Professional Documents
Culture Documents
ایسا نھیں ھے کہ جو چیز بھی دنیا میں پیدا ھوتی ھے وہ اپنے ما قبل اور ما بعد س ے تعل ق رکھے بغ یر
اتفاقی طور پر پیدا ھوتی ھے یا اس کی مقدار یا تعداد بے حساب اور بے اندازہ ھوتی ھے ۔
:مثالً
بارش یا برفباری ھوتی ھے تو اس کے پیچھے ضروری عوامل کا ای ک پ ورا سلس لہ ک ام کرت ا ھے اور
اسی کی بنا پر ایک خاص عالقے میں بارش اور برف ب اری ھ وتی ھے ۔ ظ اھر ھے اس باب اور علت وں
کے بغیر یہ کام انجام نھیں پا سکتا ۔
اسی طرح انسانوں کے کام محض کسی اتفاق اور حادثے کی بنا پ ر خ ود ان ھی کے ھ اتھوں انج ام نھیں
پاتے بلکہ ایک سلسلہ ٴ عوامل کے تحت انجام پاتے ھیں پھلے انسان کسی کام کے بارے میں س وچتا ھے
۔پھریہ طے کرتا ھے کہ یہ کام اس کے لئے فائدہ مند ھو گا یا نھیں ۔ جب اس ے ک ام کے مفی د ھ ونے ک ا
یقین ھو جاتا ھے تو پھر وہ اسے انجام دینے کی کوشش کرتا ھے ۔
اس سے یہ بات ثابت ھوئی کہ دنیا میں رو نما ھونے واال ھر واقعہ کسی نہ کس ی س بب اور علت کی بن ا
الی
پر رو نما ھوتا ھے ۔ اسباب و علل کا یہ ایک ایسا نظام ھے جس میں کوئی تبدیلی نھیں ھ وتی ۔ ہللا تع ٰ
نے اس نظام کو ایسا ھی بنایا ھے ۔
واضح ھے کہ یہ عقیدہ ٓازادی اور اختیار کے اصول کے منافی نھیں ھے۔ کیونکہ خود اختیار اور ٓازادی
دنیا کے اسباب و علل ھی کا ایک حصہ ھے ۔ انسان اس ٓازادی سے فائدہ اٹھا کر اپنی توانائی کے مطابق
کام انجام دیتا ھے اور اگر نھیں چاھتا تو انجام نھیں دیتا ۔
:دنیا میںجو بھی واقعات رونما ھوتے ھیں انھیں تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ھے
۔ ایک نظریے کے مطابق دنیا کے موجودہ حوادث اور واقعات کا ماض ی س ے ک وئی رش تہ نھیں ۔ اس۱
دنیا میں جو بھی واقعہ خواہ وہ کسی دور میں واقع ھوا ھو ،اس کا پچھلے امور سے ک وئی تعل ق نھیں ،
اس کا ظھور سابقہ امور سے مربوط نھیں ھے ۔ نہ اس کی خصوصیات اور شکل و صورت اور مقدار و
پیمائش کا ماضی کی چیزوں سے کوئی رابطہ ھے ۔
اس مفروضے کے مطابق کسی بھی چیز کی قسمت و س ر نوش ت پھلے س ے نھیں لکھی گ ئی ۔ اس ل ئے
واقعات اور چیزوں کے اصل سبب اور علت ک ا یکس ر انک ار ض روری ق رار پات ا ھے اور یہ مانن ا بھی
ضروری قرار پاتا ھے کہ تمام رونما ھونے والے واقعات کسی اندازے اور حساب کے بغیر اتفاقا ً رونم ا
ھو گئے ھیں جبکہ اسباب و علل کا قانون ایک ع ام ق انون ھے اور ھ ر ح ادثہ حتمی اور قطعی ص ورت
اس وقت اختیار کرتا ھے اور اس وقت ظھور میں ٓاتا ھے جبکہ وہ پچھلے واقعات سے مربوط ھو ۔
مختصر یہ کہ واقعات کا ایک دوسرے کے س اتھ رابطہ حتمی اور ض روری ھے ۔ اس ب ات س ے انک ار
نھیں کیا جا سکتا کہ تمام واقعات کی کڑیاں اپنے ما قبل اور ما بعد واقعات سے جڑی ھوتی ھیں ۔
۔ دوسرا مفروضہ یہ ھے کہ ھم ھر رونما ھونے والے حادثے اور واقعے کے ل ئے ای ک علت و س بب۲
