You are on page 1of 8

‫آئنہ خانہ‬

‫‪O‬‬

‫ِ‬
‫عکس آئنہ خانہ‬ ‫سر نگاہ وہی‬‫ِ‬
‫نشان صدق و دروغ‬ ‫ِ‬ ‫ہر ایک ُرخ پہ ہے جس کے‬
‫آب تحیّر ازل کے دریا کا‬ ‫عکس ِ‬ ‫ِ‬ ‫وہ‬
‫درون ارض و سما ممکنات کا پانی‬ ‫ِ‬
‫چشمہءآب صفا‪ ،‬کہیں جوہڑ‬‫ِ‬ ‫کہیں پہ‬
‫سر مرق ِد امی ِد حیات‬
‫ِ‬ ‫وہ عکس‪ ،‬پھول‬
‫دہکتی آگ کی خاکستروں میں غم کا خذف‬
‫حسین ہاتھ جسے بیوگی میں چنتے ہیں‬

‫باب ّاول‬
‫ِ‬

‫)سے ‪(۳۷۹۱ ۶۷۹۱‬‬

‫)‪(۱‬‬
‫فرش سماعت سے لفظ لفظ کی خشت‬ ‫ِ‬ ‫اٹھائیں‬
‫صدا کے خشک سمندر کو چھان کر دیکھیں‬
‫کہاں ہے جوہر ِ صورت کہاں زر ِ معنی‬
‫خواب سفر سے‪ ،‬اور پوچھیں‬
‫ِ‬ ‫جگائیں حرف کو‬
‫کہاں وہ قصر ہے جس کے کھلے دریچے سے‬
‫دکھائی دیتا ہے مفہوم کا نیا چہرہ‬
‫اڑائیں فکر کے باغوں سے تتلیوں سے پرے‬
‫پروں نے جن کے‪ ،‬چھپا لی ہے اصل ِ اندیشہ‬
‫وہ روشنائی‪ ،‬وہ خوشبو ئے غم کشید کریں‬
‫مشا ِم جاں نے جو قرطاس پر نہیں رکھی‬

‫)‪(۲‬‬

‫ِ‬
‫حجابات شاہد و مشہود‬ ‫اٹھائے کون‬
‫کہاں کسی پہ طلس ِم ِ‬
‫پس نگاہ کھال‬
‫بتائے کون کہ کاغذ کی سطح ِ خالی پر‬
‫بغیر حرف بھی نقطہ وجود رکھتا ہے‬
‫وہ قتل گاہ کہاں ہے جہاں پہ لفظوں نے‬
‫سن تمنّا میں خود کشی کرلی‬‫فراقِ ُح ِ‬
‫ہجو ِم راہگزر منتظر ہے کس کے لئے‬
‫در نیم وا پہ قفل پڑا‬
‫سحر ہوئی تو ِ‬
‫چلی صبا تو پہاڑوں نے راستہ نہ دیا‬
‫جواں ہوئیں تو گھروں سے نہ لڑکیاں نکلیں‬

‫)‪(۳‬‬

‫ہوا کے ہاتھ کی سب ناتمام تحریریں‬


‫زمیں کا ّاولیں مکتوب بادلوں کے لئے‬
‫سحر کی شاخ پہ پھیلی صدا پرندے کی‬
‫کٹی زبان سے پتّے پہ درد کی شبنم‬
‫درخت الئے وفا کی شہادتیں کیا کیا‬
‫اجر بہاراں مواخذے کی گھڑی‬
‫ِ‬ ‫چمن میں‬
‫دکھا کے کونسی کونپل ترے دہن میں کھلی‬
‫بتا کہ کونسے بازو پہ ہے رسن کا نشاں‬
‫ِ‬
‫نوک مژہ پہ ابر کی راکھ‬ ‫سجی ہے کونسی‬
‫وہ کیسے خط ہیں جنہیں تو دکھا نہیں سکتی‬

