You are on page 1of 38

‫اقبال کا تصور عورت‬

‫اس مضمون یا قطعے کو محمد اقبال میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔‬
‫مزید تفصیالت‬

‫اقبال پر یہ اعتراض تجدید پسند حلقوں کی‬


‫جانب سے اکثر کیا جاتا ہے کہ وہ عورت کو‬
‫جدید معاشرہ میں اس کا صحیح مقام دینے‬
‫کے حامی نہیں ہیں جبکہ انہوں نے اس باب‬
‫میں تنگ نظری اور تعصب سے کام لیا ہے اور‬
‫آزادی نسواں کی مخالفت کی ہے۔ یہ اعتراض‬
‫وہ لوگ کرتے ہیں جو آزادی نسواں کے صرف‬
‫مغربی تصور کوپیش نظر رکھتے ہیں اور اس‬
‫معاشرتی مقام سے بے خبر ہیں جو اسالم نے‬
‫عورت کو دیا ہے اقبال کے تمام نظریات کی‬
‫بنیاد خالص اسالمی تعلیمات پر ہے اس ليے وہ‬
‫عورت کے بارے میں وہی کچھ کہتے ہیں جس‬
‫کی تعلیم اسالم نے دی ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ‬
‫میں اقبال کے خیاالت کا جائزہ لینے سے پہلے‬
‫آزادی نسواں کے مغربی تصور اور اسالمی‬
‫تعلیمات کا مختصر تعارف ضروری ہے۔‬

