You are on page 1of 22

‫سمسٹر بہار ‪2021‬‬ ‫کورس‪ :‬تد ریسیات اردو‬

‫سطح‪ :‬ایم اے‪/‬ایم ایڈ‬

‫امتحانی مشق نمبر ‪1‬‬

‫سوال نمبر ‪ : 1‬پاکستان میں دور حاضر کے تناظر میں تدریس اردو کے تقا ضوں پر روشنی ڈا لیں؟ نیز تدریس اردو سے‬
‫تحقیق کی اہمیت واضح کریں؟‬

‫تدریس اردو کی آخر ضرورت‬


‫ِ‬ ‫تدریس اردو کے مسائل پر بات کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ‬
‫ِ‬ ‫میرے خیال میں‬
‫اعلی ثانوی درجے کے طلبہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ جب ہمیں انجنیئر یا ڈاکٹر بننا ہے تو پھر اردو‬
‫ٰ‬ ‫ہی کیا ہے۔ میں نے‬
‫کی تدریس میں کیوں الجھایا جا رہا ہے۔ گویا ثانوی درجہ پاس کرنے کے بعد اردو کو بحیثیت مضمون بوجھ سمجھا جاتا‬
‫ہے ۔اس کی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مگر سب سے بڑی وجہ شاید یہی ہے کہ انجینئرنگ یا ڈاکٹری کی پیشہ‬
‫ورانہ تعلیم میں زبان مددگار ثابت نہیں ہوتی ۔ ان دونوں یا اس طرح کے دیگر پیشہ ورانہ شعبوں میں صرف انگریزی‬
‫زبان ہی عمل دخل رکھتی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں پیشہ ورانہ تعلیم کا نصاب ان کی اپنی زبانوں میں موجود ہوتا‬
‫ہے۔ سالہا سال کی محنت سے ان ملکوں کے مختلف ادارے نصابی کتب کو دوسری زبانوں سے اپنی زبان میں منتقل کر‬
‫کے اپنی زبان کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کرواتے ہیں۔‬

‫ایسے ادارے ہمارے ملک میں بھی موجود ہیں اور اس نوع کے کام میں مصروف بھی ہیں مگر عمالً یہ دیکھنے میں آیا‬
‫ہے کہ اردو زبان کو انگریزی کی جگہ النے میں ان کا کردار اب تک مؤثر ثابت نہیں‪ X‬ہو سکا ۔یہ ادارے اپنی جگہ پر‬
‫سفارشات بھی پیش کرتے ہیںمگر ملک کے مقتدر ادارے ان سفارشات کو کسی سطح پر نافذ کرنے کے قابل نہیں‬
‫سمجھتے اور نہ ہی اردو کے لیے کام کرنے والے اداروں کو مضبوط اور مستحکم ہونے دیتے‪ X‬ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے‬
‫اعلی ثانوی درجوں میں‬
‫ٰ‬ ‫کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں بھی اردو کوثانوی حیثیت میں پسماندگی کا شکار دیکھتے ہیں۔‬
‫صرف ایسے طلبہ ہی اردو پڑھنا پسند کرتے ہیں جو اپنے گھریلو ماحول کی وجہ سے اس میں دلچسپی پیدا کر چکے‬
‫ہوتے ہیںیا ثانوی اور ابتدائی درجوں میں بعض مخلص اور قومی درد رکھنے والے اساتذہ کی شخصیت اور کردار سے‬
‫متاثر ہو کر اردو پڑھنے کا شوق پیدا کر چکے ہوتے ہیں باقی طلبہ محض اس لیے اردو پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ‬
‫اپنے تمام مضمونوں میں مجموعی طور پر زیادہ نمبر حاصل کر کے پیشہ ورانہ کالجوں میں داخلے کے لیے میرٹ بنانا‬
‫ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہو ں کہ یہ صورت ِ حال ہماری قومی زبان کے ساتھ ایک طرح کے ظلم کے مترادف ہے۔ اور اس‬
‫ظلم میں حکمران طبقوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارے اور اساتذہ بھی شامل ہیں۔ ابتدائی اور ثانوی درجوں میں اردو کی‬
‫تدریس الزمی قرار پاتی ہے ‪ ،‬مگر اس کے معلوم مقاصد صرف یہ چار ہیں‬
‫۔‬
‫۔ اردو بولنا‪۱‬‬
‫۔ اردو پڑھنا‪۲‬‬
‫۔ اردو لکھنا‪۳‬‬
‫۔ اردو سمجھنا‪۴‬‬

‫ان چار مقاصد کے حصول کے لیے ایک بچہ جماعت اول سے جماعت دہم تک تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرتا ہے۔‬
‫گویا دس سال میں وہ اردو بولنے‪ ،‬پڑھنے‪ ،‬لکھنے اور سمجھنے کے قابل ہوتا ہے اور پھر اسے کافی سمجھتے ہوئے‬
‫اعلی ثانوی درجوں میں وہ اردو کی تعلیم سے گریزاں نظر آتا ہے۔ اور انگریزی کو اپنی قومی زبان پر ترجیح اور فوقیت‬
‫ٰ‬
‫ت‬
‫دینے پر مجبور ہوتا ہے‪ ،‬قاب ِل غور بات یہ ہے کہ اگر پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں ذریعہ تعلیم اردو ہوتو پھر صور ِ‬
‫ب علم جوں جوں آگے پڑھے گا اردو میں اس کی دلچسپی بھی بڑھتی چلی جائے گی۔ ابتدائی‬
‫حال یکسر بدل جائے طال ِ‬
‫اعلی درجوں میں طلبہ اردو کی تعلیم کو زیادہ ضروری‬
‫ٰ‬ ‫درجوں سے زیادہ ثانوی درجوں میں اورثانوی سے زیادہ‬
‫سمجھنے لگیں گے۔ گویا اردو کی تدریس میں درپیش سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے جس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اردو کی‬
‫نظام تعلیم ہے جو یہ کہہ رہا ہے کہ‬
‫ِ‬ ‫تدریس میں دوسرا بڑا مسئلہ ہمارا‬
‫میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‬
‫اقبال نے فرمایا تھا‬
‫اس کی بنیاد ہی ہمارے قومی نظریات سے متصادم ہے اس کے حوالے سے حکیم االمت عالمہ محمد ؒ‬
‫نظام تعلیم‬
‫ِ‬ ‫اور یہ اہ ِل کلیسا کا‬
‫ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خالف‬

‫نظام تعلیم نے طبقاتی کشمکش کو جنم دینے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ پاکستان کو وجود میں آئے ‪ ۶۵‬برس ہو چکے ہیں‬
‫ِ‬ ‫اس‬
‫مگر ہم اب تک اس خرابی کی صورت کو رفع نہیں کر سکے اور دین و مروت کے خالف سازش کو بظاہر سمجھنے‬
‫کے باوجود ختم نہیں کر پائے۔ طبقاتی نظام کے باعث اردو کی تدریس و تعلیم صرف ایک طبقے تک محدود ہو کر رہ‬
‫نظام تعلیم کے شکنجے سے نکلنے کی‬
‫ِ‬ ‫گئی ہے۔ یہ طبقہ وسیع ہونے کے باوجود کمزور اور بے اختیار ہے جو اس‬
‫خواہش رکھنے کے باوجود بے بس اور مجبور ہے۔ ہم نے اب تک جتنے بھی تجربات کیے ہیں اس نظام کے اندر رہتے‬
‫ب تعلیم کئی مرتبہ تبدیل ہوا ہے مگر تبدیلیاں ایک خاص طرح کے خاص دائرے سے باہر نہیں ہوتیں‬
‫ہوئے کیے ہیں۔ نصا ِ‬
‫ب تعلیم کا انتخاب کیا جاتا ہے جو ایک کمزور اور بے اختیار طبقے کے لیے‬
‫اور ان تبدیلیوں‪ X‬کے لیے صرف اسی نصا ِ‬
‫ب تعلیم‬
‫رائج ہے۔ ملک کا طاقتور طبقہ اپنے تعلیمی اداروں میں اپنے غیر ملکی آقائوں کی زبان اور افکار پر مبنی نصا ِ‬
‫رائج کر کے حکمرانہ ذہنیت پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ اس طرح ‪ ۱۴‬اگست ‪۱۹۴۷‬ء کو آزاد ہونے والے ملک کے‬
‫اندر ہی غالمی اور آزادی کے واضح تصورات پروان چڑھ رہے ہیں۔ ہم یہ بھول چکے ہیں کہ پاکستان ایک نظریاتی‬
‫مفکر اعظم نے پیش کیا تھا اور جس کے قیام کا محرک دو قومی نظریہ تھا۔‬
‫ِ‬ ‫عالم اسالم کے‬
‫مملکت ہے جس کا تصور ِ‬
‫اگر ہم نظریہ پاکستان کے تشکیلی عناصر پر غور کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ نظریہ دو اجزاء کے مالپ سے وجود‬
‫دین اسالم اور دوسرا ہماری زبان اردو۔۔۔۔ اگر دونوں میں سے ایک کو اس نظریے سے خارج کر‬
‫میں آیا ہے ایک ہمارا ِ‬
‫دیا جائے تو اس کی عمارت منہدم‪ X‬ہو جائے گی۔ ل ٰہذا ہمیں ان دونوں عناصر کا تحفظ کرنا ہو گا۔‬

‫ب تعلیم جس میں اردو بولنے‪،‬‬


‫ب تعلیم کو مرتب کیے بغیر ممکن نہیں ایک ایسا نصا ِ‬
‫اور یہ تحفظ ایک نئے انداز کے نصا ِ‬
‫پڑھنے‪ ،‬لکھنے اور سمجھنے کو نظریہ کی تفہیم و تحفظ کا ذریعہ بنایا گیا ہو۔ ابتدائی درجوں میں جب ایک بچہ الف ب‬
‫سے آگے بڑھے گا تو اس کے دینی اور حب الوطنی کے تصورات بھی اس کی ذہنی استعداد‪ X‬کے ساتھ ساتھ آگے بڑھیں‬
‫گے۔ الف سے ہللا کہنے والے چار پانچ سال کے بچے کو یہ معلوم ہو جائے گاکہ اس کا کوئی خالق ہے جس کی پوری‬
‫کائنات پر حکومت ہے۔ یہ پہال سبق اگر اس کی سمجھ میں آ گیا تو اپنے دین سے دور نہیں جا سکے گا۔ چھوٹے بچے کو‬
‫ابتداء ہی سے اردو کی اہمیت سے آشنا کیا جائے اور غیر محسوس طریقے سے یہ باور کرایا جائے کہ اردو سے محبت‬
‫اصل میں وطن سے محبت ہے۔ نصابی کتب کی تیاری کے وقت یہ خیال رکھا جائے کہ اسے کس سطح کے بچوں کے‬
‫اعلی ثانوی درجوں تک ایک مضمون کی حیثیت سے‬
‫ٰ‬ ‫لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اس وقت عام تعلیمی اداروں میں اردو‬
‫پڑھائی جاتی ہے۔ اگر اس مضمون کی نصابی کتابوں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا یہ کتب انتہا ئی عجلت میں بغیر‬
‫سوچے سمجھے مرتب کی گئی ہیں۔ کسی ایک کتاب کے مکمل مطالعے سے یہ معلوم نہیں‪ X‬ہوتا کہ آخر ساری کتاب‬
‫پڑھانے کا مقصد کیا ہے۔ جماعت نہم کے لیے اردو کی ترتیب دی ہوئی کتاب پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہوئے مجھے‬
‫یہ احساس ہوا کہ ‪۱۴/۱۳‬سال کے بچے کو ایک استاد کس طرح بتائے گا کہ غزل کیا ہوتی ہے۔ غزل کے لفظی معنی اور‬
‫اس کے مضامین کی وسعت کوکیسے سمجھا سکے گا۔ جب کہ یہی بات ایم اے کی سطح پر پڑھانے واال ایک استاد بھی‬
‫کما حقہ نہیں‪ X‬سمجھا پاتا۔ اس کتاب میں بہت سے مقامات ِ آہ و فغاں اور بھی ہیں۔‬

