سے کیوں منع کیا ؟ میری بات سنو اپ اس‬
‫کو ویسے تھپڑ لگاتے ہو تو وہ کچھ نہیں کہتا ۔ کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا ؟ دیکھو میری بات سنو اب اگر تم اس کو حریم‬
‫کی دفعہ مارتے یعنی کہ حریم کے کہنے پہ تو اس کو تم پر چڑچڑتی اور ساتھ میں حریم پر بھی پھر وہ مزید شیطانی کرتا اور یہ‬
‫بات پھر بدتمیزی کی طرف جاتی وہ جو تم اس کو تھپڑ مارتے ہو وہ مذاق کی طرف جاتا ہے ‪ ،‬اپ نے اس کو تھپڑ مارنا تھا پھر‬
‫حریم نے ہنسنا تھا اس کو غصہ انا تھا اس نے حریم کو مزید تنگ کرنا تھا پھر اپ کو مزید غصہ ا رہا تھا ایسے نہیں ہوتا نا مینج‬
‫اپ نے اس کو ڈانٹ دیا وہ نہیں کرے گا میں جانتی ہوں اور میرے سے بہتر شاید اپ اس کو جانتے ہیں کبھی کبھی کافی باتوں‬
‫کو پیار سے حل کیا جاتا ہے ۔ اج رات کو ہم جائیں گے ٹھیک ہے ۔ اوکے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔‬
‫رات ہو چکی تھی اب لوگ جانے کے لیے تیار ہو چکے تھے نور نے اپنا بایاں پہنا اور حجاب کیا اور وہ گاڑی میں جا کر ارزم‬
‫کے ساتھ بیٹھ گئی اور پیچھے حریم بیٹھ گئی ۔ مجھے کچھ بتاؤ تو صحیح کہ یہ ایان کون ہے ؟ ارزم بوال ۔ ایان فرقان خان ‪ ،‬ایان‬
‫کا پورا نام ہے جہانزیب کی موت سے پہلے ان لڑکوں کے انے سے پہلے جب میں اور جھانزیب ڈرائیو کر رہے تھے تب ایان‬
‫مال راستے میں بہت فکر مند تھا اور ابھی اس نے کچھ پوچھا بھی نہیں تھا کہ اتنے قلیل وقت میں وہ لڑکے ائے اور اس کو گولی‬
‫ماری لیکن وہ بچ گیا جھانزیب نہیں بچا ‪ ،‬لیکن اس سے پہلے جہاں زیب کو ایک میسج ایا کسی عورت کی اواز تھی لیکن نہ‬
‫جانے کون میں نے جہاں زیب سے پوچھا کون ہے لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا وہ بہت پریشان ہو گیا اس سے گاڑی ٹھیک‬
‫سے ڈرائیو نہیں ہوئی تو میں نے کہا کہ میں ڈرائیو کر لیتی ہوں اور میں ڈرائیونگ سیٹ پر ا گئی اور پھر سارا ماجرہ میں بتا‬
‫چکی ہوں حریم نے ساری بات بتائی تھی۔‬
‫نورے کے اڈریس دینے پر وہ سب وہاں پہنچ چکے تھے ۔ دروازہ کھلنے پر تینوں اندر گئے ۔ اس کی ماں نے بتایا کہ وہ تو‬
‫ابھی گھر پر نہیں ہے ۔ تو وہ لوگ وہاں سے چلے گئے ۔ وہ تینوں گھر سے باہر گئے سڑک پر گھوم رہے تھے کہ ایک گاڑی‬
‫سامنے ائی ایکسیڈنٹ ہونے سے تو بچ گیا سامنے والی گاڑی جو تھی وہ بے دھیانی میں چل رہی تھی ۔ ارزم باہر گیا اور نورے‬
‫بھی گاڑی سے باہر نکلی حریم نہیں نکلی تھی ۔ نورے نے نقاب کیا ہوا تھا ‪ .‬سامنے والی گاڑی سے ایک لڑکا باہر نکال اور اس‬
‫نے اپنے گھر نکال کر ارزم کے سر پر رکھ دی ارزم کے پاس اس وقت گن موجود نہ تھی لیکن ارزم ان طرح کے حاالت سے‬
‫نپٹنا جانتا تھا اس نے اس کی گن کو ایک ہاتھ سے پکڑا اور ایک ہاتھ سے اس کا وہی واال گن واال ہاتھ پکڑا اور اس کی گن کو‬
‫اپنی ٹانگ سے مارتے ہوئے اس نے دور کی جانب پھینکا ۔ وہ لڑکا ایان تھا نورے پہچان چکی تھی لیکن اس کا ارزم کو نہیں پتہ‬
‫تھا اور نہ ہی ایان کو ارزم جانتا تھا اس نے ارزم کو مارنے کی کوشش کرنا شروع کی اور ارزم اور ایان لڑنا شروع ہو گئے‬
‫سڑک پر ۔ نورے نے بہت روکا ارزم !!! ارزم !!! لیکن ایان رک ہی نہیں رہا تھا ‪ ،‬نہایت بدتمیزی کرتے جارہا تھا ‪ ،‬تو ترا کر‬
‫کے بات کر رہا تھا اور ارزم اور ایان ایک دوسرے کو نورے کے منع کرنے کے باوجود مار رہے تھے ۔ نورے نے اپنے بیگ‬
‫سے گن نکالی اور ہوا میں ایک فائر کیا ‪ ،‬اس کے فائر کرنے سے دونوں دم کر چکے تھے اور سیدھے ہو گئے ارزم چونک چکا‬
‫تھا حریم بھی فائر سن کے فوراً گاڑی سے باہر نکلی ۔ نورے نے نقاب ہٹایا ۔ آپی آپ !!!! تم اس کو جانتی ہو ارزم نے پوچھا ۔ ہاں‬
‫یہی ہے ایان ۔ نورے نے گھر نیچے کی مجھے یہ بتاؤ کہ اس دن جہانزیب کے قتل والے دن کیا ہوا تھا تم اتنے شوکڈ تھے پریشان‬
‫تھے کیوں ؟م۔م میں وہ کنفیوز ہوا نہیں تو میں تو نہیں ۔۔۔جھوٹ بولتا ہے ارزم نے غصے سے کہا اور حریم کو اگے بالیا ۔ جی‬
‫حریم نے جواب دیا ۔ ابیان کو لگا کے وہ پھنس چکا ہے لیکن وہ پھر بھی نہ کچھ بوال۔ بولتا ہے کہ ماروں ؟ نورے کے یہ کہنے‬
‫پر ایان بوال مار میں بھی سکتا ہوں ۔ تم نہیں بتاؤ گے کچھ ۔ کچھ تھا ہی نہیں میں کیا بتاؤں ؟ نورے نے گن اس کے سر پر رکھی‬
‫اور بولی ‪ ،‬دیکھو میں نہیں چاہتی کہ اپنے بھائی کے دوست کو میں خود قتل کروں اس لیے شرافت کے دائرہ کار میں ا کر بتاؤ تم‬
‫جانتے ہو اور کیا جانتے ہو ؟ ایان کے تو رنگ اڑ چکے تھے لیکن وہ پھر بھی بوال میں کچھ نہیں جانتا ۔میں جانتی ہوں کہ تم اپنی‬
‫ماں کے ایکلوتے بیٹے ہو مجھے تمہاری ماں کا بیٹا مارتے ہوئے کوئی زیادہ وقت نہیں لگے گا یہ یاد رکھنا ایان تم جانتے ہو جو‬
‫میں کہتی ہوں میں کر کے دکھاتی ہوں یہ نہ ہو یہ گولی جو اس بندوق کے اندر ہے وہ اب تمہارے سر سے پار ہو گئے اس جانب‬
‫چلی جائے نورے نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا اور اس دفعہ وہ نہایت چیخ کر بولی تھی ۔ ارزم مرا اور موبائل کی‬
‫ریکارڈنگ ان کی ۔ اپی میرے جڑے ہوئے ہاتھوں کو دیکھے میں نے اپ کو بتایا تو سفینہ بیگم مجھے مار دیں گی اس نے ہاتھ‬
‫جوڑتے ہوئے کہا ۔ اگر تم نے مجھے نہ بتایا تو میں تمہیں یہی اس ویران سڑک پر مار کر پھینک جاؤں گی کوئی تمہارے جسم‬
‫کو ہاتھ نہیں لگایے گا اتنا برا ماروں گی کہ لوگ تمہارے مردہ جسم کو دیکھ کر استغفار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کوئی‬
‫تمہاری الش کو کندھا دینے واال نہیں ہو گا وہ اتنا چیخ کر بول رہی تھی کہ ارزم کو لگا کہ ایان اج مارا جائے گا اگر اس نے اس‬
‫کو نہ بتایا نورے نہایت شدت سے اپنی پوری قوت سے چیخ رہی تھی لیکن وہ رو نہیں رہی تھی ۔ بولو کیا ہوا تھا نورے چیخی‬
‫اور چالئی ۔ اس کا یہ روپ دیکھ کر ارزم کو باقی لگ رہا تھا کہ اج تو یہ گیا اور حریم بھی نہایت پریشان تھی ارزم اور حریم‬
‫اگے ہوئے نورے کو روکنا چاہا ۔ چلے جاؤ پیچھے ہو جاؤ اج یاں تو یہ بتائے گا یا میں اس کو مار کر جاؤں گی ۔ نورے بولتے‬
‫ہوئے مسلسل چیخ رہی تھی وہ ارام سے بات نہیں کر رہی تھی انکھیں اتنی سرخ تھی کہ مزید غصہ کرتی تو انکھیں اور دماغ کی‬
‫نس اتنی ٹینشن لے کر اج پھٹ جانی تھی ‪ ،‬اور شدید غصے کے عالم میں اس کی گالیں ایک سرخ غبارے کی طرح ہو چکی تھی ۔‬
‫ایک نورے بولی دو اس دفعہ وہ چکی اگر تم نے میرے تین کہنے تک نہ بتایا تو دیکھ لینا تمہارا اج میں کیا کروں گی میرے‬
‫بھائی کو قتل ہوا تھا اور اج اس کی بہن قتل کرے گی اور جب نورے تین بولنے لگی تو ساتھ ہی ایان بوال اچھا اچھا بتاتا ہوں ۔‬
‫ارزم نے جا کر ایران کی گن اٹھائی اور پکڑ کر اپنی حراست میں لے لی ۔ میں وہ میں ملک کے مطابق جہانزیب سے ملنے ایا تو‬
‫سفینہ بیگم تین لڑکوں کو الئن میں کھڑا کر کے کچھ سمجھا رہی تھی تو میں ایک جانب کھڑا ہو کر سننے لگا تم لوگ اج اس جگہ‬
‫پر جاؤ گے اور جہانزیب کو مار دو گے اس کام کے تم لوگوں کو بہت پیسے ملیں گے میں یہ سن کر اس جگہ تک جانے کا‬
‫سوچنے لگا اور دوڑا تو شاید ان کو معلوم ہو گیا کہ کوئی ہے شاپنگ مال گھر کی دائیں جانب سے اتا ہے اور اپی اپ کو افس‬
‫باہر جانب ۔ تو ؟ نورے چیخی اتنا زور سے چیکھی کہ اس کو چکر ایا حریم نے اگے ہو کر اس کو تھاما اگے بولو ۔ پھر اپی‬
‫جھانزیب اپ کو چھوڑ کے گاڑی میں جس میں حریم اور جہانزیب تھے گھر کے باہر سے گزری گاڑی تو میں نے اواز لگائی تو‬
‫انہوں نے مجھے کچھ بتانے کی مہلت نہیں دی بلکہ گولیاں چال دی انہی لڑکوں نے ۔ ٹھیک ہے جب عدالت میں بالیا جائے گا تم ا‬
‫جانا ارزم بوال ۔ لیکن کیوں ؟ ایان نے ارزم کی بات پر سوال کیا ۔ انا ہے تو بس انا ہے جہانزیب کے دوست ہونے کے ناطے تم‬
‫نے ا کر گواہی دینی ہے ۔ میری بات سنیں صفینہ بیگم نے مجھے کہا تھا وہ مجھے مار ڈالیں گے اور میری ماں کو بھی میں کیا‬
‫کروں میں خود بے بس ہوں ۔ فکر نہ کرو تمہارے گھر کے باہر پولیس کا پہرا میں لگوا دیتا ہوں کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا‬
‫ارزم بوال ۔ ٹھیک ہے اپنے دوست کی روح کو انصاف دالنے ا جانا نورے نے کہا اس کے بعد ارزم نے نورے کا ہاتھ تھاما اور‬
‫اس کو جا کر گاڑی میں بٹھایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نورے ار یو اوکے ارزم نے پوچھا ۔ نورے گاڑی کی سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر گاڑی کی‬
‫چھت کی جانب دیکھ رہی تھی ۔ بھائی اس کو بھی نہ بالئیں وہ بہت ٹینس ہے اپ کو جواب نہیں دے گی ۔ نورے غصے سے بے‬
‫قابو ہو رہی تھی اس نے اپنے بیگ سے تین چار قسم کی دوائیاں نکال کر منہ میں ڈال کر سامنے پڑا پانی پی لیا ۔ اتنی دوائیاں‬
‫؟؟؟؟ بھائی یہ اتنی ہی کھاتی ہے جب اس کو غصہ اتا ہے ۔ چلو میں تمہیں گھر ڈراپ کرتا ہوں۔ اس کو گھر ڈراپ کیا اور خود‬
‫گھر ائے اور ا کر عصر مغرب پڑھی یعنی وہ عصر سے لے کر مغرب تک جان نماز پر بیٹھی رہی اور دعا کرتی رہی ۔ ارزم‬
‫بھی گھر ا کر نماز وغیرہ پڑھنے کے بعد اپنی امی کے کہنے پر گھر کا کچھ سامان لینے گیا ہوا تھا جو کہ عشاء کے بعد گھر ایا‬
‫اور ا کر فوراً مسجد جا کر نماز پڑھ کر ایا ۔ نورے سے چائے پی لو میں تمہارے لیے بنا کر الیا ہوں تمہیں تھوڑا ارام ملے گا ۔‬
‫نورے نے چائے پی اور سکون سے سو گئی بغیر کوئی بات کیے ۔صبح فجر کی نماز پڑھی اور پھر قران اور پھر ا کر دوبارہ‬
‫لیٹ گئی اور حیران ہونے لگی کہ کل میں نے کیا کیا اتنا غصہ وہ بھی میں نے کیا اور اس کے بعد میری کیا حالت ہو گئی تھی‬
‫ارزم کیا سوچے گا کہ یہ کیسی عجیب سی لڑکی ہے ؟ ویسے وہ جو مرضی سوچے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا مجھے صرف‬
‫اور صرف جھانزیب کی اور بابا کی موت کا بدلہ لینا ہے اور وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اس کی انکھ لگتی اور پھر وہ معمول‬
‫کے مطابق نو بجے تک اٹھ گئی تھی ۔ ناشتہ وغیرہ بنانے میں ابھی دیر تھی تو وہ کپڑے ائرن سٹینڈ پر ائرن کرنے لگی ۔ پہلے تو‬
‫وہ کمرے میں کہہ رہی تھی لیکن بعد میں ارزم کمرے میں ا چکا تھا لیکن وہ نہیں جانتی تھی ۔ کل رات کیا ہوا تھا؟ پیچھے سے‬
‫ایک اواز ائی جو کہ ارزم کی تھی۔ نورے جنت ُمری اور بولی کیا ؟ کل کیا ہوا تھا ؟ ارزم سے پوچھ رہا تھا ۔ کل مجھے غصہ‬
‫اگیا تھا بس وہ دوبارہ کپڑے استری کرنے لگی ۔ کیا کمال کا تمہارا غصہ ہے ویسے میں تو ڈر گیا تھا ۔ نورے ہنسی اور بولی اپ‬
‫ڈرتے بھی ہیں کسی سے ۔ ہاں نا تمہارے کل اس غصے نے تو مجھے واقعی زندگی میں شاید پہلی دفعہ ڈرا دیا تھا بھئی مجھے‬
‫تو ایسا لگا کہ تم اج ایان کو تو مارو گے اور ساتھ میں میرا بھی صفایا کر دو گی لوے اس کی اس بات پر مری اور ایک دم فریز‬
‫ہو چکی تھی ‪ ،‬اور جو حریم بزدل تھی وہ تو گاڑی سے باہر ہی نہیں ائی تھی جب تم نے اواز لگائی تو اگے ائی ویسے اگر تو‬
‫مجھے اور ایان کو مار دیتی نہ تو حریم نے تو دوڑ جانا تھا نہ دائیں دیکھ کر اور نہ بائیں دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ارزم نے یہ کہہ کر مسکراہٹ دبائی ۔ نہیں بھال میں کیوں اپ تینوں میں سے کسی کی گولی مارتی میں پاگل ہو جاؤں گی لیکن قاتل‬
‫کا نام کا داغ اپنے ماتھے پر نہیں سجنے دوں گی ۔ وہ تو تم پہلے ہی ہو وہ اہستہ اواز میں بربڑایا تھا لیکن نورے سن چکی تھی ۔‬
‫نورے نے اس کو ایک تکی نگاہ سے دیکھا لیکن پھر اپنا کام کرنے لگی ۔ ویسے تمہارا یہ قاتالنا روپ میں نے پہلی دفعہ دیکھا‬
‫ایک بات بتاؤ ؟ پوچھو ! کیا یہ اداکاری تھی ؟ نورے پیچھے مری اور سرخ تھی اس کی یہ بات سن کر اور بولنے لگی کیا ہو گیا‬
‫ہے اپ کو اپ کو اداکاری میں اور حقیقت میں فرق نہیں پتا کیسی باتیں کرنا شروع ہو گئے ہیں اپ اور ہاں یہ اداکاری نہیں بے‬
‫بسی کو اپنے دل و دماغ سے نکالنے کا نیا راستہ تھا جس کا میں اب انتخاب کر چکی ہوں لوگ پیار سے نہ ہی بات سنتے ہیں نہ‬
‫مانتے ہیں اپ جیسا وہ کریں گے ویسے میں کروں گی ۔ نورے کے پرجوش لفظ سن کرارزم بوال ویسے اب اگر کوئی تمہاری‬
‫فیلنگز کو ہٹ کرے تو کیا کرو گی ؟‬
‫‪Then I will make their life a living hell‬‬
‫انسان کو زندگی میں پیش انے والے حاالت نہایت ہی حد تک بدل دیتے ہیں اور شاید میں بھی اگر وہ لوگ جن سے میں پیار کرتی‬
‫ہوں انہوں نے دھوکہ دیا تو میں ان کو خود ہی مار ڈالوں گی ۔۔۔۔۔ ویسے تم نے گن سنبھال کر رکھی تھی کیا بات ہے ‪ ...‬کیوں نہ‬
‫سنبھالتی میرے شوہر نے مجھے پہلی دفعہ کوئی چیز دی تھی اور میں تو اس کو ایک تحفہ اور حفاظتی سامان سمجھتی ہوں جو‬
‫کہ ارزم زویار نے مجھے دیا تھا وہ بڑے فخر سے کہہ رہی تھی ۔ ارزم زاویار اس نے اپنا نام لیا اور مسکرایا اور نورے مڑ کر‬
‫دوبارہ کپڑے ائرن کرنے لگی ۔ یہ سب باتیں سن کر ارزم نورے کے پیچھے بیڈ پر بیٹھ کر موبائل استعمال کرنے لگا تھوڑی دیر‬
‫میں ان کی امی کی اواز ائی اور بولی چلو بچوں اکر سب ناشتہ کر لو اب وہ سب ناشتہ کرنے جا چکے تھے۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔‬
‫میری بات غور سے سنو کشف شارق اپنی بہن سے مخاطب تھا ۔ بھائی پہلے اپ میری بات سنیں گے ۔ تم جانتی ہو تم میری بات‬
‫کاٹ جاتی ہو اور اگے سے زبان چالتی ہوں میں کبھی کیوں نہیں کچھ کہتا ؟ کیونکہ اپ اپنی بہن سے سب سے زیادہ پیار کرتے‬
‫ہیں دنیا میں ڈیٹس وائے ۔ شارق اس کی اس بات پر مسکرایا تھا ۔ چلو سناؤ ! بھائی میں ارزم کا جینا حرام کرنا چاہتی ہوں ۔ ہا ہا ہا‬
‫شارق اونچی اونچی ہنسا اور بوال میں بھی تمہیں یہی کہنا چاہتا تھا کہ تم اس کا جینا حرام کرو ۔ تو بھائی پھر میں جو کرنا چاہتی‬
‫ہوں کر لوں ! ۔۔۔۔۔ کیوں نہیں فکر نہ کرنا میں سب دیکھ لوں گا ایک ایک کو !!!! ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ کنول اندر ائی‬
‫اور بھائی کو چائے دی اور بولی بھائی مجھے اپ سے بات کرنی ہے ۔ بولیے میری چھوٹی گڑیا !! بھائی میں شادی کرنا چاہتی‬
‫ہوں ۔ ارے واہ لیکن کس سے کشف بولی کس کی کمبختی ائی ہے ؟‪ ...‬کشف ہنسنے لگی ۔ باز اؤ شارق بوال ۔ بھائی میں اشعر سے‬
‫شادی کرنا چاہتی ہوں ۔ اشعر !!!! شارق کہ رونگٹے ہی کھڑے ہو گئے تھے جیسے ۔۔۔۔ کشف بولی اور اگر اس نے انکار کر دیا ۔‬
‫میرے ساتھ رہا ہے یہ اس گھر میں دو سال انکار تو اس کی ماں بھی نہیں کرے گی ۔ اتنا یقین ہے اپ کو اس پر ۔ ہاں ہے ۔ اگر‬
‫اس نے کچھ ایسا کیا جس سے اپ کی یہ بہن بھی رہی پھر ۔ یہ یاد رکھنا جتنا پیار میں تم دونوں سے کرتا ہوں نا اتنا ہی میں اشعر‬
‫سے کرتا ہوں تب کی تب دیکھی جائے گی اور یہ یاد رکھنا کچھ ایسا نہ کرنا جس سے اشعر کو نقصان پہنچے یا اس کا دل ٹوٹے‬
‫میں چھوڑوں گا نہیں کسی کو وہ میری جان ہے میرا الڈال ہے یاد رکھنا ۔ اتنی محبت کیوں کرتے ہیں اپ اس سے کوئی بھائی تو‬
‫نہیں ہے اپ کا سگا ‪ .‬بھائی نہیں بھی ہے تو کوئی بات نہیں بہت چھوٹا تھا جب وہ اپنی بہنوں سے جدا ہوا تھا ماں پاگل ہو چکی‬
‫تھی اور بھائی ماں کو سنبھالتا تھا اس وقت ترس کھا کے اس کو میں نے بہت سنبھاال اہستہ اہستہ مجھے اس سے پیار ہو گیا اور‬
‫تم یہ کہہ رہی ہو کہ مجھے اس سے پیار کیوں ہے کہنا بنتا نہیں ہے تمہارا۔ بھائی اج میں جاؤں گی ارزم کے گھر اور اپ دیکھ‬
‫رہے ہیں اب اگ لگے گی وہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سب اونچی اونچی ہنسنے لگے ۔‬
‫اچھا بھائی میں نے ناشتہ کر لیا میں یونیورسٹی جا رہا ہوں ۔ نورے نے اس کے لیے لنچ بنایا تھا اشعر رکو میری بات سنو یہ لینچ‬
‫ساتھ لے جاؤ تم کنٹینی سے اتنا برا کھانا کھاتے ہو یہ ہیلتی فروٹ کھایا کرو اور ساتھ میں میں نے گھر کا بنا ہوا کھانا رکھا ہے وہ‬
‫کھانا ۔ بھابی سب کہیں گے کہ کیا تم سکول ائے تھے؟ جو یہ لینچ ساتھ لے ائے ہو ۔ چلو ساتھ لے کر جاؤ تمہاری بھابی بالکل‬
‫ٹھیک کہہ رہی ہے ارزم بوال ۔ لیکن بھائی !! ‪..‬۔۔۔ میں نے تمہارے چائنہ والے کان اتار دینے ہیں ۔ بھائی رہنے دینا ‪ ....‬اشعر تم‬
‫نے کہا نہیں لے کے جانا ؟ نورے نے پوچھا ‪ ،‬اس کے چہرے سے لگ رہا تھا جیسے اس کو دکھ ہو رہا ہو ۔ میں لے کے جاؤں‬
‫گا بھابھی دیں دےیں چلیں ۔ اشعر نے نورے کے ہاتھ سے ٹفن پکڑا اور چال گیا ۔ اشعر نورے کو انکار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ‬
‫وہ اس سے اٹیچ ہو رہا تھا کیونکہ نورے ہے اس سے بے حد اچھے طریقے سے پیش اتی تھی۔‬
‫میری بات سنو تم اپنی امی کو میری تصویر دکھا دو ہنوف میری شارق بوال ۔ اج میں تمہاری تصویر الزمی دکھا دوں گی‪ ،‬فون کی‬
‫دوسری جانب سے اواز ائی جو کہ اس کی دوست کی تھی جسے وہ شادی کرنا چاہتا تھا وہ امریکہ میں رہتی تھی ۔ تم نے کیا اپنی‬
‫امی کو میرے بارے میں بتا دیا ہے ؟ بتا تو میں نے کافی دیر کا دیا ہے اور موم پاکستان سے امریکہ اگئی ہیں ۔ تو پھر کرو کچھ‬
‫یار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں اج انشاءہللا ۔‬
‫دوپہر کے دو تین بج چکے تھے اشعر گھر ایا السالم علیکم بھابی ! نورے کچن میں تھی ۔ وعلیکم السالم ! کیسے ہو بھئی ؟شکر‬
‫ہے بھابھی بھابھی اپ نے جو لنچ دیا تھا قسم سے میرے دوستوں نے تو چھوڑا ہی نہیں سارا منہ میں ڈال کے فٹافٹ ہی کھا کے‬
‫میں مجھے تو دے ہی نہیں رہے تھے ۔ یہ سن کر نورے کے چہرے پر مسکراہٹ ائی ۔ واقعی ؟؟؟ ہاں نہیں تو کیا بھابھی میری‬
‫بات سنیں اپ نے تو پیچھے چھوڑ دیا سارے دنیا کے شیف کو کیا مزے کا اپ نے کھانا بنایا ہے میں کہتا ہوں دل چاہ رہا تھا میں‬
‫اپنی انگلیاں تک کھاتا ہوں جن کے اوپر تھوڑا تھوڑا لگا ہوا تھا وہ ہنستے ہو کہہ رہا تھا ۔ یہ تم میرا مذاق اڑا رہے ہو یا پھر‬
‫تعریف کر رہے ہو؟؟؟ نورے نے ایک بھنو اٹھاتے ہوئے پوچھا ۔ ابویسلی بھابی تعریف ہی کر رہا ہوں ‪ ،‬مجھے تو گھر پر بھی اپ‬
‫کا کھانا اتنا مزے کا لگتا ہے جو اپ بناتی ہیں ۔ واقعی ؟؟ میں نے تو ابھی نیا نیا بنانا سیکھا ہے ۔ بھابھی اپ جو بناتے ہیں نا ایسا‬
‫لگتا ہے تو جادو کر دیا اپ نے کھانے والے کو پسند ا جاتا ہے ۔۔۔۔ نورے مسکرائی ۔ اشعر جانے لگا تو نورے بولی اشعر ۔۔۔۔ وہ‬
‫مڑا جی بھابھی ۔ ہم اپنے بھائی کو تو تنگ کیوں کرتے ہو پہلے تو مجھے یہ بتا تو میں بہت شوق ہے مجھ سے مار کھانے کا جس‬
‫دن وہ تم سے پوچھ رہے تھے کہ کون ایا تھا اور کون نہیں اور تم ہو کے اپنی ماری جا رہے تھے بونگیاں ۔۔۔۔وہ ویسے ہی اس‬
‫نے اپنا سر کھجاتے ہوئے کہا شرمندگی سے ۔ دیکھو پھر تو ہمارے لیے سیب رات کو لے بھی ائے وہ جب ائے تھے کوئی حال‬
‫ہے ویسے تمہارا ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔ایک بات بتاؤ مجھے اشعر کل تم اپنے بیمار دوست کی عیادت تو کرنے نہیں گئے تھے پھر کہاں گئے تھے ؟ نہیں بھابھی میں‬
‫وہیں گیا تھا ۔ اشعر تو میں پتہ ہے تمہارے بھائی کو جھوٹ سے کتنی نفرت ہو تو میں تھپڑ لگا دیتے ہیں چلو سچ بتاؤ کہاں گئے‬
‫تھے ؟ میں بتاؤں گا تو اپ بھائی کو بتا دیں گی مجھے پتہ ہے اس لیے میں نہیں بتا رہا ۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اشعر میں نے تھپڑ لگا دینا۔۔۔ اچھا‬
‫اچھا باقی بتاتا ہوں شارق بھائی کے پاس گیا تھا۔ اس ریکس کے پاس ؟؟؟ نورے نے تعجبی انداز سے اس سے پوچھا ۔ جی اس نے‬
‫نظر زمین میں گھڑتے ہوئے کہا ۔ وجہ ؟؟ بھابھی اب میں اپنی تعریف خود تو نہ کر سکتا میں وہاں ان کو بس یہ بتانے گیا تھا کہ‬
‫ائندہ اپ تک اور میرے بھائی تک نہ پہنچے تو زیادہ ان کے لیے بہتر ہے ۔۔۔ ایک بات بتاؤ کہ تم اور وہ زیادہ اٹیچ ہے اور اگر‬
‫اس نے اتنے قتل کیے ہیں تو ابھی تک اس کو کسی نے پکڑا کیوں نہیں ؟ جی ابھی ہم کافی اٹیچ تھے اور ابھی بھی ہیں ۔ لیکن‬
‫کیسے ؟ ارزم تو کسی سے اٹیچ نہیں تھا ۔ بھابھی جب میری دونوں بہنوں کی ڈیتھ ہوئی تھی نا تب میں کافی چھوٹا تھا تو پھر میں‬
‫ان کے گھر میں ہی رہتا تھا ماما تو جیسے اپنا دماغ ہو بیٹھی تھی اور بھائی ماما کو دیکھتا تھا اور میں پھر اپنی خالہ کی طرف‬
‫ہوتا تھا پھر یہ شارق بھائی نے ہی مجھے جیسے پاال ہو دو سال تقریبا ً ڈھائی سال وہ یاد کر رہا تھا اور اس کو یاد کر کے اس کے‬
‫چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ ا رہی تھی اور بھابھی پوری دنیا کی پولیس اس کے پیچھے ہے ‪ ،‬جو اس کو پکڑنے آتا ہے‬
‫اس کو قتل کر دیتا ہے ‪ ،‬یہ اپ نے بے شمار پیسے کا کام میں التے ہوئے اگلے بندے کو دے دیتے ہیں اس نے ہنستے ہوئے کہا ۔‬
‫تو کیا وہ تم سے پیار کرتا ہے ؟ نورے کے سوال پر اشعر بوال مجھ سے بھی زیادہ وہ مجھے پیار کرتے ہیں ۔ اور پھر بھی تم کل‬
‫چلے گئے اس کو بول بول کے ا گئے ہو ‪ .‬بھابھی اب خونی رشتوں پر تو اب کمپرومائز نہیں کیا جا سکتا میں تو بالکل نہیں کروں‬
‫گا بھائی کے معاملے میں کمپرومائز اور نہ ہی اپ کے بارے میں ایک ہی تو میری بھابھی ہے اس نے مکھن لگاتے ہیں انداز میں‬
‫کہا ۔ ویسے فرض کرو یہ ساری باتیں میں جا کر ارزم کو بتا دوں اور وہ تمہارا کیا حال کریں ۔۔۔۔۔ نورے کے کہنے پر اشعر بوال‬
‫بھائی سے کون ڈرتا ہے میں تو نہیں ڈرتا وہ تو فضول میں ہی رعب جماتے رہتے ہیں میں کبھی ڈرا ہوں بھال اپ بتائیں ؟ ہاں‬
‫لیکن کوئی ایسا شخص ہے ہمارے گھر میں یہ ہم اس گھر میں جو کہ اپنے بھائی کے کہنے پر ارام سے دو پراٹھے کھا جاتا ہے‬
‫ساتھ تھپڑ بھی کھا جاتا ہے نورے نے ہنستے ہوئے کہا ۔ میں کوئی نہیں ڈرتا ورتا۔۔۔۔۔۔ ابھی اشر جی کیا ہی رہا تھا کہ ارزم اپنے‬
‫کام سے ایا اور وہ گالس پانی کا لینے کچن میں ایا تھا ۔ کون مجھ سے نہیں ڈرتا ؟ میں اشعر کے منہ سے فوراً نکال لیکن ارزم‬
‫کے یہ کہنے پر اشعر نے فوراً مڑ کر دیکھا اور منہ پر ہاتھ رکھ لیا کہ یہ وہ کیا بول بیٹھا ہے بے دھیانی میں ‪ ،‬اس کی ہوائیاں اڑ‬
‫چکی تھی اور جیسے رنگ بھی اڑ گیا ہو ۔ نورے اشعر کا چہرہ دیکھ کر ہنسنے لگی ۔ اچھا تو اپ جناب ہم سے نہیں ڈرتے ؟؟‬
‫بھائی دیکھیں بس ہمیں تو ہللا تعالی کی ذات سے لینا چاہیے نا دنیاوی لوگوں سے ہمیں کیا ہونا چاہیے حق تو ہللا کا ہے نا کہ ہم ہللا‬
‫سے ڈریں اس کے بعد کوئی کور اپ کرنے کی کوشش کی ۔ ہاں یہ بھی ہے لیکن میرے پیارے بھائی اشعر ادھر اؤ ۔ ارزم نے‬
‫اشعر کو بہت پیار سے اپنے پاس بالیا اشعر ایا تو ارزم نے اس کا کان پکڑا اور بوال بیٹا یہ یاد رکھنا بے شک ہمیں ہللا تعالی کی‬
‫ذات سے ڈرنا چاہیے لیکن اس کے بعد اپ کو مجھ سے بھی ڈرنا چاہیے ‪ ،‬ویسے کیا لکھوں تم دونوں بھابی اور دیور کی شان میں‬
‫دونوں مل کر میری برائیاں کر رہی ہیں اس نے ہنسی دباتے ہوئے کہا ۔ نورے کو لگا کے اپ وہ بھی پھنس چکی ہے میں ایسا‬
‫کچھ نہیں کر رہی تھی اور نہ ہی وہ تو سمپل ایک مذاق کر رہا تھا ۔ تو اپ نے منع بھی نہیں کیا ؟ ارزم کے کہنے پر اشعر بوال ‪،‬‬
‫ہر جگہ چھاپا مارتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں اس نے بربرا کر کہا لیکن ارزم اس کے اتنا قریب تھا کہ اس کو اواز چلی گئی ارزم‬
‫نے زوردار تھپڑ اس کے منہ پر لگایا ۔ بھائی اپ نے مجھے پھر مارا اس نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔ یہ جو ہاتھوں اپنی‬
‫گالوں پہ رکھتا ہے نا میرے تھپڑ کھانے کے بعد یہ پہلے تو اپنی زبان پہ رکھ لیا کرو منہ بند رکھ لیا کرو اپنا اگر کچھ نہیں کہوں‬
‫گا تجھے ٹر ٹر بولی جاتا ہے ۔ نا ماریں اس کو ۔۔۔۔ نورے بولی چلو جا تم اپنا جا کے اردو کا پیپر یاد کرو تمہارا پرسوں پیپر ہے‬
‫میں جانتی ہوں چلو جواب جلدی پہنچ جاؤ ۔۔۔ اشعر اور ارزم نورے کو کھلی انکھوں سے دیکھتے رہ گئے کہ نورے کو بھال‬
‫کیسے پتہ ہے ؟ تمہاری ڈیٹ شیٹس وغیرہ میں نے دیکھ لی تھی ایسے نہ مجھے دے دو مجھے پتہ ہے تمہارا ٹیسٹ ہے اور پیپر‬
‫سے تمہارے جلد انے والے ہیں چلو جلدی جا کے اردو کی تیاری کرو ۔ اوکے اشعر کہتا اپنے کمرے میں گیا ۔ کچھ کھاؤ گے ؟‬
‫نہیں نورے اتنے میں ہی ابھی وہ بات کر رہا تھا کہ اس کو کال ائی رک میں بھی اتا ہوں اور وہ یہ کہہ کر چال گیا ۔‬
‫موم یہ دیکھیں اپ اس لیے میری ائی ہے نا امریکہ کہ میری شادی کروا دیں ۔ ہاں بھائی تمہارا باپ تو ہے نہیں مجھے تمہاری‬
‫شادی کروانی پڑے گی ۔ اچھا یہ تصویر دیکھیں اس لڑکے کا نام شارق ہے میں اسے شاری کرنا چاہتی ہوں اس کا بزنس ہے اور‬
‫کافی اچھا انسان لگتا ہے ۔ اس کی ماں یہ دیکھ کر فوراً سمجھ گئی اور جان گئی کہ یہ انسان کون ہے ؟ کیونکہ شارق کو کون‬
‫نہیں جانتا تھا اس نے ‪ 47‬قتل کیے تھے جس کی وجہ سے سارے ملکوں کی پولیس اس کو جانتی تھی تو وہ کیوں نہ جاتی ہوتی‬
‫لیکن اس نے اپنی بیٹی ہنوف کو کچھ نہیں کہا اور بولے بیٹا مجھے اس کا نمبر دو ۔ چلو تم جاؤ اپنے کمرے میں میں کال کرتی‬
‫ہوں اور بات وغیرہ کرتی ہوں جو پوچھنا پوچھتی ہوں اینڈ دین ۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ہنوف نے نمبر دیا اور کمرے سے باہر چلی گئی ۔ اس نمبر پر کال کی گئی دوسری جانب سے کال اٹھائی گئی ہیلو ریکس‬
‫سپیکنگ ۔۔۔۔ہائے ہنوف مدر سپیکنگ ۔۔۔۔ او السالم علیکم ! انٹی کیسی ہیں اپ ؟ تم شاری کو جس نے ‪ 47‬قتل کیے ہیں جس کے‬
‫بارے میں میری بیٹی کو نہیں پتہ ہا نا ؟ پوچھ رہی ہیں یہ بتا رہی ہیں ؟ بتا رہی ہوں ؟ میرا نام سفینہ بیگم ہے اور میں اپنی بیٹی‬
‫کی شادی تم سے ایک شرط پہ کرواؤں گی ‪ ........‬لیکن وہ شرط کیا ہے ؟ زیادہ مشکل نہیں ہے تمہارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔‬
‫کام بولیے ؟ کسی کو ترپانا ہے ۔ بے فکر ہے یہ کام ہو جائے گا دوسری جانب سے مسکراہٹ کی اواز ہے جو کہ شارق کی تھی ۔‬
‫میں تمہیں لڑکی کی تصویر بھیجتی ہوں اس کا ۔ فون بند ہوا تصویر بھیجی تھی اور دوبارہ فون ایا ۔ تو دوبارہ فون کیا گیا تو شارق‬
‫بہت ہکا بکا ان سے پوچھ رہا تھا کہ یہ تو ارزم کی بیوی ہے نا ؟ ارزم وہی پولیس واال سفینہ بیگم نے پوچھا ۔ ہاں ۔ میں جانتی‬
‫تھی کوئی نہ کوئی چکر تو ضرور ہے ۔ کیسا چکر ؟ سارے چکروں کو چھوڑو اور سب سے پہلے ان دونوں کو برباد کرو بے‬
‫شمار رقم کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کی شادی تمہارے ساتھ کروا دوں گی ۔۔۔۔ دوسری جانب سے شارق کی ہنستی اواز میں کہا کیوں‬
‫نہیں !!! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اب شارق کی زندگی کا ایک نیا مشن شروع ہو چکا تھا جو کہ اس کو اب پورا کر کے دکھانا تھا کوئی اس کو چیلنج کرے اور وہ‬
‫پورا نہ کرے ایسا تو کسی کتاب میں نہیں لکھا تھا ۔‬
‫میں کیا کروں یا ہللا مجھے جو اپ نے دیا ہے اس میں مجھے راضی بھی کر دے اپنی رضا میں راضی کر دے یا ہللا میں کیا‬
‫کروں مجھے اتنی سمجھ ا رہا میری سمجھ سے سب باہر ہو رہا ہے ۔ کیا میں کچھ نہیں کر پاؤں گی یا میں کچھ کر پاؤں گی‬
‫نورے ایک بند کمرے میں بیٹھے تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جب سوچتی تھی تو یوں سوچتی تھی جیسے دنیا میں کوئی نہیں ہے وہ اکیلی ہے‬
‫کوئی آس پاس بھٹکنے واال نہ ہو ۔ اور ارزم کی طرح جذباتی فیصلے کرنے میں تو وہ بھی ماہر تھی ۔ بے حد دکھ کے عالم میں‬
‫خاموشی سے اپنے اپ کو تعاجبی نگاہ سے وہ ائینے کے اگے دیکھ رہی تھی ۔ میں کیسی دکھتی ہوں ؟ کیا میں پیاری ہوں یا نہیں‬
‫؟ وہ اس وقت نیلے رنگ کی قمیض پہنے ہوئے تھے اور اس نے اپنی ناک میں ایک لونگ پہنی تھی جو کہ ہیرے کی بنی تھی‬
‫اس کے اوپر سونے کی ڈیزائننگ تھی انکھیں بھوری اور چہرہ سرخ ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کمرے کو دروازہ لوگ تھا ارزم نے ا کر دروازہ کھولنا چاہا لیکن دروازہ نہ کھوال اس نے دروازہ نوک کیا پریشانی کی عالم میں‬
‫کے دروازہ لوک کیوں ہے ؟ دروازہ کھٹکانے پر نورے نے دروازہ کھوال وہ جانتی تھی ارزم ہی ہوگا کیونکہ اشعر کا تو پیپر تھا‬
‫تو وہ تیاری کر رہا تھا اس نے دروازہ کھوال اور بے دہانی کے عالم میں اگے چلتی گئی اور دوبارہ شیشے کے سامنے جا کر‬
‫کھڑی ہو گئی ارزم نے دروازہ بند کیا فورا کیونکہ اس کے بال کھلے تھے اور وہ حجاب کرتی تھی اس لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کافی دیر اس کو دیکھنے کے بعد ارزم نے اج تھانی تھی کہ اج تو وہ اس کی ناک میں پہنی ہوئی لونگ کی تعریف تو ضرور‬
‫کرے گا ۔ نورے ایک بات بتاؤ ۔۔۔۔‬
‫کیا ؟ چپ چپ کے عالم نے اس نے بس یہی لفظ ادا کیا ۔ تمہارے ناک میں یہ لونگ کہاں سے ائی تمہیں کس نے دی تھی؟ جب‬
‫میں ‪ 20‬سال کی ہوئی تھی تب میرے بابا نے مجھے یہ گفٹ کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اتنا قیمتی تحفہ تمہارے بابا اتنی امیر تھے کہ ہیرے کی‬
‫لونگ کے اوپر سونے کی ڈیزائننگ کروائی ہوئی ہے ؟ میرا باپ بہت امیر ہے میرے بابا کی ‪ 20‬کنال سے بھی زیادہ زمین ہے‬
‫ان کے اپنے بہت کاروبار ہیں ‪ ،‬نہیں بلکہ تھے ۔ کیوں اب وہ کس کے ہیں تمہارے ہی ہیں ؟ نہیں میرے تو نہیں ہیں وہ تو صفینہ‬
‫بیگم کی نہیں ہے جب تک ان کو پھانسی کے پھندے تک نہ لے جاؤں تب تک مجھے چین نہیں ائے گا اور وہ چیزیں تب تک‬
‫میری نہیں ہوگی وہ بڑی اہستہ اواز میں بول رہی تھی ۔ ویسے تمہارے بابا کافی امیر تھے واؤ ! کاش نہ ہوتے ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ اور‬
‫نورے کے یہ الفاظ ارزم کے بولے گئے الفاظات کو چیر چکے تھے اتنے درد تھا اس کی اواز میں جب اس نے کہا کہ کاش نہ‬
‫ہوتے ۔ ارزم نے ہمت کر کے پوچھا کیوں نہ ہوتے ؟ اگر وہ امیر اتنے نہ ہوتے تو وہ میرے پاس رہتے جہانزیب کے پاس رہتے‬
‫ہیں ہم مل کر رہتے کاش ہم مل کر رہتے ۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نورے کیا تم رو رہی ہو ؟ نورے نے ارزم کی جانب دیکھا اور خاموشی سے بیٹھ گئی ۔ ارزم نورے کے پاس گیا اور اس کو کہا‬
‫تم رو رہی ہو نا ؟ میں نے تمہیں منع کیا تھا تم نہیں رو گی ! م ۔ م میں نہیں رو رہی ہوں ۔۔۔۔۔ نورے تم جانتی ہو میں جھوٹ‬
‫بولنے پر تھپڑ لگا لیتا ہوں ۔ نورے نے اس کو ایک درد بھری نگاہ سے دیکھا اور اس نے کچھ نہیں بوال ۔ کیا ہوا تم کچھ بولو گی‬
‫نہیں ؟ نہیں میں کچھ نہیں بولوں گی ۔ تو پھر اگر میں تمہیں تھپڑ لگا دوں تو تمہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا ؟ یا تم نے یہ امید کیے‬
‫ہوئے کبھی میرے سے ؟ میں نے سب سے امیدیں لگانا چھوڑ دی ہیں کوئی کچھ بھی کر سکتا ہے میں کسی سے کسی قسم کے‬
‫ایکسپیکٹیشن نہیں رکھنا چاہتی چاہے وہ کوئی بھی ہو ۔۔۔۔۔۔۔ یار میں تو مذاق کر رہا تھا تم سیریس ہی ہو گئی ۔ میں سیریز نہیں‬
‫ہوئی میں بس بتا رہی ہوں ۔ چلو بس کرو اؤ باہر کھانا کھاتے ہیں ! اچھا سنو امی نا حنین کی طرف گئی ہیں تھوڑے دن رہنے‬
‫امی کا دل نہیں لگ رہا تھا یہاں پہ تو یعنی کہ حنین کے گھر میں اس کی بھابھی وغیرہ کے بچے ہیں تو وہاں پہ وہ چلی گئی ہیں‬
‫رہنے تھوڑے دنوں بعد ائیں گی ٹھیک ہے ۔ ٹھیک ہے ۔ چلو اپنی انکھوں میں ایا ہوا پانی صاف کرو ۔ نورے نے اپنی بھیگی‬
‫انکھیں صاف کی وہ روئے نہیں تھی لیکن انکھیں بھری ہوئی تھی جو کہ ارزم دیکھ رہا تھا ۔ تمہیں پتہ ہے نور تم بہت پیاری لگتی‬
‫ہو مجھے ۔ وجہ ؟ کیونکہ تم پیاری ہو ۔ اور اگر میں پیاری نہ ہوتی تو میں اپ کو پیاری نہ لگتی یہی کہنے کا مطلب ہے ؟ نہیں تم‬
‫مجھے پیاری لگتی ہو اس لیے پیاری ہو اور وہ ہنستا ہوا اس کا ہاتھ پکڑ کے اس کو تھام کے اس سے کہہ رہا تھا ۔ وہ دونوں‬
‫ہنسے اور پھر نورے نہیں حجاب کیا اور پھر وہ کھانا کھانے چلے گئے ۔‬

