You are on page 1of 336

‫آسان‬

‫عربی‬
‫گرامر‬

‫اول‬
‫حصہ‬

‫مرتبه‬

‫لطف الرحمنخان‬

‫ختمالقران اهور‬‫مرکزیخمین‬
‫مولوی‬
‫قابل‬
‫قدرالیع‬
‫فربیکاظمبینی‬ ‫وی بالاتر‬
‫مرمرکی‬

‫آسان‬
‫عربی‬
‫گرامر‬

‫حصہاول‬

‫نظ ث‬
‫رانی شدہایڈیشن )‬

‫مرتبه‬

‫الرحمنخان‬
‫لطف‬

‫مكتبه مرکزی انجمن خدام القرآن لاهور‬

‫‪۳۶-‬کے ماڈل ٹاؤن لاہور ‪ ، ۵۴۷۰۰‬فون ‪۳-۵۸۷۹۵۰۱ :‬‬


‫آسانعربیگرامر ( حصہاول )‬ ‫نامکتاب‬

‫‪9300 .‬‬ ‫طبع اولتاطبعنم (اکتوبر ‪ 1989‬تا اپریل ‪ 1998‬ء) ‪.‬‬

‫نظرثانی شدہ ایڈریشن ‪:‬‬

‫‪7700‬‬ ‫طبعدومتاطبع سیزدہم س(تمبر ‪ 1998‬ءتاجون ‪ 2003‬ء)‬

‫‪2200‬‬ ‫طبع چہاردہم ( اگست ‪ 2004‬سبک‬

‫ناظم نشر و اشاعت مرکزی انجمن خدامالقرآن لاہور‬ ‫ناشر‬

‫۔‪36‬کے ماڈلٹاؤنلاہور‬ ‫مقاماشاعت‬


‫فون‪03-5869501 :‬‬

‫شرکپترنٹنگپریس لاہور‬ ‫مطبع‬

‫‪ 35‬روپے‬ ‫قیمت ‪-‬‬


‫ترتيب‬

‫عرضِ مرتب‬

‫ترمیمکیوں‬

‫‪11‬‬
‫تمهید‬

‫‪۱۷‬‬
‫اسم کی حالت‬

‫‪۲۶‬‬ ‫جنس‬

‫‪۳۱‬‬ ‫عدد‬

‫‪۳۸‬‬ ‫اسم بلحاظ وسعت‬

‫‪۴۲‬‬ ‫مرتبات‬

‫‪۴۶‬‬
‫مرکبتوصیفی‬

‫‪۵۳‬‬
‫جمله اسمیه‬

‫‪۶۶‬‬
‫جملہ اسمیہ (ضمائر‬
‫)‬

‫مرکب اضافی‬

‫‪۸۷‬‬ ‫حرف ندا‬

‫‪۸۹‬‬
‫مرتب جاری‬

‫‪۹۲‬‬
‫مرکب اشاری‬

‫‪۱۰۲‬‬
‫اسماء استفهام‬
‫عرضِ مُرتب‬

‫میں نے ابھی چند سال قبل ہی قرآن اکیڈمی میں تھوڑی سی عربی پڑھی ہے ۔‬

‫میری علمی استعداد یقینا اس قابل نہیں ہےکہ میں عربی قواعد مرتبکرنے کے متعلق‬

‫سوچتا ۔ اس کے باوجود یہ جراتکی ہے تو اسکی کچھ وجوہاتہیں ۔‬

‫قرآن اکیڈمی میں عربی قواعد کی تعلیم ایک خصوصی انداز اور مختلف ترتیب‬

‫سے دی جاتی ہے ‪ ،‬جسے ہمارے استاد محترم جناب پروفیسرحافظ احمد یار صاحب نے‬

‫فرایا ہے اور عربی قواعد کی کوئیکتاب اس ترتیب کے مطابق نہیں ہے ۔‬


‫متعار ک‬

‫عربی کا معلم " شامل ہے جو ہماری ضروریات کے قریب ہونے‬ ‫ہمارے نصاب میں‬

‫کے باوجود پورے طور پر اس کے مطابق نہیں ہے ۔ اس لئے طلبہ اور اساتذہ دونوں‬

‫ہی کو خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ غالبا یہی وجہ ہے کہ کلاس روم سے اسٹاف‬

‫روم میں تشریف لانے پر محترم حافظ صاحباکثر اس تمنا کا اظہارکیا کرتے تھےکہ‬

‫"کوئی صاحب ہمت اگر " عربی کا معلم " پر نظرثانی کرتے اور اسکی ترتیب میں‬

‫۔ یہ وہ صورتحال‬ ‫مناسب رد وبدلکر دے توکتابکی افادیت بہت بڑھ جائےگی‬

‫ہے جس نے میرے دل میں اس ضرورتکے احساسکو راسخ کیا ۔‬

‫حقیقت یہ ہے کہ اسکتابکو مرتبکرنے کا کام صرف حافظ صاحبکو ہی‬

‫زیب دیتا ہے اور ہم سبکی یہ خوش قسمتی ہوتی اگر ان کے ہاتھوں یہ کام سرانجام‬

‫پاتا۔ اس کے لئے میں خود بھی حافظ صاحب سے ضد کرتا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ حافظ‬

‫لغات و‬ ‫صاحب اس سے بھی کہیں زیادہ اہم اور منفرد کام کا آغازکر چکے تھے ۔‬

‫"قرآن " کے نام سے جس بلند پایہ تالیف کا انہوں نے بیڑہ اٹھایا ہے بلاشبہ وہ‬
‫اعراب‬

‫اپنی جگہ نہایت اہم کام ہے ۔ عربی زبان کے قواعد سے شد بد رکھنے والے طالبانِ‬
‫قرآن کے لئے ترجمہ قرآن کے معاملے میں وہکتاب ان شاء اللہ تعالیٰ ایک ریفرنس‬

‫بککا کام دےگی اور قرآن فہمی کے راہکی ایک بڑی رکاوٹ اس کے ذریعے دور‬

‫عربی کا معلم " پر نظرثانی کے ضمن میں ان سے ضد کرنےکی‬ ‫ہو جائے گی ۔ چنانچہ‬

‫ہمت نہیں ہوئی ۔‬

‫اور کوئی صورت نہ بن سکی تو سوچاکہ خود ہمتکی جائے ‪،‬ساتھ ہی اپنی بے علمی‬

‫کا خیالآیا تو حافظ صاحبکی موجودگی نے ڈھارس بندھائیکہ انکی راہنمائیکسی حد‬

‫تک میری کوتاہیوںکی پردہ پوشی کرے گی ۔ قرآن اکیڈمی اور قرآن کالج میں‬

‫روزانہ تقریباً تین چار پیریڈ پڑھانے اور لغات و اعراب قرآن کی تالیف جیسی‬

‫دقت طلب اور وقت طلب مصروفیت کے باوجود محترم حافظ صاحب نے اس سلسلے‬

‫میں میری جو راہنمائیکی ہے اس کے لئے میں ان کا انتہائی ممنون ہوں ۔اللہ تعالی ان‬

‫کو اجر عظیم سے نوازے ۔ ( آمین )‬

‫جرات مذکورہ کی ایک وجہ اور بھی ہے ۔ عربی کے طالب علم کے طور پر اس‬

‫کتاب سے گزرے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں ۔ قواعد پڑھتے وقت جن جن‬

‫مقامات پر مجھے الجھن اور دقت پیش آئی تھی وہ سب ابھی ذہن میں تازہ ہیں ۔ اگر کسی‬

‫درجہ میں علمی استعداد حاصلکرنے کا انتظارکرتا تو پتہ نہیں استعداد حاصل ہوتی یا‬

‫نہ ہوتی ‪ ،‬لیکن وہ مقامات یقیناً ذہن سے محو ہو جاتے ۔ پھر میری کوشش شاید اتنی زیادہ‬

‫عام فہم نہ بن سکتی ۔ اس لئے فیصلہ کرلیاکہ معیارکی پرواہ کئے بغیر برا بھلا جیسا بن پڑتا‬

‫ہے یہ کام کرگزروں ‪ ،‬تاکہ ایک طرفتو اکیڈمی اور کالجکی ضرورتکسی درجے‬

‫میں پوری ہو سکے اور دوسری طرف اس نہج پر بہتر اور معیاری کامکی راہ ہموار ہو‬
‫سکے ۔‬

‫اسکتاب میں اسباقکی ترتیب چھوٹے چھوٹے حصوں میں اسباقکی تقسیم‬

‫اور باتکو پہلے اردو اور انگریزی کے حوالے سے سمجھا کر پھرعربی قاعدےکی طرف‬

‫آنا محترم حافظ صاحب کا وہ خصوصی طرز تعلیم ہے جس کا اوپر ذکرکیا گیا ہے ۔ اس‬
‫کتاب کا یہی وہ پہلو ہے جس پر ابتداء حافظ صاحب نے کچھ وقت نکالکر تنقیدی نظر‬

‫ڈالی اور میری کوتاہیوں پر گرفتکی اور پھرتصحیحکی ۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس اتنا‬

‫وقت نہیں تھا کہ وہ مسودہ کا لفظبلفظ مطالعہکر کے اسکی تصحیحکرتے اور ہر ہر مرحلے پر‬

‫میری رہنمائی فرماتے ۔ اس لئے اسکتاب میں جو بھی کو تاہی اورکمی موجود ہے اس‬

‫کی ذمہ داری مجھ پرہے ۔‬

‫قرآن اکیڈمی کے فیلو جناب حافظ خالد محمود خضرصاحب نے اپنیگوناگوں ذمہ‬

‫داریوں اور مصروفیات سے وقت نکالکر مسودہ کا مطالعہ کیا اور اغلاطکی تصحیح میں‬

‫میری بھرپور معاونتکی ہے ۔ اس کے لئے میں ان کا بھی بہت ممنون ہوں ۔ اللہ‬

‫تعالیٰ انکو جزائے خیر سے نوازے ۔ (آمین)‬

‫میں اس بات کا قائل ہوںکہ ‪ Perfection‬کا حصولاس دنیا میں تو ممکن‬

‫نہیں ہے ۔ اس لئے مجھے یقین ہے کہ اب بھی کچھ اغلاط موجود ہوں گی ۔ اہل علم‬

‫حضرات سے گزارش ہےکہ انکی نشاندہیکریں ۔ نیز اسکتابکو مزید بہتر بنانے‬

‫کے لئے اپنی تجاویز سے نوازیں ‪ ،‬تاکہ اگر اس کا آئندہ ایڈیشن شائع ہو تو اسے مزید‬

‫بہتربنایا جا سکے ۔‬

‫رَبَّنَا تَقَبَّلْمِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ وَتُبْعَلَيْنَا إِنَّكَأَنْتَ التَّوَّابُالرَّحِيمُ ‪-‬‬

‫لطفالرحمن خان‬ ‫‪/11‬محرمالحرام ‪۵۱۱۰‬‬

‫قرآن اکیڈمی لاہور‬ ‫بمطابق ‪ / ۱۴‬اگست ‪ ۱۹۸۹‬ء‬


‫ترمیمکیوں‬

‫آسان عربیگرامر( حصہ اول ) کا پہلا ایڈیشن اکتوبر ‪ ۱۹۸۹‬ء میں شائع ہوا تھا جو کہ‬

‫اسم کے ابتدائی قواعد پر مشتمل ہے ۔ اس کے بعد فعل کے ابتدائی قواعد پر مشتمل‬

‫حصہ دوم شائع ہوا ۔ پروگرام تھا کہ اسم اور فعل کے باقی ایسے قواعد ' جو قرآن فہمی‬

‫کے لئے ضروری ہیں ‪ ،‬انہیں حصہ سوم میں مرتب کیا جائے ۔ بعضناگزیر وجوہاتکی‬

‫بنا پر اس میں تاخیر ہوتی رہی اور طلبہ کے شدید تقاضوں کے پیش نظر تیسرا حصہ نامکمل‬

‫حالتمیں شائعکرناپڑا۔‬

‫مرکزی انجمن خدام القرآن کے لاہور کراچی اور متعدد شہروں میں مختلف‬

‫تعلیمی پروگراموں میں یہ کتابیں ٹیکسٹ بک کے طور پر پڑھائی جا رہی ہیں ۔ متعدد‬

‫شہروں کے تعلیم بالغاں کے پروگرام میں بھی اسے پڑھایا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ ان‬

‫کتابوں پر مبنی ایک خط وکتابت کورس بھی انجمن کے تحت جاری ہے ۔ اس وجہ سے‬

‫متعدد اساتذہکرام اور طلبہ بالخصوص بالغ طلبہ کی طرف سے بہت زیادہ مشورے‬

‫موصول ہوئے ۔ لیکن اس سے قبل مشوروںکی روشنی میں انکتابوںپر نظرثانی کا‬

‫موقع نہیں مل سکا ۔‬

‫دو سری طرف البلاغ فاؤنڈیشن کے تحت اسلام کا جائزہ اور حدیث کا جائزہ‬

‫خط وکتابتکورسزکے اجراکی وجہ سے طلبہ اور طالباتکا ایک نیا اور وسیع حلقہ وجود‬

‫میں آچکا ہے ۔ جس میں ‪ ۱۱‬سے ‪ ۲۵‬سالتک کے بچوں اور بچیوںکی غالب اکثریت‬

‫ہے ۔ جینے کا سلیقہ کے عنوان سے فاؤنڈیشن کا تیسراکورس جاری ہوگیا ہے جسکی‬

‫وجہ سے امید ہے کہ اسلامکی مبادیات سے واقف طلبہ کے اس حلقہ میں ان شاءاللہ‬

‫تعالیٰ مزید وسعت ہوگی ۔‬

‫اب ضرورت محسوس ہو رہی ہےکہ ان طلبہکو دعوت دی جائےکہ وہگھر بیٹھے‬

‫اپنی فرصت کے اوقات میں عربیگرامرکا ابتدائی علم حاصلکرلیں تاکہ قرآن نمیکی‬
‫سب سے بڑی رکاوٹ دور ہو جائے ۔ پھرجو طلبہ یہکورسمکملکرلیں ان کے لئے‬

‫مطالعه قرآن حکیم کا خط وکتابتکورس جاری کیا جائے جو کم ازکم ایک پارہ یا زیادہ‬

‫سے زیادہ سورہ بقرہ پر مشتمل ہو تاکہ ترجمہ کے بغیر قرآن مجید کو سمجھنے کی صلاحیت‬

‫انہیں حاصل ہو جائے ۔ " وَمَا تَوْفِيقِي إِلا بِاللهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أنيْبُ"‬

‫اس پروگرامکو عملی جامہ پہنانے کے لئے ضروری ہو گیا ہےکہ تینوں حصوں پر‬

‫نظرثانیکر کے تیسرے حصے کو مکملکیا جائے ۔ چنانچہ مشوروں پر غور و فکر کر کے کچھ‬

‫فیصلے کئے ہیں جنکی وضاحت ضروری ہے ۔ لیکن اسے سے پہلے یہ اعتراف ضروری‬

‫ہےکہ تمام مشوروںکو قبولکرنا عملاً ممکن نہیں ہے ۔ اگر ایساکیا جائے تو پھریہکتاب‬

‫آسان نہیں رہے گی بلکہ قواعد کا ایک خود رو جنگل بن جائےگی ۔ نیز یہ اعترافبھی‬

‫ضروری ہے کہ طلبہ اور بالخصوص تعلیم بالغاں کے طلبہ کے مشوروںکو میں نے‬

‫اساتذہکرام کے مشوروں سے زیادہ اہمیت دی ہے ۔‬

‫طلبہکی اکثریت کا تقاضا بلکہ ضد یہ ہے کہ اردو سے عربی ترجمہکی مشقوںکو ختم‬

‫کر دیا جائے ۔ انکی دلیل یہ ہےکہ اسکو رس کا مقصد عربی زبان اور ادب سیکھنا‬

‫نہیں ہےبلکہ قرآن فہمی ہے ۔ یہ ضرورت عربی سے اردو ترجمہکی مشقوں سے پوری‬

‫ہو جاتی ہے ۔ طلبہ عربی سے اردو ترجمے کی مشقیں بہتر طور پر کر لیتے ہیں لیکن اردو‬

‫سے عربی ترجمہ میں زیادہ غلطیاںکرتے ہیں جسکی وجہ سے نمبرکٹ جاتے ہیں اور‬

‫بد ولی پیدا ہوتی ہے ۔کورس کے درمیان میں چھوڑ جانے کی یہ ایک بڑی وجہ ہے ۔‬

‫دوسری طرف تمام اساتذہکرام متفق ہیں کہ اردو سے عربی ترجمہکی مشقیں لازمی‬

‫ہیں ۔کیونکہ اس کے بغیر قواعد پر پوری طرحگرفت نہیںآتی ۔‬

‫درمیانی راہ اختیارکرتے ہوئے ہم نے فیصلہکیا ہےکہ پہلے اور دوسرے حصے‬

‫میں اردو سے عربی ترجمہ کے جملوںکی تعدادکمکر کے عربی سے اردو ترجموں کے برابر‬

‫کر دی جائے یا کمکر دی جائے تاکہ کل نمبروں میں اردو سے عربی ترجمہ کا وزن‬

‫( ‪) WEIGHTAGE‬کم ہو جائے اور تیسرے حصے میں اسےبالکل ختمکردیا جائے ۔‬


‫طلبہ اور اساتذہ دونوںکی اکثریتکا تقاضا یہ ہےکہ تمام مشقیں صرف قرآن‬

‫مجید کے مرکبات اور جملوں پر مشتمل ہوں ۔ دوسری طرف ہمارے استاد محترم‬

‫پر و فیسر حافظ احمد یار صاحب مرحوم کی ہدایت یہ تھی کہکسی مشق میںکوئی ایسا لفظ یا‬

‫ترکیب استعمال نہ کی جائے جو ابھی پڑھائی نہیں گئی ہے ۔ اس ہدایت پر عملکرتے‬

‫ہوئے مذکورہ خواہش کو پورا کرنا بہت مشکل ہے ۔ البتہ طلبہ اور اساتذہکی خواہش‬

‫کے پیش نظرپہلے اور دوسرے حصے کے ذخیرہ الفاظ پر نظرثانیکر کے ایسے الفاظ کا‬

‫اضافہ کر دیا گیا ہے جو قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں ۔ اور ان شاء اللہ تعالٰی‬

‫تیسرے حصے کی مشقیں صرف قرآن مجید سے ماخوذہوںگی ۔‬

‫کچھ طلبہ نے عربی سیکھنے کی ابتداء خط وکتابتکو رس سے کی تھی لیکن بعد میں‬

‫تعلیم بالغاںکی کسی کلاس میں شامل ہو گئے تھے ۔ ایسے طلبہ نےکتابمیں اپنے متعدد‬

‫مقاماتکی نشاندہی کی تھی جو ان کے خیال کے مطابق بحثکو غیر ضروری طور پر طویل‬

‫کر دیتے ہیں اور بات سمجھانے کے بجائے طلبہ کے ذہنکو الجھانے کا باعث بنتے‬

‫ہیں ۔ انہیں طلبہ نے اس خواہش کا بھی اظہارکیا تھا کہکلاس روم میں تدریس کے‬

‫دوران جو وضاحتیں اور ہدایات میں دیتا ہوں انہیں بھی کتاب میں شاملکیا جائے ۔‬

‫چنانچہ نظرثانی کرتے وقت جہاں جہاں مناسب محسوس ہوا ہے وہاں ان مشوروں پر‬

‫عم ک‬
‫لیا گیا ہے ۔‬

‫اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے حصہ اول پر نظرثانی کا کام آجمکمل ہوگیا ہے ۔‬

‫اسکی مدد شامل حال رہی تو بقیہ دو حصوںپر بھی نظرثانی کا کامکم ازکم وقت میں مکمل‬

‫کرنے کی کوششکریں گے ۔ تاکہ عربی گرامرکا خط وکتابتکو رس جاریکیا جا سکے‬

‫اور مطالعہ قرآن حکیم کا کورس مرتب کرنے کے کام کا آغاز ممکن ہو ۔ وَمَا النَّصْرُ‬

‫الا مِنْ عِندِ اللهِ ‪-‬‬

‫لطف الرحمن خان‬ ‫جمعۃ المبارک ‪ /۲‬صفر‪۵۱۴۱۹‬‬

‫البلاغ فاؤنڈیشن لاہور‬ ‫بمطابق ‪ /۲۹‬مئی ‪ ۱۹۹۸‬ء‬


‫تمهید‬

‫‪ 1 : 1‬دنیا کی کسی بھی زبانکو سیکھنے کے دو ہی طریقے ہیں ۔ اول یہ کہ اس زبانکو‬

‫بولنے والوں میں بچپن سے ہییا بعد میں رہ کر وہ زبان سیکھی جائے ۔ دوم یہ کہکسی‬

‫سیکھی ہوئی زبانکی مدد سے نئی زبان کے قواعد سمجھ کر اسے سیکھا جائے ۔ درسی طریقے‬

‫سے یعنی قواعد وگرامر کے ساتھ زبان سیکھنے کے لئے دو کام بہت ضروری ہیں ۔ اول‬

‫یہکہ اس زبان کے زیادہ سے زیادہ الفاظ کا ذخیرہ ہم اپنے ذہن میں جمعکرنے کی‬

‫کوشش کرتے رہیں ۔ دوم یہ کہ اس ذخیرہ الفاظکو درست طریقہ پر استعمالکرنا‬

‫سیکھیں ۔‬

‫‪ ۱ : ۲‬ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کی غرض سے اسکتاب کے ہر سبق میں کچھ الفاظ اور‬

‫ان کے معافی دیے جائیں گے تاکہ طلبہ انہیں یادبھی کرلیں اور مشقوں میں استعمال‬

‫بھی کریں ۔ لیکن قواعد سمجھانے کی غرض سے دیئے گئے الفاظ و معنی ذخیرہ الفاظ میں‬

‫اضافہ کے لئے کافی نہیں ہوتے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر سکولوں اور کالجوں میں قواعد‬

‫کے علاوہ کوئی کتاب بطور ریڈر پڑھائی جاتی ہے ۔ طلبہ کو ہمارا مشورہ ہےکہ وہ‬

‫روزانه قرآن مجید کے ایک دو رکوع ترجمہ سے مطالعہ کریں اور ان کے الفاظ و‬

‫معنی کو یادکرتے رہیں ۔ اس طرح ان کے ذخیرہ الفاظ میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا‬

‫رہےگا ۔‬

‫سکھانے کے لئے کسی زبان کے‬ ‫الفاظ کو ” درست طریقہ سے استعمالکرنا‬ ‫‪:‬‬

‫قواعد ( یعنی گرامر) مرتب کئے جاتے ہیں ۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ‬

‫زبان پہلے وجود میں آجاتی ہے پھر بعد میں ضرورت پڑنے پر اس کے قواعد مرتبکئے‬

‫جاتے ہیں ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پہلے قواعد مرتبکر کےکوئی نئی زبان وجود میں لائی‬
‫‪۱۲‬‬

‫گئی ہو ۔ ( ‪ ) 1‬یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن قواعد‬

‫معدودے چند کے ہی مرتب کئے گئے ہیں ۔ اس لئےکہ بقیہ زبانوں کے لئے اسکی‬

‫ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ اور یہی وجہ ہےکہکسی زبان کے قواعد اس زبان کے‬

‫تمام الفاظ پر حاوی نہیں ہوتے بلکہکچھ نہ کچھ الفاظ ضرور مستثنیٰ ہوتے ہیں ۔ یہ مسئلہ ہر‬

‫زبان کے ساتھ ہے ‪ ،‬فرق صرفکم اور زیادہ کا ہے ۔ یہ بات اہم ہے ‪ ،‬اسے نوٹکر‬

‫لیں اورگرامر کا کوئی قاعدہ پڑھیں تو اس کے استثنارکے لئے ذہن میں ایککھڑکی‬

‫ضرورکھلی رکھیں ورنہ آپپریشان ہوں گے ۔‬

‫‪ ۱۴‬کسی زبان کے قواعد مرتبکرنے کی ضرورت اس وقت محسوس ہوتی ہے‬


‫‪:‬‬

‫جب دوسری زبانیں بولنے والے لوگ اُس زبانکو تدریسی طریقے پر سیکھنا چاہیں ۔‬

‫ایسی صورت حالبالعموم دو ہی وجہ سے پیش آتی ہے ۔ اول یہکہکسی زبانکو بولنے‬

‫والی قومکو دوسری اقوام پر سیاسی غلبہ اور اقتدار حاصل ہو جائے اور انکی زبان‬

‫سرکاری زبان قرارپائے ۔ اس طرح دوسری اقوام کے لوگ خودکو وہ زبان سیکھنے پر‬

‫مجبورپائیں ۔ دوم یہ کہکوئی زبانکسی مذہبی کتابکی یا کسی مذہب کے لٹریچر کی زبان‬

‫ہو اور اس مذہب کے پیر ودیا بعض دفعہ غیر پیرو بھی اس مذہب کے عقائد اور شریعت‬

‫کے مصادر تک براہ راست رسائی حاصلکرنے کی غرض سے وہ زبان سیکھنے کے‬

‫خواہش مند ہوں ۔‬

‫‪ ۱ : ۵‬عربی کو یہ دونوں خصوصیات حاصل ہیں ۔ یہ صدیوں تک دنیا کے غالب و‬

‫متمدن علاقےکی سرکاری زبان رہی ہے ۔ اور آج بھیکئی ممالک میں اسی حیثیت‬

‫سے رائج ہے ۔ اور بلحاظ آبادی دنیا کے دوسرے بڑے مذہب یعنی اسلامکی زبان‬

‫بھی عربی ہے ۔ اس لئے کہ قرآن اسی زبان میں نازلہوا اور مجموعہ احادیث اولا اسی‬

‫اس قاعدہکلیہ کا واحد استثناء ایک نئی زبان ‪ SPRANTO‬ہے جس کے قواعد مرتب‬ ‫{‪} 1‬‬

‫کرنے کے بعد اسے رائجکرنےکی کوششکی جارہی ہے ۔‬


‫زبان میں مدون ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ عربی دنیا کی ان چند زبانوں میں سے ایک ہے‬

‫جسکے قواعد مرتب کئے گئے ہیں اوراتنی لگن اورعرق ریزی سے مرتب کئے گئےکہ‬

‫ماہرین لسانیات عربی کو بلحاظگر ا مردنیاکیسب سے زیادہ سائنٹفک زبان ماننے پر مجبور‬

‫ہیں ۔یعنی قواعد سے استثناءکی صورتیں اس زبان میں سب سے کم ہیں ۔ یہی وجہ ہے‬

‫کہ عربی قواعد سمجھنے کے بعد اس زبان کا سیکھنا نسبتاً آسان ہے ۔‬

‫‪ ۱ :‬دنیا کی ہر زبان کے قواعد مرتبکرنے کا بنیادی طریقہ کارتقریباً ایک ہی ہے‬

‫اور وہ یہکہ اس زبان کے تمام با معنی الفاظ یعنی کلماتکو مختلفگروپوں میں اس‬

‫انداز سے تقسیمکر لیتے ہیںکہ زبان کا کوئی لفظ اس درجہ بندی ( ‪ ) Grouping‬سے‬

‫باہر نہ رہ جائے ۔ کلماتکی اس گروپنگ یا تقسیم کو اقسام کلمہ یا اجزائے کلام‬

‫( ‪)Parts of Speech‬کہتے ہیں ۔ مختلفزبانوںکی گرامرلکھنے والے اس زبان‬

‫کے الفاظکی مختلف طریقوں پر تقسیمکرتے ہیں ۔ مثلا عربی اردو اور فارسی میں یہ‬

‫تقسیم سہ گانہ ہے ۔ یعنی ہرکلمہ اسم فعل یا حرف ہوتا ہے ۔ انگریزی میں اجزائے‬

‫کلام ( ‪ ) Parts of Speech‬آٹھ ہیں ۔ بہرحال ایک بات قطعی ہےکہ " اسم "‬

‫فعل " ہر زبان میں سب سے بڑے اور مستقل اجزائے کلام ہیں ۔باقی اجزاءکو‬ ‫اور‬

‫بعض انہی میں سے کسی کا حصہ قرار دیتے ہیں اور بعض الگ قسم شمارکرتے ہیں ۔‬

‫مثلاً اردو ‪ ،‬عربی اور فارسی میں ضمیر (‪ ) Pronoun‬اور صفت ( ‪) Adjective‬کو‬

‫اسم ہی شمارکیا جاتا ہے ‪،‬مگر انگریزی میں " ‪ " Pronoun‬اور " ‪ ‘ Adjective‬الگ‬

‫الگاجزائےکلام شمارہوتے ہیں ۔‬

‫‪ :‬ادری طریقے سےکسی زبانکو سیکھنے کے لئے اس کے الفاظکو درست طریقے‬

‫پر استعمالکرنا ہی اصل مسئلہ ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں فعل اور اسم کے درست‬

‫استعمالکو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ دنیا کی ہر زبان میں سب سے زیادہ استعمال‬

‫ہونے والے الفاظ یہی ہیں ۔ اس لئے ہر زبان میں فعل کے استعمالکو درستکرنے‬

‫کے لئے فعلکی گردانیں ‪،‬صبیلے مختلف ” زمانوں " میں اسکی صورتیں اور مصدر‬
‫‪Ꮫ‬‬

‫وغیرہ یاد کئے جاتے ہیں ۔ مثلاً فارسی میں فعل کے درست استعمال کے لئے مصدر اور‬

‫مضارع معلوم ہونے چاہئیں اورگردان بھی یاد ہونی چاہئے ۔ انگریزی میں ‪Verb‬کی‬

‫تین شکلیں اور مختلف ‪ Tenses‬کے رٹنے اور یادکرنے پر طلبہکئی برس محنتکرتے‬

‫ہیں ۔گرامر کا وہ حصہ جو فعلکی درست بناوٹ اور عبارت میں اس کے درست‬

‫استعمال سے بحثکرتا ہے ” علم الصرف "کہلاتا ہے جبکہ اسم کے درست استعمال‬

‫کی بحث” علم النحو “ کا ایک اہم جزو ہے ۔‬

‫ہمارے دینی مدارس میں عربی تعلیمکی ابتداء بالعموم فعلکی بحث سے ہوتی‬ ‫‪:‬‬

‫ہے جس کے اپنے کچھ فوائد ہیں ۔ لیکن ہم اپنے اسباقکی ابتدا اسم کی بحث سے کریں‬

‫گے ۔ اس کے جواز میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی حضرت آدم علیہ‬

‫السلامکو سب سے پہلے اشیاء کے اسماء کی تعلیم دی تھی ۔ اس کے علاوہ ندوۃ العلماء‬

‫میں اس مسئلہ پر کافی تحقیق اور تجربات کئے گئے ہیں اور یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ اسم‬

‫کی بحث سے تعلیم کا آغازکرنے سے نسبتا بہتر نتائجحاصلکئے جاسکتے ہیں ۔ جبکہ فعلکی‬

‫تعلیم سے آغازکی مثال بقول مولانا مناظر احسنگیلانی صاحبایسی ہے جیسے طالب علم‬

‫کوکنوئیں سے ڈولکھینچنے کی مشقکرائی جائے خواہ پانی نکلے یا نہ نکلے ۔ یعنی طالب علم‬

‫فعلکی گردانیں رہتا رہتا ہے لیکن اسے نہ تو اس مشقتکا کوئی مقصد نظرآتا ہے اور‬

‫نہ یہ احساس ہوتا ہےکہ وہ ایک نئی زبان سیکھ رہا ہے ۔ برخلاف اس کے اسم کی بحث‬

‫سے تعلیم کا آغازکرنے سے ابتداء ہی سے طالب علمکی دلچپسی قائم ہو جاتی ہے اور‬

‫بر قرار رہتی ہے ۔ رفع ‪ ،‬نصب ‪ ،‬جر کی شناخت اور مشق نیز مرکباتکے قواعد اور جملہ‬

‫اسمیہ سکھتے ہوئے طالب علم کو اپنی محنت با مقصد نظرآتی ہے ۔ چند دنوں کے بعد ہی وہ‬

‫چھوٹے چھوٹے اسمیہ جملے بنا سکتا ہے ۔ اور عربی زبان کی سب سے بڑی خصوصیت‬

‫کو سمجھنے لگتہاے ۔ اور‬


‫اعرابیعنی ” الفاظ میں حرکاتکی تبدیلی کا معانی پر اثر "‬

‫ہر نئے سبق کی تکمیل پر اسے کچھ سیکھنے اور حاصلکرنے کا احساس ہو تا رہتاہے ۔ یہی‬

‫کیفیت اسکی دلچسپی کو برقرار رکھنے کا باعث بنتی ہے ۔گزشتہ چند برسوں میں قرآن‬
‫‪۱۵‬‬

‫اکیڈمی لاہور میں اسی ترتیب تدریسکو اختیارکر کے بہتر نتائج حاصلکئے گئے ہیں ۔‬

‫‪ 19‬اسم کے استعمالکو درستکرنے کے لئے کسی زبان کے واحد جمع مذکر‬

‫مونث‪ ،‬معرفہ نکرہ اور اسم کی مختلف حالتوں کے قواعد جاننا ضروری ہیں ۔ مثلاً غیر‬

‫حقیقی مونث کا قاعدہ ہر زبان میں یکساں نہیں ہے ۔ جہاز اور چاند کو اردو میں مذکرمگر‬

‫انگریزی میں مونث بولا جاتا ہے ۔ سورج اور خرگوشکو عربی میں مونثمگراردو میں‬

‫مذکر بولتے ہیں ۔ اس لئے ضروری ہےکہ فعل کے درست استعمال کے ساتھ اسمکو‬

‫بھی ٹھیک طرح استعمالکیا جائے ۔ اسم کے درست استعمال کے لئے ہرزبان میں عموماً‬

‫اور عربی میں خصوصاً اسم کا چار پہلوؤں سے جائزہ لے کر اسے قواعد کے مطابق‬

‫استعمالکرنا ضروری ہے ۔ اس صورت میں اسم کے استعمال میں غلطی نہیں ہوگی ۔‬

‫‪ iii‬عدد اور ( ‪ )iv‬وسعت ‪ ،‬جنہیں ہم‬


‫( )‬ ‫وہ چار پہلو یہ ہیں ‪ )i ( :‬حالت ( ‪ )ii‬جنس‬

‫اور‬ ‫) ‪Number ( 3‬‬ ‫) ‪Gender ( 2‬‬ ‫انگریزی میں علی الترتیب ( ‪Case ) 1‬‬

‫( ‪Kind )4‬کہتے ہیں ۔ عبارت میں استعمال ہوتے وقت از روئے قواعد زبان ‪ ،‬ہراسم‬

‫کی ایک خاص حالت ‪ ،‬جنس ‪ ،‬عدد اور وسعت مطلوب ہوتی ہے ۔ انہی چار پہلوؤں‬

‫کے بارے میں باتکرتے ہوئے ہم اپنے اسباق کا آغاز اسم کی حالت کے بیان سے‬

‫کرتے ہیں ۔ لیکن اس سے قبل اسم فعل اور حرفکی تعریف ( ‪ ) Definition‬کو‬

‫د ہرالینا مفید ہو گا ۔‬

‫اسم‬

‫اسم اس لفظیا کلمہکوکہتے ہیں جس سے کسی چیز جگہ یا آدمی کا نام یا اسکی صفت‬

‫ظاہرہو ۔ مثلارَ جُلَّ ( مرد ) ‪ ،‬حَامِدٌ ( خاص نام ) طيب ( اچھا ) وغیرہ ۔‬

‫اس کے علاوہ ایسا لفظ یاکلمہ بھی اسم ہوتا ہے جس کے معنی میںکوئی کامکرنے‬

‫کا مفہوم ہو ۔ لیکن اس میں تینوں زمانوں میں سے کوئی زمانہ نہ پایا جاتا ہو ۔ سیہ‬

‫بات بہت اہم ہے ۔ اس لئے اردو الفاظ کی مدد سے اسکو اچھی طرح سمجھکر‬
‫‪Σ‬‬
‫ذہن نشین کر لیں ۔‬

‫پہلے تین الفاظ پر غورکریں ۔ مارا مارتا ہے‪ ،‬مارےگا ۔ ان تینوں الفاظ میں‬

‫مارنے کے کام کا مفہوم ہے اور ان میں علی الترتیب ماضی ‪ ،‬حال اور مستقبل کے‬

‫زمانے کا مفہوم بھی پایا جاتاہے ۔ اس لئے یہ تینوں لفظ فعلہیں ۔ پھر ایک لفظ ہے مارنا‬

‫( ضَرْبٌ) ۔ اس میں کام کا مفہوم تو ہے لیکنکسی بھی زمانے کا مفہوم نہیں ہے ۔ اس‬

‫لئے یہ لفظاسم ہے اور ایسے اسماءکو مصد رکھتے ہیں ۔‬

‫فعل‬

‫فعل وہ کلمہ ہے جس سےکسی کام کاکرنا یا ہونا ظاہر ہو اور اس میں تین زمانوں‬

‫ماضی‪،‬حال اور مستقبل میں سے کوئی زمانہ بھی پایا جائے ۔ مثلا ضَرب ( اس نےمارا )‬

‫ذَهَبَ ( وہگیا) يَشْرَبُ(وہ پیتا ہے یا پنےگا) وغیرہ ۔‬

‫حرف‬

‫وہلفظ یاکلمہ ہے جو اپنے معانی واضحکرنے کے لئےکسی دوسرےکلمہ کا محتاج ہو‬

‫یعنی کسی اسم یا فعل سے ملے بغیر اس کے معانی واضح نہ ہوں ۔ مثلاً من کا معنی ہے‬

‫" سے " ۔ لیکن اس سے کوئی بات واضح نہیں ہوتی ۔ جب ہمکہتے ہیں مِنَ الْمَسْجِدِ‬

‫یعنی مسجد سے تو بات واضح ہوگئی ۔ اسی طرح عَلی( پر) عَلَى الْفَرَسِ (گھوڑے پر )‬

‫کا بازارکی طرف ) وغیرہ ۔‬


‫اورالی (تک کی طرف ) ‪ -‬إِلَى السُّوقِ ( بازارتی‬
‫‪12‬‬

‫اسمکی حالت( حصہ اول )‬

‫‪ ۲‬کسی بھی زبان میں کوئی اسم جبگفتگو یا تحریر میں استعمال ہوتا ہے تو وہ تین‬ ‫‪۱‬‬

‫حالتوں میں سے کسی ایک میں ہی استعمال ہوتا ہے ۔ چوتھی حالتکوئی نہیں ہو سکتی ۔‬

‫یا تو وہ اس عبارتمیں فاعل کے طور پر مذکور ہوگا یعنی حالت فاعلی میں ہوگا ۔یا پھر‬

‫حالت مفعولی میں ہو گا اور یاکسی دوسرے اسم وغیرہ کی اضافت اور تعلق سے مذکور‬

‫ہوگا ۔ اس حالتکو حالت اضافی کہتے ہیں ۔ دورانِ استعمال اسم کی اس حالتکو‬

‫انگریزی میں ‪Case‬کہتے ہیں ۔ اور انگریزی میں بھی ‪ Case‬تین ہی ہوتے ہیں ۔ جو‬

‫‪ Nominative‬یا ‪ Objective‬یا ‪Possessive Case‬کہلاتے ہیں ۔ عربی‬

‫میں بھی اسم کے استعمالکی یہی تین حالتیں ہوتی ہیں ۔ انہیں حالت رفع حالت نصب‬

‫اور حالت جر یا مختصر رفع نصب اور جر کہتے ہیں ۔ خیال رہےکہ جو اسم حالت رفع‬

‫میں ہو اسے مرفوعکہتے ہیں ‪ ،‬جو اسم حالت نصبمیں ہوا سے منصوبکہتے ہیں اور جو‬

‫اسم حالت جر میں ہو اسے مجرورکہتے ہیں ۔ اس طرح اردو اور انگریزیگرامرکی مدد‬

‫سے عربی گرامر میں اسمکی حالتکو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے ۔ صرف اصطلاحی ناموں کا‬

‫فرق ہے ۔ ضرورت ہے کہ ہم عربیکی اصطلاحاتکو مندرجہ ذیل نقشہ سے سمجھکریاد‬

‫کرلیں ۔‬

‫‪Possessive Case | Objective Case Nominative Case‬‬ ‫انگریزی‬

‫نَصْبٌ‬ ‫رفع‬ ‫عربی‬

‫حالت اضافی‬ ‫حالت مفعولی‬ ‫حالتفاعلی‬ ‫اردو‬

‫‪ ۲ : ۲‬مختلف حالتوں میں استعمال ہوتے وقت بعض زبانوں کے اسماء میں کچھ تبدیلی‬
‫‪۱۸‬‬

‫واقع ہوتی ہے جسکی مدد سے ہم پہچانتے ہیں کہ عبارتمیںکوئی اسمکس حالت میں‬

‫استعمال ہوا ہے ۔ اس باتکو ہم اردو کے ایک جملہکی مدد سے سمجھتے ہیں‬


‫‪ ،‬مثلاً "حامد‬

‫نے محمود کو مارا ۔ اب اگر ہم آپ سے پوچھیں کہ اس میں فاعل کون ہے اور‬

‫مفعولکون ہے ‪ ،‬تو آپ فور ابتا دیں گے کہ حامد فاعل اور محمود مفعول ہے ۔ لیکن اس‬

‫کی وجہ یہ ہے کہ آپ جملہ کا مفہوم سمجھتے ہیں ۔ اس لئے یہ بات بتانے میں آپکو‬

‫مشکل پیش نہیں آئی ۔‬

‫اب فرضکریںکہ ایک شخص کو اردو نہیں آتی اور وہگرامرکی مدد سے اردو‬

‫سیکھنا چاہتا ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ پہلے وہ عبارت میں اسمکی حالتکو‬

‫پہچانے ۔ اس کے بعد ہی ممکن ہوگاکہ وہ عبارت کا صحیح مفہوم سمجھ سکے ۔ اس لئے‬

‫پہلے ہمیں اسکو کوئی علامت یا نشانی بتانی ہو گی جسکی مدد سے وہ مذکورہ جملہ میں‬

‫فاعل اور مفعولکو پہچان سکے ۔ اس پہلو سے آپمذکورہ جملہ پر دوبارہ غورکر کے وہ‬

‫علامت معلومکرنے کیکوششکریں جسکی مدد سے اس میں فاعل اور مفعول یعنی‬

‫عبارت میں اسمکی حالتکو پہچانا جاسکے ۔‬

‫جو طلبہ اسکوشش میں ناکام رہے ہیں انکی مدد کے لئے اس جملہ میں تھوڑی‬

‫سی تبدیلیکر دیتے ہیں ۔ آپ اس پر دوبارہ غورکریں ۔ ان شاء اللہ اب آپعلامت‬

‫کو پہچان لیں گے ۔ "حامدکو محمود نے مارا ۔ اب آپآسانی سے بتا سکتے ہیںکہ اردو‬

‫لگا ہوا ہوتا ہے ۔ اسی‬ ‫میں زیادہ تر فاعلکے ساتھ " نے " اور مفعولکے ساتھ "کو‬

‫طرح اب یہ بھی سمجھ لیںکہ اردو میں حالت اضافی میں زیادہ تر دو اسماء کے درمیان‬

‫"کا "یا "کی "لگا ہوتاہے ۔ جیسے لڑکے کا قلم لڑکےکی کتاب وغیرہ ۔‬

‫‪ ۲ :‬اب سوال یہ ہے کہ عربی کی عبارت میں استعمال ہونے والے اسماء کی‬

‫حالتکو پہچاننے کی علاماتکیا ہیں ۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ نوٹکر لیںکہ یہ‬

‫علامات ایک سے زیادہ ہیں ۔ لیکن اس سبق میں ہم زیادہ استعمال ہونے والی ایک‬

‫علامتکو سمجھ کر اسکی مشق کریں گے ۔ تاکہ ذہن میں اسمکی حالتکو پہچاننے کا‬
‫‪19‬‬

‫تصور واضح ہو جائے ۔ اس کے بعد اگلے اسباق میں دوسری علامات جب زیر مطالعہ‬

‫آئیں گی تو انہیں سمجھتا ان شاء اللہ مشکل نہیں رہےگا ۔‬

‫‪ ۲ : ۴‬اب نوٹکر لیجئے کہ عربی زبان کی یہ عجیب خصوصیت ہےکہ اس کے اتنی‬

‫پچاسی فیصد اسماء ایسے ہیں جو رفع نصب اور جر تینوں حالتوں میں ایک مختلفشکل‬

‫اختیارکر لیتے ہیں ۔ اس سے آپ کے ذہن میں شاید یہ باتآئےکہ اس طرحتو عربی‬

‫بڑی مشکل زبان ہوگی جس میں ہر اسم کے لئے ایک کے بجائے تین اسم یعنی تین لفظ‬

‫یادکرنا پڑیں گے مگر اس وہم کی بنا پرگھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ حقیقتیہ ہےکہ‬

‫ہے ۔کیونکہ عربی زبان کے اسماءکو استعمال‬


‫ایک اسم کے لئے ایک ہی لفظ یادکرنا ہوتا‬

‫کرتے وقت حالت کے لحاظ سے جو تبدیلی آتی ہے وہ لفظ کے صرف ”آخری حصے "‬

‫میں واقع ہوتی ہے ۔ مثلاًکوئی اسم اگر پانچ حرفوںکا ہے تو پہلے چار حرفوں میں کوئی‬

‫تبدیلی نہیں ہوگی بلکہ صرف آخری یعنی پانچویں حرفکے پڑھنے کا طریقہ بدل جائے‬

‫گا ۔ اسی طرحکوئی اسم اگر تین حرفوں کا ہے تو پہلے دو حرفوںمیںکوئی تبدیلی نہیں‬

‫ہوگی ۔ صرف آخری یعنی تیسرے حرف کے پڑھنے کا طریقہ بدلے گا ۔ مثلاً حالت‬

‫فاعلی مفعولی اور اضافی میں لفظ لڑکا کی عربی علی الترتيب " وَلَدٌ وَلَدًا اور وَلَدٍ‬

‫ہوگی ۔‬

‫‪ ۲ : ۵‬ابھی ہم نے پڑھا ہے کہ عربی کے تقریباً ای پچاسی فیصد اسماء کا آخری حصہ‬

‫رفع نصب ‪ ،‬جرمینوں حالتوں میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ جو اسم تینوں حالتوں میں یہ‬

‫مغرب منصوف"کہتے ہیں ۔ اسکی‬ ‫تبدیلی قبولکرتا ہے اسے عربی قواعد میں‬

‫پہچان کا عام طریقہ یہ ہے کہ اس کے آخری حرفپر تنوین آتی ہے ۔ یعنی حالت رفع‬

‫) ہوتی‬ ‫میں دو پیش ( ‪ )2‬حالت نصب میں دو زبر ( ے ) اور حالت جر میں دو زیر(‬

‫ہے ۔ اسم معرب منصرف کے آخری حرفکی تبدیلی کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں ‪:‬‬
‫چند معرب منصرف اسماءکی گردان مع معانی‬

‫حالت جر‬ ‫حالت نصب‬ ‫معنی‬ ‫حالت رفع‬

‫مُحَمَّدٍ‬ ‫مُحَمَّدًا‬ ‫مُحَمَّدٌ‬


‫یہ نام ہے‬

‫شَيْءٍ‬ ‫شَيْئًا‬ ‫چیز‬ ‫شَيْءٌ‬

‫جَنَّةٍ‬ ‫باغ‬

‫بِنت‬ ‫بنتا‬ ‫لڑکی‬ ‫بنت‬

‫سَمَاء‬ ‫سَمَاء‬
‫سَمَاء‬ ‫آسمان‬

‫سُوءٍ‬ ‫سُوءً‬ ‫برائی‬ ‫سوء‬

‫‪ ۲ :‬امید ہےکہ مندرجہ بالا مثالوں میں آپ نے یہ باتنوٹکرلی ہو گی کہ ‪:‬‬

‫( ‪ ) i‬جس اسم پر حالت نصب میں دو زبر (‪ ) 2‬آتے ہیں اس کے آخر میں ایک‬

‫۔ مثلاً مُحَمَّدٌ سے مُحَمَّد لکھنا غلط ہے ۔ بلکہ مُحَمَّدًالکھا جائے‬


‫الف بڑھا دیا جاتاہے‬

‫گا ۔ اسی طرحكِتَابٌ سےكِتَابًا وغیرہ ۔‬

‫(‪ )ii‬اس قاعدہ کے دو استثناء ہیں ۔ اولیہکہ جس لفظ کا آخری حرفگول " "‬

‫یعنی (تائے مربوطہ ) ہو اسپر دوز برللیکھتے وقت الفکا اضافہ نہیں ہو گا مثلاً جتنا لکھنا‬

‫غلط ہے اسے جگہ لکھا جائے گا ۔ دیکھئے ! بنتکا لفظگول " " پر نہیںبلکہ لمبی ت (یعنی‬

‫تائے مبسوطہ ) پر ختم ہو رہا ہے ۔ اس لئے اس پر استثناء کا اطلاق نہیں ہوا اور حالتِ‬

‫نصب میں اس پر دو ز بر لکھتےوقت الفکا اضافہکیا گیا ۔‬

‫(‪)iii‬دوسرا استثناء یہ ہےکہ جو لفظ الف یا واؤ کے ساتھ ہمزہ پر ختم ہو اسکے آخر‬

‫سے سُوء ۔ دیکھئے‬ ‫میں بھی الفکا اضافہ نہیں ہو گا ۔ مثلاً سماء سے سَمَاءُ اور سو‬

‫شی کا لفظ بھی ہمزہ پر ختم ہو رہا ہے لیکن اس سے قبل الف یا واؤ نہیں بلکہ " ی "‬

‫ہے اس لئے اس پر دوز بر لگاتے وقت الفکا اضافہکیا گیا ہے یعنی شَيْءٌ سے شَيْئًا ۔‬
‫‪M‬‬

‫مشق نمبرا‬

‫نیچے دیئے ہوئے الفاظکو الگکاغذ پر دوبارہ لکھیں ۔ اس سلسلہ میں یہ احتیاط‬

‫ضروری ہےکہ (‪ ) ۱‬کاغذ پر سب سے پہلے اپنا نام اور رول نمبرلکھیں ۔ ( ‪ ) ۲‬صرف‬

‫عربی الفاظ لکھیں ‪ ،‬اگر کوئی لفظ غلط لکھا ہوا ہے تو اسے درستکر کے لکھیں ۔‬

‫( ‪ ) ۳‬ہر لفظ کے آگے بریکٹ میں اس کی حالت لکھیں ۔ مثلاً جَنَّةٌ ( رفع )‪ ،‬كَتَابًا‬

‫) وغیرہ ۔ اگر کسی لفظ کے معنی نہیں معلوم ہیں ‪ ،‬تب بھی آپکو اسکی حالت‬
‫(نصب‬

‫پہچان لینی چاہیے ۔ رَسُوْلاً شَيْ ءٍ جَنَّنَا شَيْئًا مَحْمُوْدٌ بِنْتِ آيَنَا بِنْتَا شَهْوَةٌ‬

‫عَذَابٍ رِجْزَ سَمَاءًا حَامِدًا صِبْغَةً خِزْيٌ سُوْءٍ‬

‫ضروریہدایت‬

‫کسی سبق میں جہاںکہیں بھی کسی عربی لفظ کے معنی دیئے ہوئے ہیں انکو یادکرنا‬

‫اپنے اوپر لازمکرلیں ۔ جبتککسی سبق میں دیئے گئے تمام الفاظ کے معانی یاد نہ ہو‬

‫جائیں ‪ ،‬اس وقت تک اس سبق کی مشق نہکریں ۔ اسکی وجہ سمجھ لیں ۔‬

‫چند اسباق کے بعد آپکو مرکبات اور جملے بنانے ہیں اور ان کے ترجمےکرنے‬

‫ہیں ۔گزشتہ اسباق میں دیئے گئے الفاظ کے معانی اگر آپکو یاد نہیں ہوں گے تو یہ‬

‫کام آپکے لئے بہت مشکل ہو جائے گا ۔‬

‫دوسری بات یہ ہےکہ اسکتاب میں اکثریت ایسے الفاظکی ہے جو قرآن مجید‬

‫میں استعمال ہوئے ہیں ۔ ان کے معانی یا د ہونے سے آپکو قرآن مجید کا ترجمہ سمجھنے‬

‫میں آسانی ہوگی ۔‬


‫‪۲۲‬‬

‫اسمکی حالت ( حصہ دوم)‬

‫‪ ۳ : ۱‬گزشتہ سبق میں ہم نے پڑھا ہے کہ عربی کے تقریباً ‪ ۸۵ - ۸۰‬فیصد اسماء کا‬

‫آخری حصہ تینوں حالتوں میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ایسے اسماءکو معربکہتے ہیں ۔‬

‫ابسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی ‪ ۲۰ - ۱۵‬فیصد اسماء تبدیل ہوتے ہیں یا نہیں ؟ اور‬

‫عبارت میں انکی حالت کو کیسے پہنچانتے ہیں ؟ ۔ اس سبق میں ہم نے یہی باتسمجھنی‬

‫ہے ۔‬

‫‪ ۳ : ۲‬عربی کے باقی پندرہ ہیں فیصد اسماء جو معرب منصرف نہیں ہیں ان میں سے‬

‫زیادہ تر ایسے ہیں جن کا آخری حرفمینوں حالتوں میں نہیں بدلتا بلکہ وہ صرف دو‬

‫شکلیں اختیارکرتے ہیں یعنی حالت رفع میں انکی شکل الگہوتی ہے لیکن نصب اور‬

‫جر دونوں حالتوں میں انکی شکل ایک جیسی رہتی ہے ۔ ایسے اسماءکو عربی قواعد میں‬

‫معرب غیرمنصرف " یا صرف " غیرمنصرف " بھی کہا جاتا ہے ۔ اسم غیرمنصرف کے‬

‫آخری حرفکی تبدیلیکی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں ‪:‬‬

‫چند معرب غیر منصرف اسماءکی گردان مع معانی‬

‫حالت جر‬ ‫حالت نصب‬ ‫معنیٰ‬ ‫حالت رفع‬

‫مرد کانام‬
‫إبْرَاهِيمَ‬ ‫إبْرَاهِيمَ‬ ‫إبْرَاهِيمُ‬

‫مَكَّةَ‬ ‫مكة‬ ‫مكة‬


‫شہرکا نام‬

‫مَرْيَمَ‬ ‫مَرْيَمَ‬ ‫عورت کا نام‬ ‫مَرْيَمُ‬

‫إِسْرَائِيلَ‬ ‫إِسْرَائِيلَ‬ ‫إسْرَائِيلُ‬


‫قوم کا نام‬

‫أَحْمَرَ‬ ‫أَحْمَرَ‬ ‫سرخ‬ ‫أَحْمَرُ‬

‫اسْوَدَ‬ ‫اسْوَدَ‬ ‫سیاه‬ ‫أَسْوَدُ‬


‫‪۲۳‬‬

‫امید ہےکہ مذکورہ مثالوں میں آپ نے یہ باتنوٹکرلی ہوگیکہ ‪:‬‬

‫(‪ ) 1‬غیرمنصرف اسماءکی نصب اور جر ایک ہی شکل میں آتی ہے ۔ مثلاً إِبْرَاهِيمُ‬

‫حالت رفع سے حالت نصبمیں ابراہیم ہوگیا لیکن حالت جر میں ابراہیم نہیں ہوا‬

‫بلکہ ابْرَاهِیمَ ہی رہا ۔ اسی طرحباقی اسماءکی بھی نصباور جر میں ایک ہی شکل ہے ۔‬

‫( ‪ )1‬غیر منصرف اسماء کے آخری حرف پر حالت رفع میں ایک پیش ( ے) اور‬

‫نصب اور جر دونوں حالتوں میں صرف ایک زبر (‪) 1‬آتی ہے ۔ لہذا ایک زبر(‪) 1‬‬

‫لکھتے وقت الف کا اضافہ نہیں ہوتا ۔ یہ قاعدہ صرف دو زبر( گے )کے لئے مخصوص‬

‫ہے ۔ یاد رکھئے کہ اسم غیرمنصرف کے آخر پر تنوینکبھی نہیں آتی ۔ جسکی وجہ سے‬

‫معرباور غیرمنصرف اسماء میں تمیزکرنے میں آسانی ہوتی ہے ۔‬

‫‪ ۳ : ۴‬آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمیںکیسے معلوم ہو گاکہ فلاں اسم معرب‬

‫منصرف ہے یا غیر منصرف ! تو اس کی حقیقت تو یہ ہےکہ غیر منصرف اسماء کے کچھ‬

‫قواعد ہیں جو آخر میں پڑھائے جاتے ہیں ۔ فی الحال ہمارا طریقہ کار یہ ہوگاکہ ذخیرہ‬

‫الفاظ میں ہم غیر منصرف اسماءکی نشاندہی ان کے آگے لفظ ( غ‬


‫) بناکرکردیاکریںگے ۔‬

‫گویا سردست آپکو جن اسماء کے متعلق بتا دیا جائے انہیں غیرمنصرف سمجھئے ۔ ان پر‬

‫کبھی تنوین نہ ڈالئے اور ان کی رفع نصب‪ ،‬جر (ن ) ‪ ( ،‬گ) اور (ے) کے ساتھ‬

‫لکھئے ۔ نیز یہ بھی نوٹکرلیںکہ عربی میں عورتوں ‪ ،‬شہروں اور ملکوں کے نام عام طور پر‬

‫غیرمنصرف ہوتے ہیں ۔‬

‫‪ ۳ : ۵‬عربی زبان کے کچھ گنے چنے اسماء ایسے بھی ہیں جو رفع نصب ‪ ،‬جر ‪ ،‬تینوں‬

‫حالتوں میں کوئی تبدیلی قبول نہیںکرتے اور تینوں حالتوں میں ایک جیسے رہتے ہیں ۔‬

‫ایسے اسماءکو مبینیکہتے ہیں ۔ ان کا کوئی قاعدہ نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں بھی ہمارا‬

‫طریقہ کاریہ ہو گا کہ ذخیرہ الفاظ میں ان کے آگے ( م ) بنا کر ہم نشاندہیکریں گے کہ یہ‬

‫الفاظ مبنی ہیں ۔ انکی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں ۔‬


‫‪۲۴‬‬

‫چند مبنی اسماءکی گردان مع معانی‬

‫حالت جر‬ ‫حالت نصب‬ ‫معنی‬ ‫حالت رفع‬

‫هذا‬ ‫هذا‬ ‫یہ ( مذکر)‬ ‫هذَا‬

‫الَّذِي‬ ‫الَّذِي‬ ‫جوکہ ( مذکر)‬ ‫الَّذِي‬

‫تِلْكَ‬ ‫تِلْكَ‬ ‫وہ ( مونث )‬ ‫تِلْكَ‬

‫‪ ۳ :‬اب اسم کی حالت کے متعلق چند باتیں سمجھکر دیاکرلیں ۔ پہلی بات یہ ہے کہ‬

‫کسی لفظ کے آخری حصہ میں ہونے والی تبدیلیکو عربیگرامر میں "اعراب "کہتے‬

‫ہیں ۔ یاد رہے کہکسی اسمکی حالت سے مراد اسکی اعرابی حالت ہی ہوتی ہے ‪ ،‬جو‬

‫تین ہی ہوتی ہیں یعنی رفع نصبیا جر ۔ اور ہراسم عبارتمیں استعمال ہوتے وقت‬

‫مرفوع منصوبیا مجرور ہوتا ہے ۔‬

‫‪ ۳ : ۷‬دوسری بات یہ ہے کہ کسی لفظکی اعرابی حالت چونکہ زیادہ تر حرکات یعنی‬

‫زبر‪ ،‬زیر یا پیش کی تبدیلی سے ظاہرکی جاتی ہے ‪ ،‬اس لئے حرکات لگانےکو بھی غلطی‬

‫سے اعرابکہہ دیتے ہیں ۔ جبکہ ان دونوںمیں فرق ہے ۔ اعراب اور حرکات کے‬

‫فرقکو ہم ایکلفظکی مدد سے سمجھ لیتے ہیں ۔ لفظ منافق کے آخری حرف" ق "پر جو‬

‫دو پیش ( ‪ )1‬ہیں ‪،‬یہ اس لفظ کا اعراب ہے ۔ جبکہ " ق " سے پہلے کے حروف پر جہاں‬

‫کہیں بھی زبر (‪ ‘ ) 1‬زیر( ‪ )-‬اور پیش ( ‪ ) 2‬لگی ہوئی ہیں ‪ ،‬وہ سب اس لفظ کی‬

‫حرکات ہیں ۔ اسی طرح لفظ ابراہیم کے آخری حرف میم پر ایک پیش ( ‪ ) 2‬اس کا‬

‫اعراب ہے ۔ جبکہ اس سے پہلے کے حروفپر زبر(کے) اور زیرہ (ہے‬


‫) اسکی حرکات‬

‫ہیں ۔‬

‫‪ ۳ :‬آخری بات یہ ہے کہ زیر جبحرکت کے طور پر استعمال ہوتا ہےتو اسے فتحہ‬

‫کہتے ہیں اور اعرابمیں اُسے نصبکہا جاتا ہے ۔ زیرکو حرکت میںکسرہ اوراعراب‬

‫میں جر کہتے ہیں ۔ اسی طرح پیش کو حرکت میں ضمہ اور اعرابمیں رفعکہتے ہیں ۔‬
‫مشق نمبر‪۲‬‬

‫مندرجہ ذیل اسماء سے اسم کی گردانکریں ۔ ان میں سے جو اسماء غیر منصرف‬

‫) بنا دیاگیاہے تاکہ انہیں ذہن‬


‫ہیں ان کے آگے ( غ) اور جو مبنی ہیں ان کے آگے ( م‬

‫نشین کر لیں اور گردان اس کے مطابق کریں ۔ ساتھ ہی الفاظ کے معانی بھی‬

‫یادکریں ۔‬

‫معنی‬ ‫الفاظ‬ ‫معنی‬ ‫الفاظ‬

‫مسجدکی جمع‬ ‫مَسَاجِدُ (غ)‬ ‫اجر ۔ ثواب‬ ‫ثَوَابٌ‬

‫گندگی ۔ آفت‬ ‫رجز‬ ‫جان‬ ‫نَفْسٌ‬

‫یہ لوگ‬ ‫هولاء ( م)‬ ‫ایک نام‬ ‫عِمْرَانُ(غ)‬

‫دیوار‬ ‫جِدَارٌ‬ ‫برائی‬ ‫سَيِّئَةٌ‬

‫مس‬
‫ایک نام‬ ‫يُوسُفُ(غ)‬ ‫لمان‬ ‫مُسْلِمٌ‬

‫سورج‬ ‫شَمْسٌ‬ ‫جو کہ ( مونث)‬ ‫الَّتِي (م)‬

‫شهر‬ ‫مَدِينَةٌ‬ ‫پانی‬ ‫مَاء‬

‫رنگ‬ ‫صِبْغَةٌ‬ ‫دروازه‬ ‫بَابٌ‬

‫پھل‬ ‫ثَمَرٌ‬ ‫نشانی‬ ‫آيَةٌ‬

‫رسوائی‬ ‫خِزْى‬ ‫خواہش‬ ‫شَهْوَةٌ‬


‫‪۲۶‬‬

‫جنس‬

‫‪ ۴ : ۱‬کسی اسم کو عبارت میں درست طریقے پر استعمالکرنے کے لئے جن چار‬

‫پہلوؤں سے دیکھا جانا ضروری ہے ‪ ،‬ان میں سے پہلی چیز اسمکی حالت (یا اعرابی‬

‫ہے ‪ ،‬جس پر پچھلے سبق میں کچھ بات ہو چکی ہے ۔ اسمکی بحثمیں دوسرا اہم‬ ‫حالت‬

‫پہلو " جنس " کا ہے ۔ جنس کے لحاظ سے عربی زبان میں بلکہ عموماً ہر زبان میں ) اسمکی‬

‫دوہی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ وہ یا ذکر ہو گا ‪ ،‬یعنی عبارتمیں اس کا ذکر ایسے ہوگا جیسے‬

‫‪ ،‬یا پھر مونث کے طور پر استعمال ہو گا ۔ ہر زبان میں‬


‫کی تر ( ‪ ) Male‬کا ذکر ہو رہا ہے‬

‫الفاظ کے مذکر و مونث کے استعمال کے قواعد یکساں نہیں ہیں ۔کسی زبان میں ایک‬

‫لفظ مذکر بولا جاتا ہے تو دوسری زبان میں وہ مونث ہو سکتا ہے ۔ مثلا انگریزی میں بحری‬

‫جہاز ( ‪ ) Ship‬اور چاند ( ‪ ) Moon‬مونث استعمال ہوتے ہیں مگراردو میں مذکر ۔ لہذا‬

‫کسی بھی زبانکو سیکھنے کے لئے اس زبان کے اسماء کی تذکیرو تانیٹ یعنی انکو نہکریا‬

‫مونثکی طرح استعمالکرنے کا علم ہونا ضروری ہے ۔‬

‫‪ ۴ : ۲‬عربی اسماء پر غورکرنے سے علماء نحو نے یہ دیکھاکہ یہاں مذکر اسم کے لئے تو‬

‫کوئی خاص علامت نہیں مگرمونث اسماء معلومکرنے کی کچھ علامات ضرور ہیں ‪ ،‬جنہیں‬

‫علامات تانیثکہتے ہیں ۔لہذا عربی سیکھنے والوںکو چاہئےکہ وہکسی اسم کے استعمال‬

‫میں اسکی جنسکو متعینکرنے کے لئے علاماتتانیث کے لحاظ سے اسکو دیکھیں ۔‬

‫اگر اس میں تانیثکی کوئی باتپائی جاتی ہے تو وہ اسم مونث شمارہوگا ورنہ اسے مذکر‬

‫ہی سمجھا جائے گا ۔کسی اسم میں تانسیفکی شناخت کے حسب ذیل طریقے ہیں ۔‬

‫‪ ۴ : ۳‬پہلا طریقہ یہ ہے کہ لفظ کے معنی پر غورکریں ۔ اگر وہ کسی حقیقی مونث کے‬

‫لئے ہے‪ ،‬یعنی اس کے مقابلہ پر مذکر ( یا نر ) جو ڑا بھی ہوتا ہے جیسے اِمْرَأَةٌ (عورت )‬
‫‪۲۷‬‬

‫تو وہ لازماً‬ ‫کے مقابلہ پر رَجُلٌ ( مرد ) اُم (ماں ) کے مقابلہ پر آب (باپ) وغیرہ‬

‫مونث ہوگا ۔ ایسے اسماء کو " مونث حقیقی "کہتے ہیں ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لفظ کو‬

‫دیکھیں کہ کیا اس میں تانیثکیکوئی علامت موجود ہے ؟ یہ علامات تین ہیں اور ان‬
‫اء‬
‫ا ء ""‬ ‫میں سے ہر ایک اسم کے آخری حصہ میں آتی ہے ۔ علاماتیہ ہیں " "" "‬

‫ی " یعنی کوئی اسم اگر ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ختم ہوتا نظرآئےتو اسے‬ ‫"‬

‫مونث سمجھا جائےگا ۔ ایسے اسماءکو ” مونث قیاسی "کہتے ہیں ۔‬

‫‪ ۴ : ۴‬اب یہ بات سمجھ لیجئےکہ جن الفاظ کے آخر میں گول " "آتی ہے ‪ ،‬عربی میں‬

‫انہیں مونٹ مانا جاتا ہے ۔ مثلاً جَنَّةٌ ( باغ ) یا صَلوةٌ (نماز ) وغیرہ عربی میں مونث‬

‫استعمال ہوتے ہیں ۔ نیز ا کثر الفاظکو مونثبنانے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ مذکر لفظ کے‬

‫آخری حرف پر زبر لگا کر اس کے آگے گول " " کا اضافہکردیتے ہیں جیسے کافر‬

‫(کافر) سے كَافِرَةٌ ( کافرہ ) حَسَنٌ (اچھا ۔ خوبصورت) سے حَسَنَةٌ (اچھی ۔‬

‫خوبصورت) وغیرہ ۔ اس قاعدہ سے گنتی کے چند الفاظ مستثنیٰ ہیں مثلاً خَلِيفَةٌ‬

‫( مسلمانوں کا حکمران ) ‪ ،‬عَلامَةٌ ( بہت بڑا عالم ) وغیرہ ۔ حالانکہ ان کے آخر میںگول "‬
‫‪re‬‬
‫ہے ۔ لیکن یہ مذکر استعمال ہوتے ہیں ۔ دوسری علامت تانیث " ‪ -‬ا ء " ہے جسے‬

‫الفممدودہکہتے ہیں ۔ جن اسماء کے آخر میں یہ علامتآتی ہے انہیں بھی مؤنث مانا‬

‫جاتا ہے ۔ مثلاً حَمْرَاءُ ) سرخ ) خَضْرَاءُ ( سبز) وغیرہ ۔ خیال رہےکہ الفممدودہ پر‬

‫ختم ہونے والے اسماء غیرمنصرف ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہےکہ ان کے ہمزہ پر تنوین‬

‫کے بجائے ایک پیش آتی ہے ۔ تیسری علامت تانیث " ! می " ہے جسے الف‬

‫مقصورہکہتے ہیں ۔ جن اسماء کے آخر میں یہ علامت آتی ہے انہیں بھی مؤنمثانا جاتا‬

‫ہے ۔ مثلا عظمی ( عظیم ) خبری ( بڑی ) وغیرہ ۔ خیال رہےکہ الف مقصورہ پر ختم‬

‫ہونے والے اسماء رفع نصب اور جر تینوں حالتوں میں کوئی تبدیلی قبول نہیں‬

‫کرتے ۔ اس لئے مختلف اعرابی حالتوں میں ان کا استعمال بھی مینی اسماءکی طرح ہوگا ۔‬

‫‪ ۴ : ۵‬بہت سے اسم ایسے ہوتے ہیں جو در حقیقتنہ تو مذکر ہوتے ہیں ‪ ،‬نہ مونٹ‬
‫‪۲۸‬‬

‫اور نہ ہی ان پر مونثکی کوئی علامت ہوتی ہے ۔ ایسے اسماءکی جنس کا تعین اسبنیاد‬

‫پر ہوتا ہے کہ اہل زبان انہیں کس طرح بولتے ہیں ۔ جن اسماءکو اہل زبان مونث‬

‫بولتے ہیں انہیں ” مونث سماعی "کہتے ہیں اس لئےکہ ہم اہل زبانکو اسی طرحبولتے‬

‫ہوئے سنتے ہیں ۔ مثالکے طور پر سورجکو لے لیں ۔ اب حقیقتاً سورجنہ تو مذکر ہے‬

‫اور نہ ہی مونث ۔ ہم نے اردو کے اہل زبانکو اسے مذکر بولتے ہوئے سناہے اس‬

‫لئے اردو میں سورج مذکر ہے ۔ جبکہ عربی کے اہل زبان شمس (سورج )کو مونث‬

‫بولتے ہیں ۔ اس لئے عربی میں شمش مونثسماعی ہے ۔ اسکی ایک دلچسپ مثال یہ‬

‫کھٹی "کہتے ہیں ۔‬ ‫ہے کہ دہلی والے دہیکو ”کھٹا کہتے ہیں جبکہ لکھنو والے اسے‬

‫اس لئے لکھنو والوں کے لئے دہی مونث سماعی ہے ۔ اب ذیل میں چند الفاظ دیئے جا‬

‫رہے ہیں جو اردو اور عربی دونوں زبانوں میں مونث بولے جاتے ہیں ۔ آپان کے‬

‫معنی یادکرلیں اور یہ بھی یادرکھیںکہ یہ مونث سماعی ہیں ‪- :‬‬

‫آسمان‬ ‫سَمَاء‬ ‫زمین‬ ‫أَرْضٌ‬

‫ہوا‬ ‫لڑائی‬ ‫حَرْبٌ‬


‫رِيحٌ‬

‫جان‬ ‫نَفْسٌ‬ ‫آگ‬ ‫نَارٌ‬

‫ان کے علاوہ ملکوں کے نام بھی مونث سماعی ہیں جیسے مضر ‪ -‬الشام وغیرہ ۔نیزانسانی‬

‫بدن کے ایسے اعضاء جو جوڑے جوڑے ہوتے ہیں ‪،‬وہ بھی اکثرو بیشترمونٹسماعی ہیں‬

‫مثلائِدٌ ( ہاتھ) رِجُلٌ(پاؤں ) أُذُنٌ(كان )وغیرہ ۔‬

‫گزشتہ سبق میں ہم نے اسم کی گردانکی تھی تو حالت کے لحاظ سے ایک لفظ‬

‫کی تین شکلیں بنی تھیں ۔ لیکن ابمذکر کی تین شکلیں ہوںگی اور مونثکی بھی‬

‫تین ۔ اس طرح ایک لفظ کی اب چھ شکلیں ہوںگی ۔ البتہ مؤنث سماعی کی تین ہی‬

‫شکلیں ہوںگی ۔کیونکہ ان کا ذکر نہیں ہوگا ۔ اسکی مثال مندرجہ ذیل ہے ۔‬
‫‪۲۹‬‬

‫حالت جر‬ ‫حالتنصب‬ ‫حالت رفع‬

‫كَافِرًا‬ ‫كَافِرٌ‬ ‫ذکر‬


‫كَافِرٍ‬

‫كَافِرَةٍ‬ ‫كَافِرَةً‬ ‫كَافِرَةٌ‬ ‫مونٹ‬

‫حَسَنًا‬ ‫ذکر‬
‫حَسَنٍ‬ ‫حَسَنٌ‬

‫حَسَنَةٍ‬ ‫حَسَنَةٌ‬ ‫حَسَنَةٌ‬ ‫مونث‬

‫نَفْسًا‬
‫نفسي‬ ‫نَفْسٌ‬ ‫مونث ( سماعی )‬
‫‪i‬‬
‫مشق نمبر ‪۳‬‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی یادکریں اور اسم کی گردانکریں ۔ مونث حقیقی‬

‫میں مذکرو مونث دونوں الفاظ ساتھ دیئے گئے ہیں ۔ جو اسماء مونث سماعی ہیں انکے‬

‫کو خودبنانے ہیں ۔ الفاظکو اوپر سے‬


‫) لکھا گیاہے ۔ باقی الفاظ کے مونث آپ‬
‫آگے ( س‬

‫نیچے پڑھیں ‪:‬‬

‫یہ (مذکر )‬ ‫هذا(م)‬ ‫بھائی‬ ‫آخ‬

‫‪33‬‬
‫یہ (مونث)‬ ‫هذه (م)‬ ‫بہن‬ ‫أُخْتٌ‬

‫میٹھا‬ ‫بد کار‬


‫حُلو‬ ‫فَاسِقٌ‬

‫جَيْدٌ (س )‬ ‫برا ۔بد صورت‬ ‫فَيْحٌ‬

‫گھر‬ ‫دار(س)‬ ‫دولها‬ ‫عَرِيْسٌ‬

‫بڑا‬ ‫كَبِيرٌ‬ ‫ولین‬ ‫عَرُوسٌ‬

‫چھوٹا‬ ‫صَغِيرٌ‬ ‫سخت‬ ‫شَدِيدٌ‬

‫سچا‬ ‫صَادِقٌ‬ ‫(س ) بازار‬ ‫سُوقٌ‬

‫جھوٹا‬ ‫كَاذِبٌ‬ ‫کوتاه‬ ‫قَصِيرٌ‬

‫اطمینان والا‬ ‫مُطْمَئِنٌ‬ ‫پاکستان‬ ‫بَاكِسْتَانُ (غ ‪-‬س )‬

‫جوکہ ( مذکر)‬ ‫الَّذِى (ى)‬ ‫آنکھ ‪،‬چشمہ‬ ‫عَيْن (س )‬

‫جوکہ ( مونث)‬ ‫التي (م)‬ ‫بڑھتی‬ ‫نَجَّارٌ‬

‫لمبا‬ ‫طَوِيلٌ‬ ‫نانبائی‬ ‫خَبَّار‬

‫درزی‬ ‫خَيَّاط‬
‫عدد‬

‫‪ ۵ : ۱‬دوسری زبانوں میں عددیعنی تعداد کے لحاظ سے اسمکی دو ہی قسمیں ہوتی ہیں ‪،‬‬

‫ایک کے لئے واحد یا مفرد اور دو یا دو سے زیادہ کے لئے جمع ۔ لیکن عربی میں جمع تین‬

‫سے شروع ہوتی ہے اور دو کے لئے الگ اسم اور فعل استعمال ہوتے ہیں ۔ دوکے‬

‫صیغے کو تشنیہکہتے ہیں ۔ اس طرح عربی میں عدد کے لحاظ سے اسمکی تین قسمیں ہیں ۔‬

‫واحد تشنیہ اور جمع ۔کسی اسمکو واحد سے تثنیہ یا جمع بنانے کے لئے کچھ قاعدےہیں‬

‫جن کا اس سبق میں ہم مطالعہکریں گے ۔‬

‫واحد سے تثنیہ بنانے کا قاعدہ‬

‫اس سلسلہ میں پہلی بات یہ ذہن نشین کرلیںکہ اسم خواہ مذکر ہو یا مونث‬ ‫‪۵ : ۲‬‬

‫دونوں کے تثنیہ بنانے کا ایک ہی قاعدہ ہے ۔ اور وہ قاعدہ یہ ہےکہ حالت رفع میں‬

‫) لگاکر اسکے آگے الف اور نونمکسورہ یعنی‬


‫واحد اسم کے آخری حرفپر زبر (کے‬

‫مُسْلِمَتَانِ‬ ‫ان ) کا اضافہکردیتے ہیں ۔ مثلاًمُسلِم سے مُسْلِمَانِ مُسْلِمَةٌ‬

‫وغیرہ ۔جبکہ حالت نصب اور جر میں واحد اسم کے آخری حرفپر زبر ( ‪ )1‬لگاکر اس‬

‫کے آگے پائے ساکن اور نون مکسورہ یعنی ( کے ین ) کا اضافہکرتے ہیں جیسےمُسلِم‬

‫ےمسلِمَيْنِ مُسْلِمَةٌ سے مُسْلِمَتَيْنِ ۔ اس قاعدہکا استثنا ابھی تک میرے علم میں‬

‫نہیں آیا ۔ اسکی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں ‪:‬‬

‫تثنيه‬ ‫واحد‬

‫ين)‬ ‫جر (‬ ‫نصب ) ‪ -‬ين )‬ ‫رفع ( كان )‬

‫كِتَابَيْنِ‬ ‫كِتَابَيْنِ‬ ‫كِتَابَانِ‬ ‫كِتَابٌ‬

‫جَنَّتَيْن‬ ‫جَنتَيْن‬ ‫جَنَّتَان‬


‫‪۳۲‬‬

‫مُسْلِمَيْنِ‬ ‫مُسْلِمَيْنِ‬ ‫مُسْلِمَانِ‬ ‫مُسْلِم‬

‫مُسْلِمَتَيْنِ‬ ‫مُسْلِمَتَيْنِ‬ ‫مُسْلِمَتَانِ‬ ‫مُسْلِمَةٌ‬

‫‪ ۵ :‬جمعکی قسمیں ‪ :‬عربی زبان میں جمع دو طرحکی ہوتی ہے ۔ جمع سالم اورجمع‬

‫مکر جمع سالم میں واحد لفظ جوں کا توں موجود رہتا ہے اور اس کے آخر پرکچھ حرفوں‬

‫کا اضافہکر کے جمع بنا لیتے ہیں ۔ جس طرح انگریزی میں واحد لفظ کے آخر میں ‪ESUS‬‬

‫بڑھا کر جمع بناتے ہیں ۔ مگر جس طرح انگریزی میں تمام اسماء کی جمع اس قاعدےکے‬

‫مطابق نہیں بنتی بلکہکچھ کی مختلف بھی ہوتی ہے مثلاً ‪HIS‬کی جمع ‪ THEIR‬ہے ۔ اسی‬

‫طرح عربی میں بھی تمام اسماءکی جمع سالم نہیں بنتی بلکہکچھ اسماءکی جمع اس طرحآتی‬

‫ہےکہ یا تو واحد لفظ کے حروف تتربترہو جاتے ہیں یا بالکل تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ مثلاً‬

‫عبد (غلام ‪ ،‬بندہ )کی جمع عِباد اور امرانکی جمع نساء ہے ۔ انکو جمعمکسترکہتے ہیں ۔‬

‫مکسرکے معنی ہیں " تو ڑا ہوا " چونکہ اس میں واحد لفظ کے حروفکی ترتیب ٹوٹ‬

‫جاتی ہے اس لئے انہیں جمع مکسرکہتے ہیں ۔ اب ہم جمع سالم بنانے کا قاعدہ سمجھتے ہیں‬

‫لیکن پہلے یہ بات ذہن نشینکرلیںکہ واحد سے تشنیہ بنانے کا قاعدہ مذکر اور مؤنث‬

‫دونوں کے لئے ایک ہی ہے ۔ لیکن واحد سے جمع سالم بنانے کا قاعدہ مذکر کے لئے‬

‫الگہے اور مونثکے لئے الگ۔‬

‫‪ ۵ : ۴‬جمع مذکر سالم بنانے کا قاعدہ ‪ :‬حالت رفع میں واحد اسم کے آخری‬

‫فون) کا‬ ‫حرفپر ایک پیش ( ‪) 2‬لگا کر اس کے آگے واؤ ساکن اور نون مفتوحہ یعنی (‬

‫اضافہکر دیتے ہیں ۔ مثلا مُسلِم سے مُسلِمُونَ ۔ جبکہ حالت نصب اور جر میں واحد‬

‫اسم کے آخری حرفپر زیر ( ) لگا کر اسکے آگے یائے ساکن اور نون مفتوحہ یعنی‬

‫ین )کا اضافہکرتے ہیں ۔ جیسے مُسلم سے مُسْلِمِینَ ۔ اسکی چند مثالیں مندرجہ‬

‫ذیل ہیں ۔‬
‫‪۳۳‬‬

‫جمع مذکرسالم‬ ‫واحد‬

‫ين)‬ ‫جر (‬ ‫ين)‬ ‫نصب (‬ ‫ون)‬ ‫فع (‬

‫مُسْلِمِينَ‬ ‫مُسْلِمِينَ‬ ‫مُسْلِمُونَ‬ ‫مُسْلِم‬

‫نَجَّارِينَ‬ ‫نَجَّارُونَ‬ ‫نَجَّارُ‬


‫نَجَّارِينَ‬

‫خَيَّاطِينَ‬ ‫خَيَّاطِينَ‬ ‫خَيَّاطُونَ‬ ‫خَيَّاط‬

‫فَاسِقِينَ‬ ‫فَاسِقِينَ‬ ‫فَاسِقُوْنَ‬ ‫فَاسِقُ‬

‫‪ ۵ : ۵‬جمع مؤنث سالم بنانے کا قاعدہ ‪ :‬اس قاعدہ کے تحت ایسے مؤنث اسماء‬

‫کی جمع سالم بنتی ہے جن کے آخر میں تائے مربوطہ آتی ہے ۔ قاعدہ یہ ہےکہ تائے‬

‫اب لگا دیتے‬ ‫ان جبکہ حالت نصب اور جر میں‬ ‫مربوطه گراکر حالت رفع میں‬

‫ہیں ۔ جیسے كَافِرَةٌ سے كَافِرَاتٌ اور كَافِرَاتٍ ۔ اسکی چند مثالیں مندرجہ ذیل‬

‫ہیں ‪:‬‬

‫جمع مؤنثسالم‬ ‫واحد‬

‫جر ( ات )‬ ‫نصب (ات )‬ ‫رفع ( ات)‬

‫مُسْلِمَاتٍ‬ ‫مُسْلِمَاتٍ‬ ‫مُسْلِمَاتٌ‬ ‫مُسْلِمَةٌ‬

‫فَاسِقَاتٍ‬ ‫فَاسِقَاتٌ‬ ‫فَاسِقَةٌ‬


‫فَاسِقَاتٍ‬

‫‪ ۵ : ۲‬جمعمکمتر ‪ :‬جمع مکسربنانے کاکوئی خاص قاعدہ نہیں ہے ۔ انہیں یادکرتا ہو تا‬

‫ہے ۔ اس لئے ابذخیرہ الفاظ میں ہم واحد کے سامنے انکی جمعمکسلرکھ دیا کریں گے‬

‫تا کہ آپ انہیں یادکرلیں ۔ جمع مکسرزیادہ تر معرب منصرف ہوتی ہیں ۔ لیکن کچھ غیر‬

‫منصرف بھی ہوتی ہیں ۔ انکی سادہ سی پہچان یہ ہے کہ جن کے آخری حرفپر دوپیش‬

‫(‪ )2‬ہوں انہیں معرب منصرف مانیں اور جن کے آخری حرفپر ایک پیش لکھا ہو‬

‫انہیں غیرمنصرف سمجھیں ۔‬


‫‪۳۴‬‬

‫‪ ۵ :‬صورت اعراب ‪ :‬پیرا نمبر ‪ ۲ : ۳‬میں آپ‬


‫کو بتایا تھاکہ عربی عبارتمیں‬

‫اسم کی حالتکو پہچاننےکی علامات یعنی صورت اعراب ایک سے زیادہ ہیں ۔ اب‬

‫آپ نوٹکرلیں کہ آپ نے تمام صورت اعراب پڑھ لی ہیں جو کہ کل پانچ ہیں ۔‬

‫انہیں ہم دوبارہیکجا کر کے دے رہے ہیں تاکہ آپ انہیں ذہن نشینکرلیں ۔‬

‫کس قسم کے اسماء اس صورت میں آتے ہیں‬ ‫صورت اعراب‬

‫جر‬ ‫رفع‬

‫‪33‬‬
‫و‬ ‫)‪(1‬‬
‫واحد اور جمعمکسر(مذکر و مونث)‬ ‫معرب منصرف‬
‫‪AMY‬‬ ‫‪9‬‬
‫غیرمنصرف واحد اور جمعمکسر(مذکرو مونث)‬ ‫)‪(۲‬‬

‫صرف تثنیه (نذکرو مونث)‬


‫(‪ )۳‬دان‬

‫صرفجمعمذکر سالم‬ ‫ينَ‬ ‫(‪ )۴‬دونَ‬


‫دات‬
‫(‪)۵‬‬
‫صرف جمع مونثسالم‬ ‫ات‬ ‫دات‬

‫اعراب بالحركة "کہتے ہیں ۔‬ ‫مذکورہ بالا نقشہ میں پہلی دو صورت اعرابکو‬

‫اس لئےکہ یہ تبدیلی زبر زیر یا پیش یعنی حرکاتکی تبدیلی سے ہوتی ہے ۔ جبکہ آخری‬

‫تین صورتاعرابکو اعراب بالحروف "کہتے ہیں ۔‬

‫‪ ۵ :‬گزشتہ سبق میں ہم نے اسم کیگردانکی تو ایک لفظکی چھ شکلیں بنی تھیں ۔‬

‫لیکن اب ہم نے واحد کا تشیہ اور جمع بھی بناتا ہے ۔ اس لئے ایک لفظکی اب اٹھارہ‬

‫شکلیں ہوںگی ۔ البتہ مذکر غیرحقیقی کا مونٹ نہیں آئےگا اور مونث غیرحقیقی کام کر‬

‫نو شکلیں ہوںگی ۔ مثال کے طور پر ہم ایکلفلفظ‬ ‫نہیں آئے گا ۔ اس لئے انکی نو‬

‫مسلم لیتے ہیں ۔ اس کا مونث بھی بنتاہے ۔ اس لئے اسکی اٹھارہ شکلیں بنائیں‬

‫گے ۔ دوسرا لفظ کتاب لیتے ہیں ۔ یہ مذکر غیرحقیقی ہے ۔ اس کا مونث نہیں آئےگا ۔‬

‫رُتُبآتی ہے ۔ تیسرا لفظ جَنَّةٌ‬


‫اس لئے اس کی تو شکلیں ہوںگی اور اسکی جمع کمك‬

‫لیتے ہیں ۔ یہ مونث غیرحقیقی ہے ۔ اس کا مذکر نہیں آئے گا ۔ اس لیئے اسکی بھی نو‬
‫‪۳۵‬‬

‫شکلیں ہوںگی ۔تینوں الفاظ کے اسماءکیگردا نہیں مندرجہ ذیل ہیں ‪ :‬۔‬

‫حالت جر‬ ‫حالت نصب‬ ‫حالت رفع‬

‫مُسْلِمٍ‬ ‫مُسْلِمًا‬ ‫واحد‬


‫مُسْلِمٌ‬

‫مُسْلِمَيْنِ‬ ‫مُسْلِمَيْنِ‬ ‫مُسْلِمَانِ‬ ‫تثنيه‬ ‫ذکر‬

‫مُسْلِمِينَ‬ ‫مُسْلِمِينَ‬ ‫مُسْلِمُونَ‬ ‫‪:‬‬ ‫جمع‬

‫مُسْلِمَةٍ‬ ‫مُسْلِمَةٌ‬ ‫مُسْلِمَةٌ‬ ‫‪:‬‬ ‫واحد‬

‫مُسْلِمَتَيْنِ‬ ‫مُسْلِمَتَيْنِ‬ ‫مُسْلِمَتَانِ‬ ‫‪:‬‬ ‫مونث ‪ -‬تثنيه‬

‫مُسْلِمَاتٍ‬ ‫مُسْلِمَاتٍ‬ ‫مُسْلِمَاتٌ‬

‫كِتَابِ‬ ‫كِتَابًا‬ ‫‪ :‬كِتَابٌ‬

‫كِتَابَيْنِ‬ ‫كِتَابَيْنِ‬ ‫كِتَابَانِ‬ ‫تثنيه‬ ‫غیرحقیقی‬


‫مذکر‬

‫كُتُبا‬ ‫‪ :‬كُتُب‬
‫كُتُبِ‬

‫جَنَّةٍ‬ ‫جَنَّةً‬

‫جَنَّتَيْنِ‬ ‫جَنَّتَانِ‬ ‫مؤنثغیرحقیقی ‪ -‬تثنیه‬

‫جَنَّاتٍ‬ ‫جَنَّاتٍ‬ ‫جَنَّاتٌ‬


‫{‬
‫‪pry‬‬

‫نمبر ‪ ( ۴‬الف )‬
‫مشق‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے مونثبنائیں اور اسم کی گردانکریں ۔‬


‫(‪ )ii‬صَادِقٌ‬ ‫( ‪ )1‬مُشْراً‬ ‫(‪ ) i‬مُؤْمِنٌ‬

‫( ‪ ) ٧‬جَاهِل‬ ‫( ‪ ) iv‬كَاذِبٌ‬
‫(‪ )vi‬عَالِمٌ‬

‫مشقنمبر ‪ ( ۴‬ب )‬

‫مندرجہ ذیل الفاظمذکر غیرحقیقی ہیں ۔ ان کے معنی اور جمعمکسریادکریں اور اسم‬

‫کی گردانکریں ۔‬

‫(ج مَسَاجِدُ)‬ ‫مَسْجِدٌ‬


‫بینچ‬ ‫ج مَقَاعِدُ)‬ ‫مسجد‬
‫گ‬ ‫(ج ذُنُوبٌ)‬ ‫ذَنْبٌ‬
‫ج رُءُوس)‬ ‫رَأْسٌ‬ ‫ناه‬

‫رو‬ ‫ج أولياء)‬ ‫وَلِيٌّ‬ ‫ج انْهَان‬ ‫نَهْرٌ‬

‫دل‬ ‫ج قُلُوبٌ)‬ ‫قَلْبٌ‬

‫مشقنمبر ‪ ( ۴‬ج)‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ مونث غیرحقیقی ہیں ۔ ان کے معنی یادکریں ۔ جن کے آگے‬

‫جمع مکسردیگئی ہے ان کے علاوہ باقی الفاظکی جمع سالم بنےگی ۔ پھر تمام اسماءکیگردان‬

‫کریں ۔‬

‫(جاَرْجُلٌ)‬ ‫| رِجُلٌ‬ ‫كان‬ ‫)‬


‫ج أَذَانُ‬ ‫أذُنٌ‬
‫پاؤں‬

‫واضحدلیلیاکھلی نشانی‬ ‫بَيِّنَةٌ‬ ‫نشانی‬

‫موٹرکار‬ ‫سَيَّارَةٌ‬ ‫برائی‬ ‫سَيِّئَةٌ‬

‫بازار‬ ‫ج اسواق)‬ ‫سوق‬


‫‪۳۷‬‬

‫ضروری ہدایات ‪:‬‬

‫اس سبق میں ایک لفظ کی آپ ‪ ۱۸‬شکلیں بنا رہے ہیں ۔ اس کے بعد اگلے سبق‬

‫میں ایک لفظ کی آپ ان شاء اللہ ‪ ۳۶‬شکلیں بنائیں گے ۔ اس مرحلہ پر اکثر طلبہ اس‬

‫کو بے مقصد مشقت سمجھ کر بد دلی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان مشقوں میں دلچسپی نہیں‬

‫لیتے ۔ اس لئے ضروری ہےکہ آپاس کا مقصد سمجھ لیں ۔‬

‫آگے چلکر مرکبات اور جملوں میں کوئی اسم استعمالکرتے وقت آپکو اسے‬

‫چاروں پہلووں سے قواعد کے مطابق بنانا ہوگا ۔ فرضکریں لفظ مُسلِمکو رفع‬

‫مونث جمع اور معرفہ استعمالکرتا ہے ۔ اب اگر آپ اس طرحکریں گے کہ پہلے‬

‫مسلم کی مونث مُسْلِمَةٌ بنائیں ‪ ،‬پھر اسکی جمع مُسْلِمَاتٌ بنائیں ‪ ،‬پھر اس کا معرفہ‬

‫الْمُسْلِمَاتُ بنائیں تو اندازہکریں کہ اس پر آپکاکتناوقت خرچ ہوگا ۔‬

‫ان مشقوں کا مقصد آپ کے ذہن میں یہ صلاحیت پیداکرنا ہےکہ لفظ مسلم کے‬

‫مذکورہ چاروں پہلوؤں کے حوالے سے جب آپسوچیں تو ذہن میں براہ راست‬

‫الْمُسْلِمَات کا لفظ آئے ۔ اس مرحلہ پر جو طلبہ دلچسپی اور توجہ سے یہ مشقیںکرلیں‬

‫گے ان میں ان شاء اللہ یہ صلاحیت پیدا ہو جائےگی اور آگے چلکر انکی بہت سی‬

‫محنت اور وقت بچجائے گا ۔‬


‫‪۳۸‬‬

‫اسم بلحاظ وسعت‬

‫وسعت کے لحاظ سے اسم دو طرح کا ہوتا ہے ۔ (‪ )i‬اسم نکرہ‬ ‫‪Y:1‬‬

‫( ‪ ) Common Noun‬اور (‪ )ii‬اسم معرفہ (‪ ) Proper Noun‬۔ اسم نکرہ ایسے‬

‫اسمکو کہتے ہیں جو کسی عام چیزپر بولا جائے ۔ جیسے اُردو میں ہم کہتے ہیں " ایک لڑکا‬

‫نکرہ ہے ۔ اردو میں اسم نکرہکی کچھ علامتیں ہیں ۔ مثلاً‬ ‫۔ اب یہاں اسم " لڑ کا‬ ‫آیا‬

‫بعض " اور " چند " وغیرہ ۔ اور اسم نکرہکے ساتھکوئی‬ ‫کچھ "‬ ‫"کوئی "‬ ‫ایک‬

‫معرفہ کی‬ ‫موزوں علامتلگانی ہوتی ہے ۔ اس کے برعکس انگریزی میں لفظ ”‪The‬‬

‫علامت ہے ۔ چنانچہ انگریزی میں "‪ " Boy‬اسم نکرہ ہے اور اس کا مطلب ہے‬

‫لڑکا " ۔‬ ‫جبکہ " ‪ " The Boy‬اسم معرفہ ہے اور اس کا مطلب ہے‬ ‫"کوئی لڑکا‬

‫یعنی ایسا مخصوص لڑکا جو باتکرنے والوں کے ذہن میں موجود ہےیاگفتگوکے دوران‬

‫جس کا ذکر آچکاہے ۔‬

‫‪ ۶ : ۲‬عربی میں اسم نکرہکی علامت یہ ہے کہ اسم نکرہ کے آخری حرفپر بالعموم‬

‫رَجُلاً " یا‬ ‫تنوین آتی ہے ۔ مثلاً " ‪ " Man‬یا "کوئی مرد " کا عربی ترجمہ ہوگا " رَجُلٌ‬

‫" رجل " اور اسم معرفہ کی ایک عام علامت یہ ہےکہ اسم کے شروع میںلام تعریف‬

‫یعنی " آن " کا اضافہ کرتے ہیں اور آخری حرف سے تنوین ختمکر دیتے ہیں ۔ مثلاً‬

‫” ‪ " The Man‬یا " مرد " کا عربی ترجمہ ہو گا " الرَّجُلُ " ‪ " -‬الرَّجُلَ "يا "الرَّجُلِ " ۔‬

‫‪ ۶ : ۳‬عربی میں اسم نکرہکی کئی قسمیں ہیں لیکن فی الحال آپکو تمام اقسامیادکرنے‬

‫کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں دو اصول یادکر لیں ۔ اول یہکہ جو بھی اسم‬

‫معرفہ نہیں ہو گا اسے نکرہ مانا جائے گا ۔ دوم یہکہ اسم نکرہ کے آخر میں عام طور پر‬

‫تنوین آتی ہے ۔گنتی کے صرف چند الفاظ اس سے مستثنیٰ ہیں ۔کچھ نام ایسے ہیں جو کسی‬
‫‪۳۹‬‬

‫کے نام ہونے کی وجہ سے معرفہ ہوتے ہیں لیکن ان کے آخر میں تنوین بھی آجاتی‬

‫زَيْدٌ وغیرہ اور ان کے درمیان تمیزکرنے میںکوئی دقت نہیں‬ ‫ہے ۔ جیسے مُحَمَّدٌ‬

‫ہوتی ۔ اس کے علاوہ اسم نکرہ کی صرف دو قسمیں ‪،‬جو زیادہ استعمال ہوتی ہیں ‪،‬انہیں‬

‫ذہن نشین کرلیں ۔ ایک قسم "اسم ذات " ہے جو کسی جاندا ریا بے جان چیز کی جنس کا‬

‫نام ہو جیسے اِنْسَانُ ( انسان ) ‪ ،‬فَرَسٌ (گھوڑا ) یا حَجَرٌ (پھر‬


‫) وغیرہ ۔ دوسری قسم "اسم‬

‫صفت " ہے جوکسی چیزکیکوئی صفت ظاہرکرے ۔ جیسے حَسَنُ (اچھا ۔ خوبصورت )‬

‫طيب ( اچھا ۔ پاک)یا سهل(آسانوغیرہ ) ۔‬

‫‪ ۶ : ۴‬فی الحال اسم معرفہ کی پانچقسمیں ذہن نشینکرلیں ‪:‬‬

‫اسم عَلَم ‪ :‬یعنی وہ الفاظ جوکسی اسم ذاتکی پہچان کے لئے اس کے نام کے‬ ‫(‪) 1‬‬

‫طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ جیسے ایک انسانکی پہچان کے لئے حَامِدٌ ‪،‬ایک شہر‬

‫کی پہچان کے لئے بغداد وغیرہ ۔‬

‫اسم ضمیر ‪ :‬یعنی وہ الفاظ جو کسی نامکی جگہ استعمال ہوتے ہیں جیسے اردو میں‬ ‫( ‪) ii‬‬

‫ہم اس طرح نہیں کہتے کہ جامد کالج سے آیا اور حامد بہت خوش تھا ۔ بلکہ یوں‬

‫کہتے ہیں کہ حامد کالج سے آیا اور وہ بہت خوش تھا ۔ یہاں لفظ "وہ " حامد کے‬

‫لئے استعمال ہوا ہے ۔ اس لئے معرفہ ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ تمام ضمیریں معرفہ‬

‫ہوتی ہیں ۔ عربی میں اس کی مثالیں یہ ہیں ۔ هُوَ ( وہ ) أَنْتَ ( تو ) آنا ( میں )‬

‫وغیرہ ۔‬

‫(‪ )ii‬اسم اشارہ ‪ :‬یعنی وہ الفاظ جو کسی چیز کی طرف اشارہکرنے کے لئے استعمال‬

‫مذکر) ذلِكَ ( وہ ۔ مذکر ) وغیرہ ۔ ذہن میں یہ بات‬ ‫ہوتے ہیں جیسے هذا (یہ‬

‫واضح کرلیںکہ جبکسی چیزکی طرف اشارہکر دیا جاتا ہے تو وہ کوئی عام چیزنہیں‬

‫رہتی بلکہ خاص ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ تمام اسمائے اشارہ معرفہ ہیں ۔‬

‫) التنی ( جو کہ ‪ -‬مؤنث) وغیرہ ۔‬


‫(‪ ) iv‬اسم موصول ‪ :‬جیسے الَّذِين ( جو کہ ‪ -‬مذکر‬

‫اسمائے موصولہ بھی معرفہ ہوتے ہیں ۔‬


‫مُعَرَّف باللام ‪ :‬یعنی لام (آل) سے معرفہ بنایا ہوا ۔ جبکسی نکرہ لفظکو‬ ‫( ‪)۷‬‬

‫معرفہ کے طور پر استعمالکرنا ہوتا ہے تو عربی میں اس سے پہلے الف لام (آن لگا‬

‫دیتے ہیں ‪ ،‬جسے لام تعریفکہتے ہیں ۔ جیسے فَرَسٌ کے معنی ہیںکوئی گھوڑا ۔ لیکن‬

‫اَلْفَرَسُکے معنی ہیں مخصوصگھوڑا ۔ الرَّجُلُ( مخصوص مرد ) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۶ : ۵‬کسی نکرہ کو معرفہ بنانے کے لئے جباس پر لام تعریف داخلکرتے ہیں تو پھر‬

‫اُس لفظ کے استعمال میں چند قواعد کا خیالکرنا ہوتا ہے ۔ فی الحال ان میں سے دو‬

‫قواعد آپ ذہن نشین کر لیں ۔ باقی قواعد ان شاء اللہ تعالٰی آئندہ اسباق میں بتائے‬

‫جائیںگے ۔‬

‫پہلا قاعدہ ‪ :‬جبکسی اسم نکرہ پر لام تعریف داخل ہو گا تو وہ اسکی تنوینکو‬

‫ختمکر دےگا جیسے حالت نکرہ میں رَجُلٌ فَرشوغیرہ کے آخری حرفپر تنوین ہے‬

‫لیکن جب انکو معرفہ بناتے ہیں تو یہ الرَّجُلُ الفَرَسُہو جاتے ہیں ۔ اب ان کے‬

‫آخری حرفپر توین ختم ہو گئی اور صرف ایک پیش رہگیا ۔ یہ بہت پکا قاعدہ ہے ۔‬

‫اس لئے اس باتکو خوب اچھی طرح یادکر لیںکہ معرفباللام پر تنوینکبھی نہیں‬

‫آئےگی ۔‬

‫دو سرا قاعدہ ‪ :‬آپ نے نوٹکیا ہو گاکہ بعض الفاظ میں لام تعریفکے ہمزہ‬

‫کو لام پر جزم دےکر پڑھتے ہیں ۔ جیسے اَلْقَمَرُ ۔ جبکہ بعض الفاظ میں لامکو نظر انداز‬

‫کر کے ہمزہ کو براہ راست اگلے حرفپر تشدید دےکر ملاتے ہیں جیسے الشمس ۔ تو‬

‫اب سمجھ لیجئےکہ کچھ حروف ایسے ہیں جن سے شروع ہونے والے الفاظ پر جب لام‬

‫تعریف داخل ہو گا تو القمر کے اصول کا اطلاق ہو گا ۔ اس لئے ایسے حروفکو‬

‫حروف قمریکہتے ہیں اور جن حروف سے شروع ہونے والے الفاظ پر الشَّمس کے‬

‫اصول کا اطلاق ہوتاہے انہیں حروف کشی کہتے ہیں ۔ آپکو یادکرنا ہوگا کہ کون‬

‫سے حروف سمی اورکون سے حروف قمری ہیں اور اسکی ترکیب بہت آسان ہے ۔‬

‫ایک کاغذ پر عربی کے حروف تجی لکھ لیں ۔ پھر وڈ سے ط ط تک تمام حروفکو‬
‫‪۴۱‬‬

‫‪underline‬کر لیں ۔ ان سے قبل کے دو حروف تث اور بعد کے دو حروفلن‬

‫کو بھی انڈر لائنکرلیں ۔ یہ سب حروف کشمسی ہیں‪،‬باقی تمام حروف قمری ہیں ۔‬

‫سیہ بات ذہن نشینکرلیں کہ مذکورہ بالا قاعدہ حقیقتاً عربیگرامر کا نہیں بلکہ تجوید‬

‫کا ہے ۔ لیکن عربی زبانکو درست طریقہ پر بولنے اور لکھنے کے لئے اس کا علم بھی‬

‫ضروری ہے ۔‬

‫‪ ۶ :‬پیراگراف ‪ ۳ : ۳‬میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ غیر منصرف اسماء حالت جر میں زیر‬

‫قبول نہیں کرتے ۔ جیسے مَسَاجِدُ حالت نصب میں مَسَاجِدَ ہو جائے گا لیکن حالت جر‬

‫میں مَسَاجِدِ نہیں ہو گا بلکہ مَسَاجِدَ ہی رہے گا ۔ اس اصول کے دو استثناء ہیں ۔‬

‫فاللام ہوتاہے تو حالتِ جر میں زیر قبولکرتا‬


‫اول یہ کہ غیرمنصرف اسم جب معر ب‬

‫ہے جیسے اَلْمَسَاجِدُ سے حالت نصب میں اَلْمَسَاجِدَ ہوگا اور حالت جر میں‬

‫الْمَسَاجِدِ ہو جائے گا ۔ دوسرا استثناء ان شاء اللہ ہم آئندہ سبق میں پڑھیں گے ۔‬

‫مشقنمبر ‪۵‬‬

‫) میں جتنے الفاظ دیئے گئے ہیں انکی اب ‪ ۳۶‬شکلیں بنائیں ۔‬


‫مشق نمبر ‪ ( ۴‬الف‬

‫یعنی ‪ ۱۸‬شکلیں نکرہ کی اور ‪ ۱۸‬شکلیں معرفہ کی ۔ اس کے علاوہ مشق نمبر ‪ ( ۴‬ب) اور‬

‫( ج ) میں دیئے گئے الفاظ کی معرفہ اور نکرہ کی جتنی شکلیں بن سکتی ہیں انکی اسمکی‬

‫گردانکریں ۔‬
‫‪۴۲‬‬

‫مركبات‬

‫‪ ۷ : ۱‬پیراگراف‪ 1 : 9‬میں ہم نے پڑھا تھاکہ اسم کے درست استعمالکے لئے چار‬

‫پہلوؤں سے اس کا جائزہ لے کر اسے قواعد کے مطابقکرنا ہوتا ہے ۔ چنانچہگزشتہ‬

‫اسباق میں ہم نے سمجھ لیا کہ اسم کے مذکورہ چار پہلوکیا ہیں اور اس سلسلہ میں کچھ‬

‫مشق بھی کر لی ۔ ابتک ہماری تمام مشقیں مفرد الفاظ پر مشتمل تھیں ۔ یہی مفرد‬

‫الفاظ جب دو یا دو سے زیادہ تعداد میں باہم ملتے ہیں تو بامعنی مرکبات اور جملے وجود میں‬

‫آتے ہیں ۔ ہمارے اگلے اسباق انہی کے متعلق ہوں گے ۔ اس لئے اس سبق میں ہم‬
‫گلے‬ ‫اے‬‫ہیں۔ مار‬

‫دو الفاظکو ملا کر لکھنے کی کچھ مشقکریں گے ۔‬

‫‪:‬‬
‫آگے بڑھنے سے پہلے مناسب ہے کہ ہم ایک ضروری بات ذہن نشینکر‬

‫لیں ۔ " مفرد کی اصطلاح دو مفہوم میں استعمال ہوتی ہے ۔ جبکسی اسمکے عددکے‬

‫پہلو پر بات ہو رہی ہو تو جمع اور تشنیہ کے مقابلہ میں واحد لفظکو بھی مفرد کہتے ہیں ۔‬

‫لیکن اس کے لئے زیادہ تر واحد کی اصطلاح ہی مستعمل ہے ۔ دوسری طرفکسی‬

‫مرکبیا جملہ میں استعمال شدہ متعدد الفاظ میں سے کسی تنا لفظکی بات ہو تو اسے بھی‬

‫" مفرد "کہتے ہیں ۔ اور یہاں ہم نے مفرد کا لفظ اسی مفہوم میں استعمالکیا ہے ۔ اب‬

‫دو مفرد الفاظ کو ملاکر لکھنے کی مشقکرنے سے پہلے مناسب ہو گاکہ ہم مرکبات اور ان‬

‫کی اقسام کے متعلق کچھ باتیں سمجھ لیں ۔‬

‫دویا دو سے زیادہ مفرد الفاظ کے آپس کے تعلقکو ترکیبکہتے ہیں اور ان‬ ‫‪:‬‬

‫کے مجموعےکو مرکب جیسے سمندر مفرد لفظ ہے ‪ ،‬اسی طرحگہرا بھی مفرد لفظ ہے اور‬

‫گہرا سمندر "‬ ‫جب ان دونوں الفاظکو ملایا جاتاہے تو ایک بامعنی فقرہ بن جاتا ہے‬

‫اسے مرکبکہیں گے ۔ چنانچہ دو یا دو سے زیادہ الفاظ پر مشتملبا معنی فقرہ کو مرکب‬

‫کہا جاتا ہے اور یہ ابتدائود و قسموں میں تقسیم ہوتا ہے ‪ ،‬مرکبناقص اور جملہ ۔‬
‫‪۴۳‬‬

‫ری‬

‫نام بھیکہتے ہیں ۔‬

‫دو مفرد الفاظکو ملاکر لکھنے کا ایک طریقہ سمجھنے کے لئے پہلے ان دو فقروںپر‬

‫غورکریں ۔ صَادِقٌ وَ حَسَنٌ ایک سچا اور ایک خوبصورت) الصَّادِقُ وَالْحَسَنُ‬

‫( سچا اور خوبصورت) پہلے فقرہ میں وہ الگ پڑھا جا رہا ہے اور حَسَن الگ۔ لیکن‬

‫دو سرے فقرہ میں وَکو آگے اَلْحَسَنُ سے ملا کر پڑھاگیا۔ اسکی وجہ سمجھنے کے لئے یہ‬

‫اصول سمجھ لیںکہ جس لفظ پر لام تعریف لگا ہو وہ اپنے سے پہلے لفظ سےملاکر پڑھا جاتا‬

‫ہے ۔ اور اس صورتمیں لام تعریفکا ہمزہ ( جسے عام طور پر ہم الفکہتے ہیں) لکھنے‬

‫میں تو موجود رہتا ہے لیکن تلفظ میں گر جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر ہے زبرکی‬

‫حرکت ہٹا دی جاتی ہے ۔ چنانچہ وَالْحَسَنُ لکھنا اور پڑھنا غلط ہوگا ۔ بلکہ یہ وَالحَسَنَ‬

