Professional Documents
Culture Documents
ت خداوندی نازل ہوئے اور بتالیا گیا کہ اب ظلم و زیادتی برداشت نہ کی جائے اور جب ۱۲صفر ۲ہجری کو احکاما ِ
آلہ و سلم نے جنگی کاروائیوں میں حصہ لیا۔ ٖ و علیہ اہللا صلی اکرم حضور بعد بلکہ مقابلہ کیا جائے ۔ ان احکامات کے
آپ جنگوں میں مصروف رہے ۔ جو جنگ میں یہ حضور ؐ کا مدنی دور ہے جس میں دو ہجری سے آٹھ ہجری تک ؐ
حضور اکرم ﷺ بہ نفس نفیس شریک رہے وہ غزوہ اور جس میں مجاہدین کو روانہ کرتے وہ سریہ کہالتی ہے ۔
آلہ و سلم نے جن جنگوں میں یا غزوات میں بحیثیت سپہ ساالری کے فرائض اس طرح حضور اکرم صلی اہللا علیہ و ٖ
انجام دیئے ان کی تعداد ۲۷ہے۔ اور اہللا رب العزت نے ہر مرحلہ اور غزوہ میں کامیابیوں سے نوازا اور آپ ؐہر
غزوے میں کچھ نہ کچھ نمایاں کام انجام دیتے رہے ۔
غزو ٔہ بدر میں حضور اکرم ﷺ نے دشمن کی عسکری طاقت کو خاطر میں نہ التے ہوئے اپنی چھوٹی سی جماعت کے
ساتھ مقابلہ کیا اور صحابہ کو ہدایتیں دینکہ جنگ میں اپنی طرف سے پہل نہ کرنا ،دشمن دور ہوں تو پتھروں سے ،
قریب آنے پر تیروں سے اور قریب آنے پر نیزوں سے اور دو بدو ہو تو تلواروں سے مقابلہ کریں۔ عورتوں اور بچوں
کو نہ مارا جائے ۔ جو مقابلے کیلئے آئے اس سے ہی مقابلہ کیا جائے ۔ پھر آپ ؐ نے صف بندی کروائی جس کی ابتداء
مسلمانوں کو نماز ہی کی حالت میں سکھائی گئی تھی ۔ جنگ بدر میں پہلی مرتبہ صف بندی ہوئی جس کا دشمن تصور
بھی نہیں کرسکتا تھا ۔ اس سے پہلے جنگ کی یہ حالت ہوتی جو جس کے سامنے آجاتا اس سے لڑائی ہوتی ۔
اس جنگ میں حضور نے ہواؤں کاخیال رکھا ،اس لئے کہ مخالف ہوا تیروں کو ضائع نہ کرے ،سورج کی شعاعوں کا
بھی خیال رکھا گیا کہ کہیں آنکھیں چندیا نہ جائیں اور کامیابی حاصل کی ۔
غزو ٔہ اُحد میں دشمن کے حرکات اور سکنات سے باخبر رہنا ۔ ان کی عسکری طاقت سے واقفیت حاصل کرنا ۔ صحابہ
کرام ؓ سے مشورہ کرنا ۔ کم عمر بچوں کو جنگ میں شریک نہ کرنا ،میدان کارزار کا انتخاب کرنا ۔ احد پہاڑ کو
پیچھے رکھنا تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرے اور شہر مدینہ کو سامنے رکھنا کہ اگر دشمن اہل مدینہ کی عورتوں
اور بچوں کو کوئی نقصان پہنچائے تو میدان کارزار سے ہی اس کو دیکھ لینا اور فیصلہ کرتے ہوئے اس کا سدباب
کرنا ۔
غزو ٔہ خندق سے پہلے ان کی تیاریوں سے واقفیت حاصل کرتے ہوئے صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کرنا اور خندق کی
کھدائی کرتے ہوئے دشمن کی طاقت کو توڑنا تاکہ دشمن کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے ۔
صلح حدیبیہ میں دشمن مسلمانوں کی طاقت سے مرعوب ہوکر معاہدہ کرنے کیلئے آنا اور معاہدہ کرنا ۔
خیبر کے محاصرے کے بعد مقابلہ میں نئے ہتھیار منجنیخونسے جو دبابے کی شکل میں قلعوں میں دراڑ ڈالنے کا کام
کرتی ہیں استعمال کرنا ۔
فتح مکہ میں اپنی عسکری طاقت کو اتنا زیادہ کردینا کہ دشمن ہتھیار اُٹھانے کی جرأت بھی نہ کرے ۔ نہ صرف یہ بلکہ
ان کی معاشی ناکہ بندی بھی کرنا ۔ نہ صرف یہ بلکہ صحابہ کرام و مجاہدین کو اپنے خیموں کے سامنے آگ کے االو
دو دو جگہ لگانے کا حکم دینا تاکہ دشمن مجاہدین کی تعداد کا اندازہ ہی نہ لگاسکے ۔
غزوہ تبوک میں دشمن کے مقام تک پہنچ کر آمادہ جنگ کرنا لیکن دشمن مقابلہ کیلئے باوجود تعداد سامان جنگ رکھنے
کہ نہ آسکا جس سے مسلمانوں کو بڑا فائدہ پہنچا اور سارے لوگ جو اس وقت رومیوں سے مرعوب تھے مسلمانوں
کی صف میں آنے لگے ۔
آپ اقوام عالم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو ایسا (حضور اکرم ﷺ جیسا ) سپہ ساالر نظر نہ آئے گا بلکہ دو ایک
جنگ میں کامیابی ہوگی اور بس !
مگر ۲۷ستائیس جنگوں کی قیادت اور سپہ ساالری کرنے والے فاتح اعظم پر نظر ڈالیں تو صرف کامیابی ہی کامیابی
نظر آئے گی ۔ اس لئے کہ ایک سپہ ساالر میں جو خوبیاں ہونی چاہئے وہ یہ ہے :عورتوں اور بچوں ،بوڑھوں ،
بیماروں کو قتل نہ کیا جائے ۔ بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے ،نہ ان کا مال لوٹا جائے ،جو مقابلہ میں نہ آئے انُ
پر حملہ نہ کیا جائے ۔
سپہ ساالر سب سے قوی ہو ،میدان کارزار سے واقف ہو ۔مشورہ طلب کرنے واالہو ،مشورے پر عمل کرنے واال ہو ،
فوری فیصلہ کرنے واال ہو ،دشمن اگر صلح کرنا چاہے تو فوری معاہدہ ہو ،دشمن کی طاقت کا اندازہ کرنے واال ہو ،
جدید ہتھیاروں سے واقف ہو اور چالنے کی صالحیت رکھنے واال ہو اور اہللا رب العزت نے اپنے حبیب کو ان تمام
نعمتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ یہ مقابلہ میں استقامت کی ایک جھلک ہے اور جب کامیابی اور کامرانی حاصل ہوگئی
تو پھر عفو اور درگذر سے اپنے دشمنوں کو معاف کرنا یہ حضور اکرم ؐ کی زندگی کا سب سے زیادہ نمایاں باب ہے ۔
اس سے فائدہ یہ ہوا کہ وہ پتھر دل انسان موم بن کر پگھلنے لگے اور اسالم چاردانگ عالم میں پھیل گیا ۔ اس کے بعد
آپ کے جانشینوں نے بھی اس پر عمل کیا اور اپنی علحدہ تاریخ بنوائی ؐ