Professional Documents
Culture Documents
Writing For Bargo Bar Spring Semester 2022
Writing For Bargo Bar Spring Semester 2022
پاکستان میں ذرائع براۓ حصول عصری اعلی تعلیم میں دو طرح کے ادارے یعنی کالجز اور جامعات( /یونیورسٹیز)
شامل ہیں جبکہ تعلیم یافتہ اور سند یافتہ ہونے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ تعلیم یافتہ انسان کو اپنے مضمون کے ساتھ ساتھ
انسانی و تہذیبی اقدار کی آگہی بھی ہوتی ہے اور اسکے اخالق و کردار میں علم و ادب جھلکتا ہے۔۔۔ جبکہ سند یافتہ
شخص کو اپنے مضمون کے علم میں تو مہارت ہو سکتی ہے لیکن اسکا انسانی قدروں سے واقف ہونا ضروری نہیں۔۔۔۔۔
بہرصورت ایک تعلیم یافتہ "انسان" ایک سند یافتہ "آدمی" سے ہر لحاظ سے بلند حیثیت و رتبہ کا حامل ہوتا ہے۔
جامعات میں بی ایس کے ساتھ ساتھ کالج سطح کے بعد یعنی ایم فل اور پی ایچ ڈی تک کی تعلیم بھی مہیا کی جاتی ہے۔
تقریبا" ایک دہائی سے چار سالہ ڈگری کے اجراء کے بعد سے ان سرکاری کالجز کو بھی اب بی ایس سطح تک کی
اعلی تعلیم کے مستند ذرائع کی حیثیت حاصل ہے ,تاہم یونیورسٹی اور کالج کے طلباء ,عمومی و انتظامی ڈھانچے اور
تعلیمی و ادبی ماحول میں کئی لحاظ سے بہت سا فرق بھی موجود ہے۔
جامعات میں اساتذہ اور عملہ جامعہ کے اندرونی افراد پر مشتمل سنڈیکیٹ منتخب کرتی ہے جبکہ سرکاری کالجز کے
اساتذہ ایک بالکل الگ ,آزاد اور خود مختار ادارے (پبلک سروس کمیشن) کی طرف سے منعقدہ مسابقتی امتحان و
مذاکرہ میں کامیاب ہونے کے بعد بھرتی کئے جاتے ہیں۔
حال جدید میں جامعات اپنے مالی و انتظامی معامالت میں آزاد ہیں ,لہذا اپنی مرضی سے طلباء کی فیس میں وقتا" فوقتا"
کمی بیشی کر سکتی ہیں۔۔ جبکہ کالجز کے اخراجات حکومتی ذمے ہونے کی وجہ سے طلباء پر بھاری فیسوں کا بوجھ
نہیں پڑتا ,یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں جامعات کی بی ایس سطح کی ششماہی میقاتی فیس 40ہزار سے لے کر
1,30000روپے ,جبکہ سرکاری کالجز میں یہی فیس صرف 7سے 8ہزار تک ہے جو غریب طلباء کے لئے کسی
نعمت سے کم نہیں۔
اگرچہ سرکاری کالجز غریب طلباء کے حصول تعلیم کا واحد وسیلہ ہیں ,تاہم سستی تعلیم جہاں ایک نعمت ہے وہیں اسکا
سستا ہونا اکثر طلباء کے فکری رویوں میں منفی فرق کا مؤجب بھی بنتا ہے ۔۔۔ کچھ طلباء کالج کی تعلیم کے سستا ہونے
سے اسے عطائی سہولت سمجھ کر سنجیدہ نہیں لیتے ,کچھ آدھا عرصہ کالسز سے غائب جبکہ کچھ محض وقت گذاری
کے طور پر ڈگری لیتے ہیں۔
شاید اسی تعلیمی سستاپے کی وجہ سے کچھ والدین بچوں کو ایک بار کالج میں داخل کروا کر پھر دوبارہ بچوں کے
تعلیمی ارتقاء کی خیر خبر رکھنے سے مکمل بے نیاز نظر آتے ہیں ,نتیجتا" والدین کے ڈر سے بے غم بچے ڈگری کے
دوران کئی بار ناکامیابی کا ٹیکہ سجاۓ براۓ نام درجات (گریڈز) لے کر ڈگری مکمل کرتے ہیں اور یہ کم گریڈز پیشہ
وارانہ زندگی میں انکے پیچھے رہ جانے کا سبب بنتے ہیں۔
کالج لیول پہ طلباء کو اساتذہ انکی ذہنی سطح پہ جا کر پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بچوں کو پکا پکایا کھانے
