You are on page 1of 7

‫تعالی نے ھر چیز کے لئے کچھ اسباب اور علتیں پیدا کی ھیں اور یہ چیزیں اپ نے وج ود اور‬

‫ٰ‬ ‫بال شبہ ہللا‬


‫اپنی پھچان کو زندہ اور باقی رکھنے کے لئے ان اسباب اور علتوں سے وابستہ رھتی ھیں ۔‬

‫ایسا نھیں ھے کہ جو چیز بھی دنیا میں پیدا ھوتی ھے وہ اپنے ما قبل اور ما بعد س ے تعل ق رکھے بغ یر‬
‫اتفاقی طور پر پیدا ھوتی ھے یا اس کی مقدار یا تعداد بے حساب اور بے اندازہ ھوتی ھے ۔‬

‫‪ :‬مثالً‬

‫بارش یا برفباری ھوتی ھے تو اس کے پیچھے ضروری عوامل کا ای ک پ ورا سلس لہ ک ام کرت ا ھے اور‬
‫اسی کی بنا پر ایک خاص عالقے میں بارش اور برف ب اری ھ وتی ھے ۔ ظ اھر ھے اس باب اور علت وں‬
‫کے بغیر یہ کام انجام نھیں پا سکتا ۔‬

‫اسی طرح انسانوں کے کام محض کسی اتفاق اور حادثے کی بنا پ ر خ ود ان ھی کے ھ اتھوں انج ام نھیں‬
‫پاتے بلکہ ایک سلسلہ ٴ عوامل کے تحت انجام پاتے ھیں پھلے انسان کسی کام کے بارے میں س وچتا ھے‬
‫۔پھریہ طے کرتا ھے کہ یہ کام اس کے لئے فائدہ مند ھو گا یا نھیں ۔ جب اس ے ک ام کے مفی د ھ ونے ک ا‬
‫یقین ھو جاتا ھے تو پھر وہ اسے انجام دینے کی کوشش کرتا ھے ۔‬

‫اس سے یہ بات ثابت ھوئی کہ دنیا میں رو نما ھونے واال ھر واقعہ کسی نہ کس ی س بب اور علت کی بن ا‬
‫الی‬
‫پر رو نما ھوتا ھے ۔ اسباب و علل کا یہ ایک ایسا نظام ھے جس میں کوئی تبدیلی نھیں ھ وتی ۔ ہللا تع ٰ‬
‫نے اس نظام کو ایسا ھی بنایا ھے ۔‬

‫واضح ھے کہ یہ عقیدہ ٓازادی اور اختیار کے اصول کے منافی نھیں ھے۔ کیونکہ خود اختیار اور ٓازادی‬
‫دنیا کے اسباب و علل ھی کا ایک حصہ ھے ۔ انسان اس ٓازادی سے فائدہ اٹھا کر اپنی توانائی کے مطابق‬
‫کام انجام دیتا ھے اور اگر نھیں چاھتا تو انجام نھیں دیتا ۔‬

‫‪ :‬اب ھم سطور ذیل میں اس بحث کی مکمل وضاحت کرینگے‬

‫‪ :‬دنیا میںجو بھی واقعات رونما ھوتے ھیں انھیں تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ھے‬

‫۔ ایک نظریے کے مطابق دنیا کے موجودہ حوادث اور واقعات کا ماض ی س ے ک وئی رش تہ نھیں ۔ اس‪۱‬‬
‫دنیا میں جو بھی واقعہ خواہ وہ کسی دور میں واقع ھوا ھو ‪ ،‬اس کا پچھلے امور سے ک وئی تعل ق نھیں ‪،‬‬
‫اس کا ظھور سابقہ امور سے مربوط نھیں ھے ۔ نہ اس کی خصوصیات اور شکل و صورت اور مقدار و‬
‫پیمائش کا ماضی کی چیزوں سے کوئی رابطہ ھے ۔‬

