Professional Documents
Culture Documents
رول نمبرCA45658:
اسائنمنٹ نمبر()2
() 3دوران تدریس استاد جو حکمت عملی اختیار کرتا ہے اسے تدریسی حکمت عملی یا طریقہ تدریس کہتے ہیں۔تدریسی طریقہ ک ار
معلومات کی منتقلی اورطلبہ میں علم س ے محبت و دلچس پی پی دا ک رنے میں اہم ک ردار ادا کرت ا ہے۔ت دریس دراص ل معلوم ات کی
منتقلی کا نام نہیں ہے بلکہ طلبہ میں ذوق و شوق کو پیدا کرنے کا نام ہے۔ طلبہ میں علم کا ذوق و شو ق اگر پی دا کردی ا ج ائے تب
اپنی منزلیں وہ خود تالش کرلیتے ہیں۔ایک کامیاب استاد اپنے طریقہ تدریس سے طلبہ میں معلومات کی منتقلی س ے زی ادہ ش وق و
ذوق کی بیداری کو اہمیت دیتا ہے۔وہ تدریسی حکمت عملی اور طریقہ کار کامیاب کہالتا ہے جو بچوں میں اکتساب کی دلچسپی ک و
برقرار رکھے ۔اساتذہ طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کی برقراری کے لئے تدریسی معاون اشیاء(چ ارٹ،نقش ے،خ اکے،تص اویر،قص ے
،کہانیوں،دلچسپ مکالموں اور فقروں) کو اپنی تدریسی حکمت عملی میں شامل رکھیں۔
()4اختیار کردہ تعلیمی پروگرام اور سرگرمیوں کے پہلے سے ط ئے ش دہ مقاص د ہ ونے چ اہیئے۔ اور ان مقاص د کے حص ول کے
لئے مناسب الئحہ عمل کے تحت اساتذہ ک و تعلیمی س رگرمیوں ک و منتخب ک رنے کی ض رورت ہ وتی ہے۔مب نی ب ر مقاص د تعلیمی
سرگرمیاں تعلیمی اقدار کی سربلندی اور ب امعنی اکتس اب میں بہت مع اون ہ وتی ہیں۔تعلیمی س رگرمیاں تعلیمی مقاص د س ے مرب وط
ہونی چاہیئے۔ورنہ تعلیمی مقاصد کا حصول اور بامقصد اکتساب دونوں بھی ناممکن ہوجاتے ہیں۔
() 5اساتذہ تدریسی تنوع کے لئے جہاں مختلف سرگرمیوں سے کام لیتے ہیں وہیں تدریس کے دوران انھیں ایک بات کا خاص خی ال
رکھنے کی ضرورت ہو تی ہے اور یہ توجہ تدریس کا سب س ے اہم اص ول ہے اور وہ ہے بچہ کی انف رادیت ک ا اح ترام ۔بچے کی
انفرادیت اور اس کی شخصیت کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اساتذہ کو تدریسی خدمات انجام دینی چ اہیئے۔دوران ت دریس بچے کی
انفرادیت اور اس کے اکتسابی تنوع ()Learning Diversitiesکا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہ وتی ہے۔کی ونکہ ہ ر بچے کی
ذہنی صالحیت ،ذہانت ،جذباتیت ،احساس دلچسپی اور ضروریا ت میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ان تمام ام ور ک و م د نظ ر رکھ تے
ہوئے اساتذہ کو تدریسی فرائض انجام دینا ضروری ہوتا ہے۔اساتذہ جب طلبہ کی شخصیت اور انفرادیت ک و ملح وظ خ اطر رکھ تے
ہوئے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں تب استاد اور شاگرد میں ایک اٹوٹ وابستگی پیدا ہوج اتی ہے اور کن د ذہن س ے کن د ذہن ط الب
علم بھی تعلیم میں دلچسپی لی نے لگت ا ہے ۔طلبہ کی انف رادیت اور اکتس ابی تن وع ک ا خی ال رکھ نے س ے ای ک بہت ہی خ وش گ وار
تدریسی اور اکتسابی فضا جنم لیتی ہے۔اور اس فضاء میں ہ ر بچہ خ ود ک و نہ ایت اہم اور خ اص تص ور ک رنے لگت ا ہے۔ تعلیمی و
تدریسی حکمت عملی اختیار کرتے وقت اساتذہ طلبہ کے تنوع اور انفرادیت کا بطور خاص خیال رکھیں ۔
() 6موثر تدریس ،بہتر اکتساب اور طلبہ میں تخلیقیت اور اختراعی صالحیتوں کی نمو و فروغ کے لئے اساتذہ تخلیقی اور اختراعی
طریقہ ہائے تدریس کو بروئے کار الئیں۔ طلبہ میں ہر قسم کی تخلیقی صالحیتوں ک و پ روان چڑھان ا ض روری ہوت ا ہے اور تخلیقی
می ں ایک اہم عنصر تصور کی جاتی ہے۔تخلیقی صالحیتوں کو فروغ دینے والی تدریس ی اقداربامقص د تدریس اس اہم کام کی تکمیل ٖ
اور ثمر آور اکتساب میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں۔
() 7سابقہ معلومات کا موجودہ علم سے ارتباط،نامعلوم کو معلوم سے مربوط کرنا،معلومات زندگی کو عملی زن دگی س ے جوڑن ا ہی
علم ارتباط ( )principal of correlationکہالتا ہے۔علم ارتباط کو فن ت دریس میں ری ڑھ کی ہ ڈی کی حی ثیت حاص ل ہے جس کی
بغیر علم بے مقصد اور فضول شئے بن جاتا ہے۔علم ارتباط کے ذریعہ معلوم ات ،دانش وری میں تب دیل ہوج اتے ہیں اور علم ہمیش ہ
ہمیشہ کے لئے طلبہ کے ذہنوں میں محفوظ ہوجاتا ہے۔علم ارتباط کی وجہ سے معلومات(علم ) نہ صرف محف وظ ہوج اتے ہیں بلکہ
وقت ضرورت معلومات کو بازیاب ( )Retention and Retreivalکرنے کی صالحیت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
()8ت دریس ک و معق ول م وثر اور طلبہ کے ل ئے دلچس پ بن انے کے ل ئے اس اتذہ ،بہ تر س ے بہ تر ط ریقہ ت دریس(Teaching
،)methodsتدریسی حکمت عملی( ،)teaching strategiesتعلیمی معاون اشیاء ()Teadching aidsاور دیگر وسائل کا بر موق ع
استعمال کرنے میں غایت درجہ کی احتیاط سے کام لیں۔موثر تدریس مناسب طریقہ تدریس کے انتخاب کا دوسرا نام ہے۔ اس ی ل ئے
اساتذہ کمرۂ جماعت ،طلبہ کی استعداد ،اور ذہنی تنوع کو مد نظر رکھتے ہوئے تدریسی طریقوں کا انتخاب کریں ۔
()9تعلیم و تدریس کا اہم مقص د طلبہ میں ص حت من د اق دار کی منتقلی ،ص حت من د روی وں ،ع ادات کی تش کیل و اس تحکام،نظم و
ضبط( )disciplineکا فروغ ،کردار سازی ،زندگی میں معاون مہ ارتوں اور ع زت نفس ک ا ف روغ ہے۔وہ تعلیم بامقص د اور کارآم د
تصور کی جاتی ہے جو ہر طالب علم کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ایک بامقصد اور کارآمد زندگی کے لئے کو
تیار کیا جاتا ہے ۔مذکورہ مقاصد کے پیش نظر درس و ت دریس ک و طلبہ کی شخص ی ت رقی ک ا ای ک اہم ذریعہ تص ور کی ا گی ا ہے۔
اساتذہ ایسی تدریسی حکمت عملی اور طریقوں کو بروئے کار الئیں جو طلبہ کی شخصی ترقی اور استحکام کا باعث بنے۔
()10اعادہ ()Recapitulationاور تعین قدر ،جانچ ()Evaluationکے ذریعے اکتساب کی ترقی اور ت دریس کی ت اثیر ک ا پت ا چلت ا
ہے۔ اسی لئے ایسی تدریس کامیاب تصور کی جاتی ہے جس میں طلبہ کی مسلسل جانچ اور اعادہ کی کنج ائش ف راہم کی ج اتی ہے۔
اس اتذہ م وثر ت دریس اور مس تحکم اکتس اب کے ل ئے اپ نی تدریس ی حکمت عملی میں ج انچ (تعین ق در) اور اع ادہ (
)Recapitualationکو الزما جگہ دیں۔مسلسل ج انچ و تعین ق در کے ذریعہ اس تاد طلبہ کی اکتس ابی ت رقی کی ج انچ و پیم ائش ک و
انجام دیتا ہے ۔جانچ و تعین قدر کے ذریعہ استاد طلبہ کی اکتسابی ترقی میں مانع عوامل سے واق ف ہوت ا ہے۔ ج انچ و تعین ق در ہی
اساتذہ کو اصالحی تدریس کے طریقے وضع کرنے میں مددفراہم کرتا ہے۔اساتذہ طلبہ کی جانچ و پیمائش کے بعد اصالحی ت دریس
کے ذریعہ اکتسابی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اساتذہ اپنی تدریسی سرگرمیوں میں طلبہ کی مسلسل
جامع جانچ ،اکتسابی ،اخالقی اور برتاؤ کی ترقی کے لئے مکمل گنجائش اور مواقع فراہم کریں۔
( ) 11طلبہ میں خوش گوار اکتساب کے فروغ کے لئے مختلف اوقات اور مراحل میں طلبہ کی نفسیات اور اپنی تدریس ی س طح پ ر
اساتذہ کا نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔نفسیاتی اور ذہ نی ص الحیتوں ک و پیش نظ ر رکھ ک ر اس اتذہ ط ریقہ ت دریس ک و اپن ائیں ت اکہ
تدریس کو طلبہ مرکوز بنایا جاس کے۔وہ ت دریس بہ تر م انی ج اتی ہے جس میں نفس یاتی عوام ل پ ر توجہمرک وز کی ج اتی ہے اور
نفساتی تقاضوں کے عین مطابق طریقہ تدریس اور تدریسی حکمت عملی وضع واختیار کی جاتی ہے۔
( ) 12تدریس عمل کو جدید تکنیکی و تخلیقی نظریات سیہم آہنگ ک رتے ہوئیمزی د بہ تر اورعص ری تقاض وں کے عین مط ابق بنای ا
جاسکتا ہے۔اساتذہ نئے تعلیمی رجحانات اور اختراعی و تکنیکی وسائل سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے اکتساب کے عمل کو پر کی ف
،پائیدار،موثر اور یاد گار عمل بنا سکتے ہیں۔تجربوں اور تجزیات پر مبنی تدریس نہ صرف موثر بلکہ پائیدار بھی ہوتی ہے۔تعلیمی
دنیا میں وقوع پذیر تبدیلیوں سے اساتذہ کا واقف ہونا ضروری ہے۔ اس اتذہ اپ نی ص الحیتوں ک و عص ری تقاض وں کے عین مط ابق
بناکر طلبہ کو تعلیمی عمل میں مزید فعال اور سرگرم بناسکتے ہیں۔عصری تقاضوں سے ن ا واق ف اس اتذہ معلوم ات میں اض افہ ت و
کجا طلبہ کی رہی سہی صالحیتوں کے بے دردانہ قتل کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ای ک بہ تر اس تاد ت دریس کے اساس ی پہل وؤں س ے
سرموئے انحراف کیئے بغیر نئے تدریسی تجربات و طریقوں کو ایجاد و اختیار کرتا ہے۔
تدریسی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے استاد نہ صرف اپنی تدریسی صالحیتوں کو فروغ دیت ا ہے بلکہ معی اری اکتس اب ک و پ روان
