You are on page 1of 31

‫دو لقمے‬

‫چودہ منظوم افسانے‬

‫از‪ :‬مقصود حسنی‬

‫پیش کار‪ :‬پرفیسر نیامت علی مرتضائی‬

‫ابوزر برقی کتب خانہ‬

‫اکتوبر ‪٢٠١٦‬‬

‫فہرست‬

‫‪ -١‬شاعر اور غزل‬


‫‪ -٢‬ٹیکسالی کے شیشہ میں‬

‫‪ -٣‬کالے سویرے‬

‫‪ -٤‬کیچڑ کا کنول‬

‫‪ -٥‬دو لقمے‬

‫‪ -٦‬آخری خبریں آنے تک‬

‫‪ -٧‬یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬

‫‪ -٨‬حیرت تو یہ ہے‬

‫‪ -٩‬میں نے دیکھا‬

‫‪ -١٠‬کس منہ سے‬

‫‪ -١١‬حیات کے برزخ میں‬

‫‪-١٢‬سورج دوزخی ہو گیا تھا‬

‫‪ -١٣‬فیکٹری کا دھواں‬

‫‪ -١٤‬مطلع رہیں‬

‫نوٹ‪ :‬ان میں سے کوئی چالیس سال سے کم عمر نہیں رکھتا۔‬

‫شاعر اور غزل‬

‫چاند کی کرنوں سے غزل کی بھیک مانگی‬

‫اس نے کاسے میں دو بوندیں نچوڑ دیں‬

‫کہ غزل آنکھوں کی ٹھنڈک ہو جائے‬

‫سیپ نے مروارید دیئے‬


‫کہ دل اس کا پرسکون ہو جائے‬

‫قوس قزح نے سرخی بخشی‬

‫کہ رخ مثل یاقوت ہو جائے‬

‫طبلے کی تھاپ نے‬

‫گھنگھرو کی جھنکار نے‬

‫مایوس نہیں کیا‬

‫نسیم سحر سے بھی دست سوال دراز کیا‬

‫قبروں کے کتبوں سے بھی‬

‫غزل کی بھیک مانگ کے لیا‬

‫سورج سے تھوڑی حدت مانگ لی‬

‫سیماب سے بےقراری لے لی‬

‫لہر نے بغاوت دے دی‬

‫گلب کے پاس بھی گیا‬

‫اس نے کاسے کو بوسہ دیا‬

‫اور اپنی اک پنکھڑی رکھ دی‬

‫خوش تھا کہ‬

‫آج محنت رنگ لئے گی‬

‫وہ مری ہو جائے گی‬

‫دامن مرا خوشیوں سے بھر جائے گا‬

‫غزل کے چہرے پر‬

‫حسین سا عنوان لکھ دے گی‬

‫خلوص کی طشتری میں رکھ کر‬

‫جب غزل میں نے پیش کی‬

‫جسارت پہ مری وہ بپھر گئی‬

‫ضبط کی پٹڑی سے اتر گئی‬


‫کاسے میں تھوک دیا‬

‫بولی‬

‫بھکاری! اپنا خون جگر نچوڑ کے لؤ‬

‫غزل سے زندگی کی خوش بو آئے‬

‫راحتوں کے لیے‬

‫لہو کی اک بوند کافی ہے‬

‫پھر اس نے‬

‫چھاتی سے جدا کرکے‬

‫اپنی بچی مری گود میں رکھ دی‬

‫ممتا کی باہوں میں غزل تھی‬

‫ممتا کی نگاہوں میں غزل تھی‬

‫بچی کے لبوں پر‬

‫بچی کی انگلیوں میں‬

‫بچی کی سانسوں میں‬

‫مگر بچی تو سراپا غزل تھی‬

‫میں مشاہدے میں ہی تھا کہ‬

‫اس نے بچی مجھ سے لے لی‬

‫مری آغوش میں شرمندگی رکھ دی‬

‫درماندگی رکھ دی‬

‫اپنی اور مانگے کی چیز میں‬

‫کتنا فرق ہوتا ہے‬

‫وہ لئق صد افتخار تھی‬

‫پروقار تھی‬

‫میں تنکے سے بھی حقیر تھا‬

‫اس کا سر تنا ہوا تھا‬


‫مرا سر جھکا ہوا تھا‬

‫کہ غزل کے چہرے پر‬

‫بھیک کا پیوند لگا ہوا تھا‬

‫غزل کا بدن زیر عتاب تھا‬

‫میں بھی تو ہار گیا تھا‬

‫مری شاعری کی کائنات پر رعشہ تھا‬

‫وہ مسکرا رہی تھی‬

