Professional Documents
Culture Documents
﷽
ابتدائیہ /پس منظر
اسالم علیکم قارعین ' بڑے عرصے سے یہ خواہش دامنگیر تھی کہ کہوٹہ میں
بسنے والے عباسیوں کا شجرہ حاصل کروں کیونکہ بہت کم لوگوں کو اپنے
بارے میں صرف پردادا تک ہی معلومات تھیں ،شجرہ ایک ضروری اور البدی چیز
ہے ،جسکو خاندان کا ہر ایک فرد و بشر پیرو جواں اور بچوں تک جاننا ضروری
ہے ،اس خاکسار کو بھی یہی شوق پیدا ہوا ،جبکہ انٹرنیٹ پرتالش کریں تو اسامہ
علی عباسی کا تحریر کردہ شجرہ ملتا تھا جس میں صرف گالب خان کی اوالد
کوتفصیلی شجرہ سے ظاہر کیا گیا تھا۔ جبکہ اسامہ علی کی تحقیق اور ہماری سینہ بہ
سینہ معلومات اور قلمی شجرہ جات کے مطابق کہوٹہ میں حسن خان المعروف جس
خان کے بیٹے اور ڈھونڈ خان کے چار پوتوں کی اوالد ۤا باد تھی۔ جس کا کوئی
تفصیلی شجرہ موجود نہیں تھا۔
ریاض الرحمان ساغر صاحب کی ایک کتاب میں ہمارا شجرہ کا ذکر میری نظر سے
گزرا تو اس میں ،میں نے اپنے خاندان کی بہت سی غلطیاں دیکھیں ،اس میں کوئی
شک نہیں کہ ساغر صاحب نے ملت عباسیہ کیلیے گراںقدر خدمات سر انجام دیں ہیں
مگر ہمارے عالقے کی انکو واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام ان سے ادھورا رہ
گیا ۔ اس وجہ سے اس قبیلہ کا نسب نامہ تیار کرنے اور دوسرے مصنفین سے رہ
جانے والی چیزیں اور شجرہ کی تاریخ کو صیحیح سمت پر ڈالنے کے لیے ہماری
کاوش کی بنیاد بنی ہے۔ ساغر صاحب چونکہ غیر مقامی ہونے کی وجہ سے کچھ
ایسے خاندان انکے شجرہ میں شامل ہو گے تھے جن کا ہمارے ساتھ کوئی نسبتی تعلق
نہیں تھا۔ دوسرا ہماری قوم کے جواں سالہ طالب علم اور تحقیق کار اسامہ عباسی
جن کا تعلق مری سے ہے ان کی تحقیقی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ،
چونکہ انکا تعلق بھی مری سے ہے ،انکو بھی ہمارے عالقے سے واقفیت نہ ہونے
کی بنا پر یہ خدشہ دامنگیر ہوا کی پھر ہمارے درمیان ایسی فیملیاں شامل نہ ہو جائیں
جنکا ہمارے ساتھ نسبتی تعلق نہ ہو ،بس اسی وجہ سے میں نے تالش شروع کی تو
پتا چال کہ موضع سلیٹھہ کے بزرگ حاجی محمد تبارک عباسی صاحب عرصہ ۤا ٹھ
سال سے کہوٹہ کے شجرہ پرکام کر رہے ہیں ۔ میرے شوق و جذبہ کو دیکھ کر انھوں
نے ٓاٹھ سالہ ریکارڈ جو بٰڑ ی محنت اور جانفشانی سے عالقہ کی اہل علم اور زیادہ تر
اساتذہ کرام کی مددسے قلمی شجرہ تیار کیا تھا ،میرے حوالے کیا ،حاجی تبارک
صاحب اورانکی ٹیم سے رہ جانے والے نام جو کہ کولیکشن میں مشکالت تھیں تو
انکو موضع کھوئیاں سے تعلق رکھنے والے بزرگ اور تاریخ کا علم رکھنے والے
ماسٹر اسالم عباسی صاحب کی کاوش سےاور برگیڈیر سرور عباسی صاحب کی زیر
سرپرتی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ جس میں ہر قبیلے میں سے اہل علم افراد کی
ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ اپنے اپنے قبیلے کا شجرہ تیار کر کے دیں۔ اس طریقہ کار
2
کے مطابق کہوٹہ اور پلندری میں ٓاباد عباسی برادری کا شجرہ محکمہ مال کے
ریکارڈ ،قلمی شجروں اور سینہ بہ سینہ معلومات کی مدد سے تیار گیا گیا ،جن
قبیلہ جات کا ریکارڈ نہیں مل سکا وہ زیر تحقیق ہیں اور ان کو فی الحال شجرہ میں
شامل نہیں کیا گیا ،اہل عالقہ کے کے جن معززین کی ڈیوتی لگائی گئی انھوں نے
نہائیت جانفشانی اور لگن سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور کام کافی حد تک
مکمل ہو چکا ہے ۔ میرے ذمہ چونکی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ تمام شجرہ کو اکھٹا
کرنا اس کو ترتیب دینا ،کنمپیوٹرائیز کرنا اور اس کو کتابی شکل دینا تھا جو کہ ابھی
مکمل ہو چکا ہے ۔ اس کار خیر میں جن لوگوں نے حصہ لیا ان کے نام کتاب کے
شروع میں درج ہونگے۔ ہر قبیلے کا فرد اس شجرہ کمیٹی کا ممبر لیا گیا اگر کوئ
،ٹائیپنگ یا کمیٹی کے ارکان سے کوئی نام رہ گیا ہو تو اس میں شامل ھو جائے گا
نوٹ ،،،اس شجرہ کو کوئی قانونی حثیت نہیں اور نہ ہی اس کو بنیاد بنا کر کسی
