Professional Documents
Culture Documents
اکتوبر ٢٠١٦
فہرست
-٣کالے سویرے
-٤کیچڑ کا کنول
-٥دو لقمے
-٨حیرت تو یہ ہے
-٩میں نے دیکھا
-١٣فیکٹری کا دھواں
-١٤مطلع رہیں
بولی
راحتوں کے لیے
پھر اس نے
پروقار تھی
اجتہاد کا در وا ہوا
بھکاری مر گیا
شاعر تھا
مطلع ہوں
کہ اب ان پر سب کا حق ہے
کالے سویرے
حقیقتوں کا ہم زاد
گھبرا کر
آس سے
یہ ناگ
اپنی نہیں
یا پھر
پھر میں
گھمسان کا رن ہو گا
کیچڑ کا کنول
اور اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فنکار‘ سب کا درد
‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساکت وجامد
مٹی کے بت کی طرح
ہمالہ سے گرا
)پستیوں کی جانب)
پیچھے سرکا
کاش !
میرے شعور کی آنکھیں بند ہو جاتیں
‘گناہ کس نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔
ندامت سے
میں یا تم؟؟؟
پاگل
ہاں پاگل
دو لقمے
‘بھوک کی اہیں
مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا پھر وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔
پھ ر اک لشہ بھوک ناگ جس کے قریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اور رینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس
حرکت میں اس نے اپنی ساری توانائ صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے لیکن وہ بھوک کے سیاہ کفن میں
ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ پر پڑا ہانپ رہا تھا۔
سانسیں بےترتیب تھیں۔ خوش پوش راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔ جو دیکھ رہے تھے ناک پر رومال
رکھ کر گزر رہے تھے۔ وہ سب اس کے ہم جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا تھا۔ ان دیکھتے کرب
لمحوں کو کون جان پاتا۔
بھوک ناگ بول :کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بننا ہی ہو گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔
سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئ نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان
میں سے کون دے گا روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان کے من کی بھوک کو دیکھو اور
میرے صبر کا امتحان نہ لو۔
‘کہاں ہو تم سب
اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچا لو۔ بھوک ناگ میرے قریب آ گیا ہے۔
دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں
اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی جو تاریخ میں تمہیں امر کر دے گی۔
کون
انصاف
جی ہاں
کیا کر لو گے؟؟؟
عبرت کے لیے
وہ کیسے؟
تو طے یہ ہوا
عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔ صبح اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے
بے نقط سنتے۔ سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں باقی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔
ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گلیوں میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ
والے گلیوں میں بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نقاہت ہاتھ باندھے شکم میں بھوک آنکھوں میں پیاس لیے
کھڑی تھی ہاں مگر شاہ کی دیا کا بول بال تھا۔
پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی ملں بھی من میں تفریق کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا
تھا۔
اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا ہے۔ جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید
حکیموں کے دام چکائے بڑے شفاخانے کے در پر لئے مایوسی کی کالک مٹائے آہیں سنے تشفی کی لوری
سنائے۔ ہونٹوں پہ گلب سجائے دل میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے مرنے سے مر جائے۔
بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی ہے بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون
سنتا ہے سیٹھ کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔
بیگم روتی ہے نہ ہںسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی
چمڑے نہ ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے تھے کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔
جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جلتا رہا
دوا دور رہی مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔
گھ ر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد میں بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو
نہ دیکھ سکا سوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ سکوں گا سوچ سکوں گا خود کو دیکھنے سوچنے کی
حسرت بر آئے گی۔
خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی قلبی خدا کی بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ
میرا تھا میرا ہے مجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے سامان کی فکر ہے۔
کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس نے مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔
ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا نہیں مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا
نہیں دیتا ہے۔ لینا مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی چنتا میں کیوں کروں مری
جان میں آ رہا ہوں تو مختصر سہی مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات زمینوں سے بڑھ کر وسعت رکھتی
ہے میں بھول میں رہا کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی
پریت پرندہ
پھر تو
حیرت تو یہ ہے
میں نے دیکھا
پانیوں پر
ہر بوند
سوچا
سوچا
بول
ہر بوند
میں نے دیکھا
گلیوں میں
یا پھر
آؤ
تاسف کے دو آنسو
صبح دھیان
شاعر کا کہا
گدھ
خلیج کے بیماروں کی سانسیں گن رہے ہیں
١٦اگست ١٩٤٥کو
گلب کی مہک
مٹی سے رشتے
‘ہم تو
‘ہڈیاں
اس نے کہا
میں نے کہا
تمہارے لیے
بول
حسن کی کہو
سوچتا ہوں
شہرت لے لوں
روٹی لے لوں
کئی روز کی بھوک ہے
مطلع رہیں
مطلع رہیں
ضروری نوت
یہ چیزیں
مطلع رہیں
دو لقمے
اکتوبر ٢٠١٦