You are on page 1of 5

‫‪ 

‬وس یع ت ر مفہ وم میں نظم س ے م راد پ وری ش اعری ہے۔ لیکن ش اعری کے ب اب میں ‪  ‬غ زل کے ماس وا تم ام‬
‫اصناف شعر ‪  ‬کو نظم کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے مثنوی‪ ،‬قصیدہ‪ ،‬مرثیہ بھی نظم کے دائ رے میں‬
‫ٓاتی ہیں ۔چونکہ ان اصناف کی اپنی عالحدہ شناخت قائم ہے ‪  ‬اس لیے ہم انہیں اسی اعتبار س ے پہچ انتے ہیں ‪  ‬۔‬
‫ان اصناف کے عالوہ بھی ہمیں ایسی نظمیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں کسی موضوع پ ر تسلس ل کے س اتھ‬
‫اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ان کا ایک مرکزی خیال بھی ہے۔ یہ نظمیں مختلف ہ یئتوں میں دیکھ نے ک و مل تی ہیں۔‬ ‫ِ‬
‫یہاں نظم سے مراد اسی طرز کی شاعری سے ہے۔سب سے پہلے نظم کی یہ نمای اں ش کل نظیراکبرٓاب ادی کے‬
‫یہاں پورے ٓاب و تاب کے ساتھ نظر ٓاتی ہے۔ نظیر‪  ‬نے اردو نظم کو واضح شناخت عطا کی۔‬
‫اردو نظم کا ابتدائی دور‬
‫اردو نظم نگاری کا ابتدا دکن میں ہوئی۔ مذہبی اور صوفیانہ نظموں کی شکل میں اردو نظم کے ابت دائی نق وش‬
‫نظ ر ٓاتے ہیں۔ دکن کی بہم نی س لطنت نے اردو ادب کی خاص ی پزی رائی کی ۔ ‪  ‬ع ادل ش اہی اور قطب ش اہی‬
‫س لطنتوں نے اردو ادب کے ف روغ میں ب ڑا نمای اں ک ردار ادا کی ا۔ قلی قطب ش اہ‪ ،‬عب دہللا قطب ش اہ‪ ،‬مال‬
‫ابن نش اطی وغ یرہ دکن کے مش ہور ش اعروں میں ش مار ک یے ج اتے ہیں۔ ان ش اعروں اور‬ ‫وجہی‪،‬غواص ی‪ِ ،‬‬
‫ادیبوں کو اس عہد کے حکمرانوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ خود بادش اہ بھی ش عر و ش اعری ک اذوق رکھ تے‬
‫تھے۔ ابتدا میں میں مذہبی اور صوفیانہ نظمیں ‪   ‬بیش تر ش عرا کی تخلیق ات میں مثن وی کی ش کل نظ ر ٓاتی ہیں۔‬
‫خواجہ بن دہ ن واز گیس و دراز ابت دائی دور کے اہم ش اعر ہیں۔ انھ وں نے تص وف کے کچھ رس الے اور نظمیں‬
‫تخلیق کیں۔ ’چکی نامہ‘ ان کی مشہور نظموں میں شمار کی جاتی ‪  ‬ہے۔‬
‫عادل شاہی عہد میں تصوف مذہبی اور اخالقی مضامین شاعری میں غالب نظر ٓاتے ہیں۔ برہان ال دین ج انم کی‬
‫نظموں میں مذہبی تعلیمات اور تص وف کے مس ائل بی ان ک یے گ ئے ہیں۔ حجت البق ا‪ ،‬وص یت الہ ادی‪ ،‬بش ارت‬
‫ال ذکر ان کی اہم نظمیں ہیں۔ برہ ان ال دین ج انم کے مری د ش یخ غالم محم د داول کے یہ اں تص وف اور اخالقی‬
‫مضامین کی کئی نظمیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ چہار شہادت‪ ،‬کش ف االن وار اور کش ف الوج ود میں تص وف کے‬
‫مسائل بیان کیے ہیں۔‬
‫احب دی وان ش اعر تس لیم کی ا جات ا ہے۔ قلی قطب ش اہ نے غ زل‪ ،‬قص یدہ‪،‬‬