چڑھانے میں کامیابی بھی حاصل کرتا ہے۔تدریسی اصولوں پر عمل پیرائی کے ذریعہ مشکل اور گنجلک تدریسی مس ائل آس ان اور
سہل ہوجاتے ہیں۔ تدریسی اصول کے ذریعے نہ صرف استاد الجھن اور پریشانی سے محفوظ رہت ا ہے بلکہ طلبہ بھی تش کیک اور
تشویش سے مامون رہتے ہیں۔استاد کا میکانکی انداز میں سبق پڑھا نا طلبہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوت ا ہے۔ زم انے ق دیم س ے یہ
بات کہی جاتی رہی ہے کہ طلبہ میں علم حاصل کرنے کے لئے شوق و ذوق بہت ضروری ہے۔ میری نظر میں جس طرح حصول
علم کے لئے طلبہ میں شو ق و ذوق ضروری ہے بالکل اسی طرح موثر تدریس کے ل ئے اس تا د میں بھی ت دریس افع ال کی انج ام
دہی کے لئے شوق و ذوق اور جوش و جذبے ک ا پ ا ی ا ج ا ن ا نہ ایت ض روری ہے۔ط الب علم کی ذہ نی اس تعداد کی ط رح معلم کی
تدریسی لیاقت بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔اکثر و بیشتر طلبہ ہی امتحان اور آزمائش کے نام پر تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ بہت ہی
کم یا نہیں کے برابر اساتذہ کی تدریسی لیاقت اور استعداد کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ اکتساب کے زوال یاماند پڑھنے پر عموما
طلبہ کو لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے بہت کم اساتذہ کی تدریسی لغزشوں کی ط رف نگ اہ کی ج اتی ہے ۔اس حقیقت س ے مجھے
کوئی انکار نہیں ہے کہ فروغ علم اور اکتساب کے زوال میں طلبہ کی غفلت شامل حال ہے لیکن بد ک و ب دتر بن انے میں اس اتذہ ک ا
بھی کہیں نہ کہیں ہاتھ ہے۔ اس اتذہ کامی اب طلبہ ک و جس ش ان س ے اپ نی ک ارکردگی ک ا نم ونہ بن ا ک ر پیش ک رتے ہیں اس ی ط رح
ضروری ہے کہ وہ بچوں میں اکتساب کی مان دگی کے اس باب تالش ک رنے کیعالوہ اپ نے تدریس ی ط ریقہ ک ارکی خ امیوں ک ا بھی
جائزہ لیں۔اپنے تدریسی تجربات کی روشنی میں مجھے یہ ب ات کہ تے ک وئی ع ار محس وس نہیں ہورہ اہے کہ اس اتذہ اپ نی تدریس ی
جہالت کی بناء پر بچوں کی صالحیتوں کا قتل کر رہے ہیں۔حروف کی ترتیب و صوتیات س ے واق ف ف رد اس تاد نہیں ہوت ا ہے بلکہ
استاد طلبہ کے نفسیاتی ،معاشرتی مسائل کا ادراک رکھتا ہے ان کی س ابقہ معلوم ات اور ذہ نی ص الحیتوں اور اس تعداد ک و ملح وظ
رکھ کر اپنی تدریسی حکمت عملی وضع کرتا ہے۔بہتر ،کامیاب اور موثر تدریس کی انج ام دہی کے ل ئے اس تاد ک ا الئ ق ،قاب ل اور
تربیت یافتہ ہونابہت ضروری ہے۔ اساتذہ درس و تدریس کے جدی د نظری ات اور تکین ک س ے خ ود ک و آراس تہ ک رتے ہ وئے ای ک
جہالت سے پاک معاشرے کی تعمیر میں نمایا ں کردار انجام دے سکتے ہیں۔
لئے استاد کے عالوہ کئی ذرائع بھی دستیاب ہیں۔ان حاالت میں اگر استاد کا علم اور معلومات سطحی ہوں گے تب یہ معلومات طلبہ
کے لئے کوئی دلچسپی اور کشش کا باعث نہیں ہوں گے اور اس تاد کی علمی حی ثیت طلبہ کی نظ روں میں بے وقعت ہوج ائے گی۔
کمرۂ جماعت میں استاد کی موثراور پر کیف تدریس کا انحصار اس کے تبح ر علم ،مض مون و موض وع کی معلوم ات پ ر عب ور و
دسترس اور تدریس کی مہارت پر ہوتا ہے۔ مضمون و موضوع کے علم پر عبور و مہارت پیشہ تدریس سے وابستہ افراد کے ل ئے
نہایت ضروری تصور کی جاتی ہے تاکہ طلبہ اپنے استاد کے علم و فضل کی قدر کر یں اور استاذی کا مق ام و م رتبہ بلن د ہ و۔طلبہ
کے نزدیک علم و فن کا دوسرا نام استاد کی شخصیت ہوتی ہے۔استاد اپنے علم کی گہرائی ،گیرائی اور نفس موضوع س ے انص اف
کرتے ہوئے شاگردوں میں تشکیک کی فضاء کو ابھرنے نہیں دیتا ۔ استاد اگر اپنے مضمون اور موضو ع پر دس ترس نہ رکھت ا ہ و
تب اکتساب و آموزش (سیکھنے کا عمل) مج روح ہ وکر رہ ج اتی ہے۔ اس تاد اپ نی علمی بے م ائیگی کی وجہ س ے ذہین اور ہش یار
طلبہ کی علمی تشنگیکو دور کرنے سے قاص ررہتا ہے جس کی وجہس ے طلبہ ناامی د ی اور مایوس ی ک ا ش کار ہوج اتے ہیں۔اپ نے
موضوع اور مضمون پر عبور و دسترس رکھنے واال استاد طلبہ کو علم سے سیراب کرت ا ہے۔س یرابی علم س ے سرش ار طلبہ میں
اکتساب کی شرح ازخود بڑھنے لگتی ہے ۔اکتساب اور درس و تدریس غیر ارادی طور پ ر ای ک فع ال اور دلچس پ عم ل بن ج اتے
ہیں۔بقول ماہر تعلیم محمد اسحق مرحوم ’’ اچھا استاد پڑھانے میں بھی استاد ہوتا ہے۔‘‘ (تعلیم ایک تحری ک ) ۔ بہ تر درس و ت دریس
کے لئے ایک استاد کو اپنے علم و فن میں طاق ہونا ضروری ہوتا ہے۔ایک باکمال اس تا د نہ ص رف اپ نے مض مون میں کم ال پی دا
کرتا ہے بلکہ وہ اپنے علم اور طریقے تدریس سے طلبہ کے قلب و ذہن تک رسائی حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل ک ر لیت ا
ہے۔ماہر تعلیم ہمایوں کبیر کے مطابق پڑھانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک بھری بالٹی ک و خ الی ب الٹی میں ان ڈیل دی ا ج ائے۔م اہر
تعلیم وسابق صدر جمہوریہ ہند نے بھی تختہ سیا ہ سے یا درسی کتاب سے نقوش علم کی طلبہ کی نوٹ بک کی منتقلی ک و ت دریس
ماننے سے انکار کردیاہے۔ایک مثالی استاد اپنے علممیں وسعت پیدا کرنے کے لئے ہمیشہ کوش اں رہت ا ہے ۔اپ نے علم میں وس عت
پیدا کرتے ہوئے استاد طلبہ میں اکتساب کی فضاء کو پروان چڑھا تا ہے۔پڑھانے سے قبل اس ک و علم ہوت ا ہے کہطلبہ ک و کی ا اور
کس طرح پڑھا یا جائے ۔طلبہ کی بنیادی کمزوریوں کا علم بھی ا یک استاد کے لئے بے حد ضروری ہے۔ تاکہ ترس یل علم میں م ا
نع تما م عناصر کا وہ کامیابی سے سد باب کر سکے۔ایک کامیاب استاد کا ہر سبق تدریس کا فن پارہ ہوتا ہے۔ ذہین اور ہش یار طلبہ
کی جانب سے مضمون اور موضوع پر درسی نصاب کے عالوہ اٹھ ائے ج انے والے اش کاالت کے جواب ات دی نے کے ل ئے ای ک
استاد کو نصابی کتاب کی معلومات کا فی نہیں ہوتی ہے۔ذہین اور تعلیمی طور پر فعال اور ہش یار طلبہ کی ت دریس ای ک اس تاد کے
لئے مشکل اور پریشان اس وقت ہوجاتی ہے جب اس کو موضوع و مض مون پ ر عب ور حاص ل نہ ہ و اور نص ابی م واد کے عالوہ
اعلی معلومات تک اس کی رسائی نہ ہو۔طلبہ درسی کتب کے پڑھائے گئے مفروضے اور حروف فراموش کر دیتے ہیں لیکن استاد
کے پڑھا ئیگئے سبق اور مفروضوں کی سدائے بازگشت تمام عمر ان کے کانوں سے ٹکراتی رہتی ہے۔علوم کی ترس یل میں اس تاد
کا تبحر علم نہایت اہم وسیلہ ہوتا ہے اور یہ تبحر طلبہ کے ذہن و قلب میں ہمیشہ کے ل ئے مرتس م ہوجات ا ہے۔اس اتذہ کے ل ئے چن د
قابل قدر رہنمایانہ اصول بیان کیئے جارہے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر وہ پڑھائے جانے والے موض وع میں گہ رائی و گ یرائی پی دا
کرنے کے ساتھ درس و تدریس میں تنظیم و ترتیب پیدا کر سکتے ہیں۔
() 1اساتذہ پڑھائے جانے والے موضوع اور اس سے متعلق دیگر معلومات و مضامین کا پہلے ہی بغور مط العہ ک رلیں اور موض و
ع کی تدریس میں معاون نوٹس بھی تی ار کرن ا نہ بھ ولیں۔موض وع س ے متعل ق معلوم ات کے حص ول س ے اس اتذہ کومض مون اور
موضوع پر عبور و کمال حاصل ہوجات ا ہے اور درس و ت دریس میں تنظیم و ت رتیب پی دا ک رنے میں بھی وہ کامی اب ہوج اتے ہیں۔
درسی سرگرمیاں باقاعدگی سے انجام پانے لگتی ہیں ۔کمرۂ جماعت بوریت اور افتادگی کا شکار ہونے سے محفوظ رہتی ہے ۔درس
و تدریس کا سارا عمل ایک منصوبے اور نظام کے تحت انجام پانے لگتا ہے۔اکتس اب کی ش رح بھی مت اثر کن ح د ت ک ب ڑھ ج اتی
ہے۔
() 2اساتذہ مختلف تعلیمی و تدریسی وسائل کے استعمال کے ذریعہ مو ضوع اور مضامین کی معلومات میں گہرائی اور گیرائی پی دا
کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں۔موضوع اور مض مون کے ب ارے میں درس ی کتب میں ف راہم ک ردہ معلوم ات پ ر ہی اکتف ا نہ
کریں بلکہ مزید معلومات اور حقائق کے لئے غیر نصابی کتابوں کے مطالعہ سے اپنے علم و معلوم ات میں اض افہ ک ریں۔ہ ر وقت
اپنے طلبہ کو معیاری اور بہترین معلومات اور عمدہ علم کی فراہمی کو یقینی بنانا ایک استاد کا اہم فریضہ ہوتا ہے۔
()3اساتذہ مطالعہ کی عادت کو مستقل اپنا ش یوہ بن الیں۔مط العہ کی ک ثرت کی وجہ س ے ،علم میں وس عت اور گہرائیپی دا ہ وتی ہے۔
اساتذہ کے لئے تو مطالعہ سانس کی طرح اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ زندگی کے لئے سانس جیسے اہم ہے اسی طرح تدریسی زن دگی
کی ڈور بھی مطالعہ سے بندھی ہوئی ہے۔رسائل ،جرائد ،مضمون و موضوع سے متعلق کت ابیں ،ج رنلس ،تحقیقی مض امین و مق الہ
