You are on page 1of 9

‫طالب علم نام ۔۔۔ نیلم نعیم‬

‫‪cc521078‬رولنمبر‬

‫زبان کی تدریس کی چار بنیادی مہارتیں ہیں۔ جو بتدریج سیکھی اور سکھائی جاتی ہیں۔ یعنی سب سے پہلے سننا‪ ،‬پھر‬
‫بولنا‪ ،‬پھر پڑھنا اور پھر لکھنا۔ ان میں سے دو مہارتیں ان پٹ کی حیثیت رکھتی ہیں اور دو آٔوٹ پٹ کی۔ سننا اور پڑھنا‬
‫ان پٹ ہیں اور بولنا اور لکھنا آٔوٹ پٹ۔ اب ان میں سے پہلی مہارت یعنی سننے کے عمل کا آغاز فطری طور پر ماں‬
‫کے پیٹ سے ہی ہو جاتا ہے۔ اور بولنا بھی بچہ سماجی زندگی کے ابتدائی چند سالوں میں سیکھ لیتا ہے لیکن یہ سننا‬
‫اور بولنا دونوں اس کی مادری زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اردو کا معاملہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت کی مادری‬
‫زبان نہیں ہے لیکن ہر پاکستانی کی دوسری زبان یعنی سیکنڈری لینگویج ضرور ہے۔ اگر کسی ماحول میں اردو بولنے‬
‫واال کوئی ایک فرد بھی موجود نہ ہو‪ ،‬تب بھی ذرائع ابالغ‪ ،‬ریڈیو‪ ،‬ٹیلی وژن‪ ،‬گانوں‪ ،‬گیتوں اور قوالیوں کے ذریعے‬
‫اردو کے الفاظ اور لب و لہجے سے واقفیت پیدا ہو ہی جاتی ہے۔‬
‫اسکول میں رسمی تعلیم کے ذریعے اس ابتدائی واقفیت کی پرورش و نمو کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے نصاب میں‬
‫ان دونوں بنیادی مہارتوں یعنی سننے اور بولنے کی تربیت کا مناسب یا ضروری اہتمام نہیں ملتا۔ ہم ابتدائی جماعتوں‬
‫سے دیکھتے ہیں کہ سارا زور پڑھنے اور لکھنے پردیا جاتا ہے۔ سننے اور سن کر درست معنی اخذ کرنے اور اسے‬
‫یاد رکھنے کی مشق اگر ہو بھی تو اتنی معمولی ہوتی ہے کہ خاطر خواہ نتائج پیدا نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ یونی‬
‫ورسٹیوں میں بھی طلبہ کی ؛لیکچرسن کر سمجھنے اور اسے یادداشت میں محفوظ کر لینے کی صالحیت انتہائی محدود‬
‫ہوتی ہے۔ اس کی توجہ کا مرکز بار بار بدل جاتا ہے اور وہ اگلے جملوں کو پچھلے جملوں سے مربوط کر کے کالم‬
‫کے مجموعی معانی سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے۔‬
‫اب سے چالیس پچاس برس پہلے یہ صورت حال نہیں تھی اور ابتدائی جماعتوں میں ان دونوں مہارتوں کی تربیت کے‬
‫لیے انتہائی سادہ اور نتیجہ خیز مشقیں عام تھیں۔ مثال ًہر نیا سبق استاد پہلے خود اور بعد میں مانیٹر کے ذریعے بچوں‬
‫سے بار بار بآواز بلند کہلواتا تھا۔ استاد ایک سطر پڑھتا تھا‪ ،‬بچے اس کے بعد مل کر باجماعت اس سطر کو دہراتے‬
‫تھے اور یوں نہ صرف استاد کی‪ ،‬بلکہ خود اپنی بھی‪،‬آوازسن کر تلفظ‪ ،‬لب و لہجہ اور ادائیگی کی مشق کر لیتے تھے۔‬
‫اب اس مشق کو فرسودہ طریقہ سمجھ کر ترک کر دیا گیا ہے۔ استاد بمشکل ایک بار بچوں کے سامنے سبق کی قرات‬
‫کرتا ہے اور چند بچوں سے منتخب اقتباسات کی قرات کرواتا ہے۔ اس سے ایک تو سب بچوں کو قرات کا موقع نہیں‬
‫ملتا جس سے ان کی آموزش نہیں ہوتی اور دوسرے ان کی دلچسپی بھی سبق میں نہیں رہتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ لمبی گفتگو‬
‫سن کر اس سے معانی اخذ کرنا اور انھیں دوبارہ بیان کرنے کے قابل ہونا اب جامعات کے طلبہ کے لیے بھی آسان نہیں‬
‫رہا۔اسی طرح مارننگ اسمبلی کے نام سے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی سرگرمی میں بچے مل کر کوئی دعا‪ ،‬نغمہ یا‬
‫ترانہ پڑھتے تھے اور اس سے بھی ان کے اعضاے نطق کی مناسب ورزش ہو جاتی تھی۔ اب کہیں دہشت گردی کے‬
‫ڈر اور کہیں عمارتوں کی تنگی کے باعث یہ رسم بھی متروک ہوتی جارہی ہے اور صبح صبح ایک گیت گا کر بچوں‬
‫کے ذہن میں جو تازگی پیدا ہوتی تھی وہ مفقود ہوتی جا رہی ہے۔‬