‫ِ‬ ‫سلطان قلی قطب شاہ اردو کا پہال ص‬
‫م رثیہ‪ ،‬مثن وی اور نظم میں طب ع ٓازم ائی کی۔ ان کے فک ر ک ا دائ رہ بہت وس یع ہے۔ان کے کالم میں مختل ف‬
‫موضوعات پر نظمیں ‪  ‬دیکھی جا سکتی ہیں۔ شب برات‪ ،‬عید‪ ،‬بسنت‪ ،‬برسات‪ ،‬اور حسن و عشق وغیرہ ک ا بی ان‬
‫بڑے دلکش اندازمیں کیا ہے۔ ‪  ‬ان کی‪  ‬یہ نظم دیکھیے‪:‬‬
‫میری سانولی من کو پیاری ِد سے‬
‫کہ رنگ روپ میں کونلی ناری ِد سے‬
‫سہے سب سہیلیاں میں بالی عجب‬
‫سر و قد ناری او تاری ِد سے‬
‫سکیاں میں ڈولے نیہہ بازی سوں جب‬
‫او مکھ جوت تھے چندکی خواری ِد سے‬
‫تو سب میں اتم ناری تج سم نہیں‬
‫کوئل تیری بوالں سے ہاری ِد سے‬
‫تیری چال نیکی سب ہی من کو بھاے‬
‫سکیاں میں توں جوںپھل بہاری ِد سے‬
‫بہوت رنگ سوں ٓاپ رنگیاں کیاں‬
‫ولے کاں ترے رنگ کی ناری ِد سے‬
‫نبی صدقے قطبا پیاری سدا‬
‫سہیلیاں میں زیبا تماری ِد سے‬
‫دکن کے شعرا میں قلی قطب شاہ کی شاعری اپنے موض وعات کے اعتب ار س ے ب ڑی اہمیت کی حام ل ہے۔ ان‬
‫کی نظموں کے موضوعات اور عنوانات عوامی زندگی سے بہت قریب نظرٓاتے ہیں۔‬
‫جب ہم نظم نگاری کے ابتدائی دور پر نظر ڈالتے ہیں تو اس‪  ‬دور کی نظموں میں موض وعات کے لح اظ س ے‬
‫بڑا تنوع نظر ٓاتا ہے۔ مذہبی خیاالت‪ ،‬تصوف کے مس ائل‪ ،‬حس ن و عش ق ک ا بی ان‪ ،‬ق درتی من اظر‪ ،‬اور س ماجی‬
‫زندگی کے رسومات‪ ،‬میلے‘ تہوار وغیرہ کو شاعری کا موض وع بنای ا ہے۔ اس عہ د کی دکن کی ش اعری میں‬
‫طرز معاشرت کی بھرپور عکاسی نظر ٓاتی ہے۔‬ ‫ِ‬ ‫ہندوستانی تہذیب اور‬
‫شمالی ہند میں نظم نگاری‬
‫شمالی ہند میں اردو نظم نگاری کا ابتدا سترہویں صدی میں ہوئی۔ محمد افضل افضل ‪  ‬اور جعفر زٹلی کے یہاں‬
‫اردو نظم کے ابتدائی نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔اس عہد کی ایک اہم تص نیف محم د افض ل افض ل کی ’بکٹ‬
‫کہانی‪ ،‬ای ک س نگ می ل ک ا درجہ رکھ تی ہے۔’بکٹ کہ انی‘ ‪  ‬کوب ارہ ماس ا کی روایت میں اہم مق ام حاص لہے۔ ‪ ‬‬
‫افضل نے ایک عورت کی‪  ‬زبانی اس کے ہجر کی کیفیات کی تص ویر کش ی ‪  ‬م وثر ان داز میںکی ہے۔ اس نظم‬
‫میں مکمل تسلسل‪ ،‬اثر ٓافرینی اور بیان میں روانی موجود ہے۔ نظم کا یہ حصہ دیکھیے‪:‬‬
‫کریں عشرت پیا سنگ ناریاں سب‬
‫میں ہی کانپوں اکیلی ہائے یارب‬
‫اجی ماّل مرا ٹک حال دیکھو‬
‫پیارے کے ملن کی فال دیکھو‬
‫لکھو تصویر چی ٓاوے ہمارا‬
‫وگرنہ جائے ہے جیوڑا بچارا‬
‫رے سیانو تمھیں ٹونا پڑھواے‬
‫پیا کے وصل کی دعوت پڑھواے‬
‫ارے گھر ٓا اگھن میری بجھاوے‬
‫اری سکھیو کہاں لگ دکھ کہوں اے‬
‫کہ بے جاں ہورہی جاکر خبر سے‬
‫کہ نک ہوجا‪ ،‬دوانی کو صبر دے‬
‫(بکٹ کہانی)‬