جات اور انٹرنیٹ پر دستیاب مواد کے مطالعہ کے ذریعہ اساتذہ پر اعتماد اور موثر تدریس کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
( ) 4اپنے ہم پیشہ دوستوں ،ساتھیوں ،مضامین کے ماہرین ،اپنے مضمون میں مہارت اور کمال رکھنے والے افراد س ے گفتگ و ک و
رواج دیں۔ باعلم اور باکمال افراد سے مالقات کا کوئی موقع ضائع نہ کریں ت اکہ علم میں اض افے کے س اتھ گہ رائی و گ یرائی پی دا
ہواورموضوع کے گنجلک و پیچیدہ نکات کی تفہیمسہلہو جائے۔
()5اپنے موضوع اور مضمون سے متعلق معلومات کو ضبط تحریرمیں الئیں ،اخبارات ،ر س ائل ،جرائ د اور میگ زین میں چھ پے
موضوع سے متعلق معلومات کو کاٹ کر تراش وں ک و محف وظ رکھیں۔ ۔اس ض من میں روزن امے ،اخب ارات ک افی اہمیت کے حام ل
ہوتے ہیں اور یہ معلومات کی فراہمی کا سب سے سستا ذریعہ بھی ہیں۔محف وظ ک ردہ تحری ری ن وٹس ،تراش وں ک و دوران ت دریس
کمرۂ جماعت میں ایک وسیل ِہ ،رسورس اور ریفرنس (حوالہ جاتی مواد) میٹریل کے طور پر استعمال کر یں۔
() 6معلومات کی ذخیرہ اندوزی ،مطالعہ کی وسعت ،جہاں موضوع و مضمون کے دانش ورانہ تفہیم و تج زیہ ک اذریعہبنتی ہے وہیں
طلبہ کی استعداد ،ذہنی صالحیتکے مطابق ذہانت کے فروغ،درس و ت دریس کی تنظیم و ت رتیب میں بھی یہ س رگرمی نہ ایت مم دو
معاون ثابت ہوتی ہے۔
( ) 7درس و تدریس کے لئے اساتذہ مضمون و موضوع سے متعلق ا پنی معلومات کو جب ترتیب و تنظیم میں لے آتے ہیں تب تم ام
طلبہ ،تعلیمی طور پر کمزور(سلو لرنر)،ذہین طلبہ(،)Gifted Studentsاور اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ کی تدریس بھی م وثر
اور آسانی سے انجام دی جا سکتی ہے۔موضوع پر عبور اور کمال کے ذریعہ اساتذہ طلبہ کی ذہنی صالحیتوں کو پیش نظر رکھتے
ہوئے موضوع کو آسان ،سہل اور معنی خیز بنا کر پیش کر تے ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں دانشوری فروغ پانے لگتی ہے۔
()8اپنے مضمون او رموضوع میں دلچسپی لینے س ے اس اتذہ میں بص یرت پی دا ہوج اتیہے جس کے وجہ س ے وہ م دلل اور م وثر
گفتگو سے کام لینے لگتے ہیں۔استدالل اور بصیرت کی روشنی میں وہ موضوع و مض مون کی ت دریس کے ل ئے اخ تراعی ط ریقہ
ہائے تدریس کو رواج دی تے ہیں۔طلبہ میں بحث و مب احث اور تج ربہ و تج زیہ کی کیفیت ک و پی دا ک رنے میں بھی کامی ابی حاص ل
کرتے ہیں۔
()9اساتذہ اپنی پیش ہ وارانہ اور مض مون کی معلوم ات میں تجدی د اور اض افے کے لی ئے ک وئی دقیقہ فروگزاش ت نہ رکھیں۔ اپ نے
مضمون میں نکھار پیدا کرنے والے اورینٹیشن پروگرام ،ورکش اپس ،ن ئے تعلیمی ،علمی و سائنس ی رجحان ات س ے واقفیت حاص ل
کرنے کے لئے ر ریفریشر کورسسز وغیرہ میں شرکت کریں تاکہ کمرۂ جماعت میں تدریس کو آسان اور مفید بنایا جاسکے۔
() 10پڑھائے جانے والے موضوعات کا وسیع او ر گہرا علم رکھتے ہوئے اساتذہ تمام طلبہمیں اکتس اب ک و یقی نی ط ور پ ر پ روان
چڑھ ا س کتے ہیں۔ وس عت علم کے ذریعے طلبہ کے اکتس اب کی ج انچ من ا س ب ان داز میں انج ام دے س کتے ہیں۔ وس یع معلوم ات
رکھنے کی وجہ سے بہتر اور موثر سواالت کرنے کے طریقوں سے واقف رہتے ہیں۔ اپنے تبحر علم کو ب روئے ک ار التے ہ وئے
کمزور طلبہ کو آسان اور سہل انداز میں معلومات و حقائق کو خاکوں اور فلو چارٹس کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔
()11موضوع کے متعلق وسیع معلومات کی وجہ سے درس و ت دریس میں جہ اں س ہولت پی دا ہ وتی ہے وہیں موض وع و مض مون
استاد کی یکتائی اور مہارت کمرۂ جماعت کے نظم و ضبط کو قابو میں رکھن ا ک ا ای ک اہم وس یلہ ہے۔اس تاد ک ا اپ نے مض مون میں
دس ترس کی وجہ س ے اخ تراعی ط ریقے ہ ائے ت دریس اور تخلیقی ت دریس ک و جگہ دی تے ہ وئے علمی نظری ات ک و اس تحکام اور
پائیداری فراہم کرتاہے۔
ہمیشہ استاد کا مضمون پر عبورا ور دسترس طلبہ کے ذہنوں پر خوش گوار اثرات کا موجب ہوتا ہے۔ مضمون پر کم ال اور عب ور
استاد کی عظمت و عزت کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔طلبہ مضمون میں دلچسپی لینے لگتے ہیں ۔صحت مند اکتساب و تعلیمی م احول
کے لئے استاذ کا اپنے مضمون اور موضوع پر مکمل عبور اور دستر س ضروری ہے
سوالنمبر 2#
ان تمام اقدامات کو واض77ح ک77ریں۔ جس کی روش77نی میں آپ پرائم77ری س77طح پ77ر نظم کی ت77دریس م77وثر
انداز سے کر سکیں۔
جواب :
پرائمری سطح پر تعلیم:
اصول اور عمل – گھریلو درس اصطالح "تدریسی طریقہ" میں نہ صرف عام تعلیم بلکہ مخصوص حصوں کو حل کرنے کے ل ئے
استعمال بھی شامل ہے.
جدید تدریس ی طریق وں کثیراالبع اد پیچی دہ تعلیمی رجح ان ہیں .ان کے نیچے اس مقص د ،آپریش ن اور حقیقت کی نظری اتی ی ا عملی
مفاہمت کی تکنیک کی ایک سیٹ ،،مخصوص مسائل کو حل کرنے کی تعلیم دی ڈسپلن کے لحاظ حصول کے لئے اختی ارات مطلب
لیا.
طریقہ کار کی تعلیم جس میں تعلیمی مواد کے عبور فراہم کرتا طالبہ کے عملی و علمی سرگرمی منظم کرنے کے استاد کی ٹارگٹ
اعمال کا ایک نظام ہے.
بہت سے روسی سائنسدانوں کسی بھی تعلیمی نظم و ضبط کی تعلیم پر ہے کہ تدریس کے طریقہ کار استاد کے پیشہ ورانہ کام کے
لئے اہم ذریعہ ہے یقین ہے کہ .یہ اس اتذہ کی ت ربیت اور ط الب علم س یکھنے اور علمی س رگرمیوں ،بلکہ ان کے درمی ان تعلق ات،
اسی طرح کی سرگرمیوں ،تعلیمی ،ترقیاتی ،تعلیمی تربیت کے مقاصد کو حاصل کرنے کا مقصد کے کام کی نہ صرف تنظیم م راد
ہے.
طلباء کی علمی سرگرمی چالو کرنے کے لئے ،استاد ایک استاد ،طالب علم ایک مضبوط بنیاد کا ک وئی علم س ے ،علم س ے جہ الت
سے آتا ہے جس کے ذریعے کے طور پر کام کرتا ہے.
اسکولوں میں تدریسی طریقوں کے مواد منطقی پہل و کے س اتھ منطقی ط ریقہ ہے جس میں ط الب علم وں ش عوری مہ ارت مہ ارت
حاصل ،علم ،مہارت حاصل ہے .فی الحال ،وہ تحریک کی ایک شکل ،تعلیمی مواد کے نفاذ پر غور کیا جا سکتا ہے.
موجودگی (عدم موج ودگی) کے علم کے ابت دائی اس ٹاک کی ت ربیت میں .اس گ روپ کے ط ور پ ر ،مخل وط ،تب ادلوں ،ب راہ راس ت
تدریسی طریقوں کے استعمال کی طرف سے خصوصیات.
نظریہ اور بولنے کی مہارت کی تشکیل کی پریکٹس کا تناسب .اس گروپ میں شعوری تقابلی عملی تربیت تکنی ک ک ا اس تعمال کی ا
جاتا ہے.
کسی بھی تعلیمی نظم و ضبط کا مطالعہ طالب علموں کے مخصوص ذہنی ریاستوں کے استعمال .اس سے ن رمی ،غص ہ مینجمنٹ،
نیند کی حالت میں استعمال سنبھالی ہے.
متبادل (تجویز) اور روایتی (معیاری) ٹیکنالوجی تعلیمی مضامین سیکھنے.
اس کے عالوہ طریقوں اور دونوں گروہوں میں تعلیمی سرگرمیوں کی تنظیم کے طریقہ کی طرف سے تقس یم کی ا ای ک غ یر ملکی
زبان کی تعلیم کی تکنیک .ذہنی انتظام کی سرگرمیوں استاد یا طالب علموں کو خود پر لے سکتے ہیں.
Didacticsمیں طلباء اور اساتذہ کی سرگرمیوں کی تفصیالت پر تدریسی طریقوں مختص .وہ یہ ہیں:
جغرافیہ ٹیچر میں فعال طور پر بصری ٹیبل کا استعمال کرتا ہے ،اور تاریخ کے بچوں تاریخی واقعات ایک دوسرے کے ساتھ کے
شاگردوں کے ساتھ ایک منطقی زنجیر کی تعمیر کے لیے جو بیان ایک ویڈیو پیش کرتا ہے.
کالس روم سماجی س ائنس لوگ وں میں مس ئلہ ح االت س ے ماڈلن گ کی ب دولت س ماجی اور تعلق ات ع امہ کے ب ارے میں معلوم ات
حاصل ،آزادانہ مخصوص کاموں کو حل ،استاد اس نظم و ضبط کی پیشکش کی.
ریاضی ،طبیعیات ،حیاتیات ،جغرافیہ ،علم کیمیا :سوئس Shovannالیگزین ڈر جب ط الب علم وں کی مہ ارت کی م ادری زب ان کے
طور پر اچھی طرح سے کے طور پر مستقبل کے پیشے کے انتخاب سے متعلق دیگر تعلیمی شعبوں تشکیل دیا جائے گ ا ،کے بع د
ہی مکمل تربیت شروع کرنے کے لئے ہے کہ اس بات پر یقین کیا گیا تھا.
وہ اسے اور غیر ملکی زبانوں کی ایک متوازی مطالعہ ،ک ئی تعلیمی ش عبوں کے کنکش ن کی بنی اد پ ر ک رنے کے ل ئے م دعو ک ر
رہے تھے .گرائمر کے خالصہ کا مطالعہ کرنے کے بجائے ،اس نقطہ نظر کے حاالت کی ایک قسم ،الفاظ کے جمع ہ و ج انے ک ا
تجزیہ شامل ہے .طالب علم ک افی ذخ یرہ الف اظ ق ائم کی گ ئی ہے کے بع د ہی ،اس تاد اس ب ات کی وض احت ک رنے کے ل ئے روانہ
نظریاتی بنیادیں.
جدید اسکول فارم اور سکھا طلباء کے طریقوں وضاحتی ،تالش ،مثالی ،مس ئلہ ،تحقی ق اقس ام میں س رگرمی کی ڈگ ری کے مط ابق
تقسیم کر رہے ہیں .ان کے اساتذہ بچوں کی انفرادی خصوصیات کے مطابق کئی تراکیب synthesizeکرنے کی کوش ش ک ر رہے
ہیں ،مختلف اشیاء کا استعمال.
