You are on page 1of 18

‫دور جدید کا فقہی ذخیرہ‬

‫ِ‬
‫(‪)۱‬‬
‫از‪ :‬موالنا سمیع ہللا سعدی‬

‫عصر حاضر تک مختلف مراحل سے گزری‪،‬اس پر‬ ‫ِ‬ ‫زمانہ تدوین سے لے کر‬
‫ٴ‬ ‫فقہ اسالمی‬
‫طریقہ تدریس میں نوع بنوع تبدیلیاں واقع‬
‫ٴ‬ ‫طرز تصنیف اور‬
‫ِ‬ ‫متنوع انقالبات آئے‪،‬فقہ اسالمی کے‬
‫ہوئیں‪،‬فقہائے کرام نے ہر دور کے مطابق فقہ اسالمی کے گرانقدر ذخیرے کی تہذیب وتنقیح‬
‫ب تحریر‪،‬ترتیب‬ ‫طرزتصنیف‪،‬اسلو ِ‬
‫ِ‬ ‫ب فقہ کے‬‫کی‪ ،‬ہر دور کے علمی مزاج و مذاق کے مطابق کت ِ‬
‫مباحث‪ ،‬تحریر مسائل اورتقریر ادلہ میں فقہ اسالمی کے دائرے میں رہتے ہوے مفید تبدیدلیاں‬
‫کیں‪،‬یہی وجہ ہے کہ فقہ اسالمی کی طویل تاریخ پر عمیق نگاہ ڈالنے سے مختلف ادوار سامنے‬
‫آتے ہیں‪،‬ان مختلف مراحل سے واقفیت اور ہر دور کی خصوصیات سے آگاہی فقہ اسالمی کے‬
‫دور جدید‬
‫طا لب علم کے لیے انتہائی ضروری ہے‪،‬ان مختلف ادوار و مراحل میں فقہ اسالمی کا ِ‬
‫مختلف وجوہات کی بنا پر سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے(‪ ،)۱‬اس مضمون میں ہم دور جدید‬
‫کے فقہی ذخیرے اور اس کی متنوع خصوصیات پر ایک تحقیقی نگاہ ڈالنے کی کوشش کریں‬
‫گے۔‬
‫دور جدید کی ابتداء‬
‫فقہ اسالمی کی تاریخ کو ادوار و مراحل میں تقسیم کرنے والے کم و بیش تمام معاصر‬
‫مورخین کے مطابق فقہ اسالمی کے دور جدیدکا آغاز” مجلةا الحکام العدلیہ“ کی تصنیف سے‬
‫ہوتاہے۔(‪)۲‬‬
‫ت عثمانیہ میں عدالتیں فقہ حنفی کے مطابق‬ ‫مجلہ کی تصنیف کا پس منظر یہ تھاکہ خالف ِ‬
‫فیصلے کیا کرتی تھیں‪،‬اس نظام میں جج حضرات کو عموما ً فقہ حنفی کے وسیع ذخیرے میں‬
‫مطلوبہ مبحث کی تالش اور مفتی بہ قول کی تعیین میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا‪،‬اس پر‬
‫مستزاد وقت بھی کافی خرچ ہوتا۔اس کے عالوہ قدیم مصنّفین چونکہ قواعد و ضوابط کو مستقالً‬
‫ذکر کرنے کی بجاے جزئیات کے ضمن میں ذکر کرتے تھے؛اس لیے نئے مسائل کا فیصلہ‬
‫کرتے وقت قواعد کااستخراج بھی انتہا ئی دقت طلب مرحلہ ہوتا‪،‬ان مشکالت کو دیکھتے ہوے‬
‫ت عثمانیہ کے وزیر انصاف نے وقت کے جید فقہاء کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور‬ ‫خالف ِ‬
‫معامالت و نکاح کے ابواب کو قانونی ترتیب کے مطابق دفعہ وار مرتب کرنے کی ذمہ داری‬
‫ت شاقہ کے بعد ‪۱۲۸۵‬ھ میں‬ ‫سونپی؛چنانچہ کمیٹی نے اپنا کام شروع کیا اور سات سال کی محن ِ‬
‫ایک مجموعہ تیار کیا‪،‬اس مجموعے کو ”مجلة االحکام العدلیہ“ کا نام دیا گیا‪،‬اس کے مقدمے‬
‫میں فقہ کے مختصر قانونی تعارف کے ساتھ فقہ اسالمی کے ننانوے ایسے بنیادی قواعد ذکر‬
‫کیے گے‪ ،‬جن پر تقریبا ً فقہ کی پوری عمارت کھڑی ہے اور ان قواعد کا فقہ کے تمام ابواب کے‬
‫ساتھ انتہا ئی مضبوط ربط ہے۔اس پر مغز کے مقدمے کے بعد سولہ مرکزی عنوانات کے‬
‫تحت‪ ۱۸۵۱‬دفعات میں معامالت کے تمام اہم ابواب کا ذکر کیا گیا ہے‪،‬ان تمام مسائل میں مفتی بہ‬
‫اقوال لینے کی کوشش کی گئی ہے؛البتہ بعض مسائل میں حاالت و زمانہ کی ضروریات کے‬
‫پیش نظر ضعیف و مرجوح اقوال بھی لیے گئے ہیں(‪)۳‬۔‬ ‫ِ‬
‫مجلہ کی تصنیف نے واقعی فقہ اسالمی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی داغ بیل ڈال‬
‫عصر حاضر کے‬ ‫ِ‬ ‫دی‪،‬اس وقت سے لے کر آج تک فقہ اسالمی پر اچھا خاصا کام ہوا اور‬
‫تقاضوں کے مطابق فقہ اسالمی کا وسیع ذخیر ہ سامنے آیا‪،‬ذیل میں اس جدید ذخیرے کی مختلف‬
‫انواع و اقسام کا مختصرا ً ذکر کیا جاتا ہے۔‬
‫پہلی قسم ‪:‬جدید قانونی طرز کے مطابق فقہ اسالمی کی ترتیب و تدوین‬
‫فقہ اسالمی کی عام کتب کا طرز اور مباحث کی ترتیب جدید قانونی کتب سے کافی مختلف‬
‫ہے‪ ،‬کتب فقہ میں فقہاء کے اختالفات‪،‬دالئل‪،‬قواعد کی بجاے فروع و جزئیات اور عموما ً راجح و‬
‫مرجوح کی تعیین کے بغیر مسائل ذکر کیے جاتے ہیں‪،‬جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کتب سے‬
‫کامل استفادہ اور راجح اقوال کا انتخاب ایک ماہر اور منجھا ہوا فقیہ ہی کر سکتا ہے‪،‬مجلہ کی‬
‫تصنیف کے بعد عالم اسالم میں فقہ اسالمی کی دفعہ وار ترتیب و تدوین کے رجحان میں کافی‬
‫تیزی آئی‪،‬اور فقہاء نے تقنین کے جواز و عدم جواز پر طویل بحثیں کیں‪،‬اس کے ممکنہ طرق کا‬
‫ذکرکیا‪،‬خاص طور پر عالم اسالم کے مایہ ناز فقیہ شیخ مصطفی الزرقاء نے ”المدخل الفقہی‬
‫العام“ میں تقنین کے حوالے سے مفصل اور پر مغز بحث کی ہے۔(‪)۴‬‬
‫ذیل میں اس حوالے سے چند مفید کاوشوں کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے ‪:‬‬
‫‪ -۱‬سعودی عرب کے معروف عالم شیخ احمد بن عبد ہللا القاری نے سعودی حکومت کے‬
‫ایماء پر فقہ حنبلی کے معامالت کے ابواب کو دفعہ وار مرتب کیا‪،‬یہ مجموعہ ”مجلة اال حکام‬
‫الشرعیہ علی مذہب االمام احمد بن حنبل الشیبانی“کے نام سے موسوم ہوا‪،‬اس کی کل دفعات‬
‫تقریبا ً ‪۲۳۸۴‬ہیں۔‬
‫‪ -۲‬مشہور فقیہ محمد قدوری پاشا نے احوال شخصیہ یعنی نکاح‪،‬وقف اور معا مالت کے‬
‫ابواب کو فقہ حنفی کے مطابق دفعہ وار مرتب کیا اور اسے ”مرشد الحیران لمعرفة احوال‬
‫االنسان“ کا نام دیا۔اس کی کل دفعات تقریبا ً ‪ ۱۰۴۵‬ہیں۔‬
‫‪ -۳‬شیخ ابو زہرہ مرحوم نے نکاح و طالق کے مو ضوع پر ”االحوال الشخصیہ“ کے نام‬
‫سے ایک مفصل کتاب لکھی‪،‬اس کے آخر میں بھی مواد کو دفعہ وار لکھا۔‬
‫‪ -۴‬مصر کے معروف عالم اور اخوان کے مشہور رہنما شیخ عبد القادر عودہ شہید نے‬
‫اسالم کے نظام جرم و سزا پر ”التشریع الجنائي مقارنا با لقانون الوضعی“ کے نام سے ایک مفید‬
‫و مفصل کتاب لکھی‪،‬اس کے آخر میں تمام مسائل کو دفعات کی شکل میں ذکر کیا کل دفعات‬
‫تقریبا‪ ۶۸۹‬ہیں۔‬
‫‪ -۵‬پاکستان کی مشہور شخصیت ڈاکٹر نزیل الرحمان نے ”مجموعہ قوانین اسالم“ کے نام‬
‫سے چھ جلدوں میں اردو میں ایک کتاب لکھی‪،‬جس میں تمام اہم مسائل کو دفعات کی شکل میں‬
‫لکھا گیا ہے۔‬
‫‪ -۶‬ہندو ستان میں آل انڈیا مسلم پرسنل الء کی طرف سے نکاح و طالق کے مسائل دفعہ وار‬
‫مرتب کیے گئے‪،‬یہ کاوش ”مجموعہ قوانین اسالمی“ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کی کل‬
‫دفعات تقریبا ً ‪۵۳۰‬ہیں۔‬
‫‪ -۷‬ہندوستان کے معروف عالم قاضی مجاہد االسالم قاسمی صاحب نے اسالم کے عدالتی‬
‫نظام کو دفعات کی شکل میں مرتب کیا‪،‬اس کی کل دفعات تقریبا ً ‪ ۷۴۰‬ہیں اپنی افادیت کی بنا پر‬
‫عربی میں ترجمہ ہوکر بیروت سے بھی چھپ چکی ہے۔‬
‫دوسری قسم ‪:‬فقہی موسوعات اور انسائیکلو پیڈیازکی تیاری‬
‫دور جدید میں فقہ اسالمی کے حوالے سے ایک رجحان یہ سامنے آیا ہے کہ پوری فقہ‬ ‫ِ‬
‫اسالمی کو الف بائی ترتیب سے موسوعہ اور انسائیکلو پیڈیا کی شکل میں مرتب کیا جائے؛ تا‬
‫کہ وہ حضرات جو فقہ اسالمی کی کتب سے ممارست نہیں رکھتے اور نہ انھیں فقہی کتب کے‬
‫ابواب و مسائل کی ترتیب معلوم ہے‪،‬وہ فقہ اسالمی سے آسانی کے ساتھ استفادہ کر‬
‫سکے؛چنانچہ اس سلسلے میں درج ذیل کوششیں ہوئیں ہیں‪:‬‬
‫‪ -۱‬فقہی موسوعہ تیا ر کرنے کی سب سے پہلی تجویز مشہور فقیہ اور ممتاز مفکر داکٹر‬
‫مصطفی سباعی کی طرف سے آئی جب وہ دمشق یونیورسٹی میں کلیة الشریعہ کے صدر‬
‫بنے‪،‬انھوں نے ایک ضخیم موسوعہ تیار کرنے کا منصوبہ حکومت شام کے سامنے پیش کیا‬
‫اور حکومت نے اسے منظور بھی کیا۔اس سلسلے میں شامی حکومت نے عالم عرب کے ممتاز‬
‫محققین کی ایک کمیٹی تشکیل دی؛لیکن چند وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ چل نہیں سکا اور‬
‫فقہی موسوعہ تیار کرنے کا خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہو سکا۔‬
‫‪۱۹۶۲‬ء میں حکومت مصر نے ایک موسوعہ فقہیہ تیار کرنے کا منصوبہ بنا یا‪،‬یہ‬
‫موسوعہ”موسوعہ جمال عبد الناصر فی الفقہ االسالمی“ کے نام سے موسوم کیا گیا؛چنانچہ اس‬
‫موسوعہ پر باقاعدہ کا م شروع کیا گیا؛لیکن کام کی سست رفتاری کی وجہ سے ابھی تک اس‬
‫ب اربعہ کے ساتھ‬ ‫کی سولہ جلدیں منظر عام پر آئی ہیں‪،‬اس موسوعہ میں مذاہ ِ‬
‫شیعہ‪،‬زیدیہ‪،،‬زیدیہ‪،‬اباضیہ اور ظاہریہ کے مسالک کے بیان کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔‬
‫‪ -۳‬فقہی موسوعہ تیار کرنے کی سب سے کامیاب کوشش وزارت اوقاف کویت کی طرف‬
‫سے سامنے آئی‪،‬حکومت کویت نے ممتاز فقیہ داکٹر مصطفی الزرقا ء کی میں سر براہی ‪۱۹۶۶‬‬
‫ء میں ایک ضخیم موسوعہ کی منظوری دی؛چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس‬
‫موسوعہ کی تیاری پر تیزی سے کام شروع کیا‪،‬ڈاکٹر صاحب کی محنت رنگ الئی اور تیزی‬
‫کے ساتھ اس کی جلدیں منظر عام پر آنے لگیں اور اب تک اس کی پینتالیس جلدیں چھپ چکی‬
‫ہیں۔بال شبہ موضوعات کے استیعاب‪ ،‬اختصار و جامعیت اور تسہیل و ترتیب کے لحاظ سے‬
‫ب اربعہ کے بیان کا التزام کیا گیا ہے‪،‬‬ ‫عصر حاضر کا منفرد و ممتاز ترین کام ہے۔اس میں مذاہ ِ‬‫ِ‬
‫اسالمک فقہ اکیڈمی نے اس ضخیم موسوعہ کا اردو میں ترجمہ کیاہے‪ ،‬جو یقینا اردوداں‬
‫حضرات کے لیے بیش بہا تحفہ ہے۔‬
‫عصر حاضر کے ممتاز محقق ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے صحابہ و تابعین کے اقوال فقہیہ‬ ‫ِ‬
‫یکجا کرنے کا منصوبہ بنا یا؛چنانچہ اس سلسلے میں اب تک صحابہ میں سے حضرت‬
‫عمر ‪،‬حضرت عبد ہللا بن مسعود‪ ،‬ام المومنین حضرت عایشہ اور حضرت عبد ہللا بن‬
‫عمر اور تابعین حضرت حسن بصری اور حضرت ابراہیم نخعی و دیگر معروف تابعین کے‬
‫اقوال فقیہہ فقہی ترتیب کے مطابق جمع کیا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر قلعہ جی کی یہ کوشش بال شبہ‬
‫ایک مایہ ناز و تاریخی پیشکش ہے‪،‬اس سلسلے سے صحابہ و تابعین کی فقہ ایک مرتب شکل‬
‫میں سامنے آئی ہے‪،‬ہللا تعالی ڈاکٹر صاحب کو اس کا بہترین بدلہ عطا فرماے۔اب تک تقریبا ً ‪۱۸‬‬
‫موسوعات منظر عام پر آچکے ہیں۔‬
‫‪ -۵‬ہندوستان کے معروف عالم موالنا خالد سیف ہللا رحمانی صاحب نے ”قاموس الفقہ“ کے‬
‫نام سے اردو میں ایک جامع فقہی موسوعہ ترتیب دیا ہے‪،‬جو چھ ضخیم جلدوں پر مشتمل‬
‫ہے‪،‬اس کے شروع میں فقہ کے تعارف و تاریخ پر ایک مفصل مقدمہ بھی شامل ہے۔رحمانی‬
‫صاحب کا یہ عظیم کام ممتاز اہ ِل علم سے خراج تحسین وصول کر چکا ہے۔‬
‫‪ -۶‬نامور عالم ڈاکٹر احمد علی ندوی نے معامالت سے متعلق قواعد و ضوابط فقہیہ کو ایک‬
‫موسوعہ کی شکل میں جمع کیا ہے‪،‬یہ موسوعہ تین ضخیم جلدوں میں ”موسوعة القواعد و‬
‫الضوابط الفقیہ الحاکمة للمعامالت“ کے نام سے چھپ چکا ہے۔اس میں معامالت سے متعلق‬
‫مذاہب اربعہ کے قواعد و ضوابط الف بائی ترتیب سے ذکر کیے گئے ہیں۔‬
‫‪ -۷‬ممتاز محقق محمد صدقی بن احمد البورنو نے پوری فقہ اسالمی کے تمام قواعد و‬
‫ضوابط کو جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا؛چنانچہ یہ موسوعہ ”موسوعہ القواعد الفقیہ“ کے نام سے‬
‫تیرہ ضخیم جلدوں میں منظر عام پر آیاہے‪،‬محقق بورنو کے اس عظیم الشان کارنامے کی افادیت‬
‫اہ ِل علم پر مخفی نہیں ہے۔‬
‫‪ -۸‬معروف محقق ڈاکٹر سعدی ابو جیب نے ”موسوعة الجماع فی الفقہ االسالمی“ کے نام‬
‫کرام‪،‬ائمہ اربعہ و‬
‫ٴ‬ ‫صحابہ‬
‫ٴ‬ ‫سے تین ضخیم جلدوں میں ایک منفرد موسوعہ تیار کیا ہے‪،‬جس میں‬
‫دیگر فقہاء کے متفقہ و اجماعی مسائل فقہی ترتیب کے مطابق جمع کیے ہیں۔اس ضخیم موسوعہ‬
‫میں تقریبا ً نوہزار سے زائد اجماعی مسائل ذکر کیے گئے ہیں۔‬
‫ت صحابہ کو جمع کرنے کا‬ ‫‪ -۹‬فلسطین کے محقق ڈا کٹر عبد الرحمن العقبی نے اجماعا ِ‬
‫سلسلہ شروع کیا ہے اور اس سلسلے میں اب تک تیرہ جلدیں تیار ہوچکی ہیں‪،‬اس ضخیم‬
‫موسوعة میں مصنف نے ان تمام مسائل کو جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے‪،‬جن پر صحابہ کا‬
‫اجماع منعقد ہوا ہے‪،‬خواہ اصو ِل دین سے متعلق ہوں یا فروع دین سے۔اس منفرد و ممتاز‬
‫کارنامے پر مصنف یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔معروف ویب سائٹ ”ملتقی اہل الحدیث“کے‬
‫مطابق یہ کتاب عنقریب چھپ جائیگی۔‬
‫عصر حاضر کے نامور فقیہ جمال الدین العطیہ نے ”تجدید الفقہ االسالمی“ کے نام‬ ‫ِ‬ ‫‪-۱۰‬‬
‫سے ایک کتاب لکھی ہے‪،‬اس کے آخر میں مصنف نے ایک ضخیم موسوعہ تیار کرنے کا ایک‬
‫منصوبہ پیش کیا ہے‪،‬جس میں عنوانات اور متعلقہ کتب کی بھی اپنی استطاعت کے مطابق‬
‫نشاندہی کی ہے۔ اس موسوعہ کے عنوانات اور اس کی ترتیب سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی‬
‫ممالک اسالمیہ کے نامور فقہاء مل کر اسے مرتب‬‫ِ‬ ‫شخص‪،‬ادارے اور ملک کا کام نہیں ہے؛بلکہ‬
‫کر سکتے ہیں۔اگر یہ موسوعہ اسی ترتیب کے مطابق منظر عام پر آیا‪،‬تو غالبا ً ِ‬
‫دور جدید کی‬
‫سب سے بڑی فقہی پیشکش ہوگی۔‬
‫تیسری قسم ‪:‬فقہ و اصول فقہ کی تاریخ اور جامع تعارف پر مبنی مفید کتب‬
‫عصر حاضر میں فقہ اسالمی کے حوالے سے ایک مفید کام یہ ہوا ہے کہ فقہ و اصول فقہ‬ ‫ِ‬
‫کی مرحلہ وارتاریخ اور مکمل تعارف پر مبنی متعدد کتب سامنے آئی ہیں‪،‬جن میں عہ ِد نبوت‬
‫سے لے کر عصر حاضر تک فقہ و اصول فقہ کی مرحلہ وار تایخ‪،‬ہر دور کی‬
‫خصوصیات‪،‬مختلف فقہی مکاتب خصوصا مذاہب اربعہ کے مناہج استنباط‪،‬ہر فقہی مکتب کے‬
‫معروف فقہاء اور مشہور فقہی کتب کا تعارف اور فقہ اسالمی کے حوالے سے دیگر مفید‬
‫مباحث شامل ہوتی ہیں۔یہ کتابیں عمومی طور پر ”المدخل الی الفقہ“یا ”تاریخ التشریع “کے نام‬
‫سے لکھی گئیں ہیں۔ان کتب کے بعض مباحث سے اختالف کے باوجود یہ بات ماننی پڑے گی‬
‫کہ ان کتب نے فقہ اسالمی کے وسیع ذخیرے اور فقہ اسالمی کی طویل تاریخ سے آگاہی میں اہم‬
‫کردار اد اکیا ہے۔جو مباحث تاریخ کی کتب میں منتشر اور بکھری ہوئی تھیں‪،‬ان کتب نے مرتب‬
‫انداز اور عصری اسلوب میں اسے پیش کیا۔ذیل میں اس حوا لے سے چند اہم اور مفید کتب کا‬
‫مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے ‪:‬‬
‫‪ -۱‬تاریخ التشریع االسالمی للخضری بک‪ :‬مصر کے معروف عالم و مشہور مورخ شیخ‬
‫محمد خضری بک وہ پہلی شخصیت ہیں‪،‬جنہوں نے فقہ اسالمی کی مرحلہ وار تاریخ لکھنے کی‬
‫بنیاد ڈالی‪،‬شیخ خضری بک نے عہد نبوت سے لے کر عصر حاضر تک فقہ کی تاریخ پر‬
‫مشتمل ایک ضخیم کتاب ”تاریخ التشریع االسالمی“ نام سے لکھی‪،‬جس میں پہلی مرتبہ جدید‬
‫اسلوب کے مطابق فقہ کی تاریخ کو چھ ادوار میں تقسیم کر کے ہر دور کا مفصل تعارف اپنی‬
‫کتاب میں پیش کیا۔چند مقامات سے قابل اعتراض ہونے کے باوجود فقہ اسالمی کی تاریخ کے‬
‫حوالے سے بنیادی ماخذ شمار ہوتی ہے۔‬
‫‪ -۲‬الفکر السامی فی تاریخ الفقہ االسالمی‪ :‬مراکش کے معروف مالکی عالم فقیہ عالمہ‬
‫محمد حجوی الثعالبی کی تصنیف ہے‪،‬فقہ اسالمی کی تاریخ پر مشتمل کتب میں غالبا ً سب سے‬
‫مفصل کتاب ہے‪،‬کتاب چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے‪،‬فاضل مصنف نے فقہ اسالمی کی تاریخ‬
‫کو چار ادوار میں تقسیم کر کے ہر جلد میں ایک دور کا مفصل تعارف پیش کیا ہے‪،‬اس کتاب‬
‫میں ہر دور کے متعدد معروف فقہاء کے تراجم سمیت فقہ اسالمی کے حوالے سے نفیس مباحث‬
‫شامل ہیں۔‬
‫‪ -۳‬تاریخ التشریع االسالمی للقطان‪ :‬مصر کے معروف عالم‪،‬اخوان المسلمین کے رہنما‪،‬‬
‫داعی اور مشہور قاضی شیخ مناع خلیل القطان کی تصنیف ہے‪،‬یہ کتاب فقہ اسالمی کی تاریخ پر‬
‫مبنی کتب کا جامع خالصہ ہے‪،‬کتاب میں حسن ترتیب اور عبارت میں سالست نمایاں ہے۔‬
‫‪ -۴‬المدخل الفقہی العام‪ :‬نامور فقیہ شیخ مصطفی الزرقاء کی تصنیف ہے‪،‬جنہوں نے فقہ‬
‫اسالمی کو جدید اسلوب میں پیش کرنے کے حوالے سے قاب ِل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔‬
‫”المدخل الفقہی العام“ فقہ کی تاریخ‪،‬مذاہب فقہیہ کے تعارف‪،‬قواعد فقہیہ اور دیگر فقہی مباحث‬
‫عصر حاضر کے اسلوب میں پیش کرنے کی ایک کامیاب تحقیقی اور تاریخی دستاویز ہے۔‬ ‫ِ‬ ‫کو‬
‫ان کتب کے عالوہ معروف مصری عالم و فقیہ محمد سالم مدکور کی ”المدخل للفقہ‬
‫االسالمی“ مصر کے معروف مورخ اور متعدد تاریخی کتب کے مصنف الدکتور احمد شلبی کی‬
‫”تاریخ التشریع االسالمی“ مشہورعراقی عالم الدکتور عبد الکریم زیدان کی۔”المدخل الی دراسة‬
‫الشریعة االسالمیة“ نامور مصری فقیہ عبد الوہاب خالف کی ”خالصة تاریخ التشریع االسالمی“‬
‫اردن کے معروف عالم الدکتور عمر سلیمان االشقر کی ”تاریخ الفقہ االسالمی“ شام کے معروف‬
