You are on page 1of 24

‫نام طالب علم‪:‬‬

‫رول نمبر‪CA45658:‬‬

‫اسائنمنٹ نمبر(‪)2‬‬

‫کورس کوڈ ‪6509 :‬‬

‫پروگرام ‪ :‬ایم اے ٹیچر ایجوکیشن‬

‫کورس کا نام‪ :‬تدریسیات اردو‬

‫ٹوٹر نام ‪:‬‬

‫عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسالم آباد‬


‫سوال نمبر ‪1#‬‬
‫اردو کی موثرتدریس کے لیے تجاویز پیش کریں؟‬
‫جواب‪:‬‬
‫موثر تدریس‪:‬‬
‫اسالمی تعلیمات سے عدم آگہی کی وجہ سے ہم اس نظریہ تعلیم کو جدیدیت سے تعبیر ک ر رہے ہیں جب کہ یہ ای ک ق دیم اس المی‬
‫تعلیمی نظریہ ہے جہا ں استاد کو معلومات کی منتقلی کے ایک وسیلے کی شکل میں نہیں بلکہ ایک مونس مش فق م ربی رہنم ا اور‬
‫رہبر کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ تدریسی اصولوں سے باخبر استاد بنیادی تدریسی و نفسیاتی اصولوں کی یکجائی س ے تعلیم و‬
‫اکتساب کو طلبہ مرکوز بنادیتا ہے۔ذیل میں اہمیت کے حامل چند نمایاں تدریسی اصولوں کو بیان کیا جارہاہے ۔‬
‫(‪ ) 1‬ترغیب و محرکہ تدریسی اصولوں میں اساسی حیثیت کا حامل ہے۔طلبہ میں تحریک و ترغیب پیدا کیئے بغیر موثر ت دریس ک و‬
‫انجام نہیں دیا جاسکتا۔ طلبہ میں اکتسابی میالن ترغیب و تحریک کے مرہون منت جاگزیں ہوتاہے۔ حصول علم‪ ،‬پائیدار اکتس اب اور‬
‫علم سے کسب فیض حاصل کرنے کے لئے طلبہمیں دلچسپی اور تحریک پیدا کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔فع ال و ثم ر آور اکتس اب‬
‫ترغیب و تحریک کے زیر اثر ہی ممکن ہے۔تدریس میں ہر مقام پر طلبہ میں محرکہ کا مطالبہ ک رتی ہے۔ بغ یر مح رکہ پی دا کی ئے‬
‫کامیاب اکتس اب ممکن ہی نہیں ہے۔اکتس ابی دلچس پیوں کی برق راری کے ل ئے مح رکہ بہت اہم ہے۔مح رکہ کی وجہ س ے طلبہ میں‬
‫اکتساب کی تمنا انگڑائی لیتی ہے۔‬
‫(‪) 2‬درس و تدریس استاد اور طالب علم پر مبنی ایک دوطرفہ عمل ہے۔موثر تدریس اور کامیاب اکتساب کے ل ئے تعلیمی عم ل میں‬
‫استاد اور شاگرد دونوں کی سرگرم شرکت الزمی تصور کی جاتی ہے۔تعلیمی سرگرمیوں کے بغیر تدریسی عمل بے کیف اور ع دم‬
‫دلچسپ بن جاتا ہے۔طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کی نمو ‪،‬فروغ اور برقراری میں تعلیمی سرگرمیاں بہت اہم ہوتی ہیں۔ کامیاب اکتساب‬
‫اور موثر تدریس میں محرکہ کے بعد سب سے نمایاں مقام سرگرمیوں پر مبنی تدریس و اکتساب ( ‪)Activity Based Teaching‬کو‬
‫حاصل ہے۔ سرگرمیوں پر مبنیتدریس طلبہ میں تعلیم سے دلچسپی ‪،‬شوق و ذوق پیدا کرنے کا ب اعث بن تی ہے۔س رگرمیوں کے زی ر‬
‫اثر طلبہ میں نصابی مہارتیں فروغ پانے لگتی ہیں۔سرگرمیوں کے زیر اثر انجام پ انے والی ت دریس اور اکتس اب م وثر اور پائی دار‬
‫واق ع ہ وتے ہیں۔س رگرمیوں کے ذریعے طلبہ میں عملی اکتس اب ( ‪)Practical Learning‬ف روغ پ اتی ہے۔تدریس ی اص ولوں میں‬
‫سرگرمیوں پ ر مب نی ت دریس ک و بہت اہمیت حاص ل ہے اس ی ل ئے اس اتذہ اپ نی ت دریس ک و کامی ابی س ے ہمکن ار ک رنے کے ل ئے‬
‫سرگرمیوں(‪)activities‬کو اپنی تدریس کا الزمی جزو بنا لیں۔‬

‫(‪) 3‬دوران تدریس استاد جو حکمت عملی اختیار کرتا ہے اسے تدریسی حکمت عملی یا طریقہ تدریس کہتے ہیں۔تدریسی طریقہ ک ار‬
‫معلومات کی منتقلی اورطلبہ میں علم س ے محبت و دلچس پی پی دا ک رنے میں اہم ک ردار ادا کرت ا ہے۔ت دریس دراص ل معلوم ات کی‬
‫منتقلی کا نام نہیں ہے بلکہ طلبہ میں ذوق و شوق کو پیدا کرنے کا نام ہے۔ طلبہ میں علم کا ذوق و شو ق اگر پی دا کردی ا ج ائے تب‬
‫اپنی منزلیں وہ خود تالش کرلیتے ہیں۔ایک کامیاب استاد اپنے طریقہ تدریس سے طلبہ میں معلومات کی منتقلی س ے زی ادہ ش وق و‬
‫ذوق کی بیداری کو اہمیت دیتا ہے۔وہ تدریسی حکمت عملی اور طریقہ کار کامیاب کہالتا ہے جو بچوں میں اکتساب کی دلچسپی ک و‬
‫برقرار رکھے ۔اساتذہ طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کی برقراری کے لئے تدریسی معاون اشیاء(چ ارٹ‪،‬نقش ے‪،‬خ اکے‪،‬تص اویر‪،‬قص ے‬
‫‪،‬کہانیوں‪،‬دلچسپ مکالموں اور فقروں) کو اپنی تدریسی حکمت عملی میں شامل رکھیں۔‬
‫(‪)4‬اختیار کردہ تعلیمی پروگرام اور سرگرمیوں کے پہلے سے ط ئے ش دہ مقاص د ہ ونے چ اہیئے۔ اور ان مقاص د کے حص ول کے‬
‫لئے مناسب الئحہ عمل کے تحت اساتذہ ک و تعلیمی س رگرمیوں ک و منتخب ک رنے کی ض رورت ہ وتی ہے۔مب نی ب ر مقاص د تعلیمی‬
‫سرگرمیاں تعلیمی اقدار کی سربلندی اور ب امعنی اکتس اب میں بہت مع اون ہ وتی ہیں۔تعلیمی س رگرمیاں تعلیمی مقاص د س ے مرب وط‬
‫ہونی چاہیئے۔ورنہ تعلیمی مقاصد کا حصول اور بامقصد اکتساب دونوں بھی ناممکن ہوجاتے ہیں۔‬
‫(‪) 5‬اساتذہ تدریسی تنوع کے لئے جہاں مختلف سرگرمیوں سے کام لیتے ہیں وہیں تدریس کے دوران انھیں ایک بات کا خاص خی ال‬
‫رکھنے کی ضرورت ہو تی ہے اور یہ توجہ تدریس کا سب س ے اہم اص ول ہے اور وہ ہے بچہ کی انف رادیت ک ا اح ترام ۔بچے کی‬
‫انفرادیت اور اس کی شخصیت کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اساتذہ کو تدریسی خدمات انجام دینی چ اہیئے۔دوران ت دریس بچے کی‬
‫انفرادیت اور اس کے اکتسابی تنوع (‪)Learning Diversities‬کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہ وتی ہے۔کی ونکہ ہ ر بچے کی‬
‫ذہنی صالحیت ‪ ،‬ذہانت ‪ ،‬جذباتیت‪ ،‬احساس دلچسپی اور ضروریا ت میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ان تمام ام ور ک و م د نظ ر رکھ تے‬
‫ہوئے اساتذہ کو تدریسی فرائض انجام دینا ضروری ہوتا ہے۔اساتذہ جب طلبہ کی شخصیت اور انفرادیت ک و ملح وظ خ اطر رکھ تے‬
‫ہوئے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں تب استاد اور شاگرد میں ایک اٹوٹ وابستگی پیدا ہوج اتی ہے اور کن د ذہن س ے کن د ذہن ط الب‬
‫علم بھی تعلیم میں دلچسپی لی نے لگت ا ہے ۔طلبہ کی انف رادیت اور اکتس ابی تن وع ک ا خی ال رکھ نے س ے ای ک بہت ہی خ وش گ وار‬
‫تدریسی اور اکتسابی فضا جنم لیتی ہے۔اور اس فضاء میں ہ ر بچہ خ ود ک و نہ ایت اہم اور خ اص تص ور ک رنے لگت ا ہے۔ تعلیمی و‬
‫تدریسی حکمت عملی اختیار کرتے وقت اساتذہ طلبہ کے تنوع اور انفرادیت کا بطور خاص خیال رکھیں ۔‬
‫(‪) 6‬موثر تدریس ‪،‬بہتر اکتساب اور طلبہ میں تخلیقیت اور اختراعی صالحیتوں کی نمو و فروغ کے لئے اساتذہ تخلیقی اور اختراعی‬
‫طریقہ ہائے تدریس کو بروئے کار الئیں۔ طلبہ میں ہر قسم کی تخلیقی صالحیتوں ک و پ روان چڑھان ا ض روری ہوت ا ہے اور تخلیقی‬
‫می ں ایک اہم عنصر تصور کی جاتی ہے۔تخلیقی صالحیتوں کو فروغ دینے والی تدریس ی اقداربامقص د‬ ‫تدریس اس اہم کام کی تکمیل ٖ‬
‫اور ثمر آور اکتساب میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں۔‬
‫(‪) 7‬سابقہ معلومات کا موجودہ علم سے ارتباط‪،‬نامعلوم کو معلوم سے مربوط کرنا‪،‬معلومات زندگی کو عملی زن دگی س ے جوڑن ا ہی‬
‫علم ارتباط ( ‪)principal of correlation‬کہالتا ہے۔علم ارتباط کو فن ت دریس میں ری ڑھ کی ہ ڈی کی حی ثیت حاص ل ہے جس کی‬
‫بغیر علم بے مقصد اور فضول شئے بن جاتا ہے۔علم ارتباط کے ذریعہ معلوم ات ‪،‬دانش وری میں تب دیل ہوج اتے ہیں اور علم ہمیش ہ‬
‫ہمیشہ کے لئے طلبہ کے ذہنوں میں محفوظ ہوجاتا ہے۔علم ارتباط کی وجہ سے معلومات(علم ) نہ صرف محف وظ ہوج اتے ہیں بلکہ‬
‫وقت ضرورت معلومات کو بازیاب ( ‪)Retention and Retreival‬کرنے کی صالحیت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔‬

‫(‪)8‬ت دریس ک و معق ول م وثر اور طلبہ کے ل ئے دلچس پ بن انے کے ل ئے اس اتذہ ‪ ،‬بہ تر س ے بہ تر ط ریقہ ت دریس(‪Teaching‬‬
‫‪،)methods‬تدریسی حکمت عملی( ‪،)teaching strategies‬تعلیمی معاون اشیاء (‪)Teadching aids‬اور دیگر وسائل کا بر موق ع‬
‫استعمال کرنے میں غایت درجہ کی احتیاط سے کام لیں۔موثر تدریس مناسب طریقہ تدریس کے انتخاب کا دوسرا نام ہے۔ اس ی ل ئے‬
‫اساتذہ کمرۂ جماعت ‪،‬طلبہ کی استعداد‪ ،‬اور ذہنی تنوع کو مد نظر رکھتے ہوئے تدریسی طریقوں کا انتخاب کریں ۔‬
‫(‪)9‬تعلیم و تدریس کا اہم مقص د طلبہ میں ص حت من د اق دار کی منتقلی ‪،‬ص حت من د روی وں ‪ ،‬ع ادات کی تش کیل و اس تحکام‪،‬نظم و‬
‫ضبط(‪ )discipline‬کا فروغ ‪،‬کردار سازی‪ ،‬زندگی میں معاون مہ ارتوں اور ع زت نفس ک ا ف روغ ہے۔وہ تعلیم بامقص د اور کارآم د‬
‫تصور کی جاتی ہے جو ہر طالب علم کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ایک بامقصد اور کارآمد زندگی کے لئے کو‬
‫تیار کیا جاتا ہے ۔مذکورہ مقاصد کے پیش نظر درس و ت دریس ک و طلبہ کی شخص ی ت رقی ک ا ای ک اہم ذریعہ تص ور کی ا گی ا ہے۔‬
‫اساتذہ ایسی تدریسی حکمت عملی اور طریقوں کو بروئے کار الئیں جو طلبہ کی شخصی ترقی اور استحکام کا باعث بنے۔‬