فورم پر کوئی شخص کسی قسم کا کلیم کر سکتا ہے ،یہ ہماری نسل کا ذاتی ریکارڈ
ہے اور اس میں شمار تمام قبیلہ جات ہماری نسل سے ہیں جو کی ہم نے بڑی چھان
،بین کے بعد تحریر کیے ہیں
جن قبیلوں کی پشتیں کم ہیں انکی تحقیق جاری ہےکہوٹہ میں بسنے والے عباسی روز
اول سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور تمام گاٰ وں کے لوگ ایک
دوسرے کو جانتے ہیں اور اس ٰم یں کوئی شعبہ نہیں کہ کوئی غیر فیملی اس میں شامل
ہوئی ہو۔
ان کے آباؤ اجداد غیاث الدین ضراب شاہ جنہیں سردار ضراب خان عباسی (998ء -
1070ء) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ،غزنی سلطنت کے سلطان محمود غزنوی کے دور میں
ہرات ،غزنی افغانستان میں مسلح افواج کے گورنر جنرل اور کمانڈر تھے۔ وہ 1020ء میں محمود
غزنوی کے ساتھ عباسی خلیفہ القادر باہلل (990ء سے 1031ء) کے دور خالفت میں اپنی جنگی
مہم میں برصغیر آیا اور ریاست کشمیر پر حملہ کیا۔ جب ضراب خان اپنی فوج کے ساتھ کشمیر
پہنچا تو کشمیر کا بادشاہ ساالنہ جزیہ ادا کرنے پر راضی ہوا اور اپنی بیٹی کی شادی بھی عباسی
آرمی چیف سردار ضراب خان عباسی سے کر دی۔ اس نے کشمیر کے بادشاہ سے بڑی دولت اور
زمینیں حاصل کیں اور عباسی خاندان کے سفیر کے طور پر ریاست کشمیر میں ہی آباد ہو گئے۔
ان کی قبر ضلع راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ کے گاؤں درانکوٹ میں ہے۔ سردار ضراب خان،
طائف شاہ کا بیٹا تھا جو 974سے 991عیسوی تک حکومت کرنے والے عباسی خلیفہ الطائع لی
امر ہللا کے دور میں خراسان میں ایک عباسی کمانڈر تھا۔ بعد میں اس نے خراسان میں سبگتیگین
(محمود غزنوی کے والد) کے لشکر میں شمولیت اختیار کی۔
غیاث الدین ضراب شاہ المعروف سردار ضراب خان عباسی کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام غئی
محمد اکبر تھا جسے سردار اکبر غئی خان عباسی بھی کہا جاتا ہے جس کی قبر بھی درانکوٹ،
کہوٹہ میں ان کے والد کی قبر کے ساتھ ہے۔ سردار اکبر غئی خان عباسی کے پانچ بیٹے تھے جن
،کے نام کنور خان (کہوندر خان) ،سردار خان (سراڑہ خان) ،سالم خان
4
ثناء ولی خان (تناولی خان) اور مولم خان تھے جن سے ان کی نسل پھیلتی ہے۔
وہ ڈھونڈ عباسی ،جسکم عباسی ،گہیال عباسی ،سراڑہ عباسی اور تنولی عباسی قبائل کے جد امجد
تھے۔ کنور خان المعروف کہوندر خان کے تین بیٹے تھے جن کا نام فرادم خان ،بہادر خان اور کالو
خان (کالو رائے خان) تھا۔ فرادم خان جنکی اوالد راجوری ،ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں آباد تھی
اور بہادر خان جس کی نسل کثیر ،ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں پھیلی ہوئی تھی۔ کالو خان (
1083ء تا 1150ء) مقبوضہ جموں کشمیر کے عالقے سے جھلہاڑی ،پلندری پونچھ ،اب
آزاد کشمیر چال گیا ،اس نے کشمیری بادشاہ راجہ رستم رائے کی بیٹی سے شادی کی اور اس کا
جانشین بنا۔ اسے "رائے" کا خطاب مال تو کالو خان کا نام کالو رائے خان ہو گیا۔ دوسرا حوالہ کہتا
ہے کہ اس نے کشمیر کے راجہ دھنی رائے کی بیٹی سے شادی کی۔ مری ،ہزارہ اور آزاد کشمیر
کے ڈھونڈ عباسی ،جسکم عباسی اور گیہال عباسی قبائل اپنے خاندان کی جڑیں کالو رائے خان
(کالو خان) سے واپس کرتے ہیں۔ کالو خان کے بیٹے کا نام قدرت ہللا خان المعروف قوند خان تھا
اور قدرت ہللا خان کا بیٹا نیک محمد خان المعروف نکودر خان ہوا اور نیک محمد خان کا دلیل
محمد خان تھا اور دلیل محمد خان کا راسب خان تھا۔ راسب خان کے دو بیٹے تھے جن کے نام شاہ
ولی خان عباسی المعروف ڈھونڈ خان اور باغ ولی خان عباسی المعروف بھاگ خان تھے۔ مری،
ہزارہ ڈویژن اور آزاد کشمیر کے ڈھونڈ عباسی اپنی جڑیں شاہ ولی خان عباسی (ڈھونڈ خان) سے
واپس کرتے ہیں جب کہ آزاد کشمیر اور کہوٹہ کے گیہال اور جسکم عباسی اپنی جڑیں باغ ولی
خان عباسی (بھاگ خان) سے واپس کرتے ہیں۔ یہ واقعہ 1836عیسوی میں فارسی میں لکھی
