Professional Documents
Culture Documents
Easy Arabic Grammar
Easy Arabic Grammar
عربی
گرامر
اول
حصہ
مرتبه
لطف الرحمنخان
ختمالقران اهورمرکزیخمین
مولوی
قابل
قدرالیع
فربیکاظمبینی وی بالاتر
مرمرکی
آسان
عربی
گرامر
حصہاول
نظ ث
رانی شدہایڈیشن )
مرتبه
الرحمنخان
لطف
عرضِ مرتب
ترمیمکیوں
11
تمهید
۱۷
اسم کی حالت
۲۶ جنس
۳۱ عدد
۴۲ مرتبات
۴۶
مرکبتوصیفی
۵۳
جمله اسمیه
۶۶
جملہ اسمیہ (ضمائر
)
مرکب اضافی
۸۹
مرتب جاری
۹۲
مرکب اشاری
۱۰۲
اسماء استفهام
عرضِ مُرتب
میں نے ابھی چند سال قبل ہی قرآن اکیڈمی میں تھوڑی سی عربی پڑھی ہے ۔
میری علمی استعداد یقینا اس قابل نہیں ہےکہ میں عربی قواعد مرتبکرنے کے متعلق
قرآن اکیڈمی میں عربی قواعد کی تعلیم ایک خصوصی انداز اور مختلف ترتیب
سے دی جاتی ہے ،جسے ہمارے استاد محترم جناب پروفیسرحافظ احمد یار صاحب نے
عربی کا معلم " شامل ہے جو ہماری ضروریات کے قریب ہونے ہمارے نصاب میں
کے باوجود پورے طور پر اس کے مطابق نہیں ہے ۔ اس لئے طلبہ اور اساتذہ دونوں
ہی کو خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ غالبا یہی وجہ ہے کہ کلاس روم سے اسٹاف
روم میں تشریف لانے پر محترم حافظ صاحباکثر اس تمنا کا اظہارکیا کرتے تھےکہ
"کوئی صاحب ہمت اگر " عربی کا معلم " پر نظرثانی کرتے اور اسکی ترتیب میں
زیب دیتا ہے اور ہم سبکی یہ خوش قسمتی ہوتی اگر ان کے ہاتھوں یہ کام سرانجام
پاتا۔ اس کے لئے میں خود بھی حافظ صاحب سے ضد کرتا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ حافظ
لغات و صاحب اس سے بھی کہیں زیادہ اہم اور منفرد کام کا آغازکر چکے تھے ۔
"قرآن " کے نام سے جس بلند پایہ تالیف کا انہوں نے بیڑہ اٹھایا ہے بلاشبہ وہ
اعراب
اپنی جگہ نہایت اہم کام ہے ۔ عربی زبان کے قواعد سے شد بد رکھنے والے طالبانِ
قرآن کے لئے ترجمہ قرآن کے معاملے میں وہکتاب ان شاء اللہ تعالیٰ ایک ریفرنس
بککا کام دےگی اور قرآن فہمی کے راہکی ایک بڑی رکاوٹ اس کے ذریعے دور
عربی کا معلم " پر نظرثانی کے ضمن میں ان سے ضد کرنےکی ہو جائے گی ۔ چنانچہ
اور کوئی صورت نہ بن سکی تو سوچاکہ خود ہمتکی جائے ،ساتھ ہی اپنی بے علمی
کا خیالآیا تو حافظ صاحبکی موجودگی نے ڈھارس بندھائیکہ انکی راہنمائیکسی حد
تک میری کوتاہیوںکی پردہ پوشی کرے گی ۔ قرآن اکیڈمی اور قرآن کالج میں
روزانہ تقریباً تین چار پیریڈ پڑھانے اور لغات و اعراب قرآن کی تالیف جیسی
دقت طلب اور وقت طلب مصروفیت کے باوجود محترم حافظ صاحب نے اس سلسلے
میں میری جو راہنمائیکی ہے اس کے لئے میں ان کا انتہائی ممنون ہوں ۔اللہ تعالی ان
جرات مذکورہ کی ایک وجہ اور بھی ہے ۔ عربی کے طالب علم کے طور پر اس
کتاب سے گزرے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں ۔ قواعد پڑھتے وقت جن جن
مقامات پر مجھے الجھن اور دقت پیش آئی تھی وہ سب ابھی ذہن میں تازہ ہیں ۔ اگر کسی
درجہ میں علمی استعداد حاصلکرنے کا انتظارکرتا تو پتہ نہیں استعداد حاصل ہوتی یا
نہ ہوتی ،لیکن وہ مقامات یقیناً ذہن سے محو ہو جاتے ۔ پھر میری کوشش شاید اتنی زیادہ
عام فہم نہ بن سکتی ۔ اس لئے فیصلہ کرلیاکہ معیارکی پرواہ کئے بغیر برا بھلا جیسا بن پڑتا
ہے یہ کام کرگزروں ،تاکہ ایک طرفتو اکیڈمی اور کالجکی ضرورتکسی درجے
میں پوری ہو سکے اور دوسری طرف اس نہج پر بہتر اور معیاری کامکی راہ ہموار ہو
سکے ۔
اسکتاب میں اسباقکی ترتیب چھوٹے چھوٹے حصوں میں اسباقکی تقسیم
اور باتکو پہلے اردو اور انگریزی کے حوالے سے سمجھا کر پھرعربی قاعدےکی طرف
آنا محترم حافظ صاحب کا وہ خصوصی طرز تعلیم ہے جس کا اوپر ذکرکیا گیا ہے ۔ اس
کتاب کا یہی وہ پہلو ہے جس پر ابتداء حافظ صاحب نے کچھ وقت نکالکر تنقیدی نظر
ڈالی اور میری کوتاہیوں پر گرفتکی اور پھرتصحیحکی ۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس اتنا
وقت نہیں تھا کہ وہ مسودہ کا لفظبلفظ مطالعہکر کے اسکی تصحیحکرتے اور ہر ہر مرحلے پر
میری رہنمائی فرماتے ۔ اس لئے اسکتاب میں جو بھی کو تاہی اورکمی موجود ہے اس
قرآن اکیڈمی کے فیلو جناب حافظ خالد محمود خضرصاحب نے اپنیگوناگوں ذمہ
داریوں اور مصروفیات سے وقت نکالکر مسودہ کا مطالعہ کیا اور اغلاطکی تصحیح میں
میری بھرپور معاونتکی ہے ۔ اس کے لئے میں ان کا بھی بہت ممنون ہوں ۔ اللہ
نہیں ہے ۔ اس لئے مجھے یقین ہے کہ اب بھی کچھ اغلاط موجود ہوں گی ۔ اہل علم
حضرات سے گزارش ہےکہ انکی نشاندہیکریں ۔ نیز اسکتابکو مزید بہتر بنانے
کے لئے اپنی تجاویز سے نوازیں ،تاکہ اگر اس کا آئندہ ایڈیشن شائع ہو تو اسے مزید
بہتربنایا جا سکے ۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْمِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ وَتُبْعَلَيْنَا إِنَّكَأَنْتَ التَّوَّابُالرَّحِيمُ -
آسان عربیگرامر( حصہ اول ) کا پہلا ایڈیشن اکتوبر ۱۹۸۹ء میں شائع ہوا تھا جو کہ
حصہ دوم شائع ہوا ۔ پروگرام تھا کہ اسم اور فعل کے باقی ایسے قواعد ' جو قرآن فہمی
کے لئے ضروری ہیں ،انہیں حصہ سوم میں مرتب کیا جائے ۔ بعضناگزیر وجوہاتکی
بنا پر اس میں تاخیر ہوتی رہی اور طلبہ کے شدید تقاضوں کے پیش نظر تیسرا حصہ نامکمل
حالتمیں شائعکرناپڑا۔
مرکزی انجمن خدام القرآن کے لاہور کراچی اور متعدد شہروں میں مختلف
تعلیمی پروگراموں میں یہ کتابیں ٹیکسٹ بک کے طور پر پڑھائی جا رہی ہیں ۔ متعدد
شہروں کے تعلیم بالغاں کے پروگرام میں بھی اسے پڑھایا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ ان
کتابوں پر مبنی ایک خط وکتابت کورس بھی انجمن کے تحت جاری ہے ۔ اس وجہ سے
متعدد اساتذہکرام اور طلبہ بالخصوص بالغ طلبہ کی طرف سے بہت زیادہ مشورے
موصول ہوئے ۔ لیکن اس سے قبل مشوروںکی روشنی میں انکتابوںپر نظرثانی کا
دو سری طرف البلاغ فاؤنڈیشن کے تحت اسلام کا جائزہ اور حدیث کا جائزہ
خط وکتابتکورسزکے اجراکی وجہ سے طلبہ اور طالباتکا ایک نیا اور وسیع حلقہ وجود
میں آچکا ہے ۔ جس میں ۱۱سے ۲۵سالتک کے بچوں اور بچیوںکی غالب اکثریت
اب ضرورت محسوس ہو رہی ہےکہ ان طلبہکو دعوت دی جائےکہ وہگھر بیٹھے
اپنی فرصت کے اوقات میں عربیگرامرکا ابتدائی علم حاصلکرلیں تاکہ قرآن نمیکی
سب سے بڑی رکاوٹ دور ہو جائے ۔ پھرجو طلبہ یہکورسمکملکرلیں ان کے لئے
مطالعه قرآن حکیم کا خط وکتابتکورس جاری کیا جائے جو کم ازکم ایک پارہ یا زیادہ
سے زیادہ سورہ بقرہ پر مشتمل ہو تاکہ ترجمہ کے بغیر قرآن مجید کو سمجھنے کی صلاحیت
انہیں حاصل ہو جائے ۔ " وَمَا تَوْفِيقِي إِلا بِاللهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أنيْبُ"
اس پروگرامکو عملی جامہ پہنانے کے لئے ضروری ہو گیا ہےکہ تینوں حصوں پر
نظرثانیکر کے تیسرے حصے کو مکملکیا جائے ۔ چنانچہ مشوروں پر غور و فکر کر کے کچھ
فیصلے کئے ہیں جنکی وضاحت ضروری ہے ۔ لیکن اسے سے پہلے یہ اعتراف ضروری
ہےکہ تمام مشوروںکو قبولکرنا عملاً ممکن نہیں ہے ۔ اگر ایساکیا جائے تو پھریہکتاب
آسان نہیں رہے گی بلکہ قواعد کا ایک خود رو جنگل بن جائےگی ۔ نیز یہ اعترافبھی
ضروری ہے کہ طلبہ اور بالخصوص تعلیم بالغاں کے طلبہ کے مشوروںکو میں نے
کر دیا جائے ۔ انکی دلیل یہ ہےکہ اسکو رس کا مقصد عربی زبان اور ادب سیکھنا
نہیں ہےبلکہ قرآن فہمی ہے ۔ یہ ضرورت عربی سے اردو ترجمہکی مشقوں سے پوری
ہو جاتی ہے ۔ طلبہ عربی سے اردو ترجمے کی مشقیں بہتر طور پر کر لیتے ہیں لیکن اردو
سے عربی ترجمہ میں زیادہ غلطیاںکرتے ہیں جسکی وجہ سے نمبرکٹ جاتے ہیں اور
بد ولی پیدا ہوتی ہے ۔کورس کے درمیان میں چھوڑ جانے کی یہ ایک بڑی وجہ ہے ۔
دوسری طرف تمام اساتذہکرام متفق ہیں کہ اردو سے عربی ترجمہکی مشقیں لازمی
درمیانی راہ اختیارکرتے ہوئے ہم نے فیصلہکیا ہےکہ پہلے اور دوسرے حصے
میں اردو سے عربی ترجمہ کے جملوںکی تعدادکمکر کے عربی سے اردو ترجموں کے برابر
کر دی جائے یا کمکر دی جائے تاکہ کل نمبروں میں اردو سے عربی ترجمہ کا وزن
مجید کے مرکبات اور جملوں پر مشتمل ہوں ۔ دوسری طرف ہمارے استاد محترم
پر و فیسر حافظ احمد یار صاحب مرحوم کی ہدایت یہ تھی کہکسی مشق میںکوئی ایسا لفظ یا
ہوئے مذکورہ خواہش کو پورا کرنا بہت مشکل ہے ۔ البتہ طلبہ اور اساتذہکی خواہش
کے پیش نظرپہلے اور دوسرے حصے کے ذخیرہ الفاظ پر نظرثانیکر کے ایسے الفاظ کا
اضافہ کر دیا گیا ہے جو قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں ۔ اور ان شاء اللہ تعالٰی
کچھ طلبہ نے عربی سیکھنے کی ابتداء خط وکتابتکو رس سے کی تھی لیکن بعد میں
تعلیم بالغاںکی کسی کلاس میں شامل ہو گئے تھے ۔ ایسے طلبہ نےکتابمیں اپنے متعدد
مقاماتکی نشاندہی کی تھی جو ان کے خیال کے مطابق بحثکو غیر ضروری طور پر طویل
کر دیتے ہیں اور بات سمجھانے کے بجائے طلبہ کے ذہنکو الجھانے کا باعث بنتے
ہیں ۔ انہیں طلبہ نے اس خواہش کا بھی اظہارکیا تھا کہکلاس روم میں تدریس کے
دوران جو وضاحتیں اور ہدایات میں دیتا ہوں انہیں بھی کتاب میں شاملکیا جائے ۔
چنانچہ نظرثانی کرتے وقت جہاں جہاں مناسب محسوس ہوا ہے وہاں ان مشوروں پر
عم ک
لیا گیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے حصہ اول پر نظرثانی کا کام آجمکمل ہوگیا ہے ۔
اسکی مدد شامل حال رہی تو بقیہ دو حصوںپر بھی نظرثانی کا کامکم ازکم وقت میں مکمل
اور مطالعہ قرآن حکیم کا کورس مرتب کرنے کے کام کا آغاز ممکن ہو ۔ وَمَا النَّصْرُ
بولنے والوں میں بچپن سے ہییا بعد میں رہ کر وہ زبان سیکھی جائے ۔ دوم یہ کہکسی
سیکھی ہوئی زبانکی مدد سے نئی زبان کے قواعد سمجھ کر اسے سیکھا جائے ۔ درسی طریقے
سے یعنی قواعد وگرامر کے ساتھ زبان سیکھنے کے لئے دو کام بہت ضروری ہیں ۔ اول
یہکہ اس زبان کے زیادہ سے زیادہ الفاظ کا ذخیرہ ہم اپنے ذہن میں جمعکرنے کی
سیکھیں ۔
۱ : ۲ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کی غرض سے اسکتاب کے ہر سبق میں کچھ الفاظ اور
ان کے معافی دیے جائیں گے تاکہ طلبہ انہیں یادبھی کرلیں اور مشقوں میں استعمال
بھی کریں ۔ لیکن قواعد سمجھانے کی غرض سے دیئے گئے الفاظ و معنی ذخیرہ الفاظ میں
اضافہ کے لئے کافی نہیں ہوتے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر سکولوں اور کالجوں میں قواعد
کے علاوہ کوئی کتاب بطور ریڈر پڑھائی جاتی ہے ۔ طلبہ کو ہمارا مشورہ ہےکہ وہ
روزانه قرآن مجید کے ایک دو رکوع ترجمہ سے مطالعہ کریں اور ان کے الفاظ و
معنی کو یادکرتے رہیں ۔ اس طرح ان کے ذخیرہ الفاظ میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا
رہےگا ۔
سکھانے کے لئے کسی زبان کے الفاظ کو ” درست طریقہ سے استعمالکرنا :
قواعد ( یعنی گرامر) مرتب کئے جاتے ہیں ۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ
زبان پہلے وجود میں آجاتی ہے پھر بعد میں ضرورت پڑنے پر اس کے قواعد مرتبکئے
جاتے ہیں ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پہلے قواعد مرتبکر کےکوئی نئی زبان وجود میں لائی
۱۲
گئی ہو ۔ ( ) 1یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن قواعد
معدودے چند کے ہی مرتب کئے گئے ہیں ۔ اس لئےکہ بقیہ زبانوں کے لئے اسکی
ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ اور یہی وجہ ہےکہکسی زبان کے قواعد اس زبان کے
تمام الفاظ پر حاوی نہیں ہوتے بلکہکچھ نہ کچھ الفاظ ضرور مستثنیٰ ہوتے ہیں ۔ یہ مسئلہ ہر
زبان کے ساتھ ہے ،فرق صرفکم اور زیادہ کا ہے ۔ یہ بات اہم ہے ،اسے نوٹکر
لیں اورگرامر کا کوئی قاعدہ پڑھیں تو اس کے استثنارکے لئے ذہن میں ایککھڑکی
جب دوسری زبانیں بولنے والے لوگ اُس زبانکو تدریسی طریقے پر سیکھنا چاہیں ۔
ایسی صورت حالبالعموم دو ہی وجہ سے پیش آتی ہے ۔ اول یہکہکسی زبانکو بولنے
والی قومکو دوسری اقوام پر سیاسی غلبہ اور اقتدار حاصل ہو جائے اور انکی زبان
سرکاری زبان قرارپائے ۔ اس طرح دوسری اقوام کے لوگ خودکو وہ زبان سیکھنے پر
مجبورپائیں ۔ دوم یہ کہکوئی زبانکسی مذہبی کتابکی یا کسی مذہب کے لٹریچر کی زبان
ہو اور اس مذہب کے پیر ودیا بعض دفعہ غیر پیرو بھی اس مذہب کے عقائد اور شریعت
کے مصادر تک براہ راست رسائی حاصلکرنے کی غرض سے وہ زبان سیکھنے کے
متمدن علاقےکی سرکاری زبان رہی ہے ۔ اور آج بھیکئی ممالک میں اسی حیثیت
سے رائج ہے ۔ اور بلحاظ آبادی دنیا کے دوسرے بڑے مذہب یعنی اسلامکی زبان
بھی عربی ہے ۔ اس لئے کہ قرآن اسی زبان میں نازلہوا اور مجموعہ احادیث اولا اسی
اس قاعدہکلیہ کا واحد استثناء ایک نئی زبان SPRANTOہے جس کے قواعد مرتب {} 1
جسکے قواعد مرتب کئے گئے ہیں اوراتنی لگن اورعرق ریزی سے مرتب کئے گئےکہ
ماہرین لسانیات عربی کو بلحاظگر ا مردنیاکیسب سے زیادہ سائنٹفک زبان ماننے پر مجبور
ہیں ۔یعنی قواعد سے استثناءکی صورتیں اس زبان میں سب سے کم ہیں ۔ یہی وجہ ہے
اور وہ یہکہ اس زبان کے تمام با معنی الفاظ یعنی کلماتکو مختلفگروپوں میں اس
انداز سے تقسیمکر لیتے ہیںکہ زبان کا کوئی لفظ اس درجہ بندی ( ) Groupingسے
کے الفاظکی مختلف طریقوں پر تقسیمکرتے ہیں ۔ مثلا عربی اردو اور فارسی میں یہ
تقسیم سہ گانہ ہے ۔ یعنی ہرکلمہ اسم فعل یا حرف ہوتا ہے ۔ انگریزی میں اجزائے
کلام ( ) Parts of Speechآٹھ ہیں ۔ بہرحال ایک بات قطعی ہےکہ " اسم "
فعل " ہر زبان میں سب سے بڑے اور مستقل اجزائے کلام ہیں ۔باقی اجزاءکو اور
بعض انہی میں سے کسی کا حصہ قرار دیتے ہیں اور بعض الگ قسم شمارکرتے ہیں ۔
مثلاً اردو ،عربی اور فارسی میں ضمیر ( ) Pronounاور صفت ( ) Adjectiveکو
اسم ہی شمارکیا جاتا ہے ،مگر انگریزی میں " " Pronounاور " ‘ Adjectiveالگ
پر استعمالکرنا ہی اصل مسئلہ ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں فعل اور اسم کے درست
استعمالکو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ دنیا کی ہر زبان میں سب سے زیادہ استعمال
ہونے والے الفاظ یہی ہیں ۔ اس لئے ہر زبان میں فعل کے استعمالکو درستکرنے
کے لئے فعلکی گردانیں ،صبیلے مختلف ” زمانوں " میں اسکی صورتیں اور مصدر
Ꮫ
وغیرہ یاد کئے جاتے ہیں ۔ مثلاً فارسی میں فعل کے درست استعمال کے لئے مصدر اور
مضارع معلوم ہونے چاہئیں اورگردان بھی یاد ہونی چاہئے ۔ انگریزی میں Verbکی
تین شکلیں اور مختلف Tensesکے رٹنے اور یادکرنے پر طلبہکئی برس محنتکرتے
ہیں ۔گرامر کا وہ حصہ جو فعلکی درست بناوٹ اور عبارت میں اس کے درست
ہمارے دینی مدارس میں عربی تعلیمکی ابتداء بالعموم فعلکی بحث سے ہوتی :
ہے جس کے اپنے کچھ فوائد ہیں ۔ لیکن ہم اپنے اسباقکی ابتدا اسم کی بحث سے کریں
گے ۔ اس کے جواز میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی حضرت آدم علیہ
میں اس مسئلہ پر کافی تحقیق اور تجربات کئے گئے ہیں اور یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ اسم
کی بحث سے تعلیم کا آغازکرنے سے نسبتا بہتر نتائجحاصلکئے جاسکتے ہیں ۔ جبکہ فعلکی
تعلیم سے آغازکی مثال بقول مولانا مناظر احسنگیلانی صاحبایسی ہے جیسے طالب علم
کوکنوئیں سے ڈولکھینچنے کی مشقکرائی جائے خواہ پانی نکلے یا نہ نکلے ۔ یعنی طالب علم
فعلکی گردانیں رہتا رہتا ہے لیکن اسے نہ تو اس مشقتکا کوئی مقصد نظرآتا ہے اور
نہ یہ احساس ہوتا ہےکہ وہ ایک نئی زبان سیکھ رہا ہے ۔ برخلاف اس کے اسم کی بحث
سے تعلیم کا آغازکرنے سے ابتداء ہی سے طالب علمکی دلچپسی قائم ہو جاتی ہے اور
بر قرار رہتی ہے ۔ رفع ،نصب ،جر کی شناخت اور مشق نیز مرکباتکے قواعد اور جملہ
اسمیہ سکھتے ہوئے طالب علم کو اپنی محنت با مقصد نظرآتی ہے ۔ چند دنوں کے بعد ہی وہ
چھوٹے چھوٹے اسمیہ جملے بنا سکتا ہے ۔ اور عربی زبان کی سب سے بڑی خصوصیت
ہر نئے سبق کی تکمیل پر اسے کچھ سیکھنے اور حاصلکرنے کا احساس ہو تا رہتاہے ۔ یہی
کیفیت اسکی دلچسپی کو برقرار رکھنے کا باعث بنتی ہے ۔گزشتہ چند برسوں میں قرآن
۱۵
اکیڈمی لاہور میں اسی ترتیب تدریسکو اختیارکر کے بہتر نتائج حاصلکئے گئے ہیں ۔
مونث ،معرفہ نکرہ اور اسم کی مختلف حالتوں کے قواعد جاننا ضروری ہیں ۔ مثلاً غیر
حقیقی مونث کا قاعدہ ہر زبان میں یکساں نہیں ہے ۔ جہاز اور چاند کو اردو میں مذکرمگر
انگریزی میں مونث بولا جاتا ہے ۔ سورج اور خرگوشکو عربی میں مونثمگراردو میں
مذکر بولتے ہیں ۔ اس لئے ضروری ہےکہ فعل کے درست استعمال کے ساتھ اسمکو
بھی ٹھیک طرح استعمالکیا جائے ۔ اسم کے درست استعمال کے لئے ہرزبان میں عموماً
اور عربی میں خصوصاً اسم کا چار پہلوؤں سے جائزہ لے کر اسے قواعد کے مطابق
استعمالکرنا ضروری ہے ۔ اس صورت میں اسم کے استعمال میں غلطی نہیں ہوگی ۔
اور ) Number ( 3 ) Gender ( 2 انگریزی میں علی الترتیب ( Case ) 1
( Kind )4کہتے ہیں ۔ عبارت میں استعمال ہوتے وقت از روئے قواعد زبان ،ہراسم
کی ایک خاص حالت ،جنس ،عدد اور وسعت مطلوب ہوتی ہے ۔ انہی چار پہلوؤں
کے بارے میں باتکرتے ہوئے ہم اپنے اسباق کا آغاز اسم کی حالت کے بیان سے
کرتے ہیں ۔ لیکن اس سے قبل اسم فعل اور حرفکی تعریف ( ) Definitionکو
د ہرالینا مفید ہو گا ۔
اسم
اسم اس لفظیا کلمہکوکہتے ہیں جس سے کسی چیز جگہ یا آدمی کا نام یا اسکی صفت
ظاہرہو ۔ مثلارَ جُلَّ ( مرد ) ،حَامِدٌ ( خاص نام ) طيب ( اچھا ) وغیرہ ۔
اس کے علاوہ ایسا لفظ یاکلمہ بھی اسم ہوتا ہے جس کے معنی میںکوئی کامکرنے
کا مفہوم ہو ۔ لیکن اس میں تینوں زمانوں میں سے کوئی زمانہ نہ پایا جاتا ہو ۔ سیہ
بات بہت اہم ہے ۔ اس لئے اردو الفاظ کی مدد سے اسکو اچھی طرح سمجھکر
Σ
ذہن نشین کر لیں ۔
پہلے تین الفاظ پر غورکریں ۔ مارا مارتا ہے ،مارےگا ۔ ان تینوں الفاظ میں
مارنے کے کام کا مفہوم ہے اور ان میں علی الترتیب ماضی ،حال اور مستقبل کے
زمانے کا مفہوم بھی پایا جاتاہے ۔ اس لئے یہ تینوں لفظ فعلہیں ۔ پھر ایک لفظ ہے مارنا
( ضَرْبٌ) ۔ اس میں کام کا مفہوم تو ہے لیکنکسی بھی زمانے کا مفہوم نہیں ہے ۔ اس
فعل
فعل وہ کلمہ ہے جس سےکسی کام کاکرنا یا ہونا ظاہر ہو اور اس میں تین زمانوں
ماضی،حال اور مستقبل میں سے کوئی زمانہ بھی پایا جائے ۔ مثلا ضَرب ( اس نےمارا )
حرف
یعنی کسی اسم یا فعل سے ملے بغیر اس کے معانی واضح نہ ہوں ۔ مثلاً من کا معنی ہے
" سے " ۔ لیکن اس سے کوئی بات واضح نہیں ہوتی ۔ جب ہمکہتے ہیں مِنَ الْمَسْجِدِ
یعنی مسجد سے تو بات واضح ہوگئی ۔ اسی طرح عَلی( پر) عَلَى الْفَرَسِ (گھوڑے پر )
۲کسی بھی زبان میں کوئی اسم جبگفتگو یا تحریر میں استعمال ہوتا ہے تو وہ تین ۱
حالتوں میں سے کسی ایک میں ہی استعمال ہوتا ہے ۔ چوتھی حالتکوئی نہیں ہو سکتی ۔
یا تو وہ اس عبارتمیں فاعل کے طور پر مذکور ہوگا یعنی حالت فاعلی میں ہوگا ۔یا پھر
حالت مفعولی میں ہو گا اور یاکسی دوسرے اسم وغیرہ کی اضافت اور تعلق سے مذکور
ہوگا ۔ اس حالتکو حالت اضافی کہتے ہیں ۔ دورانِ استعمال اسم کی اس حالتکو
انگریزی میں Caseکہتے ہیں ۔ اور انگریزی میں بھی Caseتین ہی ہوتے ہیں ۔ جو
میں بھی اسم کے استعمالکی یہی تین حالتیں ہوتی ہیں ۔ انہیں حالت رفع حالت نصب
اور حالت جر یا مختصر رفع نصب اور جر کہتے ہیں ۔ خیال رہےکہ جو اسم حالت رفع
میں ہو اسے مرفوعکہتے ہیں ،جو اسم حالت نصبمیں ہوا سے منصوبکہتے ہیں اور جو
اسم حالت جر میں ہو اسے مجرورکہتے ہیں ۔ اس طرح اردو اور انگریزیگرامرکی مدد
سے عربی گرامر میں اسمکی حالتکو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے ۔ صرف اصطلاحی ناموں کا
کرلیں ۔
۲ : ۲مختلف حالتوں میں استعمال ہوتے وقت بعض زبانوں کے اسماء میں کچھ تبدیلی
۱۸
واقع ہوتی ہے جسکی مدد سے ہم پہچانتے ہیں کہ عبارتمیںکوئی اسمکس حالت میں
مفعولکون ہے ،تو آپ فور ابتا دیں گے کہ حامد فاعل اور محمود مفعول ہے ۔ لیکن اس
کی وجہ یہ ہے کہ آپ جملہ کا مفہوم سمجھتے ہیں ۔ اس لئے یہ بات بتانے میں آپکو
اب فرضکریںکہ ایک شخص کو اردو نہیں آتی اور وہگرامرکی مدد سے اردو
سیکھنا چاہتا ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ پہلے وہ عبارت میں اسمکی حالتکو
پہچانے ۔ اس کے بعد ہی ممکن ہوگاکہ وہ عبارت کا صحیح مفہوم سمجھ سکے ۔ اس لئے
پہلے ہمیں اسکو کوئی علامت یا نشانی بتانی ہو گی جسکی مدد سے وہ مذکورہ جملہ میں
فاعل اور مفعولکو پہچان سکے ۔ اس پہلو سے آپمذکورہ جملہ پر دوبارہ غورکر کے وہ
علامت معلومکرنے کیکوششکریں جسکی مدد سے اس میں فاعل اور مفعول یعنی
جو طلبہ اسکوشش میں ناکام رہے ہیں انکی مدد کے لئے اس جملہ میں تھوڑی
کو پہچان لیں گے ۔ "حامدکو محمود نے مارا ۔ اب آپآسانی سے بتا سکتے ہیںکہ اردو
لگا ہوا ہوتا ہے ۔ اسی میں زیادہ تر فاعلکے ساتھ " نے " اور مفعولکے ساتھ "کو
طرح اب یہ بھی سمجھ لیںکہ اردو میں حالت اضافی میں زیادہ تر دو اسماء کے درمیان
"کا "یا "کی "لگا ہوتاہے ۔ جیسے لڑکے کا قلم لڑکےکی کتاب وغیرہ ۔
۲ :اب سوال یہ ہے کہ عربی کی عبارت میں استعمال ہونے والے اسماء کی
حالتکو پہچاننے کی علاماتکیا ہیں ۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ نوٹکر لیںکہ یہ
علامات ایک سے زیادہ ہیں ۔ لیکن اس سبق میں ہم زیادہ استعمال ہونے والی ایک
علامتکو سمجھ کر اسکی مشق کریں گے ۔ تاکہ ذہن میں اسمکی حالتکو پہچاننے کا
19
تصور واضح ہو جائے ۔ اس کے بعد اگلے اسباق میں دوسری علامات جب زیر مطالعہ
پچاسی فیصد اسماء ایسے ہیں جو رفع نصب اور جر تینوں حالتوں میں ایک مختلفشکل
بڑی مشکل زبان ہوگی جس میں ہر اسم کے لئے ایک کے بجائے تین اسم یعنی تین لفظ
یادکرنا پڑیں گے مگر اس وہم کی بنا پرگھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ حقیقتیہ ہےکہ
کرتے وقت حالت کے لحاظ سے جو تبدیلی آتی ہے وہ لفظ کے صرف ”آخری حصے "
میں واقع ہوتی ہے ۔ مثلاًکوئی اسم اگر پانچ حرفوںکا ہے تو پہلے چار حرفوں میں کوئی
تبدیلی نہیں ہوگی بلکہ صرف آخری یعنی پانچویں حرفکے پڑھنے کا طریقہ بدل جائے
گا ۔ اسی طرحکوئی اسم اگر تین حرفوں کا ہے تو پہلے دو حرفوںمیںکوئی تبدیلی نہیں
ہوگی ۔ صرف آخری یعنی تیسرے حرف کے پڑھنے کا طریقہ بدلے گا ۔ مثلاً حالت
فاعلی مفعولی اور اضافی میں لفظ لڑکا کی عربی علی الترتيب " وَلَدٌ وَلَدًا اور وَلَدٍ
ہوگی ۔
رفع نصب ،جرمینوں حالتوں میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ جو اسم تینوں حالتوں میں یہ
مغرب منصوف"کہتے ہیں ۔ اسکی تبدیلی قبولکرتا ہے اسے عربی قواعد میں
پہچان کا عام طریقہ یہ ہے کہ اس کے آخری حرفپر تنوین آتی ہے ۔ یعنی حالت رفع
) ہوتی میں دو پیش ( )2حالت نصب میں دو زبر ( ے ) اور حالت جر میں دو زیر(
ہے ۔ اسم معرب منصرف کے آخری حرفکی تبدیلی کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں :
چند معرب منصرف اسماءکی گردان مع معانی
جَنَّةٍ باغ
سَمَاء سَمَاء
سَمَاء آسمان
( ) iجس اسم پر حالت نصب میں دو زبر ( ) 2آتے ہیں اس کے آخر میں ایک
( )iiاس قاعدہ کے دو استثناء ہیں ۔ اولیہکہ جس لفظ کا آخری حرفگول " "
یعنی (تائے مربوطہ ) ہو اسپر دوز برللیکھتے وقت الفکا اضافہ نہیں ہو گا مثلاً جتنا لکھنا
غلط ہے اسے جگہ لکھا جائے گا ۔ دیکھئے ! بنتکا لفظگول " " پر نہیںبلکہ لمبی ت (یعنی
تائے مبسوطہ ) پر ختم ہو رہا ہے ۔ اس لئے اس پر استثناء کا اطلاق نہیں ہوا اور حالتِ
()iiiدوسرا استثناء یہ ہےکہ جو لفظ الف یا واؤ کے ساتھ ہمزہ پر ختم ہو اسکے آخر
سے سُوء ۔ دیکھئے میں بھی الفکا اضافہ نہیں ہو گا ۔ مثلاً سماء سے سَمَاءُ اور سو
شی کا لفظ بھی ہمزہ پر ختم ہو رہا ہے لیکن اس سے قبل الف یا واؤ نہیں بلکہ " ی "
ہے اس لئے اس پر دوز بر لگاتے وقت الفکا اضافہکیا گیا ہے یعنی شَيْءٌ سے شَيْئًا ۔
M
مشق نمبرا
نیچے دیئے ہوئے الفاظکو الگکاغذ پر دوبارہ لکھیں ۔ اس سلسلہ میں یہ احتیاط
ضروری ہےکہ ( ) ۱کاغذ پر سب سے پہلے اپنا نام اور رول نمبرلکھیں ۔ ( ) ۲صرف
عربی الفاظ لکھیں ،اگر کوئی لفظ غلط لکھا ہوا ہے تو اسے درستکر کے لکھیں ۔
( ) ۳ہر لفظ کے آگے بریکٹ میں اس کی حالت لکھیں ۔ مثلاً جَنَّةٌ ( رفع ) ،كَتَابًا
) وغیرہ ۔ اگر کسی لفظ کے معنی نہیں معلوم ہیں ،تب بھی آپکو اسکی حالت
(نصب
پہچان لینی چاہیے ۔ رَسُوْلاً شَيْ ءٍ جَنَّنَا شَيْئًا مَحْمُوْدٌ بِنْتِ آيَنَا بِنْتَا شَهْوَةٌ
ضروریہدایت
کسی سبق میں جہاںکہیں بھی کسی عربی لفظ کے معنی دیئے ہوئے ہیں انکو یادکرنا
اپنے اوپر لازمکرلیں ۔ جبتککسی سبق میں دیئے گئے تمام الفاظ کے معانی یاد نہ ہو
جائیں ،اس وقت تک اس سبق کی مشق نہکریں ۔ اسکی وجہ سمجھ لیں ۔
چند اسباق کے بعد آپکو مرکبات اور جملے بنانے ہیں اور ان کے ترجمےکرنے
ہیں ۔گزشتہ اسباق میں دیئے گئے الفاظ کے معانی اگر آپکو یاد نہیں ہوں گے تو یہ
دوسری بات یہ ہےکہ اسکتاب میں اکثریت ایسے الفاظکی ہے جو قرآن مجید
میں استعمال ہوئے ہیں ۔ ان کے معانی یا د ہونے سے آپکو قرآن مجید کا ترجمہ سمجھنے
آخری حصہ تینوں حالتوں میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ایسے اسماءکو معربکہتے ہیں ۔
ابسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی ۲۰ - ۱۵فیصد اسماء تبدیل ہوتے ہیں یا نہیں ؟ اور
عبارت میں انکی حالت کو کیسے پہنچانتے ہیں ؟ ۔ اس سبق میں ہم نے یہی باتسمجھنی
ہے ۔
۳ : ۲عربی کے باقی پندرہ ہیں فیصد اسماء جو معرب منصرف نہیں ہیں ان میں سے
زیادہ تر ایسے ہیں جن کا آخری حرفمینوں حالتوں میں نہیں بدلتا بلکہ وہ صرف دو
شکلیں اختیارکرتے ہیں یعنی حالت رفع میں انکی شکل الگہوتی ہے لیکن نصب اور
جر دونوں حالتوں میں انکی شکل ایک جیسی رہتی ہے ۔ ایسے اسماءکو عربی قواعد میں
معرب غیرمنصرف " یا صرف " غیرمنصرف " بھی کہا جاتا ہے ۔ اسم غیرمنصرف کے
مرد کانام
إبْرَاهِيمَ إبْرَاهِيمَ إبْرَاهِيمُ
( ) 1غیرمنصرف اسماءکی نصب اور جر ایک ہی شکل میں آتی ہے ۔ مثلاً إِبْرَاهِيمُ
حالت رفع سے حالت نصبمیں ابراہیم ہوگیا لیکن حالت جر میں ابراہیم نہیں ہوا
بلکہ ابْرَاهِیمَ ہی رہا ۔ اسی طرحباقی اسماءکی بھی نصباور جر میں ایک ہی شکل ہے ۔
( )1غیر منصرف اسماء کے آخری حرف پر حالت رفع میں ایک پیش ( ے) اور
نصب اور جر دونوں حالتوں میں صرف ایک زبر () 1آتی ہے ۔ لہذا ایک زبر() 1
لکھتے وقت الف کا اضافہ نہیں ہوتا ۔ یہ قاعدہ صرف دو زبر( گے )کے لئے مخصوص
ہے ۔ یاد رکھئے کہ اسم غیرمنصرف کے آخر پر تنوینکبھی نہیں آتی ۔ جسکی وجہ سے
۳ : ۴آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمیںکیسے معلوم ہو گاکہ فلاں اسم معرب
قواعد ہیں جو آخر میں پڑھائے جاتے ہیں ۔ فی الحال ہمارا طریقہ کار یہ ہوگاکہ ذخیرہ
گویا سردست آپکو جن اسماء کے متعلق بتا دیا جائے انہیں غیرمنصرف سمجھئے ۔ ان پر
کبھی تنوین نہ ڈالئے اور ان کی رفع نصب ،جر (ن ) ( ،گ) اور (ے) کے ساتھ
لکھئے ۔ نیز یہ بھی نوٹکرلیںکہ عربی میں عورتوں ،شہروں اور ملکوں کے نام عام طور پر
۳ : ۵عربی زبان کے کچھ گنے چنے اسماء ایسے بھی ہیں جو رفع نصب ،جر ،تینوں
حالتوں میں کوئی تبدیلی قبول نہیںکرتے اور تینوں حالتوں میں ایک جیسے رہتے ہیں ۔
ایسے اسماءکو مبینیکہتے ہیں ۔ ان کا کوئی قاعدہ نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں بھی ہمارا
۳ :اب اسم کی حالت کے متعلق چند باتیں سمجھکر دیاکرلیں ۔ پہلی بات یہ ہے کہ
کسی لفظ کے آخری حصہ میں ہونے والی تبدیلیکو عربیگرامر میں "اعراب "کہتے
ہیں ۔ یاد رہے کہکسی اسمکی حالت سے مراد اسکی اعرابی حالت ہی ہوتی ہے ،جو
تین ہی ہوتی ہیں یعنی رفع نصبیا جر ۔ اور ہراسم عبارتمیں استعمال ہوتے وقت
۳ : ۷دوسری بات یہ ہے کہ کسی لفظکی اعرابی حالت چونکہ زیادہ تر حرکات یعنی
زبر ،زیر یا پیش کی تبدیلی سے ظاہرکی جاتی ہے ،اس لئے حرکات لگانےکو بھی غلطی
سے اعرابکہہ دیتے ہیں ۔ جبکہ ان دونوںمیں فرق ہے ۔ اعراب اور حرکات کے
فرقکو ہم ایکلفظکی مدد سے سمجھ لیتے ہیں ۔ لفظ منافق کے آخری حرف" ق "پر جو
دو پیش ( )1ہیں ،یہ اس لفظ کا اعراب ہے ۔ جبکہ " ق " سے پہلے کے حروف پر جہاں
کہیں بھی زبر ( ‘ ) 1زیر( )-اور پیش ( ) 2لگی ہوئی ہیں ،وہ سب اس لفظ کی
حرکات ہیں ۔ اسی طرح لفظ ابراہیم کے آخری حرف میم پر ایک پیش ( ) 2اس کا
ہیں ۔
۳ :آخری بات یہ ہے کہ زیر جبحرکت کے طور پر استعمال ہوتا ہےتو اسے فتحہ
کہتے ہیں اور اعرابمیں اُسے نصبکہا جاتا ہے ۔ زیرکو حرکت میںکسرہ اوراعراب
میں جر کہتے ہیں ۔ اسی طرح پیش کو حرکت میں ضمہ اور اعرابمیں رفعکہتے ہیں ۔
مشق نمبر۲
نشین کر لیں اور گردان اس کے مطابق کریں ۔ ساتھ ہی الفاظ کے معانی بھی
یادکریں ۔
مس
ایک نام يُوسُفُ(غ) لمان مُسْلِمٌ
جنس
پہلوؤں سے دیکھا جانا ضروری ہے ،ان میں سے پہلی چیز اسمکی حالت (یا اعرابی
ہے ،جس پر پچھلے سبق میں کچھ بات ہو چکی ہے ۔ اسمکی بحثمیں دوسرا اہم حالت
پہلو " جنس " کا ہے ۔ جنس کے لحاظ سے عربی زبان میں بلکہ عموماً ہر زبان میں ) اسمکی
دوہی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ وہ یا ذکر ہو گا ،یعنی عبارتمیں اس کا ذکر ایسے ہوگا جیسے
الفاظ کے مذکر و مونث کے استعمال کے قواعد یکساں نہیں ہیں ۔کسی زبان میں ایک
لفظ مذکر بولا جاتا ہے تو دوسری زبان میں وہ مونث ہو سکتا ہے ۔ مثلا انگریزی میں بحری
جہاز ( ) Shipاور چاند ( ) Moonمونث استعمال ہوتے ہیں مگراردو میں مذکر ۔ لہذا
کسی بھی زبانکو سیکھنے کے لئے اس زبان کے اسماء کی تذکیرو تانیٹ یعنی انکو نہکریا
۴ : ۲عربی اسماء پر غورکرنے سے علماء نحو نے یہ دیکھاکہ یہاں مذکر اسم کے لئے تو
کوئی خاص علامت نہیں مگرمونث اسماء معلومکرنے کی کچھ علامات ضرور ہیں ،جنہیں
علامات تانیثکہتے ہیں ۔لہذا عربی سیکھنے والوںکو چاہئےکہ وہکسی اسم کے استعمال
اگر اس میں تانیثکی کوئی باتپائی جاتی ہے تو وہ اسم مونث شمارہوگا ورنہ اسے مذکر
ہی سمجھا جائے گا ۔کسی اسم میں تانسیفکی شناخت کے حسب ذیل طریقے ہیں ۔
۴ : ۳پہلا طریقہ یہ ہے کہ لفظ کے معنی پر غورکریں ۔ اگر وہ کسی حقیقی مونث کے
لئے ہے ،یعنی اس کے مقابلہ پر مذکر ( یا نر ) جو ڑا بھی ہوتا ہے جیسے اِمْرَأَةٌ (عورت )
۲۷
تو وہ لازماً کے مقابلہ پر رَجُلٌ ( مرد ) اُم (ماں ) کے مقابلہ پر آب (باپ) وغیرہ
مونث ہوگا ۔ ایسے اسماء کو " مونث حقیقی "کہتے ہیں ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لفظ کو
دیکھیں کہ کیا اس میں تانیثکیکوئی علامت موجود ہے ؟ یہ علامات تین ہیں اور ان
اء
ا ء "" میں سے ہر ایک اسم کے آخری حصہ میں آتی ہے ۔ علاماتیہ ہیں " "" "
ی " یعنی کوئی اسم اگر ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ختم ہوتا نظرآئےتو اسے "
۴ : ۴اب یہ بات سمجھ لیجئےکہ جن الفاظ کے آخر میں گول " "آتی ہے ،عربی میں
انہیں مونٹ مانا جاتا ہے ۔ مثلاً جَنَّةٌ ( باغ ) یا صَلوةٌ (نماز ) وغیرہ عربی میں مونث
استعمال ہوتے ہیں ۔ نیز ا کثر الفاظکو مونثبنانے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ مذکر لفظ کے
آخری حرف پر زبر لگا کر اس کے آگے گول " " کا اضافہکردیتے ہیں جیسے کافر
خوبصورت) وغیرہ ۔ اس قاعدہ سے گنتی کے چند الفاظ مستثنیٰ ہیں مثلاً خَلِيفَةٌ
( مسلمانوں کا حکمران ) ،عَلامَةٌ ( بہت بڑا عالم ) وغیرہ ۔ حالانکہ ان کے آخر میںگول "
re
ہے ۔ لیکن یہ مذکر استعمال ہوتے ہیں ۔ دوسری علامت تانیث " -ا ء " ہے جسے
الفممدودہکہتے ہیں ۔ جن اسماء کے آخر میں یہ علامتآتی ہے انہیں بھی مؤنث مانا
جاتا ہے ۔ مثلاً حَمْرَاءُ ) سرخ ) خَضْرَاءُ ( سبز) وغیرہ ۔ خیال رہےکہ الفممدودہ پر
ختم ہونے والے اسماء غیرمنصرف ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہےکہ ان کے ہمزہ پر تنوین
کے بجائے ایک پیش آتی ہے ۔ تیسری علامت تانیث " ! می " ہے جسے الف
مقصورہکہتے ہیں ۔ جن اسماء کے آخر میں یہ علامت آتی ہے انہیں بھی مؤنمثانا جاتا
ہے ۔ مثلا عظمی ( عظیم ) خبری ( بڑی ) وغیرہ ۔ خیال رہےکہ الف مقصورہ پر ختم
ہونے والے اسماء رفع نصب اور جر تینوں حالتوں میں کوئی تبدیلی قبول نہیں
کرتے ۔ اس لئے مختلف اعرابی حالتوں میں ان کا استعمال بھی مینی اسماءکی طرح ہوگا ۔
۴ : ۵بہت سے اسم ایسے ہوتے ہیں جو در حقیقتنہ تو مذکر ہوتے ہیں ،نہ مونٹ
۲۸
اور نہ ہی ان پر مونثکی کوئی علامت ہوتی ہے ۔ ایسے اسماءکی جنس کا تعین اسبنیاد
پر ہوتا ہے کہ اہل زبان انہیں کس طرح بولتے ہیں ۔ جن اسماءکو اہل زبان مونث
بولتے ہیں انہیں ” مونث سماعی "کہتے ہیں اس لئےکہ ہم اہل زبانکو اسی طرحبولتے
ہوئے سنتے ہیں ۔ مثالکے طور پر سورجکو لے لیں ۔ اب حقیقتاً سورجنہ تو مذکر ہے
اور نہ ہی مونث ۔ ہم نے اردو کے اہل زبانکو اسے مذکر بولتے ہوئے سناہے اس
لئے اردو میں سورج مذکر ہے ۔ جبکہ عربی کے اہل زبان شمس (سورج )کو مونث
بولتے ہیں ۔ اس لئے عربی میں شمش مونثسماعی ہے ۔ اسکی ایک دلچسپ مثال یہ
کھٹی "کہتے ہیں ۔ ہے کہ دہلی والے دہیکو ”کھٹا کہتے ہیں جبکہ لکھنو والے اسے
اس لئے لکھنو والوں کے لئے دہی مونث سماعی ہے ۔ اب ذیل میں چند الفاظ دیئے جا
رہے ہیں جو اردو اور عربی دونوں زبانوں میں مونث بولے جاتے ہیں ۔ آپان کے
ان کے علاوہ ملکوں کے نام بھی مونث سماعی ہیں جیسے مضر -الشام وغیرہ ۔نیزانسانی
بدن کے ایسے اعضاء جو جوڑے جوڑے ہوتے ہیں ،وہ بھی اکثرو بیشترمونٹسماعی ہیں
گزشتہ سبق میں ہم نے اسم کی گردانکی تھی تو حالت کے لحاظ سے ایک لفظ
کی تین شکلیں بنی تھیں ۔ لیکن ابمذکر کی تین شکلیں ہوںگی اور مونثکی بھی
تین ۔ اس طرح ایک لفظ کی اب چھ شکلیں ہوںگی ۔ البتہ مؤنث سماعی کی تین ہی
شکلیں ہوںگی ۔کیونکہ ان کا ذکر نہیں ہوگا ۔ اسکی مثال مندرجہ ذیل ہے ۔
۲۹
حَسَنًا ذکر
حَسَنٍ حَسَنٌ
نَفْسًا
نفسي نَفْسٌ مونث ( سماعی )
i
مشق نمبر ۳
مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی یادکریں اور اسم کی گردانکریں ۔ مونث حقیقی
میں مذکرو مونث دونوں الفاظ ساتھ دیئے گئے ہیں ۔ جو اسماء مونث سماعی ہیں انکے
33
یہ (مونث) هذه (م) بہن أُخْتٌ
درزی خَيَّاط
عدد
۵ : ۱دوسری زبانوں میں عددیعنی تعداد کے لحاظ سے اسمکی دو ہی قسمیں ہوتی ہیں ،
ایک کے لئے واحد یا مفرد اور دو یا دو سے زیادہ کے لئے جمع ۔ لیکن عربی میں جمع تین
سے شروع ہوتی ہے اور دو کے لئے الگ اسم اور فعل استعمال ہوتے ہیں ۔ دوکے
صیغے کو تشنیہکہتے ہیں ۔ اس طرح عربی میں عدد کے لحاظ سے اسمکی تین قسمیں ہیں ۔
واحد تشنیہ اور جمع ۔کسی اسمکو واحد سے تثنیہ یا جمع بنانے کے لئے کچھ قاعدےہیں
اس سلسلہ میں پہلی بات یہ ذہن نشین کرلیںکہ اسم خواہ مذکر ہو یا مونث ۵ : ۲
دونوں کے تثنیہ بنانے کا ایک ہی قاعدہ ہے ۔ اور وہ قاعدہ یہ ہےکہ حالت رفع میں
وغیرہ ۔جبکہ حالت نصب اور جر میں واحد اسم کے آخری حرفپر زبر ( )1لگاکر اس
کے آگے پائے ساکن اور نون مکسورہ یعنی ( کے ین ) کا اضافہکرتے ہیں جیسےمُسلِم
تثنيه واحد
۵ :جمعکی قسمیں :عربی زبان میں جمع دو طرحکی ہوتی ہے ۔ جمع سالم اورجمع
مکر جمع سالم میں واحد لفظ جوں کا توں موجود رہتا ہے اور اس کے آخر پرکچھ حرفوں
کا اضافہکر کے جمع بنا لیتے ہیں ۔ جس طرح انگریزی میں واحد لفظ کے آخر میں ESUS
بڑھا کر جمع بناتے ہیں ۔ مگر جس طرح انگریزی میں تمام اسماء کی جمع اس قاعدےکے
مطابق نہیں بنتی بلکہکچھ کی مختلف بھی ہوتی ہے مثلاً HISکی جمع THEIRہے ۔ اسی
طرح عربی میں بھی تمام اسماءکی جمع سالم نہیں بنتی بلکہکچھ اسماءکی جمع اس طرحآتی
ہےکہ یا تو واحد لفظ کے حروف تتربترہو جاتے ہیں یا بالکل تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ مثلاً
عبد (غلام ،بندہ )کی جمع عِباد اور امرانکی جمع نساء ہے ۔ انکو جمعمکسترکہتے ہیں ۔
مکسرکے معنی ہیں " تو ڑا ہوا " چونکہ اس میں واحد لفظ کے حروفکی ترتیب ٹوٹ
جاتی ہے اس لئے انہیں جمع مکسرکہتے ہیں ۔ اب ہم جمع سالم بنانے کا قاعدہ سمجھتے ہیں
لیکن پہلے یہ بات ذہن نشینکرلیںکہ واحد سے تشنیہ بنانے کا قاعدہ مذکر اور مؤنث
دونوں کے لئے ایک ہی ہے ۔ لیکن واحد سے جمع سالم بنانے کا قاعدہ مذکر کے لئے
۵ : ۴جمع مذکر سالم بنانے کا قاعدہ :حالت رفع میں واحد اسم کے آخری
فون) کا حرفپر ایک پیش ( ) 2لگا کر اس کے آگے واؤ ساکن اور نون مفتوحہ یعنی (
اضافہکر دیتے ہیں ۔ مثلا مُسلِم سے مُسلِمُونَ ۔ جبکہ حالت نصب اور جر میں واحد
اسم کے آخری حرفپر زیر ( ) لگا کر اسکے آگے یائے ساکن اور نون مفتوحہ یعنی
ین )کا اضافہکرتے ہیں ۔ جیسے مُسلم سے مُسْلِمِینَ ۔ اسکی چند مثالیں مندرجہ
ذیل ہیں ۔
۳۳
۵ : ۵جمع مؤنث سالم بنانے کا قاعدہ :اس قاعدہ کے تحت ایسے مؤنث اسماء
کی جمع سالم بنتی ہے جن کے آخر میں تائے مربوطہ آتی ہے ۔ قاعدہ یہ ہےکہ تائے
اب لگا دیتے ان جبکہ حالت نصب اور جر میں مربوطه گراکر حالت رفع میں
ہیں ۔ جیسے كَافِرَةٌ سے كَافِرَاتٌ اور كَافِرَاتٍ ۔ اسکی چند مثالیں مندرجہ ذیل
ہیں :
۵ : ۲جمعمکمتر :جمع مکسربنانے کاکوئی خاص قاعدہ نہیں ہے ۔ انہیں یادکرتا ہو تا
ہے ۔ اس لئے ابذخیرہ الفاظ میں ہم واحد کے سامنے انکی جمعمکسلرکھ دیا کریں گے
تا کہ آپ انہیں یادکرلیں ۔ جمع مکسرزیادہ تر معرب منصرف ہوتی ہیں ۔ لیکن کچھ غیر
منصرف بھی ہوتی ہیں ۔ انکی سادہ سی پہچان یہ ہے کہ جن کے آخری حرفپر دوپیش
( )2ہوں انہیں معرب منصرف مانیں اور جن کے آخری حرفپر ایک پیش لکھا ہو
اسم کی حالتکو پہچاننےکی علامات یعنی صورت اعراب ایک سے زیادہ ہیں ۔ اب
جر رفع
33
و )(1
واحد اور جمعمکسر(مذکر و مونث) معرب منصرف
AMY 9
غیرمنصرف واحد اور جمعمکسر(مذکرو مونث) )(۲
اعراب بالحركة "کہتے ہیں ۔ مذکورہ بالا نقشہ میں پہلی دو صورت اعرابکو
اس لئےکہ یہ تبدیلی زبر زیر یا پیش یعنی حرکاتکی تبدیلی سے ہوتی ہے ۔ جبکہ آخری
۵ :گزشتہ سبق میں ہم نے اسم کیگردانکی تو ایک لفظکی چھ شکلیں بنی تھیں ۔
لیکن اب ہم نے واحد کا تشیہ اور جمع بھی بناتا ہے ۔ اس لئے ایک لفظکی اب اٹھارہ
شکلیں ہوںگی ۔ البتہ مذکر غیرحقیقی کا مونٹ نہیں آئےگا اور مونث غیرحقیقی کام کر
نو شکلیں ہوںگی ۔ مثال کے طور پر ہم ایکلفلفظ نہیں آئے گا ۔ اس لئے انکی نو
مسلم لیتے ہیں ۔ اس کا مونث بھی بنتاہے ۔ اس لئے اسکی اٹھارہ شکلیں بنائیں
گے ۔ دوسرا لفظ کتاب لیتے ہیں ۔ یہ مذکر غیرحقیقی ہے ۔ اس کا مونث نہیں آئےگا ۔
لیتے ہیں ۔ یہ مونث غیرحقیقی ہے ۔ اس کا مذکر نہیں آئے گا ۔ اس لیئے اسکی بھی نو
۳۵
شکلیں ہوںگی ۔تینوں الفاظ کے اسماءکیگردا نہیں مندرجہ ذیل ہیں :۔
كُتُبا :كُتُب
كُتُبِ
جَنَّةٍ جَنَّةً
نمبر ( ۴الف )
مشق
( ) ٧جَاهِل ( ) ivكَاذِبٌ
( )viعَالِمٌ
مشقنمبر ( ۴ب )
مندرجہ ذیل الفاظمذکر غیرحقیقی ہیں ۔ ان کے معنی اور جمعمکسریادکریں اور اسم
کی گردانکریں ۔
مشقنمبر ( ۴ج)
جمع مکسردیگئی ہے ان کے علاوہ باقی الفاظکی جمع سالم بنےگی ۔ پھر تمام اسماءکیگردان
کریں ۔
اس سبق میں ایک لفظ کی آپ ۱۸شکلیں بنا رہے ہیں ۔ اس کے بعد اگلے سبق
میں ایک لفظ کی آپ ان شاء اللہ ۳۶شکلیں بنائیں گے ۔ اس مرحلہ پر اکثر طلبہ اس
کو بے مقصد مشقت سمجھ کر بد دلی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان مشقوں میں دلچسپی نہیں
آگے چلکر مرکبات اور جملوں میں کوئی اسم استعمالکرتے وقت آپکو اسے
چاروں پہلووں سے قواعد کے مطابق بنانا ہوگا ۔ فرضکریں لفظ مُسلِمکو رفع
مسلم کی مونث مُسْلِمَةٌ بنائیں ،پھر اسکی جمع مُسْلِمَاتٌ بنائیں ،پھر اس کا معرفہ
ان مشقوں کا مقصد آپ کے ذہن میں یہ صلاحیت پیداکرنا ہےکہ لفظ مسلم کے
گے ان میں ان شاء اللہ یہ صلاحیت پیدا ہو جائےگی اور آگے چلکر انکی بہت سی
اسمکو کہتے ہیں جو کسی عام چیزپر بولا جائے ۔ جیسے اُردو میں ہم کہتے ہیں " ایک لڑکا
نکرہ ہے ۔ اردو میں اسم نکرہکی کچھ علامتیں ہیں ۔ مثلاً ۔ اب یہاں اسم " لڑ کا آیا
بعض " اور " چند " وغیرہ ۔ اور اسم نکرہکے ساتھکوئی کچھ " "کوئی " ایک
معرفہ کی موزوں علامتلگانی ہوتی ہے ۔ اس کے برعکس انگریزی میں لفظ ”The
علامت ہے ۔ چنانچہ انگریزی میں " " Boyاسم نکرہ ہے اور اس کا مطلب ہے
لڑکا " ۔ جبکہ " " The Boyاسم معرفہ ہے اور اس کا مطلب ہے "کوئی لڑکا
یعنی ایسا مخصوص لڑکا جو باتکرنے والوں کے ذہن میں موجود ہےیاگفتگوکے دوران
۶ : ۲عربی میں اسم نکرہکی علامت یہ ہے کہ اسم نکرہ کے آخری حرفپر بالعموم
رَجُلاً " یا تنوین آتی ہے ۔ مثلاً " " Manیا "کوئی مرد " کا عربی ترجمہ ہوگا " رَجُلٌ
" رجل " اور اسم معرفہ کی ایک عام علامت یہ ہےکہ اسم کے شروع میںلام تعریف
یعنی " آن " کا اضافہ کرتے ہیں اور آخری حرف سے تنوین ختمکر دیتے ہیں ۔ مثلاً
” " The Manیا " مرد " کا عربی ترجمہ ہو گا " الرَّجُلُ " " -الرَّجُلَ "يا "الرَّجُلِ " ۔
۶ : ۳عربی میں اسم نکرہکی کئی قسمیں ہیں لیکن فی الحال آپکو تمام اقسامیادکرنے
کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں دو اصول یادکر لیں ۔ اول یہکہ جو بھی اسم
معرفہ نہیں ہو گا اسے نکرہ مانا جائے گا ۔ دوم یہکہ اسم نکرہ کے آخر میں عام طور پر
تنوین آتی ہے ۔گنتی کے صرف چند الفاظ اس سے مستثنیٰ ہیں ۔کچھ نام ایسے ہیں جو کسی
۳۹
کے نام ہونے کی وجہ سے معرفہ ہوتے ہیں لیکن ان کے آخر میں تنوین بھی آجاتی
زَيْدٌ وغیرہ اور ان کے درمیان تمیزکرنے میںکوئی دقت نہیں ہے ۔ جیسے مُحَمَّدٌ
ہوتی ۔ اس کے علاوہ اسم نکرہ کی صرف دو قسمیں ،جو زیادہ استعمال ہوتی ہیں ،انہیں
ذہن نشین کرلیں ۔ ایک قسم "اسم ذات " ہے جو کسی جاندا ریا بے جان چیز کی جنس کا
صفت " ہے جوکسی چیزکیکوئی صفت ظاہرکرے ۔ جیسے حَسَنُ (اچھا ۔ خوبصورت )
اسم عَلَم :یعنی وہ الفاظ جوکسی اسم ذاتکی پہچان کے لئے اس کے نام کے () 1
طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ جیسے ایک انسانکی پہچان کے لئے حَامِدٌ ،ایک شہر
اسم ضمیر :یعنی وہ الفاظ جو کسی نامکی جگہ استعمال ہوتے ہیں جیسے اردو میں ( ) ii
ہم اس طرح نہیں کہتے کہ جامد کالج سے آیا اور حامد بہت خوش تھا ۔ بلکہ یوں
کہتے ہیں کہ حامد کالج سے آیا اور وہ بہت خوش تھا ۔ یہاں لفظ "وہ " حامد کے
لئے استعمال ہوا ہے ۔ اس لئے معرفہ ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ تمام ضمیریں معرفہ
ہوتی ہیں ۔ عربی میں اس کی مثالیں یہ ہیں ۔ هُوَ ( وہ ) أَنْتَ ( تو ) آنا ( میں )
وغیرہ ۔
( )iiاسم اشارہ :یعنی وہ الفاظ جو کسی چیز کی طرف اشارہکرنے کے لئے استعمال
مذکر) ذلِكَ ( وہ ۔ مذکر ) وغیرہ ۔ ذہن میں یہ بات ہوتے ہیں جیسے هذا (یہ
واضح کرلیںکہ جبکسی چیزکی طرف اشارہکر دیا جاتا ہے تو وہ کوئی عام چیزنہیں
رہتی بلکہ خاص ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ تمام اسمائے اشارہ معرفہ ہیں ۔
معرفہ کے طور پر استعمالکرنا ہوتا ہے تو عربی میں اس سے پہلے الف لام (آن لگا
دیتے ہیں ،جسے لام تعریفکہتے ہیں ۔ جیسے فَرَسٌ کے معنی ہیںکوئی گھوڑا ۔ لیکن
۶ : ۵کسی نکرہ کو معرفہ بنانے کے لئے جباس پر لام تعریف داخلکرتے ہیں تو پھر
اُس لفظ کے استعمال میں چند قواعد کا خیالکرنا ہوتا ہے ۔ فی الحال ان میں سے دو
قواعد آپ ذہن نشین کر لیں ۔ باقی قواعد ان شاء اللہ تعالٰی آئندہ اسباق میں بتائے
جائیںگے ۔
پہلا قاعدہ :جبکسی اسم نکرہ پر لام تعریف داخل ہو گا تو وہ اسکی تنوینکو
ختمکر دےگا جیسے حالت نکرہ میں رَجُلٌ فَرشوغیرہ کے آخری حرفپر تنوین ہے
لیکن جب انکو معرفہ بناتے ہیں تو یہ الرَّجُلُ الفَرَسُہو جاتے ہیں ۔ اب ان کے
آخری حرفپر توین ختم ہو گئی اور صرف ایک پیش رہگیا ۔ یہ بہت پکا قاعدہ ہے ۔
اس لئے اس باتکو خوب اچھی طرح یادکر لیںکہ معرفباللام پر تنوینکبھی نہیں
آئےگی ۔
دو سرا قاعدہ :آپ نے نوٹکیا ہو گاکہ بعض الفاظ میں لام تعریفکے ہمزہ
کو لام پر جزم دےکر پڑھتے ہیں ۔ جیسے اَلْقَمَرُ ۔ جبکہ بعض الفاظ میں لامکو نظر انداز
کر کے ہمزہ کو براہ راست اگلے حرفپر تشدید دےکر ملاتے ہیں جیسے الشمس ۔ تو
اب سمجھ لیجئےکہ کچھ حروف ایسے ہیں جن سے شروع ہونے والے الفاظ پر جب لام
حروف قمریکہتے ہیں اور جن حروف سے شروع ہونے والے الفاظ پر الشَّمس کے
اصول کا اطلاق ہوتاہے انہیں حروف کشی کہتے ہیں ۔ آپکو یادکرنا ہوگا کہ کون
سے حروف سمی اورکون سے حروف قمری ہیں اور اسکی ترکیب بہت آسان ہے ۔
ایک کاغذ پر عربی کے حروف تجی لکھ لیں ۔ پھر وڈ سے ط ط تک تمام حروفکو
۴۱
کو بھی انڈر لائنکرلیں ۔ یہ سب حروف کشمسی ہیں،باقی تمام حروف قمری ہیں ۔
سیہ بات ذہن نشینکرلیں کہ مذکورہ بالا قاعدہ حقیقتاً عربیگرامر کا نہیں بلکہ تجوید
کا ہے ۔ لیکن عربی زبانکو درست طریقہ پر بولنے اور لکھنے کے لئے اس کا علم بھی
ضروری ہے ۔
۶ :پیراگراف ۳ : ۳میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ غیر منصرف اسماء حالت جر میں زیر
قبول نہیں کرتے ۔ جیسے مَسَاجِدُ حالت نصب میں مَسَاجِدَ ہو جائے گا لیکن حالت جر
ہے جیسے اَلْمَسَاجِدُ سے حالت نصب میں اَلْمَسَاجِدَ ہوگا اور حالت جر میں
الْمَسَاجِدِ ہو جائے گا ۔ دوسرا استثناء ان شاء اللہ ہم آئندہ سبق میں پڑھیں گے ۔
مشقنمبر ۵
یعنی ۱۸شکلیں نکرہ کی اور ۱۸شکلیں معرفہ کی ۔ اس کے علاوہ مشق نمبر ( ۴ب) اور
( ج ) میں دیئے گئے الفاظ کی معرفہ اور نکرہ کی جتنی شکلیں بن سکتی ہیں انکی اسمکی
گردانکریں ۔
۴۲
مركبات
اسباق میں ہم نے سمجھ لیا کہ اسم کے مذکورہ چار پہلوکیا ہیں اور اس سلسلہ میں کچھ
مشق بھی کر لی ۔ ابتک ہماری تمام مشقیں مفرد الفاظ پر مشتمل تھیں ۔ یہی مفرد
الفاظ جب دو یا دو سے زیادہ تعداد میں باہم ملتے ہیں تو بامعنی مرکبات اور جملے وجود میں
آتے ہیں ۔ ہمارے اگلے اسباق انہی کے متعلق ہوں گے ۔ اس لئے اس سبق میں ہم
گلے اےہیں۔ مار
:
آگے بڑھنے سے پہلے مناسب ہے کہ ہم ایک ضروری بات ذہن نشینکر
لیں ۔ " مفرد کی اصطلاح دو مفہوم میں استعمال ہوتی ہے ۔ جبکسی اسمکے عددکے
پہلو پر بات ہو رہی ہو تو جمع اور تشنیہ کے مقابلہ میں واحد لفظکو بھی مفرد کہتے ہیں ۔
مرکبیا جملہ میں استعمال شدہ متعدد الفاظ میں سے کسی تنا لفظکی بات ہو تو اسے بھی
" مفرد "کہتے ہیں ۔ اور یہاں ہم نے مفرد کا لفظ اسی مفہوم میں استعمالکیا ہے ۔ اب
دو مفرد الفاظ کو ملاکر لکھنے کی مشقکرنے سے پہلے مناسب ہو گاکہ ہم مرکبات اور ان
دویا دو سے زیادہ مفرد الفاظ کے آپس کے تعلقکو ترکیبکہتے ہیں اور ان :
کے مجموعےکو مرکب جیسے سمندر مفرد لفظ ہے ،اسی طرحگہرا بھی مفرد لفظ ہے اور
گہرا سمندر " جب ان دونوں الفاظکو ملایا جاتاہے تو ایک بامعنی فقرہ بن جاتا ہے
کہا جاتا ہے اور یہ ابتدائود و قسموں میں تقسیم ہوتا ہے ،مرکبناقص اور جملہ ۔
۴۳
ری
دو مفرد الفاظکو ملاکر لکھنے کا ایک طریقہ سمجھنے کے لئے پہلے ان دو فقروںپر
غورکریں ۔ صَادِقٌ وَ حَسَنٌ ایک سچا اور ایک خوبصورت) الصَّادِقُ وَالْحَسَنُ
( سچا اور خوبصورت) پہلے فقرہ میں وہ الگ پڑھا جا رہا ہے اور حَسَن الگ۔ لیکن
دو سرے فقرہ میں وَکو آگے اَلْحَسَنُ سے ملا کر پڑھاگیا۔ اسکی وجہ سمجھنے کے لئے یہ
اصول سمجھ لیںکہ جس لفظ پر لام تعریف لگا ہو وہ اپنے سے پہلے لفظ سےملاکر پڑھا جاتا
ہے ۔ اور اس صورتمیں لام تعریفکا ہمزہ ( جسے عام طور پر ہم الفکہتے ہیں) لکھنے
میں تو موجود رہتا ہے لیکن تلفظ میں گر جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر ہے زبرکی
حرکت ہٹا دی جاتی ہے ۔ چنانچہ وَالْحَسَنُ لکھنا اور پڑھنا غلط ہوگا ۔ بلکہ یہ وَالحَسَنَ
لکھا اور پڑھا جائے گا ۔ابیہ بھی یادکر لیںکہ جو ہمزہ پہلے لفظ سے ملانے کی وجہ سے
۴۴
تلفظ میں گر جاتا ہے اسے هَمْزَةُ الْوَصْلکہتے ہیں ۔ چنانچہ ابْنُ ( بیٹا ) ،اِمْرَأَةٌ
اسی سلسلے میں دوسرا اصول سمجھنے کے لئے دو اور فقروں پر غور کریں ، ۷ :
صَادِقٌ أَوْكَاذِبٌ ( ایک سچا یا ایک جھوٹا ) -الصَّادِقُ اوالْكَاذِبُ ( سچا یا جھوٹا ) پہلے
فقرہ میں انو (یا )کو آگے ملانا ضروری نہیں تھا ۔ اس لئے وہ اپنی اصلی حالت پر ہے اور
وادکی جزم برقرار ہے ۔ لیکن دوسرے فقرہ میں اسے آگے ملانا ضروری تھا کیونکہ .
