You are on page 1of 17

‫سج اد م یس ح‬ ‫ع‬

‫م لم‬
‫ش ن‬
‫‪2‬‬ ‫م ق مب ر‬
‫عدی ل طارق‬ ‫طالب علم‬
‫‪6509‬‬ ‫کورس کوڈ‬
‫خ‬ ‫س س رٹ‬
‫زاں‪2022‬‬ ‫م‬

‫ٹخ‬ ‫ت‬
‫سمس ر زاں‬ ‫کورس‪ :‬دریسات اردو‬
‫‪2022‬‬
‫ت ن ش ن‬ ‫س طح‪ :‬ای م اے‬

‫ام حا ی م ق مب ر ‪2‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫غ‬ ‫ن‬
‫ے ج اویز دی ں؟‬ ‫سوال مب ر ‪ :1‬ادبی اور ی ر ادبی ث ر کا موازن ہ کری ں ی ز ادبی ث ر کی اصالح کے لی‬
‫‪:‬ادبی اور غیر ادبی تحریروں میں فرق‬
‫ادب کسی بھی زبان کا تحریری سرمایہ ہوتا ہے لیکن ہر تحریر ادب کے زمرے میں نہیں آتی۔ ادب کی‬
‫کچھ خصوصیات ہوتی ہیں‪ ،‬جب تک وہ کسی تحریر میں موجود نہ ہوں۔ ان کو ادب کے دائرۂ کار میں‬
‫شامل نہیں کیا جا سکتا۔ ابو االثر حفیظ صدیقی ادبی اور غیر ادبی تحریروں کے چند امتیازات بتاتے ہیں‬
‫‪:‬جن کی بدولت ادبی اور غیر ادبی تحریروں میں تفریق کی جا سکتی ہے۔ وہ امتیازات درج ذیل ہیں‬
‫حسن اظہار سے بھی‪1‬‬
‫ِ‬ ‫اظہار محض مقصود ہوتا ہے جبکہ ادبی تحریروں کو‬
‫ِ‬ ‫۔ غیر ادبی تحریروں میں‬
‫دلچسپی ہے۔‬
‫۔ غیر ادبی تحریروں کے برعکس ادبی تحریروں میں مصنف کے اسلوب کے ذریعے اس کی ذات بھی‪2‬‬
‫غالب کا‪ ،‬یعنی مصنف کی‬
‫ؔ‬ ‫میر کا ہے یا‬
‫اظہار پاتی ہے۔ اس کے ذریعے ہم جان لیتے ہیں کہ یہ شعر ؔ‬
‫ذات اس کی تخلیق میں شامل ہوتی ہے۔‬
‫۔ادبی تحریروں کا مواد عام انسانی دلچسپی پر مشتمل ہوتا ہے اور غیر ادبی تحریر کے لئے یہ شرط‪3‬‬
‫ضروری نہیں۔ جغرافیے یا سائنس کی کتاب کا دلچسپ ہونا ضروری نہیں۔ لیکن کسی افسانے یا ناول کو‬
‫دلچسپ ہونا چاہئے۔‬
‫۔ غیر ادبی تحریر کسی ہیئت کی پابند نہیں جبکہ ادبی تحریر کے لئے یہ پابندی ضروری ہے۔‪4‬‬
‫۔ ادبی تحریر میں مصنف تخیل سے کام لیتا ہے جبکہ غیر ادبی تحریر حقائق پر مشتمل ہوتی ہے۔‪5‬‬
‫۔ ادبی تحریر میں جذبے کی اہمیت مسلّم ہے۔ جبکہ غیر ادبی تحریر جذبات و احساسات سے بے تعلق‪6‬‬
‫ہوتی ہے۔‬
‫۔ ادبی تحریر کا مقصد مسرت بخشی اور حسن آفرینی ہے جبکہ غیر ادبی تحریر میں معلومات کی‪7‬‬
‫ترسیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔‬

‫‪:‬ادب کے تین بنیادی مقاصد ہیں‬


‫۔ پہال مقصد جمالیاتی مسرت بہم پہنچانا۔‪1‬‬
‫۔ جمالیاتی مسرت کے ساتھ ساتھ حیات و کائنات اور فرد کی ذات کے بارے میں ایسی آگہی بخشنا جس‪2‬‬
‫سے اس کے قلب و ذہن کو جال ملے۔‬
‫طرز عمل یا زاویۂ نظر اختیار کرنے کی ترغیب دینا۔‪3‬‬
‫ِ‬ ‫۔ قارئین کو کوئی خاص‬
‫بہرحال جس تحریر میں احساس‪ ،‬جذبے‪ ،‬تاثر اور تخیل کی کارفرمائی کے ساتھ ساتھ اسلوب کی‬
‫خوبصورتی بھی موجود ہو تو ایسی تحریر ادب کے زمرے میں آئے گی۔‬

‫ت‬ ‫خ‬ ‫ض‬ ‫ح‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫خ‬ ‫ن ن ن مت‬ ‫ن‬


