Professional Documents
Culture Documents
6509 Assignment 1
6509 Assignment 1
سوال نمبر : 1پاکستان میں دور حاضر کے تناظر میں تدریس اردو کے تقا ضوں پر روشنی ڈا لیں؟ نیز تدریس اردو سے
تحقیق کی اہمیت واضح کریں؟
ایسے ادارے ہمارے ملک میں بھی موجود ہیں اور اس نوع کے کام میں مصروف بھی ہیں مگر عمالً یہ دیکھنے میں آیا
ہے کہ اردو زبان کو انگریزی کی جگہ النے میں ان کا کردار اب تک مؤثر ثابت نہیں Xہو سکا ۔یہ ادارے اپنی جگہ پر
سفارشات بھی پیش کرتے ہیںمگر ملک کے مقتدر ادارے ان سفارشات کو کسی سطح پر نافذ کرنے کے قابل نہیں
سمجھتے اور نہ ہی اردو کے لیے کام کرنے والے اداروں کو مضبوط اور مستحکم ہونے دیتے Xہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے
اعلی ثانوی درجوں میں
ٰ کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں بھی اردو کوثانوی حیثیت میں پسماندگی کا شکار دیکھتے ہیں۔
صرف ایسے طلبہ ہی اردو پڑھنا پسند کرتے ہیں جو اپنے گھریلو ماحول کی وجہ سے اس میں دلچسپی پیدا کر چکے
ہوتے ہیںیا ثانوی اور ابتدائی درجوں میں بعض مخلص اور قومی درد رکھنے والے اساتذہ کی شخصیت اور کردار سے
متاثر ہو کر اردو پڑھنے کا شوق پیدا کر چکے ہوتے ہیں باقی طلبہ محض اس لیے اردو پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ
اپنے تمام مضمونوں میں مجموعی طور پر زیادہ نمبر حاصل کر کے پیشہ ورانہ کالجوں میں داخلے کے لیے میرٹ بنانا
ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہو ں کہ یہ صورت ِ حال ہماری قومی زبان کے ساتھ ایک طرح کے ظلم کے مترادف ہے۔ اور اس
ظلم میں حکمران طبقوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارے اور اساتذہ بھی شامل ہیں۔ ابتدائی اور ثانوی درجوں میں اردو کی
تدریس الزمی قرار پاتی ہے ،مگر اس کے معلوم مقاصد صرف یہ چار ہیں
۔
۔ اردو بولنا۱
۔ اردو پڑھنا۲
۔ اردو لکھنا۳
۔ اردو سمجھنا۴
ان چار مقاصد کے حصول کے لیے ایک بچہ جماعت اول سے جماعت دہم تک تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرتا ہے۔
گویا دس سال میں وہ اردو بولنے ،پڑھنے ،لکھنے اور سمجھنے کے قابل ہوتا ہے اور پھر اسے کافی سمجھتے ہوئے
اعلی ثانوی درجوں میں وہ اردو کی تعلیم سے گریزاں نظر آتا ہے۔ اور انگریزی کو اپنی قومی زبان پر ترجیح اور فوقیت
ٰ
ت
دینے پر مجبور ہوتا ہے ،قاب ِل غور بات یہ ہے کہ اگر پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں ذریعہ تعلیم اردو ہوتو پھر صور ِ
ب علم جوں جوں آگے پڑھے گا اردو میں اس کی دلچسپی بھی بڑھتی چلی جائے گی۔ ابتدائی
حال یکسر بدل جائے طال ِ
اعلی درجوں میں طلبہ اردو کی تعلیم کو زیادہ ضروری
ٰ درجوں سے زیادہ ثانوی درجوں میں اورثانوی سے زیادہ
سمجھنے لگیں گے۔ گویا اردو کی تدریس میں درپیش سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے جس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اردو کی
نظام تعلیم ہے جو یہ کہہ رہا ہے کہ
ِ تدریس میں دوسرا بڑا مسئلہ ہمارا
میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
اقبال نے فرمایا تھا
اس کی بنیاد ہی ہمارے قومی نظریات سے متصادم ہے اس کے حوالے سے حکیم االمت عالمہ محمد ؒ
نظام تعلیم
ِ اور یہ اہ ِل کلیسا کا
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خالف
نظام تعلیم نے طبقاتی کشمکش کو جنم دینے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ پاکستان کو وجود میں آئے ۶۵برس ہو چکے ہیں
ِ اس
مگر ہم اب تک اس خرابی کی صورت کو رفع نہیں کر سکے اور دین و مروت کے خالف سازش کو بظاہر سمجھنے
کے باوجود ختم نہیں کر پائے۔ طبقاتی نظام کے باعث اردو کی تدریس و تعلیم صرف ایک طبقے تک محدود ہو کر رہ
نظام تعلیم کے شکنجے سے نکلنے کی
ِ گئی ہے۔ یہ طبقہ وسیع ہونے کے باوجود کمزور اور بے اختیار ہے جو اس
خواہش رکھنے کے باوجود بے بس اور مجبور ہے۔ ہم نے اب تک جتنے بھی تجربات کیے ہیں اس نظام کے اندر رہتے
ب تعلیم کئی مرتبہ تبدیل ہوا ہے مگر تبدیلیاں ایک خاص طرح کے خاص دائرے سے باہر نہیں ہوتیں
ہوئے کیے ہیں۔ نصا ِ
ب تعلیم کا انتخاب کیا جاتا ہے جو ایک کمزور اور بے اختیار طبقے کے لیے
اور ان تبدیلیوں Xکے لیے صرف اسی نصا ِ
ب تعلیم
رائج ہے۔ ملک کا طاقتور طبقہ اپنے تعلیمی اداروں میں اپنے غیر ملکی آقائوں کی زبان اور افکار پر مبنی نصا ِ
رائج کر کے حکمرانہ ذہنیت پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ اس طرح ۱۴اگست ۱۹۴۷ء کو آزاد ہونے والے ملک کے
اندر ہی غالمی اور آزادی کے واضح تصورات پروان چڑھ رہے ہیں۔ ہم یہ بھول چکے ہیں کہ پاکستان ایک نظریاتی
مفکر اعظم نے پیش کیا تھا اور جس کے قیام کا محرک دو قومی نظریہ تھا۔
ِ عالم اسالم کے
مملکت ہے جس کا تصور ِ
اگر ہم نظریہ پاکستان کے تشکیلی عناصر پر غور کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ نظریہ دو اجزاء کے مالپ سے وجود
دین اسالم اور دوسرا ہماری زبان اردو۔۔۔۔ اگر دونوں میں سے ایک کو اس نظریے سے خارج کر
میں آیا ہے ایک ہمارا ِ
دیا جائے تو اس کی عمارت منہدم Xہو جائے گی۔ ل ٰہذا ہمیں ان دونوں عناصر کا تحفظ کرنا ہو گا۔
سرور کائنات ﷺ کی سیرت کے حوالے سے ایک مضمون سے ہوتا ہے۔ اس مضمون سے
ِ کتاب کا آغاز
کچھ فاصلے پر مرزا کے عادات و خصائل کے عنوان سے موالنا حالی کی تحریر ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ
مرزا غالب رمضان المبارک میں ایک روزہ بھی نہیں رکھتے تھے۔ اس مقام پر نویں جماعت کا ایک معصوم طالب علم
یہ سوال کر سکتا ہے کہ کیا مرزا غالب مسلمان نہیں Xتھے؟ استاد اس سوال کا جو جواب بھی دے بچہ اس سے مطمئن
اعلی ثانوی درجوں کے
ٰ نہیں ہوتا۔ اسی طرح کے تضادات اور الجھنیں اس وقت رائج تمام نصابی کتابوں میں ملتی ہیں۔
لیے نیشنل بک فائونڈیشن کی تیار کی ہوئی کتاب سرمایہ ِ اردو کا حال یہ ہے کہ ہر صفحے پر امال کی اور کمپوزنگ کی
بار
غلطیاں ہیںاور کتاب میں ایسے اسباق شامل ہیں جن کی وجہ سے واقعی ایک سائنس کا طالب علم اردو کو اپنے لیے ِ
گراں سمجھنے لگتا ہے۔ ایک نجی ادارے کی شائع کردہ آٹھویں جماعت کے لیے اردو کی کتاب اگرچہ اس لحاظ سے
قابل ِ تحسین کوشش ہے کہ وہ ایک نظریاتی ملک کی کتاب محسوس ہوتی ہے مگر اس کے مضامین ِ نظم و نثر آٹھویں
جماعت کے طلبہ کی ذہنی استعداد سے کہیں Xزیادہ بوجھل ہیں۔ مثالً اس کتاب میں میر انیس کی رباعیات بھی شامل ہیں۔
ایسی نظمیں شامل ہیں جو ایک عام قسم کا شاعر بھی صحت کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا۔ بہت زیادہ مشکل الفاظ اور تراکیب
کی وجہ سے اس کتاب کے مضامین نظم و نثر بچوں کی ذہنی استعداد Xسے مطابقت نہیں رکھتے۔
میری ان گزارشات کا مطلب یہ ہے کہ بچے کو بچہ سمجھا جائے اور اس کی ذہنی استعدادکا خیال رکھتے ہوئے اس کے
لیے نصاب مرتب کیا جائے ورنہ وہ اسے بوجھ سمجھتے ہوئے را ِہ فرار اختیار کرے گا۔ نصابی کتابوں میں تحریک ِ
پاکستان سے متعلق تو اکا دکا مضامین نظر آ جاتے ہیں مگر تاریخ ِ پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ مثالً
۱۹۷۱ء میں پاکستانی قوم ایک ایسے سانحے کا شکار ہوئی جو پوری دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ عبرت ناک تھا۔
اس سانحے اور اس کے اسباب کا کسی درسی کتاب میں ذکر نہیں Xملتا۔ اس طرح ہمارے آبائو اجداد کے درخشاں
کارناموں کو بھی بہت کم جگہ دی گئی ہے۔ اس طرح قومی زبان کی تدریس و تعلیم کو غیر ضروری اور مشکل بنانے
میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا۔ بال شبہ ہماری درسی کتب طلبہ میں اردو کی تعلیم کا شوق پیدا کرنے میں ناکام
ہیں۔
http://nlpd.gov.pk/uakhbareurdu/may2013/May_5.html
سوال نمبر : 2درسی متن کی اقسلم اور ان میں حال مشکالت کا جازہ لیں؟ مختلف سبقی ڈزیءن کے مطالعہ کے بعد
بطور استاد اپنا سبقی طریقہ واضح کریں؟
اس قسم کے متن میں سب سے زیادہ استعمال شدہ فعل کا فارم ماضی ہے .عام طور پر ماضی میں کامل لیکن دوسروں
کو بھی استعمال کیا جاتا ہے :اس نے نمک شیکر اٹھایا ،اس گھر میں رہتا تھا ،چل پڑا تھا ،صاف تھا ،اس نے کیا
سوچا تھا وغیرہ۔ تاہم ،جب مکالمات دوبارہ پیش کیے جاتے ہیں تو وہ براہ راست ہوتے ہیں ،یعنی حرف جو حرف کو
کہتے ہیں اس کی ترجمانی کرتے ہیں ،عام طور پر فعل کی شکل عام طور پر موجود ہوتی ہے :یہاں سے نکل جاو!