‫‪1‬‬
‫پڑھنے اور لکھنے کی مہارتوں کی تربیت کے لیے نصاب کو اس طور پر تشکیل دیا جائے کہ اخالقی‪ ،‬دینی اور تہذیبی‬
‫مقاصد بھی بے شک پیش نظر رہیں لیکن ان کی نوعیت ضمنی رہے۔ اردو کا نصاب مرتب کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا‬
‫چاہیے کہ اصل مقصد زبان کی تدریس ہے۔ اس مقصد کے لیے نصاب کو نہایت ذہانت اور فن کارانہ حس تناسب کے‬
‫استعمال سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ نصاب اس طرح وضع کیا جائے کہ اس کے نتیجے میں ترتیب دی جانے‬
‫والی نصابی کتب مطلوبہ نتائج پیدا کرنے کی پابند ہو جائیں یعنی اس میں مقاصد اور طریق کار کے متعلق واضح ہدایات‬
‫درج ہوں۔ مثالً یہ کہ پڑھ کر عبارت کی درست تفہیم کے لیے جو تحریری ٹکڑے منتخب کیے جاتے ہیں ان میں بچوں‬
‫کی عمر‪ ،‬ذوق‪ ،‬استعداد اور دلچسپی کو تو مد نظر رکھا ہی جاتا ہے لیکن زبان کی چاشنی اور اثر انگیزی کے پہلو کو‬
‫بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے اور تفہیم کے ساتھ ساتھ تحسین کے عمل کو جزو ِ نصاب بنایا جائے۔غیر ضروری‬
‫طوالت اور پھسپھسی‪ ،‬بے جان عبارتوں سے گریز کر کے‪ ،‬اردو کے نئے پرانے عظیم اور معتبر انشا پردازوں کی‬
‫پہلووں کی تفہیم و تحسین اساتذہ کے ذریعے کروائی‬ ‫ٔ‬ ‫تحریروں کے ٹکڑے پیش کیے جائیں جن کے معنوی اور فنی‬
‫جائے اور اس مقصد کے لیے خود اساتذہ کو بھی نہایت واضح ہدایات دی جائیں۔ نیز اس بات پر بھی زور دیا جائے کہ‬
‫بچے عبارت کو پڑھ کر اس کے مرکزی نکتے یا نکات کو سمجھ لیں اور پھر اسے اپنے الفاظ میں بیان بھی کر سکیں۔‬
‫ابتدا میں طویل عبارتوں کے بجائے مختصر اقتباسات کے ذریعے مشق کروانا اہم ہوتا ہے جس میں بیک وقت بہت سی‬
‫باتوں کے بجائے ایک ہی مرکزی خیال تک پہنچناکافی ہو۔‬
‫لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے مشق کا آغاز خوش خطی اور پھر امال سے ہونا چاہیے۔ پہلے حروف کی درست‬
‫نشست اور ان کے جوڑ واضح کرنا ضروری ہیں۔ اس مشق کے لیے خاطر خواہ وقت مخصوص کرنا ضروری ہے۔ بار‬
‫بار کی جانے والی مشق سے ہی مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے زمانے میں تختیوں اور قلم دوات‬
‫کا استعمال کیا جاتا تھا۔ تختیاں بار بار دھو کر استعمال کی جا سکتی تھیں‪ ،‬ماں باپ پر مالی بوجھ بھی نہی ں پڑتا تھا اور‬
‫بچے تختی دھونے اور سکھانے کے عمل کے دوران نہ صرف ایک جسمانی ورزش کر لیتے تھے بلکہ چھوٹے موٹے‬
‫گیت گا کر کھیل اور تفریح کا ذریعہ بھی حاصل کر سکتے تھے۔‬
‫لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے جدید تدریسی مہارتوں کو پیش نظر رکھ کر نصاب سازی کی جائے تو زیادہ‬
‫نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر قسم کی تحریر کی مشق کروائی جائے یعنی تصویر کو دیکھ کر‬
‫عنوان لکھنا‪ ،‬تصویری کہانیاں لکھنا‪ ،‬نامکمل جملوں کو مکمل کرنا اور پھر بتدریج خاکے کی مدد سے کہانی یا مضمون‬
‫لکھنا وغیرہ۔ یہ تو محض چند اشارے ہیں۔ اس نوع کی درجنوں سرگرمیاں ہیں جو تخیل کو مہمیز کر سکتی ہیں اور‬
‫افکار و خیاالت کو مربوط انداز میں بیان کرنے کی تربیت میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان‬
‫سرگرمیوں کے لیے وقت اور توجہ صرف کی جائے۔‬
‫ان چاروں مہارتوں کی تربیت کے عالوہ زبان کے قواعدی نکات سے آشنائی پیدا کرنا بھی انتہائی ضروری عمل ہے۔‬
‫اس مقصد کے لیے رائج استخرا جی طریقے کے بجائے استقرائی طریقے پر عمل مفید رہتا ہے۔ اگرچہ نصابات میں‬
‫استقرائی طریقہ استعمال کرنے کی سفارش تو کی جاتی ہے مگر عملی طور پر وہی پرانا طریقہ رائج ہے جس کے‬
‫تحت پہلے تعریفیں یاد کروا دی جاتی ہیں اور پھر ان کی مثالیں بتائی جاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ تدریسی اسباق میں سے‬
‫مختلف قواعدی نکات کی شناخت کروانے کے بعد ان کے قواعدی نام یا تعریف سے آگاہ کیا جائے۔ اس طریقے کی مدد‬
‫سے بچوں میں تجسس اور دلچسپی کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ تعریفیں رٹنے کے عمل سے اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔‬
‫مختصر یہ ہے کہ زبان کی تدریس کے عمل کو زیادہ سے زیادہ دلچسپ بنانا ضروری ہے۔ دلچسپی صرف لطیفوں یا‬
‫مزاحیہ باتوں سے نہیں پیدا ہوتی۔ دلچسپی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بچہ اپنے درس میں خود پوری طرح شریک ہوتا‬
‫ہے اور چھوٹی چھوٹی مشکالت کو حل کر کے‪ ،‬سواالت کے جواب تالش کر کے اور کسی نئے نکتے کی دریافت کر‬
‫کے مسرت بھری کامیابی کو محسوس کرتا ہے۔اس منزل تک پہنچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تدریس کا عمل دو طرفہ‬
‫بہاو کا نام نہ بن جائے‪ ،‬جیسا کہ عملی‬‫اور عملی نوعیت کا ہو۔ یہ استاد سے بچوں کی طرف معلومات کے یک طرفہ ٔ‬
‫طور پر ہمارے ہاں رائج ہے‬