‫عالم الدکتور عبد اللطیف صالح الفرفور کی ”تاریخ الفقہ االسالمی“ معروف سعودی عالم الدکتور‬
‫ناصر بن عقیل الطریفی کی ”تاریخ الفقہ االسالمی“ عمان کے معروف عالم الدکتور صالح محمد‬
‫ابو الحاج کی مایہ ناز کتاب ”تاریخ الفقہ االسالمی“ معروف مصری عالم الدکتور حسین حامد‬
‫حسان کی ”المدخل لدراسة الفقہ االسالمی“ معروف سعودی یونیورسٹی جامعہ امام محمد بن‬
‫سعود کے مدیر الدکتور سلیمان بن عبد ہللا بن حمود ابالخیل کی ”المدخل الی علم الفقہ“ معروف‬
‫کویتی عالم الدکتور یوسف احمد محمد البدوی کی ”مدخل الفقہ االسالمی و اصولہ“ جامعہ قطر‬
‫کے دو پروفیسرز الدکتور محمد دسوقی اور امینہ الجابر کی مشترکہ کاوش”مقدمہ فی دراسة‬
‫الفقہ االسالمی“ جامعہ ازہر کے معروف استاد الدکتور محمد علی السایس کی ”نشاة الفقہ‬
‫االجتہادی و اطوارہ“ اور معروف فقیہ الدکتور علی حسن عبد القادر کی ”نظرة عامة فی تاریخ‬
‫الفقہ االسالمی“ فقہ اسالمی کی تاریخ کے حوالے سے اہم کتابیں شمار ہوتی ہیں۔‬
‫اردو میں اس حوالے سے ہندوستان کے مشہور عالم موالنا خالد سیف ہللا رحمانی کی کتاب‬
‫”فقہ اسالمی تعارف و تاریخ“پروفیسر فہیم اختر ندوی اور پروفیسر اختر الواسع کی مشترکہ‬
‫کاوش”فقہ اسالمی تعارف و تاریخ“معروف عالم موالنا محمد تقی امینی کی ”فقہ اسالمی کا‬
‫تاریخی پس منظر“مفتی عمیم االحسان القادری کا مختصر رسالہ”تاریخ علم فقہ“ڈاکٹر سجاد‬
‫الرحمن صدیقی کی ”فقہ اسالمی کا تاسیسی پس منظر“اور مایہ ناز محقق ڈاکٹر محمود احمد‬
‫ت فقہ“فقہ اسالمی کی تاریخ اور تعارف پر مشمتل اہم‬ ‫غازی کے مشہور زمانہ خطبات”محاضرا ِ‬
‫کتابیں ہیں۔‬
‫اصول فقہ کی تاریخ و تعارف کے حوالے سے شام کے معروف عالم الدکتور معروف‬
‫دوالیبی کی ”المدخل الی علم اصول الفقہ“ مشہور شافعی فقیہ ڈاکٹر سعید مصطفی الخن کی مایہ‬
‫ناز کتاب ”دراسة تاریخیة للفقہ و اصول الفقہ و االتجاہات التی ظہرت فیھا“ جامعہ ازہر کے‬
‫معروف پروفیسر ڈاکٹر شعبان محمد اسماعیل کی ”اصول الفقہ تاریخہ و رجالہ“ اور ”المدخل‬
‫لدراسة اصول الفقہ“ اہم کتب شمار ہوتی ہیں؛جبکہ اردو میں اصول فقہ کی مفصل تاریخ کے‬
‫حوالے سے ڈاکٹر فاروق حسن کا پی ایچ‪ ،‬ڈی کا مقالہ ”فن اصول فقہ کی تاریخ“ایک اہم کاوش‬
‫ہے۔‬
‫چوتھی قسم‪:‬الفقہ المقارن یعنی فقہ و اصول فقہ کا تقابلی مطالعہ‬
‫ب فکر کے تقابلی مطالعے کا‬ ‫عصر حاضر میں فقہ اسالمی کے مختلف مسالک اور مکات ِ‬ ‫ِ‬
‫رجحان اہ ِل علم کے حلقوں میں کافی بڑھ گیا ہے‪،‬فقہ اسالمی کے مطالعے میں اس بات کی‬
‫کوشش کی جاتی ہے کہ فقہ اسالمی کے مختلف ابواب میں فقہاء کے بنیادی اختالفات اور‬
‫اختالفی مقدمات سے آگاہی ہو۔اس رجحان کے پیدا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فقہ اسالمی‬
‫ب‬
‫کے معروف عالمی ادارے عصر حاضر کے پیدا کردہ نت نئے مسائل میں کسی خاص مکت ِ‬
‫فکر کی بجائے فقہ اسالمی کے چاروں مکاتب کو سامنے رکھ کر ان مسائل کا آسان اور اقرب‬
‫الی الصواب حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا فقہ اسالمی کے تقابلی‬
‫مطالعے پر مفید تصانیف منظر عام پر آگئیں۔ان میں سب سے زیادہ مشہور کتاب نامور فقیہ‬
‫ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کی مایہ ناز کتاب”الفقہ االسالمی و ادلتہ“ہے جس میں مصنف نے فقہ کے‬
‫تمام ابواب میں مذاہب اربعہ اور ان کے دالئل کے بیان کا اہتمام کیا ہے۔اس کے عالوہ مصر‬
‫کے معروف عالم عبد الرحمن الجزیری کی کتاب”الفقہ علی المذاہب االربعہ“بھی فقہ اسالمی‬
‫کے تقابلی مطالعے کے لیے اہم کاوش ہے۔اسی طرح معروف فقہی موسوعات اور‬
‫انسائیکلوپیڈیاز میں بھی تمام مسالک کے بیان کا التزام کیا گیا ہے۔ اصول فقہ کے تقابلی مطالعے‬
‫کے حوالے سے سب سے مفصل تصنیف معروف یونیورسٹی جامعہ امام محمد بن سعود کے‬
‫معروف پروفیسر ڈاکٹر عبد الکریم النملة کی مایہ ناز کتاب ”المہذب فی اصول الفقہ المقارن“ہے۔‬
‫اس کے عالوہ ڈاکٹر وہبہ الذحیلی کی کتاب”اصول الفقہ االسالمی“ میں چاروں مذاہب کو‬
‫سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔اردو میں ادارہ تحقیقات اسالمی اسالم آباد کی طرف سے شائع‬
‫کردہ کتاب ”اصول فقہ ایک تعارف“اصول فقہ کے تقابلی مطالعے کے حوالے سے مفید کتاب‬
‫ہے۔‬
‫پانچویں قسم‪:‬قواعد فقہیہ اور مقاصد الشریعہ کا احیاء‬
‫فقہ و اصول فقہ کے ساتھ فقہ سے متعلق دو اہم علوم ”قواعد فقیہہ“اور ”مقاصد الشریعہ“آج‬
‫کے فقہاء کی خصوصی توجہ کا مرکز ہے؛کیونکہ فقہ کا ایک ادنی طالب علم بھی بخوبی جانتا‬
‫ہے کہ پیش آمدہ مسائل کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لینے کے لیے قواعد فقہیہ اور مقاصد‬
‫الشریعہ سے واقفیت ایک فقیہ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ماضی کے فقہاء نے بھی اس میدان‬
‫میں اہم کتابیں تصنیف کی ہیں‪،‬عالمہ شاطبی کی الموافقات‪،‬معروف شافعی فقیہ عز الدین بن عبد‬
‫السالم کی قواعد االحکام فی مصالح االنام اور عالمہ ابن نجیم کی االشباہ و النظائر ماضی کی اہم‬
‫تصنیفات شمار ہوتی ہیں۔عصر حاضر میں زیادہ وسعت‪،‬جامعیت اور مرتب انداز کے ساتھ ہر دو‬
‫فنون کا احیاء کیا گیا ہے۔ان دو فنون کی تاریخ‪،‬مکمل تعارف اور از سر نو ترتیب و تدوین پر‬
‫مشتمل اہم اور مفید کتب سامنے آئی ہیں۔ذیل میں اس حوالے سے اہم عصری تصنیفات کا ایک‬
‫مختصر خاکہ پیش کیا جاتا ہے۔‬
‫قواعد فقہیہ سے متعلق عصر حاضر کی اہم تالیفات‬
‫عصر حاضر میں قواعد فقہیہ پر متنوع جہات سے کام ہوا ہے‪،‬قواعد فقہیہ کی تاریخ‪،‬تعارف‬
‫اور اس میدان میں قدماء کی اہم تالیفات کے تعارف کے حوالے سے عراق کے معروف عالم اور‬
‫جامعہ امام محمد بن سعود کے معروف پروفیسر ڈاکٹر یعقوب الباحسین کی کتاب”القواعد‬
‫الفقہیہ“جامع ترین کتاب ہے‪،‬اس کے عالوہ معروف محقق ڈاکٹر احمد علی ندوی کی مایہ ناز‬
‫کتاب ”القواعد الفقہیہ‪ ،‬مفہومھا‪ ،‬نشاتھا‪ ،‬تطورھا“ ڈاکٹر محمد الزحیلی کا ضخیم مقالہ”القواعد‬
‫الفقہیہ و تطبیقاتھا فی المذاہب االربعہ“ ڈاکٹر عبد الوہاب ابو سلیمان کی کتاب ”النظریات و‬
‫القواعد فی الفقہ االسالمی“ معروف محقق ڈاکٹر عبد ہللا بن عبد العزیز العجالن کی کتاب ”اھمیة‬
‫القواعد الفقہیہ فی الفقہ االسالمی“ بھی اہم کاوشیں ہیں۔فقہ کے اہم ابواب کے قواعد فقہیہ کو جمع‬
‫کرنے کے حوالے سے مصر کے معروف عالم ڈاکٹر بکر اسماعیل کی کتاب ”القواعد الفقہیہ بین‬
‫االصالة و التوجیہ“ جس میں مصنف نے بار ہ ابواب میں فقہ کے اہم ترین ابواب کے بنیادی‬
‫قواعد کو تشریح و امثلة کے ساتھ جمع کیا ہے‪،‬اسی طرح ڈاکٹر احمد علی ندوی نے ابواب‬
‫المعامالت کے اہم قواعد کو تین ضخیم جلدوں میں ”موسوعة القواعد و الضوابط الفقہیہ الحاکمة‬
‫ت“ کے نام سے جمع کیا ہے‪،‬فقہ اسالمی کے پانچ بنیادی قواعد کی تشریح کے حوالے‬ ‫للمعامال ِ‬
‫سے معروف عالم ڈاکٹر صالح بن غانم السدالن کی ضخیم کتاب”القواعد الفقہیہ الکبری و ما تفرع‬
‫منھا“ اور مجلہ کے نناوے قواعد کی تشریح‪،‬توضیح اور مصادر سے متعلق نامور فقیہ مصطفی‬
‫الزرقاء کے والد احمد الزرقاء کی کتاب”شرح القواعد الفقہیہ“ اہم کتب ہیں۔قواعد فقہیہ میں‬
‫اختالف کی وجہ سے فقہاء کے اختالفات اور اس کے مسائل پر اثرات کے حوالے سے مراکش‬
‫کے معروف عالم ڈاکٹر محمد الروکی کی کتاب ”نظریة التعقید الفقہی و اثرھا فی اختالف الفقہاء“‬
‫اور شافعی فقیہ ڈاکٹر سعید الخن کی مایہ ناز کتاب”اثر االختالف فی القواعد االصولیہ فی‬
‫اختالف الفقہاء“ اہم کتابیں ہیں۔ قواعد فقہیہ کے حوالے سے عصر حاضر کی سب سے بڑی اور‬
‫تاریخی کاوش ”موسوعة القواعد الفقہیہ“ ہے‪،‬تیرہ جلدوں کے اس ضخیم موسوعہ کے مصنف‬
‫معروف محقق ڈاکٹر صدقی البورنو ہے۔ اس میں مصنف نے حروف تہجی کے اعتبار سے‬
‫پوری فقہ اسالمی کے اہم قواعد و ضوابط کو جمع کیا ہے۔ اس ضخیم موسوعہ میں چار ہزار‬
‫سے زائد قواعد و ضوابط ہیں۔‬
‫مقاصد الشریعہ کے حوالے سے اہم عصری تالیفات‬
‫فقہ کی تاریخ کا عجیب ”اتفاق“ہے کہ مقاصد شریعت کو بطور ایک فن کے متعارف‬
‫کروانے میں مالکی فقہاء کی خدمات بنیادی حیثیت رکھتی ہیں‪،‬خاص طور پر معروف مالکی‬
