Professional Documents
Culture Documents
Main or Tadrees
Main or Tadrees
عبدالخالق ہمدرد
آپ بیتی اور سفرنامے میرے پسندیدہ موضوعات ہیں اگرچہ اس
بارے میں میرا مطالعہ کچھ نہیں۔ سکول یا کالج کی اردو کی کسی
کتاب میں احسان دانش کی سوانح حیات کا کچھ حصہ پڑھا تو
آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس مضمون کے آخر میں ’’جہان دانش‘‘ کا
حوالہ تھا۔ یہ کتاب چند سال قبل الہور سے منگوا کر پڑھی تو
بہت لطف آیا اور میں نے بہت سے احباب کو مشورہ دیا کہ اگر
آپ مشکالت میں ہیں تو جہان دانش پڑھ کر اپنے دل کو تسلی دے
لیں۔
ابھی چند روز قبل اپنے لئے ایاز قدر خود بشناس کے زاوئے اور
قارئین کی حوصلہ افزائی کے لئے ’’میں اور ترجمہ‘‘ کے عنوان
سے ترجمے کے میدان میں اپنے سفر کی کتھا بال کم وکاست بیان
کر دی۔ میرا خیال نہیں تھا کہ اس تحریر کو اتنی پزیرائی ملے
گی مگر کہتے ہیں اندھوں میں کانا راجا۔ کتنے ہی باہمت لوگ
ہوں گے جنھوں نے کیا کیا جتن کئے ہوں گے مگر ان کی آپ
بیتیاں تحریر میں نہ آنے کی وجہ سے دوسروں تک نہ پہنچ سکیں
جبکہ میں نے اسے لکھ دیا تو بہت سے دوستوں نے کہا کہ ہم
اس سے مستفید ہوئے ہیں اور بعض نے تو اسے ایسی گہرائی
تعالی سب کو جزائے خیرٰ سے پڑھا کہ مجھے حیرت ہوئی۔ ہللا
دے۔ اگر کسی ایک بھی شخص نے اس سے کوئی مثبت سبق لے
لیا ہے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔
اس تمہید کے بعد میں اپنے تدریس کے سفر کی جانب آتا ہوں۔
مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میں نے کب سے مدرس یا معلم بننے
کا ارادہ کیا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کے ہللا کے فضل سے جو
بات مجھے سمجھ آ جائے وہ دوسرے کے سامنے اس سے زیادہ
اچھی طرح بیان کر سکتا ہوں لیکن جو بات سمجھ نہ آئے ،اسے
طوطے کی طرح نہیں دہرا سکتا۔ اسی وجہ سے سکول کے
زمانے بھی امتحان کے دنوں میں کچھ دوستوں کے ساتھ اجتماعی
مطالعہ کرتا تھا۔ آٹھویں کا امتحان دینے کے بعد اپنے پھوپھی زاد
بھائی موالنا لطیف ہللا توحیدی کی دعوت پر گوجرانوالہ میں
حضرت موالنا بدیع الزمان شاہ صاحب مرحوم کے دورہء تفسیر
میں شریک ہوا تو وہاں بھی بڑے طلبہ کے سامنے دن کا سبق
سناتا تھا۔ اس وقت میری فہم ہی کیا ہوگی لیکن ہللا کے فضل سے
جب امتحان ہوا تو دوم آیا۔
یہ سلسلہ چلتا رہا اور جب میں دار العلوم کراچی پہنچا تو وہاں
رات کو دن کے اسباق دہرانے کی ترتیب تھی۔ اس کو طلبہ کی
زبان میں تکرار کہتے ہیں۔ یہاں پہلے میں ایک افغانی دوست عبید
ہللا کی جماعت میں بیٹھتا تھا۔ کچھ کتابوں کا تکرار وہ اور کچھ
کا میں کرتا تھا لیکن بعد میں میری اپنی جماعت بن گئی تو سارا
کام مجھے ہی کرنا پڑتا تھا۔ اس تکرار سے مجھے اس بات کا
ادراک ہوا کہ اچھا مدرس بننے کے لئے تکرار کرانا الزمی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسروں کو سمجھانے کے لئے پہلے خود
سمجھنا الزمی ہے اور سمجھنے کے لئے المحالہ محنت کی
ضرورت ہوتی ہے کیونکہ درسگاہ میں استاد جو کہے طلبہ طوعا ً
وکرہا ً اسے کان نیچے کر کے سن لیتے ہیں لیکن تکرار میں جب
بات سمجھ میں نہیں آتی تو ٹوکنے والے یوں بھی کہتے ہیں ’’یار
بکواس نہ کرو۔ اگر بات سمجھ میں نہیں آئی تو اول فول کیوں
بکتے ہو؟ سیدھے سیدھے کہہ دو کہ نہیں سمجھا۔‘‘۔
یہ تو کہانی تھی بے قاعدہ تدریس کی۔ اب آتے ہیں باقاعدہ تدریس
کی جانب۔ پڑھائی کے دوران ہی میرے دل میں یہ خیال پختہ ہوتا
چال گیا کہ فراغت کے بعد تدریس کرنی ہے لیکن سوال یہ تھا کہ
کہاں کرنی ہے؟ کیونکہ مجھے یہ خیال گزرتا تھا کہ شاید سفارش
کے بغیر مجھے کوئی جگہ نہیں ملے گی اور سفارش کا بھاری
پتھر اٹھانے کے لئے میں تیار نہیں تھا۔ میرا آج بھی یہ خیال ہے
کہ مدرس کی تعیناتی صرف اور صرف قابلیت کی بنیاد پر ہونی
چاہئے کیونکہ سفارش یا اقربا پروری کے نظرئے سے کسی ایک
ناالئق مدرس کی تعیناتی سینکڑوں طلبہ کے مستقبل کے ساتھ
کھلواڑ ہے۔ اسی وجہ سے میں نے ’’زمیں کے تارے‘‘ کے
مقدمے میں لکھا ہے کہ جس شخص کو یقین ہو کہ وہ پڑھا نہیں
سکتا تو اسے ایمانداری کے ساتھ اپنے لئے کوئی اور کام دیکھ
لینا چاہئے۔
اسی طرح اسالم آباد میں ایک صاحب نے میری کتاب ’’دروس
الفقہ‘‘ دیکھنے کے بعد مجھے فون کیا کہ حضرت ،دروس الفقہ
قدوری کی شرح ہے یا ترجمہ؟ میں نے کہا کہ دونوں نہیں۔ انھوں
نے اگال سوال کیا کہ اچھا پھر کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ اس میں
قدوری کی اصطالحات اور مسائل قدوری کی ترتیب سے ہیں اور
جو شخص اس کو سمجھ کر پڑھ لے اسے قدوری میں صرف
عربی عبارت سمجھنے کی ضرورت ہوگی۔ اس کے بعد انھوں
نے پوچھا کہ ’’الفقہ المیسر‘‘ کا کوئی ترجمہ یا شرح آپ کے علم
