You are on page 1of 19

‫‪ANS 01‬‬

‫ولی کو شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ اپنے زمانے کے مشہور اُستاد آزادؔ نے ولی کو ”آ ِ‬
‫ب حیات “ میں اردو ک ا پہال‬ ‫ؔ‬
‫صاحب دیوان اور شمالی ہندوستان کا پہال اردو شاعر کہا ہے۔ ایک زمانے تک اس بات کو س چ بھی مان ا جات ا رہ ا مگ ر‬
‫ولی س ے تقریب ا ً‬
‫جدید تحقیق نے اس بات کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ مح ّمد قلی قطب شاہ کی ُکلیات مل جانے کے بعد ‪ ،‬ج و ؔ‬
‫سو سال پہلے وفات پا چکے تھے‪ ،‬یہ بات غلط ثابت ہوگئی ہے۔‬
‫ولی محض تاریخی اہمیت کے حامل نہیں ہیں بلکہ ان کی شاعرانہ عظمت بھی جواب نہیں رکھتی۔ حیرت ہوتی ہے کہ وہ‬
‫ؔ‬
‫صنف سخن میں قادر تھے جیسے شاعری ان کے خاندان میں بہت پہلے سے چلی آرہی ہو۔ انہ وں نے غ زل‪ ،‬قص یدہ‪،‬‬
‫ِ‬ ‫ہر‬
‫رباعی‪ ،‬مستزاد‪ ،‬قطعہ اور مثنوی کے عالوہ کچھ ایسی اصناف پر بھی طبع آزم ای کی ہے ج و آج ک ل رائج نہیں ہیں۔ یہ‬
‫ّ‬
‫حص ے میں نہیں آ‬ ‫الگ بات ہے کہ ولی کو غزل نے اور غزل کو ولی نے جو شہرت عط ا کی وہ دوس ری اص ناف کے‬
‫سکی۔‬
‫ولی ک ا ای ک اور ادبی‬
‫ولی نے اردو غزل کو نئی وسعتوں سے آشنا کیا اور اسے ایک نیا وقار عط ا کی ا۔ اس کے عالوہ ؔ‬
‫ؔ‬
‫کار نامہ یہ ہے کہ انہوں نے شمال اور جنوب کو شعری روایات کے رشتے میں منسلک کر دیا۔ انہوں نے پہلی بار اردو‬
‫کو جغرافیائی حدود سے آزاد کر کے اسے سارے ہندوستان میں ادبی ابالغ و ترسیل کے ای ک م ؤثر وس یلے کی حی ثیت‬
‫سے روشناس کروایا‪ ،‬اسے ملک گیر اہمیت کا حامل بن ا دی ا۔ ش مالی ہن د میں ریختہ کی س اکھ ک و بنای ا۔ ولی نے اپ نے ہم‬
‫عصر تمام شعراء کو کسی نہ کسی طرح متاثر کیا۔ غزل پر انھوں نے اتنے گہرے نقش م رتب ک یے ہیں کہ انکی حی ثیت‬
‫تاریخی ہو گئی ہے۔‬
‫ولی کا کالم بہت مقبول ہ وا انکے کالم کی اث ر پ ذیری اور مقب ولیت کی ای ک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے کالم میں ہن دی‬
‫الفاظ کی گھالوٹ اور فارسی کی رنگینی و شرینی بھی موج ود تھی۔ یہی نہیں بلکہ ولی ہن دی ش اعری کی روای ات س ے‬

‫‪1‬‬
‫بھی کافی متاثر تھے۔ ہندی شاعری کی روایت ہے کہ اظہ ار محبت ع ورت کی ط رف س ے کی ا جات ا ہے‪ ،‬ولی نے اپ نی‬
‫ایک غزل میں عورت ہی سے اظہار محبت کروایا غزل کا مطلع ہے؀‬
‫ا کیا‬ ‫ار کرن‬ ‫رب‬ ‫ے گھ‬ ‫ا جن نے لی اس‬ ‫رت کنھٹ‬ ‫پ‬
‫ہوئی جوگن جوگی پی کے اسے سنسار کرنا ہے‬
‫ولی کی غزلوں کی زبان صاف اور شرین ہے۔ گو غزلوں میں خارجی پہلو نمایاں ہے مگر بر جستگی اور کیف کی وجہ‬
‫ؔ‬
‫سے بیان میں مزہ موجود ہے۔ ان کے کالم میں دل کے سوز و گداز کا اثر ملت ا ہے اور زب ان س ادہ ہ ونے کی وجہ س ے‬
‫پڑھنے کا مزہ دوباال ہو جاتا ہے کچھ اشعار مالحظہ ہوں؀‬
‫وتی ہے‬ ‫ار کھ‬ ‫ب بہ‬ ‫یس‬ ‫مفلس‬
‫مرد کا اعتبار کھوتی ہے‬
‫یر‬ ‫ا فق‬ ‫وئی دولت ک‬ ‫وک‬ ‫ا ہے ج‬ ‫پای‬
‫مشتاق نہیں سکندری کا‬
‫ولی کی تشبیہات اور استعارات میں ج ّدت موجود ہے۔ ؔ‬
‫ولی کے قصیدے بھی خ وب ہیں‪ ،‬قص یدے میں جت نی بھی خوبی اں‬ ‫ؔ‬
‫ہونی چاہیے وہ سب ولی کے قصیائد میں موجود ہیں۔ شوکت الفاظ‪ ،‬زور‪ ،‬روانی اور تخیل کی بلندی وغ یرہ س ب موج ود‬
‫ہیں اور ط ّرہ یہ ہے کہ مشکل زمین کے ہوتے ہوئے بھی روانی میں فرق نہیں آنے دیا۔ ؔ‬
‫ولی نے اپنی غزلوں میں س یدھی‬
‫سادھی باتیں پیش کی ہیں جن میں تغزل کے ساتھ ساتھ بعض جگہ اخالقی مضامین بھی موجود ہیں۔ مض مون آفری نی میں‬
‫قابل داد ہے۔‬
‫تخیّل کی گہرائی ِ‬
‫دام‬ ‫انہ م‬ ‫لش‬ ‫ر ہے مث‬ ‫ان پ‬ ‫ر زب‬ ‫ہ‬
‫ذکر تجھ زلف کی درازی کا‬
‫اری لگے‬ ‫یر ک‬ ‫ات‬ ‫قک‬ ‫ے عش‬ ‫جس‬
‫اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے‬
‫ولی دکنی سے ہوتا ہے‪ ،‬شاید یہی وجہ ہے کے مح ّمد حسیں آزادؔ نے انہیں اردو ش اعری‬
‫اردو شاعری کا با ضابطہ آغاز ؔ‬
‫کا ”باب ا آدم“ ق رار دی ا ہے اور انہیں اردو ش اعری میں وہی مق ام دی ا ہے ج و انگری زی ش اعری میں چاس ؔر اور فارس ی‬
‫ل ہے۔‬ ‫و حاص‬ ‫رودگی ک‬
‫ؔ‬ ‫اعری میں‬ ‫ش‬
‫خسرو کی ق ائم ک ردہ ریختہ کی بنی اد پ ر ش عر و س خن کی وہ‬
‫ؔ‬ ‫ولی نے نہ صرف دکنی روایت کی پاسداری کی بلکہ امیر‬
‫ؔ‬
‫عالیشان عمارت تیار کی کہ جس نے کالسیکی اردو شاعری کی بنی اد ک و مس تحکم کی ا اور اس میں آنے والے عہ د کے‬
‫ولی کا کمال یہ ہے انہوں نے اردو غزل کے ساز پر ج و نغمے چھ یڑے‪،‬‬
‫سارے امکانات سمٹ گئے۔ دوسرے الفاظ میں ؔ‬
‫دنیائے غزل میں ان کی صدائے بازگشت آج تک سنائی دی جا رہی ہے۔‬
‫ولی نے زبان و بیان اور شعر ی مزاج کے لحاظ سے اردو شاعری کو وہ معیار اور مرکزیت عطا کی جس نے ش مال و‬
‫ؔ‬
‫جنوب کی شعری روایات کو ایک کر دیا۔ اس ضمن میں جمیل جالبی لکھتے ہیں؛‬

‫‪2‬‬
‫……ولی‬
‫ؔ‬ ‫”ولی کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے شمالی ہند کی زبان کو دکنی ادب کی طویل روایت سے مال کر ایک کر دیا‬
‫سراج سے لے کر ؔ‬
‫داغ تک مختل ف ش اعروں‬ ‫ؔ‬ ‫کی غزل میں اردو غزل کی کم و پیش وہ ساری آوازیں سنائی دیتی ہیں جو‬
‫بزم معنی کی شمع روشن ہے “‬
‫کی نشانیاں بنی اور جن سے آج تک ِ‬
‫مجموعی طور پر ولی نے ایک ایسا رنگِ شاعری ایجاد کی ا جس پ ر ای رانی اث رات کے س اتھ س اتھ ہندوس تانی فض ا کی‬
‫خوشبو بھی موجود ہے۔انکی شاعری میں ہند ایرانی کلچ ر اور روای ات ک ا وہی دلکش ام تزاج و م زاج ملت ا ہے جس نے‬
‫ہندوستان میں اردو اور تاج محل کو جنم دیا ہے۔‬
‫‪ANS 02‬‬
‫اردو شاعری اور بالخصوص اردو غزل کا مرکزی موضوع ہمیشہ واردات قلبی کا بیان اور حس ن و عش ق کے تجرب ات‬
‫کا اظہار رہا ہے۔ جہاں عشق ذاتی تجربہ ہے وہاں تاثیر غزل کا الزمی جزو بن گئی ہے لیکن جہاں عشقیہ اشعار روایتی‬
‫طور پر در آئے ہیں وہاں مشاہدے کی گہرائی اور فن کی پختگی ایسے عناصر ہیں جن کی عدم موج ودگی میں غ زل ک ا‬
‫پیکر بالکل بے جان اور حسن و دلکشی سے عاری نظر آئے گا۔‬
‫عشق ہر شخص کا ذاتی تجربہ ہو نہ ہو مگر ہر ذہن میں عشق کا ایک دھندال یا واض ح تص ور ض رور موج ود ہوت ا ہے۔‬
‫فنون لطیفہ سے متعلق ہر شخص عام آدمی کے بر عکس اس کے اظہار پر بھی قادر ہوتا ہے۔غالب ایک ایسے ہی فنک ار‬
‫ہیں جن کی شاعری میں انسانی جذبات و احساسات اور مختل ف ح االت میں نفس یاتی رد عم ل ک ا جمالی اتی اظہ ار پ وری‬
‫فنکارانہ آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔‬
‫عشق غزل کا سب سے بڑا موضوع ہے۔غالب کے غزل میں عش ق ک ا تص ور کی ا ہے ؟ اس س وال کے ج واب کے ل یے‬
‫جب ہم غالب کے دیوان کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں تیسری غزل کے دوسرے شعر ہی میں غالب یوں نغمہ س ر ا مل تے‬
‫ہیں ‪:‬‬
‫زا پایا‬ ‫ام‬ ‫تک‬ ‫بیعت نے زیس‬ ‫ےط‬ ‫قس‬ ‫عش‬
‫درد کی دوا پائی درد ال دوا پایا‬
‫اور پھر جوں جوں آپ ورق پلٹتے جائیں‪ ،‬آپ دیکھیں گے کہ غالب کے نزدیک تو بے عشق عمر کٹ ہی نہیں سکتی۔ وہ‬
‫اسی عشق خانہ ویراں ساز کو رونق ہستی قرار دیتے ہیں۔وہ عشق کے آالم سے گھ برا ک ر س و ب ار بن د عش ق س ے آزاد‬
‫ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر کہاں ؟ اندوہ عشق کی کشمکش تو جا ہی نہیں سکتی۔ دنیا انہیں کافر قرار دیتی ہے مگر‬
‫وہ اک بت کافر کا پوجنا نہیں چھوڑتے۔ غالب جب عشق کو انسانی زندگی کے لیے اتنا ضروری قرار دیتے ہیں تو سوال‬
‫ابھرتا ہے کہ کیا عشق کوئی شعوری کوشش ہے ؟ میر کے والد میر کو عش ق اختی ار ک رنے کی ہ دایت فرم اتے۔ت و کی ا‬
‫عشق کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے ؟ان تم ام س واالت کے جواب ات غ الب کی غ زل میں موج ود‬
‫ہیں۔‬
‫غالب کی غزل میں عشق کی سطح بالکل زمینی اور انسانی ہے‪ ،‬مثالی یا ماورائی نہیں۔ان کے نزدیک عش ق ای ک ایس ی‬
‫آگ ہے جسے اگر ہم لگانا چاہیں تو لگا نہیں سکتے اور اگر بجھانا چ اہیں ت و ہم ارے اختی ار میں نہیں۔عش ق ای ک ایس ی‬
‫کیفیت ہے جس میں خیال کی تمام رعنائیوں کا مرکز و محور صرف ایک شخص ہوتا ہے۔عشق زندگی کے تم ام پہل وؤں‬