‫سرور کائنات ﷺ کی سیرت کے حوالے سے ایک مضمون سے ہوتا ہے۔ اس مضمون سے‬
‫ِ‬ ‫کتاب کا آغاز‬
‫کچھ فاصلے پر مرزا کے عادات و خصائل کے عنوان سے موالنا حالی کی تحریر ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ‬
‫مرزا غالب رمضان المبارک میں ایک روزہ بھی نہیں رکھتے تھے۔ اس مقام پر نویں جماعت کا ایک معصوم طالب علم‬
‫یہ سوال کر سکتا ہے کہ کیا مرزا غالب مسلمان نہیں‪ X‬تھے؟ استاد اس سوال کا جو جواب بھی دے بچہ اس سے مطمئن‬
‫اعلی ثانوی درجوں کے‬
‫ٰ‬ ‫نہیں ہوتا۔ اسی طرح کے تضادات اور الجھنیں اس وقت رائج تمام نصابی کتابوں میں ملتی ہیں۔‬
‫لیے نیشنل بک فائونڈیشن کی تیار کی ہوئی کتاب سرمایہ ِ اردو کا حال یہ ہے کہ ہر صفحے پر امال کی اور کمپوزنگ کی‬
‫بار‬
‫غلطیاں ہیںاور کتاب میں ایسے اسباق شامل ہیں جن کی وجہ سے واقعی ایک سائنس کا طالب علم اردو کو اپنے لیے ِ‬
‫گراں سمجھنے لگتا ہے۔ ایک نجی ادارے کی شائع کردہ آٹھویں جماعت کے لیے اردو کی کتاب اگرچہ اس لحاظ سے‬
‫قابل ِ تحسین کوشش ہے کہ وہ ایک نظریاتی ملک کی کتاب محسوس ہوتی ہے مگر اس کے مضامین ِ نظم و نثر آٹھویں‬
‫جماعت کے طلبہ کی ذہنی استعداد سے کہیں‪ X‬زیادہ بوجھل ہیں۔ مثالً اس کتاب میں میر انیس کی رباعیات بھی شامل ہیں۔‬
‫ایسی نظمیں شامل ہیں جو ایک عام قسم کا شاعر بھی صحت کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا۔ بہت زیادہ مشکل الفاظ اور تراکیب‬
‫کی وجہ سے اس کتاب کے مضامین نظم و نثر بچوں کی ذہنی استعداد‪ X‬سے مطابقت نہیں رکھتے۔‬

‫میری ان گزارشات کا مطلب یہ ہے کہ بچے کو بچہ سمجھا جائے اور اس کی ذہنی استعدادکا خیال رکھتے ہوئے اس کے‬
‫لیے نصاب مرتب کیا جائے ورنہ وہ اسے بوجھ سمجھتے ہوئے را ِہ فرار اختیار کرے گا۔ نصابی کتابوں میں تحریک ِ‬
‫پاکستان سے متعلق تو اکا دکا مضامین نظر آ جاتے ہیں مگر تاریخ ِ پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ مثالً‬
‫‪ ۱۹۷۱‬ء میں پاکستانی قوم ایک ایسے سانحے کا شکار ہوئی جو پوری دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ عبرت ناک تھا۔‬
‫اس سانحے اور اس کے اسباب کا کسی درسی کتاب میں ذکر نہیں‪ X‬ملتا۔ اس طرح ہمارے آبائو اجداد کے درخشاں‬
‫کارناموں کو بھی بہت کم جگہ دی گئی ہے۔ اس طرح قومی زبان کی تدریس و تعلیم کو غیر ضروری اور مشکل بنانے‬
‫میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا۔ بال شبہ ہماری درسی کتب طلبہ میں اردو کی تعلیم کا شوق پیدا کرنے میں ناکام‬
‫ہیں۔‬

‫کار خیر میں شریک نظر آتے ہیں۔ طلبہ کے لیے‬


‫اس طرح ہمارے اساتذہ کے رویوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی اس ِ‬
‫اپنے استاد کی شخصیت ایک نمونۂ عمل کی حیثیت رکھتی ہے۔ دیکھنے‪ X‬میں یہ آیا ہے کہ وہ غیر معیاری اداروں کی‬
‫شائع کی ہوئی غیر معیاری گائیڈز کا خود بھی مطالعہ کرتے ہیں اور طلبہ کو بھی مشورہ دیتے‪ X‬ہیں ۔ اس طرح وہ اپنے‬
‫لیے بظاہر آسانی پیدا کر لیتے ہیں مگر ان کے اس عمل سے طلبہ میں اپنی قومی زبان سے محبت کے جذبات پیدا نہیں ہو‬
‫ب ضرورت اردو پڑھتے ہیں۔ اس ساری‬
‫سکتے۔ وہ ایک بے گار سمجھ کر محض امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے حس ِ‬
‫تدریس اردو کے مقاصد کا غیر واضح ہونا اور قومی تقاضوں سے ان کی عدم ہم آہنگی ہے۔ میں‬
‫ِ‬ ‫ت حال کا سبب‬
‫صور ِ‬
‫سر‬
‫آخر میں یہ گزارش اور سفارش کروں گا کہ نئی نسل کو اردو پڑھانے کے مقاصد کو قومی تقاضوں کے مطابق از ِ‬
‫تدریس اردو کے مقاصد کے چیدہ‬
‫ِ‬ ‫نومتعین کیا جائے۔ اس سلسلے میںمحترم ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے اتفاق کرتے ہوئے‬
‫چیدہ نکات پیش کرتا ہوں۔‬

‫۔ طلبہ کو اردو بولنا‪ ،‬پڑھنا اور لکھنا سکھانا۔‬


‫اظہار خیال کی صالحیت پیدا کرنا۔‪۲‬‬
‫ِ‬ ‫۔ اردو کے ذریعے ان میں صحیح‬
‫اظہار خیال کے ذریعے بچوں کی نفسیاتی تسکین اور طمانیت کا سامان فراہم کرنا۔‪۳‬‬
‫ِ‬ ‫۔‬
‫اظہار خیال پر قابوپانے کے لیے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنا۔‪۴‬‬
‫ِ‬ ‫۔‬
‫۔ غور و فکر اور مشاہدہ ومطالعہ کا شوق پیدا کرنا۔‪۵‬‬
‫۔ اردو زبان و ادب کی قدرو منزلت کا احساس پیدا کرنا۔‪۶‬‬
‫۔ طلبہ کے اندر چھپی ہوئی تخیلی‪ ،‬تخلیقی اور استحسانی صالحیتوں کو بروئے کار النا۔‪۷‬‬
‫۔ پاکستانیت‪ ،‬آزادی اور سا لمیت کا تحفظ کرنا۔‪۸‬‬
‫۔ پاکستانیوں کو باہم تبادلہ خیال کے لیے مشترکہ ذریعہ مہیا کرنا۔‪۹‬‬
‫۔ مشترکہ ذریعہ اظہار کے توسط سے سیاسی و قومی یکجہتی پیدا کرنا۔‪۱۰‬‬
‫۔ عام معاشرتی زندگی میں سہولتیں پیدا کر کے کامیاب زندگی گزارنے کارستہ دکھانا۔‪۱۱‬‬
‫۔ ہم زبانی و ہم خیالی کے ذریعے پاکستانی قومی کردار کی تشکیل کرنا۔‪۱۲‬‬
‫۔ اساسی قدروں اور روایات کو محفوظ رکھنا اور فروغ دینا۔‪۱۳‬‬
‫۔دینی علوم کی ترقی و اشاعت میں آسانی پیدا کرنا۔‪۱۴‬‬
‫۔ موجودہ علمی ‪ ،‬ادبی تخلیقی و تحقیقی سرمائے کو محفوظ رکھنا اور اس میں روز بروز اضافہ کرنا۔‪۱۵‬‬
‫حصول تعلیم کو آسان بنانا۔‪۱۶‬‬
‫ِ‬ ‫۔ زبان و خیال میں ہم آہنگی پیدا کر کے‬
‫۔بلند پایہ مفکر‪ ،‬ادیب‪ ،‬شاعر‪ ،‬سائنسدان‪ ،‬ڈاکٹر ‪ ،‬انجینئیر‪ ،‬ریاضی دان اور ماہرین پیدا کرنا۔‪۱۷‬‬
‫۔ اپنی چیزوں کی اہمیت کا احساس دال کر ذہنی غالمی سے نجات دالنا۔‪۱۸‬‬
‫۔ وطن ‪ ،‬قوم اور مذہب کی اہمیت کا احساس دالنا اور ان کی خاطر ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرنا۔‪۱۹‬‬
‫۔ ملک و قوم کو روحانی اور مادی ترقی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ مہذب اور شائستہ بنانا۔‪۲۰‬‬
‫تدریس اردو کے مقاصد ہیںاور یہی ہمارے قومی تقاضے ہیں۔ بہر حا ل میں جو مزید کہنا‬
‫ِ‬ ‫ایک نظریاتی ملک میں یہی‬
‫چاہتا ہوں عالمہ اقبال کے ان اشعار کے ذریعے عرض کرتا ہوں۔‬
‫زندگی کچھ اور شے ہے‪ ،‬علم ہے کچھ اور شے‬
‫سوز دماغ‬
‫ِ‬ ‫سوز جگر ہے‪ ،‬علم ہے‬
‫ِ‬ ‫زندگی‬
‫علم میں دولت بھی ہے‪ ،‬قدرت بھی ہے لذت بھی ہے‬
‫ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ‬
‫اہل دانش عام ہیں کم یاب ہیں اہ ِل نظر‬
‫ِ‬
‫کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ‬

‫‪http://nlpd.gov.pk/uakhbareurdu/may2013/May_5.html‬‬

‫سوال نمبر ‪ : 2‬درسی متن کی اقسلم اور ان میں حال مشکالت کا جازہ لیں؟ مختلف سبقی ڈزیءن کے مطالعہ کے بعد‬
‫بطور استاد اپنا سبقی طریقہ واضح کریں؟‬

‫متن کی اقسام اور کیا ان سے مختلف ہے‬


‫لہذا ‪ ،‬متن کی مختلف قسمیں ہیں۔ لیکن ان میں کیا اختالفات ہیں؟‪ ‬ان کی کیا خصوصیت ہے؟ مندرجہ ذیل الئنوں میں آپ‬
‫کو متن کی مختلف اقسام کی درجہ بندی مل سکتی ہے‬

‫بیانیہ متن ‪1.‬‬


‫بیانیہ متن وہ ہے جو واقعات ‪ ،‬کہانیاں ‪ ،‬کہانیاں ‪ ،‬حقائق یا افسانوں سے متعلق ہے‪ ،‬لہذا یہ فرضی یا غیر فرضی‬
‫ہوسکتا ہے۔ اس کی خصوصیات متحرک فعل و فعل اور مقامی رابطوں جیسے واقعات‪" :‬اور پھر" ‪" ،‬پہلے" ‪" ،‬دوسرا" ‪،‬‬
‫"تیسرا" کے ذریعہ بیان کردہ واقعات کی ایک ترتیب سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر‪" :‬پہلے ہم اپنے اٹیچی بھرتے ہیں‬
‫‪…".‬اور پھر ہم ٹیکسی پر سوار ہوئے اور ہم ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس کے بعد‬

‫اس قسم کے متن میں سب سے زیادہ استعمال شدہ فعل کا فارم ماضی ہے‪ .‬عام طور پر ماضی میں کامل لیکن دوسروں‬
‫کو بھی استعمال کیا جاتا ہے‪ :‬اس نے نمک شیکر اٹھایا ‪ ،‬اس گھر میں رہتا تھا ‪ ،‬چل پڑا تھا ‪ ،‬صاف تھا ‪ ،‬اس نے کیا‬
‫سوچا تھا وغیرہ۔ تاہم ‪ ،‬جب مکالمات دوبارہ پیش کیے جاتے ہیں تو وہ براہ راست ہوتے ہیں ‪ ،‬یعنی حرف جو حرف کو‬
‫کہتے ہیں اس کی ترجمانی کرتے ہیں ‪ ،‬عام طور پر فعل کی شکل عام طور پر موجود ہوتی ہے‪ :‬یہاں سے نکل جاو!‬
‫‪.‬مجھے اپنے راستے پر جانے دو! ‪-‬سید آدمی‬

‫وضاحتی متن ‪2.‬‬


‫اس قسم کا متن ‪ ،‬جسے وضاحتی متن کہا جاتا ہے ‪ ،‬کا مقصد کسی چیز کی وضاحت کرنا ہے‪ ،‬خواہ وہ کوئی شے ہو ‪،‬‬
‫کوئی شخص ہو ‪ ،‬جانور ہو ‪ ،‬صورتحال ہو یا کسی اور قسم کی عبارت کی تفصیل ہو۔ یہ جذبات کے اظہار کے لئے بھی‬
‫استعمال ہوتا ہے۔ متن عام طور پر کسی چیز کی صفات کے گرد گھومتا ہے اور عام طور پر تیسرے شخص کے مترادف‬
‫کی شکلوں کو استعمال کرتا ہے‬

‫بے نقاب متن ‪3.‬‬


‫اس قسم کے متن کا مقصد بیان کرنا ہے‪ .‬بے نقاب عبارت موضوع کو بے نقاب کرنے کے لئے مبنی ہے لیکن جس میں‬
‫مصنف اپنی ذاتی رائے نہیں دیتا ہے ‪ ،‬یعنی وہ عام طور پر متعلقہ حقائق اور اعداد و شمار پیش کرتا ہے ‪ ،‬لیکن اس میں‬
‫اپنی رائے شامل نہیں ہے۔ اس قسم کی عبارت اکثر اسکولوں یا کالج کے مضمون جیسی بہت سی درسی کتابوں میں پائی‬
‫جاتی ہے۔ ان میں عام طور پر تعریفیں ‪ ،‬وضاحتیں وغیرہ شامل ہیں۔‬