‫آزادی نسواں کا مغربی تصور‬


‫مغرب میں آزادی نسواں کا جو تصور ُا بھرا ہے‬
‫وہ افراد و تفریظ کا شکا ر ہونے کے باعث بہت‬
‫غیر متوازن ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک‬
‫طویل عرصہ تک دیگر معاشروں کی طرح‬
‫مغرب میں بھی عورت کو کسی قسم کا کوئی‬
‫معاشرتی حق حاصل نہیں تھا اور اس کی‬
‫حیثیت مرد کے غالم کی سی تھی۔ اسی رد‬
‫عمل کے طور پر وہاں آزادی نسواں کی تحریک‬
‫شروع ہوئی اور اس کی بنیاد مر دوزن کی‬
‫مساوات پر رکھی گئی مطلب یہ تھا کہ ہر‬
‫معاملہ میں عورت کومرد کے دوش بدوش الیا‬
‫جائے۔ چنانچہ معاشرت‪ ،‬معیشت‪ ،‬سیاست اور‬
‫زندگی کے ہر میدان میں عورت کو بھی ان‬
‫تمام ذمہ داریوں کا حق دار گردانا گیا جواب‬
‫تک صرف مرد پوری کیا کرتا تھا۔ ساتھ ہی‬
‫عورت کو وہ تمام حقوق بھی حاصل ہو گئے‬
‫جو مرد کو حاصل تھے۔ اسی بات کو آزادی‬
‫نسواں یا مساوات مرد وزن قرار دیا گیا۔ اس‬
‫کا نتیجہ اس بے بنیاد آزادی کی صورت میں‬
‫برآمد ہوا کہ عورت تمام فطری اور اخالقی‬
‫قیود سے بھی آزاد ہو گئی۔آج کل عورتوں کے‬
‫حقوق کے حصول کی مہم دنیا کے ہر پیش‬
‫رفتہ اور پسماندہ ملک میں زوروں پر ہے اور‬
‫عمومًا پسماندہ ملکوں کی عورتیں پیشرفتہ‬
‫ملکوں کی عورتوں کی مثال کو سامنے رکھتے‬
‫ہوئے اپنی جدوجہد کا الئحہ عمل تیار کرتی‬
‫ہیں اور اس پر عمل پیرا ہوتی ہیں۔ اس معاملے‬
‫میں ہماری رائے کچھ اچھی نہیں۔ جاننا چاہیے‬
‫کہ پیش رفتہ کیا ہے اور پسماندہ کیا ہے؟‬
‫یورپی ممالک دستکاری اور سائنس میں تو مانا‬
‫کہ مشرقی ممالک کے مقابلے میں پیش رفتہ‬
‫ہیں لیکن یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ عورتوں کے‬
‫حقوق کے معاملے میں بھی ان کی روش قابل‬
‫تقلید ہے؟ تو پھر یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ‬
‫مذہب بھی ان ہی کا قبول کر لینا چاہیے کہ وہ‬
‫ایک پیش رفتہ اورترقی یافتہ قوم ہیں۔ یاد‬
‫رکھیئے کہ مشرق کی عورت اور مغرب کی‬
‫عورت اور دونوں کے حاالت و ماحول میں‬
‫کوئی مشابہت اور مطابقت نہیں کم از کم‬
‫تفاوت ضرور ہے۔ جن دشواریوں اور مشکلوں‬
‫کے پیِش نظر مغربی عورت کو اپنے حقوق کے‬
‫حصول کے لیے پیش قدمی کرنی پڑتی ہے۔‬
‫مشرقی عورت کو اس کی کوئی حاجت نہیں‬
‫یا کم از کم حاجت ہے۔ جن لوگوں کو یورپی‬
‫ممالک دیکھنے اور ان کے معاشرتی‪ ،‬معاشی‪،‬‬
‫سماجی‪ ،‬اخالقی‪ ،‬مذہبی اور اقتصادی حاالت‬
‫کا جائزہ لینے کا موقع مال ہے وہ ہمارے اس‬
‫دعوے کوسرسری نہیں کہیں گے اور تھوڑی‬
‫بہت ردوقدح کے بعد اتنا ضرور مان لیں گے کہ‬
‫مشرق میں عورت ذات کو ایسی مہم پر‬
‫کمربستہ ہونے کی کوئی ایسی ضرورت تو نظر‬
‫نہیں آتی‪ ،‬البتہ انجام اس مہم کا نہایت‬
‫خطرناک اور نقصان دہ ہو گا۔ ہاں یہ بات ہم‬
‫مانیں گے مشرقی ممالک میں عورتیں کئی‬
‫لحاظ سے مظلوم ہیں مگر بھارت اور پاکستان‬
‫کا اس زمرے میں شمار نہیں ہو سکتا۔ جن‬
‫مشرقی ممالک میں لڑکیاں پیسے کے بدلے‬
‫بیاہی جاتی ہیں یا جہاں عورتوں کی خرید و‬
‫فروخت ہوتی ہے یا جہاں مردوں کو بغیر‬
‫کوئی جرمانہ یا حق ادا کیے محض اپنی‬
‫مرضی پر عورت کو نکال دینے کا جواز ہے یا‬
‫جہاں عورت کو محض لونڈی غالم بنا کر‬
‫رکھنے کا رواج ہے‪ ،‬ان ممالک میں عورتوں‬
‫کوحق پہنچتا ہے کہ اپنی بہتری کے لیے کوئی‬
‫مطالبہ کریں مگر سخت نا اُم ید لہجے میں کہنا‬
‫پڑتا ہے کہ ایسے ممالک میں عورتوں کے لیے‬
‫کوئی ایسا میدان تیار نہیں ہو سکتا یا بہت‬
‫مشکل سے تیار ہو گا مگر بھارت اور پاکستان‬
‫جیسے ممالک میں نہیں۔ یہاں صرف تین ہی‬
‫شکایات مناسب معلوم ہوتی ہیں۔ ایک خاوند‬
‫کی بدسلوکی‪ ،‬مارپیٹ ‪،‬بد چلنی‪ ،‬آوارگی‪،‬‬
‫الپروائی اور دوسری عدِم حق طالق اور‬
‫تیسری خاوند کی ایک سے زیادہ شادیوں کا‬
‫جواز۔ تینوں شکائتیں بجا ہیں اور تینوں کا‬
‫حل اسالم میں موجود ہے۔ حکومتوں کو‬
‫چاہیے کہ ان امور میں اسالمی فرامین کی‬
‫روشنی میں قانون وضع کریں اور اس کمزور‬
‫مخلوق کو ظالموں کے پنجے سے نجات دالئیں۔‬
‫اگر ان تینوں شکایتوں میں سے کسی ایک کے‬
‫لیے بھی ہماری مائیں بہنیں کوئی اقدام کریں‬
‫تو ہماری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ خدا انہیں‬
‫کامیابی عطا کرے اور ہمیں عقل و انصاف۔‬
‫باقی عرض یہ ہے کہ یہ تینوں شکائتیں مردوں‬
‫کی جہالت کے سبب پیدا ہوئیں۔ اگر عوام‬
‫تعلیم یافتہ اور فراخ دل ہوں گے تو عورتوں‬
‫کو مارنے پیٹنے اور عذاب دینے سے باز رہیں‬
‫گے۔ دوسرا ہے طالق کا مسئلہ۔ سو اسالم نے‬
‫عورت کو چند وجوہ کی بنا پر شرعًا طالق‬
‫لینے کا جواز دیا ہے۔ اسالم طالق کی اجازت‬
‫دیتا ہے مگر طالق کی حوصلہ افزائی نہیں‬
‫کرتا۔ باقی رہا ایک سے زیادہ شادیوں کا سوال‬
‫سو کوئی آدمی جو قرآن پر صحیح معنوں‬
‫میں ایمان رکھتا ہے اور اس کی تعلیم پر عمل‬
‫پیرا ہونا چاہتا ہے تو اس کے لیے قران حکیم‬
‫کی ہدایت یہ ہے کہ تم چار تک شادیاں کر‬
‫سکتے ہو اور شرط یہ ہے کہ تم سب کے ساتھ‬
‫انصاف کرسکو اور اگر ایک سے زیادہ بیویوں‬
‫والے مرد کی ہرعورت اس سے انصاف پاتی ہے‬
‫تو پھر شکایت کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔‬
‫[‪]1‬‬
‫اسالمی تعلیمات‬
‫اسالم نے عورت کو مرد کے برابر حقوق چودہ‬
‫سو سال قبل اس وقت دیے تھے۔ جب عورت‬
‫کے حقوق کا تصور ابھی دنیا کے کسی بھی‬
‫معاشرہ میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ عورت اور مرد‬
‫کی مساوات کا نظریہ دنیا میں سب سے پہلے‬
‫اسالم نے پیش کیا اور اس طرح عورت کو مرد‬
‫کی غالمی سے نجات دالئی جس میں وہ‬
‫صدیوں سے جکڑی ہوئی تھی اس مساوات کی‬
‫بنیاد قرآن مجید کی اس تعلیم پر ہے جس‬
‫میں فرمایا گیا کہ‬