میں ہو تو بتائیں۔ مجھے معلوم نہیں تھی اس لئے معذرت کر لی
لیکن ساتھ ہی سوچنے لگا کہ جس مدرس کو الفقہ المیسر پڑھانے
کے لئے بھی شرح کی ضرورت ہے ،وہ ظالم اپنے طلبہ کو کیا
پڑھائے گا۔
کچھ عرصہ اور گزر گیا اور ساالنہ امتحانات سر پر آ گئے۔ انہی
دنوں پھر اطالع ملی کہ آپ کا فون آنے واال ہے۔ اس کے بعد
موالنا فیض الرحمن صاحب عثمانی صاحب سے دوسری بار
گفتگو ہوئی اور انہوں نے مجھے کارساز میں اپنے ایک دوست
کے ہاں بال لیا۔ میں وہاں گیا تو بڑی خندہ پیشانی سے ملے۔ گفتگو
عربی میں ہی ہوتی رہی اور اس کے بعد الماری سے فتح الباری
کی ایک جلد نکال کر مختلف مقامات سے عربی عبارت پڑھواتے
اور اس پر سواالت کرتے رہے۔ یہ امتحان شاید ایک گھنٹے پر
محیط تھا۔
اس کے بعد کہنے لگے کہ آپ میرے ساتھ اسالم آباد چلیں اور
کل ہی چلیں مگر ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم
اپنے ہاں کسی کو بھی مدرس رکھنے سے پہلے دو امتحان لیتے
ہیں ایک عبارت کا جس میں تیاری کا کوئی موقع نہیں ہوتا اور
دوسرا درسگاہ میں سبق پڑھانے کا۔ اس میں ہم سبق دے دیتے
ہیں اور استاد پوری تیاری کر کے درسگاہ میں آ کر سبق پڑھاتا
ہے اور کمیٹی بھی درسگاہ میں بیٹھ کر سبق سنتی ہے۔ اگر استاد
ان دونوں مرحلوں سے گزر جائے تو اس کو رکھ لیتے ہیں ورنہ
معذرت کر لیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اس سے اچھی بات کیا ہوگی
کہ آدمی کو امتحان لے کر رکھا جائے۔ موالنا پھر کہنے لگے کہ
امتحان دے کر فورا آپ آ جائیں۔ میں نے جواب دیا کہ ابھی تو
نہیں آ سکتا کیونکہ امتحان کے بعد چالیس دن کا کورس بھی ہوتا
ہے البتہ یہ وعدہ ہے کہ اس کے بعد گاؤں جاتے ہوئے آپ سے
مل کر جاؤں گا۔
اس طرح میرے لئے کراچی چھوڑنے کا سبب پیدا ہو گیا کیونکہ
والد صاحب ہللا کو پیارے ہو چکے تھے اور میں اپنے گھر کا
بوجھ خود اٹھانا چاہتا تھا جبکہ کراچی کے مقابلے میں مجھے
اسالم آباد اپنے گاؤں کے زیادہ قریب معلوم ہو رہا تھا۔ اس لئے
کراچی میں رکنے یا کسی جگہ تدریس کرنے کے بارے میں
سوچا ہی نہیں ،ورنہ اگر اپنے اساتذہء کرام سے بات کرتا تو شاید
کوئی رستہ نکل ہی آتا۔ موالنا فیض الرحمن صاحب سے مالقات
کے بعد مجھے یہ خوشی ہو رہی تھی کہ اچھا ہے کہ کسی کے
احسان یا سفارش کا بار اٹھائے بغیر ہی عام مدارس کے مقابلے
میں اچھی مالزمت مل رہی ہے اور وہ بھی عربی میں پڑھانے
کی۔
اس کے بعد شاید بارہ ہزار روپے مشاہرہ مقرر ہوا جو عام مدارس
کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ تھا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا
کہ آپ زیادہ کام کریں گے تو اس کی بھی اجرت ملے گی۔ ہر چیز
کا الگ االؤنس ہے۔ چونکہ میں مالزمت کا کوئی سابقہ تجربہ
نہیں رکھتا تھا ،اس لئے اپنی کوئی شرط پیش کر سکا اور نہ کوئی
سودا بازی البتہ یہ بات منوا لی کہ میں پہلے گھر جاؤں گا اور
واپسی پر تدریس شروع کروں گا۔ اس طرح میں ادارہ علوم
اسالمی کا باقاعدہ مالزم ہونے کے بعد گاؤں گیا۔ وہاں برف میں
کچھ دن گزارے اور واپس چال آیا۔ گاؤں میں جس جس کو میری
مالزمت کا پتہ چال اس نے خوشی کا اظہار کیا۔
یہاں ایک اور تجربہ بھی بیان کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ جب تک
میں باقاعدہ زیر تعلیم رہا ،گاؤں میں سب کی آنکھوں کا تارا تھا۔
اگر ایک ماہ کی چھٹی جاتا تو اس میں سے اکثر وقت مہمانی اور
دعوتوں میں گزر جاتا تھا کہ آج کسی چچا کے گھر ،کل ماموں
کے گھر اور اسی طرح سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ دعوتوں پر دعوتیں
ہوتیں لیکن دو مواقع پر گاؤں سے میرا دل بری طرح کھٹا ہو گیا۔
پہلی بار جب میں اپنے ابا جان مرحوم کی وفات کے بعد گاؤں گیا
تو دو تین عزیزوں کے عالوہ کسی سے کوئی توجہ نہیں ملی۔ یہ
میری زندگی کا نہایت تلخ تجربہ تھا۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ مجھ
پر معنوی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں کوئی پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔
چنانچہ آٹھ دن بعد گاؤں سے بھاگ آیا اور رستے میں چھٹیاں
پوری کرتا کرتا بیس دن بعد واپس کراچی پہنچا۔
یہاں بھی میں خود تو وہی تھا جو پہلے تھا لیکن ماحول یکسر
مختلف تھا کیونکہ میں اب ایک استاد تھا۔ اس حوالے سے تعلقات
کی نوعیت میں بھی تبدیلی آنا ایک امر ال بدی تھا۔ ایک طرف
ادارے کی انتظامیہ ،دوسری جانب میرے ساتھ پڑھانے والے
اساتذہ جو پڑھانے میں مجھ سے زیادہ تجربہ کار اور پرانے تھے
اور تیسری طرف وہ طلبہ جن کو میں پڑھاتا تھا۔ مدارس میں عام
طور پر نئے اساتذہ کو شروع کے درجات کی کتابیں دی جاتی