‫)‪(۴‬‬

‫پیام جتنے صبا نے دیے‪ ،‬غلط نکلے‬


‫آب رواں نے‪ ،‬جھوٹ کہا‬ ‫کہا جو موجہ‪ِ ¿#‬‬
‫زیر پا زمین وہی‬
‫سفر کا رنج وہی‪ِ ،‬‬
‫وہی فلک جو کھڑے پانیوں میں دیکھ چکے‬
‫وہ ہفت رنگ ستارہ اس آسماں میں نہیں‬
‫وہ پھول حلقہ‪ ¿#‬دا ِم ہوا سے آگے ہے‬
‫الدیار جس کے لئے‬‫ہمارے ساتھ غریب ّ‬
‫ِ‬
‫زلف تہی‬ ‫شاخ برہنہ‪ ،‬شبوں کی‬
‫ِ‬ ‫دنوں کی‬
‫سنا گئی تھی ہوا کس وصال کی باتیں‬
‫دکھا رہی ہے زمیں کس فراق کا چہرہ‬
‫آب رواں نے جھوٹ کہا‬ ‫کہا جو موجہ‪ِ ¿#‬‬

‫)‪(۵‬‬

‫ِ‬
‫سگ مامور‬ ‫سفر کی رات تعاقب میں ہے‬
‫سراغ بدن نکالے گا‬
‫ِ‬ ‫نشان پا سے‬
‫ِ‬
‫مدد کرے گا عدو کی نکل کے ابر سے چاند‬
‫دکھائے گا کہ سبھی ہست و بود کی راہیں‬
‫قدم قدم پہ انہی جنگلوں سے ملتی ہیں‬
‫جہاں پہ ڈھونڈی ہے مغرور قیدیوں نے پناہ‬
‫افق اٹھائیں گے پھر سے کوئی نئی دیور‬
‫غول بیابان باڑ لوہے کی‬
‫ِ‬ ‫بُنیں گے‬
‫ہوا کہے گی کہ خود یافتی کی منزل پر‬
‫فصیل ذات سے محکم کوئی فصیل نہیں‬ ‫ِ‬
‫)‪(۶‬‬

‫چلی بھی آئے اگر وادی‪ ¿#‬تعل ّق سے‬


‫شب وعدہ‬‫ِ‬ ‫طلس ِم خواب سی وہ چاندنی‬
‫سفر شوقِ جستجو ہے کہ اب‬ ‫ِ‬ ‫محال تر‬
‫مٹا گئے ہیں رواں ظلمتوں کے سیل انہیں‬
‫وہ تھیں کبھی جو شناسائی کی گزرگاہیں‬
‫شب وعدہ‬ ‫ِ‬ ‫چلی بھی آئے اگر چاندنی‬
‫در انتظار تک کیسے‬‫پہنچ سکے گی ِ‬
‫نشان ایک سے دیوار و در پہ کندہ ہیں‬
‫چراغ ایک سے‪ ،‬آنکھیں ہیں ایک سی جن میں‬
‫خیال نجات کی میخیں‬‫ِ‬ ‫گڑی ہوئی ہیں‬

‫)‪(۷‬‬

‫خمار حاصل سے‬‫ِ‬ ‫ملے فراغ کبھی جو‬


‫برہنہ آنکھ سے وہ نقطہ‪ ¿#‬سفر دیکھوں‬
‫برون حلقہ‪ ¿#‬نور‬
‫ِ‬ ‫کہ جس کی رو میں اندھیرے‬
‫عجیب ل ّذ ِت الحاصلی میں چلتے ہیں‬
‫نشیب درد میں اتروں برہنہ پا تو قدم‬
‫ِ‬
‫اُس استخواں پہ پڑیں جس کی شاخ شاخ پہ پھول‬
‫رخ ہوا کی اطاعت میں رخ بدلتے ہیں‬ ‫ِ‬
‫نشیب درد میں اتروں تو قتل گاہ کی خاک‬‫ِ‬
‫شکستہ خول‪ ،‬کھلی بکتریں‪ ،‬جلے ہتھیار‬
‫کچھ اس طرح سے مجھے گھیر لیں کہ میں جیسے‬
‫بقا کی جنگ کا ہارا ہوا سپاہی ہوں‬

‫)‪(۸‬‬

‫چپک گیا ہے جلی انگلیوں کی پوروں سے‬


‫بجھے چراغ میں جیسے شرر تھا خوابیدہ‬
‫خود اپنی ذات کی تردید کے شواہد بھی‬
‫مرے خالف صف آرا‪ ،‬مرے خالف گواہ‬
‫ِ‬
‫ثبوت جرم میں کیا منصفوں کو پیش کروں‬
‫دیوار جسم پر‪ ،‬لیکن‬
‫ِ‬ ‫ہے‬ ‫زخم‬ ‫نشان‬
‫ِ‬
‫سوا ِد زخم میں بارود کی لکیر نہیں‬
‫سپیدہ‪ ¿#‬سحری میں گھلی ہوئی ظلمت‬
‫بدن کی لوح پر اتری تو سطر سطر ہوئی‬
‫مرے خالف صف آرا‪ ،‬مرے خالف گواہ‬

