You are on page 1of 50

‫تحریر‬

‫عبدالخالق ہمدرد‬

‫میں اور تدریس‬

‫آپ بیتی اور سفرنامے میرے پسندیدہ موضوعات ہیں اگرچہ اس‬
‫بارے میں میرا مطالعہ کچھ نہیں۔ سکول یا کالج کی اردو کی کسی‬
‫کتاب میں احسان دانش کی سوانح حیات کا کچھ حصہ پڑھا تو‬
‫آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس مضمون کے آخر میں ’’جہان دانش‘‘ کا‬
‫حوالہ تھا۔ یہ کتاب چند سال قبل الہور سے منگوا کر پڑھی تو‬
‫بہت لطف آیا اور میں نے بہت سے احباب کو مشورہ دیا کہ اگر‬
‫آپ مشکالت میں ہیں تو جہان دانش پڑھ کر اپنے دل کو تسلی دے‬
‫لیں۔‬

‫ابھی چند روز قبل اپنے لئے ایاز قدر خود بشناس کے زاوئے اور‬
‫قارئین کی حوصلہ افزائی کے لئے ’’میں اور ترجمہ‘‘ کے عنوان‬
‫سے ترجمے کے میدان میں اپنے سفر کی کتھا بال کم وکاست بیان‬
‫کر دی۔ میرا خیال نہیں تھا کہ اس تحریر کو اتنی پزیرائی ملے‬
‫گی مگر کہتے ہیں اندھوں میں کانا راجا۔ کتنے ہی باہمت لوگ‬
‫ہوں گے جنھوں نے کیا کیا جتن کئے ہوں گے مگر ان کی آپ‬
‫بیتیاں تحریر میں نہ آنے کی وجہ سے دوسروں تک نہ پہنچ سکیں‬
‫جبکہ میں نے اسے لکھ دیا تو بہت سے دوستوں نے کہا کہ ہم‬
‫اس سے مستفید ہوئے ہیں اور بعض نے تو اسے ایسی گہرائی‬
‫تعالی سب کو جزائے خیر‬‫ٰ‬ ‫سے پڑھا کہ مجھے حیرت ہوئی۔ ہللا‬
‫دے۔ اگر کسی ایک بھی شخص نے اس سے کوئی مثبت سبق لے‬
‫لیا ہے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔‬

‫اس کہانی کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ کہ اس کی وجہ سے میں پہلے‬


‫کل وقتی اور اس کے بعد جز وقتی تدریس سے بھی باہر ہو گیا۔‬
‫اب دوستوں کا یہ اصرار ہے کہ میں تدریس کے سفر کو بھی بیان‬
‫کر دوں۔ ہر چند کہ میں اس بارے میں کوئی الگ تفصیل اس لئے‬
‫نہیں لکھنا چاہتا تھا کہ میرے روزنامچوں میں اکثر چیزیں موجود‬
‫ہیں‪ ،‬لیکن اس اصرار کے جواب میں یہاں کچھ باتیں عرض کروں‬
‫گا۔‬

‫ہمارے ہاں سکول کالج کی تعلیم کا مقصد بہت واضح ہے کہ وہ‬


‫پڑھنے والے کو مالزمت کے لئے تیار کرتے ہیں۔ اسی لئے‬
‫جیسے ہی کوئی بچہ میٹرک کرتا ہے تو پہلی فرصت میں نوکری‬
‫کی تالش میں نکل جاتا ہے جبکہ زیادہ پڑھ جانے والوں میں بھی‬
‫اکثریت کا مطمع نظر ایک اچھی مالزمت کا خواب ہوتا ہے۔ اس‬
‫کے مقابلے میں مدارس کی سوچ تھوڑی مختلف ہے کیونکہ وہاں‬
‫اس گئے گزرے دور میں بھی اخالص‪ٰ ،‬للہیت اور آخرت کے اجر‬
‫وثواب کا درس دیا جاتا ہے اور دنیا کی بے توقیری اور قناعت‬
‫کا سبق بھی۔ اس کا نتیجہ بالکل واضح ہے کہ دس بیس سال سکول‬
‫وکالج کی تعلیم میں لگانے واال کوئی آدمی شاید ہی ایسا ملے جو‬
‫پانچ سات ہزار کی مالزمت پر راضی ہو جائے لیکن اتنی ہی عمر‬
‫مدارس میں گزارنے والے بال مبالغہ ہزاروں لوگ اس معاشرے‬
‫میں موجود ہیں جو قناعت کی چادر اوڑھے ساری زندگی بتا‬
‫دیتے ہیں۔‬

‫اس بات سے مقصود یہ بتانا ہے کہ مدارس سے فیضیاب ہونے‬


‫والے لوگوں کی سوچ ذرا مختلف ہوتی ہے۔ اب اگر ان کی اس‬
‫سوچ کے مطابق ان کا گزارہ چلتا رہے تو بہت کم ایسا ہوتا ہے‬
‫کہ وہ اس میدان سے بھاگ جائیں بلکہ بہت سی دفعہ نہایت مشکل‬
‫حاالت میں بھی وہ ڈٹے رہتے ہیں۔ یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ‬
‫جب بیچاروں کے پاس اور کوئی رستہ ہوتا ہی نہیں تو وہ کہاں‬
‫جائیں گے؟ کیونکہ آپ کو بہت سے ایسے لوگ مدارس کے‬
‫ماحول میں سخت مشکالت میں زندگی گزارتے نظر آ جائیں گے‬
‫جو باہر نکل کر بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن وہ نہیں نکلتے۔ یہ‬
‫عزیمت پر عمل کرنے والے لوگ ہوتے ہیں جبکہ ہمارے جیسے‬
‫رخصت پر عمل کرنے والے وہاں سے بھاگ نکلتے ہیں۔‬

‫اس تمہید کے بعد میں اپنے تدریس کے سفر کی جانب آتا ہوں۔‬
‫مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میں نے کب سے مدرس یا معلم بننے‬
‫کا ارادہ کیا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کے ہللا کے فضل سے جو‬
‫بات مجھے سمجھ آ جائے وہ دوسرے کے سامنے اس سے زیادہ‬
‫اچھی طرح بیان کر سکتا ہوں لیکن جو بات سمجھ نہ آئے‪ ،‬اسے‬
‫طوطے کی طرح نہیں دہرا سکتا۔ اسی وجہ سے سکول کے‬
‫زمانے بھی امتحان کے دنوں میں کچھ دوستوں کے ساتھ اجتماعی‬
‫مطالعہ کرتا تھا۔ آٹھویں کا امتحان دینے کے بعد اپنے پھوپھی زاد‬
‫بھائی موالنا لطیف ہللا توحیدی کی دعوت پر گوجرانوالہ میں‬
‫حضرت موالنا بدیع الزمان شاہ صاحب مرحوم کے دورہء تفسیر‬
‫میں شریک ہوا تو وہاں بھی بڑے طلبہ کے سامنے دن کا سبق‬
‫سناتا تھا۔ اس وقت میری فہم ہی کیا ہوگی لیکن ہللا کے فضل سے‬
‫جب امتحان ہوا تو دوم آیا۔‬

‫یہ سلسلہ چلتا رہا اور جب میں دار العلوم کراچی پہنچا تو وہاں‬
‫رات کو دن کے اسباق دہرانے کی ترتیب تھی۔ اس کو طلبہ کی‬
‫زبان میں تکرار کہتے ہیں۔ یہاں پہلے میں ایک افغانی دوست عبید‬
‫ہللا کی جماعت میں بیٹھتا تھا۔ کچھ کتابوں کا تکرار وہ اور کچھ‬
‫کا میں کرتا تھا لیکن بعد میں میری اپنی جماعت بن گئی تو سارا‬
‫کام مجھے ہی کرنا پڑتا تھا۔ اس تکرار سے مجھے اس بات کا‬
‫ادراک ہوا کہ اچھا مدرس بننے کے لئے تکرار کرانا الزمی ہے۔‬
‫اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسروں کو سمجھانے کے لئے پہلے خود‬
‫سمجھنا الزمی ہے اور سمجھنے کے لئے المحالہ محنت کی‬
‫ضرورت ہوتی ہے کیونکہ درسگاہ میں استاد جو کہے طلبہ طوعا ً‬
‫وکرہا ً اسے کان نیچے کر کے سن لیتے ہیں لیکن تکرار میں جب‬
‫بات سمجھ میں نہیں آتی تو ٹوکنے والے یوں بھی کہتے ہیں ’’یار‬
‫بکواس نہ کرو۔ اگر بات سمجھ میں نہیں آئی تو اول فول کیوں‬
‫بکتے ہو؟ سیدھے سیدھے کہہ دو کہ نہیں سمجھا۔‘‘۔‬

‫مدارس میں چونکہ معلمین اور مدرسین کی تربیت کا کوئی باقاعدہ‬


‫بندوبست نہیں۔ اس لئے میرے خیال میں جو طالب علم بعد از‬
‫فراغت مسند تدریس پر جلوہ آرا ہونا چاہتا ہو‪ ،‬اس کو میں یہ‬
‫مشورہ دوں گا کہ وہ اپنے دوستوں سے لڑ کر بھی تکرار کرایا‬
‫کرے۔ اگر آپ تیاری‪ ،‬حوصلے اور لگن کے ساتھ تکرار کراتے‬
‫رہیں تو اونچے پائے کے مدرس بن سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی‬
‫یاد رکھنے کی ہے کہ پڑھنے اور پڑھانے میں بڑا فرق ہے۔ اس‬
‫لئے کوئی ضروری نہیں کہ ایک اچھا عالم اچھا مدرس بھی ہو‬
‫جبکہ اس کا عکس بالکل درست ہے کہ ایک کم علم آدمی اپنے‬
‫اس علم کو دوسروں کی جانب منتقل کرنے پر زیادہ قادر ہو سکتا‬
‫ہے۔ قربان جاؤں نبی امی اور معلم انسانیت صلی ہللا علیہ وسلم پر‬
‫کہ آپ نے حجۃ الوداع کے خطبے میں اس کی جانب بھی اشارہ‬
‫اوعی من سامع‘‘۔۔’’ہو سکتا ہے کہ جس‬ ‫ٰ‬ ‫فرما دیا کہ ’’رب مبلغ‬
‫کو بات پہنچائی جائے‪ ،‬وہ سننے والے سے زیادہ سمجھدار ہو‘‘۔‬

‫خیر مدرسے سے فراغت تک تکرار کا سلسلہ جاری رہا البتہ‬


‫جب بنوری ٹاؤن آیا تو اس میں یہ تبدیلی آئی کہ پہلے اردو میں‬
‫تکرار کراتا تھا‪ ،‬اب عربی میں تکرار کرانے لگا کیونکہ یہاں‬
‫میں نے رابعہ عربی میں داخلہ لیا تھا جس میں ہم تین پاکستانیوں‬
‫کے عالوہ باقی سب بیرونی طلبہ تھے اور ہم میں رابطے کی‬
‫زبان عربی تھی۔ تکرار کی یہ ترتیب دورہء حدیث سے فراغت‬
‫تک جاری رہی۔ اس مقام پر یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرے خیال میں‬
‫مدارس کا نصاب اردو میں ترجمہ کر کے پڑھانے کی بجائے اگر‬
‫طلبہ کو عربی زبان سکھانے کے بعد براہ راست پڑھایا جائے تو‬
‫اس سے زیادہ قابل لوگ پیدا ہو سکتے ہیں اور اس طرح اردو‬
‫شروحات سے بھی جان چھوٹ جائے گی جو طلبہ اور اساتذہ‬
‫دونوں کی قابلیت کو گھن کی طرح کھا رہی ہیں۔‬

‫میری ایک اور مشکل یہ رہی ہے کہ جب بھی سبق کا مطالعہ‬


‫کرنے بیٹھتا تو چند ہی سطریں دیکھ پاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی‬
‫زبان کا چٹخارہ تھا اور لغت ساتھ رکھتا تھا۔ (مجھے یاد ہے کہ‬
‫میں نے المنجد عربی عربی کا ایک نسخہ موالنا مفتی عبد المنان‬
‫صاحب کے کتب خانے سے دار العلوم کے زمانے میں خریدا تھا‬
‫جو اب بھی میرے پاس ہے)۔ چنانچہ ادھر کوئی نیا لفظ سامنے‬
‫آیا اور ادھر لغت کھل گیا۔ وہاں کوئی اور لفظ انجان مل گیا تو اس‬
‫کے معانی کی تالش شروع ہو گئی۔ اس طرح وقت نکل جاتا اور‬
‫میں کچھ نہ کر پاتا جبکہ تکرار کا کم سے کم فائدہ یہ ہوتا تھا کہ‬
‫دن کے اسباق زبان سے گزر جاتے تھے۔‬

‫امتحان کے دنوں میں میری تکرار کی جماعت تگنی چوگنی ہو‬


‫جاتی تھی اور خاص خاص مقامات کا تکرار ہوتا تھا۔ اس میں‬
‫دوست اپنی اپنی مرضی کے مقامات لے کر آتے تھے اور جیسے‬
‫تیسے تکرار ہو جاتا تھا۔ یہ مشغلہ بڑا اچھا ہوتا تھا۔ اس کے‬
‫مقابلے میں ہمارے کچھ قابل دوست تکرار کو وقت کا ضیاع‬
‫سمجھتے ہوئے الگ سے بیٹھ کر مطالعے کے لئے منظر عام‬
‫سے غائب ہو جاتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح کم وقت‬
‫میں اچھی تیاری ہو جاتی ہے لیکن میں اپنی افتاد طبع کی وجہ‬
‫سے اس روش پر نہ چل سکا۔‬

‫اسی طرح رات کو نچلے درجوں کے بعض دوست بھی عبارت‬


‫درست کرانے کے لئے آ جاتے تھے کیونکہ بہت سوں کا یہ خیال‬
‫تھا کہ میں بہت الئق ہوں لیکن میں نے اپنے سے کئی گنا زیادہ‬
‫الئق لوگوں کو دیکھا ہے۔ ہللا کا شکر ہے کہ میں نے اپنے پاس‬
‫آنے والے کسی طالب علم کو شاید ہی کبھی واپس کیا ہو اور اسی‬
‫کا یہ نتیجہ تھا کہ امتحان کے دنوں میں غائب ہو جانے والوں کے‬
‫ساتھ میرا مقابلہ رہتا تھا اور ہر امتحان میں کوئی ایک انعام مجھے‬
‫بھی مل جاتا تھا لیکن الحمد ہلل کبھی کسی سے مقابلہ کرنے کے‬
‫لئے کوئی محنت نہیں کی کیونکہ میرا اصول روز اول سے یہ‬
‫رہا ہے کہ کائنات میں آپ کا کوئی ثانی نہیں۔ اس لئے آپ اپنی‬
‫سی کوشش کریں اور نتیجہ ہللا کے حوالے کر دیں۔ اس سے آدمی‬
‫کا دل صاف رہتا ہے ورنہ میں نے مدارس میں بھی ایسے طلبہ‬
‫بھی دیکھے ہیں جو نمبر پر آنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے‬
‫بات تک کرنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ صاحبو سوچنے کی بات‬
‫ہے کہ کالے دل کے ساتھ علوم نبوت کیسے سیکھے جا سکتے‬
‫ہیں کیونکہ علوم نبوت کی بنیاد ہی باہمی محبت ہے۔‬

‫تکرار اگرچہ غیر رسمی تدریس کی ایک شکل ہے لیکن یہ‬


‫تدریس سے کسی طور پر کم نہیں۔ اس سے زبان اور دماغ دونوں‬
‫کی گرہ کشائی ہوتی ہے اور اگر اس کے لئے کچھ مطالعہ کر‬
‫لیں تو پھر تو سونے پر سہاگہ ہے۔ میں معمول کے مطابق دن کو‬
‫اساتذہ کے سبق کے دوران اہم باتیں لکھ لیا کرتا تھا اور رات کو‬
‫وہ تحریر روشنی کا کام دیتی تھی کہ جہاں بھٹکے کاپی کھول لی۔‬
‫اس سے کام نہیں چال تو کسی اور لکھنے یا سمجھنے والے سے‬
‫پوچھ لیا اور اس سے بھی تشفی نہیں ہوئی تو کوئی عربی شرح‬
‫دیکھ لی یا اگلے دن استاد سے پوچھ لیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ‬
‫مدارس میں طلبہ کے پاس شروحات کا ڈھیر ہوتا ہے لیکن میرے‬
‫پاس اردو کی کوئی شرح کبھی نہیں رہی جبکہ عربی شروحات‬
‫خود خریدنے کی سکت نہیں ہوتی تھی اس لئے کسی اور سے‬
‫لے کر دیکھ لیتا تھا۔ میں نے صرف ’’سلم العلوم‘‘ کی ایک عربی‬
‫شرح خریدی تھی لیکن اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی باک‬
‫نہیں کہ اس شرح کے باوجود بھی سلم کو سمجھ نہیں سکا اگرچہ‬
‫امتحان اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا۔‬

