You are on page 1of 12

‫‪ANS 01‬‬

‫ن ن‬
‫‪1905 .5‬‬ ‫‪6 .4‬‬ ‫‪ .3‬می ٹ رک‬ ‫‪ 9 .2‬نومبر‬ ‫‪ .1‬کسی ے ہی ں‬
‫‪Scotch .10‬‬ ‫‪Nawab .9‬‬ ‫‪ .8‬سید میر حسن‬ ‫‪1922 .7‬‬ ‫‪Oriental .6‬‬
‫‪Mission‬‬ ‫‪Hameedulla‬‬ ‫‪College‬‬
‫‪College‬‬ ‫‪h Khan‬‬
‫‪ .14‬منتش ر خی االت ‪The Rod of .15‬‬ ‫‪Darya-e- .13‬‬ ‫‪ .12‬طلب ہ علی گڑھ‬ ‫‪1921 .11‬‬
‫‪Moses‬‬ ‫اقبال‬ ‫‪Neckar‬‬
‫ت‬
‫‪ .20‬نہیں‬ ‫‪ .19‬عالمہ اقبال‬ ‫‪ .18‬ب ھر ری ہ ری‬ ‫‪1927 .17‬‬ ‫‪1935 .16‬‬
‫‪ANS 02‬‬
‫‪1‬‬
‫شیخ نور محمد‪ ‬دیندار آدمی تھے۔ بیٹے کے لیے دینی تعلیم ہی کافی س مجھتے تھے۔‪ ‬س یالکوٹ‪ ‬کے اک ثر مق امی علم ا کے‬
‫ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ اقبال بسم ﷲ کی عمر کو پہنچے تو انھیں موالنا غالم حسن کے پ اس لے گ ئے۔ موالن ا ابوعب د‬
‫ﷲ غالم حسن محلہ شوالہ کی مسجد میں درس دیا کرتے تھے۔ شیخ نُور محمد کا وہاں آنا جانا تھا۔ یہاں سے اقبال کی‬
‫ب دستور‪ ‬قرآن شریف‪ ‬سے ابتدا ہوئی۔ تقریبا ً سال بھر تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ شہر کے ایک نامور‬
‫تعلیم کا آغاز ہوا۔ حس ِ‬
‫عالم موالنا سید میر حسن ادھر آ نکلے۔ ایک بچّے کو بیٹھے دیکھ ا کہ ص ورت س ے عظمت اور س عادت کی پہلی ج وت‬
‫چمکتی نظر آ رہی تھی۔ پوچھا کہ کس کا بچّہ ہے۔ معلوم ہوا تو وہاں سے اُٹھ ک ر ش یخ ن ور محم د کی ط رف چ ل پ ڑے۔‬
‫دونوں آپس میں قریبی واقف تھے۔ موالنا نے زور دے کر سمجھایا کہ اپنے بیٹے کو مدرس ے ت ک مح دود نہ رکھ و۔ اس‬
‫کے لیے جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ اقبال کو ان کی تربیت میں دے دیا ج ائے۔ کچھ‬
‫دن تک تو شیخ نور محمد کو پس و پیش رہا‪ ،‬مگر جب دوسری طرف سے اصرار بڑھتا چال گیا تو اقب ال ک و م یر حس ن‬
‫کے س پرد ک ر دی ا۔ ان ک ا مکتب ش یخ ن ور محم د کے گھ ر کے ق ریب ہی ک وچہ م یر حس ام ال دین میں تھ ا۔ یہ اں اقب ال‬
‫نے‪ ‬اردو‪ ،‬فارسی‪ ‬اور‪ ‬عربی ادب‪ ‬پڑھنا ش روع کی ا۔ تین س ال گ ذر گ ئے۔ اس دوران میں س ید م یر حس ن نے اس کاچ مش ن‬
‫اسکول میں بھی پڑھانا شروع کر دیا۔ اقبال بھی وہیں داخل ہو گئے مگر پ رانے معم والت اپ نی جگہ رہے۔ اس کول س ے‬
‫آتے تو استاد کی خدمت میں پہنچ جاتے۔ میر حس ن ان عظیم اس تادوں کی یادگ ار تھے جن کے ل یے زن دگی ک ا بس ای ک‬
‫مقصد ہوا کرتا تھا‪ : ‬پڑھنا اور پڑھانا۔ لیکن یہ پڑھنا اور پڑھانا نری کتاب خوانی کا نام نہیں۔ اس اچھے زمانے میں استاد‬
‫مرشد ہوا کرتا تھا۔ میرحسن بھی یہی کیا کرتے تھے۔ تمام اسالمی عل وم س ے آگ اہ تھے‪ ،‬جدی د عل وم پ ر بھی اچھی نظ ر‬
‫تھی۔ اس کے عالوہ ادبیات‪ ،‬معقوالت‪ ،‬لسانیات‪ ‬اور ریاضیات میں بھی مہارت رکھ تے تھے۔ ش اگردوں ک و پڑھ اتے وقت‬
‫طرز احساس بن جائے۔ عربی‪ ،‬فارس ی‪،‬‬
‫ِ‬ ‫ادبی رنگ اختیار کرتے تھے تاکہ علم فقط حافظے میں بند کر نہ رہ جائے بلکہ‬
‫اردو اور‪ ‬پنجابی‪ ‬کے ہزاروں شعر از بر تھے۔ ایک شعر کو کھولنا ہوتا تو بیسیوں مترادف اشعار سنا ڈالتے۔‬
‫موالنا کی تدریسی مصروفیات بہت زیادہ تھیں مگر مطالعے کا معم ول قض ا نہیں ک رتے تھے۔‪ ‬ق رآن‪ ‬کے‪ ‬حافظ‪ ‬بھی تھے‬
‫اور عاشق بھی۔ شاگردوں میں شاہ صاحب کہالتے تھے۔ انسانی تعلق کا بہت پاس تھا۔ حد درجہ شفیق‪ ،‬سادہ‪ ،‬ق انع‪ ،‬م تین‪،‬‬
‫منکسر المزاج اور خوش طبع بزرگ تھے۔ روزانہ کا معمول تھا کہ فجر کی نماز پڑھ کر‪ ‬قبرس تان‪ ‬ج اتے‪ ،‬عزی زوں اور‬
‫دوستوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے۔ فارغ ہوتے تو شاگردوں کو منتظر پاتے۔ واپسی کا راستہ سبق سننے اور دی نے میں‬
‫َکٹ جاتا۔ یہ سلسلہ گھر پہنچ کر بھی جاری رہتا‪ ،‬یہاں تک کہ اس کول ک و چ ل پ ڑتے۔ ش اگرد س اتھ لگے رہ تے۔ دن بھ ر‬
‫اسکول میں پڑھاتے۔ شام کو شاگردوں کو لیے ہوئے گھر آتے‪ ،‬پھر رات تک درس چلتا رہتا۔ اقبال کو بہت عزیز رکھتے‬
‫تھے۔ خود وہ بھی استاد پر فدا تھے۔ اقبال کی شخصیت کی مجموعی تشکیل میں جو عناصر بنیادی طور پر کارفرما نظر‬
‫آتے ہیں ان میں س ے بیش تر ش اہ ص احب کی ص حبت اور تعلیم ک ا کرش مہ ہیں۔ س ید م یر حس ن‪ ‬س ر س ید‪ ‬کے ب ڑے قائ ل‬
‫تھے۔‪ ‬علی گڑھ تحریک‪ ‬کو مسلمانوں کے لیے مفید سمجھتے تھے۔‬
‫ان کے زیر اثر اقبال کے دل میں بھی ‪ ‬سرسید‪ ‬کی محبت پیدا ہو گئی جو بعض اختالفات کے باوجود آخر دم تک قائم رہی۔‬
‫مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ تو خیر اقبال کے گھر کی چیز تھی مگر میر حسن کی ت ربیت نے اس ج ذبے ک و ای ک‬