‫” تم (مرد) ان کے (عورت) کے ليے لباس ہو اور‬


‫“‬ ‫وہ تمہارے ليے لباس ہیں۔‬
‫اور قرآن نے یہ بھی کہا ہے مرد عورتوں پر‬
‫حاکم ہے۔اس طرح گویا مختصر ترین الفاظ‬
‫اور نہایت بلیغ انداز میں عورت اور مرد کی‬
‫رفاقت کو تمدن کی بنیاد قرار دیا گیا اور‬
‫انہیں ایک دوسرے کے ليے ناگزیر بتاتے ہوئے‬
‫عورت کو بھی تمدنی طور پر وہی مقام دیا گیا‬
‫ہے جو مرد کو حاصل ہے اس کے بعد نبی کریم‬
‫۔[‪]2‬‬ ‫نے حجتہ الودع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا‬

‫” عورتوں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو ۔تمہارا‬


‫عورتوں پر حق ہے اور عورتوں کا تم پر حق‬
‫“‬ ‫ہے۔‬

‫یہاں بھی عورت کو مرد کے برابر اہمیت دی‬


‫گئی ہے اور عورتوں پر مردوں کی کسی قسم‬
‫کی برتری کا ذکر نہیں ہے اس طرح تمدنی‬
‫حیثیت سے عورت اور مرد دونوں اسالم کی‬
‫نظر میں برابر ہیں۔ اور دونوں کو یکساں‬
‫اہمیت حاصل ہے۔‬

‫یہ تعلیمات اس کائناتی حقیقت پر مبنی ہیں۔‬


‫کہ ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ہر‬
‫شے ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہے۔ اور اس‬
‫طرح سب کو یکساں اہمیت حاصل ہوتی ہے۔‬
‫لیکن ساتھ ہی اس بات سے بھی انکار نہیں کیا‬
‫جا سکتا کہ دنیا کا کوئی بھی تعلق ہو اس‬
‫میں ایک فریق کو کچھ نہ کچھ غلبہ حاصل‬
‫ہوتا ہے یہ ایک فطری اصول ہے۔ اور اسی‬
‫بناءپر چند چیزوں میں مرد کو عورت پر برتری‬
‫اور فضیلت حاصل ہے۔ اس کی وجہ حیاتیاتی‬
‫اور عضویاتی فرق بھی ہے اور فطرت کے‬
‫لحاظ سے حقوق و مصالح کی رعایت بھی ہے‬
‫اسی ليے قران نے مرد کو عورت پر نگران اور‬
‫”قوامیت “ کی فوقیت دی ہے۔ مگر دوسری‬
‫جانب اسالم نے ہی عورت کو یہ عظمت بخشی‬
‫ہے کہ جنت کو ماں کے قدموں تلے بتا یا ہے‬
‫گویا کچھ باتوں میں اگر مرد کو فوقیت‬
‫حاصل ہے تو تخلیقی فرائض میں عورت کو‬
‫بھی فوقیت حاصل ہے۔ فرق صرف اپنے اپنے‬
‫دائرہ کار کا ہے۔ یہی وہ تعلیمات ہیں جنھوں‬
‫نے دنیا کی ان عظیم خواتین کو جنم دیا کہ‬
‫زندگی کے ہر میدان میں ان کے روشن کارنامے‬
‫تاریخ اسالم کا قابِل فخر حصہ ہیں۔‬