‫عام طور پر ان عبارتوں کا ڈھانچہ بہت واضح ہوتا ہے ‪ ،‬جو اس موضوع کو واقف کرنے کے لئے تعارف کے ساتھ‬
‫شروع ہوتا ہے۔ ترقی ‪ ،‬معروضی تجزیہ ‪ ،‬مثال یا اعداد و شمار کو اجاگر کرنا؛ اور اختتام ‪ ،‬جو ہاتھ میں مضمون کے‬
‫سب سے اہم پہلوؤں کا خالصہ کرتا ہے۔ اس کا مقصد مطلع کرنا ہے۔‬

‫دلیل متن ‪4.‬‬


‫بحثی نصوص ایک مفروضے پر مبنی ہیں ‪ ،‬جس میں تحریری اسلوب استعمال کیا جاتا ہے جس کا مقصد قاری کو‬
‫راضی کرنا ہے‪ ،‬چونکہ کسی خاص "پوزیشن" یا "مقالہ" کی یا اس کے خالف وجوہات سامنے آتی ہیں‬

‫متن عام طور پر ایک پریزنٹیشن کے ساتھ شروع ہوتا ہے جو تجویز کردہ دالئل کو ‪ the ،‬اس کو حاصل کرنے کے ل‬
‫سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ یعنی ‪ ،‬موضوع کے فوائد یا خصوصیات کو سامنے النے کے لئے آگے جانے سے پہلے‬
‫اس قسم کے متن میں کتابیات کے ‪ this ،‬قاری کو سیاق و سباق میں ڈالنا ضروری ہے۔ ساکھ کو شامل کرنے کے ل‬
‫حوالہ جات شامل ہوسکتے ہیں جو اس کی صداقت کو ظاہر کرنے کی اجازت دیتے ہیں ‪ ،‬بلکہ اس کی وجہ اور اثر کی‬
‫استدالل ‪ ،‬اتھارٹی (یعنی ‪ ،‬اس موضوع پر ماہرین) یا مقبولیت (مثال کے طور پر ‪ ،‬ہر ایک کرتا ہے) ‪ ،‬دوسروں کے‬
‫درمیان بھی ہے‬

‫ہدایت نامہ ‪5.‬‬


‫ہدایت کا متن قاری کو کچھ کرنے کی ترغیب دیتا ہے‪ ،‬لہذا یہ ایک تدریسی متن ہے جو اس کی وضاحت کرتا ہے کہ کسی‬
‫سرگرمی کو کس طرح تیار کیا جائے یا مقصد کو انجام دیا جا‪.‬۔ اس قسم کے متن میں ‪ ،‬منطقی ترتیب کے ساتھ ‪ ،‬منطقی‬
‫ترتیب کے ساتھ ‪ ،‬اثر و رسوخ کے ساتھ ‪ ،‬اور کم سے زیادہ اہمیت کے حامل آرڈر کو بہت اہم قرار دیا گیا ہے۔ اس قسم‬
‫کے متن کی ایک مثال ہدایت نامہ ہوگی۔‬

‫سائنسی نصوص ‪6.‬‬


‫آپ نے کبھی کوئی ‪ you‬اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ہے تو ‪ ،‬یقینا‬
‫سائنسی متن پڑھا ہوگا ‪ ،‬جو متن کی ایک قسم ہے جس کا مقصد تحقیقی پیشرفت ظاہر کرنا ہے۔ اس میں باضابطہ تحریر‬
‫سامنے آتی ہے ‪ ،‬جس میں تکنیکی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ ڈھانچہ مستقل ہے ‪ ،‬اور معلومات کا ہمیشہ حوالہ دیا جانا‬
‫چاہئے۔‬

‫قانونی متن ‪7.‬‬


‫وہ عدالتی میدان میں مستعمل متن ہیں‪ ،‬جس میں متعدد تکنیکییاں ‪ ،‬قدیم شرائط (مثال کے طور پر ‪ ،‬یونانی یا الطینی‬
‫سے) اور ایک رسمی اور قدامت پسند زبان پر مشتمل ہے۔ وہ مشموالت کے منطقی اور ترقی پسند انتظام کی خصوصیات‬
‫ہیں ‪ ،‬اور ان کے مشموالت اس کی مقصدیت کو واضح کرتے ہیں ‪ ،‬جس کا مقصد غلط یا مبہم تشریحات سے بچنا ہے۔‬

‫جملہ تیسرے تیسرے شخص کے واحد ‪ ،‬غیر اخالقی اور غیر فعال اضطراری عمل میں ہیں۔ دوسری طرح کے متن کے‬
‫مقابلے میں ‪ ،‬الفاظ کی تکرار عام ہے اور حقیقت میں دستاویز میں کلیدی تصورات کو مبہمیت‪ X‬سے بچنے کے لئے بار‬
‫بار دہراتے ہیں۔‬

‫انتظامی متن ‪8.‬‬

‫انتظامی عبارتیں قانونی متن سے ملتی جلتی ہیں‪ .‬دراصل ‪ ،‬انہیں اکثر قانونی انتظامی متن کہا جاتا ہے۔ تاہم ‪ ،‬وہ قانونی‬
‫سے کم سخت ہوتے ہیں۔ سرٹیفکیٹ اس کی ایک مثال ہیں۔‬
‫ادبی متن ‪9.‬‬
‫وہ ایک عظیم ادبی جمالیات کے ساتھ عبارتیں ہیں ‪ ،‬اسی لئے انہیں آرٹ کے فن سمجھا جاتا ہے‪ .‬استعاراتی زبان کھڑی‬
‫ہے ‪ ،‬جو اظہار اور جذبات سے ماالمال ہے۔ نظمیں ‪ ،‬کہانیاں ‪ ،‬کہانیاں اور کچھ مضامین ادبی متن کی مثال ہیں۔‬

‫انسان دوستی نصوص ‪10.‬‬


‫انسان دوستی نصوص وہ ہیں جو انسانی تعلقات کے موضوع سے نمٹتے ہیں‪( ‬مثال کے طور پر ‪ ،‬فلسفہ یا‬
‫سوشیالوجی) ‪ ،‬لیکن جو رسمی نہیں‪ X‬ہے ‪ ،‬جیسا کہ سائنسی نصوص ہے۔‬

‫اشتہاری متن ‪11.‬‬


‫جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے ‪ ،‬ان نصوص کا مواد اشتہار بازی ہے‪ ،‬اور اس کا مقصد ہے کہ قارئین کو کسی‬
‫خدمات کی خدمات حاصل کرنے یا کسی مصنوع کی خریداری پر راضی کرے۔ کاپیاں اور نعرے اس نوع کے متن کی‬
‫مثال ہیں۔‬

‫اخبارات کی تحریریں ‪12.‬‬


‫صحافتی نصوص وہ ہیں جو مطلع کرنے کا دعوی کرتے ہیں ‪ ،‬حاالنکہ وہ رائے بھی فراہم کرسکتے ہیں‪ .‬اس کا مقصد‬
‫صحافتی مواصالت ہے ‪ ،‬اور یہ کاغذی اخباروں اور ویب صفحات پر پایا جاسکتا ہے‬

‫ڈیجیٹل نصوص ‪13.‬‬


‫نئی ٹیکنالوجیز نے ہمارے تعلقات اور رابطے کے طریقے کو تبدیل کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس تبدیلی نے نصوص کو‬
‫بھی متاثر کیا ہے ‪ ،‬جن میں ڈیجیٹل دنیا میں بہت زیادہ طاقت ہے۔‬

‫مثال کے طور پر ‪ ،‬اس قسم کا متن وہی ہے جو ہم بالگز یا ڈیجیٹل میگزینوں میں پا سکتے ہیں‪ .‬اس وسیلہ کی‬
‫خصوصیت اور اس مواد تک جو آسانی سے پایا جاسکتا ہے اس کی نشاندہی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قاری ان میں سے‬
‫بہت سارے متن کو پوری طرح نہیں پڑھتا ہے ‪ ،‬بلکہ عام طور پر ان کو اسکین کرتا ہے کہ ان معلومات کو براہ راست‬
‫جاسکے جو ان کی دلچسپی رکھتے ہیں‬

‫‪https://ur.warbletoncouncil.org/tipos-de-texto-3465‬‬

‫سوال نمبر ‪ : 3‬تدریس اردو میں بولنے اور سننے سے متعلق اختالف راے بیان کریں اور سننے اور بولنے کے تدریسی‬
‫مقاصد بیان کریں؟‬

‫اردو زبان کی تعلیم و تدریس کے مسائل اس وجہ سے بھی بہت پیچیدہ اور مشکل ہیں کیوں کہ مختلف معاشرتوں نے اس‬
‫زبان کو اس انداز سے اپنایا کہ متضاد اور مخالف ماحول اور تاریخ و جغرافیہ کی آویزشوں والی آبادیوں میں ایک ساتھ‬
‫اس کے طلسمات قائم ہوتے چلے گئے۔ یہ زبان پیدا تو ہندستان میں ہوئی لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش سے بڑھ کر اس‬
‫انداز میں دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلی کہ اب مرکزیت اور آغازکے سوالوں پر اتّ ِ‬
‫فاق رائے مشکل ہے۔ کبھی اردو‬
‫درباروں کی زبان ہوتی ہوگی یا صوفیوں نے اپنے حلقے میں اس کی پرورش کی ہوگی لیکن اب اس کی کاروباری اور‬
‫عوامی ضرورتوں نے اس طرح مزاج میں تبدیلی پیدا کردی جس سے یہ اندازہ لگانا آسان نہیں کہ کس معاملے میں یہ‬
‫صوفی‬
‫ِ‬ ‫زبان کون سی کروٹ لے گی۔ جب ایک ہی زبان کا ایک چاہنے واال بُت پرست ہو اور دوسرا بُت شکن‪ ،‬ایک‬
‫باصفا ہو تو دوسرا شراب و کباب کا شیدائی‪ ،‬ایک روایت پر نازاں تو دوسرا ج ّدت پر فریفتہ؛ یہ بُ ِ‬
‫ت ہزار شیوگی اِس زبان‬
‫ناقابل تسخیر کہہ رکھا ہے۔‬
‫ِ‬ ‫کا ایسا مق ّدر ہے جہاں نہ جانے کتنی اَبوجھ پہیلیاں موجود ہیں اور جنھیں اسی لیے بہتوں نے‬
‫کثیر لسانی اور تہذیبی ماحول‬

‫اردو ہر چند دنیا کی نئی زبانوں میں سے ایک ہے لیکن اس کی تاریخ اور اس میں اتنے پوشیدہ ادبی اور علمی لعل و گہر‬
‫موجود ہیں کہ کثیر ابعادی مطالعے کے بغیر اس زبان کے معامالت ومسائل کو بہ غور سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ تاریخ و‬
‫تشکیل نَو کی؛ اسی نے اردو کو ہر‬
‫ِ‬ ‫تہذیب کے ساتھ ساتھ عہ ِد جدید کے گوناگوں تقاضوں سے اس زبان نے جو اپنی‬
‫معاملے میں قومی اور بین االقوامی جہات سے غور و فکر کرنے اور اسی طرح اونچے معیاروں سے جینے کی ایک‬
‫خو‪،‬پیدا کردی۔ اس زبان میں دوسری زبانوں سے اخذ واستفادہ اور مختلف تہذیبوں‪ X‬سے لین دین کا جو شعور پیدا ہوا‪ ،‬اس‬
‫سے اردو زبان یا تہذیب کے طَور پر الگ الگ رہنے والی َشے بن کر قانع نہ رہ سکی بلکہ زبانوں اور تہذیبوں کے‬
‫امتزاج کے بنیادی اصول اس کی گھُٹّی میں اس طرح پیوست ہوگئے جیسے یہی صفت اس کی زندگی کی ضمانت ہو۔ آج‬
‫بھی اکثر و بیش تر اردو داں آبادی کئی زبانوں میں ایک ساتھ درک رکھتی ہے۔ اعداد و شمار کی بات کریں تو یہ جان لینا‬
‫قابل اطمینان ہے کہ اردو خواں آبادی میں ‪ ۷۵‬فیصد افراد ذولسانی ہیں جب کہ ہندی سے اس کا موازنہ کریں تو وہاں یہ‬
‫ِ‬
‫صورت ‪ ۲۵‬فی صدی کے آس پاس ہے۔‬

‫اُردو کی تعلیم و تدریس کی تاریخ پر غور کریں تو یہ چار ِدنوں کا قِ ّ‬


‫صہ نہیں ہے۔ ہندستان میں اردو کے جو ابتدائی آثار‬
‫ملتے ہیں‪ ،‬اُن میں ایک طرف راج دربار اور بادشاہت کا سلسلہ ِدکھائی دیتا ہے تو اُسی کے پہلو بہ پہلو صُوفیا کی‬
‫خانقاہیں‪ ،‬عُلماکے مدارس اور مسجدوں کے مکاتب ِمل ُجل کر تعلیم کا ایک مستحکم نظام قائم کر رہے تھے۔ مسلمانوں‬
‫طور تازیانہ تعلیم کا‬
‫ِ‬ ‫سے پہلے بودھوں نے ہندستان میں تعلیم و تدریس کا باضابطہ نظام قائم کرکے آریائی اقوام کو بہ‬
‫ایک عوامی منچ مہیّا کرایا تھا۔ نالندہ اور ِوکرم ِشال یا تک ِشال ُکچھ لوگوں کے لیے بھلے سیرگا ہیں ہوں گی لیکن اِن‬
‫آثارقدیمہ کو بہ غور دیکھتے‪ X‬ہوئے ُمشکل حاالت میں بودھوں کی نئی تعلیم کا خاکہ پیش کرنے کی جسارت اور توجّہ کی‬
‫ِ‬
‫وجہ سے ہمارا َسران کی تعظیم میں جھُک جاتا ہے۔‬