‫‪3‬‬
‫پر غالب نہیں بلکہ حیات انسانی کا ایک جزو ہے۔یہ زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی متاثر کرت ا ہے اور ان س ے اث ر‬
‫قبول بھی کرتا ہے۔اس لیے مختلف حاالت میں محبوب کے ساتھ غالب کا تعلق اور محبوب کے رویوں پر ان کا رد عم ل‬
‫مختلف ہوتا ہے۔ کبھی وہ اپنے محبوب کو اپنی گردن پر مشق ناز کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور دو ع الم ک ا خ ون اپ نی‬
‫گردن پر لینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔کبھی یہ کہہ کر جان صاف بچا لے جاتے ہیں کہ میں زہر کھ ا ت و ل وں مگ ر ملت ا ہی‬
‫نہیں۔کبھی وہ صرف اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ وہ پری پیکر ان سے کھال اور کبھی محب وب کے عم ر بھ ر کے‬
‫پیمان وفا باندھنے پر بھی راضی نہیں ہوتے کہ عمر بذات خود نا پائیدار ہے۔کبھی وہ محبوب کی بے نیازی کے ب اوجود‬
‫ترک وفا پر آمادہ نہیں بلکہ تسلیم کی خو اپنا لیتے ہیں اور کبھی‬
‫وں میں‬ ‫ر نہیں ہ‬ ‫رے در پ‬ ‫وا ت‬ ‫ڑا ہ‬ ‫؎دائم پ‬
‫خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں‬
‫رویوں میں تضاد کی وجہ شاید یہی ہے کہ عشق ساری زندگی نہیں اور زمانے میں محبت کے س وا اور بھی غم ہیں اور‬
‫یہ آالم عشق کے جذباتی نظام کو بھی متاثر کرتے ہیں۔‬
‫ر میں‬ ‫لی کہ دہ‬ ‫ا تس‬ ‫و کی‬ ‫ےہ‬ ‫اس‬ ‫ری وف‬ ‫ت‬
‫تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے‬
‫غالب اور ان کے محبوب کے تعلقات میں ایک بات اہم ہے کہ غالب کا محبوب جور و جفا کا پیک ر ہی نہیں بلکہ ن وازش‬
‫ہائے بے جا بھی فرماتا ہے۔اگر وہ غالب پر مہربان نہیں تو نامہربان بھی نہیں۔ ضد کی ب ات اور ہے مگ ر و ہ س ینکڑوں‬
‫وعدے بھی وفا کر چکا ہے۔غالب ہی اس کے لیے تباہ حال نہیں اس کے چہر ے ک ا رن گ بھی غ الب ک و دیکھ ک ر کھ ل‬
‫اٹھتا ہے۔وہ غالب کو اپنی زندگی کہہ کر پکارتا ہے اور غالب کے گھر بھی آتا ہے۔غالب کا محبوب ان کی ط رح ہنگ امہ‬
‫آرا ہے۔رسوائی کی نعمت صرف عاشق کی سعی سے حاصل نہیں ہوتی ‪:‬‬
‫بط میں‬ ‫کین و ض‬ ‫الم تس‬
‫ِ‬ ‫رع‬ ‫ل‪ ،‬ہج‬ ‫؎ہے وص‬
‫معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہیے‬
‫غالب کے اشعار میں عشق کا نظام یک طرفہ نہیں۔ خود سپردگی کا وہ عالم نہیں کہ ہر طرح کے جور و جفا کے باوجود‬
‫شیوہ تسلیم و رضا ہو بلکہ غالب کے ہاں ایک انا اور خ ود داری ہے۔ اگ ر محب وب ب زم میں بالنے ک ا تکل ف گ وارا نہیں‬
‫کرتا تو سر راہ ملنے پر وہ بھی تیار نہیں۔ اگر محبوب اپنی خو نہیں چھوڑتا تو وہ اپنی وض ع ب دلنے پ ر راض ی نہیں۔ وہ‬
‫محبوب سے سرگرانی کا سبب تک نہیں پوچھتے کہ اس میں سبک سری ہے یہاں ت ک کہ در کعبہ بھی اگ ر وا نہ ہ و ت و‬
‫الٹے پھر آتے ہیں ‪:‬‬
‫ود بیں ہیں کہ ہم‬ ‫دگی میں بھی وہ آزادہ و خ‬ ‫؎بن‬
‫الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا‬
‫غالب کی وفا جہاں شخصی خصوصیت ہے وہاں ا س بات کا ثبوت بھی کہ غالب کا محبوب غالب سے محبت رکھت ا ہے۔‬
‫وہ عشق میں خود سپردگی کی بجائے برابری کے خواہش مند ہیں۔وہ جب محبوب مہربان ہ و کے بالئے ت و ض رور آتے‬
‫ہیں کیونکہ وہ گیا وقت نہیں کہ پھر آ بھی نہ سکیں۔اور پھر کل تک اُس کا دل مہر و وفا کا باب بھی تھا۔‬

‫‪4‬‬
‫برابری کی سطح سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ جذبہ عشق کی بنیاد کاروب اری ذہ نیت ہے اور وہ کچھ دے اور کچھ لے پ ر‬
‫قائم ہے بلکہ غالب با وفا عاشق ہیں۔ وہ خانہ زاد زلف ہیں اس ل یے زنج یروں س ے گھ براتے نہیں۔ محب وب ک و وہ ایم ان‬
‫سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔وہ محبوب کے راز ک و رس و ا نہیں ک رتے۔وہ محب وب س ے تعل ق توڑن ا نہیں چ اہتے۔خ واہ‬
‫عداوت ہی کیوں نہ ہو تعلق قائم رہنا چاہیے۔ بلکہ وفا میں استواری ان کے نزدیک ایمان کی اصل ہے۔‬
‫اں ہے‬ ‫ل ایم‬ ‫تواری اص‬ ‫ر ِط اس‬ ‫ا داری بش‬ ‫؎وف‬
‫مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو‬
‫ان کے نزدیک عشق اور وفا صرف سر پھوڑنا ہی نہیں اور سر ہی پھوڑنا ہو تو پھر کسی س نگ دل ک ا س نگ آس تاں ہی‬
‫کیوں ہو۔غالب ہالک حسرت پابوس ہونے کے باوجود سوتے میں محب وب کے پ اؤں ک ا بوس ہ نہیں لی تے کہ ایس ی ب اتوں‬
‫سے اس کے بدگماں ہو جانے کا خدشہ ہے۔‬
‫کہیں کہیں ایسا لگتا ہے کہ غالب کا عشق ہوس کا درجہ اختیار کر رہا ہے اور جب عرض و نیاز سے وہ راہ پر نہیں آت ا‬
‫تو وہ ا س کے دامن کو حریفانہ کھینچنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔کبھی کبھی وہ پیش دستی بھی کر دیتے ہیں۔جوابا ً محبوب‬
‫بھی دھول دھپا کرنے لگتا ہے۔ لگتا ہے کہ غالب کے ہاں ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب محبوب اس گستاخی اور بے‬
‫باکی کی اجازت دے دے۔ اور جب یہ اجازت حاصل ہو تو ‪:‬‬
‫تاخی دے‬ ‫اکی و گس‬ ‫ت بے ب‬
‫ِ‬ ‫رم رخص‬ ‫؎جب ک‬
‫ت تقصیر نہیں‬
‫کوئی تقصیر بجز خجل ِ‬
‫غالب کی غزل میں عشق کی مثلث کے تیسرے زاویے یعنی رقیب کے متعلق اش عار ک ا مط العہ ب ڑا دلچس پ ہے۔ غ الب‬
‫کے ہاں رقیب کے روایتی کردار کے خدوخال کچھ بہت مختلف نہیں مگر رقیبوں کے بارے میں غالب ک ا رویہ ب ڑا ن رم‬
‫اور لچک دار ہے۔ برا بھال کہنے اور اسے کوسنے کی بجائے وہ اسے بھی اپنی ہی طرح کا ای ک انس ان س مجھتے ہیں۔‬
‫جس کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہے۔ اس میں مومن و کافر اور نیک و بد کی تمیز نہیں۔نامہ بر رقیب ہ و گی ا ت و اس ے‬
‫برا بھال کہنے کی بجائے فرمایا‬
‫دیم‬ ‫و کچھ کالم نہیں لیکن اے ن‬ ‫ےت‬ ‫؎تجھ س‬
‫میرا سالم کہیو اگر نامہ بر ملے‬
‫یعنی اسے سالم بھجوا رہے ہیں۔ اس کے لیے اس نرمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آخر وہ ہمارا نامہ بر رہا ہے۔‬
‫یے؟‬ ‫ا کہ‬ ‫ر ہے کی‬ ‫و‪ ،‬بش‬ ‫ر اس ک‬ ‫ا ہے دل اگ‬ ‫؎دی‬
‫ہوا رقیب تو ہو‪ ،‬نامہ بر ہے کیا کہیے؟‬
‫بلکہ رقیبوں سے دوستی گانٹھ لیتے ہیں۔اور محبوب کی شکایت میں اسے اپنا ہم زبان بنا لیتے ہیں۔اس طرح دونوں دل کا‬
‫پھپھولے بھی پھوڑ لیتے ہیں اور محبوب سے شکایت کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔‬
‫من کو‬ ‫ا ہے دش‬ ‫ر لی‬ ‫ازی‪ ،‬ک‬ ‫رے نہ غم‬ ‫اک‬ ‫؎ت‬
‫دوست کی شکایت میں‪ ،‬ہم نے ہم زباں اپنا‬

