You are on page 1of 2

‫وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے‬

‫ایسی بولی وہی بولے جسے اردوآئے‬


‫اردو عالمی سطح پر مقبول زبان ہے۔ اس زبان کی شیرینی اور شعر و ادب نے لوگوں کو بال لحاظ‬
‫مذہب و ملت اس کی جانب راغب کیا ہے۔ لوگ اردو شاعری کو پسند کرتے ہیں۔ اردو غزل پر سر‬
‫دُھننے والے آج بھی کئی لوگ ہیں۔ اردو@ مرثیے اور دیگر‬
‫اصناف نے اپنی ہمہ گیریت سے دیگر زبانوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس زبان کی مقبولیت کی ایک اہم‬
‫وجہہ اس کی زندہ دلی ہے۔ اردو زبان میں کسی بھی زبان کا لفظ آسانی سے شامل ہوجاتا ہے۔ جس سے‬
‫اردو کا دامن وسیع ہوا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں ہی اردو بولنے والوں کی تعداد ‪20‬کروڑ سے‬
‫ذیادہ ہے۔ اور اس عوام کا بڑا طبقہ اپنی مادری@ زبان یعنی اردو میں تعلیم حاصل کرتا ہے۔ انگریزی@‬
‫زبان اور مقامی زبان کے اثرات کے باجود آج بھی اردو سے تعلیم حاصل کرنے والوں کی ایک بڑی‬
‫تعداد ہے۔ اردو@ ذریعہ تعلیم سے کیامسائل ہیں اور ان کا حل کیسے پیش کیا جاسکتا ہے ۔‬
‫کسی بھی زبان کوذریعہ@ تعلیم بنانے کیلئے چند باتوں کا ہونا ضروری@ ہے اس سے متعلق انعام ہللا‬
‫خاں شیروانی@ رقمطراز@ ہیں۔‬
‫'' ذریعہ@ تعلیم سے مرادوہ طریقہ کار ہے جس کی وساطت@ سے استاد طلباء کو سمجھاتا ہے اور جس‬
‫کے ذریعہ طلباء استاد کی باتیں سمجھتے ہیں ہر ایک زبان ذریعہ@ تعلیم نہیں ہو سکتی کسی زبان میں‬
‫ذریعہ تعلیم بننے کے لیے درج ذیل باتوں کا ہونا ضروری@ ہے۔‬
‫‪1‬۔معلم اور متعلم دونوں اس زبان کو بولتے اورسمجھتے ہوں ‪2‬۔زبان میں خاطر خواہ وسعت ہو ‪3‬۔‬
‫ذخیرہ الفاظ کافی ہو اور مزید الفاظ کو وضع کرنے کی گنجائش ہو ‪4‬۔اس زبان کے ذریعہ اعلی تحقیق و‬
‫تدقیق ممکن ہو ‪5‬۔زبان سہل اور آسان ہو اس میں‬
‫قواعدکی پیچید گی نہ ہو ‪6‬۔اس زبان میں ادب اور دیگر علوم و فنون کی کتابوں کی کثرت ہو ‪7‬۔جس‬
‫خطے کی زبان ہو وہاںوہ مرغوب ہو)‬
‫بچے کو ابتدائی@ تعلیم مادری@ زبان میں دی جائے تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ زبان سیکھ جاتاہے اور‬
‫باتیں بھی آسانی سے اس کی سمجھ میں آجاتی ہے اس لئے ماہرین تعلیم اور دانشور@ لوگوں کا کہنا ہے‬
‫کہ بچہ کی ابتدائی تعلیم مادری@ زبان ہی میں ہونی چاہئے تاکہ بچہ آسانی سے علم سیکھ سکے اور ساتھ‬
‫ہی ساتھ دیگر زبانوں سے بھی بچہ کو واقف کروایاجائے یا سکھایاجائے۔مادری@ زبان سے انسان کی‬
‫فطرت کھلتی بھی ہے اور نکھرتی@ بھی ہے دنیا کے تقریبا ً تمام ترقی@ یافتہ ممالک میں بچہ کی ابتدائی‬
‫تعلیم کے لئے مادری@ زبان کو ذریعہ تعلیم الزمی قرار دے رکھاہے۔ دراصل ماں کی گود بچے کا پہال‬
‫مکتب ہوتی ہے اور بچہ اس مکتب کے ذریعہ وہی کچھ سیکھتا ہے جو ایک ماں اپنے بچہ کو سکھاتی‬
‫ہے اس لئے کہایہ جاتاہے کہ مادری زبان انسان کی جبلت کاجز ہواکرتی ہے ۔‬
‫بچہ کی ذہنی نشوونما@ صرف اور صرف مادری@ زبان ہی میں ممکن ہے اکیسویں صدی میں ہر فرد‬
‫کی ترجیح انگریزی زبان اپنے بچوں کو سکھانے کی ہے لیکن یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہئے کہ‬
‫انگریز بھی اپنے بچوں کومادری زبان ہی میں تعلیم دلواتے ہیں ہمیں چاہئے کہ اپنے بچوں کو مادری‬
‫زبان اردو میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کریں ساتھ ہی ساتھ دیگر علوم کو بھی سکھائیں تاکہ‬