‫ہمارے استاد محترم حضرت موالنا عطاء الرحمن شہید بنوری‬


‫ٹاؤن کی مسجد کے دیوار سے جڑے بائیں مینار کے ساتھ فجر‬
‫کی نماز کے بعد عربی زبان سکھایا کرتے تھے۔ اس میں کوئی‬
‫خاص کتاب تو نہیں ہوتی تھی البتہ بول چال اور سوال جواب‬
‫ہوتے تھے تاکہ طلبہ کی زبان کھل جائے اور عربی بولنے کی‬
‫صالحیت حاصل کر لیں۔ جن دنوں فجر کے بعد مجھ پر نیند کا‬
‫حملہ نہیں ہوتا تھا‪ ،‬میں بھی اس درس میں شوق سے شریک ہوتا‬
‫تھا۔ ہمارے سادسہ کے سال حضرت نے کسی وجہ سے وہ درس‬
‫موقوف کر دیا تو کچھ طلبہ ساتھیوں کی تحریک پر ان کی مسند‬
‫مجھے سنبھالنا پڑی۔ میرا خیال ہے کہ یہ باقاعدہ استادی کا آغاز‬
‫تھا۔ فراغت کے بعد اسالم آباد آیا تو ایک بار ایک صاحب بڑے‬
‫تپاک سے ملے۔ میں ان کو پہچان نہیں پایا۔ تعارف پوچھا تو کہنے‬
‫لگے کہ میں عربی درس میں آپ کا شاگرد ہوں۔ اس درس میں‬
‫میرے ہم جماعت‪ ،‬مجھ سے نچلے اور اوپر کے درجات کے طلبہ‬
‫بھی بیٹھتے تھے۔‬

‫یہ تو کہانی تھی بے قاعدہ تدریس کی۔ اب آتے ہیں باقاعدہ تدریس‬
‫کی جانب۔ پڑھائی کے دوران ہی میرے دل میں یہ خیال پختہ ہوتا‬
‫چال گیا کہ فراغت کے بعد تدریس کرنی ہے لیکن سوال یہ تھا کہ‬
‫کہاں کرنی ہے؟ کیونکہ مجھے یہ خیال گزرتا تھا کہ شاید سفارش‬
‫کے بغیر مجھے کوئی جگہ نہیں ملے گی اور سفارش کا بھاری‬
‫پتھر اٹھانے کے لئے میں تیار نہیں تھا۔ میرا آج بھی یہ خیال ہے‬
‫کہ مدرس کی تعیناتی صرف اور صرف قابلیت کی بنیاد پر ہونی‬
‫چاہئے کیونکہ سفارش یا اقربا پروری کے نظرئے سے کسی ایک‬
‫ناالئق مدرس کی تعیناتی سینکڑوں طلبہ کے مستقبل کے ساتھ‬
‫کھلواڑ ہے۔ اسی وجہ سے میں نے ’’زمیں کے تارے‘‘ کے‬
‫مقدمے میں لکھا ہے کہ جس شخص کو یقین ہو کہ وہ پڑھا نہیں‬
‫سکتا تو اسے ایمانداری کے ساتھ اپنے لئے کوئی اور کام دیکھ‬
‫لینا چاہئے۔‬

‫سفارش‪ ،‬اقربا پروری یا کسی اور بنیاد پر تعینات مدرسین کے‬


‫واقعات مدارس کے طلبہ کے زبان زد عام ہیں۔ کراچی میں ہم نے‬
‫سنا کہ ایک مدرسے میں استاد جی نفحۃ العرب کا ترجمہ دیکھ‬
‫کر پڑھاتے تھے۔ اس لئے لڑکے اپنے پاس بھی ترجمہ رکھتے‬
‫تھے۔ چنانچہ جب کبھی استاد جی کی نظر چوک جاتی اور وہ‬
‫عبارت کی اوپر کی سطر کے ساتھ ترجمے کی نچلی سطر پڑھ‬
‫جاتے تو طلبہ ان کو اپنی کتاب سے لقمے دیا کرتے تھے۔ اسی‬
‫طرح ایک جگہ میں نے ایک مدرس کو دیکھا کہ ابو داؤد کا‬
‫ترجمے واال نسخہ بغل میں دابے مدرسے کی جانب جا رہے ہیں‬
‫تو میں نے وہاں پڑھانے والے اپنے دوست سے پوچھا کی بھئی‬
‫درسگاہ میں ترجمے کا کیا کام؟ تو کہنے لگے کہ حضرت اسی‬
‫سے دیکھ کر پڑھاتے ہیں۔‬

‫اسی طرح اسالم آباد میں ایک صاحب نے میری کتاب ’’دروس‬
‫الفقہ‘‘ دیکھنے کے بعد مجھے فون کیا کہ حضرت‪ ،‬دروس الفقہ‬
‫قدوری کی شرح ہے یا ترجمہ؟ میں نے کہا کہ دونوں نہیں۔ انھوں‬
‫نے اگال سوال کیا کہ اچھا پھر کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ اس میں‬
‫قدوری کی اصطالحات اور مسائل قدوری کی ترتیب سے ہیں اور‬
‫جو شخص اس کو سمجھ کر پڑھ لے اسے قدوری میں صرف‬
‫عربی عبارت سمجھنے کی ضرورت ہوگی۔ اس کے بعد انھوں‬
‫نے پوچھا کہ ’’الفقہ المیسر‘‘ کا کوئی ترجمہ یا شرح آپ کے علم‬
‫میں ہو تو بتائیں۔ مجھے معلوم نہیں تھی اس لئے معذرت کر لی‬
‫لیکن ساتھ ہی سوچنے لگا کہ جس مدرس کو الفقہ المیسر پڑھانے‬
‫کے لئے بھی شرح کی ضرورت ہے‪ ،‬وہ ظالم اپنے طلبہ کو کیا‬
‫پڑھائے گا۔‬

‫ایسے ہی ایک بار ایک دوست سے مالقات ہوئی تو میں نے پوچھا‬


‫کہ ہاں بھئی کیا کر رہے ہیں؟ کہنے لگے کہ پچھلے سال تو‬
‫مدرسے والوں نے ’’الطریقۃ العصریۃ‘‘ پڑھانے کو دے تھی۔‬
‫اس نے تو مشکل میں ہی ڈال دیا تھا کہ بازار میں اس کا ترجمہ‬
‫یا شرح کوئی چیز نہیں ملتی تھی۔ امسال ہللا کا فضل ہے وہ مجھ‬
‫سے لے لی ہے۔ اب انتظامی امور چالتا ہوں۔ اس پر میں نے کہا‬
‫ہاں یار واقعی بڑا ظلم تھا۔ مدارس والے لوگوں کو معلوم ہے کہ‬
‫یہ کتاب بہت ابتدائی کتاب ہے اور اس کا مقصد ہی عربی زبان‬
‫سکھانا ہے۔ اگر کسی ظالم نے اس کی بھی شرح لکھ دی ہو تو‬
‫ہللا اسے ہدایت دے۔‬

‫یہ باتیں تو سر راہے آ گئیں۔ میں باقاعدہ تدریس کی تفصیل بیان‬


‫کرنے بیٹھا ہوں۔ ہم تعلیم کے آخری سال یعنی دورہء حدیث میں‬
‫تھے۔ میرے ایک دوست موالنا نصیر الدین چالسی عرف سیٹھ‬
‫صاحب ایک دن ایک چھوٹا سا اخباری اشتہار میرے پاس الئے‬
‫اور کہنے لگے کہ آپ کے مطلب کی چیز الیا ہوں۔ یہ دیکھو‪،‬‬
‫اسالم آباد میں واقع اس ادارے کو عربی میں پڑھانے والے‬
‫مدرسین کی ضرورت ہے۔ مجھے اس سے خوشی ہوئی اور میں‬
‫نے کٹے ہوئے قلم سے خط رقعہ میں ایک درخواست لکھ کر‬
‫حوالہء ڈاک کر دی۔ یہ ‪۱۹۹۹‬ء کی بات ہے۔ اس زمانے میں‬
‫رابطے کا ذریعہ ڈاک یا ٹیلی فون ہی تھا اور کراچی سے اسالم‬
‫آباد بات شاید تیس روپے فی منٹ سے بھی زیادہ کی تھی۔‬

‫اس خط کے کچھ دن بعد مجھے کسی نے اطالع دی کی آپ کا‬


‫فون آنے واال ہے۔ میں دفتر میں جا کر انتظار میں بیٹھ گیا۔ میں‬
‫حیران تھا کہ آج مجھے کون فون کر رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد فون‬
‫کی گھنٹی بجی اور دفتر کے اہلکار نے سن کر چونگا مجھے دے‬
‫دیا۔ دوسری طرف سے بولنے والے صاحب نے بتایا کہ ان کا نام‬
‫فیض الرحمن عثمانی ہے اور وہ ادارہ علوم اسالمی سے بول‬
‫رہے ہیں۔ انھوں نے کئی منٹ عربی میں بات کی اور آخر میں یہ‬
‫کہہ کر بات ختم کی کہ میں کراچی میں آپ سے ملوں گا۔‬

‫کچھ عرصہ اور گزر گیا اور ساالنہ امتحانات سر پر آ گئے۔ انہی‬
‫دنوں پھر اطالع ملی کہ آپ کا فون آنے واال ہے۔ اس کے بعد‬
‫موالنا فیض الرحمن صاحب عثمانی صاحب سے دوسری بار‬
‫گفتگو ہوئی اور انہوں نے مجھے کارساز میں اپنے ایک دوست‬
‫کے ہاں بال لیا۔ میں وہاں گیا تو بڑی خندہ پیشانی سے ملے۔ گفتگو‬
‫عربی میں ہی ہوتی رہی اور اس کے بعد الماری سے فتح الباری‬
‫کی ایک جلد نکال کر مختلف مقامات سے عربی عبارت پڑھواتے‬
‫اور اس پر سواالت کرتے رہے۔ یہ امتحان شاید ایک گھنٹے پر‬
‫محیط تھا۔‬

‫اس کے بعد کہنے لگے کہ آپ میرے ساتھ اسالم آباد چلیں اور‬
‫کل ہی چلیں مگر ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم‬
‫اپنے ہاں کسی کو بھی مدرس رکھنے سے پہلے دو امتحان لیتے‬
‫ہیں ایک عبارت کا جس میں تیاری کا کوئی موقع نہیں ہوتا اور‬
‫دوسرا درسگاہ میں سبق پڑھانے کا۔ اس میں ہم سبق دے دیتے‬
‫ہیں اور استاد پوری تیاری کر کے درسگاہ میں آ کر سبق پڑھاتا‬
‫ہے اور کمیٹی بھی درسگاہ میں بیٹھ کر سبق سنتی ہے۔ اگر استاد‬
‫ان دونوں مرحلوں سے گزر جائے تو اس کو رکھ لیتے ہیں ورنہ‬
‫معذرت کر لیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اس سے اچھی بات کیا ہوگی‬
‫کہ آدمی کو امتحان لے کر رکھا جائے۔ موالنا پھر کہنے لگے کہ‬
‫امتحان دے کر فورا آپ آ جائیں۔ میں نے جواب دیا کہ ابھی تو‬
‫نہیں آ سکتا کیونکہ امتحان کے بعد چالیس دن کا کورس بھی ہوتا‬
‫ہے البتہ یہ وعدہ ہے کہ اس کے بعد گاؤں جاتے ہوئے آپ سے‬
‫مل کر جاؤں گا۔‬

‫اس طرح میرے لئے کراچی چھوڑنے کا سبب پیدا ہو گیا کیونکہ‬
‫والد صاحب ہللا کو پیارے ہو چکے تھے اور میں اپنے گھر کا‬
‫بوجھ خود اٹھانا چاہتا تھا جبکہ کراچی کے مقابلے میں مجھے‬
‫اسالم آباد اپنے گاؤں کے زیادہ قریب معلوم ہو رہا تھا۔ اس لئے‬
‫کراچی میں رکنے یا کسی جگہ تدریس کرنے کے بارے میں‬
‫سوچا ہی نہیں‪ ،‬ورنہ اگر اپنے اساتذہء کرام سے بات کرتا تو شاید‬
‫کوئی رستہ نکل ہی آتا۔ موالنا فیض الرحمن صاحب سے مالقات‬
‫کے بعد مجھے یہ خوشی ہو رہی تھی کہ اچھا ہے کہ کسی کے‬
‫احسان یا سفارش کا بار اٹھائے بغیر ہی عام مدارس کے مقابلے‬
‫میں اچھی مالزمت مل رہی ہے اور وہ بھی عربی میں پڑھانے‬
‫کی۔‬

‫وعدے کے مطابق میں بنوری ٹاؤن سے فراغت کے بعد اسالم‬


‫آباد پہنچا اور ادارہ علوم اسالمی میں حاضری دی۔ موالنا عثمانی‬
‫صاحب نے پرتپاک استقبال کیا‪ ،‬مہمان خانے میں ٹھہرایا اور نور‬
‫االنوار کا سبق پڑھانے کو دیا گیا۔ میں نے اس کی تیاری کی اور‬
‫اگلے دن درسگاہ میں وہ سبق عربی میں پڑھایا۔ یہاں یہ بات یاد‬
‫رکھنے کی ہے کہ ہللا پر بھروسے کے بعد خود اعتمادی بڑی‬
‫چیز ہے۔ آپ جہاں جائیں دھڑلے سے بات کریں مگر غلطی پر‬
‫اصرار مت کریں اور یہ بھی یاد رکھئے کہ جس طرح آپ کو‬
‫بہت سی باتیں معلوم نہیں‪ ،‬ایسے ہی آپ کے سامعین بھی بہت سی‬
‫باتوں سے نابلد ہوتے ہیں۔ اس لئے ڈرنے اور گھبرانے کی کوئی‬
‫ضرورت نہیں۔ حسب قانون مدرسین کی ایک پوری کمیٹی بھی‬
‫درسگاہ میں موجود رہی۔ میرے اس سبق کے بارے میں درست‬
‫رائے وہ مدرسین یا طلبہ ہی دے سکتے ہیں لیکن مجھے یاد ہے‬
‫کہ میں نے وہ سبق بال جھجھک پڑھایا تھا۔‬

‫اس کے بعد شاید بارہ ہزار روپے مشاہرہ مقرر ہوا جو عام مدارس‬
‫کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ تھا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا‬
‫کہ آپ زیادہ کام کریں گے تو اس کی بھی اجرت ملے گی۔ ہر چیز‬
‫کا الگ االؤنس ہے۔ چونکہ میں مالزمت کا کوئی سابقہ تجربہ‬
‫نہیں رکھتا تھا‪ ،‬اس لئے اپنی کوئی شرط پیش کر سکا اور نہ کوئی‬
‫سودا بازی البتہ یہ بات منوا لی کہ میں پہلے گھر جاؤں گا اور‬
‫واپسی پر تدریس شروع کروں گا۔ اس طرح میں ادارہ علوم‬
‫اسالمی کا باقاعدہ مالزم ہونے کے بعد گاؤں گیا۔ وہاں برف میں‬
‫کچھ دن گزارے اور واپس چال آیا۔ گاؤں میں جس جس کو میری‬
‫مالزمت کا پتہ چال اس نے خوشی کا اظہار کیا۔‬
‫یہاں ایک اور تجربہ بھی بیان کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ جب تک‬
‫میں باقاعدہ زیر تعلیم رہا‪ ،‬گاؤں میں سب کی آنکھوں کا تارا تھا۔‬
‫اگر ایک ماہ کی چھٹی جاتا تو اس میں سے اکثر وقت مہمانی اور‬
‫دعوتوں میں گزر جاتا تھا کہ آج کسی چچا کے گھر‪ ،‬کل ماموں‬
‫کے گھر اور اسی طرح سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ دعوتوں پر دعوتیں‬
‫ہوتیں لیکن دو مواقع پر گاؤں سے میرا دل بری طرح کھٹا ہو گیا۔‬
‫پہلی بار جب میں اپنے ابا جان مرحوم کی وفات کے بعد گاؤں گیا‬
‫تو دو تین عزیزوں کے عالوہ کسی سے کوئی توجہ نہیں ملی۔ یہ‬
‫میری زندگی کا نہایت تلخ تجربہ تھا۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ مجھ‬
‫پر معنوی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں کوئی پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔‬
‫چنانچہ آٹھ دن بعد گاؤں سے بھاگ آیا اور رستے میں چھٹیاں‬
‫پوری کرتا کرتا بیس دن بعد واپس کراچی پہنچا۔‬