ہیں لیکن مجھے سب سے پہلے یہاں کے آخری درجے کا سبق
مال۔
پڑھانے کے سلسلے میں میری ترتیب یہ تھی کہ سبق کو خود
اچھی طرح سمجھنے کے بعد طلبہ کو سمجھانے کی کوشش کرنی
ہے اور طلبہ کے مناسب سواالت کا جواب بھی دینا ہے لیکن جس
سوال کا جواب معلوم نہ ہو وہاں بالوجہ کٹ حجتی کی بجائے
صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے نہیں معلوم۔ اس کے عالوہ تختہ
سیاہ کا مناسب استعمال کرتا تھا حتی کہ تفسیر کے سبق میں بھی
ضروری اور اہم باتیں تختہ سیاہ پر لکھتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ
جو بات دس بار کے تکرار سے سمجھ نہیں آتی وہ تختہ سیاہ کی
مدد سے بڑی آسانی سے سمجھائی جا سکتی ہے مگر مدارس
میں عام طور پر اساتذہ اس بارے میں سستی کرتے ہیں۔
دوسری طرف اپنے ساتھ کام کرنے والے اساتذہ سے تعلق ایک
نئی چیز تھی کیونکہ میں ان میں سب سے بعد میں آیا تھا مگر
کچھ ہی عرصے میں اچھے تعلقات قائم ہو گئے البتہ کچھ تلخ
واقعات بھی پیش آئے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ہمارے دوست ملک
سعید صاحب نے مجھ سے کہا کہ چلیں سکوٹر چالنا سیکھتے
ہیں۔ مجھے اس زمانے میں سائیکل کے عالوہ کوئی چیز چالنا
نہیں آتی تھی۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ سکوٹر کس کا
ہے۔
تیسری جانب انتظامیہ سے تعلقات بھی نئی چیز تھی کیونکہ یہ
آجر اور اجیر کا تعلق تھا لیکن اس بارے میں میرا طریقہ اب تک
یہی ہے کہ بال ضرورت انتظامیہ کے پاس پھٹکنے کی بھی
ضرورت نہیں۔ ہو سکتا ہے یہ بات غلط ہو لیکن اسے مزاج کی
افتاد سمجھ لیجئے کہ میں اپنا کام خود پورا کرنے کی کوشش کرتا
ہوں اور اس کے بعد کے معامالت کے بارے میں نہیں سوچتا
جبکہ یہ مشاہدہ ہے کہ بہت سے کام چور لوگ انتظامیہ کی
چاپلوسی اور چمچہ گیری کر کے اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالتے
ہیں بلکہ بعض اوقات انتظامیہ کو دوسروں کے بارے میں غلط
پٹیاں پڑھا کر بد ظن بھی کرتے ہیں اور یہ بیماری بعض اساتذہ
اور مالزمین میں سے کام چوروں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
مجھے چمچہ گیری اور کاسہ لیسی کرنے والے لوگ قطعا ً پسند
نہیں خواہ وہ طالب علم ہوں ،استاد ہوں یا کوئی اور۔ اس کی وجہ
یہ ہے کہ چمچہ گیری میرے خیال میں وہی شخص کر سکتا ہے
جو احساس کمتری کا شکار ہو یا منتقم المزاج ہو۔ سلیم الفطرت
آدمی یہ کام نہیں کر سکتا۔
اسی طرح حسد کرنے والے لوگ سازشیں کرنے لگتے ہیں
حاالنکہ کوئی کسی کا رزق چھین سکتا ہے اور نہ کسی کا قائم
مقام ہو سکتا ہے۔ ہمارے ایک دوست اپنے فن میں بڑے الئق فائق
تھے۔ میں ان کی دل سے قدر کرتا تھا لیکن مزاج میں فرق تھا۔
ان کے لئے شاید یہ بات ناگوار تھی کہ میں کچھ کچھ انگریزی
بھی جانتا ہوں جبکہ لوگوں کا خیال تھا کہ میری عربی بھی اچھی
ہے۔ انگریزی کی اس کمی کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے
باقاعدہ ایک یونیورسٹی میں داخلہ لے کر زباندانی کا کورس کیا۔
ایک بار سٹاف روم میں اساتذہ بیٹھے تھے۔ وہ اندر آئے اور
انگریزی کے ایک ’گاڑھے‘ لفظ کا ترجمہ پوچھا۔ میں نے کہا
مجھے نہیں معلوم۔ اس پر کہنے لگے کہ ہمدرد صاحب آئندہ یہ
دعوی نہ کرنا کہ صرف مجھے انگریزی آتی ہے۔ میں نے کہا ٰ
دعوی تو میں نے پہلے کبھی نہیں کیا۔ اس سے شاید ان
ٰ بھئی یہ
کی انا کو تسکین ہو گئی اور اس کے بعد اس موضوع پر بات
نہیں ہوئی۔
یہاں ہمارے دوست ملک سعید نوابی صاحب نے مجھے دوبارہ
سے عصری تعلیم کی جانب متوجہ کیا تو میں نے ایف اے کا
امتحان دے دیا۔ حسن اتفاق کہ اس میں مجھے ہللا کے فضل سے
طالئی تمغہ مل گیا۔ اس کے عالوہ میں نے انگریزی میں
روزنامچہ لکھنے کی بھی مشق شروع کی مگر اس سلسلے میں
میرے استاد صالح الدین صاحب جو ادارے میں انگریزی کے
استاد تھے ،جلد ہی ادارے کو خیر باد کہہ گئے تو وہ سلسلہ ختم
ہو گیا۔ اسی طرح کافی عرصہ روزنامچہ عربی میں بھی لکھتا
رہا۔
اب صورت حال تھوڑی بدلنے لگی کیونکہ ضروریات بڑھ گئیں
جس کی وجہ سے وسائل کم پڑنے لگے۔ اوپر سے افتاد یہ کہ
تنخواہ کبھی ملتی ،کبھی نہ ملتی۔ کبھی نوبت یہاں تک آ جاتی کہ
تین تین چار چار ماہ مکمل تنخواہ کا نام نہیں جبکہ وقتا ً فوقتا ً مانگ
مانگ کر کچھ پیسے مل جاتے جن سے کبھی کام چل جاتا اور
کبھی نہ چل سکتا۔ انتظامیہ کے پاس ایک ہی بات ہوتی تھی کہ
اس وقت کچھ نہیں ،پیسے آ جائیں گے تو دے دیں گے۔ اس وقت
بعض واقعات بڑے تکلیف دہ بھی پیش آئے۔ ایک بار میری اہلیہ
کی طبیعت خراب ہو گئی۔ میں ان کو قریب واقع ایک کلینک لے
گیا۔ وہاں ان کو ڈرپ لگائی گئی مگر میرے پاس ڈرپ کے پیسے
نہیں تھے۔ چنانچہ میں نے مہتمم صاحب کو فون کیا۔ وہ خود
