Professional Documents
Culture Documents
ن ن
1905 .5 6 .4 .3می ٹ رک 9 .2نومبر .1کسی ے ہی ں
Scotch .10 Nawab .9 .8سید میر حسن 1922 .7 Oriental .6
Mission Hameedulla College
College h Khan
.14منتش ر خی االت The Rod of .15 Darya-e- .13 .12طلب ہ علی گڑھ 1921 .11
Moses اقبال Neckar
ت
.20نہیں .19عالمہ اقبال .18ب ھر ری ہ ری 1927 .17 1935 .16
ANS 02
1
شیخ نور محمد دیندار آدمی تھے۔ بیٹے کے لیے دینی تعلیم ہی کافی س مجھتے تھے۔ س یالکوٹ کے اک ثر مق امی علم ا کے
ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ اقبال بسم ﷲ کی عمر کو پہنچے تو انھیں موالنا غالم حسن کے پ اس لے گ ئے۔ موالن ا ابوعب د
ﷲ غالم حسن محلہ شوالہ کی مسجد میں درس دیا کرتے تھے۔ شیخ نُور محمد کا وہاں آنا جانا تھا۔ یہاں سے اقبال کی
ب دستور قرآن شریف سے ابتدا ہوئی۔ تقریبا ً سال بھر تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ شہر کے ایک نامور
تعلیم کا آغاز ہوا۔ حس ِ
عالم موالنا سید میر حسن ادھر آ نکلے۔ ایک بچّے کو بیٹھے دیکھ ا کہ ص ورت س ے عظمت اور س عادت کی پہلی ج وت
چمکتی نظر آ رہی تھی۔ پوچھا کہ کس کا بچّہ ہے۔ معلوم ہوا تو وہاں سے اُٹھ ک ر ش یخ ن ور محم د کی ط رف چ ل پ ڑے۔
دونوں آپس میں قریبی واقف تھے۔ موالنا نے زور دے کر سمجھایا کہ اپنے بیٹے کو مدرس ے ت ک مح دود نہ رکھ و۔ اس
کے لیے جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ اقبال کو ان کی تربیت میں دے دیا ج ائے۔ کچھ
دن تک تو شیخ نور محمد کو پس و پیش رہا ،مگر جب دوسری طرف سے اصرار بڑھتا چال گیا تو اقب ال ک و م یر حس ن
کے س پرد ک ر دی ا۔ ان ک ا مکتب ش یخ ن ور محم د کے گھ ر کے ق ریب ہی ک وچہ م یر حس ام ال دین میں تھ ا۔ یہ اں اقب ال
نے اردو ،فارسی اور عربی ادب پڑھنا ش روع کی ا۔ تین س ال گ ذر گ ئے۔ اس دوران میں س ید م یر حس ن نے اس کاچ مش ن
اسکول میں بھی پڑھانا شروع کر دیا۔ اقبال بھی وہیں داخل ہو گئے مگر پ رانے معم والت اپ نی جگہ رہے۔ اس کول س ے
آتے تو استاد کی خدمت میں پہنچ جاتے۔ میر حس ن ان عظیم اس تادوں کی یادگ ار تھے جن کے ل یے زن دگی ک ا بس ای ک
مقصد ہوا کرتا تھا : پڑھنا اور پڑھانا۔ لیکن یہ پڑھنا اور پڑھانا نری کتاب خوانی کا نام نہیں۔ اس اچھے زمانے میں استاد
مرشد ہوا کرتا تھا۔ میرحسن بھی یہی کیا کرتے تھے۔ تمام اسالمی عل وم س ے آگ اہ تھے ،جدی د عل وم پ ر بھی اچھی نظ ر
تھی۔ اس کے عالوہ ادبیات ،معقوالت ،لسانیات اور ریاضیات میں بھی مہارت رکھ تے تھے۔ ش اگردوں ک و پڑھ اتے وقت
طرز احساس بن جائے۔ عربی ،فارس ی،
ِ ادبی رنگ اختیار کرتے تھے تاکہ علم فقط حافظے میں بند کر نہ رہ جائے بلکہ
اردو اور پنجابی کے ہزاروں شعر از بر تھے۔ ایک شعر کو کھولنا ہوتا تو بیسیوں مترادف اشعار سنا ڈالتے۔
موالنا کی تدریسی مصروفیات بہت زیادہ تھیں مگر مطالعے کا معم ول قض ا نہیں ک رتے تھے۔ ق رآن کے حافظ بھی تھے
اور عاشق بھی۔ شاگردوں میں شاہ صاحب کہالتے تھے۔ انسانی تعلق کا بہت پاس تھا۔ حد درجہ شفیق ،سادہ ،ق انع ،م تین،
منکسر المزاج اور خوش طبع بزرگ تھے۔ روزانہ کا معمول تھا کہ فجر کی نماز پڑھ کر قبرس تان ج اتے ،عزی زوں اور
دوستوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے۔ فارغ ہوتے تو شاگردوں کو منتظر پاتے۔ واپسی کا راستہ سبق سننے اور دی نے میں
َکٹ جاتا۔ یہ سلسلہ گھر پہنچ کر بھی جاری رہتا ،یہاں تک کہ اس کول ک و چ ل پ ڑتے۔ ش اگرد س اتھ لگے رہ تے۔ دن بھ ر
اسکول میں پڑھاتے۔ شام کو شاگردوں کو لیے ہوئے گھر آتے ،پھر رات تک درس چلتا رہتا۔ اقبال کو بہت عزیز رکھتے
تھے۔ خود وہ بھی استاد پر فدا تھے۔ اقبال کی شخصیت کی مجموعی تشکیل میں جو عناصر بنیادی طور پر کارفرما نظر
آتے ہیں ان میں س ے بیش تر ش اہ ص احب کی ص حبت اور تعلیم ک ا کرش مہ ہیں۔ س ید م یر حس ن س ر س ید کے ب ڑے قائ ل
تھے۔ علی گڑھ تحریک کو مسلمانوں کے لیے مفید سمجھتے تھے۔
ان کے زیر اثر اقبال کے دل میں بھی سرسید کی محبت پیدا ہو گئی جو بعض اختالفات کے باوجود آخر دم تک قائم رہی۔
مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ تو خیر اقبال کے گھر کی چیز تھی مگر میر حسن کی ت ربیت نے اس ج ذبے ک و ای ک
علمی اور عملی سمت دی۔ اقبال سمجھ بوجھ اور ذہانت میں اپ نے ہم عم ر بچ وں س ے کہیں آگے تھے۔ بچپن ہی س ے ان
