You are on page 1of 20

‫‪Roll no : cc 521078‬‬

‫‪Code 6509‬‬

‫سمسٹربہار ‪2021‬‬ ‫کورس‪ :‬تدریسیات اردو‬

‫سطح‪ :‬ایم اے‪ /‬ایم ایڈ‬

‫امتحانی مشق ‪2‬‬

‫سوال نمبر‪ :1‬تدریس قرات اور نثر کے تقاضوں اور طریقوں کا موازنہ کریں؟ تدریس اردو کی عملی مشقالت اور انداز‬
‫کو مثالوں کی مدد سے واضح کریں؟‬

‫یہ زبان گنگا جمنی تہذیب کی ایک بہترین مثال رہی ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف میر‪ ،‬غالب اور اقبال نے اس‬
‫زبان کو عروج و ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا وہیں دوسری طرف کرشن چندر‪ ،‬فراق گورکھپوری اور پریم چند نے‬
‫اسے سینچنے اور سنوارنے کے لئے اپنے تن‪ ،‬من اور دھن کی بازی لگادی ۔ اردو زبان کی اسی گنگا جمنی تہذیب کی‬
‫اہمیت و افادیت کی وجہ کر اردو کے معلم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مندرجہ ذیل اوصاف (جو نکات کی شکل‬
‫میں تحریر کی جارہی ہیں) سے اپنی شخصیت کو متصف کرے تب جاکر ایک اردو کے معلم کما حقہ اردو کے معلم‬
‫کہالنے کے مستحق ہونگے ۔‬

‫(‪)1‬مادری زبان پر عبور حاصل ہونا ۔ایک اردو کے معلم کو چاہئے کہ وہ مادری زبان(اردو) پر عبور حاصل کرے نیز‬
‫زبان کا صحیح تلفظ‪ ،‬پڑھنے اور بولنے میں روانی ۔وقت و حاالت کے اعتبار سے جملوں کا استعمال‪ ،‬قواعد کا علم‪ ،‬تغیر‬
‫لحن‪ ،‬زبان کی ساخت پر نظر اور الفاظ کے ذخیرہ سے اپنی شخصیت کو متصف کرے کیونکہ زبان پر عبور کے بغیر‬
‫معلم درس و تدریس کا عمل اچھے انداز میں نہیں کرسکتے ۔‬

‫(‪)2‬زبان و مضمون سے محبت ۔ ا یک معلم کوچاہئے کہ وہ اپنی زبان و مضمون سے محبت کرے کیونکہ طلبہ معلم کا‬
‫عکس ہواکرتے ہیں اس لئے معلم کو کثرت مطالعہ‪ ،‬اس زبان کے متعلق کی گئی پروگرام میں شمولیت‪ ،‬مضمون نگاری‬
‫اور لکچرمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے اور اپنی زبان کو لے کر احساس کمتری کا شکار نہ ہونا چاہئے ۔اپنی زبان‬
‫سے مطمئن اور خوش رہنا چاہئے تاکہ طلبہ میں دلچسپی کا مادہ پیدا ہو‬

‫(‪)3‬کثرت مطالعہ کا شوق ایک کامیاب معلم کی صفت ہوتی ہے کہ اس کا مطالعہ کبھی نہیں رکتا جس کی وجہ کر اس‬
‫کے علم میں اضافہ اور الفاظ کا ذخیرہ جمع ہوجاتا ہے اور وہ اس کی نئی معلومات میں اضافہ کا باعث بنتا ہے جس کی‬
‫وجہ کر اس کی شخصیت نکھر اور بکھر جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ فصاحت و بالغت کے آسمان پر پہنچ جاتا‬
‫ہے اور ان کی زیر تربیت طلبہ ادیب‪ ،‬شاعر اور مفکر بن کر دنیا کے سامنے آتے ہیں ۔‬

‫(‪)4‬درس و تدریس کے طریقہ سے واقفیت ۔ایک بہترین معلم کادرس و تدریس کے طریقہ سے واقفیت رکھنا بہت‬
‫ضروری ہے کیونکہ نصاب کے اندر بہت سارے مضامین ہوا کرتے ہیں مثال نظم‪ ،‬نثر‪ ،‬ڈرامہ وغیرہ تو ایک معلم کو‬
‫چاہئے کہ وہ نظم کو گنگنائے اور طلبہ کو بھی گانے کے لئے کہے ڈرامہ میں ڈرامائی انداز اختیار کرے اور اس میں‬
‫طلبہ کی مکمل شمولیت ہو اور نثر میں مثال سے اصول کی جانب‪ ،‬لکچر‪ ،‬بحث و مباحثہ یا سوال و جواب واال طریقہ‬
‫اختیار کرے‬

‫(‪)5‬تعلیمی توضیحات تعلیمی توضیحات یہ معلم کاہتھیار ہے اس سے درس میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور درس کا تصور‬
‫واضح ہو جاتا ہے اور طلبہ کو بات سمجھ میں آجاتی ہے جس کی بنا پر معلم اپنی تصور میں کامیاب ہو جاتا ہے اور طلبہ‬
‫کی تعلیمی زندگی میں نکھار اور سدھار پیدا ہونے لگتا ہے ۔معلم تعلیمی توضیحات کے اعتبار سے چند معاون چیزوں کا‬
‫استعمال کر سکتے ہیں مثالً چارٹ‪ ،‬سالئیڈس‪ ،‬ماڈلس‪ ،‬آڈیو اور ویڈیو وغیرہ‬

‫(‪)6‬دیگر مضامین کا علم ایک معلم کو دیگر مضامین کا علم رکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے نصاب کا ربط قائم‬
‫ہوتا ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ کمرہ جماعت میں مختلف مضامین کے طلبہ ہوتے ہیں اور ان کے شکوک و شبہات‬
‫کو اس کی مدد سے ختم کیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر کمرہ جماعت میں ہندی‪ ،‬اردو‪ ،‬انگلش‪ ،‬جغرافیہ اور سائنس‬
‫وغیرہ کے طلبہ ہوتے ہیں تو ان کو ان ہی کی زبان میں سمجھایا جائے تو طلبہ کو آسانی سے بات سمجھ میں آئے گی‬
‫اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب معلم دیگر مضامین کا علم رکھے ۔‬

‫(‪)7‬اردو کی ادبی‪ ،‬تہذیبی اور نصابی سرگرمیاں ۔بحیثیت معلم ایک اردو معلم کو چاہئے کہ وہ اردو کی ادبی‪ ،‬تہذیبی‪،‬‬
‫ثقافتی اور نصابی سرگرمیاں کو بہتر بنائے اور طلبہ میں مشارکت کا شوق پید ا کرے مثال کے طور پر غالب و میر یا‬
‫عالمہ اقبال کے یوم پیدائش پر پروگرام کرنا ۔اسکول میں کسی بڑے اردو شاعر یا ادیب کو بالنا اور تقریری و تحریری‬
‫مقابلہ‪ ،‬نظم گوئی یا ڈرامہ کا پروگرام کرانا تاکہ طلبہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور اسے اردو ادب سے شوق پید ا ہو اگر‬
‫ایسا ہوا تو یہی طلبہ آگے چل کر اردو کے بڑے بڑے ادباء‪ ،‬شعراء اور قلمکاروں میں اپنا نام درج کرا سکتے ہیں ۔‬

‫(‪)8‬سائنسی رجحانات اور نظریہ عصر حاضر کا زمانہ سائنس و ٹکنالوجی کا زمانہ ہے اس لئے معلم اردو کو چاہئے کہ‬
‫وہ اپنے آپ کو نصابی کتابوں تک محدود نہ رکھے بلکہ سائنس و ٹکنالوجی کا علم بھی رکھے اور اسے کمرہ جماعت‬
‫میں عملی جامہ پہنائے تاکہ طلبہ میں زمانے سے قدم مالنے اور وقت کے ساتھ چلنے کا شوق پیدا ہو ۔‬
‫(‪)9‬جمہوری نظریہ اور رویہ معلم اردو کو چاہئے کہ وہ جمہوری نظریہ کا حامل ہو تمام طلبہ کو ایک نظر سے دیکھتا‬
‫ہو ذات پات‪ ،‬دین و دھرم‪ ،‬مسلک و منہج اور رنگ و نسل کی وجہ سے نہ کسی سے محبت رکھتا ہو اور نہ ہی عداوت‬
‫کرتا ہو بلکہ ان چیزوں سے اوپر اٹھ کر تمام طلبہ کو ایک نظر سے دیکھتا ہو ۔تب جاکر طلبہ کے اندر معلم کے تئیں‬
‫اعتماد اور بھروسہ آئے گا اور ان کی زندگی نکھر اور سنور جائے گی ۔‬

‫(‪)10‬نفسیات کا علم معلم اردو کو چاہئے کہ وہ نفسیات کا علم رکھتا ہو کیونکہ اس کے بغیر وہ نہ تو طلبہ کی کردار‬
‫سازی کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے سمجھ سکتا ہے ۔‬

‫(‪)11‬اخالقی شخصیت معلم اردو کو چاہئے کہ وہ اخالق و کردار کے بہترین عہدہ پر فائز ہو کیونکہ طلبہ استاد کا عکس‬
‫ہوا کرتے ہیں اس لئے استاد کے اندر نیکی و پارسائی‪ ،‬ہمدردی و غمگساری‪ ،‬بھالئی و ایمانداری صبر و تحمل اور الفت‬
‫و محبت ہونی چاہئے تب ان کے طلبہ ان کے نقش قدم پر چلیں گے اور ان کی شخصیت ایک بہترین شخصیت بنے گی ۔‬

‫(‪)12‬اصول و ضوابط اور وقت کی پابندی معلم اردو کو چاہئے کہ وہ اصول و ضوابط اور وقت کی پابندی کرے کیونکہ‬
‫اگر معلم ایسا کریں گے تو طلبہ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں گے جس کی وجہ کر درس و تدریس میں نہ تو تاخیر ہوگی‬
‫اور نہ ہی طلبہ کا وقت ضائع ہوگا ۔اس کے نتیجے میں ایک بہترین اور پرسکون ماحول میں عمدہ تدریس اور طلبہ کے‬
‫روشن مستقبل کی امید یقینی بن جائے گی ۔‬

‫(‪)13‬مستقل مزاجی معلم اردو کو چاہئے کہ وہ مستقل مزاج ہو ۔آپسی تناؤ یا گھر کا جھگڑا لے کر اسکول نہ آتا ہو ۔اسکول‬
‫آکر تمام طلبہ و اساتذہ کے ساتھ خوش مزاجی سے رہتا ہو ۔کالس میں نہ تو بہت زیادہ غصہ اور نہ ہی بہت زیادہ ہنسی کا‬
‫مظاہرہ کرتا ہو ۔طلبہ کے درمیان تنازعات کو بہترین اور پرسکون طریقے سے حل کرنے کی صالحیت رکھتا ہو ۔مستقل‬
‫مزاجی اس لئے بھی ضروری ہے کہ معلم کا تعلق سماج سے براہ راست جڑا ہوا ہوتا ہے ۔‬

‫(‪)14‬احساس ذمہ داری اور فرض شناسی معلم اردو کو چاہئے کہ وہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی کی صفت سے‬
‫متصف ہو مثال مکمل تیاری اور ایمانداری سے تدریس کا فریضہ انجام دینا ۔طلبہ کی کردار سازی اور ان کی تربیت‬
‫کرنا‪ ،‬اسکول او کمرہ جماعت کا ماحول درست کرنا ۔اس کی اشیاء کا بہترین استعمال کرنا اور اس کی ترقی کے لئے فکر‬
‫مند رہنا وغیرہ‬

‫(‪)15‬اسکول و سماج کی نشو نما کسی بھی اسکول کا تصور سماج کے بغیر ممکن نہیں ٹھیک ایک بہترین سماج کا‬
‫تصور اسکول کے بغیر محال ہے کیونکہ اس کی ترقی اور نشو نما کی وجہ کر طلبہ بااخالق و باکردار بن کر ایک‬
‫بہترین شہری بن کر سماج میں جاتے ہیں اور سماج میں امن و سکون‪ ،‬الفت و محبت اور عدل و انصاف کی خوشبوں‬
‫پھیالتے ہیں اس لئے ایک معلم کے ساتھ ساتھ سماج کے افراد کو بھی چاہئے کہ وہ اسکول کو بہتر بنانے کے لئے فکر‬
‫مند رہیں مذکورہ باال نکات کے ساتھ ساتھ کچھ اور نکات ہیں جو معلم اردو کے لئے ضروری ہیں لیکن مضمون کی‬
‫طوالت کے خوف سے ذیل میں ان نکات کو مختصرا ذکر کیا جارہا ہے ۔‬