‫اس مفروضے کے مطابق کسی بھی چیز کی قسمت و س ر نوش ت پھلے س ے نھیں لکھی گ ئی ۔ اس ل ئے‬
‫واقعات اور چیزوں کے اصل سبب اور علت ک ا یکس ر انک ار ض روری ق رار پات ا ھے اور یہ مانن ا بھی‬
‫ضروری قرار پاتا ھے کہ تمام رونما ھونے والے واقعات کسی اندازے اور حساب کے بغیر اتفاقا ً رونم ا‬
‫ھو گئے ھیں جبکہ اسباب و علل کا قانون ایک ع ام ق انون ھے اور ھ ر ح ادثہ حتمی اور قطعی ص ورت‬
‫اس وقت اختیار کرتا ھے اور اس وقت ظھور میں ٓاتا ھے جبکہ وہ پچھلے واقعات سے مربوط ھو ۔‬
‫مختصر یہ کہ واقعات کا ایک دوسرے کے س اتھ رابطہ حتمی اور ض روری ھے ۔ اس ب ات س ے انک ار‬
‫نھیں کیا جا سکتا کہ تمام واقعات کی کڑیاں اپنے ما قبل اور ما بعد واقعات سے جڑی ھوتی ھیں ۔‬

‫۔ دوسرا مفروضہ یہ ھے کہ ھم ھر رونما ھونے والے حادثے اور واقعے کے ل ئے ای ک علت و س بب‪۲‬‬
‫کے قائل ھو جائیں لیکن اس بات کو تسلیم نہ کریں کہ اسباب اور مسببات کا ایک پ ورا نظ ام موج ود اور‬
‫کار فرما ھے ۔ اور یہ خیال کر لیں کہ دنیا میں ایک سبب اور ایک فاعل س ے زی ادہ ک ا وج ود نھیں ھے‬
‫اور وہ فاعل ‪ ،‬ذات خدا وندی ھے ۔ تمام واقعات اور چیزیں بغیر کسی واسطے کے براہ راست اس ی کے‬
‫الی‬
‫ذریعہ ظھور میں ٓاتی ھیں اور خ دا کے س وا ک وئی عام ل موج ود نھیں ھے اور ھم یہ کھیں کہ ہللا تع ٰ‬
‫نے روز ازل ھی جان لیا تھا کہ دنیا میں فالں حادثہ فالں وقت ظھور میں ٓائے گ ا اس ل ئے ج براً و قھ راً‬
‫واقعہ اسی وقت رونما ھو جاتا ھے اور اس حادثے کے ظھور میں کسی اور چیز کا عمل دخل نھیں ھوتا‬
‫۔ انسان کے افعال اور اعمال بھی اسی طرح کے حوادث میں سے ایک ھیں ۔ جو اختیار کے بغ یر وج ود‬
‫میں ٓا ج اتے ھیں ۔ اور خ ود انس ان ان ک اموں میں م داخلت کی ط اقت نھیں رکھت ا ۔ یہ ت و ص رف ای ک‬
‫ظاھری اور خیالی پردہ ھے جو ھمیں دکھائی دیتا ھے ۔‬

‫‪ :‬یہ نظریہ بھی دو وجوہ سے نا قابل قبول ھے‪ ‬‬

‫۔ایک تو یہ کہ اسباب اور مسببات کا نظام اورواقعات کے درمیان علت و معلول کا رابطہ نا قاب ل انک ار‪۱‬‬
‫ھے ۔ اس لئے کہ تمام علوم طبعی اور حسّی و تجربی مشاھدات کی بنیاد یھی اس باب و مس ببات ک ا نظ ام‬
‫ھے ۔ اور سائنس دان اسی کی مدد سے ایجادات و اختراعات کرنے کے قابل ھوئے ھیں ۔‬

‫۔ دوسری یہ کہ انسان ٓازاد اور خود مختار پیدا ھوا ھے۔ یعنی اسے عقل ‪ ،‬فک ر اور ارادہ دی ا گی ا ھے ۔‪۲‬‬
‫اپنے ارادہ و اختیار کے کاموں میں انسان ک وئی ایس ا پتھ ر نھیں ھے کہ جس ے اوپ ر س ے نیچے پھینک ا‬
‫جائے تو وہ زمین کی قوت ج اذبہ کے تحت چ ار و ن ا چ ار زمین پ ر پھنچ ک ر رھے گ ا ۔ اور انس ان کی‬
‫حیثیت گھاس کی بھی نھیں ھے کہ جس کے سامنے صرف ایک محدود راستہ ھو اور جو نشو ونم ا کے‬
‫حاالت میسر ٓاتے ھی زمین س ے غ ذا حاص ل کرن ا ش روع ک ر دی تی ھے اور س ر س بز ھ و ج اتی ھے ۔‬
‫اوراسی طرح انسان کوئی جانور بھی نھیں ھے جو اپنی جبلت کی بنا پر کام انجام دیتا ھو ۔‬

