You are on page 1of 5

‫‪Thank you for helping us‬‬

‫‪measure the Internet.‬‬

‫ذہنی پسماندہ افراد جدیدیت کی ٓاڑ میں عریانیت پھیالنے کا سبب بن رہے ہیں‬
‫‪jasarat.com‬‬ ‫‪Nov 23, 2021 3:05 AM‬‬

‫کراچی (رپورٹ‪ :‬حماد حسین) اسالم جتنا روشن خیال اور وسعت النظرمذہب ہے اس کی کہیں کوئی مثال‬
‫نہیں دی جاتی‘ اسالم میں جو حقوق خواتین کو حاصل ہیں وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہیں‘ اسالم تو‬
‫خواتین کو ہر چیز کی اجازت دیتا ہے مگر ایک حد میں رہ کر‪ ،‬حد سے تجاوز کرنا تو کسی بھی چیز کے‬
‫لیے نقصان دہ ہے‘‪ 70‬برس گزرنے کے بعد بھی ہم چند فیصد انگریزوں کے غالموں اور محکوم ذہنیت‬
‫رکھنے والوں سے چھٹکارا نہیں پاسکے‘ جو بے دینی اور بے راہ روی کو ’’جدیدیت ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں جو‬
‫دین کے منافی چلنے کو نعوذ باہلل ترقی سمجھتے ہیں‘ بے ہودہ اور غیراسالمی لباس پہننے کو فیشن‬
‫سمجھتے ہیں‘ ناچ گانوں کی محفلوں میں رقص کو سرور کو اسٹیٹس سمبل اور ایلیٹ ہونے کی نشانی‬
‫جانتے ہیں‘ ایسے ذہنی طور پر پسماندہ افراد جنہیں دینی تعلیمات اور احکامات کی الف ب بھی نہیں‬
‫معلوم‘ ہمارے ذرائع ابالغ اور سیاست میں گھس گئے ہیں اور بے دینی کو فروغ دے رہے ہیں۔ان خیاالت کا‬
‫اظہارجناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسالمک ایجوکیشن کی چیئرپرسن ثریا قمر‪ ،‬علما‬
‫یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا سائنسز کی چیئرپرسن ڈاکٹر یاسمین فاروقی اور طاہرہ فاروقی نے جسارت‬
‫کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’فیشن کے نام پر عریانیت پھیلنے کے اسباب کیا ہیں؟‘‘ ثریا قمر کا کہنا‬
‫تھا کہ فیشن کا مطلب ہے کہ بننا سنورنا اور تراش خراش کے لباس کو ملبوس کرنا برا نہیں ہے جبکہ وقت‬
‫اور زمانے کے ساتھ ساتھ جو اچھی تبدیلی ہو رہی ہے اسے اپنانا چاہیے لیکن اس میں بے حیائی کا عنصر‬
‫نہ ہو‘ لباس کامطلب ہے جسم کو ڈھانپنا لیکن وہ لباس جو جسم کو ڈھانپ نہ سکے تو اس سے وہ مقصد‬
‫پورا نہیں ہوگا اور اگر اس سے وہ مقصد پورا نہیں ہو رہا ہے تو وہ لباس نہ پہننا زیادہ بہتر ہو گا‘ دنیا‬
‫میںاتنی اقوام اور مذاہب ہیں ‘کیا وہ اسالمی مذہب پر چلنے کو تیار ہوتے ہیں؟ کیا وہ اسالمی رسم و‬
‫رواج کو اپنا رہے ہیں‘ نہیں وہ تو اپنے رسم و رواج اور اپنے لباس کے پابند ہوتے ہیں‘ ذرائع ابالغ جیسے‬
‫الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیاسے مختلف فیشن کی تحریک پیدا ہوتی ہے‘ مختلف پروگرام اور ڈراموں‬
