Professional Documents
Culture Documents
6509 2 1
6509 2 1
م لم
ش ن
2 م ق مب ر
عدی ل طارق طالب علم
6509 کورس کوڈ
خ س س رٹ
زاں2022 م
ٹخ ت
سمس ر زاں کورس :دریسات اردو
2022
ت ن ش ن س طح :ای م اے
ام حا ی م ق مب ر 2
ت ن ن ن غ ن
ے ج اویز دی ں؟ سوال مب ر :1ادبی اور ی ر ادبی ث ر کا موازن ہ کری ں ی ز ادبی ث ر کی اصالح کے لی
:ادبی اور غیر ادبی تحریروں میں فرق
ادب کسی بھی زبان کا تحریری سرمایہ ہوتا ہے لیکن ہر تحریر ادب کے زمرے میں نہیں آتی۔ ادب کی
کچھ خصوصیات ہوتی ہیں ،جب تک وہ کسی تحریر میں موجود نہ ہوں۔ ان کو ادب کے دائرۂ کار میں
شامل نہیں کیا جا سکتا۔ ابو االثر حفیظ صدیقی ادبی اور غیر ادبی تحریروں کے چند امتیازات بتاتے ہیں
:جن کی بدولت ادبی اور غیر ادبی تحریروں میں تفریق کی جا سکتی ہے۔ وہ امتیازات درج ذیل ہیں
حسن اظہار سے بھی1
ِ اظہار محض مقصود ہوتا ہے جبکہ ادبی تحریروں کو
ِ ۔ غیر ادبی تحریروں میں
دلچسپی ہے۔
۔ غیر ادبی تحریروں کے برعکس ادبی تحریروں میں مصنف کے اسلوب کے ذریعے اس کی ذات بھی2
غالب کا ،یعنی مصنف کی
ؔ میر کا ہے یا
اظہار پاتی ہے۔ اس کے ذریعے ہم جان لیتے ہیں کہ یہ شعر ؔ
ذات اس کی تخلیق میں شامل ہوتی ہے۔
۔ادبی تحریروں کا مواد عام انسانی دلچسپی پر مشتمل ہوتا ہے اور غیر ادبی تحریر کے لئے یہ شرط3
ضروری نہیں۔ جغرافیے یا سائنس کی کتاب کا دلچسپ ہونا ضروری نہیں۔ لیکن کسی افسانے یا ناول کو
دلچسپ ہونا چاہئے۔
۔ غیر ادبی تحریر کسی ہیئت کی پابند نہیں جبکہ ادبی تحریر کے لئے یہ پابندی ضروری ہے۔4
۔ ادبی تحریر میں مصنف تخیل سے کام لیتا ہے جبکہ غیر ادبی تحریر حقائق پر مشتمل ہوتی ہے۔5
۔ ادبی تحریر میں جذبے کی اہمیت مسلّم ہے۔ جبکہ غیر ادبی تحریر جذبات و احساسات سے بے تعلق6
ہوتی ہے۔
۔ ادبی تحریر کا مقصد مسرت بخشی اور حسن آفرینی ہے جبکہ غیر ادبی تحریر میں معلومات کی7
ترسیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
تف ن
ب ص
سوال مب ر :3م طالعہ اور اس کی ہی م پر سی ر حا ل حث کری ں؟
حصول علم اور فضل و کمال کے مختلف ذرائع ہیں جن میں مطالعہ علم کے حصول کا سب سے اہم
ذریعہ ہے۔مطالعہ کو روح کی غذا بھی کہا گیا ہے۔قوموں کی ترقی و عروج میں مطالعہ کو کلیدی
حیثیت حاصل ہے۔مطالعہ کی حسین وادیوں سے گزر کر آدمی علم کی عظیم الشان منزل تک پہنچتا
)‘‘(Wear the Old Coat,Buy the new bookہے۔’’گرچہ پرانا کوٹ پہنولیکن نئی کتاب خریدو
کا یہ قول مطالعہ کی اہمیت و ) (Austin Phelpsانیسویں صدی کے امریکی ماہر تعلیم آسٹن فلپس
افادیت کی بہترین غمازی کرتا ہے۔مطالعہ کے عادی لوگ جہاں روشن خیال ،کشادہ دل ہوتے ہیں وہیں
یہ کبھی ذہنی افالس کا شکار نہیں ہوتے ہیں ،چاہے دنیا کا خزانہ کیوں نہ ختم ہوجائے لیکن ان کی باتوں
،خیاالت ،نظریات ،الفاظ و معنی سے خوشبو ،لطافت اور بو قلمونی کبھی ختم نہیں ہوپاتی ۔مطالعہ کی