‫ارزم انٹی نے تو اج کھانا بنایا ہی نہیں نورے کچن سے دیکھ کر ائی تو ارزم کو بتانے لگی ۔ اچھا میں کھانا نہیں بنا کے گئی‬
‫؟نورے نے نفی میں سر ہالیا ۔ اچھا چلو میں باہر سے کچھ لے آتا ہوں ۔ ٹھیک ہے ۔ ارزم سنو ! جی ۔ اشعر کی پسند کا کچھ النا وہ‬
‫صبح کا پڑھ رہا ہے ۔ اوہ ‪ ،‬اچھا وہ مسکرایا تو نورے بھی مسکرائی اور پھر وہ چال گیا ۔‬
‫اشعر باہر آیا نورے برتن وغیرہ رکھ کر ٹیبل پر بیٹھی تھی ۔ بھابھی بہت بھوک لگ رہی ہے وہ پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہہ رہا‬
‫تھا ساتھ اس کے ہاتھ میں کتاب تھی اردو کی اور بال اس کے اجڑے ہوئے تھے جیسے وہ خود ہی کوئی غالب بنا ہو نورے نے‬
‫اس کو دیکھا تو اچانک اس کی ہنسی چھوٹی یہ تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے ؟ چھوٹے غالب لگ رہے ہو ۔ بس بھابھی یہ‬
‫پڑھائیاں اچھے خاصے انسان کا بیڑا گرق کر دیتی ہیں میں اچھا خاصا بھائی کو سمجھاتا ہوں کہ یہ پڑھائی وڑائی کچھ نہیں ہوتی‬
‫یہ بس انسان کا بیڑا گرک کرتی ہیں یہ دیکھیں میری حالت مجھ جیسے سولجھے ہوئے ‪ ،‬ویل ڈریس ‪،‬خوش شکل ‪،‬خوش مزاج ‪،‬‬
‫خوش عقل رہنے والے ادمی کو اس پڑھائی نے اجرا ہوا غالب بنا ڈاال ہے مجھے تو بھابھی کسی سے محبت بھی نہیں ہوئی ‪ ،‬تو‬
‫میں ایویں یہ غالب پڑتا پھروں پتہ نہیں بھابھی اتنے مشکل ہے میری تو سمجھ سے باہر ہے ۔ لیکن پڑھنا تو پڑے گا بھائی اور اور‬
‫تم خوش مزاج کچھ شکل اور خوش عقل کے ساتھ ساتھ خوش فہم بھی ہو یوں اگر غالب نہیں بنو گے نا پیپر میں فیل ہو جاؤ گے‬
‫اور اگر فیل نہ ہو گے تو پتہ ہے پھر تمہارا بھائی تمہارے ساتھ کیا کرے گا ؟ بہت ہی اچھے سے جانتا ہوں اس لیے تو پڑھ رہا‬
‫ہوں نہیں تو اپ کو لگتا ہے میں پڑھوں میں تو دنیا میں راج کرنے کے لیے پیدا ہوا ہوں دلوں پر راج کرنے واال بادشاہ اج کتابیں‬
‫پڑھ رہا ہے ۔۔۔۔ واہ واہ واہ اشعر یہ الئن کہہ کر واوا کرنے لگا اور نورے ہسنے لگی ‪.....‬اشعر ا کر ٹیبل پر بیٹھ گیا ۔ اچھا نا‬
‫بھابھی کھانا لیں تب تک میں کچھ ریوائز کر لیتا ہوں ۔ تمہارے بھائی کھانا لینے گئے ہیں اتے ہی ہوں گے ۔ اچھا وہ کہہ کر‬
‫پڑھنے لگا ۔ تھوڑی دیر گزری تھی وہ دونوں خاموشی سے بیٹھے تھے اشعر پڑ رہا تھا اور نورے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ۔‬
‫بھابھی ویسے اپ کو پتہ ہے بہت اچھی ہے ۔ نورے نے اس کو عجیب طریقے سے دیکھا اور پوچھا ویسے کیوں ؟ اپ بھائی کے‬
‫سامنے میری کافی مدد کرتی ہیں جب سے اپ ائی ہیں تب سے مارنے میں کمی ہوئی ہے۔ وہ بے اختیار ہنس دی ‪ ،‬کہ اتنے میں‬
‫ہی ارزم آگیا ۔ بھائی اپ اگے مجھے بہت زور سے بھوک لگ رہی تھی وہ کرسی سے اٹھا اس نے ارزم کے ہاتھ سے کھانا پکڑا‬
‫اور فٹا فٹ پلیٹ میں ڈالنے لگا اور وہ سب کھانے لگے ۔ بھائی اتنا مزے کا کھانا سارا کچھ اج میری پسند کا لے ائے ہیں ؟ ہاں‬
‫بھائی تمہاری بھابھی نے کہا تھا ٹال تھوڑی سکتے تھے ہم ؟ ہیں واقعی بھابھی اپ نے کہا تھا اس نے چونک کر اپنی بھابھی کو‬
‫دیکھا ۔ ہاں بھائی ہم نے ہی کہا تھا ہم نے کہا ہمارا بچارا بھائی اتنی محنت کر رہا ہے تو کچھ کھا پی ہی لے ایسے تو کمزور پڑ‬
‫گیا صحت پر اثر پڑ گئی یا بیچارہ چائنہ واال کان اتر کہیں گیا تو پھر ہم کیا کرتے پھریں گے ؟ نورے نے ہنسی دباتے ہوئے اسے‬
‫کہا تو ارزم بھی ہنسنے لگا ۔ یعنی بھابھی اپ نے میرا فائدہ نہیں ایک قسم کا بھائی کا فائدہ ہی کر دیا ۔ وہ کیسے ؟ اگر میری‬
‫کمزوری کی وجہ سے میرا کان اتر جاتا تو کم از کم بھائی کھینچتے دار نا اب یہ پکا ہو جائے گا مزید اور بھائی پھر اس کو‬
‫کھینچیں گے اس نے کان پکڑتے ہوئے کہا تھا ۔ ہاں تو تم اتنی الٹی حرکتیں نہ کیا کرو ارزم بوال ‪ ،‬ویسے یہ بتاؤ اج کیا تم ایسا‬
‫پڑھ رہے ہو کہ پورا دن کمرے سے باہر نہیں نکلے اور کتاب بھی ساتھ الئے ہو ٹیبل پر کھانا کھانے کے لیے خیر سے تم اتنا‬
‫پڑھ رہے ہو مجھے یقین نہیں ا رہا کہ تم بھی اتنا پڑھ سکتے ہو کون سا پیپر ہے تمہارا ؟ اردو کا ہے بھائی ۔ واقعی اردو کو بھی‬
‫پرو اور تم پورا دن اس کی تیاری میں لگے رہے ہو ۔ ارزم نے اس کو چونک کے حیرانی سے ایک بھنو اٹھاتے ہوئے دیکھا۔‬
‫بھائی کیا کروں میں جس ستمگر محبوبوں نے تو غالب کی جان کھائی تھی اور غالب میری کھا رہا ہے اپ کو پتہ ہے میری تو‬
‫سمجھ سے یہ چیزیں باہر ہو جاتی ہوتی ہیں ۔ اتنا تو شریف !!!! نورے ہنسنے لگی اور اشعر اپنی ہنسی کنٹرول کرنے لگا ۔ اردو‬
‫میں کچھ بھی نہیں ہوتا ہے صرف محبوب ہوتا ہے اس کے دو چار رونے ہوتے ہیں اور کبھی ہنسی ہوتی ہے اور تو کچھ نہیں‬
‫ہوتا اشعر بوال ۔ ہاں پتہ سارا ہے لیکن اتا پھر بھی کچھ نہیں ہے نکمے کو یہ ہوتی ہے نکمے کی پہچان ‪ ،‬ارزم بوال ۔ بھائی اب اپ‬
‫ہمیں نہ نکما کہیں ہم بھی غالب بن چکے ہیں ۔ اچھا تو مسٹر غالب کوئی شعر سنا دیں نورے نے اشعر کو تنگ کرتے ہوئے کہا‬
‫۔ لیں جی پھر سنیے میرا اپنا ذاتی شعر ۔۔۔ ارشاد ارشاد‬
‫ہر کسی کی زندگی میں ہے غم‬
‫کوئی نہیں کرتا ہمارے دکھ کو کم‬
‫اپ کی وجہ سے ہو رہی ہیں ہماری انکھیں نم‬
‫پھر بھی اپ کہہ رہے ہیں کہ اپ کو ستا رہے ہیں ہم‬
‫اشعر یہ تیرا شعر ہے ارزم نے حیرانی سے پوچھا ۔ جی ہاں بھائی ! واہ واہ بہت چھوٹے غالب مزہ اگیا !! نورے تالیاں بجاتے‬
‫ہوئے بولی ‪ ،‬تو اشعر بھی سینے پر ہاتھ رکھ کر نیچے جھک کر شکریہ شکریہ کرنے لگا ۔ چھوٹے غالب چل جا پڑھ لے جا کے‬
‫تھوڑا بہت کھا لیا تو نے ‪ ،‬ارزم بوال ۔ بھابھی دیکھ رہی ہیں اپ مجھے کھانا نہیں کھانا دے رہے کہہ رہے ہیں میں نے بہت کھا لیا‬
‫ابھی تو میں نے ادھی روٹی کھائی ہے یا ایک کھائی ہو گی ۔ اپنی بھابی کو میری شکایتیں لگا رہا ہے شرم نہیں اتی ارزم نے اس‬
‫کو تھپڑ لگایا ۔ نہ کرو اس کو مار کیوں رہے ہیں فضول میں ہی واقعی اس نے کچھ نہیں کھایا اتنا سا کھانا کھایا کیا پڑھے پڑے گا‬
‫یہ جب جہانزیب بھی اتنا کھانا کھاتا تھا نا تو میں اس کو بہت ڈانٹتی ہوتی تھی اور اس کو میں کہتی تھی زیادہ کھانا کھایا کرو‬
‫زیادہ کھانا کھانے سے زیادہ اچھا اپ کو سٹیمنا ملتا ہے جتنا اچھا کھائے گا انسان اتنا اچھا پڑھ سکتا ہے ایک ہیلدی انسان اپنی‬
‫الئف انجوائے کر سکتا ہے کمزور ذہن وال انسان تھوڑی لیکن کبھی بھی میری بات تو مانی ہی نہیں تھی نا جہانزیب۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ‬
‫اپنے اس اخری لفظ پر خاموش ہو گئی تھی ۔ وہ اٹھی اور جا کر اس نے برتن کچن وین رکھ دی وہ کھانا کھا چکی تھی جس طرح‬
‫اس نے کھانا تھا یہ اج اتنا اس لفظ بولنے سے پہلے وہ کھا سکتی تھی ۔ بھائی بھابھی کو کوئی غصہ ایا ہے اس نے دکھی ہوتے‬
‫انداز میں پوچھا ۔ نہیں یار اس کو غصہ نہیں ایا بس وہ اداس ہو جاتی ہے جہانزیب کی بات پہ یا اپنے بابا کی بات پہ۔ بھائی اپ‬
‫جائیں نا اب بھابھی کو منائیں ایسے تو پوری رات ایسے ہی رہیں گی تو اپ کا دل دکھتا رہے گا اپ ان کو باہر لے ائیں ہمارے‬
‫ساتھ میں اب کچھ ایسی بات نہیں کروں گا جس سے کوئی ان کا دل دکھے وہ اپنا سر کچاتے ہوئے شر مندگی سے کہہ رہا تھا ۔‬
‫نہیں نہیں تم نے کچھ نہیں کیا میں چاہتا ہوں دیکھتا ہوں ارزم اٹھا اور جا کر دیکھا کمرے میں تو وہ کمرے میں نہیں تھی تو جب‬
‫وہ اشعر کو بتانے ایا کہ اشعر تمہاری بھابھی کمرے میں نہیں ہے تو وہ وہاں بیٹھی چائے لے کر ا چکی تھی اب اپنے اپ پر‬
‫ضبط کرنا اس نے سیکھ لیا تھا نور تم یہاں ہو میں تمہیں کمرے میں دیکھنے گیا تھا نہیں میں ا گئی تھی باہر ائے چائے پیے اپنے‬
‫اپ پر ضبط کرتے اس نے اپنے لفظوں کو چن چن کر ادا کرتے ہوئے کہا تھا ۔ اچھا ابھی یہ بتائیں اپ کو کیا چیز اچھی لگتی ہے‬
‫اشعر نے نور کا دل اچھا کرنے کے لیے اس سے سوال جواب کرنا شروع کیے ۔ مجھے اتنا خاص کچھ اچھا نہیں لگتا مجھے سب‬
‫اچھا لگتا ہے ہر چیز ہللا تعالی نے بنائی ہے ہر چیز اچھی ہے ۔ یعنی اپ کو میرے بھائی اچھے لگتے ہیں کیونکہ وہ ہللا تعالی نے‬
‫بنائے ہیں اس لیے ۔ نورے ہنسی پہلے تو لیکن پھر اس نے ہنسی روکتے ہوئے کہا ہاں شاید‪ ،‬ارزم سامنے نے ہی بیٹھا تھا ۔ اچھا‬
‫بھائی اپ بتائیں اپ کو کیا چیز اچھی نہیں لگتی‬
‫سب مجھ سے پوچھتے ہیں تمہیں کیا چیز اچھی نہیں لگتی‬
‫مجھے اندرونی خزاں اور بارونی بہار اچھی نہیں لگتی‬
‫اور یہ الفاظ کہہ کر ارزم نورے کی جانب دیکھنے لگا نورے شاعری کو اچھے سے جاننے والی تھی اور وہ سمجھ چکی تھی وہ‬
‫اس کو کہہ رہا ہے ۔ چلو اب جا کے تم اپنے کمرے میں پڑھ لو یا تم نے اگر کچھ کرنا ہے تو کر لو پھر سو جانا اشعر ۔ وہ سب‬
‫اپنے اپنے کمرے میں جا کر سو چکے تھے۔‬
‫صبح کا وقت ہوا ارزم باہر سے ناشتہ لے کر ایا وہ تینوں بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگے صبح ابھی نو بجے کا ہی ٹائم تھا کہ ساتھ ہی‬
‫کشف اگئی ۔ وہ تینوں سکون سے بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے ۔ کیسے ہو سب ؟ کشف کی اواز پر اشعر اور ارزم نے اس کو مڑ‬
‫کے دیکھا جو کہ اس کی پچھلی جانب کھڑی تھی لو جی اگیا کاکروچ اشعر نے ارام سے بوال اور کھانا کھانے لگا ۔ نورے تو‬
‫کشف کو جانتی نہیں تھی اشعر کھانا کھانے لگا تو پھر ارزم کو ہی اس کو کہنا پڑا اؤ بیٹھو اور ہمارے ساتھ ناشتہ کرو وہ بیٹھ گئی‬
‫اور ان کے ساتھ ناشتہ کرنے لگی ۔ نورے اور اشعر کو دیکھا اور پوچھا کہ کون ہے ؟ اور پھر کشف خالہ کیسی ہے ؟ ارزم نے‬
‫نورے کو کچھ نہیں بتایا لیکن وہ نورے کو بتانا چاہتا تھا کہ یہ میری خالہ کی بیٹی ہے اس لیے اس نے ایسے سوال کیا کہ نورے‬
‫سمجھ گئی کہ اچھا یہ خالہ کی بیٹی ہے ۔ کیسے انا ہو تمہارا یہاں پر ؟ ارزم کے سوال پر کشف بولی کچھ نہیں ارزم بس اپنے‬
‫گھر میں بور ہو رہی تھی تو میں نے سوچا کچھ باتیں ہی کر لی جائیں ادھر ا کر ۔ ہاں فساد ڈال دیا جائے اشعر پھر بڑبڑایا۔ کیا ہوا‬
‫کیا کہہ رہے ہو ؟کشف بولی اشعر کو ۔ کچھ نہیں کاک۔۔۔۔ کشف ۔ پاگل یوں میں ابھی کیا میں بھی ابھی اس کو منہ پر کاکروچ کہہ‬
‫رہے ہیں ا رہا تھا اس نے سوچا ۔ بھائی ؟ ہاں ارزم نے کشف کو کھانا نکالتے دیتے کہا ۔ میں جا رہا ہوں ۔ تم نے ابھی تک اپنا‬
‫کھانا تو کھایا نہیں ایسے کیسے تم پہ پیپر دو گے نورے بولی ۔ بھابھی دیکھیں میں دے دوں گا میں بہت تھکا ہوا ہوں میں نے انا‬
‫ہے پیپر دے کے اور سو جانا ہے تو مجھے جانے دیں پلیز ۔ اشعر جانے لگا تو نورے نے اٹھ کر ایت الکرسی سورہ فاتحہ سورہ‬
‫اخالص اور درود پاک پڑھنے لگی اور اشع ر کو اپنے سامنے کھڑا کیا ۔ بھابھی کیا ہوا کیا کر رہی ہے ؟ نورے نے اس کو ہاتھ‬
‫سے کہا رکو اور پھر اس نے پڑھ کر اوپر پھونک ماری ۔ چلو جاؤ شاباش ہللا کے اوپر ہے سب کچھ ‪ ،‬نورے اشعر کے کان میں‬
‫کہنے لگی کوئی بات نہیں اگر تمہارا پیپر غلط بھی ہو گیا تمہارے بھائی کو میں سمجھا دوں گی اوکے تم نے ٹینشن نہیں لینی چل‬
‫جا شاباش میرا بھائی ۔۔۔۔ یہ کہہ کر دونوں ہنسنے لگے اپنی بھابی کا اتنا خلوص پن دیکھ کر اشعر یہ جان چکا تھا کہ اس کی‬
‫بھابھی اس سے جھانزیب کی طرح پیار کرتی ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫بہت محبت ہے دیور بھابھی میں ‪ ،‬کشف نے طنزیہ لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا ۔ ہاں بہن بھائیوں والی ہے محبت نورے کے‬
‫جواب پر کشف اور ارزم چونک چکے تھے ارزم نے تو اپنی ہن‪q‬سی چھپانا چاہی لیکن کشف تو غصے سے الل ہو رہی تھی‬
‫۔ میری بات سنو تم مجھے باہر لے جاؤ گے پلیز کشف اتنے میٹھے لہجے میں ارزم کو کہنے لگی کہ نور ے ان دونوں کو ایک‬
‫عجیب سی نظر سے دیکھنے لگی ارزم تو خاموش تھا لیکن کشف کے لہجے کو دیکھ کر وہ تھوڑی چونک گئی تھی ۔ کیوں کیا‬
‫ہوا ہے ؟ اس نے کھانا کھاتے ہوئے پوچھا ۔ تمہیں پتہ ہے تمہارے چوائس کافی اچھی ہے تو پلیز تم مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ‬
‫میں نے شاپنگ کرنی ہے پلیز دیکھو تم میری بات مان لو میں بہت سیڈ تھی ۔۔۔۔۔۔۔وہ ابھی مزید کچھ اگے بولتی کہ ارزم بوال ہاں‬
‫ہاں میں لے جاؤں گا ۔ کھانا ختم کرنے کے بعد نورے نے کچن میں برتن وغیرہ رکھے اور اپنے کمرے میں اپنی چٹکی لینے‬
‫گئی تو ارزم پیچھے ایا نورے اور بوال ۔ ہاں ۔ یار میں اتا ہوں ذرا اس کو لے کے جا رہا ہوں پھر میں کام پہ چال جاؤں گا ‪...‬‬
‫جائیں اپ ۔ چلو ٹھیک ہے پھر ہللا حافظ ۔ وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے وہ روانہ ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اشعر اپنا پیپر کرنے کے بعد کینٹین میں بیٹھا تھا کہ اس کو شارق کی کال ائی ۔ کیا بات ہے اج کل تم مجھ سے ملنے نہیں ا رہے‬
‫ہو ؟ شارق نے کہا ۔ اپ بھی تو مجھے بھول گئے ہیں جیسے بھائی ۔ میں تو نہیں بھوال ویسے ہی یہ بتا کہاں پہ ہو ؟ پوری دنیا‬
‫کی خبر رکھنے والے مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ میں کہاں ہوں اپ کے پاس تو ہر کسی کے گھر کا سی سی ٹی وی کیمرہ ہوتا‬
‫ہے تو اپ کو میرا نہیں پتہ میں کہاں ہو سکتا ہوں ؟ نہیں مجھے تمہارا نہیں پتا شارق اس سے نہ چاہتے ہوئے بھی غصے سے‬
‫بات نہیں کر سکتا تھا ۔ معمول کے مطابق میں ایک شریف بچہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عقلمند ‪ ،‬جوان اور ہونیسٹ بچہ ہوں جو‬
‫کہ اس وقت اپنی یونیورسٹی میں بیٹھا ہے ۔ میرے گھر اؤ سب سے کام ہے مجھے ؟ تو اج بھی یعنی اپ نے مجھے کام کے لیے‬
‫یاد کیا ہے مجھے تو لگا تھا اپ کو واقعی میری یاد ا رہی ہے ؟ شارک کو عشر کے یہ الفاظ بہت تنگ کر گئے تھے واقعی اس‬
‫نے کام کے وقت ہی کیوں اس کو یاد کیا ہے جبکہ اشعر تو سب کے ساتھ ایک جیسا لوئل بندہ ہے اور شارق جانتا تھا کہ اگر اس‬
‫میں اور ارزم مقابلہ کیا جائے کہ اشعر کس سے زیادہ پیار کرتا ہے تو وہ دونوں کو ایک ہی سٹیج پر ال کر کھڑا کرتا اور کہتا کہ‬
‫میں دونوں سے برابر پیار کرتا ۔ چلیں کوئی بات نہیں اب اپ بدل رہے ہیں تو ہم بھی بدل جائیں گے بتائیں میں اؤں آج یا نہ۔۔ ۔۔ ۔۔‬
‫۔۔۔ ۔۔ ہاں ہاں ضرور اؤ ۔ ٹھیک ہے بھائی ہللا حافظ ۔‬
‫تم نے کیوں میرے ساتھ یہ سب کچھ کیا ؟ گاڑی میں بیٹھے ہوئے ارزم سے کشف نے سوالو کے اوپر پنڈال کھول کر سوال کرنا‬
‫شروع کر دیے ۔ میں نے کچھ نہیں کیا تم ساری بات جانتی ہو یہ سب کچھ میں نے اس کی مدد کرنے کے لیے کیا ہے تو پھر‬
‫بھی یوں انجان بن کے مجھ سے سوال کر رہی ہو ۔ ہاں میں کروں گی سوال تم نے مجھے اپنے نام کی انگوٹھی پہنا کر مجھ سے‬
‫شادی کرنے کا وعدہ کیا تھا تو اب کہاں گیا وہ وعدہ ؟ کشف یاد رکھنا میں نے تم سے شادی کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا ۔ لیکن تم‬
‫نے مجھ سے منگنی کیوں کی تھی ؟ تم جانتی ہو بڑوں کی خواہش تھی اور میں نے کر لی تھی اب نہیں ہماری نصیب میں تو پھر‬
‫کیوں تم اس چیز کے پیچھے بھاگ رہی ہو ۔ لیکن مجھے تم چاہیے ہو ۔ اپنے نصیب سے لڑنا چھوڑ دو ضروری نہیں کہ ہم جو‬
‫چاہیں ہمیں وہ ملے ہم سونا چاہیں تو ہمیں سونا مل جائے کیا پتہ ہللا تعالی نے ہمارے لیے ہیرا رکھا ہو اس لیے جو ہللا تعالی کا‬
‫فیصلہ ہے اس پر راضی ہو جاؤ ۔ میں بالکل راضی نہیں ہونے والی ہوں میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں !!! کیا ؟ تم مجھ سے‬
‫شادی کرنا چاہتی ہو ارزم نے چونک کر پوچھا ۔ ہاں میں کرنا چاہتی ہوں شادی ۔ تمہیں میری دوسری بیوی بن رہے ہیں پر کوئی‬
‫اعتراض نہیں ہوگا ؟ کیوں بھال ؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں تم سے شادی نہیں کر سکتا کیونکہ میں الریڈی شادی شدہ ہوں ۔ تم بدل گئے ہو‬
‫ارزم صرف اس کی خاطر کیوں ؟ اس نے نم اواز میں پوچھا ۔ بدالؤ تو قدرت کی فطرت ہے دن سے رات ‪ ،‬صبح سے شام ‪،‬‬
‫خزاں سے بہار ‪ ،‬گرمی سے سردی پھر انسان کیا چیز ہے بھال ۔۔۔۔۔ ؟‬
‫سر کوئی اپ سے ملنے ایا ہے شارق کے مالزم اس کو یہ بتا کر کہتا ہے کہ وہ اپنا نام نہیں بتاتا ‪ ،‬شارق کو معلوم تھا کہ یہ کون‬
‫ہے اس کا جگر ‪ .....‬جب بھی وہ ائے تو ا کر مجھ سے پوچھا نہ کرو کہ وہ ایا ہے وہ اپنا نام نہیں بتا رہا انے دیں یا نہ اس کو‬
‫اندر لے کر ایا کرو اس کا بھرپور استقبال کیا کرو جب وہ ائے تو اچھے سے پیش ایا کرو جانتے ہو وہ کون ہے ؟ کون ؟ اس کے‬
‫مالزم نے پوچھا ۔ جگر گوشہ ۔ جاؤ لے کر اؤ اس کو اندر ۔ ہیلو ریکس کیسے ہیں ؟ اشعر اندر اتے اتے ہاتھ کا مکا بنا کر ایا تھا‬
‫اور شارق بھی کھڑا ہوا اور پھر دونوں نے اپنے مکے جوڑے اور ہائی فائی کیا۔ وہ ہمیشہ سے اس کو ریکس کے نام سے بالتا‬
‫تھا بلکہ دنیا اس کے نام سے کانپتی تھی اور وہ اس کے نام سے خوش ہوتا تھا ۔ اؤ بیٹھو میرے جگر ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپ کی ابھی تک‬
‫ہمیں جگر کہنے کی عادت ختم نہیں ہوئی ۔ اب جگر کو جگر نہ کہیں تو کیا کہیں اور بھال ؟؟؟ اشعر مسکرا دیا ۔ بتاؤ کیا کھاؤ پیو‬
‫گے ؟ شارق کے سوال اشعر بوال بھائی جب اپ کی کال ائی تھی میں کنٹین میں تھا تو ابھی تو میں نے بہت کچھ کھایا ہوا ہے اپ‬
‫مجھے بتائیں اپ نے کیوں بالیا ہے ؟ مجھے تم سے کافی ضروری بات کرنی تھی !! کیسی بات ؟ میں چاہتا ہوں کہ تم کنول سے‬
‫شادی کر لو شارق نے بال جھجک یہ بات کہہ دی تھی ‪ .‬اشعر تو بس شارق کو دیکھتا رہ گیا ۔ میں نے کچھ غلطی نہیں بوال اشعر‬
‫دیکھو تم بھی میرا جگر ہو اور وہ بھی ۔۔۔۔۔ ابھی شارق بول ہی رہا تھا کہ اشعر بوال نہیں نہیں یا تو میں اپ کا جگر ہوں یا تو وہ‬
‫میں جو ہوں وہ اور کوئی نہیں جو اور کوئی ہے وہ میں نہیں مجھے اپنی جگہ پر اور کوئی نہیں چاہیے ہوتا اپ جانتے ہیں بھائی‬
‫اچھی طرح سے ۔ اس کا یوں کہنا شارق کو پسند ایا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ واقعی برا مانتا ہے جب اس کو کسی سے کمپیر‬
‫کیا جائے میرا مطلب ہے تم میرا جگر اور وہ میرا دل۔ بھائی یہاں پر میں نے دل خراب ہو رہا ہے باہر چلیں ۔ کیا ہوا تمہاری‬
‫طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ وہ کھڑا ہوا اور اس کا ماتھا اپنے ہاتھ سے چھونے لگا اور بوال میں ڈاکٹر کو بلواؤں وہ اپنے مالزم کو‬
‫اواز دینے لگا کہ اشعر بوال بھائی اپ بس میں سے باہر ا جائیں میرا یہاں پہ دل نہیں کر رہا بات کرنے کا پلیز ۔ چلو !‬
‫وہ دونوں شاپنگ کر کے ا چکے تھے ۔ ارزم کو گھر ڈراپ کر کے خود افس چال گیا۔ تم یہاں واپس اگئے تو وہ اپنے گھر نہیں‬
‫گئی نورے نے کشف سے سوال کیا ۔ نہیں یہ میری خالہ کا گھر ہے اور میں جب تک جاؤں یہاں رہ سکتی ہوں مجھے کسی کی‬
‫اجازت کی ضرورت نہیں ہے اور یہ اتنا کہتے گیسٹ روم میں جا چکی تھی ۔ نورے کچن میں کچھ کھانے کے لیے بنانے چلی‬
‫گئی تھی کہ تھوڑی دیر بعد کشف بھی وہاں پر ائی اور بولی یہ دیکھو یہ سب کچھ میرے لیے ارزم لے کر ایا ہے اس کے ہاتھ‬
‫میں بیگز تھے اور وہ نکال نکال کر ڈائنیگ ٹیبل پر بیٹھ کر نورے کو دکھانے لگے کہ وہ جیلس ہو گی ۔ یہ سب تمہارے لیے وہ‬
‫لے کر ایا ہے یا پھر لے کر دیا ہے ؟ نورے نے سوال کیا ‪ .‬اس نے مجھے اپنا کریڈٹ کر دیا اور بوال جو شاپنگ کرنی ہے کر‬
‫لو پھر میں نے اس کی پسند سے ہر چیز لی ہے یہ دیکھو یہ بریسلیٹ انگوٹھی یہ کانٹے یہ کپڑے یہ جوتی وہ سب کچھ دکھانے‬
‫لگی اور نورے چڑ چڑھ رہی تھی کہ یہ کتنی عجیب سی لڑکی ہے ؟ نورے نے اپنی پلیٹ پکڑی جس نے اس نے پاستہ بنایا تھا‬
‫اور پکڑ کر اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر کے کھانے لگے کیونکہ اس کو وہاں اس کا بھیٹنا بہت عجیب لگ رہا تھا ۔‬
‫تو بھائی میں اپ کی بہن سے شادی نہیں کر سکتا ۔ وجہ ؟؟ کوئی وجہ درکار نہیں اس کے لیے مجھے نہیں پسند شادی کو میں‬
‫بھی ‪ 21‬کا ہوں تو اپ چاہتے ہیں کہ میں شادی کر لوں ائی تھنک ڈیٹس امپوسیبل ۔۔۔۔۔ لیکن اگر تم ابھی منگنی کر لو اور چند سال‬
‫بعد شادی تو!!!!! بھائی میں نہیں کرنا چاہتا کنول سے شاید اب کیوں مجھے فورس کر رہے ہیں ؟ تو میں اس سے شادی کرنی‬
‫ہوگی وہ میری بہن ہے وہ اس دن مجھے کہہ رہی تھی اور اگر تم نے انکار کیا تو وہ روئے گی اور پھر یاد رکھنا اشعر کام خراب‬
‫ہوگا ۔ اچھا تو اپ کو اس نے کہا تھا ؟ ہاں کیوں کہہ نہیں سکتی ؟ بھال اس کی اپنی مرضی نہیں ہو سکتی ؟ بھائی ذرا اس کی عمر‬
‫تو بتائیے گا اشعر نے دونوں ہاتھ کمر پہ پیچھے باندھتے ہوئے پوچھا ۔ وہ ‪ 18‬سال کی ہے ۔ اشعر نے ہاتھ جوڑے اور بوال خدا کا‬
‫واسطہ ہے بھائی کچھ تو خوف کریں اپ کیوں ہماری شادی کروانا چاہتے ہیں ؟ میں کنول سے شادی نہیں کروں گا یہ اپ میری‬
‫بات صاف صاف سن لیں۔ وہ دونوں چلتے چلتے باہر ایک باغ میں پہنچ چکے تھے اور چلتے چلتے باتیں کر رہے تھے شارق‬
‫کی تو عادت تھی اس سے ارام سے بات کرنے کی ‪ ،‬دنیا کو ڈنکے کی چوٹ پر رکھنے واال اپنے اشعر سے بہت پیار کرتا تھا وہ‬
‫اس کو جگر گوشے کے نام سے بالیا کرتا تھا ۔ لیکن کول تو تم سے شادی کرنا چاہتی ہے اور میں اس کی انکھ میں انسو نہیں‬
‫انے دوں گا ۔ بھائی میں اس سے شادی نہیں کروں گا !! تم اس سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شارق کہتا کہتا رک گیا کیونکہ سامنے سے ایک لڑکی‬
‫گزر رہی تھی چار بجے کا ٹائم ہو رہا تھا اس نے عبایا تو پہنا ہوا تھا لیکن اس نے منہ نہیں ڈھانپا ہوا تھا تو شارق اس کو دیکھنے‬
‫لگا اس نے کم از کم اس کو اچھی نظر سے تو نہیں دیکھا ہوگا یہ اشعر جان چکا تھا کیونکہ اشعر بھائی کو دیکھ رہا تھا کہ وہ‬
‫کیسے دیکھ رہا ہے ؟ مجبورا اس لڑکی کو اپنا راستہ بدلنا پڑا اشعر کو یہ بات بہت ہی معیوب لگی جو کہ اس کو سمجھ میں نہ‬
‫ائی وہ دونوں جا کر ایک سٹنگ بینچ پر بیٹھ گئے ۔ بھائی اپ بھال اس لڑکی کو ایسے کیوں دیکھ رہے تھے ؟ ایسے کیسے‬
‫خوبصورت لگ رہی تھی چہرے سے اس لیے دیکھ رہا تھا ۔ بھائی انسان کو اپنی پرسنلٹی کے مطابق کام کرنا چاہیے میرے خیال‬
‫سے ۔ ہاں تو میں پرسنلٹی میں اتنا اچھا ہوں یہ دیکھو میرے جسم پر اچھا کپڑا ہے میرے پاؤں میں اچھی جوتی ہے شکل و‬
‫صورت سے میں بہت خوبصورت ہوں کہ دنیا انکھ بند کر کے خوبصورت لوگوں کے مقابلے میں میرا انتخاب کرنے پر مجبور‬
‫ہے پیسہ میرے پاس ہے دنیا میرے اگے پیچھے ہے اور خاص طور پر پولیس بھی میرے اگے پیچھے ہے بلکہ میری دوست ہے‬
‫۔ بھائی لیکن میں تو کسی فقیر کی پرسنلٹی سے بھی متاثر ہو جاتا ہوں ۔ تم پاگل ہو شارق نے ہنستے ہوئے کہا ۔ بھائی اس نے‬
‫پاگلوں والی تو کوئی بات نہیں ہے اگر وہ میرے سے خوش اخالقی سے بات کرے میرے اس کو پیسے دینے پر میرا شکریہ ادا‬
‫کرے اور اگر نہ بھی کرے تو وہ میرے سے اچھا برتاؤ کرے تو میں تو اس کی پرسنلٹی سے بھی متاثر ہو جاؤں گا کہ وہ ایک‬
‫فقیر ہو کے بھی اچھے برتاؤ کر رہا ہے ۔ مطلب کیا ہے تمہارا اس بات سے؟ مطلب یہ ہے کہ بھائی پرسنلٹی اخالق کو‬
‫خوبصورت کرنے کا نام ہے نہ کہ اپنے جسم کو سجانے کا نام ہے ۔ تو کیا تم اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ پیسہ ہی خوشیوں کا‬
‫باعث ہے ؟ بھائی ہر کسی کا سوچنے کا نظریہ مختلف ہوتا ہے میں یقین رکھتا ہوں کہ پیسوں سے خوشیاں اتی ہیں ایک باپ جب‬
‫گھر اتا ہے تو اس کے بچے سب سے پہلے اس کے ہاتھ میں لٹکے شاپر دیکھتے ہیں جس میں ان کے مطلب کوئی چیز ہوتی ہے‬
‫جیسے کہ ان کے کھلونے اور اگر پیسہ ہے تو اپ کے گھر کا ماحول خوشگوار ہے اپ کو وہ ہر چیز مل رہی ہے جو ہم چاہتے‬
‫ہو میں مانتا ہوں کہ پیسہ خوشیوں کا باعث ہے لیکن یہ یاد رکھیے گا بھائی پیسے سے واقعی سب ہو جاتا ہے لیکن دل مطمئن‬
‫نہیں ہوتا ہے ۔ تم یہ سب مجھے کہہ کیوں رہے ہو ؟ اس نے مدھم اواز میں تھوڑا سا سنجیدہ لہجہ اپناتے پوچھا ۔ اگر کسی راہ‬
‫چلتے مرد کی وجہ سے کسی کی ماں ‪ ،‬بہن ‪ ،‬بیٹی یا بیوی کو راستہ بدلنا پڑے تو اس مرد میں اور کتے میں کوئی فرق نہیں ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫۔ ۔۔ ۔ شارق نے اس سے غصے سے بھرپور انکھوں سے دیکھا اور کچھ بولنے کے قابل تو نہیں رہا تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ‬
‫اس کو سمجھا رہا ہے نہ کہ اس کو گالی دے رہا ہوں کیونکہ وہ اس سے بڑا تھا اشعر تو ویسے بھی اس سے محبت کرتا تھا ۔‬
‫شارق نے اشعر کا ہاتھ زور سے پکڑا اور بوال میری بہن تجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے اور تم کرو گے ۔ ویسے کتنے عجیب‬
‫بھائی ہیں اپ کے اندر ذرا غیرت نہیں ہے ؟ اپ کی بہن نے اپ کو ایک دفعہ ا کے کہا اور اپ میرے سامنے ا کے رشتہ مانگ‬
‫رہے ہیں‪ ،‬یہ نہیں کہا کہ تمہیں شرم نہیں ا رہی اپنے بھائی کے سامنے ایسی باتیں کرتی ہو کیسی تربیت کر رہے ہیں اپ ؟ اس‬
‫نے ہاتھ چھڑواتے ہوئے کہا ۔ میری بہن پر انگلی مت اٹھانا بہت صاف کردار کی ہے ۔ شارق نے انگلی اس کی طرف کرتے‬
‫ہوئے کہا ۔ تو بھائی باقی لڑکیاں بھی صاف کردار کی ہوتی ہیں ان کو ہم جیسے مرد ہی بد کردار بناتے ہیں یا وہ پیدا ہی بد کردار‬
‫ہوتی ہیں ؟ ان کا تو کوئی قصور نہیں ہوتا ‪ ،‬ہم ان کو یوں دیکھتے ہیں ان کو برا فیل ہوتا ہے وہ ہماری وجہ سے راستے بدلتی‬
‫پھرتی ہیں جہاں تین لڑکے اکٹھے کھڑے ہوں گے وہاں سے وہ گزرنے میں جھجک محسوس کرے گی کیوں ؟ کیا وہ زمین اس‬
‫لڑکی کے نہیں ہے جو زمین اس لڑکے کی یہ جو وہاں کھڑا جس کی وجہ سے وہ اگے گزرنے میں جھجک محسوس کر رہی ہے‬
‫مسئلہ اتنا ہے کہ عورت کبھی بد کردار نہیں ہوتی ہے ‪ ،‬جب اس کو یوں ستایا جائے تو وہ اپنی حد سے پھر باہر اتی ہے ‪ ،‬اور‬
‫جب عورت ذات اپنے اپے سے باہر ا جائے تو یاد رکھیے گا مرد سے بھی زیادہ طاقتور ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو کنول کا‬
‫معاملہ ہے میں اپ کی دل ازاری بالکل نہیں کروں گا اپ ائیں اور بھائی سے بات کر سکتے ہیں جو ان کا فیصلہ ہوگا مجھے‬
‫منظور ہوگا ۔ وہ کھڑا ہوا اور اس نے ہمیشہ کی طرح شارق کو گلے لگایا کیونکہ اس کی عادت تھی اور اس نے بھی اس کی‬
‫باتوں کو ضرور محسوس کیا تھا لیکن وہ اس کو برا سمجھ نہیں سکتا تھا وہ اس کے بس میں نہیں تھا صرف اشعر مراد میں اتنی‬
‫ہمت تھی جو کہ ریکس سے یوں بات کر سکتا تھا ۔ بھائی معذرت کے ساتھ کوئی بات بری لگی ہو تو معاف کیجئے گا لیکن‬
‫سوچیے گا ضرور اور باقی جو اپ کو مناسب لگے چلتا ہوں میں خدا حافظ ! ہللا کی امان ‪ ،‬یہ الفاظ صرف شارق اشعر کو کہا‬
‫کرتا تھا ۔‬
‫اشعر گھر ا چکا تھا ۔ وہ کچن میں پانی پینے گیا تو اس کی بھابھی وہی موجود تھی وہ بھی وہاں پانی پی رہی تھی ۔ وہ اپنی بھابھی‬
‫کو وہیں سے دیکھ کے مڑنے لگا منہ پر ہاتھ رکھ کے تو نورے نے اواز دی اشعر !!!! لو اج تو گئے بھابھی کو منانا پڑے گا کہ‬
‫۔۔۔۔۔ وہ موڑا جی بھابھی ۔ ہاں جی تو کہاں تھے اپ ؟ چھ بج رہے ہیں ۔ اچھا بھابی چھ بج گئے ہیں مجھے لگا چھ بج گئے ہیں ۔‬
‫اشعر میں مزاق نہیں کر رہی ۔۔۔ تمہارا پیپر تو ایک بجے کا ختم ہو گیا تھا اور تم چھ بجے گھر ا رہے ہو کہاں تھے ؟ نہیں بھابھی‬
‫کہاں پیپر اتنا لیٹ شروع ہوا اور پانچ بجے تک میں فارغ ہوا ہوں ساتھ ہی گھر ا گیا ہوں ۔ ہاں ہاں یونیورسٹی والے تمہارے لیے‬
‫اتنے فارغ تھے کہ وہ تمہیں پانچ بجے تک بٹھائی رکھتے ہیں نا ؟ جی بھابھی اس نے بڑے اعتماد سے کہا ۔ نورے نے موبائل‬
‫کھوال اور ایک وائس میسج اس کو سنانے لگی جو کہ اس کی ٹیچر کا تھا جس میں وہ کہہ رہی تھی کہ اج پیپر سے ایک بجے‬
‫چھٹی ہو جائے گی ۔ اشعر کہ تو رونگٹے کھڑے ہو گئے بھابھی دیکھیں۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں اب بھابھی نے کچھ نہیں دیکھنا اب تو‬
‫ڈائریکٹ ارزم پہ بات جاۓ گی ‪ ،‬پھر وہی اپ کو سیدھا کریں گے میں نے تو کہا کہ اشعر مراد کو لگتا ہے کہ اس کی بھابھی اس‬
‫کو بچا لیتی ہے لیکن شاید میں غلط تھی چلو کوئی بات نہیں وہ چلتے چلتے کہہ رہی تھی لیکن کچن میں ہی ۔ بھابھی آپ بھائی کو‬
‫نہیں کچھ بتائیں گی ! نورے کرسی پر بیٹھی جو کہ کچن میں موجود تھی ۔ اشعر بھی سامنے والی کرسی پر بیٹھا ہے اور بوال‬
‫بھابھی دیکھیں نا اپ بھائی کو نہیں بتائیں گی ۔ وہ ریکویسٹ کر رہا تھا وہ واقعی ڈرا ہوا لگ رہا تھا نورے کو ۔ اور اگر شارق‬
‫کبھی دیکھ لیتا اس کو یوں ڈرتا ہوا تو شارق ارزم کو خود مار دیتا کیونکہ اشعر کے چہرے پر خوف دیکھ نہیں سکتا تھا لیکن شاید‬
‫اشعر بھی اپنے بھائی ارزم سے پیار کرتا تھا اس لیے ڈرتا بہت تھا ‪ ،‬اس کی اچھی تربیت میں اس کے بھائی کا ہی ہاتھ تھا ۔ نہیں‬
‫بھائی ! اپ نے تو ہمیں اپنے اعتماد میں لیا ہی نہیں تو میں تو اپنے شوہر کو ضرور بتاؤں گی کیونکہ اس نے ہی تو میرے ہاتھ‬
‫میں یہ گھر دیا ہوا ہے نا تو میں تو اس گھر کی فلحال محافظ ہوئی تو جب اس کو پتہ چال کہ میں نے اس کو نہیں بتایا کہ تم رات‬
‫کو لیٹ ائے ہو تو پھر تو یہ بات غلط ہوئی نا ۔ وہ اس کو چڑھا رہی تھی تنگ کر رہی تھی ۔ بھابھی میں نازک دل کا ہوں مجھے‬
‫اتنا ستائیں نا اییویں کہیں مر گیا نا تو پھر اپ کو بھگتنا پڑ جانا ہے ۔ ہللا نہ کرو تمہیں کچھ ہو نورے پریشانی سے بولتے ہوئے‬
‫انکھوں میں انسو لے ائی تھی ۔ بھابھی روئیں تو نا ایسے میں مذاق کر رہا تھا اچھا میں ائندہ ایسی بات نہیں کروں گا ‪ .‬تم جانتے‬
‫ہو جہانزیب کے بعد میں نے تمہیں اپنا بھائی سمجھا ہے اور میں تمہیں واقعی دل سے بھائی مانتی ہوں اس نے نم اواز میں کہا ۔ تو‬
‫بھابھی اپ کو کیا لگتا ہے مجھے نظر نہیں اتا میں بھی اپ کو دل سے بڑی بہن مانتا ہوں میں کیوں کہتا ہوں اپ کو کہ مجھے‬
‫بچائے بھائی سے ایویں تو نہیں کہتا ‪ ،‬کیا ہو گیا اپ روئی جا رہی ہیں چلیں چپ کریں ۔ نورے نے اس کی یہ بات سن کر ہلکا سا‬
‫مسکراتے ہوئے انکھیں صاف کی اور بولی چلو اچھا نہیں بتاتج تمہارے بھائی کو ایسی باتیں نہ کیا کرو تمہاری بھابھی کا دل بھی‬
‫بہت چھوٹا ہے نازک سا ہے ایویں میں بھی کہیں چلی گئی تو کیا کرو گے پھر ؟ کیا یاد کرو گے تمہیں بچا لوں گی اج بھی وہ‬
‫ہنستے ہوئے بولی ۔ تھینک یو میری بڑی بہن ‪ ،‬لیکن ہاں ایک اور بات اس نے انگلی اٹھاتے ہوئے کہا اپ کہیں نہیں جائیں گی ۔‬
‫اور اگر وقت مجھے کہیں لے گیا ؟ یا کچھ ایسے حاالت ہو گئے ؟ بھابھی تو پھر یہ یاد رکھیے گا اشعر ہمیشہ اپ کے ساتھ رہے‬
‫گا وہ کہہ کر جانے لگا تو رکا اور پوچھنے لگا بھابھی وہ کاکروچ چال گیا ہے ؟ کون ؟ اس نے تعجب سے پوچھا ۔ وہی کشف‬
‫میڈم اور کون اس نے سرسری اواز میں کہا ۔ ویسے نام تم نے کافی مزے کا ڈاال ہے بڑی فری ہو رہی تھی تمہارے بھائی کے‬
‫ساتھ ‪ ،‬شاپنگ کرنے گئی تھی اور کہتی ارزم نے مجھے شاپنگ کروائی ہے ؟ بھابی بونگی ہے دفع کریں اس کو اس کی باتوں کو‬
‫نا دل اور دماغ سے دور رکھنا ہے تو اچھا ہے کچھ باتیں دل و دماغ سے دور رہیں تو اچھی رہتی ہیں فضول میں دل و دماغ پھر‬
‫خراب ہو جاتا ہے ۔ نورے اور اشعر دونوں ہنسے اور وہ دونوں اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے ۔‬
‫تھوڑی دیر بعد ارزم گھر ا چکا تھا اور وہ اپنے کمرے میں گیا ۔ کیا ہو رہا ہے ؟ نور جو کہ اپنا بیڈ ٹھیک کر رہی تھی بولی‬
‫السالم علیکم ! وعلیکم السالم کا جواب ایا ۔ کچھ نہیں میں بس بیڈ ٹھیک کر رہی تھی اج کل کافی لیٹ نہیں ا رہے ہیں جناب ؟ میں‬
‫اب کھیلنے تو جاتا نہیں ہوں باہر کام کر نہیں جاتا ہوں۔ کافی زیادہ غصے میں بات نہیں ہو رہی ؟؟؟ وہ بیڈ ٹھیک کرتی کرتی بول‬
‫رہی تھی ۔ نہیں یار کچھ نہیں بس تھکا ہوا ہوں ۔ اج تو اپ ویسے بھی گئے تھے شاپنگ کروانے تھک جانا ہی تھا نا کافی بینک‬
‫بیلنس بھی اڑا ہوگا نا ؟ نورے نے غصے کو قابو کرتے لہجے میں اس سے کہا ۔ ارزم نے اس کو عجیب تنگ نگاہ سے دیکھا ۔‬
‫یوں دیکھنے سے تو کچھ نہیں ہوگا مسٹر ارزم ۔ تم جاگ رہی ہو تم کیا بول رہی ہو ارزم بوال ۔ نہیں میں جاگتی آنکھوں سے‬
‫خواب نہیں دیکھتی۔ کیوں ؟ ہر انسان کو حق ہے خواب دیکھنے کا میں دوسرے خواب نہیں کر رہا جو ہم رات کو سوتے دیکھتے‬
‫ہیں وہ خواب کہہ رہا ہوں جو کہ ہم کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے دیکھتے ہیں ۔ اس نے اپنا کوٹ کرتے ہوئے کہا جو کہ‬
‫نورے بیڈ پر بیٹھ گئی تھی ۔ اب اتنی بے وقوف تو میں ہوں میں جانتی ہوں میں اپ کیا کہہ رہے ہیں کیا نہیں ‪ ،‬اور ویسے بھی‬
‫لگتا ہے اپ کبھی کوئی خواب تھا ۔ ظاہری سی بات ہے خاص سب کے ہوتے ہیں میرا بھی ہوگا کیوں نہیں ہوگا ؟ ہوتے سب کے‬
‫ہیں لیکن جو اپ کا خواب مجھے نظر ا رہا ہے اس خواب سے جاگ جائیں کیونکہ وہ خواب میں اپ کا پورا نہیں ہونے دوں گی ‪،‬‬
‫وہ بہت تسلی سے بات کر رہی تھی جبکہ ارزم کو عجیب لگ رہا تھا بات کس بارے میں کر رہی ہے ۔ تمہیں کون سا میرے خواب‬
‫کا پتہ ہے کہ میں کون سا خواب دیکھنا چاہ رہا ہوں اور میں کس کو پورا کرنا چاہ رہا ہوں ۔ نہ جانے یہ اپ کا خواب ہے یا کشف‬
‫کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نورے یہ کہہ کر رک گئی جب کہ ارزم ساری بات سمجھ چکا تھا اس نے اپنے ہاتھ اپنے سر پہ رکھا اور بوال تمہارا‬
‫کچھ نہیں ہو سکتا نورے بلکہ تم عورتوں کا کچھ نہیں ہو سکتا ہے ‪ ،‬تم عورتیں کافی عجیب ہوتی ہو واقعی میں نے صحیح سنا تھا‬
‫عورت عورت کی دشمن ہوتی ہے ۔ اگر عورت مرد کی دشمن بن جائے نا تو زیادہ خطرناک ہوتی ہے ۔ یعنی کہ اب اپ نے اپنا‬
‫مجھے خطرناک روپ دکھانا ہے ۔ نہیں خطرناک روپ تو نہیں دکھاؤں گی لیکن اپ کو میرے رویے سے خود ہی خطرہ‬
‫محسوس ہوجاے گا ۔ بہت تھکا ہوں مجھے سونے دو ۔ لگتا ہے کافی زیادہ بینک بیلنس ایا ہوا ہے اس لیے اپ کافی تھکے ہیں چلو‬
‫کوئی بات نہیں اجاؤ سو جائیں نورے کے کمرے سے باہر چلی گئی اور وہ اس کو تکتا رہ گیا کہ یہ لڑکی لگتا ہے پاگل ہے ۔‬
‫اگلی صبح ہوئی سب ناشتہ کرنے کے لیے بیٹھ گئے تھے کہ کشف بھی ظاہری سی بات ہے مہمان کے طور پر ا کر بیٹھ گئی‬
‫کشف تیار ہوئی ہوئی تھی اس نے بہت میک اپ کیا ہوا تھا ۔ اشعر نے اس کو پلکھے جھپکاتے دیکھا اشعر کو تو وہ کسی جن‬
‫سے کم نہیں لگ رہی تھی بلکہ اس کے اندر اس کو کوئی چڑیل نظر آرہی تھی ۔ خیر ہے کشف تم اتنی تیار ہوئی ہو ارزم بوال ۔‬
‫میں بس تمہاری بیوی سے زیادہ پیاری لگنا چاہتی تھی ‪ ،‬کشف پھر بال جھجک یہ بات نورے کے سامنے کہہ دی تو ارزم ستے‬
‫میں اگیا اور اشعر بھی حیرانی اور خاموشی سے سننے لگا اور نورے بالکل تسلی سے بیٹھی تھی ۔ تمہاری بیوی تو اتنی فضول‬
‫ہے ائی مین وہ اتنی پھیکی پھیکی رہتی ہے یہ بھی نہیں کہ تیار ہو جائے نئی نئی شادی ہوئی ہے بلکہ اس کو تو کوئی رنگ‬
‫ڈھنگ ہی نہیں ہے پتہ نہیں تم نے کس سے شادی کر لی ہے ارزم ‪ ،‬کشف ارزم کو چائے ڈالتے ہوئے دیتے بولی ۔ نورے نے‬
‫ایک غصے بڑی نگاہ سے چاہے کے کپ کو دیکھا ۔ ارزم تم تو اتنے ہینڈسم ہو تم نے کس سے شادی کر لی ہے یہ دیکھو نورے‬
‫اس کو تو کوئی ڈریسنگ سینس ہی نہیں ہے ‪ ،‬کشف بغیر رکے بول رہی تھی وہ چاروں ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ اشعر کی‬
‫برداشت اب ختم ہو چکی تھی تو وہ بوال منہ پر پینٹ لگا لینے سے کوئی پیارا نہیں ہو جاتا ۔ اس بات پر نورے کا قہقہہ نکال‬
‫زوردار قسم کا اور کشف شرمندہ ہوئی لیکن اس نے شرمندگی ظاہر نہیں کی ارزم بھی اپنی ہنسی چھپانے لگا ۔ تمہاری زبان بہت‬
‫چلتی ہے ؟ الحمدہلل کبھی غرور نہیں کیا کشف کی بات پر اشعر بوال ۔ ہاں خود تو اس میں ہمت ہے نہیں کہ میرے اگے بول‬
‫سکے اس لیے تم بول رہے ہو چلو کوئی بات نہیں لیکن اس میں تو ہمت نہیں ہے نا اس نے نورے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے‬
‫کہا ۔ عزم خاموشی سے دیکھ رہا تھا کہ نورے اج بول نہیں رہی کیوں اور وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اگر اس کو غصہ اگیا تو اس‬
‫کا کچھ بچنا نہیں ہے ۔ ایکچولی مجھے کوئی انسیکیورٹی نہیں ہے اپنے بارے میں مجھے ہللا تعالی نے بنایا ہے میں جانتی ہوں‬
‫مجھے بے شمار خوبصورت بنایا گیا ہے کیونکہ میں ہللا تعالی کی تخلیق میں شامل ہوں مجھے سمجھ نہیں اتا لڑکیاں میک اپ کر‬
‫کے یہ سمجھتی ہیں وہ بہت پیاری لگ رہی ہے جبکہ وہ پہلے سے ہی خوبصورت ہوتی ہیں کیونکہ ہللا تعالی نے ان کو بنایا ہے‬
‫اور ہللا تعالی کی بنائی ہوئی چیز میں نفاست اور خوبصورتی ظاہر نہ ہو ایسا نہیں ہو سکتا ہے ہاں لیکن اگر میک اپ کر لیں جیسا‬
‫کہ تم نے کیا ہے تو وہ تو پھر ہللا تعالی کی بنائی ہوئی چیز کی نفاست کو بھی تم بگاڑ رہی ہو ‪ ،‬اور شاید تم جیسی لڑکیوں کو ان‬
‫سیکورٹی ہوتی ہے یا یہ ہوتا ہے کہ وہ پیاری نہیں ہے اس بات کی کمی ان کو میک اپ کرنے پہ جیسا کہ تم نے کیا ہے مجبور‬
‫کر دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔‬
‫اس کی یہ بات کشف کو خاموش کر گئی تھی اور اشعر بوال کیا بات ہے بھابھی کیا ہی بات ہے اپ نے کیا الئنز بالی ہیں مجھے‬
‫مزہ ہی ا گیا بھابھی واؤ مزہ ۔ شکریہ! ویسے اتنا کافی ہے یا کچھ اور بھی کہوں اپ کی شان میں نورے کشف کو چیلنج کرتے‬
‫ہوئے بولی ۔ کشف اٹھی اور زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارا اور بولی تمہیں میں دیکھ لوں گی ۔ ابھی دیکھ لو بعد میں کیا دیکھوں گی‬
‫اگر یہ بعد میں اور پیاری ہو گئی تو پھر تم سے دیکھا نہیں جانا ارزم کہ یہ کہنے پر تو وہ منہ بگاڑتے ہوئے چلی گئی اپنے‬
‫کمرے کی جانب ۔ بھابھی بہت اچھا کیا اپ نے اس کو کیا ہے کہ اس کی ہمت کیسے ہوئی اپ کو یہ کہی جا رہی تھی ہے کیا یہ‬
‫کاکروچ نا ہو تو ۔ بس کر دو ایسے نہیں کہتے کسی کا مذاق نہیں اڑاتے ارزم بوال ۔ بھائی دیکھیں بھابھی کو فضول بولی جا رہی‬
‫تھی تھپڑ لگاؤں اس کے منہ پہ ۔ میری بات سنو وہ تم سے بڑی ہے اور ائندہ ایسے بات نہیں کرنی تم نے‪ ،‬تمہاری بھابھی جو‬
‫چاہے مرضی کہے کوئی بات نہیں لیکن تم چھوٹے ہو ان کے گھر میں تم کافی عرصہ رہے ہو ائندہ ایسے بات کی تو میں تھپڑ‬
‫لگاؤں گا ۔ بھائی اب تھپڑ لگانا بس بھی کر دیں ۔ وجہ تمہیں ٹھیک نہ کروں تمہاری تربیت اچھی نہ کروں؟ بھائی اتنے اپ تھپڑ‬
‫مارتے ہیں کہ صبح یونیورسٹی جاتا ہوں نا تو لڑکیاں مجھے دیکھ کے ہنس رہی ہوتی ہیں کہ اس کی گالوں پہ تو ہم سے زیادہ‬
‫بلشون لگا ہوا ہے ۔ نورے بے ساختہ ہنسی اور ارزم بھی ۔ ہاں ہاں ہنسے اپ دونوں وہ خود بھی ہنسنے لگا ۔ چلو میری بات سنو‬
‫مجھے نا چند دن کے لیے جانا ہے کشمیر جا رہا ہوں میں اس نے نورے کے جانب منہ کرتے ہوئے کہا ۔ لیکن کیوں کشمیر کیوں‬
‫جانا ہے ؟ تمہارا درا کیس سالو کرنا ہے ادل سے اپ کے گھر سے کچھ چیزیں چاہیے کچھ پکچرز چاہیے اور کچھ ان کی موبائل‬
‫کی ریکارڈنگ چاہیے وہ سب کچھ مجھے چاہیے ان کا موبائل وہاں پر موجود ہوگا ان کے گھر کی چیکنگ کرنی ہے ‪ ،‬ہمدان سے‬
‫ملنا ہے کافی دیر ہو بھی مال نہیں بس تمہارے کیس میں جا رہا ہوں ۔ اج جائیں گے ؟ ہاں بس یہ ناشتہ کر کے نکل رہا ہوں ‪ ،‬نور‬
‫اپنا دھیان رکھنا اوکے اور اشعر تم بھابھی کے پاس گھر میں رہنا جب تک کشف ہے ۔ لیکن کیوں ؟ نورے بولی ۔ بھابھی اس‬
‫عورت کا کچھ پتہ نہیں چلتا سائیکو پیشنٹ ہے یہ بھی ۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا وہ تینوں ہنسے ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫اچھا اپنا خیال رکھنا نورے اور اشعر اس کو خدا حافظ کر رہے تھے گیٹ پر ۔ ہاں ہاں رکھوں گا ہللا حافظ ‪ ،‬نورے میری بات‬
‫سنو گھر سے باہر نہ ہی جانا ٹھیک ہے ۔ چلو ٹھیک ہے میں نہیں جاؤں گی اپنا خیال رکھنا ہللا حافظ اور وہ جا چکا تھا ۔ بھابھی‬
‫میں نا سونے جا رہا ہوں وہ تھکا ہوا لگ رہا ہوں مجھے پتہ نہیں عجیب جی فیلنگز باقی رہتی ہیں تو میں ذرا جا رہی ہوں ۔ کیا ہوا‬
‫تم ٹھیک تو ہو ؟ جی ابھی میں ٹھیک ہوں مجھے کہتے ہیں کمرے میں چال گیا اس کی طبیعت خراب لگ رہی تھی ۔ مجھے باہر‬
‫صحن میں تھی جھاڑو لگا رہی تھی کہ کشف ائی اور اس نے جا کر دروازہ باہر کا کھوال اور کنول اندر ائی ۔ وہ دونوں وہاں باہر‬
‫صحن سے گزر گئی اپنے گندے پاؤں لے کر نورے نے بڑی مشکلوں سے ان کو برداشت کیا کہ ایک مہمان ہیں ۔ کنول سیدھا‬
‫عشر کے کمرے میں گئے اور جا کر دروازہ نوک کیے بغیر اندر چلی گئی ۔ وہ کمرے میں لیٹا ہوا تھا ساتھ ہی اٹھ کے بیٹھ گیا یہ‬
‫کیا طریقہ ہے کسی کے کمرے میں انے کا کنول ؟ اچھا چھوڑو اج میں تمہارے لیے ائی ہوں میں نے بھائی سے تمہاری اور‬
‫میری شادی کی بات کی ہے صحیح کی ہے نا ؟ جاؤ یہاں سے اس نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ چلو یہ بتاؤ میں کیسی لگ‬
‫رہی ہوں ؟ کنول نے اس وقت شلوار قمیض پہن کر دوپٹہ گلے میں لیا ہوا تھا اور اشعر کو اس طرح کی لڑکیاں بہت بڑی لگتی‬
‫تھی جبکہ دوپٹے گلے میں رکھتی تھی ۔ ہاں بہت حسن کی دیوی لگ رہی ہے چلو جاؤ اب جان چھوڑو میری ۔ تمہاری جان تک‬
‫میں چھوڑنے والی ہوں نہیں اور نہ ہی تمہارے اس رویے سے میں دکھی ہونے والی ہوں چلو میری تعریف کرو کوئی بھی نہیں‬
‫ہے ۔ میری تعریف کرنا تمہیں برا لگ جائے گا اس نے ایک عجیب لہجے میں کہا۔ کیا مطلب ؟ تم میری تعریف کرو مجھے بڑا‬
‫کبھی نہیں لگے گا ۔ میڈم اپ مجھے اس وقت بے حد بری لگ رہی ہیں اس لیے اب جائیے میں نہیں چاہتا اپ کے دل ازاری کروں‬
‫۔ کیا مطلب ہے تمہارا اتنی پیاری تو لگ رہی ہوں ۔ ہاں دوپٹے کی توہین کرتے ہوئے بہت پیاری لگ رہی ہو ۔ کیا مطلب ؟ مطلب‬
‫یہ کہ یار دوپٹے کی توہین نہ کیا کرو یہ تو عورت کی حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے تو پھر کیوں دوپٹے کو گلے میں ڈال کے‬
‫سمجھتی ہ وکے یہ بہت خوبصورت لگ رہا ہے یقین جانو پٹے سے کم نہیں لگ رہا ہوتا جانتی ہو نا پٹا کیا ہوتا ہے جو کہ‬
‫جانوروں پہ استعمال ہوتا ہے تاکہ کوئی بھاگ نہ جائے دوپٹہ ‪ ،‬حجاب ‪ ،‬نقاب جنت کے کچھ انمول پتے ہیں جس کو اوڑھنے کا‬
‫شرف صرف عورت کی پاکیزہ ذات کو حاصل ہے تو پلیز پاکیزہ رہو اور اگر ہللا نے تم لوگوں کو اتنا بڑا شرف عطا کیا ہے کہ تم‬
‫لوگ جنت کے پتے پہن سکتے ہو ان کو اوڑھ سکتے ہو تو پھر ان کو اچھی طرح اوڑھو جنت کی چیز ہے رسوا نہ کرو اس کو‪،‬‬
‫تم نے تو کمرے سے باہر جانا نہیں میں ہی چال جاتا ہوں وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر چال گیا تھا اور کنول کو الجواب کر دیا تھا‬
‫اس کی عادت میں شامل تھا الجواب کر جانا اور وہ ہمیشہ سب کو الجواب کردیتا تھا ۔ بھابھی میں ذرا اپنے دوستوں کی طرف‬
‫چال جاؤں ؟ اشعر نورے سے پوچھنے گیا ۔ مجھے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے تم کافی کھنچے کھنچے لگ رہے ہو‬
‫کیا بات ہے مجھے بتاؤ تو صحیح ۔ کچھ نہیں بھابھی میری بس طبیعت خراب ہے میں اپنے دوستوں کے پاس جاؤں شاید ٹھیک ہو‬
‫جاؤں ۔ اچھا ٹھیک ہے چلے جاؤ لیکن میری بات سنو یہ کیا پہلے کشف اور پھر اب یہ کنول اگئی ہے کیا انہوں نے دماغ خراب‬
‫کیا ہوا ہے یہ ا کیوں رہی ہیں اپنے گھر کیوں نہیں رہ رہی ؟ بھابھی اپ کو بتایا تھا نا کہ میں کافی عرصہ ان کے پاس رہا تھا دو‬
‫سے تین سال تقریبا تو ہمارا انا جانا لگا ہی رہتا ہے یوں ہی ہمیں دوسرے گھر اتے رہتے ہیں‪ ،‬بھابھی اپ ان سے دور رہیں ‪ ،‬چال‬
‫باز ہیں اچھا میں جا رہا ہوں ۔ وہ یہ کہتا چال گیا ۔ نورے نے حریم کو کال کی اور اس کو گھر انے کے کہا تو حریم تھوڑی دیر‬
‫بعد ا چکی تھی ۔ اب حریم اور نورے ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے اور بات کر رہے تھے ۔ حریم شادی کر لو دیکھو تم کب‬
‫تک کیسے بیٹھی رہو گی ؟ نورے میری امی سے زیادہ فکر تمہیں ہے میری ویسے میری عمر نکلی تو نہیں جا رہی ہے وہ تو‬
‫بس تم نے میرا رشتہ جلدی مانگ لیا تھا جہان زیب کے لیے تو تمہیں اب ایسا لگتا ہے میں بہت بڑی ہو گئی ہوں جیسے میں نے‬
‫کوئی شادی نہیں کرنی ۔ تم جانتی ہو حریم جس نے تم شادی کر لو گی مجھے بہت سکون ہوگا ۔ اچھا شادی تو میری ہو گی سکون‬
‫تمہیں کیوں ہوگا ؟ حریم نے ہنستے ہوئے کہا ۔ تمہاری خواہش تھی نا کہ تم جان زیب سے شادی کرو اس کی وجہ سے جب وہ اس‬
‫دنیا سے چال گیا تھا تم اب یوں بیٹھی ہو ۔ حریم خاموش ہو گئی ۔ تم جانتی ہو میں نے بہت صبر کیا ہے حریم بول رہی تھی میں‬
‫نے اپنے جذبات کو ختم کیا ہے نورے حریم کی بے بس انکھوں میں دیکھنے لگی ۔ نورے ایک بات بتاؤ اگر قتل کرنا جرم ہے تو‬
‫پھر ہم کیوں روز اپنی خواہشات ‪ ،‬لمحات اور جذبات کا قتل کرتے ہیں ۔ نورے حریم کو دیکھتی رہ گئی کہ یہ اس نے کیا بات کر‬
‫ڈالی ہے ۔ ہاں نورے ہم کیوں یہ کرتے ہیں ؟ اور تم مجھے بار بار کہتی ہو میں شادی کر لوں شادی کر لوں ہوتا ہے بوال ایسا‬
‫تمہیں پتہ ہے سکون انسان کو وہیں ہوتا ہے جہاں اس کا دل ہو اور ابھی میرا دل کہیں اور نہیں ہے سوائے جہانزیب کے جانتے‬
‫ہو جہاں زیب اس دنیا میں نہیں ہے لیکن جب مجھے کہیں اور سکون مال تو پھر میں ضرور شادی کر لوں گی لیکن ابھی نہیں‬
‫شاید ۔ کوئی بات نہیں جہانزیب مجھے اس دنیا میں نہیں مال قیامت کے روز میں ہللا سے مانگوں گی اپنی کسی نیکی کے بدلے‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دنیا تو خواب ہے سب اپنی اپنی قبروں میں سو رہے ہیں تو جب میں اس خواب سے جاگ جاؤں گی نا تو میں جہان زیب‬
‫سے ضرور ملوں گی ۔ حریم اشعر ایک اچھا لڑکا ہے میں چاہتی ہوں تم اشعر کو و۔۔۔۔۔ نورے کیا ہو گیا ہے ابھی تو ہماری ایج‬
‫بھی نہیں ہے ۔ میں جانتی ہوں لیکن بس بات کرنے میں کیا حرج ہے تین چار سال بعد تم لوگ شادی کر سکتے ہو ‪،‬میری خواہش‬
‫ہے کہ میں اپنے پیارے بھائی اشعر اور اپنی جان سے زیادہ پیاری حریم کو خوش دیکھوں ۔ نورے یہ فیصلے تو بڑے کرتے ہیں‬
‫میں کون ہوتی ہوں کچھ بولنے والی ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔۔‬
‫یار کیسے ہو تم لوگ سارے ؟ تجھے تیرے بھائی نے انے دیا ؟ بھائی گھر نہیں ہے ! یعنی چھپ کے ایا ہے ۔ جی نہیں اپنی بہن‬
‫کو بتا کے ایا ہوں ۔ میری تحقیق کے مطابق تمہاری تو کوئی بہن ہی نہیں ہے سفیر بوال۔ میری ایک عدد بہن ہے جن کا نام نورے‬
‫ہے ‪ ،‬رشتے میں بھابھی لگتی ہیں لیکن ہے میری بڑی بہن ۔۔۔۔۔۔ لو جی ارزم بھائی کے گھر کے مضافات میں ایک عدد نئی بہن کا‬
‫اضافہ ہوا جاتا ہے جو کہ اشعر کی ہے واہ واہ واہ واہ سفیر بوال ۔ باز او بھابھی کے بارے میں کچھ نہ بولنا ۔ لگتا ہے بھابھی بچا‬
‫لیتی ہیں بھائی سے ۔ وہ ہنسنے لگے ۔ طبیعت ٹھیک ہوی تیری ؟ نہیں یار اتنی خاص نہیں ۔ اور پھر کیا ہو رہا ہے ؟ گھر میں ایک‬
‫کاکروچ اور ایک ٹڈی ائی ہوئی ہے ۔ وہ جو تمہاری خالہ کی بیٹیاں ہیں وہ ؟ ہاں نا اور صبح کیا بھابھی نے اس کو کراڑے‬
‫کڑارے جواب دیے کہتی بھابھی بھی پیاری نہیں ہیں یہ پتہ نہیں بھائی نے کس سے شادی کر لی اوئے ہوئے ہوئے غصہ اگیا‬
‫بھابھی بولنی پھر مزہ ہی ہو گیا بولی نفاست زیادہ طریقے سے بھابھی نہیں اس کو انسان بنایا ہے ۔ وہ دونوں ہنسنے لگے ۔ اشعر‬
‫کا دل گھبرانے لگا اس نے دل پہ زور سے ہاتھ رکھا کیا ہوا ہے تمہیں سفیر بوال ۔ ک کچھ نہیں ۔ یار مجھے کوئی کھلی جگہ میں‬
‫لے کر چلو یہاں سے بٹھا جا رہی میری طبیعت واقعی نہیں ٹھیک لگ رہی مجھے ۔ ڈاکٹر کے پاس گئے ہو پتہ ہے کیا ہوا ہے ؟‬
‫ہاں گیا تھا ڈاکٹر کے پاس کینسر ہوا ہے !! ک ک کیا ؟ سفیر نے حیرانگی سے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا اس کے ہاتھ میں پانی یا‬
‫گالس تھا جو کہ زمین پہ گر گیا ٹوٹ چکا تھا ۔ کیا ہو گیا ریلیکس کر کوئی اور بیماری تو نہیں بتادی کینسر تو بتایا ہے ۔ تو پاگل‬
‫ہے تجھے کینسر ہوے گا تو یہاں بیٹھا ہوا ہے بھائی کو پتہ ہے بھابھی کو پتہ ہے ؟ میں کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اس‬
‫لیے میں نے نہیں بتایا ۔ تم پاگل ہو تم نے اپنے اس کزن کو بتایا وہ جو اس کا نام تھا ریکس ؟ میرا ابھی دماغ خراب نہیں ہوا کہ‬
‫میں ریکس کو بتا دوں ‪ ،‬وہ نا خود مر جائیں گے مانا وہ بڑے قاتل رہ چکے ہیں اب لیکن میری یہ سن کے وہ بس ہللا کے پاس‬
‫۔۔۔۔۔۔ وہ بڑے پر اطمینان طریقے سے بات کر رہا تھا کہ سفیر کو سمجھ نہیں ارہی تھی کہ یہ پاگل ہو گیا ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔۔‬
‫اٹھ پاگل ڈاکٹر کے پاس چلیں ۔ یار تیرے ساتھ بیٹھنا ہی فضول ہے میں جا رہا ہوں وہ یہ کہہ کر اٹھ کر چال گیا ۔‬
‫السالم علیکم ارزم آپ پہنچ گئے ؟ وعلیکم السالم میں پہنچ گیا ہوں تم بتا دو تم کیسی ہو ؟ اشعر کیسا ہے ؟ میں تو ٹھیک ہوں لیکن‬
‫نہ جانے مجھے اشعر کی طبیعت خراب لگ رہی ہے وہ تھوڑی دیر باہر گیا ہے اس کی طبیعت ٹھیک ہی نہیں تھی تو میں نے کہا‬
‫چلو تم باہر سے ہواؤ پھر ۔ اس کا دھیان رکھنا اس کو نا میڈیکیشن دینا اس کو ٹوکری کے پاس چاہے لے جاؤ زیادہ پڑا ہے نا‬
‫زیادہ اس نے اس دفعہ کوئی ہو گئی ہونی طبیت خراب اتنی رات وہ تو وہ جاگ رہا تھا ۔ ہم دیکھتی ہوں لے کے جاؤں گی اس کے‬
‫ڈاکٹر کے پاس ہے وہ رات تک ٹھیک نہ ہوا تو ۔ چلو ٹھیک ہے میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں حمدان ا رہا ہے ۔ ہللا حافظ۔ ہللا‬
‫حافظ ۔‬
‫او حمدان کیسے ہو تمہارا چہرہ دیکھنے کو تو ہم ترس گئے تھے !!! ارزم نے اٹھ کر اس کو گلے لگایا جو کہ باہر دروازے سے‬
‫اندر اینٹر ہو رہا تھا ۔ اور پھر تو سنا کیسا ہے ؟ بڑا بہتر جا رہا ہوں ۔ لگتا ہے یہ مسکراہٹ کامیاب شادی کی خوشی میں ہیں ؟‬
‫بھائی تم جو مرضی سمجھو اب اپ کو دیکھ کے بھی مسکرا ڈال ہی گئی ہے ویسے ہمیں ۔ ادھر بیٹھ کے وہ دونوں باتیں کرنے‬
‫شروع ہو چکے تھے ۔ اور پھر کب شادی کر رہا ہے ؟ یار یہ تو نہیں کہ تجھے اچھی بیوی مل گئی ہے تو مجھے بھی مل جائے‬
‫اس لیے بھی تھوڑا ٹینشن میں ہوں کہ کیا ہوگا کب کروں گا دیکھ لیں گے ابھی نہیں ‪ ،‬تو بتا تیری شادی کیسی جا رہی ہے بھابھی‬
‫کیسی ہیں صحیح فیصلہ کیا تھا یا نہیں؟ یار کبھی کبھی مجھے اپنے فیصلے پہ دکھ ہوتا ہے تو کبھی کبھی مجھے بہت خوشی ملتی‬
‫ہے ۔ اچھا جناب وہ کیسے ؟ یار میں اس کی شخصیت سے پہلے واقف نہیں تھا لیکن جب سے ہماری شادی ہے مجھے اس کو‬
‫جاننے کی کافی وجوہات ملتی ہیں ۔ جیسے کہ ؟ جیسے کہ یار وہ غصے میں نہیں اتی جب اتی ہے تو پھر وہ بخشتی نہیں ہے ‪،‬‬
‫جب وہ اچھے موڈ میں ہے تو پھر اس کا موڈ کے بگاڑ نہیں سکتا وہ پھر اچھے میں ہی رہے گی ‪ ،‬کبھی کبھی وہ اتنی بہادر بنی‬
‫ہوتی ہے اتنی بہادر کہ مجھے ایسا لگ رہا ہوتا ہے کہ بھئی میں اس کے سامنے کچھ نہیں ہوں ایک پولیس واال ہو کے لگ رہا‬
‫ہوتا ہے مجھے وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا ‪ ،‬اور کبھی کبھی وہ اس طرح رو رہی ہوتی ہے ایسا لگ رہا ہوتا ہے اس سے مظلوم‬
‫بندہ ہی نہیں دنیا میں ہے ‪ ،‬اور کبھی کبھی وہ ایسے عقلمند بنی ہوتی ہے سمجھا رہی ہوتی ہے مجھے تو میں حیران ہو رہا ہوتا‬
‫ہوں اور کبھی کبھی وہ مجھ سے سمجھ رہی ہوتی ہے ‪،‬مجھے تو یوں لگتا ہے میں ہر روز اس کا نیا چہرہ دیکھتا ہوں لیکن اچھے‬
‫میں شاید ۔ واہ واہ واہ کیا بات ہے بھئی تو اپ کی مزہ اتا ہوگا ؟ ہاں بھئی مزہ اتا ہے گھر میں کبھی لڑائی ہو رہی ہوتی ہے کبھی‬
‫سکون کبھی اشعر کو مار پڑ رہی ہوتی ہے کبھی وہ مجھ سے اس کو بچا رہی ہوتی ہے۔ تو پھر جب وہ بچا رہی ہوتی ہے تو اپ‬
‫کیا کرتے ہیں ؟ بھائی اب وہ کہہ رہی ہیں تو چھوڑنا پڑتا ہے اس کو ۔ واہ واہ واہ کیا ہی بات ہو گئی اپ کی ! یار میں جہاں تم‬
‫سے باتیں کرنی نہیں ایا ہوں تو مجھے بتاؤ اب عادل صاحب کے گھر کی اور تالشی لینی ہے ہم نے تو اب بندے وغیرہ تم نے‬
‫بھیجنے ہیں ٹھیک ہے ارزم حمدان کو سمجھانے لگا ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔‬
‫رویل ریکس کوئی ایا ہے اپ سے سے ملنے اس دفعہ کوئی نیا گارڈ تھا جس نے ا کر ریکس کو کہا تھا ۔ نام کیا بتا رہا ہے ؟‬
‫جگر گوشہ !!! شارق کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ ائی شاید پر سکونی کی تھی اندر بھیجو اس کو ۔ جی ۔ السالم علیکم‬
‫بھائی اس نے ہمیشہ کی طرح ا کر اس سے ہائی فائو کیا (یعنی تالی ماری دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھوں پر) وہ ا کر اس‬
‫کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا اور اس کے کندھے پر سر رکھ لیا ۔ شارق نے اس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر تھپتھپایا اور بوال کیا‬
‫ہوا ہے ؟ ارزم کہاں ہے ؟ اج تم گھر نہیں گئے ابھی تک ؟ وہ کشمیر گئے ہوئے ہیں اس نے مدھم اواز میں کہا ۔ تو میرے جگر‬
‫گوشے کو کیا ہوا ہے ؟ تمہیں پتہ ہے جب تم چھوٹے تھے تو تم یوں میرے پاس تب اتے تھے جب تم بہت اداس ہوتے تھے کیا ہوا‬
‫ہے ؟ اج تمہیں کس نے تمہیں اداس کیا ہے ؟ کچھ چاہیے ؟ اشعر نے شارق کے سینے پر سر رکھ لیا بیٹھے ہی ہوئے تھے وہ‬
‫دونوں ‪ ،‬یوں محسوس ہو رہا تھا شارق کو جیسے اس نے چھوٹے سے بچے کو اپنے ساتھ لگایا ہو ۔ شارک اس کو مسلسل تھپتھپا‬
‫رہا تھا پیار کر رہا تھا اور وہ اس سے پیار لے رہا تھا ۔ شارق کو پیار کرنا اتا تھا اور اشعر کو پیار لینا اتا تھا ۔ ایک مالزم داخل‬
‫ہوا ریکس ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ اگے بولتا کہ شارق نے اس کو اشارہ کیا کہ باہر جاؤ اور وہ باہر چال گیا اور اس نے دروازہ بند کر دیا ۔‬
‫چلو بتاؤ کیا ہوا ہے ؟ بھائی کی یاد ا رہی ہے ۔ واقعی؟ چلو کوئی بات نہیں میں ہوں نا میں بھی بھائی تو ہوں ۔ جی اور یہ کہتے‬
‫ہوئے اس کی اواز نم ہو چکی تھی کوئی جانتا نہیں تھا کہ وہ کس قدر تکلیف سے گزر رہا ہے اتنی بری بیماری کو فیس کرنا عام‬
‫بات نہیں تھی ببغیر کسی کو بتائے ۔اشعر نے اپنے اپ کو قابو میں کیا ۔ کیا ہوا ہے تمہاری اواز سے تم ٹھیک نہیں لگ رہے ہو‬
‫مجھے بتاؤ ؟ کچھ نہیں بھائی لیکن بھائی ایک بات کہوں اپ سے؟ تمہیں مجھ سے اجازت لینے کی ضرورت کب سے پڑھ رہی‬
‫ہے ایک نہیں دو پوچھو میرے جگر گوشے ہو تم چلو شاباش ہوا کیا مجھے بتاؤ ؟ بھائی اگر مجھے کچھ ہوانا تو میرے بھائی‬
‫بھابھی کا خیال رکھنا ۔ شارق نے اشعر کو سیدھا کیا اور بوال خبردار کیسی باتیں کر رہے ہو تم؟ اگر ارزم ہوتا نا تمہارے منہ پہ‬
‫تھپڑ لگاتا فضول باتیں نہ کیا کرو تمہیں پتہ ہے تمہارے بھائی اور مجھ میں کیا چیز سیم ہے ؟ کیا اس نے پیچھے ہٹتے بوال ۔ ہم‬
‫دونوں ایک ہی شخص سے پیار کرتے ہیں اور وہ تم ہو ۔ بس فرق اتنا ہے وہ تمہیں مارتا ہے صرف تمہاری اچھی تربیت کے‬
‫لیے اور میں نے ہمیشہ تم سے پیار کیا ہے اور تم بگڑ رہے ہو اور اج مجھے یہ کہہ رہے ہو کہ مجھے کچھ ہو جائے گا پاگل ہو‬
‫تم تمہیں ارزم صحیح مارتا ہے فضول باتیں کرنی اتی ہے ۔ اس نے پھر شارق کہ کندھے پر سر رکھ لیا ۔ شارق کے سینے پر‬
‫سر رکھنے واال صرف اشعر مراد ہی ہو سکتا تھا کوئی اور کبھی نہیں۔ شارق بولتا بولتا رک گیا اور وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا اس‬
‫کو ہوا کیا ہے ؟ بھائی مجھے سکون لینے دے میں یہاں سکون لینے ایا ہوں وہ اہستہ اواز میں کہہ رہا تھا اس کی طبیعت خراب ہو‬
‫رہی تھی ‪ ،‬بس وعدہ کریں اپ میری بھابھی اور بھائی کا خیال رکھیں گے اور اپنا بھی ۔ اشعر تمہیں ہو کیا گیا ہے کیسی باتیں کر‬
‫رہے ہو ہللا تمہیں میری عمر لگائے فضول باتیں نہ کیا کرو ۔ اشعر ویسے اکثر شارق سے ملنے ا جایا کرتا تھا ہفتے میں تین سے‬
‫چار دفعہ لیکن اج وہ خود زیادہ ہی دکھ میں تھا اور وہ شارق بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس کو ہوا کیا ہے ؟ بھائی اب اپ مجھ‬
‫سے کوئی سوال نہیں کریں کہ اگر اپ نے اب سوال کیا میں اٹھ کے چال جاؤں گا اپ مجھے یہاں بیٹھنے دیں گے یا نہیں ؟ رویل‬
‫ریکس شارق بھی تمہارا ‪ ،‬یہ گھر بھی تمہارا یہ جگہ بھی تمہاری بیٹھو جتنا مرضی سکون سے نہیں کچھ کہتا میں ۔ اشعر وہاں‬
‫پر بیٹھا رہا اور جان نماز منگوا کر نماز پڑھنے لگا شارق بھی اس کو دیکھ رہا تھا ۔ اس کو اچانک سے سجدے میں پڑے اشعر‬
‫کی رونے کی اواز آئی ‪ ،‬لیکن وہ خاموش رہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جب بندہ ہللا سے بات کر رہا ہو تو کسی تیسرے کو بیچ میں ا‬
‫کر ہللا اور اس بندے کی بات روکنی نہیں چاہیے وہ بہت ضروری باتیں ہوتی ہیں جو صرف ہللا سے کی جاتی ہیں اور اگر تیسرا ا‬
‫کے اس کو روک دے تو پھر بات کرنے کا مزہ نہیں اتا ۔ اشعر نے نماز پڑھی اور بوال اچھا بھائی میں چلتا ہوں خدا حافظ ۔میرے‬
‫چھوٹے سے جگر گوشے اپنا خیال رکھا کرو ۔ اشعر مسکرایا اور چال گیا ۔ گارڈز !!! شارق کہ اواز دینے پر گارڈز اندر ائے‬
‫شارق بوال یہ جو لڑکا ا بھی یہاں سے گیا ہے اس کے پیچھے جاؤ اور دھیان رکھنا یہ خیر سے اپنے گھر پہنچ جائے لیکن اس کو‬
‫پتہ نہ چلے کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے ۔ اوکے سر ۔‬
‫بھابھی میں گھر اگیا ۔ اچھا کیا تم اگئے ایسا کرتے ہم ہم نا حریم کو ڈراپ کراتے ہیں اسے گھر اس طرح میں بھی تھوڑا باہر سے‬
‫گھوم آؤں گی ۔ ٹھیک ہے بھابھی وہ تینوں اب پہنچ چکے تھے اشعر اگے ڈرائیونگ سیٹ پر تھا نورے اشعر کے ساتھ والی سیٹ‬
‫پے اور حریم پیچھے بیٹھ گئی ۔ کنول اور کشف نے موقع پایا اور ان کی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی لےجا چکے تھے ہریم اتر‬
‫گئی تھی ان کی دونوں کی بیک سائیڈ نظر ارہی تھی وہ اس کی ویڈیو بنانے لگے اور کشف وہ ویڈیو ارزم کو بھیجنا چاہتی تھی‬
‫اس ویڈیو میں وہ یہ بتانا چاہتی تھی کہ نورے کسی انجان شخص کے ساتھ باہر ائی ہوئی ہے۔‬
‫وہ ویڈیو ارزم کو کشف بھیج چکی تھی اور وہ بولی اس کو کال کر کے دیکھا میں نے کیا کہا تھا تمہاری بیوی ایک انجان شخص‬
‫سے ملتی ہے ۔ اپنی بکواس بند کرو ۔ میری بکواس بعد میں بند کروانا پہلے ویڈیو دیکھو اور اس نے کہہ کر فون بند کر دیا ۔ اس‬
‫ویڈیو میں اشعر کی بیک سائیڈ ا رہی تھی اور نورے گاڑی سے باہر نکل کر حریم کو گھر کے اندر چھوڑنے گئی تھی تو اس لیے‬
‫نورے کی شکل نظر ارہی تھی ارزم کے دل میں شک پیدا ہو چکا تھا ‪ ،‬لیکن وہ تحقیق کے بغیر کام نہیں کرنا پسند کرتا تھا ۔ ارزو‬
‫نے نورے کو فون کیا ہیلو نورے ۔ السالم علیکم ! کہاں گئی تھی تو اس کا لہجہ سنجیدہ تھا ۔ میں کہیں بھی نہیں ۔ تم واقعی کہیں‬
‫نہیں گئی ؟ نورے نے یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ وہ حریم کو چھوڑنے گئی تھی اشعر ساتھ اس نے کہا نہیں میں واقعی کہیں‬
‫نہیں گئی ۔ دوسری جانب سے ارزم نے فون بند کر دیا ۔ نورے پہلے تو ویٹ کرتی رہی لیکن پھر اس نے کال کی لیکن ارزم نے‬
‫کال مسلسل کاٹی تین دفعہ اس نے کال کاٹی تو اس نے دوبارہ کال نہیں کی شاید وہ بزی ہوگا وہ سوچنے لگی ۔‬
‫اگلی صبح نورے سبزی کاٹ رہی تھی کہ اشعر سامنے ا کے بیٹھ گیا ۔ بھابھی ! ہاں وہ سبزی کاٹتے مصروف لہجے میں بولی تھی‬
‫۔ وہ ٹڈی اور کوکروچ چلی گئی ؟ نہیں ابھی تک تو نہیں گئی نورے نے ہنستے ہوئے کہا ۔ پتہ نہیں عذاب دنیا کب جائیں گی ۔‬
‫عذاب دنیا لوگ تو عذاب اخرت عذاب دوزخ بولتے ہیں عذاب دنیا کیا ہوتا ہے ؟ نورے نے تجسس سے پوچھا ۔ بھابھی اخرت کا‬
‫عذاب تو ہے ہی ہے دنیا کا عذاب بتائیں کیسا لگتا ہے اپ کو ؟ میں تمہاری بات سمجھی نہیں صحیح سے سمجھاؤ ۔ بھابھی‬
‫دیکھیں یہ دنیا نا بہت بڑا دھوکہ ہے سراب ہے ۔ ہاں یہ تو ہے وہ سبزی کاٹتے دوبارہ بولی ۔ اس دنیا میں ایسے ایسے راز دفن ہیں‬
‫جو کہ انسان جانتا ہی نہیں ہوتا ایک انسان دوسرے انسان کے بارے میں نہیں جانتا ہوتا حاالنکہ وہ اس کے ساتھ رہ رہا ہوتا ہے ‪،‬‬
‫اپنے ارد گرد کے ماحول میں لوگوں کو دیکھ کے وہ کہتا ہے کہ میں لوگوں کو اچھے سے جانچ لیتا ہوں مجھے سمجھ ا جاتی ہے‬
‫کون کیسا ہے ‪ ،‬لیکن اس کو اپنی سمجھ کبھی نہیں ائی ہوتی ہے وہ اپنے اپ کو کچھ اور ہی دکھا رہا ہوتا ہے لوگوں کو ‪ ،‬وہ اپنا‬
‫اپ لوگوں سے چھپا کے اپنے اندر مزید اچھائی ڈال کے دکھا رہا ہوتا ہے اپنے اپ کو وہ کیوں نہیں دکھاتا جو وہ ہوتا ہے دھوکہ‬
‫ہوا نا یہ عذاب دنیا ہوا نا دنیا کا سب سے بڑا عذاب ہے ہی یہ کہ لوگ اپنے اپ کو وہ نہیں دکھائیں گے جو وہ ہے بلکہ وہ دکھائیں‬
‫گے جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں کیوں ؟ ہم ان کے لیے جیتے ہیں کیا ؟ ہللا اشع ر کیسی کیسی باتیں کر لیتے ہو کیا بات ہے تمہیں‬
‫فالسفر ہونا چاہیے تھا ویسے ویسے تم ایک چھوٹے غالب بھی ہو ‪ ،‬چھوٹے ڈائناسور بھی ہو ‪ ،‬چھوٹے فالسفر بھی ہو ‪ ،‬چھوٹے‬
‫دیور بھی ہو ‪،‬چھوٹے بھائی بھی ہو چھوٹے سے اشعر مراد بھی ہو اور سب سے بڑھ کر تم چھوٹے کاکے بھی ہو ‪ ،‬تم کیا کیا‬
‫ہو ویسے ؟ وہ ہنستے ہوئے بولی نورے کو اس کی بات تعجب میں ڈال گئی تھی ۔ بھابھی ؟؟؟ ہاں جی ۔ اجازت ہو تو شارق بھائی‬
‫سے مل آؤں ؟ جاؤ ۔ واقعی؟؟؟ ہاں ہاں جاؤ ۔ تھینک یو بھابھی اپ بہت اچھی ہیں اوکے ہللا حافظ میں جا رہا ہوں ۔‬
‫اور پھر کیا ہو رہا ہے ؟ نورے کچن میں ا کر یہ سوال کشف کرنے لگی ۔ کھانا بنا رہی ہوں نورے نے طنزیہ اواز میں کہا ۔ ہاں‬
‫میرے ہاتھ کا کھانا تمہیں پتہ ہے کہ ارزم کو بہت پسند تھا ۔ او اچھا ! ہاں ہاں ارزم تو کہتا ہوتا تھا کہ میرا دل چاہتا ہے جس نے‬
‫کھانا بنایا ہے تو اس کے ہاتھ چوم لو ۔ کشف کے اس بات پر نورے نے گھوم کر اس کو ایک گھوڑی ڈالی اور جیسے نورے‬
‫ساکت ہو گئی تھی اس کی اس بات پر اور بولی تم اتنی بونگیاں کیوں مارتی ہو؟ تم کیوں یوں دکھاتی ہو پریٹینڈ کرتی ہو کہ تم میں‬
‫وہ بہت چاہتا تھا کیا کبھی تمہاری اس سے منگنی ہوئی ہے تمہارا کوئی رشتہ ؟ فضول میں ہی بولتی رہتی ہو ‪ ،‬میں تمہیں بہت‬
‫مشکل سے برداشت کرتی ہوں میرے صبر کو ازماؤ مت ۔ تمہیں اس نے نہیں بتایا کہ ہماری منگنی ہوئی تھی ! کیا ؟ ہاں اور اب‬
‫ہم دوبارہ شادی کرنے لگے ہیں ارزم نے مجھے کہا ہے۔ نورے نے یہ سنا اور اس نے پیچھے منہ کیا تو چولہے کی دوسری‬
‫جانب رکھا گرم پانی نورے کے ہاتھ پہ گر چکا تھا ‪ ،‬آہ آہ آہ ۔۔۔۔ کشف وہاں سے ہنستی ہوئی چلی گئ ۔ اور نورے وہی تڑپتی رہ‬
‫گئی ‪ ،‬فورا کمرے میں جا کر اس کے اوپر مرہم لگانے لگی اور ارزم کو اس نے تین سے چار دفعہ فون کیا لیکن ارزم نے فون‬
‫کاٹ ڈاال ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ جب تک مجھے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ نورے سچی ہے یا جھوٹی تب تک میں اس سے بات نہیں کروں‬
‫گا نورے کا فون اتے دیکھ کر ارزم نے خود سے کہا تھا ۔‬
‫اج تم ایسے ہی اندر ا گئے اج کسی گارڈ نے ا کے مجھے نہیں کہا کہ میں اپ کو جگر گوشہ ملنے ایا ہے شارق نے مسکراتے‬
‫ہوئے اشعر کی جانب دیکھتے ہوئے کہا ۔ نہیں اج پرانا گاڈ تھا اس نے مجھے دیکھا اور اس نے بڑی اچھے طریقے سے مجھے‬
‫اندر بھیجا ہے۔ اچھا تو پھر اور بتاؤ کیسے انا ہوا ؟ ان کے لیے کوئی وجہ ہونا ضروری ہے اشعر نے مسکراتے ہوئے گردن کو‬
‫ٹیڑھا کرتے ہوئے کہا ۔ شارق نے کہکا لگایا جی نہیں اپ کا ہی تو ہے سب کچھ سب سے بڑھ کر ریکس آپ کا ہے تو بس۔ اشعر‬
‫اس سوچ میں شارق سے ملنے ایا تھا کہ وہ جاننا چاہتا تھا کہ اس نے منع کر دیا ہے کہ وہ شارق کی بہن سے شادی نہیں کرے گا‬
‫تو پھر بھی شارق اس سے اتنا اچھا کیوں ہے ؟ اور آخر کو اس نے یہ سوال اس کے سامنے رکھ ہی دیا ۔ اشعر کہ اس سوال کے‬
‫جواب میں شارق بوال مجبوری!! شارق کے اس جواب پر اشعر دنگ رہ چکا تھا ‪ ،‬کیا مطلب اپ کا ؟ تمہیں پیار کرنا میری‬
‫مجبوری بن چکا ہے اگر میں تم سے یوں بات نہ کروں تو میرا دل کچھ کرنے کا نہیں کرتا اگر تم میرے سے دل میں ایک دفعہ‬
‫بات نہ کر لو کہ مجھے اپنی اواز نہ سناؤ تو مجھے سکون نہیں ملتا ‪ ،‬میں نے ‪ 47‬قتل کیے ہیں لیکن مجھے کبھی یہ نہیں ہوا کہ‬
‫مجھے سکون نہیں مل رہا میں نے کیا کیا لیکن جس دن میری تم سے بات نہ ہونا تو اس نے مجھے سکون نہیں مل رہا ہوتا میرے‬
‫لیے تم ایک پیس ( سکون ) ہو ۔ اشعر کی انکھیں نم ہو چکی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ کس بیماری سے گزر رہا ہے اور اگر‬
‫اس نے کسی کو بتایا تو ان سب کا کیا حال ہوگا کیونکہ وہ تو اس سے بے پناہ اور بغیر کسی ضرورت کے اس سے پیار کرتے‬
‫تھے ۔ تمہاری انکھیں نم کیوں ہو رہی ہیں پہلے تو مجھے یہ بتاؤ ؟ اس نے فورا اپنی انکھوں سے نکال انسو صاف کیا اور بوال‬
‫بھائی کچھ نہیں یہ تو بس اپ کی محبت ہے مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب اپ مجھ سے یوں بات کرتے ہیں ۔ کبھی ہر ارزم نے تم‬
‫سے ایسے بات کی ہے ؟ شارق کے لہجے میں طنز تھا ۔ نہیں بھائی لیکن جس طرح میری بات سن کر اپ کو سکون ملتا ہے نا‬
‫اس طرح ان سے مار کھا کے مجھے سکون ملتا ہے شاید اس نے ہنستے ہوئے کہا یعنی بھائی وہ مجھے مارتے ہیں ان کو حق‬
‫ہے مجھے مار سکتے ہیں اور میں ان کو یہ حق دیتا ہوں میں ان سے یہ حق چھینا نہیں چاہتا اور وہ مجھے دل سے نہیں مارتے‬
‫وہ بھی مجھے پیار سے مارتے ہیں یہ تو ان کا پیار ہے اپ کا پیار کرنے کا طریقہ الگ ہے بھائی کا الگ ہے بھابھی کا الگ ہے‬
‫امی کا الگ ہے ‪ ،‬اور اپ کو پتہ ہے میں سب کو مان دینا چاہتا ہوں اس لیے میں نے کبھی بھائی کو نہیں کہا کہ اپ مجھے مارنا‬
‫بند کر دیں یا ان کے سامنے اونچی اواز میں بات نہیں کی یا ان سے کبھی اس طرح بات نہیں کی کہ ان کو لگے کہ وہ میرے اوپر‬
‫سے اپنا اختیار کھو چکے ہیں مجھے اچھا لگتا ہے جب کہتا ہے تم تو اپنے بھائی سے ڈرتے ہو یا اپنے بھائی کی بات مانتے ہو تو‬
‫‪ ،‬ابھی تک بھائی کی سب مانتے ہو ۔ کیونکہ تم مان دینا جانتے ہو شارق نے اس کی بات کاٹتے بوال ۔ اشعر کا فون بجا۔ السالم‬
‫علیکم بھابھی ! وعلیکم السالم اشعر جلدی گھر اؤ ! لیکن کیا ہوا ؟ میرا ہاتھ جل گیا جلدی اؤ ۔۔۔۔ کیا میں ابھی ا رہا ہوں اپ رکے ۔‬
‫فون بند ہوا‪ ،‬اچھا بھائی میں چلتا ہوں وہ گھر میں ایمرجنسی ہے ۔ ہللا کی امان ‪ ،‬اشعر اس کے گلے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫وہ ہر بڑی میں گھر ایا بھابھی کیا ہوا ؟ یہ میرا ہاتھ جل گیا اس کا ہاتھ بہت بے دردی سے جال ہوا تھا ۔ اُف ہللا بھابھی یہ کیسے ہوا‬
‫؟ بلکہ چھوڑیں اب میرے اس گاڑی میں پہلے ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ۔ وہ دونوں ڈاکٹر کے پاس چلے گئے ۔ کشف نے موقع‬
‫پایا اور دوبارہ ان کے پیچھے گاڑی لے کے جا چکی تھی وہ اشع ر کو استعمال کر رہی تھی وہ اشعر کا چہرہ تو ویڈیو میں نہیں‬
‫انے دیتی تھی لیکن نورے کا انے دیتی تھی ۔ وہ اب ایک اور نئی ویڈیو بنا چکی تھی جس میں اشعر کے ساتھ والی سیٹ پر گاڑی‬
‫میں نورے تھی اس نے ویڈیو کو ایڈٹ کیا اور اشعر کی شکل نظر نہیں ارہی تھی اور نورے کی ا رہی تھی اور فوراً اس نے ارزم‬
‫کو سینڈ کر دی ۔ کیا یہ سب کچھ سچ ہے ؟ کشف کے کال کرنے پر ارزم میں نے پہال سوال کیا ۔ ویڈیو پہ یقین نہیں ا رہا ۔؟ اب‬
‫نہیں میں چھوڑوں گا کسی کو بھی عشر کہاں ہے ؟ وہ تو اوارہ گردی کر رہا ہے کبھی کہیں جا رہا ہے تو کبھی کہیں ۔ اس کو‬
‫میں نے کہا تھا کہ نورے کے ساتھ رکے ۔ ارزم نے غصے میں فون بند کر دیا اور کشف اپنی اس چال بازی پر مسکرائی ۔‬
‫نورے گھر ا چکی تھی اور اشعر اس کے سامنے بیٹھا تھا باہر دونوں النچ میں بیٹھے تھے ۔ بھابھی اب اپ ٹھیک ہوئی ؟ ہاں کافی‬
‫بہتر فیل کر رہی ہوں ۔ ایسا کرنا اب اپ گھر کے کام نہ کرنا میں کر لوں گا اور کھانا ہم باہر سے منگوا لیں گے ۔ اچھا ۔ بھابھی‬
‫بھائی کو اپ نے بتایا ہے ؟ نہیں ابھی تک تو نہیں تمہارے بھائی نے میری کال بھی نہیں اٹھائی میں نے گاڑی میں بھی اتنی کال‬
‫کی تھی ۔ اچھا ایسا تو نہیں ہوتا کہ بھائی کال نہ اٹھائیں میں کرتا ہوں اس نے اپنی پاکٹ سے فون نکاال اور بھائی کو کال مالئی ۔‬
‫اور تم نے کال اٹھائی اور اشعر نے سپیکر آن کیا ‪ ،‬السالم علیکم ! وعلیکم السالم! تم گھر بیٹھ نہیں سکتے ہو‪ ،‬کہاں آوارا گرریاں‬
‫کرتے پھر رہے ہو ؟ جب میں نے تمہیں کہا تھا کہ گھر میں رہنا ہو تو تم کیوں باہر جا رہے ہو بار بار ؟ تمہیں میری سمجھ نہیں‬
‫ائی تھی دل چاہ رہا ہے تھپڑ لگاؤں تمہارے منہ پہ ا کر زور سے وہ فل تپا بول رہا تھا ۔ ب ب بھائی کیوں کیا ہوا ہے میں نے تو‬
‫کچھ نہیں کیا میں تو بس ایک دفعہ گیا تھا ۔۔۔۔ وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ ارزم بوال ہاں ایک دفعہ گیا تھا خبردار اگر اب تم ایک‬
‫دفعہ بھی گھر سے باہر نکلے تمہاری میں نے ٹانگیں توڑ دینی ہے اکر ۔ اشعر کو لگا کے معمول کے مطابق اس کو ڈانٹ پڑ رہی‬
‫ہے اس نے زیادہ سوچا نہیں اور بوال اچھا بھائی اب میں باہر نہیں جاؤں گا لیکن اپ کو پتہ ہے بھابھی کا ہاتھ جل گیا ہے ۔ تو میں‬
‫کیا کروں ؟ یہ سن کر اشعر نے فوراً سپیکر اف کر لیا اور نورے اس کو ریکھتی رہ گئی ۔ اشعر سپیکر آن کرو اس کی بھابھی‬
‫نے کہا ۔ نہیں وہ ۔۔۔۔ میں کہہ رہی ہوں آن کرو اس نے غصے میں کہا ۔ اشعر نے سپیکر آن کیا ۔ دوبارہ پوچھو اپنے بھائی سے‬
‫میرا مطلب ہے ان کو بتاؤ کہ میرا ہاتھ جال ہے نورے اپنے اہستہ اواز میں اشعر کو کہا ۔ بھائی بھابھی کا ہاتھ جال میں کہہ رہا ہوں‬
‫!! تو تمہیں سمجھ نہیں ایا میں کیا کہہ رہا ہوں میں نے کہا ہے میں کیا کروں ؟ اور اس نے غصے سے فون بند کر دیا ۔ نورے‬
‫اشعر کے سامنے ارزم کی کی گئی بےعزتی کو برداشت نہیں کر پا رہی تھی وہ اٹھی اور اپنے کمرے میں جا کے اس نے دروازہ‬
‫بند کر لیا ۔ یار کیا ضرورت تھی مجھے سپیکر ان کرنے کی اب ان دونوں کی لڑائی ہو جانی ہے بھائی بھی پتہ نہیں کیا ہوتا جا‬
‫رہا ان کو ‪ ،‬اشعر خود سے بات کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔‬
‫اپنے کمرے میں جا کر نورے نے فورا ارزم کو کال کی اس دفعہ ارزم نے کال اٹھا لی ۔ ارزم۔۔۔۔ اگے بولو اس نے غصے میں کہا‬
‫۔ اپ کو پتہ ہے میرا ہاتھ جل گیا ہے اس نے ایسے اس سے بات کی جیسے اس کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے ۔ اچھا ہاتھ جال ہے ؟ ہاں ۔‬
‫اچھا ہوا ۔ نورے کے پاس کہنے کو اس کی یہ بات سن کر الفاظ نہیں رہ چکے تھے ک ک کیا کہہ رہے ہو ؟ مجھے کیوں بتا رہی‬
‫ہو تمہارا ہاتھ جال ہے ‪ ،‬جس کے ساتھ تم روز جاتی ہو اور اتی ہو اور مجھے بتاتی نہیں اس کو جا کے بتاؤ میں تو پاگل تھا جو‬
‫تمہاری محبت میں گرفتار ہو رہا تھا لیکن تم تو اس قابل ہی نہیں تھی ۔ کیا بکواس ہے یہ ؟؟؟؟ نورے نے تلمال کر کہا ۔ زبان‬
‫سنبھال کر بات کرو اپنی میں تمہارے ساتھ پیار سے بات کرتا رہا تمہیں عزت دیتا رہا مان دیتا رہا لیکن تم نے میرے ساتھ کیا کیا‬
‫تم ڈیزرو بھی نہیں کرتی یو ڈونٹ ڈیزرو مائی لو ( تم میرے پیار کی حقدار نہیں ہو) ۔ کیا کہنے کا مطلب ہے میں کس کے ساتھ‬
‫باہر جاتی ہوں دماغ خراب ہو گیا ہے تم نے مجھے سمجھ کے رکھا ہے جو مرضی مجھ پر الزام لگائی جاؤ گے اور میں سہتی‬
‫جاؤں گی چپ ہو جاؤں گی ؟ خاموش سے تم ہو نہیں سکتی کیونکہ زبان کی جگہ تم نے مینڈک لگایا ہوا ہے ۔ اور تمہاری کشف‬
‫سے منگنی ۔۔۔۔ ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ اگے سے ارزم بوال منگنی ہوئی تھی ہماری تمہاری وجہ سے شادی نہیں ہوئی تمہیں‬
‫عزت دی تمہیں پیار دیا لیکن تم اس کی حقدار نہیں تھی اب اس لیے میں کشف سے شادی کرنے واال ہوں ارزم نے یہ اس کو یوں‬
‫ہی کہا تھا‪ ،‬اور یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا ۔ نورے کو ارزم کی اس بات پر بے حد غصہ ایا اس نے اپنا فون پکڑ کر دیوار‬
‫پہ زور سے مارا جب ارز نے فون بند کیا ‪ ،‬جس سے اس کا فون مکمل طور پر ٹوٹ کر بکھر چکا تھا زمین پر ۔ یہ سمجھتا کیا‬
‫ہے خود کو ؟ میں کوئی لوالی سے لگتا ہے ؟ اگر میرا بھائی باپ یا ماں نہیں ہے تو کیا میں اس کے در پہ پل رہی ہوں بھاڑ میں‬
‫جائے یہ ‪ ،‬اگر اس کے دل میں میرے لیے کوئی جگہ نہیں ہے تو اس کے گھر میں رہ کے میں نے کیا کرنا ہے نورے نے اپنا‬
‫سامان پیک کیا ۔ اشعر!! جی بھابھی ۔ مجھے حریم کے گھر چھوڑ کر اؤ اس نے لمبی سانس بھرتے کہا ۔ نورے کے ہاتھ میں اتنا‬
‫بڑا سوٹ کیس دیکھ کر اور اس کو حریم کے گھر رات کے وقت جاتا دیکھ کر وہ بوال بھابھی اس وقت اپ نے کیا کرنا ہے اور یہ‬
‫سوٹ کیس ؟؟؟ مجھے تمہارے بھائی کے ساتھ نہیں رہنا ۔ بھابھی اپ کیا کہہ رہی ہیں وہ شاید بزی ہوں گے اپ وہ اپ کے کام پہ‬
‫لیے گئے ہیں‪ ،,‬کیا پتا بھائی بزی ہوں تھکے ہوں بھابھی دیکھیں ایسا تو نہ کریں نا پھر وہ مجھے کہیں گے کہ تمہاری وجہ سے‬
‫اپ چلی گئی بھابھی دیکھیں مجھے بھی تو بھائی نے ڈانٹا ہے نا اس فون پہ میں نے تو نہیں نا گھر چھوڑ دیا دیکھیں اپ کیا کر‬
‫رہی ہیں وہ جیسے ریکویسٹ کر رہا تھا ۔ جہاں میرے احساسات اور جذبات کی فکر نہیں کی گئی وہاں میں ہرگز نہیں رہوں گی تم‬
‫نے مجھے چھوڑ کے انا ہے یا نہیں ؟ بابی رک جائیں نا دیکھیں میں اپ کے احساس کی قدر کرتا ہوں میں اپ کو ڈاکٹر کے پاس‬
‫لے کر گیا دیکھیں میں نے اپ کی ارادت کی ہے ایک قسم کی دیکھیں اب وہ نہ جائیں نا بھائی بھی صحیح ہو جائیں گے چھوٹی‬
‫موٹی لڑائیاں تو ہوتی رہتی ہیں ۔ یہ میرا حتمی فیصلہ ہے اور جو فیصلہ نورے جنت عادل حیات ایک دفعہ کر لے اس کو کوئی‬
‫موڑ کے دکھائے ‪ ،‬تم مجھے چھوڑ کر اؤ گے یا نہیں نورے نے بیگ پکڑا اور باہر کی جانب جانے لگی ۔ اشعر فورا اپنی بھابھی‬
‫کے پیچھے گیا بھابھی اچھا میں جاتا ہوں اپ کے ساتھ اکیلی مت جائیے گا ۔ کشف اور کنول چھپ کر جو سب کچھ دیکھ رہی تھی‬
‫اور سن رہی تھی ۔ کشف نے فوراً ارزم کو کال کی۔ کیا ہے ؟ ایک دھماکے دار خبر ہے ۔ اتنے دھماکے تم اس گھر میں ا کے‬
‫میرے سر پہ چڑھ چکی ہو نا اور کتنے مجھے بتاؤ گی اب ؟ تمہاری بیوی گھر چھوڑ کے جا چکی ہے !!! کیا اس نے حیرت سے‬
‫پوچھا ۔ ہاں ۔ اس نے فورا فون بند کیا اور غصے میں اپنے کمرے میں جا کر سونے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫بھابھی ابھی بھی دیکھ لیں نہ جائیں اپ ۔ اشعر خاموش ہو جاؤ ‪ ،‬حریم کے گھر ا چکا تھا اور وہ اتری اور اس نے اشعر کو کہا اپنا‬
‫خیال رکھنا اور کھانا کھانے ادھر ا جانا ‪ ،‬نورے یہ کہہ کر گھر کے اندر چلی گئی ۔ نورے نے جا کر سب سے پہلے حریم کو‬
‫گلے لگایا ۔ نورے تم اس وقت ؟ نورے نے اپنے انسوؤں پر قابو پایا اور اس کی امی سے ملی اس کے بعد وہ بولی حریم مجھے‬
‫سونا ہے کیا تم میرے ساتھ کمرے میں اؤ گی ؟ ہاں ہاں چلو ! وہ دونوں کمرے میں گئی تو حریم کو نورے نے زور سے گلے‬
‫لگایا اور بے حد روئی ۔ ن ن نورے جنت میری جان کیا ہوا ہے تمہیں ؟ وہ مسلسل رو رہی تھی حریم نے اس کو پیچھے کیا اور‬
‫اس کو بیڈ پہ بٹھایا اور اس کا ہاتھ پکڑا اور بولی نورے مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے؟ تم اس وقت ؟ ارزم ایک بہت ہی برے مزاج کا‬
‫ادمی ہے ۔ حریم سمجھ گئی کہ اس کو ارزم نے کچھ کہا ہے ‪ ،‬کیا ہوا ہے نورے نے حریم کو ساری بات بتائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫دیکھو نورے ٹینشن نہ لو یار ہللا تعالی نے ہم انسانوں کو بنایا ہے وہ جانتا ہے کہ کس کے ساتھ کیسا کب ہونا ہے ‪ ،‬اتار چڑھاؤ تو‬
‫زندگی کا حصہ ہے یعنی کہ کبھی اچھا وقت ہوگا اور کبھی برا ہوگا کوئی بات نہیں ‪ ،‬ہللا تعالی کی ذات پر بھروسہ رکھو یقین‬
‫رکھو ۔ لیکن تمہیں پتہ ہے اس نے اتنا سب کچھ مجھے کہہ دیا ہے وہ رو رہی تھی ‪ ،‬وہ تو مجھ سے اتنے پیار سے بات کرتا تھا‬
‫اپ کر کے مجھے بالتا مجھ سے تمیز سے بولتا میری عزت کرتا ‪ ،‬لیکن اج اس کا یہ رویہ ۔۔۔۔۔۔ نورے مت رو وہ یہ کہہ کر‬
‫دوبارہ رونے لگی ‪ ،‬جب ہللا نے کہا ہے مسئلے حل کروں گا تو ٹینشن کس بات کی ہے ہللا تعالی کو بتاؤ بس تم دیکھ رہے ہو‬
‫تمہارے مسئلے حل ہو جائیں گے ہاں وقت لگے گا تو ہللا صبر بھی تو مانگتا ہے نا تو صبر کیا ہوتا ہے تھوڑا وقت لگے گا ۔ تم‬
‫جانتی ہو وہ بے وفا ہے وہ کشف سے شادی کرنے واال ہے مجھے کشف نے خود بتایا ہے ۔ ایسی فضول باتیں نہ سوچو ایسا ہو ہی‬
‫نہیں سکتا ہے وہ اتنی عجیب سی لڑکی ہے تو جو مرضی کہتی ہے تم یقین کر لیتی ہو ؟ نہیں یار جس دن وہ میرا مذاق اڑا رہی‬
‫تھی کہہ رہی تھی کہ میں پیاری نہیں ہوں اس دن بھی ارزم کے منہ پر جیسے تاال لگا ہو ایک لفظ نہیں بولے وہ میری لیے ‪،‬‬
‫مجھے تب بھی عجیب لگا تھا لیکن میں تب خاموش ہو گئی تھی لیکن جب کشف نے مجھے بتایا تو پھر تو یہ بنتا تھا نا کہ میں‬
‫سوچ رہی ہوں کہ شاید واقعی۔۔۔۔۔۔۔چلو ابھی تم سو جاؤ اتنا نہ سوچو ! نہیں میری ابھی عشاء کی نماز رہتی ہے میں وہ پڑھ کے‬
‫سوؤں گی تم ایسا کرو کہ تم نے جانا ہے تم جاؤ ۔ چلو عشاء پڑھو اور پھر سو جانا ٹھیک ہے چلو شاباش ! ۔۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔۔ ۔‬
‫اشعر گھر پہنچا ہے اپنی بھابی کے کمرے کے باہر سے گزر کر اپنے کمرے کی جانب جا رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ بابھی کا‬
‫فون وہاں پہ بکھر چکا ہے ٹوٹ کر ۔ وہ جان گیا کہ بھابھی کی بھائی سے کوئی بات ہوئی ہے ۔ اشعر کو ارزم کی کال ائی ۔ جی‬
‫بھائی! بھابھی سے بات کرواؤ اپنی ۔ بھائی وہ گھرچھوڑ کے چلی گئی ہیں ! جانتا ہوں میں فون اٹھا رہی وہ کیوں ؟ یقینا تم نے اس‬
‫کو کہیں چھوڑ کر ائے ہو گے یا ابھی بھی اس کے ساتھ ہو گے میری اس سے بات کرواؤ ۔ بھائی بھابھی نے اپ سے بات کرنے‬
‫کے بعد اپنا فون دیوار پہ مار کے توڑ دیا ہے اور وہ میرے ساتھ نہیں ہے اس وقت میں ان کو چھوڑ ایا ہوں ۔ واٹ دا ہیل ( کیا‬
‫بکواس ہے) ؟ یہی ہے ! ارزم نے غصے سے فون بند کر دیا ۔ نہ جانے کیا ہو گیا ہے ان دونوں کو اشعر خود سے یہ کہہ کر‬
‫اپنے کمرے میں چال گیا ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔‬
‫اگلی صبح ہو چکی تھی ! فجر کا وقت تھا اور نورے اور حریم فجر پڑھ کر بیٹھ گئے ۔ نورے تم کافی لمبی دعا مانگتی ہو ۔ ہاں‬
‫نورے یوں بولی جیسے اس کا بات کرنے کا دل نہ چاہ رہا ہو ۔ نورے کچھ نہیں ہوتا مجھے پتہ ہے دیکھ لینا وہ تمہیں خود لینے‬
‫ائیں گے ! حریم نے اس کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کے کہا ۔ نورے کی انکھوں میں انسو ائے ‪ ،‬میں نے اج ہللا تعالی سے بہت باتیں‬
‫کی ہیں پوری رات ۔ واقعی؟ حریم نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھتے پوچھا ‪ ،‬نورے تم جانتی ہو میں پہلے نماز نہیں پڑھتی‬
‫تھی یعنی کہ کبھی کبھی پڑھتی تھی حاالنکہ ہللا تعالی تو ہمیں دل میں پانچ دفعہ بالتے ہیں ۔ ہاں میں جانتی ہوں لیکن کس چیز‬
‫سے تم نے انسپائر ہو کے نماز پڑھنا شروع کی ؟ نورے کے اس سوال پر حریم بولی یار میں نے سوچا کہ ہندو اور مسلمان میں‬
‫نماز فرق بتاتی ہے ‪ ،‬جو ہندو ہوتے ہیں وہ تو خود جاتے ہیں اپنے مندر میں اور جا کر گھنٹی بجاتے ہیں اور کہتے ہیں جی میں‬
‫اگیا لیکن ہمیں تو ہللا تعالی کی ذات خود بالتی ہے دن میں پانچ دفعہ وہ کہتی ہے اؤ اور مجھے بتاؤ اپنے مسئلے گنواؤ تمہاری‬
‫نماز کے مکمل ہونے کے بعد میں ساتھ ہی تمہاری دعا قبول کروں گا اور اگر نہیں بھی کروں گا تو اس میں کوئی مصلحت ہوگی‬
‫۔ یہ تو ہے بہت عقلمند ہو گئی ہو نورے نے مسکرا کر اس کی اس بات پر کہا ۔ ہاں یار ہماری بے وفائی پر بھی وہ اتنا ہمیں دے‬
‫دیتا ہے اگر ہم وفادار ہوں تو ہمیں کیا کیا نہ ملے !! نورے کے دل میں یہ بات اتر چکی تھی اس کے دل میں ایک عجیب سی بے‬
‫چینی پیدا ہوئی اس کی یہ بات سن کر کہ ہم لوگ کتنے بے وفا ہیں ہللا کے ساتھ ۔ حریم دوبارہ بولی یار دیکھو ہم لوگ نماز نہیں‬
‫پڑھتے قران نہیں پڑھتے مشکل میں بس ہللا کو یاد کر لیتے ہیں تو یہ تو ہمارے لیے کتنی میں کہتی ہوں نچلے درجے کی بات ہے‬
‫کہ ہم اتنی اونچی سا جو کہ ہمیں دن میں پانچ دفعہ بال رہا ہے کہ اؤ میری طرف اؤ کامیابی کی طرف تو پھر ہم لوگ کیوں نہیں‬
‫جاتے ہم جیسی مخلوق کو جو ہللا تعالی کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے اس کو ہللا تعالی بال رہا ہے اور تم جانتی ہو نورے جب میں‬
‫یہ سوچتی ہوں تو میرے دل پہ کیا بیتتی ہے جب میرے نماز پڑھنے کا دل نہ چاہ رہا ہو نا تو میں یہ بات سوچتی ہوں کہ ہللا‬
‫مجھے بال رہا ہے مجھے مجھ جیسے انسان کو گنہگار کو تو پھر میں نماز پڑھ لیتی ہوں ۔ تمہیں ایک شعر سناتی ہوں نورے بولی‬
‫‪ ،‬اس شعر کی سمجھ مجھے بہت عرصے بعد ائی تھی ۔ کیا ہے وہ ؟‬
‫یہ جو تو ایک سجدے کو گراں سمجھتا ہے‬
‫ہزاروں سجدو سے دیتا ہے نجات انسان کو‬
‫حریم نے یہ یہ شعر سنا اور اس نے اپنی انکھیں بند کی اور وہ مسکرا رہی تھی اس کا دل جیسے عجیب سی ایک بے چینی میں‬
‫مبتال ہو گیا تھا یہ شعر سن کر کہ ہللا کو کیا گیا ایک سجدہ ہزاروں سجدوں سے انسان کو نجات دیتا ہے اور اس سجدے کو ہللا کے‬
‫سامنے کرنے سے ہم لوگ بھاگتے ہیں ۔ نورے کیا شعر سنایا ہے تم نے ۔۔۔۔ کمال کا ہے ۔ نورے نا جانے کیوں رونے لگی ۔‬
‫نورے کیا ہوا ؟ ارزم ایسا نہیں تھا ‪ ،‬وہ بدل گیا حریم وہ بدل گیا اور وہ یہ کہہ کر رو رہی تھی ‪ ،‬تم جانتی ہو حریم اس نے مجھ پر‬
‫الزام لگایا ہے کہ میں کسی سے ملتی ہوں کسی اجنبی سے ۔ نورے نورے رو نہیں تمہارے رونے سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے‬
‫اور یقینا ً غلط فہمی ہوئی ہے بھائی کی اور وہ جلد غلط فہمی ٹھیک ہو جائے گی ‪ ،‬اچھا رکو میں نے جو چولہے پہ چائے رکھی‬
‫تھی میں لے کر اتی ہوں ۔ حریم کمرے سے باہر گئی اس نے کپ میں چائے ڈالی اور اس میں نیند کی دوا مال دی ۔ یہ لو نورے‬
‫چائے پیو ۔ نورے اور حریم دونوں چائے پینے لگی تھوڑی ہی دیر میں حریم کو اس کی باتوں سے محسوس ہوا کہ اس کو نیند ا‬
‫رہی ہے اس نے اس کو بیڈ پر لٹایا اور کہا تم سو جاؤ نورے نیند کی دعا کے اثر سے سو گئی تھی ۔‬
‫تقریبا ‪ 12‬بج چکے تھے نورے اٹھی جس کمرے میں نورے کو ٹھہرایا گیا تھا وہ اس کمرے سے باہر انا پسند نہیں کرتی تھی وہ‬
‫اندر ہی بیٹھی رہی ۔ دروازہ کھٹکا ۔ کون ہے اجاؤ اندر ! بھابھی میں اشعر ہوں اندر ا جاؤں ۔ نورے کے چہرے پر مسکراہٹ ائی‬
‫اور بولی رکو ایک منٹ ۔ نورے میں فورا اپنا حجاب درست کیا اور بولی اجاؤ اشعر اندر ایا اور بوال کیسی ہے میری بڑی بہن‬
‫اور یہ الفاظ نورے کہ دل کو تسکین پہنچانے کے لیے کافی تھے ۔ نورے اشعر کی اس بات پر مسکرا دی اور بولی تمہارے بھائی‬
‫کے لگائے گئے الزاموں کو سہہ رہی ہوں اور پھر اس کی انکھیں دوبارہ نم ہو گئی ۔ بھابھی دیکھیں اپ روئے تو نہ ! بھابھی اپ‬
‫نے بھائی کو فون کرنا تھا فون پر بتانا تھا ۔ کسی انسان کی اٹینشن ( توجہ ) آگر اس کے نا چاہتے ہوئے حاصل کرو تو اس سے‬
‫بہتر ہے کہ اپ اس مانگی ہوئی توجہ کے بغیر ہی رہ لو پھر مانگی ہوئی توجہ سے بہتر تو انسان کی عزت نفس ہوتی ہے نا اور‬
‫پھر اپنی عزت نفس کو اس شخص سے اوپر رکھو جس کے ہوتے ہوئے بھی اپ کو یہ محسوس ہو رہا ہو کہ کوئی بھی نہیں ہے ۔‬
‫بھا بھی ! ایسے نا کہیں ۔ تو کیا کہوں یہ کہ میں بے قصور ہوں؟ کس معاملے میں بے قصور ؟ اشعر نے سوال کیا ۔ تمہارا بھائی‬
‫کہتا ہے کہ میں کسی اجنبی شخص سے ملتی ہوں اس نے مجھ پر الزام لگایا ہے نورے کی انکھوں سے دوبارہ نم ہو چکی تھی‬
‫اتنی بھیگی ہوئی تھی اس کی انکھیں کہ اگر وہ پلک جھپکتی تو انسو دریا کی طرح بہنے لگتا ۔ کیا بھابھی بھائی نے یہ کہا ہے؟‬
‫نورے اگے سے خاموش رہی اور اس کی گال پر ایک موٹا سا انسو گرا اس نے اشعر کی جانب دیکھا ۔ بھابھی ایک بات کہوں ؟‬
‫بولو نورے نے انکھیں صاف کرتے کہا ۔ بھابھی یہ سب بھائی کو کس نے کہا ہوگا اپ جانتی ہیں ؟ جو بھی ہے میں نہیں جانتی‬
‫لیکن تمہیں پتہ ہے تمہارا بھائی دوسری شادی کرنے واال ہے کشف سے اور یہ کہہ کر نورے بے تحاشہ رونے لگی ۔ کیا ؟‬
‫بھابھی ایسے کیسے بھائی نے اپ کو یہ کہہ دیا؟ نورے بے تحاشہ رو رہی تھی اتنا کہ اگر ارزم بھی اس کو اس حالت میں دیکھ‬
‫لیتا تو وہ خود کا ہی گال گھوم دیتا ۔ بھابھی روئے نہیں ابھی اشعر مراد زندہ ہیں ۔ نورے نے ایک نظر اس کی جانب دیکھا وہ‬
‫دوبارہ بوال بھابھی روئے نہیں اپ کے ایک ایک انسو کی قیمت ہر اس انسان کو چکانی پڑے گی جس کی وجہ سے اپ کی‬
‫انکھوں میں انسو ائے ہیں ‪ ،‬بھابھی اگر اپ چاہتی ہیں کہ ارزم بھائی کو اپ کے انسوؤں کی قیمت کم چکانی پڑے تو زیادہ مت‬
‫روئیں نہیں تو ان کو بھی بہت قیمت چکانی پڑے گی اور یہ میں اپ سے وعدہ کرتا ہوں بھابھی جب اشعر مراد مر جائے گا نا تب‬
‫یوں روئیے گا یہ انسو سنبھال کے رکھیے میری بہن ہے اپ اشعر مراد کی اشعر مراد اپ کی ہمیشہ ساتھ ہے ‪ ،‬اس کی اواز میں‬
‫پہلی دفعہ سنجیدگی نورے نے دیکھی تھی‪ ،‬کیا خوبصورت اس نے اپنے الفاظ کا چناؤ کیا تھا جو کہ نورے کو یقین دال رہا تھا کہ‬
‫واقعی اشعر مراد اس کو دل سے بہن کہتا ہے ۔ وہ یہ سب کہتا اٹھ کر اپنے گھر کی جانب جا چکا تھا ‪ ،‬اس کے خوبصورت‬
‫مکھڑے پر نہایت سنجیدگی ظاہر تھی اور وہ گاڑی میں بیٹھا مسلسل اپنے بالوں کو ہاتھ سے ٹھیک کر رہا تھا اور وہ بے حد‬
‫غصے کے عالم میں گھر جا رہا تھا اس کو اپنی حالت کی بھی فکر نہیں تھی اپنی بہن کے انسوؤں کے سامنے ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔‬
‫اشعر گھر نہیں گیا بلکہ وہ شارق سے ملنے گیا ۔ اور خود جا کر بغیر اس سے ہائی فائی کیے جا کر صوفے پر بیٹھ گیا اور سر‬
‫پکڑ لیا ۔ شارق نہ حیرت سے پوچھا کیا ہوا ہے جہاں پر اپنے صوفے پر ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کے بیٹھا تھا فوراً اٹھا اور اس کی‬
‫جانب گیا ۔ میرا دماغ خراب ہو رہا ہے مجھے کچھ عجیب سا ہو رہا ہے مجھے سمجھ نہیں ارہی وہ ہاتھ سے بتا رہا تھا ‪ ،‬میرا دل‬
‫جل رہا ہے یوں لگ رہا ہے کہ اج میرا دل کٹ جائے گا اور اس میں سے خون تیزی سے بہنے لگے گا جو کہ رکے گا نہیں ۔‬
‫کٹ جائے گا تو کوئی نہیں میں مرہم لگاؤں گا شارق بوال ۔ بھائی اپ کو پتہ ہے بھائی اور بھابھی میں اتنی لڑائی چل رہی ہے کہ‬
‫مجھے نہیں لگتا کہ اب وہ دونوں ساتھ رہیں گے میں ان دونوں کے بغیر نہیں رہ سکتا بھائی میں کیا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں‬
‫ا رہی میں میں پاگل ہو جاؤں گا وہ بالکل اپنے اپے سے باہر ہو کے بات کر رہا تھا وہ خود کو بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا اور‬
‫شارق کا اپنا دل اپنے جگر گوشے کو دیکھ کے کپکپانے لگا تھا جس کا دل کبھی کسی کو مارتے وقت نہیں تھما تھا اور اج وہ‬
‫کپکپا رہا تھا ۔ بھائی! بھائی میں جا رہا ہوں میں جا رہا ہوں مجھے کہتا ہے ہربری میں اٹھا اور چال گیا وہ اس لیے گیا تھا کہ کہیں‬
‫اس کی یہ حالت دیکھے کوئی ڈاکٹر کو نہ بال لے اور پھر اس کا راز کھول نہ جائے اور فورا جانے لگا تھا اور بھائی بات سنیں‬
‫پلیز اس دفعہ میرے پیچھے گارڈز کو نہ بھیجنا میں خود چال جاؤں گا اوکے ہللا حافظ ۔۔۔۔۔شارق سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کتنا عقلمند‬
‫ہے اس کو یوں سمجھ لگ گئی تھی کہ میں نے اس کے پیچھے لوگ بھیجے ہیں کہ یہ دھیان سے گھر پہنچ جائے اس کے منع‬
‫کرنے کے باوجود بھی اس کے پیچھے ادمی بھیجے گئے جو کہ اس کو صحیح سالمت گھر پہنچا ائے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب اس‬
‫دن ہم نے اس کو اٹھانا ہے اور گاڑی میں ڈال کے لے جانا ہے‪ ،‬کشف تم نے کہنا ہے کہ تم نے دیکھا ہے کہ وہ بھاگی ہے اور‬
‫پھر ہوگی اصل شطرنج شروع شارق اور کشف اپس میں باتیں کر رہے تھے ۔‬
‫نورے اؤ ہمارے ساتھ کھانا کھا لو امی کہہ رہی ہیں کہ باہر ہی لے اؤ اسے ۔ تم جانتی ہو میرا نہیں دل چاہ رہا ہے پلیز مجھے‬
‫یہاں پہ سکون لینے دو مجھے اپنی یادوں کو یاد کر لینے دو ۔ کون سی یادوں کو یاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ یہی کہ کیوں ارزم نے مجھ سے‬
‫شادی کی اور وہ مجھ پہ اب الزام لگا رہا ہے مجھ سے محبت کے دعوے کرنے لگا تھا تم جانتی ہو جب وہ مجھے سمجھاتا تھا تو‬
‫مجھے اتنا سکون ملتا تھا ۔ کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ جب میں روتی تھی یا میں گھبراتی تھی تو وہ مجھے تھامتا تھا وہ میرا اسرہ تھا‬
‫وہ مجھے یوں بچوں کی طرح سمجھاتا تھا کہ مجھے اس کے سمجھانے پر رشک اتا تھا‪ ،‬میں اس سے سمجھنے کے لیے شاید‬
‫جان بوجھ کے روتی تھی نہیں نہیں ایسا نہیں کر سکتا اس نے مجھ پہ اتنا بڑا الزام لگایا میں اس کو چھوڑوں گی نہیں وہ اس دفعہ‬
‫چیخی تھی ۔ نورے نورے کام ڈاؤن ! امی سن لیں گی میں نے ان کو یہی بتایا ہے کہ تم ویسے ہی ائی ہو ۔ نورے حریم کے ساتھ‬
‫لگ کے رونے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس لیے نہیں رو رہی تھی کہ اس پر الزام لگا ہے وہ اس لیے رو رہی تھی کہ اس کے اپنے‬
‫نے لگایا ہے اور وہ جس سے پیار کرتی ہے وہ کسی نہ کسی طرح اس سے دور ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫اشعر کو اپنے تنہا گھر میں جب کشف اور کنول جا چکی تھی یوں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ گھر اس کو کاٹ کھائے گا ۔ اس کو‬
‫اپنی بھابی اور اپنا بھائی شدید یاد ا رہا تھا اور امی بھی جو کہ اسالم اباد میں تھی فی الحال ۔ وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر جا کر‬
‫کمرے کی الئٹس اف کر کے لیٹ گیا صرف ایک لیمپ جال تھا ۔ بھائی تھپڑ نہ مارے دیکھیں میں نے ائندہ کچھ کروں گا ‪ ،‬امی‬
‫دیکھیں بھائی مار رہے ہیں‪ ،‬صحیح مار رہا ہے ‪ ،‬ہاہاہاہاہا ‪ ،‬بھابھی مجھے بچائیں ‪ ،‬خبردار اگر اپ نے اشعر کو کچھ کہا ‪ ،‬بہت‬
‫مرادوں سے امی کو مال ہوں‪ ،‬چھوٹے غالب ‪ ،‬چھوٹا ڈائناسور‪ ،‬کچھ تو کھا لے‪ ،‬اج تم نے اسے اپنا کھایا تو بہت مار پڑے گی ‪،‬‬
‫بھائی اپ شادی کر رہا ہے مجھے اپ نے بتایا نہیں ‪ ،‬آ تجھے سب کچھ بتاؤں‪ ،‬میں اشعر مراد ہوں‪ ،‬لگتا ہے چہرے پہ تو بلشن‬
‫لگا ہوا ہے تھپڑ کھا کے ‪ ،‬میرا چھوٹا بھائی ‪ ،‬مجھے سیب کھانے ہیں ‪ ،‬مجھے تم سے جہانزیب کی طرح محبت ہے‪ ،‬میں بھائی‬
‫کو مان دیتا ہوں ہنا بھابھی ‪ ،‬میں کاکا ہوں اپ کا ۔۔۔۔۔۔ یہ سب باتیں اشعر کے ذہن میں گھوم رہی تھی کینسر ہوئے کو دو ماہ گزر‬
‫چکے تھے اس نے ابھی تک کسی کو نہیں بتایا تھا اور اب وہ طے کر چکا تھا کہ وہ اپنے بھائی اور بھابھی کو یہ بتائے گا شاید‬
‫اسی سے ہی ان میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے اس نے اپنے بھائی کو کال کی کال دوسری دفعہ اٹھائی گئی‪ .‬بھائی ! نہ سالم نہ دعا‬
‫سیدھا بھائی کیا سکھایا ہے میں نے تمہیں ؟ اس نے اکھڑتے ہوئے سانس سے کہا بھائی جلدی ا جائیں میں میں ٹھیک نہیں ہوں‬
‫گھر میں کوئی نہیں ہے مجھ سے کچھ صبر نہیں ہو رہا اہ اپ جلدی ائے میں میں اور یہ کہتا اشعر بے ہوش ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ارزم‬
‫جو کہ پہلے ہی گھر ا رہا تھا تقریبا گھنٹے کا سفر تھا اس نے کسی کو فون نہیں کیا بلکہ وہ اس نے گاڑی مزید اتنی تیزی سے‬
‫گھماتے ہوا وہ گھر ایا کہ تقریبا ادھے گھنٹے میں وہ گھر تھا‪ ،‬پہنچ کر فورا اس نے اشعر کے کمرے میں جا کر اشعر پر پانی کے‬
‫چھینٹے لگائے تاکہ اس کو ہوش ائے ۔ اہ اہ ۔ اشعر اٹھا ۔ شکر ہے تم ہوش میں دوائی کیا ہوا تھا تو میں تمہارا دماغ خراب ہے تم‬
‫نے اپنی بھابھی کو فون کرنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ساتھ ہی رک گیا یہ کہتا ۔ ب۔ بھائی مجھے اپ کو بھابھی کو کچھ بتانا ہے اس لیے میں‬
‫چاہتا ہوں کہ اپ اور بھابھی اکٹھے ہو جائیں ۔ میں اس سے نہیں ملنا چاہتا ہوں اس نے کڑی اواز میں کہا ۔ بھائی میرے لیے بھی‬
‫نہیں میری حالت پہ کچھ رحم کھائیں میں واقعی کچھ بتانا چاہتا ہوں ۔ تم جانتے ہو اس قابل نہیں ہے ۔ ہے وہ اس قابل اس دفعہ‬
‫اشعر کی اواز تھوڑی اونچی تھی ‪ ،‬بھائی وہ اپ کی بیوی ہے اپ کو یقین نہیں میں کیا کروں لیکن وہ میری بہن ہے مجھے ان کے‬
‫ہزار دفعہ بھی یقین ہے ۔ اتنا یقین ہے تم اپنی بھابی پر اس نے ایک بھنو اٹھاتے پوچھا ۔ جی بھائی مجھے ان پہ اتنا یقین ہے کہ‬
‫اگر ساری دنیا ایک طرف ہوں گے اور کہہ رہی ہوں گے یہ بھابھی غلط ہے لیکن میں پھر بھی ہمیشہ بھابھی کا ساتھ دوں گا میں‬
‫اپ سے یہاں کوئی وال نہیں کر رہا کہ اپ نے بھابھی کے ساتھ کیا کیا اور کیا نہیں ان کو کیا کہا ہے اور کیا نہیں ۔ اپنا لہجہ‬
‫درست کرو اس کے لہجے میں سنجیدگی ظاہر ہوئی ۔ مجھے معاف کیجئے گا بھائی لیکن پلیز مجھے بھابی کو کچھ بتانا ہے اور‬
‫اپ کو میں دونوں کو اکٹھے بتاؤں گا پلیز وہ ہاتھ جوڑنے لگا کے ارزم نے اس کو روکا اور بولے ٹھیک ہے ارزم نے صرف‬
‫اشعر کی حالت کا لحاظ کرتے ہوئے بوال ٹھیک ہے۔ بھائی میں اور اپ حریم کے گھر چلتے ہیں بھابھی حریم کے گھر ہیں ‪ ،‬ہم‬
‫دونوں بھابھی کو یہاں لے کر ائیں گے اور پھر ان کو میں اور اپ کو بتاؤں گا ‪ .‬مجھے ہی بتا دو کیا تم نے عذاب ڈاال ہے یار ۔‬
‫نہیں بھائی ۔ اچھا چلو وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے اور حریم کے گھر پہنچ چکے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔‬
‫نورے اشعر اور ارزم ائے ہیں ۔ تو میں کیا کروں ؟ ارزم بغیر کچھ پوچھے اندر کمرے میں داخل ہو چکا تھا جس کمرے میں‬
‫نورے اور حریم تھی ۔ نورے اشعر نے تم سے بات کرنی ہے اس لیے ایا ہوں اس نے نظر پھیرتے ہوئے کہا ۔ میں یہاں بیٹھی ہوں‬
‫تاکہ وہاں جہاں نظریں ہیں ۔ ارزم نے نورے کی اس بات پر خود پر قابو کیا اور اس کی جانب دیکھا اور بوال گاڑی میں اؤ میں‬
‫تمہیں یہاں لینے نہیں ایا میں صرف اور صرف اشعر کی خاطر ایا ہوں اس نے کوئی بات بتانی ہے اس کی طبیعت بہت خراب ہے‬
‫وہ بے ہوش ہوا تھا جب میں گھر گیا ۔ کیا ؟ گاڑی میں اور میں تمہارا گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں ۔ وہ فورا گاڑی میں پہنچی‬
‫کیونکہ وہ اشعر کو دیکھنے کے لیے تاب ہو رہی تھی کہ وہ ٹھیک ہے یا نہیں ؟ اشعر میں صرف تمہاری وجہ سے ائی ہوں بتاؤ‬
‫کیا ہوا ہے کیا بتانا ہے تم نے ؟ بھابھی بتاتا ہوں صبر کیجئے گھر جا کر لیکن یہاں نہیں ۔ تم نے کہا تھا تم نے بس بات بتانی ہے‬
‫بتاؤ ارزم بوال ۔ بھائی میں نے ضرور کہا تھا لیکن گھر جا کے چاہے اپ بھابھی کو دوبارہ یہاں چھوڑنا ا جانا لیکن بس ایک دفعہ‬
‫میری بات اپ دونوں گھر جا کے سن لیجئے گا ‪ ،‬پلیز بھابھی ۔ حریم اور ارزم کے گھر میں تقریبا ادھے گھنٹے کا فرق تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔‬
‫بھائی مجھے ائس کریم کھانی ہے تقریبا دس منٹ بعد وہ بوال ۔ اشعر اب تم میرا دماغ خراب کر رہے ہو۔ نہیں بھائی میرے پاس‬
‫پیسے ہیں ۔ اشعر !!!! ارزم غصے سے بوال ۔ اچھا نا بھائی غصہ نہ کیجیے مجھے ائس کریم لے دے نا ۔ تم جانتے ہو تم ابھی بے‬
‫ہوش پڑے ہوئے تھے اور اب تم نے ائس کریم کھانی ہے ۔ جی بھائی پلیز دیکھیں میں کوئی دوبارہ بھی ہوش نہ ہو جاؤں پلیز اس‬
‫نے ایکٹنگ کرتے ہوئے ہنستے ہوئے کہا ۔ ارزم بغیر کچھ بولے ائس کریم لینے کے لیے بہت گیا تھا اس نے گاڑی ائس کریم‬
‫شاپ سے تھوڑا پیچھے کھڑا کی تھی اور باہر نکلنے لگا تو اشعر بوال بھائی تین لے کے ائیے گا ؟ روٹی تم سے ایک ہائی نہیں‬
‫جاتی تین ائس کریم کھاؤ گے ؟ نہیں بھائی ہم تینوں کے لیے ایک ایک‪ ،‬اور زم نے خود پر قابو کیا کہ اس وقت اشعر کی طبیعت‬
‫خراب ہے اس لیے ‪ ،‬بھائی مجھے واش روم جانا ہے وہ سامنے واش روم ہے میں نے دیکھا ہے جب ہم اس درخت سے گھوم کے‬
‫ادھر ائے ہیں تب تو میں ادھر سے ہو کر اتا ہوں پلیز میں ابھی اتا ہوں ایک منٹ ۔ اشعر روڈ کراس کر کے جانا پڑے گا ۔ کوئی‬
‫نہیں بھائی میں ابھی چال جاؤں گا دھیان سے جاؤں گا ۔ یار کنٹرول کر لو ۔ نہیں نا بھائی جانے دیں پلیز مجھ سے کنٹرول نہیں ہو‬
‫رہا ۔ اچھا جاؤ لیکن دھیان سے ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ نورے گاڑی میں کیلی بیٹھی تھی جب سے وہ حریم کے گھر سے نکلی تھی اسے یوں‬
‫محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اس کو فالو کر رہا ہے ۔ اشعر واش روم سے باہر ایا اور اس جانب انے لگا تو اس نے دیکھا کہ ان‬
‫کی کار کے پیچھے ایک گاڑی تھی جس میں سے تین لڑکے نکلے اور انہوں نے نورے کو گاڑی سے اتارا ۔ آر ۔ آر ۔ ارزم ۔۔۔۔۔‬
‫وہ ابھی چیک دی کے ساتھ ہی اس کو ایک عجیب سی خوشبو سنگھا کر بے ہوش کر دیا گیا اور دھکیلتے ہوئے اس کو اپنی گاڑی‬
‫میں ڈال کر لے جانے لگے تو اشعر فوراً تیزی سے اگے بھاگنے لگا اپنی بھابھی کو بچانے کے گاڑی کے نیچے وہ ا چکا تھا ‪،‬‬
‫کینسر کی تکلیف کیا کم تھی جو اب ۔۔۔۔۔اس کی ٹکر ایک گاڑی سے ہو گئی اور وہ گاڑی کشف کی تھی اور یہ اشعر دیکھ چکا تھا‬
‫لیکن کشف نہیں جانتی تھی ۔ کشف نے یہ پالن کے مطابق نہیں کیا تھا یہ پالن سے باہر تھا جو کہ اس نے خود سرانجام دیا تھا‬
‫لوگو نے اشعر کو پکڑنا شروع کیا تب تک نورے اغوا ہو چکی تھی ۔ ارزم گاڑی میں ایا تو اس نے دونوں کو نہ پایا وہ باہر نکال‬
‫تو باہر کشف کھڑی تھی وہ بوال تم کس کے ساتھ ائی ہو ؟ وہ میں شاپنگ کرنے گئی ہوئی تھی ‪ ،‬تم جانتے ہو تمہاری بیوی کسی‬
‫کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کے گئی ہے ۔ کیا ؟ ہاں ۔ ابھی وہ دونوں باتیں ہی کر رہے تھے کہ اس کو اشعر کا خیال ایا وہ دوسری‬
‫جانب گیا تو اس نے دیکھا کہ زمین پر اشعر گرا پڑا تھا ۔ ا ا اشعر !!! ارزم کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ چکی تھی اس کو خود پر‬
‫زمین تنگ ہوتی ہوئی نظر ائی یوں لگ رہا تھا کہ اس پر اسمان ٹوٹ چکا ہے وہ اپنے اپ پر قابو نہیں کر پا رہا تھا اشعر !! ارزم‬
‫نے اس کا نام زور زور سے پکاڑا وہ اپنی جان کو یوں زمین پر پڑا دیکھ کر اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھ کر یوں اس پر کیا بیت‬
‫رہی تھی وہ اس کے سوا کوئی نہیں جان سکتا تھا اس کو اپنی گود میں اٹھائے اپنی گاڑی میں ڈاال اور اس کو ہسپتال کی جانب لے‬
‫کر جانے لگا اس کو ایک ہاتھ سے اس نے پکڑا ہوا تھا پیچھے کشف بیٹھ گئی اور وہ کہہ رہا تھا اشعر اشعر انکھیں کھولو انکھیں‬
‫کھولو ۔ اشعر کو فورا ہسپتال کے ا سٹریچر پر ڈاال گیا اور اس کو ایمرجنسی وارڈ میں لے کر گئے ڈاکٹرز ۔ ارزم باہر شدید غصے‬
‫کے عالم میں کشف سے بوال نورے کہاں گئی ہے ؟ مجھے کیا پتہ ہو پتہ نہیں ایک لڑکے کا اس نے ہاتھ پکڑا اور وہ گاڑی میں‬
‫بیٹھ گئی اور ہاں بس مجھے اس کی یہ الفاظ یاد ہیں یعنی میں نے سنے تھے کہ شکر ہے اب ہم جا سکتے ہیں اکیلے ۔۔۔۔۔۔۔ ایک‬
‫طرف اشعر ہسپتال میں تھا اور دوسری جانب نورے۔۔۔۔۔‬
‫کام ہوگیا ؟ ہاں بھائی لیکن ‪ ...‬کیا لیکن ؟ جب یہ سارا معاملہ پیش ا رہا تھا تو ۔ تو ؟ تو اشعر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا وہ گاڑی کے‬
‫نیچے ا گیا اب ہم اس ہاسپٹل میں ہیں ۔ کیا ؟؟ شارق کی تو جیسے اواز ہی بند ہو گئی تھی اس سے بولنا محال ہو گیا اس نے کچھ‬
‫نہیں پوچھا اور نہ کچھ پوچھنے کی اس میں ہمت باقی تھی اس نے گاڑی نکالی اور دوڑاتا ہوا گاڑی کو وہ ہسپتال لے کر پہنچا‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہربڑی میں اندر ایا ہاسپٹل کاؤنٹر سے اس نے اشعر کے متعلق معلومات حاصل کی دوڑتا ہوا اس کی ایمرجنسی وارڈ‬
‫کے باہر گیا جہاں پر ارزم اور کشف کھڑے تھے ۔ ارزم!!!!! شارق نے اواز دی تو اس نے مڑ کے دیکھا وہ رو رہا تھا بلکہ وہ‬
‫دونوں رو رہے تھے وہ دونوں ایک دوسرے کے گلے لگے شارق اپنے جگر گوشے کی وجہ سے پریشان تھا اور ارزم پھر کوئی‬
‫کم محبت نہیں کرتا تھا اس سے ۔۔۔۔۔۔۔ ک ک کیسے ہوا یہ سب؟ شارق کے سوال پر ارزم بوال میں نہیں جانتا میں تو اشعر کی‬
‫خواہش پر ائس کریم لینے گیا تھا ۔۔۔۔پھر؟ پھر کیا اس نے کہا میں نے واش روم جانا ہے تو وہ واش روم کی جانب روڈ کروس کر‬
‫کے گیا تو میں ائس کریم لینے چال گیا اور اس کے بعد وہ نہ جانے ارزم یہ کہتا رک گیا اور رونے لگا ۔۔۔۔۔ ارزم جیسے چھ فٹ‬
‫دو انچ ‪ ،‬ہینڈسم‪ ،‬کام ‪ ،‬ڈیسنٹ بندے کو روتا دیکھ کر کوئی بھی رو سکتا تھا ۔ شارق اپنا سر پکڑ کر چیئر پر بیٹھ گیا اور اس کی‬
‫لمبی عمر کے لیے دعائیں مانگنے لگا۔‬
‫السالم علیکم امی ! ارزم کا لہجہ کافی پریشان اور تیزی کا تھا ۔ وعلیکم السالم کیا ہوا ہے بیٹا؟ اتنی دیر سے کیوں بات کر رہے ہو‬
‫اور اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو ؟ ا ا امی وہ یہ لفظ کہہ کر رونے لگا۔۔۔۔ بے وقوف کیوں رو رہے ہو تم مجھے بتاؤ مجھے‬
‫میرے دل کو کچھ ہو رہا ہے ۔۔۔۔ امی اشعر ۔۔۔۔ کیا ہوا ہے اشعر کو ؟ امی وہ ۔ وہ اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے وہ ہاسپٹل میں ہے‬
‫جلدی اپ ائیں اب اپ کو اسالم اباد سے آنا ہوگا ‪ ،‬میں بالکل اکیال ہوں میں اس وقت کیا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں ارہی ۔ نورے‬
‫کہاں ہے ؟ امی اس لڑکی کا میرے سے اپ نہ ہی پوچھیں تو اچھا ہے میں نہیں چاہتا کہ میں اس کے بارے میں کچھ ایسے الفاظ‬
‫کا انتخاب کروں کہ مجھے خود کو شرم ا جائے ۔ کیا مطلب ؟ امی وہ۔۔۔۔۔ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے !!!! ارزم کشف کی بتائی‬
‫ہوئی کہانی پر یقین کر چکا تھا ۔ ک کیا ؟ ہائے ہللا ایسا نہیں ہو سکتا وہ ایسی تو نہیں تھی ۔ امی ایسا ہی ہوا ہے اور اشعر کو‬
‫ایکسیڈنٹ بھی اس کی وجہ سے ہوا ہے خود تو بھاگ گئی ہے وہ بہت بے وفا بدلحاظ بے خوف زمانے کی فکر نہ کرنے والی کہ‬
‫وہ اس کے بارے میں کیا کہیں گے ایسی لڑکی تھی امی اپ جلدی ا جاؤ بس وہ روتا کہہ رہا تھا ۔ ارزم نے فون بند کیا اور بوال‬
‫ایک دفعہ اشعر ٹھیک ہو جائے نورے تم دنیا کے جس کونے میں بھی ہوگی تمہیں ڈھونڈوں گا‪ ،‬تمہیں تو میں پتال سے بھی ڈھونڈ‬
‫الؤں گا اور پھر تم میرا ڈیول ہرٹ دیکھو گی تمہیں میں نے وارن کیا تھا وہ یہ کہتا اپنا انسو صاف کرتا دوبارہ ایمرجنسی وارڈ‬
‫کے باہر جا کر چکر لگانے لگا ۔ شارق کہاں ہے ؟ ارزم نے سوال کیا تو کشف بولی وہ نماز پڑھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔ کیا ؟؟؟ شارق اور‬
‫نماز؟؟؟ ارزم جانتے تو ہو تم وہ اشعر سے کتنا پیار کرتے ہیں ۔‬
‫یا ہللا میرے جگر گوشے کو میرے پیارے کو میرے دل دالرے کو ‪ ،‬میری جان کو میری سلطنت کے شہزادی کو میرے ہللا‬
‫تندرستی دے دے اس کو میری عمر دے دے ۔۔۔ یا ہللا میں تیرے اگے ہاتھ پھیالتا ہوں تجھ سے مدد چاہتا ہوں ۔ شارق اپنی زندگی‬
‫میں تقریبا ‪ 15‬سال کی عمر کے بعد اب نماز پڑھ رہا تھا صرف اور صرف اشعر کی خاطر‪ ،‬اور سب چاہتے تھے کہ یہ شخص‬
‫نماز نہیں پڑتا یہ دین سے کافی دور ہو چکا ہے ۔ ہللا میرے قتلوں کو بدال مجھے دہی لیکن میری کوئی نیکی سامنے ال دے اب‬
‫میری دعا قبول کر لے یا ہللا معجزے بھی اس دنیا میں ہوتے ہیں جہاں یقین ہوتا ہے وہاں معجزے ہوتے ہیں یا ہللا میری کوئی‬
‫نیکی سامنے ال دے اور اشعر کو ٹھیک کر دے ‪ ،‬۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫کشف نے اس کو یوں گڑگڑاتے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا تو اس کو پہلے تو احساس ندامت ہوا لیکن پھر اس نے اپنا احساس ندامت‬
‫چھپایا اور یوں ظاہر کروایا کہ جیسے نہ کچھ ہوا ہے اور نہ اس نے کچھ کیا ہے وہ اس کو دیکھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ‬
‫کر اس کو تھوڑا سا دالسا دیکھ کر دوبارہ باہر وارڈ کی طرف چلی گئی ۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔‬

‫ایمرجنسی وارڈ سے ڈاکٹر باہر ایا جو کہ بہت ہڑبڑی میں تھا ارزم اور شارق وہاں کھڑے تھے انہوں نے ڈاکٹر کو روکا اور بولے‬
‫‪ ،‬ڈاکٹر صاحب کیا ہوا ہیں کیا وہ ٹھیک ہے ؟ پیشن کی حالت بہت کریٹیکل ہے ۔ ک کیا ؟ ارزم بوال ۔ شارق نے ارزم کے کندھے‬
‫پر ہاتھ رکھا ارزم ڈاکٹر سے بوال ڈاکٹر صاحب کیا یہ ٹھیک ہو جائے گا ؟ بے شک اپ جانتے ہیں مایوسی تو کفر ہے لیکن اپ کو‬
‫ہمیں بتانا چاہیے تھا کہ ان کو کینسر بھی تھا ۔۔۔۔۔۔ کیا ؟ شارق اور ارزم کی زبان سے اکٹھا یہ لفظ ادا ہوا ۔ کیا اپ لوگ نہیں جانتے‬
‫تھے ڈاکٹر نے پوچھا ۔ شارک نے ارزم کی جانب دیکھا اور بوال تمہیں پتہ تھا کیا ۔ ارزم بوال نہیں مجھے نہیں پتہ تھا ارزم کے‬
‫جیسے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل چکی تھی اور شارق کے سر پر تو ایسے کسی نے ٹھنڈا پانی گرا دیا ہو ۔ اپ کے پیشنٹ‬
‫کو کینسر تھا جو کہ تقریبا ابھی نیا ہی ہیں ایک یا ڈیڑھ ماہ گزرا ہے اس کو اگر یہ ریکور کر جائیں ایکسیڈنٹ کو تو کینسر بھی‬
‫انشاءہللا ختم ہو جائے گا بس اپ امید رکھیں ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر یہ کہہ کر چال گیا ۔ شارق اپنا سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا اور رونے لگا‬
‫اشعر !!!! ارزم نے اپنا سر پکڑ اور وہ دوبارہ کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور وہ بھی رونے لگا کشف نے ا کر اپنے بھائی کو زمین‬
‫سے اٹھایا بھائی اٹھے اوپر بیٹھے اس نے اس کا بازو پکڑا اور اس کو اوپر بٹھایا وہ دونوں کہنیاں گھٹنوں پر رکھ کر سر اس کو‬
‫دونوں ہاتھوں سے تھامے ہوئے بس روئے جا رہا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد شارق بوال ارزم میں جانتا ہوں مجھے پتہ چل گیا اس کو کینسر تھا جب میرے پاس اتا تھا تو اس کو گھوٹن محسوس‬
‫ہوتی تھی اس کی طبیعت خراب ہوتی تھی وہ میرے سینے سے لگ کے روتا تھا لیکن وہ مجھے محسوس نہیں کرواتا تھا ۔ ارزم‬
‫نے اس کی بات سنی اور اس نے اپنا منہ زمین کی جانب کر لیا اور اپنے انسو صاف کرنے لگا ۔ شارق اٹھا اور ارزم کے کندھے‬
‫پر ہاتھ رکھا اور بوال فکر نہ کرو ہللا سب ٹھیک کرے گا ۔ کس ہمت کے ساتھ کہہ رہے ہو ارزم بوال ۔ہمت دکھا ہمت مرد بن ۔ وہ‬
‫دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگے ‪ ،‬یہ پہلی مرتبہ تھا ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ہائے ارزم ‪ ،‬ہاۓ ارزم !!!! ارزم کی ماں نادیہ دھڑے مارتے روتے ہوئے ائی اور اپنے ساتھ حنین اور ایک لڑکی بھی لے کر‬
‫ائی ا کر ارزم کے گلے لگی اور بولی بیٹا کیا ہوا ہے یہ کیسے ہوا ہے یہ ؟؟؟ نورے نے کیوں ۔۔۔۔؟؟؟؟ ارزم اپنی امی سے لگ کر‬
‫بہت رویا کیونکہ وہ اگے اپنی دو بہنوں کو کھو چکا تھا اب وہ اشعر کو کھونا نہیں چاہتا تھا اتنی ہی دیر میں کشف اور ارزم کی‬
‫خالہ ا چکی تھی ۔ اس نے اپنی امی کو سیٹ پر بٹھا کر ساری بات بتائی ۔‬

‫ارزم سیٹ سے اٹھا اور بوال امی اپ اب یہاں رہیں اس نے شارق کو کہا شارق تو ممی کا دھیان رکھنا مجھے کام ہے میں ابھی‬
‫اؤں گا تھوڑی دیر میں ۔ بیٹا کہاں جا رہے ہو ؟ ارزم تھوڑا اپنی ماں کے قریب ہوا اور ان کے کان میں بوال اپ کی بے شرم بہو‬
‫کو ڈھونڈنیں !!! کیا لیکن کیوں ناجانے کہاں ہوگی تمہیں اس وقت یہاں ہونا چاہیے ۔ نہیں امی اخر کو اس کے نام کے ساتھ میرا نام‬
‫جرا ہے اور میں اپنے نام کو یوں بدنام اور رسوا نہیں ہونے دوں گا ‪ ،‬میری اور میرے نام کی بے تحاشہ عزت ہے اور اپنی عزت‬
‫کو یوں پیروں تلے روندھ دینے والوں کو اپ جانتی ہے میں نہیں چھوڑتا چاہے وہ میرا جیل کا قیدی ہو یہ میری زندگی کا ہم سفر‬
‫۔۔۔۔۔ وہ یہ سب کہتا ہے اپنی گال سے انسو کو صاف کرتا اٹھا اور چال گیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫حریم کے دروازے کے باہر جا کر کھڑا وہ دروازہ پر جا رہا تھا اور وہ مسلسل غصے میں بجا رہا تھا رک نہیں رہا تھا ۔ کون ہے‬
‫میں ا رہی ہوں صبر کر لے پتہ نہیں کس کو اتنی اگ لگ گئی ہے اج؟ حریم یہ کہتی دروازے تک ائے تو دروازہ کھولتے اس نے‬
‫ارزم کو اپنی جانب دیکھا تو پوچھا کیا ہوا ہے بھائی اپ ایسے دروازے کے بجا رہے تھے اور نورے جنت کہاں ہے ؟ تائی امی‬
‫میں اور حریم ذرا ایک کام جا رہے ہیں ہم ابھی اتے ہیں ارزم نے یہ اواز دروازے پر کھڑے اپنی تائی کو لگائی اور حریم کا ہاتھ‬
‫پکڑ سے اس کی گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی کو سٹارٹ کر دیا تھا ۔ بھائی ہوا کیا ہے ایسے اپ مجھے یہاں کیوں لے کر ائے ہیں ؟‬
‫اور نورے جنت کہاں ہے؟ تمہاری نورے جنت کی تو میں تمہیں بتاتا ہوں حرکتیں!!!! کیا مطلب ؟؟؟ تمہاری جنت بھاگ گئی ہے‬
‫اپنے کسی اوارہ عاشق کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔ کیا ؟؟؟ اس دن نہایت تیور چڑھاتے ہوئے ارزم کی جانب غصے کی نظر سے دیکھا اور‬
‫بولی بھائی اپ کو شرم انی چاہیے اپ اپنی بیوی پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہاں ہیں نورے مجھے بتائیں ؟ جس رات اشعر مجھے‬
‫اور نورے کو کچھ بتانا چاہتا تھا تو میں نوریوں کو لینے جب ایا تھا اس رات اشعر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا وہ اس وقت ہاسپٹل میں ہے‬
‫اس کو کینسر تھا اس نے ہمیں نہیں بتایا تھا ۔ حریم سنگدل تو نہ تھی نہایت ہی خوبصورت دل کی مالک تھی وہ لیکن اس کے ہوش‬
‫و حواس میں صرف فلحال نورے چھائی ہوئی تھی وہ بولی بھائی نورے کہاں ہیں ؟؟ تمہیں ایک دفعہ میں سمجھ نہیں اتی کہہ تو‬
‫رہا ہوں بھاگ گئی ہے وہ اور اشعر کا ایکسیڈنٹ بھی اس کی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارزم نے نہایت غصے سے اپنی بڑی بڑی‬
‫سرخ ہوتی انکھیں کھولتے ہوئے اس کی جانب دیکھا حریم تو جیسے فریز ہو چکی تھی ۔ بھائی مجھے گھورنا بند کریں اور‬
‫مجھے ساری بات بتائیں وہ بہت بے خوفی سے بول رہی تھی ۔ ارزم نے اس کی جانب دیکھا اور اس کو ساری بات بتانا شروع‬
‫کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ب بھائی لیکن اپ کیسے اس پر شک کر سکتے ہیں‪،‬اپ تو اس سے اتنا پیار کرتے ہیں ۔ کرتا تھا !!! ارزم اس کی بات کاٹتے بوال ۔‬
‫اب اپ کیا کریں گے ؟ تمہاری دوست کو اپنا روپ دکھاؤں گا ایسا جس کو دیکھ کر اس کی روح کانپ جائے گی بس ایک بار‬
‫مجھے وہ مل جائے ‪ ،‬قسم سے میں اس کو زندگی سے بیزار کر دوں گا !!! بھائی اتنے بڑے بڑے بول مت بولیے وہ ایسی بالکل‬
‫نہیں ہے میں جانتی ہوں ایک دن اپ پچھتائیں گے ان سب باتوں پہ حریم نے ارزم کی جانب انگلی کرتے ہوئے کہا ۔ ارزم نے اس‬
‫کو مشکوک انداز میں دیکھا اور بوال کیا تم اس کے ساتھ ملی تو نہیں ؟ اور ویسے بھی تم عورتیں تو ایک دوسرے کے دشمن‬
‫خود ہی ہوتی ہو تم کیا ساتھ ملی ہو گی اس نے جواب خود دیا تھا ۔ یہ اپ کیا کہہ رہے ہیں بھائی میں اس کے ساتھ نہیں ملی‬
‫ہوئی ‪ ،‬یاد رکھیے گا اگر عورت عورت کی دشمن ہوتی ہے نا تو یہ سوچیں اگر عورت مرد کی دشمن ہو گئی تو وہ مرد کا کیا‬
‫حال کر سکتی ہے ‪ ،‬اور میں جانتی ہوں وہ کبھی بھی کوئی ایسا کام نہیں کرے گی یعنی بے وفائی ۔ وہ کرے گی نہیں وہ کر‬
‫چکی ہے ارزم سٹیرنگ ویل پر غصے سے ہاتھ مارتا بوال ۔ حریم اج پہلی دفعہ ارزم کا یہ روپ کسی کے لیے دیکھ رہی تھی ۔ ہم‬
‫جا کہاں رہے ہیں ؟ پاتال میں ۔ بھائی میں سیریس ہوں اپ مجھے اس وقت کہاں لے کے جا رہے ہیں اپ جانتے ہی نہیں ہیں کہ‬
‫نورے کہاں ہیں تو اپ مجھے کدھر لے کر جا رہے ہیں اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔ ہم اسی جگہ پر جا رہے ہیں جہاں‬
‫سے وہ بھاگی تھی مجھے شرم اتی ہے اپنے منہ سے یہ کہتے ہوئے کہ میری بیوی بھاگ گئی ہے کسی کے ساتھ اس نے ہاتھ کے‬
‫اشارے سے کہا ۔ ایک دن اپ کو واقعی اس بات پر شرم ائے گی ۔ کیا مطلب ہے تمہارا ؟ سمجھ جائیں گے عقل مند تو اپ ویسے‬
‫بھی بہت ہیں اس نے نظر گھماتے ہوئے کہا ۔ ارزم کی ڈرائیونگ سپیڈ مزید تیز ہو چکی تھی اور وہ اس جگہ پر پہنچے تو اس‬
‫نے زور سے بریک لگائی تو حریم کو کافی برے طریقے سے جھٹکا لگا ‪ ،‬دھیان سے گاڑی چالئیں بھائی کیا ہو گیا ہے اپ کو ؟‬
‫ارزم بغیر کچھ بولے اترا اور وہاں کی چھان بن کرنے لگا لوگوں سے پوچھنے لگا لیکن اس رات والے لوگ کہاں موجود ہونے‬
‫تھے وہاں پر ۔ حریم بھی گاڑی سے اتری وہ بھی ادھر ادھر لوگوں سے دریافت کرنے لگی ۔ لیکن دونوں ناکام ہو چکے تھے اور‬
‫وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ کے تقریبا ً گھنٹے دو کی سر کھپائی کے بعد۔ اب تو ہمیں ملی ہی نہیں نورے اب ہم اس کو کہاں ڈھونڈیں‬
‫گے ؟؟ جو کام وہ سر انجام دے چکی ہے نا جانے میں بے شرم کیوں ہوں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں ؟ بدلے کی اگ میں حریم نے اس‬
‫کی جانب دیکھا اور بولی ۔ ہاں اس کا میں وہ حال کروں گا کہ دنیا اس کو دیکھ کر عبرت حاصل کرے گی ۔ بھائی اتنے بڑے بول‬
‫مت بول رہے ہیں میں اپ کو پھر کہہ رہی ہوں وہ بے قصور ہو گی وہ جہاں بھی ہو گی ‪ ،‬نہ جانے اس کا یہ مقصد نہ ہو وہ کوئی‬
‫اور مقصد کے تحت گئی ہو یا کوئی بھی بھائی کوئی بات ہو سکتی ہے اپ بات کو پوزیٹو کی طرف لے کے جائیں نیگیٹیوٹی کی‬
‫طرف لے کے جا رہے ہیں ؟؟؟ بات اب نیگٹو کی طرف جا چکی ہے اور ایک بار میں جو فیصلہ کر لوں اس سے مڑتا نہیں ہوں‬
‫میں بھی ارزم زاویار ہوں جو کچھ اس کو مجھ سے چاہیے تھا لے لیتی سب کچھ لے لیتی خود بھی چلی جاتی ‪ ،‬یہاں تک کہ میں‬
‫نے نکاح کے دن اس سے پوچھا تھا کہ تم کسی سے شادی کرنا چاہتی ہو تو کر لو یا کوئی تمہیں اپنا سکتا ہے تو اپنا لے کیونکہ‬
‫اس کے بعد میں اس کو یہ اجازت ہرگز نہیں دوں گا کہ وہ میری عزت کی دھجیاں اڑائے اور وہ یہ سب کچھ کر چکی ہے اور‬
‫میرا بھائی اشعر بھی صرف اس کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی یہ ہو ہی نہیں سکتا اس کی وجہ سے کچھ نہیں ہوا ہے اپ بار بار اس‬
‫کو قصور مت ٹھہرائیں ‪ ،‬یاد رکھیے گا تحقیق کے بغیر بات پر سوچنے واال اور اس پر کسی قسم کا عمل کرنے واال بھی جرم میں‬
‫شریک ہوتا ہے ‪ ،‬حریم تپے پن میں اس کی طرف دیکھتے بولی ۔ اپنا لہجہ درست کرو لڑکی اس نے انگلی کرتے اس کو کہا ۔ تو‬
‫اپ بھی اپنا لہجہ ٹھیک کریں میری دوست کے بارے میں ۔ بیوی ہے وہ میری ۔ تو بیویوں کے بارے میں کون یوں بات کرتا ہے‬
‫میرا شوہر ہوتا ہے نا تو ابھی تک تو میں اس سے قتل اپنے ہاتھوں سے کر چکی ہوتی ہے یہ اگر نورے ہے میری جگہ ہوتی تو‬
‫وہ کب کا خون خرابہ کر چکی ہوتی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔‬

‫اب حریم اور ارزم دونوں ہسپتال میں تھے ۔ کہ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر ایا اور بوال اپ کا پیشنٹ نہ زندہ ہے نہ مرا ہے وہ کوما میں‬
‫جا چکا ہے !!!! شارق کا رنگ پھیکا پڑ چکا تھا ۔ بھائی خود کو سنبھالیں ۔ میں کیسے خود کو سنبھالوں وہ زمین پر بیٹھتا بوال‬
‫مجھے لگ رہا ہے جیسے سانس کی نالی سکڑ گئی ہو سانس نہ ا رہا ہو ‪ ،‬جیسے کسی نے سینے پر بھاری بھرکم بوجھ رکھ ڈاال‬
‫ہو ‪ ،‬جیسے دماغ کی نس پھٹنے والی ہو ‪ ،‬جیسے کسی نے شہ رگ پر چھری رکھ ڈالی ہو ۔۔۔۔۔۔ میں کیسے خود کو سنبھالوں میرا‬
‫پیارا جگر گوشہ تو اندر زندگی اور موت کے بیچ میں کہیں لٹکا ہوا ہے اور تم کہہ رہی ہو کہ جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔ ارزم اور حریم یہ‬
‫بات سن کر بالکل فریض ہو چکے تھے حریم نے خود کو سنبھالتے ہوئے ارزم کو بولی بھائی اب دعا کریں دیکھیں وہ کوما میں‬
‫ہے انشاءہللا ٹھیک ہو جائے گا ۔ ارزم نے انسو صاف کرتے ہوئے دونوں انگوٹھوں سے بوال انشاءہللا اور اپنی امی کے پاس سیٹ‬
‫پر بیٹھ کر اپنی امی کو تسلی دینے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔‬
‫جلدی پر اگ کیا جلتی پر پٹرول ڈالنا شارق بہت زیادہ پسند تھا وہ اس صورتحال میں ارزم کے پاس گیا اور بوال تمہاری بیوی کہاں‬
‫ہے وہ کیوں نہیں ائی اسی لمحے اس کی ماں بھی وہاں موجود تھی !!!! وہ اپنی خالہ کے گھر چترال گئی ہوئی ہے ۔ تو اپنی امی‬
‫کو اگر تم اسالم اباد سے بال سکتے ہو تو اس کو کیوں نہیں بال سکتے ؟ اس کو میں نے کہا تھا وہ ا جائے گی ویسے بھی وہاں‬
‫کے سگنل ڈراپ ہو رہے ہیں بات نہیں ہو پا رہی ہے ۔ اس نے ارزم کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر بوال پہلے سوچ لے سگنل ڈراپ‬
‫ہونے کی وجہ سے بات نہیں ہو پا رہی یا وہ ا رہی ہے ۔ ارزم نے اس کی جانب دیکھا اور خاموش ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ہاں وہ کبھی نہیں چاہتی تھی کہ زم کشف سے شادی کرے حریم سارا معاملہ حنین کو بتا رہی تھی کہ ارزم اس کی باتیں سننے‬
‫لگا اور اسی لمحے شارق ارزن کے پیچھے کھڑا تھا ارزم جانتا تھا ۔ اچھا تو وہ نہیں شادی کروانا چاہتی تھی ارزم بھائی کی‬
‫حنین بولی حریم کو ۔ ہاں نا پتہ نہیں یہ بھائی کیا کہانی بتا رہے ہیں مجھے وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ بھاگ گئی ہے لیکن ایسا ہو ہی‬
‫نہیں سکتا ۔ یار پتہ نہیں میں کیا کہہ سکتی ہوں میں تو یہاں رہتی بھی نہیں ہوں ۔ وہ دونوں خاموش ہو کر بیٹھ گئی ارزم اسی‬
‫لمحے فیصلہ کر چکا تھا کہ اب وہ کشف سے شادی کرے گا اور نورے کے مل جانے پر اس کو تڑپائے گا کیونکہ اب ہر وہ کام‬
‫کرنا چاہتا تھا جس سے نورے کو تکلیف ہو کیونکہ اس کو یوں لگتا تھا کہ نورے کی وجہ سے اس کو تکلیف ہو رہی ہے ‪ ،‬اور وہ‬
‫بھی کسی سے کم نہیں تھا ایک ایس پی تھا۔۔۔۔۔‬
‫اس وقت شارق اور ارزم دونوں سیٹ پر بیٹھے تھے کہ ارزم بوال شارق میں کشف سے شادی کرنا چاہتا ہوں !! وجہ ؟ تاکہ تم‬
‫میری بہن کو کسی نئے طریقے سے دوبارہ رسوا کرو ۔ میں نے کہا پہلے تمہاری بہن کو رسوا کیا ہے ؟ ارزم کے اس سوال پر‬
‫شارق بوال جب تم نے میری بہن سے منگنی تھوڑی تھی جانتے ہو لڑکیوں کا معاملہ کتنا حساس ہوتا ہے اور تم یہ بھی جانتے ہو‬
‫کہ وہ میری بہن ہے میری جان سے پیاری بہن ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں لیکن یہ تم بھی جانتے ہو کہ معاملہ اس وقت کیا تھا اور کیا‬
‫نہیں ! تو اب تم چاہتے ہو کہ معاملہ کوئی اور ا جائے اور تم میری بہن کے ساتھ پھر وہی کچھ کر لو ۔۔۔۔۔ ایسی نوبت نہیں ائے گی‬
‫وہ سچی ہے اور میں ہمیشہ سچو کے ساتھ ہوں‪ ،‬بلکہ میں کیا ہللا بھی سچوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ کرتا ہوں کچھ ! شارق کے یہ‬
‫کہنے پر ارزم بوال مجھے شادی جلد کرنی ہے ‪ ..‬دماغ بنے نہیں تو رو ابھی سے جما رہے ہو ہونے والے داماد صاحب ۔۔۔۔ٹھیک‬
‫ہے اج منگل ہے جمعہ والے دن کا ہوگا لیکن صرف نکاح ہی نہیں بلکہ دھوم دھام سے رخصتی ہوگی اخر میری بہن کو بھی دلہن‬
‫بننے کا حق ہے شارق بوال تو ارزم نے ہاں میں سر ہالیا ارزم اور شارق کپڑے اپنی جگہ سے اٹھے اور اپنی اپنی امیوں کو‬
‫بتانے جا چکے ہیں اور وہ دونوں جو فیصلہ کر لیں وہ اٹل فیصلہ ہوتا تھا ۔۔‬
‫کیا؟؟؟ بھائی شادی کیسے کر سکتے ہیں وہ تو نورے جنت سے محبت کرتے تھے نا اور یہ مجھے کچھ سمجھ نہیں ا رہا میں کیا‬
‫کہہ رہی ہوں لیکن اپ اپ مجھے بتائیں یہ بھائی کیسے کیسے کر سکتے ہیں ؟ اپ ان کو روکیں نا یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ حریم‬
‫کو کچھ سمجھ نہیں ا رہا تھا وہ کیا کہہ رہی ہے بس وہ بول رہی تھی جب اس کی تائی نے اس کو بتایا کہ ارزم اپنا فیصلہ کر چکا‬
‫ہے ۔ ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ ارزم ایا اور بوال یہ میرا اٹل فیصلہ ہے اور مجھے میرے فیصلے سے کوئی نہیں ہٹا سکتا ! اپ‬
‫خود ہی ہٹیں گے دیکھ لیں وہ ایک چال باز لڑکی ہے !! زبان سنبھال کر بات کرو حریم اب وہ ہونے والی میری بیوی ہے ۔ اور‬
‫جو ہو چکی ہے اس کا کیا حریم غصے میں بولی وہ صرف نورے کے معاملے میں یہ غصہ کر سکتی تھی لیکن اور کسی‬
‫معاملے میں اس کو غصہ نہیں اتا تھا ‪ ،‬اس کی تائی وہاں کھڑے سارا منظر دیکھ رہی تھی اور باتیں سن رہی تھی ان دونوں کی ۔‬
‫میری ہونے والی بھی اور میری ہو چکی ہیں بہت فرق ہے میری ہو چکی بیوی بھاگ چکی ہے اور میری ہونے والی بیوی مجھ‬
‫سے محبت کرتی ہے یہ ان دونوں میں فرق بتاتا ہے ۔ حریم کی انکھ سے انسو نکلے اور بولی بھائی ایسا نہیں ہے اس دفعہ اس‬
‫کی اواز بے بسی سے بھری ہوئی تھی بھائی وہ ایسا نہیں کر سکتی دیکھیں ایسے اپ کو لگتا ہے وہ کرے گی بھال وہ تو اتنی‬
‫اچھی ہے وہ تو اپ سے اتنا پیار کرنے لگی تھی ۔ ہاں ایسا پیار جو کبھی نظر نہیں ایا! اور ہاں خبردار تم نے میری شادی میں‬
‫رکاوٹ ڈالی تو‪ ،‬میں کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کروں گا میں رکاوٹوں سے رکنے واال نہیں بلکہ رکاوٹوں کے سامنے‬
‫رکاوٹ بن کے کھڑا ہونے واال شخص ہوں وہ انگلی کرتا بوال تھا ۔ خدا کرے اپ کے سامنے رکاوٹ ائے جو خدا بھیجے اور اپ‬
‫اس کے سامنے بے بس ہو جائیں اور اپ سمجھ جائیں کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ؟ اور میری دوست پر الزام لگانا بند کردیں‬
‫وہ یہ کہتی جا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫جتنی دھوم دھام سے شادی کے گھر میں کشف کی شادی کہ شادی انے بجائے جا رہے تھے اتنے ہی افسوس سے ارزم شارق اور‬
‫ارزم کی ماں نادیہ ہسپتال میں تھے ۔ تمہارے گھر پر یوں شادیانے کیوں بج رہے ہیں شادی کے تم میں سمجھ نہیں اتی میرا بیٹا‬
‫یہاں پڑا ہے اور تم کیا کرتے پھر رہے ہو؟ نادیہ کے سوال پر شارق بوال شادی واال گھر ہے کوئی انتظامات کرنے ہوتے ہیں اپ‬
‫کی تو کوئی بیٹی نہیں ہے اپ کو کیا پتہ ہو اور نہ ہی ارزم کی کوئی بہن !!!! وہ یہ کہتا ارزو کی ماں کا دل بند کرنے کے برابر‬
‫تک کر چکا تھا اور جا چکا تھا ۔ بیٹا یہ کیا کہہ کے گیا ہے یہ؟؟ ہم اس دفعہ کریں اپ اس کی باتوں کو اس کی باتوں کو اتنا سوچا‬
‫نہ کریں!! بیٹا کہہ تو صحیح رہا ہے نہ میری بیٹی ہے نہ تمہاری بہن جو ہمیں پتہ ہو لیکن تم اس کی بہن شادی کر رہے ہو ؟ امی‬
‫ہر جو کام جس سے نورے نفرت کرتی تھی یا جس کو ہونے سے وہ روکنا چاہتی تھی میں وہ ہر کام کروں گا اور یہ میری اب‬
‫ضد ہے ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔امی وہ !! کیا وہ ؟ امی حنین کے ساتھ ایک بچی ائی ہے وہ کون ہے ؟ ارزم نے اپنی امی سے سوال کیا ۔‬
‫اچھا اس کا نام گلوریا ہے ۔ کیا ؟ ارزم نے حیرانگی ظاہر کرتے بوال ۔ ہاں بیٹا اس کا نام گلوریا ہے وہ کریسٹن ہے ۔ اچھا لیکن وہ‬
‫یہاں کیا کر رہی ہے اور حنین کے ساتھ؟؟ وہ تعجبی سے پوچھ رہا تھا ۔ بیٹا حنین کا ایک جیٹھ ہے جس نے باہر کے ملک شادی‬
‫کی تھی ۔‬
‫شادی کی تیاریوں اور اشعر کے کوما میں جانے کی صورتحال کے عالوہ بھی نورے کو ڈھونڈنے میں کمی نہیں ائی تھی ‪ ،‬ارزم‬
‫اس کو دن رات ڈھونڈ رہا تھا ‪ ،‬لیکن بدلے کی آگ میں جلتا ہوا ۔ حنین کا شوہر صرف دو بھائی تھا ایک رؤف خود اور اس کا‬
‫بھائی حذیفہ تھا ۔ امی یہ سب تو میں جانتا ہوں حنین میری بہن ہے اور اس کی شادی پر تو میں تھا نا کیا ہو گیا اپ کو میں ویسے‬
‫اس لڑکی کا پوچھ رہا ہوں وہ بچی کون ہے ؟؟ سنو تو صحیح ! جب حذیفہ نے باہر کی ملک شادی کی تو اس کی ایک بیٹی ہوئی‬
‫جو کہ گلوریا ہے اس نے ایک کریسٹن سے شادی کی تھی تو وہ کریسٹن اس کو چھوڑ کر چلی گئی جب تقریبا ً گلوریا ‪ 12‬سال کی‬
‫تھی اب گلوریا ‪ 15‬سال کی ہے تو اب وہ ادھر رہتی تھی اپنی دادی اور حذیفہ کے پاس حذیفہ تو کام پہ چال جاتا تھا تو گلوریا کو‬
‫اس کی دادی نے سنبھاال ہے یہ گلوریا کی دادی جب حنین کی شادی سے تقریبا دو ماہ پہلے فوت ہوئی تھی تب بیچاری کو بہت‬
‫صدمہ لگا تھا وہ کہیں نہیں اتے جاتی تھی اس کی یہ عادت تھی پچھلے تین سالوں سے کہیں انا جانا تو نہیں ہے اس کا اتنا خاص‬
‫کیونکہ کوئی نہیں اس کو اتنا جانتا اور نہ ہی اس کے گھر والے بتانا چاہتے ہیں کہ حذیفہ نے شادی کی تھی ۔ تو کیا اب یہ حنین‬
‫کے ساتھ رہتی ہے حنین کو کوئی مسئلہ نہیں ہے اس سے ؟ بیٹا یہ بیچاری تو اسالم قبول کرنا چاہتی ہے اور حنین کو کیا بھال‬
‫مسئلہ ہوا حنین اچھی خاصی بھولی بھالی بچی ہے ہماری رؤف خود بھی تو باہر چال گیا ہوا ہے نا‪ ،‬گھر میں بس حنین اور گلوریا‬
‫ہی ہوتی ہے ۔ تو یہ اسالم قبول واال کیا سین ہے ؟ بیٹا یہ اپنی دادی سے بڑا پیار کرنے لگ پڑی تھی تو اس کی دادی نے مرتے‬
‫وقت کہا تھا اسالم قبول کر لینا تو اب یہ اس لیے کشمکش میں ہے کہ کرے یا نہ کرے اب دیکھتے ہیں ہللا کرے اس کو ہدایت ا‬
‫جائے ۔ آمین ! وہ یہ سب باتیں کر کے اٹھا اور چال گیا ۔‬
‫اپ اس کو ڈھونڈ کیوں رہے ہیں اپ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے ! حریم اور ارزم گاڑی میں موجود تھے تو حریم بولی‬
‫تھی ۔ ڈھونڈنا میری مجبوری ہے غلطی سے نکاح میں تھی وہ میرے ۔ حریم نے یہ بات سن کر انکھیں گھمائی اور گاڑی سے‬
‫باہر دیکھنے لگی ۔ تم بتاؤ امی میں سارے ہی بلکہ نورے کو غلط ثابت کر رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ نورے غلط ہے تو تم کیوں‬
‫نہیں اس کو غلط کہتی بس کر دو اپنی دوست کی محبت میں اندھی نہ ہو کہ واقعی تم اندھی ہو جاؤ ۔ پہلی بات تو یہ کہ میرے‬
‫قوائد و قوانین کے مطابق جو شخص اکیال رہ جائے اس کے ساتھ چلنا چاہیے کیونکہ وہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے ۔ اور سچا ہمیشہ کیوں‬
‫اکیال رہتا ہے؟ ارزم اس کی بات کاٹتے بوال ۔ سچا ادمی اپنی دلیل پیش نہیں کرتا کیونکہ ہللا اس کی دلیل پیش کرنا جانتا ہے ‪ ،‬اور‬
‫جو لوگ اکیلے رہ جاتے ہیں نا اپ ازما کے دیکھتے ہو ہمیشہ سچے ہوتے ہیں اس نے ارزم کی طرف انگلی کرتے بوال جانتے‬
‫ہیں وہ اتنے سچے کے ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنی ہر بات ہللا سے کرنا جانتے ہوتے ہیں ‪ ،‬اور ہللا سے کون جھوٹ بول سکتا ہے‬
‫چاہ کر بھی نہیں کوئی ایسا کر سکتا ۔ ارزم کے دل پر یہ بات لگی تو ضرور تھی لیکن اس نے اگنور کیا کیونکہ اس کے دل میں‬
‫فلحال یہی تھا کہ نورے بھاگ چکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ارزم نے پولیس آفیسر کی حیثیت سے ہی سب کچھ کیا اس نے اس کو ڈھونڈنے کے‬
‫لیے بے شمار اقدامات اٹھائے لیکن نہ جانے وہ دنیا کے کس کونے میں جا چکی تھی جس کا کوئی اتا پتہ نہ تھا ۔‬
‫وہ اب دوبارہ ہسپتال ا چکا تھا اس کی ماں اور ارزم تو دن رات ہسپتال میں گزارتے تھے ارزم بس نورے کو ڈھونڈنے کے لیے‬
‫چال جاتا تھا ۔ کیا ہوا بیٹا ملی تمہاری بیوی ؟ ارزم نے نفی میں سر ہالیا ۔ تمہاری بیوی ویسے تو بڑے حجاب کر کے رکھتی تھی‬
‫بڑی پردہ دار بننے کی کوشش کرتی تھی کیا نکلی کھودا پہاڑ نکال چوہا والی مثال جو تھی نا وہ تمہاری بیوی پر ہی بنی ہے‬
‫مجھے لگتا ہے بڑی ائی کام تک تو کرنا اتا نہیں تھا کچھ بھی نہیں کہتی تھی میں اس لیے کہ وہ تمہاری بیوی ہے اور تم اسے‬
‫پیار کرتے ہو اور وہ ایک فلحال مجبور لڑکی اور ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے لیکن اس نے ہماری مجبوری کا فائدہ اٹھایا ہمیں‬
‫زمانے بھر میں رسوا کروایا اور میرے بیٹے کو اج اس حالت میں پہنچایا خود بھی کبھی خوش نہیں رہے گی وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارزم کی‬
‫ماں نادیہ یہ کہتے روتے ہوئے وارڈ کی جانب چلی گئی ۔ امی اپ یہ نہیں جانتی کہ اپ جس کو کہہ رہی ہیں کہ وہ کبھی خوش نہ‬
‫رہے اس کی وجہ سے اپ کا بیٹا بھی کبھی خوش نہیں رہے گا ارزم یہ سب کچھ سوچ رہا تھا ‪ ،‬نورے میں تم سے محبت کرتا‬
‫تھا۔۔۔۔۔ تمہیں چاہتا تھا تمہاری انکھوں میں مجھے اپنا جہاں نظر اتا تھا ۔۔۔۔۔۔ تمہیں دیکھ کر مجھے چین اتا تھا۔۔۔۔ تم نے کیا کیا‬
‫میرے ساتھ تم اس قابل ہی نہیں تھی شاید ارزم نے اپنے گال سے انسو صاف کیا ‪ ،‬جان گیا ہوں محبت کے صلے یوں مال کرتے‬
‫ہیں ‪ ،‬اس نے یہ سب سوچتے ہوئے فون اپنی جیب سے نکاال اور کشف کو کال کی ۔ کیسے ہو ؟ دوسری جانب سے اواز ائی تو‬
‫وہ بوال ٹھیک ہوا تمہاری اواز سن کے مزید اچھا ہو گیا ہوں ۔۔۔۔ ہائے واقعی۔۔۔ خیر ہللا کرے اج کیا ہو گیا ہے ‪ ،‬ارزم تم جانتے ہو‬
‫پرسوں ہمارا نکاح ہے ۔ اگر میں نے ہاں کی ہے تو میں جانتا ہی ہوں گا نا ۔ یہ بھی ہے کشف نے مسکرا کر بوال ۔ اچھا مجھے نا‬
‫امی بال رہی ہے میں اتی ہوں کشف نے یہ کہہ کر فون بند کیا ۔ ارزم اشعر کی وادڈ کے ساتھ والی سیٹ پر جا کر شارق کے ساتھ‬
‫بیٹھ گیا جو کہ ہسپتال سے مسلسل ہال ہی نہیں تھا ۔ وہ کوما میں ہے اور میں نکاح کر رہا ہوں ارزم کہ یہ بولنے پر شارق بوال یہ‬
‫یاد رکھنا اگر میری بہن کو کچھ ہوا یا تم نے اس کو رسوا کرنے کی کوشش ذرا بھی کی میں بتا رہا ہوں میں تمہیں نہیں چھوڑوں‬
‫گا ساتھ ساتھ شارق اشعر کے لیے دعا کرتے رو بھی رہا تھا ‪ ،‬جتنی فکر وہ اشعر کی لے رہا تھا اتنی تو اس نے کبھی قتلوں کی‬
‫بھی نہیں لی تھی ‪ ،‬اور فکر کرنے والی بات بھی تھی کیونکہ وہ اس کا جگر گوشہ تھا ۔ فکر نہ کرو میں ایسا کچھ نہیں کروں گا ۔‬
‫دعا کرو کہ اشعر کو ہوش ا جائے ۔ بھائی ہوں میں اس کا مجھے تم سے بھی زیادہ اس کی فکر ہے شارق کی اس بات پر ارزم‬
‫بوال ‪ ،‬دعا میں بہت طاقت ہوتی ہے چلو دعا کرتے ہیں وہ دونوں بیٹھے اس کے لیے دعا کرنے لگے ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔‬
‫تائی اپ گھر چلی جائیں اگلی صبح ہو چکی تھی حریم نے اپنی تائی کو کہا ۔ بیٹا تم کیسی باتیں کر رہی ہو میرا بیٹا یہاں ہسپتال‬
‫میں ہو تم کہہ رہے ہو کہ میں گھر چلی جاؤں ۔ تائی میری بات سنیں اگر اپ نہیں جائیں گے اپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی‬
‫پچھلے تین چار یا اس سے بھی زیادہ دنوں سے اپ یہاں پر موجود ہیں چلیں اپ دیکھیں اپ کو شوگر بھی ہے اپ کو ریسٹ کرنا‬
‫چاہیے اپ جائیں گھر میں نے ڈرائیور باہر کھڑا کیا ہے اپ رات کو ا جائیے گا ٹھیک ہے ابھی دو بجے ہیں اپ اٹھ بجے ا جائے‬
‫گا تھوڑی دیر جا کے سو جائیں ۔ بیٹا رہنے دو میں نے نہیں جانا ۔ تائی دیکھیں ایسے اپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی نا !!!‬
‫چلیں جائیں ۔۔۔۔۔ حریم کی اصرار کرنے پر وہ چلی گئی گھر ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ارزم تقریبا چھ بجے اپنے گھر پہنچا وہ تقریبا چار دن‬
‫بعد گھر ایا تھا وہ کمرے میں گیا اس کو وہی چیزیں نظر ائیں نورے کی پڑی ہوئی اشعر کے کمرے میں گیا تو اس کو وہاں پر‬
‫اس کی یادیں ستانا شروع ہوئیں وہ بھاگتا ہوا اپنی امی کے کمرے کی جانب گیا وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی امی گھر پر ہے اس‬
‫نے جا کر اپنی امی کے کمرے کا دروازہ کھوال اور ان کے دراز میں سے جا کر نیند کی گولیوں والے ڈبے کو منہ سے لگا لیا‪،‬‬
‫ارزم کی ماں واشروم سے باہر ائی تو اس کو دیکھ کر ہکی بکی رہ گئی اور چیختی چالتی اس کے پاس ائی ہائے ہللا ہائے ہللا کیا‬
‫کر رہا ہے تو یہ پاگل ہو گیا ہے تو تیرا دماغ خراب ہو گیا تو خود کشی کر رہا ہے ؟؟؟!!!! امی مجھے مر لینے دے اس نے اپنی‬
‫امی کے ہاتھ سے نیند کی گولیاں پکڑتے ہوئے کہا ۔ تو پاگل ہو گیا ہے تجھے خود کشی کرنی ہے ‪ ،‬ارزم تم جانتے نہیں ہو کہ‬
‫خود کشی حرام ہے !!! میں جانتا ہوں خودکشی حیران ہے میں سانسوں کے جھنجھٹ سے نکلنا چاہتا ہوں خودکشی کر کے ۔ حرام‬
‫ہے یہ !! ۔۔۔۔ زندگی رہے گی تو بڑے موقع ائیں گے کیا پتہ میں کوئی حرام کام کر ڈالوں اچھا ہے نا ایک دفعہ ہی حرام کام کروں‬
‫اپنی زندگی سے جان چھڑواؤں پوری زندگی پڑی ہوگی تو حرام کام بے شمار کرتا رہوں گا ۔۔۔۔۔۔۔ ارز م تم پاگل ہو گئے ہو صرف‬
‫اس نورے کے پیچھے تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے اس کے پیچھے اپنا دین اور دنیا مت خراب کرو میں ہوں میں مر جاؤں گی کہ‬
‫تمہارے لیے میں کافی نہیں ہوں ۔ارزم اپنی امی کے گلے لگا اور وہ کسی دو سالہ بچے کی طرح اپنی ماں کے گلے لگ کر رو‬
‫رہا تھا اور کہہ رہا تھا امی نور نے ایسا کیوں کیا میں اس کو خوش رکھنا چاہتا تھا اس نے میرے ساتھ کیا کیا وہ کیوں بھاگ گئی‬
‫گھر سے میں نے اس کو کیا نہیں دیا اس کو میں نے عزت دی مانتے گھر دیا پیار دیا سب کچھ دیا اس نے میری قدر نہیں ڈالی ۔‬
‫بیٹا فکر نہ کرو میں تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑوں گی اور نہ ہی تمہارا ہللا کا بھی تمہیں تنہا چھوڑے گا اگر تم سچے ہو تو وہ ہللا‬
‫تمہارے ساتھ ہے اور ہاں تمہاری بیوی کو تو ہللا خود ہی پوچھ لے گا جہنم میں جائے گی وہ ‪ ،‬اتنا بڑا گناہ کیا ہے اس نے ۔امی اپ‬
‫اس کے بارے میں یوں برا بھال نہ کہا کریں مجھے بہت برا لگتا ہے ۔ کل تمہاری کشف سے شادی ہے بھول جاؤ اس کو ۔ امی وہ‬
‫میرے حواسوں میں چھائی ہے اپ کہتی ہیں بھول جاؤں دعا کریں میرے لیے کہ میں اس کو بھول جاؤں ۔ انشاءہللا تم اس کو بھول‬
‫جاؤ گے ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔‬

‫ایک اندھیرے کمرے کا دروازہ اچانک سے کھال تھوڑی سی روشنی باہر سے اندر انے پر نورے اٹھی اور ایک دم دیوار کے‬
‫کونے پر جا کر کھڑی ہو گئی ۔ کوئی شخص اندر ایا جس نے کمرے کی باہر سے ہی الئٹ ان کی تھی اور اس شخص کا چہرہ‬
‫دیکھ کر نورے حقکی بقی رہ چکی تھی ۔ تم !!!!!! نورے اس کے چہرے کتنا تاثرات دیکھ کر اپنی انے والی زندگی کا حساب‬
‫لگانے بیٹھ گئی تھی ۔ شارق نے کرسی اگے کی اس پر بیٹھ گیا ‪ ،‬کیسی ہو پیاری ؟؟؟ پہلے تو نورے گھبرائی لیکن وہ بھی کسی‬
‫سے نہ ڈرنے والی تھی اور بولی بکواس بند کرو اپنی خبردار اگر ائندہ تم نے میرے سے یوں بات کی ہوتے کون ہو کیا لگتا ہے‬
‫تم میرے ۔۔۔ شارق اٹھا اور اس نے جا کر اس کے حجاب کو ہاتھ لگانا چاہا تو نورے کا ہاتھ نہ رک سکا تو اس نے ایک زوردار‬
‫تھپڑ اور اس کے منہ پر لگا دیا ۔ شارق نے اپنا ہاتھ اپنی گال پر رکھا اور اس کی جانب طیش سے دیکھنے لگا ‪ ،‬لیکن اس نے‬
‫کوئی قدم نہ اٹھایا وہ اونچی اونچی ہنسنے لگا کمرے میں صرف اس کی اواز گونج رہی تھی نورے کا دل تیزی سے دھک دھک‬
‫کر رہا تھا ۔ بہت ہوا اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا اور بوال تم جانتی ہو ایک بات نہایت سنجیدگی واال لہجہ اپناتے بوال تھا وہ ۔۔۔۔۔۔ اج‬
‫ارزم اور کشف کی شادی ہے !!!!!! ک ک ک ک کیا ؟؟؟ ت ت تم جھوٹ کہہ رہے ہو ارزم ایسا کبھی نہیں کر سکتا اس نے‬
‫مجھے خود کہا تھا کہ میں بے وفائی یوں کروں اور وہ کیسے بے وفائی کر سکتا ہے نہیں نہیں تم جھک کہہ رہے ہو وہ شارق‬
‫کی پہلی حرکت پر تو نہ روئی تھی لیکن اس بات پر وہ زور زور سے رونے لگی نورے کے حلق سے تو اواز نہیں نکل رہی‬
‫تھی اس کا سانس بند ہو رہا تھا اس کو دنیا خود پر تنگ محسوس ہونے لگی ۔ ارے ارے ارے پیاری رو رہی ہے ۔۔۔۔ نورے کو اپنا‬
‫دکھ اتنا تھا اس نے اس کو اگنور کیا اس نے کہا بھونکتا ہے تو بھونکتا رہے اور وہ مصروف تھی رونے میں۔ کیوں کیا ہے تم نے‬
‫میرے ساتھ ایسا کیوں مجھے اغوا کیا ؟؟؟ کیا بگاڑا تھا میں نے تمہارا تمہاری بہنوں جیسے ہی ہوں میں اگر تمہیں ان کی جان‬
‫عزت پیاری ہے تو میری کیوں نہیں؟ تو میری بہن ہو تو نہیں نا !!!! دیکھو مجھے جانے دو نہیں تو ارزم شادی کر لے گا اور‬
‫میں ٹوٹ جاؤں گی ۔ تم نے بھی تو میری بہن کے منگیتر سے شادی کی تھی نا تو مکافات عمل تو ہونا ہی تھا ۔ میں نے کچھ غلط‬
‫نہیں کیا تھا مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا وہ اس دفعہ چال کے بولی ۔ خبردار اپنی اواز نیچے رکھو تمہاری اواز نکلی تو تمہارے‬
‫حلق سے اواز اور جان دونوں نکالتے وقت مجھے زیادہ دیر نہیں لگے گی ‪ ،‬وہ جا کر یہ کہہ کر اپنی کرسی پر دوبارہ بیٹھ گیا‬
‫اور موبائل استعمال کرنے لگا ۔ نورے کمرے میں ایک کونے میں بیٹھی ہوئی تھی وہ جب حریم کے گھر سے ا رہی تھی تو اس‬
‫نے ابایا پہنا ہوا تھا اور حجاب کیا تھا اس کا ابایا اور حجاب ابھی تک خراب نہ ہوا تھا اسے اس بات کا خود پر فخر تھا لیکن ارزم‬
‫کو سوچ سوچ کر اس کی جان نکل رہی تھی ۔ تھوڑی دیر بعد اس نے ہمت کی اور شارق سے سوال کیا ‪ ،‬کیا ارزم واقعی شادی‬
‫کر رہا ہے تمہاری بہن سے ؟ وہ کھڑی ہوتی ہوئی بے بسی سے بولی تھی ۔ ریکس یہ اس کی جانب ایک نظر دیکھا اور دوبارہ‬
‫موبائل کی طرف دیکھتے بوال ہاں تمہیں میری بات کا یقین ہونا چاہیے ‪ ،‬اگر نہیں ہوتا تو بتا دو نا تو میں لے چلوں گا ۔ کہاں ؟‬
‫تمہارے شوہر کی شادی کو لیکن دور سے دیکھ کر اج تک تمہیں پتہ چل جائے کہ ہاں وہ تم سے بے وفائی کرنے لگا ہے ‪،‬‬
‫ریکس نہیں یہ کہتے نظر اٹھا کر نورے کی جانب دیکھا اور طنزیہ مسکرایا تھا ۔ ٹھیک ہے مجھے لے چلو !! شارق نے اس کی‬
‫جانب دیکھو اور کھڑا ہوا اور یقین کرنا چاہ رہا تھا کہ کیا واقعی اپنے شوہر کی شادی پر جا کر اس کو دوبارہ شادی کرتا دیکھ‬
‫سکے گی اور اس سے یہ سب کچھ بوال اس کو ۔ مم دیکھنا چاہتی ہوں میں دیکھ لوں گی۔ اچھا ویسے تمہیں میں دکھا تو دوں لیکن‬
‫مجھے اس میں کیا فائدہ ہوگا وہ اس کی جانب بڑھتا بوال ۔دور رہ کر مجھ سے بات نہیں ہوتی کہ تم سے !!! نورے غصے سے‬
‫غرائی تھی ۔ تم جانتے ہو تمہاری ان حرکتوں پر میں تمہیں اج کچھ کہہ کیوں نہیں رہا‪ ،‬نورے اس کی جانی اپنی بڑی بڑی انکھیں‬
‫کھول کر دیکھنے لگی ۔ کیونکہ اج تمہاری تباہی اور بربادی کا دن ہے جب تم اپنے شوہر کو میری بہن سے شادی کرتا دیکھو گی‬
‫نا تو تمہیں تو تکلیف ہوگی اور مجھے چین ائے گا یہ یاد رکھنا میں ہمیشہ وہ کرتا ہوں کہ میرا دل چاہتا ہے تم نے مجھے تھپڑ‬
‫مارا تھا یاد رکھنا اس تھپڑ کی وجہ سے تمہیں تب تک تڑپاؤں گا جب تک میرا دل چاہے گا اخر کو میرے قبضے میں ہوتے ہیں‬
‫وہ ہنسا ۔ فون بجا تو شارق نے فون اٹھایا اور بوال ہاں بولو کشف ! بھائی اب ابھی تک ائے نہیں میں تیار ہوں بالکل پالر میں ۔ رکو‬
‫میں ڈرائیور کو بھیج رہا ہوں ۔ بھائی اپ کب تک ائیں گے لیٹ تو نہیں ہو جائیں گے نا ؟ ن نہیں میری بہن کی شادی ہے بال میں‬
‫لیٹ ہو سکتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔‬

‫اس نے پہلے اپنا منہ ہاتھ دھویا بے دلی سے اس نے شیروانی پہنی پھر وہ اپنےکھوسوں میں پاؤں ڈالنے لگا اسے ہر وقت ہر لمحہ‬
‫یہ سب کرتے ہوئے صرف اور صرف اشعر اور نورے کی یاد ا رہی تھی ‪ ،‬اس کا دل بھیگا ہوا تھا ‪ ،‬نورے بے وفائی اتنی اسان‬
‫تو نہیں ہوتی تم نے کیسے کر لی مجھ سے تو نہیں ہو رہی ہے کیسے کروں گا میں مجھے سکھاتی ہی جاتی تم اپنے بغیر جینے‬
‫کا ہنر بھی سکھا دیتی ہوں کیسے رہوں گا میں کیسے ؟ سوچتے ہوئے اس گالوں پر ایک انسو گرا پھر دو پھر تین لیکن اس نے‬
‫پیاسو صاف کے ضبط کیے اور جا کر شادی ہال میں سٹیج پر جا کر بیٹھ گیا ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔کشف ہال میں انٹر ہوئی اس نے اپنا‬
‫بھاری سے لہنگا پہنا ہوا تھا وہ خوبصورت تو لگ رہی تھی لیکن ارزم کو شاید نہیں ۔ اور ہم نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کو سٹیج‬
‫پر بٹھایا اور اب وہ دونوں سٹیج پر بیٹھے تھے سب لوگ ہسپتال سے ہال میں تھے صرف شادی کے لیے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نورے جو کہ شارق کے ساتھ صرف اس کو ایک نظر دیکھنے ائی تھی کہ کیا یہ واقعی بے وفائی کر رہا ہے اس نے جا کر سب‬
‫سے پہلے دیکھا تو ارزم اور کشف سٹیج پر بیٹھے تھے وہ اگے بڑھ کر اس کو روکنے جانے لگی تو شارق نے اس کا ہاتھ پکڑا‬
‫اور اپنے برے اور بھاری ہاتھ کا زوردار تھپڑ اپنی پوری قوت سے نورے کے منہ پر مارا اور اس کو لے کر گاڑی میں دوبارہ‬
‫اسی جگہ پہنچا۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ کیا لگتا ہے تمہیں کہ میں اپنی بہن کا گھر خراب کرنے کے لیے تمہیں لے کر گیا تھا تو اس قابل ہی‬
‫نہیں ہو ۔۔۔۔۔۔ وہ تقریبا شام کے سات بجے کے وقت اس جگہ کے الئٹس اف کر گیا تھا اور نورے اندھیرے میں بیٹھی ہوئی تھی ۔‬
‫ارزم اور کشف نکاح خواں کے انتظار میں تھے کہ ارزم کو اس ہسپتال سے کال ائی جہاں پر اشعر موجود تھا ۔ ہیلو جی ؟؟؟ آپ‬
‫ارزم ہے ؟ فون کی دوسری جانب سے اواز ائی ۔ جی جی میں ہی ہوں ۔ اپ کے پیشنٹ اشعر کو ہوش ا رہا ہے وہ بار بار اپ کا‬
‫نام لے رہے ہیں اور نورے کا نام لے رہے ہیں بھابھی وغیرہ کہہ رہے ہا اپ جلدی پہنچے وہ کوما سے اٹھ رہے ہیں یہ نہ ہو کہ‬
‫دوبارہ کوما میں نہ چال جائے اور اس بار کا کوما بے تحاشہ خطرناک ہو سکتا ہے اب جلدی ائیے آپ ۔ شارق کے قریب جا کر‬
‫ارزم نے یہ ساری بات اس کو بتائی اور بوال یار میں ابھی اتا ہوں ۔ شارق بھی کیا کرتا وہ بھی بلکہ اشعر کے پاس گیا وہاں سب‬
‫کو پتہ چل چکا تھا کہ عشر کو ہوش ا رہا ہے سب ہاسپٹل میں پہنچتے اس سے پہلے ہی ارزم نے سب کو منع کر دیا تھا ۔ ارزم‬
‫دوڑتا ہوا اشعر کی وارڈ کی جانب گیا اندر داخل ہوا اور جا کر اس نے اشعر کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ اشعر اشعر !!! اور اس کا نام لے کر‬
‫اس کو پکارنے لگا ۔ اشعر کو اپنی بھائی کی اواز پر دوبارہ تھوڑی ہو چاہے وہ بولنا بھائی میری بس ایک بات سن لیں ۔۔۔۔۔ کیا ؟؟؟‬
‫بولو میرا سوہنا ۔۔۔ ارزم اس کو بچوں کی طرح ٹویٹ کر کے بات کر رہا تھا ۔ ب بھائی وہ وہ تھوڑا تھوڑا اس کا سانس اکھڑ رہا‬
‫تھا ‪ ،‬بھائی نورے بھابھی مل گئی ؟؟ اشعر یہ سونا اپ ان سب کو چھوڑو اپ مجھے بتاؤ اپ نے مجھ سے بات کیا کرنی ہے اس‬
‫نے اس کے گال پر اپنا ہاتھ رکھ کے نرمی سے تھپتھپاتے ہوئے کہا ۔ ب بھابھی اغوا ہوئی ہوئی ہیں اپ جانتے ہیں !!! کیا ؟؟ ارزم‬
‫نے اس کی جانب تعجبی اور حیرانی کی نظروں سے دیکھا ۔ ہاں بھائی میں سچ کہہ رہا ہوں جب اپ میں میرے لیے ائس کریم‬
‫لینے گئے تھے تو میں ا رہا تھا واش روم سے واپس تو وہاں سے کچھ لوگ بھابھی کو پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے گاڑی میں ڈال کر‬
‫لے کر جا رہے تھے تو تو وہ نا میں ان کو بچانے کے لیے اگے اگے ہوا تو مجھے نا کسی نے اپنی گاڑی کے نیچے دے دیا تھا ۔‬
‫کیا ؟ کیا نورے بھاگی نہیں ؟؟؟ ارزم اپنی حیرت سے اس سے پوچھا کیونکہ ارزم خود تو وہاں موجود نہ تھا وہ تو کشف کی بات‬
‫پر ہی یقین کر رہا تھا ۔ ہاں بھائی یہی بات سچ ہے ۔ بھائی یہ سچ ہے تو میرے پاس ویڈیوز پڑی ہوئی ہیں جس میں تمہاری بھابھی‬
‫کسی سے ملنے جاتی تھی ۔ اشعر نرمی سے کہا بھائی دکھائیں وہ ویڈیو ایسے نہیں ہو سکتا کہ بھابھی ایسا کبھی کچھ کریں وہ تو‬
‫کبھی گھر سے باہر ہی نہیں گئی تھی ۔ تمہیں میری بات کا یقین نہیں ا رہا نا تو رکھو میں تو میں ابھی دکھاتا ہوں اس نے اپنی‬
‫جیب سے موبائل نکاال اور ویڈیو ان کر کے اشعر کی جانب کی اور اشعر نے وہ ویڈیو دیکھی اور وہ بوال بھائی !!!!! ہاں ۔ ب‬
‫بھائی یہ تو جو لڑکا ہے نا یہ میں ہوں !!! ک کیا ؟؟؟؟ آر یو میڈ کیا کہہ رہے ہو ؟ ارزم کے پاؤں کے نیچے سے تو زمین نکل‬
‫چکی تھی ۔ بھائی یہ دیکھیں یہ میری گاڑی میں میں اور بھابھی گئے تھے حریم کے گھر اور یہ دوسری ویڈیو جو ہے اس میں تو‬
‫میں اور وہاں بھی ڈاکٹر کے پاس گئے تھے جب ان کا ہاتھ چال تھا ‪ ،‬اپ کو یہ سب ویڈیوز کس نے بھیجی؟ وہ اپنے خیالوں میں‬
‫کھویا ہوا تھا اس نے اشعر کی بات نہیں سنی ۔ بھائی !! اشعر کہ دوبارہ بالنے پر اس کے بھائی نے اس کی طرف دیکھا اور بوال‬
‫ہاں ہاں بولو ۔ یہ ویڈیوز اپ کو کس نے بھیجی ہے؟؟ یہ یہ تو مجھے کشف نے بھیجی تھی ادھر رہنے ائی ہوئی تھی ۔ بھائی اگر‬
‫میں اپ کو مزید بھی بہت کچھ بتاؤں نا تو اپ جہاں جائیں گے کہ یہ واقعی کشف کی چال تھی بھائی اپ پھنس کے جال میں کہ اپ‬
‫یہی سمجھتے ہو کہ بھابھی بھاگ گئی ہیں ؟؟ ہاں ‪ ،‬نہیں ‪ ،‬نہیں ہاں ۔۔۔۔۔۔ ارزم کی اواز کپکپا رہی تھی اس کو کچھ سمجھ نہ ارہا تھا‬
‫۔ ابھی وہاں پر پہلے ارزم ہی پہنچا تھا ہسپتال شارق بھی پہنچ گیا اور فورا وارڈ میں داخل ہوا ان دونوں نے اپس میں باتیں ختم کی‬
‫اور شارق نے اس کی طرف روتے ہوئے دیکھا تو اشعر بوال بھائی رو کیوں رہے ہیں ریکس روتے اچھے نہیں لگتے اس نے‬
‫مسکرا کر کہا اس نے ہمیشہ کی طرح اپنے بھائی سے ہائی فائی کیا اور شارق نے اس کو گلے لگایا زور سے ۔ شکر ہے تم ہوش‬
‫میں آگئے شکر ہے تم جانتے ہو کیا حال ہے ہماری ؟؟؟ بھائی اپ کی دعاؤں سے اگے ہمیں ہوش میں اب اپ کو رونے کی کوئی‬
‫ضرورت نہیں ہے ! میری مکھن کی پڑیا ہو تم ۔ اشعر اس کی یہ بات سن کر مسکرایا۔ کینسر تھا تمہیں تم نے کسی کو بتایا کیوں‬
‫نہیں ؟؟ شارق کا لہجہ اس دفعہ خفا خفا اور سنجیدہ تھا ۔ بھائی میں اپ لوگوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ تو اب کیا ہم پریشان‬
‫نہیں ہو رہے ہا ہوۓ نہیں ہے ؟ اور انشاءہللا جلدی چھٹکاڑا حاصل کر لوں گا۔ ارزم وہی کھڑا زمین کی جانب دیکھ رہا تھا اور‬
‫زمین بوس ہونے کا سوچ رہا تھا کہ اس نے کیا کیا اس کشف نے کہنے پر نہ کوئی تحقیق کی نہ کچھ اور حریم کہتی رہی کہ‬
‫نورے سچی ہے لیکن میں نہ مانا ۔ ارزم ! شارق کہ اواز دینے پر وہ مڑا اور اس کی جانب دیکھا ۔ چلو پہلے نکاح کر اتے ہیں۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔ کس کا نکاح ؟ اشعر نے سوالیہ انداز میں پوچھا تو شارق بوال کشف کا اور ارزم کا۔۔۔۔ اشعر یہ سب کچھ سن کر چپ رہ گیا‬
‫اور اس نے نظر ایک اپنے بھائی کو دیکھا ۔ بچے اپ ہمارے ساتھ نہیں اؤ گے ؟ نہیں شارک بھائی مجھے حنین چاچی یہاں بٹھا‬
‫کے گئی ہیں میں یہیں پر ٹھیک ہوں گلوریاں نے عام الفاظ کا چناؤ کرتے ہوئے کہا ۔ ہاں چلو ‪ ،‬ارزم بوال ۔ شارق کمرے سے باہر‬
‫کی جانب گیا تو اشعر بوال بھائی ؟؟؟ ارزم نے بغیر کچھ کہے ہاں میں سر ہالیا اور چال گیا ۔‬
‫وہ دونوں اپنی اپنی گاڑی میں جانے لگے ۔ وہ دونوں وہاں پہنچے ‪ ،‬شارق اندر گیا اور اپنی بہن کے پاس بیٹھا ‪ ،‬ارزم اپنی گاڑی‬
‫روک کر پارک کر کر اندر ایا تھا تو اس کو اپنے جوتے کے نیچے کچھ محسوس ہوا اس نے پیچھے ہٹ کر نیچے جھک کر اس‬
‫کو پکڑا تو وہ نورے کی ناک کی لونگ تھی جو کہ سونے کی تھی اور اس پہ چار چھوٹے ہیرے لگے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ نورے‬
‫یہاں ائی تھی ‪ ،‬نورے تم ائی تھی تم میری طرف تو اتی ہے تم کہاں چلی گئی تھی‪ ،‬یعنی کہ نورے کو یہ پتہ ہے کہ میں بے و‬
‫فائی کر چکا ہوں نورے تم یہاں ائی تھی ہاۓ میرے خدایا اس نے اپنا سر پکڑتے ہوئے کہا اس کو جیسے سب دھندال دھندال نظر ا‬
‫رہا تھا ۔ وہ فورا اندر گیا ‪ ،‬اندر جا کر سٹیج کے سامنے کھڑا ہوا اور بوال سارے میری طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔۔ کین ایوری ون از‬
‫لسننگ می ( کیا سب مجھے سن رہے ہیں ) ۔ ایک مجمع جمع ہونا شروع ہوا سب خاموش تھے اور اس کو دیکھ رہے تھے ۔ شارق‬
‫جو کہ کشف کے ساتھ بیٹھا تھا کھڑا ہوا اور کشف بھی اپنا بھاری لہنگہ پکڑتے کھڑی ہوئی کنول بھی وہاں بیٹھی تھی وہ بھی اس‬
‫مجمع میں جا کر کھڑی ہوئی ۔ میں اپ سب کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں یہ نکاح ہرگز نہیں کروں گا !!!! کشف کا‬
‫دل بند ہونے کے برابر تھا وہ فوراً بیٹھ گئی اور رونے لگی ۔۔۔۔ کمینے تیری ہمت کیسی ہوئی میری بہن کے ساتھ یہ سب کچھ‬
‫کرنے کا میں تجھے کہا تھا کہ اگر تو نے اسے رسوا کیا تو تجھے چھوڑوں گا نہیں میں تجھے تباہ کر دوں گا شارق اگے بڑھتا‬
‫ہوا اس کے گلے کو پکڑتے ہوئے اونچی اواز میں دھاڑا تھا ‪ ،‬تو جانتا نہیں ہے رویل ریکس کے نام سے دنیا ڈرتی ہے ۔ ڈرتی ہو‬
‫گی لیکن میں نہیں ڈرتا ارزم نے اس کا ہاتھ اپنے گریبان سے چھڑواتے ہوئے کہا ۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ ارزم کی ماں نادیہ‬
‫آگے ہوئی ۔ امی یہ جو کشف ہے ارزم نے اس کی جانب انگلی کرتے بوال اس نے نورے پر جھوٹا الزام لگایا کہ وہ بھاگی ہے‬
‫بلکہ اب اشعر کو ہوش ایا ہے اس نے بتایا ہے نہیں بھائی وہ اغوا ہوئی تھی میں اس کو بچانے کے اگے گیا تو میرا ایکسیڈنٹ ہو‬
‫گیا ۔ کیا ؟ سب نے یہ بات سن کر حیرت سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیے ۔ میں اس جیسی گھٹیا لڑکی سے کبھی شادی نہیں کروں‬
‫گا ۔ شارق نے اس کی یہ بات سن کر اس کے منہ پر ایک زوردار مکہ مارا جس کے جواب پر ارزم بھی چپ نہ رہا بلکہ اس نے‬
‫بھی ایک کراری ٹانگ اس کے سینے پر ہماری جس سے وہ پیچھے ہٹا اور نیچے گرنے سے بچ گیا تھا ‪ ،‬وہ کہاں رکنے واال تھا‬
‫وہ اگے ہوا اس نے ارزم کے منہ پر تھپڑ مارنا چاہا لیکن ارزم اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بوال یاد رکھنا میں تمہارا حشر کر دوں گا‬
‫اب ۔ ریکس بھی کسی سے کم تھوڑی تھا اس نے اپنے دوسرے ہاتھ سے گھماتے ہوئے اس کی کمر پر زوردار مکہ مارا جس‬
‫سے ارزم کو زوردار کھانسی چھڑ چکی تھی اور ریکس بوال یہ یاد رکھنا مجھے کچھ بھی کہتے رہو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا‬
‫میں بہت برا ہوں بات ختم میں اب تمہارا جینا یوں حرام کروں گا کہ تم تڑپ جاؤ گے شارق دا ریکس یہ کہتا اپنی بہن کا ہاتھ‬
‫پکڑتے ہوئے اس کو گھر کی جانے لے کر جا چکا تھا ۔‬
‫اشعر تھوڑا سا مزید بہتر فیل کرنے پر اپنے بیڈ پر اٹھ کر ہلکا سا ٹیک لگا کر بیٹھا اس نے سامنے گلوریا کو دیکھا تو وہ بوال اپ‬
‫کون ہو ؟ اشعر نے جاننا چاہا ۔ میں گلوریا ہوں ! اس نے جوابا ً کہا ۔ گلوڑیا کیا اپ کریسٹن ہو ؟ گلوریا نے اس کی جانب ایک‬
‫نظر اٹھا کے دیکھا اور نیچے وہ کرتے بولی جی ۔ ائی ایم سوری اگر اپ کو میرا اپ سے یہ پوچھنا برا لگا ہو اشعر نے کہا ۔‬
‫نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ ویسے ایک بات بتاؤ اپ کون ہو اور اپ میرے روم میں کیا کر رہی ہو ؟ بھائی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وہ اپنا سارا قصہ اس کو سنانے لگی ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔‬
‫اچھا تو یہ بات ہے اشعر نے یہ سب بات سن کر کہا ۔ جی ۔ گلوریا ایک بات بتاؤ کیا اپ واقعی اسالم قبول کرنا چاہتی ہو وہ نہایت‬
‫نرمی سے بات کر رہا تھا ؟ جی میں کرنا تو چاہتی ہوں لیکن میں سمجھ نہیں پاتی مجھے عجیب لگتا ہے یعنی دیکھیں کسی مذہب‬
‫سے نئے مذہب میں جانا کافی عجیب ہے اس مذہب کو سمجھنا پھر اور اگر اپ نہ سمجھ پاؤ یا کچھ بھی وہ اپنے دوپٹے کو‬
‫مروڑتے بولی جیسے وہ ہچکچا رہی ہو ۔ میری بات سنو! اسالم یہ نہیں کہ میرا دین ہے اس لیے میں اپ کو کہہ رہا ہوں اپ میری‬
‫بات سنو اسالم واقعی خوبصورت مذہب ہے کیونکہ یہ سب کے ساتھ اچھا پیش انے کو کہتا ہے خوش اخالقی سب سے بڑھ کر‬
‫اسالم میں ہے میری بات سنو اپ یہ فکر نہ کرو کہ اپ کیسے سب سمجھو کہ کیسے نہیں سمجھو گی یہ بتاؤ اپ کا دل چاہتا ہے‬
‫مسلمان ہونے کا ‪ ،‬باقی سیکھنا سکھانا تو الگ بات ہے وہ دوسرے نمبر پہ اتا ہے پہلے اپ کا مسلمان ہونا اتا ہے ۔ میں مسلمان ہونا‬
‫چاہتی ہوں بھائی ۔ تو اگر اپ باقی ہی چاہتی ہو یعنی کہ اپ بڑی ہو اپ نے مجھے بتایا ‪ 15‬سال کی ہو ایک ‪ 15‬سال کا بچہ اپنا‬
‫فیصلہ خود کر سکتا ہے بالغ ہے وہ تو اپ مجھے بتاؤ اپ اسالم قبول کرنا چاہو گی ۔ لیکن مجھے تو کچھ بھی نہیں پتہ اسالم کے‬
‫بارے میں مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ اسالم میں کنورٹ کیسے ہوتے ہیں یعنی کہ کیسے اس کے دائرہ کار میں اتے ہیں مجھے لگتا‬
‫ہے کہ مجھ سے نہیں ہو پائے گا ۔ اشعر سب سے اتنی ہی پیار اور ارام سے بات کرتا تھا کہ تاکہ اگال بندہ اس کو اپنی ساری بات‬
‫ارام سے بتا دے اور یہی اس کی خاصیت تھی ۔ اپ بتاؤ اپ اسالم قبول کر کے ہللا تعالی کا فیورٹ بندہ بن کر جنت میں نہیں جانا‬
‫چاہو گی لوگوں میں بھی نہیں فیمس ہونا چاہو گے کہ دیکھو یہ کتنا اچھا بچہ ہے اس نے اسالم قبول کیا فیمس کی بات چھوڑو بلکہ‬
‫ہللا تعالی کے نزدیک نہیں فیمس ہو گئی یا اپ صلی ہللا علیہ والہ وسلم ہمارے اخری نبی کے نزدیک ‪ ،‬دیکھو دین اسالم بہت‬
‫خوبصورت تھا بہت زیادہ ‪ ،‬دیکھو اب جو ہوتے ہیں ہندو ان سے میں پوچھوں یار تمہیں تمہارے خدا جو ہیں یعنی کہ تمہارے جو‬
‫بت ہیں وہ تمہیں دن میں کتنی دفعہ بالتے ہیں تو وہ اگے سے کہتا ہے جی مجھے تو وہ بالتے ہی نہیں میں تو خود جاتا ہوں جا‬
‫کے وہاں گھنٹی بجاتا ہوں کہ میں ا گیا ہوں جی لیکن دیکھو میرا دن کتنا پیارا ہے میرا خدا کہتا ہے کہ اؤ بھائی الفالح کامیاب بھی‬
‫کی طرف اؤ ہر نماز میں ہر اذان میں پانچ دفعہ پانچ دفعہ وہ کہتا ہے کہ اؤ میری طرف ۔ گلوریا اس کی باتوں کو سننے لگی اور‬
‫بولی کیا اسالم میں ہم ہللا تعالی سے باتیں کر سکتے ہیں؟ اشعر مسکرایا کہ وہ مزید جاننا چاہ رہی ہے وہ بوال کیوں نہیں ! اچھا‬
‫لیکن وہ کیسے ؟؟ ایسے کہ دیکھو اپنے ہللا سے جب ہم پیار کریں گے ان سے باتیں کریں گے یعنی کہ دین اسالم میں ہمارا جو‬
‫خدا ہے وہ ہللا تعالی ہے اس سے بات کرنا چاہیں اگر ہم تو سب سے بہترین حل ہے نماز پڑھو ھو یعنی کہ نماز سے اپ ہللا سے‬
‫بات کر سکتے ہو نماز کے ذریعے اور اگر اپ چاہتے ہو کہ ہللا اپ سے باتیں کرے دین اسالم کو خدا رب واحد یکتا اپ سے بات‬
‫کرے تو اپ قران پڑھو ہللا تم سے باتیں کرے گا اس میں ۔ اچھا ؟؟ کیا اپ مجھے تھوڑا اور بتائیں گے ؟ وہ مکھن کی پوریا تھا‬
‫وہ ہر کسی سے نہایت ننھی پیار اور سلیقے سے بات کرتا تھا اور اس کو اپنی طرف مائل کر لیتا تھا وہ بوال کیوں نہیں میں تمہیں‬
‫بہت کچھ بتا سکتا ہوں اگر اپ جاننا چاہو تو ! ضرور گلوریا بولی ۔ دیکھو گلوریا اسالم کو جتنا دبایا جاتا ہے نا وہ اتنا اٹھتا ہے‬
‫یعنی کہ اسالم میں جتنی بھی جنگیں ہوئی تو ہمیشہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی ‪ ،‬کم نہیں بلکہ کم ترین تھی لیکن پھر بھی مسلمان‬
‫نو کی جیت گئی کیونکہ ان کا ہللا تعالی پر یقین اور ایمان بہت پختہ تھا اشعر یہ سب باتیں اپنی بیماری کے بیچ میں اس سے کر‬
‫رہا تھا اور اس کو سکون مل رہا تھا ‪ ،‬اس نے اپنی طاقت کھوئی نہ تھی کینسر کے باوجود بہت لوگ کینسر کو سن کر اپنے اپ‬
‫کو نڈھال کر لیتے ہیں لیکن اس نے اپنے اپ کو اپنے رب سے جوڑنے کے لیے گلوریا کو اسالم کی طرف النے کی کوشش کی‬
‫تھی ۔ دیکھو اپ ایک کریسٹن ہو ابھی اپ کو پتہ ہوگا کہ انگریز ترقی قران سے کر سکتے ہیں یعنی کہ بہت سے مریض ہیں جو‬
‫قران پڑھتے ہیں اور وہ دیکھتے ہیں کہ قران میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو کہ اج ثابت ہو رہی ہیں جو کہ ‪ 1400‬سال پہلے‬
‫کہیں گئی تھی ۔ جی ۔ لیکن انگریز ہدایت نہیں حاصل کر سکتا ۔ لیکن کیوں ؟ کیونکہ وہ کوشش نہیں کرتا ۔ مطلب ؟ مطلب یہ کہ‬
‫ہللا تعالی کہتا ہے کہ تم میری طرف انے کے لیے ایک قدم بناؤ میں تمہارے طرف انے کے لیے بے شمار اقدامات اٹھاؤں گا ۔ اگر‬
‫اپ مزید جاننا چاہتی ہو تو مجھے بتاؤ ! جی بھائی اپ بتائیں مجھے ابھی ! اشعر پھر اس کی جانب دے کر مسکرایا کہ شاید وہ‬
‫اسالم قبول کر ہی لے اور بوال دیکھو ہندو جو ہوتے ہیں ان کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا یعنی کہ وہ کبھی ہواؤں کو پوچھ رہے ہیں‬
‫پانی کو کبھی سورج کو کبھی گیس کو تو کبھی درخت کو تو کبھی سانپوں کو تو کبھی کسی کو لیکن ہللا تعالی کہتا ہے یہ ساری‬
‫چیزیں تو میں نے بنائی ہیں تمہارے لیے ہیں جہاں ہے تمہارے لیے تو نہیں جہاں کے لیے پتہ ہے اس بات کا کیا مطلب ہے ؟ کیا‬
‫؟ مطلب ہے کہ جب انسان ہللا تعالی سے محبت کرے گا اس کا قرب حاصل کرے گا تو پھر میری بات سنو میری پیاری بہن تو ہللا‬
‫تعالی اپ کو سب کچھ وہ دے دے گا جو اپ چاہتے ہو گے اپ کو سورج چاند تاروں سے مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اپ‬
‫ہللا سے مانگو جس نے ان سب کو بنایا ہے ایسے تو نہیں ہوتا نا کہ لوگ کہتے ہیں جی دوست یاروں کو ‪x‬ٹکڑا ہوا ہے دنیا بن گئی‬
‫کوئی تو ہے جو نظام ہستی چال رہا ہے وہی خدا ہیں یہ الئن دیکھو بہت خوبصورت ہے اگر اس کو سمجھنا چاہوں گی کوئی تو‬
‫ہے جو نظام ہستی۔۔۔ چال رہا ہے ۔ گلوریا مسکرا کر ایک سوچ میں دل گئی کہ ہاں کوئی تو ہے واقعی ۔ اشعر اپنی بات کرتے‬
‫کرتے رک گیا اور اس کو سوچنے کا موقع دیا ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کچھ دیر بعد بولی بھائی ! اشعر جو کہ ابھی دوبارہ لیٹا تھا اٹھ کر‬
‫بیٹھا اور بوال جی !!! بھائی اپ رک کیوں گئے؟ یعنی کہ اپ مزید سننا چاہتی ہو وہ پیار سے ہنستا بوال ۔ جی ۔ دیکھو گلوریا اپ‬
‫کریسٹن ہو کریسٹن کہ جو چرچ ہوتے ہیں ان میں جو سسٹرز اور فادرز ہوتے ہیں وہ شادی نہیں کر سکتے ہنا ! جی ۔ دیکھو یہ تو‬
‫انسان کا بنیادی حق چھینا جا رہا ہے اب ہمارے انبیاء نے نکاح کیا شادی کی اور عورت کے قدموں کے نیچے جنت رکھی اور‬
‫مرد کو جنت کا دروازہ کہا گیا لیکن تب جب وہ شادی کریں ماں باپ بنیں گے ‪ ،‬اب ان کو کیا سزا بھال کہ وہ شادی نہ کریں دین‬
‫اسالم میں مسلمانوں کے لیے بلکہ ہر انسان کے لیے ایک کھال راستہ دیا لوگ کہتے ہیں کہ جی اسالم میں اپ داخل ہوئے تو اپ‬
‫کیا ہو جاؤ گے اپ کو یہ یہ نہیں کرنا پڑے گا یہ کرنا پڑے گا اور اپ سے نہیں ہوگا ایسا کچھ بھی نہیں ہے ہمارا جو دین ہے نا‬
‫اسالم وہ تو اتنا خوبصورت ہے کہ وہ کہتا ہے کہ راستے سے اپ اچھی نیت سے پتھر پیچھے کر دو گے نا ثواب ملے گا اپ‬
‫کسی سے اچھے اخالق سے پیش اؤ گے ثواب ملے گا اپ کسی کا دکھ سن لو گے ثواب ملے گا اپ اس کو سکون دو گے اپ اس‬
‫کو بس یہ کہو گے نا کہ بھائی نماز پڑھا کر یا بھائی ہللا کی باتیں کیا کر مسجد جایا کر قران پڑھا کر ثواب ملے گا اتنا اسان ہے یہ‬
‫دین ۔ لیکن بھائی پھر لوگ کیوں کہتے ہیں کہ اسالم مشکل ہے ؟ کیونکہ وہ سب ان باتوں سے نا اشنا ہیں اسالم بالکل مشکل نہیں‬
‫ہے یہ بہت اسان ہے لیکن اہل عقل والوں کے لیے اہل باطل کے لیے نہیں ‪ ،‬اسالم تو سب کو اس کا حق دیتا ہے یہاں تک کہ‬
‫ہمارے دین میں ہمسائے تک کے حقوق ہیں ہمارے دین میں ماں باپ کے حقوق ہے بہن بھائیوں کے رشتے داروں کے ہر غریب‬
‫سے بات کرنے کے حقوق ہیں انسانیت کو ہمارے دین میں بہت اہمیت حاصل ہے ہمارا دین ہمیں یہ خود سکھا رہا ہے کہ اپ نے‬
‫کس کے ساتھ کیسا رویہ رکھ نا ہے اور اسالم ہے اسالم تو یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ اس کے ساتھ تم نے برا رویہ رکھنا ہے ہاں‬
‫لیکن اہل باطل جو ہوں گے جو ہللا کی شان گستاخی کریں گے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کبھی نہیں کیا جائے گا ۔ تو پھر بہت سے‬
‫لوگ ہیں وہ یہ سب باتیں جانتے بھی ہیں لیکن وہ پھر بھی کریسٹن ہے یا ہندو ہیں کیوں ؟ وہ کہتے ہیں جی ہللا ہماری طرف خدا‬
‫ہے لیکن ہللا کہتا ہے نہیں اپ میری طرف ایک قدم بڑھاؤ میں اپ کی طرف بے شمار قدم بڑھاؤں گا دیکھو اپ جو ہو نا اپ‬
‫کرسٹن اپ ہللا تعالی کو خدا تو مانتے ہیں لیکن اپ شرک کرتے ہو اپ کرتے ہو ہللا تعالی کا بیٹا نعوذ باہلل نعوذ باہلل حضرت عیسی‬
‫علیہ السالم ہیں جو کہ شرک ہے ۔ لیکن کیوں وہ تو بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے نا ؟ تو اسی بات پر ا کر تو اپ لوگ گناہ کر‬
‫جاتے ہو شرک کر جاتے ہو وہ معجزہ تھا وہ ہونا ہی تھا جو ہونا تھا وہ ہوتا ہے اور جو ہللا نے کرنا ہو وہ تو بالکل ہی ہوتا ہے نا‬
‫دیکھو اپ اسمانی کتابوں پہ یقین رکھتے ہو لیکن اپ انجیل پڑھتے ہو ہم قران پڑھتے ہیں قران کیا ہیں ایک لیٹسٹ ماڈل ہے ایک‬
‫لیٹسٹ کتاب ہے چونکہ ہر دور میں ہر طرح کی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے پڑھ سکتے ہیں ٹھیک ہے اب دیکھو سب سے‬
‫پیاری صورت قل ھو ہللا احد کہہ دیجئے کہ ہللا ایک ہے وہ جو کہتے ہوئے مسکرایا تھا جو کہ گلوریا کو بھی مسکرانے پر مجبور‬
‫کر گیا تھا ‪ ،‬ہللا الصمد نہ اس کا کوئی شریک ہے لم یلد ولم یولد نہ وہ کسی کو اوالد ہے اور نہ کوئی اس کی اوالد ہے ولم یک ہللا‬
‫کفو ون احد اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے وہ یہ الفاظ نہایت خوبصورتی سے ادا کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ گلوریا مسکرا رہی‬
‫تھی اس کے دل کو چین مل رہا تھا اس کو پہلی دفعہ سکون اب مل رہا تھا اشعر سے یوں باتیں کر کے شاید دین اسالم ہے ہی اتنا‬
‫خوبصورت کہ اس کو تھوڑا سمجھو تو انسان کا دل چاہتا ہے کہ بس اس کو سمجھا ہی جائے اب ۔ اب سارے وہاں پر پہنچنا شروع‬
‫ہو گئے تھے ہسپتال میں اس کی ماں ائی اور اس کو گلے لگایا اور رونے لگی اور اب سب شکر کا کلمہ پڑھ رہے تھے کہ شکر‬
‫ایسے ہوش ایا انشاءہللا یہ کینسر بھی کور کر لے گا ڈاکٹرز کے مطابق اس نے ابھی چند دن مزید ہسپتال میں رہنا تھا جب تک وہ‬
‫کینسر سے صحت یاب نہ ہو جاتا وہ بہت ہمت واال شخص تھا وہ کبھی بھی ہارڈ نہ ماننے واال شخص تھا وہ اپنے رب سے جوڑنا‬
‫بے حد اچھی طرح جانتا تھا اخر کو وہ جگر گوشہ کس کا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اس کی امی جا کر گلوریا کے ساتھ بیٹھ گئی سامنے سوفا پر ۔ بیٹا اپ ٹھیک ہو؟ گلوریا کچھ سوچ رہی تھی وہ اچانک سے بولی‬
‫جی انٹی ۔ امی ارزم بھائی کہاں ہیں وہ ابھی تک کیوں نہیں ائے ؟ اشعر کے سوال کرنے پر اس کی ماں نادیہ بولی بیٹا وہ مجھے‬
‫ہسپتال چھوڑ کر کہتا ہے کہ میں بھی اتا ہوں تو میں نے کہا جاؤ پتہ نہیں کہاں ہے وہ اتا ہی ہوگا ‪ ،‬تم میری بات سنو تم ٹھیک ہو‬
‫اس کی ماں اٹھی اس کے پاس گئی اور اس کے سر کو پکڑا اور اسے پیار کرنے لگی اس کا ماتھا چومنے لگی اس کو اپنے گلے‬
‫لگایا اور پہلے تو رو دی ۔ امی امی روئیں تو نانا دیکھیں اپ میرے سامنے روئیں گی تو پھر میں کمزور کر جاؤں گا نا چلیں چپ‬
‫کر جائیں ۔ نہیں نہیں میرا بیٹا بہت بہادر ہے وہ کبھی کمزور نہیں پڑے گا چھوٹا سا کینسر ہی تو ہے یہ چٹکی بجاتے ختم ہو‬
‫جائے گا ۔ اشعر اور اس کی امی ہنسے ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔‬
‫تم تم رونا کچھ نہیں ہوتا میں ہوں تمہارے ساتھ تم دیکھنا میں اس کا حشر بگاڑ دوں گا نورے میرے قبضے میں ہے اور تم دیکھنا‬
‫میں ایسا کروں گا اس کے ساتھ یوں اس کو تڑپاؤں گا کہ ارزم ترپنے پہ مجبور ہو جائے گا اس کو میں ٹھوکروں میں الؤں گا ان‬
‫کی زندگی برباد کروں گا اور کیا لگتا ہے کہ میں ان کو بخش دوں گا انے والی نسلیں یاد رکھیں گی کہ ریکس تھا کون ؟؟؟؟؟شارق‬
‫جو کہ کھڑا ہو یہ سب باتیں کر رہا تھا وہ بیٹھا اور بوال یاد رکھنا میں لوگوں کو غالم بنانا جانتا ہوں یا قتل کرنا ۔ تو کیا اپ اس کا‬
‫قتل کریں گے کشف بولی ۔ قتل سے انسان بہت جلدی تکلیفیں چھوڑ کے دنیا سے چال جاتا ہے میں نے تو اس کو تڑپانا ہے اتنا تر‬
‫پانا ہے کہ اس کو اپنے اپ پر ترس ائے گا اور وہ مرنے کی خواہش کرے گی مجھ سے لیکن میں پھر بھی اس کو نہیں چھوڑوں‬
‫گا ۔ اس وقت اس کے گھر والے سارے وہاں موجود تھے وہ سب جانتے تھے کہ وہ لوگوں کو خود سے انسپائر کروانا نہیں جانتا‬
‫بلکہ جو وہ ہے ویسا کوئی نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی کو ایسا ہوتا دیکھنا چاہتا تھا ۔ تو اٹھو یہاں سے تم جاؤ اپنے کمرے میں جا‬
‫کر سو جاؤ امی اپ اس کو اندر لے جائیں ‪ ،‬ابھی رات کے ‪ 12‬بج رہے ہیں تقریبا تو اپ اس کو سال دیں صبح کروں گا میں‪ ،‬جو‬
‫بھی مجھے کرنا ہوگا ۔ بیٹا چھوڑنا نہ ہو ان کو ۔ یہ بات کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ میں ریکس ہوں اور یہ بات میں پہلے سے‬
‫جانتا ہوں ۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔‬
‫رات کے تقریبا ‪ 12‬بج رہے تھے اندھیرا تھا ہٹ جانب ایک کھلے میدان میں اپنی گاڑی کے سامنے وہ اسمان کی جانب دیکھ رہا‬
‫تھا اور زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا اور نہ جانے وہ کیا کر رہا تھا وہ تڑپ رہا تھا ‪ ،‬وہ اس کو یاد کر رہا تھا وہ اس کو سوچ‬
‫رہا تھا وہ اس کے احساس میں تھی ۔۔۔۔۔ ارزم اس وقت نہایت بے بسی سے خود کو دیکھ رہا تھا وہ پہلے سوچتا ہوتا تھا کہ انسان‬
‫کو خود پر ترس نہیں انا چاہیے لیکن اج اس کو ا رہا تھا خود پر ترس کیونکہ وہ بہت بے بس تھا ‪ ،‬وہ صرف نورے کو سوچ رہا‬
‫تھا اور کسی کو نہیں اس کی یادوں کا مرکز فی الحال وہی تھی ۔ سامنے سے ایک کپل گزرا انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا‬
‫ہوا تھا اور وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے ان کے ہاتھ میں ائس کریم تھی ۔ ارزم نے انہیں دیکھا اور سوچا کہ انسان کے پاس‬
‫جو چیز نہیں ہوتی وہ ہر بات میں اس کو فیل کرتا ہے اور اس وقت اس کے پاس نورے نہیں تھی اور وہ اس کو اپنی ہر بات کا‬
‫مرکز بناتے ہوئے یاد کر رہا تھا ۔ وہ اچھی تھی وہ ایماندار تھی وہ میرے ساتھ لوئل تھی میں تو لوگوں کو جاننے اور ان کے‬
‫احساسات اور جذبات کو سمجھنے کی صالحیت رکھتا تھا ان کی سائیکی جانتا تھا مجھے کیا ہو گیا میں جس سے محبت کرتا تھا‬
‫میں اس کو دو ٹکے کی لڑکی کے کہنے پر کیسے سوچ سکتا تھا یہ میں نے کیا کیا میں نے اس کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا ہے‬
‫کیا؟ یہ لفظ ادا کرتے ہوئے اس کی انکھ سے ایک انسو گرا اور پھر بےشمار آنسو نکلے ‪ ،‬کیا مجھے اس سے محبت ہے ‪ ،‬نہیں‬
‫بلکہ مجھے اس سے عشق ہے ‪ ،‬محبت ایک وقت کو آکر ختم ہو جاتی ہے لیکن عشق تو جس سے ہوجاۓ پھر المحدود ہوتا ہے ‪،‬‬
‫کیا وہ کبھی مجھے نظر نہیں آۓ گی اس کو توڑ دینے کے لیے کافی تھا ‪ ،‬وہ اس وقت نہ اکیال تھا وہاں سے لوگ بھی جانا شروع‬
‫ہو چکے تھے کیونکہ رات کافی ہو چکی تھی وہ یہ بات جان چکا تھا کہ انسان اپنا سب سے بڑا دشمن خود ہے کیونکہ انسان ہی‬
‫اپنوں کو پہلے خود سے دور کرتا ہے پھر ان کو اپناتا ہے پہلے اپنے عشق کو خود دفن کرتا ہے اور پھر روگ مناتا ہے ‪ ،‬ہللا جی‬
‫میں اپ سے دعا کرتا ہوں مجھے نورے ابھی تو نہیں ملے گی لیکن پلیز اپ میری نورے کی حفاظت فرمانا اس کی عزت کی‬
‫حفاظت فرمانا بلکہ میری عزت کی حفاظت فرمانا میرے موال ‪ ،‬ارزم کو اس لمحے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا غم کبھی‬
‫بھرنے واال نہیں ہے ۔۔۔۔ وہ کچھ دیر بعد کھڑا ہوا اور اونچی اواز میں بوال‬
‫انتظار کروں میں آنے کا تیرے‬
‫ہر راستے میں تو ہے میرے‬
‫کیا ہے اگر تو آجا سامنے میرے‬
‫ایک یہی التجا پوری کر دے خدا میرے‬
‫وہ بھاری اواز رکھنے واال مرد اونچی اواز میں بوال تھا لیکن کوئی نہیں تھا جو اس کو سنتا سوائے اس کے خدا کی اور وہ یہ‬
‫جانتا تھا ۔ وہ وہیں بیٹھا رہا اس کو سوچتا رہا سمجھتا رہا کہ وہ کیا کر چکا ہے اس نے اس کو ہرٹ کیا تھا اس انسان کو جس سے‬
‫محبت کرتا تھا محبت کرنے والوں کو یوں ہٹ تو نہیں کیا جاتا لیکن میں نے کیا میں نے اس کو سزا فورا سنائی میں نے اس کے‬
‫جرم کو ثابت ہونے کا انتظار نہیں کیا میں نے اس کو کھو دیا ہے لگتا ہے کھو دیا ہے اس کی اواز مدھم پڑ رہی تھی وہ وہاں‬
‫گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر ایک گھٹنا اوپر کر کے اور ایک ٹانگ سیدھی کر کے بیٹھا تھا۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔‬
‫وہاں دوسری جانب نور بیٹھ کے مسلسل رو رہی تھی مسلسل بول رہی تھی اسے یقین ہی ا رہا تھا کہ ارزم شادی کر چکا ہے‬
‫کیونکہ وہ اپنی انکھوں سے ان دونوں کو سٹیج پر بیٹھا دولہا دلہن بنا دیکھ چکی تھی ۔ کیا کیا اس نے اس نے مجھے چھوڑ دیا اس‬
‫نے میری تالش نہیں کی وہ بے فیض ادمی تھا !!! ڈھونڈنے سے تو خدا مل جاتا ہے میں تو ایک عام سی لڑکی تھی اس نے‬
‫مجھے نہیں ڈھونڈا لیکن ارزم زاویار یہ یاد رکھنا یہ عام سی لڑکی تمہاری زندگی میں ائی تھی اس نے تمہاری زندگی کو خاص‬
‫بنایا تھا لیکن اب تم اس کے ساتھ کبھی کچھ نہیں رہو گے کبھی بھی نہیں وہ رو رہی تھی ایسے وہ کبھی نہیں روئی تھی جیسے وہ‬
‫اج رو رہی تھی سسک رہی تھی ‪ ،‬ہللا تعالی جی اپ کو پتہ ہے ارزم نے میرے ساتھ کیا کیا ہے ؟ اس نے مجھے دھوکہ دے دیا‬
‫ہے اس نے میری تالش نہیں کی وہ بہت بے حس نکال وہ واقعی دو نمبر تھا کیا!!! میں تو یوں ہی اس کو تنگ کرتی تھی لیکن اس‬
‫نے واقعی ایسے کیا اس نے اپنا روپ دکھایا اس نے گھٹیا مردوں واال اپنا روپ دکھایا ہللا‪ ،‬وہ تو جیسے مجھ سے جان چھڑوانا‬
‫چاہتا تھا اس نے تو میرے اغوا ہوتے ہی ساتھ ہی نکاح کر ڈاال اج اس نے دوسری شادی کر لی ہللا تعالی جی میں اپنی بے قدری‬
‫کیے جانے پر رو رہی ہوں ہللا تعالی جی میں اتنی سستی تو نہیں تھی وہ مجھے ڈھونڈ سکتا تھا میری تالش کر سکتا تھا ہللا تعالی‬
‫تو ڈھونڈنے سے تو اپ مل جاتے ہیں میں تو ایک لڑکی تھی کیا کیا اس نے؟؟؟؟؟ نہیں کوئی اور وجہ ہوگی اس نے نہیں نکاح کیا‬
‫ہوگا وہ بوال ایسے کر سکتا ہے نہیں کر ہی نہیں سکتا وہ وہ تو مجھ سے پیار کرتا تھا میری باتوں پر خوش ہوتا تھا مجھے‬
‫سمجھاتا تھا کیا یہ سب جھوٹ تھا نہیں نہیں نہیں وہ پاگل ہو رہی تھی وہ اپنے اپ کو د** سکا دے رہے تھے لیکن دے نہیں پا رہی‬
‫تھی ہللا میری مدد کرتے ہیں اور جو اپ نے مجھے دیا ہے مجھے اپنی رضا میں راضی کرتے اور جو مجھ سے چھینا ہے اس کا‬
‫میں کیا کروں اس کے چھی ن جانے پر کیا میں مالل کروں ماتم کروں میں کیا کروں میری سمجھ سے باہر ہے میری مدد فرمائے‬
‫میرے ہللا !!! جس کمرے میں نور بند تھے اس کمرے میں سائیڈ پر ایک واش روم تھا اذانوں کا وقت ہوا چال تھا نورے واش روم‬
‫میں گئی اس نے وضو کیا اور جو اس نے عبایا کے اوپر حجاب کر کے ایک چادر اوڑھی تھی اس چادر کو زمین پر بچھایا اور‬
‫اس کے اوپر اس نے فجر کی نماز پڑھی وہ پچھلے دو دن سے بھوکی تھی پیاسی تھی لیکن پھر بھی وہ صابر تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ارزم بھی اسی جگہ بیٹھا تھا اس کو اذانوں کی اواز جب اپنے کانوں سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوئی تو وہ اٹھا اس نے اپنی گاڑی‬
‫کو الک کیا اور قریب ہی مسجد میں جا کر اس نے نماز ادا کی اور وہاں نماز ادا کرنے کے بعد وہ سجدے میں بے حد رو رہا تھا‬
‫بے حد وہ سجدے میں پڑا رو رہا تھا اور لوگ اس کے پاس بیٹھے تھے ان کو تو یہی تھا کہ شاید سجدے میں خدا سے معافی‬
‫مانگ رہا ہے یا شکر ادا کر رہا ہے یا دعا کر رہا ہے لیکن کچھ دیر بعد اس کے اس پاس بیٹھے لوگوں کو جب اس کے سسکنے‬
‫رونے کی اواز تو تقریبا اس سسکنے اور رونے کی اواز کو ‪ 15‬منٹ انہوں نے کے بعد ساتھ والے ادمی نے اس کو ہالیا اور‬
‫بوال بھائی کیا تم ٹھیک ہو ؟ ارزم پھر بھی رو رہا تھا اور وہ بس رو رہا تھا وہ کسی کی اواز نہیں سننا چاہتا تھا صرف وہ اپنے ہللا‬
‫سے بات کرنا چاہتا تھا وہ اپنے ہللا کو کہنے لگا ہللا مجھے معاف کر دینا میں نے تیرے معصوم بندے پر الزام لگایا اس کی نہ‬
‫سنی اس کو پہلے ہی سزا کا حقدار ٹھہرا دیا کیا میں معافی کے قابل ہوں اس کے ساتھ بیٹھے شخص نے جا کر مولوی صاحب کو‬
‫اس کا یہ جملہ بتایا کہ کیا میں معافی کے قابل ہوں کیونکہ اس کو یہی ایک اواز ائی تھی اور اس شخص نے کہا کہ شاید یہ مولوی‬
‫صاحب سے بات کرے اور اس کو تھوڑا وہ سکون دیں دالسہ دیں تو شاید اس بندے کو سکون ا جائے وہ شخص تو اپنے گھر کی‬
‫جانب روانہ ہو چکا تھا لیکن ارزم وہی سجدے میں رو رہا تھا مولوی صاحب اس کے پاس ائے انہوں نے ارزم کی کندھے پر ہاتھ‬
‫رکھا اور اس کو تھپایا ان کے تھپتھپانے کے احساس سے ارزم اپنے سجدے سے اٹھا اور بوال جی کون ہیں اپ ؟ بچے میں اس‬
‫مسجد کا مولوی ہوں کیا ہوا ہے تمہیں تم یوں رو کیوں رہے ہو ؟؟ اگر وہ ان کو کہتا کہ کچھ نہیں ہوا تو مسجد کی بے حرمتی ہو‬
‫جاتی کیونکہ وہ مسجد کی بے حرمتی نہیں کرنا چاہتا تھا اور مسجد میں جھوٹ بوال تو گناہ ہے اور وہ جان نماز پر ہی بیٹھا تھا ۔‬
‫مولوی صاحب میں بہت پریشان ہوں میں گنہگار ہوں میں خدا کے بندوں کو تنگ کرتا ہوں میں نے ایک شخص کو تنگ کیا ہے‬
‫کیا ہللا مجھے معاف کر دے گا ؟ کبھی یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ہللا مجھے معاف کر دے گا یاد رکھنا ہللا کی رحمت اس کے غصے‬
‫پہ غالب ہے تو کیوں نہیں وہ تمہیں معاف کرے گا ایک دفعہ سچے دل سے معافی مانگو اور ہاں یہ یاد رکھنا اخالقیات کا سبق‬
‫ہمارا دن ہمیں پہلے دیتا ہے اور ہمارے دین میں تو انسانیت کو بہت اعلی درجہ دیا گیا ہے ۔ لیکن میں کیا کروں میں اس شخص‬
‫کو کھو بیٹھا ہوں مولوی صاحب وہ شخص مجھ سے بہت محبت کرتا تھا میں اس سے ارزم نے ایک مولوی صاحب کو یہ نہیں‬
‫بتایا کہ وہ میری بیوی تھی بس لیکن وہ مولوی صاحب سمجھ رہے تھے کہ وہ کون ہو سکتا ہے ! تو بیٹا اپ اس کو ڈھونڈو وہ اپ‬
‫کو مل جائے گا جو وہ جو بھی ہے بیٹا اگر ہم ایک کوشش کریں طویل عرصے کی کوشش بھی نہیں بیٹا صرف چند دن کی کوشش‬
‫کریں نا خدا کو پانے کی تم خدا کو بھی پا لیتے ہیں تو وہ شخص کیا ہے بھال !!! مولوی صاحب میں بہت گنہگار ہوں مجھے اپنے‬
‫رب سے معافی مانگتی وقت مجھے شرم ا رہی ہے کہ کیا وہ مجھے معاف کر دے گا اور یہ کہے گا کہ اس نے کیا کیا میرے‬
‫بندے کے ساتھ ؟ بیٹا چلو میں اس بات پر تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں سنو گے ؟ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے اپ اچھا ہی سناے‬
‫گے ظاہری سی بات ہے سنائیں وہ دل کو سکون حاصل کروانے کے لیے ان سے واقعہ سننا شروع ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ بیٹا قیامت کے دن‬
‫ایک شخص ہوگا جو اخر میں جنت میں جائے گا وہ نا جہنم کی اگ میں جل رہا ہوگا تو بول سکے گا ہللا جی تھوڑا سا مجھے نا‬
‫اس جہنم کی اگ سے نکال کر تھوڑا سا اگے کر دے مجھے بہت جلن ہو رہی ہے اس طرح نا وہ کہے گا تو ہللا تعالی اس کو نا‬
‫تھوڑا سا اگے کر دیں گے پھر وہ کہے گا کہ یہاں پہ بھی مجھے تنگی ہو رہی ہے حاالنکہ یہ والی جگہ پچھلی والی جگہ سے‬
‫تھوڑی ٹھنڈی تھی تھوڑی سی پھر وہ ہللا تعالی کو ایک ہللا تعالی جی مجھے تھوڑا سا اورا گے کر دیں میں تھوڑا اور اگے ہو‬
‫جاؤں میں پھر نہیں اپ کو کہوں گا اب دوبارہ ہللا تعالی پھر اس کو اگے کر دیتے ہیں پھر نہ وہ کہتا ہے یار اب نا جنت کے‬
‫دروازے کو نا وہ اگے پیچھے ہو کے دیکھنا شروع کرتا ہے اس کو تھوڑا سا دور اور نظر اتا ہے نا دروازہ تو کہتا ہے جی‬
‫تھوڑا سا اگے اور کر دیں پھر نہیں میں کچھ کہوں گا ہللا تعالی پھر اس کو تھوڑا سا اگے کر دیں گے پھر نا تو جنت کا دروازہ‬
‫ہے کھل جائے گا میرے لیے وہ اگے جا کے پھر کھڑا ہو جائے گا کہ اب میں کیا کروں اب میں اگے کیسے جاؤں ہللا تعالی سے‬
‫دوبارہ کہوں ہللا تعالی کیا کہیں گے کہ اس کو شرم نہیں اتے بار بار مانگتا رہتا ہے میرے سے دونوں ان ہللا تعالی پھر بولیں گے‬
‫تو مجھ سے مانگ نہیں رہا تو اگے جانے کا نہیں کہہ رہا ؟ تو اگے سے وہ کہے گا ہللا تعالی جی اتنی دفعہ تو میں پیچھے سے‬
‫اگے اگیا ہوں پھر پیچھے سے اگے ایا ہوں اور پھر میں نے کہا ہے کہ میں نے جاؤں گا میں پھر اگے ا گیا لیکن اب مجھے شرم ا‬
‫رہی ہے کہتے ہوئے کہ میں کتنا ہی کہوں بار بار ‪ ،‬تو ہللا تعالی کہے گا جب دینے واال نہیں تھک رہا تو تو مانگنے واال ہو کے‬
‫تھک رہا ہے دینے والوں کو کوئی یہ نہیں ہو رہا کہ میں اس کو کیوں دے رہا ہوں تو مانگ میں تجھے دے رہا ہوں تو مجھ سے‬
‫مانگ ۔۔۔۔ میں دوں گا ۔ تو اس بات کو اپنے ساتھ یوں باندھ لو جیسے گڑھا ہوتی ہے کہ نہیں ایا مجھے میری معافی مانگنے پر‬
‫معاف کر دے گا فکر نہ کرو ہللا ہے معاف کرے گا اس نے تو معاف کرنا اور کون ہے تو ہے کوئی ذات ہمیں معاف کرنے والی‬
‫۔۔۔ نہیں نا ؟ ارزم نے ہا ں میں سر ہالیا اور بوال جی کوئی بھی نہیں ہے ہم اس کے سوا معاف کرنے واال ۔۔۔۔۔۔‬
‫بیٹا وہ جو کوئی بھی ہے نا اس کو ہللا کی بارگاہ میں ا کے مانگو ۔ شکریہ مولوی صاحب میں دوبارہ ضرور یہاں اؤں گا ۔۔۔‬
‫ضرور انا ہے میں تمہارا انتظار کروں گا ۔ اس وقت امی گھر میں ویٹ کر رہی ہوں گی میں چلتا ہوں خدا حافظ شکریہ ۔ فجر کے‬
‫بعد تقریبا اب وہاں پہ چھ بج گئے تھے ارزم کو ‪ ،‬وہ مسجد سے باہر ایا اپنی گاڑی کی جانب بھرا گاڑی کا الک کھوال گاڑی میں‬
‫بیٹھا اور ڈرائیونگ کرتے ہوئے اپنی امی کے پاس ہسپتال میں اشعر کے پاس پہنچا ‪ ،‬ہسپتال میں جس کمرے میں اشعر موجود تھا‬
‫اس کمرے میں گیا اور اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا ۔ اشعر جو کہ لیٹا تھا وہ اٹھ کے بیٹھا اور بوال کیسے ہیں بھائی اپ کہاں پر‬
‫تھے اپ رات بھر ؟؟ اس وقت کمرے میں کوئی موجود نہ تھا اس کی ماں گھر گئی تھی کچھ کھانا بنانے کے لیے اور گلوریا کو‬
‫اشعر کے پاس چھوڑا تھا کہ اس کو کچھ ضرورت نہ پڑے وہ اشعر بھائی سے کوئی باتیں کرنا چاہتی ہے ۔ گلوریا اپ یہاں پر ہو‬
‫ارزم نے سوال کیا ۔ جی بھائی میں یہاں پر وہ اپ کی امی اور حنین چاچی گئے ہوئے ہیں گھر پہ کچھ کھانا بنانے ۔ اچھا ۔ اشعر تم‬
‫جانتے ہو یہ کون ہے اس نے گلوریا کی طرف اشارہ کرتے کہا ۔ جی بھائی میں جانتا ہوں کل رات کو ہی میرے پاس موجود تھی‬
‫تو ہم دونوں نے کافی باتیں کی تھی ۔ اچھا ارزم نے مسکرا کر کہا ۔ گلوریا کو لگا کہ جیسے وہ دونوں بھائی اپس میں بات کرنا‬
‫چاہتے ہیں اس لیے اس نے کہا اپ دونوں باتیں کریں میں ابھی اتی ہوں وہ یہ کہہ کر کمرے کے باہر بڑی سیٹ پر جا کر بیٹھ‬
‫گئے وہ لوگوں کو سپیس دینا بیٹھیے جانتی تھی ۔ کیا ہوا بھائی ؟؟؟ اشعر یار میں نے غلط کیا ۔ یہ تو ہے ۔ ارزم نے اشعر کے‬
‫جواب پر اس کی جانب دیکھا اور دوبارہ نظر نیچے کر لیں ۔۔۔۔ بھائی اب اپ کیا کریں گے ؟ یار میں نا حریم کے پاس جا رہا ہوں‬
‫اس کے ساتھ اب میں جاؤں گا ڈھونڈوں گا نفلی وغیرہ کے ساتھ ۔۔۔۔ اچھا۔ ۔ چلو تم بیٹھو میں چلتا ہوں کچھ چیز کی ضرورت ہوئی‬
‫تو بتا دینا ۔ جی بھائی ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نورے کو اس بند کمرے کا دروازہ کھلتا محسوس ہوا وہ فورا کھڑی ہو گئی ۔ شارق غصے میں اندر ایا اور اس نے اپنی پوری‬
‫قوت کے ساتھ بغیر کچھ سوچے سمجھے نورے کے منہ پر تھپڑ مارا جس سے نورے کا ہونٹ پھٹ گیا اور شارق کے ناخنوں‬
‫کے دو نشان نورے کے منہ پر لگ چکے تھے اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا اور وہ بالکل ڈگمگا گئی تھی نورے جنت چپ تو‬
‫رہ نہیں سکتی تھی وہ بولی کمینے تمہیں کیا چاہیے اب میرا شوہر تو اب اپنی بہن کو دے چکے ہو تو مذید تم کیا چاہتے ہو؟‬
‫نورے بھی بغیر کچھ سوچے سمجھے بولی تھی ۔ شارق نے نورے کو نہیں بتایا کہ کل رات کو کیا ہوا تھا بس وہ اس کو تڑپانا‬
‫چاہتا تھا اور ترپانے کا سب سے بڑا ذریعہ نورے کو یہ ظاہر کروانا تھا کہ وہ ارزم کشف سے شادی کر چکا ہے ۔ شارق بوال‬
‫کس کو کہا ہے تم نے کمینہ تم جانتی نہیں ہو میں یہاں تمہارا کیا حال کروں گا اتنا برا تمہارا حشر کرنے واال ہوں میں کہ تمہارے‬
‫ٹکڑوں کو چیل کوے بھی کھانے سے خوف کریں گے۔ کیا کیا ہے میں نے کیوں میرے پیچھے پڑ چکے ہو تم؟ نورے اور کسی‬
‫اجنبی کے سامنے روئے ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا اتنا برا تھپڑ پڑنے کے بعد بھی وہ نہیں روئی تھی ‪ ،‬جو کہ ارزم کے اس‬
‫معمولی سے جھوٹے الزام پر روپری تھی ۔ میں تمہیں نہیں بتاؤں گا تم نے کیا کیا ہے لیکن میں تمہیں تپاؤں گا ضرور یاد رکھنا‬
‫جو تمہارے ساتھ اب ہو گا نا اس کی ذمہ دار تم خود ہو گی اپنی زبان پر قابو رکھنا‪ ،‬میں تقاضے کے مطابق گفتگو کرنا چاہوں گا‬
‫یاد رکھنا ‪ ،‬کیونکہ میرے نزدیک الفاظ اثر کرتے ہیں رونا دھونا نہیں ۔ میں نورے جنت تھوکتی ہوں تمہارے سامنے رونے سے ۔‬
‫نورے کی اس بات پر ریکس نے غصے میں ا کر دوبارہ اس کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ مارا اس کی انگلیوں کے نشان اس‬
‫کے منہ پر پڑ چکے تھے اتنی زور کا تھپڑ تھا وہ کہ وہ مکمل ہل چکی تھی وہ ایک کونے سے دوسرے کونے میں جا گری تھی‬
‫لیکن وہ پھر بھی کہاں چپ رہنے والی تھی !!! تم مجھ پر یہ ظلم کر کیوں رہے ہو کم از کم مجھے تو پتہ ہونی چاہیے وہ چیخی‬
‫تھی !!؟ میں تمہیں یہ احساس دالؤں گا کہ ریکس کیا ہے تم نے مجھے تھپڑ مارا تھا نا تمہارے دونوں تھپڑوں کے جواب تمہیں‬
‫تمہیں ایسے دوں گا کہ تم کانپو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے سامنے کرسی رکھ کر بیٹھ گیا اور نورے خود کو سمیٹتے ہوئے زمین پہ‬
‫ایک کونے پہ گھٹنوں کے اوپر سر رکھ کر بیٹھ گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ارزم نے حریم کے گھر پہنچ کر حریم کو کال کی اور بوال نیچے اؤ حریم گاڑی میں بیٹھی اور ارزم گاڑی ڈرائیو کرنے لگا ۔ وہ‬
‫دونوں خاموشی سے بیٹھے تھے ۔ ارزم بوال ‪ ،‬تم جانتی ہو نا کل رات کیا ہوا تھا ؟ جی میں اپ کی شادی پر نہیں ائی تھی لیکن‬
‫میری امی نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا وہ روکھے انداز میں بولی تھی ۔ حریم میں اس وقت خود کو بہت بے بس محسوس کر‬
‫رہا ہوں میں کیا کروں میں اس کو ڈھونڈنا چاہ رہا ہوں !! بھائی میں نے اپ کو کہا تھا نا اتنے بڑے بڑے بولنا ہے بولے کہ بعد‬
‫میں اپ کو خود ہی شرم آۓ اپ کے کہے پر ۔ مجھے یاد ہے اب مجھے شرمندہ مت کرو یو میں اگے ہی خود شرمندہ ہوں‬
‫مجھے اس کی پرواہ ہے مجھے اس کی فکر ہے میں اس لیے تو اس کو ڈھونڈ رہا ہوں تمہیں میں نے اس لیے تو بالیا ہے کہ تم‬
‫اؤ میرے ساتھ ہم دونوں اس کو مل کر ڈھونڈتے ہیں ۔ بھائی ایک پرواہ ہی بتاتی ہے کہ کتنا خیال ہے اگلے انسان کو اپ کا ورنہ‬
‫ترازو نہیں ہوتا کسی رشتے میں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات سن کر ارزم کیونکہ ایک ہاتھ سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اس نے اپنا دوسرا ہاتھ‬
‫اپنے سر پر رکھا اور اس کی اس بات کو اس نے اپنے دل کی گہرائیوں تک اتارا تھا ۔ اپ نے نور کے ساتھ بہت غلط کیا میں اپ‬
‫کو کہتی رہی کہ وہ ایسے کر ہی نہیں سکتی کیا اور دیکھا میں سچی تھی ۔۔۔۔میں جانتا ہوں تم سچی تھی میں بہت شرمندہ ہوں میں‬
‫کیسے یقین دالؤں ۔ وہ خاموش رہی ۔ تم جانتی ہو سب سے بڑی غلطی کیا ہو گئی ہے نورے نے یہ دیکھ لیا ہے کہ میں اس سے‬
‫شادی کر رہا تھا اور وہ چلی گئی ۔ کیا کیا مطلب ہے اپ کا اس بات کو مجھے کھل کے سمجھائیں؟ مجھے جب اشعر نے ساری‬
‫بات بتائی تو میں جب واپس شادی ہال میں ایا تو وہاں پر میرے پاؤں کے نیچے نورے کی لونگ ائی اور میں سمجھ گیا تھا کہ‬
‫نورے یہاں ائی تھی اور اس کو اب یہی لگتا ہے کہ میں شادی کر چکا ہوں اب تو وہ چاہ کر بھی نہیں مجھ سے ملنا چاہے گی میں‬
‫کیا کروں اس نے اپنے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ‪ ،‬اور امی ان کو تو کوئی فکر ہی نہیں ہے وہ تو اشعر کہ ہوش میں انے سے‬
‫اتنا خوش ہیں ان کو تو جیسے میں بھول ہی چکا ہوں میری پریشانی ان کو یاد ہی نہیں ہے لگتا ہے !!! بھائی اپنے غم میں‬
‫دوسروں کی خوشی کو چھینا نہیں چاہیے اور اگر ہم ان کی خوشی میں شریک ہو کر ان کو مزید خوش کریں تو ہم سے بہترین‬
‫شخص کوئی نہیں ‪ ،‬اس وقت ان کو سب سے زیادہ عزیز نورے سے بھی اشعر تھا ‪ ،‬بس اس لیے اپ یہ مت سوچیں ۔ اشعر میرے‬
‫لیے بھی بے حد عزیز ہے ۔ لیکن بھائی وہ تو ایک ماں ہے نا وہ اپ کی بھی اتنی ہی فکر کرتی ہے ٹھیک ہے ۔ ارزم اپنی جیب‬
‫سے باہر نکاال موبائل اور تھانے فون کیا اور بوال میں اس لڑکی کو ڈھونڈنا چاہتا ہوں میں تم لوگوں کو تصویر بھیجی ہے فورا‬
‫سے پہلے ہر جگہ اس کو تالش کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔‬
‫اشعر کی وارڈ میں گلوریا سامنے بیٹھی تھی وہ بولی بھائی ! جی ! اپ نے تو مجھے مزید بتانا تھا اپ نے بتایا ہی نہیں ۔۔۔۔ اشعر‬
‫مسکرایا اور بوال اگر اپ سننا چاہو گی تو میں اپ کو ضرور بتاؤں گا ۔ بھائی میں نے بہت سوچا ہے میں چاہتی ہوں کہ میں‬
‫مسلمان ہو جاؤں ۔۔۔ اس کا یہ کہنا اشعر کو بے حد پسند ایا تھا اس نے کہا واقعی کیا تم چاہتی ہو ؟ جی بھائی میں جھوٹ نہیں کہہ‬
‫رہی ۔ اشعر جو کہ لیٹا تھا وہ اٹھا بیٹھا اور بوال گلوریا ادھر اؤ گلوریا اٹھی اور ا کر اس کی بیڈ پر اس کی ٹانگوں کی جانب جگہ‬
‫پر بیٹھ گئی ۔ اشعر بوال اگر تم چاہتی ہو تو میں تمہیں ابھی ہوں دائرہ اسالم میں داخل کروا سکتا ہوں ۔ آپ ؟؟؟ ہاں نا ۔ بھائی اپ کو‬
‫پتہ ہے سب کچھ کہ کس طرح اسالم میں اتے ہیں ؟ ہاں مجھے پتہ ہے اگر اپ چاہو گی تو میں اپ کو ابھی مسلمان کر دوں گا ۔‬
‫جی بھائی وہ بہت سنجیدہ الفاظ میں بولی کیونکہ وہ اپنا مذہب درست کرنے جا رہی تھی ۔ اشعر بوال ‪ ،‬ٹھیک ہے گلوریا سنو ‪ ،‬کیا‬
‫اپ ہللا تعالی کو واحد اور یکتا مانتی ہو ؟ جی ۔ کیا اپ حضرت محمد صلی ہللا علیہ والہ وسلم کو اپنا اخری نبی دل سے مانتی ہیں‬
‫؟ ۔ جی ۔ کیا اپ قران پاک جو کہ ہللا تعالی کے اخری پیارے نبی حضرت محمد صلی ہللا علیہ والہ وسلم پر نازل کی گئی کتاب کو‬
‫ّٰللا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتی ہو ؟ نہیں ۔ کیا اپ دین اسالم میں داخل ہونا چاہتی ہو ؟ جی ۔ کیا‬ ‫مانتی ہیں ۔ جی ۔ کیا آپ ہ‬
‫اپ دین اسالم میں ا کر خود کو مزید بہتر کرو گی ؟ یعنی کہ اسالم کے دائرے میں خود کو الؤ گی ۔ جی ۔ کیا اپ ہللا کے حکم‬
‫کے مطابق اپنے کام کرو گی ؟ جی ۔ کیا اپ دین اسالم میں داخل ہو کر نیکی کرو گی ؟ جی ۔ کیا اپ پر کوئی زور زبردستی تو‬
‫نہیں ؟ نہیں ۔ کیا یہ اپ کا اپنا فیصلہ ہے ؟ جی میرے پیچھے پیچھے یہ لفظ ادا کرو لیکن یاد رکھنا لفظ زبان سے نہیں دل سے‬
‫ادا کرنے ہیں ۔ جی ۔ اشہد ان ال الہ ۔ اشہد ال الہ ۔ واشہد انا ۔ واشہد انا ۔ محم ًد ۔ محمد ً ۔ عبدہ ۔ عبدہ ۔ ورسولہ ۔ ورسولہ ۔ جب‬
‫گلوریا نے سارا کلمہ ادا کیا تو وہ مسکرایا اور بوال کہ تم اب دائرہ اسالم میں داخل ہو چکی ہو ۔ گلوریا مسکرائی اور زمین کی‬
‫جانب دیکھنے لگی ۔ اب آپ کا نام آج سے گلوریا نہیں بلکہ زینب ہے ۔ گلوریا اپنا نیا نام سن کر دوبارہ مسکرا دی ۔ بھائی آپ کو‬
‫معلوم ہے کہ میں نے اسالم قبول کیوں کیا ہے ؟ کیوں ؟ کیونکہ میں کل رات والی آپ کی تمام باتیں سن کر یہ اندازہ لگا چکی ہوں‬
‫کہ اپ مجھے بہت اچھا گائڈ کریں گے ‪ ،‬کیا اپ مجھے اچھا گائیڈ کریں گے ؟ جی اشعر نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ زینب اب اپ‬
‫جا کے وہاں پر سفر پہ بیٹھ جاؤ اب اپ نے ان سے جو بھی بات کرنی ہے اب ہم بات کرتے ہیں ۔ جی وہ جا کر بیٹھ گئی اس کو‬
‫اپنا یہ نام بہت اچھا لگ رہا تھا زینب۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو زینب جو لوگ کہتے ہیں نا کہ ہمارا کوئی عقیدہ نہیں ہے دیکھو ان کا بھی عقیدہ‬
‫ہے وہ بھی اس عقیدے سے جڑے ہوئے ہیں کہ ہمارا کوئی عقیدہ نہیں ہے ہر انسان کو دنیا میں کوئی نہ کوئی عقیدہ ہے اور سب‬
‫سے دنیا کا بہترین عقیدہ عزت دار کی تھا دنیا میں بھی اور اخرت میں بھی اسالم ہے جو شخص دائرہ اسالم میں داخل ہو گیا ہے‬
‫سمجھو وہ جنت میں جائے گا کیونکہ وہ اپ صلی ہللا علیہ والہ وسلم کا امتی ہے اور ایک نہ ایک دن ہر امتی نے جانا ہے جنت‬
‫میں اپنی سزا کے بعد جس طرح وہ اپنے ایمان رکھے گا اسی طرح اس کا حساب کتاب ہوگا اب وہ انسان پہ ہے کہ وہ کس طرح‬
‫کا اپنا عامال نامہ ہللا کو دکھائے ۔ سب سے پہلے اپ نے اپنے اندر صبر لنا ہے پھر اپ نے اہستہ اہستہ اپنے اندر انسانیت النی‬
‫ہے انسانیت کے بعد اپ نے اخالقیات النی ہے ضروری نہیں ہے کہ یہ نو مسلموں کے لیے یہی ہے جو لوگ نئے نئے مسلمان‬
‫ہوتے ہیں یہ ان لوگوں کے لیے بھی ضروری ہیں جو مسلمان پہلے سے ہیں لیکن مسلمان ہونے کا حق ادا نہیں کر رہے دیکھو ہم‬
‫لوگ کون ہوتے ہیں یہ حقدار نہ کرنے والے اتنے عام لوگ ہیں ہم لوگ لیکن ہللا تعالی نے ہمیں معاشرے میں عزت دی ہے ہمیں‬
‫بہت لوگوں لوگوں سے اونچا رکھا ہوا ہے یاد رکھنا ہللا تعالی کو صرف شکر کی زبان بہت پسند ہے بہت زیادہ جو شخص ہر حال‬
‫میں ناشکری کرے نا ہللا اس سے ناراض رہتا ہے جو شخص ہر قسم کے حال میں چاہے وہ بیمار رہنا اس سے پوچھے یار تم‬
‫کیسے ہو تو کہ الحمدہلل شکر ہللا کا ٹھیک ہوں میں تو ہللا تعالی کہتا ہے فرشتوں کو کہ یہ دیکھو میرا بندہ جو ہر حال میں میرا‬
‫شکر کرنا جانتا ہے ۔ یاد رکھنا انسانیت اخالقیات اور نماز یہ بہت اہم چیزیں ہیں ۔ بھائی کیا اپ مجھے نماز سکھائیں گے مجھے تو‬
‫نماز اتی ہی نہیں !! یہ جو اپ کے ہاتھ میں اس وقت موبائل اپ اس کا استعمال کرو اس میں اپ پوری نماز سیکھو اپ گوگل پہ‬
‫جاؤ اپ لکھو نماز پڑھنے کا طریقہ یا نماز میں کیا کیا پڑھتے ہیں اپ کو سب کچھ نظر ائے گا اس میں اور اپ پڑھو ۔ جی ۔‬
‫دیکھو اسالم ایک بہت خوبصورت مذہب ہے ہمارے مذہب میں نا یعنی کہ اب اپ کا بھی مذہب ہے یہ وہ مسکرا کر بوال تو زینب‬
‫بھی مسکرائی وہ دوبارہ بوال ہمارے مذہب اسالم میں نماز کی بہت تاکید کی گئی ہے بہت دفعہ کہا گیا ہے کہ نماز ادا کرو مسلمان‬
‫نماز ادا کرتے ہیں پہلی اپ کے سٹیج ہوگی مسلمان کی اینڈ دین مومن کی اب اپ کا ایک احباب نے مسلمان پہ رہنا ہے اپ نے‬
‫پروموشن نہیں لینی ہللا تعالی کے نزدیک تو اپ پھر مسمان پہ ہی رہ جاؤ گے لیکن اگر اپ پروموشن لو گے تو پھر اپ مومن ہو‬
‫جاؤ گے ۔ اور جو اہل عقل ہیں اور جو ہللا تعالی اور اس کے رسول کو ماننے والے ہیں نا وہ تو بس پھر جنتی ہیں ۔ مجھے دین‬
‫اسالم میں ا کر اب ہللا تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا پڑے گا بھائی؟ دیکھو زینب قران پاک میں نا بڑی جگہ لکھا‬
‫ہوا ہے کہ نبی کی اطاعت کرو یعنی کہ اپ صلی ہللا علیہ والہ وسلم کی اطاعت کرو تو اس کا مطلب تم نے ہللا کی اطاعت کر لی‬
‫دیکھو ہللا تعالی نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ تم لوگ ڈائریکٹ میری طرف ہللا تعالی نے کہا پہلے میرے محبوب کی طرف اؤ اور پھر‬
‫محبوب کے ضرورت کی طرف انا ہے میرے یعنی کہ میرے محبوب کی بات مانی ہے یہ یاد رکھنا محبوب کو یعنی کہ اپ صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم کو کبھی خدا نہیں کہنا ‪ ،‬ہاں لیکن ہللا کا محبوب یعنی کہ دیکھو تم ہللا تعالی جس شخص سے اتنی محبت کرتا ہے یاد‬
‫رکھنا جو کل کائنات ہے نا یہ صرف اور صرف اپ صلی ہللا علیہ والہ وسلم کی وجہ سے ہے اگر وہ نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا نہ‬
‫تم نہ میں نہ چیزیں نہ کچھ اور کچھ بھی نہ ہوتا یہ دنیا نہ ہوتی ۔ زینب بہت دلچسپی سے اس کی باتیں سن رہی تھی ۔ دیکھو زینب‬
‫کہ اپ نے اپنی ہنینٹ چاچی کو بتایا ہے اور سب کو کہ اپ نے اسالم قبول کر لیا ہے یہ اپ نے کرنا تھا؟ نہیں بھائی میں یہ سوچ‬
‫رہی ہوں اگر انہوں نے غصہ کیا مجھ پر !! فکر نہ کرو وہ غصہ نہیں کریں گے وہ پہلے حیران ضرور ہوں گے لیکن پھر دیکھنا‬
‫وہ اپ کی تعریف کریں گے اور میری بات سنو کوئی تمہیں کچھ کہے گا نا کہ کیا کر لیا تم نے کیا نہیں جی یہ اسالم نہیں کرنا تھا‬
‫قبول ٹھیک ہے تو تم نے گھبرانا نہیں ہے تم نے کہنا جو میں نے کیا ہے درست کیا ہے اب کوئی ا کے مجھے کہے گا نا یار ہللا‬
‫تعالی نظر نہیں اتا ہللا تعالی ہیں تو نہیناور کیا تم ان کی عبادت کرتے ہو جو ہے ہی نہیں یعنی کہ تو بس صرف غلط الفاظ میں‬
‫کہوں گا بس رک جاؤ وہیں پہ اگے ایک لفظ نہ بولی تیرا قتل یہی کر دوں گا میں اس نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا میں‬
‫جس عقیدے سے جڑا ہوں اس بہترین عقیدہ ہے مجھے تیرے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ‪ ،‬وہ اس سے مزید باتیں کرنے لگا۔ ۔ ۔ ۔‬
‫۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ارزم اور حریم گاڑی میں موجود تھے ارزم کو دوبارہ کال ائی تھانے سے لیکن انہوں نے یہی کہا کہ ہمیں وہ نہیں ملی ‪ ،‬حریم‬
‫ایک پولیس واال ہو کر اس کو ڈھونڈ نہیں پا رہا میرے لیے سب سے شرم کرنے والی بات یہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ بھائی اب جانتے ہیں‬
‫نورے آپ سے بڑی محبت کرتی تھی ۔ ارزم کی انکھیں نم ہوئی لیکن اس پہ قابو کیا اور ہاں میں ہالیا پھر بوال میں تو شاید نفرت‬
‫کرنے کے بھی قابل نہیں ہوں !!! بھائی مایوسی والی باتیں نہیں کرتے ‪ ،‬دیکھنا جو ہے وہ مل جائے گی نا تو میں اس کو سب کچھ‬
‫خود بتاؤں گی ۔ تمہارا احسان ہوگا ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔‬
‫کیسا ہے میرا شہزادہ؟ شارق نے اشعر کی وارڈ میں ا کر کہا ۔ الحمدہلل بھائی اچھا ہوا اپ اگیا میں اپ کو یاد کر رہا تھا کافی دیر‬
‫سے ۔ اشعر کے سامنے زینب بیٹھی تھی اس نے اشعر کو اشارہ کیا کہ میں باہر جا رہی ہوں اپ دونوں باتیں کریں ۔ اور پھر‬
‫کینسر تو میں تنگ تو نہیں کر رہا بتانا مجھے اگر تنگ کرے گا جڑ سے اکھاڑ کے پھینک دوں گا میری جان کے سر پر ہاتھ‬
‫رکھتے اس نے نرمی سے بوال تھا ۔ اشعر اور شارق دونوں مسکرانے لگے ۔ بھائی! ۔ کیا ہوا ؟ ریکس ارزم بھائی بہت تکلیف میں‬
‫ہے ‪ ،‬میری ایک ریکویسٹ قبول کریں گے ۔ میری جان تو میرے دل پر قبضہ رکھتے ہو تو مجھے ریکویسٹ نہیں کرو گے حکم‬
‫کرو ۔ بھائی اب ارزم بھائی کو کچھ مت کہیے گا کرا جو کچھ ہوا اس میں ان کا بس نہیں چل سکتا تھا دیکھیں پلیز ۔ اس کا حال‬
‫میں نے بہت برا کرنا ہے اشعر یہ سب مجھ سے نہ کہو ۔ اشعر شارق کی جانب دیکھ رہا تھا جب اس کو محسوس ہوا کہ اس کی‬
‫انکھیں نم ہو رہی ہیں انسو سے ابھر رہی ہیں تو اس نے پھیر لی ‪ ،‬اور خود پر قابو کرتے بوال بھائی پھر اپ کہتے ہیں کہ تم‬
‫میرے جگر گوشے ہو ایک بات تو مان نہیں رہے ۔ تم جانتے ہو اس نے کل بڑی محفل میں میری بہن کو ذلیل کیا ہے ! نکاح‬
‫والے دن اس نے اس سے نکاح نہیں کیا وہ تو پھر میں نے بیٹھی تھی اس کے انتظار میں ہم اس کو بخش دوں تو میں لگتا ہے‬
‫ایسے میں ہرگز نہیں کر سکتا وہ نہایت سنجیدگی سے غرایا تھا ۔ میں جانتا ہوں اپ ایسا کچھ نہیں کریں گے اشعر ریکس کی‬
‫جانب تو نہیں بلکہ نیچے دیکھ رہا تھا تاکہ ریکس کو پتہ نہ چلے کہ وہ رو رہا ہے ‪ ،‬لیکن وہ شاید یہ بھول گیا تھا کہ وہ اپنا رونا‬
‫کس سے چھپا رہا ہے ریکس سے !!! جو کہ اپنے جگر گوشے کو مکمل طور پر اچھی طرح جانتا تھا ۔ شارق نے اشعر کا چہرہ‬
‫ٹھوڑی سے پکڑ کر اپنی جانب یا اور اس کی انکھیں تو بھیگی ہوئی تھی اور شارق دا رویل ریکس کی دنیا اشعر سے شروع ہو‬
‫کر اس پر ہی مکمل ہوتی تھی ‪ ،‬اس کی انکھیں یوں بھیگی دیکھ کر اس کو تڑپتے دیکھ کر بولو فکر نہ کرو میں اس سے کچھ‬
‫نہیں کہتا‪ ،‬ایک تو اشعر کو کینسر تھا اور دوسرا اس کا رونا یہی چیز شارق دا ریکس کو بار بار مار رہا تھا ‪ ،‬اس لیے مجبوراً‬
‫اس کو یہ سب کہنا پڑا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ارزم بھائی یہ تو اپ ایک مسجد میں اگئے ہیں ہسپتال تو اگے ہے ؟ حریم کے سوال کرنے پر وہ بوال حریم تو گاڑی یہ والی لے‬
‫جاؤ اور ہسپتال پہنچ جاؤ ‪ ،‬میں یہاں پر نماز پڑھ کر تھوڑی دیر بعد ا جاؤں گا ۔ خود ہی ؟ ہاں تم جاؤ ۔ یہ وہی مسجد تھی جہاں پر‬
‫وہ کل رات کو گیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫چلو مکھنی ہانڈی رونا بند کرو ۔ اشعر نیم مسکرا کر اپنے آنسو صاف کیے اور پھر زور سے ریکس کے گلے لگا ۔ ریکس کو‬
‫خوشی ہو رہی تھی کہ وہ اب ریکوری کی جانب ا رہا ہے ۔ اشعر ! شارق نے اس کے بیڈ پر اس کی ٹانگوں کی جانب بیٹھتے‬
‫ہوئے بوال تھا ۔ جی ۔ تمہارے خاندان میں بہت اچھا نہیں کیا تم لوگوں نے ہمیں توڑ کے رکھ دیا ہے !!! اشعر نے اپنی نظر جھکا‬
‫لی ۔ پہلے تم نے قول سے انکار کیا شادی کرنے کو پھر تمہارے بھائی نے کشف سے بہت اچھا کر رہا ہے تم لوگ میری فیملی‬
‫کے ساتھ یہ محسوس کروا رہے ہو کہ رویلیکس لگتا ہے کبھی ‪ 47‬قتل کیے ہی نہیں تھے لیکن یاد رکھنا تم سب مجھے جانتے‬
‫نہیں ہو ۔ اشعر پھر فوراً بوال ‪ ،‬آپ نے یہ بات سنی ہوگی‬
‫لوگ ڈرتے ہیں قاتل کی پرچھائی سے‬
‫لوگ ڈرتے ہیں قاتل کی پرچھائی سے‬
‫ہم نے قاتل کے دل میں گھر کیا ہوا ہے‬
‫شارق اس وقت سنجیدگی ظاہر کر رہا تھا لیکن اس کی یہ پیاری سی بات سن کر وہ ہنس دیا اور احساس ہوا کہ واقعی یار ابھی تک‬
‫اشعر مراد جو کہ بہت مرادوں سے مال تھا شارق ریکس سے اتنا ہی پیار کرتا ہے ‪ ،‬شارق بوال یہی تو ایک وجہ ہے کہ تمہیں‬
‫میرا دس دفعہ قتل بھی معاف ہے ۔ خدا اپ کو لمبی عمر دے نیکی کی ہدایت والی ۔ شارق مسکرایا ۔ وہ ٹوٹا ہوا جاری تھا جس کو‬
‫لوگ بڑا قاتل مانتے تھے وہ اندر سے کھوکھال تھا اس کے اندر دل کی جگہ جیسے کوئی شیشہ پڑا تھا جب بھی کوئی اس کو کہتا‬
‫تھا کہ ہللا تمہیں ہدایت دے تو وہ شیشہ ٹوٹ کر نیچے گر جاتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ کتنے گناہ کر چکا ہے اور اس کو‬
‫معافی کیسے ملے گی قتل کوئی عام بات نہ تھی لیکن پھر بھی کر جاتا تھا ‪ ،‬کیا کام نہیں وہ کرتا تھا رشوت لیتا تھا دیتا تھا شراب‬
‫پیتا تھا قتل کرتا تھا پھر قتل کرنے کے بعد ان کی الشوں کو چاہے تو دفناتا تھا نہیں تو چیل کو ڈالنے میں دیر نہیں کرتا تھا ۔‬
‫شارق یہ سب سوچ رہا تھا اور اس سے وہاں بیٹھنا محال ہو رہا تھا وہ کہتا ہوا چال گیا کہ اب میں چلتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔‬
‫۔۔ ۔ ابھی وہ نکال ہی تھا کہ حریم اپنے ہاتھ میں پھول کا گلدستہ لیتے ہوئے اندر ائی اس نے مڑ کر شارق کو دیکھا لیکن پھر وہ‬
‫سیدھا ہو کر ائی اور بولی کیسے ہو تم مینڈک ؟؟ میں ٹھیک تم سناؤ چھپکلی !! اشعر میں نہیں چاہتی کہ میں غصے میں ا کے یہ‬
‫پیارے سے پھول تمہارے سر پر دے ماروں اس لیے تنگ مت کرو مجھے اور یہ کہتے ہوئے وہ سامنے صوفا پر بیٹھ گئی ۔ پہلے‬
‫تم نے مینڈک کہا تھا ۔ تو تم مینڈک کی طرح سے اس لیے کہاں ہے نا اس نے مسکرا کر کہا ۔ تو تم بھی تو چھپکلی کی طرح ہو‬
‫اس لیے کہا تھا بس میں نے ۔ اچھا چلو اس کو لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میرے ساتھ تم بتاؤ تم ٹھیک ہو نا چیز چلی ہو تو‬
‫بتانا ضرور مجھے‪ ،‬اور تم جانتے ہو نورے ابھی تک نہیں ملی ہے ۔ ابھی بھی نہیں ملی ؟؟؟ نہیں ۔ تھوڑی دیر کے لیے اس‬
‫کمرے میں خاموشی چھا گئی ۔ حریم میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔ بولو ۔ شاید تمہیں تھوڑا عجیب لگے ! کیا ہوا جلدی بولو‬
‫بات لٹکاؤ نہیں تم جانتے ہو مجھے لٹکی ہوئی باتیں پسند نہیں اس نے مسکرا کر کہا‪ .‬اشعر بولو میں کسی کو چاہنے لگا ہوں ۔۔۔ او‬
‫اچھا کس کی کمبختی ائی ہے ؟ وہ ہنس کر پوچھنے لگی تو وہ بوال یار ایسے نہ کہو میں واقعی کسی کو چاہنے لگا ہوں ۔۔۔ حریم‬
‫اس کو دیکھتے بولی‬
‫ایتھے عشق دو طرح دے مجازی تے حقیقی‬
‫جی منگدا مجازی تے پہال منا حقیقی‬
‫جب من جاوے حقیقی تے مل جاوے مجازی‬
‫جے نا ہو وے حق چے بہتر ہو تے صرف تو اور تیرا حقیقی‬
‫کہاں سے سیکھ رہی ہو ؟؟ اشعر اس کے یہ لفظوں کی بناوٹ دیکھ کر حیرت سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔ بس میں بھی کسی کو چاہنے‬
‫لگی ہوں اس لیے وہ مسکرا کے بولی تو اشعر بوال مجھے یہ بتاؤ کیا میں تمہیں اپنے دل کی گہرائیوں میں اتار لوں ۔ حریم نے‬
‫اس کو حیرانگی کی نظروں سے دیکھا تو اشعر نے نظریں پھیڑ لی حریم بولی اگر تو تم مجھے اپنی عزت بنا کر مانو گے تو ۔۔ ۔۔‬
‫۔ ۔ ۔ اشعر نے اس کی جانب دیکھ کر مسکراہٹ ظاہر کی ‪ ،‬وہ دونوں مزید باتیں کرتے لیکن اشعر کی امی اگئی‪ ،‬یہ میں کیا سن‬
‫رہی ہوں ؟ نہ جانے امی اپ کیا سن کر ائی ہیں مجھے تو اواز نہیں ائی تھی ۔ تم نے کیا واقعی گلوریا کو مسلمان کر دیا ہے؟ امی‬
‫اس کا نام گلوریا نہیں زینب ہے اور جی ہاں میں اس کو مسلمان کر چکا ہوں ہللا کی رضا سے ۔۔۔۔۔ یہ سن کر اس کی ماں نے اس‬
‫کو زور سے گلے لگایا اور اس کو پیار کرنے لگی حریم کو سب کچھ دیکھ رہی تھی اس کی انکھوں میں انسو ائے خوشی کے‬
‫اس نے صاف کی اور اس نے اشعر کے پاس جاتے ہوئے کہا مبارک ہو تمہیں کافی نیک ثابت ہوئے ہوۓ ہو مینڈک !! اشعر‬
‫مسکرایا ۔ رات کا وقت تقریبا ً ہو چکا تھا ‪ ،‬ارزم کی ماں نے اشعر کے پاس رات گزارنے کا فیصلہ کیا گھر میں صرف ارزم تھا‬
‫اور آج بھی اس کو اس کا سب کچھ نہیں مال تھا ۔ وہ سب سے پہلے مغرب پڑھنے گیا اور معمول کے مطابق جس طرح وہ مغرب‬
‫سے عشاء تک نماز پڑھنے کے بعد بیٹھا رہتا تھا مسجد میں ویسے ہی بیٹھا تھا ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔اور کچھ دیر بعد وہ گھر ایا تقریبا رات کے‬
‫‪ 10‬بج چکے تھے اس کے اندر صرف اور صرف نورے کو ڈھونڈ کر پا لینے کا جنون طاری تھا ‪ ،‬اور اس کو اپنی محبت کا یقین‬
‫دالنے کا جذبہ شامل تھا ۔ نورے یقین کرو میرا میں بے قصور ہوں مجھے جو کہا گیا میں نے وہ کیا میں تمہارا سامنا کرنا چاہتا‬
‫ہوں لیکن مجھے پتہ ہے میں تمہارا سامنا کر نہیں پاؤں گا ۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے بستر پر لیٹ گیا کبھی ادھر کروٹ پلٹ اور کبھی ادھر‬
‫لیکن اس کو پھر بھی نیند نہیں ا رہی تھی ‪ ،‬اس کو نورے جی تالش کی فکر تھی کہ وہ اس وقت کہاں ہوگی ؟ اور میں ایک پولیس‬
‫واال ہو کو اس کو ڈھونڈ نہیں پا رہا نہایت شرمندگی کی بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔ رات بھر وہ روتا رہا اپنے بال کری میں بیٹھ کر ایک‬
‫سگریٹ کا گش لگاتا اور ساتھ ساتھ وہ رو رہا تھا ۔ یا ہللا نور کو مجھے مال دے میں اس کے بغیر نہیں رہ پاؤں گا میری مدد کر‬
‫دے میرے موال اور نہایت ٹوٹے ہوئے دل سے کہہ رہا تھا ‪ ،‬وہ کھڑا ہوا بال کرنے کے جنگلے پر دونوں ہاتھ رکھے اور باہر‬
‫دیکھنے لگا رات کے ڈھائی بج چکے تھے وہ اچانک چالیا‬