‫غزل سٹپٹا رہی تھی‬

‫اجتہاد کا در وا ہوا‬

‫روایت کا دیا بجھ گیا‬

‫حقیقیت سےپردہ اٹھ گیا‬

‫شاعر نہیں‘ میں تو بھکاری تھا‬

‫خورشید ضعیف ہو گیا‬

‫مہتاب زرد پڑ گیا‬

‫گلب مرجھا گیا‬

‫طبلے کا پول کھل گیا‬

‫جھنکار تھم گئی‬

‫سمندر ندامت پی گئی‬

‫کاسہ دو لخت ہوا‬

‫جو جس کا تھا لے گیا‬

‫ابلیس کرچیاں چننے لگا‬

‫بھکاری مر گیا‬

‫قبروں کو اپنا دیا مل گیا‬

‫پھر شاعر جاگا‬

‫ذات میں کھو گیا‬


‫خامشی چھا گئی‬

‫ذات میں انقلب آ گیا‬

‫اندر کا لوا ابلنے لگا‬

‫حد سے گزرنے لگا‬

‫ابلیس کے قہقہوں کا سلسلہ رک گیا‬

‫اب ذات تھی‬

‫شاعر تھا‬

‫آنکھوں میں لہو کی بوندیں‬

‫ہاتھ میں قلم‬

‫کاغذ پر جگر تھا‬

‫ٹیکسالی کے شیشہ میں‬

‫معصوم گڑیا سی‬

‫زیست کے نشیب و فراز سے بے خبر‬

‫کہکشانی رستوں کی تلش میں‬

‫مشک و عنبر کی جہاں باس ہو‬

‫ہوا جس کی مگر اسے راس ہو‬

‫پریوں کے شہزادے کا میسر ساتھ ہو‬

‫گھر سے بھاگ نکلی‬

‫آنکھوں میں اس کے روشی تھی‬

‫سراپے کا تاج محل‬


‫کلیوں سے تعمیر ہوا تھا‬

‫ہر دل سے درد اٹھا‬

‫مونس و غم گسار بن گیا‬

‫وہ کیا جانے‬

‫اس نگر میں بھنورے بھی رہتے ہیں‬

‫بھیڑیے تاک میں ہیں‬

‫اک روز پھر اخبار میں خبر چھپی‬

‫مطلع ہوں‬

‫اک لڑکی کے اعضاء بکھر گیے تھے‬

‫گندے گٹر میں پڑے تھے‬

‫ہر ٹکڑا زخموں سے چور تھا‬

‫اور خون بھی بہہ رہا تھا‬

‫گندے پانی کی ٹھوکریں سہہ رہا تھا‬

‫کہہ رہا تھا‬

‫شاید میرا کوئی بچ رہا ہو‬

‫یہ بکھرے اعضاء بڑی حفاظت سے‬

‫کڑی ریاضت سے‬

‫جوڑ کر‘ سی کر‬

‫دارالن بھیج دیے ہیں‬

‫دارالمان سے رابطہ کریں‬

‫خوبی قسمت دیکھیے‬

‫ٹیکسالی کے باسی قدر شناس نکلے‬

‫آج بھی وہ اعضاء‬

‫ٹیکسالی کے شیشہ میں سجے ہیں‬

‫کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں‬


‫ماضی کہیں کھو گیا ہے‬

‫حال متعین نہیں ہوا‬

‫کہ اب ان پر سب کا حق ہے‬

‫کالے سویرے‬

‫مجھے ڈر لگتا ہے‬

‫علم و فن کے کالے سویروں سے‬

‫جن کے بطن سے‬

‫ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں‬

‫منصف کے من کی آواز کو‬

‫جو ڈس لیتے ہیں‬

‫سہاگن کے سہاگ کی پیاسی آتما سے‬

‫ہوس کی آگ بجھاتے ہیں‬

‫سچ کے موسموں کے چراغوں کی روشنی‬

‫دھندل دھندل دیتے ہیں‬

‫حقیقتوں کا ہم زاد‬

‫گھبرا کر‬

‫ویران اور اداس لفظوں کا‬

‫آس سے‬

‫جو خود فریبی کے جھولے میں پڑی‬

‫فرار کے رستے سوچ رہی ہے‬


‫رستہ پوچھتا ہے‬

‫ان زہریلے ناگوں کی آنکھوں کی مقناطیسیت‬

‫اپنے حصار میں‬

‫اسے بھی لے لیتی ہے‬