‫‪5‬‬
‫البتہ محبوب کو اپنی طرف مائل کرنے کے عمل میں وہ رقیب وں کے مق ابلے میں س ر گ رم نظ ر آتے ہیں۔انہیں بوالہ وس‬
‫کہتے ہیں اور اپنے آپ کو اہل نظر۔‬
‫عار کی‬ ‫تی ش‬ ‫ن پرس‬ ‫وس نے حس‬ ‫ر بوالہ‬ ‫؎ہ‬
‫اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی‬
‫عاشق صادق اور بوالہوس میں کیا فرق ہے ؟ محبوب پر واضح کرتے ہیں‬
‫ک نفس ہے‬ ‫علہ خس ی‬ ‫روغ ش‬
‫ِ‬ ‫ف‬
‫ناموس وفا کیا؟‬
‫ِ‬ ‫پاس‬
‫ِ‬ ‫ہوس کو‬
‫محبوب مہربان ہو تو رقیب بھی گلہ کرتا ہے اور جب محبوب انہیں بتات ا ہے کہ فالں نے یہ کہ ا ت و محب وب ک و مائ ل بہ‬
‫کرم رکھنے کے لیے قاطع دلیل دیتے ہیں ‪:‬‬
‫تے ہیں‬ ‫ا کہ‬ ‫و جف‬ ‫یر اس ک‬ ‫وغ‬ ‫ےت‬ ‫ا ہم س‬ ‫؎کی وف‬
‫ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں‬
‫بہرحال رقیب سے وہ اس قدر موافقت پر تیار ہیں کہ محبوب کا اپنا معاملہ ہے‬
‫م و راہ ہو‬ ‫و رس‬ ‫ےج‬ ‫یر س‬ ‫وغ‬ ‫انو تم ک‬ ‫؎تم ج‬
‫ہم کو پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو؟‬
‫موافقت کی یہ سطح مومن کے ہاں اتنی بڑھ گئی ہے کہ عشق بازاری نظر آتا ہے‬
‫اٹی‬ ‫یر بھی ک‬ ‫ِل غ‬ ‫ب وص‬ ‫؎لے ش‬
‫تو ہمیں آزمائے گا کب تک؟‬
‫غالب کا عشق بازاری نہیں۔ وہ تو عشرت گہ خسرو کی مزدوری کے جرم کی پاداش میں فرہاد کی عشق میں نک و ن امی‬
‫تسلیم ہی نہیں کرتے اور اپنی شاعری میں اس کے لیے جگہ جگہ طنز و استہزا سے کام لیتے ہیں۔‬
‫ایک چیز جو غالب کے ہاں غم عشق کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ غم روزگ ار ہے۔وہ غم دنی ا ک و غم ی ار میں ش امل نہیں‬
‫کرتے۔ غم ان کا نصیب ہیں اور غم عشق گر نہ ہوتا‪ ،‬غم روزگار ہوتا۔ محبوب کے خیال سے غاف ل نہیں مگ ر رہین س تم‬
‫ہائے روزگار ض رور ہیں۔ان غم و آالم کی تالفی محب وب کی وف ا س ے نہیں ہ وتی۔اور غم زم انہ نش اط عش ق کی س اری‬
‫مستی جھاڑ دیتا ہے۔‬
‫غالب غم زمانہ کو غم عشق کے سامنے ال کھڑا کرنے واال پہال شخص ہے۔بع د میں اس رجح ان نے ب ڑی ق وت حاص ل‬
‫کی۔ عشق بہت کچھ ہے مگر سب کچھ نہیں۔اس لیے غالب کا عشق زمینی اور انسانی ہے مثالی اور ماورائی نہیں۔‬
‫عشق کا ایک تقاضا حوصلہ و استقامت بھی ہے۔غالب نہ صرف حوصلہ مندی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ ان‬
‫کے ہاں ایک طرح کی اذیت پسندی تک کا رجحان ملتا ہے۔محبوب تن عاشق کو مجروح کر کے جانے لگتا ہے تو ان ک ا‬
‫دل زخم اور اعضا نمک کا تقاضا کرتے ہیں۔تمنا بے تاب ہے مگر جانتے ہیں کہ عاشقی صبر طلب ہے۔سوز غم چھپانے‬
‫کی حکمت مشکل ہے۔ انہوں نے دل دیا تو نوا سنج فغاں نہیں ہوئے۔واقعہ سخت ہے اور جان بھی عزیز مگر‬
‫غالب‬
‫ؔ‬ ‫؎تاب الئے ہی بنے گی‬

‫‪6‬‬
‫وہ تیغ و کفن باندھے محبوب کے پاس جاتے ہیں کہ قتل کرنے میں عذر ب اقی نہ رہے۔ بی داد عش ق س ے نہیں ڈرتے ہ اں‬
‫کبھی کبھی سیاست درباں سے ڈر جاتے ہیں۔وہ محبوب کو بار بار دعوت قتل دیتے ہیں۔غرض عشق کے ہ ر امتح ان میں‬
‫ثابت قدم ہیں۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی تو کرتے ہیں مگر ان اشعار میں ان کی ظرافت بھی اپنا رن گ دکھ اتی ہے اور اپ نی‬ ‫غالب عشق میں جان دینے کا‬
‫جان صاف بچا لے جانے کا بندوبست بھی کر لیتے ہیں ‪:‬‬
‫ات ہے‬ ‫از ب‬ ‫دا س‬ ‫لخ‬ ‫ظ وص‬ ‫؎میں اور ح‬
‫طراب میں‬ ‫ا اض‬ ‫ول گی‬ ‫نی بھ‬ ‫ذر دی‬ ‫اں ن‬ ‫ج‬
‫ائے‬ ‫وج‬ ‫وا ہ‬ ‫وق نہ رس‬ ‫؎راز معش‬
‫ِ‬
‫د نہیں‬ ‫انے میں کچھ بھی‬ ‫رج‬ ‫ورنہ م‬
‫ر ورنہ‬ ‫تم گ‬ ‫وس‬ ‫ا ہی نہیں مجھ ک‬ ‫ر ملت‬ ‫؎زہ‬
‫کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں‬
‫مندرجہ باال تینوں اشعار میں عشق میں پا مردی پر بھی حرف نہیں آنے دیتے اور جان صاف بچا لے جاتے ہیں۔‬
‫غالب کبھی اپنے آپ پر ہنس تے ہیں کہ ص ورت دیکھ و ج و خ وب روی وں پ ر م ر رہے ہ و اور کبھی حاص ل عش ق ج ز‬
‫شکست آرزو ہونے پر تاسف کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ت اہم وہ عش ق کی اہمیت و ض رورت س ے آگ اہ ہیں۔ہ ر ش خص کی‬
‫طرح ان کی بھی خواہش ہے ‪:‬‬
‫و کچھ ہو‬ ‫وج‬ ‫ا بال ہ‬ ‫وی‬ ‫رہ‬ ‫؎قہ‬
‫کاش کہ تم مرے لیے ہوتے‬
‫غالب کا عشق ماورائی نہیں زمینی ہے۔ لہٰذا ان کا عشق بھی اسی مرکزی نقطے کے گرد ط واف کرت ا ہے۔ان کے عش ق‬
‫کا تانا بانا خواہشات کی انہی تاروں سے تیار ہوتا ہے۔غالب کے عشقیہ اشعار پڑھ تے ہ وئے نہ ت و ہم ار ا دل گھٹن س ے‬
‫تنگ ہوتا ہے اور نہ مومن و داغ کے عشقیہ اشعار کے مطالعے کے نتیجے میں پی دا ہ ونے والی ن ا ہنج ار مس رت س ے‬
‫دوچار ہوتا ہے۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہم جیسا انسان ہمارے جیسے جذبات ہی کا اظہار ک ر رہ ا ہے اور در‬
‫اصل یہی غالب کی زندہ و محرک قوت ہے جو اسے ہر دور میں زندہ و پائندہ رکھے گی۔‬
‫‪ANS 03‬‬
‫جوہر الزوال بخشا گیا تھا‪ ،‬یہی س بب ہے کہ ان کے کالم میں‬
‫ِ‬ ‫داغ فطرتا ً شاعر تھے ۔انھیں قدرت کی طرف سے عشق کا‬
‫ؔ‬
‫مہمات مضامین اور جذبات خود ان کے حاالت و واردات کا نتیجہ ہیں ۔ایک تو طبیعت م وزوں پ ائی دوس رے زب ان دانی‬
‫روز مرہ محاورے پر قدرت حاصل تھی۔ چنانچہ اس وصف کی بنا پر ان کی شہرت دور دور تک پھیلتی چلی گئی۔ یہ اں‬
‫طرز سخن اور اسلوب شعر گوئی تمام اہل زبان اور شعرائ میں مقبول و معروف‬
‫ِ‬ ‫تک کہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کا‬
‫رہا۔ ان کا رنگ ان کے زمانے میں اس قدر مقبول ہوا کہ ہر کس وناکس ان کا رنگ اختیار کرنے کی کوشش کرنے لگا‪،‬‬
‫ائی نے بھی اپ نے دوس رے دی وان میں زی ادہ ت ر ؔ‬
‫داغ ک ا‬ ‫یہاں تک کہ ان کے سب سے بڑے حریف منشی ام یر احم د مین ؔ‬

