You are on page 1of 38

‫‪1‬‬

‫﷽‬
‫ابتدائیہ ‪ /‬پس منظر‬
‫اسالم علیکم قارعین ' بڑے عرصے سے یہ خواہش دامنگیر تھی کہ کہوٹہ میں‬
‫بسنے والے عباسیوں کا شجرہ حاصل کروں کیونکہ بہت کم لوگوں کو اپنے‬
‫بارے میں صرف پردادا تک ہی معلومات تھیں‪ ،‬شجرہ ایک ضروری اور البدی چیز‬
‫ہے‪ ،‬جسکو خاندان کا ہر ایک فرد و بشر پیرو جواں اور بچوں تک جاننا ضروری‬
‫ہے‪ ،‬اس خاکسار کو بھی یہی شوق پیدا ہوا‪ ،‬جبکہ انٹرنیٹ پرتالش کریں تو اسامہ‬
‫علی عباسی کا تحریر کردہ شجرہ ملتا تھا جس میں صرف گالب خان کی اوالد‬
‫کوتفصیلی شجرہ سے ظاہر کیا گیا تھا۔ جبکہ اسامہ علی کی تحقیق اور ہماری سینہ بہ‬
‫سینہ معلومات اور قلمی شجرہ جات کے مطابق کہوٹہ میں حسن خان المعروف جس‬
‫خان کے بیٹے اور ڈھونڈ خان کے چار پوتوں کی اوالد ۤا باد تھی۔ جس کا کوئی‬
‫تفصیلی شجرہ موجود نہیں تھا۔‬
‫ریاض الرحمان ساغر صاحب کی ایک کتاب میں ہمارا شجرہ کا ذکر میری نظر سے‬
‫گزرا تو اس میں‪ ،‬میں نے اپنے خاندان کی بہت سی غلطیاں دیکھیں ‪،‬اس میں کوئی‬
‫شک نہیں کہ ساغر صاحب نے ملت عباسیہ کیلیے گراںقدر خدمات سر انجام دیں ہیں‬
‫مگر ہمارے عالقے کی انکو واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام ان سے ادھورا رہ‬
‫گیا ۔ اس وجہ سے اس قبیلہ کا نسب نامہ تیار کرنے اور دوسرے مصنفین سے رہ‬
‫جانے والی چیزیں اور شجرہ کی تاریخ کو صیحیح سمت پر ڈالنے کے لیے ہماری‬
‫کاوش کی بنیاد بنی ہے۔ ساغر صاحب چونکہ غیر مقامی ہونے کی وجہ سے کچھ‬
‫ایسے خاندان انکے شجرہ میں شامل ہو گے تھے جن کا ہمارے ساتھ کوئی نسبتی تعلق‬
‫نہیں تھا۔ دوسرا ہماری قوم کے جواں سالہ طالب علم اور تحقیق کار اسامہ عباسی‬
‫جن کا تعلق مری سے ہے ان کی تحقیقی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ‪،‬‬
‫چونکہ انکا تعلق بھی مری سے ہے‪ ،‬انکو بھی ہمارے عالقے سے واقفیت نہ ہونے‬
‫کی بنا پر یہ خدشہ دامنگیر ہوا کی پھر ہمارے درمیان ایسی فیملیاں شامل نہ ہو جائیں‬
‫جنکا ہمارے ساتھ نسبتی تعلق نہ ہو ‪،‬بس اسی وجہ سے میں نے تالش شروع کی تو‬
‫پتا چال کہ موضع سلیٹھہ کے بزرگ حاجی محمد تبارک عباسی صاحب عرصہ ۤا ٹھ‬
‫سال سے کہوٹہ کے شجرہ پرکام کر رہے ہیں ۔ میرے شوق و جذبہ کو دیکھ کر انھوں‬
‫نے ٓاٹھ سالہ ریکارڈ جو بٰڑ ی محنت اور جانفشانی سے عالقہ کی اہل علم اور زیادہ تر‬
‫اساتذہ کرام کی مددسے قلمی شجرہ تیار کیا تھا ‪ ،‬میرے حوالے کیا ‪ ،‬حاجی تبارک‬
‫صاحب اورانکی ٹیم سے رہ جانے والے نام جو کہ کولیکشن میں مشکالت تھیں تو‬
‫انکو موضع کھوئیاں سے تعلق رکھنے والے بزرگ اور تاریخ کا علم رکھنے والے‬
‫ماسٹر اسالم عباسی صاحب کی کاوش سےاور برگیڈیر سرور عباسی صاحب کی زیر‬
‫سرپرتی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ جس میں ہر قبیلے میں سے اہل علم افراد کی‬
‫ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ اپنے اپنے قبیلے کا شجرہ تیار کر کے دیں۔ اس طریقہ کار‬
‫‪2‬‬
‫کے مطابق کہوٹہ اور پلندری میں ٓاباد عباسی برادری کا شجرہ محکمہ مال کے‬
‫ریکارڈ ‪ ،‬قلمی شجروں اور سینہ بہ سینہ معلومات کی مدد سے تیار گیا گیا ‪ ،‬جن‬
‫قبیلہ جات کا ریکارڈ نہیں مل سکا وہ زیر تحقیق ہیں اور ان کو فی الحال شجرہ میں‬
‫شامل نہیں کیا گیا ‪ ،‬اہل عالقہ کے کے جن معززین کی ڈیوتی لگائی گئی انھوں نے‬
‫نہائیت جانفشانی اور لگن سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور کام کافی حد تک‬
‫مکمل ہو چکا ہے ۔ میرے ذمہ چونکی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ تمام شجرہ کو اکھٹا‬
‫کرنا اس کو ترتیب دینا‪ ،‬کنمپیوٹرائیز کرنا اور اس کو کتابی شکل دینا تھا جو کہ ابھی‬
‫مکمل ہو چکا ہے ۔ اس کار خیر میں جن لوگوں نے حصہ لیا ان کے نام کتاب کے‬
‫شروع میں درج ہونگے۔ ہر قبیلے کا فرد اس شجرہ کمیٹی کا ممبر لیا گیا اگر کوئ‬
‫‪ ،‬ٹائیپنگ یا کمیٹی کے ارکان سے کوئی نام رہ گیا ہو تو اس میں شامل ھو جائے گا‬

‫نوٹ‪ ،،،‬اس شجرہ کو کوئی قانونی حثیت نہیں اور نہ ہی اس کو بنیاد بنا کر کسی‬
‫فورم پر کوئی شخص کسی قسم کا کلیم کر سکتا ہے ‪ ،‬یہ ہماری نسل کا ذاتی ریکارڈ‬
‫ہے اور اس میں شمار تمام قبیلہ جات ہماری نسل سے ہیں جو کی ہم نے بڑی چھان‬
‫‪ ،‬بین کے بعد تحریر کیے ہیں‬
‫جن قبیلوں کی پشتیں کم ہیں انکی تحقیق جاری ہےکہوٹہ میں بسنے والے عباسی روز‬
‫اول سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور تمام گاٰ وں کے لوگ ایک‬
‫دوسرے کو جانتے ہیں اور اس ٰم یں کوئی شعبہ نہیں کہ کوئی غیر فیملی اس میں شامل‬
‫ہوئی ہو۔‬

‫صوبیدار (ر) عبدالعزیز عباسی‬


‫‪3‬‬
‫مختصر تعارف‬
‫* تاریخ خاندان عباسیہ شمالی پاکستان (مری‪ ،‬ہزارہ و کشمیر) *‬
‫شمالی پاکستان میں آباد خاندان عباسیہ کا ایک )ڈھونڈ عباسی (‪ Dhúnd Abbasi ) :‬ڈھونڈ عباسی )‬
‫ذیلی قبیلہ ہے۔ عباسی خاندان کے جدامجد حضور اکرم صلی ہللا تعالی علیہ وآلہ وسلم کے چچا‬
‫سیدنا عباس ابن عبدالمطلب رضي هللا تعالي عنه ہیں اور آپکی اوالد کو "عباسی" کہا جاتا ہے۔ اسی‬
‫خاندان عباسیہ نے عالم اسالم کی عظیم الشان سلطنت خالفت عباسیہ کی بنیاد رکھی جو ‪748‬ء سے‬
‫‪1258‬ء تک قریبا ‪ 510‬سال تک قائم رہی جسکی حدود سندھ‪ ،‬پاکستان سے لیکر بشمول عرب‬
‫ممالک‪ ،‬براعظم افریقہ کے آخری ملک مراکش تک پھیلی ہوئی تھی۔ عباسی خاندان نے قریبا ‪510‬‬
‫سال تک بغداد‪ ،‬عراق سے دنیا کے ایک وسیع و عریض رقبے پر خالفت کی ہے اور اس دور‬
‫خالفت کو عالم اسالم کا سنہری دور خالفت کہا جاتا ہے۔ شمالی پاکستان میں آباد خاندان عباسیہ کا‬
‫ڈھونڈ عباسی قبیلہ بنیادی طور پر ضلع ایبٹ آباد اور تحصیل مری‪ ،‬اور اسکے ساتھ ساتھ تحصیل‬
‫کہوٹہ اور صوبہ پنجاب کے ضلع راولپنڈی میں آباد ہیں۔ یہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے ہزارہ‬
‫ڈویژن کے ضلع ہری پور اور مانسہرہ میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ایبٹ آباد اور مری کے عالوہ آزاد‬
‫کشمیر کے ضلع باغ اور ضلع مظفرآباد میں ڈھونڈ عباسیوں کی بڑی آبادی آباد ہے۔ یہ قبیلہ‬
‫پہاڑی‪-‬پوٹھواری کی ڈھونڈی‪-‬کڑاللی پہاڑی بولی بولتا ہے لفظ "ڈھونڈ" ایک اعزازی نام تھا جو ان‬
‫کے آباؤ اجداد میں سے ایک کو دیا گیا تھا۔‬