‫فقیہ عالم شاطبی وہ شخصیت ہیں‪،‬جنہوں نے اپنی مایہ ناز کتاب”الموافقات“لکھ کر شریعت‬
‫مطہرہ کے مقاصد کو ایک زندہ جاوید فن کے طور پر متعارف کروایا۔اسی طرح مقاصد شریعت‬
‫ت اول“کی مانندہیں۔ مراکش کے معروف عالم‬ ‫کے احیاء میں بھی مالکی فقہاء کی خدمات ”خش ِ‬
‫ڈاکٹر احمد الریسو نی نے مقاصد الشریعہ کے احیا ء کے حوالے سے تجدید ی خدمات سر انجام‬
‫دی ہیں‪،‬الریسونی نے سب سے پہلے ”نظریة المقاصد عند االمام الشاطبی“ لکھ کر اما م شاطبی‬
‫کے نظریہ مقاصد کو عصر حاضر کے اسلوب میں مرتب انداز میں پیش کیا۔اس کتاب کی‬
‫مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اردو‪ ،‬انگلش اورفارسی تینوں اہم زبانوں میں‬
‫اس کا ترجمہ ہو چکا ہے‪،‬اس کے بعد ”مدخل الی مقاصد الشریعة“ ”الفکر المقاصدی قواعدہ و‬
‫فوائدہ“اور ”من اعالم الفکر المقاصدی“ جیسی اہم کتب لکھ کر اس فن کے مختلف جوانب اور‬
‫پہلووں سے علمی دنیا کو آگاہ کیا۔ اسی طرح تیونس کے معروف مالکی عالم و مفسر محمد طاہر‬
‫فلسفہ مقاصد پر عصری اسلوب میں‬‫ٴ‬ ‫بن عاشور نے ”مقاصد الشریعة االسالمیہ“لکھی‪،‬جس میں‬
‫بہترین بحث کی ہے۔سوڈان کے مشہور عالم ڈاکٹر یوسف حامد العالم نے ”المقاصد العامة‬
‫للشریعة االسالمیة“کے نام سے ایک مفید کتاب لکھی۔اس کے عالوہ تیونس کے معروف مالکی‬
‫فقیہ ڈاکٹر نور الدین الخادمی کی”علم المقاصد الشرعیة“ معروف مصری عالم ڈاکٹر محمد سلیم‬
‫العواکی ”مقاصد الشریعة االسالمیة“ معروف عالم ڈاکٹر جاسر عودہ کی ”فقہ المقاصد“معروف‬
‫فقیہ ڈاکٹر جمال الدین العطیہ کی ”نحو تفعیل مقاصد الشریعة“ مراکش کے معروف عالم ڈاکٹر‬
‫عالل الفاسی کی ”مقاصد الشریعة االسالمیة و مکارمھا“ معروف عالم محمد سعید رمضان‬
‫البوطی کی ”ضوابط المصلحہ فی الشریعة االسالمیة“ عراق کے معروف عالم ڈاکٹر طہ جابر‬
‫العلوانی کی ”مقاصد الشریعة“ اور معروف مصری عالم داکٹر بکر اسماعیل کی کتاب”مقاصد‬
‫الشریعة االسالمیة تاصیال وتفعیال“ عصر حاضر کی اہم تصنیفات شمار ہوتی ہیں۔معروف‬
‫مصری عالم ڈاکٹر محمد کمال الدین االمام نے تین ضخیم جلدوں میں ”الدلیل االرشادی الی‬
‫مقاصد الشریعة االسالمیة“کے نام سے ایک مفید کتاب لکھی ہے‪،‬جس میں مصنف نے مقاصد‬
‫الشریعہ پر لک ھی گئی قدیم و جدید کتب کا مفصل تعارف پیش کیا ہے۔اس ضخیم موسوعہ پر‬
‫مصنف یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔عربی کی طرح اردو کا دامن بھی اس فن سے خالی نہیں‬
‫ہے‪،‬اسالمک فقہ اکیڈمی نے مقاصد الشریعہ کے حوالے سے قاب ِل قدر خدمات سر انجام دی‬
‫ہیں‪،‬اور تقریبا اوپر ذکر کردہ اکثر کتب کا اردو ترجمہ اکیڈمی کی طرف سے شائع ہوچکا ہے‪،‬‬
‫جس میں ڈاکٹر محمد کمال الدین کا تیار کردہ ضخیم موسوعہ ”الدلیل االرشادی الی مقاص ِد‬
‫الشریعة“ بھی شامل ہے۔اس کے عالوہ ڈاکٹر نجات ہللا صدیقی کی کتاب ”مقاصد شریعت “ اس‬
‫موضوع پر اردو میں ایک بہترین کتاب ہے‪،‬کتاب کے آٹھ ابواب میں مصنف نے مقاصد شریعت‬
‫کے مختلف پہلووں پر فاضالنہ بحث کی ہے‪،‬یہ کتاب ادارہ تحقیقات اسالمی۔اسالم آباد کی طرف‬
‫سے شائع ہو ئی ہے۔‬
‫چھٹی قسم‪:‬مذاہب اربعہ کا مفصل تعارف‬
‫عصر حاضر میں فقہ اسالمی کے حوالے سے ایک رجحان یہ سامنے آیا ہے کہ مذاہب‬ ‫ِ‬
‫اربعہ کے تفصیلی تعارف پر مواد تیا ر کیا جائے‪،‬جس میں مذہب کے بانی‪ ،‬اور اس کے براہ‬
‫ناقلین مذہب‪،‬اہم متون و شروح‪،‬راجح مرجوح اقوال کے ضوابط‪،‬نامور فقہاء‬ ‫ِ‬ ‫راست تالمذہ‪،‬‬
‫اوراصول استنباط و استخراج کے تعارف سمیت اہم مباحث شامل ہوں۔اس رجحان کی بنیادی‬
‫عصر حاضر میں نت نئے مسائل کے حل کے لیے ایک فقہ کافی نہیں ہے؛بلکہ‬ ‫ِ‬ ‫وجہ یہ ہے کہ‬
‫ب اربعہ کو سامنے رکھ کر عصری مسائل کا شریعت کی روشنی میں حل تالش کیا جاتا‬ ‫مذاہ ِ‬
‫ہے۔اور ظاہر ہے کہ کسی فقہی مذہب کی روشنی میں فیصلہ کرنے کے لیے اس سے متعلق‬
‫بنیادی باتوں کا علم ضروری ہے۔مذاہب اربعہ کے تفصیلی تعارف کے حوالے سے درجہ ذیل‬
‫عصری کاوشیں قاب ِل ذکر ہیں ‪:‬‬
‫‪ -۱‬معروف مصری فقیہ شیخ ابو زہرہ مرحوم نے مذاہب فقہیہ کے تعارف کے حوالے سے‬
‫ائمہ اربعہ کی مفصل سوانحات لکھیں ہیں‪،‬جن‬ ‫قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں‪،‬موصوف نے ٴ‬
‫میں ہر امام کے تفصیلی حاالت‪،‬معروف اساتذہ‪،‬مشہور تالمذہ‪،‬اہم تصنیفات‪،‬اصو ِل استنباط‪،‬دالئ ِل‬
‫اربعہ سے متعلق اس امام کی خاص آراء اور اس کی طرف منسوب مذہب کے مختلف پہلووں‬
‫اور متنوع جوانب پر تحقیقی ابحاث شامل ہیں۔ان مفصل کتب کے عالوہ شیخ ابو زہرہ مرحوم کی‬
‫دو اہم کتب ”تاریخ المذاہب االسالمیہ“ اور ”محاضرات فی تاریخ المذاہب الفقھیہ“ بھی فقہی‬
‫مذاہب کے تعارف کے حوالے سے قاب ِل قدر کتب ہیں۔شیخ ابو زہرہ مرحوم کے عالوہ معروف‬
‫مصری ادیب احمد تیمور پاشا کی کتاب”نظرة تاریخیة فی حدوث المذاہب االربعہ“ اور معروف‬
‫مصری فقیہ اور مفتی ڈاکٹر علی جمعہ کی ”المدخل لدراسة المذاہب الفقہیہ“ اہم کاوشیں ہیں۔اردو‬
‫ت ائمہ‬ ‫میں اس حوالے سے بر صغیر کے معروف مورخ قاضی اطہر مبارکپوری کی کتاب”سیر ِ‬
‫اربعہ“اہم کتاب ہے۔‬
‫‪ -۲‬مذہب حنفی کے تعارف کے حوالے سے اردن کے معروف عالم داکٹر احمد سعید حوی‬
‫کی کتاب ”المدخل الی مذہب ابی احنیفہ “اہم کاوش ہے‪،‬اس کے عالوہ جامعہ امام محمد بن سعود‬
‫سے شائع شدہ ضخیم مقالہ ”المذہب الحنفی‪ ،‬مراحلہ و طبقاتہ‪ ،‬ضوابطہ و مصطلحاتہ‪ ،‬خصائصہ‬
‫و مولفاتہ“ مذہب حنفی کے تعارف کے حوالے سے عصر حاضر کی مفصل ترین کتاب ہے۔ دو‬
‫ضخیم جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں مصنف نے حنفی مذہب کے تعارف کے حوالے سے‬
‫کوئی بحث تشنہ نہیں چھوڑی ہے۔اس کے عالوہ جامعہ قطر کے پروفیسر داکٹر محمد الدسوقی‬
‫کی مایہ ناز کتاب”االمام محمد و اثرہ فی الفقہ االسالمی“ قابل ذکر کتاب ہے‪،‬اس میں مصنف نے‬
‫خاص طور پر مذہب حنفی کی تدوین کے حوالے سے قابل قدر بحث کی ہے‪،‬اس کی افادیت کے‬
‫پیش نظر ادارہ تحقیقات اسالمی۔ اسالم آباد کی طرف سے ”امام محمد بن حسن شیبانی اور ان کی‬
‫فقہی خدمات “ کے نام سے اس کا اردو ترجمہ شائع ہوا ہے۔‬
‫‪ -۳‬مالکی مذہب کے تعارف کے حوالے سے ”مرکز زاید للتراث و التاریخ“ (متحدہ عرب‬
‫امارات)کی طرف سے شائع شدہ مفصل کتاب”المذہب المالکی‪ ،‬مدارسہ و مولفاتہ‪ ،‬خصائصہ و‬
‫سماتہ“ بہترین کاوش ہے‪،‬اس کے عالوہ ”دار البحوث للداراسات االسالمیہ“ (دبئی) کی طرف‬
‫سے شائع شدہ کتاب”اصطالح المذہب عند المالکیہ“ مالکی مذہب کے مختلف ادوار اور ہر دور‬
‫کے علمی ذخیرے کے تعارف کے حوالے سے ایک جامع کتاب ہے۔مالکی مذہب کے فقہی‬
‫ذخیرے کے تعارف کے حوالے سے مراکش سے تعلق رکھنے والے عالم ڈاکٹر ابو الزبیر عباد‬
‫السالم احمد کی کتاب”امہات الکتب الفقہیہ“ قابل ذکر ہے‪،‬اس میں مالکی مذہب کی تدوین کے‬
‫زمانے سے لے کر عصر حاضر تک زمانی ترتیب سے اہم فقہی کتب کا تعارف شامل‬
‫ہے۔مالکی مذہب کی خصوصیات سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ مالکی مذہب میں عراقی‬
‫ب فکر پائے جاتے ہیں‪،‬اندلسی مکتب فکر کے تعار ف کے حوالے‬ ‫اور اندلسی دو مستقل مکات ِ‬
‫ت اوقاف کی طرف سے شائع شدہ کتاب ”المدرسة المالکیہ االندلسیہ نشاة و‬ ‫سے مراکش کی وزار ِ‬
‫خصائص“ جبکہ عراقی مکتب کی خصوصیات کے حوالے سے معروف مراکشی عالم ڈاکٹر‬
‫عبد الفتاح الزنیقی کا رسالہ ”المدرسة المالکیہ العراقیہ‪ ،‬نشأتھا‪ ،‬خصائصھا و اعالمھا“ مفید کتب‬
‫ہیں۔نیز عبد العزیز بن صالح الخلیفی کی ضخیم کتاب ”االختالف الفقہی فی المذہب المالکی‬
‫مصطلحاتہ و اسبابہ“بھی اس حوالے سے ایک مفید کتاب ہے۔‬
‫‪ -۴‬شافعی مذہب کے تعارف کے حوالے سے ”المدخل الی مذہب االمام الشافعی“ایک جامع‬
‫کتاب ہے‪،‬یہ کتاب اردن سے معروف شافعی فقیہ ڈاکٹر سعید مصطفی الخن کے پیش لفظ کے‬
‫ساتھ چھپی ہے‪،‬کتاب کے مصنف ڈاکٹر اکرم یوسف القواسمی ہے‪،‬چھ سو سے زائد صفحات کی‬
‫اس کتاب میں مصنف نے فقہ شافعی کے مختلف جوانب کا جامع تعارف کرایا ہے‪،‬کتاب شافعی‬
‫مذہب کے اہم ادوار‪،‬معروف فقہاء‪،‬فقہ و اصول فقہ کے ذخیرے کا زمانی ترتیب سے تعارف‪،‬فقہ‬
