47 : رولنمبر مس ساجدہ کنول معلمہ کا نام : اردو نظم فکری اور فنی کورس ٹائٹل : مطالعہ تعارف میراجی ،جن کا اصل نام محمد ثناء ہللا تھا۔ منشی محمد مہتاب الدین کے ہاں 25مئی1912 ،ء کو الہور میں پیدا ہو ئے۔ پہلے ”ساحری“ تخلص کر تے تھے۔ لیکن ایک بنگالی لڑکی ”میرا سین“ کے یک طرفہ عشق میں گرفتار ہو کر ”میراجی“ تخلص اختیار کر لیا۔ میراجی کی ذات سے ایسے واقعات وابستہ ہیں کہ ان کی ذات عام آدمی کے ُا ں ر لےی ایک افسانہ بن کر رہ گئی ےہ۔ ن کا حلیہ او ان کی حرکات و سکنات ایسی تھیں کہ یو معلوم ہوتا تھا انھوں نے سلسلہ مالمتیہ میں بیعت کر لی ےہ۔ ملےب ملےب بال ،بڑی بڑی مونچھیں ،گلے میں ماال ،شیروانی پھٹی ہوئی ،اوپر نیچے بیک وقت تین پتلونیں ،اوپر کی جب میلی ہو گئی تو نیچے کی اوپر اور اوپر کی نیچے بدل جاتی۔ شیروانی کی دونوں جیبوں میں بہت کچھ ہوتا۔ کاغذوں اور بیاضوں کا پلندہ بغل میں دابے بڑی سڑک پر پھرتا تھااور چلےت ہو ئے ہمیشہ ناک کی سیدھ میں دیکھتا تھا۔ وہ اپےن گھر اپےن محلے اور اپنی سوسائٹی کے ماحول کو دیکھ دیکھ کر کڑتا تھا اس نے عہد کر رکھا تھا کہ وہ اپےن لےی شعر کےہ گا۔ صرف 38سال کی عمر میں 3 نومبر1949 ،ء کو انتقال کرگئے۔ اس مختصر سی عمر میں میراجی کی تصانیف میں ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ”اس نظم میں “”نگار خانہ“”خیمے کے آس پاس“ شامل ہیں۔ جبکہ میراجی کی نظمیں ،گیت ہی گیت ،پابند نظمیں اور تین رنگ بھی شاعری کے مجمو عے ہیں۔ نظم :جنگل پھیلے پھیلے بکھرے بکھرے لیےٹ لیےٹ جنگل میں گہرے گہرے ٹھہرے ٹھہرے سو ئے سو ئے سائے ہیں یہ شعر میرا جی اور یوسف تلفر کی نظم جنگل سے لیا گیا ےہ۔ اس شعر میں شاعر جنگل کی بات کر تے ہو ئے جنگل کو پھیال ہوا ،بکھرا ہوا اور دور تک لیٹا ہوا کہتا ےہ۔ اس گھےن اور ملےب جنگل کے سائے ایسے ہیں کہ ان میں ایک گہرا پن اور ٹھہراؤ ےہ۔ یوں لگتا ےہ کہ وہ جنگل کے سائے نہ ہوں بلکہ کوئی سورہا ہو۔
رسےت رہےت سہےت سہےت چھو ٹے چھو ٹے چشمے
چپکے چپکے بھورے بھورے سو ئے سو ئے رسےت ہیں اس شعر میں جنگل میں موجود لوازمات کا ذکر کر تے ہو ئے شاعر کہتا ےہ کہ اس جنگل میں رسےت پر سہےت ہو ئے چھو ٹے چھو ٹے چشمے موجود ہیں۔ یہ چشمے جنگل کے حسن میں اضافہ کر تے ہیں اس کے ساتھ ہی اس جنگل میں کئی خاموش راسےت بھی موجود ہیں اور کہیں چپ چاپ سو ئے ہو ئے بھورے رسےت ہیں۔ آدھے آدھے پورے پورے تیکھے تیکھے کانےٹ ہیں پےت پےت سجے سجھے دیکے دیکھے ذرے ہیں اس شعر میں شاعر کہتا ےہ کہ جنگل کے ان رستوں پر کہیں آدھے کہیں پورے اور کہیں بہت تیز کانےٹ موجود ہیں۔ یہی نہیں کہیں کہیں یہاں پےت ہو ئے اور سہمے ہو گئے۔خاموش ذرات بھی موجود ہیں۔