‫ان کے آباؤ اجداد غیاث الدین ضراب شاہ جنہیں سردار ضراب خان عباسی (‪998‬ء ‪-‬‬
‫‪ 1070‬ء) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے‪ ،‬غزنی سلطنت کے سلطان محمود غزنوی کے دور میں‬
‫ہرات‪ ،‬غزنی افغانستان میں مسلح افواج کے گورنر جنرل اور کمانڈر تھے۔ وہ ‪1020‬ء میں محمود‬
‫غزنوی کے ساتھ عباسی خلیفہ القادر باہلل (‪990‬ء سے ‪1031‬ء) کے دور خالفت میں اپنی جنگی‬
‫مہم میں برصغیر آیا اور ریاست کشمیر پر حملہ کیا۔ جب ضراب خان اپنی فوج کے ساتھ کشمیر‬
‫پہنچا تو کشمیر کا بادشاہ ساالنہ جزیہ ادا کرنے پر راضی ہوا اور اپنی بیٹی کی شادی بھی عباسی‬
‫آرمی چیف سردار ضراب خان عباسی سے کر دی۔ اس نے کشمیر کے بادشاہ سے بڑی دولت اور‬
‫زمینیں حاصل کیں اور عباسی خاندان کے سفیر کے طور پر ریاست کشمیر میں ہی آباد ہو گئے۔‬
‫ان کی قبر ضلع راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ کے گاؤں درانکوٹ میں ہے۔ سردار ضراب خان‪،‬‬
‫طائف شاہ کا بیٹا تھا جو ‪ 974‬سے ‪ 991‬عیسوی تک حکومت کرنے والے عباسی خلیفہ الطائع لی‬
‫امر ہللا کے دور میں خراسان میں ایک عباسی کمانڈر تھا۔ بعد میں اس نے خراسان میں سبگتیگین‬
‫(محمود غزنوی کے والد) کے لشکر میں شمولیت اختیار کی۔‬

‫غیاث الدین ضراب شاہ المعروف سردار ضراب خان عباسی کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام غئی‬
‫محمد اکبر تھا جسے سردار اکبر غئی خان عباسی بھی کہا جاتا ہے جس کی قبر بھی درانکوٹ‪،‬‬
‫کہوٹہ میں ان کے والد کی قبر کے ساتھ ہے۔ سردار اکبر غئی خان عباسی کے پانچ بیٹے تھے جن‬
‫‪،‬کے نام کنور خان (کہوندر خان)‪ ،‬سردار خان (سراڑہ خان)‪ ،‬سالم خان‬
‫‪4‬‬
‫ثناء ولی خان (تناولی خان) اور مولم خان تھے جن سے ان کی نسل پھیلتی ہے۔‬
‫وہ ڈھونڈ عباسی‪ ،‬جسکم عباسی‪ ،‬گہیال عباسی‪ ،‬سراڑہ عباسی اور تنولی عباسی قبائل کے جد امجد‬
‫تھے۔ کنور خان المعروف کہوندر خان کے تین بیٹے تھے جن کا نام فرادم خان‪ ،‬بہادر خان اور کالو‬
‫خان (کالو رائے خان) تھا۔ فرادم خان جنکی اوالد راجوری‪ ،‬ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں آباد تھی‬
‫اور بہادر خان جس کی نسل کثیر‪ ،‬ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں پھیلی ہوئی تھی۔ کالو خان (‬
‫‪1083‬ء تا ‪1150‬ء) مقبوضہ جموں کشمیر کے عالقے سے جھلہاڑی‪ ،‬پلندری پونچھ ‪ ،‬اب‬
‫آزاد کشمیر چال گیا‪ ،‬اس نے کشمیری بادشاہ راجہ رستم رائے کی بیٹی سے شادی کی اور اس کا‬
‫جانشین بنا۔ اسے "رائے" کا خطاب مال تو کالو خان کا نام کالو رائے خان ہو گیا۔ دوسرا حوالہ کہتا‬
‫ہے کہ اس نے کشمیر کے راجہ دھنی رائے کی بیٹی سے شادی کی۔ مری‪ ،‬ہزارہ اور آزاد کشمیر‬
‫کے ڈھونڈ عباسی‪ ،‬جسکم عباسی اور گیہال عباسی قبائل اپنے خاندان کی جڑیں کالو رائے خان‬
‫(کالو خان) سے واپس کرتے ہیں۔ کالو خان کے بیٹے کا نام قدرت ہللا خان المعروف قوند خان تھا‬
‫اور قدرت ہللا خان کا بیٹا نیک محمد خان المعروف نکودر خان ہوا اور نیک محمد خان کا دلیل‬
‫محمد خان تھا اور دلیل محمد خان کا راسب خان تھا۔ راسب خان کے دو بیٹے تھے جن کے نام شاہ‬
‫ولی خان عباسی المعروف ڈھونڈ خان اور باغ ولی خان عباسی المعروف بھاگ خان تھے۔ مری‪،‬‬
‫ہزارہ ڈویژن اور آزاد کشمیر کے ڈھونڈ عباسی اپنی جڑیں شاہ ولی خان عباسی (ڈھونڈ خان) سے‬
‫واپس کرتے ہیں جب کہ آزاد کشمیر اور کہوٹہ کے گیہال اور جسکم عباسی اپنی جڑیں باغ ولی‬
‫خان عباسی (بھاگ خان) سے واپس کرتے ہیں۔ یہ واقعہ ‪ 1836‬عیسوی میں فارسی میں لکھی‬
‫جانے والی مشہور تاریخ کی کتاب ضراب خان عباسی کے خاندانی شجرہ کے ساتھ مراۃ السالطین‬
‫جلد اول میں درج ہے۔ نیز خاندانی شجرہ نسب کے ساتھ ڈھونڈ عباسیوں کی مکمل تاریخ‬
‫انساب ظفرآباد جونپور اعظم گڑھ ہند سن اشاعت ‪1800‬ء اور عباسیان ہند ‪1819‬ء میں‬
‫مفتی نجم الدین ثمرقندی کی تحریر کردہ میں بیان ہیں۔ نیز بہت سے تاریخی حوالہ جات ڈھونڈ‬

‫عباسیوں کے بارے میں ‪16‬ویں اور ‪17‬ویں صدی میں لکھی گئی کشمیر کی تاریخ کی پرانی‬
‫کتابوں میں لکھے گئے ہیں۔‬
‫لفظ "ڈھونڈ" ایک اعزازی نام تھا جو ان کے جد امجد حضرت شاہ ولی خان عباسی (ء‪- 1192‬‬
‫‪1258‬ء) کو دیا گیا تھا‪ ،‬جسے ان کے روحانی شیخ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی نے ڈھونڈ خان‬
‫کے نام سے پکارا ۔ واقعہ یوں درج ہے کہ آپ اپنے پیر و مرشد سے بچھڑ گئے تھے اور کافی‬
‫تالش بسیار کیبعد آپکو تالش کیا گیا‪ ،‬اس وجہ سے آپ ڈھونڈ خان کے نام سے بھی جانے جاتے‬
‫ہیں۔ حضرت سردار شاہ ولی خان عباسی بھی صوفی بزرگ تھے۔ شاہ ولی خان کے بیٹے کا نام‬
‫سردار حسن خان تھا جسکی قبر جھلہاڑ‪ ،‬پلندری آزاد کشمیر میں ملتی‬
‫ہے ۔ انکی اوالد میں اولیاء و صوفیاء کثرت سے پیدا ہوئے ہیں۔ حضرت شاہ ولی خان عباسی کے‬
‫بھائی کا نام باغ ولی خان تھا جو کہ جسکم اور گیہال عباسیوں جو کہ ضلع راولپنڈی کی تحصیل‬
‫کہوٹہ کے ساتھ آزاد کشمیر کے پونچھ اور باغ اضالع میں رہتے ہیں انکے جدامجد ہیں۔ انکی اوالد‬
‫غیاث الدین ضراب شاہ کے فرزند اکبر غئی خان کی نسبت خود کو گیہال کہتی ہے جبکہ باغ ولی‬
‫خان کے بیٹے کا نام جسکمب خان ملتا ہے جسکی نسبت اسکی چند زریات اس نام سے مشہور‬
‫ہوئی جو کہ کہوٹہ کے گردونواح میں آباد ہیں۔‬
‫‪5‬‬
‫بھمبر‪ ،‬گوجر خان‪ ،‬کلرسیداں اور دریائے جہلم کے کنارے مضافاتی عالقوں میں آباد عباسیوں پر تحیقیق کی تو معلوم ہوا کہ ‪،‬‬
‫پاجل خان‪ ،‬راجی خان کی اوالد پلندری‬ ‫پلندری میں جسکم خان ولد باغ ولی خان کی نسل سے‬