.مجھے اپنے راستے پر جانے دو! -سید آدمی
عام طور پر ان عبارتوں کا ڈھانچہ بہت واضح ہوتا ہے ،جو اس موضوع کو واقف کرنے کے لئے تعارف کے ساتھ
شروع ہوتا ہے۔ ترقی ،معروضی تجزیہ ،مثال یا اعداد و شمار کو اجاگر کرنا؛ اور اختتام ،جو ہاتھ میں مضمون کے
سب سے اہم پہلوؤں کا خالصہ کرتا ہے۔ اس کا مقصد مطلع کرنا ہے۔
متن عام طور پر ایک پریزنٹیشن کے ساتھ شروع ہوتا ہے جو تجویز کردہ دالئل کو the ،اس کو حاصل کرنے کے ل
سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ یعنی ،موضوع کے فوائد یا خصوصیات کو سامنے النے کے لئے آگے جانے سے پہلے
اس قسم کے متن میں کتابیات کے this ،قاری کو سیاق و سباق میں ڈالنا ضروری ہے۔ ساکھ کو شامل کرنے کے ل
حوالہ جات شامل ہوسکتے ہیں جو اس کی صداقت کو ظاہر کرنے کی اجازت دیتے ہیں ،بلکہ اس کی وجہ اور اثر کی
استدالل ،اتھارٹی (یعنی ،اس موضوع پر ماہرین) یا مقبولیت (مثال کے طور پر ،ہر ایک کرتا ہے) ،دوسروں کے
درمیان بھی ہے
جملہ تیسرے تیسرے شخص کے واحد ،غیر اخالقی اور غیر فعال اضطراری عمل میں ہیں۔ دوسری طرح کے متن کے
مقابلے میں ،الفاظ کی تکرار عام ہے اور حقیقت میں دستاویز میں کلیدی تصورات کو مبہمیت Xسے بچنے کے لئے بار
بار دہراتے ہیں۔
انتظامی عبارتیں قانونی متن سے ملتی جلتی ہیں .دراصل ،انہیں اکثر قانونی انتظامی متن کہا جاتا ہے۔ تاہم ،وہ قانونی
سے کم سخت ہوتے ہیں۔ سرٹیفکیٹ اس کی ایک مثال ہیں۔
ادبی متن 9.
وہ ایک عظیم ادبی جمالیات کے ساتھ عبارتیں ہیں ،اسی لئے انہیں آرٹ کے فن سمجھا جاتا ہے .استعاراتی زبان کھڑی
ہے ،جو اظہار اور جذبات سے ماالمال ہے۔ نظمیں ،کہانیاں ،کہانیاں اور کچھ مضامین ادبی متن کی مثال ہیں۔
مثال کے طور پر ،اس قسم کا متن وہی ہے جو ہم بالگز یا ڈیجیٹل میگزینوں میں پا سکتے ہیں .اس وسیلہ کی
خصوصیت اور اس مواد تک جو آسانی سے پایا جاسکتا ہے اس کی نشاندہی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قاری ان میں سے
بہت سارے متن کو پوری طرح نہیں پڑھتا ہے ،بلکہ عام طور پر ان کو اسکین کرتا ہے کہ ان معلومات کو براہ راست
جاسکے جو ان کی دلچسپی رکھتے ہیں
https://ur.warbletoncouncil.org/tipos-de-texto-3465
سوال نمبر : 3تدریس اردو میں بولنے اور سننے سے متعلق اختالف راے بیان کریں اور سننے اور بولنے کے تدریسی
مقاصد بیان کریں؟
اردو زبان کی تعلیم و تدریس کے مسائل اس وجہ سے بھی بہت پیچیدہ اور مشکل ہیں کیوں کہ مختلف معاشرتوں نے اس
زبان کو اس انداز سے اپنایا کہ متضاد اور مخالف ماحول اور تاریخ و جغرافیہ کی آویزشوں والی آبادیوں میں ایک ساتھ
اس کے طلسمات قائم ہوتے چلے گئے۔ یہ زبان پیدا تو ہندستان میں ہوئی لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش سے بڑھ کر اس
انداز میں دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلی کہ اب مرکزیت اور آغازکے سوالوں پر اتّ ِ
فاق رائے مشکل ہے۔ کبھی اردو
درباروں کی زبان ہوتی ہوگی یا صوفیوں نے اپنے حلقے میں اس کی پرورش کی ہوگی لیکن اب اس کی کاروباری اور
عوامی ضرورتوں نے اس طرح مزاج میں تبدیلی پیدا کردی جس سے یہ اندازہ لگانا آسان نہیں کہ کس معاملے میں یہ
صوفی
ِ زبان کون سی کروٹ لے گی۔ جب ایک ہی زبان کا ایک چاہنے واال بُت پرست ہو اور دوسرا بُت شکن ،ایک
باصفا ہو تو دوسرا شراب و کباب کا شیدائی ،ایک روایت پر نازاں تو دوسرا ج ّدت پر فریفتہ؛ یہ بُ ِ
ت ہزار شیوگی اِس زبان
ناقابل تسخیر کہہ رکھا ہے۔
ِ کا ایسا مق ّدر ہے جہاں نہ جانے کتنی اَبوجھ پہیلیاں موجود ہیں اور جنھیں اسی لیے بہتوں نے
کثیر لسانی اور تہذیبی ماحول
اردو ہر چند دنیا کی نئی زبانوں میں سے ایک ہے لیکن اس کی تاریخ اور اس میں اتنے پوشیدہ ادبی اور علمی لعل و گہر
موجود ہیں کہ کثیر ابعادی مطالعے کے بغیر اس زبان کے معامالت ومسائل کو بہ غور سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ تاریخ و
تشکیل نَو کی؛ اسی نے اردو کو ہر
ِ تہذیب کے ساتھ ساتھ عہ ِد جدید کے گوناگوں تقاضوں سے اس زبان نے جو اپنی
معاملے میں قومی اور بین االقوامی جہات سے غور و فکر کرنے اور اسی طرح اونچے معیاروں سے جینے کی ایک
خو،پیدا کردی۔ اس زبان میں دوسری زبانوں سے اخذ واستفادہ اور مختلف تہذیبوں Xسے لین دین کا جو شعور پیدا ہوا ،اس
سے اردو زبان یا تہذیب کے طَور پر الگ الگ رہنے والی َشے بن کر قانع نہ رہ سکی بلکہ زبانوں اور تہذیبوں کے
امتزاج کے بنیادی اصول اس کی گھُٹّی میں اس طرح پیوست ہوگئے جیسے یہی صفت اس کی زندگی کی ضمانت ہو۔ آج
بھی اکثر و بیش تر اردو داں آبادی کئی زبانوں میں ایک ساتھ درک رکھتی ہے۔ اعداد و شمار کی بات کریں تو یہ جان لینا
قابل اطمینان ہے کہ اردو خواں آبادی میں ۷۵فیصد افراد ذولسانی ہیں جب کہ ہندی سے اس کا موازنہ کریں تو وہاں یہ
ِ
صورت ۲۵فی صدی کے آس پاس ہے۔
اردو جب زبان کی حیثیت سے تشکیلی مراحل سے ُگزر رہی تھی ،اُس زمانے میں اردو پر ِجن بولیوں کے سب سے
زیادہ اثرات قائم ہوئے ہوں گے ،ان کے بارے میں ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ُکچھ زیادہ تحقیقات ممکن نہ ہوئیں اور
تحقیق کا جتنا بھی کام ہوا ،اُس کے لیے پہلے سے ہی یہ اُصول قائم کر لیاگیا کہ اردو کو مغربی ہندی کی بولیوں سے بر
آمد شدہ مانا جائے ِجس کی وجہ سے ماگدھی اور اَردھ ماگدھی بولیوں سے اردو کے ابتدائی رشتوں کے معامالت کو
قابل غور سمجھا ہی نہیں گیا۔ اِسی لیے اردو کے ارتقا کے بہت سارے سواالت بعض ماہری ِن لسانیات کی کج ادائیوں اور
ِ
ت حال میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ہمیں Xیاد رہنا چاہیے کہ اس
چند علما کی عصبیت کی وجہ سے اب بھی غیر یقینی صور ِ
مسئلے کے َحل کے بعد ہی ہم اُردو کی مشرقی روایت کے بارے میں ُکچھ نتائج اخذ کر سکتے ہیں اور اپنی زبان کی
عربی ،فارسی اور تُرکی روایت کے ساتھ ساتھ پُوربی زبانوں اور بولیوں کی روایات کے بارے میں غور وفکر کر کے
کسی نئے لسانی نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔
یہ ممکن ہے کہ بعض افراد کی جبینوں پر ِشکن آجائے لیکن یہ س ّچائی معلوم ہوتی ہے کہ ہندستان میں تعلیم کے سلسلے
سے ادارہ سازی کا جو تص ّور بودھوں نے پیش کیا ،اُسے مسلمانوں نے بہت غور سے دیکھا اور اپنے فروغ میں اسے
سنجیدگی سے آزمایا۔ یہ دُرست کہ مسلمانوں نے تک شالِ ،وکرم شال اور نالندہ جیسے بڑے ادارے اپنی عظیم حکومتوں
کے باوجود قائم نہیں کیے البتّ ہ چھوٹے چھوٹے مدارس کے وجود اور افادیت سے انکار نہیں کیاجا سکتا لیکن اُنھیں قدیم