کے قائل ھو جائیں لیکن اس بات کو تسلیم نہ کریں کہ اسباب اور مسببات کا ایک پ ورا نظ ام موج ود اور
کار فرما ھے ۔ اور یہ خیال کر لیں کہ دنیا میں ایک سبب اور ایک فاعل س ے زی ادہ ک ا وج ود نھیں ھے
اور وہ فاعل ،ذات خدا وندی ھے ۔ تمام واقعات اور چیزیں بغیر کسی واسطے کے براہ راست اس ی کے
الی
ذریعہ ظھور میں ٓاتی ھیں اور خ دا کے س وا ک وئی عام ل موج ود نھیں ھے اور ھم یہ کھیں کہ ہللا تع ٰ
نے روز ازل ھی جان لیا تھا کہ دنیا میں فالں حادثہ فالں وقت ظھور میں ٓائے گ ا اس ل ئے ج براً و قھ راً
واقعہ اسی وقت رونما ھو جاتا ھے اور اس حادثے کے ظھور میں کسی اور چیز کا عمل دخل نھیں ھوتا
۔ انسان کے افعال اور اعمال بھی اسی طرح کے حوادث میں سے ایک ھیں ۔ جو اختیار کے بغ یر وج ود
میں ٓا ج اتے ھیں ۔ اور خ ود انس ان ان ک اموں میں م داخلت کی ط اقت نھیں رکھت ا ۔ یہ ت و ص رف ای ک
ظاھری اور خیالی پردہ ھے جو ھمیں دکھائی دیتا ھے ۔
۔ایک تو یہ کہ اسباب اور مسببات کا نظام اورواقعات کے درمیان علت و معلول کا رابطہ نا قاب ل انک ار۱
ھے ۔ اس لئے کہ تمام علوم طبعی اور حسّی و تجربی مشاھدات کی بنیاد یھی اس باب و مس ببات ک ا نظ ام
ھے ۔ اور سائنس دان اسی کی مدد سے ایجادات و اختراعات کرنے کے قابل ھوئے ھیں ۔
۔ دوسری یہ کہ انسان ٓازاد اور خود مختار پیدا ھوا ھے۔ یعنی اسے عقل ،فک ر اور ارادہ دی ا گی ا ھے ۔۲
اپنے ارادہ و اختیار کے کاموں میں انسان ک وئی ایس ا پتھ ر نھیں ھے کہ جس ے اوپ ر س ے نیچے پھینک ا
جائے تو وہ زمین کی قوت ج اذبہ کے تحت چ ار و ن ا چ ار زمین پ ر پھنچ ک ر رھے گ ا ۔ اور انس ان کی
حیثیت گھاس کی بھی نھیں ھے کہ جس کے سامنے صرف ایک محدود راستہ ھو اور جو نشو ونم ا کے
حاالت میسر ٓاتے ھی زمین س ے غ ذا حاص ل کرن ا ش روع ک ر دی تی ھے اور س ر س بز ھ و ج اتی ھے ۔
اوراسی طرح انسان کوئی جانور بھی نھیں ھے جو اپنی جبلت کی بنا پر کام انجام دیتا ھو ۔
انسان جب کسی چوراھے پر پھنچتا ھے تو وہ کسی ایک ھی راستے کے انتخاب کرنے پ ر مجب ور نھیں
ھوتا ۔ اس پر دوسرے راستے بند نھیں کر دیے جاتے ،وہ چار راستوں میں سے اپنی نظ ر و فک ر س ے
کام لے کر کسی ایک راستے کو منتخب کرنے کے لئے ٓازاد ھوتا ھے ۔
ٓاگ جو جال دیتی ھے اور پانی جو غرق کر دیتا ھے اور گھاس جو اگتی ھے ،ان کے اور انس انوں کے
درمیان ف رق یھی ھے کہ ان میں س ے کس ی کے بھی خ واص اور ف رائض اپ نے منتخب ک ردہ نھیں ھیں
جبکہ اس کے بر عکس انسان کے سامنے چند کام اور چند راھیں موجود ھ وتی ھیں ان میں س ے کس ی
ایک کام یا راستہ کو وہ اپنی خواھش اور مرضی کے مطابق منتخب کر سکتا ھے ۔
۔ تیسرا نظریہ یہ ھے کہ ھم علت اور سبب کے اصول کو تسلیم کر لیں ۔ کیونکہ نظام عالم اور اس میں۳
رو نما ھونے والے تمام واقعات ،حتی کہ انسانی افعال و اعمال س ب علت و معل ول کے درمی ان رابطے
موثر ھے جنھیں انسان انجام
کی بنیاد پر استوار ھیں اور انسان کے ارادہ و اختیار کی طاقت ان امورمیں ٴ