کے اندر وہ انہماک اور استغراق موجود تھا جو بڑے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ مگر وہ کتاب کے کیڑے نہیں تھے۔ کت اب
کی لت پڑ جائے تو آدمی محض ایک دماغی وجود بن جات ا ہے۔ زن دگی اور اس کے بیچ فاص لہ پی دا ہوجات ا ہے۔ زن دگی
خون گرم کا حصّہ نہیں بن تے۔ انھیں کھی ل ک ود ک ا بھی
ِ کے حقائق اور تجربات بس دماغ میں منجمد ہوکر رہ جاتے ہیں،
شوق تھا۔ بچوں کی طرح شوخیاں بھی کرتے تھے۔ حاضر جواب بھی بہت تھے۔ ش یخ نُ ور محم د یہ س ب دیکھ تے مگ ر
منع نہ کرتے۔ جانتے تھے کہ اس طرح چیزوں کے ساتھ اپنائیت اور بے تکلفی پیدا ہوجاتی ہے جو بے حد ضروری اور
مفید ہے۔ غرض اقبال کا بچپن ایک فطری کش ادگی اور بے س اختگی کے س اتھ گ ذرا۔ ق درت نے انھیں ص وفی ب اپ اور
عالم استاد عطا کیا جس سے ان کا دل اور عقل یکسو ہو گئے ،دونوں کا ہدف ایک ہو گیا۔ یہ جو اقبال کے یہ اں ِحس اور
فِکر کی نادر یکجائی نظر آتی ہے اس کے پیچھے یہی چیز کارفرما ہے۔ باپ کے قلبی فیضان نے جن حق ائق ک و اجم االً
محسوس کروایا تھا استاد کی تعلیم سے تفصیالً معلوم بھی ہو گئے۔ سولہ برس کی عمر میں اقب ال نے می ٹرک ک ا امتح ان
پاس کیا۔ فرسٹ ڈویژن آئی اور تمغا اور وظیفہ مال۔
اسکاچ مشن اسکول میں انٹرمیڈیٹ کی کالس یں بھی ش روع ہ وچکی تھیں لہ ذا اقب ال ک و ای ف اے کے ل یے کہیں اور نہیں
جانا پڑا ،وہیں رہے ،یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا باقاعدہ آغ از ہوت ا ہے۔ ی وں ت و ش عر و ش اعری س ے ان کی
مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی ،کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کر لیا ک رتے تھے مگ ر اس ب ارے میں س نجیدہ نہیں
تھے ،نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے۔ لکھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے۔ لیکن اب شعر گوئی ان کے لیے فقط ای ک
مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضا بن چکی تھی۔ اس وقت پ ورا برص غیر داغ کے ن ام س ے گ ونج رہ ا تھ ا۔ خصوص ا ً
اُردو زبان پر ان کی معجزانہ گرفت کا ہر کسی کو اعتراف تھا۔ اقبال کویہی گ رفت درک ار تھی۔ ش اگردی کی درخواس ت
لکھ بھیجی ج و قب ول ک ر لی گ ئی۔ مگ ر اص الح ک ا یہ سلس لہ زی ادہ دی ر ج اری نہ رہ س کا۔ داغ جگت اس تاد تھے۔ متح دہ
ہندوستان میں اردو شاعری کے جت نے بھی رُوپ تھے ،ان کی ت راش خ راش میں داغ ک ا قلم س ب س ے آگے تھ ا۔ لیکن یہ
رنگ ان کے لیے بھی نیا تھا۔ گو اس وقت تک اقبال کے کالم کی امتیازی خصوصیت ظاہر نہ ہ وئی تھی مگ ر داغ اپ نی
بے مثال بصیرت سے بھانپ گئے کہ اس ہیرے کو تراشا نہیں جاسکتا۔ یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ اصالح کی گنج ائش نہ
ہونے کے برابر ہے۔ مگر اقبال اس مختصر سی شاگردی پر بھی ہمیشہ نازاں رہے۔ کچھ یہی حال داغ کا بھی رہا۔
6مئی1893 ء میں اقبال نے میٹرک کی ا اور1895 ء میں اقب ال نے ای ف اے کی ا اور مزی د تعلیم کے ل یے الہ ور آ گ ئے۔
نے نے لگے۔ اپ ٹل میں رہ ا اور ہاس الج میں بی اے کی کالس میں داخلہ لی ورنمنٹ ک اں گ یہ
ل یے انگری زی ،فلس فہ اور ع ربی کے مض امین منتخب ک یے۔ انگری زی اور فلس فہ گ ورنمنٹ ک الج میں پڑھ تے
اور عربی پڑھنے اورینٹل کالج جاتے جہاں موالنا فیض الحسن سہارنپوری ایس ے بے مث ال اس تاد تش ریف رکھ تے تھے۔
ّ
حص ے میں ق ائم تھ ا اور دون وں ک الجوں کے اس وقت تک اورینٹل کالج الہور ،گورنمنٹ کالج ہی کی عم ارت کے ای ک
درمیان بعض مضامین کے سلسلے میں باہمی تعاون اور اشتراک کا سلسلہ جاری تھا۔
1898ء میں اقبال نے بی اے پاس کیا اور ایم اے( فلسفہ) میں داخلہ لے لیا۔ یہاں پروفیسر ٹی ڈبلیوآرنلڈ کا تعلق ّ
میس ر آی ا۔
جنھوں نے آگے چل کر اقبال کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ متعین کر دیا۔
مارچ1899 ء میں ایم اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں اوّل آئے۔ اس دوران میں شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا ،مگر
مشاعروں میں نہ جاتے تھے۔ نومبر1899 ء کی ایک شام کچھ بے تکلف ہم جماعت انھیں حکیم امین الدین کے مک ان پ ر
ایک محف ِل مشاعرہ میں کھینچ لے گئے۔ بڑے بڑے س ّکہ بند اساتذہ ،ش اگردوں کی ای ک کث یر تع داد س میت ش ریک تھے۔
سُننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا۔ اقبال چونکہ بالکل نئے تھے ،اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے دور میں پُکارا گیا۔ غ زل
پڑھنی شروع کی ،جب اس شعر پر پہنچے کہ:
موتی سمجھ کے شا ِن کریمی نے چُن لیے
عرق انفعال کے
ِ قطرے جو تھے مرے
تو اچھے اچھے استاد اُچھل پڑے۔ بے اختیار ہو کر داد دینے لگے۔ یہاں سے اقبال کی بحیثیت شاعر شہرت کا آغ از ہ وا۔
ت اسالم سے تعلق پیدا ہوا جو آخ ر ت ک ق ائم رہ ا۔
مشاعروں میں باصرار بُالئے جانے لگے۔ اسی زمانے میں انجمن حمای ِ
اس کے ملّی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کالم سناتے اور لوگوں میں ایک سماں باندھ دی تے۔ اقب ال کی مقب ولیت نے انجمن
کے بہت سارے کاموں کو آسان کر دیا۔ کم از کم پنجاب کے مسلمانوں میں س ماجی س طح پ ر دی نی وح دت ک ا ش عور پی دا
ہونا شروع ہو گیا جس میں اقبال کی شاعری نے بنیادی کردار ادا کیا۔
ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال 13 مئی1899 ء ک و اورینٹ ل ک الج میں میکل وڈ عرب ک ری ڈر کی حی ثیت س ے متعین ہ و
گئے۔ اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے۔ اقبال تقریبا ً چار سال تک اورینٹل کالج
میں رہے۔ البتہ بیچ میں چھ م اہ کی رخص ت لے ک ر گ ورنمنٹ ک الج میں انگری زی پڑھ ائی۔ اعلی تعلیم کے
ل یے کینی ڈا ی ا امریکا جان ا چ اہتے تھے مگ ر آرنل ڈ کے کہ نے پ ر اس مقص د کے ل یے انگلس تان اور جرم نی ک ا انتخ اب
کیا۔١٩٠۴ ء کو آرنلڈ جب انگلستان واپس چلے گئے تو اقبال نے ان کی دوری کو بے حد محسوس کیا۔ دل کہتا تھ ا کہ اُڑ
دور ت دریس میں اقب ال نے اس ٹبس کی ’’ارلی پالئجنٹس‘‘اور
کر انگلستان پہنچ جائیں۔ اورینٹل کالج میں اپ نے چ ار س الہ ِ
واکر کی ’’پولٹیکل اکانومی‘‘ ک ا اردو میں تلخیص و ت رجمہ کی ا ،ش یخ عب د الک ریم الجیلی کے نظ ریۂ توحی ِد مطل ق پ ر
انگریزی میں ایک مقالہ لکھ ا اور ’’علم االقتص اد‘‘ کے ن ام س ے اردو زب ان میں ای ک مختص ر س ی کت اب تص نیف کی
جو1904 ء میں شائع ہوئی۔ اردو میں اپنے موضوع پر یہ اولین کتابوں میں سے ہے۔
2
اس((رار خ((ودی فارسی کی ای ک کت اب ہے ج و عظیم ش اعر ،فلس فی اور نظ ریہ پاکس تان کے ب انی عالمہ اقب ال کی پہلی
فلسفیانہ شاعری کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب 1915ء میں ش ائع ہ وئی۔ اس کت اب میں انف رادیت کے ب ارے میں نظمیں ش امل
ہیں جبکہ ان کی دوسری کتاب رموز بیخودی فرد واحد اور معاشرے کا احاطہ کرتی ہے۔
اسرار خودی کی اشاعت سے قبل‘ اس
ِ اسرار خودی ۔ عالمہ محمد اقبال کا پہال شعری مجموعہ جو فارسی میں شائع ہوا۔
ِ
کے کئی حصے‘ مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ ان حصوں کے متعدد اشعار کا متن‘ طب ع اوّل س ے خاص ا مختل ف
ہے۔ اس کی اشاعت کا اہتمام حکیم فقیر محمد چشتی نظامی نے کیا۔ طبع اول کی تعداد پ انچ س و تھی۔ کت ابت منش ی فض ل
الہٰی مرغ وب رقم نے کی جبکہ چھپ ائی ی ونین س ٹیم پ ریس ‘ الہ ور میں ہ وئی۔ عالمہ اقب ال نے اولین طب اعت ک ا دیب اچہ
خود اردو میں تحریر کی ا جس ے بع د کے ایڈیش نز س ے ح ذف ک ر دی ا گی ا۔ اس رار خ ودی کے تیس رے ایڈیش ن اور رم وز
بیخودی کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت پر دونوں مثنویوں ک و یکج ا ک ر دی ا گی ا اور اس رارورموز کے ن ام س ے دون وں
اسرار خودی کی پہلی اشاعت ہوئی تھی۔
ِ مثنویاں 1923ء سے یکجا ہی شائع ہو رہی ہیں۔ 12ستمبر 1915ء میں
ANS 03
عالمہ اقبال 7ستمبر1905ء کو بمبئی کی بندر گاہ سے انگلستان کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ بحری جہاز 23ستمبر کوفرانس
کی بندرگاہ مارسیلز پر پہنچ گیا۔ اس جگہ مسافروں کو آٹھ دس گھنٹے ٹھہرنا پڑا ۔ اس دوران اقب ال بن درگاہ کی س یر میں
محو رہے۔ 24ستمبر کو اقبال لندن پہنچے جہاں شیخ عبد القادر اسٹیشن پر اس تقبال ک و موج ود تھے۔ 24س تمبر ک و اقب ال
نے مولوی انشاء ہللا خان کوبذریعہ خط خیریت س ے م نزل مقص ود پ ر پہنچ نے س ے آگ اہ کی ا اور اپ نے س فر کی روداد
تحریر فرمائی ۔۔۔اقبال کا یورپ میں تین سالہ قیام ان کی زن دگی میں ای ک بہت ب ڑی تب دیلی ک ا س بب بن ا ۔ یہ اں قی ام کے
دوران اقبال کا زیادہ تر وقت علم و فن کے حصول میں صرف ہوا ۔ اس عرصے میں اقبال نے شعر و شاعری پ ر بالک ل
انداز زندگی اور فکری اسلوب کو ای ک ن ئی جہت دی ۔ اقب ال کے قی ام ی ورپ ک و
