You are on page 1of 2

‫الہور‬

‫‪: ‬تاریخ اشاعت‬
‫مئی ‪۲۰۱۷‬ء ‪۲۱‬‬

‫کراچی کے ایک فاضل دوست جناب صہیب احمد امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی میں غیر سودی بینکاری کے حوالہ‬
‫سے کسی موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز وہ اپنے موضوع کے حوالہ سے مشاورت کی غرض‬
‫سے عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سے مالقات کے لیے گوجرانوالہ تشریف الئے تو میرے ساتھ بھی ایک‬
‫نشست ہوگئی۔ یہ موضوع میری دل چسپی کا بھی ہے اس لیے کافی مفید گفتگو ہوئی اور ان سے امریکی‬
‫یونیورسٹیوں میں اس عنوان پر ہونے والے کام کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔ ان کے استفسار پر میں نے‬
‫عرض کیا کہ میرے خیال میں غیر سودی بینکاری کے حوالہ سے علمی و فکری کام کے مختلف دائرے ہیں جن کو‬
‫سمجھنا اور ان کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر محنت کرنا ضروری ہے۔‬

‫مثالً ایک دائرہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر غیر سودی بینکاری کی طرف توجہ بڑھ رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل سابق‬
‫پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ کی مقرر کردہ ایک کمیٹی کی رپورٹ کے یہ ریمارکس عالمی پریس کے ریکارڈ کا‬
‫حصہ بن چکے ہیں کہ دنیا کو معاشی نظام کے حوالہ سے کسی توازن اور بیلنس پر النے کے لیے قرآن کریم کے‬
‫بیان کردہ معاشی اصولوں کو اختیار کرنا ضروری ہے۔ میرے خیال میں اس سے مراد غیر سودی بینکاری ہے جس‬
‫کے بارے میں عالمی ماہرین معیشت کم و بیش اس بات پر متفق ہیں دکھائی دیتے‪ m‬ہیں کہ سودی بینکاری کی بجائے‬
‫غیر سودی بینکاری میں رقوم کا تحفظ اور منافع کی شرح دونوں زیادہ ہیں‪ ،‬یعنی نقصان کا اندیشہ کم اور نفع کا‬
‫امکان زیادہ ہے۔ چنانچہ عالمی مالیاتی ادارے اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں ح ٰتی کہ کہا جا رہا ہے کہ غیر سودی‬
‫بینکاری کا مرکز بننے‪ m‬کے لیے اس وقت پیرس اور لندن میں کشمکش جاری ہے اور اس سلسلہ میں برطانیہ کے‬
‫سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اپنے دور میں ایک کانفرنس بھی کر چکے ہیں ۔ جبکہ بعض اخباری رپورٹوں کے‬
‫مطابق روس کی پارلیمنٹ میں بھی کچھ عرصہ قبل ایک پرائیویٹ قرارداد زیربحث آچکی ہے جس میں کہا گیا ہے‬
‫کہ روس میں غیرسودی بینکاری کے فروغ کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔‬

‫اس سلسلہ میں میرے ذہن میں ایک خلجان ہے جس کا متعدد فورموں پر اظہار کر چکا ہوں کہ رسک کم اور نفع‬
‫زیادہ کی بنیاد پر کی جانے والی غیر سودی بینکاری کو کیا اسالمی بینکاری قرار دیا جا سکتا ہے؟ مجھے اس میں‬
‫تامل ہے اس لیے کہ اسالمی معیشت کی بنیاد عقیدہ‪ ،‬اخالقیات اور سوسائٹی کے وسیع تر سماجی مفادات پر ہے جبکہ‬
‫مغرب کی یہ غیر سودی بینکاری محض مالیاتی مفادات کا پس منظر رکھتی ہے۔ اسالم میں مفادات کا حصول ثانوی‬
‫درجہ رکھتا ہے جبکہ عقیدہ و اخالق کے ساتھ ساتھ سوسائٹی کی مجموعی دیانت اور وسیع تر سماجی مفاد کا تحفظ‬
‫اسالم کے مقاصد میں اولین حیثیت کا حامل ہے۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ محض غیر سودی بینکاری اور‬
‫اسالمی اصولوں پر مبنی غیر سودی بینکاری میں فرق کو واضح کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ عقیدہ و اخالقیات کی‬
‫ب زر اور لوٹ کھسوٹ کا ایک اور ذریعہ بن سکتی ہے۔‬ ‫سماجی بنیادوں کے بغیر غیر سودی بینکاری خدانخواستہ جل ِ‬