دیتا ھے ۔انسان کی قسمت اس نظام سے وابستہ ھوتی ھے جسے وہ خود وجود میں التا ھے ۔ ھر شخص
کا اچھا یا برا مستقبل ،اس کی شخصیت اس کی روحانی ص فات ،اس کی اخالقی ص الحیتوں اور عملی
قوت سے وابستگی رکھتا ھے اور بآالخر وہ اپ نے ل ئے جس راس تے ک و بھی منتخب کرت ا ھے وہ اس ی
راستے پر ڈال دیا جاتا ھے ۔
انسان ایسے کسی بھی کام کو ترک کرنے کی قدرت رکھتا ھے جس کا انج ام دین ا مص لحت اندیش ی کے
خالف ھ و جبکہ اس ک ام کے انج ام دی نے میں نہ ک وئی رک اوٹ حائ ل ھ وتی ھے اور نہ وہ ک ام اس کی
طبیعت و خواھش کے خالف ھوتا ھے ۔ اسی ط رح وہ ایس ے کس ی بھی ک ام ک و انج ام دی نے کی ق درت
رکھتا ھے جو مصلحت اندیشی اور عقل کی رو سے درست ھو جبکہ وہ کام اس کی اپنی خواھش نفسانی
کے خالف ھوتا ھے اور جس کے انجام دی نے میں ک وئی خ ارجی رک اوٹ بھی در پیش نھیں ھ وتی ۔ در
اصل انسان کو ایک طرح کی ٓازادی حاصل ھے اور وہ کسی بھی کام کو اپنی عقل و ارادہ کی م دد س ے
انجام دے سکتا ھے یا اسے ترک کر سکتا ھے ۔ اور کوئی عامل اس کی خ واھش اور رغبت کے خالف
اسے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر مجبور نھیں کرتا ۔
یہ نظریہ ( تیسرا نظریہ ) تمام بڑے بڑے پیغمبروں ٓ ،اسمانی کتابوں ،مسلمان فالسفہ اور دانشوران اسالم
نے پیش کیا ھے اور مسلمانوں نے اسی عقیدے کو قبول کیا ھے ۔
تعالی کی تقدیر یہ ھے کہ انسان اپنے کام ،ارادہ و اختی ار کے س اتھ انج ام دے ،نہ یہ کہ تق دیر اس ے
ٰ ہللا
اچھے یا برے کاموں میں سے کسی ایک طرح کے کام انجام دینے پر مجبور کرے ،ب اوجودیکہ علت و
معلول کا نظام اس دنیا پر حکمراں ھے ۔ انسان کے کام کسی جبر کے تحت انجام نھیں پاتے ۔
یہ بات ظاھر ھے کہ قضا و قدر جس میں ٓازادی اور اختیار کو بھی جگہ دی گئی ھے ت رقی اور ع روج
کی راہ میں حائل نھیں ھے اور انسان کے ھاتہ پاؤں نھیں باندہ دیتی ۔ وہ اپنی ٓازادی اور حریت سے فائدہ
اٹھاتے ھوئے جس طرح کا بھی کام چاھے انجام دے سکتا ھے اور اپنی ترقی کے لئے کوشش کر س کتا
ھے ۔
انسان جس جانب بھی رخ کرتا ھے اس کی قضا و قدر وھاں موجود ھوتی ھے جسے وہ خود اپ نے ھ اتہ
سے منتخب کرتا ھے ۔
انسان صرف ایک طرح کی تقدیر نھیں رکھتا بلکہ گوناگوں تقدیر یں رکھتا ھے جن میں س ے ک وئی بھی
تقدیر دوسری کی جگہ لے سکتی ھے ۔
:مثالً
اگر کوئی شخص بیمار ھوتا ھے اور عالج کراتا ھے اور صحت مند ھو جاتا ھے تو یہ قض ا و ق در کے
عین مطابق ھے ۔
اور اگر وہ عالج نھیں کراتا ،بیمار رھتا ھے اور پھ ر م ر جات ا ھے ت و یہ بھی قض ا و ق در کے مط ابق
ھوتا ھے ۔
حضرت علی ( ع) ایک ٹیڑھی دیوار کے نیچے سے اٹہ کر ایک دوسری دیوار کے سائے میں بیٹہ گئے
:۔ لوگوں نے کھا
“امیر المومنین (ع) ! کیا ٓاپ قضائے ٰالھی سے فرار اختیار کرتے ھیں ؟ ”
میں نے خدا کی قضا سے اس کی قدر کی جانب اور دوسری قضا کی طرف فرار اختیار کی ھے ۔ ”