‫دوسری بار جب میں مدرسے سے فارغ ہو کر گاؤں پہنچا تو بھی‬


‫پہلی سی پذیرائی نہیں ملی۔ اس رویے نے بھی مجھے گاؤں کو‬
‫خیرباد کہنے میں مدد دی۔ میں آج تک لوگوں کے برتاؤ میں اس‬
‫تبدیلی کا سبب نہیں سمجھ سکا۔ خیر گاؤں میں چند دن رہ کر واپس‬
‫اسالم آباد آ گیا اور ادارہ علوم اسالمی میں تدریس کا آغاز کیا۔ یہ‬
‫عملی زندگی میں میرا پہال قدم تھا۔‬

‫یہاں بھی میں خود تو وہی تھا جو پہلے تھا لیکن ماحول یکسر‬
‫مختلف تھا کیونکہ میں اب ایک استاد تھا۔ اس حوالے سے تعلقات‬
‫کی نوعیت میں بھی تبدیلی آنا ایک امر ال بدی تھا۔ ایک طرف‬
‫ادارے کی انتظامیہ‪ ،‬دوسری جانب میرے ساتھ پڑھانے والے‬
‫اساتذہ جو پڑھانے میں مجھ سے زیادہ تجربہ کار اور پرانے تھے‬
‫اور تیسری طرف وہ طلبہ جن کو میں پڑھاتا تھا۔ مدارس میں عام‬
‫طور پر نئے اساتذہ کو شروع کے درجات کی کتابیں دی جاتی‬
‫ہیں لیکن مجھے سب سے پہلے یہاں کے آخری درجے کا سبق‬
‫مال۔‬
‫پڑھانے کے سلسلے میں میری ترتیب یہ تھی کہ سبق کو خود‬
‫اچھی طرح سمجھنے کے بعد طلبہ کو سمجھانے کی کوشش کرنی‬
‫ہے اور طلبہ کے مناسب سواالت کا جواب بھی دینا ہے لیکن جس‬
‫سوال کا جواب معلوم نہ ہو وہاں بالوجہ کٹ حجتی کی بجائے‬
‫صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے نہیں معلوم۔ اس کے عالوہ تختہ‬
‫سیاہ کا مناسب استعمال کرتا تھا حتی کہ تفسیر کے سبق میں بھی‬
‫ضروری اور اہم باتیں تختہ سیاہ پر لکھتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ‬
‫جو بات دس بار کے تکرار سے سمجھ نہیں آتی وہ تختہ سیاہ کی‬
‫مدد سے بڑی آسانی سے سمجھائی جا سکتی ہے مگر مدارس‬
‫میں عام طور پر اساتذہ اس بارے میں سستی کرتے ہیں۔‬

‫دوسری بات یہ کہ تعلیم کے زمانے میرے کوئی مخصوص استاد‬


‫نہیں رہے کیونکہ اساتذہ کرام سے میرے تعلقات کا دائرہ کار عام‬
‫طور پر درسگاہ کی چار دیواری تک محدود رہا ہے۔ میں کسی‬
‫استاد کی کوئی خدمت کر سکا اور نہ کسی کو کوئی تحفے تحائف‬
‫دے سکا لیکن اس سب کے باوجود ہللا کے کرم سے اساتذہ کی‬
‫مجھ پر بڑی شفقت رہی ہے اور میرے اساتذہ آج بھی مجھے‬
‫جانتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک میرے کراچی کے سفرنامے‬
‫’’روداد محبت کیا کہئے‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ سفرنامچہ‬
‫میں نے ‪ ۲۰۱۷‬میں قلمبند کیا تھا۔‬

‫استاد ہونے کے بعد میں نے اپنی سی کوشش کی کہ میں درسگاہ‬


‫کے اندر تمام طلبہ سے یکساں سلوک کروں۔ چنانچہ میرے تمام‬
‫شاگرد بھی میرے لئے ایک برابر تھے ان میں کوئی بھی میرا‬
‫چہیتا اس معنی میں نہیں تھا کہ اگر وہ کوئی غلطی کرے تو‬
‫دوسروں کو سزا ملے اور وہ بچ جائے البتہ دوستی سب سے تھی‬
‫کیونکہ میں اپنے اوپر رعب داب کا خول کبھی نہیں چڑھا سکا۔‬
‫اس لئے طلبہ تھوڑے ہی وقت میں میرے ساتھ بہت بے تکلف ہو‬
‫گئے۔‬
‫اس کی ایک مثال ذکر کرتا ہوں کہ ہمارے ایک بہت با ادب اور‬
‫ملنسار طالب علم کی شادی ہوئی۔ ولیمے میں سارے اساتذہ شریک‬
‫ہوئے جن میں میں بھی شامل تھا۔ ولیمہ جمعے کو تھا اور جمعے‬
‫کی شام کو طلبہ کی حاضری ضروری تھی۔ ان دنوں میں مدیر‬
‫(پرنسپل) بھی تھا۔ چنانچہ ہفتے کی صبح شام کے غیر حاضر‬
‫طلبہ کو اسمبلی سے باہر نکاال۔ ان کو سزا دینا بھی میرا ’’فرض‬
‫منصبی‘‘ تھا۔ اب قطار کی ایک طرف سے سزا شروع ہو گئی۔‬
‫بیچ میں پہنچا تو دولہا میاں بھی کھڑے تھے لیکن ان کی شادی‬
‫اور ولیمے کی وجہ سے میں ہاتھ نہ روک سکا اور ان کو بھی‬
‫سزا دے ڈالی۔ بعد میں کچھ احباب کہنے لگے کہ ایسے موقع پر‬
‫تو ان کو معاف کیا جا سکتا تھا۔ میں نے کہا کہ اگر اطالع کے‬
‫بغیر نہ آنے پر چھٹی کے ایک طالب علم کو سزا دے چکا ہوں‬
‫تو اس کے بعد بارہویں کے طالب علم کو کیسے معاف کر سکتا‬
‫ہوں؟‬

‫اس بارے میں درست رائے تو میرے وہ شاگرد ہی دے سکتے‬


‫ہیں جو اب ہمارے دوست بھی ہیں‪ ،‬لیکن اتنی بات وثوق سے کہہ‬
‫سکتا ہوں کہ جن طلبہ کو میں نے انتظامی مجبوری یا تعلیم میں‬
‫کوتاہی پر تادیب کی‪ ،‬وہ آج میرے زیادہ قریب ہیں حاالنکہ معاملہ‬
‫اس کے برعکس ہونا چاہئے۔ اس لئے میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ‬
‫استاد کا علمی تفوق طالب علم کو رام کرنے کے لئے کافی ہے۔‬
‫اس کے ہوتے ہوئے اسے گالی گلوچ‪ ،‬فضول ڈانٹ ڈپٹ اور ڈنڈے‬
‫کا سہارا لینے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں لیکن اگر استاد کو‬
‫علمی برتری حاصل نہ ہو تو وہ ہزار جتن کر کے بھی شاگردوں‬
‫پر اپنا رعب نہیں جما سکتا۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ سارے طلبہ ہللا‬
‫میاں کی گائے نہیں ہوتے لیکن وہ خاموش رہتے ہیں۔ مجھے اس‬
‫بات کا ادراک تھا اور ہے لیکن درسگاہ کے اندر ضرورت سے‬
‫زیادہ چاالکی دکھانے والے طلبہ کے کان کاٹنے کی ضرورت‬
‫ہوتی ہے کیونکہ ایسے لوگ بعض اوقات آپ کی ناک کاٹنے کو‬
‫آ جاتے ہیں۔‬

‫دوسری طرف اپنے ساتھ کام کرنے والے اساتذہ سے تعلق ایک‬
‫نئی چیز تھی کیونکہ میں ان میں سب سے بعد میں آیا تھا مگر‬
‫کچھ ہی عرصے میں اچھے تعلقات قائم ہو گئے البتہ کچھ تلخ‬
‫واقعات بھی پیش آئے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ہمارے دوست ملک‬
‫سعید صاحب نے مجھ سے کہا کہ چلیں سکوٹر چالنا سیکھتے‬
‫ہیں۔ مجھے اس زمانے میں سائیکل کے عالوہ کوئی چیز چالنا‬
‫نہیں آتی تھی۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ سکوٹر کس کا‬
‫ہے۔‬

‫ملک صاحب نے سکوٹر سٹارٹ کر کے مجھے دیا اور میں‬


‫جیسے ہی سوار ہوا سکوٹر چل پڑا۔ میں اسے قابو نہ کر سکا اور‬
‫سکوٹر آگے بجری پر چڑھ گیا۔ اس کے بعد میں نیچے اور‬
‫سکوٹر میرے اوپر تھا۔ گھٹنے اور کمر چھل گئی اور سکوٹر کی‬
‫الئیٹ بھی ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ سکوٹر ایک ایسے‬
‫قاری صاحب کا تھا جو وقت آنے پر کسی کا لحاظ نہیں رکھتے‬
‫تھے۔ کہنے لگے کہ پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ آپ نے سکوٹر کو‬
‫ہاتھ کس کی اجازت سے لگایا؟ میں نے الکھ کہا کہ مجھے معلوم‬
‫نہیں تھا‪ ،‬ملک صاحب نے سٹارٹ کیا تھا‪ ،‬مگر وہ نہ مانے۔ آخر‬
‫کار آٹھ سو روپے دے کر جان چھڑائی۔ یہ میرے لئے ایک سبق‬
‫تھا کہ کسی کی چیز کو بال اجازت ہاتھ نہیں لگانا چاہئے۔‬

‫تیسری جانب انتظامیہ سے تعلقات بھی نئی چیز تھی کیونکہ یہ‬
‫آجر اور اجیر کا تعلق تھا لیکن اس بارے میں میرا طریقہ اب تک‬
‫یہی ہے کہ بال ضرورت انتظامیہ کے پاس پھٹکنے کی بھی‬
‫ضرورت نہیں۔ ہو سکتا ہے یہ بات غلط ہو لیکن اسے مزاج کی‬
‫افتاد سمجھ لیجئے کہ میں اپنا کام خود پورا کرنے کی کوشش کرتا‬
‫ہوں اور اس کے بعد کے معامالت کے بارے میں نہیں سوچتا‬
‫جبکہ یہ مشاہدہ ہے کہ بہت سے کام چور لوگ انتظامیہ کی‬
‫چاپلوسی اور چمچہ گیری کر کے اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالتے‬
‫ہیں بلکہ بعض اوقات انتظامیہ کو دوسروں کے بارے میں غلط‬
‫پٹیاں پڑھا کر بد ظن بھی کرتے ہیں اور یہ بیماری بعض اساتذہ‬
‫اور مالزمین میں سے کام چوروں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔‬
‫مجھے چمچہ گیری اور کاسہ لیسی کرنے والے لوگ قطعا ً پسند‬
‫نہیں خواہ وہ طالب علم ہوں‪ ،‬استاد ہوں یا کوئی اور۔ اس کی وجہ‬
‫یہ ہے کہ چمچہ گیری میرے خیال میں وہی شخص کر سکتا ہے‬
‫جو احساس کمتری کا شکار ہو یا منتقم المزاج ہو۔ سلیم الفطرت‬
‫آدمی یہ کام نہیں کر سکتا۔‬

‫اسی طرح حسد کرنے والے لوگ سازشیں کرنے لگتے ہیں‬
‫حاالنکہ کوئی کسی کا رزق چھین سکتا ہے اور نہ کسی کا قائم‬
‫مقام ہو سکتا ہے۔ ہمارے ایک دوست اپنے فن میں بڑے الئق فائق‬
‫تھے۔ میں ان کی دل سے قدر کرتا تھا لیکن مزاج میں فرق تھا۔‬
‫ان کے لئے شاید یہ بات ناگوار تھی کہ میں کچھ کچھ انگریزی‬
‫بھی جانتا ہوں جبکہ لوگوں کا خیال تھا کہ میری عربی بھی اچھی‬
‫ہے۔ انگریزی کی اس کمی کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے‬
‫باقاعدہ ایک یونیورسٹی میں داخلہ لے کر زباندانی کا کورس کیا۔‬
‫ایک بار سٹاف روم میں اساتذہ بیٹھے تھے۔ وہ اندر آئے اور‬
‫انگریزی کے ایک ’گاڑھے‘ لفظ کا ترجمہ پوچھا۔ میں نے کہا‬
‫مجھے نہیں معلوم۔ اس پر کہنے لگے کہ ہمدرد صاحب آئندہ یہ‬
‫دعوی نہ کرنا کہ صرف مجھے انگریزی آتی ہے۔ میں نے کہا‬ ‫ٰ‬
‫دعوی تو میں نے پہلے کبھی نہیں کیا۔ اس سے شاید ان‬
‫ٰ‬ ‫بھئی یہ‬
‫کی انا کو تسکین ہو گئی اور اس کے بعد اس موضوع پر بات‬
‫نہیں ہوئی۔‬
‫یہاں ہمارے دوست ملک سعید نوابی صاحب نے مجھے دوبارہ‬
‫سے عصری تعلیم کی جانب متوجہ کیا تو میں نے ایف اے کا‬
‫امتحان دے دیا۔ حسن اتفاق کہ اس میں مجھے ہللا کے فضل سے‬
‫طالئی تمغہ مل گیا۔ اس کے عالوہ میں نے انگریزی میں‬
‫روزنامچہ لکھنے کی بھی مشق شروع کی مگر اس سلسلے میں‬
‫میرے استاد صالح الدین صاحب جو ادارے میں انگریزی کے‬
‫استاد تھے‪ ،‬جلد ہی ادارے کو خیر باد کہہ گئے تو وہ سلسلہ ختم‬
‫ہو گیا۔ اسی طرح کافی عرصہ روزنامچہ عربی میں بھی لکھتا‬
‫رہا۔‬

‫ادارہ علوم اسالمی میں تدریس کے ساتھ ساتھ میں نے پرائیویٹ‬


‫طور پر جامعہ پنجاب سے بی اے اور ایم اے بھی کر لیا۔ یہاں یہ‬
‫بھی بتاتا چلوں کہ بی اے کے امتحان کے لئے میں نے صرف‬
‫پرچے کے دن چھٹی کی اور جس دن پرچہ ظہر کے بعد ہوتا‪،‬‬
‫صبح کے اوقات میں معمول کے مطابق پڑھانے جاتا۔‬

‫ایم اے سال اول کے امتحان کی تیاری کے لئے کافی وقت مل گیا‬


‫تھا البتہ سال دوم کے امتحان کا وقت قریب آیا تو میں ایک آزمائش‬
‫سے گزر رہا تھا۔ اہلیہ کی عاللت اور اس کے بعد وفات نے دل‬
‫ودماغ دونوں کو متاثر کیا۔ میں داخلہ بھیج چکا تھا مگر امتحان‬
‫دینے کا دل نہیں ہو رہا تھا۔ سوچنے لگا کہ کوئی بات نہیں‪ ،‬فیس‬
‫جا چکی‪ ،‬امتحان کی تیاری نہیں اس لئے فیل ہونے سے بہتر ہے‬
‫کہ اس میں شریک ہی نہ ہوں لیکن پھر یہ خیال آیا کہ امتحان دے‬
‫دینے میں کیا حرج ہے؟ زیادہ سے زیادہ ناکام ہو جاؤں گا اور کیا‬
‫ہوگا۔ چنانچہ امتحان میں شرکت کا فیصلہ کر لیا اور ایک ہفتے‬
‫کی چھٹی لے کر زندگی میں پہلی بار دھیرکوٹ (آزاد کشمیر)‬
‫میں اپنے ایک شاگرد کے گھر گوشہ نشین ہو گیا۔ پانچ پرچے‬
‫تھے‪ ،‬ایک ایک دن میں ایک ایک کتاب نظر سے گزار لی اور‬
‫اس کے بعد امتحان دے دیا تو ہللا کے فضل سے امتیازی نمبروں‬
‫سے کامیابی ملی۔ اس کے بعد میرا یہ اصول اور بھی پختہ ہو گیا‬
‫کہ کسی بھی چیز کو چھو کر دیکھ لینے سے پہلے کوئی فیصلہ‬
‫نہیں کر لینا چاہئے۔‬

‫دینی مدارس کے طلبہ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ نے اچھی‬


‫طرح ثانیہ بھی پڑھ لیا ہے تو آپ ایم اے عربی کا امتحان با آسانی‬
‫دے سکتے ہیں۔ تحدیث بالنعمہ کے طور پر بتا رہا ہوں کہ میں‬
‫نے ایم اے کے پرچوں میں کئی غلطیوں کی نشاندہی کی اور آپ‬
‫کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ بی اے کے پرچے میں ثالثی کی‬
‫گردان کا سوال بھی تھا۔ اس لئے آپ اپنی تعلیم میں اگر قابلیت‬
‫رکھتے ہیں تو کسی ڈگری سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ مدارس‬
‫میں عربی گرامر کا جتنا علم دو سال میں حاصل ہو جاتا ہے‪،‬‬
‫سرکاری جامعات کے نصاب میں ایم اے کی سطح پر بھی اس کا‬
‫احاطہ نہیں ہو سکتا۔‬