‫لکھا اور پڑھا جائے گا ۔ابیہ بھی یادکر لیںکہ جو ہمزہ پہلے لفظ سے ملانے کی وجہ سے‬
‫‪۴۴‬‬

‫تلفظ میں گر جاتا ہے اسے هَمْزَةُ الْوَصْلکہتے ہیں ۔ چنانچہ ابْنُ ( بیٹا )‪ ،‬اِمْرَأَةٌ‬

‫( عورت ) اسم (نا)م اور لام تعریف کا ہمزہ ہمزۃ الوصل ہے ۔‬

‫اسی سلسلے میں دوسرا اصول سمجھنے کے لئے دو اور فقروں پر غور کریں ‪،‬‬ ‫‪۷ :‬‬

‫صَادِقٌ أَوْكَاذِبٌ ( ایک سچا یا ایک جھوٹا ) ‪ -‬الصَّادِقُ اوالْكَاذِبُ ( سچا یا جھوٹا ) پہلے‬

‫فقرہ میں انو (یا )کو آگے ملانا ضروری نہیں تھا ۔ اس لئے وہ اپنی اصلی حالت پر ہے اور‬

‫وادکی جزم برقرار ہے ۔ لیکن دوسرے فقرہ میں اسے آگے ملانا ضروری تھا کیونکہ ‪.‬‬

‫اگلے لفظ الكَاذِبُ پر لام تعریف لگا ہوا ہے ۔ جس کا ہمزہ ہمزۃ الوصل ہے ۔ اس لئے‬

‫اؤ کے واؤکی جزمکی جگہ زیر آگئی ۔ اس کا اصول یہ ہے کہ هَمْزَةُ الْوَصل سے پہلے‬

‫لفظکاآخری حرف اگر ساکن ہو تو اسے عموماً زیر دےکر آگے ملاتے ہیں ۔ صرفچند‬

‫الفاظ اس سے متمنی ہیں ۔ جیسے لفظ میں ( سے ) اسکی نونکو زبر دےکر آگے ملاتے‬

‫ہیں ۔یعنی مِنَ الْمَسْجِدِ (مسجد سے ) وغیرہ ۔‬

‫‪۶‬‬
‫مشقنمبر‬

‫ذیل میں دیئے گئے الفاظ کے معنی یادکریں اور ان کے نیچے دی ہوئی عباراتکا‬

‫عربی سے اردو اوراردو سے عربی ترجمہکریں ۔‬

‫دودھ‬ ‫لَبَنٌ‬ ‫رونی‬ ‫خُبْرٌ‬

‫گھوڑا‬ ‫فَرَسٌ‬ ‫اونٹ‬ ‫جَمَلٌ‬

‫خوشبو‬ ‫طيب‬ ‫سبق‬ ‫دَرْسٌ‬

‫آسان‬ ‫سَهْل‬ ‫چاند‬ ‫قَمَرُ‬

‫دیوار‬ ‫جِدَارٌ‬ ‫دشوار‬ ‫صَعْبٌ‬


‫‪۴۵은‬‬

‫اردو میں ترجمہکریں ‪:‬‬

‫(‪ )۳‬لَبَنْأَوْمَاء‬ ‫الْخُبْزوَُالْمَاءُ‬ ‫(‪)۳‬‬ ‫خُبُرِّوَمَاءُ‬ ‫(‪) 1‬‬

‫(‪ ) 1‬الْجَاهِلاَُوِالْعَالِمُ‬ ‫(‪ )٥‬جَاهِلٌوَعَالِمٌ‬ ‫اَلْحَسَنُأَوِالْقَبِيحُ‬ ‫( ‪)۳‬‬

‫(‪ )۹‬كِتَابٌأَوْدَرْسٌ‬ ‫(‪ )۸‬الْعَادِلاَُواِلظَّالِمُ‬ ‫الْجَاهِلُوَالظَّالِمُ‬ ‫(‪) ۷‬‬

‫اَلْمَاءُ وَالطِيبُ‬ ‫( ‪) ١٠‬‬

‫عربی میں ترجمہکریں ‪:‬‬

‫(‪ )۳‬ایکگھریا ایک بازار‬ ‫گھر اوربازار‬ ‫( ‪)۲‬‬ ‫ایکگھراور ایک بازار‬ ‫(‪) 1‬‬

‫(‪ )1‬آیگا پانی‬ ‫(‪ )۵‬ہوا اور خوشبو‬ ‫گھریا بازار‬ ‫( ‪)۴‬‬

‫(‪ )9‬سورجیا چاند‬ ‫(‪ )۸‬چاند اورسورج‬ ‫آگاور پانی‬ ‫(‪) 2‬‬

‫(‪ ) ۱۲‬کوئی بڑھئی یاکوئی درزی‬ ‫دشواریاآسان‬ ‫کچھآسان اورکچھ دشوار ( ‪)1‬‬ ‫( ‪) ۱۰‬‬

‫(‪ ) ۱۵‬کتاباور سبق‬ ‫( ‪ ) ۱۴‬ایک اونٹ اور ایکگھوڑا‬ ‫( ‪ ) ۱۳‬درزی اور نانبائی‬

‫دیوار یا دروازه‬ ‫(‪) ۱۶‬‬

‫ضروریہدایت ‪:‬‬

‫آپ کے لئے ضروری ہے کہ عربی کے الفاظ یادکرتے وقت انکی حرکات و‬

‫سکنات اور اعرابکو اچھی طرح ذہن نشینکر کےیادکریں ۔ خاص طور سے سہ حرفی‬

‫الفاظ کے درمیانی حرفپر زیادہ توجہ دیں ۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ خبرکو خُبز اور لَبَنٌ‬

‫کو لینکہنا غلط ہوگا ۔ یہی وجہ ہےکہ مشقوں میں جن عربی الفاظکی حرکات و سکنات‬

‫انکے نمبرکاٹ لئے جاتے ہیں ۔‬ ‫اور اعراب واضح نہیں ہوتے‬
‫مرکبتوصیفی ( حصہ اول )‬

‫‪ ۸ : ۱‬گزشتہ سبق میں ہم نے مرکبات سمجھ لئے تھے اور یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ انکی‬

‫ایک قسم " مرکب ناقص "کی متعدد اقسام ہیں ۔ اب اس سبق میں ہم نے مرکب‬

‫ناقص کی ایک قسم ‪ ،‬مرکبتوصیفی کا مطالعہ کرنا ہے ۔ اور اس کے چند قواعدسمجھ کر‬

‫اُنکی مشقکرنی ہے ۔‬

‫‪ ۸ : ۲‬مرکبتوصیفی دو اسموں کا ایک ایسا مرکب ہے جس میں ایک اسم دوسرے‬

‫اسمکی صفت بیانکرتا ہے ۔ مثلاً ہمکہتے ہیں ” نیک مرد " ۔ اس میں اسم " نیک " نے‬

‫اسم " مرد " کی صفت بیانکی ہے ۔ جس اسم کی صفت بیانکی جاتی ہے اسے‬

‫موصوف "کہتے ہیں ۔ مذکورہ مثال میں " مرد "کی صفت بیانکی گئی ہے اس لئے وہ‬

‫موصوف ہے ۔ دوسرا اسم جو صفت بیانکرتا ہے اسے " صفت "کہتے ہیں ۔ چنانچہ‬

‫صفت ہے ۔‬ ‫مذکورہ مثالمیں ”نیک‬

‫‪ ۸ : ۳‬انگریزی اور اردو میں مرکب توصیفی کا قاعدہ یہ ہے کہ ان میں صفت پہلے‬

‫اور موصوف بعد میں آتا ہے ۔ مثلاً ہمکہتے ہیں ‪ ( " Good Boy ” :‬اچھا لڑکا )‬

‫اس میں ” ‪ " Good‬اور ( اچھا ) پہلے آیا ہے جو کہ صفت ہے اور ” ‪ " Boy‬اور(لڑکا )‬

‫بعد میں آیا ہے جو کہ موصوفہے ۔ لیکن عربی کے مرکبتوصیفی میں معاملہ اسکے‬

‫بر عکس ہوتا ہے یعنی غربی میں موصوف پہلے آتا ہے اور صفت بعد میں ۔ اس لئے‬

‫اچھالڑ کا "کا عربی میں‬ ‫ترجمہکرتے وقت اس کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے ۔ چنانچہ جب ہم‬

‫ترجمہکریں گے تو چونکہ عربی میں موصوف پہلے آتا ہے اس لئے پہلے لڑکا کا ترجمہ‬

‫ہوگا جو کہ الْوَلَدُ " ہو گا ۔ اور صفت " اچھا " کا بعد میں ترجمہ ہو گا جو "اَلْحَسَنُ "‬

‫ہو گا ۔ ان دونوں الفاظکو جب ملاکرلکھا جائے گا تو یہ الْوَلَدُ الْحَسَنُ ہوگا ۔ آپ نے‬


‫‪۴۷‬‬

‫نوٹکر لیا ہو گاکہ ملا کرلکھنے سے الْحَسَنُ کے ہمزہ سے زبر ہٹگئی ۔ اسکی وجہ ہم‬

‫‪ :‬نے میںبیانکر چکے ہیں ۔‬ ‫گزشتہ سبق کے پیرا گراف‬

‫‪ ۸ : ۴‬عربی میں مرکبتوصیفی کا ایک اہم قاعدہ یہ ہے کہ اسم کے چاروں پہلوؤں‬

‫کے لحاظ سے صفت ہمیشہ موصوف کے مطابق ہوگی ۔ یعنی (‪ ) 1‬موصوف اگر حالت‬

‫رفع میں ہے تو صفت بھی حالت رفع میں ہوگی ۔ ( ‪ )۲‬موصوف اگر مذکر ہےتو صفت‬

‫( ‪ )۳‬موصوف اگر واحد ہے تو صفت بھی واحد ہوگی اور‬ ‫بھی مذکر ہوگی ۔‬

‫( ‪ ) ۴‬موصوف اگر معرفہ ہے تو صفت بھی معرفہ ہو گی ۔ اس باتکو مزید سمجھنے کے‬

‫لئےگزشتہ پیراگرافمیں دیگئی مثال پر ایک بار پھر غورکریں ۔ وہاں ہم نے ” اچھا‬

‫لڑکا " کا ترجمہ " اَلْوَلَدُ الْحَسَنُ " کیا تھا ۔ اس میں موصوف ” لڑکا “ کے ساتھ‬

‫" ایک "یا "کوئی "کی اضافت نہیں ہے اس لئےکہ یہ معرفہ ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ‬

‫اس کا ترجمہ ولد کے بجائے اَلْوَلَدُ ہو گا ۔ اب دیکھئے موصوف" الوَلَدُ " حالت رفع‬

‫میں ہے ‪ ،‬مذکر ہے واحد ہے اور معرفہ ہے ۔ اس لئے اسکی صفت بھی چاروں‬

‫پہلوؤں سے اس کے مطابق یعنی حالت رفع میں واحد مذکر اور معرفہ رکھیگئی ہے ۔‬

‫‪ ۸ : ۵‬ضروری ہے کہ اس مقام پر ایک اور قاعدہ بھی سمجھ لیں ۔ یہ قاعدہ بھی اصلاً‬

‫تو تجوید کا ہے لیکن مرکباتکو صحیح طریقہ سے لکھنے اور پڑھنے کے لئےگرامرکے طلباء‬

‫کے لئے اس کا علم بھی ضروری ہے ۔ پہلے آپ ان دو مرکبات پر غورکریں ۔ ( ‪) 1‬‬

‫قول عَظِيمٌ ( ایک عظیم بات) ( ‪ )ii‬قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ ( ایک بھلی بات) ۔ دیکھئے پہلے‬

‫مرکبمیں قولکی لامکو عظیمکی عین کے ساتھ مدغم نہیںکیا گیا۔ اس لئے دونوں لفظ‬

‫الگ الگپڑھے جا رہے ہیں ۔ لیکن دوسرے مرکب میں قولکی لامکو معروفکی‬

‫میم کے ساتھ مدغم کر دیا گیا ہے ۔ اس لئے میم پر تشدید ہے اور دونوں لفظ ملا کر پڑھے‬

‫جائیں گے ۔اب سوال پیدا ا ہوتاہےکہ وہ کیا اصول ہے جس کے تحت کچھ الفاظ ماقبل‬

‫سےملا کرپڑھے جاتے ہیں اورکچھ الگالگ۔ یادکرلیجئےکہ جو الفاظ ر ال م ن و‬

‫یا کی سے شروع ہوتے ہیں اور ان سے پہلے نون ساکنیا تنوین ہوتی ہے تو انہیں‬
‫‪۴۸‬‬

‫ما قبل سے ملا کرپڑھا جاتا ہے ۔ ان حروف حجی کو یادرکھنے کے لئے انکی ترتیببدل‬

‫کر ایک لفظ " پر ملون " بنا لیا گیا ہے ۔ چنانچہ کہتے ہیںکہ سر ملون سے شروع ہونے‬

‫والے الفاظ اپنے سے قبل کے الفاظ کے ساتھ ملاکر پڑھے جاتے ہیں ۔ بشر طیکہ ما قبل‬

‫نون ساکن یا نون تنوین ہو ۔ یہ تجوید کا قاعدہ ادغام ہے ۔ مرکب تو میبنیکی مشق‬

‫کرتے وقت اس قاعدہکا بھی لحاظ رکھیں ۔‬

‫مشق نمبرے (الف)‬

‫لفظ لا عِب (کھلاڑی )کی ‪ ۳۶‬شکلوں میں ہر ایک کے ساتھ صفت صالح (نیک )‬

‫لگاکر ‪ ۳۶‬مرکبتوصیفی بنا ئیں ۔‬


‫‪۴۹‬‬

‫نمبرے ( ب )‬
‫مشق‬

‫ذیل میں دیئے گئے الفاظ کے معنی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے‬

‫مرکباتکا عربی سے اردو اور اردو سے عربی ترجمہکریں ۔‬

‫کرنے والا‬
‫انصاف‬ ‫عَادِلُ‬ ‫بادشاہ‬ ‫مَلِكٌ (ج مُلُوكُ)‬

‫بزرگ ۔ سخی‬ ‫كَرِيمٌ‬ ‫کامیابی‬ ‫فَوْزً‬

‫شاندار ۔ بزرگی والا‬ ‫عَظِيمٌ‬ ‫گوشت‬ ‫لَحْمٌ‬

‫تازه‬ ‫طَرِيٌّ‬ ‫فرشته‬ ‫مَلَكٌ (ج مَلَائِكَةٌ)‬

‫واضح‬ ‫مبين‬ ‫گناه‬ ‫إِثْمٌ‬

‫قلم‬ ‫قَلَمْ ج أَقْلَامٌ)‬ ‫اجرت۔ بدلہ‬ ‫اجر‬

‫تلخ ۔کڑوا‬ ‫مو‬ ‫کشاده‬ ‫وَاسِعٌ‬

‫شَفَاعَةٌ‬ ‫کم‬
‫شفاعت ۔ سفارش‬ ‫قَلِيلٌ‬

‫زیادہ‬ ‫كَثِيرٌ‬ ‫قیمت‬ ‫ثَمَنٌ‬

‫بوجھ‬ ‫حَمْلٌ‬ ‫ہلکا‬ ‫خَفِيفٌ‬

‫بھاری‬ ‫ثَقِيلٌ‬ ‫زندگی‬ ‫حَيْوةٌ‬

‫انار‬ ‫رُمَّان‬ ‫کھجور‬ ‫تَمْرُ‬

‫دروازه‬ ‫بَابٌ( ج أَبْوَابٌ)‬ ‫تُفَّاحٌ‬

‫آخری‬ ‫آخر‬ ‫نمکین‬ ‫مالح يا ملح‬

‫مرادپانے والا‬ ‫مُفْلِحُ‬


‫‪۵۰‬‬

‫اردو میں ترجمہکریں ‪:‬‬

‫الرَّسُولُ الْكَرِيمُ‬ ‫(‪)۲‬‬ ‫اللَّهُالْعَظِيمُ‬ ‫)‪(1‬‬

‫صِرَاطٍمُّسْتَقِيمَ‬ ‫الصِرَاطَالْمُسْتَقِيمُ‬ ‫(‪)۳‬‬


‫(‪)۳‬‬

‫لَحْمطَرِيٌّ‬ ‫(‪) 1‬‬ ‫قَوْلٌمَّعْرُوفٌ‬ ‫(‪)٥‬‬

‫الْفَوْزاُلْكَبِيرُ‬ ‫(‪)۸‬‬ ‫الْكِتَبُالْمُبِينُ‬ ‫( ع)‬


‫(‪ )۱۰‬عَذَابٌشَدِيدٌ‬
‫فَوْزُعَظِيمٌ‬ ‫(‪)9‬‬
‫شَفَاعَةٌ سَيِّئَةٌ‬ ‫(‪) ۱۳‬‬ ‫الثَّمَنُالْقَلِيْلُ‬ ‫(‬

‫الصُّلْحاُلْجَمِيْلُ‬ ‫( ‪)۱‬‬ ‫(‪ )۱۳‬ذَنْبٌكَبِيرٌ‬

‫الدَّارُ الْآخِرَةُ‬ ‫(‬ ‫اَلنَّفْسُالْمُطْمَئِنَّةُ‬ ‫(‪)۱۵‬‬

‫(‪ )۱‬الْمُؤْمِنُونَالْمُفْلِحُونَ‬ ‫( ‪ )۱۷‬جَنَّتَانِوَسِيْعَتَانِ‬


‫الْآيَاتُالبَيِّنَاتُ‬ ‫(‪)۳۰‬‬ ‫دَرْسَانِطَوِيلَانِ‬ ‫(‪)19‬‬

‫عربی میں ترجمہکریں ‪:‬‬

‫(‪ )۳‬ایہکلکا بوجھ‬ ‫بھلی بات‬ ‫( ‪)۲‬‬ ‫ایک بزرگ رسول‬ ‫(‪) 1‬‬

‫(‪ ) ۲‬ایک اچھی شفاعت‬ ‫زیادہ قیمت‬ ‫(‪)۵‬‬ ‫شاندارکامیابی‬ ‫( ‪)۴‬‬

‫(‪ )۹‬ایک مطمئن دل‬ ‫ایک شانداربدلہ‬ ‫(‪)۸‬‬ ‫ایکواضحگناہ‬ ‫(‪)۷‬‬

‫(‪ )۱۲‬دوبڑےگناہ‬ ‫نیکعمل‬ ‫(‪)11‬‬ ‫پاکزندگی‬ ‫(‪)۱۰‬‬


‫مرکبتوصیفی ( حصہ دوم )‬

‫‪ ۹ : ۱‬گزشتہ سبق میں ہم نے مرکبتوصیفی کے چند قواعد سمجھے تھے اور انکی مشق‬

‫توصیفی کے ایک مزید قاعدے کے ساتھ لام تعریفکا‬


‫کی تھی ۔ اب ہم نے مرکب‬

‫ایک قاعدہ سمجھنا ہے ۔ پھر ان کا اطلاقکرتے ہوئے ہم مرکتبوصیفی کی کچھ مزید‬

‫مشقکریں گے ۔‬

‫‪ ۹ : ۲‬مرکبتوصیفی کا ایک قاعدہ یہ ہےکہ موصوف اگر غیرعاقلکی جمع مکسر ہو تو‬

‫اسکی صفت عام طور پر واحد مونث آتی ہے ۔ یہاں یہ بات سمجھ لیں کہ انسان جن‬

‫اور فرشتے صرف تین مخلوقات عاقل ہیں ۔ ان کے علاوہ باقی تمام مخلوقات غیر عاقل‬

‫ہیں ۔ چنانچہ قلم غیر عاقل مخلوق ہے ۔ اسکی جمع افلامآتی ہے جو کہ جمع مکسر ہے ۔‬

‫اس لئے اسکی صفت واحد مونث آئے گی ۔ مثلاً ”کچھ خوبصورت قلم " کا ترجمہ‬

‫ہوگا ۔اَقْلَامُجَمِيْلَةٌ ۔‬

‫لام تعریف کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ معرف باللام سے پہلے والے لفظ کے‬ ‫‪:‬‬

‫آخری حرفپر اگر تنوین ہو تو نون تنوینکو ظاہرکر کے آگے ملاتے ہیں ۔ جیسے اصل‬

‫بوصیفی تھازَيْدُ الْعَالِمُ ( عالم زید ) ‪ -‬جب زیدکی نونتنوینکو ظاہرکریںگے‬


‫میں مرک ت‬

‫تو يه زَيْدُنَ الْعَالِمُ ہو جائے گا۔ اب اسے آگے ملانے کے لئے نونکی جرم ہٹاکر اسے‬

‫زیر دےکر ملا ئیں گے ۔ تو یہ ہو جائےگا زَیدُنِ الْعَالِمُ ۔ یاد رکھیںکہ نون تنوین‬

‫باریک لکھا جاتا ہے ۔‬


‫‪۵۲‬‬

‫مشق نمبر‪( ۸‬الف )‬

‫معربفاللام کے متعلق ابتکجتنے اصول آپکو بتائے گئے ہیں ‪ ،‬ان سبکو‬ ‫(‪) 1‬‬

‫یکجاکر کے لکھیں اور زبانی یادکریں ۔‬

‫مرکب توصیفی کے متعلق اب تکجتنے قواعد آپکو بتائے گئے ہیں ‪ ،‬ان سب‬ ‫(‪) ii‬‬

‫کو یکجا کر کے لکھیں اور زبانی یادکریں ۔‬

‫‪(۸‬ب )‬
‫مشقنمبر‬

‫مندرجہ ذیل مرکباتکا اردو میں ترجمہکریں ۔‬

‫تفاححُلْوورُمَّانٌمُر‬ ‫(‪)۳‬‬ ‫مُحَمَّدُنِ الرَّسُوْلُ‬ ‫(‪)1‬‬

‫الْرَّجُلُالصَّالِحُ اَوِالْمَلِكُ الْعَادِلُ‬ ‫(‪)۴‬‬ ‫قَصْرُعَظِيمُأَوْبَيْتٌصَغِيرٌ‬ ‫(‪)۳‬‬

‫شَفَاعَةٌ حَسَنَةٌ أَوْسَيِّئَةٌ‬ ‫(‪)1‬‬ ‫الْأَقْلَامُ القَوِيْلَةُ وَالْقَصِيرَةُ‬ ‫(‪) ۵‬‬

‫اَلنَّفْساُلْمُطْمَئِنَّةُوَالرَّاضِيَةُ‬ ‫(‪)۸‬‬ ‫ثَمَرْحُلُوَّثَمَرٌمُرْ‬ ‫(ع)‬

‫اَلثَّمَنُالْقَلِيلُاَوِالْكَثِيرُ‬ ‫(‪)١٠‬‬ ‫أَبْوَابٌوَّاسِعَةًأَوْمُتَفَرَقَةٌ‬ ‫(‪)1‬‬

‫مندرجہ ذیل مرکباتکا عربی میں ترجمہکریں ۔‬

‫عالم محمود‬ ‫(‪)1‬‬


‫اچھی باتیںاور عظیم باتیں‬ ‫(‪)۲‬‬

‫شاندار اوربڑیکامیابی‬ ‫(‪) ۴‬‬ ‫کچھ نیک اوربد کارعورتیں‬ ‫(‪)۳‬‬

‫بھارییا ہلکا بوجھ ۔‬ ‫(‪) 1‬‬ ‫ایک واضحکتاباور ایک واضح نشانی‬ ‫( ‪)۵‬‬
‫‪۵۳‬‬

‫جملہ اسمیہ ( حصہ اول)‬

‫‪ ۱۰ : ۱‬پیراگراف ‪ ۷ : ۵‬میں ہم پڑھ آئے ہیںکہ دویا دو سے زائد الفاظ کے ایسے‬

‫مرکبکو جملہکہتے ہیں جس سے کوئی خبر حکم یا خواہش سامنے آئے اور بات پوری ہو‬

‫جائے اور جس جملہکی ابتداء اسم سے ہوا سے جملہ اسمیہکہتے ہیں ۔ اب یہ باتبھی‬

‫سمجھ لیںکہ ایک جملہ کے کچھ اجزاء ہوتے ہیں ۔ اس وقت ہم جملہ اسمیہ کے دو بڑے‬

‫اجزاءکو پہلے غیر اصطلاحی انداز میں سمجھیں گے اور بعد میں متعلقہ اصطلاحات کا ذکر‬

‫کریں گے ۔‬

‫مسجدکشادہ ہے " ۔ اب اگر آپ اس‬ ‫‪ ۱۰ : ۲‬ہم نے ایک جملہ کی مثال دی تھیکہ‬

‫جملہ پر غورکریں گے تو آپکو اندازہ ہو جائےگا کہ اس کے دو جز ہیں ۔ ایک جز ہے‬

‫کشادہ ہے " ۔ یعنی وہ‬


‫" مسجد " جس کے متعلق باتکی جا رہی ہے اور دوسرا جز ہے "‬

‫بات جو کسی جا رہی ہے ۔ انگریزیگرامر میں جس کے متعلقکوئی باتکہی جائے اسے‬

‫‪Subject‬کہتے ہیں اور جو باتکی جارہی ہو اسے ‪Predicate‬کہتے ہیں ۔‬

‫‪ ۱۰ : ۳‬عربی میں بھی جملہ کے بڑے اجزاء دو ہی ہوتے ہیں جس کے متعلق باتکمی‬

‫جارہی ہو یعنی ‪Subject‬کو عربی قواعد میں " مبتدا "کہتے ہیں اور جو باتکی جا رہی‬

‫ہو یعنی ‪Predicate‬کو " خبر ک‬


‫"ہتے ہیں ۔‬

‫اہلے آتا ہے اور خبر‬


‫‪ ۱۰ : ۴‬اردو اور عربی دونوں کے جملہ اسمیہ میں عام طورپر مبتد پ‬

‫بعد میں آتی ہے ۔ چنانچہ ترجمہکرتے وقت اس ترتیبکو ذہن میں رکھنا ضروری‬

‫ہے ۔ مثلاً "مسجدکشادہ ہے " کا جب ہم عربی میں ترجمہ کریں گے تو مبتداء یعنی‬

‫" مسجد "کا ترجمہ پہلے اور خبریعنی کشادہ ہے "کا ترجمہ بعد میں کریں گے ۔‬

‫‪ ۱۰ : ۵‬جملہ اسمیہ کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ذہننشینکرلیں کہ اردو میں جملہ‬

‫اور فارسی میں ” استاند " وغیرہ الفاظ استعمال‬ ‫مکملکرنے کے لئے " ہے ہیں‬
‫‪۵۴‬‬

‫ہوتے ہیں ۔ جیسے اوپر کی مثال میں مسجد کی کشادگی کی خبر دیگئی تو جملہ کے آخر میں لفظ‬

‫" ہے "کا اضافہکرکے باتکو مکملکیا گیا ۔ اسی طرح انگریزی میں " ‪" is.am,are‬‬

‫وغیرہ سے بات کو مکمل کرتے ہیں ۔ جیسے ہم کہیں گے ‪Mosque is‬‬

‫عربی زبانکی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ہے ‪ ،‬ہیں یا‬ ‫‪spacious‬‬

‫است اند یا ‪is ,are‬وغیرہ کی قسم کے الفاظ موجود نہیں ہیں ۔ بلکہ عربی میں جملہ مکمل‬

‫کرنے کا طریقہ یہ ہےکہ مبتداءکو عام طور پر معرفہ اور خبر کو عموما نکرہ رکھا جاتا ہے ۔‬

‫اس طرح جملہ میں ہے یا ہیں کا مفہوم از خود پیدا ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ مسجدکشادہ‬

‫ہے " کا ترجمہکرتے وقت مبتد ا یعنی مسجد کا ترجمہ "مَسْجِدٌ "نہیں بلکہ "الْمَسْجِدُ "‬

‫ہو گا اورخبریعنی کشادہ کا ترجمہ " الوسيع " نہیں بلکہ " وَسِيع " ہوگا ۔ اس طرح مبتدا‬

‫معرفہ اور خبر نکرہ ہونےکی وجہ سے اس میں " ہے "کا مفہوم از خود پیدا ہوگیا ۔چنانچہ‬

‫الْمَسْجِدُ وَسِيعکا مطلب ہےکہ "مسجد وسیع ہے " ۔‬

‫‪ ۱۰ :‬اب آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ جملہ اسمیہ اور مرکبتوصیفی کے‬

‫فرقکو خوب اچھی طرحذہن نشین کرلیاجائے ۔ جملہ اسمیہکا ایک اصول ابھی ہم نے‬

‫پڑھا کہ عموماً مبتداء معرفہ اور خبر نکرہ ہوتی ہے ۔ مرکبتوصیفی کا ایک اہم اصول یہ‬

‫ہےکہ صفت چاروں پہلوؤں ( یعنی حالت اعرابی ‪ ،‬جنس ‪ ،‬عدد اور وسعت ) کے اعتبار‬

‫سے موصوف کے تابع ہوتی ہے ۔ اس باتکو ذہن میں رکھ کے اب الْمَسْجِدُ‬

‫وسیع پر ایک مرتبہ پھر غورکریں ۔ اس مرکب کا پہلا جز معرفہ اور دو سرا نکرہ ہے ۔‬

‫اس لئے اسکو جملہ اسمیہ مانتے ہوئے اسی لحاظ سے اس کا ترجمہ کیاگیا کہ مسجد وسیع‬

‫وسیع "کو معرفہ کر کے الْمَسْجِدُ الْوَسِيعکر دیں تو اب چونکہ وسیع‬ ‫ہے ۔ اگر ہم‬

‫چاروں پہلوؤں سے مسجد کے تابع ہوگیا اس لئے اسے مرکبتوصیفی مانا جائےگا اور‬

‫وسیع مسجد "۔ اسی طرح اگر مسجد کو فکرہکر کے مَسْجِدٌ وَسِيعکردیں‬ ‫ترجمہ ہو گا‬

‫تب بھی وسیع چاروں پہلوؤں سے مسجد کے تابع ہے اس لئے اسے بھی مرکبتوصیفی‬

‫مانیں گے اور اس کا ترجمہ ہو گا " ایک وسیع مسجد "۔ چنانچہ جملہ اسمیہکی ابتدائی پہچان‬
‫‪۵۵‬‬

‫یہی ہے کہ مبتدا معرفہ اور خبرنکرہ ہوگی ۔ جبکہ مرکب توصیفی میں صفت چاروں‬

‫پہلوؤں سے موصوفکے تابع ہوگی ۔‬

‫‪L‬‬
‫‪ 10‬ہم پڑھ آئے ہیںکہ اسم کے صحیح استعمال کے لئے ہمیں اس کا چار پہلوؤں‬

‫سے جائزہ لےکر اسے قواعد کے مطابق بنانا ہوتا ہے ۔ اس میں سے ایک پہلو یعنی‬

‫وسعت کے لحاظ سے ہم نے دیکھ لیا کہ جملہ اسمیہ میں مبتد عام طور پر معرفہ اور خبر عموماً‬

‫نکرہ ہوتی ہے ۔ اب نوٹکر لیں کہ حالت اعرابی کے لحاظ سے مبتداً اور خبردونوں‬

‫حالت رفع میں ہوتے ہیں ۔‬

‫‪ ۱۰ :‬اب دوپہلو باقی رہ گئے یعنی جنس اور عدد ۔ اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین‬

‫کرلیںکہ جنس اور عدد کے لحاظ سے خبر مبتدا کے تابع ہوگی ۔ یعنی مبتدا اگر واحد‬

‫ہے تو خبر بھی واحد ہوگی اور مبتداً اگر جمع ہے تو خبر بھی جمع ہوگی ۔ اسی طرح مبتداً اگر‬

‫مذکر ہے تو خبر بھی مذکر ہوگی اور مبتداً اگر مونث ہے تو خبر بھی مونث ہوگی ۔ مثلا‬

‫اَلرَّجَلُصَادِقٌ ( مرد سچا ہے ‪ ،‬الرَّجُلَانِ صَادِقَانِ ( دونوں مرد کے ہیں ) الطِفْلَتَانِ‬

‫جَمِيْلَتَانِ ( دونوں بچیاں خوبصورت ہیں ) اور النِّسَاءُ مُجْتَهَدَاتٌ ( عورتیں محنتی‬

‫ہیں وغیرہ ۔ ان مثالوں میں غورکریں کہ عدد اور جنس کے لحاظ سے خبر مبتدا کے‬

‫مطابق ہے ۔‬

‫‪ ۱۰‬پیرا گراف ‪ ۸ : ۲‬میں ہم پڑھ آئے ہیںکہ موصوف اگر غیرعاقلکی جمع مکسر‬ ‫‪۹‬‬

‫ہو تو صفت عام طور پر واحد مونث آتی ہے ۔ ابیہ بھی نوٹکرلیںکہ مبتدا اگر غیر‬

‫عاقلکی جمع مکسر ہو تو خبربھی واحد مونث آتی ہے ۔ جیسے اَلْمَسَاجِدُ وَسِبْعَةٌ (مسجدیں‬

‫وسیع ہیں ) وغیرہ ۔ واضح رہے کہ استثناء کے لئے ذہن میں ایککھڑکی کھلی رہنی‬

‫چاہئے ۔‬
‫‪۵۶‬‬

‫مشق نمبر ‪۹‬‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے مرکبات اور‬

‫جملوں کا ترجمہکریں ۔‬

‫دردناک‬ ‫اليم‬ ‫گروہ ۔ جماعت‬ ‫فِئَةٌ‬

‫علم والا‬ ‫عَلِيمٌ‬ ‫دشمن‬ ‫عَدُوٌّ‬

‫حاضر‬ ‫حَاضِرٌ‬ ‫پاکیزه‬ ‫مُطَهَّرُ‬

‫روشن‬ ‫منير‬ ‫چمکدار‬ ‫لَامِعٌ‬

‫استاد ‪:‬‬ ‫مُعَلِّم‬ ‫محنتی‬ ‫جتهد‬

‫کھڑا‬ ‫قَائِمٌ‬ ‫بیٹھا ہوا‬ ‫قَاعِدٌ ‪ -‬جَالِسٌ‬

‫آنکھ‬ ‫عَيْنٌ ( جأَعْيُنٌ)‬

‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫الْعَذَابُشَدِيدٌ‬ ‫(‪)1‬‬
‫عَذَابٌأَلِيمٌ‬ ‫(‪)۲‬‬

‫زَيْدُعَالِمٌ‬ ‫(‪)۳‬‬ ‫اللهُ عَلِيمٌ‬ ‫(‪)۳‬‬


‫الْفِئَةُكَثِيرَةٌ‬ ‫(‪)1‬‬ ‫فِئَةٌ قَلِيْلَةٌ‬ ‫(‪)٥‬‬

‫الْأَعْيُنُلَامِعَةٌ‬ ‫(‪)۸‬‬ ‫النَّفْسُالْمُطْمَئِنَّةُ‬ ‫( )‬

‫عَدُوّمٌُّبِينٌ‬ ‫( ‪)۱‬‬ ‫الْعَيْناُللَّامِعَةُ‬ ‫(‪)۹‬‬

‫الْمُعَلِّمَتَانِمُجْتَهِدَتَانِ‬ ‫(‪)۱۲‬‬ ‫الْمُعَلِّمُونَ مُجْتَهِدُونَ‬

‫مُعَلِّمَتَانمُجْتَهِدَتَانِ‬ ‫(‪)۱۳‬‬ ‫( ‪ )۱۳‬الْمُعَلَّمَتَانِ الْمُجْتَهِدَتَانِ‬


‫زَيْدٌوَّحَامِدٌ عَالِمَانِ‬ ‫(‪)١٦‬‬ ‫زَيْدُنِالْعَالِمُ‬ ‫(‪)۱۵‬‬

‫الْأَقْلَامُطَوِيْلةً‬ ‫()‬ ‫( ‪ )1‬أَقْلَامٌطُويْلَةٌ‬


‫الْقُلُوبُ مُطْمَئِنَّةٌ‬ ‫( ‪)۲۰‬‬
‫قَلَمَانِجَمِيْلَانِ‬ ‫(‪)19‬‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫محمودعالم ہے‬ ‫( ‪)۲‬‬ ‫عالم محمود‬ ‫(‪) 1‬‬

‫بڑھئی سچا ہے‬ ‫(‪)۴‬‬ ‫سچا بڑھتی‬ ‫(‪)۳‬‬


‫ایککھلادشمن‬ ‫(‪)۲‬‬ ‫اساتذہحاضرہیں‬ ‫(‪)۵‬‬
‫طویل سبق‬ ‫(‪)۸‬‬ ‫سیباور انارمیٹھے ہیں‬ ‫(‪)۷‬‬

‫نشانیاںواضح ہیں‬ ‫(‪)۱۰‬‬ ‫سبق طویل ہے‬ ‫(‪)۹‬‬

‫بوجھ ہلکا ہے اوراجر بڑا ہے‬ ‫( ‪)1‬‬


‫‪ΟΛ‬‬

‫جملہ اسمیہ (حصہ دوم )‬

‫ا ‪11 :‬گزشتہ سبق میں ہم نے جملہ اسمیہ کے کچھ قواعد سمجھ لئے اور انکی مشقکرلی ۔‬

‫ہم نے جتنے جملوںکی مشقکی ہے وہ سبمثبت معنی دے رہے تھے ۔ اب ہم دیکھیں‬

‫گےکہ جملہ اسمیہ میں نفی کے معنیکس طرحپیدا ہوتے ہیں ۔ مثلاگزشتہ مشق میں ایک‬

‫جملہ تھا ۔ "سبق طویل ہے " ۔ اگر ہم کہنا چاہیں " سبق طویل نہیں ہے " تو عربی میں‬

‫اس کا کیا طریقہ ہے ؟ چنانچہ سمجھ لیں کہ کسی جملہ اسمیہ کے شروع میں لفظ "ما " یا‬

‫" لَيْسَ " کا اضافہکرنے سے اس میں نفی کا مفہوم پیدا ہوتاہے ۔‬

‫‪ 1‬اب ایک خاص بات یہ نوٹکریں کہکسی جملہ اسمیہ کے شروع میں جب‬ ‫‪:‬‬

‫" مَا " یا " لَيْس " داخل ہوتا ہے تو مذکورہ بالا معنوی تبدیلی کے ساتھ ساتھ یہ الفاظ‬

‫اعرابی تبدیلی بھی لاتے ہیں یعنی وہ جملہکی خبرکو حالت نصبمیں لے آتے ہیں ۔ مثلاً‬

‫ہم کہیں گے لَيْسَ الدَّرْسُطَوِيلاً(سبق طویل نہیں ہے ) ۔ اس میں خبرطویل حالت‬

‫نصب میں طویلاً آئی ہے ۔ اسی طرح ہم کہیں گے مَازَيْدٌ قَبِيْحًا ( زید بد صورت‬

‫نہیں ہے ) اسمیں خبرقبیححالت نصبمیں قَبِيحًاآتی ہے ۔‬

‫‪ 11 :‬جملہ اسمیہ میں نفی کا مفہوم پیداکرنے کا عربی میں ایک اور انداز بھی ہے اور‬

‫وہ یہ کہ خبرپر " ب " کا اضافہکر کے اسے حالت جر میں لے آتے ہیں ۔ مثلا لبس‬

‫مَا زَيْدٌ بِقَبِيحِ ( زید بدصورت نہیں ہے )‬ ‫الدَّرْسُ بِطَوِيلٍ ( سبق طویل نہیں ہے‬

‫وغیرہ ۔ نوٹکرلیںکہ یہاں پر " ب" کے کچھ معنی نہیں لئے جاتے اور اس کے اضافہ‬

‫سے جملہ کے معنی میںکوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ صرف خبر حالت جر میں آجاتی ہے ۔‬

‫‪ " 1 : ۴‬لیس " کے استعمال کے سلسلے میں ایک احتیاط نوٹکرلیں ۔ اس کا استعمال‬
‫‪۵۹‬‬

‫اس وقتکریں جب مبتداً واحد مذکر ہو ۔ جبمبتدا مونث یا تثنیہ یا جمع ہوتا‬ ‫صرف‬

‫ہے تو لیس کے لفظ میں کچھ تبدیلیاں ہوتی ہیں ۔ جنکی تفصیل ہم ان شاءاللہ فعل‬

‫کے اسباق میں پڑھیں گے ۔ اس لئے فی الحال لبس اس وقت استعمالکریں جب‬

‫مبتدا واحد مذکر ہو ۔ اس کے علاوہ کوئی اور صیغہ ہو تو " ما " کے استعمال سے نفی کے‬

‫معنی پیداکریں ۔‬

‫‪10‬‬
‫نمبر‬
‫مشق‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے جملوں کا‬

‫ترجمہکریں ۔‬

‫کتا‬ ‫غَافِلٌ‬
‫كَلْبٌ ( جكِلَابٌ )‬ ‫غافل‬

‫لڑکا‬ ‫وَلَدٌ( جأَوْلَادُ)‬ ‫گھیرنے والا‬ ‫محيط‬

‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫مَاالْفِئَةُ كَثِيرَةً‬ ‫(‪)٢‬‬ ‫الْفِئَةُكَثِيرَةٌ‬ ‫(‪)1‬‬


‫(‪ )۳‬الله مُحِيطٌ‬
‫( ‪ )٣‬مَا الْفِئَةُ بِكَثِيرَةٍ‬

‫(‪) 1‬‬ ‫مَا اللَّهُ بِغَافِلِ‬ ‫)‪(۵‬‬


‫الْمُعَلِّمَتَانِمُجْتَهِدَتَانِ‬

‫مَا الظَّالِبَاتُحَاضِرَاتٍ‬ ‫( ‪)۸‬‬


‫(‪ ) ۷‬لَيْساَلمُعَلِّمُبِغَافِلٍ‬
‫( ‪ ) 1‬الْأَوْلَادُ قَائِمُوْنَ‬ ‫مَا الطَّالِبَاتُبِحَاضِرَاتٍ‬ ‫(‪)9‬‬

‫(‪ )۱۳‬مَا الْمُعَلِّمَتَانِ مُجْتَهِدَتَيْنِ‬ ‫مَاالْأَوْلَادُقَائِمِيْنَ‬

‫(‪ )٣‬مَا الْمُعَلِّمَتَانِبِمُجْتَهِدَتَيْنِ‬ ‫(‪ )۱۳‬لَيْاسلَْمُعَلِّمُغَافِلاً‬

‫(‪ )1‬مَا الْمُعَلِّمُونَبِغَافِلِيْنَ‬ ‫(‪ )۱۵‬مَا الْمُعَلِّمُونَغَافِلِيْنَ‬


‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫بڑھی کھڑا نہیں ہے ۔‬ ‫(‪) ۲‬‬ ‫بڑھتی بیٹھاہے ۔‬ ‫(‪)1‬‬

‫( ‪ )۴‬دوکتے بیٹھے نہیں ہیں ۔‬ ‫(‪ )۳‬دوکتےبیٹھے ہیں ۔‬

‫(‪ ) 1‬انار اورسیبنمکین نہیں ہیں ۔‬ ‫اجرت زیادہ نہیں ہے ۔‬ ‫(‪) ۵‬‬

‫(‪ ) ۸‬عورتیں فاسق نہیں ہیں ۔‬ ‫(‪ )۷‬اساتذہ حاضنرہیں ہیں ۔‬


‫‪ช‬‬

‫جملہ اسمیہ (حصہ سوم )‬

‫‪ ۱۲‬ابتک ہم نے ایسے جملوں کے قواعد سمجھ لئے ہیں جو مثبتیا منفی معنی دیتے‬ ‫‪۱‬‬

‫۔ اور ہم دونوں قسم کے‬ ‫ہیں ۔ مثلاً " سبق طویل ہے " اور " سبق طویل نہیں ہے‬

‫جملوں کا عربی میں ترجمہکر سکتے ہیں ۔ اب ہم دیکھیں گے کہ جملہ میں اگر تاکید کا مفہوم‬

‫پیداکرنا ہو ‪ ،‬مثلاً اگر ہمکہنا چاہیں کہ ” یقینا سبق طویل ہے " تو اسکے لئے کیا قاعدہ‬

‫ہے ۔ اس ضمن میں یادکر لیں کہ کسی جملہ اسمیہ میں تاکید کا مفہوم پیداکرنے کے لئے‬

‫عموماً جملہ کے شروع میں لفظ " إِنَّ " ( بے شک ۔ یقینا)کا اضافہکرتے ہیں ۔‬

‫‪ ۱۲ : ۲‬جبکسی جملہ پر ان داخل ہوتا ہے تو وہ معنوی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اعرابی‬

‫تبدیلی بھی لاتہاے ۔ اور وہ تبدیلی یہہے کہ کسی جملہ پر ان داخل ہونےکی وجہ سے‬

‫اس کا مبتد أحالت نصب میں آجاتا ہے جبکہ خبر اپنی اصلی حالت یعنی حالت رفع میں ہی‬

‫رہتی ہے مثلا یقیناسبق طویل ہے کا ترجمہ ہو گا اِنَّالدَّرْسَطَوِيلٌ۔ اسی طرح ہمکہیں‬

‫گے اِنَّ زَيْدًا صَالِحُ ( بیشک زید نیک ہے ) وغیرہ ۔ جس جملہ پر ان داخل ہوتا ہے اس‬

‫کے مبتداکو انکا اسم اور خبرکو انکی خبرکہتے ہیں ۔‬

‫‪་་‬‬
‫‪ ۱۲ : ۳‬کسی جملہکو اگر سوالیہ جملہ بناناہو تو اس کے شروعمیں " " (کیا )یا " هل "‬

‫بسی جملہ پر " " یا " هل "‬


‫(کیا )کا اضافہ ہو تا ہے انہیں حروف استفہامکہتے ہیں ۔ ج ک‬

‫داخل ہوتا ہے تو وہ صرف معنوی تبدیلی لاتے ہیں ۔ انکی وجہ سے جملہ میں کوئی‬

‫اعرابی تبدیلی نہیں آتی ۔ مثلاً أَزَيْدٌ صَالِحُ (کیا زید نیک ہے ؟ ) يَا هَلِ الدَّرْسُطَوِيلٌ‬

‫(کیاسبق طویل ہے ؟ ) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۱۲ : ۴‬مبتداً اگر معرف باللام ہو ‪ ،‬جیسے اَلدَّرْسُ طَوِیل اور ایسے جملےکو سوالیہ‬

‫استعمالکرنا چاہیں تو اس کا ایک قاعدہ ہے جو‬ ‫جملہ بنانے کے لئے حرف استفہام "‬

‫ان شاء اللہ ہم آگے چل کر پڑھیں گے ۔ اس لئے فی الحال ایسے جملوں میں آپ‬

‫" "‪.‬‬
‫کے بجائے ھل استعمالکریں ۔‬
‫‪۶۲‬‬

‫مشق نمبر ‪1‬‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے جملوں کا‬

‫ترجمہکریں ۔‬

‫سچا‬ ‫صَادِقٌ‬ ‫ہاں ۔جی ہاں‬ ‫نَعَمْ‬

‫چھوٹا‬ ‫كَاذِبٌ‬ ‫نہیں ۔جی نہیں‬ ‫‪ý‬‬

‫گھڑی‬ ‫سَاعَةٌ‬ ‫کیوں نہیں‬ ‫بَلْى‬

‫قیامت‬ ‫السَّاعَةُ‬ ‫بلکہ‬ ‫بَلْ‬

‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫(‪ )٢‬إِنَّزَيْدًاعَالِمٌ‬ ‫اَزَيْدٌعَالِمٌ؟‬ ‫()‬


‫‪1‬‬

‫(‪ )۲‬هَلِالرَّجُلَانِ صَادِقَانِ ؟‬ ‫(‪ )۳‬مَازَيْدُبِعَالِم‬

‫إِنّاَلرَّجُلَيْنِ صَادِقَانِ‬ ‫(‪)٢‬‬ ‫(‪ )٥‬مَا الرَّجُلَانِصَادِقَيْنِ‬

‫بَلَى إِنَّالْمُعَلِّمِيْنَصَادِقُوْنَ‬ ‫(‪)۸‬‬ ‫( ‪ )2‬هَلِالْمُعَلِمُوْنَصَادِقُوْنَ ؟‬

‫( ‪ )1‬لَا ‪ :‬مَا الْمُعَلِّمَاتُ مُجْتَهِدَاتٍ‬ ‫هَلِالْمُعَلِّمَاتُمُجْتَهِدَاتٌ؟‬ ‫(‪) 9‬‬

‫(‪ )۱۳‬نَعَمْ إِنَّالْكَلْبَجَالِسٌ‬ ‫(‪ ) 1‬أَلَيْسَالْكَلْبُ جَالِسًا ؟‬

‫(‪ ) ۳‬لَا بَلِ الْكَلْبُ قَائِمٌ‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫جی ہاں ! محمودیقیناً جھوٹا ہے ۔‬ ‫(‪)۲‬‬ ‫کیا محمود جھوٹا ہے ؟‬ ‫(‪)1‬‬

‫(‪ ) ۴‬جی ہاں ! حامد سچا نہیں ہے ۔‬ ‫(‪ )۳‬کیا حامدسچا نہیں ہے ؟‬

‫بے شک دونوںبچیاںکچی ہیں ۔‬ ‫(‪)1‬‬ ‫( ‪ )۵‬کیا دونوںبچیاںکچی ہیں ؟‬

‫(‪ ) ۸‬جی ہاں ! بے شک استانیاں بیٹھی ہیں ۔‬ ‫(‪ )۷‬کیا استانیاںبیٹھی ہیں ؟‬
‫‪۶۳‬‬

‫جملہ اسمیہ ( حصہ چہارم )‬

‫‪ ۱۳ : ۱‬گزشتہ تین اسباق میں ہم نے جملہ اسمیہ کے مختلف قواعد سمجھ لئے اور انکی‬

‫مشقکرلی ۔ اب تک ہم نے جتنے جملوںکی مشقکی ہے ان میں خاص بات یہ تھیکہ‬

‫تمام جملوں میں مبتدا اور خبردونوں مفرد تھے ۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہو تا بلکہکبھی مبتدا‬

‫ناقص ہوتے ہیں ۔‬


‫اور خبردونوں یا ان میں سے کوئی ایک مفردکے بجائے مرکب‬

‫‪ ۱۳‬اس سلسلہ میں پہلی صورتیہ ممکن ہے کہ مبتدا مرکبناقص ہو اور خبر‬ ‫‪۲‬‬

‫مفرد ہو ۔ مثلاً الرَّجُلُ الطَّيِّبُ ‪ -‬حَاضِر ( اچھا مرد حاضر ہے ) ۔ اس مثال پر غور‬

‫کریں کہ الرَّجُلُ الطَّيِّبُ مرکب توصیفی ہے اور مبتدا ہے ۔ جبکہ خبر حاضر‬

‫مفرد ہے ۔‬

‫‪ ۱۳ : ۳‬دوسری صورتیہ ممکن ہے کہ مبتد ا مفرد ہو اور خبر مرکبناقص ہو ۔ مثلاً‬

‫رَجُلٌطَيّب ( زید ایک اچھا مرد ہے ) ۔ اس مثال میں زید مبتدا ہے اور‬ ‫زَيْدٌ‬

‫بوصیفی ہے ۔‬
‫مفرد ہے جبکہ خبردَ جُلطيب مرک ت‬

‫‪ ۱۳ : ۴‬تیسری صورت یہ بھی ممکن ہے کہ مبتدا اور خبر دونوں مرکب ناقص‬

‫ہوں ۔ مثلا زَيْدُنِ الْعَالِمُ رَجُلٌطيب عالم زید ایک اچھا مرد ہے ) ۔ اس مثال میں‬

‫زَيْدُنِ الْعَالِمُ مرکبتوصیفی ہے اور مبتدا ہے جبکہ خیبر رَجُلٌطَيِّبٌ بھی مرکب‬

‫توصیفی ہے ۔‬

‫‪ ۱۳ : ۵‬اب ایک بات اور بھی ذہن نشین کر لیں ۔کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ مبتدا‬

‫ایک سے زائد ہوتے ہیں اور انکی جنس مختلف ہوتی ہے ۔ مثلاً ہمکہتے ہیں ” استاد‬

‫اور استانی بچے ہیں “ ۔ اس جملہ میں بچے ہونےکی جو خبردی جا رہی ہے وہ استاد اور‬

‫استانی دونوں کے متعلق ہے ۔ چنانچہ دونوں مبتدا ہیں اور ان میں سے ایک مذکر ہے‬
‫جبکہ دو سرا مونث ہے ۔ ادھرپیراگراف ‪ ۱۰ : ۸‬میں ہم پڑھآئے ہیںکہ عد د اور‬

‫جنس کے لحاظ سے خبرمبتدا کے تابع ہوتی ہے ۔ اب سوالپیدا ہوتا ہےکہ اس جملہ کا‬

‫عربی ترجمہکرتے وقتخبر کا ترجمہ صیغہ مذکر میں کریں یا مونثمیں ؟ ایسی صورت میں‬

‫اصول یہ ہےکہ مبتداً اگر ایک سے زائد ہوں اور مختلف الجنس ہوں تو خبرمڈکرآئے‬

‫گی ۔ چنانچہ مذکورہ بالا جملہ کا ترجمہ ہو گا الْمُعَلمُ وَالْمُعَلِمَةُ صَادِقَان ۔ اب نوٹکر‬

‫لیں کہ خبرصادقان مذکر ہونے کے ساتھ تثنیہ کے صیغے میں آئی ہے ۔ اس لئےکہ‬

‫تو پھرخبرمجمع کے صیغے میں آتی ۔‬


‫مبتد آدو ہیں ۔مبتدا اگر دو سے زیادہ ہوتے‬

‫مشق نمبر‪( ۱۲‬الف )‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے جملوں کا‬

‫ترجمہکریں ۔‬

‫گمراہی‬ ‫ضَللٌ‬ ‫دھتکارا ہوا‬ ‫رَحِيمٌ‬

‫کسوٹی ۔ آزمائش‬ ‫فِتْنَةٌ‬ ‫گرم جوش‬ ‫حَمِيمٌ‬

‫صدقہ‬ ‫صَدَقَةٌ‬ ‫بندہ ۔ غلام‬ ‫عَبْدٌ (جعِبَادٌ)‬

‫جھوٹ‬ ‫كِذْبٌ كَذِبٌ‬ ‫مهینه‬ ‫شَهْرٌ( جأَشْهُرٌ)‬

‫سچائی‬ ‫صِدق‬ ‫قریب‬ ‫قَرِيبٌ‬

‫ہاتھی‬ ‫فيل‬ ‫بکری‬ ‫شَاةٌ‬

‫نیا‬ ‫جَدِيدٌ‬ ‫پرانا‬ ‫قَدِيمٌ‬

‫جانور‬ ‫حَيَوَانُ‬ ‫چراغ‬ ‫سِرَاج‬


‫‪106‬‬
‫‪۶۵‬‬

‫اردومیں ترجمہکریں‬

‫(‪ )۳‬إِنَّالشَّيْطَنَعَدُوٌّمُّبِينٌ‬ ‫الشَّيْطَنُعَدُوٌّمُّبِينٌ‬ ‫(‪)1‬‬

‫(‪ )۲‬الشَّرْكُضَلَلٌمُّبِينٌ‬ ‫لَيْسَالشَّيْطَنُوَلِيًّاحَمِيمًا‬ ‫( ‪)۳‬‬

‫هَلِالْعَبْدُ الْمُومِنُ مُفْلِحٌ‬ ‫(‪) ٢‬‬ ‫( ‪ )٥‬إِنَّالشِّرْكَظُلْمٌعَظِيمٌ‬

‫الْفِئَةُ الْكَثِيرَةُ وَالْفِئَةُ الْقَلِيْلَةُ حَاضِرَتَانِ‬ ‫(‪) ۸‬‬ ‫(ع) نَعَمْ إِنَّالْعَبْدَالْمُؤْمِنَمُفْلِعٌ‬

‫هَلِالْمُعَلَّمَاتُالْمُجْتَهِدَاتُقَاعِدَاتٌ‬ ‫الصَّبْراُلْجَمِيْلُفَوْزُ كَبِيرٌ‬ ‫(‪)9‬‬

‫إِنّاَلْمُعَلِّمَاتِ الْمُجْتَهَدَاتِ قَاعِدَاتٌ‬ ‫(‪)۳‬‬ ‫) ‪(1‬‬


‫) مَا الْمُعَلَّمَاتُ الْمُجْتَهدَات قَاعِدَاتٍ‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫بیشک صبرجمیلایکبڑی کامیابیہے‬ ‫( ‪)۲‬‬ ‫(‪ )1‬صبرجمیل چھوٹی کامیابی نہیں ہے ۔‬

‫(‪ )۴‬جھوٹ چھوٹاگناہ نہیں ہے ۔‬ ‫(‪ ) ۳‬کیا جھوٹایک چھوٹاگناہ ہے ؟‬

‫(‪ ) 1‬یقینا محنتی در زنیں کچی ہیں ۔‬ ‫(‪ )۵‬کیا محنتی در زنیں بچیہیں ؟‬

‫(‪ )۸‬کیایا تھی عظیم حیوان ہے ؟‬ ‫(‪ )۷‬کچی در زمیں محنتی نہیں ہیں ۔‬

‫کیوںنہیں یقینا ناتھی ایکعظیم حیوان ہے‬ ‫(‪) 9‬‬

‫‪( ۱۲‬ب )‬
‫مشقنمبر‬

‫اب تک جملہ اسمیہ کے جتنے قواعد آپکو بتائے گئے ہیں ان سبکو یکجا کر کے‬

‫لکھیں اور انہیں زبانی یادکریں ۔‬


‫‪۶۶‬‬

‫جملہ اسمیہ (ضمائر )‬

‫‪ ۱۴ : ۱‬تقریباً ہر زبان میں باتکہنے کا بہترانداز یہ ہےکہ بات کے دوران جبکسی‬

‫چیزکے لئے اس کا اسم استعمال ہو جائے اور دوبارہ اس کا ذکر آئے تو پھر اسمکے‬

‫اگر دو جملے اس طرح‬ ‫بجائے اس کی ضمیر استعمالکرتے ہیں ۔ مثلاً‬

‫کیا بکری کوئی نیا جانور ہے ؟ جی نہیں ! بلکہبکری ایک قدیم جانور ہے ۔ " اسی‬ ‫ہوں ‪:‬‬

‫باتکو کہنے کا بہتر انداز یہ ہو گا کیا بکری کوئی نیا جانور ہے ؟ جی نہیں ! بلکہ وہ ایک‬

‫قدیم جانور ہے ۔ " آپ نے دیکھا کہ لفظ "بکری "کی تکرار طبیعت پر گراںگزر رہی‬

‫تھی ۔ اور جب دوسرے جملے میں بکری کی جگہ لفظ ” وہ "آگیا تو بات میں روانی پیدا ہو‬

‫گئی ۔ اسی طرح عربی میں بھی بات میں روانی کی غرض سے ضمیروں کا استعمال ہو تا‬

‫ہے ۔ چنانچہ جملہ اسمیہ کے بہتر استعمال کے لئے ضروری ہےکہ ہم عربی میں استعمال‬

‫ہونے والی ضمیروںکو یادکرلیں اور ان کے استعمالکی مشقکرلیں ۔‬

‫‪ ۱۴ : ۲‬اب اگر ایک بات اور سمجھ لیں تو ضمیریں یادکرنے میں بہت آسانی ہو جائے‬

‫گی ۔ جبکسی کے متعلقکوئی بات ہوتی ہے تو تین امکانات ہوتے ہیں ۔ پہلا یہکہ‬

‫حاضر‬
‫جس کے متعلق بات ہو رہی ہو وہ " غائب " ہو یعنی یا تو وہ غیرحاضرہو یا اسکو غیر‬

‫کے صیغے میں باتکی جائے ۔ مذکورہ بالا پیراگراف میں بکری‬ ‫غائب‬ ‫فرضکر کے‬

‫اسکی مثال ہے ۔ اردو میں غائب کے صیغے کے لئے زیادہ تر " وہ "کی ضمیرآتی‬

‫ہو‬ ‫ہے ۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ جس کے متعلق بات ہو رہی ہو وہ آپ کا ” مخاطب‬

‫یعنی حاضر ہو ۔ اردو میں اس کے لئے اکثر آپیا تمکی ضمیرآتی ہے ۔ تیسرا امکان یہ‬

‫ہے کہ " مُتكلّم " خود اپنے متعلق باتکر رہا ہو ۔ اردو میں اس کے لئے میں یا ہمکی‬

‫آتی ہے ۔‬
‫ضمیر‬
‫‪14‬‬

‫اس سلسلہ میں ایک اہم بات یہ ہےکہ عربی کی ضمیروں میں نہ صرف‬ ‫‪۱۴ : ۳‬‬

‫غائب ‪،‬مخاطباور متکلم کا فرق واضح ہوتا ہے بلکہ جنس اور عہدکا فرق بھی نمایاں ہوتا‬

‫ہے ۔ اسکی وجہ سے عربی جملوں کے حقیقی مفہوم کا تعین کرنے میں آسانی ہوتی‬

‫ہے ۔ اب مختلف صیغوں میں استعمال ہونے والی مختلف ضمیروںکو یادکرلیں ۔ تاکہ‬

‫جملوں کے ترجمے میں غلطی نہ ہو ۔‬

‫ضَمَائِرِمَرْفُوْعَه مُنْفَصِله‬

‫‪۱۴ : ۴‬‬

‫‪៥‬‬ ‫تثنیہ‬ ‫واحد‬

‫هُمَا‬

‫( وہ بہت سے مرد )‬ ‫وہ دو مرد )‬ ‫( وہ ایک مرد )‬


‫هُنَّ‬ ‫هُمَا‬ ‫‪:‬‬ ‫مؤنث‬
‫هی‬ ‫غائب‬
‫( وہ بہتسی عورتیں )‬ ‫وہ دوعورتیں )‬ ‫( وہ ایک عورت )‬

‫أَنْتُمَا‬ ‫‪ :‬انْتَ‬
‫أَنْتُمْ‬ ‫تذکر‬

‫(تم بہت سے مرد )‬ ‫(تم و و مرد )‬


‫تو ایک مرد )‬

‫انْتُنَّ‬ ‫أَنْتُمَا‬ ‫‪ :‬انْتِ‬


‫مونث‬ ‫مخاطب‬
‫(تم بہتسی عورتیں )‬ ‫(تم دوعورتیں )‬ ‫(تو ایک عورت)‬

‫نَحْنُ‬ ‫نَحْنُ‬ ‫آنا‬ ‫‪:‬‬

‫( ہم بہت سے )‬ ‫(ہم دو )‬ ‫(میں ایک )‬ ‫مونث‬ ‫تکلم‬

‫‪ ۱۴ : ۵‬ان ضمیروں کے متعلق چند باتیںذہن نشینکرلیں ۔‬

‫اولیہ کہ ہم پیرا گراف‪ ۶ : ۴‬میں پڑھ آئے ہیںکہ ضمیریں معرفہ ہوتی ہیں ۔‬ ‫( ‪)1‬‬
‫‪۶۸‬‬

‫اس لئے اکثر جملوں میں یہ مبتدا کے طور پر بھی آتی ہیں ۔ مثلا هُوَ رَجُلٌصَالِحٌ‬

‫وہ ایک نیک مرد ہے ) هُنَّ نِسَاءُ صَالِحات ( وہ نیک عورتیں ہیں ) وغیرہ ۔‬

‫دوم یہکہ پیرا گراف‪ ۳ : ۵‬میں ہم نے منی اسماء کا ذکرکیا تھا ۔ اب یہ نوٹکر‬ ‫(‪) ii‬‬

‫لیںکہ یہ تمام ضمیرمیں مبنی ہیں اور چونکہ اکثریہ مبتداکے طور پر آتی ہیں اس‬

‫لئے انہیں مرفوع یعنی حالت رفع میں فرضکر لیاگیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا‬

‫نامضمائر مرفوعہ ہے ۔‬

‫‪ iii‬سوم یہ کہ یہ ضمیریںکسی لفظ کے ساتھ ملا کر یعنی متصلکر کے نہیں لکھی جاتیں‬
‫( )‬

‫بلکہ انکی لکھائی اور تلفظ علیحدہ اور مستقل ہے ۔ اس لئے انکو ضمائر‬

‫منفصلہ بھیکہتے ہیں ۔‬

‫( ‪ ) iv‬چهارم یہ کہ ضمیر " آنا " کو پڑھتے اور بولتے وقت الف کے بغیر یعنی آن‬

‫پڑھتے ہیں ۔‬

‫‪ ۱۴ :‬پیرا گراف ‪ ۱۰ : ۵‬میں ہم پڑھ آئے ہیںکہ خبر عموما نکرہ ہوتی ہے ۔ فی الحال‬

‫اس قاعدے کے دو استثناء سمجھ لیںکہ خبر معرفہ بھی آسکتی ہے ۔ پہلا استثناء یہ ہےکہ‬

‫خبراگر کوئی ایسا لفظ ہو جو صفت نہ بن سکتا ہو تو خبر معرفہ ہو سکتی ہے ۔ مثلاً آنَا يُوسُف‬

‫( میں یوسف ہوں) ۔ دوسرا استثناء یہ ہے کہ خبراگر اسم صفت ہو اورکسی ضرورت‬

‫کے تحت اسے معرفہ لانا مقصود ہو تو مبتداً اور خبر کے درمیان متعلقہ ضمیرفاصل لے‬

‫آتے ہیں ۔ جیسے الرَّجُلُ هُوَالصَّالِحُ ( مرد نیک ہے ) ۔کبھی جملہ میں تاکیدی مفہوم‬

‫پیداکرنے کے لئے بھی یہ انداز اختیارکیا جاتا ہے ۔ چنانچہ مذ کو رہ جملہ کا یہ ترجمہ بھی‬

‫مرد ہی نیک ہے " الْمُؤْمِنُونَ هُمُ المُفْلِحُونَ یعنی مومن مراد پانے‬ ‫ممکن ہے کہ‬

‫والے ہیں یا مومن ہی مرادپانے والے ہیں ۔‬

‫مشق نمبر‪۱۳‬‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے جملوں کا‬
‫‪۶۹‬‬

‫ترجمہکریں ۔‬

‫خوش دل‬ ‫مَبسُوط‬ ‫خادم ۔ نوکر‬ ‫خَادِمٌ‬

‫بہتہی‬ ‫جدًا‬ ‫بڑی جسامت والا‬ ‫ضَحِيْمٌ‬


‫مَوْعِظَةٌ‬
‫وعظ نصیحت‬
‫لیکن‬ ‫لكن‬

‫بھلا ۔ اچھا‬ ‫مَعْرُوفٌ‬ ‫نفع بخش‬ ‫نَافِعٌ‬

‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫إِنَّ الْأَرْضَ وَالسَّمَوتِ مَخْلُوقَاتٌ‬ ‫حَاضِرَانِ ( ‪)۳‬‬ ‫الْمَبْسُوطَانِ‬ ‫الْخَادِمَانِ‬

‫وَهُنَّأنتبينت‬ ‫وَهُمَامُجْتَهِدَانِ‬

‫( ‪ )۳‬إِنَّالشَّرُكَضَلْلٌمُّبِينٌوَهُوَظُلْمٌعَظِيمٌ (‪ )٢‬اَ اَنْتَإِبْرَاهِيمُ ؟‬

‫‪ )۲‬هَلالِْإِسْلَامُ دِينُحَقٌّ؟‬
‫(‬ ‫مَا أَنَا إِبْرَاهِيمَبَلْأَنَامَحْمُوْدٌ‬ ‫(‪)۵‬‬

‫( ‪ ) ۸‬الدَّرْسُسَهْلٌلَكِنْ هُوَطَوِيْلٌ‬ ‫(‪ )۷‬بَلَى وَهُوَصِرَاطٌ مُّسْتَقِيمَ‬

‫( ‪ )۱‬بَلَى هُوَحَيَوَانٌضَحِيْمٌجِدًّا‬ ‫أَلَيْساَلْفِيْلُحَيَوَانًاضَحِيْمًا؟‬ ‫(‪) 9‬‬

‫(‪ )۱۲‬مَانَحْنُبِخَيَّاطِيْنَ بَلْنَحْنُ مُعَلِّمُونَ‬ ‫أَأَنْتُمْخَيَّاطُوْنَ ؟‬ ‫( ‪)1‬‬

‫(‪ ) ۱۳‬إِنَّ الْمُعَلِّمِينَ وَالْمُعَلِّمَاتِ مَبْسُوطُونَ‬ ‫( ‪ ) ۱۳‬إِنَّالْمَرْءَتَيْنِ الصَّالِحَتَيْنِ جَالِسَتَانِ‬

‫لَكِنْمَاهُمْبِمُجْتَهِدِينَ‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫کیا زمین اور سورج دو وااضح نشانیاں‬ ‫اچھی نصیحت صدقہ ہے اور وہ بہت ہی ( ‪)۳‬‬ ‫( ‪)1‬‬

‫نہیں ہیں ؟‬ ‫مقبول ہے‬

‫کیوں نہیں ! وہ خوشدلہیں او روہ محنتی ہیں ۔‬ ‫(‪)۴‬‬ ‫( ‪ )۳‬کیا خوشدل استانیاں محنتی نہیں ہیں ؟‬

‫وہ کھڑی نہیں ہیں بلکہ بیٹھی ہیں ۔‬ ‫(‪)1‬‬ ‫کستانیاںکھڑی ہیںیا بیٹھی ہیں ؟‬
‫( ‪ ) ۵‬دو نی ا‬
‫•‪L‬‬

‫مرکب اضافی ( حصہ اول )‬

‫‪ ۱۵ : ۱‬دو اسموں کا ایسا مرکب جس میں ایک اسمکو دوسرے اسم کی طرف نسبت‬

‫لڑکے کی کتاب " اس‬ ‫دیگئی ہو مرکب اضافی کہلاتاہے جیسے اردو میں ہمکہتے ہیں‬

‫میںکتابکو لڑکےکی طرف نسبت دیگئی ہے ۔ جو یہاں ملکیت ظاہرکر رہی ہے ۔‬

‫اس لئے یہ مرکب اضافی ہے ۔‬

‫‪ ۱۵ : ۲‬یہ بات ذہن میں واضح رہنی چاہئے کہ دو اسموں کے درمیان ملکیت کے‬

‫علاوہ اور بھی نسبتیں ہوتی ہیں ۔ لیکن فی الحال ہم ملکیتکی نسبت کے حوالے سے‬

‫مرکب اضافی کے قواعد سمجھیں گے اور انکی مشقکریں گے ۔ پھرآگے چلکرجب‬

‫دوسری نسبتیں سامنے آئیں گی تو انکو قواعد کے مطابق استعمالکرنے میں ان شاء‬

‫اللہکوئی مشکل نہیں ہوگی ۔‬

‫‪ ۱۵ :‬جس اسمکو کسی کی طرف نسبتدی جاتی ہے اسے " مضاف"کہتے ہیں ۔‬

‫مذکورہ بالا مثالمیںکتابکو نسبت دیگئی ہے ۔ اس لئے یہاںکتاب مضاف ہے اور‬

‫جس اسم کی طرفکوئی نسبت دی جاتی ہے اسے " مُضافالیہ "کہتے ہیں ۔ مذکورہ‬

‫مثال میں لڑکےکی طرف نسبت دی گئی ہے ۔ اس لئے یہاں لڑکا مضافالیہ ہے ۔‬

‫‪ ۱۵ : ۴‬عربی میں مضاف پہلے آتا ہے اور مضاف الیہ بعد میں آتا ہے ۔ جبکہ اردو‬

‫میں اس کے برعکس ہوتا ہے ۔ جس کا ترجمہ میں خیالکرنا پڑتاہے ۔ مذکو رہ مثال پر‬

‫لڑکے کی کتاب " ۔ اس میں لڑ کا جو مضاف الیہ ہے ‪ ،‬پہلے آیا ہے اور‬ ‫غورکریں ۔‬

‫کتاب جو مضاف ہے بعد میںآئی ہے ۔ اب چونکہ عربی میں مضافپہلے آتا ہے اس‬

‫لئے ترجمہکرتے وقت پہلےکتابکا ترجمہ ہوگا ۔ جو مضاف ہے اور لڑکے کا ترجمہ بعد‬

‫میں ہوگا جو مضاف الیہ ہے ۔ چنانچہ ترجمہ ہو گا كِتَابُالْوَلَدِ ۔‬


‫‪41‬‬

‫‪ ۱۵ : ۵‬گزشتہ اسباق میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ اسم اگر نکرہ ہو تو اکثر اسپر تنوین‬

‫آتی ہے جیسے کتاب ۔ اور جب اس پر لام تعریف داخل ہوتا ہے تو تنوین ختم ہو جاتی‬

‫ہے جیسے الْكِتَابُ ۔ اب ذرا مذکورہ ترجمہ میں لفظ ”كِتَابُ " پر غورکریں ۔ نہ تو اس‬

‫پر لام تعریف ہے اور نہ ہی تنوین ہے بس یہی خصوصیت مضافکی ایک آسان پہچان‬

‫پفر نہ توکبھی لام تعریف آ سکتا‬


‫ہے اور مرکب اضافی کا پہلا قاعدہ یہی ہے کہ مضا‬

‫ہے اور نہ ہیکبھی تنوین آسکتی ہے ۔‬

‫‪ ۱۵ : ۶‬مرکب اضافی کا دوسرا اصول یہ ہےکہ مضاف الیہ ہمیشہ حالت جر میں ہوتا‬

‫ہے ۔ مذکورہ مثالكِتَابُالْوَلَدِ میں دیکھیں اَلْوَلَدِ حالت جر میں ہے جس کا ترجمہ تھا‬

‫لڑکے کی کتاب " یہی اگر كِتَابُ وَلَدٍ ہوتا تو ترجمہ ہوتا کسی لڑکے کیکتاب " اس‬

‫لئے ترجمہکرنے سے پہلے غورکر لیںکہ مضافالیہ معرفہ ہے یا نکرہ اور ترجمہ میں‬

‫اس کا لحاظ رکھیں ۔ مرکب اضافی کے کچھ اور بھی قواعد ہیں جن کا ہم مرحلہ وار‬

‫مطالعہکریں گے ۔ لیکن آگے بڑھنے سے پہلے مناسب ہےکہ پہلے ہم ان دو قواعدکی‬

‫مشقکرلیں ۔‬

‫مشق نمبر‪۱۴‬‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے مرکبات اور‬

‫جملوںکا ترجمہکریں ۔‬

‫خوف‬ ‫مَخَافَةٌ‬ ‫روده‬ ‫لَبَنٌ‬

‫اطاعت‬ ‫اطَاعَةٌ‬ ‫فَرِيْضَةٌ‬


‫فرض‬

‫دو‬ ‫نَصْرُ‬ ‫گائے‬ ‫بَقَرٌ‬


‫‪۷۲‬‬

‫اردومیں ترجمہکریں‬

‫كِتَبُاللهِ‬ ‫(‪) 1‬‬


‫نِعْمَةُ اللهِ‬ ‫(‪)٢‬‬

‫لَحْمُشَاةٍ‬ ‫( ‪)۴‬‬ ‫( ‪ )۳‬طَلَبُ الْعِلْمِ‬

‫لَبَنُ بَقَر‬ ‫(‪) ۵‬‬


‫لَبَنُالْبَقَرِولَحْمُالشَّاةِ‬ ‫)‬

‫(‪ )۸‬رَسُولُاللَّهِ‬ ‫( ‪ )۷‬عَالِمُالْغَيْبِوَالشَّهَادَةِ‬


‫)‪(۹‬‬
‫(‪ )9‬رَبُّالْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّالْمَغْرِبَيْنِ‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫اللہکا خوف‬ ‫(‪)1‬‬


‫اللہکا عذاب‬ ‫(‪)۲‬‬
‫(هللا)‬
‫(‪ )۴‬کسیہاتھی کاسر‬ ‫ہاتھی کاسر‬

‫اللہکا رنگ۔‬ ‫(‪)1‬‬ ‫(‪ )۵‬ایک کتابکا سبق‬

‫(‪ )۷‬اللہکی مدد‬


‫مرکب اضافی ( حصہ دوم )‬

‫‪ ۱۶ : ۱‬ابتک ہم نے کچھ سادہ مرکب اضافی کی مشقکرلی ہے ۔ لیکن تمام مرکب‬

‫اضافی اتنے سادہ نہیں ہوتے ہیں بلکہ بعض میں ایک سے زیادہ مضاف اور مضاف‬

‫وزیر کے مکان کا دروازہ " ۔ اس میں‬ ‫الیہ آتے ہیں ۔ مثلاً اس جملہ پر غور کریں‬

‫دروازہ مضاف ہے جس کا مضاف الیہ مکان ہے لیکن مکان خود بھی مضاف ہے جس‬

‫کا مضاف الیہ وزیر ہے ۔ اباس کا ترجمہکرتے وقت یہ بات ذہن میں رکھیںکہ‬

‫مرکب توصیفی کی طرح مرکب اضافی کا بھی الٹا ترجمہکرنا ہوتاہے ۔ اس لئے سب سے‬

‫آخری لفظ " دروازہ " کا سب سے پہلے ترجمہکرنا ہے اور یہ چونکہ مضاف ہے ۔ اس‬

‫لئے اسپر نہ تو لام تعریفآسکتا ہے اور نہ ہی تنوین ۔ چنانچہ اسکا ترجمہ ہوگا باب‬

‫اس کے بعد درمیانی لفظ " مکان " کا ترجمہکرنا ہے ۔ یہ بابکا مضافالیہ ہے اس‬

‫لئے حالت جر میں ہو گا لیکن ساتھ ہی یہ وزیر کا مضافبھی ہے اس لئے اسپر نہ تو‬

‫‪،‬‬
‫لام تعریف داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی تنوین آسکتی ہے ۔ چنانچہ اس کا ترجمہ ہو گا‬

‫" بيت " ۔ اس طرح جملےکا ترجمہ ہوگا " بَابُبَيْتِالْوَزِيْرِ "‬

‫‪ ۱۶ : ۲‬پیراگراف ‪ ۳ : ۳‬میں ہم بڑھ آئے ہیںکہ غیرمنصرف اسماء حالت خبر میں‬

‫زیر قبول نہیں کرتے اس قاعدے کا پہلا استثناء ہم نے پیرا گراف ‪ ۶ : ۶‬میں پڑھا کہ‬

‫غیرمنصرف اسم جب معرف باللام ہو تو حالت جر میں زیر قبولکرتا ہے ۔ اب دو سرا‬

‫استثناء بھی سمجھ لیں ۔کوئی غیرمنصرف اسم اگر مضاف ہو تو حالت جر میں زیر قبول‬

‫کرتا ہے ۔ جیسے " اَبْوَابُ مَسَاجِدِ اللهِ " ( اللہ کی مسجدوں کے دروازے ) ۔ اب‬

‫دیکھیں مساجد غیرمنصرف ہے ۔ اس مثال میں وہ لفظ اللہ کا مضافہے اس لئے‬


‫‪۷۴‬‬

‫اسپر لام تعریفنہیں آسکتا اور ابوابکا مضاف الیہ ہونےکی وجہ سے اس نے زیر‬

‫قبولکی ۔‬

‫‪ ۱۹ : ۳‬سبق نمبر ‪ ۱۳‬میں ہم نے پڑھا تھا کہ مبتدا اور خبرکبھی مفرد لفظ کے بجائے‬

‫مرکبناقص بھی ہوتے ہیں ۔ اسکی وضاحت کے لئے وہاں ہم نے تمام مثالیں‬

‫مرکب توصیفی کی دی تھیں ۔کیونکہ اس وقت آپ نے صرف مرکبتوصیفی پڑھا‬

‫تھا ۔ اب سمجھ لیںکہ مرکب اضافی بھی کبھی مبتدا اورکبھی خبربنتاہے ۔ جبکہکسی جملے‬

‫میں مبتدا اور خبردونوں مرکب اضافی ہوتے ہیں ۔ مثلا مَحْمُودٌ وَلَدُ الْمُعَلَّم ( محمود‬

‫استاد کالڑ کاہے ) ۔ اس میں محمود مفرد لفظ ہے اورمبتدا ہے ۔ وَلَدُ الْمُعَلَّم مرکب‬

‫اضافی ہے اور خبر ہے ۔ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ (علم کی طلب فرض ہے ) ۔ اس میں‬

‫طَلَبُالْعِلمِ مرکب اضافی ہے اور مبتدا ہے ۔ فَرِيْضَةٌ مفرد لفظ ہے اور خبر ہے ۔‬

‫إطَاعَةُ الرَّسُولِ إِطَاعَةُ اللهِ ( رسولکی اطاعاتللہکی اطاعت ہے ) ۔ اسمیں مبتدا‬

‫اور خبردونوں مرکب اضافی ہیں ۔‬

‫‪ ۱۶ : ۴‬ہم پڑھ چکے ہیںکہ خبرعام طور پر نکرہ ہوتی ہے ۔ اس قاعدے کے دواستثناء‬

‫بھی پیراگراف ‪ ۱۴ : ۶‬میں سمجھ چکے ہیں ۔ اب اسکا ایک اور استثناء نوٹکریں ۔‬

‫کوئی مرکبناقص اگر خبر بن رہا ہو تو ایسی صورت میں خبر معرفہ بھی ہو سکتی ہے ۔ اسی‬

‫ہے ۔ لیکنکوئی مرکبناقص اگر مبتدا بن رہا ہوتو وہ‬


‫طرح سے مبتد ا عموما معرفہ ہوتا‬

‫نکرہ بھی ہو سکتاہے ۔‬


‫‪۷۵‬‬

‫‪۱۵‬‬
‫مشق نمبر‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے مرکبات اور‬

‫جملوںکا ترجمہکریں ۔‬

‫شکار‬ ‫صَيْدٌ‬ ‫دانائی‬ ‫حكمة‬

‫سمندر‬ ‫بَحْرُ‬ ‫خشکی‬ ‫بو‬

‫سایه‬ ‫ظل‬ ‫آئینہ‬ ‫مرأةٌ‬

‫ظالم‬ ‫کوڑا‬ ‫سَوْط‬


‫ظَالِمٌ‬

‫کھانا‬ ‫طَعَامٌ‬ ‫روشنی‬ ‫ضَوْءُ‬

‫گلاب‬ ‫وَرُد‬ ‫کوئی پھول‬ ‫زَهْرٌ‬

‫بدلے کادن‬ ‫يَوْمُالدِّينِ‬ ‫مالک‬ ‫ملك‬

‫پاک‬ ‫طيب‬ ‫محبت‬ ‫حب‬

‫کھیتی‬ ‫حَرْفٌ‬ ‫جزا ۔بدلہ‬ ‫جَزَاءً‬


‫‪41‬‬

‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫طَالِبَاتُمَدْرَسَةِالْبَلَدِ‬ ‫(‪)۲‬‬ ‫بَابَيْتِغُلَامِ الْوَزِير‬

‫( ‪ )۳‬حَج بَيْتِاللهِ‬ ‫( ‪ )۳‬لَحْمُ صَيْدِ الْبَر‬


‫مُعَلِّمَاتُ مَدْرَسَةِالْبَلَدِنِسَاءُمُسْلِمَاتٌ‬ ‫(‪) ۲‬‬ ‫رَأْساُلْحِكْمَةِ مَخَافَةُ اللَّهِ‬ ‫( ‪)٥‬‬

‫(‪ ) ۸‬إِنَّ السُّلْطَانَ الْعَادِلظِلّاُلله‬ ‫(ع) الْمُسْلِمُ مِزاةُالْمُسْلِم‬

‫( ‪ )۱‬طَعَامُفُقَرَاءِ الْمَسَاجِدِ طَيِّبٌ‬ ‫نَصْ ارلُلَّهِ قَرِيْبٌ‬


‫)‪(۹‬‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫اللہ کے رسولکی دعا‬ ‫( ‪)۲‬‬ ‫اللہکے عذابکاکوڑا‬ ‫(‪)1‬‬

‫( ‪ ) ۳‬ظالم بادشاہ اللہکے عذاب کا کوڑا ہے‬ ‫(‪ )۳‬اللہکے رسول کی بیٹیکی دعا‬

‫اللہ بدلےکے دنکا مالکہے‬ ‫(‪)1‬‬ ‫زمیناور آسمانوں کا نور‬ ‫(‪)۵‬‬

‫(‪ ) ۸‬مومن کا دالللہ کاگھرہے‬ ‫(‪ )۷‬اللہکی مسجدوںکے علماء نیک ہیں‬

‫اچھی نصیحت آخرتکی کھیتی ہے‬ ‫(‪) ۹‬‬


‫مرکب اضافی ( حصہ سوم )‬

‫‪ ۱۷ : ۱‬یہ بات ہم پڑھ چکے ہیںکہ مضافپر تنوین اور لام تعریف نہیں آسکتے ۔ اس‬

‫کی وجہ سے ایک مسئلہ یہ پیدا ہوتا‬


‫ہےکہکسی مضاف کے نکرہ یا معرفہ ہونے کی پہچان‬

‫کس طرح ہو ۔ اس کا اصول یہ ہےکہ کوئی اسم جبکسی معرفہ کی طرف مضاف ہو تو‬

‫اسے معرفہ مانتے ہیں مثلاً غُلامُ الرَّجُل ( مرد کا غلام) میں غُلامُ مضاف ہے الرَّجُلِ‬

‫کی طرف جو کہ معرفہ ہے ۔ اس لئے اس مثال میں غُلامُ معرفہ مانا جائے گا ۔ اب‬

‫دو سری مثال دیکھئے ۔ غُلَامُ رَجُلٍ ۔ یہاں غُلامُ مضاف ہے رَجُلٍکی طرف جو کہ‬

‫نکرہ ہے ۔ اس لئے اس مثال میں غُلام نکرہ مانا جائے گا ۔‬

‫‪ ۱۷ : ۲‬مرکب اضافی کا ایک اصول یہ بھی ہےکہ مضاف اور مضافالیہ کے‬

‫درمیان میں کوئی لفظ نہیں آتا ۔ اسکی وجہ سے ایک مسئلہ اس وقتپیدا ہوتا ہے‬

‫جب مرکب اضافی میں مضافکی صفت بھی آرہی ہو ۔ مثلاً " مرد کا نیک غلام " ۔‬

‫اب اگر اس کا ترجمہ ہم اس طرحکریں کہ غُلامُ الصَّالِحُالرَّجُلِتو اصول ٹوٹ جاتا‬

‫ہے ۔ اس لئےکہ مضاف غلام اور مضابالیہ الرَّجُلِ کے درمیان صفت آگئی ۔‬

‫اس لئے یہ ترجمہ غلط ہے ۔ چنانچہ اصولکو قائم رکھنے کے لئے طریقہ یہ ہے کہ‬

‫مضافکی صفت مرکب اضافی کے بعد لائی جائے ۔ اس لئے اسکا صحیح ترجمہ ہوگا ۔‬

‫غُلَامُالرَّجُلِالصَّالِحُ ‪-‬‬

‫‪ ۱۷ :‬ایسی مثالوں کے ترجمہ کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ صفت یعنی " نیک "‬

‫کو نظراندازکر کے پہلے صرف مرکب اضافی یعنی " مرد کا غلام " کا ترجمہکر لیں ۔‬

‫غُلامُ الرَّجُلِ ۔ اب اس کے آگے صفت لگائیں جو چاروں پہلوؤں سے غُلامکے‬

‫مطابق ہونی چاہئے ۔ ابنوٹکریں کہ یہاں غُلامُ مضاف ہے الرَّجُلِکی طرف جو‬

‫معرفہ ہے اس لئے غلامکو معرفہ ماناجائے گا ۔ چنانچہ اسکی صفت صالح نہیں بلکہ‬
‫‪ZA‬‬

‫الصَّالِحُآئےگی ۔‬

‫‪ ۱۷ : ۴‬دوسرا امکان یہ ہے کہ صفت مضاف الیہکی آرہی ہو جیسے ” نیک مرد کا‬

‫غلام " ۔ اس صورت میں بھی صفت مضاف الیہ یعنی الرجُل کے بعد آئے گی اور‬

‫چاروں پہلوؤں سے الرَّجُل کا اتباعکرےگی ۔ چنانچہ اب ترجمہ ہوگا غُلامُ الرَّجُل‬

‫الصَّالِحِ ۔ دونوں مثالوں کے فرقکو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے ۔ دیکھئے !‬

‫پہلی مثالمیں الصَّالِحُکی رفع بتا رہی ہےکہ یہ غُلامکی صفت ہے اور دوسری مثال‬

‫میں الصالحکی جر بتا رہی ہےکہ یہ الرجلکی صفت ہے ۔‬

‫‪ ۱۷ : ۵‬تیسرا امکان یہ ہےکہ مضاف اور مضاف الیہ دونوںکی صفتآ رہی ہو‬

‫جیسے " نیک مرد کا نیک غلام " ۔ ایسی صورت میں دونوں صفتیں مضافالیہ یعنی‬

‫الرَّجُل کے بعد آئیں گی ۔ پہلے مضاف الیہ کی صفت لائی جائےگی ۔ چنانچہ اب ترجمہ‬

‫غُلامُ الرَّجُلِ الصَّالِحِ الصَّالِحُ " ۔ آئیے اب اس قاعدےکی کچھ مشقکر‬ ‫ہوگا‬

‫لیں ۔‬

‫مشق نمبر‪۱۶‬‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی یادکریں اور ان کے نیچے دئیے ہوئے مرکبات اور‬

‫جملوںکا ترجمہکریں ۔‬

‫صاف ستھرا‬ ‫نَظِيفٌ‬ ‫عمده‬ ‫جيدٌ‬

‫بھڑکائی ہوئی‬ ‫مُوْقَدَةٌ‬ ‫سرخ‬ ‫أَحْمَرُ‬

‫شاگرد‬ ‫تِلْمِيذُ ( جتَلَامِذَةٌ)‬ ‫محله‬ ‫حَارَةٌ‬

‫مشهور‬ ‫مَشْهُورٌ‬ ‫پاکیزه‬ ‫نَفِيسٌ‬

‫مصروف۔ مشغول‬ ‫مَشْغُول‬ ‫رنگ‬ ‫لَوْنٌ‬

‫خوشبو‬ ‫طيب‬
‫‪۷۹‬‬

‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫وَلَدُ الْمُعَلَّمَةِ الصَّالِحَةِ‬ ‫(‪)۲‬‬ ‫وَلَدُ الْمُعَلَّمَةِ الصَّالِحُ‬

‫مُعَلِّمَةُالْوَلَدِ صَالِحَةٌ‬ ‫(‪)۳‬‬ ‫(‪ )۳‬وَلَدُ الْمُعَلَّمَةِ صَالِحٌ‬

‫) غُلَامُ زَيْدِنِالْكَاذِبُ‬ ‫(‪ )۵‬غُلَامُزَيْدٍكَاذِبٌ‬

‫نَجَّاراُلْحَارَةِ الصَّادِقُ‬ ‫(‪)۸‬‬ ‫(‪ )۷‬غُلَامُ زَيْدِنِ الْكَاذِبِ‬

‫( ‪ )۱‬لَبَنُالشَّاةِ الصَّغِيرَةِ جَيِّدٌ‬ ‫(‪ )۹‬طِيْبُالطَّعَامِالطَّرِيالْجَيِّدُ‬

‫لَوْنُالْوَرْدِ أَحْمَرُ‬ ‫( ‪)1‬‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫(‪ )۲‬محنتی استادکاشاگردنیک ہے‬ ‫استادکا نیک شاگرد‬ ‫(‪)1‬‬

‫(‪ )۳‬اللہکی بھڑکائی ہوئیآگ‬ ‫( ‪ )۳‬عذابکا شدید کوڑا‬

‫‪ )1‬اللہکی عظیم نعمت‬


‫(‬ ‫آگکا عذابدردناک ہے‬ ‫(‪)J۵‬‬

‫(‪ )۸‬اللہکی رحمتعظیم ہے‬ ‫(‪ )۷‬عظیامللہکی نعمت‬


‫‪۸۰‬‬

‫مرکب اضافی ( حقه چهارم )‬

‫‪ ۱۸ : ۱‬تثنیہ کے صیغوںیعنی کے ان اورکے نین اور جمع مذکرسالم کے صیغوںیعنی‬

‫یمن کے آخر میں جو نون آتے ہیں انہیں نونِ اعرابیکہتے ہیں ۔اور مرکب‬ ‫ون اور‬

‫اضافی کا چوتھا اصول یہ ہے کہ جبکوئی اسم مذکورہ بالا صیغوں میں مضاف بنکر آتا‬

‫ہے تو اس کانون اعرابی گر جاتا ہے ۔ مثلاً ہمکہتے ہیں ” مکان کے دو دروازے‬

‫صاف ستھرے ہیں " ۔ اس کا ترجمہ اس طرح ہونا چاہئے تھا ” بَابَانِ الْبَيْتِ نَظِيْفَانِ "‬

‫لیکن مذکورہ اصول کے تحت بابان کانون اعرابی گر جائے گا ۔ اس لئے ترجمہ ہوگا‬

‫بَابَا الْبَيْتِ نَظِيفَانِ " ۔ اسی طرح ” بے شک مکان کے دونوں دروازے صاف‬

‫ہیں " کا ترجمہ ہونا چاہئے تھا " إِنَّ بَابَيْنِ الْبَيْتِ نَظِيفَانِ لیکن بَابَيْنِ کانون اعرابی‬

‫گرنے کی وجہ سے یہ ہوگا إِنَّ بَاتِي الْبَيْتِ نَظِيْفَانوغیرہ ۔‬

‫‪ ۱۸‬اب ہم جمع مذکر سالمکی مثال پر اس اصولکا اطلاقکر کے دیکھتے ہیں ۔ مثلاً‬ ‫‪۲‬‬

‫۔ اس کا ترجمہ ہونا چاہئے تھا۔‬ ‫مسجدوں کے مسلمان بچے ہیں‬ ‫ہم کہتے ہیں‬

‫مُسْلِمُونَ الْمَسَاجِدِ صَادِقُونَ " لیکن مُسْلِمُونَ کانون اعرابیکرنے سے یہ ہوگا‬


‫"‬
‫مُسْلِمُو الْمَسَاجِدِ صَادِقُونَ ۔ اس طرح إِنَّ مُسْلِمِيْنَ الْمَسَاجِدِ صَادِقُوْنَکے‬

‫بجاۓ إِنَّمُسْلِمِي الْمَسَاجِدِ صَادِقُوْنَ ہوگا ۔‬


‫‪Al‬‬

‫‪( ۱۷‬الف )‬
‫مشق نمبر‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے مرکبات اور‬

‫جملوںکا ترجمہکریں ۔‬

‫میلا‬ ‫وَسِخٌ‬ ‫دربان‬ ‫بَوَّابٌ‬

‫شکر‬ ‫جُندٌ (ج جُنُودٌ )‬ ‫پہاڑ‬ ‫جَبَلٌ( ججِبَالٌ)‬

‫بہادر‬ ‫جرىء‬ ‫نیزا‬ ‫رُمْح ( ج رِمَاحٌ)‬

‫خوف سے بگڑا ہوا‬ ‫بَاسِرٌ‬ ‫چهره‬ ‫وَجَةٌ (ج وُجُوهٌ)‬

‫سر۔ چوٹی‬ ‫رَأْسٌ( ج رُؤُوسٌ)‬ ‫پاس‬ ‫عِندَ ( مضافآتا ہے )‬

‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫هُمَا بَوَّابَا الْقَصْرِ‬ ‫( ‪)۲‬‬ ‫هُمَابَوَابَانِصَالِحَانِ‬ ‫(‪)1‬‬

‫إِنّبَوَّابَيالْقَصْرِ صَالِحَانِ‬ ‫(‪)۳‬‬ ‫(‪ )۳‬اَبَوَابَا الْقَصْرِصَالِحَانِ؟‬

‫يَدَاطِفْلَةٍزَيْدٍ وَسِخَتَانِ‬ ‫()‬


‫‪1‬‬ ‫يَدَانِنَظِيْفَتَانِ وَرِجْلَانِ وَسِخَتَانِ‬ ‫( ‪)۵‬‬

‫(‪ )۸‬رُؤُوسُالْجِبَالِالْجَمِيْلَةُ‬ ‫( ) رِجْلَا طِفْلاِلْمُعَلَّمَةِ الصَّغَيْرِ نَظِيفَتَانِ‬

‫( ‪ )1‬إِنَّمُعَلِّمِيالْمَدْرَسَةِ مُجْتَهِدُونَ‬ ‫(‪ )9‬اَمُعَلِّمُوالْمَدْرَسَةِمُجْتَهِدُونَ؟‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫( ‪ )۲‬کچھ بگڑے ہوئے چہرے‬ ‫دونوںلشکروں کے طویل نیزے‬ ‫( ‪)1‬‬

‫بے شک دونوں مردوں کے چہرے بگڑے ( ‪ )۴‬کیا محلہ کے مومن (جمع) نیکہیں‬ ‫( ‪)۳‬‬

‫ہوئے ہیں‬

‫وہ (جمع) مدرسہکی استانیاں ہیں‬ ‫(‪) 1‬‬ ‫(‪ )۵‬یقینامحلہکے مومن ( جمع)نیکہیں‬
‫‪AP‬‬

‫بے شک شہر کے مدرسہ کی استانیاں نیک ہیں ( ‪ ) ۸‬صافستھرےمحلے کے دونونںانبائی مشغول‬ ‫)‪(6‬‬

‫ہیں اور وہ دونوںبہت بچے ہیں ۔‬

‫زید کی کتابیں محمود کے پاس ہیں ۔‬ ‫)‪(4‬‬

‫قمبر‪ ( ۱۷‬ب )‬
‫مشن‬

‫ابتک مرکباضافی کے جتنے قواعد آپکو بتائے گئے ہیں ان سبکو یکجاکر‬

‫کے لکھیں اور انہیں زبانی یادکریں ۔‬


‫‪۸۳‬‬

‫مرکب اضافی ( حصہپنجم )‬

‫‪ 19 : 1‬سبق نمبر ‪ ۱۴‬جملہ اسمیہ ( ضمائر) میں ہم نے ضمیروں کے استعمالکی ضرورت اور‬

‫افادیتکو سمجھنے کے ساتھ ان کا استعمال بھی سمجھ لیا تھا ۔ اب ان سے کچھ مختلف‬

‫ضمیروںکا استعمال ہم نے اس سبق میں سیکھنا ہے ۔ اس کے لئے اسجملہ پر غورکریں‬

‫وزیر کا مکان اور وزیر کا باغ " ۔ اس جملہ میں اسم " وزیر "کی تکرار بری لگتی ہے‬

‫اس لئے اس باتکی ادائیگی کا بہتر انداز یہ ہے " وزیر کا مکان اور اس کا باغ " ۔اسی‬

‫طرح ہمکہتے ہیں " بچی کی استانی اور اس کا اسکول "۔ عربی میں ایسے مقامات پر جو‬

‫ضمیریں استعمال ہوتی ہیں ان میں بھی غائب ‪ ،‬مخاطب اور متکلم کے علاوہ جنس اور عدد‬

‫کے تمام صیغوںکا فرق نسبتا زیادہ واضح ہے ۔ اب ان ضمیروںکو یادکرلیں ۔‬

‫‪۱۹ : ۲‬‬

‫ضمائرمجروره مُتَصِلَه‬

‫تثنيه‬ ‫واحد‬

‫هُمَا‬ ‫ذکر‬
‫هُمْ‬

‫ان ( سب مردوں ) کا‬ ‫ان( دو مردوں ) کا‬ ‫اس ( ایک مرد) کا‬

‫هُنَّ‬ ‫هُمَا‬ ‫‪ :‬هَا‬ ‫مؤنث‬ ‫غائب‬

‫ان (سبعورتوں ) کا‬ ‫ان ( دو عورتوں) کا‬ ‫اس ایک عورت کا‬

‫كُمَا‬ ‫‪:‬‬ ‫ذکر‬

‫تم سب( مردوں ) کا‬ ‫تم دو مردوں)کا‬ ‫تیرا (تو ایک مرد کا )‬

‫كُمَا‬ ‫‪ :‬ك‬ ‫مؤنث‬


‫كُنَّ‬ ‫مخاطب‬

‫تم سب(عورتوں )کا‬ ‫تم دو(عورتوں ) کا‬ ‫تیرا ( تو ایکعورتکا )‬


‫‪۸۴‬‬

‫نا‬ ‫نا‬ ‫مذکرومؤنث ‪ :‬ی‬ ‫متکلم‬

‫ہمارا‬ ‫ہمارا‬ ‫میرا‬

‫‪ ۱۹ : ۳‬ان ضمیروںکا استعمال سمجھنے کے لئے اوپر دیگئی مثالوں کا ترجمہکریں ۔‬

‫پہلے جملہ کا ترجمہ ہوگا بَيْتُالْوَزِيْر وَ بُسْتَانُه ۔ اور دوسرے جملہ کا ترجمہ ہو گا مُعَلَّمَةً‬

‫الطِفْلَةِ وَمَدْرَسَتْهَا ۔ اب ان مثالوں پر ایک مرتبہ پھرغورکریں ۔ دیکھیں بُسْتَانُه‬

‫( اس کا باغ ) اصل میں تھا "وزیر کا باغ " ۔ اس سے معلوم ہواکہ یہاں کی ضمیروزیر‬

‫کے لئے آئی ہے جو اس جملہ میں مضاف الیہ ہے ۔ اسی طرح مَدْرسَتْهَا ( اس کا‬

‫بچی کا مدرسہ "۔ چنانچہ یہاں ھاکی ضمیربچی کے لئے آئی ہے‬ ‫اصلمیں تھا‬ ‫مدرسہ‬

‫اور وہ بھی مضاف الیہ ہے ۔ اس طرح معلوم ہواکہ یہ ضمیریں زیادہ تر مضافالیہ‬

‫بنکرآتی ہیں ۔ اور مضاف الیہ چونکہ ہمیشہ حالت جر میں ہوتا ہے اس لئے ان ضمائر کو‬

‫حالت جر میں فرضکر لیا گیا ہے ۔یہی وجہ ہےکہ انکانام ضمائر مجرورہ ہے ۔‬

‫‪ ۱۹ : ۴‬یہ بھی نوٹکرلیںکہ یہ ضمیریں زیادہ تر اپنے مضاف کے ساتھ ملاکر لکھی‬

‫جاتی ہیں ۔ جیسے رَبُّهُ ( اس کا رب) رَبُّكَ ( تیرا رب ) رَبِّي ( میرا رب ) ربنا ( ہمارا‬

‫رب) وغیرہ ۔یہی وجہ ہےکہ انکا نام ضمائر متصلہ بھی ہے ۔‬

‫‪ ۱۹ : ۵‬یہ بات نوٹکر لیںکہ پہلی ضمیریعنی واحد مذکرغائبکی ضمیر تھے کو لکھنے اور‬

‫پڑھنے کے مختلف طریقے ہیں ۔ اس کا ایک عام اصول یہ ہےکہ اس ضمیر سے‬

‫پہلے اگر ‪:‬‬

‫پیش یا زبر ہو تو ضمیرپر الٹا پیشآتا ہے جیسے اَوْلَادُهُ حِسَابَة‬ ‫(‪)1‬‬

‫( ‪ ) ii‬علامت سکون ہو تو ضمیر پر سیدھا پیش آتا ہے جیسے مِنهُ‬

‫‪ iii‬یائے ساکن ہو تو ضمیرپر زیر آتی ہے جیسے فینه‬


‫( )‬

‫( ‪ ) iv‬زیر ہو تو ضمیرپرکھڑی زیر آتی ہے ۔ جیسے یہ‬


‫‪۸۵‬‬

‫‪ ۱۹ :‬اسی طرح یہ بھی نوٹکرلیںکہ واحد متکلم کی ضمیر "ی "کی طرف جبکوئی‬

‫اسم مضاف ہوتا ہے تو تینوں اعرابی حالتوں میں اسکی ایک ہی شکل ہوتی ہے ۔ مثلاً‬

‫” میری کتاب نئی ہے " کا ترجمہ بنتا ہے كِتَابُ یجدید ۔ اسکو لکھا جائے گاکتابی‬

‫جَدِيدٌ ‪" -‬یقیناً میریکتاب نئی ہے " کا ترجمہ بنتاہے اِنكِتَابَیجَدِيدٌ ۔لیکن اسکو‬

‫بھی اِنَّكِتَابِی جَدِید لکھا جائے گا ۔ اور ” میریکتاب کا وزق " کا تو ترجمہ ہی یہ بنتا‬

‫ہے وَرَقُ كِتَابِی ۔ اس لئےکہتے ہیںکہ پائے متکلم اپنے مضافکی رفع ‪ ،‬نصبکھا‬

‫جاتی ہے ۔‬

‫‪ 19 :‬ایک بات اور ذہن نشینکرلیںکہ اب ( باپ ) ‪ ،‬آخ ( بھائی ) قم ( منہ ) اور‬

‫دو ( والا ‪ -‬صاحب ) جب مضاف بن کر آتے ہیں تو مختلف اعرابی حالتوں میں انکی‬

‫صورتیں مندرجہ ذیل ہوںگی ۔‬

‫جر‬ ‫نصب‬ ‫لفظ‬


‫رفع‬

‫أَبِي‬ ‫آيَا‬ ‫أبُو‬ ‫اب‬

‫اخي‬ ‫اخا‬ ‫آخُوُ‬ ‫اتح‬

‫فِي‬ ‫فَا‬ ‫فُو‬

‫ذى‬ ‫ذا‬ ‫ذُو‬ ‫ذُو‬

‫مثلاً اَبُوهُ عَالِمٌ (اس کا باپ عالم ہے ‪ ،‬اِنَّ آبَاهُ عَالِمٌ ( بیشک اس کا باپ عالم‬

‫ہے )كِتَابُاَخِيْكَ جَدِيدٌ ( تیرے بھائی کی کتابنئی ہے ) وغیرہ ۔ اس ضمن میں یاد‬

‫کرلیںکہ لفظ ذُو ضمیرکی طرف مضاف نہیں ہو تا بلکہ اسم ظاہرکی طرف مضاف ہو تا‬

‫ہے ۔ مثلاً ذُو مَالِ ( صاحبمال ۔ مال والا ) ذَامَالِ اور ذِى مَالٍوغیرہ ۔‬
‫‪۸۲‬‬

‫مشق نمبر‬
‫‪۱۸‬‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے مرکبات اور‬

‫جملوں کا ترجمہکریں ۔‬

‫زبان‬ ‫لِسَانٌ‬ ‫سردار آقا‬ ‫سيد‬

‫ماں‬ ‫میز‬ ‫مِنْضَدَةٌ‬

‫نیچے‬ ‫تَحْتَ ( مضافآتا ہے )‬ ‫اوپر‬ ‫فَوْقَ (مضافآتا ہے )‬

‫ہمیشہ کے لئے محفوظ‬ ‫حَفِيظٌ‬ ‫کیا‬ ‫ما (استفهاميه )‬

‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫(‪ )٢‬أُمُّهُصِدِّيقَةٌ‬ ‫اللَّهُرَبُّنَا‬ ‫(‬

‫(‪ )۳‬عِنْدَنَاكِتَابٌحَفِيظٌ‬
‫( ‪ )۳‬الْقُرْآنُكِتَابُكُمْ وَكِتَابُنَا‬

‫(‪ ) 1‬رَبُّنَارَبُّالسَّمَوَاتِوَالْأَرْضِ‬ ‫إِنَّاللَّهَ رَتِيوَرَبُّكُمْ‬ ‫(‪) ۵‬‬

‫(‪ )۸‬سَيِّدُالْقَوْمِخَادِمُهُمْ‬ ‫(‪ ) 2‬اللَّهُ عَالِمُالْغَيْبِوَعِنْدَهُعِلْمُ السَّاعَةِ‬


‫(‪ )۱۰‬كِتَابِيْفَوْقَمِنْضَدَتِكَ‬ ‫الْكِتَابُفَوْقَالْمِنْضَدَةِ‬ ‫(‪)۹‬‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫ہمارکیتابیں استادکی میزکے نیچے ہیں ۔‬ ‫(‪) ۲‬‬ ‫آسمان میرےسرکے اوپر ہے ۔‬ ‫‪1‬‬
‫()‬

‫(‪ )۳‬فاطمہ کے پاسایک خوبصورتقلم ہے ۔‬ ‫بے شک ہمارا رب رحیم غفور ہے ۔‬ ‫(‪)۳‬‬

‫( ‪ ) ۵‬تمہاری زبان عربی ہے اور ہماری زبان ہندی ہے ۔‬


‫‪AL‬‬

‫حرفندا‬

‫‪ ۲۰ : ۱‬ہر زبان میں کسی کو پکارنے کے لئے کچھ الفاظ مخصوص ہوتے ہیں ۔ انہیں‬

‫حروف ندا کہتے ہیں اور جس کو پکارا جائے اسے منادیکہتے ہیں ۔ جیسے اردو میں ہم‬

‫کہتے ہیں ” اے بھائی " " " اے لڑکے " وغیرہ ۔ اس میں "اے " حرف ندا ہے جبکہ‬

‫"‬
‫بھائی " اور " لڑ کے " منادی ہیں ۔ عربی میں زیادہ تر" یا " حرف ندا کے لئے استعمال‬

‫ہوتا ہے اور منادی کی مختلف قسمیں ہیں جن کے اپنے قواعد ہیں ۔ اس وقت ہم اپنی‬

‫باتکو منادیکی تین قسموںتک محدود رکھیںگے ۔‬

‫‪ ۲۰ : ۲‬ایک صورت یہ ہےکہ منادی مفرد لفظ ہو جیسے زید یا رَجُلٌ اس پر جب‬

‫حرف ندا داخل ہوتا ہے تو اسے حالتِ رفع میں ہی رکھتا ہے لیکن تنوین ختمکر دیتا‬

‫ہے ۔ چنانچہ یہ ہو جائے گا ۔يَا زَيْدُ ( اے زید ) يَا رَجُلُ ( اے مرد ) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۲۰ :‬دوسری صورت یہ ہے کہ منادی معرفباللام ہو جیسے الرَّجُلُ یا الطفلَةُ‬

‫ان پر جب حرف ندا داخل ہوتا ہے تو مذکر کے ساتھ یاتھا جبکہ مونثکے ساتھ‬

‫اَيَّتُهَا کا اضافہ کیا جاتا ہے ۔ جیسے يَا أَيُّهَا الرَّجُلُ ( اے مرد ) يَا أَيَّتُهَا الطِفْلَةُ ( اے‬

‫بچی وغیرہ ۔‬

‫تیسری صورت یہ ہے کہ منادی مرکب اضافی ہو ۔ جیسے عبد الله ‪،‬‬ ‫‪۲۰ : ۴‬‬

‫عَبْدُ الرَّحمنِ ۔ ان پر جب حرفِ ندا داخل ہوتا ہے تو مضافکو نصب دیتا ہے ۔‬

‫يَاعَبْدَ الرَّحْمَن و غیره ‪ -‬بعض اوقات حرفندا "یا " کے بغیر صرف‬ ‫جیسے يَا عَبْدَ اللهِ‬

‫عَبْدَ الرَّحمنِ آتا ہے تب بھی اسے منادی مانا جاتا ہے ۔ یہ اسلوب اردو میں بھی‬

‫ن " یعنی آخری‬ ‫موجود ہے ۔ اکثر ہم لفظ " اے " کے بغیر صرف " عبد الرحمن ن‬

‫حرف نونکو ذرا کھینچکر بولتے ہیں تو سننے والے سمجھ جاتے ہیںکہ اسے پکاراگیا ہے ۔‬
‫اسی طرح عربی میں یا کے بغیرعَبد الرحمن نصب کے ساتھ ہو تو اسے منادی سمجھاجاتا‬