‫علمی اور عملی سمت دی۔ اقبال سمجھ بوجھ اور ذہانت میں اپ نے ہم عم ر بچ وں س ے کہیں آگے تھے۔ بچپن ہی س ے ان‬
‫کے اندر وہ انہماک اور استغراق موجود تھا جو بڑے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ مگر وہ کتاب کے کیڑے نہیں تھے۔ کت اب‬
‫کی لت پڑ جائے تو آدمی محض ایک دماغی وجود بن جات ا ہے۔ زن دگی اور اس کے بیچ فاص لہ پی دا ہوجات ا ہے۔ زن دگی‬
‫خون گرم کا حصّہ نہیں بن تے۔ انھیں کھی ل ک ود ک ا بھی‬
‫ِ‬ ‫کے حقائق اور تجربات بس دماغ میں منجمد ہوکر رہ جاتے ہیں‪،‬‬
‫شوق تھا۔ بچوں کی طرح شوخیاں بھی کرتے تھے۔ حاضر جواب بھی بہت تھے۔ ش یخ نُ ور محم د یہ س ب دیکھ تے مگ ر‬
‫منع نہ کرتے۔ جانتے تھے کہ اس طرح چیزوں کے ساتھ اپنائیت اور بے تکلفی پیدا ہوجاتی ہے جو بے حد ضروری اور‬
‫مفید ہے۔ غرض اقبال کا بچپن ایک فطری کش ادگی اور بے س اختگی کے س اتھ گ ذرا۔ ق درت نے انھیں ص وفی ب اپ اور‬
‫عالم استاد عطا کیا جس سے ان کا دل اور عقل یکسو ہو گئے‪ ،‬دونوں کا ہدف ایک ہو گیا۔ یہ جو اقبال کے یہ اں ِحس اور‬
‫فِکر کی نادر یکجائی نظر آتی ہے اس کے پیچھے یہی چیز کارفرما ہے۔ باپ کے قلبی فیضان نے جن حق ائق ک و اجم االً‬
‫محسوس کروایا تھا استاد کی تعلیم سے تفصیالً معلوم بھی ہو گئے۔ سولہ برس کی عمر میں اقب ال نے می ٹرک ک ا امتح ان‬
‫پاس کیا۔ فرسٹ ڈویژن آئی اور تمغا اور وظیفہ مال۔‬
‫اسکاچ مشن اسکول‪ ‬میں انٹرمیڈیٹ کی کالس یں بھی ش روع ہ وچکی تھیں لہ ذا اقب ال ک و ای ف اے کے ل یے کہیں اور نہیں‬
‫جانا پڑا‪ ،‬وہیں رہے‪ ،‬یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا باقاعدہ آغ از ہوت ا ہے۔ ی وں ت و ش عر و ش اعری س ے ان کی‬
‫مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی‪ ،‬کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کر لیا ک رتے تھے مگ ر اس ب ارے میں س نجیدہ نہیں‬
‫تھے‪ ،‬نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے۔ لکھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے۔ لیکن اب شعر گوئی ان کے لیے فقط ای ک‬
‫مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضا بن چکی تھی۔ اس وقت پ ورا برص غیر‪ ‬داغ‪ ‬کے ن ام س ے گ ونج رہ ا تھ ا۔ خصوص ا ً‬
‫اُردو زبان پر ان کی معجزانہ گرفت کا ہر کسی کو اعتراف تھا۔ اقبال کویہی گ رفت درک ار تھی۔ ش اگردی کی درخواس ت‬
‫لکھ بھیجی ج و قب ول ک ر لی گ ئی۔ مگ ر اص الح ک ا یہ سلس لہ زی ادہ دی ر ج اری نہ رہ س کا۔ داغ جگت اس تاد تھے۔ ‪ ‬متح دہ‬
‫ہندوستان‪ ‬میں اردو شاعری کے جت نے بھی رُوپ تھے‪ ،‬ان کی ت راش خ راش میں داغ ک ا قلم س ب س ے آگے تھ ا۔ لیکن یہ‬
‫رنگ ان کے لیے بھی نیا تھا۔ گو اس وقت تک اقبال کے کالم کی امتیازی خصوصیت ظاہر نہ ہ وئی تھی مگ ر داغ اپ نی‬
‫بے مثال بصیرت سے بھانپ گئے کہ اس ہیرے کو تراشا نہیں جاسکتا۔ یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ اصالح کی گنج ائش نہ‬
‫ہونے کے برابر ہے۔ مگر اقبال اس مختصر سی شاگردی پر بھی ہمیشہ نازاں رہے۔ کچھ یہی حال داغ کا بھی رہا۔‬
‫‪ 6‬مئی‪1893 ‬ء‪ ‬میں اقبال نے میٹرک کی ا اور‪1895 ‬ء‪ ‬میں اقب ال نے ای ف اے کی ا اور مزی د تعلیم کے ل یے‪ ‬الہ ور‪ ‬آ گ ئے۔‬
‫نے‬ ‫نے لگے۔ اپ‬ ‫ٹل میں رہ‬ ‫ا اور ہاس‬ ‫الج‪ ‬میں‪ ‬بی اے‪ ‬کی کالس میں داخلہ لی‬ ‫ورنمنٹ ک‬ ‫اں‪ ‬گ‬ ‫یہ‬
‫ل یے‪ ‬انگری زی‪ ،‬فلس فہ‪ ‬اور‪ ‬ع ربی‪ ‬کے مض امین منتخب ک یے۔ انگری زی اور فلس فہ گ ورنمنٹ ک الج میں پڑھ تے‬
‫اور‪ ‬عربی‪ ‬پڑھنے‪ ‬اورینٹل کالج‪ ‬جاتے جہاں موالنا‪ ‬فیض الحسن سہارنپوری‪ ‬ایس ے بے مث ال اس تاد تش ریف رکھ تے تھے۔‬
‫ّ‬
‫حص ے میں ق ائم تھ ا اور دون وں ک الجوں کے‬ ‫اس وقت تک‪ ‬اورینٹل کالج الہور‪ ،‬گورنمنٹ کالج‪ ‬ہی کی عم ارت کے ای ک‬
‫درمیان بعض مضامین کے سلسلے میں باہمی تعاون اور اشتراک کا سلسلہ جاری تھا۔‬
‫‪1898‬ء‪ ‬میں اقبال نے‪ ‬بی اے‪ ‬پاس کیا اور‪ ‬ایم اے‪( ‬فلسفہ) میں داخلہ لے لیا۔ یہاں پروفیسر‪ ‬ٹی ڈبلیوآرنلڈ‪ ‬کا تعلق ّ‬
‫میس ر آی ا۔‬
‫جنھوں نے آگے چل کر اقبال کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ متعین کر دیا۔‬
‫مارچ‪1899 ‬ء‪ ‬میں‪ ‬ایم اے‪ ‬کا امتحان دیا اور‪ ‬پنجاب‪ ‬بھر میں اوّل آئے۔ اس دوران میں شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا‪ ،‬مگر‬
‫مشاعروں میں نہ جاتے تھے۔‪ ‬نومبر‪1899 ‬ء‪ ‬کی ایک شام کچھ بے تکلف ہم جماعت انھیں حکیم امین الدین کے مک ان پ ر‬
‫ایک محف ِل مشاعرہ میں کھینچ لے گئے۔ بڑے بڑے س ّکہ بند اساتذہ‪ ،‬ش اگردوں کی ای ک کث یر تع داد س میت ش ریک تھے۔‬