کی عادت پڑ جاتی ہے جو انکی تخلیقی صالحیتوں پہ بند باندھ دیتی ہے اور یوں خود سے محنت نہ کرنے کی عادت
بچوں کو آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے۔ نتیجتا" کالج اساتذہ کی زیادہ محنت و مشقت بھی طلباء کی عدم محنت و
توجہی کی بناء پر مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔
دوسری طرف جامعات کی مہنگی تعلیم طلباء میں محنت کا جذبہ جگاۓ رکھتی ہے۔ اساتذہ عنوان کا حلوہ بنا کر انکے
منہ میں نہیں ڈالتے بلکہ ایک ایک لیکچر میں پورا چیپٹر سالئیڈز پہ گذار کر زیادہ کام طلباء سے کروایا جاتا ہے چنانچہ
فیل ہونے کا ڈر طلباء میں محنت کا جذبہ قائم رکھتا ہے۔
کالجز اور جامعات کا دوسرا بڑا فرق طلباء و اساتذہ کی مراعات و سہولیات اور انفراسٹرکچر کی فراہمی کا ہے جو کہ
تعلیمی ماحول پر سب سے زیادہ اثرانداز ہونے واال جزو ہے۔ جامعات میں سماعت خانہ (آڈیٹوریم)طرز کے مناسب حجم
وتعداد کے کمرہ جماعت ,تجربہ گاہوں کے لئے مکمل سامان و الگ کمرے ,معلم عملی (لیب ڈیمانسٹریٹرز) کی
موجودگی ,کلیریکل معاون عملہ ,انفرادی پرنٹرز ,پینے} کے لئے ٹھنڈے} گرم پانی کی سہولت ,کمرہ جماعت کو ٹھنڈا} یا
گرم رکھنے کا نظام اور ہر کمرہ جماعت میں پروجیکٹر کی فراہمی جیسی سہولیات دستیاب ہوتی ہیں جبکہ سرکاری
کالجز میں ان میں سے کوئی سہولت بھی کامل سلیقے سے دستیاب نہیں۔
اسی طرح سرکاری کالج اساتذہ کو مقابلتا" کمتر سفری ,معاشی اور رہائشی سہولیات دستیاب ہیں۔ انکو بیٹھنے} ,پڑھنے
اور مزید ریسرچ کے لئے الگ دفاتر کی سہولت میسر نہیں ,کالس رومز کا آدھا حصہ ,اساتذہ کے لئے بطور اجتماعی
دفتر استعمال کیا جاتا ہے جو بیک وقت بطور سٹنگ ,ریسرچ اور ریکارڈ روم استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح
انفرادی طور پر پرنٹر اور کمپیوٹر کی سہولت نہ ہونے سے پیپر سیٹنگ اور پیپرز کی سیکریسی کے متاثر ہونے جیسے
مسائل کا خدشہ بھی موجود ہے۔ نتیجتا" کالج اساتذہ کا زیادہ محنتی ہونا بھی بے ثمر اور رائیگاں جاتا ہے۔
جامعات کی نسبت کالجز میں طلباء کے لئے ایک یونیفارم کا ہونا باعث نعمت ہے جو طلباء میں معاشی تفریق کو چھپا کر
انہیں احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچاتا اور مزید منظم بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
سرکاری کالجز و جامعات میں آن الئن داخلوں کی بدولت طلباء کو میرٹ پر داخلہ ملتا ہے تاہم گذشتہ امتحانات میں
بورڈز اور امتحانی مراکز کے مختلف ہونے کی وجہ سے حاصل کردہ نمبر و درجات میں عدم یکسانیت کے اثر کو کم
کرنے کے لئے ,بی ایس داخلوں میں شعبہ جاتی سطح پر آبجیکٹو ٹائپ ٹیسٹ کا انعقاد میرٹ کو زیادہ بہتر بنا سکتا ہے۔
طلباء کو چائیے کہ کم خرچ سرکاری کالجز ,اور میرٹ پر تعینات محنتی اساتذہ کے ہنر سے زیادہ سے ذیادہ استفادہ
حاصل کریں۔ دیکھا گیا ہے کہ عموما" طلباء کالس میں کم حاضری کی وجہ سے تعلیمی کیریئر میں نقصان اٹھاتے ہیں۔