‫ہے ۔ اس لئے ربَّنا کا ترجمہ ہے ” اے ہمارے رب " ہے جبکہ ربنا کا مطلب ہے‬

‫ہمارا رب۔‬

‫‪ ۲۰ : ۵‬عربی میں میم مشدد ( م ) بھی حرف ندا ہے ۔ البتہ اس کے متعلق دو باتیں‬

‫نوٹکرلیں ۔ ایک یہکہ لفظ یا منادی سے پہلے آتا ہے ‪ ،‬جبکہ میم مشدد منادی کے بعد‬

‫آتا ہے ۔ دوسری اور زیادہ اہم بات یہ ہےکہ اسلام کے آغاز سے پہلے بھی عربی میں‬

‫فللہ تعالیٰ کو پکارنے کے لئے مخصوصتھا اور آجتک ہے ۔ یہی وجہ‬


‫میم مشدد صر ا‬

‫ہےکہ لفظ اللہ کے علاوہکسی اور لفظ کے ساتھ اس کا استعمال آپکو نہیں ملےگا۔‬

‫سو ملاکراللهملکھتے‬
‫اللہ تعالیکو پکارنے کے لئے اصلمیں لفظ بنتا ہے "اللهم " ۔ پھر اک‬

‫ہیں ۔ اس کا مطلب ہے ” اے اللہ " ۔‬

‫نمبر‪19‬‬
‫مشق‬

‫نیچے دیئے ہوئے جملوں کا ترجمہکریں ۔‬

‫يَاسَدِى اِسْمِيعَبْدُاللهِ‬ ‫( ‪)۲‬‬ ‫يَا أَيُّهَا الرَّجُلُ مَااسْمُكَ ؟‬ ‫(‪) 1‬‬

‫( ‪ ) ۳‬مَا انَا حَيَّاطًا اَوْنَجَّارًايَاسَيِّدِي بَلْأَنَا بَوَّابٌ‬ ‫يَاعَبْدَ اللَّهِ هَلْاَنْتَحَيَّادٌأَوْنَجَّارٌ‬ ‫( ‪)۳‬‬

‫يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُالْمُطْمَئِنَّةُ‬ ‫(‪) 1‬‬ ‫يَازَيْدُ ‪ :‬دُرُوسُكِتَابِالْعَرَبِي سَهْلَةٌ جِدًّا‬ ‫( ‪)۵‬‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫نہیں میرےآقا ! بلکہ وہ اللکہےپاس ہے ۔‬ ‫سسیا‬


‫ق‪:‬یامت کا (‪) ۲‬‬ ‫ق‬
‫اا‬‫پپ‬
‫عبدالرحمن ! کیا تممہااررےے‬ ‫(‪)1‬‬

‫علم ہے ؟‬

‫(‪ )۴‬اسکانامفاطمہ ہے ۔‬ ‫ہے ؟‬


‫اے لڑکے ! اس(مؤنث)کا نامکیا‬ ‫( ‪)۳‬‬
‫‪۸۹‬‬

‫مرتب جازی‬

‫‪ ۲۱ : ۱‬عربی میں کچھ حروف ایسے ہیں کہ جب وہکسی اسم پر داخل ہوتے ہیں تو اسے‬

‫حالت جر میں لے آتے ہیں ۔ مثلاً ان میں سے ایک حرف " من " ہے جس کے معنی‬

‫ہیں " سے " ۔یہ جب " الْمَسْجِدُ " پر داخلہو گا تو ہم مِنَ الْمَسْجِدِ(مسجد سے )کہیں‬

‫گے ۔ ایسے حرفکو حرف جارکہتے ہیں اور ان کے کسی اسم پر داخل ہونے سے جو‬

‫مرکب وجود میں آتا ہے اسے مرکب جاری کہتے ہیں ۔ چنانچہ مذکورہ مثال میں من‬

‫حرفجار ہے اور مِنَ الْمَسْجِدِ مرکبجاری ہے ۔‬

‫‪ ۲۱ : ۲‬آپ پڑھ چکے ہیں کہ صفت و موصوف مل کر مرکبتوصیفی اور مضافو‬

‫مضافالیہ ملکر مرکب اضافی بنتا ہے ۔ اسی طرح مرکب جاری میں حرف جارکو‬

‫"ہتے ہیں اور جس اسم پر یہ حرف داخل ہو اسے " مجرور "کہتے ہیں ۔ چنانچہ‬
‫" جار ک‬

‫جارومجرور سے مل کر مرکب جاری بنتا ہے ۔‬

‫‪ ۲۱ : ۳‬اس سبق میں ہم حروف جارہ کے معانی یادکریں گے اور انکی مشق کریں‬

‫گے ۔ مشق کرتے وقت صرفیہ اصولیا درکھیںکہکوئی حرف جار جبکسی اسم پر‬

‫داخلکریں تو اسے حالت جر میں لے آئیں ۔ اس کے علاوہگزشتہ اسباق میں اب‬

‫تک آپ جو قواعد پڑھ چکے ہیں انہیں ذہن میں تازہکر لیں ۔ اس لئےکہ مرکب‬

‫جاریکی مشق کرتے وقت ان میں سے بھیکسی کے اطلاقکی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔‬

‫‪ ۲۱ : ۴‬مندرجہ ذیل حروف جارہکے معانی یادکریں ‪- :‬‬


‫‪۹۰‬‬

‫مثالیں‬ ‫معنی‬ ‫خروف‬

‫ہر جُل (ایک مرد کے ساتھ )بِالْقَلَمِ(قلم سے)‬ ‫میں سے ۔کو ۔ساتھ‬

‫فِي بَيْتِ (کسی گھرمیں)فِي الْبُسْتَانِ (باغ میں )‬ ‫میں‬

‫عَلَى جَبَلٍ ( ایک پہاڑپر)عَلَى الْعَرْشِ(عرش پر )‬ ‫عَلَى‬

‫إلىبلداکسی شرکی طرف) إلىالْمَدْرَسَة ( مدرسه تک)‬ ‫کی طرف ۔تک‬ ‫إِلَى‬

‫)‬ ‫) مِنَ الْمَسْجِدِ م(سجد‬ ‫مِن زَيْدٍ (زید‬ ‫مِنْ‬

‫زید (زیدکے واسطے )‬ ‫کے واسطے ۔کو ۔کے‬

‫گر جل (کسی مردکی مانند)گالاسد (شیرکے جیسا )‬ ‫مانند ۔جیسا‬

‫عَنْ زَيْدِ ( زیدکی طرف سے )‬ ‫کی طرفسے‬

‫‪ ۲۱ : ۵‬حرف جار " ل " کے متعلق ایک بات ذہن نشینکرلیں ۔ یہ حرف جبکسی‬

‫معرفباللام پر داخل ہوتا ہے تو اس کا ہمزۃ الوصللکھنے میں بھی گر جاتا ہے ۔ مثلاً‬

‫الْمُتَّقُونَ ( متقی لوگ) پر جب " ل " داخل ہو گا تو اسے لِالْمُتَّقِينَ لکھنا غلط ہو گا ۔ بلکہ‬

‫اسے لِلْمُتَّقِينَ ( متقی لوگوں کے لئے ) لکھا جائے گا ۔ اسی طرح الرِّجَالُ سے یہ‬

‫لِلْرِجَالِ اور اللہ سے لِلَّهِ ہوگا ۔ مزید بر آں " ل " جب ضمائرکے ساتھ استعمال ہو تا‬

‫ہے تو لام پر زیر کی بجائے زہر آتی ہے جیسےلَهُ لَهُمْ لَكُمْ لَنا وغیرہ ۔‬

‫مشق نمبر‪۲۰‬‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ترجمہکریں ۔‬

‫مٹی‬ ‫تُرَابٌ‬ ‫باغ‬ ‫حَدِيقَةُ‬

‫نیکی‬ ‫بر‬ ‫اندھیرا‬ ‫ظُلُمَةٌ‬

‫دائیں طرف‬ ‫يَمِينٌ‬ ‫خشکی‬ ‫بر‬

‫ساتھ‬ ‫بائیں طرف‬


‫مع ( مضافآتا ہے )‬ ‫شِمَالٌ‬

‫سایه‬ ‫ظِلٌّ‬
‫‪۹۱‬‬

‫اردومیں ترجمہکریں‬

‫(‪ )۳‬مِنْتُرَابٍ‬ ‫فِيالْحَدِيْقَةِ‬ ‫(‪)٢‬‬ ‫فِيحَدِيقَةٍ‬ ‫(‪)1‬‬

‫(‪ ) ٢‬عَلَىصِرَاطٍ‬ ‫بِالْوَالِدَيْنِ‬ ‫(‪)۵‬‬ ‫( ‪ )۴‬مِنَالتُّرَابِ‬

‫(‪ )9‬لِلْعَرُوس‬ ‫( ‪ )۷‬إِلَىالْمَسْجِدِ‬


‫(‪ )۸‬لِعَرُوس‬

‫(‪ )۱۲‬مِنْكَ‬ ‫كَظُلُمتِ‬ ‫( ‪)1‬‬ ‫كَشَجَرَةٍ‬ ‫( ‪) ۱۰‬‬

‫(‪ )۱۵‬مِنِّي‬ ‫(‪ )۱۴‬لي‬ ‫( ‪ )۱۳‬لَكَ‬

‫(‪ )۱۸‬بك‬ ‫( ‪ )1‬الى‬ ‫( ‪ )١٦‬إِلَيْكَ‬

‫(‪ ) ۲۱‬عَلَى‬ ‫عَلَيْكَ‬


‫(‪)۲۰‬‬
‫(‪ )۱۹‬بي‬
‫) الْحَمْدُلِلَّهِ‬
‫(‪۲۴‬‬ ‫( ‪ )۲۳‬بِسْمالله‬ ‫( ‪ )۲۲‬عَلَيْنَا‬

‫( ‪ ) ۲۶‬عَلَىالْبِرِّ‬ ‫( ‪ )۲۵‬مِنْرَّبِّكَ إِلَىصِرَاطٍ مَّسْتَقِيمٍ‬

‫( ‪ )۲۷‬الْمُحْسِنُ قَرِيْبٌ مِّنَ الْخَيْرِ وَ بَعِيدٌ مِنَ الشَّرِ‬

‫(‪ )۳۸‬طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلَىكُلِّ مُسْلِم وَمُسْلِمَةٍ‬

‫( ‪ ) ٢٥‬لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌوَلَهُمْ فِيالْآخِرَةِ عَذَابٌعَظِيمٌ‬

‫( ‪ )۳۰‬هُوَرَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫( ‪ ) ۲‬اندھیروں سے نورکی طرف‬ ‫قیامتکے دنتک‬ ‫( ‪)1‬‬

‫(‪ )۴‬جنت متقی لوگوں کے لئے ہے‬ ‫(‪ )۳‬دائیں اوربائیں طرف سے‬

‫(‪ ) 1‬اللہ اور رسولکے واسطے‬ ‫بے شکاللہ ہرچیزپر قادرت‬ ‫(‪) ۵‬‬

‫(‪ ) ۸‬کافروپںر اللہکی لعنت ہے‬ ‫( ‪ )۷‬یقینا اللہ کافروںکے واسطے دشمن بے‬

‫(‪ )9‬یقینااللہ صابروں کے ساتھ ہے ۔‬


‫‪۹۲‬‬

‫مرکباشاری ( حصہ اول )‬

‫‪ ۲۲ : ۱‬ہر زبان میں کسی چیزکی طرف اشارہکرنے کے لئےکچھ الفاظ استعمال ہوتے‬

‫ہیں ۔ جیسے اردو میں "یہ وہ اِس اُس " وغیرہ ہیں ۔ عربی میں ایسے الفاظکو اسماء‬

‫الْإِشَارَةِکہتے ہیں ۔ اسماء اشارہ دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ (‪ )i‬قریب کے لئے ‪ ،‬جیسے‬

‫اردو میں ”یہ " اور " اس " ہیں ۔ ( ‪ )ii‬بعید کے لئے جیسے اردو میں ” وہ “ اور‬

‫" اس " ہیں ۔‬

‫‪ ۲۲ : ۲‬اشاره قریب اور اشارہ بعید کے لئے استعمال ہونے والے عربی اسماء یہاں‬

‫دیے جا رہے ہیں ۔ پہلے آپ انہیں یاد کرلیں ۔ پھر ہم ان کے کچھ قواعد پڑھیں گے‬

‫اور مشقکریں گے ۔‬

‫اشارہ قریب‬

‫جمع‬ ‫تثنيه‬ ‫واحد‬

‫هذا‬ ‫مذکر‬
‫هذان ( حالت رفع )‬
‫هؤلاء‬
‫هذين ( حالت نصب و جر )‬ ‫یہ ( ایک مرد )‬

‫یہ بہت سے مرد )‬ ‫یه ( دو مرد )‬

‫یہ ( بہتسی عورتیں )‬ ‫هاتان ( حالت رفع )‬ ‫هذه‬ ‫مؤنث‬

‫هَاتَيْنِ ( حالت نصب و جر )‬ ‫یہ ( ایک عورت )‬

‫یہ ( دو عورتیں )‬
‫‪۹۳‬‬

‫اشارهبعید‬

‫تثنيه‬ ‫واحد‬

‫ذنك( حالت رفع )‬ ‫ذلِكَ‬ ‫مذکر‬

‫‪:‬‬ ‫ذَيْنِكَ(حالت نصب و جر )‬ ‫وہ (ایک مرد )‬


‫أوليك‬

‫وہ ( بہت سے مرد )‬ ‫وہ ( دو مرد )‬

‫یا‬

‫وہ ( بہت سی عورتیں )‬ ‫تَانِكَ ( حالت رفع )‬ ‫تِلْكَ‬ ‫مؤنث‬

‫تَيْنِكَ( حالت نصب و جر )‬ ‫وہ ( ایک عورت )‬

‫وہ ( دوعورتیں )‬

‫‪ ۲۲ : ۳‬امید ہے کہ اوپر دیے ہوئے اسماء اشارہ میں آپ نے یہ باتنوٹکرلی‬

‫ہوگی کہ تثنیہ کے علاوہ بقیہ صیغوں میں یعنی واحد اور جمع میں تمام اسماء اشارہ مبنی‬

‫ہیں ۔ اسی طرح اب پیراگراف (‪ ۶ : ۴ )iii‬میں پڑھا ہوا یہ سبق بھی دوبارہ ذہن‬

‫نشینکرلیںکہ تمام اسماء اشارہ معرفہ ہوتے ہیں ۔‬

‫‪ ۲۲ : ۴‬اسم اشارہ کے ذریعہ جس چیزکی طرف اشارہ کیا جاتاہے اسے مُشَار إِلَيْهِ‬

‫کہتے ہیں ۔ جیسے ہم کہتے ہیں ”یہکتاب " ۔ اس میںکتابکی طرف اشارہ کیا گیا ہے تو‬
‫‪99‬‬
‫کتاب"مُشَارِإِلَيْهِ ہے اور یہ " اسم اشارہ ہے ۔ اس طرح اشارہ مُشَارِإِلَيْهِ مل‬

‫کر مرکب اشاری بنتاہے ۔‬

‫‪ ۲۲ : ۵‬عربی میں مشار الیہ عموماً معرف باللام ہوتا ہے ‪ ،‬جیسے هَذَا الْكِتَابُ ( یہ‬

‫کتاب) ۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ هذا معرفہ ہے اور الْكِتَابُ معرف‬

‫باللام ہے اور چونکہ مشار الیہ معرفباللام ہوتا ہے ۔ اس لئے هَذَا الْكِتَابُکو‬

‫مرکب اشاری مانکر ترجمہکیا گیا ”یہکتاب "‬


‫‪۹۴‬‬

‫‪ ۲۶ :‬یہ بات نوٹکرلیں کہ اسم اشارہ کے بعد والا اسم اگر نکرہ ہو تو اسے مرکب‬

‫اشاری نہیں بلکہ جملہ اسمیہ مانیں گے ۔ چنانچہ " هَذَاكِتَابٌ " کا ترجمہ ہو گا "یہ ایک‬

‫۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ ھذا معرفہ ہے اور مبتداً عموماً معرفہ ہوتا ہے ۔‬ ‫کتاب ہے‬

‫کتابنکرہ ہے اور خبرعموما نکرہ ہوتی ہے اس لئے ھذا کتابکو جملہ اسمیہ مانکر اس‬

‫کا ترجمہ کیا گیا "یہ ایک کتاب ہے " ۔ اسی طرح تِلْكَ الطفلة مرکب اشاری ہے ۔‬

‫وہ‬ ‫اس کا ترجمہ ہو گا "وہ بچی " ۔ اور تلک طفلة جملہ اسمیہ ہے اس کا ترجمہ ہو گا‬

‫بچی ہے " ۔ مرکب اشاری کے کچھ اور قواعد بھی ہیں جنکو ہم آئندہ اسباق میں‬

‫مجھیں گے ۔ فی الحال ضروری ہےکہ مرکب اشاری اور جملہ اسمیہکے فرقکو ذہن‬

‫نشینکرنے کے لئے ہم کچھ مشقکرلیں ۔ البتہ مشق کرنے سے پہلے نوٹکر لیں کہ‬

‫جنس ‪،‬عدد اور حالت میں اشارہ اورمشارالیہ میں مطابقت ہوتی ہے ۔‬

‫مشق نمبر ‪۲۱‬‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ترجمہکریں ۔‬

‫پھل‬ ‫فَاكِهَةٌ (ج فَوَاكِهُ )‬ ‫امت‬ ‫امَّةٌ‬

‫تصویر‬ ‫صُورَةٌ‬ ‫موٹر کار‬ ‫سَيَّارَةٌ‬

‫بلیک بورڈ‬ ‫سَبُّوْرَةٌ‬ ‫سائیکل‬ ‫دَرَّاجَةٌ‬

‫کھڑکی‬ ‫شُبَّاءٌ‪ -‬نَافِذَةٌ‬

‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫‪.‬‬‫(‪ )۲‬هَذَاصِرَاط‬ ‫هَذَا الصِّرَاط‬ ‫(‪)1‬‬


‫(‪ )۴‬تِلْكَأمةٌ‬ ‫(‪ )۳‬تِلْاكلَْأُمَّةُ‬

‫(‬
‫‪ ) 1‬هَذَانِ رَجُلَانِ‬ ‫(‪ )٥‬هَذِهِ فَاكِهَةٌ‬
‫(‪ ) ۸‬ذَانِكَدَرْسَانِ‬ ‫(‪ )2‬هولاءِالرِّجَالُ‬

‫(‪ )١٠‬هَاتَانِالنَّافِذَتَانِ‬ ‫هَذَانِالدَّرْسَانِ‬ ‫(‪)9‬‬

‫) هَذَانِشُبَّاكَانِ‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫یہ دوقلم ہیں‬ ‫(‪)۲‬‬ ‫وہ قلم‬ ‫(‪) 1‬‬

‫(‪ )۴‬یہ موٹرکار‬ ‫(‪ )۳‬وہ ایکموٹرکارہے ۔‬

‫یہ دو استانیاں‬ ‫(‪)1‬‬ ‫(‪ )۵‬یہتصویر‬

‫(‪ )۸‬یہ ایککھڑکی ہے ۔‬ ‫( ‪ )۷‬وہکچھ استانیاںہیں‬


‫(‪ )۹‬یہ سائیکل‬
‫(‪ )۱۰‬وہ ایکبلیکبورڈ ہے‬

‫( ‪ )۱۲‬وہکچھ موٹر کاریںہیں‬ ‫(‪ )11‬یہ موٹر کاریں‬

‫(‪ )۱۴‬وہ دو پھل‬ ‫( ‪ )۱۳‬یہ کچھ پھلہیں‬


‫‪۹۶‬‬

‫مرتب اشاری (حصہ دوم )‬

‫‪ ۲۳ : ۱‬پچھلے سبق میں ہم نے دیکھا کہ اسم اشارہ کے بعد آنے والا اسم اگر معرف‬

‫باللام ہوتا ہے تو وہ اس کا مشارالیہ ہوتا ہے اور اگر نکرہ ہوتا ہے تو اسکی خبر ہوتا‬

‫ہے ۔ اس سلسلہ میںگزشتہ سبق میں ہم نے جو مشقکی ہے اسکی ایک خاصبات یہ‬

‫تھی کہ اسم اشارہ کے بعد آنے والے تمام اسماء مفرد تھے ۔ مثلا هذَا الصِّرَاط اور‬

‫هذ صِرَاظ میں صراط مفرد اسم ہے ۔ اب یہ سمجھ لیںکہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ہے ۔‬

‫‪ ۲۳‬کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسم اشارہ کے بعد آنے والا مشار الیه یاخبر اسم‬ ‫‪۲‬‬

‫مفرد کے بجائےکوئی مرکب ہوتا ہے ۔ مثلاً "یہ مرد ک‬


‫"ہنے کے بجائے اگر ہمکہیں "یہ‬

‫سچا مرد " تو یہاں سچا مرد " مرکب توصیفی ہے اور اسم اشارہ " یہ " کا مشار إليه‬

‫ہے ۔ اس کو عربی میں ہمکہیں گے هَذَا الرَّجُلُ الصَّادِقُ ۔ اب یہاں اَلرَّجُلُ‬

‫الصَّادِقُ مرکب توصیفی ہے اور ہذا کا مشار اليه ہونے کی وجہ سے‬

‫معرف باللام ہے ۔‬

‫‪ ۲۳ : ۳‬اوپر دیگئی مثال میں مرکب توصیفی اگر نکرہ ہو جائے یعنی رَجُلٌصَادِقٌ‬

‫ہو جائے تو اب یہ ھذا کا مشارالیہ نہیں ہوگا بلکہ نکرہ ہونے کی وجہ سے ھذا کی خبر‬

‫بنےگا ۔یہی وجہ ہےکہ هَذَارَجُلٌصَادِقٌ کا ترجمہ ہو گا یہ ایک سچا مرد ہے " ۔‬

‫‪ ۲۳ : ۴‬اب تک ہم نے دیکھاہے کہ اسم اشارہ کے بعد آنے والا اسم مفرد یا‬

‫مرکبتوصیفی اگر نکرہ ہو تو وہ خبر ہوتا ہے اور اسم اشارہ مبتدا ہوتا ہے ۔ مثلا تِلْكَ‬

‫طِفْلَة میں تِلكَ مبتدا ہے ۔ اب یہ باتسمجھ لیںکہ کبھی تو مفرد اسم اشارہ مبتد ا بنکر‬

‫اورکبھی پورا مرکب اشاری مبتد ا بنکر آتا‬ ‫آتا ہے جیسے اوپر کی مثال میں تلک ہے‬

‫ہے جیسے تِلْكَ الفَلَةُ جَمِيْلَةٌ ۔ اس میں دیکھیں تِلْكَالظُّفْلَةُ مرکب اشاری ہے اور‬

‫مبتداہے ۔ اس کے آگے جمیلہ اسکی خبر نکرہ آ رہی ہے ۔ اس لئے اس کا ترجمہ‬


‫‪92‬‬

‫ہوگا وہ بچی خوبصورت ہے " ۔ اسی طرح هذا الرَّجُلِالصَّادِقُ جَمِيلٌكا ترجمہ ہو گا‬

‫”یہ سچا مرد خوبصورت ہے "۔‬

‫‪ ۲۳ : ۵‬ایک بات یہ بھی ذہن نشین کرلیں کہ مُشَارٌ إِلَيْہ اگر غیر عاقلکی جمع مکسرہو‬

‫تو اسم اشارہ عموماً واحد مؤنث آتا ہے مثلاً تِلْكَالْكُتُبُ (وہکتابیں) ۔ اسی طرح اگر‬

‫اسم اشارہ مبتد ا ہو اور خبرغیرعاقلکی جمع مکسرہو تب بھی اسم اشارہ عموماً واحد مؤنث‬

‫آئےگا ۔ مثلا تِلْكَكُتُب ( وہ کتابیں ہیں ) ۔‬

‫مشق نمبر ‪۲۲‬‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ترجمہکریں ۔‬

‫مہنگا ۔قیمتی‬ ‫فَمِيْنٌ‬ ‫ستا‬ ‫رَحِيْصٌ‬

‫فائدہ مند‬ ‫مفيد‬ ‫لذیذ ۔ خوش ذائقہ‬ ‫لَذِيذ‬

‫بَلَاغُ‬ ‫روا‬ ‫دَوَاء‬

‫ضَيِّقٌ‬ ‫کمره‬ ‫غُرْفَةٌ‬

‫تیز رفتار‬ ‫سَرِيعٌ‬

‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫هَذَا الصِّرَاطَالْمُسْتَقِيمُ‬ ‫(‪)٣‬‬ ‫) هَذَاصِرَاطَمُّسْتَقِيمٌ‬

‫(‪ ) ۳‬هَاتَانِالْفَاكِهَتَانِاللَّذِيْدَتَانِ‬ ‫(‪ )۳‬هَذَا الصِّرَاطُمُسْتَقِيمَ‬

‫هَاتَانِ فَاكِهَتَانِلَذِيْذْتَانِ‬ ‫هَاتَانِالْفَاكِهَتَانِلَذِيْذَتَانِ‬


‫@‬

‫(‪ )۸‬تِلْكَكُتُبٌثَمِينَةٌ‬ ‫(‪ )4‬تِلْكَالْكُتُبُثَمِيْنَةٌ‬

‫(‪ )١٠‬هَذِهِالشَّجَرَةُ قَصِيرَةُ‬ ‫تِلْكَالْكُتُباُلثَّمِيْنَةُ نَافِعَةٌجِدًّا‬

‫(‪ )۱۲‬ذَالِكَالدَّوَاءِ الْمُرُّمُقِيدٌ‬ ‫( ‪ )1‬تِلْكَ شَجَرَةً طَوِيلةٌ‬


‫‪۹۸‬‬

‫(‪ )۱۳‬هَذَا بَيَانلُِلنَّاسِ‬ ‫(‪ )٣‬هَذَابَلَاغُمُّبِينٌ‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫(‪ )۲‬یہکچھ مہنگے قلم ہیں ۔‬ ‫ہے ۔‬


‫سی دواکڑوی ہےاوروہ میٹھی دوا‬

‫( ‪ )۴‬وہ تیزرفتارموٹرکارتنگ ہے ۔‬ ‫(‪ ) ۳‬وہ قلم ستے ہیں ۔‬

‫(‪ )۵‬وہ دو میٹھے پھل ہیں ۔‬

‫مرکب اشاری ( حصہ سوم)‬

‫‪ ۲۴ : ۱‬گزشتہ اسباق میں ہم دو باتیں سمجھ چکے ہیں ۔ ( ‪ ) 1‬اسم اشارہ کے بعد اسم مفرد‬

‫اگر معرف بالسلام ہو تو وہ اس کا مشار الیہ ہوتا ہے اور اگر نکرہ ہو تو اسکی خبر ہو تا‬

‫ہے ( ‪ )ii‬اسم اشارہ کے بعد مرکب توصیفی اگر معرف باللام ہو تو وہ اس کا مشاراليه‬

‫ہوتا ہے اور اگر نکرہ ہو تو اسکی خبر ہوتا ہے ۔‬

‫‪ ۲۴ : ۲‬اس سبق میں ہم نے یہ سمجھنا ہےکہ اسم اشارہ کے بعد اگر مرکب اضافی‬

‫آ رہا ہو تو ہم کیسے تمیزکریں گے کہ وہ اسم اشارہ کا مشارالیہ ہے یا خبرہے ۔ اس‬

‫باتکو سمجھنے کے لئے پہلے اردو کے جملوں پر غورکریں ۔ مثلاً ہم کہتے ہیں ”لڑکےکی یہ‬

‫کتاب " ۔ یہ بات سنکر ہمیں معلوم ہو گیا کہ بات ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے اس لئے‬

‫کتاب "کی طرف‬


‫یہ ایک مرکب ہے اور اس میں لفظ " یہ " اسم اشارہ ہے جو لفظ "‬

‫اشارہکر رہاہے ۔ اس طرح اسکو ہم نے مرکب اشاریمان لیا ۔ اب اگر ہمکہیں‬


‫""‬
‫کی وجہ سے ہمیں معلوم ہو گیاکہ بات‬
‫یہ لڑکے کی کتاب ہے "تو اسمیں لفظ " ہے "‬

‫لڑکے‬ ‫مکمل ہوگئی ہے ‪ ،‬اس لئے یہاں اسم اشارہ "یہ " مبتدا ہے اور مرکب اضافی‬

‫کی کتاب " اسکی خبرہے ۔ لیکن یہ سہولت ہمیں عربی میں حاصل نہیں ہوگی ۔ وہاں‬
‫‪٩٩‬‬

‫مشارالیہ اور خبر میں تمیزکئے بغیر نہ تو صحیح ترجمہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی یہ معلومکر سکتے‬

‫ہیںکہ مذکورہ عبارت مرکب اشاری ہےیا جملہ اسمیہ ۔‬

‫‪ ۲۴ : ۳‬اب تک ہم نے یہ پڑھا ہے کہ عربی میں مشار الیہ معرف باللام ہو تا‬

‫لڑکے کی یہکتاب " کا ترجمہ ہونا چاہئے " هَذَا الْكِتَابُ وَلَدٍ "یا "‬
‫ہے ۔ اس لحاظ سے‬
‫"‬
‫هذَا الْكِتَابُ الْوَلَدِ " ۔ لیکن یہ دونوں ترجمے غلط ہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ‬
‫‪་་‬‬
‫كِتَابُ الْوَلَدِ " مرکب اضافی ہے جس میں "كِتَابُ " مضاف ہے جس پر لام تعریف‬

‫داخل نہیں ہو سکتا ۔یہی وجہ ہے کہ مرکب اضافی اگر مشار الیہ ہو تو اسم اشارہ اس‬

‫لڑکے کی یہکتاب " کا صحیح ترجمہ ہو گا ك"ِتَابُالْوَلَدِ هَذَا‬ ‫کے بعد لاتے ہیں ۔ چنانچہ‬

‫اب یہ بات یادکرلیںکہ اسم اشارہ اگر مرکب اضافی کے بعد آ رہا ہے تو اسے مرکب‬

‫اشاری مانکر اسی لحاظ سے اسکا ترجمہکریں گے ۔‬

‫‪ ۲۴ : ۴‬دوسری باتیہ یادکرلیںکہ اسم اشارہ اگر مرکب اضافی سے پہلے آ رہا ہے‬

‫تو اسے جملہ اسمیہ مانکر اسی لحاظ سے اس کا ترجمہکریں گے ۔ چنانچہ " هُذَا كِتَابُ‬

‫الْوَلَدِ " كا ترجمہ ہو گا "یہ لڑکےکی کتاب ہے " ۔‬

‫‪ ۲۴ : ۵‬مرکب اشاری کے ضمن میں آخری باتسمجھنے کے لئے اس مرکب پر‬

‫ایک مرتبہ پھر غورکریں ۔ كِتَابُ الْوَلَدِ هَذَا ( لڑکےکی یہکتاب ) ۔ اس میں اشارہ‬

‫مضافیعنی کتابکی طرفکرنا مقصودہے اور مضافپر لام تعریفداخل نہیں ہو تا ۔‬

‫اس لئے ہمیں دقت پیش آئی اور اسم اشارہ کو مرکب اضافی کے بعد لانا پڑا ۔ لیکن‬

‫فرضکریں کہ اشارہ مضافالیہ یعنی اَلوَلَدُ ( لڑکے )کی طرفکرنا مقصود ہے ۔ مثلاً‬

‫اس لڑکے کی کتاب " ۔ اس صورت میں آپکو معلوم ہےکہ‬ ‫ہم کہنا چاہتے ہیں‬

‫مضاف الیہ پر لام تعریفداخل ہوتا ہے ۔ اس لئے اسم اشارہ مضاف الیہ سے پہلے‬

‫آئےگا ۔ چنانچہ " اس لڑکےکی کتاب "کاترجمہ ہوگا ك‬


‫"ِتَابُهَذَا الْوَلَدِ " ۔‬

‫‪ ۲۴ :‬آپکو یاد ہو گا کہ مرکب اضافی کے سبق میں ( پیراگراف ‪ ) ۱۷ : ۲‬ہم نے‬


‫یہ اصول پڑھا تھاکہ مضاف اور مضاف الیہ کے درمیانکوئی لفظ نہیں آتا ۔ جبکہ‬

‫كِتَابُهَذَا الْوَلَدِ میں اسم اشارہ مضافاور مضافالیہ کے درمیان آیا ہے ۔ تو‬

‫اب یہ بات بھی نوٹکرلیں کہ یہ صورتمذکورہ اصولکا ایک استثناء ہے ۔‬

‫‪ ۲۴ :‬مرکب اضافی کے متعلق اسم اشارہ کے قواعد کا خلاصہ مندرجہ ذیل‬

‫طریقہ سے یادکرلیں تو ان شاء اللہ آپکو آسانی ہوگی ۔‬

‫اسم اشارہ اگر مرکب اضافی سے پہلے آئے تو وہ مبتدا ہوتاہے ۔‬ ‫( ‪)1‬‬

‫اسم اشارہ اگر مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان میں آئےتو وہ مضاف الیہ‬ ‫( ‪)۲‬‬

‫کی طرف اشارہ ہوتا ہے ۔‬

‫کی طرف اشارہ ہوتا ہے ۔‬


‫( ‪ ) ۳‬اسم اشارہ مرکباضافی کے بعد آئے تو وہ مضاف‬

‫مشق نمبر ‪۲۳‬‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ترجمہکریں ۔‬

‫ذَكِيٌّ‬ ‫استاد‬ ‫أسْتَاذُ‬


‫ذہین‬

‫چچا‬ ‫عَمَّ‬ ‫شاگرد‬ ‫تِلْمِيذُ‬


‫*‬

‫ماموں‬ ‫پھوپھی‬ ‫عَمَّةٌ‬


‫حال‬

‫میلانگندا‬ ‫خاله‬ ‫خَالَةٌ‬


‫وَسِخٌ‬

‫سامنے‬ ‫امام ( مضافآتا ہے )‬ ‫پیشوا‬ ‫امام‬

‫انجیر‬ ‫تين‬

‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫(‪ )۲‬هَذَاشُبَّاكُالْغُرْفَةِ‬ ‫شُبَّاكُالْغُرْفَةِ هَذَا‬ ‫(‪)1‬‬


‫=‬

‫(‪ )۳‬سَيَّارَ مُعَلِّمِيهَذِهِ‬ ‫(‪ )۳‬هَذِهِ سَيَّارَةُ مُعَلِّمِي‬

‫سَبُّورَةُتِلْكَالْمَدْرَسَةِ صَغِيْرَةٌ‬ ‫(‪) ۲‬‬ ‫(‪ )۵‬سَبُّوْرَةُالْمَدْرَسَةِتِلْكَكَبِيرَةً‬

‫اأَخُوكَهَذَاعَالِمٌ؟‬ ‫(‪)۸‬‬ ‫(‪ )2‬أَهْذَاأَخُوكَ ؟‬

‫هَذَا الرَّجُلُخَالِي وَتِلْكَالْمَرْاةُ خَالَتِى ( ‪ ) ١٠‬تِلْمِيدُ الْمَدْرَسَةِ هَذَا ذَكِيٌّ وَهُوَ اِمَامُ‬ ‫(‪)1‬‬

‫الْجَمَاعَةِ‬
‫وَهُذِهِعَمَّتِي‬
‫تِلْمِيْتُهَذِهِ الْمَدْرَسَةِ قَائِمَأَمَامَ الْأَسْنَادِ (‪ ) ۳‬تَمْزِتِلْكَالشَّجَرَةِ حُلو‬ ‫)‬

‫( ‪ ) ۳‬تِلْكاَلْبُيُؤْتُلِدَيْنِكَالرَّجُلَيْنِ‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫میرایہ شاگرد محنتی ہے‬ ‫(‪)۲‬‬


‫یہ شاگر دذہین ہے‬ ‫(‪)1‬‬
‫(‪ )۴‬استادکی وہ سائیکل تیزرفتار ہے‬ ‫‪ )۳۱‬مدرسہکی یہ شاگردہ نیک ہے‬
‫اس مدرسہ کا ذہین شاگرد مسجد کے سامنے‬ ‫( ‪)4‬‬
‫(‪ " )۵‬اس استادکی سائیکل نئی ہے‬
‫کھڑاہے ۔‬
‫‪۱۰۲‬‬

‫اسماء استفهام ( حصہ اول )‬

‫‪ ۲۵ : ۱‬پیرا گراف نمبر ‪ ۱۲ : ۳‬میں ہم نے پڑھا تھا کہکسی جملہکو سوالیہ جملہ بنانے‬

‫کے لئے اس کے شروع میں (کیا ) اور هَلْ (کیا ) کا اضافہکرتے ہیں ۔ ابیہ بات‬

‫نوٹکر لیںکہ انکو حروف استفہامکہتے ہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ یہ حروفجملہ‬

‫میں معنوی تبدیلی کے علاوہ نہ تو اعرابی تبدیلی لاتے ہیں اورنہ ہی یہ جملہ میں مبتند آیا‬

‫فاعل بنتے ہیں ۔‬

‫‪ ۲۵ : ۲‬اس سبق میں ہم کچھ مزید الفاظ پڑھیں گے جو کسی جملہکو سوالیہ جملہ بناتے‬

‫ہیں ۔ انکو اسماء استفہامکہا جاتاہے ۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ یہ جملہ میں مبتبدا فاعلیا‬

‫مفعول بن کر آتے ہیں ۔ اسکی مثال ہم اسی سبق میں آگے چلکر دیکھیں گے ۔ فی‬

‫الحال آپ اسماء استفہام اور ان کے معانی یادکر لیں ۔‬

‫کتنا‬ ‫کیا‬ ‫ما ‪ -‬ماذا‬


‫كَمْ‬

‫کہاں‬ ‫ايْنَ‬ ‫کون‬ ‫مَنْ‬

‫کہاں سے کس طرح سے‬ ‫أَنَّى‬ ‫کیسا‬ ‫كَيْفَ( حال پوچھنےکیلئے)‬

‫کونسی‬ ‫ايَّةٌ‬ ‫متی ( زمانے سے متعلق )‬


‫کب‬

‫کب‬ ‫أَيَّانَ‬ ‫کونسا‬ ‫اي‬

‫‪ ۲۵ : ۳‬مذکورہ بالا اسماء استفہام میں یہ بات نوٹکرلیں کہ آئی اور آیة کے علاوہ‬

‫باقی اسماء استفہام مینی ہیں ۔‬

‫‪ ۲۵ : ۴‬اسماء استفهام جب مبتد ا بن کر آتے ہیں تو بعد والے اسم کے ساتھ ملکر‬

‫جملہ پورا کر دیتے ہیں ۔ مثلاً " مَا هَذَا " میں " ما " مبتدا ہے اور " هذا " اسکی خبر‬
‫‪١٠٣‬‬

‫۔ اسی طرح مَنْ أَبُوكَ ؟ (تیرا باپکون ہے ؟‬ ‫ہے ۔ اس لئے ترجمہ ہو گا یہکیاہے ؟‬

‫اَيْنَ أَخُوكَ ؟ ( تیرا بھائی کہاں ہے ؟ ) وغیرہ ۔ یہاں نوٹکریںکہ چونکہ اردو میں اسماء‬

‫ہے ۔‬
‫استفہام شروع میں نہیں آتے لہذا ان کا ترجمہ بعد میںکیاگیا‬

‫‪ ۲۵ : ۵‬کبھی اسماء استفهام مضاف الیہ بنکر آتے ہیں ۔ ایسی حالت میں مرکب‬

‫اضافی وجود میں آتا ہے جس کا ترجمہ میں لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ مثلا کتاب‬

‫مَنْ ؟کا ترجمہ "کس کی کتاب ہے ؟کرنا غلط ہو گا ۔ دیکھئے یہاںکتاب مضافہے اور‬

‫" من "مضاف الیہ ہے ۔ اس لئے اس کا صحیح ترجمہ ہو گا "کس کیکتاب ؟ "‬

‫‪ ۲۵ :‬آئی اور ايَّةٌ عام طور پر مضافبنکر آیاکرتے ہیں اوربعد والے اسم سے‬

‫ملکر مرکب اضافی بناتے ہیں جس کا ترجمہ میں لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ مثلاً آئی‬

‫رَجُلٍ (کون سا مرد )۔آيَّةُ النِّسَاءِ (کون سی عورت)وغیرہ ۔‬

‫‪ ۲۵ :‬اسماءِ استفہام کے چند قواعد مزید ہیں جن کا مطالعہ ہم ان شاء اللہ اگلے‬

‫اسباق میںکریں گے ۔ فی الحال ہم ابتکپڑھے ہوئے قواعد کی مشقکر لیتے ہیں ۔‬

‫مشق نمبر ‪۲۴‬‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ترجمہکریں ۔‬

‫روشنائی کا قلم ۔ فونٹین پین‬ ‫قَلَمُ الحِبْرِ‬ ‫روشنائی ۔سیاہی‬ ‫حبر‬

‫سیسہ کا قلم ۔پنسل‬ ‫قَلَمُالرَّصَاصِ‬ ‫رَصَاصٌ‬

‫وہ آیا‬ ‫جَاءَ‬ ‫وہگیا‬ ‫ذَهَبَ‬

‫سنو ۔آگاہ ہو جاؤ‬ ‫الا‬

‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫(‪ )۲‬مَاهْذِهِ؟ هَذِهِ دَوَاةٌ‬ ‫مَاذْلِكَ؟ ذَلِكَقَلَمُالْحِبْرِ‬ ‫)‬


‫‪۱۰۴‬‬

‫(‪ )۳‬مَنْهَذَا؟ هَذَا وَلَدٌ‬ ‫وَمَاذَا فِيالدَّوَاةِ ؟ فِيالدَّوَاةِ حِبْرٌ‬ ‫(‪) ۳‬‬

‫كَيْفَحَالُمَحْمُوْدٍ ؟ هُوبَِخَيْرٍ‬ ‫(‪) 1‬‬ ‫مَا اسْمُالْوَلَدِ ؟ اِسْمُالْوَلَدِمَحْمُوْدٌ‬ ‫(‪) ۵‬‬

‫(‪ )۸‬أَيْنَ اَخُوكَ الصَّغِيْرُ؟ هُوَ ذَهَبَ إِلَى‬ ‫(‪ )۷‬هَذَاكِتَابُمَنْ؟ هَذَاكِتَابُحَامِدٍ‬

‫الْمَدْرَسَةِ‬

‫( ‪ )1‬مَتَىنَصْرُاللَّهِ ؟ أَلَا إِنَّنَصْرَاللَّهِقَرِيْبٌ‬ ‫مَتَىذَهَبَ ذَهَبَقَبْلَسَاعَتَيْنِ‬ ‫( )‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫یہکیا ہے ؟ یہ ایک لڑکے کی سائیکلہے ۔‬ ‫(‪)۲‬‬ ‫رے ۔‬


‫وہکیاہے ؟ وہ محمودکیکا ہ‬ ‫()‬
‫‪1‬‬

‫(‪ ) ۲‬وہ بازار سےکب آیا ؟‬ ‫(‪ )۳‬تیرا بڑالٹرکاکہاں ہے ؟‬


‫‪۱۰۵‬‬

‫اسماء استفهام ( حصہ دوم )‬

‫اسماء استفہام کے شروع میں حروفِ جارہ لگانے سے ان کے مفہوم میں‬ ‫‪۲۶ : ۱‬‬

‫حروف جارہکی مناسبت سے کچھ تبدیلی ہو جاتی ہے ۔ آپ انکو یادکر لیں ۔ ان الفاظ‬

‫کو دائیں سے بائیں پڑھیں تو انہیں سمجھنے اوریادکرنے میں آسانی ہوگی ۔‬

‫کس چیزسے‬ ‫مِمَّا(مِنْ مَا )‬ ‫کس لئے ۔کیوں‬ ‫لِمَا‪ -‬لِمَاذَا‬

‫کس چیزکی نسبت سے ‪.‬‬ ‫عَمَّا (عَنْ مَا )‬ ‫کس چیزمیں‬ ‫فِيْمَا‬

‫کس شخص سے‬ ‫مِمَّنْ مِنْ مَنْ)‬ ‫کس کا ۔کس کے لئے‬ ‫لِمَنْ‬

‫کہاںکو‬ ‫إِلَىأَيْنَ‬ ‫کہاں سے‬ ‫مِنْ أَيْنَ‬

‫کتنے میں‬ ‫بِكُمْ‬ ‫کبتک‬ ‫إِلَى مَتَى‬

‫اس سبق کا قاعدہ سمجھنے سے پہلے ایک بات اور نوٹکر لیں ۔ ما پر جب‬ ‫‪۲۶ : ۲‬‬

‫حروف جارہ داخل ہوتے ہیں تو کبھی ما الف کے بغیر بھی لکھا اور بولا جاتا ہے ۔ چنانچہ‬

‫عَمَّ ہو جاتا ہے ۔‬ ‫فِيمَ عَمَّا‬ ‫لِمَاءَ لِمَ فِيْمَا‬

‫‪ ۲۶ : ۳‬اسماء استفہام پرل (حرف جار) داخل ہو جائےتو پھراسے جملے کے شروع‬

‫میں لاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں وہ بعد والے اسم سے ملکر جملہ مکملکر دیتا ہے ۔‬

‫کتابکس کی ہے " ۔‬
‫چنانچہ لِمَنِ الْكِتَابُکا ترجمہ ہو گا "‬

‫آئے اب ہم کچھ مشق کرلیں ۔ اس کے بعد اگلے سبق میں ہم اسماء استفہام کا‬

‫ایک اور قاعدہ پڑھیں گے ۔‬


‫‪١٠٦‬‬

‫مشق نمبر ‪۲۵‬‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ترجمہکریں ۔‬

‫چڑیاگھر‬ ‫سَاعَةٌ‬
‫‪.‬‬ ‫حَدِيْقَةُالْحَيْوَانَاتِ‬ ‫گھڑی ۔گھنٹہ‬

‫موٹا تازہ ۔ فربہ‬ ‫سَمِينٌ‬ ‫دربان‬ ‫بَوَّابٌ‬

‫اونٹنی‬ ‫ناقة‬ ‫رَاكِبٌ ‪ ،‬سوار سواری کرنے والا‬

‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫لِمَنْهَذَا الْكِتَابُ ؟ هَذَا الْكِتَابُلِوَلَدٍ‬ ‫(‪) 1‬‬

‫بِكُمْ هَذِهِ الْبَقَرَةُ السَّمِينَةُ ؟‬ ‫(‪) ۲‬‬

‫( ‪ )۳‬لِمَ اَنْتَ جَالِسٌفِي الْبَيْتِ ؟‬

‫( ‪ ) ۴‬فِيْمَ مَشْغُولٌاِمَامُالْمَسْجِدِ بَعْدَ الصَّلوةِ ؟‬

‫قَالَتْهُوَمِنْ عِنْدِ اللَّهِ‬ ‫قَالَأَنَّى لَكِ هَذَا ؟‬ ‫( ‪)۵‬‬

‫لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ‬ ‫لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ‬ ‫(‪) ٢‬‬


‫‪12‬‬

‫أسماء استفها ( حصہ سوم)‬


‫م‬

‫‪ ۲۷ : ۱‬لفظ گم کے دو استعمال ہیں ۔ ایک تو یہ اسم استفہام کے طور پر آتا ہے ۔‬

‫اس وقت اس کے معنی ہوتے ہیں "کتنا یاکتنے " ۔ دوسرے یہ خبر کے طور پر آتا ہے‬

‫گم خبر یہ "کہتے ہیں ۔ اس وقت اس کے معنی ہوتے ہیں "کتنے ہی یا بہت‬ ‫جے‬
‫"‬

‫‪ ۲۷ : ۲‬گم جب استفہام کے لئے آتا ہے تو اس کے بعد والا اسم منصوب نکرہ‬

‫اور واحد ہوتا ہے مثلاً كَمْ دِرْهَمَا عِنْدَكُمْ ؟ ( تمہارےپاسکتنے درہم ہیں ؟ ) گم‬

‫سَنَةًعُمْرُكَ ؟ ( تیری عمرکتنے سال ہے ؟ ) ۔ چنانچہکسی جملہ میں اگرگم کے بعد والا اسم‬

‫منصوب اور واحد ہے تو ہمیں سمجھ جانا چاہئےکہ یہ کم استفہامیہ ہے ۔‬

‫‪" ۲۷ : ۳‬گ " جب خبرکے لئے آتا ہے تو اس کے بعد والا اسم حالت جر میں ہوتا‬

‫ہے ۔ یہ واحد بھی ہو سکتا ہے اور جمع بھی ۔ مثلاكُمْ عَبْدِ اعْتَقْتُ (کتنے ہی غلام میں‬

‫ىلْفُقَرَاءِ ( بہت سے دینار‬


‫نے آزاد کئے ) كَمْ مِنْ دَنَا بَيْرَ ( غیرمنصرف) اَنْفَقْتُ عَلَ ا‬

‫میں نے فقیروںپر خرچ کئے ) ۔ چنانچہ کسی جملہ میں اگر گم کے بعد والا اسم مجرور ہے‬

‫خواہ وہ واحد ہو یا جمع‪ ،‬تو ہمیں سمجھ جانا چاہئےکہ یہ گم خبریہ ہے ۔‬

‫مشقنمبر ‪۲۶‬‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ترجمہکریں ۔‬

‫شاگرد‬ ‫تِلْمِيذُ ( جتَلَامِذَةٌ)‬ ‫بیمار‬ ‫سَقِيمٌ‬

‫گئی ہوئی ۔گنتیکی چند‬ ‫مَعْدُودَةٌ‬ ‫بکری‬ ‫شَاةٌ (جشِيَاةٌ)‬

‫میں نے ذبحکیا ۔‬ ‫ذَبَحْتُ‬


‫‪1.A‬‬

‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫كَمْ وَلَدُ الَكَ يَا خَالِدُ لِيْ وَلَدَانِ وَبِنْتٌ وَاحِدَةٌ‬ ‫(‪)1‬‬

‫كَمْ تِلْمِيذَاحَاضِرفِي الْمَدْرَسَةِ ؟‬ ‫†()‬


‫() ‪۲‬‬

‫وكَمْ تَلَامِيْدَةٍ غَيْرُ حَاضِرمِِنَ الْمَدْرَسَةِ ؟‬

‫وَلِمَاذَا؟ كَمْ مِنْتِلْمِيْذٍ سَقِيمٌ‬

‫( ‪ ) ۳‬كَمْ شَاءَ عِنْدَكَ يَا أُسْتَاذِي عِنْدِي شِيَاةٌ مَعْدُودَةٌ‬

‫لِمَاذَا ؟ كَمْ مِنْ شَاةٍ ذَبَحْتُ لِلْفُقَرَاءِ‬


‫گرامر‬ ‫آستان‬
‫عربی‬

‫حصہ دوم‬

‫مرتبه‬

‫لطف الرحمن‬
‫خان‬

‫اهور‬ ‫مرکزیاننقدمالقران‬
‫کاعلم ترمینی‬
‫فربی‬
‫تألیع‬
‫کی باقد‬‫یبامرمر‬
‫مولوع‬

‫آسان‬
‫عربی‬
‫گرامر‬

‫حصہدوم‬

‫مرتبه‬

‫خان‬‫لطف الرحمن‬

‫♡‬

‫مكتبه خدام القرآن لاهور‬

‫۔‪36‬کے ماڈلٹاؤن لاہور فون ‪03-5869501 :‬‬


‫آسانعربیگرامر ( حصہدوم )‬ ‫نامکتاب‬

‫‪10,100‬‬ ‫طبع اولتاطبع نہم )ستمبر ‪ 1992‬ءتامئی ‪ 2004‬ء )‪.‬‬

‫‪2200‬‬ ‫طبعو ہم ( اگست ‪ 2005‬ء)‬

‫ناظمنشرو اشاعت مرکزی انجمن خدام القرآنلاہور‬ ‫ناشر ‪-‬‬

‫۔‪36‬کے ماڈلٹاؤن لاہور‬ ‫مقام اشاعت‬


‫فون‪03-5869501 :‬‬

‫شرکتپرنٹنگپریس لاہور‬ ‫مطبع‬

‫قیمت ‪-‬‬
‫‪ 45‬روپے‬
‫فہرست‬

‫ماوه اوروزن‬

‫فعلماضی معروف‬
‫=‬

‫تعریف‪ ،‬وزن اورگردان‬

‫‪۱۸‬‬ ‫فعل ماضی کے ساتھ فاعلکا استعمال‬

‫‪۲۱‬‬
‫جملہ فعلیہ کے مزید قواعد‬

‫‪۲۴‬‬
‫فعللازم اور فعل متعدی‬

‫‪۲۸‬‬
‫جملہ فعلیہ میں مرکبات کا استعمال‬
‫‪313‬‬

‫فعلماضی مجهول‬
‫‪31‬‬
‫‪%%‬‬

‫گردان اور نائب فاعل کا تصور‬

‫دو مفعول والے متعدی افعالکی مشق‬

‫فعلمضارع‬

‫مضارع معروفکیگردان اور اوزان‬

‫صرف مستقبل یا نفی کے معنی پیداکرنا اور مضارع مجمول بنانا‬

‫ابواب ثلاثی مجرد‬

‫ماضی کی اقسام ( حصہ اول )‬

‫ماضیکی اقسام ( حصہ دوم)‬


‫‪You‬‬
‫مضارعکے تغیرات‬

‫‪۶۹‬‬
‫نواصب مضارع‬

‫‪۷۵‬‬
‫مضارع مجروم‬

‫‪۸۰‬‬
‫فعل مضارعکا تاکیدی اسلوب‬

‫‪۸۵۰‬‬ ‫فعل امرحاضر‬

‫‪۸۸‬‬ ‫ومتکلم‪.‬‬‫فعلا مرغائب‬

‫‪۹۲‬‬ ‫فعلامرمجهول‬

‫‪۹۴‬‬ ‫فعل نی‬

‫‪۹۶‬‬ ‫ابواب ثلاثی مزید فیہ ( تعارفاور ابواب )‬

‫‪١٠٢‬‬ ‫ابواب ثلاثی مزید فیہ ( خصوصیات ابواب )‬

‫‪۱۰۶‬‬ ‫ابوابثلاثی مزید فیہ (ماضی ‪،‬مضارعکی گردانیں )‬

‫‪111‬‬ ‫ثلاثی مزید فیہ (فعل امرونسی )‬

‫ملاثی مزیدفیہ ( فعل محمول)‬


‫مادہ اور وزن‬

‫‪ ۲۸‬ابتک تقریباگیارہ اسباق میں جو ذیلی تقسیم کے ساتھکل ستائیں اسباق‬ ‫‪۱‬‬

‫پر مشتمل تھے ‪ ،‬ہم نے اہم اور اس پر مبنی مرکبات اور جملہ اسمیہکے بارے میں پڑھا‬

‫ہے ۔ اب ہم عربی زبان میں فعل کے استعمال کے بارے میں کچھ بتاناشروعکریں‬

‫گے ۔یعنی اب ہم ” علمالصرف"کی طرف آئیں گے ۔ لیکن فعلکے بیان سے پہلے‬

‫مادہ " اور "وزن "کے بارے میں کچھ بتا دیا جائے ۔کیونکہ‬ ‫ضروری ہے کہ آپکو‬

‫علم الصرفکے بیانمیں ان دو اصطلاحات کا ذکرباربارآئے گا ۔نیز یہ کہ اگر آپ نے‬

‫عربی زبان میں مادہ " اور "وزن " کے نظامکو سمجھ لیا تو پھر آپ کے لئے افعال کے‬

‫استعمالاتکو سمجھنا اور انہیں یا د رکھنا آسان ہو جائے گا ۔‬

‫مادہ " اور " وزن " پر بات شروعکرنے سے پہلے مناسب ہو گا اگر آپ‬ ‫‪۲۸ :‬‬

‫پہلے ذرا درج ذیل مجموعہ ہائے کلماتکو غور سے دیکھیں ۔ یہ عربی الفاظ ہیں لیکن‬

‫چونکہ ان میں سے بیشتراردو میں بھی استعمال ہوتے ہیں ۔ اس لئے امید ہےکہ آپ‬

‫کو ان کے معانی معلومکرلینے میںکوئی دقت پیش نہیں آئےگی ۔‬

‫عِلْمٌ مَعْلُومٌ ‪ -‬عَالِمٌ تَعْلِيمٌ ‪ -‬عَلامَةٌ ‪ -‬مُعَلِّمٌ ‪ -‬إعْلَامٌ عُلُومٌ ‪-‬‬

‫قِبْلَةٌ قَبُوْلَ ‪ -‬قَابِلَ‪ -‬مَقْبُول ‪ -‬اِسْتِقْبَالٌ ‪ -‬إِقْبَالَ ‪ -‬مُقَابَلَةٌ ‪ -‬تَقَابُل‬ ‫‪-‬‬

‫ضَرْبٌ ضَارِبْ ‪ -‬مَضْرُوبٌ مُضَارَبَةٌ مِطْرَابٌ اِضْطِرَابٌ‪.‬‬ ‫‪-‬‬

‫‪ ٣-‬كِتَابٌ كَاتِبٌ مَكْتُوبٌ كِتَابَةٌ‪ -‬مَكْتُبْ ‪ -‬مَكْتَبَةٌ كَتَبَةٌ ‪-‬‬

‫قَادِرٌ‪ -‬تَقْدِيرُ ‪ -‬مَقْدُوْرٌ ‪ -‬قُدْرَةٌ ‪ -‬قَدِيرٌ‪-‬مِقْدَارٌ ‪ -‬مُقْتَدِرٌ‪-‬‬ ‫‪-۵-‬‬

‫مندرجہ بالا پانچگروپوں کے الفاظ پر غورکیجئے اور جمائیےکہ ہر ایکگروپکے‬

‫الفاظ میں کون سے ایسے حروف ہیں جو اسگروپ کےتمام الفاظ میں پائے جاتے ہیں‬

‫یعنی مشترک ہیں ۔ اگر آپ ایک گروپکے الفاظ پر نظر ڈالکر ہی ان کے مشترک‬
‫فتا سکتے ہیں تو ماشاء اللہ آپذہین ہیں ۔‬
‫حرو ب‬

‫‪ ۲۸‬دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک گروپ کے ہر ہر لفظ کے حروفالگ‬ ‫‪۳‬‬

‫کر کے لکھ لیں ۔ مثلاً ‪:‬‬


‫الگ‬

‫گروپنمبر ‪ ۲‬گروپ نمبر ‪ ۳‬گروپنمبر ‪ ۴‬گروپ نمبر‪۵‬‬ ‫گروپنمبرا‬

‫قادر‬ ‫ک ت اب‬ ‫ضرب‬ ‫ق بلة‬ ‫عل م‬

‫ت ق دیر‬ ‫کات ب‬ ‫ضارب‬ ‫ق بول‬ ‫م ع ل وم‬

‫م ق دور‬ ‫مک ت و ب‬ ‫م ضروب‬ ‫قابل‬ ‫ع الم‬

‫قدرة‬ ‫كتابة‬ ‫مضاربة‬ ‫م قبول‬ ‫ت علیم‬

‫ق دیر‬ ‫مك ت ب ة‬ ‫مضراب‬ ‫استقبال‬ ‫ع للامة‬

‫م ق دار‬ ‫مک تب‬ ‫اضطراب‬ ‫ا ق ب ال‬ ‫م عل ل م‬

‫م ق ت در‬ ‫ك ت بة‬ ‫م قاب له‬ ‫اع لام‬

‫ت قابل‬ ‫ع ل وم‬

‫اب آپ ہر کالم کے الفاظ کے ان تمام حروفکو "کر اس " ( ‪) x‬لگا دیں ۔ جو‬

‫تمام الفاظ میں نہیں پائے جاتے بلکہ بعض میں ہیں اور بعض میں نہیں ہیں ‪ ،‬تو آپ‬

‫کے پاس ہر لفظ کے صرف وہ حروف بچ جائیں گے جو تمام الفاظ میں مشترک ہیں ۔‬

‫بهرحال آپ جس طرح بھی معلومکریں بالآخر آپاس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ‪:‬‬

‫گرو ن‬
‫پمبرا کے تمام الفاظ میں مشترک حروف " ع ل م " ہیں ۔‬ ‫‪-1‬‬

‫نمبر‪ ۲‬کے تمام الفاظ میں مشترک حروف " ق ب ل " ہیں ۔‬
‫گروپ‬ ‫۔‪۲‬‬

‫گروپنمبر ‪ ۳‬کے تمام الفاظ میں مشترکحروف " ض ر ب" ہیں ۔‬

‫ی ت ب " ہیں ۔‬ ‫گروپنمبر ‪ ۴‬کے تمام الفاظ میں مشترک حروف‬ ‫‪-۴‬‬

‫گروپ نمبرہ کے تمام الفاظ میں مشترک حروف " ق در " ہیں ۔‬ ‫‪-‬‬

‫گویا ہرگروپکے الفاظ بنیادی طور پر ان تین حروف سے بنائے گئے ہیں جو ان‬
‫"ہتے ہیں ۔یعنیگروپنمبر‬
‫میں مشترک ہیں ۔ ان مشترک حروفکو ان الفاظ کا "مادہ ک‬

‫ا کے تمام الفاظ کا مادہ " ع ل م " ہے ۔ اس سے ہم پر یہ بات واضح ہوگئیکہ عربی‬

‫زبان میں تقریباً تمام کلمات ( اسم ہوں یا فعل ) کی بنیاد ایک تین حرفی مادہ " ہو تا‬

‫ہے ۔‬

‫کی بڑی اہمیت‬


‫‪ ۲۸ : ۴‬عربی زبانکی تعلیم خصوصاً " علم الصرف " میں اس مادہ "‬

‫ہے ۔ "علم الصرف " کا موضوع اور مقصد ہی یہ ہے کہ ایک مادہ " سے مختلف‬

‫الفاظ ( اسماء اور افعال ) کیسے بنائے جاتے ہیں ۔کسی مادہ سے جو مختلف الفاظ بنتے ہیں‬

‫ان میں سے بیشترتو مقرر قواعد کے تحت بنتے ہیں ۔ یعنی ایک مادہ " سے ایک خاص‬
‫‪"J‬‬
‫معنی دینے والا لفظ جس طرح ایک مادہ "سے بنےگا ‪ ،‬تمام مادوں سے اس قاعدے‬

‫کے مطابق اس طرح کا لفظ بنایا جا سکتا ہے ۔ اس مقصد کے لئے مادہ کے حروفپر نہ‬

‫صرف بعض حرکات لگانی پڑتی ہیں بلکہ بعض حروفکا اضافہ بھی ہو جاتاہے ۔ جسے‬

‫آپپیراگراف ‪ ۲۸ : ۲‬میں دیئے گئے الفاظ پر نظرڈالکر معلومکر سکتے ہیں کیونکہ‬

‫پو بتائے جاچکے ہیں ۔ مثلا" ع ل م "مادہ سے لفظ " تعلیم "‬
‫ان الفاظ کے مادے آک‬

‫بنانے کا طریقہ یوں بھی بیانکیا جا سکتا ہے کہ پہلے " ت " لگاؤ ۔ اس کے بعد مادہکے‬

‫پہلے حرف " ع "کو سکون دےکرلکھو ۔ " ع " بنگیا ۔ اب اس کے بعد مادہ کے دوسرے‬

‫(درمیانی ) حرف " ل " کو زیر دے کر لکھو اور اس کے بعد ایک ساکن " ی " لگاؤ ۔‬

‫پر تنوین‬
‫لفظ " تغلنی " بنگیا ۔ اب آخر پر مادہ کا آخری حرف "م " لکھ کر اس‬
‫یہاں تک‬

‫رفع ( ‪) 2‬لگادویوںلفظ " تعلیم "بنگیا ۔‬

‫‪ ۲۸ : ۵‬آپ نے اندازہ کر لیا ہو گا کہکسی مادہ سے لفظ بنانے کا طریقہ اس طرح‬

‫سمجھانا تو بڑا مشکل ‪ ،‬طویل اور پیچیدہ کام ہے ۔ عربی زبانکے قواعد بنانے والوں نے‬

‫اس مشکلکو آسانکرنے کے لئے یہ طریقہ نکالاکہ انہوں نے مادہ کے تین حرفوں‬

‫( ) مقررکر دیا ۔ یعنی مادہ کے حرفوںکو نمبرلگاکر ‪۳ ۲ ۱‬‬


‫ف ع ن‬
‫‪ ) ۳‬کا نام ( )‬ ‫( ‪ ) ۱‬ہو‬

‫درمیانی اور آخری کہنے کے بجائے نمبرا یا پہلے حرفکو " ف " نمبر‪ ۲‬یا‬ ‫کہنے یا پہلا‬
‫درمیانیکو " ع " اور نمبر ‪ ۳‬یا آخری کو " ل "کہتے ہیں ۔ مثلاً "ق در " میں فاکلمہ " ق "‬

‫ہے عین کلمہ " د " ہے اور لام کلمہ " ر " ہے ۔ جس مادہ سے کوئی لفظ بنانا ہو تو پہلے‬

‫ع ل " سے اس طرح کا لفظ بطور نمونہ بنا لیا جاتا ہے اور پھرکسی بھی متعلقہ مادہ سے‬ ‫"‬

‫اس نمونے " کے مطابق لفظ بنایا جاسکتا ہے ۔ وہ اس طرحکہ نمونے کے " ف "کی جگہ‬

‫" ع "کی جگہ مادہ کا دوسرا حرف اور " ل "کی جگہ تیسرا حرف رکھ‬ ‫مادہ کا پہلا حرف‬

‫دیں باقی حرکات اور زائد حروف " نمونے " کے مطابق لگا دیں ۔ مثلاً فاعل اور‬

‫مفعولکے نمونے پر مختلف مادوں سے جو الفاظ بنتے ہیں انکی مثالدرج ذیل ہے ‪:‬‬

‫نمونے‬ ‫ماده‬

‫م فغول‬ ‫فاعل‬ ‫ف عل‬

‫مَعْلُومٌ‬ ‫عَالِمٌ‬ ‫علم‬

‫مَقْبُول‬ ‫قابل‬ ‫ق بل‬

‫مَضْرُوبٌ‬ ‫ضَارِبٌ‬ ‫ضرب‬

‫مَكْتُوبٌ‬ ‫كَاتِبٌ‬ ‫کتب‬

‫مَقْدُورٌ‬ ‫قَادِرٌ‬ ‫ق در‬

‫امید ہے کہ ابآپ سمجھ گئے ہوں گے کہکسی مادہ سے نمونے کے مطابق الفاظکس‬

‫طرح بنائے جاتے ہیں ۔ اور اب آپ یہ بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ مادہ ع ل م سے‬

‫اے ۔‬
‫لفظ " تعليم " ‪ " -‬تفعیل "کے نمونے پر بنایاگی ہ‬

‫‪ ۲۸ :‬اب ذرا یہ باتبھی سمجھ لیجئے بلکہ یا درکھئےکہ "ف ع ل " سے نمونے کے‬

‫طور پر بننےوالے لفظکو عربیگرامر کی زبان میں وزنکہتے ہیں ۔یعنی " فَاعِل " ایک‬

‫وزن ہے اور ” مَفْعُول " بھی ایک وزن ہے ۔ ابآپ نے یہی سیکھنا ہے کہ کسی مادہ‬

‫طرح بناتے ہیں ۔ مادہ اور‬ ‫سے مختلف اوزان ( وزنکی جمع کے مطابق لفظکس‬

‫وزنکی اس پہچان کا تعلق عربی ڈکشنری یعنی لغت کے استعمال سے بھی ہے ۔ جس پر‬
‫آگے چلکر باتکریں گے ۔ ( ان شاء اللہ تعالٰی )‬

‫مشق نمبر‪ ( ۲۷‬الف )‬

‫ذیل میں کچھ مادے اور ان کے ساتھ کچھ اوزان دیئے جارہے ہیں ۔ آپکو ہر‬

‫مادہ سے اسگروپمیں دیئے گئے تمام اوزان کے مطابق الفاظ بنانے ہیں ۔‬
‫‪333‬‬

‫اوزان‬ ‫مارے‬

‫رف ع‬ ‫پننمببرراا‬
‫پ‬ ‫گرو‬

‫يَفْعَلُ‬ ‫ج رح‬

‫ذهب‬
‫فَعَلْتُمْ‬

‫يَفْعَلُوْنَ‬ ‫ج حد‬

‫افْعَلْ‬ ‫ق طع‬

‫فَعِلَ‬ ‫شرب‬ ‫پمنم‬


‫ببرر‪۲‬‬ ‫پ‬
‫گرون‬

‫‪ .‬فَعِلَتْ‬ ‫حم د‬

‫تَفْعَلُ‬ ‫ل بث‬

‫تَفْعَلِيْنَ‬ ‫ف هم‬

‫افْعَلْ‬ ‫ضحک‬

‫فَعُلَ‬ ‫ق رب‬ ‫گروپ نمبر ‪۳‬‬

‫فَعَلْنَ‬ ‫ب عد‬

‫تَفْعُلُنَ‬ ‫ث قل‬

‫تَفْعُلَانِ‬ ‫حسن‬

‫افْعُلُ‬ ‫عظم‬
‫·‬
‫مشقنمبر‪ ( ۲۷‬ب )‬

‫پیرا گراف ‪ ۲۸ : ۲‬میں الفاظ کے پانچگروپ دیئے گئے ہیں ۔ ہرگروپکا مادہ‬

‫پیراگراف ‪ ۲۸ : ۳‬میں آپکوبتا دیا گیاہے ۔ اس علمکیبنیاد پر اب آپ ہر گروپ‬

‫کے ہر لفظ کا وزن لکھیں ۔ مثلاً پیرا گراف ‪ ۲۸ : ۲‬کے گروپ نمبر ‪ ۴‬میں ایک لفظ‬

‫" مَكْتَبَةُ " ہے ۔ اور آپکو بتا دیا گیا ہے کہ اسگروپ کے تمام الفاظ کا مادہ‬

‫ک ت ب" ہے ۔ اب آپکو کرتا یہ ہے کہ لفظ " مكتبة " میں مادے کے پہلے‬

‫حرف "ی " کو " فی " سے تبدیل کر دیں ۔ اسی طرح مادے کے دوسرے حرف‬

‫" ت "کو " ع " سے اور آخری حرف " ب "کو " ل " سے تبدیلکر دیں ۔ بقیہ حروف‬

‫اپنی اپنی جگہ رہنے دیں اور زبر ‪ ،‬زیر ‪ ،‬پیش میںکوئی تبدیلی نہکریں ۔ اس طرح آپ‬

‫کو لفظ کا وزن معلوم ہو جائےگا ۔ یہ کام اس طرحکریں ‪:‬‬

‫مَكْتَبَةٌ‬ ‫=‬ ‫مَ لا تَ بَةٌ‬

‫مَفْعَلَةٌ‬ ‫=‬
‫‪-‬‬ ‫مَ فْ عَ دَةٌ‬

‫ضروریہدایت ‪:‬‬

‫مذکورہ بالا مشقیںکرتے وقت الفاظ کے معانی کی بالکل فکر نہکریں ۔ آگے چل‬

‫کر ان شاء اللہ تعالٰی آپکو ان کے معانی بھی معلوم ہو جائیں گے ۔ فی الحال مادہ‬

‫اور وزن کے نظام ( ‪) System‬کو سمجھنے اور اسکی مشقکرنے پر اپنی پوری توجہکو‬

‫مرکوز رکھیں ۔ الفاظ کے معانی سمجھے بغیر اسنظامکی مشق کرنے سے آپ بہت جلد‬

‫اس پر گرفتحاصلکرلیں گے ۔‬
‫فعلماضی معروف‬

‫گردان‬
‫اوزاناور‬ ‫تعریف‬

‫‪ ۲۹ : ۱‬گزشتہ سبق میں مادہ اور وزن کا مفہوم سمجھنے کے ساتھ ساتھ آپکو یہ‬

‫اندازہ بھی ہوگیا ہوگاکہ مختلف مادوں سے جو مختلف الفاظ ( اسماء و افعال) بنتے ہیں ان‬

‫کے مخصوص اوزان ہیں ۔ عربی میں ایسے اوزانکی تعداد تو خاصی ہے لیکن خوش‬

‫قسمتی سے زیادہ استعمال ہونے والے اوزان نسبتاکم ہیں اور انکو یادکر لیناکچھ بھی‬

‫مشکل نہیں ہے اور آہستہ آہستہ بکثرت استعمال ہونے والے اوزان سے آپکو‬

‫آگاہکرتا ہی ہمارا مقصد ہے ۔‬

‫‪ ۲۹ : ۲‬گزشتہ سبق میں آپ نے ملاحظہ کیا ہو گاکہکسی مادے سے الفاظ بناتے وقت‬

‫مادہ کے حروفمیں کچھ زائد حروفکا اضافہکرنا پڑتا ہے اور حرکاتلگانی ہوتی ہیں ۔‬

‫" کا‬ ‫مثلاً " ق ب ل " مادہ سے " قابل " بنانے میں حرکات کے علاوہ ایکحرف " الف‬

‫اضافہ ہوا ہے ۔ مگر اسی مادہ سے لفظ " استقبال " بنانے میں حرکات کے علاوہ‬

‫س ت " کا اضافہکرنا پڑا ہے ۔ اس صورتحال کے پیش نظر ایکطالب علم‬

‫کے ذہن میں الجھن پیدا ہوتی ہےکہ وہکس طرح معلوم کرےکہ کسی فعل یا اسم میں‬

‫اس کے مادے کے حروفکون سے ہیں ؟ اس الجھن کے حل کے لئے یہ بات یادکر‬

‫لیںکہ ایسا لفظ جس میں مادے کے حروف سے زائدکوئی حرفنہ ہو عموما فعلماضی کا‬

‫پہلا صیغہ ہوتا ہے ۔ فعلماضی کے پہلے مینے کے متعلق اسی سبق میں آگے چل کر بات‬

‫ہوگی ۔‬

‫فعل " پر بحثکا با قاعدہ آغازکر رہے ہیں ۔ چنانچہ اب ہم مختلف‬ ‫‪ ۲۹ : ۳‬اب ہم‬

‫مادوں سے فعلبنانا سیکھیں گے اور مختلف افعالکے اوزان پڑھیں گے ۔ لیکن اس‬

‫سے پہلے ضروری معلوم ہوتاہےکہ عربی زبان میں فعل کے استعمال کے متعلق چند‬
‫‪۱۲‬‬

‫بنیادیباتیں بیانکر دی جائیں ۔‬

‫‪ ۲۹ :‬اسکتاب کے حصہ اول کے پیراگراف ‪ :‬امیں ہم آپکو بتاچکے ہیںکہ‬

‫ایسا لفظ بھی اسم ہوتاہے جس کے معنی میںکوئی کامکرنے کا مفہوم ہو لیکن اس میں‬

‫تینوں زمانوں میں سےکوئی زمانہ نہ پایا جاتا ہو ۔ ایسے اسمکو " مَصْدَر ک‬
‫"ہتے ہیں ۔ اس‬

‫حوالہ سے یہ بات دوبارہ ذہن نشینکرلیں کہ ہر زبانکی طرح عربی زبان کے افعال‬

‫میں بھی وقت اور زمانہ کا مفہوم موجود ہوتا ہے ۔ محض کامکرنے کا مفہوم کافی نہیں‬

‫ہے ۔ مثلاً " علم " کے معنی ہیں " جانا " اور " ضرب " کے معنی ہیں "مارنا " ۔مگر‬

‫" علم " یا " ضرب" فعل نہیں ہیں بلکہ یہ اسم ہی ہیں اور ان کے آخر پر اسم کی‬

‫علامت ”تنوین " بھی موجود ہے ۔ لیکن جب ہم کہتے ہیں ” علیم " جس کے معنی ہیں‬

‫" اس نے جان لیا "یا " يَضْرِبُ " جس کے معنی ہیں "وہ مارتا ہے "تو اب" علم " اور‬

‫" يَضْرِبُ فعلکہلائیں گے کیونکہ ایک میںگزشتہ وقتکا اوردوسرےمیں موجودہ‬

‫وقتکا تصورموجود ہے ۔‬

‫‪ ۲۹ : ۵‬دنیا کی دیگر زبانوںکی طرح عربی میں بھیبلحاظ زمانہ فعلکی تقسیم سہگانہ‬

‫ہے ۔یعنی‬

‫( ‪ ) ۱‬فعل ماضی ‪ :‬جس میں کسی کام کےگزشتہ زمانہ میں ہونے کا مفہوم ہو ۔‬

‫( ‪ ) ۲‬فعل حال ‪ :‬جس میںکسی کامکے موجودہ زمانہ میں ہونے کا مفہوم ہو ۔ اور‬

‫( ‪ ) ۳‬فعل مستقبل ‪ :‬جس میںکسی کام کے آئندہ آنے والے زمانہ میں ہونے کا‬

‫مفہوم ہو ۔ فعلکی بلحاظ زمانہ یہی تقسیم اردو اور فارسی میں بھی مستعمل ہے اور‬

‫اور‬ ‫‪Past Tens ) ,‬‬ ‫‪Present Tense‬‬ ‫کو‬ ‫اسی‬ ‫میں‬ ‫انگریزی‬

‫‪ Future Tense‬کہتے ہیں ۔کسی فعل سے مختلف زمانو ) کا مفہوم رکھنے والے‬

‫) بناناکسی زبانکو سیکھنے کا نہایت اہم حصہ ہے ۔ ہر‬


‫مختلف الفاظ ( جنہیں صیغے کہتے ہیں‬

‫زبان میں اس پر طلباء کو کافی محنتکرنی پڑتی ہے ۔ چنانچہ اب ہم عربی زبان کے فعل‬

‫ماضی کے صیغوںپر باتکرتے ہیں ۔ فعل حال اور مستقبل پر ان شاءاللہآگے چلکر‬
‫‪۱۳‬‬

‫باتہوگی ۔‬

‫‪ ۲۹ :‬اسکتاب کے حصہ اول کے پیر گراف‪ ۱۴ : ۳‬میں آپپڑھ چکے ہیںکہ‬

‫عربی میں ضمائر کے استعمال میں نہ صرف " غَائِب" " مُخَاطَب " اور " مُتَكَلِّمْ " کا‬

‫فرقملحوظ رکھا جاتا ہے بلکہ جنس اور عددکی بھی تفریق ہوتی ہے ۔ پھر عدد کے لئے‬

‫واحد اور جمع کے علاوہ " تثنیہ " کے لئے بھی الگضمیریں ہوتی ہیں ۔ اس طرح عربی‬

‫‪۱۴‬ے ۔ اسی طرح عربی میں فعل کے مختلف صیغوںکی تعداد بھی‬
‫ہ‬ ‫میں ضمائرکی کل تعداد‬

‫‪۱۲‬ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھرکی زبانوں میںکسی فعل کے مختلف صیغوںکی‬

‫تعداد اس زبان میں استعمال ہونے والی ضمیروں کے مطابق ہی ہوتی ہے ۔ ضمیروں‬

‫کے مطابق فعل کے صیغے بنانے کو اردو اورفارسی میں فعلکی "گردان " اور عربی میں‬

‫فعل کی " تضریف " کہتے ہیں جبکہ انگریزی میں اسے ‪ Conjugation‬یا‬

‫‪ Persons of Verb‬کا نام دیاگیا ہے ۔‬

‫ہر صیغے‬ ‫فعل کی گردان میں‬ ‫زبانوں میں‬ ‫بعض‬ ‫دنیا کی‬ ‫‪۲۹ :‬‬

‫( ‪ )Person of Verb‬کے فعلکی ایک مقررہ شکل کے ساتھ ہر دفعہ ضمیربھی‬

‫ندکو ر ہوتی ہے ۔ مثلاً اردو میں ماضی کی گردان عموماًیوں ہوتی ہے ‪ :‬وہگیا وہ گئے تو‬

‫گیا ‪،‬تم گئے میں گیا ‪ ،‬ہم گئے وہ گئی وہگئیں توگئی تمگئیں ‪،‬میںگئی ‪ ،‬ہمگئیں ۔‬

‫جبکہ بعض افعالکی گردان اس طرح ہوتی ہےکہ مذکر مونثیکساں رہتا ہے ۔‬

‫مثلاً ‪ :‬اس نے مارا انہوں نے مارا تو نے مارا تم نے مارا میں نے مارا ہم نے‬

‫مارا ۔ انگریزی میں ماضی کیگردانیوں ہوتی ہے ‪:‬‬

‫‪I went , We went , You went , He went, They went‬‬

‫آپ نے نوٹکر لیا ہو گا کہ اردوگردان غائبکی ضمیروں سے شروع ہو کر متکلم کی‬

‫ضمیروںپر ختمکرتے ہیں ۔ اس کے بر عکس انگریزی میںمتکلم سے شروعکر کے غائب‬

‫پر ختمکرنے کا رواج ہے ۔‬


‫‪۱۴‬‬

‫‪ ۲۹ :‬بعض زبانوں میں گردان کے ہر صیغے کے ساتھ بار بار ظاہراًضمیرنہیں لائی‬

‫جاتی ۔بلکہ صیغے ہی اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ ہرصیغے میں فاعلکی ضمیر اس صیغےکی‬

‫بناوٹ سے سمجھی جاسکتی ہے ۔ عربی اورفارسی میں فعلکیگردان اسی طریقے پرکی جاتی‬

‫ہے ۔ چنانچہ عربی میں استعمال ہونے والی چودہ ضمیروںکے مطابق فعلکی گردانبھی‬

‫چودہ صیغوں میں کی جاتی ہے ۔ بظاہر یہ تعداد زیادہ نظرآتی ہے لیکن جبآپاس کی‬

‫یکسانیت اور باقاعدگی کا مقابلہ اردو افعالکی بے قاعدہگردانوں اور انگریزی میں‬

‫افعالکی بکثرت اور پیچیدہ صورتوں ( ‪ )Tenses‬سے کریں گے تو اسے بے حد‬

‫آسانپائیںگے ۔‬

‫عربی میں فعل ماضی کی گردان مختلف ضمیروں کے فاعل ہونے کے لحاظ سے‬ ‫‪:‬‬

‫یوں ہوگی ۔‬

‫تثنيه‬ ‫واحد‬

‫فَعَلُوا‬ ‫فعلا‬ ‫فَعَلَ‬ ‫ذکر ‪:‬‬

‫اننیست سے( مردون )‬ ‫اندو( مردوں)‬ ‫اسایک ( مرد )‬

‫نےکیا‬ ‫نےکیا‬ ‫نےکیا‬

‫فَعَلْنَ‬ ‫فَعَلَتَا‬ ‫فَعَلَتْ‬ ‫مونث ‪:‬‬

‫بنبستمسی (عورتوں)‬ ‫اندو( عورتوں)‬ ‫اسایک (عورت)‬

‫نےکیا‬ ‫نےکیا‬ ‫نےکیا‬

‫فَعَلْتُمَا‬ ‫فَعَلْتَ‬ ‫ذکر ‪:‬‬


‫‪ .‬فَعَلْتُم‬

‫تم بہت سے ( مردوں )‬ ‫تم دو( مرووله) )‬ ‫تو ایک( مرد )‬

‫نےکیا‬ ‫نےکیا‬ ‫نےکیا‬ ‫حاضر‬

‫فَعَلْتُنَّ‬ ‫فَعَلْتُمَا‬ ‫فَعَلْتِ‬ ‫مونث ‪- :‬‬

‫تم بہتسی (عورتوں )‬ ‫تم دو عورتوں)‬ ‫توایک(عورت)‬

‫نےکیا‬ ‫نےکیا‬ ‫نےکیا‬


‫‪۱۵‬‬

‫فَعَلْنَا‬ ‫فَعَلْنَا‬ ‫فَعَلْتُ‬


‫مذکر مونث ‪:‬‬ ‫متکلم‬

‫ہم نےکیا‬ ‫ہم نےکیا‬ ‫میں نےکیا‬

‫اسگردانکو یادکرنے اور ذہن میں بٹھانے کے لئے اسےکئی دفعہ زبان‬ ‫‪۲۹ : ۱۰‬‬

‫سے دہرانا بھی ضروری ہے ۔ مگر ہر ایک صیغے میں ہونے والی تبدیلیکو ذیل کے نقشے کی‬

‫مدد سے بھی ذہن میں رکھا جا سکتا ہے ۔ اس نقشہ میں ف ع ل کلماتکو تین چھوٹی‬

‫لائینوں سے ظاہر کیا گیا ہے ۔ اس سے آپتینوں کلماتکی حرکات (یعنی زبر زیر‬

‫وغیرہ ) اور ان کے ساتھ ہر صیغے میں ہونے والے اضافےکو سمجھ سکتے ہیں ۔‬

‫‪1422‬‬ ‫‪444‬‬ ‫ذکر ‪:‬‬ ‫غائب‬


‫‪13222‬‬

‫‪Ń 222‬‬ ‫‪3244‬‬ ‫مونث ‪:‬‬

‫تُما‬ ‫مذکر ‪:‬‬ ‫مخاطب‬

‫‪# 222‬‬ ‫تُما‬ ‫مونث ‪:‬‬

‫نَا‬ ‫نَا‬ ‫دَ‬ ‫ت‬ ‫‪--‬‬ ‫متکلم مذکر مونث ‪:‬‬

‫‪ ۲۹ : ۱۱‬اس نقشہ میں آپ نوٹکریں کہ پہلےپانچ صیغوںمیں لامکلمہ متحرک ہے ۔‬

‫اس کے چھٹے صیغے سے جبلامکلمہ ساکن ہوتا ہےتو پھرآخرتک ساکن ہی رہتا ہے ۔‬

‫اس کے علاوہ ضمائر مرفوعہ میں مخاطبکی چھ ضمیروںکو ذہن میں تازہکریں جو یہ ہیں ۔‬

‫انْتَ انْتُمَا أَنْتُمْ أَنْتِ أَنْتُمَا أَنْتُنَّ ‪ -‬ابنوٹکریں کہ مذکورہ گردان میں‬

‫مخاطبکے صیغوں میں انہیں ضمائرکے آخری حروفکا اضافہ ہواہے ۔‬

‫‪ ۲۹ : ۱۲‬اس سبق کے پیراگراف ‪ ۲۹ : ۲‬میں ہم نےکہا تھا کہکسی لفظ کے مادوںکی‬

‫پہچان فعل ماضی کے پہلے صیغے سےممکن ہوتی ہے ۔ اب اس نقشہ پر غورکرنے سے‬

‫پو اندازہ ہو جائے گا کہ اس میں صرفپہلا یعنی واحد مذکرغائبکا صیغہ ایسا ہے‬
‫آ ک‬

‫‪1‬‬
‫‪۱۶‬‬

‫جس میں (ف ع ل) کلمات یعنی مادے کے حروفکے ساتھ کسی اور حرفکا اضافہ‬

‫نہیں ہوا ہے ۔ اسی لئے الفاظ کے مادوںکی پہچان ان کے فعل ماضی کے پہلے سینے سے‬

‫کی جاتی ہے ۔ جیسے طلب اس ایک مرد ) نے طلبکیا "کا مادہ (طال ب) ہے ۔‬

‫فتح " اس ( ایک مرد ) نے کھولا ۔ "کا مادہ ( ف تح) ہے وغیرہ ۔‬

‫‪ ۲۹ : ۱۳‬دوسری بات یہ سمجھ لیں کہ فعل ماضی کے تین اوزان ہیں ‪ :‬فَعَلَ‬

‫فَعِلَ فَعل ۔ اوپر صرف فعلکی گردان دیگئی ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں‬

‫ہےکہ آپکو تینگردانیں یادکرنی ہوں گی ۔گردان تو صرف ایک یادکرنی ہے ۔‬

‫اس لئےکہ گردان کا طریقہ ایک ہی ہے ۔ بس یہ خیال رکھنا ہوتا ہےکہ جو فعل فَعِل‬

‫کے وزن پر آتا ہے اس کے تمام صیغوں میں مادےکے دوسرے حرفیعنی عینکلمہ‬

‫پر کسرہ یعنی زیر ( ) لگانی اور پڑھنی ہوگی ۔ جیسے فَعِلَ فَعِلَا فَعِلُوْاسے آخرتک۔‬

‫ای طرح فعل کے وزن میں ہر جگہ عین کلمہ پر پیش (‪ ) 2‬لگے گا ۔ فَعَلَ فَعْلاً فَعَلُوا‬

‫سے آخر تک۔‬

‫‪ ۲۹ : ۱۴‬ضمنی طور پر ایک بات اور سمجھ لیںکہ عربی میں زیادہ تر افعالکا مادہ تین‬

‫حروف پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں " کلائی "کہتے ہیں جبکہکچھ افعال ایسے بھی ہوتے‬

‫ہیں جن کا اصل مادہ ہی چار حروف پر مشتمل ہوتاہے ۔ انکو " رباعی "کہتے ہیں ۔‬

‫چونکہ عربی کے تقریبا ‪ 90‬فی صد افعال سہ حرفی مادوںپر مشتمل ہوتے ہیں ۔ اس لئے فی‬

‫الحال ہمخودکو " ثلاثی "تک ہی محدود رکھیں گے ۔‬

‫مشق نمبر‪۲۸‬‬

‫مندرجہ ذیل افعالکی ماضی کی گردان لکھیں اور صیغہ کے معانی بھی لکھیں ۔‬

‫گردانلکھتے وقت عینکلمہکی حرکتکا خیال رکھیں ۔‬


‫لا‬

‫وہ داخلہوا‬ ‫‪:‬‬ ‫دَخَلَ‬

‫وہ غالب ہوا‬ ‫‪:‬‬ ‫غَلَبَ‬

‫وہ خوش ہوا‬ ‫‪:‬‬ ‫فَرِحَ‬

‫وہ نما‬ ‫ضَحِكَ‬

‫وہ قریب ہوا‬ ‫‪:‬‬ ‫قَرُبَ‬

‫وہ دور ہوا‬ ‫بَعُدَ‬

‫ضروریہدایت ‪:‬‬

‫کچھ طلبہ اور زیادہ عمر کے اکثر طلبہ کا خیال یہ ہوتا ہے کہ رٹا لگتا ان کے بس کا‬

‫روگ نہیں ہے ۔ اس لئے وہ یہ گردانیں یاد نہیں کر سکتے حالانکہ ضمائرکی دوگردانیں یادکر‬

‫چکے ہوتے ہیں ۔ بہرحال ایسے طلبہ سے اتفاق نہ کرنےکی اصل وجہ یہ ہےکہ خود میںنے‬

‫پچاس سالکی عمر میں یہ گردانیں یاد کی تھیں ۔ چنانچہ ایسے طلبہ کو میرا مشورہ یہ ہےکہ‬

‫خود یادکرنے کے بجائے یہ گردانیں وہ اپنے قلمکو یادکرا دیں ۔ اس کا طریقہ سمجھ لیں ۔‬

‫گردانکو سامنے رکھکرپانچ سات مرتبہ اسے زبان سے دہرائیں۔ پھر ایک کاغذ پر‬

‫یادداشت سے اسے لکھنا شروعکریں ۔ جہاں ذہن اٹک جائے وہاںگردان میں سے دیکھ‬

‫کر لکھیں ۔ اس طرح جب پوری گردان لکھ لیں تو وہ کاغذ پھاڑ کر پھینک دیں اور‬

‫دوسرے کاغذ پر لکھنا شروعکریں ۔ جہاں بھولیں گردان میں دیکھ لیں ۔ اس طرح آپ‬

‫پانچ سات کاغذ پھاڑیں گے تو ان شاء اللہ آپ کے قلمکوگردان یاد ہو جائے گی ۔ اگرکچھ‬

‫کمزوری رہ جائےگی تو اگلے اسباق میں ترجمےکی مشقیں کرنے سے وہ دور ہو جائےگی ۔‬

‫اساتذہکرام کے لئے مشورہ یہ ہے کہکلاس میں طلباء سے زبانیگردان نہ سنیں بلکہ‬

‫ان سے کاغذ پر لکھوائیں اور غلطیوں کی اصلاح کر کے کاغذ انکو واپسکر دیں ۔ اس‬

‫طرح طلبہ دوسروں کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ جائیں گے اور ان میں بد دلی بھی پیدا‬

‫نہ ہوگی ۔‬
‫‪۱۸‬‬

‫استعمال‬ ‫فعلماضی کے ساتھ فاعلکا‬

‫اس مرحلہ پر ضروری ہے کہ اب ہم چند ایسے جملوںکی مشقکر لیں جس‬ ‫‪۰۱:‬‬

‫میں فعلماضی استعمال ہوا ہو ۔ لیکن اس سے پہلے درج ذیل چند باتیں سمجھنا ضروری‬

‫ہیں تاکہ آپ‬


‫کو جملے بنانے میں آسانی ہو ۔‬

‫‪ ۳۰ : ۲‬اسکتاب کے حصہ اولکے پیراگراف‪ ۷ : ۵‬میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ‬

‫جس جملہکی ابتداکسی اسم سے ہو وہ جملہ اسمیہ ہوتا ہے اور جسکی ابتداکسی فعل سے‬

‫ہو وہ جملہ فعلیہ ہوتہ‬


‫اے ۔ ابیہ بھی سمجھ لیں کہ جس طرح جملہ اسمیہ کےکم ازکم دو‬

‫حصے ( مبتدا اور خبر‬


‫) ہوتے ہیں اسی طرح ہر ایک جملہ فعلیہ کے بھی کم ازکم دو حصے‬

‫ہوتے ہیں یعنی فعل اور فاعل ۔کسی جملہ کے دو سے زیادہ حصے ہو سکتے ہیں لیکن کم ازکم‬

‫دو ضروری ہیں ‪ ،‬جملہ اسمیہ میں مبتدا خبر اور جملہ فعلیہ میں فعل فاعل ۔‬

‫‪ ۳۰ : ۳‬اب آپ غورکریں کہگردان کے جو چودہ صیغے آپ نے یاد کئے ہیں ان‬

‫میں سے ہر ایک صیغہ مستقل جملہ فعلیہ ہے ۔ اس لئےکہ ان میں سے ہر ایک میں فعل‬

‫کے علاوہ فاعل بصورت ضمیر موجود ہے ۔گردان کے دوسرے نقشے میں مادے‬

‫" " نا" وغیرہ آئے ہیں تو وہ دراصل‬ ‫( ف ع ل ) کے بعد جہاں کہیں " " "‬

‫متعلقہ فاعل ضمیر کی علامت ہیں ۔ اور ان صیغوں کا ترجمہکرتے وقت اس ضمیر کا‬

‫ترجمہ ساتھ کیا جاتاہے ۔ اور اگرفاعل ضمیروالے اردو جملہ کا عربی میں ترجمہکرنا ہو تو‬

‫فعل کا متعلقہ صیغہ بنا لینا ہی کافی ہوتا ہے ۔ مثلاً " ہم خوش ہوئے " ۔ " فرخنا " "تو‬

‫" جَلَسْتَ " وغیرہ ۔‬ ‫بیٹھا‬

‫‪ ۳۰ : ۴‬لیکن اکثر صورتیہ ہوتی ہےکہ فاعلکوئی اسم ظاہر ہوتاہے ۔ یعنی ضمیر‬

‫کے بجائے کسی شخص یا چیز کا نام ہوتا ہے ۔ نوٹکرلیں کہ ایسی صورت میں عموماً‬
‫‪14‬‬

‫فاعل فعل کے بعد آتاہے اور وہ ہمیشہ حالت رفع میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً فَرِحَ‬

‫الْوَلَدُ (الرکا خوش ہوا ) سَمِعاَلله (اللہنے سن لیا ) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۳۰ : ۵‬فعل ماضی پر "ما " لگا دینے سے اس میں نفی کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں ۔‬

‫مثلا مَا فَرِحَ " وہ ( ایک مرد ) خوش نہیں ہوا " مَا كَتَبْتَ "تو نے نہیں لکھا " مَا كَتَبَتِ‬

‫الْمُعَلِمَةُ ( استانی نے نہیں لکھا جو دراصل كَتَبَتْ الْمُعَلَّمَةُ تھا جس میں اَلْمُعَلِمَةُ‬

‫کے حمزة الوصلکی وجہ سے گتَبَتْکی ساکن "ت "کو آگے ملانے کے لئے حسب‬

‫قاعدہکسره ( زیر ) دیگئی ہے ۔ یہ قاعدہ آپ حصہ اول کے پیرگراف ‪ ۷ : ۷‬میں‬

‫پڑھ چکے ہیں ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫= اس ایک مرد ) نے لکھا‬ ‫كَتَبَ‬ ‫= اس ایک مرد ) نےپڑھا‬ ‫قرا‬

‫= اس (ایک‬
‫) ‪ ،‬مرد ن‬
‫)ےکھایا‬ ‫اكل‬ ‫= اس ایک مرد )نےکھولا‬ ‫فَتَحَ‬

‫= کيون‬
‫‪-‬‬ ‫لم‬
‫= اب ابھی ۔ (نصبپر مبنی ہے )‬ ‫االلْآاننَ‬

‫= ابتک‬ ‫إِلَىالْآنَ‬

‫مشق نمبر ‪۲۹‬‬

‫اردومیں ترجمہکریں ‪:‬‬

‫( ‪ )٥‬لِمَ مَا‬ ‫( ‪ ) ۲‬كَتَبَ الْمُعَلِّمُ‬ ‫( ‪ ) ۳‬ضَحِكَتَا‬ ‫( ‪ ) ۲‬فَرِحْتُنَّ‬ ‫( ‪ )1‬دَخَلَ مُعَلَّمٌ‬

‫( ‪ ) 9‬لِمَ‬ ‫(‪ ) ۸‬فَرِحْتَ الْآنَ‬ ‫(‪ ) ٢‬فَتَحَ الْبَوَّابُ ( ‪ ) ٤‬قَرَاتْ فَاطِمَةُ‬ ‫أكَلُوْا إلى الأن‬

‫( ‪ )۱۳‬قَرُبَ بَوَّابٌ‬ ‫( ‪ )۱۲‬اكَلَتْ طِفْلَةٌ‬ ‫( ‪ )11‬غَلَبْتُمَا‬ ‫( ‪ ) 1‬كَتَبْنَ‬ ‫بَعْدُ ثُمْ‬

‫( ‪ )۱۳‬ضَحِكَتِالْأُمُّ ( ‪ )١٥‬مَا ضَحِكَتِ الْمُعَلَّمَةُ (‪ )١٢‬لِمَ مَا كَتَبْتُمْإِلَى الْأَنَ‬


‫عربی میں ترجمہکریں ‪:‬‬

‫( ‪ )۳‬ایک استانی نے پڑھا‬ ‫(‪ ) ۲‬تو خوش ہوئی‬ ‫( ‪ )۱‬ہم سب لوگ نے‬

‫( ‪ ) ۶‬میں نے کھولا‬ ‫( ‪ ) ۵‬ایک دربان دور ہوا‬ ‫( ‪ ) ۴‬تم لوگوں نے کیوںکھایا‬

‫( ‪ ) ۷‬تم سب داخل ہوئیں (‪ )۸‬جماعت غالبہوئی ۔‬


‫‪۲۱‬‬

‫جملہ فعلیہ کے مزید قواعد‬

‫‪ ۳۱ : ۱‬گزشتہ سبق میں آپ نے سادہ جملہ فعلیہ کیکچھ مشقکرلی ہے ۔ اب جملہ‬

‫فعلیہکا ایک اہم قاعدہ یادکر لیں اور وہ یہکہ جبفاعلکوئی اسم ظاہر ہو تو جملہ فعلیہ‬

‫میں فعل ہمیشہ صیغہ واحد میں آئے گا ۔ فاعل چاہے واحد ہو ‪ ،‬تثنیہ ہو یا جمع ہو ۔ یہ‬

‫بات آپآگے دی ہوئی مثالوںکی مدد سے خوب ذہن نشینکرلیں ۔‬

‫)‬
‫‪ ۳۱۲‬مثلا ہمکہیں گے دَخَلَ الْمُعَلمُ ( استاد داخل ہوا ) دَخَلَ الْمُعَلِّمَانِ ( دو‬

‫استاد داخل ہوئے ) اور دَخَلَ الْمُعَلِمُونَ ( استاتذہ داخل ہوئے ۔ ان جملوں میں‬

‫فاعل اسم ظاہر ہے اور وہ ہے لفظ " المعلم " ۔ پہلے جملہ میں یہ واحد ہے ‪،‬دوسرے‬

‫میں تثنیہ اور تیسرے میں جمع ہے ۔ اب آپ غورکریںکہ تینوں جملوں میں فعل صیغہ‬

‫واحد میںآیا ہے ۔‬

‫‪ ۳۱ :‬مذکورہ بالا قاعدہ میں فعل واحد تو آئےگا لیکن جنس میں اس کا صیغہ فاعل‬

‫کی جنس کے مطابق ہوگا ۔ یعنی فاعل اگر مذکر ہے تو فعل واحد مذکرآئےگا ۔ جیساکہ‬

‫اوپر کی مثالوں میں ہے ۔ لیکن فاعل اگر مؤنث ہے تو فعل واحد مؤنث آئےگا ۔ مثلاً‬

‫كَتَبَتْ مُعَلِّمَةٌ ( ایک استانی نے لکھا ) ‪ ،‬كَتَبَتْ مُعَلِّمَتَانِ (کوئی سی دو استانیوں نے‬

‫لکھا ) اور "كَتَبَتْ مُعَلِّمَاتٌ " (کچھ استانیوں نے لکھا ) ۔ مندرجہ بالا مثالوں میں فاعل‬

‫کے معرفہ یا نکرہ ہونےکا فرق نوٹکر لیں ۔‬

‫‪ ۳۱ : ۴‬اب مذکورہ قاعدہ کے دو استثناء بھی نوٹکرلیں ۔ اولاً یہکہ اسم ظاہر‬

‫( فاعل‬
‫) اگر غیرعاقلکی جمع مکسرہو تو فعل عمو ماً واحد مؤنث آیا کرتا ہے ۔ مثلاً ذَهَبَتِ‬

‫وغیرہ ۔ ثانیاً یہ کہ تمیمن‬ ‫الْجِمَالُ ( اونٹ‬


‫) گئے ) ذَهَبَتِ النُّوقُ ( اونٹیاںگئیں‬

‫صورتیں ایسی ہیں جب فعل واحد مذکریا واحد مونث دونوں میں سےکسی طرحبھی‬

‫لانا جائز ہوتا ہے ۔ وہ صورتیں حسب ذیل ہیں ۔‬

‫اگر اسم ظاہر ( فاعل )کسی عاقل کی جمع مکسرہو ۔ مثلا طَلَبَ الرِّجَالُ يَا طَلَبَتِ‬ ‫(‪) i‬‬
‫‪۲۲‬‬

‫الرّجَالُ ( مردوں نے طلب کیا ) اور طَلَبَ نِسْوَةٌ يَا طَلَبَتْ نِسْوَةٌ (کچھ‬

‫بیا )وغیرہ سب جملے درست ہیں ۔‬


‫عورتوں نے طل ک‬

‫اگر اسم ظاہر فاعلکوئی اسم جمع ہو ۔ مثلاً غَلَبَ الْقَوْمُ يَاغَلَبَتِ الْقَوْمُ ( قوم‬ ‫(‪) ii‬‬

‫غالب ہوئی ) دونوں جملے درست ہیں ۔‬

‫(‪ )iii‬اگر اسم ظاہر فاعل مؤنث غیر حقیقی ہو ۔ مثلا طَلَعَ الشَّمْسُيَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ‬

‫( سورج طلوع ہوا ) ۔یہ دونوں جملے درست ہیں ۔‬

‫‪ ۳۱ : ۵‬ایک اہم باتیہ بھی نوٹکرلیںکہ فاعل اگر فعل سے پہلے آئےتو وہ جملہ‬

‫اسمیہ ہوگا اور ایسی صورت میں فعل عدد اور جنس دونوں پہلوؤں سے فاعل کے‬

‫مطابق ہوگا ۔مثلا الْمُعَلِّمُ ضَرَبَ ( استاد نے مارا ) الْمُعَلِّمَانِ ضَرَبَا (دو استادوں نے‬

‫ما را ) الْمُعَلِّمَاتُ ضَرَبْنَ ( استانیوں نے مارا ) وغیرہ ۔ ان مثالوں میں اسم " الْمُعَلِّمُ "‬

‫مبتدا ہے اور ضَرَبَ " اسکی خبر ہے ۔ دراصلضَرَبَ فعل اور پوشیدہ ضمیرفاعل‬

‫کے ساتھ ملکر جملہ فعلیہ ہے اوریہ پورا جملہ فعلیہ خبربن رہاہے ۔ اسی لئے صیغہ فعل‬

‫عدد اور جنس دونوں لحاظ سے مبتداکے مطابق ہے ۔‬

‫‪ ۳۱ : ۶‬امید ہے اوپر دیگئی مثالوں میں آپ نے یہ بات نوٹکرلی ہوگیکہ فاعل‬

‫چاہے فعل سے پہلے آئے یا بعد میں ترجمہ میںکوئی فرق نہیں پڑتا ۔ مثلاً ضَحِكَ‬

‫وو‬
‫الرَّجُلَانِ اور " الرَّجُلَانِ ضَحِكَا " دونوں کا ترجمہ ایک ہی ہے یعنی " دو آدمی‬

‫ہے " ۔البتہ دونوں میں یہ باریک فرق ضرور ہےکہ ضَحِكَالرَّجُلانِ جملہ فعلیہم اور‬

‫اس سوالکا جواب ہےکہکون ہنسا ؟ جبکہ الرَّجُلَانِ ضَحِكَا جملہ اسمیہ ہے اور اس‬

‫سوال کا جواب ہےکہ دو مردوں نےکیاکیا ؟‬

‫‪ ۳۱ : ۷‬یہ قاعدہ بھی نوٹکرلیںکہ اگر فاعل ایک سے زیادہ ( تثنیہ یا جمع ہوں اور‬

‫ان کے ایک کام کے بعد دوسرے کام کا ذکر بھی ہو تو پہلے کام کے لئے فعل کا صیغہ‬

‫واحد رہے گا کیونکہ وہ جملے کے شروع میں آرہا ہے مگر دوسرے کام کے لئے فاعلوں‬

‫کے مطابق صیغہ لگے گا مثلا جَلَسَ الرّجَالُ وَاكَلُوا ( مرد بیٹھے اور انہوں نےکھایا)‬
‫‪۲۳‬‬

‫اور كَتَبَتِ الْبَنَاتُ ثُم قَرَانَ (لڑکیوں نے لکھا پھرپڑھا ) وغیرہ ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫= وہ ایک مرد )گیا‬ ‫ذَهَبَ‬ ‫= وہ ایک مرد )بیٹھا‬


‫‪-‬‬ ‫جَلَسَ‬

‫= وہ (ایک مرد )کامیابہوا‬ ‫= وہ ایک مرد )آیا‬ ‫قَدِمَ ‪+‬‬


‫نَجَحَ‬

‫= وہ ( ایک مرد )بیمار ہوا‬ ‫رضَ‬


‫ض‬ ‫مرِ‬
‫مَ‬ ‫وُقُودٌ) = وقد‬ ‫وَفدن‬

‫عَدُوّج أعداء ‪ -‬دشمن‬ ‫= پھر‬ ‫ثُمَّ‬

‫مشق نمبر ‪۳۰‬‬

‫اردو میں ترجمہکریں اور ترجمہ میں معرفہ اورنکرہ کا فرق ضرو رواضحکریں ۔‬

‫( ‪ )۳‬دَخَلَ وَلَدَانِ صَالِحَانِ ‪.‬‬ ‫( ‪ ) ۳‬اَلْأَوْلِيَاءُ قَرَبُوْا‬ ‫( ‪ ) ١‬قَربَ أَوْلِيَاءُ‬

‫( ‪ ) ٥‬الْمُعَلِمَةُ الْمُجْتَهدَةُ جَلَسَتْ عَلَى‬ ‫( ‪ ) ۳‬الْوَلَدَانِ الصَّالِحَانِ دَخَلَا‬

‫)‪ )(۶‬جَلَسَتْ مُعَلِمَةٌ مُجْتَهِدَةٌ عَلَى الْكُرْسِي ( ‪ ) ٤‬كَتَبَ الْمُعَلِّمُونَ‬


‫الكرسي ( ‪٢‬‬

‫( ‪ ) ۸‬دَخَلَفَاطِمَةُ وَزَيْنَبُ وَحَامِدٌ فِيالْبَيْتِ وَجَلَسُوا‬ ‫عَلَى الْوَرَقِ ثُمَّ قَرَءُوْا‬

‫عَلَى الْفَرْش ( ‪ ) ٩‬نَجَحَتِ الْبَنَاتُ فِي الْاِمْتِحَانِ وَفَرَحْنَ جِدًّا ( ‪ )10‬قَدِمَتِ‬

‫الْوُفُوْدُ فِيالْمَدْرَسَةِ‬

‫قوسین میں دیگئی ہدایت کے مطابق عربی میں ترجمہکریں ۔‬

‫( ‪ ) 1‬دشمن ( جمع ) دور ہوئے (جملہ اسمیہ و فعلیہ) (‪ )۲‬محنتی درزی بیمارہوئے‬

‫( ‪ ) ۳‬دو نیک لڑکیاں آئیں پھروہ بازارکی طرفگئیں ( جملہ‬ ‫جملہ اسمیہ و فعلیہ )‬

‫اسمیہ وفعلیہ ) ( ‪ ) ۴‬دل خوش ہوئے ( جملہ فعلیہ )‬


‫‪۲۴‬‬

‫فعللازم اور فعلمتعدی‬

‫‪ ۳۲ : ۱‬بعض فعل ایسے ہوتے ہیں جنہیں بات مکملکرنے کے لئے کسی مفعولکی‬

‫ضرورت نہیں ہوتی ۔ مثلاً جلس ( وہ بیٹھا ) ۔ ایسے افعالکو فعل لازمکہتے ہیں ۔ جبکہ‬

‫بعض فعلباتمکملکرنے کے لئے ایک مفعول بھی چاہتے ہیں جیسے ضَرَبَ ( اس نے‬

‫مارا ) ایسے افعالکو فعل مُتَعَذِیکہتے ہیں ۔‬

‫‪ ۳۲ : ۲‬اسی باتکو عام فہم بنانے کی غرض سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس فعل میں‬

‫کام کا اثر خود فاعل پر ہو رہا ہو وہ فعل لازم ہے ‪ ،‬جیسے جَلَسَ( وہ بیٹا) میں بیٹھنے کا اثر‬

‫خود بیٹھنے والے پر ہو رہا ہے ۔ اس لئے یہاں بات مفعول کے بغیرمکمل ہو جاتی ہے ۔‬

‫لیکن جس فعل میں کام کا اثر فاعلکی بجائےکسی دوسرےپر ہو رہا ہو تو وہ فعلمتعدی‬

‫‪ ،‬جیسے ضَرَبَ ( اس نے مارا ) میں مارنے والاکوئی اور ہے اور جسکو مارا جا رہاہے‬
‫ہے‬

