Professional Documents
Culture Documents
6480 1
6480 1
ولی کو شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ اپنے زمانے کے مشہور اُستاد آزادؔ نے ولی کو ”آ ِ
ب حیات “ میں اردو ک ا پہال ؔ
صاحب دیوان اور شمالی ہندوستان کا پہال اردو شاعر کہا ہے۔ ایک زمانے تک اس بات کو س چ بھی مان ا جات ا رہ ا مگ ر
ولی س ے تقریب ا ً
جدید تحقیق نے اس بات کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ مح ّمد قلی قطب شاہ کی ُکلیات مل جانے کے بعد ،ج و ؔ
سو سال پہلے وفات پا چکے تھے ،یہ بات غلط ثابت ہوگئی ہے۔
ولی محض تاریخی اہمیت کے حامل نہیں ہیں بلکہ ان کی شاعرانہ عظمت بھی جواب نہیں رکھتی۔ حیرت ہوتی ہے کہ وہ
ؔ
صنف سخن میں قادر تھے جیسے شاعری ان کے خاندان میں بہت پہلے سے چلی آرہی ہو۔ انہ وں نے غ زل ،قص یدہ،
ِ ہر
رباعی ،مستزاد ،قطعہ اور مثنوی کے عالوہ کچھ ایسی اصناف پر بھی طبع آزم ای کی ہے ج و آج ک ل رائج نہیں ہیں۔ یہ
ّ
حص ے میں نہیں آ الگ بات ہے کہ ولی کو غزل نے اور غزل کو ولی نے جو شہرت عط ا کی وہ دوس ری اص ناف کے
سکی۔
ولی ک ا ای ک اور ادبی
ولی نے اردو غزل کو نئی وسعتوں سے آشنا کیا اور اسے ایک نیا وقار عط ا کی ا۔ اس کے عالوہ ؔ
ؔ
کار نامہ یہ ہے کہ انہوں نے شمال اور جنوب کو شعری روایات کے رشتے میں منسلک کر دیا۔ انہوں نے پہلی بار اردو
کو جغرافیائی حدود سے آزاد کر کے اسے سارے ہندوستان میں ادبی ابالغ و ترسیل کے ای ک م ؤثر وس یلے کی حی ثیت
سے روشناس کروایا ،اسے ملک گیر اہمیت کا حامل بن ا دی ا۔ ش مالی ہن د میں ریختہ کی س اکھ ک و بنای ا۔ ولی نے اپ نے ہم
عصر تمام شعراء کو کسی نہ کسی طرح متاثر کیا۔ غزل پر انھوں نے اتنے گہرے نقش م رتب ک یے ہیں کہ انکی حی ثیت
تاریخی ہو گئی ہے۔
ولی کا کالم بہت مقبول ہ وا انکے کالم کی اث ر پ ذیری اور مقب ولیت کی ای ک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے کالم میں ہن دی
الفاظ کی گھالوٹ اور فارسی کی رنگینی و شرینی بھی موج ود تھی۔ یہی نہیں بلکہ ولی ہن دی ش اعری کی روای ات س ے
1
بھی کافی متاثر تھے۔ ہندی شاعری کی روایت ہے کہ اظہ ار محبت ع ورت کی ط رف س ے کی ا جات ا ہے ،ولی نے اپ نی
ایک غزل میں عورت ہی سے اظہار محبت کروایا غزل کا مطلع ہے
ا کیا ار کرن رب ے گھ ا جن نے لی اس رت کنھٹ پ
ہوئی جوگن جوگی پی کے اسے سنسار کرنا ہے
ولی کی غزلوں کی زبان صاف اور شرین ہے۔ گو غزلوں میں خارجی پہلو نمایاں ہے مگر بر جستگی اور کیف کی وجہ
ؔ
سے بیان میں مزہ موجود ہے۔ ان کے کالم میں دل کے سوز و گداز کا اثر ملت ا ہے اور زب ان س ادہ ہ ونے کی وجہ س ے
پڑھنے کا مزہ دوباال ہو جاتا ہے کچھ اشعار مالحظہ ہوں
وتی ہے ار کھ ب بہ یس مفلس
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
یر ا فق وئی دولت ک وک ا ہے ج پای
مشتاق نہیں سکندری کا
ولی کی تشبیہات اور استعارات میں ج ّدت موجود ہے۔ ؔ
ولی کے قصیدے بھی خ وب ہیں ،قص یدے میں جت نی بھی خوبی اں ؔ
ہونی چاہیے وہ سب ولی کے قصیائد میں موجود ہیں۔ شوکت الفاظ ،زور ،روانی اور تخیل کی بلندی وغ یرہ س ب موج ود
ہیں اور ط ّرہ یہ ہے کہ مشکل زمین کے ہوتے ہوئے بھی روانی میں فرق نہیں آنے دیا۔ ؔ
ولی نے اپنی غزلوں میں س یدھی
سادھی باتیں پیش کی ہیں جن میں تغزل کے ساتھ ساتھ بعض جگہ اخالقی مضامین بھی موجود ہیں۔ مض مون آفری نی میں
قابل داد ہے۔
تخیّل کی گہرائی ِ
دام انہ م لش ر ہے مث ان پ ر زب ہ
ذکر تجھ زلف کی درازی کا
اری لگے یر ک ات قک ے عش جس
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے
ولی دکنی سے ہوتا ہے ،شاید یہی وجہ ہے کے مح ّمد حسیں آزادؔ نے انہیں اردو ش اعری
اردو شاعری کا با ضابطہ آغاز ؔ
کا ”باب ا آدم“ ق رار دی ا ہے اور انہیں اردو ش اعری میں وہی مق ام دی ا ہے ج و انگری زی ش اعری میں چاس ؔر اور فارس ی
ل ہے۔ و حاص رودگی ک
ؔ اعری میں ش
خسرو کی ق ائم ک ردہ ریختہ کی بنی اد پ ر ش عر و س خن کی وہ
ؔ ولی نے نہ صرف دکنی روایت کی پاسداری کی بلکہ امیر
ؔ
عالیشان عمارت تیار کی کہ جس نے کالسیکی اردو شاعری کی بنی اد ک و مس تحکم کی ا اور اس میں آنے والے عہ د کے
ولی کا کمال یہ ہے انہوں نے اردو غزل کے ساز پر ج و نغمے چھ یڑے،
سارے امکانات سمٹ گئے۔ دوسرے الفاظ میں ؔ
دنیائے غزل میں ان کی صدائے بازگشت آج تک سنائی دی جا رہی ہے۔
ولی نے زبان و بیان اور شعر ی مزاج کے لحاظ سے اردو شاعری کو وہ معیار اور مرکزیت عطا کی جس نے ش مال و
ؔ
جنوب کی شعری روایات کو ایک کر دیا۔ اس ضمن میں جمیل جالبی لکھتے ہیں؛
2
……ولی
ؔ ”ولی کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے شمالی ہند کی زبان کو دکنی ادب کی طویل روایت سے مال کر ایک کر دیا
سراج سے لے کر ؔ
داغ تک مختل ف ش اعروں ؔ کی غزل میں اردو غزل کی کم و پیش وہ ساری آوازیں سنائی دیتی ہیں جو
بزم معنی کی شمع روشن ہے “
کی نشانیاں بنی اور جن سے آج تک ِ
مجموعی طور پر ولی نے ایک ایسا رنگِ شاعری ایجاد کی ا جس پ ر ای رانی اث رات کے س اتھ س اتھ ہندوس تانی فض ا کی
خوشبو بھی موجود ہے۔انکی شاعری میں ہند ایرانی کلچ ر اور روای ات ک ا وہی دلکش ام تزاج و م زاج ملت ا ہے جس نے
ہندوستان میں اردو اور تاج محل کو جنم دیا ہے۔
ANS 02
اردو شاعری اور بالخصوص اردو غزل کا مرکزی موضوع ہمیشہ واردات قلبی کا بیان اور حس ن و عش ق کے تجرب ات
کا اظہار رہا ہے۔ جہاں عشق ذاتی تجربہ ہے وہاں تاثیر غزل کا الزمی جزو بن گئی ہے لیکن جہاں عشقیہ اشعار روایتی
طور پر در آئے ہیں وہاں مشاہدے کی گہرائی اور فن کی پختگی ایسے عناصر ہیں جن کی عدم موج ودگی میں غ زل ک ا
پیکر بالکل بے جان اور حسن و دلکشی سے عاری نظر آئے گا۔
عشق ہر شخص کا ذاتی تجربہ ہو نہ ہو مگر ہر ذہن میں عشق کا ایک دھندال یا واض ح تص ور ض رور موج ود ہوت ا ہے۔
فنون لطیفہ سے متعلق ہر شخص عام آدمی کے بر عکس اس کے اظہار پر بھی قادر ہوتا ہے۔غالب ایک ایسے ہی فنک ار
ہیں جن کی شاعری میں انسانی جذبات و احساسات اور مختل ف ح االت میں نفس یاتی رد عم ل ک ا جمالی اتی اظہ ار پ وری
فنکارانہ آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔
عشق غزل کا سب سے بڑا موضوع ہے۔غالب کے غزل میں عش ق ک ا تص ور کی ا ہے ؟ اس س وال کے ج واب کے ل یے