‫میرجعفر زٹلی اس عہد کا اہم شاعر ہے۔ جعفر زٹلی اپنے پھکڑپن اور فحش کالمی کی و جہ سے مش ہور ہے ‪ ‬‬
‫لیکن انھوں نے اپنے عہ د کے حق ائق ک و ای ک مخص وص ان داز میں بی ان ک ر نے کی کوش ش کی ہے۔ مغلیہ‬
‫حکومت کے زوال اور دہلی کی تباہی و بدحالی کی تصویر ان کی شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے۔ انھ وں نے‬
‫ہدف مالمت بنایا ہے۔ جعفر زٹلی نے طنزیہ اور ہجویہ‬ ‫ِ‬ ‫ظالم حاکموں‪ ،‬جا بر حکمرانوں‪ ،‬بے ایمان وزیروں کو‬
‫شاعری کی ایک روایت قائم کی۔ اس عہد کے زوال‪  ‬اور انحط اط ک و اپ نی ش اعری ک ا موض وع بنای ا ہے۔ اس‬
‫صورت حال کا بیان دیکھیے‪:‬‬ ‫ِ‬ ‫عہد میں نوکری کی‬
‫صاحب عجب بیداد ہے‪ ،‬محنت ہمہ برباد ہے‬
‫اے دوستاں فریاد ہے‪ ،‬یہ نوکری کا خطر ہے‬
‫ہم نام کیوں اسوار ہیں‪ ،‬روزگار سیں بیزاری ہے‬
‫یارو ہمیشہ خوار ہیں‪ ،‬یہ نوکری کا خطر ہے‬
‫نوکر فدائی خاں کے‪ ،‬محتاج ٓادھے نان کے‬
‫تابع ہیں بے ایمان کے‪ ،‬یہ نوکری کا خطر ہے‬
‫‪                                                                                                                                         ‬‬
‫‪(                                                           ‬نوکری)‬
‫اٹھارویں صدی میں اردو شاعری کا ایک اہم دور ش روع ہوت ا ہے۔ ن واب ص درالدین محم د خ اں ف ائز اور ش اہ‬
‫ظہورالدین حاتم کے دور میں اردو نظم کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ ان شعرا کے یہ اں غزل و ںکے س اتھ مسلس ل‬
‫نظمیں بھی بہت ہیں۔ فائز کے یہاں مختلف عنوانات کی نظمیں ہیں۔‬
‫اس عہد کے شعرا میں شاہ ظہورالدین حاتم ک ا م رثیہ بہت بلن د ہے۔ ان کے یہ اں کث یر تع داد میں نظمیںموج ود‬
‫یرنگی‬
‫ِ‬ ‫ہیں۔ ان کے موضوعات میں بڑی وسعت اور رنگارنگی ہے۔ ان کی نظموںمیں حمد ونعت‪ ،‬حقہ‪ ،‬قہ وہ‪ ،‬ن‬
‫زمانہ‪ ،‬حال دل وغیرہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ سید احتشام حس ین ف ائز اور ح اتم کی ش اعری کے ب ارے میں‬
‫لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’ای ک حقیقت ہے کہ ولی کے ابت دائی دور میں ج و نظمیں لکھی گ ئیں۔ وہ مثن وی کے ان دازمیں بی انیہ قص ے‬
‫نہیں ہیں بلکہ مختلف خارجی اور داخلی موضوعات کے شاعرانہ بیان پر حاوی ہیں۔ اگر فائز کے موض وعات‬
‫زیادہ تر حسن اور اس کے تاثرات سے تعلق رکھتے ہیں تو ح اتم فلس فیانہ اور مفک رانہ موض وعات کاانتخ اب‬
‫بھی کرتے ہیں۔ فائز زیادہ تر داخلی اور رومانوی تاثرات کا ذکر کرتے ہیں تو حاتم خارجی حاالت اور زندگی‬
‫پراثر کرنے والے مسائل بھی پیش کرتے ہیں۔ فائز زیادہ تر مثنوی کی ہیئت سے کام لیتے ہیں ت و ح اتم ان میں‬