‫وہکوئی اور ہے ۔ اس لئے یہاںپر بات مفعول کے ذکر ک ب‬


‫ےغیرنا مکمل رہے گی ۔‬

‫‪ ۳۲ : ۳‬اردو زبان میںکسی فعل کے بارے میں یہ جانناکہ وہ لازم ہے یا متعدی‬

‫بہت آسان ہے بلکہ درج بالا مثالوں کے مشاہدے سے آپ نے نوٹ بھی کر لیا ہوگا‬

‫کہ اردو میں فعل لازم کے لئے غائب کے صیغوں میں " وہ "آتا ہے ۔ جیسے "وہ‬

‫اس نے مارا "۔‬ ‫بیٹھا ۔ جبکہ فعل متعدی کے لئے ”اس نے " آتا ہے ۔ جیسے‬

‫دونوں قسم کے افعالکو پہچانے کا ایک دوسرا طریقہ یہ بھی ہےکہ آپفعل پر "کس‬

‫کو ؟ " کا سوالکریں ۔ اگر جوابممکن ہے تو فعل متعدی ہے ورنہ لازم۔ مثلاً‬

‫اس کا جواب‬
‫ممکن نہیں ہے ۔لہذا معلوم‬ ‫جَلَسَ ( وہ بیٹھا) پر سوالکریں "کس کو ؟‬

‫کس کو ؟ "‬ ‫ہوا کہ جَلَسَ فعللازم ہے ۔ جبکہ ضَرَبَ ( اس نے مارا ) پر سوالکریں‬

‫یہاں جواب ممکن ہےکہ فلاںکو مارا ۔ اس طرح معلوم ہوگیا کہ ضَرَبَ فعل متعدی‬

‫ہے (انگریزی گرامر میں فعل لازمکو ‪ Intransitive verb‬اور فعل متعدی کو‬

‫‪Transitive verb‬کہتے ہیں ) ۔‬


‫‪۲۵‬‬

‫‪ ۳۲ : ۴‬پیراگرافنمبر ‪ ۳۰ : ۲‬میں ہم آپکو بتا چکے ہیں کہکسی جملے کے کم ازکم‬

‫دو اجزاء ہوتے ہیں ۔ جملہ اسمیہ میں مبتدا اور خبر کے علاوہکچھ اور اجزاء بھی ہوتے‬

‫ہیں ‪ ،‬جنہیں " متعلق خبر "کہتے ہیں ۔ اسی طرحکوئی جملہ فعلیہ اگر فعل لازم سے‬

‫شروع ہو رہا ہے تو اس میں بات مفعول کے بغیرمکمل ہو جائےگی ۔ ایسے جملے میں اگر‬

‫کچھ مزید اجزاء ہوں گے تو وہ " متعلق فعل " کہلائیں گے ۔ مثلا جَلَسَ زَيْدٌ عَلَى‬

‫الكُرْسِيّ ( زید کرسی پر بیٹھا ) ۔ اس جملے میں عَلَى الْكُرْسِي ) مرکب جاری متعلق‬

‫فعل ہے ۔ لیکنکوئی جملہ فعلیہ اگر فعل متعدی سے شروع ہو گا تو اس میں فاعل کے‬

‫ساتھ کسی مفعولکی بھی ضرورت ہوگی ۔ ایسے جملے میں فاعل اور مفعول کے علاوہ جو‬

‫اجزاء ہوںگے وہ متعلق فعلکہلائیں گے ۔‬

‫‪ ۳۲ : ۵‬اب آپدو باتیں ذہن نشین کرلیں ۔ اولاً یہ کہ مفعولہمیشہ حالت نصب‬

‫میں ہو گا ۔ ثانیا یہ کہ جملہ فعلیہ میں عام طور پر پہلے فعل آتا ہے پھرفاعل اور اس کے‬

‫بعد مفعول اور جملے میں اگرکوئی متعلق فعل ہو تو وہ مفعول کے بعد آتا ہے ‪ ،‬مثلاً‬

‫ضَرَبَ زَيْدٌ وَلَدًا بِالسَّوْطِ ( زید نے ایک لڑکےکو کوڑے سے مارا ) ۔ اس جملے میں‬

‫ضَرَبَ فعل ہے ۔ زید حالت رفع میں ہے اس لئے فاعل ہے ۔ وَلَدًا حالت نصبمیں‬

‫ہے اس لئے مفعولہے ۔ اور بالشوط مرکب جاری ہے اور متعلق فعل ہے ۔‬

‫‪ ۳۲ :‬آپ کے ذہن میں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ جملہ فعلیہ کی جو ترتیب‬

‫پو اوپر بنائیگئی ہے ۔ وہ کوئی قاعدہکلیہ نہیں ۔ اکثر ایسا ہوتا‬


‫ہےکہ طرز تحریر یا‬ ‫آک‬

‫طرز خطابکی مناسبت سے یا کسی اور وجہ سے یہ ترتیب حسب ضرورتبدل دی‬

‫جاتی ہے ۔ لیکن سادہ جملہ میں ترتیب عموماً وہی ہوتی ہے جو آپکوبتائیگئی ہے چنانچہ‬

‫اس وقت ہم اپنی مشقکو سادہ جملوں تک محدود رکھیں گے تاکہ جملوں کے مختلف‬

‫اجزاء کی پہچان ہو جائے ۔ اس کے بعد جملوں میں یہ اجزاءکسی بھی ترتیب سے آئیں‬

‫آپکو انہیں شناختکرنے میں اور جملے کا صحیح مفہوم سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی ۔‬
‫‪ ۳۲ :‬آخری بات یہ ہے کہگزشتہ اسباق میں افعال کے معانی ہم نے صیغے کے‬

‫مطابقلکھے تھے ۔ لیکن اب ہم افعال کے سامنے انکے " مصدری " معافی لکھاکریں‬

‫گے ‪،‬مثلاً دَخَلَ کے معنی ”وہ ایک مرد داخل ہوا "کی بجائے " داخل ہونا " لکھیں‬

‫گے ۔ اس طرح مصدر کے معنی یادکرنے سے آپکو صیغہ کے مطابق ترجمہکرنے‬

‫میںکوئی مشکل نہیں ہوگی ۔ ان شاء اللہ ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫گزشتہ اسباق میں آپ نے جتنے افعال یاد کئے ہیں ان ہیکو ذیل میں دوبارہلکھ‬

‫کر انکے سامنے ان کے مصدری معنی دیئے گئے ہیں ۔ نیز ان میں جو افعال لازم ہیں‬

‫ان کے سامنے قوسین میں لام (ل) اور جو متعدی ہیں ان کے سامنے میم ( م) بھی لکھ‬

‫دیا گیا ہے تاکہ آپ نوٹکر لیںکہ کون سا فعل لازم ہے اورکون سا متعدی ۔ نیزان‬

‫کےمابین فرقکو بھی آپ اچھی طرح ذہن نشینکر لیں ۔‬

‫= خوش ہونا‬
‫فَرِحَ (ل) ‪-‬‬ ‫دَخَلَ (ل) = داخل ہونا‬

‫ضَحِكَ (ل) ‪ -‬ہنسنا‬ ‫غَلَبَ ( ل ) ‪ -‬غالبہونا‬

‫= دور ہونا‬ ‫بعد (ل)‬ ‫قَرُبَ ( ل) = قریبہونا‬

‫= کھولنا‬ ‫فَتَحَ (م )‬ ‫= پڑھنا‬ ‫قرءَ (م)‬

‫= کھانا‬ ‫اگل ( م)‬ ‫كَتَبَ (م) = لکھنا‬

‫نَجَحَ (ل ) ‪ -‬کامیابہونا‬ ‫جَلَسَ(ل ) = بیٹھنا‬

‫ذَهَبَ (ل ) = جاتا‬ ‫= آنا‬


‫‪-‬‬ ‫قَدِمَ (ل)‬

‫طِفْلج اطفال) ‪ -‬بچه‬ ‫مَرِضَ ( ل ) = بیمارہونا‬


‫‪۲۷‬‬

‫مشق نمبر ‪۳۱‬‬

‫اردو میں ترجمہکریں ۔‬

‫كَتَبَمُعَلِّمُكِتَابًا بِقَلَمِ الرَّصَاصِ ‪-‬‬ ‫(‪)1‬‬

‫فَرَنَتِ الرِّجَالُ الْقُرْآنَ فِي الْمَسَاجِدِ‬ ‫(‪)٣‬‬

‫( ‪ ) ۳‬الرّجَالُ قَرَءُوا الْقُرْآنَ فِي الْمَسَاجِدِ‬

‫(‪ ) ۴‬ذَهَبَالنِّسَاءُ إِلَى السُّوْقِ‬

‫( ‪ )۵‬النِّسَاءُ ذَهَبْنَ إِلَى السُّوْقِ‬

‫قَدِمَالْاَوْلَادُ فِيالْمَسْجِدِ ثُمَّ ذَهَبُوابَعْدَ الصَّلُوةِ ‪-‬‬ ‫(‪) ۲‬‬

‫( ‪ ) ۷‬دَخَلَتْ فَاطِمَةُ وَزَيْنَبُ فِيالْبَيْتِ وَاكَلَنَا الطَّعَامَ ‪-‬‬

‫(‪ ) ۸‬فَاطِمَةً وَ حَامِدٌ دَخَلَافِيالْبَيْتِ وَأَكَلَا الطَّعَامَ ‪-‬‬

‫اَفَتَحْتِالْبَابَ؟ لَا مَا فَتَحْتُالْبَابَ‪-‬‬ ‫(‪) ٩‬‬

‫( ‪ ) ١٠‬اَفَتَحَتِالْبَابَ؟ نَعَمْ فَتَحَتِ الْبَابَ‪-‬‬

‫(‪ )11‬أَفَرَنْتُنَّالْقُرْآنَ الْيَوْمَ؟‬

‫( ‪ )۱۳‬نَعَمْ قَرَلْنَا الْقُرْآنَ الْيَوْمَ ‪-‬‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫دریان آیا اور اس نے دروازہ کھولا ۔(جملہ اسمیہ وفعلیہ)‬ ‫( ‪)1‬‬

‫اساتذہ مسجد میں آئے اور انہوں نے قرآن پڑھا پھروہ لوگ نمازکے بعد گئے ۔‬ ‫( ‪)۲‬‬

‫(جملہ فعلیہ واسمیہ )‬

‫( ‪ ) ۳‬بچوں نے انجیرکھائی ۔ (جملہ اسمیہ وفعلیہ)‬

‫(‪ ) ۴‬کیا تو نے انارکھایا ؟ جی نہیں ! میں نے نہیںکھایا ۔( جملہ فعلیہ )‬


‫‪۲۸‬‬

‫استعمال‬ ‫جملہ فعلیہ میں مرکباتکا‬

‫‪ ۳۳ : ۱‬گزشتہ سبق میں آپ نے سادہ جملہ فعلیہ میں اس کے اجزاءکی ترتیب‬

‫کبھی تھی ۔ اس ضمن میںیہ بھی نوٹکرلیںکہ جملہفعلیہ میں فاعل مفعولکبھی مفرد‬

‫الفاظ ہوتے ہیں ۔ مثلاً " استاد نے ایک لڑکےکو بلایا "کا عربی ترجمہ طَلَبَالْاسْتَاذُ‬

‫وَلَدًا ہے اور اس میں الاستاذ اور وَلَدًا دونوں مفرد الفاظ ہیں ۔ اَلْاسْتَاذُ فاعل‬

‫ہونے کی وجہ سے رفع میں ہے اور وَلَدًا مفعول ہونے کی وجہ سے نصبمیں ہے ۔‬

‫لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہو تا بلکہکبھی مرکبات بھی فاعلیا مفعول ہوتے ہیں ۔‬

‫‪ ۳۳ : ۲‬اگر کسی جملہ فعلیہ میں مرکبات فاعل یا مفعول کے طور پر آ رہے ہوں تو‬

‫انکی اعرابی حالت بھی اسی لحاظ سے تبدیل ہوگی مثلا طَلَبَالْأَسْتَاذُ الصَّالِحُ وَلَدًا‬

‫صَالِحًا ( ایک استاد نے ایک نیک لڑکے کو بلایا ) میںاَلْأَسْتَاذُ الصَّالِحُ مرکبتوصیفی‬

‫کہ وَلَدًا صَالِحًا بھی مرکب‬


‫ہے اورفاعل ہونےکی وجہ سے حالت رفع میں ہے جب‬

‫تو صیفی ہے لیکن مفعول ہونے کی وجہ سے حالت نصبمیں ہے ۔‬

‫‪ ۳۳‬مرکبتوصیفی کا اعراب معلومکرنے میں عمونا مشکل پیش نہیں آتی ۔‬ ‫‪۳‬‬

‫البتہ مرکب اضافی کا اعراب معلومکرنے کے لئے یہ بات ذہن نشینکرلیںکہ‬

‫مرکب اضافی کا اعراب صرف مضافپر ظاہر ہوتا ہے ۔ مثلاً ” اسکول کے لڑکے نے‬

‫۔ اسکا ترجمہ ہوگا ضَرَبَ وَلَدُ الْمَدْرَسَةِ وَلَدَ الْحَارَةِ ‪ -‬اس‬ ‫محلے کے لڑکےکو مارا‬

‫مثال میں وَلَدُ الْمَدْرَسَةِ میں وَلَدُ کی رفع جا رہی ہےکہ پورا مرکباضافی حالت رفع‬

‫میں ہے اس لئے فاعل ہے اور وَلَدَ الْحَارَةِ میں وَلَدَکی نصببتا رہی ہےکہ پورا‬

‫مرکب اضافی حالت نصبمیں ہے اس لئے مفعول ہے ۔یہ بھی یاد رہےکہ مرکب‬

‫اضافی کے واحد تثنیہ یا جمع میں ہونے کا فیصلہ بھی مضافکے عدد سےکیا جاتا ہے ۔‬
‫‪۲۹‬‬

‫ہیں کہ فعل کے ہر صیغے " میں فاعلکی ضمیرپوشیدہ ہوتی‬ ‫‪ ۳۳ : ۴‬ہم پڑھ چکے‬

‫لا ضَرَب کے معنی ہیں " اس ایک مرد ) نے مارا " یعنی اس میں ھو کی ضمیر‬ ‫ہے ۔‬

‫پوشیدہ ہے ۔ اسی طرح ضَرَبُوا میں ہم اور ضَرَبْتَ میں اَنْتَکی ضمیریں پوشیدہ‬

‫ہیں ۔ چنانچہ آپ نوٹکرلیںکہ اسکتاب کے حصہ اول کے پیراگراف نمبر‪۱۴ : ۴‬‬

‫میں جو ضمائر مرفوعہ دی ہوئی ہیں وہ کبھی بطور فاعل بھی استعمالہوتی ہیں ۔‬

‫‪ ۳۳ : ۵‬کسی جملہ فعلیہ میں اگر مفعولکی جگہ اسکی ضمیر استعمالکرنی ہو تو اس‬

‫کتاب کے حصہ اول کے پیراگراف نمبر ‪ ۱۹ : ۲‬میں دیگئی ضمائر استعمال ہوتی ہیں ۔ یہ‬

‫ضمیریں جب بطور مفعول استعمال ہوتی ہیں تو موقع محل کے لحاظ سے یعنی محلاً منصوب‬

‫مانی جاتی ہیں اسی لئے انکو " ضَمَائِرِ مُتَصِلَهُ مَنْصُوبَهُ " بھی کہتے ہیں ۔ مثلاً ضَرَبَهُ‬

‫اس ایک مرد ) نے اس ایک مرد )کو مارا " ضَرَبَهَا ”اس ایک مرد ) نے اس‬

‫) کو مارا "‬
‫اور ضَرَبَكِ " اس ایک مرد ) نے تجھے ( ایک مؤنث‬ ‫( ایک عورت)کو مارا‬

‫وغیرہ ۔‬

‫‪ ۳۳ :‬ضمیرکے بطور مفعول استعمال کے سلسلے میں دو باتیں مزید نوٹکرلیں ۔‬

‫( ‪ ) 1‬اگر یہکہتا ہوکہ " تم لوگوں نے اس ایک مردکی مددکی " تو اسکا ترجمہ نَصَرْتُمْ هُ‬

‫نہیں بلکہ نَصَرْتُمُوهُ ہو گا یعنی مفعول ضمیرکے استعمال کے لئے جمع مخاطمبذکر کی فاعل‬

‫ضمیر " تم " سے " نمو " ہو جاتی ہے ۔ البتہ اگر مفعول اسم ظاہرہو تو صیغۂ فعل اصلی‬

‫حالت میں رہے گا ۔ مثلا " نَصَرْتُمْ زَيْدًا " وغیرہ ۔ ( ‪ ) ۲‬واحد متکلم کی مفعول ضمیر‬

‫" ی " کے بجائے " نبی " لگائی جاتی ہے ۔ مثلا نَصَر نئی ” اس ( ایک مرد ) نے میری مدد‬

‫کی " وغیرہ ۔‬


‫ذخیرہ الفاظ‬

‫= اٹھانا بلندکرنا‬ ‫رَفَعَ ( م)‬ ‫= بیٹھنا‬


‫‪-‬‬ ‫قَعَدَ (ل)‬

‫سميع (م ) = سننا‬ ‫ذكر (لم ) = یادکرنا‪/‬یادکرانا‬

‫= گماکنرنا سمجھنا‬
‫حَسِبَ (م) ‪-‬‬ ‫حَمِدَ (م) ‪ -‬تعریف کرنا‬

‫شَرِبَ ( م) ‪ -‬پینا‬ ‫‪ -‬پیداکرنا‬ ‫خَلَقَ (م)‬

‫= مخط‬ ‫مَكْتُوبٌ‬ ‫خَرَجَ (ل ) ‪ -‬نکلتا‬

‫=‬ ‫فَ‬ ‫‪ -‬کھاتا‬


‫=‬ ‫طعام‬
‫پس تو‬

‫= یاد‬ ‫ذِكْرٌ‬ ‫‪-‬کچری عدالت‬ ‫ديوان‬

‫= بے کار بے مقصد‬ ‫عَبَتْ‬ ‫= کچھ نہیں سوائے اس کےکہ‬ ‫انَّمَا إِنَّمَا‬

‫مشق نمبر ‪۳۲‬‬

‫اردومیں ترجمہکریں ۔‬

‫وَلَدُ الْمُعَلَّمَةِ قَرَءَ الْقُرآنَ‬ ‫( ‪)1‬‬

‫قَرَءَالْأَوْلَادُالصَّالِحُونَ الْقُرْآنَ‬ ‫(‪) ۲‬‬

‫( ‪ ) ٣‬قَدِمَ بَوَّابُالْمَدْرَسَةِ وَفَتَحَ أَبْوَابَ الْمَدْرَسَةِ‬

‫هَلْ أَكَلْتِ طَعَامَكَ ؟ نَعَمْ أَكَلْتُطَعَامِي‬ ‫(‪) ٤‬‬

‫( ‪ ) ۵‬هَلْكَتَبْتُمْ دَرْسَكُمْ وَقَرَ تُمُوهُ ‪ :‬نَعَمْ كَتَبْنَا دَرْسَنَا لَكِنْ مَا قَرَتْنَاهُإِلَىالْآنَ‬

‫لِمَ ضَرَبْتُمُونِي ضَرَبْنَاكَ بِالْحَقِّ‬ ‫(‪) 1‬‬

‫( ‪ ) ۷‬ذَهَبْتُمْ إِلَىحَدِيْقَةِ الْحَيْوَانَاتِ وَضَحِكْتُمْعَلَى نَاقَةٍ سَمِيْنَةٍ ‪-‬‬

‫الْإِمَامُ الْعَادِلُجَلَسَفِيالدِّيوَانِ أَمَامَالرِّجَالِ ‪-‬‬ ‫(‪) ۸‬‬

‫لِمَ قَعَدْتْ أَمَامَ بَابِ الْحَدِيْقَةِ ؟ ذَهَبَبَوَّابُهَا إِلَى السُّوْقِ فَقَعَدْتُأَمَامَهُ‬ ‫(‪) 9‬‬
‫‪Σ‬‬
‫‪۳۱‬‬

‫( ‪ ) ١٠‬سَمِعَاللَّهُلِمَنْ حَمِدَهُ‬

‫(مِنَ الْقُرْآنِ )‬ ‫وَرَفَعْنَا لَكَذِكْرَكَ‬ ‫( ‪)1‬‬

‫مِنَ الْقُرْآنِ )‬ ‫( ‪ ) ١٣‬أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَكُمْ عَبَثًا‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫نیک بچی نے اپنا سبق پڑھا ۔ ( جملہ اسمیہ )‬ ‫(‪) 1‬‬

‫محلہ کی عورتیں مدرسہ میں داخل ہوئیں اور انہوں نے قرآن پڑھا ۔‬ ‫(‪) ۳‬‬

‫(جملہ فعلیہ )‬

‫( ‪ ) ۳‬مدرسہ کے اِس لڑکے نے اُس مدرسہ کے لڑکےکو مارا ۔ ( جملہفعلیہ )‬

‫( ‪ ) ۴‬حامد اور محمود مدرسہ میں آئے اور اپناسبق پڑھا ۔( جملہ اسمیہ وفعلیہ )‬

‫( ‪ ) ۵‬دو شاگرداپنے مدرسہ سے نکلے ۔( جملہ فعلیہ)‬

‫( ‪ ) ۲‬کچھ مرد آئے پھروہ بیٹھے اور انہوں نے دودھپیا ۔ ( جملہ فعلیہ )‬
‫}‪۳۲‬‬

‫فعلماضی مجهول‬

‫گرداناورنائبفاعلکا تصور‬

‫‪ ۳۴ : ۱‬اب تک ہم نے جتنے افعالپڑھتے ہیں وہ " فعل معروف "یا " فعل معلوم "‬

‫اے ۔‬
‫کہلاتے ہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ ایسے افعال کا فاعل جانا پہچانا یعنی معلوم ہوتہ‬

‫ملا ہمکہتے ہیں " حامد نے خط لکھا " اكتب حَامِدٌ مَكْتُوبًا ) یہاں ہمیں معلوم ہےکہ‬

‫مخط لکھنے والا یعنی فاعل حامد ہے ۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں ” اس نے خط لکھا "‬

‫رہی ہےکہ فاعلیعنی خط لکھنے والا‬


‫(كَتَبَ مَكْتُوبًا) تو یہاں بھی ( هو)کی پوشیدہ ضمیر بتا‬

‫کون ہے ۔ لیکن اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ خط لکھنے والاکون ہے ۔ صرف اتنا معلوم‬

‫تو اس جملہ میں فاعل نا معلوم یعنی مجھولہے ۔ اس لئے ایسے فعل‬ ‫خط لکھا گیا‬ ‫ہوکہ‬

‫فعل معروف " کو‬ ‫مجهول " کہتے ہیں ۔ انگریزی زبان میں‬ ‫کو دو فعل‬

‫‪ Active Voice‬اور فعل مجهول "کو ‪Passive Voice‬کہا جاتا ہے ۔‬

‫‪ ۳۴ : ۲‬کسی فعل کا ماضی مجمول بنانا بہت ہی آسان ہے ۔ اس لئےکہ عربی میں ماضی‬

‫مجھولکا ایک ہی وزن ہے اور وہ ہے " فعل " یعنی ماضی معروفکو کوئی بھی وزن ہو ‪،‬‬

‫مجهول ہمیشہ فعل کے وزنپر ہی آئےگا ۔ مثلا نَصَرَ ( اُس نے مددکی ) سے نصیر ( اسکی‬

‫مددکیگئی )وغیرہ ۔‬

‫‪ ۳۴ : ۳‬فعل مجہول میں چونکہ فاعل مذکور نہیں ہو تا بلکہ اسکی بجائے مفعول کا‬

‫ذکر ہوتا ہے ‪ ،‬اس لئے عربی گرامرمیں مجھول کے ساتھ مذکور مفعولکو مختصراً " نائب‬

‫الفاعل "کہہ دیتے ہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ فقرہ میں وہ فاعلکی طرحفعلکے بعد‬

‫آتا ہے یعنی اسکی جگہ لیتہاے ۔ ویسے عربیگرامرمیں نائب الفاعلکو " مَفْعُول مَا لَمْ‬
‫‪۳۳‬‬

‫"ہتے ہیں ۔یعنی وہ مفعول جس کے فاعل کا نامنہ لیاگیا ہو ۔‬


‫يُسمَّ فَاعِلُهُ ک‬

‫‪ ۳۴ : ۴‬یہ بات بھی یادرکھیں کہ نائب الفاعل ‪،‬فاعل کی طرح حالت رفع میں ہوتا‬

‫ہے ۔ مثلاکتب مکتوب ( ایک خط لکھا گیا ) وغیرہ ۔ آپپڑھ چکے ہیںکہ اگر جملہ میں‬

‫یہ مذکور ہوکہ فائلکون ہے تو اس صورت میں مفعولکو نائب الفاعل نہیںکہتے بلکہ‬

‫اس صورت میں مفعول حالت نصب میں ہی آتا ہے ۔ مثلاً كَتَبَ زَيْدٌ مَكْتُوبًا میں‬

‫فاعل " زَيْدٌ " مذکو رہے یا كَتَبْتُ مَكْتُوبا میں پوشیدہ ضمیرا نا بتا رہی ہے کہ فاعلکون‬

‫ہے ۔ اسی طرحكَتَبْتَ مَكْنُوبا میں اَنتَکی ضمیرجبکہ كَتَبَ مَكْتُوبًا میں ھوکی ضمیر‬

‫فاعلکی نشاندہی کر رہی ہے ۔ اسی لئے ان سب جملوں میں مَكْتُوبًا مفعول ہے اور‬

‫حالت نصبمیں ہے ۔‬

‫‪ ۳۴ : :‬چنانچہ مذکورہ مثالوںکو ذہن میں رکھ کر یہ بات اچھی طرح سمجھ لیںکہ‬

‫مكتوب صرف اور صرف اس حالت میں نائب الفاعلکہلائے گا جب اس سے پہلے‬

‫کوئی فعل مجہول ہو ۔ مثلاً كُتِبَ ( لکھا گیا ) ‪ ،‬قُرءَ ( پڑھا گیا ) سُمِعَ ( سنا گیا ) اور فهم‬

‫(سمجھا گیا ) وغیرہ کے بعد اگر ( مكتوب) آئے گا تو نائب الفاعلکہلائے گا اور ہمیشہ‬

‫حالت رفع میں ہوگا۔‬

‫‪ ۳۴ :‬یہ بات بھی ذہن نشین کرلیںکہ کسی جملہ میں اگر نائب الفاعل مذکورنہ ہو‬

‫تو مجمول صیغہ میں موجود ضمیریں ہی نائب الفاعلکی نشاندہیکریں گی ۔ خلا شرب ماء‬

‫( پانی پیا گیا ) میں تو مان نائب الفاعل ہے لیکن اگر ہم صرف خُوبکہیں جس کا مطلب‬

‫ہے وہ پیا گیا تو یہاں " وہ "کی ضمیر اس چیزکی نشاندہی کر رہی ہے جو پی گئی ہے ۔ اس‬

‫لئے قرب میں ھوکی ضمیرنائب الفاعل ہے ۔ اسی طرح ضربت(تو مارا گیا )میں انتَ‬

‫کی ضمیر نائب الفاعل ہے ۔‬

‫‪ ۳۴ :‬آپ ماضی معروف کی گردان سیکھ چکے ہیں اب نوٹکر لیں کہ ماضی‬

‫مجهولکی گردان بھی اسی طرحکی جاتی ہے بلکہ اس میں یہ آسانی بھی ہےکہ صرف‬
‫‪۳۴‬‬

‫ایک ہی وزن فعلکی گردان ہوگی ۔ یعنی فُعِلَ ‪ ،‬فَعِلَا فُعِلُوْا فُعِلَتْ‪ ،‬فُعِلَنَا فَعِلْنَ‬

‫سے لےکر فعِلتُ ‪ ،‬فعِلنا تک ۔ دوبارہ نوٹکرلیںکہ ماضی معروفکی گردان کے ہر‬

‫صیغہ میں موجود ضمیر فاعل کا کام دیتی ہے جبکہ ماضی مجہول کے ہر صیغہ میں موجود ضمیر‬

‫نائب الفاعل کاکام دے رہی ہوتی ہے ۔‬

‫مشق نمبر ‪ ( ۳۳‬الف )‬

‫مندرجہ ذیل افعال سے مجہولکی گردانکریں اور ہر صیغہکا ترجمہ لکھیں ‪:‬‬

‫(‪ ) 1‬طَلَبَ (‪ ) ۲‬حَمِدَ (‪ )۳‬نَصَرَ‬

‫مشق نمبر ‪ ( ۳۳‬ب )‬

‫مندرجہ ذیل افعالکے متعلق پہلے بتائیںکہ وہ لازم ہیں یا متعدی معروف ہیں‬

‫یا مجهول اور انکا صیغہکیا ہے ‪ ،‬پھرانکا ترجمہکریں ۔‬

‫( ‪ ) 1‬شَرِبْنَا ( ‪ ) ۲‬خُلِقَا ( ‪ ) ۳‬حُمِدْتَ ( ‪ ) ۴‬طُلِينَ ( ‪ )۵‬فَعَدْتُ (‪ ) ۲‬خَلَقْتَ‬

‫( ‪ )2‬رُفِعُوا ( ‪ ) ۸‬ضَرَبْتُمْ ( ‪ ) ۹‬سَمِعْتِ ( ‪ ) ۱۰‬غَفَرْتُنَّ (‪ )11‬سَمِعْتِ‬


‫‪۳۵‬‬

‫و مفعول والے متعدی افعالکی مشق‬

‫‪ ۳۵ : ۱‬پیراگراف ‪ ۳۲ : ۱‬میں آپپڑھ چکے ہیںکہ فعللازم میں مفعولکے بغیر‬

‫صرف فائل سے بات پوری ہو جاتی ہے ۔ جبکہ فعلمتعدی میں مفعول کے بغیربات‬

‫پوری نہیں ہوتی ۔ اب نوٹکر لیںکہ بعض متعدی افعال ایسے بھی ہوتے ہیں جن‬

‫کو بات پوری کرنے کے لئے دو مفعولکی ضرورت ہوتی ہے ۔مثلاً اگر ہمکہیں کہ‬

‫حامد نے گمانکیا حَسِبَ حَامِدٌ) تو سوال پیدا ہوتاہے کہ کس کے متعلق گمانکیا ؟‬

‫اباگر ہمکہیں کہ حامد نے محمودکو گمانکیا حَسِبَ حَامِدٌ مَحْمُودًا) تببھی بات‬

‫ادھوری ہے ۔ سوال باقی رہتاہے کہ محمود کو کیا گمانکیا ؟ جب ہمکہتے ہیںکہ حامدنے‬

‫محمود کو عالم گمان کیا حَسِبَ حَامِدٌ مَحْمُودًا عَالِمًا ) تب بات پوری ہوتی ہے ۔‬

‫ایسے افعالکو " الْمُتَعَدِي إِلَى مَفْعُوْلَيْنِ "کہتے ہیں اور دوسرا مفعول بھی حالت‬

‫نصبمیں ہوتا ہے ۔‬

‫‪ ۳۵ : ۲‬اب یہ باتذہن نشینکرلیں کہ دو مفعول والے متعدی افعالکے لئے‬

‫جب مجہولکا صیغہ آتا ہے تو پہلا مفعول قاعدے کے مطابق نائب الفاعل بنکر حالت‬

‫رفع میں آتا ہے لیکن دوسرا مفعول بدستور حالت نصب میں ہی رہتا ہے ۔ مثلاً‬

‫حُسِبَ مَحْمُودٌ عَالِمًا ( محمودکو عالم گمانکیا گیا ) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۳۵ : ۳‬فعللازمکی تعریف ایک مرتبہ پھرذہن میں تازہکریں ۔ یعنی فعل لازم‬

‫وہ فعل ہے جس کے ساتھ مفعولآہی نہیں سکتا ۔ یہی وجہ ہےکہ فعللازم کا مجمول‬

‫بھی نہیں آتا ۔‬

‫‪ ۳۵ : ۴‬خیال رہے کہ یہ تو ہو سکتاہےکہ کسی فعل متعدیکا مفعولمذکور نہ ہو ۔‬

‫مگر فعل لازم کے ساتھ تو مفعولآہی نہیں سکتا ۔ مثلا بَعَثَ مُعَلَّمٌ ( ایک استاد نے‬

‫بھیجا ) ایک جملہ ہے مگر ہم اس میں مفعولکا اضافہکر کے بَعَثَ مُعَلَّمٌ وَلَدًا ( ایک استاد‬
‫‪۳۶‬‬

‫نے ایک لڑکے کو بھیجا )کہہ سکتے ہیں مگر جَلَسَ الْمُعَلِّمُ (استاد بیٹھا )کے بعدکوئی مفعول‬

‫نہیں لگایا جا سکتا ۔ اس لئے کہ جلس فعل لازم ہے ۔ چنانچہ جَلَسَ کا مجمول جُلِس‬

‫استعمال نہیں ہو سکتا ۔ جبکہ بَعَثَ چونکہ فعل متعدی ہے اس لئے اس کا مجمول بعث‬

‫استعماکلیا جا سکتا ہے باوجود اس کے کہ جملے میں اس کا مفعولنہ آیا ہو ۔‬

‫‪ ۳۵ : ۵‬اب آپ نوٹکریںکہ مشق نمبر ‪ ( ۳۳‬الف) میں آپ سے فعلاور فَعِل‬

‫کے وزن پر آنے والے افعالکی مجھولیگردانکرائی گئی لیکن فعل کے وزنپر آنے‬

‫والے کسی فعلکی مجھولی گردان نہیںکرائی گئی ۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ فعلکے وزن‬

‫پر آنے والے تمام افعال ہمیشہ لازم ہوتے ہیں جبکہ فعل اور فعل کے وزن پر لازم‬

‫اور متعدی دونوں طرح کے افعال آتے ہیں ۔ مثلاً جَلَسَ ( وہ بیٹھا) لازم ہے اور‬

‫رَفَعَ ( اس نے بلند کیا ) متعدی ہے ۔ اسی طرح فرح ( وہ خوش ہوا ) لازم ہے اور‬

‫شَرِبَ( اس نے پیا ) متعدی ہے ۔ لیکن فعلکے وزن پر آنے والے تمام افعاللازم‬

‫ہوتے ہیں مثلا بَعُدَ ( وہ دور ہوا ‪ ،‬ثَقُلَ ( وہ بھاری ہوا ) وغیرہ ۔ اس لئے اس وزن پر‬

‫آنے والےکسی فعلکا مجمولاستعمال نہیں ہوتا ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫‪1‬‬
‫=‬ ‫= پوچھنا مانگنا‬ ‫سَئَلَ‬
‫= خوفمحسوسکرنا‬ ‫وَجِلَ‬

‫=‬
‫‪ -‬آج‬ ‫الْيَوْمَ‬ ‫= اٹھانا بھیجنا‬
‫‪-‬‬ ‫بَعَثَ‬

‫= (گزرا ہوا )کل‬ ‫أمْسِ‬ ‫= (آنے والا )کل‬ ‫غَدًا‬

‫وَاجِبَاتُ الْمَدْرَسَةِ ‪ -‬ہومورک‬ ‫=گوای‬ ‫شَهَادَةٌ‬

‫ذلةٌ‬ ‫= روزہ رکھنا‬ ‫صِيَام‬


‫= ذلتخ‬
‫‪،‬واری‬

‫=‬ ‫=‬
‫‪ -‬فقیری کمزوری‬ ‫مَسْكَنَةٌ‬
‫‪ -‬بھاریہونا‬ ‫ثَقُلَ‬
‫‪۳۷‬‬

‫مشق نمبر ‪۳۴‬‬

‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫هَلْطَلَبْتَنِيفِي الدِّيوَانِ ؟لَا ‪ :‬مَا طَلَبْتُكَفِي الدِّيوَانِ‬ ‫(‪) 1‬‬

‫لِمَ طُلِيْتَفِي الدِّيوَانِ ؟ طَلِبْتُلِلشَّهَادَةِ‬ ‫( ‪)۳‬‬

‫( ‪ ) ۳‬حَسِبُوْاحَامِدًا عَالِمًا‬

‫(‪ ) ۴‬حُسِبَ حَامِدٌ عَالِمًا‬

‫كَتَبَوَلَدُكَ وَوَلدُهُ وَاجِبَاتِ الْمَدْرَسَةِ ثُمَّ بُعِنَا إِلَى السُّوْقِ‬ ‫(‪) ۵‬‬

‫ا أَنْتَ شَرِبْتَ لَبَنا ؟‬ ‫(‪) ۲‬‬

‫(‪ )۷‬شُرِبَلَبَنٌ‬

‫مِنَالْقُرْآنِ) ‪.‬‬

‫كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَاكُتِبَ عَلَىالَّذِيْنَمِنْ قَبْلِكُمْ‬ ‫(‪) ۸‬‬

‫ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُالذِلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ‬ ‫(‪)۹‬‬

‫( ‪ )١٠‬إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَاذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫ایک شخص نے ایک بڑے شیر‬


‫کو قتلکیا۔‬ ‫(‪)1‬‬

‫(‪ ) ۲‬ایکبڑا شیر قتلکیا گیا ۔‬

‫( ‪ ) ۳‬میں نے حامد کے لڑکےکو طلبکیا ۔‬

‫( ‪ ) ۴‬حامد کالڑ کا طلبکیا گیا ۔‬

‫(‪ ) ۵‬حامد نے محمودکو نیکگمانکیا ۔‬

‫(‪ ) ۶‬محمودکو نیک گمانکیا گیا‬


‫۔‬
‫‪۳۸‬‬

‫فعلم‬
‫ضارع‬

‫مضارع معروفکی گردان او ر اوزان‬

‫پوبتایا تھا کہ عربی میں‬


‫‪ ۳۶ : ۱‬سبق نمبر‪ ۲۹‬کے پیراگراف ‪ ۲۹ : ۵‬میں ہم نے آک‬

‫بھی بلحاظ زمانہ فعلکی تقسیم سہگانہ ہے یعنی ماضی ‪،‬حال اور مستقبل ۔ اس کے بعد ہم‬

‫نے فعل ماضی کے متعلق کچھ باتیں سمجھی تھیں ۔ اب ہم نے حال اور مستقبل کے‬

‫متعلقکچھ باتیںسمجھنی ہیں ۔ اس ضمن میں سب سے پہلی بات یہ نوٹکر لینکہ عربی‬

‫میں حال اور مستقبل دونوں کے لئے ایک ہی فعل استعمال ہوتا ہے جسے " فعل‬

‫مُضَارِع "کہتے ہیں ۔ مثلاً فعل ماضی " فَتَحَ " ( اس نےکھولا ) کا مضارع " يَفْتَحُ " بنا‬

‫ہے اور اس کے معنی ہیں ”وہکھولتا ہے یا وہ کھولے گا " ۔گو یا فعل مضارعمیں بیک‬

‫وقت حال اور مستقبل دونوںکا مفہوم شامل ہوتا ہے ۔‬

‫‪ ۳۶ : ۲‬فعل ماضی سے فعل مضارع بنانے کے لئے کچھ علامتیں استعمال ہوتی ہیں‬

‫جو چارہیں یعنی ی ‪ -‬ت ‪ -‬ا‪ -‬ن ‪ ( -‬انکو ملا کر " بنانِ "بھی کہتے ہیں ) ۔کسی صیغے پر کون‬

‫سی علامت لگائی جاتی ہے ؟ اس کا علم آپکو ذیل میں دیگئی فعل مضارعکی گردان‬

‫سے ہو گا ۔ اس لئے پہلے آپگردانکا مطالعہ کر لیں پھراس کے حوالہ سے کچھ باتیں‬

‫پو سمجھتی ہوںگی ۔‬


‫آ ک‬

‫تثنیہ‬ ‫واحد‬

‫يَفْعَلُونَ‬ ‫ذکر‬
‫يَفْعَلَانِ‬ ‫يَفْعَلُ‬

‫نصب( مرد) کرتے ہیںیاکرینگے‬ ‫ور مرد کرتے ہیںیاکرینگے‬ ‫وہایک مردکرتا ہےیاکریگا‬ ‫غالب‬

‫يَفْعَلْنَ‬ ‫تَفْعَلُ‬ ‫مونث‬


‫تَفْعَلَانِ‬

‫‪ 100‬عورتیں کرتی ہیںیاکرینگی وب(عورتیں کرتی ہیںیاکرینگی‬ ‫)کرتی ہےیاکریگی‬


‫ایک(عورت‬
‫‪۳۹‬‬

‫جمع‬ ‫واحد‬
‫تثنیہ‬

‫تَفْعَلُوْنَ‬ ‫تَفْعَلَان‬ ‫تذکر‪:‬‬


‫تَفْعَلْ‬

‫تم سب( مرد کرتے ہویاکروگے‬ ‫تمروز مرینکرتے ہو یاکروگے‬ ‫تو ایک مردکرتا ہیےا کریگا‬

‫تَفْعَلْنَ‬ ‫تَفْعَلَان‬ ‫تَفْعَلِيْنَ‬ ‫مونث‬

‫تم سب عورتیںکرتیہویاکروگی‬ ‫تماور عورتیں کرتی ہویاکروگی‬ ‫)تکرتی ہےیا کریگی‬


‫توایک(عور‬

‫نَفْعَلُ‬ ‫نَفْعَلُ‬ ‫مذکرمونث‪ :‬افعل‬

‫ہمکرتے ہیںیا کریںگے اور‬ ‫ہمکرتے ہیں یاکریںگے اور‬ ‫میں کرتاہوں یا کروںگا اور‬

‫ہکمرتی ہیںیا کریںگے‬ ‫ہکمرتی ہیں یاکریںگی‬ ‫میں کرتی ہوںیا کروںگی‬

‫‪ ۳۶ : ۳‬اب ذیل میں دیئے ہوئے نقشے پر غورکر کے مختلف صیغوںمیں ہونے والی‬

‫تبدیلیوںکو ذہن نشین کر لیں ۔ حسب معمول اس میں ف ع لکلماتکو تین چھوٹی‬

‫لکیروں سے ظاہرکیاگیاہے ۔‬

‫جمع‬ ‫واحد‬
‫تثنیہ‬

‫ونَ‬ ‫تذکر ‪:‬‬ ‫غائب‬

‫‪2‬‬ ‫‪2.‬‬ ‫ވ‬ ‫تَ‬ ‫مؤنث ‪:‬‬

‫‪2428‬‬ ‫مخاطب‬
‫ونَ‬ ‫تذکر ‪:‬‬
‫ان‬

‫‪2428‬‬
‫نَ‬ ‫تَد ‪-‬‬ ‫تَ ‪ - - -‬انِ‬ ‫ثَ ‪ - - -‬يُنَ‬ ‫مونث ‪:‬‬

‫نَ ‪2 - -‬‬ ‫‪2 = 21‬‬ ‫تذکر و مؤنث‬


‫متکلم‬

‫‪ ۳۶ : ۴‬مذکورہ نقشہ پر غورکرنے سے ایک باتیہ سمجھنی چاہئےکہ ماضی سے فعل‬

‫مضارع کا پہلا صیغہ بنانے کے لئے ماضی پر علامت مضارع " ی "لگاکرفاکلمہکو جزم‬

‫دیتے ہیں اور لامکلمہ پر ضمہ (پیش ) لگاتے ہیں ۔ صیغوںکی تبدیلیکی وجہ سے لامکلمہ‬
‫کی حرکات میں تبدیلی ہوتی ہے لیکن علامت مضارعکی فتحہ ( زبر) اور فاکلمہکی جزم‬

‫بر قرار رہتی ہیں ۔ جبکہ مین کلمہ پر تینوں حرکتیں یعنی ضمہ ( پیش ) ‪ ،‬فتحہ ( زبر) اورکسرہ‬

‫( زیر) آتی ہیں ۔گویا جس طرحماضی کے تین اوزان فَعَلَ‪ ،‬فَعِلَ اور فَعَلَ تھے ‪،‬اسی‬

‫طرح مضارع کے بھی تین اوزان يَفْعَلُ يَفْعِلُ اور يَفْعُلُہیں ۔ جن کے متعلق‬

‫تفصیلی بات ان شاء اللہ اگلے سبق میں ہوگی ۔ ( اس سبق کی مشقکرتے وقت آپ‬

‫مشق میں دیئے گئے فعل مضارعکی مینکلمہ کی حرکت کا خاص خیال رکھیں اور اس‬

‫کے مطابقگردانکریں ۔ )‬

‫‪ ۳۶ : ۵‬مذکورہ بالا نقشہکی مدد سے دوسری باتیہ نوٹکریںکہ علامت مضارع‬

‫ی "مذکر غائب کے تینوں صیغوں کے علاوہ صرف جمع مؤنث غائب کے صیغہ میں لگائی‬

‫جاتی ہے جبکہ علامت "‪ " ۱‬صرف واحد متکلم اور علامت " ن " صرف جمع متکلم میں لگتی‬

‫ہے اورباقی آٹھ صیغوں میں علامت " ت " لگتی ہے ۔‬

‫‪ ۳۶ :‬امید ہے کہ آپ نے یہ بھی نوٹکر لیا ہوگاکہگردان میں " تَفْعَلُ" دو‬

‫صیغوں میں اور تَفْعَلانِ تین صیغوں میں مشترک ہے ۔ اسکی وجہ سے پریشان نہ‬

‫ہوںکیونکہ یہ جب جملوں میں استعمال ہوتے ہیں تو عبارت کے سیاق وسباقکی مدد‬

‫سے صحیح صیغہ کے تعین میں مشکل پیش نہیں آتی ۔‬

‫‪ ۳۶ :‬فعل مضارع کے متعلق مزید باتیں سمجھنے سے پہلے ضروری ہےکہ آپ‬

‫مضارعکی گردان یادکرلیں (یا اپنے قلمکو یادکروا دیں ) اور اسکی مشقکرلیں ۔‬

‫ذیل میں چھ افعال مضارع ایسے دیے جا رہے ہیں جن کے ماضی کے معنی آپ پڑھ‬

‫چکے ہیں ۔ ان سبکی مضارعکی گردان ( مع ترجمہ )کرتے وقت میںکلمہکی حرکت‬

‫کا خاص خیال رکھیں ۔‬

‫مشق نمبر ‪۳۵‬‬

‫(‪ ) 1‬يَبْعَثُ ( ‪ ) ۲‬يَفْرَحُ ( ‪ ) ۳‬يَحْسِبُ ( ‪ ) ۳‬يَغْلِبُ ( ‪ )٥‬يَدْخُلُ (‪ ) ۲‬يَقْرُبُ‬


‫‪3‬‬

‫مضارعمیں صرف مستقبل یا نفی‬

‫کے معنیپیدا کرنا اور مضارعمجہول بنانا‬

‫‪ ۳۷ : ۱‬مضارعکیگردان یادکر لینے اور اس کے صیغوںکو پہچان لینے کے بعد‬

‫مناسب ہے کہ آپ انکو جملوں میں استعمالکرنے کی مشقکر لیں ۔ لیکن مشق‬

‫شروعکرنے سے پہلے مضارعکے متعلق چند مزید باتیں ذہن نشینکرلیں ۔‬

‫‪ ۳۷ : ۲‬اگر فعل مضارعمیں مستقبل کے معنی مخصوص کرنے ہوں تو مضارع‬

‫سے پہلے سی لگا دیتے ہیں ۔ مثلا يَفْتَحُ کے معنی ہیں ”وہکھولتا ہے یاکھولےگا " ۔ لیکن‬

‫سَيَفْتَحُ کے صرفایک معنی ہیں ”وہکھولےگا "۔‬

‫‪ ۳۷ :‬مضارعکو مستقبل سے مخصوصکرنے کا دوسرا طریقہ یہ بھی ہےکہ اس‬

‫قبل سَوْفَ کا اضافہ کر دیتے ہیں جس کے معنی ہیں (عنقریب) مثلاً سوف‬

‫تَعْلَمُونَ ) عنقریب یعنی جلد ہی تم جان لو گے ) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۳۷ : ۴‬ماضی میں اگر نفی کے معنی پیداکرنے ہوں تو اس سے پہلے مالگاتے تھے ۔‬

‫جیسے مَا ذَهَبْتُ ( میں نہیںگیا ) ۔ اب نوٹکریں مضارع میں نفی کے معنی پیداکرنے‬

‫کے لئے لا لگایا جاتا ہے ۔ مثلاً لا تَذْهَبُ ( تو نہیں جاتا ہے یا نہیں جائےگا ) ۔ استثنائی‬

‫صورتوںمیں ما بھی لگا دیا جاتا‬


‫ہے جیسے مَا يَعْلَمُ (وہ نہیں جانتا ہےیا نہیں جانے گا ) ۔‬

‫‪ ۳۷ : ۵‬مضارعکا مجمول بنانے میں بھی وہی آسانی ہے جو ماضی مجہول میں ہے یعنی‬

‫مضارع معروف يَفْعَلُ يَفْعِلُ اور يَفْعُلُ میں سے کسی وزن پر بھی آئے ان سب‬

‫کے مجہولکا ایک ہی وزن يُفْعَلُ ہوگا ۔ مثلا يَفْتَحُ(وہکھولتا ہے یاکھولے گا )سے يُفْتَحُ‬

‫وہ کھولا جاتا ہے یا کھولا جائے گا ) يَضْرِبَ ( وہ مارتا ہے یا مارےگا ) سے يُضرب (وہ‬

‫مارا جاتاہے یا مارا جائےگا) اور يَنصُرُ( وہ مددکرتا ہےیا مددکرےگا ) سے يُنصَرُ( وہ مدد‬

‫کیا جاتا ہے یا مددکیا جائےگا ) وغیرہ ۔‬


‫‪۴۲‬‬

‫مشق نمبر ‪۳۶‬‬

‫هَلْ تَفْهَمُ الْقُرْآنَ ؟ لَا أَفْهَمُ الْقُرْآنَ‬ ‫(‪) 1‬‬

‫هَلْيَفْهَمُونَ اللَّسَانَالْعَرَبِيَّ نَعَمْ يَفْهَمُوْنَهُ‬ ‫( ‪)۳‬‬

‫( ‪ ) ٣‬هَلْكَتَبْتُمْ وَاجِبَاتِ الْمَدَرَسَةِ ؟ لَا بَلْسَوْفَنَكْتُبُهَا‬

‫هَلْتَشْرَبْنَ الْقَهْوَةَ نَحْنُ لَا تَشْرَبُ الْقَهْوَةَ ‪-‬‬ ‫(‪)٢‬‬

‫( ‪ )٥‬هَلْ بُعِثْتُمَا إِلَى الدِّيوَانِ الْيَوْمَ لَا بَلْتُبْعَثُ غَدًا‬

‫مِنَ الْقُرآنِ ‪.‬‬

‫النَّجْمُ وَالشَّجَرُيَسْجُدَانِ‬ ‫(‪) 1‬‬

‫( ‪ ) ۷‬فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ هُوَفِي ضَلْلٍ مُّبِيْنٍ‬

‫(‪ ) ۸‬إِنَّ اللهَ لَايَظْلِمُ النَّاسَشَيْئًا‬

‫قُلْ يَايُّهَا الْكَفِرُونَ ‪ -‬لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ‬ ‫(‪)٩‬‬

‫عربی میں ترجمہکریں‬

‫آج باغکا دروازہکھولا جائے گا ۔‬ ‫(‪)1‬‬

‫آجباغ کا دروازہ نہیں کھولا جائےگا ۔‬ ‫(‪)۲‬‬

‫( ‪ ) ۳‬دربانکہاںگیا ؟ میں نہیں جانتا وہ کہاںگیا۔‬

‫( ‪ ) ۴‬تم سبکس کی عبادتکرتے ہو ؟ ہم ساب‬


‫للہ کی عبادتکرتے ہیں ۔‬

‫کیا تو جانتا ہےکس نے تجھ کو پیداکیا ؟ میں جانتا ہوں اللہ نے مجھکو پیداکیا۔‬ ‫( ‪)۵‬‬

‫تم لوگ جانتے ہو جو میںکرتا ہوں اور میں جانتا ہوں جو تم لوگکرتے ہو ۔‬ ‫(‪) ۲‬‬
‫‪۴۳‬‬

‫ابواب ثلاثی مجرد‬

‫‪ ۳۸ : ۱‬گزشتہ اسباق میں آپ نے یہ سمجھا تھاکہ عین کلمہ پر حرکاتکی تبدیلی کی‬

‫وجہ سے ماضی کے تین وزن ہیں یعنی فَعَلَ ‪ ،‬فَعِل اور فعل۔ اور اسی طرح مضارع‬

‫کے بھی تین وزن ہیں یعنی يَفْعَلُ‪ :‬يَفْعِلُ اور يَفْعُلُ ۔ اب سوالپیدا ہوتا ہےکہ اگر‬

‫کسی فعلکا ماضی ہمیں معلوم ہو تو اس کا مضارع ہمکس و زن‬


‫پر بنائیں ؟ اس سبق ‪.‬‬

‫میں ہم نے یہی بات سمجھنی اور سیکھنی ہے ۔‬

‫‪ ۳۸ : ۲‬اگر ایسا ہوتا کہ ماضی میں عین کلمہ پر جو حرکت ہے مضارعمیں بھی وہی‬

‫رہتی یعنی فَعَلَ سے يَفْعَلُ فَعِلَ سے يَفْعِلُ اور فعل سے يَفْعُلُ بنتا تو ہمارا اور آپکا‬

‫کام بہت آسان ہو جاتا ۔ لیکن صورت حال ایسی نہیں ہے ۔ بلکہ حقیقی صورتحالکچھ‬

‫اس طرح ہےکہ مثالکے طور جو افعال ماضی میں فَعَل کے وزن پر آتے ہیں ان میں‬

‫سے کچھ کا مضارع تو يَفْعَلُ کے وزن پر ہی بھی آتا ہے لیکن کچھ کا يَفْعِلُ اورکچھ کا‬

‫يَفْعُلُ کے وزنپر بھی آتا ہے ۔ اس صورت حالکو دیکھ کر طلباءکی اکثریت پریشان‬

‫ہو جاتی ہے ۔ حالانکہ یہ اتنی پریشانی کی بات نہیں ہے ۔ اس سبق میں ہمارا مقصد ہی یہ‬

‫ہے کہ آپکی پریشانی دورکی جائے اور آپکوبتایا جائے کہ آپ مضارع کا وزن‬

‫کیسے معلوم کریں گے اور اسے کیسے یاد رکھیں گے ۔ لیکن یہ طریقے سمجھنے سے پہلے‬

‫ضروری ہےکہ آپ اطمینان سے اور پوری توجہ کے ساتھ حقیقی صورت حال کا‬

‫مکمل خاکہ ذہن نشینکرلیں ۔ پھران شاء اللہ آپکو مشکلپیش نہیں آئےگی ۔‬

‫‪ ۳۸‬اوپر دی ہوئی مثال میں آپ نے دیکھاکہ فعل کے وزن پر آنے والے‬ ‫‪:‬‬

‫ماضی کے تمام افعال تینگروپمیں تقسیم ہو جاتے ہیں اور یہ تقسیم ان کے مضارع‬

‫کے وزنکی بنیاد پر ہوتی ہے ۔ یعنی ( ‪ ) ۱‬فَعَلَ يَفْعَلُ ( ‪ ) ۲‬فَعَلَ يَفْعِلُ اور ( ‪) ۳‬‬

‫فَعَلَ يَفْعُلُ ۔ اسی طرح اگر ہم فَعِل اور فعلکے وزن پر آنے والےماضی کے تمام‬
‫‪۴۴‬‬

‫افعال تین تین کے گروپمیں تقسیمکرلیں تو کلنوگروپوجود میں آتے ہیں ۔یعنی‬

‫( ‪ ) ٣‬فَعِلَ يَفْعَلُ( ‪ ) ۵‬فَعِلَ يَفْعِلُ( ‪ ) ۲‬فَعِلَ يَفْعُلُاور ( ‪ ) ۷‬فَعَلَ يَفْعَلُ( ‪ ) ۸‬فَعُلَ‬

‫يَفْعِلُ ( ‪ ) ۹‬فَعَلَ يَفْعُلُ ۔ لیکن نوٹکرلیںکہ عربی میں نو نہیں بلکہ صرف چھ گروپ‬

‫استعمال ہوتے ہیں ۔‬

‫‪ ۳۸ : ۴‬اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مذکورہ بالا نوگروپمیں سے کون سے چھ‬

‫گروپ استعمال ہوتے ہیں اور کون سے تین گروپ استعمال نہیں ہوتے ۔ اس‬

‫ضمنمیں مندرجہ ذیل باتوںکو سمجھ کر ذہن نشینکرلیں تو ان شاء اللہ باقی باتیں سمجھنا‬

‫اوریاد رکھنا آسان ہو جائیں گی ۔‬

‫( الف) فَعَل کے وزن پر آنے والے ماضی کے مضارع میں تینوںگروپ‬

‫استعمال ہوتے ہیں ۔ یعنی ( ‪ ) ۱‬فَعَلَ يَفْعَلُ ( ‪ ) ۲‬فَعَلَ يَفْعِلُاور ( ‪ ) ۳‬فَعَلَ يَفْعُلُ۔‬

‫(ب ) فَعِل کے وزن پر آنے والے ماضی کے مضارع میں دوگروپ استعمال‬

‫ہوتے ہیں ۔ یعنی ( ‪ ) ۴‬فَعِلَ يَفْعَلُ اور ( ‪ )۵‬فَعِلَ يَفْعِلُ ‪ -‬جَبكَ فَعِلَ يَفْعُلُاستعمال‬

‫نہیں ہوتا ۔‬

‫( ج ) فعل کے وزن پر آنے والے ماضی کے مضارعمیں صرف ایکگروپ‬

‫استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی ( ‪ ) ۲‬فَعَلَ يَفْعُلُ جبکہ فَعَلَ يَفْعَلُاور فَعُلَ يَفْعِلُاستعمال‬

‫نہیںہوتے ۔‬

‫‪ ۳۸ : ۵‬اب مسئلہ آتا ہے چھ میں سے ہر گروپکی پہچان مقرر کرنے کا ۔ اس کا‬

‫ایک طریقہ یہ تھا کہ اگر ہمیں بتایا جاتاکہ مادہ فتحگروپنمبراسے متعلق ہے تو‬

‫ہم سمجھ جاتےکہ اس کا ماضی فتح اور مضارع يَفْتَحُ آئے گا ۔ اسی طرح اگربتایا جاتا‬

‫که ماده ض رب کا تعلقگروپ نمبر‪ ۲‬سے ہے تو ہم ماضی ضَرَبَ اور مضارع‬

‫يَضْرِبُ بنا لیتے ۔ على هذا القياس‬

‫‪ ۳۸ : ۲‬لیکن عربی قواعد مرتبکرنے والوں نے طریقہ یہ اختیارکیاکہ ہرگروپ کا‬

‫نام " باب " رکھا اور ہرباب میں استعمال ہونے والے افعالمیں سےکسی ایک فعل‬
‫‪۴۵‬‬

‫) کا نمائندہ مقررکر دیا اور اسی پر اس باب کا‬


‫کو منتخبکر کے اسے اس باب (گروپ‬

‫نام رکھ دیا ۔ مثلاًگروپنمبرا کا نام باب فتح اور گروپنمبر‪ ۲‬کا باب ضَرَبَ رکھ دیا‬

‫وغیرہ ۔ اب ذیل میں ہر " مستعملگروپ " کے مقررکردہنام دیئے جارہے ہیں اور ہر‬

‫ایک باب کے ساتھ اس کے لئے استعمالکی جانے والی مختصر علامت بھی دی جا رہی‬

‫ہے جو کہ متعلقہ باب کے نام کا پہلا حرف ہی ہے ۔ انکو مجموعی طور پر " ابواب‬

‫ثُلاثِی مُجَرَّد " ( صرفمادے کے تین حروف سے بننے والے ابواب) کا نام دیا گیا‬

‫ہے ۔‬

‫علامت‬ ‫بابکا نام‬ ‫عینکلمہکی حرکت‬ ‫وزن‬ ‫گروپنمبر‬

‫مضارع‬ ‫ماضی‬

‫(ف)‬ ‫?‬ ‫)‪(1‬‬


‫فَتَحَ‪ -‬يَفْتَحُ‬ ‫فَعَلَ‪ -‬يَفْعَلُ‬

‫فَعَلَ‪ -‬يَفْعِلُ‬ ‫)‪(۲‬‬


‫(ض)‬ ‫ضَرَبَ ‪ -‬يَضْرِبُ‬ ‫‪7‬‬

‫(ن)‬ ‫نَصَرَ ‪ -‬يَنْصُرُ‬ ‫‪-‬‬ ‫فَعَلَ ‪ -‬يَفْعُلُ‬ ‫)‪(۳‬‬

‫(س)‬ ‫!‬ ‫)‪(۴‬‬


‫سَمِعَ ‪ -‬يَسْمَعُ‬ ‫‪7‬‬ ‫فَعِلَ ‪ -‬يَفْعَلُ‬
‫‪M‬‬
‫‪ད‬‬

‫(ح)‬ ‫حَسِبَ ‪ -‬يَحْسِبُ‬ ‫މ‬ ‫فَعِلَ ‪ -‬يَفْعِلُ‬ ‫)‪(۵‬‬


‫‪7‬‬

‫ވ‬ ‫)‪(۶‬‬
‫ک)‬‫(‬ ‫كَرْمَ ‪ -‬يَكْرُمُ‬ ‫فَعُلَ ‪ -‬يَفْعُلُ‬

‫‪ ۳۸ :‬ثلاثی مجرد کے ابواب کا نام عموماً ماضی اور مضارعکا پہلا پہلا صیغہ بولکر‬

‫لیا جاتاہے جیسا کہ اوپر نقشے میں لکھا گیا ہے ۔ تاہم اختصار کے لئے کبھی صرف ماضی کا‬

‫‪ ،‬باب سمع وغیرہ ۔گویا یہ فرضکر لیا‬


‫صیغہ بول دینا ہی کافی سمجھا جاتا ہے مثلا باب نصر‬

‫جاتا ہے کہ سننے والا ماضی کے صیغے سے اس کا مضارع سمجھ جاتا ہے ۔ اس لئے آپ‬

‫دے خوب اچھی طرح یادکر لیں ۔کیونکہ انکی‬


‫مس‬‫یدد‬
‫یم‬‫قےشکے‬
‫ک‬ ‫نقش‬
‫وو مندرجہ بالا ن‬
‫کبک‬
‫ان ابوا‬

‫گی ۔‬
‫آگے کافی ضرورتپڑے‬
‫‪۴۶‬‬

‫یپ‬
‫ا چھ ابواب‬ ‫‪ ۳۸ :‬امید ہے عربی میں استعمال ہونے والے افعال کے چھ گرو‬

‫کا خاکہ آپکے ذہن میں واضح ہوگیا ہو گا ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہےکہ ہمیں یہکس‬

‫طرح معلوم ہوکہکوئی فعلکس باب سے آتا ہے یعنی ماضی اور مضارع میں اس کے‬

‫عینکلمہکی حرکتکیا ہوگی ؟ تو اب نوٹکر لیجئے کہ اس علم کا ذریعہ اہل زبان ہیں ۔‬

‫یعنی وہ کسی فعل کا ماضی اور مضارع جس طرح استعمالکرتے ہیں ‪ ،‬ہمیں اسی طرح‬

‫سیکھنا اور یادکرنا ہوتا ہے ۔ اسکی مثال انگریزی کے فعلکی تین شکلیں ہیں جو اہل‬

‫زبان کے استعمالکے مطابق یادکرنی پڑتی ہیں ۔ اور اہل زبانکے اس استعمالکا پتہ‬

‫لغت یعنی ڈکشنری سے چلتاہے ۔ ڈکشنری سے جہاں ہمکسی فعل کے معنی یادکرتے ہیں‬

‫وہیں اس کا باب بھی یادکر لیتے ہیں اور اگرکسی فعل کے معنی اور باب ہم نےکسی‬

‫کتاب وغیرہ سے یادکئے تھے لیکن بھول گئے یا شبہ میں پڑ گئے تو اس وقت بھی ڈکشنری‬

‫سے مدد لے لیتے ہیں ۔‬

‫‪ ۳۸‬عربی لغتکی خصوصیت یہ ہےکہ اس میں الفاظ حروف تہجی کی ترتیب‬ ‫‪۹‬‬

‫سے نہیں لکھے ہوتے بلکہ ان کے مادے حروف تہجی کی ترتیب سے دیئے ہوتے ہیں ۔‬

‫مثلا تَفْرَحُنَ کا لفظ آ ک‬


‫پو " ت "کی پٹی میں نہیں ملےگا ۔ اس کا مادہ ف ر ح ہے ۔‬

‫اس لئے یہآپکوفکی پٹی میں ماروف رح کے تحت ملے گا اور اس کے ساتھ ہی یہ‬

‫نشاندہی بھی موجود ہو گیکہ یہ مادہکس باب سے آتا ہے ۔‬

‫‪ ۳۸ : ۱۰‬عربی لغتمیں مادہ کے ساتھ بابکا نام ظاہرکرنے کے دو طریقے ہیں ۔‬

‫( ‪ ) 1‬پرانی ڈکشنریوں میں عموماً مادہ کے ساتھ قوسین (بریکٹ ) میں متعلقہ بابکی‬

‫علامت لکھ دی جاتی ہے ۔ مثلا فرح (س ) خوش ہونا یعنی باب سَمِعَ يَسْمَعُ سے‬

‫فَرِح يَفْرح آتا ہے ۔ اب آپگردان کے صیغےکو سمجھکر تفرحن کا ترجمہ " تم سب‬

‫عورتیں خوش زنگی "کرلیں گے ۔ ( ‪ ) ۲‬جدید ڈکشنریوں میں ماضی کا صیغہ تو عینکلمہ‬

‫کی حرکت سے لکھتے ہیں پھر ایک لکیردے کر اسپر مضارعکی عین‬
‫کلمہکی حرکتلکھ‬

‫دیتے ہیں ۔ مثلا فَرِحَ ( ‪ ) -‬کا مطلببھی فَرِحَ يَفْرَحُ ہے ۔ ہم اسکتابمیں آپکو‬
‫‪۴۷‬‬

‫کسی فعلکا باببتانے کے لئے پہلا طریقہ استعمالکریں گے مثلا فرح کے آگے ( س )‬

‫لکھا ہوگا اور معنی لکھے ہوں گے ” خوش ہونا " اور (سن) دیکھ کر آپسمجھ جائیں گے‬

‫کہ اس کا ماضی فَرِحَ اور مضارع يَفْرَحُ ہے ۔ اس طرح باب فتح کے لئے (ف)‬

‫ضَرَب کے لئے (ض) وغیرہ لکھا ہوا ملے گا ۔ اس سبق کے ذخیرہ الفاظ میں ہمگزشتہ‬

‫اسباق کے افعال دوبارہ لکھکر ان کے ابوابکی نشاندہی کر رہے ہیں تاکہ ان کے‬

‫معانی آپ اس طریقہ سے یادکریں جو آپکو بتایا جا رہا ہے ۔‬

‫‪ ۳۸ : ۱۱‬اب ہم اس سوال پر آگئے ہیںکہکسی فعل کے بابکو یادکرنے کا بہتر‬

‫طریقہکیا ہے ؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اب آپ افعال کے معنی پرانے‬

‫طریقے سے یاد نہکریں ۔یعنی یوں نہ کہیں کہ " فرح " کے معنی خوش ہوتا اور کتب‬

‫کے معنی لکھنا وغیرہ ‪ ،‬بلکہ ماضی مضارع دونوں بولکر مصدری معنی بو لیں ۔ یعنی یوں‬

‫کہیں کہ " فَرحَ يَفْرَحُ کے معنی خوش ہوتا ۔كَتَبَ يَكْتُبُ کے معنی لکھنا "وغیرہ ۔‬

‫*‬
‫داخل ہونا " لیکن آپاسکو اس طرحیاد‬ ‫ذخیرہ الفاظ میں لکھا ہوگا " دَخَلَ ( ن )‬

‫کریںکہ دَخَلَ ‪ -‬يَدْخُلُ کے معنی داخلہونا ۔کہیں بھول چوک لگجائے تو ڈکشنری‬

‫دیکھیں گویا اب آپ ڈکشنری دیکھنے کے قابل ہو گئے ہیں ۔ مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَا حَوْلَ‬

‫وَلَا قُوَّةَ إِلا بِاللهِ ‪ -‬ابھی سے لغتکے استعمالکو عادت بنالیں ۔‬

‫‪ ۳۸ : ۱۲‬اگر چہ یہ سبق کافی طویل ہوگیا ہے لیکن آپکی دلچسپی اور سہولتکی‬

‫چند ابوابکی خصوصیات کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ چنانچہ آپنوٹکرلیں‬


‫خاطر‬

‫که پاپ سمیع سے آنے والے ابواب میں زیادہ تر ہمیشہ نہیں )کسی ایسی صفت یا‬

‫بات کا ذکر ہوتا ہے جو وقتی اور عارضی ہوتی ہیں مثلا فرح ( خوش ہونا ) حَزِنَ ( غمگین‬

‫ہونا وغیرہ ۔نیز یہ کہ اس باب میں آنے والے افعال زیادہ تر ( تمام نہیں ) لازم‬

‫ہوتے ہیں جبکہ بابگرم سے آنے والے افعال میںکسی ایسی صفت یا باتکا ذکر ہوتا‬

‫ہے جو عارضی نہیں بلکہ دائی ہوتی ہیں مثلاً حَسُنَ ( خوبصورت ہوتا )‪ ،‬شَجُعَ ( بہادر‬

‫ہونا )۔نیز یہکہ اس باب سے آنے والے تمام افعال لازمہوتے ہیں ۔ بابفتحکی‬
‫‪۴۸‬‬

‫خصوصیت کا تعلق مادہ کے حروف سے ہے اور وہ یہ ہے کہ اس میں عینکلمہ یا لام‬

‫۔ ع ح غ خ امیں سےکوئی ایک حرفضرورہوتا‬ ‫کلمہ کی جگہ حروف حلقی ( ء‬

‫ہے ۔ صرف چند مادے اس سے منتقلی ہیں ۔ باب حسیبکی خصوصیت یہ ہےکہ اس‬

‫سے گنتی کے صرفچند افعالآتے ہیں ۔ اس لئے اس کا استعمال بہتکم ہے ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫فَرِحَ (س) =‬
‫‪ -‬خوشہونا‬ ‫دَخَلَ (ن ) = داخلہونا‬

‫س) ‪ -‬فنا‬‫ضَحِكَ (‬ ‫= غالبہوتا‬


‫غَلَبَ (ض) ‪-‬‬

‫بعد (ک) = دور ہوتا‬ ‫قَرُبَ (ک) = قریبہونا‬

‫فَتَحَ (ف) = کھولنا‬ ‫‪H‬‬


‫قَرَءَ (ف) ‪ -‬پڑھنا‬

‫اكل (ن) = کھانا‬ ‫كَتَبَ ( ن) = لکھنا‬

‫نَجَحَ (ف) = کامیاب ہوتا‬ ‫= بیٹھنا‬


‫جَلَسَ (ض) ‪-‬‬

‫= بیمارہونا‬
‫مرضَ (س ) ‪-‬‬ ‫= آتا‬
‫قَدِمَ (س) ‪-‬‬

‫= بیٹھنا‬ ‫قَعَدَ (ن)‬ ‫ذَهَبَ ( ف) = جاتا‬

‫رَفَعَ (ف) = بلندکرنا‬ ‫= یاکدرنا‬ ‫ذكَرَ (ن)‬

‫سَمِعَ (س) ‪-‬‬


‫= سننا‬ ‫حَمِدَ (س) = تعریکفرنا‬

‫حَسِبَ ( ح ) = گمانکرنا‬ ‫خَلَقَ (ن ) ‪ -‬پیداکرنا‬

‫=‬ ‫بَعَثَ (ف) = بھیجنا۔اٹھاتا‬


‫شرب (س ) ‪ -‬پینا‬

‫وَجِلَ (س) = خوفمحسوسکرنا‬ ‫سَئَلَ (ف) ‪ -‬سوا ک‬


‫لرنا ۔مانگنا‬

‫خَرَجَ (ن) = نکلنا‬ ‫طلب ( ن) = مانگنا ۔ بلانا‬

‫تقُ (ک) =‬ ‫نصر ( ن) = موكرنا‬


‫‪ -‬بھاریہونا‬ ‫ل‬
‫‪۴۹‬‬

‫مشق نمبر ‪۳۷‬‬

‫مندرجہ ذیل جملوں میں نمبر( ‪ ) 1‬افعال کا مادہ بتائیں ۔ نمبر(‪ )۲‬ماضی ‪ /‬مضارع‬

‫اور معروف ‪ /‬مجمولکی وضاحتکریں ۔ نمبر ( ‪ ) ۳‬صیغہ بتائیں اور جہاں ایک سے‬

‫زیادہ کا امکان ہو وہاں تمام ممکنہ میٹے لکھیں ۔ اور نمبر (‪ ) ۴‬پھراسی لحاظ سے ترجمہ‬

‫کریں ۔‬

‫( ‪ ) 1‬تَفْتَحَانِ ( ‪ )۲‬نَصْدُقُ ( ‪ ) ۳‬يَلْعَبْنَ ( ‪ ) ٢‬طَلَبْتُمُوهُمْ ( ‪ ) ٥‬هَزَمْتُمُونِي‬

‫( ‪ )10‬طَلَبَنَا‬ ‫(‪ ) 9‬طَلَبْنَا‬ ‫( ‪ ) ۸‬رُزِقُوا‬ ‫‪ ) ۷‬تَطْلُعُ الشَّمْسُ‬


‫(( ع‬ ‫(‪ )٢‬تُرْزَقِينَ‬

‫( ‪ )1‬طَلَبْنَ ( ‪ ) ۱۳‬دَخَلْتَ ( ‪ )۱۳‬سَيَغْلِبُونَ ( ‪ )۱۳‬ذُكِرَ ( ‪)۱۵‬ثَقُلَتْ‬


‫ماضیکی اقسام (حصہ اول)‬

‫‪ ۳۹‬آپسوچ رہے ہوں گے کہ ماضی کے بعد تو مضارع شروعہوگیا تھا ۔لیکن‬ ‫‪۱‬‬

‫اب درمیان میں پھرماضی کا سبق کیوں آگیا ۔ اسکی ایکوجہ تو یہ تھیکہ چونکہ ماضی‬

‫کی مختلف اقسام میں ایک خاص فعل استعمال ہوتا ہے ۔ جس کا ماضی گان ( وہ تھا ) اور‬

‫مضارع يَكُونُ ( وہ ہوتا ہے یا ہوگا ) ہے ۔ اس لئے ضروری تھا کہ آپکو کان سے‬

‫متعارف‬
‫کرانے سے قبل مضارعبھی سمجھا دیا جائے ۔‬

‫دوسری وجہ یہ تھی کہ كَانَ يَكُونُ کی گردانیں ماضی ‪ ،‬مضارعکی عام‬ ‫‪۳۹ : ۲‬‬

‫گردانوں سے تھوڑی سی مختلف ہیں ایسا کیوں ہے ۔اسکی وجہ تو انشاء اللہ آپکو‬

‫اس وقت سمجھ میں آئےگی جب آپ " حروف علت" اور ان کے قواعد پڑھ لیں‬

‫گے ۔ فی الحال آپ معمولی فرق کے ساتھ ہی ان کی گردانیں یادکر لیں تاکہ اگلے‬

‫پاضی کی اقسام کے بیان میں ان کا استعمال سمجھ سکیں ۔‬


‫سبق میں آ م‬

‫فعلماضی گانکی گردان‬

‫جمع‬ ‫تشنہ‬ ‫واحد‬

‫گانا‬ ‫گان‬ ‫ذکر‬


‫كَانُوا‬

‫بات کیاتھے‬ ‫ورانکیا تھے‬ ‫ایکتندکیاتھا۔‬ ‫غاب‬

‫كُنَّ‬ ‫كانتا‬ ‫كَاقَتْ‬ ‫مؤنث‪:‬‬

‫سب(مؤنث) تھیں‬ ‫‪(200‬مونٹ)تھیں‬ ‫ایک مونٹ) تھی‬


‫‪۵۱‬‬

‫جمع‬ ‫واحد‬

‫كُنْتُما‬ ‫كُنتَ‬ ‫ذکر‪:‬‬


‫كُنْتُمْ‬

‫تم سببندکیاتھے‬ ‫تماودھکر تھے‬ ‫توایکنےکہاتھا‬ ‫حاضر‪:‬‬

‫كُنْتُما‬ ‫كُنتِ‬ ‫مؤنث‪:‬‬


‫كُنْتُنَّ‬

‫تم سب(موسٹ‬
‫)تھیں‬ ‫ث تھیں‬
‫)‬ ‫تمو (مون‬ ‫توایک مؤنث‬
‫) تھی‬

‫كنا‬ ‫كنا‬ ‫كُنتُ‬


‫متکلم‬

‫ہم سب تھے تھیں‬ ‫ہمدوتھے تھیں‬ ‫میںتھا تھی‬

‫فعل مضارع يَكُونُ کیگردان‬

‫جمع‬ ‫واحد‬

‫يَكُونُونَ‬ ‫يَكُونَانَ‬ ‫يَكُونُ‬ ‫مذکر‬

‫وہسدبورکر ہوںگے‬ ‫تعدادکر ہوںگے‬ ‫ھایک پرکراہوگا‬ ‫غائب‬

‫يَكُن‪.‬‬ ‫تَكُونَ‬ ‫مؤنث‪:‬‬


‫تَكُونَانِ‬

‫ب(مونثہوںگی‬ ‫عد موتہوںگی‬ ‫ایک مونثہوگی‬

‫تَكُونُونُ‬ ‫تَكُونَانِ‬ ‫تَكُونُ‬ ‫تذکر‪:‬‬

‫تم سب کر ہوگے‬ ‫تم اورکیاہوگئے‬ ‫تو ایکپکریاہوگا‬ ‫ح‪:‬اضر‬

‫تَكُنَّ‬ ‫تكونان‬ ‫مؤنث ‪:‬‬


‫تَكُونِيْنَ‬

‫تم سب موت ہوگی‬ ‫) ہوگی‬


‫تم‪ 120‬مونٹ‬ ‫تو ایک موتہوگی‬

‫نَكُونَ‬ ‫تَكُونَ‬ ‫أكُونُ‬

‫ہم سب ہوںگے گی‬ ‫ہمدو ہوںگے اچی‬ ‫میں ہوگںا کی‬


‫‪۵۲‬‬

‫‪ ۳۹ : ۳‬یاد رکھئے کہ كَانَ (ماضی ) بمعنی ” تھا " عموما ماضی ہی کے لئے استعمال ہو تا‬

‫ہے اور يَكُونُ ( مضارع) بمعنی ” ہو گا یا ہو جائے گا " عموماً صرف مستقبل کے لئے‬

‫استعمال ہو تاہے ۔ یعنی حال کے لئے بمعنی "ہے "يَكُونُ استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس‬

‫کے لئے زیادہ تر جملہ اسمیہ استعمالکیا جاتا ہے ۔ " مثلا زید بیمار تھا "کے لئے آپگان‬

‫کے لئے يَكُونَ استعمال ہوگا۔ كَانَ ۔‬


‫استعمالکریں گے اور " زید بیمار ہو جائے گا "‬

‫يَكُونُ کے استعمال کے کچھ قواعد ہیں جو آپآگے چل کر پڑھیں گے ۔مگر " زید بیمار‬

‫ہے " کا ترجمہ آپ " زَيْدٌ مَرِيضٌ " ہیکریں گے ۔‬

‫‪ ۳۹ : ۴‬شاید آپکو یاد ہو کہ سبق نمبر‪ 11‬میں جب ہم آپکو جملہ اسمیہ منفی بنانا‬

‫سکھا رہے تھے تو ہم نے " لبس " کے استعمال کے سلسلے میں یہ پابندی لگادی تھی کہ‬

‫صرف واحد مذکرغائب کے صیغہ میں اس کا استعمالکیا جائے ۔ اسکی وجہ یہ تھیکہ‬

‫" لَيْسَ " کا استعمال صیغہ کے مطابق ہوتاہے ۔ اب موقع ہےکہ آپاسکی گردان‬

‫بھی یادکرلیں تاکہ جملہ اسمیہ میں آپ" لَيْسَ " کا درست استعمالکر سکیں ۔‬

‫لیسکیگردان‬

‫واحد‬
‫تشنہ‬

‫لَيْسُوا‬ ‫لَيْسَا‬ ‫لَيْسَ‬ ‫ذکر‪:‬‬

‫وبلندکری نہیں ہیں‬ ‫ندکرا نہیں ہیں‬ ‫وہایکرنکدیا نہیںہے‬ ‫جب‬

‫لَسْنَ‬ ‫لَيْسَنًا‬ ‫لَيْسَتْ‬ ‫مؤنث ‪:‬‬

‫) نہیں ہیں‬
‫سب(مونث‬ ‫‪ 1300‬مونت)نہیںہیں‬ ‫وہایک(مونث) نہیںہے‬

‫لَسْتُمَا‬ ‫لَسْتَ‬ ‫ذکر ‪:‬‬


‫لَسْتُمْ‬

‫بندکرا نہیں ہو‬


‫تمسا‬ ‫تمودارندکیانہیںہو‬ ‫تو ایکبندکرا نہیںہے‬ ‫حاضر‪:‬‬

‫لَسْتُمَا‬ ‫مؤنث‬
‫لَسْتُنَّ‬

‫تم سب ( مونث ) نہیں ہو‬ ‫تم دو( مؤنث‬


‫) نہیں ہو‬
‫‪۵۳‬‬

‫لَيْنَا‬ ‫لَسْنَا‬ ‫لَسْتُ‬ ‫متكل ‪:‬‬


‫م‬

‫ہم سبنہیںہیں‬ ‫ہمدو نہیںہیں‬ ‫میں نہیں ہوں‬

‫‪ ۳۹ : ۵‬گان اور لیسکیگردان میں یہ بنیادی فرق ذہن نشینکرلیں کہ گان سے‬
‫‪:‬‬

‫ماضی اور مضارع دونوںکی گردان ہوتی ہے ۔ یعنی یہ فعل دونوں طرحآتا ہے ۔‬

‫جبکہ لیس سے صرف ماضی کی گردان ہوتی ہے ۔ یعنی اس فعلکا مضارع استعمال‬

‫نہیں ہوتا ہے ۔ مزید یہ کہ کیس کے معنی ” نہیں تھا " کے بجائے ” نہیں ہے ‪ ،‬نہیں‬

‫ہیں " وغیرہ ہوتے ہیں ۔ یعنی اس فعلکی گردان تو ماضی جیسی ہے مگریہ ہمیشہ حالکے‬

‫معنی دیتا ہے ۔‬

‫‪ ۳۹ :‬سبق نمبر‪ ۱۰‬میں آپپڑھ چکے ہیں کہ جملہ اسمیہ پر جب لیس داخل ہوتا‬

‫ہے تو معنوی تبدیلی یہ لاتاہےکہ جملہ میں نفی کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں اور اعرابی‬

‫تبدیلی یہ لاتا ہے کہ خبرحالت نصبمیں آجاتی ہےیا خبر پر " ب " لگاکر اسے مجرورکر دیا‬

‫جاتا ہے ۔ یعنی لَيْسَتِ الْمُعَلَّمَةُ قَائِمَةُ اور لَيْسَتِ الْمُعَلِمَةُ بِقَائِمَةٍ دونوں کا ترجمہ‬

‫استانیکھڑی نہیں ہے " ہوگا ۔ ابآپیہ باتبھی یادکرلیںکہ جملہ اسمیہ پرگان‬

‫بھی داخل ہوتا ہے ۔ اور جبکسی جملہ اسمیہ پر گان داخل ہوتا ہے تو معنوی تبدیلی‬

‫یہ لاتا ہے کہ جملہ میں عموماً " ہے "کی بجائے " تھا " کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں ۔ اور‬

‫لیسکی طرحگان بھی خبر کو حالت نصب میں لے جاتا ہے ۔ مثلا كَانَ الْمُعَلِمُ قَائِمًا‬

‫( استادکھڑا تھا ) وغیرہ ۔ تا ہم کیسکی مانند گانکی خبریر " ب " نہیں لگا سکتے ۔ یہ فرق‬

‫اچھی طرح ذہن نشینکرلیں ۔‬

‫‪ ۳۹ :‬کان اور نیس کے بارےمیں ایکبات اور نوٹکریںکہ یہ دونوں فعل‬

‫کی طرح استعمال تو ہوتے ہیں مگر ان کے فاعل کو " اسم "کہتے ہیں ۔ یعنی لَيْسَتِ‬

‫الْمُعَلَّمَةُ قَائِمَةً مِیں اَلْمُعَلِمَةُ کو لَيْسَتْ کا فاعل نہیں بلکہ نحو کی اصطلاح کے مطابق‬
‫‪۵۴‬‬

‫لیس کا اسم کہا جاتا ہے ۔ اس طرح كَانَ الْمُعَلمُ قَائِمًا میں بھی الْمُعَلِّمُکو كَانَکا‬

‫فاعل نہیں بلکہ گان کا اسم کہا جاتا ہے ۔ یہ بھی نوٹکرلیںکہ قَائِمَةُ اور قَائِمًا بھی‬

‫مفعول نہیں بلکہ بالترتیب لیس اور گانکی خبرہیں ۔ اور اگر چہ لیس اور گان ایک‬

‫طرح کے فعل ہیں لیکن ان کے جملے کے شروع میں آنے سے جملہ فعلیہ نہیں بنتا ۔‬

‫بلکہ جیسا کہ آپکو بتایا جا چکا ہے کہ لیس اور گان دونوں جملہ اسمیہ پر داخل ہوکر‬

‫اسمیں معنوی اوراعرابی تبدیلی لاتے ہیں ۔‬

‫‪ ۳۹ :‬گان اور لیس بھی دیگر افعالکی طرحدونوں طریقوںسے استعمال ہوتے‬

‫ہیں یعنی اگر كَانَ یا لَيْسَ کا اسمکوئی اسم ظاہر ہو تو ان کا صیغہ واحد ہی رہے گا۔‬

‫البتہ مذکر کے لئے واحد مذکر اور مؤنث کے لئے واحد مونث آئے گا ۔ مثلاً كَانَ‬

‫الْوَلَدَانِ صَالِحَيْنِ ( دونوں لڑکے نیک تھے )‪ ،‬كَانَتِ الْبَنَاتُ صَالِحَاتِ ( لڑکیاں‬

‫نیک تھیں ) ‪،‬لَيْسَالرِّجَالُ مُجْتَهِدين ( مرد محنتی نہیں ہیں ) اور لَيْسَتِ الْمُعَلَّمَاتُ‬

‫مُجْتَهِدَاتٍ ( استانیاںمحنتی نہیں ہیں ) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۳۹ : ۹‬اور اگر كَانَ اور لیس کا اسم ‪ ،‬ظاہرنہ ہو بلکہ صیغہ میں ضمیرکی صورت‬

‫میں پوشیدہ ہو تو ایسی صورت میں جو ضمیرپوشیدہ ہوگی اس کے مطابق صیغہ استعمال‬

‫۔ یہاں کُنتُم میں انتمکی ضمیركَانَ کا‬ ‫ہو گا ۔ مثلاً كُنتُمْ ظَالِمِينَ ( تم لوگ ظالم تھے‬

‫اسم ہے ۔ اسی طرح لَمْنَا ظَالِمِينَ (ہم لوگظالم نہیں ہیں ) میں نَحْنُکی ضمیرلیس کا‬

‫اسم ہے ۔‬

‫مشق نمبر ‪۳۸‬‬

‫اردو میں ترجمہکریں ‪ ( :‬نمبرے سے آخرتک " مِنَ الْقُرْآنِ " ہے )‬

‫( ‪ )۳‬هَلْ كُنْتُمْ‬ ‫( ‪ ) ٢‬كَانَ الرِّجَالُ جَالِسِيْنَ‬ ‫( ‪ ) 1‬كَانَتْ زَيْنَبُ قَائِمَةٌ‬

‫( ‪ ) ۳‬مَتَى تَكُونُ مُعَلَّمًا ؟ اكونُ مُعَلَّمًا إنْ شَاءَ اللهُ فِي هَذَا الْعَامِ‬ ‫مُعَلِّمِينَ‬

‫( ‪ ) 6‬لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْ ءٍ‬ ‫( ‪ ) ٢‬لَيْسُوا صَادِقِينَ‬ ‫( ‪ ) ٥‬لَسْنَا كَاذِبِينَ‬


‫‪۵۵‬‬

‫(‪ )١٠‬أَلَيْسَهَذَا بِالْحَقِّ‬ ‫( ‪ ) 9‬لَسْتَ مُؤْمِنًا‬ ‫( ‪ ) ۸‬وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ‬

‫( ‪ )۱۳‬إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غُفِلِيْنَ‬ ‫( ‪ )١٣‬اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ‬ ‫( ‪ ) 1‬كَانُوا عَنْهَا غُفِلِينَ‬

‫( ‪ )۱۵‬أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ (‪ ) ١٦‬وَكَانَ وَعْدُ‬ ‫( ‪ ) ۱۳‬وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ‬

‫)‪ )( 14‬وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا ( ‪ )۱۸‬إِنَّهُ كَانَصِدِّيقًا نَبِيًّا (‪ )١٩‬وَمَا كَانَ‬
‫رَبِّي حَقًّا (‪۱۷‬‬
‫)‪(19‬‬

‫اكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِيْنَ ‪-‬‬


‫‪۵۶‬‬

‫ماضیکی اقسام( حصہ دوم)‬

‫‪ ۴۰ :‬ماضی کی جو چھ اقسام ہیں ان کا تعلق اصلا تو اردو اورفارسیگرامر سے ہے ۔‬

‫کیونکہ عربیگرامرمیں ماضی کی اقسامکو اس انداز سے بیان ہی نہیںکیا جاتا ۔ البتہ ان‬

‫اقسام کے مفہوم کو عربی میں کیسے بیان کیا جاتاہے ‪،‬یہ سمجھانے کے لئے ہم ذیل میں ان‬

‫اقسام کے قواعد بیان کر رہے ہیں ۔ دراصلماضی کی چھ اقسام اردو اورفارسیگرامر‬

‫کی چیز ہے ۔ عربی میں اس طرح ماضی کی اقسام نہیں ہیں ۔مگراردوکی ماضی کی اقسام‬

‫کے مفہومکو عربی میں ظاہرکرنے کے لئے یہ قسمیں اور ان کے قواعد لکھے جا رہے ہیں‬

‫جوکہ مندرجہ ذیل ہیں ‪:‬‬

‫‪ ) ۱( ۴۰ : ۲‬ماضی بعید ‪:‬‬

‫فعل ماضی پر کان لگا دینے سے اس میں ماضی بعید کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں ۔‬

‫جیسے ذَهَبَ کے معنی ہیں " وہگیا "۔ جبکہ كَانَ ذَهَبَ کے معنی ہوں گے ”وہگیا تھا "۔‬

‫یادر ہے کہ کانکیگردان متعلقہ فعل ماضی کے ساتھ چلتی ہے ۔ یہ باتذیلمیں دی‬

‫گئی ماضی بعید کی گردان سے مزید واضح ہو جائےگی ۔‬

‫كَانُواذَهَبُوا‬ ‫كَانَاذَهَبًا‬ ‫كَانَذَهَبَ‬

‫وہ (سب مرد )گئے تھے‬ ‫وہ (دو مرد)گئے تھے‬ ‫وہ ( ایک مرد)گیا تھا‬

‫كُنَّ ذَهَبْنَ‬ ‫كَانَتَاذَهَبَتا‬ ‫كَانَتْذَهَبَتْ‬

‫وہ (سبعورتیں گئی تھیں‬ ‫وہ ( دو عورتیں گئی تھیں‬ ‫تگئی تھی‬
‫وہ ایکعور آ‬

‫كُنْتُمَاذَهَبْتُمَا‬ ‫كُنْتَ ذَهَبْتَ‬


‫كُنْتُمْذَهَبْتُمْ‬

‫تم سب مرداگئے تھے‬ ‫تم (دو مرد)گئے تھے‬ ‫تو ایک مرد )گیا تھا‬

‫كُنْتُنَّذَهَبْتُنَّ‬ ‫كُنْتُمَا ذَهَبْتُمَا‬ ‫كُنْتِ ذَهَبْتِ‬

‫تم سبعورتیں گئی تھیں‬ ‫) گئی تھیں‬


‫تم (دوعورتیں‬ ‫تو ایکعور)‬
‫ت گئی تھی‬
‫ال‬ ‫كُنَّا ذَهَبْنَا‬ ‫كُنْتُ ذَهَبْتُ‬
‫كُنَّاذَهَبْنَا‬

‫ہم ( سب‬
‫) گئے تھے گئی تھیں‬ ‫ہم ( دو) گئے تھے گئی تھیں‬ ‫میںگیا تھا گئیتھی‬

‫‪ )۲( ۴۰ : ۳‬ماضی استمراری ‪:‬‬

‫ماضی استمراری اسکو کہتے ہیں جس میں ماضی میں کام کے مسلسل ہوتے رہنے کا‬

‫مفہوم ہو ۔ مثلاً اردو میں ہم کہتے ہیں "وہلکھتا تھا " مراد یہ ہےکہ ”وہلکھاکرتا تھا "یا "لکھ‬

‫رہا تھا ۔ عربی میں فعل مضارعپر کان لگانے سے ماضی استمراری کے معنی پیدا ہوتے‬

‫ہیں ۔ مثلا كَانَ يَكْتُبُ (وہ لکھتا تھا یا لکھ رہا تھا یا لکھاکرتا تھا ۔ یہاں بھی گان اور‬

‫متعلقہ فعل مضارعکی گردان ساتھ ساتھ چلتی ہے ۔ دیل میں دیگئی ماضی استمراری‬

‫کی گردان سے اس باتکی مزید وضاحت ہو جائےگی ۔‬

‫كَانُوايَكْتُبُوْنَ‬ ‫كَانَا يَكْتُبَانِ‬ ‫كَانَيَكْتُبُ‬

‫مرد) لکھتے تھے‬


‫سب‬‫وہ (‬ ‫وہ (دو مرد)لکھتے تھے‬ ‫وہ ایک مرد )لکھتا تھا۔‬

‫كزيكتين‬ ‫كانتانكتُبَانِ‬ ‫كَانَتْتَكْتُبُ‬

‫وہ (سب عورتیں لکھتی تھیں‬ ‫وہ ( دوعورتیں)لکھتی تھیں‬ ‫) لکھتی تھی‬
‫وہ ایکعورت‬

‫كُنتُمْتَكْتُبُونَ‬ ‫كُنْتُمَاتَكتُبَانِ‬ ‫كُنتَ تَكْتُبُ‬

‫تم سب مرد) لکھتے تھے‬ ‫تم (دو مرد) لکھتے تھے‬ ‫تو ایک مرد)لکھتا تھا‬

‫كُنتُنَّتَكْتُبْنَ‬ ‫كُنْتُمَاتَكتُبَانِ‬ ‫كُنتِتَكْتُبِيْنَ‬

‫تم سبعورتیں) لکھتیتھیں‬ ‫تم (دو عورتیں لکھتی تھیں‬ ‫) لکھتی تھی‬
‫تو ایکعورت‬

‫كُنَّانَكْتُبُ‬ ‫كُنَّانَكْتُبُ‬ ‫كُنتُاكتب‬

‫) لکھتے تھے لکھتی تھیں‬


‫سب‬
‫ہم (‬ ‫ہم (دور) لکھتے تھے لکھتی تھیں‬ ‫میں لکھتا تھا لکھتی تھی‬

‫ماضی بعید اور ماضی استمراری میں موجود اس فرقکو اچھی طرحذہن نشینکر‬
‫‪۵۸‬‬

‫لیجئےکہ ماضی بعید میں گان کے ساتھ اصل فعل کا ماضی آتا ہے جبکہ ماضی استمراری‬

‫میں گان کے ساتھ اصلفعلکا مضارعآتا ہے ۔‬

‫‪ )۳( ۴۰ : ۴‬ماضی قریب ‪:‬‬

‫وہ‬ ‫اس میں کسی کام کے زمانہ حال میں مکمل ہو جانے کا مفہوم ہوت ہ‬
‫اے ۔ مثلاً‬

‫وغیرہ ۔ یعنی جانےیا لکھنے کاکام تھوڑی‬ ‫یا وہ لکھ چکا ہے‬ ‫اس نے لکھا ہے‬ ‫گیا ہے‬

‫دیر پہلے یعنی ماضی قریب میں ہوا ہے ۔ فعل ماضی کے شروع میں حرف " قد "لگانے‬

‫سے نہ صرف یہ کہ ماضی قریب کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں بلکہ اس میں ایک زور‬

‫(تاکید کا مفہوم) بھی پیدا ہو جاتا ہے ۔ مثلا قَدْ ذَهَبَ ( وہگیا ہےیا وہ جا چکاہے ) وغیرہ ۔‬

‫‪ )۴( ۴۰ : ۵‬ماضی شكية ‪:‬‬

‫جب زمانہ ماضی میں کسی کام کے ہونے کے متعلق ش پ‬


‫کایا جاتا ہو تو اسے ماضی‬

‫شکیہ کہتے ہیں ۔ جیسے ” اس نے لکھا ہو گا یا وہ لکھ چکا ہوگا “ وغیرہ۔ عربی میں ماضی‬

‫شکیہ کے معنی پیدا کرنے کے لئے اصل فعل کے ماضی سے پہلے يَكُونُ لگاتے ہیں ۔‬

‫جیسے يَكُونُ كَتَبَ ( اس نے لکھا ہوگا یا وہ لکھ چکا ہوگا ) ۔ نوٹکر لیںکہ اسمیں گان‬

‫کے مضارعيَكُونُ اور اصلفعل کے صیغہ ماضی کیگردان ساتھ ساتھ چلےگی ۔ مثلاً‬

‫يَكُونُ كَتَبَ ‪ -‬يَكُونُونَ كَتَبُوْا تَكُونُ كَتَبَتْ وغيره ‪-‬‬

‫‪ ۴۰ :‬یہاںیہ بات ذہن نشین کرلیں کہ فاعل اگر اسم ظاہر ہو تو ‪ )i( :‬يَكُونُ یا‬

‫تكون الذكر یا مؤنث) صیغہ واحد ہی لگےگا ۔ (‪ )ii‬اس کے بعد فاعل یعنی اسم ظاہر‬

‫آئے گا جو اب كَانَ کا اسم کہلائے گا ۔ ( ‪ ) ii‬اس کے بعد اصل فعل اسم ظاہرکے‬

‫صیغہ کے مطابق (واحد جمع مذکر مؤنث وغیرہ ) آئے گا ۔ مثلا يَكُونُ الْمُعَلِّمُ كَتَبَ‪-‬‬

‫يَكُونُ الْمُعَلِّمُونَ كَتَبُوْا تَكُونُالْمُعْلِمَاتُكَتَبْنَوغيره ‪-‬‬


‫‪۵۹‬‬

‫‪ ۴۰۷‬لفظ لَعَلَّ (شاید ) کے استعمال سے بھی ماضی شکیہ کے معنی پیدا ہوتے‬

‫ہیں ۔ لیکن لعل کے استعمال کے متعلق دو اہم باتیں ذہن نشینکرلیں ۔ اولا یہکہ لَعَلَّ‬

‫کبھی کسی فعل سے پہلے نہیں آتا بلکہ یہ ہمیشہکسی اہم ظاہریا کسی ضمیرپر داخل ہو گا ۔‬

‫ثانیا یہکہ لعل بھی اِنکی طرح اپنے اسم کو نصب دیتا ہے ۔ مثلاً لَعَلَّالْمُعَلَّمَ كَتَبَ‬

‫مكتوبًا ( شاید استاد نے ایک خط لکھا ہوگا) یا لَعَلَّهُ كَتَبَ مَكْتُوبًا (شاید اس نے ایک‬

‫خط لکھا ہوگا) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۴۰ :‬مذکورہ مثالوں سے آپ سمجھ سکتے ہیںکہ اس قسم کے جملوںکو عربی میں‬

‫فعل ماضی "کیکوئی قسمکہنا درست نہیں ہے ۔ یہ دراصل جملہ اسمیہ پر لغل داخل‬

‫کرنے کا مسئلہ ہے جس کے ذریعہ عربی میں فعلماضی شکیہ کا مفہوم پیدا ہوتاہے وہ‬

‫بھی اس صورت میں جبجملہ اسمیہ کی خبر کوئی فعل ماضی کا صیغہ ہو ۔ جیسے الْمُعَلِّمُ‬

‫كتب ( استاد نے لکھا ) سے لَعَلَّ المَعِلْمَ كَتَبَ ( شاید استاد نے لکھا ہوگا ) ایسے جملہ‬

‫اسمیہکی خبرکوئی فعل مضارع ہو تو مفہوم تو شک کا پیدا ہو گا مگروہ زمانہ مستقبل میں ۔‬

‫عنی لَعَلَّالمُعَلَّمَ يَكْتُبُ( شاید) استاد لکھے گا ) ۔‬

‫‪ )۵( ۴۰ : ۹‬ماضی شرطیه ‪:‬‬

‫ماضی شرطیہ میں ہمیشہ دو فعل آتے ہیں ۔ پہلے میں شرط بیان ہوتی ہے اور‬

‫دوسرےمیں اس کا جواب ہوتا ہے ۔ مثلاً " اگر تو بو تا تو کاتا "۔ اس میں ”بو تا " اور‬

‫"کاتا " دو فعل ہیں ۔ " بو تا " شرط ہے اور " کا تھا "جواب شرط ہے ۔ عربی میں فعل‬

‫ماضی میں شرط کے معنی پیداکرنے کے لئے پہلے فعل یعنی شرط پر " لو " (اگر )لگاتے ہیں‬

‫جبکہ دوسرے فعل کے شروعمیں اکثر ہمیشہ نہیں ) حرف تاکید " ل "لگاتے ہیں جس کا‬

‫ترجمه عموماً " ضرور "کیا جاتا ہے ۔ مثلاً لَوْ زَرَعْتَ لَحَصَدْتَ (اگر تو ہوتا تو ضرور‬

‫کانتا) ۔‬

‫‪ ۴۰ : ۱۰‬ماضی شرطیہ میںکبھی لو کے بعد گان کا اضافہ بھی کرتے ہیں اور کانکے‬
‫بعد اگر فعل ماضی آئے تو شرط کے ساتھ ماضی بعید کا مفہوم پیدا ہوتا ہے اور اگر كَانَ‬

‫کے بعد فعل مضارعآئے تو شرط کے ساتھ ماضی استمراریکے معنی پیدا ہوتے ہیں ۔‬

‫دونوں صورتوں میں معانی کا جو فرق پڑتا ہے اُسے ذیل کی مثالوں سے سمجھ لیں ۔‬

‫ترجمہ ‪ :‬اگر تو نے اپنے اسباقیاد کئے‬ ‫( ‪ )i‬لَوْكُنْتَ حَفِظْتَ دُرُوسَكَلَنَجَحْتَ‬

‫ہوتے تو ضرور کامیابہوتا ۔ ( ‪ )ii‬لَوْكُنْتَ تَحْفَظُ دُرُوْسَكَلَنَجَحْتَ ترجمه ‪:‬‬

‫اگرتو اپنے اسباق یادکرتا رہتا تو ضرورکامیاب ہوتا ۔‬

‫‪ )۶( ۴۰ :‬ماضی تَمَنِّي يَا تَمَنَّاني ‪:‬‬

‫فعلماضی کے شروع میں لیت لگانے سے جملہ میں خواہش اور تمنا کے معنی پیدا‬

‫ہوتے ہیں ۔ یاد رہےکہ لعلکی طرح لیست بھی کسی فعلپر داخل نہیں ہو تابلکہ ہمیشہ‬

‫کسی اسم یا ضمیرپر داخل ہوتا ہے اور اپنے اسم کو نصب دیتا ہے ۔ مثلاً لَيْتَ زَيْدًا‬

‫نَجَحَ ( کاشکہ زید کامیاب ہوتا ) ۔ يَا لَيْتَنِي نَجَحْتُ ( اے کاش میں کامیاب‬

‫ہوتا )۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ بھی دراصل جملہ اسمیہ ہی ہوتا ہے جسکی خبرکوئی‬

‫جملہ فعلیہ ہوتا ہے ۔ مبتدا کے شروع میں " لَيْتَ "لگتا ہے اور اب مبتداکو لیت کا‬

‫اسمکہتے ہیں جو ان اور لعل کے اسمکی طرح منصوبہوتا ہے ۔‬

‫‪ ۴۰ : ۱۲‬لفظ " لو "کبھی "کاش " کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جس سے جملہ میں ماضی تمنی‬

‫کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں ۔ اسکی پہچان یہ ہےکہ ایسی صورت میں جملے میں جواب‬

‫شرط نہیں آتا ۔ جیسے لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ )کاشوہ لوگ جانتے ہوتے ) ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫سَمِعَ (س) ‪-‬‬


‫= سننا‬ ‫حفظ( س) = یادکرنا‬

‫عقل( )‬
‫ض = سمجنا‬ ‫غَضِبَ( )‬
‫س = غصہ ہونا‬

‫زَرَعَ(ف‬
‫) ‪ -‬کھیتی ہونا‬ ‫رَجَعَ (ض) = لوٹنا‬
‫) = کامیابہونا‬
‫نَجَحَ(ف‬ ‫حَصَدَ(ن) = کھیتی کاٹنا‬

‫= ساتھی والا‬
‫صَاحِبٌ ( جأَصْحَابٌ) ‪-‬‬ ‫= دہکتی آگ۔ دوزخ‬ ‫سعير‬

‫= ہر روز‬ ‫=‬
‫‪ -‬ذرایلی‬ ‫قبيل‬
‫كُ ي‬
‫لَوْم‬

‫مشق نمبر ‪۳۹‬‬

‫اردو میں ترجمہکریں ‪( :‬نمبرہ سے آخرتک مِنَ الْقُرْآن ہے )‬

‫يَازَيْدُ ‪ :‬لِمَ غَضِبَتِ الْمُعَلِمَةُ عَلَىاخْتِكَ ؟ مَا كَانَتْحَفِظَتْدُرُوْسَهَا ‪-‬‬ ‫(‪)1‬‬

‫هَلْ أَنْتَ تَحْفَظُ كَلَّ يَوْمٍ دَرْسَكَ ؟ أَنَاكُنْتُ أَحْفَظَكُلَّيَوْمٍ لَكِنْ بِالْأَمْسِ‬ ‫(‪) ٢‬‬

‫مَاحَفِظْتُ‬

‫( ‪ ) ٣‬هَلْ وَلَدُكَفِيالْبِيْتِ ؟ قَدْ خَرَجَ الْآنَ ‪-‬‬

‫وَاَيْنَ يُوْسُفُ ؟ لَعَلَّهُ ذَهَبَ إِلَى الْمَسْجِدِ‬ ‫(‪)۴‬‬

‫( ‪ ) ٥‬لَوْكُنَّا نَسْمَعُاَوْنَعْقِلُمَا كُنَّافِيأَصْحَابِالسَّعِيرِ ‪-‬‬

‫وَيَقُوْلُ الْكَفِرُيَا لَيْتَنِي كُنْتُتُرَابًا‪-‬‬ ‫(‪) ٢‬‬

‫ثُمَّ بَعَثْنَكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ‬ ‫( ‪)٧‬‬

‫كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ‪-‬‬ ‫(‪) ۸‬‬

‫يلَيْتَنِيكُنتُ مَعَهُمْ ‪-‬‬ ‫(‪) 9‬‬

‫( ‪ ) 10‬ذَلِكَمِنْأَيْتِاللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ‬

‫يُلَيْتَقَوْمِي يَعْلَمُونَ ‪-‬‬ ‫( ‪)1‬‬

‫(‪ )۱۲‬لَعَلَّالسَّاعَةَ قَرِيْبٌ‬

‫( ‪ ) ۱۳‬وَمَا ظَلَمُوْناً وَلَكِنْكَانُوْا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ‪-‬‬

‫( ‪ ) ۱۳‬لَوْكَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَمَا قُتِلُوْا ‪-‬‬

‫( ‪ )۱۵‬لَوْكَانُوا مُسْلِمِينَ‬
‫‪۶۲‬‬

‫وَلاَجْرُ الْآخِرَةِ اكْبَرُ ‪ -‬لَوْكَانُوا يَعْلَمُوْنَ ۔‬ ‫( ‪) ۱۶‬‬

‫عربی میں ترجمہکریں ‪:‬‬

‫( ‪ ) 1‬اسکول کے لڑکے باغ میں گئے ہیں ۔ شاید وہ مغرب سے ذرا پہلے لوٹآئیں ۔‬

‫( ‪ ) ۳‬میں نےکل اپنا سبق یادکیا تھا‬


‫۔‬ ‫( ‪ ) ۲‬کیا تم نے کل اپنا سبق یاد نہیں کیا تھا ؟‬

‫( ‪ )۴‬کیا مریم نے آج ہوم ورکلکھ لیا ہے ؟ (‪ ) ۵‬جی ہاں ! اس نے لکھ لیہ‬


‫اے ۔‬

‫( ‪ ) ۲‬ہم لوگہوم ورککلکریں گے ۔ ( ‪ )۷‬محلہ کے لڑکے ہر روز اپنے اسباق پاد‬

‫کیاکرتے تھے ۔ وہ سبامتحان میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔‬

‫ضروریہدایت ‪:‬‬

‫اب ضرورت ہےکہ اردو سے عربی ترجمہکرنے سے پہلے آپاردو جملے کے‬

‫اجزاءکو پہچان کر انہیں عربی جملہکی ترتیب کے مطابق مرتبکر لیا کریں پھر اسی‬

‫ترتیب سے ترجمہ کریں یعنی پہلے فعل ‪ ،‬پھر فاعل (اگر اسم ظاہر ہو ) ‪ ،‬پھرمفعول ( اگر‬

‫نکو ر ہو ) اور پھر متعلق فعل ۔ مثلاً مشق کے پہلے جملہ پر غورکریں ۔ اس میں دو جملے‬

‫شامل ہیں ۔ عربی میں ترجمہ کرنے کے لئے پہلے جملہکی ترتیب اس طرح ہوگی ۔ گئے‬

‫ہیں ( فعلماضی قریب) اسکول کے لڑکے ( فاعل ) باغ میں ( متعلق فعل) ۔ ابآپ‬

‫اس ترتیب سے ترجمہکریں ۔ اسی طرح دوسرے جملہ میں پہلے آپ "شاید وہ لوٹ‬

‫آئیں "کا ترجمہکریں اس کے بعد " مغرب سے ذرا پہلے "کا ترجمہکریں ۔‬
‫‪۶۳‬‬

‫مضارعکے تغیرات‬

‫ٹرلیںکہ عربی کے افعال میں سے ۔‬


‫ا ‪ :‬اسم فعل کے اعراب کے حوالے سے نوک‬

‫ہے ۔ یعنی اس کے پہلے صیغہ واحد مذکرغائب ( فعل) میں لامکلمہکی‬


‫فعلماضی منی ہوتا‬

‫فتحه ( زبر) تبدیل نہیں ہوتی ۔گردان میں اگر چہ اس پر ضمہ ( پیش )بھی آتا ہے ۔ جیسے‬

‫صیغہ جمع مذکر غائب ( فَعَلُوا ) میں ۔ اور بہت سے صیغوں میں یہ ساکن بھی ہو جاتاہے‬

