You are on page 1of 22

‫عالمہ اق بال اوپن یون یورسٹی‬

‫مشق نمبر ‪2‬‬


‫ٰ‬
‫بشری نبارس‬ ‫نام طالب علم‬
‫‪0000401788‬‬ ‫رجسبربشن نمبر‬
‫‪9001‬‬ ‫کورس کوڈ‬
‫بہار۔ ‪2023‬‬ ‫سمسبر‬
‫بی ابس انگلش‬ ‫پروگرام‬
‫***سوال نمبر ‪***1‬‬

‫ل‬
‫نبگم اخبر رناض الدپن کی سفر نامہ نگاری پر نفصبلی یوٹ کھیں‬

‫جواب‬

‫ان کا اصل شعبہ درس و تدریس ت ھا‪ ،‬اس کے ساتھ ساتھ اردو میں لکھنا جاری رک ھا۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ‬
‫اتگریزی اور اردو مضامین لکھنے کا شوق تھی انہوں نے یرایر جاری رک ھا ان کے اتگریزی مضامین تاکسنان تائمز میں‬
‫سا ئع ہونے رہے‪ ،‬نیز شفرتامے ملک کے تلند تایہ جراتد میں چھپنے رہے ‪،‬‬

‫سماجی خدمات‬

‫بنگم اخیر رتاض الدین نے کم آمدنی والے گ ھرانوں کی عورنوں کی نہبود کنلنے تھی نہت کام کنا۔ اس مقضد کنلنے‬
‫انہوں نے‪1967‬ء میں نہبود ایسو سی ایشن قائم کی جس کی وہ نہت عرصے تک خیر یرسن رہیں۔ ‪ 1980‬کی‬
‫دہانی کے وشط میں انہیں وومیز ڈویژن کا وقاقی سنکریری مفرر کنا گنا‬
‫طرز تحرپر کی خصوصبات‬

‫بنگم اخیر رتاض الدین کی تحریر کی اتک خصوصیت ان کی م نظر ئگاری ہے۔ اتھوں نے یرقی یزیر ممالک کا دورہ‬
‫کنا اور وہاں کی جاالت کی جو م نظر کشی کی‪ ،‬اس میں ذرہ ت ھر تھی سک کی گن جایش نہیں‬

‫نبگم اخبر رناض الدپن اردو سفر نامہ نگاری کا درجش بدہ سبارہ‬

‫ان کے شفر تاموں کو شفرتامے کی خصوصنات کے جوالے سے ئطور منال پیش کنا جاتا ہے۔ بنگم اخیر رتاض‬
‫الدین زتادہ یر ادنی ئقاربب اور مجاقل سے دور رہیں اور اسی طرح انہوں نے کشی ادنی گٹھ جوڑ کا تھی جود کو خصہ‬
‫نہیں بنے دتا۔ نہی وجہ ہے کہ ان کے اتداز تحریر یر کشی تھی ئظرنے‪ ،‬ادارے تا مصنف کی چھاپ ئظر نہیں‬
‫ٰ‬
‫آنی۔ اتک اعلی طرف ایسان اور اتک تلند تایہ اد بب ہونے کے تاطے انہوں نے ا بنے فن سے ت ھر نور ائضاف کنا‬
‫اور تاکسنان میں اردو شفر تامے کو مق بول بنانے میں ابنا ت ھر نور کر دار ادا کان کے شفر تامے یسانی ئقطہ ئظر کا‬
‫تھی اتک ساتدار ئمویہ ہیں۔ انہوں نے دبنا ت ھر کے جس تھی خطے کو دتک ھا‪ ،‬اسے اتک عورت کی آتکھ سے ہی دتکھا‬
‫اور محسوس کنا اور اسے ا بنے شفرتامے میں بنان کنا۔ اس وجہ سے ان کی ئظر ا یسے مظاہر یر تھی یڑنی ہے جس‬
‫ً‬
‫کو ہم عمومائظر اتداز کر کے گزر جانے ہیں۔‬

‫بنگم اخیر رتاض الدین ‪ 15‬اگست ‪1928‬ء کو کلکبہ میں بندا ہوپیں۔ جس کے تارے میں انہوں نے ا بنے‬
‫شفرتامے میں لک ھا کہ وہ کلکبہ میں بندا ہونی تھیں لنکن وہ نہت چھونی عمر میں ہی وہاں سے ہحرت کر آ پیں‬
‫اس لنے اتھوں نے کلکبہ کو کٹھی دتک ھانہیں ت ھا۔بنگم اخیر رتاض الدین نے تاکسنان پپنے کے ئعد ہحرت کی اور‬
‫الہور میں سکوبت اخپنار کی ۔ نہیں سے انہوں نے ‪1949‬ء میں کیییرڈ کا لج الہور سے نی اے کرنے کے ئعد‬
‫‪1951‬ء میں گورئمیٹ کا لج الہور سے اتگریزی میں ماسیرز کی ڈگری جاصل کی۔ جس کے ئعد انہوں نے درس و‬
‫تدریس کا سلسلہ شروع کنا اور اسالمبہ کا لج یرانے جواپین الہور میں اتگریزی کی لنکحرار مفرر ہوپیں۔ بنگم اخیر رتاض‬
‫ً‬
‫الدین ‪1952‬ء سے ‪1965‬ء تک ئفربنا ‪ 13‬یرس تک اسی ب نغمیری پیسے اور اسی شعنے سے وایسبہ رہیں۔ اس کے‬
‫ئعد ان کی سادی تامور ب بورو کربٹ اور مپنظم مناں رتاض الدین اچمد سے ہو گئی۔ جس کے ئعد انہیں تدریس کا‬
‫یہ سلسلہ م نقطع کرتا یڑا‬

