You are on page 1of 4

‫کالجز و جامعات کے عمومی علمی و انتظامی ماحول کا موازنہ اور معیا ِر طلباء‬

‫و تعلیم میں بہتری کیلئے تجاویز‬

‫پاکستان میں ذرائع براۓ حصول عصری اعلی تعلیم میں دو طرح کے ادارے یعنی کالجز اور جامعات‪( /‬یونیورسٹیز)‬
‫شامل ہیں جبکہ تعلیم یافتہ اور سند یافتہ ہونے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ تعلیم یافتہ انسان کو اپنے مضمون کے ساتھ ساتھ‬
‫انسانی و تہذیبی اقدار کی آگہی بھی ہوتی ہے اور اسکے اخالق و کردار میں علم و ادب جھلکتا ہے۔۔۔ جبکہ سند یافتہ‬
‫شخص کو اپنے مضمون کے علم میں تو مہارت ہو سکتی ہے لیکن اسکا انسانی قدروں سے واقف ہونا ضروری نہیں۔۔۔۔۔‬
‫بہرصورت ایک تعلیم یافتہ "انسان" ایک سند یافتہ "آدمی" سے ہر لحاظ سے بلند حیثیت و رتبہ کا حامل ہوتا ہے۔‬

‫جامعات میں بی ایس کے ساتھ ساتھ کالج سطح کے بعد یعنی ایم فل اور پی ایچ ڈی تک کی تعلیم بھی مہیا کی جاتی ہے۔‬
‫تقریبا" ایک دہائی سے چار سالہ ڈگری کے اجراء کے بعد سے ان سرکاری کالجز کو بھی اب بی ایس سطح تک کی‬
‫اعلی تعلیم کے مستند ذرائع کی حیثیت حاصل ہے‪ ,‬تاہم یونیورسٹی اور کالج کے طلباء‪ ,‬عمومی و انتظامی ڈھانچے اور‬
‫تعلیمی و ادبی ماحول میں کئی لحاظ سے بہت سا فرق بھی موجود ہے۔‬

‫جامعات میں اساتذہ اور عملہ جامعہ کے اندرونی افراد پر مشتمل سنڈیکیٹ منتخب کرتی ہے جبکہ سرکاری کالجز کے‬
‫اساتذہ ایک بالکل الگ ‪ ,‬آزاد اور خود مختار ادارے (پبلک سروس کمیشن) کی طرف سے منعقدہ مسابقتی امتحان و‬
‫مذاکرہ میں کامیاب ہونے کے بعد بھرتی کئے جاتے ہیں۔‬

‫حال جدید میں جامعات اپنے مالی و انتظامی معامالت میں آزاد ہیں‪ ,‬لہذا اپنی مرضی سے طلباء کی فیس میں وقتا" فوقتا"‬
‫کمی بیشی کر سکتی ہیں۔۔ جبکہ کالجز کے اخراجات حکومتی ذمے ہونے کی وجہ سے طلباء پر بھاری فیسوں کا بوجھ‬
‫نہیں پڑتا‪ ,‬یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں جامعات کی بی ایس سطح کی ششماہی میقاتی فیس ‪ 40‬ہزار سے لے کر‬
‫‪ 1,30000‬روپے‪ ,‬جبکہ سرکاری کالجز میں یہی فیس صرف ‪ 7‬سے ‪ 8‬ہزار تک ہے جو غریب طلباء کے لئے کسی‬
‫نعمت سے کم نہیں۔‬

‫اگرچہ سرکاری کالجز غریب طلباء کے حصول تعلیم کا واحد وسیلہ ہیں‪ ,‬تاہم سستی تعلیم جہاں ایک نعمت ہے وہیں اسکا‬
‫سستا ہونا اکثر طلباء کے فکری رویوں میں منفی فرق کا مؤجب بھی بنتا ہے ۔۔۔ کچھ طلباء کالج کی تعلیم کے سستا ہونے‬
‫سے اسے عطائی سہولت سمجھ کر سنجیدہ نہیں لیتے‪ ,‬کچھ آدھا عرصہ کالسز سے غائب جبکہ کچھ محض وقت گذاری‬
‫کے طور پر ڈگری لیتے ہیں۔‬

‫شاید اسی تعلیمی سستاپے کی وجہ سے کچھ والدین بچوں کو ایک بار کالج میں داخل کروا کر پھر دوبارہ بچوں کے‬
‫تعلیمی ارتقاء کی خیر خبر رکھنے سے مکمل بے نیاز نظر آتے ہیں‪ ,‬نتیجتا" والدین کے ڈر سے بے غم بچے ڈگری کے‬
‫دوران کئی بار ناکامیابی کا ٹیکہ سجاۓ براۓ نام درجات (گریڈز) لے کر ڈگری مکمل کرتے ہیں اور یہ کم گریڈز پیشہ‬
‫وارانہ زندگی میں انکے پیچھے رہ جانے کا سبب بنتے ہیں۔‬