‫(‪)16‬قوت فیصلہ اور خود اعتمادی‬


‫(‪)17‬جذبہ تعاون اور ہمدردی‬

‫(‪)18‬نرم لہجہ اور صاف آواز‬

‫(‪)19‬اچھی صحت‬

‫(‪)20‬اچھی یاداشت‬

‫(‪)21‬بہترین اداکار مذکورہ باال صفات ایک معلم کے لئے بہت ضروری ہیں جو معلم ان صفات سے متصف ہوں گے یقینا‬
‫ان کی تدریس مؤثر اور خوبصورت ہوگی جن کے لئے شاعر کو بھی مجبورا کہنا پڑا ۔ جن کی تدریس سے آتی ہو‬
‫صداقت کی مہک ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتا ہے‬

‫‪https://urdu.udannews.in/2019/08/21/some-importance-of-urdu-teacher/‬‬

‫سوال نمبر ‪ :2‬تدریس نظم اور غزل کے بنیادی امور اور تدریسی طریقوں کو کا موازنہ کریں؟ اور ان کے روایتی اور‬
‫جدید سبقی نمونوں کا موازنہ کریں؟‬

‫تدریس نظم کا لطیف و نازک مرحلہ غزل ہے۔ درس و‬


‫ِ‬ ‫ادب کی تدریس کا سب سے دلچسپ حصہ نظم کی تدریس ہے اور‬
‫تدریس میں سمجھنے سمجھانے کی جن مہارتوں پر سبق کی بنیاد استوار کی گئی ہے اور جن طریقوں کو ترجیحات میں‬
‫شامل کیا گیا ہے‪ ،‬صنف غزل اپنے منفرد مزاج اور مخصوص طرز بیان کی وجہ سے ان مہارتوں سے زیادہ کی طلب‬
‫گار رہتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ دوسری اصناف شعر کی بہ نسبت غزل کے مدرس کی ذمہ داریان کچھ سوا ہوجاتی ہیں۔‬

‫غزل اردو شاعری کی مقبول ترین صنف سخن ہے اور اپنے آغاز ہی سے ہماری شاعری کی روح رواں بنی ہوئی ہے۔‬
‫بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ولی دکنی کی دہلی آمد (‪ )1700‬سے انجمن پنجاب الہور کے مشاعروں میں محمد حسین آزاد‬
‫اور حالی کی کوششوں کے تحت وجود میں آنے والی جدید نظمیہ شاعری کے آغاز (‪ )1875‬تک غزل ہی اردو شاعری‬
‫اعلی پر قابض تھی تو غلط نہ ہوگا۔ حاالں کہ دوسری کالسیکی اصناف قصیدہ‪ ،‬مثنوی‪ ،‬مرثیہ‪ ،‬رباعی وغیرہ‬
‫ٰ‬ ‫کے اقتدار‬
‫بھی اپنا علیحدہ اور مستحکم وجود رکھتی تھیں تاہم غزل کے آگے ان کی حیثیت سورج کی روشنی میں چراغوں جیسی‬
‫تھی۔ جدید شاعری اور اس کے بعد کی مختلف ادبی تحریکوں اور رجحانوں خصوصا ً ترقی پسند تحریک (‪ )1936‬کے‬
‫زور پکڑنے اور اس تحریک کے ذریعے غزل کو پس پشت ڈال کر مربوط ومسلسل نظموں پر ساری توجہ مبذول کیے‬
‫جانے کی وجہ سے غزل کی مقبولیت میں وقتی طور پر کمی واقع ہوگئی تھی اور پھر اسی عہد میں غزل کی مخالفت میں‬
‫شدت پیدا ہوئی۔ مخالفین نے غزل کی انھیں روایات پر ضرب لگانے کی کوششیں کیں جو اس کی خاص پہچان تھیں اور‬
‫جن کے حوالے سے غزل نہ صرف اپنی شناخت قائم رکھنے بلکہ اپنا تعارف کرانے میں فخر محسوس کرتی تھی چنانچہ‬
‫کچھ عرصے غزل مخالفین کے دبائوں میں رہی۔اس کی جاذبیت اور مقبولیت کچھ ماند سی پڑنے لگی لیکن یہ صورت‬
‫حال عارضی ثابت ہوئی اور بہت جلد اس نے اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلیا۔‬
‫غزل کی وہ انفرادیت جس میں اس کی بے پناہ جاذبیت اور مقبولیت کا راز پوشیدہ ہے ۔ آخر ہے کیا؟ اس سوال پر غور‬
‫کرتے ہوئے جب ہم غزل کی جانب بہ نظر غائر دیکھتے ہیں تو ہر شے کی طرح اس کے بھی دو پہلو صاف طورپر‬
‫عیاں ہوجاتے ہیں یعنی ایک خارجی پہلو یعنی ہیئت اور دوسرا داخلی پہلو یعنی موضوع اور مواد۔‬

‫خارجی پہلو کے لحاظ سے غزل کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ غزل اشعار کے اس مجموعے کا نام ہے جو وزن ‪،‬‬
‫بحر‪ ،‬قافیہ‪ ،‬ردیف اور مصرعوں کی خاص ترتیب و تنظیم کے تابع ہو۔ غزل کے الزمی اجزا میں وزن بحر اور قافیہ‬
‫شامل ہیں اور انھیں تینوں کو غزل کی زمین کہا جاتا ہے مگر ایک مکمل غزل میں وزن بحر اور قافیے کے عالوہ مطلع‬
‫‪ ،‬زیب مطلع ‪ ،‬مقطع‪ ،‬ردیف اور شاعر کا تخلص وغیرہ بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ مطلع غزل کا وہ پہال شعر ہے جس کے‬
‫دونوں مصرعے ہم قافیہ اور اگر غزل میں ردیف بھی ہے تو ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔ بعض غزلوں میں ایک سے‬
‫زیادہ مطلع بھی ہوسکتے ہیں۔ مطلعے کے بعد واال شعر زیب مطلع یا حسن مطلع کہالتا ہے۔ واضح ہو کہ غزل میں ردیف‬
‫ضروری نہیں مگر قافیہ ضروری ہے۔ یہ ایک بات ہے کہ ردیف ‪ ،‬غزل کے حسن ‪ ،‬روانی ‪ ،‬موسیقی اورمعنویت میں‬
‫اضافے کا باعث ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اردو کی بہت کم غزلیں غیر مردف ہیں ورنہ بیشتر غزلوں میں ردیفوں کا‬
‫التزام کیا گیا ہے۔‬

‫بعض حضرات قافیے کی طرح ردیف کو بھی غزل کا جزو الینفک سمجھتے ہیں۔ مقطع غزل کا وہ آخری شعرہوتا ہے‬
‫جس میں شاعر اپنا نام جسے شاعری کی اصطالح میں تخلص کہتے ہیں شامل کرتاہے۔ تخلص شاعر کا اصلی نام بھی‬
‫ہوسکتا ہے اور قلمی نام بھی۔ ہر غزل میں مطلعے سے مقطعے تک باقی اشعار کے دوسرے مصرعے مطلعے کی بحر‬
‫اور قافیے کے پابند ہوتے ہیں۔ غزل میں ردیف ہر شعر کے بالکل آخر میں آتی ہے اور بدلتی نہیں پوری غزل میں ایک‬
‫ہی رہتی ہے ۔ قافیے کا مقام ردیف سے پہلے ہے اور اس میں آخری حرف کو چھوڑ کر جسے حرف روی کہتے ہیں‬
‫تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ غزل میں اشعار کی تعداد مقرر نہیں‪ ،‬مگر کم سے کم تین اور زیادہ سے زیاہ سترہ یا انیس‬
‫ہوسکتے ہیں۔ ایک غزل میں عموما ً پانچ ‪ ،‬سات یا نو شعر ہوتے ہیں۔ نو سے زیادہ اشعار کی غزلیں بھی بڑی تعداد میں‬
‫ملتی ہیں۔ اساتذہ نے سترہ اشعار کے بعد ایک نیا مطلع کہہ کر پھر اسی زمین میں کئی اشعار کہے اور پھر ایک مطلع‬
‫کہہ کر مزید اشعار کہے ۔ اس طرح اپنی مشاقی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے استادی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک ہی زمین میں‬
‫کہی گئی ایسی طویل طویل غزلوں کو دو غزلہ اور سہ غزلہ کہا جاتا ہے۔ غزل کے اشعار کے تعلق سے ایک خاص بات‬
‫یہ ہے کہ ان کی تعداد کچھ بھی ہو مگر جفت نہیں طاق ہوتی ہے۔ جفت وہ عدد ہے جو دو سے تقسیم ہوجائے۔ اور طاق وہ‬
‫ہے جو دو سے تقسیم نہ ہو۔ غزل کے اشعار میں طاق کی شرط کا نکتہ یہ ہے کہ غزل کی روایت کے مطابق شاعر کا‬
‫محبوب یکتا اور بے نظیر ہے۔ دنیامیں اس کا کوئی ثانی یا جفت نہیں ملتا۔ دوسرے خیال کے مطابق غزل میں عام طور‬
‫پر ہجر و فراق کی کیفیت کا بیان ہوتا ہے ۔ عاشق و محبوب ایک دوسرے کے قرب کی لذت سے محروم رہتے ہیں ۔ اس‬
‫لیے غزل کی شاعری ہجر و مفارقت ہی کی فضا میں پرورش پاتی ہے اور اس میں ہجر کے مضامین ہی زیادہ ہوتے ہیں۔‬
‫ہجر کو طاق سے مناسبت ہے اس لیے غزل کے بیشتر شعرا نے طاق اشعار کی پابندی کا لحاظ رکھا ہے۔‬
‫غزل کی سب سے بڑی خوبی جسے بعض ناقدین نے خامی قرار دیا ہے ۔ یہ بیان کی گئی ہے کہ غزل کا ہر شعر اپنے‬
‫معنی کے لحاظ سے آزاد‪ ،‬خود مکتفی ‪ ،‬قائم بالذات اور اپنی جگہ مکمل حیثیت کامالک ہوتا ہے۔ یعنی اپنے سے پہلے اور‬
‫بعد والے شعر سے الگ اپنی معنوی پہچان رکھتا ہے یعنی اپنے معنی میں کسی سے اشتراک نہیں کرتا لیکن اگر کوئی‬
‫مضمون یا خیال ایک شعر مین نہیں سماتا اور شاعر اسے دو یا دو سے زیادہ اشعار مین تسلسل کے ساتھ بیان کرنا‬
‫چاہتاہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے‪ ،‬اس طور سے غزل کے ان مسلسل اشعار کی حیثیت قطعے جیسی ہوجاتی ہے۔ اس لیے‬
‫ان اشعار کو قطعہ بند کہاجاتا ہے۔ قطعہ بند کی نشاندہی کے لیے ’’ق‘‘ قطعہ یا قطعہ بند بھی لکھنے کا رواج ہے۔ تاہم‬
‫غزل میں ایسی صورت حال شاذ ہی پیدا ہوتی ہے۔‬

‫غزل کی ایک قسم غزل مسلسل بھی ہے۔ پہچان یہ ہے کہ اس کی ظاہری شکل یا ہیئت تو عام غزلوں کی سی ہوتی ہے‬
‫مگر اس کے تمام اشعار نظموں کی طرح آپس میں مربوط و مسلسل ہوتے ہیں۔ کالسیکی غزلوں میں ان کی تعداد زیادہ‬
‫نہیں ہے البتہ غزل کے وہ معترضین جو غزل میں ہر شعر کی جداگانہ حیثیت کو ریزہ خیالی کہہ کر ہد ف تنقید بناتے ہیں‬
‫اپنی غزلوں کے اشعار میں نظموں جیسا ربط و تسلسل پیدا کر کے انھیں ایک موضوعی بنانے کی کوشش کرتے رہے‬
‫ہیں۔ جوش ملیح آبادی نے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنی یک موضوعی غزلوں پر نظموں کی طرح عنوانات بھی لگادیے ہیں۔‬