اگلے لفظ الكَاذِبُ پر لام تعریف لگا ہوا ہے ۔ جس کا ہمزہ ہمزۃ الوصل ہے ۔ اس لئے
اؤ کے واؤکی جزمکی جگہ زیر آگئی ۔ اس کا اصول یہ ہے کہ هَمْزَةُ الْوَصل سے پہلے
لفظکاآخری حرف اگر ساکن ہو تو اسے عموماً زیر دےکر آگے ملاتے ہیں ۔ صرفچند
الفاظ اس سے متمنی ہیں ۔ جیسے لفظ میں ( سے ) اسکی نونکو زبر دےکر آگے ملاتے
۶
مشقنمبر
ذیل میں دیئے گئے الفاظ کے معنی یادکریں اور ان کے نیچے دی ہوئی عباراتکا
( )۳ایکگھریا ایک بازار گھر اوربازار ( )۲ ایکگھراور ایک بازار () 1
( )1آیگا پانی ( )۵ہوا اور خوشبو گھریا بازار ( )۴
( )9سورجیا چاند ( )۸چاند اورسورج آگاور پانی () 2
( ) ۱۲کوئی بڑھئی یاکوئی درزی دشواریاآسان کچھآسان اورکچھ دشوار ( )1 ( ) ۱۰
( ) ۱۵کتاباور سبق ( ) ۱۴ایک اونٹ اور ایکگھوڑا ( ) ۱۳درزی اور نانبائی
ضروریہدایت :
سکنات اور اعرابکو اچھی طرح ذہن نشینکر کےیادکریں ۔ خاص طور سے سہ حرفی
الفاظ کے درمیانی حرفپر زیادہ توجہ دیں ۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ خبرکو خُبز اور لَبَنٌ
کو لینکہنا غلط ہوگا ۔ یہی وجہ ہےکہ مشقوں میں جن عربی الفاظکی حرکات و سکنات
انکے نمبرکاٹ لئے جاتے ہیں ۔ اور اعراب واضح نہیں ہوتے
مرکبتوصیفی ( حصہ اول )
۸ : ۱گزشتہ سبق میں ہم نے مرکبات سمجھ لئے تھے اور یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ انکی
ایک قسم " مرکب ناقص "کی متعدد اقسام ہیں ۔ اب اس سبق میں ہم نے مرکب
ناقص کی ایک قسم ،مرکبتوصیفی کا مطالعہ کرنا ہے ۔ اور اس کے چند قواعدسمجھ کر
اُنکی مشقکرنی ہے ۔
اسمکی صفت بیانکرتا ہے ۔ مثلاً ہمکہتے ہیں ” نیک مرد " ۔ اس میں اسم " نیک " نے
اسم " مرد " کی صفت بیانکی ہے ۔ جس اسم کی صفت بیانکی جاتی ہے اسے
موصوف "کہتے ہیں ۔ مذکورہ مثال میں " مرد "کی صفت بیانکی گئی ہے اس لئے وہ
موصوف ہے ۔ دوسرا اسم جو صفت بیانکرتا ہے اسے " صفت "کہتے ہیں ۔ چنانچہ
۸ : ۳انگریزی اور اردو میں مرکب توصیفی کا قاعدہ یہ ہے کہ ان میں صفت پہلے
اور موصوف بعد میں آتا ہے ۔ مثلاً ہمکہتے ہیں ( " Good Boy ” :اچھا لڑکا )
اس میں ” " Goodاور ( اچھا ) پہلے آیا ہے جو کہ صفت ہے اور ” " Boyاور(لڑکا )
بعد میں آیا ہے جو کہ موصوفہے ۔ لیکن عربی کے مرکبتوصیفی میں معاملہ اسکے
بر عکس ہوتا ہے یعنی غربی میں موصوف پہلے آتا ہے اور صفت بعد میں ۔ اس لئے
اچھالڑ کا "کا عربی میں ترجمہکرتے وقت اس کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے ۔ چنانچہ جب ہم
ترجمہکریں گے تو چونکہ عربی میں موصوف پہلے آتا ہے اس لئے پہلے لڑکا کا ترجمہ
ہوگا جو کہ الْوَلَدُ " ہو گا ۔ اور صفت " اچھا " کا بعد میں ترجمہ ہو گا جو "اَلْحَسَنُ "
نوٹکر لیا ہو گاکہ ملا کرلکھنے سے الْحَسَنُ کے ہمزہ سے زبر ہٹگئی ۔ اسکی وجہ ہم
کے لحاظ سے صفت ہمیشہ موصوف کے مطابق ہوگی ۔ یعنی ( ) 1موصوف اگر حالت
رفع میں ہے تو صفت بھی حالت رفع میں ہوگی ۔ ( )۲موصوف اگر مذکر ہےتو صفت
( )۳موصوف اگر واحد ہے تو صفت بھی واحد ہوگی اور بھی مذکر ہوگی ۔
( ) ۴موصوف اگر معرفہ ہے تو صفت بھی معرفہ ہو گی ۔ اس باتکو مزید سمجھنے کے
لئےگزشتہ پیراگرافمیں دیگئی مثال پر ایک بار پھر غورکریں ۔ وہاں ہم نے ” اچھا
لڑکا " کا ترجمہ " اَلْوَلَدُ الْحَسَنُ " کیا تھا ۔ اس میں موصوف ” لڑکا “ کے ساتھ
" ایک "یا "کوئی "کی اضافت نہیں ہے اس لئےکہ یہ معرفہ ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ
اس کا ترجمہ ولد کے بجائے اَلْوَلَدُ ہو گا ۔ اب دیکھئے موصوف" الوَلَدُ " حالت رفع
میں ہے ،مذکر ہے واحد ہے اور معرفہ ہے ۔ اس لئے اسکی صفت بھی چاروں
پہلوؤں سے اس کے مطابق یعنی حالت رفع میں واحد مذکر اور معرفہ رکھیگئی ہے ۔
۸ : ۵ضروری ہے کہ اس مقام پر ایک اور قاعدہ بھی سمجھ لیں ۔ یہ قاعدہ بھی اصلاً
تو تجوید کا ہے لیکن مرکباتکو صحیح طریقہ سے لکھنے اور پڑھنے کے لئےگرامرکے طلباء
قول عَظِيمٌ ( ایک عظیم بات) ( )iiقَوْلٌ مَّعْرُوفٌ ( ایک بھلی بات) ۔ دیکھئے پہلے
مرکبمیں قولکی لامکو عظیمکی عین کے ساتھ مدغم نہیںکیا گیا۔ اس لئے دونوں لفظ
الگ الگپڑھے جا رہے ہیں ۔ لیکن دوسرے مرکب میں قولکی لامکو معروفکی
میم کے ساتھ مدغم کر دیا گیا ہے ۔ اس لئے میم پر تشدید ہے اور دونوں لفظ ملا کر پڑھے
جائیں گے ۔اب سوال پیدا ا ہوتاہےکہ وہ کیا اصول ہے جس کے تحت کچھ الفاظ ماقبل
یا کی سے شروع ہوتے ہیں اور ان سے پہلے نون ساکنیا تنوین ہوتی ہے تو انہیں
۴۸
ما قبل سے ملا کرپڑھا جاتا ہے ۔ ان حروف حجی کو یادرکھنے کے لئے انکی ترتیببدل
کر ایک لفظ " پر ملون " بنا لیا گیا ہے ۔ چنانچہ کہتے ہیںکہ سر ملون سے شروع ہونے
والے الفاظ اپنے سے قبل کے الفاظ کے ساتھ ملاکر پڑھے جاتے ہیں ۔ بشر طیکہ ما قبل
نون ساکن یا نون تنوین ہو ۔ یہ تجوید کا قاعدہ ادغام ہے ۔ مرکب تو میبنیکی مشق
لفظ لا عِب (کھلاڑی )کی ۳۶شکلوں میں ہر ایک کے ساتھ صفت صالح (نیک )
نمبرے ( ب )
مشق
ذیل میں دیئے گئے الفاظ کے معنی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے
کرنے والا
انصاف عَادِلُ بادشاہ مَلِكٌ (ج مُلُوكُ)
شَفَاعَةٌ کم
شفاعت ۔ سفارش قَلِيلٌ
( )۳ایہکلکا بوجھ بھلی بات ( )۲ ایک بزرگ رسول () 1
۹ : ۱گزشتہ سبق میں ہم نے مرکبتوصیفی کے چند قواعد سمجھے تھے اور انکی مشق
مشقکریں گے ۔
۹ : ۲مرکبتوصیفی کا ایک قاعدہ یہ ہےکہ موصوف اگر غیرعاقلکی جمع مکسر ہو تو
اسکی صفت عام طور پر واحد مونث آتی ہے ۔ یہاں یہ بات سمجھ لیں کہ انسان جن
اور فرشتے صرف تین مخلوقات عاقل ہیں ۔ ان کے علاوہ باقی تمام مخلوقات غیر عاقل
ہیں ۔ چنانچہ قلم غیر عاقل مخلوق ہے ۔ اسکی جمع افلامآتی ہے جو کہ جمع مکسر ہے ۔
اس لئے اسکی صفت واحد مونث آئے گی ۔ مثلاً ”کچھ خوبصورت قلم " کا ترجمہ
ہوگا ۔اَقْلَامُجَمِيْلَةٌ ۔
لام تعریف کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ معرف باللام سے پہلے والے لفظ کے :
آخری حرفپر اگر تنوین ہو تو نون تنوینکو ظاہرکر کے آگے ملاتے ہیں ۔ جیسے اصل
تو يه زَيْدُنَ الْعَالِمُ ہو جائے گا۔ اب اسے آگے ملانے کے لئے نونکی جرم ہٹاکر اسے
زیر دےکر ملا ئیں گے ۔ تو یہ ہو جائےگا زَیدُنِ الْعَالِمُ ۔ یاد رکھیںکہ نون تنوین
معربفاللام کے متعلق ابتکجتنے اصول آپکو بتائے گئے ہیں ،ان سبکو () 1
مرکب توصیفی کے متعلق اب تکجتنے قواعد آپکو بتائے گئے ہیں ،ان سب () ii
(۸ب )
مشقنمبر
بھارییا ہلکا بوجھ ۔ () 1 ایک واضحکتاباور ایک واضح نشانی ( )۵
۵۳
مرکبکو جملہکہتے ہیں جس سے کوئی خبر حکم یا خواہش سامنے آئے اور بات پوری ہو
جائے اور جس جملہکی ابتداء اسم سے ہوا سے جملہ اسمیہکہتے ہیں ۔ اب یہ باتبھی
سمجھ لیںکہ ایک جملہ کے کچھ اجزاء ہوتے ہیں ۔ اس وقت ہم جملہ اسمیہ کے دو بڑے
اجزاءکو پہلے غیر اصطلاحی انداز میں سمجھیں گے اور بعد میں متعلقہ اصطلاحات کا ذکر
کریں گے ۔
۱۰ : ۳عربی میں بھی جملہ کے بڑے اجزاء دو ہی ہوتے ہیں جس کے متعلق باتکمی
جارہی ہو یعنی Subjectکو عربی قواعد میں " مبتدا "کہتے ہیں اور جو باتکی جا رہی
بعد میں آتی ہے ۔ چنانچہ ترجمہکرتے وقت اس ترتیبکو ذہن میں رکھنا ضروری
ہے ۔ مثلاً "مسجدکشادہ ہے " کا جب ہم عربی میں ترجمہ کریں گے تو مبتداء یعنی
" مسجد "کا ترجمہ پہلے اور خبریعنی کشادہ ہے "کا ترجمہ بعد میں کریں گے ۔
۱۰ : ۵جملہ اسمیہ کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ذہننشینکرلیں کہ اردو میں جملہ
اور فارسی میں ” استاند " وغیرہ الفاظ استعمال مکملکرنے کے لئے " ہے ہیں
۵۴
ہوتے ہیں ۔ جیسے اوپر کی مثال میں مسجد کی کشادگی کی خبر دیگئی تو جملہ کے آخر میں لفظ
" ہے "کا اضافہکرکے باتکو مکملکیا گیا ۔ اسی طرح انگریزی میں " " is.am,are
است اند یا is ,areوغیرہ کی قسم کے الفاظ موجود نہیں ہیں ۔ بلکہ عربی میں جملہ مکمل
کرنے کا طریقہ یہ ہےکہ مبتداءکو عام طور پر معرفہ اور خبر کو عموما نکرہ رکھا جاتا ہے ۔
اس طرح جملہ میں ہے یا ہیں کا مفہوم از خود پیدا ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ مسجدکشادہ
ہے " کا ترجمہکرتے وقت مبتد ا یعنی مسجد کا ترجمہ "مَسْجِدٌ "نہیں بلکہ "الْمَسْجِدُ "
ہو گا اورخبریعنی کشادہ کا ترجمہ " الوسيع " نہیں بلکہ " وَسِيع " ہوگا ۔ اس طرح مبتدا
معرفہ اور خبر نکرہ ہونےکی وجہ سے اس میں " ہے "کا مفہوم از خود پیدا ہوگیا ۔چنانچہ
۱۰ :اب آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ جملہ اسمیہ اور مرکبتوصیفی کے
فرقکو خوب اچھی طرحذہن نشین کرلیاجائے ۔ جملہ اسمیہکا ایک اصول ابھی ہم نے
پڑھا کہ عموماً مبتداء معرفہ اور خبر نکرہ ہوتی ہے ۔ مرکبتوصیفی کا ایک اہم اصول یہ
ہےکہ صفت چاروں پہلوؤں ( یعنی حالت اعرابی ،جنس ،عدد اور وسعت ) کے اعتبار
وسیع پر ایک مرتبہ پھر غورکریں ۔ اس مرکب کا پہلا جز معرفہ اور دو سرا نکرہ ہے ۔
اس لئے اسکو جملہ اسمیہ مانتے ہوئے اسی لحاظ سے اس کا ترجمہ کیاگیا کہ مسجد وسیع
وسیع "کو معرفہ کر کے الْمَسْجِدُ الْوَسِيعکر دیں تو اب چونکہ وسیع ہے ۔ اگر ہم
چاروں پہلوؤں سے مسجد کے تابع ہوگیا اس لئے اسے مرکبتوصیفی مانا جائےگا اور
وسیع مسجد "۔ اسی طرح اگر مسجد کو فکرہکر کے مَسْجِدٌ وَسِيعکردیں ترجمہ ہو گا
تب بھی وسیع چاروں پہلوؤں سے مسجد کے تابع ہے اس لئے اسے بھی مرکبتوصیفی
مانیں گے اور اس کا ترجمہ ہو گا " ایک وسیع مسجد "۔ چنانچہ جملہ اسمیہکی ابتدائی پہچان
۵۵
یہی ہے کہ مبتدا معرفہ اور خبرنکرہ ہوگی ۔ جبکہ مرکب توصیفی میں صفت چاروں
L
10ہم پڑھ آئے ہیںکہ اسم کے صحیح استعمال کے لئے ہمیں اس کا چار پہلوؤں
سے جائزہ لےکر اسے قواعد کے مطابق بنانا ہوتا ہے ۔ اس میں سے ایک پہلو یعنی
وسعت کے لحاظ سے ہم نے دیکھ لیا کہ جملہ اسمیہ میں مبتد عام طور پر معرفہ اور خبر عموماً
نکرہ ہوتی ہے ۔ اب نوٹکر لیں کہ حالت اعرابی کے لحاظ سے مبتداً اور خبردونوں
۱۰ :اب دوپہلو باقی رہ گئے یعنی جنس اور عدد ۔ اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین
کرلیںکہ جنس اور عدد کے لحاظ سے خبر مبتدا کے تابع ہوگی ۔ یعنی مبتدا اگر واحد
ہے تو خبر بھی واحد ہوگی اور مبتداً اگر جمع ہے تو خبر بھی جمع ہوگی ۔ اسی طرح مبتداً اگر
مذکر ہے تو خبر بھی مذکر ہوگی اور مبتداً اگر مونث ہے تو خبر بھی مونث ہوگی ۔ مثلا
جَمِيْلَتَانِ ( دونوں بچیاں خوبصورت ہیں ) اور النِّسَاءُ مُجْتَهَدَاتٌ ( عورتیں محنتی
ہیں وغیرہ ۔ ان مثالوں میں غورکریں کہ عدد اور جنس کے لحاظ سے خبر مبتدا کے
مطابق ہے ۔
۱۰پیرا گراف ۸ : ۲میں ہم پڑھ آئے ہیںکہ موصوف اگر غیرعاقلکی جمع مکسر ۹
ہو تو صفت عام طور پر واحد مونث آتی ہے ۔ ابیہ بھی نوٹکرلیںکہ مبتدا اگر غیر
عاقلکی جمع مکسر ہو تو خبربھی واحد مونث آتی ہے ۔ جیسے اَلْمَسَاجِدُ وَسِبْعَةٌ (مسجدیں
وسیع ہیں ) وغیرہ ۔ واضح رہے کہ استثناء کے لئے ذہن میں ایککھڑکی کھلی رہنی
چاہئے ۔
۵۶
مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے مرکبات اور
جملوں کا ترجمہکریں ۔
الْعَذَابُشَدِيدٌ ()1
عَذَابٌأَلِيمٌ ()۲
ا 11 :گزشتہ سبق میں ہم نے جملہ اسمیہ کے کچھ قواعد سمجھ لئے اور انکی مشقکرلی ۔
گےکہ جملہ اسمیہ میں نفی کے معنیکس طرحپیدا ہوتے ہیں ۔ مثلاگزشتہ مشق میں ایک
جملہ تھا ۔ "سبق طویل ہے " ۔ اگر ہم کہنا چاہیں " سبق طویل نہیں ہے " تو عربی میں
اس کا کیا طریقہ ہے ؟ چنانچہ سمجھ لیں کہ کسی جملہ اسمیہ کے شروع میں لفظ "ما " یا
1اب ایک خاص بات یہ نوٹکریں کہکسی جملہ اسمیہ کے شروع میں جب :
" مَا " یا " لَيْس " داخل ہوتا ہے تو مذکورہ بالا معنوی تبدیلی کے ساتھ ساتھ یہ الفاظ
اعرابی تبدیلی بھی لاتے ہیں یعنی وہ جملہکی خبرکو حالت نصبمیں لے آتے ہیں ۔ مثلاً
نصب میں طویلاً آئی ہے ۔ اسی طرح ہم کہیں گے مَازَيْدٌ قَبِيْحًا ( زید بد صورت
11 :جملہ اسمیہ میں نفی کا مفہوم پیداکرنے کا عربی میں ایک اور انداز بھی ہے اور
وہ یہ کہ خبرپر " ب " کا اضافہکر کے اسے حالت جر میں لے آتے ہیں ۔ مثلا لبس
مَا زَيْدٌ بِقَبِيحِ ( زید بدصورت نہیں ہے ) الدَّرْسُ بِطَوِيلٍ ( سبق طویل نہیں ہے
وغیرہ ۔ نوٹکرلیںکہ یہاں پر " ب" کے کچھ معنی نہیں لئے جاتے اور اس کے اضافہ
سے جملہ کے معنی میںکوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ صرف خبر حالت جر میں آجاتی ہے ۔
" 1 : ۴لیس " کے استعمال کے سلسلے میں ایک احتیاط نوٹکرلیں ۔ اس کا استعمال
۵۹
اس وقتکریں جب مبتداً واحد مذکر ہو ۔ جبمبتدا مونث یا تثنیہ یا جمع ہوتا صرف
ہے تو لیس کے لفظ میں کچھ تبدیلیاں ہوتی ہیں ۔ جنکی تفصیل ہم ان شاءاللہ فعل
کے اسباق میں پڑھیں گے ۔ اس لئے فی الحال لبس اس وقت استعمالکریں جب
مبتدا واحد مذکر ہو ۔ اس کے علاوہ کوئی اور صیغہ ہو تو " ما " کے استعمال سے نفی کے
معنی پیداکریں ۔
10
نمبر
مشق
مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے جملوں کا
ترجمہکریں ۔
کتا غَافِلٌ
كَلْبٌ ( جكِلَابٌ ) غافل
( ) 1انار اورسیبنمکین نہیں ہیں ۔ اجرت زیادہ نہیں ہے ۔ () ۵
۱۲ابتک ہم نے ایسے جملوں کے قواعد سمجھ لئے ہیں جو مثبتیا منفی معنی دیتے ۱
۔ اور ہم دونوں قسم کے ہیں ۔ مثلاً " سبق طویل ہے " اور " سبق طویل نہیں ہے
جملوں کا عربی میں ترجمہکر سکتے ہیں ۔ اب ہم دیکھیں گے کہ جملہ میں اگر تاکید کا مفہوم
پیداکرنا ہو ،مثلاً اگر ہمکہنا چاہیں کہ ” یقینا سبق طویل ہے " تو اسکے لئے کیا قاعدہ
ہے ۔ اس ضمن میں یادکر لیں کہ کسی جملہ اسمیہ میں تاکید کا مفہوم پیداکرنے کے لئے
عموماً جملہ کے شروع میں لفظ " إِنَّ " ( بے شک ۔ یقینا)کا اضافہکرتے ہیں ۔
تبدیلی بھی لاتہاے ۔ اور وہ تبدیلی یہہے کہ کسی جملہ پر ان داخل ہونےکی وجہ سے
اس کا مبتد أحالت نصب میں آجاتا ہے جبکہ خبر اپنی اصلی حالت یعنی حالت رفع میں ہی
گے اِنَّ زَيْدًا صَالِحُ ( بیشک زید نیک ہے ) وغیرہ ۔ جس جملہ پر ان داخل ہوتا ہے اس
་་
۱۲ : ۳کسی جملہکو اگر سوالیہ جملہ بناناہو تو اس کے شروعمیں " " (کیا )یا " هل "
داخل ہوتا ہے تو وہ صرف معنوی تبدیلی لاتے ہیں ۔ انکی وجہ سے جملہ میں کوئی
اعرابی تبدیلی نہیں آتی ۔ مثلاً أَزَيْدٌ صَالِحُ (کیا زید نیک ہے ؟ ) يَا هَلِ الدَّرْسُطَوِيلٌ
۱۲ : ۴مبتداً اگر معرف باللام ہو ،جیسے اَلدَّرْسُ طَوِیل اور ایسے جملےکو سوالیہ
استعمالکرنا چاہیں تو اس کا ایک قاعدہ ہے جو جملہ بنانے کے لئے حرف استفہام "
ان شاء اللہ ہم آگے چل کر پڑھیں گے ۔ اس لئے فی الحال ایسے جملوں میں آپ
" ".
کے بجائے ھل استعمالکریں ۔
۶۲
مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے جملوں کا
ترجمہکریں ۔
( ) ۴جی ہاں ! حامد سچا نہیں ہے ۔ ( )۳کیا حامدسچا نہیں ہے ؟
( ) ۸جی ہاں ! بے شک استانیاں بیٹھی ہیں ۔ ( )۷کیا استانیاںبیٹھی ہیں ؟
۶۳
۱۳ : ۱گزشتہ تین اسباق میں ہم نے جملہ اسمیہ کے مختلف قواعد سمجھ لئے اور انکی
تمام جملوں میں مبتدا اور خبردونوں مفرد تھے ۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہو تا بلکہکبھی مبتدا
۱۳اس سلسلہ میں پہلی صورتیہ ممکن ہے کہ مبتدا مرکبناقص ہو اور خبر ۲
مفرد ہو ۔ مثلاً الرَّجُلُ الطَّيِّبُ -حَاضِر ( اچھا مرد حاضر ہے ) ۔ اس مثال پر غور
کریں کہ الرَّجُلُ الطَّيِّبُ مرکب توصیفی ہے اور مبتدا ہے ۔ جبکہ خبر حاضر
مفرد ہے ۔
رَجُلٌطَيّب ( زید ایک اچھا مرد ہے ) ۔ اس مثال میں زید مبتدا ہے اور زَيْدٌ
بوصیفی ہے ۔
مفرد ہے جبکہ خبردَ جُلطيب مرک ت
۱۳ : ۴تیسری صورت یہ بھی ممکن ہے کہ مبتدا اور خبر دونوں مرکب ناقص
ہوں ۔ مثلا زَيْدُنِ الْعَالِمُ رَجُلٌطيب عالم زید ایک اچھا مرد ہے ) ۔ اس مثال میں
زَيْدُنِ الْعَالِمُ مرکبتوصیفی ہے اور مبتدا ہے جبکہ خیبر رَجُلٌطَيِّبٌ بھی مرکب
توصیفی ہے ۔
۱۳ : ۵اب ایک بات اور بھی ذہن نشین کر لیں ۔کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ مبتدا
ایک سے زائد ہوتے ہیں اور انکی جنس مختلف ہوتی ہے ۔ مثلاً ہمکہتے ہیں ” استاد
اور استانی بچے ہیں “ ۔ اس جملہ میں بچے ہونےکی جو خبردی جا رہی ہے وہ استاد اور
استانی دونوں کے متعلق ہے ۔ چنانچہ دونوں مبتدا ہیں اور ان میں سے ایک مذکر ہے
جبکہ دو سرا مونث ہے ۔ ادھرپیراگراف ۱۰ : ۸میں ہم پڑھآئے ہیںکہ عد د اور
جنس کے لحاظ سے خبرمبتدا کے تابع ہوتی ہے ۔ اب سوالپیدا ہوتا ہےکہ اس جملہ کا
عربی ترجمہکرتے وقتخبر کا ترجمہ صیغہ مذکر میں کریں یا مونثمیں ؟ ایسی صورت میں
اصول یہ ہےکہ مبتداً اگر ایک سے زائد ہوں اور مختلف الجنس ہوں تو خبرمڈکرآئے
گی ۔ چنانچہ مذکورہ بالا جملہ کا ترجمہ ہو گا الْمُعَلمُ وَالْمُعَلِمَةُ صَادِقَان ۔ اب نوٹکر
لیں کہ خبرصادقان مذکر ہونے کے ساتھ تثنیہ کے صیغے میں آئی ہے ۔ اس لئےکہ
مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے جملوں کا
ترجمہکریں ۔
اردومیں ترجمہکریں
الْفِئَةُ الْكَثِيرَةُ وَالْفِئَةُ الْقَلِيْلَةُ حَاضِرَتَانِ () ۸ (ع) نَعَمْ إِنَّالْعَبْدَالْمُؤْمِنَمُفْلِعٌ
( ) 1یقینا محنتی در زنیں کچی ہیں ۔ ( )۵کیا محنتی در زنیں بچیہیں ؟
( )۸کیایا تھی عظیم حیوان ہے ؟ ( )۷کچی در زمیں محنتی نہیں ہیں ۔
( ۱۲ب )
مشقنمبر
اب تک جملہ اسمیہ کے جتنے قواعد آپکو بتائے گئے ہیں ان سبکو یکجا کر کے
چیزکے لئے اس کا اسم استعمال ہو جائے اور دوبارہ اس کا ذکر آئے تو پھر اسمکے
کیا بکری کوئی نیا جانور ہے ؟ جی نہیں ! بلکہبکری ایک قدیم جانور ہے ۔ " اسی ہوں :
باتکو کہنے کا بہتر انداز یہ ہو گا کیا بکری کوئی نیا جانور ہے ؟ جی نہیں ! بلکہ وہ ایک
قدیم جانور ہے ۔ " آپ نے دیکھا کہ لفظ "بکری "کی تکرار طبیعت پر گراںگزر رہی
تھی ۔ اور جب دوسرے جملے میں بکری کی جگہ لفظ ” وہ "آگیا تو بات میں روانی پیدا ہو
گئی ۔ اسی طرح عربی میں بھی بات میں روانی کی غرض سے ضمیروں کا استعمال ہو تا
ہے ۔ چنانچہ جملہ اسمیہ کے بہتر استعمال کے لئے ضروری ہےکہ ہم عربی میں استعمال
۱۴ : ۲اب اگر ایک بات اور سمجھ لیں تو ضمیریں یادکرنے میں بہت آسانی ہو جائے
گی ۔ جبکسی کے متعلقکوئی بات ہوتی ہے تو تین امکانات ہوتے ہیں ۔ پہلا یہکہ
حاضر
جس کے متعلق بات ہو رہی ہو وہ " غائب " ہو یعنی یا تو وہ غیرحاضرہو یا اسکو غیر
کے صیغے میں باتکی جائے ۔ مذکورہ بالا پیراگراف میں بکری غائب فرضکر کے
اسکی مثال ہے ۔ اردو میں غائب کے صیغے کے لئے زیادہ تر " وہ "کی ضمیرآتی
یعنی حاضر ہو ۔ اردو میں اس کے لئے اکثر آپیا تمکی ضمیرآتی ہے ۔ تیسرا امکان یہ
ہے کہ " مُتكلّم " خود اپنے متعلق باتکر رہا ہو ۔ اردو میں اس کے لئے میں یا ہمکی
آتی ہے ۔
ضمیر
14
اس سلسلہ میں ایک اہم بات یہ ہےکہ عربی کی ضمیروں میں نہ صرف ۱۴ : ۳
غائب ،مخاطباور متکلم کا فرق واضح ہوتا ہے بلکہ جنس اور عہدکا فرق بھی نمایاں ہوتا
ہے ۔ اسکی وجہ سے عربی جملوں کے حقیقی مفہوم کا تعین کرنے میں آسانی ہوتی
ہے ۔ اب مختلف صیغوں میں استعمال ہونے والی مختلف ضمیروںکو یادکرلیں ۔ تاکہ
ضَمَائِرِمَرْفُوْعَه مُنْفَصِله
۱۴ : ۴
هُمَا
أَنْتُمَا :انْتَ
أَنْتُمْ تذکر
اولیہ کہ ہم پیرا گراف ۶ : ۴میں پڑھ آئے ہیںکہ ضمیریں معرفہ ہوتی ہیں ۔ ( )1
۶۸
اس لئے اکثر جملوں میں یہ مبتدا کے طور پر بھی آتی ہیں ۔ مثلا هُوَ رَجُلٌصَالِحٌ
وہ ایک نیک مرد ہے ) هُنَّ نِسَاءُ صَالِحات ( وہ نیک عورتیں ہیں ) وغیرہ ۔
دوم یہکہ پیرا گراف ۳ : ۵میں ہم نے منی اسماء کا ذکرکیا تھا ۔ اب یہ نوٹکر () ii
لیںکہ یہ تمام ضمیرمیں مبنی ہیں اور چونکہ اکثریہ مبتداکے طور پر آتی ہیں اس
لئے انہیں مرفوع یعنی حالت رفع میں فرضکر لیاگیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا
نامضمائر مرفوعہ ہے ۔
iiiسوم یہ کہ یہ ضمیریںکسی لفظ کے ساتھ ملا کر یعنی متصلکر کے نہیں لکھی جاتیں
( )
بلکہ انکی لکھائی اور تلفظ علیحدہ اور مستقل ہے ۔ اس لئے انکو ضمائر
( ) ivچهارم یہ کہ ضمیر " آنا " کو پڑھتے اور بولتے وقت الف کے بغیر یعنی آن
پڑھتے ہیں ۔
۱۴ :پیرا گراف ۱۰ : ۵میں ہم پڑھ آئے ہیںکہ خبر عموما نکرہ ہوتی ہے ۔ فی الحال
اس قاعدے کے دو استثناء سمجھ لیںکہ خبر معرفہ بھی آسکتی ہے ۔ پہلا استثناء یہ ہےکہ
خبراگر کوئی ایسا لفظ ہو جو صفت نہ بن سکتا ہو تو خبر معرفہ ہو سکتی ہے ۔ مثلاً آنَا يُوسُف
( میں یوسف ہوں) ۔ دوسرا استثناء یہ ہے کہ خبراگر اسم صفت ہو اورکسی ضرورت
کے تحت اسے معرفہ لانا مقصود ہو تو مبتداً اور خبر کے درمیان متعلقہ ضمیرفاصل لے
آتے ہیں ۔ جیسے الرَّجُلُ هُوَالصَّالِحُ ( مرد نیک ہے ) ۔کبھی جملہ میں تاکیدی مفہوم
پیداکرنے کے لئے بھی یہ انداز اختیارکیا جاتا ہے ۔ چنانچہ مذ کو رہ جملہ کا یہ ترجمہ بھی
مرد ہی نیک ہے " الْمُؤْمِنُونَ هُمُ المُفْلِحُونَ یعنی مومن مراد پانے ممکن ہے کہ
مشق نمبر۱۳
مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے جملوں کا
۶۹
ترجمہکریں ۔
وَهُنَّأنتبينت وَهُمَامُجْتَهِدَانِ
)۲هَلالِْإِسْلَامُ دِينُحَقٌّ؟
( مَا أَنَا إِبْرَاهِيمَبَلْأَنَامَحْمُوْدٌ ()۵
لَكِنْمَاهُمْبِمُجْتَهِدِينَ
کیا زمین اور سورج دو وااضح نشانیاں اچھی نصیحت صدقہ ہے اور وہ بہت ہی ( )۳ ( )1
کیوں نہیں ! وہ خوشدلہیں او روہ محنتی ہیں ۔ ()۴ ( )۳کیا خوشدل استانیاں محنتی نہیں ہیں ؟
وہ کھڑی نہیں ہیں بلکہ بیٹھی ہیں ۔ ()1 کستانیاںکھڑی ہیںیا بیٹھی ہیں ؟
( ) ۵دو نی ا
•L
۱۵ : ۱دو اسموں کا ایسا مرکب جس میں ایک اسمکو دوسرے اسم کی طرف نسبت
لڑکے کی کتاب " اس دیگئی ہو مرکب اضافی کہلاتاہے جیسے اردو میں ہمکہتے ہیں
۱۵ : ۲یہ بات ذہن میں واضح رہنی چاہئے کہ دو اسموں کے درمیان ملکیت کے
علاوہ اور بھی نسبتیں ہوتی ہیں ۔ لیکن فی الحال ہم ملکیتکی نسبت کے حوالے سے
دوسری نسبتیں سامنے آئیں گی تو انکو قواعد کے مطابق استعمالکرنے میں ان شاء
۱۵ :جس اسمکو کسی کی طرف نسبتدی جاتی ہے اسے " مضاف"کہتے ہیں ۔
جس اسم کی طرفکوئی نسبت دی جاتی ہے اسے " مُضافالیہ "کہتے ہیں ۔ مذکورہ
مثال میں لڑکےکی طرف نسبت دی گئی ہے ۔ اس لئے یہاں لڑکا مضافالیہ ہے ۔
۱۵ : ۴عربی میں مضاف پہلے آتا ہے اور مضاف الیہ بعد میں آتا ہے ۔ جبکہ اردو
میں اس کے برعکس ہوتا ہے ۔ جس کا ترجمہ میں خیالکرنا پڑتاہے ۔ مذکو رہ مثال پر
لڑکے کی کتاب " ۔ اس میں لڑ کا جو مضاف الیہ ہے ،پہلے آیا ہے اور غورکریں ۔
کتاب جو مضاف ہے بعد میںآئی ہے ۔ اب چونکہ عربی میں مضافپہلے آتا ہے اس
لئے ترجمہکرتے وقت پہلےکتابکا ترجمہ ہوگا ۔ جو مضاف ہے اور لڑکے کا ترجمہ بعد
۱۵ : ۵گزشتہ اسباق میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ اسم اگر نکرہ ہو تو اکثر اسپر تنوین
آتی ہے جیسے کتاب ۔ اور جب اس پر لام تعریف داخل ہوتا ہے تو تنوین ختم ہو جاتی
ہے جیسے الْكِتَابُ ۔ اب ذرا مذکورہ ترجمہ میں لفظ ”كِتَابُ " پر غورکریں ۔ نہ تو اس
پر لام تعریف ہے اور نہ ہی تنوین ہے بس یہی خصوصیت مضافکی ایک آسان پہچان
۱۵ : ۶مرکب اضافی کا دوسرا اصول یہ ہےکہ مضاف الیہ ہمیشہ حالت جر میں ہوتا
ہے ۔ مذکورہ مثالكِتَابُالْوَلَدِ میں دیکھیں اَلْوَلَدِ حالت جر میں ہے جس کا ترجمہ تھا
لڑکے کی کتاب " یہی اگر كِتَابُ وَلَدٍ ہوتا تو ترجمہ ہوتا کسی لڑکے کیکتاب " اس
لئے ترجمہکرنے سے پہلے غورکر لیںکہ مضافالیہ معرفہ ہے یا نکرہ اور ترجمہ میں
اس کا لحاظ رکھیں ۔ مرکب اضافی کے کچھ اور بھی قواعد ہیں جن کا ہم مرحلہ وار
مشقکرلیں ۔
مشق نمبر۱۴
مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے مرکبات اور
جملوںکا ترجمہکریں ۔
اردومیں ترجمہکریں
اضافی اتنے سادہ نہیں ہوتے ہیں بلکہ بعض میں ایک سے زیادہ مضاف اور مضاف
وزیر کے مکان کا دروازہ " ۔ اس میں الیہ آتے ہیں ۔ مثلاً اس جملہ پر غور کریں
دروازہ مضاف ہے جس کا مضاف الیہ مکان ہے لیکن مکان خود بھی مضاف ہے جس
کا مضاف الیہ وزیر ہے ۔ اباس کا ترجمہکرتے وقت یہ بات ذہن میں رکھیںکہ
مرکب توصیفی کی طرح مرکب اضافی کا بھی الٹا ترجمہکرنا ہوتاہے ۔ اس لئے سب سے
آخری لفظ " دروازہ " کا سب سے پہلے ترجمہکرنا ہے اور یہ چونکہ مضاف ہے ۔ اس
لئے اسپر نہ تو لام تعریفآسکتا ہے اور نہ ہی تنوین ۔ چنانچہ اسکا ترجمہ ہوگا باب
اس کے بعد درمیانی لفظ " مکان " کا ترجمہکرنا ہے ۔ یہ بابکا مضافالیہ ہے اس
لئے حالت جر میں ہو گا لیکن ساتھ ہی یہ وزیر کا مضافبھی ہے اس لئے اسپر نہ تو
،
لام تعریف داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی تنوین آسکتی ہے ۔ چنانچہ اس کا ترجمہ ہو گا
" بيت " ۔ اس طرح جملےکا ترجمہ ہوگا " بَابُبَيْتِالْوَزِيْرِ "
۱۶ : ۲پیراگراف ۳ : ۳میں ہم بڑھ آئے ہیںکہ غیرمنصرف اسماء حالت خبر میں
زیر قبول نہیں کرتے اس قاعدے کا پہلا استثناء ہم نے پیرا گراف ۶ : ۶میں پڑھا کہ
استثناء بھی سمجھ لیں ۔کوئی غیرمنصرف اسم اگر مضاف ہو تو حالت جر میں زیر قبول
کرتا ہے ۔ جیسے " اَبْوَابُ مَسَاجِدِ اللهِ " ( اللہ کی مسجدوں کے دروازے ) ۔ اب
اسپر لام تعریفنہیں آسکتا اور ابوابکا مضاف الیہ ہونےکی وجہ سے اس نے زیر
قبولکی ۔
۱۹ : ۳سبق نمبر ۱۳میں ہم نے پڑھا تھا کہ مبتدا اور خبرکبھی مفرد لفظ کے بجائے
مرکبناقص بھی ہوتے ہیں ۔ اسکی وضاحت کے لئے وہاں ہم نے تمام مثالیں
تھا ۔ اب سمجھ لیںکہ مرکب اضافی بھی کبھی مبتدا اورکبھی خبربنتاہے ۔ جبکہکسی جملے
میں مبتدا اور خبردونوں مرکب اضافی ہوتے ہیں ۔ مثلا مَحْمُودٌ وَلَدُ الْمُعَلَّم ( محمود
استاد کالڑ کاہے ) ۔ اس میں محمود مفرد لفظ ہے اورمبتدا ہے ۔ وَلَدُ الْمُعَلَّم مرکب
اضافی ہے اور خبر ہے ۔ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ (علم کی طلب فرض ہے ) ۔ اس میں
طَلَبُالْعِلمِ مرکب اضافی ہے اور مبتدا ہے ۔ فَرِيْضَةٌ مفرد لفظ ہے اور خبر ہے ۔
۱۶ : ۴ہم پڑھ چکے ہیںکہ خبرعام طور پر نکرہ ہوتی ہے ۔ اس قاعدے کے دواستثناء
بھی پیراگراف ۱۴ : ۶میں سمجھ چکے ہیں ۔ اب اسکا ایک اور استثناء نوٹکریں ۔
کوئی مرکبناقص اگر خبر بن رہا ہو تو ایسی صورت میں خبر معرفہ بھی ہو سکتی ہے ۔ اسی
۱۵
مشق نمبر
مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے مرکبات اور
جملوںکا ترجمہکریں ۔
( ) ۳ظالم بادشاہ اللہکے عذاب کا کوڑا ہے ( )۳اللہکے رسول کی بیٹیکی دعا
( ) ۸مومن کا دالللہ کاگھرہے ( )۷اللہکی مسجدوںکے علماء نیک ہیں
۱۷ : ۱یہ بات ہم پڑھ چکے ہیںکہ مضافپر تنوین اور لام تعریف نہیں آسکتے ۔ اس
کس طرح ہو ۔ اس کا اصول یہ ہےکہ کوئی اسم جبکسی معرفہ کی طرف مضاف ہو تو
اسے معرفہ مانتے ہیں مثلاً غُلامُ الرَّجُل ( مرد کا غلام) میں غُلامُ مضاف ہے الرَّجُلِ
کی طرف جو کہ معرفہ ہے ۔ اس لئے اس مثال میں غُلامُ معرفہ مانا جائے گا ۔ اب
دو سری مثال دیکھئے ۔ غُلَامُ رَجُلٍ ۔ یہاں غُلامُ مضاف ہے رَجُلٍکی طرف جو کہ
۱۷ : ۲مرکب اضافی کا ایک اصول یہ بھی ہےکہ مضاف اور مضافالیہ کے
درمیان میں کوئی لفظ نہیں آتا ۔ اسکی وجہ سے ایک مسئلہ اس وقتپیدا ہوتا ہے
جب مرکب اضافی میں مضافکی صفت بھی آرہی ہو ۔ مثلاً " مرد کا نیک غلام " ۔
ہے ۔ اس لئےکہ مضاف غلام اور مضابالیہ الرَّجُلِ کے درمیان صفت آگئی ۔
اس لئے یہ ترجمہ غلط ہے ۔ چنانچہ اصولکو قائم رکھنے کے لئے طریقہ یہ ہے کہ
مضافکی صفت مرکب اضافی کے بعد لائی جائے ۔ اس لئے اسکا صحیح ترجمہ ہوگا ۔
غُلَامُالرَّجُلِالصَّالِحُ -
۱۷ :ایسی مثالوں کے ترجمہ کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ صفت یعنی " نیک "
کو نظراندازکر کے پہلے صرف مرکب اضافی یعنی " مرد کا غلام " کا ترجمہکر لیں ۔
مطابق ہونی چاہئے ۔ ابنوٹکریں کہ یہاں غُلامُ مضاف ہے الرَّجُلِکی طرف جو
معرفہ ہے اس لئے غلامکو معرفہ ماناجائے گا ۔ چنانچہ اسکی صفت صالح نہیں بلکہ
ZA
الصَّالِحُآئےگی ۔
۱۷ : ۴دوسرا امکان یہ ہے کہ صفت مضاف الیہکی آرہی ہو جیسے ” نیک مرد کا
غلام " ۔ اس صورت میں بھی صفت مضاف الیہ یعنی الرجُل کے بعد آئے گی اور
الصَّالِحِ ۔ دونوں مثالوں کے فرقکو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے ۔ دیکھئے !