‫(‪)10‬اعادہ (‪)Recapitulation‬اور تعین قدر ‪،‬جانچ (‪)Evaluation‬کے ذریعے اکتساب کی ترقی اور ت دریس کی ت اثیر ک ا پت ا چلت ا‬
‫ہے۔ اسی لئے ایسی تدریس کامیاب تصور کی جاتی ہے جس میں طلبہ کی مسلسل جانچ اور اعادہ کی کنج ائش ف راہم کی ج اتی ہے۔‬
‫اس اتذہ م وثر ت دریس اور مس تحکم اکتس اب کے ل ئے اپ نی تدریس ی حکمت عملی میں ج انچ (تعین ق در) اور اع ادہ (‬
‫‪)Recapitualation‬کو الزما جگہ دیں۔مسلسل ج انچ و تعین ق در کے ذریعہ اس تاد طلبہ کی اکتس ابی ت رقی کی ج انچ و پیم ائش ک و‬
‫انجام دیتا ہے ۔جانچ و تعین قدر کے ذریعہ استاد طلبہ کی اکتسابی ترقی میں مانع عوامل سے واق ف ہوت ا ہے۔ ج انچ و تعین ق در ہی‬
‫اساتذہ کو اصالحی تدریس کے طریقے وضع کرنے میں مددفراہم کرتا ہے۔اساتذہ طلبہ کی جانچ و پیمائش کے بعد اصالحی ت دریس‬
‫کے ذریعہ اکتسابی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اساتذہ اپنی تدریسی سرگرمیوں میں طلبہ کی مسلسل‬
‫جامع جانچ ‪،‬اکتسابی ‪ ،‬اخالقی اور برتاؤ کی ترقی کے لئے مکمل گنجائش اور مواقع فراہم کریں۔‬
‫(‪ ) 11‬طلبہ میں خوش گوار اکتساب کے فروغ کے لئے مختلف اوقات اور مراحل میں طلبہ کی نفسیات اور اپنی تدریس ی س طح پ ر‬
‫اساتذہ کا نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔نفسیاتی اور ذہ نی ص الحیتوں ک و پیش نظ ر رکھ ک ر اس اتذہ ط ریقہ ت دریس ک و اپن ائیں ت اکہ‬
‫تدریس کو طلبہ مرکوز بنایا جاس کے۔وہ ت دریس بہ تر م انی ج اتی ہے جس میں نفس یاتی عوام ل پ ر توجہمرک وز کی ج اتی ہے اور‬
‫نفساتی تقاضوں کے عین مطابق طریقہ تدریس اور تدریسی حکمت عملی وضع واختیار کی جاتی ہے۔‬
‫(‪ ) 12‬تدریس عمل کو جدید تکنیکی و تخلیقی نظریات سیہم آہنگ ک رتے ہوئیمزی د بہ تر اورعص ری تقاض وں کے عین مط ابق بنای ا‬
‫جاسکتا ہے۔اساتذہ نئے تعلیمی رجحانات اور اختراعی و تکنیکی وسائل سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے اکتساب کے عمل کو پر کی ف‬
‫‪،‬پائیدار‪،‬موثر اور یاد گار عمل بنا سکتے ہیں۔تجربوں اور تجزیات پر مبنی تدریس نہ صرف موثر بلکہ پائیدار بھی ہوتی ہے۔تعلیمی‬
‫دنیا میں وقوع پذیر تبدیلیوں سے اساتذہ کا واقف ہونا ضروری ہے۔ اس اتذہ اپ نی ص الحیتوں ک و عص ری تقاض وں کے عین مط ابق‬
‫بناکر طلبہ کو تعلیمی عمل میں مزید فعال اور سرگرم بناسکتے ہیں۔عصری تقاضوں سے ن ا واق ف اس اتذہ معلوم ات میں اض افہ ت و‬
‫کجا طلبہ کی رہی سہی صالحیتوں کے بے دردانہ قتل کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ای ک بہ تر اس تاد ت دریس کے اساس ی پہل وؤں س ے‬
‫سرموئے انحراف کیئے بغیر نئے تدریسی تجربات و طریقوں کو ایجاد و اختیار کرتا ہے۔‬
‫تدریسی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے استاد نہ صرف اپنی تدریسی صالحیتوں کو فروغ دیت ا ہے بلکہ معی اری اکتس اب ک و پ روان‬
‫چڑھانے میں کامیابی بھی حاصل کرتا ہے۔تدریسی اصولوں پر عمل پیرائی کے ذریعہ مشکل اور گنجلک تدریسی مس ائل آس ان اور‬
‫سہل ہوجاتے ہیں۔ تدریسی اصول کے ذریعے نہ صرف استاد الجھن اور پریشانی سے محفوظ رہت ا ہے بلکہ طلبہ بھی تش کیک اور‬
‫تشویش سے مامون رہتے ہیں۔استاد کا میکانکی انداز میں سبق پڑھا نا طلبہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوت ا ہے۔ زم انے ق دیم س ے یہ‬
‫بات کہی جاتی رہی ہے کہ طلبہ میں علم حاصل کرنے کے لئے شوق و ذوق بہت ضروری ہے۔ میری نظر میں جس طرح حصول‬
‫علم کے لئے طلبہ میں شو ق و ذوق ضروری ہے بالکل اسی طرح موثر تدریس کے ل ئے اس تا د میں بھی ت دریس افع ال کی انج ام‬
‫دہی کے لئے شوق و ذوق اور جوش و جذبے ک ا پ ا ی ا ج ا ن ا نہ ایت ض روری ہے۔ط الب علم کی ذہ نی اس تعداد کی ط رح معلم کی‬
‫تدریسی لیاقت بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔اکثر و بیشتر طلبہ ہی امتحان اور آزمائش کے نام پر تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ بہت ہی‬
‫کم یا نہیں کے برابر اساتذہ کی تدریسی لیاقت اور استعداد کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ اکتساب کے زوال یاماند پڑھنے پر عموما‬
‫طلبہ کو لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے بہت کم اساتذہ کی تدریسی لغزشوں کی ط رف نگ اہ کی ج اتی ہے ۔اس حقیقت س ے مجھے‬
‫کوئی انکار نہیں ہے کہ فروغ علم اور اکتساب کے زوال میں طلبہ کی غفلت شامل حال ہے لیکن بد ک و ب دتر بن انے میں اس اتذہ ک ا‬
‫بھی کہیں نہ کہیں ہاتھ ہے۔ اس اتذہ کامی اب طلبہ ک و جس ش ان س ے اپ نی ک ارکردگی ک ا نم ونہ بن ا ک ر پیش ک رتے ہیں اس ی ط رح‬
‫ضروری ہے کہ وہ بچوں میں اکتساب کی مان دگی کے اس باب تالش ک رنے کیعالوہ اپ نے تدریس ی ط ریقہ ک ارکی خ امیوں ک ا بھی‬
‫جائزہ لیں۔اپنے تدریسی تجربات کی روشنی میں مجھے یہ ب ات کہ تے ک وئی ع ار محس وس نہیں ہورہ اہے کہ اس اتذہ اپ نی تدریس ی‬
‫جہالت کی بناء پر بچوں کی صالحیتوں کا قتل کر رہے ہیں۔حروف کی ترتیب و صوتیات س ے واق ف ف رد اس تاد نہیں ہوت ا ہے بلکہ‬
‫استاد طلبہ کے نفسیاتی ‪،‬معاشرتی مسائل کا ادراک رکھتا ہے ان کی س ابقہ معلوم ات اور ذہ نی ص الحیتوں اور اس تعداد ک و ملح وظ‬
‫رکھ کر اپنی تدریسی حکمت عملی وضع کرتا ہے۔بہتر ‪،‬کامیاب اور موثر تدریس کی انج ام دہی کے ل ئے اس تاد ک ا الئ ق ‪،‬قاب ل اور‬
‫تربیت یافتہ ہونابہت ضروری ہے۔ اساتذہ درس و تدریس کے جدی د نظری ات اور تکین ک س ے خ ود ک و آراس تہ ک رتے ہ وئے ای ک‬
‫جہالت سے پاک معاشرے کی تعمیر میں نمایا ں کردار انجام دے سکتے ہیں۔‬

‫تجاویز‪:‬‬ ‫موثر تدریسی‬


‫مضمون و موضوع پرمہارت اورعبور رکھتا ہو؛۔درس و تدریس اور تعلیم و تعلم میں طلبہ پر اثر ان داز ہ ونے واال س ب اہم عنص ر‬
‫استاد کامضمون و موضوع کا علم اور اس پر اس کا عبور و کمال ہوتا ہے۔صرف نصابی کتب پڑھ کر اس ی معلوم ات ک و طلبہ پ ر‬
‫منقل کرنا طلبہ کے لئے ایک بے کیف اور غیر اطمینان بخش اکتساب کانقطہ آغاز ہوتا ہے۔آج ک ا زم انہ انفج ار علم(‪Knowledge‬‬
‫‪)Explosion‬کا دور ہے اور طلبہ کو حصول علم کے‬

‫لئے استاد کے عالوہ کئی ذرائع بھی دستیاب ہیں۔ان حاالت میں اگر استاد کا علم اور معلومات سطحی ہوں گے تب یہ معلومات طلبہ‬
‫کے لئے کوئی دلچسپی اور کشش کا باعث نہیں ہوں گے اور اس تاد کی علمی حی ثیت طلبہ کی نظ روں میں بے وقعت ہوج ائے گی۔‬
‫کمرۂ جماعت میں استاد کی موثراور پر کیف تدریس کا انحصار اس کے تبح ر علم ‪،‬مض مون و موض وع کی معلوم ات پ ر عب ور و‬
‫دسترس اور تدریس کی مہارت پر ہوتا ہے۔ مضمون و موضوع کے علم پر عبور و مہارت پیشہ تدریس سے وابستہ افراد کے ل ئے‬
‫نہایت ضروری تصور کی جاتی ہے تاکہ طلبہ اپنے استاد کے علم و فضل کی قدر کر یں اور استاذی کا مق ام و م رتبہ بلن د ہ و۔طلبہ‬
‫کے نزدیک علم و فن کا دوسرا نام استاد کی شخصیت ہوتی ہے۔استاد اپنے علم کی گہرائی ‪،‬گیرائی اور نفس موضوع س ے انص اف‬
‫کرتے ہوئے شاگردوں میں تشکیک کی فضاء کو ابھرنے نہیں دیتا ۔ استاد اگر اپنے مضمون اور موضو ع پر دس ترس نہ رکھت ا ہ و‬
‫تب اکتساب و آموزش (سیکھنے کا عمل) مج روح ہ وکر رہ ج اتی ہے۔ اس تاد اپ نی علمی بے م ائیگی کی وجہ س ے ذہین اور ہش یار‬
‫طلبہ کی علمی تشنگیکو دور کرنے سے قاص ررہتا ہے جس کی وجہس ے طلبہ ناامی د ی اور مایوس ی ک ا ش کار ہوج اتے ہیں۔اپ نے‬
‫موضوع اور مضمون پر عبور و دسترس رکھنے واال استاد طلبہ کو علم سے سیراب کرت ا ہے۔س یرابی علم س ے سرش ار طلبہ میں‬
‫اکتساب کی شرح ازخود بڑھنے لگتی ہے ۔اکتساب اور درس و تدریس غیر ارادی طور پ ر ای ک فع ال اور دلچس پ عم ل بن ج اتے‬
‫ہیں۔بقول ماہر تعلیم محمد اسحق مرحوم ’’ اچھا استاد پڑھانے میں بھی استاد ہوتا ہے۔‘‘ (تعلیم ایک تحری ک ) ۔ بہ تر درس و ت دریس‬
‫کے لئے ایک استاد کو اپنے علم و فن میں طاق ہونا ضروری ہوتا ہے۔ایک باکمال اس تا د نہ ص رف اپ نے مض مون میں کم ال پی دا‬
‫کرتا ہے بلکہ وہ اپنے علم اور طریقے تدریس سے طلبہ کے قلب و ذہن تک رسائی حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل ک ر لیت ا‬
‫ہے۔ماہر تعلیم ہمایوں کبیر کے مطابق پڑھانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک بھری بالٹی ک و خ الی ب الٹی میں ان ڈیل دی ا ج ائے۔م اہر‬
‫تعلیم وسابق صدر جمہوریہ ہند نے بھی تختہ سیا ہ سے یا درسی کتاب سے نقوش علم کی طلبہ کی نوٹ بک کی منتقلی ک و ت دریس‬
‫ماننے سے انکار کردیاہے۔ایک مثالی استاد اپنے علممیں وسعت پیدا کرنے کے لئے ہمیشہ کوش اں رہت ا ہے ۔اپ نے علم میں وس عت‬
‫پیدا کرتے ہوئے استاد طلبہ میں اکتساب کی فضاء کو پروان چڑھا تا ہے۔پڑھانے سے قبل اس ک و علم ہوت ا ہے کہطلبہ ک و کی ا اور‬
‫کس طرح پڑھا یا جائے ۔طلبہ کی بنیادی کمزوریوں کا علم بھی ا یک استاد کے لئے بے حد ضروری ہے۔ تاکہ ترس یل علم میں م ا‬
‫نع تما م عناصر کا وہ کامیابی سے سد باب کر سکے۔ایک کامیاب استاد کا ہر سبق تدریس کا فن پارہ ہوتا ہے۔ ذہین اور ہش یار طلبہ‬
‫کی جانب سے مضمون اور موضوع پر درسی نصاب کے عالوہ اٹھ ائے ج انے والے اش کاالت کے جواب ات دی نے کے ل ئے ای ک‬
‫استاد کو نصابی کتاب کی معلومات کا فی نہیں ہوتی ہے۔ذہین اور تعلیمی طور پر فعال اور ہش یار طلبہ کی ت دریس ای ک اس تاد کے‬
‫لئے مشکل اور پریشان اس وقت ہوجاتی ہے جب اس کو موضوع و مض مون پ ر عب ور حاص ل نہ ہ و اور نص ابی م واد کے عالوہ‬
‫اعلی معلومات تک اس کی رسائی نہ ہو۔طلبہ درسی کتب کے پڑھائے گئے مفروضے اور حروف فراموش کر دیتے ہیں لیکن استاد‬
‫کے پڑھا ئیگئے سبق اور مفروضوں کی سدائے بازگشت تمام عمر ان کے کانوں سے ٹکراتی رہتی ہے۔علوم کی ترس یل میں اس تاد‬
‫کا تبحر علم نہایت اہم وسیلہ ہوتا ہے اور یہ تبحر طلبہ کے ذہن و قلب میں ہمیشہ کے ل ئے مرتس م ہوجات ا ہے۔اس اتذہ کے ل ئے چن د‬
‫قابل قدر رہنمایانہ اصول بیان کیئے جارہے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر وہ پڑھائے جانے والے موض وع میں گہ رائی و گ یرائی پی دا‬
‫کرنے کے ساتھ درس و تدریس میں تنظیم و ترتیب پیدا کر سکتے ہیں۔‬
‫(‪) 1‬اساتذہ پڑھائے جانے والے موضوع اور اس سے متعلق دیگر معلومات و مضامین کا پہلے ہی بغور مط العہ ک رلیں اور موض و‬
‫ع کی تدریس میں معاون نوٹس بھی تی ار کرن ا نہ بھ ولیں۔موض وع س ے متعل ق معلوم ات کے حص ول س ے اس اتذہ کومض مون اور‬
‫موضوع پر عبور و کمال حاصل ہوجات ا ہے اور درس و ت دریس میں تنظیم و ت رتیب پی دا ک رنے میں بھی وہ کامی اب ہوج اتے ہیں۔‬
‫درسی سرگرمیاں باقاعدگی سے انجام پانے لگتی ہیں ۔کمرۂ جماعت بوریت اور افتادگی کا شکار ہونے سے محفوظ رہتی ہے ۔درس‬
‫و تدریس کا سارا عمل ایک منصوبے اور نظام کے تحت انجام پانے لگتا ہے۔اکتس اب کی ش رح بھی مت اثر کن ح د ت ک ب ڑھ ج اتی‬
‫ہے۔‬
‫(‪) 2‬اساتذہ مختلف تعلیمی و تدریسی وسائل کے استعمال کے ذریعہ مو ضوع اور مضامین کی معلومات میں گہرائی اور گیرائی پی دا‬
‫کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں۔موضوع اور مض مون کے ب ارے میں درس ی کتب میں ف راہم ک ردہ معلوم ات پ ر ہی اکتف ا نہ‬
‫کریں بلکہ مزید معلومات اور حقائق کے لئے غیر نصابی کتابوں کے مطالعہ سے اپنے علم و معلوم ات میں اض افہ ک ریں۔ہ ر وقت‬
‫اپنے طلبہ کو معیاری اور بہترین معلومات اور عمدہ علم کی فراہمی کو یقینی بنانا ایک استاد کا اہم فریضہ ہوتا ہے۔‬
‫(‪)3‬اساتذہ مطالعہ کی عادت کو مستقل اپنا ش یوہ بن الیں۔مط العہ کی ک ثرت کی وجہ س ے‪ ،‬علم میں وس عت اور گہرائیپی دا ہ وتی ہے۔‬
‫اساتذہ کے لئے تو مطالعہ سانس کی طرح اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ زندگی کے لئے سانس جیسے اہم ہے اسی طرح تدریسی زن دگی‬
‫کی ڈور بھی مطالعہ سے بندھی ہوئی ہے۔رسائل‪ ،‬جرائد‪ ،‬مضمون و موضوع سے متعلق کت ابیں‪ ،‬ج رنلس ‪،‬تحقیقی مض امین و مق الہ‬
‫جات اور انٹرنیٹ پر دستیاب مواد کے مطالعہ کے ذریعہ اساتذہ پر اعتماد اور موثر تدریس کو یقینی بنا سکتے ہیں۔‬
‫(‪ ) 4‬اپنے ہم پیشہ دوستوں‪ ،‬ساتھیوں ‪،‬مضامین کے ماہرین ‪،‬اپنے مضمون میں مہارت اور کمال رکھنے والے افراد س ے گفتگ و ک و‬
‫رواج دیں۔ باعلم اور باکمال افراد سے مالقات کا کوئی موقع ضائع نہ کریں ت اکہ علم میں اض افے کے س اتھ گہ رائی و گ یرائی پی دا‬
‫ہواورموضوع کے گنجلک و پیچیدہ نکات کی تفہیمسہلہو جائے۔‬
‫(‪)5‬اپنے موضوع اور مضمون سے متعلق معلومات کو ضبط تحریرمیں الئیں‪ ،‬اخبارات ‪ ،‬ر س ائل‪ ،‬جرائ د اور میگ زین میں چھ پے‬
‫موضوع سے متعلق معلومات کو کاٹ کر تراش وں ک و محف وظ رکھیں۔ ۔اس ض من میں روزن امے ‪،‬اخب ارات ک افی اہمیت کے حام ل‬
‫ہوتے ہیں اور یہ معلومات کی فراہمی کا سب سے سستا ذریعہ بھی ہیں۔محف وظ ک ردہ تحری ری ن وٹس ‪ ،‬تراش وں ک و دوران ت دریس‬
‫کمرۂ جماعت میں ایک وسیل ِہ ‪ ،‬رسورس اور ریفرنس (حوالہ جاتی مواد) میٹریل کے طور پر استعمال کر یں۔‬
‫(‪) 6‬معلومات کی ذخیرہ اندوزی ‪ ،‬مطالعہ کی وسعت ‪،‬جہاں موضوع و مضمون کے دانش ورانہ تفہیم و تج زیہ ک اذریعہبنتی ہے وہیں‬
‫طلبہ کی استعداد ‪ ،‬ذہنی صالحیتکے مطابق ذہانت کے فروغ‪،‬درس و ت دریس کی تنظیم و ت رتیب میں بھی یہ س رگرمی نہ ایت مم دو‬
‫معاون ثابت ہوتی ہے۔‬
‫(‪ ) 7‬درس و تدریس کے لئے اساتذہ مضمون و موضوع سے متعلق ا پنی معلومات کو جب ترتیب و تنظیم میں لے آتے ہیں تب تم ام‬
‫طلبہ‪ ،‬تعلیمی طور پر کمزور(سلو لرنر)‪،‬ذہین طلبہ(‪،)Gifted Students‬اور اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ کی تدریس بھی م وثر‬
‫اور آسانی سے انجام دی جا سکتی ہے۔موضوع پر عبور اور کمال کے ذریعہ اساتذہ طلبہ کی ذہنی صالحیتوں کو پیش نظر رکھتے‬
‫ہوئے موضوع کو آسان ‪ ،‬سہل اور معنی خیز بنا کر پیش کر تے ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں دانشوری فروغ پانے لگتی ہے۔‬
‫(‪)8‬اپنے مضمون او رموضوع میں دلچسپی لینے س ے اس اتذہ میں بص یرت پی دا ہوج اتیہے جس کے وجہ س ے وہ م دلل اور م وثر‬
‫گفتگو سے کام لینے لگتے ہیں۔استدالل اور بصیرت کی روشنی میں وہ موضوع و مض مون کی ت دریس کے ل ئے اخ تراعی ط ریقہ‬
‫ہائے تدریس کو رواج دی تے ہیں۔طلبہ میں بحث و مب احث اور تج ربہ و تج زیہ کی کیفیت ک و پی دا ک رنے میں بھی کامی ابی حاص ل‬
‫کرتے ہیں۔‬
‫(‪)9‬اساتذہ اپنی پیش ہ وارانہ اور مض مون کی معلوم ات میں تجدی د اور اض افے کے لی ئے ک وئی دقیقہ فروگزاش ت نہ رکھیں۔ اپ نے‬
‫مضمون میں نکھار پیدا کرنے والے اورینٹیشن پروگرام‪ ،‬ورکش اپس‪ ،‬ن ئے تعلیمی ‪،‬علمی و سائنس ی رجحان ات س ے واقفیت حاص ل‬
‫کرنے کے لئے ر ریفریشر کورسسز وغیرہ میں شرکت کریں تاکہ کمرۂ جماعت میں تدریس کو آسان اور مفید بنایا جاسکے۔‬
‫(‪) 10‬پڑھائے جانے والے موضوعات کا وسیع او ر گہرا علم رکھتے ہوئے اساتذہ تمام طلبہمیں اکتس اب ک و یقی نی ط ور پ ر پ روان‬
‫چڑھ ا س کتے ہیں۔ وس عت علم کے ذریعے طلبہ کے اکتس اب کی ج انچ من ا س ب ان داز میں انج ام دے س کتے ہیں۔ وس یع معلوم ات‬
‫رکھنے کی وجہ سے بہتر اور موثر سواالت کرنے کے طریقوں سے واقف رہتے ہیں۔ اپنے تبحر علم کو ب روئے ک ار التے ہ وئے‬
‫کمزور طلبہ کو آسان اور سہل انداز میں معلومات و حقائق کو خاکوں اور فلو چارٹس کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔‬
‫(‪)11‬موضوع کے متعلق وسیع معلومات کی وجہ سے درس و ت دریس میں جہ اں س ہولت پی دا ہ وتی ہے وہیں موض وع و مض مون‬
‫استاد کی یکتائی اور مہارت کمرۂ جماعت کے نظم و ضبط کو قابو میں رکھن ا ک ا ای ک اہم وس یلہ ہے۔اس تاد ک ا اپ نے مض مون میں‬
‫دس ترس کی وجہ س ے اخ تراعی ط ریقے ہ ائے ت دریس اور تخلیقی ت دریس ک و جگہ دی تے ہ وئے علمی نظری ات ک و اس تحکام اور‬
‫پائیداری فراہم کرتاہے۔‬
‫ہمیشہ استاد کا مضمون پر عبورا ور دسترس طلبہ کے ذہنوں پر خوش گوار اثرات کا موجب ہوتا ہے۔ مضمون پر کم ال اور عب ور‬
‫استاد کی عظمت و عزت کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔طلبہ مضمون میں دلچسپی لینے لگتے ہیں ۔صحت مند اکتساب و تعلیمی م احول‬
‫کے لئے استاذ کا اپنے مضمون اور موضوع پر مکمل عبور اور دستر س ضروری ہے‬