‫شافعی کی خصوصیات واصطالحات وغیرہ جیسے تحقیقی مباحث پر مشتمل ہے۔ اس کے عالوہ‬
‫فقہ شافعی کی کتب کے تعارف کے حوالے سے ”موسسة الرسالة ناشرون“ کی طرف سے‬
‫چھپی کتاب”الخزائن السنیہ من مشاہیر الکتب الفقہیہ الئمتنا الفقہاء الشافعیہ“ اہم کتاب ہے‪،‬دو سو‬
‫حروف تہجی کے اعتبار سے فقہ شافعی کے ذخیرے کی‬ ‫ِ‬ ‫صفحات پر مشتمل اس کتاب میں‬
‫فہرست دی ہے۔فقہ شافعی کی خصوصیات سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ فقہ شافعی میں‬
‫امام شافعی کے قول قدیم و جدید کی تعیین اور اس کے اصول سے معرفت انتہائی اہم ہے‪،‬ورنہ‬
‫فقہ شافعی سے واقف حضرات کو علم ہے کہ امام شافعی کے قول قدیم و جدید کی تعیین اور اس‬
‫کے اصول سے کامل استفادہ نہیں ہوسکتا‪ ،‬اس حوالے سے سب سے مفصل کتاب ڈاکٹر لمین‬
‫الناجی کا پی ایچ‪ ،‬ڈی مقالہ ”القدیم و الجدید فی فقہ الشافعی“ اہم ترین کتاب ہے‪،‬دو ضخیم جلدوں‬
‫پر مشتمل اس کتاب میں مصنف نے قول قدیم و جدید کے اصول‪،‬مصنفات‪،‬قدیم و جدید میں‬
‫ترجیح کے اصولوں پر سیر حاصل بحث کی ہے‪ ،‬اس کے عالوہ انڈونیشیاء سے تعلق رکھنے‬
‫والے عالم ڈاکٹر احمد انحراوی عبد السالم کی ضخیم کتاب ”االمام الشافعی فی مذہبیہ القدیم و‬
‫الجدید“ اہم کاوش ہے۔اسی طرح جامعہ ام القری کے پروفیسر ڈاکٹر محمد بن ردید المسعودی کی‬
‫کتاب ”المعتمد من قدیم قول الشافعی علی الجدید“ اور ڈاکٹر محمد السمیعی الرستاقی کا مقالہ‬
‫”القدیم و الجدید من اقوال االمام الشافعی“ مفید کتابیں ہیں۔‬
‫عصر حاضر میں وقیع کام ہوا ہے‪ ،‬زمانہ تدوین سے لے کر‬ ‫ِ‬ ‫‪ -۵‬فقہ حنبلی کے تعارف پر‬
‫عصر حاضر تک فقہ حنبلی کے فقہاء اور ان کی تصانیف کے تعارف پر مشتمل مفصل‬
‫کتاب”معجم المصنفات الحنابلہ“ہے‪،‬آٹھ جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں فقہ حنبلی کے بارہ‬
‫صدیوں کے فقہی ذخیرے اور علماء کا جامع تعارف شامل ہے۔کتاب کے مصنف مدینہ‬
‫یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عبد ہللا بن محمد الطریقی ہیں۔معروف حنبلی فقیہ ڈاکٹر بکر بن‬
‫عبد ہللا ابو زید نے ”المدخل المفصل الی فقہ االمام احمد بن حنبل و تخریجات اال صحاب“کے نام‬
‫سے دو جلدوں میں ضخیم کتاب لکھی ہے‪ ،‬جس میں تفصیل سے فقہ حنبلی کا تعارف شامل‬
‫ہے۔دمشق کے معروف عالم عالمہ عبد القادر بن بدران کی کتاب”المدخل الی مذہب االمام احمد‬
‫بن حنبل“فقہ حنبلی کے تعارف کے حوالے سے ایک جامع کتاب ہے۔فقہ حنبلی کی کتب اور‬
‫مخصوص اصطالحات کے حوالے سے ڈاکٹر عبد الملک بن عبد ہللا کی کتاب ”المنھج الفقہی‬
‫العالم للعلماء الحنابلة و مصطلحاتہم فی مولفاتہم“ اور جامعہ ملک عبد العزیز کے پروفیسر ڈاکٹر‬
‫سالم کی ضخیم کتاب ”مصطلحات الفقہ الحنبلی و طرق استفادة االحکام من ألفاظہ“ اہم کاوشیں‬
‫(جاری)‬ ‫ہیں۔‬
‫‪$$$‬‬

‫حواشی‬
‫(‪ )۱‬فقہ اسالمی کی مرحلہ وار تاریخ کی داغ بیل مصر کے معروف مورخ و محقق شیخ‬
‫خضری بک نے اپنی کتاب تاریخ التشریع االسالمی میں ڈالی‪،‬ان کے بعد تقریبا فقہ اسالمی کی تاریخ‬
‫پر لکھنے والے کم وبیش تمام مصنّفین نے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ شیخ خضری بک کی اقتداء کی۔‬
‫(‪ )۲‬تاریخ التشریع االسالمی للقطان ‪:‬ص‪،۳۹۷‬تاریخ الفقہ االسالمی لال شقر ‪:‬ص‪،۱۸۷‬المدخل‬
‫الی الشریعة االسالمیہ للدکتور الزیدان ‪:‬ص‪،۱۵۰‬خالصة التشریع االسالمی للخالف ‪:‬ص‪۱۰۳‬۔‬
‫(‪ )۴‬ص‪ ۱/۲۶۹‬۔‬ ‫(‪)۳‬فقہ اسالمی‪،‬ایک تعارف ‪ :‬ص‪۱۰۹‬‬

‫دور جدید کا فقہی ذخیرہ‪ ،‬تحقیقی و تفصیلی‬


‫ِ‬
‫جائزہ‬
‫(‪)۲‬‬
‫از‪ :‬موالنا سمیع ہللا سعدی‬

‫ساتویں قسم ‪:‬فقہ اسالمی اور معاصر قانون کا تقابلی مطالعہ‬


‫عصر حاضر میں مغرب عسکری‪،‬اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے دنیا کی غالب قوت‬
‫ہے‪،‬اس غلبے کا نتیجہ یہ ہے کہ فکری میدان میں بھی مغربی افکار اور نظریات کی باالدستی‬
‫ہے اور عالم اسالم کے بیشتر ممالک میں نظام حکومت و سیاست مغربی قوانین کے مطابق‬
‫ہے‪،‬ان ممالک کے دساتیر میں اسالمی قوانین کی آمیزش کے باوجود مغربی قوانین اور اقوام‬
‫متحدہ کے عالمی چارٹر کے اصولوں کا غلبہ ہے۔برصغیر میں انگریز ایک طویل عرصے تک‬
‫قابض رہے‪،‬اس لیے یہاں انگریزی قوانین اور برطانوی طرز فکر سے مرعوبیت مقتدر طبقے‬
‫پر چھائی ہے‪،‬جبکہ افریقی اور بعض عرب ممالک پر فرانس نے ایک لمبے عرصے تک قبضہ‬
‫جمائے رکھا‪،‬جس کے نتیجے میں وہاں فرانسیسی قوانین اور افکار سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ‬
‫مرعوب ہے۔اسالمی طرز فکر کی مغلوبیت اور مغربی افکار کے غلبے کی وجہ سے اسالمی‬
‫قوانین کے بارے میں عالم اسالم کا مقتدر طبقہ ذہنی کشمکش اور فکری اضطراب کا شکار‬
‫ہوگیا‪،‬اس فکری بے چینی کے نتیجے میں اسالمی قوانین کے بارے میں متنوع اشکاالت اور‬
‫مختلف اعتراضات پیدا ہوئے‪،‬اس لیے معاصر فقہاء اور اصحاب فکر و نظر کے حلقوں میں یہ‬
‫رجحان پیدا ہوا کہ اسالمی طرز حیات یعنی فقہ اسالمی اور مغربی قوانین کا ایک تقابلی جائزہ‬
‫لیا جائے‪،‬جس میں فقہ اسالمی کے محاسن اور خوبیوں کو آشکارا کیا جائے۔چنانچہ عصر‬
‫حاضر میں فقہ اسالمی اور اس کے مختلف ابواب کا معاصر قانون سے تقابل پر مفید تصنیفات‬
‫منظر عام پر آئی ہیں۔ذیل میں اس حوالے سے چند اہم تصانیف کا ایک مختصر تذکرہ کیا جاتا‬
‫ہے ‪:‬‬
‫‪ -۱‬معروف فقیہ علی علی المنصور نے فقہ اسالمی اور عصری قوانین کے اجمالی تقابل‬
‫اور خاص ط ور پر فقہ االسرة(نظا م نکاح و طالق )اور فقہ السیر یعنی اسالم کے بین اال قوامی‬
‫قانون کے تقابلی جائزے پر”مقارنات بین الشریعة االسالمیة و القوانین الوضعیہ “کے نام سے‬
‫ایک جامع کتاب لکھی ہے ۔‬
‫‪-۲‬معروف مصری عالم ڈاکٹر سید عبد ہللا نے فقہ مالکی اور فرانسیسی قوانین کے تقابلی‬
‫جائزے پر مشتمل ایک ضخیم کتاب”المقارنات التشریعہ بین القوانین الوضعیہ و التشریع‬
‫االسالمي“ کے نام سے لکھی ہے‪،‬چار جلدوں کی اس مفصل کتاب میں مصنف نے ت فصیل‬
‫سے معاصر طرز کے مطابق فقہ مالکی اور فرانسیسی قوانین کا تقابلی جائزہ لیا ہے‪،‬مصنف نے‬
‫اس کتاب می ں اسلوب یوں اختیار کیا ہے کہ دفعہ وار تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں‪،‬ایک دفعہ‬
‫فرانسیسی قوانین سے لے کر پھر التشریع االسالمی کا عنوان باندھ کر اس دفعہ سے متعلق فقہ‬
‫اسالمی کی تعلیمات پیش کرتے ہیں۔‬
‫‪ -۳‬مصری عالم احمد ابو الفتح نے فقہ المعامالت اور مصری قوانین کے تقابل پر دو جلدوں‬
‫میں ضخیم کتاب ”المعامالت في الشریعة االسالمیة و القوانین المصریہ “کے نام سے ایک مفید‬
‫کتاب لکھی ہے۔‬
‫‪-۴‬اخوان کے رہنما اور معروف عالم اور فقیہ ڈاکٹر عبد القادر عودہ شہید نے فقہ الجنایات‬
‫کے تقابلی جائزہ پر مشتمل ”التشریع االسالمي الجنائی مقارنا بالقانون الوضعي“کے نام سے ایک‬
‫جامع کتاب تصنیف کی ہے‪،‬چار جلدوں کی اس ضخیم کتاب میں فقہ الجنایات اور معاصر قوانین‬
‫جرم و سزا کا بہترین تقابل پیش کیا گیا ہے‪،‬عودہ شہید کی یہ کتاب نہ صرف مصر بلکہ عالم‬
‫اسالم کے ممتاز محققین سے خراج تحسین وصول کر چکی ہے۔‬
‫‪-۵‬مشہور فقیہ خاص طور پر قضا کے حوالے سے قابل قدر تصنیفات کے مصنف محمد‬
‫مصطفی الزحیلی نے ”التنظیم القضائي في الفقہ االسالمی دراسة مقارنة“کے نام سے ایک قابل‬
‫قدر کتاب لکھی ہے‪،‬جس میں خاص طور پر شام‪،‬سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے‬
‫نظام قضا کا اسالمی نظام قضا کے ساتھ ایک تقابلی جائزہ لیا ہے۔‬
‫‪-۶‬اسالم کے نظام سیاست و حکومت سے خصوصی دلچسپی رکھنے والے معروف مصری‬
‫بالمبادی الدستوریہ‬
‫ٴ‬ ‫مبادی نظام الحکم في االسالم مع المقارنة‬
‫ٴ‬ ‫کاتب عبد الحمید المتولی نے ”‬
‫الحدیثة“ کے نام سے ایک جامع کتاب لکھی ہے‪،‬جس میں اسالم کے نظام سیاست کا معاصر‬
‫انظمہ کے ساتھ تقابل پیش کیا گیا ہے۔‬
‫‪ -۷‬مکہ مکرمہ کی معروف یونیورسٹی جامعہ ام القری سے معروف فقیہ ڈاکٹر شعبان‬
‫اسماعیل کی زیر نگرانی اسالم کے عسکری قوانین کا بین االقوامی قانون جنگ کے ساتھ تقابل‬
