Professional Documents
Culture Documents
6509 2
6509 2
Code 6509
سوال نمبر :1تدریس قرات اور نثر کے تقاضوں اور طریقوں کا موازنہ کریں؟ تدریس اردو کی عملی مشقالت اور انداز
کو مثالوں کی مدد سے واضح کریں؟
یہ زبان گنگا جمنی تہذیب کی ایک بہترین مثال رہی ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف میر ،غالب اور اقبال نے اس
زبان کو عروج و ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا وہیں دوسری طرف کرشن چندر ،فراق گورکھپوری اور پریم چند نے
اسے سینچنے اور سنوارنے کے لئے اپنے تن ،من اور دھن کی بازی لگادی ۔ اردو زبان کی اسی گنگا جمنی تہذیب کی
اہمیت و افادیت کی وجہ کر اردو کے معلم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مندرجہ ذیل اوصاف (جو نکات کی شکل
میں تحریر کی جارہی ہیں) سے اپنی شخصیت کو متصف کرے تب جاکر ایک اردو کے معلم کما حقہ اردو کے معلم
کہالنے کے مستحق ہونگے ۔
()1مادری زبان پر عبور حاصل ہونا ۔ایک اردو کے معلم کو چاہئے کہ وہ مادری زبان(اردو) پر عبور حاصل کرے نیز
زبان کا صحیح تلفظ ،پڑھنے اور بولنے میں روانی ۔وقت و حاالت کے اعتبار سے جملوں کا استعمال ،قواعد کا علم ،تغیر
لحن ،زبان کی ساخت پر نظر اور الفاظ کے ذخیرہ سے اپنی شخصیت کو متصف کرے کیونکہ زبان پر عبور کے بغیر
معلم درس و تدریس کا عمل اچھے انداز میں نہیں کرسکتے ۔
()2زبان و مضمون سے محبت ۔ ا یک معلم کوچاہئے کہ وہ اپنی زبان و مضمون سے محبت کرے کیونکہ طلبہ معلم کا
عکس ہواکرتے ہیں اس لئے معلم کو کثرت مطالعہ ،اس زبان کے متعلق کی گئی پروگرام میں شمولیت ،مضمون نگاری
اور لکچرمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے اور اپنی زبان کو لے کر احساس کمتری کا شکار نہ ہونا چاہئے ۔اپنی زبان
سے مطمئن اور خوش رہنا چاہئے تاکہ طلبہ میں دلچسپی کا مادہ پیدا ہو
()3کثرت مطالعہ کا شوق ایک کامیاب معلم کی صفت ہوتی ہے کہ اس کا مطالعہ کبھی نہیں رکتا جس کی وجہ کر اس
کے علم میں اضافہ اور الفاظ کا ذخیرہ جمع ہوجاتا ہے اور وہ اس کی نئی معلومات میں اضافہ کا باعث بنتا ہے جس کی
وجہ کر اس کی شخصیت نکھر اور بکھر جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ فصاحت و بالغت کے آسمان پر پہنچ جاتا
ہے اور ان کی زیر تربیت طلبہ ادیب ،شاعر اور مفکر بن کر دنیا کے سامنے آتے ہیں ۔
()4درس و تدریس کے طریقہ سے واقفیت ۔ایک بہترین معلم کادرس و تدریس کے طریقہ سے واقفیت رکھنا بہت
ضروری ہے کیونکہ نصاب کے اندر بہت سارے مضامین ہوا کرتے ہیں مثال نظم ،نثر ،ڈرامہ وغیرہ تو ایک معلم کو
چاہئے کہ وہ نظم کو گنگنائے اور طلبہ کو بھی گانے کے لئے کہے ڈرامہ میں ڈرامائی انداز اختیار کرے اور اس میں
طلبہ کی مکمل شمولیت ہو اور نثر میں مثال سے اصول کی جانب ،لکچر ،بحث و مباحثہ یا سوال و جواب واال طریقہ
اختیار کرے
()5تعلیمی توضیحات تعلیمی توضیحات یہ معلم کاہتھیار ہے اس سے درس میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور درس کا تصور
واضح ہو جاتا ہے اور طلبہ کو بات سمجھ میں آجاتی ہے جس کی بنا پر معلم اپنی تصور میں کامیاب ہو جاتا ہے اور طلبہ
کی تعلیمی زندگی میں نکھار اور سدھار پیدا ہونے لگتا ہے ۔معلم تعلیمی توضیحات کے اعتبار سے چند معاون چیزوں کا
استعمال کر سکتے ہیں مثالً چارٹ ،سالئیڈس ،ماڈلس ،آڈیو اور ویڈیو وغیرہ
()6دیگر مضامین کا علم ایک معلم کو دیگر مضامین کا علم رکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے نصاب کا ربط قائم
ہوتا ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ کمرہ جماعت میں مختلف مضامین کے طلبہ ہوتے ہیں اور ان کے شکوک و شبہات
کو اس کی مدد سے ختم کیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر کمرہ جماعت میں ہندی ،اردو ،انگلش ،جغرافیہ اور سائنس
وغیرہ کے طلبہ ہوتے ہیں تو ان کو ان ہی کی زبان میں سمجھایا جائے تو طلبہ کو آسانی سے بات سمجھ میں آئے گی
اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب معلم دیگر مضامین کا علم رکھے ۔
()7اردو کی ادبی ،تہذیبی اور نصابی سرگرمیاں ۔بحیثیت معلم ایک اردو معلم کو چاہئے کہ وہ اردو کی ادبی ،تہذیبی،
ثقافتی اور نصابی سرگرمیاں کو بہتر بنائے اور طلبہ میں مشارکت کا شوق پید ا کرے مثال کے طور پر غالب و میر یا
عالمہ اقبال کے یوم پیدائش پر پروگرام کرنا ۔اسکول میں کسی بڑے اردو شاعر یا ادیب کو بالنا اور تقریری و تحریری
مقابلہ ،نظم گوئی یا ڈرامہ کا پروگرام کرانا تاکہ طلبہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور اسے اردو ادب سے شوق پید ا ہو اگر
ایسا ہوا تو یہی طلبہ آگے چل کر اردو کے بڑے بڑے ادباء ،شعراء اور قلمکاروں میں اپنا نام درج کرا سکتے ہیں ۔
()8سائنسی رجحانات اور نظریہ عصر حاضر کا زمانہ سائنس و ٹکنالوجی کا زمانہ ہے اس لئے معلم اردو کو چاہئے کہ
وہ اپنے آپ کو نصابی کتابوں تک محدود نہ رکھے بلکہ سائنس و ٹکنالوجی کا علم بھی رکھے اور اسے کمرہ جماعت
میں عملی جامہ پہنائے تاکہ طلبہ میں زمانے سے قدم مالنے اور وقت کے ساتھ چلنے کا شوق پیدا ہو ۔
()9جمہوری نظریہ اور رویہ معلم اردو کو چاہئے کہ وہ جمہوری نظریہ کا حامل ہو تمام طلبہ کو ایک نظر سے دیکھتا
ہو ذات پات ،دین و دھرم ،مسلک و منہج اور رنگ و نسل کی وجہ سے نہ کسی سے محبت رکھتا ہو اور نہ ہی عداوت
کرتا ہو بلکہ ان چیزوں سے اوپر اٹھ کر تمام طلبہ کو ایک نظر سے دیکھتا ہو ۔تب جاکر طلبہ کے اندر معلم کے تئیں
اعتماد اور بھروسہ آئے گا اور ان کی زندگی نکھر اور سنور جائے گی ۔
()10نفسیات کا علم معلم اردو کو چاہئے کہ وہ نفسیات کا علم رکھتا ہو کیونکہ اس کے بغیر وہ نہ تو طلبہ کی کردار
سازی کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے سمجھ سکتا ہے ۔
()11اخالقی شخصیت معلم اردو کو چاہئے کہ وہ اخالق و کردار کے بہترین عہدہ پر فائز ہو کیونکہ طلبہ استاد کا عکس
ہوا کرتے ہیں اس لئے استاد کے اندر نیکی و پارسائی ،ہمدردی و غمگساری ،بھالئی و ایمانداری صبر و تحمل اور الفت
و محبت ہونی چاہئے تب ان کے طلبہ ان کے نقش قدم پر چلیں گے اور ان کی شخصیت ایک بہترین شخصیت بنے گی ۔
()12اصول و ضوابط اور وقت کی پابندی معلم اردو کو چاہئے کہ وہ اصول و ضوابط اور وقت کی پابندی کرے کیونکہ
اگر معلم ایسا کریں گے تو طلبہ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں گے جس کی وجہ کر درس و تدریس میں نہ تو تاخیر ہوگی
اور نہ ہی طلبہ کا وقت ضائع ہوگا ۔اس کے نتیجے میں ایک بہترین اور پرسکون ماحول میں عمدہ تدریس اور طلبہ کے
روشن مستقبل کی امید یقینی بن جائے گی ۔
()13مستقل مزاجی معلم اردو کو چاہئے کہ وہ مستقل مزاج ہو ۔آپسی تناؤ یا گھر کا جھگڑا لے کر اسکول نہ آتا ہو ۔اسکول
آکر تمام طلبہ و اساتذہ کے ساتھ خوش مزاجی سے رہتا ہو ۔کالس میں نہ تو بہت زیادہ غصہ اور نہ ہی بہت زیادہ ہنسی کا
مظاہرہ کرتا ہو ۔طلبہ کے درمیان تنازعات کو بہترین اور پرسکون طریقے سے حل کرنے کی صالحیت رکھتا ہو ۔مستقل
مزاجی اس لئے بھی ضروری ہے کہ معلم کا تعلق سماج سے براہ راست جڑا ہوا ہوتا ہے ۔
()14احساس ذمہ داری اور فرض شناسی معلم اردو کو چاہئے کہ وہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی کی صفت سے
متصف ہو مثال مکمل تیاری اور ایمانداری سے تدریس کا فریضہ انجام دینا ۔طلبہ کی کردار سازی اور ان کی تربیت
کرنا ،اسکول او کمرہ جماعت کا ماحول درست کرنا ۔اس کی اشیاء کا بہترین استعمال کرنا اور اس کی ترقی کے لئے فکر
مند رہنا وغیرہ
()15اسکول و سماج کی نشو نما کسی بھی اسکول کا تصور سماج کے بغیر ممکن نہیں ٹھیک ایک بہترین سماج کا
تصور اسکول کے بغیر محال ہے کیونکہ اس کی ترقی اور نشو نما کی وجہ کر طلبہ بااخالق و باکردار بن کر ایک