‫ے مرحلہ وار سب ق اکہ حریر‬
‫ے اور اس کی دریس کے مرا ل کی و احت کے لی‬ ‫ک‬
‫سوال مب ر ‪ :2‬اپ ی پ س د کی ظ م ن ب ی یج‬
‫یک ج ئ‬
‫ے؟‬‫ی‬
‫تدریسی اصولوں کا موثراستعمال‪:‬۔تدریس ایک پیشہ ہی نہیں بلکہ ایک فن ہے۔ پیشہ وارانہ تدریسی‬
‫فرائض کی انجام دہی کے لئے استاد کا فن تدریس کے اصول و ضوابط سے کم حقہ واقف ہوناضروری‬
‫ہے۔ ایک باکمال استاد موضوع کو معیاری انداز میں طلبہ کے ذہنی اور نفسیاتی تقاضوں کے عین‬
‫مطابق پیش کرنے کے فن سے آگاہ ہوتا ہے۔ معیاری اور نفسیاتی انداز میں نفس مضمون کو پیش کر نا‬
‫ہی تدریس ہے۔ موثر تدریس کے لئے ‪،‬کسی بھی موضوع کی تدریس سیقبل‪ ،‬استاد کا موضوع سے‬
‫متعلق اپنی سابقہ معلومات کا تشفی بخش اعادہ ا ور جائزہ بے حد ضروری ہے۔ سابقہ معلومات کے‬
‫اعادہ و جائزہ کے عالوہ موضوع سے متعلق جدید تحقیقات و رجحانات سے لیس ہوکر اساتذہ اپنی‬
‫شخصیت کو باکمال اور تدریس کو بااثر بنا سکتے ہیں۔ موثر تدریس کی انجام دہی کے لئے اساتذہ کا‬
‫تدریسی مقاصد سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔تدریسی اصولوں پر عمل پیرائی کے ذریعے اساتذہ‬
‫مقاصد تعلیم کی جانب کامیاب پیش رفت کر سکتے ہیں۔ موثر تدریس اورتعلیمی مقاصد کے حصول میں‬
‫تدریسی اصول نمایا ں کردار ادا کرتے ہیں۔تدریسی اصولوں سے اساتذہ کیوں‪ ،‬کب اور کیسے پڑھانے‬
‫کا فن سیکھتے ہیں۔تدریسیاصولوں کا علم اساتذہ کو تدریسی الئحہ عمل کی ترتیب اور منظم منصوبہ‬
‫بندی کا عادی بناتا ہے۔کیوں‪ ،‬کب ‪ ،‬اورکیسے پڑھا نے کااصو ل اساتذہ کی مسلسل رہنمائی کے عالوہ‬
‫تدریسی باریکیوں کی جانکاری بھی فراہم کرتا ہے ۔ تدریسی اصولو ں پر عمل کرتے ہوئے اساتذہ موثر‬
‫اور عملی تدریس کو ممکن بناسکتے ہیں۔تدریسی اصول بامقصد تدریس‪،‬نئے تعلیمی رجحانات ‪ ،‬تجزیہ و‬
‫تنقید‪ ،‬مطالعہ و مشاہدہ ‪،‬شعور اور دلچسپی کو فروغ دیتے ہیں۔ تدریسی اصولوں پر قائم تعلیمی نظام‬
‫نتیجہ خیز اور ثمر آورثابت ہوتا ہے۔تدریسی اصولوں پرکاربند استا د معلم سے زیادہ‪ ،‬ایک رہنما اور‬
‫رہبرکے فرائض انجام دیتاہے۔ جدید تعلیمینظریات کی روشنی میں استاد ایک مدرس اور معلم ہی نہیں‬
‫بلکہ ایک رہبر اور رہنما بھی ہوتا ہے۔ اسالمی تعلیمات سے عدم آگہی کی وجہ سے ہم اس نظریہ تعلیم‬
‫کو جدیدیت سے تعبیر کر رہے ہیں جب کہ یہ ایک قدیم اسالمی تعلیمی نظریہ ہے جہا ں استاد کو‬
‫معلومات کی منتقلی کے ایک وسیلے کی شکل میں نہیں بلکہ ایک مونس مشفق مربی رہنما اور رہبر کی‬
‫حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ تدریسی اصولوں سے باخبر استاد بنیادی تدریسی و نفسیاتی اصولوں کی‬
‫یکجائی سے تعلیم و اکتساب کو طلبہ مرکوز بنادیتا ہے۔ذیل میں اہمیت کے حامل چند نمایاں تدریسی‬
‫اصولوں کو بیان کیا جارہاہے ۔‬
‫ترغیب و محرکہ تدریسی اصولوں میں اساسی حیثیت کا حامل ہے۔طلبہ میں تحریک و ترغیب پیدا )‪(1‬‬
‫کیئے بغیر موثر تدریس کو انجام نہیں دیا جاسکتا۔ طلبہ میں اکتسابی میالن ترغیب و تحریک کے مرہون‬
‫منت جاگزیں ہوتاہے۔ حصول علم‪ ،‬پائیدار اکتساب اور علم سے کسب فیض حاصل کرنے کے لئے‬
‫طلبہمیں دلچسپی اور تحریک پیدا کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔فعال و ثمر آور اکتساب ترغیب و تحریک‬
‫کے زیر اثر ہی ممکن ہے۔تدریس میں ہر مقام پر طلبہ میں محرکہ کا مطالبہ کرتی ہے۔ بغیر محرکہ پیدا‬
‫کیئے کامیاب اکتساب ممکن ہی نہیں ہے۔اکتسابی دلچسپیوں کی برقراری کے لئے محرکہ بہت اہم ہے۔‬
‫محرکہ کی وجہ سے طلبہ میں اکتساب کی تمنا انگڑائی لیتی ہے۔‬
‫درس و تدریس استاد اور طالب علم پر مبنی ایک دوطرفہ عمل ہے۔موثر تدریس اور کامیاب اکتساب)‪(2‬‬
‫کے لئے تعلیمی عمل میں استاد اور شاگرد دونوں کی سرگرم شرکت الزمی تصور کی جاتی ہے۔تعلیمی‬
‫سرگرمیوں کے بغیر تدریسی عمل بے کیف اور عدم دلچسپ بن جاتا ہے۔طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کی‬
‫نمو ‪،‬فروغ اور برقراری میں تعلیمی سرگرمیاں بہت اہم ہوتی ہیں۔ کامیاب اکتساب اور موثر تدریس میں‬
‫‪ (Activity Based‬محرکہ کے بعد سب سے نمایاں مقام سرگرمیوں پر مبنی تدریس و اکتساب‬
‫کو حاصل ہے۔ سرگرمیوں پر مبنیتدریس طلبہ میں تعلیم سے دلچسپی ‪،‬شوق و ذوق پیدا)‪Teaching‬‬
‫کرنے کا باعث بنتی ہے۔سرگرمیوں کے زیر اثر طلبہ میں نصابی مہارتیں فروغ پانے لگتی ہیں۔‬
‫سرگرمیوں کے زیر اثر انجام پانے والی تدریس اور اکتساب موثر اور پائیدار واقع ہوتے ہیں۔سرگرمیوں‬
‫فروغ پاتی ہے۔تدریسی اصولوں میں)‪ (Practical Learning‬کے ذریعے طلبہ میں عملی اکتساب‬
‫سرگرمیوں پر مبنی تدریس کو بہت اہمیت حاصل ہے اسی لئے اساتذہ اپنی تدریس کو کامیابی سے‬
‫کو اپنی تدریس کا الزمی جزو بنا لیں۔)‪(activities‬ہمکنار کرنے کے لئے سرگرمیوں‬
‫دوران تدریس استاد جو حکمت عملی اختیار کرتا ہے اسے تدریسی حکمت عملی یا طریقہ تدریس)‪(3‬‬
‫کہتے ہیں۔تدریسی طریقہ کار معلومات کی منتقلی اورطلبہ میں علم سے محبت و دلچسپی پیدا کرنے میں‬
‫اہم کردار ادا کرتا ہے۔تدریس دراصل معلومات کی منتقلی کا نام نہیں ہے بلکہ طلبہ میں ذوق و شوق کو‬
‫پیدا کرنے کا نام ہے۔ طلبہ میں علم کا ذوق و شو ق اگر پیدا کردیا جائے تب اپنی منزلیں وہ خود تالش‬
‫کرلیتے ہیں۔ایک کامیاب استاد اپنے طریقہ تدریس سے طلبہ میں معلومات کی منتقلی سے زیادہ شوق و‬
‫ذوق کی بیداری کو اہمیت دیتا ہے۔وہ تدریسی حکمت عملی اور طریقہ کار کامیاب کہالتا ہے جو بچوں‬
‫میں اکتساب کی دلچسپی کو برقرار رکھے ۔اساتذہ طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کی برقراری کے لئے‬
‫تدریسی معاون اشیاء(چارٹ‪،‬نقشے‪،‬خاکے‪،‬تصاویر‪،‬قصے ‪،‬کہانیوں‪،‬دلچسپ مکالموں اور فقروں) کو اپنی‬
‫تدریسی حکمت عملی میں شامل رکھیں۔‬
‫اختیار کردہ تعلیمی پروگرام اور سرگرمیوں کے پہلے سے طئے شدہ مقاصد ہونے چاہیئے۔ اور ان)‪(4‬‬
‫مقاصد کے حصول کے لئے مناسب الئحہ عمل کے تحت اساتذہ کو تعلیمی سرگرمیوں کو منتخب کرنے‬
‫کی ضرورت ہوتی ہے۔مبنی بر مقاصد تعلیمی سرگرمیاں تعلیمی اقدار کی سربلندی اور بامعنی اکتساب‬
‫میں بہت معاون ہوتی ہیں۔تعلیمی سرگرمیاں تعلیمی مقاصد سے مربوط ہونی چاہیئے۔ورنہ تعلیمی مقاصد‬
‫کا حصول اور بامقصد اکتساب دونوں بھی ناممکن ہوجاتے ہیں۔‬
‫اساتذہ تدریسی تنوع کے لئے جہاں مختلف سرگرمیوں سے کام لیتے ہیں وہیں تدریس کے دوران)‪(5‬‬
‫انھیں ایک بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہو تی ہے اور یہ توجہ تدریس کا سب سے اہم‬
‫اصول ہے اور وہ ہے بچہ کی انفرادیت کا احترام ۔بچے کی انفرادیت اور اس کی شخصیت کو کوئی‬
‫نقصان پہنچائے بغیر اساتذہ کو تدریسی خدمات انجام دینی چاہیئے۔دوران تدریس بچے کی انفرادیت اور‬
‫کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ)‪ (Learning Diversities‬اس کے اکتسابی تنوع‬
‫ہر بچے کی ذہنی صالحیت ‪ ،‬ذہانت ‪ ،‬جذباتیت‪ ،‬احساس دلچسپی اور ضروریا ت میں نمایاں فرق پایا جاتا‬
‫ہے۔ان تمام امور کو مد نظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو تدریسی فرائض انجام دینا ضروری ہوتا ہے۔اساتذہ‬
‫جب طلبہ کی شخصیت اور انفرادیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں تب‬
‫استاد اور شاگرد میں ایک اٹوٹ وابستگی پیدا ہوجاتی ہے اور کند ذہن سے کند ذہن طالب علم بھی تعلیم‬
‫میں دلچسپی لینے لگتا ہے ۔طلبہ کی انفرادیت اور اکتسابی تنوع کا خیال رکھنے سے ایک بہت ہی خوش‬
‫گوار تدریسی اور اکتسابی فضا جنم لیتی ہے۔اور اس فضاء میں ہر بچہ خود کو نہایت اہم اور خاص‬
‫تصور کرنے لگتا ہے۔ تعلیمی و تدریسی حکمت عملی اختیار کرتے وقت اساتذہ طلبہ کے تنوع اور‬
‫انفرادیت کا بطور خاص خیال رکھیں ۔‬
‫موثر تدریس ‪،‬بہتر اکتساب اور طلبہ میں تخلیقیت اور اختراعی صالحیتوں کی نمو و فروغ کے لئے)‪(6‬‬