‫جب ان سے مصدقہ محکمہ مال کا ریکارڈ‬ ‫مضافات اور کہوٹہ میں موضع سنگیاں آباد ہے۔‬
‫دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف جسکم عباسی اور جسکم گیال ہیں اور ہمارے محکمہ مال میں صرف جسکم درج‬
‫ہے۔۔جبکہ کہوٹہ میں موجود ڈھونڈ عباسی قبیلے کی گمنام شاخ جو ‪1831‬ء کیبعد ڈوگروں کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے‬
‫جسکم کہا انکے محکمہ مال میں جسکم ڈھونڈ لکھا گیا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے محکمہ مال میں‬
‫جسکم ڈھونڈ درج یے وہ شاہ ولی خان عرف ڈھونڈ خان کے بیٹے حسن خان المعروف جس خان کی اوالد و اسکی نسل سے‬
‫ہیں جبکہ جن لوگوں کے محکمہ مال میں صرف جسکم درج یے وہ جسکم خان ولد باغ ولی خان کی اوالد سے جسکم عباسی‬

‫جن کا دربارپلندری میں‬ ‫ولی کامل بزرگ پیر مقصود گولڑوی‬ ‫ہیں ۔ ۔پاجل خان‬
‫کی اوالد سے‬

‫ان کا فرزند ہے جو کہ شجرہ کے حوالے سے کا فی متحرک ہےاور پلندری‬ ‫واقع ہے ‪ ،‬ساجد مقصود جامی‬
‫کی اوالد کو اس نے اکھٹا کیا اور ان کا ریکارڈ رکھے ہوئے ہے‬ ‫میں ۤا باد پاجل خان‬

‫شاہ ولی خان کی نسل ڈھونڈ کہالئی جبکہ انکے بھائی باغ ولی خان کی اوالد انکے بیٹے جسکم خان کی نسبت‬
‫جسکم کہالئی ‪ ،‬اسی جسکم خان کی ‪ 14‬پشت پر دو افراد کھرل عباسیان آباد ہوئے جنکی اوالد گہیال کہالتی ہے اس طرح‬
‫گیہال شاخ‪ ،‬جسکم عباسی قبیلے کی زیلی شاخ ہے۔ جسکم قبیلے میں جسکم ‪ ،‬کھتریل اور گہیال یہ شُاخیں‬
‫ہیں‬
‫۔جسکم ڈھونڈ سے مراد شاو ولی خان کے بیٹے حسن خان کی جو بیٹے کہوٹہ اور پلندری چلھاڑ‬
‫میں آباد ہوئے انکی اوالد جسکم ڈھونڈ ہے۔ حسن خان المعروف جس خان موضع چلھاڑ میں مدفون‬
‫ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کہوٹہ اور چلھاڑ کے ڈھونڈ عباسی اپنے جد امجد کی ۤا بائی‬
‫زمین پر ۤا باد ہیں اور گالب خان ان کا بھائی یہاں سے ہجرت کر کے اپنے دادا کے عالقے میں‬
‫چال گیا۔ پلندری میں چلھاڑ ہمارا ۤا با ئی مسکن ہے کالو رائے بھی چلھاڑ میں ٓاباد تھا اس سے‬

‫ظاہر ہوتا ہے کہ شاہ ولی خان چونکہ ایک ولی کامل بزرگ تھے اس لیے انھوں نے تبلیغ اور‬
‫اسالم کی اشاعت کے لیے مری کو اپنا مسکن بنایا جبکہ ان کی اوالد اپنے ٓابٰا و اجداد کی جگہ قائم‬
‫رہی صرف گالب خان ہی وہاں جا کر ۤا باد ہوا۔ محل وقوع کے لحاظ سے پنجاڑ سلیٹھہ دوبیرن‬
‫عباسیاں سالمبڑ کھئیاں چنوئیاں اور سوڑ یہ سارے گاوں چلھاڑ کے ساتھ ایک ہی پٹی ہے۔ جو‬
‫کی اب اپنی شناخت کھو رہا ہے لہذا شمالی پاکستان میں بسنے والے عباسی برادری کو اپنے ۤا بائی‬
‫‪،‬مسکن کو نہیں بھولنا چائیے‬

‫جسکم ڈھونڈ صرف ان اشخاص کی اوالد ہے‬

‫سہوُ خان ان کی اوالد پلیدری چلھاڑ اور کہوٹہ نڑھ میں موضع‬ ‫سلطان محمد خان عرف‬
‫چیڑاس میں ۤا باد ہے‬
‫ان کی اوالد کہوٹہ میں موضع بلڑیا اور موضع سوڑ میں ۤا باد‬ ‫پیر محمد خان عرف بیرولی خان‬
‫ہے‬

‫‪6‬‬

‫بچو خان ان کی اوالد کہوٹہ میں موضع سلیٹھہ‪ ،‬پنجاڑ‪ ،‬دوبیرن‬ ‫غالم محمد خان عرف‬
‫عباسیاں‪ ،‬کے گردو نواع میں ۤا باد ہے‬

‫ان کی اوالد کہوٹہ میں موضع کھوئیاں ‪ ،‬سالمبڑ ‪،‬‬ ‫رحمت علی شاہ عرف ککی خان‬
‫اور موضع سوڑ میں ۤا باد ہے‬ ‫چنوئیاں ‪ ،‬کیرل‬

‫کی اوالد مری‪ ،‬لورہ ہزارہ اور کشمیر میں ۤا باد ہے‬ ‫گالب خان‬
‫حوالہ عباسیان ہند ‪ ،‬النساب القباُیل اکبریہ‪ ،‬مقامی شجرہ و روایات‬
‫نقل تحقیق اسامہ علی عباسی‬

‫کی مشہور شخصیات میں سے ایک پیر نعمت شاہ عباسی المعروف‬ ‫ڈھونڈ عباسی قبیلے‬
‫ہیں ‪ ،‬جنہیں مقامی پہاڑی زبان میں دادا ڈھمٹ خان عباسی (‪1295‬ء ‪1370 -‬ء) کے نام سے جانا جاتا ہے۔‬ ‫دائمت بابا‬
‫پیر نعمت شاہ عباسی ایک ولی کامل گزرے ہیں اور ان کا مزار دناہ‪ ،‬گھوڑا گلی‪ ،‬مری میں ہے۔ چودھویں صدی‬
‫کے وسط میں وہ کشمیر کے خطہ پونچھ سے مری کی پہاڑیوں میں آباد ہوئے۔ وہ مری کی پہاڑیوں سے ملحقہ خطہ ہزارہ‬
‫اور تحصیل دھیرکوٹ‪ ،‬ضلع باغ کشمیر اور کشمیر کے ضلع مظفرآباد کے عباسی قبائل کے دادا ہیں۔ پیر نعمت شاہ کے پانچ‬
‫پائندہ خان‪ ،‬بہادر خان‪ ،‬تاج محمد خان المعروف ٹوٹہ خان‪ ،‬چمن‬ ‫بیٹے ہوئے جن میں‬

‫خان اور عبدہللا خان المعروف ٹپا خان شامل ہیں۔‬

‫پیر نعمت شاہ کے مشہور روحانی پوتوں میں پائندہ خان کی نسل سے پیر حضرت سردار عبدالرحمن خان عباسی (‬
‫‪1406‬ء ‪ 1480 -‬ء) ہیں جنہیں مقامی طور پر دادا رتن خان عباسی اور حضرت سردار قاسم خان عباسی (چاند خان عباسی)‬
‫کے نام سے جانا جاتا ہے‪ ،‬جن کا مزار چمن کوٹ‪ ،‬تحصیل دھیرکوٹ آزاد کشمیر میں ہے۔ یہ دونوں بھائی سرکل بکوٹ‬

‫ڈھونڈ عباسی قبیلے کے آباؤ اجداد ہیں‪ ،‬ان کی اوالد مری‬ ‫‪،‬ہزارہ‪ ،‬مری اور آزاد کشمیر کے رتنال اور چندال‬