‫سوالنمبر ‪2#‬‬
‫ان تمام اقدامات کو واض‪77‬ح ک‪77‬ریں۔ جس کی روش‪77‬نی میں آپ پرائم‪77‬ری س‪77‬طح پ‪77‬ر نظم کی ت‪77‬دریس م‪77‬وثر‬
‫انداز سے کر سکیں۔‬
‫جواب ‪:‬‬
‫پرائمری سطح پر تعلیم‪:‬‬

‫رز تعلیم ہی رائج ہے اور اگ ر ہم بغ ور ج ائزہ‬


‫ہمارے ہاں چونکہ برطانوی حکومت رہی ہے اِس لئے پاکستان میں بھی پرائم ری ط ِ‬
‫ار تعلیم ج و کہ س رکاری‬‫لیں تو ہمیں پرائمری سطح تعلیم کئی مسائل کا شکار نظر آتی ہے۔بنیادی ط ور پ ر یہ اں دو ط رح کے معی ِ‬
‫نظام تعلیم ہے جو مدرسوں میں رائج ہے اور اِس نظ ِام‬
‫ِ‬ ‫اور پرائیویٹ سکولوں میںنظر آتے ہیں مگر اِس کے ساتھ ساتھ ایک وہ بھی‬
‫تعلیم سے مستفید ہونے والے بچے قومی دھارے میں شامل ہونے سے قاصر نظر آتے ہیں۔‬
‫سرکاری سکولوں کے معیار کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا س کتا ہے کہ ج و ل وگ ص احب حی ثیت نہیں ہیں وہ بھی س رکاری‬
‫معیار تعلیم کی پستی کی وجہ سے بچوں کو پرائیو یٹ سکولوں میں تعلیم دینے کی خواہش رکھتے ہیں یا پھر مجبوراً‬
‫ِ‬ ‫سکولوں کے‬
‫اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں داخل کرواتے ہیں۔‬
‫پرائمری تعلیم کا مرحلہ کسی بھی بچے کی شخصیت اور شعور کےل ئے بہت اہم ہوت ا ہے اِس عم ر میں بچے بہت متجس س ہ وتے‬
‫ہیں اور اِس مرحلے پر بچوں کے تجسس کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنی چاہئے۔ بد قسمتی سے سرکاری اور غ یر س رکاری‬
‫معیار تعلیم تو ابھی پچھلی صدی ہے ہی باہر نہیں نک ل پای ااور غ یر‬
‫ِ‬ ‫سکول دونوں ہی میں اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی۔سرکاری‬
‫سرکاری سکول کتابوں‪ ،‬پڑھائی اور رٹے پر زور دے رہے ہیں۔ پرائمری کی سطح پر دیکھا جائے تو ابت دائی جم اعتوں کے بچے‬
‫اردو الف‪ ،‬ب‪ ،‬انگریزی اے‪ ،‬بی‪ ،‬اسالمیات‪ ،‬حساب‪ ،‬معاشرتی علوم‪ ،‬س ائنس‪ ،‬کم پیوٹر‪ ،‬آرٹ اور اٹلس جیس ی کت ابیں پ ڑھ رہے ہیں‬
‫اور اکثر والدین یہ شکایت کرتے پائے جاتے ہیں کہ بچے پہلے سکول پڑھتے ہیں اور پھر گھ ر آک ر بھی رات ت ک ہ وم ورک ختم‬
‫نہیں کرپاتے۔اتنے چھوٹے بچوں کو اتنے بوجھ تلے رکھ کر ہم کس طرح کی تعلیم اور تربیت دے پائیں گے۔‬
‫ترقی یافتہ ممالک میں اِس عمر کے بچوں کو تعلیم دی نے کےل ئے بنی ادی پڑھ ائی‪ ،‬گن تی کے س اتھ س اتھ بنی ادی جغ رافیہ‪ ،‬ت اریخ‪،‬‬
‫سائنس اور سوشل سائنس پڑھائی جاتی ہے اور یہ تعلیم بھی ہمارے ہاں دی جانے والی روایتی تعلیم س ے ہٹ ک ر کھی ل ک ود‪ ،‬غ یر‬
‫نصابی اور دلچسپ سرگرمیوں کے ذریعے دی جاتی ہے اِس طریقہ تعلیم میں بچے بغیر بوجھ لئے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔‬
‫اِس سطح پر تعلیم دینے کےلئے ماہر مرد و خواتین اساتذہ کو تعینات کیا جاتا ہے اور ایک استاد کو پورے سال کے ل ئے اِن بچ وں‬
‫پر مخصوص کر دیاجاتا ہے تاکہ وہ بچوں کو سمجھتے ہوئے ہر ایک بچے کی صالحیت کے مطابق لے کر چل سکیںاِن اساتذہ کی‬
‫مدد کےلئے معاون اساتذہ جو کہ اپنے مضمون میں مہارت رکھتے ہوں مختص کئے جاتے ہیں جیساکہ جسمانی تعلیم یاپھر میوزک‬
‫یا آرٹ کے اساتذہ ہو سکتے ہیں۔‬
‫دنیا بھر میں پرائمری کی سطح پر تعلیم کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ تعلیم کے ط ریقہ ک ار س ے لے ک ر اس اتذہ کے چن اﺅ ت ک ہ ر‬
‫مرحلہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے کہ انگریز سکولوں کے اساتذہ کا امتح ان لی تے ہ وئے اُس کی‬
‫پس منظر بھی دیکھتے تھے۔ مگر آج کل ہمارا معیار رشوت‪ ،‬اقربا پروری اور سیاسی مصلحت‬ ‫تعلیم کے ساتھ اُس استاد کا خاندانی ِ‬
‫ہے۔‬
‫اگر حال ہی کی مثال کو لیا جائے جو کہ برطانیہ کے جنوب مشرقی لندن کے ایک پرائم ری س کول کے ہیڈماس ٹر م ارک الم ز کی‬
‫ہے۔ مارک المز نے ٹڈمل پرائمری سکول کا چارج ‪2001‬ءمیں سنبھاال اُس وقت سکول کا شمار ناک ام ت رین س کولوں میں ہوت ا تھ ا‬
‫لیکن چارج سنبھالنے کے بعد سکول میں بہتری پیدا ہوتی گئی اور بہت جلد یہ لندن کے بہترین سکولوں میں شمار ہونے لگا۔‬
‫برطانیہ کے ماہر تعلیم سر کین روبنسن نے پرائمری کی سطح پ ر بچ وں کی تعلیم میں تخلیقی ص الحیتوں ک و ابھ ارنے کے ب ارے‬
‫میں زور دیا ہے۔کین روبنسن کے مطابق تعلیم میں تخلیق کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ تعلیم میں خواندگی کی۔ ہمیں سکولوں میں‬
‫پرائم ری کی س طح س ے ہی تخلی ق کے عم ل ک و ابھارن ا چ اہئے۔ کین وربنس ن کہ تے ہیں کہ اِس وقت کے نظ ام تعلیم کے مط ابق‬
‫پڑھائی میں غلطی کرنے کو بدترین چیز سمجھا جا تا ہے جس کے نتیجے میں بچوں میں پائی ج انے والی ق درتی ص الحیتوں ت ک‬
‫نہیں پہنچا جا سکتا۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ہونے والی پرورش بچوں کی صالحیتوں سے ہٹ کر ہو رہی ہے۔ہم ارے ہ اں زی ادہ‬
‫نظام تعلیم بچ وں کی ص الحیتوں ک و دب ا رہے ہیںاور اس نظ ام میں انقالب النے کی ض رورت ہے۔ای ک مہ ذب‪ ،‬تعلیم ی افتہ اور‬
‫ِ‬ ‫تر‬
‫ت عملی اور اصالحات کے عمل ک و ج اری‬ ‫باشعور معاشرے کی نظر میںپرائمری تعلیم کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ حکم ِ‬
‫رکھتے ہیں۔٭٭‬
‫طریقہ تدریسں کا برا ِہ راست تعلق سبق کی پریزینٹیشن سے ہوتا ہے۔ ایک استاد مختلف مض امین پڑھ انے کے ل یے مختل ف ط ریقہ‬
‫تدریس کا استعمال کرتا ہے جس کا انحصار ذیادہ تر مضمون کی نوعیت اور استاد کے اختیار کردہ طریقہ پر ہوتا ہے۔ ان طریق وں‬
‫کو بعض اوقات تدریسی حکمت عملی یا ترکیب کہا جاتا ہے۔ تعلیم کے میدان میں ترقی سے طریقہ تدریس بھی تبدیل ہ و چکے ہیں۔‬
‫روایتی طریقہ تدریس میں استاد لیکچر دیتا تھا اور طلباء نوٹس لیتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ط ریقہ آج بھی ک ارگر ہ ومگر تعلیمی‬
‫ارتقاء کی وجہ سے آج اساتذہ اپنے بچوں کے تجسس کو ابھارنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان کی خواہش ہ وتی ہے کہ ان‬
‫کے طلباء غیر روایتی انداز میں سوچیں۔‬
‫ت عملیوں اور طریقہ تدریس میں مہارت حاصل کرنے میں م دد ملے گی اور ہم آپ کی م دد ک ریں‬ ‫اس سیکشن سے آپ کو ان حکم ِ‬
‫گے کہ کس طرح سے آپ نئے انداز اپنا کر اپنی تدریس کو ذیادہ موثر اور دلچسپ بنا سکتے ہیںقدیم مص ر‪ ،‬یون ان‪ ،‬روم کے دن وں‬
‫میں‪ ،‬شام تیز تجارت دونوں ممالک کے درمیان منعقد کی گئی‪ ،‬ثقافتی رواب ط تھے‪ ،‬ت و پھ ر بھی ای ک غ یر ملکی زب ان کی ت دریس‬
‫کے پہلے طریقوں تھے‪ .‬خاص طور پر توجہ الطینی زبان‪ ،‬پندرہ صدیوں یورپی ثق افت کی بنی اد س مجھا جات ا تھ ا جس کی ادائیگی‬
‫کی گئی‪ .‬پاس رکھنا انسانی تعلیم کے ایک اشارے پر غور کیا گیا تھ ا‪ .‬اس کے بع د‪ ،‬ج رمن‪ ،‬فرانسیس ی اور انگری زی زب انوں کے‬
‫مطالعہ کی طرف سے ادھار کیا گیا تھا جس میں ت دریس کے اس زب ان ک ا اس تعمال ت رجمہ ط ریقہ‪ ،‬س یکھنے کے ل یے‪ .‬تعلیم کے‬
‫قدرتی طریقے کے عملی مسائل کو حل کرنے کے لئے – مہارت کی تربیت تقریر‪.‬‬

‫زبان کی تدریس کے طریقوں‬

‫تدریسی طریقوں کیا ہے‬


‫طریقہ کار کی تعلیم – تعلیمی عمل کا ایک الزمی جزو ہے‪ .‬مخصوص ت راکیب اور طریق وں کے اس تعمال ک و اس کے مقاص د ک ا‬
‫احساس نہیں کر سکتے ہیں کے بغیر‪ ،‬عمل بامعنی اور معیار بنانے کے لئے‪.‬‬

‫اصول اور عمل – گھریلو درس اصطالح "تدریسی طریقہ" میں نہ صرف عام تعلیم بلکہ مخصوص حصوں کو حل کرنے کے ل ئے‬
‫استعمال بھی شامل ہے‪.‬‬

‫جدید تدریس ی طریق وں کثیراالبع اد پیچی دہ تعلیمی رجح ان ہیں‪ .‬ان کے نیچے اس مقص د‪ ،‬آپریش ن اور حقیقت کی نظری اتی ی ا عملی‬
‫مفاہمت کی تکنیک کی ایک سیٹ‪ ،،‬مخصوص مسائل کو حل کرنے کی تعلیم دی ڈسپلن کے لحاظ حصول کے لئے اختی ارات مطلب‬
‫لیا‪.‬‬

‫طریقہ کار کی تعلیم جس میں تعلیمی مواد کے عبور فراہم کرتا طالبہ کے عملی و علمی سرگرمی منظم کرنے کے استاد کی ٹارگٹ‬
‫اعمال کا ایک نظام ہے‪.‬‬

‫اسکول میں تدریسی طریقوں‬

‫کار کے نقطہ نظر کی اہمیت‬


‫اس تدریسی طریقوں اور تکنیکوں کے تعامل کے طالب علم اور اساتذہ کا شکریہ‪ ،‬کی ایک قسم کو ح ل کی ا ہے تعلیمی اور تربی تی‬
‫مقاصد‪.‬‬