تشریف الئے مگر پیسے اتنے ہی مل سکے جن سے میں مریض
کی فیس دے کر اسے گھر لے گیا۔
⚝
ایک بار میں گھر آیا تو اہلیہ نے بتایا کہ دن کو مہمان تھے۔ میں
نے بچے کو بھیجا مگر دکاندار نے بسکٹ دینے سے انکار کر
دیا اور کہا کہ جب تک پچھلے پیسے نہیں دو گے ،نیا ادھار نہیں
دوں گا۔ میں اسی وقت دکاندار کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ
کھاتہ نکالیں۔ اس نے کاپی آگے کر دی تو میں نے لکھائی سے
نیچے لکیر کھینچ کر بتایا کہ میرا آپ کا ادھار اس لمحے سے
اختتام کو پہنچا۔ اس کے بعد اگر ایک سوئی بھی میرے گھر میں
ادھار کی گئی تو میں اس کا ذمہ دار نہیں۔ دکاندار کہنے لگا قاری
صاحب ،آپ خواہ مخواہ ناراض ہو رہے ہیں ،میں نے بچے سے
مذاق کیا تھا۔ میں نے کہا آپ نے مذاق بھی درست ہی کیا کیونکہ
جب آپ کو یہ معلوم تھا کہ میں جب بھی پیسے لے کے آتا ہوں
تو آپ کا ادھار چکا کر گھر میں داخل ہوتا ہوں تو آپ کو بچے
سے بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے بعد جس دن میں
اس کو پیسے دینے گیا ،اپنا کھاتہ بھی ساتھ لے گیا اور پیسے
دینے کے بعد اس کے چار ٹکڑے کر کے ادھر ہی پھینک دئے۔
اس طرح دکانداروں کے کھاتے سے ہللا نے نجات دے دی اور
اب تک ہللا کے فضل سے بڑی آزادی اور مرضی کی دکان سے
خریداری کرتا ہوں۔
صاحبو ،ادھار بڑی بری بال ہے۔ یہ دکاندار اور گاہک کے درمیان
ہو ،تاجر اور تاجر کے درمیان ہو یا ادارے اور ادارے کے
درمیان یا ملک اور ملک کے درمیان ،یہ اپنی نحوست کا اثر
ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ ادھار لینے والے کا ہمیشہ استحصال ہوتا
ہے۔ آج اگر آئی ایم ایف پاکستان سے اپنی شرطیں منواتا ہے اور
ہمارے حکمران اس کی ہر غلط اور صحیح بات مانتے ہیں تو اس
کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم اپنی خواہشات کو کم کرنے کی بجائے
ادھار لے کر اپنی عزت اور مفادات کا سودا کرتے ہیں۔ اسی لئے
آزاد رہنے کا گر بتاتے ہوئے اقبال نے کہا ہے ؎
اسی طرح مشہور صحابی حضرت عبد ہللا ابن شداد بن اوس
رضی ہللا عنہ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’ بیٹے! میں نے ساری اچھی چیزیں چکھ کر دیکھ لی ہیں ،ان
میں عافیت سے اچھی چیز کوئی نہیں۔ میں نے ساری تلخ چیزیں
چکھ کر دیکھ لی ہیں ،ان میں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیالنے
سے زیادہ تلخ کوئی چیز نہیں اور میں نے لوہے اور چٹانوں کو
ہٹا لیا لیکن قرض سے زیادہ بھاری چیز کوئی نہیں‘‘۔ مجھے آپ
کا یہ قول اس قدر اچھا لگتا ہے کہ میں نے اسے عربی میں
۱۹۹۴ء کے روزنامچے کے سر ورق پر درج کر لیا تھا۔ عملی
زندگی میں اس کا تجربہ ہوا۔
خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ میں ادارہ علوم اسالمی کی
بات کر رہا تھا۔ یہاں میں نے نحو اور صرف کے عالوہ سارے
ہی مضامین پڑھائے جن میں فقہ ،اصول فقہ ،تفسیر ،اصول
تفسیر ،حدیث ،اصول حدیث شامل ہیں لیکن عربی زبان وادب سے
شاید زیادہ دلچسپی رہی۔ اس لئے العربیہ للناشئین کے سارے سبق
میرے پاس ہوتے تھے اور دیوان المتنبی ،مقامات الحریری اور
دیوان الحماسہ بھی پڑھایا۔ اسی طرح اردو اور فارسی بھی پڑھائی
جبکہ عصری مضامین والے دوست جغرافئے کے ابواب بھی
میرے لئے چھوڑ دیا کرتے تھے۔
بعد ازاں شاید ۲۰۰۳ء میں استادی وموالئی حضرت ڈاکٹر مفتی
نظام الدین شامزئی شہید ادارے میں تشریف الئے تو میں نے کتاب
ان کو دکھائی۔ جس کی انہوں نے بڑی تحسین فرمائی ،اسے
چھاپنے کا مشورہ دیا اور کراچی جا کر مفصل تقریظ بھی لکھ
بھیجی۔ اس پر میں نے مہتمم صاحب سے اسے چھاپنے کے
بارے میں مشورہ کیا تو فرمانے لگے کہ میں نے مذکرات فی
النحو لکھی ہے اور ایک زمانے سے پڑھائی بھی جا رہی ہے
لیکن میں نے اسے نہیں چھاپا۔ ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اگر
آپ اسے چھاپنا ہی چاہتے ہیں تو پھر اس میں ادارے کا نام نہیں
ہونا چاہئے۔ ان کی احتیاط اپنی جگہ اچھی چیز تھی کہ کوئی غلط
چیز ان کے ادارے کی جانب منسوب نہ ہو مگر میں نے اس کے
دیباچے سے ادارے کا نام نکال کر اپنے خرچے پر چھاپ دی
اور جب کتاب زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منصہء شہود پر
جلوہ گر ہوئی تو اسے ادارے کے نصاب سے خارج کر دیا گیا۔۔
اسی دوران مجھے ادارہ علوم اسالمی میں مدیر انتظامی امور
بھی بنایا گیا۔ پڑھانے کے ساتھ ساتھ تقریبا ً دو سال اس عہدے پر
رہا۔ یہ زندگی کا ایک اور دلچسپ تجربہ تھا کہ ایک طرف طلبہ
کو سنبھالنا ہے ،ان کے معامالت دیکھنے ہیں ،ان کے مسائل حل
کرنے ہیں اور نظم کو برقرار رکھنا ہے جس کے لئے جزا وسزا
کے نظام پر عمل کرنا ہے۔ دوسری طرف اپنے ساتھی اساتذہ ہیں
جن سے کام لینا ہے ،ان کی کوتاہیوں پر نظر رکھنی ہے اور ان