‫غزل کے مذکورہ باال پہلو کا تعلق خارجی عناصر سے ہے جس میں ہیئت یا ظاہری شکل و صورت کے عالوہ زبان و‬
‫بیان‪ ،‬طرزاداد اور اسلوب کا اضافہ کیاجاسکتا ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ غزل کی ہیئت سے اس کی پہچان کا گہرا‬
‫تعلق ہے۔ شعری ادب میں کچھ اصناف اپنی ہیئت سے پہچانی جاتی ہیں اور کچھ اپنے موضوع اور مواد سے اور کچھ‬
‫دونوں سے ۔ موضوع سے پہچانی جانے والی اصناف میں مثال کے طور پر مرثیہ کا نام لیاجاسکتا ہے۔ اسی طرح خاص‬
‫ہیئت یا شکل سے پہچانی جانے والی اصناف سخن میں مثلث ‪ ،‬مخمس‪ ،‬مسدس‪ ،‬مستزاد‪ ،‬ترجیع بند‪ ،‬ترکیب بند‪ ،‬قطعہ اور‬
‫رباعی جیسی اسم بامس ّم ٰی اصناف کے عالوہ غزل بھی شامل ہے۔ موضوع اور مواد سے پہچانی جانے والی اصناف‬
‫مینمرثیہ ‪ ،‬شہر آشوب ‪ ،‬ریختی اور واسوخت وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔‬

‫غزل کے لغوی معنی عورتوں سے عشق و محبت کی باتیں کرنا ہیں۔ ابتدا میں غزل کے بیشتر اشعار اسی معنی کے ارد‬
‫گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ غزل کے موضوعات میں تنوع پیدا ہوتا گیا ‪ ،‬یہانتک کہ غزل کے موضوعات‬
‫زندگی کے موضوعات کی طرح ال محدود اور المتناہی ہوتے چلے گئے۔ غزل کی ایک داخلی خوبی جو دوسری اصناف‬
‫میں نسبتا ً کم پائی جاتی ہے اس کی ایمائیت اور اشاریت ہے۔ شاعری کی دوسری اصناف میں اشعار کے باہمی ربط اور‬
‫معنوی تسلسل کی وجہ سے بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی گنجائش اور مواقع ہوتے ہیں۔ اس لیے ان میں‬
‫اشاروں کنایوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس غزل میں چوں کہ ہر شعر مکمل اکائی اور کامل نظم ہوتا ہے‬
‫اس لیے جو کچھ کہنا ہے بس ایک ہی شعر یعنی دو مصرعوں میں کہنا ہے۔ چند لفظوں ہی میں اپنی بات پوری کرنا غزل‬
‫کا فنی اختصاص ہے۔ چنانچہ اس مختصر گوئی کی شرط یا قید کی وجہ سے غزل کاشاعر لغوی کے معنی پر انحصار‬
‫نہیں کرتا بلکہ لغت سے باہر آکر الفاظ کے اصطالحی اور مرادی معنی کے ساتھ ساتھ تشبیہات و استعارات کی مدد سے‬
‫ایک نیا جہان معنی آباد پیداکرتا ہے۔غزل کا شاعر ایجاز و اختصار ‪ ،‬ایمائیت اور اشاریت کے وسیلے سے غزل کے‬
‫اشعار مین وہ منفر جوہرپیدا کرنا چاہتا ہے جسے کوزے میں دریا بھرنے والی خصوصیت کہتے ہیں۔ غزل کی اسی‬
‫صفت کی وجہ سے اس کے فن کو چاول پر قل ھوہللا لکھنے کا فن بھی کہتے ہیں۔ غزل کا مزاج اور اس کی خصلتیں‬
‫محبوب کے مزاج اور اس کے ناز و ادا و عشوہ اورغمزوں سے بہت ملتی جلتی ہیں یہی وجہ ہے کہ محبوب کی طرح‬
‫غزل بھی بات کو سیدھے طور پر کہنے کی بجائے گھما پھرا کر کہتی ہے۔ غزل کا شاعر بالواسطہ طرز اظہار سے کام‬
‫لیتے ہوئے کہتا کچھ اور ہے اور اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے‬

‫اسی طرز اظہار کی مثال ہے ۔ بظاہر اس مقطعے کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میر نے اسالم چھوڑ کر ہندو دھرم‬
‫قبول کرلیا ہے اور وہ مرتد ہوگیا ہے مگر غزل کی روایت کا علم ہونے اور میر کے لب و لہجے پر غور کرنے سے‬
‫صاف پتہ چل جاتا ہے کہ میر نے یہ شعر بظاہر تو اپنے لیے کہا ہے مگر اس کانشانہ ’’گندم نما جو فروش‘‘ مذہبی گروہ‬
‫کے وہ ظاہر پرست اور ریا کار لوگ ہیں جن کے ظاہر و باطن میں زبردست تضاد ہے۔ شعر میں دین و مذہب اور قشقہ و‬
‫دیر کی مذہبی اصطالحات کو لغوی معنی میں استعمال کرنے کے بجائے مجازی معنی میں معروف عالمتوں کے طورپر‬
‫استعمال کر کے میرنے اسی گرہ کے رویوں پر طنز کیا ہے ۔ میر اس شعر کے ذریعے ظاہر و باطن کے اسی تضاد‪،‬‬
‫نمائش اور ریاکارانہ مذہبیت سے اپنی برأت کا اظہار کرتے ہیں۔‬

‫جس طرح عشقیہ مضامین غزل کے نیچر میں داخل ہیں اسی طرح خمریات یعنی شراب اور اس کے لوازمات کا ذکر ’’‬
‫نیز فقہا اور زہ ّاد اور تمام اہل ظاہر پر طعن و تعریض کرنی‪،‬اپنی لیے خواری اور توبہ شکن و خرابات نشینی پر فخر‬
‫تقوی کے اعمال و اقوال مینعیب نکالنے اور اسی قسم کی اور باتیں جو عقل و شرع کے خالف‬
‫ٰ‬ ‫کرنا اہل شرع اور اہل‬
‫ہوں۔ یہ مضامین بھی غزل کے اجزائے غیر منفک قرار پاگئے ہیں۔ سب سے پہلے غزل مین یہ طریقہ شعرائے متصوفین‬
‫خسرو وغیرہ۔ چوں‬
‫ؔ‬ ‫ؔ‬
‫حافظ و‬ ‫رومی اور‬
‫ؔ‬ ‫سعدی‪،‬‬
‫ؔ‬ ‫نے جو اہل ہللا اور صاحب باطن سمجھے جاتے تھے اختیار کیا تھا جیسے‬
‫کہ ان لوگوں کی غزل نے ایران اور ہندوستان میں زیادہ رواج اور حسن قبول پایا اور خاص کر خواجہ حافظ کی غزل‬
‫جس میں ان مضامین کی بہتات سب سے بڑھ کر ہے حد سے سے زیادہ مشہور و مقبول ہوئیں۔ اس لیے متاخرین نے بھی‬
‫ان کی تقلید سے یہی شیوہ اختیار کرلیا۔ مگر ہم کو دیکھنا چاہیے کہ ان بزرگوں نے جو ایسے مضامین باندھے ہیں اس‬
‫‘‘قدر غلو کیا ہے اس کا منشا کیا تھا۔‬

‫‪:‬آگے رقم طراز ہیں‬

‫فقہا اور اہل ظاہر ہمیشہ دو فرقوں کے سخت مخالف رہے ہیں ایک اہل باطن کے دوسرے اہل رائے کے‪،‬فقہا کے ’’‬
‫فتووں کے ان دونوں گروہوں کو ہمیشہ سخت نقصان پہنچتے رہے ہیں۔ قتل کیے گئے ہیں۔ دار پر چڑھائے گئے ہیں۔‬
‫مشکیں بندھی ہیں۔کوڑے کھائے ہیں۔ قید بھگتی ہیں ۔ جالوطن کیے گئے ہیں۔ کتابیں جالئی گئی ہیں اور کیا کیا کچھ ہوا‬
‫ہے۔ جب کہ فقہا کی مخالفت کا ان لوگوں کے ساتھ یہ حال تھا تو وہ بھی اپنی تصنیفات میں نثر ہو یا نظم خوب دل کے‬
‫بخارات نکالتے تھے۔ انھوں نے ان کے اخالق کی قلعی کھولنی شروع کی ۔ انھوں نے کہ شراب خوری و قمار بازی جو ا‬
‫اکبر الکبائر ہیں وہ بھی جو فروشی گندم نمائی سے بہترہیں ۔ انھوں نے کہا اعالنیہ کفر بکنا اس سے بہتر ہے کہ دل میں‬
‫کفر ہو اور زبان پر اسالم۔ وہ ’’امربالمعروف ‘‘اور ’’نہی عن المنکر ‘‘کرتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اوروں کی ہدایت‬
‫کرنے اور اپنے آپ کو گمراہ رہنے سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں۔ وہ کہتے تھے کہ تم حقوق ٰالہی ادا نہیں کرتے۔ انھوں‬
‫نے کہا تم حقوق عباد میں خیانت کرتے ہو۔ الغرض شعرائے متصوفین نے جو اہل ظاہر کی خردہ گیریاں کی ہیں وہ اسی‬
‫قسم کی تعریضات اور مطارحات ہیں ۔ اس کے سوا ان لوگوں کی غزلوں میں اکثر شراب و ساقی و جام و صراحی اور‬
‫ان لوازمات اورخالف شرع الفاظ‪ ،‬مجاز اور استعارے کے طورپر استعمال ہوئے ہیں۔ یہ لوگ یا تو اس خیال سے دوست‬
‫کا راز اغیار پر ظاہر نہ ہو یا اس نظر سے کہ لوگوں کا حسن ظن جو رہزن طریقہ ہے اس سے محفوظ رہیں۔ یا اس لیے‬
‫کہ عشق و محبت کی بھڑاس آزادنہ اور رندانہ گفتگو میں بہ نسبت سنجیدہ اور مودب گفتگو کے خوب نکلتی ہے یا اس‬
‫غرض سے کہ حریفوں کو چھیڑ چھیڑ کر اور زیادہ بھڑکائیں اور ان کے زجردمالقتی جو بے گناہ ملزموں کو تحسین و‬
‫آفرین سے زیادہ خوشگوار ہوتی ہے مزے لے لے کر سنیں۔ روحانی کیفیات کو شراب شاہد کے پیرائے میں بیان کرتے‬
‫‘‘تھے۔‬

‫تدریس غزل کے باب میں جو معامالت موضوع گفتگو بنے ہیں یا بن سکتے ہیں ان میں غزل کی ہیئت اور اس کے داخلی‬
‫اور خارجی پہلوئوں کے عالوہ آغاز و ارتقا ‪ ،‬مزاج اور نوعیت ‪ ،‬موضوعات اور شعریت‪ ،‬اسالیب و اظہار‪ ،‬تحریکات و‬
‫رجحانات ‪ ،‬رموز و عالئم اور ان کی فکری اور فنی جہات۔ داخلیت ‪ ،‬خارجیت‪ ،‬مادیت‪ ،‬رجائیت‪ ،‬قنوطیت ‪ ،‬ارضیت اور‬
‫ماروائیت جیسے میالنات روایت‪ ،‬بغاوت‪ ،‬فرسودگی ‪ ،‬جدت‪ ،‬قافیہ پیمائی ابتذال اور انحراف و اجتہاد جیسے بے شمار‬
‫مسائل ہیں جن کی واقفیت کے بغیر تدریس غزل کا حق ادا نہیں کیاجاسکتا۔‬

‫غزل کی تفہیم میں جو اصطالحات مدت دراز سے شعر اور شاعر کے تعین قدر کا وسیلہ ہیں ان میں شستگی‪ ،‬شائستگی‪،‬‬
‫روانی ‪،‬بے ساختگی‪ ،‬ندرت خیال ‪ ،‬ندرت بیان‪ ،‬جدت ادا‪ ،‬جوش بیان‪ ،‬سوز گداز ‪ ،‬مضمون آفرینی ‪،‬معنی آفرینی صداقت‬
‫جذبات‪ ،‬شدت احساس‪ ،‬نزاکت فکر‪ ،‬زبان کی سادگی بیان کی صفائی ‪ ،‬سالست‪ ،‬روزمرہ ‪ ،‬محاورہ‪ ،‬ضرب المثل ‪ ،‬بندش‬
‫کی چستی‪ ،‬اثر انگیزی‪ ،‬اثر آفرینی‪ ،‬جیسے ایمائی حوالے اور صنائع بدائع کے تعلق سے تشبیہ ‪ ،‬استعارہ ‪ ،‬تلمیح ‪ ،‬تضاد ‪،‬‬
‫مبالغہ ‪ ،‬مراعات النظیر ‪ ،‬رعایت‪ ،‬مناسبت ‪ ،‬عالمت ‪ ،‬ایہام‪ ،‬کنایہ‪ ،‬مجاز‪ ،‬مجاز مرسل‪ ،‬لف و نشر‪ ،‬حسن تعلیل اور اسی‬
‫قبیل کی دوسری معروف اور کثیر االستعمال صنعتیں ہیں جن کا علم و اداراک غزل کے استاد کے لیے از بس ضروری‬
‫ہے۔‬