عادت اور کتاب سے محبت چھوٹے کو بڑا اور بڑے کو بہت بڑا بنادیتی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ فضال
اعلی مرتبوں پر فائز ہوکراپنا لوہا منوایا۔
ٰ علم و دانش نے کثرت مطالعہ کے ذریعہ علم و تحقیق کے
عصر حاضر میں اقوام مغرب و ہنود کی دنیاوی ترقی میں مطالعہ کا اہم کردار ہے۔ یورپ ،امریکہ میں
بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور وسیع وعریض کتب خانے ان کے مطالعاتی ذوق کی گواہی دیتے ہیں۔
مطالعہ ایک نہایت مفید مشغلہ ہیجو آدمی کو ضیاع ا وقات سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔مطالعے سے علم
میں اضافہ ،فصاحت و بالغت ،یاداشت میں پختگی،فکر میں بلندی ،وسعت نگاہی ،گہرائی و گیرائی اور
معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے۔مطالعے کے شوقین قلم کے ذریعہ قرطاس پر اگنے والی علم کی فصل کو
اپنے ذوق مطالعہ سے سیراب کرتے ہیں ۔ نئی نسلوں کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لئے
مطالعہ کا عادی بنا نا ضروری ہے کیونکہ جس معاشرے میں مطالعہ کا ذوق و عادت ماند پڑجائے یا
ختم ہوجائے وہاں علم بھی ناپید ہوجاتا ہے۔ بچپن میں بوئے گئے عادات کے بیج بلوغت تک پہنچنے
پہنچتے مضبوط درخت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔اس لئے بچے جب پڑھنے لکھنے کے قابل ہوجائیں
تو بغیر کسی تاخیر و انتظار کے انہیں مطالعے کی جانب راغب و مائل کرنا بے حد ضروری ہے۔ یہ اہم
کام والدین،اساتذہ اور اسکول انتظامیہ بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ مطالعہ کی عادت سے بچوں کی
زبان و بیان میں نکھار آتا ہے۔الفاظ و معانی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔فکر کی رفتار تیز سے تیز تر ہوجا
تی ہے۔تخیل میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔مشکل وقت اور پریشانیوں میں مصائب سے مقابلہ کرنے کا بچوں
میں سلیقہ و حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔مطالعے سے صالحیتوں میں نکھار پیدا ہونے کے عالوہ طلبہ کے
تعلیمی سفر پر بھی اس کے دورس مثبت ومفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آج کسی بھی اسکول کے لئے وافر مقدر میں طلبہ کے مطالعہ کے لئے کتابوں کی فراہمی یقینا کوئی بڑا
مسئلہ نہیں ہے۔لیکن طلبہ میں ذوق مطالعہ اور مطالعہ کی اہمیت و افادیت کو جاگزیں کئے بغیر کتابوں
کی فراہمی بے وقعت ہوجائے گی۔ یہ بات میں بڑی ذمہ داری سے رقم کررہا ہوں کہ صرف کتابوں کے
پڑھنے کو مطالعہ نہیں کہتے ،بلکہ مطالعہ وہ ہوتا ہے جس میں قاری خود کو مصنف کے فکری
رویوں اس کے بیان کردہ خیاالت اور تجربات سے بالکل قریب محسوس کرے ۔موثر مطالعہ نہ صرف
قاری کے ذہنی رویوں کو متحرک کرتا ہے بلکہ اسے میدان عمل میں بھی الکرکھڑا کردیتا ہے۔ طلبہ