‫اس پر ایک لطیفہ سنئے۔ ایم اے کے امتحان میں سو نمبر زبانی‬


‫امتحان کے بھی ہوتے ہیں۔ ہمارا یہ امتحان جامعہ پنچاب کے‬
‫شعبہء عربی کے حالیہ سربراہ ڈاکٹر خالق داد ملک صاحب لے‬
‫رہے تھے۔ ایک لڑکے نے باہر آ کر بتایا کہ وہ تو عربی میں‬
‫رولنمبر بھی پوچھتے ہیں۔ ہمارے ساتھ امتحان دینے والے ایک‬
‫صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے یار جلدی سے رولنمبر‬
‫کا ترجمہ بتاؤ۔ میں نے بتا دیا۔ ان کے رولنمبر کے آخر میں اکتیس‬
‫تھا۔ میں نے کہا ’واحد وثالثین‘ اور انہوں نے لکھا ’واحد‬
‫وسالطین‘۔ اندازہ لگائیے کہ واحد وسالطین اگر ہندسہ ہو سکتا‬
‫ہے تو باقی عربی کا کیا حال ہوگا؟‬

‫ادارہ علوم اسالمی میں شروع کے دن اچھے تھے۔ تنخواہ مل‬


‫جاتی تھی اور میں تھا بھی اکیال‪ ،‬اس لئے کوئی مشکل پیش نہیں‬
‫آتی تھی جبکہ مسجد کی امامت اور کتب خانے کی ذمہ داری بھی‬
‫مجھے دے دی گئی تو اس سے آمدن میں بھی اضافہ ہو گیا۔ رہائش‬
‫بھی ادارے کے اندر تھی لیکن یہاں ایک سال کا عرصہ گزرنے‬
‫سے پہلے ہی میں کرائے کے مکان میں منتقل ہو گیا اور اہلیہ‪،‬‬
‫چھوٹے بھائی اور بھتیجے کو بھی لے آیا۔‬

‫اب صورت حال تھوڑی بدلنے لگی کیونکہ ضروریات بڑھ گئیں‬
‫جس کی وجہ سے وسائل کم پڑنے لگے۔ اوپر سے افتاد یہ کہ‬
‫تنخواہ کبھی ملتی‪ ،‬کبھی نہ ملتی۔ کبھی نوبت یہاں تک آ جاتی کہ‬
‫تین تین چار چار ماہ مکمل تنخواہ کا نام نہیں جبکہ وقتا ً فوقتا ً مانگ‬
‫مانگ کر کچھ پیسے مل جاتے جن سے کبھی کام چل جاتا اور‬
‫کبھی نہ چل سکتا۔ انتظامیہ کے پاس ایک ہی بات ہوتی تھی کہ‬
‫اس وقت کچھ نہیں‪ ،‬پیسے آ جائیں گے تو دے دیں گے۔ اس وقت‬
‫بعض واقعات بڑے تکلیف دہ بھی پیش آئے۔ ایک بار میری اہلیہ‬
‫کی طبیعت خراب ہو گئی۔ میں ان کو قریب واقع ایک کلینک لے‬
‫گیا۔ وہاں ان کو ڈرپ لگائی گئی مگر میرے پاس ڈرپ کے پیسے‬
‫نہیں تھے۔ چنانچہ میں نے مہتمم صاحب کو فون کیا۔ وہ خود‬
‫تشریف الئے مگر پیسے اتنے ہی مل سکے جن سے میں مریض‬
‫کی فیس دے کر اسے گھر لے گیا۔‬

‫درج ذیل ظریفانہ غزل اسی زمانے کی یادگار ہے ؎‬

‫نہ چینی ہے نہ پتی ہے نہ سبزی ہے نہ روٹی ہے‬


‫یہ کیسی سرزمیں آ کر پیارے تم نے جوتی ہے‬

‫کچھ‬ ‫بیوی مریضہ ہو ‪ ،‬تو پلے‬ ‫اگر‬


‫نہیں ہوتا‬
‫ہزاروں میں مگر تنخواہ تمہاری پھر بھی ہوتی ہے‬
‫کسی نے جب کسی بھی جیب میں دو انگلیاں ڈالیں‬
‫لگا کہ مال کی تھیلی اسی پاکٹ میں ہوتی ہے‬

‫مہینہ تیس کا جب تھا یہاں تو سو کا ہوتا ہے‬


‫مگر پیسوں کی بابت جان! قسمت سب کی کھوٹی ہے‬

‫کہا بیتے وہ دن پیارے کروڑوں خرچ کر ڈالے‬


‫مگر اب تو روپے پر بھی کروڑ اک بات ہوتی ہے‬

‫سنا جب نالہ یہ میرا فرشتے رو پڑے فورا ً‬


‫کہاں ایماں کہاں کا دیں روپوں کی بات ہوتی ہے‬

‫ہمہ درد ہو گئے ہمدرد ولے اے جان من میرے‬


‫نہیں کرسی صدارت کی میں جنبش پھر بھی ہوتی ہے‬

‫ایک اور غزل کے کچھ شعر یوں تھے ؎‬

‫اگر بروقت ادارہ یہ مجھے تنخواہ دیا کرتا‬


‫تو اپنے سب فرائض کو بخوبی میں ادا کرتا‬

‫کسی سے قرض لیتا تو اسے لوٹا بھی دیتا میں‬


‫کسی سے جان کر کوئی نہ ہرگز میں دغا کرتا‬

‫یہ غربت گر نہ ہوتی تو مرے یارو مرے یارو‬


‫میں قہوے سے بھی بچنے کو نہ ہرگز یوں چھپا کرتا‬

‫اگر پلے میں کچھ ہوتا تمہیں مرغے کھالتا میں‬


‫مری گر جیب پر ہوتی نہ تم سے یوں بچا کرتا‬
‫ترا ہمدرد پہلے تھا تو اب بھی ہوں وہی ہمدرد‬
‫نہیں پھرتا ضرورت کے سوا میں واوال کرتا‬

‫⚝‬

‫مکان کے کرائے اور دکاندار کے پیسوں میں بھی یہی تاخیر‬


‫معمول بن گئی کیونکہ کوئی اور ذریعہ آمدن تھا نہیں۔ ہللا بھال‬
‫کرے ہمارے مالک مکان بڑے اچھے آدمی تھے۔ جب تک ان کے‬
‫مکان میں رہے انہوں نے کبھی پریشان نہیں کیا البتہ دکاندار نے‬
‫ایک بار ایسی بات کر دی کہ ساری عمر کے لئے ایک سبق مل‬
‫گیا۔ اس زمانے میں بھی میرا اصول یہ رہا کہ ادھار سب سے‬
‫پہلے باقی کام بعد میں۔ چنانچہ جب بھی پیسے ملتے گھر میں‬
‫داخل ہونے سے پہلے دکاندار کے پیسے دیتا‪ ،‬پھر مکان کا کرایہ‬
‫اور اس کے بعد کوئی اور کام۔‬

‫ایک بار میں گھر آیا تو اہلیہ نے بتایا کہ دن کو مہمان تھے۔ میں‬
‫نے بچے کو بھیجا مگر دکاندار نے بسکٹ دینے سے انکار کر‬
‫دیا اور کہا کہ جب تک پچھلے پیسے نہیں دو گے‪ ،‬نیا ادھار نہیں‬
‫دوں گا۔ میں اسی وقت دکاندار کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ‬
‫کھاتہ نکالیں۔ اس نے کاپی آگے کر دی تو میں نے لکھائی سے‬
‫نیچے لکیر کھینچ کر بتایا کہ میرا آپ کا ادھار اس لمحے سے‬
‫اختتام کو پہنچا۔ اس کے بعد اگر ایک سوئی بھی میرے گھر میں‬
‫ادھار کی گئی تو میں اس کا ذمہ دار نہیں۔ دکاندار کہنے لگا قاری‬
‫صاحب‪ ،‬آپ خواہ مخواہ ناراض ہو رہے ہیں‪ ،‬میں نے بچے سے‬
‫مذاق کیا تھا۔ میں نے کہا آپ نے مذاق بھی درست ہی کیا کیونکہ‬
‫جب آپ کو یہ معلوم تھا کہ میں جب بھی پیسے لے کے آتا ہوں‬
‫تو آپ کا ادھار چکا کر گھر میں داخل ہوتا ہوں تو آپ کو بچے‬
‫سے بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے بعد جس دن میں‬
‫اس کو پیسے دینے گیا‪ ،‬اپنا کھاتہ بھی ساتھ لے گیا اور پیسے‬
‫دینے کے بعد اس کے چار ٹکڑے کر کے ادھر ہی پھینک دئے۔‬
‫اس طرح دکانداروں کے کھاتے سے ہللا نے نجات دے دی اور‬
‫اب تک ہللا کے فضل سے بڑی آزادی اور مرضی کی دکان سے‬
‫خریداری کرتا ہوں۔‬

‫صاحبو‪ ،‬ادھار بڑی بری بال ہے۔ یہ دکاندار اور گاہک کے درمیان‬
‫ہو‪ ،‬تاجر اور تاجر کے درمیان ہو یا ادارے اور ادارے کے‬
‫درمیان یا ملک اور ملک کے درمیان‪ ،‬یہ اپنی نحوست کا اثر‬
‫ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ ادھار لینے والے کا ہمیشہ استحصال ہوتا‬
‫ہے۔ آج اگر آئی ایم ایف پاکستان سے اپنی شرطیں منواتا ہے اور‬
‫ہمارے حکمران اس کی ہر غلط اور صحیح بات مانتے ہیں تو اس‬
‫کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم اپنی خواہشات کو کم کرنے کی بجائے‬
‫ادھار لے کر اپنی عزت اور مفادات کا سودا کرتے ہیں۔ اسی لئے‬
‫آزاد رہنے کا گر بتاتے ہوئے اقبال نے کہا ہے ؎‬

‫اے مرے فقر غیور!‬ ‫اب فیصلہ تیرا ہے‬


‫خلعت انگریز یا پیرہن چاک چاک‬

‫اسی طرح مشہور صحابی حضرت عبد ہللا ابن شداد بن اوس‬
‫رضی ہللا عنہ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا‪:‬‬
‫’’ بیٹے! میں نے ساری اچھی چیزیں چکھ کر دیکھ لی ہیں‪ ،‬ان‬
‫میں عافیت سے اچھی چیز کوئی نہیں۔ میں نے ساری تلخ چیزیں‬
‫چکھ کر دیکھ لی ہیں‪ ،‬ان میں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیالنے‬
‫سے زیادہ تلخ کوئی چیز نہیں اور میں نے لوہے اور چٹانوں کو‬
‫ہٹا لیا لیکن قرض سے زیادہ بھاری چیز کوئی نہیں‘‘۔ مجھے آپ‬
‫کا یہ قول اس قدر اچھا لگتا ہے کہ میں نے اسے عربی میں‬
‫‪۱۹۹۴‬ء کے روزنامچے کے سر ورق پر درج کر لیا تھا۔ عملی‬
‫زندگی میں اس کا تجربہ ہوا۔‬

‫خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ میں ادارہ علوم اسالمی کی‬
‫بات کر رہا تھا۔ یہاں میں نے نحو اور صرف کے عالوہ سارے‬
‫ہی مضامین پڑھائے جن میں فقہ‪ ،‬اصول فقہ‪ ،‬تفسیر‪ ،‬اصول‬
‫تفسیر‪ ،‬حدیث‪ ،‬اصول حدیث شامل ہیں لیکن عربی زبان وادب سے‬
‫شاید زیادہ دلچسپی رہی۔ اس لئے العربیہ للناشئین کے سارے سبق‬
‫میرے پاس ہوتے تھے اور دیوان المتنبی‪ ،‬مقامات الحریری اور‬
‫دیوان الحماسہ بھی پڑھایا۔ اسی طرح اردو اور فارسی بھی پڑھائی‬
‫جبکہ عصری مضامین والے دوست جغرافئے کے ابواب بھی‬
‫میرے لئے چھوڑ دیا کرتے تھے۔‬

‫عربی پڑھاتے وقت میری کوشش ہوتی تھی کہ ترجمے کی‬


‫بجائے براہ راست سمجھاؤں۔ اس لئے جو چیزیں دکھانا ممکن‬
‫ہوتیں وہ دکھاتا تھا۔ اس کے عالوہ ہفتے میں ایک دن سبق درسگاہ‬
‫کے باہر چلتے پھرتے ہوتا تھا۔ طلبہ کو ساتھ لے کر کسی بھی‬
‫جگہ جاتا اور ان سے وہاں موجود چیزوں کے نام پوچھتا اور جو‬
‫ان کو معلوم نہ ہوتا وہ بتاتا اور وہ ساتھ ساتھ کاپی میں لکھتے‬
‫جاتے۔ یہ سبق بڑا دلچسپ ہوتا تھا۔‬

‫اتفاق کی بات ہے کہ ایک سال مجھے ششم کے طلبہ کے لئے فقہ‬


‫کی ایک کتاب تیار کرنے کا حکم مال اور ساتھ ہی مشورے سے‬
‫اس کے اصول بھی طے کر لئے گئے۔ چنانچہ ان اصولوں کی‬
‫روشنی میں‪ ،‬میں نے قدوری کے عبادات کے ابواب کی‬
‫اصطالحات اور مسائل آسان اردو میں لکھنے شروع کئے اور ہللا‬
‫کے کرم سے سال کے آخر تک عبادات کا حصہ مکمل ہو گیا۔‬
‫میں روز کا سبق روز لکھ کر فوٹو سٹیٹ کر کے طلبہ کو پڑھاتا‬
‫تھا۔ اس کے بعد کچھ اور احباب نے بھی وہ کتاب پڑھائی۔‬

‫بعد ازاں شاید ‪۲۰۰۳‬ء میں استادی وموالئی حضرت ڈاکٹر مفتی‬
‫نظام الدین شامزئی شہید ادارے میں تشریف الئے تو میں نے کتاب‬
‫ان کو دکھائی۔ جس کی انہوں نے بڑی تحسین فرمائی‪ ،‬اسے‬
‫چھاپنے کا مشورہ دیا اور کراچی جا کر مفصل تقریظ بھی لکھ‬
‫بھیجی۔ اس پر میں نے مہتمم صاحب سے اسے چھاپنے کے‬
‫بارے میں مشورہ کیا تو فرمانے لگے کہ میں نے مذکرات فی‬
‫النحو لکھی ہے اور ایک زمانے سے پڑھائی بھی جا رہی ہے‬
‫لیکن میں نے اسے نہیں چھاپا۔ ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اگر‬
‫آپ اسے چھاپنا ہی چاہتے ہیں تو پھر اس میں ادارے کا نام نہیں‬
‫ہونا چاہئے۔ ان کی احتیاط اپنی جگہ اچھی چیز تھی کہ کوئی غلط‬
‫چیز ان کے ادارے کی جانب منسوب نہ ہو مگر میں نے اس کے‬
‫دیباچے سے ادارے کا نام نکال کر اپنے خرچے پر چھاپ دی‬
‫اور جب کتاب زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منصہء شہود پر‬
‫جلوہ گر ہوئی تو اسے ادارے کے نصاب سے خارج کر دیا گیا۔۔‬

‫تین سال تک تمام تر مالی مشکالت کے باوجود ادارے کا چوبیس‬


‫گھنٹے کا مالزم رہا لیکن اس کے بعد ہمت جواب دینے لگی تو‬
‫کسی نئی مالزمت کی تالش شروع کی۔ ہری پور کے قریب بگڑہ‬
‫نامی گاؤں میں دار حراء لالجیال کے نام سے یتیم بچوں کے لئے‬
‫ایک عربی ادارہ کام کرتا تھا۔ میں نے وہاں درخواست بھیجی تو‬
‫بالوا آ گیا۔ وہاں جا کر انٹرویو دیا تو ادارے کے سربراہ کہنے‬
‫لگے کہ ہم آپ کو شروع میں دس ہزار روپے ماہانہ دیں گے اور‬
‫بعد میں اس میں اضافہ بھی کریں گے۔ آپ اسی ہفتے سے تشریف‬
‫الئیں۔ میں نے کہا اتنی جلدی نہیں آ سکتا کم از کم دو ہفتے کی‬
‫مہلت چاہئے کیونکہ میں ایک اور ادارے میں کام کرتا ہوں‪ ،‬وہاں‬
‫کے معامالت کو سمیٹنا ہوگا۔‬
‫اس وقت شاید میں نے استعفی بھی پیش کر دیا تھا لیکن ایک‬
‫فلسطینی دوست کے ایک جملے نے اسالم آباد سے نکلنے سے‬
‫روک دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’جو خدا آپ کو ہری پور میں رزق‬
‫دے سکتا ہے‪ ،‬وہ اسالم آباد میں کیوں نہیں دے سکتا؟ اس لئے‬
‫تعالی کوئی رستہ نکال دے گا‘‘۔ چنانچہ میں نے‬
‫ٰ‬ ‫محنت کریں‪ ،‬ہللا‬
‫دار حراء والوں سے معذرت کر لی اور ہمارے مہتمم صاحب نے‬
‫بھی کہہ دیا کہ اگر آپ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض‬
‫نہیں۔ اس طرح میں دوبارہ ادارہ علوم اسالمی میں رہ گیا لیکن اب‬
‫کل وقتی کی بجائے جز وقتی ہو گیا۔ اب میں چوبیس گھنٹے کا‬
‫نہیں بلکہ تعلیمی اوقات کا مالزم تھا اور اس کے بعد آزاد۔ آزادی‬
‫کے اس وقت کے مشاغل آپ نے ’’میں اور ترجمہ‘‘ میں پڑھ‬
‫لئے ہوں گے۔‬