‫اردو جب زبان کی حیثیت سے تشکیلی مراحل سے ُگزر رہی تھی‪ ،‬اُس زمانے میں اردو پر ِجن بولیوں کے سب سے‬
‫زیادہ اثرات قائم ہوئے ہوں گے‪ ،‬ان کے بارے میں ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ُکچھ زیادہ تحقیقات ممکن نہ ہوئیں اور‬
‫تحقیق کا جتنا بھی کام ہوا‪ ،‬اُس کے لیے پہلے سے ہی یہ اُصول قائم کر لیاگیا کہ اردو کو مغربی ہندی کی بولیوں سے بر‬
‫آمد شدہ مانا جائے ِجس کی وجہ سے ماگدھی اور اَردھ ماگدھی بولیوں سے اردو کے ابتدائی رشتوں کے معامالت کو‬
‫قابل غور سمجھا ہی نہیں گیا۔ اِسی لیے اردو کے ارتقا کے بہت سارے سواالت بعض ماہری ِن لسانیات کی کج ادائیوں اور‬
‫ِ‬
‫ت حال میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ہمیں‪ X‬یاد رہنا چاہیے کہ اس‬
‫چند علما کی عصبیت کی وجہ سے اب بھی غیر یقینی صور ِ‬
‫مسئلے کے َحل کے بعد ہی ہم اُردو کی مشرقی روایت کے بارے میں ُکچھ نتائج اخذ کر سکتے ہیں اور اپنی زبان کی‬
‫عربی‪ ،‬فارسی اور تُرکی روایت کے ساتھ ساتھ پُوربی زبانوں اور بولیوں کی روایات کے بارے میں غور وفکر کر کے‬
‫کسی نئے لسانی نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔‬

‫یہ ممکن ہے کہ بعض افراد کی جبینوں پر ِشکن آجائے لیکن یہ س ّچائی معلوم ہوتی ہے کہ ہندستان میں تعلیم کے سلسلے‬
‫سے ادارہ سازی کا جو تص ّور بودھوں نے پیش کیا‪ ،‬اُسے مسلمانوں نے بہت غور سے دیکھا اور اپنے فروغ میں اسے‬
‫سنجیدگی سے آزمایا۔ یہ دُرست کہ مسلمانوں نے تک شال‪ِ ،‬وکرم شال اور نالندہ جیسے بڑے ادارے اپنی عظیم حکومتوں‬
‫کے باوجود قائم نہیں کیے البتّ ہ چھوٹے چھوٹے مدارس کے وجود اور افادیت سے انکار نہیں کیاجا سکتا لیکن اُنھیں قدیم‬
‫عہد کی مذکورہ یونی ورسٹیوں کا بدل نہیں کہہ سکتے۔ عہ ِد سلطنت کے بادشاہوں کی ِعلم دوستی اور قدرشناسی کا شہرہ‬
‫ہے لیکن وہ چاہتے تو تعلیمی ادارہ سازی کا کام اپنی بڑی بڑی تعمیرات کے ساتھ کر ہی سکتے تھے۔ پوری مغل تاریخ‬
‫بھی عظیم تعلیمی ادارے قائم کرنے کے پہلو سے ہمیں خاطر خواہ جواب نہیں دیتی اور اس طرح بودھوں کے تعلیمی‬
‫شعور کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے۔ حد تو یہ ہے کہ نالندہ کے زوال کا الزام بھی محدود معنوں میں ہی سہی‪ ،‬بختیار خلجی‬
‫کی افواج پرہی جا پڑتا ہے۔ اس طرح تعلیمی ادارہ سازی میں معاونت کے بجاے ہمارے بادشاہوں کے نام اداروں کے‬
‫مسمار کرنے والوں میں شامل ہوگیا۔‬

‫صوفیا‪ :‬ہندستان میں اردو تعلیم کے ا ّولین بنیاد گزار‬

‫صوفیا کی خانقاہوں اور مساجد یا مدارس سے الگ کر کے ڈھونڈنا ُمشکل ہے۔ یہ‬
‫ہندستان میں اردو کی ابتدائی تعلیم کو ُ‬
‫تبلیغ اسالم اور رضامندی‬
‫ِ‬ ‫بھی دُرست ہے کہ یہ ادارے مذہبی تعلیم کے لیے قائم کیے گئے تھے اور اِن کا ایک مقصد‬
‫سے ہی سہی لیکن تبدی ِ‪X‬ل مذہب بھی تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اصل کام تو عربی زبان میں ہونا تھا۔ عربی کے ساتھ‬
‫ساتھ کاروباری جہتوں سے فارسی یا تُرکی کے لیے بھی مواقع پیدا ہوگئے۔ انھی تینوں زبانوں کے ساتھ ساتھ عوامی دباو‬
‫یا ذریعۂ تعلیم اور تبادلۂ خیاالت کی مجبوریوں نے اردو کو عہ ِد سلطنت کے مدارس میں جگہ ِدالئی ہوگی لیکن لسانی‬
‫حکمرانی تو بہرحال عربی‪ ،‬فارسی اور تُرکی کے ہاتھ میں رہی اور بادشاہت کے لُٹتے وقت تک اِس میں کوئی خاص‬
‫تبدیلی سامنے نہیں آئی۔‬
‫حقیقت میں اہ ِل اُردو کے درمیان تعلیمی ادارے قائم کرنے کا سلسلہ انگریزوں کی آمد اوران کے اقتدار کے بعد شروع‬
‫ہوتا ہے۔ اِس سے پہلے بڑے ادارے قائم کرنے اور اُن کے دروازوں کو عوام کے لیے کھولنے کی خواہش یا ضرورت‬
‫کو سماج نے شاید سمجھا نہیں تھا۔ اِسی لیے مسلمانوں کے درمیان واضح مذہبی ہدایات کے باوجود تعلیم سے بے رُخی‬
‫ش عام ایک طویل م ّدت تک قائم رہی۔ یہ تو اچھّا ہوا کہ ایک ہی زمانے میں انگریزوں کا اثر لینے‬
‫رو ِ‬
‫اور عدم توجہی کی ِ‬
‫اور اُن سے اختالف کرنے کی تعلیمی مہم شروع ہوئی اور ہم نے انگریزوں کی یونی ورسیٹیوں کے ساتھ ساتھ دارالعلوم‬
‫دیوبند‪ X،‬علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور ندوۃ العلما یا دارالمصنّفین جیسے ُکچھ ادارے قائم کرلیے جن سے ہمارا رُکاہوا نیا‬
‫تعلیمی سلسلہ پ ِھر سے جاری ہو سکا اور اِس بہتر نقطۂ آغاز کے نتائج بہرطور سامنے آنے لگے۔ آج کی تعلیمی‬
‫پسماندگی کا سبب جاننے کی کوششوں کے دوران ہمیں یہ نہیں بھُولنا چاہیے کہ ہم نے بڑے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی‬
‫طرف تو ّجہ بہت دیر سے کی جب کہ کہنے کو اپنی قوم میں بادشاہت کا ایک پورا سلسلہ موجود تھا۔‬

‫اس لیے اس حقیقت سے ہم اپنی گفتگو شروع کریں کہ ہندستان میں اردو آبادی نے بڑے تعلیمی اداروں کی بنیاد‬
‫انگریزوں کی حکومت کے قیام یعنی ‪۱۸۵۷‬ء کے بعد‪ X‬ہی رکھی۔ یہ ادارے واضح طور سے مغربی اثرات میں ڈوبے‬
‫ہوئے تھے۔ ان اداروں سے الگ‪ ،‬اسکول‪ ،‬کالج اور یونی ورسٹیوں کا جو سلسلہ شروع ہو رہا تھا‪ ،‬وہاں بھی اردو کے‬
‫لیے گنجایشیں پیدا ہوئیں۔ روایتی مذہبی تعلیم سے اردو آبادی نے اپنی نئی تعلیم کے ڈھانچے کو جوڑنے کی بہت کم‬
‫کوشش کی اور زیادہ تو ّجہ اس بات پر رہی کہ عصری تعلیم کے لیے مغربی پیمانوں کو تختۂ مشق بنایا جائے اور مذہبی‬
‫ب ضرورت شامل رہے۔ بہت مشکل سے جنگِ آزادی کے دوران جامعہ ملیّہ اسالمیہ‬
‫تعلیم غیر رسمی حصّے میں حس ِ‬
‫جیسے ادارے کا قیام اس نقطۂ نظر کے ساتھ ہوا کہ عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی اور قومی تعلیم کے ایک ِملے‬
‫جُ لے خاکے میں رنگ بھرا جا سکے۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مغربی تعلیم کی رہنمائی میں علی گڑھ نمایندہ ادارہ تھا‬
‫اور مشرقی اور مذہبی انداز کی تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند‪ X،‬ندوۃالعلما وغیرہ قائم ہوئے تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان‬
‫اداروں میں آپسی تعلّ ق‪ ،‬نقطۂ مفاہمت‪ ،‬صالح و مشورہ اور اصول و نظریات یا عمل میں ایک دوسرے سے سیکھنے اور‬
‫پانے کے ثبوت ایک اچھے خاصے زمانے تک ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔‪X‬‬
‫انیسویں صدی میں قومی تعلیم کا ادھورا خاکہ‬

‫ادارہ سازی میں جب کوتاہیاں ہوں گی تو یہ بھی حقیقت سامنے آئے گی کہ ایک ڈسپلن کے طور پر اصل تعلیم کو فروغ‬
‫دینے میں بہت ساری کمیاں درآئیں گی۔ مضمون کے طور پر تعلیم اور تدریس کو سمجھنے کی کوشش اور عالمی یا‬
‫قومی سطح پر اُس کے تجربات اور نفاذ کی باری تو اور بھی دیر سے آئی۔ آج تک ایسی کوئی مک ّمل تحقیق یا کتاب ہمیں‬
‫دیکھنے کو نہیں‪ X‬ملی جس سے ‪۱۹‬ویں صدی کے ایسے تعلیمی ادارے جو اُردو آبادی کو استحکام دینے کے لیے قائم‬
‫ہوئے تھے‪ ،‬اُن کی تعلیم کا پُورا پُورا خاکہ سامنے آ جائے۔ حاالں کہ ہر جگہ مستند‪ ،‬ذہین اور قومی خلوص سے لبالب‬
‫شخصیتوں نے یہ تعلیمی بیڑا اُٹھایا تھا۔ اِس کی وجہ سے اِن اداروں کا فیضان کم ہوا اور ہماری قومی تعلیم کا خاکہ‬
‫انیسویں صدی کے اداروں سے مک ّمل طور پر اُبھر کر سامنے نہیں آسکا۔ وہ سب خاکے ادھورے یا یک رُخے تھے۔‬
‫چاہے وہ دارالعلوم کی تعلیمی فِکر ہو یا علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا تعلیمی خواب۔ سب میں ہمیں اپنی ضرورتوں کے‬
‫مطابق ُکچھ نہ ُکچھ نئے رنگ بھی بھرنے تھے۔‬

‫جنگِ آزادی کی تحریک کی اہمیت اس اعتبار سے قاب ِل توجّہ ہے کیوں کہ اِس تحریک میں ہندستانی قوم نے ایسے‬
‫ُگرسیکھے ِجن سے ایک ساتھ ُملک اور زندگی کے ہمہ گیر معامالت پر نگاہ رکھی جا سکتی تھی۔ ہندستانی قوم نے‬
‫انگریزوں سے لڑائی کے ساتھ ساتھ قومی تشکی ِل نو کے ایسے ٹھوس اور پُرخلوص کام اپنے ذ ّمے لے لیے جو وسیع اور‬
‫مستقبل پسند نقطۂ نظر کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اسی دوران گاندھی جی کی ہدایت اور ذاکر حسین کی قیادت میں نئی تعلیم‬
‫کے ہمہ گیر تصوّرات کی بنیاد پڑی۔ ُملک کے بعض اداروں میں بالعموم اور جامعہ ملیہ اسالمیہ میں بالخصوص اس کے‬
‫نفاذ کی کوششیں ہوئیں۔ آزادی سے قبل کے دَور کو نگاہ میں رکھیں تو ہندستان کی نئی تعلیم کا خواب دیکھنے‪ X‬والے اور‬
‫اِس سلسلے سے منصوبہ بند طریقے سے ُکچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والے افراد جامعہ ملیہ اسالمیہ کے پلیٹ فارم‬
‫سے جمع ہو گئے تھے۔ اِس تعلیمی تص ّور اور تجربے کی لَو ذرا اور تیز ہوگئی ہوتی اور اِس کے اثرات زیادہ وسیع اور‬
‫ہمہ گیر ہوگئے ہوتے تو شاید ہم آج بہتر تعلیمی زندگی گزارتے اور اردو آبادی کے تعلیمی مسائل آج کے مقابلے کم‬
‫پیچیدہ ہوتے۔‬
‫آزاد ملک کی پالیسیوں میں عدم توازن‬