پہلی مثالمیں الصَّالِحُکی رفع بتا رہی ہےکہ یہ غُلامکی صفت ہے اور دوسری مثال
۱۷ : ۵تیسرا امکان یہ ہےکہ مضاف اور مضاف الیہ دونوںکی صفتآ رہی ہو
جیسے " نیک مرد کا نیک غلام " ۔ ایسی صورت میں دونوں صفتیں مضافالیہ یعنی
الرَّجُل کے بعد آئیں گی ۔ پہلے مضاف الیہ کی صفت لائی جائےگی ۔ چنانچہ اب ترجمہ
غُلامُ الرَّجُلِ الصَّالِحِ الصَّالِحُ " ۔ آئیے اب اس قاعدےکی کچھ مشقکر ہوگا
لیں ۔
مشق نمبر۱۶
مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی یادکریں اور ان کے نیچے دئیے ہوئے مرکبات اور
جملوںکا ترجمہکریں ۔
خوشبو طيب
۷۹
یمن کے آخر میں جو نون آتے ہیں انہیں نونِ اعرابیکہتے ہیں ۔اور مرکب ون اور
اضافی کا چوتھا اصول یہ ہے کہ جبکوئی اسم مذکورہ بالا صیغوں میں مضاف بنکر آتا
صاف ستھرے ہیں " ۔ اس کا ترجمہ اس طرح ہونا چاہئے تھا ” بَابَانِ الْبَيْتِ نَظِيْفَانِ "
لیکن مذکورہ اصول کے تحت بابان کانون اعرابی گر جائے گا ۔ اس لئے ترجمہ ہوگا
بَابَا الْبَيْتِ نَظِيفَانِ " ۔ اسی طرح ” بے شک مکان کے دونوں دروازے صاف
ہیں " کا ترجمہ ہونا چاہئے تھا " إِنَّ بَابَيْنِ الْبَيْتِ نَظِيفَانِ لیکن بَابَيْنِ کانون اعرابی
۱۸اب ہم جمع مذکر سالمکی مثال پر اس اصولکا اطلاقکر کے دیکھتے ہیں ۔ مثلاً ۲
۔ اس کا ترجمہ ہونا چاہئے تھا۔ مسجدوں کے مسلمان بچے ہیں ہم کہتے ہیں
( ۱۷الف )
مشق نمبر
مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے مرکبات اور
جملوںکا ترجمہکریں ۔
بے شک دونوں مردوں کے چہرے بگڑے ( )۴کیا محلہ کے مومن (جمع) نیکہیں ( )۳
ہوئے ہیں
وہ (جمع) مدرسہکی استانیاں ہیں () 1 ( )۵یقینامحلہکے مومن ( جمع)نیکہیں
AP
بے شک شہر کے مدرسہ کی استانیاں نیک ہیں ( ) ۸صافستھرےمحلے کے دونونںانبائی مشغول )(6
قمبر ( ۱۷ب )
مشن
ابتک مرکباضافی کے جتنے قواعد آپکو بتائے گئے ہیں ان سبکو یکجاکر
19 : 1سبق نمبر ۱۴جملہ اسمیہ ( ضمائر) میں ہم نے ضمیروں کے استعمالکی ضرورت اور
افادیتکو سمجھنے کے ساتھ ان کا استعمال بھی سمجھ لیا تھا ۔ اب ان سے کچھ مختلف
وزیر کا مکان اور وزیر کا باغ " ۔ اس جملہ میں اسم " وزیر "کی تکرار بری لگتی ہے
اس لئے اس باتکی ادائیگی کا بہتر انداز یہ ہے " وزیر کا مکان اور اس کا باغ " ۔اسی
طرح ہمکہتے ہیں " بچی کی استانی اور اس کا اسکول "۔ عربی میں ایسے مقامات پر جو
ضمیریں استعمال ہوتی ہیں ان میں بھی غائب ،مخاطب اور متکلم کے علاوہ جنس اور عدد
۱۹ : ۲
ضمائرمجروره مُتَصِلَه
تثنيه واحد
هُمَا ذکر
هُمْ
ان ( سب مردوں ) کا ان( دو مردوں ) کا اس ( ایک مرد) کا
ان (سبعورتوں ) کا ان ( دو عورتوں) کا اس ایک عورت کا
تم سب( مردوں ) کا تم دو مردوں)کا تیرا (تو ایک مرد کا )
پہلے جملہ کا ترجمہ ہوگا بَيْتُالْوَزِيْر وَ بُسْتَانُه ۔ اور دوسرے جملہ کا ترجمہ ہو گا مُعَلَّمَةً
( اس کا باغ ) اصل میں تھا "وزیر کا باغ " ۔ اس سے معلوم ہواکہ یہاں کی ضمیروزیر
کے لئے آئی ہے جو اس جملہ میں مضاف الیہ ہے ۔ اسی طرح مَدْرسَتْهَا ( اس کا
بچی کا مدرسہ "۔ چنانچہ یہاں ھاکی ضمیربچی کے لئے آئی ہے اصلمیں تھا مدرسہ
اور وہ بھی مضاف الیہ ہے ۔ اس طرح معلوم ہواکہ یہ ضمیریں زیادہ تر مضافالیہ
بنکرآتی ہیں ۔ اور مضاف الیہ چونکہ ہمیشہ حالت جر میں ہوتا ہے اس لئے ان ضمائر کو
حالت جر میں فرضکر لیا گیا ہے ۔یہی وجہ ہےکہ انکانام ضمائر مجرورہ ہے ۔
۱۹ : ۴یہ بھی نوٹکرلیںکہ یہ ضمیریں زیادہ تر اپنے مضاف کے ساتھ ملاکر لکھی
جاتی ہیں ۔ جیسے رَبُّهُ ( اس کا رب) رَبُّكَ ( تیرا رب ) رَبِّي ( میرا رب ) ربنا ( ہمارا
رب) وغیرہ ۔یہی وجہ ہےکہ انکا نام ضمائر متصلہ بھی ہے ۔
۱۹ : ۵یہ بات نوٹکر لیںکہ پہلی ضمیریعنی واحد مذکرغائبکی ضمیر تھے کو لکھنے اور
پڑھنے کے مختلف طریقے ہیں ۔ اس کا ایک عام اصول یہ ہےکہ اس ضمیر سے
۱۹ :اسی طرح یہ بھی نوٹکرلیںکہ واحد متکلم کی ضمیر "ی "کی طرف جبکوئی
اسم مضاف ہوتا ہے تو تینوں اعرابی حالتوں میں اسکی ایک ہی شکل ہوتی ہے ۔ مثلاً
” میری کتاب نئی ہے " کا ترجمہ بنتا ہے كِتَابُ یجدید ۔ اسکو لکھا جائے گاکتابی
جَدِيدٌ " -یقیناً میریکتاب نئی ہے " کا ترجمہ بنتاہے اِنكِتَابَیجَدِيدٌ ۔لیکن اسکو
بھی اِنَّكِتَابِی جَدِید لکھا جائے گا ۔ اور ” میریکتاب کا وزق " کا تو ترجمہ ہی یہ بنتا
ہے وَرَقُ كِتَابِی ۔ اس لئےکہتے ہیںکہ پائے متکلم اپنے مضافکی رفع ،نصبکھا
جاتی ہے ۔
19 :ایک بات اور ذہن نشینکرلیںکہ اب ( باپ ) ،آخ ( بھائی ) قم ( منہ ) اور
دو ( والا -صاحب ) جب مضاف بن کر آتے ہیں تو مختلف اعرابی حالتوں میں انکی
مثلاً اَبُوهُ عَالِمٌ (اس کا باپ عالم ہے ،اِنَّ آبَاهُ عَالِمٌ ( بیشک اس کا باپ عالم
ہے )كِتَابُاَخِيْكَ جَدِيدٌ ( تیرے بھائی کی کتابنئی ہے ) وغیرہ ۔ اس ضمن میں یاد
کرلیںکہ لفظ ذُو ضمیرکی طرف مضاف نہیں ہو تا بلکہ اسم ظاہرکی طرف مضاف ہو تا
ہے ۔ مثلاً ذُو مَالِ ( صاحبمال ۔ مال والا ) ذَامَالِ اور ذِى مَالٍوغیرہ ۔
۸۲
مشق نمبر
۱۸
مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی یادکریں اور ان کے نیچے دیئے ہوئے مرکبات اور
جملوں کا ترجمہکریں ۔
( )۳عِنْدَنَاكِتَابٌحَفِيظٌ
( )۳الْقُرْآنُكِتَابُكُمْ وَكِتَابُنَا
ہمارکیتابیں استادکی میزکے نیچے ہیں ۔ () ۲ آسمان میرےسرکے اوپر ہے ۔ 1
()
حرفندا
۲۰ : ۱ہر زبان میں کسی کو پکارنے کے لئے کچھ الفاظ مخصوص ہوتے ہیں ۔ انہیں
حروف ندا کہتے ہیں اور جس کو پکارا جائے اسے منادیکہتے ہیں ۔ جیسے اردو میں ہم
کہتے ہیں ” اے بھائی " " " اے لڑکے " وغیرہ ۔ اس میں "اے " حرف ندا ہے جبکہ
"
بھائی " اور " لڑ کے " منادی ہیں ۔ عربی میں زیادہ تر" یا " حرف ندا کے لئے استعمال
ہوتا ہے اور منادی کی مختلف قسمیں ہیں جن کے اپنے قواعد ہیں ۔ اس وقت ہم اپنی
۲۰ : ۲ایک صورت یہ ہےکہ منادی مفرد لفظ ہو جیسے زید یا رَجُلٌ اس پر جب
حرف ندا داخل ہوتا ہے تو اسے حالتِ رفع میں ہی رکھتا ہے لیکن تنوین ختمکر دیتا
ہے ۔ چنانچہ یہ ہو جائے گا ۔يَا زَيْدُ ( اے زید ) يَا رَجُلُ ( اے مرد ) وغیرہ ۔
ان پر جب حرف ندا داخل ہوتا ہے تو مذکر کے ساتھ یاتھا جبکہ مونثکے ساتھ
اَيَّتُهَا کا اضافہ کیا جاتا ہے ۔ جیسے يَا أَيُّهَا الرَّجُلُ ( اے مرد ) يَا أَيَّتُهَا الطِفْلَةُ ( اے
بچی وغیرہ ۔
تیسری صورت یہ ہے کہ منادی مرکب اضافی ہو ۔ جیسے عبد الله ، ۲۰ : ۴
يَاعَبْدَ الرَّحْمَن و غیره -بعض اوقات حرفندا "یا " کے بغیر صرف جیسے يَا عَبْدَ اللهِ
عَبْدَ الرَّحمنِ آتا ہے تب بھی اسے منادی مانا جاتا ہے ۔ یہ اسلوب اردو میں بھی
ن " یعنی آخری موجود ہے ۔ اکثر ہم لفظ " اے " کے بغیر صرف " عبد الرحمن ن
حرف نونکو ذرا کھینچکر بولتے ہیں تو سننے والے سمجھ جاتے ہیںکہ اسے پکاراگیا ہے ۔
اسی طرح عربی میں یا کے بغیرعَبد الرحمن نصب کے ساتھ ہو تو اسے منادی سمجھاجاتا
ہے ۔ اس لئے ربَّنا کا ترجمہ ہے ” اے ہمارے رب " ہے جبکہ ربنا کا مطلب ہے
ہمارا رب۔
۲۰ : ۵عربی میں میم مشدد ( م ) بھی حرف ندا ہے ۔ البتہ اس کے متعلق دو باتیں
نوٹکرلیں ۔ ایک یہکہ لفظ یا منادی سے پہلے آتا ہے ،جبکہ میم مشدد منادی کے بعد
آتا ہے ۔ دوسری اور زیادہ اہم بات یہ ہےکہ اسلام کے آغاز سے پہلے بھی عربی میں
ہےکہ لفظ اللہ کے علاوہکسی اور لفظ کے ساتھ اس کا استعمال آپکو نہیں ملےگا۔
سو ملاکراللهملکھتے
اللہ تعالیکو پکارنے کے لئے اصلمیں لفظ بنتا ہے "اللهم " ۔ پھر اک
نمبر19
مشق
( ) ۳مَا انَا حَيَّاطًا اَوْنَجَّارًايَاسَيِّدِي بَلْأَنَا بَوَّابٌ يَاعَبْدَ اللَّهِ هَلْاَنْتَحَيَّادٌأَوْنَجَّارٌ ( )۳
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُالْمُطْمَئِنَّةُ () 1 يَازَيْدُ :دُرُوسُكِتَابِالْعَرَبِي سَهْلَةٌ جِدًّا ( )۵
علم ہے ؟
مرتب جازی
۲۱ : ۱عربی میں کچھ حروف ایسے ہیں کہ جب وہکسی اسم پر داخل ہوتے ہیں تو اسے
حالت جر میں لے آتے ہیں ۔ مثلاً ان میں سے ایک حرف " من " ہے جس کے معنی
ہیں " سے " ۔یہ جب " الْمَسْجِدُ " پر داخلہو گا تو ہم مِنَ الْمَسْجِدِ(مسجد سے )کہیں
گے ۔ ایسے حرفکو حرف جارکہتے ہیں اور ان کے کسی اسم پر داخل ہونے سے جو
مرکب وجود میں آتا ہے اسے مرکب جاری کہتے ہیں ۔ چنانچہ مذکورہ مثال میں من
مضافالیہ ملکر مرکب اضافی بنتا ہے ۔ اسی طرح مرکب جاری میں حرف جارکو
"ہتے ہیں اور جس اسم پر یہ حرف داخل ہو اسے " مجرور "کہتے ہیں ۔ چنانچہ
" جار ک
۲۱ : ۳اس سبق میں ہم حروف جارہ کے معانی یادکریں گے اور انکی مشق کریں
گے ۔ مشق کرتے وقت صرفیہ اصولیا درکھیںکہکوئی حرف جار جبکسی اسم پر
تک آپ جو قواعد پڑھ چکے ہیں انہیں ذہن میں تازہکر لیں ۔ اس لئےکہ مرکب
ہر جُل (ایک مرد کے ساتھ )بِالْقَلَمِ(قلم سے) میں سے ۔کو ۔ساتھ
إلىبلداکسی شرکی طرف) إلىالْمَدْرَسَة ( مدرسه تک) کی طرف ۔تک إِلَى
۲۱ : ۵حرف جار " ل " کے متعلق ایک بات ذہن نشینکرلیں ۔ یہ حرف جبکسی
الْمُتَّقُونَ ( متقی لوگ) پر جب " ل " داخل ہو گا تو اسے لِالْمُتَّقِينَ لکھنا غلط ہو گا ۔ بلکہ
اسے لِلْمُتَّقِينَ ( متقی لوگوں کے لئے ) لکھا جائے گا ۔ اسی طرح الرِّجَالُ سے یہ
لِلْرِجَالِ اور اللہ سے لِلَّهِ ہوگا ۔ مزید بر آں " ل " جب ضمائرکے ساتھ استعمال ہو تا
ہے تو لام پر زیر کی بجائے زہر آتی ہے جیسےلَهُ لَهُمْ لَكُمْ لَنا وغیرہ ۔
مشق نمبر۲۰
سایه ظِلٌّ
۹۱
اردومیں ترجمہکریں
( )۴جنت متقی لوگوں کے لئے ہے ( )۳دائیں اوربائیں طرف سے
( ) 1اللہ اور رسولکے واسطے بے شکاللہ ہرچیزپر قادرت () ۵
( ) ۸کافروپںر اللہکی لعنت ہے ( )۷یقینا اللہ کافروںکے واسطے دشمن بے
۲۲ : ۱ہر زبان میں کسی چیزکی طرف اشارہکرنے کے لئےکچھ الفاظ استعمال ہوتے
ہیں ۔ جیسے اردو میں "یہ وہ اِس اُس " وغیرہ ہیں ۔ عربی میں ایسے الفاظکو اسماء
الْإِشَارَةِکہتے ہیں ۔ اسماء اشارہ دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ( )iقریب کے لئے ،جیسے
اردو میں ”یہ " اور " اس " ہیں ۔ ( )iiبعید کے لئے جیسے اردو میں ” وہ “ اور
۲۲ : ۲اشاره قریب اور اشارہ بعید کے لئے استعمال ہونے والے عربی اسماء یہاں
دیے جا رہے ہیں ۔ پہلے آپ انہیں یاد کرلیں ۔ پھر ہم ان کے کچھ قواعد پڑھیں گے
اور مشقکریں گے ۔
اشارہ قریب
هذا مذکر
هذان ( حالت رفع )
هؤلاء
هذين ( حالت نصب و جر ) یہ ( ایک مرد )
یہ ( دو عورتیں )
۹۳
اشارهبعید
تثنيه واحد
یا
وہ ( دوعورتیں )
ہوگی کہ تثنیہ کے علاوہ بقیہ صیغوں میں یعنی واحد اور جمع میں تمام اسماء اشارہ مبنی
ہیں ۔ اسی طرح اب پیراگراف ( ۶ : ۴ )iiiمیں پڑھا ہوا یہ سبق بھی دوبارہ ذہن
۲۲ : ۴اسم اشارہ کے ذریعہ جس چیزکی طرف اشارہ کیا جاتاہے اسے مُشَار إِلَيْهِ
کہتے ہیں ۔ جیسے ہم کہتے ہیں ”یہکتاب " ۔ اس میںکتابکی طرف اشارہ کیا گیا ہے تو
99
کتاب"مُشَارِإِلَيْهِ ہے اور یہ " اسم اشارہ ہے ۔ اس طرح اشارہ مُشَارِإِلَيْهِ مل
۲۲ : ۵عربی میں مشار الیہ عموماً معرف باللام ہوتا ہے ،جیسے هَذَا الْكِتَابُ ( یہ
کتاب) ۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ هذا معرفہ ہے اور الْكِتَابُ معرف
باللام ہے اور چونکہ مشار الیہ معرفباللام ہوتا ہے ۔ اس لئے هَذَا الْكِتَابُکو
۲۶ :یہ بات نوٹکرلیں کہ اسم اشارہ کے بعد والا اسم اگر نکرہ ہو تو اسے مرکب
اشاری نہیں بلکہ جملہ اسمیہ مانیں گے ۔ چنانچہ " هَذَاكِتَابٌ " کا ترجمہ ہو گا "یہ ایک
۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ ھذا معرفہ ہے اور مبتداً عموماً معرفہ ہوتا ہے ۔ کتاب ہے
کتابنکرہ ہے اور خبرعموما نکرہ ہوتی ہے اس لئے ھذا کتابکو جملہ اسمیہ مانکر اس
کا ترجمہ کیا گیا "یہ ایک کتاب ہے " ۔ اسی طرح تِلْكَ الطفلة مرکب اشاری ہے ۔
وہ اس کا ترجمہ ہو گا "وہ بچی " ۔ اور تلک طفلة جملہ اسمیہ ہے اس کا ترجمہ ہو گا
بچی ہے " ۔ مرکب اشاری کے کچھ اور قواعد بھی ہیں جنکو ہم آئندہ اسباق میں
مجھیں گے ۔ فی الحال ضروری ہےکہ مرکب اشاری اور جملہ اسمیہکے فرقکو ذہن
نشینکرنے کے لئے ہم کچھ مشقکرلیں ۔ البتہ مشق کرنے سے پہلے نوٹکر لیں کہ
جنس ،عدد اور حالت میں اشارہ اورمشارالیہ میں مطابقت ہوتی ہے ۔
(
) 1هَذَانِ رَجُلَانِ ( )٥هَذِهِ فَاكِهَةٌ
( ) ۸ذَانِكَدَرْسَانِ ( )2هولاءِالرِّجَالُ
) هَذَانِشُبَّاكَانِ
۲۳ : ۱پچھلے سبق میں ہم نے دیکھا کہ اسم اشارہ کے بعد آنے والا اسم اگر معرف
باللام ہوتا ہے تو وہ اس کا مشارالیہ ہوتا ہے اور اگر نکرہ ہوتا ہے تو اسکی خبر ہوتا
ہے ۔ اس سلسلہ میںگزشتہ سبق میں ہم نے جو مشقکی ہے اسکی ایک خاصبات یہ
تھی کہ اسم اشارہ کے بعد آنے والے تمام اسماء مفرد تھے ۔ مثلا هذَا الصِّرَاط اور
هذ صِرَاظ میں صراط مفرد اسم ہے ۔ اب یہ سمجھ لیںکہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ہے ۔
۲۳کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسم اشارہ کے بعد آنے والا مشار الیه یاخبر اسم ۲
سچا مرد " تو یہاں سچا مرد " مرکب توصیفی ہے اور اسم اشارہ " یہ " کا مشار إليه
الصَّادِقُ مرکب توصیفی ہے اور ہذا کا مشار اليه ہونے کی وجہ سے
معرف باللام ہے ۔
۲۳ : ۳اوپر دیگئی مثال میں مرکب توصیفی اگر نکرہ ہو جائے یعنی رَجُلٌصَادِقٌ
ہو جائے تو اب یہ ھذا کا مشارالیہ نہیں ہوگا بلکہ نکرہ ہونے کی وجہ سے ھذا کی خبر
بنےگا ۔یہی وجہ ہےکہ هَذَارَجُلٌصَادِقٌ کا ترجمہ ہو گا یہ ایک سچا مرد ہے " ۔
۲۳ : ۴اب تک ہم نے دیکھاہے کہ اسم اشارہ کے بعد آنے والا اسم مفرد یا
مرکبتوصیفی اگر نکرہ ہو تو وہ خبر ہوتا ہے اور اسم اشارہ مبتدا ہوتا ہے ۔ مثلا تِلْكَ
طِفْلَة میں تِلكَ مبتدا ہے ۔ اب یہ باتسمجھ لیںکہ کبھی تو مفرد اسم اشارہ مبتد ا بنکر
اورکبھی پورا مرکب اشاری مبتد ا بنکر آتا آتا ہے جیسے اوپر کی مثال میں تلک ہے
ہے جیسے تِلْكَ الفَلَةُ جَمِيْلَةٌ ۔ اس میں دیکھیں تِلْكَالظُّفْلَةُ مرکب اشاری ہے اور
ہوگا وہ بچی خوبصورت ہے " ۔ اسی طرح هذا الرَّجُلِالصَّادِقُ جَمِيلٌكا ترجمہ ہو گا
۲۳ : ۵ایک بات یہ بھی ذہن نشین کرلیں کہ مُشَارٌ إِلَيْہ اگر غیر عاقلکی جمع مکسرہو
تو اسم اشارہ عموماً واحد مؤنث آتا ہے مثلاً تِلْكَالْكُتُبُ (وہکتابیں) ۔ اسی طرح اگر
اسم اشارہ مبتد ا ہو اور خبرغیرعاقلکی جمع مکسرہو تب بھی اسم اشارہ عموماً واحد مؤنث
۲۴ : ۱گزشتہ اسباق میں ہم دو باتیں سمجھ چکے ہیں ۔ ( ) 1اسم اشارہ کے بعد اسم مفرد
اگر معرف بالسلام ہو تو وہ اس کا مشار الیہ ہوتا ہے اور اگر نکرہ ہو تو اسکی خبر ہو تا
ہے ( )iiاسم اشارہ کے بعد مرکب توصیفی اگر معرف باللام ہو تو وہ اس کا مشاراليه
۲۴ : ۲اس سبق میں ہم نے یہ سمجھنا ہےکہ اسم اشارہ کے بعد اگر مرکب اضافی
باتکو سمجھنے کے لئے پہلے اردو کے جملوں پر غورکریں ۔ مثلاً ہم کہتے ہیں ”لڑکےکی یہ
کتاب " ۔ یہ بات سنکر ہمیں معلوم ہو گیا کہ بات ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے اس لئے
لڑکے مکمل ہوگئی ہے ،اس لئے یہاں اسم اشارہ "یہ " مبتدا ہے اور مرکب اضافی
کی کتاب " اسکی خبرہے ۔ لیکن یہ سہولت ہمیں عربی میں حاصل نہیں ہوگی ۔ وہاں
٩٩
مشارالیہ اور خبر میں تمیزکئے بغیر نہ تو صحیح ترجمہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی یہ معلومکر سکتے
لڑکے کی یہکتاب " کا ترجمہ ہونا چاہئے " هَذَا الْكِتَابُ وَلَدٍ "یا "
ہے ۔ اس لحاظ سے
"
هذَا الْكِتَابُ الْوَلَدِ " ۔ لیکن یہ دونوں ترجمے غلط ہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ
་་
كِتَابُ الْوَلَدِ " مرکب اضافی ہے جس میں "كِتَابُ " مضاف ہے جس پر لام تعریف
داخل نہیں ہو سکتا ۔یہی وجہ ہے کہ مرکب اضافی اگر مشار الیہ ہو تو اسم اشارہ اس
لڑکے کی یہکتاب " کا صحیح ترجمہ ہو گا ك"ِتَابُالْوَلَدِ هَذَا کے بعد لاتے ہیں ۔ چنانچہ
اب یہ بات یادکرلیںکہ اسم اشارہ اگر مرکب اضافی کے بعد آ رہا ہے تو اسے مرکب
۲۴ : ۴دوسری باتیہ یادکرلیںکہ اسم اشارہ اگر مرکب اضافی سے پہلے آ رہا ہے
تو اسے جملہ اسمیہ مانکر اسی لحاظ سے اس کا ترجمہکریں گے ۔ چنانچہ " هُذَا كِتَابُ
ایک مرتبہ پھر غورکریں ۔ كِتَابُ الْوَلَدِ هَذَا ( لڑکےکی یہکتاب ) ۔ اس میں اشارہ
اس لئے ہمیں دقت پیش آئی اور اسم اشارہ کو مرکب اضافی کے بعد لانا پڑا ۔ لیکن
فرضکریں کہ اشارہ مضافالیہ یعنی اَلوَلَدُ ( لڑکے )کی طرفکرنا مقصود ہے ۔ مثلاً
اس لڑکے کی کتاب " ۔ اس صورت میں آپکو معلوم ہےکہ ہم کہنا چاہتے ہیں
مضاف الیہ پر لام تعریفداخل ہوتا ہے ۔ اس لئے اسم اشارہ مضاف الیہ سے پہلے
كِتَابُهَذَا الْوَلَدِ میں اسم اشارہ مضافاور مضافالیہ کے درمیان آیا ہے ۔ تو
اسم اشارہ اگر مرکب اضافی سے پہلے آئے تو وہ مبتدا ہوتاہے ۔ ( )1
اسم اشارہ اگر مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان میں آئےتو وہ مضاف الیہ ( )۲
انجیر تين
هَذَا الرَّجُلُخَالِي وَتِلْكَالْمَرْاةُ خَالَتِى ( ) ١٠تِلْمِيدُ الْمَدْرَسَةِ هَذَا ذَكِيٌّ وَهُوَ اِمَامُ ()1
الْجَمَاعَةِ
وَهُذِهِعَمَّتِي
تِلْمِيْتُهَذِهِ الْمَدْرَسَةِ قَائِمَأَمَامَ الْأَسْنَادِ ( ) ۳تَمْزِتِلْكَالشَّجَرَةِ حُلو )
( ) ۳تِلْكاَلْبُيُؤْتُلِدَيْنِكَالرَّجُلَيْنِ
۲۵ : ۱پیرا گراف نمبر ۱۲ : ۳میں ہم نے پڑھا تھا کہکسی جملہکو سوالیہ جملہ بنانے
کے لئے اس کے شروع میں (کیا ) اور هَلْ (کیا ) کا اضافہکرتے ہیں ۔ ابیہ بات
نوٹکر لیںکہ انکو حروف استفہامکہتے ہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ یہ حروفجملہ
میں معنوی تبدیلی کے علاوہ نہ تو اعرابی تبدیلی لاتے ہیں اورنہ ہی یہ جملہ میں مبتند آیا
۲۵ : ۲اس سبق میں ہم کچھ مزید الفاظ پڑھیں گے جو کسی جملہکو سوالیہ جملہ بناتے
ہیں ۔ انکو اسماء استفہامکہا جاتاہے ۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ یہ جملہ میں مبتبدا فاعلیا
مفعول بن کر آتے ہیں ۔ اسکی مثال ہم اسی سبق میں آگے چلکر دیکھیں گے ۔ فی
۲۵ : ۳مذکورہ بالا اسماء استفہام میں یہ بات نوٹکرلیں کہ آئی اور آیة کے علاوہ
۲۵ : ۴اسماء استفهام جب مبتد ا بن کر آتے ہیں تو بعد والے اسم کے ساتھ ملکر
جملہ پورا کر دیتے ہیں ۔ مثلاً " مَا هَذَا " میں " ما " مبتدا ہے اور " هذا " اسکی خبر
١٠٣
۔ اسی طرح مَنْ أَبُوكَ ؟ (تیرا باپکون ہے ؟ ہے ۔ اس لئے ترجمہ ہو گا یہکیاہے ؟
اَيْنَ أَخُوكَ ؟ ( تیرا بھائی کہاں ہے ؟ ) وغیرہ ۔ یہاں نوٹکریںکہ چونکہ اردو میں اسماء
ہے ۔
استفہام شروع میں نہیں آتے لہذا ان کا ترجمہ بعد میںکیاگیا
۲۵ : ۵کبھی اسماء استفهام مضاف الیہ بنکر آتے ہیں ۔ ایسی حالت میں مرکب
اضافی وجود میں آتا ہے جس کا ترجمہ میں لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ مثلا کتاب
مَنْ ؟کا ترجمہ "کس کی کتاب ہے ؟کرنا غلط ہو گا ۔ دیکھئے یہاںکتاب مضافہے اور
۲۵ :آئی اور ايَّةٌ عام طور پر مضافبنکر آیاکرتے ہیں اوربعد والے اسم سے
ملکر مرکب اضافی بناتے ہیں جس کا ترجمہ میں لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ مثلاً آئی
۲۵ :اسماءِ استفہام کے چند قواعد مزید ہیں جن کا مطالعہ ہم ان شاء اللہ اگلے
( )۳مَنْهَذَا؟ هَذَا وَلَدٌ وَمَاذَا فِيالدَّوَاةِ ؟ فِيالدَّوَاةِ حِبْرٌ () ۳
( )۸أَيْنَ اَخُوكَ الصَّغِيْرُ؟ هُوَ ذَهَبَ إِلَى ( )۷هَذَاكِتَابُمَنْ؟ هَذَاكِتَابُحَامِدٍ
الْمَدْرَسَةِ
اسماء استفہام کے شروع میں حروفِ جارہ لگانے سے ان کے مفہوم میں ۲۶ : ۱
حروف جارہکی مناسبت سے کچھ تبدیلی ہو جاتی ہے ۔ آپ انکو یادکر لیں ۔ ان الفاظ
کو دائیں سے بائیں پڑھیں تو انہیں سمجھنے اوریادکرنے میں آسانی ہوگی ۔
کس چیزکی نسبت سے . عَمَّا (عَنْ مَا ) کس چیزمیں فِيْمَا
کس شخص سے مِمَّنْ مِنْ مَنْ) کس کا ۔کس کے لئے لِمَنْ
اس سبق کا قاعدہ سمجھنے سے پہلے ایک بات اور نوٹکر لیں ۔ ما پر جب ۲۶ : ۲
حروف جارہ داخل ہوتے ہیں تو کبھی ما الف کے بغیر بھی لکھا اور بولا جاتا ہے ۔ چنانچہ
۲۶ : ۳اسماء استفہام پرل (حرف جار) داخل ہو جائےتو پھراسے جملے کے شروع
میں لاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں وہ بعد والے اسم سے ملکر جملہ مکملکر دیتا ہے ۔
کتابکس کی ہے " ۔
چنانچہ لِمَنِ الْكِتَابُکا ترجمہ ہو گا "
آئے اب ہم کچھ مشق کرلیں ۔ اس کے بعد اگلے سبق میں ہم اسماء استفہام کا
چڑیاگھر سَاعَةٌ
. حَدِيْقَةُالْحَيْوَانَاتِ گھڑی ۔گھنٹہ
اس وقت اس کے معنی ہوتے ہیں "کتنا یاکتنے " ۔ دوسرے یہ خبر کے طور پر آتا ہے
گم خبر یہ "کہتے ہیں ۔ اس وقت اس کے معنی ہوتے ہیں "کتنے ہی یا بہت جے
"
اور واحد ہوتا ہے مثلاً كَمْ دِرْهَمَا عِنْدَكُمْ ؟ ( تمہارےپاسکتنے درہم ہیں ؟ ) گم
سَنَةًعُمْرُكَ ؟ ( تیری عمرکتنے سال ہے ؟ ) ۔ چنانچہکسی جملہ میں اگرگم کے بعد والا اسم
" ۲۷ : ۳گ " جب خبرکے لئے آتا ہے تو اس کے بعد والا اسم حالت جر میں ہوتا
ہے ۔ یہ واحد بھی ہو سکتا ہے اور جمع بھی ۔ مثلاكُمْ عَبْدِ اعْتَقْتُ (کتنے ہی غلام میں
میں نے فقیروںپر خرچ کئے ) ۔ چنانچہ کسی جملہ میں اگر گم کے بعد والا اسم مجرور ہے
مشقنمبر ۲۶
كَمْ وَلَدُ الَكَ يَا خَالِدُ لِيْ وَلَدَانِ وَبِنْتٌ وَاحِدَةٌ ()1
حصہ دوم
مرتبه
لطف الرحمن
خان
اهور مرکزیاننقدمالقران
کاعلم ترمینی
فربی
تألیع
کی باقدیبامرمر
مولوع
آسان
عربی
گرامر
حصہدوم
مرتبه
خانلطف الرحمن
♡
قیمت -
45روپے
فہرست
ماوه اوروزن
فعلماضی معروف
=
۲۱
جملہ فعلیہ کے مزید قواعد
۲۴
فعللازم اور فعل متعدی
۲۸
جملہ فعلیہ میں مرکبات کا استعمال
313
فعلماضی مجهول
31
%%
فعلمضارع
۶۹
نواصب مضارع
۷۵
مضارع مجروم
۸۰
فعل مضارعکا تاکیدی اسلوب
۹۲ فعلامرمجهول
۲۸ابتک تقریباگیارہ اسباق میں جو ذیلی تقسیم کے ساتھکل ستائیں اسباق ۱
پر مشتمل تھے ،ہم نے اہم اور اس پر مبنی مرکبات اور جملہ اسمیہکے بارے میں پڑھا
ہے ۔ اب ہم عربی زبان میں فعل کے استعمال کے بارے میں کچھ بتاناشروعکریں
مادہ " اور "وزن "کے بارے میں کچھ بتا دیا جائے ۔کیونکہ ضروری ہے کہ آپکو
عربی زبان میں مادہ " اور "وزن " کے نظامکو سمجھ لیا تو پھر آپ کے لئے افعال کے
مادہ " اور " وزن " پر بات شروعکرنے سے پہلے مناسب ہو گا اگر آپ ۲۸ :
پہلے ذرا درج ذیل مجموعہ ہائے کلماتکو غور سے دیکھیں ۔ یہ عربی الفاظ ہیں لیکن
چونکہ ان میں سے بیشتراردو میں بھی استعمال ہوتے ہیں ۔ اس لئے امید ہےکہ آپ
الفاظ میں کون سے ایسے حروف ہیں جو اسگروپ کےتمام الفاظ میں پائے جاتے ہیں
یعنی مشترک ہیں ۔ اگر آپ ایک گروپکے الفاظ پر نظر ڈالکر ہی ان کے مشترک
فتا سکتے ہیں تو ماشاء اللہ آپذہین ہیں ۔
حرو ب
ت قابل ع ل وم
اب آپ ہر کالم کے الفاظ کے ان تمام حروفکو "کر اس " ( ) xلگا دیں ۔ جو
تمام الفاظ میں نہیں پائے جاتے بلکہ بعض میں ہیں اور بعض میں نہیں ہیں ،تو آپ
کے پاس ہر لفظ کے صرف وہ حروف بچ جائیں گے جو تمام الفاظ میں مشترک ہیں ۔
گرو ن
پمبرا کے تمام الفاظ میں مشترک حروف " ع ل م " ہیں ۔ -1
نمبر ۲کے تمام الفاظ میں مشترک حروف " ق ب ل " ہیں ۔
گروپ ۔۲
ی ت ب " ہیں ۔ گروپنمبر ۴کے تمام الفاظ میں مشترک حروف -۴
گروپ نمبرہ کے تمام الفاظ میں مشترک حروف " ق در " ہیں ۔ -
گویا ہرگروپکے الفاظ بنیادی طور پر ان تین حروف سے بنائے گئے ہیں جو ان
"ہتے ہیں ۔یعنیگروپنمبر
میں مشترک ہیں ۔ ان مشترک حروفکو ان الفاظ کا "مادہ ک
زبان میں تقریباً تمام کلمات ( اسم ہوں یا فعل ) کی بنیاد ایک تین حرفی مادہ " ہو تا
ہے ۔
ہے ۔ "علم الصرف " کا موضوع اور مقصد ہی یہ ہے کہ ایک مادہ " سے مختلف
الفاظ ( اسماء اور افعال ) کیسے بنائے جاتے ہیں ۔کسی مادہ سے جو مختلف الفاظ بنتے ہیں
ان میں سے بیشترتو مقرر قواعد کے تحت بنتے ہیں ۔ یعنی ایک مادہ " سے ایک خاص
"J
معنی دینے والا لفظ جس طرح ایک مادہ "سے بنےگا ،تمام مادوں سے اس قاعدے
کے مطابق اس طرح کا لفظ بنایا جا سکتا ہے ۔ اس مقصد کے لئے مادہ کے حروفپر نہ
صرف بعض حرکات لگانی پڑتی ہیں بلکہ بعض حروفکا اضافہ بھی ہو جاتاہے ۔ جسے
آپپیراگراف ۲۸ : ۲میں دیئے گئے الفاظ پر نظرڈالکر معلومکر سکتے ہیں کیونکہ
پو بتائے جاچکے ہیں ۔ مثلا" ع ل م "مادہ سے لفظ " تعلیم "
ان الفاظ کے مادے آک
بنانے کا طریقہ یوں بھی بیانکیا جا سکتا ہے کہ پہلے " ت " لگاؤ ۔ اس کے بعد مادہکے
پہلے حرف " ع "کو سکون دےکرلکھو ۔ " ع " بنگیا ۔ اب اس کے بعد مادہ کے دوسرے
(درمیانی ) حرف " ل " کو زیر دے کر لکھو اور اس کے بعد ایک ساکن " ی " لگاؤ ۔
پر تنوین
لفظ " تغلنی " بنگیا ۔ اب آخر پر مادہ کا آخری حرف "م " لکھ کر اس
یہاں تک
سمجھانا تو بڑا مشکل ،طویل اور پیچیدہ کام ہے ۔ عربی زبانکے قواعد بنانے والوں نے
اس مشکلکو آسانکرنے کے لئے یہ طریقہ نکالاکہ انہوں نے مادہ کے تین حرفوں
درمیانی اور آخری کہنے کے بجائے نمبرا یا پہلے حرفکو " ف " نمبر ۲یا کہنے یا پہلا
درمیانیکو " ع " اور نمبر ۳یا آخری کو " ل "کہتے ہیں ۔ مثلاً "ق در " میں فاکلمہ " ق "
ہے عین کلمہ " د " ہے اور لام کلمہ " ر " ہے ۔ جس مادہ سے کوئی لفظ بنانا ہو تو پہلے
ع ل " سے اس طرح کا لفظ بطور نمونہ بنا لیا جاتا ہے اور پھرکسی بھی متعلقہ مادہ سے "
اس نمونے " کے مطابق لفظ بنایا جاسکتا ہے ۔ وہ اس طرحکہ نمونے کے " ف "کی جگہ
" ع "کی جگہ مادہ کا دوسرا حرف اور " ل "کی جگہ تیسرا حرف رکھ مادہ کا پہلا حرف
دیں باقی حرکات اور زائد حروف " نمونے " کے مطابق لگا دیں ۔ مثلاً فاعل اور
مفعولکے نمونے پر مختلف مادوں سے جو الفاظ بنتے ہیں انکی مثالدرج ذیل ہے :
نمونے ماده
امید ہے کہ ابآپ سمجھ گئے ہوں گے کہکسی مادہ سے نمونے کے مطابق الفاظکس
طرح بنائے جاتے ہیں ۔ اور اب آپ یہ بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ مادہ ع ل م سے
اے ۔
لفظ " تعليم " " -تفعیل "کے نمونے پر بنایاگی ہ
۲۸ :اب ذرا یہ باتبھی سمجھ لیجئے بلکہ یا درکھئےکہ "ف ع ل " سے نمونے کے
طور پر بننےوالے لفظکو عربیگرامر کی زبان میں وزنکہتے ہیں ۔یعنی " فَاعِل " ایک
وزن ہے اور ” مَفْعُول " بھی ایک وزن ہے ۔ ابآپ نے یہی سیکھنا ہے کہ کسی مادہ
طرح بناتے ہیں ۔ مادہ اور سے مختلف اوزان ( وزنکی جمع کے مطابق لفظکس
وزنکی اس پہچان کا تعلق عربی ڈکشنری یعنی لغت کے استعمال سے بھی ہے ۔ جس پر
آگے چلکر باتکریں گے ۔ ( ان شاء اللہ تعالٰی )
ذیل میں کچھ مادے اور ان کے ساتھ کچھ اوزان دیئے جارہے ہیں ۔ آپکو ہر
مادہ سے اسگروپمیں دیئے گئے تمام اوزان کے مطابق الفاظ بنانے ہیں ۔
333
اوزان مارے
رف ع پننمببرراا
پ گرو
يَفْعَلُ ج رح
ذهب
فَعَلْتُمْ
يَفْعَلُوْنَ ج حد
افْعَلْ ق طع
.فَعِلَتْ حم د
تَفْعَلُ ل بث
تَفْعَلِيْنَ ف هم
افْعَلْ ضحک
فَعَلْنَ ب عد
تَفْعُلُنَ ث قل
تَفْعُلَانِ حسن
افْعُلُ عظم
·
مشقنمبر ( ۲۷ب )
پیرا گراف ۲۸ : ۲میں الفاظ کے پانچگروپ دیئے گئے ہیں ۔ ہرگروپکا مادہ
کے ہر لفظ کا وزن لکھیں ۔ مثلاً پیرا گراف ۲۸ : ۲کے گروپ نمبر ۴میں ایک لفظ
" مَكْتَبَةُ " ہے ۔ اور آپکو بتا دیا گیا ہے کہ اسگروپ کے تمام الفاظ کا مادہ
ک ت ب" ہے ۔ اب آپکو کرتا یہ ہے کہ لفظ " مكتبة " میں مادے کے پہلے
حرف "ی " کو " فی " سے تبدیل کر دیں ۔ اسی طرح مادے کے دوسرے حرف
" ت "کو " ع " سے اور آخری حرف " ب "کو " ل " سے تبدیلکر دیں ۔ بقیہ حروف
اپنی اپنی جگہ رہنے دیں اور زبر ،زیر ،پیش میںکوئی تبدیلی نہکریں ۔ اس طرح آپ
مَفْعَلَةٌ =
- مَ فْ عَ دَةٌ
ضروریہدایت :
مذکورہ بالا مشقیںکرتے وقت الفاظ کے معانی کی بالکل فکر نہکریں ۔ آگے چل
کر ان شاء اللہ تعالٰی آپکو ان کے معانی بھی معلوم ہو جائیں گے ۔ فی الحال مادہ
اور وزن کے نظام ( ) Systemکو سمجھنے اور اسکی مشقکرنے پر اپنی پوری توجہکو
مرکوز رکھیں ۔ الفاظ کے معانی سمجھے بغیر اسنظامکی مشق کرنے سے آپ بہت جلد
اس پر گرفتحاصلکرلیں گے ۔
فعلماضی معروف
گردان
اوزاناور تعریف
۲۹ : ۱گزشتہ سبق میں مادہ اور وزن کا مفہوم سمجھنے کے ساتھ ساتھ آپکو یہ
اندازہ بھی ہوگیا ہوگاکہ مختلف مادوں سے جو مختلف الفاظ ( اسماء و افعال) بنتے ہیں ان
کے مخصوص اوزان ہیں ۔ عربی میں ایسے اوزانکی تعداد تو خاصی ہے لیکن خوش
قسمتی سے زیادہ استعمال ہونے والے اوزان نسبتاکم ہیں اور انکو یادکر لیناکچھ بھی
مشکل نہیں ہے اور آہستہ آہستہ بکثرت استعمال ہونے والے اوزان سے آپکو
۲۹ : ۲گزشتہ سبق میں آپ نے ملاحظہ کیا ہو گاکہکسی مادے سے الفاظ بناتے وقت
مادہ کے حروفمیں کچھ زائد حروفکا اضافہکرنا پڑتا ہے اور حرکاتلگانی ہوتی ہیں ۔
" کا مثلاً " ق ب ل " مادہ سے " قابل " بنانے میں حرکات کے علاوہ ایکحرف " الف
اضافہ ہوا ہے ۔ مگر اسی مادہ سے لفظ " استقبال " بنانے میں حرکات کے علاوہ
کے ذہن میں الجھن پیدا ہوتی ہےکہ وہکس طرح معلوم کرےکہ کسی فعل یا اسم میں
لیںکہ ایسا لفظ جس میں مادے کے حروف سے زائدکوئی حرفنہ ہو عموما فعلماضی کا
پہلا صیغہ ہوتا ہے ۔ فعلماضی کے پہلے مینے کے متعلق اسی سبق میں آگے چل کر بات
ہوگی ۔
فعل " پر بحثکا با قاعدہ آغازکر رہے ہیں ۔ چنانچہ اب ہم مختلف ۲۹ : ۳اب ہم
مادوں سے فعلبنانا سیکھیں گے اور مختلف افعالکے اوزان پڑھیں گے ۔ لیکن اس
سے پہلے ضروری معلوم ہوتاہےکہ عربی زبان میں فعل کے استعمال کے متعلق چند
۱۲
ایسا لفظ بھی اسم ہوتاہے جس کے معنی میںکوئی کامکرنے کا مفہوم ہو لیکن اس میں
تینوں زمانوں میں سےکوئی زمانہ نہ پایا جاتا ہو ۔ ایسے اسمکو " مَصْدَر ک
"ہتے ہیں ۔ اس
حوالہ سے یہ بات دوبارہ ذہن نشینکرلیں کہ ہر زبانکی طرح عربی زبان کے افعال
میں بھی وقت اور زمانہ کا مفہوم موجود ہوتا ہے ۔ محض کامکرنے کا مفہوم کافی نہیں
ہے ۔ مثلاً " علم " کے معنی ہیں " جانا " اور " ضرب " کے معنی ہیں "مارنا " ۔مگر
" علم " یا " ضرب" فعل نہیں ہیں بلکہ یہ اسم ہی ہیں اور ان کے آخر پر اسم کی
علامت ”تنوین " بھی موجود ہے ۔ لیکن جب ہم کہتے ہیں ” علیم " جس کے معنی ہیں
" اس نے جان لیا "یا " يَضْرِبُ " جس کے معنی ہیں "وہ مارتا ہے "تو اب" علم " اور
وقتکا تصورموجود ہے ۔
۲۹ : ۵دنیا کی دیگر زبانوںکی طرح عربی میں بھیبلحاظ زمانہ فعلکی تقسیم سہگانہ
ہے ۔یعنی
( ) ۱فعل ماضی :جس میں کسی کام کےگزشتہ زمانہ میں ہونے کا مفہوم ہو ۔
( ) ۲فعل حال :جس میںکسی کامکے موجودہ زمانہ میں ہونے کا مفہوم ہو ۔ اور
( ) ۳فعل مستقبل :جس میںکسی کام کے آئندہ آنے والے زمانہ میں ہونے کا
مفہوم ہو ۔ فعلکی بلحاظ زمانہ یہی تقسیم اردو اور فارسی میں بھی مستعمل ہے اور
اور Past Tens ) , Present Tense کو اسی میں انگریزی
Future Tenseکہتے ہیں ۔کسی فعل سے مختلف زمانو ) کا مفہوم رکھنے والے
زبان میں اس پر طلباء کو کافی محنتکرنی پڑتی ہے ۔ چنانچہ اب ہم عربی زبان کے فعل
ماضی کے صیغوںپر باتکرتے ہیں ۔ فعل حال اور مستقبل پر ان شاءاللہآگے چلکر
۱۳
باتہوگی ۔
عربی میں ضمائر کے استعمال میں نہ صرف " غَائِب" " مُخَاطَب " اور " مُتَكَلِّمْ " کا
فرقملحوظ رکھا جاتا ہے بلکہ جنس اور عددکی بھی تفریق ہوتی ہے ۔ پھر عدد کے لئے
واحد اور جمع کے علاوہ " تثنیہ " کے لئے بھی الگضمیریں ہوتی ہیں ۔ اس طرح عربی
۱۴ے ۔ اسی طرح عربی میں فعل کے مختلف صیغوںکی تعداد بھی
ہ میں ضمائرکی کل تعداد
۱۲ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھرکی زبانوں میںکسی فعل کے مختلف صیغوںکی
تعداد اس زبان میں استعمال ہونے والی ضمیروں کے مطابق ہی ہوتی ہے ۔ ضمیروں
کے مطابق فعل کے صیغے بنانے کو اردو اورفارسی میں فعلکی "گردان " اور عربی میں
فعل کی " تضریف " کہتے ہیں جبکہ انگریزی میں اسے Conjugationیا
ہر صیغے فعل کی گردان میں زبانوں میں بعض دنیا کی ۲۹ :
ندکو ر ہوتی ہے ۔ مثلاً اردو میں ماضی کی گردان عموماًیوں ہوتی ہے :وہگیا وہ گئے تو
گیا ،تم گئے میں گیا ،ہم گئے وہ گئی وہگئیں توگئی تمگئیں ،میںگئی ،ہمگئیں ۔
جبکہ بعض افعالکی گردان اس طرح ہوتی ہےکہ مذکر مونثیکساں رہتا ہے ۔
مثلاً :اس نے مارا انہوں نے مارا تو نے مارا تم نے مارا میں نے مارا ہم نے
۲۹ :بعض زبانوں میں گردان کے ہر صیغے کے ساتھ بار بار ظاہراًضمیرنہیں لائی
جاتی ۔بلکہ صیغے ہی اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ ہرصیغے میں فاعلکی ضمیر اس صیغےکی
بناوٹ سے سمجھی جاسکتی ہے ۔ عربی اورفارسی میں فعلکیگردان اسی طریقے پرکی جاتی
ہے ۔ چنانچہ عربی میں استعمال ہونے والی چودہ ضمیروںکے مطابق فعلکی گردانبھی
چودہ صیغوں میں کی جاتی ہے ۔ بظاہر یہ تعداد زیادہ نظرآتی ہے لیکن جبآپاس کی
یکسانیت اور باقاعدگی کا مقابلہ اردو افعالکی بے قاعدہگردانوں اور انگریزی میں
آسانپائیںگے ۔
عربی میں فعل ماضی کی گردان مختلف ضمیروں کے فاعل ہونے کے لحاظ سے :
یوں ہوگی ۔
تثنيه واحد
اسگردانکو یادکرنے اور ذہن میں بٹھانے کے لئے اسےکئی دفعہ زبان ۲۹ : ۱۰
سے دہرانا بھی ضروری ہے ۔ مگر ہر ایک صیغے میں ہونے والی تبدیلیکو ذیل کے نقشے کی
مدد سے بھی ذہن میں رکھا جا سکتا ہے ۔ اس نقشہ میں ف ع ل کلماتکو تین چھوٹی
لائینوں سے ظاہر کیا گیا ہے ۔ اس سے آپتینوں کلماتکی حرکات (یعنی زبر زیر
وغیرہ ) اور ان کے ساتھ ہر صیغے میں ہونے والے اضافےکو سمجھ سکتے ہیں ۔
اس کے چھٹے صیغے سے جبلامکلمہ ساکن ہوتا ہےتو پھرآخرتک ساکن ہی رہتا ہے ۔
اس کے علاوہ ضمائر مرفوعہ میں مخاطبکی چھ ضمیروںکو ذہن میں تازہکریں جو یہ ہیں ۔
انْتَ انْتُمَا أَنْتُمْ أَنْتِ أَنْتُمَا أَنْتُنَّ -ابنوٹکریں کہ مذکورہ گردان میں
پہچان فعل ماضی کے پہلے صیغے سےممکن ہوتی ہے ۔ اب اس نقشہ پر غورکرنے سے
پو اندازہ ہو جائے گا کہ اس میں صرفپہلا یعنی واحد مذکرغائبکا صیغہ ایسا ہے
آ ک
1
۱۶
جس میں (ف ع ل) کلمات یعنی مادے کے حروفکے ساتھ کسی اور حرفکا اضافہ
نہیں ہوا ہے ۔ اسی لئے الفاظ کے مادوںکی پہچان ان کے فعل ماضی کے پہلے سینے سے
کی جاتی ہے ۔ جیسے طلب اس ایک مرد ) نے طلبکیا "کا مادہ (طال ب) ہے ۔
۲۹ : ۱۳دوسری بات یہ سمجھ لیں کہ فعل ماضی کے تین اوزان ہیں :فَعَلَ
فَعِلَ فَعل ۔ اوپر صرف فعلکی گردان دیگئی ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں
اس لئےکہ گردان کا طریقہ ایک ہی ہے ۔ بس یہ خیال رکھنا ہوتا ہےکہ جو فعل فَعِل
کے وزن پر آتا ہے اس کے تمام صیغوں میں مادےکے دوسرے حرفیعنی عینکلمہ
پر کسرہ یعنی زیر ( ) لگانی اور پڑھنی ہوگی ۔ جیسے فَعِلَ فَعِلَا فَعِلُوْاسے آخرتک۔
ای طرح فعل کے وزن میں ہر جگہ عین کلمہ پر پیش ( ) 2لگے گا ۔ فَعَلَ فَعْلاً فَعَلُوا
۲۹ : ۱۴ضمنی طور پر ایک بات اور سمجھ لیںکہ عربی میں زیادہ تر افعالکا مادہ تین
حروف پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں " کلائی "کہتے ہیں جبکہکچھ افعال ایسے بھی ہوتے
ہیں جن کا اصل مادہ ہی چار حروف پر مشتمل ہوتاہے ۔ انکو " رباعی "کہتے ہیں ۔
چونکہ عربی کے تقریبا 90فی صد افعال سہ حرفی مادوںپر مشتمل ہوتے ہیں ۔ اس لئے فی
مشق نمبر۲۸
مندرجہ ذیل افعالکی ماضی کی گردان لکھیں اور صیغہ کے معانی بھی لکھیں ۔
ضروریہدایت :
کچھ طلبہ اور زیادہ عمر کے اکثر طلبہ کا خیال یہ ہوتا ہے کہ رٹا لگتا ان کے بس کا
روگ نہیں ہے ۔ اس لئے وہ یہ گردانیں یاد نہیں کر سکتے حالانکہ ضمائرکی دوگردانیں یادکر
چکے ہوتے ہیں ۔ بہرحال ایسے طلبہ سے اتفاق نہ کرنےکی اصل وجہ یہ ہےکہ خود میںنے
پچاس سالکی عمر میں یہ گردانیں یاد کی تھیں ۔ چنانچہ ایسے طلبہ کو میرا مشورہ یہ ہےکہ
خود یادکرنے کے بجائے یہ گردانیں وہ اپنے قلمکو یادکرا دیں ۔ اس کا طریقہ سمجھ لیں ۔
گردانکو سامنے رکھکرپانچ سات مرتبہ اسے زبان سے دہرائیں۔ پھر ایک کاغذ پر
یادداشت سے اسے لکھنا شروعکریں ۔ جہاں ذہن اٹک جائے وہاںگردان میں سے دیکھ
کر لکھیں ۔ اس طرح جب پوری گردان لکھ لیں تو وہ کاغذ پھاڑ کر پھینک دیں اور
دوسرے کاغذ پر لکھنا شروعکریں ۔ جہاں بھولیں گردان میں دیکھ لیں ۔ اس طرح آپ
پانچ سات کاغذ پھاڑیں گے تو ان شاء اللہ آپ کے قلمکوگردان یاد ہو جائے گی ۔ اگرکچھ
کمزوری رہ جائےگی تو اگلے اسباق میں ترجمےکی مشقیں کرنے سے وہ دور ہو جائےگی ۔
ان سے کاغذ پر لکھوائیں اور غلطیوں کی اصلاح کر کے کاغذ انکو واپسکر دیں ۔ اس
طرح طلبہ دوسروں کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ جائیں گے اور ان میں بد دلی بھی پیدا
نہ ہوگی ۔
۱۸
اس مرحلہ پر ضروری ہے کہ اب ہم چند ایسے جملوںکی مشقکر لیں جس ۰۱:
میں فعلماضی استعمال ہوا ہو ۔ لیکن اس سے پہلے درج ذیل چند باتیں سمجھنا ضروری
جس جملہکی ابتداکسی اسم سے ہو وہ جملہ اسمیہ ہوتا ہے اور جسکی ابتداکسی فعل سے
ہوتے ہیں یعنی فعل اور فاعل ۔کسی جملہ کے دو سے زیادہ حصے ہو سکتے ہیں لیکن کم ازکم
دو ضروری ہیں ،جملہ اسمیہ میں مبتدا خبر اور جملہ فعلیہ میں فعل فاعل ۔
میں سے ہر ایک صیغہ مستقل جملہ فعلیہ ہے ۔ اس لئےکہ ان میں سے ہر ایک میں فعل
کے علاوہ فاعل بصورت ضمیر موجود ہے ۔گردان کے دوسرے نقشے میں مادے
" " نا" وغیرہ آئے ہیں تو وہ دراصل ( ف ع ل ) کے بعد جہاں کہیں " " "
متعلقہ فاعل ضمیر کی علامت ہیں ۔ اور ان صیغوں کا ترجمہکرتے وقت اس ضمیر کا
ترجمہ ساتھ کیا جاتاہے ۔ اور اگرفاعل ضمیروالے اردو جملہ کا عربی میں ترجمہکرنا ہو تو
فعل کا متعلقہ صیغہ بنا لینا ہی کافی ہوتا ہے ۔ مثلاً " ہم خوش ہوئے " ۔ " فرخنا " "تو
۳۰ : ۴لیکن اکثر صورتیہ ہوتی ہےکہ فاعلکوئی اسم ظاہر ہوتاہے ۔ یعنی ضمیر
کے بجائے کسی شخص یا چیز کا نام ہوتا ہے ۔ نوٹکرلیں کہ ایسی صورت میں عموماً
14
فاعل فعل کے بعد آتاہے اور وہ ہمیشہ حالت رفع میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً فَرِحَ
۳۰ : ۵فعل ماضی پر "ما " لگا دینے سے اس میں نفی کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں ۔
مثلا مَا فَرِحَ " وہ ( ایک مرد ) خوش نہیں ہوا " مَا كَتَبْتَ "تو نے نہیں لکھا " مَا كَتَبَتِ
الْمُعَلِمَةُ ( استانی نے نہیں لکھا جو دراصل كَتَبَتْ الْمُعَلَّمَةُ تھا جس میں اَلْمُعَلِمَةُ
کے حمزة الوصلکی وجہ سے گتَبَتْکی ساکن "ت "کو آگے ملانے کے لئے حسب
ذخیرہ الفاظ
= اس (ایک
) ،مرد ن
)ےکھایا اكل = اس ایک مرد )نےکھولا فَتَحَ
= کيون
- لم
= اب ابھی ۔ (نصبپر مبنی ہے ) االلْآاننَ
= ابتک إِلَىالْآنَ
( ) 9لِمَ ( ) ۸فَرِحْتَ الْآنَ ( ) ٢فَتَحَ الْبَوَّابُ ( ) ٤قَرَاتْ فَاطِمَةُ أكَلُوْا إلى الأن
( )۳ایک استانی نے پڑھا ( ) ۲تو خوش ہوئی ( )۱ہم سب لوگ نے
فعلیہکا ایک اہم قاعدہ یادکر لیں اور وہ یہکہ جبفاعلکوئی اسم ظاہر ہو تو جملہ فعلیہ
میں فعل ہمیشہ صیغہ واحد میں آئے گا ۔ فاعل چاہے واحد ہو ،تثنیہ ہو یا جمع ہو ۔ یہ
)
۳۱۲مثلا ہمکہیں گے دَخَلَ الْمُعَلمُ ( استاد داخل ہوا ) دَخَلَ الْمُعَلِّمَانِ ( دو
استاد داخل ہوئے ) اور دَخَلَ الْمُعَلِمُونَ ( استاتذہ داخل ہوئے ۔ ان جملوں میں
فاعل اسم ظاہر ہے اور وہ ہے لفظ " المعلم " ۔ پہلے جملہ میں یہ واحد ہے ،دوسرے
میں تثنیہ اور تیسرے میں جمع ہے ۔ اب آپ غورکریںکہ تینوں جملوں میں فعل صیغہ
واحد میںآیا ہے ۔
۳۱ :مذکورہ بالا قاعدہ میں فعل واحد تو آئےگا لیکن جنس میں اس کا صیغہ فاعل
کی جنس کے مطابق ہوگا ۔ یعنی فاعل اگر مذکر ہے تو فعل واحد مذکرآئےگا ۔ جیساکہ
اوپر کی مثالوں میں ہے ۔ لیکن فاعل اگر مؤنث ہے تو فعل واحد مؤنث آئےگا ۔ مثلاً
كَتَبَتْ مُعَلِّمَةٌ ( ایک استانی نے لکھا ) ،كَتَبَتْ مُعَلِّمَتَانِ (کوئی سی دو استانیوں نے
لکھا ) اور "كَتَبَتْ مُعَلِّمَاتٌ " (کچھ استانیوں نے لکھا ) ۔ مندرجہ بالا مثالوں میں فاعل
۳۱ : ۴اب مذکورہ قاعدہ کے دو استثناء بھی نوٹکرلیں ۔ اولاً یہکہ اسم ظاہر
( فاعل
) اگر غیرعاقلکی جمع مکسرہو تو فعل عمو ماً واحد مؤنث آیا کرتا ہے ۔ مثلاً ذَهَبَتِ
صورتیں ایسی ہیں جب فعل واحد مذکریا واحد مونث دونوں میں سےکسی طرحبھی
اگر اسم ظاہر ( فاعل )کسی عاقل کی جمع مکسرہو ۔ مثلا طَلَبَ الرِّجَالُ يَا طَلَبَتِ () i
۲۲
الرّجَالُ ( مردوں نے طلب کیا ) اور طَلَبَ نِسْوَةٌ يَا طَلَبَتْ نِسْوَةٌ (کچھ
اگر اسم ظاہر فاعلکوئی اسم جمع ہو ۔ مثلاً غَلَبَ الْقَوْمُ يَاغَلَبَتِ الْقَوْمُ ( قوم () ii
( )iiiاگر اسم ظاہر فاعل مؤنث غیر حقیقی ہو ۔ مثلا طَلَعَ الشَّمْسُيَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ
۳۱ : ۵ایک اہم باتیہ بھی نوٹکرلیںکہ فاعل اگر فعل سے پہلے آئےتو وہ جملہ
اسمیہ ہوگا اور ایسی صورت میں فعل عدد اور جنس دونوں پہلوؤں سے فاعل کے
مطابق ہوگا ۔مثلا الْمُعَلِّمُ ضَرَبَ ( استاد نے مارا ) الْمُعَلِّمَانِ ضَرَبَا (دو استادوں نے
ما را ) الْمُعَلِّمَاتُ ضَرَبْنَ ( استانیوں نے مارا ) وغیرہ ۔ ان مثالوں میں اسم " الْمُعَلِّمُ "
مبتدا ہے اور ضَرَبَ " اسکی خبر ہے ۔ دراصلضَرَبَ فعل اور پوشیدہ ضمیرفاعل
کے ساتھ ملکر جملہ فعلیہ ہے اوریہ پورا جملہ فعلیہ خبربن رہاہے ۔ اسی لئے صیغہ فعل
چاہے فعل سے پہلے آئے یا بعد میں ترجمہ میںکوئی فرق نہیں پڑتا ۔ مثلاً ضَحِكَ
وو
الرَّجُلَانِ اور " الرَّجُلَانِ ضَحِكَا " دونوں کا ترجمہ ایک ہی ہے یعنی " دو آدمی
ہے " ۔البتہ دونوں میں یہ باریک فرق ضرور ہےکہ ضَحِكَالرَّجُلانِ جملہ فعلیہم اور
اس سوالکا جواب ہےکہکون ہنسا ؟ جبکہ الرَّجُلَانِ ضَحِكَا جملہ اسمیہ ہے اور اس
۳۱ : ۷یہ قاعدہ بھی نوٹکرلیںکہ اگر فاعل ایک سے زیادہ ( تثنیہ یا جمع ہوں اور
ان کے ایک کام کے بعد دوسرے کام کا ذکر بھی ہو تو پہلے کام کے لئے فعل کا صیغہ
واحد رہے گا کیونکہ وہ جملے کے شروع میں آرہا ہے مگر دوسرے کام کے لئے فاعلوں
کے مطابق صیغہ لگے گا مثلا جَلَسَ الرّجَالُ وَاكَلُوا ( مرد بیٹھے اور انہوں نےکھایا)
۲۳
ذخیرہ الفاظ
اردو میں ترجمہکریں اور ترجمہ میں معرفہ اورنکرہ کا فرق ضرو رواضحکریں ۔
الْوُفُوْدُ فِيالْمَدْرَسَةِ
( ) 1دشمن ( جمع ) دور ہوئے (جملہ اسمیہ و فعلیہ) ( )۲محنتی درزی بیمارہوئے
( ) ۳دو نیک لڑکیاں آئیں پھروہ بازارکی طرفگئیں ( جملہ جملہ اسمیہ و فعلیہ )
۳۲ : ۱بعض فعل ایسے ہوتے ہیں جنہیں بات مکملکرنے کے لئے کسی مفعولکی
ضرورت نہیں ہوتی ۔ مثلاً جلس ( وہ بیٹھا ) ۔ ایسے افعالکو فعل لازمکہتے ہیں ۔ جبکہ
بعض فعلباتمکملکرنے کے لئے ایک مفعول بھی چاہتے ہیں جیسے ضَرَبَ ( اس نے
۳۲ : ۲اسی باتکو عام فہم بنانے کی غرض سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس فعل میں
کام کا اثر خود فاعل پر ہو رہا ہو وہ فعل لازم ہے ،جیسے جَلَسَ( وہ بیٹا) میں بیٹھنے کا اثر
خود بیٹھنے والے پر ہو رہا ہے ۔ اس لئے یہاں بات مفعول کے بغیرمکمل ہو جاتی ہے ۔
لیکن جس فعل میں کام کا اثر فاعلکی بجائےکسی دوسرےپر ہو رہا ہو تو وہ فعلمتعدی
،جیسے ضَرَبَ ( اس نے مارا ) میں مارنے والاکوئی اور ہے اور جسکو مارا جا رہاہے
ہے
بہت آسان ہے بلکہ درج بالا مثالوں کے مشاہدے سے آپ نے نوٹ بھی کر لیا ہوگا
کہ اردو میں فعل لازم کے لئے غائب کے صیغوں میں " وہ "آتا ہے ۔ جیسے "وہ
اس نے مارا "۔ بیٹھا ۔ جبکہ فعل متعدی کے لئے ”اس نے " آتا ہے ۔ جیسے
دونوں قسم کے افعالکو پہچانے کا ایک دوسرا طریقہ یہ بھی ہےکہ آپفعل پر "کس
کو ؟ " کا سوالکریں ۔ اگر جوابممکن ہے تو فعل متعدی ہے ورنہ لازم۔ مثلاً
اس کا جواب
ممکن نہیں ہے ۔لہذا معلوم جَلَسَ ( وہ بیٹھا) پر سوالکریں "کس کو ؟
یہاں جواب ممکن ہےکہ فلاںکو مارا ۔ اس طرح معلوم ہوگیا کہ ضَرَبَ فعل متعدی
ہے (انگریزی گرامر میں فعل لازمکو Intransitive verbاور فعل متعدی کو
دو اجزاء ہوتے ہیں ۔ جملہ اسمیہ میں مبتدا اور خبر کے علاوہکچھ اور اجزاء بھی ہوتے
ہیں ،جنہیں " متعلق خبر "کہتے ہیں ۔ اسی طرحکوئی جملہ فعلیہ اگر فعل لازم سے
شروع ہو رہا ہے تو اس میں بات مفعول کے بغیرمکمل ہو جائےگی ۔ ایسے جملے میں اگر
کچھ مزید اجزاء ہوں گے تو وہ " متعلق فعل " کہلائیں گے ۔ مثلا جَلَسَ زَيْدٌ عَلَى
الكُرْسِيّ ( زید کرسی پر بیٹھا ) ۔ اس جملے میں عَلَى الْكُرْسِي ) مرکب جاری متعلق
فعل ہے ۔ لیکنکوئی جملہ فعلیہ اگر فعل متعدی سے شروع ہو گا تو اس میں فاعل کے
ساتھ کسی مفعولکی بھی ضرورت ہوگی ۔ ایسے جملے میں فاعل اور مفعول کے علاوہ جو
۳۲ : ۵اب آپدو باتیں ذہن نشین کرلیں ۔ اولاً یہ کہ مفعولہمیشہ حالت نصب
میں ہو گا ۔ ثانیا یہ کہ جملہ فعلیہ میں عام طور پر پہلے فعل آتا ہے پھرفاعل اور اس کے
بعد مفعول اور جملے میں اگرکوئی متعلق فعل ہو تو وہ مفعول کے بعد آتا ہے ،مثلاً
ضَرَبَ زَيْدٌ وَلَدًا بِالسَّوْطِ ( زید نے ایک لڑکےکو کوڑے سے مارا ) ۔ اس جملے میں
ضَرَبَ فعل ہے ۔ زید حالت رفع میں ہے اس لئے فاعل ہے ۔ وَلَدًا حالت نصبمیں
ہے اس لئے مفعولہے ۔ اور بالشوط مرکب جاری ہے اور متعلق فعل ہے ۔
۳۲ :آپ کے ذہن میں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ جملہ فعلیہ کی جو ترتیب
طرز خطابکی مناسبت سے یا کسی اور وجہ سے یہ ترتیب حسب ضرورتبدل دی
جاتی ہے ۔ لیکن سادہ جملہ میں ترتیب عموماً وہی ہوتی ہے جو آپکوبتائیگئی ہے چنانچہ
اس وقت ہم اپنی مشقکو سادہ جملوں تک محدود رکھیں گے تاکہ جملوں کے مختلف
اجزاء کی پہچان ہو جائے ۔ اس کے بعد جملوں میں یہ اجزاءکسی بھی ترتیب سے آئیں
آپکو انہیں شناختکرنے میں اور جملے کا صحیح مفہوم سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی ۔
۳۲ :آخری بات یہ ہے کہگزشتہ اسباق میں افعال کے معانی ہم نے صیغے کے
مطابقلکھے تھے ۔ لیکن اب ہم افعال کے سامنے انکے " مصدری " معافی لکھاکریں
گے ،مثلاً دَخَلَ کے معنی ”وہ ایک مرد داخل ہوا "کی بجائے " داخل ہونا " لکھیں
ذخیرہ الفاظ
گزشتہ اسباق میں آپ نے جتنے افعال یاد کئے ہیں ان ہیکو ذیل میں دوبارہلکھ
کر انکے سامنے ان کے مصدری معنی دیئے گئے ہیں ۔ نیز ان میں جو افعال لازم ہیں
ان کے سامنے قوسین میں لام (ل) اور جو متعدی ہیں ان کے سامنے میم ( م) بھی لکھ
دیا گیا ہے تاکہ آپ نوٹکر لیںکہ کون سا فعل لازم ہے اورکون سا متعدی ۔ نیزان
= خوش ہونا
فَرِحَ (ل) - دَخَلَ (ل) = داخل ہونا
اساتذہ مسجد میں آئے اور انہوں نے قرآن پڑھا پھروہ لوگ نمازکے بعد گئے ۔ ( )۲
کبھی تھی ۔ اس ضمن میںیہ بھی نوٹکرلیںکہ جملہفعلیہ میں فاعل مفعولکبھی مفرد
الفاظ ہوتے ہیں ۔ مثلاً " استاد نے ایک لڑکےکو بلایا "کا عربی ترجمہ طَلَبَالْاسْتَاذُ
وَلَدًا ہے اور اس میں الاستاذ اور وَلَدًا دونوں مفرد الفاظ ہیں ۔ اَلْاسْتَاذُ فاعل
ہونے کی وجہ سے رفع میں ہے اور وَلَدًا مفعول ہونے کی وجہ سے نصبمیں ہے ۔
لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہو تا بلکہکبھی مرکبات بھی فاعلیا مفعول ہوتے ہیں ۔
۳۳ : ۲اگر کسی جملہ فعلیہ میں مرکبات فاعل یا مفعول کے طور پر آ رہے ہوں تو
انکی اعرابی حالت بھی اسی لحاظ سے تبدیل ہوگی مثلا طَلَبَالْأَسْتَاذُ الصَّالِحُ وَلَدًا
صَالِحًا ( ایک استاد نے ایک نیک لڑکے کو بلایا ) میںاَلْأَسْتَاذُ الصَّالِحُ مرکبتوصیفی
۳۳مرکبتوصیفی کا اعراب معلومکرنے میں عمونا مشکل پیش نہیں آتی ۔ ۳
مرکب اضافی کا اعراب صرف مضافپر ظاہر ہوتا ہے ۔ مثلاً ” اسکول کے لڑکے نے
۔ اسکا ترجمہ ہوگا ضَرَبَ وَلَدُ الْمَدْرَسَةِ وَلَدَ الْحَارَةِ -اس محلے کے لڑکےکو مارا
مثال میں وَلَدُ الْمَدْرَسَةِ میں وَلَدُ کی رفع جا رہی ہےکہ پورا مرکباضافی حالت رفع
میں ہے اس لئے فاعل ہے اور وَلَدَ الْحَارَةِ میں وَلَدَکی نصببتا رہی ہےکہ پورا
مرکب اضافی حالت نصبمیں ہے اس لئے مفعول ہے ۔یہ بھی یاد رہےکہ مرکب
اضافی کے واحد تثنیہ یا جمع میں ہونے کا فیصلہ بھی مضافکے عدد سےکیا جاتا ہے ۔
۲۹
ہیں کہ فعل کے ہر صیغے " میں فاعلکی ضمیرپوشیدہ ہوتی ۳۳ : ۴ہم پڑھ چکے
لا ضَرَب کے معنی ہیں " اس ایک مرد ) نے مارا " یعنی اس میں ھو کی ضمیر ہے ۔
پوشیدہ ہے ۔ اسی طرح ضَرَبُوا میں ہم اور ضَرَبْتَ میں اَنْتَکی ضمیریں پوشیدہ
میں جو ضمائر مرفوعہ دی ہوئی ہیں وہ کبھی بطور فاعل بھی استعمالہوتی ہیں ۔
۳۳ : ۵کسی جملہ فعلیہ میں اگر مفعولکی جگہ اسکی ضمیر استعمالکرنی ہو تو اس
کتاب کے حصہ اول کے پیراگراف نمبر ۱۹ : ۲میں دیگئی ضمائر استعمال ہوتی ہیں ۔ یہ
ضمیریں جب بطور مفعول استعمال ہوتی ہیں تو موقع محل کے لحاظ سے یعنی محلاً منصوب
مانی جاتی ہیں اسی لئے انکو " ضَمَائِرِ مُتَصِلَهُ مَنْصُوبَهُ " بھی کہتے ہیں ۔ مثلاً ضَرَبَهُ
اس ایک مرد ) نے اس ایک مرد )کو مارا " ضَرَبَهَا ”اس ایک مرد ) نے اس
) کو مارا "
اور ضَرَبَكِ " اس ایک مرد ) نے تجھے ( ایک مؤنث ( ایک عورت)کو مارا
وغیرہ ۔
( ) 1اگر یہکہتا ہوکہ " تم لوگوں نے اس ایک مردکی مددکی " تو اسکا ترجمہ نَصَرْتُمْ هُ
نہیں بلکہ نَصَرْتُمُوهُ ہو گا یعنی مفعول ضمیرکے استعمال کے لئے جمع مخاطمبذکر کی فاعل
ضمیر " تم " سے " نمو " ہو جاتی ہے ۔ البتہ اگر مفعول اسم ظاہرہو تو صیغۂ فعل اصلی
حالت میں رہے گا ۔ مثلا " نَصَرْتُمْ زَيْدًا " وغیرہ ۔ ( ) ۲واحد متکلم کی مفعول ضمیر
" ی " کے بجائے " نبی " لگائی جاتی ہے ۔ مثلا نَصَر نئی ” اس ( ایک مرد ) نے میری مدد
= گماکنرنا سمجھنا
حَسِبَ (م) - حَمِدَ (م) -تعریف کرنا
اردومیں ترجمہکریں ۔
( ) ۵هَلْكَتَبْتُمْ دَرْسَكُمْ وَقَرَ تُمُوهُ :نَعَمْ كَتَبْنَا دَرْسَنَا لَكِنْ مَا قَرَتْنَاهُإِلَىالْآنَ
لِمَ قَعَدْتْ أَمَامَ بَابِ الْحَدِيْقَةِ ؟ ذَهَبَبَوَّابُهَا إِلَى السُّوْقِ فَقَعَدْتُأَمَامَهُ () 9
Σ
۳۱
( ) ١٠سَمِعَاللَّهُلِمَنْ حَمِدَهُ
محلہ کی عورتیں مدرسہ میں داخل ہوئیں اور انہوں نے قرآن پڑھا ۔ () ۳
(جملہ فعلیہ )
( ) ۴حامد اور محمود مدرسہ میں آئے اور اپناسبق پڑھا ۔( جملہ اسمیہ وفعلیہ )
( ) ۲کچھ مرد آئے پھروہ بیٹھے اور انہوں نے دودھپیا ۔ ( جملہ فعلیہ )
}۳۲
فعلماضی مجهول
گرداناورنائبفاعلکا تصور
۳۴ : ۱اب تک ہم نے جتنے افعالپڑھتے ہیں وہ " فعل معروف "یا " فعل معلوم "
اے ۔
کہلاتے ہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ ایسے افعال کا فاعل جانا پہچانا یعنی معلوم ہوتہ
ملا ہمکہتے ہیں " حامد نے خط لکھا " اكتب حَامِدٌ مَكْتُوبًا ) یہاں ہمیں معلوم ہےکہ
مخط لکھنے والا یعنی فاعل حامد ہے ۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں ” اس نے خط لکھا "
کون ہے ۔ لیکن اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ خط لکھنے والاکون ہے ۔ صرف اتنا معلوم
تو اس جملہ میں فاعل نا معلوم یعنی مجھولہے ۔ اس لئے ایسے فعل خط لکھا گیا ہوکہ
فعل معروف " کو مجهول " کہتے ہیں ۔ انگریزی زبان میں کو دو فعل
۳۴ : ۲کسی فعل کا ماضی مجمول بنانا بہت ہی آسان ہے ۔ اس لئےکہ عربی میں ماضی
مجھولکا ایک ہی وزن ہے اور وہ ہے " فعل " یعنی ماضی معروفکو کوئی بھی وزن ہو ،
مجهول ہمیشہ فعل کے وزنپر ہی آئےگا ۔ مثلا نَصَرَ ( اُس نے مددکی ) سے نصیر ( اسکی
مددکیگئی )وغیرہ ۔
۳۴ : ۳فعل مجہول میں چونکہ فاعل مذکور نہیں ہو تا بلکہ اسکی بجائے مفعول کا
ذکر ہوتا ہے ،اس لئے عربی گرامرمیں مجھول کے ساتھ مذکور مفعولکو مختصراً " نائب
الفاعل "کہہ دیتے ہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ فقرہ میں وہ فاعلکی طرحفعلکے بعد
آتا ہے یعنی اسکی جگہ لیتہاے ۔ ویسے عربیگرامرمیں نائب الفاعلکو " مَفْعُول مَا لَمْ
۳۳
۳۴ : ۴یہ بات بھی یادرکھیں کہ نائب الفاعل ،فاعل کی طرح حالت رفع میں ہوتا
ہے ۔ مثلاکتب مکتوب ( ایک خط لکھا گیا ) وغیرہ ۔ آپپڑھ چکے ہیںکہ اگر جملہ میں
یہ مذکور ہوکہ فائلکون ہے تو اس صورت میں مفعولکو نائب الفاعل نہیںکہتے بلکہ
اس صورت میں مفعول حالت نصب میں ہی آتا ہے ۔ مثلاً كَتَبَ زَيْدٌ مَكْتُوبًا میں
فاعل " زَيْدٌ " مذکو رہے یا كَتَبْتُ مَكْتُوبا میں پوشیدہ ضمیرا نا بتا رہی ہے کہ فاعلکون
ہے ۔ اسی طرحكَتَبْتَ مَكْنُوبا میں اَنتَکی ضمیرجبکہ كَتَبَ مَكْتُوبًا میں ھوکی ضمیر
فاعلکی نشاندہی کر رہی ہے ۔ اسی لئے ان سب جملوں میں مَكْتُوبًا مفعول ہے اور
حالت نصبمیں ہے ۔
۳۴ : :چنانچہ مذکورہ مثالوںکو ذہن میں رکھ کر یہ بات اچھی طرح سمجھ لیںکہ
کوئی فعل مجہول ہو ۔ مثلاً كُتِبَ ( لکھا گیا ) ،قُرءَ ( پڑھا گیا ) سُمِعَ ( سنا گیا ) اور فهم
(سمجھا گیا ) وغیرہ کے بعد اگر ( مكتوب) آئے گا تو نائب الفاعلکہلائے گا اور ہمیشہ
۳۴ :یہ بات بھی ذہن نشین کرلیںکہ کسی جملہ میں اگر نائب الفاعل مذکورنہ ہو
تو مجمول صیغہ میں موجود ضمیریں ہی نائب الفاعلکی نشاندہیکریں گی ۔ خلا شرب ماء
( پانی پیا گیا ) میں تو مان نائب الفاعل ہے لیکن اگر ہم صرف خُوبکہیں جس کا مطلب
ہے وہ پیا گیا تو یہاں " وہ "کی ضمیر اس چیزکی نشاندہی کر رہی ہے جو پی گئی ہے ۔ اس
لئے قرب میں ھوکی ضمیرنائب الفاعل ہے ۔ اسی طرح ضربت(تو مارا گیا )میں انتَ
۳۴ :آپ ماضی معروف کی گردان سیکھ چکے ہیں اب نوٹکر لیں کہ ماضی
مجهولکی گردان بھی اسی طرحکی جاتی ہے بلکہ اس میں یہ آسانی بھی ہےکہ صرف
۳۴
ایک ہی وزن فعلکی گردان ہوگی ۔ یعنی فُعِلَ ،فَعِلَا فُعِلُوْا فُعِلَتْ ،فُعِلَنَا فَعِلْنَ
سے لےکر فعِلتُ ،فعِلنا تک ۔ دوبارہ نوٹکرلیںکہ ماضی معروفکی گردان کے ہر
صیغہ میں موجود ضمیر فاعل کا کام دیتی ہے جبکہ ماضی مجہول کے ہر صیغہ میں موجود ضمیر
مندرجہ ذیل افعال سے مجہولکی گردانکریں اور ہر صیغہکا ترجمہ لکھیں :
مندرجہ ذیل افعالکے متعلق پہلے بتائیںکہ وہ لازم ہیں یا متعدی معروف ہیں
صرف فائل سے بات پوری ہو جاتی ہے ۔ جبکہ فعلمتعدی میں مفعول کے بغیربات
پوری نہیں ہوتی ۔ اب نوٹکر لیںکہ بعض متعدی افعال ایسے بھی ہوتے ہیں جن
کو بات پوری کرنے کے لئے دو مفعولکی ضرورت ہوتی ہے ۔مثلاً اگر ہمکہیں کہ
اباگر ہمکہیں کہ حامد نے محمودکو گمانکیا حَسِبَ حَامِدٌ مَحْمُودًا) تببھی بات
ادھوری ہے ۔ سوال باقی رہتاہے کہ محمود کو کیا گمانکیا ؟ جب ہمکہتے ہیںکہ حامدنے
محمود کو عالم گمان کیا حَسِبَ حَامِدٌ مَحْمُودًا عَالِمًا ) تب بات پوری ہوتی ہے ۔
ایسے افعالکو " الْمُتَعَدِي إِلَى مَفْعُوْلَيْنِ "کہتے ہیں اور دوسرا مفعول بھی حالت
نصبمیں ہوتا ہے ۔
جب مجہولکا صیغہ آتا ہے تو پہلا مفعول قاعدے کے مطابق نائب الفاعل بنکر حالت
رفع میں آتا ہے لیکن دوسرا مفعول بدستور حالت نصب میں ہی رہتا ہے ۔ مثلاً
۳۵ : ۳فعللازمکی تعریف ایک مرتبہ پھرذہن میں تازہکریں ۔ یعنی فعل لازم
وہ فعل ہے جس کے ساتھ مفعولآہی نہیں سکتا ۔ یہی وجہ ہےکہ فعللازم کا مجمول
مگر فعل لازم کے ساتھ تو مفعولآہی نہیں سکتا ۔ مثلا بَعَثَ مُعَلَّمٌ ( ایک استاد نے
بھیجا ) ایک جملہ ہے مگر ہم اس میں مفعولکا اضافہکر کے بَعَثَ مُعَلَّمٌ وَلَدًا ( ایک استاد
۳۶
نے ایک لڑکے کو بھیجا )کہہ سکتے ہیں مگر جَلَسَ الْمُعَلِّمُ (استاد بیٹھا )کے بعدکوئی مفعول
نہیں لگایا جا سکتا ۔ اس لئے کہ جلس فعل لازم ہے ۔ چنانچہ جَلَسَ کا مجمول جُلِس
استعمال نہیں ہو سکتا ۔ جبکہ بَعَثَ چونکہ فعل متعدی ہے اس لئے اس کا مجمول بعث
کے وزن پر آنے والے افعالکی مجھولیگردانکرائی گئی لیکن فعل کے وزنپر آنے
والے کسی فعلکی مجھولی گردان نہیںکرائی گئی ۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ فعلکے وزن
پر آنے والے تمام افعال ہمیشہ لازم ہوتے ہیں جبکہ فعل اور فعل کے وزن پر لازم
اور متعدی دونوں طرح کے افعال آتے ہیں ۔ مثلاً جَلَسَ ( وہ بیٹھا) لازم ہے اور
رَفَعَ ( اس نے بلند کیا ) متعدی ہے ۔ اسی طرح فرح ( وہ خوش ہوا ) لازم ہے اور
شَرِبَ( اس نے پیا ) متعدی ہے ۔ لیکن فعلکے وزن پر آنے والے تمام افعاللازم
ہوتے ہیں مثلا بَعُدَ ( وہ دور ہوا ،ثَقُلَ ( وہ بھاری ہوا ) وغیرہ ۔ اس لئے اس وزن پر
ذخیرہ الفاظ
1
= = پوچھنا مانگنا سَئَلَ
= خوفمحسوسکرنا وَجِلَ
=
-آج الْيَوْمَ = اٹھانا بھیجنا
- بَعَثَ
= =
-فقیری کمزوری مَسْكَنَةٌ
-بھاریہونا ثَقُلَ
۳۷
( ) ۳حَسِبُوْاحَامِدًا عَالِمًا
كَتَبَوَلَدُكَ وَوَلدُهُ وَاجِبَاتِ الْمَدْرَسَةِ ثُمَّ بُعِنَا إِلَى السُّوْقِ () ۵
( )۷شُرِبَلَبَنٌ
مِنَالْقُرْآنِ) .