میں مطالعہ کی عادت کو اس قدر رواج دیا جانا چاہئے کہ وہ کتاب کے کردارکی خیالی تجسیم و
تصورسازی کے الئق ہوجائیں ۔تحریرکردہ افکار کو اپنے دماغ کے پردے پر چلتے پھرتے دیکھ پائے۔
ہرحرف کے صوت و معنی جاننے کے عالوہ سطروں میں چھپے عندیہ و مفاہیم تک پہنچ سکے ۔
تحریر کردہ تصورات ،افکار ،خیاالت و مناظر کو نہ صرف وہ محسوس کرے بلکہ مطالعہ کردہ
موضوع پر اسے گفتگو کا ملکہ بھی حاصل ہوجائے۔طلبہ میں مطالعہ کی عادت کو ایسے راسخ کیا
جائے کہ جب وہ کسی کتاب یا مضمون کا مطالعہ کریں توان کی نظر اس کے مقاصد ،مفاہیم اور حسن و
قبیح پر مسلسل جمی رہے۔ وہ سچائی تک پہنچ سکیں اور جھوٹ کا ابطا ل کرنے کے الئق ہوں۔
معنی و مفاہیم کو اخذ کرنے کی شعوری کو شش بے حد ضروری ہوتی ہے۔
ٰ مطالعے کے دوران
جس نے قریب پچاس کتابیں لکھی ہیں Aldous Huxleyانگریزی کا مشہور ادیب ،مصنف ،فلسفی
"Every man who knows how to read has in his powerمطالعہ(پڑھائی) کے متعلق کہتا ہے
to magnify himself,to multiply the ways in which he exists,to make his life
ایک آدمی جو یہ جانتا ہے کہ مطالعہ(پڑھائی) کیسے کیا جائے("full,significant and interesting.
واعلی بنانے کی قوت پائی جاتی ہے ۔وہ اپنی زندگی کو نمایاں بامقصد
ٰ اس کے پاس اپنی ذات کو بہتر
اور پرکیف بنانے کے لئے اپنے گرد و پیش کے ماحول ،راستوں اور امکانات کومزید وسعت دینے کے
۔ ذوق مطالعہ کو پروان چڑھانے میں اگر بچوں کی مدد کی جائے تو یہ بات نہایت وثوق)الئق ہوتا ہے
سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ زندگی میں بہت ہی نمایاں اور بہتر کام انجام دینے کے قابل بن جاتے ہیں۔
موجودہ دور میں مطالعہ کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے کیونکہ ٹکنالوجی کے غلط استعمال سے
صورتحال بہت ابتر ہوچکی ہے۔ضیاع وقت کے لئے ہم جہاں ٹیلی ویژن سے شاکی تھے وہیں اب
موبائیل فون اور انٹرنیٹ کے بے جا استعمال نے طلبہ کے وقت اور صالحیتوں دونوں پر قدغن لگا دی
ہے۔اساتذہ بچوں میں کتب بینی کا شوق اور مطالعہ کی عادت کو فروغ دے کر اس صورتحال کو مزید
ابتر ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ مطالعہ سے بے رغبتی پر نوحہ کنا ں ہونے کے بجائے اساتذہ طلبہ کو
بہتر اور موثر قاری(ریڈر) بنانے کی کوشش کریں۔اسکولوں میں مطالعہ کے ماحول کو فروغ دیں تاکہ
علم و حکمت کے سوکھے سوتے پھر سے بہنے لگیں۔ اپنی حکمت و دانائی سے طلبہ اور کتاب میں
اٹوٹ تعلقپیدا کریں۔بچوں میں روح مطالعہ و نفس مطالعہ تک رسائی کی صالحیت پیدا کریں تاکہ کتابیں
ان کے لئے سود مندوکارآمد بن جائیں۔مطالعہ حصول کاایک اہم ذریعہ ہے اورعلمی رسوخ وپختگی کے
حصول میں اسے شرط اول قرار دیا گیا ہے۔ اساتذہ حصول علم کے اس موثر و کارآمد وسیلے کی اہمیت
کو اپنی سعی و کاوشوں سے پامال نہ ہونے دیں۔ بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں والدین اور اساتذہ کا