بہترین شہری بن کر سماج میں جاتے ہیں اور سماج میں امن و سکون ،الفت و محبت اور عدل و انصاف کی خوشبوں
پھیالتے ہیں اس لئے ایک معلم کے ساتھ ساتھ سماج کے افراد کو بھی چاہئے کہ وہ اسکول کو بہتر بنانے کے لئے فکر
مند رہیں مذکورہ باال نکات کے ساتھ ساتھ کچھ اور نکات ہیں جو معلم اردو کے لئے ضروری ہیں لیکن مضمون کی
طوالت کے خوف سے ذیل میں ان نکات کو مختصرا ذکر کیا جارہا ہے ۔
()19اچھی صحت
()20اچھی یاداشت
()21بہترین اداکار مذکورہ باال صفات ایک معلم کے لئے بہت ضروری ہیں جو معلم ان صفات سے متصف ہوں گے یقینا
ان کی تدریس مؤثر اور خوبصورت ہوگی جن کے لئے شاعر کو بھی مجبورا کہنا پڑا ۔ جن کی تدریس سے آتی ہو
صداقت کی مہک ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتا ہے
https://urdu.udannews.in/2019/08/21/some-importance-of-urdu-teacher/
سوال نمبر :2تدریس نظم اور غزل کے بنیادی امور اور تدریسی طریقوں کو کا موازنہ کریں؟ اور ان کے روایتی اور
جدید سبقی نمونوں کا موازنہ کریں؟
غزل اردو شاعری کی مقبول ترین صنف سخن ہے اور اپنے آغاز ہی سے ہماری شاعری کی روح رواں بنی ہوئی ہے۔
بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ولی دکنی کی دہلی آمد ( )1700سے انجمن پنجاب الہور کے مشاعروں میں محمد حسین آزاد
اور حالی کی کوششوں کے تحت وجود میں آنے والی جدید نظمیہ شاعری کے آغاز ( )1875تک غزل ہی اردو شاعری
اعلی پر قابض تھی تو غلط نہ ہوگا۔ حاالں کہ دوسری کالسیکی اصناف قصیدہ ،مثنوی ،مرثیہ ،رباعی وغیرہ
ٰ کے اقتدار
بھی اپنا علیحدہ اور مستحکم وجود رکھتی تھیں تاہم غزل کے آگے ان کی حیثیت سورج کی روشنی میں چراغوں جیسی
تھی۔ جدید شاعری اور اس کے بعد کی مختلف ادبی تحریکوں اور رجحانوں خصوصا ً ترقی پسند تحریک ( )1936کے
زور پکڑنے اور اس تحریک کے ذریعے غزل کو پس پشت ڈال کر مربوط ومسلسل نظموں پر ساری توجہ مبذول کیے
جانے کی وجہ سے غزل کی مقبولیت میں وقتی طور پر کمی واقع ہوگئی تھی اور پھر اسی عہد میں غزل کی مخالفت میں
شدت پیدا ہوئی۔ مخالفین نے غزل کی انھیں روایات پر ضرب لگانے کی کوششیں کیں جو اس کی خاص پہچان تھیں اور
جن کے حوالے سے غزل نہ صرف اپنی شناخت قائم رکھنے بلکہ اپنا تعارف کرانے میں فخر محسوس کرتی تھی چنانچہ
کچھ عرصے غزل مخالفین کے دبائوں میں رہی۔اس کی جاذبیت اور مقبولیت کچھ ماند سی پڑنے لگی لیکن یہ صورت
حال عارضی ثابت ہوئی اور بہت جلد اس نے اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلیا۔
غزل کی وہ انفرادیت جس میں اس کی بے پناہ جاذبیت اور مقبولیت کا راز پوشیدہ ہے ۔ آخر ہے کیا؟ اس سوال پر غور
کرتے ہوئے جب ہم غزل کی جانب بہ نظر غائر دیکھتے ہیں تو ہر شے کی طرح اس کے بھی دو پہلو صاف طورپر
عیاں ہوجاتے ہیں یعنی ایک خارجی پہلو یعنی ہیئت اور دوسرا داخلی پہلو یعنی موضوع اور مواد۔
خارجی پہلو کے لحاظ سے غزل کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ غزل اشعار کے اس مجموعے کا نام ہے جو وزن ،
بحر ،قافیہ ،ردیف اور مصرعوں کی خاص ترتیب و تنظیم کے تابع ہو۔ غزل کے الزمی اجزا میں وزن بحر اور قافیہ
شامل ہیں اور انھیں تینوں کو غزل کی زمین کہا جاتا ہے مگر ایک مکمل غزل میں وزن بحر اور قافیے کے عالوہ مطلع
،زیب مطلع ،مقطع ،ردیف اور شاعر کا تخلص وغیرہ بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ مطلع غزل کا وہ پہال شعر ہے جس کے
دونوں مصرعے ہم قافیہ اور اگر غزل میں ردیف بھی ہے تو ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔ بعض غزلوں میں ایک سے
زیادہ مطلع بھی ہوسکتے ہیں۔ مطلعے کے بعد واال شعر زیب مطلع یا حسن مطلع کہالتا ہے۔ واضح ہو کہ غزل میں ردیف
ضروری نہیں مگر قافیہ ضروری ہے۔ یہ ایک بات ہے کہ ردیف ،غزل کے حسن ،روانی ،موسیقی اورمعنویت میں
اضافے کا باعث ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اردو کی بہت کم غزلیں غیر مردف ہیں ورنہ بیشتر غزلوں میں ردیفوں کا
التزام کیا گیا ہے۔
بعض حضرات قافیے کی طرح ردیف کو بھی غزل کا جزو الینفک سمجھتے ہیں۔ مقطع غزل کا وہ آخری شعرہوتا ہے
جس میں شاعر اپنا نام جسے شاعری کی اصطالح میں تخلص کہتے ہیں شامل کرتاہے۔ تخلص شاعر کا اصلی نام بھی
ہوسکتا ہے اور قلمی نام بھی۔ ہر غزل میں مطلعے سے مقطعے تک باقی اشعار کے دوسرے مصرعے مطلعے کی بحر
اور قافیے کے پابند ہوتے ہیں۔ غزل میں ردیف ہر شعر کے بالکل آخر میں آتی ہے اور بدلتی نہیں پوری غزل میں ایک
ہی رہتی ہے ۔ قافیے کا مقام ردیف سے پہلے ہے اور اس میں آخری حرف کو چھوڑ کر جسے حرف روی کہتے ہیں
تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ غزل میں اشعار کی تعداد مقرر نہیں ،مگر کم سے کم تین اور زیادہ سے زیاہ سترہ یا انیس
ہوسکتے ہیں۔ ایک غزل میں عموما ً پانچ ،سات یا نو شعر ہوتے ہیں۔ نو سے زیادہ اشعار کی غزلیں بھی بڑی تعداد میں
ملتی ہیں۔ اساتذہ نے سترہ اشعار کے بعد ایک نیا مطلع کہہ کر پھر اسی زمین میں کئی اشعار کہے اور پھر ایک مطلع
کہہ کر مزید اشعار کہے ۔ اس طرح اپنی مشاقی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے استادی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک ہی زمین میں
کہی گئی ایسی طویل طویل غزلوں کو دو غزلہ اور سہ غزلہ کہا جاتا ہے۔ غزل کے اشعار کے تعلق سے ایک خاص بات
یہ ہے کہ ان کی تعداد کچھ بھی ہو مگر جفت نہیں طاق ہوتی ہے۔ جفت وہ عدد ہے جو دو سے تقسیم ہوجائے۔ اور طاق وہ
ہے جو دو سے تقسیم نہ ہو۔ غزل کے اشعار میں طاق کی شرط کا نکتہ یہ ہے کہ غزل کی روایت کے مطابق شاعر کا
محبوب یکتا اور بے نظیر ہے۔ دنیامیں اس کا کوئی ثانی یا جفت نہیں ملتا۔ دوسرے خیال کے مطابق غزل میں عام طور
پر ہجر و فراق کی کیفیت کا بیان ہوتا ہے ۔ عاشق و محبوب ایک دوسرے کے قرب کی لذت سے محروم رہتے ہیں ۔ اس
لیے غزل کی شاعری ہجر و مفارقت ہی کی فضا میں پرورش پاتی ہے اور اس میں ہجر کے مضامین ہی زیادہ ہوتے ہیں۔
ہجر کو طاق سے مناسبت ہے اس لیے غزل کے بیشتر شعرا نے طاق اشعار کی پابندی کا لحاظ رکھا ہے۔
غزل کی سب سے بڑی خوبی جسے بعض ناقدین نے خامی قرار دیا ہے ۔ یہ بیان کی گئی ہے کہ غزل کا ہر شعر اپنے
معنی کے لحاظ سے آزاد ،خود مکتفی ،قائم بالذات اور اپنی جگہ مکمل حیثیت کامالک ہوتا ہے۔ یعنی اپنے سے پہلے اور
بعد والے شعر سے الگ اپنی معنوی پہچان رکھتا ہے یعنی اپنے معنی میں کسی سے اشتراک نہیں کرتا لیکن اگر کوئی
مضمون یا خیال ایک شعر مین نہیں سماتا اور شاعر اسے دو یا دو سے زیادہ اشعار مین تسلسل کے ساتھ بیان کرنا
چاہتاہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے ،اس طور سے غزل کے ان مسلسل اشعار کی حیثیت قطعے جیسی ہوجاتی ہے۔ اس لیے
ان اشعار کو قطعہ بند کہاجاتا ہے۔ قطعہ بند کی نشاندہی کے لیے ’’ق‘‘ قطعہ یا قطعہ بند بھی لکھنے کا رواج ہے۔ تاہم
غزل میں ایسی صورت حال شاذ ہی پیدا ہوتی ہے۔
غزل کی ایک قسم غزل مسلسل بھی ہے۔ پہچان یہ ہے کہ اس کی ظاہری شکل یا ہیئت تو عام غزلوں کی سی ہوتی ہے
مگر اس کے تمام اشعار نظموں کی طرح آپس میں مربوط و مسلسل ہوتے ہیں۔ کالسیکی غزلوں میں ان کی تعداد زیادہ
نہیں ہے البتہ غزل کے وہ معترضین جو غزل میں ہر شعر کی جداگانہ حیثیت کو ریزہ خیالی کہہ کر ہد ف تنقید بناتے ہیں
اپنی غزلوں کے اشعار میں نظموں جیسا ربط و تسلسل پیدا کر کے انھیں ایک موضوعی بنانے کی کوشش کرتے رہے
ہیں۔ جوش ملیح آبادی نے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنی یک موضوعی غزلوں پر نظموں کی طرح عنوانات بھی لگادیے ہیں۔
غزل کے مذکورہ باال پہلو کا تعلق خارجی عناصر سے ہے جس میں ہیئت یا ظاہری شکل و صورت کے عالوہ زبان و