‫اقبال کا نظریہ‬
‫عورت کے بارے میں اقبال کا نظریہ بالکل‬
‫اسالمی تعلیمات کے مطابق ہے وہ عورت کے‬
‫ليے وہی طرز زندگی پسند کرتے ہیں جو اسالم‬
‫کے ابتدائی دور میں تھا کہ مروجہ برقعے کے‬
‫بغیر بھی وہ شرعی پردے کے اہتمام اور شرم‬
‫و حیا اور عفت و عصمت کے پورے احساس‬
‫کے ساتھ زندگی کی تما م سرگرمیوں میں‬
‫پوری طرح حصہ لیتی ہیں۔ اس ليے جنگ‬
‫طرابلس میں ایک لڑکی فاطمہ بنت عبد اللہ‬
‫غازیوں کو پانی پالتے ہوئے شہید ہو گئی تو‬
‫اس واقعہ سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے‬
‫اسی لڑکی کے نام کوہی عنوان بنا کر اپنی‬
‫مشہور نظم لکھی۔‬

‫فاطمہ! تو آبرو ئے ملت مرحوم ہے‬

‫ذرہ ذرہ تیری مشِت خاک کا معصوم ہے‬

‫یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر!‬


‫ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر!‬

‫یہ کلی بھی اس گلستاِن خزاں منظر میں‬


‫تھی‬

‫ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر‬


‫میں تھی‬

‫اقبال کی نظر میں عورت کا ایک مخصوص‬


‫دائرہ کار ہے۔ اور اسی کے باہر نکل کر اگر وہ‬
‫ٹائپسٹ‪ ،‬کلرک اور اسی قسم کے کاموں میں‬
‫مصروف ہو گی تو اپنے فرائض کو ادا نہیں‬
‫کرسکے گی۔ اور اسی طرح انسانی معاشرہ‬
‫درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ البتہ اپنے دائرہ کار‬
‫میں اسے شرعی پردہ کے اہتمام کے ساتھ بھی‬
‫اسی طریقہ سے زندگی گزارنی چاہیے کہ‬
‫معاشرہ پر اس کے نیک اثرات مرتب ہوں اور‬
‫اس کے پرتو سے حریمِ کائنات اس طرح‬
‫روشن ہو جس طرح ذاِت باری تعاٰل ی کی تجلی‬
‫حجاب کے باوجود کائنات پر پڑ رہی ہے۔‬

‫مرد کی برتری‬
‫اس سلسلہ میں ڈاکٹر یوسف حسین خاں”روح‬
‫اقبال“ میں لکھتے ہیں ۔‬

‫”اقبال کہتا ہے کہ عورت کو بھی وہی انسانی‬


‫حقوق حاصل ہیں جو مرد کو لیکن دونوں کا‬
‫دائرہ عمل الگ الگ ہے دونوں اپنی اپنی‬
‫استعدادوں کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ‬
‫تعاون عمل کرکے تمدن کی خدمت انجام دے‬
‫سکتے ہیں۔ وہ (اقبال) مرد اور عورت کی‬
‫مکمل مساوات کا قائل نہ تھا۔ “‬
‫عورت پر مرد کی برتری کی وجہ اقبال کی‬
‫نظر میں وہی ہے جو اسالم نے بتائی ہے کہ‬
‫عورت کا دائرہ کار مرد کی نسبت مختلف ہے‬
‫اس لحاظ سے ان کے درمیان مکمل مساوات کا‬
‫نظریہ درست نہیں۔ اس عدم مساوات کا فائدہ‬
‫بھی بالواسطہ طور پر عورت کو ہی پہنچتا ہے‬
‫اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری مرد پر آتی‬
‫ہے۔‬

‫اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے‬


‫مستور‬

‫کیا سمجھے گا وہ جس کی رگو ں میں ہے‬


‫لہو سرد‬

‫نے پردہ‪ ،‬نہ تعلیم‪ ،‬نئی ہو کہ پرانی‬


‫نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد‬

‫جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا‬

‫اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد‬

‫یہی احتیاج اور کمزوری و ہ نکتہ ہے جس کے‬


‫باعث مر د کو عورت پر کسی قدر برتری‬
‫حاصل ہے اور یہ تقاضائے فطرت ہے۔ اس کے‬
‫خالف عمل کرنے سے معاشرے میں انتشار الزم‬
‫آتا ہے۔‬

