You are on page 1of 10

‫‪‬‬

‫تھانوی کے خطبات میں تفسیری نکات کا تحقیقی مطالعہ‬


‫ؒ‬ ‫موالنا اشرف علی‬
‫جلد ‪8- 7‬‬
‫علوم اسالمیہ‬
‫ِ‬ ‫براے مقالہ ایم فِل‬
‫ٴ‬ ‫خاکہ تحقیق‬
‫ٴ‬
‫تخصص قرآن وتفسیر‬

‫نگران مقالہ‬ ‫مقالہ نگار‬


‫حافظ ماجد جمیل ستی‬
‫پروفیسر ڈاکٹر سمیع الحق‬
‫شعبہ‬ ‫رول نمبر ‪BB744317‬‬
‫تفسیر و علوم القرآن فیکلٹی آف اصول الدین‬
‫بین‬ ‫رجسٹریشن نمبر ‪14-PRI-21311‬‬
‫االقوامی یونیورسٹی اسالم آباد‬
‫ایم فل شعبہ قرآن و تفسیر ‪ AIOU‬اسالم آباد‬
‫مکان نمبر ‪BIV-609A‬مکی سٹریٹ مسلم ٹاون راولپنڈی‬
‫فون ‪0315 5143528 :‬‬

‫شعبہ قرآن و تفسیر‬


‫علوم اسالمیہ‬
‫ِ‬ ‫کلیہ عربی و‬
‫عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسالم آباد‬
‫سیشن ‪ 2014 - 16‬ء‬

‫‪1‬‬
‫تھانوی کے خطبات میں تفسیری نکات کا تحقیقی مطالعہ‬
‫ؒ‬ ‫موالنا اشرف علی‬
‫جلد‪8-7‬‬
‫موضوع کا تعارف‬
‫قرآن مجید ایک مکمل اور جامع نظام حیات ہے۔ اس میں اجمالی طور پر نظام‬
‫زندگی کے اصول بتائے گئے ہیں۔ یہ وہ اصول ہیں جو قیامت تک کی انسانیت کے لیئے‬
‫رہنمائی کا زریعہ ہیں۔قرآن مجید وہ واحد کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ ہللا تعالی نے‬
‫خود لیا ہے۔ اس میں لفظی اور معنوی حفاظت شامل ہے۔ اس لیئے مختلف معاشروں‬
‫اورعالقوں میں رہنے والے انسان اس سے رہنمائی حاصل کریں۔ تو اس بنیاد پر ہللا تعالی‬
‫کا جو کالم ہے اس میں عام فہم الفاظ الئے گئے ہیں تاکہ ہردور میں ہللا تعالی کے کالم‬
‫کوسمجھا جا سکے۔‬
‫ہر دور میں تفاسیر لکھی جاتی رہیں۔ برصغیر میں بھی تفاسیر لکھی گئیں۔ ان میں‬
‫تھانوی کا ہے۔ تفسیر کے میدان میں ان کی نمایاں تفسیر‬
‫ؒ‬ ‫ایک نمایاں نام موالنا اشرف علی‬
‫بیان القرآن ہے۔ اردوتفسیری ادب کی یہ واحد تفسیر ہے جس میں آیات کا معنی ترجمہ کی‬
‫صورت میں آسان اور عام فہم انداز میں بیان کیاگیا ہے۔لیکن علماء کے نزدیک یہ تفسیر‬
‫انتہائی دقیق اور مختصر ہے۔‬
‫تھانوی کاتفسیری موقف جاننا ہو تو ان کی تفسیر بیان القرآن‬
‫ؒ‬ ‫اگرموالنااشرف علی‬
‫سے بھی جانا جا سکتاہے۔ ان کا تفسیر میں مرتبہ جاننا ہو تووہ ان کے خطبات سے پتہ‬
‫لگایا جا سکتا ہےجوموقع و محل کی مناسبت سے عوامی حلقوں میں دییےجانے والے‬
‫خطبات میں تفسیری نکات کوکھل کربیان کیا ہے۔خطبات میں ان کا اسلوب یہ تھا کہ ہر‬
‫خطبہ کے شروع میں ایک آیت تالوت کرتے تھے اور پھر اس کا ترجمہ تشریح اور‬
‫تفسیری نکات بیان کرتے تھے ۔ لیکن ضرورت اس امرکی ہے کہ ان خطبات میں تفسیری‬
‫نکات کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے۔‬