اہم کردار ہوتا ہے۔ بچے فطری طورپر وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے اساتذہ اور والدین کو کرتے دیکھتے
ہیں۔اساتذہ اپنے مطالعہ سے طلبہ کے ذوق مطالعہ کو جال بخشیں۔ اپنے مطالعہ کی مہارتوں اور تکنیک
کے فروغ سے بچوں میں مطالعہ کی صالحیت کوپروان چڑھائیں تاکہ وہ بغیر کسی دشواری اور منظم
طریقے سے شوق و ذوق سے مطالعے میں مگن ہو سکیں۔ مطالعے سے جب لطف و حظ حاصل ہوتو
مطالعہ کی عادت راسخ ہوجاتی ہے۔ طلبہ کو مطالعے سے لطف اٹھانے کی تکنیک سے آراستہ کرتے
ہوئے اساتذہ بچوں میں مطالعہ کی پائیدار عادت کو استوار کرسکتے ہیں۔
تدریسی عمل کو مؤثر بناتی ہے اور اس کے ذریعے ) (Lesson Planningسباق کی منصوبہ بندی
اساتذہ کرام اپنے وقت کو بہترین انداز میں استعمال کرسکتے ہیں اور کم سے کم وقت میں کمرۂ جماعت
میں زیادہ سے زیادہ کام کرسکتے ہیں۔اس کے عالوہ تدریسی عمل کو طلبہ و طالبات کے لیے زیادہ
کا عمل Learningسے زیادہ دلچسپ اور خوشگوار بنایا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے اُن کی آموزش
تیز ہوجاتا ہے اور طلبہ و طالبات سبق کو مؤثر انداز میں ذہن نشین کرلیتے ہیں۔ یہ سمجھ لیں کہ اگر ہم
ت عملی کے ساتھ اس کو انجام
مؤثر منصوبہ بندی کے ساتھ تدریسی عمل کو شروع کریں اور اسی حکم ِ
دیں گے تو ہمارے طلبہ و طالبات سبق کو رٹنے کے بجائے اس کو سمجھ کر پڑھیں گے اور ’’رٹو
طوطے ‘‘بننے کے بجائے سوچ سمجھ کر اپنا کام مکمل کریں گے اور یہ سوچنے سمجھنے کی
صالحیت تا عمر اُن کے کام آئے گی۔
اسباق کی منصوبہ بندی محض اپنے ذہن میں کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کو تحریری طور پرموجود
اپنے ہدف کے ) (Teacherہونا چاہئے ،تحریری منصوبہ بندی کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ معلم
مطابق اپنے سبق کو ختم کرے گا اور اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کرے گا ،جب کہ دوسرا فائدہ یہ
صدر مدرسہ
ِ جب متبادل ) (Principalہوگا کہ اگر کسی وجہ سے معلم اسکول حاضر نہیں ہوسکا تو
استاد کو بھیجیں گے تو وہ استاد منصوبہ بندی کے مطابق طلباء کو وہ کام کرادیں گے۔ یہ بالکل ممکن
ہے کہ دوسرا استاد شائد سبق کو اس طرح نہ پرھا سکے جیسا کہ آپ نے سوچا تھا لیکن کم از کم یہ
ضرور ہوگا کہ طلباء کا اس دن کا وقت ضائع نہ ہوگا۔
درج ذیل نکات ضروری ہیں جن کی وضاحت ذیل میں دی گئی ہے۔
ِ سبق کی منصوبہ بندی کے لیے
خاکہ :سب سے پہلے منصوبہ بندی کا خاکہ بنائیے کہ آپ کی جماعت کون سی ہے؟ کتنے طلبہ ہیں؟ کو
ن سا مضمون ہے؟ عنوان؟دورانیہ ؟مثالً
:جماعت :پنجم مضمون :اردو (نثر ) تعداد طلبہ
عنوان :درختوں نے کہا دورانیہ (وقت ) ۵ :دروس ( 5پیریڈ ) معلم اپنی سہولت کے مطابق دورانیہ کم یا
زیادہ کم کرسکتے ہیں۔