‫‪7‬‬
‫داغ'' ان ک ا ادبی و ش عری س رمایہ ہے۔ ؔ‬
‫داغ کی ش اعری پ ر‬ ‫داغ کے چار دیوان اور ایک مثنوی ''فری ا ِد ؔ‬
‫رنگ اختیار کیا۔ ؔ‬
‫ب ؔ‬
‫داغ کے دیباچہ میں رقم طراز ہیں کہ‬ ‫تبصرہ کرتے ہوئے مولوی عبدالحق انتخا ِ‬
‫''داغ ؔ زب ان کے بادش اہ ہیں اور زب ان پ ر ج و ق درت انھیں حاص ل تھی وہ کس ی دوس رے ک و نص یب نہ ہوس کی۔ عالوہ‬
‫فص احت اور س ادگی کے ان کے کالم میں ش وخی ظ رافت اور خ اص ب انکپن پای ا جات ا ہے۔ ان ک ا کالم اردو زب ان کے‬
‫محاوروں اور روز مرہ بول چال ک ا خ زانہ ہے۔ مح اورے دوس روں نے بھی اس تعمال ک یے ہیں لیکن ؔ‬
‫داغ کی ط رح بے‬
‫ساختہ پن کہیں نہیں پایا جاتا ۔''‬
‫داغ کی شاعری میں دہلی کی تاریخی وتہذیبی اقدار کا بیان ہی نہیں ملتا بلکہ وہ اُس دور کا شہری اور ثقافتی منظ ر ن امہ‬
‫ؔ‬
‫بھی پیش کرتی ہے ۔ان کی شاعری میں داخلی کیفیات سے زیادہ خارجی واردات کا بی ان ملت ا ہے ۔ان کی ش اعری مجلس‬
‫و احباب کی شاعری ہے۔ جہاں محب وب کے س اتھ رقیب پ ر لعن طعن بھی ہے اور محب وب کی دلف ریب ادائ وں ‪ ،‬اس کی‬
‫ناز دلربائی کا بیان بھی ہے۔ ان کا محب وب روای تی ی ا خی الی نہیں ہے بلکہ گوش ت پوس ت ک ا جیتاجاگت ا‬
‫بے وفائیوں اور ِ‬
‫انسان ہے‪ ،‬جو وصل کی لذت سے ؔ‬
‫داغ کا دامن بھرتا ہے اور کبھی ناز و نخ رے دکھ اکر ان کے دل ک و تڑپات ا بھی ہے ۔‬
‫ان کا محبوب اسی دنیا کا باشندہ ہے ۔جس کی رعنائیوں اور حسن کی دلفریبیوں ک و دیکھ ک ر ؔ‬
‫داغ ک ا دل مچ ل مچ ل جات ا‬
‫ہے اور وہ کہہ اٹھتے ہیں ؎‬
‫ہر ادا مستانہ سر سے پائوں تک چھائی ہوئی‬
‫اُف تری کافر جوانی جوش پر ٓائی ہوئی‬
‫چاندسے چہرے پر کیوں ڈالی نقاب‬
‫چاند یہ کیسا گہن میں ٓاگیا‬
‫ؔ‬
‫داغ کا عاشقانہ مزاج خاص موسم کا مرہ و ِن منت نہیں ہے بلکہ ہ ر موس م میں ان پ ر ای ک س رور کی س ی کیفیت ط اری‬
‫رہتی ہے ۔ وہ اپنی نگاہوں کی تسکین کے لیے کسی خوش رو پری جمال ‪،‬ن ازک ان دام ص ورت کی تالش میں س رگرداں‬
‫نظر ٓاتے ہیں ۔ مثالً ؎‬
‫وہ پھول والوں کا میلہ ‪،‬وہ سیر باغ اے ؔ‬
‫داغ‬
‫وہ روز جھرنوں پہ جمگھٹ پری جمالوں کا‬
‫شباب کی رعنائیوں سے بدمستی کی کیفیت میں مبتال ہو کر ہوس کی تسکین کی تمنا میں وہ ح رام و حالل کے چک ر میں‬
‫نہیں پڑتے بلکہ جی کھول کر دا ِد عیش دیتے ہیں ۔ لیکن اس طرح کے عشقیہ جذبات کے اظہار میں ان کے یہ اں ج ؔ‬
‫رٔات‬
‫اوررنگین کی طرح پھکڑپن یا بازاری پن نہیں ملتا بلکہ ایک طرح کا سلیقہ پایاجاتا ہے۔ کہتے ہیں ؎‬
‫ؔ‬
‫عشق بازی کو ہے سلیقہ شرط‬
‫یہ گنہ بھی ہے اور ثواب بھی ہے۔‬
‫داغ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان ک امحبوب گوش ت پوس ت ک ا ای ک انس ان ہے۔ محب وب کے س اتھ ؔ‬
‫داغ ک ا برت ائو‬ ‫ؔ‬
‫برابری کا ہے۔ ان کے یہاں ٓاپس ی ن وک جھون ک ‪،‬کبھی کبھی تلخی کی ص ورت بھی اختی ار ک ر لی تی ہے اور یہی تلخی‬
‫کہیں کہیں طعن و تشنیع کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے‪،‬تو کہیں غم و غصہ کے روپ میں مثالً ؎‬

‫‪8‬‬
‫اک نہ اک ہم لگائے رکھتے ہیں‬
‫تم نہ ہوتے تو دوسرا ہوتا‬
‫جواب اس طرف سے بھی فی الفور ہوگا‬
‫ؔ‬
‫داغ کے کالم میں محبوب سے ٓاپسی چھیڑ چھاڑ کہیں کہیں ۔‬
‫ؔ‬
‫داغ کا محبوب و مرغوب موضوع‪ ،‬حسن و جوانی اور اس کے لوازمات کا بیان ہے جو ان کے اپ نے تجرب ات ک ا ن تیجہ‬
‫ہےں ۔ اسی سبب ان کے بیان میں حقیقت اورٓافاقیت کا عنصر نمایاں ہے۔ وہ عشقیہ معامال ت کی گلکاریاں‪،‬‬
‫ؔ‬
‫داغ کی زبان میں بالکی سادگی اور فصاحت کا دریا موجزن ہے۔ بی ان کی بے تکلفی کی ص ناعانہ مہ ارت جس نے اردو‬
‫شعروشاعری کو نہ صرف ان کے قلم سے بلکہ ان کے ہزاروں شاگردوں کے ہاتھوں نیا رنگ و ٓاہنگ عط ا کی ا ۔ان کے‬
‫اشعار میں مکالمہ بازی نے دو بدو کی چوٹیں سکھائیں اور شاعری کو تکلفات کی قی د س ے ٓازاد ک رکے بے تکلفی س ے‬
‫ہمکنار کر دیا۔ انھیں خصوصیات نے ان کی شاعری کو شہرت عام عطا کی۔‬
‫ؔ‬
‫داغ کی زبان میں بالکی سادگی اور فصاحت کا دریا موجزن ہے۔ بی ان کی بے تکلفی کی ص ناعانہ مہ ارت جس نے اردو‬
‫شعروشاعری کو نہ صرف ان کے قلم سے بلکہ ان کے ہزاروں شاگردوں کے ہاتھوں نیا رنگ و ٓاہنگ عط ا کی ا ۔ان کے‬
‫اشعار میں مکالمہ بازی نے دو بدو کی چوٹیں سکھائیں اور شاعری کو تکلفات کی قی د س ے ٓازاد ک رکے بے تکلفی س ے‬
‫ہمکنار کر دیا۔ انھیں خصوصیات نے ان کی شاعری کو شہرت عام عطا کی۔ ؔ‬
‫داغ کا کالم تمام تر محاسن سے پُر ہے ؎‬
‫دیکھو تو ذرا چشم سخن گو کے اشارے‬
‫ٰ‬
‫دعوی ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا‬ ‫پھر تم کو یہ‬
‫;جائو بھی کیا کرو گے مہرو وفا‬
‫بارہا ٓازماکے دیکھ لیا‬
‫ؔ‬
‫داغ نے زوائد سے اپنے کالم کو پاک رکھا ‪،‬یہی سبب ہے کہ ان کے اشعار رواں زور دار اور م ٔوثر ہیں ۔ وہ ج ذبات ک ا‬
‫اظہار نہایت سلیس اور عام فہم زبان میں کرتے ہیں اس لیے ان کے اشعار ہمیشہ دلوں پر تیرو نشتر ک ا ک ام ک رتے ہیں ۔‬
‫خوبی محاورہ اور‬
‫ٔ‬ ‫ان کے اکثر اشعار میں جرٔات ؔکی سی معاملہ بندی اور زندگی کی صفائی ملتی ہے ۔اس پر طرّہ یہ کہ‬
‫لطف زبان نے ان کے اشعار کو دلکش اور پُراثربنادیا ہے۔ ۔‬
‫ِ‬
‫شعرا ئے متاخرین میں ؔ‬
‫داغ کا مرتبہ نہایت بلن د اور اہم ہے۔ ان ک ا کالم س ننے والے کے دل میں ای ک کیفیت پی دا کردیت ا‬
‫شاعر خ دا داد ہ ونے‬
‫ِ‬ ‫غالب کے ہم پلہ نہ ہوسکے لیکن ان کے‬
‫ؔ‬ ‫ٓاتش‪ ،‬ذوقؔ اور‬
‫ہے ۔جس کو تاثیر سخن کہا جاتا ہے ۔گو وہ ؔ‬
‫میں کوئی شک نہیں ہے ۔جو شعرا ن کی زبان سے نکلتا ہے تاثیر میں ڈوبا ہ وا ہوت ا ہے۔ ان ک ا تم ام کالم ان کی ط بیعت‬
‫کے قدرتی رنگ میں ڈوبا ہوا ہے ۔وہ ایک خاص طرز کے مالک ہیں جو ایک حد تک انھیں سے منسوب ہے ۔‬
‫ب نفس کا پردہ چ اک کی ا ہے‬ ‫ؔ‬
‫داغ نے اپنے کالم میں اپنے عشق کی داستانوں اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں اور اپنے فری ِ‬
‫اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ؔ‬
‫داغ مصلحت پسند اور دور اندیشی سے کوسوں دور تھے ۔ان کی شاعری میں حق گوئی ‪،‬ح ق‬
‫ت خود عشق میں مبتال ہو کر اپنی دلی واردات اور کیفیات کو اشعار کا جامع پہنا ک ر‬
‫پسندی پائی جاتی ہے ۔انھوں نے بذا ِ‬
‫صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے۔ ان کا عشق حقیقی نہیں بلکہ مجازی ہے۔‬