‫‪2‬‬

‫موضوع کی ضرورت و اہمیت‬


‫موالنا اشرف علی تھانوی ؒ کے جو تفسیری نکات ہیں ان کو سامنے النا ہے۔اور‬
‫اہمیت اس کی یہ ہےکہ برصغیر میں موجودہ دور تک کوئی ایسا عالم دین مشکل سے ملے‬
‫گا جس نے عوام کے لئے اتنےخطبات دیئے ہوں اور ان کا تمام تر تعلق موضوع اصلی‬
‫قرآن مجید کی آیات ہوں ۔ اس کے عالوہ احکام القرآن بھی موالنا اشرف علی تھانوی ؒ کے‬
‫کہنے پر لکھی گئی۔ بہرحال خطبات میں تفسیری نکات پر جو تحقیقی مطالعہ ہو گا اس‬
‫کا عوام الناس کو بہت فائدہ ہو گا‬

‫بنیادی سواالت‬
‫‪1‬۔ موالنا اشرف علی تھانوی ؒنے خطبات میں کونسا تفسیری اسلوب اختیار کیا ہے؟‬
‫‪2‬۔ ان کے اسلوب کی کیا خصوصیات ہیں؟‬
‫تھانوی کے خطبات‪ ،‬ان کی تفسیر" بیان القرآن" سے کیونکر مفید ہو‬
‫ؒ‬ ‫‪3‬۔ موالنا اشرف علی‬
‫سکتے ہیں؟‬
‫تھانوی کاقرآن مجید کی روشنی میں تصوف اور تزکیہ کا کیا‬
‫ؒ‬ ‫۔ موالنا اشرف علی‬
‫‪4‬تصورہے؟‬
‫‪5‬۔تفسیر بیان القرآن اور خطبات کےتفسیری اقوال میں کوئی فرق ہے؟‬

‫‪2‬۔ حدود تحقیق‬


‫‪1‬۔خطبات کی جلدنمبر‪۷‬اور ‪۸‬کی تحقیق ہو گی‬
‫‪2‬۔تحقیق خالصتا علمی ہو گی اور اس میں موالنا اشرف علی تھانوی کے اسلوب اور‬
‫تفسیری نکات کو سامنے الیا جائے گا۔‬

‫‪3‬‬

‫اہداف تحقیق‬
‫تھانوی کے خطبات میں موجودہ تفسیری جواہر پاروں کو اکھٹا کرنا۔‬
‫ؒ‬ ‫‪1‬۔ موالنا اشرف علی‬
‫‪2‬۔ موالنا اشرف علی تھانوی ؒنے خطبات میں جو تفسیری نکات بیان ہوئے ہیں ان کے ماخذ‬
‫و مصادر کا بیان۔‬

‫سابقہ کام کا جائزہ‬


‫تھانوی کے مواعظ اور ملفوظات‬
‫ؒ‬ ‫سابقہ کام کا جائزہ یہ ہے کہموالنا اشرف علی‬
‫میں مذکورہ تفسیری نکات کوتو مفتی تقی عثمانی نے اشرف التفاسیر میں جمع‬
‫کیا ہے لیکن خطبات میں مذکورہ تفسیری نکات پر ابھی تک تحقیقی کام نہیں‬
‫ہوا۔ لہذہ اب خطبات میں مذکورتفسیری نکات پر تحقیقی مطالعہ کیا جائے گا۔‬
‫منہج تحقیق‬
‫‪1‬۔ سب سے پہلے آیات تالش کی جائیں گی۔‬
‫‪ 2‬۔اس کے بعد بنیادی مصادر سے استفادہ کیا جاے گا۔ اگر ضرورت ہوئی تو ثانوی مصادر‬
‫سے بھی استفادہ کیا جائے گا‬
‫‪ 3‬۔ موالنا اشرف علی تھانوی ؒنے خطبات میں جو تفسیری نکات بیان کئے ہیں ان کے ماخذ‬
‫و مصادر کا بیان۔ مثال بیان کردہ نکتہ کونسی تفاسیر سے لیا ہے۔‬
‫‪4‬۔ جہاں سے بھی حوالہ لیا جائے گا تو کوشش ہو گی کے اصل مصدر سے لیا جائے گا۔‬
‫‪5‬۔ قرآنی آیات کا ترجمہ تفسیر بیان القرآن سے لیا جائے گا۔‬