‫سُننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا۔ اقبال چونکہ بالکل نئے تھے‪ ،‬اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے دور میں پُکارا گیا۔ غ زل‬
‫پڑھنی شروع کی‪ ،‬جب اس شعر پر پہنچے کہ‪: ‬‬
‫موتی سمجھ کے شا ِن کریمی نے چُن لیے‬
‫عرق انفعال کے‬
‫ِ‬ ‫قطرے جو تھے مرے‬
‫تو اچھے اچھے استاد اُچھل پڑے۔ بے اختیار ہو کر داد دینے لگے۔ یہاں سے اقبال کی بحیثیت شاعر شہرت کا آغ از ہ وا۔‬
‫ت اسالم‪ ‬سے تعلق پیدا ہوا جو آخ ر ت ک ق ائم رہ ا۔‬
‫مشاعروں میں باصرار بُالئے جانے لگے۔ اسی زمانے میں‪ ‬انجمن حمای ِ‬
‫اس کے ملّی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کالم سناتے اور لوگوں میں ایک سماں باندھ دی تے۔ اقب ال کی مقب ولیت نے انجمن‬
‫کے بہت سارے کاموں کو آسان کر دیا۔ کم از کم‪ ‬پنجاب‪ ‬کے مسلمانوں میں س ماجی س طح پ ر دی نی وح دت ک ا ش عور پی دا‬
‫ہونا شروع ہو گیا جس میں اقبال کی شاعری نے بنیادی کردار ادا کیا۔‬
‫ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال‪ 13 ‬مئی‪1899 ‬ء‪ ‬ک و اورینٹ ل ک الج میں میکل وڈ عرب ک ری ڈر کی حی ثیت س ے متعین ہ و‬
‫گئے۔ اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے۔ اقبال تقریبا ً چار سال تک اورینٹل کالج‬
‫میں رہے۔ البتہ بیچ میں چھ م اہ کی رخص ت لے ک ر‪ ‬گ ورنمنٹ ک الج‪ ‬میں انگری زی پڑھ ائی۔ اعلی تعلیم کے‬
‫ل یے‪ ‬کینی ڈا‪ ‬ی ا‪ ‬امریکا‪ ‬جان ا چ اہتے تھے مگ ر آرنل ڈ کے کہ نے پ ر اس مقص د کے ل یے‪ ‬انگلس تان‪ ‬اور‪ ‬جرم نی‪ ‬ک ا انتخ اب‬
‫کیا۔‪١٩٠۴ ‬ء‪ ‬کو آرنلڈ جب‪ ‬انگلستان‪ ‬واپس چلے گئے تو اقبال نے ان کی دوری کو بے حد محسوس کیا۔ دل کہتا تھ ا کہ اُڑ‬
‫دور ت دریس میں اقب ال نے اس ٹبس کی ’’ارلی پالئجنٹس‘‘اور‬
‫کر انگلستان پہنچ جائیں۔ اورینٹل کالج میں اپ نے چ ار س الہ ِ‬
‫واکر کی ’’پولٹیکل اکانومی‘‘ ک ا اردو میں تلخیص و ت رجمہ کی ا‪ ،‬ش یخ عب د الک ریم الجیلی کے نظ ریۂ توحی ِد مطل ق پ ر‬
‫انگریزی میں ایک مقالہ لکھ ا اور ’’علم االقتص اد‘‘ کے ن ام س ے اردو زب ان میں ای ک مختص ر س ی کت اب تص نیف کی‬
‫جو‪1904 ‬ء‪ ‬میں شائع ہوئی۔ اردو میں اپنے موضوع پر یہ اولین کتابوں میں سے ہے۔‬
‫‪2‬‬
‫اس((رار خ((ودی‪ ‬فارسی‪ ‬کی ای ک کت اب ہے ج و عظیم‪ ‬ش اعر‪ ،‬فلس فی‪ ‬اور‪ ‬نظ ریہ پاکس تان‪ ‬کے ب انی‪ ‬عالمہ اقب ال‪ ‬کی پہلی‬
‫فلسفیانہ شاعری کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب ‪1915‬ء میں ش ائع ہ وئی۔ اس کت اب میں انف رادیت کے ب ارے میں نظمیں ش امل‬
‫ہیں جبکہ ان کی دوسری کتاب‪ ‬رموز بیخودی‪ ‬فرد واحد اور معاشرے کا احاطہ کرتی ہے۔‬
‫اسرار خودی کی اشاعت سے قبل‘ اس‬
‫ِ‬ ‫اسرار خودی ۔ عالمہ محمد اقبال کا پہال شعری مجموعہ جو فارسی میں شائع ہوا۔‬
‫ِ‬
‫کے کئی حصے‘ مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ ان حصوں کے متعدد اشعار کا متن‘ طب ع اوّل س ے خاص ا مختل ف‬
‫ہے۔ اس کی اشاعت کا اہتمام‪ ‬حکیم فقیر محمد چشتی نظامی‪ ‬نے کیا۔ طبع اول کی تعداد پ انچ س و تھی۔ کت ابت منش ی‪ ‬فض ل‬
‫الہٰی مرغ وب رقم‪ ‬نے کی جبکہ چھپ ائی‪ ‬ی ونین س ٹیم پ ریس‪ ‘ ‬الہ ور‪ ‬میں ہ وئی۔‪ ‬عالمہ اقب ال‪ ‬نے اولین طب اعت ک ا دیب اچہ‬
‫خود‪ ‬اردو‪ ‬میں تحریر کی ا جس ے بع د کے ایڈیش نز س ے ح ذف ک ر دی ا گی ا۔ اس رار خ ودی کے تیس رے ایڈیش ن اور‪ ‬رم وز‬
‫بیخودی‪ ‬کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت پر دونوں مثنویوں ک و یکج ا ک ر دی ا گی ا اور اس رارورموز کے ن ام س ے دون وں‬
‫اسرار خودی کی پہلی اشاعت ہوئی تھی۔‬
‫ِ‬ ‫مثنویاں ‪1923‬ء سے یکجا ہی شائع ہو رہی ہیں۔ ‪ 12‬ستمبر ‪1915‬ء میں‬
‫‪ANS 03‬‬
‫عالمہ اقبال ‪7‬ستمبر‪1905‬ء کو بمبئی کی بندر گاہ سے انگلستان کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ بحری جہاز ‪23‬ستمبر کوفرانس‬
‫کی بندرگاہ مارسیلز پر پہنچ گیا۔ اس جگہ مسافروں کو آٹھ دس گھنٹے ٹھہرنا پڑا ۔ اس دوران اقب ال بن درگاہ کی س یر میں‬
‫محو رہے۔ ‪24‬ستمبر کو اقبال لندن پہنچے جہاں شیخ عبد القادر اسٹیشن پر اس تقبال ک و موج ود تھے۔ ‪24‬س تمبر ک و اقب ال‬
‫نے مولوی انشاء ہللا خان کوبذریعہ خط خیریت س ے م نزل مقص ود پ ر پہنچ نے س ے آگ اہ کی ا اور اپ نے س فر کی روداد‬
‫تحریر فرمائی ۔۔۔اقبال کا یورپ میں تین سالہ قیام ان کی زن دگی میں ای ک بہت ب ڑی تب دیلی ک ا س بب بن ا ۔ یہ اں قی ام کے‬
‫دوران اقبال کا زیادہ تر وقت علم و فن کے حصول میں صرف ہوا ۔ اس عرصے میں اقبال نے شعر و شاعری پ ر بالک ل‬