‫انسان جب کسی چوراھے پر پھنچتا ھے تو وہ کسی ایک ھی راستے کے انتخاب کرنے پ ر مجب ور نھیں‬
‫ھوتا ۔ اس پر دوسرے راستے بند نھیں کر دیے جاتے ‪ ،‬وہ چار راستوں میں سے اپنی نظ ر و فک ر س ے‬
‫کام لے کر کسی ایک راستے کو منتخب کرنے کے لئے ٓازاد ھوتا ھے ۔‬

‫ٓاگ جو جال دیتی ھے اور پانی جو غرق کر دیتا ھے اور گھاس جو اگتی ھے ‪ ،‬ان کے اور انس انوں کے‬
‫درمیان ف رق یھی ھے کہ ان میں س ے کس ی کے بھی خ واص اور ف رائض اپ نے منتخب ک ردہ نھیں ھیں‬
‫جبکہ اس کے بر عکس انسان کے سامنے چند کام اور چند راھیں موجود ھ وتی ھیں ان‪  ‬میں س ے کس ی‬
‫ایک کام یا راستہ کو وہ اپنی خواھش اور مرضی کے مطابق منتخب کر سکتا ھے ۔‬

‫جبر کا یہ دوسرا نظریہ بھی درست نھیں ھے ۔‬

‫۔ تیسرا نظریہ یہ ھے کہ ھم علت اور سبب کے اصول کو تسلیم کر لیں ۔ کیونکہ نظام عالم اور اس میں‪۳‬‬
‫رو نما ھونے والے تمام واقعات ‪ ،‬حتی کہ انسانی افعال و اعمال س ب علت و معل ول کے درمی ان رابطے‬
‫موثر ھے جنھیں انسان انجام‬
‫کی بنیاد پر استوار ھیں اور انسان کے ارادہ و اختیار کی طاقت ان امورمیں ٴ‬
‫دیتا ھے ۔انسان کی قسمت اس نظام سے وابستہ ھوتی ھے جسے وہ خود وجود میں التا ھے ۔ ھر شخص‬
‫کا اچھا یا برا مستقبل ‪ ،‬اس کی شخصیت اس کی روحانی ص فات ‪ ،‬اس کی اخالقی ص الحیتوں اور عملی‬
‫قوت سے وابستگی رکھتا ھے اور بآالخر وہ اپ نے ل ئے جس راس تے ک و بھی منتخب کرت ا ھے وہ اس ی‬
‫راستے پر ڈال دیا جاتا ھے ۔‬

‫انسان ایسے کسی بھی کام کو ترک کرنے کی قدرت رکھتا ھے جس کا انج ام دین ا مص لحت اندیش ی کے‬
‫خالف ھ و جبکہ اس ک ام کے انج ام دی نے میں نہ ک وئی رک اوٹ حائ ل ھ وتی ھے اور نہ وہ ک ام اس کی‬
‫طبیعت و خواھش کے خالف ھوتا ھے ۔ اسی ط رح وہ ایس ے کس ی بھی ک ام ک و انج ام دی نے کی ق درت‬
‫رکھتا ھے جو مصلحت اندیشی اور عقل کی رو سے درست ھو جبکہ وہ کام اس کی اپنی خواھش نفسانی‬
‫کے خالف ھوتا ھے اور جس کے انجام دی نے میں ک وئی خ ارجی رک اوٹ بھی در پیش نھیں ھ وتی ۔ در‬
‫اصل انسان کو ایک طرح کی ٓازادی حاصل ھے اور وہ کسی بھی کام کو اپنی عقل و ارادہ کی م دد س ے‬
‫انجام دے سکتا ھے یا اسے ترک کر سکتا ھے ۔ اور کوئی عامل اس کی خ واھش اور رغبت کے خالف‬
‫اسے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر مجبور نھیں کرتا ۔‬

‫یہ نظریہ ( تیسرا نظریہ ) تمام بڑے بڑے پیغمبروں ‪ٓ ،‬اسمانی کتابوں‪ ،‬مسلمان فالسفہ اور دانشوران اسالم‬
‫نے پیش کیا ھے اور مسلمانوں نے اسی عقیدے کو قبول کیا ھے ۔‬

