Professional Documents
Culture Documents
تعلیم:
عالمہ نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور
مشن ہائی سکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ
سے ایف اے کا امتحان پاس کیے۔ زمانہ طالبعلمی میں
انھیں میر حسن جیسے استاد ملے جنہوں نے آپ کی
صالحیتوں کو بھانپ لیا۔ اور ان کے اوصاف خیاالت کے
مطابق آپ کی صحیح رہنمائی کی۔ شعر و شاعری کا شوق
بھی آپ کو یہیں پیدا ہوا۔ اور اس شوق کو فروغ دینے میں
مولوی میر حسن کا بڑا دخل تھا۔
اعلٰی تعلیم:
ایف اے کرنے کے بعد آپ اعلٰی تعلیم کے لیے الہور چلے
گئے اور گورنمنٹ کالج سے بی اے اور ایم اے کے
امتحانات پاس کیے یہاں آپ کو پرفیسرآرنل ڈ جیسے فاضل
شفیق استاد مل گئے جنہوں نے اپنے شاگرد کی رہنمائی
میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
سفر یورپ:
میں عالمہ اقبال اعلٰی تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے
اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور پروفیسر
براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی ۔ بعد
میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ
نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
تدریس اور وکالت:
ابتداء میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج
الہور میں تدریس کے فرائض سرانجام دیئے لیکن آپ نے
بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔ وکالت کے ساتھ ساتھ آپ
شعروشاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکیوں میں
بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ 1922میں حکومت کی طرف
سے سر کا خطاب مال
سیاست:
ء میں آپ پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر چنے گئے۔ آپ
آزادی وطن کے علمبردار تھے اور باقاعدہ
سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے۔ مسلم لیگ میں
شامل ہوگئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب
ہوئے آپ کا الہ آباد کا مشہور صدارتی خطبہ تاریخی
حیثیت رکھتا ہے اس خطبے میں آپ نے پاکستان کا تصور
پیش کیا۔ 1931ء میں آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت
کرکے مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ آپ کی تعلیمات اور
قائداعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور
پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لیکن پاکستان کی آزادی
سے پہلے ہی 21اپریل 1938میں عالمہ انتقال کر گئے
تھے۔ لیکن ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم
ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔ جس نے پاکستان کا
تصور پیش کرکے برصغیر کے مسلمانوں میں جینے کی
ایک نئی آس پیدا کی۔
شاعری:
شاعر مشرق عالمہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک
تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں
کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کالم
اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانان
عالم اسےبڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے اور ان
کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔ اقبال نے نئی نسل میں
انقالبی روح پھونکی اور اسالمی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان
کے کئی کتابوں کے انگریزی ،جرمنی ،فرانسیسی ،چینی
،جاپانی اور دوسرے زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔
جس سے بیرون ملک بھی لوگ آپ کے متعرف ہیں۔
بالمبالغہ عالمہ اقبال ایک عظیم مفکر مانے جاتے ہیں۔