‫کی اوالد میں چھٹی پشت پر پیر‬ ‫سرکل بکوٹ ہزارہ اور کشمیر میں آباد ہیں۔ حضرت عبدالرحمان عباسی‬
‫حافظ سراج الدین المعروف پیر ملک سورج اولیاء رح کا نام آتا ہے جو کہ خطہ کوہسار و پوٹھوہار‬
‫کی عظیم روحانی شخصیت گزرے ہیں۔ انکا شمار حضرت سید شاہ عبداللطیف کاظمی المعروف حضرت بری امام سرکار رح‬
‫میں واقع ہے۔‬ ‫کے خاص رفقاء و دوستوں میں ہوتا تھا۔ انکا مزار مری کے گاؤں پوٹھہ شریف‬
‫اسامہ علی عباسی‬
‫انجمن ملت عباسیہ ‪ ،‬ادارہ تحقیق االنصاب ملت عباسیہ ادارہ بیت الحکمت ‪،‬‬ ‫اعباسیہ‪،‬‬

‫‪7‬‬
‫ا س تحریر کا زیادہ حصہ اسامہ علی عباسی کی تحقیق سے نقل کیا گیا ہے اور‬
‫صفحہ نمبر ‪ 5‬اور‪ 6‬میں اپنی معلومات کا اضافہ کیا گیا ہے اسامہ عباسی نے اپنی‬
‫تحقیق میں کہوٹہ کے عباسی خاندان کا ذکر کر کے گالب خان کی اوالد کا تفصیلی‬
‫ذکر کیا تھا اور گالب خان کے چار بھائی جو کہوٹہ اور پلندری میں ۤا باد تھے انکی‬
‫ٖت فصیل چھوڑ دی تھی۔ لہذا یہاں کہوٹہ اور پلندری میںۤ آباد ڈھونڈ خان اور رائیب خان‬
‫المعروف بھاگ ولی کی اوالد کا تفصیلی ذکر کر کے اسامہ کی تحقیق میں اضافہ کر‬
‫دیا ہے ۔۔‬
‫صوبیدار عبدالعزیز عباسی موضع سوڑ ڈھوک منجن تحصیل کہوٹہ‬
‫‪8‬‬

‫تاریخ عباسی‬
‫خالفت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے‬
‫دوسری سلطنت خالفت عباسیہ کہالتی ہے۔ جس کا قیام ‪750‬ء (‪132‬ھ) میں عمل میں آیا‬
‫اور ‪1258‬ء (‪686‬ھ) میں اس کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ خالفت ایک تحریک کے ذریعے قائم‬
‫ہوئی جو بنو امیہ کے خالف تھی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول‬
‫کے لیے جدوجہد کی اور باآلخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد برسر اقتدار آگئی‬
‫خالفت عباسیہ عروج کے زمانے میںعباسیوں کی حکومت بھی امویوں کی طرح شخصی‬
‫اور موروثی تھی اور ولی عہدی کا بھی وہی طریقۂ کار تھا جو بنو امیہ نے اختیار کیا ہوا‬
‫تھا ۔ خاندان عباسیہ نے دارالحکومت دمشق سے بغداد منتقل کیا اور دو صدیوں تک مکمل‬
‫طور پر عروج حاصل کئے رکھا۔ زوال کے آغاز کے بعد مملکت کئی حصوں میں تقسیم‬
‫ہوگئی جن میں ایران میں مقامی امراء نے اقتدار حاصل کیا اور المغرب اور افریقیہ اغالبہ‬
‫اور فاطمیوں کے زیر اثر آگئے ۔ عباسیوں کی حکومت کا خاتمہ ‪1258‬ء میں منگول فاتح‬
‫ہالکو خان کے حملے کے ذریعے ہوا۔ تاہم خلیفہ کی حیثیت سے ان کی حیثیت پھر بھی‬
‫برقرار رہی اور مملوک سلطان ملک الظاہر بیبرس نے خاندان عباسیہ کے ایک شہزادے‬
‫ابو القاسم احمد کے ہاتھ پر بیعت کرکے اس کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کیا۔ اس طرح‬
‫خالفت بغداد سے قاہرہ منتقل ہوگئی تاہم یہ صرف ظاہری حیثیت کی خالفت تھی‪ ،‬تمام‬
‫اختیارات مملوک سالطین کو حاصل تھے۔عثمانیوں کے ہاتھوں مملوکوں کی شکست کے‬
‫بعد عباسیوں کی اس ظاہری حیثیت کا بھی خاتمہ ہوگیا اور خالفت عباسیوں سے عثمانیوں‬
‫میں منتقل ہوگئی۔ موجودہ عراق میں تکریت کے شمال مشرق میں رہنے واال العباسی قبیلہ‬
‫اسی خاندان عباسیہ سے تعلق رکھتا ہے۔‬
‫] فہرست‬

‫پس منظر‬

‫حصوِل اقتدار‬
‫مشہور خلفاء‬
‫‪9‬‬
‫ابو العباس السفاح (‪)754-750‬‬

‫ابو جعفر المنصور (‪)775-754‬‬

‫مہدی (‪)785-775‬‬

‫ہارون الرشید (‪)809-786‬‬

‫مامون الرشید (‪)833-813‬‬

‫کارنامے‬

‫زوال کی وجوہات‬
‫دور اول (‪)861-750‬‬

‫دور ثانی (‪)1031-861‬‬

‫دور اول (‪)861-750‬‬

‫دور ثانی (‪)1031-861‬‬

‫دور ثالث (‪)1258-1031‬‬


‫‪10‬‬
‫عباسی خلفاء (بغداد)‬

‫قاہرہ کے عباسی خلفاء (مملوکوں کے زیر نگیں)‬


‫متعلقہ مضامین‬

‫حوالہ جات‬

‫پس منظر ] [‬
‫خاندان بنو امیہ کی حکومت کے دوِر زوال میں سلطنت میں ہر جگہ شورش اور‬
‫بغاوتیں شروع ہوگئی تھی جن میں سب سے خطرناک تحریک بنی ہاشم کی تھی۔ بنی‬
‫ہاشم چونکہ اس خاندان سے تھے جس میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم ہوئے‬
‫ہیں اس لیے وہ خود کو خالفت کا بنی امیہ سے زیادہ مستحق سمجھتے تھے ۔ بنی‬
‫ہاشم میں بھی دو گروہ پیدا ہوگئے تھے۔ ایک وہ جو حضرت علی رضی ہللا عنہ کو‬
‫اور ان کے بعد ان کی اوالد کو خالفت کا حقدار سمجھتا تھا۔ یہ گروہ شیعاِن علی کا‬
‫طرفدار کہالتا تھا۔ بعد میں اسی گروہ میں سے کچھ لوگوں نے شیعہ فرقے کی شکل‬
‫اختیار کرلی اور وہ اثنا عشری کہالتے ۔ بنو عباس کی دعوت عمر بن عبدالعزیز‬
‫کے زمانے میں ہی شروع ہوگئی تھی۔ ہشام کے دور میں اس نے سند حاصل کرلی۔‬
‫امام حسین رضی ہللا عنہ کی شہادت کے بعد شیعان علی نے منصب امامت امام کے‬
‫صاحبزادے حضرت زین العابدین کو پیش کیا لیکن جب انہوں نے قبول نہیں کیا تو‬
‫شیعوں نے حضرت علی کے غیر فاطمی فرزند محمد بن حنفیہ کو امام بنا لیا اور اس‬
‫طرح امامت کا منصب اہل بیت نبوی سے علوی شاخ میں منتقل ہوگیا۔ محمد بن حنفیہ‬
‫کے بعد ان کے صاحبزادے ابو ہاشم عبدہللا جانشیں ہوئے اور ایران میں ان کی دعوت‬
‫خفیہ انداز میں پھیلتی رہی۔ ‪100‬ھ میں ابو ہاشم نے شام میں وفات پائی۔ اس وقت ان‬
‫کے خاندان میں سے کوئی شخص ان کے پاس نہیں تھا۔ مشہور صحابی حضرت‬
‫عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ کے پوتے محمد بن علی قریب موجود تھے اس لیے ابو‬
‫ہاشم نے ان کو جانشیں مقرر کرکے منصب امامت ان کے سپرد کردیا اور اس طرح‬
‫امامت علویوں سے عباسیوں میں منتقل ہوگئی۔ بنی ہاشم کی یہ دعوت عمر بن‬
‫عبدالعزیز سے ہشام تک خفیہ رہی اور عراق اور خراسان کے بڑے حصے میں پھیل‬
‫گئی۔ ‪ 126‬ھ میں محمد بن علی کا انتقال ہوگیا اور ان کے بڑے بیٹے ابراہیم بن محمد‬
‫ان کے جانشیں ہوئے۔ ان کا مرکز شام میں ایک مقام حمیمہ تھا۔ ان کے دور میں‬
‫تحریک نے بہت زور پکڑ لیا اور مشہور ایرانی ابو مسلم خراسانی اسی زمانے میں‬
‫عباسی تحریک کے حامی کی حیثیت سے داخل ہوا۔ اس نے ایک طرف عربوں کو‬
‫آپس میں لڑایا اور دوسری طرف‬