‫انداز زندگی اور فکری اسلوب کو ای ک ن ئی جہت دی ۔ اقب ال کے قی ام ی ورپ ک و‬
‫ِ‬ ‫توجہ نہ دی ۔ قیام یورپ نے اقبال کے‬
‫ڈاکٹر ممتاز حسن نے اس پیرائے میں بیان کیا ‪’’:‬بالشک و شبہ قیام والیت کی ش اعری کی س ب س ے ب ڑی خصوص یت‬
‫اقبال کی ’’ پیغمبرانہ ‘‘ شان کا آغاز ہے۔ اس سے پہلے کا اقبال ش اعر محض ہے‪ ،‬مگ ر اس کے بع د ک ا اقب ال دنی ا ک و‬
‫عموما ً اور مسلمانوں کو خصوصا ً ایک حیا ِ‬
‫ت تازہ کا پیغام دینے کے لئے بے ت اب ہے اور اس پیغ ام ک و ہ زاروں طری ق‬
‫سے دہراتا ہے۔ یہ بہت ممکن ہے کہ اگر اقب ال والیت نہ جات ا ت و اس کی ش اعری ‪،‬بلکہ اس کی زن دگی ک ا رخ کچھ اور‬
‫ہوتا ‘‘ ۔‬
‫یورپ میں قیام کے دوران اقبال نے سیاحت کو بھی وقت دیا اور جہاں گئے وہاں کے اہم تفریحی و ت اریخی مقام ات بھی‬
‫دیکھے۔ ‪25‬نومبر کو کیمبرج یونیورسٹی سے اقبال نے مولوی انشاء ہللا خ ان کے ن ام ای ک خ ط لکھ ا ‪ ،‬جس میں آپ نے‬
‫لندن میں قدیم ایرانی بادشاہوں کے بنائے ہوئے تاالب دیکھنے کا ذکر کیا اور اسی خط میں انہوں نے نہ ر س ویز ک و دنی ا‬
‫کے عجائبات میں شمار کیا ۔ کیمبرج س ے ‪25‬اپری ل ‪1906‬ء ک و اپ نی س یر وس یاحت ک ا اح وال انہ وں نے خ واجہ حس ن‬
‫نظامی کے نام تحریر کردہ ایک خط میں یوں بیان کی ا ‪ ’’:‬متھ را‪ ،‬ہ ر دوار ‪ ،‬جگن ن اتھ‪ ،‬امرن اتھ جی س ب کی س یر کی ۔‬
‫مبارک ہو ‪ ،‬مگر بنارس جا کر لیالم ہوگئے۔ میرے پہلو میں ایک چھوٹا سا بُت خانہ ہے‪ ،‬اس پ رانے مک ان کی بھی س یر‬
‫کی ہے‪ ،‬خدا کی قسم بنارس کا بازار فرام وش کرج اؤ‘‘۔۔۔لن دن اور اس کے ق رب و ج وار کے عالق وں میں فط رت کے‬
‫خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ یہاں کے نسوانی حسن کی چکاچوند نے بھی اقبال کر متاثر کی ا ۔ اس‬
‫دلکش ماحول سے متاثر ہو کر آپ نے یہ نظمیں تخلیق کیں‪ :‬محبت‪ ،‬حقیقت‪ ،‬حسن ‪ ،‬حسن و عشق ‪ ،‬وصال ‪ ،‬سلیمی‪ ،‬جلوہ‬
‫حسن ‪ ،‬اختر صبح‪ ،‬کلی چاند تارے ‪ ،‬انسان ‪ ،‬فراق۔۔۔ ‪1905‬ء تا ‪1908‬ء تک ک ا وقت عالمہ اقب ال کے فک ری و روح انی‬
‫ب مغ رب ک و بہت ق ریب س ے دیکھ نے اور‬
‫ارتقاء کے حوالے سے بھی اہم ترین ہے۔ ان چن د س الوں میں اقب ال ک و تہ ذی ِ‬
‫پرکھنے کا موقع مال۔ اسی دوران اقبال نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے اسالمی علوم و فلس فے ک ا گہ را‬
‫مطالعہ کیا ‪ ،‬جو اسالمی اور مغربی تہذیبوں کے مابین موازنہ کرنے کے لئے بہت مع اون ث ابت ہ وا۔ مغ رب میں رہ ک ر‬
‫اسالمی علوم کا مطالعہ کرنے سے اقبال کو اپنابلند نصب العین متعین ک رنے میں م دد ملی اور ان کے تخی ل اور ج ذبات‬
‫کے اظہار کے لئے ایک روشن راہ متعین ہوگئی۔مغرب کی تہذیب نے اقبال کے خیاالت میں ایک انقالب پیدا کر دی ا اور‬
‫ان کی شاعری کا رخ ملت اسالمیہ کی ترجمانی اور تعمیر اخالق و کردار کی طرف ہوگی ا۔ م ارچ ‪1907‬ء ک و اقب ال نے‬
‫ایک نظم لکھی جس میں اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کا مستقبل ملت اسالمیہ سے وابستہ ک ر لی ا‬
‫تھا ۔ اس غزل میں وہ کہتے ہیں ‪:‬‬
‫ت شب میں لے کر نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو‬
‫َمیں ظلم ِ‬
‫شرر فشاں ہوگی آہ میری‪ ،‬نفس میرا شعلہ بار ہوگا‬
‫اعلی تعلیم کے حص ول‬
‫ٰ‬ ‫انگلستان میں قیام کے دورران ہی اقبال کی مالقات عطیہ فیضی سے ہ وئی ج و وہ اں فلس فے کی‬
‫کے سلسلے میں اقبال کی آمد سے پہلے مقیم تھیں ۔ان دونوں کی مالق ات یکم اپری ل ‪1907‬ء ک و لن دن میں مس بی ک کے‬
‫ہاں ہوئی تھی۔ چ ونکہ دون وں فلس فے کے ط الب علم تھے‪ ،‬ل ٰہ ذا تعلق ات میں دن ب دن اض افہ ہ ونے لگ ا۔ دون وں فلس فیانہ‬
‫موضوعات پر تبادلہ خیال ک رتے‪ ،‬مختل ف علمی مب احث میں ای ک دوس رے کی م دد لی تے‪ ،‬چھ ٹیوں میں اکٹھے مختل ف‬
‫فر ی ورپ‬
‫مقامات کی سیر کے لئے جاتے‪ ،‬الغرض ان کا زیادہ وقت ساتھ گزرتا تھا۔ اقبال اور عطیہ فیضی کے تعلقات س ِ‬
‫کے بعد بھی قائم رہے اور ان دونوں کے درمیان خط و کتابت کا سلس لہ بھی ج اری رہ ا ۔عالمہ اقب ال اپن ا ت ازہ کالم بھی‬
‫تنقید کے لئے بذریعہ خط عطیہ فیضی کو بھیجا ک رتے تھے۔ ی ورپ س ے ہندوس تان واپس آنے کے بع د ک ا کچھ عرص ہ‬
‫اقبال کے لئے بہت صبر آزما رہا اور وہ ایک خول میں بند ہو کر رہ گئے۔اس احساس تنہائی میں مختلف عوامل کارفرم ا‬
‫تھے‪ ،‬جن میں سے ایک بڑی وجہ ان کی ازدواجی زندگی میں درپیش بحران تھا جو ‪1909‬ء سے ‪1913‬ء تک جاری رہا‬
‫۔ ازدواجی زندگی کی اس بحرانی کیفیت کا احوال وہ اپنے خطوط کے ذریعے عطیہ فیضی س ے بھی بی ان ک رتے ۔ گوی ا‬