‫کاش اس ےک دل ب رحم می کچھ ایسا ا جاۓ‬

‫میں اس کو پل پل دیکھوں مجھے چین ا جائے‬


‫شاید اس کو لگتا ہے میں اس کو بھول گیا ہوں‬
‫کاش کوئی جا کر اس کو میری حالت بتا کر ا جائے‬
‫تیری یاد میں مجھے روز دن سے رات ہو جائے‬
‫کاش تو میرے سامنے ا جائے ‪ ،‬معجزہ ہو جائے‬
‫وہ اپنی قوت سے چالیا تھا ‪ ،‬نورے ے ۔ے اور اب وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ کر دونوں ہاتھ اپنی انکھوں پر رکھتا ہوا زور‬
‫زور سے رونا شروع کر دیا تھا اور اگر اس وقت وہاں نورے موجود ہوتی تو اس کا دل تو پھٹ ہی جانا تھا‪ ،‬اور یوں ہی وہ پوری‬
‫رات روتا ترپتا سسکتا رہا ۔ ۔ وہ جانتا تھا کہ جس دن اس کو نورے ملے گی وہ اس سے شکایت کرے گی لیکن وہ چاہتا تھا اس‬
‫کو نورے مل تو جائے ‪ ،‬وہ بوال نورے تمہیں مجھے مل جانا میرا بہترین نصیب ہوگا اور نہ مل پانا میرے لیے مالل ہوگا ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔‬
‫اب یہ اگلی صبح کا منظر ہے ‪ ،‬نادیہ گھر ائی کچھ کھانے کے لیے بنانے تو اس نے ارزم کے کمرے میں جا کر تو وہ اسی حالت‬
‫میں جیسے وہ رات کو زمین پر بیٹھا تھا ویسے بیٹھا ہوا تھا ‪ ،‬کیا ہوا میرے بچے کو کیوں ایسے بیٹھا ہے ؟؟ ارزم اس نے اپنے‬
‫گھٹنوں پر رکھا سر اٹھا کر اپنی ماں کو دیکھا اور بڑے ہمت اور حوصلے سے بوال کچھ نہیں امی۔ بیٹا تمہیں نورے یاد ارہی ہے‬
‫بھول جاؤ اس کو اس کا مل پانا اب نہ ممکن ہے ۔ عرضوں کا دل جیسے بند ہونے کے قریب تھا یہ اپ کیسے کہہ سکتی ہیں میں‬
‫اس کا مل پانا نہ ممکن ہے ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے اور وہ تو میرے لیے مجھے کہتا ہوا رک گیا ۔ اب پتہ نہیں وہ‬
‫کہاں ہے کیا تم اس کو قبول کرو گے میں تو ایسے لوگوں کو ہرگز ادھر نہ انے دوں !! ارزم نے اپنی مٹھی دبئی اور بولو امی‬
‫میں اس کو بھول جاؤں اپ یہ کہہ رہی ہیں اپ کو لگتا ہے کہ یہ میرے لیے مشکل ہے اور جہاں تک بات رہی اس کو قبول کرنے‬
‫کی میں جانتا ہوں وہ نہایت ہی شریف اور سادہ مزاج لڑکی ہے اور میں جانتا ہوں وہ کبھی کچھ ایسا نہ کرے گی نہ اپنے ساتھ‬
‫ہونے دے گی اور جہاں تک بات رہی قبول کرنے کی وہ اپ نے نہیں میں نے کرنا ہے اور مجھے وہ ہر حال میں قبول ہے اب‬
‫دعا کیجیے کہ وہ مجھے مل جائے ۔ اس کا خیال تمہیں مار ڈالے گا !! اگر اس کا خیال نہ ایا تو میں مر جاؤں گا "" ۔ بیٹا وہ نہ‬
‫جانے اب کہاں ہے ؟ میرے دل کے بہت اندر جہاں سے اب اس کا باہر نکلنا ناممکن ہے "" ۔ میں تمہارے لیے دعا ہی کر سکتی‬
‫ّٰللا تمہاری مدد کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہاں نیچے او حمدان ایا ہے تم سے ملنے ۔ کیا ہمدان ؟ وہ کب کشمیر سے آیا‬
‫ہوں جاؤ ہ‬
‫؟ وہ مجھے نہیں پتہ ‪ ،‬نیچے اؤ وہ کپ کا ایا ہوا ہے ۔ جی ۔ کچھ دیر بعد وہ نیچے گیا اور حمدان کے پاس جا کر بیٹھ گیا ۔دوست‬
‫کشمیر سے ایا ہے اور یہاں پہ دیکھو منہ ان کے !! تمہیں پتہ ہے میں اس وقت کتنے بڑے ٹروما سے گزر رہا ہوں !! کیوں کیا ہوا‬
‫؟ کیا بھابھی کے ساتھ لڑائی ہوئی ہے اس نے ہنس کے کہا !! وہ ہوگی تو لڑوں گا نا !!! کیا مطلب؟ تمہاری اغوہ ہو گئی ہے ۔۔۔۔‬
‫کیا ؟؟ یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ میری ہی بے رخیاں برداشت کیں اور اس کو کوئی اٹھا کے لے گیا‪ ،‬پہلے مجھے یہ پتہ تھا کہ وہ‬
‫بھاگ گئی ہے میں پاگلوں کی طرح اس کو جنون پر میں ڈھونڈ رہا بعد میں جب اشعر کو کوما سے ہوش ایا تو اس نے بتایا کہ‬
‫بھائی نہیں ان کو کسی نے اغوہ کیا اشعر ایکسیڈنٹ ہوا تھا نورے کو بچانے جا رہا تھا پھر پتہ چال اس کو کینسر بھی تھا شکر‬
‫ہے ہللا کا کوما سے تو وہ باہر ا گیا لیکن کینسر ابھی ہے اس کو خود نور وہ یہ کہتے کہتے رو دیا ۔۔۔۔۔اتنا کچھ ہو گیا اور تم نے‬
‫مجھے بتایا بھی نہیں کیسے دوست ہو تم یار ہمدان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کو دالسا دینا چاہا اور وہ بوال ایک بات‬
‫پوچھوں بتائے گا ؟ ہاں بول اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تمہیں وہ کیوں پسند ہے ؟ بیوی ہے وہ میری اس لیے ۔۔۔ کوئی‬
‫اور وجہ ۔ بیوی ہو گئی جب وہ میری تو اور کسی وجہ کی ضرورت ہی نہیں جب اتنے پاک رشتے میں بند گئے تو بس میری‬
‫محبت اور پسند کی حقدار صرف وہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی اور تمہاری بیوی ہوتی ؟ تو اس سے پیار کرتا میں ۔ کیوں ؟ کیونکہ میں‬
‫نکاح کے بعد محبت کرنے پر یقین رکھتا ہوں ۔ دوسری شادی کر لو ! حمدان کہ اس مشورے پر وہ بوال میں بے وفاؤں میں سے‬
‫نہیں ہوں ۔ تم واقعی اس سے محبت کرتے ہو !!! پوچھ رہے ہو بتا رہے ہو ۔ بتا رہا ہوں ‪ ،‬یار تو واقعی وفاداروں میں سے ہی ہیں ۔‬
‫۔۔۔ ۔‬
‫ہسپتال میں صرف زینب تھی حنین بھی اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ گھر اگئی تھی ۔۔۔۔۔ بھائی کیسے ہیں اپ ؟؟ الحمدہلل ‪ ،‬اس کو‬
‫ایک نظر دیکھتے ہوئے اشعر بوال کیا اپ نے حجاب اور ابایا وغیرہ پہننا شروع نہیں کیا ۔ نہیں تو ۔۔۔ لیکن کیوں ؟ اپ کو پتہ ہے‬
‫دین اسالم نے ایک مسلمان لڑکی کو عورت کو یہ کہا ہے کہ وہ پردہ کریں وہ حجاب کرے اپنا ایک بار نہ دکھائے جانتی ہوں‬
‫اسالم میں اگر عورت اپنا ایک بال کسی غیر محرم کو دکھائے تو ‪ 70‬ہزار سال جہنم میں جلنے کی سزا ہے ۔ کیا ؟ زینب پر‬
‫جیسے خوف طاری ہو گیا ‪ ،‬جو دوپٹہ اس نے اپنے گلے میں لیا تھا اس نے فورا اس کو اپنے سر پر لپیٹا ۔ اشعر کو یہ دیکھ کر‬
‫اچھا لگا ۔ بھائی میں اپ سے ایک بات پوچھوں ۔جی ۔ دیکھیں اب پہلے تو میں اس ائی تھی مجھے نہیں اتنا پتہ تھا ان چیزوں کے‬
‫بارے میں ظاہری سی بات ہے ہر انسان کو اپنے اپنے مذہب کا پتہ ہوتا ہے تو جو میں گناہ کر چکی ہوں یہ میں نے اتنی نمازیں‬
‫نہیں پڑھی جو پچھلے سالوں کی ہیں اور روزے نہیں رکھے اور وغیرہ اچھے کام نہیں جو دینے اسالم میں ہوتے ہیں تو کیا اب‬
‫ان کا کیا ہوگا؟ بے شک ہللا تعالی کا پورا رحیم ہے وہ اپ کو بخش دیں گے اگر اپ ان سے معافی سچے دل سے مانگیں گی ۔‬
‫بھائی اپ کو پتہ ہے میں یہاں پہ ضد کر کے رکی ہوں کہ میں نے اپ سے مزید باتیں سیکھنی ہیں اپ مجھے بتائیں ۔ اپ کو پتہ‬
‫ہے مسلمان کبھی نہیں لڑتے یعنی جنگ کے دوران بھی اسالم میں پہلے دوسرے والے کو کہا جاتا ہے کہ وہ حملہ کریں اگر وہ‬
‫حملہ کرتا ہے تو پھر ہم مسلمان حملہ کرتے ہیں نہیں تو ہم لوگ مسلمان نہیں کرتے کیونکہ اسالم ایک پر امن دین ہے اور ہمارے‬
‫دین میں عورتوں کی عزت بے تحاشہ ہے ۔ لیکن بھائی میں نے سنا تھا کہ پہلے لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے جب وہ پیدا‬
‫ہوتی تھی ۔ ہاں ایسا ہوتا تھا لیکن دین اسالم کے انے سے پہلے دین اسالم کے انے کے بعد تو عورت کو بہت عزت سے نوازا گیا‬
‫ہے ۔ لیکن بھائی کافی مذہب میں نا لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسالم میں عورت کو قید کیا ہوا یعنی کہ اس کو ابایہ پہننا پڑے گا اس‬
‫کو حجاب کرنا پڑے گا اس کو اپنے اپ کو ڈھکنا پڑے گا حاالنکہ اور اس کو کیوں ایسا کرنا پڑے ایک تھی پابندیاں یہ میں نہیں‬
‫کہہ رہی میرا مطلب ہے کہ یہ باقی مذہب کے لوگ سوچتے ہیں تو اس کے بارے میں کیا کہیں گے اپ ۔ اچھا سوال کیا ہے اپ‬
‫نے میں اب اپ کو ایک مثال سا سمجھاتا ہوں دیکھو اب ایک لوہار کی دکان ہے یا ایک لوہے کی چیزوں والی دکان ہے تو نا جو‬
‫ہوتے ہیں نا دکاندار وہ لوہے کو اٹھا کے باہر رکھ دیتے ہیں تاکہ یہ دیکھ کر لوگ اندر ائیں ایسے ہوتا ہے نا ۔ جی ۔ اب دیکھو‬
‫ایک سونے کی دکان ہے اب سونا جو ہوگا نا اس نے بڑے پیار سے چھپا کے رکھا ہوگا اس کو وہ یوں باہر نہیں رکھ دے گا کہ‬
‫دیکھو اس دکان پہ سونا ہے اندر ا وہ کچھ پا کے لگے گا اس کو ارام سے پیار محبت سے رکھے گا تاکہ یہ خراب نہ ہو ‪ ،‬اب اپ‬
‫اس کو ایک عورت پہ لے کر اؤ یعنی کہ دیکھو اب اپ دو لڑکیاں ہیں جو دوسرے مذاہب کی ہیں وہ خود کو ایک لوہا بنا کر اپنے‬
‫اپ کو پیش کرا رہی ہیں ‪ ،‬لیکن دین اسالم میں عورت کو کیا کہا گیا ہے کہ وہ پردہ کرے اپنے اپ کو چھپائے غیر محرم کی‬
‫نظروں سے تو دیکھو سونا ہے قیمتی ہے اس لیے اس کو چھپا کے رکھتے ہیں ‪ ،‬عورت بھی بہت قیمتی ہوتی ہے ۔ واؤ کیا بات‬
‫بتائی ہے اپ نے بھائی ماشاءہللا ۔ جزاک ہللا ۔ دیکھو زینب عورت کے لیے سب سے قیمتی چیز اس کی عزت ہوتی ہے اگر عزت‬
‫رکھ لی تو وہ کروڑوں کی ہے اور اگر نہیں تو وہ دو ٹکے کے بھی نہیں ہیں ۔ ہمم ‪ ،‬بھائی اپ کو پتہ ہے میں نے تھوڑی سی نماز‬
‫بھی یاد کی ہے میں اپ کو سناؤں ۔ ہاں ہاں ضرور ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ارزم اب اسی مسجد کے باہر کھڑا تھا جس مسجد میں اس کو وہ مولوی صاحب ملے تھے ان کے ساتھ بیٹھ کر اس نے باتیں کی‬
‫تھی ۔ السالم علیکم مولوی صاحب ! اندر داخل ہوتے ہوئے ارزم نے کہا ۔ وعلیکم السالم اؤ بیٹا بیٹھو کیسے ہو تم ؟ الحمدہلل ۔‬
‫تمہارے دل کو سکون مال یا نہیں ابھی ۔ وہی لینے یہاں ایا ہوں اپ کے پاس ہے تو دیجیے نا وہ یہ کہتا ہوا مولوی صاحب کے‬
‫روبرو بیٹھ گیا ۔ مولوی صاحب مجھے تو لگتا ہے نظر لگ گئی ہے اس نے دکھ واال چہرہ بناتے ہوئے کہا ۔ بیٹا جانتے ہو نظر‬
‫انسان کے قبر تک اور اونٹ کو ہڈیوں تک لے جاتی ہے ۔ جی ۔ مولوی صاحب اپ کو پتہ ہے کہ میں کیوں اتنا بے چین ہوں یعنی‬
‫کہ اپ کو اس کہانی کے بارے میں پتہ ہے جو میرے ساتھ ہو چکی ہے بلکہ ہو رہی ہے ؟ ہاں بیٹا تم اپنے کسی پیار کو کھو‬
‫بیٹھے ہو اس کو ڈھونڈنا چاہے وہ تمہیں مل نہیں رہا یہی بات ہے نا ؟ جی اس نے دھیمی اواز میں کہا ۔ بیٹا عورت ذات کون اپنی‬
‫عزت بڑی پیاری ہوتی ہے ! ارزم مولوی صاحب کی یہ بات سن کر ان کو حیرانی سے انکھیں پھاڑ کے دیکھنے لگا کہ ان کو‬
‫کیسے پتہ چال کہ کیا معاملہ ہے ۔ فکر نہ کرو میں جانتا ہوں‬
‫اکثر محبت دیوانہ کرتی ہے‬
‫عشق پر دنیا یقین نہیں کرتی ہے‬
‫لوگ کہتے ہیں محبت گمراہ کرتی ہے‬
‫ناکامی ے محبت اکثر امام بنایا کرتی ہے‬

