ٹھیک ایک صدی پہلے کا قصہ ہے پیر و مرشد پطرس بخاری نے ہاسٹل میں پڑھنا کہ عنوان سے ایک معرکۃ
االرا مضمون لکھا
تھا یہ دراصل ان کی حاصل ہاسٹل میں پڑھنے کے لیے حسرت ناکام کا نوحہ ہے واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ان کے بزرگوں نے انہیں الہور پڑھنے تو بھیج دیا مگر معززین شہر کی رائے کو صاحب جانتے ہوئے ان کے اخالق و کردار کے لیے ہاسٹل کو مضر سمجھا اب ارباب اختیار عرصہ دراز سے یہ مضمون درسی کتب میں پڑھا رہے ہیں اس کا مقصد طلبہ کو ہاسٹل میں پڑھنے پہ مائل کرنا یا ان کے والدین کو ہاسٹل میں داخلے سے روکنے پر قائل کرنا ہے یہ واضح نہیں 1980میں سرگودھا بورڈ سے میٹرک کرنے کے بعد ہمارے بزرگوں نے ہمارے اساتذہ کے مشورے پر جو کہ اس پسماندہ عالقے میں واحد تعلیم یافتہ لوگ تھے ہمیں گورنمنٹ کالج الہور بھیجنے کا فیصلہ کیا ان اساتذہ کا بھال ہو کہ انہوں نے ہمارے ہاسٹل میں داخلے کے بارے میں کوئی روڑے نہ اٹکائے شاید وہ ہمارے لیے الہور میں کوئی مامو تالش نہیں کر سکتے تھے یوں ہم ڈاکٹر بننے کے لیے جو اس طور کا ٹاپ ٹرینڈ تھا گورنمنٹ کالج میں داخل ہو گئے ان بھلے وقتوں میں راوی کے اس مادر علمی کو گورنمنٹ کالج بلکہ بقول ہمارے انگریزی کے پروفیسر کے ڈی گورنمنٹ کالج کہا جاتا تھا تبھی اسے یونیورسٹی کے الئق کی کی مرض الحق نہیں ہوئی تھیداخل تو ہم اقبال ہاسٹل میں ہوئے تھے مگر دنوں اس ہاسٹل کے سپریڈنٹ نور محمد صاحب ہوا کرتے تھے یار لوگوں نے انہیں داروغہ جیل کا خطاب دے رکھا تھا جو کہ بہت حد تک درست تھا بس اتنی رعایت دی جا سکتی تھی کہ انہیں کسی ملٹری اکیڈمی کا ایجوڈنٹ کہا جا سکتا تھا یہاں پہنچ کر صاحب کے ہاسٹل کے بارے میں سنائے دکھائے سپنے بکھرتے نظر انے لگے کچھ احباب نے مخپری کی کہ پطرس نے دراصل نیو ہاسٹل میں رہنے کی حسرت پالی تھی سو ہم نے بعد از خرابی ہے بسیار اپنا داخلہ نیو ہاسٹل میں کروا لیا جو تھا تو سینیئر طلباء کے لیے مگر انٹر کے بھی کچھ طلبہ کو داخلہ دے دیا جاتا تھا نیو ہاسٹل کے بالکل سامنے سڑک پر ناصر باغ واقع ہے یہ تاریخی طور پر سیاسی جلسوں کے لیے معروف تھا مگر جنرل ضیاء الحق کے مارشل نے چونکہ ایسے اجتماعات کو حرام قرار دے رکھا تھا اور ابھی تک یہاں کاروباری مصروفیات شروع نہیں ہوئی تھی لہذا صبح سویرے یہاں الہوری چہل قدمی کرتے اور ورزش کرتے تھے جبکہ شام ڈھلے ہاسٹل کے ہم جیسے بادہ نہیں پڑھنے کے نام پر محفل بپا کر دی افسوس کہ نہ صرف باغ میں پڑھنے والوں کی میں سے کوئی نامور نہ ہو سکا بکل بلکہ بقول شخص سے ان میں سے زیادہ تر نامعلوم افراد ہی بنے ہاسٹل میں ایم اے کالسز کے طلباء کی اجارہ داری تھی ایم اے انگلش کے طلبہ جو مستقبل میں سی ایس ایس کر کے افسر شاہی کا حصہ بننے کے منی تھے ان میں ابھی سے شاہانہ کروفر موجود تھا اور بال شبہ ان میں سے ایک بڑی تعداد مستقبل میں اس کا ارڈر کا حصہ بنے فائنل ایئر کے طالب علم خضر حیات گوندل جو ہمارے ہاسٹل کے پریزیڈنٹ بھی بنے تھے چند برس قبل چیف سیکرٹری پنجاب کی عہدے پر متمکن رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے ہیں اسی طرح دھیم مزاج کے جاوید غنی صاحبچیئرمین ایف پی ار کے عہدے تک پہنچے ہاسٹل کی ایک ہر دل عزیز شخصیت خالد منظور برتے جو سردیوں کی راتوں میں بانسری کی دھن االپتے