مقاصد ِتدریس :مقاصد وہ ہوتے ہیں کہ آپ اس سبق کے ذریعے طلبہ کو کیا سکھانا چاہتے ہیں؟ یا آپ
کے خیال میں اس سبق کی تدریس کے بعد طلبہ میں کس قسم کی صالحیت پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ ۔
مقاصد تدریس دو قسم کے ہوتے ہیں ( )۱عمومی ( )۲خصوصی
) (Pronunciationعمومی مقاصد :طلبہ کی پڑھائی کی استعداد کار کو بہتر بنایا۔( )۲طلباء کے تلفظ
کو درست کرنا( )۳طلبہ کو نئے الفاظ سے روشناس کرانا
خصوصی مقاصد :اس سبق کی تدریس کے بعد انشاء اﷲ طلباء اس قابل ہوسکیں گے کہ وہ
سبق کا خالصہ تحریر کرسکیں گے۔ )(۱
کسی بھی موضوع پر کم از کم پندرہ جملوں پر مشتمل آپ بیتی لکھ سکیں ۔ )(۲
سبق کے نئے الفاظ کو جملوں میں استعمال کرسکیں گے۔ )(۳
اور واضح ہونے چاہییں ۔ مبہم اور Measurableیہ بات ذہن نشین رہے کہ مقاصد تدریس قابل جانچ
غیر واضح مقاصد کی صورت میں سبق کی منصوبہ بندی بھی متاثر ہوگی اور مطلوبہ نتائج بھی حاصل
نہ ہوسکیں گے۔
طریقہ تدریس )۱( :ذہنی آمادگی ( )۲بلند خوانی ( )۳تفہیمی سواالت ( )۴نئے الفاظ کے معنی ()۵
تفویض کار
ِ ) (HOME WORKسرگرمیاں ( )۶سبق کا خالصہ ()۷
جب آپ منصوبہ بندی کا خاکہ بنا لیتے ہیں تو اس کے بعد آپ کو ایک ایک حصے کی منصوبہ بندی
کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اب آپ ہر حصے کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں کہ یہ کام کیسے کیا جائے گا۔
یہاں ہم آمادگی کی ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ ( اساتذہ کرام اس کے عالوہ بھی کوئی سرگرمی جس کو
وہ مناسب سمجھیں کرسکتے ہیں )
مثال :استاد کمرہ ٔ جماعت میں داخل ہوکر طلبہ/طالبات کو مخاطب کرکے یہ دریافت کریں گے کہ دنیا
میں کون کون سی گیسیں پائی جاتی ہیں؟ طلبہ اس کا جواب دیں گے ۔ پھر استاد دوسرا سوال پوچھیں
گے کہ ہم سانس لینے میں کون سی گیس استعمال کرتے ہیں اور کون سی گیس خارج کرتے ہیں؟ طلبہ
ان سوالوں کا جواب دیں گے کہ ہم آکسیجن گیس کی مدد سے سانس لیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ
تعالی نے ہمارے لیے درخت بنائے ہیں
ٰ خارج کرتے ہیں۔ پھر استاد طلبہ و طالبات کو بتائیں گے کہ اﷲ
جو کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن خارج کرتے ہیں اورہماری خدمت کرتے ہیں ،اس کے
تعالی نے درختوں میں ہمارے لیے بے شمار فائدے
ٰ عالوہ یہ ہمارے ماحول کو بھی بہتر بناتے ہیں ۔ اﷲ
رکھے ہیں اور اسی بارے میں آج ہم سبق ’’درختوں نے کہا‘‘ پڑھیں گے ۔اس کے عالوہ معاون امدادی
اشیاء کے ذریعے بھی ذہنی آمادی کی جاسکتی ہے۔
ہوجائے گااورمعلم کو یہ اندازہ بھی ہوجائے) (Revisionایسے چند سواالت کے ذریعے سبق کا اعادہ
گا کہ بچوں نے ان کے درس کو کس قدر سمجھا ہے اور معلم طلباء تک اپنی بات پہنچانے میں کس حد
تک کامیاب رہا ہے۔اگر تدریس میں کوئی کمی رہ گئی ہے یا کوئی نکتہ وضاحت طلب ہے تو وہ تفہیمی