فعلم
ضارع
بھی بلحاظ زمانہ فعلکی تقسیم سہگانہ ہے یعنی ماضی ،حال اور مستقبل ۔ اس کے بعد ہم
نے فعل ماضی کے متعلق کچھ باتیں سمجھی تھیں ۔ اب ہم نے حال اور مستقبل کے
متعلقکچھ باتیںسمجھنی ہیں ۔ اس ضمن میں سب سے پہلی بات یہ نوٹکر لینکہ عربی
میں حال اور مستقبل دونوں کے لئے ایک ہی فعل استعمال ہوتا ہے جسے " فعل
مُضَارِع "کہتے ہیں ۔ مثلاً فعل ماضی " فَتَحَ " ( اس نےکھولا ) کا مضارع " يَفْتَحُ " بنا
ہے اور اس کے معنی ہیں ”وہکھولتا ہے یا وہ کھولے گا " ۔گو یا فعل مضارعمیں بیک
۳۶ : ۲فعل ماضی سے فعل مضارع بنانے کے لئے کچھ علامتیں استعمال ہوتی ہیں
جو چارہیں یعنی ی -ت -ا -ن ( -انکو ملا کر " بنانِ "بھی کہتے ہیں ) ۔کسی صیغے پر کون
سی علامت لگائی جاتی ہے ؟ اس کا علم آپکو ذیل میں دیگئی فعل مضارعکی گردان
سے ہو گا ۔ اس لئے پہلے آپگردانکا مطالعہ کر لیں پھراس کے حوالہ سے کچھ باتیں
تثنیہ واحد
يَفْعَلُونَ ذکر
يَفْعَلَانِ يَفْعَلُ
نصب( مرد) کرتے ہیںیاکرینگے ور مرد کرتے ہیںیاکرینگے وہایک مردکرتا ہےیاکریگا غالب
جمع واحد
تثنیہ
تم سب( مرد کرتے ہویاکروگے تمروز مرینکرتے ہو یاکروگے تو ایک مردکرتا ہیےا کریگا
ہمکرتے ہیںیا کریںگے اور ہمکرتے ہیں یاکریںگے اور میں کرتاہوں یا کروںگا اور
ہکمرتی ہیںیا کریںگے ہکمرتی ہیں یاکریںگی میں کرتی ہوںیا کروںگی
۳۶ : ۳اب ذیل میں دیئے ہوئے نقشے پر غورکر کے مختلف صیغوںمیں ہونے والی
تبدیلیوںکو ذہن نشین کر لیں ۔ حسب معمول اس میں ف ع لکلماتکو تین چھوٹی
لکیروں سے ظاہرکیاگیاہے ۔
جمع واحد
تثنیہ
2428 مخاطب
ونَ تذکر :
ان
2428
نَ تَد - تَ - - -انِ ثَ - - -يُنَ مونث :
مضارع کا پہلا صیغہ بنانے کے لئے ماضی پر علامت مضارع " ی "لگاکرفاکلمہکو جزم
دیتے ہیں اور لامکلمہ پر ضمہ (پیش ) لگاتے ہیں ۔ صیغوںکی تبدیلیکی وجہ سے لامکلمہ
کی حرکات میں تبدیلی ہوتی ہے لیکن علامت مضارعکی فتحہ ( زبر) اور فاکلمہکی جزم
بر قرار رہتی ہیں ۔ جبکہ مین کلمہ پر تینوں حرکتیں یعنی ضمہ ( پیش ) ،فتحہ ( زبر) اورکسرہ
( زیر) آتی ہیں ۔گویا جس طرحماضی کے تین اوزان فَعَلَ ،فَعِلَ اور فَعَلَ تھے ،اسی
طرح مضارع کے بھی تین اوزان يَفْعَلُ يَفْعِلُ اور يَفْعُلُہیں ۔ جن کے متعلق
تفصیلی بات ان شاء اللہ اگلے سبق میں ہوگی ۔ ( اس سبق کی مشقکرتے وقت آپ
مشق میں دیئے گئے فعل مضارعکی مینکلمہ کی حرکت کا خاص خیال رکھیں اور اس
کے مطابقگردانکریں ۔ )
ی "مذکر غائب کے تینوں صیغوں کے علاوہ صرف جمع مؤنث غائب کے صیغہ میں لگائی
جاتی ہے جبکہ علامت " " ۱صرف واحد متکلم اور علامت " ن " صرف جمع متکلم میں لگتی
صیغوں میں اور تَفْعَلانِ تین صیغوں میں مشترک ہے ۔ اسکی وجہ سے پریشان نہ
ہوںکیونکہ یہ جب جملوں میں استعمال ہوتے ہیں تو عبارت کے سیاق وسباقکی مدد
۳۶ :فعل مضارع کے متعلق مزید باتیں سمجھنے سے پہلے ضروری ہےکہ آپ
مضارعکی گردان یادکرلیں (یا اپنے قلمکو یادکروا دیں ) اور اسکی مشقکرلیں ۔
ذیل میں چھ افعال مضارع ایسے دیے جا رہے ہیں جن کے ماضی کے معنی آپ پڑھ
چکے ہیں ۔ ان سبکی مضارعکی گردان ( مع ترجمہ )کرتے وقت میںکلمہکی حرکت
سے پہلے سی لگا دیتے ہیں ۔ مثلا يَفْتَحُ کے معنی ہیں ”وہکھولتا ہے یاکھولےگا " ۔ لیکن
قبل سَوْفَ کا اضافہ کر دیتے ہیں جس کے معنی ہیں (عنقریب) مثلاً سوف
۳۷ : ۴ماضی میں اگر نفی کے معنی پیداکرنے ہوں تو اس سے پہلے مالگاتے تھے ۔
جیسے مَا ذَهَبْتُ ( میں نہیںگیا ) ۔ اب نوٹکریں مضارع میں نفی کے معنی پیداکرنے
کے لئے لا لگایا جاتا ہے ۔ مثلاً لا تَذْهَبُ ( تو نہیں جاتا ہے یا نہیں جائےگا ) ۔ استثنائی
۳۷ : ۵مضارعکا مجمول بنانے میں بھی وہی آسانی ہے جو ماضی مجہول میں ہے یعنی
مضارع معروف يَفْعَلُ يَفْعِلُ اور يَفْعُلُ میں سے کسی وزن پر بھی آئے ان سب
کے مجہولکا ایک ہی وزن يُفْعَلُ ہوگا ۔ مثلا يَفْتَحُ(وہکھولتا ہے یاکھولے گا )سے يُفْتَحُ
وہ کھولا جاتا ہے یا کھولا جائے گا ) يَضْرِبَ ( وہ مارتا ہے یا مارےگا ) سے يُضرب (وہ
مارا جاتاہے یا مارا جائےگا) اور يَنصُرُ( وہ مددکرتا ہےیا مددکرےگا ) سے يُنصَرُ( وہ مدد
کیا تو جانتا ہےکس نے تجھ کو پیداکیا ؟ میں جانتا ہوں اللہ نے مجھکو پیداکیا۔ ( )۵
تم لوگ جانتے ہو جو میںکرتا ہوں اور میں جانتا ہوں جو تم لوگکرتے ہو ۔ () ۲
۴۳
۳۸ : ۱گزشتہ اسباق میں آپ نے یہ سمجھا تھاکہ عین کلمہ پر حرکاتکی تبدیلی کی
وجہ سے ماضی کے تین وزن ہیں یعنی فَعَلَ ،فَعِل اور فعل۔ اور اسی طرح مضارع
کے بھی تین وزن ہیں یعنی يَفْعَلُ :يَفْعِلُ اور يَفْعُلُ ۔ اب سوالپیدا ہوتا ہےکہ اگر
۳۸ : ۲اگر ایسا ہوتا کہ ماضی میں عین کلمہ پر جو حرکت ہے مضارعمیں بھی وہی
رہتی یعنی فَعَلَ سے يَفْعَلُ فَعِلَ سے يَفْعِلُ اور فعل سے يَفْعُلُ بنتا تو ہمارا اور آپکا
کام بہت آسان ہو جاتا ۔ لیکن صورت حال ایسی نہیں ہے ۔ بلکہ حقیقی صورتحالکچھ
اس طرح ہےکہ مثالکے طور جو افعال ماضی میں فَعَل کے وزن پر آتے ہیں ان میں
سے کچھ کا مضارع تو يَفْعَلُ کے وزن پر ہی بھی آتا ہے لیکن کچھ کا يَفْعِلُ اورکچھ کا
يَفْعُلُ کے وزنپر بھی آتا ہے ۔ اس صورت حالکو دیکھ کر طلباءکی اکثریت پریشان
ہو جاتی ہے ۔ حالانکہ یہ اتنی پریشانی کی بات نہیں ہے ۔ اس سبق میں ہمارا مقصد ہی یہ
ہے کہ آپکی پریشانی دورکی جائے اور آپکوبتایا جائے کہ آپ مضارع کا وزن
کیسے معلوم کریں گے اور اسے کیسے یاد رکھیں گے ۔ لیکن یہ طریقے سمجھنے سے پہلے
ضروری ہےکہ آپ اطمینان سے اور پوری توجہ کے ساتھ حقیقی صورت حال کا
مکمل خاکہ ذہن نشینکرلیں ۔ پھران شاء اللہ آپکو مشکلپیش نہیں آئےگی ۔
۳۸اوپر دی ہوئی مثال میں آپ نے دیکھاکہ فعل کے وزن پر آنے والے :
ماضی کے تمام افعال تینگروپمیں تقسیم ہو جاتے ہیں اور یہ تقسیم ان کے مضارع
کے وزنکی بنیاد پر ہوتی ہے ۔ یعنی ( ) ۱فَعَلَ يَفْعَلُ ( ) ۲فَعَلَ يَفْعِلُ اور ( ) ۳
فَعَلَ يَفْعُلُ ۔ اسی طرح اگر ہم فَعِل اور فعلکے وزن پر آنے والےماضی کے تمام
۴۴
افعال تین تین کے گروپمیں تقسیمکرلیں تو کلنوگروپوجود میں آتے ہیں ۔یعنی
يَفْعِلُ ( ) ۹فَعَلَ يَفْعُلُ ۔ لیکن نوٹکرلیںکہ عربی میں نو نہیں بلکہ صرف چھ گروپ
گروپ استعمال ہوتے ہیں اور کون سے تین گروپ استعمال نہیں ہوتے ۔ اس
ضمنمیں مندرجہ ذیل باتوںکو سمجھ کر ذہن نشینکرلیں تو ان شاء اللہ باقی باتیں سمجھنا
استعمال ہوتے ہیں ۔ یعنی ( ) ۱فَعَلَ يَفْعَلُ ( ) ۲فَعَلَ يَفْعِلُاور ( ) ۳فَعَلَ يَفْعُلُ۔
(ب ) فَعِل کے وزن پر آنے والے ماضی کے مضارع میں دوگروپ استعمال
ہوتے ہیں ۔ یعنی ( ) ۴فَعِلَ يَفْعَلُ اور ( )۵فَعِلَ يَفْعِلُ -جَبكَ فَعِلَ يَفْعُلُاستعمال
نہیں ہوتا ۔
استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی ( ) ۲فَعَلَ يَفْعُلُ جبکہ فَعَلَ يَفْعَلُاور فَعُلَ يَفْعِلُاستعمال
نہیںہوتے ۔
ایک طریقہ یہ تھا کہ اگر ہمیں بتایا جاتاکہ مادہ فتحگروپنمبراسے متعلق ہے تو
ہم سمجھ جاتےکہ اس کا ماضی فتح اور مضارع يَفْتَحُ آئے گا ۔ اسی طرح اگربتایا جاتا
نام " باب " رکھا اور ہرباب میں استعمال ہونے والے افعالمیں سےکسی ایک فعل
۴۵
نام رکھ دیا ۔ مثلاًگروپنمبرا کا نام باب فتح اور گروپنمبر ۲کا باب ضَرَبَ رکھ دیا
وغیرہ ۔ اب ذیل میں ہر " مستعملگروپ " کے مقررکردہنام دیئے جارہے ہیں اور ہر
ایک باب کے ساتھ اس کے لئے استعمالکی جانے والی مختصر علامت بھی دی جا رہی
ہے جو کہ متعلقہ باب کے نام کا پہلا حرف ہی ہے ۔ انکو مجموعی طور پر " ابواب
ثُلاثِی مُجَرَّد " ( صرفمادے کے تین حروف سے بننے والے ابواب) کا نام دیا گیا
ہے ۔
مضارع ماضی
ވ )(۶
ک)( كَرْمَ -يَكْرُمُ فَعُلَ -يَفْعُلُ
۳۸ :ثلاثی مجرد کے ابواب کا نام عموماً ماضی اور مضارعکا پہلا پہلا صیغہ بولکر
لیا جاتاہے جیسا کہ اوپر نقشے میں لکھا گیا ہے ۔ تاہم اختصار کے لئے کبھی صرف ماضی کا
جاتا ہے کہ سننے والا ماضی کے صیغے سے اس کا مضارع سمجھ جاتا ہے ۔ اس لئے آپ
گی ۔
آگے کافی ضرورتپڑے
۴۶
یپ
ا چھ ابواب ۳۸ :امید ہے عربی میں استعمال ہونے والے افعال کے چھ گرو
کا خاکہ آپکے ذہن میں واضح ہوگیا ہو گا ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہےکہ ہمیں یہکس
طرح معلوم ہوکہکوئی فعلکس باب سے آتا ہے یعنی ماضی اور مضارع میں اس کے
عینکلمہکی حرکتکیا ہوگی ؟ تو اب نوٹکر لیجئے کہ اس علم کا ذریعہ اہل زبان ہیں ۔
یعنی وہ کسی فعل کا ماضی اور مضارع جس طرح استعمالکرتے ہیں ،ہمیں اسی طرح
سیکھنا اور یادکرنا ہوتا ہے ۔ اسکی مثال انگریزی کے فعلکی تین شکلیں ہیں جو اہل
زبان کے استعمالکے مطابق یادکرنی پڑتی ہیں ۔ اور اہل زبانکے اس استعمالکا پتہ
لغت یعنی ڈکشنری سے چلتاہے ۔ ڈکشنری سے جہاں ہمکسی فعل کے معنی یادکرتے ہیں
وہیں اس کا باب بھی یادکر لیتے ہیں اور اگرکسی فعل کے معنی اور باب ہم نےکسی
کتاب وغیرہ سے یادکئے تھے لیکن بھول گئے یا شبہ میں پڑ گئے تو اس وقت بھی ڈکشنری
۳۸عربی لغتکی خصوصیت یہ ہےکہ اس میں الفاظ حروف تہجی کی ترتیب ۹
سے نہیں لکھے ہوتے بلکہ ان کے مادے حروف تہجی کی ترتیب سے دیئے ہوتے ہیں ۔
اس لئے یہآپکوفکی پٹی میں ماروف رح کے تحت ملے گا اور اس کے ساتھ ہی یہ
( ) 1پرانی ڈکشنریوں میں عموماً مادہ کے ساتھ قوسین (بریکٹ ) میں متعلقہ بابکی
علامت لکھ دی جاتی ہے ۔ مثلا فرح (س ) خوش ہونا یعنی باب سَمِعَ يَسْمَعُ سے
فَرِح يَفْرح آتا ہے ۔ اب آپگردان کے صیغےکو سمجھکر تفرحن کا ترجمہ " تم سب
عورتیں خوش زنگی "کرلیں گے ۔ ( ) ۲جدید ڈکشنریوں میں ماضی کا صیغہ تو عینکلمہ
کی حرکت سے لکھتے ہیں پھر ایک لکیردے کر اسپر مضارعکی عین
کلمہکی حرکتلکھ
دیتے ہیں ۔ مثلا فَرِحَ ( ) -کا مطلببھی فَرِحَ يَفْرَحُ ہے ۔ ہم اسکتابمیں آپکو
۴۷
کسی فعلکا باببتانے کے لئے پہلا طریقہ استعمالکریں گے مثلا فرح کے آگے ( س )
لکھا ہوگا اور معنی لکھے ہوں گے ” خوش ہونا " اور (سن) دیکھ کر آپسمجھ جائیں گے
کہ اس کا ماضی فَرِحَ اور مضارع يَفْرَحُ ہے ۔ اس طرح باب فتح کے لئے (ف)
ضَرَب کے لئے (ض) وغیرہ لکھا ہوا ملے گا ۔ اس سبق کے ذخیرہ الفاظ میں ہمگزشتہ
اسباق کے افعال دوبارہ لکھکر ان کے ابوابکی نشاندہی کر رہے ہیں تاکہ ان کے
طریقے سے یاد نہکریں ۔یعنی یوں نہ کہیں کہ " فرح " کے معنی خوش ہوتا اور کتب
کے معنی لکھنا وغیرہ ،بلکہ ماضی مضارع دونوں بولکر مصدری معنی بو لیں ۔ یعنی یوں
کہیں کہ " فَرحَ يَفْرَحُ کے معنی خوش ہوتا ۔كَتَبَ يَكْتُبُ کے معنی لکھنا "وغیرہ ۔
*
داخل ہونا " لیکن آپاسکو اس طرحیاد ذخیرہ الفاظ میں لکھا ہوگا " دَخَلَ ( ن )
کریںکہ دَخَلَ -يَدْخُلُ کے معنی داخلہونا ۔کہیں بھول چوک لگجائے تو ڈکشنری
دیکھیں گویا اب آپ ڈکشنری دیکھنے کے قابل ہو گئے ہیں ۔ مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَا حَوْلَ
۳۸ : ۱۲اگر چہ یہ سبق کافی طویل ہوگیا ہے لیکن آپکی دلچسپی اور سہولتکی
که پاپ سمیع سے آنے والے ابواب میں زیادہ تر ہمیشہ نہیں )کسی ایسی صفت یا
بات کا ذکر ہوتا ہے جو وقتی اور عارضی ہوتی ہیں مثلا فرح ( خوش ہونا ) حَزِنَ ( غمگین
ہونا وغیرہ ۔نیز یہ کہ اس باب میں آنے والے افعال زیادہ تر ( تمام نہیں ) لازم
ہوتے ہیں جبکہ بابگرم سے آنے والے افعال میںکسی ایسی صفت یا باتکا ذکر ہوتا
ہے جو عارضی نہیں بلکہ دائی ہوتی ہیں مثلاً حَسُنَ ( خوبصورت ہوتا ) ،شَجُعَ ( بہادر
ہونا )۔نیز یہکہ اس باب سے آنے والے تمام افعال لازمہوتے ہیں ۔ بابفتحکی
۴۸
ہے ۔ صرف چند مادے اس سے منتقلی ہیں ۔ باب حسیبکی خصوصیت یہ ہےکہ اس
ذخیرہ الفاظ
فَرِحَ (س) =
-خوشہونا دَخَلَ (ن ) = داخلہونا
= بیمارہونا
مرضَ (س ) - = آتا
قَدِمَ (س) -
مندرجہ ذیل جملوں میں نمبر( ) 1افعال کا مادہ بتائیں ۔ نمبر( )۲ماضی /مضارع
اور معروف /مجمولکی وضاحتکریں ۔ نمبر ( ) ۳صیغہ بتائیں اور جہاں ایک سے
زیادہ کا امکان ہو وہاں تمام ممکنہ میٹے لکھیں ۔ اور نمبر ( ) ۴پھراسی لحاظ سے ترجمہ
کریں ۔
۳۹آپسوچ رہے ہوں گے کہ ماضی کے بعد تو مضارع شروعہوگیا تھا ۔لیکن ۱
اب درمیان میں پھرماضی کا سبق کیوں آگیا ۔ اسکی ایکوجہ تو یہ تھیکہ چونکہ ماضی
کی مختلف اقسام میں ایک خاص فعل استعمال ہوتا ہے ۔ جس کا ماضی گان ( وہ تھا ) اور
مضارع يَكُونُ ( وہ ہوتا ہے یا ہوگا ) ہے ۔ اس لئے ضروری تھا کہ آپکو کان سے
متعارف
کرانے سے قبل مضارعبھی سمجھا دیا جائے ۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ كَانَ يَكُونُ کی گردانیں ماضی ،مضارعکی عام ۳۹ : ۲
گردانوں سے تھوڑی سی مختلف ہیں ایسا کیوں ہے ۔اسکی وجہ تو انشاء اللہ آپکو
اس وقت سمجھ میں آئےگی جب آپ " حروف علت" اور ان کے قواعد پڑھ لیں
گے ۔ فی الحال آپ معمولی فرق کے ساتھ ہی ان کی گردانیں یادکر لیں تاکہ اگلے
جمع واحد
تم سب(موسٹ
)تھیں ث تھیں
) تمو (مون توایک مؤنث
) تھی
جمع واحد
۳۹ : ۳یاد رکھئے کہ كَانَ (ماضی ) بمعنی ” تھا " عموما ماضی ہی کے لئے استعمال ہو تا
ہے اور يَكُونُ ( مضارع) بمعنی ” ہو گا یا ہو جائے گا " عموماً صرف مستقبل کے لئے
استعمال ہو تاہے ۔ یعنی حال کے لئے بمعنی "ہے "يَكُونُ استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس
کے لئے زیادہ تر جملہ اسمیہ استعمالکیا جاتا ہے ۔ " مثلا زید بیمار تھا "کے لئے آپگان
يَكُونُ کے استعمال کے کچھ قواعد ہیں جو آپآگے چل کر پڑھیں گے ۔مگر " زید بیمار
۳۹ : ۴شاید آپکو یاد ہو کہ سبق نمبر 11میں جب ہم آپکو جملہ اسمیہ منفی بنانا
سکھا رہے تھے تو ہم نے " لبس " کے استعمال کے سلسلے میں یہ پابندی لگادی تھی کہ
صرف واحد مذکرغائب کے صیغہ میں اس کا استعمالکیا جائے ۔ اسکی وجہ یہ تھیکہ
" لَيْسَ " کا استعمال صیغہ کے مطابق ہوتاہے ۔ اب موقع ہےکہ آپاسکی گردان
بھی یادکرلیں تاکہ جملہ اسمیہ میں آپ" لَيْسَ " کا درست استعمالکر سکیں ۔
لیسکیگردان
واحد
تشنہ
) نہیں ہیں
سب(مونث 1300مونت)نہیںہیں وہایک(مونث) نہیںہے
لَسْتُمَا مؤنث
لَسْتُنَّ
۳۹ : ۵گان اور لیسکیگردان میں یہ بنیادی فرق ذہن نشینکرلیں کہ گان سے
:
ماضی اور مضارع دونوںکی گردان ہوتی ہے ۔ یعنی یہ فعل دونوں طرحآتا ہے ۔
جبکہ لیس سے صرف ماضی کی گردان ہوتی ہے ۔ یعنی اس فعلکا مضارع استعمال
نہیں ہوتا ہے ۔ مزید یہ کہ کیس کے معنی ” نہیں تھا " کے بجائے ” نہیں ہے ،نہیں
ہیں " وغیرہ ہوتے ہیں ۔ یعنی اس فعلکی گردان تو ماضی جیسی ہے مگریہ ہمیشہ حالکے
معنی دیتا ہے ۔
۳۹ :سبق نمبر ۱۰میں آپپڑھ چکے ہیں کہ جملہ اسمیہ پر جب لیس داخل ہوتا
ہے تو معنوی تبدیلی یہ لاتاہےکہ جملہ میں نفی کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں اور اعرابی
تبدیلی یہ لاتا ہے کہ خبرحالت نصبمیں آجاتی ہےیا خبر پر " ب " لگاکر اسے مجرورکر دیا
جاتا ہے ۔ یعنی لَيْسَتِ الْمُعَلَّمَةُ قَائِمَةُ اور لَيْسَتِ الْمُعَلِمَةُ بِقَائِمَةٍ دونوں کا ترجمہ
استانیکھڑی نہیں ہے " ہوگا ۔ ابآپیہ باتبھی یادکرلیںکہ جملہ اسمیہ پرگان
بھی داخل ہوتا ہے ۔ اور جبکسی جملہ اسمیہ پر گان داخل ہوتا ہے تو معنوی تبدیلی
یہ لاتا ہے کہ جملہ میں عموماً " ہے "کی بجائے " تھا " کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں ۔ اور
لیسکی طرحگان بھی خبر کو حالت نصب میں لے جاتا ہے ۔ مثلا كَانَ الْمُعَلِمُ قَائِمًا
( استادکھڑا تھا ) وغیرہ ۔ تا ہم کیسکی مانند گانکی خبریر " ب " نہیں لگا سکتے ۔ یہ فرق
کی طرح استعمال تو ہوتے ہیں مگر ان کے فاعل کو " اسم "کہتے ہیں ۔ یعنی لَيْسَتِ
الْمُعَلَّمَةُ قَائِمَةً مِیں اَلْمُعَلِمَةُ کو لَيْسَتْ کا فاعل نہیں بلکہ نحو کی اصطلاح کے مطابق
۵۴
لیس کا اسم کہا جاتا ہے ۔ اس طرح كَانَ الْمُعَلمُ قَائِمًا میں بھی الْمُعَلِّمُکو كَانَکا
فاعل نہیں بلکہ گان کا اسم کہا جاتا ہے ۔ یہ بھی نوٹکرلیںکہ قَائِمَةُ اور قَائِمًا بھی
مفعول نہیں بلکہ بالترتیب لیس اور گانکی خبرہیں ۔ اور اگر چہ لیس اور گان ایک
طرح کے فعل ہیں لیکن ان کے جملے کے شروع میں آنے سے جملہ فعلیہ نہیں بنتا ۔
بلکہ جیسا کہ آپکو بتایا جا چکا ہے کہ لیس اور گان دونوں جملہ اسمیہ پر داخل ہوکر
۳۹ :گان اور لیس بھی دیگر افعالکی طرحدونوں طریقوںسے استعمال ہوتے
ہیں یعنی اگر كَانَ یا لَيْسَ کا اسمکوئی اسم ظاہر ہو تو ان کا صیغہ واحد ہی رہے گا۔
البتہ مذکر کے لئے واحد مذکر اور مؤنث کے لئے واحد مونث آئے گا ۔ مثلاً كَانَ
الْوَلَدَانِ صَالِحَيْنِ ( دونوں لڑکے نیک تھے ) ،كَانَتِ الْبَنَاتُ صَالِحَاتِ ( لڑکیاں
نیک تھیں ) ،لَيْسَالرِّجَالُ مُجْتَهِدين ( مرد محنتی نہیں ہیں ) اور لَيْسَتِ الْمُعَلَّمَاتُ
۳۹ : ۹اور اگر كَانَ اور لیس کا اسم ،ظاہرنہ ہو بلکہ صیغہ میں ضمیرکی صورت
میں پوشیدہ ہو تو ایسی صورت میں جو ضمیرپوشیدہ ہوگی اس کے مطابق صیغہ استعمال
۔ یہاں کُنتُم میں انتمکی ضمیركَانَ کا ہو گا ۔ مثلاً كُنتُمْ ظَالِمِينَ ( تم لوگ ظالم تھے
اسم ہے ۔ اسی طرح لَمْنَا ظَالِمِينَ (ہم لوگظالم نہیں ہیں ) میں نَحْنُکی ضمیرلیس کا
اسم ہے ۔
( ) ۳مَتَى تَكُونُ مُعَلَّمًا ؟ اكونُ مُعَلَّمًا إنْ شَاءَ اللهُ فِي هَذَا الْعَامِ مُعَلِّمِينَ
( )۱۳إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غُفِلِيْنَ ( )١٣اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ( ) 1كَانُوا عَنْهَا غُفِلِينَ
) )( 14وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا ( )۱۸إِنَّهُ كَانَصِدِّيقًا نَبِيًّا ( )١٩وَمَا كَانَ
رَبِّي حَقًّا (۱۷
)(19
کیونکہ عربیگرامرمیں ماضی کی اقسامکو اس انداز سے بیان ہی نہیںکیا جاتا ۔ البتہ ان
اقسام کے مفہوم کو عربی میں کیسے بیان کیا جاتاہے ،یہ سمجھانے کے لئے ہم ذیل میں ان
کی چیز ہے ۔ عربی میں اس طرح ماضی کی اقسام نہیں ہیں ۔مگراردوکی ماضی کی اقسام
کے مفہومکو عربی میں ظاہرکرنے کے لئے یہ قسمیں اور ان کے قواعد لکھے جا رہے ہیں
فعل ماضی پر کان لگا دینے سے اس میں ماضی بعید کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں ۔
جیسے ذَهَبَ کے معنی ہیں " وہگیا "۔ جبکہ كَانَ ذَهَبَ کے معنی ہوں گے ”وہگیا تھا "۔
وہ (سب مرد )گئے تھے وہ (دو مرد)گئے تھے وہ ( ایک مرد)گیا تھا
وہ (سبعورتیں گئی تھیں وہ ( دو عورتیں گئی تھیں تگئی تھی
وہ ایکعور آ
تم سب مرداگئے تھے تم (دو مرد)گئے تھے تو ایک مرد )گیا تھا
ہم ( سب
) گئے تھے گئی تھیں ہم ( دو) گئے تھے گئی تھیں میںگیا تھا گئیتھی
ماضی استمراری اسکو کہتے ہیں جس میں ماضی میں کام کے مسلسل ہوتے رہنے کا
مفہوم ہو ۔ مثلاً اردو میں ہم کہتے ہیں "وہلکھتا تھا " مراد یہ ہےکہ ”وہلکھاکرتا تھا "یا "لکھ
رہا تھا ۔ عربی میں فعل مضارعپر کان لگانے سے ماضی استمراری کے معنی پیدا ہوتے
ہیں ۔ مثلا كَانَ يَكْتُبُ (وہ لکھتا تھا یا لکھ رہا تھا یا لکھاکرتا تھا ۔ یہاں بھی گان اور
متعلقہ فعل مضارعکی گردان ساتھ ساتھ چلتی ہے ۔ دیل میں دیگئی ماضی استمراری
وہ (سب عورتیں لکھتی تھیں وہ ( دوعورتیں)لکھتی تھیں ) لکھتی تھی
وہ ایکعورت
تم سب مرد) لکھتے تھے تم (دو مرد) لکھتے تھے تو ایک مرد)لکھتا تھا
تم سبعورتیں) لکھتیتھیں تم (دو عورتیں لکھتی تھیں ) لکھتی تھی
تو ایکعورت
ماضی بعید اور ماضی استمراری میں موجود اس فرقکو اچھی طرحذہن نشینکر
۵۸
لیجئےکہ ماضی بعید میں گان کے ساتھ اصل فعل کا ماضی آتا ہے جبکہ ماضی استمراری
وہ اس میں کسی کام کے زمانہ حال میں مکمل ہو جانے کا مفہوم ہوت ہ
اے ۔ مثلاً
وغیرہ ۔ یعنی جانےیا لکھنے کاکام تھوڑی یا وہ لکھ چکا ہے اس نے لکھا ہے گیا ہے
دیر پہلے یعنی ماضی قریب میں ہوا ہے ۔ فعل ماضی کے شروع میں حرف " قد "لگانے
سے نہ صرف یہ کہ ماضی قریب کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں بلکہ اس میں ایک زور
(تاکید کا مفہوم) بھی پیدا ہو جاتا ہے ۔ مثلا قَدْ ذَهَبَ ( وہگیا ہےیا وہ جا چکاہے ) وغیرہ ۔
شکیہ کہتے ہیں ۔ جیسے ” اس نے لکھا ہو گا یا وہ لکھ چکا ہوگا “ وغیرہ۔ عربی میں ماضی
شکیہ کے معنی پیدا کرنے کے لئے اصل فعل کے ماضی سے پہلے يَكُونُ لگاتے ہیں ۔
جیسے يَكُونُ كَتَبَ ( اس نے لکھا ہوگا یا وہ لکھ چکا ہوگا ) ۔ نوٹکر لیںکہ اسمیں گان
کے مضارعيَكُونُ اور اصلفعل کے صیغہ ماضی کیگردان ساتھ ساتھ چلےگی ۔ مثلاً
۴۰ :یہاںیہ بات ذہن نشین کرلیں کہ فاعل اگر اسم ظاہر ہو تو )i( :يَكُونُ یا
تكون الذكر یا مؤنث) صیغہ واحد ہی لگےگا ۔ ( )iiاس کے بعد فاعل یعنی اسم ظاہر
آئے گا جو اب كَانَ کا اسم کہلائے گا ۔ ( ) iiاس کے بعد اصل فعل اسم ظاہرکے
صیغہ کے مطابق (واحد جمع مذکر مؤنث وغیرہ ) آئے گا ۔ مثلا يَكُونُ الْمُعَلِّمُ كَتَبَ-
۴۰۷لفظ لَعَلَّ (شاید ) کے استعمال سے بھی ماضی شکیہ کے معنی پیدا ہوتے
ہیں ۔ لیکن لعل کے استعمال کے متعلق دو اہم باتیں ذہن نشینکرلیں ۔ اولا یہکہ لَعَلَّ
کبھی کسی فعل سے پہلے نہیں آتا بلکہ یہ ہمیشہکسی اہم ظاہریا کسی ضمیرپر داخل ہو گا ۔
ثانیا یہکہ لعل بھی اِنکی طرح اپنے اسم کو نصب دیتا ہے ۔ مثلاً لَعَلَّالْمُعَلَّمَ كَتَبَ
مكتوبًا ( شاید استاد نے ایک خط لکھا ہوگا) یا لَعَلَّهُ كَتَبَ مَكْتُوبًا (شاید اس نے ایک
فعل ماضی "کیکوئی قسمکہنا درست نہیں ہے ۔ یہ دراصل جملہ اسمیہ پر لغل داخل
کرنے کا مسئلہ ہے جس کے ذریعہ عربی میں فعلماضی شکیہ کا مفہوم پیدا ہوتاہے وہ
بھی اس صورت میں جبجملہ اسمیہ کی خبر کوئی فعل ماضی کا صیغہ ہو ۔ جیسے الْمُعَلِّمُ
كتب ( استاد نے لکھا ) سے لَعَلَّ المَعِلْمَ كَتَبَ ( شاید استاد نے لکھا ہوگا ) ایسے جملہ
اسمیہکی خبرکوئی فعل مضارع ہو تو مفہوم تو شک کا پیدا ہو گا مگروہ زمانہ مستقبل میں ۔
ماضی شرطیہ میں ہمیشہ دو فعل آتے ہیں ۔ پہلے میں شرط بیان ہوتی ہے اور
دوسرےمیں اس کا جواب ہوتا ہے ۔ مثلاً " اگر تو بو تا تو کاتا "۔ اس میں ”بو تا " اور
"کاتا " دو فعل ہیں ۔ " بو تا " شرط ہے اور " کا تھا "جواب شرط ہے ۔ عربی میں فعل
ماضی میں شرط کے معنی پیداکرنے کے لئے پہلے فعل یعنی شرط پر " لو " (اگر )لگاتے ہیں
جبکہ دوسرے فعل کے شروعمیں اکثر ہمیشہ نہیں ) حرف تاکید " ل "لگاتے ہیں جس کا
ترجمه عموماً " ضرور "کیا جاتا ہے ۔ مثلاً لَوْ زَرَعْتَ لَحَصَدْتَ (اگر تو ہوتا تو ضرور
کانتا) ۔
۴۰ : ۱۰ماضی شرطیہ میںکبھی لو کے بعد گان کا اضافہ بھی کرتے ہیں اور کانکے
بعد اگر فعل ماضی آئے تو شرط کے ساتھ ماضی بعید کا مفہوم پیدا ہوتا ہے اور اگر كَانَ
کے بعد فعل مضارعآئے تو شرط کے ساتھ ماضی استمراریکے معنی پیدا ہوتے ہیں ۔
دونوں صورتوں میں معانی کا جو فرق پڑتا ہے اُسے ذیل کی مثالوں سے سمجھ لیں ۔
فعلماضی کے شروع میں لیت لگانے سے جملہ میں خواہش اور تمنا کے معنی پیدا
ہوتے ہیں ۔ یاد رہےکہ لعلکی طرح لیست بھی کسی فعلپر داخل نہیں ہو تابلکہ ہمیشہ
کسی اسم یا ضمیرپر داخل ہوتا ہے اور اپنے اسم کو نصب دیتا ہے ۔ مثلاً لَيْتَ زَيْدًا
نَجَحَ ( کاشکہ زید کامیاب ہوتا ) ۔ يَا لَيْتَنِي نَجَحْتُ ( اے کاش میں کامیاب
ہوتا )۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ بھی دراصل جملہ اسمیہ ہی ہوتا ہے جسکی خبرکوئی
جملہ فعلیہ ہوتا ہے ۔ مبتدا کے شروع میں " لَيْتَ "لگتا ہے اور اب مبتداکو لیت کا
۴۰ : ۱۲لفظ " لو "کبھی "کاش " کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جس سے جملہ میں ماضی تمنی
کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں ۔ اسکی پہچان یہ ہےکہ ایسی صورت میں جملے میں جواب
شرط نہیں آتا ۔ جیسے لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ )کاشوہ لوگ جانتے ہوتے ) ۔
ذخیرہ الفاظ
عقل( )
ض = سمجنا غَضِبَ( )
س = غصہ ہونا
زَرَعَ(ف
) -کھیتی ہونا رَجَعَ (ض) = لوٹنا
) = کامیابہونا
نَجَحَ(ف حَصَدَ(ن) = کھیتی کاٹنا
= ساتھی والا
صَاحِبٌ ( جأَصْحَابٌ) - = دہکتی آگ۔ دوزخ سعير
= ہر روز =
-ذرایلی قبيل
كُ ي
لَوْم
هَلْ أَنْتَ تَحْفَظُ كَلَّ يَوْمٍ دَرْسَكَ ؟ أَنَاكُنْتُ أَحْفَظَكُلَّيَوْمٍ لَكِنْ بِالْأَمْسِ () ٢
مَاحَفِظْتُ
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ - () ۸
( )۱۵لَوْكَانُوا مُسْلِمِينَ
۶۲
( ) 1اسکول کے لڑکے باغ میں گئے ہیں ۔ شاید وہ مغرب سے ذرا پہلے لوٹآئیں ۔
ضروریہدایت :
اب ضرورت ہےکہ اردو سے عربی ترجمہکرنے سے پہلے آپاردو جملے کے
اجزاءکو پہچان کر انہیں عربی جملہکی ترتیب کے مطابق مرتبکر لیا کریں پھر اسی
ترتیب سے ترجمہ کریں یعنی پہلے فعل ،پھر فاعل (اگر اسم ظاہر ہو ) ،پھرمفعول ( اگر
نکو ر ہو ) اور پھر متعلق فعل ۔ مثلاً مشق کے پہلے جملہ پر غورکریں ۔ اس میں دو جملے
شامل ہیں ۔ عربی میں ترجمہ کرنے کے لئے پہلے جملہکی ترتیب اس طرح ہوگی ۔ گئے
ہیں ( فعلماضی قریب) اسکول کے لڑکے ( فاعل ) باغ میں ( متعلق فعل) ۔ ابآپ
اس ترتیب سے ترجمہکریں ۔ اسی طرح دوسرے جملہ میں پہلے آپ "شاید وہ لوٹ
آئیں "کا ترجمہکریں اس کے بعد " مغرب سے ذرا پہلے "کا ترجمہکریں ۔
۶۳
مضارعکے تغیرات
فتحه ( زبر) تبدیل نہیں ہوتی ۔گردان میں اگر چہ اس پر ضمہ ( پیش )بھی آتا ہے ۔ جیسے
صیغہ جمع مذکر غائب ( فَعَلُوا ) میں ۔ اور بہت سے صیغوں میں یہ ساکن بھی ہو جاتاہے
اے ۔
وجہ سے تبدیل نہیں ہوتی اس لئےکہا جاتاہےکہ فعل ماضی فتحہ ( زبر )پر مبنی ہوتہ
فعل ماضی کے بر عکس فعل مضارع معرب ہے ۔ یعنی اس کے پہلے صیغے ۴۱ : ۲
يَفْعَلُ میں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے ۔ اس کے لامکلمہ پر عموماً تو ضمہ ( پیش ) ہوتا ہے ۔
تاہم بعض صورتوں میں ضمہ کے بجائے اس پر فتحہ ( زبر ) بھی آسکتی ہے اور بعض
صورتوں میں اس پر علامت سکون ( جزم) بھی لگسکتی ہے یعنی مضارعکا پہلا صیغہ
يَفْعَلُ سے تبدیل ہوکريَفْعَل بھی ہو سکتاہے اور يَفْعَل بھی ہو سکتا ہے ۔ مضارع میں
۴۱ :جس طرح اسم کی تین اعرابی حالتیں رفع نصب اور جز ہوتی ہیں ۔ اسی
طرح فعل مضارعکی بھی تین اعرابی حالتیں ہوتی ہیں ۔ انکو رفع نصب اور جزم
کہتے ہیں ۔ فعل مضارع جب حالت رفع میں ہو تو مضارع مرفوعکہلاتا ہے ۔ اسی
طرح نصبکی حالت میں مضارع منصوب اور جرمکی صورت میں مضارع مجزوم
کہلاتاہے ۔
یبا مجرور
۴۱ : ۴آپپڑھ چکے ہیںکہ کسی عبارتمیں کسی اسمکے مرفوع منصو
جزامکی تو کچھ وجوہ ہوتی ہیں مگر فعل مضارعمیں رفع کیکوئی وجہ نہیں ہوتی ۔ زیادہ
سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جبنصبیا جزمکیکوئی وجہ نہ ہو تو مضارع مرفوعہوتا
ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوںکہئے کہ جب فعل مضارع اپنی اصلی حالت میں ہو
جیسا کہ آپگردان میں پڑھ آئے ہیں )تو وہ مرفوعکہلاتہاے ۔ البتہکسی وجہکی بنیاد
مقابلہ پر فعل مضارعکی تین حالتیں مقررکی ہیں ورنہ فعل مضارعکی حالت رفعکسی
تبدیلی کے نتیجے میں نہیں ہوتی ۔ تبدیلی کی وجہ صرف نصب اور جزم میں ہوتی ہے
۴۱ : ۵یہ بھی نوٹکیجئےکہ رفع اور نصب تو اسم میں بھی ہوتا ہے اور فعل مضارع
میں بھی ۔مگر جزم صرف مضارعکی ایک حالت ہوتی ہے جبکہ جر صرف اسم میں ہوتی
ہے ۔ اسم میں رفع نصب اور جر کی پہلے آپ نے علاماتیعنی آخری حرفکی تبدیلی
کے لحاظ سے اسم کی مختلف شکلیں پڑھی تھیں ۔ اس کے بعد رفع نصب اور جر کے
رفع نصباور جرمکی صورتیا شکل کے بارے میں بتائیں گئے پھر ان کے اسباب
فعل مضارع " کے نام سے پڑھ چکے مضارع مرفوع وہی ہے جو آپ ۴۱ :
ہیں ۔ اور اسکی گردان کے صیغوں سے بھی آپواقفہیں ۔ جبکہ مضارع منصوب
یا اسکی حالت نصب ایک تبدیلی ہے جو فعل مضارعکے آخری حصہ میں واقعہوتی
ہے اور اسکی تین علامات یا شکلیں ہیں جو درج ذیل نقشہ سے سمجھی جاسکتی ہیں ۔
تَفْعَلُوا تَفْعَلاَ
تَفْعَلَ
۶۵
مضارع مرفوع کے جنپانچ صیغوں میں لامکلمہ پر ختمہ ( پیش )آتا ہے ،حالت ( )1
نصب میں ان پر فتحہ ( زبر ) لگتی ہے ۔ یعنی يَفْعَلْ سے يَفْعَلَ اور تَفْعَلُ سے تَفْعَلَ
مضارعکیگردان میں جن نو ( ) ۹صیغوں کے آخر پر نون ( ن ) آتا ہے ،ان میں ()۲
سے دوکو چھوڑکر باقی سات صیغوںکا یہ نون جسکو " نون اعرابی ک
"ہتے ہیں
حالت نصب میں گر جاتا ہے ۔ مثلا يَفْعَلُونَ سے يَفْعَلُوْا اور تَفْعَلِيْنَسے تَفْعَلِي
وغیرہ رہ جاتا ہے ۔
( ) ۳نون والے باقی دو صیغے ایسے ہیں جن کانون حالت نصبمیں نہیںگرتا ۔یعنی یہ
دو صیغے حالت نصب میں بھی حالت رفعکی طرح رہتے ہیں ۔ اور یہ دونوں جمع
مونث غائب اور جمع مونث حاضر کے صیغے ہیں ۔ چونکہ یہ دونوں صیغے جمع مونث
النسوة " ( عورتوں والا نون )کہتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ہم یوں بھیکہہ
ماسوائے سکتے ہیں کہ مضارع منصوبکی گردان میں آنے والے نون
۴۱ :مضارع مجزوم یا اسکی حالت جزم بھی مضارع مرفوعمیں ایک تبدیلی ہے
جو فعل مضارع کے آخری حصہ میں واقع ہوتی ہے اور اسکی بھی تین علامات یا
مضارع مرفوع کے جن پانچ صیغوں میں لامکلمہ پر ضمہ ( پیش ) آتا ہے ،حالت ( )1
جرممیں انپر علامت سکون ( جزم) لگتی ہے ۔ یعنی يَفْعَلُ سے يَفْعَلْاور اَفْعَلُ
۶۶
مضارع مرفوعکی گردان میں جن نو ( ) ۹صیغوںکے آخر پر نونآتا ہے ان میں () ۲
سے دوکو چھوڑکر باقی سات صیغوںکانون ( جو نون اعرابیکہلاتا ہے گر جاتا ہے
( ) ۳نصبکی طرح حالت جزم میں بھی ” نون النسوة " والے دونوںصیغے اپنی اصلی
یردان
کگنیی مضارع مرفوعکی طرح ہی رہتے ہیں ۔ مضارعمجزومکی
ییععن
پترپر
حال
2426
1 2 22 6 42 4 2 6
| 2612226 2228
19228 8.128
مضارع منصوب اور مضارع مجزوم میں مشترک بات یہ ہےکہ دونوںکی ( )1
گردان میں سات صیغوں کانون اعرابی گر جاتا ہے جبکہ نون النسوۃ والے
اور دونوںگردانوں میں فرق یہ ہےکہ مضارع مرفوعمیں لامکلمہ کے ضمہ ()۲
( پیش ) والے پانچ مینوں میں مضارعکی حالت نصبمیں فتحہ ( زبر ) اور حالت
۲۱ :یہاں یہ بات بھی نوٹکر لیجئےکہ چونکہ مضارع مجزوم کےپانچ صیغوں میں
آخر پر علامت سکون () 2آتی ہے اس لئے علامت سکون ( )3کو جزمکہنےکی غلطی عام
۶۷
ہوگئی ۔ جس طرح حرکاتکو غلطی سے اعرابکہہ دیا جاتا ہے ۔ یاد رہے " جزم " تو
فعل مضارعکی حالتکا نام ہے جس کا اثر اسکی گردان پر بھی پڑتا ہے ۔ جزم
صیغوں کے لام کلمہ پر جزم نہیں بلکہ علامت سکون (و ) ہوتی ہے جو انپانچ صیغوں
میں فعل کے مجزوم ہونےکی علامت ہے یہ بھی یاد رہے کہ جس حرفپر علامت
اسے مجزوم نہیں بلکہ " ساکن "کہتے ہیں ۔ سکون ہوتی ہے
۴۱ : ۱۰یہ بھی نوٹکر لیجئےکہ بعض دفعہکسی اسم یا فعل ماضی کے پہلے صیغہ کے بعد
کوئی علامت وقف ہو (یعنی آیت پر ٹھہرنا ہو ) تو ایسی صورت میں آخری حرفکو
وَ مَا كَسَبَ 0ایسی صورت میں "ن " ساکن ہی پڑھا جاتا ہے ۔ مثلاكِتَابٌ مُّبِينٌ
یا "ب "کو ساکن تو پڑھتے ہیں لیکن اس سے وہ اسم یا فعل مجزوم نہیںکہلاتا ۔ اسی
طرح بعض دفعہ مضارع مجزوم کے آخری ساکن حرفکو آگے ملانے کے لئےکسرہ
( زیر ) دی جاتی ہے جیسے اَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ۔ یہاں دراصل ” نَجْعَلُ" ہے جسے آگے
ملانے کے لئےکسرہ ( زیر دیگئی ہے ۔ ایسی صورت میں مضارع مجرور نہیں کہلاتا ۔
اس لئےکہ حالت جر کا تو فعل سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ یہ تو اسم کی ایک حالت
یہ تغیرات ہوتے ہیں ۔بتایا جا چکاہےکہ مضارع مرفوع کا توکوئی سبب نہیں ہوتا ۔
البته مضارع مرفوع کے حالت نصبیا حالت جزم میں تبدیل ہونےکیکوئی وجہ ہوتی
تَعْلَمُ -يَشْرَبْ أَفْتَحْ تَضْرِينَ يَشْرَبْنَ -يَشْكُرُونَ -تَظلين - تَقْعُدْ -
نواصبمضارع
صرف بعض اہم وجوہ کا ذکر ہم یہاںکر رہے ہیں ۔ چنانچہ نوٹکیجئے کہ چار حروف
فعل مضارع کے " ناصب "کہلاتے ہیں ۔ یعنی یہ اگر مضارعکے شروعمیں آجائیں
تو مضارع منصوب ہو جاتا ہے ۔ وہ چار حروفیہ ہیں ۔ ( )۱لَنْ ( )۲أَنْ ( )۳إِذَنْ
جو قرآنکریم میں اذا لکھا جاتا ہے ) اور ( ) ۴گئی ۔ اب ہم ان سبپر الگ الگ
باتکر کے ان حروف سے پیدا ہونے والی لفظی اور معنوی تبدیلیوں کا بیانکریں
گے ۔ البتہ آپیہ یاد رکھیں کہ اصل نواصبیہی چار حروف ہیں ۔ چونکہ ان میں
ہونے سے اس میں دو طرحکی معنوی تبدیلی آتی ہے ۔ اولاً یہکہ اس میں زور دار نفی
کے معنی پیدا ہوتے ہیں اور ثانیاً یہکہ اس کے معنی زمانہ مستقبل کے ساتھ مخصوص
ہو جاتے ہیں ۔ یعنی لَنْ يَفْعَلکا ترجمہ ہوگا وہ ہرگز نہیںکرےگا )۔ آپیوںبھی کہہ
سکتے ہیںکہ "لن " کے معنی ایک طرح سے " ہرگز نہیں ہو گاکہ " ....ہوتے ہیں ۔
اب ہم ذیل میں مضارع مرفوع اور مضارع منصوب بِلَنْ ( ب +لَنْ لَنْ کے ساتھ )
کی گردان دے رہے ہیں ۔ تاکہ آپ ہر صیغہ میں ہونے والی تبدیلیوںکو ایک دفعہ
لَن يُفعَل (دو ایک مرد ہرگز نہیںکرےگا ) (وہ ایک مردکرتا ہے یا کرےگا ) علْ
ل فعَ
يفْ
يَ
اور دو مرد ہرگز نہیں کریں گے ) لَن تَفْعَلا او و دو مردکرتے ہیں یاکریں گے ) يفعلان
لَن تَفْعَلاً ( دودو عورتیں ہرگزنہیں کریں گی ) اور دو صورتیںکرتی ہیںیاکریں گی ) تفعلان
لَنْ تَفْعَلَ (تو ایک مرد ہرگز نہیںکرےگا) (تو ایک مردکرتا ہےیا کرےگا ) تَفْعَلُ
لَنْ تَفْعَلَا (تم دو مرد ہرگز نہیںکروگے ) (تم دو مردکرتے ہو یاکرو گے ) تَفْعَلانِ
تو ایکعورکترتی ہے یا کرےگی) لَنْ تَفْعَلی تو ایک عورتہرگز نہیں کرےگی ) تَفْعَلِینَ
لَنْ تَفْعَلْنَ (تم سب عورتیں ہرگز نہیںکروگی ) تم سب عورتیںکرتی ہویاکردگی ) تَفْعَلْنَ
لَن تَفْعَلَ (ہم ہرگز نہیںکریں گے گی ) ( ہمکرتے /کرتی ہیںیا کریں گے گی ) نَفْعَلُ
ضمہ ( پیش ) والے صیغوں میں ابفتحہ ( زبر ) آگئی ( )۲جمع مونثکے دونوں صیغوں
نے تبدیلی قبول نہیں کی اور ان کے نون نسوہ بر قرار رہے ۔ جبکہ ( )۳باقی سات
صیغوں سے ان کے نون اعرابیگر گئے ۔ یہاں ایک اور اہم باتیہ بھی نوٹکرلیں
کہ جمع مذکر سالم کے دونوں صیغوں سے جب نون اعرابیکرتا ہے (یعنی مضارع
منصویبا مجزوم میں ) تو ان کے آگے ایک الفکا اضافہکردیا جاتا ہے ۔ یہ الف پڑھا
نہیں جاتا صرفلکھا جاتا ہے ۔ یعنی يَفْعَلُونَ اورتَفْعَلُونَ سے نون اعرابیکرنے کے
41
بعد انہیں يَفْعَلُو اور تَفْعَلُوہونا چاہئے تھا لیکن ان کے آگے ایکالفکا اضافہکرکے
۴۲ : ۴یہی قاعدہ فعل ماضی کے صیغہ جمع مذکر غائب ( فَعَلُوا)کا بھی تھا ۔ جمع مذکر
کے ان سب صیغوں میںآنے والی واؤکو " وَاوُ الْجَمْعِ "کہتے ہیں ۔ نوٹکرلیں کہ
اگر واو الجمع والے صیغہ فعل ماضی یا مضارع منصوبومجزوم )کے بعد اگرکوئی ضمیر
مفعول بنکر آئے تو یہ الف نہیں لکھا جاتا ۔ مثلاً ضَرَبُوْهُ ( ان سب مردوں نے اسے
۔ مارا ۔ اسی طرح لَنْ يَنصُرُوهُ ( وہ سب مرد اسکی ہرگزمدد نہیںکریں گے
یہ بھی نوٹکیجئے کہ واو الجمع کے آگے ایک زائد الفلکھنے کا قاعدہ ۴۲ : :
صرف افعال میں جمع مذکر کے صیغوں کے لئے ہے ۔کسی اسم کے جمع مذکر سالم سے
۔ نون اعرابیگرتا ہے لیکن وہاں الف کا جب وہ مضافبنتا ہے بھی
اضافہ نہیں ہوتا ۔ یعنی مُسْلِمُون سے مُسلِمُو ہوگا ۔ جیسے مُسْلِمُوْ مَدِينَةٍ (کسی شہر
کے مسلمان ) ۔ اسی طرح صَالِحُونَ سے صَالِحُوُ ہوگا ۔ جیسے صَالِحُو الْمَدِينَةِ
۴۲ :ان کے علاوہ باقی تین نواصب مضارع ( جو شروع میں دیئے گئے ہیں )بھی
جب مضارعپر داخل ہوتے ہیں تو اسے نصب دیتے ہیں اور اس کے مختلفصیغوں
میں اوپر بیانکردہ تبدیلیاں لاتے ہیں ۔ یعنی ان کے ساتھ بھی مضارعکی گردان اسی
مضارع کے ساتھ ان کے استعمال سے پیدا ہونے والی معنوی تبدیلیکو سمجھ لیں ۔
۴۲ :حرف آن (کہ )کسی فعل کے بعد آتا ہے ۔ جیسے اَمَرْتُهُ اَنْيَّذْهَبَ ( میں نے
جو قرآن میں اذا لکھا اسے حکم دیا کہ وہ جائے ) ۔ جبکہ حرف اذن (تب تو پھر تو )
ریا جاتا
سے پہلے ایک جملہ آتا ہے جس کا نتیجہ یا رد عملاذن سے ظاہک جاتا ہے
ہے ۔ یعنی اذن ينجح ( پھرتو وہ کامیابہوگا) یا اِذَنْ تَفْرَحُوا ( تب تو تم سبخوش ہو
۷۲
جاؤ گے ) وغیرہ سے قبلکوئی جملہ تھا جس کا نتیجہ یا رد عملاذن کے بعد آیا ہے ۔ اور
آخری حرف گئی ( تاکہ )بھی کسی فعل کے بعد آتا ہے اور اس فعل کا مقصد بیان کرتا
ہے ۔ مثلاً اَقْرَءُ الْقُرْآنَ كَيْ اَفْهَمَهُ ) میں قرآن پڑھتا ہوں تاکہ میں اسے سمجھوں )
وغیرہ ۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ اصل نواصب مضارعتو مذکورہ بالا یہی چار حروف
نواحب میں سے کوئی ایک " مُقَدَّرُ " ( یعنی خود بخود موجودیا ) Understoodہوتا
( " ) 1ل " ( تاکہ ) اور ( " )۲حتی " (یہاںتککہ ) ۔ ہے ۔ وہ دو حروفیہ ہیں :
" ل "کو لام گئی کہتے ہیں ۔کیونکہ یہ گئی ( تاکہ ) کا ہی کام دیتا
ہے ۔ معنی :
کے لحاظ سے بھی اور مضارعکو منصوبکرنے کے لحاظ سے بھی ۔ جیسے مَنَحْتُكِكِتَابًا
" ل " " -گئی " اور " لگنی " ایک ہی طرح استعمال ہوتے ہیں ۔
۴۲ : ۹بعض دفعہ " ل " " -آن " کے ساتھ ملکر بصورت "لان " (تاکہ ) بھی
استعمال ہوتا ہے ۔ " لان " عموماً مضارع منفی سے پہلے آتا ہے اور اس صورت میں
لان لا "کو " لِئَلا "لکھتے اور پڑھتے ہیں ۔ مثلاً منَحْتُكَكِتَابًا لِئَلَّا تَجْهَلَ ( میں نے
:
۴۲اس طرح کا دوسرا ناصب مضارع " حتی " ہے ۔ یہ بھی دراصل " حتی ۱۰
:
ان " ( یہاں تککہ ) ہوتا ہے جس میں آن محذوف( غیرمذکو ر) ہو جاتا ہے اور صرف
" حتى " استعمال ہوتا ہے لیکن مضارعکو نصب ای محذوفانکی وجہ سے آتی
ہے ۔ جیسے حتَّی يَفْرَحَ (یہاں تککہ وہ خوش ہو جائے ) ۔ نوٹکرلیںکہ حتٰی کا
استعمال بھی اذن اور گنی کی طرح ایک سابقہ جملہ کے بعد آنے والے جملے میں ہوتا
ہےکیونکہ یہ شروع میں نہیں آسکتے ۔ ناصب مضارع ہونے کے علاوہ بھی " حتّی "
=
-حکم دینا امران) = اجازتدینا اذِنَ(س)
فرغ( )
ف = کھٹکھٹانا = تلنا ۔ہٹنا بوح(س)
= غمگین ہونا
حَزِنَ ( س) - غمگینکرنا
= حَزَنَ(ن)
=
-چاٹنا لَعِقَ (س)
= فائدہ دینا نَفَعَ (ف)
( منالْقُرْآن)
غمگین نہ ہو ۔
۷۵
مضارعمجزوم
۴۳گزشتہ سبق میں ہم بعض ایسے حروفِ عاملہ کا مطالعہ کر چکے ہیں جو مضارع ۱
کو نصب دیتے ہیں ۔ اب اس سبق میں ہم نے بعض ایسے " عوامل "کا مطالعہکرنا
ہے جو مضارعکو جزم دیتے ہیں ۔ ایسے حروف واسماءکو ” جَوَازِم مضارع "کہتے ہیں