‫یہ ناگ‬

‫انا اور اساس کو بھی ڈستے ہیں‬

‫یہ خونی منظر دیکھ کر کانپ جاتا ہوں‬

‫کہ یہ اب ضمیر کو بھی ڈس لیں گے‬

‫کالے سویروں کی زرد روشنی کے سائے‬

‫جوں جوں دراز ہوتے ہیں‬

‫زندگی کو اک اور کربل سے گزرنا پڑتا ہے‬

‫ان ناگوں کی زبانیں‬

‫چمکتی‘ زہر میں بجھی‬

‫تیز دھار تلواریں ہیں‬

‫گھاؤ کرنے میں‬

‫یہ اپنا جواب نہیں رکھتیں‬

‫زندگی خوف کے سائے میں‬

‫کیوں کر پروان چڑھ سکتی ہے‬

‫جہاں کوئی روٹی دینے وال نہیں‬

‫پانی کی اک بوند نایاب ہے‬

‫جہاں خودکشی حرام جینا جرم ہے‬

‫جہاں نیلے آسمان کی‬

‫چاند ستاروں سے لبریز چھت‬

‫اپنی نہیں‬

‫ہوا کا بھی گزر نہیں ہوتا‬


‫بدلتے موسوں کا تصور‬

‫شیخ چلی کا خواب ہے‬

‫بوسیدگی اور غلظت‬

‫شخص کا مقدر ہے‬

‫یا پھر‬

‫زہر بجھی یہ چمکتی تلواریں ہیں‬

‫یقین مانو‘ یہ ہی کچھ ہے‬

‫پھر میں‬

‫یاس کی تاریکیوں کی تمنا کرتا ہوں‬

‫جانت ہوں کہ یہ ناگ‬

‫تاریکیوں سے نہیں گھبرائیں گے‬

‫پھر بھی کاٹیں گے‬

‫گدھ نوچیں گے‬

‫کتے ہڈیوں پر ٹوٹیں گے‬

‫ہر ہڈی پر‬

‫گھمسان کا رن ہو گا‬

‫اپنا حصہ لگڑ بگڑ بھی مانگیں گے‬

‫فاسفورس کی بانٹ پر بھی‬

‫تنازعے اٹھیں گے‬

‫درد پھر بھی ہو گا‬

‫کرب پھر بھی ہو گا‬

‫زہر پھر بھی پھیلے گا‬

‫کانچ بدن پھر بھی نیل ہو گا‬

‫مایوسی کی سیاہ ذلفوں کے سائے میں‬

‫بصارت کو بصیرت کو‬


‫شائد پناہ مل جائے گی‬

‫میں ناگوں کے پہرے نہ دیکھ سکوں گا‬

‫لہو رستے پر نظر نہ جائے گی‬

‫مگر کیا کروں‬

‫سچ کی حسین تمنا مجھے مرنے نہیں‬

‫مرنے نہیں دے گی‬

‫اور میں اس سراب جیون میں‬

‫نہ مروں گا نہ جی سکوں گا‬

‫کیچڑ کا کنول‬

‫آلودہ‘ میل سا چیتھڑا‬

‫شاید حاجت سے بچا ہوگا‬

‫‘آدم زادے کا پراہین‬

‫عییب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫!‬


‫گلب سے چہرے پر‬

‫بلور ایسی‘ دیکھتی آنکھیں‬

‫حیرت خوف غم غصہ اورافسوس‬

‫جانے کیا کچھ تھا ان میں‬

‫سماج کی بےحسی پہ‬


‫ان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں‬

‫دو بوند‘ لہو سی‬

‫صدیوں کے ظلم کی داستان‬

‫لیے ہوءے تھیں‬

‫اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ‬

‫پتھر بھی پگھل کر پانی ہو‬

‫ترسی ترسی باہیں‬

‫میرے بوبی کی باہیں ایسی ہی تھیں کہ‬

‫جب وہ بچہ تھا‬

‫تب محبتوں کا حصار تھا‬

‫اور اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫خفت ندامت کا حصار‬

‫مرے گرد ہے‬

‫لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫داءرہ تنگ ہو رہا ہے‬