‫آزادی کے بعد دوسری اقوام کی طرح ہی ہماری جو نشو و نُما ہوئی‪ ،‬اُس میں عجلت پسندی اور کم غور و خوض کرکے‬
‫بڑے کاموں میں ہاتھ ڈالنے کا جوش وجذبہ ایسی رُکاوٹیں رہیں جہاں سے ہم اُچھال لینے کی حالت میں نہیں آسکے۔ نئے‬
‫ماحول میں جو اہرالل نہرو کی قیادت میں ہر شعبۂ حیات میں بڑے اداروں کی بنیاد رکھنے کی ایک بڑق رفتار مہم‬
‫اچانک شروع ہوگئی۔ پس ماندگی اور جہالت کی ماری قوم کے کھیون ہار کے طور پر ابوالکالم آزاد ہمارے سامنے‬
‫تھے۔ تعلیم کے شعبے میں واقعی عظیم اور مہتم بالشان ادارے قائم کیے گئے لیکن یہ یاد رہے کہ ان کی افادیت بڑھنے‬
‫کے بجاے دیکھتے‪ X‬دیکھتے گذشتہ نصف صدی میں کم ہوتی چلی گئی۔ ہندستانی سماج کی پیچیدہ زندگی اور دُکھ درد کو‬
‫ٹھیک سے سمجھے بغیر عمومی ادارہ سازی پر زیادہ توجّہ رہی ِجس کے نتیجے کے طور پر ہم تعلیمی اور سماجی‬
‫پچھڑے پن سے برق رفتاری کے ساتھ مقابلہ نہ کر سکے اور ہندستانی سماج کی حقیقی ضرورتوں کی تکمیل کا کام‬
‫ادھورا رہ گیا۔‬

‫تعلیم و تحقیق کے سلسلے کی ادارہ سازی کا جائزہ لیں تو جواہر الل نہرو ماڈل کی ایک اور بھُول یہ سمجھ میں آتی ہے‬
‫کہ عجلت پسندی میں ملک کی عالقائی ضرورتوں کو نہیں سمجھا گیا اور تو ازن کا تو بالکل خیال نہیں رکھا گیا۔ ِکسی‬
‫پس ماندہ اور شکست ُخوردہ قوم کی قربانیوں اور جدوجہد کا ایسا نتیجہ سامنے آئے کہ قومی ترقّی کی متوازن لہر سے‬
‫دُوری پیدا ہوجائے تو اِسے خوابوں کی تکمیل کے بجاے چکنا ُچور ہونا ہی قرار دیا جائے گا۔ اِس پر مستزاد کہ بڑی‬
‫خوشی سے ُملک کی تعلیمی ترقّی کے لیے ہم نے ُکچھ ُ‬
‫صوبوں کو مہربانی کی بہاریں پیش کیں اور ُکچھ کو انتظار کی‬
‫زنجیروں میں ڈال رکھا۔ ‪۱۹۶۰‬ء تک تو ہندستان کے نقشے میں معاشی ماہرین نے بعض دلچسپ اصطالحیں بھی گڑھ‬
‫لیں جنھیں ہم ’کاؤبیلٹ‘‪’ ،‬بیمارو اسٹیٹس‘ اور ’ہندی پٹیّی‘ کے نام سے جب جب یاد کرتے ہیں تو ِاس کا مفہوم یہ بھی ہوتا‬
‫ہے کہ ہندستان کے عمومی نقشے میں یہ آبادیاں پس ماندگی کا شناخت نامہ ہیں۔ اِن صوبوں کے افراد سے پوچھیے کہ‬
‫دوسرے شعبۂ حیات سے الگ تعلیم و تدریس کے کاموں میں قومی پیمانے پر وہ کیوں پچھڑ گئے یا قومی منصوبہ بندی‬
‫میں ہی کوئی ایسا کھوٹ تھا ِجس نے ُکچھ آبادیوں کو ترقّی کے ذرائع کم بہم پہنچائے۔ یہ سوال آج پس ماندہ صُوبوں کے‬
‫افراد کے ذہن میں قائم ہوتا ہے کہ جنگِ آزادی کے لیے خون بہانے اور قربانی دینے میں وہ ِکسی سے بھی پیچھے نہیں‪X‬‬
‫تھے لیکن آزاد ُملک کے پھَل پھُول اُنھیں دوسروں سے کم نصیب ہوئے اور وہ آج بھی ہندستان کی قومی ترقّی کے‬
‫پیمانے کو نیچے کی طرف النے کے لیے مجبور ہیں۔‬

‫آزاد ُملک کی غیر متوازن پالیسیوں کے جبر اور جلد بازی میں قائم کیے گئے ادارے ِکسی بھی قوم کی کشتی کو پار نہیں‬
‫موضوع گفتگو بناتے ہوئے ہمیں اپنی آدھی ادھوری ترقیوں کے‬
‫ِ‬ ‫لگا سکتے تھے‪ ،‬اِس لیے تعلیمی مسائل و مباحث کو‬
‫ک ّچے پن کوسمجھنا ہی ہوگا تب جاکر یہ جائزہ ممکن ہوگاکہ تعلیم کے مضمون کو ہم نے قومی نقطۂ نظر سے دیکھنے‪X‬‬
‫مراکز تحقیق قائم کرنے کا‬
‫ِ‬ ‫میں کہاں کہاں بھُول کی۔ سائنس اورٹکنالوجی کے ادارے ہوں یا سنٹرل یونی ورسٹیوں کا قیام‪،‬‬
‫خیال ہو یا بڑے اداروں کے عالقائی دفاتر‪ ،‬ہر جگہ ایک عدم توازن اور صوبائی اور عدم مساوات کی واضح جھلک‬
‫دکھائی دیتی ہے۔ جب ادارہ سازی میں بنیادی نوع کی خامیاں سطح پر ہی موجود ہوں گی تو الزما ً داخلی خامیاں اور ہزار‬
‫صرف نظر کرتے ہوئے صرف‬
‫ِ‬ ‫کج ادائیاں اگلے مرحلے میں سامنے آئیں گی۔ دوسرے مضامین اور موضوعات سے‬
‫اردو کی تعلیم و تدریس کو موضوع بنایا جائے تو قومی سطح پر ایک ایسی بے ترتیبی اور اُتھل پتھل کی کیفیت سامنے‬
‫آتی ہے جس سے یہ یقین اور پختہ ہوجاتا ہے کہ ابھی غور و فکر اور سنجیدہ توجّہ کی ہزار منزلیں ہمیں طے کرنی ہیں؛‬
‫تب جاکر ہم اپنی زبان اور لسانی آبادی کو قومی اور بین االقوامی سطح تک پہنچا سکتے ہیں۔‬
‫غیر پیشے ورانہ نقطۂ نظر سے کارکردگی‬

‫ت حال کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے اختصار میں یہ نتیجہ اخذ کرلیا جائے کہ اس سلسلے میں‬
‫اردو تدریس کی صور ِ‬
‫قابل تو ّجہ ہے کہ اردو جیسی وسیع‬
‫ہماری کوششیں غیر سائنسی اور غیر پیشے ورانہ رہیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ بھی ِ‬
‫حلقے میں بولی جانے والی اور مختلف شعبۂ حیات میں کارگر خدمات انجام دینے‪ X‬والی زبان کے تدریسی معامالت میں‬
‫خون جگر‬
‫ِ‬ ‫جو انہماک اور دلچسپی درکار تھی‪ ،‬وہ بھی ہم نے نہیں اپنا ئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس قومی کام میں جس‬
‫کے اصراف کی ضرورت تھی اور دل و دماغ کی یکجائی سے ہمیں کوئی نیا مقام حاصل کرنا تھا‪ ،‬ان سب میں ہماری‬
‫کوتاہیاں ہمالیہ پہاڑ کی طرح بہ تدریج بڑھتی چلی گئیں اور آج وقت نے اس پر مزید برف جمانے کی کاوشیں کرکے‬
‫ہمیں اپنی مادری زبان سے دنیا کے بہت سارے کاموں میں سرفرازی حاصل کرنے کی مہم سے دور کردیا ہے۔ ہم نے‬
‫روش کے بر خالف آزادی کے بعد مواقع اور مناصب کے حصول اور نتیجتا ً زرومال کی‬
‫اپنے اسالف کی قوم پرستانہ ِ‬
‫طرف راغب ہونے کو انجام کار سمجھ لیا جس کی وجہ سے کشمیر سے کنیا کماری تک اور آسام سے لے کر گجرات‬
‫تک آج ایسا ایک ادارہ موجود نہیں جو بہ بانگِ ٌدہل کہہ سکتا ہو کہ اس نے اردو کو بنیاد بناکر پچھلے پچاس ساٹھ برسوں‬
‫میں ایسے کارنامے انجام دیے‪ X‬جن پر آج ہم افتخارانہ انداز میں داد و تحسین پیش کرسکتے ہوں اور ہم میں یہ بھروسہ پیدا‬
‫ہوجائے کہ ہمارے اسالف نے اپنی مادری زبان کے ناموس کی حفاظت اور استحکام میں کوئی کوتاہی نہیں کی تھی۔‬

‫اردو زبان کے مسائل موجودہ عہد سے لے کر آنے والے زمانے تک کون کون سے ہیں اور ہوسکتے ہیں‪ ،‬ان کی پہچان‬
‫کے مقصد اور تدارک کی خاطر اپنے تعلیمی نظام کے خاص خاص امور پر توجہ دیے بغیر پوشیدہ حقیقتوں سے ہمارا‬
‫سامنا نہ ہوسکے گا۔ ہمارے لیے الزم ہے کہ تعلیمی نظام میں ان بکھرے ذ ّرات کو سمیٹنے کی کوشش کی جائے اور ان‬
‫پر کچھ مشاہدات بھی درج ہوجائیں۔ شاید اس سے سوئے ہوؤں کی آنکھیں کھلیں اور حاالت کی ستم ظریفی کے‬
‫باوجودجولوگ جی لگا کر کام کررہے ہیں‪ ،‬ان کی ناامیدیاں بھی کم ہوں گی۔ اس جائزے سے ممکن ہے کہ تعلیم کے‬
‫شعبے میں ہماری بعض کوتاہیاں اصول و نظریات کا توازن حاصل کرکے قوم کو صحیح جگہ پہنچانے میں معاون‬
‫ہوسکیں گی۔اس سلسلے سے کچھ سلگتے ہوئے سوالوں سے آئندہ صفحات میں ہمارا سامنا بھی ہو گا۔‬

‫تعلیمی ڈھانچا‪ :‬حکومت اور انتظامیہ بہ نام اساتذہ‬

‫اسکول‪ ،‬کالج یا یونی ورسٹی ہر جگہ ہم ماتم کناں ہوتے ہیں کہ حکومت کی بے توجّہی کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام‬
‫ماہر تعلیم حکومت کے سر پہ آخر کار اپنا ٹھیکرااس اندازمیں توڑتا ہے‪ :‬طالب علم کے‬
‫ِ‬ ‫متاثر ہورہا ہے۔ ہر استاد اور‬
‫مقابلے میں اساتذہ کم ہیں‪ ،‬کالس روم اتنے نہیں ‪،‬جتنے بچوں کا داخلہ ہوگیا ہے۔ اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں لیکن برسوں‬
‫سے جگہیں بھری نہیں گئیں۔ کہیں کہیں مستقل کی جگہ عارضی یا تھوڑی سی رقم دے کر ٹھیکے پر اساتذہ کو رکھ کر‬
‫کام چالیا جارہا ہے۔ بعض اداروں کی عمارتیں خستہ اور نڈھال ہیں۔ ملک میں اردو کے تعلّق سے شاید ہی کوئی ایسا‬
‫ادارہ ہو جس کی عمارت‪،‬اس کا تعلیمی ماحول‪ ،‬اساتذہ کا علمی انہماک اور طلبا کے نتائج کا ایسا شفاف گراف سامنے آتا‬
‫ہو کہ ہم فخر سے ایسے ادارے کا نام اپنی زبان کی ترقی اور ہزار الزامات کے جواب میں پیش کرسکتے ہوں۔ کسی ایک‬
‫ادارے کے طلبہ کی کارکردگی کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اس نے اپنا کام بہترین معیار اور مستقبل کی‬
‫ضرورتوں کو سامنے رکھ کر مک ّمل کیا ۔‬
‫یہ عجیب صورت ہے کہ اکثر و بیش تر اسکول سے لے کریو نی ورسٹی تک ہمارے اساتذہ اس موضوع پر بہت کم‬
‫گفتگو کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے طلبا کے اسباق اور درس کے لیے کون سی نئی معلومات پیش‬
‫کیں یا اس سلسلے سے انھوں نے کس قدر تگ و دَــو کی۔‬