،۔
تعالی علیہ فرماتے ہیں مجھے یاد ہے کہ میں 6سال کی عم ر مطالعہ سے جی نہیں بھرتا :عالمہ عبدالرحمن ابن جوزی رحمۃ ہللا ٰ
میں مدرسہ میں داخل ہوا سات سال کی ابھی عم ر تھی کہ میں ج امع مس جد کے س امنے می دان میں چال جای ا کرت ا تھ ا وہ اں کس ی
مداری یا شعبدہ باز کے حلقے میں کھڑا ہوکر تماشہ دیکھنے کے بجائے محدث کے درس میں شریک ہوتا وہ حدیث کی س یرت کی
جو بات کہتے وہ مجھے زبانی یاد ہو جاتی گھر آکر اس کو لکھ لیتا دوسرے لڑکے دریائے دجلہ کے کنارے کھیال کرتے تھے اور
میں کسی کتاب کے اوراق لے کر کسی طرف نکل جاتا اور الگ بیٹھ کر مطالعہ میں مشغول ہو جاتا ۔
میں اساتذہ اور بچیوں کے حلقوں میں حاضری دینے میں اس قدر جلدی کرتا کے دوڑنے کی وجہ سے میری س انس پھول نے لگ تی
تھی صبح شام اس طرح گزرتی کہ کھانے کا کوئی انتظام نہ ہوتا (علم و علماء کی اہمیت صفحہ) 28-
آپ رحمۃ ہللا تعالی مزید فرماتے ہیں میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح سیر نہیں ہوتی جب کسی نئی کتاب پ ر نظ ر
پڑ جاتی تو ایسا لگتا کہ کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے ۔ اگر میں اپنے مطالعے کے بارے میں حق بیان کرتے ہوئے یہ کہوں کہ میں
نے زمانے طالب علمی میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو میرا مطالعہ زیادہ ہوگا ۔مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے س لف
کے حاالت و اخالق ان کا قوت حافظہ ،ذوق عبادت اور علوم نادرہ کا ایسا علم حاصل ہوا جو ان کت ابوں کے بغ یر نہیں حاص ل ہ و
سکتا تھا (قیمۃ الزمن عند العلماء صفحہ ) 62
اے عاشقان /عاشقات رسول صلی ہللا تعالی علیہ وسلم :اپنے بزرگان دین علیہم الرحمۃ دین کا جذبہ مطالعہ سماعت فرمای ا گھ ر ہ و
یا مدرسہ خلوت ہو یا جلوت ان حضرات کے مط العہ میں کمی نہیں ہ وتی تھی ان کے اس ی ج ذبے کی وجہ س ے آج دنی ا انہیں ی اد
کرتی ہے ان کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھتی اور دعائیں دیتی ہے کیونکہ علم دین کا اتنا بڑا سرمایہ ان کے ذریعے ہم تک پہنچا۔مزی د
ذوق مطالعہ بڑھانے کے لیے مالحظہ فرمائیے ۔
حضرت سیدنا امام ابو عبدہللا محمد بن اسماعیل بخ اری رحمۃ ہللا علیہ س ے پوچھ ا گی ا ح افظے کی دوا کی ا ہے ؟آپ رحمۃ ہللا علیہ
نے ارشاد فرمایا کتب کا مطالعہ کرتے رہنا حافظے کی مضبوطی کے لیے بہترین دوا ہے (جامع بیان العلم ،ص )۵-١
کسی دانا کا قول ہے :جس کی بغل میں ہر وقت کتاب نہ ہو اس کے دل میں حکمت ودانائی راسخ نہیں ہوسکتی (تعلیم المتعلم صفحہ
) 116
علماء کرام رحمھم ہللا السالم فرماتے ہیں کہ کتب فقہ مط العہ کرن ا قی ام اللی ل یع نی رات میں نف ل نم از پڑھ نے س ے بہ تر ہے (در
مختار جلد 1صفحہ ) 101
مطالعہ سے چونکہ علم حاصل ہوتا معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان ص احب علم بنت ا ہے اس ل ئے ش یطان اس ے روکت ا اور
سستی دالتا ہے ۔ مطالعہ کا شوق دل میں اجاگر کرنے اس کی عادت بنانے اور اس پر استقامت پ انے کے ل ئے مط العہ ک رنے کے
چند فوائد مالحظہ فرمائیے ۔
مطالعہ کرنے سے ایمان کی مضبوطی حاصل ہوتی ہے کی ونکہ عقائ د کے موض وع پ ر لکھی گ ئی کت ابوں کے مط العہ س ے ک ئی
باریکیوں کا علم ہوتا ہے اور انسان محتاط ہونے کے ساتھ ایمان کی فکر بھی ہر وقت پیش نظر رکھتا ہے
مطالعہ سے علم بڑھتا ہے یاد رہے کہ علم سیکھنے ہی سے آت ا ہےح دیث پ اک میں ہے ہے بے ش ک علم س یکھنے س ے آت ا ہے ۔
(کنزاالیمان جلد 1صفحہ ، 14حدیث )٢٩٢٥٢اور سیکھنے کا ایک بہترین ذریعہ مطالعہ بھی ہے ۔
مطالعہ سے عقل و شعور میں اضافہ ہوتا ہے باشعور انسان ہمیشہ کامیابی اں اور ع زت س میٹتا ہے اور بے ش عور کے حص ے میں
اکثر ناکامی اور ذلت آتی ہے لہذا ش عور کی بی داری میں جہ اں دیگ ر عوام ل جیس ے مش اہدہ اور تج ربہ ک ردار ادا ک رتے ہیں وہی
مطالعہ بھی بنیادی حیثیت کا حامل ہے ۔
ذہنی نشاط اور تازگی :مطالعہ نگاہوں میں تیزی اور ذہن و دماغ کو تازگی عطا کرتا ہے جس طرح ایک اچھا دوست ہمیں پرلط ف
باتوں دلچسپ نکات اور حیرت میں ڈالنے والے حقائق بتا کر تروتازہ کردیتا ہے جس سے طبیعت میں ایک نئی روح اور نی ا ج ذبہ
پیدا ہو جاتا ہے اسی طرح کتاب بھی ایک اچھے رفیق و ساتھی جیسا کردار ادا کرتی ہے ،افسوس دینی کتب ک ا مط العہ ک رنے ک ا
شوق دم توڑتا چال جارہا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں دینی اعتبار سے جہالت عام ہے ۔
صبح کے وقت مطالعہ کرنا بہت مفید ہے کیونکہ عموما اس وقت نیند کا غلبہ نہیں ہوتا اور ذہن زیادہ کام کرتا ہے
اگر جلد بازی یا ٹینشن کی حالت میں پڑھیں گے مثال کوئی آپ کو پکارے اور آپ پڑھے جارہے ہیں ی ا اس تنجا کی ح اجت ہے اور
آپ مسلسل مطالعہ کیے جا رہے ہیں ایسے وقت میں آپ کا ذہن کام نہیں کرے گا اور غلط فہمی کا امکان بڑھ جائے گا
کسی بھی ایسے انداز پر جس سے آنکھوں پر زور پڑے مثال بہت مدھم یا زیادہ تیز روشنی میں یا چلتےچلتے یا چلتی گاڑی میں یا
لیٹے لیٹے یا کتاب پر جھک کر مطالعہ کرنا آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہیں
کوشش کریں کہ روشنی اوپر کی جانب سے آ رہی ہوں پچھلی طرف سے آنے میں بھی ح رج نہیں جبکہ تحری ر پ ر س ایہ نہ پڑھت ا
ہوں مگر سامنے سے آنا آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہے
مطالعہ کرتے وقت ذہن حاضر اور طبیعت تروتازہ ہونی چاہیے
صرف آنکھوں سے نہیں بلکہ زبان سے بھی پڑھیں کہ اس طرح یاد رکھنا زیادہ آسان ہے
وقفے وقفے سے آنکھوں اور گردن کی ورزش کر لیجئے کیونکہ کافی دیر تک مسلسل ای ک ہی جگہ دیکھ تے رہ نے س ے آنکھیں
تھک جاتی اور بعض اوقات گردن بھی دکھ جاتی ہے
ایک بار مطالعہ کرنے سے سارا مضمون یاد رہ جانا بہت دشوار ہے فی زمانہ میں ہاضمے بھی کمزور ح افظے بھی کم زور لہ ذا
دینی کتب و رسائل کا بار بار مطالعہ کریں
اگر کوئی بات خوب غور و خ وض کے بع د بھی س مجھ میں نہ آئے ت و کس ی اہ ل علم س ے بے بالجھجھ ک پ وچھ لیج ئے ،دوران
مطالعہ بارہا ایسی باتیں آتی ہیں جو ہمارے لئے بالکل نئی ہوتی ہیں اور ہم انہیں یاداشت کا حصہ بنانا چاہتے ہیں اس کے لیے ایک
الگ رجسٹر بنانا اور مختصر الفاظ لکھ کر صفحہ نمبر کے ساتھ اس بات کو محفوظ لینا بھی فائدہ مند ہے ۔
بعض اوقات یاد کرنے واال مواد زیادہ ہوتا ہے ایسی صورت میں سب کا سب یاد کرلینا بھی ممکن نہیں ہوتا اس ی ط رح کبھی کس ی
کتاب کا مکمل مطالعہ کرکے اس مضامین کو ذہن میں محفوظ رکھنا بھی مطلوب ہوت ا ہے ت و اس ط رح کے م واد ک و یاداش ت میں
برقرار رکھنے کے لئے روزانہ تھوڑا تھوڑا مطالعہ ک ریں اس تقامت کے س اتھ اس ے ج اری رکھن ا یاداش ت کے ل یے اہم ت رین ہے
(حافظہ کیسے مضبوط ہو صفحہ ) 17
امیراہلسنت اور مطالعہ :
امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ اس قدر منہمک ہو کر یعنی توجہ کے ساتھ مطالعہ فرماتے ہیں کہ بارہا یعنی ک ئی م رتبہ ایس ا ہ وا
کہ کتاب گھر یعنی مکتب کے اسالمی بھائیوں میں سے کوئی اسالمی بھائی کسی مسئلہ کے حل کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر
ہوئے لیکن مطالعہ میں مصروف ہونے کی وجہ سے آپ کو اس کے آنے کی خبر نہ ہوئی اور کچھ دیر بع د اتف اق نگ اہ اٹھ ائی ت و
اسالمی بھائی نے اپنا مسئلہ عرض کیا آپ نے نہ صرف خود مطالعے کا شوق رکھتے ہیں بلکہ اپنے مریدین و متوسلین محبین ک و
بھی دینی کتب کے مطالعہ کی ترغیب دالتے رہتے ہیں (امتحان کی تیاری کیسے کریں صفحہ) 23-
الحمدہللا عزوجل آپ دامت برکاتہم العالیہ کو کثرت مطالعہ اور اکابر علماءکرام کی وجہ سے مسائل شرعیہ اور تصوف و اخالق پر
دسترس حاصل ہے حضرت مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ ہللا علیہ کی شہرہ آفاق بہارشریعت کے بارے مطالعہ کے ل ئے آپ دامت
برکاتہم العالیہ کے شوق کا عالم دید ہے ۔امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ ہللا علیہ کے فتاوی کے عظیم الشان مجموعہ فت ٰ
اوی
رضویہ کا مطالعہ کا خ اص علمی ش غف ہے اور ام ام غ زالی رحمۃ ہللا علیہ کی کتب بالخص وص احی اء العل وم ک و آپ اپ نے زی ر
مطالعہ رکھتے ہیں ۔
فرض کریں ایک شخص کی عمر 65سال ہے اور وہ اپنی تعلیم سے فارغ ہوکر پچیس سال کی عمر میں مط العہ ش روع ک ریں ت و
وہ چالیس سال مطالعہ ک رے گ ا اور اس م دت میں وہ روز ص رف ب ارہ منٹ میں چ ار ص فحات کے مط العہ کے ذریعے 57600