‫‪11‬‬
‫ایرانیوں کو عربوں کے خالف ابھاراس جگہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ محمد بن علی‬
‫نے ابو مسلم کو ہدایت کی تھی کہ خراسان میں کوئی عربی بولنے واال زندہ نہ چھوڑا‬
‫جائے۔ مروان کے دور میں اس سازش کا انکشاف ہوگیا اور ابراہیم کو قتل کردیا گیا۔‬
‫اب ابراہیم کا بھائی ابو العباس عبدہللا بن علی جانشیں ہوا۔ اس نے بھی حکم دیا کہ‬
‫خراسان میں کوئی عرب زندہ نہ چھوڑا جائے۔ اس نے ابراہیم کے غم میں سیاہ لباس‬
‫اور سیاہ جھنڈا عباسیوں کا نشان قرار دیا۔عربی اور ایرانی ہمیشہ ایک دوسرے سے‬
‫نفرت کرتے تھے اور جب ایران پر عربوں کا قبضہ ہوا تو خلفائے راشدین نے‬
‫منصفانہ حکومت قائم کرکے اس نفرت کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن بنو امیہ کے‬
‫حکمران خلفائے راشدین کے اصولوں پر نہ چلے۔ ایرانیوں کو بھی حکومت سے‬
‫شکایت بڑھتی چلی گئی۔ وہ اب مسلمان ہوگئے تھے اور بحیثیت مسلمان عربوں کے‬
‫برابر حقوق چاہتے تھے۔ جب ان کے برابری کا سلوک نہیں کیا گیا تو وہ بنو امیہ کی‬
‫حکومت کا تختہ پلٹنے کی فکر کرنے لگ گئے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے‬
‫انہوں نے بنو ہاشم کا ساتھ دیا۔[ترمیم] حصوِل اقتدارابنو امیہ کے زمانے میں عربوں‬
‫اور ایرانیوں کے درمیان نفرتیں بڑھنے کے عالوہ خود عربوں کے اندر قبائلی‬
‫عصبیت اور اختالفات بھی بہت بڑھ گئے تھے۔ یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ رنگ و‬
‫نسل کے یہ اختالفات جن کو مٹانے کے لیے اسالم آیا تھا اتنی جلدی پھر سر اٹھانے‬
‫لگے اور ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرے لگا۔ اس اختالف‬
‫کی وجہ سے عربوں کی قوت کمزور ہوگئی اور بنو امیہ کا سب سے بڑا سہارا چونکہ‬
‫عرب تھے اس لیے ان کی قوت کمزور ہونے سے بنو امیہ کی سلطنت بھی کمزور پڑ‬
‫گئی۔اسالمی دنیا کی یہ حالت تھی کہ بنی ہاشم کے حامیوں نے ایرانیوں کی مدد سے‬
‫خراسان میں بغاوت کردی۔ ہشام کے نا اہل جانشین اس بغاوت کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اس‬
‫جدوجہد میں ایک ایرانی سردار ابو مسلم خراسانی سے بنی ہاشم کو بڑی مدد ملی۔ وہ‬
‫بڑا متصعب‪ ،‬ظالم اور سفاک ایرانی تھا لیکن زبردست تنظیمی صالحیتوں کا مالک تھا۔‬
‫بنی ہاشم کے یہ حامی ماوراء النہر اور ایران پر قبضہ کرنے کے بعد عراق میں داخل‬
‫ہوگئے جہاں بنی امیہ کے آخری حکمران مروان بن محمد نے دریائے زاب کے‬
‫کنارے مقابلہ کیا لیکن ایسی شکست کھائی کہ راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ بعد میں‬
‫مروان پکڑا گیا اور اس کو قتل کردیا گیا۔ دارالخالفہ دمشق پر بنی ہاشم کا قبضہ ہوگیا‬
‫اور بنی ہاشم کی شاخ بنی عباس کی حکومت قائم ہوگئی۔۔خاندان عباسیہ نے ‪ 500‬سال‬
‫سے زائد عرصے تک حکومت کی جو ایک طویل دور ہے۔ اس طویل عہد میں‬
‫عباسیوں کے کل ‪ 37‬حکمران برسر اقتدار آئے اور ان میں سے کئی قابل و‬
‫صالحیتوں کے مالک تھے۔‬

‫‪12‬‬
‫ابو العباس السفاح (‪)754-750‬‬
‫عبدہللا بن محمد المعروف ابو العباس السفاح پہال عباسی خلیفہ بنا۔ مورخین نے اس کی‬
‫عقل‪ ،‬تدبر اور اخالق کی تعریف کی ہے لیکن اس کے ظلم و ستم نے تمام خوبیوں پر‬
‫پانی پھیر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ سفاح کے دست راست ابو مسلم خراسانی نے بنی امیہ کا‬
‫اقتدار ختم کرنے کے لیے ‪ 6‬الکھ انسان ہالک کیے۔ دمشق فتح کرکے عباسی افواج نے‬
‫وہاں قتل عام کیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی ہللا عنہ سمیت تمام اموی حکمرانوں کی‬
‫قبریں تک کھود ڈالی گئیں۔ ہشام بن عبدالملک کی الش قبر سے صحیح سالمت ملی تو‬
‫اس کو کوڑوں سے پیٹا گیا اور کئی دن سر عام لٹکانے کے بعد نذر آتش کردیا گیا۔ بنو‬
‫امیہ کا بچہ بچہ قتل کردیا گیا اور اموی سرداروں کی تڑپتی الشوں پر فرش بچھا کر‬
‫کھانا کھایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مورخین نے ابو العباس کو سفاح (یعنی خونریزی‬
‫کرنے واال) کا لقب دیا ہے۔‬
‫ابو جعفر المنصور (‪[] )775-754‬‬
‫اگرچہ پہال خلیفہ ابو العباس تھا لیکن عباسیوں کا پہال نامور حکمران اس کا بھائی ابو‬
‫جعفر المنصور تھا جو سفاح کے بعد تخت پر بیٹھا۔ اس نے ‪ 22‬سال حکومت کی اور‬
‫خالفت عباسیہ کی جڑوں کو مضبوط کیا۔ اس نے دریائے دجلہ کے کنارے ایک نیا‬
‫شہر آباد کرکے دارالحکومت وہاں منتقل کیا جو بغداد کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نے‬
‫ابو مسلم خراسانی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے اسے قتل کرادیا‬

‫مہدی (‪[] )785-775‬‬


‫منصور کے بعد اس کا بیٹا محمد مہدی مسنِد خالفت پر بیٹھا۔ وہ اپنی طبیعت اور مزاج‬
‫میں باپ سے بہت مختلف تھا۔ نرم دل اور عیش پرست و رنگین مزاج تھا لیکن اس‬
‫کے باوجود بد کردار نہیں تھا بلکہ ایک فرض شناس حکمران تھا۔ اس کا عہد امن و‬
‫امان کا دور تھا۔‬

‫‪13‬‬

‫ہارون الرشید (‪[ ] )809-786‬‬


‫ایک یورپی مصور کا فن پارہ‪ ،‬ہارون رشید فرانس کے بادشاہ شارلمین کے بھیجے‬
‫گئے سفیروں کا خیرمقدم کررہا ہےمہدی کے بعد اس کا لڑکا ہادی (‪ )786-785‬تخت‬
‫خالفت پر بیٹھا لیکن سوا سال کی حکومت کے بعد اس کا انتقال ہوگیا اور اس کی جگہ‬
‫اس کا بھائی ہارون تخت نشین ہوا۔ عباسی خلفاء میں سب سے زيادہ شہرت اسی ہارون‬
‫الرشید نے حاصل کی۔ اس کے دور میں بغداد اپنے عروج پر پہنچ گیا اور یہ‬
‫خوشحالی اور علم و فن کا زریں دور تھا۔ وہ متضاد اوصاف کا مالک تھا ایک طرف‬
‫عیش پرستانہ زندگی کا حامل تھا تو دوسری طرف بڑا دیندار‪ ،‬پابند شریعت‪ ،‬علم‬
‫دوست اور علماء نواز بھی تھا۔ ایک سال حج کرتا اور ایک سال جہاد میں گذارتا۔ اس‬
‫کے دور میں امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام ابو یوسف کو قاضی القضاۃ مقرر کیا گیا۔‬
‫اس نے بیت الحکمت کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں کام کرنے والے عالموں‬
‫اور مترجموں کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی تھیں۔ اس کا دور خاندان برامکہ کے‬
‫ذکر کے بغیر ادھورا ہے جنہوں نے اپنی عقل و فراست سے ہارون کی سلطنت کو دن‬
‫دوگنی رات چوگنی ترقی دی۔ ہارون کو خاص طور پر جعفر برمکی سے بڑی محبت‬
‫تھی جو اس کا قابل وزیر تھا۔ لیکن ہارون سے کسی بات پر اس سے ناراض ہو کر‬
‫اسے قتل کردیا۔ اس خاندان کے زوال کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہارون کو ان کے غیر‬
‫معمولی اختیارات‪ ،‬اثرات اور مقبولیت کی وجہ سے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ‬
‫خالفت پر قابض نہ ہو جائیں۔‬