‫‪4‬‬

‫ابواب بندی‬
‫مقدمہ‪:‬‬
‫مقدمہ موضوع تحقیق کے تعارف‪ ،‬اہمیت موضوع‪ ،‬انتخاب موضوع کے اسباب‪،‬‬
‫موضوع تحقیق کے بنیادی سوال‪ ،‬موضع تحقیق پر ہونے والے سابقہ کام کے جائزہ‪ ،‬محقق‬
‫کے اسلوب تحقیق ‪ ،‬حدود تحقیق اور قواعد تحقیق کے بیان پر مشتمل ہو گا۔‬
‫باب اول‪ :‬موالنا اشرف علی تھانوی ؒ کے احوال و آثار اور‬
‫تفسیری اسلوب‬
‫فصل اول‪ :‬حاالت زندگی‬
‫فصل دوم‪ :‬علمی خدمات‬
‫فصل سوم‪ :‬خطبات میں ان کا تفسیری اسلوب‬

‫باب دوم‪:‬عبادت کے متعلق تفسیری نکات‬


‫فصل اول‪ :‬عبادت کے متعلق تفسیری نکات‬
‫فصل دوم‪:‬مہمات الدعا ٰ ٰٖ ٰٖ ٰٖٖٖٖٖٖء کے متعلق تفسیری نکات‬ ‫ٖٖ‬
‫‪:‬مہینوں کے فضا ٰئل کے متعلق تفسیری نکات‬ ‫فصل سوم‬

‫‪5‬‬

‫باب سوم‪:‬معامالت کے متعلق تفسیری نکات‬


‫فصل اول‪:‬مال وجاہ کے متعلق تفسیری نکات‬
‫فصل دوم‪:‬وعظ ونصیحت کے متعلق تفسیری نکات‬
‫فصل سوم‪:‬تاسیس البنیان کے متعلق تفسیری نکات‬
‫‪6‬‬

‫خالصہ بحث‬
‫ق ہذا مکمل ہونے کے بعد پوری تحقیق کا خالصہ تحریرکیاجائےگاتاکہ قلیل وقت میں قاری اس‬
‫تحقی ِ‬
‫کے ثمرات ونتائج سے مستفید ہو سکے۔‬
‫نتائج تحقیق‬
‫ِ‬
‫ق ہذا مکمل ہونے پر حاصل ہونے والےنتائج ذکر کیے جائیں گےجو کہ موضوعِ تحقیق کے‬
‫تحقی ِ‬
‫سواالت کے جوابات ہوں گے۔‬
‫سفارشات‬
‫ق ہذا مکمل ہونےپر نتائج تحقیق کی روشنی میں مزیدتحقیق طلب پہلو پیش کیے جائیں گے جو مزید‬
‫تحقی ِ‬
‫تحقیق کے لیے بنیادفراہم کریں گے ۔‬

‫فہرست مصادر مراجع‬


‫‪1‬۔ قرآن مجید‬
‫‪2‬۔اشرف التفاسیر‪،‬مفتی تقی عثمانی‪،‬‬
‫‪3‬۔ االتقان فی علوم القرآن‪ ،‬عالمہ ابو عبد الرحمٰ ن جالل الدین السیوطی(متوفی‪911‬ھ)‪ ،‬سہیل‬
‫اکیڈمی‪ ،‬الہور‪،‬س ن‬
‫‪4‬۔ البحرالمحیط‪ ،‬عالمہ ابو الحیان محمد بن یوسف اندلسی ‪( ،‬متوفی ‪754‬ھ)‪ ،‬دار الفکر‪،‬‬
‫بیروت‪1412 ،‬ھ‬
‫‪5‬۔ البرہان فی علوم القرآن‪ ،‬عالمہ بدر الدین محمد بن عبدہللا زرکشی‪(،‬متوفی ‪794‬ھ)‪ ،‬دار‬
‫الفکر‪ ،‬بیروت‪،‬س ن‬