‫‪9‬‬
‫داغ نے غالم حسین شکیبا کے صاحبزادے مولوی سید احم د حس ین س ے فارس ی اور اردو کی تعلیم حاص ل کی۔اس دور‬
‫معلی کے ادبی‬
‫ٰ‬ ‫کے مشہور خوش نویس سید ام یر پنجہ کش دہل وی س ے فن خ وش نویس ی میں مہ ارت حاص ل کی ۔ قلعہ‬
‫ماحول اور بہادر شاہ ظفر کی سرپرستی نے داغ کو شعر و ش اعری کی ط رف مائ ل کی ا ۔ داغ ش اعری میں اب راہیم ذوق‬
‫معلی میں آئے دن ادبی مشاعرے ہوا ک رتے تھے‬
‫ٰ‬ ‫معلی میں مرزا غالب کا تو آنا جانا تھا اور قلعہ‬
‫ٰ‬ ‫کے شاگرد ہوئے ۔ قلعہ‬
‫جس میں بہادر شاہ ظفر موجود رہتے وہ خود بھی اردو کے پر گو شاعر اور نیک دل شہنشاہ تھے۔ اُن کا درب ار علم اء ‪،‬‬
‫شعراء اور اہل ہنر کا ملجا و ماوا تھا ۔ داغ نے شاعری کے میدان میں قدم رکھ ا ت و ہ ر ط رف غ الب ‪ ،‬ذؤق ‪ ،‬م ومن اور‬
‫معلی کے اندر اور باہر ان ش عراء کے فک ر و فن ک ا ط وطی ب ول رہ ا تھ ا ۔ غ الب‬
‫ٰ‬ ‫ظفر کی شاعری کی دھوم تھی ۔ قلعہ‬
‫فلسفیانہ مضامین اور مسائل تصوف کے باب میں بیان کے دریا بہا رہے تھے ۔ استاد ذوق زبان و محاورے کو جال دینے‬
‫میں مصروف تھے ۔ داغ نے بھی شعر و ش اعری اور ادب میں ایس ے ج وہر دکھ ائے ہیں جس کے اجلے نق وش آج بھی‬
‫نمایاں ہیں۔ داغ بنیادی ط ور پ ر غ زل کے ش اعر ہیں۔ غ زل ان کی محب وب ص نف س خن ہے ۔ اس کے عالوہ انہ وں نے‬
‫دوسری اصناف سخن میں بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ داغ نے اپنے کالم میں اس دور کے ح االت ک و س مودیا ہے۔ گل زار‬
‫داغ ‪ ،‬مہتاب داغ اور فریاد داغ ‪ ،‬آپ کی اہم شعری تصانیف ہیں ۔ داغ کی شخصیت اور شاعری کے غالب ‪ ،‬ذوق ‪ ،‬مومن‬
‫‪ ،‬صہبانی اور ظفر سبھی مداح تھے اور ان کو ہونہار سمجھتے تھے ۔ بہادر شاہ ظفر اور امام بخش ص ہبانی پ ر ت و داغ‬
‫کی شاعری کا جادو چل چکا تھا ۔ دلی کے زینت باڑی محلے میں ''ایک طرحی'' مشاعرہ منعق د ہ وا تھ ا جس میں ن امور‬
‫شعراء شریک تھے جب داغ نے اپنا کالم پیش کیا تو امام بخش صہبانی جھ وم اٹھے اور خ واب داد دی اور داغ ک و گلے‬
‫لگالیا تھا ۔ داغ نے جو شعر پڑھا تھا وہ اس طرح تھا۔‬
‫لگ گئی چپ تجھے ائے داغ حزیں کیوں ایسی‬
‫مجھ کو کچھ ال تو کم بخت بنایا ہوتا‬
‫احسن مارہروی نے داغ کی شاعرانہ صالحیتوں کے کچھ واقعات بیان کئے ہیں۔ نواب مصطفی خان شیفتہ کے ہ اں ای ک‬
‫مشاعرہ منعقد ہوا تھا اور کئی نامور شعراء شریک تھے ۔ داغ نے اپنی غزل سنائی تو سب لوگ حیرت میں پڑگئے ۔ داغ‬
‫کی غزل کا مطلع اس طرح تھا ‪:‬‬
‫شرر و برق نہیں شعلہ و سیماب نہیں‬
‫کس لئے پھر یہ ٹھہرتا دل بیتاب نہیں‬
‫الب داغ کی شخص یت اور ش اعری کے ب ڑے م داح تھے اور داغ ک و ہونہ ار س مجھتے تھے۔ بق ول داغ میں نے‬
‫مرزا غ ؔ‬
‫مرزا غالب کی مشہور غزل‪:‬‬
‫حال دل پہ ہنسی‬
‫آگے آتی تھی ِ‬
‫اب کسی بات پر نہیں آتی‬
‫مرزا غالب بے چین ہوگئے ۔ زانوں پر ہاتھ مار کر بولے ''خدا نطر بد سے بچ ائے ص احبزادے تم نے ت و کم ال کردی ا''۔‬
‫داغ ازل سے ہی عشق کا جذبہ اپنے دل میں لیکر پیدا ہوئے تھے ۔ وہ سانس بھی لیتے تھے ت و عش ق کی چھ ری ان کے‬
‫قلب و جگر میں پیوست ہوتی تھی ۔ ان کے ہاں عشق کی بے انتہا شدت ہے ۔ والہانہ جذبات ‪ ،‬لطافت زبان ‪ ،‬ن زاکت الف اظ‬

‫‪10‬‬
‫و بیان‪ ،‬محاوروں کا برمح ل اس تعمال ‪ ،‬ت رنم اور س وزو گ داز داغ کی ش اعری ک ا مخص وص رن گ ہے ۔ داغ نے اپ نی‬
‫شاعری میں عاشقانہ زندگی کی بہترین مرقع کشی کی ہے اور ان کی کہی ہوئی غزلیں اس بات کا ثب وت پیش ک رتی ہیں۔‬
‫اُن کے اشعار میں ترنم ‪ ،‬دلکشی اور سوز و گداز بدرجہ اتم موج ود ہے۔ داغ نے غ زل جیس ی روای تی ص نف س خن میں‬
‫ایک دلکش اور منفرد اسلوب کی بنیاد ڈالی ہے ۔ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی داغ کی ش اعری اپن ا خ اص‬
‫اثر رکھتی ہے۔‬
‫آڑے آیا نہ کوئی مشکل میں‬
‫مشورے دے کے ہٹ گئے احباب‬
‫اعلی حضرت نواب میر محبوب علی خان بہ ادر آص ف ج اہ س ادس والی حی درآباد (دکن) داغ کی شخص یت اور ش اعری‬
‫ٰ‬
‫اعلی حضرت غفران مک ان‬
‫ٰ‬ ‫کے مداح تھے اور ریاست حیدرآباد (دکن) کے عوام بھی داغ کی شاعری کے شیدائی تھے ۔‬
‫آصف جاہ سادس ‪ 17‬اپریل ‪ 1888‬ء کو فرمان جاری کیا اور بڑی خواہش سے دا غ ک و حی درآباد (دکن) طلب فرمای ا تھ ا‬
‫اور داغ حیدرآباد تشریف الئے اور شاہ دکن کی نوازشوں کے مورد ہوئے اور س اڑھے چ ار س و روپ ئے م اہوار تنخ واہ‬
‫عطا کی گئی اور تین برس تک یہی ماہوار ملتی رہی اور اس کے بعد ساڑھے پ انچ س و روپ ئے ک ا اض افہ ک رکے ای ک‬
‫ہزار روپئے وظیفہ ماہوار مقرر ہوا جو تاحیات جاری رہا ۔ داغ جس آرام و سکون کے متالشی تھے ‪ 1857‬ء کے بعد ان‬
‫کو رام پور اور حیدرآباد (دکن) میں نصیب ہوا ۔داغ ''استاد سلطان'' کے باوقار خط اب س ے بھی ن وازے گ ئے اور جہ ان‬
‫اعلی اع زازات س ے بھی س رفراز ہ وئے ۔ داغ نے غف ران مک ان‬
‫ٰ‬ ‫استاد فصیح الملک ناظم یار جن گ دب یر ال دولہ جیس ے‬
‫آصف جاہ سادس کی بے انتہا نوازشوں کا ذکر اپنے اس شعر میں کیا ہے ۔‬
‫ہے الکھ الکھ شکر ائے داغ ان دنوں‬
‫آرام سے گزرتی ہے شاہ دکن کے پاس‬
‫داغ کا قیام محلہ ‪ ،‬افضل گنج حیدرآباد میں رہا ۔ داغ کی حیدرآباد میں مقبولیت اور ش ہرت ک ا راز ان کی خ وش اخالقی ‪،‬‬
‫ملنساری ‪ ،‬خودداری اور ہمدردی ہے ۔ داغ کے حیدرآباد آنے سے پہلے لوگ ان کے نام اور کام سے اچھی ط رح واق ف‬
‫تھے ۔ داغ کے آنے سے قبل ہی ان کا شعری دیوان ''گلزار داغ'' حی درآباد پہنچ چک ا تھ ا اور ''دال من ڈی'' کے ناٹ ک ج و‬
‫حیدرآباد میں پہلی بار قائم ہوئی تھی ‪ ،‬داغ کی غزلیں گائی جاتی تھیں اور لوگ بڑے ہی اشتیاق سے ان کی غزلیں سنتے‬
‫تھے اور اکثر لوگ ان سے خط و کتابت کے ذریعہ شاگرد ہوچکے تھے ۔ داغ کے حیدرآباد آتے ہی ان کی قدر و م نزلت‬
‫میں اضافہ ہوگیا ۔ ارباب اقتدار مہاراجہ چندوالل شاداب ‪ ،‬مہاراجہ کشن پرشاد شاد اور دوسرے ام راء داغ کی شخص یت‬
‫اور شاعری کے بڑے مداح تھے اور شاہ دکن آصف جاہ سادس پر تو داغ کی شاعری کا جادو چ ل چک ا تھ ا ۔ داغ نہ ایت‬
‫شریف النفس اور نیک دل انسان تھے ۔ انہوں نے زن دگی میں کبھی ش راب ک و ہ اتھ نہیں لگای ا اور نہ کس ی کے کالم پ ر‬
‫اعتراض کیا اور نہ کسی معترض کو جواب دیا اور نہ کسی سازش وں میں مل وث رہے ۔ داغ کے ام یروں ‪ ،‬رئیس وں اور‬
‫ارباب اقتدار سے گہرے مراسم تھے اور وہ ہر سبھی سے ملتے تھے مگر وہ غریب وں س ے بھی اک ڑتے نہ تھے۔ یہ تھ ا‬
‫شائستہ تہذیبی ورثہ جس کے داغ تنہ ا وارث تھے ۔ ش اعری میں والہ انہ ج ذبات ‪ ،‬لط افت زب ان ‪ ،‬ن زاکت الف اظ و بی ان ‪،‬‬
‫محاوروں کا بر محل استعمال ‪ ،‬ترنم اور سوز و گداز داغ ک ا مخص وص رن گ ہے ۔ داغ نے اپ نی ش اعری میں عاش قانہ‬

