You are on page 1of 3

‫بسم ہللا الرحمن الرحیم !

‫بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں‬

‫جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا !‬

‫جناب صدر حاضرین کرام اور میرے ساتھیو!‬

‫السالم علیکم !‬

‫آج کی میری تقریر کا عنوان ہے "بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں"‬

‫صدر عالی وقار !‬

‫یہ حقیقت ہے کہ بغیر کسی غیرمعمولی کام اورکارنامے کے قومیں اس دنیا میں اپنی پہچان‬
‫عیاں نہیں کر سکتی ۔ یہ کہ محنت ‪ ،‬عزم‪ ،‬جزبہ و ولولہ اور آگے بڑھنے کی جستجو‪ ،‬وہ‬
‫عوامل ہیں جومعرکہ کے عمل پزیر ہونے کا دم رکھتی ہیں جو قوم کو یکجا کر کے دنیا کے‬
‫نقشے پہ عیاں و نمایاں کر دیتی ہے ۔‬

‫جناب صدر!‬

‫یہ فطرت کا اٹل قانون ھے چشم فلک نے بڑے بڑے انقالب دیکھے قوموں کے عروج و‬
‫زوال کی داستانیں تاریخ کے صفحات پر بکھری ھوئی ہیں کبھی سمیری ‪ ،‬بابل و نینوا عروج‬
‫پہ تھے ان کے فخر کا تاج مصریوں نے چھینا اور تہذیب کو نئی رفعتوں سے ہمکنار کیا ۔‬
‫مصریوں کے غرور کو یونانیوں نے توڑا ۔ ایران میں آریائوں کا قافلہ فتح سے ہمکنار ہوا ہی‬
‫تھا کہ چٹانوں سے ایک نوجوان سکندر اعظم اٹھا اور مغربی ایشیا سے لے کر مصر اور‬
‫ہندوستان کو روندتا چال گیا ۔ اسی طرح منگولوں ‪ ،‬رومیوں ‪ ،‬عیسائیوں اور مغلوں نے اپنی‬
‫آزادی کی شمعیں روشن کیں۔‬

‫صدر عالی وقار !‬

‫جب کوئی قوم طاقت و ہمت اور بے پناہ جذبے سے آگے بڑھتی ہے تو نئے مرحلے اور‬
‫منزلیں طے کرتی ہے۔آزادی ایک الزوال نعمت جس سے کسی کو کو بھی انکار نہیں غالمی‬
‫تو آخر غالمی ہے ذہنی ہو یا سماجی یااقتصادی غالمی کا طوق گلے میں ایک عذاب کی ماند‬
‫محسوس ھوتا ھے۔‬

‫جناب صدر!‬

‫پاکستان ‪ 14‬اگست کو دنیا کے نقشے پر ابھرا اور اس آزادی کی جو قیمت قوم نے ادا کی وہ‬
‫مشرقی پنجاب سے ھجرت کر کے آنے والوں سے پوچھیں یا ان سے پوچھیں جنہوں نے‬
‫لہولہان قافلوں کا استقبال کیا۔ انگریزوں کی پولیس کے تشدد سے کئی ایک دماغی اور بعض‬
‫جسمانی طور پر مفلوج ہو گئے ‪ ،‬بعض کی بینائی آنسو گیس نے ختم کر دی الغرض جہا د‬
‫آزادی کے مجاہدوں اور شہیدوں کی قربانیوں کو چند لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ھم‬
‫زندہ ہیں لہذا ھمیں اس آزادی کا تحفظ کر نا ھو گا ۔ اقتدار پرستی کی لعنت سے نکل کر عوام‬
‫کو ایک جھنڈے تلے جمع کر نا ھو گا ۔‬

‫صدر عالی وقار !‬

‫ھم اپنا اس دنیا میں آنے کا مقصد اور اپنا نصب العین فراموش کر چکے ہیں۔ھم محض اپنے‬
‫نفس کے غالم اور کٹھ پتلی بن کر رہ گئے ہیں۔سوچ کا محور محض اپنی ذات ہے نہ کہ‬
‫ملک اور قوم پاکستان ایک ایسی عمارت کی ماند ھے جس میں شامل اینٹوں میں بے شمار‬
‫زندگیوں‪ ،‬عصمتوں اور عزتوں کے نذرانے ہیں‪ ،‬پاکستان اسالف کی بیشمار قربانیوں کا ثمر‬
‫ہے ‪ ،‬مگر ہم اس پھل کو کھانے کے اہل نہیں رہے ہم اپنے نصب العین کھو دیا ہمارے دل اند‬
‫ھے ہو گئے‪-‬‬

‫جناب صدر!‬

‫سب آزمائے ہوئے ‪ ،‬ہارے ہوئے ‪ ،‬پٹے ہوئے ‪ ،‬نقابوں میں لپٹے ہوئے چہرے ‪ ،‬ماسک‬
‫سجائے ‪ ،‬سب میدان میں اتر آئے ہیں ۔یہ سب عوام کی جانب للچائی نظروں سے دیکھ رہے‬
‫ہیں کہ ہر کوئی اس دکھی اور زخمی عوام سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے۔مگر میں ایک‬
‫کھری اور سچی بات کہوں تو عوام کو اب جاگ جانا چاہیے۔ مومن ایک سوراخ سے بار بار‬
‫نہیں ڈسا جاتا ۔ جھوٹے وعدوں کے بہالئوں سے نکل آنا چاہیے۔ اپنی تقدیر اپنے ہاتھ کرنی‬
‫چاہیے۔ تب ممکن ہے کوئی راہ نجات نکل آئے۔‬

‫صدر عالی وقار !‬

‫ہمارا نجات دہندہ وہی ہو سکتا ہے جو خود ھم جیسا ہو جس نے بھوک افالس کا مزہ چکھا‬
‫ہو اور وہ جانتا ہو کہ اگر اس کے دور اقتدار میں ایک جانور بھی بھوکا سویا تو روز حشر‬
‫اس کے سر پہ بار ہوگا‪ ،‬جسے خوف خدا بھی ہو اورخوف خلق بھی۔جو قرآن پاک کو محض‬
‫حلف لینے کا زریعہ نہ بنائے بلکہ گواہ بنائے اور دل میں خوف رکھے۔سب کو برابری کے‬
‫حقوق دے کسی کی حق تلفی نہ کرے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔‬

You might also like