‫اساتذہ تخلیقی اور اختراعی طریقہ ہائے تدریس کو بروئے کار الئیں۔ طلبہ میں ہر قسم کی تخلیقی‬
‫میں ایک اہم‬
‫صالحیتوں کو پروان چڑھانا ضروری ہوتا ہے اور تخلیقی تدریس اس اہم کام کی تکمیل ٖ‬
‫عنصر تصور کی جاتی ہے۔تخلیقی صالحیتوں کو فروغ دینے والی تدریسی اقداربامقصد اور ثمر آور‬
‫اکتساب میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں۔‬
‫سابقہ معلومات کا موجودہ علم سے ارتباط‪،‬نامعلوم کو معلوم سے مربوط کرنا‪،‬معلومات زندگی کو)‪(7‬‬
‫کہالتا ہے۔علم ارتباط کو فن)‪ (principal of correlation‬عملی زندگی سے جوڑنا ہی علم ارتباط‬
‫تدریس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے جس کی بغیر علم بے مقصد اور فضول شئے بن جاتا‬
‫ہے۔علم ارتباط کے ذریعہ معلومات ‪،‬دانشوری میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور علم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے طلبہ‬
‫کے ذہنوں میں محفوظ ہوجاتا ہے۔علم ارتباط کی وجہ سے معلومات(علم ) نہ صرف محفوظ ہوجاتے ہیں‬
‫کرنے کی صالحیت میں بھی)‪ (Retention and Retreival‬بلکہ وقت ضرورت معلومات کو بازیاب‬
‫اضافہ ہوجاتا ہے۔‬
‫تدریس کو معقول موثر اور طلبہ کے لئے دلچسپ بنانے کے لئے اساتذہ ‪ ،‬بہتر سے بہتر طریقہ)‪(8‬‬
‫تعلیمی معاون اشیاء‪(teaching strategies)،‬تدریسی حکمت عملی‪(Teaching methods)،‬تدریس‬
‫اور دیگر وسائل کا بر موقع استعمال کرنے میں غایت درجہ کی احتیاط سے کام)‪(Teadching aids‬‬
‫لیں۔موثر تدریس مناسب طریقہ تدریس کے انتخاب کا دوسرا نام ہے۔ اسی لئے اساتذہ کمرۂ جماعت ‪،‬طلبہ‬
‫کی استعداد‪ ،‬اور ذہنی تنوع کو مد نظر رکھتے ہوئے تدریسی طریقوں کا انتخاب کریں ۔‬
‫تعلیم و تدریس کا اہم مقصد طلبہ میں صحت مند اقدار کی منتقلی ‪،‬صحت مند رویوں ‪ ،‬عادات کی)‪(9‬‬
‫کا فروغ ‪،‬کردار سازی‪ ،‬زندگی میں معاون مہارتوں اور )‪(discipline‬تشکیل و استحکام‪،‬نظم و ضبط‬
‫عزت نفس کا فروغ ہے۔وہ تعلیم بامقصد اور کارآمد تصور کی جاتی ہے جو ہر طالب علم کو ترقی کے‬
‫یکساں مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ایک بامقصد اور کارآمد زندگی کے لئے کو تیار کیا جاتا ہے ۔‬
‫مذکورہ مقاصد کے پیش نظر درس و تدریس کو طلبہ کی شخصی ترقی کا ایک اہم ذریعہ تصور کیا گیا‬
‫ہے۔ اساتذہ ایسی تدریسی حکمت عملی اور طریقوں کو بروئے کار الئیں جو طلبہ کی شخصی ترقی اور‬
‫استحکام کا باعث بنے۔‬
‫کے ذریعے اکتساب کی ترقی اور)‪ (Evaluation‬اور تعین قدر ‪،‬جانچ)‪ (Recapitulation‬اعادہ)‪(10‬‬
‫تدریس کی تاثیر کا پتا چلتا ہے۔ اسی لئے ایسی تدریس کامیاب تصور کی جاتی ہے جس میں طلبہ کی‬
‫مسلسل جانچ اور اعادہ کی کنجائش فراہم کی جاتی ہے۔ اساتذہ موثر تدریس اور مستحکم اکتساب کے‬
‫کو الزما جگہ دیں۔)‪ (Recapitualation‬لئے اپنی تدریسی حکمت عملی میں جانچ (تعین قدر) اور اعادہ‬
‫مسلسل جانچ و تعین قدر کے ذریعہ استاد طلبہ کی اکتسابی ترقی کی جانچ و پیمائش کو انجام دیتا ہے ۔‬
‫جانچ و تعین قدر کے ذریعہ استاد طلبہ کی اکتسابی ترقی میں مانع عوامل سے واقف ہوتا ہے۔ جانچ و‬
‫تعین قدر ہی اساتذہ کو اصالحی تدریس کے طریقے وضع کرنے میں مددفراہم کرتا ہے۔اساتذہ طلبہ کی‬
‫جانچ و پیمائش کے بعد اصالحی تدریس کے ذریعہ اکتسابی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کے‬
‫قابل ہوتے ہیں۔ اساتذہ اپنی تدریسی سرگرمیوں میں طلبہ کی مسلسل جامع جانچ ‪،‬اکتسابی ‪ ،‬اخالقی اور‬
‫برتاؤ کی ترقی کے لئے مکمل گنجائش اور مواقع فراہم کریں۔‬
‫طلبہ میں خوش گوار اکتساب کے فروغ کے لئے مختلف اوقات اور مراحل میں طلبہ کی نفسیات )‪(11‬‬
‫اور اپنی تدریسی سطح پر اساتذہ کا نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔نفسیاتی اور ذہنی صالحیتوں کو پیش‬
‫نظر رکھ کر اساتذہ طریقہ تدریس کو اپنائیں تاکہ تدریس کو طلبہ مرکوز بنایا جاسکے۔وہ تدریس بہتر‬
‫مانی جاتی ہے جس میں نفسیاتی عوامل پر توجہمرکوز کی جاتی ہے اور نفساتی تقاضوں کے عین‬
‫مطابق طریقہ تدریس اور تدریسی حکمت عملی وضع واختیار کی جاتی ہے۔‬
‫تدریس عمل کو جدید تکنیکی و تخلیقی نظریات سیہم آہنگ کرتے ہوئیمزید بہتر اورعصری )‪(12‬‬
‫تقاضوں کے عین مطابق بنایا جاسکتا ہے۔اساتذہ نئے تعلیمی رجحانات اور اختراعی و تکنیکی وسائل‬
‫سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے اکتساب کے عمل کو پر کیف ‪،‬پائیدار‪،‬موثر اور یاد گار عمل بنا سکتے‬
‫ہیں۔تجربوں اور تجزیات پر مبنی تدریس نہ صرف موثر بلکہ پائیدار بھی ہوتی ہے۔تعلیمی دنیا میں وقوع‬
‫پذیر تبدیلیوں سے اساتذہ کا واقف ہونا ضروری ہے۔ اساتذہ اپنی صالحیتوں کو عصری تقاضوں کے‬
‫عین مطابق بناکر طلبہ کو تعلیمی عمل میں مزید فعال اور سرگرم بناسکتے ہیں۔عصری تقاضوں سے نا‬
‫واقف اساتذہ معلومات میں اضافہ تو کجا طلبہ کی رہی سہی صالحیتوں کے بے دردانہ قتل کے مرتکب‬
‫ہوجاتے ہیں۔ایک بہتر استاد تدریس کے اساسی پہلوؤں سے سرموئے انحراف کیئے بغیر نئے تدریسی‬
‫تجربات و طریقوں کو ایجاد و اختیار کرتا ہے۔‬
‫تدریسی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے استاد نہ صرف اپنی تدریسی صالحیتوں کو فروغ دیتا ہے بلکہ‬
‫معیاری اکتساب کو پروان چڑھانے میں کامیابی بھی حاصل کرتا ہے۔تدریسی اصولوں پر عمل پیرائی‬
‫کے ذریعہ مشکل اور گنجلک تدریسی مسائل آسان اور سہل ہوجاتے ہیں۔ تدریسی اصول کے ذریعے نہ‬
‫صرف استاد الجھن اور پریشانی سے محفوظ رہتا ہے بلکہ طلبہ بھی تشکیک اور تشویش سے مامون‬
‫رہتے ہیں۔استاد کا میکانکی انداز میں سبق پڑھا نا طلبہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ زمانے قدیم‬
‫سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ طلبہ میں علم حاصل کرنے کے لئے شوق و ذوق بہت ضروری ہے۔‬
‫میری نظر میں جس طرح حصول علم کے لئے طلبہ میں شو ق و ذوق ضروری ہے بالکل اسی طرح‬
‫موثر تدریس کے لئے استا د میں بھی تدریس افعال کی انجام دہی کے لئے شوق و ذوق اور جوش و‬
‫جذبے کا پا یا جا نا نہایت ضروری ہے۔طالب علم کی ذہنی استعداد کی طرح معلم کی تدریسی لیاقت بھی‬
‫اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔اکثر و بیشتر طلبہ ہی امتحان اور آزمائش کے نام پر تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔‬
‫بہت ہی کم یا نہیں کے برابر اساتذہ کی تدریسی لیاقت اور استعداد کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔‬
‫اکتساب کے زوال یاماند پڑھنے پر عموما طلبہ کو لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے بہت کم اساتذہ کی‬
‫تدریسی لغزشوں کی طرف نگاہ کی جاتی ہے ۔اس حقیقت سے مجھے کوئی انکار نہیں ہے کہ فروغ علم‬
‫اور اکتساب کے زوال میں طلبہ کی غفلت شامل حال ہے لیکن بد کو بدتر بنانے میں اساتذہ کا بھی کہیں‬
‫نہ کہیں ہاتھ ہے۔ اساتذہ کامیاب طلبہ کو جس شان سے اپنی کارکردگی کا نمونہ بنا کر پیش کرتے ہیں‬
‫اسی طرح ضروری ہے کہ وہ بچوں میں اکتساب کی ماندگی کے اسباب تالش کرنے کیعالوہ اپنے‬
‫تدریسی طریقہ کارکی خامیوں کا بھی جائزہ لیں۔اپنے تدریسی تجربات کی روشنی میں مجھے یہ بات‬
‫کہتے کوئی عار محسوس نہیں ہورہاہے کہ اساتذہ اپنی تدریسی جہالت کی بناء پر بچوں کی صالحیتوں‬
‫کا قتل کر رہے ہیں۔حروف کی ترتیب و صوتیات سے واقف فرد استاد نہیں ہوتا ہے بلکہ استاد طلبہ کے‬
‫نفسیاتی ‪،‬معاشرتی مسائل کا ادراک رکھتا ہے ان کی سابقہ معلومات اور ذہنی صالحیتوں اور استعداد کو‬
‫ملحوظ رکھ کر اپنی تدریسی حکمت عملی وضع کرتا ہے۔بہتر ‪،‬کامیاب اور موثر تدریس کی انجام دہی‬
‫کے لئے استاد کا الئق ‪،‬قابل اور تربیت یافتہ ہونابہت ضروری ہے۔ اساتذہ درس و تدریس کے جدید‬
‫نظریات اور تکینک سے خود کو آراستہ کرتے ہوئے ایک جہالت سے پاک معاشرے کی تعمیر میں نمایا‬
‫ں کردار انجام دے سکتے ہیں۔‬