‫اقبال نے عطیہ فیضی کو اپنا محرم راز بنا لیا تھا۔ اقبال ‪7‬جوالئی ‪1911‬ء ک و عطیہ فیض ی ک وبھیجے ہ وئے اپ نے ای ک‬
‫مکتوب میں لکھتے ہیں‪’’:‬گزشتہ پانچ سال سے میری نظمیں زی ادہ ت ر پرائی ویٹ ن وعیت کی حام ل ہیں اور َمیں س مجھتا‬
‫ہوں پبلک کو انہیں پڑھنے کا حق نہیں۔ بعض تو میں نے خود تل ف ک ر ڈالی ہیں‪ ،‬ت اکہ ک وئی انہیں چ را ک ر ش ائع نہ ک ر‬
‫دے۔ ‘‘‬
‫اقبال جب ڈاکٹریٹ کے مقالے کا دفاع کرنے جرمنی کے شہر میونخ پہنچے تو یہاں ان کی مالقات مس ایما ویگے ناس ت‬
‫س ے ہ وئی ج و ابت داً ت و عالمہ اقب ال ک و ج رمن زب ان و ادب کی تعلیم دی تی رہیں ‪،‬لیکن پھ ر انہ وں نے تعلیم کے عالوہ‬
‫دوسرے امور میں بھی اقبال کی مدد کرنا شروع کر دی ۔ کچھ عرصے میں یہ تعلق دوستی میں بدل گیا ۔ مس ایما ویگے‬
‫ناست کی دوستی سے اقبال کو بڑا ذہنی سکون میسر ہوا۔ کچھ عرصہ بعد جب ایما ویگے ناست اقبال ک و ال وداع کہہ ک ر‬
‫دوسرے شہر چلی گ ئیں ت و انہ وں نے خط وط کے ذریعے عالمہ اقب ال س ے تعلق ات ق ائم رکھے۔انگلس تان میں قی ام کے‬
‫دوران اقبال نے اسالم کی تبلیغی خدمات بھی سر انجام دیں ۔ اس ض من میں ‪10‬ف روری ‪1908‬ء انہ وں نے خ واجہ حس ن‬
‫نظامی کے نام خط میں تحریر فرمایا‪َ ’’ :‬میں نے انگلستان میں اسالمی تہذیب و تمدن پر لیکچروں کا ایک سلس لہ ش روع‬
‫کیا ہے۔ ایک لیکچر ہوچکا ہے‪ ،‬دوسرا فروری کے تیسرے ہفتے میں تصوف پ ر ہوگ ا۔ ب اقی لیکچ روں کے موض وع یہ‬
‫ہوں گے ‪’’:‬مسلمانوں کا اثر تہذیب یورپ پ ر‘‘‪ ’’ ،‬اس المی جمہ وریت ‘‘ اور ’’ اس الم اور عق ل انس انی ‘‘۔۔۔‪10‬ج والئی‬
‫‪1908‬ء کو اقبال انگلستان سے اپنے وطن کے لئے روانہ ہوگئے۔ وطن پہنچے تو دہلی‪ ،‬الہ ور اور س یالکوٹ میں آپ ک ا‬
‫والہانہ استقبال کیا گیا اور آپ کے اعزاز میں استقبالیہ تقریبات منعقد کی گئیں ۔ ان تقریب ات میں ش عراء نے آپ کے ل ئے‬
‫خیر مقدمی نظمیں پڑھیں ۔ دہلی کی تقریب میں میر غالم بھیک نیرنگ نے ’’اقبال‘‘ کے عنوان سے ‪12‬اشعار پر مشتمل‬
‫ایک نظم سنائی ‪ ،‬جس کا ایک شعر یہ ہے‪:‬‬
‫یورپ کی سیر کر کے اقبال واپس آئے‬
‫خوشیاں منائیں مل کر اہ ِل وطن ‪ ،‬وطن میں‬
‫بھاٹی دروازہ الہو رمیں منعقدہ خیر مقدمی تقریب میں حکیم ہللا یار جوگی نے چودہ اشعار پ ر مش تمل ای ک نظم پ ڑھی ‪،‬‬
‫جس کا ایک شعر مالحظہ فرمائیں ‪:‬‬
‫کدھر ہے کیف مسرت مجھے سنبھال سنبھال‬
‫کہ ہو کے آئے والئت سے ڈاکٹر اقبال‬
‫اسی تقریب میں منشی غالم علی خان غالمی نے ‪9‬اشعار پر مشتمل یہ نظم پڑھی ‪:‬‬
‫آمد اقبال سے جشن طرب گھر گھر ہوا‬
‫اوج پر ہے آج پھر الہور کا اختر ہوا‬
‫اس اجالس میں شہریوں کی جانب سے اقبال کے سر پر سونے کا تاج پہنایا گیا ۔۔۔جوالئی کے آخر میں اقب ال اپ نے آب ائی‬
‫شہر سیالکوٹ گئے تو وہاں بھی شاندار استقبال کے بعد شہر کے ٹاؤن ہال میں شہریوں کی طرف سے ایک استقبالیہ دی ا‬
‫گیا ۔ یہاں میراں بخش جلوہ نے خوش آمدیدکی نظم پڑھی جس کا ایک شعر ہے‪:‬‬
‫مبارک ہو ڈاکٹر اقبال انگلستان سے آیا‬
‫وہ پی ایچ ڈی اور ایل ایل بی کی ڈگری واں سے الیا‬
‫اقبال یورپ سے واپس تو آگئے تھے‪ ،‬لیکن مس ایما ویگے ناست کولکھے خ ط س ے ان دازہ ہوت ا ہے کہ وہ اپن ا دل وہیں‬
‫چھوڑ آئے تھے۔ وہ لکھتے ہیں‪َ ’’:‬میں اب الہور ہی میں ایڈووکیٹ کے طور پر کام کر رہا ہ وں۔۔۔ کچھ عرص ے بع د جب‬
‫میرے پاس کچھ پیسے جمع ہو جائیں گے تو َمیں یورپ میں اپنا گھر بناؤں گا۔ یہ میرا تص ور ہے اور م یری تمن ا ہے کہ‬
‫یہ پورا ہو گا‘‘۔۔۔اسی طرح اقبال نے ‪20‬جوالئی ‪1909‬ء کو مس ایم ا ویگے ناس ت ک و ای ک مکت وب میں لکھ ا‪’’:‬مجھے‬
‫جرمنی بہت پسند ہے۔ َمیںیہاں بالکل اکیال رہتا ہوں اور خود کو بڑا غمگین پاتا ہوں ۔‘‘‬
‫‪ANS 04‬‬
‫پیام مشرق ‪ ,‬عالمہ اقبال ک ا تیس را فارس ی مجم وعہ کالم ہے۔ یہ پہلی ب ار‪1923‬ع میں ش ائع ہ وا۔ اس کی اہمیت کے پیش‬
‫نظر‪ ،‬اب تک اس کے بیسیوں ایڈیشن اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ اس میں عالمہ اقبال کا تحریر ک ردہ مفص ل اردو دیب اچہ‬
‫امل ہے‬ ‫بھی ش‬
‫الیف‪:‬‬ ‫بب ت‬ ‫س‬
‫ب ت الیف بی ان کی ا۔ اس ک ا خالص ہ یہ ہے کہ یہ‬
‫پیام مشرق کے دیباچے میں‌ عالمہ اقبال نے بڑی تفصیل سے اس ک ا س ب ِ‬
‫کتاب جرمنی کے مشہور شاعر گوئٹے کے مجموعہ کالم "دیوا ِن مغرب" کے جواب میں تخلیق ہوئی۔ گوئٹے ای ک عظیم‬
‫دانشور اور بلند پایہ شاعر تھا۔ اسے جدید مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن کا احساس تھا۔ اس کی حساس روح مغربی دنی ا‬
‫کی بے معنی ہلچل اور ہنگامہ خیزی سے بیزار تھی۔ وہ مشرق کی پر سکون فض اوں میں ب ڑی دلچس پی محس وس کرت ا‬