‫پردہ‬
‫اقبال عورت کے ليے پردہ کے حامی ہیں کیونکہ‬
‫شرعی پردہ عورت کے کسی سرگرمی میں‬
‫حائل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں ایک عورت‬
‫زندگی کی ہر سرگرمی میں حصہ لے سکتی ہے‬
‫اور لیتی رہی ہے اسالم میں پردہ کا معیار‬
‫مروجہ برقع ہر گز نہیں ہے اسی برقع کے بارے‬
‫میں کسی شاعر نے بڑ ا اچھا شعر کہا ہے۔‬

‫بے حجابی یہ کہ ہر شے سے ہے جلوہ‬


‫آشکار اس پہ پردہ یہ کہ صورت آج تک‬
‫نادید ہے‬

‫بلکہ اصل پردہ وہ بے حجابی اور نمود و‬


‫نمائش سے پرہیز اور شرم و حیا کے مکمل‬
‫احساس کا نام ہے اور یہ پردہ عورت کے ليے‬
‫اپنے دائرہ کا ر میں کسی سرگرمی کی رکاوٹ‬
‫نہیں بنتا۔ اقبال کی نظر میں اصل بات یہ ہے‬
‫کہ آدمی کی شخصیت اور حقیقت ذات پر‬
‫پردہ نہ پڑا ہو اور اس کی خودی آشکار ہو‬
‫چکی ہو۔‬
‫بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے‬

‫ُخ دایا یہ دنیا جہاں تھی وہیں ہے‬

‫تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں‪ ،‬میں نے‬

‫وہ خلوت نشیں ہے! یہ خلوت نشیں ہے!‬

‫ابھی تک ہے پردے میں اوالد آدم‬

‫کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے‬

‫اس بارے میں پروفیسر عزیز احمد اپنی کتاب‬


‫”اقبال نئی تشکیل “ میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫” اقبال کے نزدیک عورت اور مرد دونوں مل کر‬
‫کائنات عشق کی تخلیق کرتے ہیں عورت‬
‫زندگی کی آگ کی خازن ہے وہ انسانیت کی آگ‬
‫میں اپنے آپ کو جھونکتی ہے۔ اور اس آگ کی‬
‫تپش سے ارتقاءپزیر انسان پیدا ہوتے ہیں۔ ۔۔۔‬
‫اقبال کے نزدیک عورت کو خلوت کی ضرورت‬
‫“‬ ‫ہے اور مرد کو جلوت کی۔‬

‫یہی وجہ ہے کہ اقبال‪ ،‬عورت کی بے پردگی کے‬


‫خالف ہیں ان کے خیال میں پرد ہ میں رہ کر‬
‫ہی عورت کو اپنی ذات کے امکانات کو‬
‫سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ گھر کے ماحول میں‬
‫وہ سماجی خرابیوں سے محفوظ رہ کر‬
‫خاندان کی تعمیر کا فرض ادا کرتی ہے۔ جو‬
‫معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے۔ اور سب سے بڑی‬
‫بات یہ کہ اپنے گھر میں وہ یکسوئی کے ساتھ‬
‫آئند ہ نسل کی تربیت کا اہم فریضہ انجام‬
‫دیتی ہے اس کے برخالف جب پردے سے باہر‬
‫آجاتی ہے تو زیب و زینت‪ ،‬نمائش‪ ،‬بے باکی‪ ،‬بے‬
‫حیائی اور ذہنی پراگندگی کا شکار ہو جاتی ہے‬
‫چنانچہ یہ فطری اصول ہے کہ عورت کے ذاتی‬
‫جوہر خلوت میں کھلتے ہیں جلوت میں نہیں۔‬
‫”خلوت“ کے عنوان سے ایک نظم میں اقبال نے‬
‫کہا ہے۔‬

‫رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے‬

‫روشن ہے نگہ آئنہ دل ہے مکدر‬

‫بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں‬


‫سے‬
‫ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر‬

‫آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں‬


‫ہے‬

‫وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر‬

‫خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر و‬


‫لیکن‬

‫خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی‬


‫میسر!‬

‫عورتوں کی تعلیم‬
‫اقبال عورت کے ليے تعلیم کو ضروری‬
‫سمجھتے ہیں لیکن اس تعلیم کا نصاب ایسا‬
‫ہونا چاہیے جو عورت کو اس کے فرائض اور‬
‫اس کی صالحیتوں سے آگاہ کرے اور اس کی‬
‫بنیاد دین کے عالمگیر ُا صولوں پر ہونی چاہیے۔‬
‫صرف دنیاوی تعلیم اور اسی قسم کی تعلیم‬
‫جو عورت کو نام نہاد آزادی کی جانب راغت‬
‫کرتی ہو۔ بھیانک نتائج کی حامل ہوگی۔‬