‫کالج لیول پہ طلباء کو اساتذہ انکی ذہنی سطح پہ جا کر پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بچوں کو پکا پکایا کھانے‬
‫کی عادت پڑ جاتی ہے جو انکی تخلیقی صالحیتوں پہ بند باندھ دیتی ہے اور یوں خود سے محنت نہ کرنے کی عادت‬
‫بچوں کو آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے۔ نتیجتا" کالج اساتذہ کی زیادہ محنت و مشقت بھی طلباء کی عدم محنت و‬
‫توجہی کی بناء پر مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔‬

‫دوسری طرف جامعات کی مہنگی تعلیم طلباء میں محنت کا جذبہ جگاۓ رکھتی ہے۔ اساتذہ عنوان کا حلوہ بنا کر انکے‬
‫منہ میں نہیں ڈالتے بلکہ ایک ایک لیکچر میں پورا چیپٹر سالئیڈز پہ گذار کر زیادہ کام طلباء سے کروایا جاتا ہے چنانچہ‬
‫فیل ہونے کا ڈر طلباء میں محنت کا جذبہ قائم رکھتا ہے۔‬

‫کالجز اور جامعات کا دوسرا بڑا فرق طلباء و اساتذہ کی مراعات و سہولیات اور انفراسٹرکچر کی فراہمی کا ہے جو کہ‬
‫تعلیمی ماحول پر سب سے زیادہ اثرانداز ہونے واال جزو ہے۔ جامعات میں سماعت خانہ (آڈیٹوریم)طرز کے مناسب حجم‬
‫وتعداد کے کمرہ جماعت‪ ,‬تجربہ گاہوں کے لئے مکمل سامان و الگ کمرے‪ ,‬معلم عملی (لیب ڈیمانسٹریٹرز) کی‬
‫موجودگی‪ ,‬کلیریکل معاون عملہ‪ ,‬انفرادی پرنٹرز ‪ ,‬پینے} کے لئے ٹھنڈے} گرم پانی کی سہولت‪ ,‬کمرہ جماعت کو ٹھنڈا} یا‬
‫گرم رکھنے کا نظام اور ہر کمرہ جماعت میں پروجیکٹر کی فراہمی جیسی سہولیات دستیاب ہوتی ہیں جبکہ سرکاری‬
‫کالجز میں ان میں سے کوئی سہولت بھی کامل سلیقے سے دستیاب نہیں۔‬

‫اسی طرح سرکاری کالج اساتذہ کو مقابلتا" کمتر سفری‪ ,‬معاشی اور رہائشی سہولیات دستیاب ہیں۔ انکو بیٹھنے} ‪ ,‬پڑھنے‬
‫اور مزید ریسرچ کے لئے الگ دفاتر کی سہولت میسر نہیں‪ ,‬کالس رومز کا آدھا حصہ‪ ,‬اساتذہ کے لئے بطور اجتماعی‬
‫دفتر استعمال کیا جاتا ہے جو بیک وقت بطور سٹنگ ‪ ,‬ریسرچ اور ریکارڈ روم استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح‬
‫انفرادی طور پر پرنٹر اور کمپیوٹر کی سہولت نہ ہونے سے پیپر سیٹنگ اور پیپرز کی سیکریسی کے متاثر ہونے جیسے‬
‫مسائل کا خدشہ بھی موجود ہے۔ نتیجتا" کالج اساتذہ کا زیادہ محنتی ہونا بھی بے ثمر اور رائیگاں جاتا ہے۔‬

‫جامعات کی نسبت کالجز میں طلباء کے لئے ایک یونیفارم کا ہونا باعث نعمت ہے جو طلباء میں معاشی تفریق کو چھپا کر‬
‫انہیں احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچاتا اور مزید منظم بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔‬

‫سرکاری کالجز و جامعات میں آن الئن داخلوں کی بدولت طلباء کو میرٹ پر داخلہ ملتا ہے تاہم گذشتہ امتحانات میں‬
‫بورڈز اور امتحانی مراکز کے مختلف ہونے کی وجہ سے حاصل کردہ نمبر و درجات میں عدم یکسانیت کے اثر کو کم‬
‫کرنے کے لئے‪ ,‬بی ایس داخلوں میں شعبہ جاتی سطح پر آبجیکٹو ٹائپ ٹیسٹ کا انعقاد میرٹ کو زیادہ بہتر بنا سکتا ہے۔‬
‫طلباء کو چائیے کہ کم خرچ سرکاری کالجز ‪ ,‬اور میرٹ پر تعینات محنتی اساتذہ کے ہنر سے زیادہ سے ذیادہ استفادہ‬
‫حاصل کریں۔ دیکھا گیا ہے کہ عموما" طلباء کالس میں کم حاضری کی وجہ سے تعلیمی کیریئر میں نقصان اٹھاتے ہیں۔‬
‫ایک لیکچر ضائع ہونا بھی خاصے علمی نقصان کا باعث ہوتا ہے۔۔۔ بی ایس سمسٹر (میقاتی)سسٹم روز کا کام روز‬
‫کرنے کا متقاضی ہے۔ کالسز کے اندر جسمانی طور پر موجود رہنے کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر حاضر رہنا بھی‬
‫ضروری ہے۔ طلباء کوچائیے کہ پڑھایا جانے واال موضوع دوران لیکچر ہی مکمل سمجھنے کی نیت سے سننے اور‬
‫سمجھنے کی کوشش کریں‪ ,‬بصورت دیگر تعلیمی بوجھ کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے ۔‬