‫مجھے فنکار سے نسبت ہے‬

‫فنکار‘ سب کا درد‬

‫سینے کی وسعتوں میں سمو لیتا ہے‬

‫‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫ساکت وجامد‬

‫مٹی کے بت کی طرح‬

‫خاموش تماشائ تھا‬

‫اس نے پکارا آواز دی‬

‫احتجاج بھی کیا‬

‫کچھ نہ میں کر سکا‬


‫‘جیسے وہ آدم زادہ نہ ہو‬

‫ہمالہ سے گرا‬

‫کوئ پتھر ہو‬

‫اس نے کہا‬ ‫‪:‬‬


‫!فنکار۔۔۔۔۔۔۔“‬
‫مجھے اپنی باہوں میں سما لو‬

‫ازل سے پیاسا ہوں‬ ‫"‬


‫گھبرا کر تھوڑا سا‬

‫)پستیوں کی جانب)‬
‫پیچھے سرکا‬

‫کوئ مصیبت کوئ وبال‬

‫تہمت یا بدنامی سر نہ آءے‬

‫چیخا “فنکار کا سینہ‬

‫کب سے تنگ ہوا ہے؟‬ ‫!‬


‫میری باہیں غیر جنس کی باہیں ہیں؟‬

‫ان کا تم پر کوئ حق نہیں؟؟؟‬

‫وہ کہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنتا رہا‬

‫کیا جواب تھا میرے پاس‬

‫کاش‬ ‫!‬
‫میرے شعور کی آنکھیں بند ہو جاتیں‬

‫یوں جیسے ممتا کی سماج کی‬

‫آنکھیں بند تھیں‬


‫سوچتا ہوں‘ مجرم کون ہے‬

‫‘گناہ کس نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫ماں یا سماج نے‬

‫وہ تو اپنے گھروں میں‬

‫آسودہ سانسوں کے ساتھ‬

‫گرم کافی پی رہے ہوں گے‬

‫یا میں نے جو‬

‫شب کی بھیانک تنہائ میں‬

‫ندامت سے‬

‫سگریٹ کے دھوءیں میں‬

‫تحلیل ہو رہا ہوں‬

‫گٹرکے قریب پڑا‘ وہ کنول‬

‫مجھ سے میرے ضمیر سے‬

‫انصاف طلب کر رہا ہے‬

‫کہ تم‘ خداءے عزوجل کی تخلق کا‬

‫یہ حشر کرتے ہو‬

‫مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬

‫بتاؤ‘ حامی کون ہے؟‬

‫ضمیر کس کا مردہ ہے؟‬

‫مجرم کون ہے؟‬

‫میں یا تم؟؟؟‬

‫میری بستی کے باسیو‬ ‫!‬


‫کہ تمہیں عظیم مخلوق ہونے کا دعوی ہے‬

‫کیا جواب دوں اسے؟‬

‫اس کا ننھا سا معصوم چہرا‬


‫احتجاج سے لبریزآنکھیں‬

‫پنکھڑی سے ہونٹوں پر‬

‫تھرکتی بےصدا سسکیاں‬

‫مجھے پاگل کر دیں گی‬

‫پاگل‬

‫ہاں پاگل‬

‫اوٹ سے‘ ‪١٩٩٣‬‬

‫نوٹ‪ :‬کیچڑ کا کنول پر ایم فل سطع کی اسائنمنٹ بھی ہوئی۔‬

‫دو لقمے‬

‫تعفن میں اٹی‬

‫‘اندھیاروں میں لیپٹی وہ بستی‬

‫جہاں چھیتڑوں میں ملفوف زندہ لشوں کے دل کی دھڑکنیں‬

‫دیوار پر آویزاں کلک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔‬

‫‘بھوک کی اہیں‬

‫بےبسی کی سسکیوں میں مدغم ہو رہی تھیں۔‬

‫آس کا سایہ آس پاس نہ تھا۔ تھا کچھ تو قاتل خاموشی تھی۔‬

‫بھوک کا ناگ پھن پھیلءے بیٹھا تھا۔‬

‫مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا پھر وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔‬

‫اک مسکراہٹ کے طلبگار یہ لشے بے حس نہیں‘ بے بس تھے۔‬

‫پھ ر اک لشہ بھوک ناگ جس کے قریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اور رینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس‬
‫حرکت میں اس نے اپنی ساری توانائ صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے لیکن وہ بھوک کے سیاہ کفن میں‬
‫ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ پر پڑا ہانپ رہا تھا۔‬
‫سانسیں بےترتیب تھیں۔ خوش پوش راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔ جو دیکھ رہے تھے ناک پر رومال‬
‫رکھ کر گزر رہے تھے۔ وہ سب اس کے ہم جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا تھا۔ ان دیکھتے کرب‬
‫لمحوں کو کون جان پاتا۔‬

‫وہ اس بستی کا نہ تھا۔‬

‫بھوک ناگ بول‪ :‬کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بننا ہی ہو گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔‬

‫پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا۔‬

‫لشہ چلیا‪ :‬نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آءے گی۔‬

‫سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئ نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان‬
‫میں سے کون دے گا روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان کے من کی بھوک کو دیکھو اور‬
‫میرے صبر کا امتحان نہ لو۔‬

‫لشہ سٹپٹایا اور چلیا‬ ‫‪:‬‬


‫اجالوں کے باسیو‬ ‫!‬
‫علم و فن کے دعوےدارو‬ ‫!‬
‫سیاست میں شرافت کے مدعیو‬ ‫!‬
‫جمہوریت کے علم بردارو‬ ‫!‬
‫اسلحہ خرید کرنے والو‬ ‫!‬
‫فلحی اداروں کے نمبردارو‬ ‫!‬
‫‘عالمی وڈیرو‬

‫‘کہاں ہو تم سب‬

‫تمہارے وعدے اور دعوے کیا ہوءے؟‬

‫اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچا لو۔ بھوک ناگ میرے قریب آ گیا ہے۔‬
‫دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں‬

‫‘۔ دو لقمے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فقط دو لقمے‬

‫میری زندگی کے ضامن ہیں۔‬

‫ایف سولہ ہاءیڈروجن بم مجھے نہیں چاہیے۔‬

‫میری ضرورت روٹی کے دو لقمے ہیں۔‬

‫اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی جو تاریخ میں تمہیں امر کر دے گی۔‬

