You are on page 1of 7

‫پاکستان انٹرنیستل سکول جدہ‬

‫م ل‬
‫نظم ‪:‬دعا)مسجد قرطبہ یں ھی ئی‬
‫گ‬ ‫ک‬

‫ساعر ‪:‬عالمہ اقتال رحمبہ للا‬

‫نظم کی وضاحت‬

‫ہے یہی مٹری نماز‪ ،‬ہے یہی مٹرا وضو‬

‫مٹری نواؤں میں ہے مٹرے جگر کا لہو‬

‫معانی ‪:‬قرطبہ ‪:‬سپین کا اپک شہر ۔‬

‫مطلب ‪:‬اقتال حب ‪32‬ء میں گول مٹزکانفرنس میں شرکت کے لیے لتدن‬
‫گیے نو وہاں سے قراغت کے نعد انھوں نے ہستانبہ کا دورہ نھی کتا ۔ پاریخی‬
‫اعتتار سے ہستانبہ جن دنوں مسلمان سالطین کے زیر پگیں رہا نو اس کی‬
‫عظمت انتہانی عروج یر یہنچ گئی نھی ۔ مسلمان سالطین نے قرطبہ کو انتا‬
‫دارالجکومت قرار دپا نھا ۔ یہ نظم عالمہ نے قرطبہ کی جامع مسجد میں نتٹھ کر‬
‫یجلیق کی ۔ یہ مسجد مسلمانوں کے زوال کے نعد عیسانی جکمرانوں نے گرجا‬
‫میں نتدپل کر دی نھی ۔ اس ا لمیے کے ایرات اقتال کی اس نظم میں جا یجا‬
‫ح‬
‫موجود ہیں ۔ چتایچہ وہ کہیے ہیں کہ عشق ق یقی حب انئی انتہا یر یہنچتا ہے نو‬
‫ی ٓ‬ ‫ھ‬ ‫م‬ ‫ج ل ن ٓ‬
‫گر کا ہو ھی اہ و قرپاد یں ڈ ل جاپا ہے ۔ ہی اہ و قرپاد مٹری نماز اور وضو‬
‫کا روپ دھار گئی ہے ۔‬

‫صچبت اہل صفا‪ ،‬نور و حضور و شرور‬


‫ٓ‬
‫شرجوش و ُیرسوز ہے اللہ لب ایجو‬

‫مطلب ‪:‬اس شعر میں اقتال کہیے ہیں کہ ضاف و پاکٹزہ مچبت سے قلب‬
‫انسان جال پاپا ہے ۔ مچیوب کی حضوری کے سانھ ک یف و شرور کی وہ ضورت‬
‫ملئی ہے ۔ پالکل اسی طرح جیسے یہر کے کتارے اللے کا نھول لہراپا رہتا ہے‬
‫اور پدی کی لہریں اس کو ہمیشہ پازگی‪ ،‬شرجوسی اور سوز یخسئی رہئی ہیں ۔‬

‫راہ مچبت میں ہے کون کسی کا رقیق‬


‫ٓ‬
‫سانھ مرے رہ گئی‪ ،‬اپک مری ارزو‬

‫مطلب ‪:‬مچبت کی راہیں اس قدر سیگالخ ہونی ہیں کہ اس میں انتہانی قرنت‬
‫رکھیے والے عزیزو اقرپا نھی سانھ حھوڑ جانے ہیں ۔ چتایچہ اقتال کے مطانق کہ‬
‫مچبت میں کونی نھی کسی کا سانھ یہیں دے سکتا ۔ محض عشق کا جذیہ ہی‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫م‬ ‫ٓ‬
‫ارزو یں ڈ ل کر انسان کو اس کی مٹزل پک ہنجانے کا ا ل ہوپا ہے ۔‬

‫مٹرا نسٹمن یہیں درگہ مٹر و وزیر‬

‫مٹرا نسٹمن نھی نو‪ ،‬ساخ نسٹمن نھی نو‬

‫مطلب ‪:‬جدانے عزوجل سے مجاطب ہو کر اس شعر میں عالمہ قرمانے ہیں کہ‬
‫مٹرے دل میں امٹروں اور وزیروں کے لیے کونی گنجانش یہیں ۔ مٹرے لیے‬
‫نو نو ہی سب کچھ ہے ۔ مٹزل نھی نو اور راہ مٹزل نھی ۔‬

‫یچھ سے گرنتاں مرا مطلع صنح نشور‬


‫س م ٓ‬
‫یچھ سے مرے تیے یں انش للا ہو‬
‫معانی ‪:‬مطلع ‪:‬جہاں سے صنح نھونئی ہے ۔ نشور ‪:‬دوپارہ زپدہ ہو کے انھیے کی‬
‫صن ح ۔‬
‫ٓ‬ ‫ح‬
‫مطلب ‪:‬اے جدا نو نے مٹرے ستیے میں عشق ق یقی کی جو اگ روشن کی‬
‫ی‬ ‫ک‬ ‫ٓ‬
‫ہے وہ قتامت کے روز نھڑ کیے والی اگ سے م یں ۔ عالتا اس کی وجہ یہ‬
‫ہ‬
‫ٓ‬
‫ہے کہ مٹرا دل للا ہو کی حرارت کی اماحگاہ نتا ہوا ہے ۔‬