‫تحہ ( زبر )ہی رہتی ہے اورکسی‬


‫مگرچونکہ پہلے صیغے میں فعل ماضی کے لامکلمہ کی حرکفت‬

‫اے ۔‬
‫وجہ سے تبدیل نہیں ہوتی اس لئےکہا جاتاہےکہ فعل ماضی فتحہ ( زبر )پر مبنی ہوتہ‬

‫فعل ماضی کے بر عکس فعل مضارع معرب ہے ۔ یعنی اس کے پہلے صیغے‬ ‫‪۴۱ : ۲‬‬

‫يَفْعَلُ میں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے ۔ اس کے لامکلمہ پر عموماً تو ضمہ ( پیش ) ہوتا ہے ۔‬

‫تاہم بعض صورتوں میں ضمہ کے بجائے اس پر فتحہ ( زبر ) بھی آسکتی ہے اور بعض‬

‫صورتوں میں اس پر علامت سکون ( جزم) بھی لگسکتی ہے یعنی مضارعکا پہلا صیغہ‬

‫يَفْعَلُ سے تبدیل ہوکريَفْعَل بھی ہو سکتاہے اور يَفْعَل بھی ہو سکتا ہے ۔ مضارع میں‬

‫اے ۔ جو بعد میں بیان ہو گا ۔‬


‫ان تبدیلیوں کا اسکی گردان پر بھی اثر پڑت ہ‬

‫‪ ۴۱ :‬جس طرح اسم کی تین اعرابی حالتیں رفع نصب اور جز ہوتی ہیں ۔ اسی‬

‫طرح فعل مضارعکی بھی تین اعرابی حالتیں ہوتی ہیں ۔ انکو رفع نصب اور جزم‬

‫کہتے ہیں ۔ فعل مضارع جب حالت رفع میں ہو تو مضارع مرفوعکہلاتا ہے ۔ اسی‬

‫طرح نصبکی حالت میں مضارع منصوب اور جرمکی صورت میں مضارع مجزوم‬

‫کہلاتاہے ۔‬

‫یبا مجرور‬
‫‪ ۴۱ : ۴‬آپپڑھ چکے ہیںکہ کسی عبارتمیں کسی اسمکے مرفوع منصو‬

‫کر لیجئےکہ فعل مضارعمیں نصب اور‬


‫ہونے کی کچھ وجوہ ہوتی ہیں ۔ ابیہ بات نوٹ‬
‫‪۶۴‬‬

‫جزامکی تو کچھ وجوہ ہوتی ہیں مگر فعل مضارعمیں رفع کیکوئی وجہ نہیں ہوتی ۔ زیادہ‬

‫سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جبنصبیا جزمکیکوئی وجہ نہ ہو تو مضارع مرفوعہوتا‬

‫ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوںکہئے کہ جب فعل مضارع اپنی اصلی حالت میں ہو‬

‫جیسا کہ آپگردان میں پڑھ آئے ہیں )تو وہ مرفوعکہلاتہاے ۔ البتہکسی وجہکی بنیاد‬

‫با مجزوم ہو جاتا ہے ۔ دراصلگرامر والوں نے اسم کی تین حالتوں کے‬


‫پرید منصو ی‬

‫مقابلہ پر فعل مضارعکی تین حالتیں مقررکی ہیں ورنہ فعل مضارعکی حالت رفعکسی‬

‫تبدیلی کے نتیجے میں نہیں ہوتی ۔ تبدیلی کی وجہ صرف نصب اور جزم میں ہوتی ہے‬

‫( جس کا بیان آگے آرہا ہے ) ۔‬

‫‪ ۴۱ : ۵‬یہ بھی نوٹکیجئےکہ رفع اور نصب تو اسم میں بھی ہوتا ہے اور فعل مضارع‬

‫میں بھی ۔مگر جزم صرف مضارعکی ایک حالت ہوتی ہے جبکہ جر صرف اسم میں ہوتی‬

‫ہے ۔ اسم میں رفع نصب اور جر کی پہلے آپ نے علاماتیعنی آخری حرفکی تبدیلی‬

‫کے لحاظ سے اسم کی مختلف شکلیں پڑھی تھیں ۔ اس کے بعد رفع نصب اور جر کے‬

‫بعض اسباب کا مطالعہ کیا تھا‬


‫۔ اسی طرح فعل مضارع میں بھی پہلے ہم آپکو اس میں‬

‫رفع نصباور جرمکی صورتیا شکل کے بارے میں بتائیں گئے پھر ان کے اسباب‬

‫فعل مضارع " کے نام سے پڑھ چکے‬ ‫مضارع مرفوع وہی ہے جو آپ‬ ‫‪۴۱ :‬‬

‫ہیں ۔ اور اسکی گردان کے صیغوں سے بھی آپواقفہیں ۔ جبکہ مضارع منصوب‬

‫یا اسکی حالت نصب ایک تبدیلی ہے جو فعل مضارعکے آخری حصہ میں واقعہوتی‬

‫ہے اور اسکی تین علامات یا شکلیں ہیں جو درج ذیل نقشہ سے سمجھی جاسکتی ہیں ۔‬

‫يَفْعَلُوا‬ ‫يفعلا‬ ‫يَفْعَلَ‬

‫يَفْعَلْنَ‬ ‫تَفْعَلَا‬ ‫تَفْعَلَ‬

‫تَفْعَلُوا‬ ‫تَفْعَلاَ‬
‫تَفْعَلَ‬
‫‪۶۵‬‬

‫تَفْعَلْنَ‬ ‫تَفْعَلَا‬ ‫تَفْعَلِي‬

‫نَفْعَلَ‬ ‫نَفْعَلَ‬ ‫افْعَلَ‬

‫امید ہے مذکورہ نقشہ میں آپ نے نوٹکر لیا ہوگاکہ ‪:‬‬

‫مضارع مرفوع کے جنپانچ صیغوں میں لامکلمہ پر ختمہ ( پیش )آتا ہے ‪ ،‬حالت‬ ‫( ‪)1‬‬

‫نصب میں ان پر فتحہ ( زبر ) لگتی ہے ۔ یعنی يَفْعَلْ سے يَفْعَلَ اور تَفْعَلُ سے تَفْعَلَ‬

‫ہو جاتا ہے ۔ اسی طرحافْعَل اور نَفْعَلبھی ۔‬

‫مضارعکیگردان میں جن نو ( ‪ ) ۹‬صیغوں کے آخر پر نون ( ن ) آتا ہے‪ ،‬ان میں‬ ‫(‪)۲‬‬

‫سے دوکو چھوڑکر باقی سات صیغوںکا یہ نون جسکو " نون اعرابی ک‬
‫"ہتے ہیں‬

‫حالت نصب میں گر جاتا ہے ۔ مثلا يَفْعَلُونَ سے يَفْعَلُوْا اور تَفْعَلِيْنَسے تَفْعَلِي‬

‫وغیرہ رہ جاتا ہے ۔‬

‫( ‪ ) ۳‬نون والے باقی دو صیغے ایسے ہیں جن کانون حالت نصبمیں نہیںگرتا ۔یعنی یہ‬

‫دو صیغے حالت نصب میں بھی حالت رفعکی طرح رہتے ہیں ۔ اور یہ دونوں جمع‬

‫مونث غائب اور جمع مونث حاضر کے صیغے ہیں ۔ چونکہ یہ دونوں صیغے جمع مونث‬

‫( عورتوں ) کے لئے آتے ہیں اس لئے ان صیغوں کے آخری نونکو ” نُونُ‬

‫النسوة " ( عورتوں والا نون )کہتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ہم یوں بھیکہہ‬

‫ماسوائے‬ ‫سکتے ہیں کہ مضارع منصوبکی گردان میں آنے والے نون‬

‫گرجاتے ہیں ۔‬ ‫نون النسوۃ کے‬

‫‪ ۴۱ :‬مضارع مجزوم یا اسکی حالت جزم بھی مضارع مرفوعمیں ایک تبدیلی ہے‬

‫جو فعل مضارع کے آخری حصہ میں واقع ہوتی ہے اور اسکی بھی تین علامات یا‬

‫شکلیں ہیں ۔یعنی ‪:‬‬

‫مضارع مرفوع کے جن پانچ صیغوں میں لامکلمہ پر ضمہ ( پیش ) آتا ہے ‪،‬حالت‬ ‫( ‪)1‬‬

‫جرممیں انپر علامت سکون ( جزم) لگتی ہے ۔ یعنی يَفْعَلُ سے يَفْعَلْاور اَفْعَلُ‬
‫‪۶۶‬‬

‫سے افعلوغیرہ ہو جاتا ہے ۔‬

‫مضارع مرفوعکی گردان میں جن نو ( ‪ ) ۹‬صیغوںکے آخر پر نونآتا ہے ان میں‬ ‫(‪) ۲‬‬

‫سے دوکو چھوڑکر باقی سات صیغوںکانون ( جو نون اعرابیکہلاتا ہے گر جاتا ہے‬

‫یعنی يَكْتُبُونَ ‪ -‬يَكْتُبُوا اور تَكْتُبِينَ سے تکتین وغیرہ ہو جاتا ہے ۔‬

‫( ‪ ) ۳‬نصبکی طرح حالت جزم میں بھی ” نون النسوة " والے دونوںصیغے اپنی اصلی‬

‫یردان‬
‫کگ‬‫نیی مضارع مرفوعکی طرح ہی رہتے ہیں ۔ مضارعمجزومکی‬
‫ییععن‬
‫پترپر‬
‫حال‬

‫کی صورتیوںہو گی ‪.::‬‬

‫‪2426‬‬
‫‪1 2 22 6‬‬ ‫‪42 4 2 6‬‬

‫‪32426‬‬ ‫‪12228‬‬ ‫‪2:26‬‬

‫| ‪2612226‬‬ ‫‪2228‬‬

‫‪19228‬‬ ‫‪8.128‬‬

‫‪ ۴۱ :‬مندرجہ بالا بیان سے آپیہ تو سمجھ گئے ہوں گے کہ ‪:‬‬

‫مضارع منصوب اور مضارع مجزوم میں مشترک بات یہ ہےکہ دونوںکی‬ ‫( ‪)1‬‬

‫گردان میں سات صیغوں کانون اعرابی گر جاتا ہے جبکہ نون النسوۃ والے‬

‫دونوں صیغوں کانون برقرار رہتا ہے ۔‬

‫اور دونوںگردانوں میں فرق یہ ہےکہ مضارع مرفوعمیں لامکلمہ کے ضمہ‬ ‫(‪)۲‬‬

‫( پیش ) والے پانچ مینوں میں مضارعکی حالت نصبمیں فتحہ ( زبر ) اور حالت‬

‫جزم میں علامت سکون ( جزم) لگتی ہے ۔‬

‫‪ ۲۱ :‬یہاں یہ بات بھی نوٹکر لیجئےکہ چونکہ مضارع مجزوم کےپانچ صیغوں میں‬

‫آخر پر علامت سکون (‪) 2‬آتی ہے اس لئے علامت سکون ( ‪)3‬کو جزمکہنےکی غلطی عام‬
‫‪۶۷‬‬

‫ہوگئی ۔ جس طرح حرکاتکو غلطی سے اعرابکہہ دیا جاتا ہے ۔ یاد رہے " جزم " تو‬

‫فعل مضارعکی حالتکا نام ہے جس کا اثر اسکی گردان پر بھی پڑتا ہے ۔ جزم‬

‫(حرکات کی طرح )کوئی علامت ضبط نہیں ہے ۔ مضارع مجزوم کے مذکورہپانچ‬

‫صیغوں کے لام کلمہ پر جزم نہیں بلکہ علامت سکون (و ) ہوتی ہے جو انپانچ صیغوں‬

‫میں فعل کے مجزوم ہونےکی علامت ہے یہ بھی یاد رہے کہ جس حرفپر علامت‬

‫اسے مجزوم نہیں بلکہ " ساکن "کہتے ہیں ۔‬ ‫سکون ہوتی ہے‬

‫‪ ۴۱ : ۱۰‬یہ بھی نوٹکر لیجئےکہ بعض دفعہکسی اسم یا فعل ماضی کے پہلے صیغہ کے بعد‬

‫کوئی علامت وقف ہو (یعنی آیت پر ٹھہرنا ہو ) تو ایسی صورت میں آخری حرفکو‬

‫وَ مَا كَسَبَ ‪0‬ایسی صورت میں "ن "‬ ‫ساکن ہی پڑھا جاتا ہے ۔ مثلاكِتَابٌ مُّبِينٌ‬

‫یا "ب "کو ساکن تو پڑھتے ہیں لیکن اس سے وہ اسم یا فعل مجزوم نہیںکہلاتا ۔ اسی‬

‫طرح بعض دفعہ مضارع مجزوم کے آخری ساکن حرفکو آگے ملانے کے لئےکسرہ‬

‫( زیر ) دی جاتی ہے جیسے اَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ۔ یہاں دراصل ” نَجْعَلُ" ہے جسے آگے‬

‫ملانے کے لئےکسرہ ( زیر دیگئی ہے ۔ ایسی صورت میں مضارع مجرور نہیں کہلاتا ۔‬

‫اس لئےکہ حالت جر کا تو فعل سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ یہ تو اسم کی ایک حالت‬

‫ہوتی ہے جسکی ایک علامت بعض دفعہکسرہ ( زیر ) ہوتی ہے ۔‬

‫‪ ۴۱ : ۱۱‬اب ہم آپکو یہ بتائیں گے کہکن اسباباور عواملکی بناء پر مضارعمیں‬

‫یہ تغیرات ہوتے ہیں ۔بتایا جا چکاہےکہ مضارع مرفوع کا توکوئی سبب نہیں ہوتا ۔‬

‫البته مضارع مرفوع کے حالت نصبیا حالت جزم میں تبدیل ہونےکیکوئی وجہ ہوتی‬

‫ہے ۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم مضارع میں نص ی‬


‫با جزم کے اسباب اور عواملکی‬

‫باتکریں آپکچھ مشقکرلیں ۔‬


‫‪YA‬‬

‫مشق نمبر ‪۴۰‬‬

‫مندرجہ ذیل افعال میں سے مرفوع اور منصوبکو علیحدہعلیحدہکریں ‪:‬‬

‫تَدْخُلَانِ‬ ‫يَضْحَكَا‪-‬‬ ‫تَنْصُرُ‪-‬‬ ‫يَأْكُلْنَ‬ ‫تَكْتُبِى‬ ‫نَسْمَعَ ‪-‬‬ ‫يَنْجَحُوْنَ‬

‫تَجْلِسْنَ‬ ‫يَذْبَحُ‬ ‫افْتَحَ ‪ -‬تَشْرَبُوا‬ ‫تَضْرِبُوا‬

‫مندرجہ ذیل افعالمیں سے مرفوع اور مجزومکو علیحدہعلیحدہکریں ۔‬

‫تَعْلَمُ ‪ -‬يَشْرَبْ‬ ‫أَفْتَحْ‬ ‫تَضْرِينَ‬ ‫يَشْرَبْنَ ‪ -‬يَشْكُرُونَ ‪ -‬تَظلين ‪-‬‬ ‫تَقْعُدْ ‪-‬‬

‫تَسْمَعْنَ‬ ‫تَلْعَبَانِ‬ ‫تَفْتَحُ‬


‫‪۶۹‬‬

‫نواصبمضارع‬

‫‪ ۴۲ : ۱‬فعل مضارع کے منصوب ہونے کی متعددوجوہ ہو سکتی ہیں ۔ جن میں سے‬

‫صرف بعض اہم وجوہ کا ذکر ہم یہاںکر رہے ہیں ۔ چنانچہ نوٹکیجئے کہ چار حروف‬

‫فعل مضارع کے " ناصب "کہلاتے ہیں ۔ یعنی یہ اگر مضارعکے شروعمیں آجائیں‬

‫تو مضارع منصوب ہو جاتا ہے ۔ وہ چار حروفیہ ہیں ۔ (‪ )۱‬لَنْ ( ‪ )۲‬أَنْ ( ‪ )۳‬إِذَنْ‬

‫جو قرآنکریم میں اذا لکھا جاتا ہے ) اور ( ‪ ) ۴‬گئی ۔ اب ہم ان سبپر الگ الگ‬

‫باتکر کے ان حروف سے پیدا ہونے والی لفظی اور معنوی تبدیلیوں کا بیانکریں‬

‫گے ۔ البتہ آپیہ یاد رکھیں کہ اصل نواصبیہی چار حروف ہیں ۔ چونکہ ان میں‬

‫سے زیادہ کثیرالاستعمال " لن " ہے اس لئے پہلے اس پر باتکرتے ہیں ۔‬

‫عر " لن " داخل‬


‫‪ ۴۲ : ۲‬حرف " لَنْ " کے اپنے کوئی الگمعنی نہیں ہیں مگر مضارپ‬

‫ہونے سے اس میں دو طرحکی معنوی تبدیلی آتی ہے ۔ اولاً یہکہ اس میں زور دار نفی‬

‫کے معنی پیدا ہوتے ہیں اور ثانیاً یہکہ اس کے معنی زمانہ مستقبل کے ساتھ مخصوص‬

‫ہو جاتے ہیں ۔ یعنی لَنْ يَفْعَلکا ترجمہ ہوگا وہ ہرگز نہیںکرےگا )۔ آپیوںبھی کہہ‬

‫سکتے ہیںکہ "لن " کے معنی ایک طرح سے " ہرگز نہیں ہو گاکہ " ‪ ....‬ہوتے ہیں ۔‬

‫اب ہم ذیل میں مضارع مرفوع اور مضارع منصوب بِلَنْ ( ب ‪ +‬لَنْ لَنْ کے ساتھ )‬

‫کی گردان دے رہے ہیں ۔ تاکہ آپ ہر صیغہ میں ہونے والی تبدیلیوںکو ایک دفعہ‬

‫پھرا چھی طرح ذہن نشینکرلیں ۔‬

‫مضارع منصوببلن‬ ‫مضارع مرفوع‬

‫لَن يُفعَل (دو ایک مرد ہرگز نہیںکرےگا )‬ ‫(وہ ایک مردکرتا ہے یا کرےگا )‬ ‫علْ‬
‫ل‬ ‫فعَ‬
‫يفْ‬
‫يَ‬

‫اور دو مرد ہرگز نہیں کریں گے )‬ ‫لَن تَفْعَلا‬ ‫او و دو مردکرتے ہیں یاکریں گے )‬ ‫يفعلان‬

‫لَن تَفْعَلُوا ( وہ سبمرد ہرگزنہیں کریں گے )‬ ‫( وہ سب مردکرتے ہیںیا کریں گے )‬ ‫يَفْعَلُونَ‬


‫مضارعمنصوب‬ ‫مضارع مرفوع‬

‫لَنْ تَفْعَلَ (وہ ایک عورتہرگز نہیں کرےگی )‬ ‫وہ ایکعور ک‬


‫ترتی ہے یا کرےگی )‬ ‫تَفْعَلُ‬

‫لَن تَفْعَلاً ( دودو عورتیں ہرگزنہیں کریں گی )‬ ‫اور دو صورتیںکرتی ہیںیاکریں گی )‬ ‫تفعلان‬

‫لَنْيَفْعَلْنَ (وہ عورتیںہرگزنہیںکریںگی )‬ ‫وہ سب عورتیںکرتی ہیںیا کریں گی )‬ ‫يَفْعَلْنَ‬

‫لَنْ تَفْعَلَ (تو ایک مرد ہرگز نہیںکرےگا)‬ ‫(تو ایک مردکرتا ہےیا کرےگا )‬ ‫تَفْعَلُ‬

‫لَنْ تَفْعَلَا (تم دو مرد ہرگز نہیںکروگے )‬ ‫(تم دو مردکرتے ہو یاکرو گے )‬ ‫تَفْعَلانِ‬

‫لَنْ تَفْعَلُوا (تم سبمردہرگز نہیںکرو گے )‬ ‫تَفْعَلُونَ (تم سب مردکرتے ہو یا کرے گے )‬

‫تو ایکعورکترتی ہے یا کرےگی) لَنْ تَفْعَلی تو ایک عورتہرگز نہیں کرےگی )‬ ‫تَفْعَلِینَ‬

‫لَن تَفْعَلاً (تم دوعورتیں ہرگزنہیںکروگی )‬ ‫(تم دو عورتیںکرتی ہویاکروگی )‬ ‫تَفْعَلَانِ‬

‫لَنْ تَفْعَلْنَ (تم سب عورتیں ہرگز نہیںکروگی )‬ ‫تم سب عورتیںکرتی ہویاکردگی )‬ ‫تَفْعَلْنَ‬

‫لَنْافْعَلَ (میں ہرگز نہیںکروںگا می )‬ ‫میکںرتا‪/‬کرتی ہوںیا کروں گا می )‬ ‫افعل‬

‫لَن تَفْعَلَ (ہم ہرگز نہیںکریں گے گی )‬ ‫( ہمکرتے ‪/‬کرتی ہیںیا کریں گے گی )‬ ‫نَفْعَلُ‬

‫ٹر لیا ہوگا (‪ )1‬لامکلمہکے‬


‫‪ ۴۲ : ۳‬امید ہے کہ مذکورہگردانوں میں آپ نے نوک‬

‫ضمہ ( پیش ) والے صیغوں میں ابفتحہ ( زبر ) آگئی ( ‪ )۲‬جمع مونثکے دونوں صیغوں‬

‫نے تبدیلی قبول نہیں کی اور ان کے نون نسوہ بر قرار رہے ۔ جبکہ ( ‪ )۳‬باقی سات‬

‫صیغوں سے ان کے نون اعرابیگر گئے ۔ یہاں ایک اور اہم باتیہ بھی نوٹکرلیں‬

‫کہ جمع مذکر سالم کے دونوں صیغوں سے جب نون اعرابیکرتا ہے (یعنی مضارع‬

‫منصویبا مجزوم میں ) تو ان کے آگے ایک الفکا اضافہکردیا جاتا ہے ۔ یہ الف پڑھا‬

‫نہیں جاتا صرفلکھا جاتا ہے ۔ یعنی يَفْعَلُونَ اورتَفْعَلُونَ سے نون اعرابیکرنے کے‬
‫‪41‬‬

‫بعد انہیں يَفْعَلُو اور تَفْعَلُوہونا چاہئے تھا لیکن ان کے آگے ایکالفکا اضافہکرکے‬

‫يَفْعَلُوْا اور تَفْعَلُوا لکھا جاتا ہے ۔‬

‫‪ ۴۲ : ۴‬یہی قاعدہ فعل ماضی کے صیغہ جمع مذکر غائب ( فَعَلُوا)کا بھی تھا ۔ جمع مذکر‬

‫کے ان سب صیغوں میںآنے والی واؤکو " وَاوُ الْجَمْعِ "کہتے ہیں ۔ نوٹکرلیں کہ‬

‫اگر واو الجمع والے صیغہ فعل ماضی یا مضارع منصوبومجزوم )کے بعد اگرکوئی ضمیر‬

‫مفعول بنکر آئے تو یہ الف نہیں لکھا جاتا ۔ مثلاً ضَرَبُوْهُ ( ان سب مردوں نے اسے‬

‫۔‬ ‫مارا ۔ اسی طرح لَنْ يَنصُرُوهُ ( وہ سب مرد اسکی ہرگزمدد نہیںکریں گے‬

‫یہ بھی نوٹکیجئے کہ واو الجمع کے آگے ایک زائد الفلکھنے کا قاعدہ‬ ‫‪۴۲ : :‬‬

‫صرف افعال میں جمع مذکر کے صیغوں کے لئے ہے ۔کسی اسم کے جمع مذکر سالم سے‬

‫۔ نون اعرابیگرتا ہے لیکن وہاں الف کا‬ ‫جب وہ مضافبنتا ہے‬ ‫بھی‬

‫اضافہ نہیں ہوتا ۔ یعنی مُسْلِمُون سے مُسلِمُو ہوگا ۔ جیسے مُسْلِمُوْ مَدِينَةٍ (کسی شہر‬

‫کے مسلمان ) ۔ اسی طرح صَالِحُونَ سے صَالِحُوُ ہوگا ۔ جیسے صَالِحُو الْمَدِينَةِ‬

‫(مدینہ کے نیک لوگ) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۴۲ :‬ان کے علاوہ باقی تین نواصب مضارع ( جو شروع میں دیئے گئے ہیں )بھی‬

‫جب مضارعپر داخل ہوتے ہیں تو اسے نصب دیتے ہیں اور اس کے مختلفصیغوں‬

‫میں اوپر بیانکردہ تبدیلیاں لاتے ہیں ۔ یعنی ان کے ساتھ بھی مضارعکی گردان اسی‬

‫طرح ہوگی جیسے لن کے ساتھ لکھی گئی ہے ۔ اب آپ ان حروف کے معانی اور‬

‫مضارع کے ساتھ ان کے استعمال سے پیدا ہونے والی معنوی تبدیلیکو سمجھ لیں ۔‬

‫‪ ۴۲ :‬حرف آن (کہ )کسی فعل کے بعد آتا ہے ۔ جیسے اَمَرْتُهُ اَنْيَّذْهَبَ ( میں نے‬

‫جو قرآن میں اذا لکھا‬ ‫اسے حکم دیا کہ وہ جائے ) ۔ جبکہ حرف اذن (تب تو پھر تو )‬

‫ریا جاتا‬
‫سے پہلے ایک جملہ آتا ہے جس کا نتیجہ یا رد عملاذن سے ظاہک‬ ‫جاتا ہے‬

‫ہے ۔ یعنی اذن ينجح ( پھرتو وہ کامیابہوگا) یا اِذَنْ تَفْرَحُوا ( تب تو تم سبخوش ہو‬
‫‪۷۲‬‬

‫جاؤ گے ) وغیرہ سے قبلکوئی جملہ تھا جس کا نتیجہ یا رد عملاذن کے بعد آیا ہے ۔ اور‬

‫آخری حرف گئی ( تاکہ )بھی کسی فعل کے بعد آتا ہے اور اس فعل کا مقصد بیان کرتا‬

‫ہے ۔ مثلاً اَقْرَءُ الْقُرْآنَ كَيْ اَفْهَمَهُ ) میں قرآن پڑھتا ہوں تاکہ میں اسے سمجھوں )‬

‫وغیرہ ۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ اصل نواصب مضارعتو مذکورہ بالا یہی چار حروف‬

‫ہیں ۔ ان کے علاوہ جو دو حروف ناصب ہیں ‪ ،‬دراصل ان کے ساتھ مذکورہ چار‬

‫نواحب میں سے کوئی ایک " مُقَدَّرُ " ( یعنی خود بخود موجودیا ‪ ) Understood‬ہوتا‬

‫( ‪ " ) 1‬ل " ( تاکہ ) اور ( ‪ " )۲‬حتی " (یہاںتککہ ) ۔‬ ‫ہے ۔ وہ دو حروفیہ ہیں ‪:‬‬

‫انکی تفصیل درج ذیل ہے ۔‬

‫" ل "کو لام گئی کہتے ہیں ۔کیونکہ یہ گئی ( تاکہ ) کا ہی کام دیتا‬
‫ہے ۔ معنی‬ ‫‪:‬‬

‫کے لحاظ سے بھی اور مضارعکو منصوبکرنے کے لحاظ سے بھی ۔ جیسے مَنَحْتُكِكِتَابًا‬

‫لِتَقْرَئِی ( میں نے تجھے عورتکو ایککتاب دی تاکہ تو پڑھے )۔ نوٹکرلیںکہ‬

‫" ل " ‪ " -‬گئی " اور " لگنی " ایک ہی طرح استعمال ہوتے ہیں ۔‬

‫‪ ۴۲ : ۹‬بعض دفعہ " ل " ‪ " -‬آن " کے ساتھ ملکر بصورت "لان " (تاکہ ) بھی‬

‫استعمال ہوتا ہے ۔ " لان " عموماً مضارع منفی سے پہلے آتا ہے اور اس صورت میں‬

‫لان لا "کو " لِئَلا "لکھتے اور پڑھتے ہیں ۔ مثلاً منَحْتُكَكِتَابًا لِئَلَّا تَجْهَلَ ( میں نے‬

‫تجھ کو ایککتابدی تاکہ تو جاہل نہ رہے ) ۔‬

‫‪:‬‬
‫‪ ۴۲‬اس طرح کا دوسرا ناصب مضارع " حتی " ہے ۔ یہ بھی دراصل " حتی‬ ‫‪۱۰‬‬
‫‪:‬‬

‫ان " ( یہاں تککہ ) ہوتا ہے جس میں آن محذوف( غیرمذکو ر) ہو جاتا ہے اور صرف‬

‫" حتى " استعمال ہوتا ہے لیکن مضارعکو نصب ای محذوفانکی وجہ سے آتی‬

‫ہے ۔ جیسے حتَّی يَفْرَحَ (یہاں تککہ وہ خوش ہو جائے ) ۔ نوٹکرلیںکہ حتٰی کا‬

‫استعمال بھی اذن اور گنی کی طرح ایک سابقہ جملہ کے بعد آنے والے جملے میں ہوتا‬

‫ہےکیونکہ یہ شروع میں نہیں آسکتے ۔ ناصب مضارع ہونے کے علاوہ بھی " حتّی "‬

‫کے کچھ اور استعمالات ہیں جو آپ آگے چل کر پڑھیں گے ( ان شاء اللہ )‬


‫ذخیرہ الفاظ‬

‫=‬
‫‪ -‬حکم دینا‬ ‫امران)‬ ‫= اجازتدینا‬ ‫اذِنَ(س)‬

‫فرغ( )‬
‫ف = کھٹکھٹانا‬ ‫= تلنا ۔ہٹنا‬ ‫بوح(س)‬

‫= ذبحکرنا‬ ‫ذَبَحَ(ف)‬ ‫= پہنچنا‬ ‫بَلَغَ (ن)‬

‫= غمگین ہونا‬
‫حَزِنَ ( س) ‪-‬‬ ‫غمگینکرنا‬
‫=‬ ‫حَزَنَ(ن)‬

‫=‬
‫‪ -‬چاٹنا‬ ‫لَعِقَ (س)‬
‫= فائدہ دینا‬ ‫نَفَعَ (ف)‬

‫= میںپناہ مانگتاہوں‬ ‫اَعُوذُ‬ ‫=‬


‫‪ -‬بزرگی‬ ‫مجد‬

‫مشق نمبر ‪ ( ۴۱‬الف )‬

‫مندرجہ ذیل افعالکی گردانکریں اور ہر صیغہ کے معنی لکھیں ‪:‬‬

‫(‪ )1‬لَنْ يَكْتُبَ (‪ )۳‬أَنْتَضْرِبَ ( ‪ ) ۳‬لِيَفْهَمَ‬

‫مشق نمبر ‪ ( ۴۱‬ب )‬

‫مِنَالْقُرْآنِ ہیں )‬ ‫‪( :‬نمبر‪ ۵‬تا‬ ‫اردو میں ترجمہکریں‬

‫لَنْ تَبْلُغَ الْمَجْدَ حَتَّى تَلْعَقَ الصَّبْرَ‬ ‫(‪) 1‬‬

‫لِمَ لَا تَشْرَبُ اللَّبَنَ كَيْ يَنْفَعَكَ‬ ‫(‪) ۳‬‬

‫كَانَ سَعِيدٌ يَقْرَعُالْبَابَفَفَتَحْتُ لَهُ الْبَابَ لِيَدْخُلَ عَلَيْنَا‬ ‫( ‪)۳‬‬

‫(‪ ) ۳‬أَذِنْتُ لَهُ لِئَلَّايَحْزَنَ‬

‫( منالْقُرْآن)‬

‫( ‪ ) ۵‬قَالَ مُوسَىلِقَوْمِهِ إِنَّاللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً‬

‫( ‪ ) ٢‬اَعُوْذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ‬


‫‪۷۴‬‬

‫( ‪ ) ۷‬أُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ الله‬

‫عربی میں ترجمہکریں ‪:‬‬

‫میں آج ہرگز قہوہ نہیں پیوںگی ۔‬ ‫(‪) 1‬‬

‫( ‪ ) ۲‬اللہ نے انسانوںکو پیدا کیا تا کہ وہ (سب ) اسکی عبادتکریں ۔‬

‫( ‪ ) ۳‬ہم قرآن پڑھتے ہیں تاکہ اسکو سمجھیں ۔‬

‫( ‪ ) ۴‬وہ دونوں ہرگز نہ ٹلیں گے یہاں تککہ تم انکو اجازتدو ۔‬

‫( ‪ )۵‬تم دروازہ کھٹکھٹارہے تھے تو اس نے تمہارےلئے دروازہ کھول دیا تا کہ تم‬

‫غمگین نہ ہو ۔‬
‫‪۷۵‬‬

‫مضارعمجزوم‬

‫‪ ۴۳‬گزشتہ سبق میں ہم بعض ایسے حروفِ عاملہ کا مطالعہ کر چکے ہیں جو مضارع‬ ‫‪۱‬‬

‫کو نصب دیتے ہیں ۔ اب اس سبق میں ہم نے بعض ایسے " عوامل "کا مطالعہکرنا‬

‫ہے جو مضارعکو جزم دیتے ہیں ۔ ایسے حروف واسماءکو ” جَوَازِم مضارع "کہتے ہیں‬

‫جو دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جو صرف ایک فعل کو جزم دیتے ہیں اور‬

‫دوسرے وہ جو دو فعلوںکو جزم دیتے ہیں ۔‬

‫‪ ۴۳ : ۲‬صرف ایک فعلکو جزم دینے والے حروف بھی نواصبکی طرح اصلا تو‬

‫( ‪ ) ۳‬راجے " لام امر "کہتے ہیں ) اور (‪ ) ۴‬لا‬ ‫( ‪ ) ۲‬لَمَّا‬ ‫چارہی ہیں ۔ یعنی (‪ ) ۱‬لَمْ‬

‫لائے نہی "کہتے ہیں )۔ جبکہ دو فعلوںکو جزم دینے والا اہم ترین حرف جازمتو‬ ‫جسے‬

‫مَا مَتَى أَيْنَ أَيَّانَ‬ ‫" ان" (اگر) شرطیہ ہے البتہ بعض اسماء استفہام مثلا مَنْ‬

‫ائی وغیرہ بھی مضارع کے دو فعلوںکو جزم دیتے ہیں ۔ اور اس وقت انکو بھی‬

‫" أسماء الشرط"کہتے ہیں ۔ یہ سب جملہ شرطیہ میں استعمال ہوتے ہیں اور شرط‬

‫اور جواب شرط میں آنے والے دونوں مضارع افعالکو جزم دیتے ہیں ۔ اس سبق‬

‫میں ہم ایک فعل مضارعکو جنم دینے والے حروف جازمہ میں سے صرفپہلے دو‬

‫یعنی لَمْ اور لما کے استعمال اور معنی کی باتکریں گے ۔ باقی دو حروف یعنی لام امر اور‬

‫لائے نہی پر ان شاء اللہ فعل امر اور فعل نہی کے اسباق میں بات ہوگی ۔‬

‫‪ ۴۳ : ۳‬کسی فعل مضارعپر جب" لم " داخل ہوتا ہےتو وہبھی اعرابی اور معنوی‬

‫دونوں تبدیلیاں لاتا ہے ۔ اعرابی تبدیلی یہ آتی ہےکہ مضارع مجزوم ہو جاتا ہے ۔‬

‫یعنی اس کے لام کلمہ پر ضمہ ( پیش ) والے صیغوں میں علامت سکون ( جزم ) لگ جاتی‬

‫ہے ۔ اور نون النسوہ کے علاوہ باقی صیغوںمیں ” نون اعرابی گر جاتا ہے ۔‬
‫‪ ۴۳ : ۴‬حرفناصب لنکی طرح حرف جازم لَم کے بھی الگ‬
‫کوئی معنی نہیں ہیں‬

‫مگرجبیہ ( لَمْ) مضارعپر داخل ہوتاہے تو لن ہی کی مانند دو طرحکی معنوی تبدیلی‬

‫لاتا ہے ۔ اولاً یہ کہ مضارع میں زور دار نفی کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں اور ثانیا یہکہ‬

‫مضارع کے معنی ماضی کے ساتھ مخصوص ہو جاتے ہیں ۔ مثلا لَمْ يَفْعَلْ ( اس نے کیا ہی‬

‫نہیں ۔ ماضی کے شروع میں " ما " لگانے سے بھی ماضی منفی ہو جاتا ہے جیسے مَا فَعَلَ‬

‫( اس نے نہیںکیا ) ۔ مگر "لم " میں زور اور تاکید کے ساتھ نفی کا مفہوم ہوتاہے ۔‬

‫جسے ہم اردو میں " ہی " اور "بالکل " کے ذریعے ظاہرکرتے ہیں یعنی لَمْ يَفْعَلْ کا‬

‫درست ترجمہ ہوگا ” اس نے کیا ہی نہیں " یا " اس نےبالکل نہیں کیا " ۔اب ہم ذیل‬

‫میں مضارع مرفوع اور مضارع مجزومکی گردان دے رہے ہیں تاکہ آپ ہر صیغہ‬

‫میں ہونے والی تبدیلیوںکو ذہن نشینکرلیں ۔‬

‫مضارع مجزوم‬ ‫مضارع مرفوع‬

‫(اسایک مرد نےکیا ہی نہیں )‬ ‫لَمْيَفْعَلْ‬ ‫وہ ایک مردکرتاہے یا کرےگا )‬ ‫يَفْعَلُ‬

‫لَمْيَفْعَلا‬ ‫يَفْعَلان‬

‫لَميَْفْعَلُوا‬ ‫يَفْعَلُونَ‬

‫( اس ایکعورتنےکیا ہی نہیں )‬ ‫تم انعلی‬ ‫( وہ ایک عورکترتی ہےیا کریگی )‬ ‫تَفْعَلُ‬

‫لَمْتَفْعَلَا‬ ‫تَفْعَلَان‬

‫لَمْيَفْعَلْنَ‬ ‫يَفْعَلْنَ‬

‫لَمْ تَفْعَلُ (تو ایک مرد نےکیا ہی نہیں )‬ ‫(تو ایک مردکرتا ہے یاکریگا )‬ ‫تَفْعَلُ‬

‫لَمْتَفْعَلَا‬ ‫تَفْعَلَان‬

‫لَمْتَفْعَلُوا‬ ‫تَفْعَلُونَ‬
‫‪LL‬‬

‫مضارعمجزوم‬ ‫مضارع مرفوع‬

‫لَمْ تَفْعَلِی (تو ایک عورتنےکیا ہی نہیں )‬ ‫(تو ایک صورتکرتی ہے یاکریگی )‬ ‫تَفْعَلِينَ‬

‫لَمْ تَفْعَلاً‬ ‫تَفْعَلَان‬

‫لَمْتَفْعَلْنَ‬ ‫تَفْعَلْنَ‬

‫ےیا ہی نہیں )‬
‫(میںن ک‬ ‫لَمْ اَفْعَلْ‬ ‫( میںکرتا ہوںیاکروںگا )‬ ‫افعَل‬

‫لَمْ تَفْعَلْ‬ ‫نَفْعَلُ‬

‫‪ ۴۳ : ۵‬امید ہےکہ مذکورہ بالاگر دانوں کے تقابل سے آپ نے مندرجہ ذیل‬

‫باتیں نوٹکرلی ہوںگی ۔‬

‫جن صیغوں میں مضارع کے لامکلمہ پر ضمہ( پیش ) ہے وہاں لم داخل ہونےکی‬ ‫( ‪)1‬‬

‫وجہ سے لامکلمہ پر علامت سکون آگئی ۔‬

‫جن سات صیغوں میں نون اعرابی آتے ہیں ان سب میں کم داخل ہونے کی‬ ‫(‪)۲‬‬

‫وجہ سے نون اعرابیگر گئے ۔‬

‫( ‪ ) ۳‬جمع مذکر غائب اور مخاطب کے صیغوں سے جب نون اعرابیگرا تو اسکی آخری‬

‫واو ( واو الجمع ) کے بعد حسب قاعدہ ایک الف کا اضافہکر دیاگیا جو پڑھا نہیں‬

‫جاتا ۔‬

‫جمع مؤنث غائب اور مخاطب کے دونوں صیغوں میں ” نون النسوہ " نےکوئی‬ ‫(‪)۴‬‬

‫تبدیلی قبولنہیںکی ۔‬

‫‪ ۴۳ :‬دوسرا حرف جازم " لَمَّا "ہے ۔ بحیثیت جازم اس کا ترجمہ " ابھی تک‬

‫کر سکتے ہیں ۔ ( خیال رہے لَمَّا کے کچھ اور معنی بھی ہیں جو ان شاء اللہ ہم‬ ‫نہیں‬

‫آگے چل کر پڑھیں گے ) ۔ مضارع پر جب لما داخل ہوتا ہے تو اس میں معنوں‬

‫ابھی تک نہیں " کا مفہوم پیدا ہوتا ہے ۔ مثلاً‬ ‫تبدیلی یہ لاتا ہےکہ ماضی کے ساتھ‬
‫‪ZA‬‬

‫لَمَّا يَفْعَلْ ( اس ایک مرد نے ابھی تک نہیںکیا ) ۔‬

‫‪ ۴۳ : ۷‬دو فعلوںکو جنم دینے والے حروف و اسماء میں سے ہم یہاں صرف اہم‬

‫ترین حرف " ان " (اگر ) شرطیہ کا ذکرکریں گے ۔ باقی کے استعمال آپآگے چلکر‬

‫پڑھیں گے ۔ تاہم اگر آپ نے ان کا استعمال سمجھ لیا تو باقی حروف و اسماءِ شرط کا‬

‫استعمالسمجھ لینا کچھ بھی مشکل نہ ہوگا ۔‬

‫‪۴۳ :‬‬
‫) ان ( اگر )بلحاظ عمل جازم مضارع ہے اور بلحاظ معنی حرف شرط ہے ۔‬

‫جس جملہ میں ان آئے وہ جملہ شرطیہ ہوتا ہے جس کا پہلا حصہ ”بیان شرط "یا صرف‬

‫"شرط "کہلاتا ہے ۔ اس کے بعد لازماً ایک اور جملہکی ضرورت ہوتی ہے ۔ جسے‬

‫تو میں تجھے‬ ‫" جواب شرط " یا "جزاء "کہتے ہیں ۔ مثلاً " اگر تو مجھے مارےگا‬

‫۔ اس میں پہلا حصہ " اگر تو مجھے مارےگا " شرط ہے اور دوسرا حصہ ”تو‬ ‫ماروںگا‬

‫میں تجھے ماروںگا " جواب شرط یا جزاء ہے ۔ اگر شرط اور جواب شرط دونوںمیں‬

‫فعل مضارع آئے ( جیساکہ عموماً ہوتا ہے ) اور شرط بھی اِن سے بیانکرنی ہو تو شرط‬

‫والے مضارع سے پہلے ان لگے گا اور مضارعمجزوم ہوگا اور جواب شرط والا فعل‬

‫مضارع خود بخود مجزوم ہو جائے گا ۔ ( بین صورتتمام حروف شرط اور اسماء شرط میں‬

‫بھی ہوگی ) اس قاعدہکی روشنی میں ابآپمذکورہ جملہ " اگرتو مجھے مارےگا تو میں‬

‫ان تضربني‬ ‫تجھے ماروں گا " کا عربی میں ترجمہ آسانی سے کر سکتے ہیں ۔ یعنی‬

‫اضْرِبُكَ‬

‫فعلماضی کے مبنی ہونے‬ ‫‪ ۴۳‬ان فعل ماضی پر بھی داخل ہوتاہے لیکن‬ ‫‪۹‬‬

‫کی وجہ سے اس میںکوئی اعرابی تغیرنہیں ہوتا۔ البتہانکی وجہ سے معنوی تبدیلی یہ‬

‫آتی ہےکہ ماضی میں مستقبل کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں کیونکہ شرط کا تعلق تو مستقبل‬

‫سے ہی ہوتاہے ۔ مثلاان قرات فهِمْتَ ( اگرتو پڑھےگا توسمجھے گا )۔‬


‫‪۷۹‬‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫گسل(س‬
‫) ‪ -‬سستیکرنا‬ ‫=‬
‫‪ -‬خرچکرنا‬ ‫بَذَلَ(ن)‬

‫‪ -‬دیکھنا‬ ‫نظران)‬ ‫‪ -‬شرمندہ ہونا‬ ‫نَدِمَ(س)‬

‫= کوشش محنت‬ ‫جهد‬ ‫= طلوعہونا‬ ‫طَلَعَ(ن )‬

‫نمبر ‪۴۲‬‬
‫) (الف)‬ ‫مشق‬

‫مندرجہ ذیل افعالکی گردانکریں اور ہر صیغہ کے معنی لکھیں ۔‬

‫( ‪ )١‬لَمْ يَفْهَمْ (‪ ) ۳‬لَمَّا يَكْتُبْ ( ‪ ) ۳‬إِنْيَضْرِبْ‬

‫مشق نمبر ‪( ۴۲‬ب )‬

‫اردو میں ترجمہکریں ‪:‬‬

‫‪-‬‬ ‫إِنْ لَّمْ تَبْدُلْ جُهْدَكَ لَنْ تَنْجَحَ ‪-‬‬


‫(‪ )۳‬إِنْ تَكْسَلْتَنْدَمْ‬ ‫(‪) 1‬‬

‫( ‪ ) ۳‬إِنْ تَذْهَبْ إِلَىحَدِيقَةِ الْحَيْوَانَاتِ تَنْظُرْعَجَائِبَخَلْقِاللَّهِ ‪-‬‬

‫مِنَ الْقُرْآنِ‬

‫( ‪ )۵‬فَعَلِمَ مَالَمْ تَعْلَمُوْا ‪-‬‬ ‫وَلَمَّايَدْخُلِ الْإِيْمَانُفِي قُلُوْبِكُمْ ‪-‬‬ ‫(‪)۴‬‬

‫أَلَمْ تَعْلَمْأَنَّ اللَّهَ عَلَىكُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‪ ) ۷ ( -‬إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ‬ ‫(‪) ۲‬‬

‫عربی میں ترجمہکریں ‪:‬‬

‫اگر تو میری مددکرےگا تو میں تیری مددکروںگا ۔‬ ‫(‪) 1‬‬

‫ہم نے قہوہ بالکل نہیں پیا اور ہم اسے ہرگز نہیں پئیں گے ۔‬ ‫(‪)۲‬‬

‫( ‪ ) ۳‬سورجابتکطلوع نہیں ہوا ۔‬

‫( ‪ ) ۳‬کیا ہم لوگوںکو معلوم نہیںکہ اللہ غفور رحیم ہے ۔‬


‫‪A.‬‬

‫فعل مضارع کا تاکیدی اسلوب‬

‫‪ ۴۴ : ۱‬اسکتاب کے حصہ اول کے سبق نمبر‪ ۱۲‬میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ جملہ اسمیہ‬

‫میں اگر تاکید کا مفہوم پیدا کرنا ہو تو حرف " ان " کا استعمال ہوتا ہے ۔ اب اس سبق‬

‫میں ہم پڑھیں گے کہ کسی فعل مضارع میں اگر تاکید کا مفہوم پیدا کرنا ہو تو اس کا کیا‬

‫طریقہ ہو گا ۔ اس باتکو سمجھانے کے لئے ہم تھوڑا سا مختلف انداز اختیارکریں گے‬

‫تاکہ بات پوری طرحذہن نشین ہو جائے ۔ پھر ہم آپکوبتا ئیں گے کہ یہ عام طور پر‬

‫کس طرح استعمال ہوتا ہے ۔‬

‫اب اگر اس میں تاکید‬ ‫‪ ۴۴ : ۲‬دیکھیں يَفْعَل کے معنی ہیں وہ کرتا ہے یا کرےگا‬

‫کے معنی پیداکرنا ہوں تو اس کے لام کلمہکو فتحہ ( زبر) دےکر ایک نون ساکن ( جسے‬

‫وہ‬ ‫نون خفیفہ "کہتے ہیں ) بڑھا دیں گے ۔ اس طرح يَفْعَلَن کے معنی ہو جائیں گے‬

‫ضرورکرےگا "۔ اب اگر دوہری تاکیدکرنی ہو تو نون ساکن کے بجائے نون مشدد‬

‫وہ‬ ‫( جسے ” نون ثقیلہ "کہتے ہیں ) بڑھائیں گے ۔ اس طرح يَفْعَلَنَّ کے معنی ہوں گے‬

‫ضرور ہیکرےگا " ۔ اب اگر اس پر بھی مزید تاکید مقصود ہو تو مضارع سے قبل لام‬

‫تاکید " ل "کا اضافہکر دیں تو یہ لَيَفْعَلَنَّ ہو جائےگا یعنی " وہ لازماًکرےگا " ۔‬

‫‪ ۴۴ : ۳‬وضاحت کے لئے مذکورہ بالا ترتیب اختیارکرنے سے دراصل یہ بات‬

‫ذہن نشینکرانا مقصود تھاکہ فعل مضارعپر جب شروع میں لام تاکید اور آخر پر نون‬

‫ثقیلہ لگا ہوا ہو تو یہ انتہائی تاکید کا اسلوب ہے ۔ ورنہ نون خفیفہ اور ثقیلہ دونوں عام‬

‫طور پر لام تاکید کے ساتھ ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ البتہ نون ثقیلہ یعنی لَيَفْعَلَنَّ کا‬

‫اسلوب زیادہ مستعمل ہے جبکہ نون خفیفہ یعنی لَيَفْعَلَن کا استعمال کافیکم ہے اور‬

‫دونوں سے ایک جیسی ہی تاکید ہوتی ہے ۔‬

‫‪ ۴۴ : ۴‬ایک اہم بات یہ نوٹکر لیںکہ نون خفیفہ اور تقیلہ کے بغیر اگر صرف‬
‫‪Al‬‬

‫) لام تاکید مضارعپر آئے تو اسکی وجہ سے نہ تو مضارعمیں اعرابی تبدیلی آتی‬
‫(ل‬

‫ہے اور نہ ہی تاکید کا مفہوم پیدا ہوتا ہے ۔ البتہ مضارع زمانہ حال کے ساتھ‬

‫مخصوص ہو جاتا ہے ۔ یعنی لَيَفْعَلکے معنی ہوں گے "وہکر رہا ہے " ۔‬

‫‪ ۴۴ : ۵‬لام تاکید اور نون خفیفہ یا تھیلہ لگنے سے فعل مضارعکے صرف پہلے صیغہ‬

‫میں ہی تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ اسکی پوریگردان پر اثر پڑتاہے ۔ اب ہم ذیل میں‬

‫لام تاکید اور نون ثقیلہ کے ساتھ مضارعکیگردان دے رہے ہیں تاکہ آپ مختلف‬

‫مینوںمیں ہونے والی تبدیلی کو نوٹکرلیں ۔ اسکی وضاحت کے لئے پہلے کالم میں‬

‫ساده مضارع دیاگیا ہے ۔ دو سر نے کالم میں وہ شکل دیگئی ہے جوبظا ہر تبدیلی کے بغیر‬

‫ہونی چاہئے تھی ۔ تیسرے کالم میں وہ شکل دی گئی ہے جو تبدیلیکی وجہ سے مستعمل‬

‫ہے اور آخری کالم میں ہونے والی تبدیلی کی نشاندہیکی گئی ہے ۔‬

‫‪۴‬‬ ‫‪۲‬‬ ‫‪1‬‬

‫لَيَفْعَلَنَّ‬ ‫‪燙‬‬ ‫لَيَفْعَلُنَّ‬


‫لامکلمہ مفتوح ( زبر والا) ہوگیا۔‬ ‫يَفْعَلُ‬

‫نوناعرابیگرگیا اور نونثقیلہ مسور (زیر والا) ہوگیا‬ ‫لَيَفْعَلَانِ‬ ‫لَيَفْعَلَانِنَّ‬ ‫يَفْعَلَانِ‬

‫واد الجمعاور نون اعرابی گر گئے ۔‬ ‫لَيَفْعَلُنَ‬ ‫لَيَفْعَلُوْنَنَّ‬ ‫يَفْعَلُونَ‬

‫لامکلمہ مفتوحہوگیا‬
‫۔‬ ‫لَتَفْعَلَن‬ ‫لَتَفْعَلُنَّ‬ ‫تَفْعَلُ‬

‫یہاںبھی تون اعرابیگرگیا اور نون تکلیلہمکسور ہوگیا‬ ‫لَتَفْعَلانَ‬ ‫لَتَفْعَلَاننَّ‬ ‫تَفْعَلَان‬

‫سے‬
‫لہ‬ ‫یہاںنون النسوہ نہیں گرا ۔ اسے نون‬
‫ث ثققی‬
‫یلہ‬ ‫لَيَفْعَلْتَانِ‬ ‫لَيَفْعَلْنَنَّ‬ ‫يَفْعَلْنَ‬

‫مانے کے لئے ایک الفکا اضافہکیا گیا اور نون‬

‫تقبیلہمکسور ہوگیا۔‬

‫لامکلمہ مفتوحہوگیا۔‬ ‫لَتَفْعَلَنَّ‬ ‫لَتَفْعَلنَُّ‬ ‫تَفْعَلْ‬

‫نون اعرابیگرگیا اور نون ثقیلہ مسور ہوگیا‬ ‫لَتَفْعَلَانِ‬ ‫لَتَفْعَلَانِنَّ‬ ‫تَفْعَلَانِ‬

‫واو الجمع اور نون اعرابی گرگئے ۔‬ ‫لَتَفْعَلُنَ‬ ‫لَتَفْعَلُونَنَّ‬ ‫تَفْعَلُونَ‬


‫‪Ar‬‬

‫یہاںہمی اور نون اعرابیگر گئے ۔‬ ‫لَتَفْعَلِن‬ ‫لَتَفْعَلِينَنَّ‬ ‫تَفْعَلِيْنَ‬

‫نوناعرابیگرگیا اور نونثقیلہ مکسور ہوگیا‬ ‫لَتَفْعَلَانِ‬ ‫لَتَفْعَلانِنَّ‬ ‫تَفْعَلَانِ‬

‫لون النسو نہیںگرا ۔ اسے نونتکنیلہ سے ملانے کے‬ ‫لَتَفْعَلْنَانَ‬ ‫لَتَفْعَلْنَنَّ‬ ‫تَفْعَلْنَ‬

‫لئے ایکالفکااضافہ کیاگیا اور نونثقیلہ مکسور ہوگیا‬

‫لامکلمہ مفتوحہوگیا‬ ‫لا فعَلَن‬ ‫لَلافْ‬


‫فعَ‬
‫عللْن‬ ‫افعل‬

‫لامکلمہ مفتوحہوگیا‬ ‫لَتَفْعَلَنَّ‬ ‫لَتَفْعَلُنَّ‬ ‫نَفْعَلُ‬

‫‪ ۴۴ :‬نون ثقیلہ قرآن مجید میں کافی استعمال ہوا ہے ۔ اس لئے مناسب ہے کہ‬

‫اس کے واحد اور جمع کے صیغوں میں فرق اچھی طرح ذہن نشینکرلیں ۔ دیکھیں‬

‫ليَفْعَلَن میں لامکلمہ کی فتحہ ( زیر ) بتارہی ہے کہ مذکر غائب میں یہ واحد کا صیغہ ہے ۔‬

‫جبکہ لَيَفْعَلُنَّ میں لامکلمہ کی ضمہ ( پیش) بتا رہی ہے کہ مذکر غائب میں یہ جمع کا صیغہ‬

‫ہے ۔ اسی طرح آپ لَتَفْعَلَنَّ میں لام کلمہ کی فتحہ ( زبر ) سے پہچانیں گے کہ یہ مونٹ‬

‫غائب یا تذکر مخاطب میں واحد کا صیغہ ہے ۔ جبکہ لَتَفْعَلُنَّ میں نامکلمہکی ضمہ ( پیش )‬

‫سے پہچانیں گے کہ یہ مذکر مخاطب میں جمع کا صیغہ ہے ۔ لیکن متکلم کے واحد اور جمع‬

‫دونوں مینوں میں لامکلمہ پر فتحہ (زیم) رہتی ہے کیونکہ ان میں علامت مضارع سے‬

‫تمیزہو جاتی ہے یعنی لَا فَعَلَنَّ ( واحد ) اور لَتَفْعَلَنَّ (جمع) ۔ یہ بھی نوٹکرلیںکہ اگر لام‬

‫کلمہ پرکسرہ ( زیر) ہو تو وہ واحد مؤنث مخاطبکا صیغہ ہوگا ۔‬

‫‪ ۴۴ :‬نون خفیفہ کی گرداننسبتاً آسان ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ لام تاکید اور‬

‫نون خفیفہ کے ساتھ مضارع کے تمام صیغے استعمال نہیں ہوتے ۔ ذیل میں ہم اسکی‬

‫گردان دے رہے ہیں ۔ جو صیغے استعمال نہیں ہوتے ان کے آگے کراس ( ‪ ) x‬لگا دیا‬

‫گیا ہے ۔ اس میں بھی کالم کی ترتیبدینی ہے جو تقلیلہکیگردان میں ہے ۔‬


‫‪333333‬‬
‫‪AM‬‬

‫‪-‬‬
‫‪۴‬‬

‫لامکلمہ مفتوحہوگیا ۔‬ ‫لَيَفْعَلَن‬ ‫لَيَفْعَلُنُ‬

‫‪X‬‬ ‫‪X‬‬
‫يَفْعَلَانِ‬

‫واد الجمعاور نون اعرابیگر گئے ۔‬ ‫لَيَفْعَلُن‬ ‫يَفْعَلُوْنَنَ‬ ‫يَفْعَلُونَ‬

‫لامکلمہ مفتوحہوگیا‬
‫۔‬ ‫لَتَفْعَلَن‬ ‫لَتَفْعَلُنْ‬

‫‪X‬‬ ‫‪X‬‬

‫‪X‬‬
‫‪X‬‬
‫‪x‬‬

‫‪x‬‬
‫لامکلمہ مفتوحہوگیا ۔‬ ‫لَتَفْعَلَن‬ ‫لَتَفْعَلُنُ‬

‫‪X‬‬ ‫تَفْعَلَانِ‬
‫‪x‬‬
‫‪X‬‬

‫واوالجمع اور نون اعرابیگرگئے ۔‬ ‫لَتَفْعَلُن‬ ‫لَتَفْعَلُوْنَنَ‬ ‫تَفْعَلُوْنَ‬

‫"ی اورنون اعرابی گرگئے ۔‬ ‫لَتَفْعَلِنَ‬ ‫لَتَفْعَلِيْنَنُ‬ ‫تَفْعَلِينَ‬

‫‪X‬‬
‫‪x‬‬

‫تَفْعَلَانِ‬
‫‪X‬‬

‫‪x‬‬

‫نامکلمہ مفتوحہوگیا‬ ‫لا فعَلَن‬ ‫فعَ‬


‫علُ‬
‫لننْ‬ ‫لافَ‬

‫لامکلمہ مفتوحہگویا‬ ‫لَتَفْعَلَن‬ ‫لَتَفْعَلُنْ‬

‫‪ ۴۴ :‬نوٹکرلیںکہ قرآن مجید کی خاص املاء میں نون خفیفہ کے نون ساکنکو‬

‫عموماً تنوین سے بدل دیتے ہیں ۔ جیسے لَيَكُونَنُکی بجائے لَيَكُونَا ( وہ ضرور ہوگا) اور‬

‫لَتَسْفَعَنْکی بجائے لَتَسْفَعًا ( ہم ضرورگھسیٹیں گے )وغیرہ ۔‬

‫مشقنمبر ‪ ( ۴۳‬الف )‬

‫مندرجہ ذیل افعال سے نون ثقیلہ کیگردان لکھیں اور ہر صیغہ کے معنی‬

‫‪:‬‬ ‫ل‬
‫کھیں‬
‫‪۸۴‬‬

‫=‬ ‫=‬
‫۔‪ ۲‬حَمَلَ ( ض) ‪ -‬اٹھانا ۔ ‪ ۳-‬رَفَعَ ( ف)‬ ‫دَخلَ ( ن ) = داخل ہونا ۔‬ ‫ا‬

‫بلندکرنا‬

‫مشقنمبر ‪ ( ۴۳‬ب )‬

‫مندرجہ ذیل افعال کا پہلے مادہ اور صیغہ بتائیں اور پھرترجمہکریں ‪:‬‬

‫( ‪ )۷‬لَيَنْصُرُنَّ‬ ‫(‪ )iii‬لَتَحْضُرَنَّ (‪ )۱۷‬لَيَسْمَعْنَانِ‬ ‫( ‪ )ii‬لَتَذْهَبَنَّ‬ ‫( ‪ )1‬لاكتُبَنَّ‬

‫( ‪ )vi‬لَتَحْمِلُنَّ ( ‪ )vi‬لَتَحْمِلَنَّ ( ‪ )vi‬لَتَدْخُلِنَّ ( ‪ )ix‬لَتَرْفَعْنَانِ (× ) لَتَرْفَعَانِ‬

‫مشق نمبر ‪ ( ۴۳‬ج )‬

‫اردو میں ترجمہکریں ۔‬

‫)‪(۲‬‬
‫( ‪ )٢‬لَتَذْهَبَنَّغَدًا إِلَىالْحَدِيقَةِ‬ ‫لاكتُبَنَّ الْيَوْمَ مَكْتُوبًا إِلَى مُعَلِّمِي ‪-‬‬ ‫(‪) 1‬‬

‫( مِنَ الْقُرْآنِ )‬

‫( ‪ )۳‬لَيَنْصُرَنَّاللَّهُ مَنْيَنصُرُهُ ‪-‬‬

‫لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَإِنْشَاءَ اللَّهُ ‪-‬‬ ‫( ‪)٣‬‬

‫فَلَيَعْلَمَنَّاللَّهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَذِبِينَ ‪-‬‬ ‫( ‪)٥‬‬

‫وَلَيَحْمِلُنَّأَثْقَالَهُمْ وَالْقَالًامَّعَأَثْقَالِهِمْ ‪-‬‬ ‫(‪) ٢‬‬


‫‪۸۵‬‬

‫فعل امر‬
‫حاضر‬

‫‪ ۴۵ : ۱‬اب تک ہم نے فعل ماضی اور فعل مضارع کے استعمال کے متعلق کچھ‬

‫قواعد سیکھے ہیں ۔ اب ہمیں فعل امر سیکھنا ہے ۔ جس فعل میں کسی کام کے کرنے کا‬

‫حکم پایا جائے اسے فعل امرکہتے ہیں ۔ مثلاً ہمکہتے ہیں " تم یہکرو " ۔ اس میں ایسے‬

‫شخص کے لئے حکم ہے جو حاضر یعنی سامنے موجود ہے ۔یا ہمکہتے ہیں ” اسے چاہیے کہ‬

‫۔ اس میں ایسے شخص کے لئے حکم ہے جو غائب ہے یعنی سامنے موجود‬ ‫وہ یہ کرے‬

‫نہیں ہے ۔ اسی طرح ہمکہتے ہیں کہ ”مجھے پر یہ لازم ہےکہ میں یہکروں ۔ اس میں‬

‫خودمتکلم کے لئے ایک طرح سے حکم ہے ۔ اب اس سبق میں ہم پہلے صیغہ حاضرسے‬

‫فعل امربنانے کا طریقہ سیکھیں گے ۔‬

‫‪ ۴۵ : ۲‬فعل امر کے ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی نوٹکر لیںکہ یہ ہمیشہ فعل‬

‫مضارع میں کچھ تبدیلیاںکر کے بنایا جاتاہے ۔ اب امر حاضربنانے کے لئے مندرجہ‬

‫ذیل اقداماتکرنے ہوںگے‬

‫) ہٹا دیں ۔‬
‫صیغہ حاضرکی علامت مضارع(ت‬ ‫( ‪)1‬‬

‫علامت مضارع ہٹانے کے بعد مضارع کا پہلا حرف ساکن آئےگا ۔ اسے‬ ‫(‪)۲‬‬

‫پڑھنے کے لئے اس سے پہلے ایک ہمزۃ الوصل لگا دیں ۔‬

‫( ‪ ) ۳‬مضارع کے عین کلمہ پر اگر ضمہ ( پیش ) ہےتو ہمزۃ الوصلپر بھی ضمہ ( پیش ) لگا‬

‫دیں اور اگر مضارع کے عینکلمہ پر فتحہ ( زبر) یاکسرہ ( زیر ) ہے تو ہمزۃ الوصلکو‬

‫کسرہ ( زیر ) دین ۔‬

‫( ‪ ) ۴‬مضارعکے لام کلمےکو مجزدمکردیں ۔‬

‫مندرجہ بالا چار قواعد کی روشنی میں تنصُرُ سے فعل امر انصر (تو مددکر )‬
‫‪ΔΥ‬‬

‫تَذْهَبُ سے اِذْهَبْ (تو جا ) اورتَضْرِبُ سے اِضْرِب (تو مار)ہو جائے گا ۔‬

‫‪ : ۳‬۔‪ ۴۵‬ظاہر ہے کہ فعل امر حاضر کی گردان کے کل صیغے چھ ہی ہوں گے ۔ امر‬

‫کی مکملگروان درجذیل ہے‬


‫حاضر‬

‫تشنہ‬ ‫واحد‬

‫العلوا‬ ‫العلا‬ ‫ذکر‬


‫افْعَلُ‬

‫تم اسبمرف کرو‬ ‫تماور مروعکرو‬ ‫تو ایک مرد کر‬

‫افْعَلْنَ‬ ‫العلا‬ ‫الْعَلِي‬ ‫مؤنث‬

‫تم سبعورتیں کرو‬ ‫)کرو‬


‫تم(دوعورتیں‬ ‫تو( ایک عورت)کر‬

‫‪ ۴۵ : ۴‬اس باتکو یاد رکھیں کہ فعل امر کا ابتدائی الف چونکہ ہمزۃ الوصل ہوتا‬

‫ہے اس لئے ماقبل سے ملا کر پڑھتے وقتیہ تلفظ میں گر جاتاہے جبکہ تحریر موجو د رہتا‬

‫ہے ۔ مثلاً انْصُرْت وَانْصُراو را ضرب سے وَاضْرِبُ وغیرہ ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫= وہاں‬ ‫هناك‬ ‫=‬


‫‪ -‬تو ( ایک مرد)آ‬ ‫تَعَالَ‬

‫‪---‬‬
‫۔ یہاں‬ ‫هُهُنَا‬ ‫‪ -‬پڑھنا‬ ‫قَرَءَ( )‬
‫ف‬

‫= عطاکرنا دینا‬ ‫رَزَقَ (ن )‬ ‫جَعَل(ف) = بنانا‬

‫سَجَدَ(ن) = سجدہکرنا‬ ‫ترنا‬


‫= عباد ک‬ ‫قنت(ن)‬

‫= دیکھنا‬ ‫نَظَرَ(ن)‬ ‫رَكَعَ(ف‬


‫) ‪ -‬رکوعکرنا‬
‫‪AL‬‬

‫مشق نمبر ‪ ( ۴۴‬الف )‬

‫مندرجہ ذیل افعال سے امرحاضرکیگردانکریں اور ہر صیغہ کے معنی لکھیں ‪:‬‬

‫‪ ۳-‬جَعَلَ( ف) ‪ -‬بنانا‬ ‫ن ) = عبادتکرنا ‪ ۲-‬شَرِبَ(س ) = پینا‬


‫ا عَبَدَ (‬

‫مشقنمبر ‪ ( ۴۴‬ب )‬

‫مندرجہ ذیل جملوںکا اردو میں ترجمہکریں ‪:‬‬

‫تَعَالَ يَا مَحْمُوْدُ وَاجْلِسُعَلَاىلْكُرْسِي فَاشْرَبِالْقَهْوَةَ ‪-‬‬ ‫(‪) 1‬‬

‫يَا أَحْمَدُ ‪ :‬اِقْرَأْشَيْئًا مِنَالْقُرْآنِلِأَسْمَعَقِرَاءَتَكَ‬ ‫(‪) ٢‬‬

‫مِنَالْقُرْآن )‪.‬‬

‫( ‪ ) ٣‬يُاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُالَّذِي خَلَقَكُمْ‬

‫( ‪ ) ۳‬رَبِّاجْعَلْهَذَا بَلَدًا مِنَا وَارْزُقْأَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ‬

‫يَا مَرْيَمُ اقْتَتِيلِرَبِّكِ وَاسْجُدِى وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِيْنَ‬ ‫(‪) ۵‬‬

‫مشق نمبر ‪ ( ۴۴‬ج )‬

‫مذکورہ بالا جملوں کے درج ذیل الفاظکی اعرابی حالت بیانکریں نیز اسکی وجہ‬

‫بھی بتائیں ۔‬

‫( ‪ ) ١‬وَاجُلِسُ ( ‪ ) ۲‬فَاشْرَبِ (‪ ) ۳‬الْقَهْوَةَ ( ‪ ) ۳‬اِقْرَأْ ( ‪ ) ٥‬لِأَسْمَعَ (‪ ) ۲‬قِرَاءَتَكَ‬

‫(‪ ) ۷‬بَلَدًا آمِنًا (‪ ) ۸‬وَارْزُقُ ( ‪ ) ۹‬وَاسْجُدِى ( ‪ )١٠‬الرَّاكِعِيْنَ‬


‫فعل امرغائبومتکلم‬

‫‪ ۴۶ : ۱‬صیغہ غائب اور متکلم میں جو فعل امربفتاہے اسے " امر غائب "کہتے ہیں ۔‬

‫عربیگرامر میں صیغہ متکلم کے " امر "کو امرغائب میں اس لئے شمارکیا جاتا ہےکہ‬

‫دونوں (امر غائبیا متکلم کے بنانے کا طریقہ ایک ہی ہے ۔‬

‫پیراگراف ‪ ۴۳ : ۲‬میں ہم نے کہا تھا کہ مضارعکو جنم دینے والے‬ ‫‪۴۶‬‬ ‫‪۲‬‬

‫حروف "لام امر " اور " لائے نہی " پرآگے بات ہو گی ۔ اب یہاں نوٹکیجئےکہ امر‬

‫غائب " اسی لام امرال ) سے بنتاہے ۔ اور اس کا اردو ترجمہ "چاہئےکہ " سےکیا جاتا‬

‫ہے ۔ اس کے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ فعل مضارع کے صیغہ غائب اور متکلم کے‬

‫شروعمیں علامت مضارعکرائے بغیر) لام امرال) لگا دیں اور مضارعکالامکلمہ‬

‫مجز دمکردیں ۔ جیسے يَنصُرُ( وہ مددکرتا ہے ) سے لنصر ( اسے چاہیےکہ مددکرے ) ۔‬

‫امرغائبکی مکملگردان ( متکلم کے صیغوں کے ساتھ ) درج ذیل ہے ۔‬

‫لِيَفْعَلُوا‬ ‫لِيَفْعَلا‬ ‫لِيَفْعَلْ‬

‫ان ( دو مردوں)کو چاہئےکہکریں ان سب مردوں)کو چاہئےکہکریں‬ ‫اس (ایک مرد)کو چاہئےکہکرے‬

‫يَفْعَلْنَ‬ ‫لِتَفْعَلا‬ ‫لِتَفْعَلْ‬

‫ان(سب عورتوں)کو چاہئےکہکریں‬ ‫ان(دو عورتوں)کو چاہئےکہکریں‬ ‫اس ( ایک عورت )کو چاہئے کہکرے‬

‫لِتَفْعَلُ‬ ‫لِتَفْعَلْ‬ ‫لافْعَلْ‬

‫)کو چاہئےکہکریں‬
‫ہم (سب‬ ‫ہم (دو)کو چاہئےکہکریں‬ ‫مجھےچاہتےکہکروں‬

‫‪ ۴۶ : ۳‬ابتک آپ چار عدد لام "پڑھ چکے ہیں (ایکعدد " ل " اور تین عدد‬

‫یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اکٹھا جائزہ لے لیا جائے تاکہ ذہن میں‬
‫‪۸۹‬‬

‫کوئی الجھن باقی نہ رہے ۔‬

‫(‪ ) 1‬لام تاکید ( ل ) ‪ :‬زیادہ تر یہ مضارع پر نون خفیفہ اور تکلیلہ کے ساتھ آتا‬

‫ہے ۔ اور تاکید کا مفہوم دیتاہے ۔ اگر سادہ مضارع پر آئے تو صرف اس کے مفہوم‬

‫کو زمانہ حال کے ساتھ مخصوصکرتا ہے ۔‬

‫( ‪ ) ۲‬حرف جار ( ل ) ‪ :‬یہ اسم پر آتا ہے اور اپنے بعد آنے والے اسمکو جر دیتا‬
‫ہے ۔ اس کے معنی عموماً " کے لئے " ہوتے ہیں ۔ جیسے لِمُسلِم ( کسی مسلمانکے‬

‫لئے ) ۔‬

‫( ‪ ) ۳‬لام گئی ( لِ ) ‪ :‬یہ مضارعکو نصب دیتا ہے اور ” تاکہ " کے معنی دیتا‬

‫ہے ۔ جیسے ليَسْمَعَ (تاکہ وہ سنے ) ۔‬

‫( ‪ ) ۴‬لام امرال ) ‪ :‬یہ مضارعکو مجزومکرتا ہے اور " چاہئےکہ " کے معنی دیتا‬

‫ہے۔جیسے سمع (اسے چاہئےکہ وہ نے ) ۔‬

‫‪ ۴۶ : ۴‬فعل مضارع کے جن پانچ صیغوں میں لامکلمہ پر ضمہ ( پیش ) ہوتی ہے ان‬

‫میں لام گئی اور لام امرکی پہچان آسان ہے جیسا کہ لِيَسْمَعَ اور ليَسْمَعُکی مثالوں‬

‫میں آپ نے دیکھ لیا۔ لیکن باقی صیغوں میں مضارع منصوب اور مجزوم ہم شکل‬

‫ہوتے ہیں جیسے لیسْمَعُوا ۔ ابیہ کیسے پہچاناجائے کہ اس پر لام گئی لگا ہے یا لام امر؟‬

‫اس ضمن میں نوٹکر لیں کہ عموماً عبارتکے سیاق و سباق اور جملہ کے مفہوم سے‬

‫ان دونوںکی پہچان مشکل نہیں ہوتی ۔ البتہ اگر آپ لام گئی اور لام امرکے استعمال‬

‫میں ایک اہم فرق ذہن نشینکر لیںتو انہیں پہنچاننے میں آپکو مزید آسانی ہو جائے‬

‫گی ۔‬

‫‪ ۴۶ : ۵‬لامگئی اور لام امر میں وہ اہم فرق یہ ہےکہ لام امرسے پہلے اگر و یا‬

‫ف آجائے تو لام امرسا کن ہو جاتا ہے جبکہ لام گئی ساکن نہیں ہوتا ۔ مثلاً فَلْيَخْرُجُ‬

‫پس اسکو چاہئےکہ نکل جائے ) وَ ليَكتُب ( اور اسے چاہئےکہلکھے ) ۔ یہ دراصل‬

‫فَلِيَخْرُج اور ولتكتب ہی تھا مگر شروع میں کی اور تو نے آکر لام امرکو ساکنکر‬
‫دیا ۔ جبکہ وَلِيَكتُب کے معنی ہوں گے ( اور تاکہ وہ لکھے ) ۔ نوٹکریں کہ یہاں بھی‬

‫شروع میں تو آیا ہے لیکن اس نے لام گنیکو ساکن نہیںکیا ۔ امید ہےکہ آپلام‬

‫امر او رلام گئی کے اس فرقکو اچھی طرحذہن نشینکرلیں گے ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫( علم)کی جمع‬
‫‪ -‬طالب‬ ‫طلاب‬ ‫رحم ( س) ‪ -‬رحمکرنا‬

‫= کھولنا واضحکرنا‬ ‫شَرَحَ (ف‬


‫) ‪-‬‬ ‫لَعِبَ( س) ‪ -‬کھیلنا‬

‫رَكِبَ(س) ‪ -‬سوار ہوتا‬ ‫شَهِدَ (س‪ +‬ک) ‪ -‬گواہی دیتا‬

‫ضَحِكَ(س) ‪ -‬ہنستا‬ ‫جَهَدَ( )‬


‫ف = محنتکرنا‬

‫مشق نمبر ‪ ( ۴۵‬الف )‬

‫مندرجہ ذیل افعال سے امر غائب و متکلم کی گردانکریں اور ہر صیغہ کے معنی‬

‫۔‬ ‫ل‬
‫کھیں‬

‫(‪ ) 1‬اكل ( ن ) کھانا ( ‪ ) ۲‬سَبَحَ (ف) ‪-‬تیرنا ( ‪ )۳‬رَجَعَ (ض) ۔واپس آنا‬

‫مشق نمبر ‪ ( ۴۵‬ب )‬

‫مندرجہ ذیل جملوں کا اردو میں ترجمہکریں ‪:‬‬

‫ارْحَمُوْا مَنْ فِيالْأَرْضِلِيَرْحَمَكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ ‪.‬‬ ‫( ‪)1‬‬

‫( مِنَ الْقُرْآن)‬ ‫فَلْيَضْحَكُوا قَلِيْلاً‪-‬‬ ‫(‪)٢‬‬

‫( ‪ ) ۳‬لِيَشْرَح الْمُعَلِّمُ الدَّرْسَلِيَفْهَمَ الطلاب‬

‫( ‪ ) ۳‬لِتَعْبُدْ رَبَّنَا وَلْتَحْمَدْهُ ‪.‬‬

‫لِتَشْهَدُاَنَّاللهَ رَبُّنَا لِتَدْخُلَالْجَنَّةَ ‪.‬‬ ‫( ‪)٥‬‬

‫فَلْيَنصُرُوا الْمُسْلِمِينَلِيَنْجَحُوا‪-‬‬ ‫(‪) ٢‬‬


‫‪۹۱‬‬

‫مِنَ الْقُرْآنِ )‬ ‫( ‪ ) ۷‬فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا ‪-‬‬

‫عربی میں ترجمہکریں ‪:‬‬

‫( ‪ ) ۱‬پس ان سب عورتوںکو چاہئےکہ وہ قرآنپڑھیں ۔ ( ‪ )۲‬ہمیں چاہئےکہ‬

‫( ‪ ) ۳‬اسے چاہئے کہ وہ محنتکرے تاکہ وہ کامیاب ہو‬ ‫ہم عصر کے بعد کھیلیں‬

‫( ‪ ) ۵‬اور ان سب ( مردوں )کو چاہئےکہ‬ ‫( ‪ ) ۴‬ہمیں چاہئےکہ ہمکم نہیں‬ ‫جائے ۔‬

‫وہ اپنے ربکی عبادتکریںتاکہ انکا ربانہیں بخشدے ۔‬

‫مشقنمبر ‪ ( ۴۵‬ج )‬

‫مذکورہ بالا جملوں کے درج ذیل افعال کا صیغہ اعرابی حالت اور اسکی وجہ‬

‫بتائیں ۔‬

‫( ‪ )۳‬لِيَشْرَح ( ‪ )٥‬لِيَفْهَمَ‬ ‫( ‪ ) ۳‬لِيَرْحَمَ ( ‪ ) ۳‬فَلْيَضْحَكُوا‬ ‫) اِرْحْمُوْا‬

‫( ‪ ) 4‬لِنَعْبُدُ ( ‪ ) 2‬لِنَدْخُلَ ( ‪ ) ۸‬فَلْيَنصُرُوا ( ‪ ) ٩‬لِيَنْجَحُوا‬


‫‪۹۲‬‬

‫فعلامرمجهول‬

‫‪ ۴۷ : ۱‬ابتک ہم نے فعل امر کے جو صیغے سکھے ہیں وہ فعل امرمعروفکے تھے ۔‬

‫اب ہم فعل امر مجهول بنانے کا طریقہ سیکھیں گے ۔ لیکن آئیے اس سے پہلے اردو‬

‫جملوںکی مدد سے ہم فعل امر معروفاور مجہول کے مفہوم کو ذہن نشینکرلیں ۔ مثلاً‬

‫مکہتے ہیں " محمود کو چاہئے کہ وہ دو اپنے "۔ یہ صیغہ غائب میں امر معروف ہے ۔‬

‫تو یہ صیغہ غائب میں امر مجبول ہے ۔ اسی‬ ‫چاہئےکہ دوالی جائے‬ ‫لیکن اگر ہمکہیں‬

‫طرح " تم ما رو "یہ صیغہ حاضر میں امر معروفہے ۔ اور چاہئےکہ تم مارے جاؤ "یہ‬

‫صیغہ حاضرمیں امرمجہول ہے ۔‬

‫‪ ۴۷ : ۲‬اب ہمیں یہ سیکھناہے کہ عربی میں امرمجہول کا مفہوم پیدا کرنے کا کیا‬

‫طریقہ ہے ۔ اس سلسلہ میں پہلی بات یہ نوٹکریں کہگزشتہ اسباق میں امر معروف‬

‫بنانے کے لئے ہم نے مضارع معروف میں کچھ تبدیلیکی تھی ۔ اسی طرح امرمجبول‬

‫بنانے کے لئے جو بھی تبدیلی ہوگی وہ مضارع مجہول میں ہوگی ۔ یعنی امر معروف‬

‫مضارع معروف سے اور امر مجهول مضارعمجہول سے بنتاہے ۔‬

‫‪ ۴۷ : ۳‬دوسری باتیہ نوٹکریںکہ امر معروف بناتے وقت صیغہ حاضراور‬

‫سیغه غائب و متکلم دونوں کا طریقہ علیحدہ علیحدہ تھا ۔ یعنی صیغہ حاضر میں علامت‬

‫مضارع (ت )گر اکبر اور ہمزۃ الوصل لگاکر فعل مضارعکو مجزومکرتے تھے جبکہ صیغہ‬

‫غائب و متکلم میں علامت مضارعکو برقرار رکھتے ہوئے اس سے قبل لام امرلگا کر‬

‫فعل مضارعکو مجزومکرتے تھے ۔ لیکن امرمجبول بنانے کے لئے ایساکوئی فرق نہیں‬

‫ہوتا اور مضارعمجہول کے تمام صیغوں سے امر مجهولبنانے کا طریقہ ایک ہی ہے ۔‬

‫‪:‬‬
‫‪ ۴۷‬امر مجمول بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مضارع مجہول میں علامت مضارع‬ ‫‪۴‬‬

‫سے قبل لام امرلگا دیں اور فعل مضارعکو مجزومکردیں ۔ مثلا يُشْرَبُ ( وہ پیا جاتا‬

‫ہے یا پیا جائےگا ) سے لیشْرَب ( چاہئے کہ وہ پیا جائے ) وغیرہ ۔ ذیل میں امرمعروف‬
‫‪۹۳‬‬

‫اور امر مجہولکی مکملگردان آمنے سامنے دی جارہی ہے تاکہ آپدونوں کے فرق‬

‫کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں ۔ ( خصوصاً مخاطب کے صیغوں میں امرمعروف اور‬

‫امرمجبول کے فرقکو ذہن نشینکرلیں ) ۔‬

‫امر مجهول‬ ‫معروف‬


‫امر‬

‫لِيُضْرَب (چاہئےکہوہ مارا جائے )‬ ‫لِيَضْرِب(چاہئےکہوہ مارے)‬

‫لِيُضْرَبَا‬ ‫ليَضْرِبا‬ ‫مذکرغائب‬

‫لِيُضْرَبُوا‬ ‫ليَضْرِبُوا‬

‫لِتُضْرَبْ‬ ‫لِتَضْرِبْ‬

‫لِتُضْرَبَا‬ ‫لِتَضْرِبًا‬ ‫مؤنثغائب‬

‫لِيُضْرَبْنَ‬ ‫ليَضْرِبْنَ‬

‫لِتُضْرَب (چاہئےکہتومارا جائے )‬ ‫اضربت‬


‫(ومار)‬

‫لِتُضْرَبَا‬ ‫اضْرِبا‬ ‫مذکر مخاطب‬

‫لِتُضْرَبُوا‬ ‫اضْرِبُوا‬

‫لِتُضْرَنِي‬ ‫اضْرِين‬

‫لِتُضْرَبَا‬ ‫اضْرِبا‬ ‫مؤنثمخاطب‬

‫لِتُضْرَبْنَ‬ ‫اضْرِبْنَ‬

‫الأضْرَبْ‬ ‫لِاضْرِبْ‬

‫لِمُضْرَبْ‬ ‫لِنَضْرَبْ‬

‫مشقنمبر‪. ۴۶‬‬

‫فعل رَحِمَ (س ) سے امر معروفاور مجمولکی گردانکریں اور ہر صیغہ کے‬

‫معنیلکھیں ۔‬
‫‪۹۴‬‬

‫فعلنهی‬

‫‪ ۴۸ : ۱‬اب ہمیں عربی میں فعل نہی بنانے کا طریقہ سمجھنا ہے لیکن اس سے پہلے لفظ‬

‫نمی " اور اردو میں مستعمل لفظ " نہیں " کا فرق سمجھ لیں ۔ اردو میں لفظ " نہیں "‬

‫میںکسی کام کے نہ ہونے یعنی ‪ Negative‬کا مفہوم ہوتاہے ۔ مثلاً ”حامد نے خط‬

‫اس کے لئے ” نفی "کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور ایسے فعلکو ” فعل‬ ‫نہیں لکھا‬

‫منفی "کہتے ہیں ۔ جبکہ " نی " میںکسی کام سے منعکرنے کا مفہوم ہوتا ہے یعنی اس‬

‫کام سے روکنے کے حکم کا مفہوم ہوتا ہے ۔ مثلاً "حامدکو چاہئےکہ وہ خط نہ لکھے "یا‬

‫کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔‬


‫"تم خط متلکھو " اس کے لئے " فعل نمی "‬

‫‪ ۴۸ :‬عربی میں فعل نمی کا مفہومپیدا کرنے کے لئے فعل مضارع سے قبل لائے‬

‫نی " لا " کا اضافہکر کے مضارعکو مجزومکر دیتے ہیں ۔ مثلاً نکتب کے معنی ہیں " تو‬

‫لکھتا ہے ۔ " لا تكتب کے معنی ہو گئے "تو مت لکھ " ۔ اسی طرح يَكتُب کے معنی‬

‫ہیں " وہ لکھتاہے "لا يَكتُب کے معنی ہو گئے "چاہئے کہ وہ متلکھے " ۔‬

‫‪ ۴۸ : ۳‬لفظ " لا " کے استعمال کے سلسلہ میں یہ بھی نوٹکرلیںکہ فعل مضارع‬
‫‪:‬‬

‫میں نفی کا مفہومپیدا کرنے کے لئے بھی عام طور پر " لا " کا استعمال ہوتا ہے جسے لائے‬

‫نفی کہتے ہیں اور یہ غیر عامل ہوتا ہے یعنی جب مضارعپر لائے نفی داخل ہوتا‬
‫ہے تو‬

‫مضارع میں کوئی اعرابی تبدیلی نہیں لاتا صرف اس فعل میں نفی کا مفہوم پیداکرتا‬

‫ہے۔ مثلا تكتب ( تو لکھتا ہے ) سے لا تكتب ( تو نہیں لکھتا ہے ) ۔ اس کے بر عکس‬

‫لائے نہمی عامل ہے اور وہ مضارعکو مجزومکرتا ہے ۔ مثلا لا تكتب (تو متلکھ ) بالا‬

‫تكتبوا ( تم لوگمتلکھو ۔‬

‫‪ ۴۸ :‬یہ بھی نوٹکرلیںکہ فعل امر اور فعل نہی دونوں نون ثقیلہ اور نون‬

‫خفیفہ کے ساتھ بھی استعمال ہوتے ہیں ۔ مثلاً اضرِبْ (تومار)سے اضْرِبَنَ يَا اضْرِبَنَّ‬
‫‪۹۵‬‬

‫تو ضرور مار ) لا تَضْرِب ( تو متمار ) سے لا تَضْرِبَنْيا لَا تَضْرِبَنَّ (تو ہرگز مت مار)‬

‫وغیرہ ۔‬

‫نمبر ‪( ۴۷‬الف)‬
‫مشق‬

‫فعل كتب ( ن ) سے فعل نمی معروفکیگردان ہر صیغہ معنی کے ساتھ لکھیں ۔‬

‫مشقنمبر ‪( ۴۷‬ب)‬

‫قرآن مجید کی آیات سے لئے گئے مندرجہ ذیل جملوں کا ترجمہکریں ۔‬

‫لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابِ وَاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ ‪-‬‬ ‫(‪) 1‬‬

‫( ‪ ) ٣‬لَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ ‪-‬‬ ‫لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ‪-‬‬ ‫( ‪)۲‬‬

‫( ‪ )۵‬وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ‪-‬‬ ‫( ‪ ) ۳‬إِذْهَبْبِكِتَابِيْ هَذَا ‪-‬‬

‫لَا تَحْسَبَنَّاللَّهَ غَافِلاًعَمَّايَعْمَلُالظَّلِمُونَ ‪-‬‬ ‫(‪) ٢‬‬

‫( ‪ ) ٧‬يَايَّتُهَا النَّفْسُالْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ ‪.‬‬

‫( ‪ ) ۸‬لَا تَحْسَبَنَّالَّذِينَقُتِلُوْا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ اَمْوَاتًا بَلْأَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِهِمْ يُرْزَقُوْنَ‬

‫إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌفَلَايَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَبَعْدَ عَامِهِمْهَذَا ۔‬ ‫(‪) 9‬‬

‫وَلَا تَاكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُاللَّهِ عَلَيْهِ‬ ‫( ‪) ١٠‬‬

‫عربی میں ترجمہکریں ۔‬

‫تم دونوںیہاںنہکھیلو بلکہ میدان میںکھیلو تاکہ ہم پڑھ سکیں ۔‬ ‫( ‪)1‬‬

‫اے دربان ! دروازہکھول تاکہ ہم سکول میں داخل ہو سکیں ۔‬ ‫(‪) ۲‬‬

‫( ‪ ) ۳‬تو سبق اچھی طرح یادکرلے تا کہ توکل شرمندہ نہ ہو ۔‬

‫( ‪ ) ۳‬تم لوگکھیلومتبلکہ اپنا سبق یادکرو ۔‬

‫(‪ ) ۵‬ان سبکو چاہئےکہ وہ قرآنپڑھیں اور اسکو یادکریں ۔‬


‫‪۹۶‬‬

‫ثلاثی مزید فیہ‬

‫(تعارف‬
‫اورابواب)‬

‫‪ ۴۹ : ۱‬سبق نمبر ‪ ۳۸‬میں ہم نے ثلاثی مجرد کے چھ ابواب پڑھے تھے ۔ یعنی باب‬

‫فتح باب ضَرَبَوغیرہ نہ ابہم ثلاثی مزید فیہ کے کچھ ابواب کا مطالعہکریں گے‬

‫لیکن اس سے پہلے ضروری ہےکہ " ملاثی مجرد " اور " ثلاثی مزید فیہ "کی اصطلاحات کا‬

‫مفہوم اپنے ذہن میں واضحکرلیں ۔‬

‫‪ ۴۹ : ۲‬فعل ثلاثی مجرد سے مراد تین حرفی مادہ کا ایسا فعل ہے جس کے اصلی حروف‬

‫میںکسی مزید حرفکا اضافہ نہکیا گیا ہو جبکہ فعل ثلاثی مزید فیہ سے مراد تین حرفی مادہ کا‬

‫ایسا فعل ہے جس کے اصلی تین حروف کے ساتھ کسی حرفیاکچھ حروفکا اضافہکیا‬

‫گیا ہو ۔یہ اضافہ فعل ماضی کے پہلے صیغے سے معلوم ہو سکتا ہے ۔ آپکو یاد ہوگا کہ‬

‫کسی فعل ثلاثی مجرد کے ماضی کا پہلا صیغہ ہی وہ لفظ ہے جس میں مادہ کے اصلی تین‬

‫حروف موجود ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ثلاثی مزید فیہ کے فعل ماضی کے پہلے صیغے میں حروف‬

‫اصلی یعنی ف ع ل کے ساتھ اضافہ شدہ حروفصافپہچانے جاتے ہیں ۔‬

‫‪ ۴۹ :‬ہم نے " ماضی کے پہلے صیغے "کی بات بار بار اس لئےکی ہے کہ آپیہ‬

‫اچھی طرح جان لیں کہ فعل ماضی ‪ ،‬مضارع وغیرہ کیگردان کے مختلف صیغوں میں‬

‫مزید فیہ "‬ ‫لامکلمہ کے بعد جن بعض حروفکا اضافہ ہوتا ہے انکی وجہ سے فعلکو‬

‫قرار نہیں دیا جاتا ۔کیونکہ یہ اضافہ دراصل صیغوںکی علامت ہوتا ہے اور یہ‬

‫مجرد " اور " مزید فیہ دونوںکی گردانوںمیں ایک جیسا ہوتا ہے ۔ آگے چل کر آپ‬

‫خود بھی اس کا مشاہدہکر لیں گے ( ان شاء اللہ )۔فی الحال آپیہ اچھی طرح ذہن‬

‫نشینکرلیں کہ فعل "مجرد " یا " مزید فیہ "کی پہچان اس کے ماضی کے پہلے مینے سے‬
‫‪۹۷‬‬

‫ہوتی ہے ۔‬

‫"لمہ‬
‫‪ ۴۹ : ۴‬ثلاثی مزید فیہ کے ماضی کے پہلے صیغے میں زائد حروفکا اضافہیا تو ”فا ک‬

‫اے یا " فا " اور " عین "کلمہ کے درمیان ہو تا ہے اور یہ اضافہکبھی ایک‬
‫سے پہلے ہوت ہ‬

‫حرفکا ہوتا ہے ‪،‬کبھی دو حروف کا اور کبھی تین حروف کا ۔ ان تبدیلیوں سے ثلاثی‬

‫مزید فیہ کے بہت سے نئے ابواب بنتے ہیں ۔ لیکن زیادہ استعمال ہونے والے ابواب‬

‫صرف آٹھ ہیں ۔ اس لئے ہم اپنے موجودہ اسباقکو انہی آٹھ ابوابتک محدود‬

‫رکھیں گے ۔‬

‫‪ ۴۹ : ۵‬ایکمادہ ثلاثی مجرد سے جبمزید فیہ میں آتا ہے تو اس کے مفہوم میں بھی‬

‫کچھ تبدیلی ہوتی ہے ۔ اس معنوی تبدیلی پر ان شاء اللہ اگلے سبق میں کچھ باتکریں‬

‫گے لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ مزید فیہ کے آٹھوں ابواب کے ماضی ‪،‬مضارع‬

‫اور مصدر کے درج ذیل اوزان آپ اپنے قلمکو یادکرا دیں کیونکہ اس کے بعد ہی‬

‫انکی خصوصیات اور معنوی تبدیلی کے متعلق کوئی باتکرنا ممکن ہو گی ۔‬

‫مصدر (بابکا نام)‬ ‫مضارع‬ ‫ماضی‬ ‫نمبرشمار‬

‫ا‬ ‫افْعَلَ‬ ‫‪1‬‬

‫تَفْعِيل تَ ‪- :‬‬ ‫ي ‪= = -‬‬ ‫يُفَعِلُ‬ ‫ل‬


‫علَ‬
‫فعَ‬
‫فَ‬

‫مُفَاعَلَةٌ مُ ‪-‬ا‪--‬‬ ‫ئ‪ -‬ا ‪-‬‬ ‫يُفَاعِلُ‬

‫و‬ ‫تَ ‪-‬‬ ‫تَفَقُلْ‬ ‫وَ تَ ‪-‬‬ ‫يَتَفَعَلُ‬ ‫‪- - - -‬‬ ‫تَفَعَّل‬

‫تَفَاعُلتَ ‪ -‬اس‬ ‫يَتَفَاعَلُ وَ تَ ‪- :‬‬ ‫تَ ‪ -‬ا ‪- -‬‬ ‫تَفَاعَلَ‬ ‫ه‬

‫اِفْتِعَالَ إِنِ ‪1 -‬‬ ‫تَ ‪--‬‬ ‫وَ‬ ‫يَفْتَعِلُ‬ ‫انتَ ‪- -‬‬ ‫الْتَعَلَ‬

‫اِنْفِعَال لن ‪---‬‬ ‫عَنْ ‪= -‬‬


‫‪--‬‬ ‫يَنْفَعِلُ‬ ‫‪ِ1‬نْ ‪- - -‬‬
‫انْفَعَلَ ا‬

‫اِسْتِفْعَالُ اِس دُعا‬ ‫اسْتَفْعَلَ اِسْتَ ‪ - -‬يَسْتَفْعِلُ يَسُ تَدْ‬


‫‪٩٨‬‬

‫امید ہے آپ نے مذکورہ بالا جدول میں یہ بات نوٹکر لیہو گیکہ آٹھوں‬ ‫‪۹ :‬‬

‫ابوابکے ماضی کے صیغوںمیں عکلمہ پر فتحہ (زیرا آتی ہے جبکہ مضارعکے صیغوں‬

‫میں علامت مضارع اور عکلمہکی صورتحالکچھ اس طرح ہےکہ ‪:‬‬

‫پہلے تین ابواب ( جن کا ماضی چار حرفی ہے )کے مضارع کے صیغوں يُفعِل‬ ‫(‪) 1‬‬

‫يفعل اور يُفاعِلکی علامت مضارعپر ضمہ (پیش ) اور عکلمہ پر کسرہ ( زیر )‬

‫آتی ہے۔‬

‫( ‪ ) ۲‬اس کے بعد کے دو ابواب (جو "ت " سے شروع ہوتے ہیں )کے مضارعکے‬

‫صیغوں يَتَفَعَّل اور يَتَفَاعَلکی علامت مضارع اور عکلمہ دونوں پر بھی فتحہ‬

‫( زیر) آتی ہے ۔‬

‫( ‪ ) ۳‬جبکہ آخری تین ابواب ( جو) همزة الوصل " " سے شروع ہوتے ہیں ) کے‬

‫يَنفَعِلُ اور يَسْتَفْعِلکی علامت مضارعپر فتحہ‬ ‫مضارع کے مینوں يَفْتَعِلُ‬

‫( زیر‬
‫) بر قرار رہتی ہے لیکن عکلمہکی کسرہ ( زیر ) واپس آجاتی ہے ۔‬

‫ندکورہ بالا تجزیہ کا خلاصہ یہہے کہ علامت مضارع پر ضمه ( پیش ) صرف چار‬

‫حرفی ماضی کے مضارعپر آتی ہے جبکہ عکلمہ پر زبر صرف " ت " سے شروع ہونے‬

‫والے ابواب کے مضارعپر آتی ہے ۔ اس خلاصہکو اگر آپذہن نشینکرلیں تو ان‬

‫ابواب کے ماضی اور مضارع کے صیغوں کے اوزان یاد رکھنے میں آپکو بہت‬

‫سہولت ہوگی ( ان شاء اللہ ) ۔‬

‫‪ ۴۹ :‬یہ اہم باتبھی نوٹکرلیںکہ ثلاثی مجرد میںکوئی فعل خواہکسی باب سے‬

‫آئے یعنی اس کے ع کلے پر خواہکوئی حرکت ہو ‪ ،‬جب وہ ثلاثی مزید فیہ میں آئےگا تو‬

‫اس کے ع کلمے کی حرکت متعلقہ بابکے ماضی اور مضارع کے صیغوںکے وزنکے‬

‫مطابق ہوگی ۔ مثلاً ثلاثی مجرد میں سَمِعَ يَسْمَعُ آتا ہے لیکن یہی فعل جبباب‬

‫افتعال میں آئے گا تو اسکا ماضی اور مضارع اسْتَمَعَ يَسْتَمِعُ بنے گا ۔ اس طرح‬

‫كَرُمَ يَكرم جببابافعال میں آئےگا تو اس کا ماضی مضارعاكْرَمَ يُكرم ہوگا ۔‬


‫‪ ۴۹ :‬یہ بات بھی یاد رکھیں کہ مذکورہ بالا اوزان میں باب افعال کے علاوہ جو‬

‫وزن حمزہ سے شروع ہوتے ہیں ‪ ،‬ان کا مزہ دراصل حمزة الوصل ہوتا ہے ۔ اس‬

‫لئے پیچھے سے ملاکرپڑھتے وقت وہ تلفظ میں ساکت ہو جاتا ہے ۔ مثلاً افتعل سے‬

‫وَاشْتَعَلَيَا امْتَحَنَ سے وَامْتَحَنَ وغیرہ ۔ جبکہ باپافعالکا ہمزہ همزة الوصل نہیں‬

‫ہے ۔ اس لئے وہ پیچھے سے ملاکر پڑھتے وقت بھی بدستور قائم رہتا ہے ۔مثلاً افعل سے‬

‫وَافْعَلَ يَا أَحْسَنَ سے وَاَحْسَنَ وغیرہ ۔ اس طرح قائم رہنے والے ہمزہ کو " همزة‬

‫القطع ک‬
‫"ہتے ہیں ۔‬

‫‪ ۴۹‬یہ بھی نوٹکرلیں کہ ثلاثی مجرد میں فعل سے مصدر بنانے کاکوئی قاعدہ‬ ‫‪۹‬‬

‫نہیں ہے یعنی کوئی مقررہ وزن نہیں ہے ۔ بس اہل زبان سے سن کریا ڈکشنری میں‬

‫دیکھکر ان کا مصدر معلومکیا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس مزید فیہکے ہر صیغہ ماضی اور‬

‫مضارع کے مقررکردہ وزنکی طرح اس کے مصدر کا بھی ایک مقرر وزن ہے اور‬

‫مصدر کایه وزن باپکا نام بھی ہوتا ہے ۔‬

‫دیئے گئے ہیں ان میں یہ اضافہکر‬ ‫‪ ۴۹ : ۱۰‬مصدر کے جو اوزان بطور " باب کا نام‬

‫لیجئےکہ درج ذیل دو ابواب کا مصدر دو طرح سے آتا ہے یعنی ایک اور وزن پر بھی‬

‫آتا ہے ۔ تاہم باب کا نام یہی رہتا ہے جو اوپر جدولمیں لکھاگیا ہے ۔ مصدروںکے‬

‫متبادل اوزان یہ ہیں ‪:‬‬

‫( ‪ ) 1‬باب تفعیلکا مصدرتَفْعِلَةٌ کے وزن پر بھی آتا ہے ۔ جیسے ذَكَرَ يُذَكِّرُ( یاد دلاتا )‬

‫) کا‬
‫سے مصدر تَذْكِیرٌ بھی ہے اور تَذْكِرَہبھی ہے ۔مگرجَرَّبَ يُجَرِّبُ (آزمانا‬

‫مصدر تخریبتو شاذ ہی ہوتا ہے ‪ ،‬عموما تجربہ ہی استعمال ہوتا ہے ۔‬

‫( ‪ ) ۲‬اسی طرح باب مُفَاعَلَة کا مصدر اکثرفِعَال کے وزن پر بھی آتا ہے مثلا جَاهَدَ‬

‫يُجَاهِدُ ( جہادکرنا )کا مصدر مُجَاهَدَةبھی ہے اور جِهَادُبھی ۔مگرقَابَلَ يُقَابِل‬

‫(آمنے سامنے ہونا ‪ ،‬مقابلہکرنا ) کا مصدرقبال استعمال نہیں ہو تا بلکہ مُقَابَلَةً ہی‬

‫استعمال ہوتاہے ۔‬
‫‪ ۴۹ : ۱۱‬ایک اور بات بھی ابھی سے ذہن میں رکھ لیجئے اگر چہ اس کے استعمال کا‬

‫موقعہ آگے چل کر آئےگا اور وہ یہ کہ اگر کسی فعل نے ماضی اور مضارع کا پہلا‬

‫صیغہ بولکر ساتھ مصدربھی بولنا ہو تو اس صورت میں مصدرکو حالت نصبمیں پڑھا‬

‫اور لکھا جاتا ہے مثلا کہیں‪.‬گے عَلَّمَ يُعَلِّمُ تَعْلِيمًا ۔ یہ صرف اسی صورت میں‬

‫ضروری ہے جب ماضی اور مضارع کا صیغہ بولکر ساتھ ہی مصدر بولا جائے ورنہ‬

‫سکھانا "کی عربی " تعلیم " ہی ہوگی ۔ نصبکی اس وجہ پر آگے مفعولکی بحث‬ ‫ویسے‬

‫میں بات ہوگی ( ان شاء اللہ ) ۔‬

‫مشقنمبر‪ ( ۴۸‬الف)‬

‫مندرجہ ذیل مادوںکو قوسین میں دیئے گئے بابمیں ڈھالیں یعنی ہر ایک مادہ‬

‫سے دیئے گئے باب کے ماضی اور مضارع کا پہلا صیغہ لکھیں اور اس کا مصد ربحالت‬

‫نصبلکھیں ‪:‬‬

‫لا اكْرَمَ يُكْرِمُ اكْرَامًا‪-‬‬

‫نوٹ ‪ :‬تمامکلماتپر کھل حرکات دیں ۔‬

‫(افعال‬
‫)‬ ‫خرج ‪ -‬ب ع د ‪ -‬رش د‬

‫الفيل‬ ‫ق رب ‪ -‬ک ذب ‪ -‬صدق‬

‫(مُفَاعَلَةٌ)‬ ‫ل ب ‪ -‬ق ت ل ‪ -‬خلف‬


‫طل‬‫ط‬

‫(تَفَقُلْ‬
‫)‬ ‫ق رب ‪ -‬ق د س ‪ -‬ک ل م‬

‫لفاعل‬
‫)‬ ‫ف خ ر ‪ -‬ع ق ب ‪ -‬ك ث ر‬

‫)‬ ‫(‬
‫افتعال‬ ‫ن ش ر ‪ -‬ع رف ‪ -‬م ح ن‬

‫(انْفِعَال)‬ ‫ش رح ‪ -‬ق ل ب ‪ -‬ک ش ف‬

‫اسْتِفْعَال)‬ ‫غ ف ر ‪ -‬ح ق ر ‪ -‬ب دل‬


‫‪1.1H‬‬

‫مشق نمبر‪ ( ۴۸‬ب )‬

‫مندرجہ ذیل الفاظ کا مادہ اور باب بتائیں نیز یہ بھی بتائیں کہ وہ ماضی ہے یا‬

‫مضارع یا مصدر ۔ واضح رہے کہ ان میں سے بیشتر الفاظ کے معنی ابھی آپکو نہیں‬

‫بتائے گئے ۔کیونکہ یہاں یہ مشقکروانی مقصود ہے کہ اگرکسی لفظ کے معنی آپکو‬

‫معلوم نہیں ہیں تو ڈکشنری میں اس کے معنی دیکھنے کے لئے پہلے اس کا مادہ اور باب‬

‫پہچانا ضروری ہے ۔ اس لئے کہ عربی لغت مادے کے حروفکے اعتبار سے ترتیب‬

‫گئی ہے ۔‬
‫دی‬

‫أَرْسَلَ ‪ -‬يُقَرَبُ ‪ -‬إِرْسَالَ ‪ -‬تَغَيَّرَ ‪ -‬تَفْرِيْبٌ ‪ -‬اِرْتِكَابُ ‪ -‬يَسْتَكْبِرُ ‪ -‬يَتَغَيَّرُ ‪-‬‬

‫اِنْقِلابٌ تَبَارَكَ ‪ -‬تَبَسُّمْ ‪ -‬عَجَّلَ ‪ -‬اِسْتِصْوَابٌ ‪ -‬اِنْحِرَافٌ‪ -‬اسْتَقْبَلَ ‪ -‬يَشْتَركُ ‪-‬‬

‫يُخْبِلُ يُحَرِّبُ‬
‫‪۱۰۲‬‬

‫ثلاثی مزید‬
‫ر فیه‬
‫ہ‬

‫( خصوصیات ابواب )‬

‫‪ ۵۰ : ۱‬مزید فیہ کے ابواب میں معنوی تبدیلیوں پر باتکرنے سے پہلے آپکو یہ‬

‫باتیاد دلانا ضروری ہےکہ زبانپہلے وجود میں آتی ہے اورقواعد بعد میں مرتب کئے‬

‫جاتے ہیں ۔ چنانچہ صحیح صور تحال یہ ہے کہ ابواب مزید فیہ میں جو معنوی تبدیلیاں‬

‫واقع ہوتی ہیں ان سبکو مد نظر رکھ کر ہمارے علماءکرام نے ہرباب کے لئے کچھ‬

‫اصول ( ‪ ) Generalisations‬مرتب کئے ہیں جنہیں خصوصیات ابواب‬

‫کہتے ہیں ۔‬

‫‪ ۵۰ : ۲‬اب یہ باتنوٹکرلیںکہ مزید فیہ کے جو آٹھ ابو ابآپ نے پڑھیں ہیں‬

‫ان میں سے ہر بابکی ایک سے زیادہ خصوصیات ہیں اور بعضکی خصوصیاتکی‬

‫تعدادسات آٹھ یا اس سے بھی زیادہ ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ عربیگرامرکی کتابوںمیں‬

‫خصوصیات ابواب کے لئے الگ ایک مستقل سبق ہوتا ہے ۔ ہماری اسکتابمیں‬

‫چونکہ یہ سبق شامل نہیں ہے اس لئے ضروری ہےکہ اس مقام پر ہربابکی ایک‬

‫کرا دیا جائے جو اس باب میں نسبتاً زیادہ معنوی تبدیلی‬


‫ایک ایسی خصوصیت کا تعارف‬

‫کا باعث ہوتی ہے ۔ لیکن یہ باتکبھی نہ بھولیںکہ تمام خصوصیات کا ابھی آپکو علم‬

‫نہیں ہے ۔ اور پھر جب آپ ان تمام خصوصیات ابوابکا مطالعہکر لیں تو اس وقت‬

‫بھی ذہن میں استثناء کی کھڑکی ہمیشہکھلی رکھیں ۔‬

‫‪ ۵۰ : ۳‬باب افعال اور باب تفعیل دونوںکی ایک مشترکہ خصوصیتیہ ہےکہ‬

‫عام طور پر یہ فعل لازمکو متعدی کرتے ہیں ۔ جیسے عَلِمَ يَعْلَمُ عِلْمًا ‪ -‬جانا ایک‬

‫فعل لازم ہے ۔ باب افعال میں یہ أَعْلَمَ يُعْلِمُ اِغْلَامًا اور بابتفعیل میں عَلَّمَ‬
‫‪۱۰‬‬

‫يُعَلِّمُ تَعْلِيمًا بنتاہے ۔ دونوں کے معنی ہیں جانکاری دینا ‪ ،‬علم دینا اور اب یہ فعل‬

‫متعدی ہے ۔ چنانچہ دونوں ابواب کے زیادہ تر افعال متعدی ہیں ۔ اگرچہ کچھ استثناء‬

‫بھی ہیں‪ ،‬بالخصوص بابافعالمیں ۔‬

‫‪ ۵۰ : ۴‬البتہ باب افعال اور باب تفعیل میں ایک فرق یہ ہےکہ باب افعالمیں‬

‫کسی کامکو ایک مرتبہکرنے کا مفہوم ہوتا ہے ۔ جبکہ باب تفعیل میں عموماکًسی کامکو‬

‫درجہ بدرجہ اور تسلسل سے کرنے کا یاکثرت سے کرنے کا مفہوم ہوتا ہے ۔ جیسے‬

‫اعلام "‬ ‫نے آپ سے کسی جگہ کا پتہ پوچھا اور آپ نے اسبےتایا تو یہ‬ ‫ایک شخص‬

‫ہے ۔ لیکن کسی چیزکے متعلق معلومات جب درجہ بدرجہ اور تسلسل سے دی جائے تو‬

‫یہ" تعلیم"ہے ۔‬

‫‪ ۵۰ : ۵‬باب مفاعلہ میں زیادہ تر یہ مفہوم ہوتاہےکہکسی کامکوکرنے والے ایک‬

‫سے زیادہ ہوں اور ایک دوسرےکو نیچا دکھانے کی کوششکر رہے ہوں ۔ جیسے قتل‬

‫يَقْتُلُ قَتلاً ۔ قتلکرنا ۔یہ ایک یک طرفہ عمل ہے ۔ لیکن قَاتَلَ يُقَاتِلُ مُقَاتَلَةً وَ‬