‫بھی تجربے کرتے ہیں چنانچہ انھوں نے مخمس سے بھی کام لی ا ہے۔‘‘ (جدی د ادب منظ ر پس منظ ر‪ :‬احتش ام‬
‫حسین)‬
‫اس عہد میں بعض دوسرے شاعروں کے یہاں بھی نظم کے نمونے ملتے ہیں جس سے ان کی ق ادرالکالمی ک ا‬
‫اندازہ ہوتا ہے۔ اس دورکے بعد ‪  ‬اردو شاعری کا وہ دور ٓاتا ہے جسے ہم میر و سودا کا دور کہ تے ہیں۔ گ وکہ‬
‫میر و سودا کی حیثیت نظم نگ ارکی نہیں ہے لیکن ان کی مثنوی وں‪ ،‬قطع ات‪ ،‬ہج و اور ش ہر ٓاش وب ک و ان کے‬
‫روایتی مفہوم سے الگ کرکے دیکھیں تو اس عہد کے مسائل اور انفرادی و اجتماعی زن دگی کی کش مکش ک اا‬
‫ندازہ ہوتا ہے۔ میر کی مختصر مثنویاں‪ ،‬مخمس‪ ،‬مسدس اور شکارنامے میں اس عہد کے سیاسی اور معاشرتی‬
‫انحط اط اور اخالقی ق دروں کے زوال کی‪  ‬تص ویر نمای اں نظ ر ٓاتی ہے۔ ان تخلیق ات ک و نظم کے زم رے میں‬
‫شمار کیے جاسکتے ہیں۔ سودا کے شہر ٓاشوب اور ہجو میں نظم کی صفات موج ود ہیں۔ س ودا ک ا ش ہر ٓاش وب‬
‫اس عہد کا ٓائینہ ہے۔ سودا نے سیاسی سماجی معاشی زندگی کی جیتی جاگتی تصویر کشی کی ہے۔ میر و سودا‬
‫کے یہاں نظم جس ص ورت میں موج ود ہے انھیں نظم کے دائ رے میں خ ارج نہیں کرس کتے۔ یہی دور م رثیہ‬
‫نگاری کے عروج کا بھی ہے۔ انیس و دب یر کے مرث یے میں بھی نظم نگ اری کی خوبی اں موج ود ہیں۔ ‪  ‬م یر ‪،‬‬
‫سودا‪ ،‬انیس و دبیر کے یہاں گرچہ ہماری زندگی اور اس عہد کے مسائل کو بیان کیا گیا ہے لیکن ان ش اعروں‬
‫کے یہاں خالص نظم نگاری کی طرف رجحان نظر نہیں ٓاتا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں ان کے یہاں نظم اپنی ال گ‬
‫شناخت قائم نہیں کرتی۔‬
‫اس عہد میں نظم کے حوالے سے نظیر اکبرٓابادی کا کوئی م دمقابل نظ ر نہیں ٓات ا۔ نظ یر کی ش اعری اس عہ د‬
‫کے مجموعی مزاج سے بالک ل ال گ ای ک ن ئی روایت ق ائم ک رتی ہے۔ نظ یراگرچہ غ زل کے بھی ش اعر تھے‬
‫لیکن نظم ان کے اظہار کا بہ ترین ذریعہ ب نی۔تن وع اور رنگ ارنگی کے لح اظ س ے نظ یر ک ا کالم ٓاج بھی بے‬
‫مث ال ہے۔ ان کی نظم وں کے مط العہ س ے ہم زن دگی کے گون اگوں مش اہدات س ے دوچ ار ہ وتے ہیں۔ س ماجی‬
‫زندگی کے مختلف پہل و ہم ارے س امنے ‪ٓ  ‬اتے ہیں۔ رس م و رواج‪ ،‬کھی ل ک ود‪   ،‬تہ وا ر‪ ،‬بچپن‪ ،‬ج وانی‪ ،‬گ رمی‪،‬‬
‫برس ات‪ ،‬ج اڑا‪ ،‬چرن د و پرن د‪ ،‬غرض یکہ ہم جس فض اا ور م احول میں س انس لی تے ہیں اس کی جی تی ج اگتی‬
‫تصویر سامنے ٓاجاتی ہے۔ نظیر کی نظمیں اس عہد کے زندہ مس ائل س ے گہ را س روکار رکھ تی ہیں۔ ‪  ‬معاش ی‬
‫مسائل ہوں یا سماجی اور اخالقی ہر موضوع پر ان کے لیے یکس اں اہمیت رکھت ا ہے انھ وں نے اپ نے گ رد و‬