ِ توجہ نہ دی ۔ قیام یورپ نے اقبال کے
ڈاکٹر ممتاز حسن نے اس پیرائے میں بیان کیا ’’:بالشک و شبہ قیام والیت کی ش اعری کی س ب س ے ب ڑی خصوص یت
اقبال کی ’’ پیغمبرانہ ‘‘ شان کا آغاز ہے۔ اس سے پہلے کا اقبال ش اعر محض ہے ،مگ ر اس کے بع د ک ا اقب ال دنی ا ک و
عموما ً اور مسلمانوں کو خصوصا ً ایک حیا ِ
ت تازہ کا پیغام دینے کے لئے بے ت اب ہے اور اس پیغ ام ک و ہ زاروں طری ق
سے دہراتا ہے۔ یہ بہت ممکن ہے کہ اگر اقب ال والیت نہ جات ا ت و اس کی ش اعری ،بلکہ اس کی زن دگی ک ا رخ کچھ اور
ہوتا ‘‘ ۔
یورپ میں قیام کے دوران اقبال نے سیاحت کو بھی وقت دیا اور جہاں گئے وہاں کے اہم تفریحی و ت اریخی مقام ات بھی
دیکھے۔ 25نومبر کو کیمبرج یونیورسٹی سے اقبال نے مولوی انشاء ہللا خ ان کے ن ام ای ک خ ط لکھ ا ،جس میں آپ نے
لندن میں قدیم ایرانی بادشاہوں کے بنائے ہوئے تاالب دیکھنے کا ذکر کیا اور اسی خط میں انہوں نے نہ ر س ویز ک و دنی ا
کے عجائبات میں شمار کیا ۔ کیمبرج س ے 25اپری ل 1906ء ک و اپ نی س یر وس یاحت ک ا اح وال انہ وں نے خ واجہ حس ن
نظامی کے نام تحریر کردہ ایک خط میں یوں بیان کی ا ’’:متھ را ،ہ ر دوار ،جگن ن اتھ ،امرن اتھ جی س ب کی س یر کی ۔
مبارک ہو ،مگر بنارس جا کر لیالم ہوگئے۔ میرے پہلو میں ایک چھوٹا سا بُت خانہ ہے ،اس پ رانے مک ان کی بھی س یر
کی ہے ،خدا کی قسم بنارس کا بازار فرام وش کرج اؤ‘‘۔۔۔لن دن اور اس کے ق رب و ج وار کے عالق وں میں فط رت کے
خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ یہاں کے نسوانی حسن کی چکاچوند نے بھی اقبال کر متاثر کی ا ۔ اس
دلکش ماحول سے متاثر ہو کر آپ نے یہ نظمیں تخلیق کیں :محبت ،حقیقت ،حسن ،حسن و عشق ،وصال ،سلیمی ،جلوہ
حسن ،اختر صبح ،کلی چاند تارے ،انسان ،فراق۔۔۔ 1905ء تا 1908ء تک ک ا وقت عالمہ اقب ال کے فک ری و روح انی
ب مغ رب ک و بہت ق ریب س ے دیکھ نے اور
ارتقاء کے حوالے سے بھی اہم ترین ہے۔ ان چن د س الوں میں اقب ال ک و تہ ذی ِ
پرکھنے کا موقع مال۔ اسی دوران اقبال نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے اسالمی علوم و فلس فے ک ا گہ را
مطالعہ کیا ،جو اسالمی اور مغربی تہذیبوں کے مابین موازنہ کرنے کے لئے بہت مع اون ث ابت ہ وا۔ مغ رب میں رہ ک ر
اسالمی علوم کا مطالعہ کرنے سے اقبال کو اپنابلند نصب العین متعین ک رنے میں م دد ملی اور ان کے تخی ل اور ج ذبات
کے اظہار کے لئے ایک روشن راہ متعین ہوگئی۔مغرب کی تہذیب نے اقبال کے خیاالت میں ایک انقالب پیدا کر دی ا اور
ان کی شاعری کا رخ ملت اسالمیہ کی ترجمانی اور تعمیر اخالق و کردار کی طرف ہوگی ا۔ م ارچ 1907ء ک و اقب ال نے
ایک نظم لکھی جس میں اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کا مستقبل ملت اسالمیہ سے وابستہ ک ر لی ا
تھا ۔ اس غزل میں وہ کہتے ہیں :
ت شب میں لے کر نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
َمیں ظلم ِ
شرر فشاں ہوگی آہ میری ،نفس میرا شعلہ بار ہوگا
اعلی تعلیم کے حص ول
ٰ انگلستان میں قیام کے دورران ہی اقبال کی مالقات عطیہ فیضی سے ہ وئی ج و وہ اں فلس فے کی
کے سلسلے میں اقبال کی آمد سے پہلے مقیم تھیں ۔ان دونوں کی مالق ات یکم اپری ل 1907ء ک و لن دن میں مس بی ک کے
ہاں ہوئی تھی۔ چ ونکہ دون وں فلس فے کے ط الب علم تھے ،ل ٰہ ذا تعلق ات میں دن ب دن اض افہ ہ ونے لگ ا۔ دون وں فلس فیانہ
موضوعات پر تبادلہ خیال ک رتے ،مختل ف علمی مب احث میں ای ک دوس رے کی م دد لی تے ،چھ ٹیوں میں اکٹھے مختل ف
فر ی ورپ
مقامات کی سیر کے لئے جاتے ،الغرض ان کا زیادہ وقت ساتھ گزرتا تھا۔ اقبال اور عطیہ فیضی کے تعلقات س ِ
کے بعد بھی قائم رہے اور ان دونوں کے درمیان خط و کتابت کا سلس لہ بھی ج اری رہ ا ۔عالمہ اقب ال اپن ا ت ازہ کالم بھی
تنقید کے لئے بذریعہ خط عطیہ فیضی کو بھیجا ک رتے تھے۔ ی ورپ س ے ہندوس تان واپس آنے کے بع د ک ا کچھ عرص ہ
اقبال کے لئے بہت صبر آزما رہا اور وہ ایک خول میں بند ہو کر رہ گئے۔اس احساس تنہائی میں مختلف عوامل کارفرم ا
تھے ،جن میں سے ایک بڑی وجہ ان کی ازدواجی زندگی میں درپیش بحران تھا جو 1909ء سے 1913ء تک جاری رہا
۔ ازدواجی زندگی کی اس بحرانی کیفیت کا احوال وہ اپنے خطوط کے ذریعے عطیہ فیضی س ے بھی بی ان ک رتے ۔ گوی ا
اقبال نے عطیہ فیضی کو اپنا محرم راز بنا لیا تھا۔ اقبال 7جوالئی 1911ء ک و عطیہ فیض ی ک وبھیجے ہ وئے اپ نے ای ک