‫اس سلسلے میں بالعموم سرکاری سہولیات کی ضرورت نہیں ہوتی اور استاد چاہے تو اپنی کمائی سے تھوڑی سی رقم‬
‫صرف کردے تو تعلیم کا معیار بلند تر ہوجائے گا۔ یہیں یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہر استاد اپنے‬
‫اور تھوڑا سا وقت َ‬
‫محو گفتگو ہوتا ہے یا رہنا چاہتا ہے لیکن اسے یہ یاد ہی نہیں‪ X‬رہتا کہ وہ مصنّف‬
‫ِ‬ ‫مقاالت اور اپنی کتابوں کے فضائل پر تو‬
‫سے پہلے یا ساتھ ساتھ مد ّرس کی حیثیت رکھتا ہے اور ب ّچوں کو بہتر طریقے سے پڑھانے کے لیے بہر طور ایک‬
‫معقول اجرت بھی اسے میس ّر ہے ۔ استاد کو اگر یہ یاد رہے کہ حکومت کی فرض ناشناسی کے باوجود اگر وہ ایمان کا‬
‫طالب ہے تو سرکاری نا مہربانی کے باوجود اپنی بہترین خدمات سے طلبا کا بھال کرسکتا ہے۔آج تعلیم میں ہم جتنی چمک‬
‫دمک کی تالش کر لیں لیکن جب لوگوں نے ندیوں کے کنارے‪ ،‬سڑکوں کے کنارے اور پیڑوں کے ساے میں بچوں کو‬
‫بٹھا کر اعال تعلیم کے لیے بھی تیار کرلیا تو آخرآج کے اساتذہ کب تک سرکاری معاونت اور عدم توجّہی کا ماتم کرتے‬
‫ہوئے اپنی آنکھوں سے اسکول اور کالج کی تعلیم کو اور پورے نظام کو کمزور ہوتے ہوئے خاموشی سے دیکھتے رہیں‬
‫گے۔‬

‫اردو ذریعۂ تعلیم‪ :‬اندھیرا اور اجاال ایک ساتھ‬

‫دنیا کے تمام ماہری ِن تعلیم اس بات پر متّفق ہیں کہ مادری زبان میں ب ّچوں کی تعلیم سے سب سے بہتر نشوونما اور ترقّی‬
‫ہوتی ہے۔ اسی لیے تعلیم سے متعلّق کتابوں اور کمیشنوں کے دستاویزات کے ساتھ ساتھ مرکز اور ریاستوں کے محکمہ‬
‫ت تعلیم میں یہ سفارشیں موجود ہیں کہ تعلیم کا ذریعہ مادری زبان کو بنایا جائے۔ انگریزوں کی طویل غالمی کے‬
‫جا ِ‬
‫اثرات ملک پر اس قدر رہے جس کی وجہ سے آزادی کے بعد انگریزی تعلیم کی فیض رسانیوں کا ہندستان میں جادو‬
‫کبھی کم نہیں ہوسکا۔ اردو کی کون کہے‪ ،‬ملک میں ہندی زبان کو ذریعۂ تعلیم بناکر کام کرنے والے تعلیمی ادارے خاطر‬
‫خواہ تعداد میں ابھی تک نہیں پیدا ہوسکے اور اس کے نتیجے کے طور پر ہزاروں کام انگریزوں کی غالمی میں آج تک‬
‫رفتار سے چل رہے ہیں۔ عالمگیریت کی چوہا دوڑ میں شاید یہ توقّع بے وقوفوں کی جنّت میں رہنے جیسی ہوگی کہ آنے‬
‫!والے وقت میں ہندی ہر سطح پر ذریعۂ تعلیم بن کر اُبھرے گی؟ یہ نا ممکن ہے‬

‫جنگِ آزادی کی تحریک سے پہلے ہی ملک میں لسانی منافرت کی داغ بیل فورٹ ولیم کالج میں پڑ چکی تھی۔ فارسی کی‬
‫نظام حکومت میں داخلے‬
‫ِ‬ ‫حکومتی حیثیت سے اردو کو جیسے ہی اپنی جگہ قائم کرنے کے مواقع نصیب ہوئے‪ ،‬ہندی کا‬
‫ٰ‬
‫دعوی اور پھر اقوام کی بنیاد سے زبانوں کی پہچان کی خطرناک مہم چل پڑی جس کی آندھیوں میں اردو عوام کے‬ ‫کا‬
‫ت حال آج بھی موجود ہے اور اردو ذریعۂ تعلیم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ انیسویں‬
‫پاؤں اکھڑنے ہی تھے۔ یہ صور ِ‬
‫صدی کی لسانی عصبیت کی وہ بنیادیں ہیں جنھیں وقت نے رہ رہ کر زہر آلود بنایا اور اس کی گرم ہواؤں میں یہ زبان‬
‫اور اس کے بولنے والے اب بھی جھلس رہے ہیں۔‬

‫اردو کو آسانی سے عالقائی زبان کہنا ایک مشکل امر ہے۔ سہ لسانی فارموال کسی تکمیل تک اس لیے نہیں پہنچ سکا‬
‫ت‬
‫کیوں کہ اردو صوبائی تقسیم میں کسی خاص عالقے کی زبان نہیں ہوسکتی تھی اور باآلخر نہیں مانی گئی اور صور ِ‬
‫حال یہ بنی کہ رہنے کو گھر نہیں‪ X‬ہے‪ ،‬سارا جہاں ہمارا۔ ہندی کے لیے تو وسطی اور شمالی ہند‪ X‬کے صوبے پہچان لیے‬
‫گئے۔ کم لوگوں کے بیچ بولی جانے والی زبانیں بھی عالقائی زرخیزی کے سبب اپنا گھر پانے میں کامیاب رہیں۔ آزادی‬
‫کے تیس پینتیس برس گزرنے کے بعد دوسری سرکاری زبان کے طور پر اردو کی پہچان کا سلسلہ تو شروع ہوا لیکن وہ‬
‫چند اضالع اور صوبوں سے آگے بڑھ کر کسی ایسی پہل میں تبدیل نہ ہوسکا جس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکیں کہ اردو‬
‫کو ہم نے اس کا گھر یا اصل حق ادا کردیا جب کہ درجنوں زبانیں اپنی مخصوص جغرافیائی پہچان کی وجہ سے صوبائی‬
‫حکومتوں کی جائز پشت پناہی سے تعلیم و تدریس میں اپنا مناسب حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔‬

‫اردو ذریعۂ تعلیم کو آزمانے یا چھوڑنے میں حقیقتا ً جو رکاوٹیں ہیں‪ ،‬ان کی قانونی‪ ،‬سماجی‪ ،‬سیاسی اور نفسیاتی گرہیں‬
‫کھولے بغیر سارے الجھے ہوئے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ سب سے پہال مسئلہ نفسیاتی ہے۔ ہندستان میں ہندی اور‬
‫انگریزی کی مضبوط موجودگی اور مختلف صوبوں میں عالقائی زبانوں کی مقامی ق ّوت سے اگر مقابلہ کریں تو ذریعۂ‬
‫تعلیم کے معاملے میں اردو کی شاید ہی کوئی وکالت کرنا پسند کرے۔ اردو ذریعۂ تعلیم بالعموم پسماندگی کی عالمت کے‬
‫طور پر ایک سماجی حیثیت رکھتی ہے۔ بہار‪ ،‬مغربی بنگال‪ ،‬مہاراشٹر‪ ،‬کرناٹک‪ ،‬آندھرا پردیش اور جموں و‬
‫کشمیرجیسے صوبوں میں گنتی کے اردو ذریعۂ تعلیم کے اسکولوں کو سامنے رکھ کر اگر ہم یہ نتیجہ اخذ کرلیں کہ‬
‫ہندستان کی تعلیم و تدریس کے منظر نامے پر انگریزی‪ ،‬ہندی اور دوسری عالقائی زبانوں کی طرح اردو ذریعۂ تعلیم‬
‫ایک سچائی کی طرح ہے‪ ،‬تو اسے خوش فہمی سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ یہ ٹھیک اسی طرح سے ہے جیسے‬
‫انگلینڈ‪،‬جرمنی ‪،‬کناڈا اور امریکہ کے بعض ممالک میں اردو بولنے والوں کی موجودگی سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے‬
‫کہ وہاں اردو زبان آج پھل پھول رہی ہے۔ یہ حقیقت میں تارکی ِن وطن کی بوڑھی نسل ہے جسے اپنے جذبوں کے اظہار‬
‫کے لیے اردو زبان کی ضرورت ہے ۔ کسی زبان یا سماج کی زندگی کو پہچاننے کے لیے بہر صورت یہ دیکھنا الزم‬
‫ہے کہ نئی نسل اور مستقبل کی طرف جانے والی آبادی اس زبان کو کتنے استحکام کے ساتھ اپنی جان سے لگا رہی ہے۔‬

‫‪https://hamariweb.com/articles/86239‬‬

‫سوال نمبر ‪ :4‬تدریسی تکلم کے اہم عناصر بیان کریں؟ موثر تدریسی مثالوں کے ساتھ بحث کریں؟‬