عہد کی مذکورہ یونی ورسٹیوں کا بدل نہیں کہہ سکتے۔ عہ ِد سلطنت کے بادشاہوں کی ِعلم دوستی اور قدرشناسی کا شہرہ
ہے لیکن وہ چاہتے تو تعلیمی ادارہ سازی کا کام اپنی بڑی بڑی تعمیرات کے ساتھ کر ہی سکتے تھے۔ پوری مغل تاریخ
بھی عظیم تعلیمی ادارے قائم کرنے کے پہلو سے ہمیں خاطر خواہ جواب نہیں دیتی اور اس طرح بودھوں کے تعلیمی
شعور کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے۔ حد تو یہ ہے کہ نالندہ کے زوال کا الزام بھی محدود معنوں میں ہی سہی ،بختیار خلجی
کی افواج پرہی جا پڑتا ہے۔ اس طرح تعلیمی ادارہ سازی میں معاونت کے بجاے ہمارے بادشاہوں کے نام اداروں کے
مسمار کرنے والوں میں شامل ہوگیا۔
صوفیا کی خانقاہوں اور مساجد یا مدارس سے الگ کر کے ڈھونڈنا ُمشکل ہے۔ یہ
ہندستان میں اردو کی ابتدائی تعلیم کو ُ
تبلیغ اسالم اور رضامندی
ِ بھی دُرست ہے کہ یہ ادارے مذہبی تعلیم کے لیے قائم کیے گئے تھے اور اِن کا ایک مقصد
سے ہی سہی لیکن تبدی ِXل مذہب بھی تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اصل کام تو عربی زبان میں ہونا تھا۔ عربی کے ساتھ
ساتھ کاروباری جہتوں سے فارسی یا تُرکی کے لیے بھی مواقع پیدا ہوگئے۔ انھی تینوں زبانوں کے ساتھ ساتھ عوامی دباو
یا ذریعۂ تعلیم اور تبادلۂ خیاالت کی مجبوریوں نے اردو کو عہ ِد سلطنت کے مدارس میں جگہ ِدالئی ہوگی لیکن لسانی
حکمرانی تو بہرحال عربی ،فارسی اور تُرکی کے ہاتھ میں رہی اور بادشاہت کے لُٹتے وقت تک اِس میں کوئی خاص
تبدیلی سامنے نہیں آئی۔
حقیقت میں اہ ِل اُردو کے درمیان تعلیمی ادارے قائم کرنے کا سلسلہ انگریزوں کی آمد اوران کے اقتدار کے بعد شروع
ہوتا ہے۔ اِس سے پہلے بڑے ادارے قائم کرنے اور اُن کے دروازوں کو عوام کے لیے کھولنے کی خواہش یا ضرورت
کو سماج نے شاید سمجھا نہیں تھا۔ اِسی لیے مسلمانوں کے درمیان واضح مذہبی ہدایات کے باوجود تعلیم سے بے رُخی
ش عام ایک طویل م ّدت تک قائم رہی۔ یہ تو اچھّا ہوا کہ ایک ہی زمانے میں انگریزوں کا اثر لینے
رو ِ
اور عدم توجہی کی ِ
اور اُن سے اختالف کرنے کی تعلیمی مہم شروع ہوئی اور ہم نے انگریزوں کی یونی ورسیٹیوں کے ساتھ ساتھ دارالعلوم
دیوبند X،علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور ندوۃ العلما یا دارالمصنّفین جیسے ُکچھ ادارے قائم کرلیے جن سے ہمارا رُکاہوا نیا
تعلیمی سلسلہ پ ِھر سے جاری ہو سکا اور اِس بہتر نقطۂ آغاز کے نتائج بہرطور سامنے آنے لگے۔ آج کی تعلیمی
پسماندگی کا سبب جاننے کی کوششوں کے دوران ہمیں یہ نہیں بھُولنا چاہیے کہ ہم نے بڑے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی
طرف تو ّجہ بہت دیر سے کی جب کہ کہنے کو اپنی قوم میں بادشاہت کا ایک پورا سلسلہ موجود تھا۔
اس لیے اس حقیقت سے ہم اپنی گفتگو شروع کریں کہ ہندستان میں اردو آبادی نے بڑے تعلیمی اداروں کی بنیاد
انگریزوں کی حکومت کے قیام یعنی ۱۸۵۷ء کے بعد Xہی رکھی۔ یہ ادارے واضح طور سے مغربی اثرات میں ڈوبے
ہوئے تھے۔ ان اداروں سے الگ ،اسکول ،کالج اور یونی ورسٹیوں کا جو سلسلہ شروع ہو رہا تھا ،وہاں بھی اردو کے
لیے گنجایشیں پیدا ہوئیں۔ روایتی مذہبی تعلیم سے اردو آبادی نے اپنی نئی تعلیم کے ڈھانچے کو جوڑنے کی بہت کم
کوشش کی اور زیادہ تو ّجہ اس بات پر رہی کہ عصری تعلیم کے لیے مغربی پیمانوں کو تختۂ مشق بنایا جائے اور مذہبی
ب ضرورت شامل رہے۔ بہت مشکل سے جنگِ آزادی کے دوران جامعہ ملیّہ اسالمیہ
تعلیم غیر رسمی حصّے میں حس ِ
جیسے ادارے کا قیام اس نقطۂ نظر کے ساتھ ہوا کہ عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی اور قومی تعلیم کے ایک ِملے
جُ لے خاکے میں رنگ بھرا جا سکے۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مغربی تعلیم کی رہنمائی میں علی گڑھ نمایندہ ادارہ تھا
اور مشرقی اور مذہبی انداز کی تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند X،ندوۃالعلما وغیرہ قائم ہوئے تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان
اداروں میں آپسی تعلّ ق ،نقطۂ مفاہمت ،صالح و مشورہ اور اصول و نظریات یا عمل میں ایک دوسرے سے سیکھنے اور
پانے کے ثبوت ایک اچھے خاصے زمانے تک ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔X
انیسویں صدی میں قومی تعلیم کا ادھورا خاکہ
ادارہ سازی میں جب کوتاہیاں ہوں گی تو یہ بھی حقیقت سامنے آئے گی کہ ایک ڈسپلن کے طور پر اصل تعلیم کو فروغ
دینے میں بہت ساری کمیاں درآئیں گی۔ مضمون کے طور پر تعلیم اور تدریس کو سمجھنے کی کوشش اور عالمی یا
قومی سطح پر اُس کے تجربات اور نفاذ کی باری تو اور بھی دیر سے آئی۔ آج تک ایسی کوئی مک ّمل تحقیق یا کتاب ہمیں
دیکھنے کو نہیں Xملی جس سے ۱۹ویں صدی کے ایسے تعلیمی ادارے جو اُردو آبادی کو استحکام دینے کے لیے قائم
ہوئے تھے ،اُن کی تعلیم کا پُورا پُورا خاکہ سامنے آ جائے۔ حاالں کہ ہر جگہ مستند ،ذہین اور قومی خلوص سے لبالب
شخصیتوں نے یہ تعلیمی بیڑا اُٹھایا تھا۔ اِس کی وجہ سے اِن اداروں کا فیضان کم ہوا اور ہماری قومی تعلیم کا خاکہ
انیسویں صدی کے اداروں سے مک ّمل طور پر اُبھر کر سامنے نہیں آسکا۔ وہ سب خاکے ادھورے یا یک رُخے تھے۔
چاہے وہ دارالعلوم کی تعلیمی فِکر ہو یا علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا تعلیمی خواب۔ سب میں ہمیں اپنی ضرورتوں کے
مطابق ُکچھ نہ ُکچھ نئے رنگ بھی بھرنے تھے۔
جنگِ آزادی کی تحریک کی اہمیت اس اعتبار سے قاب ِل توجّہ ہے کیوں کہ اِس تحریک میں ہندستانی قوم نے ایسے
ُگرسیکھے ِجن سے ایک ساتھ ُملک اور زندگی کے ہمہ گیر معامالت پر نگاہ رکھی جا سکتی تھی۔ ہندستانی قوم نے
انگریزوں سے لڑائی کے ساتھ ساتھ قومی تشکی ِل نو کے ایسے ٹھوس اور پُرخلوص کام اپنے ذ ّمے لے لیے جو وسیع اور
مستقبل پسند نقطۂ نظر کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اسی دوران گاندھی جی کی ہدایت اور ذاکر حسین کی قیادت میں نئی تعلیم
کے ہمہ گیر تصوّرات کی بنیاد پڑی۔ ُملک کے بعض اداروں میں بالعموم اور جامعہ ملیہ اسالمیہ میں بالخصوص اس کے
نفاذ کی کوششیں ہوئیں۔ آزادی سے قبل کے دَور کو نگاہ میں رکھیں تو ہندستان کی نئی تعلیم کا خواب دیکھنے Xوالے اور
اِس سلسلے سے منصوبہ بند طریقے سے ُکچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والے افراد جامعہ ملیہ اسالمیہ کے پلیٹ فارم
سے جمع ہو گئے تھے۔ اِس تعلیمی تص ّور اور تجربے کی لَو ذرا اور تیز ہوگئی ہوتی اور اِس کے اثرات زیادہ وسیع اور