مکتوب میں لکھتے ہیں’’:گزشتہ پانچ سال سے میری نظمیں زی ادہ ت ر پرائی ویٹ ن وعیت کی حام ل ہیں اور َمیں س مجھتا
ہوں پبلک کو انہیں پڑھنے کا حق نہیں۔ بعض تو میں نے خود تل ف ک ر ڈالی ہیں ،ت اکہ ک وئی انہیں چ را ک ر ش ائع نہ ک ر
دے۔ ‘‘
اقبال جب ڈاکٹریٹ کے مقالے کا دفاع کرنے جرمنی کے شہر میونخ پہنچے تو یہاں ان کی مالقات مس ایما ویگے ناس ت
س ے ہ وئی ج و ابت داً ت و عالمہ اقب ال ک و ج رمن زب ان و ادب کی تعلیم دی تی رہیں ،لیکن پھ ر انہ وں نے تعلیم کے عالوہ
دوسرے امور میں بھی اقبال کی مدد کرنا شروع کر دی ۔ کچھ عرصے میں یہ تعلق دوستی میں بدل گیا ۔ مس ایما ویگے
ناست کی دوستی سے اقبال کو بڑا ذہنی سکون میسر ہوا۔ کچھ عرصہ بعد جب ایما ویگے ناست اقبال ک و ال وداع کہہ ک ر
دوسرے شہر چلی گ ئیں ت و انہ وں نے خط وط کے ذریعے عالمہ اقب ال س ے تعلق ات ق ائم رکھے۔انگلس تان میں قی ام کے
دوران اقبال نے اسالم کی تبلیغی خدمات بھی سر انجام دیں ۔ اس ض من میں 10ف روری 1908ء انہ وں نے خ واجہ حس ن
نظامی کے نام خط میں تحریر فرمایاَ ’’ :میں نے انگلستان میں اسالمی تہذیب و تمدن پر لیکچروں کا ایک سلس لہ ش روع
کیا ہے۔ ایک لیکچر ہوچکا ہے ،دوسرا فروری کے تیسرے ہفتے میں تصوف پ ر ہوگ ا۔ ب اقی لیکچ روں کے موض وع یہ
ہوں گے ’’:مسلمانوں کا اثر تہذیب یورپ پ ر‘‘ ’’ ،اس المی جمہ وریت ‘‘ اور ’’ اس الم اور عق ل انس انی ‘‘۔۔۔10ج والئی
1908ء کو اقبال انگلستان سے اپنے وطن کے لئے روانہ ہوگئے۔ وطن پہنچے تو دہلی ،الہ ور اور س یالکوٹ میں آپ ک ا
والہانہ استقبال کیا گیا اور آپ کے اعزاز میں استقبالیہ تقریبات منعقد کی گئیں ۔ ان تقریب ات میں ش عراء نے آپ کے ل ئے
خیر مقدمی نظمیں پڑھیں ۔ دہلی کی تقریب میں میر غالم بھیک نیرنگ نے ’’اقبال‘‘ کے عنوان سے 12اشعار پر مشتمل
ایک نظم سنائی ،جس کا ایک شعر یہ ہے:
یورپ کی سیر کر کے اقبال واپس آئے
خوشیاں منائیں مل کر اہ ِل وطن ،وطن میں
بھاٹی دروازہ الہو رمیں منعقدہ خیر مقدمی تقریب میں حکیم ہللا یار جوگی نے چودہ اشعار پ ر مش تمل ای ک نظم پ ڑھی ،
جس کا ایک شعر مالحظہ فرمائیں :
کدھر ہے کیف مسرت مجھے سنبھال سنبھال
کہ ہو کے آئے والئت سے ڈاکٹر اقبال
اسی تقریب میں منشی غالم علی خان غالمی نے 9اشعار پر مشتمل یہ نظم پڑھی :
آمد اقبال سے جشن طرب گھر گھر ہوا
اوج پر ہے آج پھر الہور کا اختر ہوا
اس اجالس میں شہریوں کی جانب سے اقبال کے سر پر سونے کا تاج پہنایا گیا ۔۔۔جوالئی کے آخر میں اقب ال اپ نے آب ائی
شہر سیالکوٹ گئے تو وہاں بھی شاندار استقبال کے بعد شہر کے ٹاؤن ہال میں شہریوں کی طرف سے ایک استقبالیہ دی ا
گیا ۔ یہاں میراں بخش جلوہ نے خوش آمدیدکی نظم پڑھی جس کا ایک شعر ہے:
مبارک ہو ڈاکٹر اقبال انگلستان سے آیا
وہ پی ایچ ڈی اور ایل ایل بی کی ڈگری واں سے الیا
اقبال یورپ سے واپس تو آگئے تھے ،لیکن مس ایما ویگے ناست کولکھے خ ط س ے ان دازہ ہوت ا ہے کہ وہ اپن ا دل وہیں
چھوڑ آئے تھے۔ وہ لکھتے ہیںَ ’’:میں اب الہور ہی میں ایڈووکیٹ کے طور پر کام کر رہا ہ وں۔۔۔ کچھ عرص ے بع د جب
میرے پاس کچھ پیسے جمع ہو جائیں گے تو َمیں یورپ میں اپنا گھر بناؤں گا۔ یہ میرا تص ور ہے اور م یری تمن ا ہے کہ
یہ پورا ہو گا‘‘۔۔۔اسی طرح اقبال نے 20جوالئی 1909ء کو مس ایم ا ویگے ناس ت ک و ای ک مکت وب میں لکھ ا’’:مجھے
جرمنی بہت پسند ہے۔ َمیںیہاں بالکل اکیال رہتا ہوں اور خود کو بڑا غمگین پاتا ہوں ۔‘‘
ANS 04
پیام مشرق ,عالمہ اقبال ک ا تیس را فارس ی مجم وعہ کالم ہے۔ یہ پہلی ب ار1923ع میں ش ائع ہ وا۔ اس کی اہمیت کے پیش
نظر ،اب تک اس کے بیسیوں ایڈیشن اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ اس میں عالمہ اقبال کا تحریر ک ردہ مفص ل اردو دیب اچہ
امل ہے بھی ش
الیف: بب ت س
ب ت الیف بی ان کی ا۔ اس ک ا خالص ہ یہ ہے کہ یہ
پیام مشرق کے دیباچے میں عالمہ اقبال نے بڑی تفصیل سے اس ک ا س ب ِ
کتاب جرمنی کے مشہور شاعر گوئٹے کے مجموعہ کالم "دیوا ِن مغرب" کے جواب میں تخلیق ہوئی۔ گوئٹے ای ک عظیم
دانشور اور بلند پایہ شاعر تھا۔ اسے جدید مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن کا احساس تھا۔ اس کی حساس روح مغربی دنی ا
کی بے معنی ہلچل اور ہنگامہ خیزی سے بیزار تھی۔ وہ مشرق کی پر سکون فض اوں میں ب ڑی دلچس پی محس وس کرت ا