‫پیش زندگی کو جس رن گ میں دیکھ ا اس پ ر نظمیں تخلی ق کیں چن انچہ ہ ولی‪ ،‬دی والی‪ ،‬عی د‪ ،‬بس نت‪ ،‬برس ات‪،‬‬
‫جاڑا‪ ،‬بچپن‪ ،‬جوانی‪ ،‬بڑھاپا‪ ،‬تل کے للو‪ ،‬بلدیوجی کا میلہ‪ٓ ،‬اٹا‪ ،‬دال پر نظمیں موجود ہیں۔‬
‫دراصل نظیر کی شاعری کو کسی دائرے میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اری سیاس ی س ماجی تہ ذیبی اور سیاس ی‬
‫رز فک ر ک ا‬‫زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس پر نظیر کی نظر نہ گئی ہو۔ اردو نظم نگاری میں نظیر اپنی ط ِ‬
‫تنہا شاعر ‪  ‬ہے جس کے یہاں موضوعات کی اتنی کثرت ہے۔ نظیر نے عوامی موضوعات کو عوامی زبان میںا‬
‫س خوبصورتی سے پیش کیا کہ لوگوں کے نظیر کی شاعری ان کی زبان بن گئی۔نظیر کی نظم نگاری کا ایک‬
‫نمونہ دیکھیے‪:‬‬
‫کیا چھوٹے کام والے‪ ،‬و کیا پیشہ ور نجیب‬
‫روزی کے ٓاج ہاتھ سے عاجز ہیں سب غریب‬
‫ہوتی ہے بیٹھے بیٹھے جب ٓا‪ ،‬شام عن قریب‬
‫اٹھتے ہیں سب دکان سے کہ کر کہ یا نصیب‬
‫قسمت ہماری ہوگئی ہے اختیار بند‬
‫قسمت سے چار پیسے جنھیں ہاتھ ٓاتے ہیں‬
‫البتہ روکھی سوکھی وہ روٹی پکاتے ہیں‬
‫جو خالی ٓاتے ہیں وہ قرض لینے جاتے ہیں‬
‫یوں بھی نہ پایا کچھ تو فقط غم ہی کھاتے ہیں‬
‫سوتے ہیں‪ ،‬کر کواڑ کو اک ٓاہ مار‪ ،‬بند‬
‫(مفلسی)‬
‫ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں‪ ،‬مت دیس بدیس پھرے مارا‬
‫قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ‬
‫کیا بدھیا‪ ،‬بھینسا‪ ،‬بیل‪ ،‬شتر‪ ،‬کیا گوئیں۔ بَ اّل ‪ ،‬سربھارا‬
‫کیا گیہوں‪ ،‬چاول موٹھ‪ ،‬مٹر‪ ،‬کیا ٓاگ دھواں‪ ،‬کیا انگارا‬
‫سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا‪ ،‬جب الد چلے گا بنجارا‬
‫‪(                                                                               ‬بنجارا نامہ)‬
‫نظیر کے بعد عرصے تک نظم کی دنیا سونی ہی رہی۔ اس درمیان بعض شعرا کے یہاں نظم نگ اری کی س مت‬
‫میںکوشش دیکھی جاسکتی ہیں لیکن اس حوالے سے کوئی نمایاں تخلیق‪  ‬منظر عام پر نہیں ٓائی۔‬
‫‪ 1857‬میں ہندستان پر انگریزوں کا مکمل تسلط قائم ہونے کے بعد حکومت اور عوام کے درمی ان رابطے کے‬
‫لیے کئی شہروں میںا نجمنوں کا قی ام عم ل میں ٓای ا۔ ان انجمن وں کے اغ راض و مقاص د میں عل وم و فن ون کی‬
‫الب مفی دہ پنج اب ک ا قی ام عم ل میں ٓای ا۔ یہی‬
‫اعت مط ِ‬‫ِ‬ ‫ترویج واشاعت بھی تھا۔ ‪ 21‬جنوری ‪ 1865‬کو انجمن اش‬
‫انجمن ’انجمن پنجاب‘ کے نام سے مقبول ہوئی۔ محمد حسین ٓازاد اس انجمن سے وابستہ تھے۔ م ئی ‪ 1874‬میں‬