‫مشکالت کے اسی زمانے میں میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ‬


‫مالزمت کی تالش میں مدرسۃ الحسنین فیصل آباد بھی گیا۔ اسی‬
‫طرح کراچی جانے کی بھی کوشش کی مگر الہور کے قریب بس‬
‫کو حادثہ پیش آ گیا جس میں میری دو پسلیاں ٹوٹ گئیں تو ایک‬
‫چلہ صاحب فراش رہنا پڑا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان حاالت میں‬
‫بھی میرے دل میں تدریس سے الگ ہونے کا خیال نہیں آیا اور‬
‫آج بھی میرا خیال نہیں بلکہ عقیدہ ہے کہ تدریس سے اچھا کوئی‬
‫پیشہ دنیا میں ہے ہی نہیں۔‬

‫اسی دوران مجھے ادارہ علوم اسالمی میں مدیر انتظامی امور‬
‫بھی بنایا گیا۔ پڑھانے کے ساتھ ساتھ تقریبا ً دو سال اس عہدے پر‬
‫رہا۔ یہ زندگی کا ایک اور دلچسپ تجربہ تھا کہ ایک طرف طلبہ‬
‫کو سنبھالنا ہے‪ ،‬ان کے معامالت دیکھنے ہیں‪ ،‬ان کے مسائل حل‬
‫کرنے ہیں اور نظم کو برقرار رکھنا ہے جس کے لئے جزا وسزا‬
‫کے نظام پر عمل کرنا ہے۔ دوسری طرف اپنے ساتھی اساتذہ ہیں‬
‫جن سے کام لینا ہے‪ ،‬ان کی کوتاہیوں پر نظر رکھنی ہے اور ان‬
‫کو دور بھی کرنا ہے مگر مخاصمت کسی سے نہیں پالنی۔ تیسری‬
‫طرف انتظامیہ ہے جس سے احکام لینے اور نافذ کرنے ہیں اور‬
‫چوتھی جانب طلبہ کے والدین ہیں۔ ان سے بچوں کے حوالے سے‬
‫بات کرنی ہے‪ ،‬بچوں کے بارے میں ان کی شکایات سننی ہیں‬
‫اور اپنے خالف بچوں کی شکایات کا دفاع کرنا ہے۔ چومکھی‬
‫لڑائی اور ایک مشکل صورت حال تھی کیونکہ یہاں ترازو کے‬
‫دو کی بجائے چار پلڑے تھے اور ان سب کو برابر کرنا اور ان‬
‫میں توازن برقرار رکھنا ہے۔‬

‫اس دوران کئی واقعات پیش آئے جن میں سے چند ایک ذکر کرتا‬
‫ہوں۔ ایک بار کچھ طلبہ نے کوئی اجتماعی غلطی کی۔ اساتذہ کے‬
‫مشورے سے طے ہوا کہ وہ سب اسمبلی میں مجھ سے معافی‬
‫مانگیں گے۔ چنانچہ رات کو ہنگامی اسمبلی ہوئی جس میں ان‬
‫طلبہ نے معافی مانگی۔ یہ منظر میرے لئے بڑا ہولناک تھا۔ میں‬
‫سوچنے لگا کہ میں کون ہوتا ہوں کہ طلبہ مجھ سے معافی‬
‫مانگیں؟ اس خیال کے آتے ہی جو کیفیت ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔‬
‫میری آواز رندھ گئی اور آنکھوں سے بے اختیار آنسوؤں کی‬
‫جھڑی لگ گئی۔ اس کے بعد میری یہی کوشش رہی کہ ایسی‬
‫صورت حال دوبارہ کبھی پیدا نہ ہو۔‬

‫اب انتظامیہ اور اساتذہ کے درمیان پسنے کا ایک واقعہ مالحظہ‬


‫فرمائیے۔ ایک بار تنخواہ میں کافی تاخیر ہو گئی۔ مہتمم صاحب‬
‫ملک سے باہر تھے۔ اساتذہ میرے پاس آ کر تنخواہ کی بات کرتے۔‬
‫میں ان کو بتاتا کہ میں بے بس ہوں۔ وہ کہتے کہ آپ مدیر ہیں۔‬
‫ہمارے نمائندے ہیں انتظامیہ سے بات کریں۔ میں مرحوم ناظم عبد‬
‫الواحد صاحب کے پاس جا کر صورت حال بیان کرتا۔ وہ بڑی دو‬
‫ٹوک بات کیا کرتے تھے۔ کہتے کہ میرے پاس کچھ نہیں۔ جیسے‬
‫ہی کچھ آئے گا دے دیں گے۔ آخر کار انہوں نے کہہ دیا کہ آپ‬
‫مہتمم صاحب سے بات کریں۔ میں نے اساتذہ سے مشورہ کیا تو‬
‫وہ کہنے لگے کہ آپ صاف صاف بتا دیں کہ اکر یہی صورت‬
‫حال رہی تو پڑھانا مشکل ہو جائے گا۔‬

‫میں نے یہ بات مہتمم صاحب کو فون پر بتائی تو ان کو لگا کہ‬


‫شاید اساتذہ ہڑتال کی دھمکی دے رہے ہیں۔ کہنے لگے کہ میں‬
‫آتا ہوں پھر بات کریں گے۔ چنانچہ واپسی پر انہوں نے اساتذہ کا‬
‫اجالس بالیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ حاالت یہی ہیں۔ جو‬
‫صاحب رہنا چاہتے ہیں رہ جائیں‪ ،‬جو جانا چاہتے ہیں ان کے لئے‬
‫دروازے کھلے ہیں۔ مدرسہ چالنا کوئی فرض نہیں۔ میں اسے بند‬
‫کر دوں گا۔ یہ مجلس بڑی بدمزگی پر اختتام پذیر ہوئی۔‬

‫اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کسی ادارے میں انتظامیہ‬


‫اور مالزمین کے درمیان پل بننا کتنا مشکل کام ہے کیونکہ اس‬
‫میں آدمی مشکوک ہو جاتا ہے۔ انتظامیہ سمجھتی ہے کہ وہ‬
‫مالزمین کی طرفداری کرتا ہے اور مالزمین سمجھتے ہیں کہ وہ‬
‫انتظامیہ کا مہرہ ہے اور میرے خیال میں ایسے لوگ خال خال‬
‫ہی ہوتے ہیں جو ان دونوں میں توازن برقرار رکھ سکتے ہیں‬
‫ورنہ عام طور پر اس طرح کے عہدیدار انتظامیہ کی جیب میں‬
‫ہوتے ہیں اور بہت سی دفعہ مالزمیں کو اکسا کر خود فائدہ‬
‫سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔‬

‫اس نشیب وفراز کے ساتھ ادارہ علوم اسالمی میں تدریس کے چھ‬
‫سال مکمل ہوئے اور ‪۲۰۰۶‬ء میں سعودی سفارتخانے میں‬
‫استعفی دے کر کل وقتی تدریس سے الگ‬
‫ٰ‬ ‫مالزمت ملنے کے بعد‬
‫ہو گیا۔ اس پر منطقی اصول صادق آتا ہے کہ ’’نتیجہ ارذل کے‬
‫تابع ہوتا ہے‘‘۔ جس وقت میں نے ادارہ علوم اسالمی کو خیرباد‬
‫کہا‪ ،‬اس وقت مجھے وہاں سے تین ہزار اور کچھ روپے ماہوار‬
‫ملتے تھے کیونکہ میں جزوقتی تدریس کے عالوہ دیگر سارے‬
‫کام چھوڑ چکا تھا۔ اس کے عالوہ ایک جگہ ترجمے کے کام سے‬
‫پینتیس سو روپے مشاہرہ ملتا تھا۔ مزید لگی بندھی آمدنی کا کوئی‬
‫ذریعہ نہ تھا البتہ ترجمے کا کام بیچ میں آتا رہا۔ اسی چادر کے‬
‫اندر رہتے ہوئے گزارہ کرنا ہوتا تھا۔ ہللا کا الکھ الکھ شکر ہے‬
‫کہ اس نے قرضے سے محفوظ رکھا۔ اس لئے کچھ لوگوں کا‬
‫خیال تھا کہ میرے پاس پیسے بہت ہیں جو میں نے چھپا رکھے‬
‫ہیں۔ اس کی وجہ سے میرا خیال ہے کہ ہم بھائیوں میں بد گمانیوں‬
‫نے جنم لیا لیکن میں اپنا دل کس کس کو چیر چیر کر دکھاتا پھرتا۔‬

‫اس پر شیخ سعدی کی ایک حکایت یاد آ رہی ہے جو بڑے کام کی‬
‫چیز ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک بار ایک تاجر کو تجارت میں‬
‫سخت نقصان ہو گیا۔ اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بیٹا نقصان تو‬
‫ہو گیا مگر اس کا تذکرہ کسی سے مت کیجیو۔ بیٹے نے اس کی‬
‫حکمت پوچھی تو باپ نے کہا کہ اس سے دشمن کو ہم پر ہنسنے‬
‫کا موقع ملے گا یعنی جگ ہنسائی ہوگی۔ اس لئے میرے خیال میں‬
‫آدمی کے لئے مشکل وقت میں اپنے اوپر ضبط کر کے اپنے‬
‫حاالت کو عیاں نہ کرنا چاہئے۔ سفید پوشی اسی کو کہتے ہیں۔‬
‫ادارہ علوم اسالمی میں ہم پر ایسے دن بہت آئے اور نوبت یہاں‬
‫تک آ پہنچی کہ بعض اوقات ہمارے ایک ساتھی زکاۃ کی مد سے‬
‫بھی اساتذہ کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ آدمی‬
‫ناک تک مالی مشکالت میں گھرا ہو تو وہ تدریس کتنے جذبے‬
‫سے کرے گا؟‬

‫اسی مناسبت سے ایک لطیفہ بھی یاد آ گیا۔ ادارہ علوم اسالمی میں‬
‫تعالی ان کی مغفرت فرمائے‬‫ٰ‬ ‫زاہد نام کے ایک ڈرائیور تھے۔ ہللا‬
‫بڑے سمجھدار آدمی تھے۔ اس لئے میں ان کو فلسفی کہا کرتا تھا۔‬
‫ان کو مخزن اخالق کی بہت سی حکایات اور واقعات یاد تھے۔‬
‫ایک بار نئی نئی تنخواہ ملی تھی۔ میں ان دنوں پرنسپل تھا۔ ہمارے‬
‫ایک ساتھی درسگاہ میں اونچی آواز سے پڑھا رہے تھے۔ زاہد‬
‫صاحب باہر سے گزرے۔ میں بھی برآمدے میں کھڑا تھا۔ وہ اپنے‬
‫مخصوص انداز سے مسکرائے‪ ،‬مونچھوں پر ہاتھ پھیرا اور‬
‫کہنے لگے ’’ہمدرد صاحب‪ ،‬ایہ تکو ناں‪ ،‬تنخواہ ملنی تے فیر اس‬
‫طراں اواز لکوڑنی۔‘‘ (ہمدرد صاحب‪ ،‬دیکھئے‪ ،‬جب تنخواہ ملتی‬
‫ہے تو اس طرح آواز نکلتی ہے)۔ یہ جملہ بظاہر ایک مزاحیہ‬
‫تبصرہ ہے لیکن اس کے اندر حقیقت کا دریا موجزن ہے کہ‬
‫مدرس کو مالی مشکالت سے فارغ البال کئے بغیر اس سے اچھی‬
‫کارکردگی کی توقع رکھنا عبث ہے لیکن سالم ہے مدارس کے‬
‫مدرسین کو کہ وہ ایسے ناگفتہ بہ حاالت میں بھی اپنے فرائض‬
‫بڑی خوبی سے انجام دیتے ہیں۔‬

‫اس موقع کی مناسبت سے یہ بات شاید بے محل نہ ہوگی کہ تنخواہ‬


‫کی مقدار کیا ہونی چاہئے۔ ہمارے ہاں سرکاری اداروں میں تنخواہ‬
‫کے درجے مقرر ہیں اور ہر درجے کی تنخواہ‪ ،‬اضافی االؤنس‬
‫اور اس زمرے کے مالزم کی سفری ضروریات اور رہائش کی‬
‫قسم یا اس کے متبادل کرائے کا ایک پورا نظام ہے۔ اسی طرح‬
‫سرکاری اداروں کے مالزمین کے لئے سبکدوشی کے بعد بھی‬
‫تاحیات پنشن کی سہولت بھی ہوتی ہے۔ سرکاری مالزمین کی‬
‫بھرتی کے وقت ان کا زمرہ طے ہو جاتا ہے جس کی بنیاد تعلیمی‬
‫سند پر ہوتی ہے اور بعد ازاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی‬
‫کا بھی ایک نظام ہے جس سے مالزم کی تنخواہ میں اضافہ ہوتا‬
‫جاتا ہے اور وہ اپنی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔‬

‫اس کے مقابلے میں پاکستان میں نجی اداروں میں صرف تنخواہ‬
‫ہوتی ہے باقی کچھ مراعات کہیں ہوتی ہیں اور کہیں نہیں اور‬
‫تنخواہ کی تعیین میں بھی ہر ادارہ آزاد ہوتا ہے۔ چونکہ مدارس‬
‫دینیہ بھی نجی ادارے ہیں۔ اس لئے یہاں بھی یہی نظام رائج ہے‬
‫اور تنخواہیں اول تو عام طور پر بہت کم ہوتی ہیں اور پھر ان‬
‫میں ساالنہ اضافے کا بھی کوئی لگا بندھا نظام نہیں اگرچہ وقتا ً‬
‫فوقتا ً ان میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جن مدارس کو‬
‫وسائل دستیاب ہوتے ہیں‪ ،‬ان کو اپنا کام چالنے میں کوئی مشکل‬
‫پیش نہیں آتی لیکن جہاں وسائل کم ہوں‪ ،‬وہاں مشکالت ہوتی ہیں‬
‫اور عجیب بات یہ ہے کہ ان مشکالت کا سب سے پہال شکار‬
‫مدرس ہوتا ہے کیونکہ باورچی خانہ اور انتظامی امور بہر حال‬
‫کسی نہ کسی طریقے سے چالئے جاتے ہیں۔‬

‫ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا اور جب ادارہ علوم اسالمی میں‬
‫تنخواہوں کا بحران زور پکڑ گیا تو قواعد وضوابط بنا کر ان کی‬
‫روشنی میں مدرسین کو مدرسے کے باورچی خانے سے گھر‬
‫کے ل ئے کھانا لینے کی بھی اجازت دی گئی۔ اس سے ہمیں یہ‬
‫فائدہ ہوا کہ کم از کم فاقوں کی نوبت نہیں آئی لیکن بعض اوقات‬
‫مدرسے سے کھانا لینے کے لئے آنے کا کرایہ مہیا کرنا بھی‬
‫مشکل ہوتا تھا۔‬

‫میرا خیال یہ ہے (جو غلط بھی ہو سکتا ہے) کہ تنخواہ کم از کم‬


‫اتنی ہونی چاہئے جس سے بنیادی ضروریات با آسانی پوری ہو‬
‫سکیں۔ اس کو آپ کفالت بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسالمی نظام کے‬
‫آغاز میں حضرت ابو بکر صدیق رضی ہللا عنہ کی تنخواہ مقرر‬
‫کی گئی تو ان کی ضروریات کو پیش نظر رکھا گیا تھا۔ یہ بات‬
‫اس لئے بہت معقول اور منطقی ہے کہ جس شخص کو آپ نے‬
‫اپنے کا م میں لگا کر اس کی آزادی سلب کر لی ہے‪ ،‬اب اس کی‬
‫کفالت بھی اس طرح کریں کہ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے‬
‫کے لئے کسی اور کا محتاج نہ رہے۔ شاید اسی بات کے پیش نظر‬
‫مغرب میں فی گھنٹہ اجرت کی کم سے کم حد بھی مقرر کر دی‬
‫گئی ہے تاکہ کسی کا استحصال نہ کیا جا سکے۔ ہمارے ہاں ابھی‬
‫اس بارے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‬