‫بہت سے روسی سائنسدانوں کسی بھی تعلیمی نظم و ضبط کی تعلیم پر ہے کہ تدریس کے طریقہ کار استاد کے پیشہ ورانہ کام کے‬
‫لئے اہم ذریعہ ہے یقین ہے کہ‪ .‬یہ اس اتذہ کی ت ربیت اور ط الب علم س یکھنے اور علمی س رگرمیوں‪ ،‬بلکہ ان کے درمی ان تعلق ات‪،‬‬
‫اسی طرح کی سرگرمیوں‪ ،‬تعلیمی‪ ،‬ترقیاتی‪ ،‬تعلیمی تربیت کے مقاصد کو حاصل کرنے کا مقصد کے کام کی نہ صرف تنظیم م راد‬
‫ہے‪.‬‬

‫طلباء کی علمی سرگرمی چالو کرنے کے لئے‪ ،‬استاد ایک استاد‪ ،‬طالب علم ایک مضبوط بنیاد کا ک وئی علم س ے‪ ،‬علم س ے جہ الت‬
‫سے آتا ہے جس کے ذریعے کے طور پر کام کرتا ہے‪.‬‬

‫اسکولوں میں تدریسی طریقوں کے مواد منطقی پہل و کے س اتھ منطقی ط ریقہ ہے جس میں ط الب علم وں ش عوری مہ ارت مہ ارت‬
‫حاصل‪ ،‬علم‪ ،‬مہارت حاصل ہے‪ .‬فی الحال‪ ،‬وہ تحریک کی ایک شکل‪ ،‬تعلیمی مواد کے نفاذ پر غور کیا جا سکتا ہے‪.‬‬

‫فارم اور تدریس کے طریقوں‬


‫درجہ بندی‬
‫میں ناموں کی ایک قسم کے قیام کے سلسلے تدریس ی طریق وں تن بیہ وہ بعض خصوص یات اور اج زاء کے مط ابق تقس یم کی ا جان ا‬
‫چاہئے‪ .‬جن سے وہ الگ الگ گروہوں میں تقسیم کر رہے ہیں اہم خصوصیات میں سے ممیز‪:‬‬

‫موجودگی (عدم موج ودگی) کے علم کے ابت دائی اس ٹاک کی ت ربیت میں‪ .‬اس گ روپ کے ط ور پ ر‪ ،‬مخل وط‪ ،‬تب ادلوں‪ ،‬ب راہ راس ت‬
‫تدریسی طریقوں کے استعمال کی طرف سے خصوصیات‪.‬‬
‫نظریہ اور بولنے کی مہارت کی تشکیل کی پریکٹس کا تناسب‪ .‬اس گروپ میں شعوری تقابلی عملی تربیت تکنی ک ک ا اس تعمال کی ا‬
‫جاتا ہے‪.‬‬
‫کسی بھی تعلیمی نظم و ضبط کا مطالعہ طالب علموں کے مخصوص ذہنی ریاستوں کے استعمال‪ .‬اس سے ن رمی‪ ،‬غص ہ مینجمنٹ‪،‬‬
‫نیند کی حالت میں استعمال سنبھالی ہے‪.‬‬
‫متبادل (تجویز) اور روایتی (معیاری) ٹیکنالوجی تعلیمی مضامین سیکھنے‪.‬‬
‫اس کے عالوہ طریقوں اور دونوں گروہوں میں تعلیمی سرگرمیوں کی تنظیم کے طریقہ کی طرف سے تقس یم کی ا ای ک غ یر ملکی‬
‫زبان کی تعلیم کی تکنیک‪ .‬ذہنی انتظام کی سرگرمیوں استاد یا طالب علموں کو خود پر لے سکتے ہیں‪.‬‬

‫مین تدریسی طریقوں‬

‫‪ Didactics‬میں طلباء اور اساتذہ کی سرگرمیوں کی تفصیالت پر تدریسی طریقوں مختص‪ .‬وہ یہ ہیں‪:‬‬

‫نصابی کتابوں کے ساتھ کام؛‬


‫کہانی؛‬
‫مظاہرے کے تجربات؛‬
‫بریفنگز؛‬
‫گفتگو؛‬
‫ورزش؛‬
‫لیکچر‪.‬‬

‫مضامین کی تدریس کے طریقوں‬

‫علم کے حصول کا ذریعہ کے مطابق‬


‫‪ GEF‬دوسری نسل ٹیوٹر بصری‪ ،‬زبانی طریقوں میں سے کسی نظم و ضبط کے استعمال کی اجازت دے‪.‬‬
‫مثال کے طور پر کیمسٹری کا مط العہ ک رنے میں نم ائش ک و اور لیب ارٹری کے تجرب ات ک ا ای ک مجم وعہ کی زی ادہ س ے زی ادہ‬
‫استعمال ہے‪ .‬کی وجہ سے مسئلہ کی بنیاد پر سیکھنے اس کمپلیکس کے مطالعہ میں سنجشتھاناتمک سود کی حوصلہ اف زائی‪ ،‬لیکن‬
‫دلچسپ سائنس کے باہر کیا‪.‬‬

‫جغرافیہ ٹیچر میں فعال طور پر بصری ٹیبل کا استعمال کرتا ہے‪ ،‬اور تاریخ کے بچوں تاریخی واقعات ایک دوسرے کے ساتھ کے‬
‫شاگردوں کے ساتھ ایک منطقی زنجیر کی تعمیر کے لیے جو بیان ایک ویڈیو پیش کرتا ہے‪.‬‬

‫کالس روم سماجی س ائنس لوگ وں میں مس ئلہ ح االت س ے ماڈلن گ کی ب دولت س ماجی اور تعلق ات ع امہ کے ب ارے میں معلوم ات‬
‫حاصل‪ ،‬آزادانہ مخصوص کاموں کو حل‪ ،‬استاد اس نظم و ضبط کی پیشکش کی‪.‬‬

‫مضامین کی تدریس کے طریقوں‬

‫تجزیاتی انداز فکر‬


‫یہ سوئٹزر لینڈ میں‪ ،‬انگلینڈ میں‪ ،‬فرانس میں استعمال کیا گیا ہے‪ ،‬لیکن وسیع پیم انے پ ر روس میں الگ و نہیں کی ا جات ا ہے‪ .‬ذخ یرہ‬
‫الفاظ سیکھنے کے اس طریقہ کار کی بنیاد کیا جاتا ہے‪ .‬کافی ذخیرہ الف اظ تش کیل دی نے کیل ئے مق امی اور غ یر ملکی زب انوں میں‬
‫اصل ادبی کاموں میں ‪ rote‬کی چیلوں کئے‪ ،‬اور پھر ایک الئن لفظی ترجمہ کا استعمال کیا‪ ،‬پڑھنے کے معنی کا تجزیہ کیا‪.‬‬

‫ریاضی‪ ،‬طبیعیات‪ ،‬حیاتیات‪ ،‬جغرافیہ‪ ،‬علم کیمیا‪ :‬سوئس ‪ Shovann‬الیگزین ڈر جب ط الب علم وں کی مہ ارت کی م ادری زب ان کے‬
‫طور پر اچھی طرح سے کے طور پر مستقبل کے پیشے کے انتخاب سے متعلق دیگر تعلیمی شعبوں تشکیل دیا جائے گ ا‪ ،‬کے بع د‬
‫ہی مکمل تربیت شروع کرنے کے لئے ہے کہ اس بات پر یقین کیا گیا تھا‪.‬‬

‫وہ اسے اور غیر ملکی زبانوں کی ایک متوازی مطالعہ‪ ،‬ک ئی تعلیمی ش عبوں کے کنکش ن کی بنی اد پ ر ک رنے کے ل ئے م دعو ک ر‬
‫رہے تھے‪ .‬گرائمر کے خالصہ کا مطالعہ کرنے کے بجائے‪ ،‬اس نقطہ نظر کے حاالت کی ایک قسم‪ ،‬الفاظ کے جمع ہ و ج انے ک ا‬
‫تجزیہ شامل ہے‪ .‬طالب علم ک افی ذخ یرہ الف اظ ق ائم کی گ ئی ہے کے بع د ہی‪ ،‬اس تاد اس ب ات کی وض احت ک رنے کے ل ئے روانہ‬
‫نظریاتی بنیادیں‪.‬‬

‫جدید اسکول فارم اور سکھا طلباء کے طریقوں وضاحتی‪ ،‬تالش‪ ،‬مثالی‪ ،‬مس ئلہ‪ ،‬تحقی ق اقس ام میں س رگرمی کی ڈگ ری کے مط ابق‬
‫تقسیم کر رہے ہیں‪ .‬ان کے اساتذہ بچوں کی انفرادی خصوصیات کے مطابق کئی تراکیب ‪ synthesize‬کرنے کی کوش ش ک ر رہے‬
‫ہیں‪ ،‬مختلف اشیاء کا استعمال‪.‬‬

‫‪،‬۔‬

‫سوال نمبر ‪3#‬‬


‫مطالعہ اور متن کو واضح کرتے ہوئے مطالعےکے طریق کار پر تفصیل سے بحث کریں؟‬
‫جواب‪:‬‬

‫تعالی علیہ فرماتے ہیں مجھے یاد ہے کہ میں ‪ 6‬سال کی عم ر‬ ‫مطالعہ سے جی نہیں بھرتا ‪ :‬عالمہ عبدالرحمن ابن جوزی رحمۃ ہللا ٰ‬
‫میں مدرسہ میں داخل ہوا سات سال کی ابھی عم ر تھی کہ میں ج امع مس جد کے س امنے می دان میں چال جای ا کرت ا تھ ا وہ اں کس ی‬
‫مداری یا شعبدہ باز کے حلقے میں کھڑا ہوکر تماشہ دیکھنے کے بجائے محدث کے درس میں شریک ہوتا وہ حدیث کی س یرت کی‬
‫جو بات کہتے وہ مجھے زبانی یاد ہو جاتی گھر آکر اس کو لکھ لیتا دوسرے لڑکے دریائے دجلہ کے کنارے کھیال کرتے تھے اور‬
‫میں کسی کتاب کے اوراق لے کر کسی طرف نکل جاتا اور الگ بیٹھ کر مطالعہ میں مشغول ہو جاتا ۔‬

‫میں اساتذہ اور بچیوں کے حلقوں میں حاضری دینے میں اس قدر جلدی کرتا کے دوڑنے کی وجہ سے میری س انس پھول نے لگ تی‬
‫تھی صبح شام اس طرح گزرتی کہ کھانے کا کوئی انتظام نہ ہوتا (علم و علماء کی اہمیت صفحہ‪) 28-‬‬

‫آپ رحمۃ ہللا تعالی مزید فرماتے ہیں میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح سیر نہیں ہوتی جب کسی نئی کتاب پ ر نظ ر‬
‫پڑ جاتی تو ایسا لگتا کہ کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے ۔ اگر میں اپنے مطالعے کے بارے میں حق بیان کرتے ہوئے یہ کہوں کہ میں‬
‫نے زمانے طالب علمی میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو میرا مطالعہ زیادہ ہوگا ۔مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے س لف‬
‫کے حاالت و اخالق ان کا قوت حافظہ‪ ،‬ذوق عبادت اور علوم نادرہ کا ایسا علم حاصل ہوا جو ان کت ابوں کے بغ یر نہیں حاص ل ہ و‬
‫سکتا تھا (قیمۃ الزمن عند العلماء صفحہ ‪) 62‬‬

‫اے عاشقان ‪/‬عاشقات رسول صلی ہللا تعالی علیہ وسلم ‪ :‬اپنے بزرگان دین علیہم الرحمۃ دین کا جذبہ مطالعہ سماعت فرمای ا گھ ر ہ و‬
‫یا مدرسہ خلوت ہو یا جلوت ان حضرات کے مط العہ میں کمی نہیں ہ وتی تھی ان کے اس ی ج ذبے کی وجہ س ے آج دنی ا انہیں ی اد‬
‫کرتی ہے ان کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھتی اور دعائیں دیتی ہے کیونکہ علم دین کا اتنا بڑا سرمایہ ان کے ذریعے ہم تک پہنچا۔مزی د‬
‫ذوق مطالعہ بڑھانے کے لیے مالحظہ فرمائیے ۔‬

‫بزرگان دین کے ارشادات ‪:‬‬


‫ِ‬

‫حضرت سیدنا امام ابو عبدہللا محمد بن اسماعیل بخ اری رحمۃ ہللا علیہ س ے پوچھ ا گی ا ح افظے کی دوا کی ا ہے ؟آپ رحمۃ ہللا علیہ‬
‫نے ارشاد فرمایا کتب کا مطالعہ کرتے رہنا حافظے کی مضبوطی کے لیے بہترین دوا ہے (جامع بیان العلم ‪،‬ص ‪)۵-١‬‬

‫کسی دانا کا قول ہے ‪:‬جس کی بغل میں ہر وقت کتاب نہ ہو اس کے دل میں حکمت ودانائی راسخ نہیں ہوسکتی (تعلیم المتعلم صفحہ‬
‫‪) 116‬‬

‫علماء کرام رحمھم ہللا السالم فرماتے ہیں کہ کتب فقہ مط العہ کرن ا قی ام اللی ل یع نی رات میں نف ل نم از پڑھ نے س ے بہ تر ہے (در‬
‫مختار جلد ‪ 1‬صفحہ ‪) 101‬‬
‫مطالعہ سے چونکہ علم حاصل ہوتا معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان ص احب علم بنت ا ہے اس ل ئے ش یطان اس ے روکت ا اور‬
‫سستی دالتا ہے ۔ مطالعہ کا شوق دل میں اجاگر کرنے اس کی عادت بنانے اور اس پر استقامت پ انے کے ل ئے مط العہ ک رنے کے‬
‫چند فوائد مالحظہ فرمائیے ۔‬

‫فائدے ‪:‬‬ ‫مطالعہ کرنے کے‬

‫پختگی ‪:‬‬ ‫ایمان کی‬

‫مطالعہ کرنے سے ایمان کی مضبوطی حاصل ہوتی ہے کی ونکہ عقائ د کے موض وع پ ر لکھی گ ئی کت ابوں کے مط العہ س ے ک ئی‬
‫باریکیوں کا علم ہوتا ہے اور انسان محتاط ہونے کے ساتھ ایمان کی فکر بھی ہر وقت پیش نظر رکھتا ہے‬

‫علم میں ترقی ‪:‬‬

‫مطالعہ سے علم بڑھتا ہے یاد رہے کہ علم سیکھنے ہی سے آت ا ہےح دیث پ اک میں ہے ہے بے ش ک علم س یکھنے س ے آت ا ہے ۔‬
‫(کنزاالیمان جلد ‪ 1‬صفحہ ‪، 14‬حدیث ‪ )٢٩٢٥٢‬اور سیکھنے کا ایک بہترین ذریعہ مطالعہ بھی ہے ۔‬

‫عقل و شعور میں اضافہ ‪:‬‬

‫مطالعہ سے عقل و شعور میں اضافہ ہوتا ہے باشعور انسان ہمیشہ کامیابی اں اور ع زت س میٹتا ہے اور بے ش عور کے حص ے میں‬
‫اکثر ناکامی اور ذلت آتی ہے لہذا ش عور کی بی داری میں جہ اں دیگ ر عوام ل جیس ے مش اہدہ اور تج ربہ ک ردار ادا ک رتے ہیں وہی‬
‫مطالعہ بھی بنیادی حیثیت کا حامل ہے ۔‬

‫ذہنی نشاط اور تازگی ‪ :‬مطالعہ نگاہوں میں تیزی اور ذہن و دماغ کو تازگی عطا کرتا ہے جس طرح ایک اچھا دوست ہمیں پرلط ف‬
‫باتوں دلچسپ نکات اور حیرت میں ڈالنے والے حقائق بتا کر تروتازہ کردیتا ہے جس سے طبیعت میں ایک نئی روح اور نی ا ج ذبہ‬
‫پیدا ہو جاتا ہے اسی طرح کتاب بھی ایک اچھے رفیق و ساتھی جیسا کردار ادا کرتی ہے ‪ ،‬افسوس دینی کتب ک ا مط العہ ک رنے ک ا‬
‫شوق دم توڑتا چال جارہا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں دینی اعتبار سے جہالت عام ہے ۔‬