جو دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جو صرف ایک فعل کو جزم دیتے ہیں اور
۴۳ : ۲صرف ایک فعلکو جزم دینے والے حروف بھی نواصبکی طرح اصلا تو
( ) ۳راجے " لام امر "کہتے ہیں ) اور ( ) ۴لا ( ) ۲لَمَّا چارہی ہیں ۔ یعنی ( ) ۱لَمْ
لائے نہی "کہتے ہیں )۔ جبکہ دو فعلوںکو جزم دینے والا اہم ترین حرف جازمتو جسے
مَا مَتَى أَيْنَ أَيَّانَ " ان" (اگر) شرطیہ ہے البتہ بعض اسماء استفہام مثلا مَنْ
ائی وغیرہ بھی مضارع کے دو فعلوںکو جزم دیتے ہیں ۔ اور اس وقت انکو بھی
" أسماء الشرط"کہتے ہیں ۔ یہ سب جملہ شرطیہ میں استعمال ہوتے ہیں اور شرط
اور جواب شرط میں آنے والے دونوں مضارع افعالکو جزم دیتے ہیں ۔ اس سبق
میں ہم ایک فعل مضارعکو جنم دینے والے حروف جازمہ میں سے صرفپہلے دو
یعنی لَمْ اور لما کے استعمال اور معنی کی باتکریں گے ۔ باقی دو حروف یعنی لام امر اور
لائے نہی پر ان شاء اللہ فعل امر اور فعل نہی کے اسباق میں بات ہوگی ۔
۴۳ : ۳کسی فعل مضارعپر جب" لم " داخل ہوتا ہےتو وہبھی اعرابی اور معنوی
دونوں تبدیلیاں لاتا ہے ۔ اعرابی تبدیلی یہ آتی ہےکہ مضارع مجزوم ہو جاتا ہے ۔
یعنی اس کے لام کلمہ پر ضمہ ( پیش ) والے صیغوں میں علامت سکون ( جزم ) لگ جاتی
ہے ۔ اور نون النسوہ کے علاوہ باقی صیغوںمیں ” نون اعرابی گر جاتا ہے ۔
۴۳ : ۴حرفناصب لنکی طرح حرف جازم لَم کے بھی الگ
کوئی معنی نہیں ہیں
لاتا ہے ۔ اولاً یہ کہ مضارع میں زور دار نفی کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں اور ثانیا یہکہ
مضارع کے معنی ماضی کے ساتھ مخصوص ہو جاتے ہیں ۔ مثلا لَمْ يَفْعَلْ ( اس نے کیا ہی
نہیں ۔ ماضی کے شروع میں " ما " لگانے سے بھی ماضی منفی ہو جاتا ہے جیسے مَا فَعَلَ
( اس نے نہیںکیا ) ۔ مگر "لم " میں زور اور تاکید کے ساتھ نفی کا مفہوم ہوتاہے ۔
جسے ہم اردو میں " ہی " اور "بالکل " کے ذریعے ظاہرکرتے ہیں یعنی لَمْ يَفْعَلْ کا
درست ترجمہ ہوگا ” اس نے کیا ہی نہیں " یا " اس نےبالکل نہیں کیا " ۔اب ہم ذیل
میں مضارع مرفوع اور مضارع مجزومکی گردان دے رہے ہیں تاکہ آپ ہر صیغہ
(اسایک مرد نےکیا ہی نہیں ) لَمْيَفْعَلْ وہ ایک مردکرتاہے یا کرےگا ) يَفْعَلُ
لَمْيَفْعَلا يَفْعَلان
لَميَْفْعَلُوا يَفْعَلُونَ
لَمْتَفْعَلَا تَفْعَلَان
لَمْيَفْعَلْنَ يَفْعَلْنَ
لَمْ تَفْعَلُ (تو ایک مرد نےکیا ہی نہیں ) (تو ایک مردکرتا ہے یاکریگا ) تَفْعَلُ
لَمْتَفْعَلَا تَفْعَلَان
لَمْتَفْعَلُوا تَفْعَلُونَ
LL
لَمْ تَفْعَلِی (تو ایک عورتنےکیا ہی نہیں ) (تو ایک صورتکرتی ہے یاکریگی ) تَفْعَلِينَ
لَمْتَفْعَلْنَ تَفْعَلْنَ
ےیا ہی نہیں )
(میںن ک لَمْ اَفْعَلْ ( میںکرتا ہوںیاکروںگا ) افعَل
جن صیغوں میں مضارع کے لامکلمہ پر ضمہ( پیش ) ہے وہاں لم داخل ہونےکی ( )1
جن سات صیغوں میں نون اعرابی آتے ہیں ان سب میں کم داخل ہونے کی ()۲
( ) ۳جمع مذکر غائب اور مخاطب کے صیغوں سے جب نون اعرابیگرا تو اسکی آخری
واو ( واو الجمع ) کے بعد حسب قاعدہ ایک الف کا اضافہکر دیاگیا جو پڑھا نہیں
جاتا ۔
جمع مؤنث غائب اور مخاطب کے دونوں صیغوں میں ” نون النسوہ " نےکوئی ()۴
تبدیلی قبولنہیںکی ۔
۴۳ :دوسرا حرف جازم " لَمَّا "ہے ۔ بحیثیت جازم اس کا ترجمہ " ابھی تک
کر سکتے ہیں ۔ ( خیال رہے لَمَّا کے کچھ اور معنی بھی ہیں جو ان شاء اللہ ہم نہیں
ابھی تک نہیں " کا مفہوم پیدا ہوتا ہے ۔ مثلاً تبدیلی یہ لاتا ہےکہ ماضی کے ساتھ
ZA
۴۳ : ۷دو فعلوںکو جنم دینے والے حروف و اسماء میں سے ہم یہاں صرف اہم
ترین حرف " ان " (اگر ) شرطیہ کا ذکرکریں گے ۔ باقی کے استعمال آپآگے چلکر
پڑھیں گے ۔ تاہم اگر آپ نے ان کا استعمال سمجھ لیا تو باقی حروف و اسماءِ شرط کا
۴۳ :
) ان ( اگر )بلحاظ عمل جازم مضارع ہے اور بلحاظ معنی حرف شرط ہے ۔
جس جملہ میں ان آئے وہ جملہ شرطیہ ہوتا ہے جس کا پہلا حصہ ”بیان شرط "یا صرف
"شرط "کہلاتا ہے ۔ اس کے بعد لازماً ایک اور جملہکی ضرورت ہوتی ہے ۔ جسے
تو میں تجھے " جواب شرط " یا "جزاء "کہتے ہیں ۔ مثلاً " اگر تو مجھے مارےگا
۔ اس میں پہلا حصہ " اگر تو مجھے مارےگا " شرط ہے اور دوسرا حصہ ”تو ماروںگا
میں تجھے ماروںگا " جواب شرط یا جزاء ہے ۔ اگر شرط اور جواب شرط دونوںمیں
فعل مضارع آئے ( جیساکہ عموماً ہوتا ہے ) اور شرط بھی اِن سے بیانکرنی ہو تو شرط
والے مضارع سے پہلے ان لگے گا اور مضارعمجزوم ہوگا اور جواب شرط والا فعل
مضارع خود بخود مجزوم ہو جائے گا ۔ ( بین صورتتمام حروف شرط اور اسماء شرط میں
بھی ہوگی ) اس قاعدہکی روشنی میں ابآپمذکورہ جملہ " اگرتو مجھے مارےگا تو میں
ان تضربني تجھے ماروں گا " کا عربی میں ترجمہ آسانی سے کر سکتے ہیں ۔ یعنی
اضْرِبُكَ
فعلماضی کے مبنی ہونے ۴۳ان فعل ماضی پر بھی داخل ہوتاہے لیکن ۹
کی وجہ سے اس میںکوئی اعرابی تغیرنہیں ہوتا۔ البتہانکی وجہ سے معنوی تبدیلی یہ
آتی ہےکہ ماضی میں مستقبل کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں کیونکہ شرط کا تعلق تو مستقبل
ذخیرہ الفاظ
گسل(س
) -سستیکرنا =
-خرچکرنا بَذَلَ(ن)
نمبر ۴۲
) (الف) مشق
مِنَ الْقُرْآنِ
أَلَمْ تَعْلَمْأَنَّ اللَّهَ عَلَىكُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۷ ( -إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ () ۲
ہم نے قہوہ بالکل نہیں پیا اور ہم اسے ہرگز نہیں پئیں گے ۔ ()۲
۴۴ : ۱اسکتاب کے حصہ اول کے سبق نمبر ۱۲میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ جملہ اسمیہ
میں اگر تاکید کا مفہوم پیدا کرنا ہو تو حرف " ان " کا استعمال ہوتا ہے ۔ اب اس سبق
میں ہم پڑھیں گے کہ کسی فعل مضارع میں اگر تاکید کا مفہوم پیدا کرنا ہو تو اس کا کیا
تاکہ بات پوری طرحذہن نشین ہو جائے ۔ پھر ہم آپکوبتا ئیں گے کہ یہ عام طور پر
اب اگر اس میں تاکید ۴۴ : ۲دیکھیں يَفْعَل کے معنی ہیں وہ کرتا ہے یا کرےگا
کے معنی پیداکرنا ہوں تو اس کے لام کلمہکو فتحہ ( زبر) دےکر ایک نون ساکن ( جسے
وہ نون خفیفہ "کہتے ہیں ) بڑھا دیں گے ۔ اس طرح يَفْعَلَن کے معنی ہو جائیں گے
ضرورکرےگا "۔ اب اگر دوہری تاکیدکرنی ہو تو نون ساکن کے بجائے نون مشدد
وہ ( جسے ” نون ثقیلہ "کہتے ہیں ) بڑھائیں گے ۔ اس طرح يَفْعَلَنَّ کے معنی ہوں گے
ضرور ہیکرےگا " ۔ اب اگر اس پر بھی مزید تاکید مقصود ہو تو مضارع سے قبل لام
تاکید " ل "کا اضافہکر دیں تو یہ لَيَفْعَلَنَّ ہو جائےگا یعنی " وہ لازماًکرےگا " ۔
ذہن نشینکرانا مقصود تھاکہ فعل مضارعپر جب شروع میں لام تاکید اور آخر پر نون
ثقیلہ لگا ہوا ہو تو یہ انتہائی تاکید کا اسلوب ہے ۔ ورنہ نون خفیفہ اور ثقیلہ دونوں عام
طور پر لام تاکید کے ساتھ ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ البتہ نون ثقیلہ یعنی لَيَفْعَلَنَّ کا
اسلوب زیادہ مستعمل ہے جبکہ نون خفیفہ یعنی لَيَفْعَلَن کا استعمال کافیکم ہے اور
۴۴ : ۴ایک اہم بات یہ نوٹکر لیںکہ نون خفیفہ اور تقیلہ کے بغیر اگر صرف
Al
) لام تاکید مضارعپر آئے تو اسکی وجہ سے نہ تو مضارعمیں اعرابی تبدیلی آتی
(ل
ہے اور نہ ہی تاکید کا مفہوم پیدا ہوتا ہے ۔ البتہ مضارع زمانہ حال کے ساتھ
۴۴ : ۵لام تاکید اور نون خفیفہ یا تھیلہ لگنے سے فعل مضارعکے صرف پہلے صیغہ
میں ہی تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ اسکی پوریگردان پر اثر پڑتاہے ۔ اب ہم ذیل میں
لام تاکید اور نون ثقیلہ کے ساتھ مضارعکیگردان دے رہے ہیں تاکہ آپ مختلف
مینوںمیں ہونے والی تبدیلی کو نوٹکرلیں ۔ اسکی وضاحت کے لئے پہلے کالم میں
ساده مضارع دیاگیا ہے ۔ دو سر نے کالم میں وہ شکل دیگئی ہے جوبظا ہر تبدیلی کے بغیر
ہونی چاہئے تھی ۔ تیسرے کالم میں وہ شکل دی گئی ہے جو تبدیلیکی وجہ سے مستعمل
ہے اور آخری کالم میں ہونے والی تبدیلی کی نشاندہیکی گئی ہے ۔
نوناعرابیگرگیا اور نونثقیلہ مسور (زیر والا) ہوگیا لَيَفْعَلَانِ لَيَفْعَلَانِنَّ يَفْعَلَانِ
لامکلمہ مفتوحہوگیا
۔ لَتَفْعَلَن لَتَفْعَلُنَّ تَفْعَلُ
یہاںبھی تون اعرابیگرگیا اور نون تکلیلہمکسور ہوگیا لَتَفْعَلانَ لَتَفْعَلَاننَّ تَفْعَلَان
سے
لہ یہاںنون النسوہ نہیں گرا ۔ اسے نون
ث ثققی
یلہ لَيَفْعَلْتَانِ لَيَفْعَلْنَنَّ يَفْعَلْنَ
تقبیلہمکسور ہوگیا۔
نون اعرابیگرگیا اور نون ثقیلہ مسور ہوگیا لَتَفْعَلَانِ لَتَفْعَلَانِنَّ تَفْعَلَانِ
لون النسو نہیںگرا ۔ اسے نونتکنیلہ سے ملانے کے لَتَفْعَلْنَانَ لَتَفْعَلْنَنَّ تَفْعَلْنَ
۴۴ :نون ثقیلہ قرآن مجید میں کافی استعمال ہوا ہے ۔ اس لئے مناسب ہے کہ
اس کے واحد اور جمع کے صیغوں میں فرق اچھی طرح ذہن نشینکرلیں ۔ دیکھیں
ليَفْعَلَن میں لامکلمہ کی فتحہ ( زیر ) بتارہی ہے کہ مذکر غائب میں یہ واحد کا صیغہ ہے ۔
جبکہ لَيَفْعَلُنَّ میں لامکلمہ کی ضمہ ( پیش) بتا رہی ہے کہ مذکر غائب میں یہ جمع کا صیغہ
ہے ۔ اسی طرح آپ لَتَفْعَلَنَّ میں لام کلمہ کی فتحہ ( زبر ) سے پہچانیں گے کہ یہ مونٹ
غائب یا تذکر مخاطب میں واحد کا صیغہ ہے ۔ جبکہ لَتَفْعَلُنَّ میں نامکلمہکی ضمہ ( پیش )
سے پہچانیں گے کہ یہ مذکر مخاطب میں جمع کا صیغہ ہے ۔ لیکن متکلم کے واحد اور جمع
دونوں مینوں میں لامکلمہ پر فتحہ (زیم) رہتی ہے کیونکہ ان میں علامت مضارع سے
تمیزہو جاتی ہے یعنی لَا فَعَلَنَّ ( واحد ) اور لَتَفْعَلَنَّ (جمع) ۔ یہ بھی نوٹکرلیںکہ اگر لام
۴۴ :نون خفیفہ کی گرداننسبتاً آسان ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ لام تاکید اور
نون خفیفہ کے ساتھ مضارع کے تمام صیغے استعمال نہیں ہوتے ۔ ذیل میں ہم اسکی
گردان دے رہے ہیں ۔ جو صیغے استعمال نہیں ہوتے ان کے آگے کراس ( ) xلگا دیا
-
۴
X X
يَفْعَلَانِ
لامکلمہ مفتوحہوگیا
۔ لَتَفْعَلَن لَتَفْعَلُنْ
X X
X
X
x
x
لامکلمہ مفتوحہوگیا ۔ لَتَفْعَلَن لَتَفْعَلُنُ
X تَفْعَلَانِ
x
X
X
x
تَفْعَلَانِ
X
x
۴۴ :نوٹکرلیںکہ قرآن مجید کی خاص املاء میں نون خفیفہ کے نون ساکنکو
عموماً تنوین سے بدل دیتے ہیں ۔ جیسے لَيَكُونَنُکی بجائے لَيَكُونَا ( وہ ضرور ہوگا) اور
مشقنمبر ( ۴۳الف )
مندرجہ ذیل افعال سے نون ثقیلہ کیگردان لکھیں اور ہر صیغہ کے معنی
: ل
کھیں
۸۴
= =
۔ ۲حَمَلَ ( ض) -اٹھانا ۔ ۳-رَفَعَ ( ف) دَخلَ ( ن ) = داخل ہونا ۔ ا
بلندکرنا
مشقنمبر ( ۴۳ب )
مندرجہ ذیل افعال کا پہلے مادہ اور صیغہ بتائیں اور پھرترجمہکریں :
)(۲
( )٢لَتَذْهَبَنَّغَدًا إِلَىالْحَدِيقَةِ لاكتُبَنَّ الْيَوْمَ مَكْتُوبًا إِلَى مُعَلِّمِي - () 1
( مِنَ الْقُرْآنِ )
فعل امر
حاضر
قواعد سیکھے ہیں ۔ اب ہمیں فعل امر سیکھنا ہے ۔ جس فعل میں کسی کام کے کرنے کا
حکم پایا جائے اسے فعل امرکہتے ہیں ۔ مثلاً ہمکہتے ہیں " تم یہکرو " ۔ اس میں ایسے
شخص کے لئے حکم ہے جو حاضر یعنی سامنے موجود ہے ۔یا ہمکہتے ہیں ” اسے چاہیے کہ
۔ اس میں ایسے شخص کے لئے حکم ہے جو غائب ہے یعنی سامنے موجود وہ یہ کرے
نہیں ہے ۔ اسی طرح ہمکہتے ہیں کہ ”مجھے پر یہ لازم ہےکہ میں یہکروں ۔ اس میں
خودمتکلم کے لئے ایک طرح سے حکم ہے ۔ اب اس سبق میں ہم پہلے صیغہ حاضرسے
۴۵ : ۲فعل امر کے ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی نوٹکر لیںکہ یہ ہمیشہ فعل
مضارع میں کچھ تبدیلیاںکر کے بنایا جاتاہے ۔ اب امر حاضربنانے کے لئے مندرجہ
) ہٹا دیں ۔
صیغہ حاضرکی علامت مضارع(ت ( )1
علامت مضارع ہٹانے کے بعد مضارع کا پہلا حرف ساکن آئےگا ۔ اسے ()۲
( ) ۳مضارع کے عین کلمہ پر اگر ضمہ ( پیش ) ہےتو ہمزۃ الوصلپر بھی ضمہ ( پیش ) لگا
دیں اور اگر مضارع کے عینکلمہ پر فتحہ ( زبر) یاکسرہ ( زیر ) ہے تو ہمزۃ الوصلکو
مندرجہ بالا چار قواعد کی روشنی میں تنصُرُ سے فعل امر انصر (تو مددکر )
ΔΥ
تشنہ واحد
۴۵ : ۴اس باتکو یاد رکھیں کہ فعل امر کا ابتدائی الف چونکہ ہمزۃ الوصل ہوتا
ہے اس لئے ماقبل سے ملا کر پڑھتے وقتیہ تلفظ میں گر جاتاہے جبکہ تحریر موجو د رہتا
ذخیرہ الفاظ
---
۔ یہاں هُهُنَا -پڑھنا قَرَءَ( )
ف
مشقنمبر ( ۴۴ب )
مِنَالْقُرْآن ).
مذکورہ بالا جملوں کے درج ذیل الفاظکی اعرابی حالت بیانکریں نیز اسکی وجہ
بھی بتائیں ۔
۴۶ : ۱صیغہ غائب اور متکلم میں جو فعل امربفتاہے اسے " امر غائب "کہتے ہیں ۔
عربیگرامر میں صیغہ متکلم کے " امر "کو امرغائب میں اس لئے شمارکیا جاتا ہےکہ
پیراگراف ۴۳ : ۲میں ہم نے کہا تھا کہ مضارعکو جنم دینے والے ۴۶ ۲
حروف "لام امر " اور " لائے نہی " پرآگے بات ہو گی ۔ اب یہاں نوٹکیجئےکہ امر
غائب " اسی لام امرال ) سے بنتاہے ۔ اور اس کا اردو ترجمہ "چاہئےکہ " سےکیا جاتا
ہے ۔ اس کے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ فعل مضارع کے صیغہ غائب اور متکلم کے
شروعمیں علامت مضارعکرائے بغیر) لام امرال) لگا دیں اور مضارعکالامکلمہ
ان(سب عورتوں)کو چاہئےکہکریں ان(دو عورتوں)کو چاہئےکہکریں اس ( ایک عورت )کو چاہئے کہکرے
)کو چاہئےکہکریں
ہم (سب ہم (دو)کو چاہئےکہکریں مجھےچاہتےکہکروں
۴۶ : ۳ابتک آپ چار عدد لام "پڑھ چکے ہیں (ایکعدد " ل " اور تین عدد
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اکٹھا جائزہ لے لیا جائے تاکہ ذہن میں
۸۹
( ) 1لام تاکید ( ل ) :زیادہ تر یہ مضارع پر نون خفیفہ اور تکلیلہ کے ساتھ آتا
ہے ۔ اور تاکید کا مفہوم دیتاہے ۔ اگر سادہ مضارع پر آئے تو صرف اس کے مفہوم
( ) ۲حرف جار ( ل ) :یہ اسم پر آتا ہے اور اپنے بعد آنے والے اسمکو جر دیتا
ہے ۔ اس کے معنی عموماً " کے لئے " ہوتے ہیں ۔ جیسے لِمُسلِم ( کسی مسلمانکے
لئے ) ۔
( ) ۳لام گئی ( لِ ) :یہ مضارعکو نصب دیتا ہے اور ” تاکہ " کے معنی دیتا
( ) ۴لام امرال ) :یہ مضارعکو مجزومکرتا ہے اور " چاہئےکہ " کے معنی دیتا
۴۶ : ۴فعل مضارع کے جن پانچ صیغوں میں لامکلمہ پر ضمہ ( پیش ) ہوتی ہے ان
میں لام گئی اور لام امرکی پہچان آسان ہے جیسا کہ لِيَسْمَعَ اور ليَسْمَعُکی مثالوں
میں آپ نے دیکھ لیا۔ لیکن باقی صیغوں میں مضارع منصوب اور مجزوم ہم شکل
ہوتے ہیں جیسے لیسْمَعُوا ۔ ابیہ کیسے پہچاناجائے کہ اس پر لام گئی لگا ہے یا لام امر؟
اس ضمن میں نوٹکر لیں کہ عموماً عبارتکے سیاق و سباق اور جملہ کے مفہوم سے
ان دونوںکی پہچان مشکل نہیں ہوتی ۔ البتہ اگر آپ لام گئی اور لام امرکے استعمال
میں ایک اہم فرق ذہن نشینکر لیںتو انہیں پہنچاننے میں آپکو مزید آسانی ہو جائے
گی ۔
۴۶ : ۵لامگئی اور لام امر میں وہ اہم فرق یہ ہےکہ لام امرسے پہلے اگر و یا
ف آجائے تو لام امرسا کن ہو جاتا ہے جبکہ لام گئی ساکن نہیں ہوتا ۔ مثلاً فَلْيَخْرُجُ
پس اسکو چاہئےکہ نکل جائے ) وَ ليَكتُب ( اور اسے چاہئےکہلکھے ) ۔ یہ دراصل
فَلِيَخْرُج اور ولتكتب ہی تھا مگر شروع میں کی اور تو نے آکر لام امرکو ساکنکر
دیا ۔ جبکہ وَلِيَكتُب کے معنی ہوں گے ( اور تاکہ وہ لکھے ) ۔ نوٹکریں کہ یہاں بھی
شروع میں تو آیا ہے لیکن اس نے لام گنیکو ساکن نہیںکیا ۔ امید ہےکہ آپلام
ذخیرہ الفاظ
( علم)کی جمع
-طالب طلاب رحم ( س) -رحمکرنا
مندرجہ ذیل افعال سے امر غائب و متکلم کی گردانکریں اور ہر صیغہ کے معنی
۔ ل
کھیں
( ) 1اكل ( ن ) کھانا ( ) ۲سَبَحَ (ف) -تیرنا ( )۳رَجَعَ (ض) ۔واپس آنا
( ) ۳اسے چاہئے کہ وہ محنتکرے تاکہ وہ کامیاب ہو ہم عصر کے بعد کھیلیں
مشقنمبر ( ۴۵ج )
مذکورہ بالا جملوں کے درج ذیل افعال کا صیغہ اعرابی حالت اور اسکی وجہ
بتائیں ۔
فعلامرمجهول
اب ہم فعل امر مجهول بنانے کا طریقہ سیکھیں گے ۔ لیکن آئیے اس سے پہلے اردو
جملوںکی مدد سے ہم فعل امر معروفاور مجہول کے مفہوم کو ذہن نشینکرلیں ۔ مثلاً
مکہتے ہیں " محمود کو چاہئے کہ وہ دو اپنے "۔ یہ صیغہ غائب میں امر معروف ہے ۔
تو یہ صیغہ غائب میں امر مجبول ہے ۔ اسی چاہئےکہ دوالی جائے لیکن اگر ہمکہیں
طرح " تم ما رو "یہ صیغہ حاضر میں امر معروفہے ۔ اور چاہئےکہ تم مارے جاؤ "یہ
۴۷ : ۲اب ہمیں یہ سیکھناہے کہ عربی میں امرمجہول کا مفہوم پیدا کرنے کا کیا
طریقہ ہے ۔ اس سلسلہ میں پہلی بات یہ نوٹکریں کہگزشتہ اسباق میں امر معروف
بنانے کے لئے ہم نے مضارع معروف میں کچھ تبدیلیکی تھی ۔ اسی طرح امرمجبول
بنانے کے لئے جو بھی تبدیلی ہوگی وہ مضارع مجہول میں ہوگی ۔ یعنی امر معروف
سیغه غائب و متکلم دونوں کا طریقہ علیحدہ علیحدہ تھا ۔ یعنی صیغہ حاضر میں علامت
مضارع (ت )گر اکبر اور ہمزۃ الوصل لگاکر فعل مضارعکو مجزومکرتے تھے جبکہ صیغہ
غائب و متکلم میں علامت مضارعکو برقرار رکھتے ہوئے اس سے قبل لام امرلگا کر
فعل مضارعکو مجزومکرتے تھے ۔ لیکن امرمجبول بنانے کے لئے ایساکوئی فرق نہیں
:
۴۷امر مجمول بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مضارع مجہول میں علامت مضارع ۴
سے قبل لام امرلگا دیں اور فعل مضارعکو مجزومکردیں ۔ مثلا يُشْرَبُ ( وہ پیا جاتا
ہے یا پیا جائےگا ) سے لیشْرَب ( چاہئے کہ وہ پیا جائے ) وغیرہ ۔ ذیل میں امرمعروف
۹۳
اور امر مجہولکی مکملگردان آمنے سامنے دی جارہی ہے تاکہ آپدونوں کے فرق
کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں ۔ ( خصوصاً مخاطب کے صیغوں میں امرمعروف اور
لِيُضْرَبُوا ليَضْرِبُوا
لِتُضْرَبْ لِتَضْرِبْ
لِيُضْرَبْنَ ليَضْرِبْنَ
لِتُضْرَبُوا اضْرِبُوا
لِتُضْرَنِي اضْرِين
لِتُضْرَبْنَ اضْرِبْنَ
الأضْرَبْ لِاضْرِبْ
لِمُضْرَبْ لِنَضْرَبْ
مشقنمبر. ۴۶
معنیلکھیں ۔
۹۴
فعلنهی
۴۸ : ۱اب ہمیں عربی میں فعل نہی بنانے کا طریقہ سمجھنا ہے لیکن اس سے پہلے لفظ
نمی " اور اردو میں مستعمل لفظ " نہیں " کا فرق سمجھ لیں ۔ اردو میں لفظ " نہیں "
میںکسی کام کے نہ ہونے یعنی Negativeکا مفہوم ہوتاہے ۔ مثلاً ”حامد نے خط
اس کے لئے ” نفی "کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور ایسے فعلکو ” فعل نہیں لکھا
منفی "کہتے ہیں ۔ جبکہ " نی " میںکسی کام سے منعکرنے کا مفہوم ہوتا ہے یعنی اس
کام سے روکنے کے حکم کا مفہوم ہوتا ہے ۔ مثلاً "حامدکو چاہئےکہ وہ خط نہ لکھے "یا
۴۸ :عربی میں فعل نمی کا مفہومپیدا کرنے کے لئے فعل مضارع سے قبل لائے
نی " لا " کا اضافہکر کے مضارعکو مجزومکر دیتے ہیں ۔ مثلاً نکتب کے معنی ہیں " تو
لکھتا ہے ۔ " لا تكتب کے معنی ہو گئے "تو مت لکھ " ۔ اسی طرح يَكتُب کے معنی
ہیں " وہ لکھتاہے "لا يَكتُب کے معنی ہو گئے "چاہئے کہ وہ متلکھے " ۔
۴۸ : ۳لفظ " لا " کے استعمال کے سلسلہ میں یہ بھی نوٹکرلیںکہ فعل مضارع
:
میں نفی کا مفہومپیدا کرنے کے لئے بھی عام طور پر " لا " کا استعمال ہوتا ہے جسے لائے
نفی کہتے ہیں اور یہ غیر عامل ہوتا ہے یعنی جب مضارعپر لائے نفی داخل ہوتا
ہے تو
مضارع میں کوئی اعرابی تبدیلی نہیں لاتا صرف اس فعل میں نفی کا مفہوم پیداکرتا
لائے نہمی عامل ہے اور وہ مضارعکو مجزومکرتا ہے ۔ مثلا لا تكتب (تو متلکھ ) بالا
تكتبوا ( تم لوگمتلکھو ۔
۴۸ :یہ بھی نوٹکرلیںکہ فعل امر اور فعل نہی دونوں نون ثقیلہ اور نون
خفیفہ کے ساتھ بھی استعمال ہوتے ہیں ۔ مثلاً اضرِبْ (تومار)سے اضْرِبَنَ يَا اضْرِبَنَّ
۹۵
تو ضرور مار ) لا تَضْرِب ( تو متمار ) سے لا تَضْرِبَنْيا لَا تَضْرِبَنَّ (تو ہرگز مت مار)
وغیرہ ۔
نمبر ( ۴۷الف)
مشق
مشقنمبر ( ۴۷ب)
لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابِ وَاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ - () 1
( ) ٣لَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ - لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا - ( )۲
( ) ۸لَا تَحْسَبَنَّالَّذِينَقُتِلُوْا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ اَمْوَاتًا بَلْأَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِهِمْ يُرْزَقُوْنَ
اے دربان ! دروازہکھول تاکہ ہم سکول میں داخل ہو سکیں ۔ () ۲
(تعارف
اورابواب)
۴۹ : ۱سبق نمبر ۳۸میں ہم نے ثلاثی مجرد کے چھ ابواب پڑھے تھے ۔ یعنی باب
فتح باب ضَرَبَوغیرہ نہ ابہم ثلاثی مزید فیہ کے کچھ ابواب کا مطالعہکریں گے
لیکن اس سے پہلے ضروری ہےکہ " ملاثی مجرد " اور " ثلاثی مزید فیہ "کی اصطلاحات کا
۴۹ : ۲فعل ثلاثی مجرد سے مراد تین حرفی مادہ کا ایسا فعل ہے جس کے اصلی حروف
میںکسی مزید حرفکا اضافہ نہکیا گیا ہو جبکہ فعل ثلاثی مزید فیہ سے مراد تین حرفی مادہ کا
ایسا فعل ہے جس کے اصلی تین حروف کے ساتھ کسی حرفیاکچھ حروفکا اضافہکیا
گیا ہو ۔یہ اضافہ فعل ماضی کے پہلے صیغے سے معلوم ہو سکتا ہے ۔ آپکو یاد ہوگا کہ
کسی فعل ثلاثی مجرد کے ماضی کا پہلا صیغہ ہی وہ لفظ ہے جس میں مادہ کے اصلی تین
حروف موجود ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ثلاثی مزید فیہ کے فعل ماضی کے پہلے صیغے میں حروف
۴۹ :ہم نے " ماضی کے پہلے صیغے "کی بات بار بار اس لئےکی ہے کہ آپیہ
اچھی طرح جان لیں کہ فعل ماضی ،مضارع وغیرہ کیگردان کے مختلف صیغوں میں
مزید فیہ " لامکلمہ کے بعد جن بعض حروفکا اضافہ ہوتا ہے انکی وجہ سے فعلکو
قرار نہیں دیا جاتا ۔کیونکہ یہ اضافہ دراصل صیغوںکی علامت ہوتا ہے اور یہ
مجرد " اور " مزید فیہ دونوںکی گردانوںمیں ایک جیسا ہوتا ہے ۔ آگے چل کر آپ
خود بھی اس کا مشاہدہکر لیں گے ( ان شاء اللہ )۔فی الحال آپیہ اچھی طرح ذہن
نشینکرلیں کہ فعل "مجرد " یا " مزید فیہ "کی پہچان اس کے ماضی کے پہلے مینے سے
۹۷
ہوتی ہے ۔
"لمہ
۴۹ : ۴ثلاثی مزید فیہ کے ماضی کے پہلے صیغے میں زائد حروفکا اضافہیا تو ”فا ک
اے یا " فا " اور " عین "کلمہ کے درمیان ہو تا ہے اور یہ اضافہکبھی ایک
سے پہلے ہوت ہ
حرفکا ہوتا ہے ،کبھی دو حروف کا اور کبھی تین حروف کا ۔ ان تبدیلیوں سے ثلاثی
مزید فیہ کے بہت سے نئے ابواب بنتے ہیں ۔ لیکن زیادہ استعمال ہونے والے ابواب
صرف آٹھ ہیں ۔ اس لئے ہم اپنے موجودہ اسباقکو انہی آٹھ ابوابتک محدود
رکھیں گے ۔
۴۹ : ۵ایکمادہ ثلاثی مجرد سے جبمزید فیہ میں آتا ہے تو اس کے مفہوم میں بھی
کچھ تبدیلی ہوتی ہے ۔ اس معنوی تبدیلی پر ان شاء اللہ اگلے سبق میں کچھ باتکریں
گے لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ مزید فیہ کے آٹھوں ابواب کے ماضی ،مضارع
اور مصدر کے درج ذیل اوزان آپ اپنے قلمکو یادکرا دیں کیونکہ اس کے بعد ہی
و تَ - تَفَقُلْ وَ تَ - يَتَفَعَلُ - - - - تَفَعَّل
اِفْتِعَالَ إِنِ 1 - تَ -- وَ يَفْتَعِلُ انتَ - - الْتَعَلَ
امید ہے آپ نے مذکورہ بالا جدول میں یہ بات نوٹکر لیہو گیکہ آٹھوں ۹ :
ابوابکے ماضی کے صیغوںمیں عکلمہ پر فتحہ (زیرا آتی ہے جبکہ مضارعکے صیغوں
پہلے تین ابواب ( جن کا ماضی چار حرفی ہے )کے مضارع کے صیغوں يُفعِل () 1
يفعل اور يُفاعِلکی علامت مضارعپر ضمہ (پیش ) اور عکلمہ پر کسرہ ( زیر )
آتی ہے۔
( ) ۲اس کے بعد کے دو ابواب (جو "ت " سے شروع ہوتے ہیں )کے مضارعکے
صیغوں يَتَفَعَّل اور يَتَفَاعَلکی علامت مضارع اور عکلمہ دونوں پر بھی فتحہ
( زیر) آتی ہے ۔
( ) ۳جبکہ آخری تین ابواب ( جو) همزة الوصل " " سے شروع ہوتے ہیں ) کے
( زیر
) بر قرار رہتی ہے لیکن عکلمہکی کسرہ ( زیر ) واپس آجاتی ہے ۔
ندکورہ بالا تجزیہ کا خلاصہ یہہے کہ علامت مضارع پر ضمه ( پیش ) صرف چار
حرفی ماضی کے مضارعپر آتی ہے جبکہ عکلمہ پر زبر صرف " ت " سے شروع ہونے
ابواب کے ماضی اور مضارع کے صیغوں کے اوزان یاد رکھنے میں آپکو بہت
۴۹ :یہ اہم باتبھی نوٹکرلیںکہ ثلاثی مجرد میںکوئی فعل خواہکسی باب سے
آئے یعنی اس کے ع کلے پر خواہکوئی حرکت ہو ،جب وہ ثلاثی مزید فیہ میں آئےگا تو
اس کے ع کلمے کی حرکت متعلقہ بابکے ماضی اور مضارع کے صیغوںکے وزنکے
مطابق ہوگی ۔ مثلاً ثلاثی مجرد میں سَمِعَ يَسْمَعُ آتا ہے لیکن یہی فعل جبباب
افتعال میں آئے گا تو اسکا ماضی اور مضارع اسْتَمَعَ يَسْتَمِعُ بنے گا ۔ اس طرح
وزن حمزہ سے شروع ہوتے ہیں ،ان کا مزہ دراصل حمزة الوصل ہوتا ہے ۔ اس
لئے پیچھے سے ملاکرپڑھتے وقت وہ تلفظ میں ساکت ہو جاتا ہے ۔ مثلاً افتعل سے
وَاشْتَعَلَيَا امْتَحَنَ سے وَامْتَحَنَ وغیرہ ۔ جبکہ باپافعالکا ہمزہ همزة الوصل نہیں
ہے ۔ اس لئے وہ پیچھے سے ملاکر پڑھتے وقت بھی بدستور قائم رہتا ہے ۔مثلاً افعل سے
وَافْعَلَ يَا أَحْسَنَ سے وَاَحْسَنَ وغیرہ ۔ اس طرح قائم رہنے والے ہمزہ کو " همزة
القطع ک
"ہتے ہیں ۔
۴۹یہ بھی نوٹکرلیں کہ ثلاثی مجرد میں فعل سے مصدر بنانے کاکوئی قاعدہ ۹
نہیں ہے یعنی کوئی مقررہ وزن نہیں ہے ۔ بس اہل زبان سے سن کریا ڈکشنری میں
دیکھکر ان کا مصدر معلومکیا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس مزید فیہکے ہر صیغہ ماضی اور
مضارع کے مقررکردہ وزنکی طرح اس کے مصدر کا بھی ایک مقرر وزن ہے اور
دیئے گئے ہیں ان میں یہ اضافہکر ۴۹ : ۱۰مصدر کے جو اوزان بطور " باب کا نام
لیجئےکہ درج ذیل دو ابواب کا مصدر دو طرح سے آتا ہے یعنی ایک اور وزن پر بھی
آتا ہے ۔ تاہم باب کا نام یہی رہتا ہے جو اوپر جدولمیں لکھاگیا ہے ۔ مصدروںکے
( ) 1باب تفعیلکا مصدرتَفْعِلَةٌ کے وزن پر بھی آتا ہے ۔ جیسے ذَكَرَ يُذَكِّرُ( یاد دلاتا )
) کا
سے مصدر تَذْكِیرٌ بھی ہے اور تَذْكِرَہبھی ہے ۔مگرجَرَّبَ يُجَرِّبُ (آزمانا
( ) ۲اسی طرح باب مُفَاعَلَة کا مصدر اکثرفِعَال کے وزن پر بھی آتا ہے مثلا جَاهَدَ
(آمنے سامنے ہونا ،مقابلہکرنا ) کا مصدرقبال استعمال نہیں ہو تا بلکہ مُقَابَلَةً ہی
استعمال ہوتاہے ۔
۴۹ : ۱۱ایک اور بات بھی ابھی سے ذہن میں رکھ لیجئے اگر چہ اس کے استعمال کا
موقعہ آگے چل کر آئےگا اور وہ یہ کہ اگر کسی فعل نے ماضی اور مضارع کا پہلا
صیغہ بولکر ساتھ مصدربھی بولنا ہو تو اس صورت میں مصدرکو حالت نصبمیں پڑھا
اور لکھا جاتا ہے مثلا کہیں.گے عَلَّمَ يُعَلِّمُ تَعْلِيمًا ۔ یہ صرف اسی صورت میں
ضروری ہے جب ماضی اور مضارع کا صیغہ بولکر ساتھ ہی مصدر بولا جائے ورنہ
سکھانا "کی عربی " تعلیم " ہی ہوگی ۔ نصبکی اس وجہ پر آگے مفعولکی بحث ویسے
مشقنمبر ( ۴۸الف)
مندرجہ ذیل مادوںکو قوسین میں دیئے گئے بابمیں ڈھالیں یعنی ہر ایک مادہ
سے دیئے گئے باب کے ماضی اور مضارع کا پہلا صیغہ لکھیں اور اس کا مصد ربحالت
نصبلکھیں :
(افعال
) خرج -ب ع د -رش د
(تَفَقُلْ
) ق رب -ق د س -ک ل م
لفاعل
) ف خ ر -ع ق ب -ك ث ر
) (
افتعال ن ش ر -ع رف -م ح ن
مندرجہ ذیل الفاظ کا مادہ اور باب بتائیں نیز یہ بھی بتائیں کہ وہ ماضی ہے یا
مضارع یا مصدر ۔ واضح رہے کہ ان میں سے بیشتر الفاظ کے معنی ابھی آپکو نہیں
بتائے گئے ۔کیونکہ یہاں یہ مشقکروانی مقصود ہے کہ اگرکسی لفظ کے معنی آپکو
معلوم نہیں ہیں تو ڈکشنری میں اس کے معنی دیکھنے کے لئے پہلے اس کا مادہ اور باب
گئی ہے ۔
دی
يُخْبِلُ يُحَرِّبُ
۱۰۲
ثلاثی مزید
ر فیه
ہ
( خصوصیات ابواب )
۵۰ : ۱مزید فیہ کے ابواب میں معنوی تبدیلیوں پر باتکرنے سے پہلے آپکو یہ
باتیاد دلانا ضروری ہےکہ زبانپہلے وجود میں آتی ہے اورقواعد بعد میں مرتب کئے
جاتے ہیں ۔ چنانچہ صحیح صور تحال یہ ہے کہ ابواب مزید فیہ میں جو معنوی تبدیلیاں
واقع ہوتی ہیں ان سبکو مد نظر رکھ کر ہمارے علماءکرام نے ہرباب کے لئے کچھ
کہتے ہیں ۔
ان میں سے ہر بابکی ایک سے زیادہ خصوصیات ہیں اور بعضکی خصوصیاتکی
خصوصیات ابواب کے لئے الگ ایک مستقل سبق ہوتا ہے ۔ ہماری اسکتابمیں
چونکہ یہ سبق شامل نہیں ہے اس لئے ضروری ہےکہ اس مقام پر ہربابکی ایک
کا باعث ہوتی ہے ۔ لیکن یہ باتکبھی نہ بھولیںکہ تمام خصوصیات کا ابھی آپکو علم
۵۰ : ۳باب افعال اور باب تفعیل دونوںکی ایک مشترکہ خصوصیتیہ ہےکہ
عام طور پر یہ فعل لازمکو متعدی کرتے ہیں ۔ جیسے عَلِمَ يَعْلَمُ عِلْمًا -جانا ایک
فعل لازم ہے ۔ باب افعال میں یہ أَعْلَمَ يُعْلِمُ اِغْلَامًا اور بابتفعیل میں عَلَّمَ
۱۰
يُعَلِّمُ تَعْلِيمًا بنتاہے ۔ دونوں کے معنی ہیں جانکاری دینا ،علم دینا اور اب یہ فعل
متعدی ہے ۔ چنانچہ دونوں ابواب کے زیادہ تر افعال متعدی ہیں ۔ اگرچہ کچھ استثناء
۵۰ : ۴البتہ باب افعال اور باب تفعیل میں ایک فرق یہ ہےکہ باب افعالمیں
کسی کامکو ایک مرتبہکرنے کا مفہوم ہوتا ہے ۔ جبکہ باب تفعیل میں عموماکًسی کامکو
درجہ بدرجہ اور تسلسل سے کرنے کا یاکثرت سے کرنے کا مفہوم ہوتا ہے ۔ جیسے
اعلام " نے آپ سے کسی جگہ کا پتہ پوچھا اور آپ نے اسبےتایا تو یہ ایک شخص
ہے ۔ لیکن کسی چیزکے متعلق معلومات جب درجہ بدرجہ اور تسلسل سے دی جائے تو
یہ" تعلیم"ہے ۔
سے زیادہ ہوں اور ایک دوسرےکو نیچا دکھانے کی کوششکر رہے ہوں ۔ جیسے قتل
يَقْتُلُ قَتلاً ۔ قتلکرنا ۔یہ ایک یک طرفہ عمل ہے ۔ لیکن قَاتَلَ يُقَاتِلُ مُقَاتَلَةً وَ
قتالاً کا مطلب ہےکہ کچھ لوگ ایک دوسرےکو قتلکرنے کی کوششکریں ۔ اس
۵۰ : ۲باب تفعل میں زیادہ تر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ تکلیف اٹھاکرکسی کامکو خود
کرنے کی کوششکرتا ۔ جیسے عَلِمَ يَعْلَمُ عِلْمًا -جانتا جبکہ تَعَلَّمَ يَتَعَلَّمُ تَعَلَّما کا
L
۵۰ :باب مفاعلہ کی طرحبا ت
بفاعل میں بھی زیادہتر یہی مفہوم ہوتاہےکہکسی
کام کو کرنے والے ایک سے زیادہ ہوں ۔ لیکن اس باب کے زیادہ تر افعال لازم
ہوتے ہیں ۔ جیسے فَخَرَ يَفْخَرُ فَخَرًا ۔فخرکرنا ہے تَفَاخَرَ يَتَفَاخَرُ تَفَاخُرًا كامطلب
جیسے سَمِعَ يَسْمَعُ سَمْعًا = نتاس اِسْتَمَعَ يَسْتَمِعُ اِسْتِمَاعًا کامطلبہے کان
لگا کر سننا ،غور سے سننا۔ اس سے میں لازم اور متعدی دونوں طرح کے افعال
آتے ہیں ۔
جیسے هَدَمَ يَهْدِمُ هَدْمًا -گزانا سے اِنْهَدَمَ يَنْهَدِمُ اِنْهِدَامًا کے معنی "گرنا " ہیں ۔
یا د رکھیںکہ جس طرح ابواب ثلاثی مجرد میں باب گرم لازمتھا اسی طرح ابواب مزید
۵۰ : ۱۰باب استفعال میں زیادہ تر کسی کامکو طلبکرنے یا کسی صفتکو موجود
مجھنے کا مفہوم ہوتاہے ۔ جیسے غَفَرَ يَغْفِرُ غُفْرَانًا ۔ چھپانا معافکرنا ( غلطی کو چھپا
دیتا ) سے اِسْتَغْفَرَ يَسْتَغْفِرُ اسْتِغْفَارًا -کا مطلب ہے معافی مانگنا مغفرت طلبکرنا
خوبصورت ہوتا ،اچھا ہونا سے اِسْتَحْسَنَ يَسْتَحْسِنُ اور حَسُنَ يَحْسُنُ حُسنا
اِسْتِحْسَانًا کا مطلب ہے اچھا سمجھنا۔ اس باب سے بھی لازم اور متعدی دونوں
۵۰ : ۱۱اب اس سبق کی آخری بات یہ سمجھ لیں کہ ضروری نہیں ہےکہکوئی سہ
حرفی مادہ مزید فیہ کے ہرباب میں استعمال ہو ۔ ایک مادہ مزید فیہ کےکنکن ابواب
سے استعمال ہوتا ہے اور انکی کن خصوصیات کے تحت اس میں کیا معنوی تبدیلی
ہوتی ہے ،اس کا علم ہمیں ڈکشنری سے ہی ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ ابواب مزید فیہ
کے اوزان یاد کئے بغیرکوئی طالب علم عربی لغت سے پوری طرح استفادہ نہیںکر
سکتا ۔
۱۰۵
مشقنمبر ۴۹
نیچے کچھ الفاظ کے معنی اس طرحلکھے گئے ہیں جیسے عمو ماڈکشنری میں لکھے جاتے
ہیں ۔ آپ کا کام یہ ہےکہ الگکاغذ پر ان کا ماضی ،مضارع اور مصدر لکھیں ۔ پھر
ان کے مصدری معنی لکھیں اور پھر اسی طرح انہیں یادکریں ۔ جیسے جَهَدَ يَجْهَدُ
دوسرے کے خلافکوشش کرنا وغیرہ ۔ یاد رہے کہ ان میں غالب اکثریت ایسے
= جھگڑاکرنا
- اختصم
-اہتمام سےکوششکرنا اجتهد
= =
-کسی چیزکوکسی کے پاسپہنچانا بلغ -کسی چیزکو کسی کے پاسپہنچانا ابلغ
= مددکرنا
نَصْرًا - نَصَرَ
(ن ) نُزُولاً -اترنا نَزَلَ(ض)
= بدلہ لینا اہتمام نسے خود اپنی مددکرنا) انْتَصَرَ = اتارنا نَزَّلَ
= مددمانگنا اسْتَنْصَر
= اترنا
- تَنَزَّلَ
1.4
کیگردانیں )
(ماضی مضارع
اب جبکہ آپمزید فیہکے آٹھ ابواب کے فعلماضی اور فعل مضارعکا پہلا ۵۱ : ۱
صیغہ بناناسیکھ گئے ہیں تو ضروری ہےکہ ہرباب کے ماضی اور مضارعکی مکملگردان
بھی سیکھ لیں ۔ سردست ہم ان ابواب سے فعل معروفکی گردانپر توجہ دیں گے ۔
واضح رہے کہ گزشتہ دو اسباق میں تمام افعالکی صرف معروف صورت ہیکی بات
کی گئی ہے ۔ آگے چلکر ان شاء اللہ ہم فعل مجمول ( مزید فیہ )کی بات الگسبق میں
کریں گے ۔
ہے ۔ البتہ جس طرح فعل مجرد میں گردان کے اندر "ع "کلمہ کی حرکتکو برقرار
رکھنے کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح مزید فیہ کیگردانوں میں بھی زائد
حروفکی حرکات اور " ع "کلمہکی حرکتکو پوریگردان میں برقرار رکھا جاتا ہے ۔
۵۱ : ۳اب ہم ذیل میں نمونے کے طور پر باب افعال کے فعلماضی اور مضارع
کی مکملگردان لکھ رہے ہیں ۔ اس مثالکو سامنے رکھتے ہوئے آپبقیہ ابواب کے
فعل ماضی اور مضارعکی مکملگردان خود لکھ سکتے ہیں ۔ نہ صرف یہکہ انہیں لکھ
لیں بلکہ انہیں با آواز بلند و ہرا دہرا کر اچھی طرحیادکر لیں ۔ اگر آپیہ محنتکرلیں
گے تو آئندہ جملوں میں استعمال ہونے والے مختلف افعال کے صحیح باباور صیغہکی
شناخت اور ان کے صحیح ترجمے میں آپکو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی
( ان شاء اللہ) ۔
102
تثنه واحد
۵۱اگر آپ نے باب افعال کے علاوہ بقیہ ابوابکی مکملگردانیں بھی لکھ کر :
۴
یادکرلی ہیں تو ابآپان کے متعلق مندرجہ ذیل باتیں اچھی طرح ذہن نشینکر
اور یہ بات ہم آپکو بتا چکے ہیں کہ باب افعالکا یہ ابتدائی حمزہ ،حمزة القطع
( )iiپہلے تینوں ابواب یعنی افعال تفعیل اور مفاعلة کے ماضی کے پہلے صیغے میں
دےگا ۔
( )iiiآخری تین ابواب یعنی افتعال انفعال اور استفعال کے ماضی کے تمام
( ) ivباب افتعال اور انفعال کے ماضی ،مضارع اور مصدر بہت ملتے جلتے ہیں بلکہ
بعض دفعہ تو دونوںہی " ان "کی آواز سے شروعہوتے ہیں اور ایسا اس وقت
ہوتا ہے جب باب افتعال میں " ف " کلمہ " ن " ہوتا ہے ۔ مثلاً اِنْتِظار
انكشاف الهدام وغیرہ بابانفعال کے مضاور ہیں ۔ دونوں میں پہنچان کا
عام قاعدہ یہ ہے کہ اگر " ان " کے بعد "ت " ہو تو نوے پچانوے فی صد دہ
باب افتعال ہو گا ۔ اور اگر " ان " کے بعد "ت " کے علاوہکوئی دوسرا حرف ہو
ذخیرہ الفاظ
-قریبآجاتا اقْتَرَبَ
عَلِمَ سے باب تفعیل اور تَفَعل میں اور نَصَرَ سے باباِسْتِفْعَال میں ماضی اور
مشقنمبر ( ۵۰ب )
( ) ۸يَكتُسِبُالزَّوْجُوَتُنْفِقُالرُّوجَةُ
مندرجہ بالا جملوںکے درج ذیل الفاظ کا مادہ "باباور صیغہ بتائیں ۔
( )xiتُنْفِقُ
ثلاثی مزید فیہ
( فعلامرونهی )
۵۲ : ۱اس سے پہلے آپ ثلاثی مجرد سے فعل امراور فعل نہی بنانے کے قاعدے
پڑھ چکے ہیں ۔ اب آپثلاثی مزید فیہ میں انہی قواعد کا اطلاقکریں گے ۔
۵۲ : ۲مثلاثی مجرد میں آپپڑھ چکے ہیں کہ فعل امر حاضراور فعل امرغائب ( جس
میں متکلم بھی شامل ہوتا ہے) دونوں کے بنانے کا طریقہ مختلف ہے جبکہ فعل نہی (حاضر
ہو یا غائب ) ایک ہی طریقے سے بنتا ہے ۔ یہی صورت حال ثلاثی مزید فیہ سے فعل امر
اور فعل نہی بنانے میں ہوگی ۔ نیزیہ بھی نوٹکرلیںکہ جس طرح ثلاثی مجرد میں فعل
امر اور فعل نمی فعل مضارع سے بنتا ہے اسی طرح ثلاثی مزید فیہ میں بھی فعل
کریں ۔
مثلاثی مجرد کی طرح مزید فیہ کے فعل مضارع سے علامت مضارع ( ت) () 1
ہٹا دیں ۔
ثلاثی مجرد میں علامت مضارع ہٹانے کے بعد مضارعکا پہلا حرفساکن آتا تھا () ii
لیکن مزید فیہ میں آپکو دیکھنا ہو گا کہ علامت مضارع ہٹانے کے بعد مضارع کا
علامت مضارع ہٹانے کے بعد مضارع کا پہلا حرف اگر متحرک ہے تو ممزة (ili
مذکورہ چار ابواب کے علاوہ باقی تمام ابواب میں ہو گا خواہ وہ مجرد ہویا مزید فیہ )
تو باب افتعال ،باب انفعال اور باب استفعال میں حمزة الوصل لگایا جائے گا۔
اور اسے کسرہ ( زیر ) دی جائے گی جبکہ باب افعال میں حمزۃ القطع لگایا جائے گا
اور اسے فتحہ ( زبر) دی جائےگی ۔ باب افعال کے فعل امرحاضرکی درج بالا
ثلاثی مجرد نہیکی طرح مزید فیہ میں بھی مضارع کے ” ل " کلمے مجزومکر دیئے ( )۷
جائیں گے ۔
۵۲ : ۴ہمیں قوی امید ہےکہ مذکورہ بالا طریقہ کارکا اطلاقکرتے ہوئے مزیدفیہ
کے ابواب سے فعل امر حاضراب آپ خود بنا سکتے ہیں ۔ لیکن آپکی سہولت کے
باب تفعیل کے ایک مصدر " تعلیم "کو لیجئے ۔ اس کا فعل مضارع " يُعَلِّمُ " () 1
پاس فعل امر کا پہلا صیغہ " علم " ہوگا ۔ اسی طرح تثنیہ کا صیغہ " عَلَمَا " جمع
تذكر كا " عَلِمُوا " واحد مونث کا علمی " اور جمع مؤنث کا " عَلَّمْنَ " ہوگا ۔
حاضرکا صیغہ " تَسْتَغْفِرُ " ہے ۔ اسکی علامت مضارعبنائی تو " مسْتَغْفِرُ " باقی
حمزہ لگایا جائے گا جو حمزة الوصل ہو گا اور اسے کسرہ ( زیر )دی جائےگی کیونکہ
یہ باب افعال نہیں ہے ) اب بن گیا " اسْتَغْفِرُ " ۔ پھرمضارعکو مجزومکیا تو لام
کلمه در ساکن ہوگئی ۔ چنانچہ فعل امر کا پہلا صیغہ " استغْفِرُ " بنگیا ۔ امر حاضر
۱۱۳
اسْتَغْفِرَا اِسْتَغْفِرْنَ
طرح ابواب مزید فیہ میں بھی علامت مضارعگرانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس
سے پہلے لام امرالِ الگاتے ہیں اور مضارعکو مجزومکردیا جاتا ہے ۔ مثلا باب افعالکا
ایک مصدر " اكْرَام " ہے ۔ اس کا مضارع " يُكرم " ہے ۔ اس سے قبل لام امرلگایا
لِيُكرم " بن گیا۔ پھر مضارعکو مجزومکیا تو لامکلمہ یعنی "م " ساکن ہوگیا۔ اس تو
طرح امرغائب کا پہلا صیغہ لیکرم بنا ۔ جبکہ باقی صیغے اس طرح ہوں گے ۔ لیکر ما
۵۲ :اس مقام پر ضروری ہے کہ لام کئی اور لام امرکا جو فرق آپ نے ثلاثی
مجرد میںپڑھا تھا اسے ذہن میں تازہکر لیں ۔ اس لئےکہ اسکا اطلاق ثلاثی مزید فیہ پر
سے ایک ہی طریقے سے بنتا ہے اور فعل امر کی طرح اس میں حاضر اور غائبکی
تفریق نہیں ہے ۔ فعل نہی مجرد سے ہو یا مزید فیہ سے اس کے بنانے کا طریقہ ایک ہی
ہے یعنی مضارعکی علامت مضارعکرائے بغیر اس کے شروع میں لائے نہی "لا "
بڑھا دیں اور مضارعکو مجزومکر دیں مثلا باب مفاعلہ کا ایک مصدر مُجَاهَدَةًہے ۔
اس کا مضارع " يُجَاهِدُ " ہے ۔ اس سے قبل " لا " لگایا تو " لا يُجَاهِدُ " بنگیا ۔ پھر
مضارعکو مجزومکیا تو اس کا لام کلمہ یعنی " د " ساکن ہوگیا ۔ اس طرح فعل نہی کا
پہلا صیغہ " لا يُجاهد " بن گیا ۔ ہمیں قوی امید ہےکہ بقیہ صیغے آپخود بنا لیں گے ۔
۵۲ :ثلاثی مجرد میں آپ لائے نفی اور لائے نہی کا فرقپڑھ چکے ہیں ۔ اس مقام
ᎢᏛ .