جب ہم غالب کے دیوان کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں تیسری غزل کے دوسرے شعر ہی میں غالب یوں نغمہ س ر ا مل تے
ہیں :
زا پایا ام تک بیعت نے زیس ےط قس عش
درد کی دوا پائی درد ال دوا پایا
اور پھر جوں جوں آپ ورق پلٹتے جائیں ،آپ دیکھیں گے کہ غالب کے نزدیک تو بے عشق عمر کٹ ہی نہیں سکتی۔ وہ
اسی عشق خانہ ویراں ساز کو رونق ہستی قرار دیتے ہیں۔وہ عشق کے آالم سے گھ برا ک ر س و ب ار بن د عش ق س ے آزاد
ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر کہاں ؟ اندوہ عشق کی کشمکش تو جا ہی نہیں سکتی۔ دنیا انہیں کافر قرار دیتی ہے مگر
وہ اک بت کافر کا پوجنا نہیں چھوڑتے۔ غالب جب عشق کو انسانی زندگی کے لیے اتنا ضروری قرار دیتے ہیں تو سوال
ابھرتا ہے کہ کیا عشق کوئی شعوری کوشش ہے ؟ میر کے والد میر کو عش ق اختی ار ک رنے کی ہ دایت فرم اتے۔ت و کی ا
عشق کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے ؟ان تم ام س واالت کے جواب ات غ الب کی غ زل میں موج ود
ہیں۔
غالب کی غزل میں عشق کی سطح بالکل زمینی اور انسانی ہے ،مثالی یا ماورائی نہیں۔ان کے نزدیک عش ق ای ک ایس ی
آگ ہے جسے اگر ہم لگانا چاہیں تو لگا نہیں سکتے اور اگر بجھانا چ اہیں ت و ہم ارے اختی ار میں نہیں۔عش ق ای ک ایس ی
کیفیت ہے جس میں خیال کی تمام رعنائیوں کا مرکز و محور صرف ایک شخص ہوتا ہے۔عشق زندگی کے تم ام پہل وؤں
3
پر غالب نہیں بلکہ حیات انسانی کا ایک جزو ہے۔یہ زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی متاثر کرت ا ہے اور ان س ے اث ر
قبول بھی کرتا ہے۔اس لیے مختلف حاالت میں محبوب کے ساتھ غالب کا تعلق اور محبوب کے رویوں پر ان کا رد عم ل
مختلف ہوتا ہے۔ کبھی وہ اپنے محبوب کو اپنی گردن پر مشق ناز کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور دو ع الم ک ا خ ون اپ نی
گردن پر لینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔کبھی یہ کہہ کر جان صاف بچا لے جاتے ہیں کہ میں زہر کھ ا ت و ل وں مگ ر ملت ا ہی
نہیں۔کبھی وہ صرف اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ وہ پری پیکر ان سے کھال اور کبھی محب وب کے عم ر بھ ر کے
پیمان وفا باندھنے پر بھی راضی نہیں ہوتے کہ عمر بذات خود نا پائیدار ہے۔کبھی وہ محبوب کی بے نیازی کے ب اوجود
ترک وفا پر آمادہ نہیں بلکہ تسلیم کی خو اپنا لیتے ہیں اور کبھی
وں میں ر نہیں ہ رے در پ وا ت ڑا ہ ؎دائم پ
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
رویوں میں تضاد کی وجہ شاید یہی ہے کہ عشق ساری زندگی نہیں اور زمانے میں محبت کے س وا اور بھی غم ہیں اور
یہ آالم عشق کے جذباتی نظام کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
ر میں لی کہ دہ ا تس و کی ےہ اس ری وف ت
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
غالب اور ان کے محبوب کے تعلقات میں ایک بات اہم ہے کہ غالب کا محبوب جور و جفا کا پیک ر ہی نہیں بلکہ ن وازش
ہائے بے جا بھی فرماتا ہے۔اگر وہ غالب پر مہربان نہیں تو نامہربان بھی نہیں۔ ضد کی ب ات اور ہے مگ ر و ہ س ینکڑوں
وعدے بھی وفا کر چکا ہے۔غالب ہی اس کے لیے تباہ حال نہیں اس کے چہر ے ک ا رن گ بھی غ الب ک و دیکھ ک ر کھ ل
اٹھتا ہے۔وہ غالب کو اپنی زندگی کہہ کر پکارتا ہے اور غالب کے گھر بھی آتا ہے۔غالب کا محبوب ان کی ط رح ہنگ امہ
آرا ہے۔رسوائی کی نعمت صرف عاشق کی سعی سے حاصل نہیں ہوتی :
بط میں کین و ض الم تس
ِ رع ل ،ہج ؎ہے وص
معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہیے
غالب کے اشعار میں عشق کا نظام یک طرفہ نہیں۔ خود سپردگی کا وہ عالم نہیں کہ ہر طرح کے جور و جفا کے باوجود
شیوہ تسلیم و رضا ہو بلکہ غالب کے ہاں ایک انا اور خ ود داری ہے۔ اگ ر محب وب ب زم میں بالنے ک ا تکل ف گ وارا نہیں
کرتا تو سر راہ ملنے پر وہ بھی تیار نہیں۔ اگر محبوب اپنی خو نہیں چھوڑتا تو وہ اپنی وض ع ب دلنے پ ر راض ی نہیں۔ وہ
محبوب سے سرگرانی کا سبب تک نہیں پوچھتے کہ اس میں سبک سری ہے یہاں ت ک کہ در کعبہ بھی اگ ر وا نہ ہ و ت و
الٹے پھر آتے ہیں :
ود بیں ہیں کہ ہم دگی میں بھی وہ آزادہ و خ ؎بن
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
غالب کی وفا جہاں شخصی خصوصیت ہے وہاں ا س بات کا ثبوت بھی کہ غالب کا محبوب غالب سے محبت رکھت ا ہے۔
وہ عشق میں خود سپردگی کی بجائے برابری کے خواہش مند ہیں۔وہ جب محبوب مہربان ہ و کے بالئے ت و ض رور آتے
ہیں کیونکہ وہ گیا وقت نہیں کہ پھر آ بھی نہ سکیں۔اور پھر کل تک اُس کا دل مہر و وفا کا باب بھی تھا۔
4
برابری کی سطح سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ جذبہ عشق کی بنیاد کاروب اری ذہ نیت ہے اور وہ کچھ دے اور کچھ لے پ ر
قائم ہے بلکہ غالب با وفا عاشق ہیں۔ وہ خانہ زاد زلف ہیں اس ل یے زنج یروں س ے گھ براتے نہیں۔ محب وب ک و وہ ایم ان
سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔وہ محبوب کے راز ک و رس و ا نہیں ک رتے۔وہ محب وب س ے تعل ق توڑن ا نہیں چ اہتے۔خ واہ
عداوت ہی کیوں نہ ہو تعلق قائم رہنا چاہیے۔ بلکہ وفا میں استواری ان کے نزدیک ایمان کی اصل ہے۔
اں ہے ل ایم تواری اص ر ِط اس ا داری بش ؎وف
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
ان کے نزدیک عشق اور وفا صرف سر پھوڑنا ہی نہیں اور سر ہی پھوڑنا ہو تو پھر کسی س نگ دل ک ا س نگ آس تاں ہی
کیوں ہو۔غالب ہالک حسرت پابوس ہونے کے باوجود سوتے میں محب وب کے پ اؤں ک ا بوس ہ نہیں لی تے کہ ایس ی ب اتوں
سے اس کے بدگماں ہو جانے کا خدشہ ہے۔
کہیں کہیں ایسا لگتا ہے کہ غالب کا عشق ہوس کا درجہ اختیار کر رہا ہے اور جب عرض و نیاز سے وہ راہ پر نہیں آت ا
تو وہ ا س کے دامن کو حریفانہ کھینچنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔کبھی کبھی وہ پیش دستی بھی کر دیتے ہیں۔جوابا ً محبوب
بھی دھول دھپا کرنے لگتا ہے۔ لگتا ہے کہ غالب کے ہاں ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب محبوب اس گستاخی اور بے
باکی کی اجازت دے دے۔ اور جب یہ اجازت حاصل ہو تو :
تاخی دے اکی و گس ت بے ب
ِ رم رخص ؎جب ک
ت تقصیر نہیں
کوئی تقصیر بجز خجل ِ
غالب کی غزل میں عشق کی مثلث کے تیسرے زاویے یعنی رقیب کے متعلق اش عار ک ا مط العہ ب ڑا دلچس پ ہے۔ غ الب