‫غزل کی خارجی شناخت اور داخلی کیفیات کا علم ہونے کے ساتھ ساتھ اگر اس کے آغاز و ارتقا کا خاکہ بھی ذہن نشیں‬
‫کرلیا جائے تو غزل کی تاریخ کا یہ علم تدریسی عمل کو زیادہ دلچسپ‪ ،‬پرازمعلومات اور پراعتماد بنانے میں مددگار‬
‫ثابت ہوگا۔ اس خیال کے پیش نظر غزل کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ غزل عربی قصیدے کی‬
‫تشبیب سے علیحدہ کر کے ایک مستقل صنف کے طور پر ایران میں بہ زبان فارسی رائج کی گئی ۔ اگرچہ بعض ناقدین‬
‫کی رائے ہے کہ یہ صنف علیحدہ صورت میں عربی زبان میں بھی پہلے سے موجود اور رائج تھی‪ ،‬بہرحال اردو میں یہ‬
‫صنف فارسی کے ذریعہ پہنچی اور جوں کی توں قبول کر لی گئی۔ جوں کی توں قبول کرنے سے مراد یہ ہے کہ اردو‬
‫سرمایہ غزل میں ہیئت کے عالوہ وہی موضوعات جو فارسی غزل کا طرۂ‬
‫ٔ‬ ‫کی ابتدائی غزلوں میں بلکہ تمام کالسیکی‬
‫امتیاز تھے انھیں تشبیہات و استعارات اور لفظیات کے ساتھ مل جاتے ہیں جو ایرانی غزل میں اس کے اجزئاے الزمی‬
‫کے طورپر مستعمل رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ تلمیحات اور تشبیہات جن کا تعلق یا تو ایران سے تھا یا عرب سے ایران‬
‫پہنچی تھیں اردو غزل نے من و عن قبول کرلیں حاالں کہ بعد میں ان باتوں پر اعتراضات بھی ہوئے۔‬

‫ہندوستان میں اردو زبان کا آغاز شمالی ہند یعنی دہلی اور دہلی کے قرب و جوار مینہوا مگر اردو ادب کی ابتدائی کرنیں‬
‫جنوبی ہند میں پھوٹتی نظرآتی ہیں۔ اس تعلق سے جنوبی ہند کی ریاستوں خصوصا ً گولکنڈہ اور بیجا پور کی خدمات الئق‬
‫ستائش ہیں۔ اردو کا پہال صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ گولکنڈہ کا بادشاہ تھا شمالی ہند میں اردو غزل کا باقاعدہ‬
‫آغاز بھی جنوبی ہند ہی کے ایک شاعر ولی دکنی کی دلی آمد (‪ )1700‬سے ہوتا ہے ۔ قطب شاہ سے ولی تک تقریبا ً سو‬
‫برس کا فاصلہ ہے۔ ولی کی آمد کے بعد دلی میں اردو کا چرچا عام ہوگیا ۔ ولی سے قبل دلّی کے وہ باقاعدہ فارسی شاعر‬
‫بطور تفنن طبع فارسی میں ہندوی کا پیوند لگا کر شعر کہہ لیا کرتے تھے۔ ان میں موسوی خاں فطرت‪ ،‬خواجہ عطا‪،‬‬
‫مرزا جعفر زٹلّی‪ ،‬اٹل بلگرامی ار مرزا بیدل وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان میں جعفر زٹلّی نے نہایت بے باکی اور برہنہ‬
‫گفتاری کا مظاہرہ کیا اور اسی بے باکی کی وجہ سے بادشاہ وقت کے ہاتھوں اپنی جان بھی گنوائی۔‬

‫فغاں‪ ،‬یک‬
‫ناجی‪ؔ ،‬‬
‫ؔ‬ ‫کالم ولی کے ایہام نے شعرائے دہلی کا دل موہ لیا۔ ولی کی دلی سے واپسی کے بعد اس فن میں آ ؔ‬
‫برو‪،‬‬
‫مضمون اور حاتم وغیرہ نے پچیس تیس برس خوب گل کھالئے ۔ اسی عہد میں مرزا مظہر جان جاناں نے بھی‬
‫ؔ‬ ‫رنگ‪،‬‬
‫اردو غزل کی آبیاری کی۔ ایہام گوئی کے فیشن کی وجہ سے اس دور کو ’’دور ایہام گویاں‘‘ کہا گیا۔ ’’تالش لفظ تازہ‘‘‬
‫اس دور کا طرہ امتیاز تھا۔ بنابریں زبان کی وسعت کے لحاظ سے یہ رجحان بھی مفید ثابت ہوا۔ ان اساتذہ کے بعد اردو‬
‫میر‪ ،‬سود ؔا اور میر در ؔد جیسے عہد آفریں شعرا کے دور کے نام سے یاد کیا جاتا‬
‫غزل کا وہ سنہری دور شروع ہوا جسے ؔ‬
‫ہے۔ اس دور میں اردو غزل نے بے مثال ترقی کی۔ ان اساتذہ نے اردو غزل کے ایسے معیارات اور اسالیب مقررکردیے‬
‫جن کے آثار آج تک دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کے فورا ً بعد انشاء‪ ،‬مصحفی‪ ،‬جرأت ‪ ،‬آتش ‪ ،‬ناسخ وغیرہ کا زمانہ آتا ہے‬
‫اور اسی عہد سے منسلک ایک اور نئے دور کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔ یہ دور غالب‪ ،‬مومن اور ذوق جیسی نادر‬
‫نابغہ روزگار شخص ہے جس نے نہ صرف اردو کی‬
‫ٔ‬ ‫روزگار ہستیوں کے وجود سے منسوب ہے۔ ان میں غالب وہ‬
‫کالسیکی شاعری کو اپنی انتہا پر پہنچایا بلکہ جدید غزل کا بھی آغاز کیا اور پھر اسے بھی منتہائے کمال تک پہنچا دیا۔‬
‫غالب کے بعد غزل نے گویا اپنی معراج حاصل کرلی اور کالسیکی غزل اور جدید غزل دونوں کی بلندیوں کو چھوکر‬
‫آگے جانے کے تمام راستے محدود و مسدود کردیے۔ چنانچہ اس رنگ و آہنگ کے متوالے بعد کے شعرانے تقلید وپیروی‬
‫کی راہ اپنائی اور اپنے اپنے ذوق و ظرف ‪ ،‬مطالعہ اور فکر کے مطابق تنوع اور جدت پیدا کرنے کی کوشش کرتے‬
‫رہے۔ جدت پیدا کرنے کی سعی کرنے والوں نے کہیں لفظیات میں اضافہ کیا‪ ،‬کبھی خیال کو بدل کردیکھا‪ ،‬کہیں نئی‬
‫امیر ‪ؔ ،‬‬
‫داغ ‪،‬‬ ‫اورتازہ تشبیہات کے لیے نئے پہلو تالش کیے اور اپنی کوششوں میں کسی قدر کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ ؔ‬
‫جگر وغیرہ جیسے کالسیکی شعرا کے ساتھ ساتھ غزل کے اس سفر‬
‫ؔ‬ ‫اصغر‪،‬‬
‫ؔ‬ ‫فانی‪،‬‬
‫حسرت‪ؔ ،‬‬
‫ؔ‬ ‫یگانہ‪،‬‬
‫ؔ‬ ‫بیخود‪،‬‬
‫ؔ‬ ‫صفی‪،‬‬
‫ؔ‬ ‫جالل ‪،‬‬
‫ؔ‬
‫فراق‪ ،‬ناصر‬
‫ؔ‬ ‫فیض‪ ،‬مجروح؎ِ‬
‫ؔ‬ ‫میں مختلف تحریکوں اوررجحانوں سے وابستہ شاعر بھی شریک ہوتے گئے۔ ان میں‬
‫کاظمی جیسے کئی نام شامل ہیں۔ ان شعرا نے اردو غزل کو خیال کی سطح پر دوسری زبانوں کے ادب سے بھی متعارف‬
‫ؔ‬
‫اقبال اردو کے عظیم شاعر ہیں۔ انھوں نے بہت اچھی غزلیں کہیں ہیں مگر چوں کہ غزل ان کے مقاصد کی تکمیل‬
‫ؔ‬ ‫کرایا۔‬
‫کا ذریعہ نہیں بن سکتی تھی اس لیے انھوں نے پابند نظم کو اپنایایا غز ل کی ہیئت میں مربوط و مسلسل غزلیں کہیں جو‬
‫ظاہر میں غزل اور باطن میں نظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔‬

‫اس دوران غزل کے معترضین بھی پیدا ہوتے رہے مگر ان معترضین کی تعداد اس کے چاہنے والوں کے مقابلے میں‬
‫ہمیشہ مختصر رہی۔ ان معترضین کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جنھیں غزل کے موضوعات اور مواد پر اعتراض ہے ۔‬
‫حاالں کہ وہ خود بھی غزل کہتے ہیں۔ اس فہرست میں حالی کا نام سر فہرست ہے۔ حالی نہ صرف ایک اچھے شاعر بلکہ‬
‫اچھے انسان بھی تھے۔ ان کے اعتراضات میں اصالح کا پرخلوص جذبہ کارفرما ہے۔ بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے‬
‫کوئی ہمدرد انسان اپنی کسی پسندیدہ شے کے خراب ہونے سے بدحظ اور برافروختہ ہوکر ۔ اس کی اصالح کا طالب ہو۔‬
‫غز ل کے مواد پر حالی کے اعتراضات کی طویل فہرست ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں شامل ہے۔ حالی کے اعتراضات‬
‫کا اتنا شدید رد عمل ہواکہ اس کی مخالفت اور حمایت کا سلسلہ تقریبا ً چالیس سال تک چلتا رہا اور اس حوالے سے غزل‬
‫کی تجدید اور احیا کا عمل جاری رہا۔ حالی کے بعد عظمت ہللا خاں اور وحیدالدین سلیم نے بھی غزل پر اعتراضات کیے۔‬
‫عظمت ہللا خاں تو غزل سے اس قدر سخت ناراض ہوئے کہ انھوں نے غزل کی گردن بے تکلف اڑا دینے کی صالح دے‬
‫ڈالی۔ جوش ملیح آبادی کو غزل کے ہرشعر کی معنوی خود انحصاری پسند نہیں آئی۔ چنانچہ انھوں نے اسے ریزہ خیالی‬
‫اور داخلی انتشار کہہ کر مسترد کردیا۔ عندلیب شادانی نے غزل کے رسمی اور تقلیدی انداز بیان پر وہی اعتراضات کیے‬
‫جن کی ابتدا حالی سے ہوئی تھی۔ اردو کے مشہور نقاد کلیم الدین احمد نے غزل کو نیم وحشی صنف سخن قرار دیا۔‬
‫دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دور میں رشید احمد صدیقی غزل کو ’’اردو شاعری کی آبرو‘‘ کہہ رہے تھے۔ اب‬
‫غورفرمائیے کہ اسکولوں میں ایک ایسی صنف سخن کی تدریس کس قدر دشورا ہوگی جس کے اتنے امتیازات ہوں اور‬
‫جس پر اس قبیل کے اعتراضات وارد ہوچکے ہوں۔‬

‫‪https://adbimiras.com/ghazal-ki-tadrees-khalid-mahmood/‬‬

‫سوال نمبر ‪ :3‬فن مطالعہ کے تدریسی طریقوں کی اہمیت اور مہارتوں کو اجاگر کریں؟ بچوں میں فن تقریر کو پروان‬
‫چڑھانے کے لیے اہم امور اور تدریس پر روشنی ڈالیں؟‬