جانے والی مشہور تاریخ کی کتاب ضراب خان عباسی کے خاندانی شجرہ کے ساتھ مراۃ السالطین
جلد اول میں درج ہے۔ نیز خاندانی شجرہ نسب کے ساتھ ڈھونڈ عباسیوں کی مکمل تاریخ
انساب ظفرآباد جونپور اعظم گڑھ ہند سن اشاعت 1800ء اور عباسیان ہند 1819ء میں
مفتی نجم الدین ثمرقندی کی تحریر کردہ میں بیان ہیں۔ نیز بہت سے تاریخی حوالہ جات ڈھونڈ
عباسیوں کے بارے میں 16ویں اور 17ویں صدی میں لکھی گئی کشمیر کی تاریخ کی پرانی
کتابوں میں لکھے گئے ہیں۔
لفظ "ڈھونڈ" ایک اعزازی نام تھا جو ان کے جد امجد حضرت شاہ ولی خان عباسی (ء- 1192
1258ء) کو دیا گیا تھا ،جسے ان کے روحانی شیخ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی نے ڈھونڈ خان
کے نام سے پکارا ۔ واقعہ یوں درج ہے کہ آپ اپنے پیر و مرشد سے بچھڑ گئے تھے اور کافی
تالش بسیار کیبعد آپکو تالش کیا گیا ،اس وجہ سے آپ ڈھونڈ خان کے نام سے بھی جانے جاتے
ہیں۔ حضرت سردار شاہ ولی خان عباسی بھی صوفی بزرگ تھے۔ شاہ ولی خان کے بیٹے کا نام
سردار حسن خان تھا جسکی قبر جھلہاڑ ،پلندری آزاد کشمیر میں ملتی
ہے ۔ انکی اوالد میں اولیاء و صوفیاء کثرت سے پیدا ہوئے ہیں۔ حضرت شاہ ولی خان عباسی کے
بھائی کا نام باغ ولی خان تھا جو کہ جسکم اور گیہال عباسیوں جو کہ ضلع راولپنڈی کی تحصیل
کہوٹہ کے ساتھ آزاد کشمیر کے پونچھ اور باغ اضالع میں رہتے ہیں انکے جدامجد ہیں۔ انکی اوالد
غیاث الدین ضراب شاہ کے فرزند اکبر غئی خان کی نسبت خود کو گیہال کہتی ہے جبکہ باغ ولی
خان کے بیٹے کا نام جسکمب خان ملتا ہے جسکی نسبت اسکی چند زریات اس نام سے مشہور
ہوئی جو کہ کہوٹہ کے گردونواح میں آباد ہیں۔
5
بھمبر ،گوجر خان ،کلرسیداں اور دریائے جہلم کے کنارے مضافاتی عالقوں میں آباد عباسیوں پر تحیقیق کی تو معلوم ہوا کہ ،
پاجل خان ،راجی خان کی اوالد پلندری پلندری میں جسکم خان ولد باغ ولی خان کی نسل سے
جب ان سے مصدقہ محکمہ مال کا ریکارڈ مضافات اور کہوٹہ میں موضع سنگیاں آباد ہے۔
دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف جسکم عباسی اور جسکم گیال ہیں اور ہمارے محکمہ مال میں صرف جسکم درج
ہے۔۔جبکہ کہوٹہ میں موجود ڈھونڈ عباسی قبیلے کی گمنام شاخ جو 1831ء کیبعد ڈوگروں کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے
جسکم کہا انکے محکمہ مال میں جسکم ڈھونڈ لکھا گیا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے محکمہ مال میں
جسکم ڈھونڈ درج یے وہ شاہ ولی خان عرف ڈھونڈ خان کے بیٹے حسن خان المعروف جس خان کی اوالد و اسکی نسل سے
ہیں جبکہ جن لوگوں کے محکمہ مال میں صرف جسکم درج یے وہ جسکم خان ولد باغ ولی خان کی اوالد سے جسکم عباسی
جن کا دربارپلندری میں ولی کامل بزرگ پیر مقصود گولڑوی ہیں ۔ ۔پاجل خان
کی اوالد سے
ان کا فرزند ہے جو کہ شجرہ کے حوالے سے کا فی متحرک ہےاور پلندری واقع ہے ،ساجد مقصود جامی
کی اوالد کو اس نے اکھٹا کیا اور ان کا ریکارڈ رکھے ہوئے ہے میں ۤا باد پاجل خان
شاہ ولی خان کی نسل ڈھونڈ کہالئی جبکہ انکے بھائی باغ ولی خان کی اوالد انکے بیٹے جسکم خان کی نسبت
جسکم کہالئی ،اسی جسکم خان کی 14پشت پر دو افراد کھرل عباسیان آباد ہوئے جنکی اوالد گہیال کہالتی ہے اس طرح
گیہال شاخ ،جسکم عباسی قبیلے کی زیلی شاخ ہے۔ جسکم قبیلے میں جسکم ،کھتریل اور گہیال یہ شُاخیں
ہیں
۔جسکم ڈھونڈ سے مراد شاو ولی خان کے بیٹے حسن خان کی جو بیٹے کہوٹہ اور پلندری چلھاڑ
میں آباد ہوئے انکی اوالد جسکم ڈھونڈ ہے۔ حسن خان المعروف جس خان موضع چلھاڑ میں مدفون
ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کہوٹہ اور چلھاڑ کے ڈھونڈ عباسی اپنے جد امجد کی ۤا بائی
زمین پر ۤا باد ہیں اور گالب خان ان کا بھائی یہاں سے ہجرت کر کے اپنے دادا کے عالقے میں
چال گیا۔ پلندری میں چلھاڑ ہمارا ۤا با ئی مسکن ہے کالو رائے بھی چلھاڑ میں ٓاباد تھا اس سے