کو دور بھی کرنا ہے مگر مخاصمت کسی سے نہیں پالنی۔ تیسری
طرف انتظامیہ ہے جس سے احکام لینے اور نافذ کرنے ہیں اور
چوتھی جانب طلبہ کے والدین ہیں۔ ان سے بچوں کے حوالے سے
بات کرنی ہے ،بچوں کے بارے میں ان کی شکایات سننی ہیں
اور اپنے خالف بچوں کی شکایات کا دفاع کرنا ہے۔ چومکھی
لڑائی اور ایک مشکل صورت حال تھی کیونکہ یہاں ترازو کے
دو کی بجائے چار پلڑے تھے اور ان سب کو برابر کرنا اور ان
میں توازن برقرار رکھنا ہے۔
اس دوران کئی واقعات پیش آئے جن میں سے چند ایک ذکر کرتا
ہوں۔ ایک بار کچھ طلبہ نے کوئی اجتماعی غلطی کی۔ اساتذہ کے
مشورے سے طے ہوا کہ وہ سب اسمبلی میں مجھ سے معافی
مانگیں گے۔ چنانچہ رات کو ہنگامی اسمبلی ہوئی جس میں ان
طلبہ نے معافی مانگی۔ یہ منظر میرے لئے بڑا ہولناک تھا۔ میں
سوچنے لگا کہ میں کون ہوتا ہوں کہ طلبہ مجھ سے معافی
مانگیں؟ اس خیال کے آتے ہی جو کیفیت ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔
میری آواز رندھ گئی اور آنکھوں سے بے اختیار آنسوؤں کی
جھڑی لگ گئی۔ اس کے بعد میری یہی کوشش رہی کہ ایسی
صورت حال دوبارہ کبھی پیدا نہ ہو۔
اس نشیب وفراز کے ساتھ ادارہ علوم اسالمی میں تدریس کے چھ
سال مکمل ہوئے اور ۲۰۰۶ء میں سعودی سفارتخانے میں
استعفی دے کر کل وقتی تدریس سے الگ
ٰ مالزمت ملنے کے بعد
ہو گیا۔ اس پر منطقی اصول صادق آتا ہے کہ ’’نتیجہ ارذل کے
تابع ہوتا ہے‘‘۔ جس وقت میں نے ادارہ علوم اسالمی کو خیرباد
کہا ،اس وقت مجھے وہاں سے تین ہزار اور کچھ روپے ماہوار
ملتے تھے کیونکہ میں جزوقتی تدریس کے عالوہ دیگر سارے
کام چھوڑ چکا تھا۔ اس کے عالوہ ایک جگہ ترجمے کے کام سے
پینتیس سو روپے مشاہرہ ملتا تھا۔ مزید لگی بندھی آمدنی کا کوئی
ذریعہ نہ تھا البتہ ترجمے کا کام بیچ میں آتا رہا۔ اسی چادر کے
اندر رہتے ہوئے گزارہ کرنا ہوتا تھا۔ ہللا کا الکھ الکھ شکر ہے
کہ اس نے قرضے سے محفوظ رکھا۔ اس لئے کچھ لوگوں کا
خیال تھا کہ میرے پاس پیسے بہت ہیں جو میں نے چھپا رکھے
ہیں۔ اس کی وجہ سے میرا خیال ہے کہ ہم بھائیوں میں بد گمانیوں
نے جنم لیا لیکن میں اپنا دل کس کس کو چیر چیر کر دکھاتا پھرتا۔
اس پر شیخ سعدی کی ایک حکایت یاد آ رہی ہے جو بڑے کام کی
چیز ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک بار ایک تاجر کو تجارت میں
سخت نقصان ہو گیا۔ اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بیٹا نقصان تو
ہو گیا مگر اس کا تذکرہ کسی سے مت کیجیو۔ بیٹے نے اس کی
حکمت پوچھی تو باپ نے کہا کہ اس سے دشمن کو ہم پر ہنسنے
کا موقع ملے گا یعنی جگ ہنسائی ہوگی۔ اس لئے میرے خیال میں
آدمی کے لئے مشکل وقت میں اپنے اوپر ضبط کر کے اپنے
حاالت کو عیاں نہ کرنا چاہئے۔ سفید پوشی اسی کو کہتے ہیں۔
ادارہ علوم اسالمی میں ہم پر ایسے دن بہت آئے اور نوبت یہاں
تک آ پہنچی کہ بعض اوقات ہمارے ایک ساتھی زکاۃ کی مد سے
بھی اساتذہ کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ آدمی
ناک تک مالی مشکالت میں گھرا ہو تو وہ تدریس کتنے جذبے
سے کرے گا؟
اسی مناسبت سے ایک لطیفہ بھی یاد آ گیا۔ ادارہ علوم اسالمی میں
تعالی ان کی مغفرت فرمائےٰ زاہد نام کے ایک ڈرائیور تھے۔ ہللا
بڑے سمجھدار آدمی تھے۔ اس لئے میں ان کو فلسفی کہا کرتا تھا۔
ان کو مخزن اخالق کی بہت سی حکایات اور واقعات یاد تھے۔
ایک بار نئی نئی تنخواہ ملی تھی۔ میں ان دنوں پرنسپل تھا۔ ہمارے
ایک ساتھی درسگاہ میں اونچی آواز سے پڑھا رہے تھے۔ زاہد
صاحب باہر سے گزرے۔ میں بھی برآمدے میں کھڑا تھا۔ وہ اپنے
مخصوص انداز سے مسکرائے ،مونچھوں پر ہاتھ پھیرا اور
کہنے لگے ’’ہمدرد صاحب ،ایہ تکو ناں ،تنخواہ ملنی تے فیر اس
طراں اواز لکوڑنی۔‘‘ (ہمدرد صاحب ،دیکھئے ،جب تنخواہ ملتی
ہے تو اس طرح آواز نکلتی ہے)۔ یہ جملہ بظاہر ایک مزاحیہ
تبصرہ ہے لیکن اس کے اندر حقیقت کا دریا موجزن ہے کہ
مدرس کو مالی مشکالت سے فارغ البال کئے بغیر اس سے اچھی
کارکردگی کی توقع رکھنا عبث ہے لیکن سالم ہے مدارس کے
مدرسین کو کہ وہ ایسے ناگفتہ بہ حاالت میں بھی اپنے فرائض
بڑی خوبی سے انجام دیتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں پاکستان میں نجی اداروں میں صرف تنخواہ
ہوتی ہے باقی کچھ مراعات کہیں ہوتی ہیں اور کہیں نہیں اور
تنخواہ کی تعیین میں بھی ہر ادارہ آزاد ہوتا ہے۔ چونکہ مدارس
دینیہ بھی نجی ادارے ہیں۔ اس لئے یہاں بھی یہی نظام رائج ہے
اور تنخواہیں اول تو عام طور پر بہت کم ہوتی ہیں اور پھر ان
میں ساالنہ اضافے کا بھی کوئی لگا بندھا نظام نہیں اگرچہ وقتا ً
فوقتا ً ان میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جن مدارس کو