‫میں خواتین جو لباس پہن کر ٓاتی ہیں ان کو معاشرے میں فروغ ملتا ہے ‘ اب ٓاپ کسی شاپنگ مال اور‬
‫دکاندار کے پاس جائیں تو وہ ‪ 2‬پیس سوٹ دے رہا ہوتا ہے‘ گویا دوپٹے کا تصور ہی غائب کردیا گیا ہے‘‬
‫ہمارے یہاں ٓابادی کا ایک حصہ وہ ہے جو مغربی لباس پہننے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ اس کے پاس‬
‫لڑکیوں کے لباس کو لے کے کوئی تصور ہی نہیں ہے‘ چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔ میڈیا نے بہت بیڑا‬
‫غرق کر کے رکھا ہے اس کے ذریعے سے یہ فیشن پروان چڑھتا ہے اور بے حجابی اور بے حیائی کا کلچر‬
‫پروان چڑھتا ہے‘اس بات پر کوئی توجہ نہیں ہے کہ اہلل نے ہمیں مسلمان پیدا کیا ہے‘ ہم شریعت پر چلنے‬
‫کے دعویدار بھی ہیں اپنے نبؐی سے محبت کا دعوٰی بھی کرتے ہیں تو کہیں سے اسے ثابت بھی تو‬
‫کریں‘ہمیں اپنے مقصد زندگی کو سمجھنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ بھیڑ چال چلتی رہے گی‘ میڈیا کو بھی‬
‫معاشرے کی اصالح کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے جو وہ نہیں کر پا رہا۔ فیشن ایک بہت بڑی انڈسٹری مگر‬
‫اس کا مقصد بہرحال جسم کو ڈھانپنا ہے ناکہ ٓاپ لباس پہن کے بھی عریاں رہیں ‘ جب بھی کوئی خاتون‬
‫یا مرد جب گھر سے نکلتاہے تو کیا ماں باپ میں سے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے کہ ان کی تربیت کہاں گئی‘‬
‫اگر انہوں نے پہننے اوڑھنے کا طریقہ اور معاشرے کے رسم و رواج نہیں سکھائے تو اس کے ذمے دار والدین‬
‫اور تعلیمی ادارے ہیں‘ تربیت کا نظام جب کمزور پڑتا ہے تو ایسی چیزیں سامنے ٓاتی ہیں اور اگر دینی‬
‫تعلیمات ہمارے ذہن میں راسخ ہو تو ہم اس کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین فاروقی کا کہنا‬
‫تھا کہ جس طرح چہرہ شخصیت کا عکاس ہوتا ہے اسی طرح لباس کی وضع قطع اور طرز زندگی کسی‬
‫بھی معاشرے کے ٓائینہ دار ہوتے ہیں‘ پاکستان بہت جدوجہداور قربانیوں کے بعد اسالمی اقدار کے مطابق‬
‫زندگی گزارنے کے لیے حاصل کیا گیاتھا تاکہ یہاں اسالمی نظام نافذ ہوسکے مگر افسوس کہ ٓاج ‪ 70‬برس‬
‫گزرنے کے بعد بھی ہم انگریزوں کے غالموں اور محکوم ذہنیت رکھنے والوں سے چھٹکارا نہیں پا سکے جو‬
‫بے دینی اور بے راہ روی کو ’’جدیدیت‘‘ اور نعوذباہلل ترقی سمجھتے ہیں‘ بے ہودہ لباس پہننے کو فیشن‬
‫سمجھتے ہیں‘ ناچ گانے کی محفلوں میں رقص و سرور کو اسٹیٹس سمبل اور ایلیٹ ہونے کی نشانی‬