‫‪11‬‬
‫زندگی کی بہترین مرکش کی ہے ۔شاعر مشرق عالمہ اقبال جو اردو زبان و ادب کے مشہور شاعر و مفکر گ زرے ہیں‪،‬‬
‫انہیں داغ دہلوی سے شرف تلمذ حاصل تھا ۔ وہ داغ کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح تھے ۔ حضرت امیر مینائی‬
‫جو ‪ 5‬ستمبر ‪ 1900‬ء کو حیدرآباد تشریف الئے اور حیدرآباد آکر اپنے دی رینہ رفی ق داغ کے مہم ان ہ وئے لیکن قض ا و‬
‫قدر نے انہیں یہاں زیادہ عرص ہ قی ام کی اج ازت نہیں دی اور ‪ 13‬اکت وبر ‪ 1900‬ء ک و آپ نے انتق ال فرمای ا اور آپ کی‬
‫آخری آرام گاہ حیدرآباد میں ہے ۔ داغ نے اپنے دیرینہ احباب کی مفارقت کی طرف اشارہ کرتے ہ وئے اس ط رح فرمای ا‬
‫تھا ۔‬
‫داغ اس ضعف نے کی اپنی تو منزل کھوئی‬
‫ہم رہے جاتے ہیں سب یار چلے جاتے ہیں‬
‫‪ 1891‬ء میں داغ نے اپنی رفیقہ حیات فاطمہ بیگم کو حیدرآباد بلوالیا تھا جو یہاں (‪ )7‬سال اور چند ماہ کے قیام کے بع د‬
‫‪ 1898‬ء میں انتقال فرمائیں جس کا داغ کو گہرا صدمہ ہوا ۔ اس کے بعد داغ کی طبیعت آہستہ آہستہ ان کا ساتھ چھ وڑنے‬
‫لگی اور داغ بیمار رہنے لگے ۔ ''دبدبہ آصفی'' ‪ 6‬ذی الحجہ ‪ 1322‬ھ میں داغ کے م رض الم وت کی تفص یل ش ائع ہ وئی‬
‫تھی ۔ مہتمم لکھتے ہیں کہ داغ آٹھ دن تک بستر عاللت پر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتال رہے۔ بائیں جانب ف الج‬
‫کے حملے کی وجہ سے جسم کا ایک حصہ بے حس ہوگیا تھا ۔ عبدالمجید آزاد کا بیان نور ہللا محمد نوری نے اس ط رح‬
‫نقل کیا ہے کہ ''داغ کو آخری زمانہ حیات میں اپ نی زن دگی س ے ک وئی دلچس پی ب اقی نہیں رہی تھی اور انہ وں نے آزاد‬
‫سے کہا تھا کہ اب مجھے عطر کی بو محس وس نہیں ہ وتی ‪ ،‬گان ا س نوں ت و وحش ت ہ ونے لگ تی ہے ۔ غ زل کہ نے اور‬
‫سننے سے طبیعت دور بھاگتی ہے ۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ اب میری زندگی کے دن ختم ہوچکے ہیں''۔‬
‫ہوش و حواس تاب و تواں داغ جاچکے‬
‫اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا‬
‫‪ANS 04‬‬
‫حالی ؔ کے مسدس نے اردو میں قومی شاعری کی بنیاد ڈالی۔مسدس لکھے جانے کی تہذیبی و سماجی وجوہ ات بھی تھیں۔‬
‫‪1857‬ء کے حاالت کے بعد مسلمانوں کو ایک طرح سے زوال آگیا تھا۔ مغلیہ سلطنت اورج اگیر داری نظ ام کے خ اتمے‬
‫کے بعد بے ہنر مسلمانوں اور ہندوستانیوں کے سامنے معاشی بدحالی کا اندھیرا چھای ا ہ وا تھ ا۔ دین س ے دوری اور بے‬
‫جا رسم و رواج میں پھنسے مسلمانوں کے لئے کوئی راس تہ نہیں تھ ا۔ کہ ا جات ا ہے کہ جس جگہ ت اریکی ہ وو ہیں س ے‬
‫روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ خواب غفلت میں ڈوبی قوم کو سیدھا راستہ دکھ انے کے ل ئے ای ک مس یحا کے روپ میں‬
‫سرسید احمد خاں ہندوستان کی تہ ذیبی و س ماجی زن دگی کے اف ق پ ر ای ک روش ن س تارے کی مانن د ابھ رے۔ انہ وں نے‬
‫محسوس کیا کہ مسلمانوں کی ترقی تعلیم کے حص ول میں مض مر ہے اور یہ کہ اس ق وم ک و خ واب غفلت س ے جگ انے‬
‫بلی ‘ن ذیر احم د‘ آزاد اور دیگ ر رفق اء کے س اتھ ای ک س ماجی تحری ک‬
‫کے لئے کچھ کرنا چاہئے۔ انہوں نے ح الی ؔ ‘ش ؔ‬
‫شروع کی جسے اردو ادب کی تاریخ میں علی گڑھ تحریک کہا جات ا ہے۔ سرس ید چ اہتے تھے کہ ق وم ک و جھنجھ وڑنے‬
‫کے لئے کوئی ایسی شاہکار نظم لکھی جائے جس میں مسلمانوں کا شاندار ماض ی بھی دکھای ا ج ائے اور موج ودہ پس تی‬
‫کے ساتھ مستقبل کی راہ بھی دکھائی جائے۔ انہوں نے دیکھا کہ حالی ؔ پرانی شاعری س ے ب یزار تھے اور اردو میں نظم‬

‫‪12‬‬
‫نگاری کے تجربے کر رہے تھے چنانچہ انہوں نے حالی ؔ سے مسدس لکھنے کی فرم ائش کی۔ح الی ؔ بھی پ رانی غ زلیہ‬
‫حالی اپنی کیفیت کے ب ارے میں مس دس میں‬
‫ؔ‬ ‫شاعری سے بیزار تھے اور ادب کی مقصدیت کے لئے کام کر رہے تھے ۔‬
‫تے ہیں‪:‬‬ ‫لکھ‬
‫زمانے کا نیا ٹھاٹھ دیکھ کر پرانی شاعری سے دل سیر ہوگیا تھ ا۔ اور جھ وٹے ڈھکوس لے بان دھنے س ے ش رم آنے لگی‬
‫تھی۔ نہ یاروں کے ابھاروں سے دل بڑھتا تھا نہ ساتھیوں کی ریس سے کچھ جوش آتا تھا۔ مگر کہ ایک ناسور کا منہ بن د‬
‫کرنا تھا جو کسی نہ کسی راہ سے تراوش کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔اس لئے بخارات درونی جن کے رکنے س ے دم گھٹ ا‬
‫جاتا تھا دل و دماغ میں تالطم کر رہے تھے اور کوئی رخنہ ڈھونڈتے تھے۔ قوم کے ایک سچے خیر خ واہ نے ج و اپ نی‬
‫قوم کے سواتمام ملک میں اسی نام سے پکارا جاتا تھا اور جس طرح خود اپنے پرزور ہاتھ اور ق وی ب ازو س ے بھ ائیوں‬
‫کی خدمت کر رہا تھا اسی طرح ہر اپاہج اور نکمے کو اسی کام پ ر لگان ا چاہت ا تھ ا آک ر مالمت کی اور غ یرت دالئی کہ‬
‫حیوان ناطق ہونے کا دعوی کرنا اور خدا کی دی ہوئی زبان سے کچھ کام نہ لین ا ب ڑے ش رم کی ب ات ہے۔۔۔ ہ ر چن د اس‬
‫حکم کی بجا آوری مشکل تھی اور خدمت کا بوجھ اٹھانا دشوار تھا ۔ مگر ناصح کی جادو بھ ری تقری ر جی میں گھ ر ک ر‬
‫گئی۔ دل سے ہی نکلی تھی دل میں جاکر ٹہری۔ برسوں کی بجھی ہوئی طبعیت میں ایک ولولہ پیدا ہ وا ۔ باس ی ک ڑی میں‬
‫ابال آیا۔ افسردہ دل بوسیدہ دماغ جو امراض کے متواترحملوں سے کسی کام کے نہ رہے تھے انہیں سے ک ام لین ا ش روع‬
‫الم۔ص۔ ‪۳‬۔‪)۴‬‬ ‫دوجزر اس‬ ‫دس م‬ ‫الی۔ مس‬ ‫ین ح‬ ‫اف حس‬ ‫اد ڈالی۔ ( الط‬ ‫دس کی بنی‬ ‫ک مس‬ ‫ا اور ای‬ ‫کی‬
‫ان خیاالت کے ساتھ حالی ؔ نے سرسید کی فرمائش پر لبیک کہا اور یہ شہرہ آفاق نظم’’ مسدس م دوجزر اس الم ‘‘ لکھی۔‬
‫جس پر سب سے اہم تاریخی تبصرہ سرسید نے کیا جب کہ انہوں نے مس دس دیکھ ک ر کہ ا کہ’’ اگ ر خ دا نے مجھ س ے‬
‫پوچھا کہ دنیا سے کیا الئے ہوتو‪ ،‬میں کہہ دوں گا کہ حالی سے ْمس ّدس لکھواالیا ہوں۔‘‘مسدس کی اس سے اچھی تعریف‬
‫اور کسی نے نہیں کی۔حالی ؔ نے یہ نظم لکھنے کے لئے مسدس کا فارم استعمال کیا۔ مس ّدس چھ مص رعوں والی نظم ک و‬
‫کہتے ہیں‪ ،‬اس کے ہر بند میں چھ مصرعے ہوتے ہیں۔ اس کے پہلے چار مص رعے ہم ق افیہ ہ وتے ہیں اورآخ ری ش عر‬
‫کسی اور قافیہ میں آت ا ہے۔ مسلس ل واقع ات‪ ،‬یع نی ق ومی‪ ،‬سیاس ی اور اخالقی موض وعات کی ادائیگی کے ل یے مس ّدس‬
‫نہایت موزوں صنف ہے۔اس میں روانی ہوتی ہے اور اثر انگیزی بھی۔ اردو میں اگرچہ مس ّدس کس ی ال گ ص نف س خن‬
‫کی حیثیت نہیں رکھتی‪ ،‬تاہم یہ اردو شاعری کا اہم جز ہے‪ ،‬عربی اور فارسی شاعری میں مس ّدس کاوجود نہیں ہے۔ لیکن‬
‫حالی کا مدوجزر اسالم اور عالمہ اقبال کا شکوہ وجواب شکوہ چونکہ اس طرز میں لکھا گیا ہے‪ ،‬لہٰ ذا نظم کی‬
‫ؔ‬ ‫اردو میں‬
‫اس صورت کو کافی اہمیت حاصل ہوچکی ہے۔اس کے عالوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس زمانہ میں کربال اور اہ ِل بیت‬
‫کے واقعات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ْمس ّدس سمجھا جاتا تھا۔ اس طرز میں غم والم کی داستانیں سْنا سْنا کر لوگ وں ک و‬
‫حالی ہی حقیقتا ً قوم ک ا م رثیہ بھی لکھ رہے تھے‪ ،‬ل ٰہ ذا انھ وں نے ْمس ّدس ک و اس مقص د کے ل یے‬
‫ؔ‬ ‫رْ الیا جاتا تھا؛ چونکہ‬
‫موزوں ترین صنف تصوّر کیا اور اسی ک و اپنای ا۔ اس وقت مثن وی محض رزم وح زن کے واقع ات کے ل یے مخص وص‬
‫ہوچکی تھی‪ ،‬ل ٰہذا ممکن نہ تھا کہ اس کے ایک ایک شعر میں تاریخ کے عالحدہ واقعات ک ا ذک ر کی ا جات ا۔ اس ل ئے بھی‬
‫حالی نے ْمس ّدس کو اپنایا‪ ،‬اس کے ہربند میں الگ الگ واقعات کے تذکرہ کی گنجائش تھی‪،‬اس میں تمام واقعات سامع پ ر‬
‫کتا ہے۔‬ ‫ذ کرس‬ ‫تیجہ اخ‬ ‫حیح ن‬ ‫اری ص‬ ‫ے ہرق‬ ‫اتے ہیں‪ ،‬جس س‬ ‫امنے آج‬ ‫رس‬ ‫لک‬ ‫کھ‬