ٓاخر کار انسان جس جانب بھی قدم اٹھاتا ھے اسے ایک طرح کی اختی اری قس مت اور قض ا و ق در س ے
واسطہ پڑتا ھے اور یہ چیز علت و معلول کے عم ومی ق انون کے تحت ھ وتی ھے اور قض ا و ق در پ ر
عقیدہ انسان کو عمل اور کوشش سے باز نھیں رکھتا ۔
اسالم کے دور اول میں مسلمان قضا و قدر پر راس خ اعتق اد رکھ تے تھے ۔ انھ وں نے تق دیر کے ب ارے
میں یھی تعلیم حاصل کی تھی ۔
وہ قضا و قدر کو اپنے کاموں پر اختیار کے من افی نھیں س مجھتے تھے ۔تق دیر پ ر ان کے پختہ یقین نے
کبھی انھیں جبر کی طرف نھیں ڈھکیال اور انھیں بے حسی کے ساتھ خود کو تقدیر کے حوالے کر دینے
واال نھیں بنایا ۔ انھوں نے اس دور میں جھاں تک ممکن ھو سکا بے مثال ترقی کرنے ک ا اع زاز حاص ل
کیا ۔
دنیا کے کار و بار پر اثر انداز ھونے والے عوامل ج و مجم وعی ط ور پ ر اس باب و عل ل کے نظ ام ک و
وج ود میں التے ھیں اور ج و قض ا و ق در کے مظ اھر میں ش مار ک ئے ج اتے ھیں ،وہ ص رف م ادی
امورتک منحصر اور محدود نھیں ھیں معنوی امور کا بھی ایک سلسلہ موجود ھے جو انس ان کی تق دیر
کے بدلنے میں موثر ثابت ھوتا ھے ۔ انسان کا چال چلن اور کردار بھی ش مار میں ٓات ا ھے اور اپن ا ای ک
رد عمل ظاھر کرتا ھے ۔
:مثالً
کسی جاندار کو خواہ وہ حیوان ھو یا انسان اذیت دینا ،خصوصا ً ان لوگ وں ک و جن کے کچھ حق وق عائ د
ھوتے ھیں ،جیسے ماں ،باپ اور استاد ،اسی دنیا میں اپنے برے نتائج سامنے لے ٓاتا ھے ۔ اسی ط رح
ان لوگوں کا احترام انسان کی زندگی اور اس کی خوش نصیبی پر اثر انداز ھوتا ھے ۔
دعا بھی اس دنیا میں باطنی اسباب میں سے ای ک ھے ج و کس ی بھی واقعہ کے انج ام پ ر اث ر ان داز ھ و
سکتی ھے ۔
اچھے کام ،نیکی اں اور بحی ثیت مجم وعی گن اہ ،س ر کش ی ی ا اط اعت ،ت وبہ ی ا کس ی کی پ ردہ دری ،
انصاف یا ظلم ،نیکوکاری یا بد کاری ،دعا یا لعنت ایسی ھی دوسری چیزیں ھیں ج و انس ان کی تق دیر ،
اس کی عمر ،سالمتی اور روزی پر اچھے یا برے اثرات ڈالتی ھیں ۔
وہ لوگ جن کا نقط ٴھ نظر دوسرا ھے بعض حق ائق کی ت وجیہ میں ھم س ے اختالف ک ر س کتے ھیں ۔مثال
جس چ یز ک و ھم م وت ک ا س بب ق رار دیں ممکن ھے وہ اپ نے علم کی بن ا پ ر اس ے م وت کی علت نہ
سمجھیں ۔
وہ لوگ جو گناھوں کی وجہ سے مرتے ھیں ان کی تعداد ان مرنے وال وں س ے زی ادہ ھے ج و مھلت ”
عمر کے ختم ھو جانے کی بنا پر اس دنیا سے رخصت ھوتے ھیں اور ان لوگوں کی تعداد جن کی عم ر
ان کی نیکوکاری کی وجہ سے دراز کی ج اتی ھے اپ نی طبعی اور اص لی عم ر کے س اتھ زن دہ رھ نے
“والوں سے زیادہ ھے ۔
اب جبکہ بات واضح ھو چکی ھے ،قضا و قدر پر اعتق اد ک ا مطلب یہ نھیں ھے کہ الزم ا ً ج بر پ ر بھی
یقین رکھا جائے ۔
ھر دینی اور اخالقی مکتب کی بنیاد ،فرض اور ذمہ داری ھے ج و ج بر کے س اتھ ک وئی مط ابقت نھیں
رکھتی ۔ اگر لوگ اپنے کاموں کی انجام دھی پر مجبور ھوں تو پھر امر و نھی ،بدلے اور س زا ،جنت و