‫‪2‬‬
‫رشید حسن خاں نے اردو میں باغ و بہار اور فسانہ عجائب جیسے کالسکل متون کی تدوین کا کام انجام دے کر اردو میں‬
‫تدوین کی روایت کو جتنا عروج و ارتقا بخشا ہے اس سے تمام اردو والے واقف ہیں۔ اپنے عمیق مطالعے اور کل‬
‫وقتی مشاہدے سے خاں صاحب نے اردو میں امال ‪ ،‬انشا اور قوائد کے ایسے اصول وضع کیے جس سے جدید اردو‬
‫رسم خط کی بنیاد پڑی اور اس رسم خط سے اردو میں تدوین کے حوالے سے نئے انقالبات رونما ہوئے۔ رشید صاحب‬
‫سے قبل ایک نام قاضی عبدالستار کا بھی آتا ہے جو امال و انشا کے حوالے سے بڑا اہم ہے۔ پر تدوین کی رو سے‬
‫قاضی صاحب کے بالمقابل رشی د صاحب نے زیادہ اہم کارنامے انجام دیئے ہیں ۔ تدوین متن کے تعلق سے خاں صاحب‬
‫نے فسانہ عجائب اور باغ و بہار دونوں کے مقدمات میں جو باتیں کی ہیں در اصل وہی ان کی تدوین متن کے توسط‬
‫سے نظری تنقید کا نمونہ ہیں۔ جس کا‪ implication‬ہمیں ان دونوں کالسکل متون پر ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ مثال ً اگر‬
‫فسانہ عجائب پر خاں صاحب کے لکھے ہوئے مقدمے اور اس داستان کے متن کو غور سے پڑھا جائے تو متن کی‬
‫ہیں‪:‬‬ ‫آتی‬ ‫میں‬ ‫سمجھ‬ ‫باتیں‬ ‫اہم‬ ‫یہ‬ ‫متعلق‬ ‫کے‬ ‫ضرورت‬ ‫کی‬ ‫تدوین‬
‫ہے۔‬ ‫ہوتی‬ ‫پیدا‬ ‫آسانی‬ ‫میں‬ ‫پڑھنے‬ ‫کو‬ ‫متن‬ ‫قدیم‬ ‫٭‬
‫٭ قدیم لفظیات پر حرکات کا اضافہ ہو جاتا ہے تاکہ ان کے صحیح تلفظ سے واقفیت حاصل ہو جائے۔‬
‫٭ متروک لفظیات کی حاشیے میں وضاحت کر دی جاتی ہے اور قدیم لغات سے اس کے معنی بھی دے دیئے جاتے‬
‫ہیں۔‬
‫٭ متن میں ‪( punctuation‬توقیف نگاری)کا اضافہ کر دیا جاتا ہے‪ ،‬تاکہ قاری کے لئے جملہ سمجھنا آسان ہو جائے۔‬
‫گنجلک عبارت کی حاشیہ میں یا حوالے کے طور پر وضاحت پیش کر دی جاتی ہے۔‬ ‫٭‬
‫ہے۔‬ ‫جاتی‬ ‫دی‬ ‫دے‬ ‫فرہنگ‬ ‫کی‬ ‫الفاظ‬ ‫مشکل‬ ‫میں‬ ‫آخر‬ ‫٭‬
‫یہ اصول رشید صاحب نے کہیں واضح طور پر لکھے نہیں ہیں ‪،‬پر جب تدوین متن کے حوالے سے ان کی نظری اور‬
‫عملی تنقید کا مطالعہ کیا جائے تو ان باتوں کا علم ہوتا ہے۔ رشید صاحب کا فسانہ عجائب کی تدوین میں کافی عرصہ‬
‫اسی لئے خرچ ہوا کیوں کہ انہوں نے اس کالسکل متن کو متذکرہ باال اصولوں کی روشنی میں مدون کیا ہے۔ یہ ہی‬
‫وجہ ہے کہ اردو کے دیگر دو اہم محققین نے ان کے اس کارنامے کا اعتراف بھی کیا ہے اور اپنے تئیں اس کارنامے‬
‫میں ہر طور شریک بھی رہے ہیں ۔ میری مراد ڈاکٹر خلیق انجم اور ڈاکٹر قمر رئیس سے ہے۔ ان دونوں حضرات کی‬
‫رائے رشید صاحب اور ان کے اس کام کے متعلق کیا ہے‪ ،‬مالحظہ فرمائیں‪:‬‬
‫ا س کام کو کس طرح کیا گیا ہے اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کام مکمل ہو چکا تھا ‪،‬متن‬
‫کی کتابت بھی ہو چکی تھی‪،‬کہ اچانک ان کو اس کتاب کا ایک ایسا نسخہ مال جس پر مصنف نے آخری بار نظر ثانی‬
‫کی تھی۔رشید صاحب نے بال تکلف پچھلے پانچ سال کے سارے کام کو کالعدم قرار دے دیا اور اب اس نئے نسخے کی‬
‫بنیاد پر متن کو نئے سرے سے مرتب کیا۔غرض کہ اس کی تکمیل میں اس طرح کم وبیش آٹھ سال صرف ہوئے ہیں۔‬
‫(ص‪، 10‬پیش لفظ‪،‬قمر رئیس ‪،‬فسانہ عجائب ‪،‬مصنفہ‪ :‬رجب علی بیگ سرور‪،‬مرتبہ‪ :‬رشید حسن خانانجمن ترقی اردو ہند‬
‫دہلی)‬ ‫‪،‬نئی‬
‫فسانہ عجائب کا زیر نظر اڈیشن رشید حسن خاں صاحب کے تقریبا تیس سالہ تجربے اور ان کی سات ‪،‬آٹھ سالہ غیر‬
‫معمولی محنت اور دیدہ ریزی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے پہلی بار طلبہ اور ان کے اساتذہ کے لیے ایسا متن تیار کیا ہے‬
‫جو کالسکی نصابی متنوں کی ترتیب کے نئے انداز سے ہمیں روشناس کراتا ہے اور مثال و معیار کی حیثیت رکھتا ہے‬
‫۔ اس میں مشکل الفاظ کا صحیح تلفظ نظروں کے سامنے آجاتا ہے ‪،‬فارسی ترکیبوں کو صحیح طور پر پڑھا جا سکتا ہے‬
‫اور پیچیدہ جملوں کو صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے ۔ ضمیموں میں جو تشریحات ہیں ‪ ،‬ان کی مدد سے اس کتاب‬
‫کے مشکل مقامات واضح اور روشن ہو جاتے ہیں ۔ میں اس تنقیدی اڈیشن کے بارے میں پورے یقین اور وثوق کے‬

‫‪3‬‬
‫ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ استاد اور طالب علم اس مشکل متن کو اب آسانی کے ساتھ پڑھ سکیں گے۔‬
‫(ص‪، 14‬حرف آغاز ‪،‬خلیق انجم‪ ،‬فسانہ عجائب ‪،‬مصنفہ‪ :‬رجب علی بیگ سرور‪،‬مرتبہ‪ :‬رشید حسن خانانجمن ترقی اردو‬
‫دہلی)‬ ‫‪،‬نئی‬ ‫ہند‬