‫آخری خبریں آنے تک‬

‫کون‬

‫انصاف‬

‫تمہارا یہاں کیا کام‬

‫جہاں میری ضرورت ہوتی ہے بن بلئے چل آتا ہوں‬

‫بن بلئے کی اوقات سمجھتے ہو‬

‫جی ہاں‬

‫اوقات عمل سے بنتی ہے‬

‫تمہاری ماننے والے بھوکے مرے‬

‫بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا ہے‬

‫لوگ ہمیں سلم کرتے ہیں‬

‫تمہیں نہیں‘ تمہاری شر کو سلم کہتے ہیں‬

‫تاریخ میں دھنوان امر رہا ہے‬


‫تاریخ پیٹ کے بندوں کا روزنامچہ ہے‬

‫پیٹ ہی تو سب کچھ ہے‬

‫تب ہی تو بال سطع پر رہتے ہو‬

‫تہہ کے متعلق تم کیا جانو‬

‫بڑے ڈھیٹ ہو‬

‫بننا پڑتا ہے‬

‫تمہیں تمہاری اوقات میں لنا پڑے گا‬

‫کیا کر لو گے؟؟؟‬

‫تمہاری ہڈی پسلی ایک کر دوں گا‬

‫یہ سب تو پہلے بھی میرے ساتھ ہو چکا ہے‬

‫کوئی نئی ترکیب سوچو‬

‫تمہیں جل کر راکھ کر دوں گا‬

‫عبرت کے لیے‬

‫تمہاری راکھ گلیوں میں بکھیر دوں گا‬

‫یہ تو اور بھی اچھا ہو گا‬

‫وہ کیسے؟‬

‫میری راکھ کا ہر ذرا انقلب بن ابھرے گا‬

‫اہ مائی گاڈ‘ تو پھر میں کیا کروں؟‬

‫مجھے اپنے سینے سے لگا لو‬

‫یہ مجھ سے نہیں ہو گا‬

‫تو طے یہ ہوا‬

‫تمہاری اور میری جنگ کا کوئی انت نہیں‬

‫دیکھتا ہوں کہاں تک اذیت برداشت کرتے ہو‬

‫چلو میں بھی دیکھتا ہوں‬

‫اذیت میں کس حد تک جاتے ہو‬


‫اس کے بعد‬

‫گھمسان کی جنگ چھڑ گئی‬

‫اور آخری خبریں آنے تک‬

‫جنگ جاری تھی‬

‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬

‫عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔ صبح اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے‬
‫بے نقط سنتے۔ سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں باقی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔‬

‫ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گلیوں میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ‬
‫والے گلیوں میں بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نقاہت ہاتھ باندھے شکم میں بھوک آنکھوں میں پیاس لیے‬
‫کھڑی تھی ہاں مگر شاہ کی دیا کا بول بال تھا۔‬

‫پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی ملں بھی من میں تفریق کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا‬
‫تھا۔‬

‫اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا ہے۔ جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید‬
‫حکیموں کے دام چکائے بڑے شفاخانے کے در پر لئے مایوسی کی کالک مٹائے آہیں سنے تشفی کی لوری‬
‫سنائے۔ ہونٹوں پہ گلب سجائے دل میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے مرنے سے مر جائے۔‬

‫بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی ہے بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون‬
‫سنتا ہے سیٹھ کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔‬
‫بیگم روتی ہے نہ ہںسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی‬
‫چمڑے نہ ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے تھے کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔‬

‫جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جلتا رہا‬
‫دوا دور رہی مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔‬

‫گھ ر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد میں بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو‬
‫نہ دیکھ سکا سوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ سکوں گا سوچ سکوں گا خود کو دیکھنے سوچنے کی‬
‫حسرت بر آئے گی۔‬

‫خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی قلبی خدا کی بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ‬
‫میرا تھا میرا ہے مجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے سامان کی فکر ہے۔‬

‫کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس نے مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔‬

‫ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا نہیں مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا‬
‫نہیں دیتا ہے۔ لینا مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی چنتا میں کیوں کروں مری‬
‫جان میں آ رہا ہوں تو مختصر سہی مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات زمینوں سے بڑھ کر وسعت رکھتی‬
‫ہے میں بھول میں رہا کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی‬

‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬

‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬

‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔‬


‫حیرت تو یہ ہے‬

‫موسم گل ابھی محو کلم تھا کہ‬

‫مہتاب بادلوں میں جا چھپا‬

‫اندھیرا چھا گیا‬

‫پریت پرندہ‬

‫ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا‬

‫اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا‬

‫کوئی ذات سے‘ کوئی حالت سے الجھ گیا‬

‫کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا‬

‫بادل چھٹنے کو تھے کہ‬

‫افق لہو اگلنے لگا‬

‫دو بم ادھر دو ادھر گرے‬

‫پھر تو‬

‫ہر سو دھواں ہی دھواں تھا‬

‫چہرے جب دھول میں اٹے تو‬

‫ظلم کا اندھیر مچ گیا‬

‫پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا‬

‫کہنے لگا سنو سنو‬

‫دامن سب سمو لیتا ہے‬

‫اپنے دامن سے چہرے صاف کرو‬

‫شاید کہ تم میں سے کوئی‬


‫ابھی یتیم نہ ہوا ہو‬

‫یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے‬

‫من کے موسم دبوچ لیتا ہے‬

‫کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو‬

‫حیرت تو یہ ہے‬

‫موسم گل کا سب کو انتظار ہے‬

‫گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے‬

‫اوروں سے کہے جاتا ہے‬

‫چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو‬

‫میں نے دیکھا‬

‫پانیوں پر‬

‫میں اشک لکھنے چل تھا‬

‫دیدہءخوں دیکھ کر‬

‫ہر بوند‬

‫ہوا کے سفر بر نکل گئی‬

‫منصف کے پاس گیا‬

‫شاہ کی مجبوریوں میں‬

‫وہ جکڑا ہوا تھا‬

‫سوچا‬

‫پانیوں کی بےمروتی کا‬


‫فتوی ہی لے لیتا ہوں‬

‫ملں شاہ کے دستر خوان پر‬

‫مدہوش پڑا ہوا تھا‬

‫دیکھا‘ شیخ کا در کھل ہوا ہے‬

‫سوچا‬

‫شاید یہاں داد رسی کا‬

‫کوئی سامان ہو جائے گا‬

‫وہ بچارہ تو‬

‫پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا‬

‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬

‫دل دروازہ کھل‬

‫خدا جو میرے قریب تھا‬

‫بول‬

‫کتنے عجیب ہو تم بھی‬

‫کیا میں کافی نہیں‬

‫جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو‬

‫میرے پاس آؤ‬

‫ادھر ادھر نہ جاؤ‬

‫میری آغوش میں‬

‫تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی‬

‫ہر بوند‬

‫رشک لعل فردوس بریں ہو گی‬

‫اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا‬

‫میں نے دیکھا‬

‫شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں‬


‫بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی‬

‫کس منہ سے‬

‫چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے‬

‫ہونٹوں پر فقیہ عصر نے‬

‫چپ رکھ دی ہے‬

‫کتنا عظیم تھا وہ شخص‬

‫گلیوں میں‬

‫رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا‬

‫ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے‬

‫آنکھوں سے‘ چن نہ سکے‬

‫ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں‬

‫آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے‬

‫ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا‬

‫قول کا پکا تھا‬

‫مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا‬

‫ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا‬

‫ہمارے لیے کیا‬

‫جیا تو ہمارے لیے جیا‬

‫کتنا عجیب تھا‬

‫زندہ لشوں کا دم بھرتا رہا‬

‫مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے‬


‫نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے‬

‫مرا جل راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے‬

‫اس کے کہے پر دو گام تو چل ہوتا‬

‫کس منہ سے اب‬

‫اس کی راہ دیکھتے ہیں‬

‫ہم خاموش تماشائی‬

‫مظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں‬

‫بے جان جیون کے دامن میں‬

‫غیرت کہاں جو رن میں اترے‬

‫یا پھر‬

‫پس لب اس کی مدح ہی کر سکے‬

‫چلو دنیا چاری ہی سہی‬

‫آؤ‬

‫اندرون لب دعا کریں‬

‫ان مول سی مدح کہیں‬