‫کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میںموضوعاتی مشاعرہ منعقدہوا جس میں مصرع ط رح کے بہ ج ائے ‪  ‬موض وعاتی‬
‫نظمیں پ ڑھی گ ئیں۔ ‪  ‬ان ش اعروں میں موالن ا محم د حس ین ٓازاد اور موالن ا الط اف حس ین ح الی نے بھی اپ نی‬
‫نظمیں پیش کی ہیں۔ گرچہ شاعروں ک ا یہ سلس لہ زی ادہ دن وں ت ک ق ائم نہ رہ س کا لیکن نظم نگ اری کی انھیں‬
‫کوششوں سے اردو نظم نگاری کے نئے دور کا ٓاغاز ہوا ۔‬
‫روح رواں محمد حسین ٓازاد اورموالنا الطاف حس ین ح الی تھے۔ ان حض رات نے‬ ‫ِ‬ ‫نظم نگاری کی تحریک کے‬
‫نہ صرف یہ کہ عملی طور پ ر نظم نگ اری کی ت وجہ دی بلکہ فک ری اعتب ار س ے نظم نگ اری کے ل یے ای ک‬
‫سازگار فصا قائم کی۔ انھوں نے انجمن پنج اب کے جلس وں میں ج و لکچ ر دیے وہ نظم نگ اری کے ل یے ای ک‬
‫منشور کا درجہ رکھتے ہیں۔ٓازاد نے پہلے مشاعرے میں جونظم سنائی اس کا یہ حصہ مالحظہ کیجیے‪:‬‬
‫بوندوں میں جھومتی وہ دختروں کی ڈالیاں‬
‫اور سیر کیاریوں میں وہ پھولوں کی اللیاں‬
‫وہ ٹہنیوں میں پانی کے قطرے ڈھلک رہے‬
‫وہ کیاریاں بھری ہوئی تھالے چمک رہے‬
‫ٓاب رواں کا نالیوں میں لہر مارنا‬
‫ِ‬
‫اور روئے سبزہ زار کا دھو کر سنوارنا‬
‫کوئل کا دور دور دختوں میں بولنا‬
‫اہل درد کے نشتر گھنگھولنا‬ ‫اور دل میں ِ‬
‫گرنا وہ ٓابشاروں کی چادر کا زور سے‬
‫وہ گونجنا وہ باغ کا پانی کے شور سے‬
‫(ابرکرم)‬
‫نظم نگاری کے ح والے س ے ٓازاد کی کوش ش ب ڑی اہمیت کی حام ل ہے۔ ٓازاد نے نظم میں انقالبی تب دیلی کے‬
‫خواہاں تھے۔ ان کے مق االت اور مض امین میں اردو ش اعری کے متعل ق خی االت دیکھے جاس کتے ہیں۔موالن ا‬
‫ٓازاد اردو نظم کا دائرہ ‪  ‬وسیع تراور اسے ردیف و قافیہ کی قید سے ٓازاد کرنا چاہتے تھے۔ انھ وں نے ردی ف ا‬
‫ور قافیہ سے ٓازاد نظمیں بھی کہیں۔‬
‫اگ رچہ ای ک نظم نگ ار کے ط ور پ ر ٓازاد ک ا م رتبہ بہت بلن د نہیں۔ ان کی نظمیں بہ ترین نظم ک ا نم ونہ نہ بن‬
‫سکیں۔ لیکن انھوں نے نظم ہی کے لیے جو راہیں ہموار کیں اس سے نظم کو بہت فروغ حاصل ہوا۔‬
‫انجمن پنجاب کے مشاعروں میں اگرچہ موالنا الطاف حسین حالی‪ ،‬مولوی عمرجان دہلوی ‪ ،‬مرزا عبدہللا بیگ‪،‬‬
‫مرزا ایوب بیگ‪ ،‬مرزا محمود بیگ‪ ،‬شاہ نواز حسین ہما‪ ،‬عطاء ہللا خاں عطا‪ ،‬منشی لچھمی داس ب رہم‪ ،‬مول وی‬
‫گل محمد عالی‪ ،‬اصغر علی فقیر‪ ،‬مال گل محمد عالی‪ ،‬منشی ش یخ ٰال ہی بخش رفی ق‪ ،‬مول وی فص یح ال دین انجم‪،‬‬
‫مفتی امام بخش رئیس‪ ،‬پنڈت کرشن داس طالب وغیرہ شعرا شامل ہوئے لیکن ٓازاد اور موالنا حالی کے مرتبے‬
‫کو کوئی نہ پہنچ سکا۔ حالی ٓازاد کے ہم رکاب تھے۔ انجمن کی سرگرمیوں میں حصہ لی تے تھے۔ ح الی نے ان‬