‫یچھ سے مری زپدگی سوز و نب و درد و داغ‬


‫س‬‫ج‬ ‫ٓ‬
‫نو ہی مری ارزو‪ ،‬نو ہی مری نجو‬

‫مطلب ‪:‬موالنے کانتات نٹرے ہی دم سے مٹری زپدگی سوز و درد اور داغ کے‬
‫ش م ٓ‬
‫عالوہ روسئی کا مظہر نئی ہونی ہے ۔ نو ہی ہے جو مٹرے ع ق یں ارزو ین کر‬
‫نسا ہوا ہے اور یہی جذیہ جسنجو کا جامل ین جاپا ہے ۔‬

‫پاس اگر نو یہیں ‪ ،‬شہر ہے ویراں نمام‬

‫ہ‬ ‫ٓ‬
‫نو ہے نو اپاد یں احڑے ہونے کاخ و کو‬
‫معانی ‪:‬کاخ و کو ‪:‬گلی کوچے ۔‬
‫ٓ‬
‫مطلب ‪:‬اے اقا !یہ نٹری پاد ہی ہے جس کے نغٹر ہر سو ویرانی ہی ویرانی‬
‫چ‬‫م‬ ‫ن ٓ‬
‫ظر انی ہے اور حب ھے نٹری قرنت کا اجساس ہوپا ہے نو احڑے ہونے‬
‫ن ٓ‬ ‫ن ٓ‬
‫مجالت اور سیسان گلی کوچے ھی اپاد و درجساں ظر انے یں ۔ مراد یہ کہ‬
‫ہ‬
‫ہ‬ ‫ع‬ ‫لٰ‬
‫قرب ا ہی سے انسان ظمت و پلتدی سے م کتار ہوپا ہے ۔ اس کے‬
‫م‬ ‫ع ش لٰ‬
‫یر کس ع ق ا ہی اور اس کی عرقت یہ ہو نو نورا ماجول اجاڑ و سیسان ین کر‬
‫رہ جاپا ہے ۔‬

‫نھر وہ شراب کہن مچھ کو عطا کر‪ ،‬کہ میں‬

‫ڈھوپڈ رہا ہوں اسے نوڑ کے جام و سیو‬

‫معانی ‪:‬شراب کہن ‪:‬یرانی شراب نعئی اولین مسلمان کے جذپات اور انمان ۔‬

‫مطلب ‪:‬اے مالک میں نے جدپد یہذنب کے نمام لوازمات سے قطع نعلق کر‬
‫لتا ہے ۔ مچھے وہی جذیہ عشق سے نواز دے جو مٹرے اسالف کا وریہ ہے کہ‬
‫ٰ‬
‫سب کچھ حھوڑ کر میں نو عشق الہی میں جذب ہو حکا ہوں ۔ اور محض نٹری‬
‫پالش میں مصروف ہوں ۔‬

‫جشم کرم ساقتا‪ ،‬دیر سے ہیں مت یظر‬

‫جلونیوں کے سیو‪ ،‬جلونیوں کے کدو‬

‫معانی ‪:‬جلونیوں کے سیو ‪:‬ظاہر شراب نتیے والے کا یرین مراد سب کے‬
‫سا میے نماز روزہ اور عتادت کرنے والے ۔ جلونیوں کے کدو ‪:‬ح ھپ کے نتیے‬
‫والوں کے یرین ‪ ،‬ح ھپ کر عتادت کرنے والے یزرگ ۔‬

‫مطلب ‪:‬اس شعر میں جدا سے دعا کی گئی ہے اور سانھ ہی مسلمانوں کے‬
‫مچتلف ط یقوں کے پارے میں کہا گتا ہے کہ وہ سب نٹری نظر کرم کے‬
‫مچتاج ہیں ۔‬

‫نٹری جدانی سے ہے مٹرے چیوں کو گلہ‬

‫ا نیے لیے المکاں مٹرے لیے جار سو‬


‫مطلب ‪:‬اس شعر میں عالمہ کا لہچہ قدرے نتدپل ہو گتا ہے ۔ یہاں وہ مالک‬
‫ٓ‬ ‫ح‬
‫ق یقی سے گلہ متد نظر انے ہیں کہ وہ جود نو المکاں ہے اور اقالک و کانتات‬
‫ن‬
‫یر اس کی اجارہ داری ہے حب کہ انسان کو انتا پانب نتا کر ھنچیے کے پاوجود‬
‫زمین کے اپک مچ یصر عالقے پک مجدود کر دپا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ جدا کے‬
‫المجدود اجتتارات کا نو کونی نھکایہ یہیں حب کہ انسان نو محض نے اجتتار ہے‬
‫۔‬

‫قلسفہ و شعر کی اور حق یقت ہے کتا‬

‫حرف نمتا‪ ،‬جسے کہہ یہ سکیں ُرویرو‬

‫مطلب ‪:‬قلسفہ اور شعر کی نعرنف مچ یصرا انئی ہی ہے کہ ان کی وساطت سے‬


‫انئی دل نمتا کا اظہار کھل کر یہیں کتا جا سکتا پلکہ یہاں نھی عالمیوں کا شہارا‬
‫لتا جاپا ہے‬

You might also like