بیان ،طرزاداد اور اسلوب کا اضافہ کیاجاسکتا ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ غزل کی ہیئت سے اس کی پہچان کا گہرا
تعلق ہے۔ شعری ادب میں کچھ اصناف اپنی ہیئت سے پہچانی جاتی ہیں اور کچھ اپنے موضوع اور مواد سے اور کچھ
دونوں سے ۔ موضوع سے پہچانی جانے والی اصناف میں مثال کے طور پر مرثیہ کا نام لیاجاسکتا ہے۔ اسی طرح خاص
ہیئت یا شکل سے پہچانی جانے والی اصناف سخن میں مثلث ،مخمس ،مسدس ،مستزاد ،ترجیع بند ،ترکیب بند ،قطعہ اور
رباعی جیسی اسم بامس ّم ٰی اصناف کے عالوہ غزل بھی شامل ہے۔ موضوع اور مواد سے پہچانی جانے والی اصناف
مینمرثیہ ،شہر آشوب ،ریختی اور واسوخت وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
غزل کے لغوی معنی عورتوں سے عشق و محبت کی باتیں کرنا ہیں۔ ابتدا میں غزل کے بیشتر اشعار اسی معنی کے ارد
گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ غزل کے موضوعات میں تنوع پیدا ہوتا گیا ،یہانتک کہ غزل کے موضوعات
زندگی کے موضوعات کی طرح ال محدود اور المتناہی ہوتے چلے گئے۔ غزل کی ایک داخلی خوبی جو دوسری اصناف
میں نسبتا ً کم پائی جاتی ہے اس کی ایمائیت اور اشاریت ہے۔ شاعری کی دوسری اصناف میں اشعار کے باہمی ربط اور
معنوی تسلسل کی وجہ سے بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی گنجائش اور مواقع ہوتے ہیں۔ اس لیے ان میں
اشاروں کنایوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس غزل میں چوں کہ ہر شعر مکمل اکائی اور کامل نظم ہوتا ہے
اس لیے جو کچھ کہنا ہے بس ایک ہی شعر یعنی دو مصرعوں میں کہنا ہے۔ چند لفظوں ہی میں اپنی بات پوری کرنا غزل
کا فنی اختصاص ہے۔ چنانچہ اس مختصر گوئی کی شرط یا قید کی وجہ سے غزل کاشاعر لغوی کے معنی پر انحصار
نہیں کرتا بلکہ لغت سے باہر آکر الفاظ کے اصطالحی اور مرادی معنی کے ساتھ ساتھ تشبیہات و استعارات کی مدد سے
ایک نیا جہان معنی آباد پیداکرتا ہے۔غزل کا شاعر ایجاز و اختصار ،ایمائیت اور اشاریت کے وسیلے سے غزل کے
اشعار مین وہ منفر جوہرپیدا کرنا چاہتا ہے جسے کوزے میں دریا بھرنے والی خصوصیت کہتے ہیں۔ غزل کی اسی
صفت کی وجہ سے اس کے فن کو چاول پر قل ھوہللا لکھنے کا فن بھی کہتے ہیں۔ غزل کا مزاج اور اس کی خصلتیں
محبوب کے مزاج اور اس کے ناز و ادا و عشوہ اورغمزوں سے بہت ملتی جلتی ہیں یہی وجہ ہے کہ محبوب کی طرح
غزل بھی بات کو سیدھے طور پر کہنے کی بجائے گھما پھرا کر کہتی ہے۔ غزل کا شاعر بالواسطہ طرز اظہار سے کام
لیتے ہوئے کہتا کچھ اور ہے اور اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے
اسی طرز اظہار کی مثال ہے ۔ بظاہر اس مقطعے کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میر نے اسالم چھوڑ کر ہندو دھرم
قبول کرلیا ہے اور وہ مرتد ہوگیا ہے مگر غزل کی روایت کا علم ہونے اور میر کے لب و لہجے پر غور کرنے سے
صاف پتہ چل جاتا ہے کہ میر نے یہ شعر بظاہر تو اپنے لیے کہا ہے مگر اس کانشانہ ’’گندم نما جو فروش‘‘ مذہبی گروہ
کے وہ ظاہر پرست اور ریا کار لوگ ہیں جن کے ظاہر و باطن میں زبردست تضاد ہے۔ شعر میں دین و مذہب اور قشقہ و
دیر کی مذہبی اصطالحات کو لغوی معنی میں استعمال کرنے کے بجائے مجازی معنی میں معروف عالمتوں کے طورپر
استعمال کر کے میرنے اسی گرہ کے رویوں پر طنز کیا ہے ۔ میر اس شعر کے ذریعے ظاہر و باطن کے اسی تضاد،
نمائش اور ریاکارانہ مذہبیت سے اپنی برأت کا اظہار کرتے ہیں۔
جس طرح عشقیہ مضامین غزل کے نیچر میں داخل ہیں اسی طرح خمریات یعنی شراب اور اس کے لوازمات کا ذکر ’’
نیز فقہا اور زہ ّاد اور تمام اہل ظاہر پر طعن و تعریض کرنی،اپنی لیے خواری اور توبہ شکن و خرابات نشینی پر فخر
تقوی کے اعمال و اقوال مینعیب نکالنے اور اسی قسم کی اور باتیں جو عقل و شرع کے خالف
ٰ کرنا اہل شرع اور اہل
ہوں۔ یہ مضامین بھی غزل کے اجزائے غیر منفک قرار پاگئے ہیں۔ سب سے پہلے غزل مین یہ طریقہ شعرائے متصوفین
خسرو وغیرہ۔ چوں
ؔ ؔ
حافظ و رومی اور
ؔ سعدی،
ؔ نے جو اہل ہللا اور صاحب باطن سمجھے جاتے تھے اختیار کیا تھا جیسے
کہ ان لوگوں کی غزل نے ایران اور ہندوستان میں زیادہ رواج اور حسن قبول پایا اور خاص کر خواجہ حافظ کی غزل
جس میں ان مضامین کی بہتات سب سے بڑھ کر ہے حد سے سے زیادہ مشہور و مقبول ہوئیں۔ اس لیے متاخرین نے بھی
ان کی تقلید سے یہی شیوہ اختیار کرلیا۔ مگر ہم کو دیکھنا چاہیے کہ ان بزرگوں نے جو ایسے مضامین باندھے ہیں اس
‘‘قدر غلو کیا ہے اس کا منشا کیا تھا۔
فقہا اور اہل ظاہر ہمیشہ دو فرقوں کے سخت مخالف رہے ہیں ایک اہل باطن کے دوسرے اہل رائے کے،فقہا کے ’’
فتووں کے ان دونوں گروہوں کو ہمیشہ سخت نقصان پہنچتے رہے ہیں۔ قتل کیے گئے ہیں۔ دار پر چڑھائے گئے ہیں۔
مشکیں بندھی ہیں۔کوڑے کھائے ہیں۔ قید بھگتی ہیں ۔ جالوطن کیے گئے ہیں۔ کتابیں جالئی گئی ہیں اور کیا کیا کچھ ہوا
ہے۔ جب کہ فقہا کی مخالفت کا ان لوگوں کے ساتھ یہ حال تھا تو وہ بھی اپنی تصنیفات میں نثر ہو یا نظم خوب دل کے
بخارات نکالتے تھے۔ انھوں نے ان کے اخالق کی قلعی کھولنی شروع کی ۔ انھوں نے کہ شراب خوری و قمار بازی جو ا
اکبر الکبائر ہیں وہ بھی جو فروشی گندم نمائی سے بہترہیں ۔ انھوں نے کہا اعالنیہ کفر بکنا اس سے بہتر ہے کہ دل میں
کفر ہو اور زبان پر اسالم۔ وہ ’’امربالمعروف ‘‘اور ’’نہی عن المنکر ‘‘کرتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اوروں کی ہدایت
کرنے اور اپنے آپ کو گمراہ رہنے سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں۔ وہ کہتے تھے کہ تم حقوق ٰالہی ادا نہیں کرتے۔ انھوں
نے کہا تم حقوق عباد میں خیانت کرتے ہو۔ الغرض شعرائے متصوفین نے جو اہل ظاہر کی خردہ گیریاں کی ہیں وہ اسی
قسم کی تعریضات اور مطارحات ہیں ۔ اس کے سوا ان لوگوں کی غزلوں میں اکثر شراب و ساقی و جام و صراحی اور
ان لوازمات اورخالف شرع الفاظ ،مجاز اور استعارے کے طورپر استعمال ہوئے ہیں۔ یہ لوگ یا تو اس خیال سے دوست
کا راز اغیار پر ظاہر نہ ہو یا اس نظر سے کہ لوگوں کا حسن ظن جو رہزن طریقہ ہے اس سے محفوظ رہیں۔ یا اس لیے
کہ عشق و محبت کی بھڑاس آزادنہ اور رندانہ گفتگو میں بہ نسبت سنجیدہ اور مودب گفتگو کے خوب نکلتی ہے یا اس
غرض سے کہ حریفوں کو چھیڑ چھیڑ کر اور زیادہ بھڑکائیں اور ان کے زجردمالقتی جو بے گناہ ملزموں کو تحسین و
آفرین سے زیادہ خوشگوار ہوتی ہے مزے لے لے کر سنیں۔ روحانی کیفیات کو شراب شاہد کے پیرائے میں بیان کرتے
‘‘تھے۔
تدریس غزل کے باب میں جو معامالت موضوع گفتگو بنے ہیں یا بن سکتے ہیں ان میں غزل کی ہیئت اور اس کے داخلی
اور خارجی پہلوئوں کے عالوہ آغاز و ارتقا ،مزاج اور نوعیت ،موضوعات اور شعریت ،اسالیب و اظہار ،تحریکات و
رجحانات ،رموز و عالئم اور ان کی فکری اور فنی جہات۔ داخلیت ،خارجیت ،مادیت ،رجائیت ،قنوطیت ،ارضیت اور
ماروائیت جیسے میالنات روایت ،بغاوت ،فرسودگی ،جدت ،قافیہ پیمائی ابتذال اور انحراف و اجتہاد جیسے بے شمار
مسائل ہیں جن کی واقفیت کے بغیر تدریس غزل کا حق ادا نہیں کیاجاسکتا۔
غزل کی تفہیم میں جو اصطالحات مدت دراز سے شعر اور شاعر کے تعین قدر کا وسیلہ ہیں ان میں شستگی ،شائستگی،
روانی ،بے ساختگی ،ندرت خیال ،ندرت بیان ،جدت ادا ،جوش بیان ،سوز گداز ،مضمون آفرینی ،معنی آفرینی صداقت
جذبات ،شدت احساس ،نزاکت فکر ،زبان کی سادگی بیان کی صفائی ،سالست ،روزمرہ ،محاورہ ،ضرب المثل ،بندش
کی چستی ،اثر انگیزی ،اثر آفرینی ،جیسے ایمائی حوالے اور صنائع بدائع کے تعلق سے تشبیہ ،استعارہ ،تلمیح ،تضاد ،
مبالغہ ،مراعات النظیر ،رعایت ،مناسبت ،عالمت ،ایہام ،کنایہ ،مجاز ،مجاز مرسل ،لف و نشر ،حسن تعلیل اور اسی
قبیل کی دوسری معروف اور کثیر االستعمال صنعتیں ہیں جن کا علم و اداراک غزل کے استاد کے لیے از بس ضروری
ہے۔