‫قتالاً کا مطلب ہےکہ کچھ لوگ ایک دوسرےکو قتلکرنے کی کوششکریں ۔ اس‬

‫بابکے زیادہ ترافعالبھی متعدی ہوتے ہیں ۔‬

‫‪ ۵۰ : ۲‬باب تفعل میں زیادہ تر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ تکلیف اٹھاکرکسی کامکو خود‬

‫کرنے کی کوششکرتا ۔ جیسے عَلِمَ يَعْلَمُ عِلْمًا ‪ -‬جانتا جبکہ تَعَلَّمَ يَتَعَلَّمُ تَعَلَّما کا‬

‫ے ۔تکلیفاٹھا کر کوششکر کے علم حاصلکرنا اور سیکھنا ۔ یعنی اس میں بھی‬


‫ہے‬‫مطلب ہ‬

‫عمل کے تسلسل کا مفہوم ہے ۔ اس بابکے زیادہ تر افعال لازم ہوتے ہیں ۔‬

‫‪L‬‬
‫‪ ۵۰ :‬باب مفاعلہ کی طرحبا ت‬
‫بفاعل میں بھی زیادہتر یہی مفہوم ہوتاہےکہکسی‬

‫کام کو کرنے والے ایک سے زیادہ ہوں ۔ لیکن اس باب کے زیادہ تر افعال لازم‬

‫ہوتے ہیں ۔ جیسے فَخَرَ يَفْخَرُ فَخَرًا ۔فخرکرنا ہے تَفَاخَرَ يَتَفَاخَرُ تَفَاخُرًا كامطلب‬

‫ہے ایک دوسرےپرفخرکرن۔‬


‫ا‬
‫‪۱۰۴‬‬

‫‪ ۵۰ :‬باب افتعالمیں زیادہ ترکسی کامکو اہتمام سے کرنے کا مفہوم ہوتا ہے ۔‬

‫جیسے سَمِعَ يَسْمَعُ سَمْعًا = نتاس اِسْتَمَعَ يَسْتَمِعُ اِسْتِمَاعًا کامطلبہے کان‬

‫لگا کر سننا ‪ ،‬غور سے سننا۔ اس سے میں لازم اور متعدی دونوں طرح کے افعال‬

‫آتے ہیں ۔‬

‫‪ ۵۰ : ۹‬باب انفعالکی ایک خصوصیت یہ ہےکہ یہ فعل متعدیکو لازمکرتا ہے ۔‬

‫جیسے هَدَمَ يَهْدِمُ هَدْمًا ‪-‬گزانا سے اِنْهَدَمَ يَنْهَدِمُ اِنْهِدَامًا کے معنی "گرنا " ہیں ۔‬

‫یا د رکھیںکہ جس طرح ابواب ثلاثی مجرد میں باب گرم لازمتھا اسی طرح ابواب مزید‬

‫فیہ میں بابانفعال لازم ہے ۔‬

‫‪ ۵۰ : ۱۰‬باب استفعال میں زیادہ تر کسی کامکو طلبکرنے یا کسی صفتکو موجود‬

‫مجھنے کا مفہوم ہوتاہے ۔ جیسے غَفَرَ يَغْفِرُ غُفْرَانًا ۔ چھپانا معافکرنا ( غلطی کو چھپا‬

‫دیتا ) سے اِسْتَغْفَرَ يَسْتَغْفِرُ اسْتِغْفَارًا ‪ -‬کا مطلب ہے معافی مانگنا مغفرت طلبکرنا‬

‫خوبصورت ہوتا ‪ ،‬اچھا ہونا سے اِسْتَحْسَنَ يَسْتَحْسِنُ‬ ‫اور حَسُنَ يَحْسُنُ حُسنا‬

‫اِسْتِحْسَانًا کا مطلب ہے اچھا سمجھنا۔ اس باب سے بھی لازم اور متعدی دونوں‬

‫طرح کے افعالآتے ہیں ۔‬

‫‪ ۵۰ : ۱۱‬اب اس سبق کی آخری بات یہ سمجھ لیں کہ ضروری نہیں ہےکہکوئی سہ‬

‫حرفی مادہ مزید فیہ کے ہرباب میں استعمال ہو ۔ ایک مادہ مزید فیہ کےکنکن ابواب‬

‫سے استعمال ہوتا ہے اور انکی کن خصوصیات کے تحت اس میں کیا معنوی تبدیلی‬

‫ہوتی ہے‪ ،‬اس کا علم ہمیں ڈکشنری سے ہی ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ ابواب مزید فیہ‬

‫کے اوزان یاد کئے بغیرکوئی طالب علم عربی لغت سے پوری طرح استفادہ نہیںکر‬
‫سکتا ۔‬
‫‪۱۰۵‬‬

‫مشقنمبر ‪۴۹‬‬

‫نیچے کچھ الفاظ کے معنی اس طرحلکھے گئے ہیں جیسے عمو ماڈکشنری میں لکھے جاتے‬

‫ہیں ۔ آپ کا کام یہ ہےکہ الگکاغذ پر ان کا ماضی ‪ ،‬مضارع اور مصدر لکھیں ۔ پھر‬

‫ان کے مصدری معنی لکھیں اور پھر اسی طرح انہیں یادکریں ۔ جیسے جَهَدَ يَجْهَدُ‬

‫جهدًا کے معنی کوششکرنا ۔ جَاهَدَ يُجَاهِدُ مُجَاهَدَةً وَجِهَادًا کے معنی ایک‬

‫دوسرے کے خلافکوشش کرنا وغیرہ ۔ یاد رہے کہ ان میں غالب اکثریت ایسے‬

‫الفاظکی ہے جو قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں ۔‬

‫نوٹ ‪ :‬الفاظکو اوپر سے نیچے پڑھیں ۔‬

‫خَصَمَ(ض) خَصْمًا = جھگڑاکرنا‬ ‫جَهَدَاف‬


‫) جهدًا ‪ -‬کوششکرنا‬

‫تخاصم ‪ -‬باہم جھگڑاکرنا‬ ‫شرنا‬


‫‪ -‬کسی کے خلافکوش ک‬ ‫جَاهَدَ‬

‫= جھگڑاکرنا‬
‫‪-‬‬ ‫اختصم‬
‫‪ -‬اہتمام سےکوششکرنا‬ ‫اجتهد‬

‫بُلُوغا = پنچنا‪ ،‬پھل کاپکنا‬ ‫ن)‬


‫بَلَغَ (‬ ‫) صَلاحًا = درستہونا نیکہونا‬
‫صَلَحَ (ف ن‬

‫بَلاغة ‪ -‬فصیحوبلیغ ہونا‬ ‫)‬


‫بلغ(ک‬ ‫‪ -‬درسکترنا صلحکرانا‬ ‫أصْلَحَ‬

‫=‬ ‫=‬
‫‪ -‬کسی چیزکوکسی کے پاسپہنچانا‬ ‫بلغ‬ ‫‪ -‬کسی چیزکو کسی کے پاسپہنچانا‬ ‫ابلغ‬

‫= مددکرنا‬
‫نَصْرًا ‪-‬‬ ‫نَصَرَ‬
‫(ن )‬ ‫نُزُولاً ‪ -‬اترنا‬ ‫نَزَلَ(ض)‬

‫= یا ہم ایک دوسرےکی مددکرنا‬ ‫تَنَاصَرَ‬ ‫‪ -‬اتارنا‬ ‫انْزَلَ‬

‫= بدلہ لینا اہتمام نسے خود اپنی مددکرنا)‬ ‫انْتَصَرَ‬ ‫= اتارنا‬ ‫نَزَّلَ‬

‫= مددمانگنا‬ ‫اسْتَنْصَر‬
‫= اترنا‬
‫‪-‬‬ ‫تَنَزَّلَ‬
‫‪1.4‬‬

‫ثلاثی مزید فیہ‬

‫کیگردانیں )‬
‫(ماضی مضارع‬

‫اب جبکہ آپمزید فیہکے آٹھ ابواب کے فعلماضی اور فعل مضارعکا پہلا‬ ‫‪۵۱ : ۱‬‬

‫صیغہ بناناسیکھ گئے ہیں تو ضروری ہےکہ ہرباب کے ماضی اور مضارعکی مکملگردان‬

‫بھی سیکھ لیں ۔ سردست ہم ان ابواب سے فعل معروفکی گردانپر توجہ دیں گے ۔‬

‫واضح رہے کہ گزشتہ دو اسباق میں تمام افعالکی صرف معروف صورت ہیکی بات‬

‫کی گئی ہے ۔ آگے چلکر ان شاء اللہ ہم فعل مجمول ( مزید فیہ )کی بات الگسبق میں‬

‫کریں گے ۔‬

‫‪ ۵۱ : ۲‬مزید فیہ افعالکی گردان اصولی طور پر فعلمجردکیگردانکی طرح ہی ہوتی‬

‫ہے ۔ البتہ جس طرح فعل مجرد میں گردان کے اندر "ع "کلمہ کی حرکتکو برقرار‬

‫رکھنے کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح مزید فیہ کیگردانوں میں بھی زائد‬

‫حروفکی حرکات اور " ع "کلمہکی حرکتکو پوریگردان میں برقرار رکھا جاتا ہے ۔‬

‫‪ ۵۱ : ۳‬اب ہم ذیل میں نمونے کے طور پر باب افعال کے فعلماضی اور مضارع‬

‫کی مکملگردان لکھ رہے ہیں ۔ اس مثالکو سامنے رکھتے ہوئے آپبقیہ ابواب کے‬

‫فعل ماضی اور مضارعکی مکملگردان خود لکھ سکتے ہیں ۔ نہ صرف یہکہ انہیں لکھ‬

‫لیں بلکہ انہیں با آواز بلند و ہرا دہرا کر اچھی طرحیادکر لیں ۔ اگر آپیہ محنتکرلیں‬

‫گے تو آئندہ جملوں میں استعمال ہونے والے مختلف افعال کے صحیح باباور صیغہکی‬

‫شناخت اور ان کے صحیح ترجمے میں آپکو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی‬

‫( ان شاء اللہ) ۔‬
‫‪102‬‬

‫باب افعال سے فعلماضی کی گردان‬

‫تثنه‬ ‫واحد‬

‫العلا‬ ‫(نڈکیا‬ ‫غائب‬


‫افعَلُوا‬ ‫الْعَلَ‬

‫الْعَلْنَ‬ ‫الْعَلَا‬ ‫افْعَلَتْ‬ ‫(مونث) ‪:‬‬ ‫غائب‬

‫الْعَلْتُمَا‬ ‫الْعَلْتَ‬ ‫(مذکر) ‪:‬‬ ‫حاضر‬


‫الْعَلْتُمُ‬

‫الْعَلْتُنَّ‬ ‫الْعَلْتُمَا‬ ‫الْعَلْتِ‬ ‫(مؤنث) ‪:‬‬ ‫حاضر‬

‫افْعَلْنَا‬ ‫افْعَلْنَا‬ ‫العَلْتُ‬ ‫متكلم ( ذکرو مونث‬


‫)‪:‬‬

‫باب افعال سے فعل مضارعکی گردان‬

‫جمع‬ ‫تثنیہ‬ ‫واحد‬

‫يُفْعِلُونَ‬ ‫يُفْعِلان‬ ‫(مذکر)‬ ‫غائب‬


‫يُفْعِلُ‬

‫يُفْعِلُنَ‬ ‫تفعلان‬ ‫تُفْعِلُ‬ ‫(مؤنث) ‪:‬‬ ‫غائب‬

‫تُفْعِلُونَ‬ ‫(مذکر) ‪:‬‬ ‫حاضر‬


‫تُفْعِلَانِ‬ ‫تفْعِل‬

‫تُفْعِلُنَ‬ ‫تُفْعِلان‬ ‫تُفْعِلِينَ‬ ‫(مؤنث) ‪:‬‬ ‫حاضر‬

‫نُفْعِلُ‬ ‫تفعل‬ ‫افْعِل‬ ‫متکلم (مذکرو مؤنث)‪:‬‬

‫‪ ۵۱‬اگر آپ نے باب افعال کے علاوہ بقیہ ابوابکی مکملگردانیں بھی لکھ کر‬ ‫‪:‬‬
‫‪۴‬‬

‫یادکرلی ہیں تو ابآپان کے متعلق مندرجہ ذیل باتیں اچھی طرح ذہن نشینکر‬

‫لیں ۔ آگے چلکر ان سے آپکو بہت مدد ملےگی ( ان شاءاللہ ) ۔‬

‫خیال رہے کہ باب افعالکی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ماضی کے ہر‬ ‫( ‪)1‬‬


‫‪۱۰۸‬‬

‫صیغےکی ابتدا مزہ مفتوحہ ( ا) سے ہوتی ہے ۔ باقیکسی بابمیں یہ چیز نہیں ہے ۔‬

‫اور یہ بات ہم آپکو بتا چکے ہیں کہ باب افعالکا یہ ابتدائی حمزہ ‪،‬حمزة القطع‬

‫ہوتا ہے ۔ یعنی پیچھےکسی حرف سے ملتے وقتبھی برقرار رہتا ہے ۔‬

‫( ‪ )ii‬پہلے تینوں ابواب یعنی افعال تفعیل اور مفاعلة کے ماضی کے پہلے صیغے میں‬

‫چار حروف ہیں ۔ اب یہ بات ذہن نشینکرلیںکہ جس فعلکے ماضی کے پہلے‬

‫صیغے میں چار حروف ہوں گے اس کے مضارعمیں علامت مضارعپر ضمہ‬

‫(پیش ) آتا ہے ۔ اس قاعدےکو اچھی طرحیادکرلیں ۔آگے چل کر یہ مزید کام‬

‫دےگا ۔‬

‫(‪ )iii‬آخری تین ابواب یعنی افتعال انفعال اور استفعال کے ماضی کے تمام‬

‫صیغوںکی ابتداء حمزہ مکسورہ ( ‪ ) ۱‬سے ہوتی ہے جو ممزة الوصلہوتا ہے ۔‬

‫( ‪ ) iv‬باب افتعال اور انفعال کے ماضی ‪ ،‬مضارع اور مصدر بہت ملتے جلتے ہیں بلکہ‬

‫بعض دفعہ تو دونوںہی " ان "کی آواز سے شروعہوتے ہیں اور ایسا اس وقت‬

‫ہوتا ہے جب باب افتعال میں " ف " کلمہ " ن " ہوتا ہے ۔ مثلاً اِنْتِظار‬

‫اِنْتِظَامٍ‪ ،‬اِنْتِشَار وغیرہ باب افتعال کے مصادر ہیں ۔ جبکہ اِنْحِرَاف‬

‫انكشاف الهدام وغیرہ بابانفعال کے مضاور ہیں ۔ دونوں میں پہنچان کا‬

‫عام قاعدہ یہ ہے کہ اگر " ان " کے بعد "ت " ہو تو نوے پچانوے فی صد دہ‬

‫باب افتعال ہو گا ۔ اور اگر " ان " کے بعد "ت " کے علاوہکوئی دوسرا حرف ہو‬

‫تو پھروہ باب انفعال ہو گا ۔‬


‫‪1.4‬‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫رَشَدَ(ن) رُشْدًا = ہدایتپانا‬ ‫خَرَجَ(ن) خُرُوجًا ‪ -‬باہرنکلنا‬

‫‪ -‬ہدایتدیتا‬ ‫اَرْشَدَ‬ ‫‪ -‬باہرنکالنا‬ ‫أخرج‬

‫اسْتَخْرَجَ ـ نکلنے کے لئےکہنا کسی چیزمیں سےکوئی چیزنکالنا‬

‫ض كَذِبًا وَكِذبًا = جھوٹبولتا‬


‫قَرُبَ وَقَرِبَ (کس ) قُرْبَا وَقُرْبَانًا ‪ -‬قریبہوتا كَذَبَ( )‬

‫= کسیکو جھوٹاکہنا‪،‬جھٹلانا‬ ‫كَذَّبَ‬ ‫‪ -‬کسیکو قری ک‬


‫برنا‬ ‫قرب‬

‫‪ -‬قریبآجاتا‬ ‫اقْتَرَبَ‬

‫نَفْقًا ‪ -‬خرچ ہونا دومنہ والا ہونا‬ ‫نَفَقَ (ن )‬ ‫ض غُسْلاً ‪ -‬وهونا‬


‫غَسَلَ( )‬

‫= خرچکرنا‬ ‫انْفَقَ‬ ‫‪ -‬نہانا‬ ‫اغْتَسَلَ‬

‫= کسی سے دو رخا پناختیارکرنا‬ ‫نافقی‬ ‫‪ -‬دُھلنا وهل جاتا‬ ‫الْغَسَلَ‬

‫مشق نمبر ‪ ( ۵۰‬الف )‬

‫عَلِمَ سے باب تفعیل اور تَفَعل میں اور نَصَرَ سے باباِسْتِفْعَال میں ماضی اور‬

‫مضارعکی مکملگردان لکھیں اور ہر صیغہ کے معنی لکھیں ۔‬

‫مشقنمبر ‪ ( ۵۰‬ب )‬

‫عربی سے اردومیں ترجمہکریں ۔‬

‫اغْتَسَلَخَالِدٌ أَمْس‬ ‫( ‪)1‬‬

‫تَضَارَبَ الْوَلَدَن فِيالْمَدْرَسَةِ فَأَخْرَجَهُمَا مِيْرُهَا مِنْهَا‬ ‫(‪) ۲‬‬

‫( ‪ ) ۳‬اسْتَصَرَالْمُسْلِمُوْنَ إِخْوَانَهُمْ فَنَصَرُوهُمْ‬


‫‪11.‬‬

‫(‪ )۳‬ضَرَبْنَا الْجِدَارَبِالْأَحْجَارِفَالْهَدَمَ‬

‫( ‪ )٥‬خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ( حديث نرى )‬

‫اسْتَرْشَدَالطَّلابُمِنَالْأُسْتَاذِ فَارْشَدَهُمْ‬ ‫(‪) 1‬‬

‫(ع ) يُقَاتِلُالْمُسْلِمُونَ الكُفَّارَ‬

‫( ‪ ) ۸‬يَكتُسِبُالزَّوْجُوَتُنْفِقُالرُّوجَةُ‬

‫مشق نمبر ‪ ( ۵۰‬ج )‬

‫مندرجہ بالا جملوںکے درج ذیل الفاظ کا مادہ "باباور صیغہ بتائیں ۔‬

‫( ‪ ) ۷‬اِنْهَدَمَ‬ ‫( ‪ )١٧‬نَصَرُوا‬ ‫(‪ ) 1‬اغْتَسَلَ (‪ )ii‬تَضَارَبَ ( ‪ )iii‬اَخْرَجَ‬

‫( ‪ )ix‬يُقَاتِلُ ( ‪ )x‬يَحْتَسِبُ‬ ‫(‪ )vil‬إِسْتَرْشَدَ‬ ‫( ‪ )vi‬عَلَّمَ‬ ‫(‪ )vi‬تَعَلَّمَ‬

‫(‪ )xi‬تُنْفِقُ‬
‫ثلاثی مزید فیہ‬

‫( فعلامرونهی )‬

‫‪ ۵۲ : ۱‬اس سے پہلے آپ ثلاثی مجرد سے فعل امراور فعل نہی بنانے کے قاعدے‬

‫پڑھ چکے ہیں ۔ اب آپثلاثی مزید فیہ میں انہی قواعد کا اطلاقکریں گے ۔‬

‫‪ ۵۲ : ۲‬مثلاثی مجرد میں آپپڑھ چکے ہیں کہ فعل امر حاضراور فعل امرغائب ( جس‬

‫میں متکلم بھی شامل ہوتا ہے) دونوں کے بنانے کا طریقہ مختلف ہے جبکہ فعل نہی (حاضر‬

‫ہو یا غائب ) ایک ہی طریقے سے بنتا ہے ۔ یہی صورت حال ثلاثی مزید فیہ سے فعل امر‬

‫اور فعل نہی بنانے میں ہوگی ۔ نیزیہ بھی نوٹکرلیںکہ جس طرح ثلاثی مجرد میں فعل‬

‫امر اور فعل نمی فعل مضارع سے بنتا ہے اسی طرح ثلاثی مزید فیہ میں بھی فعل‬

‫مضارع سے فعل امر اور فعلنہی بنائے جائیں گے ۔‬

‫‪ ۵۲ : ۳‬ثلاثی مزید فیہ سے فعل امرحاضربنانے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات‬

‫کریں ۔‬

‫مثلاثی مجرد کی طرح مزید فیہ کے فعل مضارع سے علامت مضارع ( ت)‬ ‫(‪) 1‬‬

‫ہٹا دیں ۔‬

‫ثلاثی مجرد میں علامت مضارع ہٹانے کے بعد مضارعکا پہلا حرفساکن آتا تھا‬ ‫(‪) ii‬‬

‫لیکن مزید فیہ میں آپکو دیکھنا ہو گا کہ علامت مضارع ہٹانے کے بعد مضارع کا‬

‫پہلا حرفساکن ہے یا متحرک ۔‬

‫علامت مضارع ہٹانے کے بعد مضارع کا پہلا حرف اگر متحرک ہے تو ممزة‬ ‫(‪ili‬‬

‫الوصللگانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ صورت حال آپکو چار ابواب یعنی‬

‫باب تفعیل 'باب مفاعلہ 'بابتفعل اوربابتفاعل میں ملےگی ۔‬

‫حرف اگر ساکن ہے ( اور ایسا‬


‫( ‪ ) iv‬علامت مضارع بنانے کے بعد مضارع کا پہلا‬
‫‪۱۱۲‬‬

‫مذکورہ چار ابواب کے علاوہ باقی تمام ابواب میں ہو گا خواہ وہ مجرد ہویا مزید فیہ )‬

‫تو باب افتعال ‪ ،‬باب انفعال اور باب استفعال میں حمزة الوصل لگایا جائے گا۔‬

‫اور اسے کسرہ ( زیر ) دی جائے گی جبکہ باب افعال میں حمزۃ القطع لگایا جائے گا‬

‫اور اسے فتحہ ( زبر) دی جائےگی ۔ باب افعال کے فعل امرحاضرکی درج بالا‬

‫دونوں خصوصیات خاص طور پر نوٹ‬


‫کر لیجئے ۔‬

‫ثلاثی مجرد نہیکی طرح مزید فیہ میں بھی مضارع کے ” ل " کلمے مجزومکر دیئے‬ ‫( ‪)۷‬‬

‫جائیں گے ۔‬

‫‪ ۵۲ : ۴‬ہمیں قوی امید ہےکہ مذکورہ بالا طریقہ کارکا اطلاقکرتے ہوئے مزیدفیہ‬

‫کے ابواب سے فعل امر حاضراب آپ خود بنا سکتے ہیں ۔ لیکن آپکی سہولت کے‬

‫لئے ہم دو مثالیں دے رہے ہیں جس سے مزید وضاحت ہو جائے گی ۔‬

‫باب تفعیل کے ایک مصدر " تعلیم "کو لیجئے ۔ اس کا فعل مضارع " يُعَلِّمُ "‬ ‫(‪) 1‬‬

‫ہے ۔ اور اس کا حاضرکا صیغہ تعلیم ہے ۔ اسکی علامت مضارعگرانے کے‬

‫بعد علیم باقی بچا ۔ اس کا پہلا حرف متحرک ہے ۔ اس لئے اس کے شروعمیں‬

‫حمزہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کے بعد اس کے لامکلمہکو مجزومکیا‬

‫جائے گا تو اس کا آخری حرف " م " ساکن ہو جائے گا ۔ اس طرح آپکے‬

‫پاس فعل امر کا پہلا صیغہ " علم " ہوگا ۔ اسی طرح تثنیہ کا صیغہ " عَلَمَا " جمع‬

‫تذكر كا " عَلِمُوا " واحد مونث کا علمی " اور جمع مؤنث کا " عَلَّمْنَ " ہوگا ۔‬

‫ہے ۔ اس کا مضارع " يَسْتَغْفِرُ " اور‬


‫باب استفعال کا ایک مصدر " اِسْتِغْفَارٌ "‬ ‫( ‪) ii‬‬

‫حاضرکا صیغہ " تَسْتَغْفِرُ " ہے ۔ اسکی علامت مضارعبنائی تو " مسْتَغْفِرُ " باقی‬

‫بچا۔ اب چونکہ اس کا پہلا حرف ساکن ہے اس لئے اس کے شروع میں ایک‬

‫حمزہ لگایا جائے گا جو حمزة الوصل ہو گا اور اسے کسرہ ( زیر )دی جائےگی کیونکہ‬

‫یہ باب افعال نہیں ہے ) اب بن گیا " اسْتَغْفِرُ " ۔ پھرمضارعکو مجزومکیا تو لام‬

‫کلمه در ساکن ہوگئی ۔ چنانچہ فعل امر کا پہلا صیغہ " استغْفِرُ " بنگیا ۔ امر حاضر‬
‫‪۱۱۳‬‬

‫کی گردان کے باقی صیغے یہ ہوں گے ‪ :‬اسْتَغْفِرًا اسْتَغْفِرُوا إِسْتَغْفِرِى‬

‫اسْتَغْفِرَا اِسْتَغْفِرْنَ‬

‫‪ ۵۲ : ۵‬فعل امرغائب ومتکلم بنانے کا طریقہ آسان ہے ۔ اس لئے کہ ثلاثی مجردکی‬

‫طرح ابواب مزید فیہ میں بھی علامت مضارعگرانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس‬

‫سے پہلے لام امرالِ الگاتے ہیں اور مضارعکو مجزومکردیا جاتا ہے ۔ مثلا باب افعالکا‬

‫ایک مصدر " اكْرَام " ہے ۔ اس کا مضارع " يُكرم " ہے ۔ اس سے قبل لام امرلگایا‬

‫لِيُكرم " بن گیا۔ پھر مضارعکو مجزومکیا تو لامکلمہ یعنی "م " ساکن ہوگیا۔ اس‬ ‫تو‬

‫طرح امرغائب کا پہلا صیغہ لیکرم بنا ۔ جبکہ باقی صیغے اس طرح ہوں گے ۔ لیکر ما‬

‫لِيُكْرِمْنَ ‪ ،‬لِأُكْرِمْ اور لِنَكْرِمْ ۔ امید ہے ابآپ‬ ‫لِتَكْرِمَا‬ ‫لِتَكْرِمْ‬ ‫لِيُكْرِمُوْا‬

‫اس طرحبقیہ ابواب سے امرغائب و متکلم بنا لیں گے ۔‬

‫‪ ۵۲ :‬اس مقام پر ضروری ہے کہ لام کئی اور لام امرکا جو فرق آپ نے ثلاثی‬

‫مجرد میںپڑھا تھا اسے ذہن میں تازہکر لیں ۔ اس لئےکہ اسکا اطلاق ثلاثی مزید فیہ پر‬

‫بھی اسی طرح ہوتا ہے ۔ (دیکھے ‪) ۴۶ : ۵‬‬

‫‪ ۵۲ :‬فعل نمی کا بنانا زیادہ آسان ہے ۔ اس لئےکہ یہ مضارعکے تمام صیغوں‬

‫سے ایک ہی طریقے سے بنتا ہے اور فعل امر کی طرح اس میں حاضر اور غائبکی‬

‫تفریق نہیں ہے ۔ فعل نہی مجرد سے ہو یا مزید فیہ سے اس کے بنانے کا طریقہ ایک ہی‬

‫ہے یعنی مضارعکی علامت مضارعکرائے بغیر اس کے شروع میں لائے نہی "لا "‬

‫بڑھا دیں اور مضارعکو مجزومکر دیں مثلا باب مفاعلہ کا ایک مصدر مُجَاهَدَةًہے ۔‬

‫اس کا مضارع " يُجَاهِدُ " ہے ۔ اس سے قبل " لا " لگایا تو " لا يُجَاهِدُ " بنگیا ۔ پھر‬

‫مضارعکو مجزومکیا تو اس کا لام کلمہ یعنی " د " ساکن ہوگیا ۔ اس طرح فعل نہی کا‬

‫پہلا صیغہ " لا يُجاهد " بن گیا ۔ ہمیں قوی امید ہےکہ بقیہ صیغے آپخود بنا لیں گے ۔‬

‫‪ ۵۲ :‬ثلاثی مجرد میں آپ لائے نفی اور لائے نہی کا فرقپڑھ چکے ہیں ۔ اس مقام‬
‫‪ᎢᏛ .‬‬

‫پر اسے بھی ذہن میں دوبارہ تازہکر لیں ۔ اس لئےکہ اس کا اطلاق ابواب مزید فیہ پر‬

‫بھی اسی طرحہوتا ہے ۔ ( دیکھے ‪)۴۸ : ۳‬‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫سَلِمَ(س) سَلَامَةً ‪ -‬آفت سے نجاپتانا سلامتی میں ہونا‬ ‫جنب(ن) جَنْبا ‪ -‬ہٹانا دورکرنا‬

‫أَسْلَمَ ‪ -‬کسی کی سلامتی میںآنا فرماںبردار ہوتا‬ ‫جنب( س) جَنَابَةً ‪ -‬ناپاکہوتا‬

‫‪ -‬دورکرتا‬ ‫جَنَّبَ‬
‫= آفت سے بچانا سلامتی دینا‬ ‫سَلَّمَ‬

‫دور رہنا بچا‬ ‫اجتنب‬

‫(جضيوف) ‪ -‬مهمان‬ ‫ضَيْف‬ ‫نَبَاتًا ‪ -‬سبزہ کا اگنا‬ ‫نَبَتَ( ن)‬

‫= جھوٹ‬ ‫زرُووررٌ‬ ‫‪ -‬سبزہ اگانا‬ ‫انبَتَ‬

‫مشقنمبر ‪( ۵۱‬الف)‬

‫گرم سے بابافعال میں علم سے بابتفعل میں اور جنب سے بابانتقال‬

‫میں فعل امر ( غائب وحاضر)کی مکملگردان ہر صیغہ کے معنی کے ساتھ لکھیں ۔‬

‫مشق نمبر ‪ ( ۵۱‬ب)‬

‫اردو میں ترجمہکریں ۔‬

‫(‪ ) ۳‬نَحْنُ نَجْتَهِدُ فِي دُرُوسِنَا‬ ‫( ‪ ) ۳‬اكرمُوْا طَيُؤفَكُمْ‬ ‫( ‪ )1‬أكْرَمُوْا ضَيْفَهُمْ‬

‫( ‪ ) ٢‬مَاذَا عَلَّمَ‬ ‫( ‪ ) ٥‬إِجْتَهَدُوا فِي دُرُوسِهِمْ‬ ‫( ‪ ) ۳‬اجْتَهِدُوا فِي دُرُوسِكُمْ‬

‫الْأُسْتَاذُ فِيالْمَدْرَسَةِ ؟ ( ‪ ) ٤‬مَاذَا يُعَلِّمُالْأَسْتَاذُ فِيالْمَدْرَسَةِ ؟ (‪ )۸‬مَاذَا تَعَلَّمَ‬

‫(‪ ) ١٠‬أَنَا أَتَعَلَّمُ الْعَرَبِي‬ ‫(‪ ) 9‬مَاذَا تَعَلَّمُ فِى الْمَدْرَسَةِ ؟‬ ‫زَيْدٌ فِي الْمَدْرَسَةِ ؟‬
‫‪۱۱۵‬‬

‫( ‪ )1‬لا أَقَاتِلُ (‪ )۱۳‬لا أَقَاتِلْ ( ‪ )١٣‬لَا تَتَفَاخَرُونَ ( ‪ )۱۳‬لَا تَتَفَاخَرُوا‬

‫نالْقُرْآنِ ‪- -‬‬
‫ممِنَ‬

‫(‪ )۱۵‬وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الرُّوْرِ (‪ ) ٢‬إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِيْنَ‬

‫( ‪ ) ۱۷‬وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ ( ‪ )۱۸‬يَأَيُّهَا النَّبِيُّ جَهِدِ‬

‫الْكُفَّارَ وَالْمُنْفِقِيْنَ‪-‬‬

‫مشق نمبر ‪ ( ۵۱‬ج )‬

‫مشق ‪( ۵۱‬ب‬
‫) میں استعمال ہونے والےتمام افعالذیل میں دیئے گئے ہیں۔‬

‫‪ ،‬نہی‬
‫(‪ )iii‬فعلکی قسم (ماضی ‪ ،‬مضارع امر‬ ‫( ‪ )i‬ماده (‪ )ii‬باب‬ ‫آپ ہر فعل کا‬

‫وغیرہ ) اور (‪ )iv‬صیغہ بتائیں ۔‬

‫( ‪ ) 1‬أكْرَمُوا ( ‪ ) ۲‬اكْرِمُوْا ( ‪ ) ۳‬نَجْتَهِدُ ( ‪ )۳‬اجْتَهِدُوا ( ‪ ) ٥‬اجْتَهَدُوا‬

‫( ‪ )1‬أَقَاتِلُ‬ ‫( ‪ )1‬أَتَعَلَّمُ‬ ‫( ‪ ) ۹‬تَتَعَلَّمُ‬ ‫( ‪ ) ۸‬تَعَلَّمَ‬ ‫( ‪ ) ۷‬يُعَلِّمُ‬ ‫( ‪ ) ٢‬عَلَّمَ‬

‫( ‪ ) ۱۳‬لاَ تُقَاتِل ( ‪ ) ۱۳‬تَتَفَاخَرُونَ ( ‪ ) ۱۳‬لَا تَتَفَاخَرُوا (‪ ) ۱۵‬وَاجْتَنِبُوا ( ‪ )١٦‬أَسْلِمْ‬

‫( ‪ )۱۷‬أَسْلَمْتُ (‪ ) ۱۸‬نَزَّلْنَا (‪ )۱۹‬أَنْبَتْنَا ( ‪ )۲۰‬جُهِدِ‬


‫ثلاثی مزید فیہ‬

‫(فعلمجهول)‬

‫‪ ۵۳ : ۱‬ابآپ ابوامبزید فیہ سے فعل محمولبناناسیکھیں گے ۔ یہ آپپڑھ چکے‬

‫ہیں کہ مجمول فعلماضی بھی ہوتا ہے اور مضارع بھی ۔ اس لئے اس سبق میں ہم‬

‫ماضی مجہول اور مضارع مجهول دونوںکی باتکریں گے ۔‬

‫‪ ۵۳ : ۲‬آپ نے فعل ثلاثی مجرد میں پڑھا تھاکہ وہاں ماضی معروف کے تین وزن‬

‫ہو سکتے ہیں یعنی فَعَلَ فَعِلَ اور فعلمگرماضی مجہول کا ایک ہی وزن ہوتا ہے یعنی‬

‫فُعِلَ ۔ اسی طرح مضارع معروف کے تین وزن ہو سکتے ہیں یعنی يَفْعَلُ ‪ ،‬يَفْعِلُ اور‬

‫يَفْعُلُمگر مضارع مجہول کا ایک ہی وزن ہوتا ہے یعنی يُفْعَلُ ۔ یہاں سے ہمیں ماضی‬

‫مجہول اور مضارع مجہول کا ایک اہم بنیادی قاعدہ معلوم ہوتا ہے جسے ہم مزید فیہ کے‬

‫ماضی مجہول اور مضارع مجہول میں استعمالکریں گے ۔‬

‫‪ ۵۳ : ۳‬ماضی مجبول ( ثلاثی مجرد ) کے وزن فعل سے ہمیں مزید فیہ کے ماضی مجہول‬

‫بنانے کا بنیادی قاعدہ ملتہاے ۔ جس سے ہمیں پہلی باتیہ معلوم ہوتی ہے کہ ماضی‬

‫مجہولکا آخری حصہ ہمیشہ " عل " رہتا ہے ۔ یعنی " ع "کلمہپر کسرہ ( زیر ) اور ماضی کے‬

‫پہلے صیغے میں " ل "کلمہ پر فتحہ ( زیر)آتی ہے ۔‬

‫‪ ۵۳ : ۴‬اس قاعدےکی دوسری بات یہ نوٹکریں کہ آخری " عمل" سے پہلے‬

‫مجرد میں تو ایک ہی حرف یعنی "ف "کلمہ ہوتا ہے جس پر ضمہ ( پیش ) آتی ہے ۔ اس‬

‫سے یہ قاعدہ لکھتا ہےکہ مزید فیہ کے ماضی مجہول میں بھی آخری " عمل " سے پہلے جتنے‬

‫بھی متحرک حروفآئیں ( اصلی حرف " ف "کلمه یا زائد حروف) ان سبکی حرکات‬

‫ضمہ ( پیش ) میں بدل دی جائیں ۔ اس تبدیلیکے دوران درج ذیل دو باتوں کا خیال‬

‫رکھا جائےگا۔‬
‫‪116‬‬

‫ایک تو یہکہ جہاں جہاں حرکت کے بجائے علامت سکون ہو اسے برقرار رکھا‬ ‫( ‪)1‬‬

‫جائے یعنی اسکو ضمہ ( پیش ) میں نہ بدلاجائے ۔‬

‫دوسرے یہ کہ جبباب مفاعلہ اور تفاعل میں " ف "کلمہکو ضمہ " پیش "‬ ‫( ‪)ii‬‬

‫لگانے کے بعد الف آئے تو چونکہ " فا "کو پڑھا نہیں جاسکتا لہذا یہاں " الف "‬

‫کی ماقبل حرکت ( پیش ) کے موافق حرف " و " میں بدلدیں ۔یوں"فا"‬
‫کو اس‬

‫کی بجائے "ھو " پڑھا اورلکھا جائےگا ۔‬

‫‪ ۵۳ : ۵‬ابمذکورہ قواعد کے مطابق نوٹکیجئےکہ ‪:‬‬

‫افعَلَ سے ماضی مجہول کا وزن اُفْعِلَ ہو گا جیسے اکرم سے اكْرِمَ‬

‫عَلَّمَ نے عُلِمَ‬ ‫فعل ‪// //‬‬

‫(نوٹ ‪)1 :‬‬ ‫قَاتَلَ سے قُوْتِل‬ ‫مُوْعِلَ ‪// //‬‬ ‫فاعل ‪// // // // //‬‬

‫تَقَبَّلَ سے تُقُتِلَ‬ ‫تُفْعِلَ ‪// //‬‬ ‫تَفَعَلَ ‪// // // // //‬‬

‫تَعَاقَبَ سے تُمُوقِبَ (نوٹ ‪)1 :‬‬ ‫تُفُوْعِلَ ‪// //‬‬ ‫تفاعل ‪// // // // //‬‬

‫افتعل ‪// //‬‬ ‫افْتَعَلَ ‪// // // // //‬‬


‫امْتَحَنَ سے اُمْتُحِنَ‬

‫یہ استعمال نہیں ہوتا ) (نوٹ ‪)۲ :‬‬ ‫انْفُعِلَ‬ ‫انْفَعَلَ ‪// // // // //‬‬

‫ے اسْتَحْكِمَ‬
‫‪-‬‬ ‫اِسسْْتتََححْْككَُم س‬ ‫اسْتَفْعَلَ جیسے‬ ‫اسْتَفْعَلَ ‪// // // // //‬‬

‫نوٹ نمبرا ‪ :‬بابمُفاعلة اور باب تفاعلمیں نوٹکریںکہ ماضی مجہول بنانے‬

‫کے لئے ان دونوں کے صیغہ ماضی میں الف سے قبل ضمہ (پیش ) تھی چنانچہ الف‬

‫موافق حرف " و " میں تبدیل ہوگیا۔‬

‫نوٹ نمبر ‪ : ۲‬بابانفعال کے بارےمیں یہ ذہن نشینکرلیںکہ مجرد کے بابگرم‬

‫کی طرح اس سے بھی فعل ہمیشہ لازم آتاہے ۔ اس لئے باب انفعال سے فعل مجمول‬
‫‪۱۱۸‬‬

‫استعمال نہیں ہوتا ۔ البتہ ایک خاص ضرورت کے تحت باب انفعال کے مضارع‬

‫مجمول سے بعض الفاظ بنتے ہیں جن کا ذکر حصہ سوم میں ہوگا ( ان شاء اللہ )‬

‫‪ ۵۳ : ۲‬مضارع مجمول( ثلاثی مجرد ) کے وزن يُفعل سے ہمیں مزید فیہکے مضارع‬

‫مجهول بنانے کا درج ذیل بنیادی قاعدہ ملتا ہے جس میں تینباتیں ہیں ‪:‬‬

‫پہلی یہکہ مضارع مجہولکا آخری حصہ ہمیشہ " عَل " رہتا ہے ۔ یعنی " ع "کلمہ پر‬ ‫(‪) ۱‬‬

‫فتحه ( زیر ) اور مضارع کے پہلے صیغہ میں "ل "کلمہ پر ضمہ (پیش )آتی ہے ۔‬

‫اس کا ماضی مجہول کے آخری حصہ " عمل " سے مقابلہکیجئے اور فرق یاد رکھئے )‬

‫دوسری یہکہ مضارع مجمولمیں علامت مضارعپر ہمیشہ ضمہ ( پیش )آتی ہے ۔‬ ‫(‪) i‬‬

‫‪ iii‬تیسری یہکہ علامت مضارع اور آخری حصہ " عَل " کے درمیان آنے والے‬
‫( )‬

‫باقی تمام حروفمیںکوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے ۔‬

‫‪ ۵۳ : ۷‬اب مذکورہ قواعد کے مطابق نوٹکیجئےکہ ‪:‬‬

‫يُفْعِلُ سے مضارع مجمول کا وزن يُفْعَلُ ہوگا جیسے يُكْرِمُ سے يُكْرَمُ‬

‫يُعَلِّمُ ہے يُعَلِّمُ‬ ‫يُفَعلُ ‪// //‬‬ ‫يُفعل ‪// // // // //‬‬

‫يُقَاتِلُ سے يُقَاتَلُ‬ ‫يُفَاعَلُ ‪// //‬‬ ‫يُفاعِلُ ‪// // // // //‬‬

‫يَتَقَبَّلُ سے يُتَقَبَّلُ‬ ‫يُتَفَعَّل ‪// //‬‬

‫يُتَفاعل ‪ // //‬يَتَفَاخَرُ سے يُتَفَاخَرُ‬ ‫يَتَفَاعَلُ‬

‫يَفْتَعِلُ ‪/ // // // //‬از‬
‫‪/‬‬
‫يَمْتَجِنُ سے يُمْتَحَنُ‬ ‫يُفْتَعَلْ ‪// //‬‬

‫(استعمال نہیں ہوتا )‬ ‫يُنْفَعَلُ‬ ‫‪AAAAAARI‬‬


‫يَنْفَعِل ‪//‬‬

‫يُسْتَفْعَلُ ‪ // //‬يَسْتَهْزِءُ سے يُسْتَهْزَءُ‬ ‫‪##‬‬


‫يَسْتَفْعِلْ‬
‫‪119‬‬

‫مشق نمبر ‪۵۲‬‬

‫مندرجہ ذیل مصادر میں سے ہر ایک سے اس کے ماضی معروف و مجہول اور‬

‫مضارع معروف ومجہولکا پہلا پہلا صیغہ بنائیں ۔‬

‫( ‪ )۳‬إِنْفَاقُ ( ‪ ) ۵‬تَكَاذُبٌ‬ ‫(‪ ) 1‬إِنْتِخَابٌ ( ‪ ) ۲‬تَقْرِيْبٌ ( ‪ ) ۳‬مُجَاهَدَةٌ‬

‫( ‪ ) ٢‬إِسْتِحْسَانُ ( ‪ ) ۷‬تَنْزِيلٌ ( ‪ ) ۸‬مُشَارَكَةٌ (‪ ) 9‬تَعَاقُبٌ ( ‪ )۱۰‬إِسْتِبْدَال‬

‫‪:‬‬
‫مكتبه خدام القرآن کےتحتشائع ہونے والی‬

‫گرامر "‬‫"آسانعربی‬

‫کی تدریسپر مشتمل‬


‫کتابوں‬
‫کی تینوں‬

‫عربی گرامر‬

‫‪VCDs‬‬

‫مدرس ‪:‬‬

‫لطف الرحمن خان‬

‫قیمت‪ 720 :‬روپے‬ ‫تعداد ‪24 : VCDs‬‬

‫ملنے کا پته ‪:‬‬

‫مكتبه خدام القرآن لاهور‬

‫‪ 36‬کے ماڈل ٹاؤن لاہورفون ‪03-5869501 :‬‬


‫‪e-mail : info@tanzeem.org‬‬
‫‪www.tanzeem.org‬‬
‫رامر‬‫ی‬ ‫ع‬
‫نربگ‬ ‫استا‬

‫صہ سوم‬

‫مرتبه‬

‫ال‬
‫فرحمنخان‬ ‫لط‬

‫مركز‬

‫اهور‬ ‫القران‬ ‫مرکی ان‬


‫عند‬
‫ابلقدتألیفعربی‬ ‫کی‬ ‫مولویعبا‬
‫کا علمترینی‬

‫گرامر‬‫ربی‬
‫ن‬ ‫ع‬‫آسا‬

‫حصہ سوم‬

‫مرتبه‬

‫الرحمنخان‬ ‫لطف‬

‫♡‬

‫مكتبه خدام القرآن لاهور‬

‫۔‪36‬کے ماڈلٹاؤن لاہور ۔فون ‪03-5869501 :‬‬


‫آسانعربیگرامر ( حصہ سوم )‬ ‫نامکتاب‬
‫‪5500‬‬
‫طبع اوّلتاطبعپنجم (دسمبر ‪ 1996‬تاتمبر ‪ 2003‬ء )‬

‫‪200‬‬ ‫طبعششم (مئی ‪ 2005‬ء )‬

‫ناظم نشرو اشاعت مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‬ ‫ناشر‬

‫۔‪36‬کے ماڈلٹاؤنلاہور‬ ‫مقاماشاعت‬


‫فون ‪03-5869501 :‬‬

‫شرکت پرنٹنگپریس لاہور‬ ‫مطبع‬

‫‪ 35‬روپے‬ ‫قیمت‬
‫فہرست‬

‫اسماء مشتقه‬

‫اسماء مشتقه‬

‫اسم الفاعل‬

‫‪۱۳‬‬
‫اسم المفعول‬

‫‪۱۷‬‬
‫اسم الظرف‬

‫‪۲۱‬‬ ‫(‪) 1‬‬ ‫اسماء الصفة‬

‫‪۲۷‬‬ ‫( ‪)۲‬‬ ‫اسماء الصفة‬

‫‪۳۰‬‬
‫اسم المبالغه‬

‫‪۳۴‬‬
‫اسم التفصيل (‪)1‬‬

‫‪۳۷‬‬
‫اسم التفصيل (‪) ۲‬‬

‫‪۴۱‬‬
‫اسم الآله‬

‫‪۴۳‬‬
‫غیرصحیح افعال‬
‫‪۴۷‬‬ ‫مهموز (‪) ۱‬‬

‫‪۵۱‬‬ ‫مهموز (‪) ۲‬‬

‫‪۵۵‬‬ ‫مضاعف ( ‪)1‬‬

‫ادغام کے قاعدے‬

‫مضاعف (‪)۲‬‬

‫‪۵۹‬‬
‫فک ادغام کے قاعدے‬
‫‪۶۳‬‬ ‫ہم مخرج اور قریب الحرج حروف کے قواعد‬

‫مثال‬

‫اجوف ( حصہ اول )‬

‫‪۷۴‬‬ ‫اجوف ( حصہ دوم )‬

‫‪LL‬‬ ‫اجوف ( حصہ سوم )‬

‫‪Al‬‬ ‫ناقص ( حصہ اول ‪ :‬ماضی معروف)‬

‫‪۸۵‬‬ ‫ناقص ( حصہ دوم ‪ :‬مضارع معروف)‬

‫‪۸۷‬‬ ‫( حصہ سوم ‪ :‬مجهول )‬ ‫ناقص‬

‫‪۹۰‬‬ ‫ناقص ( حصہ چہارم ‪ :‬صرف صغیر)‬

‫‪۹۶‬‬ ‫لفیف‬

‫سبق الاسباق‬
‫سماء مُشْتَقَه‬

‫‪ ۵۴‬اسکتاب کے حصہ دوم میں آپ نے مادہ اور وزن کے متعلق بنیادی بات‬ ‫‪۱‬‬

‫طرح بنائے‬ ‫یہ سیکھی تھی کہ کسی دیئے ہوئے مادے سے مختلف اوزان پر الفاظکس‬

‫زیادہ استعمال‬ ‫جاتے ہیں ۔ پھر آپ نے ثلاثی مجرد کے چھ ابواب اور مزید فیہ کے‬

‫ہونے والے ) آٹھ ابواب سے درج ذیل افعال کے اوزان اور انہیں بنانے کے‬

‫طریقے سیکھے تھے ۔ ( ‪ ) ۱‬فعل ماضی معروف ( ‪ ) ۲‬فعل ماضی مجهول (‪ ) ۳‬فعل مضارع‬

‫معروف ( ‪ ) ۳‬فعل مضارع مجهول ( ‪ ) ۵‬فعل مراور( ‪ ) ۶‬فعل نہی‬

‫‪ ۵۴ : ۲‬کسی مادے سے بننے والے افعالکی مذکورہ چھ صورتیں بنیادی ہیں ‪ ،‬جن‬

‫کی بناوٹ اورگردانوں کے سمجھ لینے سے عربی عبارتوں میں افعال کے مختلفصیغوں‬

‫کے استعمالکو پہچاننے اور ان کے معانی سمجھنےکی قابلیت پیدا ہوتی ہے ۔ آگے چلکر‬

‫ہم افعالکی بناوٹ اور ساخت کے بارے میں مزید باتیں بتدریج پڑھیں گے ‪ ،‬لیکن‬

‫سر دست ہم مادہ وزن اور فعل کے بارے میں ان حاصلکردہ معلوماتکو بعض‬

‫اسماء کی بناوٹ اور ساخت میں استعمالکرنا سیکھیں گے ۔ اس سلسلے میں متعلقہ قواعد‬

‫کے بیان سے پہلے چند تمہیدی باتیںکرنا ضروری ہیں ۔‬

‫‪ ۵۴ : ۳‬کسی بھی مادہ سے بننے والے الفاظ ( افعال ہوں یا اسماء )کی تعداد ہمیشہ‬

‫یکساں نہیں ہوتی بلکہ اس کا دار ومدار اہل زبان کے استعمال پر ہے ۔ بعض مادوں‬

‫سے بہتکم الفاظ ( افعال ہوںیا اسماء ) بنتے یا استعمال ہوتے ہیں جبکہ بعض مادوں سے‬

‫استعمالہونے والے الفاظکی تعداد بیسیوںتک پہنچتی ہے ۔ پھر استعمال ہونے والے‬

‫الفاظکی بناوٹ بھی دو طرحکی ہوتی ہے ۔کچھ الفاظکسی قاعدے اور اصول کے تحت‬

‫بنتے ہیں ۔یعنی وہ تمام مادوں سے یکساں طریقے پر یعنی ایک مقررہ وزن پر بنائے جاسکتے‬
‫ہیں ۔ ایسے الفاظکو " مشتقات "کہتے ہیں ۔ جبکہ کچھ الفاظ ایسے ہیں جو کسی قاعدے‬

‫اور اصول کے تحت نہیں بنتے بلکہ اہل زبان انہیں جس طرح استعمالکرتے آئے‬

‫ہیں وہ اسی طرح استعمال ہوتے ہیں ۔ ایسے الفاظکو "ماخوذ "یا "جامد "کہتے ہیں ۔‬

‫‪ ۵۴ : :‬افعالسب کے سب مشتقات ہیں کیونکہ ہر فعلکی بناوٹمقررہ قواعد‬


‫‪۴‬‬

‫کے مطابق عمل میں آتی ہے ۔ یا یوںکہہ لیجئے کہ افعالکی بناوٹ کے لحاظ سے عربی‬

‫زبان نهایت باضابطہ اور اصول و قواعد پر مبنی زبان ہے ۔ اس لئے عربی زبان کے‬

‫مشتقات ( یعنی مقررہ قواعد پر مبنی الفاظ ) میں افعالتو قریباً سبکے سبہی آجاتے‬

‫ہیں ۔ وہ بھی جو ہم ابتک پڑھ چکے ہیں اور وہ بھی جو ابھی آگے چلکر پڑھیں گے ۔‬

‫‪ ۵۴ : ۵‬مگر اسماء میں یہ بات نہیں ہے ۔ سینکڑوں اسماء ایسے ہیں جو کسی قاعدے‬

‫کے مطابق نہیں بنائے گئے ۔ بس یہ ہے کہ اہل زبان انکو اس طرح استعمالکرتے‬

‫ہیں ۔ مثلاً ان بے قاعدہ اسماء میں کسی " کام " کا نام بھی شامل ہے ‪ ،‬جسے مصدرکہتے‬

‫ہیں ۔ عربی میں فعل ثلاثی مجرد میں مصدرکسی قاعدے کے تحت نہیںبنتا ‪ ،‬مثلاً ضَرْبٌ‬

‫( مارنا ) ‪ ،‬ذَهَابٌ ( جانا ) ‪ ،‬طَلَب ( طلبکرنا یا تلاشکرنا ) غُفْرَانٌ (بخش دینا ) سُعَالٌ‬

‫قعود ( بیٹھ رہتا ) ‪ ،‬فسق ( نا فرمانی کرنا ‪ ،‬یہ سبعلی الترتیب فعل ضَرَبَ‬ ‫کھانستا‬

‫ذَهَبَ طَلَبَ غَفَرَ سَعَلَ‪ ،‬قَعَدَ اور فَسَقَ کے مصادر ہیں ۔ آپ نے دیکھاکہ ان‬

‫تمام افعال کا وزن تو فَعَلَ ہی ہے مگر ان کے مصدروںکے وزن مختلفہیں ۔‬

‫‪ ۵۴ :‬مصادرکی طرح بے شمار اشخاص‪ ،‬مقاماتاور دیگر اشیاء کے نام بھی کسی‬

‫قاعدہ اور اصول کے تحت نہیں آتے ۔ مثلاً " ملک" سے مَلِكٌ ( بادشاہ ) مَلَكَ‬

‫( فرشته ) " رجل " سے رَجُلٌ ( مرد ) رجلٌ ( ٹانگ ) اور " ج م ل " سے جَمَال‬

‫(خوبصورتی ) جَمَل ( اونٹ) وغیرہ ۔ ایسے تمام بے قاعدہ اسماء کا تعلق تو بہرحالکسی‬

‫نہکسی مادے سے ہی ہوتا ہے اور ان کے معانی ڈکشنریوں میں متعلقہ مادے کے تحت‬

‫ہی بیان کئے جاتے ہیں ‪ ،‬لیکن انکی بناوٹ میں کوئی یکساں اصول کارفرمادکھائی نہیں‬

‫دیتا ۔ ان اسماءکو اسماء جامدکہتے ہیں ۔‬


‫‪ ۵۴ :‬تاہم کچھ اسماء ایسے بھی ہیں جو تمام مادوں سے تقریباً یکساں طریقے سے‬

‫بنائے جاتے ہیں ۔ یعنی کسی فعل سے ایک خاص مفہوم دینے والا اسم جس طریقے پر‬

‫اکتاہے ۔ اس قسم‬
‫بنتا ہے تمام مادوں سے وہ مفہوم دینے والا اسم اسی طریقے پر بنایا جس‬

‫کے اسماءکو " اسماء مشتفہ "کہتے ہیں ۔‬

‫‪ ۵۴ :‬جس طرح افعالکی بنیادی صورتوںکی تعداد چھ ہے ‪ ،‬اسی طرح اسماء‬

‫( ‪ ) ۱‬اسم الفاعل ( ‪ )۲‬اسم‬ ‫مشتقه کی بنیادی صورتیں بھی چھ ہی ہیں ۔ یعنی‬

‫( ‪ ) ۳‬اسم الظَّرف ( ‪ ) ۴‬اسم الصِّفَة ( ‪ )۵‬اسم التَّفْضِيل (‪ ) ۲‬اسم‬ ‫المَفْعُول‬

‫الالة ‪ -‬بعض علماء صرف نے اسم الظرف کے دو حصے یعنی ظرف زمان اور ظرف‬

‫مکانکو الگالگکر کے اسماء مشتقہ کی تعداد سات بیانکی ہے ۔ حقیقت یہ ہے‬

‫کہ بلحاظ معنی فرق کے باوجو د بلحاظ بناوٹ ظرف زمان و ظرف مکان ایک ہی شے‬

‫ہیں ۔ اسی طرح اسم ‪ KALAT‬اللہ کو شامل کر کے اسماء مشتقہ کی تعداد آٹھ ( ‪ )۸‬بھی‬

‫بنا لیتے ہیں ‪ ،‬لیکن غور سے دیکھا جائےتو اسم مبالغہ بھی اسم صفت ہیکی ایک قسم ہے ۔‬

‫اس لئے ہم بنیادی طور پر مندرجہہےبالا چھ اقسامکو اسماء مشتقہ شمارکر کے انکی‬

‫بناوٹ اور ساخت کے قواعد یعنی اوزان بیانکریں گے ۔‬


‫<‬
‫اسم الفاعل‬

‫اسم الفاعل " کے معنی ہوئے‬ ‫‪ ۵۵ : ۱‬لفظ فاعل کے معنی ہیں "کرنے والا " ۔پس‬

‫"کسی کامکو کرنے والے کا مفہوم دینے والا اسم " ۔ اردو میں اسم الفاعلکی پہچان یا‬

‫اسے بنانے کا طریقہ یہ ہےکہ اردو کے مصدر کے بعد لفظ ” والا " بڑھا دیتے ہیں ۔‬

‫مثلاً لکھنا سے لکھنے والا اور بیچنساے بیچنے والا وغیرہ ۔ انگریزی میں عموماً‪Verb‬کی پہلی‬

‫شکل کے آخر میں ”‪ ' er‬لگانے سے اسم الفاعل کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے ۔ مثلاً ‪read‬‬

‫سے ‪ reader‬اور ‪ teach‬سے ‪ teacher‬وغیرہ ۔ نوٹکر لیںکہ عربی زبان میں‬

‫ثلاثی مجرد اور مزید فیہ سے اسم الفاعل بنانے کا طریقہ الگالگ ہے ۔‬

‫‪ ۵۵ : ۲‬ثلاثی مجرد سے اسم الفاعل بنانے کیلئے فعل ماضی کے پہلے صیغہ سے مادہ‬

‫معلومکرلیں اور پھر اسے " فاعل " کے وزن پر ڈھال لیں ۔ یہ اسم الفاعل ہو گا۔‬

‫جیسے ضَرَبَ سے ضَارِبٌ ( مارنے والا ) طَلَب سے طالب ( طلبکرنے والا ) ‘ غفر‬

‫سےغافر (بخشنے والا ) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۵۵ : ۳‬اسم الفاعلکی نحویگردان عام اسماءکی طرح ہی ہوگی یعنی‬

‫جر‬ ‫ب؟‬ ‫رفع‬

‫فَاعِل‬ ‫فاعلاً‬ ‫فَاعِل (کرنے والا ایک مرد )‬ ‫مذکر واحد‬

‫فَاعِلَيْن‬ ‫فَاعِلَيْن‬ ‫فَاعِلان (کرنے والے دو مرد )‬ ‫تذکر تثنيه‬

‫فَاعِلِينَ‬ ‫فَاعِلِيْنَ‬ ‫فَاعِلُونَ (کرنے والےکچھ مرد)‬ ‫مذکر جمع‬

‫فَاعِلَةٍ‬ ‫فَاعِلَةً‬ ‫فَاعِلَةٌ (کرنے والی ایکعورت)‬ ‫مؤنث واحد‬

‫فَاعِلَتَيْنِ‬ ‫فَاعِلَتَيْنِ‬ ‫فَاعِلَتَانِ (کرنے والیدو عورتیں )‬ ‫مؤنث تثنيه‬

‫فَاعِلَاتٍ‬ ‫فَاعِلَاتٍ‬ ‫فَاعِلاتُ (کرنے والیکچھ عورتیں )‬ ‫مؤنث جمع‬


‫ہر اسم الفاعلکی جمع مذکر سالم تو استعمال ہوتی ہی ہے ‪ ،‬تاہمکچھ اسم الفاعل‬

‫ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی جمع سالم کے ساتھ جمعمکسربھی استعمال ہوتی ہے ۔ مثلا‬

‫كَافِرُ سے كَافِرُونَ اور کُفَّارٌ اور كَفَرَةٌ ‪ -‬يا طالب سے طَالِبُونَ اور طلاب اور‬

‫غیرمنصرفبھی ہوتی ہے ‪ ،‬مثلاً جاھل سے‬


‫طلبة وغيره ‪ -‬بعض اسم الفاعلکی جمع مکسر‬

‫جَاهِلُونَ اور جُهَلَاءُيَا عَالِمٌ سے عَالِمُونَ اورعُلَمَاءُ وغیرہ ۔‬

‫‪ ۵۵ : ۴‬یہ بات نوٹکرلیں کہ ثلاثی مجرد کے تمام ابواب سے اسم الفاعل مذکورہ‬

‫بالا قاعده یعنی فاعل کے وزن پر بنتا ہے ۔ مگر باب گرم سے اسم الفاعل مذکورہ‬

‫قاعدے کے مطابق نہیں بنتا ۔ باب گرم سے اسم الفاعل بنانے کا طریقہ مختلف ہے ‪،‬‬

‫جس کا ذکر آگے چلکر اسم الصفہ کے سبق میں بیان ہوگا ۔‬

‫‪ ۵۵ : ۵‬صاف ظاہر ہے کہ فاعلکے وزن پر اسم الفاعل صرف ثلاثی مجرد سے ہی‬

‫بن سکتا ہے کیونکہ اس کے فعل ماضی کا پہلا صیغہ مادہ کے تین حروف پر ہی مشتمل‬

‫ہوتا ہے ‪ ،‬جبکہ مزید فیہ کے فعل ماضی کے پہلے صیغہ میں ہی ” ف ع ل " کے ساتھ‬

‫کچھ حروفکا اضافہ ہو جاتاہے ۔ اس لئے مزید فیہ سے اسم الفاعلکسی مخصوص و زن‬

‫پر نہیںبنایا جاسکتا ۔‬

‫‪ ۵۵ : ۲‬ابواب مزید فیہ سے اسم الفاعل بنانے کیلئے ماضی کے بجائے فعل مضارع‬

‫کے پہلے صیغہ سے کام لیا جاتاہے اور اس کا طریقہ یہ ہےکہ ‪:‬‬

‫علامت مضارع ( ی ) ہٹا کر اسکی جگہ ممضمومہ ( م) لگا دیں ۔‬ ‫(‪) ۱‬‬

‫اگر عین کلمہ پر فتحہ ( زبر) ہے ( جو باب تفعل اور تفاعلمیں ہوگی تو اسےکسرہ‬ ‫(‪)۲‬‬

‫( زیر ) میں بدل دیں ۔ باقی ابواب میں مینکلمہکی کسرہ بر قرار رہےگی ۔‬

‫( ‪ ) ۳‬لام کلمہ پر توین رفع ( دو پیش لگا دیں جو مختلف اعرابی حالتوں میں حسب‬

‫ضرورت تبدیل ہوتی رہےگی ۔‬

‫‪ ۵۵ : ۷‬مزید فیہ کے ہرباب سے بننے والے اسم الفاعل کا وزن اور ایکایک‬
‫مثالدرجذیل ہے ۔‬

‫يُفْعِلُ سے اسم الفاعل مُفْعِلہو گا‪ ،‬جیسے مُكْرِم(اکرامکرنے والا )‬

‫اسی طرح‬

‫( علم دینے والا )‬ ‫مُفَعِل جیسے مُعَلِّم‬ ‫يُفَعِلُ ‪-‬‬

‫(جہادکرنے والا)‬ ‫مُفَاعِلٌ جیسے مُجَاهِدٌ‬ ‫يُفَاعِلُ ‪-‬‬

‫( فکرکرنے والا )‬ ‫مُتَفَعِل جینے مُتَفَكِرٌ‬ ‫يَتَفَعَّلُ =‬

‫( جھگڑاکرنے والا )‬ ‫مُتَفَاعِلٌ جیسے مُتَخَاصِمٌ‬ ‫يَتَفَاعَلُ‬

‫( امتحان لینے والا )‬ ‫مُفْتَعِل جیسے مُمْتَحِنٌ‬ ‫يَفْتَعِلُ ‪-‬‬

‫( انحرافکرنے والا )‬ ‫مُنْفَعِل ہے مُنحرف‬ ‫يَنْفَعِلُ >‬

‫( مغفرت طلبکرنے والا )‬ ‫مُسْتَفْعِل جسے مُسْتَغْفِرُ‬ ‫يَسْتَفْعِلُ‬

‫دوبارہ نوٹکرلیں کہ يَتَفَعَلُ اور يَتَفَاعَلُ ( مضارع) میں عینکلمہ مفتوح ( زبر‬

‫والا )ہے جو اسم الفاعل بناتے وقتمکسور ( زیر والا ) ہوگیہ‬


‫اے ۔‬

‫‪ ۵۵ :‬مذکورہ قاعدے کے مطابق مزید فیہ سے بننے والے اسم الفاعلکی نحوی‬

‫گردان بھی معمول کے مطابق ہوتی ہے اور اسکی جمع ہمیشہ جمع سالم ہی آتی ہے ۔‬

‫ذیل میں ہم باب افعال سے اسم الفاعلکی نحوی گردان بطور نمونہلکھ رہے ہیں ۔‬

‫باقی ابواب سے آپاسی طرح اسم الفاعلکی نحوی گردانکی مشقکرسکتے ہیں ۔‬

‫جر‬ ‫|‬ ‫نصب‬ ‫رفع‬

‫مُكْرمًا‬ ‫مُكْرَمٌ‬ ‫مذکر واحد‬


‫مُكْريم‬

‫مُكرمين‬ ‫مُكْرمَيْنِ‬ ‫مُكْرمَانِ‬ ‫ذکر تثنیه‬

‫مُكْرِمِينَ‬ ‫مُكْرِمِينَ‬ ‫مُكْرِمُونَ‬ ‫مذکر جمع‬

‫مُكْرِمَةٍ‬ ‫مُكْرمَةً‬ ‫مُكْرِمَةٌ‬ ‫مؤنث واحد‬


‫مُكْرمَتَيْن‬ ‫مُكْمرَتَيْنِ‬ ‫مؤنث تثنيه‬
‫مُكْرِمَتَانِ‬

‫مُكْرِمَاتٍ‬ ‫مُكْرمَاتٍ‬ ‫مكرمات‬ ‫مؤنث جمع‬

‫‪ ۵۵ : ۹‬ضروری ہے کہ آپ اسم الفاعل " اور " فاعل "کا فرق بھی سمجھ لیں ۔‬

‫فاعل ہمیشہ جملہ فعلیہ میں معلوم ہو سکتا ہے ‪ ،‬مثلا دَخَلَالرَّجُلُ الْبَيْتَ ‪ -‬یہاں الرَّجُلُ‬

‫فاعل ہے ‪ ،‬اس لئے حالت رفع میں ہے ۔ اگر الگالرَّجُلُلکھا ہو یعنی جملے کے بغیر تو‬

‫اسے فاعل نہیں کہہ سکتے لیکن جب ہم طالِبٌ‪ ،‬عَالِمٌ سَارِقٌ (چوریکرنے والا )‬

‫وغیرہکہتے ہیں تو یہ اسم الفاعل ہیں ۔ یعنی ان میں متعلقہ کامکرنے والے کا مفہوم‬

‫ہوتا ہے ۔مگر جملے میں اسم الفاعل حسب موقع مرفوع منصوب یا مجرورآسکتا ہے ۔‬

‫ثلا ذَهَبَعَالِمٌ ۔ ( ایک عالم گیا ) یہاں عالم اسم الفاعل ہے اور جملے میں بطور فاعل‬

‫استعمال ہوا ہے ۔ اگر متُ عَالِمًا ( میں نے ایک عالم کی عزتکی ) یہاں عَالِمًا اسم‬

‫الفاعل تو ہے لیکن جملے میں بطور مفعول آیا ہے‪ ،‬اس لئے منصوب ہے ۔ اسی طرح‬

‫كِتَابُ عَالِم ( ایک عالم کی کتاب ) یہاں عالم اسم الفاعل ہے ‪ ،‬لیکن مرکب اضافی‬

‫میں مضاف الیہ ہونےکی وجہ سے مجرور ہے ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫كَبُرَ (ک)کبرا = رتبہ میں بڑا ہونا ۔‬ ‫غَفَلَ(ن) غَفْلَةً = بے خبرہونا۔‬

‫(تَفَقُلْ) = بڑا بننا۔‬ ‫جَعَلَ(ف)جَعَلا = بنانا‘ پیداکرنا۔‬

‫طبَعَ (ف)طبعًا = تصویر بنا‪ ،‬نقوش چھاپنا مہرلگانا۔ ( استفعال) = بڑائی چاہنا۔‬

‫فَلَحَ(ن )فَلْحًا = پھاڑنا ہل چلانا۔‬ ‫خَسِرَ(س)خُسْرًا = نقصان اٹھانا تباہ ہونا ۔‬

‫(افعال‬
‫) ‪ -‬مرادپانا ( رکاوٹوںکو پھاڑتے ہوئے ) ۔‬ ‫نَكِرَ(س)نگڑا = ناواقفہونا ۔‬

‫حزب =گروہ جماعت پارٹی ۔‬ ‫(افعال ) ‪-‬ناواقفیتکا اقرارکرنا انکارکرنا ۔‬

‫ذُرِّيَّةٌ ‪ =-‬اولاد نسل ۔‬


‫‪۱۲‬‬

‫( الف )‬ ‫مشق نمبر‪۵۳‬‬

‫مندرجہ ذیل مادوں کے ساتھ دیئے گئے ابواب سے اسم الفاعلبناکر ہرایک‬

‫کی نحویگردانکریں ‪:‬‬

‫غ ف ل ( ن ) ‪ ۲-‬س ل م ( افعال ) ‪۳-‬ک ذب ( تفعیل ) ‪ ۴-‬ن ف ق‬

‫( مفاعله ) ‪۵-‬ک ب ر (تفعل )‬

‫(ب )‬ ‫مشق نمبر‪۵۳‬‬

‫مندرجہ ذیل قرآنی عبارتوں میں ‪ )1 ( :‬اسم الفاعل شناختکر کے ان کا مادہ‬

‫(‪ ) ii‬اسم الفاعلکی اعرابی حالت اور اسکی وجہ‬ ‫باب اور صیغہ ( عد دو جنس) بتائیں‬

‫بتائیں (‪ )iii‬مکمل عبارتکا ترجمہ لکھیں ۔‬

‫(‪ )۱‬وَمَا اللَّهُبِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ( ‪ )۳‬رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً‬

‫مُسْلِمَةً لَّكَ ( ‪ ) ۳‬فَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنكِرَةً وَهُمْ مُّسْتَكْبِرُونَ‬

‫( ‪ )٣‬وَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنْفِقِينَ ( ‪ ) ٥‬كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى‬

‫كُل قَلْبِ مُتَكَتِرٍ جَبَّارٍ (‪ ) 1‬أَلَا إِنَّحِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ( ع ) وَاللهُ يَشْهَدُ‬

‫إِنَّالْمُنْفِقِيْنَ لَكَذِبُونَ (‪ ) ۸‬وَمَنْ يَفْعَلُذَلِكَفَا وُلْئِكَ هُمُ الْخَسِرُونَ‬


‫‪۱۳‬‬

‫اِسمُ المَفعُول‬

‫‪ ۵۶ : ۱:‬اسم المفعول ایسے اسمکو کہتے ہیں جس میں کسی پر کام کے ہونے کا مفہوم‬

‫ہو ۔ اردو میں اسم المفعول عموماً ماضی معروف کے بعد لفظ ""‪.‬ہوا "کا اضافہکر کے بنا‬

‫لیتے ہیں ‪ ،‬مثلاً کھولا ہوا سمجھا ہوا مارا ہوا وغیرہ ۔ انگریزی میں ‪Verb‬کی تیسری شکل‬

‫یعنی ‪ Past Participle‬اسم المفعول کا کام دیتا ہے ۔ مثلاً ‪( done‬کیا ہوا )‬

‫‪( taught‬پڑھایا ہوا ) ‪ ( written‬لکھا ہوا ) وغیرہ ۔ عربی میں فعل ثلاثی مجرد سے اسم‬

‫المفعول مَفْعُول " کے وزن پر بنتاہے ۔ مثلا ضَرَبَ سے مَضْرُوبٌ (مارا ہوا )‪ ،‬قَتَلَ‬

‫سے مقتول (قتلکیا ہوا ) اور کتب سے مَكْتُوبُ (لکھا ہوا ) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۵۶ : ۲‬اسم المفعولکیگردان مندرجہ ذیل ہے ۔‬

‫‪7‬‬ ‫نصب‬ ‫رفع‬

‫مَفْعُولاً‬ ‫مَفْعُول‬ ‫مذکر واحد‬


‫مَفْعُول‬

‫مَفْعُولَيْن‬ ‫مَفْعُوْلَيْنِ‬ ‫مَفْعُولان‬ ‫ذکر تثنیه‬

‫مَفْعُولِينَ‬ ‫مَفْعُولِينَ‬ ‫مَفْعُولُونَ‬ ‫مذکر جمع‬

‫مؤنث واحد‬
‫مَفْعُوْلَةٍ‬ ‫مَفْعُوْلَةً‬ ‫مَفْعُوْلَةٌ‬

‫مَفْعُوْلَتَيْن‬ ‫مَفْعُوْلَتَيْن‬ ‫مَفْعُوْلَتَان‬ ‫مؤنث تثنيه‬

‫مَفْعُولات‬ ‫مَفْعُولات‬ ‫مَفْعُوْلَاتٌ‬ ‫مؤنث جمع‬

‫‪ ۵۶ : ۳‬ابواب مزید فیہ سے اسم المفعول بنانے کا آسان طریقہ یہ ہےکہ پہلے اس‬

‫سے اسم الفاعل بنالیں جس کا طریقہ آپگزشتہ سبق میں سیکھ چکے ہیں ۔ اب اس کے‬

‫عین کلمہکی کسرہ ( زیر )کو فتحہ ( زبر ) سے بدل دیں ‪ ،‬مثلاً مُكْرِم سے مُكْرَم مُعَلِّم‬
‫‪۱۴‬‬

‫مُعَلَّمْ مُمْتَحِنَّ سے مُمْتَحَنوغیرہ ۔‬

‫مزید فیہ کے اسم المفعولکی نحوی گردان اسم الفاعل کی طرح ہوگی اور فرق‬

‫صرف عینکلمہکی حرکتکا ہوگا ۔یہ بھی نوٹکرلیںکہ ابواب ثلاثی مجرد اور مزید فیہ‬

‫کے اسم المفعولکی جمع مذکر اور مونث دونوںکیلئے بالعموم جمع سالم ہی استعمال ہوتی‬

‫ہے ۔‬

‫‪ ۵۶ : ۴‬یہ بات بھی ذہن نشینکرلیںکہ اسم المفعول صرف متعدی افعال سے بنتا‬

‫ہے ۔ فعل لازم سے نہ فعل مجمول (ماضی یا مضارع) بنتا ہے اور نہ ہی اسم المفعول ۔‬

‫ثلاثی مجرد کا بابگرم اور مزید فیہ کا باب اِنْفِعَال ایسے ابواب ہیں کہ ان سے ہمیشہ‬

‫فعل لازم ہی استعمال ہوتاہے ۔ اس لئے ان دونوں ابواب سے اسم المفعولکا صیغہ‬

‫نہیں بنتا ۔ ثلاثی مجرد اور مزید فیہ کے باقی ابواب سے فعل لازم اور متعدی دونوں‬

‫طرح کے افعال استعمال ہوتے ہیں ۔ اس لئے ان ابواب سے استعمال ہونے والے‬

‫لازم افعال سے بھی نہ تو فعل مجهول بنے گا اور نہ اسم المفعول ۔‬

‫‪ ۵۶ : ۵‬یہاں اسم المفعول اور مفعول کا فرق بھی سمجھ لیجئے ۔ مفعول صرف جملہ‬

‫فعلیہ میں معلوم ہو سکتاہے ‪ ،‬لا فَتَحَالرَّجُلُبَابًا ( مرد نے ایک دروازہکھولا ) میں بابا‬

‫مفعول ہے ۔ اور اسی لئے حالت نصبمیں ہے ۔ اگر الگلفظ بابلکھا ہو تو وہ نہ تو‬

‫فاعل ہے نہ مفعول اور نہ ہی مبتدا یا خبر۔ لیکن اگر لفظ مَفْتُوحُلکھا ہو تو یہ ایک اسم‬

‫المفعول ہے جو کسی جملے میں استعمال ہونے کی نوعیت سے مرفوع منصوبیا مجرور‬

‫ہو سکتا ہے ‪ ،‬مثلا الْبَابُ مَفْتُوحٌ ( دروازہ کھلا ہوا ہے ) یہاں مَفْتُوحٌدراصلالْبَابُ‬

‫کی خبر ہونےکی وجہ سے مرفوع ہے ۔ اسی طرح لَيْسَ الْبَابُ مَفْتُوحًا يَا لَيْسَالْبَابُ‬

‫بِمَفْتُوح ۔ اسکے علاوہ اسم المفعول جملے میں فاعل یا مفعول ہو کر بھی آسکتا ہے ‪ ،‬مثلاً‬

‫جَلَسَالْمَظْلُومُ ( مظلوم بیٹھا ) یہاں اَلْمَظْلُوم اسم المفعول ہے لیکن جملے میں بطور‬

‫فاعل کے استعمال ہوا ہے اس لئے مرفوع ہے ۔ اسی طرح نَصَرْتُ مَظْلُومًا ) میں نے‬

‫یہاں مظلوم اسم المفعول بھی ہے اور جملہ میں ابطور مفعول‬ ‫ایک مظلومکی مددکی‬
‫استعمالہونےکی وجہ سے منصوب ہے ۔‬

‫‪ ۵۶ : ۶‬الغرض اسم الفاعل اور فاعل نیز اسم المفعولاور مفعولکا فرق اچھی طرح‬

‫سمجھ لینا چاہئے ۔ فاعل ہمیشہ مرفوع ہوتا ہے اور مفعول ہمیشہ منصوب ہوتا ہے ‪ ،‬جبکہ‬

‫اسم الفاعل اور اسم المفعول جملے میں حسب موقع مرفوع منصوب یا مجرور متینوں‬

‫طرح استعمال ہو سکتے ہیں ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫رَسِل()‬
‫س رَسَلاً = نرم رفتار ہونا‬ ‫بَعَثَ(ف‬
‫)بَعْنا = بھیجنا ‪،‬اٹھانا دوبارہ زندہکرنا‬

‫سَخَرَاف) سُخْرِيّا ‪ -‬مغلوبکرنا کسی سےبیگارلینا (افعال) = چھوڑنا بھیجنا (پیغام دےکر )‬

‫حَضَرَانِ حُضُورًا = حاضرہونا‬ ‫سَخِرَ( س) سَخَرًا = کسی کا مذاق اڑانا‬

‫(افعال = حاضرکرنا ‪ ،‬پیشکرنا‬ ‫(تفعیل) = قابوکرنا‬

‫نَجْمُ ج نُجُوم = ستاره‬ ‫) نَظرًا = دیکھنا‪،‬غورو فکر کرنا‪ ،‬مهلت دینا‬


‫نَظَرَ (ن‬

‫فَاكِهَةٌ (ج فَوَاكِهُ) = ميوه‬ ‫(افعال) = مهلت دینا‬

‫= حكم‬
‫أمر‪-‬‬ ‫ک)گرما = بزرگہونا معزز ہونا‬‫گرم (‬

‫= پل‬
‫لمران الْمَارُ لَمَرَاتٌ ‪-‬‬ ‫(افعال ) = تعظیمکرنا‬

‫( الف )‬ ‫مشق نمبر ‪۵۴‬‬

‫مندرجہ ذیل مادوں کے ساتھ دیئے گئے ابواب سے اسم المفعولبناکر ہرایک‬

‫کی نحویگردانکریں ۔‬

‫تـفعیل )‬
‫ا ۔ب ع ث ( ف ) ۔‪ ۲‬رس ل ( افعال ) ‪ - ۳‬ن زل ( ف(‬
‫‪۱۶‬‬

‫(ب)‬ ‫مشقنمبر ‪۵۴‬‬

‫مندرجہ ذیل قرآنی عبارتوں میں ‪ ) 1( :‬اسم المفعول شناختکر کے انکا مادہ‬

‫باب اور صیغہ ( عدد و جنس بتائیں ( ‪ )ii‬اسم المفعول‬


‫کی اعرابی حالت اور اسکی وجہ‬

‫بتائیں (‪ )iii‬مکمل عبارتکا ترجمہ لکھیں ۔‬

‫( ‪ ) ۳‬يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلَ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِ‬ ‫(‪ )1‬وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ‬

‫( ‪ )۳‬قَالَ انْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ‪ -‬قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ ( ‪ ) ۳‬فَاوُلئِكَ فِي‬

‫الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ ( ‪ ) ٥‬إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ( ‪٢‬‬


‫)‪ )( ۶‬أُولئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَّعْلُومٌ ‪-‬‬

‫(ع ) هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ‬ ‫فَوَاكِهُ وَهُمْ مُّكْرَمُونَ‬

‫(‪ )۸‬وَمَاهُمْمِنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ‬


‫‪۱۷‬‬

‫م الظرف‬
‫اس‬

‫‪ ۵۷ : ۱‬ظرف کے لغوی معنی ہیں برتن یا بوری وغیرہ ‪،‬یعنی جس میںکوئی چیز رکھی‬

‫جائے ۔ عربی میں لفافےکو بھی ظرف کہہ دیتے ہیں اور اسکی جمع ظروف کے معنی‬

‫موافق اور ناموافق حالات کے بھی ہوتے ہیں ۔ علم النحو کی اصطلاح میں اسم‬

‫الظرف کا مطلب ہے ایسا اسم مشتق جوکسی کام کے ہونے یا کرنے کا وقت یا اسکی‬

‫جگہ کا مفہوم رکھتا ہو ۔ اس لئے ظرف کی دو قسمیں بیانکی جاتی ہیں ۔ ایک ظرف‬

‫زمان جو کام کے وقت اور زمانہ کو ظاہرکرے اور دوسری ظرف مکان جو کامکرنے‬

‫کی جگہ کا مفہوم دے ۔ لیکن جہاںتک اسم الظرفکے لفظ کی ساختیعنی وزنکا‬

‫تعلق ہے تو دونوں میںکوئی فرق نہیں ہو تا ۔‬

‫‪ ۵۷ : ۲‬فعل ثلاثی مجرد سے اسم الظرف بنانے کے لئے دو وزن استعمال ہوتے‬

‫ہیں ‪ ،‬ایک مَفْعَل اور دوسرا مَفْعِل ‪ -‬مضارع مضموم العین یعنی باب نَصَرَ اور كَرُمَ‬

‫اور مفتوح العین یعنی باب فتح اور سَمِعَ سے اسم الظرف عام طور پر مَفْعَلکے‬

‫وزن پر بنتا ہے ‪ ،‬جبکہ مضارعمکسور العین یعنی بابضَرَبَ اور حَسِبَ سے اسم‬

‫الظرفہمیشہ مَفْعِلکے وزن پربنتا ہے ۔‬

‫‪ ۵۷ : ۳‬مضارع مضموم العین سے استعمال ہونے والے تقریباً دس الفاظ ایسے‬

‫ہیں جو خلاف قاعدہ مَفْعَلکی بجائے مَفْعِل کے وزن پر استعمال ہوتے ہیں ۔ مثلاً‬

‫غَرَبَ يَغْرُبُ سے مَغْرَبکی بجائے مَغرِب اسی طرح مَشْرَقٌکی بجائے مَشْرِقُ‬

‫مَسْجَد کی بجائے مَسْجِدٌ وغیرہ ۔ اگر چہ ان الفاظ کا مَفْعَل کے وزن پر اسم‬

‫الظرف بھی جائز ہے ‪ ،‬یعنی مغرب اور مسجد بھی کہہ سکتے ہیں تاہم فصیح اور عمدہ‬

‫زبان یہی سمجھی جاتے ہے کہ انکو مَغْرِباور مسجدکہا جائے ۔‬

‫‪ ۵۷ : ۴‬اگر کوئی کامکسی جگہ ( مکان ) میں بکثرت ہو تا ہو تو اس کا اسم الظرف‬


‫‪۱۸‬‬

‫مَفْعَلَةٌ کے وزن پر آتا ہے ۔ لیکن یہ وزن صرف ظرف مکان کے لئے استعمالہو تا‬

‫ہے‪ ،‬مثلا مَدْرَسَةٌ (سبق لینے یا دینے کی جگہ )مطبعَةُ (چھاپنےکی جگہ ) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۵۷ : ۵‬اسم الظرف چاہے مَفْعَل کے وزن پر ہو یا مَفْعِلٌيَا مَفْعَلَةٌ کے وزن پر‬

‫ہی استعمال ہوتی ہے اور تینوں اوزانکی جمع مکسرکا‬


‫ہو ‪ ،‬ہر صورت میں اسکی جمعمکسر‬

‫ایکہی وزن " مَفَاعِلُ " ہے ۔ نوٹکرلیںکہ یہ وزنغیرمنصرف ہے ۔‬

‫گوئی قاعدہ نہیں ہے بلکہ مزید فیہ سے‬


‫‪ ۵۷ :‬مزید فیہ سے اسم ظرف بنانے کا ال ک‬

‫بنائے گئے اسم المفعولکو ہی اسم الظرف کے طور پر استعمالکیا جاتا ہے ۔ اسی وجہ‬

‫اور اس کے معنی یہ بھی ہیں‬ ‫سے مُمْتَحن کے معنی یہ بھی ہیں " جسکا امتحان لیا گیا‬

‫۔ اس قسم کے الفاظ کے اسم المفعول یا اسم الظرف ہونے‬ ‫" امتحان کی جگہ یا وقت‬

‫کا فیصلہکسی عبارتکے سیاق وسباق سے ہیکیا جا سکتا ہے ۔‬

‫‪ ۵۷ : ۷‬باب افعال اور ثلاثی مجرد کے اسم الظرف میں تقریباً مشابہت ہو جاتی‬

‫ہے ۔ اور صرف میم کی فتحہ اور ضمہ کا فرق باقی رہ جاتا ہے ‪ ،‬مثلاً مخرج ثلاثی سے‬

‫ہے ‪ ،‬اس کے معنی ہیں نکلنےکی جگہ ‪ ،‬جبکہ مخرج باب افعال سے ہے اور اس کے معنی‬

‫ہیں نکالنےکی جگہ ۔ اسی طرح مَدْخَل داخل ہونے کی جگہ اور مذ محل داخلکرنے‬

‫کی جگہ ۔ اس فرقکو اچھی طرحذہن نشینکرلیں ۔‬

‫‪ ۵۷ :‬آپکو بتایاگیا تھا کہ باب انفعال سے آنے والے افعال ہمیشہ لازم ہوتے‬

‫ہیں ‪ ،‬اس لئے ان سے فعل مجہول یا اسم مفعول نہیں بن سکتا لیکن اس باب سے اسم‬

‫الظرف کے معنی پیداکرنے کے لئے اس کے اسم المفعولکو استعمالکیا جاتا ہے ‪ ،‬مثلاً‬

‫انْحَرفَ کے معنی ہیں مڑ جانا ‪ ،‬جس کا اسم المفعول مُنْحَرَف بنے گا ‪ ،‬جس کے معنی‬

‫ہوں گے مڑنے کی جگہ یا وقت ‪،‬مگر اس سے اسم المفعول کا کام نہیں لیا جا سکتا ۔ یہ‬

‫بات بھی ذہن نشینکرلیںکہ مزید فیہ کے ابواب سے اسم المفعولکو جب اسم‬

‫الظرف کے طور پر استعمالکرتے ہیں تو اسکی جمع‪ ،‬جمع مؤنث سالم کی طرح آتی ہے ‪،‬‬
‫‪19‬‬

‫جیسے مُنْحَرَفٌ سے مُنْحَرفَات اور مُحَاسَبُ سے مُحاسَبَاتٌوغیرہ ۔‬

‫‪ ۵۷ : ۹‬یاد رکھئےکہ اسم الظرف میں کسی جگہ یا وقت کے تصور کے ساتھ ساتھ‬

‫کسی کام کے کرنے یا ہونے کا مفہوم ضرور شامل ہوتاہے ۔ لیکن کچھ الفاظ ایسے ہیں‬

‫جن میں وقت یا جگہ کا تصور تو ہوتاہے مگر اسوقت یا جگہ میں کسی کام کے کرنے یا‬

‫ذخیرہالفاظ‬

‫إِذَا = جببھی‬ ‫فسحاف افسحا ‪-‬کشادگیکرنا ۔‬

‫قيل = کہاگیا کہا جائے ۔‬ ‫(تفعل) = کشادہ ہونا۔‬

‫نَمْلَةٌ (ج نَمل‬
‫) چیونٹی ۔‬ ‫رَجَعَ (ض) رُجُوعًا = واپس جانا لوٹآنا ۔‬

‫رَصَدَ (ن) رَصَدًا = انتظارکرنا گھاتلگانا۔‬

‫سَكَنَ ( ن )سُكُونًا = ٹھجراتا ‪ ،‬مسکین ہونا ۔‬

‫رَقَدَ(ن) رَقْدًا = سونا (نیند میں) ۔‬

‫بَرَدَا(ن)بَرَدًا = ٹھنڈا ہونا ٹھنڈاکرنا ۔‬

‫= ٹکنا ہٹ جاتا ۔‬
‫برح(س)بَرَاحًا‪- -‬‬
‫مشق نمبر‪۵۵‬‬

‫مندرجہ ذیل قرآنی عبارتوں میں ‪ )i ( :‬اسم الظرف شناختکر کے انکا مادہ‬

‫اور باب بتائیں ( ‪ )i‬اسم الظرفکی اعرابی حالت اوراسکی وجہ بتائیں (‪)ii‬مکمل‬

‫عبارتکا ترجمہ لکھیں ۔‬

‫( ‪ )۳‬إِلَى اللَّهِ‬ ‫( ‪ ) ۳‬وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّمَرْصَدٍ‬ ‫( ‪ ) ١‬قَدْ عَلِمَ كُلُّ أَنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ‬

‫( ‪ ) ٥‬رَبُّ الْمَشْرِقِ‬ ‫( ‪ )۳‬لَا أَبْرَحُ حَتَّى ابْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ‬ ‫مَرْجِعُكُمْ‬

‫(‪ ) ٢‬قَالَتْ نَمْلَةٌ يَأَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسْكِنَكُمْ‬ ‫وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا‬

‫(‪ ) ۹‬رَبُّ‬ ‫( ‪ )۸‬مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا‬ ‫( ‪ )۷‬لَقَدْ كَانَ لِسَيَا فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ‬

‫(‪ ) ۱۰‬هَذَا مُغْتَسَلَّبَارِدٌ‬ ‫السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ‬

‫( ‪ )1‬إِذَا قِيْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِيالْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا ( ‪ )۱۴‬سَلْمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ‬

‫الْفَجْرِ‬
‫‪۲۱‬‬

‫(‪) 1‬‬ ‫آسماءُ الصّفة‬

‫‪ ۵۸ : ۱‬اسکتاب کے حصہ اول کے پیراگراف ‪ ۶ : ۳‬میں ہم نے اسم نکرہ کی دو‬

‫قسمیں پڑھی تھیں ‪،‬ایکاسم ذات جو کسی جانداریا بے جان چیزکی جنس کا نام ہو جیسے‬

‫إِنْسَانُ فَرَسٌ ججز اور دوسری اسم صفت جو کسی چیزکی صفتکو ظاہرکرے‬

‫مثلاحَسَنٌ سَهْلوغيره ‪-‬‬

‫‪ ۵۸ : ۲‬اسماء ذاتکبھی تو بذریعہ جو اس محسوس ہونے والی یعنی جیسی چیزوںکے‬

‫نام ہوتے ہیں ‪ ،‬جیسے بَيْتُ رَجُلٌ رِيحٌ وغیرہ اورکبھی وہ جو اس کے بجائے عقل سے‬

‫کبھی جانے والی یعنی ذہنی چیزوں کے نام ہوتے ہیں ‪ ،‬جیسے بُخل (کنجوسی ) شَجَاعَةٌ‬

‫( بهادری ) وغیرہ ۔ ذہنی چیزوں کے نامکو اسماء المعانی بھی کہتے ہیں ۔ اب یہ بات‬

‫نوٹکرلیں کہ اسمائے ذات اور اسماء المعانی صفت کا کام نہیں دےسکتے البتہ بوقت‬

‫ضرورت موصوف بن سکتے ہیں ۔‬

‫‪ ۵۸ : ۳‬اسم المعانی اور صفتمیں جو فرق ہوتا ہے وہ ذہن میں واضح ہونا ضروری‬

‫ہے ۔ اس فرقکو آپ اردو الفاظ کے حوالے سے نسبتاً آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ۔‬

‫"کنجوسی " اسم المعانی ہے اور کنجوس " صفت ہے ۔‬ ‫جیسے کنجوس ہونا " مصدر ہے‬

‫اسی طرح ”بہادر ہونا " مصدر ہے ” بہادری " اسم المعانی ہے اور " بہادر " صفت‬

‫ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ڈکشنری سے عربی الفاظ کے معانی نوٹکرتے وقت‬

‫اس فرقکو بھی نوٹکر لیا جائے اور ترجمہکرتے وقت اس کا لحاظ رکھا جائے ۔ اب یہ‬

‫نوٹکرلیںکہ اسم صفت ضرورتپڑنے پر کسی اسم ذاتیا اسم معافی کی صفتکے‬

‫طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں اورکسی موصوف کے بغیر جملہ میں ان کے اور بھی‬

‫مختلف استعمالہیں ۔‬

‫دے اسم الفاعل اور اسم المفعول بنانے کا‬


‫‪ ۵۸ : ۴‬آپپڑھ چکے ہیںکہ ثلاثی مجر س‬
‫‪۲۲‬‬

‫ایک ہی مقرر وزن ہے اور اسی طرح مزید فیہ سے انکو بنانے کا بھی ایک قاعدہ مقرر‬

‫ہے ۔ البتہ اسم الطرف بنانے کے لئے آپ نے تین مختلفو زن پڑھے ہیں ۔ اب یہ‬

‫نوٹکرلیںکہ اسم صفت کے اوزان زیادہ ہیں اور ان کا کوئی قاعدہ بھی مقرر نہیں‬

‫ہے ۔ یعنی یہ طے نہیں ہے کہ کس باب سے صفتکسی وزن پر آئےگی ۔ اس لئے‬

‫کسی فعل سے بننے والے اسماء صفت معلومکرنے کے لئے ہمیں ڈکشنری دیکھنا ہوتی‬

‫ہے ۔ اس سبق کا مقصد یہ ہے کہ اسماء صفت کے متعلقکچھ ضروریباتیں آپکو بتا‬

‫دی جائیں تاکہ ڈکشنری دیکھتے وقت آپ کا ذہن الجھن کا شکارنہ ہو ۔‬

‫‪ ۵۸ : ۵‬گزشتہ اسباق کے پیراگراف‪ ۵۵ : ۹‬اور ‪ ۵۶ : ۵‬میں آپدیکھ چکے ہیں‬

‫کہ اسم الفاعل اور اسم المفعول دونوں جملے میں کبھی فاعل اور کبھی مفعول بن کر‬

‫آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے اور بھی استعمال ہیں ۔ مثلا یہ مبتدا اور خبربھی بنتے ۔‬

‫جیسے الظَّالِمْ قَبِيح اور الْمَظْلُوْمُجَمِيلٌ۔ یہاںالظَّالِمُ ( اسم الفاعل) اورالْمَظْلُومُ‬

‫( اسم المفعول) دونوں مبتداء ہیں ۔ یا الرَّجُلُ ظَالِم اور اَلرَّجُلُ مَظْلُومٌ ۔ یہاں اسم‬

‫الفاعل اور اسم المفعول دونوں خبرہیں ۔ اسی طرح یہ صفت کے طور پر بھی استعمال‬

‫ہوتے ہیں ۔ جیسے رَجُلٌظَالِمٌ اور رَجُلٌ مَظْلُوم ۔ یہ دونوں مرکبتوصیفی ہیں ۔‬

‫یہاں اسم الفاعل اور اسم المفعول رَجُلٌکی صفت ہیں ۔ اس لئے ڈکشنری میںکسی‬

‫فعلکی صفت اگر فَاعِلیا مَفْعُولکے وزن پر نظرآئےتو پریشان ہونے کیکوشش نہ‬

‫کریں ۔‬

‫‪ ۵۸ :‬فَعِیل کے وزنپر بھی کافی اسماء صفت استعمال ہوتے ہیں ۔ اس کے متعلق‬

‫ذہن نشین کرلیں کہ ( ‪ ) 1‬فَعِیل کے وزن پر اسماء صفت عام طور پر ثلاثی مجرد کے‬

‫افعال لازم سے استعمال ہوتے ہیں ‪ ،‬جبکہ افعال متعدی سے اس کا استعمال بہت ہیکم‬

‫( ‪ ) ۲‬فَعِیل کے وزن پر صفت زیادہ تر بابگرم اور سَمِعَ سے آتی ہے ۔‬ ‫ہے ۔‬

‫کیونکہ بابگرم سے آنے والے تمام افعال اور باب سَمِعَ سے اکثر افعال لازم‬

‫ہوتے ہیں ۔ استثنائی صورت میں دوسرے ابواب سے چند صفات فَعِیل کے وزن پر‬
‫‪۲۲‬‬

‫ایک ہی مقرر وزن ہے اور اسی طرح مزید فیہ سے انکو بنانے کا بھی ایک قاعدہ مقرر‬

‫ہے ۔ البتہ اسم الطرف بنانے کے لئے آپ نے تین مختلفوزنپڑھے ہیں ۔ اب یہ‬

‫نوٹکرلیںکہ اسم صفت کے اوزان زیادہ ہیں اور ان کاکوئی قاعدہ بھی مقرر نہیں‬

‫ہے ۔ یعنی یہ طے نہیں ہےکہ کس باب سے صفتکسی وزن پر آئے گی ۔ اس لئے‬

‫کسی فعل سے بننے والے اسماء صفت معلوم کرنے کے لئے ہمیں ڈکشنری دیکھنا ہوتی‬

‫یاتیں آپکو بتا‬


‫ہے ۔ اس سبق کا مقصد یہ ہےکہ اسماء صفت کے متعلقکچھ ضرورب‬

‫دی جائیں تاکہ ڈکشنری دیکھتے وقت آپ کا ذہن الجھن کا شکارنہ ہو ۔‬

‫‪ ۵۸ : ۵‬گزشتہ اسباق کے پیرا گراف‪ ۱۵۵ : ۹‬اور ‪ ۵۶ : ۵‬میں آپدیکھ چکے ہیں‬

‫کہ اسم الفاعل اور اسم المفعول دونوں جملے میںکبھی فاعل اور کبھی مفعول بن کر‬

‫آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے اور بھی استعمال ہیں ۔ مثلا یہ مبتدا اور خبربھی بنتے ۔‬

‫جیسے الظَّالِمُ قَبِيْح اور الْمَظْلُومُ جَمِيلٌ ‪ -‬یہاں اَلظَّالِمُ ( اسم الفاعل ) اور الْمَظْلُومُ‬

‫( اسم المفعول ) دونوں مبتداء ہیں ۔یا الرَّجُلُ ظَالِم اور الرَّجُلُ مَظْلُوم ۔ یہاں اسم‬

‫الفاعل اور اسم المفعول دونوں خبر ہیں ۔ اسی طرحیہ صفت کے طور پر بھی استعمال‬

‫ہوتے ہیں ۔ جیسے رَجُلٌظَالِم اور رَجُلٌ مَظْلُوم ۔ یہ دونوں مرکبتوصیفی ہیں ۔‬

‫یہاں اسم الفاعل اور اسم المفعول رَجُلٌکی صفت ہیں ۔ اس لئے ڈکشنری میںکسی‬

‫فعلکی صفت اگر فَاعِلیا مَفْعُول کے وزنپر نظرآئےتو پریشان ہونے کی کوشش نہ‬

‫کریں ۔‬

‫‪ ۵۸ :‬فَعِیل کے وزنپر بھی کافی اسماء صفت استعمال ہوتے ہیں ۔ اس کے متعلق‬

‫(‪ ) ۱‬فَعِیل کے وزن پر اسماء صفت عام طور پر ثلاثی مجرد کے‬ ‫ذہن نشین کرلیں کہ‬

‫افعاللازم سے استعمال ہوتے ہیں ‪ ،‬جبکہ افعال متعدی سے اس کا استعمال بہت ہیکم‬

‫( ‪ ) ۲‬فَعِیل کے وزن پر صفت زیادہ تر بابگرم اور سَمِعَ سے آتی ہے ۔‬ ‫ہے ۔‬

‫کیونکہ بابگرم سے آنے والے تمام افعال اور باب سَمِعَ سے اکثر افعال لازم‬

‫ہوتے ہیں ۔ استثنائی صورت میں دوسرے ابواب سے چند صفات فَعِیلکے وزن پر‬
‫‪۲۴‬‬

‫خوش ) تعب (تھکا ماندہ) وغیرہ ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫بَشَرَ (ن) بَشَرًا ‪-‬کھال چھیلنا ۔کھالظاہرکرنا۔ خَدَع(ف) خَدْعا = وهو كاوينا‬

‫(مفاعله ) = وهو كاوينا‬ ‫بَشِرَ(س)بَشَرًا = خوشہوتا ۔‬

‫خَبَر (ن ) ۔ خَيْرًا ۔ حقیقت سے واقف ہونا۔باخبرہوت۔ا‬ ‫(تفعیل ) = خوشکرنا۔خوش خبری دینا۔‬

‫حَفِظَ(س) ‪-‬حفظا ‪ -‬حفاظکترنابزبانی یادکرنا۔‬ ‫ضَعَفَ(ن)ضُعْفًا =کمزور ہونا ۔‬

‫اَسِفَ (س ) ‪ -‬اَسَفًا ‪ -‬غمگین ہونا۔افسوسکرنا ۔‬ ‫(ف)ضعفًا ‪ -‬زیادہکرنا دوگنا کرنا ۔‬

‫۔‬
‫نذَرَ(ض) نَذرًا ‪ -‬نذرماننا‬ ‫(استفعال) ‪ -‬کمزورخیاکلرنا ۔‬

‫س نَذرًا = چوکنا ہوتا۔‬


‫نَذِرَ ()‬

‫(افعال) = چوکنا کرنا خبردارکرنا ۔‬

‫مشق نمبر‪ ( ۵۶‬الف )‬

‫مندرجہ ذیل قرآنی عبارتوںکا ترجمہکریں ۔‬

‫( ‪ ) 1‬إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ ( ‪ ) ۳‬وَاذْكُرُوا إِذْ اَنْتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ‬

‫( ‪ )۳‬إِنَّ‬ ‫( ‪ ) ۳‬وَمَانُرْسِلُ الْمُرْسَلِيْنَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ‬ ‫فِي الْأَرْضِ‬

‫الْمُنَافِقِيْنَ يُخْدِعُوْنَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ ( ‪ ) ٥‬فَرَجَعَ مُوْسَىإِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ‬

‫(‪ ) ٢‬إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌبِمَا تَعْمَلُونَ ( ‪ )۷‬إِنَّكُمْ مَبْعُوثُونَ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ‬ ‫آسِفًا‬

‫( ‪ ) ۸‬وَمَا اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيْظِ ( ‪ ) ٩‬وَعِنْدَنَاكِتَابٌحَفِيظٌ ( ‪ )١٠‬إِنَّهُ لَفَرِحٌفَخُوْرٌ‬

‫( ‪ ) 1‬وَهُوَبِكُلِّ شَيْ ءٍ عَلِيمٌ ( ‪ )۱۳‬وَاعْلَمُوا أَنَّاللَّهَ غَنِيٌّحَمِيدٌ‬


‫‪۲۵‬‬

‫مشق نمبر‪ (۵ ۶‬ب )‬

‫مذکورہ بالا مشق میں استعمال کئے گئے مندرجہ ذیل اسماء کا مادہ باب اور صیغہ‬

‫عد دو جنس ) بتا ئیں ۔نیزیہ بتائیںکہ یہ اسماء مشتقہ میں سے کون سے اسم ہیں ۔‬

‫( ‪ )۳‬مُبَشِّرِينَ‬ ‫( ‪ )۳‬الْمُرْسَلِينَ‬ ‫( ‪ ) ۲‬مُسْتَضْعَفُونَ‬ ‫( ‪ )۱‬جَاعِلٌ‬

‫( ‪ )۵‬مُنْذِرِينَ ( ‪ ) ۲‬اَلْمُنَافِقِيْنَ ( ‪ ) ۷‬خَادِعُ خَادِعُهُمْ میں ) (‪ )۸‬آسِفًا ( ‪ ) ۹‬خَبِيرٌ‬

‫( ‪ )۱۰‬مَبْعُوثُونَ (‪ ) ۱۱‬حَفِيظٌ ( ‪ ) ۱۲‬فَرِحٌ ( ‪ )۱۳‬عَلِيْمٌ ( ‪ )۱۴‬حَمِيدٌ ‪-‬‬

‫ضروریہدایات ‪.‬‬

‫جو طلبہ قواعد کو خوب اچھی طرحیادکر لیتے ہیں اور امتحان میں زیادہنمبر لے کر‬

‫سند حاصلکر لیتے ہیں ‪ ،‬وہ بھی کچھ عرصہ کے بعد قواعد بھول جاتے ہیں ۔ یہ ایک نارمل‬

‫صورت حال ہے ۔ آدمی زیادہ ذہین ہویا کم ذہین ہو ‪ ،‬ہر ایک کے ساتھ یہی ہوتہ‬
‫اے ۔‬

‫اس لئے اس صورت حال سے پریشان ہونےکی ضرورت نہیں ہے ۔‬

‫ہم لوگ چودہ سال یا سولہ سالتک انگریزی پڑھتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں جو‬

‫استعداد حاصل ہوتی ہے وہ معروف ہے ۔ اس کے بعد جو لوگاپنے کاروبارمیں لگ‬

‫جاتے ہیں جہاں انگریزی سے زیادہ واسطہ نہیں پڑتا ‪ ،‬انکی رہی سہی استعداد بھی‬

‫جاتی رہتی ہے ۔ جن لوگوںکو دفتر میں صبح سے شام تک انگریزی میں ہی سارا کام کرنا‬

‫ہوتا ہے انکو بھی دیکھاہےکہ جب انگریزی میں کچھ لکھنا ہوتا ہے تو کچی پینسل سے‬

‫لکھتے اور ربڑ سے مٹاتے رہتے ہیں ۔گرامر کیکتابیں اور ڈکشنریاںساتھ ہوتی ہیں ۔‬

‫اس طرح چند سالکی محنت کے بعد انہیں انگریزی لکھنے کا محاورہ ہوتا ہے ۔ البتہ‬

‫انگریزی پڑھ کر سمجھنا ان کے لئے نسبتاً آسان ہوتا ہے لیکن ڈکشنری دیکھنے کی‬

‫ضرورتپھربھی ہوتی ہے ۔‬

‫اب نوٹکریں کہ جس شخص نے انگریزی نہیں پڑھی وہگرامرکیکتابوں اور‬

‫ڈکشنری کی مدد سے انگریزی پڑھنے کے لئے محاورہ حاصل نہیں کر سکتا ۔ انگریزی‬
‫‪۲۶‬‬

‫پڑھنے کا اصل فائدہ یہ ہے کہ ابانسان مذکورہ محاورہ کے لئے مشقکرنے میں‬

‫گرامراور ڈکشنری سے مدد حاصلکرسکتا ہے ۔‬

‫اسی طرحعربی قواعد سمجھ کے اور اسکی کچھ مشقیں کر کے ‪ ،‬اگر آپانہیں‬

‫بھول جاتے ہیں تو آپکی محنت را نگاں نہیں جائےگی ۔ قرآن مجید کا مطالعہکرتے‬

‫ہوئےکسی لفظ کی ساختکو سمجھنے کے لئے ضروری قاعدہ اگریاد نہ بھی آئے تببھی‬

‫آپکا ذہن یہ ضروربتائے گاکہ متعلقہ قاعدہکتاب میں کہاں ملےگا ۔ وہ قاعدہ آپکا‬

‫سمجھا ہوا ہے ‪ ،‬صرف ایک نظر ڈالکر اسے مستحضرکرنے کی ضرورت ہو گی ۔کسی لفظ‬

‫کے معنی اگر بھول گئے ہیں تو ڈکشنری سے دیکھ سکتے ہیں ۔‬

‫اس طرح مطالعہ قرآن حکیم کے دوران قواعد اور ذخیرہ الفاظ کا اعادہ ہوتا‬

‫رہے گا اور صرف دویا تین پاروں کے مطالعہ سے ان شاء اللہ آپکو یہ محاورہ ہو‬

‫جائے گا کہ آپ قرآن مجید سنیں یا پڑھیں تو ترجمہ کے بغیر اس کا مطلب اور مفہوم‬

‫سمجھ میں آتا جائے ۔‬


‫‪۲۷‬‬

‫( ‪)۲‬‬ ‫اسماءُ الصّفه‬

‫نام اور اہم تر‬ ‫ہم آر کوفت کا‬ ‫‪ ۵۹۰ ۱‬ار‬

‫نصب‬

‫أفْعَلَ‬ ‫افْعَلَ‬ ‫افْعَلُ‬ ‫مذکر واحد‬

‫افْعَلَيْن‬ ‫افْعَلَيْن‬ ‫افْعَلان‬ ‫تذکر تثنیه‬

‫فعل‬ ‫فعلاً‬ ‫فعل‬ ‫مذکر جمع‬

‫فَعُلاء‬ ‫فَعْلَاء‬ ‫فَعْلَاءُ‬ ‫مؤنث واحد‬

‫فَعْلَاوَيْن‬ ‫فَعُلَاوَانِ‬ ‫مؤنث تثنيه‬


‫فَعُلَاوَيْنِ‬

‫فعلاً‬ ‫فعل‬ ‫مؤنث جمع‬


‫فعل‬
‫‪۲۸‬‬

‫‪ ۵۹ : ۳‬امید ہے کہ مذکورہگردان میں آپ نے یہ باتیں نوٹکرلی ہوںگی ‪:‬‬

‫ہیں ‪.‬‬ ‫(‪ )1‬واحد مذکر کا وزن افعَلُ اور واحد مونث کا وزن فَعْلَاءُ دونوں غیرمنصرف‬

