Professional Documents
Culture Documents
فیض احمد فیض (پیدائش ١٣ :فروری ١٩١١ء– وفات ٢٠ :نومبر ١٩٨۴ء) غالب اور اقبال کے بعد اردو کے سب سے عظیم شاعر
ہیں۔ آپ تقسیِم ہند سے پہلے ١٩١١ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کے فعال رکن اور
ایک ممتاز ِا شتراکیت سٹالنسٹ فکر کے کمیونسٹ تھے۔
فیض احمد فیض
معلومات شخصیت
13فروری
]2[]1[1911 پیدائش
سیالکوٹ
پاکستان
شہریت
برطانوی ہند
عملی زندگی
عسکری خدمات
اعزازات
ویب سائٹ
باب ادب
درستی (https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%81%DB%8C%D8%B6_%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D9%81%DB%8
-ترمیم (https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%81%DB%8C%D8%B6_%D8%A7%D8% )C%D8%B6&action=edit§ion=0
)AD%D9%85%D8%AF_%D9%81%DB%8C%D8%B6&veaction=edit
فیض احمد فیض
سوانح
فیض ١٣فروری ١٩١١ء کو کاال قادر ،ضلع نارووال ،پنجاب ،برطانوی ہند میں ایک معزز سیالکوٹی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ
کے والد ،سلطان محمد خان ،ایک علم پسند شخص تھے۔ وہ پیشے سے ایک وکیل تھے اور امارت افغانستان کے امیر
عبدالرحٰم ن خان کے ہاں چیف سیکرٹری بھی رہے۔ بعد ازاں ،انہوں نے افغان امیر کی سوانح حیات شائع کی۔ آپ کی والدہ کا
نام فاطمہ تھا۔
فیض کے گھر سے کچھ دوری پر ایک حویلی تھی۔ یہاں اکثر پنڈت راج نارائن ارمان مشاعروں کا انعقاد کیا کرتے تھے ،جن
کی صدارت منشی سراج الدین کیا کرتے تھے؛ منشی سراج الدین ،مہاراجا کشمیر پرتاپ سنگھ کے منشی تھے اور عالمہ
اقبال کے قریبی دوست بھی۔ انہی محفلوں سے فیض شاعری کی طرف مرغوب ہوئے اور اپنی پہلی شاعری دسویں جماعت
میں قلمبند کی۔
فیض کے گھر کے باہر ایک مسجد تھی جہاں وہ فجر کی نماز ادا کرنے جاتے تو اکثر موالنا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا
خطبہ سنتے اور ان سے مذہبی تعلیم حاصل کرتے۔
١٩٢١ء میں آپ نے سکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں داخلہ لیا اور یہاں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے امتحانات کے
بعد آپ نے ایف اے کا امتحان مرے کالج سیالکوٹ سے پاس کیا۔ آپ کے اساتذہ میں میر مولوی شمس الحق ( جو عالمہ
اقبال کے بھی استاد تھے) بھی شامل تھے۔ آپ نے اسکول میں فارسی اور عربی زبان سیکھی۔
بی اے آپ نے گورنمنٹ کالج الہور سے کیا اور پھر وہیں سے ١٩٣٢ء میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ بعد میں اورینٹل کالج
الہور سے عربی میں بھی ایم اے کیا۔
١٩٣۵ء میں آپ نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج]] ،امرتسر میں انگریزی و برطانوی ادب کے لیکچرر کی حیثیت سے مالزمت
کی؛ اور پھر ہیلے کالج الہور میں ۔
آپ نے ١٩٣٦ء میں سجاد ظہیر اور صاحبزادہ محمودالظفر کے ساتھ مل کر انجمن ترقی
پسند مصنفین تحریک کی بنیاد ڈالی۔[ ]4فیض ترقی پسند تحریک کے بانیان میں شامل تھے لیکن ِا س تحریک کے بقیہ شعرا
رہے۔[]5 میں جو شدت اور ذہنی انتشار پایا جاتا ہے ،فیض ِا س ِا نتہا پسندی سے گریز کرتے ہوئے اعتدال کی راہ اختیار کرتے
فیض نے ١٩۴١ء میں[ ]4لبنانی نژاد[ ]6برطانوی شہری ایلس جارج سے سری نگر میں شادی کی۔ ِا ن کا نکاح شیخ محمد عبد