‫فسا نہ عجائب کے مقدمے اور متن کا مطالعہ کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ رشید صاحب نے فسانہ عجائب کا متن ایڈیٹ‬
‫کرتے وقت کئی ایک اہم نکات کو اپنے پیش نظر رکھا تھا‪،‬جس کی بنیاد پر یہ کام اتنے جامع انداز میں مکمل ہوا۔ مثال ً‬
‫انہوں اپنے مقدمے میں مصنف کے متعلق صرف اہم اہم م علومات فراہم کی ہیں اور زیادہ تر اس کے متن کے متعلق بات‬
‫کی ہے ‪ ،‬حاالت زندگی کے تعلق سے انہوں نےنیر مسعود کی کتاب کی طرف اشارہ کر دیا ہے ‪ ،‬اور ساتھ ہی یہ تاکید‬
‫بھی کی ہےکہ ایک مدون کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ غیر ضروری مباحث میں نہ پڑتے ہوئے متن کے معامالت کی‬
‫جانب زیادہ متوجہ ہو۔ متن کی طرف رجوع کرتے ہوئے انہوں نے اولین صورت میں متن کی اشاعتوں کے تعلق سے‬
‫اہم معلومات فراہم کی ہیں اور علی الترتیب یہ بتایا ہے کہ فسانہ عجائب کس کس سن میں مصنف کی زندگی میں شائع‬
‫ہوا اور کس کس سن میں ان کی حیات کے بعد ‪،‬مثال ًمصنف کی حیات میں ‪،1267،1276 ،1259،1263‬اور‪1280‬میں‬
‫کل مال کرپانچ مرتبہ شائع ہوا‪ ،‬اس کے بعد منشی نول کشور نے فسانہ عجائب کے حقوق اشاعت ان سے خرید لیے‬
‫جس کے بعد یہ مستقل کئی مرتبہ منشی نول کشور کے پریس سے شائع ہو کر مناظر عام پر آیا۔ اس کے عالوہ ‪1862‬‬
‫میں مطبع مصطفائی سے اور ‪ 1882،1883‬اور‪ 1912‬میں مختلف مطابع سے شائع ہوا۔ الہ آباد سے پہلی مرتبہ ‪1928‬‬
‫میں اور دوسری مرتبہ ‪ 1976‬میں شائع ہوا جسے مخمور اکبر آبادی نے ترتیب دیا تھا اور اس کے ناشر رام نرائن الل‬
‫بینی مادھوتھے۔ مصنف نے اپنی زندگی میں آخری بار جس نسخے کو دیکھا تھا وہ ‪ 1880‬کا نسخہ تھا جس کے متعلق‬
‫رشید صاحب نے بحیثیت مدون یہ انکشاف ظاہر کیا کہ اس نسخے کو ان سے قبل کسی مدون نے نہیں دیکھا ہے ‪ ،‬اس‬
‫کے برعکس اس کی نقل جو ‪ 1882‬میں مطبع منشی نول کشور سے شائع ہوئی تھی اس کو بنیادی متن بنا کر زیادہ تر‬
‫مدون حضرات نےتد وین کا کام انجام دیا ہے۔ اس انکشاف کے بعد رشید صاحب نے بنیادی نسخے کو بنیاد نہ بنانے کی‬
‫باعث دیگر مدون حضرات سے جو غلطیاں ہوئی ہیں اس کی بھی نشان دہی کی ہے۔ رشید صاحب کی اس تدوین سے‬
‫اصول تدوین کے تعلق سے جو باتیں معلوم ہوتی ہیں ان میں ایک بات یہ بھی ہے کہ کسی متن کےنسخوں کی بہتات‬
‫ہونے پر ان کو مختلف عالمتوں کے ذریعے الگ کرنا اور اس میں سے بنیادی نسخے کو چننا کتنا اہم ہوتا ہے۔مثالً از‬
‫اول تا آخر نسخوں کو الف‪،‬ب‪،‬ج کی عالمتوں سے نواز کر الگ کیا جاتا ہے یا کسی ایسی عالمت کے ذریعے جس سے‬
‫اس نسخے کے متعلق اہم معل ومات اس عالمت سے ہی فراہم ہو جائے۔ اس طور پر رشید صاحب نے فسانہ عجائب کے‬
‫ان تمام نسخوں کو جو مصنف کی زندگی میں شائع ہوئے مختلف عالمتوں سے واضح کیا ہے ۔مثالً‪1259‬کانسخہ ح‬
‫ہے‪ 1263 ،‬کانسخہ ض‪1267 ،‬کانسخہ ک‪1276،‬کانسخہ ف اور‪1280‬کانسخہ ل ہے۔ اس سے نسخوں کی نشان دہی‬
‫واضح انداز میں ہو جاتی ہے اور کسی قسم کا دھوکا ہونے کے امکان کافی حد کم ہو جاتے ہیں ۔ اس کے عالوہ فسانہ‬
‫عجائب کے مقدمے کے طور پر بحیثیت مدون رشید صاحب نے جو باتیں کی ہیں اس سے اور تدوین شدہ متن کا‬
‫مطالعہ کرنے سے جو اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں ان میں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫٭ متن پر معاشرتی اثرات کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے ۔(حاالں کہ یہ خالص تنقید کا موضوع ہے۔)‬
‫٭ زبان کے ذیل میں امال ‪ ،‬انشا ‪ ،‬بیانیہ‪ ،‬قوائد‪ ،‬الفاظ کی نشست و برخاست‪ ،‬فصاحت و بالغت ان تمام پہلووں سے‬
‫ہے۔‬ ‫ہوتی‬ ‫حاصل‬ ‫واقفیت‬
‫ہے۔‬ ‫جاتی‬ ‫ہو‬ ‫واقفیت‬ ‫خواہ‬ ‫خاظر‬ ‫سے‬ ‫بحث‬ ‫کی‬ ‫اسلوب‬ ‫٭‬
‫حاصل ہوتی ہے۔‬ ‫سے واقفیت‬ ‫طریقے‬ ‫دینے کے طور‬ ‫حواشی‬ ‫حوالہ و‬ ‫٭‬
‫٭ جملہ معترضہ تحریر کے درمیان کس طرح پیش کیا جاتا ہے اس سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔‬
‫٭ تدوین متن سے الفاظ کو درست انداز میں لکھنے کا طریقہ بھی معلوم ہوتا ہے ‪،‬مثال ً خاں صاحب نے بلکہ کو ہر‬
‫لکھا۔‬ ‫کہ‬ ‫بل‬ ‫جگہ‬
‫رشید حسن خاں نے تدوین فسانہ عجائب کے دوران وہ الفاظ اور جملے جس سے دبستان دہلی اور لکھنو کی بحث میں‬
‫اضافہ ہو ا ان کو بھی نشان زد کیا ہے‪ ،‬اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تدوین متن کے دوران ادبی ‪،‬تاریخی ‪،‬لسانی اور‬