وسائل دستیاب ہوتے ہیں ،ان کو اپنا کام چالنے میں کوئی مشکل
پیش نہیں آتی لیکن جہاں وسائل کم ہوں ،وہاں مشکالت ہوتی ہیں
اور عجیب بات یہ ہے کہ ان مشکالت کا سب سے پہال شکار
مدرس ہوتا ہے کیونکہ باورچی خانہ اور انتظامی امور بہر حال
کسی نہ کسی طریقے سے چالئے جاتے ہیں۔
ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا اور جب ادارہ علوم اسالمی میں
تنخواہوں کا بحران زور پکڑ گیا تو قواعد وضوابط بنا کر ان کی
روشنی میں مدرسین کو مدرسے کے باورچی خانے سے گھر
کے ل ئے کھانا لینے کی بھی اجازت دی گئی۔ اس سے ہمیں یہ
فائدہ ہوا کہ کم از کم فاقوں کی نوبت نہیں آئی لیکن بعض اوقات
مدرسے سے کھانا لینے کے لئے آنے کا کرایہ مہیا کرنا بھی
مشکل ہوتا تھا۔
میں بعض اوقات سوچتا ہوں کہ سرکاری اداروں میں گریڈ سسٹم
ہونے کے باوجود کفالت کا عنصر غائب ہے۔ مثال کے طور پر
ایک آدمی پانچویں گریڈ میں مالزم ہے۔ اس کے پانچ بچے اور
کرائے کا مکان ہے لیکن اس کی تنخواہ پندرہ ہزار ہے جبکہ ایک
آدمی سترہویں گریڈ میں ہے ،اس کی شادی نہیں ہوئی ،نج کا مکان
ہے مگر مشاہرہ پچاس ہزار ہے۔ ایسے میں یہ سوال تو بہر حال
پیدا ہوتا ہے کہ گریڈ پانچ واال کس طرح گزارہ کرتا ہوگا!
مدارس کے نظام میں ایک اور مسئلہ حفظ اور کتابوں کے اساتذہ
کے اعزازیے کا فرق بھی ہے۔ ذرا کام کی نوعیت دیکھئے کہ
قاری صاحب فجر کے بعد طلبہ کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور
بعض جگہ تو تہجد کے وقت سے حفظ کی پڑھائی شروع ہو جاتی
ہے۔ یہ سلسلہ ناشتے کے وقت رک جاتا ہے۔ ناشتے سے فارغ ہو
کر دوبارہ دوپہر تک پڑھائی ،پھر ظہر کے بعد عصر تک تعلیم
اور عصر سے مغرب تک چھٹی۔ مغرب کے بعد ایک بار پھر
پڑھائی شروع ہو جاتی ہے جو رات کو عشاء تک جاری رہتی
ہے۔
یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ کوئی بھی تعلیمی ادارہ چالنے میں
استاد کا کردار بنیادی ہے۔ اس لئے اگر مدرس خوش ہوگا تو ادارہ
اچھا چلے گا کیونکہ وہ دائیں بائیں جانے یا کوئی اور مالزمت
تالش کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ پھر مدرس کو خوش کرنے
کے لئے صرف اچھی تنخواہ ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ
ایسا رویہ اپنایا جائے جس سے اسے وہ ادارہ اپنا لگنے لگے اور
وہ قواعد وضوابط کے دائرے کے باہر بھی اس کے لئے بھالئی
سوچنے لگے۔
ہم نے سنا کہ بعض لوگ یہاں تک بھی کہہ دیتے ہیں کہ ’’جس
کو ہم نے اپنے پاس رکھا ہے ،اپنے فائدے لئے رکھا ہے اور جو
ہمارے پاس رکا ہوا ہے ،اپنے فائدے کے لئے رکا ہوا ہے۔‘‘ اس
میں کوئی شک نہیں آجر اور اجیر کے درمیان تعلق کو بیان کرنے
کے لئے ان سے بہتر الفاظ شاید نہیں ہو سکتے کیونکہ مالزمت
کا آخری نتیجہ یہی ہے لیکن مفاد پر مبنی اس اصول کے ذریعے
آپ کسی کا دل کبھی نہیں جیت سکتے۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ ہوتا
ہے کہ اجیر یہ سوچنے لگتا ہے کہ جب تعلق صرف مفاد تک ہے
تو اس کے بعد مجھے اپنی ذمہ داری سے مزید کوئی کام کرنے
کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے مظاہر ہم نے دیکھے ہیں اور شاید
آپ کا تجربہ بھی اس سے مختلف نہ ہوگا۔
ایک بار کسی آدمی سے بات ہو رہی تھی۔ سردی کا موسم تھا۔ اس
نے بتایا کہ عالمی بینک اپنے ڈرائیوروں کو بھی گھر کی دہلیز
پر پہنچاتا اور وہاں سے لے جاتا ہے۔ ایک بار کوئی پاکستانی
افسر ان کے دفتر میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ
ڈرائیور ایک اچھے اور گرم کمرے میں بیٹھے ہیں ،جبکہ ہمارے
ہاں کا افسرانہ رویہ سب کو معلوم ہے کہ صاحب خود تو گرما
میں ایر کنڈیشنڈ کمرے میں تشریف فرما ہیں اور سرما میں اچھے
گرم کمرے میں بیٹھے ہیں لیکن صاحب کا گاڑی بان لو میں
جھلس رہا ہے یا کسی کونے کھدرے میں کھڑا یا بیٹھا ٹھٹھر رہا
ہے۔ چنانچہ اس پاکستانی افسر نے عالمی بینک کے افسر سے
کہا کہ آپ نے ڈرائیوروں کو بہت سہولیات دے رکھی ہیں۔
اس مدرسے میں میں نے فقہ ،عربی ادب اور بالغت پڑھائی۔ یہاں
میرے کچھ شاگرد بھی استاد تھے جو میرا بے حد احترام کرتے
تھے۔ مہتمم بھی ہمارے ساتھی تھے۔ انہوں نے شروع میں یہ کہہ
کر معمولی سا مشاہرہ مقرر کر دیا کہ ہمدرد صاحب ،ما شاء ہللا
اب آپ بر سر روزگار ہیں اور ان پیسوں کی آپ کو چنداں
ضرورت نہیں لیکن یہ ایک عالمتی چیز ہے مگر وہ عالمتی چیز
بھی شاید ایک دو بار ہی ملی ہوگی لیکن یہاں مجھے اس کا کوئی
قلق اس لئے نہیں تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ پڑھانا میری ضرورت
ہے کیونکہ مدرسے والے وہ ایک سبق کسی اور استاد کو بھی
دے سکتے تھے اور بعد میں یہی ہوا۔ گویا
؎منت منہ کہ خدمت سلطان ہمی کنی