‫مامون الرشید (‪[ ] )833-813‬‬


‫ہارون کے بعد اگر کسی اور عباسی خلیفہ کا عہد ہارون کے دور کا مقابلہ کرسکتا ہے‬
‫تو وہ مامون الرشید کا دور ہے۔ وہ عادات و اطوار میں اپنے باپ کی طرح تھا بلکہ وہ‬
‫ہارون سے بھی زیادہ نرم دل اور فیاض تھا۔ اس کے دور کا اہم واقعہ "فتنۂ خلق قرآن"‬
‫ہے۔ مامون اس عقیدے کا قائل ہو گیا تھا کہ قرآن مخلوق ہے اور اس نظریے کو اس‬
‫نے اسالم اور کفر کا پیمانہ سمجھ لیا اور علماء کو مجبور کیا کہ وہ اس نظریے کو‬
‫تسلیم کریں یا پھر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیںمامون کا تو جلد انتقال ہو گیا لیکن‬
‫اس کے دو جانشینوں معتصم (‪ )842-833‬اور واثق (‪ )847-842‬کے زمانے میں‬
‫خلق قرآن کے مسئلے کی وجہ سے علما خصوصًا امام احمد بن حنبل رحمت ہللا علیہ‬
‫پر بہت سختیاں کی گئیں۔‬

‫‪14‬‬
‫واثق باہلل (‪ )847-842‬اور متوکل (‪ )861-847‬عباسیوں کے عہد عروج کے آخری‬
‫دو خلفاء تھے جن کے دور کی خاص بات سلطنت کی عسکری طاقت میں اضافہ تھا۔‬
‫تاہم متوکل کے بعد خالفت زوال کی جانب گامزن ہوگئی اور ان کی وسیع و عریض‬
‫سلطنت کی حدود کم ہوتی چلی گئیں۔‬
‫ہارون کو خاص طور پر جعفر برمکی سے بڑی محبت تھی جو اس کا قابل وزیر تھا۔‬
‫لیکن ہارون سے کسی بات پر اس سے ناراض ہو کر اسے قتل کردیا۔ اس خاندان کے‬
‫زوال کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہارون کو ان کے غیر معمولی اختیارات‪ ،‬اثرات اور‬
‫مقبولیت کی وجہ سے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ خالفت پر قابض نہ ہو جائیں۔‬
‫مامون الرشید (‪] )833-813‬ترمیم [‬

‫ہارون کے بعد اگر کسی اور عباسی خلیفہ کا عہد ہارون کے دور کا مقابلہ کرسکتا ہے‬
‫تو وہ مامون الرشید کا دور ہے۔ وہ عادات و اطوار میں اپنے باپ کی طرح تھا بلکہ وہ‬
‫ہارون سے بھی زیادہ نرم دل اور فیاض تھا۔ اس کے دور کا اہم واقعہ "فتنۂ خلق قرآن"‬
‫ہے۔ مامون اس عقیدے کا قائل ہو گیا تھا کہ قرآن مخلوق ہے اور اس نظریے کو اس‬
‫نے اسالم اور کفر کا پیمانہ سمجھ لیا اور علماء کو مجبور کیا کہ وہ اس نظریے کو‬
‫تسلیم کریں یا پھر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں۔‬
‫مامون کا تو جلد انتقال ہو گیا لیکن اس کے دو جانشینوں معتصم (‪ )842-833‬اور‬
‫واثق (‪ )847-842‬کے زمانے میں خلق قرآن کے مسئلے کی وجہ سے علما خصوصًا‬
‫امام احمد بن حنبل رحمت ہللا علیہ پر بہت سختیاں کی گئیں۔‬
‫واثق باہلل (‪ )847-842‬اور متوکل (‪ )861-847‬عباسیوں کے عہد عروج کے آخری‬
‫دو خلفاء تھے جن کے دور کی خاص بات سلطنت کی عسکری طاقت میں اضافہ تھا۔‬
‫تاہم متوکل کے بعد خالفت زوال کی جانب گامزن ہوگئی اور ان کی وسیع و عریض‬
‫سلطنت کی حدود کم ہوتی چلی گئیں‬

‫‪15‬‬

‫زوال کی وجوہات‬
‫بنو عباس کے زوال کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ ان کے حکمران نا اہل تھے بلکہ سب‬
‫سے بڑی وجہ ترکوں کا عروج تھا جو معتصم کے زمانے سے اپنے اثر و رسوخ میں‬
‫اضافہ کررہے تھے۔ اصل میں عباسیوں کو خالفت دالنے میں بڑا ہاتھ ایرانیوں کا تھا‬
‫اور عباسیوں نے ذاتی مصلحت کے تحت ایرانیوں کے اثر و رسوخ کے کم کرنے کے‬
‫لیے ترکوں کو آگے بڑھایا جو خود ان کے لیے نیک فال ثابت نہ ہوا۔ متوکل کے بعد‬
‫ترک امراء کا اقتدار اور بڑھ گیا اب وہ خلیفہ کا حکم سننے سے بھی انکار کرنے‬
‫لگے۔ انہوں نے کئی خلفاء کو اتارا اور بعض کو قتل بھی کیا۔ اس طرح ترکوں نے‬
‫مرکزی حکومت کو کمزور تو کردیا لیکن خود کوئی مضبوط حکومت قائم نہ کرسکے۔‬
‫اور اس صورتحال میں کئی مقامی امراء نے اپنے اپنے عالقوں میں خود مختار‬
‫حکومتیں قائم کرلی ۔ جن میں قابل ذکر بنی بویہ‪ ،‬سامانی اور فاطمی حکومتیں ہیں۔‬
‫زوال کے دور میں قرامطہ کا فتنہ بھی رونما ہوا جنہوں نے ‪ 50‬سال تک جنوبی‬
‫عراق اور شام میں ظلم و ستم اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا۔‬
‫دور زوال کے اچھے حکمرانوں میں قابل ذکر مہتدی تھا جس نے خالفت کو زيادہ‬
‫سے زیادہ اسالمی رنگ دینے کی کوشش کی اور اسی کوشش کے نتیجے میں ترکوں‬
‫اور اسالمی پابندیوں سے ناالں شاہی حکام اور امرا کی سازشوں کا نشانہ بن کر‬
‫ترکوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ اس دور میں سب سے زیادہ خدمات انجام دینے کے‬
‫حوالے سے قابل ذکر معتضد ہے جو معتمد کے بعد خالفت پر بیٹھا۔ اس نے ترکوں کا‬
‫زور توڑا اور ایک وسیع عالقے پر دوبارہ امن و امان قائم کردیا اور حکومت کی‬
‫گرتی ہوئی عمارت کو سہارا دیا۔ اس کے بعد اس کے تین بیٹے مکتفی‪ ،‬معتضد اور‬
‫قاہر باہلل تخت نشین ہوئے۔ جن میں مکتفی اور معتضد اچھے حکمران تھے لیکن اس‬
‫کا جانشیں مقتدر تن آسان‪ ،‬عیش پرست اور شراب و کباب کا رسیا تھا اور باآلخر‬
‫معزول کرنے کے بعد قتل کردیا گیا۔حمکرانوں کی عیش پرستی‪ ،‬نااہلی اور امراء کی‬
‫خود سری و اخالقی زوال کے نتیجے میں خالفت کی حدود پھر گھٹنا شروع ہوگئیں۔‬
‫اور باآلخر بنی بویہ کے ایک حکمران معز الدولہ نے بغداد پر قبضہ کرلیا۔ عباسی‬
‫خاندان بویہی قبضے سے سلجوقیوں کے زیر اثر آگیا۔ یہ حالت دو سو سال تک رہی‬
‫اس کے بعد عباسی خلفاء پھر آزاد ہوگئے لیکن ان کی حکومت عراق تک محدود رہی‬
‫اور مزید سو سوا سو سال قائم رہنے کے بعد تاتاریوں کے ہاتھوں ختم ہوگئی۔اس میں‬
‫شک نہیں کہ بعد کے عباسی حکمرانوں نے اسالمی اقدار کے فروغ کے لیے کام کیا۔‬
‫اسالمی قانون کے نفاذ میں دلچسپی لی لیکن اس حکومت کی بھی بنیادی خرابی یہی‬