غزل کی خارجی شناخت اور داخلی کیفیات کا علم ہونے کے ساتھ ساتھ اگر اس کے آغاز و ارتقا کا خاکہ بھی ذہن نشیں
کرلیا جائے تو غزل کی تاریخ کا یہ علم تدریسی عمل کو زیادہ دلچسپ ،پرازمعلومات اور پراعتماد بنانے میں مددگار
ثابت ہوگا۔ اس خیال کے پیش نظر غزل کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ غزل عربی قصیدے کی
تشبیب سے علیحدہ کر کے ایک مستقل صنف کے طور پر ایران میں بہ زبان فارسی رائج کی گئی ۔ اگرچہ بعض ناقدین
کی رائے ہے کہ یہ صنف علیحدہ صورت میں عربی زبان میں بھی پہلے سے موجود اور رائج تھی ،بہرحال اردو میں یہ
صنف فارسی کے ذریعہ پہنچی اور جوں کی توں قبول کر لی گئی۔ جوں کی توں قبول کرنے سے مراد یہ ہے کہ اردو
سرمایہ غزل میں ہیئت کے عالوہ وہی موضوعات جو فارسی غزل کا طرۂ
ٔ کی ابتدائی غزلوں میں بلکہ تمام کالسیکی
امتیاز تھے انھیں تشبیہات و استعارات اور لفظیات کے ساتھ مل جاتے ہیں جو ایرانی غزل میں اس کے اجزئاے الزمی
کے طورپر مستعمل رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ تلمیحات اور تشبیہات جن کا تعلق یا تو ایران سے تھا یا عرب سے ایران
پہنچی تھیں اردو غزل نے من و عن قبول کرلیں حاالں کہ بعد میں ان باتوں پر اعتراضات بھی ہوئے۔
ہندوستان میں اردو زبان کا آغاز شمالی ہند یعنی دہلی اور دہلی کے قرب و جوار مینہوا مگر اردو ادب کی ابتدائی کرنیں
جنوبی ہند میں پھوٹتی نظرآتی ہیں۔ اس تعلق سے جنوبی ہند کی ریاستوں خصوصا ً گولکنڈہ اور بیجا پور کی خدمات الئق
ستائش ہیں۔ اردو کا پہال صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ گولکنڈہ کا بادشاہ تھا شمالی ہند میں اردو غزل کا باقاعدہ
آغاز بھی جنوبی ہند ہی کے ایک شاعر ولی دکنی کی دلی آمد ( )1700سے ہوتا ہے ۔ قطب شاہ سے ولی تک تقریبا ً سو
برس کا فاصلہ ہے۔ ولی کی آمد کے بعد دلی میں اردو کا چرچا عام ہوگیا ۔ ولی سے قبل دلّی کے وہ باقاعدہ فارسی شاعر
بطور تفنن طبع فارسی میں ہندوی کا پیوند لگا کر شعر کہہ لیا کرتے تھے۔ ان میں موسوی خاں فطرت ،خواجہ عطا،
مرزا جعفر زٹلّی ،اٹل بلگرامی ار مرزا بیدل وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان میں جعفر زٹلّی نے نہایت بے باکی اور برہنہ
گفتاری کا مظاہرہ کیا اور اسی بے باکی کی وجہ سے بادشاہ وقت کے ہاتھوں اپنی جان بھی گنوائی۔
فغاں ،یک
ناجیؔ ،
ؔ کالم ولی کے ایہام نے شعرائے دہلی کا دل موہ لیا۔ ولی کی دلی سے واپسی کے بعد اس فن میں آ ؔ
برو،
مضمون اور حاتم وغیرہ نے پچیس تیس برس خوب گل کھالئے ۔ اسی عہد میں مرزا مظہر جان جاناں نے بھی
ؔ رنگ،
اردو غزل کی آبیاری کی۔ ایہام گوئی کے فیشن کی وجہ سے اس دور کو ’’دور ایہام گویاں‘‘ کہا گیا۔ ’’تالش لفظ تازہ‘‘
اس دور کا طرہ امتیاز تھا۔ بنابریں زبان کی وسعت کے لحاظ سے یہ رجحان بھی مفید ثابت ہوا۔ ان اساتذہ کے بعد اردو
میر ،سود ؔا اور میر در ؔد جیسے عہد آفریں شعرا کے دور کے نام سے یاد کیا جاتا
غزل کا وہ سنہری دور شروع ہوا جسے ؔ
ہے۔ اس دور میں اردو غزل نے بے مثال ترقی کی۔ ان اساتذہ نے اردو غزل کے ایسے معیارات اور اسالیب مقررکردیے
جن کے آثار آج تک دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کے فورا ً بعد انشاء ،مصحفی ،جرأت ،آتش ،ناسخ وغیرہ کا زمانہ آتا ہے
اور اسی عہد سے منسلک ایک اور نئے دور کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔ یہ دور غالب ،مومن اور ذوق جیسی نادر
نابغہ روزگار شخص ہے جس نے نہ صرف اردو کی
ٔ روزگار ہستیوں کے وجود سے منسوب ہے۔ ان میں غالب وہ
کالسیکی شاعری کو اپنی انتہا پر پہنچایا بلکہ جدید غزل کا بھی آغاز کیا اور پھر اسے بھی منتہائے کمال تک پہنچا دیا۔
غالب کے بعد غزل نے گویا اپنی معراج حاصل کرلی اور کالسیکی غزل اور جدید غزل دونوں کی بلندیوں کو چھوکر
آگے جانے کے تمام راستے محدود و مسدود کردیے۔ چنانچہ اس رنگ و آہنگ کے متوالے بعد کے شعرانے تقلید وپیروی
کی راہ اپنائی اور اپنے اپنے ذوق و ظرف ،مطالعہ اور فکر کے مطابق تنوع اور جدت پیدا کرنے کی کوشش کرتے
رہے۔ جدت پیدا کرنے کی سعی کرنے والوں نے کہیں لفظیات میں اضافہ کیا ،کبھی خیال کو بدل کردیکھا ،کہیں نئی
امیر ؔ ،
داغ ، اورتازہ تشبیہات کے لیے نئے پہلو تالش کیے اور اپنی کوششوں میں کسی قدر کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ ؔ
جگر وغیرہ جیسے کالسیکی شعرا کے ساتھ ساتھ غزل کے اس سفر
ؔ اصغر،
ؔ فانی،
حسرتؔ ،
ؔ یگانہ،
ؔ بیخود،
ؔ صفی،
ؔ جالل ،
ؔ
فراق ،ناصر
ؔ فیض ،مجروح؎ِ
ؔ میں مختلف تحریکوں اوررجحانوں سے وابستہ شاعر بھی شریک ہوتے گئے۔ ان میں
کاظمی جیسے کئی نام شامل ہیں۔ ان شعرا نے اردو غزل کو خیال کی سطح پر دوسری زبانوں کے ادب سے بھی متعارف
ؔ
اقبال اردو کے عظیم شاعر ہیں۔ انھوں نے بہت اچھی غزلیں کہیں ہیں مگر چوں کہ غزل ان کے مقاصد کی تکمیل
ؔ کرایا۔
کا ذریعہ نہیں بن سکتی تھی اس لیے انھوں نے پابند نظم کو اپنایایا غز ل کی ہیئت میں مربوط و مسلسل غزلیں کہیں جو
ظاہر میں غزل اور باطن میں نظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اس دوران غزل کے معترضین بھی پیدا ہوتے رہے مگر ان معترضین کی تعداد اس کے چاہنے والوں کے مقابلے میں
ہمیشہ مختصر رہی۔ ان معترضین کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جنھیں غزل کے موضوعات اور مواد پر اعتراض ہے ۔
حاالں کہ وہ خود بھی غزل کہتے ہیں۔ اس فہرست میں حالی کا نام سر فہرست ہے۔ حالی نہ صرف ایک اچھے شاعر بلکہ
اچھے انسان بھی تھے۔ ان کے اعتراضات میں اصالح کا پرخلوص جذبہ کارفرما ہے۔ بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے
کوئی ہمدرد انسان اپنی کسی پسندیدہ شے کے خراب ہونے سے بدحظ اور برافروختہ ہوکر ۔ اس کی اصالح کا طالب ہو۔
غز ل کے مواد پر حالی کے اعتراضات کی طویل فہرست ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں شامل ہے۔ حالی کے اعتراضات
کا اتنا شدید رد عمل ہواکہ اس کی مخالفت اور حمایت کا سلسلہ تقریبا ً چالیس سال تک چلتا رہا اور اس حوالے سے غزل
کی تجدید اور احیا کا عمل جاری رہا۔ حالی کے بعد عظمت ہللا خاں اور وحیدالدین سلیم نے بھی غزل پر اعتراضات کیے۔
عظمت ہللا خاں تو غزل سے اس قدر سخت ناراض ہوئے کہ انھوں نے غزل کی گردن بے تکلف اڑا دینے کی صالح دے
ڈالی۔ جوش ملیح آبادی کو غزل کے ہرشعر کی معنوی خود انحصاری پسند نہیں آئی۔ چنانچہ انھوں نے اسے ریزہ خیالی
اور داخلی انتشار کہہ کر مسترد کردیا۔ عندلیب شادانی نے غزل کے رسمی اور تقلیدی انداز بیان پر وہی اعتراضات کیے
جن کی ابتدا حالی سے ہوئی تھی۔ اردو کے مشہور نقاد کلیم الدین احمد نے غزل کو نیم وحشی صنف سخن قرار دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دور میں رشید احمد صدیقی غزل کو ’’اردو شاعری کی آبرو‘‘ کہہ رہے تھے۔ اب
غورفرمائیے کہ اسکولوں میں ایک ایسی صنف سخن کی تدریس کس قدر دشورا ہوگی جس کے اتنے امتیازات ہوں اور
جس پر اس قبیل کے اعتراضات وارد ہوچکے ہوں۔
https://adbimiras.com/ghazal-ki-tadrees-khalid-mahmood/
سوال نمبر :3فن مطالعہ کے تدریسی طریقوں کی اہمیت اور مہارتوں کو اجاگر کریں؟ بچوں میں فن تقریر کو پروان
چڑھانے کے لیے اہم امور اور تدریس پر روشنی ڈالیں؟
مطالعہ علم کو جالبخشتا ہے۔مطالعہ کو علم و دانش کی معدن کہاجاتا ہے۔مطالعہ ذہن کو بنجر پن سے محفوظ رکھتا
ہے۔مطالعہ نہ صرف طالب علموں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے بلکہ اساتذہ بھی اس کے ثمرات سے فیض و حظ اٹھاتے
ہیں۔ مطالعہ نہ صرف اساتذہ بلکہ طلبہ کے علم میں ترو تازگی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار انجام دیتا ہے۔طلبہ
مطالعہ کی صحت مند عادات کو اپناکر اپنے علم میں نہ صرف دن دگنی رات چوگنی ترقی کر سکتے ہیں بلکہ اپنی