کے ہاں رقیب کے روایتی کردار کے خدوخال کچھ بہت مختلف نہیں مگر رقیبوں کے بارے میں غالب ک ا رویہ ب ڑا ن رم
اور لچک دار ہے۔ برا بھال کہنے اور اسے کوسنے کی بجائے وہ اسے بھی اپنی ہی طرح کا ای ک انس ان س مجھتے ہیں۔
جس کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہے۔ اس میں مومن و کافر اور نیک و بد کی تمیز نہیں۔نامہ بر رقیب ہ و گی ا ت و اس ے
برا بھال کہنے کی بجائے فرمایا
دیم و کچھ کالم نہیں لیکن اے ن ےت ؎تجھ س
میرا سالم کہیو اگر نامہ بر ملے
یعنی اسے سالم بھجوا رہے ہیں۔ اس کے لیے اس نرمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آخر وہ ہمارا نامہ بر رہا ہے۔
یے؟ ا کہ ر ہے کی و ،بش ر اس ک ا ہے دل اگ ؎دی
ہوا رقیب تو ہو ،نامہ بر ہے کیا کہیے؟
بلکہ رقیبوں سے دوستی گانٹھ لیتے ہیں۔اور محبوب کی شکایت میں اسے اپنا ہم زبان بنا لیتے ہیں۔اس طرح دونوں دل کا
پھپھولے بھی پھوڑ لیتے ہیں اور محبوب سے شکایت کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔
من کو ا ہے دش ر لی ازی ،ک رے نہ غم اک ؎ت
دوست کی شکایت میں ،ہم نے ہم زباں اپنا
5
البتہ محبوب کو اپنی طرف مائل کرنے کے عمل میں وہ رقیب وں کے مق ابلے میں س ر گ رم نظ ر آتے ہیں۔انہیں بوالہ وس
کہتے ہیں اور اپنے آپ کو اہل نظر۔
عار کی تی ش ن پرس وس نے حس ر بوالہ ؎ہ
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
عاشق صادق اور بوالہوس میں کیا فرق ہے ؟ محبوب پر واضح کرتے ہیں
ک نفس ہے علہ خس ی روغ ش
ِ ف
ناموس وفا کیا؟
ِ پاس
ِ ہوس کو
محبوب مہربان ہو تو رقیب بھی گلہ کرتا ہے اور جب محبوب انہیں بتات ا ہے کہ فالں نے یہ کہ ا ت و محب وب ک و مائ ل بہ
کرم رکھنے کے لیے قاطع دلیل دیتے ہیں :
تے ہیں ا کہ و جف یر اس ک وغ ےت ا ہم س ؎کی وف
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
بہرحال رقیب سے وہ اس قدر موافقت پر تیار ہیں کہ محبوب کا اپنا معاملہ ہے
م و راہ ہو و رس ےج یر س وغ انو تم ک ؎تم ج
ہم کو پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو؟
موافقت کی یہ سطح مومن کے ہاں اتنی بڑھ گئی ہے کہ عشق بازاری نظر آتا ہے
اٹی یر بھی ک ِل غ ب وص ؎لے ش
تو ہمیں آزمائے گا کب تک؟
غالب کا عشق بازاری نہیں۔ وہ تو عشرت گہ خسرو کی مزدوری کے جرم کی پاداش میں فرہاد کی عشق میں نک و ن امی
تسلیم ہی نہیں کرتے اور اپنی شاعری میں اس کے لیے جگہ جگہ طنز و استہزا سے کام لیتے ہیں۔
ایک چیز جو غالب کے ہاں غم عشق کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ غم روزگ ار ہے۔وہ غم دنی ا ک و غم ی ار میں ش امل نہیں
کرتے۔ غم ان کا نصیب ہیں اور غم عشق گر نہ ہوتا ،غم روزگار ہوتا۔ محبوب کے خیال سے غاف ل نہیں مگ ر رہین س تم
ہائے روزگار ض رور ہیں۔ان غم و آالم کی تالفی محب وب کی وف ا س ے نہیں ہ وتی۔اور غم زم انہ نش اط عش ق کی س اری
مستی جھاڑ دیتا ہے۔
غالب غم زمانہ کو غم عشق کے سامنے ال کھڑا کرنے واال پہال شخص ہے۔بع د میں اس رجح ان نے ب ڑی ق وت حاص ل
کی۔ عشق بہت کچھ ہے مگر سب کچھ نہیں۔اس لیے غالب کا عشق زمینی اور انسانی ہے مثالی اور ماورائی نہیں۔
عشق کا ایک تقاضا حوصلہ و استقامت بھی ہے۔غالب نہ صرف حوصلہ مندی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ ان
کے ہاں ایک طرح کی اذیت پسندی تک کا رجحان ملتا ہے۔محبوب تن عاشق کو مجروح کر کے جانے لگتا ہے تو ان ک ا
دل زخم اور اعضا نمک کا تقاضا کرتے ہیں۔تمنا بے تاب ہے مگر جانتے ہیں کہ عاشقی صبر طلب ہے۔سوز غم چھپانے
کی حکمت مشکل ہے۔ انہوں نے دل دیا تو نوا سنج فغاں نہیں ہوئے۔واقعہ سخت ہے اور جان بھی عزیز مگر
غالب
ؔ ؎تاب الئے ہی بنے گی
6
وہ تیغ و کفن باندھے محبوب کے پاس جاتے ہیں کہ قتل کرنے میں عذر ب اقی نہ رہے۔ بی داد عش ق س ے نہیں ڈرتے ہ اں
کبھی کبھی سیاست درباں سے ڈر جاتے ہیں۔وہ محبوب کو بار بار دعوت قتل دیتے ہیں۔غرض عشق کے ہ ر امتح ان میں
ثابت قدم ہیں۔
ٰ
دعوی تو کرتے ہیں مگر ان اشعار میں ان کی ظرافت بھی اپنا رن گ دکھ اتی ہے اور اپ نی غالب عشق میں جان دینے کا
جان صاف بچا لے جانے کا بندوبست بھی کر لیتے ہیں :
ات ہے از ب دا س لخ ظ وص ؎میں اور ح
طراب میں ا اض ول گی نی بھ ذر دی اں ن ج
ائے وج وا ہ وق نہ رس ؎راز معش
ِ
د نہیں انے میں کچھ بھی رج ورنہ م
ر ورنہ تم گ وس ا ہی نہیں مجھ ک ر ملت ؎زہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
مندرجہ باال تینوں اشعار میں عشق میں پا مردی پر بھی حرف نہیں آنے دیتے اور جان صاف بچا لے جاتے ہیں۔
غالب کبھی اپنے آپ پر ہنس تے ہیں کہ ص ورت دیکھ و ج و خ وب روی وں پ ر م ر رہے ہ و اور کبھی حاص ل عش ق ج ز
شکست آرزو ہونے پر تاسف کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ت اہم وہ عش ق کی اہمیت و ض رورت س ے آگ اہ ہیں۔ہ ر ش خص کی
طرح ان کی بھی خواہش ہے :
و کچھ ہو وج ا بال ہ وی رہ ؎قہ
کاش کہ تم مرے لیے ہوتے
غالب کا عشق ماورائی نہیں زمینی ہے۔ لہٰذا ان کا عشق بھی اسی مرکزی نقطے کے گرد ط واف کرت ا ہے۔ان کے عش ق
کا تانا بانا خواہشات کی انہی تاروں سے تیار ہوتا ہے۔غالب کے عشقیہ اشعار پڑھ تے ہ وئے نہ ت و ہم ار ا دل گھٹن س ے
تنگ ہوتا ہے اور نہ مومن و داغ کے عشقیہ اشعار کے مطالعے کے نتیجے میں پی دا ہ ونے والی ن ا ہنج ار مس رت س ے
دوچار ہوتا ہے۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہم جیسا انسان ہمارے جیسے جذبات ہی کا اظہار ک ر رہ ا ہے اور در
اصل یہی غالب کی زندہ و محرک قوت ہے جو اسے ہر دور میں زندہ و پائندہ رکھے گی۔
ANS 03
جوہر الزوال بخشا گیا تھا ،یہی س بب ہے کہ ان کے کالم میں
ِ داغ فطرتا ً شاعر تھے ۔انھیں قدرت کی طرف سے عشق کا
ؔ
مہمات مضامین اور جذبات خود ان کے حاالت و واردات کا نتیجہ ہیں ۔ایک تو طبیعت م وزوں پ ائی دوس رے زب ان دانی
روز مرہ محاورے پر قدرت حاصل تھی۔ چنانچہ اس وصف کی بنا پر ان کی شہرت دور دور تک پھیلتی چلی گئی۔ یہ اں
طرز سخن اور اسلوب شعر گوئی تمام اہل زبان اور شعرائ میں مقبول و معروف
ِ تک کہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کا
رہا۔ ان کا رنگ ان کے زمانے میں اس قدر مقبول ہوا کہ ہر کس وناکس ان کا رنگ اختیار کرنے کی کوشش کرنے لگا،
ائی نے بھی اپ نے دوس رے دی وان میں زی ادہ ت ر ؔ