ظاہر ہوتا ہے کہ شاہ ولی خان چونکہ ایک ولی کامل بزرگ تھے اس لیے انھوں نے تبلیغ اور
اسالم کی اشاعت کے لیے مری کو اپنا مسکن بنایا جبکہ ان کی اوالد اپنے ٓابٰا و اجداد کی جگہ قائم
رہی صرف گالب خان ہی وہاں جا کر ۤا باد ہوا۔ محل وقوع کے لحاظ سے پنجاڑ سلیٹھہ دوبیرن
عباسیاں سالمبڑ کھئیاں چنوئیاں اور سوڑ یہ سارے گاوں چلھاڑ کے ساتھ ایک ہی پٹی ہے۔ جو
کی اب اپنی شناخت کھو رہا ہے لہذا شمالی پاکستان میں بسنے والے عباسی برادری کو اپنے ۤا بائی
،مسکن کو نہیں بھولنا چائیے
سہوُ خان ان کی اوالد پلیدری چلھاڑ اور کہوٹہ نڑھ میں موضع سلطان محمد خان عرف
چیڑاس میں ۤا باد ہے
ان کی اوالد کہوٹہ میں موضع بلڑیا اور موضع سوڑ میں ۤا باد پیر محمد خان عرف بیرولی خان
ہے
6
بچو خان ان کی اوالد کہوٹہ میں موضع سلیٹھہ ،پنجاڑ ،دوبیرن غالم محمد خان عرف
عباسیاں ،کے گردو نواع میں ۤا باد ہے
ان کی اوالد کہوٹہ میں موضع کھوئیاں ،سالمبڑ ، رحمت علی شاہ عرف ککی خان
اور موضع سوڑ میں ۤا باد ہے چنوئیاں ،کیرل
کی اوالد مری ،لورہ ہزارہ اور کشمیر میں ۤا باد ہے گالب خان
حوالہ عباسیان ہند ،النساب القباُیل اکبریہ ،مقامی شجرہ و روایات
نقل تحقیق اسامہ علی عباسی
کی مشہور شخصیات میں سے ایک پیر نعمت شاہ عباسی المعروف ڈھونڈ عباسی قبیلے
ہیں ،جنہیں مقامی پہاڑی زبان میں دادا ڈھمٹ خان عباسی (1295ء 1370 -ء) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دائمت بابا
پیر نعمت شاہ عباسی ایک ولی کامل گزرے ہیں اور ان کا مزار دناہ ،گھوڑا گلی ،مری میں ہے۔ چودھویں صدی
کے وسط میں وہ کشمیر کے خطہ پونچھ سے مری کی پہاڑیوں میں آباد ہوئے۔ وہ مری کی پہاڑیوں سے ملحقہ خطہ ہزارہ
اور تحصیل دھیرکوٹ ،ضلع باغ کشمیر اور کشمیر کے ضلع مظفرآباد کے عباسی قبائل کے دادا ہیں۔ پیر نعمت شاہ کے پانچ
پائندہ خان ،بہادر خان ،تاج محمد خان المعروف ٹوٹہ خان ،چمن بیٹے ہوئے جن میں
پیر نعمت شاہ کے مشہور روحانی پوتوں میں پائندہ خان کی نسل سے پیر حضرت سردار عبدالرحمن خان عباسی (
1406ء 1480 -ء) ہیں جنہیں مقامی طور پر دادا رتن خان عباسی اور حضرت سردار قاسم خان عباسی (چاند خان عباسی)
کے نام سے جانا جاتا ہے ،جن کا مزار چمن کوٹ ،تحصیل دھیرکوٹ آزاد کشمیر میں ہے۔ یہ دونوں بھائی سرکل بکوٹ
ڈھونڈ عباسی قبیلے کے آباؤ اجداد ہیں ،ان کی اوالد مری ،ہزارہ ،مری اور آزاد کشمیر کے رتنال اور چندال
کی اوالد میں چھٹی پشت پر پیر سرکل بکوٹ ہزارہ اور کشمیر میں آباد ہیں۔ حضرت عبدالرحمان عباسی
حافظ سراج الدین المعروف پیر ملک سورج اولیاء رح کا نام آتا ہے جو کہ خطہ کوہسار و پوٹھوہار
کی عظیم روحانی شخصیت گزرے ہیں۔ انکا شمار حضرت سید شاہ عبداللطیف کاظمی المعروف حضرت بری امام سرکار رح
میں واقع ہے۔ کے خاص رفقاء و دوستوں میں ہوتا تھا۔ انکا مزار مری کے گاؤں پوٹھہ شریف
اسامہ علی عباسی
انجمن ملت عباسیہ ،ادارہ تحقیق االنصاب ملت عباسیہ ادارہ بیت الحکمت ، اعباسیہ،
7
ا س تحریر کا زیادہ حصہ اسامہ علی عباسی کی تحقیق سے نقل کیا گیا ہے اور
صفحہ نمبر 5اور 6میں اپنی معلومات کا اضافہ کیا گیا ہے اسامہ عباسی نے اپنی
تحقیق میں کہوٹہ کے عباسی خاندان کا ذکر کر کے گالب خان کی اوالد کا تفصیلی
ذکر کیا تھا اور گالب خان کے چار بھائی جو کہوٹہ اور پلندری میں ۤا باد تھے انکی
ٖت فصیل چھوڑ دی تھی۔ لہذا یہاں کہوٹہ اور پلندری میںۤ آباد ڈھونڈ خان اور رائیب خان
المعروف بھاگ ولی کی اوالد کا تفصیلی ذکر کر کے اسامہ کی تحقیق میں اضافہ کر
دیا ہے ۔۔
صوبیدار عبدالعزیز عباسی موضع سوڑ ڈھوک منجن تحصیل کہوٹہ
8
تاریخ عباسی
خالفت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے
دوسری سلطنت خالفت عباسیہ کہالتی ہے۔ جس کا قیام 750ء (132ھ) میں عمل میں آیا
اور 1258ء (686ھ) میں اس کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ خالفت ایک تحریک کے ذریعے قائم