یاداشت کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔مطالعہ ایک فن ہے ۔طلبہ فن مطالعہ کے اسرار و رموز سے آشنا ہوکر اپنے تحصیل
علم کے سفرکو پرکیف اور آسان بنا سکتے ہیں۔مطالعہ،پڑھنے سے پیشتر،دوران مطالعہ اور اختتام ،ہر مرحلہ میں فکر
خیزی پر منحصر ہوتا ہے۔عام طور پرمطالعہ کی دو اقسام ہوتی ہیں۔
۔ )(serious readingسنجیدہ مطالعہ )(casual reading) (2عام مطالعہ)(1
اخبارات ،رسائل و جرائد اور دیگر مواد جس کے نہ بھی پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑھتا ہے کو عام مطالعہ کہاجاتا
۔طلبہ کے لئے چھپنے ہے۔کیونکہ ان رسائل و جرائد میں چھپنے والے مواد کو یا درکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی
والے تعلیمی رسائل بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔
اس کے برعکس ایسا مواد یا کتب جن میں موجود معلومات کو بازیافت کرنے اوراعادہ کرنے کی ضرورت درپیش ہوتی
(seriousہے ۔خاص طورپر طلبہ کو اس مطالعہ کی سخت حاجت ہوتی ہے۔مطالعہ کی اس قسم کو سنجیدہ مطالعہ یا
سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ )reading
فن مطالعہ کی ایک خاص تکنیکSQ5R
طالب علموں میں سنجیدہ مطالعہ کی عادات کو فروغ دینے اور مستحکم کرنے کے لئے ماہرین نفسیات و تعلیم نے کئی
سود مند طریقہ وضع و ایجاد کیئے ہیں۔مطالعہ کو استحکام بخشنے والے جدید طریقوں میں ماہرین تعلیم و نفسیات کا
ایس ،کیو،فائیو(پانچ) آر)کا طریقہ بہت ہی کار گر اور سود مند ثابت ہوا ہے۔اپنی اثر انگیزی کی وجہ سے مطالعہ (SQ5R
کو عالمی سطح پر بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس مضمون کے ذریعہ اساتذہ اور طلبہ کو SQ5Rکے طریقے
سے متعلق معلومات فراہم کی جارہی ہیں تاکہ اساتذہ اپنے شاگردوں کو اس فن SQ5Rمطالعہ کے نہایت موثر طریقہ کار
سے آراستہ کرتے ہوئے ان کے تعلیمی سفر کو آسان اور موثر بنائیں۔
ایس کیو فائیو آ ر ۔کسی بھی طالب علم کے لئے درسی کتب کے اسباق کو پڑھنا جہا ں مشکل ہوتا ہے وہیں SQ5R
)(concentratrionاسباق کو سمجھنے میں بھی ان کو نہایت دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دوران مطالعہ ذہنی عدم ارتکاز
کی وجہ سے اسباق کو سمجھنے اور مطالب و مفاہیم سے آشنائی پید ا کرنے میں عام طور پر ناکام رہتے ہیں۔ ذہنی عدم
ارتکاز کی شکایت عام طور پر اکثر طلبہ میں پائی جاتی ہے۔ماہرین تعلیم و نفسیات نے مطالعہ کو اثرافرینی اور انہماک
کی حکمت عملی کو وضع کیا ہے۔اس طریقہ کار کو اپناتے SQ5Rو ارتکاز کی خوبیوں سے لیس کرنے کے لئے ہی
ہوئے طلبہ اپنے مطالعہ کو بہتر بناسکتے ہیں اور اپنی یاداشت کو استحکام فراہم کرتے ہوئے فقید المثال کامیابیاں حاصل
)، (biologyحیاتیات )، (chemistryکیمیاء ) (physicsکر سکتے ہیں۔طلبہ کے زیر مطالعہ مضامین خواہ وہ طبیعات
ہو یا پھر ہوابازی یعنی ہوائی جہاز کو اڑانے کی )،(historyتاریخ )،(economicsمعاشیات )،(mathematicsریاضی
طریقہ کو استعمال کرتے ہوئے طلبہ نفس مضمون کو دیرپا ذہن نشین رکھ SQ5Rتعلیم و تربیت ہی کیوں نہ ہو مطالعہ کے
سکتے ہیں اور موضوع کی تفہیم میں بھی یہ طریقہ بہت ہی کارگرثابت ہوا ہے۔
طریقہ کار کیا ہے؛ SQ5R
Questionجائزہ یا سرسری مطالعہ اور Surveryانگریزی لفظ SQدراصل
پر مشتمل ہوتا ہے جس کو درجہ ذیل میں بیان کیا )(Rسوال کا مخفف ہے۔اور یہ طریقہ کار پانچ آر
جامع ()،R=Readسوالنامے کی تیاری()،Q=Questionnaireمطالعہ برائے جائزہ اسباق(S=Surveyجارہاہے۔
یاد ()،R=Rememberاعادہ یا دوبارہ جائزہ لینا()،R=Reviewقرات ،بلند خوانی()،R=Reciteمطالعہ
)اکتساب شدہ معلومات کو امتحان میں اپنے الفاظ اور اپنے انداز میں پیش کرنا ()،R=Reproduceرکھنا
کو احاطہ کرنا ،مطالعہ برائے جائزئہ سبق بھی کہا جاتا ہے۔سبق کو اس کی پہلی سطر سے آخری سطر S = Survery
تک جائزہ لیتے ہوئے احسن طریقہ سے نفس مضمون اور موضوع کا ادراک کرتے ہوئے کئے جانے والے مطالعہ
یامطالعہ surveyیا مطالعہ برائے جائزہ کہاجاتا ہے۔پہلی سطر سے آخری سطر تک انجام دیا جانے واال Surveyکو
برائے جائزہ نہ صرف طلبہ کو سبق کے نفس مضمون کو سمجھنے میں معاون ہوتا ہے بلکہ اس طریقہ کار کو اپناتے
ہوئے طلبہ مضمون نگار کے مافی الضمیر کو بھی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ مطالعہ جائزہ کے ذریعہ طلبہ سبق
میں پوشیدہ مقاصد و مطالب سے آگہی حاصل کر لیتے ہیں۔سبق کی تفہیم کے لئے سود مند سواالت کے جوابات بھی
مطالعہ برائے جائزہ سے حاصل ہوجاتے ہیں۔سبق کے مطالعہ کے بعد ضروری ہوتا ہے کہ طلبہ سبق کے عنوان پر اپنی
توجہ مرکوز کریں۔کسی بھی سبق اور مضمون کا خالصہ اس کے عنوان میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ہمیں یہ خیال رکھنا
ضروری ہے کہ اخبارات ،رسائل و جرائدکے اکثر عنوان موضوع اور مضمون سے انصاف نہیں کر تے ہیں لیکن
اسکول اور کالجوں کے درسی کتابوں مینسبق ،مضمون اور موضوع کے عنوان اکثر موضوع پر سیر حاصل روشنی
پر )(sub headingڈالتے ہیں۔طلبہ عنوان کے مطالعہ اور غور و خوص کے بعد اپنی توجہ سبق کی ذیلی سرخیوں
مرکوز کریں۔ذیلی سرخیوں کے تحت دیئے گئے مواد کا مطالعہ کریں۔سبق میں معنویت و اثرافرینی کی خاطر تصاویر
،نقشے اور خاکے پیش کیئے جاتے ہیں۔اگر سبق میں تصاویر ،نقشے اور خاکے موجو د ہوں تب طلباء خاکوں
،تصویروں اور نقشوں کی اہمیت و حقائق سے آشنائی پیدا کریناور ان میں پنہاں اسرار و معلومات کی جانچ و تحقیق
کریں۔سبق سے متعلق تصویروں ،خاکوں اور نقشوں کے مصور اکثر سبق کا دو تا تین مرتبہ مطالعہ کرتے ہوئے سبق
کے مقاصد اور مطالبات کو سمجھتے ہوئے سبق کے خالصے کو اپنے خاکوں ،نقشوں اور تصاویر کے ذریعہ پیش
کرتے ہیں۔تصاویر ،خاکے اور نقشے سبق اور مضمون کی تفہیم میں نہایت معاون ہوتے ہیں۔بعض اوقات صرف ایک
تصویر،نقشہ اور خاکہ ہی تما م سبق کے خالصے کو عمدگی سے پیش کر نے کے لئے کافی ہوتا ہے اور سبق کو
سمجھنے میں کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔طلبہ نقشوں ،خاکوں اورتصاویر پر توجہ مرکوز کرنے کے بعد اپنی توجہ سبق
پر مبذول کریں۔جلی حروف کے ذریعہ قلم کار اور مضمون نگار اہم نکات کو ) (Italic wordsمیں موجود جلی حروف
واضح کرتے ہیں۔ جلی حروف کے ذریعہ طلبہ مضمون کو سمجھنے اور اہم نکات کے استحضار میں کامیابی حاصل کر
یا اقوال)،(theoriesنظریات)(definitionلیتے ہیں۔اسباق میناکثروبیشتر مخصوص اصطالحات کی تعریف
کو جلی حروف میں پیش کیا جاتا ہے جیسے’’گیڈر کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی )(quotations
‘‘بہتر ہے۔
جائزہ مطالعہ یا سرسری مطالعہ کے بعد سوالنامے یا surveyترکیب میںSQ5R
کو questionnaireکی تیار ی بہت اہم ہوتی ہے۔سبق ونفس مضمون کے ادراک اور تفہیم مینسوالنامہquestionnaire
اکتسابی عمل میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔سرسری مطالعہ کے دوران یا اختتام پر طلبہ کے ذہنوں میں کئی سواالت
سر اٹھاتے ہیں۔طلبہ اپنے ذہنوں میں رقصانسواالت کو فوری ضبط تحریر میں الئیں۔ایک سوال کو تحریر کرتے ہی جوا
بلکھنے کی جگہ چھوڑ کر دوسرے سواالت کو تحریر کرتے جائیں۔سواالت کی وقعت اور اہمیت پر طلبہ قطعی توجہ نہ
دیں۔سبق کی تفہیم میں جو بھی سوال ان کو کارآمد لگے ان کو تحریر کرتے جائیں۔ کسی بھی سوال کو اٹکل پچو نہ
سمجھیں۔طلبہ کے تیار کردہ سوال ضروری نہیں کہ بامعنی اور با مقصد ہوں اور ان میں گہرائی اور گیرائی بھی پائی
کوکبھی دریافت نہیں کر پاتا ) (gravational powerجائے۔نیوٹن اگر اسی طرح سوچتا تو پھر زمین کی قوت کشش
۔نیوٹن کا تجسس اور انداز فکر سب سے ہٹ کر اور انوکھاتھا۔ نیوٹن نے سوچا کہ درخت سے سیب جب گرتا ہے تو کیوں