‫(‪ )ii‬جمع مذکر اور جمع مونث دونوں کا ایک ہی وزن ہے یعنی فعل اور یہ معرب ہے‬

‫‪ iii‬واحد مونث فَعْلَاءُ سے تثنیہ بناتے وقت ہمزہکو داد سے تبدیلکر دیتے ہیں ۔‬
‫( )‬

‫‪ ۵۹ : ۴‬آپکو یاد ہو گاکہ حصہ اولکے پیراگراف ‪ ۱۴ : ۳‬اور ‪ ۲ : ۴‬میں مونث‬

‫) بتائی گئی تھی ۔ وہ دراصلیہی‬


‫قیاسی کے ضمن میں ایک علامت الف ممدودہ ۔ اء‬

‫فعلا ء کا وزن ہے ۔ اس وقت چونکہ آپ نے اوزان نہیں پڑھے تھے اس لئے الف‬

‫محدوده یا فعلا ء کے وزن والے الفاظکی نحویگردان نہیںکرائی گئی تھی ۔ لیکن اب‬

‫آپانکی گردانکرسکتے ہیں ۔‬

‫ذخیرہالفاظ‬

‫ض نَزْعًا ک‬
‫‪-‬ھینچ نکالنا۔‬ ‫)‬ ‫نوع(‬

‫حَشَرَان ض)حَشْرًا جمعکرنا ۔‬

‫زَرقَ( س) زَرَقًا ۔آنکھوںکا نیلا ہونا اندھا ہوتا ۔‬

‫صَفِرَ ( س) صَفَرًا ‪ -‬زرد رنگکا ہوتا ۔‬

‫حَرِج ( س )حَرَجًا ۔ تنگہوتا۔ حَرَج ‪ -‬تنگی گرفت ۔‬

‫جَمَلٌ( ججِمَالٌ حِمَالَةٌ) ‪ -‬اونٹ۔‬

‫أعمى ( ج عُمى) ‪ -‬اندھا ‪ -‬أبيض ‪ -‬سفید‪-‬‬

‫فَإِذَا ۔تو اچانک۔‬


‫‪( ۵۷‬الف )‬‫مشق نمبر‬

‫مندرجہ ذیل افعال سے انکی صفت ( الوان وعیوب) بناکر ہر ایککی نحوی‬

‫گردانکریں ۔‬

‫(‪ ) ۱‬بَهِيمَ ‪-‬گونگا ہونا ( ‪ ) ۲‬خَضِرَ ‪ -‬سبز ہونا ( ‪ )۳‬حَوِر ‪ -‬آنکھ کی سفیدی اور‬

‫سیائی کا نمایاں ہونا خوبصورتآنکھ والا ہوتا۔‬

‫‪ (۵ ۷‬ب )‬
‫مشق نمبر‬

‫مندرجہ ذیل قرآنی عبارتوں میں ‪ ) 1 ( :‬صفت الوان وعیوب تلاشکر کے ان‬

‫کا صیغہ (عد دو جنس بتائیں (‪ )ii‬مکمل عبارتکا ترجمہکریں ۔‬

‫( ‪ ) ۱‬وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ اَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُعَلَى شَيْءٍ ( ‪ )۳‬وَنَحْشُرُ‬

‫الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا ( ‪ ) ۳‬الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا‬

‫( ‪ ) ۳‬كَأَنَّهُ حِمْلَتْ صُفْرٌ ( ‪ ) ٥‬لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَى حَرَجٌ وَّلَا عَلَىالْأَعْرَجِحَرَجٌ‬

‫)‪ )( ۶‬إِنَّهَا بَقَرَةً صَفْرَاءُ ( ‪ ) ٤‬وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَاهِيَ بَيْضَاءُ‬


‫ولا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ (‪٢‬‬

‫للنظرِينَ‬
‫اسم المُبالغه‬

‫ا ‪ ۶۰ :‬اسماء مشتقہ کے پہلے سبق یعنی اسکتاب کے پیراگرافنمبر‪۵۴ : ۸‬میں‬

‫ہم نے انکی چھ اقسام ‪ :‬اسم الفاعل ‪ ،‬اسم المفعول اسم الظرف اسم الصفه‬

‫اسم التفصیل اور اسم الالہ کا ذکرکیا تھا جن میں سے ابتک ہم چار کے متعلق‬

‫کچھ پڑھ چکے ہیں ۔ وہاں ہم نے یہ بھی بیانکیا تھاکہ بعض حضرات اسم المبالغہکو بھی‬

‫مشتقات میں شمارکرتے ہیں ۔ تاہم اسم المبالغہ چونکہ ایک طرح سے اسم الصفہ بھی‬

‫ہے اس لئے ہم نے اسے مشتقاتکی الگ مستقل قسم شمار نہیںکیا تھا ۔ البتہ مناسب‬

‫معلوم ہوتا ہےکہ یہاں اسم المبالغہ پر بھی کچھ باتکرلی جائے ۔‬

‫‪ ۶۰ : ۲‬اب یہ بات سمجھ لیجئےکہ اسم المبالغہ میں بھی زیادہ تر "کامکرنے والا "کا‬

‫ہی مفہوم ہوتا ہے ۔ البتہ فرق یہ ہے کہ یہ مفہوم مبالغہ یعنی کام کی کثرت اور زیادتی‬

‫کے معنی کے ساتھ ہوتا ہے ۔مثلا ضرب ( مارنا ) سے اسم الفاعل " ضارب "کے معنی‬

‫جبکہ اس سے اسم المبالغہ " ضَراب " کے معنی ہوں گے‬ ‫ہوں گے ”مارنے والا‬

‫کثرت سے اوربہت زیادہ مارنے والا"۔‬

‫‪ ۶۰ : ۳‬اسماء صفتکی طرح اسم المبالغہ کے اوزان بھی متعدد ہیں ۔ اور قیاس‬

‫( مقررہ قواعد ) سے زیادہ اس میں بھی سماع ( اہل زبان سے سننا ) پر انحصاکریا جاتا ہے ۔‬

‫تا ہم اس کے تین اوزانکا تعارفہم کرا دیتے جو کہ زیادہ استعمال ہوتے ہیں ۔‬

‫‪ ۲۰ : ۴‬اسم المبالغہ کا ایک وزن فَعال ہے ۔ اس میں کسی کامکوکثرت سے کرنے‬

‫کا مفہوم ہوتا ہے ۔ جیسے غفار ( بار بار بخشنے والا ) ۔کسی کاریگری یا کاروبار کے پیشہ‬

‫ورانہ ناموں کے لئے بھی زیادہ تر یہی وزن استعمال ہوتا ہے ۔ مثلا خباز ( بار بار‬

‫) بزاز (کلاتھ مرچنٹ)‬


‫بکثرت روٹی بنانے والا یعنی نانبائی ) ۔ اسی طرح حیاط ( درزی‬

‫وغیرہ ۔‬
‫‪۳۱‬‬

‫‪ ۲۰ : ۵‬فَعُول بھی مبالغہ کا وزن ہے ۔ اس میں یہ مفہوم ہوتا ہےکہ جببھی کوئی‬

‫کام کرے تو خوب دلکھولکرکرے ۔ جیسے صَبور ( بہت زیادہ صبرکرنے والا ) ۔‬

‫غَفُورٌ( بہتبخشنے والا ) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۲۰ :‬فَعْلانُ کے وزن میں کسی صفت کے حد سے زیادہ ہونے کا مفہوم ہوتا‬

‫ہے ۔ جیسے عطش ( پیاسا ہونا ) سے عطشان ( بے انتہا پا سا ) گسل ( ست ہونا ) سے‬

‫كَسْلَانُ ( بے انتهاست) وغیرہ ۔ فَعْلانُکی مؤنث فعلی کے وزن پر اور مذکرو‬

‫مؤنث دونوںکی جمع فِعال یا فعالی کے وزن پر آتی ہے ۔مثلا عطش ( پیاسا ہونا)سے‬

‫عَظشَانُکی مؤنث عظمی اور دونوںکی جمع عطاش‬

‫غضب غضبناکہونا )سے غَضْبَانُکی مؤنث غصبی اور دونوںکی جمع غِضَابٌ‬

‫سکرا ہوش ہونا ) سے سکرانکی مؤنث سکری اور دونوںکی جمع شکاری‬

‫کسل (ست ہونا )سے گسلانکی مؤنث گسلی اور دونوںکی جمع کسانی وغیرہ ۔‬

‫‪ ۶۰ :‬یہ باتبھی نوٹکرلیںکہ فَعْلانُ ( غیر منصرف )کبھی فعلان ( معرب) بھی‬

‫استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے تعبان ( تھکا ماندہ ) ۔ ایسی صورتمیں اسکی مؤنث " "لگا کر‬

‫بتاتے ہیں جیسے تَعْبَانَةٌ ۔ نیز ایسی صورت میں مذکر اور مؤنث دونوںکی جمع سالم‬

‫استعمال ہوتی ہے ۔ جیسے تَعْبَانُونَ ‪ -‬تَعْبَانَاتٌ ۔‬

‫‪ ۶۰ :‬فَعُول اور فَعِیل میں کبھی " " لگا کر مؤنث بنائے ہیں اورکبھی مذکر کا ہی‬

‫صیغہ مؤنث کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس کا قاعدہ سمجھ لیں ۔ فَعُول اگر ہمعنی‬

‫مفعول ہو تب اس کے مذکر اور مؤنث میں " " لگا کر فرق کرتے ہیں ۔ مثلاً جَمَلٌ‬

‫حمول ( ایک بہت لاداگیا اونٹ) اور نَاقَةٌ حَمُولَةٌ ( ایک بہت لادیگئی اونٹنی ) ۔‬

‫لیکن اگر فَعُول بمعنی فاعل ہو تو مذکر و مؤنث کا صیغہ یکساں رہتا ہے ۔ جیسے رَجُلٌ‬

‫صبور ( ایک بہت صبر کرنے والا مرد ) اور امْرَأَةٌ صَبُورٌ ( ایک بہت صبرکرنے والی‬

‫عورت ) ۔‬
‫‪۳۲‬‬

‫‪ ۶۰ : ۹‬نوٹکریں کہ فَعِیلکے وزن میں مذکورہ بالا قاعدہ بر عکس یعنی الٹا استعمال‬

‫ہوتا ہے ۔ اس کا مطلبیہ ہے کہ فصیل جبہمعنی فاعل ہو تب مذکرو مؤنٹمیں‬

‫" " سے فرق کرتے ہیں ۔ جیسے رَجُلٌ نَصِیرٌ ( ایک عددکرنے والا مرد ) اور امراة‬

‫نَصِيرَةً ( ایک مددکرنے والی عورت) ۔ اور فَعِیلجببمعنی مفعول ہوتا ہے تو مذکر‬

‫مونٹ کا صیغہ یکساں رہتا ہے ۔ جیسے رَجُلٌجَرِيح ( ایک زخمی کیا ہوا مرد ) ۔ اور‬

‫إمْرَاةٌ جَریخ( ایک زخمی کی ہوئی عورت) ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫اشِرَ (س)اشرا ‪ -‬اکثرنا اترانا‬

‫ترنا زبر دستی کرنا‬


‫جبر(ن )جبرا ‪ -‬قوت اور دباؤ سےکسی چیزکو درس ک‬

‫شگران شکراء نعمت کے احساسکا اظہارکرنا شکریہ اداکرنا‬

‫ض ظلما ‪-‬کسی چیزکو اسکے صحیح مقام سے ہٹا دینا ‪ ،‬ظلم کرنا‬
‫ظَلَمَ ()‬

‫س ظَلَمًا ۔ روشنی کا معدوم ہونا تاریک ہونا‬


‫ظلِمَ ( )‬

‫)جخدا ‪ -‬جانبوجھ کر انکارکرنا‬


‫جَحَدَ(ف‬

‫ضاحترا ‪-‬غداریکرنا بری طرح بے وفائیکرنا‬


‫خَتَرَ( )‬

‫) كُفْرًا ‪-‬کسی چیزکو چھپانا انکارکرنا‬


‫كَفَرَ( ن‬

‫غَفَرَ (ض) غَفْرا ۔کسی چیزکو میلکچیل سے بچانے کے لئے ڈھانپ دینا عذاب سے‬

‫بچانے کے لئےگناہکو چھپا دینا ڈھانپ دینا بخشدیتا‬

‫مشق نمبر ‪۵۸‬‬

‫مندرجہ ذیل قرآنی عبارتوں میں ‪ ) 1( :‬اسم المبالغہ تلاشکر کے ان کا مادہ‬

‫(‪ ) ii‬انکی اعرابی حالت اور اسکی وجہ بتائیں‬ ‫وزن اور صیغہ ( عد دو جنس بتائیں‬

‫( ‪ )ii‬مکمل عبارتکا ترجمہکریں ۔‬


‫‪۳۳‬‬

‫( ‪ ) ۱‬بَلْ هُوَ كَذَّابٌأَشِرٌ ( ‪ )۲‬كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىكُلِّ قَلْبِ مُتَكَتِرٍجَبَّارٍ ( ‪ )۳‬إِنَّ‬

‫فِي ذلِكَ لَآيَتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ( ‪ ) ۳‬وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ ( ‪ ) ٥‬وَأَنَّ اللَّهَ‬

‫لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيْدِ (‪ ) ۲‬وَمَا يَجْحَدُ بِأَيْتِنَا الأُكُلُّ خَتَارٍكَفُورٍ ( ‪ )۷‬إِنَّ الْإِنْسَانَ‬

‫لَظَلُومٌ كَفَّارٌ (‪ ) ۸‬وَقَالُوا يَمُوسَى إِنَّ فِيْهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ (‪ ) 9‬وَكَانَ الشَّيْطَنُ‬

‫لِرَبِّهِكَفُورًا‬
‫‪۳۴‬‬

‫التفضيل‬
‫(‪) 1‬‬ ‫اسم‬

‫آپکو یاد ہو گا کہ انگریزی میں کسی موصوفکی صفت میں دوسروں پر‬ ‫ا‬

‫اور‬ ‫‪Comparative‬‬ ‫لئے‬ ‫کے‬ ‫ظاہر کرنے‬ ‫زیادتی‬ ‫برتری یا‬

‫‪ Superlative Degree‬کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔ مثلاً ‪ Good‬سے‬

‫‪ Better‬اور ‪ Best‬۔ اسی طرح عربی میں بھی کسی موصوفکی صفتکو دوسروں‬

‫کے مقابلہ میں بر تر یا زیادہ ظاہرکرنے کے لئے جو اسم استعمال ہوتا ہے اسے اسم‬

‫التفضیلکہتے ہیں ‪ ،‬جس کے لفظی معنی ہیں ” فضیلت دینے کا اسم "کسی صفت میں خواہ‬

‫اچھائی کا مفہوم ہو یا برائی کا دونوںکی زیادتی کے اظہار کے لئے استعمال ہونے‬

‫والے اسمکو اسم التفضیل ہی کہا جائے گا۔ اس باتکو فی الحال انگریزیکی مثال سے‬

‫یوں سمجھ لیںکہ ‪ Good‬اسم الصفہ ہے جبکہ ‪ Better‬اور ‪ Best‬دونوں اسم‬

‫التفضیل ہیں ۔ اسی طرح ‪ Bad‬اسم الصفہ ہے جبکہ ‪ Worse‬اور ‪Worst‬‬

‫دونوں اسم التفضیل ہیں ۔‬

‫‪ ۶۱ : ۲‬خیال رہےکہ اسم المبالغہ میں بھی صفتکی زیادتی کا مفہوم ہوتا ہے لیکن‬

‫اس میںکسی سے تقابل کے بغیر موصوف میں فی نفسہ اس صفت کے زیادہ ہونے کا‬

‫مفہوم ہوتا ہے ‪ ،‬جبکہ اسم التفضیل میں یہ مفہوم پایا جاتا ہے کہ موصوفمیں مذکورہ‬

‫صفتکسی کے مقابلہ میں زیادہ پائی جاتی ہے ۔ اس باتکو فی الحال اردوکی مثال سے‬

‫سمجھ لیں ۔ اگر ہمکہیں " یہ لڑکا بہت اچھا ہے " تو اس جملہ میں " بہت اچھا " اسم‬

‫المبالغہ ہے ۔ لیکن اگر ہمکہیں "یہ لڑکا اس لڑکے سے زیادہ اچھا ہے " یا "یہ لڑکا‬

‫دونوں اسم التفضيل‬ ‫سب سے اچھا ہے " تو اب " زیادہ اچھا " اور "سب سے اچھا‬

‫ہیں ‪،‬اس لئےکہ ان دونوں میں تقابل کا مفہوم شامل ہے ۔‬

‫‪ ۶۱ :‬عربی زبان میں واحد مذکر کے لئے اسم التفضیل کا وزن " افعل " اور واحد‬

‫مونث کے لئے " فعلی " ہے اور انکی نحومیگردان مندرجہ ذیل ہے ‪:‬‬
‫‪۳۵‬‬

‫‪33‬‬
‫نصب‬

‫افْعَلَ‬ ‫افْعَلَ‬ ‫افْعَلُ‬ ‫مذکر واحد‬

‫افْعَلَيْنِ‬ ‫افْعَلَيْن‬ ‫افْعَلَان‬ ‫تذکر تثنيه‬

‫آفَاعِلَ‬ ‫افَاعِلَ‬ ‫افَاعِلُ‬ ‫مذکر جمعمکسر‬

‫افْعَلِينَ‬ ‫افْعَلِينَ‬ ‫افعَلُوْنَ‬ ‫مذکر جمع سالم‬

‫فعلى‬ ‫فعلى‬ ‫مؤنث واحد‬


‫فعلى‬

‫فُعْلَيَان‬ ‫مؤنث تثنيه‬


‫فُعْلَيَيْنِ‬ ‫فُعْلَيَيْنِ‬

‫فعْلَيَاتٍ‬ ‫فُعْلَيَاتِ‬ ‫فعلَيَاتٌ‬ ‫مؤنث جمع سالم‬

‫فعل‬ ‫فعلاً‬ ‫فعل‬ ‫مؤنث جمعمکسر‬

‫پڑھ چکے ہیںکہ الوان وعیوبکے‬


‫‪ ۶۱ : ۴‬اس سے پہلے پیرا گراف ‪ ۵۹ :۲‬میں آپ‬

‫واحد مذکرکا وزن بھی افعل ہی ہوتاہے مگردونوںکی نحویگردان میں فرق ہے ۔ اس‬

‫ضمن میں مندرجہ ذیل فرق کو خاص طور سے نوٹ کر کے ذہن نشین کریں ۔‬

‫( ‪ )i‬افعل التفضیل میں جمع مذکر کے صیغے میں جمع مکسرکا وزن مختلف ہے ۔نیز اسکی جمع‬

‫سالم بھی استعمال ہوتی ہے ۔ ( ‪ )ii‬افعل التفضیل میں واحد مؤنث کا وزن مختلف ہے‬

‫اور یہ وہی وزن ہے جو اسکتاب کے پہلے حصہ کے پیراگراف ‪ ۱۴ : ۳‬اور ‪۴ : ۴‬‬

‫میں الف مقصورہ کے عنوان سے پڑھایاگیا تھا ۔ نیز فعلی کا وزن منیکی طرح استعمال‬

‫ہوتا ہے ۔ (‪ )iii‬افعل التفضیل میں جمع مؤنث کے صیغے میں جمع مکسرکا وزن مختلف‬

‫ہےیعنی فعلکے بجائے فعلہے ۔ نیز اس کے جمع سالم بھی استعمال ہوتی ہے ۔‬

‫‪ ۶۱ : ۵‬اسم التفضیل ہمیشہ فعل ثلاثی مجرد سے ہی بنتا ہے اور صرف ان افعال سے‬

‫جن میں الوان و عیوب والا مفہوم نہ ہو ۔کیونکہ ان سے افعل التفضیلکے بجائے‬

‫افعل الوانو عیوب کے صیغے استعمال ہوں گے ۔ اسی طرح سے کسی مزید فیہ فعل سے‬
‫‪۳۶‬‬

‫بھی افعل التفضیل کے صیغے نہیں بن سکتے ۔ اگرکبھی ضرورت کے تحت الوانو عیوب‬

‫والے فعل ثلاثی مجرد یا مزید فیہ کے کسی فعل سے اسم التفضیل استعمالکرناپڑےتو اس‬

‫کا طریقہ یہ ہےکہ حسب موقع اسد ( زیادہ سخت) اکثر ( مقداریا تعداد میں زیادہ )‬

‫أعظمُ ( عظمت میں زیادہ ) وغیرہ کے ساتھ متعلقہ فعل کا مصدرلگا دیتے ہیں ۔ مثلاً‬

‫اَشَدُّ سَوَادًا ( زیادہ سیاہ ) اکثراختبارًا ( اختیار میں زیادہ ) اعظم توفیرا (عزتکی‬

‫عظمت میں زیادہ ) وغیرہ ۔ ایسے الفاظ کے ساتھ متعلقہ فعل کا جو مصدر استعمال ہوتا‬

‫ہے اسے " تميز"کہتے ہیں ۔تمیز عموم أو احد اور نکرہ استعمال ہوتی ہے اور ہمیشہ حالت‬

‫نصبمیں ہوتی ہے ۔‬

‫افعل التفصیل کے درج ذیل چند استثنی ہیں ۔ مثلا خیر زیادہ اچھا ) اور سر‬ ‫‪:‬‬

‫( زیادہ برا ) کے الفاظ ہیں جو دراصل اخیر اور اَشَر( بروزن افعل) تھے ‪،‬مگریہ اپنی‬

‫اصل شکل میں شاذ ہی (کبھی شعرو ادب میں ) استعمال ہوتے ہیں ‪،‬ورنہ انکا زیادہ تر‬

‫استعمال خیر اور شر ہی ہے ۔ اسی طرح اُخرى ( دوسری )کی جمع مندرجہ بالا قاعدہ‬

‫کے مطابق اُخو ( بروزن فعل آنی چاہئے مگریہ لفظ غیرمنصرف یعنی اُخَرُ استعمالہو تا‬

‫ہے ۔‬

‫مشق نمبر‪۵۹‬‬

‫مندرجہ ذیل افعال سے اسم التفضیل بناکر انکی نحویگردانکریں ۔‬

‫حَسُنَ (کن ) حَسَنًا ‪ -‬خوبصورت ہونا ۔‬ ‫( ‪)i‬‬

‫سَفِل (نسک) سَفَلا سُفُولاً ‪ -‬پست ہونا ‪،‬حقیرہونا ۔‬ ‫( ‪)ii‬‬

‫( ‪ )iii‬كَبُرَ (ک) = بڑا ہوتا ۔‬


‫‪۳۷‬‬

‫التفضيل‬
‫(‪) ۲‬‬ ‫اسم‬

‫‪ ۶۲ : ۱‬گزشتہ سبق میں آپ نے اسم التفضیل کی مختلف صورتیں (مذکر مونث‬

‫واحد جمع وغیرہ ) بنانے کا طریقہ پڑھ لیا ہے ۔ اب اس سبق میں ہم آپکو عبارت‬

‫میں اس کے استعمال کے متعلقکچھ بتائیں گے ۔‬

‫‪ ۶۲ : ۲‬اسم التفضیل دو اغراضکے لئے استعمالکیا جاتا ہے ۔ اولا یہکہ دو چیزوں یا‬

‫اشخاص وغیرہ میں سے کسی ایککی صفت ( اچھی یا بری )کو دوسرے کے مقابلہ میں‬

‫زیادہ بتانے کے لئے ۔ اسے تفضیل بعض کہتے ہیں ۔ اور یہ وہی چیز ہے جسے انگریزی‬

‫میں ‪ Comparative Degree‬کہتے ہیں ۔ ثانیا یہ کہ کسی چیزیا شخص کی صفت‬

‫کو باقی تمام چیزوںیا اشخاص کے مقابلہ میں زیادہ بتانے کے لئے ۔ اسے تفضیل گل‬

‫کہتے ہیں اور یہ وہی چیز ہے جسے انگریزی میں ‪ Superlative Degree‬کہتے‬

‫ہیں ۔‬

‫‪۳‬‬
‫‪ ۶۲ :‬اسم التفضیلکو تفضیل بعض کے مفہوم میں استعمالکرنے کا طریقہ یہ ہے‬

‫کہ اسم التفضیل کے بعد مین لگاکر اسچیزیا مشخص کا ذکرکرتے ہیں جس پر موصوفکی‬

‫صفتکی زیادتی بتانا مقصود ہوتا ہے ۔ مثلا زَيْدٌ اَجْمَلُ مِنْ عُمَرَ ( زيد عمرسے زیادہ‬

‫خوبصورتہے ) ۔ اس جملہ میں زید مبتدا ہے اور اَجْمَلُمِنْ عُمَرَ اسکی خبرہے ۔‬

‫‪ ۶۲ : ۴‬اب ایک اہم بات یہ نوٹکر لیںکہ مین کے ساتھ استعمال ہونےکی‬

‫صورتمیں اسم التفضیل کا صیغہ ہر حالت میں واحد اور مذکر ہی رہے گا چاہے اس کا‬

‫موصوف (یعنی مبتدا ) تشنیه یا جمع یا مونث ہیکیوں نہ ہو ۔ مثلاً الرَّجُلانِ اَجْمَلُمِنْ‬

‫زَيْدٍ ‪ -‬يَا ‪-‬عَائِشَةُ أَجْمَلُمِنْ زَيْنَبَ النِّسَاءُ أَجْمَلُمِنَ الرِّجَالِ وغيره ‪-‬‬

‫‪ ۲۲ : ۵‬اسم التفصیل کو تفصیل کل کے مفہوم میں استعمالکرنے کے دو طریقے‬

‫فاللامکر دیتے ہیں ۔ مثلاً الرَّجُلُ‬


‫ہیں ۔ پہلا طریقہ یہ ہےکہ اسم التفضیل کو معرب‬
‫‪۳۸‬‬

‫الْأَفْضَلُ ( سب سے زیادہ افضل مرد ) ۔ نوٹکر لیں کہ ایسی صورت میں اسم‬

‫التفضیل اپنے موصوف کے ساتھ مل کر مرکبتوصیفی بنتا ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ ایسی‬

‫صورت میں اسم اتفصیل کی اپنے موصوفکے ساتھ جنس اور عدد میں مطابقت‬

‫الْعَالِمُونَ‬ ‫الْعَالِمَانِ الْأَفْضَلَانِ‬ ‫ضروری ہے ۔ مثلاً العَالِمُ الْأَفْضَلُ‬

‫الْأَفْضَلُونَ ‪ -‬اَلْعَالِمَةُ الْفُضْلَى ‪ -‬اَلْعَالِمَتَانِ الْفُضْلَيَانِ الْعَالِمَاتُالْفُضْلَيَاتُ‬

‫‪ ۶۲ : 4‬اسم التفضیلکو تفضیلکُل کے مفہوم میں استعمالکرنے کا دوسرا طریقہ یہ‬

‫ہے کہ اسم التفضیلکو مضافبناکر لاتے ہیں اور مضاف الیہ میں ان کا ذکر ہوتا ہے‬

‫جن پر موصوفکی برتری ظاہرکرنی ہو ۔ مثلاً زَيْدُ أَعْلَمُ النَّاسِ ( زید تمام لوگوں سے‬

‫زیادہ عالم ہے ) ۔ نوٹکرلیںکہ ایسی صورت میں یہ جملہ اسمیہ ہے ۔ زید مبتداہے‬

‫اور اَعْلَمُ النَّاسِ مرکب اضافی بن کر اسکی خبربن رہا ہے ۔‬

‫‪ ۶۲ :‬اسم التفصیل جب مضاف ہو تو جنس اور عدد کے لحاظ سے اپنے موصوف‬

‫سے اسکی مطابقت اور عدم مطابقت دونوں جائز ہیں ۔ مثلا الْأَنْبِيَاءُ اَفْضَلُالنَّاسِ‬

‫بھی درست ہے اور الْأَنْبِيَاءُ أَفَاضِلُالنَّاسِ يَا الْأَنْبِيَاءُ أَفْضَلُو النَّاسِبھی درست‬

‫ہے ۔ اسی طرح سے مَرْيَمُ فُضْلَى النِّسَاءِ اور مَريَمُ أَفْضَلُالنِّسَاءِ دونوں درست‬

‫ہیں ۔‬

‫‪ ۶۲ :‬خَيْرٌ اور شر کے الفاظ بطور اسم التفضیل مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں‬

‫لئے بھی جیسے اَنَا خَيْرٌ مِنْهُ‬ ‫تفضیل بعض کے‬ ‫استعمال ہوتے ہیں ‪ ،‬یعنی‬

‫‪ )۱۲‬اور تفضیلکل کے مفہوم میں بھی جیسے بَل اللهُ مَوْلَكُمْ وَهُوَخَيْرُ‬
‫( الاعراف ‪( :‬‬

‫التَّصِرِينَ (آل عمران ‪ - ) ۱۵۰ :‬أُولَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ ( البينه ‪- ) ٢ :‬‬

‫‪:‬‬
‫‪ ۶۲‬اسم التفصیل کے استعمال میں بعض دفعہ اسکو حذفکر دیتے ہیں جس پر‬ ‫‪۹‬‬

‫موصوفکی برتری ظاہرکرنی ہوتی ہے ۔ اس طرح جملہ میں صرف اسم التفضیل ہی‬

‫باقی رہ جاتا ہے ۔ تاہم عبارت کے سیاق و سباق یا کسی قرینے سے اسکو سمجھا جا سکتا‬
‫‪۳۹‬‬

‫ہے ۔ مثلا " اللَّهُ اكْبَرُ " دراصل " اللَّهُ اكْبَرُكُلِّ شَيْءٍ "يا " اللَّهُ اكْبَرُمِنْكُلِّ شَيْءٍ "‬

‫ہے اس لئے اس کا ترجمہ " اللہ بہت بڑا ہے "کرنے کے بجائے "اللہ سب سے بڑا‬

‫‪)۱۳۸‬گویا الصُّلْحُ‬
‫ہے "کرنا زیادہ موزوں ہے ۔ اس طرح الصُّلْحُ خَيْرٌ ( النساء ‪( :‬‬

‫خَيْرُالأمور ہے یعنی صلح سبباتوں سے بہتر ہے ۔‬

‫‪ ۶۲ : ۱۰‬پیراگراف‪ ۶۱ : ۵‬میں آپ نے پڑھا ہےکہ الوان و عیوب کے افعالمجرد‬

‫اور مزید فیہ سے اسم التفضیل تو نہیں بنتا لیکن اکثر اَشَدُّوغیرہکے ساتھ متعلقہ فعل‬

‫کا مصدر بطور تمیزلگاکر یہی مفہوم ظاہرکیا جا سکتا ہے ۔ اس سلسلہ میں اب یہ بات بھی‬

‫سمجھ لیںکہ بعض دفعہکسی فعل سے اسم التفضیل بن سکتا ہے لیکن بہترادبی انداز بیان‬

‫کی خاطر اکثر کی قسم کے کسی لفظ کے ساتھ اس فعل کا مصدر ہی بطور تمیز استعمال‬

‫کرتے ہیں ۔ مثلاً نَفَعَ (ف ) سے اسم التفصیل انْفَعُ بن سکتا ہے لیکن اكْثَرُ نَفْعًاکہنا‬

‫زیادہ بہترلگتا ہے ۔ اس طرح تمیز کا استعمال قرآنکریم میں بکثرت آیا ہے اور یہ‬

‫استعمال صرف الوان و عیوب یا مزید فیہ تک محدود نہیں ہے ۔ مثلا اكثر مالا (کثرت‬

‫والا بلحاظ مال کے ) أَضْعَفُ جُندا ( زیادہکمزوربلحاظ لشکرکے ) أَصْدَقُ حَدِيقًا ( زیادہ‬

‫سچا بلحاظ بات کے ) وغیرہ ۔ اکثر کی قسم کے الفاظ کے بغیر بھی اسم التفضیل کے ساتھ تمیز‬

‫کا استعمال بکثرت ہوتا ہے ۔ جیسے وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ( اور اللہ سے زیادہ‬

‫اچھا کون ہے بلحاظ رنگ کے ) ۔ اسم التفضیل کے ساتھ تمیزکے اس استعمال کو سمجھ‬

‫لینے سے آپکو قرآنکریم کی بہت سی عبارتوںکے قسم میں مدد ملےگی ۔‬


‫‪۴۰‬‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫فَتَنَ (ض) فَتْنا = سونےکو پکھلاکرکھرا کھوٹا معلوم فَضَلَ(ن)فَضْلاً = اوسط سے زائد ہونا۔‬

‫(تفعیل) ‪ -‬ترجیح دینا فضیلتدینا۔‬ ‫کرنا آزمائشمیں ڈالنا گمراہکرنا‬

‫آزمائشمیں پڑنا گمراہ ہونا ۔ (لازمو متعدی) فضل ۔ زیادتی ( اچھائی میں ) ۔‬

‫=‬
‫فضول ‪ -‬ضرورت سے زائکہ چیز(ناپسندیدہ ) ۔‬ ‫= آزمائشگمراہی۔‬
‫فتنه ‪-‬‬

‫فَضِيلَةٌ ‪ -‬مرتبہ میں بلندی‬ ‫فَصْحَ(ک) فَصَاحَةً = خوشبیان ہوتا ۔‬

‫مشق نمبر‪۶۰‬‬

‫مندرجہ ذیل قرآنی عباراتکا ترجمہکریں ‪:‬‬

‫( ‪ )۳‬أَيُّهُمْ أَقْرَبُ‬ ‫( ‪ ) ١‬وَالْفِتْنَةُ اكْبَرُ مِنَ الْقَتْل ( ‪ ) ۳‬وَإِثْمُهُمَا اكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا‬

‫لَكُمْ نَفْعًا ( ‪ ) ۳‬وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلاً ( ‪ ) ٥‬فَمَنْ أَظْلَمُمِمَّنْكَذَّبِبِأَيْتِ اللهِ‬

‫( ‪ ) ٢‬وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّحِمِينَ ( ع ) وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَتٍ وَّاكْبَرُ تَفْضِيلاً‬

‫( ‪ ) ۸‬وَأَخِي هَارُونَ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا ( ‪ ) 9‬وَلَذِكْرُالله اكبر ( ‪ )١٠‬لَخَلْقُ‬

‫السَّمَوتِ وَالْأَرْضِاكْبَرُمِنْ خَلْقِ النَّاسِ ( ‪ )1‬فَسَيَعْلَمُونَ مَنْأَضْعَفنَُاصِرًا‬

‫( ‪ )۱۳‬فَيُعَذِّبُهُ اللهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ ( ‪ ) ۱۳‬أَنَا اكْثَرُمِنكَ مَالاً (‪ )۱۳‬الْأَعْرَابُأَشَدُّ‬

‫كُفْرًاوَنِفَاقًا‬
‫‪۴۱‬‬
‫‪3‬‬
‫لآله‬ ‫اسم‬
‫ا‬

‫اسم الآلہ وہ اسم مشتق ہے جو اس چیزکو بتائے جوکسی کام کے کرنے کا ذریعہ‬ ‫‪۳ : ۱‬‬

‫ہو ‪ ،‬یعنی وہ اوزار یا ہتھیار جن کے ذریعہ وہ کامکیا جاتا ہے ۔ اردو میں لفظ "آلہ "‬

‫بمعنی ” اوزار "عام مستعمل ہے ۔‬

‫‪ ۶۳‬اسم آلہ کے لئے تین اوزان استعمال ہوتے ہیں ‪ :‬مِفْعَلٌ مِفْعَلَةٌ اور‬ ‫‪۲‬‬

‫مفعال ۔کسی ایک فعل سے اسم الآلہ تینوں وزن پر بن سکتا ہے ‪ ،‬تاہم اہل زبان ان‬

‫میں سےکسی ایک وزن پر بننے والا لفظ زیادہ استعمالکرتے ہیں ۔ مثلاً فعل نَشَر( ن )‬

‫لکڑیکو چیرنا " ہوتے ہیں ۔ اس سے اسم آلہ مِنْشَرٌ مِنْشَرَةٌ اور‬ ‫کے ایک معنی‬

‫مِنْشَارٌ ( چیرنے کا آلہ یعنی آری) بنتا ہے ‪ ،‬تاہم مِنشَار زیادہ مستعمل ہے ۔ فعل بَرَدَ‬

‫( ن ) کے ایک معنی ” لو ہے وغیرہ کو چھیلکربرادہ بنانا" ہیں ۔ اس سے اسم آلہ مبرد‬

‫مِبْرَدَةٌ اور مِبْوَادُ بن سکتے ہیں ‪ ،‬تاہم مِبوَد ( ریتی ) زیادہ استعمال ہوتا ہے وغیرہ۔‬

‫سَخُنَ (ک) پانی وغیرہ کاگرم ہونا "سے اسم آلہ مِسْخَنَّ مِسْخَنَةٌ اور مِسْخَانُ‬

‫بن سکتے ہیں لیکن مِسْخَنَةٌ ( واٹر ہیٹر) زیادہ استعمال ہوتا ہے وغیرہ ۔‬

‫اسم آلہ لازم اور متعدی دونوں طرح کے فعل سے بن سکتا ہے جیسا کہ‬ ‫‪۳ : ۳‬‬

‫اوپر دیگئی مثالوں سے واضح ہے ۔ لیکن یہ زیادہ تر فعل متعدی سے ہی آتاہے ۔ البتہ‬

‫یہ نوٹکرلیںکہ اسم آلہ صرف فعل ثلاثی مجرد سے ہی بن سکتا ہے مزید فیہ سے نہیں‬

‫بنتا۔ اگر ضرورت ہو تو لفظ " آلہ " یا اس کے کسی ہم معنی لفظکو بطور مضافلاکر‬

‫متعلقہ فعلکے مصدرکو اس کا مضافالیہکردیتے ہیں ‪،‬جیسے آلَةُ الْقِتَالِ‬

‫‪ ۶۳ : ۴‬اسم الآلہ کے اوزان سے تثنیہ تو حسب قاعدہ ان اورینلگاکر ہی بنےگا ۔‬

‫یعنی مِفْعَلانِ اور مِفْعَلَيْنِ مِفْعَلَتَانِ اور مِفْعَلَتَيْنِ مِفْعَالَانِ اورمِفْعَالَيْنِ البتران‬

‫آتی ہے ۔ مِفْعَل اورمِفْعَلَةٌ دونوںکی جمع مَفَاعِلُکے وزن پر آتی‬


‫کی جمعہمیشہ جمعمکسر‬

‫ہے اور مفعالکی جمع مَفَاعِیلُ کے وزن پر آتی ہے ۔ امید ہے آپنے نوٹکر لیا‬
‫‪۴۲‬‬

‫ہو گا کہ اسم آلہ کی جمع کے دونوں وزن غیر منصرف ہیں ۔ اس طرح مِنشَریا مِنْشَرَةٌ‬

‫دونوںکی جمع مَنَاشِرُ آئےگی اورمِنْشَارٌکی جمع مَنَاشِيْرُ آئےگی ۔‬

‫‪ ۶۳ : ۵‬یہ ضروری نہیں ہے کہ "کسی کامکو کرنے کا آلہ " کا مفہوم دینے والا ہر‬

‫لفظ مقرره وزن پر استعمال ہو ‪ ،‬بلکہ عربی زبان میں بعض آلات کے لئے الگخاص‬

‫الفاظ مقرر اور مستعمل ہیں مثلا قفل ( الا ) سکین ( چھری ) سَيْف( تلوار) قَلَمْ (قلم )‬

‫وغیرہ ۔ تاہم اس قسم کے الفاظکو ہم اسم الآلہ نہیںکہہ سکتے ۔ اس لئےکہ اسم الآلہ‬

‫وہی اسم مشتق ہے جو مقررہ اوزانمیں سےکسی وزن پربنایاگیاہو ۔‬

‫‪ ۶۳ : ۶‬اسماء مشتقه پر بات ختم کرنے سے پہلے ذہن میں دوبارہ تازہ کر کے یادکر‬

‫لیںکہ ‪:‬‬

‫ابواب مزید فیہ سے اسم الفاعل اور اسم المفعول بنانے کے لئے جبعلامت‬ ‫( ‪)1‬‬

‫مضارع ہٹا کر اس جگہ میم لگاتے ہیں تو اس پر ضمہ ( پیش )آتی ہے ۔ جیسے يُعلم‬

‫مُعَلِّم اور مُعَلَّمْ ۔‬

‫مَفْعُول اور اسم الظرف کے دونوں اوزان مَفْعَل اور مَفْعِلکی میم پر فتحہ‬ ‫(‪) ii‬‬

‫( زبر ) آتی ہے ۔‬

‫(‪ )iii‬اسم الآلہ کے تینوں اوزانکی میم پر کسرہ ( زیر) آتی ہے ۔‬

‫مشقنمبر‪۶۰‬‬

‫مندرجہ ذیل اسماء آلاتکا مادہ نکالیں ‪:‬‬

‫مغفر ( سرکی حفاظت والی ٹوپی ‪) Helmet‬‬ ‫‪۲‬‬ ‫منسج (کپڑا بننےکی کھڑی‬

‫‪ -‬مِنْقَب ( سوراخکرنے یا ‪Drilling‬کرنے کی مشین ) ‪ ۴-‬مِدْفَع (توپ) ‪۵‬‬

‫مِنْجَل(درانتی ) ‪ - ٦‬مِسْطَر( لکیربنانے کا رولر ) ‪ ۷-‬مِكْتَسَةٌ ( جھاڑو ) ‪ ٨-‬مِلْعَقَةٌ‬

‫نچه ) ‪- ۹‬مِنْشَفَةٌ ( تولید ) ‪ -١٠-‬مِطْرَقَةً (خراد مشین ) الـ مِغْرَفَةٌ ( ژونگا ) ‪ ۱۲-‬مفتاح‬

‫(نجی ) ‪ ۱۳-‬مِقْرَاضٌ ( قیچی ) ‪ - ۱۴‬مِنظار ( دوربین ) ‪ - ۱۵‬مِنْفاخ( ہوا بھرنے کا‬


‫ک‬

‫پپ) ‪ ۱۲-‬مِصْبَاح(چراغ )‬
‫‪۴۳‬‬

‫صحیح افعال‬
‫غیر‬

‫‪ ۶۴ : ۱‬عربی میں فعلکی تقسیمکئی لحاظ سے کی گئی ہے ۔ مثلا زمانہ کے لحاظ سے فعل‬

‫ماضی اور مضارعکی تقسیم یا مادہ میں حروفکی تعداد کے لحاظ سے ثلاثی اور رباعی کی‬

‫تقسیم ۔ یا فعل ثلاثی مجرد و مزید فیہ فعل معروف و مجهول اور فعل لازم و متعدی‬

‫وغیرہ ۔ اسی طرح افعال صحیح اور افعالغیر صحیحکی بھی ایک تقسیم ہے ۔‬

‫‪ ۶۴ : ۲‬جو فعل اپنے وزن کے مطابق ہی استعمال ہوتا ہے اسے فعل صحیحکہتے ہیں ۔‬

‫لیکن کچھ افعال بعض اوقات ( ہمیشہ نہیں ) اپنے صحیح وزن کے مطابق استعمال نہیں‬

‫ہوتے ۔ مثلا لفظ "گان " آپ پڑھ چکے ہیں ۔ اسکا مادہ ک و ن ہے " اس کا پہا !‬

‫صیغہ فَعَلَ کے وزن پر " كَونَ " ہونا چاہئے تھا لیکن اس کا استعمال گان ہوتا ہے ۔‬

‫چنانچہ ایسے افعالکو اسکتابمیں ہم غیر صحیح افعالکہیں گے ۔‬

‫غیر صحیح افعال "کی اصطلاح کا‬ ‫‪ ۶۴ : ۳‬عربی گرامرکی کتابوں میں عام طور پر‬

‫استعمال ‪ ،‬انکی تقسیم اور پھر انکی ذیلی تقسیم مختلفانداز میں دی ہوئی ہے جو اعلیٰ‬

‫علمی سطح کی بحثہے ۔ اور ابتدا سے ہی طلبہکو اسمیں الجھا دینا انکے ساتھ زیادتی‬

‫ہے ۔ اس لئے ان سے گریزکی راہ اختیارکرتے ہوئے غیرصحیحکی اصطلاح میں ہم‬

‫ایسے تمام افعالکو شاملکر رہے ہیں جو کسی بھی وجہ سے بعض اوقات اپنے صحیح وزن‬

‫کے مطابق استعمال نہیں ہوتے ۔‬

‫‪ ۶۴ : ۴‬اب ہمیں ان وجوہات کا جائزہ لینہاے جنکی وجہ سےکوئی فعل "غیرصحیح "‬

‫ہو جاتا ہے ۔ لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ آپ ہمزہ اور الف کا فرق اور‬

‫حروف علت " کا مطلبسمجھ لیں ۔‬

‫‪ ۶۴ : ۵‬عربی میں ہمزہ اور الف دو مختلف چیزیں ہیں ۔ ان میں جو بنیادی فرق ہے‬
‫‪۴۴‬‬

‫انہیں ذہن نشینکر کے یادکرلیں ۔‬

‫ہمزہ پرکوئی حرکت یعنی ضمہ ‪ ،‬فتحہ کسرہ یا علامت سکون ضرور ہوتی ہے یعنی یہ‬ ‫(‪) i‬‬

‫خالی نہیں ہوتا ۔ جبکہ الف پرکوئی حرکت یا سکونکبھی نہیں آتا اور یہ ہمیشہ خالی‬

‫کفوکھینچنے کاکام‬
‫ہوتا ہے ۔ اور صرف اپنے سے ماقبل مفتوح ( زبر والے ) حر‬

‫دیتا ہے جیسےب سے با ۔‬

‫ہمزہکسی لفظ کے ابتداء میں بھی آتا ہے ‪ ،‬درمیان میں بھی اور آخر میں بھی ‪ ،‬جبکہ‬ ‫( ‪)ii‬‬

‫الف کسی لفظ کے ابتداء میں کبھی نہیں آتا ‪ ،‬بلکہ یہ ہمیشہکسی حرف کے بعد آتا‬

‫ہے ۔ آپکو اِنْسَانُ أَنْهَارُ اُمَّهَاتُ جیسے الفاظ کے شروع میں جو " الف "‬

‫نظرآتا ہے ‪ ،‬یہ در حقیقت الف نہیں ہے بلکہ ہمزہ ہے ۔ جبکہ انہی الفاظ کے‬

‫حروف "س " اور " "کے بعد ہمزہ نہیں بلکہ الف ہے ۔‬

‫(‪ )iii‬ہمزہ سے پہلے حرفپر حرکات ثلاثہ یاسکون میں سے کچھ بھی آسکتا ہے جبکہ الف‬

‫سے پہلے حرفپر ہمیشہ فتحہ (زبر)آتی ہے ۔‬

‫( ‪ ) iv‬کسی مادہ میں فا عین یا لامکلمہ کی جگہ ہمزہ آ سکتا ہے جبکہ الفکبھی کسی مادہ کا جز‬

‫نہیں ہوتا ۔‬

‫‪ ۶۴ :‬حرف علت ایسے حرفکو کہتے ہیں جو کسی مادہ میں آجائےتو وہ فعل غیرصحیح‬

‫ہو جاتا ہے ۔ ایسے حروف دو ہیں ‪ ،‬واؤ ( و) اور یا ( ی) ۔ عربیگرامرکی اکثرکتابوںمیں‬

‫الفکو بھی حرف علت شمارکیا گیا ہے ۔ لیکن چونکہ الف کسی مادہ کا جز نہیں بنتا اس‬

‫لئے اسکتاب میں ہم حروف علتکی اصطلاح صرف "و " اور " ی " کے لئے‬

‫استعمالکریں گے ۔‬

‫‪ ۶۴ :‬کسی فعل کے غیرصحیح ہونے کی تین وجوہات ہوتی ہیں ۔کسی مادہ میں جب فا‬

‫(‪ )ii‬ایک ہی حرف دو مرتبہ آ‬ ‫عین اورلامکلمہ میں کسی جگہ پر ( ‪ )1‬جب ہمزہ آجائے‬

‫جاۓ یا (‪ )iii‬کسی جگہکوئی حرف علت آجائے ۔ ان وجوہاتکی بنیاد پر افعال صحیح‬

‫اور غیر صحیح آجکلسات قسمیں بنتی ہیں ۔ آپانہیں سمجھکریادکرلیں ۔‬


‫‪۴۵‬‬

‫صحیح ‪ :‬جس کے مادےمیںنہ ہمزہ ہو نہ ایکحرفکی تکرار ہو اور نہ ہیکوئی‬ ‫( ‪)1‬‬

‫حرفعلتہو جیسے دَخَلَ۔‬

‫مهموز ‪ :‬جس کے مادہ میںکسی جگہ ہمزہ آجائے جیسے اكَلَ سَئَلَ قَرَءَ‪-‬‬ ‫(‪) ۲‬‬

‫( ‪ ) ۳‬مضاعف ‪ :‬جس کے مادہ میںکسی حرفکی تکرار ہو جیسے ضَل۔‬

‫( ‪ ) ۴‬مثال ‪ :‬جس کےمادہ میں فاکلمہکی جگہ حرفعلت آئے جیسے وَعَدَ ۔‬

‫اجوف ‪ :‬جس کے مادہ میں عین کلمہکی جگہ صرفعلتآئے جیسے قول ۔‬ ‫( ‪)۵‬‬

‫ناقص ‪ :‬جسکےمادہ میں لامکلمہکی جگہ حرفعلت آئے جیسے خشی ۔‬ ‫(‪) ۲‬‬

‫( ‪ ) ۷‬لفیف ‪ :‬جس کے مادہ میں حرف علت دو مرتبہ آئے جیسے وَقَی ۔‬

‫‪ ۶۴ :‬اب ایک اہم بات یہ نوٹکرلیں کہ ابتکمادہ کے حروفکی جو بات‬

‫ہوئی ہے اسکی بنیاد فائین اور لامکلمہ ہے ۔ اس لئےکسی لفظ میں اگر فائین اور‬

‫لامکلمہ کے علاوہکسی جگہ ہمزہ یا حرف علت آجائے تو اسکی وجہ سے وہ لفظ غیرصحیح‬

‫شمارنہیں کیا جائے گا ۔ جیسے باب افعال کا پہلا صیغہ افعل ہے ۔ اس کا ہمزہ ف ع یا ل‬

‫کلمہکی جگہ نہیں ہے ۔ اس لئے صحیح حروف کے مادوں سے جتنے الفاظ اس وزن پر‬

‫بنیں گے وہ مہموز نہیں ہوںگے ۔ مثلاً ادْخَلَ اكْرَمَ أَخْرَجَ وغیرہ معموز نہیں ہیں ۔‬

‫اسی طرحماضی معروف میں مذکرغائب کے لئے تشنبہ اور جمع کے صیغوںکا وزن فَعَلاً‬

‫اور فَعَلُوا ہے ۔ ان میں " الف " اور " و " ہیں لیکن یہ بھی فعال کے علاوہ ہیں ۔‬

‫اس لئے صحیح حروف کے مادوں سے جتنے الفاظ ان او زان پر بنیں گے وہ غیرصحیح نہیں‬

‫ہوں گے ۔ مثلا ضَرَبَا ضَرَبُوْا يَا شَرِبَا شَرِبُوا وغیرہ ۔ باب تفعیل اور تفعل میں‬

‫مینکلمہ پر تشدید آنےکی وجہ سے وہ مضاعفنہیں ہوتے ‪ ،‬اس لئےکہ وہاںعین کلمہ‬

‫ہی کی تکرار ہوتی ہے ۔‬


‫مشقنمبر‬
‫‪۶۲‬‬

‫مندرجہ ذیل مادوں کے متعلق بتائیے کہ وہ ہفت اقسامکی کونسی قسم سے متعلق‬

‫ہیں ۔ جو مادے بیک وقت دو اقسام سے متعلق ہوں انکی دونوں اقسام بتائیں ۔‬

‫س ر رء س س ۔‬ ‫روی و ر ی ی س ر‬ ‫م م ج ی‬
‫ء م ر‪·.‬‬
‫رض و ‪ -‬ر ء ی ‪ -‬وق ی ۔ ب رء‪-‬‬ ‫ق و ل ‪ -‬ب ی ع ۔ س وی‬
‫‪-‬‬

‫س ء ل۔‬
‫‪۴۷‬‬

‫( ‪)1‬‬ ‫مهموز‬

‫‪ ۶۵ : ۱‬گزشتہ سبق میں آپ پڑھ آئے ہیں کہ جس فعلکے مادہ میںکسی جگہ ہمزہ‬

‫آ جائےتو اسے مہموزکہتے ہیں ‪،‬اب یہ بھی نوٹکرلیں کہ اگر فاءکلمہکی جگہ ہمزہ آتا‬

‫ہے تو اسے مہموز الفاءکہتے ہیں جیسے اگل ۔ اگر عین کلمہکی جگہ ہمزہ آئے تو وہ مہموز‬

‫العین ہوتا ہے جیسے سَئل اور اگرلامکلمہ کی جگہ ہمزہ ہو تو وہ مہموزاللام ہوتا ہے جیسے‬

‫فَرَءَ‬

‫‪ ۶۵ : ۲‬زیادہ تر تبدیلیاں مہموز الفاء میں ہوتی ہیں جبکہ مہموز العین اور مہموز اللام‬

‫میں تبدیلی بہتکم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔ مہموز الفاء میں تبدیلیاں دو طرح‬

‫(‪ ) ۱‬لازمی تبدیلی اور ( ‪ ) ۲‬اختیاری تبدیلی ۔ لازمی تبدیلی کا مطلب‬ ‫کی ہوتی ہیں ۔‬

‫یہ ہے کہ تمام اہل زبان یعنی عرب کے تمام مختلف قبائل ایسے موقع پر لفظکو ضرورہی‬

‫بدلکر بولتے اور لکھتے ہیں ۔ اور اختیاری تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ عرب کے بعض‬

‫قبائل ایسے موقع پر لفظکو اصلی شکل میں اور بعض قبائل تبدیل شدہ شکل میں بولتے‬

‫اورلکھتے ہیں ۔ اسی لئے دونوں صورتیں جائز اور رائج ہیں ۔‬

‫‪ ۶۵ : ۳‬اب مهموز کے قواعد سمجھنے سے پہلے ایک بات اور سمجھ لیںکسی حرف پر‬

‫دیگئی حرکتکو ذراکھینچکر پڑھنے سےکبھی الف کبھی "و " اورکبھی "ی " پیدا ہوتی‬

‫ہے ۔ مثلا ب سے بَابُ سے بُو اور بِ سے بنی وغیرہ۔ چونکہ فتحہ کو کھینچنے‬
‫سے‬

‫" الف " ضمہکو کھینچنے سے ”و “ اورکسرہ کو کھینچنے سے "ی "پیدا ہوتی ہے اس لئے‬

‫کہتے ہیںکہ ‪:‬‬

‫فتحہکو الف سے ( ہمزہ سے نہیں ) مناسبت ہے ۔‬ ‫(‪) 1‬‬

‫اور‬ ‫ضمہکو "و " سے مناسبت ہے‬ ‫(‪)ii‬‬


‫‪۴۸‬‬

‫(‪ )iii‬کسرہکو "ی " سے مناسبت ہے ۔‬

‫‪ ۶۵ : ۴‬مهموز الفاء میں لازمی تبدیلی کا صرف ایک ہی قاعدہ ہے اور وہ یہ کہ جب‬

‫کسی لفظ میں دو ہمزہ اکٹھے ہوں اور ان میں سے پہلا متحرک اور دوسرا ساکن ہو تو‬

‫دوسرے ہمزہ کو پہلے ہمزہ کی حرکت کے موافق حرفمیں لازماً بدل دیا جاتا ہے ۔ یعنی‬

‫پہلے ہمزہ پر اگر فتحہ (‪ ) --‬ہو تو ساکن ہمزہ کو الف سے کسرہ (‪ )--‬ہوتو "ی " سے اور ضمہ‬

‫( ‪ ) --‬ہو تو "و " سے بدلکر بولتے اورلکھتے ہیں ۔‬

‫‪ ۶۵ : ۵‬مثال کے طورپر ہم لفظ امین ( امن میں ہونا )کو لیتے ہیں ۔یہ لفظ باب افعال‬

‫کے پہلے صیغہ میں اَفْعَلَ کے وزن پر آ آمَنَ بنے گا ۔ قاعدہ کے مطابق دوسرا ہمزہ‬

‫الف میں تبدیل ہو گا تو آئن استعمال ہو گا ۔ اس کا مصدرافعالکے وزن پر ا امَانُ‬

‫بنے گا لیکن ایمان استعمال ہو گا ۔ اسی طرح باب افعال میں مضارعکے واحد متکلم کا‬

‫وزن افعِلُ ہے جس پر یہ لفظ اُ امن بنے گا لیکن اُومِنْ استعمال ہوگا ۔‬

‫‪ ۶۵ :‬مذکورہ بالا قاعدہکو آسانی سے یادکرنے کی غرض سے ایک فارمولےکی‬

‫=‬ ‫شکل میں یوس بھی بیانکر سکتے ہیں کہ ‪:‬‬


‫‪ -‬ا ء ‪ -‬وی اورغ ‪ -‬و ۔ یہ بھی نوٹ‬

‫کرلیںکہ ہمزہ مفتوحہ ( ‪ ) ۶‬کے بعد جب الف آتا ہے تو اسکو لکھنے کے تین طریقے‬

‫( ‪ )۳‬آ ۔ ان میں سے تیسرا طریقہ عام عربی میں بلکہ اردو میں بھی‬ ‫‪۱ )۲( ۱‬‬ ‫ہیں ۔ (‪) ۱‬‬

‫مستعمل ہے جبکہ پہلا اور دوسرا طریقہ صرف قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے ۔‬

‫‪ ۶۵ :‬مهموز میں اختیاری تبدیلیوں کے قواعد سمجھنے سے پہلے ایک باتذہن میں‬

‫واضحکر لیں ۔ ابھی پیراگراف ‪ ۶۵ : ۴‬میں آپپڑھ آئے ہیں کہ لازمی تبدیلی‬

‫وہیں ہوتی ہے جہاں ایک ہی لفظ میں دو ہمزہ اکٹھے ہو جائیں ۔ اب نوٹکر لیںکہ‬

‫اختیاری تبدیلی اس وقت ہوتی ہے جبکسی لفظ میں ہمزہ ایک دفعہ آیا ہو ۔‬

‫‪ ۲۵ :‬اختیاری تبدیلی کا پہلا قاعدہ یہ ہے کہ ہمزہ ساکن ہو اور اس کے ماقبل‬

‫ہمزہ کے علاوہکوئی دوسرا حرف متحرک ہو تو ایسی صورتمیں ہمزہ کو ماقبلکی حرکت‬
‫‪۴۹‬‬

‫کے موافق حرف میں تبدیلکر دینا جائز ہے ۔ جیسے رَاسٌکو رَاسٌ ذِئْبُ (بھیڑیا )کو‬

‫ذیب اور مومنکو مُؤْمِنٌ بولایا لکھا جا سکتا ہے اور بعض قراء توںمیں یہ لفظ اسی طرح‬

‫پڑھے بھی جاتے ہیں ۔‬

‫‪ ۶۵ : ۹‬اختیاری تبدیلی کا دوسرا قاعدہ یہ ہے کہ ہمزہ اگر مفتوحہ ہو اور اس کے‬

‫ما قبل حرف پر ضمہ یا کسرہ ہو تو ہمزہ کو ما قبل حرکت کے موافق حرف میں تبدیل کر دینا‬

‫جائز ہے ۔ لیکن تبدیل شدہ حرفپر فتہ بر قرار رہےگی ۔ جیسے ہراکو هُزُوا اور كَفُوا‬

‫کو کفوا پڑھا جا سکتا ہے ۔ قراءت حفص میں ‪ ،‬جو پاکستان اور دیگر مشرقی ممالکمیں‬

‫رائج ہے یہالفاظ اپنی بدلی ہوئی شکل میں هُزُوا اور كُفُوا پڑھے جاتے ہیں‪،‬مگر‬

‫ورشکی قراءت میں ‪،‬جو بیشترافریقی ممالکمیں رائج ہے‪،‬یہ الفاظ اپنی اصلی شکل میں‬

‫هزءا اور کفوا پڑھے جاتے ہیں ۔ خیال رہےکہ اصلی شکل میں "و " صرف ہمزہ کی‬

‫کری ہے جبکہ دوسری صورتمیں وہ تلفظ میں آتی ہے ۔ اسی طرح مِئَةٌ ( ایک سو )کو‬

‫مِيَةٌ فِئَةٌكوفية اور لِئَلاکو لیلا پڑھا جا سکتا ہے اور بعض دوسری قراء توں میں یہ لفظ‬

‫اس طرحپڑھے بھی جاتے ہیں ۔‬

‫‪ ۶۵ : ۱۰‬اختیاری تبدیلی کا تیسرا قاعدہ یہ ہے کہ اگر ہمزہ متحرک ہو اور اس سے‬

‫ما قبل ساکن واو ( و) یا ساکن یا ء " ی " ہو تو ہمزہکو ما قبل حرف میں بدلکر دونوں کا‬

‫بنتی ہے اور بعض‬ ‫ادغام کر سکتے ہیں ۔ جیسے نَبا سے فَعِیل کے وزن پر صفت نہی‬

‫قرآتمیں یہ لفظ اسی طرح پڑھا بھی جاتا ہے ‪ ،‬جبکہ ہماری قراتمیں اسکو بدلکر نبی‬

‫‪ -‬بني ‪ -‬نَبِيٌّ‬ ‫پڑھا جاتا ہے ۔ یعنی نَبِی‬

‫‪ ۶۵ : ۱۱‬مذکورہ بالا قواعد کی مشق کے لئے آپکو دیئے ہوئے لفظکی صرف صغیر‬

‫کرنی ہوگی ۔ اسکی وضاحت کے لئے ہم ذیل میں لفظ امن کی ثلاثی مجرد اور باب‬

‫افعال سے صرف صغیر دے رہے ہیں ۔ اسکی پہلی لائن میں لفظکی اصلی شکل اور‬

‫دوسری لائن میں تبدیل شدہ شکل دیگئی ہے ۔ دوسری لائن میں جو اشارے دیئے‬

‫گئے ہیں انکی وضاحت درجذیل ہے ۔‬


‫‪۵۰‬‬

‫( ل ) ‪ -‬لازمی تبدیلی ۔‬

‫( ج ) ‪ -‬جائز یعنی اختیاری تبدیلی ۔‬

‫(‪ - ) x‬تبدیلی نہیں ہوگی ۔‬

‫صرف صغیر‬

‫مصدر‬ ‫اسم الفاعل اسم المفعول‬ ‫فعلامر‬ ‫مضارع‬ ‫ماضی‬ ‫باب‬

‫آمَنُ‬ ‫مَأْمُونَ‬ ‫آمِنٌ‬ ‫إِثْمَنُ‬ ‫يَأْمَنُ‬ ‫آمِنَ‬ ‫ملاثی مجرد‬

‫( ‪)x‬‬ ‫مَامُونَ(ج)‬ ‫(‪)x‬‬ ‫يَامَنُ (ج) إِيْمَنُ ( ل)‬ ‫)‪(x‬‬

‫الْمَانٌ‬ ‫مُؤْمَنٌ‬ ‫مُؤْمِنٌ‬ ‫اَ أَمِينُ‬ ‫يُؤْمِنُ‬ ‫اأمَنَ‬ ‫بابافعال‬

‫(ج) مُؤْمَنُ(ج) إِيْمَانُ( ل)‬ ‫مُؤمِ‬ ‫آمِنُ(ل )‬ ‫آمَنَ(ل) يُؤْمِنُ ( ج)‬

‫مشق نمبر‪۶۳‬‬

‫ثلاثی مجرد اور ابواب مزید فیہ سے ( باب انفعال کے سوا ) لفظ " الف "کی صرف‬

‫صغیر اوپر دی گئی مثال کے مطابق کریں ۔ یہ لفظ مختلف ابواب میں جن معانی میں‬

‫استعمال ہوتا ہے وہ نیچے دیئے جارہے ہیں ۔‬

‫ألف (س) الفا ‪ -‬مانوس ہوتا محبتکرنا ۔ ( افعال ) مانوسکرنا خوگر بنانا ۔‬

‫( تفعیل) ‪ -‬جمعکرنا اکٹھاکرنا ۔ ( مفاعله ) = باہم محبتکرنا الفتکرنا ۔‬

‫اکٹھا ہونا ۔ ( افتعال ) ۔ متحد ہونا ۔‬ ‫( تفعل) اکٹھا ہونا ۔ ( تفاعل )‬

‫( استفعال ) = الفت چاہنا ۔‬


‫مهموز (‪) ۲‬‬

‫‪ ۶۶ : ۱‬آپ نے گزشتہ سبق میں مہموز کے قواعد پڑھ لئے اور کچھ مشق بھیکرلی‬

‫ہے ۔ اب اس سبق میں مہموز کے متعلق کچھ مزید باتیں آپ نے سمجھنا ہیں جو قرآن‬

‫ضمی کے لئے ضروری ہیں ۔‬

‫‪ ۲۶ : ۲‬موز الفا کے تین افعال ایسے ہیں جن کا فعل امر قاعدے کے مطابق‬

‫استعمال نہیں ہوتا ۔ انہیں نوٹکر لیں ۔ امر ( ن ) = حکم دینا اكل ( ن ) =کھانا اور‬
‫=‬
‫أخَذَ (ن) ۔ پکڑنک‬
‫اے فعل امرکی اصلی شکل بالترتیب او مرُ اؤْكُل اور اُو خُذُ بنتی ہے‬

‫پھر قاعدے کے مطابق انہیں اُو مو أوكل اور اُو خُذ استعمال ہونا چاہئے تھا لیکن یہ‬

‫خلاف قاعده مُرُ كُلِّ اور خُذُ استعمال ہوتے ہیں ۔‬

‫‪ ۶۶ : ۳‬لفظ اخذ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ باب افتعال میں بھی خلاف‬

‫قاعدہ استعمال ہوتا ہے جس میں اسکی اصلی شکل الْتَخَذَ يَأْتَخِذُ الْبِحَاذَا فتىہے‬

‫جسے قواعد کے مطابق تبدیل ہو کر ابْتَخَذَ يَا تَخِذُ ابْتِخَاذَا ہونا چاہئے تھا ۔ لیکن اہل‬

‫"کو "ت " میں بدلکر افتعال والی " ت " میں ادغامکر‬ ‫زبان خاصاس فعل میں "‬

‫اِلْتَخَذَ پھر اتَّخَذَ ‪ -‬اسی طرح اس کا مضارع يَأْتَخِذُے‬ ‫دیتے ہیں ۔ یعنی انتخَذَ‬

‫اتحاد (پکڑنا بنا لینا ) استعمال ہوتا‬


‫يَنتَخِذُ پھيرَتَّخِذُ اور مصدراِنْتِخَاذْسے اتحاد پھر‬

‫ہے ۔ خیال رہےکہ مذکورہ تینوں افعال کے فعل امرحاضرکی بدلی ہوئی شکل من كُل ‪،‬‬

‫خُذْ اور اتَّخَذَ سے مختلف صیغے قرآنکریم میں بکثرت اور با تکرار استعمال ہوئے‬

‫ہیں ۔‬

‫‪ ۱۶ : ۴‬مهموز العین میں ایک لفظ سئل کے متعلق بھی کچھ باتیں ذہن نشینکر‬

‫لیں ۔ اس کے مضارعکی اصلی شکل بسالی بنتی ہے اور زیادہ تربیبی استعمالبھی ہوتی‬

‫ہے ۔ البتہ قرآن میں یہ بصورت " يَسْئَلُ " بھی لکھا جاتا ہے ۔ لیکن کبھی کبھی اسے‬
‫کی اصلی شکل‬
‫خلافقاعده يسل بھی استعمالکرتے ہیں ۔ اسی طرح اس کے فعل امر‬

‫اسئلبنتی ہے ۔ یہ اگر جملہ کے درمیان میں آئے تو زیادہ تر اسی طرح استعمال ہوتی‬

‫‪ད་་‬استعمالکرتے ہیں جیسے " سَلْ بَنِی‬


‫ہے لیکن اگر جملہ کے شروع میں آئے تو پھر " سل "‬

‫إِسْرَائِيلَ" ‪ ( -‬البقره ‪) ۲۱۱ :‬‬

‫‪ ۶۶ : ۵‬مهموز الفاء کے جن صیغوں میں فاکلمہ کا ہمزہ اپنے ماقبل ہمزہ الوصلکی‬

‫حرکتکی بنا پر لازمی قاعدہ کے تحت " و " یا " ی " میں تبدیل ہو جاتاہے ایسے صیغوں‬

‫سے قبل اگرکوئی آگے ملانے والا حرف مثلاً " و " یا " فَ "یا " ثُمَّ " وغیرہ آجائے تو بدلی‬

‫ہوئی " و " یا "نی "‬


‫کی جگہ ہمزہ واپس آجاتا ہے اور ماقبل سے ملاکرپڑھا جاتاہے اور‬

‫ہمزۃ الوصل صامت ہو جاتا ہے بلکہ اکثرلکھنے میں بھی گرا دیا جاتا ہے ۔ جیسے "ام ر "‬

‫سے باب افتعال میں فعل امر قاعدہ کے تحت ایتمز ( مشورہکرنا ‪ ،‬سازشکرنا ) بنا تھا‬

‫اسے " و " کے بعد واتمز لکھا اور پڑھا جائے گا ۔ اسی طرح اذِنَ کا فعل امرائذن بنا‬

‫تھا‪،‬یہ فَأذَنُ ہوگا ۔ ان دونوں مثالوں میں ہمزہ اصلیہ واپس آیا ہے اور ہمزۃ الوصل‬

‫لکھنے میں بھی گرگیاہے ۔ بلکہ ایسی صورتمیں فعل امر " من "کا بھی ہمزہ اصلیہ لوٹ‬

‫آتا ہے اور وہ وامز ہو جاتا ہے ۔ لیکن کل اور خُذ کا ہمزہ اصلیہ نہیں لوٹا اور انکو‬

‫وَكُلِّ اور وَ خُذْ ہی پڑھتے ہیں ۔‬

‫فاللام اسم آجائےتو ایسی صورتمیں‬


‫ہمزہ استفہام کے بعد اگرکوئی معر ب‬ ‫‪:‬‬

‫ہمزہ استفہامکو " مد " دے دیتے ہیں ۔ جیسے اَ الرَّجُلُ (کیا مرد )کو الرَّجُلُلکھا اور‬

‫اللہ (کیا اللہ )کو اللہ وَ الذَّكَرَيْنِ (کیا دو نر جانور)کو الله‬ ‫بولا جائےگا ۔ اسی طرح‬

‫كَرَيْنِ اور ا الْآنَ (کیا اب )کو عام عربی میں تو " الآن "مگرقرآن مجید میں " الفن "‬

‫لکھتے ہیں ۔‬

‫‪ ۶۶ :‬دوسری صورت یہ ہے کہ ہمزہ استفہام کے بعد ہمزۃ الوصل سے شروع‬

‫ہونے والاکوئی فعل آجائے ‪ ،‬مثلاً باب افتعال استفعال وغیرہ کا کوئی صیغہ تو ایسی‬

‫صورتمیں صرف ہمزہ استفہام پڑھا جاتا ہے اور ہمزۃ الوصللکھنے اورپڑھنے دونوں‬
‫‪۵۳‬‬

‫میں گرا دیا جاتا ہے ‪ ،‬جیسے آ اِتَّخَذْتُمْ )کیا تم لوگوں نے بنا لیا )کو اتَّخَذْتُمْ لکھا اور بولا‬

‫جائے گا ۔ اسی طرح اَ اِسْتَكْبَرُتَ (کیا تو نے تکبرکیا ؟) کو اَسْتَكْبَرُتَ اور ا‬

‫اسْتَغْفَرْتَ (کیا تو نے بخشش مانگی ؟)کو اسْتَغْفَرْتَلکھا اور بولا جائے گا۔‬

‫‪ ۶۶ :‬همزة استفہامکی مذکورہ بالا دونوں صورت حال کے متعلق یہ بات ذہن‬

‫نشینکرلیں کہ اس پر لازمی تبدیلی والے قاعدےکا اطلاق نہیں ہو تا۔ اس قاعدے‬

‫کی دو شرائط ہیں جو مذکورہ صورت حال میں موجود نہیں ہیں ۔ لازمی قاعدہکی پہلی‬

‫شرط یہ ہےکہ ایک ہی لفظ میں دو ہمزہ اکٹھے ہوں جبکہ مذکورہ بالا صورت حال میں‬

‫ہمزہ استفهام متعلقہ لفظ کا حرف نہیں ہوتا ۔ اس لئے یہ شرط پوری نہیں ہوتی ۔‬

‫دوسری شرط یہ ہےکہ دوسرا ہمزہ ساکن ہو جبکہ مذکورہ بالا صورت حالمیں ہمزۃ‬

‫الوصل متحرک ہوتا ہے ۔ اس لئے یہ شرط بھی پوری نہیں ہوتی ۔ اسی لئے مذکورہ بالا‬

‫تبدیلیوںکو الگلکھاگیا ہے ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫اَخَذَ(ن)اَخُذا = پکڑنا‬ ‫امِينَ (س‬


‫) امنا = امن میں ہونا‬

‫(افتعال) = بنالینا‬ ‫)اَمَانَةٌ = امانت دارہونا‬


‫(ک‬

‫أذِنَ (‪)3‬أَذَنا = کانلگاکرسننا اجازتدینا‬ ‫(افعال) = امن دینا تصدیقکرنا‬

‫(تفعیل) = آگاہکرنا اذان دینا‬ ‫اخ ر۔ ثلاثی مجرد سے فعل استعمال نہیں ہوتا‬

‫) اَمْرًا = حکم دینا‬


‫أَمَرَ(ن‬ ‫(تفعیل ) = پیچھےکرنا‬

‫= حاکم ہوتا‬
‫امارة ‪-‬‬ ‫اس‬ ‫( تفعل استفعال) = پیچھے رہنا‬

‫عَدَلَ(ض)عَدْلاً = برابرکرنا‬ ‫آخر = دوسرا‬

‫عدل = برابرکی چیز مثل انصاف‬ ‫آخر = آخری‬

‫قبلاسقبُولاً ‪ -‬قبوکلرتا‬
‫نمبر‪۶۴‬‬
‫مشق‬

‫مندرجہ ذیل قرآنی عبارتوں میں ‪:‬‬

‫( ‪ )i‬مهموز اسماء و افعال تلاشکریں‬

‫(‪ )ii‬انکی اقسام مادہ اور صیغہ بتائیں‬

‫(‪ )iii‬مکمل عبارتکا ترجمہکریں ۔‬

‫( ‪ ) 1‬وَمِنَ النَّاسِمَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ ( ‪ )۳‬يَأْدَمُ‬

‫اسْكُنْ أنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلاَ مِنْهَا ( ‪ ) ۳‬وَلَا يُقْبَلُمِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ‬

‫مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ ( ‪ ) ۳‬كُلُوا وَاشْرَبُوْا مِنْرِزْقِ اللَّهِ ( ‪ ) ٥‬وَقَالُوا اتَّخَذَ‬

‫الله وَلَدًا ( ‪ ) 1‬فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّى يُهَاجِرُوْا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ ( ‪ ) ۷‬يَأَيُّهَا‬

‫( ‪ ) ۸‬فَآذَنَ مُدوّن بَيْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللهِ عَلَى‬ ‫الَّذِينَ آمَنُوا أَمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ‬

‫)‪ )(۹‬فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأمْرُ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا (‪ ) ١٠‬وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا‬
‫الظَّلِمِينَ ( ‪9‬‬

‫لَمْ يُذْكَرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ ( ‪ ) ۱‬وَإِذَا قُرِىالْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ( ‪ )۱۳‬لَوْانْفَقْتَ مَا‬

‫فِي الْأَرْضِجَمِيْعًا مَّا الَّفْتَبَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ الَّفَبَيْنَهُمْ ( ‪ ) ۱۳‬وَمِنْهُمْ مَّنْ‬

‫يقُولُالدَنْ لَى ( ‪ ) ١٣‬وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأخِرِيْنَ ( ‪ )۲۵‬مَا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ‬
‫مضاعف (‪)1‬‬

‫(ادغام کے قاعدے )‬

‫‪ ۶۷ : ۱‬سبق نمبر ‪ ۶۴‬میں آپپڑھ چکے ہیں کہ مضاعف ایسے اسماء و افعالکو کہتے‬

‫ہیں جن کے مادے میں ایک ہی حرف دو دفعہ آجائے یعنی " مِثْلَيْن "یکجا ہوں ۔ ایسی‬

‫صورت میں عام طور پر دونوں حروفکو ملاکر پڑھتے ہیں ‪،‬یعنی " حَبَب "کی بجائے‬

‫ادغام "کہتے ہیں ۔ لیکن کبھی کبھی مسلمین کا ادغام نہیں کیا جاتا بلکہ‬ ‫" حب" اور اسے‬

‫الگالگ ہی پڑھتے ہیں جیسے مَدَدَ ( مددکرنا ) اسے " فَاتِ ادغام "کہتے ہیں ۔ اور اب‬

‫ہمیں انہی کے متعلق قواعد کا مطالعہکرتا ہے ۔ چنانچہ اس سبق میں ہم ادغام کے قواعد‬

‫سمجھیں گے اور ان شاء اللہ اگلے سبق میں فک ادغام کے قواعد کا مطالعہ‬

‫کریں گے ۔‬

‫‪ ۶۷ : ۲‬قواعد کا مطالعہ شروعکرنے سے پہلے یہ باتذہن میں واضحکرلیںکہکسی‬

‫مادے میں مثلینکی موجودگی کی مختلف صورتیں ہیں ۔ ایک صورت یہ ہے کہ مادہ کا‬

‫فا کلمہ اور لامکلمہ ایک ہی حرف ہو ۔ جیسے قلق بے چینی ) ثلث ( ایک تہائی وغیرہ ۔‬

‫یہاں مثلین موجود تو ہیں لیکن مُلحق ( ملے ہوئے ) نہیں ہیں بلکہ انکے درمیان ایک‬

‫دوسرا حرف حائل ہے ۔ اس لئے ان کے ادغامکی ضرورت نہیں رہتی اور وہ اسی‬

‫طرحپڑھے جاتے ہیں ۔‬

‫مثلین کے ملحق ہونے کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ کسی مادے کا‬ ‫‪۶۷ : ۳‬‬

‫فا کلمہ اور عینکلمہ ایک ہی حرف ہوں جیسے دَدَنُ(کھیل تماشا) ببر (شیر) وغیرہ ۔ ایسی‬

‫صورتمیں بھی ادغام نہیں کیا جاتا۔ دوسری صورت یہ ہے کہکسی مادہ کا عینکلمہ‬

‫اورلامکلمہ ایک ہی حرف ہو جیسے مَدَدْ شَفَق وغیرہ ۔ یہاں فیصلہکرنا ہوتا ہےکہ‬

‫ادغام ہو گایا فک ادغام ہو گا ۔چنانچہ جن قواعد کا ہم مطالعہ کرنے جا رہے ہیں انکے‬
‫‪۵۶‬‬

‫متعلق یہ بات نوٹکرلیں کہ ان کا تعلق مضاعفکی صرف اس قسم سے ہے جہاں‬

‫عین اور لامکلمہ ایک ہی حرف ہوں ۔ مضاعفکی بقیہ اقسام کا ان قواعد سےکوئی‬

‫تعلق نہیں ہے ۔ نیز یہ بھی نوٹکر لیں کہ عین کلمہ کے حرف کے لئے ہم "مثل‬

‫اور لام کلمہکی جگہ آنے والے اس حرفکے لئے " مثل ثانی "کی اصطلاح‬ ‫اول‬

‫استعمالکریں گے ۔‬

‫‪ ۱۷ : ۴‬ادغام کا پہلا قاعدہ یہ ہے کہ مضاعف میں اگر مثل اولساکن ہے اور‬

‫مثل ثانی متحرک ہے تو ان کا ادغام کر دیتے ہیں ‪ ،‬جیسے رَبِّ ب سے رَبِّ سِررے‬

‫سروغیرہ ۔‬

‫‪ ۶۷ : ۵‬ادغام کا دوسرا قاعدہ یہ ہےکہ مضاعفمیں اگر مثل اول اور مثل ثانی‬

‫دونوںمتحرک ہوں اور ان کا ماقبل بھی متحرک ہو تو مثل اولکی حرکتکوگراکر اسے‬

‫ساکنکر دیتے ہیں ۔ پھرپہلے قاعدے کے تحت ان کا ادغام ہو جاتا ہے جیسے مَدَدسے‬

‫مدد اور پھرمد ہو جائے گا۔ یہی مادہ جبباب افتعال میں جائےگا تو اس کا ماضی و‬

‫مضارع اصلاً اِمْتَدَدَ يَمْتَدِدُ ہوگا‪ ،‬جو اس قاعدہ کےتحت پہلے اهْتَدُدَ يَهْتَدُدُ ہوگا‬

‫پھر اِمْتَدَّ يَمْتَدُّ ہو جائےگا ۔‬

‫‪ ۱۷ :‬ادغام کا تیسرا قاعدہ یہ ہے کہ مضاعف میں اگر مثل اول اور مثل ثانی‬

‫دونوں متحرک ہوں لیکن ان کا ما قبل ساکن ہو تو مثل اولکی حرکتما قبلکو منتقلکر‬

‫کے خود اسکو ساکن کر دیتے ہیں ۔ پھرپہلے قاعدہ کے تحت ان کا ادغام ہو جاتاہے ۔‬

‫جیسے مَدَدَ (ن) کا مضارع اصلاً يمدد ہو گا ‪ ،‬جو اس قاعدہ کے تحتبعد ذ ہوگا اورپھر‬

‫يَمُدُّ ہو جائے گا ۔‬

‫‪ ۶۷ :‬مذکورہ بالا قواعدکی مشق کے لئے آپکو دیے ہوئے الفاظکی صرف صغیر‬

‫کرنی ہوگی ۔ ذیل میں ہم مادہ ش ق ق سے ثلاثی مجرد باب تفعیل اور باب مفاعلہ‬

‫کی صرف صغیردے رہے ہیں ۔ پہلی لائن میں اصلی شکل اور دوسری لائن میں تبدیل‬
‫‪۵۷‬‬

‫شدہ شکل دیگئی ہے ۔ جہاں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے وہاں ( ‪ ) x‬کا نشان لگا دیا‬

‫ہے ۔ یہاں ہم نے صرف صغیر کے صرفپانچ مہینے لئے ہیں ۔کیونکہ فعل امرپر اگلے‬

‫سبق میں بات ہوگی ( ان شاء اللہ ) ۔‬

‫مختصرصرف صغير‬

‫مصدر‬ ‫اسم الفاعل اسم المفعول‬ ‫مضارع‬ ‫ماضی‬ ‫باب‬

‫شَفْقٌ‬ ‫مَشْقُوْقٌ‬ ‫شَاقِقٌ‬ ‫يَشْقُقُ‬ ‫شَفَقَ‬ ‫ثلاثی مجرد‬

‫شَقُّ‬ ‫)‪(x‬‬ ‫شَاقٌ‬ ‫يَشُقُ‬ ‫شَقَّ‬

‫تَشْقِيقٌ‬ ‫مُشَقَّقٌ‬ ‫مُشَقِقٌ‬ ‫يُشَقِّقُ‬ ‫شَقَّقَ‬ ‫تفعل‬


‫‪(x).‬‬
‫)‪(x‬‬ ‫)‪(x‬‬ ‫)‪(x‬‬ ‫)‪(x‬‬

‫مُشَافَقَةٌ‬ ‫مُشَاقَقٌ‬ ‫مُشَاقِقٌ‬ ‫يُشَاقِقُ‬ ‫شَاقَقَ‬ ‫مفاعله‬

‫مُشَاقَةٌ‬ ‫مُشَاقٌ‬ ‫مُشَاقٌ‬ ‫يُشَاقُ‬ ‫شَاقَ‬

‫نوٹ ‪ :‬باب مفاعلہ سے اسم الفاعل اور اسم المفعولکی استعمالی شکلیکساںہے‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫شقان شفا ‪ -‬پھاڑنا‬ ‫مدرن هَذَا =کھینچنا‪ ،‬پھیلانا‬

‫( ن) مَشَقَةٌ = دشوارہونا‬ ‫= مددکرنا‬


‫(ن)هَدَدًا ‪-‬‬

‫(افعال) = مددکرنا‬
‫(تفعیل) = چیرنا‬

‫(مفاعله) = مخالفتکرنا ‪.‬‬ ‫( تفعیل ) = پھیلانا‬

‫( تفعل) = پھٹجاتا‬ ‫= ٹالمٹوکلرنا‬


‫(مفاعله) ‪-‬‬

‫(تفاعل) = آپس میں عداوت رکھنا‬ ‫( تفعل) = پھیلنا‪،‬کھینچ جانا‬

‫(افتعال ) = پھٹا ہوا ٹکڑالینا‬ ‫(تفاعل) = ملکرکھینچنا تانا‬

‫(انفعال ) = پھٹ جاتا‬ ‫(افتعال ) = درازہونا‬

‫(استفعال) = مددمانگنا‬
‫‪ΟΛ‬‬

‫مشقنمبر ‪۶۵‬‬

‫( ‪ )1‬ثلاثی مجرد اور مزید فیہ سے ( باب انفعال کے علاوہ لفظ مددکی اصلی اور استعمالی‬

‫شکلکی صرف صغیر( فعلامرکے بغیر)کریں ۔‬

‫( ‪ ) i‬ابواب تفعل ‪ ،‬تفاعل ‪ ،‬اشتعال اور انفعال سے لفظ شفقکی اصلی اور استعمالی‬

‫شکلکی صرف صغیر( فعل امرکے بغیر‬


‫) کریں ۔‬
‫مضاعف (‪)۲‬‬

‫(فک ادغام کے قاعدے )‬

‫‪ ۶۸ : ۱‬گزشتہ سبق میں ہم یہ بات نوٹکر چکے ہیں کہ مضاعف کے جن قواعد کا ہم ‪.‬‬

‫مطالعہکر رہے ہیں ان کا تعلق مضاعفکی صرف اس قسم سے ہے جہاں عینکلمہ اور‬

‫لامکلمہ ایک ہی حرف ہوں ۔ اب غورکریں کہ مضاعفکی اس قسم میں حروفکی‬

‫حرکات یا سکون کے لحاظ سے صرف درج ذیل تین ہی صورتیں ممکن ہیں ۔ چوتھی‬

‫صورتکوئی نہیں ہوسکتی ۔‬

‫پہلی صورت ‪ :‬مثل اولساکن مثل ثانی متحرک‬ ‫( ‪)1‬‬

‫دوسری صورت ‪ :‬مثل اول متحرک ‪ +‬مثل ثانی متحرک‬ ‫(‪) ii‬‬

‫‪ iii‬تیسری صورت ‪ :‬مثل اول متحرک ‪ +‬مثل ثانی ساکن‬


‫( )‬

‫پہلی دو صورتوں کے متعلق ادغام کے قواعد ہم گزشتہ سبق میں پڑھ چکے‬

‫ہیں ۔ اس سبق میں اب ہم تیسری صورت کے متعلق قواعد کا مطالعہکریں گے ۔‬

‫‪ ۶۸ : ۲‬کسی مضاعف میں اگر مثل اول متحرک اور مثل ثانی ساکن ہو تو‬

‫فک ادغام لازم ہوتا ہے ‪ ،‬یعنی ایسی صورت میں ادغام ممنوع ہوتا ہے ‪ ،‬مثلاً فَعَلْتَ‬

‫کے وزن پر مَدَدَ سے مَدَدْتَ اور شَفَقَ سے شَفَقْتَ اپنی اصلی شکل میں ہی بولا اور‬

‫لکھا جائےگا ۔‬

‫‪ ۲۸ : ۳‬اب آگے بڑھنے سے قبلمذکورہ بالا تیسری صورت کے متعلقکچھ باتیں‬

‫ذہن میں واضحکرلیں ۔ فعل ماضی کی گردان کے چودہ صیغوں پر اگر آپ غورکریں تو‬

‫آپ دیکھیں گے کہ اس کے پہلے پانچ صیغوں میں لامکلمہ متحرک رہتا ہے ‪ ،‬جبکہ چھٹے‬

‫صیغے سے آخر تک لام کلمہ ساکن ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ مضارعکیگردان میں بھی‬

‫جمع مونث کے دونوں صیغوں میں لامکلمہ ساکن ہو تا ہے ۔ اس سے آپاندازہکر‬


‫سکتے ہیں کہ فک ادغام کے مذکورہ بالا قاعدہ کا اطلاقبالعمومکہاں ہوگا ۔‬

‫‪ ۲۸ : ۴‬تیسری صورت کے واقع ہونے کی ایک وجہ اور بھی ہوتی ہے ۔ آپپڑھ‬

‫چکے ہیں کہ کسی وجہ سے مضارعکو جب مجزوم کرنا ہوتا ہے تو اس کے لامکلمہ پر‬

‫علامت سکون لگا دیتے ہیں ۔گویا اس وقت بھی مضاعف میں صورت یہی بن جاتی ہے‬

‫کہ اس کا مثل اول متحرک اور مثل ثانی ساکن ہوتا ہے ۔ فک ادغام کے اگلے‬

‫قاعدہ کا تعلق اسی صور تحال سے متعلق ہے ۔‬

‫‪ ۶۸ : ۵‬کسی مضاعفمیں اگر مثل اول متحرک اور مثل ثانی مجزوم ہونےکی وجہ‬

‫سے ساکن ہو تو ادغام اور فک ادغام دونوں جائز ہیں ۔ مثلاً مَدَد کا مضارع اصلاً‬

‫يَعْدُدُ ہے ۔ اس سے فعل امرامدذ بنتا ہے ۔ اس کا اس طرح استعمال بھی‬

‫درست ہے ۔‬

‫‪ ۲۸ :‬مَدَدَ کے ادغام شده مضارع يَمُدْدُ ( يَمُدُّ ) سے جب فعل امربناتے ہیں تو‬

‫علامت مضارعگرانے کے بعد مذڈ بنتا‬


‫ہے ۔ پھرلامکلمہکو مجزومکرتے ہیں تو اسکی‬

‫شکل مذذ بنتی ہے جسکو پڑھ نہیں سکتے ۔ پڑھنے کے لئے لامکلمہکوکوئی حرکت دینی‬

‫پڑتی ہے ۔ اصول یہ ہے کہ ما قبل اگر ضمہ ( پیش ) ہو تولامکلمہکوکوئی بھی حرکت دی جا‬

‫سکتی ہے ۔یعنی فعل امرمد ‪ ،‬مُدَّ اور مد تینوں شکلوں میں درست ہے ۔ لیکن اگرما قبل‬

‫فتحہ یاکسرہ ہو تو لامکلمہکو ضمہ نہیں دےسکتے البتہ فتحہ یاکسرہ میں سے کوئی بھی حرکت‬

‫دی جاسکتی ہے ۔ مثلا فَرَّ يَفِرُّ سے اِفْرِرْ یا فِرّ یا فِرَّ اور مَسَّ يَمَسُّ سے اِمْسَسُ يا‬

‫مس بنےگا۔‬

‫‪ ۲۸ :‬یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ اکثر ایک لفظ کے ایک سے زیادہ معانی‬

‫ہوتے ہیں ۔ ایسا ان الفاظ میں بھی ممکن ہے جو مضاعف ہوتے ہیں ۔ ایسی صورت‬

‫میں عام طور پر ایک معنی دینے والے اسمکو ادغام کے ساتھ اور دوسرے معنی دینے‬

‫(ھینچتا ) اور مَدَدْ (مددکرتا)‬


‫والے اسمکو ادغام کے بغیر استعمالکرتے ہیں ۔ مثلا مد ک‬
‫قص (کاٹنا یا کترنا ) اور قَصَص ( قصہ بیان کرنا )‪ ،‬سَبِّ (گالی ) اور سَبَبٌ (سبب )‬

‫وغیرہ ۔ یہ بھی نوٹکر لیں کہ مضاعف ثلاثی مجرد کے باب فَتَحَ اور حَسِب سے‬

‫استعمال نہیں ہو تا ‪ ،‬جبکہ مزید فیہ کے تمام ابواب سے استعمال ہو سکتاہے ۔‬

‫ذخیرہالفاظ‬

‫عَدَّان عَدا = شمارکرنا گننا‬ ‫ض ضَلَالًا ضَلَالَةٌ = گمراہ ہوتا‬


‫ضَلَّ( )‬

‫(افعال) = تیارکرنا‬ ‫(افعال) = گمراہکرنا ہلاککرنا‬

‫عَ‬
‫عدَ‬ ‫ذِلَّةٌ =‬
‫دددُ ‪-‬گفتی‬ ‫ة ‪ -‬نرم ہونا خواز و رسوا ہونا‬ ‫ضفل‬ ‫ذَلَّ()‬

‫عدة = چند تعداد‬ ‫(افعال تفعیل‬


‫) ‪ -‬خوار و رسواکرنا‬

‫ضعزا = قوی ہونا دشوار ہونا باعزت ہونا‬


‫عَزَّ( )‬ ‫ذُلّ = نرمی‬
‫‪،‬تواضع‬

‫(افعال) = عزت دینا‬ ‫ذل = تابعداری ذلت‬

‫= محبتکرنا‬ ‫حَبَّ( )‬
‫ضحُبًّا ‪-‬‬ ‫ظل(س)ظلا = سامیہ دار ہونا‬

‫افعال = محبتکرنا‬ ‫سامیہکرنا‬ ‫(تفعیل‬

‫حَبَّةٌ = دانه‬ ‫ظلسایه‬

‫حَجَّ(ن)حجا = دلیلمیں غالبآنا قصدکرنا‬ ‫ضَرَّ(ن)ضَرًّا = تکلیفدینا مجبورکرنا‬

‫(مفاعله) = دلیلبازکیرنا ‪ ،‬جھگڑاکرنا‬ ‫صر‪ -‬نقصان سختی‬

‫حُجَّةٌ = دليل‬ ‫=‬


‫ردان ردا ‪ -‬واپکسرنا لوٹانا‬

‫ضِرَارًا = بھاگنا دوڑنا‬


‫فرا ف‬
‫(افتعال) = اپنے قدموںپر لوٹنا‬

‫هَشَ (س) مَسا = چھونا‬ ‫الٹےپاؤںواپس ہونا‬

‫= ظاہرکرنا ‪،‬کھولنا‬
‫كَشَفَ(ض)كَشفًا ‪-‬‬ ‫=کسی کے ساتھ یا پیچھے چلنا‬
‫تبع اس اتبَعًا ‪-‬‬

‫= نقشقدم پرچلنا پیرویکرنا‬


‫اتعال) ‪-‬‬

‫= پیچھے پھرنا‬
‫دبرا ان ادبراً ‪-‬‬

‫=‬
‫) ‪-‬کسی چیزکا پچھلا حصہ پیٹھ‬
‫دبرانادبار‬
‫‪۶۲‬‬

‫مشقنمبر‪( ۶۶‬الف)‬

‫مندرجہ ذیل افعالکی صرف صغیرکریں اور فعل امرکی تمام ممکن صورتیں‬

‫( ‪ ) i‬ضَلَّ ( ض ) (‪ )ii‬ظَلَّ(س) (‪ )ii‬عَدَّ (ن )‬ ‫لکھیں ۔‬

‫‪( ۲۶‬ب )‬
‫مشقنمبر‬

‫مندرجہ ذیل اسماء و افعالکی اقسام مادہ باباور صیغہ بتائیں ۔‬

‫(‪ ) ۶‬ظِلُّ‬ ‫‪ )(۴‬أَضِلُّ ( ‪ ) ۵‬فَرَزْتُمْ‬


‫)( ‪٢‬‬ ‫( ‪ )۳‬ظَلَّلْنَا‬ ‫( ‪ ) ۲‬تَعُدُّونَ‬ ‫( ‪ ) ۱‬ضَلَلْتُ‬

‫( ‪ ) ۱۲‬ضَالٌ‬ ‫(‪ )۱۱‬أَظُنُّ‬ ‫( ‪ ) ۱۰‬تَشَقَّقُ‬ ‫( ‪ ) ۹‬مُضِلٌ‬ ‫(‪ ) ۸‬فِرُّوا‬ ‫( ‪ ) ۷‬ضار‬

‫)‪ )(12‬أَضَلُّوا‬
‫( ‪۱۷‬‬ ‫تُحَاجُّونَ‬ ‫( ‪) ۱۲‬‬ ‫( ‪ ) ۱۵‬شَاقُوْا‬ ‫( ‪ ) ۱۳‬أَعَدَّ‬ ‫( ‪ ) ۱۳‬تُرَدُّونَ‬

‫)‪ (IA‬أُعِدَّتْ ( ‪ ) ١٩‬شِفَاقٌ ( ‪ )۲۰‬تُعِزُّ (‪ )۲۱‬حُجَّةٌ‬


‫(‪)١٤‬‬

‫نوٹ ‪ :‬اسماء و افعالکی اقسام سے مراد یہ ہےکہ اگر اسم ہے تو انساء کی چھ میں سے‬

‫کون سی قسم ہے ؟ اگر فعل ہے تو اسکی چھ میں سےکون سی قسم ہے ؟‬

‫مشق نمبر‪ ( ۶۶‬ج )‬

‫مندرجہ ذیل قرآنی عبارتوں کا ترجمہکریں ۔‬

‫(‪ )1‬وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاذْنِ اللهِ ( ‪ )۳‬وَمَنْ كَانَمَرِيضًا أَوْعَلَى سَفَرٍ‬

‫فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ( ‪ ) ۳‬وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ( ‪ ) ۳‬قُلْ‬

‫( ‪)٥‬‬ ‫إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ‬

‫لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَىاللهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (‪ ) ۲‬وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىأَدْبَارِكُمْ‬

‫)‪ ،( 4‬وَلَا تَتَّبِعُوْا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُوَأَضَلُّوْاكَثِيْرًا ( ‪ )۱۳‬وَإِنْيَمْسَسْكَ‬

‫اللهُ بِضُرٍ فَلَا كَاشِفَلَهُ إِلَّا هُوَ ( ‪ ) ۹‬وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُونِيْ فِي اللَّهِ‬

‫( ‪ )10‬أَعَدَّ اللهُ لَهُمْ جَتْتٍ ( ) فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ( ‪ )۱۳‬وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ‬

‫( ‪ ) ١٣‬وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ ( ‪ ) ۱۳‬أَلَمْ تَرَ إِلَى رَبِّكَكَيْفَمَدَّ الظَّلَّ ( ‪ )۱۵‬وَلَكِنَّ‬

‫الكُمُ الْإِيمَانَ (‪ ) ٢‬فَفِرُّوا الىالله‬ ‫الله حب‬


‫ہممخرجاور قریب مخرجحروفکے قواعد‬

‫‪۶۹‬گزشتہ دو اسباق میں ہم نے ادغام اور تک ادغام کے جن قواعد کا مطالعہ کیا‬ ‫‪۱‬‬

‫ہے ان کا تعلق " مثلین " سے تھا ‪ ،‬یعنی جب ایک ہی حرف دو مرتبہ آجائے ۔ اب‬

‫ہمیں تین مزید قواعد کا مطالعہکرتا ہے ۔ جن کا تعلق ہم مخرج اور قریب الحرج حروف‬

‫سے ہے ۔ لیکن ان قواعد کا دائرہ بہت محدود ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ پہلے دو‬

‫قاعدوں کا تعلق صرف باب افتعال سے ہے جبکہ تیرے قاعدہ کا تعلق صرف باب‬

‫تفعل اور باب تفاعل سے ہے ۔ نیزیہ کہ متعلقہ حروفگنتی کے چند حروف ہیں جو‬

‫آسانی سے یاد ہو جاتے ہیں ۔‬

‫ذیاز میں سےکوئی حرف‬ ‫‪ ۶۹ : ۲‬پہلا قاعدہ یہ ہےکہ بابافتعال کا فاکلمہ اگر د‬

‫ہو تو باب افتعالکی " ت " تبدیل ہو کر وہی حرف بن جاتی ہے جوفاکلمہ پر ہے ‪،‬پھر اس‬

‫پر ادغام کے قواعد کا اطلاق ہوتا ہے ۔ مثلاً دَخَلَ باب افتعال میں اِذْ تَخَلَہو گا ‪ ،‬پھر‬

‫جب"ت " تبدیل ہوکر " و " بنے گی تو یہ اذ د حل بنے گا پھرادغام کے قاعدے کے‬

‫تحت ادخل ہو جائےگا ۔ اسی طرح سے ذکر سے اِذْتَكَرَ ‪ ،‬پھارذْ ذَكَرَ اور بالاخراذْكَرَ‬

‫ہوجائےگا۔‬

‫‪ ۶۹ : ۳‬دوسرا قاعد یہ ہے کہ باب افتعال کا فاکلمہ اگر ص ض ط ظ میں سے کوئی‬

‫حرف ہو تو باب افتعالکی "ت " تبدیل ہوکر " ط " بن جاتی ہے ۔ ایسی صورتمیں‬

‫ادغامکی ضرورت نہیں پڑتی ‪،‬الا یہکہ فاکلمہ بھی " یا " ہو ۔ مثلا صبر باب افتعالمیں‬

‫اصْتَبَربنتا ہے لیکن اِصْطَبَرَ استعمال ہوتا ہے ‪،‬اسی طرح ضَرَّباب افتعالمیں اضتَر‬

‫کے بجائے اضطر استعمال ہوتا ہے ۔ اور طلع سے اِخْتَلَعَکی بجائے اظطلَعَ اور پھر‬

‫اطلع استعمال ہوتا ہے ۔‬


‫‪۶۴‬‬

‫‪ ۶۹ : ۴‬تیرے قاعدے کا تعلق دس حروف سے ہے ۔ پہلے ان حروفکو یاد‬

‫کرنے کی ترکیب سمجھ لیں پھر قاعدہ سمجھیں گے ۔ ایک کاغذ پر داد سے لے کر ط ظ‬

‫تک حروف حتیجی ترتیب وارلکھ لیں پھر ان میں سے حرف " ر "کو حذفکر دیں اور‬

‫کو آسانی سے‬


‫شروعمیں "ث " کا اضافہکر لیں اس طرح مندرجہ ذیل حروف آپ‬

‫یادہوجائیں گے ۔‬

‫‪ ۶۹ : ۵‬تیسرا قاعدہ یہ ہےکہ بابتفعل یا تفاعل کے فاکلمہ پر اگر مذکورہ بالا حروف‬

‫میں سے کوئی حرف آجائے تو ان ابوابکی " ت "تبدیل ہوکر وہی حرفبن جاتی ہے‬

‫جو فاکلمہ پر آیا ہے اس کے بعد ان پر ادغام کے قواعد کا اطلاق ہوتاہے ۔ ذیلمیں ہم‬

‫دونوں ابوابکی الگ الگ مثال دے رہے ہیں تاکہ آپ تبدیلی کے ہر مرحلہکو‬

‫اچھی طرح سمجھ لیں ۔‬

‫‪ ۶۹ : ۲‬ذکر باب تفعل میں تذکر بنتاہے ۔ پھرجب " ت " تبدیل ہو کر "; " بنے گی‬

‫تو یہ ذَذَکر ہو جائے گا اب مثلین یکجا ہیں اور دونوں متحرک ہیں ‪ ،‬چنانچہ ادغام کے‬

‫قاعدہ کے تحت مثل اولکو ساکن کریں گے تو یہ ذذکر بنے گا جو پڑھا نہیں جاسکتا ۔‬

‫اس لئے اس سے قبل ہمزۃ الوصل لگائیں گے تو یہ اِذْ ذَكَرَ ہوگا اور پھر اذکر ہو جائے‬

‫گا۔ یہ بات ضروری ہے کہ باب افتعال میں اِذْكَر او ر باب تفعل میںاِذَکر کے فرق‬

‫کو اچھی طرح نوٹکرلیں ۔‬

‫‪ ۶۹ :‬اسی طرح نَقَلَ باب تفاعل میں تناقل بنتا ہے ۔ جب "ت " تبدیل ہو کر‬

‫" ث " بنے گی تو یہ تناقل بنے گا ۔ پھرمثل اولکو ساکن کر کے ہمزۃ الوصل لگائیں‬

‫کے تو یہ الفافل اور پھرانا قل ہو جائےگا ۔‬

‫‪ ۶۹ :‬اب یہ بات بھی نوٹکرلیںکہ مذکورہ بالا تیسرا قاعدہ اختیاری ہے ۔ اس کا‬

‫مطلب یہ ہےکہ باب تفعل اور باب تفاعل میں مذکورہ حروف سے شروع ہونے‬
‫والے الفاظ تبدیلی کے بغیر اور تبدیل شدہ شکل میں دونوں طرح استعمال ہو سکتے‬

‫ہیں ۔ یعنی تذکر بھی درست ہے اور اذکر بھی درست ہے ۔ اسی طرح تناقل بھی‬

‫درست ہے اورانا قلبھی درست ہے ۔‬

‫‪ ٢٩‬یہ بھی نوٹکرلیںکہ باب تفعل اور تفاعل کے فعل مضارع کے جن‬ ‫‪٩:‬‬

‫صیغوںمیں دوت "یکجا ہو جاتی ہیں وہاں ایک "ت "کوگرا دینا جائز ہے مثلا تَتَذَكَّر‬

‫اور تذکر دونوں درست ہیں ۔ اورگزشتہ سبق کی مشق میں آپ نے تَشَقَّقُپڑھا تھا جو‬

‫کہ اصل میں تَتَشَقَّقُتھا ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫)دَرْء = زور سے دھکیلنا‬


‫دَرَءَ(ف‬ ‫ذَكَرَن ذِكْرًا = یادکرنا‬

‫(تفاعل) = باتکو ایکدوسرے پر ڈالنا‬ ‫(تفعل) ‪ -‬کوششکرکےیادکرنا نصیحت حاصلکرنا‬

‫صَدَقَ (ن )صَدْقًا ۔ سچبولنا بے لوث نصیحتکرنا‬ ‫) ض سَبَقًا = آگے بڑھنا‬


‫سَبَقَ (ن‬

‫(تفعل) = بدلہکی خواہشکے بغیر دینا‬ ‫( افتعال) = اہتمام سے آگے بڑھنا‬

‫خیراتکرنا‬ ‫آگے بڑھنے میں مقابلہکرنا‬

‫صَنَعَ (ف) صَنْعًا = بنانا‬ ‫صَبَرَ (ض) صَبْرًا = برداشتکرنا رکے رہنا‬

‫( افتعال) = بنانے کا حکم دینا چن لینا‬ ‫(اقتعال) = اہتمام سے ڈٹے رہنا‬

‫ضَر(مشنقمبر ‪ ۶۶‬کا ذخیرہ الفاظ دیکھیں )‬ ‫ظَهَرَ(ف)طَهُرًا ‪-‬گندگی دورکرنا‬

‫(افتعال) = مجبورکرنا‬ ‫= پاکہوتا‬


‫)ظهورًاطَهَارَةً ۔‬ ‫ان‬

‫کرنا‬ ‫)=‬
‫۔ دھونا پا ک‬ ‫(تفعیل‬
‫زَمَلَ(ن ) ( مَالاً ‪ -‬ایک جانب جھکے ہوئے دوڑنا‬

‫=‬
‫(تفعل ) = لپٹنا‬ ‫( فعل) ‪ -‬کوششکر کےاپنیگندگی دورکرنا‬

‫دَثَرَ(ن)دُثُورًا ‪ -‬مٹنےلگتا بڑھاپے کے آثارظاہر ہوتا‬ ‫= پاکہونا‬

‫=‬
‫) ‪ -‬اوڑھنا‬
‫(تفعل‬
‫‪YY‬‬

‫مشق نمبر‪( ۶۷‬الف )‬

‫مندرجہ ذیل مادوں سے ان کے ساتھ دیئے گئے ابواب میں اصلی شکل اور‬

‫کریں ۔‬
‫تبدیل شده شکل دونوںکی صرف صغیر‬

‫( ‪ )i‬دخل ( افتعال (‪) ii‬صدق (تفعل ) (‪)iii‬س عل (تفاعل )‬

‫( ‪ )۱۷‬ضرر( افتعال) ( ‪)۷‬طه (تفعل ) (‪ )vi‬درک( تفاعل )‬

‫‪ ( ۶۷‬ب )‬
‫نمبر‬
‫مشق‬

‫مندرجہ ذیل اسماء و افعالکی قسم مادہ باباور صیغہ بتائیں ۔‬

‫( ‪ ) 1‬يَذَّكَّرُ ( ‪ ) ۲‬يَتَذَكَّرُ ( ‪ ) ۳‬تَدَارَكَ ( ‪ ) ۳‬إِذْرَكَ ( ‪ ) ٥‬نَسْتَبِقُ (‪ ) ۲‬مُدَّخَلاً‬

‫(‪ ) 11‬تَصَدَّقَ‬ ‫( ‪ )۱۰‬مُتَطَهِّرِينَ‬ ‫( ‪ ) ۸‬مُطَهَّرَةٌ ( ( ‪ ) ۹‬اِذْرَعْتُمْ‬ ‫( ‪ ) ۷‬اصْطَبِرُ‬

‫إِنَّا قَلْتُمْ ( ‪ ) ۱۳‬لَنَصَّدَّقَنَّ ( ‪ )۱۳‬يَتَطَهَّرُونَ (‪ )۱۵‬مُطَهِّرِينَ ( ‪ )۱۲‬يَتَسَاءَ لُوْنَ‬ ‫(‬

‫( ‪ )۲۰‬الْمُزَّمِّلُ‬ ‫( ‪ ) ۱۹‬مُتَصَدِّقَاتٌ‬ ‫( ‪ ) ۱۸‬مُصَدِّقُونَ‬ ‫( ‪ ) ۱۷‬اصْطَنَعْتُ‬

‫( ‪ ) ٢١‬اَلْمُدَّثِرُ ( ‪ )۲۲‬يَشَقَّقُ ( ‪ ) ۲۳‬اِضْطَرَّ‬

‫مشق نمبر‪ ( ۶۷‬ج )‬

‫مندرجہ ذیل قرآنی عبارتوںکا ترجمہکریں ۔‬

‫( ‪ ) 1‬كَذلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ( ‪ ) ۳‬يَوْمَ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ مَا سَعَى‬

‫( ‪ ) ۳‬إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا ( ‪ ) ٤‬فَاعْبُدُهُ وَاصْطَبِرْ‬

‫)‪( ۶‬‬
‫لِعِبَادَتِهِ ( ‪ ) ٥‬وَلَهُمْ فِيْهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ( (‪ ) ٢‬وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَاذْرَوْ تُمْ فِيْهَا‬

‫( ‪ ) ۷‬إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ( ‪ ) ۸‬فَمَنْتَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَكَفَّارَةٌ‬

‫لَّهُ ( ‪ )٢‬لَتَصَّدَّقَنَّ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الصَّلِحِيْنَ ( ‪ ) ١٠‬فِيْهِ رِجَالٌيُحِبُّونَ أَنَّ يَتَطَهَّرُوا‬

‫) ‪( ۱۲‬‬
‫( ‪ ) ١٢‬يَأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ‬ ‫( ‪ )١‬وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي‬ ‫وَاللَّهُ يُحِبَّ الْمُطَهِّرِينَ‬