ہوئی جو بنو امیہ کے خالف تھی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول
کے لیے جدوجہد کی اور باآلخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد برسر اقتدار آگئی
خالفت عباسیہ عروج کے زمانے میںعباسیوں کی حکومت بھی امویوں کی طرح شخصی
اور موروثی تھی اور ولی عہدی کا بھی وہی طریقۂ کار تھا جو بنو امیہ نے اختیار کیا ہوا
تھا ۔ خاندان عباسیہ نے دارالحکومت دمشق سے بغداد منتقل کیا اور دو صدیوں تک مکمل
طور پر عروج حاصل کئے رکھا۔ زوال کے آغاز کے بعد مملکت کئی حصوں میں تقسیم
ہوگئی جن میں ایران میں مقامی امراء نے اقتدار حاصل کیا اور المغرب اور افریقیہ اغالبہ
اور فاطمیوں کے زیر اثر آگئے ۔ عباسیوں کی حکومت کا خاتمہ 1258ء میں منگول فاتح
ہالکو خان کے حملے کے ذریعے ہوا۔ تاہم خلیفہ کی حیثیت سے ان کی حیثیت پھر بھی
برقرار رہی اور مملوک سلطان ملک الظاہر بیبرس نے خاندان عباسیہ کے ایک شہزادے
ابو القاسم احمد کے ہاتھ پر بیعت کرکے اس کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کیا۔ اس طرح
خالفت بغداد سے قاہرہ منتقل ہوگئی تاہم یہ صرف ظاہری حیثیت کی خالفت تھی ،تمام
اختیارات مملوک سالطین کو حاصل تھے۔عثمانیوں کے ہاتھوں مملوکوں کی شکست کے
بعد عباسیوں کی اس ظاہری حیثیت کا بھی خاتمہ ہوگیا اور خالفت عباسیوں سے عثمانیوں
میں منتقل ہوگئی۔ موجودہ عراق میں تکریت کے شمال مشرق میں رہنے واال العباسی قبیلہ
اسی خاندان عباسیہ سے تعلق رکھتا ہے۔
] فہرست
پس منظر
حصوِل اقتدار
مشہور خلفاء
9
ابو العباس السفاح ()754-750
مہدی ()785-775
کارنامے
زوال کی وجوہات
دور اول ()861-750
حوالہ جات
پس منظر ] [
خاندان بنو امیہ کی حکومت کے دوِر زوال میں سلطنت میں ہر جگہ شورش اور
بغاوتیں شروع ہوگئی تھی جن میں سب سے خطرناک تحریک بنی ہاشم کی تھی۔ بنی
ہاشم چونکہ اس خاندان سے تھے جس میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم ہوئے
ہیں اس لیے وہ خود کو خالفت کا بنی امیہ سے زیادہ مستحق سمجھتے تھے ۔ بنی
ہاشم میں بھی دو گروہ پیدا ہوگئے تھے۔ ایک وہ جو حضرت علی رضی ہللا عنہ کو
اور ان کے بعد ان کی اوالد کو خالفت کا حقدار سمجھتا تھا۔ یہ گروہ شیعاِن علی کا
طرفدار کہالتا تھا۔ بعد میں اسی گروہ میں سے کچھ لوگوں نے شیعہ فرقے کی شکل
اختیار کرلی اور وہ اثنا عشری کہالتے ۔ بنو عباس کی دعوت عمر بن عبدالعزیز
کے زمانے میں ہی شروع ہوگئی تھی۔ ہشام کے دور میں اس نے سند حاصل کرلی۔
امام حسین رضی ہللا عنہ کی شہادت کے بعد شیعان علی نے منصب امامت امام کے
صاحبزادے حضرت زین العابدین کو پیش کیا لیکن جب انہوں نے قبول نہیں کیا تو
شیعوں نے حضرت علی کے غیر فاطمی فرزند محمد بن حنفیہ کو امام بنا لیا اور اس
طرح امامت کا منصب اہل بیت نبوی سے علوی شاخ میں منتقل ہوگیا۔ محمد بن حنفیہ
کے بعد ان کے صاحبزادے ابو ہاشم عبدہللا جانشیں ہوئے اور ایران میں ان کی دعوت
خفیہ انداز میں پھیلتی رہی۔ 100ھ میں ابو ہاشم نے شام میں وفات پائی۔ اس وقت ان
کے خاندان میں سے کوئی شخص ان کے پاس نہیں تھا۔ مشہور صحابی حضرت
عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ کے پوتے محمد بن علی قریب موجود تھے اس لیے ابو
ہاشم نے ان کو جانشیں مقرر کرکے منصب امامت ان کے سپرد کردیا اور اس طرح
امامت علویوں سے عباسیوں میں منتقل ہوگئی۔ بنی ہاشم کی یہ دعوت عمر بن
عبدالعزیز سے ہشام تک خفیہ رہی اور عراق اور خراسان کے بڑے حصے میں پھیل
گئی۔ 126ھ میں محمد بن علی کا انتقال ہوگیا اور ان کے بڑے بیٹے ابراہیم بن محمد
ان کے جانشیں ہوئے۔ ان کا مرکز شام میں ایک مقام حمیمہ تھا۔ ان کے دور میں
تحریک نے بہت زور پکڑ لیا اور مشہور ایرانی ابو مسلم خراسانی اسی زمانے میں
عباسی تحریک کے حامی کی حیثیت سے داخل ہوا۔ اس نے ایک طرف عربوں کو
آپس میں لڑایا اور دوسری طرف
11
ایرانیوں کو عربوں کے خالف ابھاراس جگہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ محمد بن علی