‫تعلیم ایک ایسا رواں دریا ہے جس میں ہر گھڑی نت نئے نظریات کے دھارے شامل ہوتے رہتے ہیں۔تعلیم روایتی طریقہ‬
‫کار پر عمل پیرا رہنے کا نام نہیں‪ X‬ہے بلکہ طلبہ کی شخصیت کی تعمیر اور معاشرے کے پسندیدہ‪ X‬اطوار کو رسمی یا‬
‫غیر رسمی طریقے سے بچوں میں رواج دینے‪ X‬کا نام تعلیم ہے۔ اسکول رسمی تعلیم کے حصول کا سب سے بڑا مرکز‬
‫ہوتا ہے۔یہ مردم سازی کا ایک ایسا ادارہ ہے جہاں بچوں کی فطری صالحیتوں کی نشوونماء اور تکمیل کے ذرائعہمیشہ‬
‫موجود رہتے ہیں۔یوں تو اسکول کا پورا ماحول بچے کی شخصیت کی تعمیر میں مددگار ہوتا ہے لیکن کمرۂ جماعت کو‬
‫ایک خاص اہمیت حاصل ہے جہاں تعلیم وتربیت کے زیر اثر طلبہ کی ذہنی نشوونماء کی بنیادیں‪ X‬استوار کی جاتی ہیں‬
‫بلکہ ان صالحیتوں کو فروغ اور پروان بھی کمرۂ جماعت میں ہی حاصل ہوتا ہے۔کمرۂ جماعت میں ہی طلبہ معاشرتی‬
‫مطابقت کے گرسیکھتیہیں‪ X‬اور ان میں زمانے کے مطلوبہ تقاضوں کی تکمیل کی اہلیت بھی کمرۂ جماعت میں ہی پیدا کی‬
‫جاتی ہے۔ باغ کا ہر پودا انفرادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے اس کے پھولوں کی مہک ‪،‬پھلوں کا ضائقہ اور سایہ و قامت‬
‫چمن کے دوسرے پودوں سے جداگانہ ہوتے ہیں ۔ مالی پودوں کی فطرت کا خاص خیال رکھتے ہوئے ان کی نگہداشت‬
‫اور داخت و پرداخت کے لئے ان کی فطرت سے میل کھانے والے عوامل کو احسن طریقے سے بروئے کار التے ہوئے‬
‫چمن کی خوب صورتی اور دلکشی میں اضافہ کرتا ہے۔فروبیل کی نگا ہ میں ایک استاد کی حیثیت بھی ایک باغبان و‬
‫مالی کی ہے جو فطرت کے مطابق طلبہ کی صالحیتوں کو عروج دیتا ہے۔جس طرح ہر پودا پھل پھول اور اپنا ضائقہ‬
‫جداگانہ رکھتا ہے اسی طرح کمرۂ جماعت میں ہر طالب علم انفرادی صالحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ہر بچے کی ذہنی‬
‫استعداد‪ X‬و صالحیت دوسرے بچوں سے جداگانہ ہوتی ہے۔ایک باکمال استاد بچوں کی انفرادیت کا احترام کرتے ہوئے نہ‬
‫صرف ان کے ذہنی و اکتسابی رجحانات کو پیش نظررکھتے ہوئے تدریسی طریقہ کار وضع و اختیار کرتا ہے بلکہ بچوں‬
‫کی فطرت کے مطابق ان کی رہنمائی و رہبری کے فرائض انجام دیتا ہے۔استاد کی اثر پذیر ی کا دارو مدارکئیعوامل پر‬
‫منحصر ہے۔ جن میں استاد کے شاگردوں سے برتاؤ اور ر طرز تکلم کو خاص اہمیت حاصل ہے۔اکتساب اوردرس و‬
‫تدریس کی کامیاب کا راست تعلق استاد کے طرزعمل (برتاؤ‪/‬آمیزش) اور گفت و شنید سے مربوط ہوتا ہے۔ بعض اساتذہ‬
‫کمرۂ جماعت میں برتاؤ اور طاقت گفتار کے بل پر اپنے عیوب پر با آسانی پردہ ڈالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اساتذہ کی‬
‫جانب سے کمرۂ جماعت میں طلبہ کی خوشی کو ملحوظ رکھنا یا ان کو خوش رکھنے کا نظریہ سود مند نہیں ہوتا ہے۔‬
‫اساتذہ طلبہ کے فطری تقاضوں اور ذہنی صالحیتوں کو مد نظر رکھیں ان سے دوستانہ برتاؤ بھی رواں رکھے لیکن اپنے‬
‫وقار اور تدریسی مقاصد کو کبھی بھی مجروح نہ ہونے دیں۔طلبہ کو اپنے علم سے مطمیئن کرنے واال استاد دائمی طور‬
‫پر ان کے دلوں میں گھر کر لیتاہے جب کہ وقتی تفریح فراہم کرنے والے استاد کی حیثیت ایک جوکر اور بھانڈ کی ہوکر‬
‫رہ جاتی ہے۔استاد کے مزاج میں شگفتگی کے ساتھ سائشتگی کا پایا جانا بے حد ضروری ہے۔ استاد کے برتاؤ میں وقار‬
‫کے ساتھ محبت اور شفقت کا پایا جانابے حد ضروری تصور کیا گیا ہے۔استاد اپنے ذہنی خلفشار و اضطراب پر ہمیشہ‬
‫قابو رکھے۔ جذبات کے اظہار میں احتیاط سے کام لے۔اپنے چڑچڑے پن اور افتاد مزاجی کو ظاہر نہ کرے۔استاد کے‬
‫خراب برتاؤ کا بچوں پر بہت برا اثر مرتب ہوتاہے اور بچے استاد کی شکل دیکھ کر ہی تعلیم سے متنفر ہوجاتے ہیں۔‬
‫مختصرا اساتذہ اپنے برتاؤ میں توازن برقرار رکھیں۔ بدمزاجی اور چڑچڑاپن اگر استاد کے مزاج میں پایا بھی جائے تب‬
‫ادنی کوشش سے اپنے خراب برتاؤ اور حوصلہ شکن طرزعمل پر قابو پاسکتے ہیں۔اپنی‬
‫بھی وہ محض اپنی ایک ٰ‬
‫پریشانی ‪،‬افتادمزاجی اور چڑچڑے پن پر صبر و تحمل اور شگفتگی کا ایک خوش نما پردہ تان دیں۔استاد اگر اپنی‬
‫بدمزاجی اور اکھڑپن پر قابو نہیں پائے گا تب بچوں کے ذہنوں پر اس کے بہت خراب اثرات مرتب ہوں گے اور بچے‬
‫سیکھنا تو کجا کمرۂ جماعت میں گھٹن محسو س کرنے لگیں گے۔ استاد کا خراب برتاؤ اور طرزعمل بچوں کے لئے‬
‫پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں وہ سبق پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے استاد کے عجیب و غریب‬
‫برتاؤ پر دھیان دینے لگتے ہیں۔بدمزاجی ‪،‬بدتمیزی اورخراب برتاؤکا فقدان اور صبر و تحمل استاد کی شخصیت میں پائے‬
‫اعلی اوصاف ہیں جو طلبہ پر صحت مند اثرات مرتب کرتے ہیں۔ انہی اوصاف کی بدولت استاد بچوں کے‬
‫ٰ‬ ‫جانے والے وہ‬
‫دل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوجاتا ہے۔ استاد کتاب کے ذریعے نہیں بلکہ اپنی شخصیت کے ذریعے طلبہ میں‬
‫صحت مند نظریات کو فروغ دیتا ہے۔طلبہ کو نصابی معلومات نہیں بلکہ استاد کی شخصیت مرعوب کرتی ہے۔استا د اپنی‬
‫شخصیت کے ذریعہ موثر تدریس کو ممکن بنا تا ہے۔طلبہ نصابی سواالت کا نہیں بلکہ استاد کے طرزعمل اور برتاؤ کا‬
‫جواب دیتے ہیں۔ عدم برداشت ‪ ،‬بچوں کی باتوں کو درخور اعتناء نہ سمجھنا یا پھر عدم صبری سے سماعت کرنا‪،‬جلد‬
‫پین یا چاک سے کھیلنا ‪،‬ان کو مسلسل حرکت دینا یا اچھالتے رہنا‪ ،‬کمرۂ جماعت‪(Short-temperedness)،‬مشتعل ہوجانا‬
‫میں باربار ادھر سے ادھر گھومنا اور پھرتے رہنا وغیر ہ اساتذہ میں برتاؤ اور طرزعمل کی پائی جانے والی عام‬
‫خرابیاں ہیں۔‬

‫درس و تدریس ہی نہیں بلکہ ہر کامیابی میں سنجیدہ حکمت عملی کا عمل دخل ہوتاہے۔کامیاب اکتساب اور موثر درس و‬
‫تدریس میں بھی حکمت عملی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ کمرۂ جماعت کے موثر انتظام و انصرام کو موثر تدریس اور کا‬
‫میاب اکتساب کی دلیل کہا گیاہے۔ حکمت عملی کے زیر اثراستاد کمرۂ جماعت پر قابو اور کنٹرول قائم رکھنے میں‬
‫کامیاب ہوتا ہے۔کمرۂ جماعت اپنی تمام تر نیرنگیوں‪ ،‬رونق اور مسائل کی وجہ سے انفرادی حیثیترکھتا ہے۔تمام ماہرین‬
‫تعلیم و نفسیات کا اس بات پر اجماع ہے کہ طلبہ اپنے استاد کے برتاؤ‪ ،‬طرزتکلم ‪ ،‬نشست و برخواست کے طریقوں سے‬
‫راست طور پر یا بالواسطہ متاثر ہوتے ہیں۔استاد کی اسی اثر پذیری کی وجہ سے درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کی‬
‫اصطالح میں اسے ’ ’مخفی نصاب ‘‘کہا گیا ہے۔ درس و تدریس اور اکتساب میں استاد کے برتاؤ‪،‬انداز گفتگو‪،‬لباس‬
‫‪،‬وضع قطع اور نشست و برخواست کے طور طریقوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔کمرۂ جماعت میں تدریسی سرگرمیوں‬
‫کے دوران استاد کا محتاط عمل و ردعمل‪،‬موثر انداز میں سبق کی تدریس‪،‬خاص معلومات کی ترسیل کے لئے سواالت‬
‫‪،‬افہام و تفہیم سے کام لینا‪،‬کمرۂ جماعت کے بوجھل پن کو دور کرنے کے لئے حس مزاح سے کام لینا تاکہ طلبہ استاد‬
‫سے بات چیت اور سواالت کرنے میں تذبذب اور تامل کا شکار نہ ہونے پائیں یہ ایسے عناصر ہیں جن کو استاد اپنا کر‬
‫کمرۂ جماعت کی تاثیریت کو فروغ اور اکتساب کو عروج عطا کرسکتا ہے۔اکثر اساتذہ معلومات کی ترسیل اور کمرۂ‬
‫جماعت کے نظم و نسق میں بات چیت کے ہنر سے نا آشنا ہونے کے وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں۔بات چیت اور طرزتکلم‬
‫کی بیشتر خرابیوں کی وجہ درجہ ذیل مسائل ہوتے ہیں۔‬
‫اساتذہ کھلے ذہن کے مالک نہ ہوتوطلبہ کے مسائل کو ان کے نکتہ نظر سے نہیں‪ X‬دیکھ پاتے ہیں جس کی وجہ سے )‪(1‬‬
‫موثرپیغام رسانی اور تال میل پیدا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔‬
‫طلبہ کی باتوں پر دھیان نہیں دیتے یا پھر ان کی باتوں کی سماعت میں عدم برداشت کا مظاہر ہ کر بیٹھتے‪ X‬ہیں۔)‪(2‬‬
‫طلبہ کے متنوع ومختلف نظریات کو قبول کرنے میں مزاحمت سے کام لیتے ہیں یا پھر تامل سے کام لیتے ہیں جس)‪(3‬‬
‫کی وجہ سے پیغام رسانی میں ناکام ہوجاتے ہیں اور گفتگو تاثیر سے عاری ہوجاتی ہے۔‬
‫طلبہ سے گفتگو کے وقت ان کی باتوں پر دھیان اور توجہ نہیں دیتے‪ X‬ہیں ان کی باتوں کو بے دلی سے سنتے ہیں جس)‪(4‬‬
‫کی وجہ سے بچے سوچتے ہیں کہ ان کی گفتگو استاد کے لئے کسی اہمیت کی حامل نہیں ہے ۔بچوں کی حوصلہ شکنی‬
‫ہوتی ہے اور وہ استاد سے بات کرنے سے گریز کرنے لگتے ہیں۔‬
‫مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرتے ہوئے اساتذہ اپنے کمرۂ جماعت کے طرزعمل ‪،‬باہمی تعامل اور گفتگو میں بہتری پیدا‬
‫کرسکتے ہیں ۔کمرۂ جماعت کی سرگرمیوں کو سہل اور موثر انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔‬
‫طلبہ کی کسی بھی ناکامی پر ناپسندیدہ ‪،‬دل آزار اور حوصلہ شکن تبصرے سے گریز کریں۔حوصلہ شکن منفی فقرے)‪(1‬‬
‫طلبہ کی عزت نفس کو مجروح ‪،‬حوصلوں کو پست کردیتے‪ X‬ہیں جس کے بر ے اثرات اکتساب پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔‬
‫طلبہ کے مسائل کی ہمددرانہ سماعت کو ممکن بنائیں۔کئی موقعوں پر دیکھنے میں آیا ہے کہ اساتذہ نے طلبہ کے )‪(2‬‬
‫اظہار کویا تودرخور اعتنا ء نہیں سمجھا یا پھر ان کی سماعت میں حقیقی دلچسپی نہیں دکھائی۔‬
‫طلبہ کو برے اور خراب القاب اور ناموں سے پکارنے سے اجتناب ضروری ہے۔دوسرے بچوں کے سامنے ان پر)‪(3‬‬
‫تنقید کرنے سے باز رہیں۔ استاد کا انداز تخاطب اور عمل تحقیر آمیز نہ ہو۔بچوں کی عزت نفس کا ہرحال لحاظ رکھا‬
‫جائے۔استاد کا تحکمانہ اور تکلیف دہ برتاؤ استاد شاگرد کے رشتے پر آری کا کام کرتا ہے۔‬
‫طلبہ کے سامنے اپنے ساتھی اساتذہ اور دیگر لوگوں کے متعلق شخصی فقرے بازے سے گریز کریں۔بچے عواقب و)‪(4‬‬
‫نتائج سے بے خبر رہتے ہیں اور کمرۂ جماعت میں سنے گئے جملوں کو دیگر اساتذہ یا لوگوں کے سامنے دہراتے ہیں‬
‫جس کی وجہ سے حاالت دھماکو اور ابتر ہوجاتے ہیں۔تعلیمی ماحول کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔‬
‫درس و تدریس میں جوش و ولولہ ‪،‬غلطیوں کا اعتراف‪،‬خوش مزاجی‪،‬سنجیدگی اور متانت‪،‬حس مزاح وغیرہ اظہارکے)‪(5‬‬
‫ایسے وسیلے ہیں جو طلبہ کے جذبے ‪،‬شوق اور اشتیاق کو فروغ دیتے‪ X‬ہیں۔استاد کے یہ اوصاف اسے طلبہ میں پسندیدہ‪X‬‬
‫اور مقبول بنادیتے‪ X‬ہیں۔‬
‫کمرۂ جماعت میں وقت پر پہنچے ۔ہر حال میں تاخیر سے بچیں۔اگر حاالت آپ کو کبھی کمرۂ جماعت میں وقت پر)‪(6‬‬
‫حاضری سے باز بھی رکھیں تب طلبہ کو تاخیر سے پہنچنے کی اطالع دیں اور انھیں اپنی حاضری تک کسی سرگرمی‬
‫میں مشغول رہنے کی واضح ہدایات بھی پہنچادیں۔‬
‫طلبہ کو ان کے نام لے کر مخاطب کرنے سے استاد اور شاگرد میں شخصی روابط مستحکم ہوتے ہیں۔ استاد جب)‪(7‬‬
‫طلبہ کو ان کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے کوئی پیغام یا ہدایت باہم پہنچاتا ہے تب طلبہ اس ہدایت کو شخصی پیغام سے‬
‫تعبیر کرتے ہوئے توجہ دیتے ہیں۔اساتذہ ہمیشہ تما م طلبہ کے نام یا د رکھے اور ان کو ان کے صحیح نام سے پکاریں۔‬
‫بیتے دن کی تمام ناگوار باتوں ‪،‬یادوں اور واقعات کو پس پشت ڈال کر ہر نئے دن کا جوش ولولے اور خوشی سے)‪(8‬‬
‫استقبال کریں۔ہر دن کو گزشتہ دن سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔‬
‫ہمیشہ اپنے تدریسی اور انتظامی امور میں ہی الجھے نہ رہیں۔طلبہ سے گفت و شنید کے لئے وقت نکالیں تاکہ طلبہ)‪(9‬‬
‫میں اعتماد کی فضاء بحال کی جا سکے اور طلبہ محسوس کریں کہ ان کا استاد ان کی ضرورت کے وقت ہمیشہ موجو د‬
‫رہتا ہے۔‬