‫ان کے شوہر مناں رتاض الدین اچمد نے تاکسنان ہاکی فنڈریشن فنڈریشن کی پپناد رکھی اور ان کی فنادت میں ہی‬
‫تاکسنان ہاکی بٹم نے ‪1960‬ء کے اولمنکس میں گولڈ منڈل خپنا۔ مناں رتاض الدین اچمد تاکسنان میں کو آیرب بوز‬
‫کے تھی سب سے یڑے ماہر ت ھے اور اسالم آتاد کلب کے دوشرے صدر تھی ت ھے۔ انہیں ابئی دفیری مصروفنات‬
‫اور ذمہ دارنوں سے عہدہ یرا ہونے کنلنے دوشرے ملکوں کے دورے کرتا یڑنے ت ھے ۔ اسی وجہ سے بنگم اخیر‬
‫رتاض الدین کو ا بنے جاوتد کے ساتھ دبنا کے نہت سے ممالک کا دورہ کرنے کا موقع مال‪.‬بنگم اخیر رتاض الدین‬
‫اتک درد دل رکھنے والی جانون تھی جو تالخصوص کچھ کھلے ہونے اور عربب ط نقہ کی عورنوں کنلنے نہت کام کرنی‬
‫تھیں۔ انہوں نے کم آمدنی والے گ ھرانوں کی عورنوں کی نہبود کنلنے تھی نہت کام کنا۔ اس مقضد کنلنے انہوں‬
‫نے ‪1967‬ء میں اتک غیر شرکاری ب نظٹم نہبود ایسو سی ایشن قائم کی جس کی وہ نہت عرصے تک خییر یرسن‬
‫رہیں۔ ‪1980‬ء کی دہانی کے وشط میں جکومت تاکسنان کی طرف سے ان کی جواپین کی قالح کے جذیہ کو مد ئظر‬
‫رکھنے ہونے ان کی تاکسنانی عربب اور مقلوک الجال جواپین کی یرقی کنلنے کی گئی جدمات کے صلے میں انہیں و و‬
‫میز ڈویزن کا وقاقی سنکریری مفرر کنا گنا۔‬

‫خ‬
‫بنگم اخیر رتاض الدین اتک معروف اردو ئگار‪ ،‬مصنف‪ ،‬اور شفرتامہ ئگار تھیں۔ ان کا ق نقی تام عپنقہ جسین ہے۔‬
‫وہ تاکسنان کی پپنادی ادنی شخصنات میں سے اتک تھیں جنہوں نے اردو ادب کو نہیر بنانے میں ابنا کردار ادا‬
‫کنا۔ اخیر رتاض الدین کی شفر تامہ ئگاری میں مشرق و معرب کے مخنلف ملکوں کی سیر‪ ،‬ان کے رواتات‪ ،‬فرهنگ‪،‬‬
‫اور طپنعی جشن کا واضح اظہار ت ھا۔‬

‫وہ ا بنے شفر تامے میں نہت جوئصورت طر ئقے سے ابئی شفر کی ئقصنالت بنان کرپیں تھیں۔ ان کی ئصویری‬
‫بناتات‪ ،‬زتان کی جوئصورنی کو یڑھانی تھیں اور قارپین کے دلوں میں جگہ بنا لپئی تھیں۔ ان کی شفر تامہ ئگاری کی‬
‫خصوصیت یہ تھی کہ وہ شفر کے دوران ا بنے ذانی تحرتات‪ ،‬اجساسات اور جناالت کو ابئی روابئی زتان میں اب نقال‬
‫د بئی تھیں‪ ،‬جو ان کی کہاب بوں کو دلحسپ اور اسنہار دہ بناتا تھا۔ان کے شفر تامے میں مخنلف رتگ‪ ،‬نو‪ ،‬اور صونی‬
‫ً‬
‫ایرات کو ت ھرمار میں ڈھال کر وہ ا بنے قارپین کو ا بنے شفر کا خصہ بنانی تھیں۔ ان کے شفر تامے میں عموما مذهئی‬
‫اور تارتخی مقامات‪ ،‬مخنلف رواتات اور قدئم داسنانوں یر تھی تات ج یت کی جانی تھی۔ اخیر رتاض الدین کی شفر‬
‫تامہ ئگاری اردو ادب کا اتک یڑا خصہ ین گئی اور انہیں اتک ساتدار شفر تامہ ئگار ماتا جاتا ہے۔اتک منال کے طور‬
‫یر‪ ،‬ان کا اتک شفر تامہ مصر کے م نعلق ہو سکنا ہے‪ ،‬جس میں وہ اسالمی نہذبب‪ ،‬نیرامڈز‪ ،‬بنل کی نہیریں‪ ،‬اور‬
‫مصری فرهنگ کی ئقصنلی ئضاویر پیش کرنی تھیں۔ ان کی اس شفر تامہ میں مصری تازاروں کی رواتات‪ ،‬لوگوں‬
‫کی زتدگی‪ ،‬اور تارتخی مقامات کی داسنانوں کو ابئی زتان میں اب نقال دتا جاتا ت ھا۔‬

‫سوال نمبر ‪2‬‬


‫خاکہ انٹی نذپر احمد کے فی اوصاف نبان کرپں۔ نبز شاہ احمد دہلوی کی خاکہ نگاری کا نعارف کرائیں‬