پر اسے بھی ذہن میں دوبارہ تازہکر لیں ۔ اس لئےکہ اس کا اطلاق ابواب مزید فیہ پر
ذخیرہ الفاظ
سَلِمَ(س) سَلَامَةً -آفت سے نجاپتانا سلامتی میں ہونا جنب(ن) جَنْبا -ہٹانا دورکرنا
-دورکرتا جَنَّبَ
= آفت سے بچانا سلامتی دینا سَلَّمَ
مشقنمبر ( ۵۱الف)
میں فعل امر ( غائب وحاضر)کی مکملگردان ہر صیغہ کے معنی کے ساتھ لکھیں ۔
( ) ١٠أَنَا أَتَعَلَّمُ الْعَرَبِي ( ) 9مَاذَا تَعَلَّمُ فِى الْمَدْرَسَةِ ؟ زَيْدٌ فِي الْمَدْرَسَةِ ؟
۱۱۵
نالْقُرْآنِ - -
ممِنَ
( )۱۵وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الرُّوْرِ ( ) ٢إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِيْنَ
( ) ۱۷وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ ( )۱۸يَأَيُّهَا النَّبِيُّ جَهِدِ
الْكُفَّارَ وَالْمُنْفِقِيْنَ-
مشق ( ۵۱ب
) میں استعمال ہونے والےتمام افعالذیل میں دیئے گئے ہیں۔
،نہی
( )iiiفعلکی قسم (ماضی ،مضارع امر ( )iماده ( )iiباب آپ ہر فعل کا
(فعلمجهول)
ہیں کہ مجمول فعلماضی بھی ہوتا ہے اور مضارع بھی ۔ اس لئے اس سبق میں ہم
۵۳ : ۲آپ نے فعل ثلاثی مجرد میں پڑھا تھاکہ وہاں ماضی معروف کے تین وزن
ہو سکتے ہیں یعنی فَعَلَ فَعِلَ اور فعلمگرماضی مجہول کا ایک ہی وزن ہوتا ہے یعنی
فُعِلَ ۔ اسی طرح مضارع معروف کے تین وزن ہو سکتے ہیں یعنی يَفْعَلُ ،يَفْعِلُ اور
يَفْعُلُمگر مضارع مجہول کا ایک ہی وزن ہوتا ہے یعنی يُفْعَلُ ۔ یہاں سے ہمیں ماضی
مجہول اور مضارع مجہول کا ایک اہم بنیادی قاعدہ معلوم ہوتا ہے جسے ہم مزید فیہ کے
۵۳ : ۳ماضی مجبول ( ثلاثی مجرد ) کے وزن فعل سے ہمیں مزید فیہ کے ماضی مجہول
بنانے کا بنیادی قاعدہ ملتہاے ۔ جس سے ہمیں پہلی باتیہ معلوم ہوتی ہے کہ ماضی
مجہولکا آخری حصہ ہمیشہ " عل " رہتا ہے ۔ یعنی " ع "کلمہپر کسرہ ( زیر ) اور ماضی کے
مجرد میں تو ایک ہی حرف یعنی "ف "کلمہ ہوتا ہے جس پر ضمہ ( پیش ) آتی ہے ۔ اس
سے یہ قاعدہ لکھتا ہےکہ مزید فیہ کے ماضی مجہول میں بھی آخری " عمل " سے پہلے جتنے
بھی متحرک حروفآئیں ( اصلی حرف " ف "کلمه یا زائد حروف) ان سبکی حرکات
ضمہ ( پیش ) میں بدل دی جائیں ۔ اس تبدیلیکے دوران درج ذیل دو باتوں کا خیال
رکھا جائےگا۔
116
ایک تو یہکہ جہاں جہاں حرکت کے بجائے علامت سکون ہو اسے برقرار رکھا ( )1
دوسرے یہ کہ جبباب مفاعلہ اور تفاعل میں " ف "کلمہکو ضمہ " پیش " ( )ii
لگانے کے بعد الف آئے تو چونکہ " فا "کو پڑھا نہیں جاسکتا لہذا یہاں " الف "
کی ماقبل حرکت ( پیش ) کے موافق حرف " و " میں بدلدیں ۔یوں"فا"
کو اس
(نوٹ )1 : قَاتَلَ سے قُوْتِل مُوْعِلَ // // فاعل // // // // //
تَعَاقَبَ سے تُمُوقِبَ (نوٹ )1 : تُفُوْعِلَ // // تفاعل // // // // //
یہ استعمال نہیں ہوتا ) (نوٹ )۲ : انْفُعِلَ انْفَعَلَ // // // // //
ے اسْتَحْكِمَ
- اِسسْْتتََححْْككَُم س اسْتَفْعَلَ جیسے اسْتَفْعَلَ // // // // //
نوٹ نمبرا :بابمُفاعلة اور باب تفاعلمیں نوٹکریںکہ ماضی مجہول بنانے
کے لئے ان دونوں کے صیغہ ماضی میں الف سے قبل ضمہ (پیش ) تھی چنانچہ الف
کی طرح اس سے بھی فعل ہمیشہ لازم آتاہے ۔ اس لئے باب انفعال سے فعل مجمول
۱۱۸
استعمال نہیں ہوتا ۔ البتہ ایک خاص ضرورت کے تحت باب انفعال کے مضارع
مجمول سے بعض الفاظ بنتے ہیں جن کا ذکر حصہ سوم میں ہوگا ( ان شاء اللہ )
۵۳ : ۲مضارع مجمول( ثلاثی مجرد ) کے وزن يُفعل سے ہمیں مزید فیہکے مضارع
مجهول بنانے کا درج ذیل بنیادی قاعدہ ملتا ہے جس میں تینباتیں ہیں :
پہلی یہکہ مضارع مجہولکا آخری حصہ ہمیشہ " عَل " رہتا ہے ۔ یعنی " ع "کلمہ پر () ۱
فتحه ( زیر ) اور مضارع کے پہلے صیغہ میں "ل "کلمہ پر ضمہ (پیش )آتی ہے ۔
اس کا ماضی مجہول کے آخری حصہ " عمل " سے مقابلہکیجئے اور فرق یاد رکھئے )
دوسری یہکہ مضارع مجمولمیں علامت مضارعپر ہمیشہ ضمہ ( پیش )آتی ہے ۔ () i
iiiتیسری یہکہ علامت مضارع اور آخری حصہ " عَل " کے درمیان آنے والے
( )
يَفْتَعِلُ / // // // //از
/
يَمْتَجِنُ سے يُمْتَحَنُ يُفْتَعَلْ // //
:
مكتبه خدام القرآن کےتحتشائع ہونے والی
گرامر ""آسانعربی
عربی گرامر
VCDs
مدرس :
صہ سوم
مرتبه
ال
فرحمنخان لط
مركز
گرامرربی
ن عآسا
حصہ سوم
مرتبه
الرحمنخان لطف
♡
35روپے قیمت
فہرست
اسماء مشتقه
اسماء مشتقه
اسم الفاعل
۱۳
اسم المفعول
۱۷
اسم الظرف
۳۰
اسم المبالغه
۳۴
اسم التفصيل ()1
۳۷
اسم التفصيل () ۲
۴۱
اسم الآله
۴۳
غیرصحیح افعال
۴۷ مهموز () ۱
ادغام کے قاعدے
مضاعف ()۲
۵۹
فک ادغام کے قاعدے
۶۳ ہم مخرج اور قریب الحرج حروف کے قواعد
مثال
۹۶ لفیف
سبق الاسباق
سماء مُشْتَقَه
۵۴اسکتاب کے حصہ دوم میں آپ نے مادہ اور وزن کے متعلق بنیادی بات ۱
طرح بنائے یہ سیکھی تھی کہ کسی دیئے ہوئے مادے سے مختلف اوزان پر الفاظکس
زیادہ استعمال جاتے ہیں ۔ پھر آپ نے ثلاثی مجرد کے چھ ابواب اور مزید فیہ کے
ہونے والے ) آٹھ ابواب سے درج ذیل افعال کے اوزان اور انہیں بنانے کے
طریقے سیکھے تھے ۔ ( ) ۱فعل ماضی معروف ( ) ۲فعل ماضی مجهول ( ) ۳فعل مضارع
۵۴ : ۲کسی مادے سے بننے والے افعالکی مذکورہ چھ صورتیں بنیادی ہیں ،جن
کی بناوٹ اورگردانوں کے سمجھ لینے سے عربی عبارتوں میں افعال کے مختلفصیغوں
کے استعمالکو پہچاننے اور ان کے معانی سمجھنےکی قابلیت پیدا ہوتی ہے ۔ آگے چلکر
ہم افعالکی بناوٹ اور ساخت کے بارے میں مزید باتیں بتدریج پڑھیں گے ،لیکن
سر دست ہم مادہ وزن اور فعل کے بارے میں ان حاصلکردہ معلوماتکو بعض
اسماء کی بناوٹ اور ساخت میں استعمالکرنا سیکھیں گے ۔ اس سلسلے میں متعلقہ قواعد
۵۴ : ۳کسی بھی مادہ سے بننے والے الفاظ ( افعال ہوں یا اسماء )کی تعداد ہمیشہ
یکساں نہیں ہوتی بلکہ اس کا دار ومدار اہل زبان کے استعمال پر ہے ۔ بعض مادوں
سے بہتکم الفاظ ( افعال ہوںیا اسماء ) بنتے یا استعمال ہوتے ہیں جبکہ بعض مادوں سے
استعمالہونے والے الفاظکی تعداد بیسیوںتک پہنچتی ہے ۔ پھر استعمال ہونے والے
الفاظکی بناوٹ بھی دو طرحکی ہوتی ہے ۔کچھ الفاظکسی قاعدے اور اصول کے تحت
بنتے ہیں ۔یعنی وہ تمام مادوں سے یکساں طریقے پر یعنی ایک مقررہ وزن پر بنائے جاسکتے
ہیں ۔ ایسے الفاظکو " مشتقات "کہتے ہیں ۔ جبکہ کچھ الفاظ ایسے ہیں جو کسی قاعدے
اور اصول کے تحت نہیں بنتے بلکہ اہل زبان انہیں جس طرح استعمالکرتے آئے
ہیں وہ اسی طرح استعمال ہوتے ہیں ۔ ایسے الفاظکو "ماخوذ "یا "جامد "کہتے ہیں ۔
کے مطابق عمل میں آتی ہے ۔ یا یوںکہہ لیجئے کہ افعالکی بناوٹ کے لحاظ سے عربی
زبان نهایت باضابطہ اور اصول و قواعد پر مبنی زبان ہے ۔ اس لئے عربی زبان کے
مشتقات ( یعنی مقررہ قواعد پر مبنی الفاظ ) میں افعالتو قریباً سبکے سبہی آجاتے
ہیں ۔ وہ بھی جو ہم ابتک پڑھ چکے ہیں اور وہ بھی جو ابھی آگے چلکر پڑھیں گے ۔
۵۴ : ۵مگر اسماء میں یہ بات نہیں ہے ۔ سینکڑوں اسماء ایسے ہیں جو کسی قاعدے
کے مطابق نہیں بنائے گئے ۔ بس یہ ہے کہ اہل زبان انکو اس طرح استعمالکرتے
ہیں ۔ مثلاً ان بے قاعدہ اسماء میں کسی " کام " کا نام بھی شامل ہے ،جسے مصدرکہتے
ہیں ۔ عربی میں فعل ثلاثی مجرد میں مصدرکسی قاعدے کے تحت نہیںبنتا ،مثلاً ضَرْبٌ
( مارنا ) ،ذَهَابٌ ( جانا ) ،طَلَب ( طلبکرنا یا تلاشکرنا ) غُفْرَانٌ (بخش دینا ) سُعَالٌ
قعود ( بیٹھ رہتا ) ،فسق ( نا فرمانی کرنا ،یہ سبعلی الترتیب فعل ضَرَبَ کھانستا
ذَهَبَ طَلَبَ غَفَرَ سَعَلَ ،قَعَدَ اور فَسَقَ کے مصادر ہیں ۔ آپ نے دیکھاکہ ان
۵۴ :مصادرکی طرح بے شمار اشخاص ،مقاماتاور دیگر اشیاء کے نام بھی کسی
قاعدہ اور اصول کے تحت نہیں آتے ۔ مثلاً " ملک" سے مَلِكٌ ( بادشاہ ) مَلَكَ
( فرشته ) " رجل " سے رَجُلٌ ( مرد ) رجلٌ ( ٹانگ ) اور " ج م ل " سے جَمَال
(خوبصورتی ) جَمَل ( اونٹ) وغیرہ ۔ ایسے تمام بے قاعدہ اسماء کا تعلق تو بہرحالکسی
نہکسی مادے سے ہی ہوتا ہے اور ان کے معانی ڈکشنریوں میں متعلقہ مادے کے تحت
ہی بیان کئے جاتے ہیں ،لیکن انکی بناوٹ میں کوئی یکساں اصول کارفرمادکھائی نہیں
بنائے جاتے ہیں ۔ یعنی کسی فعل سے ایک خاص مفہوم دینے والا اسم جس طریقے پر
اکتاہے ۔ اس قسم
بنتا ہے تمام مادوں سے وہ مفہوم دینے والا اسم اسی طریقے پر بنایا جس
الالة -بعض علماء صرف نے اسم الظرف کے دو حصے یعنی ظرف زمان اور ظرف
کہ بلحاظ معنی فرق کے باوجو د بلحاظ بناوٹ ظرف زمان و ظرف مکان ایک ہی شے
ہیں ۔ اسی طرح اسم KALATاللہ کو شامل کر کے اسماء مشتقہ کی تعداد آٹھ ( )۸بھی
بنا لیتے ہیں ،لیکن غور سے دیکھا جائےتو اسم مبالغہ بھی اسم صفت ہیکی ایک قسم ہے ۔
اس لئے ہم بنیادی طور پر مندرجہہےبالا چھ اقسامکو اسماء مشتقہ شمارکر کے انکی
اسم الفاعل " کے معنی ہوئے ۵۵ : ۱لفظ فاعل کے معنی ہیں "کرنے والا " ۔پس
"کسی کامکو کرنے والے کا مفہوم دینے والا اسم " ۔ اردو میں اسم الفاعلکی پہچان یا
اسے بنانے کا طریقہ یہ ہےکہ اردو کے مصدر کے بعد لفظ ” والا " بڑھا دیتے ہیں ۔
مثلاً لکھنا سے لکھنے والا اور بیچنساے بیچنے والا وغیرہ ۔ انگریزی میں عموماًVerbکی پہلی
شکل کے آخر میں ” ' erلگانے سے اسم الفاعل کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے ۔ مثلاً read
ثلاثی مجرد اور مزید فیہ سے اسم الفاعل بنانے کا طریقہ الگالگ ہے ۔
۵۵ : ۲ثلاثی مجرد سے اسم الفاعل بنانے کیلئے فعل ماضی کے پہلے صیغہ سے مادہ
معلومکرلیں اور پھر اسے " فاعل " کے وزن پر ڈھال لیں ۔ یہ اسم الفاعل ہو گا۔
جیسے ضَرَبَ سے ضَارِبٌ ( مارنے والا ) طَلَب سے طالب ( طلبکرنے والا ) ‘ غفر
ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی جمع سالم کے ساتھ جمعمکسربھی استعمال ہوتی ہے ۔ مثلا
كَافِرُ سے كَافِرُونَ اور کُفَّارٌ اور كَفَرَةٌ -يا طالب سے طَالِبُونَ اور طلاب اور
۵۵ : ۴یہ بات نوٹکرلیں کہ ثلاثی مجرد کے تمام ابواب سے اسم الفاعل مذکورہ
بالا قاعده یعنی فاعل کے وزن پر بنتا ہے ۔ مگر باب گرم سے اسم الفاعل مذکورہ
قاعدے کے مطابق نہیں بنتا ۔ باب گرم سے اسم الفاعل بنانے کا طریقہ مختلف ہے ،
جس کا ذکر آگے چلکر اسم الصفہ کے سبق میں بیان ہوگا ۔
۵۵ : ۵صاف ظاہر ہے کہ فاعلکے وزن پر اسم الفاعل صرف ثلاثی مجرد سے ہی
بن سکتا ہے کیونکہ اس کے فعل ماضی کا پہلا صیغہ مادہ کے تین حروف پر ہی مشتمل
ہوتا ہے ،جبکہ مزید فیہ کے فعل ماضی کے پہلے صیغہ میں ہی ” ف ع ل " کے ساتھ
کچھ حروفکا اضافہ ہو جاتاہے ۔ اس لئے مزید فیہ سے اسم الفاعلکسی مخصوص و زن
۵۵ : ۲ابواب مزید فیہ سے اسم الفاعل بنانے کیلئے ماضی کے بجائے فعل مضارع
کے پہلے صیغہ سے کام لیا جاتاہے اور اس کا طریقہ یہ ہےکہ :
علامت مضارع ( ی ) ہٹا کر اسکی جگہ ممضمومہ ( م) لگا دیں ۔ () ۱
اگر عین کلمہ پر فتحہ ( زبر) ہے ( جو باب تفعل اور تفاعلمیں ہوگی تو اسےکسرہ ()۲
( زیر ) میں بدل دیں ۔ باقی ابواب میں مینکلمہکی کسرہ بر قرار رہےگی ۔
( ) ۳لام کلمہ پر توین رفع ( دو پیش لگا دیں جو مختلف اعرابی حالتوں میں حسب
۵۵ : ۷مزید فیہ کے ہرباب سے بننے والے اسم الفاعل کا وزن اور ایکایک
مثالدرجذیل ہے ۔
اسی طرح
دوبارہ نوٹکرلیں کہ يَتَفَعَلُ اور يَتَفَاعَلُ ( مضارع) میں عینکلمہ مفتوح ( زبر
۵۵ :مذکورہ قاعدے کے مطابق مزید فیہ سے بننے والے اسم الفاعلکی نحوی
گردان بھی معمول کے مطابق ہوتی ہے اور اسکی جمع ہمیشہ جمع سالم ہی آتی ہے ۔
ذیل میں ہم باب افعال سے اسم الفاعلکی نحوی گردان بطور نمونہلکھ رہے ہیں ۔
باقی ابواب سے آپاسی طرح اسم الفاعلکی نحوی گردانکی مشقکرسکتے ہیں ۔
۵۵ : ۹ضروری ہے کہ آپ اسم الفاعل " اور " فاعل "کا فرق بھی سمجھ لیں ۔
فاعل ہمیشہ جملہ فعلیہ میں معلوم ہو سکتا ہے ،مثلا دَخَلَالرَّجُلُ الْبَيْتَ -یہاں الرَّجُلُ
فاعل ہے ،اس لئے حالت رفع میں ہے ۔ اگر الگالرَّجُلُلکھا ہو یعنی جملے کے بغیر تو
اسے فاعل نہیں کہہ سکتے لیکن جب ہم طالِبٌ ،عَالِمٌ سَارِقٌ (چوریکرنے والا )
وغیرہکہتے ہیں تو یہ اسم الفاعل ہیں ۔ یعنی ان میں متعلقہ کامکرنے والے کا مفہوم
ہوتا ہے ۔مگر جملے میں اسم الفاعل حسب موقع مرفوع منصوب یا مجرورآسکتا ہے ۔
ثلا ذَهَبَعَالِمٌ ۔ ( ایک عالم گیا ) یہاں عالم اسم الفاعل ہے اور جملے میں بطور فاعل
استعمال ہوا ہے ۔ اگر متُ عَالِمًا ( میں نے ایک عالم کی عزتکی ) یہاں عَالِمًا اسم
الفاعل تو ہے لیکن جملے میں بطور مفعول آیا ہے ،اس لئے منصوب ہے ۔ اسی طرح
كِتَابُ عَالِم ( ایک عالم کی کتاب ) یہاں عالم اسم الفاعل ہے ،لیکن مرکب اضافی
ذخیرہ الفاظ
طبَعَ (ف)طبعًا = تصویر بنا ،نقوش چھاپنا مہرلگانا۔ ( استفعال) = بڑائی چاہنا۔
(افعال
) -مرادپانا ( رکاوٹوںکو پھاڑتے ہوئے ) ۔ نَكِرَ(س)نگڑا = ناواقفہونا ۔
مندرجہ ذیل مادوں کے ساتھ دیئے گئے ابواب سے اسم الفاعلبناکر ہرایک
( ) iiاسم الفاعلکی اعرابی حالت اور اسکی وجہ باب اور صیغہ ( عد دو جنس) بتائیں
( )۱وَمَا اللَّهُبِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ( )۳رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً
مُسْلِمَةً لَّكَ ( ) ۳فَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنكِرَةً وَهُمْ مُّسْتَكْبِرُونَ
( )٣وَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنْفِقِينَ ( ) ٥كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى
كُل قَلْبِ مُتَكَتِرٍ جَبَّارٍ ( ) 1أَلَا إِنَّحِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ( ع ) وَاللهُ يَشْهَدُ
اِسمُ المَفعُول
۵۶ : ۱:اسم المفعول ایسے اسمکو کہتے ہیں جس میں کسی پر کام کے ہونے کا مفہوم
ہو ۔ اردو میں اسم المفعول عموماً ماضی معروف کے بعد لفظ "".ہوا "کا اضافہکر کے بنا
لیتے ہیں ،مثلاً کھولا ہوا سمجھا ہوا مارا ہوا وغیرہ ۔ انگریزی میں Verbکی تیسری شکل
( taughtپڑھایا ہوا ) ( writtenلکھا ہوا ) وغیرہ ۔ عربی میں فعل ثلاثی مجرد سے اسم
المفعول مَفْعُول " کے وزن پر بنتاہے ۔ مثلا ضَرَبَ سے مَضْرُوبٌ (مارا ہوا ) ،قَتَلَ
سے مقتول (قتلکیا ہوا ) اور کتب سے مَكْتُوبُ (لکھا ہوا ) وغیرہ ۔
مؤنث واحد
مَفْعُوْلَةٍ مَفْعُوْلَةً مَفْعُوْلَةٌ
۵۶ : ۳ابواب مزید فیہ سے اسم المفعول بنانے کا آسان طریقہ یہ ہےکہ پہلے اس
سے اسم الفاعل بنالیں جس کا طریقہ آپگزشتہ سبق میں سیکھ چکے ہیں ۔ اب اس کے
عین کلمہکی کسرہ ( زیر )کو فتحہ ( زبر ) سے بدل دیں ،مثلاً مُكْرِم سے مُكْرَم مُعَلِّم
۱۴
مزید فیہ کے اسم المفعولکی نحوی گردان اسم الفاعل کی طرح ہوگی اور فرق
صرف عینکلمہکی حرکتکا ہوگا ۔یہ بھی نوٹکرلیںکہ ابواب ثلاثی مجرد اور مزید فیہ
کے اسم المفعولکی جمع مذکر اور مونث دونوںکیلئے بالعموم جمع سالم ہی استعمال ہوتی
ہے ۔
۵۶ : ۴یہ بات بھی ذہن نشینکرلیںکہ اسم المفعول صرف متعدی افعال سے بنتا
ہے ۔ فعل لازم سے نہ فعل مجمول (ماضی یا مضارع) بنتا ہے اور نہ ہی اسم المفعول ۔
ثلاثی مجرد کا بابگرم اور مزید فیہ کا باب اِنْفِعَال ایسے ابواب ہیں کہ ان سے ہمیشہ
فعل لازم ہی استعمال ہوتاہے ۔ اس لئے ان دونوں ابواب سے اسم المفعولکا صیغہ
نہیں بنتا ۔ ثلاثی مجرد اور مزید فیہ کے باقی ابواب سے فعل لازم اور متعدی دونوں
طرح کے افعال استعمال ہوتے ہیں ۔ اس لئے ان ابواب سے استعمال ہونے والے
۵۶ : ۵یہاں اسم المفعول اور مفعول کا فرق بھی سمجھ لیجئے ۔ مفعول صرف جملہ
فعلیہ میں معلوم ہو سکتاہے ،لا فَتَحَالرَّجُلُبَابًا ( مرد نے ایک دروازہکھولا ) میں بابا
مفعول ہے ۔ اور اسی لئے حالت نصبمیں ہے ۔ اگر الگلفظ بابلکھا ہو تو وہ نہ تو
فاعل ہے نہ مفعول اور نہ ہی مبتدا یا خبر۔ لیکن اگر لفظ مَفْتُوحُلکھا ہو تو یہ ایک اسم
المفعول ہے جو کسی جملے میں استعمال ہونے کی نوعیت سے مرفوع منصوبیا مجرور
ہو سکتا ہے ،مثلا الْبَابُ مَفْتُوحٌ ( دروازہ کھلا ہوا ہے ) یہاں مَفْتُوحٌدراصلالْبَابُ
کی خبر ہونےکی وجہ سے مرفوع ہے ۔ اسی طرح لَيْسَ الْبَابُ مَفْتُوحًا يَا لَيْسَالْبَابُ
بِمَفْتُوح ۔ اسکے علاوہ اسم المفعول جملے میں فاعل یا مفعول ہو کر بھی آسکتا ہے ،مثلاً
جَلَسَالْمَظْلُومُ ( مظلوم بیٹھا ) یہاں اَلْمَظْلُوم اسم المفعول ہے لیکن جملے میں بطور
فاعل کے استعمال ہوا ہے اس لئے مرفوع ہے ۔ اسی طرح نَصَرْتُ مَظْلُومًا ) میں نے
یہاں مظلوم اسم المفعول بھی ہے اور جملہ میں ابطور مفعول ایک مظلومکی مددکی
استعمالہونےکی وجہ سے منصوب ہے ۔
۵۶ : ۶الغرض اسم الفاعل اور فاعل نیز اسم المفعولاور مفعولکا فرق اچھی طرح
سمجھ لینا چاہئے ۔ فاعل ہمیشہ مرفوع ہوتا ہے اور مفعول ہمیشہ منصوب ہوتا ہے ،جبکہ
اسم الفاعل اور اسم المفعول جملے میں حسب موقع مرفوع منصوب یا مجرور متینوں
ذخیرہ الفاظ
رَسِل()
س رَسَلاً = نرم رفتار ہونا بَعَثَ(ف
)بَعْنا = بھیجنا ،اٹھانا دوبارہ زندہکرنا
سَخَرَاف) سُخْرِيّا -مغلوبکرنا کسی سےبیگارلینا (افعال) = چھوڑنا بھیجنا (پیغام دےکر )
= حكم
أمر- ک)گرما = بزرگہونا معزز ہوناگرم (
= پل
لمران الْمَارُ لَمَرَاتٌ - (افعال ) = تعظیمکرنا
مندرجہ ذیل مادوں کے ساتھ دیئے گئے ابواب سے اسم المفعولبناکر ہرایک
کی نحویگردانکریں ۔
تـفعیل )
ا ۔ب ع ث ( ف ) ۔ ۲رس ل ( افعال ) - ۳ن زل ( ف(
۱۶
مندرجہ ذیل قرآنی عبارتوں میں ) 1( :اسم المفعول شناختکر کے انکا مادہ
( ) ۳يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلَ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِ ( )1وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ
( )۳قَالَ انْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ -قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ ( ) ۳فَاوُلئِكَ فِي
(ع ) هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ فَوَاكِهُ وَهُمْ مُّكْرَمُونَ
م الظرف
اس
۵۷ : ۱ظرف کے لغوی معنی ہیں برتن یا بوری وغیرہ ،یعنی جس میںکوئی چیز رکھی
جائے ۔ عربی میں لفافےکو بھی ظرف کہہ دیتے ہیں اور اسکی جمع ظروف کے معنی
موافق اور ناموافق حالات کے بھی ہوتے ہیں ۔ علم النحو کی اصطلاح میں اسم
الظرف کا مطلب ہے ایسا اسم مشتق جوکسی کام کے ہونے یا کرنے کا وقت یا اسکی
جگہ کا مفہوم رکھتا ہو ۔ اس لئے ظرف کی دو قسمیں بیانکی جاتی ہیں ۔ ایک ظرف
زمان جو کام کے وقت اور زمانہ کو ظاہرکرے اور دوسری ظرف مکان جو کامکرنے
کی جگہ کا مفہوم دے ۔ لیکن جہاںتک اسم الظرفکے لفظ کی ساختیعنی وزنکا
۵۷ : ۲فعل ثلاثی مجرد سے اسم الظرف بنانے کے لئے دو وزن استعمال ہوتے
ہیں ،ایک مَفْعَل اور دوسرا مَفْعِل -مضارع مضموم العین یعنی باب نَصَرَ اور كَرُمَ
اور مفتوح العین یعنی باب فتح اور سَمِعَ سے اسم الظرف عام طور پر مَفْعَلکے
وزن پر بنتا ہے ،جبکہ مضارعمکسور العین یعنی بابضَرَبَ اور حَسِبَ سے اسم
ہیں جو خلاف قاعدہ مَفْعَلکی بجائے مَفْعِل کے وزن پر استعمال ہوتے ہیں ۔ مثلاً
غَرَبَ يَغْرُبُ سے مَغْرَبکی بجائے مَغرِب اسی طرح مَشْرَقٌکی بجائے مَشْرِقُ
الظرف بھی جائز ہے ،یعنی مغرب اور مسجد بھی کہہ سکتے ہیں تاہم فصیح اور عمدہ
مَفْعَلَةٌ کے وزن پر آتا ہے ۔ لیکن یہ وزن صرف ظرف مکان کے لئے استعمالہو تا
ہے ،مثلا مَدْرَسَةٌ (سبق لینے یا دینے کی جگہ )مطبعَةُ (چھاپنےکی جگہ ) وغیرہ ۔
بنائے گئے اسم المفعولکو ہی اسم الظرف کے طور پر استعمالکیا جاتا ہے ۔ اسی وجہ
اور اس کے معنی یہ بھی ہیں سے مُمْتَحن کے معنی یہ بھی ہیں " جسکا امتحان لیا گیا
۔ اس قسم کے الفاظ کے اسم المفعول یا اسم الظرف ہونے " امتحان کی جگہ یا وقت
۵۷ : ۷باب افعال اور ثلاثی مجرد کے اسم الظرف میں تقریباً مشابہت ہو جاتی
ہے ۔ اور صرف میم کی فتحہ اور ضمہ کا فرق باقی رہ جاتا ہے ،مثلاً مخرج ثلاثی سے
ہے ،اس کے معنی ہیں نکلنےکی جگہ ،جبکہ مخرج باب افعال سے ہے اور اس کے معنی
ہیں نکالنےکی جگہ ۔ اسی طرح مَدْخَل داخل ہونے کی جگہ اور مذ محل داخلکرنے
۵۷ :آپکو بتایاگیا تھا کہ باب انفعال سے آنے والے افعال ہمیشہ لازم ہوتے
ہیں ،اس لئے ان سے فعل مجہول یا اسم مفعول نہیں بن سکتا لیکن اس باب سے اسم
انْحَرفَ کے معنی ہیں مڑ جانا ،جس کا اسم المفعول مُنْحَرَف بنے گا ،جس کے معنی
ہوں گے مڑنے کی جگہ یا وقت ،مگر اس سے اسم المفعول کا کام نہیں لیا جا سکتا ۔ یہ
بات بھی ذہن نشینکرلیںکہ مزید فیہ کے ابواب سے اسم المفعولکو جب اسم
الظرف کے طور پر استعمالکرتے ہیں تو اسکی جمع ،جمع مؤنث سالم کی طرح آتی ہے ،
19
۵۷ : ۹یاد رکھئےکہ اسم الظرف میں کسی جگہ یا وقت کے تصور کے ساتھ ساتھ
کسی کام کے کرنے یا ہونے کا مفہوم ضرور شامل ہوتاہے ۔ لیکن کچھ الفاظ ایسے ہیں
جن میں وقت یا جگہ کا تصور تو ہوتاہے مگر اسوقت یا جگہ میں کسی کام کے کرنے یا
ذخیرہالفاظ
نَمْلَةٌ (ج نَمل
) چیونٹی ۔ رَجَعَ (ض) رُجُوعًا = واپس جانا لوٹآنا ۔
= ٹکنا ہٹ جاتا ۔
برح(س)بَرَاحًا- -
مشق نمبر۵۵
مندرجہ ذیل قرآنی عبارتوں میں )i ( :اسم الظرف شناختکر کے انکا مادہ
اور باب بتائیں ( )iاسم الظرفکی اعرابی حالت اوراسکی وجہ بتائیں ()iiمکمل
( )۳إِلَى اللَّهِ ( ) ۳وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّمَرْصَدٍ ( ) ١قَدْ عَلِمَ كُلُّ أَنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ
( ) ٢قَالَتْ نَمْلَةٌ يَأَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسْكِنَكُمْ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا
( ) ۹رَبُّ ( )۸مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا ( )۷لَقَدْ كَانَ لِسَيَا فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ
( )1إِذَا قِيْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِيالْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا ( )۱۴سَلْمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ
الْفَجْرِ
۲۱
قسمیں پڑھی تھیں ،ایکاسم ذات جو کسی جانداریا بے جان چیزکی جنس کا نام ہو جیسے
إِنْسَانُ فَرَسٌ ججز اور دوسری اسم صفت جو کسی چیزکی صفتکو ظاہرکرے
نام ہوتے ہیں ،جیسے بَيْتُ رَجُلٌ رِيحٌ وغیرہ اورکبھی وہ جو اس کے بجائے عقل سے
کبھی جانے والی یعنی ذہنی چیزوں کے نام ہوتے ہیں ،جیسے بُخل (کنجوسی ) شَجَاعَةٌ
( بهادری ) وغیرہ ۔ ذہنی چیزوں کے نامکو اسماء المعانی بھی کہتے ہیں ۔ اب یہ بات
نوٹکرلیں کہ اسمائے ذات اور اسماء المعانی صفت کا کام نہیں دےسکتے البتہ بوقت
۵۸ : ۳اسم المعانی اور صفتمیں جو فرق ہوتا ہے وہ ذہن میں واضح ہونا ضروری
ہے ۔ اس فرقکو آپ اردو الفاظ کے حوالے سے نسبتاً آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ۔
"کنجوسی " اسم المعانی ہے اور کنجوس " صفت ہے ۔ جیسے کنجوس ہونا " مصدر ہے
اسی طرح ”بہادر ہونا " مصدر ہے ” بہادری " اسم المعانی ہے اور " بہادر " صفت
اس فرقکو بھی نوٹکر لیا جائے اور ترجمہکرتے وقت اس کا لحاظ رکھا جائے ۔ اب یہ
نوٹکرلیںکہ اسم صفت ضرورتپڑنے پر کسی اسم ذاتیا اسم معافی کی صفتکے
طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں اورکسی موصوف کے بغیر جملہ میں ان کے اور بھی
مختلف استعمالہیں ۔
ایک ہی مقرر وزن ہے اور اسی طرح مزید فیہ سے انکو بنانے کا بھی ایک قاعدہ مقرر
ہے ۔ البتہ اسم الطرف بنانے کے لئے آپ نے تین مختلفو زن پڑھے ہیں ۔ اب یہ
نوٹکرلیںکہ اسم صفت کے اوزان زیادہ ہیں اور ان کا کوئی قاعدہ بھی مقرر نہیں
کسی فعل سے بننے والے اسماء صفت معلومکرنے کے لئے ہمیں ڈکشنری دیکھنا ہوتی
کہ اسم الفاعل اور اسم المفعول دونوں جملے میں کبھی فاعل اور کبھی مفعول بن کر
آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے اور بھی استعمال ہیں ۔ مثلا یہ مبتدا اور خبربھی بنتے ۔
( اسم المفعول) دونوں مبتداء ہیں ۔ یا الرَّجُلُ ظَالِم اور اَلرَّجُلُ مَظْلُومٌ ۔ یہاں اسم
الفاعل اور اسم المفعول دونوں خبرہیں ۔ اسی طرح یہ صفت کے طور پر بھی استعمال
ہوتے ہیں ۔ جیسے رَجُلٌظَالِمٌ اور رَجُلٌ مَظْلُوم ۔ یہ دونوں مرکبتوصیفی ہیں ۔
یہاں اسم الفاعل اور اسم المفعول رَجُلٌکی صفت ہیں ۔ اس لئے ڈکشنری میںکسی
فعلکی صفت اگر فَاعِلیا مَفْعُولکے وزن پر نظرآئےتو پریشان ہونے کیکوشش نہ
کریں ۔
۵۸ :فَعِیل کے وزنپر بھی کافی اسماء صفت استعمال ہوتے ہیں ۔ اس کے متعلق
ذہن نشین کرلیں کہ ( ) 1فَعِیل کے وزن پر اسماء صفت عام طور پر ثلاثی مجرد کے
افعال لازم سے استعمال ہوتے ہیں ،جبکہ افعال متعدی سے اس کا استعمال بہت ہیکم
کیونکہ بابگرم سے آنے والے تمام افعال اور باب سَمِعَ سے اکثر افعال لازم
ہوتے ہیں ۔ استثنائی صورت میں دوسرے ابواب سے چند صفات فَعِیل کے وزن پر
۲۲
ایک ہی مقرر وزن ہے اور اسی طرح مزید فیہ سے انکو بنانے کا بھی ایک قاعدہ مقرر
ہے ۔ البتہ اسم الطرف بنانے کے لئے آپ نے تین مختلفوزنپڑھے ہیں ۔ اب یہ
نوٹکرلیںکہ اسم صفت کے اوزان زیادہ ہیں اور ان کاکوئی قاعدہ بھی مقرر نہیں
کسی فعل سے بننے والے اسماء صفت معلوم کرنے کے لئے ہمیں ڈکشنری دیکھنا ہوتی
۵۸ : ۵گزشتہ اسباق کے پیرا گراف ۱۵۵ : ۹اور ۵۶ : ۵میں آپدیکھ چکے ہیں
کہ اسم الفاعل اور اسم المفعول دونوں جملے میںکبھی فاعل اور کبھی مفعول بن کر
آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے اور بھی استعمال ہیں ۔ مثلا یہ مبتدا اور خبربھی بنتے ۔
جیسے الظَّالِمُ قَبِيْح اور الْمَظْلُومُ جَمِيلٌ -یہاں اَلظَّالِمُ ( اسم الفاعل ) اور الْمَظْلُومُ
( اسم المفعول ) دونوں مبتداء ہیں ۔یا الرَّجُلُ ظَالِم اور الرَّجُلُ مَظْلُوم ۔ یہاں اسم
الفاعل اور اسم المفعول دونوں خبر ہیں ۔ اسی طرحیہ صفت کے طور پر بھی استعمال
ہوتے ہیں ۔ جیسے رَجُلٌظَالِم اور رَجُلٌ مَظْلُوم ۔ یہ دونوں مرکبتوصیفی ہیں ۔
یہاں اسم الفاعل اور اسم المفعول رَجُلٌکی صفت ہیں ۔ اس لئے ڈکشنری میںکسی
فعلکی صفت اگر فَاعِلیا مَفْعُول کے وزنپر نظرآئےتو پریشان ہونے کی کوشش نہ
کریں ۔
۵۸ :فَعِیل کے وزنپر بھی کافی اسماء صفت استعمال ہوتے ہیں ۔ اس کے متعلق
( ) ۱فَعِیل کے وزن پر اسماء صفت عام طور پر ثلاثی مجرد کے ذہن نشین کرلیں کہ
افعاللازم سے استعمال ہوتے ہیں ،جبکہ افعال متعدی سے اس کا استعمال بہت ہیکم
کیونکہ بابگرم سے آنے والے تمام افعال اور باب سَمِعَ سے اکثر افعال لازم
ہوتے ہیں ۔ استثنائی صورت میں دوسرے ابواب سے چند صفات فَعِیلکے وزن پر
۲۴
ذخیرہ الفاظ
بَشَرَ (ن) بَشَرًا -کھال چھیلنا ۔کھالظاہرکرنا۔ خَدَع(ف) خَدْعا = وهو كاوينا
۔
نذَرَ(ض) نَذرًا -نذرماننا (استفعال) -کمزورخیاکلرنا ۔
( ) 1إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ ( ) ۳وَاذْكُرُوا إِذْ اَنْتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ
( ) ٢إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌبِمَا تَعْمَلُونَ ( )۷إِنَّكُمْ مَبْعُوثُونَ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ آسِفًا
مذکورہ بالا مشق میں استعمال کئے گئے مندرجہ ذیل اسماء کا مادہ باب اور صیغہ
عد دو جنس ) بتا ئیں ۔نیزیہ بتائیںکہ یہ اسماء مشتقہ میں سے کون سے اسم ہیں ۔
ضروریہدایات .