‫بچے عورتیں مخلص اور توجہ کی منتظر ہوتی ہے اور لوگوں کو لگتا ہے وہ مرد کی امیری سے متاثر ہوتی ہے نہیں لیکن اگر‬
‫مرد اس کو متاثر توڑنا چاہتا ہے تو اس کو عزت دے عورت کے لیے سب کچھ عزت ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مولوی صاحب میں بہت‬
‫پریشان ہوں ۔ بہتر ہے ان لوگوں کو اپنی پریشانی بتانے سے پہلے ہللا کو بتایا لوگ تماشہ دیکھتے ہیں اور بناتے ہیں ہللا تماشہ‬
‫بنانے سے پہلے ہی سب کچھ سمیٹ لیتا ہے ‪ ،‬اچھا بیٹا ظہر کی نماز کا ٹائم ہو رہا ہے ۔ یہ کیا کہہ گئے تھے وہ یہی سوچتا رہا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارزم نے وہاں نماز پڑھی اور پھر حریم کو لے کر گاڑی میں دوبارہ نورے کو ڈھونڈنے لگ گیا تھا ۔‬
‫شارق اج پھر کمرے میں داخل ہوا نورے اٹھی اور بولی جانے دو مجھے اخر کو تم مجھے یہاں قید کر کے رکھنا چاہتے ہو اور‬
‫میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ؟! کیا نہیں بگاڑا پہلے تو مجھے یہ بتاؤ ؟ سوال پہلے میں نے کیا ہے بگاڑا کیا ہے یہ بتاؤ ؟ شارق‬
‫نے اس کی اس بات پر اس کا منہ دبوچا ‪ ،‬لیکن نور بھی کسی سے کم نہ تھی وہ بھی اپنا منہ چھڑوا چکی تھی ۔ اج کچھ نیا کر‬
‫کے جاؤں گا میں یہاں سے !! نورے کا دل تیزی سے دھڑکا لیکن اس نے اپنے اپ کو قابو کرتے ہوئے کہا بکواس بند رکھو ۔‬
‫ابھی تو تمہیں میں بتاؤں گا کہ اصل عشق ہوتا کیا ہے !! اور یہ کہہ کر وہ سامنے زمین پر ہی بیٹھ گیا تھا اج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نورے ڈر‬
‫تو ضرور رہی تھی لیکن اس نے اپنے اپ کو قابو میں کیا ہوا تھا تاکہ اس کا ڈر اس کی کمزوری نہ بنے ۔‬
‫شام ہو گئی تھی لیکن اج بھی ان دونوں کو وہ نہ ملی تھی ۔ بھائی اج بھی ہم ناکام ہو گئے ہیں اگر وہ ہمیں نہ ملی ‪ ،‬یا کبھی دیر‬
‫سے ملی ؟ تم جانتی ہو میں ہللا سے دعا کرتا ہوں کہ اگر اس نے مجھے دیر سے ملنا ہے تو اس کی محبت میرے دل سے کبھی‬
‫نہ جائے اکثر ایسا ہوتا ہے لوگوں کو پہلے جنون ہوتا ہے اپنی محبت کا اس کے بعد ہوا اہستہ اہستہ بھول جاتے ہیں میں چاہتا ہوں‬
‫مجھے جلدی مل جائے تاکہ میں بھولنے والی راہ پہ چلوں ہی نا ۔ بھائی اگر اپ اس کو بھول گئے ؟ اگر میں اس کو بھول گیا تو‬
‫سانس لینا بھی بھول جا ؤں گا ۔ مجھے گھر ڈراپ کر دیں ۔ ٹھیک ہے ۔‬
‫یاد رکھنا زینب اسالم کو جتنا دبایا جاتا ہے وہ اتنا اٹھتا ہے‪ ،‬اور اپ صلی ہللا علیہ والہ وسلم کی زندگی تمام مسلمانوں کے لیے یا‬
‫تمام انسانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے ‪ ،‬ہر طرح کے دور میں ‪ ،‬ہر طرح کے مقصد کے لیے اپ صلی ہللا علیہ وسلم کی زندگی‬
‫کامل نمونہ ہے زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی حاصل کرنی ہو تو بس اسوہ حسنہ کے پیروی کرو ہم لوگ اسوہ حسنہ ہمیشہ یہ‬
‫کیوں کہتے ہیں کہ اپ صلی ہللا علیہ وسلم کی زندگی بلکہ باقی بھی تو نبی گزرے ہیں ان کی کیوں نہیں کہتے جانتی ہو کیوں نہیں‬
‫کہتے ؟ نہیں ! کیونکہ اپ صلی ہللا علیہ والہ وسلم کے لیے یہ دنیا بنی ہللا تعالی نے کہا کن محمد ہو جا رب نے مصطفی کو بس‬
‫یہ کہا تھا اور وہ بن گئے اگر کوئی کمی پیشی تو ہللا تعالی معاف فرمائے دیکھو اپ عیسائی لوگ جب اپ پہلے ائی تھی اپ یہ‬
‫کہتی تھی کہ حضرت عیسی جو ہیں ہللا تعالی کے بیٹے ہیں لیکن دیکھو کیسے میں اپ کو بتاتی ہوں باپ اور بیٹا مختلف تو نہیں‬
‫ہوتے تقریبا ملتے چلتے ہوتے ہیں کبھی کبھار اواز مل رہی ہوتی ہے کبھی کبھار شکل مل رہی ہوتی ہے اعداد مل رہی ہوتی ہیں‬
‫اگر باپ مرنے واال نہیں ہے تو بیٹا کیوں مر گیا یعنی کہ اگر ہللا تعالیہمیشہ سے تھا اور ہے اور رہے گا تو پھر حضرت عیسی جو‬
‫کہ بقول عیسائیت کہ وہ ہللا تعالی کے بیٹے ہیں تو بس پھر ہللا تو وہ کیوں پھر چلے گئے دنیا سے یعنی کہ جو یہودی بھی کہتے‬
‫ہیں کہ حضرت موسی رضی ہللا تعالی کے بیٹے ہیں تو وہ کچھ چلے گئے اس دنیا سے ‪ ،‬انہوں نے تو موت کا مزہ چکھ لیا ۔‬
‫بھائی یہودی کون ہوتے ہیں مجھے کبھی یہودیوں کی سمجھ ہی نہیں لگی ؟ یہودی ہللا تعالی کی ناشکری قوم ہے یہ وہ قوم ہے جن‬
‫سلوی پکا پکایا کھانا ہے جو کہ یہودی قوم کو اتا تھا حضرت موسی کو خدا کا‬‫ٰ‬ ‫سلوی ؟؟؟ من و‬
‫ٰ‬ ‫سلوی اتا تھا ۔ من و‬
‫ٰ‬ ‫کے لیے من و‬
‫بیٹا ماننے والے لوگ ہیں یہ ہٹلر کا پتہ تمہیں ؟ جی اس نے بہت زیادہ یہودیوں کو مار دیا تھا اور یہ مجھے پتا ہے ۔ ہٹلر ہے نا‬
‫صرف ‪ 21‬کو چھوڑا تھا باقی سب مار دیے تھے کسی نے پوچھا کیوں چھوڑے ہٹلر بوال اس لیے چھوڑے ہیں کہ تاکہ تمہیں پتہ‬
‫چلے کہ میں نے مارے کیوں تھے یہودیوں نے مسجد اقصی میں رمضان کے با برکت مہینے میں وہ اپنے کتوں کے ساتھ داخل ہو‬
‫گئے ‪ ،‬ہمارے قبلہ اول میں ‪ ،‬لیکن کسی عالم یا کوئی اسالمی ریاست نے آواز نا اٹھائی اور پھر یہ منافق لوگ کہتے ہیں کہ غالمی‬
‫رسول میں موت بھی قبول ہے ‪ ،‬میں کہتا ہوں پھر مر جاؤ ۔ کیا ؟؟؟ ہاں نا یہ جو الفاظ ہے کہ غالمی رسول میں موت بھی قبول‬
‫ّٰللا کے ساتھ دین اسالم میں دل کا معاملہ ہے ‪ ،‬جب دل سے ماننا ہی نہیں تو زبان سے کہہ کر منافقت‬ ‫ہے اس کو دل سے کہو یار ہ‬
‫کیوں کہ جاتی ہے ۔ صحیح کہہ رہے ہیں اپ آج کل کے مسلمانوں کو بہت اصطالح کی ضرورت ہے ۔ ہاں ۔ بھائی یہ قبلہ اول‬
‫کیا ہے ؟؟ قبلہ اول مسجد اقصی کو کہتے ہیں جس کو بنانے والے حضرت ابراہیم علیہ السالم کے پوتے تھے حضرت ابراہیم علیہ‬
‫السالم کی دو بیویاں تھیں ایک حضرت اماں ہاجرہ اور دوسری حضرت اماں سارہ حضرت اماں ہاجرہ کے اوالد تھی حضرت‬
‫اسماعیل علیہ السالم جنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السالم کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ بنایا اور حضرت اماں ہاجرہ کی اوالد تھی‬
‫حضرت اسحاق اور ان کی اوالد حضرت یعقوب اور ان کی اوالد حضرت یوسف علیہ السالم تھے حضرت اماں ہاجرہ کے بیٹے‬
‫حضرت اسماعیل علیہ السالم کے بعد ڈائریکٹ اپ صلی ہللا علیہ وسلم نبی ائے تھے اس کے درمیان میں کوئی نبی اور نہیں ائے‬
‫تھے ۔ ا اچھا ‪ ،‬وہ اپنا مزید انٹرسٹ دکھاتے ہوئے اشعر سے باتیں سننے لگی اور پوچھنے لگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔‬
‫ارزم اب رات کے اندھیرے میں ایک سنسان جگہ پر گاڑی کھڑے اپنی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا اور بس نورے کو ہی سوچ رہا‬
‫تھا اس کے ذہن میں اور کوئی خیال نہیں تھا اس کے عالوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫جس جگہ نوڑے کو قید کر کے رکھا گیا تھا اس جگہ کا مالزم نورے کو جاننے لگا تھا اس کو روزانہ کھانے دینے وہی ایا کرتا‬
‫تھا اس کو نورے کی حالت پر بہت ترس اتا تھا اور اب وہ اس کی مدد کرنے کا سوچ چکا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اندر آؤ جعفر ! شارق کہ اواز‬
‫دینے پر وہ مالزم اندر ایا ‪ ،‬جی ۔ شارق نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ جعفر سمجھ گیا کہ وہ کیا مانگ رہا ہے جعفر بوال جی ریکس‬
‫التا ہوں ‪ ،‬نورے نے اس وقت اپنا چہرہ اپنے گھٹنوں پر رکھا ہوا تھا اس نے نہیں دیکھا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد کمرے میں جعفر ایا‬
‫اور اس کو وہ بوتل تھمائی نورے نے ایک نظر اوپر نگاہ ڈال کے دیکھا تو وہ وہاں پر حکی بکی رہ گئی اس کا خون جیسے‬
‫سوکھ چکا تھا اس کے ہونٹ جیسے پیاسے ہو گئے تھے اس کے جسم میں ایک کپکپی طاری ہوئی اور وہ پھٹی انکھوں کے ساتھ‬
‫سرخ ہوتی اس کو دیکھ رہی تھی ‪ ،‬وہ شراب کی بوتل تھی ۔ تم جا سکتے ہو جعفر شارق کہ یہ کہنے پر جعفر باہر تو چال گیا‬
‫لیکن اس نے کمرے کا دروازہ تھوڑا کھول دیا اس کو بند نہیں کیا تھا ‪ ،‬نورے نے دیکھ لیا تھا لیکن خاموش رہی ۔ وہ شراب کا‬
‫ایک ایک گھونٹ اپنے حلق سے نیچے اتار رہا تھا اور شراب کے ایک ایک قطرے کا وہ مزہ لے رہا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫یا ہللا مجھے نورے سے مال دے میں نہیں اس کے بغیر رہنا چاہتا یا ہللا میں مانتا ہوں میں بہت گنہگار ہوں لیکن پھر بھی میں تجھ‬
‫سے مدد چاہتا ہوں تجھ سے ویسے دعا کر ہی نہیں کرتا جیسے میری بیوی کیا کرتی تھی لیکن پھر بھی تو کسی نیک ہستی کے‬
‫صدقے میری بیوی کو مجھ سے مال دے اس کی حفاظت فرمانا کیونکہ میں اس کی حفاظت نہیں کر پایا ‪ ،‬بلکہ اس کا محافظ بننے‬
‫کی بجائے اس کا مجرم ٹھہرا یا ہللا میری نور کی حفاظت کرنا ‪ ،‬ایک ایک لفظ ارزم کی زبان سے ادا ہوتے ہوئے اس کی انکھوں‬
‫سے انسو بہا رہا تھا ۔ وہ اچانک بوال کہ ہللا انسان اس وقت کتنا بے بس ہوتا ہے جب وہ کسی کو دیکھنے کے لیے ترس رہا ہوتا‬
‫ہے میری مدد کر دے بے شک سب سے بالکل مدد فرمانے والی ذات ہللا ہی کی ہے ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫اب اس کو شراب کا نشہ چڑھنا شروع ہو چکا تھا ‪ ،‬وہ اچانک کھڑا ہوا اور بوال مجھے آج تم اپنالو خوش رہو گی ۔۔۔۔ تمہاری‬
‫زندگی میں صرف بہار ہی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔ جس انسان کے پاس پھول ہیں ہی نہیں تو اسے خوشبو کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے‬
‫نورے کے یہ کہنے پر شارق نے اگے بڑھنے کے لیے قدم اٹھایا ہی تھا کہ نورے بھی فوراً کھڑی ہو گئی ۔ کہاں جا رہی ہو ؟‬
‫نشے کی حالت میں وہ اس کو دیکھتا بوال ۔ جو تم کرنا چاہ رہے ہو میں سب سمجھ رہی ہوں پیچھے رہو مجھ سے وہ چیخی تھی ۔‬
‫ارے ارے پیاری سی گڑیا اتنا اونچی مت چالؤ تمہارا گال بیٹھ جائے ابھی تو تم نے بہت زیادہ چیخنا ہے جیسے تمہاری وجہ سے‬
‫میری بہن چیخی اور چالئی ہے ایک ایک پائی کا حساب لینا ہے تمہاری وجہ سے جو کچھ میری بہن کے ساتھ ہوا اور جو اس‬
‫نے سہا اس کی انکھوں میں انسو ائے تو میں تمہیں نہیں میں چھوڑنے واال وہ اس کے قریب دو قدم اگے بڑھا نورے فٹ سے‬
‫دائیں طرف بھاگی تو اس نے اس کا بازو پکڑا تو نورے نے زوردار تھپڑ اس کے منہ پر مارا کہ نشے کی حالت میں وہ اوندھے‬
‫منہ جا گرا ۔ یہ تمہاری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی لڑکی اب تم نہیں مجھ سے بچو گی وہ فوراً کھڑا ہوا اور اس کی‬
‫جانب بڑھا ‪ ،‬تو نورے جنت نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس بھاری بھرکم شخص نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کو اپنی طرف‬
‫کھینچا نورے نے تھوڑا جھکتے ہوئے شراب کی بوتل پکڑی اور اس کو زور سے مارنا چاہی لیکن اس کے کندھے پر لگی تھی ‪،‬‬
‫درد کی وجہ سے اس نے اپنا کندھا پکڑا اور نورے کا ہاتھ چھوڑ دیا ۔ لیکن وہ پھر بھی کہاں باز انے واال تھا وہ دوبارہ اٹھا اور‬
‫اس کو پکڑنا چاہا اس کی طرف دوڑا لیکن نورے نے کمرے کا دروازہ کھال پا کر اپنے ابائے کو تھوڑا سا اٹھا کر باہر کی طرف‬
‫بھاگنا شروع کر دیا‪ ،‬رکو تم نہیں مجھ سے بچ سکتی ‪ ،‬وہ دوڑتی گئی دوڑتی گئی جتنا اس سے دوڑا جاتا تھا وہ دوڑتی گئی وہ‬
‫نشے میں اس کے پیچھے دوڑ رہا تھا اس لیے اس کی رفتار تھوڑی کم تھی لیکن نورے ایک بہادر لڑکی ہونے کی وجہ سے بہت‬
‫تیز دور رہی تھی ‪ ،‬رات کا وقت کافی زیادہ تھا نورے کہ پیچھے مسلسل شارق بھاگ رہا تھا اور اس کو پکڑنا چاہ رہا تھا وہ‬
‫دوڑتی جا رہی تھی کبھی اس گلی میں تو کبھی اس گلی میں اچانک وہ روڈ پر نکل ائی وہ سڑک بھی سنسان ہی تھی سامنے اس‬
‫کو ایک گاڑی نظر ائی جس کی الئٹس آن تھی وہ فوراً اس گاڑی کی طرف مدد مانگنے کے لیے دوری اور جا کر اس گاڑی کا‬
‫شیشہ کھٹکھٹایا اندر بیٹھے شخص نے فوراً شیشہ کے باہر نگاہ ڈال کر دروازہ کھوال تو وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر‬
‫دیکھتے رہ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ارزم تھا ‪ ،‬نورے کا ارزم ‪ ،‬ہللا نے اس کو وہاں بھیجا تھا اس کی دعاؤں کا صلہ بھی تو اس کو ملنا تھا‬
‫۔ ن ن نورے کانپتے جسم کے ساتھ ارزم نے اس کو کندھوں سے تھاما اور بوال ت ت تم ۔ ارزم ! ارزم! نورے نے گہرے گہرے‬
‫سانس لیتے ہوئے کہا اور سرخ ہوتی گالوں کو اس کے سینے پر رکھا ‪ ،‬نورے کے آنسو اس کی شرٹ میں جذب ہوۓ ۔ ارزم‬
‫جیسے حیرانگی کے عالم میں کھڑا ہو گیا تھا پھر خود کو سنبھالتے ہوئے بوال تم تم کیا کیا ہوا ہے ؟؟؟؟ وہ اس کو کام ڈاؤن کر رہا‬
‫تھا اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اس کو اپنے ہونے کا احساس دال رہا تھا لیکن بھاگنے کی وجہ سے نورے کا سانس اکھڑ رہا تھا‬
‫۔ شارق کو نظر نہیں ا رہا تھا کہ یہ کون شخص ہے جو اگے نورے کے ساتھ کھڑا ہے شارق نے اپنی بیلٹ میں پھنسی پستول‬
‫نکالی اور دور سے نورے کو فائر کیا ‪ ،‬ارزم نے گولی کی اواز سنتے ہی فوراً نورے کو اپنے سینے سے لگاتے ہوۓ دوسری‬
‫جانب کیا اور وہ مڑا تھا اور گولی اپنے جسم پر کھا چکا تھا ۔ ا ا ا ا ا آرزم ! !!! شارق وہاں سے مڑ کر پیچھے بھاگ گیا تھا لیکن‬
‫نورے کے لیے وہ کسی قیامت سے منظر کم تو نہیں تھا اس نے فوراً ارزم کو جیسے تیسے کر کے ‪ ،‬گھسیٹتے ہوئے گاڑی میں‬
‫تو ڈاال اور پھر فوراً اس کو ہسپتال لے کر چلی گئی ۔ ہسپتال پہنچ کر اندر سے وارڈ اٹینڈنٹ نے ا کر اس کو سٹریچر پر ڈاال اور‬
‫اس کی باڈی کو وارڈ کے اندر لے کر جایا گیا نورے ارزم کو فالو کر رہی تھی وہ اس وارڈ کے اندر نہیں گئی کیونکہ ڈاکٹرز‬
‫نے اس کو روک دیا تھا ۔‪ ،‬ارزم کا فون نورے کے ہاتھ میں تھا وہ مسلسل کانپتے ہوئے خود کو کنٹرول کر رہی تھی لیکن اس‬
‫سے سب بے قابو ہو رہا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ہیلو ! جی بھائی ! م م م میں نورے ب ب بات کر رہی ہوں ۔ نو نو نورے تم تم کہاں ہو تم بھائی کو مل گئی ہو یہ تو بھائی کا نمبر‬
‫ہے تمہارے پاس کہاں سے ایا اور تم اس وقت ہو کہاں تمہیں پتہ ہے ہم لوگ کتنے پریشان ہیں نورے مجھے بتاؤ تم کہاں ہو میں‬
‫فورا ابھی اتی ہوں ۔ حریم حریم ارزم کو گولی لگ گئی ہے تم فورا اس ڈریس پر اؤ ۔ کیا ؟؟؟ ہاں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کال بند ہونے کے بعد جب نورے نے فون کی سکرین پر دیکھا تو اس پر نورے کی تصویر لگی تھی ‪ ،‬نورے کی انکھ میں انسو‬
‫ایا لیکن اس نے اپنے اپ کو بہت قابو میں کیا ہوا تھا وہ ایک بہت ہی نڈر لڑکی تھی جو کہ صرف ارزم کے معاملے میں پگھل ہو‬
‫جاتی تھی ‪ ،‬وہ نہیں جانتی تھی کہ کیوں ؟؟۔۔۔۔۔۔۔ ابھی حریم تو نہ پہنچی تھی لیکن کچھ دیر بعد ڈاکٹرز وارڈ سے ایک ڈیڈ باڈی‬
‫نکال کر لے کر ائے ‪ ،‬نورے اٹھی اور اس ڈیڈ باڈی کو دیکھنے لگی ۔ واٹ اٹینڈنٹ بوال کیا یہ اپ کے گھر والے ہیں ؟ منہ پر‬
‫کپڑا ہونے کی وجہ سے نورے نے کچھ نہیں کہا وہ کپکپا رہی تھی اس کو لگا جیسے اور دنیا ختم ہو رہی ہے اس کو زمین اور‬
‫اسمان خود پر تنگ ہوتے محسوس ہو رہے تھے اس کی حالت دو چار ہو گئی تھی اس نے کپ کپاتے ہاتھوں سے اس ڈیڈ باڈی‬
‫کے اوپر سے کپڑا اٹھانے کے لیے ہاتھ رکھا اور بولی یا ہللا یہ ارزم نہ ہو اور اس نے یہ کہہ کر کپڑا ہٹایا اور وہ ایک دم سے‬
‫کانپ گئی کیوں کہ وہ کسی اور کی ڈیڈ باڈی تھی لیکن اس کی حالت بہت خراب تھی وہ بیٹھی اور بولی نہیں یہ یہ میرے کچھ نہیں‬
‫لگتے وہاں سے وارڈ اٹینڈنٹ اس ڈیڈ باڈی کو لے کر اگے کی جانب چال گیا ۔ نورے نورے !!! حریم یہ کہتی ہوئی نورے کے‬
‫سامنے ائی اور اس کے گلے لگی میری جان تم کہاں تھے تو کس حال میں تھی تمہیں ہو کیا گیا تھا تمہیں کس نے پکڑا تھا اور تم‬
‫اگوا کیسے ہوئی کیا تمہاری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی تھی ہوا کیا ہے میرا مطلب کیا ہوا تھا ؟؟؟ م م مجھے شارق شارق نے‬
‫۔۔۔۔ اور بس اب اس کا سٹیمنا ختم ہو گیا تھا اور وہ اس کے سینے کے ساتھ لگ کر رو رہی تھی کہاں پہ تھی تو اور حریم سمجھ‬
‫گئی کہ شارق نہیں اس کو اگوا کیا تھا وہ وہاں بیٹھی اس کو پیار کیا اس کو دالسا دیا اور اس کو سمجھانے لگی انہوں نے ‪ ،‬نورے‬
‫میری جان کیا کچھ غلط تو نہیں ہوا تھا اس نے بہت ہمت کر کے یہ سوال کیا ۔ نہیں نورے نے نفی میں سر ہالیا اور بولی لیکن تم‬
‫نے پتہ ہے اج کیا ہوا اور یہ سب بات اج والی اس کو بتانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫زینب جو کہ زیادہ تر اب اشعر کے پاس بیٹھتی تھی اس کی باتیں سنتی تھی تو یہ بات اس کی امی کو اور حنین کو بہت پسند ارہی‬
‫تھی کہ اشعر اتنے بڑے ٹراما سے گزر رہا ہے لیکن پھر بھی وہ اس کی ہیلپ کر رہا ہے اسالم کو فالو کرنے میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ڈاکٹرز نے ابھی مزید اشعر کو ہسپتال میں رکھنے کا کہا تھا ۔‬
‫شارق نے گھر جا کر کال کی ۔ ہیلو ! ہاں پھر ! دوسری جانب سے سفینہ بیگم کی اواز ائی ‪ ،‬ہاں تو ہو گیا سارا کام مارا ہو اس کو‬
‫یا نہیں ۔ مار تو میں اس کو ایا ہوں ۔ سفینہ بیگم کی تو باچھیاں کھیلتی رہ گئی وہ نہایت خوش ہوئی تھی اور بولی تمہیں تمہارے‬
‫کیے کا بدلہ ضرور ملے گا ۔ اور میں اس کا منتظر رہوں گا ۔ شارق یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی ہے ۔ میں اور تمہاری‬
‫ہونے والی بیوی کل پاکستان ا رہے ہیں اس فلیٹ میں ہوں گے ہم پہنچ جانا کل ۔ شارق نے کو نہایت خوشی ہوئی اور وہ خوشی‬
‫خوشی ان کو شکریہ کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کیا تمہارے ساتھ یہ سب کچھ ہوا؟ ہاں ۔دیکھو اب تو محفوظ ہو کوئی تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا ! لیکن ارزم تو نہیں نا اور وہ پھر‬
‫رو پڑی تھی ۔ تم جانتی ہو اشعر کے ساتھ کیا ہوا ؟ نورے کی انکھیں اگے ہی بڑی بڑی تھی لیکن اس نے مڑ کر اس کی جانب‬
‫دیکھا اور مزید انکھیں پھیال کر بولی کیا ہوا ہے اس کو اس کو تو جیسے دل پر کوئی تیر چل رہے تھے !!! جب تم اغوا ہو رہی‬
‫تھی وہ تمہیں بچانے کے لیے اگے بھرا تھا لیکن گاڑی کے نیچے اگیا وہ ۔۔۔۔ ک کیا ؟؟؟؟ وہ فٹ سے کھڑی ہوئی اور بولی کیا وہ‬
‫ٹھیک ہے یا ہللا !!! ہاں وہ اب ٹھیک ہے لیکن اب وہ کینسر پیشنٹ ہے لیکن انشاءہللا وہ ٹھیک ہو جائے گا ۔ کیا ؟؟ کینسر !!! ہاں ۔‬
‫نورے بیٹھی اور اپنا سر پکڑ لیا اور بولی یہ کیا ہو رہا ہے مجھ پر اج اتنے پہاڑ کیوں ٹوٹے جا رہے ہیں ؟؟؟؟ تم جانتی ہو بھائی‬
‫نے کشف سے ۔۔۔ ابھی حریم کچھ بولتی کہ نورے نے کہا اپنی زبان بند کر لو یہاں پر ہی میں اس کے اگے ایک لفظ نہیں سنوں‬
‫گی میں یہاں پر صرف اس لیے موجود ہوں کیونکہ اس وقت ارزم کو ضرورت ہے وہ اس وقت زندگی اور موت کے درمیان‬
‫جنگ لڑ رہا ہے یہ تو مجھے کوئی شوق نہیں تھا یہاں پر انے کا رہتا وہ پھر دوسری بیوی کے پاس مجھے غصے میں کہتی انسو‬
‫بہانے لگی تھی لیکن اس نے اپنے انسو حریم سے چھپائے تھے ۔ لیکن تم میری بات تو ۔۔۔ نورے دوبارہ اس کی بات کرتے ہو‬
‫بولی تم نے اب اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی نہیں تو میں اپنی جان دے دوں گی ۔ ۔ ۔ ۔ اچھا اچھا ریلیکس اب میں کچھ نہیں‬
‫کہتی لیکن تم ریلیکس کرو دعا کرو بھائی کے لیے ۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹرز باہر ائے تو نورے نے ان کو روکا اور بوال ڈاکٹر کیا‬
‫ہوا ہے کیا ہمارا پیشنٹ ٹھیک ہے ؟ اگلے ‪ 24‬گھنٹے پیشنٹ کے لیے بہت کریٹیکل ہیں اب دعا کیجئے کہ وہ بچ جائیں نہیں تو ان‬
‫کا بچنا بہت مشکل ہے ۔ ہا ۔ کیا کیا ؟؟ وہ یہ کہتے ہوئے اپنا جسم ڈھیال چھوڑ کر ہسپتال کی بنائی گئی سیٹ پر بیٹھ گئی حریم نے‬
‫اس کے کندھے پکڑے اور بولی ہللا بے نیاز ہے ہللا کچھ بھی کر سکتا ہے تم ہللا پر یقین رکھو ۔ یار اس نے میری خاطر اپنی‬
‫موت کو آواز دی ہے کاش اس کی جگہ میں ہوتی اس کو گولی نہ لگتی مجھے لگ جاتی میں مر جاتی میرا تو دنیا میں کوئی کام‬
‫بھی نہیں ہے نا میرا کوئی ہے ۔ نورے جان ایسے نہیں کہتے ‪ ،‬بھائی تم سے بے تحاشہ محبت کرتے ہیں تمہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے‬
‫پاگل ہو رہے تھے وہ !! مجھے اس وقت تمہاری ان جھوٹی باتوں پہ ذرا یقین نہیں ہے اگر تم مجھے دالسہ سے دینا چاہ رہی ہو تو‬
‫مت دو‪ ،‬میں ا گے ہی بہت کچھ سہہ کر ائی ہوں وہ تیز لہجے میں بولی تھی ۔ لیکن ۔۔۔ بس ۔‬
‫اب صرف ہللا کے عالوہ کوئی اور حل تو نیا تھا اور ویسے بھی ہللا کے عالوہ کوئی اور ہوتا ہے جو مسئلے حل کر سکے تو‬
‫نورے ہللا کے اگے جھک گئی گڑگڑا پڑی اور بس ہللا سے مدد مانگنے لگی‪ ،‬اس نے ہمیشہ کی ضرورت درود شریف اول و اخر‬
‫پڑھنا تھا اور اس نے پڑھا اور ولی یا میرے رب میں ارجم سے محبت نہیں کرتی ہوں پاگل ہوگئی بلکہ میں کرتی ہوں شاید اس‬
‫نے خود سے کہا لیکن میں اس کا اعتراف نہیں کروں گی کیونکہ وہ بے وفا ہے اور وہ بے وفائی کر چکا ہے وہ مجھے ڈھونڈتا‬
‫بلکہ اس نے شادی کر لی میں اس سے نفرت بھی نہیں کرتی ہوں لیکن اب میں اس سے محبت کا اعتراف بھی نہیں کروں گی ہری‬
‫مجھے جھوٹے دالسے دیتی ہے کہ اس نے مجھے ڈھونڈا لیکن میں اس کو دالسوں میں نہیں اؤں گی لیکن یا ہللا وہ میرا عشق‬
‫مجازی ہے اور تو میرا عشق حقیقی ہے اور میں اپنے عشق حقیقی سے اپنے عشق مجازی کے لیے دعا کر رہی ہوں ‪ ،‬جانا‬
‫عرضوں کو میری عمر چاہے لگا دے لیکن اس کو ٹھیک کر دے اس نے میری خاطر یہ کیا ہے اور اب جانتے ہیں میں کسی کا‬
‫احسان نہیں رکھتی میں اپنے بل بوتے پر ہر کام کرنے والی لڑکی لیکن نہ جانے کیوں اج میں ارزم کے لیے رو رہی ہوں یا ہللا یہ‬
‫سب باتیں مجھے جانزیب کو بھال بیٹھی ہے لیکن میں اس کی موت کا مطلب ضرور لوں گی لیکن یا ہللا پہلے ارزم کو ٹھیک کر‬
‫دیں نہیں تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی چاہے اس کا مجھ پر سے یقین اتر جائے میں اف نہیں کروں گی لیکن اس‬
‫کے بس ٹھیک کر دے ‪ ،‬میں کبھی اس کی زندگی میں دوبارہ ا کے اس کی زندگی کو مزید دوزخ میں نہیں بدلوں گی میں اس کی‬
‫زندگی سے بہت دور چلی جاؤں گی میں جانتی ہوں میرے انے کی وجہ سے اس کے ساتھ ہی سب کچھ ہو رہا ہے لیکن ارزم کو‬
‫ٹھیک کر دے اس کی زبان پر بس ایک لفظ تھا کہ ارزم کو یا ہللا ٹھیک کر دے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ اس نے ایک طویل سجدہ کیا جس‬
‫میں بس وہ رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی یا ہللا ارزم کو ٹھیک کر دے اور وہ سجدہ اس نے تقریبا دو گھنٹوں کا کیا تھا وہ سجدے‬
‫سے اٹھ نہیں رہی تھی حریم وہاں سے پانچ دفعہ گزری اس نے کہا کہ اپ شاید اس نے نماز پڑھ لی ہو نماز پڑھ لی ہو لیکن نہیں‬
‫اس نے نماز نہیں پڑھی تھی کیونکہ وہ نماز پہلے پڑھ چکی تھی اب تو بس وہ سجدے میں اس کی زندگی مانگ رہی تھی زندگی‬
‫دینے والے سے زندگی مانگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کہتے ہیں نا کہ جان نماز خود ہللا کو بتاتی ہے کہ یا ہللا اس کی دعا اور‬
‫نماز قبول کری تو شاید جائے نماز ہللا کو کہہ چکی تھی ابھی وہ سجدے سے اٹھ کر باہر یہ ائے تھے کہ ڈاکٹر باہر ائے اور بولے‬
‫مبارک کو اپ کے پیشنٹ ٹھیک ہو گئے ہیں اپ ان سے مل سکتے ہیں لیکن ان کو زیادہ باتوں سے منع کیا گیا ہے تو اپ ان سے‬
‫کم باتیں کیجئے گا اور ابھی وہ سو رہے ہیں لیکن اپ ہللا کا شکر ادا کیجئے وہ بہت بڑے حادثہ کا شکار ہونے سے بچ گئے ہے ۔‬
‫نورے نے کچھ نہیں بوال اور وہ جا کر سیدھا شکرانے کے نوافل ادا کر کر دوبارہ سجدے میں گر کر ہللا کی بارگاہ میں رونے‬
‫لگی اور بولی یا ہللا میں اتنی اچھی تو ہوں نہیں کہ اپ نے میری دعا قبول کر لی مجھے یقین نہیں ارہا کہ میری دعا قبول ہو گئی‬
‫ہے یا ہللا اپ کا بے تحاشہ شکریہ میں اپ کو شکریہ ادا نہیں کر سکتی لیکن اپ کا پھر بھی شکریہ وہ دوبارہ سجدے سے تقریبا‬
‫ڈیڑھ گھنٹہ نہ اٹھی وہ ہللا کو شکر ادا کر رہی تھی وہ ہللا کا شکر ادا کرنے میں اتنا ماہر تو نہ تھی لیکن وہ پھر بھی مہارت دکھا‬
‫رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔‬
‫حریم ارزم کے گھر والوں کو کچھ نہیں بتانا تھا اشعر ویسے بھی کینسر کا پیشنٹ ہے اس کو بتانا نہیں تھا کچھ نورے نے حریم‬
‫کو کہا ۔ ہاں میں نے کسی کو نہیں بتایا مجھے ٹائی کا فون ایا تھا میں نے ان کو کہا کہ بھائی میرے ساتھ ہی ہیں ۔ ٹھیک کیا‬
‫خوامخواہ وہ پریشان ہوتی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫حریم باہر بیٹھ تھی ہوئی تھی اور نورے ارزم کی وارڈ میں گئی ۔ ہلکے ہلکے قدم اٹھا کر وہ چل رہی تھی کیونکہ ارزم سو رہا تھا‬
‫وہ دھیرے سے اس کے پاس پہنچی اور اس کو بہت پیار سے دیکھ رہی تھی اور دل ہی دل میں سوچنے لگی کیا تھا ارزم تم‬
‫میرے ہی رہتے کیا تم یہ سوچتے ہو کہ میں نے بے وفائی کی ہے میں کسی کو دھوکا نہیں دے سکتی اور تم تو میرے شوہر ہو ‪،‬‬
‫کیسے سوچ لیا تم نے یہ سب اس نے اپنا بازو اٹھایا اور اپنی ہاتھ کی انگلی سے اپنے انسو صاف کیے کہ اس کا دوپٹہ ہلکا سا‬
‫ارزم کے ہاتھ سے ٹچ ہوا تھا ‪ ،‬وہ پھر اس کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ وہ ارزم کا احسان مانے کہ ارزم نے اس کی‬
‫زندگی بچائی ہے یا جو وہ دوسری شادی کر چکا ہے اس کا شکوہ کرے ۔۔۔۔۔ وہ اس کو نگاہ بھر کر دیکھ رہی تھی اس نے اب‬
‫سوچا کہ اب اس کو چلے جانا چاہیے واپس جانے کے لیے مڑی کے ارزم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا وہ جاگ رہا تھا وہ اس کو‬
‫محسوس کر سکتا تھا ‪ ،‬ارزم کو اس کو محسوس کرنے کی عادت تب سے ڈلی تھی جب سے وہ اغوا ہوئی تھی اگر وہ اس کو‬
‫محسوس نہ کرتا تو اس کی زندگی بے مقصد تھی اور وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا ‪ ،‬وہ اچانک بوال نا جانے تمہیں دیکھ کر جان آرہی‬
‫ہے یا جا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔ نورے نے اس کے ہاتھ پر نگاہ ڈالی جس ہاتھ نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا ‪ ،‬نورے نے پھر دوسری نظر‬
‫اس کے چہرے کی جانب ڈالی اس کی انکھیں کھلی اور روشن تھی وہ دونوں ایک لمحے کے لیے تو ایک دوسرے کے چہرے کو‬
‫تکتے رہ گئے تھے وہ دونوں کافی دیر بعد ملے تھے شاید اس لیے وہ نظر بھر کر دیکھنا چاہ رہے تھے وہ دونوں بھول گئے‬
‫تھے کہ آس پاس کوئی ہے یا نہیں یا کچھ اور ۔۔۔۔۔ پانچ سے دس منٹ بعد نورے کو احساس ہوا کہ اب کافی ہوگیا ہے اس نے اپنا‬
‫ہاتھ چھڑوایا ‪ ،‬ارزم نے ایک نگاہ اس کے چھڑواتے ہوئے ہاتھ پر ڈالی اور ہاتھ چھوڑ دیا ۔ جاگ رہے تھے تو یہ ناٹک کرنے کی‬
‫کیا ضرورت تھی ؟ نورے نے پیچھے منہ کرتے ہوئے انسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔ سکون لینے کے لیے انکھیں بند کی تھیتھیں‬
‫لیکن اچانک تم ا گئی اور تمہیں محسوس تو میں کر ہی سکتا ہوں ۔ تمہارے گھر والوں کو ابھی کچھ نہیں بتایا کہ یہاں پر ہوتم اگر‬
‫کہتے ہو تو ان کو بتا دوں کیونکہ اب میں نے جانا ہے یہاں سے ۔ ارزم نے ایک نگاہ دوبارہ اس کے چہرے کی جانب ڈالی اور‬
‫بوال کہاں جانا ہے تم نے ؟ ارزم نے کافی رعب سے پوچھا ۔ وہ میری مرضی ہے ۔ کیا تمہاری مرضی جو اتنی دیر میں تمہیں‬
‫ترستا رہا ہوں تمہیں دیکھنے کے لیے تمہیں پانے کے لیے تمہاری حسرت کرتا رہا ہوں وہ کیا وہ تمہارے نزدیک بے معنی ہے ‪،‬‬
‫کیا تمہارے نزدیک میرے احساسات کی کوئی قدر نہیں؟ کیا تم نے میری حسرت کی کیا تم مجھے پانے کے لیے دیکھنے کے لیے‬
‫ترسے اگر ترستے یا میری حسرت کی ہوتی ہے تو مجھے ڈھونڈتے نا کہ دوسری شادی کرتے ۔ ارزم کے ماتھے پر بل ایا اس کو‬
‫سمجھ ائی کہ لگتا ہے اس کو ابھی تک نہیں پتہ کہ میں نے شادی نہیں کی اس نے سوچا کیوں نہ اس کو تنگ کر لیا جائے ‪ ،‬وہ‬
‫بوال ہاں تو وہ اتنی پیاری تھی کیا میں اس سے شادی نہیں کر سکتا تھا میرا کوئی حق نہیں ہے ‪ ،‬اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے‬
‫گزارنے کا ؟ ہاں تو کرو اپنا اب یہ حق استعمال اور میں جا رہی ہوں یہاں سے میں یہاں مزید رک کے تمہارے لیے پریشان نہیں‬
‫ہو سکتی ہوں یہ بات تو اس نے آرام سے کی تھی لیکن بعد اب وہ چیخی اور چالتے ہوئے بولی تم کیسے انسان ہو ؟ پہلے تم نے‬
‫مجھ پر شک کیا جس کی وجہ سے میں اور تم علیحدہ ہو گئے اور پھر میں اغوا ہو گئی اور تم نے دوسری شادی کر لی اور‬
‫مجھے کہہ رہے ہو کہ مجھے کوئی احساس نہیں جتنا میں تمہارے لیے سہہ کر ائی ہوں وہ کیا تمہارے نزدیک معنی نہیں رکھتا‬
‫کس طرح کے انسان ہو ؟ میں تم سے کبھی بات ہی نہیں کرنا چاہتی ہوں اور نہ ہی دوبارہ تمہیں اپنی شکل دکھانا چاہوں گی ائندہ۔۔۔‬
‫کاش تم میری شکل دیکھنے کے لیے ترستے ہی رہتے بلکہ تم نے کیا ترسا ہو گا مجھے‪ ،‬تم اپنی دوسری بیوی کے ساتھ بہت‬
‫خوش تھے نا وہ چالئی تھی ۔۔۔۔ نو۔ نورے ارام سے باہر سے ڈاکٹر ا جائے گا اور کہے گا کہ اپ پیشنٹ کو مزید بیمار کر رہی‬
‫ہیں ۔ نورے نے دونوں ہاتھ اپنی کمر پر رکھے اور ادھر ادھر دیکھنے لگی اور اپنے اپ کو کنٹرول کرنے لگی اس کا غصہ بے‬
‫قابو ہو رہا تھا اور انسو بھی اس کو ا رہے تھے لیکن اپنے انسوؤں کو اندر کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی مسلسل ‪ ،‬تم بہت‬
‫بڑے بُرے انسان ہو ‪ ،‬تم نے شادی کیوں کی ‪ ،‬میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں اپنا سر دیوار پہ مار لوں یا تو۔۔۔۔ ابھی وہ بول ہی رہی‬
‫تھی کہ اگے سے وہ بوال یار تھوڑا خیال کرو تمہاری وجہ سے اپنی کمر پہ گولی کھائی ہے میں نے اور اتنی مشکل سے زندہ ہوا‬
‫ہوں ائی مین بچا ہوں تو تم پھر بھی مجھے یہ کہہ رہی ہو یار کتنی احسان فراموش ہے آپ ۔ میں میں نا واقعی بہت بہت احسان‬
‫فراموش ہوں تم مجھ پہ ایک اور احسان کر دو تم مجھے چھوڑ دو وہ دوبارہ چال کر بولی تھی اور رو رہی تھی ۔ ارزم نے اس‬
‫کی جانب دیکھا اور بوال نورے میں نے صرف تمہیں چاہا تھا اور تم سے شادی کی تھی اور تم مجھے کہہ رہی ہو میں تمہیں‬
‫چھوڑ دوں اتنا اسان ہے تمہارے لیے یہ سب کہنا ۔ اتنا سب اگر میں سہہ سکتی ہوں نا تو یہ کہنا بھی میرے لیے پھر اسان ہی ہے‬
‫۔ تمہارے لیے سب کہنا اسان ہے لیکن میرے لیے سہنا بہت مشکل ہے لگتا ہے تم نہیں چاہتی کہ میں زندہ رہوں مر ہی جاتا تو‬
‫اچھا تھا کم از کم تمہاری یہ بات تو نہ سنی پڑتی ۔۔۔نورے اس کے بیڈ پر بیٹھی اور بولی ایسے مت کہو ارزم کے منہ سے یہ الفاظ‬
‫سن کر وہ ٹوٹ گئی تھی اور بولی مجھے نہیں پتہ کہ اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو میں کیسے زندگی گزاروں گی میں تمہارے بغیر‬
‫رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی وہ ہچکیاں لیتے ہوئے بولی ۔ نورے ادھر اؤ میں اٹھ نہیں سکتا تھوڑا قریب اؤ ۔ نورے سامنے پری‬
‫کرسی کو اٹھا کر بیڈ کے سامنے رکھتے ہوئے بیٹھی اور بولی تم بہت برے ہو تم نے کیوں دوسری شادی کی کیا تم میرا انتظار‬
‫نہیں کر سکتے تھے محبت میں انتظار کیا جاتا ہے !!! نورے رو مت ارزم نے بیڈ پر لیٹے ہوئے ہی اس کے انسو اپنی انگلیوں‬
‫سے صاف کیے اور بوال میں نے دوسری شادی نہیں کی میں ایسی غلطی کبھی نہیں کر سکتا تمہیں چھوڑ کر دوسری شادی‬
‫کرنے کی تم جس مرضی سے پوچھنا میں پاگل کی طرح تمہیں ڈھونڈتا رہا میں نے تو شادی نہیں کی اس نے نورے کی گال پر‬
‫ہاتھ رکھا ہوا تھا اور بول رہا تھا اور ویسے ہی ہمیشہ کی طرح نرمی سے بول رہا تھا ۔ مجھے کشف نے کہا تھا کہ تم کسی کے‬
‫ساتھ بھاگی ہو میری غلطی بس اتنی ہے کہ میں کسی اور پہ یقین کر بیٹھا تھا تم پر نہیں کیا تھا ۔ لیکن میں نے تمہیں دیکھا تھا تم‬
‫خود شادی۔۔۔۔ ابھی وہ بولتی ہی کہ اگے سے ارزم بوال ہاں میں اس سے شادی کرنے واال تھا تب میں غصے میں تھا مجھے یہ پتہ‬
‫تھا کہ تم بھاگی ہو لیکن اسی دن اشعر کو ہوش ایا اور اس نے بتایا کہ نہیں بھابھی کو کوئی اغوا کر کے لے کر گیا تھا ۔ ہوش‬
‫؟؟؟ نورے نے حیرت سے پوچھا ۔ یاد ہے وہ ائس کریم جب میں لینے گیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ میں نے واش روم جانا ہے جب‬
‫وہ واش روم گیا اس کے بعد فری ہو کر جب وہ ا رہا تھا روڈ کروس کر رہا تھا اس نے دیکھا کہ تم خطرے میں ہو تو وہ فوراً‬
‫بھاگتا ہوا ایا تو اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا وہ کافی عرصہ کوما میں رہا لیکن جس دن میرا نکاح ہونے واال تھا کشف سے اس دن اس‬
‫کو ہوش ائی اور ڈاکٹر نے مجھے فوراً بالیا تو اس نے مجھے ساری بات بتائی ۔ اشعر کتنی تکلیفوں سے گزرا ہے!!! ہاں ۔ نورے‬
‫میری جان میں نے دوسری شادی نہیں کی مجھے معاف کر دو میں کرنے لگا تھا ‪ ،‬میں نے تم پہ شک کیا کسی غیر کے جال‬
‫پھنس کر ۔۔۔۔۔ مجھے معاف کر دو میری عقل پہ تالے پڑ گئے تھے تم مجھے جتنا مرضی کوس لو مجھے چاہے جان سے مار دو‬
‫لیکن مجھے چھوڑنا مت وہ اس سے بچوں کی طرح بات کر رہا تھا جیسے وہ ضد کر رہا تھا کہ تم میری ہی ہو ۔ ارزم اگر اب تم‬
‫نے یہ کہا تو تمہیں میں جان سے مار دوں گی ‪ ،‬اگر تمہیں کچھ ہو جائے گا تو میں تمہیں بتا رہی ہوں میں خود جان دے دوں گی‬
‫اپنی ۔ میرے خیال سے کہ میں خود کے لیے ایک مسئلہ ہوں۔۔۔ نہیں جان ! ارزم کے یہ کہنے پر وہ بولی انسان ہی خود کے لیے‬
‫مسئلہ ہے اگر انسان اتنی لمبی اڑآن بھرنے کا نہ سوچے جس کو وہ پورا نہ کر سکے اور اس کے نامکمل ہونے پر وہ دکھی ہو‬
‫تو انسان خود کے ساتھ ہی مخلص نہیں ہے کیونکہ وہ خود کو تکلیف دیتا ہے ‪ ،‬جب وہ جانتا ہے کہ وہ یہ سب نہیں کر سکتا پھر‬
‫کیوں وہ خود کو اور اپنے سے منسلک لوگوں کو دکھ دیتا ہے ؟ نورے کا اشارہ اس کی اپنی ذات کی طرف تھا اس کو یہی تھا کہ‬
‫شاید وہ کبھی اپنے باپ اور بھائی کی موت کا بدلہ نہیں لے سکتی ۔۔۔۔ لیکن وہ بوال بیگم ہللا مجھے اس بستر سے ایک دفعہ اٹھنے‬
‫کی ہمت دے تو تمہیں انصاف میں خود دلواؤں گا اور اب تم مجھ پر یقین کرنا ہوگا ۔۔۔۔۔ نورے نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کو کہا‬
‫تمہیں پتہ ہے مجھے اغوا کس نے کیا تھا اور کیا تم مجھے یہ نہیں پوچھو کہ میرے ساتھ کیا ہوا اور کیا تم مجھے اپنے ساتھ رکھ‬
‫لو گے کیا تمہیں یہ معاشرہ مجھے اپنے ساتھ رکھنے دے ؟ تمہارا نکاح مجھ سے ہوا تھا یا معاشرے سے ؟؟ نورے جہاں تک‬
‫بات اتی ہے معاشرے کی مجھے معاشرے سے کوئی لینا دینا نہیں تم میری ہو اور میری تھی اور میری رہوگی بھی انشاءہللا‬
‫مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا میں جانتا ہوں تم ایک نیک اور شریف انسان ایک پاکیزہ عورت ہو میں تم سے بے معنی ‪ ،‬بے مقصد‬
‫سوال نہیں کروں گا‪ ،‬اور جہاں تک بات رہی کہ تمہیں کس نے اغوا کیا تھا‪ ،‬تو ہاں وہ تو مجھے بتاؤ تاکہ اس ذلیل انسان کی چمڑی‬
‫اتار سکوں میں ۔ شارق ۔۔۔۔۔!!! ارزم کی انکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی اور اس کو تکتا بوال واقعی ؟؟؟ ہاں ۔ ارزم اپنے دل میں‬
‫ارادہ کر چکا تھا کہ اب وہ اس کو نہیں چھوڑوں گا اب تو وہ جان سے ہی جائے گا ۔ نورے ؟؟ ہمم ۔۔ تمہاری ناک کی لونگ کہاں‬
‫گئی ؟؟ نورے نے ارزم کی اس بات پر انکھیں چرائی اور بولی وہ میں نے اتار کر سنبھال کے رکھ دی تھی ۔ ارزم جو کہ سب‬
‫جانتا تھا وہ مسکرایا اور سوچنے لگا کہ یہ کتنی معصوم ہے یار کوئی نہیں دوں گا میں اس کو ضرور اور بوال تمہیں پتہ ہے‬
‫نورے میں نے بے سبب ‪ ،‬بے ارادہ ‪ ،‬بے مقصد‪ ،‬بے پناہ چاہا ہے تمہیں دیکھو کتنا سادہ چاہا ہے تمہیں ۔۔۔۔۔ نورے اس کی بات پر‬
‫مسکرائی اور ارزم کا جو ہاتھ اس کے گال پر تھا اس کو تھاما اور اپنے ہونٹوں سے لگایا ‪ ،‬جب تم مسکراتی ہو تو میری طبیعت‬
‫ٹھیک ہو جاتی ہے یہ بتاؤ کیا کرتی ہو عشق یا عالج ؟؟؟ ارزم اس کو دیکھ کر بوال میں تمہارے ساتھ ہوں اور دنیا کی کوئی چیز‬
‫ہمیں جدا نہیں کر سکتی انشاءہللا اور یاد رکھنا میں تم سے بے پناہ عشق کرنے لگا ہوں ۔۔ نورے ارزم کی اس بات پر بولی اگر‬
‫حق سے الکھوں لوگوں کی بھیڑ میں ہاتھ پکڑ سکو تو عشق کرنا ۔۔۔۔ اتنا آسان نہیں ہوتا ہے عشق کرنا یاد رکھنا ۔۔ فکر نہ کرو‬
‫نورے جان ۔۔۔ اب وہ دونوں مسکراۓ ‪ ،‬نورے اپنی انکھ میں انسو رکھتے ہوئے بولی تمہیں پتہ ہے میں نے اپنا حجاب اترنے نہیں‬
‫دیا ایک بال میرا کسی کو نظر نہیں آیا ۔ ۔ ۔ میں میں جانتا ہوں ۔ ۔ ۔ میں نے کچھ غلط نہیں کیا ۔ ۔ ۔ میں جانتا ہوں ۔ ۔ ۔ میں نے اس‬
‫کا بہادری سے سامنے کیا تھا ۔ ۔ ۔ میں جانتا ہوں نورے اب مسکرا دی تو ارزم اس کی جانب دیکھتا بوال میں نے تم سے تمہاری‬
‫سچے ہونے کی گواہی نہیں مانگی نا ہی دلیل ‪ ،‬میں جانتا ہوں تم ایک نڈر ایک بہادر ‪ ،‬پُر اعتماد لڑکی ہو اور سب سے بڑھ کر‬
‫آپ ارزم زاویار کی تا قیامت رہنے والی ہم سفر ہیں ۔ انشاءہللا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫صبح کا وقت ہوا تھا شارق اشعر کو دیکھنے ایا تھا وہاں کی صورتحال دیکھ کر اس کو معلوم ہو گیا تھا کہ ابھی تک کسی کو کچھ‬
‫بھی نہیں پتہ ۔ اشعر سو رہا تھا شارق اشعر کے قریب ہوا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھا اشعر نے اپنی آنکھیں فوراً کھولی اور اس‬
‫کی جانب دیکھ کر مسکرانے لگا ‪ ،‬اشعر شارق کی ہر پیار کی زبان سمجھتا تھا ‪ ،‬خدا نے شارق اور اشعر میں سگے بھائیوں سے‬
‫بھی بھر کر پیار ڈاال تھا ‪ ،‬اشعر نے منہ پھیر لیا غصے سے ۔ شارق کوئی ناگوار محسوس ہوا بوال کیا ہوا ہے ؟ جائیں مجھے اپ‬
‫سے بات نہیں کرنی ! اور اگر میں واقعی چال گیا تو پھر ! اشعر نے ایک دفعہ اس کی جانب دیکھا اور دوبارہ منہ پھیر لیا ۔ ہوا‬
‫کیا ہے بتاؤ گے نہیں ؟ اپ مجھ سے اتنے دنوں بعد ملنے ائے ہیں میں اپ کو مس کر رہا تھا میں تو آ نہیں سکتا اس کا مطلب اپ‬
‫بھی نہیں ائیں گے میں اپ سے بالکل نہیں بات کروں گا اب ۔ شارق جو کہ پہلے اس کے رویے سے تھوڑا پریشان ہو رہا تھا بعد‬
‫میں مسکرایا اور بوال میں تھوڑا بزی تھا ۔ اب ٹائم مل گیا ہے اپ کو اپنے جگر گوشے کے لیے ‪ ،‬اشعر بوال تو شارق مسکرایا‬
‫اور اس کے گال کو تھپتھپایا اور بوال ہاں مل گیا ہے اور بلکہ تمہارے لیے تو میرے پاس ٹائم ہی ٹائم ہے ۔ اگر میں نے ٹائم مانگ‬
‫لیا نا تو پھر اپ دے نہیں پائیں گے ۔ ایسا نہیں ہوگا تم تو میری جان ہو میرا اپیارا جگر گوشہ یہ بتاؤ ریکوری ہو رہی ہے یا نہیں ؟‬
‫الحمدہلل ۔ میری جان ‪ ،‬میرا سونا بس جلدی سے ٹھیک ہو کر گھر آجاؤ ‪ ،‬میں اپنے مرادوں سے مانگے ہوۓ اشعر کو دوبارہ ہنسی‬
‫خوشی دیکھنا چاہتا ہوں ۔ اشعر مسکرایا ۔ ہاں بلکل اےسے ہی مسکرایا کرو ‪ ،‬شارق اس کے پاس ہی بیٹھ گیا ۔ بھائی اپ کو پتہ‬
‫ہے بھابھی کا کچھ نہیں پتہ ! اور بھائی بھی ان کو دن رات ڈھونڈ رہے ہیں ۔ شارق بات ٹالتے ہوئے بوال مل جائے گی ایک نا‬
‫ایک دن ۔ انشاءآہلل ۔ بھائی مجھے بھابھی کی بہت یاد آتی ہے ۔ وہ کیوں ؟؟ شارق نے حیرت سے پوچھا ۔ وہ مجھے پیار کرتی تھی‬
‫بھائیوں کی طرح ۔ میں ویسے تم سے ناراض ہوں ‪ ،‬تم نے مجھے کینسر کا نہیں بتایا تھا ‪ .....‬بھائی مجھ سے ناراض نہ ہوا‬
‫کریں ۔ تم نے دکھ دیا ہے مجھے ۔ نہیں بھائی ایسا مت کہیں میں نازک دل کا چھوٹا سا بچہ ہوں ۔ شارق مسکرایا تو اشعر بوال‬
‫بھائی آپ کبھی ناراض ہو کر دکھ نا دیا کریں ‪ ،‬دکھ دینے کیلئے سارا جہاں کافی ہے ۔ شارق اور اشعر دونوں ہنسے ‪ ،‬شارق بوال‬
‫مکھن کے پیکٹ ۔ اشعر کھلکھال کر ہنسا تھا ۔ میرا چھوٹا سا معصوم بچہ شارق اپنی جگہ سے اٹھتا ہوا اس کے ماتھے پر بوسہ‬
‫دیتا بوال ۔ بھائی آپ کو ایک بات بتانا تھی وہ سنجیدہ لہجے میں بوال ۔ ہاں بولو ۔ بھائی اب جانتے ہیں نا میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا‬
‫میں کومے میں گیا تھا ۔ ہاں ‪ ،‬کیوں ؟؟؟ کیا ہوا ؟ بھائی جس گاڑی کے نیچے میں ایا تھا وہ گاڑی اور کسی کی نہیں بلکہ آپکی بہن‬
‫کشف کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شارق اشعر کہ اس بات پر فورا کھڑا ہوا اور بوال کیا ؟؟؟ جی جی بھائی !!! کیا تم سچ کہہ رہے ہو ؟ جی ۔‬
‫شارق نے ایک نگاہ بھر کر اشعر کو دیکھا اور جانے لگا تو اشعر بوال بھائی کہاں جا رہے ہیں ؟ معلوم ہو جائے گا تم اپنا خیال‬
‫رکھنا میری جان ۔۔۔۔۔ اور وہ یہ کہتا چال گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫شارق گاڑی ڈرائیو کرتے گھر جا رہا تھا کہ اچانک اس کو یاد ایا کہ اس نے تو اج سفینہ بیگم سے ملنے جانا تھا اس نے فورا اس‬
‫ایڈریس کو دیکھا اور وہاں جانے کی تیاری کرنے لگا ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ شارق کے سفینہ بیگم کے گھر پہنچنے سے ہی پہلے ایک بہت‬
‫بڑے ٹرک سے سنسان سے رکھ کر اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ‪ ،‬جن لوگوں نے ٹرک سے ہٹ کیا تھا وہ ٹرک سے نکلے شارق جو‬
‫کہ بے ہوش تھا اس کو اٹھایا اور اپنے ساتھ لے گئے ۔‬
‫نورجان ! ارزم نے گال خشک ہونے پر اس کو اواز دی جو کہ سامنے اس کے بیٹھی تھی ۔ جی ۔ تھوڑا پانی دے دو ۔ نورے نے‬
‫جگ سے گالس میں پانی ڈاال اور پھر اس کو تھوڑا اوپر کر کے اپنے ہاتھوں سے پانی پالنے لگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ارزم پانی کم پی‬
‫رہا تھا اور اس کے ہاتھوں کو زیادہ دیکھ رہا تھا ‪ ،‬اس کو یوں دیکھتے نورے بولی کیا۔ کیا دیکھ رہے ہو ؟؟ وہ تھوڑا کنفیوز‬
‫ہوئی تو ارزم بوال بیگم کے ہاتھ دیکھ رہا ہے !! کیوں نہیں دیکھ سکتا ؟؟ ارزم نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔ میرے منع کرنے پر‬
‫نہیں دیکھو گے ؟ نورے نے ایک بھنو اٹھاتے ہوئے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا ۔ اب یہ ظلم مت کرو مجھ پر اگے اتنی دور رہی‬
‫ہو تم مجھ سے اتنے دن۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کمرے کا دروازہ کھوال ہے کوئی اندر ایا وہ ایک لڑکی تھی بہت پیارے سے لباس میں اس لباس میں وہ بے حد پیاری لگ رہی‬
‫تھی ‪ ،‬اشعر نے اس کی جانب دیکھا اور اس کو دیکھتا رہ گیا وہ بہت ہی خوبصورت سی یہ چھوٹی سی گڑیا لگ رہی تھی وہ‬
‫زینب تھی ایک کالے سادے عباۓ اور حجاب میں ۔۔۔۔۔۔ اشعر کس زبان سے نکلنے واال پہال لفظ ماشاءہللا تھا اور دوسرا الحمدہلل تھا‬
‫‪ ،‬زینب مسکرای تھی ۔ اشعر تھوڑی دیر بعد بھوال تم جانتی ہو زینب خود کو تراش کے اور تالش کر کے ہی خدا ملتا ہے ۔ زینب‬
‫اشعر کی ہر بات کو غور سے سنتی تھی اور اشعر اس کو اپنی چھوٹی بہن سمجھتا تھا ۔ تم نے ساری نماز سیکھ لی ؟؟ جی ۔ جی‬
‫الحمدہلل ۔ ماشاءہللا ۔ بھائی ؟؟ جی ۔ جنت میں کیا ہوگا یعنی کہ جنت میں سب سے خاص چیز کیا ہے ؟؟ میرا مطلب ہے ایسا کیا‬
‫خاص ہے جنت میں ؟ جنت میں جس رب کی ہم بغیر دیکھے عبادت کرتے ہیں اس کو دیکھنے کو ملے گا ۔ واقعی ؟؟ اس نے‬
‫تجسّس سے پوچھا ۔ لیکن اپ نے مجھے بتایا تھا کہ حضرت موسی نے ان کو دیکھا تھا تو دیکھ نہیں پائے تو ہم ان کو دیکھ پائیں‬
‫گے کیا ؟؟؟ بے شک ہللا کچھ بھی کر سکتا ہے وہ چاہے گا تو ہم ہللا کو دیکھ لیں گے ہللا ہمیں اتنی روشنی دے گا اتنی بصارت‬
‫دے گا ۔ تو بھائی لوگ سب سے پہلے یہی ا کے پوچھتے ہیں ہمارے دین میں کہ بھئی کیوں تمہارا خدا نظر نہیں اتا ہمارا تو اتا‬
‫ہے جو انہوں نے بت بنائے ہوتے ہیں وغیرہ ۔۔۔۔۔۔ یہی بہتر ہے کہ وہ پردے میں رہے اگر وہ پردے سے باہر ائے تو کس کو ہوش‬
‫رہے ہاں مگر جب ہم اس کی تالش پر نکلے ہی نہیں جب ہم نے اس کو ڈھونڈا ہی نہیں تو ہمیں وہ ملے کیسے ؟ وہ کیسے نظر‬
‫ائے تالش ‪ ،‬رجحان انٹرسٹ جس چیز میں ہو انسان اس کو ڈھونڈتا ہے ہللا تعالی اسالم میں کہتا ہے کہ تم نے میری طرف ایک‬
‫قدم بڑھانا ہے میں ‪ 70‬بڑھاؤں گا لیکن کیا کہہ رہا ہے پہلے ایک قدم بڑھاؤ ‪ ،‬چلو زینب مجھے یہ بتاؤ دودھ کو گرم کرنے سے‬
‫کیا ہوتا ہے ؟ زینب تھوڑا کنفیوز ہوئی تو اشعر بوال ٹیک اٹ ایزی ارام سے بتاؤ ۔ بھائی اگر ہم دودھ کو گرم کریں تو اس سے‬
‫مکھن کی مالئی وغیرہ بنتی ہے ۔ اب اپ زینب دیکھو اس کی مثال انسان سے جو اگر انسان خود کو تراشے گا تو وہ بہت کچھ‬
‫بن جائے گا لوگ اس کو بہت گرائیں گے نیچے کی طرف لیکن ہللا اس کو اوپر کی طرف اٹھائے گا ‪ ،‬اپ کو پتہ ہے زینب جب اپ‬
‫چاہتے ہو کہ ہللا تعالی اپ سے بات کرے نا تو قران پڑھو اور جب اپ ہللا سے بات کرنا چاہو نا تو نماز پڑھو ۔ جی اچھا ‪ ،‬زینب‬
‫اشعر کی باتوں پر الجواب ہو جایا کرتی تھی ۔ ہم صرف ہللا کا حکم پورا کرتے ہیں اس کے اگے جھکتے ہیں ہمیشہ اپنے رب‬
‫سے مانگو‪ ،‬ہللا اور اس کے رسول سے جو شخص جنگ کرنا چاہتا ہے وہ سود شروع کر دے یہ بات سورۃ بقرہ میں قران پاک‬
‫میں کہی گئی ہے ۔ بھائی سود ؟؟؟ زینب سود وہ ہوتا ہے کہ دیکھو اپ مجھ سے ایک ہزار مانگو اپ کو بہت ضروری چاہیے میں‬
‫اپ کو کہوں گی اپ مجھے جب واپس کرو گے تو مجھےدو ہزار کرو گی‪ ،‬تو دیکھو جب اپ کے پاس ایک ہزار نہیں ہے وہ بھی‬
‫ہم اس سے لے رہے ہو تو اپ کیسے دو ہزار واپس لیکن میں پھر بھی اپ سے مانگ رہا ہوں ‪ ،‬کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اپ کو‬
‫ضرورت ہے ‪ ،‬سمجھ ائی بات کی ؟ جی ۔ زینب دیکھو اگر ہمیں کوئی کہے کے امریکہ پاکستان پر حملہ کرنے لگا ہے تو کیا ہوگا‬
‫ہماری راتوں کی نیندیں اڑ جائیں گی لیکن ہم لوگ نہ جانے ہللا سے کیوں نہیں ڈرتے جب ہللا نے کہا ہے کہ نماز پڑھ کے سو‬
‫قران پڑھو لیکن نہیں ہم جانتے ہیں یہ بھی جانتے ہیں کہ ہللا کی رحمت اس کے غصے پر غالب ہے لیکن پھر بھی ہم لوگ اس‬
‫کو مناتے ہی نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫یار تم تو عید کا دن ہی ہوگئی ہو بار بار منانا پڑتا ہے تمہیں ‪ ،‬ارزم اس کو وارڈ میں ایک جانب بیٹھا دیکھ کر اس کو تنگ کرنے‬
‫کے لیے بوال تھا ۔ نورے نے یہ سن کر غصے سے دوسری جانب دیکھا اور وہ مسکرائی تھی لیکن پھر اچانک سنجیدہ ہوگئی ۔‬
‫ہوا کیا ہے نورجان ؟ کب ٹھیک ہوگے تم ؟ دیکھو اگر میں ٹھیک بھی ہوجاؤں تو تمہاری ناراضگی دیکھ کر میں پھر بستر مرگ‬
‫پر آجاؤں گا ۔ ارزم کی اس بات پر وہ اچانک کھڑی ہوئی اور بولی میں تمہیں یہ نہیں کہوں گی کہ مریں تمہارے دشمن ہاں لیکن‬
‫اگر اب تم نے ایسی بات کی تو میں تمہارا گلہ خود دباؤں گی وہ غصے سے اس کی گردن پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تھی ۔ ہاۓ‬
‫جان کیوں جان لینا چاہتی ہو ؟؟ اس نے نورے کو مزید تنگ کرنا چاہا تھا ۔ وہ غصے سے دوسری جانب منہ کر کے اپنے ہاتھوں‬
‫کو کمر پر دکھ چکی تھی۔ اچھا نا ناراض ہو کیوں ؟ بس اب گھر جانا ہے مجھے ‪ ،‬سفینہ بیگم پر کیس کرنا ہے ۔ اوہ ! اچھا اچھا‬
‫! کل میں ویسے بھی ڈسچارج ہو جاؤں گا ڈاکٹر نے کہا ہے ‪ ،‬پھر بس انشاءہللا سب ہوجاۓ گا ‪ ،‬اب خوش ؟؟ خوش میں اس دن‬
‫ہوں گی جس دن میرے بھائی کی موت کا بدلہ میں لوں گی ۔ لو جی ابھی اور انتظار کرو ۔۔۔۔۔ جو محبت کرتے ہیں وہ انتظار بھی‬
‫کرتے ہیں ‪ ،‬نورے کے یہ کہنے پر ارزم بوال واہ بیگم خوب انٹرنیٹ استعمال کرتی ہیں آپ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دونوں مسکراۓ‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وہ دن اب گزر گیا تھا ارزم ایک خود مختار شخص تھا وہ بہتر ہو چکا تھا اس لیے اس نے اپنی گاڑی ڈرائیو کرنے کا فیصلہ خود‬
‫ہی کیا تھا ‪ ،‬نورے نے منع کیا لیکن وہ پھر بھی کہاں منع ہونے واال تھا ۔ ۔ ۔ وہ دونوں گاڑی میں تھے ارزم مجھے اشعر سے‬
‫ملنے جانا ہے ‪ ،‬اس کے ساتھ اتنا کچھ ہوا ہے بیچارہ ۔ ٹھیک ہے ہم چلتے ہیں ۔ ۔ ۔ وہ لوگ ابھی ہاسپٹل کی طرف جا ہی رہے‬
‫تھے کہ ارزم کو کشف کی کال ائی ارزم نے بے دہادھیانینی میں بغیر نمبر دیکھے کال اٹھائی اور بوال ہیلو کون؟ ارزم میں کشف ۔‬
‫کشف کے یہ الفاظ سنتے ہی وہ ارزم جو کہ نہایت سکون سے بیٹھا تھا ایک دم جیسے اسے کرنٹ لگا تھا وہ تپا ہوا بوال تمہارا‬
‫مسئلہ کیا ہے مجھے فون کیوں کیا ہے تم نے ؟ ارزم بھائی کا کچھ پتہ نہیں ہے وہ نہیں مل رہے ! بہت اچھا ہوا میں تو کہتا ہوں‬
‫خدا کرو تمہیں کبھی وہ ملے ہی نہ ۔ ایسے تو مت کہو ۔ کیا اس مت کہوں وہ نہایت غصے میں اونچی اواز میں بوال سانپوں میں‬
‫بھی تم سے کم زہر ہوگا میں یہ کہتے ہرگز جھجک محسوس نہیں کروں گا کہ اپ زہریلے پنکی انتہا پر اتر ائی ہیں مسلمہ نہایت‬
‫مہربانی اب مجھے دوبارہ کال کر کے اپنی بےعزتی مت کروائیے گا اور اس نے یہ کہہ کر غصے سے فون بند کر دیا نورے جو‬
‫کہ پچھلے تین سے چار دن اس کا صرف پیار دیکھ رہی تھی اس کا یو ایک غصہ دیکھ کر وہ حیران ہوئی تھی اور بولی کر دو‬
‫اس کو معاف ۔ اگر میں اس سے شادی کر لیتا تو کیا تم مجھے معاف کرتی ارزم کہ یہ کہنے پر نورے نے اس کی جانب دیکھا‬
‫اور خاموش رہی ‪ ،‬لیکن بعد میں بولی وہ تم سے پیار کرتی تھی اس کو تنگ کرنے کے لیے وہ بولی ۔ ہاں تو محبت دلیل مانگتی‬
‫ہے ! محبت انتظار مانگتی ہے ! محبت صبر مانگتی ہے اور محبت اپنا پسندیدہ انسان مانگتی ہے ارزم نے گہری سانس لی اور اپنا‬
‫غصہ کنٹرول کیا اور بوال دیکھو نورے کچھ لوگ منافق ہوتے ہیں وہ بھی بال کے وہ لوگ اپنے پسندیدہ انسان کو چاہنے کے لیے‬
‫اس کا سکون غارت کر کے اس منافق کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ نورے یہ اس کی جانب دیکھا اور بولی کافی بڑی باتیں‬
‫کرنے لگ گئے ہو ۔ وہ تو میں شروع سے کرتا تھا لیکن شاید اپ میری باتوں پر غور کرنا شروع ہوئی ہو اس نے کندھے اچکائے‬
‫۔ نورے نے ہنسی دبائی اور بولی کیا تم مجھے اپنی محبت کی دلیل دے سکتے ہو ؟ نورجان جس سے انسان کو پیار ہوتا ہے وہاں‬
‫دلیلیں نہیں مانگا کرتے ۔ وہ الجواب ہو گئی تھی ۔ ۔ ۔۔ ۔ لو اگیا ہسپتال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔‬
‫اشعر جو کہ کمرے میں اکیال تھا اس کے گھر والے یعنی اس کی ماں حنین اور زینب گھر پر تھی ‪ ،‬وہ اکیال لیٹا ہوا تھا ‪ ،‬ارزم‬
‫اندر داخل ہوا السالم علیکم بھائی ! ارزم کو دیکھ کر اشعر بوال ۔۔۔۔ وعلیکم السالم ! کیسے ہو تم ؟ اگئی اپ کو اپنے بھائی کی یاد‬
‫اشعر کہ یہ کہنے پر ارزم بوال یار بہت ضروری کام کرنے گیا تھا ہم جانتے تو ہو تمہاری بھابھی کو ڈھونڈ رہا تھا ۔ الئے نہیں ؟‬
‫اشعر کہ یہ کہنے پر نورے دروازے سے اندر ائی وہ اس کو دیکھتا ہوا اپنے بیڈ سے اٹھا اور بیٹھ گیا اور حیرانی سے دیکھتا‬
‫انسو بہانے لگا اور رونے لگا یہ دیکھ کر ارزم اس کے پاس ہوا اور اس کو بچوں کی طرح چپ کروانے واال لگا ارے ارے ارے‬
‫رونا بند کرو تمہاری بھابھی ا گئی ہے ۔ بھابھی اپ کہاں چلی گئی تھی ؟ آپ کو ذرا ترس نہیں ایا اپنے چھوٹے بھائی پر ؟ اتنی‬
‫دیر میں اپ کے بغیر دیا ‪ ،‬بھابھی میں بور ہوگیا تھا ‪ ،‬قسم سے مجھے تو کوئی دیکھنے بھی نہیں اتا تھا نہ بھائی نہ شارق بھائی‬
‫امی بھی گھر رہتی تھی ۔ ارے میرے بھائی بس کر دو اشعر رالؤ گے کیا نورے بولی ‪ ،‬نورے کی آنکھیں بھی بھیگیں تھیں شاید‬
‫وہ جہانزیب کے بعد اشعر کو اپنا بھائی واقعی دل سے مانگتی تھی اور وہ بھی اس کو اپنی بڑی بہن مانتا تھا ۔ ویسے اگر میں گم‬
‫ہوتا نا تو تم نے اتنا رونا کوئی نہیں تھا ارزم ان کو ہنسانے کے لیے بوال تھا ۔ بھائی میرا تو پتہ نہیں بھابھی نے تو بہت رونا تھا‬
‫اشعر نے بھی اگے سے ہنستے ہوئے کہا ۔ چلو بس کرو رونا نورے یہ کہہ کر سامنے سیٹ پر بیٹھ گئی تھی ۔ وہ سب آپس میں‬
‫باتیں کرنے لگے تھے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫کچھ دیر بعد وہاں حریم بھی پہنچ چکی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اؤ اؤ حریم ارزم بوال ۔ حریم بہت تیار ہو کر بال کھول کر میک اپ کر کرائی‬
‫ہوئی تھی اور ا کر نورے کے ساتھ بیٹھ گئی ۔ نورے اس کو پہلے تو سمجھایا تھا کہ وہ پردہ وغیرہ کیا کر رہے لیکن اس کی اپنی‬
‫مرضی تھی بھائی اپ ٹھیک ہو گئے ہیں ؟ اس کو یہ کہنے پر نورے نے اس کو زور سے ہاتھ مارا اور ارزم نے انکھیں دکھائیں‬
‫اور چپ رہنے کا کہا ۔ کیا ہوا تھا بھائی اپ کو ؟ اشعر ہیر اس سے پوچھ رہا تھا ۔ کچھ نہیں مجھے کیا ہونا ہے بھال تمہارے‬
‫سامنے ہوں اس نے سرسری اواز میں یہ جملہ کہا ‪ ،‬امی کہاں ہیں بات ٹالنے کے لیے وہ بوال ۔ امی کہہ رہی تھی کہ میں گھر‬
‫سے کچھ بنا کر التی ہوں بھائی اب میں تھک گیا ہوں مجھے گھر جانا ہے مجھ سے ہاسپٹل میں رہا نہیں جاتا ۔ ارزم چو کے فون‬
‫یوز کر رہا تھا بوال ڈاکٹر سے میری بات ہوئی ہے تم انشاءہللا کل تک انشاءہللا ڈسچارج ہو جاؤ گے ۔ واقعی ؟؟ اس نے حیرت اور‬
‫بے تابی سے پوچھا ۔ ہممم ۔ شکر ہے ہللا کا ۔ ابھی وہ لوگ بیٹھے باتیں کر ہی رہے تھے کہ اشعر کہ دوست اندر ائے ۔ حمید ‪،‬‬
‫فرقان اور عبید ۔۔۔۔ اشعر بوال تھا ۔ جب اس کے تینوں دوست اندر ائے تھے تو سب سے پہلے فرقان کی نظر تو گئی ہی حریم پر‬
‫تھی اور اس نے اس کو اوپر سے لے کے نیچے تک مکمل اپنی نگاہ بھر کے دیکھا تھا لیکن کسی کو محسوس نہیں ہونے دیا تھا‪،‬‬
‫اور حریم جو کہ اس کی نظروں کی تپش برداشت کر رہی تھی خاموش بیٹھی رہی وہ سارے ا کر اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور‬
‫اس سے باتیں کرنے لگے وہاں کام ماحول ایسا تھا کہ بیڈ کے سامنے پڑے صوفے پر نورے حریم اور ارزم بیٹھے تھے اور وہ‬
‫تینوں اس کے بیٹھ کے پاس کھڑے اس سے باتیں کر رہے تھے نورے کو وہاں پر انکمفرٹیبل فیل ہوا تو اس نے ارزم کو اپنی‬
‫طرف متوجہ کرنے کے لیے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ارزم نے اس کی طرف دیکھا تو نورے نے اس کو انکھوں سے اشارہ‬
‫کیا کہ اس کو یہاں پر عجیب فیل ہو رہا ہے اس لیے وہ باہر جا کر بیٹھنے لگی ہے ‪ ،‬ارزم نے نے بھی ہاں میں سر ہال دیا ہے اور‬
‫وہ باہر چلی گئی ( وہ اس وقت ابائے میں ہی موجود تھی) ‪ ،‬اب صوفے پر حریم اور ارزم بیٹھے تھے وہ تینوں دوست اشعر سے‬
‫باتیں کر رہے تھے لیکن ان میں سے ایک کی نظر تو صرف حریم پر ٹکی ہوئی تھی ‪ ،‬حریم اب اس کی نظروں سے تنگ ا گئی‬
‫تھی اور وہ باہر چلی گئی غصے سے ۔ اشعر یہ اس کو دیکھا اور اس کو عجیب سا لگ کیونکہ اس وقت تک اس کو پتہ نہیں تھا‬
‫کہ وہ کیوں یوں غصے سے باہر گئی ہے پاؤں زمین پہ زور سے مارتے ہوئے ۔ وہ تینوں دوست اب ارزم کے ساتھ صوفے پر ا‬
‫کر بیٹھ گئے ارزم ان کو جانتا تھا کیونکہ وہ اشعر یہ کافی پرانی دوست ہیں وہ ا کر مل کر باتیں کرنے لگے ۔ تم لوگ اب ائے ہو‬
‫مجھ سے ملنے !! جبکہ اب میں تو ٹھیک ہو گا گھر بھی جانے واال ہوں ‪ .‬عبید بوال یار تجھے پتہ تو ہے ہم سارے امریکہ گئے‬
‫ہوئے تھے ‪ ،‬دوستوں یہ ٹریپ پالن کیا تھا لیکن ارزم بھائی نے تمہیں جانا ہی نہیں دیا ۔ دیکھو یہاں رہ کر اس کی حالت تم لوگ‬
‫ذرا پہلے اور تم لوگ کہہ رہے ہو میں اس کو امریکہ جانے دیتا ۔ کہے تو اپ صحیح رہے ہیں تم واقعی کوئی چھوٹے بچے ہو‬
‫حمید نے ہنستے ہوئے اس کو کہا ۔ بھائی دیکھیں یہ میرا مذاق اڑا رہے ہیں ! ویسے تمہارا مذاق اڑانا بھی چاہیے تم کو چھوٹے‬
‫بچے تھے جو گاڑی کے نیچے ا گئے ارزم نے بھی اس کے دوستوں کا ساتھ دیا اور وہ سارے ہنسنے لگے ۔ کوئی بات نہیں‬
‫اشعر بوال دیکھ لوں گا سب کو میں ۔ بھائی اپ اس کو فنگر پکڑ کے روڈ کراس کرایا کریں عبید ہنستے ہوئے بوال تھا سارے ہنس‬
‫رہے تھے لیکن فرقان کسی سوچ میں گم تھا اس کو یوں دیکھ اشعر بوال اوئے تجھے کیا ہوا ہے ؟ فرقان نے بات کا جواب نہیں دیا‬
‫اور اپنے کسی سوچ میں گم تھا ساتھ بیٹھے حمید نے اس کو زور سے ہالیا تو وہ کوال ہاں بولو کیا ہوا ہے؟ ہم کہہ رہے ہیں تجھے‬
‫ہوا کیا ہے تو باتیں نہیں کر رہا ۔ کچھ نہیں یار ! یار اس کو چھوڑو یہ تو پاگل ہے عبید بوال ۔ تو ہوگا فرقان بوال وہ لوگ مسلسل‬
‫اب باتیں کرنا شروع ہو چکے تھے لیکن فرقان ابھی بھی ان سے باتیں کم کر رہا تھا اور کچھ زیادہ سوچ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کیا ہوا ہے حریم تم غصے میں کیوں ہو ؟ یار وہ اس نے ایک دوست مجھے دیکھ رہا تھا وہ بھی اتنے بوے طریقے سے ۔ اشعر‬
‫کا دوست ؟؟؟ ہاں نا ‪ ،‬دل چاہ رہا تھا کہ اس کی چمڑی کھینچ لوں ۔ تمہیں کس نے کہا تھا کے اتنا سج سنور کے اہر اؤ ۔ یار میں‬
‫تو ملنے ائی تھی اشعر سے ! تو ؟؟؟ نورے بولی ۔ یار اشر نے مجھے پروپوز کیا ہے اس نے مجھے کہا ہے کہ وہ مجھ سے‬
‫شادی کرنا چاہتا ہے تو میں مان گئی تھی لمبی کہانیاں تم بعد میں بتا دوں گی لیکن اس لیے میں بس تیار ہوئی تھی ۔ اشعر تمہارا‬
‫محرم ہے کیا ؟ نہیں ۔ موال تم فیوچر مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو لیکن ابھی وہ تمہارا محرم نہیں ہے اور تم یہ نہ اس طرح ایا‬
‫کرو اب دیکھنا اس کو برا لگے گا ۔ یار تم اس کو بتانا ہی نا ۔ کیوں ؟؟ یار اس کو جلدی غصہ اتا ہے اس لیے خاص طور پر ان‬
‫باتوں پر ۔ اچھا ‪ ،‬لیکن تم اپنا حلیہ کم از کم درست کرو ۔ ۔۔۔‬
‫کافی دیر گزر چکی تھی وہ دونوں باہر ہی بیٹھی تھی کہ اس کے دوست اندر بولے چلو یار اب ہم چلتے ہیں ۔ اچھا ۔ لیکن فرقان‬
‫جو کہ ساری باتیں خاموشی سے سن رہا تھا اب وہ اچانک بوال یار وہ لڑکی یہاں پہ تیار ہو کر جو بیٹھی تھی بڑی پیاری تھی‬
‫میری اس کی سیٹنگ کرا دے اج کل میری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے تجھے پتہ تو ہے چھ ‪ ،‬سات چھوڑی ہیں تو اب ایک اور‬