ہمہ گیر ہوگئے ہوتے تو شاید ہم آج بہتر تعلیمی زندگی گزارتے اور اردو آبادی کے تعلیمی مسائل آج کے مقابلے کم
پیچیدہ ہوتے۔
آزاد ملک کی پالیسیوں میں عدم توازن
آزادی کے بعد دوسری اقوام کی طرح ہی ہماری جو نشو و نُما ہوئی ،اُس میں عجلت پسندی اور کم غور و خوض کرکے
بڑے کاموں میں ہاتھ ڈالنے کا جوش وجذبہ ایسی رُکاوٹیں رہیں جہاں سے ہم اُچھال لینے کی حالت میں نہیں آسکے۔ نئے
ماحول میں جو اہرالل نہرو کی قیادت میں ہر شعبۂ حیات میں بڑے اداروں کی بنیاد رکھنے کی ایک بڑق رفتار مہم
اچانک شروع ہوگئی۔ پس ماندگی اور جہالت کی ماری قوم کے کھیون ہار کے طور پر ابوالکالم آزاد ہمارے سامنے
تھے۔ تعلیم کے شعبے میں واقعی عظیم اور مہتم بالشان ادارے قائم کیے گئے لیکن یہ یاد رہے کہ ان کی افادیت بڑھنے
کے بجاے دیکھتے Xدیکھتے گذشتہ نصف صدی میں کم ہوتی چلی گئی۔ ہندستانی سماج کی پیچیدہ زندگی اور دُکھ درد کو
ٹھیک سے سمجھے بغیر عمومی ادارہ سازی پر زیادہ توجّہ رہی ِجس کے نتیجے کے طور پر ہم تعلیمی اور سماجی
پچھڑے پن سے برق رفتاری کے ساتھ مقابلہ نہ کر سکے اور ہندستانی سماج کی حقیقی ضرورتوں کی تکمیل کا کام
ادھورا رہ گیا۔
تعلیم و تحقیق کے سلسلے کی ادارہ سازی کا جائزہ لیں تو جواہر الل نہرو ماڈل کی ایک اور بھُول یہ سمجھ میں آتی ہے
کہ عجلت پسندی میں ملک کی عالقائی ضرورتوں کو نہیں سمجھا گیا اور تو ازن کا تو بالکل خیال نہیں رکھا گیا۔ ِکسی
پس ماندہ اور شکست ُخوردہ قوم کی قربانیوں اور جدوجہد کا ایسا نتیجہ سامنے آئے کہ قومی ترقّی کی متوازن لہر سے
دُوری پیدا ہوجائے تو اِسے خوابوں کی تکمیل کے بجاے چکنا ُچور ہونا ہی قرار دیا جائے گا۔ اِس پر مستزاد کہ بڑی
خوشی سے ُملک کی تعلیمی ترقّی کے لیے ہم نے ُکچھ ُ
صوبوں کو مہربانی کی بہاریں پیش کیں اور ُکچھ کو انتظار کی
زنجیروں میں ڈال رکھا۔ ۱۹۶۰ء تک تو ہندستان کے نقشے میں معاشی ماہرین نے بعض دلچسپ اصطالحیں بھی گڑھ
لیں جنھیں ہم ’کاؤبیلٹ‘’ ،بیمارو اسٹیٹس‘ اور ’ہندی پٹیّی‘ کے نام سے جب جب یاد کرتے ہیں تو ِاس کا مفہوم یہ بھی ہوتا
ہے کہ ہندستان کے عمومی نقشے میں یہ آبادیاں پس ماندگی کا شناخت نامہ ہیں۔ اِن صوبوں کے افراد سے پوچھیے کہ
دوسرے شعبۂ حیات سے الگ تعلیم و تدریس کے کاموں میں قومی پیمانے پر وہ کیوں پچھڑ گئے یا قومی منصوبہ بندی
میں ہی کوئی ایسا کھوٹ تھا ِجس نے ُکچھ آبادیوں کو ترقّی کے ذرائع کم بہم پہنچائے۔ یہ سوال آج پس ماندہ صُوبوں کے
افراد کے ذہن میں قائم ہوتا ہے کہ جنگِ آزادی کے لیے خون بہانے اور قربانی دینے میں وہ ِکسی سے بھی پیچھے نہیںX
تھے لیکن آزاد ُملک کے پھَل پھُول اُنھیں دوسروں سے کم نصیب ہوئے اور وہ آج بھی ہندستان کی قومی ترقّی کے
پیمانے کو نیچے کی طرف النے کے لیے مجبور ہیں۔
آزاد ُملک کی غیر متوازن پالیسیوں کے جبر اور جلد بازی میں قائم کیے گئے ادارے ِکسی بھی قوم کی کشتی کو پار نہیں
موضوع گفتگو بناتے ہوئے ہمیں اپنی آدھی ادھوری ترقیوں کے
ِ لگا سکتے تھے ،اِس لیے تعلیمی مسائل و مباحث کو
ک ّچے پن کوسمجھنا ہی ہوگا تب جاکر یہ جائزہ ممکن ہوگاکہ تعلیم کے مضمون کو ہم نے قومی نقطۂ نظر سے دیکھنےX
مراکز تحقیق قائم کرنے کا
ِ میں کہاں کہاں بھُول کی۔ سائنس اورٹکنالوجی کے ادارے ہوں یا سنٹرل یونی ورسٹیوں کا قیام،
خیال ہو یا بڑے اداروں کے عالقائی دفاتر ،ہر جگہ ایک عدم توازن اور صوبائی اور عدم مساوات کی واضح جھلک
دکھائی دیتی ہے۔ جب ادارہ سازی میں بنیادی نوع کی خامیاں سطح پر ہی موجود ہوں گی تو الزما ً داخلی خامیاں اور ہزار
صرف نظر کرتے ہوئے صرف
ِ کج ادائیاں اگلے مرحلے میں سامنے آئیں گی۔ دوسرے مضامین اور موضوعات سے
اردو کی تعلیم و تدریس کو موضوع بنایا جائے تو قومی سطح پر ایک ایسی بے ترتیبی اور اُتھل پتھل کی کیفیت سامنے
آتی ہے جس سے یہ یقین اور پختہ ہوجاتا ہے کہ ابھی غور و فکر اور سنجیدہ توجّہ کی ہزار منزلیں ہمیں طے کرنی ہیں؛
تب جاکر ہم اپنی زبان اور لسانی آبادی کو قومی اور بین االقوامی سطح تک پہنچا سکتے ہیں۔
غیر پیشے ورانہ نقطۂ نظر سے کارکردگی
ت حال کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے اختصار میں یہ نتیجہ اخذ کرلیا جائے کہ اس سلسلے میں
اردو تدریس کی صور ِ
قابل تو ّجہ ہے کہ اردو جیسی وسیع
ہماری کوششیں غیر سائنسی اور غیر پیشے ورانہ رہیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ بھی ِ
حلقے میں بولی جانے والی اور مختلف شعبۂ حیات میں کارگر خدمات انجام دینے Xوالی زبان کے تدریسی معامالت میں
خون جگر
ِ جو انہماک اور دلچسپی درکار تھی ،وہ بھی ہم نے نہیں اپنا ئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس قومی کام میں جس
کے اصراف کی ضرورت تھی اور دل و دماغ کی یکجائی سے ہمیں کوئی نیا مقام حاصل کرنا تھا ،ان سب میں ہماری
کوتاہیاں ہمالیہ پہاڑ کی طرح بہ تدریج بڑھتی چلی گئیں اور آج وقت نے اس پر مزید برف جمانے کی کاوشیں کرکے
ہمیں اپنی مادری زبان سے دنیا کے بہت سارے کاموں میں سرفرازی حاصل کرنے کی مہم سے دور کردیا ہے۔ ہم نے
روش کے بر خالف آزادی کے بعد مواقع اور مناصب کے حصول اور نتیجتا ً زرومال کی
اپنے اسالف کی قوم پرستانہ ِ
طرف راغب ہونے کو انجام کار سمجھ لیا جس کی وجہ سے کشمیر سے کنیا کماری تک اور آسام سے لے کر گجرات
تک آج ایسا ایک ادارہ موجود نہیں جو بہ بانگِ ٌدہل کہہ سکتا ہو کہ اس نے اردو کو بنیاد بناکر پچھلے پچاس ساٹھ برسوں
میں ایسے کارنامے انجام دیے Xجن پر آج ہم افتخارانہ انداز میں داد و تحسین پیش کرسکتے ہوں اور ہم میں یہ بھروسہ پیدا
ہوجائے کہ ہمارے اسالف نے اپنی مادری زبان کے ناموس کی حفاظت اور استحکام میں کوئی کوتاہی نہیں کی تھی۔
اردو زبان کے مسائل موجودہ عہد سے لے کر آنے والے زمانے تک کون کون سے ہیں اور ہوسکتے ہیں ،ان کی پہچان
کے مقصد اور تدارک کی خاطر اپنے تعلیمی نظام کے خاص خاص امور پر توجہ دیے بغیر پوشیدہ حقیقتوں سے ہمارا
سامنا نہ ہوسکے گا۔ ہمارے لیے الزم ہے کہ تعلیمی نظام میں ان بکھرے ذ ّرات کو سمیٹنے کی کوشش کی جائے اور ان
پر کچھ مشاہدات بھی درج ہوجائیں۔ شاید اس سے سوئے ہوؤں کی آنکھیں کھلیں اور حاالت کی ستم ظریفی کے
باوجودجولوگ جی لگا کر کام کررہے ہیں ،ان کی ناامیدیاں بھی کم ہوں گی۔ اس جائزے سے ممکن ہے کہ تعلیم کے
شعبے میں ہماری بعض کوتاہیاں اصول و نظریات کا توازن حاصل کرکے قوم کو صحیح جگہ پہنچانے میں معاون
ہوسکیں گی۔اس سلسلے سے کچھ سلگتے ہوئے سوالوں سے آئندہ صفحات میں ہمارا سامنا بھی ہو گا۔