اللہ نے پڑھایا۔ بعد ازاں ازدواجی بندھن میں بندھنے والے ِا س نو بیاہتا جوڑے نے مہاراجا ہری سنگھ کے پری محل میں اپنا
ہنی مون منایا۔[ ]7فیض کی طرح ،ایلس بھی شعبۂ تحقیق سے وابستہ تھیں اور ِا ن کی شاعری اور شخصیت سے متاثر
تھیں۔
فیض کے خاندان کو یہ بات بالکل ناپسند تھی کہ ُا نہوں نے اپنے لیے ایک غیر ملکی عورت کا انتخاب کیا ،لیکن فیض
لیا۔[]7 کی ہمشیرہ نے اپنے خاندان کو ایلس کے لیے آمادہ کر
١٩۴٢ء میں آپ نے فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے مالزمت اختیار کی۔[ ]4دوسری جنگ عظیم سے دور رہنے کے لیے آپ نے
اپنے لیے محکمۂ تعلقات عامہ میں کام کرنے کا انتخاب کیا۔ آپ فوج میں جنرل اکبر خان کے ماتحت ایک یونٹ میں بھرتی
تھے۔ جنرل خان بائیں بازو کے سیاسی خیاالت رکھتے تھے اور اس لیے آپ کو خوب پسند تھے۔ ١٩۴٣ء میں فیض میجر اور
پھر ١٩۴۴ء میں لیفٹیننٹ کرنل ہوئے۔ ١٩۴۷ء میں پہلی کشمیر جنگ کے بعد آپ فوج سے مستعفی ہو کر الہور آ گئے۔
١٩47ء میں آپ پاکستان ٹائمز اخبار کے مدیر بنے۔ ترقی پسند تحریک کے دیگر بانیان ،بشمول سجاد ظہیر اور جالل الدیں
عبد الرحیم ،کے ہمراہ آپ نے ِا شتراکیت پسند کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی بنیاد بھی اسی سال میں رکھی۔ ١٩۴٨ء میں
آپ پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ ١٩۴٨ء تا ١٩۵٠ء آپ نے پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے وفد
کی جنیوا میں سربراہی کی اور دریں اثنا آپ ورلڈ پیس کونسل کے رکن بھی بن گئے۔
لیاقت علی خان کی حکومت کشمیر کو پانے میں ناکام ہو گئی تھی اور یہ بات پاکستانی افواج ،یہاں تک کہ قائد اعظم
محمد علی جناح ،کو بھی گوارا نہ تھی۔ جناح نے خود لیاقت علی خان کی ناکامی پر ناراضی کا اظہار کیا۔ یہ بات بھی
یقینی تھی کہ جنرل ڈگلس گریسی نے بھی ِا س معاملے میں قائد اعظم کی نہ ُس نی۔ اور تو اور ،امریکا سے واپسی پر لیاقت
علی خان نے کمیونسٹ پارٹی اور پاکستان سوشلسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی۔ مشرقی پاکستان میں البتہ ،ایسٹ پاکستان
کمیونسٹ پارٹی فعال رہی اور دھرنے دیتی رہی۔
٢٣فروری ١٩۵١ء کو چیف آف جنرل سٹاف ،میجر جنرل اکبر خان کے گھر پر ایک خفیہ مالقات کا انعقاد ہوا۔ ِا س مالقات
میں دیگر فوجی افسران بھی سجاد ظہیر اور فیض کے ساتھ ،شامل تھے۔ یہاں موجود ِا ن سب لوگوں نے لیاقت علی خان
کی گورنمنٹ کو گرانے کا ایک منصوبہ تجویز دیا۔ یہ سازش بعد میں راولپنڈی سازش کے نام سے جانی جانے لگی۔
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
٩مارچ ١٩5١ء کو فیض کو راولپنڈی سازش كیس میں معاونت كے الزام میں حكومِت وقت نے گرفتار كر لیا۔ آپ نے چار سال
سرگودھا ،ساہیوال ،حیدرآباد اور کراچی كی جیلوں میں گزارے؛ جہاں سے آپ كو ٢اپریل ١٩۵۵ء كو رہا كر دیا گیا۔ زنداں
نامہ كی بیشتر نظمیں ِا سی عرصہ میں لكھی گئیں۔ رہا ہونے کے بعد آپ نے جالوطنی اختیار کر لی اور لندن میں اپنے
خاندان سمیت رہائش پزیر رہے۔ فیض نے جالوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے ایک شعر میں کہا:
اپنا کیا کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے فیض نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے
وطن واپسی