ایک لیکچر ضائع ہونا بھی خاصے علمی نقصان کا باعث ہوتا ہے۔۔۔ بی ایس سمسٹر (میقاتی)سسٹم روز کا کام روز
کرنے کا متقاضی ہے۔ کالسز کے اندر جسمانی طور پر موجود رہنے کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر حاضر رہنا بھی
ضروری ہے۔ طلباء کوچائیے کہ پڑھایا جانے واال موضوع دوران لیکچر ہی مکمل سمجھنے کی نیت سے سننے اور
سمجھنے کی کوشش کریں ,بصورت دیگر تعلیمی بوجھ کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
اساتذہ اور طلباء کے درمیان مقدس روحانی رشتہ ہے ,اس لئے نہ صرف اپنے شعبہ بلکہ پورے کالج کے اساتذہ کا
احترام ضروری ہے۔ اساتذہ سے نیچی اور با ادب آوازو لہجے میں بات کرنا اخالق و ادب کا جزو ال ینفک ہے۔
یہ بات ذہن نشیں رہے کہ اساتذہ کا روحانی والدین ہونا انھیں حقیقی والدین نہیں بناتا تاہم بعض معامالت میں اساتذہ زیادہ
قابل تحریم ہیں ,حقیقی والدین سے بچے بعض اوقات ضد کر کے بھی اپنے مطالبات منوا لیتے ہیں مگر اساتذہ کیساتھ یہ
برتاؤ بے ادبی میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بات چیت میں اساتذہ کے مرتبے کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے,
اساتذہ سے ہم عصر یار دوستوں کی محفل جیسی باتیں نہیں کی جا سکتیں۔
شرم و حیا اور پردہ کے معامالت میں حقیقی والدین اور اساتذہ میں وہی فرق ہے ,جو بالترتیب ایک محرم اور نا
محرم کا ہے۔ مؤثر تعلیم و تربیت کے لئے اساتذہ و طلباء کے درمیان دوستانہ تعلیمی رویہ ہونا ضروری ہے مگر انکا
آپس میں دوست ہونا ضروری نہیں۔ اساتذہ اور طلباء کے درمیان ناگزیر علمی و ادبی فاصلہ ہونا بھی ضروری ہے
کیونکہ بے انتہا بے تکلفی و دوستی سے طلباء میں ناکام یا فیل ہونے کا ڈر ختم ہو جاتا ہے جو طلباء کو محنت سے
دور کر دیتا ہے ۔
اساتذہ کا طلباء ,اورطلباء کا ساتھی طلباء و اساتذہ ,سے اتنا ذہنی ,جسمانی اور آالتی (موبائل وغیرہ) فاصلہ ضرور
ت الحاصل اور ہراسانی کے جھوٹے سچے الزامات و واقعات کا شکار ہو کر برقرار رہنا چائیے کہ دونوں فریق لغویا ِ
باقی زندگی متعلقہ ذہنی ,جسمانی اور نفسیاتی الجھنوں میں مبتال ہونے سے محفوظ رہ سکیں۔ تعلیم و تعلم کا تنہائی کے
بجاۓ اجتماعی طور پر کمرہ جماعت کے اندر مکمل کیا جانا زیادہ بہتر ہے۔
بحیثیت مسلم معاشرہ ,اساتذہ کا فرض ہے کہ صرف سند یافتہ ہی نہیں بلکہ اخالقی و انسانی تربیت کے ذریعے طلباء کو
حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ انسان بنایا جاۓ۔ اس فرض کا مؤثرو موزوں وقت پہال سمسٹر ہے جب اساتذہ کی مؤثر
نگرانی ,ترغیب ,حوصلہ افزائی اور والدین و اساتذہ مالقات کا وقتا" فوقتا" بروقت میقاتی انعقاد ،طلباء کو بے راہ روی
سے بچا کر انکی توجہ بنیادی مقصد (حصول مؤثر تعلیم) کی طرف مبذول کروانے اور صحیح ڈگر پر چڑھانے میں
مددگار ثابت ہو سکتا ہے ,تاکہ غریب طلباء بھی اساتذہ کی مکمل اور درست رہنمائی کی بدولت اپنے مستقبل کو تباہ اور
خراب ہونے سے بچا کر متوازن و معتدل معاشرہ پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکیں ۔
تحریر بقلم سید توصیف شاہ