‫مطالعہ کرنے کے ‪14‬عاداب‪:‬‬

‫ہللا کی رضا اور حصول ثواب کی نیت سے مطالعہ کریں‬


‫مطالعہ شروع کرنے سے پہلے حمدوصلوۃ پڑھنے کی عادت بنائیں‬

‫صبح کے وقت مطالعہ کرنا بہت مفید ہے کیونکہ عموما اس وقت نیند کا غلبہ نہیں ہوتا اور ذہن زیادہ کام کرتا ہے‬

‫شوروغل سے دور پرسکون جگہ پر بیٹھ کر مطالعہ کریں‬

‫اگر جلد بازی یا ٹینشن کی حالت میں پڑھیں گے مثال کوئی آپ کو پکارے اور آپ پڑھے جارہے ہیں ی ا اس تنجا کی ح اجت ہے اور‬
‫آپ مسلسل مطالعہ کیے جا رہے ہیں ایسے وقت میں آپ کا ذہن کام نہیں کرے گا اور غلط فہمی کا امکان بڑھ جائے گا‬

‫کسی بھی ایسے انداز پر جس سے آنکھوں پر زور پڑے مثال بہت مدھم یا زیادہ تیز روشنی میں یا چلتےچلتے یا چلتی گاڑی میں یا‬
‫لیٹے لیٹے یا کتاب پر جھک کر مطالعہ کرنا آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہیں‬

‫کوشش کریں کہ روشنی اوپر کی جانب سے آ رہی ہوں پچھلی طرف سے آنے میں بھی ح رج نہیں جبکہ تحری ر پ ر س ایہ نہ پڑھت ا‬
‫ہوں مگر سامنے سے آنا آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہے‬

‫مطالعہ کرتے وقت ذہن حاضر اور طبیعت تروتازہ ہونی چاہیے‬

‫صرف آنکھوں سے نہیں بلکہ زبان سے بھی پڑھیں کہ اس طرح یاد رکھنا زیادہ آسان ہے‬

‫وقفے وقفے سے آنکھوں اور گردن کی ورزش کر لیجئے کیونکہ کافی دیر تک مسلسل ای ک ہی جگہ دیکھ تے رہ نے س ے آنکھیں‬
‫تھک جاتی اور بعض اوقات گردن بھی دکھ جاتی ہے‬

‫ایک بار مطالعہ کرنے سے سارا مضمون یاد رہ جانا بہت دشوار ہے فی زمانہ میں ہاضمے بھی کمزور ح افظے بھی کم زور لہ ذا‬
‫دینی کتب و رسائل کا بار بار مطالعہ کریں‬

‫اگر کوئی بات خوب غور و خ وض کے بع د بھی س مجھ میں نہ آئے ت و کس ی اہ ل علم س ے بے بالجھجھ ک پ وچھ لیج ئے ‪،‬دوران‬
‫مطالعہ بارہا ایسی باتیں آتی ہیں جو ہمارے لئے بالکل نئی ہوتی ہیں اور ہم انہیں یاداشت کا حصہ بنانا چاہتے ہیں اس کے لیے ایک‬
‫الگ رجسٹر بنانا اور مختصر الفاظ لکھ کر صفحہ نمبر کے ساتھ اس بات کو محفوظ لینا بھی فائدہ مند ہے ۔‬

‫بعض اوقات یاد کرنے واال مواد زیادہ ہوتا ہے ایسی صورت میں سب کا سب یاد کرلینا بھی ممکن نہیں ہوتا اس ی ط رح کبھی کس ی‬
‫کتاب کا مکمل مطالعہ کرکے اس مضامین کو ذہن میں محفوظ رکھنا بھی مطلوب ہوت ا ہے ت و اس ط رح کے م واد ک و یاداش ت میں‬
‫برقرار رکھنے کے لئے روزانہ تھوڑا تھوڑا مطالعہ ک ریں اس تقامت کے س اتھ اس ے ج اری رکھن ا یاداش ت کے ل یے اہم ت رین ہے‬
‫(حافظہ کیسے مضبوط ہو صفحہ ‪) 17‬‬
‫امیراہلسنت اور مطالعہ ‪:‬‬

‫امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ اس قدر منہمک ہو کر یعنی توجہ کے ساتھ مطالعہ فرماتے ہیں کہ بارہا یعنی ک ئی م رتبہ ایس ا ہ وا‬
‫کہ کتاب گھر یعنی مکتب کے اسالمی بھائیوں میں سے کوئی اسالمی بھائی کسی مسئلہ کے حل کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر‬
‫ہوئے لیکن مطالعہ میں مصروف ہونے کی وجہ سے آپ کو اس کے آنے کی خبر نہ ہوئی اور کچھ دیر بع د اتف اق نگ اہ اٹھ ائی ت و‬
‫اسالمی بھائی نے اپنا مسئلہ عرض کیا آپ نے نہ صرف خود مطالعے کا شوق رکھتے ہیں بلکہ اپنے مریدین و متوسلین محبین ک و‬
‫بھی دینی کتب کے مطالعہ کی ترغیب دالتے رہتے ہیں (امتحان کی تیاری کیسے کریں صفحہ‪) 23-‬‬

‫الحمدہللا عزوجل آپ دامت برکاتہم العالیہ کو کثرت مطالعہ اور اکابر علماءکرام کی وجہ سے مسائل شرعیہ اور تصوف و اخالق پر‬
‫دسترس حاصل ہے حضرت مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ ہللا علیہ کی شہرہ آفاق بہارشریعت کے بارے مطالعہ کے ل ئے آپ دامت‬
‫برکاتہم العالیہ کے شوق کا عالم دید ہے ۔امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ ہللا علیہ کے فتاوی کے عظیم الشان مجموعہ فت ٰ‬
‫اوی‬
‫رضویہ کا مطالعہ کا خ اص علمی ش غف ہے اور ام ام غ زالی رحمۃ ہللا علیہ کی کتب بالخص وص احی اء العل وم ک و آپ اپ نے زی ر‬
‫مطالعہ رکھتے ہیں ۔‬

‫مطالعہ کے لئے وقت ‪:‬‬

‫فرض کریں ایک شخص کی عمر ‪ 65‬سال ہے اور وہ اپنی تعلیم سے فارغ ہوکر پچیس سال کی عمر میں مط العہ ش روع ک ریں ت و‬
‫وہ چالیس سال مطالعہ ک رے گ ا اور اس م دت میں وہ روز ص رف ب ارہ منٹ میں چ ار ص فحات کے مط العہ کے ذریعے ‪57600‬‬
‫صفحات پڑھنے میں کامیاب ہوجائے گا اور اگر ایک کتاب کے سو صفحات شمار کریں تو ‪ ٥٧٦‬کتابوں کا مطالعہ ہو ج ائے گ ا ت و‬
‫آپ بھی روزانہ بارہ منٹ مطالعہ کرنے کی نیت فرمالیں ۔‬

‫متن کی تعریف‬

‫اردو میں تدوین متن کی روایت‬


‫تحریر‪ :‬محمد خرم یاسین ‪ :‬سکالر پی ایچ ڈی(اردو)‬
‫فیصل آباد ۔ پاکستان‬

‫نوٹ ‪ :‬مضمون نگار‘فیصل آباد کا ایک ریس رچ س کالر ہے لیکن دک نی مت ون س ے متعل ق ج و معلوم ات انہ وں نے دی ہیں وہ بہت‬
‫محدود ہیں۔ دکنی ادب کی تحقیق و تدوین سے متعلق مضامین اس سائٹ پر لگاے جاتے رہے ہیں اور بہت س ے مض امین آنے ب اقی‬
‫ہیں ۔‬
‫۔۔۔۔۔‬
‫تدوین متن ایک ترکیب ہے جو اضافت کے ذریعے تدوین اور متن کوجوڑے ہوئے ہے ۔ لفظ تدوین ‪ ،‬عربی زبان کا لفظ ہے ج و کہ‬
‫ِ‬
‫ہیت میں مونث ہے اور ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ اس کا معنی تالیف کرنا‪ ،‬جمع کرنا یا مرتب کرناہے۔ ‪ ۱‬؂‬
‫جبکہ لغات کشوری میں تدوین کے معنی’’ جمع کرنااور تالیف کرنا‘‘کے ہیں۔ ‪ ۲‬؂‬
‫اضافت کے بعد اگلے سہہ حرفی لفظ متن کے معنی کتاب کی اصل عبارت‪،‬کتاب‪،‬کپڑے یا سڑک کے بیچ کا حصہ‪ ،‬درمیان‪ ،‬وس ط‪،‬‬
‫درمیانی اور پشت کے ہیں ۔ ‪ ۳‬؂‬

‫نقش عبارت کے زمرے میں آتا ہے ۔ ڈا کٹر تن ویر احم د عل وی نے‬


‫متن انگریزی لفظ ‪Text‬کا ہم معنی ہے جو کہ عبارت یا عکس‪ِ ،‬‬
‫اسٹنڈرڈ اردو ڈکشنری کے صفحہ نمبر ‪۱۲۰۸‬سے اس کی تعریف یوں نقل کی ہے۔‬

‫مصنف کے اصل الفاظ‪ ،‬کتاب کی اصل عبارت (شرح وغیرہ سے قطع نظر کر کے ) ‪ ،‬کتاب ٰ‬
‫الہی انجیل (وقرآن) وغیرہ کی آیت ی ا‬
‫آیات جو کسی وعظ یا مقالے کے مو ضوع یا سند کے طور پراستعمال کی جائیں ۔ متن کتاب کامض مون(حواش ی وغ یرہ س ے قط ع‬
‫نظر کر کے)۔جلی خط‪،‬نصاب کی کتاب‪،‬درسی کتاب ۔ ‪ ۴‬؂‬

‫طریقہ کار‬
‫ٴ‬

‫مطالعہ ایک خوبصورت گلشن کی مانند ہے‪ ،‬اس میں خوشبو بھی ہے‪ ،‬دل آویزی بھی ہے‪ ،‬اور خاردار شاخیں بھی ہیں۔ ایک طرف‬
‫جہاں مطالعہ کی اہمیت مسلم اور افادیت قابل ذکر ہے‪ ،‬س اتھ ہی س اتھ اس کے م واد میں انتہ ائی چ اق و چوبن دی ن اگزیر ہے۔ اس ی‬
‫طرح اس کے طریقہ کار سے بھی واقفیت بہت ہی ضروری ہے؛ اس لیے کہ کسی بھی کام کو اگ ر اس کے اص ول وض ابطہ س ے‬
‫کیا جائے تو وہ کارآمد ثابت ہوتا ہے؛ ورنہ نفع تو درکنار نقصان ضرور ہ اتھ آت ا ہے‪ ،‬ف رض کیج ئے! آپ کے پ اس وقت بھی ہے‪،‬‬
‫کتابیں بھی اچھی ہیں؛ لیکن ذہن پریشان‪ ،‬آنکھوں میں درد اور روشنی بھی م دہم ت و آپ مط العہ نہیں کرس کتے‪ ،‬اگ ر اس ی ص ورت‬
‫حال میں مطالعہ کی کوشش کریں گے تو صحت پر اس کا بہت برا اثر پڑے گا۔ اس لیے ص حت ک ا خی ال بھی بہت ض روری ہے‪،‬‬
‫بطور خاص آنکھوں کا خیال۔‬

‫یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ اس خیال سے مطالعہ کو ہرگز ترک نہیں کرنا چاہئے کہ یاد نہیں رہتا؛ بلکہ مطالعہ ضرور کرے کہیں‬
‫نہ کہیں اس کافائدہ ضرور ظ اہر ہوت ا ہے؛ اس ل یے کہ مہن دی میں س رخی پتھ ر پ ر ب ار ب ار گھس نے کے بع د ہی آتی ہے۔ موالن ا‬
‫عبدالسالم خاں لکھتے ہیں‪” :‬مطالعہ جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی جلد محفوظ ہوگا اور تیز ہوگا؛ اس لیے کتب بینی کو سست روی یا یاد نہ‬
‫رہنے کی وجہ سے ترک نہ کرنا چاہئے۔“‬

‫حاصل مطالعہ‬

‫مطالعہ کے ساتھ ساتھ حاصل مطالعہ کو ذہن نشین کرنے کی تدبیر بھی ضروری ہے۔ علم ومعلومات کی مثال ای ک ش کار کی س ی‬
‫ہے؛ ٰلہذا اسے فوراً قابو میں کرنا چاہیے۔ امام شافعی رضى هللا تعالى عن ه فرم اتے ہیں‪” :‬علم ای ک ش کار کی مانن د ہے کت ابت کے‬
‫ذریعے اسے قید کرلو“۔ اس لیے مطالعہ کے دوران قلم کاپی لے کر خاص خاص باتوں کو نوٹ کرنے کا اہتمام کرن ا چ اہئے؛ ورنہ‬
‫بعد میں ایک چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور وہ نہیں ملتی ہے۔ اب یا تو سرے س ے ب ات ہی ذہن س ے نک ل ج اتی ہے ی ا‬
‫یادتو رہتی ہے لیکن حوالہ دماغ سے غائب ہوجاتا ہے‪ ،‬ڈاکٹر صمت جاوید کا کہنا ہے کہ ‪” :‬ی اد رکھ نے کے قاب ل ب ات ہمیں دوران‬
‫مطالعہ معلوم کتابوں پر دوران مطالعہ اہم مقامات پر نشان لگ انے اور کت اب کی پش ت پ ر س ادہ اوراق میں اہم نک ات کے خالم ہ وا‬
‫سے کاپی یا کسی کاغذ کے پرزے پر ہی نوٹ کرلیں“۔ اسی طرح ڈاکٹر احمد سجاد کہتے ہیں‪” :‬ذاتی ص ے اور بعض ص فحات کے‬
‫نمبروں کو لکھنے کی عادت ہنوز ق ائم ہے“۔ مط العہ کے مع ا ً بع د بعض کت ابوں پ ر ذاتی ت اثرات تبص رے بھی اختاص ر کے س اتھ‬
‫لکھنے کی عادت ہے۔“ حاصل مطالعہ کیسے ذہن نشین ہو یہ بھی ایک اہم عنصر ہے۔ اس سلسلے میں نعیم ص دیقی رقم ط راز ہیں‪:‬‬
‫”میری ذہنی ساخت یوں بنی کہ میں حاصل مطالعہ کو دماغ میں ڈال دیتا اور میرے اندراس پر غ ور و بحث ک ا ای ک سلس لہ چل تے‬
‫پھرتے‪ ،‬اٹھتے بیٹھتے‪ ،‬کھانا کھاتے جاری رہتا یہاں تک کہاس کا مثبت یا منفی اثر میرے عالم خیال پر رہ جاتا“۔‬
‫معلوم ہوا کہ مطالعہ کے بعد حاصل مطالعہ کی بھی بڑی اہمیت ہے؛ ورنہ تو بات الحاص ل ہی رہے گی۔ مط العہ کے دوران جہ اں‬
‫اچھی کتابوں‪ ،‬خوش گوار فض ا‪ ،‬مناس ب مق ام‪ ،‬م وزوں روش نی اور وقت کی تنظیم ض روری ہے وہیں ص حت ک ا بھی خ اص خی ال‬
‫رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔‬

‫سوال نمبر‪4#‬‬
‫انشاء پردازی کی خصوصی تدریس کے مقاصد اور خصوصیات تفصیل سے بیان کریں ؟‬
‫جواب‪:‬‬
‫جہاں تک اردو زبان میں انشاء پردازی کا تعلق ہے وہ اردو کی ابتداء اور ارتقاء کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی جب خیاالت کو ے‬
‫جو وہ لکھ رہا ہوتا ہے اور اس ی تحری ر کے ذریعے اس ے ق اری ک و غم ‪ ،‬خوش ی‪ ،‬ح یرت‪ ،‬خوش بو‪ ،‬ب دبو‪ ،‬محبت اور نف رت کے‬
‫جذبات سے معمور کرنا ہوتا ہے۔ ٰلہ ذا لکھنے والوں کو ہی اپنی تحریر کو ایسے رنگ ڈھنگ میں ڈھالنا اور ترتیب دین ا ہوت ا ہے کہ‬
‫قاری لکھنے والے کی تحریر کو اپنے پر اسی طرح محس وس ک رے جس ط رح لکھ نے واال چاہت اہے اور ق اری لکھ نے والے ک ا‬
‫گرویدہ بن جائے اسی سوچ نے انشاءپردازی کو پیدا کیا۔ابتدائی دور میں افسانے کے ان داز میں لکھی ج انے والی تحری ر ک و انش اء‬
‫پردازی کہا جانے لگا۔ڈاکٹر وحید الدین قریشی کا کہنا ہے‪:‬‬