چلےت چلےت رکےت رکےت تکےت تکےت کیڑے ہیں
نیلےنیلے پیلےپیلے ملےبملےب طوطے ہیں شاعر کہتا ےہ کہ جنگل میں صرف چشمے ،راسےت اور کانےٹ ہی موجود نہیں بلکہ یہاں کہیں چلےت پھر تے اور کہیں ر کے ہو ئے کیڑے مکوڑے بھی موجود دکھائی دیےت ہیں۔ یہاں پر نیلے ،پہلے اور ملےب ملےب خوبصورت طوطے بھی موجود ہیں۔
اڑ تے اڑ تے گاتے گاتے ننھے ننھے پنچھی ہیں
جاتی ،جاتی ہٹتی بتہی ،کٹتی کٹتی ،ندی ےہ اس شعر میں شاعر کہتا ےہ کہ یہاں جنگل میں اڑ تے ہو ئے اور گاتے ہو ئے خوبصورت ننھے پنچھی پائےجاتے ہیں۔ جنگل کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت ندی بتہی جار ہی ےہ۔ نیچے نیچے پیارے پیارے نیارے نیارے پودے ہیں پیلی پیلی چھوٹی چھوٹی ملبی ملبی شاخیں ہیں شاعر کہتا ےہ کہ اس خوبصورت جنگل میں ندی کنارے خوبصورت اور انوکھے کئی اقسام کے پودے موجود ہیں۔ ان پودوں کی پیاری پتلی ،چھوٹی اور ملبی ملبی سی شاخیں دکھائی دیتی ہیں۔
ایسے ایسے ویسے ویسے کیسے کیسے پےت ہیں
سوکھے سوکھے پھیکے پھیکے دبلے دبلے ڈنٹھل میں اس شعر میں شاعر کہتا ےہ کہ جنگل میں نہ صرف انواع و اقسام کے پھول پودے موجود ہیں بلکہ نجانے کیسے کیسے پےت بھی دکھائی دیےت ہیں۔ان پتوں کے سوکھے ،پھیکے اور دبلے ڈنٹھل ہیں۔
یکے کے کھرے کمرے میکے میکے میلے ہیں
بھینی بھینی میٹھی میٹھی اڑتی اڑتی خوش بو ےہ شاعر اس شعر میں کہتا ےہ کہ یہاں کھلے ہو ئے خوبصورت نکھرے پھول اور ادھ کھلے غنچے بھی موجود ہیں۔ جن سے بھینی بھینی اور میٹھی میٹھی خو شبواڑ تی ےہ اور سب کچھ مہکاتی ےہ۔ نظم :سمندرکابالوا میراجی کی نظم "سمندر کا بالوا ان کے مجموعہ کالم ” تین رنگ میں شامل ےہ۔ یہ نظم آزاد نظم کی بہیت میں لکھی گئی ےہ۔ اس نظم میں تین بند شامل ہیں۔ اس نظم میں زندگی کا اصل انجام سمندر میں مالپ کی صورت میں دکھایا گیا ےہ۔ یہاں اس سمندر سے مراد زندگی کی وہ حقیقت بھی ےہ جو کہ ہم سب کا اصل ےہ اور ہمیں ایک ذات کی جانب لوٹ کر جانا ےہ۔ اس وقت اس دنیا ،صحرا ،باغ سب کی حقیقت محض ایک آواز بن رہ جائے گی اور سب ایک ذات میں شامل ہو جائیں گے۔ یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بالتے بالتے مرے دل پہ گہری تھکن چھارہی ےہ کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں مگر یہ انوکھی ندا آ رہی ےہ بالتے بالتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ےہ نہ آئندہ شاید تھکے گا مرے پیارے بچے مجھے تم سے کتنی محبت ےہ دیکھو اگر یوں کیا تو برا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہو گا خدایا خدایا کبھی ایک سکی کبھی اک تبسم کبھی صرف دیکھوں مگر یہ صدائیں تو آتی رہی ہیں انہی سے حیات دوروزہ ابد سے ملی ےہ مگر یہ انوکھی ندا جس پہ گہری تھکن چھارہی ےہ ہر اک صدا کو مٹانے کی دھمکی دیے جارہی ےہ اس بند میں شاعر کہتا ےہ کہ میری سر گوشیاں کہہ رہی ہیں کہ سب آ جاؤ کہ تمھیں برسوں سے بالتے بالتے اب میرے دل پہ ایک گہری تھکن چھا گئی ےہ۔ کبھی سیک پل صدا سنائی دیتی ےہ اور کبھی ایک عرصے بعد صدا سنائی دیتی ےہ مگر اب کی بار یہ ایک انوکھی آواز آرہی ےہ۔ یہ ایک حقیقت ےہ کہ کسی کو بالتے بالتے نہ تو کوئی آج تک تھکا ےہ اور نہ ہی آگے تھکے گا۔ لیکن میرے پیارے بچے مجھے چونکہ تم سے بہت محبت ےہ اور اگر تم میری پکار سن کر نہ آئے تو مجھ سے برانہ تو کوئی ےہ اور نہ ہی ہو گا۔ شاعر کہتا ےہ کہ مجھے پکار نے کے لےی کبھی ایک سکی ،کبھی ایک چڑھی ہوئی تیوری اور کبھی صرف ایک مسکراہٹ ہوا کرتی تھی۔ مگر یہ آوازیں اب بھی آتی ہیں۔ انھی سے یہ دوروز کی زندگی ملی ےہ۔ مگر یہ ایک انوکھی پکار ےہ کہ جس پہ گہری تھکن چھائی ہوئی ےہ اور یہ تھکن ہر ایک صدا کو مٹانے کی دھمکی دے رہی ےہ۔
اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری
فقط کان سنےت چلے جارےہ ہیں یہ اک گلستاں ےہ ہو الہلہاتی ےہ کلیاں چٹکتی ہیں غنچے مہکےت ہیں اور پھول کھلےت ہیں کھل کھل کے مرجھا کے گر تے ہیں اک فرش مخمل بناتے ہیں جس پر مری آرزوؤں کی پریاں عجب آن سے یوں رواں ہیں کہ جیسے گلستاں ہی اک آئینہ ےہ اسی آئیےن سے ہر اک شکل نکھری سنور کر مٹی اور مٹ ہی گئی پھر نہ ابھری یہ پر بت ےہ خاموش ساکن کبھی کوئی چشمہ ابلےت ہو ئے پوچھتا ےہ کہ اس کی چٹانوں کے اس پار کیا ےہ مگر مجھ کو پر بت کا دامن ہی کافی ےہ دامن میں وادی ےہ وادی میں ندی ےہ ندی میں بتہی ہوئی ناؤ ہی آئینہ ےہ اسی آئیےن میں ہر اک شکل نکھری مگر ایک پل میں جو مٹےن لگی ےہ تو پھر نہ ابھری یہ صحرا ےہ پھیال ہوا خشک بے برگ صحرا بگو لے یہاں تند بھوتوں کا عکس مجسم بےن ہیں اس بند میں شاعر کہتا ےہ کہ اب آنکھوں میں نہ تو کوئی حرکت ےہ نہ ہی چہرے پہ کوئی مسکراہٹ یا تیوری چڑھی ہوئی ےہ۔ بس یہ صدا کان سن رےہ ہیں کہ کلیاں چٹک رہی ہیں اور باغ میں ہوا لہلہار ہی ےہ۔ پھولوں کے غنچے مہک رےہ ہیں اور پھول بھی کھل کر مر جھائے جارےہ پھر یہ پھول ایک مخمل کا سافرش بنا کر اس پر گر جاتے ہیں۔ جبکہ یہاں میری خواہشوں کی پریاں اس روانی سے آجارہی ہیں کہ جیسے یہ باغ ہی ان کا اصل عکس ہو۔ مگر اس آئیےن میں ایک شکل ابھر نے کے بعد نکھری اور پھر سنور کر مٹی میں کبھی نہ ابھر نے کے لےی مل گئی۔ یہ پہاڑ بھی خاموش اور ساکن ےہ لیکن اس پہاڑ کی چٹانوں کے بار ملےت ہو ئے چشمے کبھی کبھار اس سے سوال کر تے ہیں کہ اس سے پار کیا چیز موجود ےہ۔ یہ پہاڑ ان چشموں کو بتالتا ےہ کہ میرے لےی اس پہاڑ کا دامن کافی ےہ کہ اس کے دامن میں ایک وادی ےہ اور وادی میں ایک ندی بھی موجود ےہ جس میں ایک کشتی بتہی ےہ جو کہ اس کا آئینہ ےہ۔ اس آئیےن میں اول تو تمام شکلیں ابھر کر واضح ہوئیں مگر ایک مرتبہ جوں وہ شکلیں مٹیں تو اس کے بعد دوبارہ نہ انھر پائیں۔ اب کہ یہ دنیا ایک صحرا کا منظر پیش کر رہی ےہ۔ یہ ایک خشک پتیوں کا صحرا ےہ۔ جہاں تیز ہوا کے بگو لے بھوتوں کی عملی تصویر پیش کر تے ہیں۔ مگر میں تو دور ایک پیڑوں کے جھرمٹ پہ اپنی نگاہیں جمائے ہو ئے ہوں نہ اب کوئی صحرانہ پر بہت نہ کوئی گلستاں اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پر کوئی تقسم نہ تیوری فقط ایک انوکھی صدا کہہ رہی ےہ کہ تم کو بالتے بالتے مرے دل پر گہری تھکن چھارہی ےہ بالتے بالتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ےہ نہ شاید تھکے گا تو پھر یہ ندا آئینہ ےہ فقط میں تھکا ہوں نہ صحرانہ پر بت نہ کوئی گلستاں فقط اب سمندر بالتا ےہ مجھ کو کہ ہر شے سمندر سے آئی سمندر میں جا کر ملے گی اس بند میں شاعر کہتا ےہ کہ لیکن مجھے ان بگولوں سے کیا لینا کہ میں تو کہیں دور درختوں کے ایک جھرمٹ پہ اپنی نظریں جمائے بیٹھا ہوں۔ میرے لےی نہ تو اب کوئی صحرا موجود ےہ۔ نہ کوئی پہاڑ ےہ اور نہ ہی کوئی باغ ےہ۔ نہ ہی میری آنکھوں میں کوئی حرکت ےہ نہ میرے چہرے پہ کوئی مسکراہٹ اور نہ میری تیوری پہ کوئی بل موجود ےہ۔ بس ایک عجیب طرح کی صدا آرہی ےہ جو مجھ سے کہہ رہی ےہ کہ تمھیں بالتے بالتے میرے دل ایک گہری تھکن طاری ہو رہی ےہ۔ کیونکہ کسی کو بالنے میں نہ تو اب تک کوئی تھکا اور نہ ہی شاید کوئی تھکے گا۔ تو پھر یہ آواز محض ایک آئینہ ےہ کہ میں تھک چکا ہوں نہ تو کوئی صحرا ےہ ،نہ پہاڑ اور نہ ہی باغ مجھے بال رےہ ہیں بلکہ میرا بالوا کہیں اور سے آ رہا ےہ اور مجھے کوئی اور نہیں بلکہ سمندر بال رہا ےہ کہ اس دنیا کی ہر ایک چیز سمندر سے آئی ےہ تو آؤ اور سمندر میں مل جاؤ۔ حوالہ جات https://urdunotes.com/lesson/nazam-jungle-ki-tashreeh-josh-malihabadi-%D9%86%D8%B8%D9%85-%D8%AC %D9%86%DA%AF%D9%84-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%AD/ https://urdunotes.com/lesson/samandar-ka-bulawa-tashreeh-%D9%86%D8%B8%D9%85-%DA%A9%DB%8C-% D8%B3%D9%85%D9%86%D8%AF%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%A8%D9%84%D8%A7%D9%88%D8%A7 -%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%AD/