اسالمی بینکاری کے حاملین اور ناقدین کے افکار کا تجزیاتی مطالعہ
اسالمی بینکاری کی تاریخ
سود سے پاک اس المی بینک اری کی ت اریخ زی ادہ پ رانی نہیں ہے۔ پہال س ود س ے پ اک بینک ’مت غمر سوشل بینک‘ کے نام سے مصر میں 1963میں قائم ہوا۔ اس بینک نے روع کی ا۔زراعت کے لیے فن ڈز جم ع ک رنے اور قرض ے ف راہم ک رنے تک ا کاروب ار تشق ت 1975میں دبئی اسالمک بینک قائم ہوا اور اسی سال OICکے حت اسالمی ر ی ا ی ب ی ن ک ئ ن کی ب ی اد رکھی گ ی ۔ 1983میں ’’اسالمک بینک آف بنگلہ دیش‘‘ کا قیام عمل میں ٓایا اور اسی کے ساتھ اسالمی بینکوں کے لیے دنیا بھر میں دوڑ شروع ہ و گ ئی۔ ای ک ان دازے کے مط ابق دنی ا کے 51مس لم اور غ یر مس لم ممال ک میں تقریب ًا 260اس المی بین ک موجود ہیں۔ جس میں پاکستان اور کچھ دوسرے ممالک میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں بہت سے سود سے پاک بینک کام کر رہے ہیں جن میں بینک االس المی ،دب ئی اس المک بینک ،داؤد اسالمی بینک اور م یزان بین ک وغ یرہ ش امل ہیں۔ اس وقت مل ک بھ ر میں 977برانچوں کے نیٹ ورک کے ساتھ 5مکمل اسالمی بینک اور 13روایتی بین ک ہیں جن کی اس المی بینک اری کی ش اخیں موج ود ہیں ج و اس وقت پاکس تان کے مجم وعی بینکاری نظام کا 8فیصد سے زیادہ ہیں۔ اسالمی بینکاری کے جواز اور عدم جواز کے حوالے سے اراء موجودہ دور میں سود س ے پ اک بینکن گ میں تع اون اور ش رکت کے س وال پ ر عص ر حاضر کے علماء کو تین گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہال گروہ پہال گروہ ان علماء کا ہے جو موجودہ سود سے پاک بینکن گ ک و نہ ص رف قاب ل قب ول سمجھتے ہیں بلکہ ان کی اکثریت ان بینکوں کے شرعی مشیر کے ط ور پ ر ک ام ک رتے ہ وئے ان کے نظ ام ک ا حص ہ بن چکی ہے۔مف تی محم د تقی عثم انی اس گ روپ کے سرپرست ہیں اور انہوں نے اپنی کتاب 'این انٹروڈکشن ٹ و اس المک فن انس' میں بالس ود بینکاری کے بنیادی اصولوں کی وضاحت کی ہے۔ بعد ازاں اس کتاب کا ترجمہ اسالمی بینکاری کی بنیادوں کے نام سے موالنا محمد زاہد نے کیا۔ جب معاصر علماء کی طرف سے سود سے پاک بینکاری کے ب ارے میں دیگ ر آراء س امنے آئیں جن میں اس پ ورے نظام کو غیر منصفانہ اور ناقص قرار دیا گیا تھا ،تو مفتی تقی عثمانی نے سود سے پاک بینک اری کے دف اع میں (بالس ود بینک اری :متعلقہ فقہی مس ائل اور اعتراض ات ک ا جائزہ)کے نام سے کتاب لکھی۔ مفتی تقی کے ادارہ جامعہ دارالعلوم کراچی میں 'س ینٹر فار اس المک اکن امکس' کے تحت 'ای ک مس تند انس ٹی ٹی وٹ آف اس المک بینکن گ این ڈ انش ورنس' کے ن ام س ے ای ک اکی ڈمی ہے ج و مف تی تقی عثم انی کی رہنم ائی بالس ود بینکاری کے متعدد کورسز کروا رہی ہے۔ مفتی تقی عثم انی ص احب کے بی ٹے ڈاک ٹر اشرف عثمانی نے بھی کتاب ’’م یزان بینکس گائی ڈ ٹ و اس المک بینکن گ‘‘لکھی۔ اس ی طرح جامعہ دارالعلوم کے مفتی اعجاز احم د ص مدانی نے اس المی بینک اری کے ج واز کے لئے ’’اسالمی بینکوں میں رائج مضاربہ کا طریقہ کار اور اسالمی بینکار ی :ای ک حقیقت پسندانہ جائزہ کے نام سے کتاب لکھی‘‘۔ انہوں نے ایک کت اب بھی تص نیف کی جس ک ا عن وان ہے ’’تکاف ل :انش ورنس ک ا اس المی ط ریقہ‘‘۔ اس گ روپ کے مط ابق اسالمی بینکنگ اپنے مقاصد اور عمل دون وں میں درس ت ہے ح االنکہ اس کی موج ودہ طرز عمل کو مثالی نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ اس حد تک اسالمی ہے کہ اس سے کم ائی حالل ہے۔ دوسر ۱گروہ دوسرے گروہ کے علماء کا خیال ہے کہ موجودہ اسالمی بینکنگ اسالمی فقہ اور ق انون کے مطابق غلط یا حرام ہے اور اس کی بنیاد ایسی غیر شرعی حیلوں پ ر ہے ج و اس ے روایتی بینکاری کے برابر یا اس سے بھی زیادہ بناتےہیں۔ وفاق المدارس الع ربیہ (ب ورڈ آف سیکنڈری ،ہائر سیکنڈری اینڈ گریجویٹ اسٹڈیز فار اسالمک مدارس) کے ص در اور مفتی تقی عثمانی رحمۃ ہللا علیہ کے سرپرس ت م والنہ س لیم ہللا خ ان کی سرپرس تی میں 28؍ اگس ت 2008ء ک و ک راچی میں مل ک بھ ر کے فقہ اء اور علم اء کی ای ک روزہ کانفرنس ہوئی جس میں متفقہ فت وٰی کے ذریعے موج ودہ اس المی بینک اری ک و اس المی شریعت سے متصادم قرار دیا گیا۔ بعد ازاں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فتاوٰی مرکز میں مروجہ اسالمی بینکاری:تجزیاتی مطالعہ ،شرعی جائزہ :نقد وتبصرہ کے نام س ے ایک کتاب مرتب کی گئی۔ جس میں اسالمی بینکاری کی فقہی اور قانونی بنی ادوں پ ر تنقی د کی گ ئی ۔ج امعہ م دنیہ الہ ور س ے مف تی ڈاک ٹر عب د ال و واد نے بھی’’م روجہ اس المی بینک اری کی چن د خرابیاں‘‘کے عنوان کے تحت ایک کتاب مرتب کی ہے۔ جس میں مفتی تقی عثم انی اور ڈاکٹر اشرف عثمانی کے معاشی نظریات پر تبصرہ اور تنقی د کی گ ئی۔ مف تی حمی د ہللا جان نے اسالمی نظام معیشت کے تصور میں موجودہ اسالمی بینکی گ پ ر ای ک تحقیقی فتوٰی کے عنوان س ے کت اب لکھی۔ اہ ل ح دیث علم اء کی ج انب س ے موج ودہ اس المی بینک اری کے خالف متفقہ فت وٰی ج اری ہ وا۔ اب وہریرہ اکی ڈمی الہ ور کے ش یخ الح دیث ذوالفق ار علی نے اپ نی دو کت ابوں دور حاض ر کے م الی مع امالت ک ا ش رعی حکم اور ’’معیشت اور تجارت کے ش رعی احک ام ‘‘میں اس المی بینک اری پ ر ق رٓان و س نت کی روشنی میں علمی تنقید پیش کی ہے۔ اس گروہ کے مطابق اسالمی بینکاری کے مقاصد درست ہیں لیکن طریقہ کار اور نظ ام غلط ہے۔اس طرح ،یہ علماء عام طور پر موجودہ اسالمی بینکاری کے نظام اور ط ریقہ کار پر تنقید کرتے ہیں اور اس سلسلے میں مختلف فقہی اختالفات ک ا علمی ج ائزہ لی تے نظر آتے ہیں ۔ تیسرا گروہ تیسرا گروہ ان علماء پر مشتمل ہے جو اسالمی بینک اری ک و سراس ر غل ط ،ناج ائز اور ناقابل عمل تجویز سمجھتے ہیں۔ ان کے نقطہ نظر سے اس المی بینک اری اپ نے مقاص د اور طرز عمل دونوں لحاظ سے ایک غیر اسالمی چیز ہے اور اس کا اسالمی ہونا ای ک ناممکن نظریہ ہے۔ معروف معاشی ماہر جاوید اکبر انصاری اس نقطہ نظر کے ترجمان ہیں۔ ان کے ایک شاگرد ،زاہد صدیق مغل نے اس نقطہ نظر کی حمایت میں ای ک کت اب ’’اسالمی بنکاری و جمہوریت :فکری پس منظر اور تنقیدی جائزہ ‘‘کے نام سے م رتب کی ہے۔ یہ علماء ،جزوی یا فقہی تنقید کے بجائے ،اسالمی بینکاری کو میکرو اکنامکس ،مغ ربی معاشی نظری ات ،ع المی س رمایہ داری اور اس المی ش ریعت کے مقاص د کی مجم وعی معروضیت میں دیکھتے ہیں۔ وہ اس معاملے کی کھوج کرتے ہیں کہ بین ک محض ای ک تنظیم نہیں ہے۔ یہ عالمی سرمایہ داری کی بنیادی اکائی ہے ،جو جمہوری سیاس ی نظ ام کا معاشی وژن ہے۔ اس پس منظر میں بینک کو اینٹوں اور گارےسے بنی عم ارت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے ،بلکہ یہ مغربی ذہنیت ،فلس فہ ،ثق افت اور تہ ذیب کی عالمت ہے۔ ایسے اداروں کو محض ثقافت کی ترقی کے طور پ ر بن د آنکھ وں کے س اتھ قب ول نہیں کی ا جان ا چ اہیے کی ونکہ ان میں ان کی فک ر اور تہ ذیب بھی ش امل ہے۔ جیس ا کہ انگریزی زبان کی تعلیم کے ساتھ ہوت ا ہے ،یہ ص رف ای ک زب ان کی تعلیم ت ک مح دود نہیں ہے۔ یہ ادب ،مغربی فک ر ،فلس فہ اور ثق افت کے ن ام پ ر بھی منتق ل ہوت ا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفکر پاکستان عالمہ اقبال رحمۃ ہللا علیہ نے بینکنگ سس ٹم کے ب ارے میں کہا تھا کہ ’’یہ بینک چاالک یہودیوں کی سوچ ہیں اور انہوں نے انسان کے س ینے س ے حق کی روشنی چرا لی ہے۔ جب تک آپ اس نظام ک و ج ڑوں س ے نہیں اکھ اڑ پھینکیں گے ،آپ کا مذہب ،آپ کی ثقافت اور آپ کی عقل خام ہے (بال جبریل )2006۔