‫مطالعہ علم کو جالبخشتا ہے۔مطالعہ کو علم و دانش کی معدن کہاجاتا ہے۔مطالعہ ذہن کو بنجر پن سے محفوظ رکھتا‬
‫ہے۔مطالعہ نہ صرف طالب علموں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے بلکہ اساتذہ بھی اس کے ثمرات سے فیض و حظ اٹھاتے‬
‫ہیں۔ مطالعہ نہ صرف اساتذہ بلکہ طلبہ کے علم میں ترو تازگی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار انجام دیتا ہے۔طلبہ‬
‫مطالعہ کی صحت مند عادات کو اپناکر اپنے علم میں نہ صرف دن دگنی رات چوگنی ترقی کر سکتے ہیں بلکہ اپنی‬
‫یاداشت کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔مطالعہ ایک فن ہے ۔طلبہ فن مطالعہ کے اسرار و رموز سے آشنا ہوکر اپنے تحصیل‬
‫علم کے سفرکو پرکیف اور آسان بنا سکتے ہیں۔مطالعہ‪،‬پڑھنے سے پیشتر‪،‬دوران مطالعہ اور اختتام‪ ،‬ہر مرحلہ میں فکر‬
‫خیزی پر منحصر ہوتا ہے۔عام طور پرمطالعہ کی دو اقسام ہوتی ہیں۔‬
‫۔ )‪(serious reading‬سنجیدہ مطالعہ )‪(casual reading) (2‬عام مطالعہ)‪(1‬‬
‫اخبارات ‪،‬رسائل و جرائد اور دیگر مواد جس کے نہ بھی پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑھتا ہے کو عام مطالعہ کہاجاتا‬
‫۔طلبہ کے لئے چھپنے‬ ‫ہے۔کیونکہ ان رسائل و جرائد میں چھپنے والے مواد کو یا درکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی‬
‫والے تعلیمی رسائل بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔‬
‫اس کے برعکس ایسا مواد یا کتب جن میں موجود معلومات کو بازیافت کرنے اوراعادہ کرنے کی ضرورت درپیش ہوتی‬
‫‪ (serious‬ہے ۔خاص طورپر طلبہ کو اس مطالعہ کی سخت حاجت ہوتی ہے۔مطالعہ کی اس قسم کو سنجیدہ مطالعہ یا‬
‫سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ )‪reading‬‬
‫فن مطالعہ کی ایک خاص تکنیک‪SQ5R‬‬
‫طالب علموں میں سنجیدہ مطالعہ کی عادات کو فروغ دینے اور مستحکم کرنے کے لئے ماہرین نفسیات و تعلیم نے کئی‬
‫سود مند طریقہ وضع و ایجاد کیئے ہیں۔مطالعہ کو استحکام بخشنے والے جدید طریقوں میں ماہرین تعلیم و نفسیات کا‬
‫ایس ‪،‬کیو‪،‬فائیو(پانچ) آر)کا طریقہ بہت ہی کار گر اور سود مند ثابت ہوا ہے۔اپنی اثر انگیزی کی وجہ سے مطالعہ (‪SQ5R‬‬
‫کو عالمی سطح پر بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس مضمون کے ذریعہ اساتذہ اور طلبہ کو ‪SQ5R‬کے طریقے‬
‫سے متعلق معلومات فراہم کی جارہی ہیں تاکہ اساتذہ اپنے شاگردوں کو اس فن ‪SQ5R‬مطالعہ کے نہایت موثر طریقہ کار‬
‫سے آراستہ کرتے ہوئے ان کے تعلیمی سفر کو آسان اور موثر بنائیں۔‬
‫ایس کیو فائیو آ ر ۔کسی بھی طالب علم کے لئے درسی کتب کے اسباق کو پڑھنا جہا ں مشکل ہوتا ہے وہیں ‪SQ5R‬‬
‫)‪(concentratrion‬اسباق کو سمجھنے میں بھی ان کو نہایت دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دوران مطالعہ ذہنی عدم ارتکاز‬
‫کی وجہ سے اسباق کو سمجھنے اور مطالب و مفاہیم سے آشنائی پید ا کرنے میں عام طور پر ناکام رہتے ہیں۔ ذہنی عدم‬
‫ارتکاز کی شکایت عام طور پر اکثر طلبہ میں پائی جاتی ہے۔ماہرین تعلیم و نفسیات نے مطالعہ کو اثرافرینی اور انہماک‬
‫کی حکمت عملی کو وضع کیا ہے۔اس طریقہ کار کو اپناتے ‪ SQ5R‬و ارتکاز کی خوبیوں سے لیس کرنے کے لئے ہی‬
‫ہوئے طلبہ اپنے مطالعہ کو بہتر بناسکتے ہیں اور اپنی یاداشت کو استحکام فراہم کرتے ہوئے فقید المثال کامیابیاں حاصل‬
‫)‪، (biology‬حیاتیات )‪، (chemistry‬کیمیاء )‪ (physics‬کر سکتے ہیں۔طلبہ کے زیر مطالعہ مضامین خواہ وہ طبیعات‬
‫ہو یا پھر ہوابازی یعنی ہوائی جہاز کو اڑانے کی )‪،(history‬تاریخ )‪،(economics‬معاشیات )‪،(mathematics‬ریاضی‬
‫طریقہ کو استعمال کرتے ہوئے طلبہ نفس مضمون کو دیرپا ذہن نشین رکھ ‪SQ5R‬تعلیم و تربیت ہی کیوں نہ ہو مطالعہ کے‬
‫سکتے ہیں اور موضوع کی تفہیم میں بھی یہ طریقہ بہت ہی کارگرثابت ہوا ہے۔‬
‫طریقہ کار کیا ہے؛ ‪SQ5R‬‬
‫‪ Question‬جائزہ یا سرسری مطالعہ اور‪ Survery‬انگریزی لفظ ‪ SQ‬دراصل‬
‫پر مشتمل ہوتا ہے جس کو درجہ ذیل میں بیان کیا )‪(R‬سوال کا مخفف ہے۔اور یہ طریقہ کار پانچ آر‬
‫جامع (‪)،R=Read‬سوالنامے کی تیاری(‪)،Q=Questionnaire‬مطالعہ برائے جائزہ اسباق(‪S=Survey‬جارہاہے۔‬
‫یاد (‪)،R=Remember‬اعادہ یا دوبارہ جائزہ لینا(‪)،R=Review‬قرات ‪،‬بلند خوانی(‪)،R=Recite‬مطالعہ‬
‫)اکتساب شدہ معلومات کو امتحان میں اپنے الفاظ اور اپنے انداز میں پیش کرنا (‪)،R=Reproduce‬رکھنا‬
‫کو احاطہ کرنا ‪ ،‬مطالعہ برائے جائزئہ سبق بھی کہا جاتا ہے۔سبق کو اس کی پہلی سطر سے آخری سطر ‪S = Survery‬‬
‫تک جائزہ لیتے ہوئے احسن طریقہ سے نفس مضمون اور موضوع کا ادراک کرتے ہوئے کئے جانے والے مطالعہ‬
‫یامطالعہ ‪ survey‬یا مطالعہ برائے جائزہ کہاجاتا ہے۔پہلی سطر سے آخری سطر تک انجام دیا جانے واال ‪Survey‬کو‬
‫برائے جائزہ نہ صرف طلبہ کو سبق کے نفس مضمون کو سمجھنے میں معاون ہوتا ہے بلکہ اس طریقہ کار کو اپناتے‬
‫ہوئے طلبہ مضمون نگار کے مافی الضمیر کو بھی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ مطالعہ جائزہ کے ذریعہ طلبہ سبق‬
‫میں پوشیدہ مقاصد و مطالب سے آگہی حاصل کر لیتے ہیں۔سبق کی تفہیم کے لئے سود مند سواالت کے جوابات بھی‬
‫مطالعہ برائے جائزہ سے حاصل ہوجاتے ہیں۔سبق کے مطالعہ کے بعد ضروری ہوتا ہے کہ طلبہ سبق کے عنوان پر اپنی‬
‫توجہ مرکوز کریں۔کسی بھی سبق اور مضمون کا خالصہ اس کے عنوان میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ہمیں یہ خیال رکھنا‬
‫ضروری ہے کہ اخبارات ‪،‬رسائل و جرائدکے اکثر عنوان موضوع اور مضمون سے انصاف نہیں کر تے ہیں لیکن‬
‫اسکول اور کالجوں کے درسی کتابوں مینسبق ‪،‬مضمون اور موضوع کے عنوان اکثر موضوع پر سیر حاصل روشنی‬
‫پر )‪(sub heading‬ڈالتے ہیں۔طلبہ عنوان کے مطالعہ اور غور و خوص کے بعد اپنی توجہ سبق کی ذیلی سرخیوں‬
‫مرکوز کریں۔ذیلی سرخیوں کے تحت دیئے گئے مواد کا مطالعہ کریں۔سبق میں معنویت و اثرافرینی کی خاطر تصاویر‬
‫‪،‬نقشے اور خاکے پیش کیئے جاتے ہیں۔اگر سبق میں تصاویر ‪،‬نقشے اور خاکے موجو د ہوں تب طلباء خاکوں‬
‫‪،‬تصویروں اور نقشوں کی اہمیت و حقائق سے آشنائی پیدا کریناور ان میں پنہاں اسرار و معلومات کی جانچ و تحقیق‬
‫کریں۔سبق سے متعلق تصویروں ‪،‬خاکوں اور نقشوں کے مصور اکثر سبق کا دو تا تین مرتبہ مطالعہ کرتے ہوئے سبق‬
‫کے مقاصد اور مطالبات کو سمجھتے ہوئے سبق کے خالصے کو اپنے خاکوں ‪،‬نقشوں اور تصاویر کے ذریعہ پیش‬
‫کرتے ہیں۔تصاویر ‪،‬خاکے اور نقشے سبق اور مضمون کی تفہیم میں نہایت معاون ہوتے ہیں۔بعض اوقات صرف ایک‬
‫تصویر‪،‬نقشہ اور خاکہ ہی تما م سبق کے خالصے کو عمدگی سے پیش کر نے کے لئے کافی ہوتا ہے اور سبق کو‬
‫سمجھنے میں کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔طلبہ نقشوں ‪،‬خاکوں اورتصاویر پر توجہ مرکوز کرنے کے بعد اپنی توجہ سبق‬
‫پر مبذول کریں۔جلی حروف کے ذریعہ قلم کار اور مضمون نگار اہم نکات کو )‪ (Italic words‬میں موجود جلی حروف‬
‫واضح کرتے ہیں۔ جلی حروف کے ذریعہ طلبہ مضمون کو سمجھنے اور اہم نکات کے استحضار میں کامیابی حاصل کر‬
‫یا اقوال)‪،(theories‬نظریات)‪(definition‬لیتے ہیں۔اسباق میناکثروبیشتر مخصوص اصطالحات کی تعریف‬
‫کو جلی حروف میں پیش کیا جاتا ہے جیسے’’گیڈر کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی )‪(quotations‬‬
‫‘‘بہتر ہے۔‬
‫جائزہ مطالعہ یا سرسری مطالعہ کے بعد سوالنامے یا ‪ survey‬ترکیب میں‪SQ5R‬‬