‫تعالی کی تقدیر یہ ھے کہ انسان اپنے کام‪ ،‬ارادہ و اختی ار کے س اتھ انج ام دے ‪ ،‬نہ یہ کہ تق دیر اس ے‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫اچھے یا برے کاموں میں سے کسی ایک طرح کے کام انجام دینے پر مجبور کرے ‪ ،‬ب اوجودیکہ علت و‬
‫معلول کا نظام اس دنیا پر حکمراں ھے ۔ انسان کے کام کسی جبر کے تحت انجام نھیں پاتے ۔‬

‫یہ بات ظاھر ھے کہ قضا و قدر جس میں ٓازادی اور اختیار کو بھی جگہ دی گئی ھے ت رقی اور ع روج‬
‫کی راہ میں حائل نھیں ھے اور انسان کے ھاتہ پاؤں نھیں باندہ دیتی ۔ وہ اپنی ٓازادی اور حریت سے فائدہ‬
‫اٹھاتے ھوئے جس طرح کا بھی کام چاھے انجام دے سکتا ھے اور اپنی ترقی کے لئے کوشش کر س کتا‬
‫ھے ۔‬

‫انسان جس جانب بھی رخ کرتا ھے اس کی قضا و قدر وھاں موجود ھوتی ھے جسے وہ خود اپ نے ھ اتہ‬
‫سے منتخب کرتا ھے ۔‬

‫انسان صرف ایک طرح کی تقدیر نھیں رکھتا بلکہ گوناگوں تقدیر یں رکھتا ھے جن میں س ے ک وئی بھی‬
‫تقدیر دوسری کی جگہ لے سکتی ھے ۔‬

‫‪:‬مثالً‬

‫اگر کوئی شخص بیمار ھوتا ھے اور عالج کراتا ھے اور صحت مند ھو جاتا ھے تو یہ قض ا و ق در کے‬
‫عین مطابق ھے ۔‬

‫اور اگر وہ عالج نھیں کراتا ‪ ،‬بیمار رھتا ھے اور پھ ر م ر جات ا ھے ت و یہ بھی قض ا و ق در کے مط ابق‬
‫ھوتا ھے ۔‬
‫حضرت علی ( ع) ایک ٹیڑھی دیوار کے نیچے سے اٹہ کر ایک دوسری دیوار کے سائے میں بیٹہ گئے‬
‫‪ :‬۔ لوگوں نے کھا‬

‫“امیر المومنین (ع) ! کیا ٓاپ قضائے ٰالھی سے فرار اختیار کرتے ھیں ؟ ”‬

‫‪ٓ :‬اپ نے جواب دیا‬

‫میں نے خدا کی قضا سے اس کی قدر کی جانب اور دوسری قضا کی طرف فرار اختیار کی ھے ۔ ”‬

‫ٓاخر کار انسان جس جانب بھی قدم اٹھاتا ھے اسے ایک طرح کی اختی اری قس مت اور قض ا و ق در س ے‬
‫واسطہ پڑتا ھے اور یہ چیز علت و معلول کے عم ومی ق انون کے تحت ھ وتی ھے اور قض ا و ق در پ ر‬
‫عقیدہ انسان کو عمل اور کوشش سے باز نھیں رکھتا ۔‬

‫اسالم کے دور اول میں مسلمان قضا و قدر پر راس خ اعتق اد رکھ تے تھے ۔ انھ وں نے تق دیر کے ب ارے‬
‫میں یھی تعلیم حاصل کی تھی ۔‬

‫وہ قضا و قدر کو اپنے کاموں پر اختیار کے من افی نھیں س مجھتے تھے ۔تق دیر پ ر ان کے پختہ یقین نے‬
‫کبھی انھیں جبر کی طرف نھیں ڈھکیال اور انھیں بے حسی کے ساتھ خود کو تقدیر کے حوالے کر دینے‬
‫واال نھیں بنایا ۔ انھوں نے اس دور میں جھاں تک ممکن ھو سکا بے مثال ترقی کرنے ک ا اع زاز حاص ل‬
‫کیا ۔‬

‫قضا و قدر کی حدود‬

‫دنیا کے کار و بار پر اثر انداز ھونے والے عوامل ج و مجم وعی ط ور پ ر اس باب و عل ل کے نظ ام ک و‬
‫وج ود میں التے ھیں اور ج و قض ا و ق در کے مظ اھر میں ش مار ک ئے ج اتے ھیں ‪ ،‬وہ ص رف م ادی‬
‫امورتک منحصر اور محدود نھیں ھیں‪  ‬معنوی امور کا بھی ایک سلسلہ موجود ھے جو انس ان کی تق دیر‬
‫کے بدلنے میں موثر ثابت ھوتا ھے ۔ انسان کا چال چلن اور کردار بھی ش مار میں ٓات ا ھے اور اپن ا ای ک‬
‫رد عمل ظاھر کرتا ھے ۔‬