دوزخ ،سب بے معنی ھو کر رہ جاتے ھیں ۔ جب کسی کو کسی کام سے ب از رھ نے ک ا اختی ار نھیں ت و
اس سے یہ کھنا کہ اس کام سے باز ٓاجاؤ ،فضول ھو گا ۔ جب ٓاپ ایک عاقل انس ان س ے ایس ی ب ات کی
توقع نھیں کرتے تو پھر خداوند حکیم سے کس طرح توقع رکہ سکتے ھیں ۔
مکلف ھونے کا مسئلہ ھی اس بات کی بھترین دلیل ھے کہ اسالم اور تمام ٓاسمانی مذاھب میں سے ک وئی
بھی جبری ٓائین و قانون نھیں رکھتا ۔
۔ ھم سب وجدانی طور پر یہ جانتے ھیں کہ ھم کاموں کے انجام دینے میں مشین کی طرح نھیں ھیں کہ۲
اختیار و ارادہ کے بغیر ھم سے کام سرزد ھو رھے ھوں ۔ ھم اس بات کو پ وری ط رح محس وس ک رتے
ھیں کہ تمام کام ھم ٓازادی اور اختیار کے ساتھ اور اپنی مرض ی س ے انج ام دی تے ھیں ۔ اس ی ل ئے جس
کسی شخص کے حقوق کو پائمال کیا جاتا ھے ،ھم اسے حق دیتے ھیں کہ وہ اپنے حقوق کا دفاع کرنے
کے لئے عدالت سے رجوع کرے ۔
اگر انسان اپنے کاموں میں مجبور ھوتا تو اس صورت میں اس شخص کو جس کا حق پائمال کیا گی ا ھے
یہ حق حاصل نہ ھوتا کہ وہ اعتراض کرے اور غاصب کو عدالت میں کھینچے ۔
۔اس سلسلے میں ھم نے جو کچھ لکھا ھے اس کے عالوہ قرٓان کریم کی بھت سی ٓایتیں ،انس انی ٓازادی۳
و اختیار کے اصول کی تصریح کرتی ھیں اور واضح طور پر یہ بتاتی ھیں کہ اپنی نجات اور گمراھی ،
سعادت و بد بختی ،ترقی اور پسماندگی میں خ ود انس ان کے اپ نے عم ل و اختی ار ک و ب ڑا دخ ل حاص ل
ھے ۔
ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی الناس “ ( سورھٴ روم ” )۴۱ /لوگوں نے ج و اعم ال ک ئے ”
ھیں ان کی بنا پر بر و بحر میں فساد پھوٹ پڑا ھے “۔
انا ھدی ٰنہ السبیل ا ّما شاکراً و ا ّما کف ورا “ ( س ور ٴھ دھ ر ” ) ۳ /ھم انس ان کی راہ ( راس ت ) کی ج انب ”
رھنمائی کرتے ھیں تاکہ دیکھیں وہ کون سی راہ اختیار کرتا ھے ٓ ،ایا وہ ھماری رھنمائی قبول کرتا ھے
اور شکر ادا کرت ا ھے ( ا ّم ا ش اکراً) ی ا رو گ ردانی اختی ار ک ر کے ن ا ش کر گ زار بن جات ا ھے ( و ا ّم ا
کفورا )
ٰ
الھدی “ ( سورھٴ فصلت ” )۱۷/ھم نے ملت ثمود کی رھنمائی ” فا ّما ثمود فھدیناھم فاستحبّواالعصی عملی
کی لیکن اس نے ھدایت کو چھوڑ کر گمراھی کو پسند کیا ۔
سعی “ ( سورھٴ نجم ” )۳۹ /انسان کے لئے خود اس کی سعی اور کوشش کے سوا ”
ٰ لیس لالنسان ااّل ما
اور کچھ نھیں ھے ۔
مندرجہ باال ٓایات اور ایسی ھی دوسری ٓای ات س ے معل وم ھوت ا ھے کہ ج و ش خص بھی اس الم ک و ای ک
جبری ٓائین و قانون کے طور پر پیش کرتا ھے و ہ در اصل غلط فھمی کا ش کار ھے ۔ اور اس نے قض ا
و قدر کے معنی نھیں سمجھے ھیں یا پھر وہ اسالم کے مخالفین کی طرح اس طریقے سے نا ج ائز فائ دہ
اٹھانا چاھتا ھے اور اپنے اس الزام کے ذریعے مسلمانوں کو ایک ایسی قوم کے طور پر متع ارف کران ا
چاھتا ھے جو ترقی کرنے کی صالحیت نھیں رکھتی اور پسماندگی میں پڑی رھنا چاھتی ھے ۔