‫جواب‬

‫جاکہ کے لغوی معئی ڈھاتچہ بناتا تا مسودہ بنار کرتا ہیں۔ جنکہ ادنی ئقطہ ئظر سے جاکہ شخصیت کی ہو نہو عکاسی کا‬
‫تام ہے‪ ،‬اس جاکہ ئگاری میں یہ صرف شخصیت کی ظاہری ئصویر کشی کی جانی ہے تلکہ تاطن کا تھی اجاطہ کنا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫خ‬
‫جاکہ ئگاری اتک ایشی صنف ہے جس میں کشی شخص کے ق نقی جدوجال قارپین کے سا منے پیش کنے جانے‬
‫خ‬
‫ہیں۔ جاکہ ئگاری میں اتک خپئی جاگئی ق نقی شخصیت کی دلکش اور دلحسپ نیرانے میں ئصویر کشی کی جانی ہے۔‬
‫جاکہ ئگار واقعات ومساہدات کے ساتھ ساتھ ا بنے تایرات و فناسات کو تھی سامل کرتا ہے۔ اتک کامناب جاکہ‬
‫ن‬
‫ئگار کی ئگاہ اس مقام کو تا لپئی ہے جس مقام تک عام جاکہ نویسوں کی ئگاہ نہیں ہنخئی۔‬

‫• جاکہ کشی شخصیت کا معروضی مظالعہ ہے۔ (نبار احمد فاروفی)‬


‫• شواتح ئگاری کی نہت سی صورپیں ہیں۔ ان میں سے اتک شخصی جاکہ ہے۔ یہ دراصل مضمون ئگاری‬
‫کی اتک قسم ہے۔ جس میں کشی شخصیت کے ان ئقوش کو اجاگر کنا جاتا ہے جن کے امیزاج سے‬
‫کشی کردار کی یسکنل ہونی ہے۔ (آمنہ صدنقی)‬
‫ک‬
‫• جاکہ ئگاری ادب کی اتک صنف ہے جس میں شخصپبوں کی ئصویریں اس طرح یراہ راست ھپنخی جانی‬
‫ہیں کہ ان کے ظاہر اور تاطن دونوں قاری کے ذہن یسین ہوجانے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے خیسے‬
‫ق‬
‫یڑھنے والے نے یہ صرف لمی چہرہ دتکھا ہے تلکہ جود شخصیت کو دتک ھا ت ھاال ہو۔ (دمحم جسین)[‪]1‬‬
‫• جاکہ ئگاری کی یڑی اور اولین شرط میرے یزدتک یہ ہے کہ وہ مغمولی کو غیر مغمولی بنادے یڑے کو‬
‫کپنا تھی یڑا دک ھاتا آسان ہوگا یہ یسیت اس کے کہ چھونے کو یڑا دک ھاتا جانے فن اور فن کار کی یہ معراج‬
‫ہوگی‬
‫•‬
‫ٓ‬
‫اخب طرز اد بب ساہد اچمدد ہلوی نے ‪ 27‬مٹی ‪1999‬ء کو زتدگی کا شفر ئمام کنا ت ھا۔ اج ان کی یرسی‬ ‫اردو کے ص ِ‬
‫ع‬
‫ہے۔ وہ اتک جاکہ ئگار‪ ،‬تذکرہ نویس‪ ،‬مدیر‪ ،‬میرچم اور ماہِر موسنقی ت ھے۔ان کا ئعلق اتک ا یسے لمی و ادنی گ ھرانے‬
‫سے ت ھا جس نے اردو ادب کو ابئی ئگارسات کی صورت میں ماال مال کنا ت ھا۔ ساہد اچمد دہلوی تام َور اد بب اور‬
‫تاول ئگار ڈ بئی تذیر اچمد کے نونے‪ ،‬معروف اد بب مولوی یشیر الدین اچمد کے فرزتد ت ھے۔‬

‫ّ‬
‫ساہد اچمد دہلوی مشہور ادنی مجلہ ’’ساقی‘‘ کے مدیر ت ھے۔ موسنقی سے اتھیں عسق ت ھا اور لکھنا یڑھنا ان کا نہیرین‬
‫مشعلہ۔ دہلی کی تامجاورہ زتان اور اس کا جن جارہ ان کے اسلوب کا جاصہ ہے۔ ان کی دو کناپیں ’’دہلی کی ئپبا‘‘‬
‫اور ’’اجڑا دنار‘‘ ان کے اسلوب کی ائفراد بت اور قلم کی رئگارتگی کی منال ہیں۔ ان کے جاکوں کا نہال مچموعہ‬
‫’’طاق بش باں‘‘ ان کی وقات کے ئعد م نظِر‬‫ِ‬ ‫’’گنجینہ گوہر‘‘ ‪1962‬ء میں سا ئع ہوا اور ’’پ ِزم جوش نف ساں‘‘ اور‬
‫شخ‬ ‫ّ‬ ‫ٓ‬
‫چ‬ ‫ک‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫ہ‬
‫یں‘‘ ان کی دو ا م کنا یں یں اور ئی یرا م ان کی‬ ‫ت‬ ‫پ‬‫ص‬ ‫’’دلی جو انک شہر ت ھا‘‘ اور ’’چبد ادبی‬
‫ِ‬ ‫ے۔‬ ‫ن‬‫ا‬ ‫عام یر‬
‫زتان دانی اور قاتلیت کا ئمویہ ہیں۔‬
‫ساہد اچمد دہلوی نے رسالہ ’’شافی‘‘ ‪1930‬ء میں دہلی سے جاری کنا ت ھا اور ‪1947‬ء میں ہحرت کر کے‬
‫ٓ‬
‫تاکسنان انے نو نہاں دوتارہ اسی یرچے کا آعاز کنا۔ ‪1959‬ء میں تاکسنان رانیرز گلڈ بئی نو ساہد اچمد دہلوی کی‬
‫ّ‬
‫کوشسیں تھی اس میں سامل تھیں۔ وہ یرقی یسند تحرتک میں سا ل رہے اور جوب کام کنا۔‬
‫م‬