‫اط امی‪ ،‬من اظرہ رحم و انص اف‪ ،‬حب وطن‪ ،‬جیس ی نظمیں‬ ‫مشاعروں میں کئی اہم نظمیں سنائیں۔ برکھارت‪ ،‬نش ِ‬
‫انھیں مشاعروں میں سنائی گئیں۔حالی کی نظمیں زبان کی سادگی اور صفائی کے اعتبار سے بلند مق ام رکھ تی‬
‫ہیں۔ نظم کایہ حصہ دیکھیے‪:‬‬
‫ہیں شکر گزار تیرے برسات‬
‫انسان سے لے کے تاجمادات‬
‫دنیا میں بہت تھی چاہ تیری‬
‫سب دیکھو رہے تھے راہ تیری‬
‫راز فطرت‬‫ِ‬ ‫تجھ سے کھال یہ‬
‫بعد کلفت‬‫راحت ملتی ہے ِ‬
‫فیض عام تیرا‬
‫ِ‬ ‫شکریہ‬
‫پیشانی دہر پر ہے لکھا‬
‫ِ‬
‫گلشن کو دیا جمال تونے‬
‫کھیتی کو کیا نہال تونے‬
‫(برکھارت)‬
‫ایک دن رحم نے انصاف سے جاکر پوچھا‬
‫کیا سبب ہے کہ ترا نام ہے دنیامیں بڑا‬
‫نیک نامی سے تری سخت تحیر ہے ہمیں‬
‫ہاں سنیں ہم بھی کہ ہے کون سی خوبی تجھ میں‬
‫دوستی سے تجھے کچھ دوستوں کی کام نہیں‬
‫ٓانکھ میں تری مروت کا کہیں نام نہیں‬
‫اپنے بیگانے ہیں سب تیری نظر میں یکساں‬
‫دوست کو فائدہ تجھ سے نہ دشمن کو میاں‬
‫‪(                             ‬مناظرٔہ رحم و انصاف)‬
‫یہاں حالی کی یہ نظمیں مثال کے طور پ ر پیش کی گ ئیں ہیں ج و انھ وں نے انجمن پنج اب کے مش اعرے میں‬
‫مناجات بیوہ‪ ،‬مرثیٔہ غالب‪ ،‬چپ کی داد وغیرہاہم نظموں میں ش مار کی‬‫ِ‬ ‫سنائی تھیں۔ ‪  ‬مسدس مدو و جزر اسالم‪،‬‬
‫جاتی ہیں۔ نظم نگار کے طور پر حالی ہمارے اہم نظم نگار ش اعر تس لیم ک یے ج اتے ہیں۔ اس ن ئے ط رز کے‬
‫مشاعرے میں بعض دوسرے شاعروں نے اچھی شاعری کے نمونے ‪  ‬پیش کیے۔غالم نبی صاحب کی نظم کا یہ‬
‫حصہ دیکھیے‪:‬‬
‫دکھاتی ہے بس چاندنی بھی بہار‬
‫ستارے بھی ہوتے ہیں کو ہر نثار‬
‫جدھر دیکھو عالم ہے ایک سیر کا‬
‫کہاں لطف یہ موسم غیر کا‬
‫کبھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہے چلتی ہوا‬
‫کہیں برف پڑتی ہے بس خوشنما‬
‫(زمستاں)‬
‫تیسرے مشاعرے کا موض وع ’امی د‘ تھ ا۔ ٰال ہی بخش رفی ق نے اپ نی نظم ’ٓائینہ امی د‘ س نائی۔ نظم ک ا یہ حص ہ‬
‫دیکھیے‪:‬‬
‫کیا کیا نہیں الفت نے تری رنگ دکھائے‬
‫اس عالم نیرنگ میں نیرنگ دکھائے‬
‫سادھا ہے محبت میں تری جوگ کسی نے‬
‫اور عشق کا ہے مول لیا روگ کسی نے‬
‫حیرت دیدار کا مارا‬
‫ِ‬ ‫پھرتا ہے کوئی‬
‫جیتا ہے کہ مرتا ہے ترے پیار کا مارا‬
‫ہے سب سے نہاں تو یہ چھپاتی نہیں صورت‬
‫ہے دل میں و لیکن نظر ٓاتی نہیں صورت‬
‫ہر راز جدا ہے ترا ہر ناز الگ ہے‬
‫خوبان جہاں سے تیرا انداز الگ ہے‬
‫(ٓائینہ امیر)‬
‫‪ ‬ان مشاعروں میں شریک ہونے والے شاعروں میں محمد حس ین ٓازاد اور موالن ا ح الی کے عالوہ ک وئی اپ نی‬
‫ادبی حیثیت مستحکم نہ کرسکا ۔ٓازاد اپنی شاعری سے زیادہ اپنی فک ر کی تن دی و ت یزی اور ن ثر کے ‪  ‬اعتب ار‬