‫)‪(۹‬‬

‫لباس ہوا‬ ‫ِ‬ ‫بدن سے اترے شکن در شکن‬


‫ساحل یقیں پہ رکے‬‫ِ‬ ‫لہو کی لہر کسی‬
‫ہٹے نگاہ کے شیشے سے عکس کا پردہ‬
‫خواب ازل نظر آئے‬ ‫ِ‬ ‫تو وہ سپیدہ‪¿#‬‬
‫ناخن درد‬
‫ِ‬ ‫اٹھائے پھرتا ہے جس کی شبیہ‬
‫طائران ابد‬
‫ِ‬ ‫فلک کی شاخ سے اتریں وہ‬
‫پروں سے جن کے افق تا افق د ِم پرواز‬
‫زمین منتظر و کو ِہ بے ارادہ پر‬
‫ِ‬
‫دھنک کے رنگ میں گر ِد ممات گرتی ہے‬

‫)‪(۰۱‬‬

‫مجبور رقص حلقہ‪ ¿#‬چشم‬ ‫ِ‬ ‫نظر کے تار پہ‬


‫تھکن سے چور قدم پتلیوں کے پوچھتے ہیں‬
‫منزل دشوار دور کتنی ہے‬ ‫ِ‬ ‫حضر کی‬
‫دست ہنر کب آئے گا‬ ‫ِ‬ ‫برون پردہ وہ‬
‫ِ‬
‫انگشت فکر سے پیوست‬ ‫ِ‬ ‫وہ ہاتھ جس کی ہر‬
‫رگ تماشا ہے‬ ‫صدائے ساز کا رشتہ‪ِ ،‬‬
‫شنید و دید کے کاسہ بدست منظر کب‬
‫طلب کریں گے بہا‪ ،‬چشم سیر لوگوں سے‬
‫گریں گے رحم کے سکے کب ان حجابوں پر‬
‫تماشا ساز نے اب تک جنہیں اٹھایا نہیں‬

‫)‪(۱۱‬‬

‫نمو کی خاک نے پھر ایک بار جوڑ دیا‬


‫دو نیم جسم ارادے کی سبز ٹہنی سے‬
‫پھر ایک بار کھلی پیش بینیوں کی زمیں‬
‫وہی طلب کی ہوائیں‪ ،‬وہی گریز کے پھول‬
‫مدار ذات کے اندر رکے ہوئے سورج‬
‫ِ‬
‫قدم جمے ہوئے گاڑی کے پائدانوں پر‬
‫کلی کلی پہ پریشاں خیال کی تتلی‬
‫گلی گلی میں ہراساں پیمبروں کی صدا‬
‫نمو کی خاک نے پھر ایک بار جوڑ دیا‬
‫دو نیم جسم ارادے کی سبز ٹہنی سے‬

‫)‪(۲۱‬‬

‫اہل شہر نے دیکھا کہ میں غنیم نہ تھا‬‫ِ‬ ‫پھر‬


‫جسے میں کھینچ کے الیا حدو ِد ہستی سے‬
‫وہ جس ِم زرد مرا تھا‪ ،‬وہ نعش میری تھی‬
‫نہ اس ِم ذات مرے کاغذات سے نکال‬
‫نہ زا ِد راہ سے وہ زہر میں بجھا خنجر‬
‫خاک شفا کے سینے میں‬ ‫ِ‬ ‫اتر گیا تھا جو‬
‫اہل شہر نے دیکھا کہ میرے چہرے پر‬ ‫ِ‬ ‫پھر‬
‫اسی ہراس‪ ،‬اسی خوف کا پسینہ ہے‬
‫کہ جس کی دزد صفت چاپ شب کے صحنوں میں‬
‫جگائے رکھتی ہے سب کو حجر وہ ہو کہ شجر‬
‫مکین سونے لگیں تو مکان جاگتے ہیں‬