‫میں بعض اوقات سوچتا ہوں کہ سرکاری اداروں میں گریڈ سسٹم‬
‫ہونے کے باوجود کفالت کا عنصر غائب ہے۔ مثال کے طور پر‬
‫ایک آدمی پانچویں گریڈ میں مالزم ہے۔ اس کے پانچ بچے اور‬
‫کرائے کا مکان ہے لیکن اس کی تنخواہ پندرہ ہزار ہے جبکہ ایک‬
‫آدمی سترہویں گریڈ میں ہے‪ ،‬اس کی شادی نہیں ہوئی‪ ،‬نج کا مکان‬
‫ہے مگر مشاہرہ پچاس ہزار ہے۔ ایسے میں یہ سوال تو بہر حال‬
‫پیدا ہوتا ہے کہ گریڈ پانچ واال کس طرح گزارہ کرتا ہوگا!‬

‫مدارس کے نظام میں ایک اور مسئلہ حفظ اور کتابوں کے اساتذہ‬
‫کے اعزازیے کا فرق بھی ہے۔ ذرا کام کی نوعیت دیکھئے کہ‬
‫قاری صاحب فجر کے بعد طلبہ کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور‬
‫بعض جگہ تو تہجد کے وقت سے حفظ کی پڑھائی شروع ہو جاتی‬
‫ہے۔ یہ سلسلہ ناشتے کے وقت رک جاتا ہے۔ ناشتے سے فارغ ہو‬
‫کر دوبارہ دوپہر تک پڑھائی‪ ،‬پھر ظہر کے بعد عصر تک تعلیم‬
‫اور عصر سے مغرب تک چھٹی۔ مغرب کے بعد ایک بار پھر‬
‫پڑھائی شروع ہو جاتی ہے جو رات کو عشاء تک جاری رہتی‬
‫ہے۔‬

‫دوسری طرف کتابوں کے اساتذہ کا کام عام طور پر ناشتے کے‬


‫بعد شروع ہوتا ہے۔ چار گھنٹے ظہر سے پہلے اور دو گھنٹے‬
‫ظہر کے بعد پڑھائی کے ہوتے ہیں۔ ان میں بھی سب اساتذہ سب‬
‫گھنٹے نہیں پڑھاتے بلکہ کچھ چھوٹ بھی مل جاتی ہے۔ مغرب‬
‫کے بعد جن مدارس میں تکرار مطالعے کی لگی بندھی ترتیب‬
‫ہوتی ہے وہاں کچھ اساتذہ نگرانی کے لئے بھی حاضر ہوتے ہیں‬
‫لیکن سب کی حاضری الزمی نہیں ہوتی البتہ عالم اور قاری میں‬
‫ایک فرق یہ ہوتا ہے کہ عالم کو (ّاگر اچھی طرح پڑھانا چاہے‬
‫تو) ڈٹ کر مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور حفظ کے استاد کو روزانہ‬
‫مطالعے کی حاجت نہیں ہوتی کیونکہ اسے قرآن کریم پہلے سے‬
‫یاد ہوتا ہے۔‬
‫اس موازنے کے بعد مجھے ایسا لگتا ہے کہ قراء حضرات کا‬
‫مشاہرہ اگر علماء سے زیادہ نہ ہو تو ان سے کم نہیں ہونا چاہئے۔‬
‫اس فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ اس وقت بہت سے مدارس کو تجوید‬
‫کا شعبہ چالنے کے لئے اساتذہ ملنا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ‬
‫انٹرنیٹ کی برکت سے ’’قرآن کریم کی بین االقوامی فاصالتی‬
‫تعلیم‘‘ نے قراء کی محنت بہت کم اور آمدنی بہت بڑھا دی ہے۔‬
‫میں اس تعلیم کا دل سے حامی ہوں کیونکہ اس میں جہاں قاری‬
‫کی کفالت ہو رہی ہے‪ ،‬وہاں ایسے ایسے عالقوں میں مسلمانوں‬
‫کے بچوں کو قرآن کریم پڑھنے کا موقع مل رہا ہے جہاں لوگ‬
‫جمعہ پڑھنے کے لئے دو دو تین تین سو میل کا سفر بھی کرتے‬
‫ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اہل مدارس سے گزارش کرنا چاہتا‬
‫ہوں کہ قراء کے حال پر بھی رحم فرمائیں اور ان کی مناسب‬
‫کفالت کے ذریعے ان کو مدارس کی جانب راغب کریں ورنہ خدا‬
‫نخواستہ حفظ اور تجوید کے شعبے کو شدید خطرات الحق ہیں‬
‫کیونکہ مادیت کے اس دور میں صرف فضائل سنا کر کسی کو‬
‫قائل کرنا بہت مشکل ہے۔ اگرچہ خدا کی دھرتی اس کی کتاب کے‬
‫سچے اور بے لوث خادموں سے خالی نہیں ‪ ،‬بقول اقبال ؎‬

‫جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں‬


‫کہیں سے آب بقائے دوام ال ساقی‬

‫یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ کوئی بھی تعلیمی ادارہ چالنے میں‬
‫استاد کا کردار بنیادی ہے۔ اس لئے اگر مدرس خوش ہوگا تو ادارہ‬
‫اچھا چلے گا کیونکہ وہ دائیں بائیں جانے یا کوئی اور مالزمت‬
‫تالش کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ پھر مدرس کو خوش کرنے‬
‫کے لئے صرف اچھی تنخواہ ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ‬
‫ایسا رویہ اپنایا جائے جس سے اسے وہ ادارہ اپنا لگنے لگے اور‬
‫وہ قواعد وضوابط کے دائرے کے باہر بھی اس کے لئے بھالئی‬
‫سوچنے لگے۔‬

‫ہم نے سنا کہ بعض لوگ یہاں تک بھی کہہ دیتے ہیں کہ ’’جس‬
‫کو ہم نے اپنے پاس رکھا ہے‪ ،‬اپنے فائدے لئے رکھا ہے اور جو‬
‫ہمارے پاس رکا ہوا ہے‪ ،‬اپنے فائدے کے لئے رکا ہوا ہے۔‘‘ اس‬
‫میں کوئی شک نہیں آجر اور اجیر کے درمیان تعلق کو بیان کرنے‬
‫کے لئے ان سے بہتر الفاظ شاید نہیں ہو سکتے کیونکہ مالزمت‬
‫کا آخری نتیجہ یہی ہے لیکن مفاد پر مبنی اس اصول کے ذریعے‬
‫آپ کسی کا دل کبھی نہیں جیت سکتے۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ ہوتا‬
‫ہے کہ اجیر یہ سوچنے لگتا ہے کہ جب تعلق صرف مفاد تک ہے‬
‫تو اس کے بعد مجھے اپنی ذمہ داری سے مزید کوئی کام کرنے‬
‫کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے مظاہر ہم نے دیکھے ہیں اور شاید‬
‫آپ کا تجربہ بھی اس سے مختلف نہ ہوگا۔‬

‫ایک بار کسی آدمی سے بات ہو رہی تھی۔ سردی کا موسم تھا۔ اس‬
‫نے بتایا کہ عالمی بینک اپنے ڈرائیوروں کو بھی گھر کی دہلیز‬
‫پر پہنچاتا اور وہاں سے لے جاتا ہے۔ ایک بار کوئی پاکستانی‬
‫افسر ان کے دفتر میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ‬
‫ڈرائیور ایک اچھے اور گرم کمرے میں بیٹھے ہیں‪ ،‬جبکہ ہمارے‬
‫ہاں کا افسرانہ رویہ سب کو معلوم ہے کہ صاحب خود تو گرما‬
‫میں ایر کنڈیشنڈ کمرے میں تشریف فرما ہیں اور سرما میں اچھے‬
‫گرم کمرے میں بیٹھے ہیں لیکن صاحب کا گاڑی بان لو میں‬
‫جھلس رہا ہے یا کسی کونے کھدرے میں کھڑا یا بیٹھا ٹھٹھر رہا‬
‫ہے۔ چنانچہ اس پاکستانی افسر نے عالمی بینک کے افسر سے‬
‫کہا کہ آپ نے ڈرائیوروں کو بہت سہولیات دے رکھی ہیں۔‬

‫اس پر اس نے جواب دیا کہ یہ سہولیات ہم نے ان کو نہیں بلکہ‬


‫اپنے آپ کو دے رکھی ہیں کیونکہ جب ان کے بیٹھنے کے لئے‬
‫مناسب جگہ ہوگی تو وہ اطمینان سے بیٹھیں گے اور کوئی اور‬
‫سہولت حاصل ہوگی تو اس سے خوش ہوں گے اور اس کے‬
‫نتیجے میں ہمارا کام اچھی طرح کریں گے۔ ذرا سوچئے‪ ،‬ہمارے‬
‫ہاں تو افسری کا پہال خاصہ ہی یہی ہے کہ ماتحت کو جتنا دبا‬
‫سکتے ہو دباؤ۔ یہ رویہ بہت عام ہے لیکن کہیں کہیں ہللا کے نیک‬
‫بندے بھی پائے جاتے ہیں۔‬

‫خیر ‪ ۲۰۰۶‬میں‪ ،‬میں ادارہ علوم اسالمی سے تو الگ ہو گیا لیکن‬


‫تدریس سے الگ نہیں ہوا اور قریب ہی واقع مدرسۃ الکوثر میں‬
‫جز وقتی تدریس شروع کی۔ صبح ایک گھنٹہ پڑھا کر مالزمت‬
‫کے لئے چال جاتا تھا۔ میرے لئے خوشی کی بات یہ تھی کہ چلو‬
‫اس طرح تدریس کے ساتھ تعلق قائم رہے گا اور مزید کچھ‬
‫سیکھنے کا موقع ملے گا۔ یاد رکھئے علم بانٹنے سے بڑھتا ہے‬
‫ورنہ رفتہ رفتہ آدمی جاہل ہو جاتا ہے۔ میں نے اس کا تجربہ کیا‬
‫ہے۔ اگر آپ علمی رسوخ چاہتے ہیں تو پھر مزید مطالعہ کرنے‬
‫اور پڑھانے کے سوا کوئی اور رستہ نہیں۔‬

‫اس مدرسے میں میں نے فقہ‪ ،‬عربی ادب اور بالغت پڑھائی۔ یہاں‬
‫میرے کچھ شاگرد بھی استاد تھے جو میرا بے حد احترام کرتے‬
‫تھے۔ مہتمم بھی ہمارے ساتھی تھے۔ انہوں نے شروع میں یہ کہہ‬
‫کر معمولی سا مشاہرہ مقرر کر دیا کہ ہمدرد صاحب‪ ،‬ما شاء ہللا‬
‫اب آپ بر سر روزگار ہیں اور ان پیسوں کی آپ کو چنداں‬
‫ضرورت نہیں لیکن یہ ایک عالمتی چیز ہے مگر وہ عالمتی چیز‬
‫بھی شاید ایک دو بار ہی ملی ہوگی لیکن یہاں مجھے اس کا کوئی‬
‫قلق اس لئے نہیں تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ پڑھانا میری ضرورت‬
‫ہے کیونکہ مدرسے والے وہ ایک سبق کسی اور استاد کو بھی‬
‫دے سکتے تھے اور بعد میں یہی ہوا۔ گویا‬
‫؎منت منہ کہ خدمت سلطان ہمی کنی‬
‫منت شناس ازو کہ بخدمت بداشتت‬
‫‪‬‬
‫اس کے بعد ایک سال چک شہزاد میں موالنا عبد القدوس‬
‫محمدی صاحب کے ہاں عربی کے کورس والے طلبہ سے گپ‬
‫شپ کی۔ گپ شپ اس لئے کہہ رہاں ہوں کہ یہاں کوئی کتاب‬
‫مقرر نہیں تھی بلکہ طلبہ کو عربی زبان اور ترجمے سے‬
‫متعارف کرانا تھا جس میں صحافتی ترجمہ بھی شامل تھا۔ یہاں‬
‫طلبہ بھی عام نہیں تھے بلکہ اکثریت فارغ التحصیل لوگوں کی‬
‫تھی۔ اس لئے پڑھانے میں مزید لطف یہ تھا کہ طلبہ سمجھدار‬
‫ہیں اور اپنا برا بھال خود سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں چھوٹے‬
‫طلبہ کو پڑھانا زیادہ مشکل ہے لیکن جو لوگ صرف استادی‬
‫کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے چھوٹے طلبہ مناسب ہوتے ہیں‬
‫کیونکہ وہ ان سے زیادہ سوال جواب نہیں کر سکتے بلکہ جو‬
‫غلط صحیح کہہ دیا اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ اس کے مقابلے‬
‫میں بڑے طلبہ جہاں آپ کے دباؤ کے بغیر خود محنت کرتے‬
‫ہیں وہاں وہ آپ سے اہنے سواالت کا شافی جواب بھی مانگتے‬
‫ہیں۔ آپ ان کو ٹرخا نہیں سکتے۔‬

‫یہاں بھی میرا ایک ہی گھنٹہ ہوتا تھا جو پڑھا کر میں نکل جاتا‬
‫تھا۔ اس کورس میں شریک طلبہ نے فوری طور پر اچھا نتیجہ‬
‫دکھایا اور شاید ایک سال بعد نئے آنے والوں کو وہ خود پڑھانے‬
‫لگے۔ اس طرح یہاں سے بھی ہمارا کام ختم ہوگیا۔ یہاں اجرت‬
‫طے تو نہیں تھی لیکن ہر ماہ کے آخر میں محمدی صاحب پانچ‬
‫ہزار روپے گاڑی کا پٹرول کہہ کر دیتے تھے۔ اس پر مجھے‬
‫کبھی اعتراض نہیں ہوا۔ سچی بات یہ ہے کہ محبت اور احترام‬
‫کے ساتھ آپ دوسرے سے بڑے سے بڑا کام لے سکتے ہیں اور‬
‫محمدی صاحب کو ما شاء ہللا اس کام میں خداداد صالحیت حاصل‬
‫ہے۔‬
‫وقت گزر گیا اور بعد ازاں تدریس کا شوق جامعہ محمدیہ لے گیا۔‬
‫جہاں التبیان فی علوم القرآن‪ ،‬دیوان المتنبی اور دیوان الحماسہ‬
‫پڑھانے کا موقع نصیب ہوا۔ یہ کتابیں بھی بڑے درجات کی ہیں‬
‫اس لئے طلبہ سمجھدار ہوتے تھے لیکن مجھے عام طور پر ان‬
‫سے محنت نہ کرنے کی شکایت رہی۔ ہو سکتا ہے یہ میرا احساس‬
‫ہو جو سو فیصد غلط بھی ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں طالب علم‬
‫کی محنت یہ ہے کہ اول وہ سبق کی عبارت درست پڑھ سکتا ہو‪،‬‬
‫دوم اس کو سبق معلوم ہو اور سوم کم از کم سبق ایک بار دہراتا‬
‫بھی ہو۔‬

‫اس لئے میں مدارس کے عزیز طلبہ سے کہتا ہوں کہ اصل‬


‫اولی اور ثانیہ میں ہے جہاں آپ صرف ونحو پڑھتے ہیں‬ ‫پڑھائی ٰ‬
‫جو عربی زبان کی بنیاد ہے اور عربی زبان ہمارے سارے نصاب‬
‫کی اساس ہے۔ اس کے بعد اگلے دو سال میں کچھ کچھ پڑھائی‬
‫ہے جہاں آپ مزید علم سیکھتے ہیں جبکہ پانچویں سال سے‬
‫دورے تک سیکھنے کا موقع نہیں بلکہ یہ سمجھنے اور استاد کی‬
‫تقریر سننے کا وقت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے یہاں آپ کو استاد‬
‫عبارت یا صرف ونحو نہیں سکھاتا بلکہ آپ کے سیکھے ہوئے‬
‫علم کی بنیاد پر مفاہیم بیان کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان‬
‫درجات میں کتابیں بڑی اور وقت کم ہوتا ہے۔ اس لئے استاد طلبہ‬
‫سے سوال جواب بھی عام طور پر نہیں کر سکتا۔‬