‫تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت‬

‫ہے حضرت انسان کے ليے اس کا ثمرموت‬

‫جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن‬

‫کہتے ہیں اسی علم کو ارباِب نظر موت‬

‫بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن‬


‫ہے عشق و محبت کے ليے علم و ہنر موت‬

‫اقبال کے خیال میں اگر علم و ہنر کے میدان‬


‫میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکے تو اس‬
‫کا مرتبہ کم نہیں ہو جاتا۔ اس کے ليے یہ شرف‬
‫ہی بہت بڑا ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں کا‬
‫رہائے نمایاں انجام دینے والے مشاہیر اس کی‬
‫گود میں پروان چڑھتے ہیں اور دنیا کا کوئی‬
‫انسان نہیں جو اس کا ممنوِن احسان نہ ہو۔‬

‫وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‬

‫اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں‬

‫شرف میں بڑھ کر ثریا سے مشت خا ک‬


‫اس کی‬
‫کہ ہر شرف ہے اسی درج کادر مکنوں!‬

‫مکالمات فالطوں نہ لکھ سکی لیکن!‬

‫اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افالطوں‬

‫آزادی نسواں‬
‫اقبال اگرچہ عورتوں کے ليے صحیح تعلیم‪ ،‬ان‬
‫کی حقیقی آزادی اور ان کی ترقی کے خواہاں‬
‫ہیں۔ لیکن آزادی نسواں کے مغربی تصور کو‬
‫قبول کرنے کے ليے وہ تیار نہیں ہیں اس آزادی‬
‫سے ان کی نظر میں عورتوں کی مشکالت‬
‫آسان نہیں بلکہ اور پیچیدہ ہو جائیں گی۔ اور‬
‫اس طرح یہ تحریک عورت کو آزاد نہیں بلکہ‬
‫بے شمار مسائل کا غالم بنا دے گی۔ ثبوت کے‬
‫طور پر مغربی معاشرہ کی مثال کو وہ سامنے‬
‫رکھتے ہیں جس نے عورت کو بے بنیاد آزادی‬
‫دے دی تھی تو اب وہ اس کے ليے دردِ سر کا‬
‫باعث بنی ہوئی ہے۔ کہ مرد و زن کا رشتہ بھی‬
‫کٹ کر رہ گیا ہے۔‬

‫ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا!‬

‫مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں‬

‫قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی‬


‫میں‬

‫گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ پرویں‬

‫فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور!‬

‫کہ مرد سادہ ہے بے چارہ زن شناس نہیں‬


‫اقبال کی نظر میں آزادی نسواں یا آزادی رجال‬
‫کے نعرے کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ انتہائی‬
‫گمراہ کن ہیں۔ کیونکہ عورت اور مرد دونوں‬
‫کو مل کر زندگی کا بوجھ ُا ٹھانا ہوتا ہے۔ اور‬
‫زندگی کو آگے بڑھانے اور سنوارنے کے ليے‬
‫دونوں کے باہمی تعاون ربط اور ہم آہنگی کی‬
‫ضرورت ہوتی ہے دونوں کے کامل تعاون کے‬
‫بغیر زندگی کاکام ادھورا اور اس کی رونق‬
‫پھیکی رہ جاتی ہے۔ اس ليے ان دونوں کو اپنے‬
‫فطری حدود میں اپنی صالحیتوں کو بروئے‬
‫کار التے ہوئے زندگی کو بنانے سنوارنے کا کام‬
‫کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کا ساتھی ثابت‬
‫ہونا چاہیے۔ نہ کہ مدمقابل چنانچہ آزادی‬
‫نسواں کے بارے میں وہ فیصلہ عورت پر ہی‬
‫چھوڑ تے ہیں کہ وہ خود سوچے کہ اس کے ليے‬
‫بہتر کیا ہے۔ اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر‬
‫نہیں کر سکتا‬