وہ زمین کی طرف ہی آتا ہے آسمان کی طرف پرواز کیوں نہینکرتا ۔اسی نرالی سوچ نے دنیا کو زمین کی قوت کشش
سے واقف کروایا ۔ طلبہ ہر وقت سواالت کی معنویت اور مقصدیت پر اہمیت نہ دیں کبھی کبھی اس سے قطع نظر بھی
سواالت کوترتیب دینتاکہ تحقیق کے نئے زاویے سامنے آسکیں۔ طلبہ کے سواالت مقصدیت اور معنویت سے ضروری
اور )،(whyکیوں)،(whereکہاں )،(whatکیا )،(whoکون)(whenنہیں کی پر ہوں۔سواالت کی ترتیب کے دوران کب
کا بکثرت استعمال کریں۔کب،کون،کیا،کہاں،کیوناور کیسے سواالت کے جوابات کو الزمی طور پر لکھیں۔ان )(howکیسے
سواالت کے جوابات بے معنی اور مہمل بھی ہوسکتے ہیں لیکن طلبہ اس حقیقت سے قطع نظراس کام کو بڑی دلجوئی
اور یکسوئی سے انجام دیں۔سواالت ترتیب دیتے وقت ایسے الفاظ کو بھی تحریر میں الئینجن کے معنی و مفاہیم سے وہ
میں تالش کریں اور ان ) (dictionaryنابلد ہوں۔ایسے الفاظ کو تحریر کرنے کے بعد ان کے معنی و مفاہیم کو لغت
کے پہلو میں اور ہر پیراگراف کے نیچے یا پہلو میں )(sub headiingsکواستعمال کرنا سیکھیں۔اسی طرح ذیلی سرخیوں
محفوظ رہیں۔
اہم نکات کو تحریر کریں تاکہ اعادہ کے وقت سہولت ہو اور وہ پریشانی اور وقت کے ضیاع سے ٖ
SQ5Rیعنی مطالعہ برائے جائزہ کے بعد پھرسے پڑھنا1R(read)(1) :1R
تکنیک میں بہت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔مطالعہ برائے جائرہ اورسوالوں کو مرتب کرلینے کے بعد طلبہ کو سبق کے
متعلق آگہی پیدا ہوجاتی ہے۔سبق سے آگہی کے باوجود ان کے ذہنوں میں کبھی چند چھوٹے اور کبھی بڑے خدشات و
شبہات پائے جاتے ہیں جو کہ سبق کی تفہیم میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔لیکن مطالعہ برائے جائزہ کے بعد پھر سے سبق
کو پڑھنے سے اس طرح کے شک و شبہات رفع ہوجاتے ہیں۔ طلبہ اپنے سوالنامے میں ایسے سواالت کو شامل کرینجو
سبق کی افہام و تفہیم میں آسانی پیدا کر سکیں۔ان امور یا مشقوں کی انجام دہی کے بعد سب سے اہم کام طلبہ ان الفاظ کو
کرنا ہوتا ہے جنھیں وہ بہت ہی اہم سمجھتے ہوں۔الفاظ کو خط کشیدہ کرنے کے لئے پنسل،پین،یا ) (underlineخط کشیدہ
کا استعمال کریں۔اہم الفاظ اور سطور کو خط کشیدہ کرنے سے الفاظ اور نکات نمایا )(sketch pensپھر رنگین پین
ندکھائی دیتے ہیں اور جب کبھی صفحات کو الٹا جائے یہنکات آسانی سے نظر میں آجاتے ہیں اور آسانی سے نہ صرف
ان کا اعادہ ہوجاتا ہیبلکہ وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ معلومات بھی ذہن نشین ہوجاتی ہیں۔
)2R(Rcite)(2
قرات:عبارت ،سواالت کے جوابات ،اہم الفاظ اور نکات کی صحت مند تلفظ کے اور بلند آواز سے کی جانے والی
کہاجاتا ہے۔سبز ی خوری جانور جیسے گائے بھینس اور بھیڑ وغیرہ چارہ کھانے )(Rciteشخصی بلند خوانی کو قرات
کے بعد کھائی ہوئی تھوڑی تھوڑی غذا کو وقفہ وقفہ سے معدے سے منہ میں ال کر پھر سے چباتے ہیں تاکہ غذا اچھی
طرح سے ہضم ہوکر جزو جسم بن جائے۔بالکل اسی طرح سے طلبہ بھی اکتساب شدہ معلومات کا تھوڑے تھوڑے وقفے
سے اعادہ کریں تاکہ معلومات کو تقویت اور استحکام نصیب ہوپائے۔
؛جو بھی مواد پڑھایامطالعہ کیا جاتا ہے فطری طور پر اس کا %80ہم بھول جاتے )R(Reviewآموختہ یا اعادہ (3)3
ہیں۔%80بھول جانے کے باوجوداکثر لوگ ما باقی %20مواد کو بھی یا د نہیں رکھ پاتے ہیں۔اسی لئے مطالعہ اسباق
تحریر کرنا سود مند ہوتا ہے۔اہم نکات ،نوٹس اور سبق )(synopsisکے دوران اہم نوٹس ،اہم نکات اور سبق کا خالصہ
کو رات کے اوقات میں سونے سے پہلے ذہنی طور پر دہرانے اور اعادہ کرنے سے معلومات ) (synopsisکے خالصہ
ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔خالصہ سبق اور اہم نکات کو ذہن میں ترو تازہ رکھنے کے لئے ابتدامینہر دودن کے بعد دہرانا یا
ان کا اعادہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔دو ہفتے تک اسی طر ح ہر دودن کے بعد گزشتہ معلومات کو دہرانے کے بعد اب دو
دن کے بجائے ایک ہفتہ تک کے بعد معلومات کو دہرا یا جائے اسی طرح یہ عمل چار ہفتوں یعنی ایک ماہ تک انجام
دینے کے بعد معلومات کو اب ایک ہفتہ کے بجائے ایک مہینیکے بعد دہراتے رہیں تاکہ معلومات ذہن میں تازہ ر ہیں۔اس
کی تکنیک پر عمل کرتے Rکے آخری SQ5R3اعادہ کے لئے صرف دس منٹ کا وقت درکار ہوتا ہے۔امتحان کے وقت
سے ) (reviewہوئے طلباء باآسانی امتحان کی موثر طریقے سے تیار ی سرانجام دے سکتے ہیں۔اعادہ ،آموختہ یا دہرائی
نہ صرف معلومات ذہن میں تازہ اور محفوظ رہتے ہیں بلکہ طلبہ نہایت آسانی سے ایک بڑی کامیابی درج کرواسکتے
ہیں۔
)(R؛طلبہ 1تا 3آر)R(Rememberیادرکھنا(4)4
پر عبور حاصل کرتے ہوئے بغیر کسی سعی و کاوش کے اسباق کو یاد رکھنے اور اعادہ کرنے پر قادر ہوجاتے ہیں۔
کے تحت الئیں اور SQ5Rمطالعہ کے لئے طلبہ خو اہ کو ئی بھی طریقہ کار استعمال کریں لیکن اس طریقہ کار کو
پر عمل آوری کے ذریعے اپنے اسباق ،اہم نوٹس ،سواالت و جوابات اور دیگر Rخاص طور پر طلباء مذکورہ باال 3
معلومات کو یا د رکھنے کے قابل ہوجائیں گے۔
؛آخر میں تما م حاصل شدہ معلومات اور علم کو )R(Reproduceاپنے الفاظ میں تحصیل شدہ معلومات کو پیش کرنا(5)5
امتحان میں اپنے الفاظ اور اپنے اندازمیں پیش کرنا ہوتا ہے۔طلبہ سائنسی ،غیر سائنسی اور ادبی نظریات کو اپنے
اندازمیں بہتر الفاظ میں پیش کرتے ہوئے عظیم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
ماہرین تعلیم و نفسیات کے بموجب اکتساب یا سیکھنے کے عمل(آموزش )کے عموما تین اقسام ہوتے ہیں۔
اور ( )3لمسی اکتساب یا عضالتی ))(Auditory learningسمعی اکتساب ()(visual learning)3بصری اکتساب((1)2
۔بہر ے اور سماعت سے معذور افراد پہلے اور تیسرے (ؓبصری اور لمسی اکستاب) )(Kinesthetic learningاکتساب
ذرائع اکتساب سے %100اکتساب کو ممکن بناتے ہیں۔بینائی سے محروم افراد (نابینا) دوسرے اور تیسرے (سمعی اور
لمسی اکتساب) کے ذریعہ اکتسابی سرگرمیوں کو انجام دیتے ہیں۔یہ معذور افراد اساتذہ کی جانب سے پڑھائے گئے اسباق
کو بصارت سے متصف افراد سے بہتر یا د رکھ پاتے ہینکیونکہ ان میں سمعی اور لمس کی صالحیتینبصارت رکھنے
والے افراد سے %50زیادہ پائی جاتی ہیں۔ایک عام آدمی مذکورہ باال اکتساب کے تینوں طریقوں کو اپناتے ہوئے حیرت
انگیز کارنامے انجام دے سکتا ہے۔ہللا رب العزت نے ہم کو سمعی ،بصری اور لمسی صالحیتوں سے نوازا ہے۔اب یہ
ہمار ا کام ہے کہ اکتساب کے تینوں طریقوں کو ہم کیسے بروئے کار التے ہیں۔طلبہ اکتساب کے مذکورہ تین طریقوں اور
افراد کی فہرست میں اپنا نام درج کرسکتے ہیں) (Geniusطریقے پر عمل پیرا ہوکر نابغہ روزگار SQ5Rمطالعہ کے
https://avadhnama.com/muslim-
world/%D9%85%D8%B7%D8%A7%D9%84%D8%B9%DB%81-%DA%A9%DB%92-
%D9%81%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BAsq5r%D8%A7%DB%8C%DA%A9-
%D9%85%D9%88%D8%AB%D8%B1-%D8%AA%DA%A9%D9%86%DB%8C%DA%A9/
سوال نمبر :4انشا پردازی کے ایم مقاصد بیان کریں۔ انشا پردازی کی تدریس سے متعلق مختلف طریقوں کے فواد اور
نقصانات پر روشنی ڈالین؟
جہاں تک اردو زبان میں انشاء پردازی کا تعلق ہے وہ اردو کی ابتداء اور ارتقاء کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی
جب خیاالت کو تحریری شکل دینے کے لئے قلم اور کاغذ کا سہارا لیا گیا تو پھر یہ ضرورت محسوس کی گئی
کہ جس طرح ایک مقرر اور خطیب اپنی گفتگو کو خوبصورت الفاظ سے مزین کر دیتا ہے اور وہ ا ٓواز کے زیر
و بم سے اپنے خیاالت اور تاثرات کا اظہار کرتا ہے جس سے سامعین اور ناظرین بخوبی ا ٓگاہ ہوتے چلے جاتے
ہیں کہ وہ ان باتوں پر زور دے رہا ہے اور اس کا حقیقی مطمع نظر کیا ہے وہ تقریر میں زیر و بم کے ذریعے
حقیقی جذبات تک پہنچتا چال جاتا ہے۔
انہی زیر و بم سے سامعین سحر خطابت میں گم ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کے ایک ایک جملے کو غور سے