صفحات پڑھنے میں کامیاب ہوجائے گا اور اگر ایک کتاب کے سو صفحات شمار کریں تو ٥٧٦کتابوں کا مطالعہ ہو ج ائے گ ا ت و
آپ بھی روزانہ بارہ منٹ مطالعہ کرنے کی نیت فرمالیں ۔
متن کی تعریف
نوٹ :مضمون نگار‘فیصل آباد کا ایک ریس رچ س کالر ہے لیکن دک نی مت ون س ے متعل ق ج و معلوم ات انہ وں نے دی ہیں وہ بہت
محدود ہیں۔ دکنی ادب کی تحقیق و تدوین سے متعلق مضامین اس سائٹ پر لگاے جاتے رہے ہیں اور بہت س ے مض امین آنے ب اقی
ہیں ۔
۔۔۔۔۔
تدوین متن ایک ترکیب ہے جو اضافت کے ذریعے تدوین اور متن کوجوڑے ہوئے ہے ۔ لفظ تدوین ،عربی زبان کا لفظ ہے ج و کہ
ِ
ہیت میں مونث ہے اور ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ اس کا معنی تالیف کرنا ،جمع کرنا یا مرتب کرناہے۔ ۱
جبکہ لغات کشوری میں تدوین کے معنی’’ جمع کرنااور تالیف کرنا‘‘کے ہیں۔ ۲
اضافت کے بعد اگلے سہہ حرفی لفظ متن کے معنی کتاب کی اصل عبارت،کتاب،کپڑے یا سڑک کے بیچ کا حصہ ،درمیان ،وس ط،
درمیانی اور پشت کے ہیں ۔ ۳
مصنف کے اصل الفاظ ،کتاب کی اصل عبارت (شرح وغیرہ سے قطع نظر کر کے ) ،کتاب ٰ
الہی انجیل (وقرآن) وغیرہ کی آیت ی ا
آیات جو کسی وعظ یا مقالے کے مو ضوع یا سند کے طور پراستعمال کی جائیں ۔ متن کتاب کامض مون(حواش ی وغ یرہ س ے قط ع
نظر کر کے)۔جلی خط،نصاب کی کتاب،درسی کتاب ۔ ۴
طریقہ کار
ٴ
مطالعہ ایک خوبصورت گلشن کی مانند ہے ،اس میں خوشبو بھی ہے ،دل آویزی بھی ہے ،اور خاردار شاخیں بھی ہیں۔ ایک طرف
جہاں مطالعہ کی اہمیت مسلم اور افادیت قابل ذکر ہے ،س اتھ ہی س اتھ اس کے م واد میں انتہ ائی چ اق و چوبن دی ن اگزیر ہے۔ اس ی
طرح اس کے طریقہ کار سے بھی واقفیت بہت ہی ضروری ہے؛ اس لیے کہ کسی بھی کام کو اگ ر اس کے اص ول وض ابطہ س ے
کیا جائے تو وہ کارآمد ثابت ہوتا ہے؛ ورنہ نفع تو درکنار نقصان ضرور ہ اتھ آت ا ہے ،ف رض کیج ئے! آپ کے پ اس وقت بھی ہے،
کتابیں بھی اچھی ہیں؛ لیکن ذہن پریشان ،آنکھوں میں درد اور روشنی بھی م دہم ت و آپ مط العہ نہیں کرس کتے ،اگ ر اس ی ص ورت
حال میں مطالعہ کی کوشش کریں گے تو صحت پر اس کا بہت برا اثر پڑے گا۔ اس لیے ص حت ک ا خی ال بھی بہت ض روری ہے،
بطور خاص آنکھوں کا خیال۔
یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ اس خیال سے مطالعہ کو ہرگز ترک نہیں کرنا چاہئے کہ یاد نہیں رہتا؛ بلکہ مطالعہ ضرور کرے کہیں
نہ کہیں اس کافائدہ ضرور ظ اہر ہوت ا ہے؛ اس ل یے کہ مہن دی میں س رخی پتھ ر پ ر ب ار ب ار گھس نے کے بع د ہی آتی ہے۔ موالن ا
عبدالسالم خاں لکھتے ہیں” :مطالعہ جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی جلد محفوظ ہوگا اور تیز ہوگا؛ اس لیے کتب بینی کو سست روی یا یاد نہ
رہنے کی وجہ سے ترک نہ کرنا چاہئے۔“
حاصل مطالعہ
مطالعہ کے ساتھ ساتھ حاصل مطالعہ کو ذہن نشین کرنے کی تدبیر بھی ضروری ہے۔ علم ومعلومات کی مثال ای ک ش کار کی س ی
ہے؛ ٰلہذا اسے فوراً قابو میں کرنا چاہیے۔ امام شافعی رضى هللا تعالى عن ه فرم اتے ہیں” :علم ای ک ش کار کی مانن د ہے کت ابت کے
ذریعے اسے قید کرلو“۔ اس لیے مطالعہ کے دوران قلم کاپی لے کر خاص خاص باتوں کو نوٹ کرنے کا اہتمام کرن ا چ اہئے؛ ورنہ
بعد میں ایک چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور وہ نہیں ملتی ہے۔ اب یا تو سرے س ے ب ات ہی ذہن س ے نک ل ج اتی ہے ی ا
یادتو رہتی ہے لیکن حوالہ دماغ سے غائب ہوجاتا ہے ،ڈاکٹر صمت جاوید کا کہنا ہے کہ ” :ی اد رکھ نے کے قاب ل ب ات ہمیں دوران
مطالعہ معلوم کتابوں پر دوران مطالعہ اہم مقامات پر نشان لگ انے اور کت اب کی پش ت پ ر س ادہ اوراق میں اہم نک ات کے خالم ہ وا
سے کاپی یا کسی کاغذ کے پرزے پر ہی نوٹ کرلیں“۔ اسی طرح ڈاکٹر احمد سجاد کہتے ہیں” :ذاتی ص ے اور بعض ص فحات کے
نمبروں کو لکھنے کی عادت ہنوز ق ائم ہے“۔ مط العہ کے مع ا ً بع د بعض کت ابوں پ ر ذاتی ت اثرات تبص رے بھی اختاص ر کے س اتھ
لکھنے کی عادت ہے۔“ حاصل مطالعہ کیسے ذہن نشین ہو یہ بھی ایک اہم عنصر ہے۔ اس سلسلے میں نعیم ص دیقی رقم ط راز ہیں:
”میری ذہنی ساخت یوں بنی کہ میں حاصل مطالعہ کو دماغ میں ڈال دیتا اور میرے اندراس پر غ ور و بحث ک ا ای ک سلس لہ چل تے
پھرتے ،اٹھتے بیٹھتے ،کھانا کھاتے جاری رہتا یہاں تک کہاس کا مثبت یا منفی اثر میرے عالم خیال پر رہ جاتا“۔
معلوم ہوا کہ مطالعہ کے بعد حاصل مطالعہ کی بھی بڑی اہمیت ہے؛ ورنہ تو بات الحاص ل ہی رہے گی۔ مط العہ کے دوران جہ اں
اچھی کتابوں ،خوش گوار فض ا ،مناس ب مق ام ،م وزوں روش نی اور وقت کی تنظیم ض روری ہے وہیں ص حت ک ا بھی خ اص خی ال
رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
سوال نمبر4#
انشاء پردازی کی خصوصی تدریس کے مقاصد اور خصوصیات تفصیل سے بیان کریں ؟
جواب:
جہاں تک اردو زبان میں انشاء پردازی کا تعلق ہے وہ اردو کی ابتداء اور ارتقاء کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی جب خیاالت کو ے
جو وہ لکھ رہا ہوتا ہے اور اس ی تحری ر کے ذریعے اس ے ق اری ک و غم ،خوش ی ،ح یرت ،خوش بو ،ب دبو ،محبت اور نف رت کے
جذبات سے معمور کرنا ہوتا ہے۔ ٰلہ ذا لکھنے والوں کو ہی اپنی تحریر کو ایسے رنگ ڈھنگ میں ڈھالنا اور ترتیب دین ا ہوت ا ہے کہ
قاری لکھنے والے کی تحریر کو اپنے پر اسی طرح محس وس ک رے جس ط رح لکھ نے واال چاہت اہے اور ق اری لکھ نے والے ک ا
گرویدہ بن جائے اسی سوچ نے انشاءپردازی کو پیدا کیا۔ابتدائی دور میں افسانے کے ان داز میں لکھی ج انے والی تحری ر ک و انش اء
پردازی کہا جانے لگا۔ڈاکٹر وحید الدین قریشی کا کہنا ہے:
ٓادم نے حواسے اظہار محبت کرتے ہوئے کی تھی اس زمانے سے لیکر ٓاج ت ک
دنیا کا قدیم ترین انشائی ادب وہ تھا جس کی تخلیق ؑ
انسانی ذہن کی یہ ترنگ جاری ہے اور انشائی ادب تخلیق ہورہا ہے۔()۱
انشاء حقیقت میں کیا ہے فرہنگ ٓاصفیہ عربی النسل لفظ کے مطلب یوں بیان کرتی ہے:
عبارت،تحریر ()2
وہ کتاب جس میں خط و کتابت سکھانے کے واسطے ہر قسم کے خطوط جمع ہوں ،لیٹر بکس ،چھٹیوں کی کت77اب ۔ ()4
()۲
درحقیقت انشاء پردازی انشاء پرداز کی ہی پیداوار ہوتی ہے وہ لفظوں اور جملوں ک و اس ان داز میں ت رتیب دیت ا ہے کہ انش اء
پردازی پیدا ہوتی ہے اس سے اس کا حسن نکھرتا ہے جدت کے ساتھ ب ات لوگ وں کے دل وں میں ات رتی چلی ج اتی ہے۔س ید محم د
حسنین کا کہنا ہے:
انشاء کا مادہ نشاء(نش َء ) سے نکال ہے جس کے لغوی معنی پیدا کرنا ہے یعنی انشاء کی علت غائت’’زائی دگی‘‘ ہے ی ا ’’ ٓافری دگی‘‘
انشاء کی توانائی دراصل خیال کی تازگی و تنومندی سے ظ اہر ہ وتی ہے۔ انش ائی ق وت س ے ب ات میں معن ویت پی دا ہ وتی ہے اور
خیاالت کی لہریں نکلتی ہیں۔()۴
اپنے گہوارے سے نکل کر لفظ کئی مدارج طے کرتا ہوا مخصوص معنی کی حامل ایک اصطالح بن جاتا ہے۔بعض اوقات لف ظ کی
اصل اور اصطالح میں بہت فاصلہ ہوتا ہے۔ اصطالح استعاراتی ،عالمتی ،اصالحی مع نی ک و لغ وی معن وں پ ر مرک وز رہ نے کی
درخواست کرتا ہے۔ انشاء کے جو بھی مطالب ہوں انشائیہ صرف مض مون ک ا م ترادف ٹھہرت ا ہے۔ ڈاک ٹر وحی د قریش ی کے بق ول
انشاء کا لفظ ابتدائی طور پر ایک دفتری اصطالح سمجھا جاتا تھا پھر رفتہ رفتہ س رکاری احک ام اور خط وط میں یہ رائج ہوت ا گی ا
اور صاف شدہ تحریر کو اس سے منسوب کیا گیا۔جس محکمے کے سپرد ’’مسودے‘‘ کی تیاری کا ک ام ہوت ا تھ ا اس ے دی وان انش اء
کہاکرتے تھے۔شروع میں دربار کے زیر اثر فارسی نثر میں یہ تحریر لکھی جاتی تھی اور پھر یہی زبان مکتوب ات کی زب ان ق رار
پائی۔ اس حوالے سے جابر علی سید کچھ یوں رقم طراز ہیں:
لفظ انشاء کا لفظی مفہوم تخلیق ہے اور فرانسیسی ESSAYکا مفہوم بھی کم و بیش تخلیق ہی ہے۔ اس بنا پ ر کہ ESSAYذہ نی کوش ش
و کاوش سے لکھی ہوئی تحریر ہے۔ TO ESSAYبطور فعل تخلیقی کوشش کرنا ہے اور بطور اسم اس کاوش کا تحریری نتیجہ ہے۔(
)۵
انشاء پرداز کی تاریخ پر لسانیات کے ماہرین میں ہمیشہ تھوڑا بہت اختالف رہا ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں انش اء اور
انشاء پردازی کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر جی ایم ملک اور پروفیسر نثار احمد جمیل کا کہنا ہے:
اپنے جذبات ،احساسات ،تاثرات ،خیاالت و تصورات اور مافیالضمیر کو صحت و تندرستی کے ساتھ اپنی زبان میں ادا کرنے کا نام
انشاء ہے۔ اظہار خی ال کی دو ص ورتیں ہوس کتی ہیں ،زب انی ی ا تحری ری پہلی ص ورت ک و تقری ری انش اء کہ تے ہیں اور دوس ری