‫‪4‬‬
‫س ماجی و معاشرتی باتوں کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے۔اسی طرح لکھنوی زبان کی ساخت کو بنانے اور سنوارنے میں‬
‫فسانہ عجائب کا کیا کردار ہے اس پر بھی اپنے مقدمے میں روشنی ڈالی ہے۔ مثال ً ایک جگہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫جس طرح ناسخ کی شاعری کی اندرونی فضا اور اس کا مزاج لکھنو کی اس نئی معاشرت کا آئینہ دار ہے۔ اسی طرح‬
‫سرور کی نثر ‪،‬آرایش پسندی کے وسیلے سے اس معاشرت کے انداز و اطوار کی آئینہ داری کرتی ہے۔ناسخ اور‬
‫سرور دونوں اپنے اسالیب بیان کے واسطے سے دبستان لکھنو کے نمایندہ افراد ہیں۔‬

‫اردو زبان کو تو عام طور پر سولہویں صدی سے ہی رابطے کی زبان تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ اس‬
‫رابطے کی توسیع عہد مغلیہ میں فارسی زبان کے واسطے سے ہوئی۔ اردو زبان کی ساخت میں پورے برصغیر کی قدیم‬
‫اور جدید بولیوں کا حصہ ہے۔ یہ عربی اور فارسی جیسی دو عظیم زبانوں اور برصغیر کی تمام بولیوں سے مل کر‬
‫بننے والی ‪ ،‬لغت اور صوتیات کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی اور قبول عام کے لحاظ سے ممتاز ترین زبان ہے۔‬
‫اردو ایک زندہ زبان ہے اور اپنی ساخت میں بین االقوامی مزاج رکھتی ہے۔ یہ زبان غیر معمولی لسانی مفاہمت کا نام‬
‫ہے۔ اس کی بنیاد ہی مختلف زبانوں کے اشتراک پر رکھی گئی ہے۔ اردو گویا بین االقوامی زبانوں کی ایک انجمن‬
‫ہے؂‪ ۲‬۔ ایک لسان االرض ہے؂‪ ۳‬جس میں شرکت کے دروازے عام و خاص ہر زبان کے الفاظ پر یکساں کھلے ہوئے‬
‫ہیں ۔ اردو میں مختلف زبانوں مثالً ترکی ‪ ،‬عربی فارسی ‪ ،‬پرتگالی‪ ،‬اطالوی‪ ،‬چینی ‪ ،‬انگریزی ‪ ،‬یونانی‪ ،‬سنسکرت اور‬
‫ہیں۔‬ ‫گئے‬ ‫لیے‬ ‫سے‬ ‫ہندی‬ ‫بھاشایا‬ ‫اور‬ ‫بولیوں‬ ‫مقامی‬
‫غیر زبانوں سے جو الفاظ براہ راست اردو کے ذخیرۂ الفاظ میں شامل ہو گئے ہیں ان میں ؂‪ ۷۵۸۴ ۴‬الفاظ عربی کے‪،‬‬
‫‪ ۶۰۴۱‬الفاظ فارسی کے‪ ۱۰۵ ،‬الفاظ ترکی کے‪ ،‬گیارہ الفاظ عبرانی کے اور سات الفاظ سریانی زبان کے ہیں۔ مزید یہ‬
‫کہ یورپی زبانوں میں سے انگریزی کے پانچ سو‪ ،‬اور ایک سو ترپن ایسے ہیں جو مختلف یورپی زبانوں ‪ ،‬یونانی‪،‬‬
‫الطینی ‪ ،‬فرانسیسی‪ ،‬پرتگالی ‪ ،‬اور ہسپانوی زبانوں سے مستعار لیے گئے ہیں ۔‬
‫اردو میں شامل اصل دیسی الفاظ کا تناسب سواتین فیصد ‪ ،‬سامی ‪ ،‬فارسی‪ ،‬اور ترکی زبان کے الفاظ تقریبا ً ‪۲۵‬فی صد‬
‫اور یورپی الفاظ کا تناسب صرف ایک فی صد ہے۔ اس جائزے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو ایک بین االقوامی‬
‫مزاج کی حامل زبان ہے۔ اس میں نہ صرف عربی‪ ،‬فارسی یا مقامی بولیوں کے الفاظ ہیں بلکہ دنیا کی ہر قوم اور ہر‬
‫زبان کے الفاظ کم و بیش شامل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے مزاج میں لچک اور رنگارنگی ہے لیکن وہ کسی زبان‬
‫کی مقلد نہیں ہے‪ ،‬بلکہ صورت اور سیرت دونوں کے اعتبار سے اپنی ایک الگ اور مستقل زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔‬
‫غیر زبانوں کے جو الفاظ اردو میں شامل ہیں وہ سب کے سب اپنے صلی معنوں اور صورتوں میں موجود نہیں بلکہ‬
‫بہت سے الفاظ کے معنی‪ ،‬تلفظ‪ ،‬امال اور استعمال کی نوعیت بدل گئی ہے ۔ اردو مخلوط زبان ہونے کے باوجود اپنی‬
‫رعنائی‪ ،‬صناعی اور افادیت کے لحاظ سے اپنی جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ اس نے اپنی ساخت ‪ ،‬مزاج اور سیرت کو‬
‫دوسری زبانوں کے تابع نہیں کیا۔ ان ہی ظاہری ومعنوی خصوصیات اور محاسن کے اعتبار سے یہ دنیا کی اہم زبانوں‬
‫ہے۔‬ ‫جاتی‬ ‫کی‬ ‫شمار‬ ‫میں‬
‫’’ کسی زبان کی آوازوں اور کلمات کوضبط تحریرمیں النے کے لیے جو مربوط نظام وضع کیا جاتا ہے اسے رسم‬
‫الخط کہتے ہیں ۔ علمائے لسانیات کے نزدیک ایک اچھے رسم الخط کے لیے ضروری ہے کہ اس میں زبان کی ہر آواز‬
‫کے لیے ایک مخصوص نشان ہو جو اس آواز کو واضح طور پر ادا کر سکے اور دوسرے وہ رسم الخط کی صورت‬
‫(‪)۵‬‬ ‫ہو‘‘‬ ‫سہل‬ ‫سے‬ ‫لحاظ‬ ‫عملی‬ ‫اور‬ ‫نظر‬ ‫جاذب‬ ‫سے‬ ‫لحاظ‬ ‫کے‬
‫اردو رسم الخط زبان کی ساری مروج آوازوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اردو کے حروف بناوٹ کے لحاظ سے حددرجہ‬
‫سادہ اور اشکال کے اعتبار سے بہت کم ہیں ۔ اردو زبان اپنے الفاظ کی بناوٹ کی بناء پر دنیا کی ہر زبان کے مقابلہ میں‬
‫لکھنے ‪ ،‬پڑھنے اور سیکھنے کے حوالے سے آسان ترین زبان ہے۔ اس کے عالوہ اردو زبان میں اخذ و جذب کی بے‬
‫پناہ صالحیت ہے۔ یہ ایک قائم بال ذات زبان ہے۔ اس میں یہ صالحیت ہے کہ دوسری زبانوں سے مفید مطلب الفاظ لے‬
‫لیتی ہے۔ اگر وہ لفظ اس کے مزاج کے ہم آہنگ ہے تو جوں کا توں رہنے دیتی ہے اور اگر ہم آہنگ نہیں ہے تو اس کو‬

‫‪5‬‬
‫ہے۔‬ ‫زبان‬ ‫القلب‬ ‫وسیع‬ ‫میں‬ ‫مزاج‬ ‫اپنے‬ ‫اردو‬ ‫ہے۔‬ ‫لیتی‬ ‫بنا‬ ‫آہنگ‬ ‫ہم‬
‫اردو میں الفاظ سازی کی بھی گنجائش ہے۔ کسی زبان کی ترقی کا انحصار اس کی الفاظ سازی کی اہلیت اور انھیں‬
‫برتنے کی قوت پر ہوتا ہے ۔ اردو میں یہ صالحیت بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت اردو زبان‬
‫میں عام طور پر استعمال ہونے والے لفظوں کی تعداد تین الکھ سے زیادہ ہے۔ اصطالحی الفاظ ان کے عالوہ ہے۔ الفاظ‬
‫کا اتنا بڑا ذخیرہ انگریزی کے عالوہ غالبا ً کسی اور زبان میں نہیں ہے۔ اور چونکہ بین االقوامی مزاج کی حامل زبان‬
‫ہے اور اس حیثیت سے اصالحات سازی کی عالمی کوششوں سے یکساں استفادہ کر سکتی ہے۔‬
‫اردو زبان اپنی لسانی مفاہمت اور افاد یت کے عالوہ اپنے اندر ایک تہذیبی اور ثقافتی پہلو بھی رکھتی ہے۔ یہ اپنے علمی‬
‫‪ ،‬ادبی اور دینی سرمائے کے اعتبار سے بڑی باثروت زبان ہے ۔ اردو میں وسعت پذیری کی بے پناہ طاقت موجود ہے۔‬
‫یہ جتنی وسیع ہے اتنی ہی عمیق بھی ہے۔ دینی اور دینوی علوم و فنون کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ پھر بھی اس کی‬
‫گنجائش بے اندازہ ہے ۔ اردو زبان ہماری تہذیب و ثقافت کی آےئنہ دار ہے ۔ دنیا کی قدیم زبانوں کے مقابلے میں اگرچہ‬
‫یہ کم عمر ہے لیکن ادبی اور لسانی حیثیت سے اس کا پلہ سینکڑوں زبانوں پر بھاری ہے۔ اردو زبان میں ہماری تہذیب‬
‫و ثقافت کی تاریخ محفوظ ہے۔ اس کی بدولت ہم اپنے آپ کو ایک متمدن اور ترقی یافتہ قوم کا جانشین خیال کرتے ہیں۔‬
‫اردو چونکہ بین االقوامی مزاج رکھتی ہے اس لیے نہ وہ مغرب کے لیے اجنبی ہے نہ مشرق کے لیے۔ یورپ کے لوگ‬
‫کئی صدیوں سے اردو زبان سے واقف ہیں اور انہوں نے اس زبان میں گراں قدر علمی و ادبی کارنامے بھی یادگار‬
‫چھوڑے ہیں۔ یورپ کے عالوہ دنیا کے مختلف ممالک میں اردو زبان و ادب کے تراجم پر کئی زبانوں میں کام ہو رہا‬
‫ہے ۔ اسی طرح اردو میں بھی متعدد زبانوں کی تخلیقات کے تراجم ہوئے اور ہو رہے ہیں ‪ ،‬لیکن اس وقت ضرورت اس‬
‫امر کی ہے ک ہ غیر زبانوں کے تکنیکی‪ ،‬سائنسی اور علمی و فنی کتب و مضامین کو زیادہ سے زیادہ اردو کے قالب‬
‫میں ڈھاال جائے تاکہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکے۔ عصر حا ضر میں مختلف ملکوں پر زبانوں اور ان‬
‫کے ادبی خزانوں تک رسائی آسانی سے ممکن ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کے ذریعے مختلف عالقوں‬
‫کے رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے مزید قریب آسکتے ہیں اور ایک دوسرے کے لسانی واادبی سرمائے کو سمجھ‬
‫کر تہذیبی حوالوں ے ایک دوسرے کی شناخت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔‬
‫اردو زبان محبت کی سفیر ہے ۔ یہ مختلف ذہنی دھاروں سے تعلق رکھنے والے ‪ ،‬مختلف عقائدسے وابستہ ‪ ،‬مختلف‬
‫مزاجوں کے حامل بڑے گروہوں کی تخلیقی و تصنیفی زبان ہے اور بول چال کی سطح پر دنیا کے التعداد ممالک میں‬
‫وہاں کی گلیوں‪ ،‬کوچوں ‪ ،‬بازاروں اور گھروں میں اپنی زندگی کا ثبوت دے رہی ہے اور عالمی سطح پر اپنے حلقہ اثر‬
‫میں وسعت پیدا کر رہی ہے۔‬