داغ ک ا یہاں تک کہ ان کے سب سے بڑے حریف منشی ام یر احم د مین ؔ
7
داغ'' ان ک ا ادبی و ش عری س رمایہ ہے۔ ؔ
داغ کی ش اعری پ ر داغ کے چار دیوان اور ایک مثنوی ''فری ا ِد ؔ
رنگ اختیار کیا۔ ؔ
ب ؔ
داغ کے دیباچہ میں رقم طراز ہیں کہ تبصرہ کرتے ہوئے مولوی عبدالحق انتخا ِ
''داغ ؔ زب ان کے بادش اہ ہیں اور زب ان پ ر ج و ق درت انھیں حاص ل تھی وہ کس ی دوس رے ک و نص یب نہ ہوس کی۔ عالوہ
فص احت اور س ادگی کے ان کے کالم میں ش وخی ظ رافت اور خ اص ب انکپن پای ا جات ا ہے۔ ان ک ا کالم اردو زب ان کے
محاوروں اور روز مرہ بول چال ک ا خ زانہ ہے۔ مح اورے دوس روں نے بھی اس تعمال ک یے ہیں لیکن ؔ
داغ کی ط رح بے
ساختہ پن کہیں نہیں پایا جاتا ۔''
داغ کی شاعری میں دہلی کی تاریخی وتہذیبی اقدار کا بیان ہی نہیں ملتا بلکہ وہ اُس دور کا شہری اور ثقافتی منظ ر ن امہ
ؔ
بھی پیش کرتی ہے ۔ان کی شاعری میں داخلی کیفیات سے زیادہ خارجی واردات کا بی ان ملت ا ہے ۔ان کی ش اعری مجلس
و احباب کی شاعری ہے۔ جہاں محب وب کے س اتھ رقیب پ ر لعن طعن بھی ہے اور محب وب کی دلف ریب ادائ وں ،اس کی
ناز دلربائی کا بیان بھی ہے۔ ان کا محب وب روای تی ی ا خی الی نہیں ہے بلکہ گوش ت پوس ت ک ا جیتاجاگت ا
بے وفائیوں اور ِ
انسان ہے ،جو وصل کی لذت سے ؔ
داغ کا دامن بھرتا ہے اور کبھی ناز و نخ رے دکھ اکر ان کے دل ک و تڑپات ا بھی ہے ۔
ان کا محبوب اسی دنیا کا باشندہ ہے ۔جس کی رعنائیوں اور حسن کی دلفریبیوں ک و دیکھ ک ر ؔ
داغ ک ا دل مچ ل مچ ل جات ا
ہے اور وہ کہہ اٹھتے ہیں ؎
ہر ادا مستانہ سر سے پائوں تک چھائی ہوئی
اُف تری کافر جوانی جوش پر ٓائی ہوئی
چاندسے چہرے پر کیوں ڈالی نقاب
چاند یہ کیسا گہن میں ٓاگیا
ؔ
داغ کا عاشقانہ مزاج خاص موسم کا مرہ و ِن منت نہیں ہے بلکہ ہ ر موس م میں ان پ ر ای ک س رور کی س ی کیفیت ط اری
رہتی ہے ۔ وہ اپنی نگاہوں کی تسکین کے لیے کسی خوش رو پری جمال ،ن ازک ان دام ص ورت کی تالش میں س رگرداں
نظر ٓاتے ہیں ۔ مثالً ؎
وہ پھول والوں کا میلہ ،وہ سیر باغ اے ؔ
داغ
وہ روز جھرنوں پہ جمگھٹ پری جمالوں کا
شباب کی رعنائیوں سے بدمستی کی کیفیت میں مبتال ہو کر ہوس کی تسکین کی تمنا میں وہ ح رام و حالل کے چک ر میں
نہیں پڑتے بلکہ جی کھول کر دا ِد عیش دیتے ہیں ۔ لیکن اس طرح کے عشقیہ جذبات کے اظہار میں ان کے یہ اں ج ؔ
رٔات
اوررنگین کی طرح پھکڑپن یا بازاری پن نہیں ملتا بلکہ ایک طرح کا سلیقہ پایاجاتا ہے۔ کہتے ہیں ؎
ؔ
عشق بازی کو ہے سلیقہ شرط
یہ گنہ بھی ہے اور ثواب بھی ہے۔
داغ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان ک امحبوب گوش ت پوس ت ک ا ای ک انس ان ہے۔ محب وب کے س اتھ ؔ
داغ ک ا برت ائو ؔ
برابری کا ہے۔ ان کے یہاں ٓاپس ی ن وک جھون ک ،کبھی کبھی تلخی کی ص ورت بھی اختی ار ک ر لی تی ہے اور یہی تلخی
کہیں کہیں طعن و تشنیع کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے،تو کہیں غم و غصہ کے روپ میں مثالً ؎
8
اک نہ اک ہم لگائے رکھتے ہیں
تم نہ ہوتے تو دوسرا ہوتا
جواب اس طرف سے بھی فی الفور ہوگا
ؔ
داغ کے کالم میں محبوب سے ٓاپسی چھیڑ چھاڑ کہیں کہیں ۔
ؔ
داغ کا محبوب و مرغوب موضوع ،حسن و جوانی اور اس کے لوازمات کا بیان ہے جو ان کے اپ نے تجرب ات ک ا ن تیجہ
ہےں ۔ اسی سبب ان کے بیان میں حقیقت اورٓافاقیت کا عنصر نمایاں ہے۔ وہ عشقیہ معامال ت کی گلکاریاں،
ؔ
داغ کی زبان میں بالکی سادگی اور فصاحت کا دریا موجزن ہے۔ بی ان کی بے تکلفی کی ص ناعانہ مہ ارت جس نے اردو
شعروشاعری کو نہ صرف ان کے قلم سے بلکہ ان کے ہزاروں شاگردوں کے ہاتھوں نیا رنگ و ٓاہنگ عط ا کی ا ۔ان کے
اشعار میں مکالمہ بازی نے دو بدو کی چوٹیں سکھائیں اور شاعری کو تکلفات کی قی د س ے ٓازاد ک رکے بے تکلفی س ے
ہمکنار کر دیا۔ انھیں خصوصیات نے ان کی شاعری کو شہرت عام عطا کی۔
ؔ
داغ کی زبان میں بالکی سادگی اور فصاحت کا دریا موجزن ہے۔ بی ان کی بے تکلفی کی ص ناعانہ مہ ارت جس نے اردو
شعروشاعری کو نہ صرف ان کے قلم سے بلکہ ان کے ہزاروں شاگردوں کے ہاتھوں نیا رنگ و ٓاہنگ عط ا کی ا ۔ان کے
اشعار میں مکالمہ بازی نے دو بدو کی چوٹیں سکھائیں اور شاعری کو تکلفات کی قی د س ے ٓازاد ک رکے بے تکلفی س ے
ہمکنار کر دیا۔ انھیں خصوصیات نے ان کی شاعری کو شہرت عام عطا کی۔ ؔ
داغ کا کالم تمام تر محاسن سے پُر ہے ؎
دیکھو تو ذرا چشم سخن گو کے اشارے
ٰ
دعوی ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا پھر تم کو یہ
;جائو بھی کیا کرو گے مہرو وفا
بارہا ٓازماکے دیکھ لیا
ؔ
داغ نے زوائد سے اپنے کالم کو پاک رکھا ،یہی سبب ہے کہ ان کے اشعار رواں زور دار اور م ٔوثر ہیں ۔ وہ ج ذبات ک ا
اظہار نہایت سلیس اور عام فہم زبان میں کرتے ہیں اس لیے ان کے اشعار ہمیشہ دلوں پر تیرو نشتر ک ا ک ام ک رتے ہیں ۔
خوبی محاورہ اور
ٔ ان کے اکثر اشعار میں جرٔات ؔکی سی معاملہ بندی اور زندگی کی صفائی ملتی ہے ۔اس پر طرّہ یہ کہ
لطف زبان نے ان کے اشعار کو دلکش اور پُراثربنادیا ہے۔ ۔
ِ
شعرا ئے متاخرین میں ؔ
داغ کا مرتبہ نہایت بلن د اور اہم ہے۔ ان ک ا کالم س ننے والے کے دل میں ای ک کیفیت پی دا کردیت ا
شاعر خ دا داد ہ ونے
ِ غالب کے ہم پلہ نہ ہوسکے لیکن ان کے
ؔ ٓاتش ،ذوقؔ اور
ہے ۔جس کو تاثیر سخن کہا جاتا ہے ۔گو وہ ؔ
میں کوئی شک نہیں ہے ۔جو شعرا ن کی زبان سے نکلتا ہے تاثیر میں ڈوبا ہ وا ہوت ا ہے۔ ان ک ا تم ام کالم ان کی ط بیعت
کے قدرتی رنگ میں ڈوبا ہوا ہے ۔وہ ایک خاص طرز کے مالک ہیں جو ایک حد تک انھیں سے منسوب ہے ۔
ب نفس کا پردہ چ اک کی ا ہے ؔ
داغ نے اپنے کالم میں اپنے عشق کی داستانوں اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں اور اپنے فری ِ
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ؔ
داغ مصلحت پسند اور دور اندیشی سے کوسوں دور تھے ۔ان کی شاعری میں حق گوئی ،ح ق
ت خود عشق میں مبتال ہو کر اپنی دلی واردات اور کیفیات کو اشعار کا جامع پہنا ک ر
پسندی پائی جاتی ہے ۔انھوں نے بذا ِ
صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے۔ ان کا عشق حقیقی نہیں بلکہ مجازی ہے۔
9
داغ نے غالم حسین شکیبا کے صاحبزادے مولوی سید احم د حس ین س ے فارس ی اور اردو کی تعلیم حاص ل کی۔اس دور
معلی کے ادبی