نے ابو مسلم کو ہدایت کی تھی کہ خراسان میں کوئی عربی بولنے واال زندہ نہ چھوڑا
جائے۔ مروان کے دور میں اس سازش کا انکشاف ہوگیا اور ابراہیم کو قتل کردیا گیا۔
اب ابراہیم کا بھائی ابو العباس عبدہللا بن علی جانشیں ہوا۔ اس نے بھی حکم دیا کہ
خراسان میں کوئی عرب زندہ نہ چھوڑا جائے۔ اس نے ابراہیم کے غم میں سیاہ لباس
اور سیاہ جھنڈا عباسیوں کا نشان قرار دیا۔عربی اور ایرانی ہمیشہ ایک دوسرے سے
نفرت کرتے تھے اور جب ایران پر عربوں کا قبضہ ہوا تو خلفائے راشدین نے
منصفانہ حکومت قائم کرکے اس نفرت کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن بنو امیہ کے
حکمران خلفائے راشدین کے اصولوں پر نہ چلے۔ ایرانیوں کو بھی حکومت سے
شکایت بڑھتی چلی گئی۔ وہ اب مسلمان ہوگئے تھے اور بحیثیت مسلمان عربوں کے
برابر حقوق چاہتے تھے۔ جب ان کے برابری کا سلوک نہیں کیا گیا تو وہ بنو امیہ کی
حکومت کا تختہ پلٹنے کی فکر کرنے لگ گئے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے
انہوں نے بنو ہاشم کا ساتھ دیا۔[ترمیم] حصوِل اقتدارابنو امیہ کے زمانے میں عربوں
اور ایرانیوں کے درمیان نفرتیں بڑھنے کے عالوہ خود عربوں کے اندر قبائلی
عصبیت اور اختالفات بھی بہت بڑھ گئے تھے۔ یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ رنگ و
نسل کے یہ اختالفات جن کو مٹانے کے لیے اسالم آیا تھا اتنی جلدی پھر سر اٹھانے
لگے اور ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرے لگا۔ اس اختالف
کی وجہ سے عربوں کی قوت کمزور ہوگئی اور بنو امیہ کا سب سے بڑا سہارا چونکہ
عرب تھے اس لیے ان کی قوت کمزور ہونے سے بنو امیہ کی سلطنت بھی کمزور پڑ
گئی۔اسالمی دنیا کی یہ حالت تھی کہ بنی ہاشم کے حامیوں نے ایرانیوں کی مدد سے
خراسان میں بغاوت کردی۔ ہشام کے نا اہل جانشین اس بغاوت کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اس
جدوجہد میں ایک ایرانی سردار ابو مسلم خراسانی سے بنی ہاشم کو بڑی مدد ملی۔ وہ
بڑا متصعب ،ظالم اور سفاک ایرانی تھا لیکن زبردست تنظیمی صالحیتوں کا مالک تھا۔
بنی ہاشم کے یہ حامی ماوراء النہر اور ایران پر قبضہ کرنے کے بعد عراق میں داخل
ہوگئے جہاں بنی امیہ کے آخری حکمران مروان بن محمد نے دریائے زاب کے
کنارے مقابلہ کیا لیکن ایسی شکست کھائی کہ راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ بعد میں
مروان پکڑا گیا اور اس کو قتل کردیا گیا۔ دارالخالفہ دمشق پر بنی ہاشم کا قبضہ ہوگیا
اور بنی ہاشم کی شاخ بنی عباس کی حکومت قائم ہوگئی۔۔خاندان عباسیہ نے 500سال
سے زائد عرصے تک حکومت کی جو ایک طویل دور ہے۔ اس طویل عہد میں
عباسیوں کے کل 37حکمران برسر اقتدار آئے اور ان میں سے کئی قابل و
صالحیتوں کے مالک تھے۔
12
ابو العباس السفاح ()754-750
عبدہللا بن محمد المعروف ابو العباس السفاح پہال عباسی خلیفہ بنا۔ مورخین نے اس کی
عقل ،تدبر اور اخالق کی تعریف کی ہے لیکن اس کے ظلم و ستم نے تمام خوبیوں پر
پانی پھیر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ سفاح کے دست راست ابو مسلم خراسانی نے بنی امیہ کا
اقتدار ختم کرنے کے لیے 6الکھ انسان ہالک کیے۔ دمشق فتح کرکے عباسی افواج نے
وہاں قتل عام کیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی ہللا عنہ سمیت تمام اموی حکمرانوں کی
قبریں تک کھود ڈالی گئیں۔ ہشام بن عبدالملک کی الش قبر سے صحیح سالمت ملی تو
اس کو کوڑوں سے پیٹا گیا اور کئی دن سر عام لٹکانے کے بعد نذر آتش کردیا گیا۔ بنو
امیہ کا بچہ بچہ قتل کردیا گیا اور اموی سرداروں کی تڑپتی الشوں پر فرش بچھا کر
کھانا کھایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مورخین نے ابو العباس کو سفاح (یعنی خونریزی
کرنے واال) کا لقب دیا ہے۔
ابو جعفر المنصور ([] )775-754
اگرچہ پہال خلیفہ ابو العباس تھا لیکن عباسیوں کا پہال نامور حکمران اس کا بھائی ابو