‫ٓادم نے حواسے اظہار محبت کرتے ہوئے کی تھی اس زمانے سے لیکر ٓاج ت ک‬
‫دنیا کا قدیم ترین انشائی ادب وہ تھا جس کی تخلیق ؑ‬
‫انسانی ذہن کی یہ ترنگ جاری ہے اور انشائی ادب تخلیق ہورہا ہے۔(‪)۱‬‬

‫انشاء حقیقت میں کیا ہے فرہنگ ٓاصفیہ عربی النسل لفظ کے مطلب یوں بیان کرتی ہے‪:‬‬

‫کچھ بات دل میں پیدا کرلینا‬ ‫(‪)1‬‬

‫عبارت‪،‬تحریر‬ ‫(‪)2‬‬

‫علم معانی وبیان‪،‬صنائع بدائع‪ ،‬خوبی عبارت‪ ،‬طرز تحریر‬ ‫(‪)3‬‬

‫وہ کتاب جس میں خط و کتابت سکھانے کے واسطے ہر قسم کے خطوط جمع ہوں ‪ ،‬لیٹر بکس‪ ،‬چھٹیوں کی کت‪77‬اب ۔‬ ‫(‪)4‬‬
‫(‪)۲‬‬

‫لفظ انشاء جب انشاء پردازی بنتا ہے تو اس کے معنی یوں درج ہیں‪:‬‬


‫طرز تحریر‪،‬عبارتٓارائی‪ ،‬خط یا عبارت لکھنے کا ڈھنگ‪ ،‬عبارت کی خوبی‬ ‫(‪)1‬‬

‫مضمون نگاری‪ ،‬مضمون نویسی۔(‪)۳‬‬ ‫(‪)2‬‬

‫درحقیقت انشاء پردازی انشاء پرداز کی ہی پیداوار ہوتی ہے وہ لفظوں اور جملوں ک و اس ان داز میں ت رتیب دیت ا ہے کہ انش اء‬
‫پردازی پیدا ہوتی ہے اس سے اس کا حسن نکھرتا ہے جدت کے ساتھ ب ات لوگ وں کے دل وں میں ات رتی چلی ج اتی ہے۔س ید محم د‬
‫حسنین کا کہنا ہے‪:‬‬

‫انشاء کا مادہ نشاء(نش َء ) سے نکال ہے جس کے لغوی معنی پیدا کرنا ہے یعنی انشاء کی علت غائت’’زائی دگی‘‘ ہے ی ا ’’ ٓافری دگی‘‘‬
‫انشاء کی توانائی دراصل خیال کی تازگی و تنومندی سے ظ اہر ہ وتی ہے۔ انش ائی ق وت س ے ب ات میں معن ویت پی دا ہ وتی ہے اور‬
‫خیاالت کی لہریں نکلتی ہیں۔(‪)۴‬‬

‫اپنے گہوارے سے نکل کر لفظ کئی مدارج طے کرتا ہوا مخصوص معنی کی حامل ایک اصطالح بن جاتا ہے۔بعض اوقات لف ظ کی‬
‫اصل اور اصطالح میں بہت فاصلہ ہوتا ہے۔ اصطالح استعاراتی‪ ،‬عالمتی‪ ،‬اصالحی مع نی ک و لغ وی معن وں پ ر مرک وز رہ نے کی‬
‫درخواست کرتا ہے۔ انشاء کے جو بھی مطالب ہوں انشائیہ صرف مض مون ک ا م ترادف ٹھہرت ا ہے۔ ڈاک ٹر وحی د قریش ی کے بق ول‬
‫انشاء کا لفظ ابتدائی طور پر ایک دفتری اصطالح سمجھا جاتا تھا پھر رفتہ رفتہ س رکاری احک ام اور خط وط میں یہ رائج ہوت ا گی ا‬
‫اور صاف شدہ تحریر کو اس سے منسوب کیا گیا۔جس محکمے کے سپرد ’’مسودے‘‘ کی تیاری کا ک ام ہوت ا تھ ا اس ے دی وان انش اء‬
‫کہاکرتے تھے۔شروع میں دربار کے زیر اثر فارسی نثر میں یہ تحریر لکھی جاتی تھی اور پھر یہی زبان مکتوب ات کی زب ان ق رار‬
‫پائی۔ اس حوالے سے جابر علی سید کچھ یوں رقم طراز ہیں‪:‬‬

‫لفظ انشاء کا لفظی مفہوم تخلیق ہے اور فرانسیسی ‪ESSAY‬کا مفہوم بھی کم و بیش تخلیق ہی ہے۔ اس بنا پ ر کہ ‪ESSAY‬ذہ نی کوش ش‬
‫و کاوش سے لکھی ہوئی تحریر ہے۔ ‪ TO ESSAY‬بطور فعل تخلیقی کوشش کرنا ہے اور بطور اسم اس کاوش کا تحریری نتیجہ ہے۔(‬
‫‪)۵‬‬

‫انشاء پرداز کی تاریخ پر لسانیات کے ماہرین میں ہمیشہ تھوڑا بہت اختالف رہا ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں انش اء اور‬
‫انشاء پردازی کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر جی ایم ملک اور پروفیسر نثار احمد جمیل کا کہنا ہے‪:‬‬

‫اپنے جذبات‪ ،‬احساسات‪ ،‬تاثرات‪ ،‬خیاالت و تصورات اور مافیالضمیر کو صحت و تندرستی کے ساتھ اپنی زبان میں ادا کرنے کا نام‬
‫انشاء ہے۔ اظہار خی ال کی دو ص ورتیں ہوس کتی ہیں‪ ،‬زب انی ی ا تحری ری پہلی ص ورت ک و تقری ری انش اء کہ تے ہیں اور دوس ری‬
‫صورت کو تحریر ی انشاء کہا جاتا ہے البتہ مقاصد کے اعتبار سے دونوں ایک ہی ہیں۔(‪)۶‬‬

‫یوں تو ہر تحریر قاری کے لئے لکھی جاتی ہے مگر تخلیق ات جہاںاپن ا م دعا بی ان کرن ا چ اہتی ہیں وہ اں ق اری کے م زاج ک و بھی‬
‫سامنے رکھنا ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ انشاء پردازی کے ذریعے قاری تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض اوقات‬
‫قاری انشاء پردازی کی فنکارانہٓامیزش سے پیدا ہونے والی جمالیاتی حس سے اتنا محظ وظ ہوت ا ہے کہ وہ اس تحری ر س ے خاص ا‬
‫اثر لے لیتا ہے۔ قاری کی یہی روش تخلیق کار کے لئے ب اعث اطمن ان و مس رت ہ وتی ہے۔ ہ ر ادب کے پ اؤں ہمیش ہ زمین پ ر ہی‬
‫رہتے ہیں مگروہ سانس فضاء میں ہی لیا کرتا ہے۔ہمیش ہ ہ ر تخلی ق ک و اپ نی مقص دیت کی ط رف النے کے ل ئے کچھ نہ کچھ ف نی‬
‫صالحیت بروئے کار النی پڑتی ہے۔سقراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گھنٹوں نہیں دن وں غ ور و فک ر میں گم رہت ا تھ ا اور‬
‫جب کسی بات کی تہہ اور حقیقت تک پہنچ جاتا تو پھر اسے لکھنا شروع کرت ا اور پھ ر اس کے تخی ل کاای ک دری ا بہ نکلت ا۔ تخی ل‬
‫کے لئے مشاہدات‪ ،‬تجربات‪ ،‬اور تاریخ کا وسیع علم ہون ا اہم اور ض روری ہوت ا ہے ورنہ وہ بے راہ ہوجات ا ہے۔ اس ی ط رح انش اء‬
‫پرداز کا علم‪ ،‬تجربہ اور الفاظ پر گرفت کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ انسانوں کی زندگی میں جابجا اس کے جذبات کی کارفرمائی‬
‫دکھائی دیتی ہے۔ انسان خوشی اور غم کا اظہار کرتا ہے‪ ،‬تالیاں بجاتا ہے‪ ،‬ناچتا اور گاتا ہے‪ ،‬روتا اور ٓاہ و فغاں کرت ا ہے ن الہ کی‬
‫فریاد سے عرش کو بھی ہال دیتا ہے یہ تمام باتیں غیر محسوس طریقے پر اس کی ٓانکھوں سے چھل ک ج اتی ہیں۔ ج ذبات س ے ہی‬
‫اس کی زندگی میں رعنائی ہوتی ہے جذبات نہ ہوں تو زندگی میں وہ رنگی نی اور دلکش ی نہ رہے اور انس ان ای ک پتھ ر کی ط رح‬
‫ہوجائے اسی طرح جب تک انسان کسی تحریر کو انشاء پردازی اور ضابطے میں نہیں ڈالتا اس کی صورت ایک جامد پتھر کی ہی‬
‫ہے۔‬

‫تعالی نے اپنے حبیب ﷺ کے قلب اطہر پر وحی کا نزول کرکے اپنے پیغام کو ان تک پہنچایا اور انہیں کہ ا کہ‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫جبرائیل کے توسط سے کیا گیا اور پھ ر اس ک ا سلس لہ ج اری رہ ا۔ہللا کے اس کالم‬
‫ؑ‬ ‫پڑھ اپنے رب کے حکم سے یہ وہ ابالغ تھا جو‬
‫کو تحریری شکل میں ڈھال کر ٓاگے لوگوں تک پہنچایا گیا گویا پہلے ایک بات پہنچائی گ ئی اور پھ ر اس ے کت ابی ش کل میں رہ تی‬
‫دنیا تک کے انسانوں تک پہنچایا گیا۔(‪)۷‬‬

‫گفتگو کو عربی میں ’’سحر ‘‘جادو سے تشبیہ دی گئی ہے انشاء پردازی وہ ہتھی ار ہے جس کے ذریعے لوگ وں ک و اپن ا ہمن وا بنای ا‬
‫جاسکتا ہے‪ ،‬روالیا جاسکتا‪ ،‬مشتعل کیا جاسکتا ہے اور انکے قلوب کو مسخر کیا جاس کتا ہے انہیں اپن ا نکتہ نظ ر م اننے پ ر ٓام ادہ‬
‫اور مجب ور کی ا جاس کتا ہے مگ ر اس تحری ر میں ت اثیر ک ا ہون ا ض روری ہے اور یہ ت اثر انش اء پ ردازی کے ذریعے ہی پی دا کی‬
‫جاسکتی ہے۔ دشمن کے خالف لوگوں کو صف ٓارا کرنے کے لئے بھی ایسے الفاظ استعمال کیے ج اتے رہے ہیں کہ وہ ع وام کے‬
‫دلوں میں پیوست ہوجاتے ہیں اور وہ جذبے اور ولولے سے جان دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ ایک بہترین انشاء پ رداز مح ل و‬
‫قوع کے حوالے سے قاری کو کبھی رال دیتا ہے‪ ،‬کبھی ہنسا دیتا ہے اور کبھی انہیں خواب غفلت س ے بھی جگ ا دیت ا ہے درحقیقت‬
‫جذبات نگاری انشاء پردازی کا نہایت ہی کارگر عنصر ہے لفظوں سے کھیلنے کا جتنا اچھا فن جسے ٓائے گا وہی بہتر انشاء پ رداز‬
‫ہوگا۔ نسیم حجازی اس حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬

‫میں نے رنگارنگ پھولوں سے اپنا دامن بھر لیا ٓاج ان پھولوں کو ایک گلدستے کی صورت میں پیش کر رہا ہ وں اگ ر اس گلدس تے‬
‫کو دیکھ کر ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں اس وادی کی سیاحت کا ش وق اور خ زاں رس یدہ چمن ک و اس وادی کی ط رح سرس بز‬
‫اور شاداب بنانے کی ٓارزو پیدا ہوجائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے اپنی محنت کا پھل مل گیا ہے۔(‪)۸‬‬

‫انشاء پردازی میںحِس لطافت اور جمالیات الزم و ملزوم ہیں انسان خوبصورتی کو پسند کرتا ہے حسن کا دل دادہ ہوت ا ہے جہ اں بھی‬
‫تحریروں میں چاند کا تذکرہ ہوگا‪ ،‬سبزہ زاروں کا ذکر ہوگ ا‪ٓ ،‬ابش اروں ‪ ،‬مرغ زاروں کے عالوہ لب رخس ار‪ ،‬محب وب کی اداؤں کی‬
‫باتیں ٓائیں گی قاری اس طرف متوجہ ہوتا ہے اور جب ادیب اپنے قلم کو حسن کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے ت و ق اری اس قلم ک ار‬
‫کا گرویدہ بن جاتا ہے جس نے حسن کو بیان کرنے کے عالوہ عشق‪ ،‬محبت‪ ،‬پی ار اور وف ا کی داس تانیں اپ نی تحری ر میں بی ان کی‬
‫ہوتی ہیں۔ عشق کی پاکیزگی ایسی تحریروں کو مزید چار چاند لگا دیتی ہے۔ جو تحریر اپنے ہی قابو میں رہے مقصد سے انح راف‬
‫نہ کرے اس میں جمالیاتی حسن بھی برقرار رہے کسی لغزش کا بھی شکار نہ ہو اس میں جمالیاتی حِس انش اء پ ردازی کے فن ک و‬
‫جال بخشتی ہے اور قاری کے ذوق کو پختہ کرتے ہوئے تقویت پہنچاتی ہے۔ انشاء پردازی میں تشنگی نہیں ہ وتی وہ ق درتی من اظر‬
‫کی عکاسی کا دلکش نمونہ بھی ہوتی ہے اور ذوق جمال کی تسکین بھی۔‬