‫‪13‬‬
‫حالی ؔ کی مسدس کی مقبولیت کی ایک وجہہ بھی اس کا فارم ہے کہ ایک ایک بن د میں ب ات بی ان کی ج ائے اور بن د کے‬
‫آخری دو مصرعوں میں بات کو انجام تک پہونچایا جائے۔مسدس کو اردو کی پہلی طویل ق ومی نظم کہ ا گی ا۔اس نظم میں‬
‫حالی نے مسلمانوں کی مذہبی‪ ،‬تہذیبی اور علمی زندگی کا ارتقا دکھایا‪ ،‬ظہ ور اس الم اور مس لمانوں کے زوال کی کہ انی‬
‫ؔ‬
‫پیش کی۔ نظم کا مقصد ایک طرح سے قومی بیداری اور اس ناقابل تالفی نقصان ک ا ازالہ کرن ا مقص ود تھ ا‪ ،‬ج و معاش ی‬
‫اور اخالقی تن ّزل کی وجہ سے ظہور میںآ یا ہے‪ ،‬اس کے لیے شاعر نے ان تمام عیوب اور کمزوریوں ک و انتہ ائی م وثر‬
‫اور درد انگیز طریقہ سے بیان کیا ہے۔ اس کا مقصد احساس زیاں ک و بی دار کرن ا تھ ا اور مس لمانوں کی پس تی ک ا عالج‬
‫ا کہ‪:‬‬ ‫وئے لکھ‬ ‫رتے ہ‬ ‫ان ک‬ ‫ارف بی‬ ‫الی تع‬ ‫ا اجم‬ ‫دس ک‬ ‫الی نے مس‬ ‫ود ح‬ ‫بھی۔ خ‬
‫ور‬
‫’’اس مسدس کے آغاز میں پانچ سات بند تمہید کے طور پر لکھ کر عرب کی ابتر حالت کا خاکہ کھینچ ا ہے‪ ،‬ج و ظہ ِ‬
‫اسالم سے پہلے تھی اور جس کا نام اسالم کی زبان میں جاہلیت رکھا گیا تھا‪ ،‬پھر کوکب اسالم کا ظہور ہونا اور نبی ْا ّمی‬
‫کی تعلیم سے اس ریگستان کا سرسبز وشاداب ہوجانا اوراس ابررحمت ک ا ہ را بھ را چھ وڑ جان ا اور مس لمانوں ک ا دی نی‬
‫ودنیوی ترقیات میں تمام عالم پر سبقت لے جانا بیان کیا ہے۔ اس کے بعد ان کے تن ّزل کا حال لکھا ہے اور ق وم کے ل یے‬
‫اپنے بے ہنر ہاتھوں سے ای ک آئینہ بنای ا ہے جس میں آک ر وہ اپ نے خ دوخال دیکھ س کتے ہیں کہ ہم ک ون تھے اور کی ا‬
‫الم۔ص۔‪۳‬۔‪)۴‬‬ ‫دوجزر اس‬ ‫دس م‬ ‫الی۔ مس‬ ‫ین ح‬ ‫اف حس‬ ‫ئے۔‘‘ ( الط‬ ‫ہوگ‬
‫ا ہے‬ ‫ے ہوت‬ ‫اعی س‬ ‫از اس رب‬ ‫ا آغ‬ ‫دس ک‬ ‫مس‬
‫ا دیکھے‬ ‫ے گزرن‬ ‫دس‬ ‫وئی ح‬ ‫اک‬ ‫تی ک‬ ‫پس‬
‫ا دیکھے‬ ‫ر نہ ابھرن‬ ‫رک‬ ‫اگ‬ ‫الم ک‬ ‫اس‬
‫زر کے بعد‬ ‫د ہے ج‬ ‫انے نہ کبھی کہ م‬ ‫م‬
‫دس ۔ ص۔‪)۱‬‬ ‫ا دیکھے ( مس‬ ‫و اترن‬ ‫ارے ج‬ ‫ا ہم‬ ‫اک‬ ‫دری‬
‫مسدس میں خیاالت کی روانی ہے اور د لسو ز انداز میں بات کہی گ ئی ہے۔ مس لمانوں کی پس تی ک و بی ان ک رتے ہ وئے‬
‫تے ہیں‪:‬‬ ‫الی کہ‬
‫ؔ‬ ‫ح‬
‫ا ہے‬ ‫وم ک‬ ‫ا میں اس ق‬ ‫ال دنی‬ ‫یہی ح‬
‫را ہے‬ ‫ا گھ‬ ‫از آکے جس ک‬ ‫ور میں جہ‬ ‫بھن‬
‫ا ہے‬ ‫اں بپ‬ ‫ارہ ہے دور اور طوف‬ ‫کن‬
‫ا ہے‬ ‫ردم کہ اب ڈوبت‬ ‫اں ہے یہ ہ‬ ‫گم‬
‫تی‬ ‫ل کش‬ ‫ر اہ‬ ‫روٹ مگ‬ ‫تے ک‬ ‫نہیں لی‬
‫تی‬ ‫ل کش‬ ‫بر اہ‬ ‫وتے ہیں بے خ‬ ‫ڑے س‬ ‫پ‬
‫الی نے پیغم بر اس الم حض رت محم د ص لی ہللا علیہ وص لم کی بعثت‬
‫عرب کی جہالت اور پستی بی ان ک رنے کے بع د ح ؔ‬
‫ا۔‬ ‫ان کی‬ ‫و بی‬ ‫نی ک‬ ‫الم کی روش‬ ‫ئی اس‬ ‫ے الئی گ‬ ‫انب س‬ ‫ارکہ اور آپﷺ کی ج‬ ‫مب‬
‫و پڑھایا‬ ‫ا ان ک‬ ‫ریعت ک‬ ‫رش‬ ‫بق پھ‬ ‫س‬
‫ک اک بتایا‬ ‫و ای‬ ‫ر ان ک‬ ‫اگ‬ ‫حقیقت ک‬

‫‪14‬‬
‫و بنایا‬ ‫وؤں ک‬ ‫ڑے ہ‬ ‫انے کے بگ‬ ‫زم‬
‫و جگایا‬ ‫وؤں ک‬ ‫وتے ہ‬ ‫بہت دن کے س‬
‫اں پر‬ ‫ک جہ‬ ‫و راز اب ت‬ ‫کھلے تھے نہ ج‬
‫دس ۔ص ‪)۲۰‬‬ ‫ر ( مس‬ ‫اک‬ ‫ردہ اٹھ‬ ‫کپ‬ ‫وہ دکھال دئے ای‬
‫مسدس میں آپ ﷺ کی شان میں کہے گئے وہ نعتیہ اشعار بھی ہیں جو اکثر محافل نعت میں پڑھے جاتے‬
‫ہیں۔‬
‫انے واال‬ ‫بیوں میں رحمت لقب پ‬ ‫وہ ن‬
‫ر النے واال‬ ‫وں کی ب‬ ‫رادیں غریب‬ ‫م‬
‫ام آنے واال‬ ‫یروں کے ک‬ ‫یبت میں غ‬ ‫مص‬
‫انے واال‬ ‫ا غم کھ‬ ‫رائے ک‬ ‫نے پ‬ ‫وہ اپ‬
‫ٰ‬
‫اوی‬ ‫ام‬ ‫عیفوں ک‬ ‫اض‬ ‫ا ملج‬ ‫یروں ک‬ ‫فق‬
‫‪)۲۲‬‬ ‫دس ۔ص‬ ‫ولی ( مس‬
‫ٰ‬ ‫ام‬ ‫وں ک‬ ‫ا والی غالم‬ ‫تیموں ک‬ ‫ی‬
‫تے ہیں‪:‬‬ ‫الی کہ‬ ‫وئے ح‬ ‫رتے ہ‬ ‫ان ک‬ ‫ال بی‬ ‫اح‬ ‫تی ک‬ ‫تانیوں کی پس‬ ‫ہندوس‬
‫راز ہیں ہم‬ ‫ومت کے ہم‬ ‫ل حک‬ ‫نہ اہ‬
‫رفراز ہیں ہم‬ ‫اریوں میں س‬ ‫نہ درب‬
‫زاز ہیں ہم‬ ‫ایان اع‬ ‫وں میں ش‬ ‫نہ علم‬
‫از ہیں ہم‬ ‫رفت میں ممت‬ ‫نعت میں ح‬ ‫نہ ص‬
‫وکری میں‬ ‫نزلت ن‬ ‫تے ہیں کچھ م‬ ‫نہ رکھ‬
‫نہ حصہ ہمارا ہے سوداگری میں‬
‫‪ANS 05‬‬
‫‪   ‬ناصر کی شاعری میں رات کا ذکر بہت زیادہ ہے اور یہ رات کی عالمت اِس کے اندر موجود اُداسی اور ایک گہ ری‬
‫خامشی کی غمازی بھی کرتی ہے۔ ڈاکٹر نیئر صمدانی لکھتے ہیں کہ ناصر خود اپنے بارے میں کہتا ہے کہ‪:‬‬
‫’’اصل میں رات میری شاعری میں بہت اہمیت رکھتی ہے اس کی وجہ اندھیری رات نہیں ہے۔ یا وہ جسے ہمارے جدی د‬
‫شعرا ایک تاریکی کا استعارہ کہتے ہیں۔ رات تخلیق کی عالمت ہے دنیا کی ہر چیز رات کو تخلیق ہوتی ہے۔‘‘‬
‫کپڑے بدل کر بال بنا کہاں چلے ہو کس کے لیے‬
‫رات بہت کالی ہے ناصر گھر میں رہو تو بہتر ہے‬
‫‪۱۹۴۷       ‬ء کے بعد کی شاعری میں ماضی کی بازگشت نمایاں ہو جاتی ہے اور ناصر کی یاد کے گالب پ وری ط رح‬
‫کھل اُٹھتے ہیں۔‬
‫’’ناصر ان رونقوں کو یاد کرتا ہے اور اِن لوگوں کو یاد کرتا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے دل کی تار مالتا تھا۔‘‘‬