اسکول ،کالج یا یونی ورسٹی ہر جگہ ہم ماتم کناں ہوتے ہیں کہ حکومت کی بے توجّہی کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام
ماہر تعلیم حکومت کے سر پہ آخر کار اپنا ٹھیکرااس اندازمیں توڑتا ہے :طالب علم کے
ِ متاثر ہورہا ہے۔ ہر استاد اور
مقابلے میں اساتذہ کم ہیں ،کالس روم اتنے نہیں ،جتنے بچوں کا داخلہ ہوگیا ہے۔ اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں لیکن برسوں
سے جگہیں بھری نہیں گئیں۔ کہیں کہیں مستقل کی جگہ عارضی یا تھوڑی سی رقم دے کر ٹھیکے پر اساتذہ کو رکھ کر
کام چالیا جارہا ہے۔ بعض اداروں کی عمارتیں خستہ اور نڈھال ہیں۔ ملک میں اردو کے تعلّق سے شاید ہی کوئی ایسا
ادارہ ہو جس کی عمارت،اس کا تعلیمی ماحول ،اساتذہ کا علمی انہماک اور طلبا کے نتائج کا ایسا شفاف گراف سامنے آتا
ہو کہ ہم فخر سے ایسے ادارے کا نام اپنی زبان کی ترقی اور ہزار الزامات کے جواب میں پیش کرسکتے ہوں۔ کسی ایک
ادارے کے طلبہ کی کارکردگی کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اس نے اپنا کام بہترین معیار اور مستقبل کی
ضرورتوں کو سامنے رکھ کر مک ّمل کیا ۔
یہ عجیب صورت ہے کہ اکثر و بیش تر اسکول سے لے کریو نی ورسٹی تک ہمارے اساتذہ اس موضوع پر بہت کم
گفتگو کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے طلبا کے اسباق اور درس کے لیے کون سی نئی معلومات پیش
کیں یا اس سلسلے سے انھوں نے کس قدر تگ و دَــو کی۔
اس سلسلے میں بالعموم سرکاری سہولیات کی ضرورت نہیں ہوتی اور استاد چاہے تو اپنی کمائی سے تھوڑی سی رقم
صرف کردے تو تعلیم کا معیار بلند تر ہوجائے گا۔ یہیں یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہر استاد اپنے
اور تھوڑا سا وقت َ
محو گفتگو ہوتا ہے یا رہنا چاہتا ہے لیکن اسے یہ یاد ہی نہیں Xرہتا کہ وہ مصنّف
ِ مقاالت اور اپنی کتابوں کے فضائل پر تو
سے پہلے یا ساتھ ساتھ مد ّرس کی حیثیت رکھتا ہے اور ب ّچوں کو بہتر طریقے سے پڑھانے کے لیے بہر طور ایک
معقول اجرت بھی اسے میس ّر ہے ۔ استاد کو اگر یہ یاد رہے کہ حکومت کی فرض ناشناسی کے باوجود اگر وہ ایمان کا
طالب ہے تو سرکاری نا مہربانی کے باوجود اپنی بہترین خدمات سے طلبا کا بھال کرسکتا ہے۔آج تعلیم میں ہم جتنی چمک
دمک کی تالش کر لیں لیکن جب لوگوں نے ندیوں کے کنارے ،سڑکوں کے کنارے اور پیڑوں کے ساے میں بچوں کو
بٹھا کر اعال تعلیم کے لیے بھی تیار کرلیا تو آخرآج کے اساتذہ کب تک سرکاری معاونت اور عدم توجّہی کا ماتم کرتے
ہوئے اپنی آنکھوں سے اسکول اور کالج کی تعلیم کو اور پورے نظام کو کمزور ہوتے ہوئے خاموشی سے دیکھتے رہیں
گے۔
دنیا کے تمام ماہری ِن تعلیم اس بات پر متّفق ہیں کہ مادری زبان میں ب ّچوں کی تعلیم سے سب سے بہتر نشوونما اور ترقّی
ہوتی ہے۔ اسی لیے تعلیم سے متعلّق کتابوں اور کمیشنوں کے دستاویزات کے ساتھ ساتھ مرکز اور ریاستوں کے محکمہ
ت تعلیم میں یہ سفارشیں موجود ہیں کہ تعلیم کا ذریعہ مادری زبان کو بنایا جائے۔ انگریزوں کی طویل غالمی کے
جا ِ
اثرات ملک پر اس قدر رہے جس کی وجہ سے آزادی کے بعد انگریزی تعلیم کی فیض رسانیوں کا ہندستان میں جادو
کبھی کم نہیں ہوسکا۔ اردو کی کون کہے ،ملک میں ہندی زبان کو ذریعۂ تعلیم بناکر کام کرنے والے تعلیمی ادارے خاطر
خواہ تعداد میں ابھی تک نہیں پیدا ہوسکے اور اس کے نتیجے کے طور پر ہزاروں کام انگریزوں کی غالمی میں آج تک
رفتار سے چل رہے ہیں۔ عالمگیریت کی چوہا دوڑ میں شاید یہ توقّع بے وقوفوں کی جنّت میں رہنے جیسی ہوگی کہ آنے
!والے وقت میں ہندی ہر سطح پر ذریعۂ تعلیم بن کر اُبھرے گی؟ یہ نا ممکن ہے
جنگِ آزادی کی تحریک سے پہلے ہی ملک میں لسانی منافرت کی داغ بیل فورٹ ولیم کالج میں پڑ چکی تھی۔ فارسی کی
نظام حکومت میں داخلے
ِ حکومتی حیثیت سے اردو کو جیسے ہی اپنی جگہ قائم کرنے کے مواقع نصیب ہوئے ،ہندی کا
ٰ
دعوی اور پھر اقوام کی بنیاد سے زبانوں کی پہچان کی خطرناک مہم چل پڑی جس کی آندھیوں میں اردو عوام کے کا
ت حال آج بھی موجود ہے اور اردو ذریعۂ تعلیم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ انیسویں
پاؤں اکھڑنے ہی تھے۔ یہ صور ِ
صدی کی لسانی عصبیت کی وہ بنیادیں ہیں جنھیں وقت نے رہ رہ کر زہر آلود بنایا اور اس کی گرم ہواؤں میں یہ زبان
اور اس کے بولنے والے اب بھی جھلس رہے ہیں۔
اردو کو آسانی سے عالقائی زبان کہنا ایک مشکل امر ہے۔ سہ لسانی فارموال کسی تکمیل تک اس لیے نہیں پہنچ سکا
ت
کیوں کہ اردو صوبائی تقسیم میں کسی خاص عالقے کی زبان نہیں ہوسکتی تھی اور باآلخر نہیں مانی گئی اور صور ِ
حال یہ بنی کہ رہنے کو گھر نہیں Xہے ،سارا جہاں ہمارا۔ ہندی کے لیے تو وسطی اور شمالی ہند Xکے صوبے پہچان لیے
گئے۔ کم لوگوں کے بیچ بولی جانے والی زبانیں بھی عالقائی زرخیزی کے سبب اپنا گھر پانے میں کامیاب رہیں۔ آزادی
کے تیس پینتیس برس گزرنے کے بعد دوسری سرکاری زبان کے طور پر اردو کی پہچان کا سلسلہ تو شروع ہوا لیکن وہ
چند اضالع اور صوبوں سے آگے بڑھ کر کسی ایسی پہل میں تبدیل نہ ہوسکا جس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکیں کہ اردو
کو ہم نے اس کا گھر یا اصل حق ادا کردیا جب کہ درجنوں زبانیں اپنی مخصوص جغرافیائی پہچان کی وجہ سے صوبائی
حکومتوں کی جائز پشت پناہی سے تعلیم و تدریس میں اپنا مناسب حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
اردو ذریعۂ تعلیم کو آزمانے یا چھوڑنے میں حقیقتا ً جو رکاوٹیں ہیں ،ان کی قانونی ،سماجی ،سیاسی اور نفسیاتی گرہیں
کھولے بغیر سارے الجھے ہوئے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ سب سے پہال مسئلہ نفسیاتی ہے۔ ہندستان میں ہندی اور
انگریزی کی مضبوط موجودگی اور مختلف صوبوں میں عالقائی زبانوں کی مقامی ق ّوت سے اگر مقابلہ کریں تو ذریعۂ
تعلیم کے معاملے میں اردو کی شاید ہی کوئی وکالت کرنا پسند کرے۔ اردو ذریعۂ تعلیم بالعموم پسماندگی کی عالمت کے
طور پر ایک سماجی حیثیت رکھتی ہے۔ بہار ،مغربی بنگال ،مہاراشٹر ،کرناٹک ،آندھرا پردیش اور جموں و
کشمیرجیسے صوبوں میں گنتی کے اردو ذریعۂ تعلیم کے اسکولوں کو سامنے رکھ کر اگر ہم یہ نتیجہ اخذ کرلیں کہ
ہندستان کی تعلیم و تدریس کے منظر نامے پر انگریزی ،ہندی اور دوسری عالقائی زبانوں کی طرح اردو ذریعۂ تعلیم
ایک سچائی کی طرح ہے ،تو اسے خوش فہمی سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ یہ ٹھیک اسی طرح سے ہے جیسے