‫اس بنیاد پر میری پختہ رائے یہ ہے کہ جو طالب علم رابعہ تک‬


‫عبارت صرف ونحو کے اصولوں کے عین مطابق نہیں پڑھ‬
‫سکتا‪ ،‬وہ ساری عمر ’’غین مطابق‘‘ پڑھتا رہے گا۔ اس کی‬
‫عبارت کبھی درست نہیں ہو سکتی۔‬

‫یہاں ایک بات ان دوستوں کے علم کے لئے عرض کر دوں جو‬


‫عربی علوم سے واقف نہیں۔ ہمارے عام معاشرے میں یہ سمجھا‬
‫جاتا ہے کہ عربی جہاں بھی لکھی جائے گی اس کے اوپر اعراب‬
‫لگے ہوں گے‪ ،‬جیسے قرآّن کریم میں ہے‪ ،‬تو اس کو پڑھنا کیا‬
‫مشکل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عربی زبان ہر جگہ اعراب لگا‬
‫کر نہیں لکھی جاتی جیسے اردو نہیں لکھی جاتی۔ اس لئے اس‬
‫کو درست پڑھنے کے لئے قواعد سکھائے جاتے ہیں اور آدمی‬
‫ان قواعد کہ رو سے فرفر پڑھتا چال جاتا ہے کیونکہ عربی کے‬
‫قواعد بہت مربوط ہیں اور اس کے سارے الفاظ کا سانچہ اور‬
‫وزن مقرر ہے۔‬

‫یہی وجہ ہے کہ بہت سے اردو دان اردو میں مستعمل عربی الفاظ‬
‫غلط بولتے ہیں۔ مثالً توجہ جیم پر زبر کے ساتھ‪ ،‬جد وجہد‪ ،‬دونوں‬
‫جیموں پر زبر کے ساتھ‪ ،‬من وعن میم اور عین دونوں پر زبر‬
‫کے ساتھ‪ ،‬حاالنکہ ان الفاظ کا یہ نطق بالکل غلط ہے اور عربی‬
‫قواعد سے واقف آدمی کبھی بھی یہ غلطی نہیں کر سکتا۔ اس لئے‬
‫اردو کو درست پڑھنے کے لئے عربی کا بنیادی علم ضروری‬
‫ہے۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ ایک بار اخبار میں مشہور بھارتی‬
‫گلوکار لتا منگیشکر کا انٹرویو پڑھا۔ اس سے سوال پوچھا گیا کہ‬
‫آپ اردو میں اتنا صاف کیسے گا لیتی ہیں (کیونکہ ہندی بولنے‬
‫والے اردو میں موجود عربی الفاظ کا درست تلفظ مشکل سے ہی‬
‫کر سکتے ہیں) تو اس نے جواب دیا کہ میں نے اردو دلی میں‬
‫ایک مولوی صاحب سے سیکھی تھی۔‬

‫بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ میں جامعہ محمدیہ کی بات کر رہا‬
‫تھا۔ یہاں میں نے تین چار سال پڑھایا اور ترتیب یہاں بھی یہی‬
‫تھی کہ نو بجے سے پہلے ایک سبق پڑھا کر دفتر چال جاتا تھا۔‬
‫وقت کی قلت کے سبب یہاں میری سرگرمیاں صرف اپنے ایک‬
‫سبق تک محدود رہیں کسی اور معاملے سے کوئی تعلق نہیں رہا‬
‫لیکن یہاں کی انتظامیہ اور اساتذہ نے جو محبت دی وہ یاد رہے‬
‫گی۔‬
‫اسی دوران مدارس کے ماحول سے نکل کر بین االقوامی اسالمی‬
‫یونیورسٹی کے شعبہء ترجمہ اور ترجمانی میں کچھ عرصہ‬
‫پڑھانے کا بھی موقع مال۔ یہ بھی ایک دلچسپ تجربہ تھا کیونکہ‬
‫یونورسٹی کی طرح ہماری کالس بھی بین االقوامی تھی جس میں‬
‫اکثریت چینی طلبہ کی تھی جبکہ چند پاکستانی اور کچھ طلبہ دیگر‬
‫ممالک کے بھی تھے۔ یہ لیکچر شام کو ہوتے تھے اس لئے چھٹی‬
‫کے بعد سیدھا کالس پہنچنا ہوتا تھا جہاں میں عربی انگریزی‬
‫ترجمے کے مختلف کورس پڑھاتا تھا۔‬

‫دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی زبان میں حروف نہیں بلکہ الفاظ کی‬
‫بنی بنائی مخصوص شکلیں ہیں۔ اس لئے اس میں آپ کوئی نیا لفظ‬
‫نہیں بنا سکتے۔ مثالً سارا چین مل کر ’’پاکستان‘‘ نہیں لکھ سکتا‬
‫کیونکہ پاکستان چینی زبان کا لفظ نہیں اور اس سے بھی عجیب‬
‫تر بات یہ ہے کہ پا‪ ،‬پو‪ ،‬اور پی میں پ کی تین مختلف شکلیں‬
‫ہوں گی۔ اس لئے یہ دنیا کی مشکل ترین زبان سمجھی جاتی ہے۔‬
‫اس کے مصمت حرف کے ساتھ عام طور پر مصوتہ بھی جڑا‬
‫ہوتا ہے۔ اس لئے پاکستان کو چینی ’’پا چی سی تھا نی‘‘ یا اس‬
‫قسم کا کوئی اور لفظ کہتے ہیں۔‬

‫یہ ساری کہانی سنانے کا مقصد اس بات کے لئے تمہید باندھنا‬


‫ہے کہ میرے لئے چینی طلبہ کی عربی اور انگریزی دونوں‬
‫سمجھنا مشکل ہوتا تھا اور اکثر اوقات کہنا پڑتا تھا کہ اپنا مدعا‬
‫لکھ کر بیان کریں۔ یہ تجربہ بڑا دلچسپ رہا۔ یہاں ایک لیکچر کے‬
‫آٹھ سو روپے ملتے تھے جن میں سے کچھ رقم ٹیکس کی مد میں‬
‫کٹ جاتی تھی اور باقی پیسے شاید آنے جانے کے خرچے کے‬
‫برابر یا اس سے بھی کم ہوتے ہوں گے لیکن خوشی کی بات یہ‬
‫تھی کہ تدریس جاری ہے۔ بعد میں یہاں پڑھانے کے لئے ایم فل‬
‫کی ڈگری الزمی قرار دے دی گئی جو میرے پاس نہیں تھی۔ اس‬
‫لئے تدریس سے الگ ہونا پڑا۔ اسی دوران میں نے ایم فل کر لیا‬
‫مگر دوبارہ رابطہ نہیں کیا۔‬

‫اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم قابلیت اور صالحیت نہیں‬


‫بلکہ ڈگری اور کاغذ کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ یہاں آدمی‬
‫کی نہیں بلکہ ڈگری کی قیمت ہے۔ اس لئے آپ کو جگہ جگہ‬
‫ایسے لوگ مل جائیں گے جو وہاں بیٹھنے کے قابل تو نہیں ہوتے‬
‫لیکن ان کے پاس وہاں تک پہنچنے کی ڈگری ہوتی ہے۔ اس پر‬
‫امام شافعی رحمہ ہللا کا ایک شعر یاد آ گیا فرماتے ہیں ؎‬

‫تموت االسد فی الغابات جوعا‬


‫و لحم الضان تاکلہ الکالب‬

‫شیر جنگل میں بھوکے مر رہے ہیں‬

‫جبکہ کتے دنبے اڑا رہے ہیں‬

‫جزوی تدریس کا یہ سلسلہ ‪ ۲۰۱۷‬تک جاری رہا۔ اس کے بعد‬


‫ایک نئی افتاد آگئی جس نے تدریس کا سلسلہ ختم کر دیا۔ ہوا یوں‬
‫کہ ہمارے دفتر والوں نے اوقات کار میں دو گھنٹے کا اضافہ کر‬
‫دیا۔ پہلے اوقات کار نو سے تین بجے تک تھے اور اب آٹھ سے‬
‫چار بجے تک ہوگئے۔ یوں آٹھ سے پہلے یا چار کے بعد پڑھانے‬
‫کا کوئی موقع نہ رہا تو جامعہ محمدیہ سے معذرت کرنا پڑی مگر‬
‫تدریس سے محرومی کا قلق اب بھی دل میں ہے۔‬

‫اس مناسبت سے میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ دنیا میں‬
‫تعلیم اور تدریس سے اونچا کوئی کام نہیں کیونکہ یہ انبیاء کا کام‬
‫ہے۔ زندگی کے دیگر شعبوں اور پیشوں میں آپ مادے سے‬
‫کھیلتے اور چیزیں بناتے ہیں جبکہ تعلیم انسان سازی کا کارخانہ‬
‫ہے۔ یہاں انسان بنائے جاتے ہیں۔ تعلیم آدمی کو زمیں کی خالفت‬
‫تعالی نے حضرت آدم علیہ‬
‫ٰ‬ ‫کا اہل بنانے کا عمل ہے کیونکہ ہللا‬
‫السالم کے بارے میں فرمایا ’’وعلم آدم األسماء كلھا‘‘ اور یہی‬
‫تعلیم فرشتوں پر ان کی فوقیت کی دلیل ٹھہری۔ اس لئے تعلیم اور‬
‫تدریس سے بڑا پیشہ کیا ہو سکتا ہے؟ کچھ عرصہ قبل کسی جگہ‬
‫پڑھا کی جرمنی میں طبیبوں اور مہندسین نے چانسلر انگیال مرکل‬
‫کے سامنے اپنی تنخواہیں اساتذہ اور مدرسین کے برابر کرنے کا‬
‫مطالبہ رکھا تو اس نے یہ کہہ کر ایک جملے میں ان کی‬
‫درخواست مسترد کر دی کہ ’’جن لوگوں نے آپ کو یہاں تک‬
‫پہنچایا ہے‪ ،‬میں آپ کو ان کے برابر کیسے کر سکتی ہوں؟‘‘‬

‫تعالی نے مالزمت‬
‫ٰ‬ ‫اس مقام پر میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ہللا‬
‫کے ذریعے وہ تمام چیزیں مجھے بہت کم عمری اور بہت کم‬
‫محنت سے عطا فرما دی ہیں جن کا ہمارے ملک میں حالل کمانے‬
‫اور کھانے والے بڑے بڑے افسر تیس تیس چالیس چالیس سال‬
‫نوکری کر کے سبکدوش ہونے کے بعد تمنا کرتے ہیں کہ اپنی‬
‫سواری لیں گے‪ ،‬مکان بنائیں گے‪ ،‬حج کریں گے وغیرہ وغیرہ۔‬
‫الحمد ہلل یہ نعمتیں اس بندے کو ایک عرصے سے حاصل ہیں۔‬

‫اس میں کوئی شک نہیں کہ رزق حالل کمانا دین کا حکم ہے اور‬
‫ایمانداری سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے پر اجر کا بھی وعدہ ہے‬
‫لیکن تدریس چھوٹنے کے بعد میں اپنے کام سے اس لحاظ سے‬
‫مطمئن نہیں ہو سکا کہ اسی کو زندگی کا مقصد اور کامیابی سمجھ‬
‫لوں۔ ہم جو کام کرتے ہیں اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک‬
‫مزدور صبح گینتی بیلچہ لے کر گھر سے نکلتا ہے‪ ،‬کسی جگہ‬
‫کھدائی کا کام تالش کرتا ہے‪ ،‬سارا دن مٹی کھودتا ہے اور شام‬
‫کو اپنی اجرت لے کر گھر آ جاتا ہے۔ بے شک اس نے اچھا کام‬
‫کیا‪ ،‬خون پسینہ بہایا لیکن سوال یہ ہے کہ پیچھے کیا چھوڑا؟‬
‫اجرت تو لے کے چال گیا۔ مالزمت کے اس دائرے کا خالصہ‬
‫لسان العصر اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کھینچا ہے ؎‬

‫کار ِ نمایاں کر‬ ‫احباب کیا‬ ‫کہیں‬ ‫کیا‬ ‫ہم‬


‫گئے‬
‫بی اے ہوئے نوکر ہوئے پنشن ملی پھر مر گئے‬

‫اس کے مقابلے میں میں نے چند سال اور کچھ مقامات پر جن‬
‫طلبہ کو چار حرف سکھانے کی کوشش کی الحمد ہلل آج وہ آفتاب‬
‫وماہتاب ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ ہللا کے فضل سے میرے طلبہ‬
‫آج جگہ جگہ دینی اور دنیوی مناصب پر فائز ہیں۔ ان میں بین‬
‫االقوامی شہرت کے حامل لوگ بھی ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ‬
‫ایک بار نمل یونیورسٹی میں امتحان ہو رہا تھا۔ ایک ہی امتحان‬
‫گاہ میں میں خود پی ایچ ڈی کے طالب علم‪ ،‬میرے شاگرد ایم فل‬
‫اور شاگردوں کے شاگرد ایم اے کے طلبہ کے طور پر ایک ساتھ‬
‫بیٹھے تھے۔ جب طلبہ نے مجھے ’’استاد جی‘‘ کے لقب سے‬
‫پکارا تو ممتحن بھی حیران ہو گئے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ شاگرد‬
‫آپ کی وہ اوالد ہے جو آپ کے لئے بہت دفعہ نسبی اوالد سے‬
‫بھی زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ اس لئے شیخ ابراہیم ذوق کہتے‬
‫ہیں؎‬

‫رہتا قلم سے نام قیامت تلک ہے ذوق‬


‫اوالد سے تو ہے یہی دو پشت چار پشت‬

‫اسی طرح استادی شاگردی کے رشتے میں عموما ً اور دینی علوم‬
‫کے میدان میں خصوصا ً وہ تقدس اور احترام ہے جس کا دوسرے‬
‫میدانوں میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بڑے علماء کی قدر‬
‫ومنزلت کی تو بات ہی کیا ہے‪ ،‬ان کو خلق خدا آنکھوں پر بٹھاتی‬
‫ہے‪ ،‬مجھ جیسا بندہ بھی اگر اپنے شاگردوں میں چال جائے تو وہ‬
‫احترام ملتا ہے کہ اٹھارہ گریڈ کے افسر نے زندگی بھر اس کا‬
‫مشاہدہ نہیں کیا ہوگا کیونکہ اس سے خلق خدا کا واسطہ کام کرنے‬
‫اور کام نکالنے کا‪ ،‬جبکہ یہاں احسانمندی اور نیازمندی کا ہے‬
‫جس میں خلوص اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اقبال نے‬
‫بانگ درا میں پرانے اور جدید طلبہ کی جانب سے استاد کے‬
‫احترام کا ظریفانہ نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے ؎‬

‫تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ!‬


‫دفع مرض کے واسطے پل پیش کیجئے‬

‫تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض‬


‫دل چاہتا تھا کہ ہدیہء دل پیش کیجئے‬

‫کہ لڑکا پس از سبق‬ ‫ایسا‬ ‫بدال زمانہ‬


‫کہتا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجئے!‬

‫حدیث شریف میں جن چیزوں کو صدقہء جاریہ کہا گیا ہے ان میں‬


‫’’علم ینتفع بہ‘‘ بھی شامل ہے اور یہ نفع بخش علم نہیں تو کیا‬
‫ہے کہ آپ نے دس کو پڑھایا ان میں سے دو استاد ہو گئے اور‬
‫انہوں نے دس دس کو پڑھایا اور ان میں سے ہر ایک کے دس‬
‫شاگردوں میں سے دو دو بھی اس میدان میں آتے رہیں تو یہ سلسلہ‬
‫اتنا دراز ہو جائے گا کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے اور ایسا کیوں‬
‫نہ ہو کہ یہ دار ارقم اور صفہ کے معلم کا فیض ہے۔ یہ چشمہ‬
‫جہاں چال‪ ،‬خلق خدا کو سیراب کرتا چال گیا۔ صلی ہللا علیہ وسلم۔‬

‫احمق پھپھوندی کہتے ہیں ؎‬

‫جہاں میں ہر طرف ہے علم ہی کی گرم بازاری‬


‫زمیں سے آسماں تک بس اسی کا فیض ہے جاری‬
‫سرچشمہ اصلی ہے تہذیب و تمدن کا‬
‫ٔ‬ ‫یہی‬
‫بغیر اس کے بشر ہونا بھی ہے اک سخت بیماری‬