‫گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے‪ ،‬وہ‬


‫قند‬

‫کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی‬


‫معتوب‬

‫پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے‬


‫فرزند‬

‫اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے‬


‫فاش‬

‫مجبور ہیں‪ ،‬معذور ہیں‪ ،‬مردان خرد مند‬


‫کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ‬

‫آزادی نسواں کہ زمرد کا گلوبند!‬

‫امومیت‬
‫اقبال کی نظر میں عورت کی عظمت کا راز‬
‫اس کے فرض امومیت میں پوشیدہ ہے‬
‫معاشرتی اور سماجی زندگی میں ماں کو مرکز‬
‫ی حیثیت حاصل ہے۔ اور خاندانوں کی زندگی‬
‫اسی جذبہ امومیت سے ہی وابستہ ہے۔ ماں‬
‫کی گود پہال دبستان ہے جو انسان کو اخالق‬
‫اور شرافت کا سبق سکھاتا ہے۔ جس قوم کی‬
‫مائیں بلند خیال عالی ہمت اور شائستہ و‬
‫مہذب ہو گی اس قوم کے بچے یقینا اچھا‬
‫معاشرہ تعمیر کرنے کے قابل بن سکیں گے۔ گھر‬
‫سے باہر کی زندگی میں مرد کو فوقیت حاصل‬
‫ہوتی ہے۔ لیکن گھر کے اندر کی زندگی میں‬
‫عورت کو فوقیت حاصل ہے۔ کیونکہ اس کے‬
‫ذمہ نئی نسل کی پرورش ہوتی ہے۔ اور اس‬
‫نئی نسل کی صحیح پرورش و پرداخت پر‬
‫قوم کے مسقبل کا دارمدار ہوتا ہے۔ اس ليے‬
‫عورت کا شرف و امتیاز اس کی ماں ہونے کی‬
‫وجہ سے ہے۔ جس قوم کی عورتیں فرائضِ ‬
‫امومت ادا کرنے سے کترانے لگتی ہے اس کا‬
‫معاشرتی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اس کا‬
‫عائلی نظام انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ افراد‬
‫خاندان کے درمیان رشتہ عورت کمزور پڑ جاتا‬
‫ہے۔ اور اخالقی خوبیاں دم توڑ دیتی ہیں۔‬
‫مغربی تمد ن کی اقدار عالیہ کو اس ليے زوال‬
‫آگیاہے کہ وہاں کی عورت آزادی کے نام جذبہ‬
‫امومت سے بھی محروم ہوتی چلی جا رہی ہے۔‬
‫کوئی پوچھے حکیم یورپ سے‬

‫ہند و یونان ہیں جس کے حلقہ بگوش!‬

‫کیا یہی ہے معاشرت کا کمال‬

‫مرد بے کار و زن تہی آغوش!‬

‫عورتوں کے ليے مغربی تعلیم کی بھی اقبال‬


‫اسی ليے مخالفت کرتے ہیں کہ اس سے ماں‬
‫کی مامتا کی روایت کمزور پڑتی ہے اور عورت‬
‫اپنی فطری خصوصیات سے محروم ہو جاتی‬
‫ہے۔ اقبال کی نظر میں دنیا کی تمام‬
‫سرگرمیوں کی اصل ماں کی ذات ہے‪ ،‬ماں کی‬
‫ذات امین ممکنات ہوتی ہے اور دنیا کے‬
‫انقالبات مائوں کی گود میں ہی پرور ش پاتے‬
‫ہیں۔ اسی ليے ماں کی ہستی کسی قوم کے ليے‬
‫سب سے زیادہ قیمتی متاع ہوتی ہے۔ جو قوم‬
‫اپنی مائوں کی قدر نہیں کرتی اس کا نظام‬
‫ہستی بہت جلد بکھر جاتا ہے۔‬

‫جہاں رامحکمی از ُا میات ست‬

‫نہاد شان امین ممکنا ت ست‬

‫اگر ایں نکتہ را قومی نداند‬

‫نظام کروبارش بے ثبات ست‬

‫ماں کی ہستی اس قدر بلند مرتبت ہے کہ قوم‬


‫کہ حال و مسقبل انہی کے فیض سے ترتیب‬
‫پاتا ہے۔ قوم کی تقدیر بنانے میں ماں کا کردار‬
‫بنیادی ہے اس ليے عورت کو چاہیے کہ فرض‬
‫امومیت کی ادائیگی میں اپنی پوری‬
‫صالحیتیں صرف کر دی کہ اس کی خودی کا‬
‫استحکام اسی ذریعہ سے ہوتا ہے۔‬

‫مثالی کردار‬
‫اقبال نے حضرت فاطمہ کے کردار کو عورتوں‬
‫کے ليے مثال اور نصب العین قرار دیا ہے بے ٹی‪،‬‬
‫بیوی اور ماں کی حیثیت سے حضرت فاطمہ‬
‫نے جو زندگی بسر کی وہ دنیا کے تما م‬
‫عورتوں کے ليے نمونہ ہے۔‬