‫( ‪ ) ١٣‬يَأَيُّهَا الْمُدَّثِرُ ( ‪ ) ۱۳‬ثُمَّ اَضْطَرُهُ إِلَى عَذَابِالنَّارِ ( ‪ )۱۵‬يَوْمَ تَشَقَّقُالسَّمَاءُ‬


‫‪16‬‬

‫مثال‬

‫‪ ۷۰ : ۱‬پیرا گراف ‪ ۶۴ : ۷‬میں آپپڑھ چکے ہیںکہ کسی فعل کے فا کلمہکی جگہ‬

‫اگرکوئی حرف علتیعنی " و "یا " ی "آجائے تو اسے مثالکہتے ہیں ۔ ابیہ بھی نوٹ‬

‫کرلیںکہ فاکلمہکی جگہ اگر " و " ہو تو اسے مثال وادی اور اگر " ی " ہوتو اسے مثال‬

‫یائیکہتے ہیں ۔ اس سبق میں ان شاءااللللہہ ہہمم ممثاثلال میں ہونے والی تبدیلیوں کے قواعد‬

‫کا مطالعہکریں گے ۔‬

‫معروف اور مجمول ) دونوں میںکوئی‬ ‫‪ ۷۰ : ۲‬مثال میں ثلاثی مجرد سے فعل ماضی‬

‫تبدیلی نہیں ہوتی ہے ۔ البتہ مزید فیہ سے ماضی کے چند ایک صیغوں میں تبدیلی ہوتی‬

‫ہے اور مثالیائی میں مثال واویکی نسبتکم تبدیلی واقع ہوتی ہے ۔ بہر حال جو بھی‬

‫تبدیلیاں ہوتی ہیں ان میں سے زیادہ تر مندرجہ ذیل قواعد کے تحت ہوتی ہیں ۔‬

‫‪ ۷۰ : ۳‬مثال وادی میں ثلاثی مجرد کے فعل مضارع معروفمیںتبدیلی ہوتی ہے ۔‬

‫اس کا قاعدہ یہ ہےکہ مثال وادی اگر باب ضَرَبَ حَسِبَيَا فَتَحَ سے ہو تو اس کے‬

‫مضارع معروف میں واوگر جاتاہے لیکن اگر باب سَمِعَ یا گرم سے ہوتو و او بر قرار‬

‫رہتا ہے ۔ جبکہ باب نَصَر سے مثال ( وادییا پائی ) کاکوئی فعل استعمال نہیں ہو تا ۔‬

‫=‬
‫وعدہکرنا " کا مضارع يَوعِدُ کے بجائے يَعِدُ ہوگا وَرِثَ ( ح) =‬ ‫مثلا وَعَدَ ( ض) ‪-‬‬

‫”وارث ہونا " کا مضارع يَورِثُ کے بجائے يَرِثُ اور وَهَبَ (ف) = " عطاکرنا " کا‬

‫ڈرلگنا " کا‬ ‫مضارع يَوْهَبُ کے بجائے يَهَبُ ہو گا ۔ اس کے بر خلاف وجل ( ص) ۔‬

‫مضارعيَوْجَلُ ہی ہو گا ۔ اسی طرح و حداک) ‪ -‬اکیلا ہوناکا مضارع يؤخذ ہی ہوگا ۔‬

‫‪ ۷۰ : ۴‬باب سَمِعَ کے دو الفاظ خلاف قاعدہ استعمال ہوتے ہیں اور یہ قرآنکریم‬

‫میں استعمال ہوئے ہیں لہذا انکو یادکر لیجئے ۔ وسع ( ص ) پھیل جانا وسیع ہونا ۔ اس‬

‫کا مضارع قاعدہ کے لحاظ سے يَوْسَعُ ہونا چاہئے تھا لیکن یہ يَسَعُ استعمال ہوتا ہے ۔‬
‫‪۶۸‬‬

‫اسی طرح وَطِی ( س) = " روندنا " کا مضارع يَوْطُو کے بجاۓ يَطو استعمال‬

‫ہوتا ہے ۔‬

‫‪ ۷۰ : ۵‬یہ بات یاد رکھیں کہ مضارع مجہول میںگرا ہوا واو واپس آجاتا ہے مثلاً‬

‫يَعِدُ کا مجمول يُفْعَلُ کے وزن پر يُوعَدُ ہو گا ۔ اسی طرح سے يَرثُکا مجمول يُورَثُاور‬

‫يَهَبُ كا يُوهَبُ ہوگا ۔‬

‫‪ ۷۰ :‬دوسرا قاعدہ جو مثال میں استعمال ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ واو ساکن کے‬

‫ما قبل اگرکسرہ ہو تو و اوکوی میں بدل دیتے ہیں اور اگر یاء ساکن کے ماقبل ضمہ ہو تو‬

‫یکو واو میں بدل دیتے ہیں مثلا یؤ جَلکا فعل امراؤ جل بنتا ہے جو اس قاعدہ کے‬

‫ل ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح سے یقظ (ک) ‪ -‬بیدار ہونا " باب افعال میں‬
‫جَل‬
‫تحت ااِيیُج‬

‫أيْقَظَ يُنقظ بنتاہے لیکن اس کا مضارع اس قاعدہ کے تحت تبدیل ہو کر يُوقظ ہو‬

‫جاتا ہے ۔‬

‫‪L‬‬
‫‪ ۷۰ :‬تیرے قاعدےکا تعلق صرف باب افتعال سے ہے اور وہ یہ ہےکہ باب‬

‫افتعالمیں مثالکے فاکلمہکی " و "یا " ی "کو "ت " میں تبدیلکر کے اشتعالکی " ت "‬

‫میں مدغمکو دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں یہ بات نوٹکرلیںکہ " و "کو تبدیلکرنالازمی‬

‫ہے جبکہ "ی "‬


‫کی تبدیلی اختیاری ہے ۔ مثلاً وَ صَل بابافتعال میں او تَصَلَبنتا ہے جو‬

‫اس قاعدہ کے تحت انتصل اور پھراتصل ہو جائے گا ۔ جبکہ یسر باب افتعال میں‬

‫اِيْتَسر بھی استعمال ہوتا ہے اور اتَّسر بھی ۔‬

‫‪ ۷۰۸‬آپکو یاد ہو گا کہ مہموز الفاء میں صرف ایک فعل یعنی اَخَذَ کا ہمزہ باب‬

‫افتعال میں تبدیل ہوکر " ت " بنتاہے مگر مثال وادی سے باباشتعال میں آنے والے‬

‫تمام افعال میں "و "کی " ت " میں تبدیلی لازمی ہے ۔ خیال رہےکہ مثالوادی سے‬

‫باب افتعال میں آنے والے افعالکی تعداد زیادہ ہے جبکہ مثال پائی سے باب افتعال‬

‫میں کل تین چارافعالآتے ہیں ۔‬


‫‪۶۹‬‬

‫‪ ۷۰ : ۹‬اب آپ نوٹکر لیں کہ باب افتعال کے مذکورہ قاعدہ کا اطلاق پوری‬

‫صرف صغیر ہوتاہے ۔ مثلا اوْ تَصَلَ سے اتَّصَلَ يَوْ تَصِلُ سے يَتَّصِلُ اوْتَصِلْ‬

‫اِتَّصِلْ مُوْتَصِل سے مُتَصِلٌ مُوْتَصَلَّ سے مُتَصَلاور اِوْتِصَال سے اِبْصَالُ‪-‬‬

‫‪ ۷۰ : ۱۰‬یہ بھی نوٹکرلیںکہ مثال کا فعل امراس کے مضارعکی استعمالی شکل‬

‫سے قاعدے کے مطابق بنتاہے ۔ مثلا وَ هَبَ کا مضارع يَهَبُ استعمال ہوتا ہے ۔ فعل‬

‫امربنانے کے لئے علامت مضارعگرائیں گے تو پہلا حرف متحرک ہے ۔ اس لئے‬

‫ہمزۃ الوصلکی ضرورت نہیں ہے ۔ صرفلام کلمہکو مجزومکریں گےتو فعل امرهَبُ‬

‫بنے گا ۔ وَسُمَ (ک) ‪ -‬خوبصورت ہونا کا مضارع يَوْسم ہے ۔ اس سے فعل امر‬

‫بنانے کے لئے ہمزۃ الوصل لگاکرلامکلمہ مجزومکریں گے تو فعل امراو سم بنےگا ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫عَرَضَ( )‬
‫ضعَرْضًا = پیشکرنا‬ ‫ض وَكُلا ‪ -‬سپردکرنا‬
‫وگل()‬

‫(ن)عرضًا = کسی چیزکےکنارے میں جاتا‬ ‫(تفعل له = کامیابی کا ضامن ہونا‬

‫عَرُضَ(ک) عَرَاضَةً = چوڑا ہونا‬ ‫تفعل عليه = کامیابی کے لئے بھروسہکرنا‬

‫(افعال) = منہ موڑنا اعرا ک‬


‫ضرنا‬ ‫ضُلُوْجًالِجَةً = داخل ہونا‬
‫(و‬
‫وَلَجَ )‬

‫وَزَرَاضوزرا زِرَةً ‪ -‬بوجھ اٹھانا‬ ‫(افعال) ‪ -‬داخلکرنا‬

‫وزراج اَوْزَارٌ = بوجھ‬ ‫) يَقْنا ‪ -‬واضحاور ثابت ہونا‬


‫يَقِينَ (س‬

‫وَذَرَ(ف‬
‫) وَذُرًا ‪ -‬چھوڑنا‬ ‫= یقینکرنا‬
‫( فعال) ‪-‬‬

‫ضوَجُدًا جِدَةً = پانا‬


‫وَجَدَ( )‬ ‫يَسَرَ (ض)يَسْرًا = سهل وآسانہونا‬

‫وَعَدَاضٍوَعْدًا عَدِةً = وعدہکرنا‬ ‫(تفعیل) ‪ -‬سهل وآسانکرنا‬

‫= رکھنا بچہ جننا‬


‫وَضَعَان وَضْعًا ضَعَةً ‪-‬‬ ‫وَرِثَ ح وَزُلازِلَةٌ =‬
‫‪ -‬وارثہوتا‬

‫) وقوعًا ‪-‬گرنا واقع ہوتا‬


‫ض‬ ‫وَقَعَ (‬ ‫(افعال) = وارثبنانا‬
‫= تولنا وزنکرنا‬
‫وَزَنَ (ض) وَزُنَا زِنَةٌ ‪-‬‬ ‫ض وَعَظَاعِظَةً ‪ -‬نصیحتکرنا‬
‫وَعَظَ( )‬

‫وَجِلَ (س)وَجُلا = خوفمحسوسکرنا ڈرنا‬

‫شَرَحَ( ف) شَرْحًا = پھیلانا کشادہکرنا‬

‫باتکے مطالبکو کھولنا ۔‬


‫مشق نمبر‪ (۶۸‬الف )‬

‫مندرجہ ذیل مادوں سے ان کے ساتھ دیئے گئے ابواب میں اصلی شکل اور‬

‫تبدیل شدهہ شکل دونوںکی صرفصغیرکریں ۔‬

‫اب وضع ( ف) ‪ ۲-‬وج د ( ض ) ‪ ۳-‬وج ل (س ) ‪ ۴-‬می ق ن ( افعال )‬

‫‪ -‬وک ( اقتعال) ‪ ۷-‬ودغ ( استفعال )‬ ‫‪ -۵-‬دکل (تفعل )‬

‫مشقنمبر‪ (۶۸‬ب )‬

‫مندرجہ ذیل قرآنی عبارتوںکا ترجمہکریں ‪:‬‬

‫( ‪ ) 1‬فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ فَلْتَةِ أَيَّامٍ ( ‪ ) ۳‬الشَّيْطَنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ ( ‪ )۳‬فَلَمَّا وَضَعَتْهَا‬

‫قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا الْقَى ( ‪ ) ۳‬فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْعَلَىاللهِ ‪ -‬إِنَّاللهَ يُحِبُّ‬

‫الْمُتَوَكِّلِينَ ( ‪ ) ٥‬فَاَعْرِضْعَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ‪ ) 1‬وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا يُوْعَظُونَ بِهِ‬

‫لكَانَخَيْرًا لَّهُمْ ( ‪ ) ٤‬وَهُمْ يَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ الأَسَاءَ مَا يَزِرُونَ‬

‫( ‪ ) ۸‬وَالْوَزْنُ يَوْمَئِلِينِ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيَّنَهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ‬

‫( ‪ ) ٢‬قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا (‪ ) ١٠‬وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ‬

‫( ‪ )1‬وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُنْ مَّعَ الْقَعِدِينَ ( ‪ ) ۱۳‬عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّل‬

‫الْمُتَوَكَّلُونَ ( ‪ ) ۱۳‬فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ ( ‪ )۱۳‬قَالُوا لَا تَوْجَلْ ( ‪ )١٥‬وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ‬

‫وزْرَ أُخْرَى ( ‪ )۱۲‬رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِى وَيَسِّرْلِيْ أَمْرِى ( ‪ ) ۱۷‬الَّذِيْنَ يَرِثُونَ‬

‫الْفِرْدَوْسَ ( ‪ )۱۸‬إِنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِى النَّهَارِ (‪ )۱۹‬وَأَوْرَثْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ‬

‫الْكِتَبَ ( ‪ ) ٢٠‬وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَالْمِيْزَانَ‬


‫أجوف (حصہ اول)‬

‫ا ‪ :‬اے سبق نمبر ‪ ۶۴‬میں آپپڑھ چکے ہیں کہ جس فعل کے عینکلمہکی جگہکوئی‬

‫حرفعلت ( و ‪ /‬ی ) آجائے تو اسے اجوفکہتے ہیں ۔ اب یہ بھی نوٹکر لیںکہ عین‬

‫کلمہکی جگہ اگر "و " ہو تو اسے اجوفوادی اور اگر " ی " ہو تو اسے اجوفیائی کہتے‬

‫ہیں ۔ اس سبق میں ان شاء اللہ ہم اجوف میں ہونے والی تبدیلیوں کے قواعد کا‬

‫مطالعہکریں گے ۔‬

‫‪ ۷۱ : ۲‬اجوفکا قاعدہ نمبرا یہ ہےکہ حرف علت (وای ) اگر متحرک ہو اور اس‬

‫کے ماقبل فتحہ ( زبر ) ہو تو حرف علتکو الف میں تبدیل کردیتے ہیں جیسے قول سے‬

‫قَالَ بَيعَ سے بَاعَ نَبِلَ سے نَالَ خَوِفَ سے خَافَاور طول سے طالوغیرہ ۔‬

‫‪ :‬اے اجوفکا قاعدہ نمبر ‪ ۲‬یہ ہےکہ حرفعلت (وای ) اگر متحرک ہو اور اس کا‬

‫ما قبل ساکن ہو تو حرف علت اپنی حرکتما قبلکو منتقلکر کے خودحرکت کے موافق‬

‫حرف میں تبدیل ہو جاتا ہے ‪ ،‬جیسے خوف( س ) کا مضارع يَخْوَفُبنتاہے ۔ اس میں‬

‫حرف علت متحرک اور ما قبل ساکن ہے اس لئے پہلے یہ يَخَوْفُہو گا اور پھريَخَافُ‬

‫ہو جائےگا ۔ اسی طرح قول ( ن ) کا مضارع يَقُولُ سے يَقُولُ ہوگا اور يَقُولُ ہی رہے گا‬

‫جبکہ بیع (ض) کا مضارعينبغ سے یتیحُ ہو گا اورتیغ ہی رہے گا ۔‬

‫‪ :‬اے اجوفکا قاعدہ نمبر‪ ( ۳‬الف ) یہ ہے کہ اجوف کے عین کلمہ کے بعد والے‬

‫حرفپر اگر علامت سکون ہو ‪،‬ساکن ہونے کی وجہ سے یا مجزوم ہونے کی وجہ سے تو‬

‫دونوں صورتوں میں تینکلمہ کا تبدیل شده ا روزیگر جاتاہے ۔ اس کے بعد فاکلمہ‬

‫کی حرکتکا فیصلہ قاعدہ نمبر‪( ۳‬ب ) کے تحتکرتے ہیں ۔‬

‫) یہ ہےکہ اروای گرنے کےبعد فاکلمہپرغور‬


‫‪ ۷۱ : ۵‬اجوفکا قاعدہ نمبر‪( ۳‬ب‬

‫کرتے ہیں ۔ اگر وہ اصلا ساکن تھا اور قاعدہ نمبر‪ ۲‬کے تحت انتقال حرکتکی وجہ سے‬
‫‪۷۲‬‬

‫متحرک ہوا ہے تو اسکی حرکت برقرار رہے گی ۔لیکن اگر فاکلمہ اصلاً مفتوحتھا تو اس‬

‫کی فتحکو ضمہ یا کسرہ میں تبدیلکر دیتے ہیں ۔ اس کا اصول یہ ہےکہ اس فعل کا‬

‫مضارع اگر مضموم العین ( باب نصر و کرم ہے تو ضمہ دیتے ہیں ورنہکسرہ ۔اب‬

‫آپ اس قاعدہکو چند مثالوںکی مدد سےذہن نشینکرلیں ۔‬

‫ال پہلے ہم وہ مثالیں لیتے ہیں جہاں انتقال حرکت ہوتی ہے ۔ خوف (س )کے‬

‫مضارعکی اصلی شکل بخوف بنتی ہے ۔ جبگردانکرتے ہوئے ہم جمع مونث‬

‫غائب کے صیغہ پر پہنچیں گے تو اسکی اصل شکل يَخْوَفُنَ ہوگی اب صورتحال یہ ہے‬

‫که حرف علت محترک ہے اور ما قبل ساکن ہے اس لئے یہ اپنی حرکمتا قبلکو منتقل‬

‫کر کےخود الف میں تبدیل ہو جائے گا تو شکل يَخَافُنَ ہو جائےگی ۔ اب لامکلمہ پر‬

‫( ب)‬ ‫( الف) کے تحت الفگر جائےگا ۔ قاعدہ‬ ‫علامت سکون ہے اس لئے قاعدہ‬

‫کے تحت فاکلمہ چونکہ اصلاً ساکن تھا اور اسکی حرکت منتقل شدہ ہے اس لئے وہ‬

‫برقرار رہے گی ۔ اس طرح استعمالی شکل بحفن ہوگی ۔ اسی طرح قول ( ن ) سے‬

‫ن اور پھر‬
‫یْنَ‬
‫بيِع‬
‫ن ہو گا جبکہ بیع ( ض ) سے یہ بنغن پہلے يَبْ‬
‫نَققُللْنَ‬
‫يَقُولُنَ پہلے يَقُولُنَ اور پھري‬

‫يَبِعْنَ ہو گا ۔‬

‫‪ :‬اے اب ہم وہ مثالیں لیتے ہیں جہاں فاکلمہ اصلاً مفتوح ہوتاہے ۔ خَوفَ (س )‬

‫سے ماضی کی گردانکرتے ہوئے جب ہم جمع مونث غائب کے صیغے پر پہنچیں گے تو‬

‫اسکی اصلی شکل خَوِفْنَ ہو گی ۔ اب صورتحال یہ ہےکہ حرف علت متحرک ہے اور‬

‫اس کے ماقبل فتحہ ہے اس لئے واو تبدیل ہو کر الف بنے گا تو شکل خَافُنَ ہو جائے‬

‫گی ۔ اب لام کلمہ پر علامت سکون ہے ۔ اس لئے قاعدہ ‪ ( ۳‬الف) کے تحت الفگر‬

‫(ب ) کے تحت ہم نے دیکھاکہ فاکلمہ اصلاً مفتوح ہے اس لئے‬ ‫جائے گا۔ پھر قاعدہ‬

‫اسکی فتحکو ضمہ یا کسرہ میں بدلناہے ۔ چونکہ اس کا مضارع مضموم العین نہیں ہے‬

‫کو کسرہ میں تبدیل کریں گے تو استعمالی شکل خِفْنَ ہو گی ۔ اسی طرح قَوَلَ‬
‫اس لئے فتح‬

‫( ن ) سے قَولْنَ پہلے قَالُنَ اور پھر قُلْنَ ہو گا جبکہ بیع (ض) سے بیعْنَ پہلے بَاعْنَ اور پھر‬
‫‪۷۳‬‬

‫یعن ہوگا ۔‬

‫‪ ۷۱ :‬انتقالحرکت والے قاعدہ نمبر‪ ۲‬کے استثنااتکی فہرست ذرا طویل ہے ۔‬

‫آپکو انہیں یادکرنا ہوگا۔‬

‫اسم الآلہ اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہیں جیسے مکیال (ناپنے کاآلہ ) مِنْوَالٌ (کپڑے‬ ‫(‪)1‬‬

‫بنےکی کھڈی) مغول (کد ال) مِصْبَدَةً (پھندا ) وغیرہ بغیر تبدیلیکے اسی طرح‬

‫استعمال ہوتے ہیں ۔‬

‫اسم التفصیل بھی اس سے متقی ہیں جیسے اَقْوَمُ ( زیادہ پائیدار) اطیب ( زیادہ‬ ‫(‪)۲‬‬

‫پاکیزہ وغیرہ اسی طرح استعمال ہوتے ہیں ۔‬

‫( ‪ ) ۳‬الوان وعیوب کے مذکر کا وزن افعلُ بھی منتقلی ہے جیسے اَسْوَدُ أَبْيَضُ أَحْوَرُ‬

‫الوان و عیوب کے مزید فیہ کے ابواب بھی مستقلی ہیں جو ابھی آپ نے نہیں‬ ‫(‪)۴‬‬

‫پڑھے ہیں جسے اِسْوَدَّ يَسْوَدُ ( سیاہ ہو جاتا ) ابيضيبيض ( سفید ہو جانا ) وغیرہ ۔‬

‫( ‪ )۵‬فعل تعجب ( جو ابھی آپ نے نہیں پڑھے ) بھی متقی ہیں جیسے مَا أَظْوَلَهُ یا اطول‬

‫به ( وہ کتنا لمبا ہے ) مَا أَطْيَبَهُ یا اطیب بہ ( وہکتنا پاکیزہ ہے ) وغیرہ ۔‬

‫مشقنمبر‪۶۹‬‬

‫مندرجہ ذیل مادوں سے ماضی معروف اور مضارع معروفمیں اصلی شکل اور‬

‫تبدیل شدہ شکل دونوںکی صرفکبیرکریں ۔‬

‫ا قول ( ن ) ‪ ۲-‬ب ی ع ( ض ) ۔‪۳‬خوف (س )‬


‫‪۷۴‬‬

‫اجوف (حصہ دوم)‬

‫‪ ۷۲ : ۱‬گزشتہ سبق میں ہم نے اجوف کے کچھ قواعد سمجھ کر صرف کبیرپر انکی‬

‫مشقکرلی ۔ اس سبق میں اب ہم صرف صغیرکے حوالہ سے کچھ باتیں سمجھیں گے ۔‬

‫اس کے علاوہ محدود دائرہ کاروالے کچھ مزید قواعد کا مطالعہ بھی کریں گے ۔‬

‫‪ ۷۲ : ۲‬اجوف سے فعل امر بنانے کے لئےکسی نئے قاعدہکی ضرورت نہیں پڑتی‬

‫بلکہگزشتہ سبق کے دوسرے اور تیسرے قاعدہ کا ہی اطلاق ہوتا ہے ۔ مثلا يَخَافُ‬

‫( يَخْوَفُ) سے فعل امرکی اصلی شکل اخوف بنتی ہے ۔ دوسرے قاعدہ کے تحت "و "‬

‫اپنی حرکتما قبلکو منتقلکر کے الف میں تبدیل ہو گا اور فاکلمہ متحرک ہو جانےکی‬

‫وجہ سے همزة الوصلکی ضرورتباقی نہیں رہے گی ۔ اس طرح یہ معاف ہو جائے‬

‫گا ۔ پھر قاعدہ نمبر ‪ ( ۳‬الف ) کے تحت الف گرےگا اور قاعدہ نمبر ‪ ( ۳‬ب ) کے تحت‬

‫فاکلمہ پر منتقل شدہ حرکت برقرار رہےگی ۔ چنانچہ فعل امر خَفْ بنے گا ۔ اسی طرح‬

‫يَقُوْلُ يَقُولُ) کا فعل امر أَقُولُ سے قُوْلَ اور پھر قُلْہوگا ‪ ،‬جبکہ يَبيعُ (يَبيعُ)کا فعل امر‬

‫انیع سےبیع اور پھربع ہوگا ۔‬

‫‪ ۷۲ : ۳‬ثلاثی مجرد سے اسم الفائل بنانے کے لئے اس کے وزن فَاعِل کے عین‬

‫کلمہ پر آنے والے حرف علت ( وای )کو ہمزہ میں تبدیل کر دیتے ہیں ۔ جیسے خَافَکا‬

‫اسم الفاعل خَاوِفْکی بجائے خَائِفٌ بَاغ کا بایعکی بجائے بَائِع اور قَالَکا قَاوِلکی‬

‫بجائے قائِلہوگا ۔ نوٹکرلیں کہ فاعلکا وزن ثلاثی مجرد کا ہے اس لئے یہ قاعدہ‬

‫صرف ثلاثی مجرد میں استعمال ہوتا ہے ۔‬

‫‪ ۷۲ : ۴‬اجوف کے اسم المفعول کا مطالعہ ہم دو حصوں میںکریں گے یعنی پہلے‬

‫اجوفوادی کا اور پھر اجوفیائی کا۔ اجوفوادی سے اسم المفعول بنانے کے لئے‬

‫بھی گزشتہ قواعد ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ مثلا فالکا اسم المفعول مَفْعُول"کے‬

‫وزن پر اصلا " مفوون " ہوگا ۔ اب " و " اپنی حرکت ما قبل کو منتقلکرےگا اور اس‬
‫‪۷۵‬‬

‫کے مابعد حرف ساکن ہے اس لئے وہ گر جائے ۔ اس طرح وہ مقول بنے گا ۔یاد‬

‫کرنے میں آسانی کی غرض سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اجوف وادی کا اسم المفعول‬

‫"مَفْعُول "کے بجائے ” مفول " کے وزن پر آتا ہے ۔‬

‫‪ ۷۲ : ۵‬اجوفیا ئی کا اسم المفعول خلاف قاعده " مغیل" کے وزن پر آتا ہے اور‬

‫صحیح و زن یعنی " مَفْعُول پر بھی آتا ہے ۔ اکثر الفاظ کا اسم المفعول دونوں طرح‬

‫استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً باغکا اسم المفعول مبیع اور مَبْيُوعٌ دونوں درست ہیں ۔‬

‫اسی طرح عَابَ کا مَعِيْبٌ اور مَعْيُوبٌ دونوں درست ہیں ۔ البتہ بعض مادوں سے‬

‫اسم المفعول صرف مغیلکے وزنپر ہی آتاہے جیسے شَادَ سے مشیدٌ ( مضبوطکیا ہوا)‬

‫گالسے مکیل(ناپا ہوا ) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۷۲ :‬اجوف کے ایک قاعدہ کا زیادہ تر اطلاق ماضی مجہول میں ہوتا ہے ۔ قاعدہ‬

‫یہ ہےکہ حرف علت (وای ) اگر مکسور ہے اور اس کے ماقبل ضَمَّہ ہوتو ضَمَّہکوکسرہ‬

‫میں بدلکر حرفِ علتکو " ی " ساکن میں تبدیل کر دیتے ہیں ۔ مثلاً قالکا ماضی‬

‫مجهول اصلاً قول ہو گا اور باغ کا ماضی مجھول اصلاً بیع ہوگا ۔ ان دونوں میں حرف‬

‫علت مکسور ہے اور ما قبل ضمہ ہے اس لئے ضمہکو کسرہ میں اور حرف علتکو پائے‬

‫ساکن میں تبدیلکریں گے تو یہ قیل اور بیع ہو جائیں گے ۔ یادکرنے میں آسانی کے‬

‫لئے ہمکہہ سکتے ہیں کہ اجوفکا ماضی مجہول زیادہ تر " فیل " کے وزن پر آتا ہے ۔‬

‫البتہ اجوفکے مضارعمجہول میں تبدیلیگزشتہ قواعد کے مطابق ہی ہوتی ہے ۔‬

‫‪ ۷۲ :‬ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ جب ایک لفظ میں دو حروف علت " وای "یکجا‬

‫ہو جائیں اور انمیں پہلا سا کن اور دوسرا متحرک ہو تو "و "کو "ی " میں تبدیل کر‬

‫کے ان کا ادغامکر دیتے ہیں ۔ اس قاعدہ کے مطابق " فعل " کے وزن پر آنے‬

‫والے اجوف وادی کے بعض اسماء میں تبدیلی ہوتی ہے مثلاً سَاءَ ( سَوَءَ) سے فَيْعِل‬

‫کے وزن پر سیوء بنتہاے پھر اس قاعدہ کے مطابق ستی ‪ ( ،‬برائی ) ہو جاتا ہے ۔ اسی‬

‫طرح سَادَ ( سَوَدَ ) سے سیوڈ پھرسَتِدٌ ( سردار ) اور مَاتَ ( مَوتَ ) سے منوت پھر‬
‫‪۷۶‬‬

‫‪་་‬‬
‫میت ( مردہ ) ہوگا۔ جبکہ اجوف یائی میں چونکہ عین کلمہ " ی " ہوتا ہے اس لئے‬
‫""‬
‫فَيْعِل کے وزن پر آنے والے الفاظ میں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہوتی صرف‬

‫ادغام ہوتا ہے ۔ مثلاطاب(طيب )سے طبیب پھرطيِّبٌ لان ( لَيْنَ )سے لَيْينٌپھرلَيَنْ‬

‫( نرم) اور بان( بین ) سے بَنین پھربین ( واضح ہوگا۔‬

‫مشق نمبر ‪۷۰‬‬

‫مندرجہ ذیل مادوں سے ان کے ساتھ دیئے گئے ابواب میں اصلی شکل اور‬

‫تبدیل شده شکل دونوںکی صرف صغیرکریں ۔‬

‫‪ -1‬ق ول ( ن ) ‪ ۲-‬ب ی ع ( ض) ۔‪۳‬خوف (س )‬

‫ضروری ہدایت‬

‫اب وقت ہے کہ مشقنمبر ‪ ( ۵۶‬ب ) کے آخر میں دیگئی ہدایت کاآپدوبارہ‬

‫مطالعہکریں ۔‬
‫‪LL‬‬

‫اجوف ( حصہ سوم)‬

‫‪ ۷۳‬اس سبق میں اب ہمیں اجوف میں ہونے والی تبدیلیوںکو ابواب مزید فیہ‬ ‫‪۱‬‬

‫کے حوالے سے سمجھنا ہے ۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ نوٹکرلیں کہ اجوفکی‬

‫تبدیلیاں مزید فیہ کے صرف ایسے چار ابواب میں ہوتی ہیں جن کے شروع میں ہمزہ‬

‫آتا ہے یعنی افعال اشتعال انفعال اور استفعال ۔ جبکہ بقیہ چار ابواب یعنی تفصیل‬

‫مقابلہ ‪،‬تفعل اور فاعل میںکوئی بتدیلی نہیں ہوتی اور ان میں اجوف اپنے صحیح وزن‬

‫کے مطابق ہی استعمال ہوتا ہے ۔‬

‫‪ ۷۳ : ۲‬دوسری بات یہ نوٹکرلیں کہ اجوف کے قاعدہ نمبر‪( ۳‬ب ) کا اطلاق‬

‫ابواب مزید فیہ پر نہیں ہوتا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مزید فیہ کے لام کلمہ پر اگر‬

‫علامت سکون ہوگی تو قاعدہ نمبر ‪ ( ۳‬الف ) کے تحت میںکلمہکی اروای توکرےگی‬

‫لیکن اس کے ماقبل کی حرکت برقرار رہےگی اور اس میں کوئی تبدیلی نہیںکی‬

‫جائے گی ۔‬

‫‪ ۷۳ : ۳‬مزید فیہ کے جن چار ابواب میں تبدیلی نہیں ہوتی ان کا اسم الفاعل اپنے‬

‫سیح و زن کے مطابق استعمال ہوتاہے ۔ اور جن چار ابواب میں تبدیلی ہوتی ہے اس‬

‫میںگزشتہ قواعد کا اطلاق ہوتا ہے ۔ مثلاض ی ع باب افعال میں أَضَاعَ ( أَضْيَعَ )‬

‫يُضِيعُ ( يُضيعُ) ضائعکرنا) ہو گا ۔ اس کے اسم الفاعلکی اصلی شکل مضيع بنتی ہے ۔‬

‫اب دو سرے قاعدے کے تحت " ی "کی حرکتما قبل کو منتقل ہوگی اورکسرہ کے‬

‫مناسب ہونےکی وجہ سے " ی " بر قرار رہے گی ۔ اس طرح یہ مُضِيعٌ ہو جائےگا ۔‬

‫اسی طرح خون باب انتقال میں اِخْتَانَ اخْتَوَنَ ) يَخْتَانُ (يَخْتَونُ ) ( خيانت‬

‫کرنا ہوگا ۔ اس کے اسم الفاعلکی اصلی شکل مُختون بنتی ہے ۔ ابپہلے قاعدے‬

‫کے تحتواو تبدیلہوکر الف بنے گی تو یہ مخفان ہو جائےگا ۔‬


‫‪ZA‬‬

‫‪ ۷۳ : ۴‬مزید فیہ کے جن چار ابواب میں تبدیلی ہوتی ہے ۔ ان کے مصدر میں‬

‫تبدیلی دو طرح سے ہوتی ہے ۔ باب افعال اور استفعالکے صدرمیں تبدیلیکا طریقہ‬

‫الگ ہے جبکہ اشتعال اور انفعالکا طریقہ الگ ہے ۔‬

‫‪ ۷۳ : ۵‬باب افعال اور استفعان کے مصدر میں تبدیلی اصلا توگزشتہ قواعد کے‬

‫تحت ہی ہوتی ہے لیکن اس کے نتیجہ میں دو الف یکجا ہو جاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں‬

‫ایک الفکو گراکر آخر میں " " کا اضافہکر دیتے ہیں ۔ مثلاً اضاعَيُضِيعُکا مصدر‬

‫اصلا اصباغ ہوگا۔ اب " ی " اپنی حرکت ما قبلکو منتقلکر کے الف میں تبدیل ہوگی‬

‫تو لفظ اضااغ بنے گا ۔ پھر ایک الفکو گرا کر آخر میں " " کا اضافہکریں گے تو‬

‫إضَاعَةُ استعمال ہوگا ۔ اسی طرح سے اِعَانَةٌ إِجَابَةٌ وغیرہ ہیں ۔ ایسے ہی باب‬

‫استفعال میں اِسْتَعَانَيَسْتَعِيْنُکا مصدر اصلا اسْتِعْوَانُ ہوگا جو پہلے اِسْتِعَا ان اور پھر‬

‫اسْتِعَانَہ ہوگا ۔‬

‫‪ ۷۳ :‬باب افتعال اور انفعال کے مصدر میں اجوفوادیکی "و " تبدیل ہو کر‬

‫"ی " بن جاتی ہے ۔ مثلاً اِخْتَانَ يَخْتَانُ کا مصدر اصلا اخْتِوَانُ ہو گا جو اخْتِيَانُ بن‬

‫جائے گا ۔ جبکہ غ کی ب اشتعال میں اِغْتَابَ يَغْتَاب ( غیبتکرنا ) ہوگا ۔ اس کا مصدر‬

‫اصلاً اختياب ہوگا اور اس میںکسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ اسی طرح‬

‫استعمال ہو گا کیونکہ اس آنے والے افعال لازم ہوتے ہیں ۔‬

‫‪ ۷۳ : ۷‬گزشتہ سبق میں ہم نے پڑھا تھا کہ اجوفکا ماضی مجهول زیادہ تر " فیل "‬

‫کے وزن پر آتا ہے ۔ اب یہ بات نوٹکرلیںکہ مذکورہ قاعدہ اجوفکے ثلاثی مجرد‬

‫اور باب افتعال کے ماضی مجہول میں استعمال ہوتاہے ۔ جبکہ باب افعال اور استفعال‬

‫کے ماضی مجہول میں تبدیلیگزشتہ قواعد کے مطابق ہوتی ہے ۔ اور باب انفعال سے‬

‫مجمول نہیں آتاکیونکہ اس سے آنے والے تمام افعال لازم ہوتے ہیں ۔‬

‫‪ ۷۳ :‬اجوفمیں گنتی کے چند افعال ایسے ہیں جو باب استفعال میں تبدیل شدہ‬
‫‪29‬‬

‫شکل کے بجائے اپنی اصلی شکل میں ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ایک فعل‬

‫اسْتَصْوَبَ يَسْتَصْوِبُ اِسْتِضْوَابًا (کسی معالمہکی منظوری چاہتا ہے ۔ قاعدہ کے‬

‫مطابق اسے اسْتَصَابَ يَسْتَصِيبُ اِسْتِصَابَةً ہوناچاہئے ۔ اسکو اس طرح استعمال‬

‫کرنا اگر چہ جائز تو ہے تاہم زیادہ تر یہ اصلی شکل میں ہی استعمال ہوتا ہے ۔ اسی طرح‬

‫ایک اور فعل اِسْتَحْوَذَ يَسْتَحْوِذُ اِسْتِخْوَاذًا (کسی سوچپر قابو پالینا ‪ ،‬غالب آجاتا )‬

‫ہے ۔یہ بھی تبدیلی کے بغیر استعمال ہوتا ہے اور قرآنکریم میں بھی اسی طرح استعمال‬

‫ہوا ہے ۔‬

‫ذخیرہ الفاظ‬

‫=‬
‫ضَىعَ(ض) ضَيْعًا ضِيَاعًا ‪ -‬ضائع ہونا‬ ‫عَوَذَن عَوْذَا =کسی کی پناہ میںآتا‬

‫( افعال) = ضائعکرنا‬ ‫=کسی کو کسی کی پناہمیں دیتا‬ ‫(افعال‬


‫) ‪-‬‬

‫تَوَبَ(ن)تَوْبًا تَوْبَةً = ایک حالت سے‬ ‫تفعیل =کسیکوپناہ دینا‬

‫دوسری حالتکی طرف لوٹنا‬ ‫( استفعال) ‪-‬کسیکی پناہ مانگنا‬

‫فٹنا توبہکرنا‬
‫ےااللہکی طرلو‬
‫تَابَاِلَی = بندک‬ ‫رَوَدَن رَوْدًا = کسی چیزکی طلبمیں گھومنا‬
‫(افعال) = قصدکرنا ارادہکرنا‬
‫تَابَعَلَى= اللہکی رحمتکا بندےکی طرف‬

‫لوٹنا تو بہ قبوکلرنا‬ ‫صَوَبَ(ن) صَوْبًا = اوپر سے اترنا‬


‫=‬
‫ثَوبَ(ن) ثَوْبًا = کسی چیزکا اپنی اصلی حالتکی‬ ‫(ض)صَيْبًا ‪ -‬نشانہ پر لگنا‬

‫طرف لوٹنا‬ ‫(افعال) = ٹھیکنشانہ پر لگنا‬


‫=‬
‫ثواب ‪ -‬بدلہ عملکی جزا جو عملکرنے والے‬ ‫جَوَبَ(ن) جَوْبًا = کاٹنا جواب دینا‬

‫کی طرفلوٹتی ہے‬ ‫افعال استفعال) = باتمانلینا‬

‫) زَيْدًا زِيَادَةً = بڑھنا زیادہ ہونا‬


‫زَيَ دَ (ض‬ ‫ذَوَقَان ذُوفا =‬
‫‪ -‬چکھنا‬
‫(افعال) = چکھانا‬
‫بڑھانا زیادہکرنا‬

‫جَوَعَن جَوْعًا = بھوکا ہونا‬


‫‪۸۰‬‬

‫مشقنمبراے (الف)‬

‫مندرجہ ذیل مادوں سے ان کے ساتھ دیئے گئے ابواب میں اصلی شکل اور‬

‫تبدیل شده شکل دونوںکی صرف صغیرکریں ۔‬

‫ا ۔ رود ( افعال ) ‪ ۲-‬ری ب ( اشتعال ) ‪ ۳-‬ج وب ( استفعال )‬

‫مشقنمبر اے (ب)‬

‫مندرجہ ذیل عبارتوںکا ترجمہکریں ۔‬

‫( ‪ ) ۱‬فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌفَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا (( ‪ )۲‬مَاذَا أَرَادَ اللهُ بِهَذَا مَثَلاً (‪)۳‬‬

‫اَعُوْذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَهِلِينَ ( ‪ ) ۴‬وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ ( ‪) ٥‬‬

‫فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي ( ‪ ) ٢‬وَإِنِّي أعِيْدُهَا بِكَ ( ‪ ) ٤‬وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ‬

‫يَفْرَحُوْا بِهَا ( ‪ )۸‬ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللهِ ‪ -‬وَاللهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ ( ‪ ) ۹‬قَالَ إِنِّي‬

‫( ‪ )1‬وَإِنْ تُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ‬ ‫تبتُ الآنَ ( ‪ )١٠‬ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ‬

‫( ‪ ) ۱۳‬فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيْبٌ مُّجِيْبٌ ( ‪ ) ۱۳‬فَكَفَرَتْ‬ ‫لِفَضْلِهِ‬

‫بِاَنْعُمِ اللهِ فَاذَاقَهَا اللهُ لِبَاسَالْجُوعِ وَالْخَوْفِ (‪ )۱۳‬رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا ( ‪)۱۵‬‬

‫فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ( ‪ ) ۱۲‬ذُقُ اِنَّكَاَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ ( ‪ )۱۷‬إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ ( ‪ ) ۱۸‬ما‬

‫أَصَابَمِنْ مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ( ‪ ) ۱۹‬فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أَضِيْعُ عَمَلَ‬

‫عَامِلٍ مِّنْكُمْ‬

‫مشق نمبر اے( ج)‬

‫مندرجہ ذیل اسماء و افعالکی قسم ‪،‬مادہ ' باب اور صیغہ بتائیں ۔‬

‫(‪ ) ۱‬اَعُوْذُ ( ‪ ) ۳‬مَثَابَةً ( ‪ ) ٣‬فَلْيَسْتَجِيْبُوا ( ‪ ) ٢‬أَعِيْدُ ( ‪ ) ٥‬تُبْتُ ( ‪ ) ۲‬نُذِيقُ‬

‫( ‪ ) ۱۲‬زِدْ‬ ‫( ‪ )1‬أَذَاقَ‬ ‫( ‪ )۱۰‬مُجِيْب‬ ‫(‪ ) ۹‬تُوْبُوا‬ ‫( ‪ )۸‬رَاتٌ‬ ‫( ‪ ) ۷‬إِنْ تُرِدْ‬

‫( ‪ )۱۳‬فَاسْتَعِذْ ( ‪ )۱۳‬ذُقُ ( ‪ )۵‬مُصِيبَةٍ (‪ )١٢‬أُضِيعُ‬


‫‪Al‬‬

‫اول )‬ ‫ناقص (حصہ‬

‫(ماضی معروف )‬

‫‪ ۷۴ : ۱‬سبق نمبر ‪ ۶۴‬میں آپ پڑھ چکے ہیںکہ جس فعل کے لامکلمہ کی جگہ حرف‬

‫علت " وای " آجائے اسے ناقص کہتے ہیں ۔ چنانچہ اگر لام کلمہ کی جگہ " واؤ " ہو تو‬

‫اسے ناقص وادی اور اگر " ی " ہو تو اسے ناقص یا ئی کہیں گے ۔ ناقص افعال اور‬

‫اسماء میں اجوفکی نسبت زیادہ تبدیلیاں ہوتی ہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ کچھ‬

‫تبدیلیاں تو ناقص کے قواعد کے تحت ہوتی ہیں اورگزشتہ اسباق میں پڑھے ہوئے کچھ‬

‫قواعد کا اطلاق بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے ناقص میں ہونے والی تبدیلیوںکو سمجھنے کے‬

‫لئے زیادہ غور اور توجہکی ضرورت ہے ۔ ساتھ ہیگزشتہ قواعد کا پوری طرح‬
‫یاد ہونا‬

‫بھی ضروریہے ۔‬

‫‪ ۷۴ : ۲‬اجوف کے پہلے قاعدہ میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ حرف علت متحرک ہو ا در‬

‫ما قبلفتحہ ہو تو حرف علت " وای "کو الف میں تبدیلکر دیتے ہیں ۔ اجوف میں اس‬

‫قاعدہ کے اطلاق کے وقت " و " اور " ی " دونوں کو تبدیل کر کے الف ہی لکھا جاتا‬

‫ہے جیسے قول سے قَالَ اور بیع‪.‬سے باغ ۔ لیکن ناقص میں جباس قاعدہ کا اطلاق‬

‫کرتے ہیں تو تبدیلشدہ الفکو لکھنے کا طریقہ ناقص وادی اورناقص پائی میں مختلف‬

‫ہے ۔ اس فرقکو سمجھ لیں ۔‬

‫‪ ۷۴ :‬ناقص وادی ( ثلاثی مجرد ) میں جب و اوالف میں بدلتی ہے تو وہ بصورت‬

‫الف ہی لکھی جاتی ہے جیسے دَعو سے دَعَا ( اس نے پکارا ) للو سے تلا ( وہ پیچھے پیچھے‬

‫آیا ) وغیرہ ۔ لیکن ناقص پائی میں جب "ی " الف میں بدلتی ہے تو وہ بصورت الف‬

‫مقصورہ یعنی ا ی لکھی جاتی ہے ۔ جیسے مَشَی سے مشی ( وہ چلا ) عَصَى سے عضی‬
‫‪۸۲‬‬

‫( اس نے نافرمانیکی ) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۷۴ : ۴‬اس سلسلہ میں یہ بات بھی نوٹکرلیںکہ ناقص کے فعلماضی کے بعد‬

‫اگر ضمیرمفعولی آرہی ہو تو وادی اوریائی دونوں الف کے ساتھ لکھے جاتے ہیں ۔ جیسے‬

‫دَعَاهُمْ ( اس نے انکو پکارا ) عَصَانِی ( اس نے میری نافرمانیکی ) وغیرہ۔‬

‫‪ ۷۴ : ۵‬اب ایک بات یہ بھی نوٹکرلیںکہ اجوف کے پہلے قاعدے کا جب‬

‫ناقص پر اطلاق ہوتا ہے تو ناقص کے مندرجہ ذیل تثنیہ کے صیغے اس قاعدے سے‬

‫مستثنی ہوتے ہیں ۔‬

‫( ‪ ) 1‬ماضی معروف میں تشبیہ کا پہلا صیغہ یعنی فعلا کا وزن مستثنی ہے ۔ مثلا دَعَوَ‬

‫( دعا ) کا تثنیہ دَعَوا اور مَشَی ( مشی ) کا تثنیہ مَشَیا تبدیلی کے بغیر استعمال ہوگا‬

‫حالانکہ حرف علت متحرک اور ما قبلفتحہکی صورت حال موجود ہے ۔‬

‫( ‪ ) ۲‬مضارع معروف میں تثنیہ کے پہلے چارمینے یعنی يَفْعَلان اورتَفْعَلَان کے‬

‫اوزان مستی ہیں ۔ مثلا يَدْعُوَانِ ‪ ،‬تَدْعُوَانِ اور يَمْشِيَانِ تَمْشِيَانِ بھی تبدیلی کے‬

‫بغیراستعمال ہوںگے ۔‬

‫‪ ۷۴ :‬ناقص کا پہلا قاعدہ یہ ہے کہ ناقص کے لامکلمہ کا حرفِ علت اور صیغہ کا‬

‫حرف علت اگر یکجا ہو جائیں تو لامکلمہ کا حرف علتگر جاتا ہے ۔ پھرمیںکلمہپر اگر فتحہ‬

‫ہے تو وہ برقرار رہےگی ۔ اگر ضمہ یاکسرہ ہے تو اسے صیغہ کے حرف علت کے مناسب‬

‫رکھنا ہوگا ۔ اب اس قاعدہکو دونوں طرحکی مثالوں سے سمجھ لیں ۔‬

‫‪ ۷۴ :‬پہلے وہ مثال لے لیں جس میں عین کلمہ پر فتحتہ ہوتی ہے جو برقرار رہتی‬

‫ہے ۔ دَعَوَ( دَعَا) کے جمع مذکر غائب کے صیغہ میں اصلی شکل دَعَوُوا بنتی ہے ۔ اس‬

‫گرےگا تو دعوا باقی بچا ۔ عین کلمہکی فتحہ برقرار رہےگی اس لئے‬
‫کے لامکلمہ کا " و "‬

‫=‬
‫یہ دَعَوْا ہی استعمال ہو گا ۔ اسی طرح زمنی (ارضی ) ۔ " اس نے پھینکا کی جمع مذکر‬

‫گرےگی تو رمزا باقی‬


‫غائب کے صیغہ میں اصلی شکل رمیزا ہوگی ۔ لامکلمہکی " ی "‬
‫‪۸۳‬‬

‫بچےگا اور یہ اسی طرح استعمال ہوگا ۔‬

‫‪ ۷۲ :‬اب یہ بات بھی لوٹ کر میں ماسی معروفمیں تثنیہ مؤنث غائب کا صیغہ‬

‫یعنی فَعَلَتَا اپنے واحد کی استعمالی شکل سے بنتا ہے مثلاً دَعَتْ سے دَعَتَا بنے گا اور‬

‫لَقِيَتْ سے لَقِینا بنے گا۔ اس کے بعد ماضی کے وہ صیغہ آجاتے ہیں جن میں لامکلمہ‬
‫‪۸۴‬‬

‫ساکن ہوتا ہے یعنی فَعَلْنَ فَعَلْتَ سے لے کر فَعَلْتُ فَعَلْنَا تک ۔ ان تمام صیغوں‬

‫میںکوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔‬

‫مشقنمبر‪۷۲‬‬

‫مندرجہ ذیل مادوں سے ماضی معروف میں اصلی شکل اور استعمالی شکل دونوں‬

‫کی صرفکبیر‬
‫کریں ۔‬

‫معاف‬
‫کردینا‬ ‫( ‪ )i‬ع ف و ( ن )‬

‫‪ ii‬هدی( ض ) = ہدایت دینا‬


‫( )‬

‫(‪ )iii‬ن س ی (س ) بھول جانا‬

‫شریف ہونا‬ ‫( ‪ ) ۱۷‬سرو (ک)‬


‫‪۸۵‬‬

‫(حصہ دوم)‬ ‫ن‬


‫اقص‬

‫(مضارع معروف)‬

‫‪ ۷۵ : ۱‬گزشتہ سبق میں ہم نے ناقص کے ماضی معروف میں ہونے والی تبدیلیوںکو‬

‫ناقص کے ایک قاعدہ اور کچھ سابقہ قواعد کی مدد سے سمجھا تھا ۔ اب ناقص کے‬

‫مضارع معروفمیں ہونے والی تبدیلیوںکو بھی ہم ناقص کے ایک نئے قاعدہ اور‬

‫سابقہ قواعدکی مدد سے سمجھیںگے ۔‬

‫‪ ۷۵ : ۲‬ناقص کا دوسرا قاعدہ یہ ہے کہ مضموم واو " و " کے ما قبل اگر ضمہ ہو تو‬

‫" و " ساکن ہو جاتی ہے اور مضموم یا (ٹی ) کے ما قبل اگر کسرہ ہو تو "ی " ساکن ہو جاتی‬
‫=‬
‫ی ۔ اب اس قاعدہ کو مثالوںکی مدد سے‬ ‫ٹی ‪-‬‬ ‫ؤ اور‬ ‫ہے ۔ یعنی ‪ -‬و ‪-‬‬

‫سمجھ لیں ۔‬

‫‪ ۷۵ : ۳‬دَعَوَ ( ن ) کا مضارع اصلاً يَدْعُو بنتا ہے جو اس قاعدہ کےتحت يَدْعُو ہو‬

‫جاتا ہے ۔ اسی طرح رمی ( ض ) کا مضارع اصلا یز منی بنتا ہے جو اس قاعدہ کے تحت‬

‫یرمین ہو جاتا ہے ۔ لیکن اب غورکریں کہ لقبی (س ) کا مضارع اصلا يَلْقَی بنتا ہے ۔‬

‫اس میں اس قاعدہ کے تحت تبدیلی نہیں ہوگی اس لئےکہ مضموم یا کے ماقبلکسرہ‬

‫نہیں ہے ۔ البتہ اس پر اجوف کے پہلے قاعدہ کا اطلاق ہوگا اس لئےکہ متحرک حرف‬

‫ماقبلفتحہ ہے ۔ چنانچہ يَلْقَی تبدیل ہو کرتلقی بنے گا ۔‬


‫علتکے‬

‫‪ ۷۵ : ۴‬گزشتہ سبق کے پیراگراف نمبر‪ ۷۴ : ۵‬میں آپپڑھ چکے ہیںکہ ناقص‬

‫میں مضارع معروف کے تشنیہ کے چاروں صیغے تبدیلیوں سے مستثنیٰ ہیں ۔ اس لئے‬

‫تثنیہ کو چھوڑکراب ہم جمع مذکر غائب کے صیغہ يَفْعَلُونَ پر غورکرتے ہیں ۔ يَدْعُو‬

‫) جمع مذکر غائب کے صیغہ میں اصلا ید عُرُونَ بنے گا ۔ یہاں لامکلمہ کا حرف‬
‫( يَدْعُو‬

‫تکجا ہیں اس لئے ناقص کے پہلے قاعدہ کا اطلاق ہو گا ۔لام‬


‫علتاور صیغہ کا حرف عل ی‬
‫‪ΔΥ‬‬

‫کلمہ کی واوگر جائے گی ۔ اس کے ماقبلکی ضمہکو صیغہکی واو سے مناسبت ہے اس‬

‫ل يَدْعُونَ ہی استعمال ہو گا ۔ اسی طرح یز منی ( یز منی ) سے اصلایزمِنونَ بنے گا ۔ لام‬

‫کلمہکی " ی "گرےگی ۔ ماقبلکسرہ کو صیغہکی واو سے مناسبت نہیں ہے ۔ اس لئے‬

‫کسرہ کو ضمہ میں تبدیلکریں گے تو یز مُؤنَ استعمال ہو گا ۔ يَلْقَى ( يَلْقُی ) سے اصلاً‬

‫ينقيون بنے گا لامکلمہکی ” ی گرےگی اور ماقبلکی فتحہ برقرار رہےگی اوريَلْقَوْنَ‬

‫استعمال ہوگا ۔‬

‫واحد مونث حاضر کے صیغہ یعنی تَفْعَلِینَ کے وزن پر بھی ناقص کے‬ ‫‪۷۵ : ۵‬‬

‫دو سرے قاعدے کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اسکو بھی مثالوںکی مدد سے سمجھ لیں ۔ يَدْعُو‬

‫) واحد مونث کے حاضرصیغہ میں اصلا تَدْعُونِنَ بنے گا ۔ناقص کے پہلے قاعدہ‬
‫(يَدْعُو‬

‫کے تحت لام کلمہکی واوگرےگی ۔ ماقبلکی ضمہکو صیغہکی " ی "سے مناسبت نہیں‬

‫ہے اس لئے ضمہکو کسرہ میں تبدیل کریں گے تو تَدْعِيْنَ استعمال ہوگا ۔ اسی طرح‬

‫يَرْمِي ( يَرْمِنی ) سے اصلا تَرْمِنِینَ بنے گا ۔ لامکلمہکی ”ی گرےگی ۔ ماقبلکی کسرہ کو‬

‫صیغہ کی "ی " سے مناسبت ہے اس لئے تَرمِینَ استعمال ہوگا ۔ يَلْقَى ( يَلْقُی ) اصلاً‬

‫تَلْقَبِينَ بنےگا ۔ما قبلکی فتحہ برقرار رہےگی اور تلقین استعمال ہوگا ۔‬

‫‪ ۷۵ :‬آخر میں اب یہ بھی نوٹکر لیںکہ جمع مؤنث یعنی نون النسوہ والے‬

‫دونوں صیغوں میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ جبکہ متکلم کے صیغوں میں ناقص کے‬

‫دوسرے قاعدے کے تحت تبدیلی ہوتی ہے ۔ امید ہے کہ اب آپناقص کے‬

‫مضارع معروفکی پوری صرفکبیر کرلیں گے ۔‬

‫مشقنمبر‪۷۳‬‬

‫میں اصلی شکل اور‬


‫مشق نمبر ‪ ۷۲‬میں دیئے گئے مادوں سے مضارع معروف‬

‫استعمالی شکل دونوںکی صرف‬


‫کبیر‬
‫کریں ۔‬
‫‪۸۷‬‬

‫ناقص ( حصہسوم )‬

‫(مجهول)‬

‫‪21 ::‬‬
‫‪ 24‬ناقص کا قاعدہ نمبر ‪ ( ۳‬الف ) یہ ہے کہ کسی لفظ کے آخر میں آنے والی " و "‬

‫جو عموماً ناقصکالام کلمہ ہوتا ہے ) کے ما قبل اگر کسرہ ہو تو و اوکو "ی " میں تبدیل کر‬

‫دیتے ہیں ۔ اس قاعدہ کا اطلاق ناقص وادی ( ثلاثی مجرد )کے تمام ماضی مجہول افعال‬

‫میں ہوتا ہے ۔ لیکن ماضی معروف کے کچھ مخصوص افعالپر بھی اس کا اطلاق ہو تا‬

‫ہے ۔ پہلے ہم ماضی معروف کے افعالکی مثالوں سے اس قاعدہکو سمجھیں گے پھر‬

‫ماضی مجہولکی مثالیں لیں گے ۔‬

‫ے ناقص واوی جب باب سَمِعَ سے آتا ہے تو اسکے ماضی معروفپر اس‬

‫کا اطلاق ہوتا ہے مثلا رَضِوَ ( وہ راضی ہوا ) تبدیل ہوکر رضی استعمال ہوتا ہے ۔‬

‫اس طرح غَشِوَ ( اس نے ڈھانپ لیا ) غَشِی ہو جاتا ہے ۔ اور اسکی صرفکبیر بھی‬

‫" ی " کے ساتھ ہوتی ہے ۔ یعنی رَضِی رَضِيَا رَضُوا ( اصلا رَضِبُوْا ) رَضِيَتُ‬

‫رَضِيَتَا رَضِيْنَ سے آخر تک۔‬

‫‪ ۷‬ناقص وادی ثلاثی مجرد کے کسی باب سے آئے ہر ایک کے ماضی مجہول پر‬ ‫‪:‬‬

‫اس قاعدہ کا اطلاق ہوگا ۔ اس لئےکہ ماضی مجہول کا ایک ہی وزن ہے فعل ۔ مثلاً‬

‫فیا گیا ) وغیرہ ۔ پھر انکی صرف‬


‫دعوے دُعِی ( وہ پکاراگیا ) عفو سے عُفِی ( وہ معا ک‬

‫کبیر بھی تبدیل شدہ " ی "کے ساتھ ہوگی ۔‬

‫بعض دفعہ اجوف کے کچھ اسماءکی جمعمکسراور مصدر میں بھی اس قاعدہ کا‬ ‫‪۶ : ۴‬‬

‫اطلاق ہوتا ہے ۔ مثلاً نوبکی جمع ثواب تبدیل ہو کر تیاب ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح‬

‫صَامَ يَصُومُ کا مصدر صِوَامٌ سے صِيَام اور قَامَ يَقُوْمُ کا مصدر قوام سے قِيَامٌ‬

‫ہو جاتا ہے ۔‬
‫کسی لفظ میں تین حرفوںکے‬
‫‪ ۷۶ : ۵‬ناقص کا قاعدہ نمبر‪ ( ۳‬ب ) یہ ہے کہ جب " و "‬

‫بعد ہو یعنی چوتھے نمبپرر یا اس کے بعد واقع ہو اور اس کے ماقبل ضمہ نہ ہو تو " و "کو‬

‫" ی " میں تبدیل کر دیتے ہیں ۔ جیسے جنو ( ض ) ‪ ( -‬اکٹھا کرنا پھل یا چندہ وغیرہ ) کا‬

‫مضارع اصلاً يجبو ہوگا جو اس قاعدہ کے تحت پہلے يَجْبِٹی ہو گا پھر ناقص کے‬

‫دوسرے قاعدہ کےتحت يَجبنی ہو جائےگا ۔ اسی طرح سے رَضِوَ ( رَضِی )کا مضارع‬

‫اصلا یر ضَو ہو گا جو اس قاعدہ کے تحت پہلے برضئی اور پھر ا جوف کے پہلے قاعدہ کے‬

‫تحت بڑھی ہو جائےگا۔‬

‫‪ ۷۶ :‬ناقص وادی ثلاثی مجرد کےکسی باب سے آئے ہر ایککے مضارع مجہول پر‬

‫اس قاعدہ کا اطلاق ہو گا اس لئے کہ اس کا ایک ہی وزن يُفْعَلُ ہے ۔ مثلا دُعِوَ‬

‫( دعی ) کا مضارع اصلا یدعو ہو گا جو اس قاعدہ کے تحت پہلے يُدْعَنی ہوگا اور پھر‬

‫اجوفکے پہلے قاعدہ کے تحت يُذعی ہو جائے گا ۔ اسی طرح عُفو ( عُقِی ) کا مضارع‬

‫يعفوسے پہلے يُعْلَی پھر تعفی ہو جائے گا ۔‬

‫‪ ۷۶ :‬ناقص کے اس قاعدہ نمبر ‪( ۳‬ب ) کے تحت ناقص دادی کے تمام مزید فیه‬

‫افعال میں "و "کو "ی " میں بدل دیا جاتا ہے ۔ پھرحسب ضرورت اس " ی " میں مزید‬

‫قواعد جاری ہوتے ہیں ۔ مثلا ازتَضَوَ افْتَعَلَ ) پہلے ارتضی اور پھرازتضی ہو گا ۔‬

‫اس کا مضارعيَرْتَضِو پہلے يَرْتَضِی اور پھر يَرْ نَضِی ہوگا ۔‬

‫پوبتایا تھا کہ باب افتعال‬


‫آپکو یاد ہو گاکہ پیراگراف‪ ۷۳ : ۶‬میں آک‬

‫اور انفعال کے مصدر میں اجوف وادیکی "و " تبدیل ہو کر " ی "بن جاتی ہے ۔ یہ‬

‫تبدیلی بھی ناقص کے اسی قاعدہ ‪ ( ۳‬ب ) کے تحت ہوتی ہے ۔ وہاں دی گئی مثالیں‬

‫اِخْتِوَانٌ سے اِخْتِيَانوغیرہ دوبارہ دیکھ لیں ۔‬

‫ابآپاندازہکر سکتے ہیں کہ ناقص میں اکثر " و " بدلکر "ی " ہو جاتی‬ ‫‪:‬‬

‫بدلکر "و " ہو جاتی ہے ۔ اور بعض صورتوں میں مختلفالفاظ‬ ‫ہے۔ جبکہ کبھی " ی‬
‫‪۸۹‬‬

‫ہم شکل ہو جاتے ہیں ۔ اسکی وجہ سے اکثر الفاظ کے متعلق یہ فیصلہکرنا مشکل ہو جاتا‬

‫ہےکہ اصلمادہ واوی ہےکہ پائی ہے تا کہ ڈکشنری میں اسے متعلقہ پٹی میں دیکھا‬

‫فیا جاتا ہے ۔ ایک ڈکشنری میں کوئی‬


‫جائے ۔ بلکہ بعض دفعہ خود ڈکشنریوںمیں اختلپاا‬

‫ماده ناقص وادی کے طورپر لکھا ہوتاہے تو دوسری ڈکشنری میں وہیمادہ ناقص یائی کے‬

‫طورپر لکھا ہوتا ہے ۔ مثلا صلوا صلی ۔ طغو طغی ۔ غشو ‪ /‬غشی وغیرہ ۔‬

‫‪ ۷۶ : ۱۰‬اب آپکو ذہنی طور پر اس بات کے لئے تیار رہنا چاہئےکہ کوئی لفظ اگر‬

‫ناقص وادی میں نہ ملےتو پائی میں ملے گا ۔ تاہم اس تلاشمیں ڈکشنریکی زیادہ ورق‬

‫گردانی نہیں کرنا پڑتی ۔کیونکہ اس مقصد کے لئے عربی حروف ابجد میں آخری چار‬

‫حرفوںکی ترتیب یوں رکھی گئی ہے ۔ ” ن‪ -‬ھ ‪ -‬و۔ی " جبکہ اردو میں یہ ترتیب‬

‫ن ۔ و ۔ ھ ۔ ی " ہے ۔ اس طرح ڈکشنری میں " و " اور " ی " آخر پر ساتھ ساتھ مل‬

‫کرآجاتے ہیں ۔‬

‫‪ ۷۶ :‬یاد رہےکہ قدیم ڈکشنریوں میں سے اکثر میں مادوںکی ترتیبمادہ کے‬

‫آخری حرف لام کلمہ ) کے لحاظ سے ہوتی ہے جبکہ جدید ڈکشنریوں میں مادوںکی‬

‫ترتیبپہلے حرف ( فاکلمہ ) کے لحاظ سے ہوتی ہے ۔ چنانچہ قدیم ڈکشنریوں میں ناقص‬

‫وادی اوریائی ایک ہی جگہ ساتھ ساتھ بیان کئے جاتے ہیں ۔ جبکہ جدید ڈکشنریوں میں‬

‫جہاں مادے ”فا کلمہکی ترتیب سے ہوتے ہیں پہلے ناقص وادی کا بیان ہوتا ہے اور‬

‫اس کے فوراً بعد ناقص یائی مذکور ہوتا ہے ۔ اس لئے یہاں بھی مادہ کی تلاش میں‬

‫زیادہ پریشانی نہیں ہوتی ۔‬

‫مشقنمبر‪۷۴‬‬

‫ماده غش و ( س ) سے ماضی معروف مضارع معروف‪ ،‬ماضی مجہول اور‬

‫فبیرکریں ۔‬
‫مضارع مجہولکی صر ک‬
‫( حصہ چهارم)‬ ‫ن‬
‫اقص‬

‫)‬
‫(صرف صغیر‬

‫‪ ۷۷ : ۱‬اس سبق میں ان شاء اللہ ہم صرف صغیرکے بقیہ الفاظ یعنی فعل امر اسم‬

‫الفاعل ‪ ،‬اسم المفعول اور مصدر میں ہونے والی تبدیلیوںکا مطالعہکریں گے اور اس‬

‫حوالہ سےکچھ نئے قواعد سیکھیں گے ۔‬

‫ناقصکا چوتھا قاعدہ یہ ہےکہ ساکن حرفعلتکو جبمجزومکرتے ہیں‬ ‫‪۷ : ۲‬‬

‫تو وہگر جاتا ہے ۔ اس قاعدہ کا اطلاق زیادہ تر ناقص کے مضارع مجزومپر ہوتا ہے ۔‬

‫سے فعل امربنانے کے لئے علامت مضارعگر لائی اور ہمزہ الوصللگایا‬ ‫مثلا " تَدْعُو‬

‫أدعو " بنا۔ اب لامکلمہکو مجزومکیا تو " و او گرگئی ۔ اس طرح اس کا فعل امر‬

‫اذع استعمال ہو گا ۔ اسی طرح " يَدْعُو "پر جب " لم " داخل ہو گا تو لامکلمہ مجزوم ہو گا‬

‫اور " و او گر جائےگی ۔ اس لئے لَمْ يَدْعُوکی بجائے " لَمْيَدْعُ " استعمال ہو گا ۔‬

‫‪ ۷۷ : ۳‬یہ بات نوٹکرلیںکہ ناقص کا مضارعجب منصوب ہو تاہے تو اس کا‬

‫لَنْ يَدْعُوَ‬ ‫حرف علت ( وای) بر قرار رہتا ہے البتہ اس پرفتحہ آجاتی ہے جیسے يَدْعُو‬

‫ہو جائےگا ۔‬

‫‪ ۷۷ : ۴‬ناقص کا پانچواں قاعدہ یہ ہےکہ ناقص کے لامکلمہ پر اگر تنوین ضمہ ہو‬

‫اورماقبل متحرک ہو تو لامکلمہگر جاتا ہے اور اس کے ما قبل اگر ضمہ یا کسرہ تھی تو اس‬

‫کی جگہ تنوینکسرہ آئےگی اور اگر فتحہ تھی تو تنوین فتحہ آئےگی ۔ اس قاعدہ کا اطلاق‪.‬‬

‫زیادہ تر ناقص کے اسم الفاعل اور اسم الظرف پر ہوتا ہے ۔ اس لئے دو الگالگ‬

‫مثالوںکی مدد سے ہم اس قاعدہکو سمجھیں گے ۔ پہلے اسم الفاعلکی مثال اور پھر اسم‬

‫الظرفکی مثال لیں گے ۔‬

‫"ے وزن پر دَاعِر بنتہاے ۔ اس میں‬


‫‪ ۷۷ : ۵‬دَعَا دَعَوَ) کا اسم الفاعل " فَاعِل ک‬
‫‪۹۱‬‬

‫"واو " چوتھے نمبرپر ہے اس لئے پہلے یہ ناقص کے قاعدہ نمبر ‪ ( ۳‬ب) کےتحت دَاعِی‬

‫ہو گا ۔ پھر مذکو رہ بالا پانچویں قاعدہ کے تحت لام کلمہ سے " ی "گر جائے گی ۔ما قبل‬

‫چونکہکسرہ ہے اس لئے اسکی جگہ تنوین کسرہ آئے گی تو لفظ ذاع بنےگا۔ اسکو دو‬

‫طرح سے لکھ سکتے ہیں یعنی دَاع بھی اور داعی بھی ۔ البتہ دوسری شکل میں "ی "‬

‫صرف لکھی جائےگی لیکن پڑھنے میں صامت (‪ ) SILENT‬رہےگی ۔‬

‫‪ ۷۷ : ۶‬اب یہ بات نوٹکر لیںکہ ناقص کے اسم الفاعل پر جب لام تعریف‬

‫داخل ہوتا ہے تو پھر اس پر مذکورہ قاعدہ کا اطلاق نہیں ہو تا ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ‬

‫داعی پر جب لام تعریف داخل ہوگا تو یہ الداعنی بنےگا ۔ ابلامکلمہ پر تنوین ضمہ‬

‫نہیں ہے اس لئے اس پرپانچویں قاعدہ کا اطلاق نہیں ہوگا ۔ البتہ ناقص کے دوسرے‬

‫قاعدے کے تحت یہ الدَّاعِنی سے تبدیل ہو کر الدَّاعِنی بن جائےگا اور اسی طرح‬

‫استعمال ہوگا ۔ خیال رہےکہ قرآن مجید کی خاص املاء میں چند مقاماتپر لام تعریف‬

‫کے باوجو د لام کلمہ کی " ی "کو خلاف قاعدہگرا دیاگیا ہے ۔ مثلا يَوْمَ يَدْعُو الدَّاعِ‬

‫)‬ ‫( جس دن پکارنے والا پکارےگا ) جو دراصل الداعى ہے ۔ فَهُوَالْمُهْتَدِ پ)‬


‫س (وہی‬

‫ہدایتپانے والا ہے ) میں بھی دراصلالْمُهْتَدِی ہے ۔‬

‫‪ ۷۷ :‬اب دیکھیں کہ دَعَا ( دَعو) کا اسم الظرف مَفْعَل کے وزن پر اصلا‬

‫مدعوبنتا ہے ۔ یہ بھی پہلے مدعی ہوگا پھر اس کالام کلمہگرےگا ۔ما قبل چونکہ فتحہ‬

‫سر تنوین فتحہ آئےگی تو یہ مدعی استعمال ہوگا ۔‬


‫ہے اس لئے اپ‬

‫‪ ۷۷ :‬ناقص سے اسم المفعول بنانے کے لئے کوئی نیا قاعدہ نہیں سیکھنا ہو تا ۔‬

‫دَعَا دَعو) کا اسم المفعولمَفْعُول کے وزن پر مَدْعُور بنتاہے ۔ اس میں لامکلمہ پر‬

‫توین ضمه تو موجود ہے لیکن ما قبل متحرک نہیں ہے اس لئے اسپر پانچویں قاعدہ کا‬

‫اطلاق نہیں ہو گا ۔ البتہ یہاں صورت حال یہ ہے کہ مثلین یکجا ہیں ۔ پہلا سا کن اور‬

‫دوسرا متحرک ہے ۔ اس لئے ادغام کے پہلے قاعدہ کے تحت ان کا ادغام ہو جائے گا‬

‫اور مدعواستعمالہوگا ۔‬
‫‪۹۲‬‬

‫‪ ۷۷ :‬نوٹکر لیںکہ ناقصیائی کا اسم المفعول خلاف قاعدہ استعمال ہوتا ہے ۔‬

‫اس میں پہلے مفعول ( وزن )کی "و "کو " ی " میں بدل دیتے ہیں اور عینکلمہ کاضمہ‬

‫بھی کسرہ میں بدل دیتے ہیں ۔ پھردونوں "ی "کا ادغام ہو جاتا ہے ۔ اس طرح ناقص‬

‫یائی سے اسم المفعول کا وزن " مَفْعِی " رہ جاتا ہے ۔ مثلا رَمَى يَرْمِنی سے مَرمِی‬

‫هدى يَهْدِى سے مَهْدِىو غیره‬

‫‪ ۷۷ : ۱۰‬پیرا گراف ‪ ۷۲ : ۳‬میں آپپڑھ چکے ہیں کہ اجوف ثلاثی مجرد میں اسم‬

‫کو ہمزہ میں تبدیلکر دیتے ہیں ۔ ابنوٹکرلیں کہ یہ‬


‫الفاعل بناتے وقت حرفعلت‬

‫تبدیلی بھی ناقص کے قاعدے کے تحت ہوتی ہے ۔ چنانچہ ناقص کا چھٹا قاعدہ یہ ہےکہ‬

‫کسی اسم کے حرف علت ( وای ) کے ما قبل اگر الف زائدہ ہو تو اس وریکو ہمزہ میں‬

‫بدل دیں گے ۔ جیسے سمار سے سَمَاءٌ بِنَائی سے بناء ( عمارت) وغیرہ ۔ نوٹکرلیں‬

‫کہ الف زائدہ سے مراد وہ الف ہے جوکسی مادہکی ( وای ) سے بدلکر نہ بنا ہو بلکہ‬

‫صرفکسی وزنمیں آتا ہو ۔‬

‫‪ ۷۷ :‬اب یہ بھی نوٹکرلیں کہ اجوف میں اس کا استعمال محدود ہے جبکہ‬ ‫ا‬

‫ناقص میں یہ قاعدہ زیادہ استعمال ہوتاہے ۔ یہاںیہ مجرد کے بعض مصادر جمع مکسرکے‬

‫بعض اوزان اور مزید فیہ کے ان تمام مصادر میں استعمال ہوتا ہے جن کے آخر پر‬

‫آتا ہے یعنی اِفْعَالُ فِعَالُ افْتِعَالَ اِنْفِعَال اوراِسْتِفْعَال ‪ -‬مجرد کے مصادر‬

‫میں سے دُعَاو سے دُعَاءُ جَزَای سے جَزَاءُ وغیرہ ۔ جمعمکسرکے اوزان افعالاور‬

‫فِعَال میں اَسْمَاو سے اَسْمَاء اور بساؤ سے نِسَاء وغیرہ اور مزید فیہ کے مصادر‬

‫میں سے اِخْفَائی سے اِخْفَاءُ ( چھپانا ‪ ،‬لِقَای سے لِقَاء (ملاقاتکرنا ) ‘ ابْتِلَاو سے‬

‫ابْتِلاءُ (آزمانا ) إِسْتِسْقَای سے استسقاء (پانی طلبکرنا ) وغیرہ ۔‬

‫‪ ۷۷ : ۱۲‬اب ناقص مادوں سے بننے والے بعض اسماءکو سمجھ لیں جنکالامکلمہگر‬
‫‪:‬‬

‫جاتا ہے اور لفظ صرف دو حرفوں یعنی " فا " اور " عین "کلمہ پر مشتمل رہ جاتا ہے ۔‬
‫‪۹۳‬‬

‫اس قسم کے متعدد اسماء قرآنکریم میں بھی استعمال ہوئے ہیں مثلاً اب اخوغیرہ ۔‬

‫اس قسم کے الفاظکی اصلی شکل کی نون تنوین کو ظاہر کر کے لکھیں اورگزشتہ قواعد‬

‫کو ذہن میں رکھ کر غورکریں تو ان میں ہونے والی تبدیلیوںکو آپ آسانی سے سمجھ‬

‫سکتے ہیں ۔‬

‫‪ ۷۷ : ۱۳‬آب دراصل ابو تھا ۔ اسکی نون تنوین کھولیں گے تو یہ ابون ہو گا ۔‬

‫ابحرف علت متحرک اورما قبل ساکن ہے ۔ اجوف کے قاعدہ نمبر‪ ۲‬کے تحت حرکت‬

‫ما قبلکو منتقل ہوئی تو یہ آبون ہو گیا۔ پھرا جوفکے قاعدہ نمبر ‪ ۳‬کے تحت " و "گری تو‬

‫ابن باقی بچا جسے ابلکھتے ہیں ۔ اس طرح سے ‪:‬‬

‫اخو ‪ -‬اَخْوُنُ اَخُونُ ‪ -‬اَخْنُ ‪-‬اَحْ‬ ‫اخ‬

‫غَدُو ‪ -‬غَدْوُنُ ‪ -‬غَدُونُ ‪ -‬عَدُنُ ‪ -‬غَدٌ‬ ‫غَدٌ‬

‫دَمْى = دَمْيُنُ = دَمُيْنُ = دَمُنُ = دَمٌ‬ ‫دَمٌ‬

‫‪ -‬يَدُى ‪ -‬يَدْيُنُ ‪ -‬يَدِّينُ ‪ -‬يَدُنُ ‪ -‬يَدٌ‬ ‫يَدٌ‬

‫یہی وجہ ہےکہ ان اسماء کے تثنیہ میں " و " یا " ی " پھر لوٹآتی ہے جیسے ابوان "‬

‫دَمَيَان وغيره ‪ -‬البته يَدَيَانِ بصورت يَدَانِ ہی استعمال ہوتا ہے ۔‬

‫ذخیرہالفاظ‬

‫شَرَى (ض)شِراءً = سوداگریکرنا ‪،‬خرید نا بیچنا‬ ‫) لِقَاء = پالینا‪،‬سامنے آنا‬


‫دَقِى (س‬
‫(افعال) = سامنےکرنا پھینکنا ڈالنا‬
‫( افتعال) = خریدنا‬
‫نَدِی(س)نَدَاوَةً =کسی چیزکو ترکرنا‬ ‫(تفعیل ) = دینا‬
‫= آوازبلندکرنا پکارنا حلق ترکر کے )‬
‫( مفاعله ) ‪-‬‬ ‫( مفاعله ) = آمنےسامنے آنا ملاقاتکرنا‬

‫دَعَوَان دُعَاء = پکارنا (مددکے لئے )‬ ‫(تفعل) = حاصلکرنا سیکھنا‬

‫دَعْوَةً = دعوت دینا‬ ‫سَقَى(ض) سَقْيًا = (خود) پلانا‬

‫دَعَالَهُ = کسیکے حق میں دعاکرنا‬ ‫(افعال‬


‫) = پینےکے لئے دینا‬

‫دَعَا عَلَيْهِ =کسی کے خلافدعاکرنا‬ ‫(استفعال‬


‫) ۔ پینےکے لئے مانگنا‬

‫رضکیاس رضْوَانًا ‪ -‬راضی ہونا پسندکرنا‬ ‫ضهُدًى هِدَايَةً = ہدایتدینا‬


‫دَدَى( )‬
‫‪۹۴‬‬

‫خشی اس حشیه ‪-‬کسی کی عظمتکے علم‬ ‫= ہدایپتانا‬


‫( افتعال) ‪-‬‬

‫سے دلپر ہیبتیا خوف طاری ہونا‬ ‫= آنا حاضرہونا‬


‫ضاتيانا ‪-‬‬
‫عَتَ ی ( )‬

‫= جگہ کا خالی ہونا‬


‫خَلَ وَان خَلَاءٌ ‪-‬‬ ‫(افعال) = حاضکررنا دینا‬

‫خَلْوَةً = تنہائی میں ملنا‬ ‫عَطَوَان عَظوا = لينا‬

‫مَشَى( )‬
‫ضمَشْيَا = چلنا‬ ‫(افعال ) = دینا‬
‫=‬
‫لافمی (ن)كِفَايَةً = ضرورت سے بے نیاز‬ ‫) سَعيًا ‪ -‬تیز دوڑنا کوششکرنا‬
‫سَعَى (ف‬
‫کرنا کافی ہونا‬ ‫فَرِحَ()‬
‫س مَرَحًا = اترانا‬

‫قَ ضَی (ض)قَضَاءُ = کام کا فیصلہکردینا‬

‫یا کام پوراکر دینا‬

‫نمبر ‪۱ ( ۷۵‬‬
‫)‬ ‫مشق‬

‫مندرجہ ذیل عبارتوںکا ترجمہکریں ۔‬

‫( ‪ ) ١‬وَسَقْهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا ( ‪ ) ۲‬اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ( ‪ ) ۳‬رَضِى‬

‫اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ ( ‪ ) ۴‬أَدْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبِّكَ‬

‫( ‪ ) ٥‬إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ( ‪ ) ۲‬سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا‬

‫الرُّعْبَ ( ع ) وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا‬

‫(‪ ) ۸‬وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى ( ‪ )9‬لَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ‬ ‫إِنَّا مَعَكُمْ‬

‫مَرَحًا ( ‪ ) ١٠‬فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللَّهُ ( ‪ ) ۱‬وَقَضَى رَبُّكَالَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ( ‪ )۱۳‬وَمَنْ‬

‫يُوتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا ( ‪ ) ۱۳‬قَالَ الْقِهَا يَا مُوسَى ( ‪ ) ۱۳‬إِذَا نُودِيَ‬

‫) ‪( ۱۵‬‬
‫لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِاللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ( ‪ )١٥‬فَاقْضِمَا انْتَ‬

‫قَاضِإِنَّمَا تَقْضِيْ هَذِهِ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا ( ‪ )١٦‬أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيُوةَ‬

‫الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ فَلَا يُخَفَّفُعَنْهُمُ الْعَذَابُ ( ‪ ) ۱۷‬أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ‬

‫( ‪ )۱۹‬الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا‬ ‫( ‪ )۱۸‬وَإِذِ اسْتَسْقَى مُؤسَى لِقَوْمِهِ‬

‫لِنَهْتَدِى لَوْلَا أن هدانا الله ( ‪ ) ۲۰‬وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوا (‪۲۱‬‬
‫‪ ) ٢١‬وَاعْلَمُوا‬

‫أنَّكُمْ مُلْقُوهُ ( ‪ )۳۲‬فَتَلَقَّىآدَمُ مِنْ رَّبِهِ كَلِمَةٍ فَتَابَعَلَيْهِ‬


‫نقمبر‪( ۷۵‬ب )‬
‫مش‬

‫مندرجہ ذیل اسماء و افعالکی قسم ‪،‬مادہ باب اور صیغہ بتائیں ۔‬

‫( ‪ ) ٢‬نُلْقِى‬ ‫( ‪ ) ٥‬يَخْشَى‬ ‫( ‪ ) ۳‬ادْعُ‬ ‫( ‪ )۳‬رَضُوا‬ ‫( ‪ ) ۲‬اهْدِ‬ ‫(‪ ) 1‬سفی‬

‫) ‪(۷‬‬
‫( ‪ )۱۳‬يَكْفِي‬ ‫( ‪ ) ١٠‬تَرْضَى ( ‪ ) 1‬لَاتَمْشِ‬ ‫( ‪ ) ٩‬يُعْطِى‬ ‫( ‪ ) ۸‬خَلَوْا‬ ‫( ‪ ) 2‬لَقُوْا‬

‫(‪ )۱۸‬قَاضِ‬ ‫(‪ ) ۱۷‬اِسْعَوْا‬ ‫( ‪ ) ۱۲‬نُودِيَ‬ ‫( ‪ ) ۱۵‬اَلْقِ‬ ‫( ‪ )۱۳‬أُوتِيَ‬ ‫( ‪ ) ۱۳‬يُؤْتى‬

‫(‪ )۲۱‬لِنَهْتَدِی ( ‪ ) ۲۲‬مُلْقُونَ‬ ‫( ‪ ) ۱۹‬اِشْتَرَوُا ( ‪ ) ۲۰‬كَافٍ‬


‫‪۹۶‬‬

‫لفيف‬

‫‪ ۷۸ : ۱‬پیراگراف ‪ ۶۴ : ۷‬میں آپپڑھ چکے ہیں کہ جس فعل کے مادہ میں دو جگہ‬

‫حرف علت آجائیں اسے لفیفکہتے ہیں ۔ اگر حروف علت ”فا "کلمہ اور ”لام "کلمہ‬

‫کی جگہ آئیں تو ان کے درمیان میں یعنی عین کلمہکی جگہکوئی حرفصحیح ہوگا تو ایسے‬

‫= بچانا۔ لیکن اگر حروف علت باہم‬


‫فعلکو لفیف مفروقکہتے ہیں جیسے وَقی ( وَقَی ) ۔‬

‫قرین یعنی ساتھ ساتھ ہوں تو ایسے فعلکو لفیف مقرونکہتے ہیں جیسے روی ( روی )‬

‫روایتکرنا ۔‬

‫‪ ۷۸ : ۲‬اب یہ بات بھی ذہن میں واضحکرلیں کہ لفیف مفروق = مثال ‪ +‬ناقص‬

‫ہے ۔ اس لئےکہ فاکلمہ پر حرف علت ہونے کی وجہ سے وہ مثال ہوتاہے اورلامکلمہ‬

‫ہے ۔ اسی طرح سے لفیف مقرون ۔‬


‫پر حرف علت ہونےکی وجہ سے وہ ناقص بھی ہوتا‬

‫اجوف ‪ +‬ناقص ہے ۔ یعنی عین کلمہ پر حرفعلتہونےکی وجہ سے وہ اجوف ہے اور‬

‫لامکلمہ پر حرف علت ہونےکی وجہ سے وہ ناقص بھی ہے ۔‬

‫‪ ۷۸ : ۳‬نفیف مفروق اور نصیف مقرون میں ہونے والی تبدیلیوںکو سمجھنے کے لئے‬

‫کسی نئے قاعدہکو سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ‪ ،‬صرف یہ اصول یادکر لیںکہ لفیف‬

‫مفروق پر مثال اور ناقص دونوں کے قواعد کا اطلاق ہو گا یعنی اس کے فاکلمہ کا حرف‬

‫علت مثال کے قواعد کے تحت اور لام کلمہ کا حرف علتناقص کے قواعد کے تحت‬

‫تبدیل ہوگا ۔ جبکہ لفیف مقرون پر اجوفکے قواعد کا اطلاق نہیں ہوگا بلکہ صرف‬

‫ناقص کے قواعد کا اطلاق ہو گا ۔ یعنی اس کے عینکلمہ کا حرف علت تبدیل نہیں ہو گا‬

‫اور لام کلمہ کا حرف علت ناقص کے قواعد کے تحت تبدیل ہو گا۔ اس اصول کے‬

‫ساتھ ساتھ لفیف مادوں کے متعلق کچھ وضاحتیں بھی ذہن نشین کر لیں تو انکو سمجھنے‬

‫اور استعمالکرنے میں آپ‬


‫کو کافی مددمل جائےگی ۔‬

‫‪ ۷۸ : ۴‬اوپر آ ک‬
‫پو بتایاگیہاےکہ نصیف مفروق وہ ہوتا ہے جس کے فاکلمہ اورلام‬
‫کلمہ پر حرف علت آئے ۔ اب یہ بھی نوٹکرلیںکہ لفیف مفروق میں فاکلمہ پر ہمیشہ‬

‫"و " اور لام کلمہ پر " ی " آتی ہے ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ فاکلمہ پر "ی " اور لامکلمہ پر‬

‫"و "آئے ۔ البتہ " ی‬


‫" دی "مادہ ایک استثناء ہے جس سے لفظ یہ (ہاتھ ) ماخوذ ہے ۔‬

‫لفیف مفروق مجرد کے باب ضَرَبَ اور سَمِعَ سے آتا ہے جبکہ باب‬ ‫‪۷۸ : ۵‬‬

‫حسب سے بہت ہی کم استعمال ہوتا ہے ۔ چنانچہ اس کے فاکلمہکی " و " پر مثال کا‬

‫قاعدہ جاری ہوتا ہے ۔ یعنی باب ضَرَبَ اور حب کے مضارع سے ”و گر جاتی‬

‫ہے مگرباب سمع کے مضارعمیں برقرار رہتی ہے جبکہ تینوں ابواب کے لامکلمہ پر‬

‫ناقص کا قاعدہ جاری ہوتا ہے ۔ جیسے باب ضَرَبَمیں وَقَى يَوْقِی سے وَقَی يَقِی بَابٍ‬

‫حَسِبَ میں وَلِيَ يَوْلی سے وَلِيَ يَلِی ( قریب ہونا) اور باب سَمِعَ میں وَهِيَ يَوْهَى‬

‫سے وَهِيَ يَوْھی ہو جائےگا ۔‬

‫‪ ۷۸ :‬لفیف مفروق میں مثال اور ناقص دونوں کے قواعد کے اطلاق کا ایک‬

‫خاص اثر یہ ہوتا ہےکہ اس کے امر حاضرکے پہلے صیغے میں فعل کا صرفعینکلمہ باقی‬

‫بچتا ہے ۔ مثلاً وَ فی يَقِی سے مضارع يوقیکی بجائے یقنی استعمال ہوتا ہے ۔ اس سے‬

‫فعل امربنانے کے لئے علامت مضارعگراتے ہیں تو فنی باقی بچتا ہے ۔ پھرجب لام‬

‫کلمہ " ی "کو مجزومکرتے ہیں تو وہ بھی گر جاتی ہے ۔ اس طرح فعل امر " ق " (تو بیچا )‬

‫استعمال ہوتا ہے ۔‬

‫‪ ۷۸ :‬اوپر آپکو یہ بھی بتایاگیاہےکہ لفیف مقرونوہ ہوتاہے جس میں حروف‬

‫علتبا ہم قرین یعنی ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ۔ عام طور پر کسی مادے کے عین اور لام‬

‫کلمہ پر حروف علتیکجا ہوتے ہیں ۔فا اور عینکلمہ پر ان کے یکجا ہونے والے مادے‬

‫بہتکم ہیں ۔ اور جو چند ایک ایسے مادے ہیں بھی تو عموماً ان سے کوئی فعل استعمال‬

‫نہیں ہو تا ۔ مثلاً قرآنکریم میں ایسے مادے دو لفظوں " وَيْلٌ " ( خرابی ۔ تباہی وغیرہ )‬

‫اور یوم (دن ) میں آئے ہیں ۔ اگرچہ عربی ڈکشنریوںمیں ان دونوں مادوں سے ایک‬

‫آدھ فعل میں بھی مذکور ہوا ہے لیکن قرآنکریم میں ان سے ماخوذ کوئی صیغہ فعل‬
‫‪۹۸‬‬

‫کہیں وارد نہیں ہوا ۔ لہذا عربی گرامرمیں جب لفیف مقرون کا ذکر ہوتا ہے تو اس‬

‫سے مراد وہی مادہ ہوتاہے جس میں عین کلمہ اور لامکلمہ دونوں حرف علتہوں ۔‬

‫‪ ۷۸ :‬لفیف مقرون میں تین کلمہ پر " و " اور لامکلمہ پر "ی " ہی ہوتی ہے ۔ ایسا‬

‫نہیں ہو تاکہ عین کلمہ پر " ی " اور لام کلمہ پر "و " ہو اور یہ مجردکے صرفدو ابواب‬

‫ضَرَبَ اور سَمِعَ سے آتا ہے ۔ دونوں ابواب میں مین کلمہکی "و " تبدیل نہیں‬

‫ہوتی جبکہ لام کلمہ کی "ی " میں قواعد کے مطابق تبدیلی آتی ہے ۔ مثلاً ضَرَبَ میں‬

‫غَوَيَ يَغْوِی سے غَوَی يَغْوِی بک جانا) اور سَمِعَ مِیں سَوِيَيَسْوَىسے سَوِيَ‬

‫يَسوی ( برابر ہونا ) ہو جائےگا ۔‬

‫‪ ۷۸ :‬بعض دفعہ نصیف مقرون مضاعف بھی ہوتا ہے یعنی عین کلمہ اور لامکلمہ‬

‫دونوں " و" یا دونوں " ی " ہوتے ہیں مثلاج وو جس کا اسم اَلْجَو ( زمین اور‬

‫آسمانوںکی درمیانی فضا) قرآنکریم میں استعمال ہوا ہے ۔ اسی طرحح ی ی اور ع‬

‫ی ی بھی قرآنکریم میں آئے ہیں ۔ ایسی صورت میں مسلمین کا ادغام اورفک ادغام‬

‫دونوں جائز ہیں یعنی حَتى يَحْيَى سے حَبِي يَحْنِي ( زندہ ہونا‪ /‬رہنا ) بھی درست ہے‬

‫اور حَيَّ يَحَی بھی درست ہے ۔ اسی طرح عَى يَعْمَى سے عَمِيَ يَعْنِي( تھک‬
‫کر رہ جاتا‬

‫عاجز ہونا اور عَيَّ يَعَی دونوں درست ہیں ۔‬


‫وو‬

‫ذخیرہالفاظ‬

‫=‬
‫ض وقايَةً ‪ -‬بچانا‬
‫وقمی ( )‬ ‫سوی ( س) سوئ = برابر ہونا درست ہونا‬

‫(افتعال) = بچتا‪،‬پر ہیزکرنا‬ ‫( تفعیل) ‪ -‬نوکپلکدرستکرنا‬

‫تَقْوَى ‪ -‬اللہ کے ناراضہونے کا خوف‬ ‫(افتعال) = برابر ہونا‬


‫=‬
‫اِسْتَوَى عَلی ‪ -‬کسی چیزپر متمکن ہونا غالبآنا هوی(س) هوی ‪ -‬چاہنا پسندکرنا‬

‫ض هَوِيًّا ‪ -‬تیزی سے نیچے اترنا‬


‫()‬ ‫إسْتَوَىالى = متوجہ ہونا قصد وارادہ کرنا‬

‫الْهَوَاءُ = فضا ہوا‬ ‫‪=1‬‬


‫‪1‬‬
‫وفی(ض) وَفَاء ‪ -‬نذریا وعدہ پورا کرنا‬

‫الهوى = خواهش عشق‬ ‫(افعال) = وعدہ پوراکرنا‬

‫ءذى(س) أَذًى = تکلیف پہنچنا‬ ‫(تفعیل) = حق پورا دینا‬

‫= تکلیفپہنچانا‬
‫(افعال) ‪-‬‬ ‫(تفعل ) = حق پورا لینا موت دینا‬

‫ل حق (س) لخفا = کسی سے جالنا‬ ‫حیمی (س )حَيَاةً = زندہ رہنا‬

‫(افعال) = کسی کو کسی سےملادینا‬ ‫حَيَاء ‪ -‬شرمانا حیاکرنا‬

‫= زندہکرنا زندگی دیتا‬


‫( افعال) ‪-‬‬
‫=‬
‫ھیں ۔ درازی عمرکی دعا دینا سلامکرنا‬

‫(استفعال) = شرمکرنا باز رہنا‬

‫حَيَّ = متوجہ ہو جلدیکرو‬

‫اے ( الف )‬
‫مشق نمبر‬

‫مندرجہ ذیل مادوں سے ان کے سامنے دیئے گئے ابوابمیں اصلی اور تبدیل‬

‫شدہ شکل میں صرف صغیرکریں ۔‬

‫(‪ )ii‬وفی افعال ‪،‬تفعيل ‪،‬تفعل‬ ‫وقی ۔ ضرب افتعال‬ ‫(‪) i‬‬

‫( ‪ )۱۷‬ح ی ی ‪ -‬سمع ‪ ،‬افعال استفعال‬ ‫(‪ )ii‬سوی‪ -‬تفعیل افتعال‬

‫قمبر اے ( ب )‬
‫مش ن‬

‫مندرجہ ذیل اسماء و افعالکی قسم مادہ باب اور صیغہ بتائیں ۔‬

‫( ‪ ) ۵‬أَوْفُوا‬ ‫سَوَّيْتُ‬ ‫(‪)۳‬‬ ‫يَسْتَوِى‬ ‫( ‪)۳‬‬ ‫سَوَّى‬ ‫( ‪)۲‬‬ ‫( ‪ ) 1‬اسْتَوى‬


‫‪1..‬‬

‫( ‪ )1‬وَفَّى‬ ‫تُوَفَّى‬ ‫(‪) ۱۰‬‬ ‫( ‪ ) 9‬تَوَفَّ‬ ‫( ‪ ) ۸‬نُوَفِّي‬ ‫( ‪ ) ۷‬أوفى‬ ‫( ‪ )1‬أَوْفِي‬

‫( ‪ )۱۵‬حُتِيْتُمْ ( ‪ )۱۲‬تَحِيَّةٌ ( ‪ ) ۱۷‬حَيوا‬ ‫( ‪ )۱۴‬أَحْيِنى‬ ‫( ‪ ) ۱۳‬يُحْيِن‬ ‫( ‪ ) ١٢‬يَتَوَفَّى‬

‫( ‪ ) ۱۸‬يَحْيى ( ‪ ) ١٩‬أَحْيى ( ‪ )۲۰‬يَسْتَحْيِي ( ‪ ) ۲۱‬نَحْيَا ( ‪ ) ۲۲‬اِتَّقُى ( ‪ )۲۳‬مُتَّقُونَ‬

‫( ‪ )۲۴‬ق ( ‪ )۲۵‬وَاقٍ ( ‪ ) ۲۶‬اِنْ تَتَّقُوا ( ‪ ) ۲۷‬قُوا (‪ )۲۸‬تَقِی (‪ )۲۹‬وَقُی ( ‪)۳۰‬‬

‫تَهْوَى (‪ )۳۱‬تَهْوِى‬

‫‪ (۷ ۶‬ج)‬
‫مشق نمبر‬

‫مندرجہ ذیل عبارتوں کا ترجمہکریں ۔‬

‫(‪ )1‬سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ ( ‪ ) ٣‬هُوَالَّذِي خَلَقَ لَكُمْ‬

‫مَا فِي الْأَرْضِجَمِيْعًا ثُمَّ اسْتَوَىإِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّهُنَّ ( ‪ )۳‬أَوْفُوْا بِعَهْدِى أَوْفِ‬

‫بِعَهْدِكُمْ ( ‪ ) ۳‬إِذْقَالَإِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيْتُ قَالَأَنَاأُحْيِي وَأُمِيْتُ‬

‫( ‪ )٥‬إِذْ قَالَاللهُ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ (‪ ) ٢‬مَنْأَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى‬

‫( ‪ )٢‬سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (‪ ) ۸‬وَإِذَا حُتِيْتُمْ‬ ‫فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ‬

‫( ‪ ) ۹‬كُلَّمَا جَاءَ هُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَهْوَى‬ ‫بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِاَحْسَنَ مِنْهَا اَوْرُدُّوهَا‬

‫اَنْفُسُهُمْ فَرِيْقًا كَذَّبُوْا وَفَرِيقًا يَقْتُلُوْنَ ( ‪ ) ١٠‬قُلْ لا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ‬

‫(‪ ) 1‬إِسْتَجِيْبُوْا لِلَّهِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ( ‪ ) ۱۳‬وَيَحْيَى مَنْحَيَّ عَنْ‬

‫بَيِّنَةٍ ( ‪ ) ۱۳‬ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُدَيرِ الْأَمْرَ ( ‪ )١٣‬تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَّالْحِقْنِي‬

‫بِالصَّلِحِينَ ( ‪ )١٥‬مَالَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيّ وَلا وَاقٍ ( ‪ ) ٢‬فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ‬

‫)‪(14‬‬
‫مِنْ رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ ( ‪ ) ۱۷‬وَتُوَفَّى كُلُّنَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ ( ‪ )۱۸‬وَجَدَ الله‬

‫)‪ (19‬قُلْ يَتَوَفَكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ ( ‪ )٢٠‬إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِى‬


‫عِنْدَهُ فَوَقْهُ حِسَابَهُ ( ‪) ۱۹‬‬

‫النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِيمِنْكُمْ (‪ ) ۲۱‬وَوَقَهُمْ رَبُّهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ( ‪ )۳۲‬قُوْا أَنْفُسَكُمْ‬

‫( ‪ ) ۲۳‬سَبِّح اسْمَ رَبَّكَ الْأَعْلَى الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى‬ ‫وَأَهْلِيكُمْ نَارًا‬

‫فَاجْعَلْأَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِىإِلَيْهِمْ ‪-‬‬


‫سبق الاسباق‬

‫‪ 19 : 1‬اللہ تعالیٰکی توفیق و تائید سے آپ نے آسانعربی گرامر کے تینوںحصے مکمل‬

‫پوکتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے اسکا حقیقی ادراکاس‬


‫۔للہ تعالٰی نے آ ک‬
‫کرلئےا‬

‫دنیا میںتو ممکن نہیں ہے ۔ یہ حقیقت تو ان شاء اللہ میدان حشر میں عیاں ہو گی ان پر‬

‫بھی جنہیں یہ نعمت حاصل تھی اور ان پر بھی جو اس سے محروم رہے ۔ اس لئے اللہ‬

‫تعالیٰ کے اس فضل وکرم پر اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائےکم ہے ۔ لیکن یہ شکر قولاً‬

‫بھی ہونا چاہئے اور عملاً بھی ۔ آپ پر اب واجب ہےکہ اس نعمتکی حفاظتکریں‬

‫اسے ضائع نہ ہونے دیں اور اس کا حق اداکرتے رہیں ۔ اس کے طریقہ کارپر بات‬

‫کرنے سے پہلےکچھ باتیں ذہن میں واضح ہونا ضروری ہیں ۔‬

‫کا ارشاد ہےکہ اپنے آپکو بزرگتصورکرنا علم کی بہت‬


‫‪ ۷۹ : ۲‬نبیکریممیںاللہ‬

‫بڑی آفت ہے ۔ یقیناً اللہ نے آپکو اس زبان کے علم سے نوازا سے جسے اس نے‬

‫اپنےکلام کے لئے منتخبکیا۔یہ بہت عظیم نعمت ہے ۔ لیکن ابسنیاد پرآپان لوگوں‬

‫۔یا پتہ ان لوگوںکو اللہ‬


‫کوکمترنہ سمجھیں جنکو عربی نہیں آتی ۔ یہ کفرانِ نعمت ہوگا ک‬

‫نےکسی دوسری نعمت سے نوازا ہو جس کا آپکو ادراکنہیں ہے ۔کیا پتہکلاللہ‬

‫تعالی ان میں سے کسی کو اس علمکی دولت سے نواز دے اور وہ آپ سے آگے نکل‬

‫جائے ۔ اس لئے علم کی آفت سے خود کو بچانے کی شعوری کوششکریں اور تکبر میں‬

‫مبتلاء نہ ہوں ۔‬

‫‪ ۷۹ : ۳‬آجکل کے سائنسدان اعترافکرتے ہیں کہ اس کائنات کے اسرار و‬

‫رموزکا وہ جتنا علم حاصلکرتے ہیں اتنا ہی انکی لاعلمی کا دائرہ مزید وسعتاختیارکر‬

‫جاتا ہے ۔کچھ یہی معاملہ عربی کے ساتھ بھی ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ عربی دنیا کی‬

‫سب سے زیادہ سائنٹفک زبان ہے ۔ اس زبان کا تقریباً ہرگوشہ کسی قاعدے اور‬

‫ضابطہ کا پابند ہے ۔ انتہا یہ ہےکہ اس میں استثناء بھی زیادہ تر کسی قاعدے کے تحت‬

‫ہوتے ہیں ۔ عربی میں خلاف قاعدہ الفاظ کا استعمال دوسری زبانوں کے مقابلہ میں نہ‬
‫ہونے جیسا ہے ۔ اس حوالہ سے یہ بات ذہن نشین کرلیںکہ اس علم کے سمند ر سے‬

‫ابھی آپ نے تھوڑا سا علم حاصلکیا ہے ۔ جتنا آپ نے سیکھا ہے اس سے زیادہ ابھی‬

‫سیکھنا باقی ہے ۔‬

‫عربی میں ا هساوتراعمال ہونے والے تمام الفاظ قرآن مجید میں استعمال نہیں‬ ‫‪:‬‬

‫ہوئے ہیں ۔ چنانچہ قرآن ضمی کے لئے مکمل عربیگرامرکا علم حاصلکرنا ضروری نہیں‬

‫ہے ۔بلکہ صرف اس کے متعلقہ جزوکو سیکھ لینا کافی ہوتا ہے ۔ اس حوالہ سے ابیہ‬

‫بھی سمجھ لیںکہ اسکتاب کے تین حصوں میں عربی گرامر کے متعلقہ جزو کا مکمل‬

‫احاظہ نہیں کیا گیا ہے ۔ اور ایسا قصد آگیا گیا ہے ‪،‬ورنہ چوتھے حصے کا اضافہکر کے اس‬

‫کیکوششکی جاسکتی تھی ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ماشاء اللہ ابآپاس مقام پر آگئے‬

‫ہیں جہاں مزید قواعد کو سمجھنے کے لئے آپکو باقاعدہ اسباق اور مشقوںکی ضرورت‬

‫پو بتایا جائے تو آپآسانی سے اسے سمجھ کر‬


‫نہیں ہے ۔ بلکہ اب اگرکوئی قاعدہ آ ک‬

‫ذہن نشین کر سکتے ہیں ۔آیا اگر قرآن مجید کی آیت کے حوالے سے ہو تو مزید‬

‫آسانی ہوگی ۔‬

‫ہا‬
‫ے اس کا حق ادا کرنے کے لئے اور مزید‬ ‫ے ابتکآپنےجو کچھ سیکھ‬

‫یکھنے کے لئے پہلا لازمی قدم یہ ہے کہ آپ اپنے تلاوت قرآن کے اوقات میں‬

‫اضافہکریں ۔ سوشل کالز اور ٹی وی کے اوقاتمیںکمی کر کے یہ اضافہ آسانی سے‬

‫کیا جاسکتا ہے ۔ پھرتلاوت کے اوقاتکو دو حصوں میں تقسیم کریں ۔ اسکاکچھ حصہ‬

‫معمولکی تلاوت کے لئے رکھیں اور باقی حصہ قرآن مجید کے مطالعہ کے لئے وقف‬

‫کریں ۔ اس کے لئے آپکو ڈکشنری ( لغت )کی ضرورت ہوگی ۔ میرا مشورہ ہےکہ‬

‫مصباح اللغات " استعمالکریں ۔ جو لوگ دوڈکشنری حاصلکر‬ ‫ابتدائی مرحلہ میں‬

‫سکتے ہیں وہ ساتھ میں ” مفردات القرآن "بھی استعمالکرلیں تو بہترہوگا ۔‬

‫ے قرآنمجید کا مطالعہکرتے وقت سب سے پہلے الفاظکی بناوپ‬


‫ٹر غورکر کے‬

‫تعین کریں کہ اسکا مادہ باب اور صیغہکیا ہے‪ ،‬نیز یہکہ وہ اسمیا فعلکی کون سی قسم‬

‫ہے ۔پھر الفاظکی اعرابی حالت اور اسکی وجہ کا فیصلہکریں ۔کسی لفظ کے اگر معنی‬
‫معلوم نہیں تو اب ڈکشنری دیکھیں ۔ اس کے بعد جملہکی بناوت پر غورکرکے جبر اخبر‬

‫یافعل فاعل ‪ ،‬مفعول اور متعلقات کا تعین کریں ۔ پھرآیتکا تر جمع کرنے کیکوشش‬

‫لریں ۔ اگر نہ سمجھ میں آئے تو کوئی ترجمہ والا قرآن دیکھیں ۔ اس مقصد کے لئے شیخ‬

‫المسند کا ترجمہ زیادہ مددگار ہو گا ۔ اس طرز پر آپ صرف ایک پارہ کا مطالعہکر لیں تو‬

‫ان شاء اللہ آپکو یہ صلاحیت حاصل ہو جائے گیکہ قرآن مجید سنکریا پڑھکر آپ‬

‫المعنی نہ‬ ‫اس کا مطلب سمجھ جائیں گے ۔ اگر میں زکات ہوگی‬

‫معلوم ہونےکی وجہ سے ہوگی ۔‬

‫کے جو‬ ‫ابآخری باتیہ سمجھ لیںکہ مارسے بورکر نے ترقی‬ ‫‪9:‬‬

‫ترجمے کئے ہیں وہ عوام الناس کے لئے ہیں ۔چنانچہ ؟‬

‫ہےکہ ان کے قاریکو عربی گرامرنہیں آتی ۔ اس لئے باریکیوںکو نظراندازکر کے‬

‫انہوں نے مفہوم سمجھانے پر اپنی توجہ کو مرکوزکیا ہے ۔ ابتھوڑی سی عربی پڑھنے‬

‫کے بعد آپ پر لازم ہےکہ اپنے بزرگوں کے ترجموں پر تنقیدکرنے سے مکملپرہیز‬

‫کریں ۔ ورنہکوئی نہکوئی بیماری آپکو لاحق ہو جائےگی اور الٹالینے کے دینے پڑے‬

‫جائیں گے ۔اللہ تعالٰی ہم میں سے ہر ایککو توفیق دےکہ ہم اسکی نعمت کا شکراداکر‬

‫کے اسکو راضی کریں ۔‬

‫رَبِ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَنِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَلَنْ‬

‫أَعْمَلَصَالِحًا تَرْضُهُ وَاَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَفِيعِبَادِكَالصَّلِحِيْنَ‬

‫سب کچھ خدا سے مانگ لیا خود اس کو مانگ تھے‬

‫اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد؟‬


‫‪糙‬‬

‫لطفالرحمن خان‬ ‫‪ /۲۵‬ربیع الثانی ‪۱۴۱۹‬ھ‬


‫‪ / ۱۹‬اگست ‪ ۱۹۹۸‬ء‬
‫‪۱۰۴‬‬

‫بانیتنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد حفظہ اللہ‬

‫و تقاریر پرمشتمل ‪ ( CD‬آڈیو ‪) MP3‬‬


‫کے دروس‬

‫بعنوان ‪:‬‬

‫اور خواتین‬ ‫اسلام‬

‫جس میں اہم معاشرتی موضوعاتکے بارےمیں‬

‫قرآن وسنتکی راہنمائی میں ‪ 16‬تقاریر شامل ہیں‬

‫اہمموضوعاتکے‬

‫خواتین اورسماجی رسومات‬

‫خواتینکی دینی ذمہداریاں‬

‫شادی بیاہکی رسومات‬

‫اسلام میںعورتکا مقام‬

‫مثالی مسلمان خاتون‬

‫جہاد میںخواتینکاکردار‬

‫اسلام میں شرائطحجابکے احکام‬

‫‪ .‬قرآن اور پردہ‬

‫مكتبه خدام القرآن لاهور‬

‫‪ 36‬کے ماڈل ٹاؤن لاہور فون ‪03-5869501 :‬‬

You might also like