منت شناس ازو کہ بخدمت بداشتت
اس کے بعد ایک سال چک شہزاد میں موالنا عبد القدوس
محمدی صاحب کے ہاں عربی کے کورس والے طلبہ سے گپ
شپ کی۔ گپ شپ اس لئے کہہ رہاں ہوں کہ یہاں کوئی کتاب
مقرر نہیں تھی بلکہ طلبہ کو عربی زبان اور ترجمے سے
متعارف کرانا تھا جس میں صحافتی ترجمہ بھی شامل تھا۔ یہاں
طلبہ بھی عام نہیں تھے بلکہ اکثریت فارغ التحصیل لوگوں کی
تھی۔ اس لئے پڑھانے میں مزید لطف یہ تھا کہ طلبہ سمجھدار
ہیں اور اپنا برا بھال خود سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں چھوٹے
طلبہ کو پڑھانا زیادہ مشکل ہے لیکن جو لوگ صرف استادی
کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے چھوٹے طلبہ مناسب ہوتے ہیں
کیونکہ وہ ان سے زیادہ سوال جواب نہیں کر سکتے بلکہ جو
غلط صحیح کہہ دیا اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ اس کے مقابلے
میں بڑے طلبہ جہاں آپ کے دباؤ کے بغیر خود محنت کرتے
ہیں وہاں وہ آپ سے اہنے سواالت کا شافی جواب بھی مانگتے
ہیں۔ آپ ان کو ٹرخا نہیں سکتے۔
یہاں بھی میرا ایک ہی گھنٹہ ہوتا تھا جو پڑھا کر میں نکل جاتا
تھا۔ اس کورس میں شریک طلبہ نے فوری طور پر اچھا نتیجہ
دکھایا اور شاید ایک سال بعد نئے آنے والوں کو وہ خود پڑھانے
لگے۔ اس طرح یہاں سے بھی ہمارا کام ختم ہوگیا۔ یہاں اجرت
طے تو نہیں تھی لیکن ہر ماہ کے آخر میں محمدی صاحب پانچ
ہزار روپے گاڑی کا پٹرول کہہ کر دیتے تھے۔ اس پر مجھے
کبھی اعتراض نہیں ہوا۔ سچی بات یہ ہے کہ محبت اور احترام
کے ساتھ آپ دوسرے سے بڑے سے بڑا کام لے سکتے ہیں اور
محمدی صاحب کو ما شاء ہللا اس کام میں خداداد صالحیت حاصل
ہے۔
وقت گزر گیا اور بعد ازاں تدریس کا شوق جامعہ محمدیہ لے گیا۔
جہاں التبیان فی علوم القرآن ،دیوان المتنبی اور دیوان الحماسہ
پڑھانے کا موقع نصیب ہوا۔ یہ کتابیں بھی بڑے درجات کی ہیں
اس لئے طلبہ سمجھدار ہوتے تھے لیکن مجھے عام طور پر ان
سے محنت نہ کرنے کی شکایت رہی۔ ہو سکتا ہے یہ میرا احساس
ہو جو سو فیصد غلط بھی ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں طالب علم
کی محنت یہ ہے کہ اول وہ سبق کی عبارت درست پڑھ سکتا ہو،
دوم اس کو سبق معلوم ہو اور سوم کم از کم سبق ایک بار دہراتا
بھی ہو۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سے اردو دان اردو میں مستعمل عربی الفاظ
غلط بولتے ہیں۔ مثالً توجہ جیم پر زبر کے ساتھ ،جد وجہد ،دونوں
جیموں پر زبر کے ساتھ ،من وعن میم اور عین دونوں پر زبر
کے ساتھ ،حاالنکہ ان الفاظ کا یہ نطق بالکل غلط ہے اور عربی
قواعد سے واقف آدمی کبھی بھی یہ غلطی نہیں کر سکتا۔ اس لئے
اردو کو درست پڑھنے کے لئے عربی کا بنیادی علم ضروری
ہے۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ ایک بار اخبار میں مشہور بھارتی
گلوکار لتا منگیشکر کا انٹرویو پڑھا۔ اس سے سوال پوچھا گیا کہ
آپ اردو میں اتنا صاف کیسے گا لیتی ہیں (کیونکہ ہندی بولنے
والے اردو میں موجود عربی الفاظ کا درست تلفظ مشکل سے ہی
کر سکتے ہیں) تو اس نے جواب دیا کہ میں نے اردو دلی میں
ایک مولوی صاحب سے سیکھی تھی۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ میں جامعہ محمدیہ کی بات کر رہا
تھا۔ یہاں میں نے تین چار سال پڑھایا اور ترتیب یہاں بھی یہی
تھی کہ نو بجے سے پہلے ایک سبق پڑھا کر دفتر چال جاتا تھا۔
وقت کی قلت کے سبب یہاں میری سرگرمیاں صرف اپنے ایک
سبق تک محدود رہیں کسی اور معاملے سے کوئی تعلق نہیں رہا
لیکن یہاں کی انتظامیہ اور اساتذہ نے جو محبت دی وہ یاد رہے
گی۔
اسی دوران مدارس کے ماحول سے نکل کر بین االقوامی اسالمی
یونیورسٹی کے شعبہء ترجمہ اور ترجمانی میں کچھ عرصہ
پڑھانے کا بھی موقع مال۔ یہ بھی ایک دلچسپ تجربہ تھا کیونکہ
یونورسٹی کی طرح ہماری کالس بھی بین االقوامی تھی جس میں
اکثریت چینی طلبہ کی تھی جبکہ چند پاکستانی اور کچھ طلبہ دیگر
ممالک کے بھی تھے۔ یہ لیکچر شام کو ہوتے تھے اس لئے چھٹی
کے بعد سیدھا کالس پہنچنا ہوتا تھا جہاں میں عربی انگریزی
ترجمے کے مختلف کورس پڑھاتا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی زبان میں حروف نہیں بلکہ الفاظ کی
بنی بنائی مخصوص شکلیں ہیں۔ اس لئے اس میں آپ کوئی نیا لفظ
نہیں بنا سکتے۔ مثالً سارا چین مل کر ’’پاکستان‘‘ نہیں لکھ سکتا
کیونکہ پاکستان چینی زبان کا لفظ نہیں اور اس سے بھی عجیب
تر بات یہ ہے کہ پا ،پو ،اور پی میں پ کی تین مختلف شکلیں
ہوں گی۔ اس لئے یہ دنیا کی مشکل ترین زبان سمجھی جاتی ہے۔
اس کے مصمت حرف کے ساتھ عام طور پر مصوتہ بھی جڑا
ہوتا ہے۔ اس لئے پاکستان کو چینی ’’پا چی سی تھا نی‘‘ یا اس