‫تف‬ ‫ن‬
‫ب‬ ‫ص‬
‫سوال مب ر ‪ :3‬م طالعہ اور اس کی ہی م پر سی ر حا ل حث کری ں؟‬

‫حصول علم اور فضل و کمال کے مختلف ذرائع ہیں جن میں مطالعہ علم کے حصول کا سب سے اہم‬
‫ذریعہ ہے۔مطالعہ کو روح کی غذا بھی کہا گیا ہے۔قوموں کی ترقی و عروج میں مطالعہ کو کلیدی‬
‫حیثیت حاصل ہے۔مطالعہ کی حسین وادیوں سے گزر کر آدمی علم کی عظیم الشان منزل تک پہنچتا‬
‫)‪‘‘(Wear the Old Coat,Buy the new book‬ہے۔’’گرچہ پرانا کوٹ پہنولیکن نئی کتاب خریدو‬
‫کا یہ قول مطالعہ کی اہمیت و )‪ (Austin Phelps‬انیسویں صدی کے امریکی ماہر تعلیم آسٹن فلپس‬
‫افادیت کی بہترین غمازی کرتا ہے۔مطالعہ کے عادی لوگ جہاں روشن خیال ‪ ،‬کشادہ دل ہوتے ہیں وہیں‬
‫یہ کبھی ذہنی افالس کا شکار نہیں ہوتے ہیں ‪،‬چاہے دنیا کا خزانہ کیوں نہ ختم ہوجائے لیکن ان کی باتوں‬
‫‪،‬خیاالت ‪،‬نظریات ‪،‬الفاظ و معنی سے خوشبو‪ ،‬لطافت اور بو قلمونی کبھی ختم نہیں ہوپاتی ۔مطالعہ کی‬
‫عادت اور کتاب سے محبت چھوٹے کو بڑا اور بڑے کو بہت بڑا بنادیتی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ فضال‬
‫اعلی مرتبوں پر فائز ہوکراپنا لوہا منوایا۔‬
‫ٰ‬ ‫علم و دانش نے کثرت مطالعہ کے ذریعہ علم و تحقیق کے‬
‫عصر حاضر میں اقوام مغرب و ہنود کی دنیاوی ترقی میں مطالعہ کا اہم کردار ہے۔ یورپ ‪،‬امریکہ میں‬
‫بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور وسیع وعریض کتب خانے ان کے مطالعاتی ذوق کی گواہی دیتے ہیں۔‬
‫مطالعہ ایک نہایت مفید مشغلہ ہیجو آدمی کو ضیاع ا وقات سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔مطالعے سے علم‬
‫میں اضافہ ‪ ،‬فصاحت و بالغت ‪،‬یاداشت میں پختگی‪،‬فکر میں بلندی ‪،‬وسعت نگاہی ‪،‬گہرائی و گیرائی اور‬
‫معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے۔مطالعے کے شوقین قلم کے ذریعہ قرطاس پر اگنے والی علم کی فصل کو‬
‫اپنے ذوق مطالعہ سے سیراب کرتے ہیں ۔ نئی نسلوں کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لئے‬
‫مطالعہ کا عادی بنا نا ضروری ہے کیونکہ جس معاشرے میں مطالعہ کا ذوق و عادت ماند پڑجائے یا‬
‫ختم ہوجائے وہاں علم بھی ناپید ہوجاتا ہے۔ بچپن میں بوئے گئے عادات کے بیج بلوغت تک پہنچنے‬
‫پہنچتے مضبوط درخت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔اس لئے بچے جب پڑھنے لکھنے کے قابل ہوجائیں‬
‫تو بغیر کسی تاخیر و انتظار کے انہیں مطالعے کی جانب راغب و مائل کرنا بے حد ضروری ہے۔ یہ اہم‬
‫کام والدین‪،‬اساتذہ اور اسکول انتظامیہ بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ مطالعہ کی عادت سے بچوں کی‬
‫زبان و بیان میں نکھار آتا ہے۔الفاظ و معانی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔فکر کی رفتار تیز سے تیز تر ہوجا‬
‫تی ہے۔تخیل میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔مشکل وقت اور پریشانیوں میں مصائب سے مقابلہ کرنے کا بچوں‬
‫میں سلیقہ و حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔مطالعے سے صالحیتوں میں نکھار پیدا ہونے کے عالوہ طلبہ کے‬
‫تعلیمی سفر پر بھی اس کے دورس مثبت ومفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬

‫آج کسی بھی اسکول کے لئے وافر مقدر میں طلبہ کے مطالعہ کے لئے کتابوں کی فراہمی یقینا کوئی بڑا‬
‫مسئلہ نہیں ہے۔لیکن طلبہ میں ذوق مطالعہ اور مطالعہ کی اہمیت و افادیت کو جاگزیں کئے بغیر کتابوں‬
‫کی فراہمی بے وقعت ہوجائے گی۔ یہ بات میں بڑی ذمہ داری سے رقم کررہا ہوں کہ صرف کتابوں کے‬
‫پڑھنے کو مطالعہ نہیں کہتے ‪ ،‬بلکہ مطالعہ وہ ہوتا ہے جس میں قاری خود کو مصنف کے فکری‬
‫رویوں اس کے بیان کردہ خیاالت اور تجربات سے بالکل قریب محسوس کرے ۔موثر مطالعہ نہ صرف‬
‫قاری کے ذہنی رویوں کو متحرک کرتا ہے بلکہ اسے میدان عمل میں بھی الکرکھڑا کردیتا ہے۔ طلبہ‬
‫میں مطالعہ کی عادت کو اس قدر رواج دیا جانا چاہئے کہ وہ کتاب کے کردارکی خیالی تجسیم و‬
‫تصورسازی کے الئق ہوجائیں ۔تحریرکردہ افکار کو اپنے دماغ کے پردے پر چلتے پھرتے دیکھ پائے۔‬
‫ہرحرف کے صوت و معنی جاننے کے عالوہ سطروں میں چھپے عندیہ و مفاہیم تک پہنچ سکے ۔‬
‫تحریر کردہ تصورات‪ ،‬افکار ‪،‬خیاالت و مناظر کو نہ صرف وہ محسوس کرے بلکہ مطالعہ کردہ‬
‫موضوع پر اسے گفتگو کا ملکہ بھی حاصل ہوجائے۔طلبہ میں مطالعہ کی عادت کو ایسے راسخ کیا‬
‫جائے کہ جب وہ کسی کتاب یا مضمون کا مطالعہ کریں توان کی نظر اس کے مقاصد ‪،‬مفاہیم اور حسن و‬
‫قبیح پر مسلسل جمی رہے۔ وہ سچائی تک پہنچ سکیں اور جھوٹ کا ابطا ل کرنے کے الئق ہوں۔‬
‫معنی و مفاہیم کو اخذ کرنے کی شعوری کو شش بے حد ضروری ہوتی ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫مطالعے کے دوران‬
‫جس نے قریب پچاس کتابیں لکھی ہیں‪ Aldous Huxley‬انگریزی کا مشہور ادیب ‪،‬مصنف ‪،‬فلسفی‬
‫‪ "Every man who knows how to read has in his power‬مطالعہ(پڑھائی) کے متعلق کہتا ہے‬
‫‪to magnify himself,to multiply the ways in which he exists,to make his life‬‬
‫ایک آدمی جو یہ جانتا ہے کہ مطالعہ(پڑھائی) کیسے کیا جائے("‪full,significant and interesting.‬‬
‫واعلی بنانے کی قوت پائی جاتی ہے ۔وہ اپنی زندگی کو نمایاں بامقصد‬
‫ٰ‬ ‫اس کے پاس اپنی ذات کو بہتر‬
‫اور پرکیف بنانے کے لئے اپنے گرد و پیش کے ماحول ‪،‬راستوں اور امکانات کومزید وسعت دینے کے‬
‫۔ ذوق مطالعہ کو پروان چڑھانے میں اگر بچوں کی مدد کی جائے تو یہ بات نہایت وثوق)الئق ہوتا ہے‬
‫سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ زندگی میں بہت ہی نمایاں اور بہتر کام انجام دینے کے قابل بن جاتے ہیں۔‬

‫موجودہ دور میں مطالعہ کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے کیونکہ ٹکنالوجی کے غلط استعمال سے‬
‫صورتحال بہت ابتر ہوچکی ہے۔ضیاع وقت کے لئے ہم جہاں ٹیلی ویژن سے شاکی تھے وہیں اب‬
‫موبائیل فون اور انٹرنیٹ کے بے جا استعمال نے طلبہ کے وقت اور صالحیتوں دونوں پر قدغن لگا دی‬
‫ہے۔اساتذہ بچوں میں کتب بینی کا شوق اور مطالعہ کی عادت کو فروغ دے کر اس صورتحال کو مزید‬
‫ابتر ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ مطالعہ سے بے رغبتی پر نوحہ کنا ں ہونے کے بجائے اساتذہ طلبہ کو‬
‫بہتر اور موثر قاری(ریڈر) بنانے کی کوشش کریں۔اسکولوں میں مطالعہ کے ماحول کو فروغ دیں تاکہ‬
‫علم و حکمت کے سوکھے سوتے پھر سے بہنے لگیں۔ اپنی حکمت و دانائی سے طلبہ اور کتاب میں‬
‫اٹوٹ تعلقپیدا کریں۔بچوں میں روح مطالعہ و نفس مطالعہ تک رسائی کی صالحیت پیدا کریں تاکہ کتابیں‬
‫ان کے لئے سود مندوکارآمد بن جائیں۔مطالعہ حصول کاایک اہم ذریعہ ہے اورعلمی رسوخ وپختگی کے‬
‫حصول میں اسے شرط اول قرار دیا گیا ہے۔ اساتذہ حصول علم کے اس موثر و کارآمد وسیلے کی اہمیت‬
‫کو اپنی سعی و کاوشوں سے پامال نہ ہونے دیں۔ بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں والدین اور اساتذہ کا‬
‫اہم کردار ہوتا ہے۔ بچے فطری طورپر وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے اساتذہ اور والدین کو کرتے دیکھتے‬
‫ہیں۔اساتذہ اپنے مطالعہ سے طلبہ کے ذوق مطالعہ کو جال بخشیں۔ اپنے مطالعہ کی مہارتوں اور تکنیک‬
‫کے فروغ سے بچوں میں مطالعہ کی صالحیت کوپروان چڑھائیں تاکہ وہ بغیر کسی دشواری اور منظم‬
‫طریقے سے شوق و ذوق سے مطالعے میں مگن ہو سکیں۔ مطالعے سے جب لطف و حظ حاصل ہوتو‬
‫مطالعہ کی عادت راسخ ہوجاتی ہے۔ طلبہ کو مطالعے سے لطف اٹھانے کی تکنیک سے آراستہ کرتے‬
‫ہوئے اساتذہ بچوں میں مطالعہ کی پائیدار عادت کو استوار کرسکتے ہیں۔‬