جو طلبہ قواعد کو خوب اچھی طرحیادکر لیتے ہیں اور امتحان میں زیادہنمبر لے کر
سند حاصلکر لیتے ہیں ،وہ بھی کچھ عرصہ کے بعد قواعد بھول جاتے ہیں ۔ یہ ایک نارمل
صورت حال ہے ۔ آدمی زیادہ ذہین ہویا کم ذہین ہو ،ہر ایک کے ساتھ یہی ہوتہ
اے ۔
ہم لوگ چودہ سال یا سولہ سالتک انگریزی پڑھتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں جو
جاتے ہیں جہاں انگریزی سے زیادہ واسطہ نہیں پڑتا ،انکی رہی سہی استعداد بھی
جاتی رہتی ہے ۔ جن لوگوںکو دفتر میں صبح سے شام تک انگریزی میں ہی سارا کام کرنا
ہوتا ہے انکو بھی دیکھاہےکہ جب انگریزی میں کچھ لکھنا ہوتا ہے تو کچی پینسل سے
لکھتے اور ربڑ سے مٹاتے رہتے ہیں ۔گرامر کیکتابیں اور ڈکشنریاںساتھ ہوتی ہیں ۔
اس طرح چند سالکی محنت کے بعد انہیں انگریزی لکھنے کا محاورہ ہوتا ہے ۔ البتہ
انگریزی پڑھ کر سمجھنا ان کے لئے نسبتاً آسان ہوتا ہے لیکن ڈکشنری دیکھنے کی
ضرورتپھربھی ہوتی ہے ۔
ڈکشنری کی مدد سے انگریزی پڑھنے کے لئے محاورہ حاصل نہیں کر سکتا ۔ انگریزی
۲۶
اسی طرحعربی قواعد سمجھ کے اور اسکی کچھ مشقیں کر کے ،اگر آپانہیں
بھول جاتے ہیں تو آپکی محنت را نگاں نہیں جائےگی ۔ قرآن مجید کا مطالعہکرتے
ہوئےکسی لفظ کی ساختکو سمجھنے کے لئے ضروری قاعدہ اگریاد نہ بھی آئے تببھی
آپکا ذہن یہ ضروربتائے گاکہ متعلقہ قاعدہکتاب میں کہاں ملےگا ۔ وہ قاعدہ آپکا
سمجھا ہوا ہے ،صرف ایک نظر ڈالکر اسے مستحضرکرنے کی ضرورت ہو گی ۔کسی لفظ
کے معنی اگر بھول گئے ہیں تو ڈکشنری سے دیکھ سکتے ہیں ۔
اس طرح مطالعہ قرآن حکیم کے دوران قواعد اور ذخیرہ الفاظ کا اعادہ ہوتا
رہے گا اور صرف دویا تین پاروں کے مطالعہ سے ان شاء اللہ آپکو یہ محاورہ ہو
جائے گا کہ آپ قرآن مجید سنیں یا پڑھیں تو ترجمہ کے بغیر اس کا مطلب اور مفہوم
نصب
ہیں . ( )1واحد مذکر کا وزن افعَلُ اور واحد مونث کا وزن فَعْلَاءُ دونوں غیرمنصرف
( )iiجمع مذکر اور جمع مونث دونوں کا ایک ہی وزن ہے یعنی فعل اور یہ معرب ہے
iiiواحد مونث فَعْلَاءُ سے تثنیہ بناتے وقت ہمزہکو داد سے تبدیلکر دیتے ہیں ۔
( )
فعلا ء کا وزن ہے ۔ اس وقت چونکہ آپ نے اوزان نہیں پڑھے تھے اس لئے الف
محدوده یا فعلا ء کے وزن والے الفاظکی نحویگردان نہیںکرائی گئی تھی ۔ لیکن اب
ذخیرہالفاظ
ض نَزْعًا ک
-ھینچ نکالنا۔ ) نوع(
مندرجہ ذیل افعال سے انکی صفت ( الوان وعیوب) بناکر ہر ایککی نحوی
گردانکریں ۔
( ) ۱بَهِيمَ -گونگا ہونا ( ) ۲خَضِرَ -سبز ہونا ( )۳حَوِر -آنکھ کی سفیدی اور
(۵ ۷ب )
مشق نمبر
مندرجہ ذیل قرآنی عبارتوں میں ) 1 ( :صفت الوان وعیوب تلاشکر کے ان
( ) ۱وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ اَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُعَلَى شَيْءٍ ( )۳وَنَحْشُرُ
الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا ( ) ۳الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا
للنظرِينَ
اسم المُبالغه
ہم نے انکی چھ اقسام :اسم الفاعل ،اسم المفعول اسم الظرف اسم الصفه
اسم التفصیل اور اسم الالہ کا ذکرکیا تھا جن میں سے ابتک ہم چار کے متعلق
کچھ پڑھ چکے ہیں ۔ وہاں ہم نے یہ بھی بیانکیا تھاکہ بعض حضرات اسم المبالغہکو بھی
مشتقات میں شمارکرتے ہیں ۔ تاہم اسم المبالغہ چونکہ ایک طرح سے اسم الصفہ بھی
ہے اس لئے ہم نے اسے مشتقاتکی الگ مستقل قسم شمار نہیںکیا تھا ۔ البتہ مناسب
معلوم ہوتا ہےکہ یہاں اسم المبالغہ پر بھی کچھ باتکرلی جائے ۔
۶۰ : ۲اب یہ بات سمجھ لیجئےکہ اسم المبالغہ میں بھی زیادہ تر "کامکرنے والا "کا
ہی مفہوم ہوتا ہے ۔ البتہ فرق یہ ہے کہ یہ مفہوم مبالغہ یعنی کام کی کثرت اور زیادتی
کے معنی کے ساتھ ہوتا ہے ۔مثلا ضرب ( مارنا ) سے اسم الفاعل " ضارب "کے معنی
جبکہ اس سے اسم المبالغہ " ضَراب " کے معنی ہوں گے ہوں گے ”مارنے والا
۶۰ : ۳اسماء صفتکی طرح اسم المبالغہ کے اوزان بھی متعدد ہیں ۔ اور قیاس
( مقررہ قواعد ) سے زیادہ اس میں بھی سماع ( اہل زبان سے سننا ) پر انحصاکریا جاتا ہے ۔
تا ہم اس کے تین اوزانکا تعارفہم کرا دیتے جو کہ زیادہ استعمال ہوتے ہیں ۔
کا مفہوم ہوتا ہے ۔ جیسے غفار ( بار بار بخشنے والا ) ۔کسی کاریگری یا کاروبار کے پیشہ
ورانہ ناموں کے لئے بھی زیادہ تر یہی وزن استعمال ہوتا ہے ۔ مثلا خباز ( بار بار
وغیرہ ۔
۳۱
۲۰ : ۵فَعُول بھی مبالغہ کا وزن ہے ۔ اس میں یہ مفہوم ہوتا ہےکہ جببھی کوئی
کام کرے تو خوب دلکھولکرکرے ۔ جیسے صَبور ( بہت زیادہ صبرکرنے والا ) ۔
ہے ۔ جیسے عطش ( پیاسا ہونا ) سے عطشان ( بے انتہا پا سا ) گسل ( ست ہونا ) سے
مؤنث دونوںکی جمع فِعال یا فعالی کے وزن پر آتی ہے ۔مثلا عطش ( پیاسا ہونا)سے
غضب غضبناکہونا )سے غَضْبَانُکی مؤنث غصبی اور دونوںکی جمع غِضَابٌ
سکرا ہوش ہونا ) سے سکرانکی مؤنث سکری اور دونوںکی جمع شکاری
کسل (ست ہونا )سے گسلانکی مؤنث گسلی اور دونوںکی جمع کسانی وغیرہ ۔
۶۰ :یہ باتبھی نوٹکرلیںکہ فَعْلانُ ( غیر منصرف )کبھی فعلان ( معرب) بھی
استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے تعبان ( تھکا ماندہ ) ۔ ایسی صورتمیں اسکی مؤنث " "لگا کر
بتاتے ہیں جیسے تَعْبَانَةٌ ۔ نیز ایسی صورت میں مذکر اور مؤنث دونوںکی جمع سالم
۶۰ :فَعُول اور فَعِیل میں کبھی " " لگا کر مؤنث بنائے ہیں اورکبھی مذکر کا ہی
صیغہ مؤنث کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس کا قاعدہ سمجھ لیں ۔ فَعُول اگر ہمعنی
مفعول ہو تب اس کے مذکر اور مؤنث میں " " لگا کر فرق کرتے ہیں ۔ مثلاً جَمَلٌ
حمول ( ایک بہت لاداگیا اونٹ) اور نَاقَةٌ حَمُولَةٌ ( ایک بہت لادیگئی اونٹنی ) ۔
لیکن اگر فَعُول بمعنی فاعل ہو تو مذکر و مؤنث کا صیغہ یکساں رہتا ہے ۔ جیسے رَجُلٌ
صبور ( ایک بہت صبر کرنے والا مرد ) اور امْرَأَةٌ صَبُورٌ ( ایک بہت صبرکرنے والی
عورت ) ۔
۳۲
۶۰ : ۹نوٹکریں کہ فَعِیلکے وزن میں مذکورہ بالا قاعدہ بر عکس یعنی الٹا استعمال
" " سے فرق کرتے ہیں ۔ جیسے رَجُلٌ نَصِیرٌ ( ایک عددکرنے والا مرد ) اور امراة
نَصِيرَةً ( ایک مددکرنے والی عورت) ۔ اور فَعِیلجببمعنی مفعول ہوتا ہے تو مذکر
مونٹ کا صیغہ یکساں رہتا ہے ۔ جیسے رَجُلٌجَرِيح ( ایک زخمی کیا ہوا مرد ) ۔ اور
ذخیرہ الفاظ
ض ظلما -کسی چیزکو اسکے صحیح مقام سے ہٹا دینا ،ظلم کرنا
ظَلَمَ ()
غَفَرَ (ض) غَفْرا ۔کسی چیزکو میلکچیل سے بچانے کے لئے ڈھانپ دینا عذاب سے
( ) iiانکی اعرابی حالت اور اسکی وجہ بتائیں وزن اور صیغہ ( عد دو جنس بتائیں
( ) ۱بَلْ هُوَ كَذَّابٌأَشِرٌ ( )۲كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىكُلِّ قَلْبِ مُتَكَتِرٍجَبَّارٍ ( )۳إِنَّ
فِي ذلِكَ لَآيَتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ( ) ۳وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ ( ) ٥وَأَنَّ اللَّهَ
لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيْدِ ( ) ۲وَمَا يَجْحَدُ بِأَيْتِنَا الأُكُلُّ خَتَارٍكَفُورٍ ( )۷إِنَّ الْإِنْسَانَ
لَظَلُومٌ كَفَّارٌ ( ) ۸وَقَالُوا يَمُوسَى إِنَّ فِيْهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ ( ) 9وَكَانَ الشَّيْطَنُ
لِرَبِّهِكَفُورًا
۳۴
التفضيل
() 1 اسم
آپکو یاد ہو گا کہ انگریزی میں کسی موصوفکی صفت میں دوسروں پر ا
Betterاور Best۔ اسی طرح عربی میں بھی کسی موصوفکی صفتکو دوسروں
کے مقابلہ میں بر تر یا زیادہ ظاہرکرنے کے لئے جو اسم استعمال ہوتا ہے اسے اسم
التفضیلکہتے ہیں ،جس کے لفظی معنی ہیں ” فضیلت دینے کا اسم "کسی صفت میں خواہ
والے اسمکو اسم التفضیل ہی کہا جائے گا۔ اس باتکو فی الحال انگریزیکی مثال سے
۶۱ : ۲خیال رہےکہ اسم المبالغہ میں بھی صفتکی زیادتی کا مفہوم ہوتا ہے لیکن
اس میںکسی سے تقابل کے بغیر موصوف میں فی نفسہ اس صفت کے زیادہ ہونے کا
مفہوم ہوتا ہے ،جبکہ اسم التفضیل میں یہ مفہوم پایا جاتا ہے کہ موصوفمیں مذکورہ
صفتکسی کے مقابلہ میں زیادہ پائی جاتی ہے ۔ اس باتکو فی الحال اردوکی مثال سے
سمجھ لیں ۔ اگر ہمکہیں " یہ لڑکا بہت اچھا ہے " تو اس جملہ میں " بہت اچھا " اسم
المبالغہ ہے ۔ لیکن اگر ہمکہیں "یہ لڑکا اس لڑکے سے زیادہ اچھا ہے " یا "یہ لڑکا
دونوں اسم التفضيل سب سے اچھا ہے " تو اب " زیادہ اچھا " اور "سب سے اچھا
۶۱ :عربی زبان میں واحد مذکر کے لئے اسم التفضیل کا وزن " افعل " اور واحد
مونث کے لئے " فعلی " ہے اور انکی نحومیگردان مندرجہ ذیل ہے :
۳۵
33
نصب
واحد مذکرکا وزن بھی افعل ہی ہوتاہے مگردونوںکی نحویگردان میں فرق ہے ۔ اس
ضمن میں مندرجہ ذیل فرق کو خاص طور سے نوٹ کر کے ذہن نشین کریں ۔
( )iافعل التفضیل میں جمع مذکر کے صیغے میں جمع مکسرکا وزن مختلف ہے ۔نیز اسکی جمع
سالم بھی استعمال ہوتی ہے ۔ ( )iiافعل التفضیل میں واحد مؤنث کا وزن مختلف ہے
میں الف مقصورہ کے عنوان سے پڑھایاگیا تھا ۔ نیز فعلی کا وزن منیکی طرح استعمال
ہوتا ہے ۔ ( )iiiافعل التفضیل میں جمع مؤنث کے صیغے میں جمع مکسرکا وزن مختلف
ہےیعنی فعلکے بجائے فعلہے ۔ نیز اس کے جمع سالم بھی استعمال ہوتی ہے ۔
۶۱ : ۵اسم التفضیل ہمیشہ فعل ثلاثی مجرد سے ہی بنتا ہے اور صرف ان افعال سے
جن میں الوان و عیوب والا مفہوم نہ ہو ۔کیونکہ ان سے افعل التفضیلکے بجائے
افعل الوانو عیوب کے صیغے استعمال ہوں گے ۔ اسی طرح سے کسی مزید فیہ فعل سے
۳۶
بھی افعل التفضیل کے صیغے نہیں بن سکتے ۔ اگرکبھی ضرورت کے تحت الوانو عیوب
والے فعل ثلاثی مجرد یا مزید فیہ کے کسی فعل سے اسم التفضیل استعمالکرناپڑےتو اس
کا طریقہ یہ ہےکہ حسب موقع اسد ( زیادہ سخت) اکثر ( مقداریا تعداد میں زیادہ )
أعظمُ ( عظمت میں زیادہ ) وغیرہ کے ساتھ متعلقہ فعل کا مصدرلگا دیتے ہیں ۔ مثلاً
اَشَدُّ سَوَادًا ( زیادہ سیاہ ) اکثراختبارًا ( اختیار میں زیادہ ) اعظم توفیرا (عزتکی
عظمت میں زیادہ ) وغیرہ ۔ ایسے الفاظ کے ساتھ متعلقہ فعل کا جو مصدر استعمال ہوتا
ہے اسے " تميز"کہتے ہیں ۔تمیز عموم أو احد اور نکرہ استعمال ہوتی ہے اور ہمیشہ حالت
نصبمیں ہوتی ہے ۔
افعل التفصیل کے درج ذیل چند استثنی ہیں ۔ مثلا خیر زیادہ اچھا ) اور سر :
( زیادہ برا ) کے الفاظ ہیں جو دراصل اخیر اور اَشَر( بروزن افعل) تھے ،مگریہ اپنی
اصل شکل میں شاذ ہی (کبھی شعرو ادب میں ) استعمال ہوتے ہیں ،ورنہ انکا زیادہ تر
استعمال خیر اور شر ہی ہے ۔ اسی طرح اُخرى ( دوسری )کی جمع مندرجہ بالا قاعدہ
کے مطابق اُخو ( بروزن فعل آنی چاہئے مگریہ لفظ غیرمنصرف یعنی اُخَرُ استعمالہو تا
ہے ۔
مشق نمبر۵۹
التفضيل
() ۲ اسم
واحد جمع وغیرہ ) بنانے کا طریقہ پڑھ لیا ہے ۔ اب اس سبق میں ہم آپکو عبارت
۶۲ : ۲اسم التفضیل دو اغراضکے لئے استعمالکیا جاتا ہے ۔ اولا یہکہ دو چیزوں یا
اشخاص وغیرہ میں سے کسی ایککی صفت ( اچھی یا بری )کو دوسرے کے مقابلہ میں
زیادہ بتانے کے لئے ۔ اسے تفضیل بعض کہتے ہیں ۔ اور یہ وہی چیز ہے جسے انگریزی
کو باقی تمام چیزوںیا اشخاص کے مقابلہ میں زیادہ بتانے کے لئے ۔ اسے تفضیل گل
کہتے ہیں اور یہ وہی چیز ہے جسے انگریزی میں Superlative Degreeکہتے
ہیں ۔
۳
۶۲ :اسم التفضیلکو تفضیل بعض کے مفہوم میں استعمالکرنے کا طریقہ یہ ہے
کہ اسم التفضیل کے بعد مین لگاکر اسچیزیا مشخص کا ذکرکرتے ہیں جس پر موصوفکی
صفتکی زیادتی بتانا مقصود ہوتا ہے ۔ مثلا زَيْدٌ اَجْمَلُ مِنْ عُمَرَ ( زيد عمرسے زیادہ
خوبصورتہے ) ۔ اس جملہ میں زید مبتدا ہے اور اَجْمَلُمِنْ عُمَرَ اسکی خبرہے ۔
۶۲ : ۴اب ایک اہم بات یہ نوٹکر لیںکہ مین کے ساتھ استعمال ہونےکی
صورتمیں اسم التفضیل کا صیغہ ہر حالت میں واحد اور مذکر ہی رہے گا چاہے اس کا
موصوف (یعنی مبتدا ) تشنیه یا جمع یا مونث ہیکیوں نہ ہو ۔ مثلاً الرَّجُلانِ اَجْمَلُمِنْ
زَيْدٍ -يَا -عَائِشَةُ أَجْمَلُمِنْ زَيْنَبَ النِّسَاءُ أَجْمَلُمِنَ الرِّجَالِ وغيره -
الْأَفْضَلُ ( سب سے زیادہ افضل مرد ) ۔ نوٹکر لیں کہ ایسی صورت میں اسم
التفضیل اپنے موصوف کے ساتھ مل کر مرکبتوصیفی بنتا ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ ایسی
صورت میں اسم اتفصیل کی اپنے موصوفکے ساتھ جنس اور عدد میں مطابقت
ہے کہ اسم التفضیلکو مضافبناکر لاتے ہیں اور مضاف الیہ میں ان کا ذکر ہوتا ہے
جن پر موصوفکی برتری ظاہرکرنی ہو ۔ مثلاً زَيْدُ أَعْلَمُ النَّاسِ ( زید تمام لوگوں سے
زیادہ عالم ہے ) ۔ نوٹکرلیںکہ ایسی صورت میں یہ جملہ اسمیہ ہے ۔ زید مبتداہے
سے اسکی مطابقت اور عدم مطابقت دونوں جائز ہیں ۔ مثلا الْأَنْبِيَاءُ اَفْضَلُالنَّاسِ
بھی درست ہے اور الْأَنْبِيَاءُ أَفَاضِلُالنَّاسِ يَا الْأَنْبِيَاءُ أَفْضَلُو النَّاسِبھی درست
ہے ۔ اسی طرح سے مَرْيَمُ فُضْلَى النِّسَاءِ اور مَريَمُ أَفْضَلُالنِّسَاءِ دونوں درست
ہیں ۔
۶۲ :خَيْرٌ اور شر کے الفاظ بطور اسم التفضیل مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں
لئے بھی جیسے اَنَا خَيْرٌ مِنْهُ تفضیل بعض کے استعمال ہوتے ہیں ،یعنی
)۱۲اور تفضیلکل کے مفہوم میں بھی جیسے بَل اللهُ مَوْلَكُمْ وَهُوَخَيْرُ
( الاعراف ( :
التَّصِرِينَ (آل عمران - ) ۱۵۰ :أُولَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ ( البينه - ) ٢ :
:
۶۲اسم التفصیل کے استعمال میں بعض دفعہ اسکو حذفکر دیتے ہیں جس پر ۹
موصوفکی برتری ظاہرکرنی ہوتی ہے ۔ اس طرح جملہ میں صرف اسم التفضیل ہی
باقی رہ جاتا ہے ۔ تاہم عبارت کے سیاق و سباق یا کسی قرینے سے اسکو سمجھا جا سکتا
۳۹
ہے ۔ مثلا " اللَّهُ اكْبَرُ " دراصل " اللَّهُ اكْبَرُكُلِّ شَيْءٍ "يا " اللَّهُ اكْبَرُمِنْكُلِّ شَيْءٍ "
ہے اس لئے اس کا ترجمہ " اللہ بہت بڑا ہے "کرنے کے بجائے "اللہ سب سے بڑا
)۱۳۸گویا الصُّلْحُ
ہے "کرنا زیادہ موزوں ہے ۔ اس طرح الصُّلْحُ خَيْرٌ ( النساء ( :
اور مزید فیہ سے اسم التفضیل تو نہیں بنتا لیکن اکثر اَشَدُّوغیرہکے ساتھ متعلقہ فعل
کا مصدر بطور تمیزلگاکر یہی مفہوم ظاہرکیا جا سکتا ہے ۔ اس سلسلہ میں اب یہ بات بھی
سمجھ لیںکہ بعض دفعہکسی فعل سے اسم التفضیل بن سکتا ہے لیکن بہترادبی انداز بیان
کی خاطر اکثر کی قسم کے کسی لفظ کے ساتھ اس فعل کا مصدر ہی بطور تمیز استعمال
کرتے ہیں ۔ مثلاً نَفَعَ (ف ) سے اسم التفصیل انْفَعُ بن سکتا ہے لیکن اكْثَرُ نَفْعًاکہنا
زیادہ بہترلگتا ہے ۔ اس طرح تمیز کا استعمال قرآنکریم میں بکثرت آیا ہے اور یہ
استعمال صرف الوان و عیوب یا مزید فیہ تک محدود نہیں ہے ۔ مثلا اكثر مالا (کثرت
والا بلحاظ مال کے ) أَضْعَفُ جُندا ( زیادہکمزوربلحاظ لشکرکے ) أَصْدَقُ حَدِيقًا ( زیادہ
سچا بلحاظ بات کے ) وغیرہ ۔ اکثر کی قسم کے الفاظ کے بغیر بھی اسم التفضیل کے ساتھ تمیز
کا استعمال بکثرت ہوتا ہے ۔ جیسے وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ( اور اللہ سے زیادہ
اچھا کون ہے بلحاظ رنگ کے ) ۔ اسم التفضیل کے ساتھ تمیزکے اس استعمال کو سمجھ
ذخیرہ الفاظ
فَتَنَ (ض) فَتْنا = سونےکو پکھلاکرکھرا کھوٹا معلوم فَضَلَ(ن)فَضْلاً = اوسط سے زائد ہونا۔
آزمائشمیں پڑنا گمراہ ہونا ۔ (لازمو متعدی) فضل ۔ زیادتی ( اچھائی میں ) ۔
=
فضول -ضرورت سے زائکہ چیز(ناپسندیدہ ) ۔ = آزمائشگمراہی۔
فتنه -
مشق نمبر۶۰
( )۳أَيُّهُمْ أَقْرَبُ ( ) ١وَالْفِتْنَةُ اكْبَرُ مِنَ الْقَتْل ( ) ۳وَإِثْمُهُمَا اكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا
لَكُمْ نَفْعًا ( ) ۳وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلاً ( ) ٥فَمَنْ أَظْلَمُمِمَّنْكَذَّبِبِأَيْتِ اللهِ
كُفْرًاوَنِفَاقًا
۴۱
3
لآله اسم
ا
اسم الآلہ وہ اسم مشتق ہے جو اس چیزکو بتائے جوکسی کام کے کرنے کا ذریعہ ۳ : ۱
ہو ،یعنی وہ اوزار یا ہتھیار جن کے ذریعہ وہ کامکیا جاتا ہے ۔ اردو میں لفظ "آلہ "
۶۳اسم آلہ کے لئے تین اوزان استعمال ہوتے ہیں :مِفْعَلٌ مِفْعَلَةٌ اور ۲
مفعال ۔کسی ایک فعل سے اسم الآلہ تینوں وزن پر بن سکتا ہے ،تاہم اہل زبان ان
میں سےکسی ایک وزن پر بننے والا لفظ زیادہ استعمالکرتے ہیں ۔ مثلاً فعل نَشَر( ن )
لکڑیکو چیرنا " ہوتے ہیں ۔ اس سے اسم آلہ مِنْشَرٌ مِنْشَرَةٌ اور کے ایک معنی
مِنْشَارٌ ( چیرنے کا آلہ یعنی آری) بنتا ہے ،تاہم مِنشَار زیادہ مستعمل ہے ۔ فعل بَرَدَ
مِبْرَدَةٌ اور مِبْوَادُ بن سکتے ہیں ،تاہم مِبوَد ( ریتی ) زیادہ استعمال ہوتا ہے وغیرہ۔
سَخُنَ (ک) پانی وغیرہ کاگرم ہونا "سے اسم آلہ مِسْخَنَّ مِسْخَنَةٌ اور مِسْخَانُ
بن سکتے ہیں لیکن مِسْخَنَةٌ ( واٹر ہیٹر) زیادہ استعمال ہوتا ہے وغیرہ ۔
اسم آلہ لازم اور متعدی دونوں طرح کے فعل سے بن سکتا ہے جیسا کہ ۳ : ۳
اوپر دیگئی مثالوں سے واضح ہے ۔ لیکن یہ زیادہ تر فعل متعدی سے ہی آتاہے ۔ البتہ
یہ نوٹکرلیںکہ اسم آلہ صرف فعل ثلاثی مجرد سے ہی بن سکتا ہے مزید فیہ سے نہیں
بنتا۔ اگر ضرورت ہو تو لفظ " آلہ " یا اس کے کسی ہم معنی لفظکو بطور مضافلاکر
یعنی مِفْعَلانِ اور مِفْعَلَيْنِ مِفْعَلَتَانِ اور مِفْعَلَتَيْنِ مِفْعَالَانِ اورمِفْعَالَيْنِ البتران
ہے اور مفعالکی جمع مَفَاعِیلُ کے وزن پر آتی ہے ۔ امید ہے آپنے نوٹکر لیا
۴۲
ہو گا کہ اسم آلہ کی جمع کے دونوں وزن غیر منصرف ہیں ۔ اس طرح مِنشَریا مِنْشَرَةٌ
۶۳ : ۵یہ ضروری نہیں ہے کہ "کسی کامکو کرنے کا آلہ " کا مفہوم دینے والا ہر
لفظ مقرره وزن پر استعمال ہو ،بلکہ عربی زبان میں بعض آلات کے لئے الگخاص
الفاظ مقرر اور مستعمل ہیں مثلا قفل ( الا ) سکین ( چھری ) سَيْف( تلوار) قَلَمْ (قلم )
وغیرہ ۔ تاہم اس قسم کے الفاظکو ہم اسم الآلہ نہیںکہہ سکتے ۔ اس لئےکہ اسم الآلہ
۶۳ : ۶اسماء مشتقه پر بات ختم کرنے سے پہلے ذہن میں دوبارہ تازہ کر کے یادکر
لیںکہ :
ابواب مزید فیہ سے اسم الفاعل اور اسم المفعول بنانے کے لئے جبعلامت ( )1
مضارع ہٹا کر اس جگہ میم لگاتے ہیں تو اس پر ضمہ ( پیش )آتی ہے ۔ جیسے يُعلم
مَفْعُول اور اسم الظرف کے دونوں اوزان مَفْعَل اور مَفْعِلکی میم پر فتحہ () ii
( زبر ) آتی ہے ۔
مشقنمبر۶۰
مغفر ( سرکی حفاظت والی ٹوپی ) Helmet ۲ منسج (کپڑا بننےکی کھڑی
نچه ) - ۹مِنْشَفَةٌ ( تولید ) -١٠-مِطْرَقَةً (خراد مشین ) الـ مِغْرَفَةٌ ( ژونگا ) ۱۲-مفتاح
پپ) ۱۲-مِصْبَاح(چراغ )
۴۳
صحیح افعال
غیر
۶۴ : ۱عربی میں فعلکی تقسیمکئی لحاظ سے کی گئی ہے ۔ مثلا زمانہ کے لحاظ سے فعل
ماضی اور مضارعکی تقسیم یا مادہ میں حروفکی تعداد کے لحاظ سے ثلاثی اور رباعی کی
تقسیم ۔ یا فعل ثلاثی مجرد و مزید فیہ فعل معروف و مجهول اور فعل لازم و متعدی
وغیرہ ۔ اسی طرح افعال صحیح اور افعالغیر صحیحکی بھی ایک تقسیم ہے ۔
۶۴ : ۲جو فعل اپنے وزن کے مطابق ہی استعمال ہوتا ہے اسے فعل صحیحکہتے ہیں ۔
لیکن کچھ افعال بعض اوقات ( ہمیشہ نہیں ) اپنے صحیح وزن کے مطابق استعمال نہیں
ہوتے ۔ مثلا لفظ "گان " آپ پڑھ چکے ہیں ۔ اسکا مادہ ک و ن ہے " اس کا پہا !
صیغہ فَعَلَ کے وزن پر " كَونَ " ہونا چاہئے تھا لیکن اس کا استعمال گان ہوتا ہے ۔
غیر صحیح افعال "کی اصطلاح کا ۶۴ : ۳عربی گرامرکی کتابوں میں عام طور پر
استعمال ،انکی تقسیم اور پھر انکی ذیلی تقسیم مختلفانداز میں دی ہوئی ہے جو اعلیٰ
علمی سطح کی بحثہے ۔ اور ابتدا سے ہی طلبہکو اسمیں الجھا دینا انکے ساتھ زیادتی
ہے ۔ اس لئے ان سے گریزکی راہ اختیارکرتے ہوئے غیرصحیحکی اصطلاح میں ہم
ایسے تمام افعالکو شاملکر رہے ہیں جو کسی بھی وجہ سے بعض اوقات اپنے صحیح وزن
۶۴ : ۴اب ہمیں ان وجوہات کا جائزہ لینہاے جنکی وجہ سےکوئی فعل "غیرصحیح "
ہو جاتا ہے ۔ لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ آپ ہمزہ اور الف کا فرق اور
۶۴ : ۵عربی میں ہمزہ اور الف دو مختلف چیزیں ہیں ۔ ان میں جو بنیادی فرق ہے
۴۴
ہمزہ پرکوئی حرکت یعنی ضمہ ،فتحہ کسرہ یا علامت سکون ضرور ہوتی ہے یعنی یہ () i
خالی نہیں ہوتا ۔ جبکہ الف پرکوئی حرکت یا سکونکبھی نہیں آتا اور یہ ہمیشہ خالی
کفوکھینچنے کاکام
ہوتا ہے ۔ اور صرف اپنے سے ماقبل مفتوح ( زبر والے ) حر
دیتا ہے جیسےب سے با ۔
ہمزہکسی لفظ کے ابتداء میں بھی آتا ہے ،درمیان میں بھی اور آخر میں بھی ،جبکہ ( )ii
الف کسی لفظ کے ابتداء میں کبھی نہیں آتا ،بلکہ یہ ہمیشہکسی حرف کے بعد آتا
ہے ۔ آپکو اِنْسَانُ أَنْهَارُ اُمَّهَاتُ جیسے الفاظ کے شروع میں جو " الف "
نظرآتا ہے ،یہ در حقیقت الف نہیں ہے بلکہ ہمزہ ہے ۔ جبکہ انہی الفاظ کے
حروف "س " اور " "کے بعد ہمزہ نہیں بلکہ الف ہے ۔
( )iiiہمزہ سے پہلے حرفپر حرکات ثلاثہ یاسکون میں سے کچھ بھی آسکتا ہے جبکہ الف
( ) ivکسی مادہ میں فا عین یا لامکلمہ کی جگہ ہمزہ آ سکتا ہے جبکہ الفکبھی کسی مادہ کا جز
نہیں ہوتا ۔
۶۴ :حرف علت ایسے حرفکو کہتے ہیں جو کسی مادہ میں آجائےتو وہ فعل غیرصحیح
الفکو بھی حرف علت شمارکیا گیا ہے ۔ لیکن چونکہ الف کسی مادہ کا جز نہیں بنتا اس
لئے اسکتاب میں ہم حروف علتکی اصطلاح صرف "و " اور " ی " کے لئے
استعمالکریں گے ۔
۶۴ :کسی فعل کے غیرصحیح ہونے کی تین وجوہات ہوتی ہیں ۔کسی مادہ میں جب فا
( )iiایک ہی حرف دو مرتبہ آ عین اورلامکلمہ میں کسی جگہ پر ( )1جب ہمزہ آجائے
جاۓ یا ( )iiiکسی جگہکوئی حرف علت آجائے ۔ ان وجوہاتکی بنیاد پر افعال صحیح
مهموز :جس کے مادہ میںکسی جگہ ہمزہ آجائے جیسے اكَلَ سَئَلَ قَرَءَ- () ۲
( ) ۴مثال :جس کےمادہ میں فاکلمہکی جگہ حرفعلت آئے جیسے وَعَدَ ۔
اجوف :جس کے مادہ میں عین کلمہکی جگہ صرفعلتآئے جیسے قول ۔ ( )۵
ناقص :جسکےمادہ میں لامکلمہکی جگہ حرفعلت آئے جیسے خشی ۔ () ۲
( ) ۷لفیف :جس کے مادہ میں حرف علت دو مرتبہ آئے جیسے وَقَی ۔
ہوئی ہے اسکی بنیاد فائین اور لامکلمہ ہے ۔ اس لئےکسی لفظ میں اگر فائین اور
لامکلمہ کے علاوہکسی جگہ ہمزہ یا حرف علت آجائے تو اسکی وجہ سے وہ لفظ غیرصحیح
شمارنہیں کیا جائے گا ۔ جیسے باب افعال کا پہلا صیغہ افعل ہے ۔ اس کا ہمزہ ف ع یا ل
کلمہکی جگہ نہیں ہے ۔ اس لئے صحیح حروف کے مادوں سے جتنے الفاظ اس وزن پر
بنیں گے وہ مہموز نہیں ہوںگے ۔ مثلاً ادْخَلَ اكْرَمَ أَخْرَجَ وغیرہ معموز نہیں ہیں ۔
اسی طرحماضی معروف میں مذکرغائب کے لئے تشنبہ اور جمع کے صیغوںکا وزن فَعَلاً
اور فَعَلُوا ہے ۔ ان میں " الف " اور " و " ہیں لیکن یہ بھی فعال کے علاوہ ہیں ۔
اس لئے صحیح حروف کے مادوں سے جتنے الفاظ ان او زان پر بنیں گے وہ غیرصحیح نہیں
ہوں گے ۔ مثلا ضَرَبَا ضَرَبُوْا يَا شَرِبَا شَرِبُوا وغیرہ ۔ باب تفعیل اور تفعل میں
مینکلمہ پر تشدید آنےکی وجہ سے وہ مضاعفنہیں ہوتے ،اس لئےکہ وہاںعین کلمہ
مندرجہ ذیل مادوں کے متعلق بتائیے کہ وہ ہفت اقسامکی کونسی قسم سے متعلق
ہیں ۔ جو مادے بیک وقت دو اقسام سے متعلق ہوں انکی دونوں اقسام بتائیں ۔
س ر رء س س ۔ روی و ر ی ی س ر م م ج ی
ء م ر·.
رض و -ر ء ی -وق ی ۔ ب رء- ق و ل -ب ی ع ۔ س وی
-
س ء ل۔
۴۷
( )1 مهموز
۶۵ : ۱گزشتہ سبق میں آپ پڑھ آئے ہیں کہ جس فعلکے مادہ میںکسی جگہ ہمزہ
آ جائےتو اسے مہموزکہتے ہیں ،اب یہ بھی نوٹکرلیں کہ اگر فاءکلمہکی جگہ ہمزہ آتا
ہے تو اسے مہموز الفاءکہتے ہیں جیسے اگل ۔ اگر عین کلمہکی جگہ ہمزہ آئے تو وہ مہموز
العین ہوتا ہے جیسے سَئل اور اگرلامکلمہ کی جگہ ہمزہ ہو تو وہ مہموزاللام ہوتا ہے جیسے
فَرَءَ
۶۵ : ۲زیادہ تر تبدیلیاں مہموز الفاء میں ہوتی ہیں جبکہ مہموز العین اور مہموز اللام
میں تبدیلی بہتکم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔ مہموز الفاء میں تبدیلیاں دو طرح
( ) ۱لازمی تبدیلی اور ( ) ۲اختیاری تبدیلی ۔ لازمی تبدیلی کا مطلب کی ہوتی ہیں ۔
یہ ہے کہ تمام اہل زبان یعنی عرب کے تمام مختلف قبائل ایسے موقع پر لفظکو ضرورہی
بدلکر بولتے اور لکھتے ہیں ۔ اور اختیاری تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ عرب کے بعض
قبائل ایسے موقع پر لفظکو اصلی شکل میں اور بعض قبائل تبدیل شدہ شکل میں بولتے
اورلکھتے ہیں ۔ اسی لئے دونوں صورتیں جائز اور رائج ہیں ۔
۶۵ : ۳اب مهموز کے قواعد سمجھنے سے پہلے ایک بات اور سمجھ لیںکسی حرف پر
دیگئی حرکتکو ذراکھینچکر پڑھنے سےکبھی الف کبھی "و " اورکبھی "ی " پیدا ہوتی
ہے ۔ مثلا ب سے بَابُ سے بُو اور بِ سے بنی وغیرہ۔ چونکہ فتحہ کو کھینچنے
سے
" الف " ضمہکو کھینچنے سے ”و “ اورکسرہ کو کھینچنے سے "ی "پیدا ہوتی ہے اس لئے
۶۵ : ۴مهموز الفاء میں لازمی تبدیلی کا صرف ایک ہی قاعدہ ہے اور وہ یہ کہ جب
کسی لفظ میں دو ہمزہ اکٹھے ہوں اور ان میں سے پہلا متحرک اور دوسرا ساکن ہو تو
دوسرے ہمزہ کو پہلے ہمزہ کی حرکت کے موافق حرفمیں لازماً بدل دیا جاتا ہے ۔ یعنی
پہلے ہمزہ پر اگر فتحہ ( ) --ہو تو ساکن ہمزہ کو الف سے کسرہ ( )--ہوتو "ی " سے اور ضمہ
۶۵ : ۵مثال کے طورپر ہم لفظ امین ( امن میں ہونا )کو لیتے ہیں ۔یہ لفظ باب افعال
کے پہلے صیغہ میں اَفْعَلَ کے وزن پر آ آمَنَ بنے گا ۔ قاعدہ کے مطابق دوسرا ہمزہ
بنے گا لیکن ایمان استعمال ہو گا ۔ اسی طرح باب افعال میں مضارعکے واحد متکلم کا
کرلیںکہ ہمزہ مفتوحہ ( ) ۶کے بعد جب الف آتا ہے تو اسکو لکھنے کے تین طریقے
( )۳آ ۔ ان میں سے تیسرا طریقہ عام عربی میں بلکہ اردو میں بھی ۱ )۲( ۱ ہیں ۔ () ۱
مستعمل ہے جبکہ پہلا اور دوسرا طریقہ صرف قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے ۔
۶۵ :مهموز میں اختیاری تبدیلیوں کے قواعد سمجھنے سے پہلے ایک باتذہن میں
واضحکر لیں ۔ ابھی پیراگراف ۶۵ : ۴میں آپپڑھ آئے ہیں کہ لازمی تبدیلی
وہیں ہوتی ہے جہاں ایک ہی لفظ میں دو ہمزہ اکٹھے ہو جائیں ۔ اب نوٹکر لیںکہ
اختیاری تبدیلی اس وقت ہوتی ہے جبکسی لفظ میں ہمزہ ایک دفعہ آیا ہو ۔
ہمزہ کے علاوہکوئی دوسرا حرف متحرک ہو تو ایسی صورتمیں ہمزہ کو ماقبلکی حرکت
۴۹
کے موافق حرف میں تبدیلکر دینا جائز ہے ۔ جیسے رَاسٌکو رَاسٌ ذِئْبُ (بھیڑیا )کو
ذیب اور مومنکو مُؤْمِنٌ بولایا لکھا جا سکتا ہے اور بعض قراء توںمیں یہ لفظ اسی طرح
ما قبل حرف پر ضمہ یا کسرہ ہو تو ہمزہ کو ما قبل حرکت کے موافق حرف میں تبدیل کر دینا
جائز ہے ۔ لیکن تبدیل شدہ حرفپر فتہ بر قرار رہےگی ۔ جیسے ہراکو هُزُوا اور كَفُوا
کو کفوا پڑھا جا سکتا ہے ۔ قراءت حفص میں ،جو پاکستان اور دیگر مشرقی ممالکمیں
رائج ہے یہالفاظ اپنی بدلی ہوئی شکل میں هُزُوا اور كُفُوا پڑھے جاتے ہیں،مگر
ورشکی قراءت میں ،جو بیشترافریقی ممالکمیں رائج ہے،یہ الفاظ اپنی اصلی شکل میں
هزءا اور کفوا پڑھے جاتے ہیں ۔ خیال رہےکہ اصلی شکل میں "و " صرف ہمزہ کی
کری ہے جبکہ دوسری صورتمیں وہ تلفظ میں آتی ہے ۔ اسی طرح مِئَةٌ ( ایک سو )کو
مِيَةٌ فِئَةٌكوفية اور لِئَلاکو لیلا پڑھا جا سکتا ہے اور بعض دوسری قراء توں میں یہ لفظ
ما قبل ساکن واو ( و) یا ساکن یا ء " ی " ہو تو ہمزہکو ما قبل حرف میں بدلکر دونوں کا
بنتی ہے اور بعض ادغام کر سکتے ہیں ۔ جیسے نَبا سے فَعِیل کے وزن پر صفت نہی
قرآتمیں یہ لفظ اسی طرح پڑھا بھی جاتا ہے ،جبکہ ہماری قراتمیں اسکو بدلکر نبی
۶۵ : ۱۱مذکورہ بالا قواعد کی مشق کے لئے آپکو دیئے ہوئے لفظکی صرف صغیر
کرنی ہوگی ۔ اسکی وضاحت کے لئے ہم ذیل میں لفظ امن کی ثلاثی مجرد اور باب
افعال سے صرف صغیر دے رہے ہیں ۔ اسکی پہلی لائن میں لفظکی اصلی شکل اور
دوسری لائن میں تبدیل شدہ شکل دیگئی ہے ۔ دوسری لائن میں جو اشارے دیئے
( ل ) -لازمی تبدیلی ۔
صرف صغیر
مشق نمبر۶۳
ثلاثی مجرد اور ابواب مزید فیہ سے ( باب انفعال کے سوا ) لفظ " الف "کی صرف
صغیر اوپر دی گئی مثال کے مطابق کریں ۔ یہ لفظ مختلف ابواب میں جن معانی میں
ألف (س) الفا -مانوس ہوتا محبتکرنا ۔ ( افعال ) مانوسکرنا خوگر بنانا ۔
۶۶ : ۱آپ نے گزشتہ سبق میں مہموز کے قواعد پڑھ لئے اور کچھ مشق بھیکرلی
ہے ۔ اب اس سبق میں مہموز کے متعلق کچھ مزید باتیں آپ نے سمجھنا ہیں جو قرآن
۲۶ : ۲موز الفا کے تین افعال ایسے ہیں جن کا فعل امر قاعدے کے مطابق
استعمال نہیں ہوتا ۔ انہیں نوٹکر لیں ۔ امر ( ن ) = حکم دینا اكل ( ن ) =کھانا اور
=
أخَذَ (ن) ۔ پکڑنک
اے فعل امرکی اصلی شکل بالترتیب او مرُ اؤْكُل اور اُو خُذُ بنتی ہے
پھر قاعدے کے مطابق انہیں اُو مو أوكل اور اُو خُذ استعمال ہونا چاہئے تھا لیکن یہ
۶۶ : ۳لفظ اخذ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ باب افتعال میں بھی خلاف
قاعدہ استعمال ہوتا ہے جس میں اسکی اصلی شکل الْتَخَذَ يَأْتَخِذُ الْبِحَاذَا فتىہے
جسے قواعد کے مطابق تبدیل ہو کر ابْتَخَذَ يَا تَخِذُ ابْتِخَاذَا ہونا چاہئے تھا ۔ لیکن اہل
"کو "ت " میں بدلکر افتعال والی " ت " میں ادغامکر زبان خاصاس فعل میں "
اِلْتَخَذَ پھر اتَّخَذَ -اسی طرح اس کا مضارع يَأْتَخِذُے دیتے ہیں ۔ یعنی انتخَذَ
ہے ۔ خیال رہےکہ مذکورہ تینوں افعال کے فعل امرحاضرکی بدلی ہوئی شکل من كُل ،
خُذْ اور اتَّخَذَ سے مختلف صیغے قرآنکریم میں بکثرت اور با تکرار استعمال ہوئے
ہیں ۔
۱۶ : ۴مهموز العین میں ایک لفظ سئل کے متعلق بھی کچھ باتیں ذہن نشینکر
لیں ۔ اس کے مضارعکی اصلی شکل بسالی بنتی ہے اور زیادہ تربیبی استعمالبھی ہوتی
ہے ۔ البتہ قرآن میں یہ بصورت " يَسْئَلُ " بھی لکھا جاتا ہے ۔ لیکن کبھی کبھی اسے
کی اصلی شکل
خلافقاعده يسل بھی استعمالکرتے ہیں ۔ اسی طرح اس کے فعل امر
اسئلبنتی ہے ۔ یہ اگر جملہ کے درمیان میں آئے تو زیادہ تر اسی طرح استعمال ہوتی
۶۶ : ۵مهموز الفاء کے جن صیغوں میں فاکلمہ کا ہمزہ اپنے ماقبل ہمزہ الوصلکی
حرکتکی بنا پر لازمی قاعدہ کے تحت " و " یا " ی " میں تبدیل ہو جاتاہے ایسے صیغوں
سے قبل اگرکوئی آگے ملانے والا حرف مثلاً " و " یا " فَ "یا " ثُمَّ " وغیرہ آجائے تو بدلی
ہمزۃ الوصل صامت ہو جاتا ہے بلکہ اکثرلکھنے میں بھی گرا دیا جاتا ہے ۔ جیسے "ام ر "
سے باب افتعال میں فعل امر قاعدہ کے تحت ایتمز ( مشورہکرنا ،سازشکرنا ) بنا تھا
اسے " و " کے بعد واتمز لکھا اور پڑھا جائے گا ۔ اسی طرح اذِنَ کا فعل امرائذن بنا
تھا،یہ فَأذَنُ ہوگا ۔ ان دونوں مثالوں میں ہمزہ اصلیہ واپس آیا ہے اور ہمزۃ الوصل
لکھنے میں بھی گرگیاہے ۔ بلکہ ایسی صورتمیں فعل امر " من "کا بھی ہمزہ اصلیہ لوٹ
آتا ہے اور وہ وامز ہو جاتا ہے ۔ لیکن کل اور خُذ کا ہمزہ اصلیہ نہیں لوٹا اور انکو
ہمزہ استفہامکو " مد " دے دیتے ہیں ۔ جیسے اَ الرَّجُلُ (کیا مرد )کو الرَّجُلُلکھا اور
اللہ (کیا اللہ )کو اللہ وَ الذَّكَرَيْنِ (کیا دو نر جانور)کو الله بولا جائےگا ۔ اسی طرح
كَرَيْنِ اور ا الْآنَ (کیا اب )کو عام عربی میں تو " الآن "مگرقرآن مجید میں " الفن "
لکھتے ہیں ۔
ہونے والاکوئی فعل آجائے ،مثلاً باب افتعال استفعال وغیرہ کا کوئی صیغہ تو ایسی
صورتمیں صرف ہمزہ استفہام پڑھا جاتا ہے اور ہمزۃ الوصللکھنے اورپڑھنے دونوں
۵۳
میں گرا دیا جاتا ہے ،جیسے آ اِتَّخَذْتُمْ )کیا تم لوگوں نے بنا لیا )کو اتَّخَذْتُمْ لکھا اور بولا
اسْتَغْفَرْتَ (کیا تو نے بخشش مانگی ؟)کو اسْتَغْفَرْتَلکھا اور بولا جائے گا۔
۶۶ :همزة استفہامکی مذکورہ بالا دونوں صورت حال کے متعلق یہ بات ذہن
کی دو شرائط ہیں جو مذکورہ صورت حال میں موجود نہیں ہیں ۔ لازمی قاعدہکی پہلی
شرط یہ ہےکہ ایک ہی لفظ میں دو ہمزہ اکٹھے ہوں جبکہ مذکورہ بالا صورت حال میں
ہمزہ استفهام متعلقہ لفظ کا حرف نہیں ہوتا ۔ اس لئے یہ شرط پوری نہیں ہوتی ۔
دوسری شرط یہ ہےکہ دوسرا ہمزہ ساکن ہو جبکہ مذکورہ بالا صورت حالمیں ہمزۃ
الوصل متحرک ہوتا ہے ۔ اس لئے یہ شرط بھی پوری نہیں ہوتی ۔ اسی لئے مذکورہ بالا
تبدیلیوںکو الگلکھاگیا ہے ۔
ذخیرہ الفاظ
(تفعیل) = آگاہکرنا اذان دینا اخ ر۔ ثلاثی مجرد سے فعل استعمال نہیں ہوتا
= حاکم ہوتا
امارة - اس ( تفعل استفعال) = پیچھے رہنا
قبلاسقبُولاً -قبوکلرتا
نمبر۶۴
مشق
( ) 1وَمِنَ النَّاسِمَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ ( )۳يَأْدَمُ
اسْكُنْ أنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلاَ مِنْهَا ( ) ۳وَلَا يُقْبَلُمِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ
مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ ( ) ۳كُلُوا وَاشْرَبُوْا مِنْرِزْقِ اللَّهِ ( ) ٥وَقَالُوا اتَّخَذَ
الله وَلَدًا ( ) 1فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّى يُهَاجِرُوْا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ ( ) ۷يَأَيُّهَا
( ) ۸فَآذَنَ مُدوّن بَيْنَهُمْ اَنْ لَّعْنَةُ اللهِ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا أَمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ
) )(۹فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأمْرُ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا ( ) ١٠وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا
الظَّلِمِينَ ( 9
لَمْ يُذْكَرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ ( ) ۱وَإِذَا قُرِىالْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ( )۱۳لَوْانْفَقْتَ مَا
فِي الْأَرْضِجَمِيْعًا مَّا الَّفْتَبَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ الَّفَبَيْنَهُمْ ( ) ۱۳وَمِنْهُمْ مَّنْ
يقُولُالدَنْ لَى ( ) ١٣وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأخِرِيْنَ ( )۲۵مَا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ
مضاعف ()1
(ادغام کے قاعدے )
۶۷ : ۱سبق نمبر ۶۴میں آپپڑھ چکے ہیں کہ مضاعف ایسے اسماء و افعالکو کہتے
ہیں جن کے مادے میں ایک ہی حرف دو دفعہ آجائے یعنی " مِثْلَيْن "یکجا ہوں ۔ ایسی
صورت میں عام طور پر دونوں حروفکو ملاکر پڑھتے ہیں ،یعنی " حَبَب "کی بجائے
ادغام "کہتے ہیں ۔ لیکن کبھی کبھی مسلمین کا ادغام نہیں کیا جاتا بلکہ " حب" اور اسے
الگالگ ہی پڑھتے ہیں جیسے مَدَدَ ( مددکرنا ) اسے " فَاتِ ادغام "کہتے ہیں ۔ اور اب
ہمیں انہی کے متعلق قواعد کا مطالعہکرتا ہے ۔ چنانچہ اس سبق میں ہم ادغام کے قواعد
سمجھیں گے اور ان شاء اللہ اگلے سبق میں فک ادغام کے قواعد کا مطالعہ
کریں گے ۔
مادے میں مثلینکی موجودگی کی مختلف صورتیں ہیں ۔ ایک صورت یہ ہے کہ مادہ کا
فا کلمہ اور لامکلمہ ایک ہی حرف ہو ۔ جیسے قلق بے چینی ) ثلث ( ایک تہائی وغیرہ ۔
یہاں مثلین موجود تو ہیں لیکن مُلحق ( ملے ہوئے ) نہیں ہیں بلکہ انکے درمیان ایک
دوسرا حرف حائل ہے ۔ اس لئے ان کے ادغامکی ضرورت نہیں رہتی اور وہ اسی
مثلین کے ملحق ہونے کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ کسی مادے کا ۶۷ : ۳
فا کلمہ اور عینکلمہ ایک ہی حرف ہوں جیسے دَدَنُ(کھیل تماشا) ببر (شیر) وغیرہ ۔ ایسی
صورتمیں بھی ادغام نہیں کیا جاتا۔ دوسری صورت یہ ہے کہکسی مادہ کا عینکلمہ
اورلامکلمہ ایک ہی حرف ہو جیسے مَدَدْ شَفَق وغیرہ ۔ یہاں فیصلہکرنا ہوتا ہےکہ
ادغام ہو گایا فک ادغام ہو گا ۔چنانچہ جن قواعد کا ہم مطالعہ کرنے جا رہے ہیں انکے
۵۶
عین اور لامکلمہ ایک ہی حرف ہوں ۔ مضاعفکی بقیہ اقسام کا ان قواعد سےکوئی
تعلق نہیں ہے ۔ نیز یہ بھی نوٹکر لیں کہ عین کلمہ کے حرف کے لئے ہم "مثل
اور لام کلمہکی جگہ آنے والے اس حرفکے لئے " مثل ثانی "کی اصطلاح اول
استعمالکریں گے ۔
مثل ثانی متحرک ہے تو ان کا ادغام کر دیتے ہیں ،جیسے رَبِّ ب سے رَبِّ سِررے
سروغیرہ ۔
۶۷ : ۵ادغام کا دوسرا قاعدہ یہ ہےکہ مضاعفمیں اگر مثل اول اور مثل ثانی
دونوںمتحرک ہوں اور ان کا ماقبل بھی متحرک ہو تو مثل اولکی حرکتکوگراکر اسے
ساکنکر دیتے ہیں ۔ پھرپہلے قاعدے کے تحت ان کا ادغام ہو جاتا ہے جیسے مَدَدسے
مدد اور پھرمد ہو جائے گا۔ یہی مادہ جبباب افتعال میں جائےگا تو اس کا ماضی و
مضارع اصلاً اِمْتَدَدَ يَمْتَدِدُ ہوگا ،جو اس قاعدہ کےتحت پہلے اهْتَدُدَ يَهْتَدُدُ ہوگا
۱۷ :ادغام کا تیسرا قاعدہ یہ ہے کہ مضاعف میں اگر مثل اول اور مثل ثانی
دونوں متحرک ہوں لیکن ان کا ما قبل ساکن ہو تو مثل اولکی حرکتما قبلکو منتقلکر
کے خود اسکو ساکن کر دیتے ہیں ۔ پھرپہلے قاعدہ کے تحت ان کا ادغام ہو جاتاہے ۔
جیسے مَدَدَ (ن) کا مضارع اصلاً يمدد ہو گا ،جو اس قاعدہ کے تحتبعد ذ ہوگا اورپھر
يَمُدُّ ہو جائے گا ۔
۶۷ :مذکورہ بالا قواعدکی مشق کے لئے آپکو دیے ہوئے الفاظکی صرف صغیر
کرنی ہوگی ۔ ذیل میں ہم مادہ ش ق ق سے ثلاثی مجرد باب تفعیل اور باب مفاعلہ
کی صرف صغیردے رہے ہیں ۔ پہلی لائن میں اصلی شکل اور دوسری لائن میں تبدیل
۵۷
شدہ شکل دیگئی ہے ۔ جہاں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے وہاں ( ) xکا نشان لگا دیا
ہے ۔ یہاں ہم نے صرف صغیر کے صرفپانچ مہینے لئے ہیں ۔کیونکہ فعل امرپر اگلے
مختصرصرف صغير
نوٹ :باب مفاعلہ سے اسم الفاعل اور اسم المفعولکی استعمالی شکلیکساںہے
ذخیرہ الفاظ
(افعال) = مددکرنا
(تفعیل) = چیرنا
(استفعال) = مددمانگنا
ΟΛ
مشقنمبر ۶۵
( )1ثلاثی مجرد اور مزید فیہ سے ( باب انفعال کے علاوہ لفظ مددکی اصلی اور استعمالی
( ) iابواب تفعل ،تفاعل ،اشتعال اور انفعال سے لفظ شفقکی اصلی اور استعمالی
۶۸ : ۱گزشتہ سبق میں ہم یہ بات نوٹکر چکے ہیں کہ مضاعف کے جن قواعد کا ہم .