‫پسند کرنے کا ارادہ ہے کوئی پھنسا ہی دے ۔ اشعر نے تپش کی نگاہ سے اس کی جانب دیکھا اور ابھی اس کی زبان پہ الفاظ بہت‬
‫برے ا ہی رہے تھے کہ ساتھ ہی ارزم بوال بے شرم کے بچے ابے تیری ہمت کیسے ہوئی اتنی ‪ ،‬تیری یہ جو گندی سوچ ہے اس‬
‫سوچ کو میں نے باہر نکال کے سرف سے دھو ڈالنا ہے ۔ بھائی اپ تو غصہ ہی کر گئے اپ کی بہن تھوڑی ہے وہ؟ اس بات پہ‬
‫میرا دل چاہ رہا ہے کہ جس سرف سے بھائی نے تیری گندی سوچ دھونی ہے نا اس سرف کو تجھے ہی کھال دوں تاکہ گند ہی مر‬
‫جائے اشعر پہلی دفعہ یوں بدتمیزی سے بوال تھا کہ ارزم بھی حیران ہوا تھا ۔ تیری بہن ہے وہ ؟؟ فرقان نے سرسری لہجے میں‬
‫بوال جیسے وہ عام بات کر رہا ہو ۔ بہن ہے وہ تیری اشعر کے یہ بولنے پر ارزم نے اس کی جانب دیکھا اور ابھی اشعر کچھ‬
‫بولتا ہی کہ ارزم بوال ابے تیری زبان بند ہوتی ہے یہ ماروں ایک ارزم نے ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر رسید کیا وہ تھپڑ‬
‫اتنی زور کا تھا کہ اس کا ہونٹ اور گال پھٹ چکا تھا اور وہاں سے خون نکل رہا تھا ۔ اتنی ہمت اپ کی فرقان ارزم کو مارنے‬
‫کے لیے اگے بڑھا تو اشعر نے اپنی سائیڈ پر پڑا گالس اٹھا کر اس کے قدموں میں مارا کہ اس کی ٹانگ گالس کے شیشے کی‬
‫وجہ سے تھوڑی زخمی ہوئی وہ پیچھے ہٹا اور بوال تم لوگوں کو میں نہیں چھوڑوں گا اور غصے سے چال گیا ۔ یار ہم اس کو‬
‫سمجھائیں گے حمید اور عبید جو وہاں کھڑے تھے وہ بولے ۔ بہتر ہوگا کہ تم سب بھی یہاں سے چلے جاؤ ارزم بوال ۔ ہاں ہاں ہم‬
‫جا رہے ہیں چل اپنا دھیان رکھی انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور وہ چلے گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ یہ جو بات یہاں‬
‫ہوئی ہے اس کو باہر نورے اور حریم کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اشعر جو کے غصے سے سرخ ہو رہا تھا بوال ‪ ،‬جی‬
‫بھائی ۔ ُمڈ ٹھیک کرو ۔ بھائی حریم کو نہیں میں چھوڑوں گا اس کو تو اب میں بہت ڈانٹوں گا۔ مردوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ کہ‬
‫ہم مرد ہو کر بات کو نا سلجھائیں اور اپنے گھر والوں کا خیال نا رکھیں اور ان پر غصہ ہوں ‪ ،‬ہم لوگ ان لوگوں پر غصہ اتارتے‬
‫ہیں جو ہماری بات ارام سے سن کر سہ لیتے ہیں حاالنکہ ان کا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا ۔ لیکن وہ خود کو کور کیوں نہیں کرتی‬
‫؟؟ اشعر کے یہ کہنے پر ارزم بوال اسالم میں کسی پر زبردستی نہیں ہے ‪ ،‬وہ جو کر رہی ہے اس کی مرضی۔ ارزم باہر گیا اور‬
‫ان کو بوال اندر ا جاؤ وہ چلے تو گئے ہیں تم لوگوں کے سامنے سے گزر کے گئے ہیں اجاؤ اندر !! وہ دونوں اندر اگئی ‪ ،‬حریم‬
‫نے اندر اتے ساتھ اشعر کی جانب دیکھا وہ بھی اس کو دیکھ رہا تھا لیکن جب ان دونوں کی نظریں ملی تو اس نے نظریں پیچھے‬
‫کر لی اور اس کو دیکھنا نہیں چاہا کیونکہ وہ اس وقت بہت غصے میں تھا صرف اور صرف اس کی یو تیاری کی وجہ سے جو‬
‫اس کو لوگ دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫شکر ہے بھائی اج ہم گھر چلے جائیں گے ! اگال دن چڑھ چکا تھا اور اب ارزم اور نورے اس کو گھر لے کر جانے لگے تھے ۔‬
‫بھائی اپ نے امی کو بتایا ہے کہ اج میں گھر آرہا ہوں ؟۔ ظاہری سی بات ہے امی کو پتہ ہے ۔ کچھ دیر میں اب وہ گاڑی میں بیٹھ‬
‫چکے تھے ارزم گاڑی ڈرائیو کرنا شروع ہو گیا تھا اشعر جو کہ پیچھے بیٹھا ہوا تھا بوال مجھے اج بہت اچھا لگ رہا ہے کہ میں‬
‫گھر جا رہا ہوں اتنے دنوں بعد ۔ اشعر کہ اس بات پر نورے مسکرائی اور ارزم بوال ابھی تمہیں مزید اچھا لگے گا ۔۔۔ابھی وہ کچھ‬
‫بولتا ہی کہ نورے اس کی جانب دیکھا اور اس کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا ارزم وہیں خاموش ہو گیا‪ ،‬یہ سب دیکھ کر اشعر‬
‫بوال کیا ہوا کیا چھپا رہے ہیں مجھ سے ؟؟؟ کچھ نہیں ہم نے تم سے کیا چھپانا ہے ! نورے فٹ سے بولی تو ارزم بھی بوال ہاں ہاں‬
‫ہم تم سے بھال کیا چھپائیں گے چپ کر کہ گھر چلو زیادہ بولو نا ۔ تھوڑی دیر بعد نورے بولی ارزم ایسا کرتے ہیں کہ ہم حریم کو‬
‫بھی لے لیتے ہیں اور اس کو لے کر ہم گھر ہی چلے جائیں گے ۔ ابھی ارزم کچھ کہتا ہی کہ اشعر بوال بھابھی کوئی ضرورت‬
‫نہیں اس کو لینے کی وہ ایک سانس میں بوال تھا تو اس کی اس بات پر اگلی سیٹ پہ بیٹھی ہوئی نورے نے پیچھے مڑ کے دیکھا‬
‫اور بولی کیوں ؟ وہ نہایت تعجب سے اور حیرانگی کا لہجہ بناتے پوچھ رہی تھی ۔ اشعر جو کہ اس سے ناراض تھا اس لیے کہہ‬
‫رہا تھا ‪ ،‬لیکن وہ کسی کو بتانا نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس سے ناراض ہے اس نے بات کور کرنے کے لیے کہا بھابھی دیکھیں پھر‬
‫اتنے دنوں بعد میں گھر جا رہا ہوں تو میں چاہتا ہوں سب میرے دیکھ بھال کریں ایسے حریم ا جائے گی تو وہ مہمان بن جائے گی‬
‫تو پھر میری طرف کوئی متوجہ نہیں ہوگا اس لیے ۔۔۔۔ حد ہوتی ہے ارزم بوال اور نورے اشعر کہ اس بات پر مسکرائی اور بولی‬
‫چلو ٹھیک ہے اس کو تھوڑے دنوں بعد بال لیں گے ۔ اوکے! ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ گھر کے پاس پہنچ چکے تھے اشعر کو گاڑی سے‬
‫باہر کا منظر کچھ عجیب سا لگا اس نے پوچھا بھائی یہ اتنی لمبی الئن کیوں لگی ہوئی ہے اور یہ ہماری گلی کی طرف جا رہی‬
‫ہے اہستہ اہستہ جب گاڑی مزید اگے ان کی گلی میں گئی تو پتہ چال کہ اشعر کے گھر سے ہی اس الئن کی شروعوات ہو رہی ہے‬
‫اور ان کا گھر بے شمار رنگ برنگی الئٹوں سے سجا ہوا تھا اشعر فورا ہٹبڑی میں بوال بھائی یہ کیا ہے ہمارے گھر میں اتنے‬
‫لوگ اور یہ اتنی لمبی الئن ؟؟ اشعر مراد کو جس طرح ہم نے مرادوں سے لیا تھا اسی طرح اس کو ہم نے مرادوں سے ٹھیک‬
‫کروایا ہے تو اب کیا اس کے ٹھیک ہونے کی خوشی میں خوشی نہ منائی جائے ارزم بہت پرسکون لہجے میں بوال جیسے اس کو‬
‫محسوس ہو رہا تھا کہ اب سب ٹھیک ہے اس کی یہ بات سن کر اشعر کے چہرے پر ایک بچوں والی مسکراہٹ ائی اور وہ فورا‬
‫بوال بھابھی اپ کو پتہ تھا ؟ ہاں نا ! نورے بولی تو ارزم ساتھ ہی بوال بچے تمہاری بھابھی نے یہ سب انتظامات کروانے کا کہا ہیں‬
‫۔ کیا ؟؟ اشعر کو ارزم کی کہی گئی بات پر یقین نہیں ارہا تھا ۔ ہاں ۔ گاڑی رکنے پر اشعر گاڑی سے نیچے اترا اور خوشی سے‬
‫اس کی انکھیں چمک رہی تھیں کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کا بھائی اس سے بے تحاشہ پیار کرتا ہے اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ‬
‫گھر جائے اور اس کو کوئی سرپرائز نہ ملے وہ اپنے بھائی سے مخاطب ہوا اور بوال بھائی اپ جانتے ہیں میں جانتا تھا کہ اپ کو‬
‫کچھ نہ کچھ سرپرائز ضرور دیں گے اشعر کی یہ بات سن کر نورے بولی تم کیسے جانتے تھے ؟؟ میں اشعر مراد ہوں ‪ ،‬بھائی‬
‫کی بیگم کا دیور ‪ ،‬بلکہ عقلمند دیور ۔ نہیں بلکہ چھوٹے سے بچے ‪ ،‬اشعر کی اس بات پر نورے ہنستے بولی اور ارزم نے اشعر‬
‫کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور وہ تینوں مسکرانے لگے ۔ وہ اندر گئے تو اشعر کی ماں نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر اشعر کا‬
‫منہ چوما اور اس کے گلے لگ گئی (وہ نہیں جانتی تھی کہ نورے مل چکی ہے ) اشعر سے گلے لگنے کے بعد اس کی ماں‬
‫ارزم کی جانب بھری اور اس کو گلے لگایا‪ ،‬وہاں پر حنین اور زینب بھی موجود تھے جو کہ اشعر کو مبارکباد دے رہے تھے ‪،‬‬
‫ارزم کہ جب اس کی ماں گلے لگی تھی پیچھے سے اس نے نورے کو اندر اتے دیکھا تو وہ وہیں دنگ رہ گئی ‪ ،‬اور بولی تم‬
‫!!!!!؟؟؟؟؟‬
‫اب وہ لوگ کمرے میں ا کر بیٹھ چکے تھے ۔ یہ کہاں سے ملی ہے تمہیں نادیہ نے پرجوش اواز میں غصے سے ارزم کی جانب‬
‫دیکھتے ہوئے کہا ۔ امی اس سے کیا مطلب ہے کہ وہ جہاں مرضی سے ملی ہے وہ اس وقت میرے پاس سے میرے لیے یہ کافی‬
‫ہے ۔ ارزم تم جانتے ہو میں نے تمہیں کیا کہا تھا میں نے کہا تھا کہ میں اس کو کبھی قبول نہیں کروں گی تمہاری بیوی کے‬
‫روپ میں اور اپنی بہو کے روپ میں ۔۔۔۔۔ وہاں بیٹھے سب افراد اشعر ‪ ،‬نورے ‪ ،‬حنین اور زینب یہ بات سن کر حیران ہو گئے‬
‫تھے نادیہ کی اس بات پر نورے نے ارزم کی جانب دیکھا جو کہ اس کی دائیں جانب بیٹھا تھا اور اس کو حیرت سے تک رہی‬
‫تھی ۔ اے لڑکی تم میرے بیٹے کی زندگی سے چلی کیوں نہیں جاتی ؟ تمہاری وجہ سے تم جانتی ہو میرے گھر میں کیا کیا بربادی‬
‫اتری ہے تمہیں پتہ ہے کس کس مشکل سے میرے بیٹے گزرے ہیں ؟ نورے خاموش رہی کیونکہ ارزم اس کو خاموش رہنے کا‬
‫اشارہ کر چکا تھا ۔ امی اس نے کچھ نہیں کیا اور نہ ہی اس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہیں یہ ہمارے مقدر میں لکھا تھا اس لیے‬
‫یہ ہوا ۔ ارزم تم خاموش رہو اس وقت میں ذرا اس لڑکی کی تو خبر لوں اے لڑکی سنو ذرا میری بات ارزم کی ماں نے اس کی‬
‫جانب منہ کرتے ہوئے انکھیں سرخ کرتے ہوئے بولی تم جیسی لڑکیوں سے تو خدا بچائے ‪ ،‬نادیہ کی اس بات پر ارزم بوال امی‬
‫!!!! ارزم کی بات کو کسی کھاتے ہوئے نہ التے ہوئے اس کی ماں بولی خاموش رہو تم اگر تمہاری اواز ائی تو مجھ سے برا‬
‫کوئی نہیں ہوگا ارزم خاموش ہوا تو وہ دوبارہ بولنے لگی نہ جانے تم کون تھی ‪ ،‬کس کی بہن کس کی بیٹی‪ ،‬مجھے لگتا ہے تم نے‬
‫میرے بیٹے کو پھنسایا ہے یہ کہہ کر کہ تم یتیمنی ہو اور تمہارا بھائی بھی مر چکا ہے ۔ آنٹی !! نورے نارمل لہجا رکھتے بولی‬
‫اپ یہ کیا کہہ رہی ہیں میرے بھائی باپ تک مت جائیں تو اپ کے لیے بہتر ہے ابھی وہ کچھ بولتی کہ ارزم نے اس کی جانب‬
‫دیکھا اور دوبارہ خاموش رہنے کا اشارہ کیا ۔ منہ بند کر اپنا لڑکی مجھے لگتا ہے تم نے واقعی اپنے بھائی کا قتل کیا ہے!!!‬
‫جائیداد کے لیے !!!! اور ہاں مجھے تو یہ بھی لگتا ہے کہ تم واقعی بھاگی تھی اغواہ کوئی نہیں ہوئی تھی تم اتنی شریف رہتی نہیں‬
‫ہو ۔ امی بس !! آپ بھابھی پر کس طرح کے الزامات لگا رہی ہیں اس دفعہ اشعر بوال تھا ۔ بیٹا تم نہیں جانتی یہ لڑکیاں اس طرح‬
‫کی کس حد تک جا سکتی ہیں! امی ہم بھابھی کے اپنے ہیں اور اگر ہم ہی ان کا ساتھ نہیں دیں گے تو پھر ان کو دشمنوں کی کیا‬
‫ضرورت ؟؟؟ تو چپ کر ڈائیالگ کی اوالد نہ ہو‪ ،‬وہ ایک سانس میں بولی تم لڑکی اتنی راتیں تم گھر سے باہر رہی تم پہ کون یقین‬
‫کرے ؟ اور ہم کیا جانے کہ تم کیا کیا کر کے ائی ہو کس طرح کے داغ ‪ ،‬اور کالک اپنے منہ پہ مل کے ائی ہو اور ہمارے منہ پہ‬
‫مرنے کا ارادہ رکھتی ہو‪،‬اب ارزم کیسے خاموش رہتا اب بات نورے جان کی عزت کی تھی وہ اٹھا اور نورے کا ہاتھ تھاما اور‬
‫بوال امی اپ میری ماں میں اپ سے بدتمیزی سے بات نہیں کر سکتا ‪ ،‬یہ بات بھی مجھے نورے نے سکھائی تھی اور اپ کہہ رہی‬
‫ہیں کہ نورے یہ سب کر سکتی ہے؟؟ میں اج اپ سب کے سامنے یہ واضح طور پر اعالن کرتا ہوں کہ نورے اغوا ہونے سے‬
‫پہلے میری تھی اغوا ہونے کے بعد میری ہے اور انشاءہللا تا قیامت میری ہی رہے گی ۔ ارزم کی اس بات پر سب تو اس کو دیکھ‬
‫رہے تھے لیکن اس کی نورے جان اس کو چمکتی انکھوں سے دیکھنے لگی تھی کہ کوئی اس کے لیے بھی یوں سٹینڈ لے سکتا‬
‫ہے ۔ ارزم بوال امی میں نورے سے پیار کرتا ہوں اور اس بات کو کہنے میں میں ہرگز جھجک محسوس نہیں کروں گا اور اگر یہ‬
‫بات مجھے اپ سب کو بار بار یاد کروانی پڑی تو میں یاد کرواؤں گا کہ ہاں وہ میری بیوی ہے اور رہے گی ‪ ،‬ارزم نورے کو لے‬
‫کر کمرے کی جانب بھر یا اور اس کو کمرے میں لے کر جا چکا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔‬
‫نورےجان یار میری بات سنو وہ اس وقت دوسرے میں ہے اس لیے یہ سب کچھ کہہ رہی ہیں تم پلیز ان کو معاف کر دینا ! ان کا‬
‫یہ کہنا بنتا ہے ! ارزم جو کہ اس کو کمرے میں ال کر صوفوں پر بٹھا کر اس سے باتیں کر رہا تھا وہ بوال تو نورےجنت نے‬
‫جواب دیا تھا ۔ ن۔ نہیں نورے جان ایسی کوئی بات نہیں ہے مجھے اپ پر یقین ہے بس! نورے نے اس کی جانب دیکھا اور بولی‬
‫ساری زندگی یوں یقین کرو گے ؟؟ چند لمحوں کے لیے کمرے میں خاموشی چھا چکی تھی ۔ لیکن پھر کچھ دیر بعد وہ خاموشی‬
‫ٹوٹی اور ارزم بوال تا قیامت کروں گا !!!! لیکن بس اپ میری اس بات پر یقین رکھنا کہ میں اپ پر یقین تا قیامت کروں گا پھر اپ‬
‫دیکھنا ہمارا رشتہ ساری زندگی کے لیے بہترین ہو جائے گا کیونکہ ہم دونوں کو ایک دوسرے پر یقین ہو جائے گا ۔ نورے اس کو‬
‫دیکھ کر مسکرائی اور ارزم نے اس کا خوبصورت ہاتھ پکڑ کر اپنے لبوں سے لگا کر چوما تھا اور پھر وہ دونوں ایک دوسرے‬
‫کی جانب دیکھ رہے تھے۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔‬
‫امی اپ صرف میری خاطر ہی نورے سے بنا لیں صرف میری خاطر دیکھیں وہ بہت اچھی ہے اہستہ اہستہ اپ کو یقین ہو جائے‬
‫گا کہ اس نے کچھ نہیں کیا اور نہ ہی کچھ اس کے ساتھ یوں غلط ہوا ہے ! ارزم کمرے سے باہر انے کے بعد اپنی امی کو بار بار‬
‫اصرار کر رہا تھا کہ وہ بے قصور ہے ۔ امی دیکھیں اس نے نہ اپنے بھائی کے قتل کیا ہے اور ہاں وہ یتیم ہے اور اس کی‬
‫سوتیلی ماں نے اس کے ساتھ بہت برا برتاؤ کیا ہے اور اگر ایسے میں میں نے اس سے شادی کر لی اور اس کو اپنا لیا تو اس‬
‫میں کیا کر دیتا ہے اپ نے یہ تو ہمیشہ سکھایا ہے کہ دوسروں کی مدد کرو تو میں نے دوسروں کی مدد کی تھی ؟ میں نے یہ‬
‫سکھایا تھا کہ مدد کرو شادی نہ کر لو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ امی محبت کو روکا تھوڑی جاتا ہے وہ تو خود ہی ہوتی ہے نا ۔ ارزم کی ماں نادیہ‬
‫یہ جان چکی تھی کہ یہ واقعی اس سے محبت کرتا ہے اور بولی ٹھیک ہے بیٹا اس کو روکو اپنے ساتھ لیکن میرا رویہ جب اس‬
‫کے ساتھ ٹھیک ہو نا ہوگا ہو جائے گا لیکن مجھے تم اصرار نہیں کرو گے ہاں میں اس کے ساتھ اپنے رویے تھوڑا نرم رکھ لوں‬
‫گی لیکن میں میں نے اس کو پتہ قبول نہیں کیا جو میرا دل صاف ہو جائے گا کر لوں گی ۔ اتنی ہی دیر میں اشعر جو کہ فل‬
‫غصے میں بربرا رہا تھا بوال تھا یہاں پہ میں گھر ایا ہوں اور ان کو اپنے غصے لگ رہے ہیں کہ کوئی کسی کو باتیں سنا رہے‬
‫ہیں تو کوئی کسی کو ‪ ،‬مجھ معصوم کا تو کسی کو خیال ہی نہیں ہے ۔ ارزم جس کے کانوں تک اس کی بات جا چکی تھی ‪ ،‬اشعر‬
‫کے گلے میں ارزم نے ہار ڈالتے ہوئے پوچھا اور پھر کیا ہو گیا ہے کچھ نہیں ہوتا وہ دیکھ تیری بھابھی خوش ہے تو تمہیں تو‬
‫خوش ہو !! ارزم نے مسکرا کر اشعر کو خوش کرنے کے لیے یہ بات کہی ۔ بھابھی ٹھیک ہو گئی ہیں ؟؟ ہاں ! تم لوگوں کو پتہ‬
‫ہے تمہاری پھپھو ا رہی ہیں ؟؟ پھپھو ؟؟؟ اشعر بوال تو اس کی ماں بولی ہاں ۔ لیکن امی وہ تو کینیڈا رہتی تھی وہ کیسے ا رہی‬
‫ہیں ؟؟ ارزم کی اس بات پر نادیہ بولی اس کو پتہ چال تھا کہ اشعر کے ساتھ کیا ہوا ہے اس لیے وہ بس اس کے لیے ا رہی ہیں ۔‬
‫اچھا کب تک پہنچیں گی وہ ؟؟ ابھی وہ لوگ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک زوردار اواز ہے جیسے کوئی بہت خوشی سے کمرے‬
‫میں داخل ہوا ہو‪ ،‬ہائے ہللا السالم علیکم کیا حال ہے میرے بچوں کا میری بھابھی کا ؟؟؟ ارزم کی پھوپھو سائشتہ اپنی بیٹی ابیہا کے‬
‫ساتھ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بول رہی تھی ۔ وعلیکم السالم پھوپھو کیسی ہیں اپ ؟ اور تم بھی کیسی ہو ابیہا ؟ الحمدہلل ۔ ان‬
‫کی پھوپھو جب نادیہ سے گلے لگ کر فارغ ہوئی تو ارزم کے گلے لگی اور بولی واہ بڑا جوان ہوگیا ہے تُو تو ! جی بس ‪ ،‬نورے‬
‫جس کو اتنے شور کی اواز ائی وہ کمرے سے باہر نکلی اور جس کمرے میں سائشتہ موجود تھی اس کمرے کے باہر کھڑی ہو‬
‫کر اندر جھانکنے لگی ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ اور پھر تیرے لیے کوئی ایک آدھ لڑکی دیکھنا شروع کریں ؟؟ بس ایک ؟؟ اپنی پھوپھو کی‬
‫بات پر ارزم بوال ۔ چلو دو تین دیکھ لیتے ہیں اس کی پھوپھو ہنستے ہوئے بولی تو ارزم بوال پھوپھو دو تین کیوں بھال اپ کوئی نو‬
‫دس تو دیکھیں ۔۔۔۔ نو دس کو دیکھ کر ان میں سے ایک پسند کریں کیا ؟ ساشتہ ہنستے ہوئے اس کے کندھے پر ہلکا سا تھپڑ‬
‫مارتے ہوئے بولی ۔ لو پھوپھو نو دس دیکھ رہے ہیں تو نو دس سے شادی کروں گا نا اب یہ تو نہیں کہ اب میں ان میں سے کسی‬
‫ّٰللا کتنا شریر ہو گیا ہے یہ اس کی‬
‫ایک سے شادی کر لوں ‪ ،‬اگر میں کسی ایک سے شادی کروں گا تو باقیوں کا کیا بنے گا ۔ ہ‬
‫پھوپھوں ساشتہ نادیہ کی طرف منہ کرتے بولی ۔ نورے جنت جو پیچھے کھڑے سب سن رہی تھی اس کو اتنا غصہ چڑھا وہ فورا‬
‫اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ ارزم اپنی پھوپوں سے مخاطب ہوتا ہوا بوال پھوپو مجھے کسی لڑکی کی ضرورت نہیں ہے ائی ایم‬
‫میرڈ !!!! کیا ؟؟ یہ کب ہوا ؟ ان کو یہ بات کھٹکی تھی ‪ ،‬لیکن سائشتہ نے حیرانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ۔ ہونے کو تو کچھ‬
‫بھی ہو سکتا ہے‪ ،‬اور اب یہ ہو چکا ہے میری بیوی فی الحال کمرے میں ہے ۔ پھوپھو میرے خیال سے آپ میرے لیے کینیڈا سے‬
‫ائی ہیں !! اشعر اب جیلسی فیل کرتا ہوا بوال ۔ ہاں ہاں یاد ایا تم سے تو میں ملی نہیں ۔ اب اس کو گلے لگا لیا تھا اور پھوپھو بولی‬
‫بیوی سے تو ملواؤ !! جی کیوں نہیں ‪ ،‬ارزم یہ کہتا کمرے کی جانب گیا اور کمرے کا دروازہ کھوال تو نورے سامنے منہ پھالئے‬
‫بیٹھی تھی ۔ نورے جان !! ارزم نے اس کی جانب اتے ہوئے کہا اور بوال تمہیں پتہ ہے پھوپھو ائی ہیں ہماری ! جی جانتی ہوں میں‬
‫اور اپ کے لیے ساتھ میں نو دس لڑکیوں کا بھی انتظام کرنے ائی ہیں مجھے لگتا ہے وہ ‪ ،‬نورے جنت ایک ہی سانس میں اس کو‬
‫گھوڑتے ہوئے غصے کے لہجے میں بولی تھی ۔ نورے!!!! ارزم اس کی بات پر کھلکھال کر ہنسا ابھی وہ کچھ بولتا کہ اگے سے‬
‫وہ دوبارہ بولی ہاں ہاں ہنسی تو ائے گی اتنی لڑکیاں اکٹھے اس بات پر اس کا مزید قہقہہ نکال اور وہ ہنس رہا تھا ‪ ،‬نورے کو‬
‫ارزم کی یہ حرکت نہایت ناگوار محسوس ہوئی اس نے دوسری جانب غصے سے منہ کر لیا اور بولی خبردار اگر تم نے ائندہ‬
‫مجھے بالیا تو ‪ ،‬بہت ہی تم بڑے ہو ۔ وہ تو میں ہوں ‪ ،‬لیکن دنیا کے لیے تمہارے لیے نہیں اس نے نورے کا چہرہ اپنی جانب‬
‫کرتے ہوئے کہا ۔ اب فضول میں نا مجھ سے یوں پیار کی دو چار باتیں کر کے نا مجھے مناؤ مت میں اس وقت میں نا بات نہیں‬
‫کرنا چاہتی ہوں مجھے اس وقت بہت غصہ ا رہا ہے وہ چال کر نہیں لیکن غصے سے بولی تھی ۔ واقعی تم جیلسی فیل کر رہی ہو‬
‫! کیسی جیلسی؟ یہی کہ اگر مجھ جیسا ہینڈسم ‪ ،‬بھوری انکھوں واال ‪ ،‬سمارٹ اور محبت کرنے والے کی زندگی میں کوئی اور‬
‫لڑکی ا جائے تو ظاہری سی بات ہے اس کی پہلی بیوی کو تو جیلسی فیل ہوگی نا ۔ ایکسکیوز می! مسٹر ہینڈسم بھوری انکھوں‬
‫والے سمارٹ آدمی کوئی لڑکی اتنی پاگل نہیں ہے فی الحال جو کہ اپ سے شادی کر لے ۔ یعنی کہ اپ پاگل تھی نورے کہ اس‬
‫بات پر ارزم نے اس کو کہا تو وہ بولی ہاں شاید انکھیں چڑاتے ہوئے بولی تھی وہ ۔ قسم سے یقین جانو مجھے یہ پاگل رات جیسی‬
‫کالی آنکھوں والی لڑکی بہت پسند ہے جس کے عشق میں مبتال ہو کر میں پاگلوں کی طرح دیوانوں کی طرح ادھر ادھر گھوما ہوں‬
‫اور پھر بھی یہ لڑکی کہتی ہے کہ میں واقعی نو دس لڑکیوں سے شادی کرنے واال ہوں ‪ ،‬ارزم یہ کہتے ہوئے اپنی ہنسی دبا رہا‬
‫تھا کیونکہ اس کو اس کی جیلسی پر ہنسی ا رہی تھی ۔ میرے سے بات مت کرو ۔ ہائے نورے جان اپ سے بات نہیں کریں گے‬
‫تو پھر ہم کس سے کریں گے دیکھیں اگے اتنے دن ہم اپ سے دور رہے اپ ہم سے دور رہیں تو پھر یہ تو ستم ہوا نا اپ کا پھر‬
‫ہم پر ۔۔۔۔ نورے نے ارزم کی بات پر ہنسی دبئی اور غصہ دکھانے کی کوشش کی اور بولنے لگی اب جو مرضی ہو جائے جا کر‬
‫ان نو دس لڑکیوں سے شادی کرو اور پتہ چل جائے گا کہ نو دس زیادہ ٹھیک ہیں یہ میں !! ظاہر سی بات ہے بیگم اپ !! نورے‬
‫بولی لیکن پھوپوں کے سامنے تو یوں بول رہے تھے کہ جیسے میں تو اپ کی الئف میں ہوں ہی نہیں اس نے یہ کہتے ہوئے اپنے‬
‫بال اڑائے جو کہ اس کے شانوں پر گڑے ہوئے تھے ‪ ،‬نورے کی اس حرکت پر ارزم خود پر قابو نہ کر پایا اور بوال‬
‫اپ کی کی گئی ہر ادا پر ہم فدا ہیں۔۔۔۔۔۔‬
‫دیکھو نورے جان ناراضگی ختم کرو اور اجاؤ پھپو تم سے ملنا چاہتی ہیں اور ذرا ٹھاٹ باٹ سے جانا پتہ چلنا چاہیے کہ ارزم‬
‫زاویار کی نورے جنت ائی ہے ۔ نورے ارزم کی اس بات پر مسکرا آٹھی اور بولی اپ کی پھوپھو یعنی آپ کے ابو کی بہن ؟ ہاں‬
‫وہ میرے ابو کی ہی بہن ہیں ! لیکن اپ کے ابو تو اپ نے بتایا تھا اچھے نہیں تھے تو ان کی بہن ؟؟؟ نورے یہ معاملہ کچھ سمجھ‬
‫نہیں پائی تو پوچھنے لگی ۔ نہیں ہماری پھوپو نے تو ہمارا بہت ساتھ دیا تھا تب بھی وہ کینیڈا میں ہی رہتی تھی ان کو پہلے سے‬
‫ہی ابو کی کرتوتوں کا پتہ تھا اس لیے انہوں نے ہمارا ساتھ دیا اور ہمیں کیا ہمارے ابو غلط ہیں پھوپو تھوڑی ۔ اچھا ! بیگم اگر‬
‫اجازت ہو تو ہم پھپو سے مل آییں۔ جی اجازت ہے اپ کو ‪ ،‬ارزم نورے کی اس بات پر ہنسا اور اس کی گردن کے گرد کندھوں پر‬
‫اپنا بازو رکھتا ہوا اس کو باہر لے کر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫السالم علیکم ! نورے اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا تو ارزم کی پھوپوں نے مڑ کے دیکھا وہ حیران رہ گئی کہ اتنی‬
‫پیاری دلہن وہ بھی اس کی ہنہ ۔۔۔۔۔ اور بولی ماشاءہللا ماشاءہللا کتنی پیاری بیوی ہے تمہاری اور کتنی پیاری بہو ہے اپ کی بھابھی‬
‫!!! نورے اسی وقت سمجھ گئی کہ یہ کس لہجے میں کہہ رہی ہیں ۔ اؤ اؤ بیٹھو میرے پاس اور پھر کچھ بتاؤ اپنے بارے میں وہ‬
‫نورے کو اپنے پاس بٹھاتے بولی ۔ میں ۔ میرا نام نور جنت ہے اور میں ارزم کی بیوی ہوں اس کے عالوہ میں اپ کو کیا بتا سکتی‬
‫ہوں ! نورے نے ایک شریف بہو کا توڑ طریقہ بناتے ہوئے نیچے دیکھا حاالنکہ وہ ایسے کاموں سے چل کھاتی تھی لیکن پھر‬
‫بھی اس کو مجبوری کے تحت کرنا پڑ رہا تھا ۔ ہائے ہائے بیٹا تمہاری کوئی اپنی شناخت سے نہیں ہے یہ کیا ارزم کی بیوی ہوں‬
‫وہ تو ہمیں پتہ ہے !! نہیں پھوپو اب یہی میری شناخت ہے ۔ ہائے لگتا ہے کہ لڑکی تم پہ فریفتہ ہے !! اشعر ہنسا تو ارزم جو کہ‬
‫اس کے ساتھ کھڑا تھا اس کو پیچھے سے مکہ مارا اور بوال خاموش رہ کے کھڑا ہو ۔ اچھا تو بیٹا نورے جنت میری اس بیٹی سے‬
‫ملو ابیہا نام ہے اس کا ۔ السالم علیکم ابیہا بولی ۔۔۔۔ وعلیکم السالم نور اس کو انکھیں پھوڑ پھاڑ کے دیکھ رہی تھی مجھے لگتا ہے‬
‫اب کوئی نئی کہانی کا ڈبہ کھولنے لگا ہے لیکن اس نے کچھ نہیں کہا اور وہاں پر ان سے باتیں کرنے لگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا‬
‫ہوا اشعر بھائی اپ یوں اکیلے کیوں بیٹھے ہیں اور اتنے اداس کیوں ہیں ‪ ،‬اشعر کو باہر النچ میں اکیال بیٹھا دیکھ کر زینب اس سے‬
‫پوچھنے لگی ۔ کچھ نہیں !! بھائی کیا ہوا ہیں بتائیں تو صحیح وہ ہنستے ہوئے پوچھنے لگی ۔ یار میں اتنے دنوں بعد ٹھیک ہو کر‬
‫گھر ایا ہوں کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے میری یہ نہیں کہ میری اؤ بھگت کی جائے بلکہ مجھے کوئی پوچھ ہی نہیں رہا پھپو‬
‫جو کہ کینیڈا سے ائی ہیں وہ بھی نہیں پوچھ رہی ۔ بھائی اپ کے لیے تو گھر کے باہر اتنی لمبی الئنیں لگی تھی لوگ بریانی لے‬
‫رہے تھے خوش ہو رہے تھے اور ہم بھی اتنے خوش تھے ۔ ویسے نا وہی لوگ خوش ہوئے ہوں گے جن کو بریانی ملی ہے‬
‫مجھے تو وہ بھی نہیں ملی ۔ زینب کھلکھال کے ہنسی تو اشعر بوال شرم کرو اپنے استاد کا مذاق اڑا رہی ہو وہ بھی مسکرا کر ہی‬
‫بول رہا تھا ۔ استاد؟؟؟ ہاں میں تمہارا استاد ہوں ! کیسے ؟؟؟ اسالم میں یہ کہا گیا ہے کہ جو اپ کو ایک لفظ بھی سکھائے اس کی‬
‫عزت کرو اور میں تو اپ کو دین اسالم کی طرف ہللا کے حکم سے لے کر ایا ہوں ۔ اوہ اچھا ‪ ،‬معاف کیجیے گا استاد جی زینب‬
‫ہنستے ہوئے کہہ رہی تھی تو اس کی بات پہ اب وہ بھی مسکرایا ۔ بھائی اگر اپ برا نہ مانے تو اپ مجھے تھوڑی اور دین کی‬
‫باتیں بتائیں گے اپ کو پتہ ہے میں نے پوری نماز سیکھ لی ہے !!! ارے میں بھال کی برا مانوں گا تم جب چاہو جس مرضی وقت‬
‫میرے سے ا کر دین کے متعلق میں جس مرضی چیز کے متعلق پوچھ سکتی ہو اخر کو بڑا بھائی ہوں تمہارا وہ بڑے روعب سے‬
‫کہہ رہا تھا ۔ بھائی میں نے اپ سے یہ پوچھنا تھا کہ میں نے نا کافی اچھے اچھے بیانات سنے ہیں مولویوں کے انٹرنیٹ سے ‪،‬‬
‫مجھے یہ بتائیں غزوہ بدر میں بھی مسلمانوں کی تعداد ‪ 313‬تھی غزوہ خندق میں ‪ 3‬ہزار تھی اور جو کافر تھے وہ ‪ 12000‬تھے ‪،‬‬
‫غزوہ موتہ میں مسلمان ‪ 18‬ہزار تھے تو کافر ‪ 80‬ہزار تھے بھائی یہ کیا معاملہ ہے کہ مسلمان زیادہ نہیں ہوتے لیکن وہ جیت‬
‫جاتے ہیں کیسے ؟؟؟؟ پہلے تو عشر کے چہرے پر پرسکون مسکراہٹ ائی پھر وہ بولنے لگا دیکھو ہللا تعالی اپنے مسلمانوں کے‬
‫اتنی کم تعداد سے کافروں کی نیندیں اڑا دیں اور اگر مسلمان زیادہ ہوتے تو ان کی نسلیں اجاڑ دیتے ۔۔۔۔ واہ میرا مطلب ہے‬
‫ماشاءہللا ‪ ،‬بھائی قسم سے یہ بات سن کر مزہ اگیا ہے ‪ ،‬پھر وہ بولی بھائی میں کچھ اچھی عادات حاصل کرنا چاہتی ہوں کیسے‬
‫کون سی کرنی چاہیے مجھے ؟؟ دیکھو زینب سب سے پہلے تو جو کہ ہمارے محمد نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی خوبیاں تھی‬
‫اخالق اور توحید وہ اپنا اخالق ہر انسان کے ساتھ اچھا رکھو۔ وہ کیسے ؟ اگر کوئی اپ کو کچھ کہہ رہا ہے تو کوئی بات نہیں اپ‬
‫اس کو سہہ لو ۔۔۔ لیکن بھائی وہ کیسے انسان کو غصہ ہی جاتا ہے !!؟ ہاں ضرب میں جانتا ہوں انسان کو غصہ ا جاتا ہے اور‬
‫غصہ اس لیے تو حرام ہے اپ کو پتہ ہے جب حضرت محمد صلی ہللا علیہ والہ وسلم پر پتھراؤ کیا گیا تو ان کے پاؤں مبارک بے‬
‫حد زخمی ہو گئی کہ ان میں سے خون نکلنا شروع ہو گیا لیکن پھر بھی اپ صلی ہللا علیہ وسلم نے صبر و استقامت کے ساتھ‬
‫اپنے اخالق کے ساتھ ان لوگوں کو یعنی جو کافر تھے ان کو اسالم کی طرف مائل کیا اگر وہ غصہ نہیں کرتے تو ہم کون ہوتے‬
‫ہیں غصہ کرنے والے یہاں تک کہ ہللا کی رحمت ہللا کے غصے پر گالب ہے ‪ ،‬اب دیکھو اب میرے پاس ایک شخص ایا اور کہتا‬
‫ہے جی میں نے اس کو مارا ہے میں نے کہا جی کیوں مارا ہے اگے سے کہتا ہے یہ مجھے انکھیں دکھا رہا تھا میں نے کہا تو‬
‫پاگل ہے وہ تو جی آنکھیں اس لیے دکھا رہا ہے کہ وہ بتا رہا ہے تجھے میرے پاس بھی انکھیں ہیں اب میری اس بات پہ سارے‬
‫ہنسنے لگے اب دیکھو اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو کچھ سمجھے یا اگنور کر دے یا کسی پوزیٹو سائیڈ پہ لے جائے تو ہمارا‬
‫معاشرہ جینے کے لیے بہترین جگہ بن جائے اور جھگڑا فساد انتشار جیسی بری چیزوں سے بچے ۔ صحیح کہہ رہے ہیں اپ ۔۔‬
‫اور دوسرے نمبر پہ اتا ہے توحید اس نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو دو کرتے ہوئے کہا ‪ ،‬توحید یعنی صرف ہللا کو ایک ماننا اس‬
‫کی ہی عبادت کرنا اس کے عالوہ کسی کو بھی عبادت کے الئق نہ سمجھنا نہ ہی کسی سے مانگنا‪ ،‬اگر ہم مانگ رہے ہیں اور وہ‬
‫نہیں دے رہے ہیں تو اس میں اس کی کوئی رضا ہوگی ! لیکن بھائی پھر انسان مایوس ہو جاتا ہے کہ اس کو کیوں نہیں مل رہی‬
‫جو وہ چیز چاہتا ہے !! نا امیدی اور مایوسی کفر ہے ‪ ،‬اور ہاں ہم ہللا سے امید کیوں لگائیں امید ہے تو انسانوں سے لگائی جاتی‬
‫ہیں ہللا پر تو یقین کیا جاتا ہے میرے نزدیک تو وہ شخص کافر ہوا جو شخص کہتا ہے کہ میں ہللا پہ امید رکھتا ہوں ہللا پہ یقین‬
‫رکھتے ہیں اور جب ہم یقین کر کے دعا کریں یا کچھ ہللا سے مانگیں تو وہ ہمیں ضرور ملتا ہے ‪ ،‬اور ہم ہللا کی ذات سے مایوس‬
‫ہوتے ہیں جس نے ہمیں بنایا ہاتھ پاؤں سالمت دیے ہمیں ہر چیز عطا فرمائی دین اسالم عطا فرمایا تو ہم اس کی عطا پہ شک‬
‫کرتے ہیں کس طرح کے مسلمان ہوئے ہم بھال ؟ جی بھائی مجھے سمجھ ا رہی ہے کہ واقعی نا امیدی اور مایوسی کفر ہے ۔۔ ابھی‬
‫وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ النچ میں ایک خوبصورت سی لڑکی ائی جو کہ شاید چاند سے بھی زیادہ خوبصورت اشعر کو لگی‬
‫تھی وہ اس کو دیکھ رہا تھا لیکن بعد میں نظر جھکا گیا کیونکہ وہ ایک شریف انسان تھا وہ پیاری حریم تھی‪ ،‬ارزم کی نورےجان‬
‫کی جان تھی ۔ زینب نے اس کو دیکھا تو اٹھ کر سالم کیا اور وہاں سے چلی گئی ‪ ،‬حریم ا کر صوفے کی دوسری جانب بیٹھ گئی ‪،‬‬
‫حریم نے اس وقت کالے رنگ کا عبایا پہنا تھا اور اوپر کالے ہی رنگ کا سادہ سا حجاب کر رکھا تھا اور بغیر کسی میک اپ کے‬
‫اج وہ سب کے سامنے یوں نمودار ہوئی تھی اور وہ کسی چاند سے کم خوبصورت لگ نہیں رہی تھی کیونکہ اب حریم جان چکی‬
‫تھی کہ خوبصورتی دیکھنے والے کی انکھ میں ہوتی ہے نہ کہ میک اپ کر کے سج سنورنے میں ‪ ،‬اس نے اشعر کے بے رخے‬
‫رویہ کی وجہ سے یہ پردہ حجاب شروع نہیں کیا تھا وہ اب واقعی ہللا سے معافی مانگ چکی تھی اور ہللا بھی تو سب کو معاف‬
‫کر دیتا ہے نا اور راہ گامزن پر تو ہللا سب کو لگاتا ہے جو ہللا کی طرف آنا شروع کریں ۔ نظریں جو جھکی ہوئی تھی وہ تھوڑا‬
‫اٹھی اور اس کی انکھوں سے ملی اور دوبارہ نظر نیچے چلی گئی ہری مسکرائی اور بولی کیا حال ہے تمہارا ٹھیک ہو ؟؟ وہ‬
‫سرخ ہو گیا تھا ‪ ،‬یہ کیا اپ سرخ کیوں ہو رہے ہیں ؟؟ اشعر میں اس کی جانب دیکھا اور بوال اپ کس کو کہا ہے ؟؟ اپ کو حریم‬
‫نے انگلی سے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ مجھے اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کے کہا اور زوردار کہکا لگایا اور‬
‫بوال کیا ہوا ہے چھپکلی تم ٹھیک تو ہو ؟ وہ تو مجھے بس اچھی تم لگ رہی تھی اس لباس میں تو میں نے نظریں نیچے کر لی‬
‫لیکن تمہارے رنگ روپ کیسے بدل گئے ؟؟؟ ایکسکیوز می چھپکلی کس کو کہا اپ تو میں اپنے اپ کو اتنا چینج کر چکی ہوں‬
‫اور مجھے چھپکلی کہہ رہے ہو ؟ وہ ہاں سوری تو میں چھپکلی نہیں تو میں اب برقعہ والی چھپکلی کہنا چاہیے ۔اشعر !!!! تمہیں‬
‫عزت راز نہیں ہے مجھے تو لگتا ہے تمہارا نا سر پھاڑنا چاہیے مجھے تم ہوتے کون ہو مجھے چھپکلی کہنے والے بلکہ برقعے‬
‫والی چپلی کہنے والے میرا دل چاہ رہا ہے میں گال دبا دوں ایک تمہاری وجہ سے میں خود کو اتنا چینج کر رہی ہوں اور تم ہو‬
‫کے یہ سب کچھ کہہ رہے ہو مجھے تمہیں خیال ہونا چاہیے تھوڑا ۔۔۔۔۔۔۔ ارے ارے ارے ‪ 360‬کی سپیڈ پہ بولی جا رہی ہو تھوڑا‬
‫حوصلہ کرو ۔ ویسے مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تمہیں واقعی عزت راز نہیں ہے تمہیں صحیح ارزم بھائی چپیڑوں سے نوازتے ہیں‬
‫‪ ....‬اشعر زور زور سے ہنسا ‪ ،‬مجھے لگتا ہے تم واقعی پاگل ہو گئے ہو اس دفعہ حریم کو فکر ہوئی۔۔۔ ارے نہیں میں بس بہت‬
‫اداس ہوں اچانک سے ہنستے ہوئے اس نے اداسی کا چہرہ بنا لیا ۔ تم اور اداس ہوا کیا ہے؟؟ ‪ ،‬اور جلدی بولو مجھے سب سے‬
‫ملنے جانا ہے پھوپو بھی ائی ہیں میں نے سنا ہے ۔ یار سارے گھر والے بزی ہیں مجھے کوئی پوچھ ہی نہیں رہا ۔ مطلب؟؟ حریم‬
‫پھوپو اپنی بیٹی ابھی ہاپی کے ساتھ چغلیوں میں مصروف ہیں امی کھانا بنانے میں مصروف ہیں بھائی بھابھی کو منانے میں کہیں‬
‫مصروف ہوں گے اور میں یہاں اکیال بیٹھا ہوا ہوں ہائے میں بیچارہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسٹر اشعر تصیح فرما لیجئے اس وقت اپ‬
‫میرے ساتھ بیٹھے ہیں ۔۔ چلو جھوٹی تم اور مجھ میں بہت ڈسٹنس ہے ۔ اشعر !!! اس دفعہ حریم کو دوبارہ اس پہ غصہ ایا اور‬
‫اشعر دوبارہ ہنسنے لگا۔ تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا میں جا رہی ہوں سب سے ملنے وہ یہ کہتی چلی گئی اور اشعر ہنس رہا تھا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نورے جان !!! جی ۔ بہت رات ہو گئی ہے اب ہم نے عشاء بھی پڑھ لیا ہے اب میرے خیال سے ہم سو جانا چاہیے ۔ ہاں صحیح‬
‫کہہ رہے ہیں اپ چلو سوتے ہیں اور یہ کہہ کر دونوں میں لیٹ گئے اور سو چکے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ادھی رات کو تقریبا دو بجے‬
‫نورے کی انکھ کھلی تو اس نے ارزم جو کہ اس کے بائیں جانب لیٹا تھا اس کو ہالیا ‪ ،‬کیا ہیں؟ کون ہے جو مجھے اس وقت تنگ‬
‫کر رہا ہے سونے دو یار !! ارزم اٹھیں !! کیا ہوا نورے جان ‪ ،‬ارزم جو کہ سیدھا لیٹا تھا نورے کی اواز سن کر دائیں جانب ہوا‬
‫اور اس کا ہاتھ پکڑا اور بند انکھوں میں ہی بوال تھا ۔ ارزم اٹھیں اور میرے ساتھ تہجد پڑھیں ۔ نورے اپ خود ہی پڑھ لو اس وقت‬
‫مجھے بہت نیید ائی ہے پلیز مجھے سونے دو ۔۔۔۔۔ نہیں اٹھیں !! دیکھو اپ بھی سو جاؤ مجھے بہت نیند ائی ہے رات کو ہم اگے‬
‫ہی لیٹ ہوئے تھے ۔ ارزم مجھے ہللا تعالی سے باتیں کرنی ہے !! کونسی ؟؟ ارزم کی بھوری انکھیں اہستہ سے کھلی اور اس کو‬
‫دیکھنے لگی ۔ مجھے ہللا کا شکر ادا کرنا ہے اور ان سے اور بھی بہت کچھ ابھی مانگنا ہے ‪ ،‬اپ اٹھ رہے ہیں یا نہیں ؟؟ اگر میں‬
‫نہ اٹھوں تو ؟ اس نے دوبارہ انکھیں بند کرتے ہوئے کہا ۔ تو پھر میں اپ سے ناراض ہو جاؤں گی ! ارزم کے ہاتھ میں جو نورے‬
‫کا ہاتھ تھا وہ ہاتھ نورے نے پیچھے کرتے ہوئے کہا تھا ۔ یعنی کہ اٹھنا پڑے گا‪ ،‬نورے مسکرائی‪ ،‬ارزم اٹھتے ہوئے بوال بیگم اپ‬
‫ہماری کمزوری اور جان رہی ہیں اب ‪ .‬نورے ہنسی ۔۔۔۔۔۔‬
‫پہلے نورے نے نماز پڑھی بہت اس نے ہللا سے باتیں کی سجدے میں رہ کر اور نماز مکمل کرنے کے بعد۔۔۔ ارزم تہجد کی نماز‬
‫میں سجدے سے اٹھا اپنے ساتھ والی جان نماز پہ اس نے نورے کو نہ پا کر نماز ختم کرنے کے بعد اس کو دیکھا تو وہ بالکنی‬
‫کی جانب کھڑی تھی ان کے کمرے میں بالکنی کا دروازہ کھلتا تھا ‪ ،‬نورے وہاں کھڑی کچھ دیکھ رہی تھی ‪ ،‬ارزم اٹھا اور اس‬
‫کی جانب گیا اور بوال نورے جان ! نورے جو کہ بالکنی میں کھڑی تھی نہ سر دیوار پر لگائے بولی جی !!! جان اگر اتنی پیاری‬
‫پانی کا یہاں کھڑی ہو گی تو تم کو جن عاشق ہو جائے گا۔ نورے ارزم کی اس بات پر مسکرائی اور بولی کوئی بات نہیں ہونے دو‬
‫۔ اچھا تو پھر اس جن کا کیا بنے گا جو آپ کے سامنے کھڑا ہے ۔ نورے پھر مسکرائی اور بولی فکر مت کریں میں نے صرف‬
‫ایک جن کو اجازت دی ہے اپنے اوپر عاشق ہونے کی دوسرے کو نہیں دوں گی اب ارزو بھی مسکرایا تھا ویسے تم یہاں کیا دیکھ‬
‫رہی ہو ؟ اشعر کے گھر انے پر یہ جو اپ نے الئٹیں لگائی ہیں اور اج ‪ 15‬ویں کا چاند ہے کتنا پیارا لگ رہا ہے ؟ چاند اور‬
‫چمکتی روشنیوں کو دیکھتے ہوئے وہ بولی تھی ۔ اچھا تو تمہیں روشنیاں پسند ہیں ؟؟ ہاں میں یہاں کھڑی پوری رات ان چمکتی‬
‫روشنیوں اور اس چاند کو دیکھ سکتی ہوں ۔ اور میں تمہیں !!! نورے جس کے بال اس کے کندھوں پر گڑے تھے اور چادر سے‬
‫باہر آتے وہ حسین لگ رہے تھے ۔۔۔ وہ ایسا شخص تھا جو اپنی بیوی کے بال دیکھنے کو خود ترس جاتا تھا نورے نے ارزم کی‬
‫جانب دیکھا اور نظریں چڑائیں اور بولی مجھے چاند دیکھنے دے اپ جا کے سو جائیں ۔ چلو ایک کام کرتے ہیں ! کیا ؟ اس نے‬
‫بالکنی کے جنگلے پر ہاتھ رکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا ۔ مل کر ہم خدا کی تخلیق کو دیکھتے ہیں تم چاند کو دیکھو اور میں‬
‫تمہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!؟‬
‫ارزم کا یہ کہنا نورے کو عجیب سی کیفیت میں لے گیا تھا وہ بولی ارزم ! کیا آپ نے مجھے یاد کیا ؟ نہیں ۔۔۔۔ تم کبھی بھولی ہی‬
‫نہیں ۔۔۔۔۔۔ نورے اس کی اس بات پر مسکرا آٹھی اور بولی اب مجھے دیکھنا بند کرو اس کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے اس‬
‫کا منہ پیچھے کرتے ہوئے کہا وہ مسکرایا اور بوال کیوں تمہیں نہیں دیکھ سکتا خدا نے اتنا پیارا مکھڑا بنایا ہے جب کہ ۔۔۔۔۔۔ ارزم‬
‫مجھے نیند آرہی ہے آپ بھی سو جاؤ ‪ ،‬یہ کہتے ہوئے نورے واپس اپنے بیڈ کی جانب جانے لگی تو اس کی کالی چادر جو کہ‬
‫ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے چاروں اور پھیل رہی تھی ارزم کے ہاتھ میں ا چکی تھی ارزم نے اس کی چادر پکڑی اور اس کو اپنی‬
‫طرف کھینچا ‪ ،‬بال کنی نہیں کا دروازہ کھال تھا ان کے دروازے سے چاند مکمل نمایا ہو رہا تھا دروازے کے ارد گرد دو پردے‬
‫تھے وہ دونوں درمیان میں کھڑے تھے اس کو دیکھتے ہوئے ارزم بوال بیگم میرے بس میں نہیں ہے کہ میں اپ کو بتا سکوں کہ‬
‫میں اپ سے کتنی محبت کرتا ہوں بس سے یاد رکھنا میرا تمہیں عزت دینا یا پیار کرنا ہی شاید تمہیں بتا دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارزم زاویار اپ‬
‫بادام کھایا کریں کیونکہ اپ وہی ارزم زاویار ہیں جو کہ اپنی بیوی کے بارے میں بہت غلط باتیں سوچنا شروع ہو گئے تھے اس‬
‫دفعہ وہ غصے سے بولی ۔۔۔۔ ٹھوکریں باداموں سے تیز ہوتی ہے بیگم جان ! تم تو میرا منظر ہو میرا احساس ہو میری سوچ اور‬
‫اس کی منزل ہو ‪ ،‬میری کن فیکن ہو ‪ ،‬میری دھڑکن ہو ‪ ،‬میری سانس کا ذریعہ ہو تم صرف میری ہو نورے جان اور ہا ارزم‬
‫زاویار بھی بس تمہارا ہے ۔۔۔۔۔۔ اب وہ دونوں خاموش بھوری اور کالی انکھوں میں اپنی انکھیں ڈوبوۓ وہیں کمرے کے وسط میں‬
‫کھڑے تھے۔۔۔ نورے جان تمہاری انکھوں کے نیچے ہلکے کیوں پڑ رہی ہے ہے تھوڑی دیر بعد اس کے چہرے پر غور کرتا وہ‬
‫بوال ۔ کیونکہ اپ پہلے ہسپتال میں تھے تو میں سوئی نہیں اور اج میں تہجد کے لیے اٹھی تھی تو اب میں سونے کا ارادہ رکھتی‬
‫تھی لیکن غلطی سے میں چاند کو دیکھنے چلی گئی اور اپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاؤ سوجاؤ ‪ ،‬میں شکرانے کے نوافل ادا کر کہ سو جاؤں گا ۔‬
‫۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔‬
‫سب کمرے میں بیٹھے تھے باہر سے نورے اور ارزم ائے تو ان دونوں کو اتا دیکھ کر نادیہ اور بولی بیٹا ہم لوگ باہر جا رہے‬
‫ہیں الہور کو وزٹ کرنے‪ ،‬اشعر کے ساتھ ‪ ،‬اور پھر وہ نورے سے مخاطب ہوتے بولی اور جب تک ہم واپس ائے نورے اچھا سا‬
‫کھانا بنا کر رکھنا اور ہاں نان نہیں ہم کھاتے ہیں ہم روٹیاں ہی کھاتے ہیں یاد رکھ لو چلو اشعر اٹھو چلیں وہ یہ کہتے کہتے ایک‬
‫منٹ میں سب باہر جا چکے تھے وہاں نور کھڑی پریشانی کے عالم میں زمین پر دیکھ رہی تھی ۔ ارزم نے اس کو یوں ساکت‬
‫کھڑا دیکھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بوال نور ار یو کے ؟ ارزم کیا مسئلہ ہے تمہارے گھر والوں کا میں نے ابھی اپنے‬
‫بھائی کی موت کا بدلہ لینا ہے اپنے باپ کی موت کا پتہ لینا ہے سفینہ بیگم کو پھانسی پر چڑانا ہے اپنی جائیداد کو واپس لینا ہے‬
‫اور پھر مجھے اور بھی اتنے کام ہیں تمہارے گھر والے میرا کتنے امتحان لیں گے ‪ ،‬میں خاموش ہوں اس کا مطلب یہ نہیں ہے‬
‫کہ میں وہ سب کچھ کروں گی جو تمہارے گھر والے کہیں گے ارزم تم جانتے ہو مجھے کھانا بنانا نہیں اتا ہے میں کہاں سے‬
‫بناؤں گی ؟ ارام سے ارام سے اہستہ کیا ہو گیا ہے اس کو اتنا تیزی سے بولتے ہوئے وہ مسکراتا اس کو خاموش کروانے کی‬
‫کوشش میں مگن ہو گیا فکر نہ کرو میں کشمیر جا رہا ہوں تمہارے ابو کی موبائل ریکارڈنگز لینے جتنی بھی ان کے پاس واٹس‬
‫ایپ ڈاٹا ہے اور پھر میں اؤں گا اور انشاءہللا ہم کیس کر دیں گے اور مجھے حمدان نے بتایا ہے کہ سفینہ بیگم کو الہور اتے‬
‫دیکھا گیا ہے ۔ اچھا واقعی ؟؟ ہاں ۔ ارزم میں اب کیا کروں وہ بچوں کی طرح بولوں جیسے وہ ابھی زمین پر بیٹھ کر ضد کرنے‬
‫لگی کہ وہ کوئی نہیں کام کرے گی !!! اچھا یہ بتاؤ تمہیں اٹا گوندنا آتا ہے ؟ ہاں مجھے اٹا گوندنا اتا ہے اور روٹی بھی بنانی اتی‬
‫ہیں ۔ رہنے دو نورے روٹی کی بات نہ ہی کرو جو تم نے مجھے کشمیر میں روٹی کھالئی تھی نا ہللا معاف کرے ابھی بھی کبھی‬
‫کبھی اس کی وجہ سے میرے پیٹ میں درد ہوتی ہے ۔ ارزم م م م م م م م !!! وہ غصے سے بولی ۔ اچھا دیکھو تم ایسا کرو تم نا اٹا‬
‫گوندنا تو مجھے روٹی بنانی اتی ہے ہم پولیس والوں کو جو ٹریڈنگ دی جاتی ہے نا تو بہت کچھ سکھایا جاتا ہے تو سالن بھی ہم‬
‫مل کے بنا لیتے ہیں ۔ ٹھیک ہے وہ فورا سے راضی ہوی ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ اب وہ دونوں کچن میں جا چکے تھے اور وہ آٹا‬
‫گوندھنے لگی ۔۔۔ارزم اس کے سفید موتی جیسے ہاتھوں کو اٹا گوندتے وقت پانی میں ڈلتا اور اٹے کو پستہ دیکھ رہا تھا ان کا کچن‬
‫بھی ان کے کمرے ہی کی طرح بالگنی سے اٹیچ تھا تو اب دھوپ بھی اس کے ہاتھوں پر پڑنے لگی ‪ ،‬اس وقت نورے کے ہاتھ‬
‫کسی کے کرسٹل کی طرح لگ رہے تھے ‪ ،‬اور ارزم کی نظر صرف اس کے چمکتے ہاتھوں پر تھی جو کہ پانی میں ڈوبے ہوئے‬
‫تھے ۔۔۔ ارزم کیا دیکھ رہے ہیں اپ میری ہیلپ کریں ایسا کریں سال میں بنانے کے لیے سامان نکالو گوشت نکالیں فریج سے ۔۔۔‬
‫اپنا ہاتھ دکھاؤ ارزم کچھ جیسے اس کے ہاتھ کا نشہ چڑھ چکا تھا ۔ ہاتھ ؟؟؟؟ ہاں ۔ یہ اٹے واال اس نے اپنا ہاتھ اوپر کرتے ہوئے‬
‫کہا ۔ یار دکھاؤ نا ۔ یہ لیں ۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھ کر وہ اس کے ہاتھ پہ پڑتی دھوپ دیکھ کر عجیب سی کیفیت میں جا رہا‬
‫تھا اس کا ہاتھ اس وقت کسی ہیرے سے بھی زیادہ چمکدار اور صاف شفاف تھا‪ ،‬یار تمہارے ہاتھ کتنے پیارے ہیں !!!!! ارزم کیا‬
‫ہو گیا ہے کیسے پتہ کر رہے ہو ؟؟؟ یار واقعی !!!! نورے نے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر دوبارہ اٹے میں ڈاال اور اٹا‬
‫گوندنے لگی ۔ یار یہ کیا کیا تم نے بوال میں دیکھ رہا تھا !!! ارزو گوشت نکالے نہیں تو اپ کی امی نے میری یہ ہاتھ کاٹ دینے‬
‫ہیں جتنے وہ غصے میں رہتے ہیں ‪ 24‬گھنٹے ۔ ایسے ہی تمہیں کوئی ہاتھ لگا کے دکھائے ۔ نورے مسکرائی ۔ اب وہ دونوں کچن‬
‫میں کھانا بنا نے کی کوشش کرنے لگے ۔ ۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔‬
‫ارزم کورمہ میں نمک بہت زیادہ ہو گیا ہے ۔۔۔ اچھا اب کیا کریں ؟ نورے نے پانی کا جگ پکڑ کر جو کہ تقریبا ادھا بڑا ہوا تھا‬
‫کورمے میں ڈال دیا ۔ ہللا اکبر یہ تم نے کیا کیا ہے ارزم اپنے سر پر ہاتھ رکھتا بوال یار سارا ٹیسٹ خراب ہو جائے گا اب ۔۔۔۔۔ کیا‬
‫!!! نورے نے بھی اپنا سر پکڑ لیا اور بولی اب ہم کیا کریں گے ‪ ،‬ارزو اس میں کوئی نئے نئے قسم کے مصالحے ڈالنے لگا اور‬
‫تیری میری روٹیاں تو وہ پہلے ہی بنا چکے تھے ۔۔۔۔۔۔‬
‫انہوں نے اخر کے کچھ نہ کچھ بنا ہی لیا اب وہ دونوں کچن کے باہر کھڑے تھے اور کچن میں دیکھ رہے تھے ارزم ! نورے‬
‫کے بولنے پر ارزم بوال ۔ ہم نے نا کچن میں کھانا کم بنایا ہے اور اس کو برباد زیادہ کیا ہے !!! ہاں یار کھانا بھی میرے بات کیے‬
‫ہیں اور کچن کی حالت بھی ۔۔۔۔ ہمم‪ ،‬ارزم اب ہمیں جلدی سے کچن کی صفائی کرنیہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اب وہ سب گھر ا چکے تھے اور ٹیبل پر بیٹھے کھانے کا انتظار کر رہے تھے کہ نورے نے کھانا لگایا اور وہ سب اپنے اپنے‬
‫منہ میں نوالہ ڈال چکے تھے ابھی کوئی بوال نہیں تھا لیکن سب سے پہلے اشعر بوال واہ واہ واہ کیا کھانا ہے اتنا مزیدار!!! بھابھی‬
‫اپ کے ہاتھ میں تو جادو نکال کیا بات ہے اور ساتھ ساتھ وہ کھا رہا تھا ۔ ساشتہ کی بیٹی بھی بولی ہاں کھانا واقعی مزے کا ہے وہ‬
‫اپنی باریک سی اواز میں بولی تھی۔ مجھے تو اس کھانے میں ایسا ٹیسٹ ا رہا ہے جیسے ارزم نے بنایا ہو ‪ ،‬ارزم کی ماں بولی تو‬
‫ارزم ساتھ ہی بوال نہیں امی کیا ہو گیا ہے میں نے ہی کھانا بنایا ہے !! چلو اچھی بات ہے کچھ تو اتا ہے اس کو نادیہ بولی لیکن‬
‫اس کے ساتھ بیٹھی سائستہ منہ میں پتھر ڈال کے بیٹھی تھی جیسے وہ کچھ نہیں بولی ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نورے جو کہ اپنے کمرے میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھی تھی اندر جب ارزم ایا تو بولی شکر ہے ارزم کھانا سب کو پسند اگیا وہ‬
‫دونوں بیڈ پر بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے ۔ ارزم جانتے ہو آج میں نے بہت کام کیا ہے !! ارزم نے ہنسی دباتے ہوئے کہا کتنا ؟‬
‫جتنا میں نے پہلے کبھی نہیں کیا ۔۔۔۔ میں تھک گئی ہوں اب ۔۔۔ کیا کیا ہے آپ نے بیگم ؟ نورے نے اس کی جانب دیکھا اور‬
‫انگلیوں پر گنواتے بولی پہلے آٹا گوندھا ‪ ،‬پھر روٹیاں بنائی ۔۔۔ ارزم چونکری مار کر اپنے کو ہتھیلی پر رکھ کر اس کو دیکھ کر‬
‫تھا وہ دوبارہ بولی پھر میں نے سالن بنایا پھر کچن صاف کیا ۔۔۔۔۔ اچھا اب میں بتاؤں آپ نے کیا کیا کام کیے ہیں ۔ جی ضرور !!‬
‫وہ ہنسی دباتے ہوئے بوال پہلے آٹے میں پانی زیادہ ڈال دیا ‪ ،‬پھر میرے ساتھ ٹیرھی میڑھی روٹیاں بنائی ‪ ،‬پھر سالن میں بے پناہ‬
‫پانی ڈال دیا ‪ ،‬پھر کچن کی الٹا دیا ۔۔۔۔۔۔۔ ارزم بس اب مجھے غصہ آرہا ہے پتا ہے آپ کو میں نے اپنے گھر میں کبھی کوئی کام‬
‫نہیں کیا اور نورے یہ الفاظ کہتے ہوئے شرت سے رو دی ۔۔۔۔۔ آآآ کیا ہوا بیگم !! میں تو ویسے ہی کہہ رہا تھا ۔۔۔ وہ پھر روی ۔۔‬
‫اچھا اچھا سوری بابا رو مت ۔۔۔ نورے جان مت رو نہیں تو میں بھی رو دوں گا ۔۔۔ اچھا بتاؤ کیا ہوا اچانک سے ؟؟ نورے کو یوں‬
‫روتا دیکھ وہ بوال تھا ۔۔۔۔ میں ۔ میرا کبھی کوئی گھر ہی نہیں تھا ارزم ۔۔۔۔ اور اس کی آنکھوں سے دوبارہ شرت سے آنسو بہے‬
‫۔۔۔۔۔۔ نورے یہ ہے آپ کا گھر ‪ ،‬میں ہوں آپ کا ۔۔۔۔۔۔کیا ہوگیا ہے جان جگر آپ کو رو نہیں یوں ۔۔۔۔۔۔ آر ۔ ارزم مجھے انصاف‬
‫چاہیے اب بس !!! انشاء ہللا جان !! چلو شاباش سو جاؤ ارزم نے اس کی یہ حالت دیکھ کر اس کو لیٹا کر اس پر بلینکیٹ دیا اور‬
‫اس کو تھاپرنے لگا ۔۔۔۔ اور وہ فورا سو گئی ۔۔۔۔‬
‫ایسا کرو تم اشعر کو میرے پاس بھیج دو اس کو میں نے پڑھانا ہے ! صبح ہوتے ہی ارزم بوال اچھا ٹھیک ہے میں اس کو‬
‫بھیجتی ہوں یہ کہتی ہوں کمرے سے باہر چلی گئی اور اشعر کو جا کے بولی تمہارے بھائی تمہیں بال رہے ہیں ! کیوں ؟ وہ جو‬
‫ٹی وی کے سامنے لیٹا موبائل یوز کر رہا تھا اپنی بابی کی جانب بغیر دیکھے بوال ۔ پتہ نہیں تمہارے بھائی کہہ رہے ہیں انہوں‬
‫نے تمہیں پڑھانا ہے اپنا بیگ لے کے جانا ۔۔۔‬
‫کیا ؟ وہ فورا بیڈ پہ کھڑا ہوا اور بھابھی کو حیرت سے دیکھتا ہے بوال بھابی یہ نہیں ہو سکتا بھائی سے میں نہیں پڑھوں گا!!‬
‫کیوں جی اپ کیوں نہیں پڑھیں گے اپ کے بھائی نے اپ کے دوست عبید سے سارا کام واٹس ایپ پر منگوایا ہے اب انہوں نے‬
‫اپ کو تھوڑا بہت سمجھانا ہے اور اب اپ جائیں اور جا کے پڑھیں بہت ہو گیا ۔۔۔ہائے ہللا بھابھی اپ بھی ایسے ہی ہوں گے میں‬
‫نے سوچا نہیں تھا ۔ ایسی کیسی ؟ نوڑے نہایت سے پوچھا ۔ مجھ پر ظلم کرنے والی وہ اپنے سر پر ہاتھ رکھتا بوال ۔ اشعر ڈرامے‬
‫بازی بند کرو فورا پہنچے اپنے بھائی کے پاس وہ بال رہا ہے تمہیں پتہ ہے اگر تم نہ کہتا تمہیں تھپڑ پڑ جانا ہے ۔ وہابی نہیں میں‬
‫نہیں جاؤں گا وہ بیڈ پر چونکڑی مار کر چھوٹے بچوں کی طرح بیٹھتا ہے بوال ‪،‬بھابھی بھائی بہت مارتے ہیں جب میں چھوٹے‬
‫ہوتے ہیں ان سے پڑھتا تھا تب بھی مجھے بہت مار پڑتی تھی اس لیے تو اب میں خود پڑھتا ہوں اپ ان سے کہہ دیں میں پڑھ‬
‫لوں گا ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ باہر سے ارزم کی اواز ائی اشعر !! نورے بولی اب اٹھ جاؤ نہیں مارتے تمہارے بھائی تمہیں ۔۔۔۔‬
‫اب اس کے بھائی کی اواز اس کو ا چکی تھی اور اس کو اب جانا ہی پڑنا تھا وہ اپنا بیگ اٹھا کر اپنے بھابھی کے سامنے کھڑا‬
‫ہوا اور بوال بھابھی دعا کرنا کہ مجھے مار کم پڑے نورے ہنسی اور بولی چلو جاؤ کچھ نہیں کہتے ۔۔۔۔۔‬
‫نورے ڈرائنگ روم میں جا کر حریم کو کال کر دو اس سے باتیں کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقریبا ایک گھنٹہ حریم سے فون پر بات‬
‫کرنے کے بعد اب اسے سوچا کہ اب کمرے میں جا کر اشعر کو چھٹی دلوا دینی چاہیے ۔۔۔۔۔۔‬
‫وہ اپنے کمرے کی جانب گئی اس نے دروازہ کھوال سامنے کا منظر دیکھ کر نورے نہایت حیرت زدہ ہو کر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ‬
‫چکی تھی ‪ ،‬سامنے بیٹھے اشعر کے بال بکھرے ہوئے تھے ایسا لگ رہا تھا کسی نے کھینچے ہوں اور اس کے گال سرخ تھے‬
‫جس پر اس نے ہاتھ رکھا ہوا تھا اور ارزم نہایت غصے سے اس کے کندھے پر تھپڑ لگا رہا تھا ۔ ارزم یہ اپ کیا کر رہے ہیں اپ‬
‫کے اس کو مار رہے تھے ؟ اس کو کچھ سمجھ ائے تو نا بے وقوف کہاں سے پیدا ہو گیا ہے ؟ ارزم اپنا غصہ قابو کرتے ہوئے‬
‫بوال ۔ اتنے بڑے کو اپ مار رہے ہیں کچھ تو خدا کا خوف کریں ۔ خدا کا خوف اس کو نہیں اتا اشعر کی جانب ارزم ہاتھ کرتا بوال‬
‫اور بولنے لگا تم بہت بڑے بے وقوف ہو بلکہ ایک ہوتا ہے بے وقوف ایک ہوتا ہے بے وقوفوں کا سردار اور ایک ہوتا ہے اشعر‬
‫مراد اب لوگوں نے بے وقوف واال لفظ چھوڑ دینا اور کہنا ہے کہ یار تو اشعر ہے ۔۔۔ اشعر جو کہ نظریں نیچی کر کے بیٹھا تھا‬
‫اپنے بھائی کی جانب ایک نظر دیکھا اور پھر اپنی بھابھی کی جانب دیکھتے بوال بھابی ایویں کسی کو اشعر مراد بنا دو میں اپنے‬
‫نام کا ایک ہی ہوں ۔ کتنا ڈیٹ ہے تو اشعر ؟؟؟ ارزم اپنے سر پر ہاتھ رکھتا بوال ۔ بھابھی اپ کو پتہ ہے بھائی نے بہت مارا ہے وہ‬
‫روتے ہوئے لہجے میں بوال جو کہ ڈرامے کر رہا تھا ۔ استغفر ہللا تم کتنے بڑے جھوٹے ہو اس نے ایک اور تھپڑ لگاتے ہوئے‬
‫کہا ۔۔ بھابھی دیکھیں ابھی اپ کو کہہ رہے ہیں کہ میں نے نہیں مارا اور ہر بات پر مجھے بلش آن لگا دیتے ہیں ۔ نورے کی ہنسی‬
‫نکلی ۔۔۔ تو اشعر بوال بھابھی اپ بھی کہ بھائی کی طرح ہیں بس اپ دونوں میں فرق اتنا ہے کہ وہ مجھے مانگتے ہیں اور اپ مجھ‬
‫پر ہستی ہیں ۔ ارزم غصے سے کھڑا ہوا اور بولو چلو یہ واال سناؤ نا ذرا بک پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے کہا ‪ ،‬ارزم کے یہ‬
‫کہنے پر کمرے میں خاموشی چھا گئی نورے نے اشعر کو اشارہ کیا چلو سناؤ اب ! لیکن وہ کیا سناتا‪ ،‬اس نے کچھ یاد ہی نہیں کیا‬
‫تھا ارزم نے بکس صوفے پر ماری اور بوال تمہیں میں ماروں نہ تو کیا تمہیں میں سر پہ بٹھاؤں ۔۔۔ بھائی کچھ تو رحم کرے ابھی‬
‫میں ہسپتال سے ایا ہوں ۔۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا اس رحم کے چکروں میں تمہیں فیل کرا دوں اس سے سمیسٹر میں ۔۔۔ بھائی میں اشعر مراد‬
‫ہوں جو کہ بہت مرادوں سے مال ہے اور بہت مرادوں سے ہسپتال سے ٹھیک ہو کر ایا ہے فکر نہ کریں۔۔۔ ابھی وہ بول ہی رہا تھا‬
‫کہ نورے بولی ہاں اور بہت مرادوں سے یہ نمبر بھی اچھے لے لے گا تو اشعر ہنسنے لگا اور بوال دیکھا ! بھائی بھابھی سمجھ‬
‫گئی اپ نہیں سمجھے ابھی تک ۔ تجھے سمجھنا انتہائی مشکل کام ہے جو کہ تمہاری وہابی سر انجام دے چکی ہے وہ نورے کی‬
‫طرف مخاطب ہوتے بوال نورے تمہیں میں نے بتایا تھا کہ میں نے کشمیر جانا ہے ؟ جی ۔ تو اج میں جا رہا ہوں اور پلیز اس کو‬
‫پڑھا دینا ۔ ٹھیک ہے لیکن اپ کتنے دن بعد واپس ائیں گے ؟ دو سے تین دن لگ جائیں گے ‪ ،‬وہ بوال اشعر جاؤ کمرے سے ۔۔۔۔۔‬
‫اشعر نے بکس اٹھی اور بھابھی کو سلوٹ کیا اور رفو چکر ہو گیا ۔ نورے جان !! اشعر کے جانے پر ارزم اس کا ہاتھ پکڑتے‬
‫بوال ‪ ......‬آپ اپنا دھیان رکھنا ‪ ،‬قسم سے میں جانا نہیں چاہتا صرف آپ کے کام کی وجہ سے جارہا ہوں ۔۔۔۔ جی جی میں جانتی‬
‫ہوں ارزم زاویار کسی کا کام کہاں کرتا ہے !! نورے کے یہ کہنے پر ارزم مسکرایا اور بوال ہللا کی آمان اور اس کے ماتھے پر‬
‫بوسہ دیا اور اسکے گالوں کو نرمی سے اس نے چھوا تھا‪ ،‬اور پھر وہ چال گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫بھابھی !! بھابھی !! ہاں بولو اشعر ! کیا پورے گھر میں شور مچایا ہوا ہے ۔ بھابھی بھائی کشمیر پہنچ گئے ہیں ۔ مجھے تمہارے‬
‫بھائی کا میسج ا چکا ہے ۔ اچھا بھابھی وہ ان کا میسج ایا ہے مجھے کہ جلدی سے میں اپ کے پاس ا کر پڑھوں ۔ اس وقت؟ میں‬
‫نے بھی ان کو یہی کہا اگے سے وہ کہتے کہ پڑھنے کا کوئی وقت ہوتا ہے بھال اور غصے سے بولے اگر تم نے نہ پڑھا تو میں‬
‫تمہیں چھوڑوں گا نہیں ۔۔۔۔ اچھا چلو اب تمہیں پڑھاؤں ۔۔۔۔۔وہ رات تک اس کو پڑھا تی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اشعر تم مجھے حریم کے گھر ڈراپ کر اؤ میں ایک دن میں ہی گزاروں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشعر نورے کو وہاں ڈراپ کر کے فورا گھر‬
‫جا رہا تھا کہ راستے میں اس کی گاڑی کے اگے ایک شخص ایا اس نے فورا گاڑی روکی وہ جو شخص اس کی گاڑی کے‬
‫سامنے ایا تھا وہ زمین پر بیٹھ گیا اس کے بازو پر تھوڑی چوٹ لگی تھی ۔۔۔ اشعر فوراً گاڑی سے باہر نکال اور جا کر اس شخص‬
‫کو اس نے اٹھایا اور بوال کہ اپ ٹھیک ہیں میں نہیں جانتا تھا کہ اپ گاڑی کے سامنے ارہے ہیں ہیلو! ایکسکیوز می ؟؟ جب اشعر‬
‫نے اس کا چہرہ دیکھا تو وہ حیران رہ گیا ۔۔۔۔ وہ شخص وہی تھا جس کو اشعر بہت دنوں سے فون کر رہا تھا لیکن اٹھا نہیں رہا‬
‫تھا‪ ،‬ملنا چاہ رہا تھا مل نہیں پا رہا تھا‪،‬ڈھونڈنا جا رہا تھا ڈھونڈ نہیں پا رہا تھا !!! وہ اس کا ریکس تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ر۔ ر ۔ ریکس آپ ۔۔۔‬
‫شارق کے چہرے پر نشانات دیکھ کر اور بازو پر لگی چوٹ دیکھ کر اشعر کی اواز لڑزتے ہوئے اس کے گلے سے باہر نکلی‬
‫شارق نے اس کی جانب دیکھا اشعر فوراً اس کو یوں دیکھ کر اس کے گلے لگا وہ دونوں ایک بہت بڑی روڈ پر ایک دوسرے کے‬
‫گلے لگے ہوئے تھے لوگ ان کو دیکھ کر پکچرز(تصویریں) لے رہے تھے اور وہ دونوں بس ایک دوسرے سے گلے لگ کر‬
‫رونے میں مصروف تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریکس آپ یہاں کیسے ؟؟؟ اشعر نے شارق کے کوئی جواب نہ دینے پر اس کو گاڑی میں ہاتھ‬
‫پکڑتے ہوئے بٹھایا اور اس کو ہوٹل لے گیا ۔۔۔۔ وہاں جا کے وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ اب کون پہلے بولے گا‬
‫وہ یہ بھی سوچ رہے تھے!!!! اشعر نے ہمت کی اپنے ریکس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بوال ریکس کیا ہوا ہے ؟ بندہ مار کر ایا‬
‫ہوں !!! شارق ایک ہی ترتیب سے جملہ بولتے ہوئے اس کی جانب دیکھتے کہا ۔ واٹ ؟؟ ہاں ۔۔۔۔ لیکن ریکس اپ کہاں تھے اپ‬
‫مجھ سے ملنے نہیں ائے میں ٹھیک ہو کر گھر اگیا اور اج اپ یو میری گھڑی کے سامنے ائے کیا ہوا تھا؟ کچھ دیر خاموشی کے‬
‫بعد شارق بوال جب اخری دفعہ ہماری مالقات ہوئی تو میں گھر جا رہا تھا تو مجھے ایک ٹرک سے ٹکر ہونے پر کافی چوٹ لگی‬
‫اور میں بے ہوش ہو گیا تھا لیکن جس نے مجھے مارا تھا وہ مجھے اٹھا کے کہیں لے گیا اور وہاں جا کے اس نے مجھے ایک‬
‫الش سمجھ لیا تھا اس کو لگا تھا کہ میں مر گیا ہوں ۔۔ اشعر نے تیسری چڑھاتے ہوئے شارق کو دیکھا ۔۔۔۔۔لیکن میں بھی وہاں پہ‬
‫ایکٹنگ کر رہا تھا کہ میں مر گیا ہوں ۔۔۔۔ وہ شخص مجھے دو چار روز کے لیے چھوڑ کر چال گیا میں نے بہت مشکلوں سے‬
‫وہاں پر گزارا کیا وہ شخص دوبارہ میری الش کو دفن کرنے ایا تھا تو حسب معمول میرے پاس پڑی گن سے وہ ہللا کو پیارا ہو گیا‬
‫اور میں وہاں سے بھاگ نکال۔۔۔۔۔۔ افف میرے خدایا ! ریکس اپ کتنے قتل کریں گے ؟ ‪ 50‬ہونے میں بس دو رہتے ہیں۔۔۔۔۔ اشعر نے‬
‫اپنا سر پکڑا اور بوال بھائی اب اپ کیا کریں گے ؟ شارق نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بوال یار یہ میں نے پہلی دفعہ قتل‬
‫تھوڑی کیا ہے جو مجھے ڈر لگے گا ۔۔۔۔۔۔ ریکس ایک بات کہوں ۔۔۔ ہاں‬
‫نہ خوف خدا نہ خوف نبی‬
‫وہ بھی نہیں یہ بھی نہیں‬
‫ہللا نبی کی بات اگئی تھی شارق کیا بولتا وہ خاموش رہا ۔۔۔ ریکس مجھے سمجھ نہیں اتی میری تربیت کرنے میں ‪ 60‬فیصد اپ کا‬
‫حق ہے تو پھر اپ کیوں ایسے ہیں اور میں کیوں اپ سے الگ ہوں ؟؟؟؟ حاالت انسان کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اپنا اصل‬
‫روپ دیکھاۓ ۔۔۔۔ اچھا بھائی اب اپ کہاں جائیں گے ؟ کہاں رہیں گے؟ آیی مین اپ گھر جا رہے ہیں کیا؟ نہیں اب قتل کیا ہے گھر‬
‫تو نہیں جا سکتا گھر والوں کو کیوں مشکل میں ڈالوں میں ابھی ایک ہوٹل میں رہوں گا۔۔۔۔ کاش بھائی میں اپ کے لیے کچھ کر‬
‫سکتا ہوں ۔۔۔ تم نے کی ہے مدد !! کیا ؟ تم نے مجھے اتنی عرصے بعد اپنی شکل دکھائی ہے ۔۔۔۔۔۔۔شارق یہ کہتا اٹھا اور اشعر کے‬
‫بالوں میں ہاتھ ڈاال اور بوال چلو میں چلتا ہوں تم فکر نہ کرنا یہ کوئی پہال قتل نہیں ہے جو تم یوں بہیو کر رہے ہو ۔۔۔۔۔ اور وہ یہ‬
‫کہہ کر چال گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اشعر نے سوچا کافی وقت ہو گیا ہے بھابھی کو لے آتا ہوں ۔۔۔۔ وہ اپنی بھابھی کو لینے گیا تو دروازے پر اس نے فرقان کو پایا‬
‫۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنی گاڑی گلی کے باہر کھڑی کی اور چپکے سے وہاں پر سارا منظر دیکھنے لگا سب سے پہلے فرقان نے دروازہ‬
‫کھٹکھٹایا تو حریم باہر ائی ۔۔۔۔ حریم نے بڑی سی چادر اوڑھ رکھی تھی۔۔۔ کیا حال ہے ؟ حریم اس کی جانب دیکھا اور بولی تمہارا‬
‫دماغ خراب ہے تم میرے گھر پہ کیا کرنے آۓ ہو ؟ ارے تم نے پردہ حجاب شروع کر دیا ‪ ،‬لگتا ہے وہی دکیہ نوسی سوچ کے‬
‫مالک ہے تمہارے گھر والے !!!‬
‫( ?‪What the hell you are speaking‬‬