ٰ کے مشہور خوش نویس سید ام یر پنجہ کش دہل وی س ے فن خ وش نویس ی میں مہ ارت حاص ل کی ۔ قلعہ
ماحول اور بہادر شاہ ظفر کی سرپرستی نے داغ کو شعر و ش اعری کی ط رف مائ ل کی ا ۔ داغ ش اعری میں اب راہیم ذوق
معلی میں آئے دن ادبی مشاعرے ہوا ک رتے تھے
ٰ معلی میں مرزا غالب کا تو آنا جانا تھا اور قلعہ
ٰ کے شاگرد ہوئے ۔ قلعہ
جس میں بہادر شاہ ظفر موجود رہتے وہ خود بھی اردو کے پر گو شاعر اور نیک دل شہنشاہ تھے۔ اُن کا درب ار علم اء ،
شعراء اور اہل ہنر کا ملجا و ماوا تھا ۔ داغ نے شاعری کے میدان میں قدم رکھ ا ت و ہ ر ط رف غ الب ،ذؤق ،م ومن اور
معلی کے اندر اور باہر ان ش عراء کے فک ر و فن ک ا ط وطی ب ول رہ ا تھ ا ۔ غ الب
ٰ ظفر کی شاعری کی دھوم تھی ۔ قلعہ
فلسفیانہ مضامین اور مسائل تصوف کے باب میں بیان کے دریا بہا رہے تھے ۔ استاد ذوق زبان و محاورے کو جال دینے
میں مصروف تھے ۔ داغ نے بھی شعر و ش اعری اور ادب میں ایس ے ج وہر دکھ ائے ہیں جس کے اجلے نق وش آج بھی
نمایاں ہیں۔ داغ بنیادی ط ور پ ر غ زل کے ش اعر ہیں۔ غ زل ان کی محب وب ص نف س خن ہے ۔ اس کے عالوہ انہ وں نے
دوسری اصناف سخن میں بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ داغ نے اپنے کالم میں اس دور کے ح االت ک و س مودیا ہے۔ گل زار
داغ ،مہتاب داغ اور فریاد داغ ،آپ کی اہم شعری تصانیف ہیں ۔ داغ کی شخصیت اور شاعری کے غالب ،ذوق ،مومن
،صہبانی اور ظفر سبھی مداح تھے اور ان کو ہونہار سمجھتے تھے ۔ بہادر شاہ ظفر اور امام بخش ص ہبانی پ ر ت و داغ
کی شاعری کا جادو چل چکا تھا ۔ دلی کے زینت باڑی محلے میں ''ایک طرحی'' مشاعرہ منعق د ہ وا تھ ا جس میں ن امور
شعراء شریک تھے جب داغ نے اپنا کالم پیش کیا تو امام بخش صہبانی جھ وم اٹھے اور خ واب داد دی اور داغ ک و گلے
لگالیا تھا ۔ داغ نے جو شعر پڑھا تھا وہ اس طرح تھا۔
لگ گئی چپ تجھے ائے داغ حزیں کیوں ایسی
مجھ کو کچھ ال تو کم بخت بنایا ہوتا
احسن مارہروی نے داغ کی شاعرانہ صالحیتوں کے کچھ واقعات بیان کئے ہیں۔ نواب مصطفی خان شیفتہ کے ہ اں ای ک
مشاعرہ منعقد ہوا تھا اور کئی نامور شعراء شریک تھے ۔ داغ نے اپنی غزل سنائی تو سب لوگ حیرت میں پڑگئے ۔ داغ
کی غزل کا مطلع اس طرح تھا :
شرر و برق نہیں شعلہ و سیماب نہیں
کس لئے پھر یہ ٹھہرتا دل بیتاب نہیں
الب داغ کی شخص یت اور ش اعری کے ب ڑے م داح تھے اور داغ ک و ہونہ ار س مجھتے تھے۔ بق ول داغ میں نے
مرزا غ ؔ
مرزا غالب کی مشہور غزل:
حال دل پہ ہنسی
آگے آتی تھی ِ
اب کسی بات پر نہیں آتی
مرزا غالب بے چین ہوگئے ۔ زانوں پر ہاتھ مار کر بولے ''خدا نطر بد سے بچ ائے ص احبزادے تم نے ت و کم ال کردی ا''۔
داغ ازل سے ہی عشق کا جذبہ اپنے دل میں لیکر پیدا ہوئے تھے ۔ وہ سانس بھی لیتے تھے ت و عش ق کی چھ ری ان کے
قلب و جگر میں پیوست ہوتی تھی ۔ ان کے ہاں عشق کی بے انتہا شدت ہے ۔ والہانہ جذبات ،لطافت زبان ،ن زاکت الف اظ
10
و بیان ،محاوروں کا برمح ل اس تعمال ،ت رنم اور س وزو گ داز داغ کی ش اعری ک ا مخص وص رن گ ہے ۔ داغ نے اپ نی
شاعری میں عاشقانہ زندگی کی بہترین مرقع کشی کی ہے اور ان کی کہی ہوئی غزلیں اس بات کا ثب وت پیش ک رتی ہیں۔
اُن کے اشعار میں ترنم ،دلکشی اور سوز و گداز بدرجہ اتم موج ود ہے۔ داغ نے غ زل جیس ی روای تی ص نف س خن میں
ایک دلکش اور منفرد اسلوب کی بنیاد ڈالی ہے ۔ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی داغ کی ش اعری اپن ا خ اص
اثر رکھتی ہے۔
آڑے آیا نہ کوئی مشکل میں
مشورے دے کے ہٹ گئے احباب
اعلی حضرت نواب میر محبوب علی خان بہ ادر آص ف ج اہ س ادس والی حی درآباد (دکن) داغ کی شخص یت اور ش اعری
ٰ
اعلی حضرت غفران مک ان
ٰ کے مداح تھے اور ریاست حیدرآباد (دکن) کے عوام بھی داغ کی شاعری کے شیدائی تھے ۔
آصف جاہ سادس 17اپریل 1888ء کو فرمان جاری کیا اور بڑی خواہش سے دا غ ک و حی درآباد (دکن) طلب فرمای ا تھ ا
اور داغ حیدرآباد تشریف الئے اور شاہ دکن کی نوازشوں کے مورد ہوئے اور س اڑھے چ ار س و روپ ئے م اہوار تنخ واہ
عطا کی گئی اور تین برس تک یہی ماہوار ملتی رہی اور اس کے بعد ساڑھے پ انچ س و روپ ئے ک ا اض افہ ک رکے ای ک
ہزار روپئے وظیفہ ماہوار مقرر ہوا جو تاحیات جاری رہا ۔ داغ جس آرام و سکون کے متالشی تھے 1857ء کے بعد ان
کو رام پور اور حیدرآباد (دکن) میں نصیب ہوا ۔داغ ''استاد سلطان'' کے باوقار خط اب س ے بھی ن وازے گ ئے اور جہ ان
اعلی اع زازات س ے بھی س رفراز ہ وئے ۔ داغ نے غف ران مک ان
ٰ استاد فصیح الملک ناظم یار جن گ دب یر ال دولہ جیس ے
آصف جاہ سادس کی بے انتہا نوازشوں کا ذکر اپنے اس شعر میں کیا ہے ۔
ہے الکھ الکھ شکر ائے داغ ان دنوں
آرام سے گزرتی ہے شاہ دکن کے پاس
داغ کا قیام محلہ ،افضل گنج حیدرآباد میں رہا ۔ داغ کی حیدرآباد میں مقبولیت اور ش ہرت ک ا راز ان کی خ وش اخالقی ،
ملنساری ،خودداری اور ہمدردی ہے ۔ داغ کے حیدرآباد آنے سے پہلے لوگ ان کے نام اور کام سے اچھی ط رح واق ف
تھے ۔ داغ کے آنے سے قبل ہی ان کا شعری دیوان ''گلزار داغ'' حی درآباد پہنچ چک ا تھ ا اور ''دال من ڈی'' کے ناٹ ک ج و
حیدرآباد میں پہلی بار قائم ہوئی تھی ،داغ کی غزلیں گائی جاتی تھیں اور لوگ بڑے ہی اشتیاق سے ان کی غزلیں سنتے
تھے اور اکثر لوگ ان سے خط و کتابت کے ذریعہ شاگرد ہوچکے تھے ۔ داغ کے حیدرآباد آتے ہی ان کی قدر و م نزلت
میں اضافہ ہوگیا ۔ ارباب اقتدار مہاراجہ چندوالل شاداب ،مہاراجہ کشن پرشاد شاد اور دوسرے ام راء داغ کی شخص یت
اور شاعری کے بڑے مداح تھے اور شاہ دکن آصف جاہ سادس پر تو داغ کی شاعری کا جادو چ ل چک ا تھ ا ۔ داغ نہ ایت
شریف النفس اور نیک دل انسان تھے ۔ انہوں نے زن دگی میں کبھی ش راب ک و ہ اتھ نہیں لگای ا اور نہ کس ی کے کالم پ ر
اعتراض کیا اور نہ کسی معترض کو جواب دیا اور نہ کسی سازش وں میں مل وث رہے ۔ داغ کے ام یروں ،رئیس وں اور
ارباب اقتدار سے گہرے مراسم تھے اور وہ ہر سبھی سے ملتے تھے مگر وہ غریب وں س ے بھی اک ڑتے نہ تھے۔ یہ تھ ا
شائستہ تہذیبی ورثہ جس کے داغ تنہ ا وارث تھے ۔ ش اعری میں والہ انہ ج ذبات ،لط افت زب ان ،ن زاکت الف اظ و بی ان ،
محاوروں کا بر محل استعمال ،ترنم اور سوز و گداز داغ ک ا مخص وص رن گ ہے ۔ داغ نے اپ نی ش اعری میں عاش قانہ