‫استاد کے تدریسی تجربات ‪،‬برتاؤ ‪،‬انداز گفتگو وغیرہ پر طلبہ کے اکتساب کا دارو مدار ہوتا ہے۔ دراصل تعلیم استاد کے‬
‫تدریسی تجربات اور طلبہ کے اکتسابی تجربات کا دوسرا نام ہے۔درس و تدریس کی تاثیر اور اکتساب کی کامیابی کا استاد‬
‫کی شخصیت پر انحصارہوتا ہے۔تدریس اس وقت ہی موثر اور کامیاب ہوتی ہے جب استاد طلبہ کو متاثر کرنے میں‬
‫کامیاب ہوتاہے۔پیشہ تدریس ایک مقدس پیشہ ہے اور اس میں نام اور کمال حاصل کرنے کے لئے خود کو علم کے سمندر‬
‫میں غرقاب کرنا ضروری ہے۔اپنے‪ X‬پیشے سے دلچسپی رکھنے والے اساتذہ ہی درس و تدریس میں کامیابی حاصل کر‬
‫تے ہیں۔ایک دیانت دار اور فرض شناس استاد درس و تدریس کو محض ایک نوکر ی یا کام سمجھ کر انجام نہیں دیتا بلکہ‬
‫درس و تدریس اس کی زندگی کا مقصد اور شعار ہوتا ہے۔درس و تدریس کی غیر افادیت میں پیشہ سے اساتذہ کی عدم‬
‫دلچسپی بھی ایک اہم وجہ ہے۔تدریس کو دلچسپ بنانے میں استاد کی دل کش شخصیت کا بڑا دخل ہوتاہے۔ایک الئق استاد‬
‫ہی اپنے شاگرد وں کی صالحیتوں کو جال دے سکتا ہے۔اساتذہ کے لئے طلبہ کی تعلیم و تربیت سے پہلے اپنی تعلیم و‬
‫تربیت اور تنظیم ذات پر توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے‬

‫‪https://hamariweb.com/articles/97013‬‬

‫‪ ‬سوال نمبر‪ : 5‬تحریروامال کے بنہادی امور اور لکھنا سکھانے کے تدریسی طریقوں کو تفصیل سے بیان کریں؟‬

‫اردو الفاظ کی امالء ماہرین زبان کے نزدیک تاحال متفق علیہ نہیں ہے بلکہ ہر زبان میں معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔‬
‫انگریزی کو ہی لے لیں تو امریکہ اور برطانیہ کی انگریزی کی امالء میں بہت فرق موجود ہیں کہ ایک ہی لفظ کے‬
‫سپیلنگ وہ کچھ لکھتے ہیں اور یہ کچھ لہذا امالء پر اتفاق ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ قرآن مجید میں بھی امالء کے‬
‫اختالفات موجود ہیں جیسا کہ قراءات‪ ،‬علم الضبط اور رسم الخط کا علم رکھنے والے ان سے بخوبی واقف ہیں۔‬

‫یہ واضح رہے کہ "امالء"‪" ،‬خط" اور "رسم الخط" میں فرق ہوتا ہے۔ امالء سے آسان الفاظ میں کسی لفظ کے سپیلنگ‬
‫مراد ہوتے ہیں۔ خط سے مراد "فونٹ" ہے یعنی لکھنے کا اسٹائل وغیرہ جیسا کہ اردو میں "نسخ" اور "نستعلیق" وغیرہ‬
‫خط ہیں۔ اور رسم الخط سے مراد اردو کو "رومن" یا "دیونا گری" یا "فارسی" رسم الخط میں لکھنا ہے۔ "دیوناگری"‬
‫ہندی زبان کو لکھنے کا رسم الخط ہے۔ تو اردو زبان کے رسم الخط کی تبدیلی کی تحریک کہ اردو کو "رومن" یا‬
‫"دیوناگری" میں لکھنا چاہیے تو یہ اسٹوپڈٹی ہے اور کچھ نہیں کہ اس کا مطلب زبان کو ایک مرتبہ مار کر دوبارہ زندہ‬
‫کرنے کی کوشش کرنا ہے۔‬

‫عالوہ ازیں جہاں تک امالء کی بات ہے تو ہمارے ہاں جو لوگ غلطی سے امالء کی تصحیح یا اصالح وغیرہ پر کوئی‬
‫ایک آدھا مضمون یا کتاب دیکھ لیں تو ایک ایکسپرٹ کی طرح دوسروں کی تصحیح شروع کر دیتے‪ X‬ہیں کہ یہ لفظ یوں‬
‫نہیں یوں لکھا جاتا ہے بلکہ ان میں سے تو بعض کو "اردو" کے "اردو" کہلوائے جانے پر بھی اعتراض ہے کہ ان کا‬
‫اصرار ہے کہ اسے "ریختہ" کہو کہ یہی اس کا اصل نام ہے۔‬

‫لیکن انسان اگر اس موضوع پر زیادہ نہ سہی لیکن دو چار اچھی کتابیں ہی دیکھ لے تو اس میں اتنی عاجزی پیدا کرنے‬
‫کے لیے کافی ہیں کہ اگر کوئی اچھا رائٹر ایسے لکھ رہا ہے تو اس کی بھی گنجائش نکلتی ہے۔ مثال کے طور ڈاکٹر‬
‫گوہر شاہی کی کتاب "اردو امال ورموز اوقاف" ایک اچھی کتاب ہے کہ جسے "مقتدرہ قومی زبان" نے شائع کیا ہے جو‬
‫پندرہ ماہرین لسانیات کے منتخب مقاالت پر مشتمل ہے۔‬

‫مثال کے طور ترقی اردو بورڈ‪ ،‬انڈیا نے دو کتابیں شائع کی ہیں؛ ایک رشید حسن خان صاحب کی "اردو امال" اور‬
‫دوسری ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی "امال نامہ"۔ ان دونوں کتابوں میں بھی امالء کے قواعد میں یکسانیت نہیں ہے جیسا‬
‫کہ پہلے کے نزدیک "ذرا" لکھنا چاہیے تو دوسرے کے نزدیک "زرا" اصل امال ہے۔ پہلے کے نزدیک "آزمایش"‬
‫صحیح امالء ہے تو دوسرے کے نزدیک "آزمائش"۔ پہلے کے نزدیک "چوں کہ" لکھنا چاہیے اور دوسرے کے نزدیک‬
‫"چونکہ" وغیرہ وغیرہ‬
‫امالء کے زیادہ تر اختالفات "ہائے مختفی"‪" ،‬ہمزہ" اور "نون غنہ" سے متعلق ہیں۔ مثال "ڈراما" لکھنا چاہیے یعنی‬
‫"الف" کے ساتھ یا "ڈرامہ" یعنی "ہائے مختفی" کے ساتھ۔ تو اس میں اہل لغت کا کہنا ہے کہ وہ الفاظ جو انگریزی یا‬
‫دوسری زبان سے آئے ہیں‪ ،‬انہیں "ہائے مختفی" کی بجائے "الف" سے لکھنا چاہیے یعنی "ڈراما"۔ لیکن اس میں بھی‬
‫ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اہل زبان اس لفظ کو بول کیسے رہے ہیں۔ اگر وہ یعنی ان کی ایک بڑی تعداد‬
‫"ڈرامہ" بھی بول رہی ہے یعنی بولنے میں "ہائے مختفی" کی آواز بھی نکال رہی ہے تو دونوں طرح لکھنا ہی راجح‬
‫قرار دیا جائے۔‬

‫ماہرین لسانیات کا کہنا یہ ہے کہ عربی الفاظ کہ جن کے آخری میں ہمزہ ہے‪ ،‬اردو میں انہیں لکھتے وقت ہمزہ غائب کر‬
‫دیں جیسا کہ "علماء" کو "علما" لکھیں۔ میں نے اپنی کتاب "صالح اور مصلح" میں ایسے ہی کیا تھا لیکن اب کی بار اپنی‬
‫کتاب "مکالمہ" میں اسے "علماء" ہی لکھنے کا ارادہ ہے کہ یہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے اور رائج امالء کی مخالفت ہے‬
‫کہ ہمارے ہاں اردو لکھنے پڑھنے واال بڑا طبقہ مذہبی ہے اور اسے عربی الفاظ کو عربی اصل کے ساتھ امالء اور‬
‫عربی لہجے میں ادائیگی کی ایسی عادت ہے کہ اسے ترک کرنے کی دعوت دینا بھی تکلف محض ہے۔‬

‫اسی طرح ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ جن عربی الفاظ کے آخر میں الف مقصورہ ہے تو ان کو اردو میں "الف" کے‬
‫ساتھ لکھا جائے اور "یاء" کو امالء میں سے ختم کر دیا جائے مثال "تقوی" کو اردو میں "تقوا" اور "دعوی" کو "دعوا"‬
‫لکھا جائے۔ یہ بھی تکلف ہی ہے کہ یونانیوں کے اصول "شعور حرف بوسیلہ سماعت" کے مطابق اس کی امالء "تقوی"‬
‫رکھنے میں بھی حرج نہیں‪ X‬ہے اور مجھے بھی یہی پسند ہے کہ اس سے ہم عربی اصل سے بھی جڑ جاتے ہیں اور یہ‬
‫دو علیحدہ حروف معلوم نہیں ہوتے اور رائج اور عرف کا بھی دھیان رہ جاتا ہے۔‬

‫اب "لیے" اور "دیے" وغیرہ کو "لئے" اور "دئے" لکھنا چاہیے یا "لیئے" اور "دیئے"‪ X‬تو اس میں ماہرین لسانیات میں‬
‫تینوں رائے موجود ہیں۔ کچھ صرف "یاء" سے لکھتے ہیں‪ ،‬کچھ صرف "ہمزہ" سے اور کچھ دونوں سے اور ہر کسی‬
‫کے پاس اپنی اپنی دلیل موجود ہے۔ اردو میں شامل کیے جانے والے انگریزی الفاظ کو ایک ساتھ لکھنا چاہیے یا علیحدہ‬
‫علیحدہ مثال "یونیورسٹی" کو "یونی ورسٹی" تو اس بارے میں دونوں رائے موجود ہیں اور دونوں کے پاس اپنی اپنی‬
‫دلیل ہے۔ میری رائے میں بس کوئی سی صورت آپ کو اچھی لگے‪ ،‬اسے اختیار کر لیں اور دوسرے کی "تصحیح" یا‬
‫"اصالح" کا فریضہ سرانجام نہ دیں کہ تا حال امالء کی بہت سی صورتیں متفق علیہ نہیں ہیں۔‬

‫"شعور حرف بوسیلہ حدوث"۔‬


‫ِ‬ ‫"شعور حرف بوسیلہ سماعت" اصل ہے یا‬
‫ِ‬ ‫اصولی اختالف اس بارے میں یہ ہے کہ‬
‫یونانیوں کا کہنا یہ ہے کہ حرف کے اسی شعور کا اعتبار ہو گا جو سماعت سے حاصل ہوتا ہے جبکہ اہل ہند کا عمومی‬
‫رجحان اس بارے یہ ہے کہ حرف کا شعور وہی معتبر ہے جس کی ادائیگی پر انسان قدرت رکھتا ہو۔‬

‫اسے ایک مثال سے یوں سمجھیں کہ عربی زبانی میں "ڑ" نہیں ہے تو اگر اہل عرب "پہاڑ" کا لفظ سنیں گے تو اب اس‬
‫"پہاڑ" کے لفظ کی ادائیگی میں ان کے لیے "سماعت" اصل ہے یا "حدوث" یعنی انہوں نے جیسے یہ لفظ سنا ہے‪ ،‬ایسے‬
‫کے ]‪ [larynx‬ہی اس کی ادائیگی ضروری ہے یا اس لفظ کی ادائیگی ویسے ضروری ہے جیسے ان کے حنجرہ صوت‬
‫لیے آسانی ہو؟‬
‫میرا رجحان اس طرف ہے کہ یہ دونوں اصول اپنی جگہ درست ہیں اور کسی زبان کی امالء میں ان دونوں سے برابر‬
‫طور استفادہ کرنا چاہیے اور استفادے کی اصل عرف اور رواج کو بنایا جائے کہ زبان میں جو امالء رائج اور عام ہے‪،‬‬
‫اگر وہ ان دونوں میں سے کسی بھی اصول کے تحت آ رہی ہے تو اسے رائج رہنے دینا چاہیے‪ ،‬اس کی اصالح یا‬
‫تصحیح پر اصرار وقت کا ضیاع ثابت ہو گا۔ واضح رہے کہ امالء کی تصحیح اور اصالح میں بھی فرق کیا جاتا ہے کہ‬
‫تصحیح‪ ،‬غلط امالء کی ہوتی ہے جبکہ اصالح سے مراد راجح امالء کا تعین ہے۔‬

‫‪https://www.facebook.com/UrduMagazineAustralia/posts/875900945902008/‬‬

You might also like