صورت کو تحریر ی انشاء کہا جاتا ہے البتہ مقاصد کے اعتبار سے دونوں ایک ہی ہیں۔()۶
یوں تو ہر تحریر قاری کے لئے لکھی جاتی ہے مگر تخلیق ات جہاںاپن ا م دعا بی ان کرن ا چ اہتی ہیں وہ اں ق اری کے م زاج ک و بھی
سامنے رکھنا ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ انشاء پردازی کے ذریعے قاری تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض اوقات
قاری انشاء پردازی کی فنکارانہٓامیزش سے پیدا ہونے والی جمالیاتی حس سے اتنا محظ وظ ہوت ا ہے کہ وہ اس تحری ر س ے خاص ا
اثر لے لیتا ہے۔ قاری کی یہی روش تخلیق کار کے لئے ب اعث اطمن ان و مس رت ہ وتی ہے۔ ہ ر ادب کے پ اؤں ہمیش ہ زمین پ ر ہی
رہتے ہیں مگروہ سانس فضاء میں ہی لیا کرتا ہے۔ہمیش ہ ہ ر تخلی ق ک و اپ نی مقص دیت کی ط رف النے کے ل ئے کچھ نہ کچھ ف نی
صالحیت بروئے کار النی پڑتی ہے۔سقراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گھنٹوں نہیں دن وں غ ور و فک ر میں گم رہت ا تھ ا اور
جب کسی بات کی تہہ اور حقیقت تک پہنچ جاتا تو پھر اسے لکھنا شروع کرت ا اور پھ ر اس کے تخی ل کاای ک دری ا بہ نکلت ا۔ تخی ل
کے لئے مشاہدات ،تجربات ،اور تاریخ کا وسیع علم ہون ا اہم اور ض روری ہوت ا ہے ورنہ وہ بے راہ ہوجات ا ہے۔ اس ی ط رح انش اء
پرداز کا علم ،تجربہ اور الفاظ پر گرفت کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ انسانوں کی زندگی میں جابجا اس کے جذبات کی کارفرمائی
دکھائی دیتی ہے۔ انسان خوشی اور غم کا اظہار کرتا ہے ،تالیاں بجاتا ہے ،ناچتا اور گاتا ہے ،روتا اور ٓاہ و فغاں کرت ا ہے ن الہ کی
فریاد سے عرش کو بھی ہال دیتا ہے یہ تمام باتیں غیر محسوس طریقے پر اس کی ٓانکھوں سے چھل ک ج اتی ہیں۔ ج ذبات س ے ہی
اس کی زندگی میں رعنائی ہوتی ہے جذبات نہ ہوں تو زندگی میں وہ رنگی نی اور دلکش ی نہ رہے اور انس ان ای ک پتھ ر کی ط رح
ہوجائے اسی طرح جب تک انسان کسی تحریر کو انشاء پردازی اور ضابطے میں نہیں ڈالتا اس کی صورت ایک جامد پتھر کی ہی
ہے۔
تعالی نے اپنے حبیب ﷺ کے قلب اطہر پر وحی کا نزول کرکے اپنے پیغام کو ان تک پہنچایا اور انہیں کہ ا کہ ٰ ہللا
جبرائیل کے توسط سے کیا گیا اور پھ ر اس ک ا سلس لہ ج اری رہ ا۔ہللا کے اس کالم
ؑ پڑھ اپنے رب کے حکم سے یہ وہ ابالغ تھا جو
کو تحریری شکل میں ڈھال کر ٓاگے لوگوں تک پہنچایا گیا گویا پہلے ایک بات پہنچائی گ ئی اور پھ ر اس ے کت ابی ش کل میں رہ تی
دنیا تک کے انسانوں تک پہنچایا گیا۔()۷
گفتگو کو عربی میں ’’سحر ‘‘جادو سے تشبیہ دی گئی ہے انشاء پردازی وہ ہتھی ار ہے جس کے ذریعے لوگ وں ک و اپن ا ہمن وا بنای ا
جاسکتا ہے ،روالیا جاسکتا ،مشتعل کیا جاسکتا ہے اور انکے قلوب کو مسخر کیا جاس کتا ہے انہیں اپن ا نکتہ نظ ر م اننے پ ر ٓام ادہ
اور مجب ور کی ا جاس کتا ہے مگ ر اس تحری ر میں ت اثیر ک ا ہون ا ض روری ہے اور یہ ت اثر انش اء پ ردازی کے ذریعے ہی پی دا کی
جاسکتی ہے۔ دشمن کے خالف لوگوں کو صف ٓارا کرنے کے لئے بھی ایسے الفاظ استعمال کیے ج اتے رہے ہیں کہ وہ ع وام کے
دلوں میں پیوست ہوجاتے ہیں اور وہ جذبے اور ولولے سے جان دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ ایک بہترین انشاء پ رداز مح ل و
قوع کے حوالے سے قاری کو کبھی رال دیتا ہے ،کبھی ہنسا دیتا ہے اور کبھی انہیں خواب غفلت س ے بھی جگ ا دیت ا ہے درحقیقت
جذبات نگاری انشاء پردازی کا نہایت ہی کارگر عنصر ہے لفظوں سے کھیلنے کا جتنا اچھا فن جسے ٓائے گا وہی بہتر انشاء پ رداز
ہوگا۔ نسیم حجازی اس حوالے سے لکھتے ہیں:
میں نے رنگارنگ پھولوں سے اپنا دامن بھر لیا ٓاج ان پھولوں کو ایک گلدستے کی صورت میں پیش کر رہا ہ وں اگ ر اس گلدس تے
کو دیکھ کر ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں اس وادی کی سیاحت کا ش وق اور خ زاں رس یدہ چمن ک و اس وادی کی ط رح سرس بز
اور شاداب بنانے کی ٓارزو پیدا ہوجائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے اپنی محنت کا پھل مل گیا ہے۔()۸
انشاء پردازی میںحِس لطافت اور جمالیات الزم و ملزوم ہیں انسان خوبصورتی کو پسند کرتا ہے حسن کا دل دادہ ہوت ا ہے جہ اں بھی
تحریروں میں چاند کا تذکرہ ہوگا ،سبزہ زاروں کا ذکر ہوگ آ ،ابش اروں ،مرغ زاروں کے عالوہ لب رخس ار ،محب وب کی اداؤں کی
باتیں ٓائیں گی قاری اس طرف متوجہ ہوتا ہے اور جب ادیب اپنے قلم کو حسن کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے ت و ق اری اس قلم ک ار
کا گرویدہ بن جاتا ہے جس نے حسن کو بیان کرنے کے عالوہ عشق ،محبت ،پی ار اور وف ا کی داس تانیں اپ نی تحری ر میں بی ان کی
ہوتی ہیں۔ عشق کی پاکیزگی ایسی تحریروں کو مزید چار چاند لگا دیتی ہے۔ جو تحریر اپنے ہی قابو میں رہے مقصد سے انح راف
نہ کرے اس میں جمالیاتی حسن بھی برقرار رہے کسی لغزش کا بھی شکار نہ ہو اس میں جمالیاتی حِس انش اء پ ردازی کے فن ک و
جال بخشتی ہے اور قاری کے ذوق کو پختہ کرتے ہوئے تقویت پہنچاتی ہے۔ انشاء پردازی میں تشنگی نہیں ہ وتی وہ ق درتی من اظر
کی عکاسی کا دلکش نمونہ بھی ہوتی ہے اور ذوق جمال کی تسکین بھی۔
انشاء پردازی اور ادب جو انسانی تقاضوں کو سامنے رکھ کر تخلیق کیا جائے اس میں محبت کا عنصر بھی داخل ہو وہ ق اری
کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنا شروع کر دیتا ہے۔انشاءپردازی کے بارے میں ت و یہ ت ک کہ ا گی ا کہ اس گ ونگے ش خص کی
مانند ہے جو بول نہیں سکتا مگر اپنا احساس شدت سے دالتا ہے۔ اس کے رگ و پے میں رومان کی دلکشی اور محبت کے ج ذبات
دھیرے دھیرےٓاگ کی طرح سلگتے رہتے ہیں مگر اس کا نشان نظر نہیں ٓاتا۔ انشاء پردازی سے بڑا ک ارگر ہتھی ار ش اید ہی کبھی
اس سے پہلے ایجاد ہوا ہو۔ انشاء پردازی دراصل کہالتی ہی وہ ہے جو ادب اور تاریخ کے بے جان اوراق میں ش عور اور احس اس
کی روح کو پھونک دے اور قاری ان احساسات کا ادراک کرے جسے لکھنے واال ان تک پہنچانا چاہتا ہے۔ انشاء پردازی ہی دشمن
ملک کے خالف اپنے نوجوانوں اور لوگوں میں قوت مدافعت کو بیدار کرتی ہے۔ ادبی چاشنی اور فنون لطیفہ کی ٹھوس بنیادوں پ ر
لکھی جانے والی تحریر کو جب مربوط کیا جات ا ہے ت و وہ انش اء پ ردازی کے ق الب میں ڈھ ل ج اتی ہے۔ انش اء پ رداز کی تحری ر
احساس فن کا حسین امتزاج ہوتی ہے۔ فنی مہارت اور چا بک دس تی س ے اس کے اث رات ہمیش ہ ق ائم رہ تے ہیں۔ انش اء پ رداز بھی
معلومات کے انبار لگانے اور معصوم ذہنوں کو اپنے تبحر علمی سے مرعوب کرنے کے بجائے ان کے ذہن وں ک و تعلیم و ت ربیت
سے ٓاراستہ کرنے کی س عی و ک اوش ک ریں۔ فی زم انہ ،وقت اور زم انے کی ت یز رفت اری نے پیش ہ ت دریس ک و پہلے س ے زی ادہ
پیچیدہ ،گنجلک اورمزید چیالنچنگ بنادیا ہے۔یہ مشکل اور صبر ٓازما کام وہی انجام دے سکتے ہیں جو قابل ،بلن د ع زائم کے حام ل
اور معیاری تعلیم کی فراہمی میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں۔ ٓاج اس بات کی ضرورت ہے کہ م روجہ تدریس ی نظ ام میںوقت فوقت ا
تکنیکی و تخلیقی تبدیلیاں عمل میں الئی جائیں تاکہ اساتذہ اپنے کام و پیشے سے لطف اندوز ہ ونے کے س اتھ زم انے کی رفت ار ک ا
ساتھ دے سکیں۔زمانے سے ہم رک ابی کے ل ئے ض روری ہے کہ اس اتذہ اپ نے ط ریقہ ت دریس ک و بہ تر بن ائیں،حکمت عملی ،نقطہ
نظر ،طریقہ پیش قدمی کے عالوہ اپنے علم میں گہرائی و گ یرائی پی دا ک رنے کے س اتھ تدریس ی مہ ارتوں کومس تحکم ک ریں اور
پسندیدہ نئے تعلیمی و تخلیقی نظریات سے خود کو ہم ٓاہنگ کریں۔اساتذہ م روجہ ،مق ررہ،روای تی و مقی د تعلیمی نظری ات پ ر کاربن د
رہنے کے بجائے اپنی تدریس میں نئے ،تعلیمی نظری ات،رجحان ات اور جدی د ط ریقہ تعلیم ک و رواج دیں۔طلبہ کی بہ تر زن دگی اور
ترقی کے لئے اساتذہ کو شخصی طور پر متحرک و فعال بنانے کی ضرورت ہے جو پیشہ تدریس کاسب سے اہم عنصر گردانا گی ا
ہے۔ تدریس موثر ہدایات پر مبنی ایک ایسے سائنسی علم و فن کا نام ہے جو مسلسل ارتقا پذیرہے اور جس کی تکمیل تقریبا ناممکن
ہی ہے۔کیونکہ موثر تدریس کے لئے جہاں متبدل تدریسی نظریات کو سیکھنے کا عمل جاری ہے وہیں سکھانے کے لئے س یکھنے
کا عمل بھی جاری و ساری ہے۔تعلیمی مقاص د کے حص ول کے ل ئے تدریس ی س رگرمیوں کی ہ ر ق دم پ ر م رحلہ واری س ائنٹفیک
منصوبہ بندی اور طریقہ کار پر سنجیدگی سے غورو خوص ضروری ہے۔تعلیم و تدریس پ ر جدی د تحقیق ات کی روش نی میںگہ رے
اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔خاص طور پر اساتذہ جو تدریس اور معلومات کی ترسیل کے اہم ستون مانے ج اتے ہیں ٓاج جدی د معلوم ات
و تدریسی س ائنس س ے ہم ٓاہن گ ہ وکر ’’اکتس اب ب رائے تدریس ‘تدریس ب رائے اکتس اب (س یکھو ،س کھانے کے ل ئے اور س کھائو
سیکھنے کے لئے ) Learn to Teach, Teach to Learnکے نظریہ پر عمل پیرا ہیں۔درس و تدریس کو موثر و مفید بنانے کے
لئے چند ایسے شعبے ہیں جس پر خاص توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک ایسا نظام تعلیم تشکیل دیا جاسکے جو
موجودہ نظام کو موثر ،مربوط اورمنظم بنا سکے۔تدریس کا دائرہ کار نہا یت وسیع ہے جسمیں موثر تدریس کے ل ئے معلم کی بہ تر
طریقہ ہ ائے ت دریس س ے ٓاگہی ،تعلیمی منص وبہ بن دی ،مض مون اور س بق کی منص وبہ بن دی ،منظم ان داز میںمنص وبے پ ر عم ل
پیرائی ،طلبہ کے رویوں اور برتائو میں بہتری کے ل ئے خ اص حکمت عملی ک و وض ع و اختی ار کرن ا،طلبہ کی ت رقی کی مناس ب
جانچ و نگ رانی کے ل ئے تعین ق در(امتح ان)کی معلوم ات س ے ٓاگہی،تعلیم س ے وابس طہ اف راد،تنظیم وں اور دیگ ر محکم وں س ے
روابط ،اپنے مضمون اور موضوع پر عالمانہ عبور ،پیشہ وارانہ صالحیتوں میں اضافہ اور بہتری کے لئے سعی و جس تجو وغ یر
ہ جیسے عناصر شامل ہیں۔ایک استاد کا کام بہتر طریقے سے معلومات کی منتقلی یا ترسیل نہیں ہے بلکہ تدریس کا مقصد بچوںمیں
علم کے تئیں ترغیب و تحر یک پیدا کرنا،رہنمائی و رہبری کے ذریعے بچ وںمیں خ ود ک ار اکتس اب کی فض اء ک و ف روغ دین ا ہے۔
استاد کی پیدا کردہ تحریک ترغیب و رغبت کے زیر اثر طلبہ حصول علم میں معاون تما م وسائل کا بھر پ ور اس تعمال ک رتے ہیں۔
اپنے علم میں معروف و غیر معروف وسائل کے ذریعے اٖ ضافہ ،گہرائی،گیرائی اور پختگی پی دا ک رنے کے عالوہ،وہ زم انے کے
مختلف مسائل ،الجھنوں اور چیالنجس کا کامیابی سے سامناکرنے کے قابل ہوج اتے ہیں۔ استادتدریس ی و تعلیمی عم ل ک ا س ب س ے
فعال عنصرہوتا ہے ۔طلبہ میں علم سے دائمی رغبت پیدا کرنے میں استاد کے کردار ک و نظ ر ان داز نہیں کی ا جاس کتا۔جن اب اک رام
خاںاپنی کتاب ’’تعلیم اور اس کے مسائل‘‘)صفحہ نمبر (66کے مطابق استاد کی شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ایک بحی ثیت انس ان
اور دوسرا بحیثیت معلم۔بحیثیت انسان استاد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تعلیمی اور سماجی ماحول سے اس ط رح اس تفاد ہ
کرکے کہ طلبہ کی پوشیدہ صالحیتیں بھر پو ر طریقے سے اجاگر ہوجائیں۔معلم کی حیثیت سے ایک استادکوس ماجی ( )Socialاور
انسان دوست مزاج کا حامل ہونا ضروری ہے۔سماجی شخصیت کا حامل اور انسان دوست استاد ماحول پ ر بہ ٓاس انی اث ر ان داز ہوت ا
ہے۔ ایسے اساتذہ اسکول کے ماحول اور نظام کو طلبہ کے لئے دلکش بنا دیتے ہیں۔م وثر تعلیم ،درس و ت دریس ک و ب امعنی بن انے
کے لئے استاد کو کن اوصاف و خوبیوں سے متصف ہونا چاہیئے یہ گفتگو ہر زمانے میں موضوع بحث رہی ہے ۔عموما ہ ر اس تاد
چند خوبیوں سے متصف ہوتا ہے ۔تدریسی تجربہ اور معلومات کی کمی کی وجہ س ے جب اس تاد تدریس ی می دان میں اترت ا ہے تب
اس کے قدم متزلزل ہوجاتے ہیں بلکہ اکھڑنے لگتے ہیں۔ایک اہم اور غور طلب بات یہ ہے کہ استاد کو درس و تدریس س ے زی ادہ
دش واری تعلیم و تعلم کے ل ئے س ازگار م احول پی د ا ک رنے میں پیش ٓاتی ہے۔ای ک اس تاد ک و علم کی مع دن یع نی کے ع الم(
) Knowledged Personہونا ضروری ہے کیونکہ علم سے بے بہرہ استاد بھال کیسے علم بانٹ سکے گا۔لیکن یہ بھی ایک ناقابل
فراموش حقیقت ہے کہ علم کا حاصل کرنا اور دوسروں کو علم سے بہرور کرنا دو ج داگانہ عم ل ہیں۔جیس یکوئی ب ات ٓاپ بآاس انی
سمجھ توجائیں گے ،لیکن وہی بات دوسروں کو سمجھانے میں ٓاپ کو مشکالت پیش ٓاتی ہیں۔ہم اپنے مسائل کو تو حل ک ر لی تے ہیں
لیکن دوسروں کے مسائل کا کوئی حل ہمارے پاس نہیں ہوتاہے۔اسی لئے ایک استاد کا صاحب علم ہون ا ہی ک افی نہیں ہے بلکہ علم
کو مختلف صالحیتوں ،دلچس پیوں اور قوت وں کے حام ل بچ وںمیں منتقلی کے فن س ے بھی اس ک و واق ف ہون ا ض روری ہوت ا ہے۔
دوسروں کو علم سے ٓاراستہ کرنے ،فہم و ادراک پیدا کرنے کا فن خود کے سیکھنے اور سمجھنے کے مق ابلے میں ق درے مش کل
کام ہوتا ہے۔زیر نظر مضمون میں ایسی خو بیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کو اپنا کر ایک استاد اچھا موثر اور کامیاب معلم بن سکتا
ہے اور اپنے پیشے سے انصاف کرسکتا ہے۔ مض مون و موض وع پرمہ ارت اورعب ور رکھت ا ہ و؛۔درس و ت دریس اور تعلیم و تعلم
میں طلبہ پر اثر انداز ہونے واال سب اہم عنصر استاد کامضمون و موضوع کا علم اور اس پر اس کا عبور و کمال ہوت ا ہے۔ص رف
نصابی کتب پڑھ کر اسی معلومات کو طلبہ پر منقل کرنا طلبہ کے لئے ایک بے کیف اور غیر اطمینان بخش اکتس اب ک انقطہ ٓاغ از
ہوتا ہے۔ٓاج کا زمانہ انفج ار علم( )Knowledge Explosionک ا دور ہے اور طلبہ ک و حص ول علم کے ل ئے اس تاد کے عالوہ ک ئی
ذرائع بھی دستیاب ہیں۔ان حاالت میں اگر استاد کا علم اور معلومات سطحی ہوں گے تب یہ معلوم ات طلبہ کے ل ئے ک وئی دلچس پی
اور کشش کا باعث نہیں ہوں گے اور استاد کی علمی حیثیت طلبہ کی نظروں میں بے وقعت ہوجائے گی۔ کمرئہ جم اعت میں اس تاد
کی موثراور پر کیف تدریس کا انحصار اس کے تبحر علم ،مضمون و موض وع کی معلوم ات پ ر عب ور و دس ترس اور ت دریس کی
مہارت پر ہوتا ہے۔ مضمون و موضوع کے علم پر عبور و مہارت پیشہ تدریس سے وابستہ افراد کے لئے نہ ایت ض روری تص ور
کی جاتی ہے تاکہ طلبہ اپنے استاد کے علم و فضل کی قدر کر یں اور استاذی کا مقام و مرتبہ بلند ہو۔طلبہ کے نزدیک علم و فن ک ا
دوسرا نام استاد کی شخصیت ہوتی ہے۔استاد اپنے علم کی گہرائی ،گیرائی اور نفس موضوع س ے انص اف ک رتے ہ وئے ش اگردوں
میں تشکیک کی فضاء کو ابھرنے نہیں دیتا ۔ استاد اگر اپنے مضمون اور موضو ع پر دسترس نہ رکھت ا ہ و تب اکتس اب و ٓام وزش
(سیکھنے کا عمل) مجروح ہوکر رہ جاتی ہے۔ استاد اپنی علمی بے مائیگی کی وجہ سے ذہین اور ہشیار طلبہ کی علمی تشنگی ک و
دور کرنے سے قاصررہتا ہے جس کی وجہسے طلبہ ناامید ی اور مایوسی ک ا ش کار ہوج اتے ہیں۔اپ نے موض وع اور مض مون پ ر
عبور و دسترس رکھنے واال استاد طلبہ کو علم سے سیراب کرتا ہے۔سیرابی علم س ے سرش ار طلبہ میں اکتس اب کی ش رح ازخ ود
بڑھنے لگتی ہے ۔اکتساب اور درس و تدریس غیر ارادی طور پر ایک فعال اور دلچسپ عم ل بن ج اتے ہیں۔بق ول م اہر تعلیم محم د
اسحق مرحوم ’’ اچھا استاد پڑھانے میں بھی استاد ہوتا ہے۔‘‘ (تعلیم ایک تحریک ) ۔ بہ تر درس و ت دریس کے ل ئے ای ک اس تاد ک و
اپنے علم و فن میں طاق ہونا ضروری ہوتا ہے۔ایک باکمال استا د نہ صرف اپنے مضمون میں کمال پیدا کرتا ہے بلکہ وہ اپ نے علم
اور طریقے تدریس سے طلبہ کے قلب و ذہن تک رسائی حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔م اہر تعلیم ہم ایوں کب یر
کے مطابق پڑھانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک بھری بالٹی کو خالی بالٹی میں انڈیل دیا ج ائے۔م اہر تعلیم وس ابق ص در جمہ وریہ
ہند نے بھی تختہ سیا ہ سے یا درسی کتاب سے نقوش علم کی طلبہ کی نوٹ بک کی منتقلی کو تدریس ماننے سے انک ار کردی اہے۔
ایک مثالی استاد اپنے علممیں وسعت پیدا کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے ۔اپنے علم میں وسعت پیدا ک رتے ہ وئے اس تاد طلبہ
میں اکتساب کی فضاء کو پروان چڑھا تا ہے۔پڑھانے سے قبل اس کو علم ہوتا ہے کہطلبہ کو کیا اور کس طرح پڑھا یا جائے ۔طلبہ
کی بنیادی کمزوریوں کا علم بھی ا یک استاد کے لئے بے حد ضروری ہے۔ تاکہ ترسیل علم میں ما نع تما م عناصر ک ا وہ کامی ابی
سے سد باب کر سکے۔ایک کامیاب استاد کا ہر سبق تدریس کا فن پارہ ہوت ا ہے۔ ذہین اور ہش یار طلبہ کی ج انب س ے مض مون اور
موضوع پر درسی نصاب کے عالوہ اٹھائے ج انے والے اش کاالت کے جواب ات دی نے کے ل ئے ای ک اس تاد ک و نص ابی کت اب کی
معلومات کا فی نہیں ہوتی ہے۔ذہین اور تعلیمی طور پر فعال اور ہشیار طلبہ کی تدریس ایک استاد کے لئے مش کل اور پریش ان اس
وقت ہوجاتی ہے جب اس کو موضوع و مضمون پ ر عب ور حاص ل نہ ہ و اور نص ابی م واد کے عالوہ اعلی معلوم ات ت ک اس کی