قسم کا کوئی اور لفظ کہتے ہیں۔
اس مناسبت سے میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ دنیا میں
تعلیم اور تدریس سے اونچا کوئی کام نہیں کیونکہ یہ انبیاء کا کام
ہے۔ زندگی کے دیگر شعبوں اور پیشوں میں آپ مادے سے
کھیلتے اور چیزیں بناتے ہیں جبکہ تعلیم انسان سازی کا کارخانہ
ہے۔ یہاں انسان بنائے جاتے ہیں۔ تعلیم آدمی کو زمیں کی خالفت
تعالی نے حضرت آدم علیہ
ٰ کا اہل بنانے کا عمل ہے کیونکہ ہللا
السالم کے بارے میں فرمایا ’’وعلم آدم األسماء كلھا‘‘ اور یہی
تعلیم فرشتوں پر ان کی فوقیت کی دلیل ٹھہری۔ اس لئے تعلیم اور
تدریس سے بڑا پیشہ کیا ہو سکتا ہے؟ کچھ عرصہ قبل کسی جگہ
پڑھا کی جرمنی میں طبیبوں اور مہندسین نے چانسلر انگیال مرکل
کے سامنے اپنی تنخواہیں اساتذہ اور مدرسین کے برابر کرنے کا
مطالبہ رکھا تو اس نے یہ کہہ کر ایک جملے میں ان کی
درخواست مسترد کر دی کہ ’’جن لوگوں نے آپ کو یہاں تک
پہنچایا ہے ،میں آپ کو ان کے برابر کیسے کر سکتی ہوں؟‘‘
تعالی نے مالزمت
ٰ اس مقام پر میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ہللا
کے ذریعے وہ تمام چیزیں مجھے بہت کم عمری اور بہت کم
محنت سے عطا فرما دی ہیں جن کا ہمارے ملک میں حالل کمانے
اور کھانے والے بڑے بڑے افسر تیس تیس چالیس چالیس سال
نوکری کر کے سبکدوش ہونے کے بعد تمنا کرتے ہیں کہ اپنی
سواری لیں گے ،مکان بنائیں گے ،حج کریں گے وغیرہ وغیرہ۔
الحمد ہلل یہ نعمتیں اس بندے کو ایک عرصے سے حاصل ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رزق حالل کمانا دین کا حکم ہے اور
ایمانداری سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے پر اجر کا بھی وعدہ ہے
لیکن تدریس چھوٹنے کے بعد میں اپنے کام سے اس لحاظ سے
مطمئن نہیں ہو سکا کہ اسی کو زندگی کا مقصد اور کامیابی سمجھ
لوں۔ ہم جو کام کرتے ہیں اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک
مزدور صبح گینتی بیلچہ لے کر گھر سے نکلتا ہے ،کسی جگہ
کھدائی کا کام تالش کرتا ہے ،سارا دن مٹی کھودتا ہے اور شام
کو اپنی اجرت لے کر گھر آ جاتا ہے۔ بے شک اس نے اچھا کام
کیا ،خون پسینہ بہایا لیکن سوال یہ ہے کہ پیچھے کیا چھوڑا؟
اجرت تو لے کے چال گیا۔ مالزمت کے اس دائرے کا خالصہ
لسان العصر اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کھینچا ہے ؎
اس کے مقابلے میں میں نے چند سال اور کچھ مقامات پر جن
طلبہ کو چار حرف سکھانے کی کوشش کی الحمد ہلل آج وہ آفتاب
وماہتاب ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ ہللا کے فضل سے میرے طلبہ
آج جگہ جگہ دینی اور دنیوی مناصب پر فائز ہیں۔ ان میں بین
االقوامی شہرت کے حامل لوگ بھی ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ
ایک بار نمل یونیورسٹی میں امتحان ہو رہا تھا۔ ایک ہی امتحان
گاہ میں میں خود پی ایچ ڈی کے طالب علم ،میرے شاگرد ایم فل
اور شاگردوں کے شاگرد ایم اے کے طلبہ کے طور پر ایک ساتھ
بیٹھے تھے۔ جب طلبہ نے مجھے ’’استاد جی‘‘ کے لقب سے
پکارا تو ممتحن بھی حیران ہو گئے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ شاگرد
آپ کی وہ اوالد ہے جو آپ کے لئے بہت دفعہ نسبی اوالد سے
بھی زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ اس لئے شیخ ابراہیم ذوق کہتے
ہیں؎
اسی طرح استادی شاگردی کے رشتے میں عموما ً اور دینی علوم
کے میدان میں خصوصا ً وہ تقدس اور احترام ہے جس کا دوسرے
میدانوں میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بڑے علماء کی قدر
ومنزلت کی تو بات ہی کیا ہے ،ان کو خلق خدا آنکھوں پر بٹھاتی
ہے ،مجھ جیسا بندہ بھی اگر اپنے شاگردوں میں چال جائے تو وہ
احترام ملتا ہے کہ اٹھارہ گریڈ کے افسر نے زندگی بھر اس کا
مشاہدہ نہیں کیا ہوگا کیونکہ اس سے خلق خدا کا واسطہ کام کرنے
اور کام نکالنے کا ،جبکہ یہاں احسانمندی اور نیازمندی کا ہے
جس میں خلوص اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اقبال نے
بانگ درا میں پرانے اور جدید طلبہ کی جانب سے استاد کے
احترام کا ظریفانہ نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے ؎
اس سلسلے میں مدرسہ عربیہ اسالمیہ (جامعۃ علوم اسالمیہ) کے
بانی حضرت عالمہ محمد یوسف بنوری رحمہ ہللا کے بارے میں
سنا یا کہیں پڑھا کہ وہ سال کے آخر میں زکات کی مد میں آنے
والی رقم طلبہ میں یہ کہہ کر تقسیم فرما دیتے تھے کہ یہ ان کے
لئے آئی ہے اور میں نہیں جانتا کہ اگلے سال ان میں سے کون
یہاں آئے گا اور کون نہیں آئے گا۔ اس لئے ان کا حق میں اپنے
پاس نہیں رکھنا چاہتا جبکہ اگلے سال والوں کے لئے ہللا اور
انتظام کر دے گا۔
(ختم شد)