سواالت کے ذریعے سامنے آجائے گا اور معلم فوری طور پر اس کمی یا کمزوری کو پورا کرلیں گے۔
ضرورت کے مطابق ایک یا دو تفہیمی سواالت کاپی میں تحریر بھی کرائے جاسکتے ہیں اور ان کو
ٹیسٹ یا امتحان میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔
:نئے الفاظ کے معنی
تفہیمی سواالت کے بعد سبق میں آنے والے ایسے الفاظ جو کہ طلباء کے لیے نئے ہوں ان کے معنی
پر تحریر کرائے جائیں گے۔ اس کے ذریعے طلباء کے ذخیرہ ٔ ) (Black/white Boardتختہ سیاہ/سفید
میں اضافہ ہوگا۔ الفاظ معنی لکھوانے کے ساتھ ساتھ طلباء کو لغات ) (Vocabularyالفاظ
( )Taskکے استعمال کی ترغیب بھی دی جائے گی اور اس کے لئے طلباء کو یہ ہدف )(Dictionary
دیا جاسکتا ہے کہ وہ اس کے عالوہ سبق کے سات یا آٹھ نئے الفاظ کے معنی لکھ کر الئیں۔
): (Activitiesسرگرمیاں
سبق کی تدریس کے بعد مختلف سرگرمیوں کے ذریعے طلباء کی ذہنی صالحیتوں کو ابھارا جاتا ہے
اور طلبہ کھیل کھیل میں سبق کے اہم نکات کو ذہن نشین کرلیتے ہیں۔یہ بھی سبق کے اعادے کا ایک
طریقہ ہے۔سرگرمیاں مختلف قسم کی ہوسکتی ہیں مثالً طلباء سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ درختوں کے
بنائیں۔درختوں کے فوائد کارڈ شیٹ پر لکھ کر الئیں اور معلم طلبہ و Mind mapفوائد کا ایک چارٹ
طالبات کی ان کاوشوں کو کمرہ ٔ جماعت میں نوٹس بورڈ یا کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کریں تاکہ طلباء
کو یہ محسوس نہ ہو کہ ان کی محنت بیکار جارہی ہے اور اس عمل سے طلبہ کے اندر مثبت مسابقت کا
ایک جذبہ بھی بیدار ہوگا۔درختوں کے فوائد کا سورج بنوایا جاسکتا ہے۔اﷲ کی ایسی دیگر نعمتوں کا
بھی بنوایا جاسکتا ہے۔ mind mapچارٹ
ف ن ت ن
ب ص م ئ خ ن ت خ ن
ے صور پر ل حث کری ں؟ سوال مب ر :5وا دگی کی دریس اور وا دگی کے
پاکستان میں شرح خواندگی کی بات کی جائے تو اس حوالے سے زیادہ حوصلہ افزا تصویر سامنے
نہیںٓ اتی کیونکہ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 200سے زائد ممالک کی فہرست
میں 173ویں نمبر پر ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ تعلیم کا حصول عام عوام کی
دسترس سے باہر ہو تا جارہاہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد اب چونکہ شعبہ تعلیم صوبائی معاملہ ہے ،لہٰذا
ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومتیں سنجیدہ کوششیں کرتے ہوئے پرائمری اور ثانوی تعلیم
کے حصول کو الزمی بنائیں اور اس حوالے سے سہولتیں فراہم کریں۔
ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو وہاں بچے کے گھر اور اسکول کی زبان ایک ہی ہوتی ہے ،وہ جو
زبان اپنے دوستوں ،پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے بولتاہے ،اسی زبان میں اسکول میں لکھتا ،پڑھتا