‫حیات کے برزخ میں‬

‫تلش معنویت کے سب لمحے‬

‫صدیاں ڈکار گئیں‬

‫چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر‬

‫اس کنارے کو چھو نہ سکا‬

‫تاسف کے دو آنسو‬

‫کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے‬


‫کیا ہو پاتا کہ شب کشف‬

‫دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی‬

‫صبح دھیان‬

‫نان نارسا کی نذر ہوئی‬

‫شاعر کا کہا‬

‫بےحواسی کا ہم نوا ہوا‬

‫دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا‬

‫وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں‬

‫قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں‬

‫گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا‬

‫ضمیر بھی چاندی میں تل گیا‬

‫مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی‬

‫مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا‬

‫درویش کے حواس بیدار نقطے‬

‫ترقی کا ڈرم نگل گیا‬

‫نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا‬

‫آخر کب تک یتیم جیون‬

‫حیات کے برزخ میں‬

‫شناخت کے لیے بھٹکتا رہے‬

‫سورج دوزخی ہو گیا تھا‬

‫گدھ‬
‫خلیج کے بیماروں کی سانسیں گن رہے ہیں‬

‫لشوں کو کفن دفن‬

‫غسل کی ضرورت نہیں ہو گی‬

‫‪ ١٦‬اگست ‪ ١٩٤٥‬کو‬

‫سورج دوزخی ہو گیا تھا‬

‫گنگا سے اٹھتے بخارات‬

‫دعا کا اٹھتے ہات‬

‫گلب کی مہک‬

‫مٹی سے رشتے‬

‫کب پوتر رہے ہیں‬

‫درگاوتی کی عصمت مرنے کے بعد‬

‫اپنوں کے ہات لٹ گئی تھی‬

‫‘ہم تو‬

‫حنوط شدہ ممیاں ہیں‬

‫رگوں میں لہو نہیں‬

‫کیمیکل دوڑتا ہے کہ‬

‫آکسیجن جلتی نہیں‬

‫جلنے میں معاون ہے‬

‫ڈوبتی سانسوں کو‬

‫مسیحا کی ضرورت نہیں‬

‫گوشت گدھ کھائیں گے‬

‫‘ہڈیاں‬

‫فاسفورس کی کانیں ہیں‬

‫یہودی لبی کے گلے کھلے ہیں‬

‫بٹنوں کی سخت ضرورت ہے‬


‫فیکٹری کا دھواں‬

‫اس نے کہا‬

‫یہ سب کس کے لیے لکھتے ہو‬

‫میں نے کہا‬

‫تمہارے لیے‬

‫بول‬

‫مگر مجھے تم سے گھن آتی ہے‬

‫میلے میلے لفظوں میلے میلے جذبوں سے‬

‫روشنیوں کی بات کرو‬

‫حسن کی کہو‬

‫حسین آنکھوں سے‬

‫ٹپکتی شاب کی بات کرو‬

‫کانچ سے بدنوں سے‬

‫ٹپکتے رومان کی بات کرو‬

‫بہاروں میں مچلتے شباب کی بات کرو‬

‫روٹی ملے گی‘ شہرت ملے گی‬

‫بھوک اور افلس‬

‫کیا رکھا ہے چیٹھڑوں کی دنیا میں‬

‫سوچتا ہوں‬

‫شہرت لے لوں‬

‫روٹی لے لوں‬
‫کئی روز کی بھوک ہے‬

‫لباس بھی الجھا الجھا ہے‬

‫سسکتے بلکتے جذبوں کو‬

‫بےلباسی کی دنیا میں رہنے دوں‬

‫پھر سوچ کے افق سے‬

‫اک شہاب ثاقب ٹوٹا‬

‫زہریلی سوچ کا چہرا‬

‫فیکٹری کی چمنی سے‬

‫اٹھتے دھویں میں مدغم ہو گیا‬

‫مطلع رہیں‬

‫مسز ریحانہ کوثر‬

‫بل دکھ تحریر کیا جاتا ہے‬

‫آپ کی خدمات کی اب یہاں‬

‫ضرورت نہیں رہی‬

‫آپ کی بریزئر کا سائز بڑھ گیا ہے‬

‫آنکھوں کے گرد حلقے بھی ہیں‬

‫بالوں میں چاندی آ گئی ہے‬

‫رخسار پچک گئے ہیں‬

‫روزن نشاط کی فراخی سے‬

‫پرفومنس گھٹ گئی ہے‬

‫سابقہ کارگزاری کے پیش نظر‬

‫کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے‬


‫آپ کی بیٹی ظل ہما کو‬

‫آپ کی سیٹ پر‬

‫آپ کے ہی پے سکیل پر‬

‫مع مروجہ الؤنسز‬

‫اکتیس مئی کلوزنگ ٹائم تک‬

‫تعینات کیا جا سکتا ہے‬

‫آپ کو ہدایت کی جاتی ہے‬

‫تاریخ مقررہ کے اندر‬

‫زیر دستخطی کو مطلع کریں‬

‫اپنے واجبات کی وصولی کے لیے‬

‫زیر دستخطی کے‬

‫حاضر ہونے کی ضرورت نہیں‬

‫یہ خدمت اب‬

‫آفس سپرٹنڈنٹ انجام دیتا ہے‬

‫فائلوں کی سیاہی سپیدی کا‬

‫وہ ہی تو مالک ہے‬

‫مطلع رہیں‬

‫ضروری نوت‬

‫آپ اپنی کنگی اور نیل پالش‬

‫ہمارے میز پر کل کی امید میں‬

‫بھول گئی ہیں‬

‫یہ چیزیں‬

‫جن کی آپ کو اشد ضرورت ہو گی‬

‫مس ظل ہما کو‬

‫آفس ٹائم کے بعد بھیج کر‬


‫منگوا سکتی ہیں‬

‫کہ ان کی اب یاں ضرورت نہیں رہی‬

‫مطلع رہیں‬

‫دو لقمے‬

‫چودہ منظوم افسانے‬

‫از‪ :‬مقصود حسنی‬

‫پیش کار‪ :‬پرفیسر نیامت علی مرتضائی‬

‫ابوزر برقی کتب خانہ‬

‫اکتوبر ‪٢٠١٦‬‬

You might also like