‫اساتذہ اور طلباء کے درمیان مقدس روحانی رشتہ ہے ‪ ,‬اس لئے نہ صرف اپنے شعبہ بلکہ پورے کالج کے اساتذہ کا‬
‫احترام ضروری ہے۔ اساتذہ سے نیچی اور با ادب آوازو لہجے میں بات کرنا اخالق و ادب کا جزو ال ینفک ہے۔‬

‫یہ بات ذہن نشیں رہے کہ اساتذہ کا روحانی والدین ہونا انھیں حقیقی والدین نہیں بناتا تاہم بعض معامالت میں اساتذہ زیادہ‬
‫قابل تحریم ہیں‪ ,‬حقیقی والدین سے بچے بعض اوقات ضد کر کے بھی اپنے مطالبات منوا لیتے ہیں مگر اساتذہ کیساتھ یہ‬
‫برتاؤ بے ادبی میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بات چیت میں اساتذہ کے مرتبے کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے‪,‬‬
‫اساتذہ سے ہم عصر یار دوستوں کی محفل جیسی باتیں نہیں کی جا سکتیں۔‬

‫شرم و حیا اور پردہ کے معامالت میں حقیقی والدین اور اساتذہ میں وہی فرق ہے ‪ ,‬جو بالترتیب ایک محرم اور نا‬
‫محرم کا ہے۔ مؤثر تعلیم و تربیت کے لئے اساتذہ و طلباء کے درمیان دوستانہ تعلیمی رویہ ہونا ضروری ہے مگر انکا‬
‫آپس میں دوست ہونا ضروری نہیں۔ اساتذہ اور طلباء کے درمیان ناگزیر علمی و ادبی فاصلہ ہونا بھی ضروری ہے‬
‫کیونکہ بے انتہا بے تکلفی و دوستی سے طلباء میں ناکام یا فیل ہونے کا ڈر ختم ہو جاتا ہے جو طلباء کو محنت سے‬
‫دور کر دیتا ہے ۔‬

‫اساتذہ کا طلباء‪ ,‬اورطلباء کا ساتھی طلباء و اساتذہ‪ ,‬سے اتنا ذہنی ‪ ,‬جسمانی اور آالتی (موبائل وغیرہ) فاصلہ ضرور‬
‫ت الحاصل اور ہراسانی کے جھوٹے سچے الزامات و واقعات کا شکار ہو کر‬ ‫برقرار رہنا چائیے کہ دونوں فریق لغویا ِ‬
‫باقی زندگی متعلقہ ذہنی‪ ,‬جسمانی اور نفسیاتی الجھنوں میں مبتال ہونے سے محفوظ رہ سکیں۔ تعلیم و تعلم کا تنہائی کے‬
‫بجاۓ اجتماعی طور پر کمرہ جماعت کے اندر مکمل کیا جانا زیادہ بہتر ہے۔‬

‫بحیثیت مسلم معاشرہ‪ ,‬اساتذہ کا فرض ہے کہ صرف سند یافتہ ہی نہیں بلکہ اخالقی و انسانی تربیت کے ذریعے طلباء کو‬
‫حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ انسان بنایا جاۓ۔ اس فرض کا مؤثرو موزوں وقت پہال سمسٹر ہے جب اساتذہ کی مؤثر‬
‫نگرانی‪ ,‬ترغیب‪ ,‬حوصلہ افزائی اور والدین و اساتذہ مالقات کا وقتا" فوقتا" بروقت میقاتی انعقاد ‪ ،‬طلباء کو بے راہ روی‬
‫سے بچا کر انکی توجہ بنیادی مقصد (حصول مؤثر تعلیم) کی طرف مبذول کروانے اور صحیح ڈگر پر چڑھانے میں‬
‫مددگار ثابت ہو سکتا ہے‪ ,‬تاکہ غریب طلباء بھی اساتذہ کی مکمل اور درست رہنمائی کی بدولت اپنے مستقبل کو تباہ اور‬
‫خراب ہونے سے بچا کر متوازن و معتدل معاشرہ پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکیں ۔‬
‫تحریر بقلم سید توصیف شاہ‬

‫لیکچرر شعبہ الیکٹرونکس‬

‫جی پی جی سی ہری پور‬

You might also like