تھا۔ وہ فارسی غزل کے عظیم شاعر خواجہ حافظ شیرازی رحمۃ ہللا علیہ کی شاعری سے انتہ ائی مت اثر تھ ا۔ چن اچہ اس
انداز فکر متعارف ک روانے کی کوش ش کی
ِ نے دیوا ِن حافظ کی شعوری تقلید کرتے ہوئے ،یورپی شاعری میں ،مشرقی
اور دیوان مغرب کے نام سے اپنا دیوان شائع کی ا۔ ی ورپی چ اعری میں یہ ای ک مختل ف آواز تھی ،ج و منف رد افک ار کی
ا بھی۔ د توان ل بھی تھی اور بے ح حام
ب کالم سے بھی متاثر تھے اور گوئ ٹے کے فک ر وفن س ے بھی ۔ انہیں گوئ ٹے کے
عالمہ اقبال ،خواجہ حافظ کے اسلو ِ
طرز احساس میں اپنائیت محسوس ہوئی۔ چناچہ انہوں نے ایک سو سال بعد "پی ام مش رق" کے ن ام س ے اپن ا فک ر انگ یز
ِ
مجم وعہ کالم ش ائع کی ا اور اس ے مش رق دنی ا کی ط رف س ے جہ ا ِن مغ رب ک و ای ک تحفہ ق رار دی ا۔
اب: انتس
پیام مشرق کا زمانہ تالیف 1918سے 1922تک ہے۔ اس عرصے میں افغانستان کے امیر ام ان ہللا خ اں نے انگری زوں
کے خالف اعال ِن جنگ کرکے ایک تاریخی قدم اٹھایا جس کے نتیجے میں برطانیہ نے افغانستان کو آزاد ملک تس لیم ک ر
ا۔ لی
اس زبردست کامیابی پر امیر امان ہللا خاں پوری اسالمی دنیا کا قومی ہیرو بن گیا اور ملت اسالمی نے اس کی ذات س ے
بہت سے توقعات وابستہ کرلیں۔ عالمہ اقبال بھی اس کے جذبہ جہاد اور ولولہ ایمانی سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ اسے دنی ا
پس منظ ر میں انہ وں
بھر کے مسلمانوں کی حریت فکر اور سیاسی و س ماجی س ربلندی کی عالمت س مجھتے تھے۔ اس ِ
نے اپنے مجموعہ کالم کا انتساب امیر امان ہللا خاں والی افغانستان کے نام کی ا۔ اس کت اب کے تمہی دی اش عار میں عالمہ
خراج تحسین پیش کیا اور خلوص و محبت سے لبریز نصیحتیں کیں۔ امیر امان ہللا خان ان توقعات پ ر
ِ اقبال نے انہیں بہت
کے۔ رس ورا نہ ات پ
ات: ذیلی عنوان
عالمہ اقب ال نے پی ام مش رق کی پ انچ ذیلی عنوان ات میں تقس یم کی ا ہے ،جن کی تفص یل کچھ ی وں ہے:
ور اللہ ط -1
ار 2۔ افک
اقی 3۔می ب
فرنگ نقش
ِ 4۔
ردہ 5۔ ُخ
ور: اللہ ط
پہلے حصے میں ایک سو تریسٹھ رباعیات ہیں۔ ان رباعیات میں انس انی زن دگی کے ب اطنی پہل و اُج اگر ک یے گ ئے ہیں۔
ت آدم ،زندگی ،روح ،مادہ ،کائنات ،حیات و م وت ،
بیشتر موضوعات حکیمانہ اور فلسفیانہ ہیں۔ خودی ،عشق ،عظم ِ
مس ئلئہ ج بر و ق در اور وح دت الوج ود کے مس ائل ک و ب ڑے لطی ف پ یرائے میں بی ان کی ا گی ا ہے۔
ار: افک
کتاب کا یہ دوسرا حصہ سب س ے زی ادہ ض خیم ہے۔ اس میں اک اون نظمیں ہیں۔ یہ نظمیں اپ نے موض وعات اور اس الیب
مناظر فطرت کے بیان سے ہے اور کچھ منظومات اقبال کے مخصوص
ِ کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ کچھ نظموں کا تعلق
فلسفہ حیات و کائنات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ دو نظمیں گوئ ٹے کے ن ام منس وب کی گ ئی ہیں۔ بیش تر نظم وں میں تم ثیلی
داز بی ان اختی ار کی ا گی ا ہے ج و موالن ا جالل ال دین رومی کی مثن وی و معن وی کی ی اد ت ازہ ک ر دیت ا ہے۔
ان ِ
اقی: می ب
ت
یہ پیام مشرق کا تیسرا حصہ ہے اور پنتالیس غزلوں پر مشتمل ہے۔ ان غزلوں میں عالمہ اقب ال ک ا فک ر رس ا اور ق در ِ
اوج کمال پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ روائتی غزلیں نہیں ہیں بلکہ جدید موض وعات اور عص ری مس ائل کی آئینہ دار
کالم ِ ،
ہیں۔ زبان و بی ان کے اعتب ار س ے انہیں س لیس اور رواں غ زلیں کہ ا ج ا س کتا ہے۔ اور یہ فارس ی ش اعری کے مش ہور
ب عراقی کی نمائندہ ہیں۔ اقبال کے افکار اپنی تمام تر وسعت اور گہرائی کے ساتھ ان میں موجود ہیں۔ ان میں فلس فہ
اسلو ِ
و حکمت بھی ہے اور تصوف و عرفان بھی ،سعی و عمل کا درس بھی دیا گیا ہے اور سخت کوشی اور خود شناس ی ک و
ق رس ول
موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ تہذیب حاضر اور مغربی تمدن کی سطحیت سے بھی آگ اہ کی ا گی ا ہے اور عش ِ
ِ بھی
صلی ہللا علیہ والہ وسلم کو تمام مسائل کا حل بھی قرار دیا گیا ہے ۔ ان غزلوں کی سب سے بڑی خوبی ،ان کی رجائیت
اور امید پسندی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اقبال نے فارسی غزل کو منفرد معنویت عط ا کی اور اس ے ن ئے ش عور
ا ہے۔ ناس کرای ے روش اس س رز احس
ِ دط اور جدی
فرنگ: نقش
ِ
اقوام مغرب کے فلسفہ و فکر کو متعارف کروا
ِ پیام مشرق کے چوتھے حصے کی نظموں میں مغربی تہذیب و ثقافت اور