‫پر ایک ضخیم مقالہ چھپا ہے‪”،‬الحرب في الشریعة االسالمیة و القانون الدولي العام “ کے نام سے‬
‫دو جلدوں پر مشتمل اس مقالے میں مقالہ نگا ر نے تفصیل کے ساتھ معاصر قوانین جنگ و‬
‫صلح کا اسالمی قوانین کے ساتھ تقابل پیش کیا ہے۔‬
‫عالم عرب سے چھپی تقابلی مطالعے پر نمونے کے طور پر چند ایک تصانیف کا ذکر کیا‬
‫گیا ہے‪،‬نہ حصر مقصود ہے اور نہ ہی یہ بتانا مقصود ہے کہ مذکورہ موضوع پر یہی کتب‬
‫حرف آخر ہیں‪،‬فقہ اسالمی کا مجموعی حیثیت سے اور فقہ اسالمی کے مختلف ابواب کا معاصر‬
‫قوانین اور انظمہ کے ساتھ تقابل آج کے فقہا ء کا پسندیدہ موضوع ہے‪،‬اور اس پر روز نت نئی‬
‫کتب منظر عام پر آتی ہیں‪،‬اردو میں اس حوالے سے ڈاکٹر محمود احمد غازی کے مشہور زمانہ‬
‫خطبات ”محاضرات فقہ “کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی‪،‬یہ خطبات اگر چہ بنیادی طور پر فقہ‬
‫اسالمی کے تعارف پر مشتمل ہیں‪،‬لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس میں جگہ جگہ فقہ اسالمی کا‬
‫مغربی قوانین کے ساتھ بہترین تجزیہ پیش کیا ہے۔فقہ اسالمی کو عصری اسلوب میں سمجھنے‬
‫واال کوئی شخص ان محاضرات سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔‬
‫آٹھویں قسم ‪:‬ابواب فقہیہ پر تفصیلی کتب‬
‫عصر حاضر اختصاص و تخصص کا دور ہے‪،‬پورے فن کی بجائے فن کے مندرجات میں‬
‫سے ہر ایک پر علیحدہ مواد تیار کرنے کا رجحان ہے‪،‬بلکہ ایک باب کے مختلف پہلووں میں‬
‫سے ہر پہلو پر الگ الگ کتب لکھنے کا رواج ہے۔یہ رجحان فقہ اسالمی کے عصری ذخیرے‬
‫میں بھی نظر آتا ہے‪،‬پوری فقہ اسالمی پر کتب لکھنے کی بجائے فقہ اسالمی کے ابواب میں‬
‫سے ہر ایک پر تفصیلی کتب لکھی گئی ہیں۔ذیل میں مختلف ابواب فقہیہ پر اہم عصری تصنیفات‬
‫کی ایک فہرست دی جاتی ہے۔‬
‫فقہ العبادات پر اہم کتب‬
‫‪ -۱‬العبادة في االسالم‪ ،‬مولف ‪:‬ڈاکٹر یوسف القرضاوی‬
‫‪ -۲‬مقاصد المکلفین في ما یتعبد بہ لرب العالمین‪ ،‬مولف‪ :‬ڈاکٹر عمر بن سلیمان االشقر‬
‫‪ -۳‬نظام االسالم ‪:‬العقیدة و العبادة‪،‬مولف ‪:‬محمد المبارک‬
‫‪-۴‬احکام العبادات في التشریع االسالمي‪،‬مولف ‪:‬فائق سلیمان دلول‬
‫‪-۵‬فقہ الزکوة‪،‬مولف ‪:‬ڈاکٹر یوسف القرضاوی‬
‫‪-۶‬األرکان األربعہ‪،‬مصنف ‪:‬مفکر اسالم ابو الحسن علی ندوی‬
‫فقہ االحوال الشخصیہ یعنی اسالم کے نظام نکاح و طالق اور خاندانی نظام پر کتب‬
‫‪ -۱‬األحوال الشخصیہ‪،‬مصنف ‪ :‬عبد الوہاب الخالف‬
‫‪-۲‬األحوال الشخصیہ‪،‬مصنف ‪:‬شیخ ابو زہرہ مرحوم‬
‫‪-۳‬خالصہ األحوال الشخصیہ‪،‬مصنف ‪ :‬محمد سالمة‬
‫‪-۴‬احکام األسرة‪،‬مصنف ‪:‬محمد مصطفی الشلبی‬
‫‪-۵‬الزوجہ في التشریع االسالمي‪،‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر ابراہیم عبد الحمید‬
‫‪-۶‬المفصل في أحکام المرأة و البیت المسلم‪،‬مصنف ڈاکٹر عبد الکریم زیدان آٹھ جلدوں پر‬
‫مشتمل اس موضوع پر عصر حاضر کی سب سے مفصل تصنیف ہے۔‬
‫فقہ المعامالت و االقتصاد پر کتب‬
‫‪ -۱‬المعامالت المعاصرة المالیہ‪،‬مصنف ڈاکٹر علی سالوس‬
‫‪-۲‬مصاد ر الحق في الفقہ االسالمي‪،‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر عبد الرزاق السنہوری‬
‫‪-۳‬األموال و نظریة العقد في الفقہ االسالمي‪،‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر محمد یوسف موسی‬
‫‪-۴‬البنوک االسالمیة‪،‬مصنف‪:‬ڈاکٹر شوق اسماعیل شحاتة‬
‫‪-۵‬االقتصاد االسالمي مذہبا و نظاما‪،‬مصنف ‪:‬ابراہیم الطحاوی‬
‫مبادی فی االقتصاد االسالمي‪،‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر اسماعیل شحاتة‬
‫ٴ‬ ‫‪-۶‬مفاہیم و‬
‫‪-۷‬أصول اال قتصاد االسالمي۔مصنف ‪:‬ڈاکٹر رفیق العمری‬
‫‪-۸‬المعجم االقتصادي االسالمي‪،‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر احمد الشرباصی‬
‫‪-۹‬بحوث فقہیة في قضایا اقتصادیہ معاصرة‪،‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر عمر سلیمان االشقر‬
‫‪-۱۰‬معجم المصطلحات المالیة و االقتصادیة في لغة الفقہاء‪،‬مصنف ‪:‬نزیہ حماد‬
‫اسالم کا نظام معامالت معاصر فقہاء کا اختصاصی موضوع ہے‪،‬اور بال شبہ اس پر عصر‬
‫حاضر میں ایک ضخیم مکتبہ وجود میں آچکا ہے‪،‬پاکستانی علماء بھی اس میدان میں عالم اسالم‬
‫سے پیچھے نہیں ہیں‪،‬سید ابو االعلی مودودی‪،‬ڈاکٹر تنزیل الرحمن‪،‬ڈاکٹر محمود احمد غازی کی‬
‫خدمات اور خاص طور پر شیخ االسالم مفتی تقی عثمانی صاحب کو اگر فقہ االقتصاد کا‬
‫”مجدد“کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا‪،‬حضرت شیخ االسالم صاحب کی اس میدان میں خدمات‬
‫جلیلہ کا اعتراف صرف اسالمی ممالک کی سطح پر نہیں‪،‬بلکہ عالمی سطح پر کیا جاچکا ہے۔ہللا‬
‫تعالی حضرت کا سایہ تا دیر عالم اسالم پر قائم و دائم رکھیں۔‬
‫فقہ الجنایات و الحدود پر کتب‬
‫‪۱‬۔ التشریع الجنائي االسالمي مقارنا بالقانون الوضعي‪،‬مولف ‪:‬عبد القادر عودہ‬
‫‪۲‬۔دراسات في الفقہ الجنائي االسالمي‪،‬مصنف‪:‬عوض محمد عوض‬
‫‪۳‬۔نظریات في الفقہ الجنائي االسالمي‪،‬مصنف ‪:‬احمد فتحی بھنسی‬
‫‪۴‬۔القصاص في الفقہ اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬احمد فتحی بھنسی‬
‫‪۵‬۔التعزیر في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬احمد فتحی بھنسی‬
‫‪۶‬۔التعزیر في الشریعة اإلسالمیة‪،‬مصنف ‪:‬عبد العزیز عامر‬
‫‪۷‬۔نظام العاقلة في الفقہ اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬عوض محمد عوض‬
‫‪۸‬۔الدیة في الشریعة اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬احمد فتحی بھنسی‬
‫شحت الجندی‬‫‪۹‬۔جرائم االحداث في الفقہ اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬محمود ٓ‬
‫‪۱۰‬۔الفقہ الجنائی في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬امیر عبد العزیز‬
‫فقہ الدولہ یعنی نظام حکومت و سیاست پر کتب‬
‫مبادی نظام الحکم في اإلسالم‪،‬مصنف عبد الحمید المتولی‬
‫ٴ‬ ‫‪۱‬۔‬
‫‪۲‬۔الدولة في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬عبد الحمید المتولی‬
‫‪۳‬۔النظریات السیاسیہ اإلسالمیہ‪،‬مصنف ‪:‬ضیاء الدین الریس‬
‫‪۴‬۔فقہ الخالفة و تطورہا‪،‬مصنف‪،‬عبد الرزاق السنہوری‬
‫‪۵‬۔الحاکم و أصول الحکم في النظام السیاسي اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬صبحی عبدہ سعید‬
‫‪۶‬۔مراجعات في الفقہ السیاسي اإلسالمي‪،‬مصنف سلیمان بن فھد العودہ‬
‫‪۷‬۔نظریة الدولة و آدابھا في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬سمیر عالیہ‬
‫‪۸‬۔قواعد نظام الحکم في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬محمدود الخالدی‬
‫فقہ االقتصاد کی طرح فقہ الخالفة معاصر فقہاء کی خصوصی توجہ کا مرکز ہے‪،‬پاکستانی‬
‫علماء میں سے شیخ االسالم مفتی تقی عثمانی صاحب‪،‬موالنا گوہر رحمان‪،‬سید ابو العلی‬
‫مودودی‪،‬موالنا امین احسن اصالحی‪،‬موالنا محمد زاہد اقبال کی تصانیف (نمونے کے طور پر‬
‫چند علماء کا نام لیا‪،‬ورنہ اس میدان میں برصغیر کے علماء کی خدمات جلیلہ کافی زیا دہ ہیں‪،‬جو‬
‫مستقل مضمون کا متقاضی ہیں ) اور خاص طور پر جامعہ حقانیہ کے سابق استاد موالنا عبد‬
‫الباقی حقانی کی ضخیم اور مایہ ناز تصنیف ”السیاسة واالدارة في اإلسالم “اہم عصری کاوشیں‬
‫ہیں۔‬
‫فقہ القضاء پر کتب‬
‫‪۱‬۔نظام القضاء في ا لشریعة اإلسالمیہ‪،‬مصنف ‪:‬عبد الکریم زیدان‬
‫‪۲‬۔النظام القضائي في الفقہ اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬محمد رافت عثمان‬
‫‪۳‬۔السلطات الثالث فیاإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬عبد الوہاب الخالف‬
‫‪۴‬۔التنظیم القضائي في الفقہ اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬محمد مصطفی الزحیلی‬
‫‪۵‬۔القضاء و نظامہ‪،‬مصنف ‪:‬عبد الرحمن ابراہیم عبد العزیز‬
‫‪۶‬۔طرق االثبات الشرعیہ‪،‬مصنف ‪:‬احمد ابراہیم بک‬
‫‪۷‬۔القضا في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬علی مشرفہ‬
‫برصغیر کے علماء میں سے ڈاکٹر محمود احمد غازی کی ”ادب القاضی “ اورمجاہد‬
‫االسالم قاسمی صاحب کی مایہ ناز کتاب ”اسالم کا عدالتی نظام “اس سلسلے کی اہم کتابیں ہیں۔‬