‫‪7‬‬

‫مصطفی‬
‫ٰ‬ ‫‪6‬۔ التعریفات ‪ ،‬عالمہ میر سید شریف علی جرجانی(متوفی ‪816‬ھ)‪ ،‬مکتبہ نزار‬
‫الباز‪ ،‬مکہ مکرمہ‪1418،‬ھ‬
‫‪7‬۔ الرسول و الرساالت‪ ،‬الدکتور عمر سلیمان االشقر ‪ ،‬دار النفائس‪ ،‬اردن‪1415 ،‬ھ‬
‫المصطفی‪ ،‬قاضی عیاض(متوفی ‪544‬ھ)‪ ،‬دار الفکر‪ ،‬بیروت‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫‪8‬۔ الشفاء بتعریف حقوق‬
‫‪1415‬ھ‬
‫‪9‬۔ الصحاح‪ ،‬عالمہ اسمٰ عیل بن حماد الجوہری(متوفی ‪398‬ھ)‪ ،‬دار العلم ‪ ،‬بیروت‪1404 ،‬ھ‬
‫‪10‬۔ العصمۃ لالنبیاء‪ ،‬عالمہ فخر الدین الرازی(متوفی ‪606‬ھ)‪ ،‬مکتبہ الثقافہ الدینیہ‪ ،‬القاہرہ‪،‬‬
‫‪1460‬ھ‬
‫‪11‬۔ الکشاف‪ ،‬عالمہ محمود بن عمر زمخشری (متوفی ‪538‬ھ)‪ ،‬دار احیاء التراث العربی‪،‬‬
‫بیروت‪1417 ،‬ھ‬
‫‪12‬۔ المحرر الوجیز‪ ،‬عالمہ ابو بکر قاضی عبد الحق بن غالب (متوفی ‪544‬ھ)‪ ،‬مکتبہ‬
‫تجاریہ‪ ،‬مکہ کرمہ‪ ،‬س ن‬
‫‪13‬۔ المفردات فی غریب القرآن‪ ،‬عالمہ حسین بن محمد راغب االصفہانی ‪ ،‬مکتبہ نزار‪ ،‬مکہ‬
‫مکرمہ‪ ،‬س ن‬
‫‪14‬۔ النبوات‪ ،‬عالمہ تقی الدین احمد بن عبد حلیم ابن تیمیہ(متوفی ‪728‬ھ)‪ ،‬مکتبہ اضواء‬
‫السلف‪ ،‬ریاض‪1430 ،‬ھ‬
‫‪15‬۔ النبوت و االنبیاء‪ ،‬محمد علی الصابونی‪ ،‬مکتبہ الغزالی‪ ،‬دمشق‪1405 ،‬ھ‬
‫‪16‬۔ النبوات و ما یتعلق بہا‪ ،‬امام فخر الدین الرازی(متوفی ‪606‬ھ)۔ دار الکتب العلمیہ‪،‬‬
‫بیروت‪1416 ،‬ھ‬
‫‪17‬۔ انوار التنزیل ‪ ،‬قاضی ابو الخیر عبد ہللا بن عمر بیضاوی (متوفی ‪685‬ھ)‪ ،‬دار فراس‬
‫للنشر و التوزیغ‪ ،‬مصر سن ندارد‪1‬‬
‫‪18‬۔ تفسیر المنار‪ ،‬عالمہ محمد رشید رضا(متوفی‪1354‬ھ)‪ ،‬دار المعرفت‪،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫‪19‬۔ دالئل النبوہ‪ ،‬امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی(متوفی ‪458‬ھ)‪ ،‬دار الکتب العلمیہ‪،‬‬
‫بیروت‪1406 ،‬ھ‬
‫‪20‬۔ دالئل النبوہ‪ ،‬امام ابو نعیم احمد بن عبد ہللا اصبہانی‪(،‬متوفی‪430‬ھ)‪ ،‬دار النفائس‪،‬‬