‫تھا۔ وہ فارسی غزل کے عظیم شاعر خواجہ حافظ شیرازی رحمۃ ہللا علیہ کی شاعری سے انتہ ائی مت اثر تھ ا۔ چن اچہ اس‬
‫انداز فکر متعارف ک روانے کی کوش ش کی‬
‫ِ‬ ‫نے دیوا ِن حافظ کی شعوری تقلید کرتے ہوئے ‪ ،‬یورپی شاعری میں‪ ،‬مشرقی‬
‫اور دیوان مغرب کے نام سے اپنا دیوان شائع کی ا۔ ی ورپی چ اعری میں یہ ای ک مختل ف آواز تھی ‪ ،‬ج و منف رد افک ار کی‬
‫ا بھی۔‬ ‫د توان‬ ‫ل بھی تھی اور بے ح‬ ‫حام‬
‫ب کالم سے بھی متاثر تھے اور گوئ ٹے کے فک ر وفن س ے بھی ۔ انہیں گوئ ٹے کے‬
‫عالمہ اقبال ‪ ،‬خواجہ حافظ کے اسلو ِ‬
‫طرز احساس میں اپنائیت محسوس ہوئی۔ چناچہ انہوں نے ایک سو سال بعد "پی ام مش رق" کے ن ام س ے اپن ا فک ر انگ یز‬
‫ِ‬
‫مجم وعہ کالم ش ائع کی ا اور اس ے مش رق دنی ا کی ط رف س ے جہ ا ِن مغ رب ک و ای ک تحفہ ق رار دی ا۔‬
‫اب‪:‬‬ ‫انتس‬
‫پیام مشرق کا زمانہ تالیف ‪ 1918‬سے ‪ 1922‬تک ہے۔ اس عرصے میں افغانستان کے امیر ام ان ہللا خ اں نے انگری زوں‬
‫کے خالف اعال ِن جنگ کرکے ایک تاریخی قدم اٹھایا جس کے نتیجے میں برطانیہ نے افغانستان کو آزاد ملک تس لیم ک ر‬
‫ا۔‬ ‫لی‬
‫اس زبردست کامیابی پر امیر امان ہللا خاں پوری اسالمی دنیا کا قومی ہیرو بن گیا اور ملت اسالمی نے اس کی ذات س ے‬
‫بہت سے توقعات وابستہ کرلیں۔ عالمہ اقبال بھی اس کے جذبہ جہاد اور ولولہ ایمانی سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ اسے دنی ا‬
‫پس منظ ر میں انہ وں‬
‫بھر کے مسلمانوں کی حریت فکر اور سیاسی و س ماجی س ربلندی کی عالمت س مجھتے تھے۔ اس ِ‬
‫نے اپنے مجموعہ کالم کا انتساب امیر امان ہللا خاں والی افغانستان کے نام کی ا۔ اس کت اب کے تمہی دی اش عار میں عالمہ‬
‫خراج تحسین پیش کیا اور خلوص و محبت سے لبریز نصیحتیں کیں۔ امیر امان ہللا خان ان توقعات پ ر‬
‫ِ‬ ‫اقبال نے انہیں بہت‬
‫کے۔‬ ‫رس‬ ‫ورا نہ ات‬ ‫پ‬
‫ات‪:‬‬ ‫ذیلی عنوان‬
‫عالمہ اقب ال نے پی ام مش رق کی پ انچ ذیلی عنوان ات میں تقس یم کی ا ہے ‪ ،‬جن کی تفص یل کچھ ی وں ہے‪:‬‬
‫ور‬ ‫اللہ ط‬ ‫‪-1‬‬
‫ار‬ ‫‪2‬۔ افک‬
‫اقی‬ ‫‪3‬۔می ب‬
‫فرنگ‬ ‫نقش‬
‫ِ‬ ‫‪4‬۔‬
‫ردہ‬ ‫‪5‬۔ ُخ‬

‫ور‪:‬‬ ‫اللہ ط‬
‫پہلے حصے میں ایک سو تریسٹھ رباعیات ہیں۔ ان رباعیات میں انس انی زن دگی کے ب اطنی پہل و اُج اگر ک یے گ ئے ہیں۔‬
‫ت آدم ‪ ،‬زندگی ‪ ،‬روح ‪ ،‬مادہ ‪ ،‬کائنات ‪ ،‬حیات و م وت ‪،‬‬
‫بیشتر موضوعات حکیمانہ اور فلسفیانہ ہیں۔ خودی ‪ ،‬عشق ‪ ،‬عظم ِ‬
‫مس ئلئہ ج بر و ق در اور وح دت الوج ود کے مس ائل ک و ب ڑے لطی ف پ یرائے میں بی ان کی ا گی ا ہے۔‬
‫ار‪:‬‬ ‫افک‬
‫کتاب کا یہ دوسرا حصہ سب س ے زی ادہ ض خیم ہے۔ اس میں اک اون نظمیں ہیں۔ یہ نظمیں اپ نے موض وعات اور اس الیب‬
‫مناظر فطرت کے بیان سے ہے اور کچھ منظومات اقبال کے مخصوص‬
‫ِ‬ ‫کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ کچھ نظموں کا تعلق‬
‫فلسفہ حیات و کائنات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ دو نظمیں گوئ ٹے کے ن ام منس وب کی گ ئی ہیں۔ بیش تر نظم وں میں تم ثیلی‬
‫داز بی ان اختی ار کی ا گی ا ہے ج و موالن ا جالل ال دین رومی کی مثن وی و معن وی کی ی اد ت ازہ ک ر دیت ا ہے۔‬
‫ان ِ‬
‫اقی‪:‬‬ ‫می ب‬
‫ت‬
‫یہ پیام مشرق کا تیسرا حصہ ہے اور پنتالیس غزلوں پر مشتمل ہے۔ ان غزلوں میں عالمہ اقب ال ک ا فک ر رس ا اور ق در ِ‬
‫اوج کمال پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ روائتی غزلیں نہیں ہیں بلکہ جدید موض وعات اور عص ری مس ائل کی آئینہ دار‬
‫کالم ‪ِ ،‬‬
‫ہیں۔ زبان و بی ان کے اعتب ار س ے انہیں س لیس اور رواں غ زلیں کہ ا ج ا س کتا ہے۔ اور یہ فارس ی ش اعری کے مش ہور‬
‫ب عراقی کی نمائندہ ہیں۔ اقبال کے افکار اپنی تمام تر وسعت اور گہرائی کے ساتھ ان میں موجود ہیں۔ ان میں فلس فہ‬
‫اسلو ِ‬
‫و حکمت بھی ہے اور تصوف و عرفان بھی‪ ،‬سعی و عمل کا درس بھی دیا گیا ہے اور سخت کوشی اور خود شناس ی ک و‬
‫ق رس ول‬
‫موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ تہذیب حاضر اور مغربی تمدن کی سطحیت سے بھی آگ اہ کی ا گی ا ہے اور عش ِ‬
‫ِ‬ ‫بھی‬
‫صلی ہللا علیہ والہ وسلم کو تمام مسائل کا حل بھی قرار دیا گیا ہے ۔ ان غزلوں کی سب سے بڑی خوبی ‪ ،‬ان کی رجائیت‬
‫اور امید پسندی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اقبال نے فارسی غزل کو منفرد معنویت عط ا کی اور اس ے ن ئے ش عور‬
‫ا ہے۔‬ ‫ناس کرای‬ ‫ے روش‬ ‫اس س‬ ‫رز احس‬
‫ِ‬ ‫دط‬ ‫اور جدی‬
‫فرنگ‪:‬‬ ‫نقش‬
‫ِ‬
‫اقوام مغرب کے فلسفہ و فکر کو متعارف کروا‬
‫ِ‬ ‫پیام مشرق کے چوتھے حصے کی نظموں میں مغربی تہذیب و ثقافت اور‬