مطالعہکر رہے ہیں ان کا تعلق مضاعفکی صرف اس قسم سے ہے جہاں عینکلمہ اور
حرکات یا سکون کے لحاظ سے صرف درج ذیل تین ہی صورتیں ممکن ہیں ۔ چوتھی
دوسری صورت :مثل اول متحرک +مثل ثانی متحرک () ii
پہلی دو صورتوں کے متعلق ادغام کے قواعد ہم گزشتہ سبق میں پڑھ چکے
۶۸ : ۲کسی مضاعف میں اگر مثل اول متحرک اور مثل ثانی ساکن ہو تو
فک ادغام لازم ہوتا ہے ،یعنی ایسی صورت میں ادغام ممنوع ہوتا ہے ،مثلاً فَعَلْتَ
کے وزن پر مَدَدَ سے مَدَدْتَ اور شَفَقَ سے شَفَقْتَ اپنی اصلی شکل میں ہی بولا اور
لکھا جائےگا ۔
ذہن میں واضحکرلیں ۔ فعل ماضی کی گردان کے چودہ صیغوں پر اگر آپ غورکریں تو
آپ دیکھیں گے کہ اس کے پہلے پانچ صیغوں میں لامکلمہ متحرک رہتا ہے ،جبکہ چھٹے
صیغے سے آخر تک لام کلمہ ساکن ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ مضارعکیگردان میں بھی
۲۸ : ۴تیسری صورت کے واقع ہونے کی ایک وجہ اور بھی ہوتی ہے ۔ آپپڑھ
چکے ہیں کہ کسی وجہ سے مضارعکو جب مجزوم کرنا ہوتا ہے تو اس کے لامکلمہ پر
علامت سکون لگا دیتے ہیں ۔گویا اس وقت بھی مضاعف میں صورت یہی بن جاتی ہے
کہ اس کا مثل اول متحرک اور مثل ثانی ساکن ہوتا ہے ۔ فک ادغام کے اگلے
۶۸ : ۵کسی مضاعفمیں اگر مثل اول متحرک اور مثل ثانی مجزوم ہونےکی وجہ
سے ساکن ہو تو ادغام اور فک ادغام دونوں جائز ہیں ۔ مثلاً مَدَد کا مضارع اصلاً
درست ہے ۔
۲۸ :مَدَدَ کے ادغام شده مضارع يَمُدْدُ ( يَمُدُّ ) سے جب فعل امربناتے ہیں تو
شکل مذذ بنتی ہے جسکو پڑھ نہیں سکتے ۔ پڑھنے کے لئے لامکلمہکوکوئی حرکت دینی
پڑتی ہے ۔ اصول یہ ہے کہ ما قبل اگر ضمہ ( پیش ) ہو تولامکلمہکوکوئی بھی حرکت دی جا
سکتی ہے ۔یعنی فعل امرمد ،مُدَّ اور مد تینوں شکلوں میں درست ہے ۔ لیکن اگرما قبل
فتحہ یاکسرہ ہو تو لامکلمہکو ضمہ نہیں دےسکتے البتہ فتحہ یاکسرہ میں سے کوئی بھی حرکت
دی جاسکتی ہے ۔ مثلا فَرَّ يَفِرُّ سے اِفْرِرْ یا فِرّ یا فِرَّ اور مَسَّ يَمَسُّ سے اِمْسَسُ يا
مس بنےگا۔
۲۸ :یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ اکثر ایک لفظ کے ایک سے زیادہ معانی
ہوتے ہیں ۔ ایسا ان الفاظ میں بھی ممکن ہے جو مضاعف ہوتے ہیں ۔ ایسی صورت
میں عام طور پر ایک معنی دینے والے اسمکو ادغام کے ساتھ اور دوسرے معنی دینے
وغیرہ ۔ یہ بھی نوٹکر لیں کہ مضاعف ثلاثی مجرد کے باب فَتَحَ اور حَسِب سے
ذخیرہالفاظ
عَ
عدَ ذِلَّةٌ =
دددُ -گفتی ة -نرم ہونا خواز و رسوا ہونا ضفل ذَلَّ()
= محبتکرنا حَبَّ( )
ضحُبًّا - ظل(س)ظلا = سامیہ دار ہونا
= ظاہرکرنا ،کھولنا
كَشَفَ(ض)كَشفًا - =کسی کے ساتھ یا پیچھے چلنا
تبع اس اتبَعًا -
= پیچھے پھرنا
دبرا ان ادبراً -
=
) -کسی چیزکا پچھلا حصہ پیٹھ
دبرانادبار
۶۲
مشقنمبر( ۶۶الف)
مندرجہ ذیل افعالکی صرف صغیرکریں اور فعل امرکی تمام ممکن صورتیں
( ۲۶ب )
مشقنمبر
) )(12أَضَلُّوا
( ۱۷ تُحَاجُّونَ ( ) ۱۲ ( ) ۱۵شَاقُوْا ( ) ۱۳أَعَدَّ ( ) ۱۳تُرَدُّونَ
نوٹ :اسماء و افعالکی اقسام سے مراد یہ ہےکہ اگر اسم ہے تو انساء کی چھ میں سے
( )1وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاذْنِ اللهِ ( )۳وَمَنْ كَانَمَرِيضًا أَوْعَلَى سَفَرٍ
فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ( ) ۳وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ( ) ۳قُلْ
( )٥ إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ
لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَىاللهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ( ) ۲وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىأَدْبَارِكُمْ
) ،( 4وَلَا تَتَّبِعُوْا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُوَأَضَلُّوْاكَثِيْرًا ( )۱۳وَإِنْيَمْسَسْكَ
اللهُ بِضُرٍ فَلَا كَاشِفَلَهُ إِلَّا هُوَ ( ) ۹وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُونِيْ فِي اللَّهِ
( )10أَعَدَّ اللهُ لَهُمْ جَتْتٍ ( ) فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ( )۱۳وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ
۶۹گزشتہ دو اسباق میں ہم نے ادغام اور تک ادغام کے جن قواعد کا مطالعہ کیا ۱
ہے ان کا تعلق " مثلین " سے تھا ،یعنی جب ایک ہی حرف دو مرتبہ آجائے ۔ اب
ہمیں تین مزید قواعد کا مطالعہکرتا ہے ۔ جن کا تعلق ہم مخرج اور قریب الحرج حروف
سے ہے ۔ لیکن ان قواعد کا دائرہ بہت محدود ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ پہلے دو
قاعدوں کا تعلق صرف باب افتعال سے ہے جبکہ تیرے قاعدہ کا تعلق صرف باب
تفعل اور باب تفاعل سے ہے ۔ نیزیہ کہ متعلقہ حروفگنتی کے چند حروف ہیں جو
ذیاز میں سےکوئی حرف ۶۹ : ۲پہلا قاعدہ یہ ہےکہ بابافتعال کا فاکلمہ اگر د
ہو تو باب افتعالکی " ت " تبدیل ہو کر وہی حرف بن جاتی ہے جوفاکلمہ پر ہے ،پھر اس
پر ادغام کے قواعد کا اطلاق ہوتا ہے ۔ مثلاً دَخَلَ باب افتعال میں اِذْ تَخَلَہو گا ،پھر
جب"ت " تبدیل ہوکر " و " بنے گی تو یہ اذ د حل بنے گا پھرادغام کے قاعدے کے
تحت ادخل ہو جائےگا ۔ اسی طرح سے ذکر سے اِذْتَكَرَ ،پھارذْ ذَكَرَ اور بالاخراذْكَرَ
ہوجائےگا۔
حرف ہو تو باب افتعالکی "ت " تبدیل ہوکر " ط " بن جاتی ہے ۔ ایسی صورتمیں
ادغامکی ضرورت نہیں پڑتی ،الا یہکہ فاکلمہ بھی " یا " ہو ۔ مثلا صبر باب افتعالمیں
اصْتَبَربنتا ہے لیکن اِصْطَبَرَ استعمال ہوتا ہے ،اسی طرح ضَرَّباب افتعالمیں اضتَر
کے بجائے اضطر استعمال ہوتا ہے ۔ اور طلع سے اِخْتَلَعَکی بجائے اظطلَعَ اور پھر
کرنے کی ترکیب سمجھ لیں پھر قاعدہ سمجھیں گے ۔ ایک کاغذ پر داد سے لے کر ط ظ
تک حروف حتیجی ترتیب وارلکھ لیں پھر ان میں سے حرف " ر "کو حذفکر دیں اور
یادہوجائیں گے ۔
۶۹ : ۵تیسرا قاعدہ یہ ہےکہ بابتفعل یا تفاعل کے فاکلمہ پر اگر مذکورہ بالا حروف
میں سے کوئی حرف آجائے تو ان ابوابکی " ت "تبدیل ہوکر وہی حرفبن جاتی ہے
جو فاکلمہ پر آیا ہے اس کے بعد ان پر ادغام کے قواعد کا اطلاق ہوتاہے ۔ ذیلمیں ہم
دونوں ابوابکی الگ الگ مثال دے رہے ہیں تاکہ آپ تبدیلی کے ہر مرحلہکو
۶۹ : ۲ذکر باب تفعل میں تذکر بنتاہے ۔ پھرجب " ت " تبدیل ہو کر "; " بنے گی
تو یہ ذَذَکر ہو جائے گا اب مثلین یکجا ہیں اور دونوں متحرک ہیں ،چنانچہ ادغام کے
قاعدہ کے تحت مثل اولکو ساکن کریں گے تو یہ ذذکر بنے گا جو پڑھا نہیں جاسکتا ۔
اس لئے اس سے قبل ہمزۃ الوصل لگائیں گے تو یہ اِذْ ذَكَرَ ہوگا اور پھر اذکر ہو جائے
گا۔ یہ بات ضروری ہے کہ باب افتعال میں اِذْكَر او ر باب تفعل میںاِذَکر کے فرق
۶۹ :اسی طرح نَقَلَ باب تفاعل میں تناقل بنتا ہے ۔ جب "ت " تبدیل ہو کر
" ث " بنے گی تو یہ تناقل بنے گا ۔ پھرمثل اولکو ساکن کر کے ہمزۃ الوصل لگائیں
۶۹ :اب یہ بات بھی نوٹکرلیںکہ مذکورہ بالا تیسرا قاعدہ اختیاری ہے ۔ اس کا
مطلب یہ ہےکہ باب تفعل اور باب تفاعل میں مذکورہ حروف سے شروع ہونے
والے الفاظ تبدیلی کے بغیر اور تبدیل شدہ شکل میں دونوں طرح استعمال ہو سکتے
ہیں ۔ یعنی تذکر بھی درست ہے اور اذکر بھی درست ہے ۔ اسی طرح تناقل بھی
٢٩یہ بھی نوٹکرلیںکہ باب تفعل اور تفاعل کے فعل مضارع کے جن ٩:
صیغوںمیں دوت "یکجا ہو جاتی ہیں وہاں ایک "ت "کوگرا دینا جائز ہے مثلا تَتَذَكَّر
اور تذکر دونوں درست ہیں ۔ اورگزشتہ سبق کی مشق میں آپ نے تَشَقَّقُپڑھا تھا جو
ذخیرہ الفاظ
صَنَعَ (ف) صَنْعًا = بنانا صَبَرَ (ض) صَبْرًا = برداشتکرنا رکے رہنا
کرنا )=
۔ دھونا پا ک (تفعیل
زَمَلَ(ن ) ( مَالاً -ایک جانب جھکے ہوئے دوڑنا
=
(تفعل ) = لپٹنا ( فعل) -کوششکر کےاپنیگندگی دورکرنا
=
) -اوڑھنا
(تفعل
YY
مندرجہ ذیل مادوں سے ان کے ساتھ دیئے گئے ابواب میں اصلی شکل اور
کریں ۔
تبدیل شده شکل دونوںکی صرف صغیر
( ۶۷ب )
نمبر
مشق
( ) 1كَذلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ( ) ۳يَوْمَ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ مَا سَعَى
)( ۶
لِعِبَادَتِهِ ( ) ٥وَلَهُمْ فِيْهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ( ( ) ٢وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَاذْرَوْ تُمْ فِيْهَا
) ( ۱۲
( ) ١٢يَأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ( )١وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي وَاللَّهُ يُحِبَّ الْمُطَهِّرِينَ
مثال
۷۰ : ۱پیرا گراف ۶۴ : ۷میں آپپڑھ چکے ہیںکہ کسی فعل کے فا کلمہکی جگہ
اگرکوئی حرف علتیعنی " و "یا " ی "آجائے تو اسے مثالکہتے ہیں ۔ ابیہ بھی نوٹ
کرلیںکہ فاکلمہکی جگہ اگر " و " ہو تو اسے مثال وادی اور اگر " ی " ہوتو اسے مثال
یائیکہتے ہیں ۔ اس سبق میں ان شاءااللللہہ ہہمم ممثاثلال میں ہونے والی تبدیلیوں کے قواعد
کا مطالعہکریں گے ۔
معروف اور مجمول ) دونوں میںکوئی ۷۰ : ۲مثال میں ثلاثی مجرد سے فعل ماضی
تبدیلی نہیں ہوتی ہے ۔ البتہ مزید فیہ سے ماضی کے چند ایک صیغوں میں تبدیلی ہوتی
ہے اور مثالیائی میں مثال واویکی نسبتکم تبدیلی واقع ہوتی ہے ۔ بہر حال جو بھی
تبدیلیاں ہوتی ہیں ان میں سے زیادہ تر مندرجہ ذیل قواعد کے تحت ہوتی ہیں ۔
اس کا قاعدہ یہ ہےکہ مثال وادی اگر باب ضَرَبَ حَسِبَيَا فَتَحَ سے ہو تو اس کے
مضارع معروف میں واوگر جاتاہے لیکن اگر باب سَمِعَ یا گرم سے ہوتو و او بر قرار
رہتا ہے ۔ جبکہ باب نَصَر سے مثال ( وادییا پائی ) کاکوئی فعل استعمال نہیں ہو تا ۔
=
وعدہکرنا " کا مضارع يَوعِدُ کے بجائے يَعِدُ ہوگا وَرِثَ ( ح) = مثلا وَعَدَ ( ض) -
”وارث ہونا " کا مضارع يَورِثُ کے بجائے يَرِثُ اور وَهَبَ (ف) = " عطاکرنا " کا
۷۰ : ۴باب سَمِعَ کے دو الفاظ خلاف قاعدہ استعمال ہوتے ہیں اور یہ قرآنکریم
میں استعمال ہوئے ہیں لہذا انکو یادکر لیجئے ۔ وسع ( ص ) پھیل جانا وسیع ہونا ۔ اس
کا مضارع قاعدہ کے لحاظ سے يَوْسَعُ ہونا چاہئے تھا لیکن یہ يَسَعُ استعمال ہوتا ہے ۔
۶۸
اسی طرح وَطِی ( س) = " روندنا " کا مضارع يَوْطُو کے بجاۓ يَطو استعمال
ہوتا ہے ۔
۷۰ : ۵یہ بات یاد رکھیں کہ مضارع مجہول میںگرا ہوا واو واپس آجاتا ہے مثلاً
يَعِدُ کا مجمول يُفْعَلُ کے وزن پر يُوعَدُ ہو گا ۔ اسی طرح سے يَرثُکا مجمول يُورَثُاور
ما قبل اگرکسرہ ہو تو و اوکوی میں بدل دیتے ہیں اور اگر یاء ساکن کے ماقبل ضمہ ہو تو
یکو واو میں بدل دیتے ہیں مثلا یؤ جَلکا فعل امراؤ جل بنتا ہے جو اس قاعدہ کے
ل ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح سے یقظ (ک) -بیدار ہونا " باب افعال میں
جَل
تحت ااِيیُج
أيْقَظَ يُنقظ بنتاہے لیکن اس کا مضارع اس قاعدہ کے تحت تبدیل ہو کر يُوقظ ہو
جاتا ہے ۔
L
۷۰ :تیرے قاعدےکا تعلق صرف باب افتعال سے ہے اور وہ یہ ہےکہ باب
افتعالمیں مثالکے فاکلمہکی " و "یا " ی "کو "ت " میں تبدیلکر کے اشتعالکی " ت "
میں مدغمکو دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں یہ بات نوٹکرلیںکہ " و "کو تبدیلکرنالازمی
اس قاعدہ کے تحت انتصل اور پھراتصل ہو جائے گا ۔ جبکہ یسر باب افتعال میں
۷۰۸آپکو یاد ہو گا کہ مہموز الفاء میں صرف ایک فعل یعنی اَخَذَ کا ہمزہ باب
افتعال میں تبدیل ہوکر " ت " بنتاہے مگر مثال وادی سے باباشتعال میں آنے والے
تمام افعال میں "و "کی " ت " میں تبدیلی لازمی ہے ۔ خیال رہےکہ مثالوادی سے
باب افتعال میں آنے والے افعالکی تعداد زیادہ ہے جبکہ مثال پائی سے باب افتعال
صرف صغیر ہوتاہے ۔ مثلا اوْ تَصَلَ سے اتَّصَلَ يَوْ تَصِلُ سے يَتَّصِلُ اوْتَصِلْ
سے قاعدے کے مطابق بنتاہے ۔ مثلا وَ هَبَ کا مضارع يَهَبُ استعمال ہوتا ہے ۔ فعل
ہمزۃ الوصلکی ضرورت نہیں ہے ۔ صرفلام کلمہکو مجزومکریں گےتو فعل امرهَبُ
ذخیرہ الفاظ
عَرَضَ( )
ضعَرْضًا = پیشکرنا ض وَكُلا -سپردکرنا
وگل()
وَذَرَ(ف
) وَذُرًا -چھوڑنا = یقینکرنا
( فعال) -
مندرجہ ذیل مادوں سے ان کے ساتھ دیئے گئے ابواب میں اصلی شکل اور
مشقنمبر (۶۸ب )
( ) 1فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ فَلْتَةِ أَيَّامٍ ( ) ۳الشَّيْطَنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ ( )۳فَلَمَّا وَضَعَتْهَا
قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا الْقَى ( ) ۳فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْعَلَىاللهِ -إِنَّاللهَ يُحِبُّ
لكَانَخَيْرًا لَّهُمْ ( ) ٤وَهُمْ يَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ الأَسَاءَ مَا يَزِرُونَ
( ) ٢قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا ( ) ١٠وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ
الْمُتَوَكَّلُونَ ( ) ۱۳فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ ( )۱۳قَالُوا لَا تَوْجَلْ ( )١٥وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ
وزْرَ أُخْرَى ( )۱۲رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِى وَيَسِّرْلِيْ أَمْرِى ( ) ۱۷الَّذِيْنَ يَرِثُونَ
الْفِرْدَوْسَ ( )۱۸إِنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِى النَّهَارِ ( )۱۹وَأَوْرَثْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ
ا :اے سبق نمبر ۶۴میں آپپڑھ چکے ہیں کہ جس فعل کے عینکلمہکی جگہکوئی
حرفعلت ( و /ی ) آجائے تو اسے اجوفکہتے ہیں ۔ اب یہ بھی نوٹکر لیںکہ عین
کلمہکی جگہ اگر "و " ہو تو اسے اجوفوادی اور اگر " ی " ہو تو اسے اجوفیائی کہتے
ہیں ۔ اس سبق میں ان شاء اللہ ہم اجوف میں ہونے والی تبدیلیوں کے قواعد کا
مطالعہکریں گے ۔
۷۱ : ۲اجوفکا قاعدہ نمبرا یہ ہےکہ حرف علت (وای ) اگر متحرک ہو اور اس
کے ماقبل فتحہ ( زبر ) ہو تو حرف علتکو الف میں تبدیل کردیتے ہیں جیسے قول سے
:اے اجوفکا قاعدہ نمبر ۲یہ ہےکہ حرفعلت (وای ) اگر متحرک ہو اور اس کا
ما قبل ساکن ہو تو حرف علت اپنی حرکتما قبلکو منتقلکر کے خودحرکت کے موافق
حرف علت متحرک اور ما قبل ساکن ہے اس لئے پہلے یہ يَخَوْفُہو گا اور پھريَخَافُ
ہو جائےگا ۔ اسی طرح قول ( ن ) کا مضارع يَقُولُ سے يَقُولُ ہوگا اور يَقُولُ ہی رہے گا
:اے اجوفکا قاعدہ نمبر ( ۳الف ) یہ ہے کہ اجوف کے عین کلمہ کے بعد والے
حرفپر اگر علامت سکون ہو ،ساکن ہونے کی وجہ سے یا مجزوم ہونے کی وجہ سے تو
دونوں صورتوں میں تینکلمہ کا تبدیل شده ا روزیگر جاتاہے ۔ اس کے بعد فاکلمہ
کرتے ہیں ۔ اگر وہ اصلا ساکن تھا اور قاعدہ نمبر ۲کے تحت انتقال حرکتکی وجہ سے
۷۲
متحرک ہوا ہے تو اسکی حرکت برقرار رہے گی ۔لیکن اگر فاکلمہ اصلاً مفتوحتھا تو اس
کی فتحکو ضمہ یا کسرہ میں تبدیلکر دیتے ہیں ۔ اس کا اصول یہ ہےکہ اس فعل کا
مضارع اگر مضموم العین ( باب نصر و کرم ہے تو ضمہ دیتے ہیں ورنہکسرہ ۔اب
ال پہلے ہم وہ مثالیں لیتے ہیں جہاں انتقال حرکت ہوتی ہے ۔ خوف (س )کے
غائب کے صیغہ پر پہنچیں گے تو اسکی اصل شکل يَخْوَفُنَ ہوگی اب صورتحال یہ ہے
که حرف علت محترک ہے اور ما قبل ساکن ہے اس لئے یہ اپنی حرکمتا قبلکو منتقل
کر کےخود الف میں تبدیل ہو جائے گا تو شکل يَخَافُنَ ہو جائےگی ۔ اب لامکلمہ پر
( ب) ( الف) کے تحت الفگر جائےگا ۔ قاعدہ علامت سکون ہے اس لئے قاعدہ
کے تحت فاکلمہ چونکہ اصلاً ساکن تھا اور اسکی حرکت منتقل شدہ ہے اس لئے وہ
برقرار رہے گی ۔ اس طرح استعمالی شکل بحفن ہوگی ۔ اسی طرح قول ( ن ) سے
ن اور پھر
یْنَ
بيِع
ن ہو گا جبکہ بیع ( ض ) سے یہ بنغن پہلے يَبْ
نَققُللْنَ
يَقُولُنَ پہلے يَقُولُنَ اور پھري
يَبِعْنَ ہو گا ۔
:اے اب ہم وہ مثالیں لیتے ہیں جہاں فاکلمہ اصلاً مفتوح ہوتاہے ۔ خَوفَ (س )
سے ماضی کی گردانکرتے ہوئے جب ہم جمع مونث غائب کے صیغے پر پہنچیں گے تو
اسکی اصلی شکل خَوِفْنَ ہو گی ۔ اب صورتحال یہ ہےکہ حرف علت متحرک ہے اور
اس کے ماقبل فتحہ ہے اس لئے واو تبدیل ہو کر الف بنے گا تو شکل خَافُنَ ہو جائے
گی ۔ اب لام کلمہ پر علامت سکون ہے ۔ اس لئے قاعدہ ( ۳الف) کے تحت الفگر
(ب ) کے تحت ہم نے دیکھاکہ فاکلمہ اصلاً مفتوح ہے اس لئے جائے گا۔ پھر قاعدہ
اسکی فتحکو ضمہ یا کسرہ میں بدلناہے ۔ چونکہ اس کا مضارع مضموم العین نہیں ہے
کو کسرہ میں تبدیل کریں گے تو استعمالی شکل خِفْنَ ہو گی ۔ اسی طرح قَوَلَ
اس لئے فتح
( ن ) سے قَولْنَ پہلے قَالُنَ اور پھر قُلْنَ ہو گا جبکہ بیع (ض) سے بیعْنَ پہلے بَاعْنَ اور پھر
۷۳
یعن ہوگا ۔
اسم الآلہ اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہیں جیسے مکیال (ناپنے کاآلہ ) مِنْوَالٌ (کپڑے ()1
بنےکی کھڈی) مغول (کد ال) مِصْبَدَةً (پھندا ) وغیرہ بغیر تبدیلیکے اسی طرح
اسم التفصیل بھی اس سے متقی ہیں جیسے اَقْوَمُ ( زیادہ پائیدار) اطیب ( زیادہ ()۲
( ) ۳الوان وعیوب کے مذکر کا وزن افعلُ بھی منتقلی ہے جیسے اَسْوَدُ أَبْيَضُ أَحْوَرُ
الوان و عیوب کے مزید فیہ کے ابواب بھی مستقلی ہیں جو ابھی آپ نے نہیں ()۴
پڑھے ہیں جسے اِسْوَدَّ يَسْوَدُ ( سیاہ ہو جاتا ) ابيضيبيض ( سفید ہو جانا ) وغیرہ ۔
( )۵فعل تعجب ( جو ابھی آپ نے نہیں پڑھے ) بھی متقی ہیں جیسے مَا أَظْوَلَهُ یا اطول
مشقنمبر۶۹
مندرجہ ذیل مادوں سے ماضی معروف اور مضارع معروفمیں اصلی شکل اور
۷۲ : ۱گزشتہ سبق میں ہم نے اجوف کے کچھ قواعد سمجھ کر صرف کبیرپر انکی
اس کے علاوہ محدود دائرہ کاروالے کچھ مزید قواعد کا مطالعہ بھی کریں گے ۔
۷۲ : ۲اجوف سے فعل امر بنانے کے لئےکسی نئے قاعدہکی ضرورت نہیں پڑتی
بلکہگزشتہ سبق کے دوسرے اور تیسرے قاعدہ کا ہی اطلاق ہوتا ہے ۔ مثلا يَخَافُ
( يَخْوَفُ) سے فعل امرکی اصلی شکل اخوف بنتی ہے ۔ دوسرے قاعدہ کے تحت "و "
اپنی حرکتما قبلکو منتقلکر کے الف میں تبدیل ہو گا اور فاکلمہ متحرک ہو جانےکی
گا ۔ پھر قاعدہ نمبر ( ۳الف ) کے تحت الف گرےگا اور قاعدہ نمبر ( ۳ب ) کے تحت
فاکلمہ پر منتقل شدہ حرکت برقرار رہےگی ۔ چنانچہ فعل امر خَفْ بنے گا ۔ اسی طرح
يَقُوْلُ يَقُولُ) کا فعل امر أَقُولُ سے قُوْلَ اور پھر قُلْہوگا ،جبکہ يَبيعُ (يَبيعُ)کا فعل امر
کلمہ پر آنے والے حرف علت ( وای )کو ہمزہ میں تبدیل کر دیتے ہیں ۔ جیسے خَافَکا
اسم الفاعل خَاوِفْکی بجائے خَائِفٌ بَاغ کا بایعکی بجائے بَائِع اور قَالَکا قَاوِلکی
اجوفوادی کا اور پھر اجوفیائی کا۔ اجوفوادی سے اسم المفعول بنانے کے لئے
بھی گزشتہ قواعد ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ مثلا فالکا اسم المفعول مَفْعُول"کے
وزن پر اصلا " مفوون " ہوگا ۔ اب " و " اپنی حرکت ما قبل کو منتقلکرےگا اور اس
۷۵
کے مابعد حرف ساکن ہے اس لئے وہ گر جائے ۔ اس طرح وہ مقول بنے گا ۔یاد
کرنے میں آسانی کی غرض سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اجوف وادی کا اسم المفعول
۷۲ : ۵اجوفیا ئی کا اسم المفعول خلاف قاعده " مغیل" کے وزن پر آتا ہے اور
صحیح و زن یعنی " مَفْعُول پر بھی آتا ہے ۔ اکثر الفاظ کا اسم المفعول دونوں طرح
استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً باغکا اسم المفعول مبیع اور مَبْيُوعٌ دونوں درست ہیں ۔
اسی طرح عَابَ کا مَعِيْبٌ اور مَعْيُوبٌ دونوں درست ہیں ۔ البتہ بعض مادوں سے
اسم المفعول صرف مغیلکے وزنپر ہی آتاہے جیسے شَادَ سے مشیدٌ ( مضبوطکیا ہوا)
۷۲ :اجوف کے ایک قاعدہ کا زیادہ تر اطلاق ماضی مجہول میں ہوتا ہے ۔ قاعدہ
یہ ہےکہ حرف علت (وای ) اگر مکسور ہے اور اس کے ماقبل ضَمَّہ ہوتو ضَمَّہکوکسرہ
میں بدلکر حرفِ علتکو " ی " ساکن میں تبدیل کر دیتے ہیں ۔ مثلاً قالکا ماضی
مجهول اصلاً قول ہو گا اور باغ کا ماضی مجھول اصلاً بیع ہوگا ۔ ان دونوں میں حرف
علت مکسور ہے اور ما قبل ضمہ ہے اس لئے ضمہکو کسرہ میں اور حرف علتکو پائے
ساکن میں تبدیلکریں گے تو یہ قیل اور بیع ہو جائیں گے ۔ یادکرنے میں آسانی کے
لئے ہمکہہ سکتے ہیں کہ اجوفکا ماضی مجہول زیادہ تر " فیل " کے وزن پر آتا ہے ۔
۷۲ :ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ جب ایک لفظ میں دو حروف علت " وای "یکجا
ہو جائیں اور انمیں پہلا سا کن اور دوسرا متحرک ہو تو "و "کو "ی " میں تبدیل کر
کے ان کا ادغامکر دیتے ہیں ۔ اس قاعدہ کے مطابق " فعل " کے وزن پر آنے
والے اجوف وادی کے بعض اسماء میں تبدیلی ہوتی ہے مثلاً سَاءَ ( سَوَءَ) سے فَيْعِل
کے وزن پر سیوء بنتہاے پھر اس قاعدہ کے مطابق ستی ( ،برائی ) ہو جاتا ہے ۔ اسی
طرح سَادَ ( سَوَدَ ) سے سیوڈ پھرسَتِدٌ ( سردار ) اور مَاتَ ( مَوتَ ) سے منوت پھر
۷۶
་་
میت ( مردہ ) ہوگا۔ جبکہ اجوف یائی میں چونکہ عین کلمہ " ی " ہوتا ہے اس لئے
""
فَيْعِل کے وزن پر آنے والے الفاظ میں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہوتی صرف
ادغام ہوتا ہے ۔ مثلاطاب(طيب )سے طبیب پھرطيِّبٌ لان ( لَيْنَ )سے لَيْينٌپھرلَيَنْ
مندرجہ ذیل مادوں سے ان کے ساتھ دیئے گئے ابواب میں اصلی شکل اور
ضروری ہدایت
مطالعہکریں ۔
LL
۷۳اس سبق میں اب ہمیں اجوف میں ہونے والی تبدیلیوںکو ابواب مزید فیہ ۱
تبدیلیاں مزید فیہ کے صرف ایسے چار ابواب میں ہوتی ہیں جن کے شروع میں ہمزہ
آتا ہے یعنی افعال اشتعال انفعال اور استفعال ۔ جبکہ بقیہ چار ابواب یعنی تفصیل
مقابلہ ،تفعل اور فاعل میںکوئی بتدیلی نہیں ہوتی اور ان میں اجوف اپنے صحیح وزن
ابواب مزید فیہ پر نہیں ہوتا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مزید فیہ کے لام کلمہ پر اگر
علامت سکون ہوگی تو قاعدہ نمبر ( ۳الف ) کے تحت میںکلمہکی اروای توکرےگی
لیکن اس کے ماقبل کی حرکت برقرار رہےگی اور اس میں کوئی تبدیلی نہیںکی
جائے گی ۔
۷۳ : ۳مزید فیہ کے جن چار ابواب میں تبدیلی نہیں ہوتی ان کا اسم الفاعل اپنے
سیح و زن کے مطابق استعمال ہوتاہے ۔ اور جن چار ابواب میں تبدیلی ہوتی ہے اس
میںگزشتہ قواعد کا اطلاق ہوتا ہے ۔ مثلاض ی ع باب افعال میں أَضَاعَ ( أَضْيَعَ )
اب دو سرے قاعدے کے تحت " ی "کی حرکتما قبل کو منتقل ہوگی اورکسرہ کے
مناسب ہونےکی وجہ سے " ی " بر قرار رہے گی ۔ اس طرح یہ مُضِيعٌ ہو جائےگا ۔
اسی طرح خون باب انتقال میں اِخْتَانَ اخْتَوَنَ ) يَخْتَانُ (يَخْتَونُ ) ( خيانت
کرنا ہوگا ۔ اس کے اسم الفاعلکی اصلی شکل مُختون بنتی ہے ۔ ابپہلے قاعدے
تبدیلی دو طرح سے ہوتی ہے ۔ باب افعال اور استفعالکے صدرمیں تبدیلیکا طریقہ
۷۳ : ۵باب افعال اور استفعان کے مصدر میں تبدیلی اصلا توگزشتہ قواعد کے
تحت ہی ہوتی ہے لیکن اس کے نتیجہ میں دو الف یکجا ہو جاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں
ایک الفکو گراکر آخر میں " " کا اضافہکر دیتے ہیں ۔ مثلاً اضاعَيُضِيعُکا مصدر
اصلا اصباغ ہوگا۔ اب " ی " اپنی حرکت ما قبلکو منتقلکر کے الف میں تبدیل ہوگی
تو لفظ اضااغ بنے گا ۔ پھر ایک الفکو گرا کر آخر میں " " کا اضافہکریں گے تو
إضَاعَةُ استعمال ہوگا ۔ اسی طرح سے اِعَانَةٌ إِجَابَةٌ وغیرہ ہیں ۔ ایسے ہی باب
استفعال میں اِسْتَعَانَيَسْتَعِيْنُکا مصدر اصلا اسْتِعْوَانُ ہوگا جو پہلے اِسْتِعَا ان اور پھر
اسْتِعَانَہ ہوگا ۔
۷۳ :باب افتعال اور انفعال کے مصدر میں اجوفوادیکی "و " تبدیل ہو کر
"ی " بن جاتی ہے ۔ مثلاً اِخْتَانَ يَخْتَانُ کا مصدر اصلا اخْتِوَانُ ہو گا جو اخْتِيَانُ بن
اصلاً اختياب ہوگا اور اس میںکسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ اسی طرح
۷۳ : ۷گزشتہ سبق میں ہم نے پڑھا تھا کہ اجوفکا ماضی مجهول زیادہ تر " فیل "
کے وزن پر آتا ہے ۔ اب یہ بات نوٹکرلیںکہ مذکورہ قاعدہ اجوفکے ثلاثی مجرد
اور باب افتعال کے ماضی مجہول میں استعمال ہوتاہے ۔ جبکہ باب افعال اور استفعال
کے ماضی مجہول میں تبدیلیگزشتہ قواعد کے مطابق ہوتی ہے ۔ اور باب انفعال سے
مجمول نہیں آتاکیونکہ اس سے آنے والے تمام افعال لازم ہوتے ہیں ۔
۷۳ :اجوفمیں گنتی کے چند افعال ایسے ہیں جو باب استفعال میں تبدیل شدہ
29
شکل کے بجائے اپنی اصلی شکل میں ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ایک فعل
کرنا اگر چہ جائز تو ہے تاہم زیادہ تر یہ اصلی شکل میں ہی استعمال ہوتا ہے ۔ اسی طرح
ایک اور فعل اِسْتَحْوَذَ يَسْتَحْوِذُ اِسْتِخْوَاذًا (کسی سوچپر قابو پالینا ،غالب آجاتا )
ہے ۔یہ بھی تبدیلی کے بغیر استعمال ہوتا ہے اور قرآنکریم میں بھی اسی طرح استعمال
ہوا ہے ۔
ذخیرہ الفاظ
=
ضَىعَ(ض) ضَيْعًا ضِيَاعًا -ضائع ہونا عَوَذَن عَوْذَا =کسی کی پناہ میںآتا
فٹنا توبہکرنا
ےااللہکی طرلو
تَابَاِلَی = بندک رَوَدَن رَوْدًا = کسی چیزکی طلبمیں گھومنا
(افعال) = قصدکرنا ارادہکرنا
تَابَعَلَى= اللہکی رحمتکا بندےکی طرف
مشقنمبراے (الف)
مندرجہ ذیل مادوں سے ان کے ساتھ دیئے گئے ابواب میں اصلی شکل اور
مشقنمبر اے (ب)
( ) ۱فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌفَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا (( )۲مَاذَا أَرَادَ اللهُ بِهَذَا مَثَلاً ()۳
اَعُوْذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَهِلِينَ ( ) ۴وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ ( ) ٥
فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي ( ) ٢وَإِنِّي أعِيْدُهَا بِكَ ( ) ٤وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ
يَفْرَحُوْا بِهَا ( )۸ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللهِ -وَاللهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ ( ) ۹قَالَ إِنِّي
( )1وَإِنْ تُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ تبتُ الآنَ ( )١٠ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ
( ) ۱۳فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيْبٌ مُّجِيْبٌ ( ) ۱۳فَكَفَرَتْ لِفَضْلِهِ
بِاَنْعُمِ اللهِ فَاذَاقَهَا اللهُ لِبَاسَالْجُوعِ وَالْخَوْفِ ( )۱۳رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا ( )۱۵
فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ( ) ۱۲ذُقُ اِنَّكَاَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ ( )۱۷إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ ( ) ۱۸ما
أَصَابَمِنْ مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ( ) ۱۹فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أَضِيْعُ عَمَلَ
عَامِلٍ مِّنْكُمْ
مندرجہ ذیل اسماء و افعالکی قسم ،مادہ ' باب اور صیغہ بتائیں ۔
(ماضی معروف )
۷۴ : ۱سبق نمبر ۶۴میں آپ پڑھ چکے ہیںکہ جس فعل کے لامکلمہ کی جگہ حرف
علت " وای " آجائے اسے ناقص کہتے ہیں ۔ چنانچہ اگر لام کلمہ کی جگہ " واؤ " ہو تو
اسے ناقص وادی اور اگر " ی " ہو تو اسے ناقص یا ئی کہیں گے ۔ ناقص افعال اور
اسماء میں اجوفکی نسبت زیادہ تبدیلیاں ہوتی ہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ کچھ
تبدیلیاں تو ناقص کے قواعد کے تحت ہوتی ہیں اورگزشتہ اسباق میں پڑھے ہوئے کچھ
قواعد کا اطلاق بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے ناقص میں ہونے والی تبدیلیوںکو سمجھنے کے
لئے زیادہ غور اور توجہکی ضرورت ہے ۔ ساتھ ہیگزشتہ قواعد کا پوری طرح
یاد ہونا
بھی ضروریہے ۔
۷۴ : ۲اجوف کے پہلے قاعدہ میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ حرف علت متحرک ہو ا در
ما قبلفتحہ ہو تو حرف علت " وای "کو الف میں تبدیلکر دیتے ہیں ۔ اجوف میں اس
قاعدہ کے اطلاق کے وقت " و " اور " ی " دونوں کو تبدیل کر کے الف ہی لکھا جاتا
ہے جیسے قول سے قَالَ اور بیع.سے باغ ۔ لیکن ناقص میں جباس قاعدہ کا اطلاق
کرتے ہیں تو تبدیلشدہ الفکو لکھنے کا طریقہ ناقص وادی اورناقص پائی میں مختلف
الف ہی لکھی جاتی ہے جیسے دَعو سے دَعَا ( اس نے پکارا ) للو سے تلا ( وہ پیچھے پیچھے
آیا ) وغیرہ ۔ لیکن ناقص پائی میں جب "ی " الف میں بدلتی ہے تو وہ بصورت الف
مقصورہ یعنی ا ی لکھی جاتی ہے ۔ جیسے مَشَی سے مشی ( وہ چلا ) عَصَى سے عضی
۸۲
( اس نے نافرمانیکی ) وغیرہ ۔
اگر ضمیرمفعولی آرہی ہو تو وادی اوریائی دونوں الف کے ساتھ لکھے جاتے ہیں ۔ جیسے
ناقص پر اطلاق ہوتا ہے تو ناقص کے مندرجہ ذیل تثنیہ کے صیغے اس قاعدے سے
( ) 1ماضی معروف میں تشبیہ کا پہلا صیغہ یعنی فعلا کا وزن مستثنی ہے ۔ مثلا دَعَوَ
( دعا ) کا تثنیہ دَعَوا اور مَشَی ( مشی ) کا تثنیہ مَشَیا تبدیلی کے بغیر استعمال ہوگا
( ) ۲مضارع معروف میں تثنیہ کے پہلے چارمینے یعنی يَفْعَلان اورتَفْعَلَان کے
اوزان مستی ہیں ۔ مثلا يَدْعُوَانِ ،تَدْعُوَانِ اور يَمْشِيَانِ تَمْشِيَانِ بھی تبدیلی کے
بغیراستعمال ہوںگے ۔
۷۴ :ناقص کا پہلا قاعدہ یہ ہے کہ ناقص کے لامکلمہ کا حرفِ علت اور صیغہ کا
حرف علت اگر یکجا ہو جائیں تو لامکلمہ کا حرف علتگر جاتا ہے ۔ پھرمیںکلمہپر اگر فتحہ
ہے تو وہ برقرار رہےگی ۔ اگر ضمہ یاکسرہ ہے تو اسے صیغہ کے حرف علت کے مناسب
۷۴ :پہلے وہ مثال لے لیں جس میں عین کلمہ پر فتحتہ ہوتی ہے جو برقرار رہتی
ہے ۔ دَعَوَ( دَعَا) کے جمع مذکر غائب کے صیغہ میں اصلی شکل دَعَوُوا بنتی ہے ۔ اس
گرےگا تو دعوا باقی بچا ۔ عین کلمہکی فتحہ برقرار رہےگی اس لئے
کے لامکلمہ کا " و "
=
یہ دَعَوْا ہی استعمال ہو گا ۔ اسی طرح زمنی (ارضی ) ۔ " اس نے پھینکا کی جمع مذکر
۷۲ :اب یہ بات بھی لوٹ کر میں ماسی معروفمیں تثنیہ مؤنث غائب کا صیغہ
یعنی فَعَلَتَا اپنے واحد کی استعمالی شکل سے بنتا ہے مثلاً دَعَتْ سے دَعَتَا بنے گا اور
لَقِيَتْ سے لَقِینا بنے گا۔ اس کے بعد ماضی کے وہ صیغہ آجاتے ہیں جن میں لامکلمہ
۸۴
مشقنمبر۷۲
مندرجہ ذیل مادوں سے ماضی معروف میں اصلی شکل اور استعمالی شکل دونوں
کی صرفکبیر
کریں ۔
معاف
کردینا ( )iع ف و ( ن )
(مضارع معروف)
۷۵ : ۱گزشتہ سبق میں ہم نے ناقص کے ماضی معروف میں ہونے والی تبدیلیوںکو
ناقص کے ایک قاعدہ اور کچھ سابقہ قواعد کی مدد سے سمجھا تھا ۔ اب ناقص کے
مضارع معروفمیں ہونے والی تبدیلیوںکو بھی ہم ناقص کے ایک نئے قاعدہ اور
۷۵ : ۲ناقص کا دوسرا قاعدہ یہ ہے کہ مضموم واو " و " کے ما قبل اگر ضمہ ہو تو
" و " ساکن ہو جاتی ہے اور مضموم یا (ٹی ) کے ما قبل اگر کسرہ ہو تو "ی " ساکن ہو جاتی
=
ی ۔ اب اس قاعدہ کو مثالوںکی مدد سے ٹی - ؤ اور ہے ۔ یعنی -و -
سمجھ لیں ۔
جاتا ہے ۔ اسی طرح رمی ( ض ) کا مضارع اصلا یز منی بنتا ہے جو اس قاعدہ کے تحت
اس میں اس قاعدہ کے تحت تبدیلی نہیں ہوگی اس لئےکہ مضموم یا کے ماقبلکسرہ
نہیں ہے ۔ البتہ اس پر اجوف کے پہلے قاعدہ کا اطلاق ہوگا اس لئےکہ متحرک حرف
میں مضارع معروف کے تشنیہ کے چاروں صیغے تبدیلیوں سے مستثنیٰ ہیں ۔ اس لئے
تثنیہ کو چھوڑکراب ہم جمع مذکر غائب کے صیغہ يَفْعَلُونَ پر غورکرتے ہیں ۔ يَدْعُو
) جمع مذکر غائب کے صیغہ میں اصلا ید عُرُونَ بنے گا ۔ یہاں لامکلمہ کا حرف
( يَدْعُو
ينقيون بنے گا لامکلمہکی ” ی گرےگی اور ماقبلکی فتحہ برقرار رہےگی اوريَلْقَوْنَ
استعمال ہوگا ۔
واحد مونث حاضر کے صیغہ یعنی تَفْعَلِینَ کے وزن پر بھی ناقص کے ۷۵ : ۵
دو سرے قاعدے کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اسکو بھی مثالوںکی مدد سے سمجھ لیں ۔ يَدْعُو
) واحد مونث کے حاضرصیغہ میں اصلا تَدْعُونِنَ بنے گا ۔ناقص کے پہلے قاعدہ
(يَدْعُو
کے تحت لام کلمہکی واوگرےگی ۔ ماقبلکی ضمہکو صیغہکی " ی "سے مناسبت نہیں
ہے اس لئے ضمہکو کسرہ میں تبدیل کریں گے تو تَدْعِيْنَ استعمال ہوگا ۔ اسی طرح
يَرْمِي ( يَرْمِنی ) سے اصلا تَرْمِنِینَ بنے گا ۔ لامکلمہکی ”ی گرےگی ۔ ماقبلکی کسرہ کو
صیغہ کی "ی " سے مناسبت ہے اس لئے تَرمِینَ استعمال ہوگا ۔ يَلْقَى ( يَلْقُی ) اصلاً
تَلْقَبِينَ بنےگا ۔ما قبلکی فتحہ برقرار رہےگی اور تلقین استعمال ہوگا ۔
۷۵ :آخر میں اب یہ بھی نوٹکر لیںکہ جمع مؤنث یعنی نون النسوہ والے
دونوں صیغوں میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ جبکہ متکلم کے صیغوں میں ناقص کے
مشقنمبر۷۳
ناقص ( حصہسوم )
(مجهول)
21 ::
24ناقص کا قاعدہ نمبر ( ۳الف ) یہ ہے کہ کسی لفظ کے آخر میں آنے والی " و "
جو عموماً ناقصکالام کلمہ ہوتا ہے ) کے ما قبل اگر کسرہ ہو تو و اوکو "ی " میں تبدیل کر
دیتے ہیں ۔ اس قاعدہ کا اطلاق ناقص وادی ( ثلاثی مجرد )کے تمام ماضی مجہول افعال
میں ہوتا ہے ۔ لیکن ماضی معروف کے کچھ مخصوص افعالپر بھی اس کا اطلاق ہو تا
کا اطلاق ہوتا ہے مثلا رَضِوَ ( وہ راضی ہوا ) تبدیل ہوکر رضی استعمال ہوتا ہے ۔
اس طرح غَشِوَ ( اس نے ڈھانپ لیا ) غَشِی ہو جاتا ہے ۔ اور اسکی صرفکبیر بھی
" ی " کے ساتھ ہوتی ہے ۔ یعنی رَضِی رَضِيَا رَضُوا ( اصلا رَضِبُوْا ) رَضِيَتُ
۷ناقص وادی ثلاثی مجرد کے کسی باب سے آئے ہر ایک کے ماضی مجہول پر :
اس قاعدہ کا اطلاق ہوگا ۔ اس لئےکہ ماضی مجہول کا ایک ہی وزن ہے فعل ۔ مثلاً
بعض دفعہ اجوف کے کچھ اسماءکی جمعمکسراور مصدر میں بھی اس قاعدہ کا ۶ : ۴
اطلاق ہوتا ہے ۔ مثلاً نوبکی جمع ثواب تبدیل ہو کر تیاب ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح
صَامَ يَصُومُ کا مصدر صِوَامٌ سے صِيَام اور قَامَ يَقُوْمُ کا مصدر قوام سے قِيَامٌ
ہو جاتا ہے ۔
کسی لفظ میں تین حرفوںکے
۷۶ : ۵ناقص کا قاعدہ نمبر ( ۳ب ) یہ ہے کہ جب " و "
بعد ہو یعنی چوتھے نمبپرر یا اس کے بعد واقع ہو اور اس کے ماقبل ضمہ نہ ہو تو " و "کو
" ی " میں تبدیل کر دیتے ہیں ۔ جیسے جنو ( ض ) ( -اکٹھا کرنا پھل یا چندہ وغیرہ ) کا
مضارع اصلاً يجبو ہوگا جو اس قاعدہ کے تحت پہلے يَجْبِٹی ہو گا پھر ناقص کے
دوسرے قاعدہ کےتحت يَجبنی ہو جائےگا ۔ اسی طرح سے رَضِوَ ( رَضِی )کا مضارع
اصلا یر ضَو ہو گا جو اس قاعدہ کے تحت پہلے برضئی اور پھر ا جوف کے پہلے قاعدہ کے
۷۶ :ناقص وادی ثلاثی مجرد کےکسی باب سے آئے ہر ایککے مضارع مجہول پر
( دعی ) کا مضارع اصلا یدعو ہو گا جو اس قاعدہ کے تحت پہلے يُدْعَنی ہوگا اور پھر
اجوفکے پہلے قاعدہ کے تحت يُذعی ہو جائے گا ۔ اسی طرح عُفو ( عُقِی ) کا مضارع
۷۶ :ناقص کے اس قاعدہ نمبر ( ۳ب ) کے تحت ناقص دادی کے تمام مزید فیه
افعال میں "و "کو "ی " میں بدل دیا جاتا ہے ۔ پھرحسب ضرورت اس " ی " میں مزید
قواعد جاری ہوتے ہیں ۔ مثلا ازتَضَوَ افْتَعَلَ ) پہلے ارتضی اور پھرازتضی ہو گا ۔
اور انفعال کے مصدر میں اجوف وادیکی "و " تبدیل ہو کر " ی "بن جاتی ہے ۔ یہ
تبدیلی بھی ناقص کے اسی قاعدہ ( ۳ب ) کے تحت ہوتی ہے ۔ وہاں دی گئی مثالیں
ابآپاندازہکر سکتے ہیں کہ ناقص میں اکثر " و " بدلکر "ی " ہو جاتی :
بدلکر "و " ہو جاتی ہے ۔ اور بعض صورتوں میں مختلفالفاظ ہے۔ جبکہ کبھی " ی
۸۹
ہم شکل ہو جاتے ہیں ۔ اسکی وجہ سے اکثر الفاظ کے متعلق یہ فیصلہکرنا مشکل ہو جاتا
ہےکہ اصلمادہ واوی ہےکہ پائی ہے تا کہ ڈکشنری میں اسے متعلقہ پٹی میں دیکھا
ماده ناقص وادی کے طورپر لکھا ہوتاہے تو دوسری ڈکشنری میں وہیمادہ ناقص یائی کے
طورپر لکھا ہوتا ہے ۔ مثلا صلوا صلی ۔ طغو طغی ۔ غشو /غشی وغیرہ ۔
۷۶ : ۱۰اب آپکو ذہنی طور پر اس بات کے لئے تیار رہنا چاہئےکہ کوئی لفظ اگر
ناقص وادی میں نہ ملےتو پائی میں ملے گا ۔ تاہم اس تلاشمیں ڈکشنریکی زیادہ ورق
گردانی نہیں کرنا پڑتی ۔کیونکہ اس مقصد کے لئے عربی حروف ابجد میں آخری چار
حرفوںکی ترتیب یوں رکھی گئی ہے ۔ ” ن -ھ -و۔ی " جبکہ اردو میں یہ ترتیب
ن ۔ و ۔ ھ ۔ ی " ہے ۔ اس طرح ڈکشنری میں " و " اور " ی " آخر پر ساتھ ساتھ مل
کرآجاتے ہیں ۔
۷۶ :یاد رہےکہ قدیم ڈکشنریوں میں سے اکثر میں مادوںکی ترتیبمادہ کے
آخری حرف لام کلمہ ) کے لحاظ سے ہوتی ہے جبکہ جدید ڈکشنریوں میں مادوںکی
ترتیبپہلے حرف ( فاکلمہ ) کے لحاظ سے ہوتی ہے ۔ چنانچہ قدیم ڈکشنریوں میں ناقص
وادی اوریائی ایک ہی جگہ ساتھ ساتھ بیان کئے جاتے ہیں ۔ جبکہ جدید ڈکشنریوں میں
جہاں مادے ”فا کلمہکی ترتیب سے ہوتے ہیں پہلے ناقص وادی کا بیان ہوتا ہے اور
اس کے فوراً بعد ناقص یائی مذکور ہوتا ہے ۔ اس لئے یہاں بھی مادہ کی تلاش میں
مشقنمبر۷۴
فبیرکریں ۔
مضارع مجہولکی صر ک
( حصہ چهارم) ن
اقص
)
(صرف صغیر
۷۷ : ۱اس سبق میں ان شاء اللہ ہم صرف صغیرکے بقیہ الفاظ یعنی فعل امر اسم
الفاعل ،اسم المفعول اور مصدر میں ہونے والی تبدیلیوںکا مطالعہکریں گے اور اس
ناقصکا چوتھا قاعدہ یہ ہےکہ ساکن حرفعلتکو جبمجزومکرتے ہیں ۷ : ۲
تو وہگر جاتا ہے ۔ اس قاعدہ کا اطلاق زیادہ تر ناقص کے مضارع مجزومپر ہوتا ہے ۔
سے فعل امربنانے کے لئے علامت مضارعگر لائی اور ہمزہ الوصللگایا مثلا " تَدْعُو
أدعو " بنا۔ اب لامکلمہکو مجزومکیا تو " و او گرگئی ۔ اس طرح اس کا فعل امر
اذع استعمال ہو گا ۔ اسی طرح " يَدْعُو "پر جب " لم " داخل ہو گا تو لامکلمہ مجزوم ہو گا
اور " و او گر جائےگی ۔ اس لئے لَمْ يَدْعُوکی بجائے " لَمْيَدْعُ " استعمال ہو گا ۔
لَنْ يَدْعُوَ حرف علت ( وای) بر قرار رہتا ہے البتہ اس پرفتحہ آجاتی ہے جیسے يَدْعُو
ہو جائےگا ۔
۷۷ : ۴ناقص کا پانچواں قاعدہ یہ ہےکہ ناقص کے لامکلمہ پر اگر تنوین ضمہ ہو
اورماقبل متحرک ہو تو لامکلمہگر جاتا ہے اور اس کے ما قبل اگر ضمہ یا کسرہ تھی تو اس
کی جگہ تنوینکسرہ آئےگی اور اگر فتحہ تھی تو تنوین فتحہ آئےگی ۔ اس قاعدہ کا اطلاق.
زیادہ تر ناقص کے اسم الفاعل اور اسم الظرف پر ہوتا ہے ۔ اس لئے دو الگالگ
مثالوںکی مدد سے ہم اس قاعدہکو سمجھیں گے ۔ پہلے اسم الفاعلکی مثال اور پھر اسم
"واو " چوتھے نمبرپر ہے اس لئے پہلے یہ ناقص کے قاعدہ نمبر ( ۳ب) کےتحت دَاعِی
ہو گا ۔ پھر مذکو رہ بالا پانچویں قاعدہ کے تحت لام کلمہ سے " ی "گر جائے گی ۔ما قبل
چونکہکسرہ ہے اس لئے اسکی جگہ تنوین کسرہ آئے گی تو لفظ ذاع بنےگا۔ اسکو دو
طرح سے لکھ سکتے ہیں یعنی دَاع بھی اور داعی بھی ۔ البتہ دوسری شکل میں "ی "
داخل ہوتا ہے تو پھر اس پر مذکورہ قاعدہ کا اطلاق نہیں ہو تا ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ
داعی پر جب لام تعریف داخل ہوگا تو یہ الداعنی بنےگا ۔ ابلامکلمہ پر تنوین ضمہ
نہیں ہے اس لئے اس پرپانچویں قاعدہ کا اطلاق نہیں ہوگا ۔ البتہ ناقص کے دوسرے
استعمال ہوگا ۔ خیال رہےکہ قرآن مجید کی خاص املاء میں چند مقاماتپر لام تعریف
کے باوجو د لام کلمہ کی " ی "کو خلاف قاعدہگرا دیاگیا ہے ۔ مثلا يَوْمَ يَدْعُو الدَّاعِ
مدعوبنتا ہے ۔ یہ بھی پہلے مدعی ہوگا پھر اس کالام کلمہگرےگا ۔ما قبل چونکہ فتحہ
۷۷ :ناقص سے اسم المفعول بنانے کے لئے کوئی نیا قاعدہ نہیں سیکھنا ہو تا ۔
دَعَا دَعو) کا اسم المفعولمَفْعُول کے وزن پر مَدْعُور بنتاہے ۔ اس میں لامکلمہ پر
توین ضمه تو موجود ہے لیکن ما قبل متحرک نہیں ہے اس لئے اسپر پانچویں قاعدہ کا
اطلاق نہیں ہو گا ۔ البتہ یہاں صورت حال یہ ہے کہ مثلین یکجا ہیں ۔ پہلا سا کن اور
دوسرا متحرک ہے ۔ اس لئے ادغام کے پہلے قاعدہ کے تحت ان کا ادغام ہو جائے گا
اور مدعواستعمالہوگا ۔
۹۲
اس میں پہلے مفعول ( وزن )کی "و "کو " ی " میں بدل دیتے ہیں اور عینکلمہ کاضمہ
بھی کسرہ میں بدل دیتے ہیں ۔ پھردونوں "ی "کا ادغام ہو جاتا ہے ۔ اس طرح ناقص
یائی سے اسم المفعول کا وزن " مَفْعِی " رہ جاتا ہے ۔ مثلا رَمَى يَرْمِنی سے مَرمِی
۷۷ : ۱۰پیرا گراف ۷۲ : ۳میں آپپڑھ چکے ہیں کہ اجوف ثلاثی مجرد میں اسم
تبدیلی بھی ناقص کے قاعدے کے تحت ہوتی ہے ۔ چنانچہ ناقص کا چھٹا قاعدہ یہ ہےکہ
کسی اسم کے حرف علت ( وای ) کے ما قبل اگر الف زائدہ ہو تو اس وریکو ہمزہ میں
بدل دیں گے ۔ جیسے سمار سے سَمَاءٌ بِنَائی سے بناء ( عمارت) وغیرہ ۔ نوٹکرلیں
کہ الف زائدہ سے مراد وہ الف ہے جوکسی مادہکی ( وای ) سے بدلکر نہ بنا ہو بلکہ
ناقص میں یہ قاعدہ زیادہ استعمال ہوتاہے ۔ یہاںیہ مجرد کے بعض مصادر جمع مکسرکے
بعض اوزان اور مزید فیہ کے ان تمام مصادر میں استعمال ہوتا ہے جن کے آخر پر
فِعَال میں اَسْمَاو سے اَسْمَاء اور بساؤ سے نِسَاء وغیرہ اور مزید فیہ کے مصادر
۷۷ : ۱۲اب ناقص مادوں سے بننے والے بعض اسماءکو سمجھ لیں جنکالامکلمہگر
:
جاتا ہے اور لفظ صرف دو حرفوں یعنی " فا " اور " عین "کلمہ پر مشتمل رہ جاتا ہے ۔
۹۳
اس قسم کے متعدد اسماء قرآنکریم میں بھی استعمال ہوئے ہیں مثلاً اب اخوغیرہ ۔
اس قسم کے الفاظکی اصلی شکل کی نون تنوین کو ظاہر کر کے لکھیں اورگزشتہ قواعد
کو ذہن میں رکھ کر غورکریں تو ان میں ہونے والی تبدیلیوںکو آپ آسانی سے سمجھ
سکتے ہیں ۔
ابحرف علت متحرک اورما قبل ساکن ہے ۔ اجوف کے قاعدہ نمبر ۲کے تحت حرکت
ما قبلکو منتقل ہوئی تو یہ آبون ہو گیا۔ پھرا جوفکے قاعدہ نمبر ۳کے تحت " و "گری تو
یہی وجہ ہےکہ ان اسماء کے تثنیہ میں " و " یا " ی " پھر لوٹآتی ہے جیسے ابوان "
ذخیرہالفاظ
مَشَى( )
ضمَشْيَا = چلنا (افعال ) = دینا
=
لافمی (ن)كِفَايَةً = ضرورت سے بے نیاز ) سَعيًا -تیز دوڑنا کوششکرنا
سَعَى (ف
کرنا کافی ہونا فَرِحَ()
س مَرَحًا = اترانا
نمبر ۱ ( ۷۵
) مشق
اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ ( ) ۴أَدْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبِّكَ
( ) ٥إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ( ) ۲سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا
الرُّعْبَ ( ع ) وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا
( ) ۸وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى ( )9لَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ إِنَّا مَعَكُمْ
يُوتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا ( ) ۱۳قَالَ الْقِهَا يَا مُوسَى ( ) ۱۳إِذَا نُودِيَ
) ( ۱۵
لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِاللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ( )١٥فَاقْضِمَا انْتَ
( )۱۹الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا ( )۱۸وَإِذِ اسْتَسْقَى مُؤسَى لِقَوْمِهِ
لِنَهْتَدِى لَوْلَا أن هدانا الله ( ) ۲۰وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوا (۲۱
) ٢١وَاعْلَمُوا
مندرجہ ذیل اسماء و افعالکی قسم ،مادہ باب اور صیغہ بتائیں ۔
) (۷
( )۱۳يَكْفِي ( ) ١٠تَرْضَى ( ) 1لَاتَمْشِ ( ) ٩يُعْطِى ( ) ۸خَلَوْا ( ) 2لَقُوْا
لفيف
حرف علت آجائیں اسے لفیفکہتے ہیں ۔ اگر حروف علت ”فا "کلمہ اور ”لام "کلمہ
کی جگہ آئیں تو ان کے درمیان میں یعنی عین کلمہکی جگہکوئی حرفصحیح ہوگا تو ایسے
قرین یعنی ساتھ ساتھ ہوں تو ایسے فعلکو لفیف مقرونکہتے ہیں جیسے روی ( روی )
روایتکرنا ۔
۷۸ : ۲اب یہ بات بھی ذہن میں واضحکرلیں کہ لفیف مفروق = مثال +ناقص
ہے ۔ اس لئےکہ فاکلمہ پر حرف علت ہونے کی وجہ سے وہ مثال ہوتاہے اورلامکلمہ
۷۸ : ۳نفیف مفروق اور نصیف مقرون میں ہونے والی تبدیلیوںکو سمجھنے کے لئے
کسی نئے قاعدہکو سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ،صرف یہ اصول یادکر لیںکہ لفیف
مفروق پر مثال اور ناقص دونوں کے قواعد کا اطلاق ہو گا یعنی اس کے فاکلمہ کا حرف
علت مثال کے قواعد کے تحت اور لام کلمہ کا حرف علتناقص کے قواعد کے تحت
تبدیل ہوگا ۔ جبکہ لفیف مقرون پر اجوفکے قواعد کا اطلاق نہیں ہوگا بلکہ صرف
ناقص کے قواعد کا اطلاق ہو گا ۔ یعنی اس کے عینکلمہ کا حرف علت تبدیل نہیں ہو گا
اور لام کلمہ کا حرف علت ناقص کے قواعد کے تحت تبدیل ہو گا۔ اس اصول کے
ساتھ ساتھ لفیف مادوں کے متعلق کچھ وضاحتیں بھی ذہن نشین کر لیں تو انکو سمجھنے
۷۸ : ۴اوپر آ ک
پو بتایاگیہاےکہ نصیف مفروق وہ ہوتا ہے جس کے فاکلمہ اورلام
کلمہ پر حرف علت آئے ۔ اب یہ بھی نوٹکرلیںکہ لفیف مفروق میں فاکلمہ پر ہمیشہ
"و " اور لام کلمہ پر " ی " آتی ہے ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ فاکلمہ پر "ی " اور لامکلمہ پر
لفیف مفروق مجرد کے باب ضَرَبَ اور سَمِعَ سے آتا ہے جبکہ باب ۷۸ : ۵
حسب سے بہت ہی کم استعمال ہوتا ہے ۔ چنانچہ اس کے فاکلمہکی " و " پر مثال کا
ہے مگرباب سمع کے مضارعمیں برقرار رہتی ہے جبکہ تینوں ابواب کے لامکلمہ پر
ناقص کا قاعدہ جاری ہوتا ہے ۔ جیسے باب ضَرَبَمیں وَقَى يَوْقِی سے وَقَی يَقِی بَابٍ
حَسِبَ میں وَلِيَ يَوْلی سے وَلِيَ يَلِی ( قریب ہونا) اور باب سَمِعَ میں وَهِيَ يَوْهَى
۷۸ :لفیف مفروق میں مثال اور ناقص دونوں کے قواعد کے اطلاق کا ایک
خاص اثر یہ ہوتا ہےکہ اس کے امر حاضرکے پہلے صیغے میں فعل کا صرفعینکلمہ باقی
بچتا ہے ۔ مثلاً وَ فی يَقِی سے مضارع يوقیکی بجائے یقنی استعمال ہوتا ہے ۔ اس سے
فعل امربنانے کے لئے علامت مضارعگراتے ہیں تو فنی باقی بچتا ہے ۔ پھرجب لام
کلمہ " ی "کو مجزومکرتے ہیں تو وہ بھی گر جاتی ہے ۔ اس طرح فعل امر " ق " (تو بیچا )
استعمال ہوتا ہے ۔
علتبا ہم قرین یعنی ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ۔ عام طور پر کسی مادے کے عین اور لام
کلمہ پر حروف علتیکجا ہوتے ہیں ۔فا اور عینکلمہ پر ان کے یکجا ہونے والے مادے
بہتکم ہیں ۔ اور جو چند ایک ایسے مادے ہیں بھی تو عموماً ان سے کوئی فعل استعمال
نہیں ہو تا ۔ مثلاً قرآنکریم میں ایسے مادے دو لفظوں " وَيْلٌ " ( خرابی ۔ تباہی وغیرہ )
اور یوم (دن ) میں آئے ہیں ۔ اگرچہ عربی ڈکشنریوںمیں ان دونوں مادوں سے ایک
آدھ فعل میں بھی مذکور ہوا ہے لیکن قرآنکریم میں ان سے ماخوذ کوئی صیغہ فعل
۹۸
کہیں وارد نہیں ہوا ۔ لہذا عربی گرامرمیں جب لفیف مقرون کا ذکر ہوتا ہے تو اس
سے مراد وہی مادہ ہوتاہے جس میں عین کلمہ اور لامکلمہ دونوں حرف علتہوں ۔
۷۸ :لفیف مقرون میں تین کلمہ پر " و " اور لامکلمہ پر "ی " ہی ہوتی ہے ۔ ایسا
نہیں ہو تاکہ عین کلمہ پر " ی " اور لام کلمہ پر "و " ہو اور یہ مجردکے صرفدو ابواب
ضَرَبَ اور سَمِعَ سے آتا ہے ۔ دونوں ابواب میں مین کلمہکی "و " تبدیل نہیں
ہوتی جبکہ لام کلمہ کی "ی " میں قواعد کے مطابق تبدیلی آتی ہے ۔ مثلاً ضَرَبَ میں
غَوَيَ يَغْوِی سے غَوَی يَغْوِی بک جانا) اور سَمِعَ مِیں سَوِيَيَسْوَىسے سَوِيَ
۷۸ :بعض دفعہ نصیف مقرون مضاعف بھی ہوتا ہے یعنی عین کلمہ اور لامکلمہ
دونوں " و" یا دونوں " ی " ہوتے ہیں مثلاج وو جس کا اسم اَلْجَو ( زمین اور
آسمانوںکی درمیانی فضا) قرآنکریم میں استعمال ہوا ہے ۔ اسی طرحح ی ی اور ع
ی ی بھی قرآنکریم میں آئے ہیں ۔ ایسی صورت میں مسلمین کا ادغام اورفک ادغام
دونوں جائز ہیں یعنی حَتى يَحْيَى سے حَبِي يَحْنِي ( زندہ ہونا /رہنا ) بھی درست ہے
اور حَيَّ يَحَی بھی درست ہے ۔ اسی طرح عَى يَعْمَى سے عَمِيَ يَعْنِي( تھک
کر رہ جاتا
ذخیرہالفاظ
=
ض وقايَةً -بچانا
وقمی ( ) سوی ( س) سوئ = برابر ہونا درست ہونا
= تکلیفپہنچانا
(افعال) - (تفعل ) = حق پورا لینا موت دینا
اے ( الف )
مشق نمبر
مندرجہ ذیل مادوں سے ان کے سامنے دیئے گئے ابوابمیں اصلی اور تبدیل
( )iiوفی افعال ،تفعيل ،تفعل وقی ۔ ضرب افتعال () i
قمبر اے ( ب )
مش ن
مندرجہ ذیل اسماء و افعالکی قسم مادہ باب اور صیغہ بتائیں ۔
تَهْوَى ( )۳۱تَهْوِى
(۷ ۶ج)
مشق نمبر
( )1سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ ( ) ٣هُوَالَّذِي خَلَقَ لَكُمْ
مَا فِي الْأَرْضِجَمِيْعًا ثُمَّ اسْتَوَىإِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّهُنَّ ( )۳أَوْفُوْا بِعَهْدِى أَوْفِ
( )٥إِذْ قَالَاللهُ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ( ) ٢مَنْأَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى
( )٢سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( ) ۸وَإِذَا حُتِيْتُمْ فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ
( ) ۹كُلَّمَا جَاءَ هُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَهْوَى بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِاَحْسَنَ مِنْهَا اَوْرُدُّوهَا
( ) 1إِسْتَجِيْبُوْا لِلَّهِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ( ) ۱۳وَيَحْيَى مَنْحَيَّ عَنْ
بَيِّنَةٍ ( ) ۱۳ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُدَيرِ الْأَمْرَ ( )١٣تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَّالْحِقْنِي
بِالصَّلِحِينَ ( )١٥مَالَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيّ وَلا وَاقٍ ( ) ٢فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ
)(14
مِنْ رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ ( ) ۱۷وَتُوَفَّى كُلُّنَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ ( )۱۸وَجَدَ الله
دنیا میںتو ممکن نہیں ہے ۔ یہ حقیقت تو ان شاء اللہ میدان حشر میں عیاں ہو گی ان پر
بھی جنہیں یہ نعمت حاصل تھی اور ان پر بھی جو اس سے محروم رہے ۔ اس لئے اللہ
تعالیٰ کے اس فضل وکرم پر اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائےکم ہے ۔ لیکن یہ شکر قولاً
بھی ہونا چاہئے اور عملاً بھی ۔ آپ پر اب واجب ہےکہ اس نعمتکی حفاظتکریں
اسے ضائع نہ ہونے دیں اور اس کا حق اداکرتے رہیں ۔ اس کے طریقہ کارپر بات
بڑی آفت ہے ۔ یقیناً اللہ نے آپکو اس زبان کے علم سے نوازا سے جسے اس نے
اپنےکلام کے لئے منتخبکیا۔یہ بہت عظیم نعمت ہے ۔ لیکن ابسنیاد پرآپان لوگوں
جائے ۔ اس لئے علم کی آفت سے خود کو بچانے کی شعوری کوششکریں اور تکبر میں
مبتلاء نہ ہوں ۔
رموزکا وہ جتنا علم حاصلکرتے ہیں اتنا ہی انکی لاعلمی کا دائرہ مزید وسعتاختیارکر
جاتا ہے ۔کچھ یہی معاملہ عربی کے ساتھ بھی ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہےکہ عربی دنیا کی
سب سے زیادہ سائنٹفک زبان ہے ۔ اس زبان کا تقریباً ہرگوشہ کسی قاعدے اور
ضابطہ کا پابند ہے ۔ انتہا یہ ہےکہ اس میں استثناء بھی زیادہ تر کسی قاعدے کے تحت
ہوتے ہیں ۔ عربی میں خلاف قاعدہ الفاظ کا استعمال دوسری زبانوں کے مقابلہ میں نہ
ہونے جیسا ہے ۔ اس حوالہ سے یہ بات ذہن نشین کرلیںکہ اس علم کے سمند ر سے
سیکھنا باقی ہے ۔
عربی میں ا هساوتراعمال ہونے والے تمام الفاظ قرآن مجید میں استعمال نہیں :
ہوئے ہیں ۔ چنانچہ قرآن ضمی کے لئے مکمل عربیگرامرکا علم حاصلکرنا ضروری نہیں
ہے ۔بلکہ صرف اس کے متعلقہ جزوکو سیکھ لینا کافی ہوتا ہے ۔ اس حوالہ سے ابیہ
بھی سمجھ لیںکہ اسکتاب کے تین حصوں میں عربی گرامر کے متعلقہ جزو کا مکمل
احاظہ نہیں کیا گیا ہے ۔ اور ایسا قصد آگیا گیا ہے ،ورنہ چوتھے حصے کا اضافہکر کے اس
کیکوششکی جاسکتی تھی ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ماشاء اللہ ابآپاس مقام پر آگئے
ہیں جہاں مزید قواعد کو سمجھنے کے لئے آپکو باقاعدہ اسباق اور مشقوںکی ضرورت
ذہن نشین کر سکتے ہیں ۔آیا اگر قرآن مجید کی آیت کے حوالے سے ہو تو مزید
آسانی ہوگی ۔
ہا
ے اس کا حق ادا کرنے کے لئے اور مزید ے ابتکآپنےجو کچھ سیکھ
یکھنے کے لئے پہلا لازمی قدم یہ ہے کہ آپ اپنے تلاوت قرآن کے اوقات میں
کیا جاسکتا ہے ۔ پھرتلاوت کے اوقاتکو دو حصوں میں تقسیم کریں ۔ اسکاکچھ حصہ
معمولکی تلاوت کے لئے رکھیں اور باقی حصہ قرآن مجید کے مطالعہ کے لئے وقف
کریں ۔ اس کے لئے آپکو ڈکشنری ( لغت )کی ضرورت ہوگی ۔ میرا مشورہ ہےکہ
مصباح اللغات " استعمالکریں ۔ جو لوگ دوڈکشنری حاصلکر ابتدائی مرحلہ میں
تعین کریں کہ اسکا مادہ باب اور صیغہکیا ہے ،نیز یہکہ وہ اسمیا فعلکی کون سی قسم
ہے ۔پھر الفاظکی اعرابی حالت اور اسکی وجہ کا فیصلہکریں ۔کسی لفظ کے اگر معنی
معلوم نہیں تو اب ڈکشنری دیکھیں ۔ اس کے بعد جملہکی بناوت پر غورکرکے جبر اخبر
یافعل فاعل ،مفعول اور متعلقات کا تعین کریں ۔ پھرآیتکا تر جمع کرنے کیکوشش
لریں ۔ اگر نہ سمجھ میں آئے تو کوئی ترجمہ والا قرآن دیکھیں ۔ اس مقصد کے لئے شیخ
المسند کا ترجمہ زیادہ مددگار ہو گا ۔ اس طرز پر آپ صرف ایک پارہ کا مطالعہکر لیں تو
ان شاء اللہ آپکو یہ صلاحیت حاصل ہو جائے گیکہ قرآن مجید سنکریا پڑھکر آپ
المعنی نہ اس کا مطلب سمجھ جائیں گے ۔ اگر میں زکات ہوگی
کے جو ابآخری باتیہ سمجھ لیںکہ مارسے بورکر نے ترقی 9:
کریں ۔ ورنہکوئی نہکوئی بیماری آپکو لاحق ہو جائےگی اور الٹالینے کے دینے پڑے
جائیں گے ۔اللہ تعالٰی ہم میں سے ہر ایککو توفیق دےکہ ہم اسکی نعمت کا شکراداکر
رَبِ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَنِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَلَنْ
بعنوان :
اہمموضوعاتکے
جہاد میںخواتینکاکردار