‫سے بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔ گرچہ ٓازاد نظم میں فکری اور فنی دونوں اعتبار سے تب دیلی کی ط رف ق دم اٹھای ا‬
‫لیکن نظم نگاری کے حوالے سے ٓازاد کا م رتبہ بس واج بی ہی ہے۔لیکن نظم نگ اری کے ح والے س ے ان کی‬
‫کوشش کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی ہیں۔ یہ ان کی کوششوں کا ہی ثمرہ تھا کہ نظم نگاری‪  ‬کے ل یے ش عرا‬
‫کی ایک جماعت اس مشاعرے میں شریک ہوئی اور ان سب کی اجتماعی کوششوں س ے اردو نظم نگ اری کے‬
‫لیے راہیں ہم وار ہ وئیں۔ موض وعاتی مش اعرے س ے اردو نظم نگ اری کی ج و تحری ک ش روع ہ وئی اس کے‬
‫اثرات اردو نظم پر بہت گہرے مرتب ہوئے۔‬
‫انیسویں ص دی کے اواخ ر ک ا زم انہ اردو ادب میں غیرتب د معم ولی تب دیلیوںکا زم انہ تھ ا۔ اردو ادب میں ک ئی‬
‫اصناف کا ظہور ہوا۔ ناول نگاری‪ ،‬تنقید نگاری‪ ،‬سوانح نگاری‪ ،‬مض مون نگ اری وغ یرہ۔ ش اعری کے ح والے‬
‫سے اردو نظم میں فکری اور فنی اعتبارسے ‪  ‬تبدیلی کا رجحان پیدا ہ وا۔ ح الی اور ٓازاد انگری زی ش اعری کی‬
‫ط رز پ ر اردو نظم میں تب دیلی کے خواہ اں تھے۔ ‪  ‬ا ٓزاد اور ح الی کی تحری روں میں انگری زی ش اعری س ے‬
‫او لین‬
‫استفادے پر بہت زور رہ ا ہے۔ ٓازاد کی نظم ’ جغ رافیہ طبعی کی پہیلی‘ ہ یئت و اس لوب کے تج ربے ک ا ّ‬
‫نمونہ قرار دی جاسکتی ہے۔ انگریزی نظم وں کے ت راجم اور انگری زی نظم وں س ے م اخوذ خی االت ک و نظم‬
‫کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔ اس ضمن میں نظم طباطبائی کا ‪  ‬ترجمہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے گرے کی‬
‫’گور غریباں‘ کیا جو بے حد مقبول ہوا۔ عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے ’دلگداز‘‬ ‫ِ‬ ‫نظم ایلچی کا ترجمہ بعنوان‬
‫اور ’سرعبدالقادر نے ’مخزن‘ سے انگریزی شاعری کے تراجم اور استفادے کی حوصلہ اف زائی کی۔ نظم وں‬
‫کے تراجم اور مغربی شاعری سے ماخوذ خیاالت پر مبنی نظموں کو ان رسالوں میں خاص جگہ دی گ ئی اور‬
‫انھیں تعارفی نوٹ کے ساتھ شائع کیا گیا۔ محمد حسین ٓازاد‪ ،‬غالم بھنگ نیرنگ‪ ،‬ن ادر ک اکوروی‪ ،‬س رور جہ ان‬
‫ٓابادی‪ ،‬حسرت موہانی‪ ،‬ضامن کنتو ری‪ ،‬سیف الدین ش ہاب وغ یرہ ش اعروں کے ت راجم ش ائع ہ وئے۔ اردو نظم‬
‫میں جو تب دیلیاں رونم ا ہ ورہی تھیں نظم وں کے ت راجم نے انھیں اور جال بخش ی۔ نظم وں کے ت راجم اور اس‬
‫طرز کی نظمیں تخلیق کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں ہیئت میں شکست و ریخت کا عمل شروع ہوا۔ ن ئے‬
‫اسالیب کی نظمیں منظر عام پرٓائیں‬

You might also like