‫انشاء پردازی اور ادب جو انسانی تقاضوں کو سامنے رکھ کر تخلیق کیا جائے اس میں محبت کا عنصر بھی داخل ہو وہ ق اری‬
‫کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنا شروع کر دیتا ہے۔انشاءپردازی کے بارے میں ت و یہ ت ک کہ ا گی ا کہ اس گ ونگے ش خص کی‬
‫مانند ہے جو بول نہیں سکتا مگر اپنا احساس شدت سے دالتا ہے۔ اس کے رگ و پے میں رومان کی دلکشی اور محبت کے ج ذبات‬
‫دھیرے دھیرےٓاگ کی طرح سلگتے رہتے ہیں مگر اس کا نشان نظر نہیں ٓاتا۔ انشاء پردازی سے بڑا ک ارگر ہتھی ار ش اید ہی کبھی‬
‫اس سے پہلے ایجاد ہوا ہو۔ انشاء پردازی دراصل کہالتی ہی وہ ہے جو ادب اور تاریخ کے بے جان اوراق میں ش عور اور احس اس‬
‫کی روح کو پھونک دے اور قاری ان احساسات کا ادراک کرے جسے لکھنے واال ان تک پہنچانا چاہتا ہے۔ انشاء پردازی ہی دشمن‬
‫ملک کے خالف اپنے نوجوانوں اور لوگوں میں قوت مدافعت کو بیدار کرتی ہے۔ ادبی چاشنی اور فنون لطیفہ کی ٹھوس بنیادوں پ ر‬
‫لکھی جانے والی تحریر کو جب مربوط کیا جات ا ہے ت و وہ انش اء پ ردازی کے ق الب میں ڈھ ل ج اتی ہے۔ انش اء پ رداز کی تحری ر‬
‫احساس فن کا حسین امتزاج ہوتی ہے۔ فنی مہارت اور چا بک دس تی س ے اس کے اث رات ہمیش ہ ق ائم رہ تے ہیں۔ انش اء پ رداز بھی‬
‫معلومات کے انبار لگانے اور معصوم ذہنوں کو اپنے تبحر علمی سے مرعوب کرنے کے بجائے ان کے ذہن وں ک و تعلیم و ت ربیت‬
‫سے ٓاراستہ کرنے کی س عی و ک اوش ک ریں۔ فی زم انہ ‪،‬وقت اور زم انے کی ت یز رفت اری نے پیش ہ ت دریس ک و پہلے س ے زی ادہ‬
‫پیچیدہ ‪،‬گنجلک اورمزید چیالنچنگ بنادیا ہے۔یہ مشکل اور صبر ٓازما کام وہی انجام دے سکتے ہیں جو قابل ‪،‬بلن د ع زائم کے حام ل‬
‫اور معیاری تعلیم کی فراہمی میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں۔ ٓاج اس بات کی ضرورت ہے کہ م روجہ تدریس ی نظ ام میںوقت فوقت ا‬
‫تکنیکی و تخلیقی تبدیلیاں عمل میں الئی جائیں تاکہ اساتذہ اپنے کام و پیشے سے لطف اندوز ہ ونے کے س اتھ زم انے کی رفت ار ک ا‬
‫ساتھ دے سکیں۔زمانے سے ہم رک ابی کے ل ئے ض روری ہے کہ اس اتذہ اپ نے ط ریقہ ت دریس ک و بہ تر بن ائیں‪،‬حکمت عملی ‪،‬نقطہ‬
‫نظر ‪ ،‬طریقہ پیش قدمی کے عالوہ اپنے علم میں گہرائی و گ یرائی پی دا ک رنے کے س اتھ تدریس ی مہ ارتوں کومس تحکم ک ریں اور‬
‫پسندیدہ نئے تعلیمی و تخلیقی نظریات سے خود کو ہم ٓاہنگ کریں۔اساتذہ م روجہ ‪،‬مق ررہ‪،‬روای تی و مقی د تعلیمی نظری ات پ ر کاربن د‬
‫رہنے کے بجائے اپنی تدریس میں نئے ‪،‬تعلیمی نظری ات‪،‬رجحان ات اور جدی د ط ریقہ تعلیم ک و رواج دیں۔طلبہ کی بہ تر زن دگی اور‬
‫ترقی کے لئے اساتذہ کو شخصی طور پر متحرک و فعال بنانے کی ضرورت ہے جو پیشہ تدریس کاسب سے اہم عنصر گردانا گی ا‬
‫ہے۔ تدریس موثر ہدایات پر مبنی ایک ایسے سائنسی علم و فن کا نام ہے جو مسلسل ارتقا پذیرہے اور جس کی تکمیل تقریبا ناممکن‬
‫ہی ہے۔کیونکہ موثر تدریس کے لئے جہاں متبدل تدریسی نظریات کو سیکھنے کا عمل جاری ہے وہیں سکھانے کے لئے س یکھنے‬
‫کا عمل بھی جاری و ساری ہے۔تعلیمی مقاص د کے حص ول کے ل ئے تدریس ی س رگرمیوں کی ہ ر ق دم پ ر م رحلہ واری س ائنٹفیک‬
‫منصوبہ بندی اور طریقہ کار پر سنجیدگی سے غورو خوص ضروری ہے۔تعلیم و تدریس پ ر جدی د تحقیق ات کی روش نی میںگہ رے‬
‫اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔خاص طور پر اساتذہ جو تدریس اور معلومات کی ترسیل کے اہم ستون مانے ج اتے ہیں ٓاج جدی د معلوم ات‬
‫و تدریسی س ائنس س ے ہم ٓاہن گ ہ وکر ’’اکتس اب ب رائے تدریس ‘تدریس ب رائے اکتس اب (س یکھو ‪،‬س کھانے کے ل ئے اور س کھائو‬
‫سیکھنے کے لئے ‪ ) Learn to Teach, Teach to Learn‬کے نظریہ پر عمل پیرا ہیں۔درس و تدریس کو موثر و مفید بنانے کے‬
‫لئے چند ایسے شعبے ہیں جس پر خاص توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک ایسا نظام تعلیم تشکیل دیا جاسکے جو‬
‫موجودہ نظام کو موثر ‪،‬مربوط اورمنظم بنا سکے۔تدریس کا دائرہ کار نہا یت وسیع ہے جسمیں موثر تدریس کے ل ئے معلم کی بہ تر‬
‫طریقہ ہ ائے ت دریس س ے ٓاگہی‪ ،‬تعلیمی منص وبہ بن دی‪ ،‬مض مون اور س بق کی منص وبہ بن دی ‪ ،‬منظم ان داز میںمنص وبے پ ر عم ل‬
‫پیرائی ‪،‬طلبہ کے رویوں اور برتائو میں بہتری کے ل ئے خ اص حکمت عملی ک و وض ع و اختی ار کرن ا‪،‬طلبہ کی ت رقی کی مناس ب‬
‫جانچ و نگ رانی کے ل ئے تعین ق در(امتح ان)کی معلوم ات س ے ٓاگہی‪،‬تعلیم س ے وابس طہ اف راد‪،‬تنظیم وں اور دیگ ر محکم وں س ے‬
‫روابط ‪،‬اپنے مضمون اور موضوع پر عالمانہ عبور ‪،‬پیشہ وارانہ صالحیتوں میں اضافہ اور بہتری کے لئے سعی و جس تجو وغ یر‬
‫ہ جیسے عناصر شامل ہیں۔ایک استاد کا کام بہتر طریقے سے معلومات کی منتقلی یا ترسیل نہیں ہے بلکہ تدریس کا مقصد بچوںمیں‬
‫علم کے تئیں ترغیب و تحر یک پیدا کرنا‪،‬رہنمائی و رہبری کے ذریعے بچ وںمیں خ ود ک ار اکتس اب کی فض اء ک و ف روغ دین ا ہے۔‬
‫استاد کی پیدا کردہ تحریک ترغیب و رغبت کے زیر اثر طلبہ حصول علم میں معاون تما م وسائل کا بھر پ ور اس تعمال ک رتے ہیں۔‬
‫اپنے علم میں معروف و غیر معروف وسائل کے ذریعے اٖ ضافہ‪ ،‬گہرائی‪،‬گیرائی اور پختگی پی دا ک رنے کے عالوہ‪،‬وہ زم انے کے‬
‫مختلف مسائل ‪،‬الجھنوں اور چیالنجس کا کامیابی سے سامناکرنے کے قابل ہوج اتے ہیں۔ استادتدریس ی و تعلیمی عم ل ک ا س ب س ے‬
‫فعال عنصرہوتا ہے ۔طلبہ میں علم سے دائمی رغبت پیدا کرنے میں استاد کے کردار ک و نظ ر ان داز نہیں کی ا جاس کتا۔جن اب اک رام‬
‫خاںاپنی کتاب ’’تعلیم اور اس کے مسائل‘‘)صفحہ نمبر (‪66‬کے مطابق استاد کی شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ایک بحی ثیت انس ان‬
‫اور دوسرا بحیثیت معلم۔بحیثیت انسان استاد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تعلیمی اور سماجی ماحول سے اس ط رح اس تفاد ہ‬
‫کرکے کہ طلبہ کی پوشیدہ صالحیتیں بھر پو ر طریقے سے اجاگر ہوجائیں۔معلم کی حیثیت سے ایک استادکوس ماجی (‪ )Social‬اور‬
‫انسان دوست مزاج کا حامل ہونا ضروری ہے۔سماجی شخصیت کا حامل اور انسان دوست استاد ماحول پ ر بہ ٓاس انی اث ر ان داز ہوت ا‬
‫ہے۔ ایسے اساتذہ اسکول کے ماحول اور نظام کو طلبہ کے لئے دلکش بنا دیتے ہیں۔م وثر تعلیم ‪،‬درس و ت دریس ک و ب امعنی بن انے‬
‫کے لئے استاد کو کن اوصاف و خوبیوں سے متصف ہونا چاہیئے یہ گفتگو ہر زمانے میں موضوع بحث رہی ہے ۔عموما ہ ر اس تاد‬
‫چند خوبیوں سے متصف ہوتا ہے ۔تدریسی تجربہ اور معلومات کی کمی کی وجہ س ے جب اس تاد تدریس ی می دان میں اترت ا ہے تب‬
‫اس کے قدم متزلزل ہوجاتے ہیں بلکہ اکھڑنے لگتے ہیں۔ایک اہم اور غور طلب بات یہ ہے کہ استاد کو درس و تدریس س ے زی ادہ‬
‫دش واری تعلیم و تعلم کے ل ئے س ازگار م احول پی د ا ک رنے میں پیش ٓاتی ہے۔ای ک اس تاد ک و علم کی مع دن یع نی کے ع الم(‬
‫‪ ) Knowledged Person‬ہونا ضروری ہے کیونکہ علم سے بے بہرہ استاد بھال کیسے علم بانٹ سکے گا۔لیکن یہ بھی ایک ناقابل‬
‫فراموش حقیقت ہے کہ علم کا حاصل کرنا اور دوسروں کو علم سے بہرور کرنا دو ج داگانہ عم ل ہیں۔جیس یکوئی ب ات ٓاپ بآاس انی‬
‫سمجھ توجائیں گے‪ ،‬لیکن وہی بات دوسروں کو سمجھانے میں ٓاپ کو مشکالت پیش ٓاتی ہیں۔ہم اپنے مسائل کو تو حل ک ر لی تے ہیں‬
‫لیکن دوسروں کے مسائل کا کوئی حل ہمارے پاس نہیں ہوتاہے۔اسی لئے ایک استاد کا صاحب علم ہون ا ہی ک افی نہیں ہے بلکہ علم‬
‫کو مختلف صالحیتوں ‪،‬دلچس پیوں اور قوت وں کے حام ل بچ وںمیں منتقلی کے فن س ے بھی اس ک و واق ف ہون ا ض روری ہوت ا ہے۔‬
‫دوسروں کو علم سے ٓاراستہ کرنے ‪،‬فہم و ادراک پیدا کرنے کا فن خود کے سیکھنے اور سمجھنے کے مق ابلے میں ق درے مش کل‬
‫کام ہوتا ہے۔زیر نظر مضمون میں ایسی خو بیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کو اپنا کر ایک استاد اچھا موثر اور کامیاب معلم بن سکتا‬
‫ہے اور اپنے پیشے سے انصاف کرسکتا ہے۔ مض مون و موض وع پرمہ ارت اورعب ور رکھت ا ہ و؛۔درس و ت دریس اور تعلیم و تعلم‬
‫میں طلبہ پر اثر انداز ہونے واال سب اہم عنصر استاد کامضمون و موضوع کا علم اور اس پر اس کا عبور و کمال ہوت ا ہے۔ص رف‬
‫نصابی کتب پڑھ کر اسی معلومات کو طلبہ پر منقل کرنا طلبہ کے لئے ایک بے کیف اور غیر اطمینان بخش اکتس اب ک انقطہ ٓاغ از‬
‫ہوتا ہے۔ٓاج کا زمانہ انفج ار علم( ‪)Knowledge Explosion‬ک ا دور ہے اور طلبہ ک و حص ول علم کے ل ئے اس تاد کے عالوہ ک ئی‬
‫ذرائع بھی دستیاب ہیں۔ان حاالت میں اگر استاد کا علم اور معلومات سطحی ہوں گے تب یہ معلوم ات طلبہ کے ل ئے ک وئی دلچس پی‬
‫اور کشش کا باعث نہیں ہوں گے اور استاد کی علمی حیثیت طلبہ کی نظروں میں بے وقعت ہوجائے گی۔ کمرئہ جم اعت میں اس تاد‬
‫کی موثراور پر کیف تدریس کا انحصار اس کے تبحر علم ‪،‬مضمون و موض وع کی معلوم ات پ ر عب ور و دس ترس اور ت دریس کی‬
‫مہارت پر ہوتا ہے۔ مضمون و موضوع کے علم پر عبور و مہارت پیشہ تدریس سے وابستہ افراد کے لئے نہ ایت ض روری تص ور‬
‫کی جاتی ہے تاکہ طلبہ اپنے استاد کے علم و فضل کی قدر کر یں اور استاذی کا مقام و مرتبہ بلند ہو۔طلبہ کے نزدیک علم و فن ک ا‬
‫دوسرا نام استاد کی شخصیت ہوتی ہے۔استاد اپنے علم کی گہرائی ‪،‬گیرائی اور نفس موضوع س ے انص اف ک رتے ہ وئے ش اگردوں‬
‫میں تشکیک کی فضاء کو ابھرنے نہیں دیتا ۔ استاد اگر اپنے مضمون اور موضو ع پر دسترس نہ رکھت ا ہ و تب اکتس اب و ٓام وزش‬
‫(سیکھنے کا عمل) مجروح ہوکر رہ جاتی ہے۔ استاد اپنی علمی بے مائیگی کی وجہ سے ذہین اور ہشیار طلبہ کی علمی تشنگی ک و‬
‫دور کرنے سے قاصررہتا ہے جس کی وجہسے طلبہ ناامید ی اور مایوسی ک ا ش کار ہوج اتے ہیں۔اپ نے موض وع اور مض مون پ ر‬
‫عبور و دسترس رکھنے واال استاد طلبہ کو علم سے سیراب کرتا ہے۔سیرابی علم س ے سرش ار طلبہ میں اکتس اب کی ش رح ازخ ود‬
‫بڑھنے لگتی ہے ۔اکتساب اور درس و تدریس غیر ارادی طور پر ایک فعال اور دلچسپ عم ل بن ج اتے ہیں۔بق ول م اہر تعلیم محم د‬
‫اسحق مرحوم ’’ اچھا استاد پڑھانے میں بھی استاد ہوتا ہے۔‘‘ (تعلیم ایک تحریک ) ۔ بہ تر درس و ت دریس کے ل ئے ای ک اس تاد ک و‬
‫اپنے علم و فن میں طاق ہونا ضروری ہوتا ہے۔ایک باکمال استا د نہ صرف اپنے مضمون میں کمال پیدا کرتا ہے بلکہ وہ اپ نے علم‬
‫اور طریقے تدریس سے طلبہ کے قلب و ذہن تک رسائی حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔م اہر تعلیم ہم ایوں کب یر‬
‫کے مطابق پڑھانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک بھری بالٹی کو خالی بالٹی میں انڈیل دیا ج ائے۔م اہر تعلیم وس ابق ص در جمہ وریہ‬
‫ہند نے بھی تختہ سیا ہ سے یا درسی کتاب سے نقوش علم کی طلبہ کی نوٹ بک کی منتقلی کو تدریس ماننے سے انک ار کردی اہے۔‬
‫ایک مثالی استاد اپنے علممیں وسعت پیدا کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے ۔اپنے علم میں وسعت پیدا ک رتے ہ وئے اس تاد طلبہ‬
‫میں اکتساب کی فضاء کو پروان چڑھا تا ہے۔پڑھانے سے قبل اس کو علم ہوتا ہے کہطلبہ کو کیا اور کس طرح پڑھا یا جائے ۔طلبہ‬
‫کی بنیادی کمزوریوں کا علم بھی ا یک استاد کے لئے بے حد ضروری ہے۔ تاکہ ترسیل علم میں ما نع تما م عناصر ک ا وہ کامی ابی‬
‫سے سد باب کر سکے۔ایک کامیاب استاد کا ہر سبق تدریس کا فن پارہ ہوت ا ہے۔ ذہین اور ہش یار طلبہ کی ج انب س ے مض مون اور‬
‫موضوع پر درسی نصاب کے عالوہ اٹھائے ج انے والے اش کاالت کے جواب ات دی نے کے ل ئے ای ک اس تاد ک و نص ابی کت اب کی‬
‫معلومات کا فی نہیں ہوتی ہے۔ذہین اور تعلیمی طور پر فعال اور ہشیار طلبہ کی تدریس ایک استاد کے لئے مش کل اور پریش ان اس‬
‫وقت ہوجاتی ہے جب اس کو موضوع و مضمون پ ر عب ور حاص ل نہ ہ و اور نص ابی م واد کے عالوہ اعلی معلوم ات ت ک اس کی‬
‫رسائی نہ ہو۔طلبہ درسی کتب کے پڑھائے گئے مفروضے اور حروف فراموش کر دیتے ہیں لیکن استاد کے پڑھا ئیگئے س بق اور‬
‫مفروضوںکی سدائے بازگشت تمام عمر ان کے کانوں سے ٹکراتی رہتی ہے۔علوم کی ترسیل میں استاد کا تبحر علم نہایت اہم وسیلہ‬
‫ہوتا ہے اور یہ تبحر طلبہ کے ذہن و قلب میں ہمیشہ کے لئے مرتسم ہوجاتا ہے۔اساتذہ کے لئے چند قابل قدر رہنمای انہ اص ول بی ان‬
‫کیئے جارہے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر وہ پڑھائے جانے والے موضوع میں گہرائی و گیرائی پیدا کرنے کے ساتھ درس و تدریس‬
‫میں تنظیم و ترتیب پیدا کر سکتے ہیں۔‬
‫(‪) 1‬اساتذہ پڑھائے جانے والے موضوع اور اس سے متعلق دیگر معلومات و مضامین کا پہلے ہی بغور مط العہ ک رلیں اور موض و‬
‫ع کی تدریس میں معاون نوٹس بھی تی ار کرن ا نہ بھ ولیں۔موض وع س ے متعل ق معلوم ات کے حص ول س ے اس اتذہ کومض مون اور‬
‫موضوع پر عبور و کمال حاصل ہوجات ا ہے اور درس و ت دریس میں تنظیم و ت رتیب پی دا ک رنے میں بھی وہ کامی اب ہوج اتے ہیں۔‬
‫درسی سرگرمیاں باقاعدگی سے انجام پانے لگتی ہیں ۔کمرئہ جماعت بوریت اور افت ادگی ک ا ش کار ہ ونے س ے محف وظ رہ تی ہے ۔‬
‫درس و تدریس کا سارا عمل ایک منصوبے اور نظام کے تحت انجام پانے لگت ا ہے۔اکتس اب کی ش رح بھی مت اثر کن ح د ت ک ب ڑھ‬
‫جاتی ہے۔‬
‫(‪) 2‬اساتذہ مختلف تعلیمی و تدریسی وسائل کے استعمال کے ذریعہ مو ضوع اور مضامین کی معلومات میں گہرائی اور گیرائی پی دا‬
‫کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں۔موضوع اور مض مون کے ب ارے میں درس ی کتب میں ف راہم ک ردہ معلوم ات پ ر ہی اکتف ا نہ‬
‫کریں بلکہ مزید معلومات اور حقائق کے لئے غیر نصابی کتابوں کے مطالعہ سے اپنے علم و معلوم ات میں اض افہ ک ریں۔ہ ر وقت‬
‫اپنے طلبہ کو معیاری اور بہترین معلومات اور عمدہ علم کی فراہمی کو یقینی بنانا ایک استاد کا اہم فریضہ ہوتا ہے۔‬
‫(‪)3‬اساتذہ مطالعہ کی عادت کو مستقل اپنا ش یوہ بن الیں۔مط العہ کی ک ثرت کی وجہ س ے‪ ،‬علم میں وس عت اور گہرائیپی دا ہ وتی ہے۔‬
‫اساتذہ کے لئے تو مطالعہ سانس کی طرح اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ زندگی کے لئے سانس جیسے اہم ہے اسی طرح تدریسی زن دگی‬
‫کی ڈور بھی مطالعہ سے بندھی ہوئی ہے۔رسائل‪ ،‬جرائد‪ ،‬مضمون و موضوع سے متعلق کت ابیں‪ ،‬ج رنلس ‪،‬تحقیقی مض امین و مق الہ‬
‫جات اور انٹرنیٹ پر دستیاب مواد کے مطالعہ کے ذریعہ اساتذہ پر اعتماد اور موثر تدریس کو یقینی بنا سکتے ہیں۔‬
‫(‪ ) 4‬اپنے ہم پیشہ دوستوں‪ ،‬ساتھیوں ‪،‬مضامین کے ماہرین ‪،‬اپنے مضمون میں مہارت اور کمال رکھنے والے افراد س ے گفتگ و ک و‬
‫رواج دیں۔ باعلم اور باکمال افراد سے مالقات کا کوئی موقع ضائع نہ کریں ت اکہ علم میں اض افے کے س اتھ گہ رائی و گ یرائی پی دا‬
‫ہواورموضوع کے گنجلک و پیچیدہ نکات کی تفہیم سہل ہو جائے۔‬
‫(‪)5‬اپنے موضوع اور مضمون سے متعلق معلومات کو ضبط تحریرمیں الئیں‪ ،‬اخبارات ‪ ،‬ر س ائل‪ ،‬جرائ د اور میگ زین میں چھ پے‬
‫موضوع سے متعلق معلومات کو کاٹ کر تراش وں ک و محف وظ رکھیں۔ ۔اس ض من میں روزن امے ‪،‬اخب ارات ک افی اہمیت کے حام ل‬
‫ہوتے ہیں اور یہ معلومات کی فراہمی کا سب سے سستا ذریعہ بھی ہیں۔محف وظ ک ردہ تحری ری ن وٹس ‪ ،‬تراش وں ک و دوران ت دریس‬
‫کمرئہ جماعت میں ایک وسیل ِہ ‪ ،‬رسورس اور ریفرنس (حوالہ جاتی مواد) میٹریل کے طور پر استعمال کر یں۔‬
‫(‪) 6‬معلومات کی ذخیرہ اندوزی ‪ ،‬مطالعہ کی وسعت ‪،‬جہاں موضوع و مضمون کے دانشورانہ تفہیم و تجزیہ کاذریعہ بن تی ہے وہیں‬
‫طلبہ کی استعداد ‪ ،‬ذہنی صالحیت کے مطابق ذہانت کے فروغ‪،‬درس و تدریس کی تنظیم و ترتیب میں بھی یہ سرگرمی نہ ایت مم دو‬
‫معاون ثابت ہوتی ہے۔‬
‫(‪ ) 7‬درس و تدریس کے لئے اساتذہ مضمون و موضوع سے متعلق ا پنی معلومات کو جب ترتیب و تنظیم میں لے ٓاتے ہیں تب تم ام‬
‫طلبہ‪ ،‬تعلیمی طور پر کمزور(سلو لرنر)‪،‬ذہین طلبہ(‪،)Gifted Students‬اور اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ کی تدریس بھی م وثر‬
‫اور ٓاسانی سے انجام دی جا سکتی ہے۔موضوع پر عبور اور کمال کے ذریعہ اساتذہ طلبہ کی ذہنی صالحیتوں کو پیش نظر رکھتے‬
‫ہوئے موضوع کو ٓاسان ‪ ،‬سہل اور معنی خیز بنا کر پیش کر تے ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں دانشوری فروغ پ انے لگ تی ہے۔‬
‫(‪) 8‬اپنے مضمون او رموضوع میں دلچسپی لینے سے اساتذہ میں بصیرت پی دا ہوج اتی ہے جس کے وجہ س ے وہ م دلل اور م وثر‬
‫گفتگو سے کام لینے لگتے ہیں۔استدالل اور بصیرت کی روشنی میں وہ موضوع و مض مون کی ت دریس کے ل ئے اخ تراعی ط ریقہ‬
‫ہائے تدریس کو رواج دی تے ہیں۔طلبہ میں بحث و مب احث اور تج ربہ و تج زیہ کی کیفیت ک و پی دا ک رنے میں بھی کامی ابی حاص ل‬
‫کرتے ہیں۔‬
‫(‪)9‬اس اتذہ اپ نی پیش ہ وارانہ اور مض مون کی معلوم ات میںتجدی د اور اض افے کے لی ئے ک وئی دقیقہ فروگزاش ت نہ رکھیں۔ اپ نے‬
‫مضمون میں نکھار پیدا کرنے والے اورینٹیشن پروگرام‪ ،‬ورکش اپس‪ ،‬ن ئے تعلیمی ‪،‬علمی و سائنس ی رجحان ات س ے واقفیت حاص ل‬
‫کرنے کے لئے ر ریفریشر کورسسز وغیرہ میں شرکت کریںتاکہ کمرئہ جماعت میں تدریس کو ٓاسان اور مفید بنایا جاسکے۔‬
‫(‪) 10‬پڑھائے جانے والے موضوعات کا وسیع او ر گہرا علم رکھتے ہوئے اساتذہ تمام طلبہ میں اکتساب کو یقینی طور پ ر پ روان‬
‫چڑھ ا س کتے ہیں۔ وس عت علم کے ذریعے طلبہ کے اکتس اب کی ج انچ من ا س ب ان داز میں انج ام دے س کتے ہیں۔ وس یع معلوم ات‬
‫رکھنے کی وجہ سے بہتر اور موثر سواالت کرنے کے طریقوں سے واقف رہتے ہیں۔ اپنے تبحر علم کو ب روئے ک ار التے ہ وئے‬
‫کمزور طلبہ کو ٓاسان اور سہل انداز میں معلومات و حقائق کو خاکوں اور فلو چارٹس کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔‬
‫(‪)11‬موضوع کے متعلق وسیع معلومات کی وجہ سے درس و تدریس میں جہاں س ہولت پی دا ہ وتی ہے وہیں موض وع و مض مون‬
‫استاد کی یکتائی اور مہارت کمرئہ جماعت کے نظم و ضبط کو قابو میں رکھنا کا ای ک اہم وس یلہ ہے۔اس تاد ک ا اپ نے مض مون میں‬
‫دس ترس کی وجہ س ے اخ تراعی ط ریقے ہ ائے ت دریس اور تخلیقی ت دریس ک و جگہ دی تے ہ وئے علمی نظری ات ک و اس تحکام اور‬
‫پائیداری فراہم کرتاہے۔ ہمیشہ استاد کا مضمون پر عبورا ور دس ترس طلبہ کے ذہن وں پ ر خ وش گ وار اث رات ک ا م وجب ہوت ا ہے۔‬
‫مضمون پر کمال اور عبور استاد کی عظمت و عزت کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔طلبہ مضمون میں دلچسپی لینے لگ تے ہیں ۔ص حت‬
‫مند اکتساب و تعلیمی ماحول کے لئے استاذ کا اپنے مضمون اور موضوع پر مکمل عبور اور دستر س ضروری ہے۔‬