‫یہ ایک انتہائی اہم اور پھیال ہوا موضوع ہے جس کی کئی جہتیں اور پہلو ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں خود کو اس‬
‫موضوع پر کوئی مستند رائے دینے کی اہل نہیں سمجھتی کیوں کہ جدید علمی دنیامیں یہ ایک باقاعدہ علم ہےجس میں‬
‫نفسیات‪ ،‬سماجیات اور دیگر علوم کی مدد سے نصاب سازی کے اصول مرتب کیے جاتے ہیں۔ البتہ اپنے تیس سالہ‬
‫تدریسی تجربے کی بنا پر‪ ،‬جس میں ہر سطح کی تدریس شامل ہے‪،‬میں اپنے چند مشاہدات اور ان سے حاصل ہونے‬
‫والئے نتائج آپ کے سامنے پیش کر سکتی ہوں۔‬
‫یہ تو تمام اصحاب علم کو معلوم ہے کہ نصاب‪ ،‬درسی کتاب کو نہیں کہتے۔ نصاب دراصل وہ مجموعی خاکہ ہے جس‬
‫میں کسی خاص مضمون کی تدریس کے مقاصد‪ ،‬عمومی موضوعات اور اس کی سطح کی حد بندی کی جاتی ہے۔ مثالی‬
‫اردو نصاب کے بارے میں گفتگو سے پہلے چند بنیادی سواالت پر غور کرنا ضروری ہے۔‬
‫مثال ً یہ کہ نصاب سے کس درجے کا نصاب مراد ہے؟ پرائمری سے لے کر جامعات تک ہر درجے کے نصاب کے‬
‫تقاضے الگ ہیں اور ان کے لیے سفارشات بھی مختلف نوعیت کی ہونی چاہییں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اردو سے مراد‬
‫اردو زبان ہے یا ادب؟ میرا خیال ہے کہ سب سے پہلے تو اسی تخصیص کی ضرورت ہے کہ جب ہم تدریس ِاردو کہیں‬
‫تو اس سے مراد ہو اردو زبان۔ ادب کو زبان کی تدریس کے لیے ضرور استعمال کیا جائے مگر اس کے عالوہ بھی‬

‫‪6‬‬
‫اردو کی تدریس کے مراحل پر توجہ دی جائے۔ کم از کم پہلے بارہ سال کی تعلیمی زندگی میں اردو زبان کے تدریس‬
‫کے عمل کو مکمل کیا جائے۔ اس کے لیے ادبی مواد کی مدد لی جا سکتی ہے مگر صرف ادب کی تدریس پیش نظر نہ‬
‫پیرایہ بیان کی تربیت دینا اور روزمرہ بات چین اور‬
‫ٔ‬ ‫رہے بلکہ معروضی نثر لکھنا‪ ،‬سائنسی اور تکنیکی مضامین کے‬
‫بول چال کے مختلف اسلوب سکھانا اردو کی تدریس کے الزمی اجزا سمجھے جانے چاہییں۔ ادب کی تدریس ثانوی اور‬
‫اعلی ثانوی جماعتوں میں بطور اختیاری مضمون کی جا سکتی ہے۔‬ ‫ٰ‬
‫زبان کی تدریس کی چار بنیادی مہارتیں ہیں۔ جو بتدریج سیکھی اور سکھائی جاتی ہیں۔ یعنی سب سے پہلے سننا‪ ،‬پھر‬
‫بولنا‪ ،‬پھر پڑھنا اور پھر لکھنا۔ ان میں سے دو مہارتیں ان پٹ کی حیثیت رکھتی ہیں اور دو آٔوٹ پٹ کی۔ سننا اور پڑھنا‬
‫ان پٹ ہیں اور بولنا اور لکھنا آٔوٹ پٹ۔ اب ان میں سے پہلی مہارت یعنی سننے کے عمل کا آغاز فطری طور پر ماں‬
‫کے پیٹ سے ہی ہو جاتا ہے۔ اور بولنا بھی بچہ سماجی زندگی کے ابتدائی چند سالوں میں سیکھ لیتا ہے لیکن یہ سننا‬
‫اور بولنا دونوں اس کی مادری زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اردو کا معاملہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت کی مادری‬
‫زبان نہیں ہے لیکن ہر پاکستانی کی دوسری زبان یعنی سیکنڈری لینگویج ضرور ہے۔ اگر کسی ماحول میں اردو بولنے‬
‫واال کوئی ایک فرد بھی موجود نہ ہو‪ ،‬تب بھی ذرائع ابالغ‪ ،‬ریڈیو‪ ،‬ٹیلی وژن‪ ،‬گانوں‪ ،‬گیتوں اور قوالیوں کے ذریعے‬
‫اردو کے الفاظ اور لب و لہجے سے واقفیت پیدا ہو ہی جاتی ہے۔‬
‫اسکول میں رسمی تعلیم کے ذریعے اس ابتدائی واقفیت کی پرورش و نمو کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے نصاب میں‬
‫ان دونوں بنیادی مہارتوں یعنی سننے اور بولنے کی تربیت کا مناسب یا ضروری اہتمام نہیں ملتا۔ ہم ابتدائی جماعتوں‬
‫سے دیکھتے ہیں کہ سارا زور پڑھنے اور لکھنے پردیا جاتا ہے۔ سننے اور سن کر درست معنی اخذ کرنے اور اسے‬
‫یاد رکھنے کی مشق اگر ہو بھی تو اتنی معمولی ہوتی ہے کہ خاطر خواہ نتائج پیدا نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ یونی‬
‫ورسٹیوں میں بھی طلبہ کی ؛لیکچرسن کر سمجھنے اور اسے یادداشت میں محفوظ کر لینے کی صالحیت انتہائی محدود‬
‫ہوتی ہے۔ اس کی توجہ کا مرکز بار بار بدل جاتا ہے اور وہ اگلے جملوں کو پچھلے جملوں سے مربوط کر کے کالم‬
‫کے مجموعی معانی سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے۔‬
‫اب سے چالیس پچاس برس پہلے یہ صور ت حال نہیں تھی اور ابتدائی جماعتوں میں ان دونوں مہارتوں کی تربیت کے‬
‫لیے انتہائی سادہ اور نتیجہ خیز مشقیں عام تھیں۔ مثال ًہر نیا سبق استاد پہلے خود اور بعد میں مانیٹر کے ذریعے بچوں‬
‫سے بار بار بآواز بلند کہلواتا تھا۔ استاد ایک سطر پڑھتا تھا‪ ،‬بچے اس کے بعد مل کر باجماعت اس سطر کو دہراتے‬
‫تھے اور یوں نہ صرف استاد کی‪ ،‬بلکہ خود اپنی بھی‪،‬آوازسن کر تلفظ‪ ،‬لب و لہجہ اور ادائیگی کی مشق کر لیتے تھے۔‬
‫اب اس مشق کو فرسودہ طریقہ سمجھ کر ترک کر دیا گیا ہے۔ استاد بمشکل ایک بار بچوں کے سامنے سبق کی قرات‬
‫کرتا ہے اور چند بچوں سے منتخب اقتباسات کی قرات کرواتا ہے۔ اس سے ایک تو سب بچوں کو قرات کا موقع نہیں‬
‫ملتا جس سے ان کی آموزش نہیں ہوتی اور دوسرے ان کی دلچسپی بھی سبق میں نہیں رہتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ لمبی گفتگو‬
‫سن کر اس سے معانی اخذ کرنا اور انھیں دوبارہ بیان کرنے کے قابل ہونا اب جامعات کے طلبہ کے لیے بھی آسان نہیں‬
‫رہا۔اسی طرح مارننگ اسمبلی کے نام سے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی سرگرمی میں بچے مل کر کوئی دعا‪ ،‬نغمہ یا‬
‫ترانہ پڑھتے تھے اور اس سے بھی ان کے اعضاے نطق کی مناسب ورزش ہو جاتی تھی۔ اب کہیں دہشت گردی کے‬
‫ڈر اور کہیں عمارتوں کی تنگی کے باعث یہ رسم بھی متروک ہوتی جارہی ہے اور صبح صبح ایک گیت گا کر بچوں‬
‫کے ذہن میں جو تازگی پیدا ہوتی تھی وہ مفقود ہوتی جا رہی ہے۔‬
‫لہذا میرے نزدیک بنیادی جماعتوں کے اردو نصاب کی پہلی شرط تو یہ ہونی چاہیے کہ پڑھنے اور لکھنے سے پہلے‬
‫سننے اور بولنے کی مشق کروائی جائے اور یہ مشق صرف استاد کی صوابدید پر نہ چھوڑی جائے بلکہ اسے باقاعدہ‬
‫امتحانی سرگرمی کا حصہ بنایا جائے کیوں کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر سطح کے اساتذہ کی اکثریت اپنے منصب‬
‫کے تقاضوں اور ان کی اہمیت سے بے خبر ہے اور اس وقت تک‪ ،‬کسی کام پر آمادہ نہیں ہوتی جب تک اسے سزا یا‬
‫جزا کے کسی سلسلے سے مربوط نہ کیا جائے۔ محض ایمان داری اور اخالقی تقاضے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو‬
‫بھرپور طور پر نبھانا اب قصہ ٔپارینہ بن چکا ہے اور جو استاد اب بھی اس جرات رندانہ کے مرتکب ہوتے ہیں انھیں‬