اور سیکھتا ہے۔ یہ طرز عمل اسے ٓاگے بڑھنے اور خود اعتمادی حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے ،وہ
اپنی زبان میں بنا ہچکچاہٹ اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔
وہ پیشہ ورانہ لحاظ سے بھی بہتر ہوتا ہے اور اپنے علم و تجربہ کو اپنی ٓائندہ نسل میں منتقل کردیتاہے
جبکہ پاکستان سمیت دیگر ترقی پزیر ممالک میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ بچے کو مادری زبان کے
بجائے انگریزی زبان میں پڑھانے یا سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس ضمن میں یہ بات خوش ٓائند ہے کہ صوبہ پنجاب میں ٓائندہ برس سے پرائمری سطح پر صرف اردو
زبان کو ذریعہ تعلیم کے لیے اختیار کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کو انگریزی کا مضمون
سمجھانے کے بجائے اساتذہ کاسار ا وقت اس کا ترجمہ کرنے میں صرف ہو جاتاہے ،اس وجہ سے
بچوں کی سیکھنے کی صالحیت بھی دب جاتی ہے ،تاہم ابھی اس بات کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ یہ
پالیسی ہر چھوٹے بڑے اسکول پر الگو ہوگی یا اس کا دائرہ کار صرف مخصوص اسکولوں تک محدود
ہوگا۔
میں 3سے5سال تک کے بچوں پر ان کے گھروں اور کمیونٹیز میں تحقیق کی گئی۔ تحقیق) (Fijiفِجی
کے نتائج میں کہا گیا کہ بچے مختلف میڈیا کے ذریعے اپنے گھروں اور کمیونٹیز میں جو کچھ سیکھتے
ہیں ،اس کے ان کی خواندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میلبورن انسٹی ٹیوٹ ٓاف اَپالئیڈ اکنامکس
اینڈ سوشل ریسرچ کے نتائج بھی اسی سے ملتے جُلتے ہیں ،جس میں کہا گیا ہے کہ چھوٹے بچوں کو
باقاعدگی سے گھر میں کتاب پڑھ کر سُنانے کی عادت انھیں اسکول جانے پر زیادہ اچھی کارکردگی کا
مظاہرہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اگر ہم تعلیمی نکتہ نگاہ سے دنیا کے دیگر ممالک پر نظر ڈالیں تو ہمیں فن لینڈ ٓائیڈیل دکھائی دیتاہے۔
اس ملک میں اساتذہ کی تعیناتی کا نظام اتنا دشوار اور مقابلے پر مبنی ہے کہ اگر دس افراد بطور ٹیچر
اپنی خدمات دینے کیلئے درخواست دیں تو ان میں سے صرف ایک ہی منتخب ہو کر تدریس کے شعبے
میں داخل ہوسکتا ہے۔
اس ماڈل کو سامنے رکھیں تو نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ کئی دیگر ممالک میں بھی تدریس کا
معیار کسمپرسی کا شکار ہے۔ جب اساتذہ ہی قابل اور الئق نہیں ہوں گے ،تو بچوں کا کیا تعلیم دے
پائیں گے اور ایسے اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا مستقبل بھی ایک سوالیہ نشان ہوتا
ہے۔
اسی لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکول نہ جانے والے بچوں کو اسکول کے اندر النے کی پالیسی
اور نئے اسکولوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت اور ان کے انتخاب کے حوالے سے بھی
انقالبی اقدامات کیے جائیں تاکہ ملک میں خواندگی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوسکے۔