‫ف ئ‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬


‫ے کے وا د اور خ ام ی اں ب ی ان کری ں؟‬ ‫طر‬ ‫ی‬
‫م ب ی‬ ‫صو‬ ‫اور‬ ‫ت‬ ‫عی‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫ے‬‫صو‬
‫ی م ب‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫اردو‬ ‫س‬‫ی‬ ‫در‬ ‫‪:‬‬‫‪4‬‬ ‫ر‬ ‫سوال ب‬
‫م‬

‫تدریسی عمل کو مؤثر بناتی ہے اور اس کے ذریعے )‪ (Lesson Planning‬سباق کی منصوبہ بندی‬
‫اساتذہ کرام اپنے وقت کو بہترین انداز میں استعمال کرسکتے ہیں اور کم سے کم وقت میں کمرۂ جماعت‬
‫میں زیادہ سے زیادہ کام کرسکتے ہیں۔اس کے عالوہ تدریسی عمل کو طلبہ و طالبات کے لیے زیادہ‬
‫کا عمل ‪ Learning‬سے زیادہ دلچسپ اور خوشگوار بنایا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے اُن کی آموزش‬
‫تیز ہوجاتا ہے اور طلبہ و طالبات سبق کو مؤثر انداز میں ذہن نشین کرلیتے ہیں۔ یہ سمجھ لیں کہ اگر ہم‬
‫ت عملی کے ساتھ اس کو انجام‬
‫مؤثر منصوبہ بندی کے ساتھ تدریسی عمل کو شروع کریں اور اسی حکم ِ‬
‫دیں گے تو ہمارے طلبہ و طالبات سبق کو رٹنے کے بجائے اس کو سمجھ کر پڑھیں گے اور ’’رٹو‬
‫طوطے ‘‘بننے کے بجائے سوچ سمجھ کر اپنا کام مکمل کریں گے اور یہ سوچنے سمجھنے کی‬
‫صالحیت تا عمر اُن کے کام آئے گی۔‬

‫اسباق کی منصوبہ بندی محض اپنے ذہن میں کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کو تحریری طور پرموجود‬
‫اپنے ہدف کے )‪ (Teacher‬ہونا چاہئے ‪ ،‬تحریری منصوبہ بندی کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ معلم‬
‫مطابق اپنے سبق کو ختم کرے گا اور اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کرے گا ‪ ،‬جب کہ دوسرا فائدہ یہ‬
‫صدر مدرسہ‬
‫ِ‬ ‫جب متبادل )‪ (Principal‬ہوگا کہ اگر کسی وجہ سے معلم اسکول حاضر نہیں ہوسکا تو‬
‫استاد کو بھیجیں گے تو وہ استاد منصوبہ بندی کے مطابق طلباء کو وہ کام کرادیں گے۔ یہ بالکل ممکن‬
‫ہے کہ دوسرا استاد شائد سبق کو اس طرح نہ پرھا سکے جیسا کہ آپ نے سوچا تھا لیکن کم از کم یہ‬
‫ضرور ہوگا کہ طلباء کا اس دن کا وقت ضائع نہ ہوگا۔‬

‫درج ذیل نکات ضروری ہیں جن کی وضاحت ذیل میں دی گئی ہے۔‬
‫ِ‬ ‫سبق کی منصوبہ بندی کے لیے‬

‫خاکہ‪ :‬سب سے پہلے منصوبہ بندی کا خاکہ بنائیے کہ آپ کی جماعت کون سی ہے؟ کتنے طلبہ ہیں؟ کو‬
‫ن سا مضمون ہے؟ عنوان؟دورانیہ ؟مثالً‬
‫‪:‬جماعت‪ :‬پنجم مضمون ‪ :‬اردو (نثر ) تعداد طلبہ‬

‫عنوان‪ :‬درختوں نے کہا دورانیہ (وقت ) ‪ ۵ :‬دروس (‪ 5‬پیریڈ ) معلم اپنی سہولت کے مطابق دورانیہ کم یا‬
‫زیادہ کم کرسکتے ہیں۔‬

‫مقاصد ِتدریس‪ :‬مقاصد وہ ہوتے ہیں کہ آپ اس سبق کے ذریعے طلبہ کو کیا سکھانا چاہتے ہیں؟ یا آپ‬
‫کے خیال میں اس سبق کی تدریس کے بعد طلبہ میں کس قسم کی صالحیت پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ ۔‬
‫مقاصد تدریس دو قسم کے ہوتے ہیں (‪ )۱‬عمومی (‪ )۲‬خصوصی‬

‫) ‪ (Pronunciation‬عمومی مقاصد‪ :‬طلبہ کی پڑھائی کی استعداد کار کو بہتر بنایا۔(‪ )۲‬طلباء کے تلفظ‬
‫کو درست کرنا(‪ )۳‬طلبہ کو نئے الفاظ سے روشناس کرانا‬

‫خصوصی مقاصد‪ :‬اس سبق کی تدریس کے بعد انشاء اﷲ طلباء اس قابل ہوسکیں گے کہ وہ‬
‫سبق کا خالصہ تحریر کرسکیں گے۔ )‪(۱‬‬
‫کسی بھی موضوع پر کم از کم پندرہ جملوں پر مشتمل آپ بیتی لکھ سکیں ۔ )‪(۲‬‬
‫سبق کے نئے الفاظ کو جملوں میں استعمال کرسکیں گے۔ )‪(۳‬‬

‫اور واضح ہونے چاہییں ۔ مبہم اور ‪ Measurable‬یہ بات ذہن نشین رہے کہ مقاصد تدریس قابل جانچ‬
‫غیر واضح مقاصد کی صورت میں سبق کی منصوبہ بندی بھی متاثر ہوگی اور مطلوبہ نتائج بھی حاصل‬
‫نہ ہوسکیں گے۔‬
‫طریقہ تدریس‪ )۱( :‬ذہنی آمادگی (‪ )۲‬بلند خوانی (‪ )۳‬تفہیمی سواالت (‪ )۴‬نئے الفاظ کے معنی (‪)۵‬‬
‫تفویض کار‬
‫ِ‬ ‫) ‪ (HOME WORK‬سرگرمیاں (‪ )۶‬سبق کا خالصہ (‪)۷‬‬

‫جب آپ منصوبہ بندی کا خاکہ بنا لیتے ہیں تو اس کے بعد آپ کو ایک ایک حصے کی منصوبہ بندی‬
‫کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اب آپ ہر حصے کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں کہ یہ کام کیسے کیا جائے گا۔‬

‫)‪: (Effective Motivation‬مؤثر ذہنی آمادگی‬


‫سبق کی تدریس کے لیے مؤثرذہنی آمادگی ازحد ضروری ہے۔سبق شروع کرنے سے پہلے طلبہ و‬
‫طالبات میں اس کے لیے تجسس پیدا کرنا تاکہ وہ سبق میں بھرپور دلچسپی لیں اور سبق کو بوجھ سمجھ‬
‫کر نہیں بلکہ اس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پڑھیں گے ۔ جب طلبہ سبق میں بھر پور دلچسپی لیں گے‬
‫تو استاد کا باقی کام آسان ہوجاتاہے۔ یاد رکھیئے جب طلبہ و طالبات سبق میں بھرپور دلچسپی کا اظہار‬
‫کرتے ہوئے پڑھیں گے تو وہ مشکل سے مشکل سرگرمی بھی بہ آسانی کرسکیں گے ‪ ،‬اس کے‬
‫برعکس جب ان کی سبق میں دلچسپی نہیں ہوگی تو وہ آسان مشق کو بھی درست طریقے سے نہیں‬
‫کرسکیں گے۔جب کہ پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا طریقہ ٔ تربیت بھی یہی تھا کہ آپ ؐ کوئی بھی‬
‫بات کہنے سے پہلے لوگوں مں اس کے متعلق تجسس پیدا کرتے تھے تاکہ لوگ پوری طرح متوجہ‬
‫آپ کی بات توجہ اور دلچسپی سے سنیں۔‬
‫ہوجائیں اور ؐ‬