سنتے ہیں تحریر میں اور خاص کر نثر میں نثر نگار سامنے تو نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ ا ٓواز کے زیر و بم سے
کچھ تاثر دے سکتا ہے کیونکہ وہ موجود نہیں ہوتا لہٰ ذا نثر نگار کو اپنے جذبات اور خی االت کا اظہار اسی
پیرائے کے ذریعے کرنا ہوتا ہے جو وہ لکھ رہا ہوتا ہے اور اسی تحریر کے ذریعے اسے قاری کو غم ،
خوشی ،حیرت ،خوشبو ،بدبو ،محبت اور نفرت کے جذبات سے معمور کرنا ہوتا ہے۔ لہٰ ذا لکھنے والوں کو ہی
اپنی تحریر کو ایسے رنگ ڈھنگ میں ڈھالنا اور ترتیب دی نا ہوتا ہے کہ قاری لکھنے والے کی تحریر کو اپنے
پر اسی طرح محسوس کرے جس طرح لکھنے واال چاہتاہے اور قاری لکھنے والے کا گرویدہ بن جائے اسی
سوچ نے انشاءپردازی کو پیدا کیا۔ابتدائی دور میں افسانے کے انداز میں لکھی جانے والی تحریر کو انشاء
پردازی کہا جانے لگا۔ڈاک ٹر وحید الدین قریشی کا کہنا ہے:
دم نے حواسے اظہار محبت کرتے ہوئے کی تھی اس زمانے دنیا کا قدیم ترین انشائی ادب وہ تھا جس کی تخلیق ا ٓ ؑ
سے لیکر ا ٓج تک انسانی ذہن کی یہ ترنگ جاری ہے اور انشائی ادب تخلیق ہورہا ہے۔( )۱
انشاء حقیقت میں کیا ہے فرہنگ ا ٓصفیہ عربی النس ل لفظ کے مطلب یوں بیان کرتی ہے:
کچھ بات دل میں پیدا کرلینا ()۱
عبارت،تحریر ()۲
علم معانی وبیان،صنائع بدائع ،خوبی عبارت ،طرز تحریر ()۳
وہ کتاب جس میں خط و کتابت سکھانے کے واسطے ہر قسم کے خطوط جمع ہوں ،لیٹر بکس ،چھٹیوں ()۴
کی کتاب ۔ ( )۲
لفظ انشاء جب انشاء پردازی بنتا ہے تو اس کے معنی یوں درج ہیں:
طرز تحریر،عبارت ا ٓرائی ،خط یا عبارت لکھنے کا ڈھنگ ،عبارت کی خوبی ()۱
مضمون نگاری ،مضمون نویسی۔( )۳ ()۲
درحقیقت انشاء پردازی انشاء پرداز کی ہی پیداوار ہوتی ہے وہ لفظوں اور جملوں کو اس انداز میں ترتیب
دیتا ہے کہ انشاء پردازی پیدا ہوتی ہے اس سے اس کا حسن نکھرتا ہے جدت کے ساتھ بات لوگوں کے دلوں میں
اترتی چلی جاتی ہے۔سید محمد حسنین کا کہنا ہے:
انشاء کا مادہ نشاء(نش َء ) سے نکال ہے جس کے لغوی معنی پیدا کرنا ہے یعنی انشاء کی علت غائت’’ ز ائیدگی‘‘
ہے یا ’’ ا ٓفریدگی ‘‘ انشاء کی توانائی دراصل خیال کی تازگی و تنومندی سے ظاہر ہوتی ہے۔ انشائی قوت سے
بات میں معنویت پیدا ہوتی ہے اور خیاالت کی لہریں نکلتی ہیں۔( )۴
اپنے گہوارے سے نکل کر لفظ کئی مدارج طے کرتا ہوا مخصوص معنی کی حامل ایک اصطالح بن جاتا
ہے۔بعض اوقات لفظ کی اصل اور اصطالح میں بہت فاصلہ ہوتا ہے۔ اصطالح استعاراتی ،عالمتی ،اصالحی
معنی کو لغوی معنوں پر مرکوز رہنے کی درخواست کرتا ہے۔ انشاء کے جو بھی مطالب ہوں انشائیہ صرف
مضمون کا مترادف ٹھہرتا ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی کے بقول انشاء کا لفظ ابتدائی ط ور پر ایک دفتری اصطالح
سمجھا جاتا تھا پھر رفتہ رفتہ سرکاری احکام اور خطوط میں یہ رائج ہوتا گیا اور صاف شدہ تحریر کو اس سے
منسوب کیا گیا۔جس محکمے کے سپرد ’’مسودے ‘‘ کی تیاری کا کام ہوتا تھا اسے دیوان انشاء کہاکرتے
تھے۔شروع میں دربار کے زیر اثر فارسی نثر میں یہ تحریر لکھی جاتی تھی اور پھر یہی زبان مکتوبات کی
زبان قرار پائی۔ اس حوالے سے جابر علی سید کچھ یوں رقم طراز ہیں:
لفظ انشاء کا لفظی مفہوم تخلیق ہے اور فرانسیسی ESSAYکا مفہوم بھی کم و بیش تخلیق ہی ہے۔ اس بنا پر کہ
ESSAYذہنی کوشش و کاوش سے لکھی ہوئی تحریر ہے۔ TO ESSAYبطور فعل تخلیقی کوشش کرنا ہے اور
بطور اسم اس کاوش کا تحریری نتیجہ ہے۔( )۵
انشاء پرداز کی تاریخ پر لسانیات کے ماہرین میں ہمیشہ تھوڑا بہت اختالف رہا ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے
انداز میں انشاء اور انشاء پردازی کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر جی ا یم ملک اور پروفیسر نثار
احمد جمیل کا کہنا ہے:
اپنے جذبات ،احساسات ،تاثرات ،خیاالت و تصورات اور مافیالضمیر کو صحت و تندرستی کے ساتھ اپنی زبان
میں ادا کرنے کا نام انشاء ہے۔ اظہار خیال کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ،زبانی یا تحریری پہلی صورت کو
تقریری انشاء کہتے ہی ں اور دوسری صورت کو تحریر ی انشاء کہا جاتا ہے البتہ مقاصد کے اعتبار سے دونوں
ایک ہی ہیں۔( )۶
یوں تو ہر تحریر قاری کے لئے لکھی جاتی ہے مگر تخلیقات جہاناپنا مدعا بیان کرنا چاہتی ہیں وہاں قاری کے
مزاج کو بھی سامنے رکھنا ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ انشاء پردازی ک ے ذریعے قاری تک اپنی بات پہنچانے
کی کوشش کرتا ہے۔ بعض اوقات قاری انشاء پردازی کی فنکارانہ ا ٓمیزش سے پیدا ہونے والی جمالیاتی حس سے
اتنا محظوظ ہوتا ہے کہ وہ اس تحریر سے خاصا اثر لے لیتا ہے۔ قاری کی یہی روش تخلیق کار کے لئے باعث
اطمنان و مسرت ہوتی ہے۔ ہر ادب ک ے پاؤں ہمیشہ زمین پر ہی رہتے ہیں مگروہ سانس فضاء میں ہی لیا کرتا
ہے۔ہمیشہ ہر تخلیق کو اپنی مقصدیت کی طرف النے کے لئے کچھ نہ کچھ فنی صالحیت بروئے کار النی پڑتی
ہے۔سقراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گھنٹوں نہیں دنوں غور و فکر میں گم رہتا تھا اور جب کسی بات
کی تہہ اور حقیقت تک پہنچ جاتا تو پھر اسے لکھنا شروع کرتا اور پھر اس کے تخیل کاایک دریا بہ نکلتا۔
تخیل کے لئے مشاہدات ،تجربات ،اور تاریخ کا وسیع علم ہونا اہم اور ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ بے راہ ہوجاتا
ہے۔ اسی طرح انشاء پرداز کا علم ،تجربہ اور الفاظ پر گرفت ک ا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ انسانوں کی زندگی
میں جابجا اس کے جذبات کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے۔ انسان خوشی اور غم کا اظہار کرتا ہے ،تالیاں بجاتا
ہے ،ناچتا اور گاتا ہے ،روتا اور ا ٓہ و فغاں کرتا ہے نالہ کی فریاد سے عرش کو بھی ہال دیتا ہے یہ تمام باتیں
غیر محسوس ط ریقے پر اس کی ا ٓنکھوں سے چھلک جاتی ہیں۔ جذبات سے ہی اس کی زندگی میں رعنائی ہوتی
ہے جذبات نہ ہوں تو زندگی میں وہ رنگینی اور دلکشی نہ رہے اور انسان ایک پتھر کی طرح ہوجائے اسی
طرح جب تک انسان کسی تحریر کو انشاء پردازی اور ضابطے میں نہیں ڈالتا اس کی صورت ایک ج امد پتھر
کی ہی ہے۔
تعالی نے اپنے حبیب ﷺ کے قلب اطہر پر وحی کا نزول کرکے اپنے پیغام کو ان تک پہنچایا اور انہیں کہا
ٰ ہللا
جبرائیل کے توسط سے کیا گیا اور پھر اس کا سلسلہ جاری
ؑ کہ پڑھ اپنے رب کے حکم سے یہ وہ ابالغ تھا جو
رہا۔ہللا کے اس کالم کو تحریری شکل میں ڈھال کر ا ٓگے لوگوں تک پہنچایا گیا گویا پہلے ایک بات پہنچائی گئی
اور پھر اسے کتابی شکل میں رہتی دنیا تک کے انسانوں تک پہنچایا گیا۔( ) ۷
گفتگو کو عربی میں ’’ سحر ‘‘ جادو سے تشبیہ دی گئی ہے انشاء پردازی وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے لوگوں
کو اپنا ہمنوا بنایا جاسکتا ہے ،روالیا جاسکتا ،مشتعل کیا جاسکتا ہے اور انکے قلوب کو مسخر کیا جاسکتا ہے
انہیں اپنا نکتہ نظر ماننے پر ا ٓمادہ اور مجبور کیا جاسکتا ہے مگر اس تحریر میں تاثیر کا ہونا ضروری ہے اور
یہ تاثر انشاء پردازی کے ذریعے ہی پیدا کی جاسکتی ہے۔ دشمن کے خالف لوگوں کو صف ا ٓرا کرنے کے لئے
بھی ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ عوام کے دلوں میں پیوست ہوجاتے ہیں اور وہ جذبے اور
ولولے سے جان دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ ایک بہترین انشاء پرداز محل و قوع کے حوالے سے قاری کو
کبھی رال دیتا ہے ،کبھی ہنسا دیتا ہے اور کبھی انہ یں خواب غفلت سے بھی جگا دیتا ہے درحقیقت جذبات نگاری
انشاء پردازی کا نہایت ہی کارگر عنصر ہے لفظوں سے کھیلنے کا جتنا اچھا فن جسے ا ٓئے گا وہی بہتر انشاء
پرداز ہوگا۔ نسیم حجازی اس حوالے سے لکھتے ہیں:
میں نے رنگارنگ پھولوں سے اپنا دامن بھر لیا ا ٓج ان پھولوں کو ایک گلدستے کی صورت میں پیش کر رہا ہوں
اگر اس گلدستے کو دیکھ کر ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں اس وادی کی سیاحت کا شوق اور خزاں رسیدہ چمن
کو اس وادی کی طرح سرسبز اور شاداب بنانے کی ا ٓرزو پیدا ہوجائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے اپنی محنت
کا پھل مل گیا ہے۔( ) ۸
مینح س لطافت اور جمالیات الزم و ملزوم ہیں انسان خوبصورتی کو پسند کرتا ہے حسن کا دلدادہ
ِ انشاء پردازی
ہوتا ہے جہاں بھی تحریروں میں چاند کا تذکرہ ہوگا ،سبزہ زاروں کا ذکر ہوگا ،ا ٓبشاروں ،مرغزاروں کے عالوہ
لب رخسار ،محبوب کی اداؤں کی باتیں ا ٓئیں گی قاری اس طرف متوج ہ ہوتا ہے اور جب ادیب اپنے قلم کو حسن
کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے تو قاری اس قلم کار کا گرویدہ بن جاتا ہے جس نے حسن کو بیان کرنے کے
عالوہ عشق ،محبت ،پیار اور وفا کی داستانیں اپنی تحریر میں بیان کی ہوتی ہیں۔ عشق کی پاکیزگی ایسی
تحریروں کو مزید چار چاند لگا د یتی ہے۔ جو تحریر اپنے ہی قابو میں رہے مقصد سے انحراف نہ کرے اس میں
جمالیاتی حسن بھی برقرار رہے کسی لغزش کا بھی شکار نہ ہو اس میں جمالیاتی ِح س انشاء پردازی کے فن کو
جال بخشتی ہے اور قاری کے ذوق کو پختہ کرتے ہوئے تقویت پہنچاتی ہے۔ انشاء پردازی میں تشنگی نہیں ہوتی
وہ قدرتی مناظر کی عکاسی کا دلکش نمونہ بھی ہوتی ہے اور ذوق جمال کی تسکین بھی۔
انشاء پردازی اور ادب جو انسانی تقاضوں کو سامنے رکھ کر تخلیق کیا جائے اس میں محبت کا عنصر بھی
داخل ہو وہ قاری کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنا شروع کر دیتا ہے۔انشاءپردازی کے بارے میں تو یہ تک
کہا گیا کہ اس گونگے شخص کی مانند ہے جو بول نہیں سکتا مگر اپنا احساس شدت سے دالتا ہے۔ اس کے رگ
و پے میں رومان کی دلکشی اور محبت کے جذبات دھیرے دھیرے ا ٓگ کی طرح سلگتے رہتے ہیں مگر اس کا
نشان نظر نہیں ا ٓتا۔ انشاء پردازی سے بڑا کارگر ہتھیا ر شاید ہی کبھی اس سے پہلے ایجاد ہوا ہو۔ انشاء پردازی
دراصل کہالتی ہی وہ ہے جو ادب اور تاریخ کے بے جان اوراق میں شعور اور احساس کی روح کو پھونک دے
اور قاری ان احساسات کا ادراک کرے جسے لکھنے واال ان تک پہنچانا چاہتا ہے۔ انشاء پردازی ہی دشمن ملک
کے خالف اپنے نوجوانوں اور لوگوں میں قوت مدافعت کو بیدار کرتی ہے۔ ادبی چاشنی اور فنون لطیفہ کی
ٹھوس بنیادوں پر لکھی جانے والی تحریر کو جب مربوط کیا جاتا ہے تو وہ انشاء پردازی کے قالب میں ڈھل
جاتی ہے۔ انشاء پرداز کی تحریر احساس فن کا حسین امتزاج ہوتی ہے۔ فنی مہارت اور چا بک دستی سے اس
کے اثرات ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔ انشاء پرداز بھی اپنی انشاء پردازی کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
http://www.urdulinks.com/urj/?p=3448
سوال نمبر :5زبان شناسی کے تناظر میں قواد شناسی کی اہمیت واضح کریں۔ تدریس اردو میں کمپیوٹر کے استعمال
کے فواد بھی تحریر کریں؟
ت حال نظر آتی ہے کیونکہ اب تک کی تحقیق کے مطابق اُردو کی پہلی قواعد
اردو کے سلسلے میں بھی ہمیں یہی صور ِ
کی کتاب 1690کے لگ بھگ ایک ڈچ باشندے نے مرتب کی تھی۔ یہ دراصل مقامی لفظوں کی ایک فہرست تھی جسکی
وضاحت کے لئے چند قواعدی اصول دریافت کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ البتہ 1747میں شائع ہونے والی بنجمن
ماہرین اُردو پہلی باقاعدہ گرامر قرار دیتے ہیں۔
ِ شلزے کی جرمن زبان میں لکھی ہوئی ہندوستانی گرامر کو
انگلستان اور یورپ کے باشندوں نے اٹھارھویں اور انیسویں صدی کے دوسو برسوں میں اُردو اور ہندی کی بے شمار
صل مطالعے کی متقاضی ہیں لیکن آج ہم ایک ایسی کتاب کا ذکر کرنا چاہتے ہیں
گرامریں تحریر ِکیں اور وہ سب ایک مف ّ
جو کسی غیر ملکی نے نہیں بلکہ اسی دھرتی کے ایک سپوت نے لکھی تھی۔ کتاب کا نام تھا ’دریائے لطافت‘ اور
مصنف تھے انشاہللا خان انشاء۔
اگرچہ اُس وقت تک ’ ِلسانیات‘ ایک علیحدہ ِعلم کے طور پر ُمستحکم نہیں ہوئی تھی یعنی گرامر اور عروض ہی کو زبان
کا اصل علم گردانا جاتا تھا لیکن انشاء کی کتاب میں پہلی بار ہمیں ِلسانیاتی اپروچ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
انشاء کو اِس اولّیت کا شرف بھی حاصل ہے کہ انھوں نے اُردو کو کالسیکی زبانوں کے معیار سے نہیں پرکھا ،جسکا
رواج اُن دنوں عام تھا ،بلکہ اُردو کو ایک مقامی زبان کے طور پر جانچا ہے۔ اُن کی معرکہ آراء تصنیف ’دریائے
:لطافت‘ کے بارے میں مولوی عبدالحق لکھتے ہیں
سید انشاہللا خان انشاء پہلے شخص ہیں جنھوں نے عربی فارسی کا تتبع چھوڑ کر خود اُردو زبان کی ہئیت و اصلیت پر ’
غور کیا اور اسکے قواعد وضع کئے اور جہاں کہیں تتبع کیا بھی تو زبان کی حیثیت کو نہیں بھولے‘۔
یہ غلط فہمی بڑی عام ہے کہ اُردو میں اگر عربی ،فارسی ،ترکی سریانی ،پنجابی یا پوربی کا کوئی لفظ آجائے تو اسکا ’
ت حال یوں ہے کہ جو لفظ اُردو میں آگیا تو وہ اُردو کا
تلفظ اور استعمال اصل زبان کے مطابق ہونا چاہیئے ،صحیح صور ِ
‘ہو گیا۔ اب اسکا استعمال بھی مقامی قواعد و ضوابط کے تحت ہوگا نہ کہ اصل زبان کے مطابق۔
اسکے بعد انشاء نے عربی اور فارسی کے الفاظ کی بہت سی مثالیں دی ہیں جنھوں نے مقامی رنگ روپ اختیار کر لیا
:ہے اور اب وہ اُردو کے الفاظ بن چکے ہیں۔ آجکل اِس عمل کو ’تہنید‘ کا نام دیا جاتا ہے یعنی
INDIANISATION
گرامر نویسوں کا زمانہء قدیم سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ محض معیاری زبان کو بُنیاد بنا کر تمام اصول و ضوابط اخذ
کرتے ہیں اور عالقائی بولیوں کو ناقص قرار دے کر ہر طرح کی بحث سے خارج کر دیتے ہیں۔
خود مغرب میں بھی صدیوں تک الطینی زبان کا ڈنکا بجتا رہا اور عالقائی بولیوں کو خاطر میں نہ الیا گیا۔ اِس لحاظ سے
انشاء کے کام پر حیرت ہوتی ہے کہ اس نے دوسو برس پہلے بولی ٹھولی کی اہمیت کو سمجھ لیا اور بالکل اس انداز میں
عالقائی محاوروں کا تجزیہ کیا جسطرح آج کل ڈائیلیکٹولوجی کے امریکی اور یورپی ماہرین کرتے ہیں۔
دہلی کے مختلف محلّوں کی زبان کا تجزیہ کرنا اور اُن کے باہمی فرق پر لکھنا اِنشاء ہی کا کام تھا۔ اسی مطالعے کو آگے
بڑھاتے ہوئے انشاء نے دہلی اور لکھنؤ کی زبان کا موازنہ بھی پیش کیا ہے۔ انشاء کا ایک اور کمال یہ ہے کہ اس نے
اُردو آوازوں کا مکمل تجزیہ پیش کرتے ہوئے یہ نکتہ بھی پیش کیا کہ جن آوازوں کو ہم ’بے ھے کی بنی بھے‘ اور
’پے ھے کی بنی پھے‘ وغیرہ کہتے ہیں وہ دراصل ب اور ھ کی آوازوں کا مجموعہ نہیں ہیں
انشاء اپنے ہم عصر شاعروں اور ادیبوں کے مقابلے میں خاصے آزاد خیال اور جدید فکر کے حامل نظر آتے ہیں۔ مثالً
دریائے لطافت میں لکھتے ہیں کہ زبان داں ہونے کے لئے دہلی میں پیدا ہونا ضروری نہیں۔ کوئی باہر کا آدمی بھی اپنے
علم و فضل کے زور پہ دہلی والوں کی زبان درست کر سکتا ہے‘ اسطرح کی ِلسانی کفر گوئی کی ہمت دہلی میں بیٹھ کر
انشاء کے سوا کوئی نہ کر سکتا تھا۔
:فعل امر ونہی کےبارے میں ایک جگہ ’مت جا‘ اور متی جا کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں
سودگران پنجابی کی اوالد جو زبان بولتی تھی ،انشاء نے اسکا بھی تجزیہ کر ڈاال اور اُس کی تاریخی
ِ یعنی دہلی کے
وجوہ پر بھی روشنی ڈال دی۔
فارسی متن کے باعث اردو زبان وادب کے موجودہ طلبہ اِس کتاب کو پڑھنے سے گریزاں رہتے ہیں لیکن اُردو جاننے
واال کوئی بھی شخص ذرا سی کوشش سے اس کتاب کے مندرجات کو سمجھ سکتا ہے اور جو حضرات اتنی زحمت بھی
نہ کرنا چاہیں اُن کے لئے پنڈت برجموہن دتہ تریا کیفی کا کیا ہوا رواں دواں سلیس اُردو ترجمہ موجود ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/miscellaneous/story/2005/12/printable/051228_zaban_o_biyan6
_rs