‫‪15‬‬
‫‪       ‬ناصر نے ہجرت کے دوران جو تباہی و بربادی دیکھی جو ظلم و ستم اپنوں پر ہوئے دکھایا اس پر اس نے غزل وں‬
‫میں نوحے رقم کیے۔ ‪۱۹۴۷‬ء کے بعد کی غزلوں میں اس کی پہلی غزل اس کا نوحہ ہی تو ہے‪:‬‬
‫رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ‬
‫لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ‬
‫کیا کہوں اب تمہیں خزاں والو‬
‫جل گیا ٓاشیاں میں کیا کیا کچھ‬
‫‪       ‬سہیل احمد بتاتے ہیں ناصر نے ان نوحوں کے متعلق ایک دفعہ ٹی ہأوس میں احمد مشتاق کا یہ شعر پڑھا تھا‪:‬‬
‫خالی شاخیں بال رہی ہیں‬
‫پھولو ٓأو کہاں کھلتے ہو‬
‫‪       ‬یہاں پر ناصر نے واضح کر دیا کہ یہ نوحہ ایسی مأوں کاہے جن کے پھول غدر میں اپنوں س ے ج دا ہ و گ ئے ہیں‬
‫مگر اس کا مقصد یہ نہیں کہ اس کا کوئی مفہوم نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے کئی ایک مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ناص ر ک اظمی‬
‫کے بارے میں سجاد باقر رضوی لکھتے ہیں کہ‪:‬‬
‫’’ناصر کاظمی کی شعری سلطنت مختلف منطق وں میں ن ئی ہ وتی ہے۔ اس کی س لطنت ک ا نقش ہ س جے ہ وئے ش ہروں‪،‬‬
‫ٹھٹھری ہوئی راتوں‪ ،‬سونے راستوں‪ ،‬دھکے کنکروں‪ ،‬کانٹوں اور بے چراغ گلیوں‪ ،‬جلی ہوئی کھیتیوں‪ ،‬بدیسی جھیل وں‪،‬‬
‫بجھے دنوں کے ڈھیروں‪ ،‬خاموشیوں کے قفل‪ ،‬دھوپ کے سائبان‪ ،‬زخم و گفا ٓاتش خاموشی سے قریب ہوتا ہے۔‘‘‬
‫داز بی اں موج ود ہے‬
‫‪       ‬ناصر کاظمی نے بہت سے موضوعات پر شاعری کی۔ ان کی ش اعری میں وہ لہجہ اور وہ ان ِ‬
‫جسے ہندوستان اور پاکستان کے لوگ دل سے محسوس کر سکتے ہیں۔ حمیر ہاشمی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’ناصر کاظمی کا نظر سے زیادہ زمین کے ساتھ گہرا رش تہ تھ ا اس زمین کے توس ط س ے اس کی پرن دوں‪ ،‬درخت وں‪،‬‬
‫پہاڑوں‪ٓ ،‬ابشاروں‪ ،‬ندیوں‪ ،‬دریأوں‪ ،‬نالوں اور ہر شے سے قربت تھی جس کے بدن سے اِس کو اپ نی م ٹی کی خوش بوٓاتی‬
‫تھی ان کی تمام شاعری خوشبو کی بازیافت کا نام ہے۔‘‘‬
‫‪       ‬ناصر کی زندگی میں ہجرت کی وجہ سے بے شک بہت بڑا یادوں کا سیالب ٓانا ہے لیکن اِس کے باوجود یہ جم ود‬
‫پرست شاعر نہیں ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد زندگی کی تیز طرار موجوں کے ساتھ جینا سیکھ لیتا ہے۔‬
‫’’ناصر نے اپنے باطن سے ظاہر کی طرف اور ظاہر سے باطن کی طرف الہور شہر میں ایک بستی بسائی۔‘‘‬
‫’’شہر طرب‘‘‬
‫ِ‬ ‫‪       ‬ناصر نے اپنے دل میں ٓارزؤوں اور حسرتوں کے قافلوں کو قیام کے لیے جگہ بخشی اور الہور کو‬
‫کی خلعت بخشی۔‬
‫‪       ‬ایک شام وہ پاک ٹی ہأوسمیں ایک غزل لکھ کر الیا جس نے تمام الہوریوں کا دل جیت لیا۔ وہ غزل کیا تھی؟ وہ ت و‬
‫ٓازادی کی تگ و دو اور اضطراب سے نڈھال قوم کے لیے ایک نفسیاتی لوری تھی۔‬
‫دن ڈھال رات پھر ٓاگئی سو رہو‬
‫منزلوں پہ چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو‬
‫سارا دن تپتے ہوئے سورج کی گرمی میں جلتے رہے‬

‫‪16‬‬
‫ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو‬
‫‪       ‬یہ مسلسل غزل ای ک عجیب اور اجن بی روپ میں نظ ر ٓاتی ہے۔ یہ دن کی دوڑ دھ وپ س ے رات ت ک س کون اور‬
‫راحت کی طرف ہجرت کا اشارہ تھی۔ وہ رات اور وہ بات جو ہمارے جسم اور وجود میں مستور ہوتی ہے ناصر نے اس‬
‫میں ہمارے نفس اور وجود میں چھپی رات کو اُجاگر کیا ہے۔‬
‫‪۱۹۵۲       ‬ء۔‪۱۹۵۳‬ء کا دور ناصر کاظمی کی شاعری میں نئی مہکاروں کا زمانہ ہے۔ اِس دور میں یاد‪ ،‬اداسی‪ ،‬تنہائی‬
‫کی وہ شدت نہیں جو اس سے پہلے تھی۔ البتہ اِس دور میں ’’چاند اور دھیان‘‘ کے استعارے اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔‬
‫ناصر‬
‫ؔ‬ ‫دل تو میرا اُداس ہے‬
‫شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے‬
‫‪       ‬چاند اور دھیان دو ایسے لفظ ہیں جو بہت کثرت سے ٓاتے ہیں ہر مرتبہ معنی بدل بدل کر استعمال کیے ج اتے ہیں۔‬
‫چاند کو دیکھ کر تو ناصر پر دیوانگی چھا جاتی ہے۔‬
‫ناصر‬
‫ؔ‬ ‫شام سے سورج رہا ہوں‬
‫چاند کس شہر میں اُترا ہو گا‬
‫______‬
‫شہر اُجڑے تو کیا ہے کشادہ زمی ِن خدا‬
‫اِک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر‬
‫‪       ‬اس غزل میں ناصر نے پرانی قدروں کو پھر سے تہذیب کا حصہ بنانے کی ٹھان لی ہے اور عوام الناس کو پچھلے‬
‫ظلم و ستم کو بھال کر صبر کا درس دیا ہے اس کے ساتھ ساتھ اگلی م نزلوں کے راس تے ہم وار ک رنے کی ت رغیب بھی‬
‫دیتا ہے۔‬
‫‪       ‬ناصر نے خود بھی اپنی شاعری کے بارے میں کہا تھا کہ اگر ہم عطر کی شیشی کھ ولیں ت و خوش بو ت و ٓائے گی‪،‬‬
‫مگر پھول یا ب اغ نظ ر نہیں ٓائیں گے‪ ،‬اس ی ط رح ناص ر کی ش اعری عط ر کی شیش ی کی س ی ہے۔ ان کی تمث الوں اور‬
‫اشاروں سے ہمیں اپنے عہد کی خوش بو ٓاتی ہے۔ ناص ر کی ش اعری موج ودہ نہیں بلکہ ٓانے والے دور کی بھی عکاس ی‬
‫کرتی ہے۔‬
‫ناصر‬
‫ؔ‬ ‫وقت اچھا بھی ٓائے گا‬
‫غم نہ کر زندگی بڑی ہے ابھی‬
‫_______‬
‫ناصر‬
‫ؔ‬ ‫رات بھر جاگتے رہتے ہو بھال کیوں‬
‫ت بیدار کہاں سے پائی‬
‫تم نے یہ دول ِ‬
‫_______‬
‫اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں‬
‫ٓائینے ٓانکھوں کے دھندلے ہو گئے‬

‫‪17‬‬
‫_______‬
‫ناصر‬
‫ؔ‬ ‫سوکھے پتوں کو دیکھ کر‬
‫یاد ٓائی ہے گل کی باس بہت‬
‫_______‬
‫روتے روتے کون ہنسا تھا‬
‫بارش میں سورج نکال تھا‬
‫‪       ‬ناصر نے سبز مرگ پر انتظار حسین کو جو غزل سنائی وہ ناصر کاظمی کی زندگی کا المیہ ہے۔‬
‫وہ ساحلوں پر گانے والے کیا ہوئے‬
‫وہ کشتیاں چالنے والے کیا ہوئے‬
‫‪       ‬یہ غزل ناص ر نے ‪۳۰‬؍ اپری ل ‪۱۹۷۱‬ء میں اے وی ایچ میں بیم اری کے دوران میں کہی تھی۔ اس پ ر ٓافت اب احم د‬
‫کہتے ہیں‪:‬‬
‫’’یوں محسوس ہوتا ہے کہ اِس غزل میں ناصر نے وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو ساری عمر کہنے کی کوش ش کرت ا رہ ا۔‬
‫اس میں زندگی سے مایوسی بھی ہے اور زندگی کی حسرت بھی اور تمنا بھی۔ رات کی تاریکی اور صبح کا انتظار بھی‬
‫جو اپنے ساتھ نئے قافلے النے والی تھی۔‘‘‬
‫‪       ‬اس سے بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی ناصر کا نوحہ ہے کی ونکہ ناص ر کی زن دگی میں ہج رت کے الم ن اک‬
‫مناظر کبھی کبھی اوجھل نہیں رہے۔ لمحہ بہ لمحہ اس کی کسک ناصر نے خود اپنے وجود میں سرکتی‪ ،‬اچھلتی‪ ،‬مچلتی‬
‫دیکھی ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خان کہتے ہیں‪:‬‬
‫’’ناصر کا سفر شہروں کے اُجڑے قافلوں کے لٹے اور اُڑتی ہوئی خاک کے درمیان شروع ہوا تھا اور ساحلوں پر گانے‬
‫والوں اور کشتیاں چالنے والوں کے گم ہونے پر ختم ہوا۔‘‘‬
‫‪       ‬ناص ر ک اظمی کے کالم میں جہ اں اس کے ذاتی دکھ وں کی کہانی اں ماض ی کی زن دگی کی ی ادیں پ رانی اور ن ئی‬
‫بستیوں کا حال بھی رونقیں‪ ،‬ایک بستی کے بچھڑنے کا غم اور دوسری بستی بسانے کی حسرت تعمیر ملتی ہے وہ اں وہ‬
‫اپنے عہد اور اس میں زندگی بسر کرنے کے تقاضوں سے بھی غافل نہیں۔ اپنے کالم میں ان کا عہ د بولت ا ہ وا محس وس‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫رنگ دکھالتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی‬
‫بال چاندی ہو گئے سونا ہوئے رخسار بھی‬
‫‪       ‬یہ عمر ناصر کی پختگی کی عمر تھی اور ش اعری میں اس ک ا رن گ نظ ر بھی ٓات ا تھ ا۔ ناص ر نے ب رگِ نے میں‬
‫صحیح ہی تو کہا ہے‪:‬‬
‫ڈھونڈیں گے لوگ مجھ کو ہر محفل سخن میں‬
‫ہر دور کو غزل میں میرا نشان ملے گا‬

‫‪18‬‬
‫ٰ‬
‫دعوی ایک ایسا ہی شاعر کر سکتا ہے جس نے غزل کو نئی زندگی سے ہمکنار کیا۔ اس دور میں غزل کا پرچم‬ ‫‪       ‬یہ‬
‫بلند کیا۔ جب ہر جگہ نظم کا پرچم لہرا رہا تھا۔‬
‫’’غزل کا یہ ہرا بھرا درخت ماضی کی سرزمین میں جڑیں پیوست کیے ہوئے ہے اور حال اور مستقبل میں اپنی شاخوں‬
‫کے بازؤوں کو لہرائے ہوئے ٓانے والے وقت کو خوش ٓامدید کہہ رہا ہے۔‘‘‬

‫‪19‬‬

You might also like