انگلینڈ،جرمنی ،کناڈا اور امریکہ کے بعض ممالک میں اردو بولنے والوں کی موجودگی سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے
کہ وہاں اردو زبان آج پھل پھول رہی ہے۔ یہ حقیقت میں تارکی ِن وطن کی بوڑھی نسل ہے جسے اپنے جذبوں کے اظہار
کے لیے اردو زبان کی ضرورت ہے ۔ کسی زبان یا سماج کی زندگی کو پہچاننے کے لیے بہر صورت یہ دیکھنا الزم
ہے کہ نئی نسل اور مستقبل کی طرف جانے والی آبادی اس زبان کو کتنے استحکام کے ساتھ اپنی جان سے لگا رہی ہے۔
https://hamariweb.com/articles/86239
سوال نمبر :4تدریسی تکلم کے اہم عناصر بیان کریں؟ موثر تدریسی مثالوں کے ساتھ بحث کریں؟
تعلیم ایک ایسا رواں دریا ہے جس میں ہر گھڑی نت نئے نظریات کے دھارے شامل ہوتے رہتے ہیں۔تعلیم روایتی طریقہ
کار پر عمل پیرا رہنے کا نام نہیں Xہے بلکہ طلبہ کی شخصیت کی تعمیر اور معاشرے کے پسندیدہ Xاطوار کو رسمی یا
غیر رسمی طریقے سے بچوں میں رواج دینے Xکا نام تعلیم ہے۔ اسکول رسمی تعلیم کے حصول کا سب سے بڑا مرکز
ہوتا ہے۔یہ مردم سازی کا ایک ایسا ادارہ ہے جہاں بچوں کی فطری صالحیتوں کی نشوونماء اور تکمیل کے ذرائعہمیشہ
موجود رہتے ہیں۔یوں تو اسکول کا پورا ماحول بچے کی شخصیت کی تعمیر میں مددگار ہوتا ہے لیکن کمرۂ جماعت کو
ایک خاص اہمیت حاصل ہے جہاں تعلیم وتربیت کے زیر اثر طلبہ کی ذہنی نشوونماء کی بنیادیں Xاستوار کی جاتی ہیں
بلکہ ان صالحیتوں کو فروغ اور پروان بھی کمرۂ جماعت میں ہی حاصل ہوتا ہے۔کمرۂ جماعت میں ہی طلبہ معاشرتی
مطابقت کے گرسیکھتیہیں Xاور ان میں زمانے کے مطلوبہ تقاضوں کی تکمیل کی اہلیت بھی کمرۂ جماعت میں ہی پیدا کی
جاتی ہے۔ باغ کا ہر پودا انفرادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے اس کے پھولوں کی مہک ،پھلوں کا ضائقہ اور سایہ و قامت
چمن کے دوسرے پودوں سے جداگانہ ہوتے ہیں ۔ مالی پودوں کی فطرت کا خاص خیال رکھتے ہوئے ان کی نگہداشت
اور داخت و پرداخت کے لئے ان کی فطرت سے میل کھانے والے عوامل کو احسن طریقے سے بروئے کار التے ہوئے
چمن کی خوب صورتی اور دلکشی میں اضافہ کرتا ہے۔فروبیل کی نگا ہ میں ایک استاد کی حیثیت بھی ایک باغبان و
مالی کی ہے جو فطرت کے مطابق طلبہ کی صالحیتوں کو عروج دیتا ہے۔جس طرح ہر پودا پھل پھول اور اپنا ضائقہ
جداگانہ رکھتا ہے اسی طرح کمرۂ جماعت میں ہر طالب علم انفرادی صالحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ہر بچے کی ذہنی
استعداد Xو صالحیت دوسرے بچوں سے جداگانہ ہوتی ہے۔ایک باکمال استاد بچوں کی انفرادیت کا احترام کرتے ہوئے نہ
صرف ان کے ذہنی و اکتسابی رجحانات کو پیش نظررکھتے ہوئے تدریسی طریقہ کار وضع و اختیار کرتا ہے بلکہ بچوں
کی فطرت کے مطابق ان کی رہنمائی و رہبری کے فرائض انجام دیتا ہے۔استاد کی اثر پذیر ی کا دارو مدارکئیعوامل پر
منحصر ہے۔ جن میں استاد کے شاگردوں سے برتاؤ اور ر طرز تکلم کو خاص اہمیت حاصل ہے۔اکتساب اوردرس و
تدریس کی کامیاب کا راست تعلق استاد کے طرزعمل (برتاؤ/آمیزش) اور گفت و شنید سے مربوط ہوتا ہے۔ بعض اساتذہ
کمرۂ جماعت میں برتاؤ اور طاقت گفتار کے بل پر اپنے عیوب پر با آسانی پردہ ڈالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اساتذہ کی
جانب سے کمرۂ جماعت میں طلبہ کی خوشی کو ملحوظ رکھنا یا ان کو خوش رکھنے کا نظریہ سود مند نہیں ہوتا ہے۔
اساتذہ طلبہ کے فطری تقاضوں اور ذہنی صالحیتوں کو مد نظر رکھیں ان سے دوستانہ برتاؤ بھی رواں رکھے لیکن اپنے
وقار اور تدریسی مقاصد کو کبھی بھی مجروح نہ ہونے دیں۔طلبہ کو اپنے علم سے مطمیئن کرنے واال استاد دائمی طور
پر ان کے دلوں میں گھر کر لیتاہے جب کہ وقتی تفریح فراہم کرنے والے استاد کی حیثیت ایک جوکر اور بھانڈ کی ہوکر
رہ جاتی ہے۔استاد کے مزاج میں شگفتگی کے ساتھ سائشتگی کا پایا جانا بے حد ضروری ہے۔ استاد کے برتاؤ میں وقار
کے ساتھ محبت اور شفقت کا پایا جانابے حد ضروری تصور کیا گیا ہے۔استاد اپنے ذہنی خلفشار و اضطراب پر ہمیشہ
قابو رکھے۔ جذبات کے اظہار میں احتیاط سے کام لے۔اپنے چڑچڑے پن اور افتاد مزاجی کو ظاہر نہ کرے۔استاد کے
خراب برتاؤ کا بچوں پر بہت برا اثر مرتب ہوتاہے اور بچے استاد کی شکل دیکھ کر ہی تعلیم سے متنفر ہوجاتے ہیں۔
مختصرا اساتذہ اپنے برتاؤ میں توازن برقرار رکھیں۔ بدمزاجی اور چڑچڑاپن اگر استاد کے مزاج میں پایا بھی جائے تب
ادنی کوشش سے اپنے خراب برتاؤ اور حوصلہ شکن طرزعمل پر قابو پاسکتے ہیں۔اپنی
بھی وہ محض اپنی ایک ٰ
پریشانی ،افتادمزاجی اور چڑچڑے پن پر صبر و تحمل اور شگفتگی کا ایک خوش نما پردہ تان دیں۔استاد اگر اپنی
بدمزاجی اور اکھڑپن پر قابو نہیں پائے گا تب بچوں کے ذہنوں پر اس کے بہت خراب اثرات مرتب ہوں گے اور بچے
سیکھنا تو کجا کمرۂ جماعت میں گھٹن محسو س کرنے لگیں گے۔ استاد کا خراب برتاؤ اور طرزعمل بچوں کے لئے
پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں وہ سبق پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے استاد کے عجیب و غریب
برتاؤ پر دھیان دینے لگتے ہیں۔بدمزاجی ،بدتمیزی اورخراب برتاؤکا فقدان اور صبر و تحمل استاد کی شخصیت میں پائے
اعلی اوصاف ہیں جو طلبہ پر صحت مند اثرات مرتب کرتے ہیں۔ انہی اوصاف کی بدولت استاد بچوں کے
ٰ جانے والے وہ
دل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوجاتا ہے۔ استاد کتاب کے ذریعے نہیں بلکہ اپنی شخصیت کے ذریعے طلبہ میں
صحت مند نظریات کو فروغ دیتا ہے۔طلبہ کو نصابی معلومات نہیں بلکہ استاد کی شخصیت مرعوب کرتی ہے۔استا د اپنی
شخصیت کے ذریعہ موثر تدریس کو ممکن بنا تا ہے۔طلبہ نصابی سواالت کا نہیں بلکہ استاد کے طرزعمل اور برتاؤ کا
جواب دیتے ہیں۔ عدم برداشت ،بچوں کی باتوں کو درخور اعتناء نہ سمجھنا یا پھر عدم صبری سے سماعت کرنا،جلد
پین یا چاک سے کھیلنا ،ان کو مسلسل حرکت دینا یا اچھالتے رہنا ،کمرۂ جماعت(Short-temperedness)،مشتعل ہوجانا
میں باربار ادھر سے ادھر گھومنا اور پھرتے رہنا وغیر ہ اساتذہ میں برتاؤ اور طرزعمل کی پائی جانے والی عام
خرابیاں ہیں۔
درس و تدریس ہی نہیں بلکہ ہر کامیابی میں سنجیدہ حکمت عملی کا عمل دخل ہوتاہے۔کامیاب اکتساب اور موثر درس و
تدریس میں بھی حکمت عملی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ کمرۂ جماعت کے موثر انتظام و انصرام کو موثر تدریس اور کا
میاب اکتساب کی دلیل کہا گیاہے۔ حکمت عملی کے زیر اثراستاد کمرۂ جماعت پر قابو اور کنٹرول قائم رکھنے میں