‫ئ‬ ‫ّ‬
‫اتھوں نے اتگریزی کی م نعدد کیب اردو زتان میں مپنقل کیں۔ ان میں کہابناں اور تچوں کی علٹم و یرب یت سے‬
‫م نعلق کیب اور مضامین تھی سامل ہیں جو ہر لجاظ سے اہم ہیں۔ دہلی گ ھرانے کے مشہور اسناد‪ ،‬اسناد جاتد جان‬
‫سے ساہد اچمد دہلوی نے موسنقی کی تاقاعدہ یرب یت جاصل کی تھی۔ فن ِام تاکسنان کے ئعد وہ نہاں آنے نو رتڈنو‬
‫تاکسنان سے وایسبہ ہو گنے ت ھے‪ ،‬چہاں وہ ایس اچمد کے تام سے موسنقی کے یروگرام پیش کنے۔ ساہد اچمد دہلوی‬
‫نے موسنقی کے موصوع یر تھی الئعداد مضامین رقم کنے جن کا مچموعہ’’ مضامی ِن موسیقی‘‘ کے تام سے اساغت‬
‫ً ّ‬
‫تذیر ہوا۔ساہد اچمد دہلوی زتان یر یڑی قدرت رکھنے ت ھے۔ خصوصا دلی کی تکسالی زتان یر۔ ساتد اس معا لے میں ان‬
‫م‬

‫کا کونی جرئف یہ ت ھا۔ ان کا م نفرد اسلوب اور تکسالی زتان کٹھی فراموش نہیں کی جاسکئی۔ جکومت تاکسنان نے‬

‫ساہد اچمد دہلوی کو ان کی ادنی جدمات کے اغیراف میں صدارنی اعزاز یرانے ِ‬
‫جشن کارکردگی عظا کنا ت ھا۔‬

‫نبز شاہ دہلوی‪ :‬خاکہ نگاری‬

‫ُ‬
‫ساہ اچمد دہلوی (اسِم تخلص‪ :‬نبز) اتک معروف اردو ساعر اور جاکہئگار ت ھے جن کی تجلص نیز تھی۔ ان کا نورا تام‬
‫مچمد ساہ اچمد ہے اور وہ ‪ 25‬اک یوپر‪1948 ،‬ء کو الہور‪ ،‬تاکسنان میں بندا ہونے ت ھے اور ان کی وقات ‪ 11‬اک یوپر‪،‬‬
‫‪1982‬ء کو ہونی۔‬
‫ُ‬
‫نیز ساہ اچمد دہلوی کو اردو ادب میں جاکہ ئگاری کے لنے معروف کنا جاتا ہے۔ انہوں نے ابئی ابنہانی جوئصورت‬
‫ُ‬
‫جاکہ ئگاری سے الکھوں اردو ساعریں اور عزلیں یزک کی صورت میں روسن کیں۔‬

‫نیز ساہ اچمد کا اصل شہرت تام ساہ اچمد ت ھا اور انہوں نے نیز کو ابئی تجلص بنا لنا۔ ان کی جاکہ ئگاری کی خصوضی‬
‫تات یہ تھی کہ انہوں نے ا بنے جاکہ ئگاری میں اشعار اور ساعری کے جوئصورت مو قعے سامل کنے جانے ت ھے۔‬
‫ان کے جاکے کئی مخنلف مضامین یر مسٹمل ہونے ت ھے خیسے محیت‪ ،‬نباؤ‪ ،‬غم و غصہ‪ ،‬جوشی‪ ،‬الفت وغبرہ۔‬
‫ُ‬ ‫ُ‬
‫نیز ساہ اچمد کے جاکے ان کی جالف یت اور ساعری کی اتداز و ان کے اردو ادب کے دبنا کو اتک جوئصورت تحریہ‬
‫ُ‬ ‫ُ‬
‫فراہم کرنے ہیں۔ ان کے جاکے ان کے ساعری کی اہمیت کو یڑھانے ہیں اور انہیں اتک معزز اردو ساعر‬
‫ئصور کنا جاتا ہے۔‬
‫ُ‬ ‫ُ‬
‫نیز ساہ اچمد دہلوی کے جاکے کو معاصر اردو ادب کی اتک اہم ساتدار منال ئصور کنا جاتا ہے‪ ،‬جو آج تھی اردو‬
‫ساعری کے شوقین قارپین کو منایر کرتا ہے۔‬

‫سوال نمبر ‪3‬‬


‫ق یض احمد ق یض کی غزل گوبی کی قٹی جونباں نبان کرپں‬

‫جواب‬

‫‪-١‬ق یض احمد ق یض کی غزل گوبی‬

‫ف نض اچمد ف نض اتک معروف اردو ساعر ت ھے جنہوں نے ابئی عزلوں کے ذرا ئع سے ابنہانی جوئصورت اجساسات کو‬
‫بنان کنا۔ ان کی عزل گونی کی ئعض فئی جوبناں مندرجہ ذتل ہیں‪:‬‬

‫اجساس و ادب‪ :‬ف نض اچمد ف نض کی عزلوں میں اجساس اور ادب کا نہیرین مالپ ہوتا ہے۔ ان کی ساعری میں‬
‫محیت‪ ،‬غم‪ ،‬ان یظار اور عشق خیسے موصوعات نہت ابنہانی جازب اتداز میں بنان کنے جانے ہیں۔‬