‫)‪(۳۱‬‬

‫ِ‬
‫فقیہہ شہر نے دیکھا ہے روئے قاتل میں‬
‫جلی زمین کا چہرہ‪ ،‬شکستہ شاخ کا زخم‬
‫کنار آب تعفن کا ڈھیر جس کے قریب‬ ‫ِ‬
‫سگ تشنہ‬‫ِ‬ ‫زن پیر اور‬
‫زباں گرفتہ ِ‬
‫قدم ہوس کے پرے سرح ِد نواحی سے‬
‫برہنہ جسم لٹے محملوں کی تنہائی‬
‫فقیہہ شہر نے دیکھا ہے چش ِم قاتل میں‬
‫وہ زہر جس کے تعصب سے گل رہے ہیں بدن‬
‫کف گلفروش میں سوراخ‬ ‫وہ زہر جس سے ِ‬
‫دراڑ سقف کے اندر‪ ،‬لکیر شیشے میں‬

‫)‪(۴۱‬‬

‫در بے توجہی کی طرح‬ ‫اسے نہ کھول ِ‬


‫گرہ بچی ہے یہی رابطوں کے تاگے میں‬
‫ہجر ذات کا دریا ہے درمیاں تو اسے‬
‫ِ‬ ‫یہ‬
‫میں ایک پر کے سہارے عبور کر لوں گا‬
‫نہ چن زمیں سے رہائی کی بوند بوند شفق‬
‫دھنک کے رنگ مرے جس ِم بے سپہر میں ہیں‬
‫آب شور پر‪ ،‬کہ مری‬
‫زبان تشنہ نہ رکھ ِ‬
‫ِ‬
‫خمیدہ پشت پہ رکھا ہے اب بھی مشکیزہ‬
‫در بے توجہی کی طرح‬ ‫اسے بھی کھول ِ‬
‫گرہ بچی ہے یہی‪ ،‬رابطوں کے تاگے میں‬

‫)‪(۵۱‬‬

‫شاخ بے وطن کی طرف‬ ‫ِ‬ ‫صبا چلے گی پھر اس‬


‫طیور لوٹ کے آئیں گے آشیانوں میں‬
‫اتر کے ابر‪ ،‬مناجات کے پہاڑوں سے‬
‫اہل دعا پہ برسے گا‬
‫ِ‬ ‫شب‬
‫ِ‬ ‫خرابہ‪¿#‬‬
‫لباس تار نئے قاصدوں کے جسموں سے‬ ‫ِ‬
‫کنار صبح نئی امتیں اتاریں گی‬
‫ِ‬
‫شاخ بے وطن کی طرف‬ ‫ِ‬ ‫صبا چلے گی پھر اس‬
‫کہ جس کی ماتمی چھاﺅں میں بے خبر موسم‬
‫کسی پیام کی خوشبو کے انتظار میں ہیں‬

‫باب دوم‬
‫ِ‬

‫)سے ‪(۷۷۹۱ ۰۸۹۱‬‬

‫)‪(۶۱‬‬

‫صبح حشر بھی میری ہے‪ ،‬پرسشیں بھی مری‬ ‫ِ‬ ‫یہ‬
‫شفاعتیں بھی میں اپنے ہنر سے مانگتا ہوں‬
‫اٹھا رہا ہوں زمیں سے دو نیم حرف کا چاند‬
‫ِ‬
‫انگشت معجزہ جس پر‬ ‫دکھا رہا ہوں وہ‬
‫مہر ستارہ‪ ،‬کہیں ِ‬
‫خط تنسیخ‬ ‫ِ‬ ‫کہیں ہے‬
‫استخوان صدا‬
‫ِ‬ ‫چھپا رہا ہوں تہ سنگ‬
‫چھپا رہا ہوں وہ مقتل جہاں پہ لفظوں نے‬
‫حسن تمنّا میں خودکشی کر لی‬
‫ِ‬ ‫فراقِ‬
‫وہ لعبتیں بھی فر ِد حساب میں موجود‬
‫زیور غم میں نے خود اتار لیا‬
‫ِ‬ ‫کہ جن کا‬
‫سکوت چھین لیا ہے کہ خود کالم کروں‬

‫)‪(۷۱‬‬

‫یہ کیسے خواب کا پانی ہے کور آنکھوں میں‬


‫وجو ِد درد کے اندر بھی کیسی ل ّذ ِت وصل‬
‫یہ کس امید کے رستے پہ تو مال ہے مجھے‬
‫عصا بدست‪ ،‬کشیدہ نقاب‪ ،‬لب بستہ‬
‫قدم نہ کھینچ کہ اس راہ پر ہمارے سوا‬
‫ہماری شکل کو پہچانتا نہیں کوئی‬
‫قدم نہ کھینچ کہ اس عہ ِد منخرف کی ہوا‬
‫اکھاڑ آئی ہے پہچان کے خیاباں سے‬
‫وہ شاخسار کہ جس کی نمو ِد ذات میں تھی‬
‫ترے لہو کی تب و تاب‪ ،‬میری بینائی‬