کر ،فرنگی تمدن کے کمزور پہلووں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ عالمہ اقبال نے مغربی دانشوروں کے افکار پر ج ا بج ا
س خت گ رفت کی ہے اور اس کے مق ابلے میں مش رقی حکمت و فلس فہ کے ح والے س ے اپ نی آراء بی ان کی ہیں۔ ان
موضوع سخن بنایا گیا ہے ،ان میں شوپن ہ ار ،نٹش ے ،آئن س ٹائن ،
ِ منظومات میں جن مغربی فلسفیوں کے نظریات کو
بائرن ،ہیگ ل ،برگس اں اور ٹالس ٹائی قاب ِل ذک ر ہیں۔ انہی نظم وں میں سوشلس ٹ انقالب کے پس منظ ر میں م زدور اور
سرمایہ دار کے موضوعات پر بھی دا ِد سخن دی گئی ہے۔ عالمہ اقبال کو اس ناکام ہو ج انے والے انقالب کے جس پہل و
نے بے حد متاثر کیا تھا ،وہ اس کا نظریہ مساوات تھا۔ دوسری طرف یورپ کی اندھی اس تعماری ق وتیں تھیں ،جن کے
رتے تھے۔ رت ک دید نف ے وہ ش تبداد س بر و اس ج
ردہ: خ
پیام مشرق کے پانچویں اور آخری حصے کا نام ُخردہ ہے ۔ اس میں مختلف عنوانات کے تحت تیئیس متفرق اشعار شامل
ہیں۔ ان اش عار کے مض امین میں نُ درت اور فک ر و خی ال کی ت ازگی اور گہ رائی ک ا عنص ر ک ار فرم ا ہے۔
راجم : رق کے ت ام مش انوں میں پی ر زب دیگ
عالمہ اقبال کو اپنی اس غیر معمولی تخلیق کی اہمیت اور افادیت کا بخوبی احساس تھا۔ پیام مشرق کی اشاعت س ے پہلے
تے ہیں: ط میں لکھ کخ نے ای اپ
"مجھے یقین ہے کہ دیوان (پیام مشرق) کا ترجمہ بھی ضرور ہوگا۔ کیونکہ یورپ کی دماغی زندگی کے ہر پہل و پ ر اس
میں نظر ڈالی گئی ہے اور مغرب کے سرد خیاالت و افکار میں کسی قدر حرارت ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے"
ANS 05
ہمارے نزدیک ادبی تنقید کا اہم اور بنیادی مقصد و منصب ،ادب کی تفہیم ،فن پ ارے کے مق ام و مرت بے ک ا تعین اور ان
دونوں سے بھی بڑھ کے قارئین میں ادب کا ذوق پیدا کرنا ہے نیز لوگ وں ک و اچھے ادب کے مط العے کی ج انب راغب
کرنا بھی اس کا متوقع و مستحسن فریضہ ہے۔ تنقید اگر یہ فریضہ ڈھنگ سے انجام نہیں دیتی تو وہ دانش وری ہ و س کتی
ہے ،دوسری قوموں کی بھونڈی نقالی ہو سکتی ہے ،اُلٹا سیدھا فیشن ہ و س کتا ہے ،ڈی ڑھ اینٹ کی مس جد ہ و س کتی ہے،
اچھا خاصا تال ہوا لُچ ہو سکتا ہے ،تنقید نہیں ہو سکتی۔ مجھے ذاتی طور پہ جدید تنقی د س ے یہی مس ئلہ ہے ،بلکہ اب ت و
واضح طور پر محسوس ہونے لگا ہے کہ ہماری یہ فیشن پِٹی تنقید بی بی کسی انجان نگر کے ہنس کی چال چلتے چل تے
اپنا رستہ بھول چکی ہے اور اپنی ذاتی شناخت رکھنے والی ’مرغوب بیگم‘ کا کردار نبھ انے کی بج ائے کس ی ’گ واچی
گاں‘ کی بڑی بہن ’مرعوب بی بی‘ بنی بیٹھی ہے۔ کچھ عرصے سے مختلف جامعات کے طلبہ و طالبات کے چہروں پہ
اڑتی ہوائیاں اور ان کا بے برکتا تحقیقی ک ام دیکھ کے ان پہ غص ے کے س اتھ س اتھ ت رس بھی ٓات ا ہے کہ ن ئی تنقی د کی
گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے ،جدید اصطالحات کی پہیلیاں بوجھتے بوجھ تے ،اُن ک ا اپن ا دھی ان گی ان کہیں گم ہ و گی ا ہے۔
درٓام د ش دہ تنقی دی نظری ات و مب احث کی ال یع نیت نے انھیں ک رارے تخلیقی ذائق وں س ے دور ک ر دی ا ہے۔ س اختیات،
جدیدیت ،نو ٓابادیات ،سیریلزم جیسی اصطالحات نے تنقید کو چیستاں بنا دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہر طرف قنچی مارکہ تحقیق
اور مکھی پہ مکھی مارکہ تنقید کا بول باال ہے۔ نوخ یز کلی وں کے ہ اتھ میں ایم ف ل اور پی ایچ۔ڈی کی انتہ ائی خطرن اک
دوران زب انی امتح ان ان کے موض وع کی س خت قس م کی ح د بن دی س ے ذرا ب اہر ک وئی
ِ ڈگریاں ہیں لیکن اگ ر ان س ے
معمولی سا سوال بھی پوچھ بیٹھیں یا کسی معروف مصنف کی معروف ترین کتاب کی بابت بھی دریافت کر لیں ت و بچے
بچی کی حیرانی سے پہلے اساتذہ کی جانب سے چائے ٹھنڈی ہ ونے کی نوی د س نائی دی نے لگ تی ہے۔ اس عجلت میں وہ
نوجوان سکالر کی قسمت کا فیصلہ کرنے واال فارم ممتحن کی ط رف بڑھان ا نہیں بھول تے ،جس کے اوپ ر پچاس ی س ے
نوے فیصد تک نمبر لگانا ممتحن کی ’شرعی مجبوری‘ قرار پا چکا ہوتا ہے۔ جدید تنقید کی اس بے معنویت اور جامعات
میں پینسٹھ کلو میٹر کی رفتار سے ہونے والی اس عجلت پسند تحقیق کا سب سے زیادہ نقصان اقبال کو ہوا ہے۔ اس جدید
تنقید کی بے شمار ادب دشمنیوں کے ساتھ ساتھ ایک دُر فنطنی’مصنف کی موت ‘ ( )Death of writerبھی ہے۔ جس کا