‫‪8‬‬
‫‪21‬۔ خطبات حکیم االمت موالنا اشرف تھانوی‪ ،‬منشی عبد الرحمٰ ن ؒ‬
‫خان‪ ،‬مکتبہ ادارہ تالیفات‬
‫اشرفیہ ملتان‪ ،‬س ن‬
‫‪22‬۔ شرح الفقہ االکبر‪ ،‬عالمہ علی بن سلطان محمد القاری(متوفی ‪1014‬ھ)‪ ،‬مکتبہ امدادیہ‪،‬‬
‫ملتان‪1390 ،‬ھ‬
‫‪23‬۔ شرح العقائد النسفیہ‪ ،‬عالمہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی‪( ،‬متوفی ‪791‬ھ)‪ ،‬نور‬
‫محمد اصح المطابع‪،‬کراچی‪ ،‬س ن‬
‫‪24‬۔صحیح بخاری‪ ،‬ابو عبد ہللا محمد بن اسماعیل بکاری (متوفی ‪256‬ھ)‪ ،‬دار الکتب العلمیہ‪،‬‬
‫بیروت‪1412،‬ھ‬
‫‪25‬۔ صحیح مسلم‪ ،‬امام مسلم بن الحجاج القشیری‪،‬‬
‫‪26‬۔ فتح القدیر‪ ،‬شیخ محمد بن علی شوکانی‪( ،‬متوفی ‪1250‬ھ)‪ ،‬دار المعرفہ ‪ ،‬بیروت ‪،‬‬
‫‪1418‬ھ‬
‫مصطفی بن عبدہللا المعروف حاجی خلیفہ‪ ،‬دار الکتب االسالمیہ‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫‪27‬۔ کشف الظنون‪ ،‬عالمہ‬
‫بیروت‪ ،‬س ن‬
‫‪28‬۔ لباب النقول فی اسباب النزول‪ ،‬عالمہ ابو عبد الرحمٰ ن جالل الدین‬
‫السیوطی(متوفی‪911‬ھ)‪،‬دار ال کتب‪،‬بیروت‪،‬س ن‬
‫‪29‬۔ مدارک التنزیل‪ ،‬عالمہ ابو البرکات احمد بن محمد نسفی(متوفی‪710‬ھ)‪،‬دار الکتب‬
‫العربیہ‪ ،‬پشاور‪ ،‬س ن‬
‫‪30‬۔ مناہل العرفان‪ ،‬عالمہ عبد العظیم الزرقانی‪ ،‬دار احیاء التراث العربی‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫‪31‬۔ مفاتیح الغیب‪ ،‬امام فخر الدین الرازی‪( ،‬متوفی ‪606‬ھ)‪ ،‬مکتبہ دار الفکر ‪ ،‬بیروت‪ ،‬س ن‬
‫‪32‬۔ مواعظ اشرفیہ‪ ،‬موالنا اشرف علی تھانوی‪،‬‬
‫‪33‬۔ روح المعانی ‪ ،‬عالمہ ابو الفضل سید محمود آلوسی‪( ،‬متوفی ‪1270‬ھ)‪ ،‬دار احیاء التراث‬
‫العربی بیروت‪1417 ،‬ھ‬
‫‪34‬۔ زاد المسیر عالمہ ابو الفرج عبدالرحمٰ ن بن علی بن جوزی(متوفی ‪597‬ھ)‪ ،‬مکتبہ‬
‫اسالمی‪ ،‬بیروت‪،‬س ن‬
‫‪35‬۔ دالئل النبوہ‪ ،‬امام ابو نعیم احمد بن عبد ہللا اصبہانی‪(،‬متوفی‪430‬ھ)‪ ،‬دار النفائس‪،‬‬
‫‪1412‬ھ‬

You might also like