11
زندگی کی بہترین مرکش کی ہے ۔شاعر مشرق عالمہ اقبال جو اردو زبان و ادب کے مشہور شاعر و مفکر گ زرے ہیں،
انہیں داغ دہلوی سے شرف تلمذ حاصل تھا ۔ وہ داغ کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح تھے ۔ حضرت امیر مینائی
جو 5ستمبر 1900ء کو حیدرآباد تشریف الئے اور حیدرآباد آکر اپنے دی رینہ رفی ق داغ کے مہم ان ہ وئے لیکن قض ا و
قدر نے انہیں یہاں زیادہ عرص ہ قی ام کی اج ازت نہیں دی اور 13اکت وبر 1900ء ک و آپ نے انتق ال فرمای ا اور آپ کی
آخری آرام گاہ حیدرآباد میں ہے ۔ داغ نے اپنے دیرینہ احباب کی مفارقت کی طرف اشارہ کرتے ہ وئے اس ط رح فرمای ا
تھا ۔
داغ اس ضعف نے کی اپنی تو منزل کھوئی
ہم رہے جاتے ہیں سب یار چلے جاتے ہیں
1891ء میں داغ نے اپنی رفیقہ حیات فاطمہ بیگم کو حیدرآباد بلوالیا تھا جو یہاں ( )7سال اور چند ماہ کے قیام کے بع د
1898ء میں انتقال فرمائیں جس کا داغ کو گہرا صدمہ ہوا ۔ اس کے بعد داغ کی طبیعت آہستہ آہستہ ان کا ساتھ چھ وڑنے
لگی اور داغ بیمار رہنے لگے ۔ ''دبدبہ آصفی'' 6ذی الحجہ 1322ھ میں داغ کے م رض الم وت کی تفص یل ش ائع ہ وئی
تھی ۔ مہتمم لکھتے ہیں کہ داغ آٹھ دن تک بستر عاللت پر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتال رہے۔ بائیں جانب ف الج
کے حملے کی وجہ سے جسم کا ایک حصہ بے حس ہوگیا تھا ۔ عبدالمجید آزاد کا بیان نور ہللا محمد نوری نے اس ط رح
نقل کیا ہے کہ ''داغ کو آخری زمانہ حیات میں اپ نی زن دگی س ے ک وئی دلچس پی ب اقی نہیں رہی تھی اور انہ وں نے آزاد
سے کہا تھا کہ اب مجھے عطر کی بو محس وس نہیں ہ وتی ،گان ا س نوں ت و وحش ت ہ ونے لگ تی ہے ۔ غ زل کہ نے اور
سننے سے طبیعت دور بھاگتی ہے ۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ اب میری زندگی کے دن ختم ہوچکے ہیں''۔
ہوش و حواس تاب و تواں داغ جاچکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
ANS 04
حالی ؔ کے مسدس نے اردو میں قومی شاعری کی بنیاد ڈالی۔مسدس لکھے جانے کی تہذیبی و سماجی وجوہ ات بھی تھیں۔
1857ء کے حاالت کے بعد مسلمانوں کو ایک طرح سے زوال آگیا تھا۔ مغلیہ سلطنت اورج اگیر داری نظ ام کے خ اتمے
کے بعد بے ہنر مسلمانوں اور ہندوستانیوں کے سامنے معاشی بدحالی کا اندھیرا چھای ا ہ وا تھ ا۔ دین س ے دوری اور بے
جا رسم و رواج میں پھنسے مسلمانوں کے لئے کوئی راس تہ نہیں تھ ا۔ کہ ا جات ا ہے کہ جس جگہ ت اریکی ہ وو ہیں س ے
روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ خواب غفلت میں ڈوبی قوم کو سیدھا راستہ دکھ انے کے ل ئے ای ک مس یحا کے روپ میں
سرسید احمد خاں ہندوستان کی تہ ذیبی و س ماجی زن دگی کے اف ق پ ر ای ک روش ن س تارے کی مانن د ابھ رے۔ انہ وں نے
محسوس کیا کہ مسلمانوں کی ترقی تعلیم کے حص ول میں مض مر ہے اور یہ کہ اس ق وم ک و خ واب غفلت س ے جگ انے
بلی ‘ن ذیر احم د‘ آزاد اور دیگ ر رفق اء کے س اتھ ای ک س ماجی تحری ک
کے لئے کچھ کرنا چاہئے۔ انہوں نے ح الی ؔ ‘ش ؔ
شروع کی جسے اردو ادب کی تاریخ میں علی گڑھ تحریک کہا جات ا ہے۔ سرس ید چ اہتے تھے کہ ق وم ک و جھنجھ وڑنے
کے لئے کوئی ایسی شاہکار نظم لکھی جائے جس میں مسلمانوں کا شاندار ماض ی بھی دکھای ا ج ائے اور موج ودہ پس تی
کے ساتھ مستقبل کی راہ بھی دکھائی جائے۔ انہوں نے دیکھا کہ حالی ؔ پرانی شاعری س ے ب یزار تھے اور اردو میں نظم
12
نگاری کے تجربے کر رہے تھے چنانچہ انہوں نے حالی ؔ سے مسدس لکھنے کی فرم ائش کی۔ح الی ؔ بھی پ رانی غ زلیہ
حالی اپنی کیفیت کے ب ارے میں مس دس میں
ؔ شاعری سے بیزار تھے اور ادب کی مقصدیت کے لئے کام کر رہے تھے ۔
تے ہیں: لکھ
زمانے کا نیا ٹھاٹھ دیکھ کر پرانی شاعری سے دل سیر ہوگیا تھ ا۔ اور جھ وٹے ڈھکوس لے بان دھنے س ے ش رم آنے لگی
تھی۔ نہ یاروں کے ابھاروں سے دل بڑھتا تھا نہ ساتھیوں کی ریس سے کچھ جوش آتا تھا۔ مگر کہ ایک ناسور کا منہ بن د
کرنا تھا جو کسی نہ کسی راہ سے تراوش کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔اس لئے بخارات درونی جن کے رکنے س ے دم گھٹ ا
جاتا تھا دل و دماغ میں تالطم کر رہے تھے اور کوئی رخنہ ڈھونڈتے تھے۔ قوم کے ایک سچے خیر خ واہ نے ج و اپ نی
قوم کے سواتمام ملک میں اسی نام سے پکارا جاتا تھا اور جس طرح خود اپنے پرزور ہاتھ اور ق وی ب ازو س ے بھ ائیوں
کی خدمت کر رہا تھا اسی طرح ہر اپاہج اور نکمے کو اسی کام پ ر لگان ا چاہت ا تھ ا آک ر مالمت کی اور غ یرت دالئی کہ
حیوان ناطق ہونے کا دعوی کرنا اور خدا کی دی ہوئی زبان سے کچھ کام نہ لین ا ب ڑے ش رم کی ب ات ہے۔۔۔ ہ ر چن د اس
حکم کی بجا آوری مشکل تھی اور خدمت کا بوجھ اٹھانا دشوار تھا ۔ مگر ناصح کی جادو بھ ری تقری ر جی میں گھ ر ک ر
گئی۔ دل سے ہی نکلی تھی دل میں جاکر ٹہری۔ برسوں کی بجھی ہوئی طبعیت میں ایک ولولہ پیدا ہ وا ۔ باس ی ک ڑی میں
ابال آیا۔ افسردہ دل بوسیدہ دماغ جو امراض کے متواترحملوں سے کسی کام کے نہ رہے تھے انہیں سے ک ام لین ا ش روع
الم۔ص۔ ۳۔)۴ دوجزر اس دس م الی۔ مس ین ح اف حس اد ڈالی۔ ( الط دس کی بنی ک مس ا اور ای کی
ان خیاالت کے ساتھ حالی ؔ نے سرسید کی فرمائش پر لبیک کہا اور یہ شہرہ آفاق نظم’’ مسدس م دوجزر اس الم ‘‘ لکھی۔
جس پر سب سے اہم تاریخی تبصرہ سرسید نے کیا جب کہ انہوں نے مس دس دیکھ ک ر کہ ا کہ’’ اگ ر خ دا نے مجھ س ے
پوچھا کہ دنیا سے کیا الئے ہوتو ،میں کہہ دوں گا کہ حالی سے ْمس ّدس لکھواالیا ہوں۔‘‘مسدس کی اس سے اچھی تعریف
اور کسی نے نہیں کی۔حالی ؔ نے یہ نظم لکھنے کے لئے مسدس کا فارم استعمال کیا۔ مس ّدس چھ مص رعوں والی نظم ک و
کہتے ہیں ،اس کے ہر بند میں چھ مصرعے ہوتے ہیں۔ اس کے پہلے چار مص رعے ہم ق افیہ ہ وتے ہیں اورآخ ری ش عر
کسی اور قافیہ میں آت ا ہے۔ مسلس ل واقع ات ،یع نی ق ومی ،سیاس ی اور اخالقی موض وعات کی ادائیگی کے ل یے مس ّدس
نہایت موزوں صنف ہے۔اس میں روانی ہوتی ہے اور اثر انگیزی بھی۔ اردو میں اگرچہ مس ّدس کس ی ال گ ص نف س خن
کی حیثیت نہیں رکھتی ،تاہم یہ اردو شاعری کا اہم جز ہے ،عربی اور فارسی شاعری میں مس ّدس کاوجود نہیں ہے۔ لیکن
حالی کا مدوجزر اسالم اور عالمہ اقبال کا شکوہ وجواب شکوہ چونکہ اس طرز میں لکھا گیا ہے ،لہٰ ذا نظم کی
ؔ اردو میں