‫جودنیا کی کسوٹی پر اچھا اور برا یکساں نھیں ھوتا ۔‪ ‬‬

‫‪:‬مثالً‬

‫کسی جاندار کو خواہ وہ حیوان ھو یا انسان اذیت دینا ‪ ،‬خصوصا ً ان لوگ وں ک و جن کے کچھ حق وق عائ د‬
‫ھوتے ھیں ‪ ،‬جیسے ماں ‪ ،‬باپ اور استاد ‪ ،‬اسی دنیا میں اپنے برے نتائج سامنے لے ٓاتا ھے ۔ اسی ط رح‬
‫ان لوگوں کا احترام انسان کی زندگی اور اس کی خوش نصیبی پر اثر انداز ھوتا ھے ۔‬

‫دعا بھی اس دنیا میں باطنی اسباب میں سے ای ک ھے ج و کس ی بھی واقعہ کے انج ام پ ر اث ر ان داز ھ و‬
‫سکتی ھے ۔‬
‫اچھے کام ‪ ،‬نیکی اں اور بحی ثیت مجم وعی گن اہ ‪ ،‬س ر کش ی ی ا اط اعت ‪ ،‬ت وبہ ی ا کس ی کی پ ردہ دری ‪،‬‬
‫انصاف یا ظلم ‪ ،‬نیکوکاری یا بد کاری ‪ ،‬دعا یا لعنت ایسی ھی دوسری چیزیں ھیں ج و انس ان کی تق دیر ‪،‬‬
‫اس کی عمر ‪ ،‬سالمتی اور روزی پر اچھے یا برے اثرات ڈالتی ھیں ۔‬

‫وہ لوگ جن کا نقط ٴھ نظر دوسرا ھے بعض حق ائق کی ت وجیہ میں ھم س ے اختالف ک ر س کتے ھیں ۔مثال‬
‫جس چ یز ک و ھم م وت ک ا س بب ق رار دیں ممکن ھے وہ اپ نے علم کی بن ا پ ر اس ے م وت کی علت نہ‬
‫سمجھیں ۔‬

‫‪ :‬امام صادق علیہ السالم نے فرمایا ھے‬

‫وہ لوگ جو گناھوں کی وجہ سے مرتے ھیں ان کی تعداد ان مرنے وال وں س ے زی ادہ ھے ج و مھلت ”‬
‫عمر کے ختم ھو جانے کی بنا پر اس دنیا سے رخصت ھوتے ھیں اور ان لوگوں کی تعداد جن کی عم ر‬
‫ان کی نیکوکاری کی وجہ سے دراز کی ج اتی ھے اپ نی طبعی اور اص لی عم ر کے س اتھ زن دہ رھ نے‬
‫“والوں سے زیادہ ھے ۔‬

‫اب جبکہ بات واضح ھو چکی ھے ‪ ،‬قضا و قدر پر اعتق اد ک ا مطلب یہ نھیں ھے کہ الزم ا ً ج بر پ ر بھی‬
‫یقین رکھا جائے ۔‬

‫اب ھم جبر پر اعتقاد کے غلط ھونے کو ثابت کریں گے ۔‬

‫۔ ذمہ دار یا مکلف ھونا ۔‪۱‬‬

‫ھر دینی اور اخالقی مکتب کی بنیاد ‪ ،‬فرض اور ذمہ داری ھے ج و ج بر کے س اتھ ک وئی مط ابقت نھیں‬
‫رکھتی ۔ اگر لوگ اپنے کاموں کی انجام دھی پر مجبور ھوں تو پھر امر و نھی ‪ ،‬بدلے اور س زا‪ ،‬جنت و‬
‫دوزخ ‪ ،‬سب بے معنی ھو کر رہ جاتے ھیں ۔ جب کسی کو کسی کام سے ب از رھ نے ک ا اختی ار نھیں ت و‬
‫اس سے یہ کھنا کہ اس کام سے باز ٓاجاؤ ‪ ،‬فضول ھو گا ۔ جب ٓاپ ایک عاقل انس ان س ے ایس ی ب ات کی‬
‫توقع نھیں کرتے تو پھر خداوند حکیم سے کس طرح توقع رکہ سکتے ھیں ۔‬