‫نصوپری اظہار‪ :‬ف نض اچمد ف نض کی عزلوں میں ئصویری اظہار کی یڑھئی ہونی منالیں اسنغمال کی جانی ہیں جو شعر‬
‫کو نہت موزون اور جوئصورت بنانی ہیں۔ ان کے شعر میں طپیعت‪ ،‬فضلوں‪ ،‬موسموں اور م باطر کو جوئصورت طر ئقے‬
‫سے واضح کنا جاتا ہے۔‬

‫غمق و معٹی‪ :‬ف نض اچمد ف نض کے شعر میں عمق اور معئی کے یرچمیر ہونے ہیں۔ ان کی عزلوں میں عارفانہ‬
‫اجساشات‪ ،‬زتدگی کی خق نق بوں کا یردہ ات ھاتا جاتا ہے اور اس سے قارپین کے دل کو چھو جاتا ہے۔‬
‫روابی‪ :‬ف نض اچمد ف نض کے شعر کی روابت ت ھری ہونی ہے۔ ان کے اشعار میں اکیر ابئی زندگی‪ ،‬معاشربی مسانل‬
‫اور نارتخی وافعات کو سامل کنا جاتا ہے۔‬

‫ان تہابی موزوں نباوٹ‪ :‬ف نض اچمد ف نض کی عزلوں کی بناوٹ نہت موزوں ہونی ہے۔ ان کے اشعار کی فافنہ‬
‫نبدی‪ ،‬محزون انداز اور معقول نباوٹ کے بنا ساعری کا جوئصورت م نظر پیش کرنے ہیں۔‬

‫ف نض اچمد ف نض کی عزل گونی میں ابنہانی جوئصورنی ہے اور ان کے اشعار کو یڑھنے سے قارپین کا دل نہت‬
‫اجساس ت ھر جاتا ہے۔ ان کے شعر کے غمدہ قٹی انداز کی ندولت‪ ،‬وہ اتک معروف اور مق بول ساعر ین گنے ہیں۔‬

‫‪-٢‬ق یض کے کالم کے فکری وقٹی مخاسن‬

‫پیسویں صدی میں جن پین شعراء نے جاص شہرت جاصل کی تھی وہ ہیں افنال جوش اور ف نض۔ ف نض اچمد ف نض‬
‫ئ‬
‫اتک کیر اسالمی گ ھرانے میں بندا ہونے اور ان کی علٹم تھی ابندا میں تامور علماء کے زیر سایہ ہونی تھی‪ ،‬مگر‬
‫ئ‬
‫علٹم کے ئعد خب مالزمت میں آنے نو امر یشر آکر ان کا ذہن جالص اسیراکی ہو گنا اور رفبہ رفبہ وہ مارکس اور‬
‫لیین کے ا بنے گروتدہ ہو گنے کہ اسالم سے ان کادور کا تھی واشطہ نہیں رہا۔۔تد لنے ہونے سناسی و سماجی‬
‫جاالت جس میں روسی ائقالب سے لے کر تاسیزم اور دوشری جنگ عظٹم سب سامل ہے انہیں نہت منایر کنا‬
‫اور انہوں نے مزدوروں کے مساتل میں دلحسئی لی اور کئی کئی یرتڈ نوپپبوں کے تھی صدر رہے۔ ان سب تانوں‬
‫کا ان کی ساعری میں یراہ راست ایر یڑا۔ زمانے سے ئعاوت کی وجہ سے ہی ف نض کا سمار یرقی یسند ساعروں میں‬
‫ہوتا ہے۔‬

‫‪-٣‬فنض کی شاغری کی قٹی جون یوں کا خالصہ‬

‫ت‬
‫ا۔ ف نض کا معرنی ادب کا مظالہ نہت وسنع ت ھا جس کےزیر ایر انہوں نے زتدگی کے خقانق اس کی لخبوں اور‬
‫رتگیپبوں کو ابئی ساعری کا موصوع بناتا ہے۔ ماضی کی نیزتل تذیر نہذبب سان و شوکت اور عیش و شر مسئی کے‬
‫عم کا اظہار انہوں نے ابئی ئظموں میں کنا ہے۔‬

‫‪۲‬۔ ان کی ئظموں میں جذنے کی سدت چمالنانی عناصر لہچہ اور اسلوب کی جالوت ملئی ہے۔ ان کے کالم میں‬
‫روماب یت کے ساتھ ساتھ رجاب یت اور اور امند آفربئی تانی جانی ہے جو کہ مارکس کی دین ہے۔‬

‫‪٣‬۔ ان کی قکر گونی ائقالنی ہے مگر ان کا شعری آهنگ ائقالنی نہیں ہے۔ ان کے نہاں جوش کی طرح ئعرہ تازی‬
‫گھن گرج چھالہٹ اور خطپنایہ سان نہیں ہے تلکہ اس میں رهٹمانی موسنق یت اور عنابت ملئی ہے۔‬

‫‪٤‬۔ ق یض کے ہاں رق یب کا نصور پڑا پراال ہے وہ رق یب‬


‫سے ئفرت نہیں کرنے تلکہ اسے ابنار از دار بنانےہیں۔‬

‫‪ -۵‬نمپبلی نبرانا اور رمز و کبانہ ت ھی ان کی شاغری کا اہم‬

‫مظلوموں مزدوروں اور زیر دسبوں سے ہمدردی ان کی ضمیر میں سامل تھی مگر اگر انہوں نے یہ ہمدردی اسیراکیت‬
‫ن‬
‫سے س کھی تھی۔ اسیراکی ہونے کے تاوجود ان کی ساعری میں کم بویزم کا کونی عکس نہیں ملنا تلکہ اس کے‬
‫یرعکس ان کے کالم میں دو خیزیں ہر جگہ ئماتاں ہو کر سا منے آنی ہے‬