جعفر المنصور تھا جو سفاح کے بعد تخت پر بیٹھا۔ اس نے 22سال حکومت کی اور
خالفت عباسیہ کی جڑوں کو مضبوط کیا۔ اس نے دریائے دجلہ کے کنارے ایک نیا
شہر آباد کرکے دارالحکومت وہاں منتقل کیا جو بغداد کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نے
ابو مسلم خراسانی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے اسے قتل کرادیا
13
14
واثق باہلل ( )847-842اور متوکل ( )861-847عباسیوں کے عہد عروج کے آخری
دو خلفاء تھے جن کے دور کی خاص بات سلطنت کی عسکری طاقت میں اضافہ تھا۔
تاہم متوکل کے بعد خالفت زوال کی جانب گامزن ہوگئی اور ان کی وسیع و عریض
سلطنت کی حدود کم ہوتی چلی گئیں۔
ہارون کو خاص طور پر جعفر برمکی سے بڑی محبت تھی جو اس کا قابل وزیر تھا۔
لیکن ہارون سے کسی بات پر اس سے ناراض ہو کر اسے قتل کردیا۔ اس خاندان کے
زوال کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہارون کو ان کے غیر معمولی اختیارات ،اثرات اور
مقبولیت کی وجہ سے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ خالفت پر قابض نہ ہو جائیں۔
مامون الرشید (] )833-813ترمیم [
ہارون کے بعد اگر کسی اور عباسی خلیفہ کا عہد ہارون کے دور کا مقابلہ کرسکتا ہے
تو وہ مامون الرشید کا دور ہے۔ وہ عادات و اطوار میں اپنے باپ کی طرح تھا بلکہ وہ
ہارون سے بھی زیادہ نرم دل اور فیاض تھا۔ اس کے دور کا اہم واقعہ "فتنۂ خلق قرآن"
ہے۔ مامون اس عقیدے کا قائل ہو گیا تھا کہ قرآن مخلوق ہے اور اس نظریے کو اس
نے اسالم اور کفر کا پیمانہ سمجھ لیا اور علماء کو مجبور کیا کہ وہ اس نظریے کو
تسلیم کریں یا پھر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
مامون کا تو جلد انتقال ہو گیا لیکن اس کے دو جانشینوں معتصم ( )842-833اور
واثق ( )847-842کے زمانے میں خلق قرآن کے مسئلے کی وجہ سے علما خصوصًا
امام احمد بن حنبل رحمت ہللا علیہ پر بہت سختیاں کی گئیں۔
واثق باہلل ( )847-842اور متوکل ( )861-847عباسیوں کے عہد عروج کے آخری
دو خلفاء تھے جن کے دور کی خاص بات سلطنت کی عسکری طاقت میں اضافہ تھا۔
تاہم متوکل کے بعد خالفت زوال کی جانب گامزن ہوگئی اور ان کی وسیع و عریض
سلطنت کی حدود کم ہوتی چلی گئیں
15
زوال کی وجوہات
بنو عباس کے زوال کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ ان کے حکمران نا اہل تھے بلکہ سب
سے بڑی وجہ ترکوں کا عروج تھا جو معتصم کے زمانے سے اپنے اثر و رسوخ میں
اضافہ کررہے تھے۔ اصل میں عباسیوں کو خالفت دالنے میں بڑا ہاتھ ایرانیوں کا تھا
اور عباسیوں نے ذاتی مصلحت کے تحت ایرانیوں کے اثر و رسوخ کے کم کرنے کے
لیے ترکوں کو آگے بڑھایا جو خود ان کے لیے نیک فال ثابت نہ ہوا۔ متوکل کے بعد
ترک امراء کا اقتدار اور بڑھ گیا اب وہ خلیفہ کا حکم سننے سے بھی انکار کرنے
لگے۔ انہوں نے کئی خلفاء کو اتارا اور بعض کو قتل بھی کیا۔ اس طرح ترکوں نے
مرکزی حکومت کو کمزور تو کردیا لیکن خود کوئی مضبوط حکومت قائم نہ کرسکے۔
اور اس صورتحال میں کئی مقامی امراء نے اپنے اپنے عالقوں میں خود مختار
حکومتیں قائم کرلی ۔ جن میں قابل ذکر بنی بویہ ،سامانی اور فاطمی حکومتیں ہیں۔
زوال کے دور میں قرامطہ کا فتنہ بھی رونما ہوا جنہوں نے 50سال تک جنوبی
عراق اور شام میں ظلم و ستم اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا۔
دور زوال کے اچھے حکمرانوں میں قابل ذکر مہتدی تھا جس نے خالفت کو زيادہ
سے زیادہ اسالمی رنگ دینے کی کوشش کی اور اسی کوشش کے نتیجے میں ترکوں
اور اسالمی پابندیوں سے ناالں شاہی حکام اور امرا کی سازشوں کا نشانہ بن کر
ترکوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ اس دور میں سب سے زیادہ خدمات انجام دینے کے
حوالے سے قابل ذکر معتضد ہے جو معتمد کے بعد خالفت پر بیٹھا۔ اس نے ترکوں کا
زور توڑا اور ایک وسیع عالقے پر دوبارہ امن و امان قائم کردیا اور حکومت کی