مطلب یہ ہے کہ کسی فن پارے کا تجزیہ کرتے ہوئے ٓاپ کا دھیان اس فن پارے کے خالق کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ ال
حول وال قوۃ… جانے یہ کس کم بخت کا نظریہ یا سازش ہے کہ مصنف یا تخلی ق ک ار ک و اس کی تخلی ق س ے ال گ ک ر
دو ۔ وہ مغرب کہ جہاں کسی کے باپ کی بابت دریافت کرنا بھی اخالقیات سے باہر کی چ یز س مجھا جات ا ہے ،وہ اں ت و
اس تنقیدی نکتے کا کوئی جواز ہو سکتا ہے لیکن ہمیںکوئی بتائے کہ میر و غالب کی شاعری ہو یا ح الی ،ڈپ ٹی ،سرس ید
کا ادب ،حالی و سرسید کا پُر ٓاشوب سیاسی دور ہو یا منٹو ،انتظار اور ناصر کے ہج رت کے تجرب ات ،ان س ب کے فن
پاروں کو ان کے عہد یا مصنف کی ذاتی زندگی کے نشیب و فراز جانے بغیر کیس ے س مجھا ج ا س کتا ہے؟ اس ح والے
سے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل اقبال ہیں ،جن کا ای ک ای ک مص رع ،ان کی ذات ،قل بی واردت اور اپ نے عہ د کے
ح االت کے س اتھ بن دھا ہ وا بلکہ گن دھا ہ وا ہے۔ ای ک ای ک نظم ان کی سیاس ی ،س ماجیِ ،ملّی ،اخالقی ،ادبی ،ت اریخی
ترجیحات کے ساتھ پل کر جوان ہ وئی ہے۔ ای ک اک ش عر پہ ان کے اس لوب ،م زاج اور لفظی ات کے دس تخط ہیں۔ اپ نے
اُردو ،فارسی کالم میں تو وہ اپنے قاری کی انگلی پکڑ کے اس کی قدم قدم رہنمائی کرتا دکھائی دیت ا ہے۔ س ِر دس ت ہم ’
بانگِ درا‘ کے مندرجات ہی کی بات کر لیں کہ جس کی اشاعت کو اَب سو سال ہ ونے ک و ٓائے ہیں اور جس کی نظم وں
غزلوں کا ایک ایک لفظ اقبال کے ذہنی ،قلبی جذبات ارتقائی نظری ات اور ادل تی ب دلتی ترجیح ات کے تعین کی خ بر دیت ا
ہے۔ اقبال کے بلیغ و بصیر کالم کو تو ایک ط رف رکھیں ،ہم س مجھتے ہیں کہ ٓاج ت ک اس ع ام فہم اور ابت دائی کالم کی
کامل تفہیم کی بھی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اوپر سے ہم انھیں نئی تنقیدی اصطالحات کی بھینٹ چڑھا دیں۔
ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ صرف چند نصابی اور سرکاری قس م کے موض وعات ہیں ،امتح انی ض روریات
کی غرض سے منتخب کیا گیا کچھ کالم ہے کہ جس کی مسلسل جگالی سے ہم اپنی طرف سے اقب ال شناس ی ک ا ح ق ادا
صرف نظر کر کے اور مغربی تنقید کی موشگافیوں پہ تین
ِ کیے بیٹھے ہیں۔ ٓائیے ٓاج ہم روایتی قسم کی اقبال شناسی سے
شاعر مشرق کے ابتدائی اُردو مجموعے ’بانگِ درا‘ کے ب اطن س ے جی تے ج اگتے اقب ال کی ذاتی
ِ حرف بھیجتے ہوئے
زندگی کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’’بانگِ درا‘‘ کہ جس کی ب ابت ش یخ عب دالقادر ک ا کہن ا ہے’’ :یہ
ٰ
دعوی سے کہا جا سکتا ہے کہ اردو میں ٓاج تک کوئی ایس ی کت اب اش عار کی موج ود نہیں ہے ،جس میں خی االت کی یہ
فراوانی ہو اور اس قدر مطالب و معانی یکجا ہ وں ،اور کی وں نہ ہ و ،ای ک ص دی کے چہ ارم حص ے کے مط العے اور
تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ اور سیر و سیاحت کا نتیجہ ہے۔ بعض نظموں میں ایک ایک ش عر اور ای ک ای ک مص رع
ایسا ہے کہ اس پر ایک مستقل مضمون لکھا جا سکتا ہے۔‘‘ (دیباچہ بانگِ درا) اس حقیقت سے کون واق ف نہیں کہ اقب ال
فطرت کے نظاروں سے ٓاخری حد تک لطف اندوز ہونے کے قائل تھے۔ انھیں شہروں سے زیادہ بن اچھے لگ تے تھے،
کنار راوی تک اسی حسن سے تسکین ک ا س امان دھون ڈتے رہے۔ ’بان گِ درا‘ میں ،ہم الہ،
ِ وہ دریائے نیکر سے لے کے
اختر صبح ،حسن و عشق ،ایک شام ،رات اور شاعر ،تنہائی ،جگنو ،صبح کا س تارہ،
ِ ابر کوہسار،
گ ِل رنگیں ،عہ ِد طفلیِ ،
محبت ،فراق ،ایک ٓارزو ،شبنم اور ستارے اور کنار ِراوی جیسی بے شمار نظم وں اور متع دد غزل وں میں ہمیں فط رت
پرست ،ماضی میں مست اور رومانیت میں پور پور بھیگا اقبال دکھائی دیتا ہے :ہاں دکھا دے اے تصور! پھر وہ صبح و
گردش ایّام تُ و فارس ی ،انگری زی اور اُردو کے کالس یکی ادب س ے اقب ال کے گہ رے
ِ شام تُو دوڑ پیچھے کی طرف اے
شغف سے ت و س ب ل وگ ٓاگ ا ہ ہیں۔ ان ک ا نہ ص رف مط العہ غض ب ک ا تھ ا بلکہ وہ اپ نے اش عار میں پس ندیدہ و مح ترم
شخصیات کو باقاعدہ خراج بھی پیش کرتے ہیں ،جو ان کی عظمت کا ایک اور ثبوت ہے۔ ’بان گِ درا‘ میں م رزا غ الب،
لوح تُربت ،داغ ،شبلی و حالی ،عرفی ،شیکسپیئر وغ یرہ جیس ی نظم وں میں ہم ارا ای ک حقیقی س خن ش ناس اور
سید کی ِ
زم دہلی ای ک رفتگاں کے دلی معترف اقبال سے سامنا ہوتا ہے :اُٹھ گئے ساقی جو تھے ،مے خانہ خالی رہ گی ا یادگ ِ
ار ب ِ
حالی رہ گیا
ؔ