‫(الف) جشن و عشق کی واردات‬

‫(ب) زپر دسیوں اور مظلوموں سے ہمدردی۔‬

‫ف نض کی ساعری عم کی ساعری ہے جا هنے عم سناست کا ہو تا عسق کا۔ ان کے نہاں ہر خیز عمگیں ہو جانی‬
‫ہے مگر ف نض نے اس عم کو تھی یڑے جوسگوار نیرانے میں بنان کنا ہے۔‬

‫سوال نمبر ‪4‬‬

‫م راشد اور محبد امخد کی نظم نگاری کے نماناں رجخانات کبا ہیں؟ نفصبل سے نبان کرپں۔‬
‫جواب‬

‫ن۔م۔راسدجلقہء ار تاب ذوق سے وایسبہ ساعروں میں سے ت ھے جنہوں نے ساعر ی کو مخض اصالجی وسماجی‬
‫ائقالب تا سناسی ب نعام کے لنے اسنغمال کرنے کے رو بنے سے ئعاوت کی اور اس طرح یرقی یسند تحرتک کی‬
‫ئظرتانی ساعری سے اتحراف کنا۔ان کی ساعری کا مچور و مرکز ایسانی جنات کی گوں تا گوں شجابناں ہیں۔انہوں‬
‫ٓ‬
‫نے اردو ساعری کو بئی قکری و فئی چہبوں سے اسنا کنا اور روابئی اسلوب ساعری سے ئعاوت کی۔انہوں نے جود‬
‫ا بنے نہلے شعری مچموعے ’’ ماورا ‘‘ میں جود کو ’’ قدئم اسالیب بنان کا ادنی ٰتاغی فرار دتا ہے۔‬

‫ٰ‬ ‫ٓ‬
‫انہوں نے تابند ئظموں سے زتادہ ازاد اور معری ئظم کو ابئی تجل نقی اظہار کا وسنلہ بناتا اور اس میں مخنلف هیپئی‬
‫تحرنے کنے۔’’ ماورا ‘‘‪’’،‬اپران میں اجپٹی ‘‘ ابسان ‘‘ اور ’’ گمان میں ممکن ‘‘ ان کے شعری مچموعے ہیں جو‬
‫اردو ساعری میں بئی جسیت اور بنے تحرنوں کی امین ہیں۔’’ رات کے سباٹے ‘‘‪ ’’،‬انفافات ‘‘‪ ’’،‬در تچے کے‬
‫قرنب ‘‘ ‪ ’’،‬رفص ‘‘ ‪ ،‬ان یفام ‘‘ ‪ ’’،‬اجپٹی عورت ‘‘‪ ’’،‬نمرود کی خدابی ‘‘ راسد کی ئمابندہ ئظموں میں سمار کی جا نی‬
‫ہیں۔ان کی ئظم ’’ انفافات ‘‘ سے ا تکے شعری رو بنے اور قکری چہات کا اتدازہ لگاتا جا سکنا ہے۔‬

‫ٓ‬
‫اسماں دور ہے لبکن نہ زمیں ہے پزدنک‬
‫ٓ‬
‫ا اشی خاک کو ہم خلوہ گہہ راز کرپں‬

‫روجیں مل شکٹی بہی ہیں یو نہ لب ہی مل خائیں‬


‫ٓ‬ ‫ّ‬ ‫ٓ‬
‫ا اشی لذت ِ خاوند کا اعاز کرپں‬
‫ٓ‬
‫صنح خب ناغ میں رس لپ نے کوگر ہوا اٹے‬

‫اس کے یوسوں سے ہو مدہوش سمن اور گالب‬

‫سپنمی گھاس نہ دو نبکر تخ بسنہ ملیں‬

‫اور خدا ہے یو بشنماں ہوخاٹے‬

‫ان کی انک اور نظم ’’ در تچے کے قرنب ‘‘ ت ھی مالخظہ ہو۔‬

‫اشی مپبار کے شاٹے شاٹے نلے کچھ ناد ت ھی ہے‬

‫ا ن نے ن یکار خدا کے مانبد‬

‫اونگھبا ہے کسی نارنک بہاں خاٹے میں‬

‫انک افالس کا مارا ہوا مالٹے جزپں‬

‫انک غفرنت اداس‬


‫ّ‬
‫ئین سو شال کی ذلت کا بساں‬

‫ابسی ذلت کہ بہیں جس کا مداوہ کوبی‬


‫مخن ؔد امجد اخیراال ئمان کے اہم معاصرین میں سمار کنے جانے ہیں۔ جدتد ئظم ئگار شعرا میں ان کا قد جاصاتلند‬
‫ئ‬
‫ہے۔مخند امجد نے عزلیں تھی کہیں اور ظمیں تھی‪ ،‬لنکن وہ پپنادی طور یر ئظم کے ساعر ہیں اور انہیں شہرت‬
‫ئ‬
‫دوام ئظم ہی سے جاصل ہونی۔ ان کی ئظموں میں یڑا ب بوع اور رئگارتگی ہے۔ان کی ظمیں موصوع اور اسلوب کے‬
‫ش‬
‫اعپنار سے جداگایہ جیپ یت رکھئی ہیں۔ مخند امجد کی ساعری کے موصوعات زتدگی کی عمومی طح سے ئعلق رکھنے ہیں۔‬
‫ان کے نہاں جارجی زتدگی کے نہت چھونے چھونے اور ئظاہر غیر اہم موصوعات تھی ہیں اور ا بنے عہد کے‬
‫سناسی‪ ،‬سماجی اور اف نضادی مساتل تھی۔ مخند امجد نے ر ابئی ساعری کے لنے جام مواد ا بنے گردو پیش کی زتدگی‬
‫سے اجذ کنا۔مخند امجد کے نہاں افنال کی طرح قلشقنایہ قکر تا دوشرے یرقی یسندتحرتک سے وایسبہ ساعروں کی‬
‫ٓ‬
‫طرح کشی ئظرنے تا ئظام جنات کی گوتج نہیں تلکہ مچموغی زتدگی جس اشوب میں مپنالہے‪،‬اور ایسان عذاب کی‬
‫جن راہوں سے گذررہا ہے اشکا اظہار ان کی ساعری میں ئماتا ں ہے۔ اتک م بوشط ط نقے کے شہری کے مساتل اور‬
‫اس کے ا لمنے کو نہابت جوئصورنی سے ابئی ئظموں میں پیش کنا ہے۔‬
‫ش‬
‫جند منالیں مالخطہ کنخنے جس میں سماجی اور معاشرنی طح یر بندا مساتل کو موصوع بناتا گنا ہے‪:‬‬