‫‪7‬‬
‫اپنی برادری میں کوئی خاص محبت یا عزت کے قابل نہیں سمجھا جاتا بلکہ دیگر ہم کار اکثر ان سے ناالں نظر آتے ہیں‬
‫اور کسی نہ کسی سازش کے ذریعے انھیں منظر عام سے ہٹانے کی فکر میں رہتے ہیں۔‬
‫خیر یہ ایک الگ موضوع ہے اور فی الحال زیر بحث نہیں ہے حاالنکہ نظام تعلیم کا اہم ترین ستون اساتذہ ہی ہوتے ہیں۔‬
‫موجودہ صورت حال اور اساتذہ کی اس کیفیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نصاب میں کچھ ایسی تبدیلیاں کر سکتے‬
‫موثر‬‫ہیں جو اساتذہ کو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں مدد دے سکیں۔لیکن یہ نصابی تبدیلیاں صرف اس صورت میں ٔ‬
‫ثابت ہوں گی جب انھیں امتحان کے عمل سے گزارنا الزمی قرار دیا جائے۔ نصاب اور امتحانی نظام یعنی ایویلیوایشن‬
‫سسٹم الزم و ملزوم ہیں۔‬
‫لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ ابتدائی جماعتوں میں بلند خوانی اور مکالمے کی تربیت کو نصاب کا الزمی حصہ بنایا‬
‫جائےاور اس کی جانچ کے لیے اردو کے زبانی امتحان کا اہتمام کیا جائے جسے پڑھانے والے استاد کے بجائے کوئی‬
‫دوسرا استاد لے۔ اس طرح بچے تلفظ‪ ،‬ادائیگی اور گفتگو کے آداب سیکھ سکیں گے اور بتدریج بڑی جماعتوں میں‬
‫جاتے جاتے مدلل گفتگو کرنے اور اپنے خیاالت کو مربوط انداز میں بیان کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔‬
‫دوسری تجویز یہ ہے کہ بچوں کے ذخیر ٔہ الفاظ میں مرحلہ وار اضافہ کرنے کا ٹھوس اور قابل عمل منصوبہ مرتب کیا‬
‫جائے۔ محض یہ فرض کر لینا کافی نہیں ہوگا کہ نصابی کتب کے اسباق پڑھنے سے بچوں کے ذخیر ٔہ الفاظ میں خود‬
‫بخود اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس مقصد کے لیے علیحدہ کتابچے مرتب کیے جائیں جن میں الفاظ‪ ،‬ان کے معانی اور ان کے‬
‫استعمال کو واضح کیا جائے۔ ان الفاظ کی تعداد کیا ہونی چاہیے یا انھیں کس ترتیب سے سکھایا جائے‪ ،‬اس بارے میں‬
‫پیشہ ور ماہرین نصاب بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کئی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثالً آسان‬
‫سے مشکل کی جانب۔ روزمرہ استعمال کے الفاظ سے لے کر بتدریج بڑھتی ہوئی سماجی‪ ،‬علمی اور فکری ضروریات‬
‫پر مبنی الفاظ کی جانب۔ مفرد سے مرکب کی جانب۔ یا اسی نوع کی کوئی ترجیحی صورت یا ان تمام صورتوں کو پیش‬
‫نظر رکھ کر ذخیرہ الفاظ مرتب کیا جا سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ترکیب سازی‪ ،‬نئےنئے الفاظ بنانے اور انھیں استعمال‬
‫کرنے پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔‬
‫ذخیر ٔہ الفاظ کے سلسلے میں بچوں کو ابتدائی جماعتوں ہی سے لغت کے استعمال کی عادت ڈالنے کے لیے اس اہم‬
‫سرگرمی کو بھی نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے بچوں کے مجوزہ ذخیرہ ٔ الفاظ پر مشتمل بولنے والی‬
‫لغات یا ٹا کنگ ڈکشنریز خصوصی طور پر تیار کی جا سکتی ہیں۔ اب تو ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے انتہائی کم‬
‫الگت میں ایسی لغات تیار کر کے بال قیمت بچوں اور ان کے اساتذہ تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔‬

‫پڑھنے اور لکھنے کی مہارتوں کی تربیت کے لیے نصاب کو اس طور پر تشکیل دیا جائے کہ اخالقی‪ ،‬دینی اور تہذیبی‬
‫مقاصد بھی بے شک پیش نظر رہیں لیکن ان کی نوعیت ضمنی رہے۔ اردو کا نصاب مرتب کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا‬
‫چاہیے کہ اصل مقصد زبان کی تدریس ہے۔ اس مقصد کے لیے نصاب کو نہایت ذہانت اور فن کارانہ حس تناسب کے‬
‫استعمال سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ نصاب اس طرح وضع کیا جائے کہ اس کے نتیجے میں ترتیب دی جانے‬
‫والی نصابی کتب مطلوبہ نتائج پیدا کرنے کی پابند ہو جائیں یعنی اس میں مقاصد اور طریق کار کے متعلق واضح ہدایات‬
‫درج ہوں۔ مثالً یہ کہ پڑھ کر عبارت کی درست تفہیم کے لیے جو تحریری ٹکڑے منتخب کیے جاتے ہیں ان میں بچوں‬
‫کی عمر‪ ،‬ذوق‪ ،‬استعداد اور دلچسپی کو تو مد نظر رکھا ہی جاتا ہے لیکن زبان کی چاشنی اور اثر انگیزی کے پہلو کو‬
‫بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے اور تفہیم کے ساتھ ساتھ تحسین کے عمل کو جزو ِ نصاب بنایا جائے۔غیر ضروری‬
‫طوالت اور پھسپھسی‪ ،‬بے جان عبارتوں سے گر یز کر کے‪ ،‬اردو کے نئے پرانے عظیم اور معتبر انشا پردازوں کی‬
‫پہلووں کی تفہیم و تحسین اساتذہ کے ذریعے کروائی‬‫ٔ‬ ‫تحریروں کے ٹکڑے پیش کیے جائیں جن کے معنوی اور فنی‬
‫جائے اور اس مقصد کے لیے خود اساتذہ کو بھی نہایت واضح ہدایات دی جائیں۔ نیز اس بات پر بھی زور دیا جائے کہ‬
‫بچے عبارت کو پڑھ کر اس کے مرکزی نکتے یا نکات کو سمجھ لیں اور پھر اسے اپنے الفاظ میں بیان بھی کر سکیں۔‬

‫‪8‬‬
‫ابتدا میں طویل عبارتوں کے بجائے مختصر اقتباسات کے ذریعے مشق کروانا اہم ہوتا ہے جس میں بیک وقت بہت سی‬
‫باتوں کے بجائے ایک ہی مرکزی خیال تک پہنچناکافی ہو۔‬
‫لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے مشق کا آغاز خوش خطی اور پھر امال سے ہونا چاہیے۔ پہلے حروف کی درست‬
‫نشست اور ان کے جوڑ واضح کرنا ضروری ہیں۔ اس مشق کے لیے خاطر خواہ وقت مخصوص کرنا ضروری ہے۔ بار‬
‫بار کی جانے والی مشق سے ہی مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے زمانے میں تختیوں اور قلم دوات‬
‫کا استعمال کیا جاتا تھا۔ تختیاں بار بار دھو کر استعمال کی جا سکتی تھیں‪ ،‬ماں باپ پر مالی بوجھ بھی نہی ں پڑتا تھا اور‬
‫بچے تختی دھونے اور سکھانے کے عمل کے دوران نہ صرف ایک جسمانی ورزش کر لیتے تھے بلکہ چھوٹے موٹے‬
‫گیت گا کر کھیل اور تفریح کا ذریعہ بھی حاصل کر سکتے تھے۔‬
‫لکھنے کی مہارت کی تربیت کے لیے جدید تدریسی مہارتوں کو پیش نظر رکھ کر نصاب سازی کی جائے تو زیادہ‬
‫نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر قسم کی تحریر کی مشق کروائی جائے یعنی تصویر کو دیکھ کر‬
‫عنوان لکھنا‪ ،‬تصویری کہانیاں لکھنا‪ ،‬نامکمل جملوں کو مکمل کرنا اور پھر بتدریج خاکے کی مدد سے کہانی یا مضمون‬
‫لکھنا وغیرہ۔ یہ تو محض چند اشارے ہیں۔ اس نوع کی درجنوں سرگرمیاں ہیں جو تخیل کو مہمیز کر سکتی ہیں اور‬
‫افکار و خیاالت کو مربوط انداز میں بیان کرنے کی تربیت میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان‬
‫سرگرمیوں کے لیے وقت اور توجہ صرف کی جائے۔‬
‫ان چاروں مہارتوں کی تربیت کے عالوہ زبان کے قواعدی نکات سے آشنائی پیدا کرنا بھی انتہائی ضروری عمل ہے۔‬
‫اس مقصد کے لیے رائج استخراجی طریقے کے بجائے استقرائی طریقے پر عمل مفید رہتا ہے۔ اگرچہ نصابات میں‬
‫استقرائی طریقہ استعمال کرنے کی سفارش تو کی جاتی ہے مگر عملی طور پر وہی پرانا طریقہ رائج ہے جس کے‬
‫تحت پہلے تعریفیں یاد کروا دی جاتی ہیں اور پھر ان کی مثالیں بتائی جاتی ہیں۔ بہتر ہے کہ تدریسی اسباق میں سے‬
‫مختلف قواعدی نکات کی شناخت کروانے کے بعد ان کے قواعدی نام یا تعریف سے آگاہ کیا جائے۔ اس طریقے کی مدد‬
‫سے بچوں میں تجسس اور دلچسپی کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور وہ تعریفیں رٹنے کے عمل سے اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔‬
‫مختصر یہ ہے کہ زبان کی تدریس کے عمل کو زیادہ سے زیادہ دلچسپ بنانا ضروری ہے۔ دلچسپی صرف لطیفوں یا‬
‫مزاحیہ باتوں سے نہیں پیدا ہوتی۔ دلچسپی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بچہ اپنے درس میں خود پوری طرح شریک ہوتا‬
‫ہے اور چھوٹی چھوٹی مشکالت کو حل کر کے‪ ،‬سواالت کے جواب تالش کر کے اور کسی نئے نکتے کی دریافت کر‬
‫کے مسرت بھری کامیابی کو محسوس کرتا ہے۔ا س منزل تک پہنچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تدریس کا عمل دو طرفہ‬
‫بہاو کا نام نہ بن جائے‪ ،‬جیسا کہ عملی‬‫اور عملی نوعیت کا ہو۔ یہ استاد سے بچوں کی طرف معلومات کے یک طرفہ ٔ‬
‫طور پر ہمارے ہاں رائج ہے۔‬
‫اصل بات یہ ہے کہ نصاب کیسا ہی عمدہ کیوں نہ ہو‪ ،‬اگر درسی کتاب نصاب کے مقاصد پورے نہ کرتی ہو تو نصاب‬
‫بے کار ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف درسی کتاب کیسی ہی دلچسپ اور کارگر کیوں نہ ہو‪ ،‬اگر استاد میں ذہانت‪ ،‬تدریسی‬
‫عمل سے دلچسپی اور تخلیقی صالحیت نہ ہو تو کتاب اپنے مقاصد پورے نہیں کرتی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ‬
‫نصاب‪ ،‬کتاب اور استاد س ب کے ہوتے ہوئے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے اگر امتحانی نظام ان مقاصد سے‬
‫ہم آہنگ نہ ہو جن کے لیے نصاب تشکیل دیا گیا ہے۔ جدید دنیا میں امتحان لینے کے خاصے غیر رسمی طریقے رائج‬
‫ہیں جن میں سے بعض تو دیکھنے میں قطعی امتحان معلوم نہیں ہوتے لیکن وہ عملی طور پر بچوں کی کارکردگی کی‬
‫آزمائش کرتے ہیں اور تعلیم کو عملی زندگی سے ہم آہنگ کرنےکی ضمانت دیتے ہیں۔‬
‫حقیقت تو یہ ہے کہ نصاب ہو‪ ،‬یا امتحان‪ ،‬اساتذہ ہوں یا طلبہ‪ ،‬جب تک حسن نیت اور خلوص کار شامل ہو‪ ،‬سب تدبیریں‬
‫دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔‬

‫‪9‬‬

You might also like