Professional Documents
Culture Documents
وہی ہر عہد کا جبروت وہی کل کے لئیم جبر کے منہ میں دہکتے ہوئے الفاظ دِیے
تم وہی دُشمن احیائے صدا ہو کہ نہیں خون رگِ جاںدیا اور نہ َمرا
ِ علم نے
پس زنداں یہ تمہی جلوہ نما ہو کہ نہیں
ِ علم نے زہر کا پیمانہ پیا اور نہ َمرا
اینٹ سے اینٹ بجادی گئی خودداری کی ِعلم عبّاس علمدار کے زخمی ُ
بازو
خوف کو رکھ لیا خدمت پہ کمانداری کی آنسو
علم بیٹے کی نئی قبر پہ ماں کے ُ
آج تم مجھ سے مری جنس گراں مانگتے ہو وادئ ابر میں قطروں کو ترس جائے گا
َحلَ ِ
ف ذہن و وفادارئ جاں مانگتے ہو جو ان اشکوں پہ ہنسے گا وہ جھلس جائے گا
جاؤ یہ چیز کسی مدح سرا سے مانگو تم ہی بتالؤ کہ میں کس کا وفادار بنوں
طائفے والوں سے ڈھولک کی صدا سے مانگو ت حرف کا یا دار کا غمخوار بنوں
عصم ِ
کوہساروں کی صالبت مرے ایجاز میں ہے نہ تم الحاد کے حامی ہو نہ ایمان کے دوست
بال جبریل کی آہٹ مری پرواز میں ہے تم نہ اشلوک کے حامی ہو نہ قرآن کے دوست
یہ جبیں کون سی چوکھٹ پہ جھکے گی بولو تم تو س ّکوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں
کس قفس سے مری پرواز ُرکے گی بولو اپنی ماؤں کو اٹھا التے ہو بازاروں میں
کون سی رات نے روکی ہے ستاروں کی چمک گیت کے شہر کو بندوق سے ڈھانے والوں
کس کی دیوار سے سمٹی ہے چنبیلی کی مہک بارود بچھانے والوں
فکر کی راہ میں ُ
تکریم علم
ِ بہ وفادارئ رہ وار و بہ کس پہ لبّیک کہو گے کہ نہ ہوگی باہم
بہ گہر بارئ الفاظ صنا دی ِد عجم جوہری بم کی صدا اور صدائے گوتم
بہ صدائے جرس قافلئہ اہ ِل قلم رزق برتر ہے کہ شعلہ بداماں ایٹم
مجھ کوہرقطرہء ُخون ُ
شہدا تیری قسم گھرکے ُچولھےسےاُترتی ہوئی روٹی کی قسم
منزلیں آ کے پُکاریں گی سفر سے پہلے زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کلی اچھی ہے
ُجھک پڑے گا در زنداں مرے سر سے پہلے خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے
ہو گئے راکھ جو کھلیان اُنہیں دیکھا ہے ب دیجور سحر مانگتے ہیں
صاحبان ش ِ
ِ
ایک اک خوشئہ گندم تمہیں کیا کہتا ہے پیٹ کے زمزمہ خواں در ِد جگر مانگتے ہیں
ایک اک گھاس کی پتّی کا فسانہ کیا ہے کور دل خیر سے شاہیں کی نظر مانگتے ہیں
آگ اچھی ہے کہ دستور نمو اچھا ہے آکسیجن کے تلے عمر خضر مانگتے ہیں
محفلوں میں جو یونہی جام لہو کے چھلکے ایوان ُگہر ڈھونڈتے ہیں
ِ اپنے کشکول میں
مورخ کل کے؟
تم کو کیا کہ کے پُکاریں گے ّ اپنے شانوں پہ کسی اور کا سر ڈھونڈتے ہیں
دل کی درگاہ میں پندار ِمٹا کر آؤ شورش زنجیر ہے جھنکار کے ساتھ
ِ اک نہ اک
اپنی آواز کی پلکوں کو ُجھکا کر آؤ اک نہ اک خوف لگا بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ
تطہیر بُتول
ِ تبرک ہیں کہ
طبل و لشکر ُم ّ
مسجدیں علم کا گھر ہیں کہ مشن کے اسکول