‫ن‬
‫یو اگر خاہے یو ان لخ سنہ راہوں پر‬

‫خا تخا انٹی پڑنٹی ہوبی دنبایوں میں‬

‫ا ن نے غم نکھرے پڑے ہیں کہ چ تہیں نبری چبات‬

‫قوت نک سب کے نفدس میں سمو شکٹی ہے‬

‫کاش یو چبلہء خاروب کے پر یوچ شکے‬


‫کاش یو یوچ شکے یوچ شکے‬

‫م راسد اور مخند امجد دونوں اہم اردو ئظم ئگار ہیں‪ ،‬جو تاکسنان کے ادب و ئقافت کے مندان میں ابئی ممناز ئظم‬
‫ئگاری سے معروف ہیں۔ ان کے اشعار اور ان کی ئظم کی نہت سی مخصوص رججاتات ہیں جو ان کو دتگر اساعییں‬
‫سے مخنلف بنانی ہیں۔‬

‫م راشد کی نظم نگاری کے نماناں رجخانات‪:‬‬

‫تایرات اسالمی اور تارتخی‪ :‬م راسد کی اشعار مخنلف تارتخی و اسالمی واقعات اور شخصنات سے ایر اتداز ہونے ہیں۔‬
‫ان کی ساعری میں اسالمی تارتخ اور فرقہ وارب بوں کے موصوعات یر نوجہ ہونی ہے۔ انہوں نے مخنلف مذهئی‬
‫موصوعات یر تھی شعر لک ھا ہے جو جواتدگان کے دل کو چھونے ہیں۔‬

‫ایساب یت اور مخیت‪ :‬م راسد کی ئظم میں ایساب یت اور مخیت کے یرچم تلند ہونے ہیں۔ ان کے اشعار میں رچم و‬
‫مہرتانی کا اجساس ملنا ہے اور وہ عام زتدگی کے مخنلف نہلوؤں کو ا بنے اشعار میں سامل کرنے ہیں۔‬

‫قلشقہ و عارقایہ رججاتات‪ :‬م راسد کی ساعری میں قلشقے اور عارقایہ مضامین کا تھی کاقی ایر دکھنا ہے۔ ان کے‬
‫س‬
‫اشعار میں زتدگی کے مع بوں اور وجود کے راز کو مچھنے کی کوشش کی جانی ہے۔‬
‫محبد امخد کی نظم نگاری کے نماناں رجخانات‪:‬‬

‫معاشرنی ب نصرہ‪ :‬مخند امجد کی ساعری میں معاشرنی مساتل یر ب نصرہ کی جانی ہے۔ ان کے اشعار میں سماجی‬
‫موصوعات‪ ،‬رواتات‪ ،‬اقوامی اجنالقات اور سناسی معامالت کو اہمیت دی جانی ہے۔‬

‫عاشقایہ اجساسات‪ :‬مخند امجد کی ئظم کی اتک خصوصیت یہ ہے کہ وہ عاشقایہ اجساسات کو نہت جوئصورنی سے ادا‬
‫کرنے ہیں۔ ان کے اشعار میں مخیت‪ ،‬رتگپئی‪ ،‬درد و عم کو اظہار کرنے کا اتداز ہوتا ہے جو سپنے والوں کے دل‬
‫کو چھو جاتا ہے۔‬

‫طیز و مزاح‪ :‬مخند امجد کی ساعری میں طیز و مزاح کا تھی یڑا خصہ ہوتا ہے۔ ان کے اشعار میں مخنلف مواقع یر‬
‫مزاخبہ اتداز میں موصوعات یر عور کنا جاتا ہے جو جوا بنے والوں کو ہیسانے کے لنے مجذوب کرنے ہیں۔‬

‫اسنعال و جذتات‪ :‬مخند امجد کی ساعری میں اسنعال اور جذتات کی ت ھرمار ہونی ہے۔ ان کے اشعار میں جوش‪،‬‬
‫جذتانی اجساسات اور ہمت کو اظہار کرنے کا اتداز دلحسئی بندا کرتا ہے۔‬
‫سوال نمبر ‪5‬‬

‫اردو گیت نگاری کے نباطر میں حمبل الدپن کی گیت نگاری کا خاپزہ لیں۔‬

‫جواب‬

‫چمنل الدین‪ ،‬جناب محیرم‪ ،‬اردو ادب کے معروف اد بب‪ ،‬اقسایہ ئگار‪ ،‬تاول ئگار اور گیت ئگار ت ھے۔ ان کی گیت‬
‫ئگاری ان کے ادنی اور ساعرایہ مواصالت کے خصوضی نہلو کو نہیر اتداز میں اظہار کرنی ہے۔ ان کے گیت‬
‫لظ نف‪ ،‬دلحسپ اور معاشرنی موصوعات یر مسٹمل ہونے ہیں جو ان کے شعری اتداز کی اتک خصوصیت تھی۔‬
‫انہوں نے مخیت‪ ،‬دوسئی‪ ،‬زتدگی کے مساتل اور مخنلف ایسانی جذتات کو ا بنے گپبوں میں اجساسناک اتداز میں‬
‫بنان کنا۔‬