‫یہ تم کیا بکواس کر رہے ہو؟؟؟؟ اور تمہاری یہاں تک آنے کی ہمت بھی کیسے ہوئی ؟ اشعر کے بھائی کے مارے گئے تھپڑ کا‬
‫بدلہ لینے آیا تھا ‪ ،‬لیکن یار تم تو اس حلیہ میں بھی جچ رہی ہو فرقان نے زوردار قہقہہ لگایا اور بوال وہی لڑکیاں یوں حجاب اور‬
‫پردے کرتی ہیں جن کے گھر والے ان پہ یقین نہیں کرتے اور وہ بہت ہی بد کردار ہو جیسے کہ بہت سے مردوں کی انکھوں کا‬
‫منظر ہو ۔۔۔ اشعر نے اس کی بات کو سن کر طیش کے عالم میں اس کی جانب دیکھتے وہ اگے بڑھنے ہی لگا تھا کہ حریم نے‬
‫زوردار تھپڑ اس کے گال پہ ایک نہیں لیکن تین مارے تھے۔۔۔۔۔ اشعر بھی شاید اتنی زور کا تھپڑ رسید نا کرپاتا ۔۔۔ جتنا حریم نے‬
‫مارا تھا !!!! کیسا لگا میرے جچتے ہاتھوں کا تھپڑ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرقان حریم کی جانب ہوا تو پیچھے سے ایک زمیں پر اینٹ فرقان کی‬
‫کمر پر لگ چکی تھی‪ ،‬حریم نے پیچھے بھی دیکھا لیکن اس کو نہ سمجھ ائی کہ یہ کس نے کیا ہے کیونکہ جب تک اس نے ملک‬
‫کے دیکھا تھا اشعر وہاں سے جا چکا تھا ۔۔۔۔ اور فرقان کو لینے کے لیے تو ایمبولنس ائی کیونکہ لوگوں نے اس کو زمین پر یوں‬
‫تڑپتا دیکھا تو اس کو وہاں ہسپتال لے گئے ۔۔۔۔ نورے کو رات کو حریم ڈراپ کو اپنے گھر ائی تو اشعر سامنے ایا اور بوال کیسی‬
‫ہو تم حریم ؟ میں ٹھیک تم بتاؤ ؟ میں بھی الحمدہلل کوئی نئی تازی ؟ اشعر حریم کے منہ سے فرقان کا واقعہ سننا چاہتا تھا اس کو‬
‫لگتا تھا کہ وہ اس کو بتائے گی لیکن اس نے نہیں بتایا اور وہ کہتی چلو ٹھیک ہے میں چلتی ہوں اور وہ یہ کہتی ہوئی چلی‬
‫گئی۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اگلی صبح جب نورے اٹھ کر باہر ناشتہ کرنے گئی تو سائشتہ بولی بیٹا میں جانتی ہوں تمہاری شادی کن حاالت میں ہوئی ہے اخر‬
‫کو تمہارے بھی تو کچھ ارمان ہوں گے نا تو اب تم کھیر بناؤ !!! ۔۔۔‬
‫کھیر ؟؟؟ ہاں بیٹا یہ ایک رسم ہوتی ہے شادی کے بعد دلہن کھیر بناتی ہے لیکن تمہاری رسم نہیں ہوئی تھی اس لیے اب ہم کریں‬
‫گے کیا خیال ہے نادیہ ؟ ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو اج تم کھیر بناؤ نادیہ نورے کی طرف منہ کرتی بولی ۔ امی چھوڑیں کیا کرنی ہے‬
‫یہ رسمی فضول کی رسمیں کیا ہوتی ہیں یہ بھال وہ اپنی بھابھی کو یوں پریشانی کے عالم میں دیکھتا بوال ۔ تم خاموش رہا کرو‬
‫ابیہا بولی ۔ اشعر میں اس سے اٹھ کر چال گیا اور جاتے ہوئے بوال میرا پیٹ بھر چکا ہے میں جا رہا ہوں پڑھنے ۔۔۔۔ نورے بھی‬
‫اٹھی اور اپنی شامت کا انتظار کرنے لگی ۔۔۔۔۔‬
‫ارزم اب میں کھیر کیسے بناؤں تم سمجھ کیوں نہیں رہے ہو مجھے کھیر بنانی نہیں اتی !!!نورے نے ارزم کو فون کر کر اس کو‬
‫کہا ۔ یار اتنے زیادہ مسئلے ہو گئے ہیں ایک تو اب میں کیا کیا حل کروں ؟؟؟؟؟ مجھے یہ بتاؤ میں کیا کروں ؟ یور ایسا کرو‬
‫یوٹیوب سے دیکھ لو ۔۔۔ ہاں یہ طریقہ پھر بھی ٹھیک ہے چلو میں کوشش کرتی ہوں فون رکھو ہللا حافظ ۔ اتنی مشکلوں سے فون پہ‬
‫بات ہوتی ہے اور یہ لڑکی فون بھی رکھ دیتی ہے حد ہوتی ہے اس کے والی بھی ‪ ،‬ارزم کان سے فون کے نیچے کرتا بوال کہ‬
‫ساتھ حمدان اوربالل آۓ ۔ ارے تم دونوں بالل تو کہاں سے اگیا ارزم ان دونوں کو دیکھ کر خوش ہوا اور اٹھ کر ان کو گلے لگا‬
‫‪ .....‬یار بس تو رہا تھا کہ تو ایا ہوا ہے اور میں نے موقع دیکھ کر حمدان کے ساتھ سوچا کہ کیوں نہ مالئیں ۔۔۔ ہاں ہاں بہت اچھا‬
‫کیا ۔۔۔۔۔ یار ویسے تیری الئف کتنی مزے کی جا رہی ہے ‪ ،‬وہ سامنے بیڈ پر بیٹھ کر بوال ۔۔۔ مطلب ؟؟ مطلب یہ کہ مجھے حمدان‬
‫سب کچھ بتا چکا ہے کہ کیا کیا ہوا تمہارے ساتھ تمہاری وائف کے ساتھ ۔۔۔۔ اچھا ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر بتا اج کل کیسی جا رہی ہے تیری‬
‫الئف بالل دوبارہ بوال ‪ ،‬جبکہ حمدان نے اس کو خاموش رہنے کا اشارہ بھی کیا تھا لیکن وہ تھوڑا شوخا تھا اس لیے دوبارہ بول‬
‫اٹھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں یار بس اج کل وہ بہت کافی پریشان رہتی ہے اخر کو اس نے اپنے بھائی اور باپ کی موت کا بدلہ ابھی تک‬
‫نہیں لیا اور جب وہ بدلہ لے لے گی تو انشاءہللا اس کو سکون مل جائے گا اکثر وہ روتی ہے ۔۔۔۔ پھر ؟؟؟؟ پھر کیا میں اس کو چپ‬
‫کرواتا ہوں ظاہری سی بات ہے وہ رو رہی ہے اور میں کیا سائیڈ پہ بیٹھ جاؤں اس کو دیکھوں ارزم نے ہنستے ہوئے غصہ قابو‬
‫کرتے ہوئے کہا کیونکہ اس کو برا لگ رہا تھا کہ یہ کیوں ایسے سوال کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن بالل دوبارہ بوال یار کوئی حال نہیں‬
‫ویسے نا لڑکیوں کا تو !!! ہاں یار بس وہ خود کو کمتر سمجھتی ہے کیونکہ یار کافی جگہوں پر میں نے بھی اس کے ساتھ غلط کیا‬
‫ہے میں پھپو کی بیٹی سے بھی شادی کرنے واال تھا لیکن کینسل ہو گئی پھر کھالہ کی بیٹی کو بھی ہاں کی لیکن وہ کینسل ہو گئی‬
‫کہ نورے سے شادی ہے بس ہللا نے مقدر میں لکھ ڈالی تھی تو بس اب رشتہ دار سارے ہیں وہ اس کو یو فیل کرواتے ہیں کہ‬
‫جیسے وہ میری الئف میں ایکسٹرا بٹ ایسا کچھ بھی نہیں ہے الحمدہلل ہم دونوں بہت خوش ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خود کو کمتر کیوں‬
‫سمجھتی ہے تم اس کو ایک دفعہ نہ دو چار تھپڑ لگاؤ اور غصے سے سمجھاؤ دیکھنا نہ تمہارے سامنے روئے گی اور نہ ہی یہ‬
‫ڈرامے کرے گی سب ڈرامے ہوتے ہیں لڑکیوں کے !!!! بالل کی یہ کہنے پر حمدان نے چونک کر اس کی جانب دیکھا اور ایک‬
‫نظر پھر ارزم کی جانب گھمائی ۔۔۔ اگر میں اس کو یوں تھپڑ مار کر یا غصہ کر کے سمجھانے کی کوشش کروں گا تو میں بہت‬
‫بڑا بے غیرت ہوں گا جو اپنی بیوی کی بات سن نہیں سکتا اور اس کی پریشانیوں کو دور نہیں کر سکتا بلکہ نہ مردوں کی طرح‬
‫اس پر ہاتھ اٹھا سکتا ہے بس ‪ ،‬اور ہاں ایک بات کلیئر کر دوں میں مرد ہوں میں ایسے سوچ بھی نہیں سکتا اور نہ ہی ایسا کروں‬
‫گا اگر میں ایسا کروں گا تو وہ مجھے ہمیشہ ساری زندگی کچھ اچھا یا برا سوچ کر کہنے سے کترائے گی اس کی قوت یاداشت‬
‫کمزور پڑے گی ۔۔۔۔ میاں بیوی کے رشتے میں مار پیٹ ایک دوسرے پر اعتبار اور اعتماد سے روکتی ہے۔۔۔۔۔ حمدان ارزم کو‬
‫چونک کر د یکھ رہا تھا کیونکہ اس کو لگا تھا کہ اب کچھ برا جواب بھی اس کو ملے گا لیکن ارزم نے اس کو اچھا جواب دیا لیکن‬
‫وہ ارزم کو صحیح جانتا تھا ارزم بوال اج تو تم نے میری بیوی کے بارے میں ایسے بات کر دی ہے ائندہ کرنے سے پہلے اپنی‬
‫قبر کھود کر آنا اور وہ فورا کھڑا ہوا اور بوال دفع ہو جاؤ یہاں سے میرے گھر سے باہر چلے جاؤ ۔۔۔۔۔ کیا بدتمیزی ہے تم غصہ‬
‫کیوں کر رہے ہو میں تو ایک سمپل بات کی ہے ؟؟ تم اپنی سمپل بات اپنے پاس رکھو اپنے یہ گھٹیا مشورے کسی گھٹیا شخص کو‬
‫جا کے دینا ہر انسان دوسرے کو بھی پتہ نہیں ویسے کیوں دیکھتا ہے جیسا وہ خود ہوتا ہے !!!! یار میں تمہیں ملنے ایا تھا اتنی‬
‫دیر بعد اور تم میرے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہو۔۔۔ حمدان اس کو لے کے یہاں سے چلے جاؤ اور اب اؤ گے تو اکیلے انا نہیں تو‬
‫تمہیں بھی اس کے ساتھ انے کی اجازت نہیں ہو گی ۔۔۔۔ اچھا سے چلو تم دونوں لڑو مت اجاؤ تم میرے ساتھ چلو وہ بالل کا ہاتھ‬
‫پکڑ کے اس کو باہر کی طرف لے گیا۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫نورے انٹرنیٹ سے دیکھ کر جو کھیر بنانے کی ناکام کوشش کی تھی وہ ناکام ہو چکی تھی کھیر مکمل طور پر جل چکی تھی اور‬
‫وہ کھیر کا سارا مادہ اکٹھا کر کے باہر پھینک رہی تھی اور گھر میں بہت زیادہ جلنے کی بدبو پھیل رہی تھی لیکن کسی کو پتہ‬
‫نہیں چال کیوں کہ نادیہ اور سائشہ اور ابیہا سو رہے تھے کمرہ بند کر کے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہللا جی اب میں کیا کروں نورے نے اپنے سر پر‬
‫ہاتھ رکھتے ہوئے کہا یا ہللا میں کیا کروں میرے پاس تو اب دودھ بھی نہیں بچا اوپر سے ارزم بھی گھر نہیں جو کہ مجھے کھیر‬
‫ال دے میں کیا کروں نورے خود کو کوسنے لگی۔۔۔۔ اور کچھ نہیں ہو سکتا میں کمرے میں جا رہی ہوں اور جا کے ارزم کو سب‬
‫کچھ بتانے لگی ہوں زندگی عذاب کر دی ہے میری تو سب نے‬
‫۔۔۔ وہ پاؤں پٹکتی ہوئی کمرے کی جانب گئی اور جا کر ارزم کو فون کرنا چاہا لیکن بیٹری لو تھی اس نے موبائل چارجنگ پر‬
‫لگایا اور اپنا سر پکڑ کر صوفے پر بیٹھ گئی تقریبا ادھا سے ایک گھنٹہ وہ کمرے میں بیٹھی رہی پھر اس نے سوچا کیوں نہ بن‬
‫جا کے کچھ کر لیا جائے وہ اٹھی اور باہر کچن کی جانب گئی اور جب وہ اندر داخل ہوئے تو اس نے کے سامنے کھیر پڑی تھی‬
‫وہ کھیر کہاں سے ائی تھی نورے کو معلوم نہیں ہوا اس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن اس کا کوئی سوراخ نہ مل سکا تھوڑی دیر میں‬
‫کمرے سے باہر اشعر ایا اور بوال کیا ہو رہا ہے بھابھی کھیر بنی اپ سے یا نہیں ؟ نورے اس کا چہرہ دیکھ کے ساتھ سمجھ گئی‬
‫کہ یہی لے کر ایا ہے کھیر کیونکہ اس کے ہونٹ پر ہلکی سی کھیر لگی تھی پہلے تو وہ مسکرائی اور پھر بولی ہاں میرے سے‬
‫ساری کھیر بن گئی ہے ۔۔۔۔۔ بھابھی کیا ہوا اپ ہنس کیوں رہی ہیں ؟ اشعر کچھ نہیں ویسے میرا دل کر رہا تھا چلو اؤ کھیر کھاتے‬
‫ہیں نہیں بھابھی میرا پیٹ فل ہے میں نہیں کھا سکتا ۔ ہاں ہاں شرارتی تم ہی تو لے کر ائے ہو تم نے کھا بھی لی ہے اور پیٹ فل‬
‫ہونا ہی ہے نورے نے ہنستے ہوئے کہا ۔ کیا؟ میں میں کب لے کر ایا ہوں میں تو نہیں لے کر ایا بھابھی اپ ایوی لگی ہوئی ہیں‬
‫اپ نے اتنی محنت سے ہی کھیر بنائی ہے ۔ہاں تو پھر اشعر مراد اپ نے اتنی محنت سے بنی ہوئی کی میری اجازت کے بغیر‬
‫کھائی کیوں ؟ کیا میں نے کب کھائی ؟ ذرا اپنے ہاتھ سے اپنا ہونٹ صاف کرو اشعر نے ویسا ہی کیا اور اس کے ہاتھ پر ساری‬
‫کھیر لگ گئی اور وہ نیچے دیکھ کر مسکرانے لگا ۔ تھینک یو سو مچ اشعر ۔۔۔ اٹس اوکے بھابھی اپ اور میرا شکریہ ادا کر رہی‬
‫ہیں یہ کیا بات ہوئی بلکہ شکریہ مجھے اپ کو ادا کرنا چاہیے اپ نے رات کو مجھے پڑھایا اگر میں ننا پڑتا تو بھائی نے نا ا کر‬
‫میری ٹانگ توڑ دینی تھی ۔۔۔۔نورے مسکرائی اور کھیر کی ٹرے لے کر باہر ٹیبل پر رکھنے گئی اور کمرے میں جا کر اس نے‬
‫اپنی ساس پھپو اور ابیہا کو اٹھایا اور بولی ائیں باہر چیر کھا لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کھیر تو واقعی مزے کی بنی ہے نادیہ بولی ۔۔۔۔ اچھا تو بیٹا ہم نے تمہیں ایک بات بتانی تھی سائنشتہ نورے سے مخاطب ہوتے‬
‫بولی ۔۔۔ کیا ؟ نادیہ بولی میں بتاتی ہوں نورے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ابیہا اور ارزم کا نکاح کر دے نورے جو کہ ارام سے‬
‫کھیر کھا رہی تھی اس کے ہلک میں و جیسے کھیر اٹک گئی اور وہ زور زور سے کھانسنے لگی اس نے فورا پانی یا گالس اٹھا‬
‫کے پانی پیا اور پانی اندر نگلتے ہوئے اس نے دوبارہ نادیہ کی طرف دیکھا نادیہ بولی کیا ہو گیا ہے ؟ میں نے کوئی انہونی بات‬
‫تو نہیں کردی ۔۔۔ اپ نے کوئی ہونے والی بات بھی نہیں کی انٹی ایسے کیسے اپ یہ بات کر سکتی ہیں؟ ایسے کیسے کیا مطلب‬
‫اسالم میں چار شادیوں کی اجازت ہے اور میرا بیٹا صرف ابھی تک ایک شادی کر چکا ہے اور ہاں اب کیا میں ایک شادی اپنی‬
‫پسند کی نہ کرواؤں ؟؟؟ انٹی پہلے اپ کی پسند وہ کشف تھی اور اب یہ ابیہا وہ غصے سے ٹیبل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ تم‬
‫سے دس گنا پیاری ہے میری بیٹی اور تمہیں کسی نے تمیز نہیں سکھائی کس طرح بڑوں سے بات کرتے ہیں اہستہ نورے پر‬
‫چالئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انٹی بس اب اپ میری توہین کر رہی ہیں اپ کی بیٹی رہتی ہوگی پیاری لیکن میں ارزم کی بیوی تھی ہوں اور رہوں‬
‫گی کسی اور کو یہ حق میں دے نہیں سکتی ۔۔۔۔ او ہیلو ! نادیہ نورے کو اپنی طرف مخاطب کرتے بولی تمہارا یہ حق تمہارا شوہر‬
‫ارزم خود ہی چھین چکا ہے ۔ نورے ایک دم سے تھمی اور بولی کیا مطلب ہے اپ کا؟ مطلب یہ کہ فیصلہ میں خود ہی نہیں کر‬
‫کے بتا رہی بلکہ ارزم سے پوچھا ہے !!! کیا ؟؟؟ ہاں اور ارزم نے ہاں کر دیا ہے ارزم نے ہی کہا ہے کہ میں ابیہا سے شادی‬
‫کروں گا ۔۔۔۔۔ نورے کو تو جیسے کسی نے بغیر کشتی کے دریا میں دھکا دے دیا ہو ۔۔۔ وہ فورا اپنے کمرے کی جانب منہ پر ہاتھ‬
‫رکھتے ہوئے روتے ہوئے بھاگے اور جا کر اس نے کمرہ بند کر لیا اپنا اس نے دوپٹہ اتار کر پھینکا بیڈ پر اور زور زور سے‬
‫کمرے میں بیٹھ کر رونے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ارزم نے نورے کو کال کی ‪ ،‬نورے میں گھر ا رہا ہوں اج ۔۔۔ اچھا ایک مدھم اواز میں وہ بولی ۔۔۔ چلو میں ا کے بات کرتا ہوں ۔۔۔‬
‫اج پہلی دفعہ ان کی بات بہت کم ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ دیر میں ار زم گھر پہنچا اور ا کر سب سے پہلے باہر برامدے‬
‫اپنی امی کو پا کر ان سے گلے لگا اور پپو کو سالم کر کے وہاں ان کے پاس بیٹھ گیا اور ان سے کافی دیر باتیں کرنے لگا اور ان‬
‫کو بتایا کہ اس کا کام ہو چکا ہے ‪ ،‬اشعر ایا اور اپنے بھائی کو پانی کے گالس دیا اور بولے بھائی ایک منٹ اپ سے بات کرنی‬
‫ہے اس نے یہ اشارے میں کہا۔۔۔۔ ارزم اٹھا اور باہر ایا تو وہ بوال بھائی پتہ نہیں بھابھی کو کیا ہوا ہے وہ کل رات سے کمرے سے‬
‫باہر نہیں ائی !!! اچھا چلو میں دیکھتا ہوں یہ کہتا وہ اپنے کمرے کی جانب کیا اور جا کر اس نے دروازہ کھوال نورے بہت ہمت‬
‫اور حوصلے سے صوفے پر بیٹھی تھی جو کہ اس کے انے پر اس کی جانب دیکھنے لگی اندر اتے ہی ارزم بوال السالم علیکم !‬
‫نورےجان کیا حال ہے ؟؟؟ وہ نہایت پیار سے بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نورے کو ارزم کا یوں اس کو بولنا بہت چبہ لیکن وہ بولی وعلیکم السالم‬
‫! ارزم اپنی گھڑی اتارنے کے لیے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے ہوا اس نے اپنی گھڑی اتاری اور ساتھ بوال کیا ہوا ہے سنا ہے اپ‬
‫کل سے باہر نہیں ائی ؟ جی وہ میری طبیعت خراب تھی نورے خود پر بہت قابو کرتے ارام سے بولی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ارزم کو‬
‫یہی خیال تھا کہ جب وہ گھر جائے گا تو نورے اس کو دیکھ کر بے حد خوش ہو لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ‪ ،‬وہ بیڈ پر بیٹھا نورے‬
‫صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی اور بوال کیا حال ہے ؟ میں ٹھیک ہوں یہ الفاظ نورے نے مسکراتے ہوئے کہا لیکن ان لفظوں پر اس‬
‫کی انکھوں میں انسو اگئے اور اس کی اواز نم پڑ گئی ۔۔۔۔ ارزم کو محسوس ہوا کہ شاید کوئی بات ہے وہ دوبارہ اس سے پوچھنے‬
‫لگا کیا ہوا ہے ؟ نورے جس کی انکھوں میں پہلے ہی انسو تھے وہ اپنے اپ کو قابو کرتے ہوئے بولی کچھ نہیں اور اب وہ الفاظ"‬
‫نہیں " پر رو چکی تھی اور اپنے اپ کو گہری گہری سانس لے کر قابو کر رہی تھی رونے سے روک رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ن ن‬
‫نورے جان ! کیا ہو گیا ہے رو کیوں رہی ہو ؟ وہ اس کی جانب اتا بوال تو نورے فورا کھڑی ہوئی اور بولی شرم کرو مجھے ان‬
‫پیار بھرے ناموں سے بالتے ہو !!! ک کیا مطلب ؟؟ میں تمہیں ان ناموں سے نہیں بالؤں گا تو کس کو بالؤں گا ؟؟؟ ارزم اتنے‬
‫کہیں معصوم رہتے نہیں ہو ‪ ،‬تم تم جانتے ہو میرا دل چاہ رہا ہے میں اپنا سر دیوار پہ مار کے اپنا سر پھاڑ لوں یا اس اس بالکنی‬
‫سے کود جاؤں خودکشی کر لوں روز روز کے مرنے سے بہتر ہے میں ایک دفعہ ہی خودکشی کرلوں ۔۔۔۔ کیا ہوا ہے نورے‬
‫؟؟؟؟؟‬
‫کیا! کیا نہیں ہوا ہے یہ پوچھو ارزم تم نے میری زندگی برباد کر دی ہے تم نے میری زندگی کو عذاب بنا دیا ہے جہنم کی اگ بھی‬
‫تمہاری دی گئی اس زندگی سے اچھی ہوگی وہ چیخ کر نہیں لیکن غصے سے بولی تھی اور وہ مسلسل کانپ رہی تھی ‪ ،‬نورے‬
‫کبھی کسی سے ڈر لگتے وقت نہیں کانپی تھی بلکہ ہمیشہ تب ہی کانپتی تھی جب وہ اپنا غصہ قابو کر رہی ہو اور وہ اس کام میں‬
‫بے بس تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔جہنم ! کیا جہنم کی ہے ؟ میں نے تمہاری زندگی ! اس دفعہ ارزم نے اس کو دونوں کندھوں سے پکڑتے ہوئے‬
‫بوال ‪ ،‬گہری انکھیں دونوں کی ایک دوسرے سے جا ملیں ارزم بوال پہلے میں نے اپ کے باپ کے نمبر سے ان کا ایڈریس نکلوا‬
‫کر دیا پھر اس طرح کے حاالت ہوئے کہ مجھے اپ سے نکاح کرنا پڑا نکاح کے بعد مجھے اپ سے محبت کرنی پڑ گئی اس‬
‫کے بعد میں نے اپ کو چاہا میں نے اپ کو ساتھ دیا اپ اغوا ہوئی میں نے اپ کو ڈھونڈا ہاں بس میری غلطی اتنی تھی کہ میں‬
‫نے کچھ دیر کے لیے اپ پر یقین نہیں کیا اور اپ مجھے یہ کہہ رہی ہو اپ کو خیال یا کوئی احساس نہیں ہوتا کہ اپ کیوں اور‬
‫کس کو یہ کہہ رہی ہو کہ میں نے اپ کی زندگی عذاب کر دی ہے برباد کر دی ہے کیا کیا ہے ! میں نے ایسا ؟؟؟ نورے جس کو‬
‫ارزم نے دونوں کندھوں سے پکڑ رکھا تھا نورے نے اس کی جانب بے بسی سے دیکھتےوہ بڑے اطمینان سے بولی کیا تم نے‬
‫مجھ سے محبت کی ؟؟؟ گہری انکھیں دونوں کی ایک دوسرے میں ڈوب چکی تھی وہ دونوں ایک پل کے لیے تو خاموش ہو گئے‬
‫کمرہ ایسے خاموش تھا جیسے کوئی تھا ہی نہیں کبھی ۔۔۔۔۔ ارزم ابھی بھی اس کو کندھوں سے پکڑ رہا تھا اور وہ دھیرے سے‬
‫بوال ہاں کی ہے میں نے محبت ‪ ،‬اتنا سننے کی دیر تھی کہ نورے نے فوراً سے ارزم کا گریبان پکڑا اور اس کو بولی تو مجھے‬
‫خود سے محبت کرنے پر مجبور کیوں کیا ؟ مجھ سے جھوٹے وعدے کیوں کیے عشق کے ؟؟؟ مجھے خود سے عشق کیوں‬
‫کروایا!! وہ نہایت بے بسی کے عالم میں بول رہی تھی اج پہلی دفعہ ایسا تھا کہ وہ چیخ نہیں رہی تھی اور ارزم کو یہ بات خوف‬
‫دال رہی تھی ‪ ،‬نورے کا یہ ابھرتی چنگاڑی واال روپ دیکھ کر ارزم کچھ نہ بول پایا اور اس کو دیکھ رہا تھا اور اچانک سے اس‬
‫کو یوں دیکھتے ہوئے اس نے اس کی کمر کے گرد ہاتھ رکھتے ہوئے نورے کو اپنے سینے سے لگایا جو کہ اس کا گریبان پکڑ‬
‫کر کھڑی ارزم نے ہی سب اس لیے کیا کیونکہ وہ بے حد رو رہی تھی اور ارزم سے اس کی یوں روتی صورت دیکھی نہیں جا‬
‫رہی تھی وہ پہلے اس کے سینے سے لگی اور بے تحاشہ روئی وہ دل کھول کے روئی وہ یہ نہیں سوچ رہی تھی کہ میں اسی‬
‫انسان کے گلے لگی ہوں جس سے اسے دکھ لگا ہے بس وہ اس وقت کوئی کندھا چاہتی تھی جس کے ساتھ وہ لگ کر رونا چاہتی‬
‫تھی ارزم بوال ایسا کرو پہلے رو لو پھر لڑ لینا اور وہ رو رہی تھی۔۔۔۔ پھر وہ پیچھے ہٹتی بولی اگر مجھ سے محبت اخری مرتے‬
‫دم تک نہیں کر سکتے تھے تو مجھے یہ احساس کیوں دالیا کہ تم واقعی مجھ سے محبت کرتے ہو بلکہ تم تو کبھی اپنی خالہ کی‬
‫بیٹی سے نکاح کرنے چلے جاتے ہو اور کبھی اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے بھی اپنی پھوپوں کی بیٹی سے نکاح کرنے کے لیے‬
‫راضی ہو جاتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔ ارزم کے چہرے کے نقوش بدلے اور وہ بوال اپ کیا کہہ رہی ہو ایسا کچھ بھی نہیں ہے میں کب اور‬
‫کس سے شادی کرنے کے لیے راضی ہوا ہوں ؟ مانا کہ کشف سے نکاح کرنے کے لیے میں مانا تھا اور میں نکاح کرنے گیا‬
‫بھی تھا لیکن اس وقت اپ جانتی ہو میں کس کنڈیشن میں تھا کس ٹروما سے گزر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور جس ٹرومہ سے اس وقت میں‬
‫گزر رہی ہوں اور یہ کہتے ہوئے وہ دوبارہ رو پڑی ۔۔۔۔ ن نورے جان ! وہ نورے کو صوفے پر بٹھاتا ہوا بوال مجھے صحیح سے‬
‫بات بتاؤ کیا ہوا ہے ؟ اپ کی امی نے مجھے کہا ہے کہ اپ۔۔۔۔۔ وہ اگے بول نہ پائی لیکن اس کا ہم سفر سمجھ چکا تھا کہ اب کیا‬
‫جال بچھا ہے۔۔۔۔ وہ وہیں اس کے قدموں میں بیٹھ گیا اور بوال نورے میں راضی نہیں ہوا ہوں ابہیا سے شادی کرنے کے لیے اپ‬
‫کو جو بھی کہا گیا ہے جھوٹ کہا گیا ہے ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ نورے فورا اس کے سامنے زمین پر بیٹھتی ہوئی کہ اس کو‬
‫اچھا نہیں لگا کہ وہ یوں اس کے قدموں میں ا بیٹھا ہے۔۔۔۔ تو کیا اپ کی امی جھوٹ کہہ رہی تھی وہ ارزم کی جانب دیکھتے ہوئے‬
‫گہرا سانس لیتے بولی !!!! میری امی نے کہا ہے یا پھوپو نے کہا ہے جس نے بھی کہا ہے غلط کہا ہے ؟ نورے میں نے تمہیں‬
‫کیا کہا تھا کہ مجھ پہ یقین کرنا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔۔۔۔ ارزم واقعی اپ نے یہ سب نہیں کیا نہ ہی کہا ہے وہ روتے‬
‫ہوئے بولی ؟؟ ہاں میں نے ایسا کچھ نہیں کہا کیا تمہیں اس بے وقوف نے نہیں بتایا ۔۔۔ نہیں اشعر اس وقت وہاں موجود نہیں تھا اور‬
‫میں اس کے بعد کمرے سے باہر نہیں نکلی ۔۔۔۔۔۔۔ نورے اپ نے بہت غلط کیا ہے مجھ پر یو شک کر کہ ‪ ،‬جبکہ اپ جانتی تھی کہ‬
‫میں اپ کا ہی کام کرنے کشمیر گیا ہوں اگر مجھے اپ سے کوئی لگن نہ ہوتی تو میں کبھی نہ جاتا اور تم نے میری بات نہ مانی‬
‫جبکہ میں نے تمہیں یہ بھی کہا تھا کہ اگر تم نے میری بات نہ مانی جو ماننے والی ہوئی تو تو میرا تم اصل روپ دیکھو گی تو‬
‫کیا تم میرا اصل روپ دیکھنا چاہتی ہو اب ؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ا۔۔۔۔ ارزم اس نے ارزم کے چہرے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کو پکارا تو‬
‫ارزم نے اس کی جانب حیرت سے دیکھا ‪ ،‬وہ بولی ایم سوری ۔۔۔۔۔ مجھے یہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا اور ارزم زاویار ذرا خود‬
‫سے سوال کریں کہ اپ اپنی نورے جنت کو اپنا وہ روپ جو دنیا کے سامنے اپ نے دکھایا ہوا ہے دکھا سکتے ہیں ؟؟؟ ارزم وہیں‬
‫خاموش ہو گیا اور اس کا چہرہ تکنے لگا اور بوال ایسا کبھی ہو سکتا ہے بیگم ؟ اپ تو ہمارے ہاتھ کا چھاال ہے جس کو وہ سنبھال‬
‫کے رکھا جاتا ہے نورے چمکتی انکھوں سے مسکرائی ۔۔۔۔۔۔ اور اس نے دوبارہ ارزم کا ہاتھ پکڑا اور اس کو چوما اور اس کے‬
‫ساتھ لگ کر رونے لگی ۔۔۔۔ اپ جانتے ہیں جب مجھے کہا گیا کہ اپ اس سے نکاح کر رہے ہیں شادی کے لیے راضی ہو گئے‬
‫میرے دل پر کیا بیتی تھی !!! جانتا ہوں ! وہ کیسے ؟ ابھی بھی تم میرے گلے لگ کے رو رہی ہو تو کیا سمجھوں یہی نہ کہ تمہیں‬
‫مجھ سے عشق ہو چکا ہے ‪ .....‬نورے پیچھے ہٹتے ہوئے نظر جھکا گئی ۔۔۔۔ ارزم بوال اچھا یہ دیکھو میں آپ کے لیے ایک‬
‫ڈریس الیا ہوں کشمیر سے وہ بیڈ پر سے ڈریس کو پکڑتا بوال ۔۔۔ نورے نے ڈریس دیکھا اور بولی بہت ہی بری چوییس ہے آپکی‬
‫مجھے نہیں پسند آیا یہ ڈریس !!! نورے مذاق کرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔۔ ارزم ساتھ ہی غصے سے بوال ۔۔ اُٹھو ! کیا ؟ اٹھو گی ۔۔۔ وہ‬
‫اٹھی ارزم بوال جاؤ شیشے کے سامنے ۔۔۔ کیوں ؟؟ جاؤ نا کبھی ایک بات پر بھی بات سن لیا کرو ‪ ....‬وہ شیشے کے سامنے گیی‬
‫تو ارزم جو کہ ڈریس لے کر صوفے پر بیٹھا تھا بوال دیکھو میری پسند کو ۔۔۔۔۔۔۔!!!! نورے جو کہ عجیب سے موڈ میں تھی وہ‬
‫شرما گئی اور ارزم نے اس کو شرماتے پہلی دفعہ دیکھا تھا ۔۔۔ وہ بوال ارے تم بلش کر رہی تھی نا ؟؟؟ نہیں وہ شیشے سے‬
‫پیچھے ہٹ کر بولی ۔۔۔ نہیں تم کر رہی تھی۔۔۔ ارزم چھوڑو اس بات کو اور بولی اپ جو کام کرنے گئے تھے وہ ہو گیا ہے کیا‬
‫ارزم مسکرایا کہ کیسے وہ بات پلٹ رہی ہے وہ اس کو ساری تفصیل دینے لگا اور بوال اب ہم کل جائیں گے وکیل کروانے۔ ۔۔ ۔ ۔‬
‫۔ ۔ تھوڑی دیر بعد نور بولی ارزم مجھے وہ ڈریس اچھا لگا میں ویسے ہی کہہ رہی تھی اپ کو برا تو نہیں لگا ۔۔۔۔۔۔ سوالیہ انداز‬
‫سے نورے نے یہ سوال کیا اس کی جانب نظر اٹھاتے ہوئے تو وہ بوال میں جانتا ہوں محبت میں صنم کے ستم سہنے پڑتے ہیں‪،‬‬
‫اگر اپ کو برا بھی لگا ہو تو یہ بندہ آپ کو اور ال دے گا اور وہ ہنسنے لگی ۔ ۔ ۔۔ ۔ وہ دونوں اندر بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ‬
‫کمرے کا دروازہ الک ہوا نورے نے اپنا سر ڈھکتے ہوئے دروازہ کھوال اور بولی جی !!!! ا اشعر بوال بھابھی اندر ا جاؤں ؟ ہاں‬
‫آؤ ۔۔ اشعر کے ہاتھ میں وہی کل والی کھیر تھی جو کہ وہ اندر الیا اور اپنے بھائی بھابی کے ساتھ کھانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫صبح کا وقت ہوا نورے نے معمول کے مطابق نماز ادا کی پھر وہ سب مل کر ناشتہ کرنے لگے کہ اچانک سے ساشتہ بولی تم اتنا‬
‫شور کیوں کرتی ہو صبح نماز کے وقت ؟ کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ سب نماز پڑھیں ۔۔۔۔ ہر انسان کی اپنی مرضی ہوتی ہے ؟ ہللا‬
‫کے بتائے گئے دین میں کسی انسان کی مرضی نہیں چل سکتی ۔۔۔۔۔ا شعر ساتھ ہی بوال مجھے تو لگتا ہے اگر انسان نماز کو پابندی‬
‫سے پڑھے تو اس کے غلط کام بھی لوگوں کو اور انسان کو خود بھی ٹھیک لگتے ہیں بلکہ ہللا تعالی خود ہی سب کام ٹھیک کر‬
‫دیتے ہیں اور یہ ازمایا ہوا ہے۔۔۔۔ ارزم بوال اپ لوگوں نے جو کہا تھا کہ میں دوسری شادی کر رہا ہوں جس سے بھی وہ میں نہیں‬
‫کر رہا ۔۔۔۔ سارے خاموشی سے اس کی جانب دیکھنے لگے ۔۔۔۔ ساتھ ہی نادیہ بولی ۔۔۔ کیوں نہیں تم شادی کرو گے تم شادی کرو‬
‫گے !!! امی ایسے نہیں ہو سکتا وہ اٹھا اور اپنے کمرے کی جانب چال گیا نورے بھی اٹھی اور کمرے کی جانب گئی ارزم نے‬
‫بوال اج ہم نے جانا ہے ۔۔۔ ہمم جانتی ہوں میں تیار ہوتی ہوں پھر ہم چلتے ہیں۔۔۔۔‬
‫تھوڑی دیر بعد جب ارزم موبائل فون پر گیم کھیل رہا تھا تو اس کو کال ائی ۔ ہیلو سر میں نے اپ کا نمبر حمدان سر سے لیا ہے‬
‫اور میں وہی نا چیز رئیس نزاکت بات کر رہا ہوں جس کو اپ تقریبا دو سے تین ماہ پہلے اپنے تھانے میں بھیج کر بھول چکے‬
‫ہیں۔۔۔۔۔ ارے اس کو کہاں سے میرا نمبر مل گیا اور کیوں یار اس نے اپنے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے دل میں سوچا اور بوال ابھی‬
‫کیا ٹائم ہوا ہے نو بجے ہے نا تو میں ا رہا ہوں تھانے۔۔۔۔۔اچھا تو اب فون بند کرو میں بہت بزی تھا ۔ سر کیا کوئی ضروری کام کر‬
‫رہے تھے ؟ ہاں۔ سر کے بتانا پسند فرمائیں گے ؟ یار اتنا پکاؤ مت میں سبوے سرفرز کھیل رہا تھا اتنا اگے چال گیا تھا میں بتا رہا‬
‫ہوں اگر میری گیم خراب ہوئی تو میں تجھے اس فون سے نکال کر دھو دوں گا ۔۔۔۔۔ چل بند کر فون ۔۔۔ نزاکت نے ہنستے ہوئے کہا‬
‫اسی بہانے اپ ائیں گے تو صحیح اور اس نے فون بند کر دیا اور وہ سوچنے لگا کہ بڑا عجیب شخص ہے اتنے دنوں سے میں‬
‫اس کی مدد کر رہا ہوں اس کو تھانے نہیں بال رہا لیکن یہ ہے کہ نکرے دکھاتا ہے روٹھی ہوئی محبوبہ نہ ہو تو۔۔۔۔۔ ارزم پھر گیم‬
‫کھیلنے میں مصروف ہو گیا نورے ا کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ نور ابھی چلتے ہیں تھانے حریم کو کال کر لو ابھی جانا ہے اس کی ویڈیو‬
‫بنانی ہے ۔۔ ویڈیو کس لیے ؟ وہ اغوا ہوئی تھی تو اس لیے اس کا بیان ریکارڈ کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔ اچھا میں اس کو کال کرتی ہوں اس کو‬
‫کال کرنے کے بعد وہ دوبارہ ارزم کے پاس ائی اور بولی کیا اب ہم چلیں ارزم کی نظر گیم میں مصروف تھیں نورے نے تین دفعہ‬
‫یہ جملہ بوال ‪ ،‬وہ گیم میں بہت مست تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اس کو ارزم کا کوئی ری ایکشن نہ مال تھا اس نے گیم میں انگلیاں مار‬
‫کر گیم خراب کر دی ۔۔۔۔ ارزم نے اسے روکنا چاہا اور جب اس کی جانب دیکھا تو اس نے ایک سیاہ بایا اور سادہ حجاب کر رکھا‬
‫تھا جو کہ ارزم نے ہی سب سے پہلے اس کو ال کر دیا تھا ‪ ،‬اس کا وہ ایک چاند سا چہرہ بغیر میک اپ کے ہی چمک رہا تھا ۔۔۔۔‬
‫تم بہت پیاری لگ رہی ہو نورےجان۔ ۔۔۔۔ اس کی جانب دیکھتا وہ کسی نشے کے عالم میں بوال وہ بھی سسری اواز میں بولی‬
‫شکریہ کہ اب ہم چلیں ؟‬
‫کچھ دیر بعد وہ تھانے پہنچے تو ان کو دیکھ کر رئیس نزاکت نے چائے منگوائی اور تھوڑی دیر بعد حریم پہنچ گئی ۔۔۔۔۔۔۔ بھائی‬
‫نورے کہاں ہے ؟ اتے ساتھ تم ہمیشہ اس کا پوچھتی ہو نہ سالم نہ دعا ڈائریکٹ ہی نورے کہاں ہے ؟ میں کوئی جن نہیں ہوں جو‬
‫اس کو کھا چکا ہوں یا کھا جاؤں گا یہ ہے اپ کے پیچھے بندہ دیکھ لیتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اپ تو جانتے ہیں مجھے سامنے بڑی چیز نظر‬
‫نہیں اتی ۔۔۔۔ سامنے بڑی چیز سوئی نہیں ایک جیتا جاگتا انسان ہے ۔۔۔۔ اچھا بھائی چھوڑیں وہ اٹھ کر ایک دوسرے کے گلے لگی‬
‫۔۔۔۔۔۔۔ ریش نزاکت ارزم سے بوال ایس پی صاحب ویڈیو کیوں بنوانی ہے جب کیس کر رہے ہیں تو حریم میڈم کو ساتھ لے جائیے گا‬
‫تو وہاں یہ سب بتا دیں گی ۔۔۔۔۔ ہاں یہ بھی صحیح ہے نورے بولی ارزم بھی سوچنے لگا ۔۔۔ ہاں بھائی یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں اآا ‪،‬‬
‫حریم اس کے نام پر رکی کیونکہ وہ اس کا نام نہیں جانتی تھی ‪ ،‬راییس نزاکت اس نے اپنا نام حریم کو بتایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ‪ ،‬ویسے‬
‫مجھے کوئی دلچسپی نہیں اپ کے نام میں حریم نے ڈائریکٹ اس کے منہ پر یہ کہا ۔۔۔ نورے نے ان کی بات پر غور کرنے کی‬
‫بجائے بولی ٹھیک ہے سارے ثبوت ہیں ہمارے پاس !! ہاں نور کے باپ اور بھائی کے قتل اور میرے اغوا ہونے کے سارے ثبوت‬
‫واقعی ہمارے پاس ہیں بھائی تو اب ہمیں کوئی وکیل کروانا چاہیے حریم بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے پاس ایک وکیل ہے نورے فوراً بولی‬
‫جیسے اس کو کچھ یاد آیا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ؟ رائس بوال ۔۔۔۔ اس کے یہ بولنے پر ارزم نے اس کو تیکھی اور ادھی نگاہ سے‬
‫تیوری چڑھاتے ہوئے دیکھا ۔۔۔۔ نورے بولی وہ میرے بابا کا خاص وکیل ہے بابا اکثر کیس ان سے حل کرواتے تھے جائیداد‬
‫وغیرہ کے اور شاید باقی بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے پاس نمبر ہے؟ حریم بولی ۔ ہاں ہاں ہیں نا ۔۔۔۔ چلو پھر ان سے رابطہ کر لیتے‬
‫ہیں ارزم نورے کو دیکھتا بوال ۔ جی سر میرے لیے کیا حکم ہے؟ رئیس نزاکت کی یہ کہنے پر ارزم بوال تم ادھر ہی رہو اور یہاں‬
‫کا دھیان رکھو میں دوسرے تھانے چکر لگاتا رہتا ہوں ۔ جی سر ‪ ....‬وہ سارے باہر چلے گئے گاڑی میں بیٹھتے نورے بولی حریم‬
‫تم بھی ہمارے ساتھ چلو گاڑی اپنی ڈرائیور کے ساتھ گھر بھیج دو۔۔۔۔۔ حریم نے ایسا ہی کیا ۔۔۔۔ نمبر دو مجھے نورے !!! ارزم نے‬
‫نمبر طلب کیا ۔۔۔۔ نورے نے فون سے نکال کر اس کو نمبر دیا ۔۔۔۔ نورے اپ ایسا کرو کہ نمبر ڈائل کرو میں ابھی گاڑی ڈرائیو کر‬
‫رہا ہوں ! اچھا !!! یہ لیں !!! نورے فون ارزم کو پکڑاتے بولی ۔۔۔ ان کا نام کیا ہے ؟ مرزا محمود !!!‬
‫السالم علیکم! فون کرنے پر دوسری جانب سے اواز ائی تو ارزم بوال وعلیکم السالم ! جناب میں ایس پی ارزم زاویار بات کر رہا‬
‫ہوں ۔۔۔۔ حریم کے کہنے پر ارزم نے سپیکر اونچا کیا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ جناب اب عادل حیات صاحب کو جانتے ہیں ؟ آ ۔ آ وہ سوچنے‬
‫لگے عادل حیات صاحب !!! پھر وہ اچانک بولے جی وہی نا جن کے دو بچے ہیں بیٹا بیٹی جہانزیب اوز نورے جنت ۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔۔۔‬
‫بڑا جانتے ہیں یہ ارشم میں نورے کے کان میں کہا۔۔۔۔ جی یہ باباجی قریبی دوست بھی ہیں میں ان سے بہت دفعہ ملی ہوں پچپن‬
‫میں ۔۔۔۔ ایس پی لیکن عادل صاحب کی تو ڈیتھ ہو گئی ہے ۔۔۔۔ جی میں جانتا ہوں ۔۔۔ لیکن اپ کون ہیں؟ میں عادل صاحب کا ایکلوتا‬
‫داماد جانزیب کا ایکلوتا ساال اور نورے جنت کا مقرر شوہر ہوں۔۔۔‬
‫اچھا تو کیا اپ میری نورے جنت سے بات کروا سکتے ہیں ؟ کیوں جی ؟ ارزم نے تھوڑا عجیب اور اجنبی لہجہ اپناتے پوچھا‬
‫۔۔۔۔ ان کی وصیت بتانی ہے۔۔۔۔۔ کس کی ؟ عادل ہے حیات صاحب کی‪ .......‬اچھا تو سر اج کل اپ کہاں ہے ارزم کے سوال پر وہ‬
‫بولے میں اج کل الہور ڈی ایچ اے میں ہوں پہلے تو میں کشمیر ہوتا تھا یعنی کہ میرا کام دونوں جگہ چلتا رہتا ہے ۔۔۔ اگر اگر اپ‬
‫فارغ ہیں تو ایڈریس بھیج دیں میں وہ نورے جنت اپ سے ملنے پہنچتے ہیں ۔۔۔ ٹھیک ہے میں فارغ ہی ہوں تم اجاؤ میں کاغذات‬
‫وغیرہ نکالتا ہوں ۔۔۔۔۔ خدا حافظ ۔۔۔ ہللا حافظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫چلو نورے جان لگتا ہے ایک اور راز فاش ہونے واال ہے ۔۔۔ مطلب ؟ مطلب یہ کہ مجھے لگتا ہے ہمیں کوئی نہ کوئی نئی بات‬
‫انکل محمود سے ضرور پتہ لگنے والی ہے ‪ ،‬میں تو خواہش رکھتا ہوں کہ وہ کوئی ایسی بات بتائیں وصیت کی جس سے ہمارے‬
‫کیس کو مزید مضبوطی ہو سفینہ بیگم کا پیسہ اور ان کی جھوٹی دلیل یا ان کا کوئی جھوٹا وکیل ان کو سچا نہ ثابت کرے ۔۔۔۔‬
‫وہ تینوں اس وکیل کے گھر پہنچے دروازہ بجایا اور اندر انے کی اجازت ملنے کے بعد ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے ۔۔۔۔ السالم‬
‫علیکم ! انکل محمود محمود کے اندر انے پر نورے جنت نے سالم کیا ۔۔۔۔۔ وعلیکم السالم ! بیٹا انکل محمود نے اس کے سر پر‬
‫ہاتھ رکھا اپ کے والد صاحب کی ڈیتھ ہو گئی ہے ان کا سن کر بہت افسوس ہوا جی انکل بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا اپنے ان باقی لوگوں‬
‫سے مجھے متعارف کرواؤ ۔۔۔۔۔۔۔ جی کیوں نہیں !! انکل یہ ہے حریم اور یہ ہے ارزم ۔۔۔۔ دونوں نے بڑی مشکل حاالت میں میری‬
‫دل سے مدد کی ہے ۔۔۔۔ ارزم تمہارا شوہر ؟؟؟ جی الحمدہلل ۔۔۔۔ انکل محمود کے پوچھنے پر نورے بولی تھی ‪ ،‬لیکن ارزم نے‬
‫چونک کر اس کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫بیٹا چلو ! اپ کے بابا کی وصیت سنا دیتا ہوں !! جی ۔ محمود صاحب نے کاغذ نکالکر بتایا کہ اپ کے بابا کی ‪ 12‬کنال زمین‬
‫کراچی ڈی ایچ اے کے دو گھر‪ ،‬گجرانوالہ کی جانب تین حویلیاں تھیں ۔ جی ۔ اس میں سے چار کنال زمین کراچی کے گھر میں‬
‫سے ایک گھر اور دو حویلیاں گجرانوالہ والی اپ کی ہیں اور چار کنال زمین کراچی کے گھر میں سے دوسرا گھر اور ایک‬
‫حویلی جہانزیب کی ہے ۔ انکل جاہنزیب تو دنیا میں نہیں رہا ‪ ،‬نورے کی آواز میں نمی گھلی ۔ واٹ ؟ جی انکل ‪.‬۔ بیٹا اپ کے بابا‬
‫نے یہ بھی وصیت کی تھی کہ اگر اپ دونوں بہن بھائیوں میں سے کسی کو بھی کچھ ہو جائے تو اس کی ذمہ دار سفینہ بیگم ہے ۔‬
‫کیا ؟ نورے جنت نے اپنی بڑی انکھیں کھول کر بے چینی سے پوچھنا چاہا ارزم یہ سن کر کھڑا ہو گیا انکل باقی زمین یعنی چار‬
‫کنال بچا اس کا کیا ہوگا ارزم بوال ۔ وہ ؟ جی ۔ اس پر مسجد اور ہسپتال بنانے کا کہا گیا ہے ۔ نورے ابھی بھی سکتے کے عالم‬
‫میں تھی کہ بابا کو کیسے پتہ تھا کہ کچھ بھی ہو میرے بچوں کو تو ذمہ دار سفینہ بیگم ٹھہرائی جاۓ گی‪ ،‬انکل اپ کو کیا بابا نے‬
‫کال کی تھی یا کوئی ریکارڈنگ بھیجی تھی ۔ جی ‪ ،‬محبود صاحب کے یہ کہنے پر ارزم بوال کس طرح کی ریکارڈنگ ؟ دو‬
‫طرح کی مطلب ایک سفینہ بیگم کی اور ایک تمہارے بابا کی ۔ بیٹا یہ وصیت کروانے والی بات تو اپ کے بابا نے بلوا کر کی‬
‫تھی مجھے ‪ ،‬اور تب لکھوایا تھا اور بچوں والی بات ریکارڈنگ تھی ۔ اپ کے پاس وہ ریکارڈنگ ہے ارزم بوال ۔ ہاں ہے !!!‬
‫نورے ارزم اور حریم اب وہ ریکارڈنگ سننے لگے جس میں عادل صاحب کہہ رہے تھے کہ محمود سنو ! میں تمہیں یہ میسج‬
‫بھیج رہا ہوں میں نہیں جانتا کہ یہ میسج تم تک کب پہنچے یہاں کشمیر میں تھوڑا انٹرنیٹ ایشو کبھی کبھی ہو جاتا ہے بٹ جب یہ‬
‫میسج پہنچے تو اس کو سنبھال لینا اور میرے بچوں تک پہنچا دینا ان کو اپنے پاس بلوا کر بتا دینا ‪ ،‬مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے‬
‫سفینہ بیگم سے وہ میری جائیداد حاصل کرنا چاہتی ہے وہ مجھے میرے بچوں کو مارنے کا کہتی ہے وہ میرے بچوں کے سوتیلی‬
‫ماں ہے میرے بچوں کی سگی ماں مر چکی ہے جب دونوں کو ہوش نہیں تھی‪ ،‬اگر مجھے یہ میرے بچوں کو کچھ ہوا تو اس کی‬
‫ذمہ دار صرف سفینہ بیگم ہوگی انکل یہ میسج مجھے فارورڈ کریں نورے نے وہ میسج ارزم اور حریم کو بھیج دیا اپنے موبائل‬
‫سے ۔ محمود صاحب اپ ہمیں دوسرا میسج سنائیں جو کہ سفینہ بیگم کو اپ کہہ رہے تھے ۔ ارزم کہ یہ کہنے پر انہوں نے ایک‬
‫اور ریکارڈنگ آن کی جس میں سے سفینہ بیگم کی اواز ارہی تھی ۔۔۔۔۔ عادل میری بات غور سے سنو ! تمہارے دو قیمتی اثاثے‬
‫نورے اور جاہنزیب میرے پاس ہیں میں ان کو تمہارے خالف گمراہ کر دوں گی یا ان کو مار ڈالوں گی اگر تم نے میرے لیے‬
‫اپنے جائیداد وقف نا کر دی ۔۔۔۔۔ یہ ریکارڈنگ سب سے اہم تھی کیونکہ اس میں سفینہ بیگم کی اواز بالکل واضح طور پر سنائی‬
‫دے رہی تھی ۔۔۔۔۔ یہ ریکارڈنگ سن کر وہ سب حکے بکے رہ چکے تھے ۔۔۔ انکل اپ کو ہمارا کیس لڑنا ہوگا نورے فوراً بولی‬
‫۔۔۔۔۔ بیٹا کیسا کیس ؟؟؟ ارزم بیٹھ کر ساری بات بتانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ٹھیک ہے میں اپ لوگوں کے شیئر کرتا ہوں اور کورٹ سے نوٹس بھیجتا ہوں سفینہ بیگم کو ۔۔۔ لیکن ہمیں تو پتہ ہی نہیں ہے وہ‬
‫کہاں پر ہیں ؟ حریم فوراً بولی ۔۔۔۔ میں انہیں پتہ کیا ہے وہ مینشیس ہوٹل میں رکی ہوئی ہیں ۔۔۔ ارزم کہ یہ کہنے پر محمود صاحب‬
‫بھی راضی ہو گئے اور کیس کی تیاری کرنے لگے وہ لوگ بھی وہاں سے جا چکے تھے ۔۔۔۔۔‬
‫حریم اپنی گاڑی بلوا کر جا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔ ارزم اور نورے گاڑی میں گھر واپس جا رہے تھے ۔۔۔ میں نے کہا تھا نا نورے کہ اب‬
‫اج کچھ ایسا معلوم ہوگا ہمیں جس سے ہمارا کیس مضبوط ہوگا !!! بھائی اپ کی تو نجومی بابا ہے ‪ ،‬آگے بتائیں بابا جی اب کیا ہو‬
‫گا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے بولی ۔۔۔ بچے اب تمہاری زندگی سے دکھ ختم ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔ اچھا وہ کیسے بابا جی !!! نورے نے‬
‫ہنسی دباتے ہوئے کہا۔۔۔ کیونکہ اپ کے ساتھ ارزم زاویار ہے اور اپ اب کچھ حاصل کر لیں گے ۔۔۔۔ واہ واہ بابا جی ۔۔۔۔۔ گاڑی‬
‫میں چاروں اور ہنسنے کی اواز گونج رہی تھی وہ دونوں ہنس رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫رات کے تقریباگ بجے ہوئے تھے اور وہ جس روڈ سے واپس ارہے تھے وہ بہت سنسان تھی ۔۔۔ اچانک سے ان کی گاڑی کے‬
‫اگے ایک گاڑی ائی اور وہ بہت مشکل سے ٹکرانے سے بچے ۔۔۔ ہللا ۔۔۔ نورے کی زبان سے یہ لفظ ادا ہوا گاڑی سے فورا تین‬
‫سے چار لور کے باہر نکلے اور دو ابھی گاڑی میں ہی موجود تھے انہوں نے اپنی گن ارزم کے سر پر رکھی ‪ ،‬نورے کی تو‬
‫وہی جان نکل گئی۔۔ اور وہ لٹیرے بولے فوراً ہمیں گاڑی اور سارا سامان دے دو ارزم نے فوراً سے اپنا پرس اور موجودہ سامان‬
‫دے دیا اور اس کے اپنے ہاتھ پہ پہنی ہوئی تقریبا ڈھائی الکھ کی گھڑی بھی اس نے دے دی ۔۔۔۔۔۔ وہ اب جانے لگے کہ ان میں‬
‫سے ایک ساتھی بوال یار اندر تو ابھی مال رہتا ہے ۔۔۔۔ وہ شخص نورے کی جانب کھڑکی پہ کھڑا بول رہا تھا ارزم نے مڑ کے‬
‫اس کو دیکھا اور بوال بے غیرت کے بچے تجھے لگتا ہے اپنی زندگی عزیز نہیں ‪ ،‬یہ کہتے وہ گاڑی سے اترا اور اس کو مارنے‬
‫کے لیے اگے ہوا اور زوردار مکا اس کے منہ اور پیٹ میں مارا اور بوال تیری ہمت کیسے ہو یہ کہنے کی تیرا تو میں وہ حال‬
‫کروں گا کہ تجھے پہچاننے سے بھی لوگ انکار کریں گے اور تیری الش دیکھ کر بھی تجھے دفنانے سے انکار کریں گے ۔۔۔ اس‬
‫کے باقی ساتھیوں نے ارزم کے سر پر گن تانی ‪ ،‬دو نے مل کر اس کے بازو پکڑے اور اب وہ ان تین لڑکوں کے درمیان کھرا‬
‫تھا اور خود کو چھڑوانے میں ناکام ہو رہا تھا ۔۔۔ اور ایک نے دروازہ کھوال اور بوال نورے کو کہ فوراً نیچے اترو ۔۔۔۔ نورے‬
‫نیچے اتری ۔۔۔۔۔ جس شخص نے ارزم سے سارے پیسے اور سامان لیا تھا اس نے ارزم کے سامنے وہ چیزیں پھینکی ارزم کو‬
‫ابھی تک جکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔ اور بوال ہمیں اس مال کی ضرورت نہیں ہمیں تو مل چکا ہے ارزم طیش میں ایا اس نے حرکت کرنے‬
‫کی کوشش کی لیکن پیچھے سے ایک لڑکے نے اس کی کمر بھی زوردار مکہ مارا جس کی وجہ سے وہ ہلنے کے قابل نہ رہا‬
‫لیکن وہ ایک طاقتور چھ فٹ دو انچ کا لمبا چوڑا ایس پی تھا ایسے لوگوں سے مقابلہ کرنا اس کو اتا تھا ۔۔۔۔۔ اس نے پیچھے سے‬
‫ایک ٹانگ ماری جس کی وجہ سے اس کے پیٹ میں شدید زور کی ٹانگ لگی لیکن کسی دوسرے نے ا کر گاڑی سے نکل کر‬
‫ارزم کا بازو پکڑا اور ایک نے ہوا میں فائر کیا ۔۔۔۔ نورے کھڑی حیرانی کے عالم میں یہ سب دیکھ رہی تھی کہ اتنے میں ہی ہوا‬
‫میں فائر کرنے والے شخص نے ان میں سے نورے کا بازو پکڑا اور اس کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے کھینچا نورے نے سب‬
‫سے پہلے نظر اپنے بازو پر ڈالی اور پھر اس شخص کی جانب ‪ ،‬وہ نا چیخی نا چالیی جیسے عموما ان حاالت میں لڑکیاں کرتی‬
‫ہیں بلکہ نورے نے اتنی بری گھوڑی اس کو ڈالی کہ وہ وہیں رک گیا نورے نے فوراً اپنے بیگ سے گن نکالی جو کہ ارزم نے‬
‫اس کو دی تھی اور اس شخص پہ رکھ دی سارے وہاں حیران کے حیران رہ گئے ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے اس شخص‬
‫نے فوراً ہاتھ چھوڑا اور ہاتھ اوپر کر لیے جس کی وجہ سے گن زمین پر گر گئی اور ارزم کے چہرے پر مسکراہٹ ائی اور وہ‬
‫اپنے دل ہی دل میں بوال اب لگی ہیں ارزم کی بیوی ۔۔۔۔ ارزم نے مڑ کر ان دونوں کو دیکھا جس نے اس کو پکڑ کھا تو انہوں نے‬
‫فوراً اس کو چھوڑ دیا ۔۔۔ نورے اپنے ہاتھ نیچے کرتے ہوئے ہلکا سا جھکتے ہوئے گن اٹھائی اور گھماتے ہوئے ارزم کی جانب‬
‫پھینکی جو کہ ارزم نے ایک ہاتھ سے کیچ ( پکڑ ) کر لی ۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں بھائی کیا بول رہا تھا تو ۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد اب ان دونوں کے ہاتھ میں گن تھی اور وہ پانچ ایک الئن میں سیدھے اپنے‬
‫بازو پیچھے باندھے کھڑے تھے ارزم کے کال کرنے پہ تھانے کی گاڑی وہاں پہنچی اور فوراً سے ان کو لے کر جا چکی تھی ۔ ۔‬
‫۔ ۔ ۔۔ وہ دونوں بغیر بولے گاڑی میں بیٹھے ہاں بس نورے بار بار اپنے سر کو ہاتھ لگا رہی تھی جیسے وہ دوبا رہی ہو ۔ اور گھر‬
‫ا چکے تھے تقریبا ً رات کے ڈھائی سے تین بجے کا ٹائم تھا وہ اپنے بستر پر لیٹنے لگے کہ ارزم نے نورے کو کہا کہ یہ پینڈول‬
‫اور چائے پیو اچھا فیل کرو گی اور رات کے ڈھائی بجے اس کے لیے چائے بنا کر الیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ یہاں پر رکھ دیں میں کھاتی ہوں‬
‫۔۔۔۔۔ کو ارزم نے اپنے ہاتھوں سے دوا کھالئی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ نہ کھالئے گا تو وہ دوا وہیں پڑی رہ جائے گی نورے‬
‫نے دوائی کھائی اور سکون سے سو گئی صبح تقریبا ً ایک گھنٹے بعد ہی ہو گئی تھی اور اس نے فجر کی نماز پڑھی اور پھر‬
‫قرآن پڑھا اور پھر دوبارہ لیٹ گئی اور دوبارہ سو گئی ۔۔۔۔ ارزم تو سویا ہی نہیں تھا وہ تہجد کے بعد فجر پڑھ کے نورے کے ساتھ‬
‫ہی سویا تھا لیکن نورے نے پہلے انکھ لگا لی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫اگلی صبح ہوئی اور وہ دونوں کمرے میں بیٹھیں ناشتہ کر رہے تھے کہ باہر سے اشعر اندر ایا اور ان کے پاس بیٹھا اور بوال‬
‫بھائی بھابھی !!! ہاں جی ۔۔۔۔ ارزم اور نورے اکٹھے بولے ۔۔۔ ان دونوں نے یہ لفظ کہہ کے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور وہ‬
‫مسکرائے ۔۔۔اشعر بوال امی تو گھر نہیں ہے وہ حنین اور زینب کو لے کر اسالم اباد کی ہیں ان کو چھوڑ کے دو تین دن تک واپس‬
‫ائیں گی اور پھپو حریم کی طرف رہنے گئی ہیں اور میں گھر میں اکیال ہوں اور اپ دونوں میرے بھی غیر ناشتہ کر رہے ہیں بے‬
‫تحاشہ غیر اخالقی حرکت ہے یہ !!! اوہ ہو اشعر مجھے واقعی معلوم نہیں تھا کہ تم گھر میں اکیلے ہو وہ تو ارزم نے جان کھائی‬
‫تھی کہ مجھے بھوک لگی ہے تو مج ھے تو کچھ بنانا نہیں اتا اس لیے میں نے کہا باہر سے لے اؤ تو ہم دونوں ہم ناشتہ کر رہے‬
‫ہیں تم بھی کھاؤ ہمارے ساتھ ۔۔۔۔۔ وہ سب ناشتہ کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔ اج حریم ائے گی میں نے اس کو رات کو ٹیکسٹ کیا تھا کہ وہ ا‬
‫جائے ۔۔۔۔ اچھا ۔۔ ارزم بوال ۔۔۔۔۔ لیکن نہ جانے کیوں اشعر میں عجیب کا چہرہ بنایا تو نورے بولی ۔۔ تمہیں کیا ہوا اس کا نام سن کے‬
‫یوں بہیو کیوں کر رہے ہو ؟ تمہیں نہیں پتہ ان دونوں کا یہ دونوں کتنا اپس میں لڑتے ہیں ارزم بوال تو نورے بولی نہیں اب تو‬
‫بات کچھ اور ہے اپ کہاں ان دونوں کو یہ دوسروں سے مسئلے ہوں گے !!! وہ ہنستے ہوئے بولی ۔۔۔ کیا مطلب ؟ ارزم نے تیسری‬
‫چڑھاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔ اشعر نے بھائی کو یوں دے کر اپنی بھابھی کو چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ نورے سمجھ گئی کہ یہ بات‬
‫سن ارزم کو اکیلے میں سمجھا دوں گی ۔۔۔۔۔ اس نے اشارہ کیا کہ ۔۔۔ اچھا۔۔۔۔۔ کیا ہوا ؟ کچھ نہیں نورے نے بات ٹالی اور وہ کھانا‬
‫کھانے لگے۔۔۔‬
‫تھوڑی دیر بعد نورےجنت کمرے میں ائرن سٹینڈ پر کپڑے استری کر رہی تھی کہ اتنے میں ارزم باہر سے اندر ایا اور بوال یہ کیا‬
‫ماجرہ ہے جو تم حریم اور اشعر میں چل رہا ہے ؟؟ وہ صوفے پر بیٹھتا اپنی گھڑی ہاتھ میں صحیح کرتا بول رہا تھا ۔۔ آ ۔ وہ‬
‫۔ارزم ‪ ،‬نورے اس کے پاس صوفے پر ا کر بیٹھی اور بولی وہ میں چاہتی ہوں کہ اشعر اور حریم کی شادی ہو جائے لیکن ابھی‬
‫نہیں جب وہ تھوڑے مزید بڑے ہو جائیں یعنی کہ اشعر بھی تھوڑا چھوٹا ہے تین سال بعد تک۔۔۔۔۔۔۔ ارزم اس کی جانب جو منہ کر‬
‫کے بیٹھا تھا اس کے چہرے کے تاثرات بدلے لیکن وہ بوال کچھ نہ کیونکہ نورے نے فیصلہ کیا تھا اور وہ چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نورے جان ! اپ کو لگتا ہے کہ یہ معاملہ سارا ٹھیک ہوگا؟ وہ دونوں بچوں کی طرح لڑتے ہیں ابھی تک ان دونوں میں کوئی‬
‫میچورٹی ہے ہی نہیں شادی تو ایسی لیول پہنچ جائے کہ بیچ میں ایک بندے میں میچورٹی لیول ہو چاہے دوسرے میں نہ ہو اور‬
‫مجھے اس بے وقوف کا پتہ ہے اس میں تو ہے ہی نہیں میچورٹی !!! ضروریت تو نہیں ہے میچورٹی ہو ‪ ،‬بات نہیں سنی ہوئی جو‬
‫کہتے ہیں کہ شادی کر دو اس کی جلدی جلدی تاکہ اس پہ ذمہ داریاں پڑیں اور یہ صحیح ہو جائے گا ۔۔۔ لیکن کہنے کرانے کی‬
‫بات الگ ہوتی ہے ۔۔۔۔ارزم دیکھو میں اپنے بھائی جاہنزیب اور اشعر میں کبھی فرق نہیں کر پاتی کیونکہ میں ان دونوں کو بہت‬
‫پیار کرتی ہوں اور حریم تو ویسے ہی جانتے ہیں اپ کے وہ میرے دل کے کتنے قریب ہے اس نے میرا کتنا ساتھ دیا تو میں‬
‫چاہتی ہوں اگر جاہنزیب اس دنیا میں نہیں رہا بہت مشکل سے اس نے یہ لفظ ادا کیا اور بولی اگر وہ نہیں رہا تو اشعر سے حریم‬
‫کی شادی ایک بہترین انتخاب ہے ۔۔۔۔ چلو ٹھیک ہے لیکن ان دونوں کو اپنی لمٹس میں رہنا ہوگا میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں‬
‫جو ان دونوں کا رشتہ پکا ہونے پر ان کو کھلی اجازت دے دوں کہ جا کر جو مرضی کرے نکاح سب سے امپورٹنٹ چیز ہے‬
‫معاشرے کی جو اس کو معاشرہ امپورٹنس نہیں دیتا جس کی وجہ سے معاشرے میں بے حیائی اور بدکرداری پھیلتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ہممم ‪ ،‬بس اب میں رشتہ پکا سمجھوں وہ مسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔ بیگم جان پہلے یہ بتا دیں اپ ہے کس کی طرف سے لڑکی کی‬
‫طرف سے لڑکے کی طرف سے ۔۔۔ کچھ درمیان کا لیول ہے اپنا ۔۔۔۔۔ جی جی میں جانتا ہوں ۔۔۔۔۔ نورے جان ! مجھے وکیل صاحب‬
‫کا فون ایا ہے سفینہ بیگم کو کوٹ سے نوٹس چال گیا ہے تھوڑی دیر تک ان کے گھر تک پہنچ جائے گا اور کل ہی پہلی پیشی ہے‬
‫۔۔۔۔ کیا واقعی ؟؟؟ ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کمرے میں اشعر داخل ہوا بھائی بھابھی اپ دونوں سے ایک اجازت لینی تھی ایی مین بھائی اپ سے خاص طور پر ۔۔۔ ہاں بولو ۔‬
‫بھائی کو ایک دوست سے ملنے جانا ہے چال جاؤں کافی دیر بعد مالقات ہے اگر اپ اجازت دے تو جاؤں ‪ ،‬ایک ریسٹورنٹ میں‬
‫ملنا ہے‪ ،‬وہ نظر نیچے کر کے سر کھجاتے ہوئے بوال کیونکہ اکثر ارزم اس کے چہرے سے پہچان لیتا تھا کہ یہ سچ کہہ رہا ہے‬
‫یا جھوٹ ۔۔۔۔۔۔ جاؤ ۔۔۔ ارزم کہ یہ فوراً کہنے پر اشعر نے اس کی جانب چونک کر دیکھا اور بوال واقعی بھائی !! ہاں ۔۔۔۔۔۔۔ اج‬
‫بڑی جلدی جلد مل گئی اس کو نورے بولی تو ارزم بوال میری بات سنو مجھے ایک کام ہے بلکہ تم ہی میں صحیح بات بتاتا ہوں‬
‫میں اس کا پیچھا کرنے جا رہا ہوں کہ یہ کہاں جا رہا ہے ٹھیک ہے تو تم گھر کا دھیان رکھنا اکیلی ہو تم میں چلتا ہوں وہ جاتا ہوا‬
‫بوال مجھے ایک اور کام ہے میں وہاں سے بھی ہوتا آوں گا ۔۔۔۔ اوکے ۔۔۔‬
‫سب سے پہلے تو ارزم تھانے پہنچا اور وہاں جا کر جس گینگ سے ان کا مقابلہ اس ویران سے سرق پر ہوا تھا ان کے سامنے گیا‬
‫اور ان میں سے اس شخص کو اپنے ساتھ لے گیا جس نے نورے کا ہاتھ پکڑا تھا وہ اسی ارادے سے گیا تھا کہ اج اس کا ہاتھ کاٹ‬
‫کے ہی جاۓ گا گھر۔۔۔ اس کو لے کر وہ الگ جیل میں داخل ہوا ‪ ،‬اس شخص کے ہاتھ کو اس نے ایک بہت موٹی رسی سے کس‬
‫کے باندھا کہ اس کے ہاتھ کی خون کی گردش رک گئی تھی اور اس کو ایک رسی سے باندھا ہوا تھا جس سے وہ ہل نہیں سکتا‬
‫تھا اور اس کے ہاتھ کو وہ مسلسل زور سے کھینچ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ میں بے تحاشہ درد چھیڑ رہی تھی اور وہ بار بار‬
‫معافیاں مانگ رہا تھا۔۔۔۔ سر جی معاف کر دیں ائندہ نہیں ہوگا یہ سب اپ مجھے جیل میں چاہے سالوں رکھ لیں لیکن یہ نہ کریں‬
‫میرا ہاتھ میں بے تحاشہ درد ہو رہی ہے ۔۔۔۔ میں اس چیز کا قائل نہیں ہوں کہ تجھے میں معاف کر دوں وہ بھی جب تم نے میری‬
‫بیوی کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا کمینے اس نے دوبارہ یہ کہتے ہوئے اس کا ہاتھ زور سے کھینچ اور اس کا ہاتھ جیسے نکلنے ہی‬
‫واال تھا وہ بے تحاشہ زور سے چالیا۔۔۔۔ سب چھوڑ دیں ائندہ نہیں کروں گا کسی کی بیوی کی طرف ہاتھ کے انکھ اٹھا کے نہیں‬
‫دیکھوں گا۔۔۔۔۔۔ تو کسی کی بیوی کی طرف نہیں تو عورت ذات کی طرف ہی نظر نیچے کر کے گزرے گا جب جائے گا ۔۔۔‬
‫کیونکہ اب میں تیرا ہاتھ کاٹنے واال ہوں وہ دوبارہ اس کا ہاتھ زور سے کھینچتے بوال کیا ؟ ن ن نہیں سر دیکھیں معاف کر دیں‬
‫ائندہ نہیں ہوگا اس نے دوبارہ اس کا ہاتھ کھینچا اور اب اس میں چھری پکڑ کر اس کے سامنے اس کی پہلی رسی کاٹی اور اس کا‬
‫ہاتھ تھاما ہوا تھا وہ اس کی کالئی پر چھری رکھنے ہی واال تھا کہ وہ بوال سر خدا کا واسطہ یہ مت کریں‪ ،‬معاف تو خدا کر دیتا‬
‫ہے اپ تو ایک معمولی انسان ہیں‬
‫۔۔۔۔۔۔ یہ سب باتیں ارزم کو کمزور کر گئی تھی اس نے وہیں پر چھوڑی دوسری جانب پھینکی اور اس کا منہ دبو چتے ہوئے بوال‬
‫تجھے سزا تمہیں دلواؤں گا لیکن تیرا ہاتھ چھوڑ رہا ہوں نہیں کاٹ رہا کیونکہ اسے تو نے مجھے خدا کا واسطہ دیا ہے اور یہ‬
‫بہت بڑا واسطہ ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ یہ کہتا تھانے سے باہر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ بے تحاشہ غصے میں تیزی‬
‫سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا کہ اس نے ایک سگنل توڑ دیا اور اس کو چاالن ہو گیا۔۔۔۔۔ دوسری پولیس واال شخص اس کے پاس ایا‬
‫اور بوال ہاں بھائی کیا تجھے مسئلہ ہے تو نے سگنل کی تو رہیں تیری اتنی مجال چل بار آ !!! ارزم جو کہ گاڑی میں بیٹھا تھا وہ‬
‫بوال تم نے مجھے چاالن کرنا ہے ‪ ،‬لہجے نہایت سنجیدہ تھا ۔ ہاں دوسری پولیس والے نے جواب ۔۔۔ مجھے اس لہجے کی عادت‬
‫نہیں‪ ،‬تم مجھے انسانوں کی طرح بھی تو کہہ سکتے ہو نا کہ اپ کا چاالن ہو گیا ہے سر اتنے پیسے دے دیں یہ میں نے منع کیا‬
‫ہے پیسے دینے سے اور جب میں منع کروں تب تم ہمارا حق بنتا ہے کہ تم مجھ سے یوں بات کرو ہمارے معاشرے میں برائی‬
‫یہی ہے‪ ،‬یہ کہتے ہوئے اس نے ساتھ میں اپنے پرس سے پیسے نکال کر اس کے ہاتھ میں تھمائیں اس پولیس والوں نے معذرت‬
‫کی اور ارزم نے اپنی گاڑی دوبارہ سے روڑانا شروع کر دی۔۔۔۔۔‬
‫ادھر سے سفینہ بیگم کو ہوٹل میں دروازہ کھٹکھٹانے کی اواز ائی وہ اٹھی اور اس نے دروازہ کھوال اور ایک انویلپ لے کر‬
‫کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔ سفینہ بیگم کی بیٹی ہنوف بولی امی کیا ہوا ہے اپ اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہیں؟کوٹ سے نوٹس ایا‬
‫ہے !!! وہ سر پکڑتے ہوئے کہہ رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ جب کورٹ سے نوٹس ایا اور وہ اندر ا رہی تھی تو دروازہ کھول‬
‫کر اگئی تھی اور اس دروازے سے شادی کے اندر ا چکا تھا اور ان کے کمرے کے باہر کھڑا خاموشی سے سب سن رہا تھا‬
‫۔۔۔۔کیسا نوٹس ؟ جہانزیب کی موت کا اور عادل کی موت کا !! کیا ؟ کہ میرے اس خالص عاشق اور قاتل نے ابھی تک کچھ کیا‬
‫نہیں وہ ہر بڑی میں بولی ۔۔۔۔۔ اس کا تو میں نے بندوبست کروا دیا ہے ۔۔۔۔ کیا مطلب ؟ حنوف کے چہرے کے تاثرات ذرا نہ بدلے‬
‫تھے وہ سکون سے اپنی ماں کی باتیں سن رہی تھی ۔۔۔۔ پچھلے دنوں میں نے اس کو ٹرک سے ٹکر بھجوائی اور اب پڑی ہو گئی‬
‫اس کی کہیں الش ‪ ،‬لیکن یہ نورے جو ہیں بال ایک یہ بہت خوفناک ہے اب اس کا ہمیں کچھ کرنا ہوگا ۔۔۔۔ امی دیکھیں میں نے تو‬
‫اپ کی اتنی مدد کی میں نے تو اس سے جھوٹ موٹ کا عشق لڑایا اس کے بعد پھر پھر اپ نے اس سے بات کی اور اس کو‬
‫نورے کو اغوہ کرنے کا کہا اور واٹ ایور جو مرضی اپ نے کیا میں نے اپ کو کبھی کچھ نہیں کہا بلکہ میں نے اپ کا ساتھ‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔۔ شارق جو کہ پیچھے کھڑا اپنی محبوبہ ہنوف کے عشق میں گرفتار تھا اور اس سے کافی دنوں بعد ملنے ایا تھا اور اس کو‬
‫ملنے کی تڑپ اس کو ستا رہی تھی وہ انکھیں پھاڑ کے دیکھنا شروع ہو چکا تھا وہ جیسے کسی پہاڑ تلے ا چکا تھا اور وہ جان‬
‫گیا کہ یہ کام کر کے بہت غلط اقدامات اٹھا چکا ہے ۔۔۔۔ وہ بھی خاموش ہی رہا اور دوبارہ ان کو سننے لگا ۔۔۔۔ اور امی اپ مجھے‬
‫اتنا نا ستائیں وہ کافی ٹینشن میں بولی امی اپ جانتی ہیں کہ ایرک انہیں چھوڑ دیا ہے بے وفائی کر ڈالی ہے اس نے میں اس کو‬
‫وفادار سمجھتی تھی لیکن وہ پتہ نہیں کیا نکال امی مجھے تو وہ زہر لگنا شروع ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ شارق اور ایک اور حقیقت عیاں‬
‫ہوئی کہ وہ واقعی اس سے محبت نہیں کرتی تھی بلکہ وہ تو کسی ایرک نامی شخص کو اپنا دل دے بیٹھی تھی اور محبت میں ہار‬
‫بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔ شارق کہ غصے پر قابو نہ ہوا اس نے فورا اپنی گن کا چیمبر چڑھایا اور فورا سے حنوف کے سامنے کھڑا ہو گیا‬
‫۔۔۔ ہنوف اس کو یوں دروازے کے پیچھے سے نمودار پا کے خوفزدہ ہوئی اور بالکل سکتے کے عالم میں ا چکی تھی۔۔۔۔ آ آ شارق‬
‫تم اؤ بیٹھو کیسے ہو تم اتنے دن کہاں تھے دیکھو میں تمہیں اتنا یاد کر رہی تھی میں تم اتنی کالز کی تم یار کہاں تھے میری جان‬
‫بیٹھو ادھر اؤ اس کی جانب ہوتا ہے اس کا ہاتھ پکڑنے لگے تو اس نے اس کے سر پر بندوق رکھی اور بوال میری جان اب تم اس‬
‫دنیا سے جاؤ گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ک ک کیا مطلب ہے ؟ سفینہ بیگم بولی ۔۔۔۔ تم خاموش رہو مکار عورت !! پہلے میں اس کا حساب لے لوں‬
‫جس نے مجھ سے محبت کے جھوٹے دعوے کیے تھے ۔۔۔۔ شا شارق حنوف اس کے قریب ہوئی تو اس نے گن سے گولی اس کے‬
‫سر میں اتار دی اور وہ اپنی انکھوں میں پہلے اس کا عکس دیکھتے ہوئے بولی کیا تمہیں سکون ملے گا ؟ اور وہ پیچھے کی‬
‫جانب جا گری ۔۔۔۔ اور اس کی جان بارگاہ الہی میں پہنچ گئی وہ یہ سب کرتا فوراً باہر ا کر اپنی گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی تیزی‬
‫سے ڈرائیو کرتے ہوئے ریسٹورنٹ پہنچا ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ریسٹورنٹ کے اندر داخل ہو کر اس نے سب سے پہلے اس شخص کو ڈھونڈنا جس کو وہ ملنے ایا تھا اس شخص کی بیک سائیڈ‬
‫اس کو نظر ائی اور وہ پہچان گیا کہ وہ کون ہے وہ فورا اس کے قریب گیا اور جا کر اس کے بالوں میں ہاتھ ڈاال اور اشعر فورا‬
‫کھڑا ہوا اور اپنے بھائی کے گلے لگا اور بوال بھائی کیسے ہیں اپ اپ کو پتہ ہے بھائی ارزم سے بہت مشکل سے اجازت لے کر‬
‫ایا ہوں میں اپ سے ملنے ۔۔۔۔ ہاں ہاں دجال بھائی ہے تمہارا پتہ نہیں تم کیسے اس کے ساتھ رہتے ہو ؟ بتاؤ کچھ زیادہ ستاتا ہے تو‬
‫کچھ کریں اس کا وہ ہنستے ہوئے بیٹھتا یہ کہہ رہا تھا ۔۔ ریکس اپ جانتے ہیں میں اپ دونوں سے برابر پیار کرتا ہوں اپ ایسے نہ‬
‫کہا کریں وہ میرا اچھا سوچتے ہیں ۔۔۔ ہاں واٹ ایور !! اپ نے مجھے یہاں کیوں بالیا ہے ؟ اشعر کے سوال پر ریکس بوال پہلے تو‬
‫میں نے تمہیں یوں ہی ملنے کے لیے بالیا تھا لیکن اب تمہیں کچھ اور بتا دیتا ہوں ۔۔۔۔ کیا ؟ ایک اور قتل کر رہا ہوں ‪ 49‬پورے‬
‫کر چکا ہوں ایک رہتا ہے ۔۔۔۔ کیا اشعر کم و کھال کا کھال رہ گیا اس نے اپنا ہاتھ اپنی انکھوں پر رکھا اور بوال بھائی اپ کیا کرتے‬
‫پھر رہے ہیں اپ اتنے قتل کر رہے ہیں اپ کو کیا کوئی خوف خدا نہیں رہا مجھے سمجھ نہیں اتی میری اتنی اچھی تربیت کرتی‬
‫ہے اپ کیوں ایسے بن گئے ہیں بھائی اپ ایسا کریں نا معافی مانگ لیں جن جن کو اپ نے قتل کیا ہے !! معافی نامی لفظ رائل دا‬
‫ریکس شارق کی ڈکشنری میں درج ذیل نہیں ہے ۔ بہت ہی کوئی فضول ڈکشنری ہے بھائی !!! شارق نے اس کی اس بات پر اس‬
‫کو مسکرا کر دیکھا اور وہ دونوں ابھی بیٹھے ہی تھے کہ پیچھے سے ارزم ایا اور بوال تم اپنے اس دوست سے ملنے ائے تھے‬
‫۔۔۔۔ ب ب بھائی آپ ! اس کی اواز میں لرز بند تھا وہ بوال اپ یہاں پر ؟ ہاں یہاں پر کچھ پرانے حساب چکتا کرنے ایا ہوں تمہارے‬
‫ریکس سے ۔۔۔۔۔ م مطلب ؟ مطلب یہ کہ جو تمہارا یہ جو ریکس ہے کر چکا ہے میری زندگی کے ساتھ اس کا حساب لینے ایا ہوں‬
‫ارزم کے ہاتھ میں گن تھی جو کہ اس نے چیمبر چڑھاتے ہوئے شارق کے سامنے کی شارق نے بھی اپنی گن نکال کے ارزم کے‬
‫سامنے کی اب معاملہ کچھ ایسا تھا کہ اشعر اپنی دونوں جانوں کے بیچ کھڑا تھا اور وہ کس کو بچاتا اور کس کو مرتا دیکھتا ۔۔۔‬
‫ارزم بھائی ‪ ،‬ریکس یہ اپ دونوں کیا کر رہے ہیں ؟ اپ دونوں کیسے ایک دوسرے کے سامنے یو گن کر کے ایک دوسرے کو‬
‫مرنے اور مارنے کی دھمکی دے سکتے ہیں گن پیچھے کریں اس نے دونوں کے گل پیچھے کی ‪ ،‬لیکن ارزم نے پھر بھی اپنی‬
‫گن اشعر کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے اس کے سامنے کی اور شارق نے بھی پھر یوں ہی کیا ۔۔۔ ہوا کیا ہے ؟ آپ دونوں یہ کر‬
‫کیوں رہے ہیں ؟؟؟ کیا مجھے کوئی بتاۓ گا ۔۔۔۔ اشعر کو آگے کا سوچ سوچ کر پسینا آرہا تھا اور ہول پر رہے تھے اور اشعر‬
‫کے چہرے کی بھارتی صور تاحال ان دونوں کو ستا رہی تھی لیکن ارزم کا نورے کے لیے بدلہ لینا اور ساری کا اپنی انا کے‬
‫لیے اس کے سامنے یوں گن کر کے ‪ 50‬قتل پورے کرنے کا شوق بھی ان دونوں کو ایک دوسرے کے آڑے ال رہا تھا ۔۔۔۔ تم‬
‫خاموش رہو اشعر کو ارزم نے دبکا اور بوال میں نے ہمیشہ تم نے اس کے پاس جانے سے نہیں روکا نہ ہی میں چاہتا تھا کہ میں‬
‫تمہیں روکو کیوں کہ تم اس سے پیار کرتی تھی لیکن یہ بہت بڑا دگا باز اور بے فیض انسان ہیں یہ فائدہ ڈھونڈ کے کام نکالتا ہے‬
‫۔۔۔۔ نہ جانے اس کو تم سے کیا فائدہ ہوگا اشعر تو یہ تم سے محبت کرتا ہے مجھے تو لگتا ہے یہ ڈھونگ رچاتا ہے محبت کے تم‬
‫سے۔۔۔۔ اس کو تو محبت ہوگی تو محبت نے اس کو چھوڑ جانا ہے اور یا اس کو محبت میں ناکامی ہی ہوگی ۔۔۔۔ یہ سب الفاظ اس‬
‫پوری دنیا کے جانے مانے قاتل کو توڑنے کے لیے کافی تھے اس شخص کو کبھی کوئی کچھ کہہ کے زندہ نہ بچا تھا اج اس کو‬
‫ارزم نے اشعر کے سامنے یہ سب کچھ کہا تھا اور اس سے برداشت نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔ ارزم !!! شارق کی آواز بہت بلند ہوئی تھی کہ‬
‫اگے پیچھے کے لوگ سب ان دونوں کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔ مرنے کے لیے تیار ہو جا ارزم کے یہ کہنے پر جو گند تانی ہوئی‬
‫تھی جھٹ سے گولی نکلی اور جا کر اشعر کہ شارق کے سینے پر لگ چکی تھی ۔۔۔ اشعر نے فوراً شارق کی جانب دیکھا اور اس‬
‫کو پکڑ کر زمین پر بیٹھ کر بوال بھائی بھائی اپ ٹھیک تو ہیں اس کے اخری سانس چل رہے تھے اور وہ ہللا سے مخاطب ہوتا‬
‫بوال‬
‫دھوکے کی دنیا کا ساحل ہوں‬
‫بہت گناہ کر چکا ہوں‬
‫دنیاوی خواب سے اب میں اٹھنے لگا ہوں‬
‫میں تیرا بندہ موال تیرے پاس ا رہا ہوں۔۔۔۔۔‬
‫پھر وہ اپنی جان ‪ ،‬جگر گوشے ‪ ،‬اپنے شوگر پیکٹ سے مخاطب ہوا اور بوال تم بہت اچھے ہو ہمیشہ اچھے رہنا اور میری بخشش‬
‫کی دعا کرنا شاید تم جیسے نیک انسان کی دعا سنی جائے ۔۔۔ اشعر جس کی انکھوں سے انسو نکل رہے تھے وہ بوال بھائی نہیں‬
‫اپ ایسے نہیں کہہ سکتے بھائی نہیں کچھ نہیں ہوا اپ کو۔۔۔ اشعر میرے مرنے کے بعد رونا نہ اور اپنی زندگی شروع کرنا میں‬
‫نہیں چاہتا کہ خود تو چال جاؤں اور تمہاری زندگی برباد ہو جائے میری یاد میں اور اب اس کے دم ٹوٹ چکے تھے اس کی‬
‫سانسیں ختم ہو چکی تھی اور اس کے جگر گوشے کے ہاتھ میں ہی اس کی موت ہوئی تھی اور وہ اپنے ‪ 50‬قتل پورے کر کے ہی‬
‫مرا تھا جو اس کی خواہش تھی گولی ارزم نے نہیں بلکہ اس نے خود کو ہی ماری تھی اور سامنے کھڑا ارزم بس یہ سب دیکھ کر‬
‫حیران ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ب۔ بھائی ! نہیں ریکس ‪ ،‬میرے ریکس دا ڈؤن اٹھیں وہ بار بار اس کا ہاتھ پکڑ کے ہائی فائی کرنے کی‬
‫کوشش کر رہا تھا جو کہ وہ ہمیشہ کیا کرتا تھا وہ اس کو گلے لگا رہا تھا اس کا ہاتھ پکڑ کے اپنے بالوں میں گھسا رہا تھا کبھی‬
‫وہ سر پکڑ کے رو رہا تھا تو کبھی اس کا منہ چوم رہا تھا ‪ ،‬کبھی اس کے سینے پہ سر رکھ رہا تھا ‪ ،‬کبھی وہ اپنے بھائی کی‬
‫طرف بے بسی سے دیکھ رہا تھا اس کو کچھ سمجھ نہیں ارہی تھی کہ وہ کیا کرے اخر کو اس کا اتنا پیار کرنے واال ریکس اس‬
‫دنیا سے گیا تھا اور اس کے لیے وہ دن وہ لمحہ کسی قیامت سے کم نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارزم بیٹھا اور اس نے اشعر کیک کندھے پر ہاتھ‬
‫رکھا اس کو اپنے سینے سے لگایا وہ اپنے بھائی سے لپک کے بہت رویا بے تحاشہ رویا اتنا تو شاید کبھی کوئی مظلوم اور یتیم‬
‫نہ رویا ہو جتنا وہ ریکس کی موت پہ اپنے بھائی کے گلے لگ کے رو رہا تھا ۔۔۔ بھائی بھائی !!! وہ ہچکیاں لے رہا تھا بے‬
‫تحاشہ رو رہا تھا ‪ ،‬رکس ایسے نہیں جا سکتے وہ تو مجھ سے اتنا پیار کرتے تھے وہ مجھے اکیال چھوڑ کے چلے گئے میں کیا‬
‫کروں گا ان کے بغیر وہ دیکھیں اٹھ بھی نہیں رہے ہیں ۔۔۔ وہ تھوڑا سا ریکس کی جانب ہوا اور بوال ریکسار میرے ساتھ مذاق کر‬
‫رہے ہیں نا اپ ایک دفعہ انکھیں کھولیں پھر میں اپ کو بتاؤں گا اپ پھر جتنی مرضی دفعہ مجھے منائیں گے میں نہیں مانوں گا‬
‫ریکس لیکن پہلے انکھیں تو کھولیں اور اب اس کی اواز مزید نم پڑھ گئی اور وہ بے تحاشہ اونچی اونچی رو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارزم‬
‫نے اس کو کھینچتے ہوئے اپنے سینے سے لگایا اور بوال بس بس میری جان بس اور نہیں رونا اور نہیں رونا بس ۔۔۔ اشعر کو‬
‫دیکھ کر ارزم کی انکھوں میں انسو ا رہے تھے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ بھائی مجھے صبر نہیں ائے گا میں کیسے میں کیا کروں گا اس سے‬
‫بوال نہیں جا رہا تھا اس کے لفظ ادھر ادھر ہو رہے تھے ۔۔۔۔ شاید تمہیں یہ سن کر تھوڑا ارام ا جائے کہ تمہاری بھابھی کو اغوا‬
‫شارق نے کیا تھا اور ان کے ساتھ غیر اخالقی حرکت کرنے کی کوشش بھی اس نے کی تھی ۔۔۔۔۔ اشعر کے انسو انکھوں میں ہی‬
‫رہ گئے اور اس نے اپنے بھائی کو دیکھا اس کی کیفیت سمجھنے واال کوئی نہیں تھا ایک طرف اس کا اپنا ریکس دنیا سے گیا تھا‬
‫ار دوسری طرف اس کی اپنی بھابھی اپنی بڑی بہن کا یہ اتنا بڑا سا جس کے سامنے ایا تھا کہ ریکس نے اس کے ساتھ کیا کیا اور‬
‫کیا نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنی انکھیں بند کی جس کی وجہ سے شدت سے جو انکھوں میں انسو تھے وہ بہنے لگے ایسا منظر‬
‫پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا جیسا اج ارزم اپنی زندگی میں دیکھ رہا تھا سنہری آبشار پہلے کبھی نہ دیکھی گئی تھی جو کہ اشعر کی‬
‫سنہری انکھوں سے گر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫تھوڑی دیر بعد شارق کو وہ دونوں بھائی مل کر اس کے گھر لے کر گئے وہاں پر کشف اور ان کی کھال تو موجود تھی لیکن‬
‫کنول موجود نہ تھی ‪ ،‬تھوڑی دیر تک نورے ‪ ،‬نادیہ بھی پہنچ چکے تھے کسی کو اس حالت پر یقین نہ ا رہا تھا وہ دن صرف‬
‫اور صرف شارق کا دن تھا سمجھ نہیں ارہی تھی کہ لوگ شارق جیسے جالد انسان کی موت کی خوشی منائیں یا اشعر کو دیکھ کر‬
‫روئیں۔۔۔ جو وہاں ہنستا تھا وہ وہاں اس کو دیکھ کے روتا تھا ۔۔۔۔ ریکس ریکس !! اٹھ جائیں پلیز یا ہللا ان ان کی جگہ مجھے اٹھا‬
‫لیتے ہیں ۔۔۔۔ اپ نے سوچا بھی نہیں کہ میں اپ کے بغیر کیسے رہوں گا میں کس کو مکھن لگاؤں گا کس سے پیار کروں گا کون‬
‫میرے بالوں میں ہاتھ ڈاال ہے کہا مجھے اپنے گلے لگائے گا اور مجھے اپنے سے زیادہ جانے گا ۔۔۔۔ ریکس پلیز۔۔۔ وہ یہ سب‬
‫کہتے ہوئے اس کے سینے پر اپنا سر ا گیا تھا بھائی ایک دفعہ ایک دفعہ یہ ہاتھ اٹھائیں اور مجھے گلے لگائیں دیکھیں اشعر مراد‬
‫اپ کا جگر گوشہ رو رہا ہے پلیز اٹھ جائیں ایک دفعہ گلے لگا لیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ارزم وہاں پر باقی لوگوں کے ساتھ ایا اس نے اشعر‬
‫کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بوال اب دفنانے کا وقت ہے جنازہ پڑھانے کے لیے لے چلو ۔۔۔۔ اتنا دکھ تو کشف یا اس کی ماں کو بھی‬
‫نہیں تھا جتنا دکھ اشعر کو تھا بلکہ اس کے لیے تو دکھ لفظ بہت چھوٹا تھا اس کی تو پیار دنیا سے چال گیا تھا ۔۔۔۔‬
‫شارق کو جنازہ وغیرہ پڑھنے کے بعد اشعر نے اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا اور وہ مسلسل کچھ صورتیں اور ایات پڑھ کے‬
‫پر پھونک مار رہا تھا اور بے تحاشہ رو رہا تھا اس کے انسو قابو نہ ہونے کے برابر تھے اس نے اس کو قبر میں اتارا ابھی وہ‬
‫مٹی ڈالنے ہی لگے تھے کہ اس نے فوراً سے ان کو روکا اور شارق کی جانب زمین پر بیٹھتا اس کے کفن میں اس کا ہاتھ قبر میں‬
‫سے پکڑتا بوال بھائی میں روز قیامت اپ سے گلے ضرور لگوں گا اور اپ کے لیے تا قیامت دعا کرتا رہوں گا ۔۔۔ ارزم نے اشعر‬
‫کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس کو خاموش کرانے کی کوشش کی وہ رو رہا تھا لیکن وہ بوال ریکس اپ فکر نہ کرنا میں ہللا‬
‫تعالی سے اپ کے لیے دعا کروں گا اپ کا حساب کتاب انشاءہللا اسان ہوگا اور جس جس کے ساتھ اپ نے جو کیا ہے میں اس کا‬
‫کھال اعالن کرتا ہوں وہ اونچی اواز میں بوال کہ بھائی نے جس کے ساتھ جو کیا ہے اس کا بدلہ مجھ سے لے سب اس کو حیرانی‬
‫سے دیکھ رہے تھے اشعر نے شارق کا ہاتھ چوما اور اٹھ کر دوسری جانب منہ کر کے کھڑا ہو گیا کیونکہ وہ اپنے ریکس پر مٹی‬
‫ڈلتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اشعر اور باقی سب اپنے اپنے گھروں میں جا چکے تھے وہ کیال بیٹھا اپنے کمرے میں رو رہا تھا ۔۔۔۔ ارزم اور نورے نے دروازہ‬
‫کھوال اور اندر ائے اس کے بیڈ پہ اس کے سامنے بیٹھے اور اس کا دل بہالنے لگے۔۔۔۔۔ لیکن اشعر بوال بھابھی میں نے اپ سے‬
‫ایک بات پوچھنی ہے ! ہاں بولو ۔ بھابھی کے ریکس نے اپ کو کرنیپ کیا تھا ؟ نورے نے ارزم کی جانب دیکھا اس نے اشارہ کیا‬
‫ہاں بتا دو ۔۔۔ وہ بولی ہاں ۔۔۔ اشعر اپنی بھابھی کے منہ سے یہ الفاظ سن کر ہکا بکا رہ گیا اس کو یقین نہیں ارہا تھا پہلے تو لیکن‬
‫اب وہ یقین کیسے نہ کرتا کیونکہ اب وہ دونوں اس کے سامنے بیٹھے سچ بول رہے تھے۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ کافی رات ہو چکی تھی وہ‬
‫دونوں اپنے کمرے میں چلے گئے تھے اب اشعر فیصلہ کر چکا تھا کہ اب وہ روئے گا نہیں بلکہ اپنے ریکس کے لیے دعائے‬
‫مغفرت کرے گا اور اپنی زندگی جیے گا ۔۔۔ اشعر کوریک سے بے تحاشہ پیار تھا لیکن مجھے سب سے پہلے عزیز عورت کی‬
‫عزت تھی اور نورےہ تو اس کی منہ بولی بہن بھی تھی اب۔۔۔۔اور بھابھی ۔۔۔۔۔ اس کو یہ ہی فیصلہ ٹھیک لگا تھا ۔۔۔۔۔‬
‫کچھ دنوں بعد اب آج کورٹ میں کیس کی وجہ سے جانا تھا ۔۔۔ ارزم اور نورے تیار ہو کر ناشتہ کرنے کے ٹیبل پر ائے اور‬
‫سامنے نادیہ اور اشعر بیٹھے تھے کہ اچانک سے نازیہ بولی تم لوگ جانتے ہو کہ کول کیوں نہیں تھی اپنے بھائی کے جنازے پہ‬
‫۔۔۔ ؟؟ نہیں امی میں نے ویسے نہیں دیکھا اس کو‪ ،‬کہاں تک گئی تھی وہ ؟ تمہارے پیارے بھائی اشعر میں کچھ اس کو کہا کہ تم‬
‫پردہ حجاب کیا کرو یا تم بھی بہت چھوٹی ہو تم سے شادی نہیں کر سکتا مجھے ساری بات تمہاری خالہ نے بتائی ہے تو اس نے‬
‫پردہ ہی جواب شروع کیا لیکن ریکس نے کنول کو زبردستی امریکہ بھیج دیا‪ ،‬کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ جو اشعر چاہتا ہے اور وہی‬
‫ہو اور اشعر نے کہا تھا کہ وہ کبھی بھی کنول سے شادی نہیں کرے گا ۔۔۔۔ اشعر جو کہ پوری رات بدل کر کر کے اپنے بھائی‬
‫کی مغفرت کے لیے تقریبا ٹیبل پہ سو رہا تھا اور وہ مکمل اب سو چکا تھا ٹیبل پر اس کا سر تھا ارزم نے اس کی جانب دیکھا تو‬
‫وہ اس کو سویا مال تو وہ خاموش رہا اور اس نے اپنی امی کبھی خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اپنی امی کو بوال امی اج میں اور‬
‫نورے کیس لڑنے جا رہے ہیں دعا کیجئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وہ لوگ اب عدالت پہنچ چکے تھے ۔۔۔ حریم‪ ،‬نورے ‪ ،‬ایان‪ ،‬اور ارزم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جج صاحبہ کے سامنے اپنی کرسی پر بیٹھے سب‬
‫سے پہلے نورے کا وکیل کھڑا ہوا اور بوال ماۓ آنر ! سفینہ بیگم نے نورے جنت کہ بھائی اور باپ کو مارا ہے ۔۔۔ سفینہ بیگم کا‬
‫وکیل کھڑا اور بوال میں اونر یہ جھوٹ بول رہا ہے !! آرڑر ! آرڈڑ ! جج صاحب کی یہ کہنے پر اسے سفینہ بیگم کا وکیل تھم کر‬
‫بیٹھ گیا۔۔۔ مائی اونر ! انہوں نے یہ اس لیے کیا ہے کیونکہ یہ جائیداد لینا چاہتی تھی اور ویسے سفینہ بیگم بھی نورے کے باپ‬
‫کی دوسری بیوی تھیں اور ان کے پہلے شوہر کے جو بچے تھے وہ امریکہ میں تھے جن کے پاس یہ بچنے کے لیے چلی گئی‬
‫تھی ۔۔۔۔ اب دوبارہ سفینہ بیگم کا وکیل کھڑا ہوا اور بوال اونر ! یہ دوبارہ جھوٹ بول رہا ہے ۔۔۔ارڈر ارڈر ! جج کے یہ کہنے پر وہ‬
‫دوبارہ بیٹھ گیا ۔۔۔۔جج صاحب انہوں نے نورے کو جھوٹے قتل کے کیس میں اندر کروایا اور پھر ان پر فضول کے الزامات لگائے‬
‫اور پولیس کو رشوت دینے کی کوشش کی ۔۔۔ کہ اپ کے پاس کوئی ثبوت ہے جج صاحب یہ کہنے پر وہ بوال جی اس نے ارزم کو‬
‫اشارہ کیا ارزم ایا اور بوال جج صاحب میں ایک پولیس واال ہوں ۔۔۔ محمود صاحب بولے جج صاحب اپ سب بات چھوڑیں اور یہ‬
‫ریکارڈنگ سنیں ۔۔۔۔۔ وہ تمام ریکارڈنگ جب محمود انکل نے نورےجنت ارزم حریم کو سنائی تھی وہ اب جج صاحب اور سارے‬
‫کورٹ میں موجود لوگ سن رہے تھے ۔۔۔۔۔ سفینہ بیگم کا وکیل دوبارہ کھڑا ہوا اور بوال جج صاحب جھوٹ ہے ‪ ،‬سکینہ بیگم کو‬
‫ٹریپ کر رہے ہیں یہ لوگ۔۔۔ ارڈر ارڈر ارڈر جیسا اپ کی یہ کہنے پر دوبارہ وہ دوبارہ بیٹھ گیا۔۔۔ کچھ دیر بعد اپ سب کو فیصلہ‬
‫سنایا جائے گا جج صاحب کی اس اواز پر اپ سب ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے تھے اور نورے تو مسلسل منہ ہی منہ میں‬
‫ہللا کا ذکر کر رہی تھی‪،‬اور اس کا بھائی اشعر گھر میں بیٹھا اس کے لیے دعا کر رہا تھا۔۔۔۔‬
‫ارزم کیا جج سفینہ بیگم کے خالف ہی فیصلہ کرے گا ؟ نورے بولی تو ارزم بوال انشاءہللا ہللا کی رحمت سے مایوس نا ہو ۔۔۔ جو‬
‫ہمیں یہاں تک لے کر ایا ہے وہ ہمیں ضرور کامیابی عطا فرما دیتی ہوں کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے نورے اور اب میں جانتا ہوں‬
‫کہ اج انشاءہللا ہمارے ہی حق میں فیصلہ ہونے جا رہا ہے ۔۔۔۔۔ انشاءہللا ۔۔ اچانک سے ان کا سامنا سفینہ بیگم سے ہوتا ہے ۔۔۔ اچھا‬
‫تو یہ تم لوگوں کی چال تھی سفینہ بیگم بولی تو ارزم بوال جو اپ سمجھیں ۔۔۔۔۔ تم لوگوں نے اچھا نہیں کیا !! اپ کے ساتھ اچھا ہو‬
‫سکتا ہے !! ارزم بوال تو وہ بولی تمہیں میں چھوڑوں گی نہیں !! پہلے خود تو چھوٹ جانا جیل سے۔۔۔۔۔۔ ارزم کا یہ کہنا اس کے‬
‫سینے میں جیسے اگ کا باعث بنا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔‬
‫اب فیصلے کا وقت تھا نورے کا تو دل دھڑک رہا تھا ۔۔۔۔۔ جج صاحب بغیر کچھ دیکھے بولے اسی کے ساتھ ہم نے یہ فیصلہ کیا‬
‫ہے کہ سفینہ بیگم کو چار دفعہ کی عمر قید کی سزا ہو چکی ہے اور ایک عمر قید سے بچنے کی سزا ڈیر کروڑ منتخب کی گئی‬
‫ہے ۔۔۔۔۔ نورے جو کہ ذکر کر رہی تھی وہ اچانک کھڑی ہوئی اس کی زبان پر پہال لفظ جو ایا تھا وہ الحمدہلل کا تھا اور ارزم جو‬
‫کہ وکیل صاحب کے ساتھ اگے بیٹھا تھا کہیں وہ فوراً اس کے پاس ائی اور چمکتی انکھوں سے اس کو دیکھا ‪ ،‬اس کی اتنی دیر‬
‫کی محنت کا صلہ تھا یہ سب ‪ ،‬اس نے بہت کچھ سہا تھا اور فوراً اس کے گلے زور سے لگ گئی۔۔۔۔۔ ارزم ارزم !! ہللا نے ہماری‬
‫سن لی ۔۔۔ ہللا نے تمہاری سنی کیونکہ تم نے صبر کیا تمہیں ہللا سے گرا نہیں کیا اور ہر دی گئی ہللا کی ازمائش پر پورا اتری اس‬
‫لیے اج تم یوں سکون سے میرے گلے لگی ہو وہ اس کو تھپ تھپاتا بوال اور اس کو اپنے سے تھوڑا سا دور کیا اور مسکرا کر‬
‫اس کو دیکھا نورے کی انکھیں چمک رہی تھیں اس سے اپنی خوشی برداشت نہیں ہو رہی تھی اس کے بعد اس کو حریم یاد ائی‬
‫اور وہ فورا حریم سے جا گلے لگی حریم نے بھی اس کو زور سے اپنے ساتھ گلے لگایا اور اس کو پیار کیا اور اس کو مبارکباد‬
‫دی ۔۔۔۔ اور وہاں کھڑی سفینہ بیگم کا رنگ پھیکا پڑ چکا تھا جو کہ دنیا میں اپنا سب کچھ کھو چکی تھی نہ شوہر نہ اوالد اور نہ‬
‫ہی کوئی جائیداد اس کے پاس اب رہی تھی ۔۔۔۔۔ یہ سب اتنا جلدی اس لیے ہوا کیونکہ ان کے پاس صاف ریکارڈنگ تھی وہ اتنا کچھ‬
‫کر چکے تھے صرف ثبوت اکٹھے کرنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔ صفینہ بیگم کو پولیس نے پکڑا اور تھانے لے گئے اب اس کی واپسی کا‬
‫کوئی راستہ نہ تھا کیونکہ اس کے پاس نہ پیسہ تھا اور نہ ہی انسان کا دل ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫بیگم جان ! جی ‪ ....‬مبارک ہو اپ کو ‪ ،‬دو چیزوں کی ۔۔۔۔ ایک کا تو مجھے پتہ ہے لیکن دوسری کیا وجہ ہے ؟ دیکھو تم نے اتنا‬
‫سفر کیا اور ایک تو تمہیں اس سفر کے بعد اپنے باپ اور بھائی کی موت کا انصاف مال اور دوسرا تمہیں ارزم زاویار مال۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نورے نے مسکرا کر اس کو دیکھا تو ارزم بوال بیگم تیار ہے نا رات کو ہم لوگ ڈنر کرنے جائیں گے ۔۔۔۔ اوکے لو ۔۔۔ ارزم نے‬
‫نورے کو حیرت سے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وہ دونوں گھر ائے ۔۔۔ اشعر نے فورا باہر ا کر دروازہ کھوال اور ان کو گاڑی سے بھی باہر نہیں نکلنے دیا اور بوال بھائی پہلے‬
‫بتائیں کیا ہوا ؟؟ ارزم مسکرایا تو اشعر بوال کیا واقعی بھائی !! وہ نہایت خوشی سے بوال تھا کافی دنوں بعد ارزم اور نورے نے‬
‫اس کا یہ روپ دیکھا تھا۔۔۔۔ واہ واہ واہ ۔۔۔ الحمدہلل وہ مسکراتے ہوئے اپنی بھابی کی جانب گاڑی میں ہوں اور بوال بھابھی اپ کو‬
‫بہت بہت مبارک ہو دیکھا یہ صرف اور صرف اشعر مراد کی دعاؤں کا نتیجہ ہے ۔۔۔ نورے مسکرائی اور بولی ہاں میں جانتی‬
‫ہوں ۔۔۔۔ اب ہمیں گاڑی سے باہر انے دو گے یا نہیں ارزم کہ یہ کہنے پر اس نے کہا کیوں نہیں اس نے خود اپنے ہاتھ سے دروازہ‬
‫کھوال اور ان کو گاڑی سے باہر نکا ال ۔۔۔۔ اندر گئے تو ان تینوں کے چہروں پر خوشی دیکھ کر نہ دیا بولی بیٹا نورے میں نے‬
‫تمہیں بہت غلط سمجھا تمہارے اغوا ہونے کے بعد مجھے سب کچھ بتا دیا ہے اشعر نے اور کشف نے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے نادیہ نے اس‬
‫کو اپنے گلے لگایا نورے نے حیرانی سے ارزم کی جانب دیکھا اور اس کی امی کے گلے لگی ۔۔۔۔۔۔‬
‫اب وہ کمرے میں بیٹھی تھی ۔۔۔ ارزم ناجانے کہاں گیا تھا ۔۔۔۔ وہ اس کو بار بار کال کر رہی تھی !! لیکن کال بزی جارہی تھی۔۔۔۔۔‬
‫اشعر اپنی بھابھی کے کمرے میں داخل ہوا اور بوال بھابھی آج تو یوں ٹینشن والی شکل نہ بنائیں اج تو اپ انصاف حاصل کر کے‬
‫ائی ہیں ہنسیں کھیلیں باتیں کریں وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اشعر تمہارا بھائی فون نہیں اٹھا رہا ہے ہمیں گھر ائے پانچ گھنٹے‬
‫ہو چکے ہیں اور تمہارا بھائی تب سے غائب ہے کہاں چال گیا ہے؟ بھابی مجھ معصوم کو تو کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کون کہاں‬
‫ہے کون کہاں نہیں ‪ ،‬اور بھائی مجھے بتائیں کہ وہ کہاں جا رہے ہیں امپوسیبل !!! بھابھی ویسے اپ کو ایک بات پتہ ہے ؟ کیا ؟‬
‫مجھے لگتا ہے کہ بھائی نا ابیہا اور پھپو کے پاس گئے ہیں حریم کے گھر ملنے ۔۔۔۔۔ کیا ؟ ہاں بھابھی میں نے سنا تھا بھائی کال پہ‬
‫بات کر رہے تھے کہ ہاں پھوپھو میں بھی اتا ہوں مجھے تو لگتا ہے وہیں گئے ہوں گے ۔۔۔۔انے دو تمہارے بھائی کو نہیں‬
‫چھوڑوں گی !!!! ایک تو تمہارے بھائی نے مجھے کہا تھا کہ رات کو ڈنر پہ جائیں گے اور وہ اب ا ہی نہیں رہے !!! بھابھی اتنے‬
‫ٹائم ہو گیا ہے اپ تیار ہو جائیں بھائی اتے ہی ہوں گے اٹھ تو بج گئے ہیں اور اب کتنے بجے ڈنر کرنا ہے اپ نے ۔۔۔ مجھے نہیں‬
‫ہونا تیارہ میرا موڈ نہیں ہے ۔۔۔ کیوں بھابھی !! پلیز دیکھیں بھائی کے لیے نہیں لیکن اشر مراد یہ کہنے پر تیار ہو جائیں پلیز۔۔۔‬
‫نورے نے اس کی بات مانی اور تیار ہونے لگی ۔ نورے نے ارزم کو بے تحاشہ فون کیے لیکن ارزم نے ایک نا اٹھایا اس نے جب‬
‫چیک کیا کہ وہ صبح کے کتنے فون کر چکی ہے تو وہ صبح کے ‪ 40‬سے زیادہ فون کر چکی تھی لیکن نہ جانے وہ کہاں پھر رہا‬
‫تھا ؟؟؟‬
‫تھوڑی دیر بعد ارزم نے نورے کو کال کی اور بوال کیا ہوا نورے تمہاری کال ارہی تھی ؟ کیا ہوا کا کیا مطلب ہے اپ نے مجھے‬
‫کہا تھا کہ ہمیں ڈنر پہ جانا ہے اور میں صبح کی اپ کو پوری ‪ 47‬سکول کر چکی ہوں لیکن مجال ہے کہ ایک بھی اٹھایئ ہو ۔۔۔۔‬
‫اچھے ناراض کیوں ہو رہی ہو ؟ ناراض ؟؟ مجھے تو لگتا ہے ہم دونوں میں کچھ ہے ہی نہیں کہ میں اپ سے ناراض ہوں ۔۔۔ یہ‬
‫بتاؤ کہاں پہ ہو اس وقت نورے غصے سے بولی تو وہ بوال جہنم میں اس کو نور کی بات پہ غصہ ایا کہ جب اس نے کہا کہ ہم‬
‫دونوں میں کچھ ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔ میری اجازت کے بغیر تم جہنم میں بھی کیا کرنے گئے ہو فوراً ‪ 15‬منٹ کے اندر اندر گھر اؤ‬
‫نہیں تو میں سو جانا ہے دروازہ بند کر کے اور پھر پوری رات سونا کسی اور کے کمرے میں جا کے بلکہ میں اشعر اور امی کو‬
‫بھی کہتی ہوں کہ تمہیں اپنے کمرے میں نہ سالئی اور نورے نے فون غصے سے بند کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنی بدتمیز ہے یہ ایک تو میں‬
‫اس کے اتنا ساتھ دیتا ہوں اور یہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا بول دیتی ہے ایک تو اس کو غصے میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ کیا‬
‫بول رہی ہو کیا نہیں ایک میں ہی اچھا ہوں جو کہ صرف اس کو منا لیتا ہوں عید نہ ہو تو !!!‬
‫گھر میں تھوڑی دیر میں حریم ا چکی تھی۔۔۔ارزم گھر ایا تو دروازے سے ہی حریم اور نے اس کو پکڑ لیا اور بولی بھائی اپ‬
‫کہاں جا رہے ہیں اور اپ اتنی دیر سے کیوں گھر آئے ؟؟ یار کام تھا ۔۔۔۔ اچھا چھوڑیں میں نے سنا ہے اپ نے اور نورے نے ڈنر‬
‫پہ جانا تھا چلیں اب جائیں آپ تیار ہو جائیں میں نے اپ کا یہ واال ڈریس نکاال ہے۔۔۔۔ لیکن نورے کو نہیں پتہ میں نے اپ کو یہ‬
‫واال ڈریس نکاال ہے ۔۔۔۔ کیوں ؟ وہ واش روم میں تھی تو میں نے اپ کی قبر سے کپڑے نکال لیے اور میں باہر لے ائی کیونکہ‬
‫جب اپ نے کمرے میں جانا ہے تو وہ تو بہت اپ کو بولنے والی ہے کیونکہ اپ اس کو لے کر نہیں گئے۔۔۔۔۔ اب اپ نے اپنی بیوی‬
‫کو منانا بھی تو ہوگا نا اس لیے میں کپڑے فوراً لے ائی تھی۔۔۔۔۔ یار تمہارے دوست بات نہیں سنتی ہے میں نے اس کے ساتھ جانا‬
‫ہی نہیں ہے ابھی میں نے اس کو بتایا بھی نہیں کہ میں کیوں ا نہیں رہا لیکن مجال ہے وہ کچھ سنے اپنی بول بول کے فون بند کر‬
‫دیتی ہے اب میں نے اسے بالنا ہی نہیں ہے۔۔۔۔ بھائی دیکھیں اپ اتنے پیارے لگتے ہیں اس کپڑوں میں پلیز پہن دینا دیکھیں نا یہ‬
‫شرٹ جو ہے وائٹ کلر کی شرٹ ود بلیک پینٹ او مائی گاڈ بھیا کتنے پیارے لگیں گے چلو جلدی پہن لیں۔۔۔۔۔ حریم کے بابر‬
‫اصرار کرنے پر اس نے کپڑے پہن لیے۔۔۔۔۔ وہ کپڑے پہن کر تیار ہو چکا تھا اور نور بھی اپنے کمرے میں تیار ہوئی بیٹھی‬
‫تھی۔۔۔۔۔ حریم گھومتے گھماتی نورے کے کمرے میں ائی اور بولی ماشاءہللا کتنی پیاری لگ رہی ہو تھوڑا سا کرو تم باہر اؤ تو‬
‫میں نے نا اس چیز دکھانی ہے ۔۔۔ تم ؟ اتنی رات کو یہاں کب ائی خیر تو ہے ؟ ہاں یار چلو نا اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اس کو‬
‫باہر لے کر جانا چاہا لیکن وہ بولی یار میں نے نہیں جانا میرا دل نہیں کر رہا میں بور ہو گئی ہوں اب اییویں اشعر کی وجہ سے‬
‫میں تیار ہو گئی بس وہ بیچارہ کافی دنوں سے اداس تھا تو اس کے کہنے پہ ہو گئی میں تیار لیکن میرا دل نہیں کر رہا۔۔۔ حریم نے‬
‫اس کا ہاتھ زور سے پکڑا اور اس کو باہر لے گئی۔۔۔۔۔۔۔ بھائی اپ ابھی تک یہاں پہ ہیں چلیں ائیں میں نے اپ کو ایک چیز دکھانی‬
‫ہے !! کیا ؟ بھائی اٹھے نا اشعر کے یہ کہنے پر ارزم بوال یار مجھے بہت نیند ائی ہے میرے دماغ خراب نہ کرو اب پتہ نہیں میں‬
‫نے سونا بھی کہاں ہے؟ اچھا بھائی اپ میرے کونے میں سو جانا اپ ائے تو صحیح بھی میرے ساتھ ۔۔۔ ارزم زبردستی اس کے‬
‫ساتھ گیا۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اشعر اور حریم نورے اور ارزم کو لے کر ایک سجاوٹ شدہ کمرے میں پہنچے جس کی سجاوٹ اشعر اور حریم نے نورےجنت‬
‫کے کیس جیتنے کی خوشی میں کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں وہاں پہنچے اپنے اپنے ساتھیوں کو لے کر تو نور جس نے ایک گالبی‬
‫رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا اور ارزم نے بلیک اینڈ وائٹ کنٹراس کر کے پینٹ شرٹ پہنی تھی اور وہ دونوں تو سب سے پہلے‬
‫ایک لمحے کے لیے دیکھتے رہ گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں جیسے کسی نشے کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ‬
‫حریم اور اشعر نے باہر جانا مناسب ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نورے نے نظریں چرائی ‪ ،‬لیکن ارزم وہیں کھڑا اپنی زندگی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔اس کی انکھوں میں اپنے لیے محبت تالش کر رہا تھا‬
‫۔۔۔۔ نورے نے گھوم کر سارا کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کتنا پیارا انہوں نے سجایا ہے !!!! میں تم سے بات نہیں کرتا ارزم کہ‬
‫یہ کہنے پر وہ بولی میں بھی نہیں کرتی۔۔۔۔۔۔۔۔ اب وہ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کے امنے سامنے بیٹھ چکے تھے لیکن‬
‫کوئی بات نہیں کر رہا تھا کیونکہ اب وہ جو ہے نا چاہتے تھے کہ اپ کون پہلے کس کو منائے گا۔۔۔۔۔ اخر کو ارزو کو ہی بولنا پڑا‬
‫وہ بوال تمہیں پتہ ہے میں کہاں گیا تھا ۔۔۔۔ کہاں؟ مٹھائیاں بانٹنے صدقہ دینے ‪ ،‬وہ صدقہ جس کو میں نے اتارنا تھا‪ ،‬یعنی تمہاری‬
‫ہنسی کا صدقہ تمہاری خوبصورتی کا صدقہ تمہاری زندگی کا صدقہ اور تمہارا مجھے پیار کرنے کا صدقہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے تو‬
‫اس بیوقوف اشر نے کہا ہے کہ اپ ابھی اور پھپو سے ملنے حریم کے گھر گئے تھے۔۔۔۔ نورے !!! پھپو اور ابیہا تو امریکہ جا‬
‫چکی نہیں ہے ؟ ہاں اس کو جیسے یاد آیا۔۔۔۔۔۔۔ بہت ہی بے وقوف ہے مجھے تو لگتا ہے یہ سب ان دونوں کی چال تھی ۔۔۔۔ نورے‬
‫کو تکتا وہ بوال نورے جان ! جی ! اپ نے وہ لونگ نہیں پہنی ہوئی کہاں پر ہے جاؤ وہ پہن کر اؤ ۔۔۔۔ نورے تو پہلے خاموش رہی‬
‫اور نظریں جھکا گئی اس کے بعد پھر وہ اٹھ کر کمرے کی جانب جھوٹ موٹ کی لونگ ڈھونڈنے جانے لگی وہ بھی اٹھی کے‬
‫ارزم نے اس کا ہاتھ پکڑا اور بوال کیا لینے جا رہی ہو ؟ وہ اپنی ہنسی چھپا رہا تھا۔۔۔ نورے بولی لونگ لینے جا رہی ہوں ۔۔۔۔۔ارزم‬
‫گھٹنے کے بل بیٹھا اور اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اس کو چھوڑا اور اپنے پینٹ کی پاکٹ سے ایک چھوٹے سے باکس کو اس کے‬
‫سامنے کھولتے ہوئے حاضر کیا اور بوال یہ لو تمہاری لونگ ۔۔۔۔۔ نورے اپنی لونگ کو دیکھ کے بے حد خوش ہوئی لیکن اپنا‬
‫جھوٹ پکڑے جانے پر سرخ بھی ہوئی ۔۔۔۔ یعنی کہ تم جھوٹ بھی بولتی ہو ؟ ارزم کے یہ کہنے پر نورے جنت نے نظریں چرائی‬
‫۔۔۔ وہ اٹھا اور اس نے نورے کو اپنے ہاتھوں سے لونگ پہنائی اور بوال تم اب بےحد جچ رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ نورے بس اس کا یوں اس‬
‫کو پیار کرتا اور اس کی ہر چیز کی حفاظت کرتا دیکھ رہی تھی اور پہلی مالقات سوچ رہی تھی آپ کو یہ لونگ پسند ہے ۔ نہیں‬
‫مجھے یہ بس تم پر پسند ہے ۔۔۔۔ بھورے اور کالی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی اور وہ آنکھیں ہی سب کچھ بول رہی‬
‫تھیں لفظوں کی ضرورت ہی بھال کس کو تھی ۔۔۔۔ تھوری دیر بعد ارزم نے فوراً ان دونوں کو اواز لگائی اشعر نے دروازہ کھولتے‬
‫ہوئے کمرے کی جانب اتے ان دونوں کو سکون سے بیٹھا دیکھ کر شکر ادا کیا کہ یہ اندر لڑ نہیں رہے۔۔۔۔۔ جی بھائی ۔۔۔۔۔ اس کے‬
‫ہاتھ میں ایک کیک تھا جو کہ حریم کے فوراً اندر انے سے اشعر کے ہاتھ سے گر گیا تھا۔۔۔۔ کیک گر چکا تھا وہ بھی زمین پر الٹا‬
‫وہ چاروں ایک دوسرے کی جانب نظر گھما گھما کے دیکھ رہے تھے کہ اب کیا ہوگا ۔۔۔ اپنی حرکت کی اس وجہ سے تم جہنم میں‬
‫جاؤ گی اشعر تل مالتے ہوئے ارام سے اس کے ساتھ کھڑا اہستہ اواز میں بوال کہ اگے سے وہ بولی اور تم جہنم میں میرے پارٹنر‬
‫ہو گے۔۔۔۔۔ یعنی کہ جہنم میں بھی تم ہی ملو گی مجھے اس نے غصے سے تھوڑا سا کہا اگے سے وہ بولی نہیں جہنم میں تمہیں‬
‫پریاں اور ہوریں ملیں گی جو کہ تمہاری خدمت کریں گی اور ویسے بھی میں تو جنت بھی جاؤں گی یہ کام تمہارے ہیں‬
‫الٹے۔۔۔۔۔مانا کہ میں جہنم میں جاؤں گا لیکن تم بھی بڑے اونچے عہدے فائز ہو گئی وہاں پر اور جنت میں اگر تم چلی گئی نا تو‬
‫جنتیوں نے دوڑانا جہنم کی طرف ۔۔۔۔ اب کیا ہوگا کیک گر گیا ہے وہ دونوں اپس میں لڑ رہے تھے ارزم غصے سے سے بوال‬
‫چپ کر جاؤ ‪ ،‬وہ دونوں بالکل سیدھے ہو گئے ارزم نے کال کی اور باہر چال گیا وہ دونوں وہاں منہ بنا کر بیٹھ گئے نورے ان‬
‫کے سامنے بیٹھ کر ان کا یوں لٹکا منہ دیکھ کر ہنسنے لگی اور بولی کوئی حال ہے تم لوگوں کا؟ نورے ہمارے زخموں پہ نمک‬
‫نہ چھڑکو !!! ویسے تم دونوں میں تو میں نے سنا تھا اور لڑائی ہے صلح کیسے ہو گئی ؟ کیا کروں بھابھی اس کی شکل دیکھ کے‬
‫رحم ا جاتا ہے اس پہ ! او ہیلو مسٹر ! اپنا رحم اپنے پاس رکھو اور ویسے بھی ان نواب جی کے کام چیک کرو مجھے کہتے ہیں‬
‫کہ مجھے فرقان کا قصہ کیوں نہیں سنایا کہ تم نے اس کو تھپڑ لگائے ہیں۔۔۔۔۔۔ ہاں بھابھی اس کو بتانا چاہیے تھا۔۔۔ چلو خاموش ہو‬
‫جاؤ تم دونوں بعد میں لڑنا ابھی دیکھو ارزم یہاں سے چال گیا ہے۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ارزم وہاں پر اندر ایا وہ تینوں وہاں پر‬
‫خاموشی سے بیٹھے تھے اور حریم اور اشعر ایک دوسرے کو گھوڑ رہے تھے۔۔۔چلو یہ میں کیک لے ایا ہوں وہ اندر اتا کیک‬
‫التا ہے یہ بوال۔۔۔۔ وہ دونوں حیرانی کے عالم سے اٹھے اور خوش ہوئے ایک دوسرے کو دیکھ کر ۔۔۔۔ وہ چاروں بیٹھے اور انہوں‬
‫نے مل کر کیک کاٹا اور پھر ہنسی مذاق کرتے ہوئے کھایا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سب باتیں کر رہے تھے کہ ارزم نورے سے مخاطب ہوتے‬
‫بوال نورے جان ۔۔۔۔ ابھی وہ کچھ بولتی ہی کہ اشعر نے اپنا گال صاف کیا اور بوال یہاں پر اپ دونوں کے عالوہ دو اور لوگ بھی‬
‫بیٹھے ہیں اس کے سر پہ تھپڑ لگایا اور بوال تو میری بیوی ہے جو مرضی کہوں ۔۔۔۔ اب یہ زیادہ ہو رہا ہے حریم ہنستی ہوئی‬
‫نیچے منہ کرتی بولی۔۔۔۔ تم ہو ہی بالکل بونگے اور فضول اچھا بیگم آپ میری بات سنو ! جی ۔۔۔ میرے پاس تمہارے لیے ایک‬
‫سرپرائز ہے !!! کیا ؟؟ اشعر بوال ۔۔ تمہارے لیے نہیں تمہاری بھابھی کے لیے ہے ارزم بوال اور پھر وہ نورے سے مخاطب ہوا‬
‫اور بوال پرسوں ہمارا ولیمہ ہے ۔۔۔۔۔ نورے جس کے چہرے کے نقوش پہلے بدلے نہ تھے لیکن اس کی اس بات پر اس کے‬
‫چہرے کے تیور تھوڑے بدلے اور وہ حیرانی سے بولی کیا ؟؟ ہاں نا اب میں نے کہا دیکھو اب تمہارے بھی تو ارمان ہوں گے نا‬
‫!!! مسٹر ارزم زاویار مجھے ولیمے سے تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن ولیمے کے بعد جو ذمہ داریاں آپ کی امی اور آپ مجھ پر‬
‫ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ میں نہیں کر سکتی چاہے مجھے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ ہو ڈیر وائیفی !! ایسا‬
‫کچھ نہیں ہے میں خود بھی نہیں چاہوں گا کہ تمہیں میں گھر کے کاموں میں لگوا دوں بلکہ اپ تو پیدا ہی ارزم زاویار کے سر پر‬
‫راج کرنے کے لیے ہوئی ہیں۔۔۔۔ میرے خیال سے ہم دونوں کو یہاں سے چلنا چاہیے کیا خیال ہے حریم اشعر کہ یہ کہنے پر حریم‬
‫مسکرائی اور کہتی چلو اؤ چلیں‪ ،‬اشعر کھڑا ہوتا بوال بھائی ایک بات پوچھنی تھی ؟ وہ نہایت معصومانہ انداز میں بوال کہ ارزم‬
‫بوال ہاں بولو۔ بھائی شادی میں میں االؤڈ ہوں ؟ یعنی کہ میں شادی پہ ا سکتا ہوں؟ کیونکہ نکاح پر تو اپ نے بالیا نہیں !! میں‬
‫نے تو نہیں کہا کہ پاگل نہیں ا سکتے ارزم ایک ہی دفعہ ایک سانس میں بوال تو اگے سے نورے بولی او ہو ارزم کیا ہو گیا ہے ؟‬
‫ہاں تم اؤ گے کیوں نہیں اؤ گے ‪ ،‬بھال تمہارے بغیر ہمارا ولیمہ ہوگا ۔ ارزم بوال میرے خیال سے ہم دونوں کے بغیر ولیمہ نہیں ہو‬
‫گا اس کے بغیر ہو ہی جائے گا ارزم اشعر کو تنگ کرتا بوال تو اگے سے اشعر بوال بھابھی دیکھ رہی ہیں اپ ؟ ہاں ہاں میں دیکھ‬
‫رہی ہوں اچھی خبر لوں گی تم جاؤ ۔۔۔۔ ہاں بھابی ذرا کھینچ کے خبر لینا ۔ ادھر آ تجھے میں بتاؤں ذرا !!! ارزم کے یہ کہنے پر‬
‫اشعر فورا کمرے سے بھاگتا ہوا باہر چال گیا اور ہنس رہا تھا اور حریم بھی اس کے پیچھے مسکراتے ہوئے چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫بیگم آپ ایک بات اپ جانتی ہو ؟ کیا ؟ مجھ سے ناراض نہ ہوا کرو مجھے اچھا نہیں لگتا !!! نورے مسکرائی تو وہ بوال‬
‫تمہارے بعد محبت کرنا چھوڑ دی‬
‫تم میری اخری محبت ہو‬
‫عشق کی انتہا تم پر مکمل کر دی‬
‫جانے جانے میری زندگی تمہارے نام کر دی‬
‫اوی مایی گاڈ !!! نورے مسکراتے ہوئے بولی بس کرتے ہیں شاعر صاحب ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اگلی صبح کا وقت ہو چکا تھا اب ارزم اور نورے ولیمے کا ڈریس لے کر واپس ا چکے تھے ۔۔۔۔۔۔ اشعر اپنے بھائی بھابھی کے‬
‫کمرے میں ائے اور بوال بھائی میرے کپڑے کہاں ہیں ؟ تم نے کیا کرنا ہے کپڑے پہن کر تمہارے پاس ہیں کپڑے ان میں سے‬
‫کوئی پہن لینا ہے وہ موبائل میں دھیان رکھتا بوال۔۔۔ ہے !!! کیا مطلب ؟ مانا میرا بھائی اتنا پرانا ہے لیکن اپنے بھائی کی شادی پہ‬
‫میں اپنے پرانے کپڑے کیوں پہنوں گا بھال ایسا نہیں ہو سکتا بھائی اپ مجھے نیا لے کے دیں گے۔۔۔۔۔۔ ارزم نے اس کی جانب‬
‫دیکھا اور بوال تیری زبان بہت چلنا شروع ہو گئی ہے جو سیٹ کرنا پڑے گا۔۔۔۔ بھائی دیکھیں بعد میں سیٹ کر لینا دیکھیں پہلے‬
‫ولیمہ سکون سے گزار لیں میں نہیں جاتا اپ کا موڈ خراب ہو۔۔۔۔‬
‫ویسے تو میں اشعر بہت جلدی کور اپ کرنا اتا ہے۔۔۔۔ نورے کے یہ کہنے پر اس کو اپنے ریکس کی بات یاد ائے گی جو اس کو‬
‫وہ کہا کرتا تھا کہ تم میری مکھن کی پوریا ہو میرے شوگر پیکٹ ہو اور بہت میٹھے ناموں سے جب اس کو بالیا کرتا تھا۔۔۔۔ اشعر‬
‫یوں خاموش کو سوچتا دیکھ کر ارزم بوال کیا ہوا ہے ؟ اس کی انکھیں نم تھی اس نے اپنے انسو صاف کیے اور بوال کچھ نہیں‬
‫بھائی !! وہ یہ کہتا کمرے سے باہر چال گیا۔۔۔۔۔ نورے ارزم کے پاس ائی بیٹھی اور بولی۔۔۔۔ میرے پاس ایک پالن ہے !! ارزم نے‬
‫فون بند کر کے سائیڈ پر رکھا اور بوال کیسا پالن ؟؟؟پالن یہ ہے کہ میں حریم کو لے کر شاپنگ مال جاتی ہوں اور اس کو اچھا سا‬
‫ایک ڈریس لے کے دیتی ہوں اور اپ اشر کو لے کر جائیں اور اس کو بھی ایک ڈریس لے کر دیں ایسا کرتے ہیں جس طرح ہم‬
‫لوگ کلر کمبینیشن کر رہے ہیں ٹریننگ کر کے کپڑے پہن رہے ہیں اسی طرح ان کی بھی ٹریننگ کرواتے ہیں اور ان کو ہم‬
‫اسمانی رنگ کے کپڑے پہنائیں گے۔۔۔۔۔۔۔ تم یہ سب چاہتی ہو ؟ جی ۔۔۔۔ تو چلو پھر بیگم کی خوشی میں ہم خوش میں اپ کو حریم‬
‫کی طرف ڈراپ کرتا ہوں اور اشعر کو میں اگے لے جاؤں گا مال میں ۔ اوکے ۔۔۔۔۔‬
‫نورے اب حریم کو لے کر دوسرے شاپنگ مال جا چکی تھی اور وہاں سے اس کو ایک اسمانی رنگ کا سوٹ پسند کروا چکی‬
‫تھی۔۔۔۔۔اور ارزم نے بھی اپنا کام بخوبی انجام دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اگلی صبح جس دن ولیمہ تھا کاٹ تو ویسے بھی ارزم نے دو ماہ پہلے ہی سب میں بانٹ دیے تھے لیکن مشکالت حاالت کی وجہ‬
‫سے اس کو یہی تھا کہ شاید ولیمہ نہ ہو پائی لیکن جو ہللا چاہے اسے کون ٹالے ؟‬
‫بے تحاشہ سجی سوری دلہن جس نے حجاب کر کے خود پر دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا اور ایک بے بی پنک کلر کا ڈریس پہنا ہوا تھا‬
‫اور اس کے فراک کا گھیرا بے تحاشہ بڑا تھا‪ ،‬اس کے فراک کا گھیرا اتنا بڑا تھا کہ وہ اسانی سے چھ سے سات لوگوں کی جگہ‬
‫گھیر رہا تھا اور وہ جہاں کھڑی ہو رہی تھی جہاں جہاں سے گزر رہی تھی ایک دفعہ تو لوگ مڑ کے دیکھ رہے تھے کہ یہ کون‬
‫سی شہزادی جا رہی ہے ؟ لیکن کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ ارزم کی ریاست کی شہزادی جا رہی ہے۔۔۔ اس سجی دلہن کے ساتھ‬
‫ایک خوبصورت سی گڑیا جس نے اسمانی رنگ کا سوٹ پہنا تھا اور اس نے بھی حجاب کیا تھا وہ بھی بے تحاشا قدر و قیمت کی‬
‫لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں بھائی جو کہ سٹیج پر بیٹھے تھے جن میں سے ارزم زاویار نے بے بی اپ پنک کلر کا پینٹ کوٹ‬
‫پہنا تھا جس میں وہ بہت بے تحاشہ خوبصورت لگا تھا اور اس کے ساتھ ایک گڈا بیٹھا تھا جو کہ اپنا پیارا اشعر مراد تھا جس نے‬
‫اسمانی رنگ کا پینٹ کوٹ پہنا تھا اور وہ دونوں بھائی سٹیج پہ بیٹھے بے تحاشہ جج رہے تھے ان دونوں بھائیوں سے جوڑی‬
‫کبھی کسی کی تھی ہی نہیں جیسے اور اگر وہاں پر اس کا ریکس ہوتا تو وہ تو اس کی نظر اتار تار کے نہ تھکتا۔۔۔۔۔۔ ان دونوں‬
‫کی ماں ان کے ساتھ سٹیج پر لگی کرسی پر بیٹھی تھی اور اپنے بیٹوں کے واری صدقے جا رہی تھی‪ ،‬کینیڈا سے ائی ہوئی پھوپو‬
‫اور ان کی بیٹی سائیڈ پر ایک میز پر بیٹھے جل رہے تھے جب کہ شارک کی فیملی امریکہ جا چکی تھی اور ان کے کچھ بچے‬
‫کچھ رشتہ دار ہی شادی پر ائے تھے۔۔۔۔۔ لیکن ان کو کسی کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہ تھا کیونکہ وہ اپنی خوشی‬
‫انجوائے کرنا چاہتے تھے بس۔۔۔۔۔۔۔ ان کی ماں اٹھ کر ان کے سر سے پیسے وار رہی تھی جو بھی سعودی ہال میں انٹر ہو رہا تھا‬
‫دیکھ کر ایک دفعہ تعریف تو ضرور کر رہا تھا ۔۔ تھوڑی ہی دیر میں دو شہزادیاں شادی ہال میں داخل ہوئی اور وہ دونوں شہزادے‬
‫اپنی اپنی نشستوں سے اٹھے اور ارزم تو اپنی بیگم کو دیکھتا رہ گیا وہ ایک ریاست کی شہزادی تھی وہ بھی ارزم کی ریاست کی‪،‬‬
‫بوڑھی انکھیں اور کالی انکھیں تھوڑے فاصلے سے ایک دوسرے سے ملی تھی لیکن بہت دیر کے لیے ملی تھی ۔۔۔۔ وہ چلتی‬
‫چلتی ا رہی تھی اور نظریں لیکن اس کی انکھوں میں ہی تھی کالی انکھوں میں جیسے ارزم کی بھوری انکھیں تہ رہی تھی جیسے‬
‫کسی کالی رات میں کشتی پر سوار سواری سوچ رہا ہوتا ہے کہ اب وہ کیا مرنے واال ہے یا جینے واال ہے‪ ،‬وہ آگے پیچھے کسی‬
‫کو نہیں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔ اور اشعر صاحب تو صرف اور صرف حریم کو دیکھ رہے تھے اور وہ دونوں ایک دوسرے کو‬
‫دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ ان دونوں نے ٹیوننگ کی اور وہ تو ویسے بھی سنہری انکھوں واال اپنے دل کا بادشاہ تھا وہ اپنے‬
‫دل کی ہونے والی رانی کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں بھائی اور وہ دونوں دوست ہیں جیسے دنیا بھول بیٹھے تھے اتنے عرصے‬
‫بعد ان کے گھر میں خوشی ائی تھی خاص طور پہ نورے کی زندگی میں۔۔۔۔۔ اور ارزم زاویار ہی تو نورے جنت کی ہمیشہ سے‬
‫خوشی تھا ۔۔۔۔ لیکن کبھی شاید اس کو بتانے کی ہمت نہ ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ارزم اور نورے جنت ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ‬
‫نورے کا فراک اس کی ہیل میں اٹکا اور اس کو ٹھوکر لگنے لگی لیکن فورا سے ارزم سٹیج سے اتر کر اس کی جانب گیا اور اس‬
‫کو تھام لیا اور اس کا لہنگا تھوڑا سا قدموں سے اٹھا کر اس کے ساتھ ساتھ چلتا اس کو سٹیج پر لے ایا لیکن اشعر تو ابھی بھی‬
‫حریم کو دیکھ رہا ‪ ،‬لیکن وہ صاف ذہنیت اور پاکیزہ نظروں کا مالک تھا۔۔۔۔۔۔۔ نورے کو تھام کر اس نے سٹیج پر بٹھایا اور تھوڑی‬
‫دیر بعد انہوں نے کھانا وغیرہ کھایا ۔۔۔۔۔۔ کھانا وغیرہ کھانے کے بعد ابھی لوگ جانے کا سوچ ہی رہے تھے ارزم فورا کھڑا ہوا‬
‫اور بوال میں ایک اعالن کرنا چاہتا ہوں سب میری طرف متوجہ ہوں ارزم نے اپنی امی کو اشارہ کیا کہ میں اعالن کر دوں جو‬
‫میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے اپ کو بات کہی تھی۔۔۔۔۔ ہاں کر دو اس کی ماں بولی تو وہ بوال تو میں اس خوشی کے موقع پر‬
‫حریم دلنواز اور اشعر مراد کی منگنی کا اعالن کرتا ہوں ان دونوں نے اس بات پر ارزم کی جانب دیکھا اور وہ دونوں فورا ہکے‬
‫بکے رہ چکے تھے۔۔۔۔ وہ اپنی چاچی سے متوجہ ہوا اور بوال کہ چاچی اپ راضی ہیں میرے نکمے میں بھائی کو اپنا داماد بنانے‬
‫کے لیے؟؟؟ ارزم زاویار میری بیٹی کے ہونے والے شوہر کو یوں نکمہ نہ بولو وہ ہستی ہوئی بولی تو ارزم نے اشعر کو کھڑا‬
‫کیا اور نورے نے حریم کو ۔۔۔ نورے نے ان دونوں کو انگوٹھیاں پکڑائیں اور اشعر تو ویسے بھی ایک اچھا انسان تھا اس نے‬
‫حریم کے ہاتھ اگے کرنے پر اس کو انگوٹھی یوں بنائیں کہ اشعر کی انگلی بھی حریم کی انگلی سے نہ ٹچ ہوئی تھی ‪ ،‬نہایت‬
‫احتیاط سے پہنائی تھی کیونکہ اشعر کے نزدیک نکاح پہلے اہم تھا انگوٹھی اس نے پہنا دی تھی خوشی خوشی لیکن ایک دائرہ‬
‫کار میں رہتے ہوئے۔۔۔۔ حریم اس نے بھی اشعر کے ہاتھ اگے کرنے پر بڑے اطمینان اور اچھے طریقے سے اس کو انگوٹھی‬
‫بنائی کہ اس کی بھی انگلی اشعر کی انگلی سے ٹچ نہ ہوئی تھی اور جب انہوں نے انگوٹھیاں پہنا لی تو سارا ہال تالیوں سے گونج‬
‫اٹھا ۔۔۔ وہ دونوں اشعر اور حریم شرما کر زمین کی جانب دیکھ رہے تھے ‪ ،‬کاش اس وقت اس کا ریکس ہوتا تو نہ جانے وہ کیسی‬
‫کیسی خوشی مناتا یہ سوچ اس کے ذہن میں ائی تھی لیکن ایک شادی کا موقع وہ خراب نہیں کرنا چاہتا تھا کبھی کبھار مجبوریاں‬
‫انسان کو خاموش کروا دیتی ہیں اور وہ بھی کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔ اشعر کو ارزم نے اپنے گلے لگایا اور حریم کو اس جی سے بھی دلہن‬
‫نے اپنے گلے لگایا ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد موقع پا کر وہ دونوں اکیلے ایک ٹیبل پر بیٹھے ملے ایک دوسرے کو ۔۔۔ حریم یو نو واٹ ؟‬
‫تم بہت پیاری لگ رہی ہو ماشاءہللا ! ہاں میں جانتی ہوں وہ مسکراتے ہوئے بولی لیکن اچانک اس کو یاد ایا اور وہ دوبارہ بولی تم‬
‫یہ بتاؤ تمہیں کیا ہوا تھا تمہیں اچانک سے سٹیج پر اتنی دکھی کیوں ہو گئے تھے ؟ مجھے شارق بھائی کی یاد ا رہی تھی! اوہ اچھا‬
‫!! دیکھو دکھ انسان کو خودکش حملہ اور بناتا ہے حریم کے یہ کہنے پر اشعر بولو ہاں میں جانتا ہوں ہر بات ہی ہر کسی کو بری‬
‫لگتی ہے اگر میں سٹیج پر تھوڑی دیر مزید منہ بنا کھڑا رہتا تو سب نے کہنا تھا کہ پتہ نہیں کیوں ایسے کھڑا ہے یہ وغیرہ وغیرہ‬
‫لوگوں نے باتیں بنانی تھی ۔۔۔۔ اشعر مراد کب سے لوگوں کی باتوں کی فکر کرنے لگا ۔۔۔ جب سے اس کا ریکس اس دنیا سے‬
‫گیا۔۔۔۔ اشعر کہ لیے یہ کہنا بہت مشکل تھا لیکن وہ کہہ چکا تھا اور بوال حریم تم جانتی ہو کبھی کبھی سب چیزوں سے زیادہ‬
‫ضروری اپ کا ذہنی سکون اور کل بھی سکون ہوتا ہے ذہنی سکون نہ ہو تو معنی کس چیز ہے بے معنی اور اگر کل بھی سکون‬
‫نہ ہو تو پسندیدہ چیز بھی غیر پسندیدہ چیز میں شامل ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم میری طرف پوائنٹ اف ویو کو رکھ رہے ہو ؟ نہیں‬
‫یار ‪ ،‬ابھی تو تم میری کزن ہو اس لیے بس کہہ رہا ہوں کیونکہ میں اس وقت یہ بات کسی سے نہیں کر سکتا تھا اس لیے تم سے‬
‫کر رہا ہوں تم جانتی ہو میرے دل میں جو ہوتا ہے وہی زبان پڑا ہی جاتا ہے ۔۔۔۔ اشعر جانتے ہو میں اتنا خوش کیوں رہتی ہوں‬
‫کیونکہ میں کسی سے امید نہیں لگاتی کیونکہ میں یقین ہللا پہ رکھتی ہوں ہر چیز کے بارے میں اور ویسے بھی انشاءہللا ہللا تعالی‬
‫تمہارے رقس کو تمہاری بدولت یعنی کہ تمہاری دعا کی بدولت جنت دے دے گا انشاءہللا ۔۔۔۔ ہاں لیکن تم پھر بھی مجھے تنگ نہ‬
‫کرو جاؤ میں تنگ ہو رہا ہوں!! ہاں میں جانتی ہوں چھوٹے بچے ۔۔۔ یار حریم تانگ نہ کرو حریم کا یوں اس کو تنگ کر کے کہنا‬
‫اس کو برا تو نہیں لیکن عجیب لگا تم جانتی ہو جب کوئی انسان دکھ میں ہو تو کبھی بھی اس کو نصیحت نہ کرو بلکہ خاموشی‬
‫سے اس کی سنو کیونکہ اس وقت اس کو نصیحت کرنے واال اور نصیحت بہت بری لگ رہی ہوتی ہے وہ اس کنڈیشن میں نہیں‬
‫ہوتا ہے ۔۔۔ لیکن وہ بولی میں تو نہیں بس کروں گی چھوٹے بچے غالب مکھن کے پیکٹ بہت زیادہ مار کھانے والے بلشن‬
‫لگانے والے اور اب وہ دونوں ہنس رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔اب سب لوگ آہستہ آہستہ اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔‬
‫شادی سے تھک کر نورے فورا گھر ا کر جان نماز بچھا کر عشاء کی نماز پڑھنے لگی پیچھے سے دروازہ کھول کر ارزم داخل‬
‫ہوا اور اس کو جو نماز پڑھتا دیکھ کر اس کو بہت سکون مال ۔۔۔۔ ارزم بھی اس کے ساتھ نماز پڑھنے لگا اپنی جان نماز بچھا کر‬
‫دونوں نے نماز پڑھنے کے بعد شکرانے کے نوافل ادا کیے اور جان نماز پر بیٹھے ہی ہللا کا شکر ادا کر کے ایک دوسرے کی‬
‫جانب دیکھنے لگے نورے کا فراک پوری جان نماز پہ بے تحاشہ خوبصورت طریقے سے پھیال ہوا تھا ارزم اس کی انکھوں میں‬
‫دیکھ رہا تھا کیا اچانک سے نورے بولی کیسی لگ رہی ہوں میں ؟ پتہ نہیں ! ارزم کہ جی کہنے پر وہ بولی کیا مطلب پتہ نہیں اس‬
‫کے چہرے کے تاثرات تھوڑے بدلے تو اگے سے ارزم بوال سویٹ ہارٹ میں نے تمہیں کب دیکھا ہے تمہاری انکھیں ہی اتنی‬
‫پیاری لگ رہی ہیں کہ میں کب کا ان کو ہی دیکھی جا رہا ہوں!!!! نورے مسکرائی اور شرما کر نیچے دیکھنے لگی وہ بیڈ کے‬
‫ساتھ جانماز بچھا کر نماز پڑھ رہے تھے تو ارزم نے نورے سے کہا تمہارے لیے میں ایک تحفہ الیا ہوں !! اچھا ! ہاں ‪ ...‬تو اب‬
‫دینے کا ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں ؟ وہ مسکرا کر بولی تو وہ بوال کیوں نہیں ۔۔۔۔ ارزم نے بیڈ پر پڑا گفٹ اپنے ہاتھ میں لیا اور‬
‫نورے کے ہاتھ میں تھما دیا ۔۔۔۔ یہ کیا ہے ؟ پہلی دفعہ دیکھنے پر اس کو سمجھ نہ لگی تو وہ پوچھنے لگی۔۔۔ دکھاؤ ذرا! ارزم نے‬
‫اس کے ہاتھ سے پکڑ کر اس کو کھوال اور اس کے سر پر دے دیا وہ ایک خوبصورت حجاب تھا جو کہ کالے رنگ پر مبنی تھا‬
‫اور اس کے سائیڈ پر چھوٹے چھوٹے ہیرے لگے تھے‪ ،‬چھوٹا اور باریک نفاست زدہ سونے کی تار کا کام تھا اور کونو کونو پر‬
‫موتی لگے ہوئے تھے اور نورے اس میں کسی جنت کی حور سے کم نہیں لگ رہی تھی وہ اس کو دیکھتا رہ گیا تھا اور نورے‬
‫اس کے دیے گئے تحفے کو ۔۔۔ نورے کی انکھ میں انسو ائے اور وہ بولے تمہیں پتہ ہے تم نے میری بہت مدد کی ہے؟ تمہاری‬
‫مدد میں نے نہیں بلکہ ہللا نے کی ہے ۔۔۔۔ اور ہاں اگر میں نے ہللا کے بعد تمہاری مدد کی بھی ہے تو مجھے صلہ بھی تو مل گیا‬
‫ہے۔ نورے نے اس کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔کیا ؟ ۔ ارزم نورے کی جانب دیکھتا بوال"تم" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫‪Novel name : Rah -e- kamil‬‬

‫‪Writer name : Zumar Shahbaz‬‬

‫‪Age‬‬ ‫‪:‬‬ ‫‪16‬‬

‫‪Instagram‬‬

‫‪I’d name‬‬ ‫‪:‬‬ ‫‪@zumarshahbazofficial_1‬‬

You might also like