١٩۵٩ء میں پاکستان آرٹس کونسل میں بطوِر سیکرٹری تعینات ہوئے اور ١٩٦٢ء تک وہیں پر کام کیا۔ ١٩٦۴ء میں لندن سے
واپسی پرآپ عبد اللہ ہارون کالج کراچی میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔
شاعری کے مجموعے
نقش فریادی
دست صبا
زنداں نامہ
دست تہ سنگ
آزاد نظم
مت رو بچے
مت رو بچے
رو رو کے ابھی
مت رو بچے
کچھ ہی پہلے
مت رو بچے
تیرا بھائی
مت رو بچے
مت رو بچے
مت رو بچے
تیرے ہمارے
کلیات
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر ُا ٹھا کے چلے نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
نظر چرا کے چلے ،جسم و جاں بچا کے چلے جو کوئی چاہنے واال طواف کو نکلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظِم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں بہت ہے ظلم کہ دسِت بہانہ جو کے لیے
کسے وکیل کریں ،کس سے منصفی چاہیں بنے ہیں اہِل ہوس ،مدعی بھی منصف بھی
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح شام کرتے ہیں
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی بجھا جو روزِن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی چمک ُا ٹھے ہیں سالسل تو ہم نے جانا ہے
غرض تصوِر شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفِت سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق نہ ُا ن کی رسم نئی ہے ،نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھالئے ہیں ہم نے آگ میں پھول نہ ُا ن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل ُبرا نہیں کرتے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں گر آج َا وج پہ ہے طالِع رقیب تو کیا
جو تجھ سے عہِد وفا استوار رکھتے ہیں
عالِج گردِش لیل و نہار رکھتے ہیں
غزل
وہ جا رہا ہے کوئی شِب غم گزار کے دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
تم کیا گئے کہ ُر وٹھ گئے دن بہار کے ویراں ہے میکدہ ،خم و ساغر اداس ہیں
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے ِا ک فرصِت گناہ ملی وہ بھی چار دن
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے دنیا نے تری یاد سے بیگانہ کر دیا
ُبھولے سے مسکرا تو دئے تھے وہ آج فیض مت پوچھ ولولے دِل نا کردہ کار کے
فیضیات
فیض کی شخصیت اور فن پر لکھی کتب
فیض کی شاعری
فیضان فیض
مزید دیکھیے
بیرونی روابط
حوالہ جات
— بنامFaiz Ahmad : ^ .1ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈیhttps://snaccooperative.org/ark:/99166/w6gq7r6v :
— Faizاخذ شدہ بتاریخ 9 :اکتوبر 2017
— بنام— Faiz̤ Aḥmad Faiz̤ : ^ .2ا ب بی این ایف -آئی ڈیhttps://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13540770c :
عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ :آزاد اجازت نامہ
^ .4ا ب پ نامعلوم ٢٠( ستمبر ٢٠١۴ء)" ،فیض احمد فیض کو گزرے ٣٠برس" ( )http://www.dawnnews.tv/news/1012591۔
ڈان نیوز اردو۔ اخذ کردہ بتاریخ ١دسمبر ٢٠١۵ء۔
^ .7ا ب ریڈیئنس اردو ۵( اپریل ٢٠٠٩ء)" ،ایلس کے فیض سے اپنی شادی پر تاثرات (ویڈیو)" (https://www.ytpak.com/watch?v
)=zxl8mn7Pc4I۔ یوٹیوب۔ اخذ کردہ بتاریخ ١دسمبر ٢٠١۵ء۔
آخری ترمیم 22دن قبل بدست
119.160.58.171
ویکیپیڈیا