‫فقہ العالقات الدولیہ یعنی اسالم کے قانون بین الممالک پر کتب‬
‫‪۱‬۔سیاسة الدولة اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر محمد حمید ہللا‬
‫‪۲‬۔العالقات الدولیہ في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬ابراہیم عبد الحمید‬
‫‪۳‬۔القانون و العالقات الدولیہ في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬صبحی محمصانی‬
‫‪۴‬۔الشریعہ و القانون الدولي العام‪،‬مصنف ‪:‬علی علی المنصور‬
‫‪۴‬۔آثار الحرب في الفقہ اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬وہبہ الزوحیلی‬
‫‪۵‬۔العالقات الدولیہ في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬محمد ابوزہرہ‬
‫‪۶‬۔أحکام القانون الدولي في الشریعة اإلسالمیة‪،‬مصنف ‪:‬حامد سلطان‬
‫‪۷‬۔اإلسالم و العالقات الدولیة‪،‬مصنف ‪:‬احمد مبارک‬
‫‪۸‬۔اسالم کا قانون بین الممالک‪،‬محاضرات ڈاکٹر احمد محمود غازی‬
‫نویں قسم ‪:‬معدوم فقہی مسالک کا احیا ء‬
‫فقہ کے دور تدوین میں عالم اسالم کے معروف بالد سے قابل قدر مجتہدین اٹھے‪،‬اور ہر‬
‫ایک نے قرآ ن و سنت سے مسائل فقہیہ کے اسنتباط و استخراج کے سلسلے میں ناقابل فراموش‬
‫خدمات سر انجام دیں‪،‬چنانچہ ائمہ اربعہ کے عالوہ شام سے امام اوزاعی‪،‬مصر سے امام لیث بن‬
‫سعد‪،‬عراق سے امام داود ظاہری‪،‬خراسان سے امام اسحاق بن راہویہ‪،‬اور طبرستان سے امام‬
‫جریر بن طبری قابل ذکر ہیں۔لیکن مختلف اسباب اور عوامل کی بنا پر ائمہ اربعہ کے عالوہ بقیہ‬
‫مسالک معدوم ہوگئے۔ان ائمہ مجتہدین کے اقوال فقہیہ‪،‬اصول استنباط تفسیر‪،‬حدیث اور کتب فقہ‬
‫میں بکھرے ہوئے ہیں۔عصر حاضر میں ایک رجحان یہ پیدا ہوا ہے کہ ان ائمہ مجتہدین کی‬
‫بکھری فقہی کاوشوں کو یکجا کیا جائے اور نت نئے مسائل میں ان کے اقوال اور فقہی بصیرت‬
‫سے استفادہ کیا جائے۔کیونکہ ان کے اصول استنباط سے حوادث و نوازل پر حکم شرعی لگانے‬
‫سے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں درجہ ذیل عصری کاوشیں قابل ذکر ہیں ‪:‬‬
‫‪۱‬۔امام اوزاعی کی فقہی اقوال کے بارے میں محقق شہیر محمد رواس قلعہ جی کی ضخیم‬
‫کتاب ”موسوعة فقہ اإلمام األوازعي“قابل ذکر ہے‪،‬اس کے عالوہ عبد المحسن بن عبد العزیزکی‬
‫کتاب ”مذہب اإلمام األوازاعي “اور عبد العزیز سید االہل کی مفید کتاب ”اإلمام األوزاعی فقیہ أہل‬
‫الشام“ اہم کاوشیں ہیں۔‬
‫‪۲‬۔امام لیث بن سعد کے حوالے سے محقق قلعہ جی ”موسوعة فقہ اللیث بن سعد “ڈاکٹر عبد‬
‫الحلیم کی ”اللیث بن سعد إمام أہل مصر“اور ڈاکٹر سعد محمود کی مایہ ناز کتاب ”فقہ اللیث بن‬
‫سعد في ضوء الفقہ المقارن “اہم کتب ہیں۔‬
‫‪۳‬۔معدوم فقہی مسالک کے بارے میں اہم عصری تصنیف جامعہ جزائر سے چھپا مقالہ‬
‫”المذاھب المفقھیة المندثرة أثرھا في التشریع اإلسالمي “قابل ذکر ہے‪،‬اس میں مقالہ نگار نے ان‬
‫تمام ائمہ مجتہدین اور ان کی فقہ سے بحث کی ہے‪،‬جن کے مسالک حوادث زمانہ کی نظر‬
‫ہوگئے۔‬
‫‪۴‬۔سلف کی فقہی اقوال کو جمع کرنے کے سلسلے میں محقق معروف محمد رواس قلعہ جی‬
‫کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی‪،‬موصوف نے صحابہ و تابعین میں سے معروف حضرات‬
‫کے فقہی اقوال جمع کرنے بیڑا اٹھایا اور تقریبا اٹھا رہ کے قریب موسوعات تیار کر گئے۔ہللا‬
‫مصنف کو اس پر اجر جزیل عطا فرمائے۔‬
‫دسویں قسم ‪:‬ماجستیر‪،‬ایم فل اور پی ایچ ڈی مقاالت‬
‫عصر حاضر کی فقہی بیدار ی اور انقالب میں عالم اسالم کی مشہور جامعات سے فقہی‬
‫موضوعات پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقاالت کا بنیادی کردار ہے۔جامعة االزہر‪،‬جامعہ‬
‫اسالمیہ مدینہ منورہ‪،‬جامعہ االمام محمد بن سعود‪،‬جامعہ ام القری‪،‬دمشق یونیورسٹی‪،‬جامعہ‬
‫زرقاء‪،‬بین االقوامی اسالمی یونیورسٹی اسالم ٓباد‪،‬عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی‪،‬پنجاب یونیورسٹی‬
‫کا اسالمک ڈیپارٹمنٹ‪ ،‬شیخ زاید اسالمک سنٹر‪،‬جامعہ کراچی اور عالم اسالم کی دیگر معروف‬
‫جامعات سے مختلف فقہی موضوعات پر بے شمار مقاالت لکھے گئے۔ان مقاالت میں فقہ و‬
‫اصول فقہ کے مختلف جوانب اور متنوع پہلووں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ان مقاالت کی بدولت‬
‫قدیم فقہی ذخیرے کے مکنون خزانے منصہ شہود پر آئے اور سینکڑوں کتب سے جمع شدہ‬
‫نوادرات ان مقاالت میں یکجا ہوئے۔جو ظاہر ہے فقہ و اصول فقہ پر تحقیق کرنے والے‬
‫حضرات کے لیے بیش بہا اور قیمتی سرمایہ ہیں۔نامور فقہیہ شیخ مصطفی زرقاء ان مقاالت کی‬
‫افادیت کے حوالے سے لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫و بذلک وجدت رسائل ماجستیر و دکتورا في موضوعات فقھیة کثیرة‪ ،‬تستوعب کل موضوع‬
‫و تنقاشہ بتعمق من مختلف جوانبہ‪ ،‬وتغني الباحثین و المراجعین (المدخل الفقہي العام ‪)۲۵۰/۱:‬‬
‫ترجمہ ‪:‬اور یوں ایم ائے اور پی ایچ ڈی کے مقاالت بے شمار فقہی موضوعات پر وجود‬
‫میں آئے۔جو ہر قسم کی فقہی موضوعات پر مشتمل ہیں۔ان مقاالت میں موضوع کے مختلف‬
‫جوانب کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جاتا ہے۔ ان مقالہ جات نے محققین اور طویل کتب کی‬
‫طرف مراجعت کرنے والوں کی ضروریات کو پورا کیا۔‬
‫گیارہویں قسم‪:‬قدیم فقہی کتب کی نئے طرز پر تحقیق کے ساتھ اشاعت‬
‫عصر حاضر میں فقہی کتب کی نئے طرز پر اشاعت کی داغ بیل ڈالی گئی‪،‬اس مقصد کے‬
‫لیے ہر ملک میں کچھ افراد نے مستقل طور پر اپنے آپ کو اس کام کے لیے وقف کیا‪،‬کتب پر‬
‫کام کرنے والے ان حضرات کو محققین کا نام دیا گیا۔یہ محققین کسی فقہی کتاب کو منتخب‬
‫کرکے درجہ ذیل جہات اس پر کام کرتے ہیں‪،‬پھر اشاعتی ادارے دیدہ زیب ٹائٹل‪،‬عمدہ کاغذ اور‬
‫کمپیوٹرائز کتابت کے ساتھ اس کو شائع کرتے ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔کتاب کے مخطوطات کے درمیان تقابل اور ان مخطوطات میں اختالفات کی نشاندہی‬
‫‪۲‬۔کتاب میں وارد شدہ آیات‪،‬احادیث اور آثار کی تخریج‬
‫‪۳‬۔کتاب میں مذکور اعالم اور شخصیات کے مختصرحاالت‬
‫‪۴‬۔کتاب کے مشکل الفاظ کی حاشیے میں وضاحت‬
‫‪۵‬۔ہر جلد کے آخر میں موضوعات کی تفصیلی فہرست اور آخری جلد میں کتاب کے جملہ‬
‫مضامین کی ابجدی فہرست اور اشاریہ‬
‫‪۶‬۔آخری جلد میں تخریج شدہ آیات اور روایات کی الفبائی فہرست‬
‫‪۷‬۔کتاب کے شروع میں ”مقدمة التحقیق“ کے نام سے ایک جامع مقدمہ‪،‬جس میں مصنف‬
‫کے تفصیلی حاالت‪،‬دیگر تصانیف‪ ،‬مذکورہ کتاب کا تعارف اوراپنی تحقیق کا منہج ذکر کیا جا تا‬
‫ہے۔‬
‫مذکورہ طرز تحقیق کے ساتھ عالم عرب خصوصا بیروت سے تقریبا تمام مسالک کی فقہی‬
‫کتب تحقیق کے ساتھ شائع ہو چکی ہیں۔‬
‫بارہویں قسم ‪:‬فقہی ویب سائٹس اور سافٹ وئیرز‬
‫عصر حاضر سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے‪،‬کتب و رسائل کی اشاعت کے ساتھ کمپیوٹر‬
‫اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی نے معلومات تک رسائی کو انتہائی آسان بنادیا۔ہر موضوع سے متعلق بال‬
‫مبالغہ ہزاروں ویب سائٹس وجود میں آچکی ہیں۔آج کے بالغ نظر فقہاء اور اہل علم اس اہم‬
‫ٹیکنالوجی کی اہمیت اور افادیت سے بخوبی آگاہ ہیں‪،‬اور اس میدان میں فقہ اسالمی کے حوالے‬
‫سے قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔فقہ اسالمی تک رسائی اور فقہ اسالمی سے استفادہ ہر‬
‫عام و خاص کے لیے آسان بنانے کے لیے معاصر فقہاء نے ٹیکنالوجی کے میدان میں متنوع‬
‫کام کئے ہیں۔ایک طرف ایسی فقہی ویب سائٹس بنائی گئیں ہیں‪،‬جن پر چاروں مسالک کی اہم‬
‫کتب‪،‬فقہی رسائل و مقالہ جات اور آج کے نت نئے مسائل سے متعلق مفید ابحاث موجود ہیں۔اس‬
‫کے ساتھ ایسے فقہی سافٹ ویئرز اور پروگرام ترتیب دئیے ہیں‪،‬جن میں فقہ اسالمی کا معتد بہ‬
‫ذخیرہ سرچ کی جدید سہولت کے ساتھ موجود ہے‪،‬ان مفید اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ محققین‬
‫اور مراجعت کرنے والوں کے لیے کسی فقہی مبحث کی تالش آج کے دور میں پہلے زمانوں‬
‫کی بنسبت انتہائی آسان ہے۔ذیل میں اس حوالے سے چند اہم ویب سائٹس اور سافٹ ویئرز کا ذکر‬