‫)‪(۸۱‬‬

‫مرے بدن پہ ہے معزول درد کی خلعت‬


‫ِ‬
‫اشک نگوں‬ ‫مری مژہ یہ غ ِم مسترد کا‬
‫قریب آ‪ ،‬کہ وہ مسند تجھے دکھاﺅں میں‬
‫شب حیلہ جو کی زرد سپہ‬ ‫ِ‬ ‫کہ جس کے گرد‬
‫مجھی سے میرے لہو کا حساب مانگتی ہے‬
‫حبس ناروا میں رہے‬‫ِ‬ ‫سگان شام کہاں‬‫ِ‬
‫دعوے‬
‫ٰ‬ ‫کا‬ ‫عناد‬ ‫صبح‬
‫ِ‬ ‫خالف کس کے ہے‬
‫ذرا ٹھہر کہ د ِم فیصلہ سوال بہت‬
‫شب نا سپاس پوچھے گی‬ ‫ِ‬ ‫جال وطن سے‬

‫)‪(۹۱‬‬

‫وہ سن رہا تھا زمیں کا خروش‪ ،‬دزد کی چاپ‬


‫وہ گن رہا تھا ستارے‪ ،‬شجر‪ ،‬تبر کے نشاں‬
‫وہ ُچن رہا تھا رسن‪ ،‬سوختہ سفال چراغ‬
‫ابر بہار‪ ،‬اس کا تھا‬
‫جال جو خیمہ‪ِ ¿#‬‬
‫اندرون صدف‬
‫ِ‬ ‫سمت رہا تھا وہ موتی سا‬
‫کہ بزدلوں کے تصرف میں بحر و بر آئے‬
‫کہ پانیوں میں اترنے کی رسم جاتی رہی‬
‫شاخ عدل اس کا گالب‬ ‫ِ‬ ‫سر‬
‫ِ‬ ‫لرز رہا تھا‬
‫ِ‬
‫صحبت د ِم افعی‬ ‫کہ ابر و باد سے تھی‬
‫پریدہ صدق تھے اور تیز دھوپ کی مقراض‬
‫کہیں زباں‪ ،‬کہیں اوراقِ گل کترتی تھی‬

‫)‪(۰۲‬‬

‫سوال عدل تھا یا احتجاج تھا‪ ،‬کیا تھا‬ ‫ِ‬


‫مور نا تواں کا خطاب‬ ‫ِ‬ ‫ہجو ِم عام سے تھا‬
‫فلک کے ساتھ ستارہ شناس تھے اس کے‬
‫زمین اپنے رسولوں کو ساتھ الئی تھی‬
‫ہوا کے جھنڈ میں مہتاب گوش بر آواز‬
‫سوا ِد زخم خود افروز سوچتا جگنو‬
‫کتاب کھولتا تھا‪ ،‬اندمال لکھتا تھا‬
‫پڑا تھا خشک لہو کا اناج ممبر پر‬
‫زمین جس کی وصیت وصول کرتی نہ تھی‬
‫رزق نواحی قبول کرتے نہ تھے‬ ‫ِ‬ ‫طیّور‬
‫سوال عدل تھا یا احتجاج تھا کیا تھا‬‫ِ‬

‫)‪(۱۲‬‬

‫اسی کے نام کڑی دوپہر میں جلتے بدن‬


‫اسی کی نذر بجھے حوصلوں کی مزدوری‬
‫اسی کی نذر قلم‪ ،‬حاشیے‪ ،‬سیاق و سباق‬
‫وہ جس کے ذکر سے خالی بھرا ہوا اخبار‬
‫تعویز نافرستادہ‬
‫ِ‬ ‫اسی کے نام سے‬
‫جسے لحد میں اترتے ہوئے نہیں دیکھا‬
‫اسی کی نذر فرو رفتہ‪ ¿#‬زمیں باغات‬
‫قفس عندلیب سے آنسو‬ ‫ِ‬ ‫بچے ہوئے‬
‫اُگے ہوئے غ ِم تشنہ زبان میں کانٹے‬
‫اسی کی نذر ُرکی آبجو‪ ،‬تہی دریا‬
‫آب وضو نہیں ملتا‬‫جہاں طیور کو ِ‬