‫مکلف ھونے کا مسئلہ ھی اس بات کی بھترین دلیل ھے کہ اسالم اور تمام ٓاسمانی مذاھب میں سے ک وئی‬
‫بھی جبری ٓائین و قانون نھیں رکھتا ۔‬

‫۔ ھم سب وجدانی طور پر یہ جانتے ھیں کہ ھم کاموں کے انجام دینے میں مشین کی طرح نھیں ھیں کہ‪۲‬‬
‫اختیار و ارادہ کے بغیر ھم سے کام سرزد ھو رھے ھوں ۔ ھم اس بات کو پ وری ط رح محس وس ک رتے‬
‫ھیں کہ تمام کام ھم ٓازادی اور اختیار کے ساتھ اور اپنی مرض ی س ے انج ام دی تے ھیں ۔ اس ی ل ئے جس‬
‫کسی شخص کے حقوق کو پائمال کیا جاتا ھے ‪ ،‬ھم اسے حق دیتے ھیں کہ وہ اپنے حقوق کا دفاع کرنے‬
‫کے لئے عدالت سے رجوع کرے ۔‬

‫اگر انسان اپنے کاموں میں مجبور ھوتا تو اس صورت میں اس شخص کو جس کا حق پائمال کیا گی ا ھے‬
‫یہ حق حاصل نہ ھوتا کہ وہ اعتراض کرے اور غاصب کو عدالت میں کھینچے ۔‬
‫۔اس سلسلے میں ھم نے جو کچھ لکھا ھے اس کے عالوہ قرٓان کریم کی بھت سی ٓایتیں ‪ ،‬انس انی ٓازادی‪۳‬‬
‫و اختیار کے اصول کی تصریح کرتی ھیں اور واضح طور پر یہ بتاتی ھیں کہ اپنی نجات اور گمراھی ‪،‬‬
‫سعادت و بد بختی ‪ ،‬ترقی اور پسماندگی میں خ ود انس ان کے اپ نے عم ل و اختی ار ک و ب ڑا دخ ل حاص ل‬
‫ھے ۔‬

‫‪ :‬مثالً مندرجہ ذیل ٓایات‬

‫ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی الناس “ ( سورھٴ روم ‪ ” )۴۱ /‬لوگوں نے ج و اعم ال ک ئے ”‬
‫ھیں ان کی بنا پر بر و بحر میں فساد پھوٹ پڑا ھے “۔‬

‫انا ھدی ٰنہ السبیل ا ّما شاکراً و ا ّما کف ورا “ ( س ور ٴھ دھ ر ‪ ” ) ۳ /‬ھم انس ان کی راہ ( راس ت ) کی ج انب ”‬
‫رھنمائی کرتے ھیں تاکہ دیکھیں وہ کون سی راہ اختیار کرتا ھے ‪ٓ ،‬ایا وہ ھماری رھنمائی قبول کرتا ھے‬
‫اور شکر ادا کرت ا ھے ( ا ّم ا ش اکراً) ی ا رو گ ردانی اختی ار ک ر کے ن ا ش کر گ زار بن جات ا ھے ( و ا ّم ا‬
‫کفورا )‬

‫ٰ‬
‫الھدی “ ( سورھٴ فصلت ‪ ” )۱۷/‬ھم نے ملت ثمود کی رھنمائی ”‬ ‫فا ّما ثمود فھدیناھم فاستحبّواالعصی عملی‬
‫کی لیکن اس نے ھدایت کو چھوڑ کر گمراھی کو پسند کیا ۔‬

‫سعی “ ( سورھٴ نجم ‪ ” )۳۹ /‬انسان کے لئے خود اس کی سعی اور کوشش کے سوا ”‬
‫ٰ‬ ‫لیس لالنسان ااّل ما‬
‫اور کچھ نھیں ھے ۔‬