رسائی نہ ہو۔طلبہ درسی کتب کے پڑھائے گئے مفروضے اور حروف فراموش کر دیتے ہیں لیکن استاد کے پڑھا ئیگئے س بق اور
مفروضوںکی سدائے بازگشت تمام عمر ان کے کانوں سے ٹکراتی رہتی ہے۔علوم کی ترسیل میں استاد کا تبحر علم نہایت اہم وسیلہ
ہوتا ہے اور یہ تبحر طلبہ کے ذہن و قلب میں ہمیشہ کے لئے مرتسم ہوجاتا ہے۔اساتذہ کے لئے چند قابل قدر رہنمای انہ اص ول بی ان
کیئے جارہے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر وہ پڑھائے جانے والے موضوع میں گہرائی و گیرائی پیدا کرنے کے ساتھ درس و تدریس
میں تنظیم و ترتیب پیدا کر سکتے ہیں۔
() 1اساتذہ پڑھائے جانے والے موضوع اور اس سے متعلق دیگر معلومات و مضامین کا پہلے ہی بغور مط العہ ک رلیں اور موض و
ع کی تدریس میں معاون نوٹس بھی تی ار کرن ا نہ بھ ولیں۔موض وع س ے متعل ق معلوم ات کے حص ول س ے اس اتذہ کومض مون اور
موضوع پر عبور و کمال حاصل ہوجات ا ہے اور درس و ت دریس میں تنظیم و ت رتیب پی دا ک رنے میں بھی وہ کامی اب ہوج اتے ہیں۔
درسی سرگرمیاں باقاعدگی سے انجام پانے لگتی ہیں ۔کمرئہ جماعت بوریت اور افت ادگی ک ا ش کار ہ ونے س ے محف وظ رہ تی ہے ۔
درس و تدریس کا سارا عمل ایک منصوبے اور نظام کے تحت انجام پانے لگت ا ہے۔اکتس اب کی ش رح بھی مت اثر کن ح د ت ک ب ڑھ
جاتی ہے۔
() 2اساتذہ مختلف تعلیمی و تدریسی وسائل کے استعمال کے ذریعہ مو ضوع اور مضامین کی معلومات میں گہرائی اور گیرائی پی دا
کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں۔موضوع اور مض مون کے ب ارے میں درس ی کتب میں ف راہم ک ردہ معلوم ات پ ر ہی اکتف ا نہ
کریں بلکہ مزید معلومات اور حقائق کے لئے غیر نصابی کتابوں کے مطالعہ سے اپنے علم و معلوم ات میں اض افہ ک ریں۔ہ ر وقت
اپنے طلبہ کو معیاری اور بہترین معلومات اور عمدہ علم کی فراہمی کو یقینی بنانا ایک استاد کا اہم فریضہ ہوتا ہے۔
()3اساتذہ مطالعہ کی عادت کو مستقل اپنا ش یوہ بن الیں۔مط العہ کی ک ثرت کی وجہ س ے ،علم میں وس عت اور گہرائیپی دا ہ وتی ہے۔
اساتذہ کے لئے تو مطالعہ سانس کی طرح اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ زندگی کے لئے سانس جیسے اہم ہے اسی طرح تدریسی زن دگی
کی ڈور بھی مطالعہ سے بندھی ہوئی ہے۔رسائل ،جرائد ،مضمون و موضوع سے متعلق کت ابیں ،ج رنلس ،تحقیقی مض امین و مق الہ
جات اور انٹرنیٹ پر دستیاب مواد کے مطالعہ کے ذریعہ اساتذہ پر اعتماد اور موثر تدریس کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
( ) 4اپنے ہم پیشہ دوستوں ،ساتھیوں ،مضامین کے ماہرین ،اپنے مضمون میں مہارت اور کمال رکھنے والے افراد س ے گفتگ و ک و
رواج دیں۔ باعلم اور باکمال افراد سے مالقات کا کوئی موقع ضائع نہ کریں ت اکہ علم میں اض افے کے س اتھ گہ رائی و گ یرائی پی دا
ہواورموضوع کے گنجلک و پیچیدہ نکات کی تفہیم سہل ہو جائے۔
()5اپنے موضوع اور مضمون سے متعلق معلومات کو ضبط تحریرمیں الئیں ،اخبارات ،ر س ائل ،جرائ د اور میگ زین میں چھ پے
موضوع سے متعلق معلومات کو کاٹ کر تراش وں ک و محف وظ رکھیں۔ ۔اس ض من میں روزن امے ،اخب ارات ک افی اہمیت کے حام ل
ہوتے ہیں اور یہ معلومات کی فراہمی کا سب سے سستا ذریعہ بھی ہیں۔محف وظ ک ردہ تحری ری ن وٹس ،تراش وں ک و دوران ت دریس
کمرئہ جماعت میں ایک وسیل ِہ ،رسورس اور ریفرنس (حوالہ جاتی مواد) میٹریل کے طور پر استعمال کر یں۔
() 6معلومات کی ذخیرہ اندوزی ،مطالعہ کی وسعت ،جہاں موضوع و مضمون کے دانشورانہ تفہیم و تجزیہ کاذریعہ بن تی ہے وہیں
طلبہ کی استعداد ،ذہنی صالحیت کے مطابق ذہانت کے فروغ،درس و تدریس کی تنظیم و ترتیب میں بھی یہ سرگرمی نہ ایت مم دو
معاون ثابت ہوتی ہے۔
( ) 7درس و تدریس کے لئے اساتذہ مضمون و موضوع سے متعلق ا پنی معلومات کو جب ترتیب و تنظیم میں لے ٓاتے ہیں تب تم ام
طلبہ ،تعلیمی طور پر کمزور(سلو لرنر)،ذہین طلبہ(،)Gifted Studentsاور اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ کی تدریس بھی م وثر
اور ٓاسانی سے انجام دی جا سکتی ہے۔موضوع پر عبور اور کمال کے ذریعہ اساتذہ طلبہ کی ذہنی صالحیتوں کو پیش نظر رکھتے
ہوئے موضوع کو ٓاسان ،سہل اور معنی خیز بنا کر پیش کر تے ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں دانشوری فروغ پ انے لگ تی ہے۔
() 8اپنے مضمون او رموضوع میں دلچسپی لینے سے اساتذہ میں بصیرت پی دا ہوج اتی ہے جس کے وجہ س ے وہ م دلل اور م وثر
گفتگو سے کام لینے لگتے ہیں۔استدالل اور بصیرت کی روشنی میں وہ موضوع و مض مون کی ت دریس کے ل ئے اخ تراعی ط ریقہ
ہائے تدریس کو رواج دی تے ہیں۔طلبہ میں بحث و مب احث اور تج ربہ و تج زیہ کی کیفیت ک و پی دا ک رنے میں بھی کامی ابی حاص ل
کرتے ہیں۔
()9اس اتذہ اپ نی پیش ہ وارانہ اور مض مون کی معلوم ات میںتجدی د اور اض افے کے لی ئے ک وئی دقیقہ فروگزاش ت نہ رکھیں۔ اپ نے
مضمون میں نکھار پیدا کرنے والے اورینٹیشن پروگرام ،ورکش اپس ،ن ئے تعلیمی ،علمی و سائنس ی رجحان ات س ے واقفیت حاص ل
کرنے کے لئے ر ریفریشر کورسسز وغیرہ میں شرکت کریںتاکہ کمرئہ جماعت میں تدریس کو ٓاسان اور مفید بنایا جاسکے۔
() 10پڑھائے جانے والے موضوعات کا وسیع او ر گہرا علم رکھتے ہوئے اساتذہ تمام طلبہ میں اکتساب کو یقینی طور پ ر پ روان
چڑھ ا س کتے ہیں۔ وس عت علم کے ذریعے طلبہ کے اکتس اب کی ج انچ من ا س ب ان داز میں انج ام دے س کتے ہیں۔ وس یع معلوم ات
رکھنے کی وجہ سے بہتر اور موثر سواالت کرنے کے طریقوں سے واقف رہتے ہیں۔ اپنے تبحر علم کو ب روئے ک ار التے ہ وئے
کمزور طلبہ کو ٓاسان اور سہل انداز میں معلومات و حقائق کو خاکوں اور فلو چارٹس کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔
()11موضوع کے متعلق وسیع معلومات کی وجہ سے درس و تدریس میں جہاں س ہولت پی دا ہ وتی ہے وہیں موض وع و مض مون
استاد کی یکتائی اور مہارت کمرئہ جماعت کے نظم و ضبط کو قابو میں رکھنا کا ای ک اہم وس یلہ ہے۔اس تاد ک ا اپ نے مض مون میں
دس ترس کی وجہ س ے اخ تراعی ط ریقے ہ ائے ت دریس اور تخلیقی ت دریس ک و جگہ دی تے ہ وئے علمی نظری ات ک و اس تحکام اور
پائیداری فراہم کرتاہے۔ ہمیشہ استاد کا مضمون پر عبورا ور دس ترس طلبہ کے ذہن وں پ ر خ وش گ وار اث رات ک ا م وجب ہوت ا ہے۔
مضمون پر کمال اور عبور استاد کی عظمت و عزت کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔طلبہ مضمون میں دلچسپی لینے لگ تے ہیں ۔ص حت
مند اکتساب و تعلیمی ماحول کے لئے استاذ کا اپنے مضمون اور موضوع پر مکمل عبور اور دستر س ضروری ہے۔
سوال نمبر5#
روایتی طریق تدریس کے بارے میں تفصیل سے بیان کریں؟
طریقہ تدریسں کا برا ِہ راست تعلق سبق کی پریزینٹیشن سے ہوتا ہے۔ ایک استاد مختلف مضامین پڑھ انے کے ل یے مختل ف روای تی
طریقہ تدریس میں استاد لیکچر دیتا تھا اور طلباء نوٹس لیتے تھے۔ ہو س کتا ہے کہ یہ ط ریقہ آج بھی ک ارگر ہ ومگر تعلیمی ارتق اء
کی وجہ سے آج اساتذہ اپنے بچوں کے تجسس کو ابھارنے کی حوصلہ اف زائی ک رتے ہیں اور ان کی خ واہش ہ وتی ہے کہ ان کے
طلباء غیر روایتی انداز میں سوچیں۔
ت عملیوں اور طریقہ تدریس میں مہارت حاصل کرنے میں م دد ملے گی اور ہم آپ کی م دد ک ریں اس سیکشن سے آپ کو ان حکم ِ
گے کہ کس طرح سے آپ نئے انداز اپنا کر اپنی تدریس کو ذیادہ موثر اور دلچسپ بنا سکتے ہیں۔
اس طریقہ میں استاد کالس کے شروع ہونے سے قبل طلباء کو سبق کے لیے تیار کرتے ہیں۔ اس سے طلب اء کے م واد ڈھون ڈھنے
کی ہے۔
خود از کارسکھالئی
تجسس سیکھنے کا بہت بڑا عمل انگیز ہے۔ سیکھنے کے بنیادی اُص ول کے تحت اس ب ات ک ا ک وئی ج واز نہیں بنت ا کہ طلب اء ک و
متنکے ہیں۔
پراجیکٹ میتھڈ
اس اپروچ کے تحت استاد اپنے بچوں کے دل اور دماغ کو مشغول کرکے ان میں گہرائی سے سوچنے کا ایک راستہ ف راہم ک رتے
ہیں۔
ترغیب/کمک
سکولوں میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب ہمیں بچوں کو کوئی خاص کام کرنے یا کوئی خاص معلومات ازبر کرانے کے ل یے ی ا
انہیں ترغیب دینے کے لیے ہے۔
لیکچر میتھڈ
لیکچر میتھڈ ایک ایسا آسان طریقہ تدریس ہے جو تقریبا ً تمام سکولوں اور کالجوں میں اس تعمال ہوت ا ہے۔ لیکچ ر میتھ ڈ ک و اس کی
آسانی اور ہوتا ہے۔
پرابلم سالونگ یا مسئلے کو حل کرنے واال طریقۂ تدریس
زندگی مشکالت سے بھری پڑی ہے اور ایک کامیاب انسان کے لیے ض روری ہے کہ وہ ان مش کالت س ے ن برد آزم ا ہ ونے کے
لیے مناسب ہو۔