کامیاب ہوتا ہے۔کمرۂ جماعت اپنی تمام تر نیرنگیوں ،رونق اور مسائل کی وجہ سے انفرادی حیثیترکھتا ہے۔تمام ماہرین
تعلیم و نفسیات کا اس بات پر اجماع ہے کہ طلبہ اپنے استاد کے برتاؤ ،طرزتکلم ،نشست و برخواست کے طریقوں سے
راست طور پر یا بالواسطہ متاثر ہوتے ہیں۔استاد کی اسی اثر پذیری کی وجہ سے درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کی
اصطالح میں اسے ’ ’مخفی نصاب ‘‘کہا گیا ہے۔ درس و تدریس اور اکتساب میں استاد کے برتاؤ،انداز گفتگو،لباس
،وضع قطع اور نشست و برخواست کے طور طریقوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔کمرۂ جماعت میں تدریسی سرگرمیوں
کے دوران استاد کا محتاط عمل و ردعمل،موثر انداز میں سبق کی تدریس،خاص معلومات کی ترسیل کے لئے سواالت
،افہام و تفہیم سے کام لینا،کمرۂ جماعت کے بوجھل پن کو دور کرنے کے لئے حس مزاح سے کام لینا تاکہ طلبہ استاد
سے بات چیت اور سواالت کرنے میں تذبذب اور تامل کا شکار نہ ہونے پائیں یہ ایسے عناصر ہیں جن کو استاد اپنا کر
کمرۂ جماعت کی تاثیریت کو فروغ اور اکتساب کو عروج عطا کرسکتا ہے۔اکثر اساتذہ معلومات کی ترسیل اور کمرۂ
جماعت کے نظم و نسق میں بات چیت کے ہنر سے نا آشنا ہونے کے وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں۔بات چیت اور طرزتکلم
کی بیشتر خرابیوں کی وجہ درجہ ذیل مسائل ہوتے ہیں۔
اساتذہ کھلے ذہن کے مالک نہ ہوتوطلبہ کے مسائل کو ان کے نکتہ نظر سے نہیں Xدیکھ پاتے ہیں جس کی وجہ سے )(1
موثرپیغام رسانی اور تال میل پیدا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
طلبہ کی باتوں پر دھیان نہیں دیتے یا پھر ان کی باتوں کی سماعت میں عدم برداشت کا مظاہر ہ کر بیٹھتے Xہیں۔)(2
طلبہ کے متنوع ومختلف نظریات کو قبول کرنے میں مزاحمت سے کام لیتے ہیں یا پھر تامل سے کام لیتے ہیں جس)(3
کی وجہ سے پیغام رسانی میں ناکام ہوجاتے ہیں اور گفتگو تاثیر سے عاری ہوجاتی ہے۔
طلبہ سے گفتگو کے وقت ان کی باتوں پر دھیان اور توجہ نہیں دیتے Xہیں ان کی باتوں کو بے دلی سے سنتے ہیں جس)(4
کی وجہ سے بچے سوچتے ہیں کہ ان کی گفتگو استاد کے لئے کسی اہمیت کی حامل نہیں ہے ۔بچوں کی حوصلہ شکنی
ہوتی ہے اور وہ استاد سے بات کرنے سے گریز کرنے لگتے ہیں۔
مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرتے ہوئے اساتذہ اپنے کمرۂ جماعت کے طرزعمل ،باہمی تعامل اور گفتگو میں بہتری پیدا
کرسکتے ہیں ۔کمرۂ جماعت کی سرگرمیوں کو سہل اور موثر انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔
طلبہ کی کسی بھی ناکامی پر ناپسندیدہ ،دل آزار اور حوصلہ شکن تبصرے سے گریز کریں۔حوصلہ شکن منفی فقرے)(1
طلبہ کی عزت نفس کو مجروح ،حوصلوں کو پست کردیتے Xہیں جس کے بر ے اثرات اکتساب پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
طلبہ کے مسائل کی ہمددرانہ سماعت کو ممکن بنائیں۔کئی موقعوں پر دیکھنے میں آیا ہے کہ اساتذہ نے طلبہ کے )(2
اظہار کویا تودرخور اعتنا ء نہیں سمجھا یا پھر ان کی سماعت میں حقیقی دلچسپی نہیں دکھائی۔
طلبہ کو برے اور خراب القاب اور ناموں سے پکارنے سے اجتناب ضروری ہے۔دوسرے بچوں کے سامنے ان پر)(3
تنقید کرنے سے باز رہیں۔ استاد کا انداز تخاطب اور عمل تحقیر آمیز نہ ہو۔بچوں کی عزت نفس کا ہرحال لحاظ رکھا
جائے۔استاد کا تحکمانہ اور تکلیف دہ برتاؤ استاد شاگرد کے رشتے پر آری کا کام کرتا ہے۔
طلبہ کے سامنے اپنے ساتھی اساتذہ اور دیگر لوگوں کے متعلق شخصی فقرے بازے سے گریز کریں۔بچے عواقب و)(4
نتائج سے بے خبر رہتے ہیں اور کمرۂ جماعت میں سنے گئے جملوں کو دیگر اساتذہ یا لوگوں کے سامنے دہراتے ہیں
جس کی وجہ سے حاالت دھماکو اور ابتر ہوجاتے ہیں۔تعلیمی ماحول کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔
درس و تدریس میں جوش و ولولہ ،غلطیوں کا اعتراف،خوش مزاجی،سنجیدگی اور متانت،حس مزاح وغیرہ اظہارکے)(5
ایسے وسیلے ہیں جو طلبہ کے جذبے ،شوق اور اشتیاق کو فروغ دیتے Xہیں۔استاد کے یہ اوصاف اسے طلبہ میں پسندیدہX
اور مقبول بنادیتے Xہیں۔
کمرۂ جماعت میں وقت پر پہنچے ۔ہر حال میں تاخیر سے بچیں۔اگر حاالت آپ کو کبھی کمرۂ جماعت میں وقت پر)(6
حاضری سے باز بھی رکھیں تب طلبہ کو تاخیر سے پہنچنے کی اطالع دیں اور انھیں اپنی حاضری تک کسی سرگرمی
میں مشغول رہنے کی واضح ہدایات بھی پہنچادیں۔
طلبہ کو ان کے نام لے کر مخاطب کرنے سے استاد اور شاگرد میں شخصی روابط مستحکم ہوتے ہیں۔ استاد جب)(7
طلبہ کو ان کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے کوئی پیغام یا ہدایت باہم پہنچاتا ہے تب طلبہ اس ہدایت کو شخصی پیغام سے
تعبیر کرتے ہوئے توجہ دیتے ہیں۔اساتذہ ہمیشہ تما م طلبہ کے نام یا د رکھے اور ان کو ان کے صحیح نام سے پکاریں۔
بیتے دن کی تمام ناگوار باتوں ،یادوں اور واقعات کو پس پشت ڈال کر ہر نئے دن کا جوش ولولے اور خوشی سے)(8
استقبال کریں۔ہر دن کو گزشتہ دن سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
ہمیشہ اپنے تدریسی اور انتظامی امور میں ہی الجھے نہ رہیں۔طلبہ سے گفت و شنید کے لئے وقت نکالیں تاکہ طلبہ)(9
میں اعتماد کی فضاء بحال کی جا سکے اور طلبہ محسوس کریں کہ ان کا استاد ان کی ضرورت کے وقت ہمیشہ موجو د
رہتا ہے۔
استاد کے تدریسی تجربات ،برتاؤ ،انداز گفتگو وغیرہ پر طلبہ کے اکتساب کا دارو مدار ہوتا ہے۔ دراصل تعلیم استاد کے
تدریسی تجربات اور طلبہ کے اکتسابی تجربات کا دوسرا نام ہے۔درس و تدریس کی تاثیر اور اکتساب کی کامیابی کا استاد
کی شخصیت پر انحصارہوتا ہے۔تدریس اس وقت ہی موثر اور کامیاب ہوتی ہے جب استاد طلبہ کو متاثر کرنے میں
کامیاب ہوتاہے۔پیشہ تدریس ایک مقدس پیشہ ہے اور اس میں نام اور کمال حاصل کرنے کے لئے خود کو علم کے سمندر
میں غرقاب کرنا ضروری ہے۔اپنے Xپیشے سے دلچسپی رکھنے والے اساتذہ ہی درس و تدریس میں کامیابی حاصل کر
تے ہیں۔ایک دیانت دار اور فرض شناس استاد درس و تدریس کو محض ایک نوکر ی یا کام سمجھ کر انجام نہیں دیتا بلکہ
درس و تدریس اس کی زندگی کا مقصد اور شعار ہوتا ہے۔درس و تدریس کی غیر افادیت میں پیشہ سے اساتذہ کی عدم
دلچسپی بھی ایک اہم وجہ ہے۔تدریس کو دلچسپ بنانے میں استاد کی دل کش شخصیت کا بڑا دخل ہوتاہے۔ایک الئق استاد
ہی اپنے شاگرد وں کی صالحیتوں کو جال دے سکتا ہے۔اساتذہ کے لئے طلبہ کی تعلیم و تربیت سے پہلے اپنی تعلیم و
تربیت اور تنظیم ذات پر توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے
https://hamariweb.com/articles/97013