‫‪16‬‬
‫تھی کہ وہ ملوکیت تھی۔ ان کے ہاتھوں جو انقالب ہوا اس سے صرف حکمران ہی‬
‫بدلے‪ ،‬طرز حکومت نہ بدال۔ انہوں نے اموی دور کی کسی ایک خرابی کو بھی دور نہ‬
‫کیا بلکہ ان تمام تغیرات کو جوں کا توں برقرار رکھا جو خالفت راشدہ کے بعد‬
‫ملوکیت کے آ جانے سے اسالمی نظام میں رونما ہوئے۔ بادشاہی کا طرز وہی رہا جو‬
‫بنی امیہ نے اختیار کیا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ بنی امیہ کے لیے قسطنطنیہ کے قیصر‬
‫نمونہ تھے تو عباسی خلفاء کے لیے ایران کے کسرٰی [‪]1‬اس طرح عباسیوں کے‬
‫‪ 500:‬سالہ عہد کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے‬

‫دور اول (‪[ ] )861-750‬‬

‫ھ سے ‪247‬ھ تک یعنی ابو العباس السفاح سے متوکل تک‪ ،‬جس میں ‪ 10‬حکمران‪132‬‬
‫برسراقتدار رہے۔ یہ حکمران غیر معمولی صالحیتوں کے مالک تھے۔ ابو جعفر‪،‬‬
‫مہدی‪ ،‬ہارون اور مامون جیسے عظیم و باصالحیت حکمران اسی پہلے دور سے‬
‫وابستہ تھے۔ اس دور میں تہذیب و ثقافت‪ ،‬علم و ادب اور صنعت و حرفت کی ترقی‬
‫عروج پر رہی بلکہ اس کی ترقی دنیا کے لیے ایک مثال بن گئی۔ دوسرا پہلو اس دور‬
‫میں عجمی عنصر کا عروج تھا۔ عربوں کے مقابلے میں عجمیوں نے اثر و رسوخ‬
‫حاصل کیا۔ اس دور کے آخری خلفا نے عجمیوں کے بارے میں اپنی پالیسی بدل دی‬
‫اور ترکوں کو عروج دیا۔ یہ پہال دور ایک صدی تک رہا۔‬

‫دور ثانی (‪[ ] )1031-861‬‬

‫یہ ‪247‬ھ سے شروع ہوکر ‪422‬ھ تک دو صدیوں کا دور ہے۔ خلیفہ منتصر سے لے‬
‫کر قادر باہلل تک یہ عرصہ خالفت عباسیہ کے دوسرے دور میں شمار کیا جاتا ہے جو‬
‫زوال کا دور ہے‪ ،‬خالفت کمزور پڑ گئی سلطنت کے اختیارات ترکوں اور پھر امیر‬
‫االمراء کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ ہر کام حتٰی کہ خلفا کی نامزدگی بھی انہی کی‬
‫مرضی سے وتی بلکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خلفا کو تخت پر بٹھانے اور اتارنے‬
‫بھی لگے۔ اس دور میں آل بویہ نے عروج حاصل کیا اور ترکوں کی جگہ لی۔ قادر‬
‫باہلل کے عہد میں سلجوقیوں ے قدم بڑھائے اور بغداد میں آل بویہ کے اقتدار کا خاتمہ‬
‫کردیا کئی دیگر خود مختار ریاستیں مثًال سامانی اور صفاری قائم ہیں جنہوں نے‬
‫سلطنت میں دراڑیں پیدا کرکے اسے کمزور کردیا۔‬

‫(‪[ ] )1258-1031‬‬ ‫دور ثالث‬


‫‪17‬‬
‫تیسرا دور ‪422‬ھ سے ‪656‬ھ یعنی قادر باہلل سے مستعصم (آخری حکمران) تک ہے‬
‫جو سلجوقیوں کے غلبے کا دور ہے۔ خلیفہ کی تمام حیثیت ختم ہوگئی۔ یہ عہد بغداد کی‬
‫مرکزیت اور سیاسی وحدت کے مکمل خاتمے کا بھی دور ہے۔ تمام اختیارات‬
‫سلجوقیوں کے ہاتھوں میں تھے اور آخر کار ‪656‬ھ میں ہالکو خان کے حملے سے‬
‫عباسیوں کے آخری تاجدار مستعصم باہلل کے اقتدار کا خاتمہ کرکے عباسی خاندان کا‬
‫چراغ بھی گل کردیا تھا۔‬

‫بحیثیت مجموعی ان تینوں ادوار میں سے ہر دور کی اپنی علیحدہ حیثیت ہے۔ آخری‬
‫دور میں تمام تر کمزوریوں کے باوجود خالفت کا روحانی لبادہ اور خلیفہ کا مذہبی‬
‫تقدس بہرحال برقرار رہا گوکہ سیاسی یکجہتی کا خاتمہ ہوگیا تھا لیکن مذہبی حیثیت‬
‫موجود رہی۔ خود مختار ریاستوں کے قیام نے بغداد کی مرکزی حیثیت تو ختم کردی‬
‫لیکن دنیائے اسالم کے کئی حکمران خلیفہ سے وفاداری کا دم بھرتے تھے۔‬

‫[‬ ‫عباسی خلفاء (بغداد) ]‬


‫ابو العباس السفاح‪1.‬‬

‫ابو جعفر المنصور‪2.‬‬

‫محمد بن منصور المہدی ‪3‬‬

‫‪4‬‬ ‫موسٰی بن مہدی الہادی‪.‬‬


‫ہارون الرشید‪5.‬‬

‫‪6‬‬ ‫محمد االمین‪.‬‬

‫مامون الرشید‪7 .‬‬

‫معتصم باہلل‪8 .‬‬

‫‪9‬‬ ‫واثق باہلل‪.‬‬

‫متوکل علی ہللا ‪10‬‬

‫‪11‬‬ ‫منتصر باہلل‪.‬‬

‫‪12‬‬ ‫مستعین باہلل‪.‬‬

‫‪18‬‬
‫‪13‬‬ ‫معتز باہلل‪.‬‬

‫‪14‬‬ ‫مہتدی باہلل‬

‫۔ معتمد علی ہللا‪15‬‬ ‫۔‪،‬۔‪.‬‬

‫معتضد باہلل‪16.‬‬

‫مکتفی باہلل‪17.‬‬

‫مقتدر باہلل‪18.‬‬

‫قاہر باہلل‪19.‬‬

‫راضی باہلل‪20.‬‬

‫متقی لللہ‪21.‬‬

‫مستکفی باہلل‪22.‬‬

‫مطیع لللہ‪23.‬‬

‫طائع لللہ‪24.‬‬

‫قادر باہلل‪25.‬‬

‫قائم بامر ہللا‪26.‬‬

‫مقتدی بامر ہللا‪27.‬‬

‫مستظہر باہلل‪28.‬‬

‫مسترشد باہلل ‪29‬‬

‫راشد باہلل ‪30‬‬


‫مقنفی المر ہللا ‪31‬‬

‫مستنجد باہلل‪32.‬‬

‫مستضی بامر ہللا‪33.‬‬

‫الناصر الدین ہلل‪34.‬‬

‫ظاہر بامر ہللا‪35.‬‬

‫مستنصر باہلل‪36.‬‬

‫مستعصم باہلل‪37.‬‬

‫‪19‬‬

‫) [‬ ‫قاہرہ کے عباسی خلفاء (مملوکوں کے زیر نگیں‬

‫ابو القاسم محمد مستنصر باہلل‪1.‬‬

‫ابو العباس احمد حاکم بامر ہللا‪2.‬‬

‫ابو الربیع سلیمان مستکفی باہلل‪3.‬‬

‫ابو اسحاق ابراہیم واثق باہلل‪4.‬‬

‫ابو العباس احمد حاکم بامر ہللا ثانی‪5.‬‬

‫ابو بکر معتضد باہلل‪6.‬‬

‫ابو عبدہللا محمد متوکل علی ہللا اول‪7.‬‬


‫ابو حفص عمر واثق باہلل‪8.‬‬

‫ذکریا مستعصم باہلل‪.‬‬

‫متوکل علی ہللا (دوسری مرتبہ)‪10.‬‬

‫ابو الفضل عباس مستعین باہلل‪11.‬‬

‫ابو الفتح داؤد معتضد باہلل‪12.‬‬

‫‪20‬‬

‫ابو الربیع سلیمان مستعین باہلل‪13.‬‬

‫ابو البقا حمزہ قائم بامر ہللا‪14.‬‬

‫ابو المحاسن یوسف مستنجد باہلل ثانی‪15.‬‬

‫عبدالعزیز متوکل علی ہللا‪16.‬‬

‫یعقوب متمسک باہلل‪17.‬‬

‫محمد متوکل علی ہللا ثالث‪18.‬‬

‫متعلقہ مضامین ]ترمیم[‬

‫فہرست سالطین عباسیہ‬


‫حوالہ جات ]ترمیم[‬

‫بحوالہ‬
‫خالفت و ملوکیت از سید ابو االعلٰی مودودی صفحہ ‪195‬‬
‫زمرہ جات‪ | :‬تاریخ اسالم | بنو ہاشم‬