‫یہاں ہم آمادگی کی ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ ( اساتذہ کرام اس کے عالوہ بھی کوئی سرگرمی جس کو‬
‫وہ مناسب سمجھیں کرسکتے ہیں )‬

‫مثال‪ :‬استاد کمرہ ٔ جماعت میں داخل ہوکر طلبہ‪/‬طالبات کو مخاطب کرکے یہ دریافت کریں گے کہ دنیا‬
‫میں کون کون سی گیسیں پائی جاتی ہیں؟ طلبہ اس کا جواب دیں گے ۔ پھر استاد دوسرا سوال پوچھیں‬
‫گے کہ ہم سانس لینے میں کون سی گیس استعمال کرتے ہیں اور کون سی گیس خارج کرتے ہیں؟ طلبہ‬
‫ان سوالوں کا جواب دیں گے کہ ہم آکسیجن گیس کی مدد سے سانس لیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ‬
‫تعالی نے ہمارے لیے درخت بنائے ہیں‬
‫ٰ‬ ‫خارج کرتے ہیں۔ پھر استاد طلبہ و طالبات کو بتائیں گے کہ اﷲ‬
‫جو کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن خارج کرتے ہیں اورہماری خدمت کرتے ہیں ‪ ،‬اس کے‬
‫تعالی نے درختوں میں ہمارے لیے بے شمار فائدے‬
‫ٰ‬ ‫عالوہ یہ ہمارے ماحول کو بھی بہتر بناتے ہیں ۔ اﷲ‬
‫رکھے ہیں اور اسی بارے میں آج ہم سبق ’’درختوں نے کہا‘‘ پڑھیں گے ۔اس کے عالوہ معاون امدادی‬
‫اشیاء کے ذریعے بھی ذہنی آمادی کی جاسکتی ہے۔‬

‫)‪ (Loud reading‬بلند خوانی‬


‫طلبہ سے بلند خوانی کرائی جائے گی ۔ اس دوران معلم طلباء کی کمزوریوں کو نوٹ کریں گے اور‬
‫ساتھ ساتھ ان کو الفاظ کا درست تلفظ اور ادائیگی کا طریقہ بھی سمجھاتے رہیں گے۔بلند خوانی میں‬
‫کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو موقع دیا جائے اس لیے چند جملوں سے زیادہ کسی کو‬
‫پڑھنے نہ دیا جائے۔ اس کے عالوہ جو بچے پڑھنے سے کترا رہے ہوں ان کو سامنے الیا جائے تاکہ‬
‫ان کی جھجک دور ہو اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہو۔ایسے بچے ابتداء میں تو شرمائیں گے‪ ،‬گھبرائیں‬
‫گے اور اٹک اٹک کر پڑھیں گے لیکن معلم کی ذرا سی توجہ سے ان بچوں کی یہ خامیاں دور ہوجائیں‬
‫گی اور ان کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔بلند خوانی کے دوران معلم ہر پیراگراف کے بعد طلباء کو اہم‬
‫نکات سمجھاتے بھی رہیں گے اور ضرورت کے مطابق ان سے سواالت بھی پوچھتے رہیں گے تاکہ‬
‫نہ ہوجائیں اور وہ سبق پربھرپور توجہ رکھیں ۔ )‪ (Bore‬طلبہ یکسانیت کا شکار‬

‫)‪:(Relevant Questions‬تفہیمی سواالت‬


‫سبق کی تدریس کے بعد تفہیمی سواالت کی اپنی ایک اہمیت ہے۔جب طلبہ و طالبات سبق پڑھ لیتے ہیں‬
‫تو اس کے فوراً بعد مؤثر سواالت کے ذریعے سبق کا اعادہ کیا جاتا ہے اور سبق کے اہم نکات کو ذہن‬
‫نشین کرایا جاتا ہے۔ویسے تو تدریسی عمل کے دوران سواالت کی تیکنک ایک الگ اورمکمل موضوع‬
‫ہے لیکن فی الوقت ہم اپنی توجہ صرف منصوبہ بندی پر مبذول رکھتے ہیں۔سواالت اسی وقت اچھے‬
‫اور مؤثر ہوسکتے ہیں جب معلم پہلے خود سبق کا اچھی طرح مطالعہ کرکے سبق سے متعلق سواالت‬
‫تیار کریں گے۔یہاں ہم مثال کے طور پرچند سواالت پیش کررہے ہیں۔‬
‫بچے نے خواب میں کیا دیکھا؟ (‪ )۲‬کیا درخت بالکل نکمے اور بیکار کھڑے ہوتے ہیں؟ (‪ )۳‬ہمیں )‪(۱‬‬
‫صاف ہوا اور آکسیجن کون فراہم کرتا ہے؟ (‪ )۴‬درختوں سے ہمیں کیا کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں؟ (‪)۵‬‬
‫اگر اﷲ ہمیں درختوں جیسی نعمت عطانہ کرتے تو دنیا کا ماحول کیسا ہوتا؟ (‪ )۶‬اگر آپ درخت ہوتے تو‬
‫انسانوں سے کس قسم کے سلوک کی امید رکھتے؟ (‪ )۷‬ہم درختوں کا خیال کس کس طریقے سے رکھ‬
‫سکتے ہیں؟‬

‫ہوجائے گااورمعلم کو یہ اندازہ بھی ہوجائے)‪ (Revision‬ایسے چند سواالت کے ذریعے سبق کا اعادہ‬
‫گا کہ بچوں نے ان کے درس کو کس قدر سمجھا ہے اور معلم طلباء تک اپنی بات پہنچانے میں کس حد‬
‫تک کامیاب رہا ہے۔اگر تدریس میں کوئی کمی رہ گئی ہے یا کوئی نکتہ وضاحت طلب ہے تو وہ تفہیمی‬
‫سواالت کے ذریعے سامنے آجائے گا اور معلم فوری طور پر اس کمی یا کمزوری کو پورا کرلیں گے۔‬
‫ضرورت کے مطابق ایک یا دو تفہیمی سواالت کاپی میں تحریر بھی کرائے جاسکتے ہیں اور ان کو‬
‫ٹیسٹ یا امتحان میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔‬
‫‪ :‬نئے الفاظ کے معنی‬
‫تفہیمی سواالت کے بعد سبق میں آنے والے ایسے الفاظ جو کہ طلباء کے لیے نئے ہوں ان کے معنی‬
‫پر تحریر کرائے جائیں گے۔ اس کے ذریعے طلباء کے ذخیرہ ٔ )‪ (Black/white Board‬تختہ سیاہ‪/‬سفید‬
‫میں اضافہ ہوگا۔ الفاظ معنی لکھوانے کے ساتھ ساتھ طلباء کو لغات ) ‪(Vocabulary‬الفاظ‬
‫( )‪Task‬کے استعمال کی ترغیب بھی دی جائے گی اور اس کے لئے طلباء کو یہ ہدف )‪(Dictionary‬‬
‫دیا جاسکتا ہے کہ وہ اس کے عالوہ سبق کے سات یا آٹھ نئے الفاظ کے معنی لکھ کر الئیں۔‬

‫)‪: (Activities‬سرگرمیاں‬
‫سبق کی تدریس کے بعد مختلف سرگرمیوں کے ذریعے طلباء کی ذہنی صالحیتوں کو ابھارا جاتا ہے‬
‫اور طلبہ کھیل کھیل میں سبق کے اہم نکات کو ذہن نشین کرلیتے ہیں۔یہ بھی سبق کے اعادے کا ایک‬
‫طریقہ ہے۔سرگرمیاں مختلف قسم کی ہوسکتی ہیں مثالً طلباء سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ درختوں کے‬
‫بنائیں۔درختوں کے فوائد کارڈ شیٹ پر لکھ کر الئیں اور معلم طلبہ و ‪ Mind map‬فوائد کا ایک چارٹ‬
‫طالبات کی ان کاوشوں کو کمرہ ٔ جماعت میں نوٹس بورڈ یا کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کریں تاکہ طلباء‬
‫کو یہ محسوس نہ ہو کہ ان کی محنت بیکار جارہی ہے اور اس عمل سے طلبہ کے اندر مثبت مسابقت کا‬
‫ایک جذبہ بھی بیدار ہوگا۔درختوں کے فوائد کا سورج بنوایا جاسکتا ہے۔اﷲ کی ایسی دیگر نعمتوں کا‬
‫بھی بنوایا جاسکتا ہے۔ ‪mind map‬چارٹ‬