‫دور حاضر کے تقاضوں کی تکمیل ممکن ہو۔‬
‫اردو تعلیم کا نظم اسکول انتظامیہ اور والدین کی خواہشات کے مطابق@ ہوتا ہے۔مگروہاں@ بھی اردو کی‬
‫تدریس کا معیار نہیںپایاجاتاجو@ ان اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کسی بھی دوسری@ زبان کاہے ‪،‬‬
‫ہندستان میں اردو زبان کے موجودہ نصاب کے تحت ایسا تدریسی@ مواد تیار کرنے کی کوئی کوشش کی‬
‫زیر تعلیم طلبہ کی مدد‬‫ہی نہیں گئی جو اردو@ زبان کی فہم اور اردو ادب کو سمجھنے میں اسکولوں میں ِ‬
‫کر سکے۔‬
‫اردو ذریعہ تعلیم کے لیے نصاب کی کتابیں تیارتو@ ہورہی ہے لیکن ان کا میعار پائےدار نہیں ہے‬
‫اس تیار کردہ نصاب سے طلبہ میں اردو@ زبان کی فہم بہت کم پیداہو@ رہی ہے ساتھ ہی طلبہ میں دل‬
‫چسپی پیدا کرنے میں موجودہ نصاب ناکام ہے۔‬
‫اردو کی کتابوں کی چھپائی وغیرہ بھی نہایت کم درجے کی ہوتی@ ہے اور پیپر کی کوالٹی بھی عمدہ نہیں‬
‫ہوتی۔ یہ نصابی@ کتابیںان اساتذ کے ذریعے تیار کروائی جاتی ہیں جو بچوں کو عصری ٹکنالوجی‬
‫پڑھانے کے طریقوں اور بچوں کی نفسیات سے اکژناواقف@ ہوتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں اردو زبا ن کا‬
‫تدریسی مواد انگریزی@ ذریعہ تعلیم اسکولوں میں موجود@ نصابی مواد کی طرح میعاری نہیںہوتا ۔‬
‫ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو@ ذریعہ تعلیم کا نصابی مواد ایسا ہو جس سے طلبہء اردوزریعہ@ تعلیم‬
‫کی طرف@ زیادہ راغب ہواور انکی صال حیتوں میں بھی نکھار پیدا ہوہے۔ تاکہ اردو ذریعہ تعلیم حاصل‬
‫کرنے والوں کواچھی نوکریاں بھی بہ آسانی مل جائیں اور اردوطلبہ@ دیگر زبانوں میں علم حاصل کرنے‬
‫والوں کے مقابلے میں بہتر ہو۔ ‪،‬‬
‫''بچے کی طرف سے جب ساری دنیا مایوس ہوجاتی@ ہے تو دو آدمی ہیں جن کے سینے میں امید باقی‬
‫رہتی ہے ایک اسکی ماں اور دوسر@ اچھا استاد''۔‬
‫اچھے معلم کے لیے ضروری ہے کہ صرف نصابی کتب پڑھانے کے ساتھ بچوں کی اخالقی تربیت پر‬
‫بھی توجہ@ دیں۔ ہمارے ہاں اخالقیات پر خصوصی@ توجہ دینے کی ضرورت ہے‬
‫ہماری ذمہ داریاں‪:‬‬
‫اردو زبان کی صورتحال@ کو موجودہ دور@ میں ہر طرف چیلنجز کا سامنا ہے ایک طرف@ تو اردو زبان‬
‫حکومت کی نا انصافیوں کا شکار ہے اور اپنے حق کو منوانے میں لگی ہے تو دوسری@ طرف اردوسے‬
‫تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو بہتر روزگار@ کے مواقعوں کا سامنا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کے‬
‫میدان میں بھی اردو زبان اوراردو ذریعہ تعلیم کو ختم کرنے کی سازشوں کا سامنا ہے۔ اردو کے طالب‬
‫علموں کے سامنے ایک اوربڑا چیلنج اپنی زبان کو عصری تقاضوں سائنس اور ٹکنالوجی@ سے جوڑنے‬
‫اور زمانے کے ساتھ ساتھ قدم مالکر چلنے کا سامنا بھی ہے اس کے عالوہ اور بہت سے چیلنجز اردو‬
‫زریعہ تعلیم اور طلباء کو درپیش ہے۔‬
‫اردو اساتذہ طلباء کی اکثریت آج کے عالمی حاالت اور ماحول دونوں سے بے خبر ہےں ۔ اردو‬
‫ذریعے تعلیم کے طلبا میں پائی جانے والی مایوسی کو کم کیا جائے اور انہیں بھی ترقی@ کے بھر پور@‬
‫مواقع فراہم کئے جائیں تو اردو کا اور اردو ذریعے تعلیم سے آگے بڑھنے والے طلباء کا مستقبل تابناک‬
‫داغ کا یہ شعر ایک مرتبہ پھر اپنے مفہوم کو ادا کر سکتا ہے کہ‬ ‫ہوسکتا ہے اور ؔ‬
‫اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں ؔ‬
‫داغ‬
‫ہندوستان میں دھوم ہماری زبان‬
‫کی ہے‬

You might also like