گرتی ہوئی عمارت کو سہارا دیا۔ اس کے بعد اس کے تین بیٹے مکتفی ،معتضد اور
قاہر باہلل تخت نشین ہوئے۔ جن میں مکتفی اور معتضد اچھے حکمران تھے لیکن اس
کا جانشیں مقتدر تن آسان ،عیش پرست اور شراب و کباب کا رسیا تھا اور باآلخر
معزول کرنے کے بعد قتل کردیا گیا۔حمکرانوں کی عیش پرستی ،نااہلی اور امراء کی
خود سری و اخالقی زوال کے نتیجے میں خالفت کی حدود پھر گھٹنا شروع ہوگئیں۔
اور باآلخر بنی بویہ کے ایک حکمران معز الدولہ نے بغداد پر قبضہ کرلیا۔ عباسی
خاندان بویہی قبضے سے سلجوقیوں کے زیر اثر آگیا۔ یہ حالت دو سو سال تک رہی
اس کے بعد عباسی خلفاء پھر آزاد ہوگئے لیکن ان کی حکومت عراق تک محدود رہی
اور مزید سو سوا سو سال قائم رہنے کے بعد تاتاریوں کے ہاتھوں ختم ہوگئی۔اس میں
شک نہیں کہ بعد کے عباسی حکمرانوں نے اسالمی اقدار کے فروغ کے لیے کام کیا۔
اسالمی قانون کے نفاذ میں دلچسپی لی لیکن اس حکومت کی بھی بنیادی خرابی یہی
16
تھی کہ وہ ملوکیت تھی۔ ان کے ہاتھوں جو انقالب ہوا اس سے صرف حکمران ہی
بدلے ،طرز حکومت نہ بدال۔ انہوں نے اموی دور کی کسی ایک خرابی کو بھی دور نہ
کیا بلکہ ان تمام تغیرات کو جوں کا توں برقرار رکھا جو خالفت راشدہ کے بعد
ملوکیت کے آ جانے سے اسالمی نظام میں رونما ہوئے۔ بادشاہی کا طرز وہی رہا جو
بنی امیہ نے اختیار کیا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ بنی امیہ کے لیے قسطنطنیہ کے قیصر
نمونہ تھے تو عباسی خلفاء کے لیے ایران کے کسرٰی []1اس طرح عباسیوں کے
500:سالہ عہد کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
ھ سے 247ھ تک یعنی ابو العباس السفاح سے متوکل تک ،جس میں 10حکمران132
برسراقتدار رہے۔ یہ حکمران غیر معمولی صالحیتوں کے مالک تھے۔ ابو جعفر،
مہدی ،ہارون اور مامون جیسے عظیم و باصالحیت حکمران اسی پہلے دور سے
وابستہ تھے۔ اس دور میں تہذیب و ثقافت ،علم و ادب اور صنعت و حرفت کی ترقی
عروج پر رہی بلکہ اس کی ترقی دنیا کے لیے ایک مثال بن گئی۔ دوسرا پہلو اس دور
میں عجمی عنصر کا عروج تھا۔ عربوں کے مقابلے میں عجمیوں نے اثر و رسوخ
حاصل کیا۔ اس دور کے آخری خلفا نے عجمیوں کے بارے میں اپنی پالیسی بدل دی
اور ترکوں کو عروج دیا۔ یہ پہال دور ایک صدی تک رہا۔
یہ 247ھ سے شروع ہوکر 422ھ تک دو صدیوں کا دور ہے۔ خلیفہ منتصر سے لے
کر قادر باہلل تک یہ عرصہ خالفت عباسیہ کے دوسرے دور میں شمار کیا جاتا ہے جو
زوال کا دور ہے ،خالفت کمزور پڑ گئی سلطنت کے اختیارات ترکوں اور پھر امیر
االمراء کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ ہر کام حتٰی کہ خلفا کی نامزدگی بھی انہی کی
مرضی سے وتی بلکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خلفا کو تخت پر بٹھانے اور اتارنے
بھی لگے۔ اس دور میں آل بویہ نے عروج حاصل کیا اور ترکوں کی جگہ لی۔ قادر
باہلل کے عہد میں سلجوقیوں ے قدم بڑھائے اور بغداد میں آل بویہ کے اقتدار کا خاتمہ
کردیا کئی دیگر خود مختار ریاستیں مثًال سامانی اور صفاری قائم ہیں جنہوں نے
سلطنت میں دراڑیں پیدا کرکے اسے کمزور کردیا۔
بحیثیت مجموعی ان تینوں ادوار میں سے ہر دور کی اپنی علیحدہ حیثیت ہے۔ آخری
دور میں تمام تر کمزوریوں کے باوجود خالفت کا روحانی لبادہ اور خلیفہ کا مذہبی
تقدس بہرحال برقرار رہا گوکہ سیاسی یکجہتی کا خاتمہ ہوگیا تھا لیکن مذہبی حیثیت
موجود رہی۔ خود مختار ریاستوں کے قیام نے بغداد کی مرکزی حیثیت تو ختم کردی
لیکن دنیائے اسالم کے کئی حکمران خلیفہ سے وفاداری کا دم بھرتے تھے۔
18
13 معتز باہلل.
معتضد باہلل16.
مکتفی باہلل17.
مقتدر باہلل18.
قاہر باہلل19.
راضی باہلل20.
متقی لللہ21.
مستکفی باہلل22.
مطیع لللہ23.
طائع لللہ24.
قادر باہلل25.
مستظہر باہلل28.
مستنجد باہلل32.
مستنصر باہلل36.
مستعصم باہلل37.
19
20
بحوالہ
خالفت و ملوکیت از سید ابو االعلٰی مودودی صفحہ 195
زمرہ جات | :تاریخ اسالم | بنو ہاشم