‫فررع تسلیم را حاصل بتول‬

‫مادراں راسوہ کامل بتول‬

‫فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند‬

‫چشم ہوش از ُا سوہ ُز ہرا مند‬


‫اقبال کے نزدیک انسانی خودی کے بنیادی‬
‫اوصاف فقر‪ ،‬قوت‪ ،‬حریت اور سادگی سے‬
‫عبارت ہیں اور یہ تمام حضرت فاطمہ کی‬
‫زندگی میں بدرجہ اتم جمع ہو گئے تھے۔ انہی‬
‫اوصاف نے ان کے ُا سوہ کو عورتوں کے ليے‬
‫رہتی دنیا تک مثالی بنا دیا ہے۔ اور ان کی‬
‫ہستی کی سب سے بڑھ کریہ دلیل ہے کہ‬
‫حضرت امام حسین جیسی عظیم و مدبر‬
‫شخصیت کو انہوں نے اپنی آغوش میں پروان‬
‫چڑھایا۔ اقبال کی نظر میں عورت کے بطن سے‬
‫اگر ایک ایسا آدمی پیدا ہو جائے جو حق‬
‫پرستی اور حق کی خدمت کو اپنی زندگی کا‬
‫نصب العین اور مقصد قرار دے تو اس عورت‬
‫نے گویا اپنی زندگی کے منشاءکو پورا کر دیا۔‬
‫اسی ليے وہ مسلمان عورتوں سے مخاطب ہو‬
‫کرکہتے ہیں۔‬
‫اگر پندے ز درد پشے پذیری‬

‫ہزار ُا مت بمیرد تو نہ میری!‬

‫بتو ے باش و پنہاں شواز یں عصر‬

‫کہ در آغوش شبیرے بگیری!‬

‫حاصل کالم‬
‫عورت کے حوالے سے اقبال کے خیاالت کا ہر‬
‫پہلو جائزہ لینے کے بعد یہ الزام قطعًا بے بنیاد‬
‫ثابت ہو جاتا ہے کہ انہوں نے عورت کے متعلق‬
‫تنگ نظری اور تعصب سے کا م لیا ہے دراصل‬
‫ان کے افکار کی بنیاد اسالمی تعلیمات پر ہے‬
‫اور عورت کے متعلق بھی وہ انہی حدود و‬
‫قیود کے حامی ہیں جو اسالم نے مقرر کی ہیں۔‬
‫یہ حدود و قیود عورت کو نہ تو اس قدر پابند‬
‫بناتی ہیں جو پردہ کے مروجہ تصور نے سمجھ‬
‫لیا ہے۔ اور نہ اس قدر آزادی دیتی ہیں جو‬
‫مغرب نے عورت کو دے دی ہے۔ نہ یہ پردہ‬
‫اسالم کا مقصد ہے اور نہ یہ آزادی اسالم دیتا‬
‫ہے۔ اسالم عورت کے ليے ایسے ماحول اور مقام‬
‫کا حامی ہے جس میں وہ اپنی تمام تر‬
‫صالحیتیں بہتر طور پر استعمال کرسکے اور‬
‫یہی بات اقبال نے کہی ہے یہ فطرت کے بھی‬
‫عین مطابق ہے اس کی خالف ورزی معاشرت‬
‫میں الزمًا بگاڑ اورا نتشار کا باعث بنتی ہے۔‬

‫مزید پڑھئیے‬
‫حقوق نسواں‬
‫حوالہ جات‬
‫‪ .1‬یوسف جبریل‪ ،‬عالمہ محمد‪" .‬عورت کی‬
‫آزادی" (‪https://web.archive.org/web/2‬‬
‫‪0210410183609/http://oqasa.org/bl‬‬
‫‪ . )/og‬اوقاسا بالگ‪ .‬قائد اعظم سٹریٹ‪ ،‬نواب‬
‫آباد‪ ،‬واہ کینٹ ضلع‪ ،‬راولپنڈی‪ :‬یوسف جبریل‬
‫فاؤنڈیشن پاکستان‪ 10 .‬اپریل ‪ 2021‬میں‬
‫اصل (‪ )/http://oqasa.org/blog‬سے‬
‫آرکائیو شدہ‪ .‬اخذ شدہ بتاریخ ‪ 10‬اپریل‬
‫‪.2021‬‬
‫‪ .2‬محمؐد ‪ ،‬حضرت‪ .‬خطبہ حجتہ الوداع‪ .‬مکہ‪.‬‬

‫اخذ کردہ از‬


‫«?‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php‬‬
‫‪&oldid=4935673‬اقبال_کا_تصور_عورت=‪»title‬‬
‫اس صفحہ میں آخری بار مورخہ ‪ 22‬مئی ‪2022‬ء کو‬
‫‪ 03:08‬بجے ترمیم کی گئی۔ •‬
‫تمام مواد ‪ CC BY-SA 3.0‬کے تحت میسر ہے‪ ،‬جب تک‬
‫اس کی مخالفت مذکور نہ ہو۔‬

You might also like