‫شجرہ نسب قوم قریش سراڑہ‬


‫بیت الحکمتیہ عباسیہ میٹنگ فیض آباد‬
‫تاریخ کوہسار عباسی‬
‫تحریر'' حاجی محمد تبارک عباسی موضع سلیٹھہ کہوٹہ‬
‫منقول ایڈووکیٹ محبت حسین اعوان مصنف و‬
‫تحقیق تاریخ کوہسار کے عباسی‬
‫محبت حسین اعوان تاریخ کوہسار عباسی میں عباسی خاندان کی‬
‫پوری تاریخ اور ان کے کارناامے درج ہیں‪ ،‬محمت حسین اعوان‬
‫ممتاز تاریخ دان اور تحقیقی مصنف ہیں۔‬
‫انہوں نے اپنے قبیلے ''اعوان‪ ،،‬کے متعلق کئی تحقیقی کتب تحریر‬
‫کیں ہیں‪،‬بال شعبہ انکی کتب کو بے پناہ پزیرائی ملی۔ جو انکو‬
‫پاکستان کے صف اول کے مصنفین مین شمار کراتی ہیں۔‬
‫تاریخ کوہسارکے عباسی" تاریخی کتاب نے عباسی قبیلے کے '‬
‫متعلق جامع تحریر لکھی جس سے ہمارے علم میں بہت زیادہ‬
‫اضافہ کیا۔ انھوں نے عباسی قبیلے کو بہت جگہوں پر ڈیفینڈ بھی کیا‬
‫ہے۔‬
‫محبت حسین اعوان پیشے کے لحاظ سے ایڈووکیٹ ہیں اور ان کا‬
‫شمار کراچی کے ممتاز وکالء میں ہوتا ہے۔ مسقل طور پر وہ ایبیٹ‬
‫آباد ہزارہ کے رہنے والے ہیں۔‬
‫عباسی بال شعبہ ایک تاریخی قبیلہ ہے ۔ اور پاکستان میں بسنے‬
‫والے ہر عالقے کے عباسیوں کی اپنی الگ الگ پہچان او تاریخ‬
‫ہے۔ جیسے کوہسار کے عباسی‪ ،‬سندھ کے عباسیوں میں سے‬
‫نہیں ہیں۔ کہسار کے ڈھونڈ اور جسکم عباسیوں کا شجرہ نسب‬
‫سندھ کے عباسیوں سے نۃیں ملتا ‪ ،‬اس لیے ان کا نسبتی تعلق‬
‫اگرچہ عباسیوں سے ہے مگر سندھی عباسیوں سے الگ ہے۔‬
‫سندھی عباسی دۤا ود پوترا اور کلہوڑو اپنا شجرہ نسب الگ رکھتے‬
‫ہیں ‪ ،‬وہ اپنا شجرہ مصر کے خلیفہ اول مستنصر باہللا سے مالتے‬
‫ہیں۔ ( بحوالہ مراۃ دولت عباسیہ و جواہر عباسیہ)‬
‫کوہسار کے عباسی بہاول پور کے عباسیوں میں سے بھی نہیں‬
‫ہیں۔ ان کا شجرہ نسب بھی کوہسار کے عباسیوں سے بھی بالکل‬
‫الگ ہے۔ بہالپور کے عباسی اپنا شجرہ نسب امیر سلطان احمد دوم‬
‫جو ابوالقاسم عباسی خلیفہ اول مصر کی اوالد سے پانچویں پشت‬
‫سے مالتے ہیں۔ (حوالہ تحفتہ المکرام )‬
‫امروہہ کے عباسی اپنا شجرہ محمد االمین بن ہاروون الرشید‬
‫سے مالتے ہیں۔‬
‫حوالہ تحقیقاالنساب از محمود احمد عباسی ‪ 1932‬ء ٰن ی دہلی "‬
‫"‬
‫تنولی اپنا شجرہ نسب حضرت یوسفؑ سے مالتے ہیں ۔ جبکہ‬
‫کہسار کے عباسیوں کا شجرہ نسب حضرت عباس بن عبدالمطلب‬
‫رضی ہللا تعا لٰی عنہ سے ملتا ہے۔‬
‫محمت حسین اعوان اپنی کتاب میں ایک اہم بات لکھتے ہیں کہ‬
‫کوہسار کے عباسی جہاں کہیں آباد ہین وہاں ان کے درمیان ایک‬
‫‪،‬علوی ' اعوان کا خاندان آباد ہو گا‬

‫محبت حسین اعوان نے خطہ کوہسار کی پہچان کچھ اس‬


‫طرح بیان کی ہے‬
‫کوہسار کا عباسی الزما" مسلمان ہو گا‪ ،‬کوئی ہندو ' عیسائی‬
‫'سکھ یا ال مذہب عباسی نہیں ہو سکتا۔‬
‫خطہ کوہسار کا عباسی الزمی جدی پشتی محکمہ مال کے کاغذات‬
‫میں زمیندار ہو گا۔‬
‫غیر زمیندار ' غیر کاشتکار ‪ ،‬غیر داخل کار‪ ،‬مزارع۔ اور دستکار‬
‫عباسی نہیں ہو سکتے۔‬
‫جیسے نائی ۔ موچی‪ ،‬کمہار‪ ،‬لوہار‪ ،‬درزی ‪ ،‬ترکھان‪، ،‬مستری‪،‬‬
‫مراثی وغیرہ۔‬
‫خطہ کوپسار کے عباسی کاشتکاری‪ ،‬ہر قسم کی محنت مزدوری‪،‬‬
‫سرکاری اور عسکری نوکری‪ ،‬تبلیغ دین‪ ،‬مساجد کی امامت ‪،‬و‬
‫خطابت ‪ ،‬دوکانداری ‪ ،‬اور ہوٹل کے کاروبار میں زیادہ دلچسپی‬
‫لیتے ہیں۔ بلکہ اب تو راولپنڈی اسالم آباد میں کوئی بھی میڈیا کا‬
‫ایسا ادارہ نہیں ہے جس میں کوئی عباسی نہ ہو‪ ،‬صحافت بھی انکا‬
‫محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔‬
‫خطہ کوہسار کا عباسی اپنا اور اپنے آباؤ اجداد کا شجرہ نسب اور‬
‫گعت ضرور یاد رکھتا ہے‪ ،‬جس کے پاس اپنا شجرہ نسب یا گوت کا‬
‫حوالہ نہیں وہ عباسی نہیں ہے‬
‫زمینیں خرید کر کوئی بھی زمیندار بن سکتا ہے مگر عباسی نہیں‬
‫بن سکتا۔ کوہسار کے ڈھونڈ اورجسکم عباسی قوم نہیں بلکہ قبیلہ‬
‫ہیں۔ برادریاں ترقی کر کے قبیلے بنتے ہیں اور قبیلے مل کر‬
‫‪،‬قومیں بنتیں ہین‬
‫پاک وہند میں بے شمار بیرونی اقوام کی آمدو رفت‪ ،‬جنگ و‬
‫جدل ‪ ،‬اور شکست کے آثار ملتے ہیں ‪ ،‬جا جنگجو اس سر زمین‬
‫پر آۓ اور واپس چلے گے ان کے تذکرہ جات کتابں میں ملتے ہیں‬
‫۔ لیکن اس تاریخی عمل کے دوران ایک قبیلہ ایسا نظر آتا ہے'‬
‫جس نے فتوحات کے بعد نہ تو بر صغر پاک و ہند سے واپس‬
‫جانے کا سوچا اور نہ ہی صدیوں کی رہاش کے باؤجود اپنے آبای‬
‫اور قبائیلی خصآئل کو بدال یہ قبیلی عباسی ہے جس کو عربی‬
‫النسل اور عربی االصل ہونے کا شرف حاصل ہے‪ ،‬عباسیوں نے‬
‫مختلف معشرتی اور جغرافیا یء ماحول میں آ جانے کے باوجود‬
‫اپنی خصوصیات کو برقرار رکھا۔‬
‫کوہسار کے عباسی مخلص اور صلح جو ہیں دوستی رشتوں ناتوں‬
‫کے لیے بھی اپنے قبیلے کو ترجیع دیتے ہیں ۔ پہلے تو بیتیوں کے‬
‫رشتے بھی اپنے قبیلے کے عالوہ نہیں دیتے تھے مگر اب ایسا‬
‫نہیں ہے۔ چوری اور ڈاکہ زنی سے پرہیز کرتے ہیں۔ مذہبی‬
‫رسومات پر عمل پیرا ہیں۔‬
‫اپنے عالقے کے لوگوں خواہ وہ کسی بھی قبیلے سے ہوں ہر قسم‬
‫کی مدد امداد اور ہمدردی کرنے میں کشادہ دلی کا اظہار کرتے ہیں‬

You might also like