فقط اس حقیقت کا نقصان گننے کی کوشش میں الجھا ہوا ہوں کہ تو جا چکی ہے تجھے رائیگانی کا رتی برابر اندازہ نہیں ہے تجھے یاد ہے وہ زمانہ جو کیمپس کی پگڈنڈیوں پہ ٹہلتے ہوئے کٹ گیا تھا؟ تجھے یاد ہے جب قدم چل رہے تھے ؟ کہ اک پیر تیرا تھا اور ایک میرا قدم وہ جو دھرتی پہ آواز دیتے کہ جیسے ہو راگا کوئی مطربوں کا قدم جیسے سا پا ،گا ما پا گا سا رے وہ طبلے کی ترکٹھ پہ تک دھن دھنک دھن تنک دھن دھنادھن بہم چل رہے تھے قدم جو مسلسل اگر چل رہے تھے گوئیوں کے گھر چل رہے تھے تو کتنے ّ مگر جس گھڑی تو نے اس راہ کو میرے تنہا قدم کے حوالے کیا ان سروں کی کہانی وہیں رک گئی کتنی فنکاریاں ،کتنی باریکیاں گوئیوں کے ہونٹوں پہ آنے سے پہلے فنا کتنے '' کلیاں ،بالول '' ّ ہوگئے کتنے نصرت فتح ،کتنے مہدی حسن منتظر رہ گئے کہ ہمارے قدم پھر سے اٹھنے لگیں تجھ کو معلوم ہے جس گھڑی میری آواز سن کے تو اک زاویے پہ پلٹ کر مڑی تھی وہاں سے ریلیٹیویٹی کا جنازہ اٹھا تھا کہ اس زاویے کی کشش میں ہی یونان کے فلسفی سب زمانوں کی ترتیب برباد کر کے تجھے دیکھنے آگئے تھے کہ تیرے جھکاؤ کی تمثیل پہ اپنی ترچھی لکیروں کو خم دے سکیں اپنی اکڑی ہوئی گردنوں کو لیے اپنے وقتوں میں پلٹیں جیومیٹری کو جنم دے سکیں اب بھی کچھ فلسفی ،اپنے پھیکے زمانوں سے بھاگے ہوئے میرے رستوں پہ آنکھیں بچھائے ہوئے اپنی دانست میں یوں کھڑے ہیں کہ جیسے وہ دانش کا منبع یہیں پہ کہیں ہے مگر مڑ کے تکنے کو تُو ہی نہیں ہے۔ تو کیسے فلورنس کی تنگ گلیوں سے کوئی ڈیونچی اٹھے کیسے ہسپانیہ میں پکاسو بنے ان کی آنکھوں کو تو جو میسر نہیں ہے یہ سب تیرے میرے اکٹھے نہ ہونے کی قیمت ادا کر رہے ہیں کہ تیرے نہ ہونے سے ہر اک زماں میں ہر اک علم و فن میں ہر اک داستاں میں کوئی ایک چہرہ بھی تازہ نہیں ہے تجھے رائیگانی کا رتی برابر اندازہ نہیں ہے۔۔۔ ! جو بات گنتی کے چند دنوں سے شروع ہوئی تھی وہ سالہا سال تک چلی ہے کئی زمانوں میں بٹ گئی ہے میں ان زمانوں میں لمحہ لمحہ تمہاری نظروں کے بن رہا ہوں میں اب تلک بھی تمہارے جانے کا باقی نقصان گن رہا ہوں مجھے زمانہ یہ کہہ رہا تھا کہ ''رائیگانی'' مبالغہ ہے بھال تمہاری جدائی کا دکھ زماں مکاں کو ہال رہا ہے؟؟'' ''بھال ریلیٹیویٹی کی سائنس کسی کے مڑنے سے منسلک ہے؟؟ انہیں بتاؤ۔۔۔ تمہارے جانے کا دکھ اٹھا کر فقط اکیال وہ میں نہیں تھا جو ذرہ ذرہ بکھر گیا تھا تمہارے جانے کے کچھ دنوں میں ہمارا ہاکنگ بھی مرگیا تھا اور اس کی تھیوری کے کالے گڑھے ،جنہیں ہمیشہ تمہاری آنکھوں میں دیکھنا تھا، وہ میرے چہرے پہ پڑ گئے ہیں وہ میری آنکھوں میں گڑ گئے ہیں تمہارے جانے کے بعد سب کچھ ہی ایک اسی کے زاویے پہ پلٹ گیا ہے کہ میرا ہونا تمہارے ہونے سے منسلک تھا تمہاری آنکھوں کی روشنی تھی تو میں بھی دنیا میں ہو رہا تھا سر ملے تھے تو میں بنا تھا تمہارے لہجے کے ُ تمہارے ہاتھوں کا لمس ہاتھوں کو مل رہا تھا تو دیکھتا تھا ہمارے ہاتھوں کے ایٹموں کی دفع کی قوت کشش میں کیسے بدل رہی ہے پر اب تمہاری نظر کہیں ہے تمہارا لہجہ بھی اب نہیں ہے تو تم بتاؤ میں کس طریقے سے اپنی ہستی کو نیستی سے جدا کروں گا میں دنگ آنکھوں سے ساری دنیا کو دیکھتا ہوں اور اپنے ہونے کی کوئی علت تالشتا ہوں عجیب طرح کا بے نشاں بے مقام دکھ ہے سمجھنے والے سمجھ گئے تھے یہ رائیگانی ہے رائیگانی :تمام صدیوں کا خام دکھ ہے میں اب حقیقت سمجھ رہا ہوں ''تمام دکھ تھا ،تمام دکھ ہے'' !تمہیں بتاؤں کسی کے ہونے کا کوئی مقصد کوئی معانی کہیں نہیں ہے !اگر تو نطشے نہیں مرا ہے تو اس سے پوچھو کہ کیا کریں گے زمیں پہ رہ کے پلیں بڑھیں گے بقاء کی خاطر لڑیں مریں گے پھر اپنے جیسے کئی جنیں گے اور اس جہاں سے نکل پڑیں گے جنہیں جنیں گے وہ سب کے سب بھی یہی کریں گے لڑیں مریں گے پلے بڑھیں گے پھر ان کے بچے اور ان کے بچے۔۔۔ یہ کیا تماشائے ہائے ہو ہے یہ زندگی ہے تو آخ تھو ہے اسی کراہت کے ساتھ کتنے زماں گزاروں؟ میں کس مروت میں رائیگانی کا دکھ گلے سے لگا لے رکھوں تمہیں بتاؤں کہ یہ اذیت بھی بے پناہ ہے میں ایسی حالت میں جس جگہ جتنے دن رہا ہوں میں اب تلک بھی تمہارے جانے کا باقی نقصان گن رہا ہوں اور کتنی دفعہ ایک ہی راگ پھر سے سنوں بانسری کی تھکن مجھ کو کون و مکاں کی سبھی وسعتوں سے پکڑ الئی ہے کن زمانوں کی پرتوں میں الجھی ہوئی ایک ساعت کو یہ یاد کی رسیوں میں جکڑ الئی ہے الئبریری کے پہلو میں بیٹھی ہوئی دائروں کو بناتی مٹاتی ہوئی وہ خطاطی کی مشقوں میں الجھی ہوئی میری جانب مڑی اپنے سیاہی بھرے ہاتھ میری طرف کر کے روشن نگاہوں سے تکنے لگی نبض بھی وقت کے ساتھ تھمنے لگی مجھ کو روشن نگاہوں میں لکھی ہوئی ایک تحریر پڑھنے کا دکھ کھا گیا دیکھتے دیکھتے آستینوں کی ڈوری کو گرہیں لگانے کا حکم آگیا سن ....وقت کی نبض ُ ...ایک وائلن کی دھن ہند کی مطربہ کی ِچھلی انگلیوں سے کوئی راگ سارے میں پھیال تو ادراک ہونے لگا عمر کی رائیگانی سے واحد کمایا ہوا ایک لمحہ تھی وہ وہ مجسم ترنم تھی نغمہ تھی وہ میں جسے عمر بھر گنگناتا رہا اس کے پہلو میں بیٹھا رہا کچھ برس سروں کو پکاتا رہا اپنے کچے ُ سر تھا میں نے جسے اُس بدن کی رگوں میں بکھیرا کون سا ُ نہیں تھا ...وہ مگر ایک نغمہ تھا ...نعمہ بھی ایسا جو میرا نہیں تھا