‫کو ‪ questionnaire‬کی تیار ی بہت اہم ہوتی ہے۔سبق ونفس مضمون کے ادراک اور تفہیم مینسوالنامہ‪questionnaire‬‬
‫اکتسابی عمل میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔سرسری مطالعہ کے دوران یا اختتام پر طلبہ کے ذہنوں میں کئی سواالت‬
‫سر اٹھاتے ہیں۔طلبہ اپنے ذہنوں میں رقصانسواالت کو فوری ضبط تحریر میں الئیں۔ایک سوال کو تحریر کرتے ہی جوا‬
‫بلکھنے کی جگہ چھوڑ کر دوسرے سواالت کو تحریر کرتے جائیں۔سواالت کی وقعت اور اہمیت پر طلبہ قطعی توجہ نہ‬
‫دیں۔سبق کی تفہیم میں جو بھی سوال ان کو کارآمد لگے ان کو تحریر کرتے جائیں۔ کسی بھی سوال کو اٹکل پچو نہ‬
‫سمجھیں۔طلبہ کے تیار کردہ سوال ضروری نہیں کہ بامعنی اور با مقصد ہوں اور ان میں گہرائی اور گیرائی بھی پائی‬
‫کوکبھی دریافت نہیں کر پاتا )‪ (gravational power‬جائے۔نیوٹن اگر اسی طرح سوچتا تو پھر زمین کی قوت کشش‬
‫۔نیوٹن کا تجسس اور انداز فکر سب سے ہٹ کر اور انوکھاتھا۔ نیوٹن نے سوچا کہ درخت سے سیب جب گرتا ہے تو کیوں‬
‫وہ زمین کی طرف ہی آتا ہے آسمان کی طرف پرواز کیوں نہینکرتا ۔اسی نرالی سوچ نے دنیا کو زمین کی قوت کشش‬
‫سے واقف کروایا ۔ طلبہ ہر وقت سواالت کی معنویت اور مقصدیت پر اہمیت نہ دیں کبھی کبھی اس سے قطع نظر بھی‬
‫سواالت کوترتیب دینتاکہ تحقیق کے نئے زاویے سامنے آسکیں۔ طلبہ کے سواالت مقصدیت اور معنویت سے ضروری‬
‫اور )‪،(why‬کیوں)‪،(where‬کہاں )‪،(what‬کیا )‪،(who‬کون)‪(when‬نہیں کی پر ہوں۔سواالت کی ترتیب کے دوران کب‬
‫کا بکثرت استعمال کریں۔کب‪،‬کون‪،‬کیا‪،‬کہاں‪،‬کیوناور کیسے سواالت کے جوابات کو الزمی طور پر لکھیں۔ان )‪(how‬کیسے‬
‫سواالت کے جوابات بے معنی اور مہمل بھی ہوسکتے ہیں لیکن طلبہ اس حقیقت سے قطع نظراس کام کو بڑی دلجوئی‬
‫اور یکسوئی سے انجام دیں۔سواالت ترتیب دیتے وقت ایسے الفاظ کو بھی تحریر میں الئینجن کے معنی و مفاہیم سے وہ‬
‫میں تالش کریں اور ان )‪ (dictionary‬نابلد ہوں۔ایسے الفاظ کو تحریر کرنے کے بعد ان کے معنی و مفاہیم کو لغت‬
‫کے پہلو میں اور ہر پیراگراف کے نیچے یا پہلو میں )‪(sub headiings‬کواستعمال کرنا سیکھیں۔اسی طرح ذیلی سرخیوں‬
‫محفوظ رہیں۔‬
‫اہم نکات کو تحریر کریں تاکہ اعادہ کے وقت سہولت ہو اور وہ پریشانی اور وقت کے ضیاع سے ٖ‬
‫‪SQ5R‬یعنی مطالعہ برائے جائزہ کے بعد پھرسے پڑھنا‪1R(read)(1) :1R‬‬
‫تکنیک میں بہت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔مطالعہ برائے جائرہ اورسوالوں کو مرتب کرلینے کے بعد طلبہ کو سبق کے‬
‫متعلق آگہی پیدا ہوجاتی ہے۔سبق سے آگہی کے باوجود ان کے ذہنوں میں کبھی چند چھوٹے اور کبھی بڑے خدشات و‬
‫شبہات پائے جاتے ہیں جو کہ سبق کی تفہیم میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔لیکن مطالعہ برائے جائزہ کے بعد پھر سے سبق‬
‫کو پڑھنے سے اس طرح کے شک و شبہات رفع ہوجاتے ہیں۔ طلبہ اپنے سوالنامے میں ایسے سواالت کو شامل کرینجو‬
‫سبق کی افہام و تفہیم میں آسانی پیدا کر سکیں۔ان امور یا مشقوں کی انجام دہی کے بعد سب سے اہم کام طلبہ ان الفاظ کو‬
‫کرنا ہوتا ہے جنھیں وہ بہت ہی اہم سمجھتے ہوں۔الفاظ کو خط کشیدہ کرنے کے لئے پنسل‪،‬پین‪،‬یا )‪ (underline‬خط کشیدہ‬
‫کا استعمال کریں۔اہم الفاظ اور سطور کو خط کشیدہ کرنے سے الفاظ اور نکات نمایا )‪(sketch pens‬پھر رنگین پین‬
‫ندکھائی دیتے ہیں اور جب کبھی صفحات کو الٹا جائے یہنکات آسانی سے نظر میں آجاتے ہیں اور آسانی سے نہ صرف‬
‫ان کا اعادہ ہوجاتا ہیبلکہ وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ معلومات بھی ذہن نشین ہوجاتی ہیں۔‬
‫)‪2R(Rcite)(2‬‬
‫قرات‪:‬عبارت ‪،‬سواالت کے جوابات ‪،‬اہم الفاظ اور نکات کی صحت مند تلفظ کے اور بلند آواز سے کی جانے والی‬
‫کہاجاتا ہے۔سبز ی خوری جانور جیسے گائے بھینس اور بھیڑ وغیرہ چارہ کھانے )‪(Rcite‬شخصی بلند خوانی کو قرات‬
‫کے بعد کھائی ہوئی تھوڑی تھوڑی غذا کو وقفہ وقفہ سے معدے سے منہ میں ال کر پھر سے چباتے ہیں تاکہ غذا اچھی‬
‫طرح سے ہضم ہوکر جزو جسم بن جائے۔بالکل اسی طرح سے طلبہ بھی اکتساب شدہ معلومات کا تھوڑے تھوڑے وقفے‬
‫سے اعادہ کریں تاکہ معلومات کو تقویت اور استحکام نصیب ہوپائے۔‬
‫؛جو بھی مواد پڑھایامطالعہ کیا جاتا ہے فطری طور پر اس کا ‪ %80‬ہم بھول جاتے )‪R(Review‬آموختہ یا اعادہ ‪(3)3‬‬
‫ہیں۔‪%80‬بھول جانے کے باوجوداکثر لوگ ما باقی ‪ %20‬مواد کو بھی یا د نہیں رکھ پاتے ہیں۔اسی لئے مطالعہ اسباق‬
‫تحریر کرنا سود مند ہوتا ہے۔اہم نکات‪ ،‬نوٹس اور سبق )‪(synopsis‬کے دوران اہم نوٹس ‪،‬اہم نکات اور سبق کا خالصہ‬
‫کو رات کے اوقات میں سونے سے پہلے ذہنی طور پر دہرانے اور اعادہ کرنے سے معلومات )‪ (synopsis‬کے خالصہ‬
‫ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔خالصہ سبق اور اہم نکات کو ذہن میں ترو تازہ رکھنے کے لئے ابتدامینہر دودن کے بعد دہرانا یا‬
‫ان کا اعادہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔دو ہفتے تک اسی طر ح ہر دودن کے بعد گزشتہ معلومات کو دہرانے کے بعد اب دو‬
‫دن کے بجائے ایک ہفتہ تک کے بعد معلومات کو دہرا یا جائے اسی طرح یہ عمل چار ہفتوں یعنی ایک ماہ تک انجام‬
‫دینے کے بعد معلومات کو اب ایک ہفتہ کے بجائے ایک مہینیکے بعد دہراتے رہیں تاکہ معلومات ذہن میں تازہ ر ہیں۔اس‬
‫کی تکنیک پر عمل کرتے ‪R‬کے آخری ‪ SQ5R3‬اعادہ کے لئے صرف دس منٹ کا وقت درکار ہوتا ہے۔امتحان کے وقت‬
‫سے )‪ (review‬ہوئے طلباء باآسانی امتحان کی موثر طریقے سے تیار ی سرانجام دے سکتے ہیں۔اعادہ ‪،‬آموختہ یا دہرائی‬
‫نہ صرف معلومات ذہن میں تازہ اور محفوظ رہتے ہیں بلکہ طلبہ نہایت آسانی سے ایک بڑی کامیابی درج کرواسکتے‬
‫ہیں۔‬
‫)‪(R‬؛طلبہ ‪1‬تا ‪3‬آر)‪R(Remember‬یادرکھنا‪(4)4‬‬
‫پر عبور حاصل کرتے ہوئے بغیر کسی سعی و کاوش کے اسباق کو یاد رکھنے اور اعادہ کرنے پر قادر ہوجاتے ہیں۔‬
‫کے تحت الئیں اور ‪ SQ5R‬مطالعہ کے لئے طلبہ خو اہ کو ئی بھی طریقہ کار استعمال کریں لیکن اس طریقہ کار کو‬
‫پر عمل آوری کے ذریعے اپنے اسباق ‪،‬اہم نوٹس ‪،‬سواالت و جوابات اور دیگر ‪R‬خاص طور پر طلباء مذکورہ باال ‪3‬‬
‫معلومات کو یا د رکھنے کے قابل ہوجائیں گے۔‬
‫؛آخر میں تما م حاصل شدہ معلومات اور علم کو )‪R(Reproduce‬اپنے الفاظ میں تحصیل شدہ معلومات کو پیش کرنا‪(5)5‬‬
‫امتحان میں اپنے الفاظ اور اپنے اندازمیں پیش کرنا ہوتا ہے۔طلبہ سائنسی ‪،‬غیر سائنسی اور ادبی نظریات کو اپنے‬
‫اندازمیں بہتر الفاظ میں پیش کرتے ہوئے عظیم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔‬
‫ماہرین تعلیم و نفسیات کے بموجب اکتساب یا سیکھنے کے عمل(آموزش )کے عموما تین اقسام ہوتے ہیں۔‬
‫اور (‪ )3‬لمسی اکتساب یا عضالتی )‪)(Auditory learning‬سمعی اکتساب (‪)(visual learning)3‬بصری اکتساب(‪(1)2‬‬
‫۔بہر ے اور سماعت سے معذور افراد پہلے اور تیسرے (ؓبصری اور لمسی اکستاب) )‪(Kinesthetic learning‬اکتساب‬
‫ذرائع اکتساب سے ‪%100‬اکتساب کو ممکن بناتے ہیں۔بینائی سے محروم افراد (نابینا) دوسرے اور تیسرے (سمعی اور‬
‫لمسی اکتساب) کے ذریعہ اکتسابی سرگرمیوں کو انجام دیتے ہیں۔یہ معذور افراد اساتذہ کی جانب سے پڑھائے گئے اسباق‬
‫کو بصارت سے متصف افراد سے بہتر یا د رکھ پاتے ہینکیونکہ ان میں سمعی اور لمس کی صالحیتینبصارت رکھنے‬
‫والے افراد سے ‪%50‬زیادہ پائی جاتی ہیں۔ایک عام آدمی مذکورہ باال اکتساب کے تینوں طریقوں کو اپناتے ہوئے حیرت‬
‫انگیز کارنامے انجام دے سکتا ہے۔ہللا رب العزت نے ہم کو سمعی ‪،‬بصری اور لمسی صالحیتوں سے نوازا ہے۔اب یہ‬
‫ہمار ا کام ہے کہ اکتساب کے تینوں طریقوں کو ہم کیسے بروئے کار التے ہیں۔طلبہ اکتساب کے مذکورہ تین طریقوں اور‬
‫افراد کی فہرست میں اپنا نام درج کرسکتے ہیں)‪ (Genius‬طریقے پر عمل پیرا ہوکر نابغہ روزگار‪ SQ5R‬مطالعہ کے‬

‫‪https://avadhnama.com/muslim-‬‬
‫‪world/%D9%85%D8%B7%D8%A7%D9%84%D8%B9%DB%81-%DA%A9%DB%92-‬‬
‫‪%D9%81%D9%86-%D9%85%DB%8C%DA%BAsq5r%D8%A7%DB%8C%DA%A9-‬‬
‫‪%D9%85%D9%88%D8%AB%D8%B1-%D8%AA%DA%A9%D9%86%DB%8C%DA%A9/‬‬
‫سوال نمبر ‪ :4‬انشا پردازی کے ایم مقاصد بیان کریں۔ انشا پردازی کی تدریس سے متعلق مختلف طریقوں کے فواد اور‬
‫نقصانات پر روشنی ڈالین؟‬

‫جہاں تک اردو زبان میں انشاء پردازی کا تعلق ہے وہ اردو کی ابتداء اور ارتقاء کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی‬
‫جب خیاالت کو تحریری شکل دینے کے لئے قلم اور کاغذ کا سہارا لیا گیا تو پھر یہ ضرورت محسوس کی گئی‬
‫کہ جس طرح ایک مقرر اور خطیب اپنی گفتگو کو خوبصورت الفاظ سے مزین کر دیتا ہے اور وہ ا ٓواز کے زیر‬
‫و بم سے اپنے خیاالت اور تاثرات کا اظہار کرتا ہے جس سے سامعین اور ناظرین بخوبی ا ٓگاہ ہوتے چلے جاتے‬
‫ہیں کہ وہ ان باتوں پر زور دے رہا ہے اور اس کا حقیقی مطمع نظر کیا ہے وہ تقریر میں زیر و بم کے ذریعے‬
‫حقیقی جذبات تک پہنچتا چال جاتا ہے۔‬