‫کر ‪ ،‬فرنگی تمدن کے کمزور پہلووں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ عالمہ اقبال نے مغربی دانشوروں کے افکار پر ج ا بج ا‬
‫س خت گ رفت کی ہے اور اس کے مق ابلے میں مش رقی حکمت و فلس فہ کے ح والے س ے اپ نی آراء بی ان کی ہیں۔ ان‬
‫موضوع سخن بنایا گیا ہے ‪ ،‬ان میں شوپن ہ ار ‪ ،‬نٹش ے ‪ ،‬آئن س ٹائن ‪،‬‬
‫ِ‬ ‫منظومات میں جن مغربی فلسفیوں کے نظریات کو‬
‫بائرن ‪ ،‬ہیگ ل ‪ ،‬برگس اں اور ٹالس ٹائی قاب ِل ذک ر ہیں۔ انہی نظم وں میں سوشلس ٹ انقالب کے پس منظ ر میں م زدور اور‬
‫سرمایہ دار کے موضوعات پر بھی دا ِد سخن دی گئی ہے۔ عالمہ اقبال کو اس ناکام ہو ج انے والے انقالب کے جس پہل و‬
‫نے بے حد متاثر کیا تھا ‪ ،‬وہ اس کا نظریہ مساوات تھا۔ دوسری طرف یورپ کی اندھی اس تعماری ق وتیں تھیں ‪ ،‬جن کے‬
‫رتے تھے۔‬ ‫رت ک‬ ‫دید نف‬ ‫ے وہ ش‬ ‫تبداد س‬ ‫بر و اس‬ ‫ج‬
‫ردہ‪:‬‬ ‫خ‬
‫پیام مشرق کے پانچویں اور آخری حصے کا نام ُخردہ ہے ۔ اس میں مختلف عنوانات کے تحت تیئیس متفرق اشعار شامل‬
‫ہیں۔ ان اش عار کے مض امین میں‌ نُ درت اور فک ر و خی ال کی ت ازگی اور گہ رائی ک ا عنص ر ک ار فرم ا ہے۔‬

‫راجم ‪:‬‬ ‫رق کے ت‬ ‫ام مش‬ ‫انوں میں پی‬ ‫ر زب‬ ‫دیگ‬
‫عالمہ اقبال کو اپنی اس غیر معمولی تخلیق کی اہمیت اور افادیت کا بخوبی احساس تھا۔ پیام مشرق کی اشاعت س ے پہلے‬
‫تے ہیں‪:‬‬ ‫ط میں لکھ‬ ‫کخ‬ ‫نے ای‬ ‫اپ‬
‫"مجھے یقین ہے کہ دیوان (پیام مشرق) کا ترجمہ بھی ضرور ہوگا۔ کیونکہ یورپ کی دماغی زندگی کے ہر پہل و پ ر اس‬
‫میں نظر ڈالی گئی ہے اور مغرب کے سرد خیاالت و افکار میں کسی قدر حرارت ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے"‬
‫‪ANS 05‬‬
‫ہمارے نزدیک ادبی تنقید کا اہم اور بنیادی مقصد و منصب‪ ،‬ادب کی تفہیم‪ ،‬فن پ ارے کے مق ام و مرت بے ک ا تعین اور ان‬
‫دونوں سے بھی بڑھ کے قارئین میں ادب کا ذوق پیدا کرنا ہے نیز لوگ وں ک و اچھے ادب کے مط العے کی ج انب راغب‬
‫کرنا بھی اس کا متوقع و مستحسن فریضہ ہے۔ تنقید اگر یہ فریضہ ڈھنگ سے انجام نہیں دیتی تو وہ دانش وری ہ و س کتی‬
‫ہے‪ ،‬دوسری قوموں کی بھونڈی نقالی ہو سکتی ہے‪ ،‬اُلٹا سیدھا فیشن ہ و س کتا ہے‪ ،‬ڈی ڑھ اینٹ کی مس جد ہ و س کتی ہے‪،‬‬
‫اچھا خاصا تال ہوا لُچ ہو سکتا ہے‪ ،‬تنقید نہیں ہو سکتی۔ مجھے ذاتی طور پہ جدید تنقی د س ے یہی مس ئلہ ہے‪ ،‬بلکہ اب ت و‬
‫واضح طور پر محسوس ہونے لگا ہے کہ ہماری یہ فیشن پِٹی تنقید بی بی کسی انجان نگر کے ہنس کی چال چلتے چل تے‬
‫اپنا رستہ بھول چکی ہے اور اپنی ذاتی شناخت رکھنے والی ’مرغوب بیگم‘ کا کردار نبھ انے کی بج ائے کس ی ’گ واچی‬
‫گاں‘ کی بڑی بہن ’مرعوب بی بی‘ بنی بیٹھی ہے۔ کچھ عرصے سے مختلف جامعات کے طلبہ و طالبات کے چہروں پہ‬
‫اڑتی ہوائیاں اور ان کا بے برکتا تحقیقی ک ام دیکھ کے ان پہ غص ے کے س اتھ س اتھ ت رس بھی ٓات ا ہے کہ ن ئی تنقی د کی‬
‫گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے‪ ،‬جدید اصطالحات کی پہیلیاں بوجھتے بوجھ تے‪ ،‬اُن ک ا اپن ا دھی ان گی ان کہیں گم ہ و گی ا ہے۔‬
‫درٓام د ش دہ تنقی دی نظری ات و مب احث کی ال یع نیت نے انھیں ک رارے تخلیقی ذائق وں س ے دور ک ر دی ا ہے۔ س اختیات‪،‬‬
‫جدیدیت‪ ،‬نو ٓابادیات‪ ،‬سیریلزم جیسی اصطالحات نے تنقید کو چیستاں بنا دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہر طرف قنچی مارکہ تحقیق‬
‫اور مکھی پہ مکھی مارکہ تنقید کا بول باال ہے۔ نوخ یز کلی وں کے ہ اتھ میں ایم ف ل اور پی ایچ۔ڈی کی انتہ ائی خطرن اک‬
‫دوران زب انی امتح ان ان کے موض وع کی س خت قس م کی ح د بن دی س ے ذرا ب اہر ک وئی‬
‫ِ‬ ‫ڈگریاں ہیں لیکن اگ ر ان س ے‬
‫معمولی سا سوال بھی پوچھ بیٹھیں یا کسی معروف مصنف کی معروف ترین کتاب کی بابت بھی دریافت کر لیں ت و بچے‬
‫بچی کی حیرانی سے پہلے اساتذہ کی جانب سے چائے ٹھنڈی ہ ونے کی نوی د س نائی دی نے لگ تی ہے۔ اس عجلت میں وہ‬
‫نوجوان سکالر کی قسمت کا فیصلہ کرنے واال فارم ممتحن کی ط رف بڑھان ا نہیں بھول تے‪ ،‬جس کے اوپ ر پچاس ی س ے‬
‫نوے فیصد تک نمبر لگانا ممتحن کی ’شرعی مجبوری‘ قرار پا چکا ہوتا ہے۔ جدید تنقید کی اس بے معنویت اور جامعات‬
‫میں پینسٹھ کلو میٹر کی رفتار سے ہونے والی اس عجلت پسند تحقیق کا سب سے زیادہ نقصان اقبال کو ہوا ہے۔ اس جدید‬
‫تنقید کی بے شمار ادب دشمنیوں کے ساتھ ساتھ ایک دُر فنطنی’مصنف کی موت ‘ (‪ )Death of writer‬بھی ہے۔ جس کا‬
‫مطلب یہ ہے کہ کسی فن پارے کا تجزیہ کرتے ہوئے ٓاپ کا دھیان اس فن پارے کے خالق کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ ال‬