‫)‪(۲۲‬‬

‫شور قیامت کہ بند قبر کھلے‬‫ِ‬ ‫اک اور‬


‫اک اور ضرب کہ تمثال دار آئینہ‬
‫عکس مکرر ترے رہا کر دے‬ ‫ِ‬ ‫تمام‬
‫اک اور ضرب کہ بود و نبود کی تقسیم‬
‫خشت ماسوا تک ہے‬ ‫ِ‬ ‫اسی فصیل‪ ،‬اسی‬
‫قدم اک اور کہ اس کاخ و کو میں روشن ہے‬
‫وہ ہفت رنگ ستارہ جو آسماں میں نہیں‬
‫الدیار جس کے لئے‬ ‫ہمارے ساتھ غریب ّ‬
‫زلف تہی‬‫ِ‬ ‫شاخ برہنہ‪ ،‬شبوں کی‬
‫ِ‬ ‫دنوں کی‬
‫قدم اک اور کہ آگے وہ معرکہ ہے جہاں‬
‫صداقتوں کے مقابل صداقتیں ہوں گی‬

‫)‪(۳۲‬‬

‫زنجیر شوقِ دربدری‬


‫ِ‬ ‫نہ پائے عجز میں‬
‫نہ انگلیوں میں سکت بوریا اٹھانے کی‬
‫دشت ممات ہے درپیش‬ ‫ِ‬ ‫در ثبات کہ‬
‫ِ‬
‫فصیل ذات سے باہر قدم نہیں اٹھتا‬ ‫ِ‬
‫ہے پیش و پس سپر انداختہ گرو ِہ حلیف‬
‫گلیم پوش ارادے‪ ،‬عصا بدست سوال‬
‫چراغان شام بے ترتیب‬
‫ِ‬ ‫فسردہ درد ۔۔۔۔‬
‫شب آتش بجاں سے جلتے نہیں‬ ‫ِ‬ ‫چراغ جو‬
‫حری ِم حسن کی ناواگزار اقلیمیں‬
‫دیار‪ ،‬جن کے مقرر خراج اترتے نہیں‬
‫بال ِد عمر‪ ،‬جنہیں پاﺅں فتح کرتے نہیں‬

‫)‪(۴۲‬‬

‫خواب رہائی کی بوند بوند شفق‬‫ِ‬ ‫مژہ پہ‬


‫تحریر زخ ِم محرومی‬
‫ِ‬ ‫خمیدہ پشت پہ‬
‫پل مدعا پہ اور سر سے‬ ‫کھڑا ہوا ہوں ِ‬
‫گزر رہے ہیں غ ِم ممکنات کے پانی‬
‫سر نگاہ وہی پیش بینیوں کے طلسم‬ ‫ِ‬
‫وہی طلب کی ہوائیں‪ ،‬وہی گریز کے پھول‬
‫مدار ذات کے اندر رکے ہوئے سورج‬ ‫ِ‬
‫قدم جمے ہوئے گاڑی کے پائیدانوں پر‬
‫کشاد و بست‪ ،‬فغاں‪ ،‬دادوگیر‪ ،‬آہ‪ ،‬پناہ‬
‫گلی گلی میں ہراساں پیمبروں کی صدا‬

‫)‪(۵۲‬‬

‫عکس آئنہ خانہ‬‫ِ‬ ‫سر نگاہ وہی‬ ‫ِ‬


‫خط پرکار‬ ‫وہی ہجو ِم مقیّد‪ ،‬وہی ِ‬
‫سگ مامور‬ ‫ِ‬ ‫وہی پناہ کا جنگل‪ ،‬وہی‬
‫فصیل ذات کی خشت‬ ‫ِ‬ ‫خود اپنے آپ سرکتی‬
‫زمین فرار‬
‫ِ‬ ‫خود اپنے آپ قدم چھوڑتی‬
‫وہی نگاہ وہی چاک حرف کی تفہیم‬
‫زمیں کا ّاولیں مکتوب بادلوں کے لئے‬
‫ازل سے تا بہ ابد تیرتے نجوم‪ ،‬طیور‬
‫پروں سے جن کے افق تا افق د ِم پرواز‬
‫زمین منتظر و کو ِہ بے ارادہ پر‬
‫ِ‬
‫دھنک کے رنگ میں گر ِد ممات گرتی ہے‬

You might also like