‫انہی زیر و بم سے سامعین سحر خطابت میں گم ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کے ایک ایک جملے کو غور سے‬
‫سنتے ہیں تحریر میں اور خاص کر نثر میں نثر نگار سامنے تو نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ ا ٓواز کے زیر و بم سے‬
‫کچھ تاثر دے سکتا ہے کیونکہ وہ موجود نہیں ہوتا لہٰ ذا نثر نگار کو اپنے جذبات اور خی االت کا اظہار اسی‬
‫پیرائے کے ذریعے کرنا ہوتا ہے جو وہ لکھ رہا ہوتا ہے اور اسی تحریر کے ذریعے اسے قاری کو غم ‪،‬‬
‫خوشی‪ ،‬حیرت‪ ،‬خوشبو‪ ،‬بدبو‪ ،‬محبت اور نفرت کے جذبات سے معمور کرنا ہوتا ہے۔ لہٰ ذا لکھنے والوں کو ہی‬
‫اپنی تحریر کو ایسے رنگ ڈھنگ میں ڈھالنا اور ترتیب دی نا ہوتا ہے کہ قاری لکھنے والے کی تحریر کو اپنے‬
‫پر اسی طرح محسوس کرے جس طرح لکھنے واال چاہتاہے اور قاری لکھنے والے کا گرویدہ بن جائے اسی‬
‫سوچ نے انشاءپردازی کو پیدا کیا۔ابتدائی دور میں افسانے کے انداز میں لکھی جانے والی تحریر کو انشاء‬
‫پردازی کہا جانے لگا۔ڈاک ٹر وحید الدین قریشی کا کہنا ہے‪:‬‬
‫دم نے حواسے اظہار محبت کرتے ہوئے کی تھی اس زمانے‬ ‫دنیا کا قدیم ترین انشائی ادب وہ تھا جس کی تخلیق ا ٓ ؑ‬
‫سے لیکر ا ٓج تک انسانی ذہن کی یہ ترنگ جاری ہے اور انشائی ادب تخلیق ہورہا ہے۔( ‪)۱‬‬
‫انشاء حقیقت میں کیا ہے فرہنگ ا ٓصفیہ عربی النس ل لفظ کے مطلب یوں بیان کرتی ہے‪:‬‬
‫کچھ بات دل میں پیدا کرلینا‬ ‫(‪)۱‬‬
‫عبارت‪،‬تحریر‬ ‫(‪)۲‬‬
‫علم معانی وبیان‪،‬صنائع بدائع‪ ،‬خوبی عبارت‪ ،‬طرز تحریر‬ ‫(‪)۳‬‬
‫وہ کتاب جس میں خط و کتابت سکھانے کے واسطے ہر قسم کے خطوط جمع ہوں ‪ ،‬لیٹر بکس‪ ،‬چھٹیوں‬ ‫(‪)۴‬‬
‫کی کتاب ۔ ( ‪)۲‬‬
‫لفظ انشاء جب انشاء پردازی بنتا ہے تو اس کے معنی یوں درج ہیں‪:‬‬
‫طرز تحریر‪،‬عبارت ا ٓرائی‪ ،‬خط یا عبارت لکھنے کا ڈھنگ‪ ،‬عبارت کی خوبی‬ ‫(‪)۱‬‬
‫مضمون نگاری‪ ،‬مضمون نویسی۔( ‪)۳‬‬ ‫(‪)۲‬‬
‫درحقیقت انشاء پردازی انشاء پرداز کی ہی پیداوار ہوتی ہے وہ لفظوں اور جملوں کو اس انداز میں ترتیب‬
‫دیتا ہے کہ انشاء پردازی پیدا ہوتی ہے اس سے اس کا حسن نکھرتا ہے جدت کے ساتھ بات لوگوں کے دلوں میں‬
‫اترتی چلی جاتی ہے۔سید محمد حسنین کا کہنا ہے‪:‬‬

‫انشاء کا مادہ نشاء(نش َء ) سے نکال ہے جس کے لغوی معنی پیدا کرنا ہے یعنی انشاء کی علت غائت’’ ز ائیدگی‘‘‬
‫ہے یا ’’ ا ٓفریدگی ‘‘ انشاء کی توانائی دراصل خیال کی تازگی و تنومندی سے ظاہر ہوتی ہے۔ انشائی قوت سے‬
‫بات میں معنویت پیدا ہوتی ہے اور خیاالت کی لہریں نکلتی ہیں۔( ‪)۴‬‬

‫اپنے گہوارے سے نکل کر لفظ کئی مدارج طے کرتا ہوا مخصوص معنی کی حامل ایک اصطالح بن جاتا‬
‫ہے۔بعض اوقات لفظ کی اصل اور اصطالح میں بہت فاصلہ ہوتا ہے۔ اصطالح استعاراتی‪ ،‬عالمتی‪ ،‬اصالحی‬
‫معنی کو لغوی معنوں پر مرکوز رہنے کی درخواست کرتا ہے۔ انشاء کے جو بھی مطالب ہوں انشائیہ صرف‬
‫مضمون کا مترادف ٹھہرتا ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی کے بقول انشاء کا لفظ ابتدائی ط ور پر ایک دفتری اصطالح‬
‫سمجھا جاتا تھا پھر رفتہ رفتہ سرکاری احکام اور خطوط میں یہ رائج ہوتا گیا اور صاف شدہ تحریر کو اس سے‬
‫منسوب کیا گیا۔جس محکمے کے سپرد ’’مسودے ‘‘ کی تیاری کا کام ہوتا تھا اسے دیوان انشاء کہاکرتے‬
‫تھے۔شروع میں دربار کے زیر اثر فارسی نثر میں یہ تحریر لکھی جاتی تھی اور پھر یہی زبان مکتوبات کی‬
‫زبان قرار پائی۔ اس حوالے سے جابر علی سید کچھ یوں رقم طراز ہیں‪:‬‬

‫لفظ انشاء کا لفظی مفہوم تخلیق ہے اور فرانسیسی ‪ ESSAY‬کا مفہوم بھی کم و بیش تخلیق ہی ہے۔ اس بنا پر کہ‬
‫‪ ESSAY‬ذہنی کوشش و کاوش سے لکھی ہوئی تحریر ہے۔ ‪ TO ESSAY‬بطور فعل تخلیقی کوشش کرنا ہے اور‬
‫بطور اسم اس کاوش کا تحریری نتیجہ ہے۔( ‪)۵‬‬
‫انشاء پرداز کی تاریخ پر لسانیات کے ماہرین میں ہمیشہ تھوڑا بہت اختالف رہا ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے‬
‫انداز میں انشاء اور انشاء پردازی کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر جی ا یم ملک اور پروفیسر نثار‬
‫احمد جمیل کا کہنا ہے‪:‬‬
‫اپنے جذبات‪ ،‬احساسات‪ ،‬تاثرات‪ ،‬خیاالت و تصورات اور مافیالضمیر کو صحت و تندرستی کے ساتھ اپنی زبان‬
‫میں ادا کرنے کا نام انشاء ہے۔ اظہار خیال کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں‪ ،‬زبانی یا تحریری پہلی صورت کو‬
‫تقریری انشاء کہتے ہی ں اور دوسری صورت کو تحریر ی انشاء کہا جاتا ہے البتہ مقاصد کے اعتبار سے دونوں‬
‫ایک ہی ہیں۔( ‪)۶‬‬

‫یوں تو ہر تحریر قاری کے لئے لکھی جاتی ہے مگر تخلیقات جہاناپنا مدعا بیان کرنا چاہتی ہیں وہاں قاری کے‬
‫مزاج کو بھی سامنے رکھنا ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ انشاء پردازی ک ے ذریعے قاری تک اپنی بات پہنچانے‬
‫کی کوشش کرتا ہے۔ بعض اوقات قاری انشاء پردازی کی فنکارانہ ا ٓمیزش سے پیدا ہونے والی جمالیاتی حس سے‬
‫اتنا محظوظ ہوتا ہے کہ وہ اس تحریر سے خاصا اثر لے لیتا ہے۔ قاری کی یہی روش تخلیق کار کے لئے باعث‬
‫اطمنان و مسرت ہوتی ہے۔ ہر ادب ک ے پاؤں ہمیشہ زمین پر ہی رہتے ہیں مگروہ سانس فضاء میں ہی لیا کرتا‬
‫ہے۔ہمیشہ ہر تخلیق کو اپنی مقصدیت کی طرف النے کے لئے کچھ نہ کچھ فنی صالحیت بروئے کار النی پڑتی‬
‫ہے۔سقراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گھنٹوں نہیں دنوں غور و فکر میں گم رہتا تھا اور جب کسی بات‬
‫کی تہہ اور حقیقت تک پہنچ جاتا تو پھر اسے لکھنا شروع کرتا اور پھر اس کے تخیل کاایک دریا بہ نکلتا۔‬

‫تخیل کے لئے مشاہدات‪ ،‬تجربات‪ ،‬اور تاریخ کا وسیع علم ہونا اہم اور ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ بے راہ ہوجاتا‬
‫ہے۔ اسی طرح انشاء پرداز کا علم‪ ،‬تجربہ اور الفاظ پر گرفت ک ا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ انسانوں کی زندگی‬
‫میں جابجا اس کے جذبات کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے۔ انسان خوشی اور غم کا اظہار کرتا ہے‪ ،‬تالیاں بجاتا‬
‫ہے‪ ،‬ناچتا اور گاتا ہے‪ ،‬روتا اور ا ٓہ و فغاں کرتا ہے نالہ کی فریاد سے عرش کو بھی ہال دیتا ہے یہ تمام باتیں‬
‫غیر محسوس ط ریقے پر اس کی ا ٓنکھوں سے چھلک جاتی ہیں۔ جذبات سے ہی اس کی زندگی میں رعنائی ہوتی‬
‫ہے جذبات نہ ہوں تو زندگی میں وہ رنگینی اور دلکشی نہ رہے اور انسان ایک پتھر کی طرح ہوجائے اسی‬
‫طرح جب تک انسان کسی تحریر کو انشاء پردازی اور ضابطے میں نہیں ڈالتا اس کی صورت ایک ج امد پتھر‬
‫کی ہی ہے۔‬

‫تعالی نے اپنے حبیب ﷺ کے قلب اطہر پر وحی کا نزول کرکے اپنے پیغام کو ان تک پہنچایا اور انہیں کہا‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫جبرائیل کے توسط سے کیا گیا اور پھر اس کا سلسلہ جاری‬
‫ؑ‬ ‫کہ پڑھ اپنے رب کے حکم سے یہ وہ ابالغ تھا جو‬
‫رہا۔ہللا کے اس کالم کو تحریری شکل میں ڈھال کر ا ٓگے لوگوں تک پہنچایا گیا گویا پہلے ایک بات پہنچائی گئی‬
‫اور پھر اسے کتابی شکل میں رہتی دنیا تک کے انسانوں تک پہنچایا گیا۔( ‪) ۷‬‬

‫گفتگو کو عربی میں ’’ سحر ‘‘ جادو سے تشبیہ دی گئی ہے انشاء پردازی وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے لوگوں‬
‫کو اپنا ہمنوا بنایا جاسکتا ہے‪ ،‬روالیا جاسکتا‪ ،‬مشتعل کیا جاسکتا ہے اور انکے قلوب کو مسخر کیا جاسکتا ہے‬
‫انہیں اپنا نکتہ نظر ماننے پر ا ٓمادہ اور مجبور کیا جاسکتا ہے مگر اس تحریر میں تاثیر کا ہونا ضروری ہے اور‬
‫یہ تاثر انشاء پردازی کے ذریعے ہی پیدا کی جاسکتی ہے۔ دشمن کے خالف لوگوں کو صف ا ٓرا کرنے کے لئے‬
‫بھی ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ عوام کے دلوں میں پیوست ہوجاتے ہیں اور وہ جذبے اور‬
‫ولولے سے جان دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ ایک بہترین انشاء پرداز محل و قوع کے حوالے سے قاری کو‬
‫کبھی رال دیتا ہے‪ ،‬کبھی ہنسا دیتا ہے اور کبھی انہ یں خواب غفلت سے بھی جگا دیتا ہے درحقیقت جذبات نگاری‬
‫انشاء پردازی کا نہایت ہی کارگر عنصر ہے لفظوں سے کھیلنے کا جتنا اچھا فن جسے ا ٓئے گا وہی بہتر انشاء‬
‫پرداز ہوگا۔ نسیم حجازی اس حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫میں نے رنگارنگ پھولوں سے اپنا دامن بھر لیا ا ٓج ان پھولوں کو ایک گلدستے کی صورت میں پیش کر رہا ہوں‬
‫اگر اس گلدستے کو دیکھ کر ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں اس وادی کی سیاحت کا شوق اور خزاں رسیدہ چمن‬
‫کو اس وادی کی طرح سرسبز اور شاداب بنانے کی ا ٓرزو پیدا ہوجائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے اپنی محنت‬
‫کا پھل مل گیا ہے۔( ‪) ۸‬‬