‫کیا جاتا ہے ‪:‬‬
‫‪ ۱‬۔ نیٹ کی دنیا میں قاضی ابویعلی المغربی کا نام اجنبی نہیں ہے‪،‬اسالف کے علمی ذخیرے‬
‫کو نیٹ پر منتقل کرنے کے حوالے سے موصوف کی قابل قدر خدمات ہیں‪،‬موصوف نے چاروں‬
‫مسالک کے فقہی ذخیرے کے حوا لے سے الگ الگ چار بالگ بنائے ہیں‪،‬یہ بالگز ”خزانة الفقہ‬
‫الحنفي“ خزانة الفقہ المالکي“ ”خزانة الفقہ الشافعي“ اور ”خزانة الفقہ الحنبلي“کیانام سے موسوم‬
‫ہیں۔ ان بالگز میں ہر مسلک کی اہم کتب تین طرح کے عنوانات کے ساتھ رکھی گئیں ہیں‪،‬تاکہ‬
‫مطلوب کتاب کی تالش میں کسی قسم کی دقت پیش نہ آئے ‪:‬‬
‫‪۱‬۔ زمانی ترتیب کے ساتھ کتب رکھی گئیں ہیں‪،‬چنانچہ ہر بالگ میں دوسری صدی سے لے‬
‫کر پندرہویں صدی تک ہر صدی کی اہم کتب موجود ہیں۔‬
‫‪۲‬۔اہم‪،‬معروف اور کثیر التصانیف مصنّفین کی ترتیب سے بھی کتب دستیاب ہیں ۔‬
‫‪۳‬۔ موضوعات کی ترتیب سے بھی کتب رکھی گئیں ہیں۔‬
‫ان بالگز کے ویب ایڈریس یہ ہیں ‪:‬‬
‫‪/http://hanafiya.blogspot.com‬‬ ‫‪۱‬۔خزانة الفقہ الحنفي‬
‫‪/http://malikiaa.blogspot.com‬‬ ‫‪۲‬۔ خزانة الفقہ المالکي‬
‫‪/http://chafiiya.blogspot.com‬‬ ‫‪۳‬۔خزانة الفقہ الشافعي‬
‫‪/http://hanabila.blogspot.com‬‬ ‫‪۴‬۔خزانة الفقہ الحنبلي‬
‫‪ ۲‬۔فقہ اسال می کے حوالے سے نیٹ کی دنیا کی غالبا سب سے بڑی ویب سائٹ ”الشبکة‬
‫الفقہیہ “ ہے۔اس ویب سائٹس پر درجنوں عنوانات کے ساتھ فقہی کتب‪،‬مقالہ جات‪،‬اہم‬
‫مضامین‪،‬رسائل اور دیگر فقہی کتب موجود ہیں۔اس کے اہم عنوانات کا یک خاکہ پیش کیا جاتا‬
‫ہے‪،‬تاکہ اس ویب سائٹ کی وسعت اور افادیت کا ایک خاکہ سامنے آئے ‪:‬‬
‫‪۱‬۔الملتقی الفقھي العام ‪۲‬۔ملتقی الفقہ المقارن ‪۳‬۔ملتقی المذھب الحنفي ‪۴‬۔ملتقی المذھب المالکي‬
‫‪۵‬۔ ملتقی المذھب الشافعي ‪۶‬۔ملتقی المذھب الحنبلي ‪۷‬۔ملتقی فقہ االصول ‪۸‬۔ملتقی التنظیر االصولي‬
‫‪۹‬۔ملتقی المناھج األصولیة ‪۱۰‬۔ملتقی األعالم و االصطالحات األصولیة ‪۱۱‬۔ملتقی فقہ المقاصد‬
‫‪۱۲‬۔ملتقی القواعد و الضوابط الفقھیة ‪۱۳‬۔ملتقی التخریج و النظائر و الفروق ‪۱۴‬۔ملتقی النظریة‬
‫الفقھیة و التقنین المعاصر ‪۱۵‬۔ملتقی فقہ األرکان ‪۱۶‬۔ملتقی فقہ المعامالت ‪۱۷‬۔ملتقی فقہ األوقاف‬
‫‪۱۸‬۔ملتقی فقہ األسرة ‪۱۹‬۔ملتقی فقہ الجنایات‪ ،‬الحدود ‪۲۰‬۔ملتقی فقہ األقضیہ و ااألحکام ‪۲۱‬۔ملتقی‬
‫فقہ السیاسة الشرعیة‬
‫اس کے عالوہ بھی مفید عنوانات کے ساتھ فقہی مواد موجود ہے۔ا سکا ایڈریس یہ ہے ‪:‬‬
‫‪http://www.feqhweb.com/‬‬
‫‪۳‬۔فقہی مواد کے حوالے سے ”جامع الفقہ اإلسالمي“ بھی اچھی ویب سائٹ ہے۔اس کاویب‬
‫ایڈریس یہ ہے ‪/http://feqh.al-islam.com :‬‬
‫‪۴‬۔کتب فقہیہ اور خاص طور پر جدید فتاوی کی ایک اہم ویب سائٹ ”موقع الفقہ اإلسالمي “‬
‫‪/http://www.islamfeqh.com‬‬ ‫ہے‪،‬اس کا ویب ایڈریس یہ ہے ‪:‬‬
‫‪۵‬۔ فقہی کتب اور مختلف فقہی موضوعات پر مواد کے حوالے سے ”موقع الفقہ “ ایک مفید‬
‫ویب سائٹ ہے۔ ‪/http://www.alfeqh.com‬‬
‫‪۶‬۔ سینکڑوں موضوعات پر اہم فتاوی کے حوالے سے ”الفتوی“ایک اہم ویب سائٹ ہے۔اس‬
‫ویب سائٹ پر عالم عرب خاص طور پر سلفی حضرات کے اہم علماء کے فتاوی کی کثیر تعداد‬
‫موجود ہے۔ ‪/http://www.alftwa.com‬‬
‫‪۷‬۔ فقہ المعامالت پر ایک اہم ترین ویب سائٹ ” مرکز األبحاث فقہ المعامالت المالیة “‬
‫ہے‪،‬اس ویب سائٹ پر معامالت کے حوالے سے سینکڑوں مقاالت‪،‬کتب اور مضامین موجود‬
‫ہیں۔‬
‫‪http://www.kantakji.com/‬‬
‫‪۸‬۔نیٹ کی دنیا کی معروف اور وسیع ویب سائٹ ”ملتقی أھل الحدیث“میں بھی فقہ‬
‫اسالمی کے حوالے سے وسیع ذخیرہ موجود ہے۔اس ویب سائٹ میں ”منتدی الدراسات‬
‫الفقھیة“اور ”منتدی أصول الفقہ“ کے عنوان کے تحت کثیر ذخیرہ موجود ہے۔‬
‫‪http://www.ahlalhdeeth.com/vb/‬‬
‫‪۹‬۔مرکز علم و عمل دارالعلوم دیوبند کے ارباب دار االفتاء نے آن الئن فتاوی کی ایک وسیع‬
‫ویب سائٹ بنائی ہے‪،‬جس میں ایک اجمالی جائزے کے مطابق تقریبا ‪۲۵‬ہزار فتاوی موجود ہیں‬
‫اور ان فتاوی جات میں تالش کی سہولت بھی مہیا کی گئی ہے۔‬
‫‪http://www.darulifta-deoband.org/‬‬
‫‪۱۰‬۔فقہی سافٹ وئیرز کے حوالے سے ایک جامع سافٹ وئیر”موسوعة الفقہ اإلسالمي “‬
‫ہے‪،‬جس میں فقہی کتب کی تقریبا چار ہزار مجلدات کو اکٹھا کیا گیا ہے۔اس سافٹ وئیر میں‬
‫متنوع طریقوں سے تالش کی سہولت کے ساتھ کسی کتاب کی عبارت کو کاپی پیسٹ کا آپشن‬
‫ڈاون لوڈ کیا تھا۔لیکن اب اسکا لنک‬‫بھی موجود ہے۔یہ سافٹ وئیر بندہ نے کافی عرصہ پہلے ٴ‬
‫کافی تالش کے باوجود نہیں مل سکا۔کسی صاحب کو مل جائے تو بندہ کو بھی مطلع فرمادیں۔‬
‫تیرہویں قسم ‪:‬فقہی مسائل پر اجتماعی غور و فکر کے لیے اداروں کا قیام‬
‫عصر حاضر کے اہل علم اور فقہاء میں فقہ اسالمی کے حوالے سے ایک رجحان یہ‬
‫سامنے آیا ہے‪،‬کہ دور جدید کے پیدا کردہ مسائل کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لینے اور فقہ‬
‫اسالمی پر مختلف پہلووں پر کام کرنے کے لیے اجتماعی فقہی ادارے قائم کئے جائیں‪،‬جن میں‬
‫عالم اسالم کی ممتاز علمی شخصیات اور مختلف مکاتب فقہیہ کے سر کردہ افراد شامل ہوں‪،‬تاکہ‬
‫فقہی مسائل پر اجتماعی غور و فکر کیا جاسکے‪،‬اور مذاہب اربعہ کی روشنی میں عصری‬
‫مسائل اور فقہی چینلجز کا آسان اور اقرب الی الصواب حل ممکن ہو سکے۔اجتماعی فقہی‬
‫اداروں کے قیام کی کوششیں ہر سطح پر ہو ئیں‪ ،‬مختلف اسالمی ممالک میں ملکی سطح کے‬
‫فقہی ادارے بن گئے‪،‬اس کے ساتھ عالم اسالم کی سطح پر بھی عالمی اداروں کے قیام کی‬
‫کوششیں ہوئیں۔ذیل میں مختلف ممالک میں قائم شدہ معروف اداروں کی ایک فہرست دی جارہی‬
‫ہے۔‬
‫(‪)۱‬اسالمی نظریاتی کونسل (اسالم آباد‪،‬پاکستان) (‪ )۲‬المرکز العالمی اإلسالمي (بنوں‪،‬‬
‫پاکستان ) (‪ )۳‬مجلس تحقیق مسائل حاضرہ (کراچی‪،‬پاکستان ) (‪ )۴‬اسالمی فقہ اکیڈمی (انڈیا )‬
‫(‪ )۵‬مجلس تحقیقات شرعیہ (ندوة العلماء ) (‪ )۶‬ادارة المباحث الفقھیہ (جمعیت علمائے ھند) (‪)۷‬‬
‫مجمع البحوث االسالمیہ (مصر ) (‪ )۸‬ھیئة کبار العلماء (سعودی عرب ) (‪ )۹‬یورپی مجلس‬
‫برائے افتاء و تحقیق (لندن ) (‪ )۱۰‬مجمع الفقہ اإلسالمي الدولی (او آئی سی ) (‪)۱۱‬المجمع الفقہ‬
‫اإلسالمي (رابطہ عالم اسالمی ) (‪ )۱۲‬فقہائے شریعت اسمبلی (امریکہ ) (‪ )۱۳‬شمالی امریکی‬
‫فقہ کونسل (شمالی امریکہ ) (‪ )۱۴‬االدارة العامة لال فتاء (کویت)‬
‫ان میں سے بعض ادارے اب غیر فعال ہیں‪،‬البتہ بعض ادارے جیسے مجمع الفقہ اإلسالمي‪،‬‬
‫اسالمی فقہ اکیڈمی‪،‬ھیئة کبار العلماء اور یورپی مجلس افتاء و تحقیق کی فقہی کاوشیں عالم اسالم‬
‫کی سطح پر ممتاز حثیت کی حامل ہیں۔اور بال شبہ درجنوں مسائل پر ان فقہی اداروں نے مفید‬
‫مواد تیار کیا ہے۔‬
‫عالم اسالم کے ممتاز اجتماعی اداروں کی خدمات‪،‬اجتماعی اجتہاد کی عصری کاوشوں اور‬
‫اس سلسلے میں ہونے والی کوششوں کے حوالے سے ادار ہ تحقیقات اسالمی۔اسالم آباد کی‬
‫طرف سے شائع کردہ کتاب ”اجتماعی اجتہاد‪،‬تصور‪،‬ارتقاء اور عملی صورتیں “ڈاکٹر محمد‬
‫زبیر صاحب کا دو جلدوں پر مشمتل پی ایچ ڈی کا ضخیم مقالہ ”عصر حاضر اور اجتماعی‬
‫اجتہاد “ جامعة االمارات العربیہ المتحدة کی طرف سے دو جلدوں پر مشمتل کتاب ”االجتہاد‬
‫الجماعي في العالم اإلسالمي “اور معروف عالم ڈاکٹر محمد اسماعیل شعبان کی کتاب ”االجتہاد‬
‫الجماعي و دور المجامیع الفقہیة في تطبیقہ “اہم کتب ہیں۔‬
‫‪$$$‬‬
‫حواشی‪:‬‬
‫فقہ اسالمی کی مرحلہ وار تاریخ کی داغ بیل مصر کے معروف مورخ و محقق شیخ خضری بک نے اپنی کتاب‬ ‫(‪)۱‬‬
‫تاریخ التشریع اإلسالمي میں ڈالی‪،‬ان کے بعد تقریبا فقہ اسالمی کی تاریخ پر لکھنے والے کم وبیش تمام مصنّفین نے کچھ‬
‫تبدیلیوں کے ساتھ شیخ خضری بک کی اقتداء کی۔‬
‫تاریخ التشریع اإلسالمي للقطان ‪:‬ص‪،۳۹۷‬تاریخ الفقہ اإلسالمي لال شقر ‪:‬ص‪،۱۸۷‬المدخل إلی الشریعة اإلسالمیة‬ ‫(‪)۲‬‬
‫للدکتور الزیدان ‪:‬ص‪،۱۵۰‬خالصة التشریع اإلسالمي للخالف ‪:‬ص‪۱۰۳‬‬
‫فقہ اسالمی‪،‬ایک تعارف ‪ :‬ص‪۱۰۹‬‬ ‫(‪)۳‬‬
‫ص‪۱/۲۶۹‬‬ ‫(‪)۴‬‬
‫فقہ اسالمی ص‪۱۱۱‬‬ ‫(‪)۵‬‬

You might also like