‫ش س‬ ‫م ً‬
‫چمنل الدین کے گیت غموال عام زتان یں ہونے یں جس سے عام لوگوں کو ان کے عر کو ھنے یں آسانی‬
‫م‬ ‫مچ‬ ‫ہ‬ ‫م‬
‫ہونی تھی۔ ان کی گیت ئگاری کا اتک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ مخنلف لوگوں کے جذتات کو ا بنے شعر کی مدد‬
‫سے سا ئع کر سکنے ت ھے۔ ان کے گیت اکیر معاشرنی مساتل کو اجساسناک اتداز میں پیش کرنے ت ھے جو لوگوں‬
‫کے دلوں میں جگہ بنا لپنے ت ھے۔‬
‫چمنل الدین کی گیت ئگاری کو ان کے قومی اور پین االقوامی بنار و مخیت کے اجساسات کی ئمابندگی کے طور یر‬
‫تھی دتک ھا جا سکنا ہے۔ ان کے گیت مخنلف رواتانی اور فرهنگی موصوعات یر مسٹمل ہونے ت ھے جو ان کے شعر‬
‫ش‬
‫کی اتک خصوصیت تھی اور انہیں معاشرنی طح یر مق بولیت جاصل کرنے میں کام آنی تھی۔‬

‫مخنصر میں کہا جا سکنا ہے کہ چمنل الدین کی گیت ئگاری ان کے ادنی کارتامے کا اتک اہم خصہ ت ھا جس میں‬
‫انہوں نے مخنلف موصوعات کو ا بنے گپبوں کے ذر ئعے اجساسناک اتداز میں پیش کنا اور مخنلف لوگوں کے دلوں‬
‫میں جگہ بنا لپنے ت ھے۔ ان کے گیت زتانی اور شعری فن کی اتک نہیرین ئمویہ تھیں۔‬

‫چمنل الدین نوشف عزیز (مولود‪ 28 :‬دسمبر‪1928 ،‬ء؛ وفات‪ 20 :‬دسمبر‪2013 ،‬ء) اتک تاکسنانی اردو ساعر‪،‬‬
‫نیر ئگار‪ ،‬مصنف اور گیت ئگار ت ھے۔ ان کا گیت ئگاری کا مندان میں اہم کردار رہا ہے۔ انہوں نے ا بنے اصولی‬
‫ع‬
‫اتداز کے ساتھ گیت ئگاری کی اتک یڑی تخق نقانی منال قائم کی جو ان کی اردو زتان میں خصوصنات کی لمی اور‬
‫س‬
‫فئی پپنادوں کو اچھی طرح مچھنے میں مدد فراہم کرنی ہے۔ ان کی کئی کیب اور تخق نقات گیت ئگاری کے شوقپبوں‬
‫کے لنے پپنادی مراخع ہونی ہیں۔‬

‫چمنل الدین کا گیت ئگاری کا اتداز نہت دلحسپ اور انوک ھا تھا۔ ان کے گیت مخنلف موصوعات یر مپئی ت ھے اور‬
‫انہوں نے ابئی گیت ئگاری میں مخیت‪ ،‬عم‪ ،‬مذہب‪ ،‬ملکیت اور طپنعت وغیرہ کے موصوعات کو سامل کنا۔ ان‬
‫کے گیت اردو زتان کی رواتانی عزلبہ‪ ،‬ئظم‪ ،‬نیریہ اور مخنلف رواتانی ہیشی مزاخبہ اتداز کے مظانق تجل بق کنے گنے‬
‫ت ھے۔‬
‫ان کی گیت ئگاری کا اتک خصوضی ئقطہ ئظر یہ ت ھا کہ وہ ا بنے گپبوں میں عام زتدگی کے مخنلف نہلوؤں کو‬
‫ایسانی اجساس اور جذتات کے ساتھ پیش کرنے ت ھے۔ ان کے گیت زتدگی کے خقانق کو نہت ہی دلحسپ اور‬
‫جوئصورت اتداز میں پیش کرنے ت ھے جو ان کے یڑھنے والے کو ان سے جڑ نہنے کا اجساس د بنے ت ھے۔‬

‫چمنل الدین کا گیت ئگاری کا اتداز ساعرایہ اور رومانوی ت ھا‪ ،‬جو ان کے گپبوں کو مزاخبہ طیز‪ ،‬ادب یت‪ ،‬شوقین مخیت‬
‫اور ایساب یت کی گہراب بوں سے ت ھر د بنا ت ھا۔ ان کے گپبوں میں ان کے اصلی اتداز کے ساتھ موجود ہونے ہونے‬
‫ئ‬
‫علٹم و یرب یت‪ ،‬سناست‪ ،‬معاشرنی مساتل اور رومانوی جناالت کو تھی اچھی طرح بنان کنا گنا ۔چمنل الدین کے‬
‫گیت ئگاری کا بناطر اردو ادب کے دایرہ کار میں یڑا اہمیت رکھنا ہے اور ان کے گیت اردو ساعری کے اتک‬
‫جوئصورت خصے کو ظاہر کرنے ہیں۔ ان کے گیت ان کے یڑھنے والوں کے دلوں کو چھو جانے ہیں اور ان کی‬
‫گیت ئگاری نے اردو ادب کو اتک جوئصورت رتگ دتا ہے۔‬

You might also like