‫ف‬ ‫ن ت‬ ‫ن‬
‫ب‬ ‫ص‬ ‫م‬ ‫ئ‬ ‫خ ن‬ ‫ت‬ ‫خ ن‬
‫ے صور پر ل حث کری ں؟‬ ‫سوال مب ر ‪ :5‬وا دگی کی دریس اور وا دگی کے‬

‫پاکستان میں شرح خواندگی کی بات کی جائے تو اس حوالے سے زیادہ حوصلہ افزا تصویر سامنے‬
‫نہیں‪ٓ ‬اتی کیونکہ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ‪ 200‬سے زائد ممالک کی فہرست‬
‫میں ‪173‬ویں نمبر پر ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ تعلیم کا حصول عام عوام کی‬
‫دسترس سے باہر ہو تا جارہاہے۔ ‪18‬ویں ترمیم کے بعد اب چونکہ شعبہ تعلیم صوبائی معاملہ ہے‪ ،‬لہٰذا‬
‫ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومتیں سنجیدہ کوششیں کرتے ہوئے پرائمری اور ثانوی تعلیم‬
‫کے حصول کو الزمی بنائیں اور اس حوالے سے سہولتیں فراہم کریں۔‬
‫ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو وہاں‪ ‬بچے کے گھر اور اسکول کی زبان ایک ہی ہوتی ہے‪ ،‬وہ جو‬
‫زبان اپنے دوستوں‪ ،‬پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے بولتاہے‪ ،‬اسی زبان میں اسکول میں‪ ‬لکھتا‪ ،‬پڑھتا‬
‫اور سیکھتا ہے۔ یہ طرز عمل اسے ٓاگے بڑھنے اور خود اعتمادی حاصل کرنے میں‪ ‬مدد دیتا ہے ‪ ،‬وہ‬
‫‪ ‬اپنی زبان میں بنا ہچکچاہٹ اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔‬

‫وہ پیشہ ورانہ لحاظ سے بھی بہتر ہوتا ہے اور اپنے علم و تجربہ کو اپنی ٓائندہ نسل میں منتقل کردیتاہے‬
‫جبکہ پاکستان سمیت دیگر ترقی پزیر ممالک میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ بچے کو مادری زبان کے‬
‫بجائے انگریزی زبان میں پڑھانے یا سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔‬

‫اس ضمن میں‪ ‬یہ بات خوش ٓائند ہے کہ صوبہ پنجاب میں ٓائندہ برس سے پرائمری سطح پر صرف اردو‬
‫زبان کو ذریعہ تعلیم کے لیے اختیار کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں‪ ‬کو انگریزی کا مضمون‬
‫سمجھانے کے بجائے اساتذہ کاسار ا وقت اس کا ترجمہ کرنے میں صرف ہو جاتاہے ‪ ،‬اس وجہ سے‬
‫بچوں‪ ‬کی سیکھنے کی صالحیت بھی دب جاتی ہے‪ ،‬تاہم ابھی اس بات کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ یہ‬
‫پالیسی ہر چھوٹے بڑے اسکول پر الگو ہوگی یا اس کا دائرہ کار صرف مخصوص اسکولوں‪ ‬تک محدود‬
‫‪ ‬ہوگا۔‬

‫اعلی‪ ‬ثانوی جماعتوں تک‬


‫ٰ‬ ‫اگر یہ فیصلہ کامیاب ہوجاتاہے تو پھر اس سلسلے کو بتدریج مڈل‪ ،‬ثانوی اور‬
‫بڑھانا ہوگا یہاں‪ ‬تک کہ پیشہ ورانہ سطح پر بھی طلبا کو اردو زبان میں‪ ‬وہ تمام علمی مواد فراہم کرنا‬
‫ہوگا‪ ،‬جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے مثالً ایک چینی طالب علم اپنی زبان میں‪ٰ  ‬‬
‫اعلی تعلیم حاصل‬
‫کرتے ہوئے ڈاکٹر یا انجینئر بن جاتا ہے‪ ،‬اسی طرح جرمن‪ ،‬ڈچ‪ ،‬جاپانی یا دیگر زبانوں میں‪ ‬تعلیم حاصل‬
‫کرنے والے پیشہ ورانہ لحاظ سے تعلیم کی بلندیوں‪ ‬پر پہنچ جاتے ہیں۔‬

‫میں ‪3‬سے‪5‬سال تک کے بچوں پر ان کے گھروں اور کمیونٹیز میں تحقیق کی گئی۔ تحقیق)‪ (Fiji‬فِجی‬
‫کے نتائج میں کہا گیا کہ بچے مختلف میڈیا کے ذریعے اپنے گھروں اور کمیونٹیز میں جو کچھ سیکھتے‬
‫ہیں‪ ،‬اس کے ان کی خواندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میلبورن انسٹی ٹیوٹ ٓاف اَپالئیڈ اکنامکس‬
‫اینڈ سوشل ریسرچ کے نتائج بھی اسی سے ملتے جُلتے ہیں‪ ،‬جس میں کہا گیا ہے کہ چھوٹے بچوں کو‬
‫باقاعدگی سے گھر میں کتاب پڑھ کر سُنانے کی عادت انھیں اسکول جانے پر زیادہ اچھی کارکردگی کا‬
‫مظاہرہ کرنے میں‪ ‬اہم کردار ادا کرتی ہے۔‬
‫اگر ہم تعلیمی نکتہ نگاہ سے دنیا کے دیگر ممالک پر نظر ڈالیں تو ہمیں فن لینڈ ٓائیڈیل دکھائی دیتاہے۔‬
‫اس ملک میں اساتذہ کی تعیناتی کا نظام اتنا دشوار اور مقابلے پر مبنی ہے کہ اگر دس افراد بطور ٹیچر‬
‫اپنی خدمات دینے کیلئے درخواست دیں تو ان میں سے صرف ایک ہی منتخب ہو کر تدریس کے شعبے‬
‫‪ ‬میں داخل ہوسکتا ہے۔‬

‫ان کے انتخاب کے مرحلےمیں‪ ‬ان کے تعلیمی ریکارڈز کے ساتھ ساتھ ان کی غیرنصابی سرگرمیوں‬


‫اور دلچسپیوں‪ ‬کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتاہے ۔ ان کی نہ صرف تخلیقی و تنقیدی صالحیتوں کو‬
‫پرکھا جاتاہے بلکہ مخصوص مدت تک ان کوایک کالس روم میں‪ ‬اپنی صالحیتوں کا کامیاب اظہار کرنا‬
‫ہوتا ہے تب کہیں جا کر ان کو معلم یا معلمہ کے طور پر منتخب کیا جاتاہے۔‬

‫اس ماڈل کو سامنے رکھیں تو نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ کئی دیگر ممالک میں بھی تدریس کا‬
‫معیار کسمپرسی کا شکار ہے۔ جب اساتذہ ہی قابل اور الئق نہیں‪ ‬ہوں گے ‪ ،‬تو بچوں کا کیا تعلیم دے‬
‫پائیں گے اور ایسے اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا مستقبل بھی ایک سوالیہ نشان ہوتا‬
‫‪ ‬ہے۔‬

‫اسی لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکول نہ جانے والے بچوں‪ ‬کو اسکول کے اندر النے کی پالیسی‬
‫اور نئے اسکولوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت اور ان کے انتخاب کے حوالے سے بھی‬
‫انقالبی اقدامات کیے جائیں تاکہ ملک میں‪ ‬خواندگی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوسکے۔‬

You might also like