‫جانتے ہیں‘ ایسے ذہنی طور پر پسماندہ افراد جنہیں دینی تعلیمات اور احکامات کی الف‪ ،‬ب بھی نہیں‬
‫معلوم ہمارے ذرائع ابالغ اور سیاست میں گھس گئے ہیں اور بے دینی کو فروغ دے رہے ہیں‘ کوئی سا بھی‬
‫چینل دیکھ لیجیے‪ ،‬کسی بھی اشتہار پر نظر ڈالیں‘ خواتین کا لباس زیادہ نامناسب ہوتا ہے‘ کبھی کبھی‬
‫قابل اعتراض بھی ہوجاتا ہے‘ اگر کسی بھی پڑھی لکھی‪ ،‬روشن خیال خاتون کو دکھانا ہو تو وہ مغربی‬
‫لباس میں دکھائی جاتی ہے‘ فیشن دکھانا ہو تو نامناسب اور غیر شائستہ لباس دکھایا جائے گا‘ ابھی ایک‬
‫پاکستانی ٹی وی چینل نے ایوارڈ کی تقریب منعقد کی‘ اس میں ہمارے فنکاروں خاص طور پر اداکارائوں‬
‫نے جو لباس زیب تن کیے وہ کسی بھی مہذب معاشرے میں پہننے کے قابل نہیں تھے‘ ایسے لباس کو پہننے‬
‫سے منع کیا گیا ہے جو جسم کی نمائش کرے‘ سمجھ نہیں ٓاتا کہ یہ ٓاخر اپنے غیر مہذب پہناوے کے ذریعے‬
‫کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں‘ کیا یہ فیشن ہے کہ ہم انگریزوں کے غالم ہیں اور ان ہی جیسے نظر ٓانا چاہتے ہیں‬
‫یا ہمیں مسلمان ہونے پر شرمندگی ہے؟ میڈیا ایک طاقتور پلیٹ فارم ہے اس سے جو کچھ دکھایا جاتا ہے‬
‫وہ بہت اثر رکھتا ہے‘ ٓاپ اندازہ کریں کہ فیشن کے نام پر بے ہودگی اور بداخالقی کا معصوم بچیوں پر کیا‬
‫اثر ہو رہا ہوگا‘ ان کے سادہ ذہنوں میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ مشرقی لباس‪ ،‬اسکارف وغیرہ دقیانوسی‬
‫چیزیں ہیں‘ اگر ٓاگے بڑھنا ہے تو مغربی انداز زندگی اپنا ہوگا‘ اگر ہم ٓانکھیں کھول کر دیکھیں تو ملکہ‬
‫برطانیہ اور شاہی خاندان جب کہیں جاتے ہیں تو سر پر ہیٹ اور ہاتھوں پر دستانے اور لمبے اسکرٹ پہنتے‬
‫ہیں‘ ان کے ہاں بھی شائستگی کا خیال رکھا جاتا ہے اور ایک ہم ہیں کہ جو ان کی نقالی میں اپنا دین‪،‬‬
‫کے‪ PEMRA‬تہذیب و تمدن سب دائو پر لگاچکے ہیں‘ فیشن کے نام پر بے حیائی پھیالئی جا رہی ہے۔‬
‫اخالقی ضابطے پر کوئی عمل درٓامد نہیں ہوتا‘ اسالم کے روشن خیال اور وسعت النظر مذہب ہونے کی‬
‫کہیں کوئی مثال نہیںملتی‘ اسالم میں جو حقوق خواتین کو حاصل ہیں‘ وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہیں‘‬
‫اسالم تو خواتین کو ہر چیز کی اجازت دیتا ہے مگر ایک حد میں رہ کر‪ ،‬حد سے تجاوز کرنا تو کسی بھی‬
‫چیز کے لیے نقصان دہ ہے‘ ہمیں اپنے ذرائع ابالغ کے لیے پالیسی بنانے والوں کو دینی تعلیم سے روشناس‬
‫کرنا پڑے گا تا کہ انہیں معلوم ہو کہ معاشرتی و دینی اقدار کسے کہتے ہیں‘ یہ ایک اسالمی ملک ہے لٰہ ذا‬