‫مینح س لطافت اور جمالیات الزم و ملزوم ہیں انسان خوبصورتی کو پسند کرتا ہے حسن کا دلدادہ‬
‫ِ‬ ‫انشاء پردازی‬
‫ہوتا ہے جہاں بھی تحریروں میں چاند کا تذکرہ ہوگا‪ ،‬سبزہ زاروں کا ذکر ہوگا‪ ،‬ا ٓبشاروں ‪ ،‬مرغزاروں کے عالوہ‬
‫لب رخسار‪ ،‬محبوب کی اداؤں کی باتیں ا ٓئیں گی قاری اس طرف متوج ہ ہوتا ہے اور جب ادیب اپنے قلم کو حسن‬
‫کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے تو قاری اس قلم کار کا گرویدہ بن جاتا ہے جس نے حسن کو بیان کرنے کے‬
‫عالوہ عشق‪ ،‬محبت‪ ،‬پیار اور وفا کی داستانیں اپنی تحریر میں بیان کی ہوتی ہیں۔ عشق کی پاکیزگی ایسی‬
‫تحریروں کو مزید چار چاند لگا د یتی ہے۔ جو تحریر اپنے ہی قابو میں رہے مقصد سے انحراف نہ کرے اس میں‬
‫جمالیاتی حسن بھی برقرار رہے کسی لغزش کا بھی شکار نہ ہو اس میں جمالیاتی ِح س انشاء پردازی کے فن کو‬
‫جال بخشتی ہے اور قاری کے ذوق کو پختہ کرتے ہوئے تقویت پہنچاتی ہے۔ انشاء پردازی میں تشنگی نہیں ہوتی‬
‫وہ قدرتی مناظر کی عکاسی کا دلکش نمونہ بھی ہوتی ہے اور ذوق جمال کی تسکین بھی۔‬

‫انشاء پردازی اور ادب جو انسانی تقاضوں کو سامنے رکھ کر تخلیق کیا جائے اس میں محبت کا عنصر بھی‬
‫داخل ہو وہ قاری کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنا شروع کر دیتا ہے۔انشاءپردازی کے بارے میں تو یہ تک‬
‫کہا گیا کہ اس گونگے شخص کی مانند ہے جو بول نہیں سکتا مگر اپنا احساس شدت سے دالتا ہے۔ اس کے رگ‬
‫و پے میں رومان کی دلکشی اور محبت کے جذبات دھیرے دھیرے ا ٓگ کی طرح سلگتے رہتے ہیں مگر اس کا‬
‫نشان نظر نہیں ا ٓتا۔ انشاء پردازی سے بڑا کارگر ہتھیا ر شاید ہی کبھی اس سے پہلے ایجاد ہوا ہو۔ انشاء پردازی‬
‫دراصل کہالتی ہی وہ ہے جو ادب اور تاریخ کے بے جان اوراق میں شعور اور احساس کی روح کو پھونک دے‬
‫اور قاری ان احساسات کا ادراک کرے جسے لکھنے واال ان تک پہنچانا چاہتا ہے۔ انشاء پردازی ہی دشمن ملک‬
‫کے خالف اپنے نوجوانوں اور لوگوں میں قوت مدافعت کو بیدار کرتی ہے۔ ادبی چاشنی اور فنون لطیفہ کی‬
‫ٹھوس بنیادوں پر لکھی جانے والی تحریر کو جب مربوط کیا جاتا ہے تو وہ انشاء پردازی کے قالب میں ڈھل‬
‫جاتی ہے۔ انشاء پرداز کی تحریر احساس فن کا حسین امتزاج ہوتی ہے۔ فنی مہارت اور چا بک دستی سے اس‬
‫کے اثرات ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔ انشاء پرداز بھی اپنی انشاء پردازی کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔‬
‫‪http://www.urdulinks.com/urj/?p=3448‬‬

‫سوال نمبر ‪ :5‬زبان شناسی کے تناظر میں قواد شناسی کی اہمیت واضح کریں۔ تدریس اردو میں کمپیوٹر کے استعمال‬
‫کے فواد بھی تحریر کریں؟‬
‫ت حال نظر آتی ہے کیونکہ اب تک کی تحقیق کے مطابق اُردو کی پہلی قواعد‬
‫اردو کے سلسلے میں بھی ہمیں یہی صور ِ‬
‫کی کتاب ‪ 1690‬کے لگ بھگ ایک ڈچ باشندے نے مرتب کی تھی۔ یہ دراصل مقامی لفظوں کی ایک فہرست تھی جسکی‬
‫وضاحت کے لئے چند قواعدی اصول دریافت کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ البتہ ‪ 1747‬میں شائع ہونے والی بنجمن‬
‫ماہرین اُردو پہلی باقاعدہ گرامر قرار دیتے ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫شلزے کی جرمن زبان میں لکھی ہوئی ہندوستانی گرامر کو‬

‫انگلستان اور یورپ کے باشندوں نے اٹھارھویں اور انیسویں صدی کے دوسو برسوں میں اُردو اور ہندی کی بے شمار‬
‫صل مطالعے کی متقاضی ہیں لیکن آج ہم ایک ایسی کتاب کا ذکر کرنا چاہتے ہیں‬
‫گرامریں تحریر ِکیں اور وہ سب ایک مف ّ‬
‫جو کسی غیر ملکی نے نہیں بلکہ اسی دھرتی کے ایک سپوت نے لکھی تھی۔ کتاب کا نام تھا ’دریائے لطافت‘ اور‬
‫مصنف تھے انشاہللا خان انشاء۔‬

‫اگرچہ اُس وقت تک ’ ِلسانیات‘ ایک علیحدہ ِعلم کے طور پر ُمستحکم نہیں ہوئی تھی یعنی گرامر اور عروض ہی کو زبان‬
‫کا اصل علم گردانا جاتا تھا لیکن انشاء کی کتاب میں پہلی بار ہمیں ِلسانیاتی اپروچ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔‬

‫انشاء کو اِس اولّیت کا شرف بھی حاصل ہے کہ انھوں نے اُردو کو کالسیکی زبانوں کے معیار سے نہیں پرکھا‪ ،‬جسکا‬
‫رواج اُن دنوں عام تھا‪ ،‬بلکہ اُردو کو ایک مقامی زبان کے طور پر جانچا ہے۔ اُن کی معرکہ آراء تصنیف ’دریائے‬
‫‪:‬لطافت‘ کے بارے میں مولوی عبدالحق لکھتے ہیں‬

‫سید انشاہللا خان انشاء پہلے شخص ہیں جنھوں نے عربی فارسی کا تتبع چھوڑ کر خود اُردو زبان کی ہئیت و اصلیت پر ’‬
‫غور کیا اور اسکے قواعد وضع کئے اور جہاں کہیں تتبع کیا بھی تو زبان کی حیثیت کو نہیں بھولے‘۔‬

‫زیر بحث نہ الیا گیا‬


‫اور یہ حقیقت ہے کہ انشاء نے پہلی بار کچھ ایسے مسائل پر بات کی جنھیں غیر اہم سمجھ کر کبھی ِ‬
‫تھا۔ مثالً بیرونی زبانوں سے اُردو میں آنے والے وہ الفاظ جو گ ُھل ِمل کر اُردو کا ح ّ‬
‫صہ بن چکے تھے‪ ،‬مقامی محاورں کا‬
‫تذکرہ‪ ،‬نیز بولی اور زبان کا فرق۔‬

‫یہ غلط فہمی بڑی عام ہے کہ اُردو میں اگر عربی‪ ،‬فارسی‪ ،‬ترکی سریانی‪ ،‬پنجابی یا پوربی کا کوئی لفظ آجائے تو اسکا ’‬
‫ت حال یوں ہے کہ جو لفظ اُردو میں آگیا تو وہ اُردو کا‬
‫تلفظ اور استعمال اصل زبان کے مطابق ہونا چاہیئے‪ ،‬صحیح صور ِ‬
‫‘ہو گیا۔ اب اسکا استعمال بھی مقامی قواعد و ضوابط کے تحت ہوگا نہ کہ اصل زبان کے مطابق۔‬

‫اسکے بعد انشاء نے عربی اور فارسی کے الفاظ کی بہت سی مثالیں دی ہیں جنھوں نے مقامی رنگ روپ اختیار کر لیا‬
‫‪:‬ہے اور اب وہ اُردو کے الفاظ بن چکے ہیں۔ آجکل اِس عمل کو ’تہنید‘ کا نام دیا جاتا ہے یعنی‬
‫‪INDIANISATION‬‬

‫گرامر نویسوں کا زمانہء قدیم سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ محض معیاری زبان کو بُنیاد بنا کر تمام اصول و ضوابط اخذ‬
‫کرتے ہیں اور عالقائی بولیوں کو ناقص قرار دے کر ہر طرح کی بحث سے خارج کر دیتے ہیں۔‬
‫خود مغرب میں بھی صدیوں تک الطینی زبان کا ڈنکا بجتا رہا اور عالقائی بولیوں کو خاطر میں نہ الیا گیا۔ اِس لحاظ سے‬
‫انشاء کے کام پر حیرت ہوتی ہے کہ اس نے دوسو برس پہلے بولی ٹھولی کی اہمیت کو سمجھ لیا اور بالکل اس انداز میں‬
‫عالقائی محاوروں کا تجزیہ کیا جسطرح آج کل ڈائیلیکٹولوجی کے امریکی اور یورپی ماہرین کرتے ہیں۔‬

‫دہلی کے مختلف محلّوں کی زبان کا تجزیہ کرنا اور اُن کے باہمی فرق پر لکھنا اِنشاء ہی کا کام تھا۔ اسی مطالعے کو آگے‬
‫بڑھاتے ہوئے انشاء نے دہلی اور لکھنؤ کی زبان کا موازنہ بھی پیش کیا ہے۔ انشاء کا ایک اور کمال یہ ہے کہ اس نے‬
‫اُردو آوازوں کا مکمل تجزیہ پیش کرتے ہوئے یہ نکتہ بھی پیش کیا کہ جن آوازوں کو ہم ’بے ھے کی بنی بھے‘ اور‬
‫’پے ھے کی بنی پھے‘ وغیرہ کہتے ہیں وہ دراصل ب اور ھ کی آوازوں کا مجموعہ نہیں ہیں‬

‫انشاء اپنے ہم عصر شاعروں اور ادیبوں کے مقابلے میں خاصے آزاد خیال اور جدید فکر کے حامل نظر آتے ہیں۔ مثالً‬
‫دریائے لطافت میں لکھتے ہیں کہ زبان داں ہونے کے لئے دہلی میں پیدا ہونا ضروری نہیں۔ کوئی باہر کا آدمی بھی اپنے‬
‫علم و فضل کے زور پہ دہلی والوں کی زبان درست کر سکتا ہے‘ اسطرح کی ِلسانی کفر گوئی کی ہمت دہلی میں بیٹھ کر‬
‫انشاء کے سوا کوئی نہ کر سکتا تھا۔‬

‫‪:‬فعل امر ونہی کےبارے میں ایک جگہ ’مت جا‘ اور متی جا کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں‬

‫زبان دالل بچگان است کہ ’‬


‫ِ‬ ‫حرف نہی باشد ۔۔۔ ’تو متی جا‘‬
‫ِ‬ ‫زبان ُم ّالہائے مکتبیء شاہ جہاں آباد و بعضے ہنود ’مت‘‬
‫ِ‬ ‫بر‬
‫‘ پدرومادر پنجابی و خود در دہلی متولد شدہ اند ۔۔۔‬

‫سودگران پنجابی کی اوالد جو زبان بولتی تھی‪ ،‬انشاء نے اسکا بھی تجزیہ کر ڈاال اور اُس کی تاریخی‬
‫ِ‬ ‫یعنی دہلی کے‬
‫وجوہ پر بھی روشنی ڈال دی۔‬

‫فارسی متن کے باعث اردو زبان وادب کے موجودہ طلبہ اِس کتاب کو پڑھنے سے گریزاں رہتے ہیں لیکن اُردو جاننے‬
‫واال کوئی بھی شخص ذرا سی کوشش سے اس کتاب کے مندرجات کو سمجھ سکتا ہے اور جو حضرات اتنی زحمت بھی‬
‫نہ کرنا چاہیں اُن کے لئے پنڈت برجموہن دتہ تریا کیفی کا کیا ہوا رواں دواں سلیس اُردو ترجمہ موجود ہے۔‬

‫‪https://www.bbc.com/urdu/miscellaneous/story/2005/12/printable/051228_zaban_o_biyan6‬‬
‫‪_rs‬‬

You might also like