‫بناتا ہے یہی انسان کو کامل ترین انساں‬


‫سکھاتا ہے یہی اخالق و ایثار و رواداری‬

‫یہی قوموں کو پہنچاتا ہے بام اوج و رفعت پر‬


‫یہی ملکوں کے اندر پھونکتا ہے روح بیداری‬

‫اسی کے نام کا چلتا ہے سکہ سارے عالم میں‬


‫اسی کے سر پہ رہتا ہے ہمیشہ تاج سرداری‬

‫اسی کے سب کرشمے یہ نظر آتے ہیں دنیا میں‬


‫اسی کے دم سے رونق عالم امکاں کی ہے ساری‬

‫اس لئے میں صمیم قلب سے ان معلمین‪ ،‬مدرسین‪ ،‬علماء‪ ،‬قراء‬


‫اور حفاظ کی قدر کرتا ہوں اور ان کو سالم پیش کرتا ہوں جو‬
‫مشکل حاالت تو سہتے ہیں لیکن میری طرح میدان سے بھاگتے‬
‫نہیں۔ آپ کے جذبے کو سو بار آفرین ہے۔ اس پر ایک بات یاد‬
‫آئی۔ میں اسالم آباد کی ایک بڑی مسجد میں دور کسی صف میں‬
‫بیٹھا خطبہ سن رہا تھا۔ امام صاحب نے کئی جگہ عربی قواعد کا‬
‫خون کیا تو میرے دل میں آئی کہ کیسا عالم ہے! مگر اگلے ہی‬
‫لمحے دل کے ایک گوشے سے آواز آئی کہ اگر تم اتنے اچھے‬
‫عالم ہوتے تو یہاں دروازے کے پاس نہ ہوتے‪ ،‬منبر پر کھڑے‬
‫ہوتے۔ اس سے میرا پسینہ چھوٹ گیا اور توبہ کی کہ یا ہللا معاف‬
‫فرما دے غلطی ہو گئی!‬

‫اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ تعلیم کے میدان میں تو صدقہء‬


‫جاریہ کا وہ سمندر ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا لیکن مالزمت‬
‫میں پیسوں کے سوا کیا دھرا ہے؟ خون جالیا‪ ،‬مغز کھپایا‪ ،‬کام‬
‫کیا‪ ،‬کسی کی چخ چخ سنی‪ ،‬کسی کو جلی کٹی سنائی‪ ،‬مہینہ پورا‬
‫ہوا‪ ،‬پیسے لئے‪ ،‬خرچ کئے اور پھر اسی طرح کام میں جت گئے۔‬
‫میں اپنے آپ سے کہتا ہوں کہ تدریس کے زمانے کا نتیجہ سامنے‬
‫ہے لیکن مالزمت کے بعد پیچھے کیا چھوڑ کر جاؤ گے؟ اس‬
‫لئے میں اس وقت بھی چاہتا ہوں کہ تدریس اور تعلیم کی جانب‬
‫لوٹ جاؤں لیکن شاید یہ چاہت ابھی ضرورت کے درجے تک‬
‫نہیں پہنچی جس کی وجہ سے مالزمت جاری ہے کیونکہ ڈاکٹر‬
‫ابراہیم الفقی کہتے ہیں کہ کسی بھی چیز کو آپ اس وقت تک‬
‫سچی خواہش نہ سمجھیں جب تک وہ روٹی اور پانی کی طرح‬
‫ضرورت نہ بن جائے۔ اس سے بھی زیادہ سچی بات یہ ہے کہ‬
‫آدمی اللچی ہے ’وإنه لحب الخیر لشدید‘۔ اس لئے ’چھٹتی نہیں یہ‬
‫تعالی اپنا کرم‬
‫ٰ‬ ‫کافر منہ سے لگی ہوئی‘ واال حساب ہے۔ ہللا‬
‫فرمائے۔‬

‫اب لگے ہاتھوں تھوڑی سی بات مدارس کے مالی وسائل کی بھی‬


‫ہو جائے‪ ،‬اگرچہ اس بات کا میرے موضوع سے براہ راست تعلق‬
‫نہیں ہے۔ کسی زمانے میں مدارس کے اوقاف ہوتے تھے جہاں‬
‫کی آمدنی ان پر خرچ ہوتی تھی یا حکومت مدارس کے انتظام کی‬
‫ذمہ دار ہوتی تھی لیکن اس وقت پاکستان میں جو مدارس چل رہے‬
‫ہیں ان میں غالب اکثریت ایسے مدارس کی ہے جن کا کوئی وقف‬
‫ہے اور نہ ان کے ساتھ کوئی سرکاری امداد۔ اس سے بھی عجیب‬
‫تر بات یہ ہے کہ اس ملک میں حکومت نے اپنی سرپرستی میں‬
‫کوئی مدرسہ بنوایا اور نہ چالیا۔ اس لئے جتنے مدارس ہم دیکھ‬
‫رہے ہیں وہ مختلف اہل خیر کی انفرادی کوششوں کا نتیجہ ہیں‬
‫البتہ ریاست چترال اور سوات کے زمانے کے چند سرکاری‬
‫مدارس شاید موجود ہیں۔‬
‫اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ دیہاتوں میں آج بھی استاد شاگرد‬
‫کا نام مدرسہ ہے‪ ،‬جہاں کوئی عالم پڑھانے بیٹھ گیا‪ ،‬اس کے گرد‬
‫طلبہ جمع ہو جاتے ہیں اور تعلیم کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ ان مدارس‬
‫میں استاد کی کوئی مقرر تنخواہ ہوتی ہے اور نہ طلبہ کے خور‬
‫ونوش کا کوئی لگا بندھا بندوبست۔ چھوٹے طلبہ کے ذریعے‬
‫محلے سے دو وقت کا کھانا اکٹھا کیا جاتا ہے جس کو ‘‘وظیفہ’’‬
‫کہتے ہیں جبکہ اساتذہ اور طلبہ اپنی دیگر ضروریات خود پوری‬
‫کرتے ہیں۔ اس طرح کے مدارس شمالی عالقہ جات اور صوبہ‬
‫سرحد میں بہت ہیں۔ اس بار میں چالس گیا تو وہاں دن کو میں‬
‫نے طلبہ کو وظیفہ جمع کرتے دیکھا اور ایبٹ آباد میں تعلیم کے‬
‫زمانے میں ہم نے بھی کئی سال وظیفہ جمع کیا اور کھایا۔ اس‬
‫قسم کے مدارس اکثر مساجد میں ہی قائم ہوتے ہیں۔‬

‫دوسرے مدارس وہ ہیں جن کی اپنی عمارتیں ہوتی ہیں اور طلبہ‬


‫کے لئے قیام وطعام اور اساتذہ کا بندوبست بھی ہوتا ہے۔ ان کا‬
‫مالی نظام بھی لگا بندھا نہیں ہوتا بلکہ مخیر حضرات کے چندوں‬
‫پر چلت ا ہے اور چندہ کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے‬
‫بعد چندے کی بھی شرعی اصولوں کے مطابق اقسام ہیں مثالً‬
‫صدقات واجبہ (زکات‪ ،‬فطرانہ اور کفارہ) جو تعمیر میں استعمال‬
‫نہیں ہو سکتے جبکہ نفلی صدقات اور ہدایا وغیرہ ہر طرح کے‬
‫مصرف میں آ سکتے ہیں۔ اس لئے اہل مدارس طلبہ سے ایک‬
‫اختیار نامہ لیتے ہیں جس میں ان صدقات کو طلبہ کی جانب سے‬
‫قبول کر کے ان کو دیگر مصارف میں النے کی اجازت دی جاتی‬
‫ہے۔ اس طرح مدرسے کے مہتمم کو مدرسے میں مختلف مدات‬
‫میں آنے والے پیسوں کو ضرورت کے مطابق دیگر مصارف‬
‫میں استعمال کرنے کا شرعی حق مل جاتا ہے۔‬

‫اس قسم کے مدارس میں جہاں اساتذہ کی لگی بندھی تنخواہیں‬


‫ہوتی ہیں‪ ،‬وہیں طلبہ کے طعام وقیام اور بہت سی جگہ ان کی‬
‫جیب خرچ کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ دار العلوم کراچی اور جامعہ‬
‫علوم اسالمیہ عالمہ بنوری ٹاؤں میں میں ان تمام سہولیات سے‬
‫مستفید ہوا ہوں۔ اکثر اوقات مسلمان خود ان مدارس سے تعاون‬
‫کرتے ہیں اور چندہ ال کر جمع کراتے ہیں جبکہ چھوٹے مدارس‬
‫والے چندے کے لئے اپنے سفیر بھی ادھر ادھر بھیجتے رہتے‬
‫ہیں جو چندہ اکٹھا کر کے التے ہیں اور یوں کام چلتا رہتا ہے۔‬
‫اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اصولی طور پر اگر کوئی‬
‫مدرسہ مالی مشکالت کا شکار ہے تو اس کی وجہ ظاہر ہے کہ‬
‫اس کے پاس وسائل کی کمی ہے اور اس سے بھی زیادہ مشکل‬
‫بات یہ ہے کہ آمدن کے ذرائع اور کمیت معلوم نہ ہونے کی وجہ‬
‫سے یہ نہیں معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ مشکل کب دور ہو سکے‬
‫گی۔‬

‫اس صورت حال میں مدرسے کی انتظامیہ اپنے طریقے سے‬


‫اسے چالنے کی کوشش کرتی ہے اور اگر وسائل کم ہو جائیں تو‬
‫نظام میں خلل آ جاتا ہے۔ ایسے میں اگر مہتمم کے حاالت اچھے‬
‫نظر آ رہے ہوں تو مدرسین اور مالزمین کو یہ بدگمانی ہوتی ہے‬
‫کہ اس کا کام چل رہا ہے‪ ،‬اس لئے ہماری اسے کوئی فکر نہیں۔‬
‫اگر مدرسے میں حسابات کا نظام اچھا نہ ہو تو اس بدگمانی میں‬
‫اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں مہتمم ہی‬
‫حسابات کا ذمہ دار ہوتا ہے اور یہ بات اس کی خدا خوفی کے‬
‫اوپر منحصر ہے کہ وہ کس پیسے کو کس مد میں استعمال کرتا‬
‫ہے جبکہ عموما ً مدارس میں حسابات کا شعبہ ہوتا ہے جو آمدن‬
‫اور خرچ کا حساب کتاب رکھتا ہے اور اسے مہتمم کی ہدایات‬
‫کے مطابق استعمال کرتا ہے۔‬

‫اس سلسلے میں مدرسہ عربیہ اسالمیہ (جامعۃ علوم اسالمیہ) کے‬
‫بانی حضرت عالمہ محمد یوسف بنوری رحمہ ہللا کے بارے میں‬
‫سنا یا کہیں پڑھا کہ وہ سال کے آخر میں زکات کی مد میں آنے‬
‫والی رقم طلبہ میں یہ کہہ کر تقسیم فرما دیتے تھے کہ یہ ان کے‬
‫لئے آئی ہے اور میں نہیں جانتا کہ اگلے سال ان میں سے کون‬
‫یہاں آئے گا اور کون نہیں آئے گا۔ اس لئے ان کا حق میں اپنے‬
‫پاس نہیں رکھنا چاہتا جبکہ اگلے سال والوں کے لئے ہللا اور‬
‫انتظام کر دے گا۔‬

‫اسی طرح حضرت نے ساری زندگی گاڑی نہیں رکھی۔ لوگوں‬


‫نے اصرار کیا تو بتایا کہ اس وقت گاڑی نہیں تو میں اپنے کام‬
‫سے نکلتا ہوں اور مدرسے کا کام اس میں شامل کر لیتا ہوں جس‬
‫سے مدرسے کا کام خرچے کے بغیر ہو جاتا ہے جبکہ گاڑی‬
‫ہوگی تو اس کے الٹ ہوگا کہ میں مدرسے کے کام سے نکلوں گا‬
‫اور اپنا کام اس میں ڈالوں گا۔ کہتے ہیں کہ آخر کار ایک میمن‬
‫مرید نے گاڑی رکھنے پر بہت اصرار کیا تو آپ نے اس سے‬
‫فرمایا کہ بھئی ہمیں ایسی گاڑی چاہئے جس کا خرچہ کوئی نہ ہو‬
‫تو اس نے ایک گاڑی ڈرائیور سمیت حضرت کے حوالے کر دی‬
‫کہ جب تک آپ ہیں یہ گاڑی آپ کے پاس ہے‪ ،‬ڈرائیور اور پٹرول‬
‫کا خرچہ بھی میرا ہوگا۔ یہ ہے خدا ترسی کی مثال۔ حضرت کا‬
‫یہ مقولہ بھی مشہور ہے کہ اگر مدرسہ دنیا کے لئے بناتے ہو تو‬
‫آخرت تباہ ہے اور آخرت کے لئے بناتے ہو تو دنیا تباہ۔‬

‫آپ کی اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ آپ کے شاگرد خاص استاذی‬


‫وموالئی حضرت ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب (مہتمم جامعہ‬
‫علوم اسالمیہ) کے پاس بھی ہمارے زمانے )‪(1999‬تک اپنی‬
‫گاڑی نہیں تھی۔ ایک دن کسی طالب علم نے درسگاہ میں پوچھ‬
‫لیا کہ حضرت آپ سفر بہت کرتے ہیں لیکن گاڑی نہیں رکھی؟‬
‫تو اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر فرمانے لگے ‘‘بھئی‪ ،‬یہ‬
‫ٹیکسی والے بھی تو ہمارے بھائی ہیں۔ وہ کس لئے ہیں؟ جس وقت‬
‫چاہو ٹیکسی مل جاتی ہے تو گاڑی رکھنے کی کیا ضرورت‬
‫ہے؟’’‬
‫‪-------‬‬
‫یہاں تک میری تدریس سے وابستگی اور اس سے دوری کی اب‬
‫تک کی کہانی مکمل ہو گئی۔ آگے کی ہللا جانتا ہے کیونکہ اس‬
‫تحریر کی تکمیل کے بعد میں پی ایچ ڈی کے مقالے پر توجہ‬
‫مرکوز کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ زندگی نے وفا کی‬
‫تو اس ڈگری کے بعد شاید دوبارہ تدریس کی جانب واپسی ہو۔ اس‬
‫وقت صورت حال یہ ہے کہ جس دن فجر کی نماز محلے کی‬
‫مسجد میں ہوتی ہے‪ ،‬اس دن ہللا کے کرم سے دس منٹ کا درس‬
‫قرآن ہو جاتا ہے اور اس سلسلے میں تقریبا ً سترہ سیپارے ہو‬
‫ہیں۔‬ ‫چکے‬
‫یہ درس شروع سے ہی دس منٹ کا ہے اور میں درس سے پہلے‬
‫بتا بھی دیتا ہوں کہ دس منٹ کا درس ہوگا‪ ،‬جن حضرات کے پاس‬
‫وقت ہے تشریف رکھیں اور جن کے پاس وقت نہیں‪ ،‬وہ اطمینان‬
‫سے اپنی دعا مانگ کر جا سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ‬
‫نمازیوں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں‪ ،‬ان کی مختلف‬
‫ضروریات ہوتی ہیں جن کی رعایت رکھنا از روئے شریعت بھی‬
‫ضروری ہے۔ نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم بچوں کے رونے کی‬
‫آواز سنتے تو نماز مختصر فرما دیتے‪ ،‬اسی طرح حضرت معاذ‬
‫رضی ہللا عنہ والے واقعے میں بھی آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫ان کو نماز طویل کرنے سے منع فرمایا۔‬

‫میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ائمہ مساجد کو نماز‪ ،‬درس اور وعظ‬


‫میں نمازیوں کے حاالت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کیونکہ اس‬
‫سے نمازی جو کام کرتے ہیں وہ اطمینان سے کرتے ہیں کیونکہ‬
‫ان کو پتہ ہوتا ہے کہ اتنے وقت کے بعد یہ کام ختم ہو جائے گا‬
‫ورنہ وہ اس سے محروم رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک صاحب تعلیم‬
‫بہت لمبی کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ جس دن وہ کتاب کھول کر‬
‫بیٹھتے ہیں‪ ،‬بہت سے لوگ سنتیں بھی گھر میں پڑھنے کی نیت‬
‫سے نکل جاتے ہیں۔‬
‫آخر میں‪ ،‬میں ان تمام احباب کا شکر گزار ہوں جنھوں نے میری‬
‫کہانی دلچسپی سے پڑھی اور اس پر موقر تبصرے کئے اور ان‬
‫کا بھی ممنون ہوں جنھوں نے خاموشی سے پڑھ لی اور تبصرے‬
‫سے گریزاں رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ یہ‬
‫زندگی کے اہم سفر کے بارے میں صرف ایک شخص کی کہانی‬
‫ہے‪ ،‬جس کا نقطہء نظر اور سوچ کا زاویہ کسی بھی دوسرے‬
‫شخص سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اس لئے اس کو کسی بھی جگہ‬
‫وجہ نزاع بنانے کی ضرورت نہیں البتہ کوئی چیز غلط ہو تو اس‬
‫سے آگاہ فرما سکتے ہیں کیونکہ بقول ایک دوست ‘‘یہ حکایت‬
‫ہے شکایت نہیں’’۔‬

‫(ختم شد)‬

You might also like