تھے ہم جیسے انٹر کے طفالن مکتب دن میں ان کی زیارت جی سی کی مسجد کے پہلو میں واقع لو گارڈن میں کرتے جہاں وہ اپنی ہم جماعت اور بعد میں جو کا تھیٹر کی روح رواں مدیحہ گوہر کے ہمراز انگریزی شاعری کی گتھیاں اور معرفت کے دیگر منازل طے کرتے بعد میں دونوں نے شادی کر لی تھی مگر اس شادی کا انجام کوئی خوشگوار ثابت نہ ہوا ہاسٹل میں ایک بڑی تعداد کا تعلق سیاسیات کے طالب علموں کی تھی ملک میں مارشال کی وجہ سے وجہ سے سیاست تو شجر ممنوعہ تھی مگر ان اصحاب نے اپنے علم کا عملی اطالق کر کے ہاسٹل میں ریجیم کا ریجیم چینج کر ڈاال ان دنوں ہاسٹل کے وارڈن پروفیسر اظہر رضوی صاحب تھے اپ شعبہ نفسیات کے سربراہ تھے اپ کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ اپ لڑکوں کو نفسیات کی تعلیم کے لیے موضوع نہیں سمجھتے اور صرف ان لڑکوں کو شعبہ نفسیات میں داخلہ دیتے تھے جو منہ متھے میں مار کھاتے تھے یوں شعبہ نفسیات میں خواتین کا غلبہ تھا ان کی بھلے مانسی کی کا فائدہ اٹھا کر شعبہ سیاسیات کی طلباء کی سرکردگی میں ان کے خالف نام نہاد الزامات لگا کر احتجاج کیا گیا بعد میں بیرونی امداد کے سبب یہ عدم اعتماد ایک نگران انتظامیہ پر منتج ہوا لیکن یہ نگراں حکومت بھی نگران دور کی طرح دور برقہ بھی لمبائی چال جس کے نتیجے میں شعبہ سیاسیات سے پروفیسر امان ہللا ورک صاحب ہمارے نئے وارڈن اگئےہاسٹل میں شعبہ طبیعت کے طلباء کی اکثریت کا تعلق ان عالقوں سے اتحاد یہاں یورینیم پایا جاتا ہے دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ بعد میں ان میں سے کئی احباب نے یورینیم کی افسو کی میں بڑا نام کمایااپنے تابناک مادی کی طرح اس دور میں بھی جی سی میں معروف اساتذہ کا ایک جم گھٹا تھا مگر ہم صرف ان احباب کا تذکرہ کریں گے جن سے ہم نے تلفظ حاصل کیا مختصر عرصے کے لیے ہمیں مشہور اور ہر دل عزیز شاعر ناصر کاظمی کے صاحبزادے باصر سلطان کاظمی سے انگریزی پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا اپ سلیبس کو ایک طرف رکھ کر ناصر کاظمی صاحب کے اشعار کا انگریزی تجربہ سناتے ان کی کالس کا ایک حسن یہ بھی تھا کہ اب کسی بھی وقت کالس سے کھسک سکتے تھے اردو ہم نے دو اساتذہ سے پڑھی اور خوب پڑھی سال اول میں مشہور افسانہ نگار غالم ثقلین نبوی ہمارے ٹیچر تھے اپ تھے تو نصر نگار مگر مزاج میں درویشی شاعروں والی تھی ان دنوں میں پی ٹی وی پر ان کا ایک ڈرامہ میرا گاؤں بڑا مشہور تھا لیکن وہ اس کا تذکرہ پسند نہیں کرتے تھے پرانی نسل کے ایک سائیکل پر تشریف التے تھے سال دو ایم اے ہمیں اردو کے ٹیچر ڈاکٹر مذب اور عباس تھے اپ ڈسپلن کے معاملے میں بہت سخت تھے اپ واقعی علم کا بحر بے قراں تھے ان کی کالس میں سناٹا چھایا ہوا ہوتا تھا یوں لگتا تھا کہ علم کا ایک دریا رواں ہے موازنہ انیس و دوی پہ دیا گیا ان کا ایک لیکچر ابھی کل ہی کی بات لگتا ہےبیالوجی کے ہمارے استاد ڈاکٹر شامی کیا خوبصورت اور وجہ ادمی تھے تازہ تازہ امریکہ سے پی ایچ ڈی کر کے لوٹے تھے ان کا امریکن ایکسنٹ ادھی کالس کے سر سے گزر جاتا شروع میں ڈاکٹر فضا اور رحمن پرنسپل تھے کبھی کبھار دفتر سے باہر نکل کر چہل قدمی کرتے تو یوں لگتا جیسے کوئی سروین پرنٹس چہل قدمی کو نکال ہے بعد میں انے والے عبدالمجید عوان صاحب شاید دیہات کے کوٹے