اس صورت کو کافی اہمیت حاصل ہوچکی ہے۔اس کے عالوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس زمانہ میں کربال اور اہ ِل بیت
کے واقعات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ْمس ّدس سمجھا جاتا تھا۔ اس طرز میں غم والم کی داستانیں سْنا سْنا کر لوگ وں ک و
حالی ہی حقیقتا ً قوم ک ا م رثیہ بھی لکھ رہے تھے ،ل ٰہ ذا انھ وں نے ْمس ّدس ک و اس مقص د کے ل یے
ؔ رْ الیا جاتا تھا؛ چونکہ
موزوں ترین صنف تصوّر کیا اور اسی ک و اپنای ا۔ اس وقت مثن وی محض رزم وح زن کے واقع ات کے ل یے مخص وص
ہوچکی تھی ،ل ٰہذا ممکن نہ تھا کہ اس کے ایک ایک شعر میں تاریخ کے عالحدہ واقعات ک ا ذک ر کی ا جات ا۔ اس ل ئے بھی
حالی نے ْمس ّدس کو اپنایا ،اس کے ہربند میں الگ الگ واقعات کے تذکرہ کی گنجائش تھی،اس میں تمام واقعات سامع پ ر
کتا ہے۔ ذ کرس تیجہ اخ حیح ن اری ص ے ہرق اتے ہیں ،جس س امنے آج رس لک کھ
13
حالی ؔ کی مسدس کی مقبولیت کی ایک وجہہ بھی اس کا فارم ہے کہ ایک ایک بن د میں ب ات بی ان کی ج ائے اور بن د کے
آخری دو مصرعوں میں بات کو انجام تک پہونچایا جائے۔مسدس کو اردو کی پہلی طویل ق ومی نظم کہ ا گی ا۔اس نظم میں
حالی نے مسلمانوں کی مذہبی ،تہذیبی اور علمی زندگی کا ارتقا دکھایا ،ظہ ور اس الم اور مس لمانوں کے زوال کی کہ انی
ؔ
پیش کی۔ نظم کا مقصد ایک طرح سے قومی بیداری اور اس ناقابل تالفی نقصان ک ا ازالہ کرن ا مقص ود تھ ا ،ج و معاش ی
اور اخالقی تن ّزل کی وجہ سے ظہور میںآ یا ہے ،اس کے لیے شاعر نے ان تمام عیوب اور کمزوریوں ک و انتہ ائی م وثر
اور درد انگیز طریقہ سے بیان کیا ہے۔ اس کا مقصد احساس زیاں ک و بی دار کرن ا تھ ا اور مس لمانوں کی پس تی ک ا عالج
ا کہ: وئے لکھ رتے ہ ان ک ارف بی الی تع ا اجم دس ک الی نے مس ود ح بھی۔ خ
ور
’’اس مسدس کے آغاز میں پانچ سات بند تمہید کے طور پر لکھ کر عرب کی ابتر حالت کا خاکہ کھینچ ا ہے ،ج و ظہ ِ
اسالم سے پہلے تھی اور جس کا نام اسالم کی زبان میں جاہلیت رکھا گیا تھا ،پھر کوکب اسالم کا ظہور ہونا اور نبی ْا ّمی
کی تعلیم سے اس ریگستان کا سرسبز وشاداب ہوجانا اوراس ابررحمت ک ا ہ را بھ را چھ وڑ جان ا اور مس لمانوں ک ا دی نی
ودنیوی ترقیات میں تمام عالم پر سبقت لے جانا بیان کیا ہے۔ اس کے بعد ان کے تن ّزل کا حال لکھا ہے اور ق وم کے ل یے
اپنے بے ہنر ہاتھوں سے ای ک آئینہ بنای ا ہے جس میں آک ر وہ اپ نے خ دوخال دیکھ س کتے ہیں کہ ہم ک ون تھے اور کی ا
الم۔ص۔۳۔)۴ دوجزر اس دس م الی۔ مس ین ح اف حس ئے۔‘‘ ( الط ہوگ
ا ہے ے ہوت اعی س از اس رب ا آغ دس ک مس
ا دیکھے ے گزرن دس وئی ح اک تی ک پس
ا دیکھے ر نہ ابھرن رک اگ الم ک اس
زر کے بعد د ہے ج انے نہ کبھی کہ م م
دس ۔ ص۔)۱ ا دیکھے ( مس و اترن ارے ج ا ہم اک دری
مسدس میں خیاالت کی روانی ہے اور د لسو ز انداز میں بات کہی گ ئی ہے۔ مس لمانوں کی پس تی ک و بی ان ک رتے ہ وئے
تے ہیں: الی کہ
ؔ ح
ا ہے وم ک ا میں اس ق ال دنی یہی ح
را ہے ا گھ از آکے جس ک ور میں جہ بھن
ا ہے اں بپ ارہ ہے دور اور طوف کن
ا ہے ردم کہ اب ڈوبت اں ہے یہ ہ گم
تی ل کش ر اہ روٹ مگ تے ک نہیں لی
تی ل کش بر اہ وتے ہیں بے خ ڑے س پ
الی نے پیغم بر اس الم حض رت محم د ص لی ہللا علیہ وص لم کی بعثت
عرب کی جہالت اور پستی بی ان ک رنے کے بع د ح ؔ
ا۔ ان کی و بی نی ک الم کی روش ئی اس ے الئی گ انب س ارکہ اور آپﷺ کی ج مب
و پڑھایا ا ان ک ریعت ک رش بق پھ س
ک اک بتایا و ای ر ان ک اگ حقیقت ک
14
و بنایا وؤں ک ڑے ہ انے کے بگ زم
و جگایا وؤں ک وتے ہ بہت دن کے س
اں پر ک جہ و راز اب ت کھلے تھے نہ ج
دس ۔ص )۲۰ ر ( مس اک ردہ اٹھ کپ وہ دکھال دئے ای
مسدس میں آپ ﷺ کی شان میں کہے گئے وہ نعتیہ اشعار بھی ہیں جو اکثر محافل نعت میں پڑھے جاتے
ہیں۔
انے واال بیوں میں رحمت لقب پ وہ ن
ر النے واال وں کی ب رادیں غریب م
ام آنے واال یروں کے ک یبت میں غ مص
انے واال ا غم کھ رائے ک نے پ وہ اپ
ٰ
اوی ام عیفوں ک اض ا ملج یروں ک فق
)۲۲ دس ۔ص ولی ( مس
ٰ ام وں ک ا والی غالم تیموں ک ی
تے ہیں: الی کہ وئے ح رتے ہ ان ک ال بی اح تی ک تانیوں کی پس ہندوس
راز ہیں ہم ومت کے ہم ل حک نہ اہ
رفراز ہیں ہم اریوں میں س نہ درب
زاز ہیں ہم ایان اع وں میں ش نہ علم
از ہیں ہم رفت میں ممت نعت میں ح نہ ص
وکری میں نزلت ن تے ہیں کچھ م نہ رکھ
نہ حصہ ہمارا ہے سوداگری میں
ANS 05
ناصر کی شاعری میں رات کا ذکر بہت زیادہ ہے اور یہ رات کی عالمت اِس کے اندر موجود اُداسی اور ایک گہ ری
خامشی کی غمازی بھی کرتی ہے۔ ڈاکٹر نیئر صمدانی لکھتے ہیں کہ ناصر خود اپنے بارے میں کہتا ہے کہ:
’’اصل میں رات میری شاعری میں بہت اہمیت رکھتی ہے اس کی وجہ اندھیری رات نہیں ہے۔ یا وہ جسے ہمارے جدی د
شعرا ایک تاریکی کا استعارہ کہتے ہیں۔ رات تخلیق کی عالمت ہے دنیا کی ہر چیز رات کو تخلیق ہوتی ہے۔‘‘
کپڑے بدل کر بال بنا کہاں چلے ہو کس کے لیے
رات بہت کالی ہے ناصر گھر میں رہو تو بہتر ہے
۱۹۴۷ ء کے بعد کی شاعری میں ماضی کی بازگشت نمایاں ہو جاتی ہے اور ناصر کی یاد کے گالب پ وری ط رح
کھل اُٹھتے ہیں۔
’’ناصر ان رونقوں کو یاد کرتا ہے اور اِن لوگوں کو یاد کرتا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے دل کی تار مالتا تھا۔‘‘
15
ناصر نے ہجرت کے دوران جو تباہی و بربادی دیکھی جو ظلم و ستم اپنوں پر ہوئے دکھایا اس پر اس نے غزل وں
میں نوحے رقم کیے۔ ۱۹۴۷ء کے بعد کی غزلوں میں اس کی پہلی غزل اس کا نوحہ ہی تو ہے:
رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ
لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ
کیا کہوں اب تمہیں خزاں والو
جل گیا ٓاشیاں میں کیا کیا کچھ
سہیل احمد بتاتے ہیں ناصر نے ان نوحوں کے متعلق ایک دفعہ ٹی ہأوس میں احمد مشتاق کا یہ شعر پڑھا تھا:
خالی شاخیں بال رہی ہیں
پھولو ٓأو کہاں کھلتے ہو
یہاں پر ناصر نے واضح کر دیا کہ یہ نوحہ ایسی مأوں کاہے جن کے پھول غدر میں اپنوں س ے ج دا ہ و گ ئے ہیں
مگر اس کا مقصد یہ نہیں کہ اس کا کوئی مفہوم نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے کئی ایک مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ناص ر ک اظمی
کے بارے میں سجاد باقر رضوی لکھتے ہیں کہ:
’’ناصر کاظمی کی شعری سلطنت مختلف منطق وں میں ن ئی ہ وتی ہے۔ اس کی س لطنت ک ا نقش ہ س جے ہ وئے ش ہروں،
ٹھٹھری ہوئی راتوں ،سونے راستوں ،دھکے کنکروں ،کانٹوں اور بے چراغ گلیوں ،جلی ہوئی کھیتیوں ،بدیسی جھیل وں،
بجھے دنوں کے ڈھیروں ،خاموشیوں کے قفل ،دھوپ کے سائبان ،زخم و گفا ٓاتش خاموشی سے قریب ہوتا ہے۔‘‘
داز بی اں موج ود ہے
ناصر کاظمی نے بہت سے موضوعات پر شاعری کی۔ ان کی ش اعری میں وہ لہجہ اور وہ ان ِ
جسے ہندوستان اور پاکستان کے لوگ دل سے محسوس کر سکتے ہیں۔ حمیر ہاشمی لکھتے ہیں:
’’ناصر کاظمی کا نظر سے زیادہ زمین کے ساتھ گہرا رش تہ تھ ا اس زمین کے توس ط س ے اس کی پرن دوں ،درخت وں،
پہاڑوںٓ ،ابشاروں ،ندیوں ،دریأوں ،نالوں اور ہر شے سے قربت تھی جس کے بدن سے اِس کو اپ نی م ٹی کی خوش بوٓاتی
تھی ان کی تمام شاعری خوشبو کی بازیافت کا نام ہے۔‘‘
ناصر کی زندگی میں ہجرت کی وجہ سے بے شک بہت بڑا یادوں کا سیالب ٓانا ہے لیکن اِس کے باوجود یہ جم ود
پرست شاعر نہیں ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد زندگی کی تیز طرار موجوں کے ساتھ جینا سیکھ لیتا ہے۔
’’ناصر نے اپنے باطن سے ظاہر کی طرف اور ظاہر سے باطن کی طرف الہور شہر میں ایک بستی بسائی۔‘‘
’’شہر طرب‘‘
ِ ناصر نے اپنے دل میں ٓارزؤوں اور حسرتوں کے قافلوں کو قیام کے لیے جگہ بخشی اور الہور کو
کی خلعت بخشی۔
ایک شام وہ پاک ٹی ہأوسمیں ایک غزل لکھ کر الیا جس نے تمام الہوریوں کا دل جیت لیا۔ وہ غزل کیا تھی؟ وہ ت و
ٓازادی کی تگ و دو اور اضطراب سے نڈھال قوم کے لیے ایک نفسیاتی لوری تھی۔
دن ڈھال رات پھر ٓاگئی سو رہو
منزلوں پہ چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو
سارا دن تپتے ہوئے سورج کی گرمی میں جلتے رہے
16
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو
یہ مسلسل غزل ای ک عجیب اور اجن بی روپ میں نظ ر ٓاتی ہے۔ یہ دن کی دوڑ دھ وپ س ے رات ت ک س کون اور
راحت کی طرف ہجرت کا اشارہ تھی۔ وہ رات اور وہ بات جو ہمارے جسم اور وجود میں مستور ہوتی ہے ناصر نے اس
میں ہمارے نفس اور وجود میں چھپی رات کو اُجاگر کیا ہے۔
۱۹۵۲ ء۔۱۹۵۳ء کا دور ناصر کاظمی کی شاعری میں نئی مہکاروں کا زمانہ ہے۔ اِس دور میں یاد ،اداسی ،تنہائی
کی وہ شدت نہیں جو اس سے پہلے تھی۔ البتہ اِس دور میں ’’چاند اور دھیان‘‘ کے استعارے اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔
ناصر
ؔ دل تو میرا اُداس ہے
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
چاند اور دھیان دو ایسے لفظ ہیں جو بہت کثرت سے ٓاتے ہیں ہر مرتبہ معنی بدل بدل کر استعمال کیے ج اتے ہیں۔
چاند کو دیکھ کر تو ناصر پر دیوانگی چھا جاتی ہے۔
ناصر
ؔ شام سے سورج رہا ہوں
چاند کس شہر میں اُترا ہو گا
______
شہر اُجڑے تو کیا ہے کشادہ زمی ِن خدا
اِک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر
اس غزل میں ناصر نے پرانی قدروں کو پھر سے تہذیب کا حصہ بنانے کی ٹھان لی ہے اور عوام الناس کو پچھلے
ظلم و ستم کو بھال کر صبر کا درس دیا ہے اس کے ساتھ ساتھ اگلی م نزلوں کے راس تے ہم وار ک رنے کی ت رغیب بھی
دیتا ہے۔
ناصر نے خود بھی اپنی شاعری کے بارے میں کہا تھا کہ اگر ہم عطر کی شیشی کھ ولیں ت و خوش بو ت و ٓائے گی،
مگر پھول یا ب اغ نظ ر نہیں ٓائیں گے ،اس ی ط رح ناص ر کی ش اعری عط ر کی شیش ی کی س ی ہے۔ ان کی تمث الوں اور
اشاروں سے ہمیں اپنے عہد کی خوش بو ٓاتی ہے۔ ناص ر کی ش اعری موج ودہ نہیں بلکہ ٓانے والے دور کی بھی عکاس ی
کرتی ہے۔
ناصر
ؔ وقت اچھا بھی ٓائے گا
غم نہ کر زندگی بڑی ہے ابھی
_______
ناصر
ؔ رات بھر جاگتے رہتے ہو بھال کیوں
ت بیدار کہاں سے پائی
تم نے یہ دول ِ
_______
اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں
ٓائینے ٓانکھوں کے دھندلے ہو گئے
17
_______
ناصر
ؔ سوکھے پتوں کو دیکھ کر
یاد ٓائی ہے گل کی باس بہت
_______
روتے روتے کون ہنسا تھا
بارش میں سورج نکال تھا
ناصر نے سبز مرگ پر انتظار حسین کو جو غزل سنائی وہ ناصر کاظمی کی زندگی کا المیہ ہے۔
وہ ساحلوں پر گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چالنے والے کیا ہوئے
یہ غزل ناص ر نے ۳۰؍ اپری ل ۱۹۷۱ء میں اے وی ایچ میں بیم اری کے دوران میں کہی تھی۔ اس پ ر ٓافت اب احم د
کہتے ہیں:
’’یوں محسوس ہوتا ہے کہ اِس غزل میں ناصر نے وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو ساری عمر کہنے کی کوش ش کرت ا رہ ا۔
اس میں زندگی سے مایوسی بھی ہے اور زندگی کی حسرت بھی اور تمنا بھی۔ رات کی تاریکی اور صبح کا انتظار بھی
جو اپنے ساتھ نئے قافلے النے والی تھی۔‘‘
اس سے بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی ناصر کا نوحہ ہے کی ونکہ ناص ر کی زن دگی میں ہج رت کے الم ن اک
مناظر کبھی کبھی اوجھل نہیں رہے۔ لمحہ بہ لمحہ اس کی کسک ناصر نے خود اپنے وجود میں سرکتی ،اچھلتی ،مچلتی
دیکھی ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خان کہتے ہیں:
’’ناصر کا سفر شہروں کے اُجڑے قافلوں کے لٹے اور اُڑتی ہوئی خاک کے درمیان شروع ہوا تھا اور ساحلوں پر گانے
والوں اور کشتیاں چالنے والوں کے گم ہونے پر ختم ہوا۔‘‘
ناص ر ک اظمی کے کالم میں جہ اں اس کے ذاتی دکھ وں کی کہانی اں ماض ی کی زن دگی کی ی ادیں پ رانی اور ن ئی
بستیوں کا حال بھی رونقیں ،ایک بستی کے بچھڑنے کا غم اور دوسری بستی بسانے کی حسرت تعمیر ملتی ہے وہ اں وہ
اپنے عہد اور اس میں زندگی بسر کرنے کے تقاضوں سے بھی غافل نہیں۔ اپنے کالم میں ان کا عہ د بولت ا ہ وا محس وس
ہوتا ہے۔
رنگ دکھالتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی
بال چاندی ہو گئے سونا ہوئے رخسار بھی
یہ عمر ناصر کی پختگی کی عمر تھی اور ش اعری میں اس ک ا رن گ نظ ر بھی ٓات ا تھ ا۔ ناص ر نے ب رگِ نے میں
صحیح ہی تو کہا ہے:
ڈھونڈیں گے لوگ مجھ کو ہر محفل سخن میں
ہر دور کو غزل میں میرا نشان ملے گا
18
ٰ
دعوی ایک ایسا ہی شاعر کر سکتا ہے جس نے غزل کو نئی زندگی سے ہمکنار کیا۔ اس دور میں غزل کا پرچم یہ
بلند کیا۔ جب ہر جگہ نظم کا پرچم لہرا رہا تھا۔
’’غزل کا یہ ہرا بھرا درخت ماضی کی سرزمین میں جڑیں پیوست کیے ہوئے ہے اور حال اور مستقبل میں اپنی شاخوں
کے بازؤوں کو لہرائے ہوئے ٓانے والے وقت کو خوش ٓامدید کہہ رہا ہے۔‘‘
19