‫مندرجہ باال ٓایات اور ایسی ھی دوسری ٓای ات س ے معل وم ھوت ا ھے کہ ج و ش خص بھی اس الم ک و ای ک‬
‫جبری ٓائین و قانون کے طور پر پیش کرتا ھے و ہ در اصل غلط فھمی کا ش کار ھے ۔ اور اس نے قض ا‬
‫و قدر کے معنی نھیں سمجھے ھیں یا پھر وہ اسالم کے مخالفین کی طرح اس طریقے سے نا ج ائز فائ دہ‬
‫اٹھانا چاھتا ھے اور اپنے اس الزام کے ذریعے مسلمانوں کو ایک ایسی قوم کے طور پر متع ارف کران ا‬
‫چاھتا ھے جو ترقی کرنے کی صالحیت نھیں رکھتی اور پسماندگی میں پڑی رھنا چاھتی ھے ۔‬

‫سڑک پر ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں ای ک ش خص بے ہ وش پ ڑا ہے۔ بہت س ے ل وگ جم ع ہیں۔ ہ ر ای ک‬


‫بھانت بھانت کی بولی بول رہا ہے۔ اکثر لوگ محض تماشائی کی حیثیت سے ہجوم ک ا حص ہ ب نے ہ وئے‬
‫ہیں۔ کچھ سنجیدہ لوگ آگے بڑھتے ہیں اور زخمی ک و ک ار میں ڈال ک ر ہس پتال روانہ ہ وتے ہیں۔ ہس پتال‬
‫آپہنچا‪ ،‬اس ٹریچر الی ا گی ا اور زخمی ک و آپریش ن تھی ٹر منتق ل ک رکے آپریش ن کی تی اری ش روع ک ردی‬
‫گئی۔‪ ‬دو ڈاکٹر اپنے معاونین کے ساتھ آپریشن میں مصروف ہیں۔ باہر دو آدمی کھڑے ہیں ج و زخمی ک و‬
‫ہسپتال لے کر آئے تھے۔ ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح زخمی کے گھر والوں کو اطالع کردی جائے۔‬
‫اس ی دوران ڈاک ٹر ب اہر آتے ہیں اور م ژدہ س ناتے ہیں کہ آپریش ن کامی اب رہ ا اور اب زخمی کی ح الت‬
‫خطرے سے باہر ہے۔ کچھ ہی دیر بعد زخمی کو ہوش آگیا۔ اس نے ان افراد کا بے حد شکریہ ادا کیا ج و‬
‫اس ے س ڑک س ے اٹھ ا ک ر الئے تھے۔ اس نے دون وں ڈاک ٹروں‪ ،‬نرس وں اور مع اونین س ے بھی اپ نی‬
‫ممنونیت کا اظہار کیا۔ لیکن اس نے ان اوزاروں کا ش کریہ ادا نہیں کی ا جنہیں اس تعمال ک رکے ڈاک ٹروں‬
‫نے اس کی زندگی بچائی تھی۔ اس نے اس ایمب ولینس س ے اپ نی ممن ونیت ک ا اظہ ار نہیں کی ا ج و اس ے‬
‫ہسپتال لے کر آئی تھی۔ اس نے اس اسٹریچر کو شاباش ی نہیں دی ج و اس ے اپ نے اوپ ر الد ک ر آپریش ن‬
‫ب شعورا ور با ارادہ انس ان ک ا ش کریہ ادا‬
‫تھیٹر تک لے گیا تھا۔ غور کیجیے کہ اس شخص نے ہر صاح ِ‬
‫کیا مگر تمام بے ارادہ اشیا و اسباب کو نظر انداز کردیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ اشیا اس ے‬
‫بچانے کا اصل سبب نہیں بلکہاصل محرک تو ان انس انوں ک ا اردہ و عم ل تھ ا ج و اس ے یہ اں الئے اور‬
‫ا۔‬ ‫ن کی‬ ‫ا عالج اور آپریش‬ ‫وں نے اس ک‬ ‫جنہ‬
‫لیکن یہی زخمی جب اپنے گھر پہنچتا ہے اور اس کا ننھا بچہ اس سے سوال کرت ا ہے کہ ’’ اب و‪ :‬جب آم‬
‫اور سیب کے درختوں کو ایک ہی پانی پالیا جاتا ہے تو پھر وہ دونوں مختلف پھل کیوں دیتے ہیں؟‘‘ ت و‬
‫اس کا جواب ہوتا ہے کہ بیٹا یہ فطرت کا بنایا ہوا خوبصورت اور حیرت انگیز نظ ام ہے۔ جس کی جت نی‬