‫دوسری گزارش میں نے یہ کی کہ پاکستان میں اسالمی بینکاری کے حوالہ سے جو کام ہو رہا ہے اس کے بارے میں‬
‫ہم افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف کلی مخالفت اور دوسری طرف مکمل حمایت پائی جاتی ہے۔ اس سے حق‬
‫کی تالش کی بجائے گروہ بندی کی صورت بن سکتی ہے جس سے ہمیں بہرصورت بچنا چاہیے۔ اسالمی بینکاری‬
‫کی مروجہ صورت کو میں موجودہ سودی نظام معیشت کی دلدل سے نکلنے کا ایک راستہ سمجھتا ہوں اور اصالح‬
‫احوال کی بتدریج محنت کا ایک ناگزیر مرحلہ تصور کرتا ہوں اس لیے کہ دلدل کے درمیان سے نکلنے کے لیے‬
‫بہرحال دلدل میں سے ہی گزرنا ہوتا ہے اور موجودہ سسٹم کی اصالح اسی سسٹم کے ڈھانچے میں رہ کر ہی کی جا‬
‫سکتی ہے۔ لیکن یہ کوئی آئیڈیل صورت نہیں ہے اور اسے آخری منزل سمجھنا درست نہیں ہوگا۔‬

‫صہیب احمد کا کہنا تھا کہ انہوں نے مختلف علمی اداروں میں اس موضوع پر کام ہوتے دیکھا ہے جو بہت اچھا ہے‬
‫لیکن انہیں یہ خدشہ ہے کہ سسٹم کی تبدیلی کی بجائے اس کی مختلف صورتوں کے لیے جواز تالش کرتے رہنے کا‬
‫ذوق کہیں مستقل صورت اختیار نہ کر جائے۔ میں نے ان کے اس خدشہ سے اتفاق کیا اور گزارش کی کہ اس سلسلہ‬
‫میں تربیت دینے والے حضرات سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ سودی‬
‫بینکاری اور مروجہ اسالمی بینکاری کے درمیان طریق کار اور نتائج کے لحاظ سے کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا‪ ،‬ان‬
‫کی اس بات کا جواب نظری اور علمی دالئل سے زیادہ عملی نتائج اور فرق کی صورت میں سامنے النا ضروری‬
‫ہے۔ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ اس سب کچھ کے باوجود اس پریکٹس کی حوصلہ افزائی اور اس کے ساتھ ساتھ‬
‫اصالح احوال کے لیے عملی تجاویز ضروری ہیں جس کے لیے بینکاری کے نظام میں کام کرنے والے پختہ دینی‬
‫ذہن و مزاج کے تجربہ کار حضرات کو تالش کرنا چاہیے اور مشاورت و معاونت کا ایک وسیع نیٹ ورک منظم‬
‫کرنا چاہیے۔‬

‫اس حوالہ سے ایک گزارش یہ بھی تھی کہ پاکستان میں سودی نظام کے خاتمہ اور دستور کے مطابق غیر سودی‬
‫نظام کی ترویج کی جدوجہد کو دینی حلقوں اور جماعتوں کی مجموعی سرپرستی اور پشت پناہی حاصل نہیں ہے جو‬
‫بہرحال افسوسناک امر ہے۔ کچھ حلقے اس سلسلہ میں محنت کر رہے ہیں جو الئق تحسین ہے مگر ملک میں‬
‫مجموعی فضا نہیں بن رہی۔ یہ فضا دو حوالوں سے قائم کرنا ضروری ہے‪ ،‬ایک علمی اور فکری حوالہ سے کہ‬
‫وفاقی شرعی عدالت میں فقہی یا فنی طور پر جو اشکاالت سامنے الئے گئے ہیں اگرچہ ان کا تفصیلی جواب عدالت‬
‫کے فورم کے سامنے بار بار آچکا ہے جو مدلل بھی ہے اور مؤثر بھی ہے لیکن عوامی و دینی حلقوں میں اس کی‬
‫کوئی صدائے بازگشت سنائی نہیں‪ m‬دے رہی جو زیادہ تر خطباء‪ ،‬مدرسین اور اساتذہ کا کام ہے۔ اور دوسری بات یہ‬
‫کہ قومی سیاست میں متحرک دینی جماعتوں کی دلچسپی اس مسئلہ میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ دینی سیاسی‬
‫جماعتیں ملک میں نفا ِذ اسالم کے نعرہ کے ساتھ سرگرم عمل ہیں جبکہ نفا ِذ اسالم کی راہ میں حائل سب سے بڑی‬
‫رکاوٹ سودی نظام ہے جس کے خالف عوامی بیداری کی پرجوش تحریک کی ضرورت ہے جو دینی جماعتیں ہی‬
‫منظم کر سکتی ہیں اور انہیں اس کے لیے تحریکی ماحول بنانے کی محنت کرنی چاہیے۔‬

‫بہرحال غیر سودی بینکاری کے حوالہ سے علمی کام کرنے والے ایک فاضل نوجوان کے ساتھ فکری نشست میں‬
‫تعالی ہم سب کو ایسے دینی کاموں‬
‫ٰ‬ ‫کچھ باتیں سامنے آئیں جو قارئین کی خدمت میں پیش کر دی ہیں‪ ،‬دعا ہے کہ ہللا‬
‫میں صحیح رخ پر محنت کرنے کی توفیق سے نوازیں‪ ،‬آمین یا رب العالمین۔‬

You might also like