‫ضابطے بھی اسالمی ہونے چاہئیں‘ بے حیائی کو فروغ دینا ایسا ہی ہے جیسے اندھے کنویں میں چھالنگ‬
‫لگانا۔ فرمان نبوؐی ہے‪’’ :‬جب تم حیا نہ کرو تو پھر خواتین مردوں کے حلیے اختیار کرلیں گی مرد عورت بن‬
‫کر خوش ہے۔ اہلل تعالٰی نے ایسے مردوں پر لعنت بھیجی ہے جو خواتین کے حلیے اختیار کریں اور ایسی‬
‫عورتوں پر لعنت ہے جو مرد کا حلیہ بنائیں جو جی چاہے کرو‘‘۔ یہ ایک ایسا طوفان ہے جو سب کچھ بہالے‬
‫جائے گا‘ ہماری عافیت اپنی دینی حدود میں رہنے میں ہی ہے‘ ارباب اختیار کو اس بارے میں سنجیدگی‬
‫سے سوچنا چاہیے اور میڈیا کا قبلہ درست کرنا چاہیے تاکہ ہماری بچیاں اور صف نازک نام نہاد فیشن کے‬
‫نام پر پھیلنے والی غیر اخالقی چیزوں میں وقت برباد کرنے کے بجائے کچھ مثبت سرگرمیوں میں حصہ‬
‫لیں ملک و ملت کی ترقی اور سربلندی کے لیے کام کریں۔طاہرہ فاروقی کا کہنا تھا کہ اصل بات یہ ہے کہ‬
‫صرف خواتین میں بے حیائی نہیں پھیل رہی ہے بلکہ پوری قوم میں بالعموم بے حیائی سرایت کرگئی ہے‘‬
‫خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ سب کا ایک ہی حال ہے‘ خواتین اس لیے ذمے دار قرار دی جاتی ہیں کہ ان کے بے‬
‫حجاب اور مختصر لباس سے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں لیکن ان کو یہاں تک النے میں سب سے پہلے‬
‫والدین کا کردار ہوتا ہے جو بچی کو خوش لباسی کے نام پر غیراسالمی لباس اور سماجی سرگرمیوں کے‬
‫نام پر بے حجابانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دیتے ہیں‘ اس کے بعد میڈیا فیشن انڈسٹریز اور‬
‫تفریحی پروگرام سب ہی ملکر زیادہ سے زیادہ بے حجابی اور ناشائستگی پر ُا کساتے ہیں‘عروسی ملبوسات‬
‫الکھوں روپے کے ہونے کے باوجود ستر پوشی سے عاری ہی ہوتے ہیں ۔‬
‫کیا آپ فکرمند ھیں ؟‬

‫خدا أپکو أپکے مصائب کبھی نیئں



‫چھوڑےگا‪ ،‬مذید سیکھئے‬

‫کیا آپ فکرمند ھیں ؟‬


‫خدا أپکو أپکے مصائب کبھ

‫ی‬
‫نیئں چھوڑےگا‪ ،‬مذید سیکھئے‬
‫‪No Reliance on Gas‬‬
‫اشتہار ‪Dawlance‬‬

‫مالبس نوم للمرأة العصرية‬


‫اشتہار ‪Nap® Official‬‬

‫عورت کی ایک چیز مرد …‬


‫بے قرار کردیتی ہے؟؟‬
‫‪dailyindia.in‬‬


‪Order Hygienic‬‬
‫‪Homemade Food‬‬
‫اشتہار ‪HomeChef‬‬

‫سردیوں میں مچھلی کھ …‬


‫کے شوقین پہلے نبی کریم

‫صلی اہلل علیہ وٓالہ وسلم…‬
‫‪dailyindia.in‬‬

‫میں مسلمان نہیں ہوں لی …‬


‫میں نے کبھی مختصر لبا…‬
‫پہننے کو ترجیح نہیں دی…‬
‫‪dailyindia.in‬‬

You might also like