‫حول وال قوۃ… جانے یہ کس کم بخت کا نظریہ یا سازش ہے کہ مصنف یا تخلی ق ک ار ک و اس کی تخلی ق س ے ال گ ک ر‬
‫دو ۔ وہ مغرب کہ جہاں کسی کے باپ کی بابت دریافت کرنا بھی اخالقیات سے باہر کی چ یز س مجھا جات ا ہے‪ ،‬وہ اں ت و‬
‫اس تنقیدی نکتے کا کوئی جواز ہو سکتا ہے لیکن ہمیںکوئی بتائے کہ میر و غالب کی شاعری ہو یا ح الی‪ ،‬ڈپ ٹی‪ ،‬سرس ید‬
‫کا ادب‪ ،‬حالی و سرسید کا پُر ٓاشوب سیاسی دور ہو یا منٹو‪ ،‬انتظار اور ناصر کے ہج رت کے تجرب ات ‪ ،‬ان س ب کے فن‬
‫پاروں کو ان کے عہد یا مصنف کی ذاتی زندگی کے نشیب و فراز جانے بغیر کیس ے س مجھا ج ا س کتا ہے؟ اس ح والے‬
‫سے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل اقبال ہیں‪ ،‬جن کا ای ک ای ک مص رع‪ ،‬ان کی ذات‪ ،‬قل بی واردت اور اپ نے عہ د کے‬
‫ح االت کے س اتھ بن دھا ہ وا بلکہ گن دھا ہ وا ہے۔ ای ک ای ک نظم ان کی سیاس ی‪ ،‬س ماجی‪ِ ،‬ملّی‪ ،‬اخالقی‪ ،‬ادبی‪ ،‬ت اریخی‬
‫ترجیحات کے ساتھ پل کر جوان ہ وئی ہے۔ ای ک اک ش عر پہ ان کے اس لوب‪ ،‬م زاج اور لفظی ات کے دس تخط ہیں۔ اپ نے‬
‫اُردو‪ ،‬فارسی کالم میں تو وہ اپنے قاری کی انگلی پکڑ کے اس کی قدم قدم رہنمائی کرتا دکھائی دیت ا ہے۔ س ِر دس ت ہم ’‬
‫بانگِ درا‘ کے مندرجات ہی کی بات کر لیں کہ جس کی اشاعت کو اَب سو سال ہ ونے ک و ٓائے ہیں اور جس کی نظم وں‬
‫غزلوں کا ایک ایک لفظ اقبال کے ذہنی‪ ،‬قلبی جذبات ارتقائی نظری ات اور ادل تی ب دلتی ترجیح ات کے تعین کی خ بر دیت ا‬
‫ہے۔ اقبال کے بلیغ و بصیر کالم کو تو ایک ط رف رکھیں‪ ،‬ہم س مجھتے ہیں کہ ٓاج ت ک اس ع ام فہم اور ابت دائی کالم کی‬
‫کامل تفہیم کی بھی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اوپر سے ہم انھیں نئی تنقیدی اصطالحات کی بھینٹ چڑھا دیں۔‬
‫ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ صرف چند نصابی اور سرکاری قس م کے موض وعات ہیں‪ ،‬امتح انی ض روریات‬
‫کی غرض سے منتخب کیا گیا کچھ کالم ہے کہ جس کی مسلسل جگالی سے ہم اپنی طرف سے اقب ال شناس ی ک ا ح ق ادا‬
‫صرف نظر کر کے اور مغربی تنقید کی موشگافیوں پہ تین‬
‫ِ‬ ‫کیے بیٹھے ہیں۔ ٓائیے ٓاج ہم روایتی قسم کی اقبال شناسی سے‬
‫شاعر مشرق کے ابتدائی اُردو مجموعے ’بانگِ درا‘ کے ب اطن س ے جی تے ج اگتے اقب ال کی ذاتی‬
‫ِ‬ ‫حرف بھیجتے ہوئے‬
‫زندگی کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’’بانگِ درا‘‘ کہ جس کی ب ابت ش یخ عب دالقادر ک ا کہن ا ہے‪’’ :‬یہ‬
‫ٰ‬
‫دعوی سے کہا جا سکتا ہے کہ اردو میں ٓاج تک کوئی ایس ی کت اب اش عار کی موج ود نہیں ہے‪ ،‬جس میں خی االت کی یہ‬
‫فراوانی ہو اور اس قدر مطالب و معانی یکجا ہ وں‪ ،‬اور کی وں نہ ہ و‪ ،‬ای ک ص دی کے چہ ارم حص ے کے مط العے اور‬
‫تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ اور سیر و سیاحت کا نتیجہ ہے۔ بعض نظموں میں ایک ایک ش عر اور ای ک ای ک مص رع‬
‫ایسا ہے کہ اس پر ایک مستقل مضمون لکھا جا سکتا ہے۔‘‘ (دیباچہ بانگِ درا) اس حقیقت سے کون واق ف نہیں کہ اقب ال‬
‫فطرت کے نظاروں سے ٓاخری حد تک لطف اندوز ہونے کے قائل تھے۔ انھیں شہروں سے زیادہ بن اچھے لگ تے تھے‪،‬‬
‫کنار راوی تک اسی حسن سے تسکین ک ا س امان دھون ڈتے رہے۔ ’بان گِ درا‘ میں‪ ،‬ہم الہ‪،‬‬
‫ِ‬ ‫وہ دریائے نیکر سے لے کے‬
‫اختر صبح‪ ،‬حسن و عشق‪ ،‬ایک شام‪ ،‬رات اور شاعر‪ ،‬تنہائی‪ ،‬جگنو‪ ،‬صبح کا س تارہ‪،‬‬
‫ِ‬ ‫ابر کوہسار‪،‬‬
‫گ ِل رنگیں‪ ،‬عہ ِد طفلی‪ِ ،‬‬
‫محبت‪ ،‬فراق‪ ،‬ایک ٓارزو‪ ،‬شبنم اور ستارے اور کنار ِراوی جیسی بے شمار نظم وں اور متع دد غزل وں میں ہمیں فط رت‬
‫پرست‪ ،‬ماضی میں مست اور رومانیت میں پور پور بھیگا اقبال دکھائی دیتا ہے‪ :‬ہاں دکھا دے اے تصور! پھر وہ صبح و‬
‫گردش ایّام تُ و فارس ی‪ ،‬انگری زی اور اُردو کے کالس یکی ادب س ے اقب ال کے گہ رے‬
‫ِ‬ ‫شام تُو دوڑ پیچھے کی طرف اے‬
‫شغف سے ت و س ب ل وگ ٓاگ ا ہ ہیں۔ ان ک ا نہ ص رف مط العہ غض ب ک ا تھ ا بلکہ وہ اپ نے اش عار میں پس ندیدہ و مح ترم‬
‫شخصیات کو باقاعدہ خراج بھی پیش کرتے ہیں‪ ،‬جو ان کی عظمت کا ایک اور ثبوت ہے۔ ’بان گِ درا‘ میں م رزا غ الب‪،‬‬
‫لوح تُربت‪ ،‬داغ‪ ،‬شبلی و حالی‪ ،‬عرفی‪ ،‬شیکسپیئر وغ یرہ جیس ی نظم وں میں ہم ارا ای ک حقیقی س خن ش ناس اور‬
‫سید کی ِ‬
‫زم دہلی ای ک‬ ‫رفتگاں کے دلی معترف اقبال سے سامنا ہوتا ہے ‪ :‬اُٹھ گئے ساقی جو تھے‪ ،‬مے خانہ خالی رہ گی ا یادگ ِ‬
‫ار ب ِ‬
‫حالی رہ گیا‬
‫ؔ‬

You might also like