‫ائے کم ہے۔‬ ‫ف کی ج‬ ‫تعری‬
‫ب ش عور و‬ ‫غور کیجیے‪ ،‬وہ شخص کتنی آسانی سے یہ بات سمجھ گیا تھا کہ اس ک و بچ انے والے ص اح ِ‬
‫ارادہ انس ان تھے نہ کہ ایمب ولینس‪ ،‬اس ٹریچر اور دوس رے آالت۔ لیکن وہ اس س وال میں اس باب ہی میں‬
‫الجھ کر رہ گیا‪ ،‬مسبب االسباب(خدا) کو پہچان ہی نہ پایا۔ ت و پھ ر وہ اس کی حم د اور تعری ف کی توفی ق‬
‫ے پاتا‬ ‫اں س‬ ‫!کہ‬
‫ہم میں س ے اک ثر لوگ وں ک ا یہی ح ال ہے کہ وہ اس باب کے پ ردے کے پیچھے کارفرم ا ہ اتھ ک و نہیں‬
‫سمجھتے یا نہیں سمجھنا چاہتے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ پینے کا پ انی گلیش ئر س ے گ زر ک ر ڈیم اور دری ا‬
‫میں اسٹور ہوکر پائپوں کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے۔ لیکن یہ پانی گلیشئر پ ر کیس ے آت ا ہے۔ ت و ج واب‬
‫ہوتا ہے کہ وہاں برف گرتی ہے۔ پھر یہی برف پانی بن کر بہتی ہے۔ س وال یہ ہے کہ ب رف کی وں گ رتی‬
‫ہے۔ تو جواب آتا ہے کہ درجۂ حرارت بہت منفی ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ درجۂ حرارت منفی کیوں ہوتا‬
‫ہے۔ تو جواب آتا ہے کہ یہ مق ام بہت زی ادہ اونچ ائی پ ر ہوت ا ہے اس ل یے۔ س وال یہ ہے کہ اونچ ائی پ ر‬
‫درجۂ حرارت کی منفیت سے برف کیوں بنتی ہے‪ ،‬آگ کیوں نہیں بنتی؟ درجۂ حرارت اونچ ائی پ ر منفی‬
‫کیوں ہوتا ہے؟ برف پگھلتی ہی کیوں ہے؟ وغیرہ۔ تو ان سب کا جواب یہ ہوت ا ہے کہ یہ فط رت ک ا نظ ام‬
‫ہے۔ اس طرح ایک انسان ان سارے اسباب کے پرے اصل کارفرما ہستی اور خدائی ش عور و ارادے ک و‬
‫ا ہے۔‬ ‫داز کردیت‬ ‫ر ان‬ ‫نظ‬
‫شان بے نی ازی ک ا اظہ ار کرت ا ہے۔‬
‫سائنسی امور کے عالوہ روزمرہ کے معموالت میں بھی انسان اسی ِ‬
‫مثالً وہ سمجھتا ہے کہ رزق وہ اپنے بل بوتے پر کماتا‪ ،‬لباس اپنی کمائی کا پہنتا‪ ،‬ت رقی اپ نی ت دبیر س ے‬
‫حاصل کرتا‪ ،‬خوشی اپنی سرگرمیوں سے پاتا اور زندگی کی گاڑی اپنے علم سے چالتا ہے۔ ح االنکہ وہ‬
‫تو اس پر بھی قادر نہیں کہ ج و س انس ان در گ ئی ہے اس ے مج رد اپ نے ارادہ و اختی ار س ے ب اہر نک ال‬
‫کے۔‬ ‫س‬
‫قرآن میں خدا ہر سبب کی نفی کرکے تمام امور کو اپنی نسبت سے بیان کرت ا ہے۔ وہ اپن ا تع ارف اس باب‬
‫سے ماورا مسبب االسباب کی حیثیت سے کراتا ہے۔ وہ اعالن کرتا ہے کہ یہ ساری کائنات اس کی مٹھی‬
‫میں ہے اور وہی اس کو چال رہا ہے۔ یہاں رونما ہونے واال ہر چھوٹا بڑا واقعہ اسی کے اذن اور مرضی‬
‫سے ہوتا ہے۔ لیکن انسان خدا کو بھول کر اسباب ہی میں گم رہتا ہے۔ کیا ایس ا انس ان مس تحق مہیں کہ یہ‬
‫اپنے معبودوں (اسباب) کے ساتھ جہنم کی بے اسباب وادیوں میں جھونک دیا جائے۔‬

You might also like