سوال نمبر : 5تحریروامال کے بنہادی امور اور لکھنا سکھانے کے تدریسی طریقوں کو تفصیل سے بیان کریں؟
اردو الفاظ کی امالء ماہرین زبان کے نزدیک تاحال متفق علیہ نہیں ہے بلکہ ہر زبان میں معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔
انگریزی کو ہی لے لیں تو امریکہ اور برطانیہ کی انگریزی کی امالء میں بہت فرق موجود ہیں کہ ایک ہی لفظ کے
سپیلنگ وہ کچھ لکھتے ہیں اور یہ کچھ لہذا امالء پر اتفاق ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ قرآن مجید میں بھی امالء کے
اختالفات موجود ہیں جیسا کہ قراءات ،علم الضبط اور رسم الخط کا علم رکھنے والے ان سے بخوبی واقف ہیں۔
یہ واضح رہے کہ "امالء"" ،خط" اور "رسم الخط" میں فرق ہوتا ہے۔ امالء سے آسان الفاظ میں کسی لفظ کے سپیلنگ
مراد ہوتے ہیں۔ خط سے مراد "فونٹ" ہے یعنی لکھنے کا اسٹائل وغیرہ جیسا کہ اردو میں "نسخ" اور "نستعلیق" وغیرہ
خط ہیں۔ اور رسم الخط سے مراد اردو کو "رومن" یا "دیونا گری" یا "فارسی" رسم الخط میں لکھنا ہے۔ "دیوناگری"
ہندی زبان کو لکھنے کا رسم الخط ہے۔ تو اردو زبان کے رسم الخط کی تبدیلی کی تحریک کہ اردو کو "رومن" یا
"دیوناگری" میں لکھنا چاہیے تو یہ اسٹوپڈٹی ہے اور کچھ نہیں کہ اس کا مطلب زبان کو ایک مرتبہ مار کر دوبارہ زندہ
کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
عالوہ ازیں جہاں تک امالء کی بات ہے تو ہمارے ہاں جو لوگ غلطی سے امالء کی تصحیح یا اصالح وغیرہ پر کوئی
ایک آدھا مضمون یا کتاب دیکھ لیں تو ایک ایکسپرٹ کی طرح دوسروں کی تصحیح شروع کر دیتے Xہیں کہ یہ لفظ یوں
نہیں یوں لکھا جاتا ہے بلکہ ان میں سے تو بعض کو "اردو" کے "اردو" کہلوائے جانے پر بھی اعتراض ہے کہ ان کا
اصرار ہے کہ اسے "ریختہ" کہو کہ یہی اس کا اصل نام ہے۔
لیکن انسان اگر اس موضوع پر زیادہ نہ سہی لیکن دو چار اچھی کتابیں ہی دیکھ لے تو اس میں اتنی عاجزی پیدا کرنے
کے لیے کافی ہیں کہ اگر کوئی اچھا رائٹر ایسے لکھ رہا ہے تو اس کی بھی گنجائش نکلتی ہے۔ مثال کے طور ڈاکٹر
گوہر شاہی کی کتاب "اردو امال ورموز اوقاف" ایک اچھی کتاب ہے کہ جسے "مقتدرہ قومی زبان" نے شائع کیا ہے جو
پندرہ ماہرین لسانیات کے منتخب مقاالت پر مشتمل ہے۔
مثال کے طور ترقی اردو بورڈ ،انڈیا نے دو کتابیں شائع کی ہیں؛ ایک رشید حسن خان صاحب کی "اردو امال" اور
دوسری ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی "امال نامہ"۔ ان دونوں کتابوں میں بھی امالء کے قواعد میں یکسانیت نہیں ہے جیسا
کہ پہلے کے نزدیک "ذرا" لکھنا چاہیے تو دوسرے کے نزدیک "زرا" اصل امال ہے۔ پہلے کے نزدیک "آزمایش"
صحیح امالء ہے تو دوسرے کے نزدیک "آزمائش"۔ پہلے کے نزدیک "چوں کہ" لکھنا چاہیے اور دوسرے کے نزدیک
"چونکہ" وغیرہ وغیرہ
امالء کے زیادہ تر اختالفات "ہائے مختفی"" ،ہمزہ" اور "نون غنہ" سے متعلق ہیں۔ مثال "ڈراما" لکھنا چاہیے یعنی
"الف" کے ساتھ یا "ڈرامہ" یعنی "ہائے مختفی" کے ساتھ۔ تو اس میں اہل لغت کا کہنا ہے کہ وہ الفاظ جو انگریزی یا
دوسری زبان سے آئے ہیں ،انہیں "ہائے مختفی" کی بجائے "الف" سے لکھنا چاہیے یعنی "ڈراما"۔ لیکن اس میں بھی
ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اہل زبان اس لفظ کو بول کیسے رہے ہیں۔ اگر وہ یعنی ان کی ایک بڑی تعداد
"ڈرامہ" بھی بول رہی ہے یعنی بولنے میں "ہائے مختفی" کی آواز بھی نکال رہی ہے تو دونوں طرح لکھنا ہی راجح
قرار دیا جائے۔
ماہرین لسانیات کا کہنا یہ ہے کہ عربی الفاظ کہ جن کے آخری میں ہمزہ ہے ،اردو میں انہیں لکھتے وقت ہمزہ غائب کر
دیں جیسا کہ "علماء" کو "علما" لکھیں۔ میں نے اپنی کتاب "صالح اور مصلح" میں ایسے ہی کیا تھا لیکن اب کی بار اپنی
کتاب "مکالمہ" میں اسے "علماء" ہی لکھنے کا ارادہ ہے کہ یہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے اور رائج امالء کی مخالفت ہے
کہ ہمارے ہاں اردو لکھنے پڑھنے واال بڑا طبقہ مذہبی ہے اور اسے عربی الفاظ کو عربی اصل کے ساتھ امالء اور
عربی لہجے میں ادائیگی کی ایسی عادت ہے کہ اسے ترک کرنے کی دعوت دینا بھی تکلف محض ہے۔
اسی طرح ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ جن عربی الفاظ کے آخر میں الف مقصورہ ہے تو ان کو اردو میں "الف" کے
ساتھ لکھا جائے اور "یاء" کو امالء میں سے ختم کر دیا جائے مثال "تقوی" کو اردو میں "تقوا" اور "دعوی" کو "دعوا"
لکھا جائے۔ یہ بھی تکلف ہی ہے کہ یونانیوں کے اصول "شعور حرف بوسیلہ سماعت" کے مطابق اس کی امالء "تقوی"
رکھنے میں بھی حرج نہیں Xہے اور مجھے بھی یہی پسند ہے کہ اس سے ہم عربی اصل سے بھی جڑ جاتے ہیں اور یہ
دو علیحدہ حروف معلوم نہیں ہوتے اور رائج اور عرف کا بھی دھیان رہ جاتا ہے۔
اب "لیے" اور "دیے" وغیرہ کو "لئے" اور "دئے" لکھنا چاہیے یا "لیئے" اور "دیئے" Xتو اس میں ماہرین لسانیات میں
تینوں رائے موجود ہیں۔ کچھ صرف "یاء" سے لکھتے ہیں ،کچھ صرف "ہمزہ" سے اور کچھ دونوں سے اور ہر کسی
کے پاس اپنی اپنی دلیل موجود ہے۔ اردو میں شامل کیے جانے والے انگریزی الفاظ کو ایک ساتھ لکھنا چاہیے یا علیحدہ
علیحدہ مثال "یونیورسٹی" کو "یونی ورسٹی" تو اس بارے میں دونوں رائے موجود ہیں اور دونوں کے پاس اپنی اپنی
دلیل ہے۔ میری رائے میں بس کوئی سی صورت آپ کو اچھی لگے ،اسے اختیار کر لیں اور دوسرے کی "تصحیح" یا
"اصالح" کا فریضہ سرانجام نہ دیں کہ تا حال امالء کی بہت سی صورتیں متفق علیہ نہیں ہیں۔
اسے ایک مثال سے یوں سمجھیں کہ عربی زبانی میں "ڑ" نہیں ہے تو اگر اہل عرب "پہاڑ" کا لفظ سنیں گے تو اب اس
"پہاڑ" کے لفظ کی ادائیگی میں ان کے لیے "سماعت" اصل ہے یا "حدوث" یعنی انہوں نے جیسے یہ لفظ سنا ہے ،ایسے
کے ] [larynxہی اس کی ادائیگی ضروری ہے یا اس لفظ کی ادائیگی ویسے ضروری ہے جیسے ان کے حنجرہ صوت
لیے آسانی ہو؟
میرا رجحان اس طرف ہے کہ یہ دونوں اصول اپنی جگہ درست ہیں اور کسی زبان کی امالء میں ان دونوں سے برابر
طور استفادہ کرنا چاہیے اور استفادے کی اصل عرف اور رواج کو بنایا جائے کہ زبان میں جو امالء رائج اور عام ہے،
اگر وہ ان دونوں میں سے کسی بھی اصول کے تحت آ رہی ہے تو اسے رائج رہنے دینا چاہیے ،اس کی اصالح یا
تصحیح پر اصرار وقت کا ضیاع ثابت ہو گا۔ واضح رہے کہ امالء کی تصحیح اور اصالح میں بھی فرق کیا جاتا ہے کہ
تصحیح ،غلط امالء کی ہوتی ہے جبکہ اصالح سے مراد راجح امالء کا تعین ہے۔
https://www.facebook.com/UrduMagazineAustralia/posts/875900945902008/