سے ائے تھے نہایت منکصر المزاج اور دھیمی مزاج کے تھے اس سنہرے دور میں ای سی اور ہاسٹل میں بیرون ملک خصوصا مشرق وسطی اور افریقی ممالک کے طلباء بھی حکیم تھے ہم جیسوں کی دوستی سوڈانی طلباء سے ہوئی کہ دونوں ایک دوسرے پر انگریزی سیدھی کرنے کی مشق کرتے تھےاوور گراؤنڈ یوں تو ہمیشہ ہی رونقوں کا مرکز ہوتا تھا لیکن اس زمانے میں وہاں پہ مصنوعی پک بنا کر راوین اور اولڈ رامی راوین کے درمیان ایک یادگار میچ میچ کھیال گیا راوین کپتان سلیم ملک تھے موصوف تھے تو ہمارے ایک طرح سے ہم جماعت ہی مگر کالج میں شاد ہی نظر ائے اولڈ راوین میں سے قابل دید بیٹنگ وسیم حسن راجہ کی تھی انہوں نے کئی دفعہ فلک شگاف شارٹ سے بال کو نہ صرف باغ تک پہنچایا خواتین تماشائیوں کی زیادہ دلچسپی ایک اور اولڈ راوی ایم سرفراز نواز سے تھی سرفراز جو کہ گھوڑا کے نام سے جانے جاتے تھے ان دنوں ان کی فلم سٹار رانی سے دوستی کے چرچے تھے لیڈیز انکلوئر سے پورے موج میچ میں ان پر مسلسل اوٹنگ ہوتی رہی اولڈ راوین میں نوجوان نواز شریف بھی تھے جو ان دنوں پنجاب کے وزیر خارجہ تھے انہوں نے بھی دو چار اچھے شارٹ کھیلے بہرحال یہ میچ راویہ نے جیت لیا اولڈ راوینز شاید اپنے ایمپائر ساتھ نہیں الئے تھے اسی اول گراؤنڈ میں ہاکی کا ایک نمائشی میچ بھی کھیال گیا جس میں اولڈ راوینز میں کچھ قومی ٹیم کے کھالڑی بھی شریک ہوئے اس میچ میں ایک ناخوشگوار واقعہ ہوا مشہور شاعر فیض احمد فیض جو ان دنوں جالوطنی کاٹ کر وطن واپس لوٹے تھے منتظمین کی درخواست پر یہ میچ دیکھ رہے ہیں اپنی مادر علمی میں تشریف الئے انہیں یہاں دیکھ کر کچھ مجاہدین کو اسالم خطرے میں نظر ایا اور ایشیا سبز ہے اور فیض کتا ہائے ہے کہ نعرے لگانے شروع دیے اس پر منتظمین نے فیض اپ سے اظہار نظامت کیا فیض صاحب نے تبسم فرمایا اور کہا کہ وہ یاران وطن کے اس سلوک کے عادی ہیں اور گراؤنڈ سے چلے گئے ہاسٹل کالج میں گاہے بگاہ مباحثے اور مشاعرے بھیہوتے تھے کالج میں بخاری ایڈوٹیریم میں اکثر رونق لگی رہتی ان دنوں احمر بالل صوفی کا بہت شہرہ تھا موصوف ملک بھر سے ٹرافیاں جیت کے التے تھے سنا ہے کہ اب وہ بین االقوامی امور کے ایک معروف فقیر ہیں اور یہ خبر نہیں کہ پاکستان کا کسی عالمی کے عدالت سے کوئی کیس جیت کے الئے ہیں یا نہیں ہمارے دور کا سب سے دلچسپ مباحثہ اوپن ایئر تھیٹر میں ہوا تھا یہ پنجابی میں تھا اور موضوع تھا بیا میرا پھا اس میں سال چہارم کے ایک صاحب نے گریبان چاک کر کے حاضرین کو تقریبا کائل ہی کر لیا اسی پھائے نہیں چڑھنا پر ایک موٹیار نے مٹھیاں مٹھیاں گالں کر کے ناصر انعام بلکہ میال بھی جیت لیا اسٹر کا ٹی وی روم رات کو پیک ار میں بھر جاتا کہ یہ پی ٹی وی کا واقعی سنہرا دور تھا لیکن کچھ مسٹنڈے قسم کے احباب دروازہ بند کر کے اور انٹینا گھما کے دور درشن پر چھتر ہار دیکھنے کی سعی بھی کرتے اس روم ٹی وی روم میں ہم نے اس صدی کی بڈنگ اف دی سینچری بھی دیکھی یہ ریڈی ڈیانا اور شہزادہ چارلس کی شادی تھی اگرچہ اس کا انجام بہت عبرت ناک ہوا ہاسٹل میں ایک چھوٹی سی الئبریری بھی تھی جس میں نوجوانی میں پڑھی جانے والی شاعری کی سب کتب موجود تھی الئبریری کے دروازے کے اوپر ایک فریم میں ناصر کاظمی کا یہ شعر اویزاں تھا دائم اباد رہے گی دنیا ہم نہ ہوں گے تو کوئی ہمسار ہوگا