‫سوال نمبر‪5#‬‬
‫روایتی طریق تدریس کے بارے میں تفصیل سے بیان کریں؟‬
‫طریقہ تدریسں کا برا ِہ راست تعلق سبق کی پریزینٹیشن سے ہوتا ہے۔ ایک استاد مختلف مضامین پڑھ انے کے ل یے مختل ف روای تی‬
‫طریقہ تدریس میں استاد لیکچر دیتا تھا اور طلباء نوٹس لیتے تھے۔ ہو س کتا ہے کہ یہ ط ریقہ آج بھی ک ارگر ہ ومگر تعلیمی ارتق اء‬
‫کی وجہ سے آج اساتذہ اپنے بچوں کے تجسس کو ابھارنے کی حوصلہ اف زائی ک رتے ہیں اور ان کی خ واہش ہ وتی ہے کہ ان کے‬
‫طلباء غیر روایتی انداز میں سوچیں۔‬
‫ت عملیوں اور طریقہ تدریس میں مہارت حاصل کرنے میں م دد ملے گی اور ہم آپ کی م دد ک ریں‬ ‫اس سیکشن سے آپ کو ان حکم ِ‬
‫گے کہ کس طرح سے آپ نئے انداز اپنا کر اپنی تدریس کو ذیادہ موثر اور دلچسپ بنا سکتے ہیں۔‬

‫اس طریقہ میں استاد کالس کے شروع ہونے سے قبل طلباء کو سبق کے لیے تیار کرتے ہیں۔ اس سے طلب اء کے م واد ڈھون ڈھنے‬
‫کی ہے۔‬

‫عدم دلچسپی کے رویے سے نمٹنا‬


‫درس وتدریس کبھی بھی آسان کام نہیں رہا۔یہ ایک فن ہے جس میں وقت کے ساتھ س اتھ مہ ارت حاص ل ہ وتی ہے۔ ت دریس ص رف‬
‫لیکچر اور عدم دلچسپی ھے۔‬

‫(ڈیزائن تھنکنگ (کیس میتھڈ‬


‫یہ طریقہ حقیقی زندگی کے واقعات اور ماحول گرد گھو متا ہے۔ طلباء کو ان واقعات و ماحول کا حل اجتماعی سوچ وبچار‪ ،‬تخلیقی‬
‫خیاالت‪ ،‬واقعات‪،‬وغیرہ۔‬

‫جسمانی حرکات و سکنات ‪ ،‬نظر مالنا اور آواز‬


‫کسی ایسے آدمی سے گفتگو کرنا مشکل ہے جو ہماری طرف ی ا ت و دیکھے ہی نہ اور ی ا ہمہ وقت ہم اری آنکھ وں میں آنکھیں ڈال‬
‫کر دیکھے۔‬

‫خود از کارسکھالئی‬
‫تجسس سیکھنے کا بہت بڑا عمل انگیز ہے۔ سیکھنے کے بنیادی اُص ول کے تحت اس ب ات ک ا ک وئی ج واز نہیں بنت ا کہ طلب اء ک و‬
‫متنکے ہیں۔‬

‫آن الئن سیکھنے کے ہتھیار(ٹولز)‬


‫آن الئن لرننگ کے ایسے بہت سے ٹولز موجو د ہیں جن کو استعمال میں ال کر اساتذہ اپنے بچوں کو ترغیب دی نے‪ ،‬مت وجہ ک رنے‬
‫پر مجبور کرے۔‬
‫روایتی طریقہ ہائے تدریس‬
‫ٹیکنالوجی کی بے انتہا ترقی اور تعلیم کے ارتقاء کے باوجود روایتی انداز تدریس ہمیشہ درس و تدریس کا الزمی حصہ رہیں گے۔‬
‫تحقیق سے ثابت ہو۔‬

‫پراجیکٹ میتھڈ‬
‫اس اپروچ کے تحت استاد اپنے بچوں کے دل اور دماغ کو مشغول کرکے ان میں گہرائی سے سوچنے کا ایک راستہ ف راہم ک رتے‬
‫ہیں۔‬

‫ایکٹیوٹی اینڈ رول پلے‬


‫زیر اثر آتی ہے(ج وائس این ڈویل‪)۲۰۰۰ ،‬۔‬
‫ت عملی ہے جو کہ سماجی سائنس کے ِ‬
‫رول پلے یا کردار نبھانا ایک ایسی تدریسی حکم ِ‬
‫ت عملی تعلم ہے۔‬ ‫یہ حکم ِ‬

‫(بحث ومباحثہ(تمام جماعت یا چھوٹے گروہ‬


‫بحث کا آغاز بچوں کو اس بات کی اجازت دے کر کریں کہ وہ کردار نبھانے کے دوران اپنے محسوسات کو بیان کریں۔ بچ وں ک و‬
‫تمام جماعت میں گروہوں میں تقسیم کر لیں۔‬

‫(ڈسکشن میتھڈ(بحث و مباحثہ‬


‫ڈسکشن میتھڈ کی ضرورت ہے کہ طلباء اچھی طرح سے تیاری ک رکے کالس روم میں آئیں۔ طلب اء ک و اس ب ات کے ل یے ت رغیب‬
‫دینا کہ لیے ہو۔‬

‫(ڈیمانسٹریشن میتھڈ(مظاہراتی طریقہ تدریس‬


‫جب آپ کسی کو کوئی نئی چیزسکھا رہے ہوں تواس کا مظاہرہ ان کی ذیادہ تر توجہ کھینچ لیتا ہے۔ یہ کارٹائر ب دلنے س ے لے ک ر‬
‫طریقہ تدریس تک ہو۔‬

‫انکوائری کا طریقہ کار‬


‫استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے طلباء کو باقاع دہ س مجھائے کہ کیس ے انہ وں نے انک وائری میتھ ڈ میں حص ہ لین ا ہے۔ یہ ط ریقہ چ ار‬
‫مراحل پر ہوتا ہے۔‬

‫ترغیب‪/‬کمک‬
‫سکولوں میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب ہمیں بچوں کو کوئی خاص کام کرنے یا کوئی خاص معلومات ازبر کرانے کے ل یے ی ا‬
‫انہیں ترغیب دینے کے لیے ہے۔‬

‫لیکچر میتھڈ‬
‫لیکچر میتھڈ ایک ایسا آسان طریقہ تدریس ہے جو تقریبا ً تمام سکولوں اور کالجوں میں اس تعمال ہوت ا ہے۔ لیکچ ر میتھ ڈ ک و اس کی‬
‫آسانی اور ہوتا ہے۔‬
‫پرابلم سالونگ یا مسئلے کو حل کرنے واال طریقۂ تدریس‬
‫زندگی مشکالت سے بھری پڑی ہے اور ایک کامیاب انسان کے لیے ض روری ہے کہ وہ ان مش کالت س ے ن برد آزم ا ہ ونے کے‬
‫لیے مناسب ہو۔‬

‫برین سٹارمنگ یا ذہن لڑانا‬


‫یہ طریقۂ تدریس بچوں میں تخلیقی سوچ اور معلومات اکٹھا کرنے کی صالحیت اُجاگر کرت ا ہے۔ ‪۱‬۔ ای ک ب ڑے ی ا چھ وٹے گ روپ‬
‫میں سے ایک مختلف طریقہ ہائے تدریس‬
‫اگر آپ لفظ تدریس کے بارے گوگل پر سرچ کریں تو آپ کو بہت سے طریقہء تدریس ملیں گے‪ ،‬مگر سوال یہ ہے کہ کون‬
‫سمولیشن میتھڈ(نقل اتارنے واال طریقہ)(طریقۂ مجاز)‬
‫اس طریقہ کار میں استاد طلباء کو مختلف سرگرمیاں‪ ،‬کھیل یا منظر تفویض کرتا ہے‪ ،‬جہاں طلباء اس تاد کی بن ائی ہ وئی اس خی الی‬
‫دنیا میںہیں۔‬

You might also like